• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سیرت حضرت اماں جان ۔ سیدۃ النساء حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت حضرت اماں جان ۔ سیدۃ النساء حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا


سیرۃ حضرت سیّدۃُ النساء اُمُّ المؤمنِین
نصرت جہان بیگم صاحبہ

مصنف
محمود احمد عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الحمدللّٰہ
عزیزم مکرم محمود احمد عرفانی نے حضرت اُمُّ المومنین متعنا اللہ بطول حیاتہا یہ سیرۃ جن حالات میں لکھی ہے اکثر احباب اس سے واقف ہیں وہ کئی سال سے مریض چلا آتا ہے اور مختلف اوقات میں مرض کے خطرناک حملے ہوئے طبی مشورہ کامل آرام کا تھا اور ہے مگر اس نے خدا کے فضل پر بھروسہ کرکے عزم کیا تھا کہ اس بابرکت کتاب کی تالیف کی سعادت حاصل کرے اللہ تعالیٰ نے اِسے توفیق دی الحمدللّٰہ علی ذالک۔ بیماری کا پھر حملہ ہوا تو میں نے حکمًا اسے روک دیا اورکتاب کی ضخامت بھی بڑھ رہی تھی۔ اس لئے دو حصے کر دینا ضروری ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کتاب کی قبولیت کا نشان ہے کہ طبع ہونے سے پہلے تین ہزار کتاب فروخت ہو گئی جن احباب کو ابھی تک موقعہ نہیں ملا وہ ابھی سے درخواستیں دے دیں تا کہ دوسرا ایڈیشن شائع ہوتے ہی مل جاوے۔ یہ تین ہزار خریدار دوسرے حصہ کے مستقل خریدار متصور ہونگے۔ اس لئے جو احباب نئے خریدار ہوں وہ جلد اطلاع دیں تا کہ دوسرے حصہ اور دوسرے ایڈیشن کو اس تعداد میں چھاپا جاوے مجھے اعتراف ہے کہ بہت ممکن ہے چھاپہ کی بعض غلطیاں رہ گئی ہوں مگر دوسرے ایڈیشن میں انشاء اللہ اصلاح ہو جائے گی۔ دوسرا ایڈیشن پانچ ہزار چھاپنے کاارادہ ہے نیز یہ بھی افسوس ہے کہ وقت پر بلاکس تیار نہ ہونے کی وجہ سے وجہ تصاویر نہیں دی جا سکیں میں اُن تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے عزیز مکرم محمود احمد عرفانی کی اس خدمت کی قدر فرمائی۔ تفصیلی اظہار تشکر اور معاونین کی فہرست اس حصہ کے آخر میں انشاء اللہ وہ خود لکھیں گے میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ عزیز مکرم کی صحت و توانائی توفیق تکمیل کیلئے دعا فرمائیں۔
خاکسار
یعقوب علی عرفانی کبیر

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
انتساب
مَیں اِس قیمتی اور مبارک کتاب کو جو میری زندگی کا مایۂ ناز کام ہے اورجس کی برکتوں کو مَیں نے ایک ملموس حقیقت کی طرح دیکھا اور پایا کسی ایسے بے نفس بزرگ کے نام سے منسوب کرنی چاہتا تھا جس کی محبت اور وفاداری کی روح خود بخود اپنے لئے کوئی مقام بلند تیار کرلے۔
چنانچہ مَیں نے کتاب کی مکمل اشاعت تک انتظار کیااور خریداران یوسف کے ہر سرمایہ اور پونجی پر نظر ڈالی۔ مَیں نے ان کی رُوحِ مسابقت اور عشق و محبت کے ہر نشیب و فراز اور وادی کو خوب دیکھا جن کا ذکر بجائے خود لذیذاور دلچسپ ہے مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں۔ بہت سے جو محبت کے کوچے میں مجھے آگے نظر آتے تھے بہت پیچھے نظر آئے اور بہت سے تھے جو بہت پیچھے نظر آتے تھے، مجھے بہت آگے نظر آئے اور ان آگے نظر آنے والوں میں سب سے آگے اور سب کے سالار الحاج حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین آف سکندر آباد نکلے۔ جنہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کتاب پانچ ہزار چھپے گی تو وہ پانچ سو کتاب خرید لیں گے۔ نیز یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ اس کی اشاعت میں ہر قسم کی مالی سہولت مہیا فرمائیں گے۔ حضرت سیٹھ صاحب نے جو کہا اسے پورا فرما دیا۔ میری محنت اور کوشش کبھی پروان نہ چڑھتی اگر حضرت سیٹھ صاحب کی یہ معاونت مجھے میسر نہ آتی۔
وہ خود، ان کی بیگم صاحبہ، ان کے بچے، سب اسی رنگ میں رنگین مجھے نظر آئے اس لئے میں ان کی محبت اور وفا کی تسجیل اس کتاب کو حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مدّظلّہ العالی کے نام نامی سے منتسب کرنے سے کرتا ہوں۔
سیٹھ صاحب کی ذاتِ گرامی ان چیزوں سے بالکل بالا ہے اور ان کا قلب نمود و نمائش سے بالکل خالی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پاکباز بندوں کے نام اور کام کو دنیا میں زندہ رکھا کرتا ہے اس لئے میرا یہ فعل سنتِ الٰہیہ سے باہر نہیں۔
حضرت سیٹھ صاحب کی ایک مناسبت
ہمارے سلسلہ کو نور کے ساتھ ایک بڑی مناسبت ہے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحبؒ جو حضرت خواجہ میر دردؒ کے والد بزرگوار تھے، ان کو ایک پیشگوئی میں بتلایا گیا، کہ جو روشنی ان کو دی گئی ہے، یہ مسیح موعود ؑ کی روشنی میں گم ہو جائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق یہی پیشگوئی تھی کہ وہ منار پر اُتریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو نوروںکی تخم ریزی کرنے والے ٹھہرایا گیا۔ الغرض نور اور روشنی کو اس سلسلہ سے بڑی مناسبت ہے۔
حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک رئویا دیکھاتھا کہ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ملائکہ اُن پر نور کی بارش کر رہے ہیں۔
پس اُن کے وجود کو اس نور سے جو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دنیا کو ملا، ایک مناسبت ہے۔ اس لئے میرے نزدیک وہی ان فدا کاروں میں سے پہلے مستحق ہیں کہ اس مبارک کتاب کو اُن کے نامِ نامی سے منسوب کروں۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ حضرت سیٹھ صاحب کی اس پاکیزہ قربانی اور دیگر تمام قربانیوں کو قبولیت کے ہاتھوں سے لے اور ان سب کا اجرعظیم دے۔ آمین
اسی سلسلہ میں مَیں حضرت سیٹھ صاحب سے یہ عرض کروں گا کہ عشق و محبت اور وفا کا مقام اتنا ہی آگے بڑھتا ہے جتنا کہ عاشقِ جانباز آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پس
نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز!
محمود احمد عرفانی
مصنف کتاب سیرۃ حضرت اُمُّ المومنین نصرت جہان بیگم
قادیان۔ دارالامان
۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳؁ء



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
تمہید
گذشتہ سال ۱۹۴۲؁ء میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ایک کتاب ’’مرکز احمدیت قادیان‘‘ نامی تصنیف کی۔ جب مَیں یہ کتاب لکھ رہا تھا اُنہی ایام میں میرے قلب میں ایک زبردست لہر پیدا ہوتی تھی کہ مَیں دنیا کی اس ممتاز ترین خاتون کی سیرت و سوانح لکھوں جسے تیرہ صدیاں گذرنے کے بعد مومنوں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا اور جس کے وجود سے وہ نور پیدا ہوئے جن کے ذریعے سے آئندہ دنیا کی آبیاری کی جائے گی۔ مگر قدرت کی نیرنگیاں ہیں کہ مَیں جلسہ سالانہ کے بعد کھانسی کی تکلیف میں مبتلا ہو گیا۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ مَیں جنوری ۱۹۴۳؁ء کے آغاز میں ہی اس کام کو شروع کر سکوں گا مگر مشیّتِ الٰہی کچھ اور چاہتی تھی۔ اس لئے میری کھانسی کی یہ حالت ہوئی کہ۔ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی
مرض نے بڑھتے بڑھتے مجھے اس حد تک لاچار کر دیا کہ مَیں بالکل چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے سے مجبور ہو گیا حتیّٰ کہ ڈاکٹروں کی رائے میں مَیں تپ دق کا بیمار قرار دیا گیا مجھے ان گھڑیوں میں جب کہ مَیں مرض کے شدید پنجے میں گرفتار تھا۔ جن امور کا رنج اور خیال تھا اُن میں سے ایک یہ امر بھی تھا کہ مَیں جو کام کرنا چاہتا تھا اس سے محروم رہتا ہوا نظر آتا ہوں۔ اِن امور کی وجہ سے میرے اندر ایک کرب کی کیفیت پیدا ہوتی تھی اور مَیں بیقرار ہو کر خدا سے دعا مانگتا تھا کہ وہ مجھے اپنے فضل سے صحت یاب کر دے۔ میرے بزرگ اور میرے احباب اور بھائی بھی بکثرت دعائوں میں مشغول تھے۔ اسی حالت میں مادرِ مہربان حضرت اُمُّ المؤمنین اطال اللہ عمر ہا نے بھی اپنی خادمہ کے ذریعے دو دفعہ میری حالت دریافت فرمائی اور اپنی شفقت کے اظہار کے لئے کہلوایا کہ آپ میرے لئے دعا فرما رہی ہیں۔ اِن الفاظ میں ایک بڑی برکت اور تسلی تھی جس نے میرے قلب کو ڈھارس دی اور مَیں روز بروز اپنی بیماری میںکمی اور اپنی صحت میں ترقی محسوس کرنے لگا۔ حتیّٰ کہ آج ۱۹/ مارچ ۱۹۴۳؁ء بروز جمعۃ المبارک اس قابل ہو گیا کہ مَیں اپنا قلم اُٹھا سکوں۔
سو میں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس مبارک خاتون کی سیرت و سوانح کا آغاز کر دیا ہے۔ میرے معالج اگرچہ مجھے ابھی تک لکھنے کے کام کی اجازت نہیں دیتے مگر مَیں یقین کرتا ہوں کہ تھوڑا تھوڑا کام میرے لئے غذائے روح کا کام دے گا اور ایک بابرکت وجود کا ذکر میرے لئے بھی برکت کا باعث ہوگا۔ اس لئے باوجود بیماری اور کمزوری کے مَیں اس کام کو شروع کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ خود اس کی تکمیل کے سامان مہیا فرما دے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی معیت اور نصرت ہے اور خدا تعالیٰ نے بارہا اپنی وحی میں جو اپنے بندے، اس زمانہ کے راستباز مامور مرسل ؑپر نازل فرمائی اس معیّت اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ اور پھر فرمایا کہ اِنّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ۔ اس قسم کی صد ہا بشارتیں اور نصرتیں آپ کے وجود باجود کے لئے ازل سے مقدر ہیں۔ اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ اس تصنیف کے ساتھ مجھے بھی برکت دی جائے گی اور کیا عجب کہ مَیں تنومند اور صحت مند کیا جائوں۔
میں اس قدر اس تمہید کو لکھ چکا تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کی خادمہ میرے نیچے کے کمرے کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اماں جان کی طرف سے آپ کے لئے تبرک لے کر آئی ہوں۔ میرا سر نیاز مندی اور احسان کی روح سے جھک گیا۔
اِس تبرک کے بھیجے جانیکی وجہ یہ تھی کہ مَیں نے اپنی بیماری کے ایام میں ایک خواب دیکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ نے مجھے اور مرزا سلیم بیگ صاحب کو ایک برتن میںکھانا دیا جو ہم دونوں نے کھایا۔ اِدھر میں نے یہ خواب دیکھا اُدھر حضرت والد صاحب نے سکندر آباد سے مجھے لکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کا تبرک منگوا کر کھائو کہ اس میں برکت اور شفاء ہوگی۔ اس خواب اور اس ارشاد کی تعمیل میں میری رفیقہ حیات حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے دعا کی درخواست کے بعد تبرک کی درخواست کی جو آپ نے بڑی خوشی سے منظور فرمائی۔ ان دنوں میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سندھ میںتشریف فرما ہیں۔ اس لئے حضرت اُمُّ المؤمنین ایدھا اللہ بنصرہ ِالعزیز اکثر وقت اپنے برادر محترم یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کے ہاں گذارا کرتی ہیں۔ آپ نے درخواست سن کر فرمایا کہ ہاں بہت اچھا، مگر جب کہ میں گھر یعنی الدار میں آ جائوں گی اُس وقت بھیجوں گی۔ چنانچہ اس بات پر تقریباً ۵،۶ دن گذر چکے تھے کہ حضرت ممدوحہ نے اپنے اس ناچیز خادم کی درخواست کو یاد رکھااور خود بخود ہی کھانا بھجوا دیا۔
یہ بات اگرچہ معمولی ہے مگر اس کے اندر جو روح اور جو شفقت کام کر رہی ہے وہ بہت بڑی ہے۔ حضرت ممدوحہ کی روح تو فیاضیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کے احسانات ہزار ہا لوگوں پر ہیں۔ اُن کاذکر بھی اصل کتاب میں اپنی جگہ آ جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔ اور وہ جو کچھ ہوگا آپ کے جودو کرم کے سمندر سے ایک قطرہ ہی ہوگا۔
میری بچپن کی زندگی کا ایک واقعہ
میری پیدائش اکتوبر ۱۸۹۷؁ء میں ہوئی۔ ۱۸۹۸؁ء میں والد صاحب قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے۔ اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ اخبار کے کام امرتسر جاتے رہتے تھے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور جایا کرتے تھے۔ گھر میں مَیں ایک ننھا بچہ اور والدہ صاحبہ ہوتی تھیں۔ اس لئے تنہائی سے بچنے کے لئے حضرت والدہ صاحبہ مجھ کو لے کر حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے پاس چلی جایا کرتی تھیں۔ میری والدہ صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المومنین اُن کو محبت سے ’’بہو ‘‘ کے لقب سے پکارا کرتی ہیں۔
مَیں اگرچہ دو اڑھائی سال کا بچہ تھا۔ مگر گوشت کو بہت پسند کرتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے باورچی خانے میںگوشت بھونا جا رہا تھا۔ مَیں یہ دیکھ کر رونے لگا اور ضد کرنے لگا۔ میری والدہ صاحبہ جنہوںنے بارہا ہنستے ہوئے مجھے یہ کہانی سنائی، فرمایا کرتی ہیں کہ مَیں تم کو اندر ہی اندر روکنے کی کوشش کرتی تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی نظر پڑ گئی۔ فرمایا بہو! بچہ کیوں روتا ہے؟ والدہ نے کہا۔ نہیں جی کچھ نہیں۔
فرمایا۔ نہیں۔ کچھ تو ہے۔ بتلائو۔ تب والدہ نے ندامت کے رنگ میں دبی زبان سے کہا کہ بوٹی مانگتا ہے۔ یہ سن کر پکانے والی کو حکم دیا کہ جلدی دو اور اپنے سامنے ایک برتن میں کچھ بوٹیاں نکلوا کر دے دیں۔ میری والدہ صاحبہ بتلایا کرتی ہیں کہ مَیں وہ گرم گرم بوٹیاں کھاتا جاتا تھا اور منہ سے رال سی ٹپکتی تھی۔ اس واقعہ کا مجھے بارہا لطف آیا اور مَیں نے اِس واقعہ کے اندر بارہا اس سیر چشمی اور کرم کو دیکھا جو آپ کی فیاضی طبیعت میں موجود تھا۔
عام طور پر ہم اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں کہ گھر میں آنے والی مستورات کے بچوں کی ایسی خواہشوں کی طرف کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ مگر آپ کا ایک دو اڑھائی سال کے بچے کی خواہش کااس طرح کرید کر معلوم کرنا اور پھر اس کو سیر چشمی سے پورا کرنا۔ یہ آپ کی فیاضی فطرت کا ایک ادنیٰ نمونہ تھا۔ چنانچہ آج بھی جب تبرک آیا تو مجھے حضرت اماں جان کا وہ لطف و احسان جو مجھے آج سے چوالیس سال قبل ہوا تھا، یاد آیا اور پھر آج کا لطف و احسان بھی۔ تو میرے دل میں ان کے لئے شکرگذاری کے جذبات پیدا ہوئے اور مَیں نے شکر گذاری کے ساتھ اسی واقعہ کو اس کتاب کی تمہید میں درج کر دیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ممدوحہ موصوفہ کی عمر اور صحت میں برکت دے اور ان کو ہر قسم کے انعاماتِ الٰہی سے دائمی ابدی طور پر مالا مال رکھے۔ آمین
۱۹/مارچ ۱۹۴۳؁ء محمود احمدعرفانی

ء…ء…ء














رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلُ الْبَیْتِ
اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مکرم و محترم جناب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی زبانِ قلم سے
اے خاندانِ حضرتِ مہدی امامِ حق

تم سے ہوا بلند زمانے میں نامِ حق
تم ہی تو ہو کہ جن کے مبارک وجود سے

پہنچاتے ہیں ملائکۃ اللہ۔ سلامِ حق
پھیلی تمہارے دم سے زمانے میں روشنی

پھوٹا ہے ایک چشمۂ نورِ کلامِ حق
تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہے تمہارے ساتھ

ہم نے ہزار بار سنا یہ پیامِ حق
تم پر خدا کی رحمتِ خاصہ کا ہے نزول

قائم ہوا تمہیں سے یہ سارا نظامِ حق
لاریب تم ہو فارسی الاصل وہ رجال

وابستہ جن کی ذات سے ہوگا قیامِ حق
ایمان لانے والے ثریا سے تم ہی ہو

ہاں ہاں تمہیں نے آ کے دکھایا مقامِ حق
تم ہو امانِ اہل زمیں جانِ علمِ و دیں

تم سے ملے گا جس کو ملے گا مرامِ حق
تم ہو نجوم جن سے ہدایت کی رَہ ملی

محمود کا وجود ہے، ماہِ تمامِ حق
تطہیر پر تمہاری ہے شاہد خدائے پاک

تقویٰ سے بن گئے ہو، آئمّہ کرامِ حق
ہر رِجس سے ہو پاک سراپا ہی نور ہو

روشن تمہارے نام سے ہوتا ہے نامِ حق
بدگو وہی ہے جس کو برائی سے پیار ہے

جو نیک ہے کرے گا ضرور احترامِ حق
ازواج و اُمہات و بنات و بنینِ بیت

واللہ! سب کے سب ہیں مجسّم نظامِ حق
اے اُمِّ مومنین! تری شان ہے بلند

پہلو میں تیرے اُترا کیا ہے پیامِ حق
کیا وصف لکھ سکے۔ یہ حقیر و فقیرِ قوم

تو خَلق و خُلق میں ہے نشانِ دوامِ حق
روزِ ازل سے تابہ اَبَد کائنات میں

مخصوص ہے ترے لئے دارالسّلامِ حق
قوموںکی ماں ہے اُن کی ترقی کی جاں ہے تو

جاری رہے گا تجھ سے یہ فیضانِ عامِ حق
آئندہ آنے والی خواتین مبارکہ

اور ہونے والے سارے اَئمہّ عظامِ حق
تیرے ہی دم قدم سے ہیں وابستہ سب کے سب

بھیجا کریں گے تجھ پہ درُود و سلامِ حق
اُمید ہے کہ دل سے بھلایا نہ جائے گا

عاصی گناہ گار یہ اکمل غلامِ حق
اندھے نہیں ہیں، دیکھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں

یہ گھر زمانے بھر میں ہے بیت الحرامِ حق
دامن تمہارا پاک ہے ہر نقص و عیب سے

وہ مُشک ہو کہ جس سے مُعَنبر مشّامِ حق
مدّاحِ اہل بیتِ مسیحؑ محمدی

اکمل تمہارا خادم و سرمستِ جامِ حق

٭…٭…٭














حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت و سوانح لکھنے سے قبل کچھ
(۱)
اللہ تعالیٰ کی قدرتیں ایسی عجیب ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے گھرانے کا نجات دہندہ خدا کا پیارا نبی موسٰیؑ فرعون کے گھر میں پرورش پاتا ہے اور جب اُس کی ماں بنی اسرائیل کے دیگر بچوں کے انجام کو دیکھتی ہوئی گھبرائی تو الٰہی دستگیری سے اُسے دریائیِ نیل میں بہا دیتی ہے۔ جسے فرعونی خاندان کی ایک عورت بچا لیتی ہے اور باوجود فرعون کے فرمان کی موجودگی کے وہ اسرائیل جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ اس فرعونی سلطنت کا خاتمہ کر دے گا، قصرِ فرعونی میں پرورش پاتا ہے۔
پھر دوسرے دَور میں وہ ایک کسمپرس انسان کی طرح مصر سے بھاگتا ہے۔ حضرت شعیبؑ کی بکریاں چراتا ہے کون جانتا تھا کہ یہ شخص جو آج سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں پاتا وہ کل سارے بنی اسرائیل کا بادشاہ قرار دیا جائے گا اور اس کا وجود اسرائیل کے لئے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھنے کا باعث قرار پایا جائے گا۔
(۲)
وادیٔ فلسطین میں زیتون کی جھاڑیوں کے پاس بیت المقدس کی پہاڑی پر ایک عورت کا بیٹا جو منشاء الٰہی سے پیدا ہوا تا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی ایک خاص قدرت نمائی کا اظہار کرے۔ جب چلتا پھرتا نظر آتا تھا تو لوگ اس پر طعنہ زن ہوتے تھے۔ اس کی ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ اس پر مذاق کیا جاتا تھا۔ بالآخر اس پر مقدمات بنائے گئے۔ عدالتوں میں کھینچا گیا۔ خدا کی وسیع زمین باوجود بڑی وسعت کے اس پر اس حد تک تنگ ہوئی کہ اس نے کہا:
’’پرندوں کیلئے بسیرے اور لومڑیوں کیلئے بھَٹ ہیں۔ مگر ابن آدم کے لئے سرچھپانے کی جگہ نہیں‘‘۔
اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا۔ ا سکے منہ پر طمانچے مارے گئے۔ اس کی پیٹھ پر لکڑی کی بھاری صلیب لادی گئی۔ اور بالآخر صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ گو خدا کے ہاتھ نے اسے موت سے بچا لیا مگر مارنے والوں نے اسے مردہ جان کر پھینک دیا۔لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ انسان جس پر آج زمین تنگ کی جارہی ہے۔ جو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور حقیر ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کی *** ایک آگ ہے جو یہودی قوم کو دنیا و آخرت میں جہنم کی بھٹیوں میں بھسم کر دے گی اور اس کے ماننے والوں کو دنیا کی ایک ایسی سیادت اور حکومت دی جائے گی کہ صدیوں تک قوموں پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔
افسوس ! ان مصیبتوں کے طوفان میں تھپیڑے کھانے والا مسیح عیسیٰ ابن مریم کسی کو اپنی درخشاں شان میں نظر نہ آتا تھا۔
(۳)
پھر ایک تیسرا نظارہ وادیٔ بطحا میں ہم دیکھتے ہیں۔ قوموں‘ ملکوں بلکہ دنیا کا نجات دہندہ شاہنشاہِ رسالت ہم کو کبھی بکریوں کے چرواہے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور کبھی شام کے تاجروں میں خدیجہؓ کا مال تجارت لیکر بیٹھا ہوا۔ کبھی مکہ کی گلیوں میں آپؐ کی ایسی مخالفت ہوتی ہے کہ آپؐ کو اپنے دروازے بند کر کے محصور ہونا پڑتا ہے۔ آپؐ کے سرمبارک کی قیمتیں ڈالی جاتی ہیں اور ہر قسم کے مظالم کا آپؐ کو نشانہ ٗبننا پڑتا ہے۔ حتی کہ آپؐ مجبور ہوتے ہیں کہ وطن کو خیرباد کہہ دیں۔ یہ یتیم‘ غریب‘ فاقہ زدہ‘ غریب الوطن‘ مہاجر اور بظاہر مصیبتوں کے پہاڑ سر پر اٹھانے والا انسان لوگوں کو نظر نہ آتا تھا کہ یہ ہی نبیوں کا چاند ہے۔ اسی پر دنیا کی رستگاری کا انحصار ہے یہی ہے وہ جس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ لولاک لماخلقت الافلاک کہا گیا ہے مگر ظاہربین آنکھوں کو یہ سب نورنظر نہ آئے۔ نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد ان کے لئے یہ مشکلات ایک حجاب اکبر بن کر رہ گئے۔
(۴)
خود اس زمانے کا راستباز احمد ؑنبی بھی لوگوں کو نظر نہ آیا۔ ان کے لئے آپؑ کی زمینداری‘ آپؑ کی اطاعت والدین کے سلسلہ میں باوجود شدید کراہت نفس کے کچھ عرصہ کی ملازمت۔ آپؑ کی ابتدائی زمانہ کی تنگی روک بنکر رہ گئی اور انہوں نے بلند وبالاآواز سے کہا کہ قادیان کے مغلوں میں سے جو کل ایک معمولی اہلکار تھا‘کیسے خدا کا نبی اور رسول ہو سکتا ہے۔
وہ بھُول گئے کہ نمرودیوں کی شریعت اور قانون کی رُو سے آگ میں جلایا جانے والا مجرم اگر اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی اور ابوالانبیاء بن سکتا۔ شعیبؑ کی بکریاں چرانے والا نوجوان جو قانونِ فرعونی کا مجرم سمجھا گیا تھا‘ اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی ہو سکتا ہے‘ اور بنی اسرائیل کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔
بنی اسرائیل کے طمانچے کھانے والا مسیح جس کے منہ پر تھوکا بھی گیا تھا اور جسے ذلیل کرنے کیلئے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا تھا۔ وہ سچ مچ کا بادشاہ بن جائے گا اور اس کی سلطنت کو لوگ قیامت تک مانتے چلے جائیں گے۔تو کیوں اس زمانے کا مُرسَل اور نبی ان ظاہری ناموافق حالات کا اس زمانہ کا نجات دہندہ نہیں بن سکتا؟
ہاں تو ان نظائر اور امثلہ کے لکھنے سے میری غرض یہ ہے کہ خداتعالیٰ جب اپنی کسی خاص قدرت کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ اس اظہارِ قدرت کے لئے بالکل ناموافق حالات کا ظہور عمل میں لایا کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ قدرت خواہ کسی خاص مرد کو عالمِ وجود میں لانے والی ہو‘ یا کسی خاص عورت کویا کسی اور انقلاب کو۔ تو ان ناموافق حالات میں سے ایک چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ جوعدم بصیرت رکھنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور اہل بصیرت کے لئے باعث نجات۔ اس زمانہ کی سب سے بڑی خاتون یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین‘ جن کا مقام حضرت مریمؑ یا حضرت خدیجہؓ یا حضرت عائشہؓ یا ان عورتوں کی طرح ہے۔جن کو خداتعالیٰ نے دو جہانوں میںفضیلتِ عظمیٰ عطا فرمائی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اگرچہ بہت بڑے صحیح النسب سادات کے خاندان میں پیدا ہوئیں۔ مگر قدرت نے آپ کے خاندان کو ایسے حالات سے گذارا کہ کبھی کوئی یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ جو لڑکی ایسے خاندان میں پیدا ہوئی ہے جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا وہ ایک دن اس زمانہ کے نبی اور رسول کی بیوی بن کر قیامت تک کیلئے مومنوں کی ماں بن جائے گی۔
حالات بالکل غیرسازگار تھے۔ صدہاحجاب اور پردے اس راستے میں حائل تھے۔ اگر نواب روشن الدولہ‘ رستمِ جنگ اگر نواب خانِ دوران منصور جنگ‘ نواب قمرالدین خان وزیراعظم سلطنت ِمغلیہ‘ نواب احتشام خان داروغہ محلات شاہی زندہ ہوتے‘ جن کے محلات پر ہاتھی کھڑے رہتے تھے۔ نوکرچاکر‘ خدم حشم‘ دولت و ثروت کے دریا بہتے تھے وہ شاید حضرت اُمُّ المومنین کا رشتہ حضرت مسیح موعود ؑ سے کرنے کیلئے تیار ہی نہ ہوتے۔
پھر غدّر کے پراگندہ اور پریشان حالات میں سے گذرنے والے ایک خاندان کی لڑکی جس کا باپ اپنے عقائد کے لحاظ سے کٹروہابی تھا اور پھر ایک خاندان دلی میں رہنے والا اور دوسرا پنجاب کے ایک ایسے گاؤں میں بستا تھا‘ جسے دور کا رہنے والا تو ایک طرف رہا‘ قریب کے علاقے میں رہنے والا انسان بھی نہیں جانتا تھا مگر قدرتِ الٰہی کے خوارق اور خاص نشانات اس تعلق میں بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں۔ جیسے دیگر انبیاء ؑ کے حالات میں نظر آتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب کو پڑھنے والے مرد اور عورتیں‘ بوڑھے اور بچے اس کو پڑہنے سے پہلے اپنے ذہن میں اس امر کو مستحضر کر لیں کہ یہ ایک ایسی باخدا خاتون کی سیرت و سوانح ہے جو اس زمانے کے نبی اور رسول کی بیوی بنی اور خدا تعالیٰ کی مشیّت خاص نے اسے خاص حالات میں پیدا کیا۔ اس کے خاندان پر غدر میں ایک تباہی آئی۔ وہ تباہی ایک خاص الٰہی نصرت کا ہی نتیجہ تھی۔ اس لڑکی کا باپ خاص حالات کے ماتحت پنجاب میں آیا اور پنجاب میں بھی اس علاقے میں جہاں آئندہ ہونے والے حالات کا شدید تعلق تھا۔
اس طرح بالکل عجیب طور پر اس خاندان کے اس زمانے کے ہونے والے نبی اور رسول کے خاندان سے یہاں تعلقات قائم ہو گئے اور بالآخر بالکل ناموافق حالات میں سے موافق صورت پیدا ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص اس لڑکی کو دلہن بنا کر اس گھر میں لے آئی۔ جو گھر آج بنی اسرائیل‘ بنی اسماعیل اور آنحضرت ﷺ کی نعمتوں کا وارث ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر تاج نوعروسی سجایا گیا اور اسے اس دنیا کے آخری حصہ میں سب سے بڑے راستباز کی دلہن بنایا گیا اس کے بطن سے الٰہی نور پیدا ہوئے۔ کہ آئندہ دنیا کی نجات‘ امن اور روحانی اور دنیاوی ترقیوں کا انحصار ان کی ذات پر رکھا گیا۔ وہ الٰہی برکتوں کی آغوش میں بڑھی اس کو معیتِ الٰہی کا وعدہ دیا گیا۔ وہ نور ہی نور ہے وہ سراپا برکت ہی برکت ہے۔ وہ خدا کے نشانوں میں سے ایک زبردست نشان اور وہ تجلیاتِ الٰہیہ کا ایک مرکز قرار دی گئی اس کے وجود سے دین الٰہی کو بڑی قوت اور طاقت حاصل ہوئی اور ہوتی چلی جائے گی۔ کسی کو معلوم بھی نہ تھا کہ میرناصرنواب کے گھر میں پیدا ہونے والی لڑکی ایک دن قیامت تک کیلئے اُمُّ المؤمنین بن جائے گی۔ خداتعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے وجود سے بہت سی برکتیں عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ایک اشتہار میں جو آپؑ نے ۲۰فروری ۱۸۸۶؁ء کو شائع فرمایا۔ لکھا:
’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہؤا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذُرّیت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے۔ عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور ترے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامُرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مُرادیںتجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اَور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزقیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا۔اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظِلّی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو ا س نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جونافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین پڑھنے والے ان پیشگوئیوں کی روشنی میں سیرت کو پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا کی نصرت کس کے شاملِ حال رہی اور کسے خدا نے اپنی نصرتوں‘ نعمتوں‘ برکتوں سے نوازا۔
زندہ باد! اماں جان نصرت جہاں بیگم
۲۸/اپریل ۱۹۴۳؁ء


























’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘










بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وعلی عبدہ المسیح الموعود
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘
اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں ایک نظام اور ایک ترتیب پائی جاتی ہے اور وہ ایک باقاعدہ پروگرام کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نظام اور ترتیب کی مثال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا- ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ فَسَوٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَھُوَبِکُلِّ شَیْیٍٔ عَلِیْمٌo
یعنی پہلے زمین اور زمین میں جو کچھ ہے وہ پیدا کیا۔ اس لئے کہ انسان کے رہنے کے قابل بن سکے۔ پھر آسمان کی طرف توجہ کی اور سات بلندیاں بنا دیں۔ یہی ترتیب تعمیر مکان میں ہوا کرتی ہے۔ اوّل زمین ہموار ہوتی ہے۔ پھر دیواریں اٹھتی ہیں۔ پھر چھت بنتی ہے۔ مجھے ا س جگہ یہ بحث نہیں کرنی کہ زمین کو کن ادوار میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن یہ ہر صاحب علم انسان کو معلوم ہے کہ زمین کو قابلِ رہائش بننے کیلئے ہزارہا سال خرچ ہوئے۔ تب وہ آتشین کرہ سرد ہوا۔اور اس قابل ہوا کہ اس میں روئیدگی پیدا ہو۔اور ایسے جانور پیدا ہوں جو زہریلی ہواؤں اور بادِسموم کے جھونکوں اور تپتے ہوئے پہاڑوں یا زمین کے غیرموافق میدانوں میں سانس لے سکیں۔ ہزار ہا سال کے لمبے عرصے کے بعد یہ زمین اس قابل ہوئی کہ اس پر انسان پیدا ہو کر زندگی بسر کر سکے۔ یہ مثال نظام اور ترتیب کی ہے۔
پروگرام یا لائحہ عمل کی یہ مثال ہے کہ فرمایا :
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ
خداتعالیٰ نے ملائکہ سے ذکر کیا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں خلیفہ سے مراد انسان ہی تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے ماتحت اس نے زمین اور آسمان کی تخلیق کی اور اس ساری کائنات کو ترتیب دیا۔ اب غور کیجیئے کہ انسانی ضرورت کو مدنظر رکھ کر زمین اور آسمان‘ لوہا‘پتھر‘ صدہاقسم کی دھاتیں‘ کوئلہ‘نباتات‘ حیوانات‘ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ اجرام فلکی‘ زہریں اور ان کے تریاق ‘ ہوائیں اور مختلف قسم کی گیسیں ‘پانی اور بجلی الغرض لاکھوں‘ کروڑوں چیزیں جن کو اگر گنتے چلے جائیں تو کئی ضخیم جلدوں کی کتاب بن جائے۔ یہ سب کچھ کیوں بنایا اور کیوں ان کی تخلیق کی۔ صرف اور صرف اس لئے کہ انسان کو پیدا کیا جائے۔پس تخلیقِ انسان غرض تھی اس تمام کائنات کے پیدا کرنے کی ۔ پھر صرف انسان بھی اصل غرض نہ تھا۔ بلکہ اصل غرض وہ انسان کامل تھا جو انسان کی پیدائش سے ہزارہا سال بعد پیدا ہوا۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نام سے مبعوث ہوا اور جس کے لئے کہا گیا لولاک لما خلقت الافلاک جن کے لئے حدیث قدسی میں آیا ہے کہ آپؐ کا نور اُ س وقت سے بھی پہلے موجود تھا۔جبکہ آدم ابھی بینَ الطِّیْن وَالمَاء ہی تھا۔ تو اس سے بھی یہی امر ثابت ہوتا ہے کہ ابوالبشر کے پیدا کرنے سے بھی قبل آنحضرت ﷺ کے وجود باجود کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہو چکا تھا۔ اسی کا نام ہے پروگرام۔پس خداتعالیٰ نے ازل سے ابد تک کا ایک پروگرام تیار فرما کر یہ کَون پیدا کیا۔ اس میں بہت سی پیدائشیں تو ا سطرح ہوئی ہیں جیسے زمین جو مقصود بالذات تھی اس کی تخلیق اور قیام کے لئے ذرّے پیدا ہوتے ہیں۔ ذرّے پیدا بھی ہوتے ہیں اور ذرّے مٹتے بھی رہتے ہیں۔ ذرّہ جو باعث ہے زمین کے قیام کا اس کی طرف کسی کو دھیان بھی نہیں ہوتا۔ نہ اس کے بننے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ اس کے مٹنے کی طرف۔ اسی طرح انسانوں میں لاکھوں‘ کروڑوں انسان ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ نہ ان کے پیدا ہونے سے کسی کو خاص توجہ ہوتی ہے اور نہ ان کے فنا ہونے سے لیکن ان میں سے بعض لوگ مقصود ہوتے ہیں اور ان کا وجود دنیا میں ایک عالمگیر انقلاب لانے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ لوگ کبھی وہ ہوتے ہیں جو علمی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ کبھی وہ ہوتے ہیں جو سیاسی دنیا میں انقلاب کرتے ہیں کبھی وہ ہوتے ہیں جو ذہنی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ مقصود تو ہوتے ہیں مگر مقصود بالذات نہیں ہوتے۔
مقصود بالذات صرف انبیاء ؑ کا وجود ہوتا ہے۔ جو روحانی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں اور وہ باطل پرست دنیا میں انقلاب پیدا کر کے مخلوق کو خدا پرست بنا دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خدا میں شامل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا میں نے ابھی مقصود کے تحت میں ذکر کیا ہے۔ وہ انبیاؑء سے قبل دنیا میں آتے ہیں تاکہ بیداری پیدا کریں بیداری اپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ جس کے ساتھ ہزارہا منافع وابستہ ہیں۔ جیسے بادل اور بارش سے قبل ٹھنڈی ہوا ایک دلیل ہوتی ہے کہ بارش آئے گی اور جیسے ٹھنڈی ہوا سے قبل گرمی اور تلخی بندش ہوا دلیل ہوتی ہے کہ بادل آئیں گے۔
جیسے زمین میں مختلف جگہ پر زلزلوں کا پیدا ہونا دلیل ہوتا ہے کہ زمین اب اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثقَالھَا کی مصداق بن جائے گی۔ اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کا وجود جو ذہنی بیداری کا باعث ہوں دلیل ہوتا ہے اس امر کی کہ اَب روحانی انقلاب لانے والا بھی کوئی شخص پیدا ہوا چاہتا ہے اور یہی لوگ مقصود بالذات ہوا کرتے ہیں ان لوگوں کی خاطر کبھی دنیا کے بعض حصے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ کبھی بعض قومیں تباہ کر دی جاتی ہیںاور کبھی ایک قوم کو ایک ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں جن کو ظاہری آنکھ نہیں سمجھ سکتی۔ مگر کبھی اس واقعہ سے صدیوں بعد اور کبھی ہزار ہا سال بعد وہ ہستی جو مقصود بالذات ہے پیدا ہو جاتی ہے۔
دنیا کے تاریخ دان انقلاب امم کو محض قوموں کے قواء کی کمزوری اور مضبوطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان قواء کی کمزوری اور مضبوطی تو ایک طَے شدہ چیز ہے۔ وہ ایک گھڑی کے پُرزوں کی طرح گارنٹی کی مدت مقررہ میں چلتے اور ختم ہو جاتے ہیں۔ دراصل ان کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیمؑ کا اپنی بیوی ہاجرہؑ اور اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑنا کیا نتیجہ تھا ان خانگی جھگڑوں کا جو دو سَوتوں کے درمیان اکثر اوقات ہو جایا کرتا تھا۔ مؤرخ یہی کہے گا مگر اسرار الٰہیہ کا جاننے والا کہے گا کہ یہ دن یوم الفارق تھا بنی اسماعیل اور بنی اسحق دو قوموں کے درمیان۔ الٰہی تجویز کے ماتحت بنی اسحق کی عارضی ترقی اور بنی اسماعیل کو نشوونما دے کر ارض بطحا سے قوموں اور تمام بنی نوع کا شاہنشاہ پیدا کرنا مطلوب تھا ٹھیک اسی طرح ہم حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے انقلابات دیکھتے ہیں کہ اس خاندان کے بزرگ بخارا سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے۔ قوموں کی تاریخ لکھنے والا مُؤرخ اس کے اسباب وعِلل معلوم نہیں کیا بتلائے۔ وہ ممکن ہے کہ فراخی رزق کی تلاش اس کا سبب بتلائے یا ممکن ہے خانگی خانہ جنگی سمجھے یا ممکن ہے ملک کی سیاسی پیچیدگیاں اس کی وجہ قرار دے لیکن مَیں ان سب وجوہات کو غلط قرار دے کر ایک یہی وجہ قرار دوں گا کہ اس خاندان کے بزرگوں کی صُلب میں ایک امانت تھی جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ سے تقریباً ۴۰ بزرگوں کی پشت میں منتقل ہوئی اور حضرت میر ناصر نواب کے ذریعہ عالم وجود میں آئی اور اس کا نام نامی و اسمِ گرامی نصرت جہاں بیگم رکھا گیا۔
مَیں ان وجوہات پر بحث نہیں کرتا جن کی بناء پر یہ خاندان عرب سے نکل کر بخارا میں چلا گیا مگر بخارا سے ہندوستان آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس خاندان کے بزرگوں کو یہ امانت حضرت مسیح موعود و مہدیٔ مسعود کے حوالے کرنی تھی اور مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ازل کے پروگرام کے مطابق یہ مقدر تھا کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہو اور یہی وجہ تھی کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ بھی اس امانت کا بار اُٹھائے ہوئے جس کا نام مسیح موعود تھا سمرقندسے کچھ عرصہ پہلے بابر کے زمانہ میں ہندوستان آگئے تھے اور تھوڑا عرصہ بعد نصرت جہاں بیگم کے بزرگ اس دوسری امانت کا بار اُٹھائے ہوئے ہندوستان چلے آئے۔
یہ کیوں ہوا؟ خدا تعالیٰ نے روز اوّل سے مقدر کر دیا تھا کہ جب اُمت محمدیہ اپنے زوال کی انتہاء کو پہنچ جائے گی اُس وقت ایک مسیح محمدی پیدا کیا جائے گا۔ وہ ایک خاص خاتون سے شادی کرے گا اور اس خاتون کے بطن سے اولاد پیدا ہوگی۔ یہ اولاد ساری کی ساری مبشر ہوگی۔ وہ ایسے نور ہوں گے جن سے قومیں راہ دیکھیں گی اور دنیا کے امن کی بنیاد اُن پر رکھی جائے گی۔ پس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی سمرقند سے ہجرت کا اصلی سبب مسیح موعود علیہ السلام کا ہندوستان میں پیدا ہونا تھا اور نصرت جہاں بیگم کے خاندان کی بخارا سے ہجرت کا اصل باعث ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں آنا تھا اور اس نکاح کی غرض ایک جدید قوم کو پیدا کرنا تھا جو دنیا کے آئندہ تمدن کو بدل کر چٹانِ امن پر لا کر کھڑا کر دے گی۔ اس غرض کو پورا کرنے کیلئے اُمُّ المؤمنین کے بزرگ ہجرت کر کے ہندوستان میں آئے۔

ء…ء…ء
















حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان










حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان

۱۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۲۔ حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب
۳۔ خواجہ نواب فتح اللہ خان صاحب
۴۔ روشن الدولہ۔ رستم جنگ خواجہ سیّد نواب محمد ظفراللہ خان یارِ وفادار ہفت ہزاری
۵۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب
۶۔ حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ خواجہ صاحب میر صاحب ضیاء النّاصر
۸۔ خواجہ محمد نصیر صاحب محمدی












حضرت اُمُّ المؤمنین کے آبائی بزرگوں کا اجمالی تذکرہ

حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کے بزرگوں کی ابتداء خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک سے ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور آپؓ کے لختِ جگر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے۔ حضرت امام حسینؓ شہید کربلا کے لختِ جگر حضرت امام سیّد زین العابدین تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا خاندان حسینی سادات کا خاندان تھا۔ اس طرح اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کو جو نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے تھے۔ ان کی نیکی، تقویٰ، بزرگی، عَلُوِّمرتبت کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ میدانِ کربلا میں آپؓ نے جو ایثار اور قربانی کا نمونہ دکھایا اُس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہ آئے گی۔ خاندان کے بیشتر افراد ایک ایک کر کے اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوا دیئے۔ مگر ظلم اور خلافِ حق کے سامنے اپنی گردن خم نہ کی۔ اس پر اکتفا نہ ہوا بلکہ اپنی عزیز جان بھی طرح طرح کے مصائب اور مظالم کو برداشت کرتے ہوئے قربان کر دی اور ایک فاسق فاجر انسان کی اطاعت کو قبول نہ کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کوجنت کے سرداروں میں سے قرار دیا۔ انہوں نے دنیا کی تمام تلخیوں، شرارتوں اور بظاہر ناکامیوں کو قبول کر کے دنیا کو ایک سبق دیا کہ سچائی زندگی اور جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ اس قربانی کا جو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے دی یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اسلام کی خدمت کرنے والی جماعتیں آپؓ کی نسل میں پیدا کر دیں اور متقین کا امام بنا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اس سے قبل اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ ان کو بھی اپنے ایک بیٹے اسماعیل علیہ السلام اور بیوی کی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے ایک قربانی دینی پڑی تھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ان کی ایک دعا کا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:
رَبَّنَآ انِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَا جعَل اَفْئِدَۃً مِّنَ الناسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِم وَارْزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ-۱؎
اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں انسانی رہائش بالکل ناممکن تھی ان کا اپنی اولاد کوخدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لئے چھوڑ دینا اِس امر کا باعث ہوگیا کہ اسماعیل ؑ کو ایک قوم کا باپ بنا دیا گیا اور اس قوم سے وہ انسان پیدا ہوا جو فخر انسانیت، فخر الانبیاء، جامع جمیع کمالات انسانی تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر حضرت اسماعیل ؑ جیسی قربانی کی تو ضروری تھا کہ ان کو بھی اس کا ویسا ہی بدلہ دیا جاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک صلحاء اور راستبازوں کی ایک بڑی جماعت آپؓ کی نسل میں پیدا کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ چنانچہ حضرت امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام جعفر، امام موسیٰ کاظم، امام موسیٰ رضا، امام علی نقی، امام علی تقی ، امام حسن عسکری رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے برگزیدہ اور باخدا اور پاکباز لوگ نسل حسینؓ سے پیدا ہوئے اور باوجود اس کے کہ حادثہ کربلا میں دنیا آلِ حسینؓ پر تنگ ہوگئی تھی اور دشمن نے اس نسل کو مٹا دینے کا عملی فیصلہ کر لیا تھا مگر نسلِ حسینؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونوں میں پھیل گئی اور دنیا کی راہنمائی اور اصلاح کا کام ہر جگہ ان کے ذریعہ سے مختلف زمانوں اور مختلف مکانوں میںہوتا رہا۔ اسی اصل کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے نسلِ حسینؓ کی ایک شاخ کو بخارا کی طرف منتقل کر دیا۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری جو امام حسن عسکری کے دسویں پشت میں پوتے ہیں بخارے میں ہجرت کر گئے۔
تاریخ ان اسباب کو بیان نہیںکرتی جو ان کی ہجرت کے اسباب ہیں لیکن جیسے کہ مَیں لکھ چکا ہوں کہ ان تمام حرکتوں کے پیچھے الٰہی منشاء کام کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری کے خانوادہ میں ایک ایسا باکمال اور روشن ستارہ پیدا ہوا جس نے اپنے روحانی کمال سے ایک دفعہ دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دراصل اسی ستارہ کو بخارا کی زمین سے پیدا کرانے کے لئے یہ ہجرت کرائی گئی تھی اور یہ تھے حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند۔
حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند اپنے زمانہ کے بہت بڑے رہبر کامل تھے۔ ان کے ذریعے ایک خاص صوفی فرقہ کی بنیاد رکھی گئی جو لوگ اس فرقہ میں شامل ہوتے تھے وہ نقشبندی کہلاتے تھے۔ نقشبندی طریقہ آہستہ آہستہ بخارا سے نکل کر ہندوستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر تک پھیل گیا۔ اس طریقہ کے ماننے والے لوگوں میںبڑے بڑے باخدا اور ولی اللہ لوگ پیدا ہوئے۔ چنانچہ خواجہ علاء الدین عطار، حضرت مولانا یعقوب چرخی، حضرت خواجہ عبید اللہ احرار، حضرت خواجہ مولانامحمد زاہد، حضرت خواجہ محمد درویش، حضرت خواجہ ا مکنکی، حضرت خواجہ محمد باقی، حضرت مجدد الف ثانی،حضرت خواجہ محمد معصوم، حضرت خواجہ حجۃ اللہ نقشبندثانی، حضرت خواجہ محمد زبیر اور اس قسم کے بہت سے بزرگ مختلف ملکوں میں اس سلسلہ نقشبندیہ کے ذریعے پیدا ہوئے اور انہوں نے درویشانہ طریق پر اسلام کی بڑی بڑی خدمتیں کیں۔ یہ سب لوگ مجاہدین اسلام تھے اور ان کی عمریںبے ریا خدمت میں گذر گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے فضلوںکی بڑی بڑی بارشیں برسائے۔ آمین
اسی نقشبندی طریق کے حاملین میں سے گیارہویں صدی میں حضرت مجدد الف ثانی ایک ایسے بزرگ پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے مجدد تھے اور اسلام کے دورِ خزاں میں بہار پیدا کرنے کا باعث ہوئے۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی حضرت خواجہ سیّد بہاء الدین نقشبندی کے صلبی بیٹے نہ تھے۔ ان کا تعلق صرف روحانی فیض سے وابستہ تھا۔ ہاں سیّد بہاء الدین نقشبند کی جسمانی اولاد بھی اس فیض روحانی سے محروم نہ تھی۔ پہلے بھی ان کی جسمانی اولاد میں سے اکثر باخدا لوگ پیدا ہوئے تھے مگر بارہویں صدی میں حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی پر پھر روحانی پرتوہ پڑا اور وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے ولی کامل مانے گئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ایسے پاکباز بزرگ تھے کہ اگر مَیں ان کو تیرہویں صدی کا ایک باکمال ولی کہوں تو بیجا نہ ہوگا۔
ان بزرگوں کے مختصر اوصاف تو الگ الگ میں لکھوں گا لیکن یہاں مَیں اس قدر لکھ دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حضرت خواجہ میر درد بچپن سے فیض روحانی سے مالا مال ہو چکے تھے۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام ’’اسرار الصلوٰۃ‘‘ رکھا۔ جب اس مختصر سے رسالہ کو حضرت مولانا فخر الدین چشتی نظامی دہلوی اور حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے ملاحظہ فرمایا تو دونو بزرگ اصحاب نے فرمایا ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیہِ مَنْ یَّشَائُ یہ وہبی دولت ہے۔
الغرض حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب سے ایک نئے سلسلہ کی بنیاد پڑی جو سلسلہ محمدیہ کہلایا۔اس سلسلہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ یہ سلسلہ محمدیہ امام مہدیؑ کے آنے تک جاری رہے گا اور اس کے بعد امام مہدیؑ کے آنے کے بعد اس کی روشنی اس کے نور میں گم ہو جائے گی۔ چنانچہ جیسے پیشگوئی میں لکھا تھا بالکل اس کے مطابق ہوا۔ اس سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت میر ناصر امیر ہوئے۔ جو ۱۶/ ذوالحجہ ۱۲۷۰ـھ؁ مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴ء؁ کو فوت ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود ؑ پیدا ہو چکے تھے اور آپؑ کی عمر ۲۰ سال کی ہو چکی تھی کیونکہ آپؑ کی پیدائش ۱۸۳۵ء ؁میں ہوئی تھی اور آپ کے ظہور کا زمانہ قریب تھا اور وہ وقت بھی نزدیک تھا جب کہ فرقہ محمدیہ کی روشنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں گم ہو جانے والی تھی۔ چنانچہ ۱۸۶۵ء ؁میں حضرت میر ناصر امیر کے لختِ جگر حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشکوے معلی میں نصرت جہاں بیگم کی ولادت باسعادت ہوئی اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض حضرت فاطمہ علیہا السلام کے ذریعے اُن کی اولاد میں منتقل ہوا بالکل اسی طرح خاندان محمدیہ کی روشنی حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے ذریعے ۱۸۸۴ء ؁میں حضرت مسیح موعود اور مہدیؑ مسعود کی روشنی میں گم ہوگئی اور آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نکاح میں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت لائی گئیں اور اس طرح ایک نئی اور پاکیزہ آسمانی روشنی میں مل کر یہ پہلی روشنی جلوہ گر ہوئی۔ حقیقت میں شمع وہی تھی فانوس دوسرا تھا۔ آفتاب وہی تھا مگر مطلع نیا تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا ایک نئی نسل کا آغاز ہوجو قیامت تک اپنے نور سے دنیا کو منور رکھے گی اور اس طرح حضرت امام حسینؓ کو اس قربانی کا پھل مل گیا اور راستباز اور نیک خادمان دین الٰہی کی ایک بڑی جماعت بذریعہ نسل اور بذریعہ روح دی گئی اور اس آخری زمانہ میں جب کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اسلام کی تکمیل اشاعت کے لئے ایک بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تو مشابہتِ تامہ کیلئے نسلِ حسینؓ سے ایک دوسری خدیجہؓ کو پیدا کیا تا کہ اس کی نسل سے پھر دوسرا دور شروع ہو اور تکمیل اشاعت دین کیلئے یہ لوگ جو ایک طرف نسلِ حسین سے بھی ہوں گے معلوم نہیں کہ کس قدر دکھ اُٹھائیں گے اور کتنی قربانیاں کریں گے اور ان کو حضرت امام حسینؓ سے کتنی قرب کی نسبتیں ہوں گی کہ مسیح موعود نے فرمایا:
کربلا ایست سَیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
نادانوں نے اسے حضرت امام حسینؓ کی توہین قرار دیا ہے جو شخص خود امام حسینؓ سے ایک نسبت خاص رکھتا ہو جو خود بروزِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو وہ امام حسین علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتا۔ میرے ذوق میںتو اس میں ایک پیشگوئی مخفی ہے جو ان تکالیف اور مشقتوں اور قربانیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس بروز محمدؐ اور اس بروز خدیجہؓ کی اولاد اور نسل کو اشاعت دین کے راستے میں اٹھانی پڑیں گی۔ کتنی عظمت ہے اس خاتون کی جسے خدا تعالیٰ نے تیرہ سَو سال کے بعد پھر خدیجہؓ ثانیہ بنا کر بروز محمد کی بیوی بنا دیا اور کتنی عظمت ہے اس نسل کو جو تکمیل اشاعتِ دین کی غرض کیلئے دنیا کی آخری ہدایت اور نور قرار دی گئی۔ یہ نتیجہ تھا امام حسین کی قربانی کا۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعالیٰ عَنْہُ
حضرت سَیّد محمد طاہر
دَورِ اوّل
بخارا سے پہلا قافلہ
ہندوستان میں سب سے اوّل حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ کی نسل سے خواجہ محمد نصیر نقشبندی شاہجہان شہنشاہ ہند کے زمانہ میں بخارا
سے ہندوستان آئے۔ گویا یہ بخارا کے اس خاندان کا پہلا قافلہ تھا۔ شاہنشاہِ ہند نے ان کو بڑے اعزاز سے اپنے دربار میں بلا لیا اور ان کو ہر قسم کے اعزاز اور مناصب سے سرفراز فرمایا اور اپنے لختِ جگر شاہزادہ شجاع کے ساتھ جو اس زمانہ میں بنگال کے ناظم یعنی وائسرائے تھے وزیر کے منصب پر فائز کر کے بھیج دیا۔ جب تک شاہجہان بادشاہ برسرِ اقتدار رہا شجاع ناظم بنگال رہے اور جب اورنگ زیب کا دور آیا اور خاندانی جنگ کا آغاز ہوا تو شاہ شجاع بنگال سے اورنگ زیب کے مقابلہ کیلئے روانہ ہوا۔ شاہ شجاع کے ساتھ ۲۵ ہزار فوج اور توپخانہ تھا۔ بنگال سے چل کر اس فوج نے بنارس آ کر دم لیا اور بنارس سے کہجوہ پہنچ کر۔ اُدھر سے اورنگ زیب بڑھا آ رہا تھا۔ الہ آباد اور اٹاوہ کے بیچ دونو بھائیوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ شجاع کی فوج کو شکست ہوئی اورنگ زیب کی فوج نے حملے کے جوش میں اندھے ہو کر زنانے خیموں کی طرف رُخ کیا۔ خواجہ محمد نصیر صاحب کو یہ امر سخت ناگوار گذرا اور وہ تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور خوب دل کھول کر دادِ شجاعت دی۔ بالآخر مستورات کے کیمپ کے باہر شہید ہوگئے۔ ۲؎
اس مختصر سے واقعہ سے مندرجہ ذیل امور منتج ہوتے ہیں:
اوّل: خاندانِ نقشبند کا پہلا قافلہ زیر قیادت خواجہ محمد نصیر صاحب دہلی آیا۔
دوم: یہ زمانہ شاہنشاہِ شاہجہان کا تھا جو مغلیہ سلطنت کے عین عروج کا زمانہ تھا۔
سوم: شاہنشاہِ ہند نے فوراً خواجہ محمد نصیر کو دربار میں اعزاز اور منصب سے سرفراز کیا جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خاندان بخارا میں کوئی غیر معروف نہ تھا بلکہ ان کی بزرگی، علمی قابلیت، وجاہت، عالی نسبی کا اس سے بسہولت پتہ چلتا ہے۔
چہارم:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصولِ ملازمت کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ شاہجہان کے ایماء پر ہی آئے تھے۔ بخارا اُن ایام میں علومِ اسلامیہ ہی کا مرکز نہ تھا بلکہ وہاں خدا رسیدہ بزرگوں کی بھی جماعت تھی اور شاہجہان وہاں سے علوم دینیہ کے ماہر اور اہل دل لوگوں کو بلانے کے لئے خاص شوق رکھتا تھا اور عالی نسب، ذی علم، خدا پرست لوگوں کی جماعت جمع کرنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے خواجہ محمد نصیر کو بلایا تھا۔ تبھی بغیر کسی تردّد کے ان کو اتنی جلدی فی الفور منصبِ وزارت جیسے وقیع منصب پر فائز کر دیا گیا۔
پنجم: وہ صرف صاحبِ سیاست ہی نہ تھے بلکہ صاحب السَیف بھی تھے۔ گویا کہ بیک وقت ایک اعلیٰ درجہ کے سیاستدان اور ایک عمدہ جرنیل تھے۔
اس سے اس خاندان کی عزت، عظمت کا بآسانی اندازہ لگ سکتا ہے خواجہ محمد نصیر صاحب وزیر صوبہ بنگال کے بعد اُن کے صاحبزادے سیّد عبدالقادر بالکل دنیا سے الگ ہو گئے۔ خواجہ محمد نصیر کا ذکر تو صرف اس قدر بتانے کے لئے کیا گیا کہ بخاری سادات نقشبندیہ کا پہلا قافلہ آپ کی قیادت میں آیا اور آپ بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے سیاست دان اور بہت بڑے جرنیل تھے۔ مگر جس خاندان کا ذکر مقصود بالذات ہے وہ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کا خاندان ہے۔ یہ بزرگ بھی حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کے خاندان سے تھے اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کے خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔
حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب اس دوسرے قافلہ کے سردار تھے جو بخارا سے واردِ ہندوستان ہوا۔ یہ زمانہ شاہنشاہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلہ کی آمد پر پہلے ہی سے اورنگ زیب کی آنکھیں لگی ہوئی تھیںکیونکہ اورنگ زیب خود خواجہ خواجگان حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ نقشبندیہ میں بیعت تھا اس لئے اورنگ زیب بادشاہ ہند نے ان کے فوراً ورودِ ہند ہونے پر ان کو دہلی کی مشہور تاریخی یادگار میں جو اس زمانہ میں دنیا کا بہت بڑا پُر رعب و جلال قلعہ تھا دعوت دی۔
لال قلعہ میں دعوت
میں یہاں لال قلعہ کی رونق اور شوکت اور عظمت و جلال کی تاریخ نہیں لکھنی چاہتا مگر ہر شخص جسے اسلامی ہند کی تاریخ سے ذرا بھی مس ہو وہ لال قلعہ کی عظمت سے بخوبی واقف ہوگا۔ لال قلعہ اُس وقت دنیا میں سب سے بڑا قصرِ شاہی تھا اس وقت مغلیہ سلطنت کا ڈنکہ چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوج ظفر موج کے سامنے اس وقت ہندوستان کی کوئی فوج ٹھہر نہ سکتی تھی۔ تمام ہندوستان پر اس کا چتر حکومت چھا رہا تھا۔ لال قلعہ اس زمانہ میں ایک نو عروس کی طرح سے سجا ہوا تھا۔ فوجوں کے پرے افسران کی بھڑکیلی وردیاں، درباریوں کا مؤدّب اور باوقار ہونا ہر شخص کے قلب میں ایک ہیبت طاری کرتا تھا۔ نوکر چاکر، لونڈیاںغلام اِدھر سے اُدھر بھاگے پھرتے تھے۔ شاہزادوں اور شاہزادیوں بیگمات اور خواصوں کے معطّر لباسوں سے قلعہ کی فضاء دنیا کی دیگر فضاء سے بالکل الگ معلوم ہوتی تھی۔ ایسے مقام عالی میں جہاں سے شاہنشاہِ ہند حکومت کرتا ہو جب کسی کی دعوت کرتا ہوگا تو اس وقت قلعہ معلّٰے کی کیا حالت ہوتی ہوگی اور کیسی گہما گہمی ہوتی ہوگی۔
الغرض بادشاہِ ہند شہنشاہِ اورنگ زیب نے اس اخلاص کی وجہ سے جو اُن کو اپنے پیرومرشد حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند سے تھا حضرت سیّد محمدطاہر صاحب کی لال قلعہ میں دعوت کی۔
شاہنشاہ درویش کے قدموں میں
شاہنشاہ نے بنفس نفیس اُن کا استقبال کیا اور بڑی تواضع اور ادب سے اُن کو مسند پر بٹھایا۔ چونکہ اورنگ زیب خود طریقہ نقشبندیہ میں مرید تھا اس لئے سیّد محمد طاہر کا وجود اس کے لئے اپنے پیرومرشد کے ہی قائم مقام تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بادشاہ نے بہت کچھ نقد جنس حسبِ دستور شاہانِ مغلیہ اپنے مرشد زادہ کو پیش کرنا چاہا۔ مگر اُن کی نگاہ میں یہ زر و جواہر اور یہ دنیا کے مال و منال کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی اُن کی طرف نہ دیکھا اور اُن کو قبول نہ کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں اُن کی نگاہ میں دنیا کی ان قیمتی اشیاء کی قیمت ایک جیفہ ( مُردار) سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
خلاصہ یہ کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اُن کو اس دنیا کی کسی چیز سے اُلفت نہیں ہوتی اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ الدنیا جِیْفَۃٌ وَطَالِبُھَا کلاب
الغرض حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب نے شاہی عطاء کو قبول نہ کیا۔ اورنگ زیب نے کیا کچھ پیش کیا ہو گا اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں مگر اس امر سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے کہ اورنگ زیب خود شاہنشاہِ ہند تھا اور جس کو وہ پیشکش کر رہا تھا وہ اس کا مرشدزادہ بلکہ ایک رنگ میں مرشد ہی تھا کیونکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اورنگ زیب کو انہی کی دعا سے تاج و تخت ملا تھا۔ اس لئے اس نے جو کچھ پیش کیا ہو گا اس کا تصور بآسانی ہو سکتا ہے۔
حضرت خواجہ کے اس استغناء اور سیر چشمی نے اور بھی جادو کا سااثر کیا اور وہ ہمیشہ کے لئے ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور اس طرح شاہنشاہِ ہند ایک درویش کے قدموں میں آ گیا۔اس کی عقید تمندی کی یہ حالت تھی کہ وہ خود بنفسِ نفیس درِخواجہ پر حاضری دیا کرتا تھا۔ ۳؎
خواجہ سَیّد محمدطاہر کے بیٹوں کے نکاح میں مغل شاہزادیاں
کچھ عرصہ کے بعد خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ حرمین کو جانا چاہتے ہیں۔ اورنگ زیب ان کو اس پاک مقصد سے روک نہ سکتا تھا اور ان برکات سے بھی محروم نہ ہونا چاہتا تھا جو اس بزرگ خاندان کے قدموں کی برکت سے حاصل ہو رہی تھیں۔ اس لئے اس نے بصد اخلاص وارادت عرض کی کہ آپ اپنے تینوں صاحبزادے اور اپنے بھتیجہ کو میرے پاس چھوڑ جائیے تا کہ ان کی برکت سے لال قلعہ معمور رہے۔ شاہنشاہِ ہند کی یہ درخواست منظور ہوئی اور انہوں نے اپنے تین صاحبزادے خواجہ سیّد محمد صالح اور خواجہ سیّد محمدیعقو ب اور خواجہ سیّد فتح اللہ صاحب کو معہ اپنے ایک بھتیجہ کو جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا حسبِ استدعا اورنگ زیب بادشاہِ ہند دہلی میں چھوڑا۔
بادشاہ نے ان چاروں کو بڑے بڑے عہدے اور بڑے بڑے منصب دے کر اورنگ زیبی دربار کے رُکن بنا لیا۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ خواجہ محمدصالح اور خواجہ محمد یعقوب کو جو کنوارے تھے اپنے حقیقی بھائی شہزادہ مراد کی دو خوبصورت حسینہ و جمیلہ بیٹیاں بیاہ دیں اور اس طرح اس خاندان سے نہ صرف اپنی عقیدت مندی کی تکمیل کی بلکہ اس خیال سے کہ لوگ ان کو محض درویش ہی خیال نہ کرتے رہیں اپنے برابر کر لیا۔
اس طرح اس خاندان درویش کو درویشی اور حکومت کی دونوں نعمتوں سے مالا مال کر دیا۔ اسی خاندان سے ایک بزرگ خواجہ سیّد محمد یعقوب بھی اس دوسرے قافلہ میں آئے تھے۔ ان کے بیٹے خواجہ سیّد موسیٰ کو اپنے پوتے شہزادہ معزالدین کی بیٹی فرخندہ اختر سے بیاہ دیا۔
مرشد زادے
اب یہ ایک قدرتی بات تھی کہ خیال پیدا ہو کہ جو بچے ان جوڑوں سے پیدا ہوں گے مغل شہزادوں کی نگاہ میں ان کا کیا مقام ہو گا کہیں وہ ان کو کم درجے کا خیال نہ
کرنے لگیں۔ اس لئے جو بچے ان سے پیدا ہوئے وہ قلعہ معلّٰے والوں کی اصطلاح میں مرشدزادے کہلاتے تھے اور ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔
نواب سیّد فتح اللہ خان
میں بتلا چکا ہوں کہ خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے دنیا کے مال و منال کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا اور بالآخر وہ حرمین الشریفین کی زیارت کے لئے چلے گئے اور یہ سفران کا ہندوستان سے دیارمحبوب میں ہجرت کا سفر تھا۔
ان کے صاحبزادوں کے متعلق بھی میں لکھ چکا ہوں کہ ان کو نہ صرف منصب اور مقام عالی نصیب ہوا بلکہ اورنگ زیب نے ان کو شاہی خاندان میں داخل کر لیا تھا اور یہ عزت سوائے اس خاندان کے کسی اور خاندان کو نصیب نہیں ہوئی۔ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کے تیسرے لختِ جگر سیّد فتح اللہ صاحب تھے۔ شاہنشاہ نے ان کو ’’نواب‘‘ اور ’’خان‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح آپ نواب فتح اللہ خان کہلائے اور اس عہد میں خانی کا خطاب بہت بڑا درجہ اور اعزاز تھا۔ خطاب کے سوا منصب بھی دیا گیا اور یہ چاہا کہ ان کے بھائیوں کی طرح ان کی شادی بھی کسی شہزادی سے کر دی جائے مگر آپ نے شاہنشاہ سے کہہ دیا کہ اگرچہ شریعت غرّا میں اس امر کی اجازت ہے کہ ایک مغل یا پٹھان کو ایک سیّدزادی بیاہ دی جائے یا ایک سیّد کو ایک مغلانی یا پٹھانی بیاہ دی جائے مگر میں اپنے لئے پسند نہیں کرتا کہ میری بیوی مغلانی یا پٹھانی ہو۔ شاہنشاہ نے ان کی اس بات کو پسند کیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّد فتح اللہ بھی ان بزرگوں میں سے تھے جو اپنے اندر باوجود بلند منصبی کے درویشی کا رنگ رکھتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہنشاہِ اورنگ زیب کو ان کا کس قدر پاس تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کا انکار نہ صرف منشاء شاہی کے خلاف تھا بلکہ اگر کوئی بُرا مفہوم لینے والا ہوتا تو شاید اسے خاندانِ شاہی کی ہتک بھی خیال کر لیتا مگر چونکہ اورنگ زیب اس خاندان کی بے نفسی اور درویشی پر پورا یقین رکھتا تھا اس لئے اس نے ان کے منشاء کو مقدم کر لیا۔اگر یہ لوگ وجاہت طلبی کی تلاش میں ہندوستان آئے ہوتے تو ایسے موقعہ کو بسا غنیمت جان لیتے اور بلکہ وہ خود اس تلاش میں رہتے کہ کوئی ایسا موقعہ میسّر آئے لیکن ان کی حالت بالکل اس کے خلاف تھی کہ موقعہ میسّر آنے پر بھی انکار کر دیتے تھے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا خاندان
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کا تو کوئی موقعہ نہیں مگر ایک مناسبت سے میں ان کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ قدرتِ الٰہی نے چونکہ آگے چل کر دونوں خاندانوں کو ایک کر دینا تھا اس لئے ان دو نوں خاندانوں میں ایک مناسبت چلی آتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مورثِ اعلیٰ بڑی شان و شوکت سے بابری عہد میں واردِ ہندوستان ہوئے۔ بابر تیموری خاندان کا بادشاہ تھا اور خاندان مسیح موعود ؑ اوپر چل کر تیمور کے چچازاد بھائیوں کا خاندان تھا۔ اس لئے میرزا ہادی بیگ نسل کے لحاظ سے ایک ہی درخت کی دوسری شاخ تھا اور بابر سے ان کو نسبتِ اخوت تھی لیکن انہوں نے دِلّی کی رہائش کی بجائے دِلّی سے پانچ سو میل دُور پنجاب میں دریائے بیاس کے کنارے پر بالکل ایک گمنام اور اُجاڑ گوشہ میں رہائش اختیار کر لی اور دِلّی کی شان وشوکت سے ذرا بھی حصہ نہ لینا چاہا اور ان مناصب جلیلہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ بابری تخت کے قُرب میں یہ خاندان نہ صرف یہ کہ مناصب جلیلہ پر فائز ہوتا بلکہ کسی کمزوری کے وقت خود برسرِاقتدار ہو کر تختِ دہلی پر جلوہ افروز ہوتا۔ الغرض یہ ایک مناسبت تھی کہ خاندانِ مسیح موعودؑ بھی باوجود شاہی خاندان ہونے کے درویشی اور عزلت نشینی کو مقدم کرتا رہا۔
قصہ مختصر نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب کے اس انکار پر شاہنشاہِ اورنگ زیب نے ان کی شادی نواب سربلند خان میر بخشی (کمانڈرانچیف افواج) کی حقیقی ہمشیرہ سے کروادی۔ نواب سربلند خاں صاحب صحیح النسب سَیّد تھے اور خواجہ سیّد بہاء الدین صاحب نقشبند کی اولاد میں ہی سے تھے۔ الغرض خواجہ نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب نے پسند کیا کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنا تعلق دامادی شاہی محل سے پیدا کریں وہ اپنے خاندان سے باہر نہ جائیں۔
نواب سربلند خان میربخشی کا وجود بتلاتا ہے کہ اس خاندان پر اورنگ زیب کو انتہائی اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کے سول اور فوج کے بڑے بڑے عہدے اس خاندان کے اراکین کے سپرد تھے اور اس طرح دہلی ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی سیاست میں اس خاندان کا وقیع اثر تھا۔
نواب فتح اللہ خان سیّد محمد طاہر صاحب کے خاندان میں پہلے شخص تھے جو اس قدر بلند منصب پر فائز ہوئے اور ’’نوابی‘‘ اور ’’خانی‘‘ کے خطاب سے مفتخر کئے گئے۔
نواب ظفراللہ خان
روشن الدّولہ رُستمِ جنگ
نواب فتح اللہ خان صاحب کے مشکوئے معلّٰی میں اور نواب سربلند خان میربخشی کی ہمشیرہ کے بطن سے ایک نونہال پیدا ہوئے۔ جن کا نام خواجہ سیّد محمد ظفراللہ خان رکھا گیا۔ سیّد محمدظفراللہ خان اس خاندان میں پہلا شخص تھا جس کاباپ نواب تھا اور حکومت اورنگ زیب میں بہت بڑا دخل اور رسوخ رکھتا تھا اور اس کا ماموں بھی نوابی کے بلند و بالا خطاب سے مفتخر تھا اور کمانڈرانچیف افواجِ شاہنشاہی تھا اور نسبی عظمت کے لحاظ سے ددہیال اور ننھیال کی طرف سے ایک ہی خاندان کا نونہال تھا۔ یعنی حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند کے خاندان اور نسل سے سیّد محمد ظفراللہ خان نے رفیع الشان بن شاہ بن شہنشاہ اورنگ زیب کی سرکار سے معزز عہدے پائے اور جلد ترقی کر کے پانچصد سوار کا منصب حاصل کیا اور نواب ظفراللہ خان کا خطاب حاصل کیا۔ نواب ظفراللہ خان کو خاندان شاہی میں بہت اعتماد حاصل تھا اور وہ شاہی خاندان کے ساتھ ہمیشہ وفادارانہ طور پر رہے۔
نواب ظفراللہ خان تارِکُ الدُّنیا بن گئے
رفیع الشان اور جہان شاہ کے خلاف لاہور میں بغاوت ہوئی۔ عظیم الشان جہاندار شاہ کی افواج نے لاہور میں رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی خوبصورت اولادوں کو خاک و خون میں ملا دیا۔ نواب ظفراللہ خان بھی اپنے خاندانی دستور کے مطابق اُن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق دادِ شجاعت دی۔ مگر قدرتِ الٰہی کو کچھ اور منظور تھا۔ رفیع الشان اور جہان شاہ بمع اپنی اولادوں کے مٹ گئے۔ اس نظارے نے نواب ظفراللہ خان کے قلب کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ دنیا کی ناپائیداری نے دل کو بالکل سرد کر دیا اور سب جاہ و حشم پر لات مار دی اور پھر نوابی پر درویشی کو مقدم کر لیا۔
حضرت میران شاہ بھیک صاحب
اس زمانہ کے درویش کامل حضرت میران شاہ بھیک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش بن گئے۔ حضرت میران شاہ بھیک سلسلہ چشتیہ صابریہ کے ایک بڑے کامل درویش تھے اور اس زمانہ میں مرجع خلائق بنے ہوئے تھے اور حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی صابری جن کا مزار اب تک لاہور میں ایک خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کے جانشین اور خلیفہ تھے۔ حضرت شاہ ابوالمعالی شیخ محمددائود گنگوہی کے مرید تھے جو شیخ محمد صادق صاحب گنگوہی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ یہ سلسلہ درویشی و تصوف حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیری تک پہنچ جاتا ہے۔الغرض آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں حضرت میران شاہ بھیک کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش ہو گئے۔ حضرت شاہ میران بھیک کھرے سیّد تھے۔ اور ہندی زبان کے خوش بیان شاعر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے بہت سے ہندی زبان میں دوہڑے موزون کئے تھے جن میں توحید اور اسرارِ معرفت و تصوّف بھرے ہوئے تھے،اور اہل دل ان کو سن کر یاد کر لیا کرتے تھے۔۴؎
درویش سے پھر میدان عمل میں
فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند نے رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی اولاد کی قتل کی خبر کو نہایت دردمند ی سے سُنا۔ اُس نے تہیّہ کر لیا۔ کہ وہ عظیم الشان جہاندار شاہ سے جو پنجاب پر حکومت کر رہا تھا ٗبدلہ لے گا۔ یاد رہے ۔ کہ خود فرّخ سیر عظیم الشان جہاندار شاہ کا بیٹا تھا۔ اور عظیم الشان جہاندارشاہ عالم بہادر شاہ کا بیٹاتھا۔اور بہادر شاہ خود شاہنشاہ اورنگ زیب کا بیٹا تھا۔ فرخ سیر نے اِس خونِ ناحق کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ہمرکاب سیّد حسین علی گورنر بہار۔سیّد عبداللہ گورنرالٰہ باد بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بادشاہ گر کہلاتے تھے۔ سیّد میران بھیک جو اس وقت عالمِ درویشی میں فرد کامل تھے ،انہوں نے درویش ظفراللہ خان سے کہا۔ کہ ’’بھائی سیّد! اب تم بھی پھر اپنی کمر باندھ لو۔ اور فرّخ سیرکے پاس پہنچ جائو‘‘انہوں نے پیرومرشد سے عرض کی ’’میرا دل اِن جھگڑوں سے بیزار ہو گیاہے۔ میں اب اس عالمِ فانی کے دھندوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔درویشی کی لذت کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت کو بھی بے حقیقت جانتا ہوں‘‘مگر میران بھیک صاحب نے فرمایا:
’’اللہ کی یہی مرضی ہے۔ تم دل با یار اور دست باکار ہوگے ربّ العزت کو یہی منظورہے۔ کہ تم بادشاہی عہدہ دار بنکر اس کی مخلوق کو آرام پہنچائو۔ مگر تمہارا خاتمہ بالخیر ہے۔ تم کو جو باطنی دولت ہم نے بخشی ہے۔ اسے دُنیا کی دولت نہ مٹاسکے گی۔‘‘نواب ظفر اللہ خان نے پھر عرض کی۔’’ کہ یہ زمانہ طوائف الملوکی کا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فرّخ سیر کے پاس جائوں اور اُسے مجھ سے کچھ بد گمانی ہو، اور لینے کے دینے پڑجائیں۔ کیونکہ سلاطین کی نگاہ میںآجکل امیروں وزیروں کا کچھ اعتبار نہیں رہا۔ اس پر حضرت میران بھیک صاحب نے فرمایا۔ کہ۔’’ افسوس ہے تم کو اب تک فقیروںکی بات پر بھروسہ نہیں پیدا ہوا مَیں کہتا ہوں کہ تو بے کھٹکے فرّخ سیر کے پاس چلا جا تیری ہر طرح ترقی اور عروج ہے‘‘۔ ۵؎
نواب صاحب کو اب مرشد کے حکم کے سامنے سرجھکاتے ہی بنی۔ کھلی ہوئی کمر کس لی اور اُتری ہوئی تلوار پھر حمائل کر لی اور اس طرح یہ درویش سپاہی پھر میدانِ جنگ کے لئے تیار ہو کر فرّخ سیر کے پاس پہنچا۔ سیّد عبداللہ خان اور سیّد حسین علی خان گورنران یو۔پی و بہار نے ان کی بڑی تعریف کی اور فرّخ سیر سے کہا کہ یہ خود معرکہ لاہور میں شریک تھے۔ فرّخ سیر بھی ان تعلقات سے ناواقف نہ تھاجو شاہنشاہِ اورنگ زیب کے عہد سے اب تک خاندانِ شاہی سے چلے آتے تھے۔ ۶؎
نواب ظفر اللہ خان بخشی سوم
شاہنشاہِ فرّخ سیر نے بھی آپ کی خدماتِ سابقہ اور اس وفاداری کو جو اَب ان سے ظاہر ہوئی سامنے رکھتے ہوئے از راہِ قدر دانی فوراً نواب ظفراللہ خان کو اپنی افواج کا بخشی سوم کر دیا۔ یعنی کمانڈر انچیف درجہ سوم۔
منصب پنج ہزاری
بخشی سوم کے لئے جن لوازمات اور اعزازات کی ضرورت تھی اُن کو بھی نظر انداز نہ کیا اور آپ کو پنج ہزاری کا منصب جلیلہ عطا فرما کر ان کی قدر افزائی کو چار چاند لگا دیئے۔ اِسی پر بس نہ کی نواب ظفر خان رستمِ جنگ کا خطاب بھی مرحمت فرمایا۔
الغرض فرّخ سیر کی جہاندار شاہ کی افواج سے جنگ ہوئی۔ نواب ظفر خان رستمِ جنگ نے نہایت بہادری، وفاداری اور شجاعت سے اس جنگ میں فرّخ سیر کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرّخ سیر کی فوج ظفر موج فتح و کامرانی کا پھریرا اُڑاتی ہوئی پنجاب پر قابض ہو گئی۔
روشن الدولہ نواب ظفراللہ خان کی خدمات کا صلہ فتح کے بعد مزید انعامات اور اعزازات کے رنگ میں ظہور پذیر ہوا اور نواب ظفر خان رستمِ جنگ روشن الدولہ کے عالی قدر خطاب اور منصب ہفت ہزاری پر فائز ہوئے۔ اس طرح حضرت میران بھیک کے حجرہ درویشی میں بیٹھا ہوا خلوت نشین درویش سلطنتِ مغلیہ کا ایک آزمودہ کار جرنیل اور ایک مدبر اور دانشمند مشیر ثابت ہوا اور اب اُس کا پورا نام پورے القابات سے یوں لکھا اور پڑھا جانے لگا۔ نواب ظفر اللہ خان رستمِ جنگ، روشن الدولہ ہفت ہزاری۔ اس سارے قصے سے مجھے اس خاندان کے افراد کے متعلق یہ بتلانا ہے کہ وہ کس طرح اپنے جسم پر دیباوحریر کی عبائیں پہنے ہوئے ہوتے تھے مگر اندر ان کے جسم پر قباء درویشی ہوا کرتا تھا۔ وہ بیک وقت صاحبِ سیف و قلم ہی نہیں صاحبِ دل بھی ہوتے تھے اور وہ اپنے زمانے کے ان لوگوں میں سے تھے جن پر ہندوستان کے امن کا قصر کھڑا تھا۔
سیر کی وفات
آخر وہ وقت آ گیا کہ فرّخ سیر اس جہان سے کوچ کر گیا اور محمد شاہ رنگیلا تخت نشین ہو گیا۔ محمد شاہ رنگیلا اگرچہ ایک رنگین مزاج بادشاہ تھا مگر اس نے بوڑھے جرنیل کو خوب سمجھا۔ اُسے ان کی وفاداری پر پورا بھروسہ تھا۔ اس لئے جو یہ کہتے وہی بادشاہ کرتے۔ اس سے بہت سے ارکانِ سلطنت ان سے جلنے لگے اور حسد کرنے لگے۔ بادشاہ فرّخ سیر نے ان کے سابقہ اعزازات میں یاروفادار کا اضافہ فرمایا۔آج یار وفادار وہ خطاب ہے جو برٹش سرکار میں صرف اعلیٰ حضرت حضور نظام دکن کو حاصل ہے۔ تو گویا مَیں کہہ سکتا ہوں کہ نواب ظفر اللہ خان کو آج کے لحاظ سے ہزایگزالٹڈ ہائی نس کا خطاب تھا اور اس طرح نواب ظفر اللہ خان نے اس وقت کا ہی نہیں بلکہ آج کے لحاظ سے بھی بڑے سے بڑا لقب اور بڑے سے بڑا منصب حاصل کیا۔ نواب ظفر اللہ خان کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ اُن کی سواری بڑی شان سے نکلتی تھی۔ ان کے آگے سوار اشرفیاں بانٹتے چلا کرتے تھے۔ اُن کے سر پر کئی مرصّع جواہر طُرّے ہوا کرتے تھے۔ اُن کی سخاوت کی بڑی دھوم تھی۔۷؎
ان حالات سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ نواب ظفر اللہ خان اپنے زمانہ کے ایسے امیر کبیر تھے جو بادشاہ کے بعد امورِ سلطنت کے مدار المہام تھے اور جن کے گھر میں سونا چاندی اور زر و جواہر کا کوئی شمار نہ تھا۔
سُنہری مسجد
نواب ظفر اللہ خان کو اپنے مرشد سے بڑی عقیدت تھی اور وہ اپنی ساری ترقیوں کو ان کی دعا اور برکت کا نتیجہ یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ۱۱۳۴ھ؁ میں حضرت میران بھیک کی وفات پر اُن کی یاد میں دہلی میں ایک مسجد چاندنی چوک میں کوتوالی کے قریب بنوائی اور اسے سر سے پائوں تک سونے میں غوطہ دے دیا کہتے ہیں کہ جب بادشاہ کی سواری چاندنی چوک سے گذرتی تو اس مسجد کو دیکھ کر بادشاہ خوش ہوتے تھے۔
اس مسجد کی تاریخی حیثیت
نادر شاہ ایران نے جب دہلی میں قتل عام کروایا تو وہ اس مسجد میں تلوار کھینچ کر آ بیٹھا تھا اور جب تک تلوار بے نیام کئے بیٹھا رہا قتل عام ہوتا رہا۔ اس واقعہ کی تفصیل کسی دوسری جگہ آئے گی۔ مگر یہاں اس قدر ذکر کرنا ضروری تھا کہ نادری قتلِ عام چونکہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس لئے تمام مؤرخین نے اس مسجد کا ذکر کیا ہے اور اب تک دنیا بھر سے آنے والے سیّاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس خوبصورت سنہری مسجد کی پیشانی پر یہ تاریخ کندہ ہے۔
بہ عہد بادشاہ ہفت کشور

سلیمان فر محمد شاہ داور
بہ نذر شاہ بھیک آن قطب آفاق

شد ایں مسجد بہ زینت در جہاں طاق
خدا ربّانی است لیک از روئے احسان

بنام روشن الدولہ ظفر خان
بہ تاریخش ز ہجرت تا شمار است
ہزار و یکصد و سی و چہار است
(۱۱۳۴ھ؁)
ایک اور سنہری مسجد
پہلی سنہری مسجد سے ۲۳ برس بعد رفاہِ عام کے لئے فیض بازار میں عین سڑک پر دوسری سنہری مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اب پوشیدہ ہو گئی ہے اور غلط العام کی وجہ سے اب قاضیوںکی مسجد کہلاتی ہے۔ اس مسجد کی تاریخ یہ ہے:
روشن الدولہ ظفر خان صاحبِ جود و کرم

کرد تعمیر طلائی مسجد عرش اشتباہ
مسجدے کاندر فضائے قدریں آسمان

کرد از خط شعاعی مہر جاروبی پگاہ
حوض صاف اونشان از چشمۂ کوثر دہد

ہر کہ از آیش وضو ساز و شود پاک از گناہ
سال تاریخش رسائی یافت از الہامِ غیب
مسجد چوں بیت اقصیٰ مہبطِ نورِ الہ
(۱۱۵۷ھ؁)
لاہور کی سنہری مسجد
جہاں تک ہم کو معلوم ہو سکا ہے کہ لاہور ڈبی بازار کی مشہورسُنہری مسجد بھی روشن الدولہ نواب ظفر اللہ خان کی بنوائی ہوئی ہے۔ اس سے اس شوق کا پتہ چلتا ہے جو ان کے قلب میںموجزن تھا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ بکثرت مسجدیں بنوائیںاور مسجدیں بھی ایسی ہوں جو اپنی خوبصورتی میں یکتا ہوں۔ جو شخص مساجد کیلئے اس قدر شوق اور محبت رکھتا ہو اس کے دل میںنماز کی پابندی اور باقاعدگی کا کس قدر شوق ہوگا یہ ظاہر ہے اس سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ بھی وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی بھی دنیا کو دین پر مقدم نہ کیا تھا۔ آپ نے چورانوے سال پانچ ماہ کی عمر پائی اور دسویں ذالحجہ ۱۲۶۱؁ھ طلوع آفتاب کے وقت تکبیر تحریمہ پڑھتے ہوئے مرض سرطان سے وفات پائی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون- آپ کا مزار قدم شریف دہلی کے احاطہ میں ہے۔ سیر المتاخرین کے مصنف نے بوجہ متعصب شیعہ ہونے کے بہت کچھ ان کے خلاف لکھا ہے مگر اس کی کچھ حقیقت نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ایک مناسبت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بہت سی باتیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان سے ملتی ہیں جیسے کہ مَیں پہلے ایک مثال کا ذکر کر آیا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی درویشی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ اگرچہ شاہی خاندان کے لوگ تھے۔ ہندوستان میں ورود سے قبل بھی وہ صاحبِ حشمت تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے درویشی کو اپنا شعار رکھا۔
حضرت مرزا ہادی بیگ مورثِ اعلیٰ نے سلطنت کے جھمیلوں سے دور پنجاب کے ایک جنگل میں ایک بستی بسائی۔ اس کا نام اسلام پور رکھا۔ اس میں حفاظ اور علماء کا ایک جمگھٹا رہتا تھا۔ قال اللہ اور قال الرسول کے ہر وقت چرچے رہتے تھے۔۸؎
یہ تھی ان کی امیری میں درویشی اور یہی حال حضرت اُمُّ المؤمنین کے بزرگوں کا رہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے مناصب سے حصہ وافر دیا تو اس وقت بھی یادِ الٰہی ان کے قلب سے محو نہ ہوئی۔
تیسری مناسبت
نواب ظفر اللہ خان روشن الدولہ رستمِ جنگ ہفت ہزاری شاہنشاہِ ہند فرّخ سیر کے زمانہ میں ہوئے ہیں۔ یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے
مورثانِ اعلیٰ میں سے ایک تھے اور اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مورثانِ اعلیٰ میں عضد الدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری تھے۔ نواب ظفر اللہ خان نے بادشاہ کی مدد کے لئے تلوار اُٹھائی۔ مگر عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان نے دو کام کئے۔ ایک تو یہ کہ اس خانہ جنگی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی باوجود اس کے کہ ۸۴ گائوں پر آپ کی حکومت تھی۔ علاقہ پر آپ کا اثر تھا آپ کے پاس باقاعدہ فوج تھی اور مال و دولت سے حصہ وافر تھا۔ الغرض وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی وجہ سے کوئی صاحب اثر خاندان طوائف الملوکی کے وقت اپنی سلطنت و حکومت قائم کرے۔ مگر اس خاندان کی شرافت و نجابت اور بزرگی نے بادشاہانِ وقت سے غداری نہ کرنی چاہی اور نہ کی۔
دوسرے عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری جو سلکِ امراء میں اوّل درجہ کے امیر تھے انہوں نے فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند کے حکم کے ماتحت لشکرِ فیروزی میں حاضر ہو کر مناسب خدمات سرانجام دیں جیسے فرمانِ شاہی سے واضح ہوتا ہے:
ترجمہ منشور محمد فرّخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان۔
محمد فرّخ سیر
بادشاہ غازی دسہ
حاجی علیخان
بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خان شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سبحانی آپ کی وفا کیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہان مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کر کے اور جگہ دے کر عضدالدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے۔چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوںکی وفاکیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔۹؎
اس جگہ مَیں مناسب خیال کرتا ہوں کہ عضد الدولہ اور ہفت ہزاری کی اس تشریح کو بھی درج کروں جو جناب مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم نے سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۵۲ اور صفحہ۱۵۳ کے آخر تک لکھی ہے۔
’’شہنشاہ ہند محمد فرّخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
’’پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربارِ اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوئی تھی کہ ہشت ہزاری کا منصب ولی عہد اور خاندان شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گولکنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا تو ان کوشَش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اُس وقت کا نامہ نگار نعمت خان متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے:
’’دو ششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘
’’اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ’’ ہفت ہزاری شووہرچہ خواہی بکن‘‘۔ یعنی ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔
’’دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔
’’تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا اور اسلامی دنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا جس کے چمکتے ہوئے فرمانروائوں کو استمالتِ قلوب کی وجہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ، احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک، عماد الملک، خان جہان، خان دوران کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رئوسا کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔
’’مغل ایمپائر کے زریں عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھاجس کو سرسیّد کے ارادتمند آج تک ان کے نام کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔
’’سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیفِ قلوب باتباع شاہانِ مغلیہ والیانِ ٹونک کو امیر الدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔
’’اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرّخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب طاب اللہ ثراہ کے نام ہے۔ جس میں ان کو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیانِ ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے کیونکہ فرّخ سیر شاہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے‘‘۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے حالات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ ایک خاندان سمر قند (بخارا) سے آیا تو دوسرا خاندان بھی بخارا کے کسی دوسرے حصے سے آیا۔ ایک دہلی میں بادشاہ کی خواہش کے مطابق آباد ہوا مگر عملی طور پر دہلی سے دور رہا۔ تو دوسرا دہلی سے ویسے ہی دور جا کر مقیم ہو گیا۔ ایک خاندان نے اولیاء پیدا کئے اور بالآخر اُمُّ المؤمنین جیسی عصر حاضر کی سب سے بڑی باخدا خاتون پیدا کی تو دوسرے خاندان نے اس زمانہ کے راستباز اور پاکباز حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود کو پیدا کیا اور بالآخر نئی اور پرانی پیشگوئیوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ان دونوں خاندانوں کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جس کی تفصیل اپنی جگہ پر آ سکے گی۔
یہ حیرت کا مقام ہے۔ کسی انسان کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ اس طرح دو الگ الگ خاندانوں کو ایک دور دراز ملک سے لا کر ہندوستان میں جمع کر دے اور پھر دونوں کو مختلف حالات میں سے گذار کر ایک کر دے تا کہ پرانے اور نئے نوشتے پورے ہوں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ایک طرف تو خواجہ محمد ناصر صاحب کو بتلایا جاتا ہے کہ :
’’یہ روشنی مسیح موعود کے نور میں گم ہو جائے گی‘‘۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس رشتہ کی تحریک کی گئی اور اس تحریک کے متعلق مندرجہ ذیل امور سے آگاہی دی۔
۱۔ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔
۲۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔
۳۔ وہ قوم کے شریف اور عالی نسب ہونگے۔
۴۔ اس شہر کا نام بھی بتلایا گیا جو دہلی ہے۔
۵۔ یہ بیوی ایک مبارک نسل کی ماں ہوگی۔
۶۔ اللہ تعالیٰ اس نسل سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔
۷۔ اور اس نسل سے ایک وہ شخص بھی پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔
۸۔ وہ بیوی کنواری شادی میں آئے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک زندہ رہے گی۔
۹۔ تیری نسل ملکوں میں پھیل جائے گی اور یہ ذریت منقطع نہ ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔
۱۰۔ اس نسل کو خاندان کے دوسرے افراد پر یہ امتیاز ہوگا کہ یہی بڑھیں گے اور جدی بھائیوں کی ہر ایک شاخ کاٹ دی جائے گی۔ ہاں جو توبہ کریں گے بچا لئے جائیں گے۔
یہ دس قسم کے نشانات جن کا ذکر تذکرہ میںموجود ہے جو اس شادی کے ساتھ وابستہ تھے اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت لفظ بلفظ اور حرف بحرف پورے ہو کر رہے۔ اس پیشگوئی کے اخیر میں فرمایا:
’’اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے‘‘۔۱۰؎
یہ آخری حصہ قرآن کریم کی اس تحدی کو پیش کر رہا ہے جو ان الفاظ میں ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُواْ شُہَدَائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن- فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْافَا تَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ- ۱۱؎
یہ تحدی قرآن کریم کے متعلق تھی اور آج تک کوئی دشمنِ اسلام اس تحدی کے خلاف کھڑا نہ ہو سکا۔ بالکل اسی تحدی کا جلوہ اس آخری دور میں ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس شادی کو ایک نشانِ خاص بنایا اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کیلئے وعدے دیئے۔ ان کی کثرت نسل کی شہادت دی ان کے بڑھنے اور پھلنے، پھولنے اور پھیلنے کی بشارت دی۔
پھر ایک موعود لڑکے کی بھی بشارت دی۔ یہ تحدی اس امر کی دلیل ہے کہ اس خاندان کا عالم وجود میں لانا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک ابدی دلیل ہے بشرطیکہ کوئی دیدۂ بینا ہو۔ پس یہ خاندان شعائر اللہ میں سے ہے جس طرح دیگر شعائر اسلام کا احترام قیامِ ایمان کیلئے ضروری ہے اسی طرح ان کا احترام، اِن کی محبت، ہمارے ایمان کا ایک جزوِ لاینفک۔
حوالہ جات
۱؎ ابراہیم: ۳۸
۲؎ ماثر الامراء
۳؎ رسالہ ہوش افزاء مصنفہ حضرت خواجہ میر دردرحمۃ اللہ علیہ
۴؎ اقتباس الانوار مصنّفہ مولانا محمد اکرام صاحب براسوی، حدیقۃ الاولیاء
۵؎ میخانہ درد صفحہ۱۳
۶؎ تاریخ ہند دکاء اللہ خان
۷؎ ماثر الامراء
۸؎ ملاحظہ ہو حیات النبی حصہ اوّل
۹؎ ۱۹/ماہ شوال ۴ جلوس۔ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۴۸
۱۰؎ تذکرہ صفحہ۱۲۴
۱۱؎ البقرۃ: ۲۴،۲۵











حضرت خوا جہ سیّد محمدناصر صاحب عندلیب





حضرت خوا جہ محمد ناصر صاحب عندلیب
دور ثانی
نواب روشن الدولہ کی شادی سیّد لطف اللہ صاحب ابن سیّد شیر محمد صاحب قادری نبیرہ حضرت تاج الدین ابوبکر بن عبدالرزاق بن حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر سے ہوئی تھی۔ اس نیک اور صاحبِ عصمت خاتون کے بطن سے حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش ۱۱۰۵؁ھ میں ہوئی۔ آپ کی تاریخ پیدائش شاہ بیدل نے یوں لکھی:
در وجود آمد چو ذاتِ آن ولی

شد کمالاتِ امامت از جلی
سال تاریخش مرا الہام شد

وارثِ علم امامین و علی
۱۱۰۵؁ھ
خواجہ محمد ناصر کی زندگی کا دَورِ اوّل
حضرت خواجہ محمد ناصر کی زندگی پر دو دور آئے۔
دورِ اوّل: پہلا دور تو یہ تھا کہ آپ ایک امیر ابن امیر اور نواب ابن نواب کے گھر میں گویا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ گھر میں زر و جواہر کے ڈھیر لگے ہوئے تھے چونکہ ایک طرف سے بلند مرتبہ سادات میں سے تھے اور دوسری طرف بلند مرتبہ ارکان حکومت میں سے اس لئے دنیا کی ہر قسم کی وجاہت حاصل تھی۔ گھر میں نوکر، چاکر، لونڈی، غلام موجود تھے اور دینی اعتبار سے عوام تو عوام شاہی خاندان کے دل میں بھی ادب تھا۔ ایسی صورت میں آپ کی شان و شوکت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ خوبصورت بھی تھے۔ جب آپ کی سواری نکلتی تو تماشائیوں اورمشتاقان کا ہجوم جمع ہو جاتا اور عوام تو عوام بڑے رئیس بھی سلام کے لئے ٹھہر جاتے۔ یہ میرا ذوقی امر ہے کہ ان کے چہرہ پر روشنی و درخشانی اس امانت کی وجہ سے تھی جو وہ اپنے صلب میں حضرت اُمُّ المونین نصرت جہان بیگم کے نام سے لئے ہوئے تھے۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو ایک نازو نعم میں پلے ہوئے انسان کو دنیا کا گرویدہ بنا دیتی ہیں اور وہ ایسا جکڑا جاتا ہے کہ اس کا ہر قدم خدا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیم
اس زمانہ میں شُرفاء کی اولاد کی تعلیم گھروں پر ہی ہوتی تھی۔ اس دستور کے مطابق آپ نے علوم و فنون عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے دادا نواب فتح اللہ خان سے حاصل کی تھی۔ چونکہ
باپ دادا بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے اس لئے سپہ گری کے فن کو بھی کمال خوبی سے سیکھا۔
فوج کی سرداری
بیس برس کی عمر میں آپ شاہی فوج کے سردار بنائے گئے۔ عرصہ تک آپ یہ خدمت سرانجام دیتے رہے اور ان خدمات کے صلے میں آپ نے ان مناصب کے برابر مناصب حاصل کر لئے تھے جو آپ کے دادا نواب فتح اللہ خان صاحب کو حاصل تھے۔ لیکن یہ تمام مناصب اوریہ وجاہت اور یہ عزت اُن کے قلب کو مطمئن نہ کر سکتی تھی اور وہ اس دنیاوی ترقی اور وجاہت سے سخت متنفر تھے مگر صرف اپنے بزرگوں کی خاطر اور حکم سے محض براً بالوالدین اس غیر مرغوب خدمت کو بجا لاتے رہے۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بہت ملتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری بزرگوں نے جب اپنی مختصر سی حکومت ضائع کر دی یا منشاء الٰہی سے ضائع ہو گئی تو آپؑ کے والد حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی ساری عمر اس جائیداد کے حصول اور دنیاوی ترقی کے لئے صرف کر دی۔ ان کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر صاحب ان کی منشاء کے مطابق دنیاوی کاروبار میں لگے ہوئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کاموں سے سخت نفرت تھی وہ اپنی ایک الگ دنیا بنانی چاہتے تھے۔ جس میں سوائے خدا کے نام کے اور کچھ نہ ہو۔ مگر والد کی رضاء بھی ضروری تھی۔ وہ اس غیر مرغوب اور ناپسندیدہ کام کو ایک لمبے عرصے تک، کبھی ملازمت کی شکل میں، کبھی زمینداری کی شکل میں اور کبھی پیروی مقدمات کی شکل میں کرتے چلے گئے۔ مگر ان کادل کبھی نہ خوش ہوا اور نہ مطمئن۔ بالآخر مشیت الٰہی نے آپؑ کے والد کو اپنے حضور بلا لیا اب آپؑ آزاد تھے۔ آپؑ نے فوراً ہی خدمت دین کا کام جو اصل کام اور مقصدِ حیات ہے شروع کر دیا۔
حضرت اقدسؑ کا ایک عجیب مکتوب
ذیل میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو ایک گرامی قدر مکتوب درج کیا جاتا ہے۔ اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور علیہ السلام کس طرح اوّل عمر میں ہی سے اس دنیا سے متنفر اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ یہ مکتوب آپؑ نے اپنے والد ماجد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی خدمت میں ایسے وقت میں لکھا تھا جب آپؑ بدوشباب میں تھے۔ یہ مکتوب بھی آپؑ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہر سیرۃ کا ایک جزو ہے اور وہ یہ ہے:
’’حضرت والد مخدومِ من سلامت! مراسمِ غلامانہ و قواعدِ فدویانہ بجا آوردہ معروض حضرت والا میکند۔ چونکہ دریں ایّام برای العین می بینم و بچشمِ سرمشاہدہ میکنم کہ درہمہ ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے می اُفتد۔ کہ دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشاں جُدا میکند۔ وہیچ سالے نہ می بینم کہ ایں نائرہ عظیم و چنیں حادثہ ٔالیم در آن سال شورِ قیامت نیگفند۔ نظر برآن دل از دُنیا سرد شدہ ۔ و رُو از خوفِ جان زر د و اکثر ایں دو مصرع مصلح الدین سعدی شیرازی بیادمی آیندو اشکِ حسرت ریختہ می شود:
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار

مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ونیز ایں دو مصرعہ از دیوانِ فرخ قادیانی نمک پاش جراحتِ دل میشود:
بدنیائے دون دل مبند اے جواں

کہ وقتِ اجل میرسید ناگہان
لہذامی خواہم کہ بقیہ عمر درگوشہ تنہائی نشینم و دامن از صحبتِ مردم بچینم و بیادِ اوسبحانہ مشغول شوم۔ مگر گذشتہ را عذرے و مافات را تدار کے شود
عمر بگذشت و نماند است جز از گامے چند

بہ کہ دَر یاد کسے صبح کنم شامے چند
کہ دُنیا را اساسے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے
وائیس منخاف علٰی نفسہ من افت غیرہ والسلام‘‘
اس خط کو غور سے پڑھنے پر عجیب معرفت ہوتی ہے کہ آپؑ کو آخری الہام جو اپنی وفات کے متعلق ہوا وہ بھی یہی تھا۔
مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار

مباش ایمن از بازیٔ روزگار
اور آپؑ نے یادِ الٰہی میں مصروف ہونے کے لئے جس طرح پر والد مکرم سے اجازت چاہی، اس میں بھی اسی سے استدلال فرمایا۔
جلوت پر خلوت کو پسند کروں!
اِس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی شہرت و عظمت کے طلبگار نہ تھے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق صافی رکھتے تھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آپؑ کو گوشہ گزینی سے اس قدر محبت تھی کہ آپؑ کبھی جلوت میں نہ آتے اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مدنظر نہ ہوتی چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا:
’’اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے۔ کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے۔ تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں انہوں نے نکالا ہے۔ جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔ مَیں قریباً ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا۔ کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی۔ کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔ مگر امرِ آمر سے مجبور ہوں۔ فرمایا مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سَیر کرنے کو جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے‘‘۔۱؎
بالکل اسی طرح جب نواب فتح اللہ خان اور روشن الدولہ نواب ظفر خان فوت ہوگئے خواجہ محمد ناصر صاحب نے وجاہتِ دنیا کو لات مار دی فوراً بادشاہ محمد شاہ کے پاس جا کر استعفیٰ دے دیا۔ بادشاہ نے بہت منع کیا اور سمجھایا۔ مگر آپ نے یہی کہا کہ مجھے معاف کیا جائے مَیں اب یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا۔
الغرض اس نام و نمود اس منصب و جاہ اس دولت و حشمت کو۔ اس سلام و قلق کو، ان حکومت کی رنگینیوں کو یکدم چھوڑ کر نواب خواجہ محمد ناصر گھر کو آئے۔
دوسرا دَور
اب پھر اس خاندان کی زندگی پیچھے کی طرف لوٹی۔ درویشی کو حکومت پر فتح ہوئی۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب نے گھر میں جو کچھ زر و جواہر تھا سب خدا کے راستے پر لٹا دیا اور فقیر ہو گئے۔ محلّات کو چھوڑا اور بیوی بچوںکو لے کر ایک کھنڈر میں آ کر عزلت گزین ہو گئے۔
میر عمدہ کا نالہ
دہلی سے جو اس وقت شاہجہان آباد کے نام سے مشہور تھی پہاڑ گنج سے جانبِ غرب ایک قصبہ تھا جس میں میر عمدہ رہا کرتے تھے۔ یہاں ایک نالہ بھی بہا کرتا تھا۔ اس لئے مَرُورِ ایام سے اس جگہ کا نام بِگڑ کر برمدہ کا نالہ ہو گیا تھا اس میں تمام سادات خوافیہ رہتے تھے۔ میر عمدہ کا اصل نام سیّد محمد صاحب قادری تھا جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے خسر تھے۔ اس جگہ نواب روشن الدولہ کا فیل خانہ تھا۔ شتر خانہ اور طویلہ تھانیز اس جگہ ان کا دیوانِ خانہ اور زنانہ محل بھی تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب اور ان کی اولاد کی پیدائش بھی اس جگہ ہوئی تھی۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے جب امارت اور دولت پر لات مار دی تو وہ پھر میر عمدہ کے نالہ پر آرہے جو شاہجہان آباد کے مقابل میں ایک کھنڈر سے زیادہ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ ان بزرگوں کا یہاں ایک خاندانی قبرستان بھی تھا جہاں سب بزرگ دفن تھے۔الغرض اس قدیم خاندانی مقام پر آپ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آگئے۔ اُن کے ساتھ اُن کے خاندان کے سب چھوٹے بڑوں نے جو شاہزادوں اور شاہزادیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے، درویشی کو اختیار کر لیا اور الفقر فخری کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔خواجہ محمد ناصر نے تلافی مافات کے لئے دن رات عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیا۔
خواجہ محمد ناصر کی دُعا
خواجہ محمد ناصر نے مال و دولت اور منتعمانہ زندگی کو دین کے راستے میں سب سے بڑی ٹھوکر جانا۔ لِکھاہے۔کہ انہوں نے دعاکی کہ ’’ اے خدا! اگر میں سچ مچ بنی فاطمہؓ ہوں تو مجھے اتنا رزق نہ دے کہ میں لگاتار دو وقت کھانا کھائوں‘‘ چنانچہ بیا ن کرنے والے بیان کرتے ہیں۔ کہ ان کی یہ دعاقبول ہوئی۔اور تمام عمر آپ کے ہاں ایک وقت فاقہ ضرور ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی دو دو دن تک بھی فاقہ رہتا۔ آپ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ اور بکثرت چلّے کیا کرتے تھے۔جو پُرانے زمانے میں صوفیا کا طریق تھا۔ عبادت الٰہی کا یہ حال،کہ سردی کی لمبی راتیں اور گرمی کے پہاڑ سے دن عبادت میں گزار دیا کرتے تھے۔
اپنی جان پر سختی
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب حصولِ عرفان اور تلافی مافات کے لئے اپنی جان پر بڑی سختیاں کیا کرتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد اپنے حجرہ میں داخل ہو جاتے تھے۔ اور حجرہ کا دروازہ بند کر لیتے اور دوزانو بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں پائوں کو بالوں کی رسی سے مضبوط باندھ لیتے ۔ تاکہ جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے جنبش نہ کر سکیں ۔یادِالٰہی میں ساری ساری رات جاگتے رہتے۔ اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ایک لکڑی کا رول پاس رکھ لیتے۔ اگر کبھی نیند کا جھونکا آئے تو رول سے اپنے نفس کو خوب مارتے۔ اور مارتے مارتے نفس کو کہتے۔ کہ ’’ اے خطاکار! کیوں سو گیا تھا۔ آنکھ کیوں لگی اور خدا کی یاد سے کیوں غافل ہوا‘‘۔
محویّت اور استغراق
یہ حالت بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی ۔ کہ آپ پر کبھی محویّت اور استغراق کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ اور یہ حالت کئی کئی دن تک رہتی۔ مسجد کے نمازی اور گھر کے لوگ حجرہ سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ کہ کہیں فوت تو نہیں ہو گئے۔ مگر آپ کو یا تو وہ نماز میں اور یا مراقبے میں پاتے اسی قسم کی شدید ریاضت میں آپ کو بر سوں گزر گئے ۔
وقت آپہنچا
اسی طرح ایک دفعہ حجرہ میں بیٹھے بیٹھے سات دن اور چھ راتیں گذرگئیں۔ ساتویں رات بھی آدھی گذر چکی تھی ۔ موسم سخت گرم تھا۔ بُھوک اور پیاس کی سختی سے آپ پر ضعف کی حالت طاری تھی۔ طاقت ایک حدتک جواب دے چکی تھی۔ اسی کمزوری کی وجہ سے آپ کی آنکھ لگ گئی۔ کہ آپ نے رول اٹھا کر اپنے آپ کو مارنا شروع کر دیا۔ اسی وقت آزمائش کی گھڑی ختم ہوگئی۔ تاریک کمرہ یکدم غیر معمولی روشنی سے منور ہوگیا۔ اور ایک خوب صورت نوجوان جس کے سر پر ایک جواہر نگار تاج تھا۔ سامنے آیا اور آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑلیا۔ اور فرمایا۔ ’’اے محمد ناصر !یہ کیا جبر وستم ہے۔ جو تو اپنے نفس پر کرتا ہے۔ تجھے معلوم نہیں ہے۔ کہ تو ہمارا لخت جگر ہے۔ اور تیرے بدن کی چوٹیں ہمارے دل پر پڑتی ہیں۔ اور تیری تکلیف ہمارے جدّ علیہ التحیۃ والثناء کو تکلیف دیتی ہے۔ اس لئے ہر گز ہر گز ایسا نہ کرنا‘‘۔خواجہ محمد ناصر یہ جلوہ دیکھ کر تھرّا گئے ۔ آپ نے عرض کی۔ کہ یہ سب تکلیف حصولِ عرفان الٰہی کے لئے میں اُٹھا رہا ہوں۔
اس مکاشفہ میں انہوں نے دیکھا کہ اس بزرگ نے ان کو اپنے سینہ سے لگا کر علوم معرفت کو ان کے سینہ میں بھر دیا اور ان کی عالمِ روحانی میںبیعت بھی لی مگر اب تک خواجہ محمد ناصر صاحب کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ تب انہوں نے دریافت کیا کہ آپ اپنے اسم مبارک سے مجھے آگاہ فرمائیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ:
’’میں حسنؓ مجتبیٰ بن علیؓ مرتضیٰ ہوں اور میں آنحضرت ﷺ کے منشاء کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالا مال کروں۔‘‘
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس کے بعد حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کہ:
’’ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔ ہم خوشی سے تجھے اجازت دیتے ہیں کہ اس نعمت سے جہان کو سیراب کر اور جو تجھ سے طالب ہو اس کو فیض پہنچا تا یہ سلسلہ پھیلے اور یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی نہایت ہی مبارک ہے۔ اِس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کر یگا اسے بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہو گا اور قیامت تک اس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا‘‘۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے حضرت امام حسنؓ سے دریافت کیا کہ اس طریقہ کا نام کیا رکھا جائے تو انہوں نے اس کا نام طریقہ محمدیہ رکھا اور فرمایا:
’’ہمارا نام محمد ہے۔ ہمارا نشان محمد ہے۔ ہماری ذات ذاتِ محمد ہے اور ہماری صفات صفاتِ محمد ہیں۔ اس لئے اس طریقہ کا نام محمدیہ طریقہ ہے۔‘‘
پھر یہ بھی فرمایا:
’’کہ اگرچہ تم اپنی مراد کو پہنچ گئے ہو مگر چونکہ دنیاوی زندگی میں بیعت بھی سنت محمدیہ ہے۔ اس لئے عالمِ ظاہر میں بھی کسی بزرگ سے بیعت کر لینا۔ ‘‘
اس کے بعد وہ کشفی حالت جاتی رہی میں اس کشف کے متعلق پھر بحث کروں گا۔ اس وقت واقعات کا لکھنا مطلوب ہے۔
پہلا مُرید
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اس وقت یہ خواہش ہوئی کہ اگر اس وقت میرا منجھلا بیٹا ہو تو اسے میں اپنا مرید کر لوں تاکہ بقاباللہ کا مقام اس کو حاصل ہو۔ اس وقت حضرت خواجہ میردرد کی عمر ۱۳ سال کی تھی ان کو خیال آیا کہ وہ اپنی ماں کے پاس سو رہا ہو گا تاہم انہوں نے ارادہ کیا کہ خواجہ میر درد کو لا کر اپنی بیعت میں شامل کرلوں۔ حجرہ کا دروازہ کھولا باہر اندھیرا گُھپ تھا۔ نیچے پاؤں رکھا تو محسوس ہوا کہ حجرہ کی سیڑھی پر کوئی سو رہا ہے۔ دریافت کیا کون ہے؟ جواب آیا حضور میں ہوں خواجہ میر۔ خواجہ میر اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر خوشی کے جوش میں رونے لگے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر نے فرمایا کہ بیٹا روتے کیوں ہو۔ خداتعالیٰ نے ہم کو اپنی عنایت خاص سے عزت بخشی ہے۔ میرے ساتھ حجرہ میں آؤ۔ چنانچہ سارا واقعہ سنا کر اپنے تیرہ سالہ بچے خواجہ میر کو جو بعد میں میردرد کہلائے بقاباللہ کے مرتبہ پر روحانی طور پرتیرہ سال کی عمر میں بیعت کر کے فائز کر دیا۔
حضرت خواجہ میردرد نے اپنی کتاب علم الکتاب میں لکھا ہے کہ حضرت حسنؓ کی روح ان کے ساتھ حجرہ میں سات دن تک رہی۔
طریقہ محمدیہّ
اس دن سے دنیا میں عالمِ تصوّف میں ایک جدید طریقہ طریقہ محمدیہّ کے نام سے جاری ہوا جسے براہِ راست رسول اللہ ﷺ کے فیض سے حضرت امام حسنؓ کی روح مبارک کے ذریعے حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو عطا کیا اور حضرت خواجہ میردرد اس سلسلہ محمدیہ میں مرید اوّل ہوئے۔
اس واقعہ کا ذکر خواجہ میر اثر صاحب نے جو حضرت خواجہ میر ناصر عندلیب کے چھوٹے صاحبزادے تھے نے اپنی ایک کتاب بیان واقع میں اس مندرجہ بالا واقعہ کو فارسی نظم میں لکھا ہے۔ جس میں سے چند اشعار میں بطور نمونہ درج کر دیتا ہوں۔ فرماتے ہیں ؎
فیض خاصے یافت از روحِ حسنؓ

تخمِ آن را کشت اندر این چمن
ہفت روزوشب میانِ حُجرہ بود

پیش چشمش عالمے دیگر کشور
گشت نازل عالمِ روحانیان

در شہادت خارج از وہم وگمان
ہمچنان بر یک عبادت باوضو

اندریں مدت نشستہ قیدِاو
جُز برائے پنج مکتوبی نماز

کہ در حُجرہ نمیِ فرمود باز
گوش چون صوتِ اقامت می شنود

آمدہ بیرون امامت می نمود
چون صلوٰۃِ فرض را دادے سلام

می شد اندر حجرہ نے حرف و کلام
آشنائے خواب و خور اصلا نشد

ملتفت سوئے دگر اشیاء نشد
گوئیا او قیدِ جسمانی نبود

جُز ظہورِ نور رحمانی نبود
روزِ ہفتم چونکہ دررا باز کرد

پسر خود را وقفِ ایں راز کرد
صادق آمد راست بروئے ایں خبر

آنکہ می باشد پسر بہ پدر
کائے سعادت مند بشنو ایں سخن

داشت تشریف شریف این حسنؓ
ایں سبب پیوستہ بودم در نماز

حسبِ حکمِ عالیش کردم نماز
نسبتِ خاصے عنایت کردہ است

راہِ پیغمبر ہدایت کردہ است
امرشد تا دعوتِ اُمّت کنم

خلق را بر امر حق دعوت کنم
دینِ ما دینِ محمدؐ ہست و بس

خالص آئینِ محمدؐ ہست و بس
۲؎
اس واقعہ کشف پر ایک نظر
متصوفین ہندو دیگر بلا دوامصارکا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے لمبے مجاہدے اور بڑی بڑی محنتیں اور مشقتیں اپنے نفس پر وارد کر لی تھیں۔ وہ کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن پر عمل کیا کرتے تھے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روح جو ایک نورانی چیز ہے جسم کی دبیز اور موٹی چاردیواری میں قید ہے۔ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ جسم کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور جو سنتا ہے وہ جسم کے کان سے سنتا ہے اور جو حظِّ نفس اُٹھاتا ہے وہ جسم کے نفس سے اُٹھاتا ہے۔ اسے اِس کوچہ کی خبر بھی نہیں ہوتی جس میں روح کی لطافتیں جاگزیں ہوتی ہیں۔
رُوح کو خلود حاصل ہے اور جسم کو فنا۔ روح دنیا اور اس کے آخری کونوں تک دیکھ سکتی ہے اور سُن سکتی ہے۔ اس کی رَسائی دنیا کے کناروں اور آسمانوں تک ہو سکتی ہے۔ مگر انسان نے اسے کبھی چھوا تک نہیں اور اس کی طرف کبھی توجہ تک نہیں کی ۔ الاماشاء اللہ۔ لیکن صوفیائے کرام نے مختلف طریقوں سے جسم کو کمزور کیا اور روح کو نشونما دی تا کہ وہ ان بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنا کام کر سکے۔ وہ ایک طرف تو جسم کو کم کھانے اور روزوں کے ذریعے کمزور کرتے۔ دوسری طرف عبادت و ریاضت سے روح کو قوت پہنچاتے تھے۔ چنانچہ اس اصل کے ماتحت حضرت خواجہ میرناصر نے اس جسم کو جس کا گوشت پوست سلطنت وحکومت کے نشہ اور مال و دولت سے پرورش شدہ تھا۔ خوب ہی عبادتوں و ریاضتوں کے ذریعے سے ہلاک و فنا کر دیا۔ تب الٰہی تجلی کا ظہور حضرت امام حسنؓ کے رنگ میں ان پر ہوا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے جمال کا پرتوہ انہی کے بزرگوں کے رنگ میں ڈالا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کو اپنے والد کی صورت پر دیکھا۔ اس لئے حضرت امام حسنؓ کی شکل و صورت پر تجلی الٰہی کا ہونا کوئی بعیداز قیاس امر نہیں اور وہ لوگ جو اس دنیا سے منقطع ہو جاتے ہیں۔ ان کو عالمِ بالا کے صدہا عجائبات دکھائے جاتے ہیں۔ جن کو وہ لوگ جو اہل بصیرت نہیں ہوتے نہیںسمجھ سکتے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے ان کو اپنے کلامِ پاک میں اعمیٰ قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی وہ آنکھ نہیں ہوتی جس سے وہ اس نُور میں دیکھ سکیں ان کی تمام حِسیّں مردہ ہوتی ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے:
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ
جو حواسِ خمسہ سے بے بہرہ ہو، اسے دنیا کی حقیقت کیا معلوم وہ ایک مُردہ لاش ہے جو گڑھے میں پھینک دی جائے گی۔ بالکل اسی طرح وہ لوگ جن کی روحانی حِسیّں مفقود ہو جاتی ہیں ۔ وہ عالمِ روحانیت میں مُردہ لاش کی طرح تصور کئے جاتے ہیں۔ کروڑوں کروڑ انسان ایسے ہیں۔ جن کو ماؤں نے تو جَن دیا مگر وہ عالمِ روحانیت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ اسی طرح مُردہ کے مُردہ ہی اس جہان سے اُٹھ جاتے ہیں۔
انبیاء کا وجود
اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کو ایک دوسری دنیا سے آگاہ کریں۔ جو عالمِ روحانیت کی دنیا ہے اور وہ ان قواء کو نشوونما دینے کے طریقے بتلائیں جن سے انسان عالمِ روحانیت میں جاگزین ہو سکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
افسوس! کہ دنیا کو اس کوچہ کی خبر بھی نہیں اور اس حُسنُ و جمال سے آگاہ ہی نہیں جس کا تعلق روحانیت سے ہے اور جب انسان اس عالم میں پہنچ جاتا ہے تو وہ بے اختیار پکار اُٹھتا ہے
کِس قدر ظاہر ہے نور اُس مبداء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
اُس بہارِ حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا
چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا
یعنی وہ اس دنیا میں کسی چیز کو سوائے اس نئی دنیا کے کچھ اور دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ہر چیز اسے خدا کی طرف بلاتی ہے اور اسے ہر جگہ سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ خدا ۔خدا۔خدا۔ وہ نئے نئے نظارے دیکھا کرتا ہے جو روحانی آنکھ کے اندھوں کو نظر ہی نہیں آ سکتے۔
اس قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ان نظاروں کو ہم بکثرت دیکھتے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی تجلی ان کو اپنے والد کی شکل میں نظر آتی ہے اور کبھی حضرت فاطمہ اور حضرت علی اور حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اپنے مکان میں دیکھتے ہیں۔ ۳؎
کبھی رسول اللہ ﷺ سے بیداری میں ملاقاتیں ہوتی ہیں اور کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک ہی برتن میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔کبھی حضرت نانکؒ سے باتیں ہوتی ہیں اور اپنے اسلام کا آپؑ پر اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کرشن جی مہاراجؑ سے ملاقات ہوتی ہے۔پس جو اس کوچے کا واقف نہیں۔ اسے یہ باتیں ہنسی اور کھیل سے زیادہ نہ معلوم ہوں گی وہ ان لوگوں کی دماغی کیفیت کو ایک مجنون کی دماغی کیفیت سے ملانے میں دریغ نہ کرے گا۔ لیکن اسے کیا معلوم۔ کہ اس رنگین دنیا کے سوا ایک اور دنیا بھی ہے جو اسی دنیا میں پوشیدہ ہے اور اس جسم میں ایک اور جسم بھی ہے۔ جو اسی جسم میں پوشیدہ ہے۔ اس جسم کی آنکھیں بھی ہیں۔ جو اس وقت دیکھتی ہیں۔ جب یہ آنکھیںبند ہو جاتی ہیں اس کے کان بھی ہیں جو اس وقت سنتے ہیں۔ جب یہ کان بند ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے متصوفین کے نزدیک ایک اصطلاح یہ بھی ہے لب بندوگوش بندوہوش بند۔
میں اپنے ذوق کی لہروں میںکہاں سے کہاں چلا گیا میں تو یہ لکھ رہا تھا کہ اس روحانی عالم میں امام حسنؓ کی روح کا ظہور بھی ایک حقیقت ہے۔
روشنی سے کمرہ منور ہو گیا
یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کِس سے پوشیدہ ہے۔ جب وہ جنگل میں اپنے اہل کو لیکر آ رہے تھے انہوں نے پہاڑ پر ایک آگ کو دیکھا۔ تو فرمایا۔
فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارً الَّعَلِّیْ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًیO
تم لوگ یہاں ٹھہر جاؤ۔ مجھے آگ نظر پڑی ہے۔ مَیں وہاں جاتا ہوں ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی چنگاری لا سکوں۔ یا مجھے وہاں سے آگ کا ہی کچھ پتہ مل سکے۔
پس یہ حقیقت ہے کہ عالمِ بالا کا روشنی کے ساتھ ایک بڑا تعلق ہے اور وہ اس سورج یا چاند یا ستاروں یا دوسری قسم کی روشنیوں کی مدد کا محتاج نہیں جب کسی انسان کو اس عالم میں لے جایا جاتا ہے۔ تو اسے روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہاں تاریکی کا کوئی مقام نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایسے بہت سے پاکیزہ مکاشفات دکھائے گئے۔ چنانچہ ایک واقعہ جو آپؑ نے تحریر فرمایا یوں ہے:
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمرّ پاک سیرت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کیلئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجا لاؤں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا… اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے……اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزو سرخ ایسے دلکش اور دلستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے۔ ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہو گی۔ جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
نوٹ: ’’یہ وقعہ اوائل ۱۸۷۶ء ؁کا ہے۔‘‘ ۴؎
اس کشف میں ایک اور چیز جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اسرارِ روحانی بغیر کسی ظاہری مُرشد کے سکھا دیئے گئے۔ بہت سے ظاہر پرست اس امر کی شدید مخالفت کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتامگریہ حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت ہمیشہ سے زندہ تھی۔ زندہ ہے اور زندہ رہے گی اس لئے وہ لوگ جو آپؐ کی ذات سے ایک تعلق پیدا کرتے رہے۔ یا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے۔ ان کو آنحضرت ﷺ کے فیض سے حصہ ملتا رہا ہے۔ ملتا ہے اور ملتا رہے گا اس کی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں۔
میں ایک وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے فیوض پر ایمان ہی نہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ مومنوں کو آنحضرتؐ پر درود بھیجنے کیلئے کیوں فرماتا۔
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً
جب ہم درود شریف کے پاکیزہ تحفے حضور پُرنورؐ کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں تو ہم کو بھی آپؐ کی بارگاہ سے ہمارے اخلاص‘ قلب کی صفائی‘ نورایمان کے مطابق برکات سے حصہ ملتا ہے۔ اس زمانہ میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ایک ہی انسان تھا جسے خدا تعالیٰ نے ان برکات سے اس قدر مالا مال کیا کہ اسے بروز محمد ﷺ بنا دیا۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطّر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد ؐ کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملائِ اعلیٰ پر شخص مُحیٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اس اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیٖ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے یہ کہا
ھٰذَارَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلُ اللّٰہِ-
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اَور اس قول سے مطلب یہ تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسولؐ ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘ ۵؎
پس آنحضرت ﷺ جو ایک زندہ نبی ہیں کے وجود سے اگر فیض نہ پہنچ سکتا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ درود شریف کی بھی ضرورت نہ رہتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس مکاشفہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی فرمائی گئی کہ:
’’یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔‘‘ ۶؎
اس پیشگوئی کے الفاظ پر غور کرنے سے بآسانی معلوم ہو سکے گا:
۱۔ ’یہ ایک خاص نعمت تھی۔‘
۲ ۔ ’جو اس خاندان کے لئے محفوظ چلی آتی تھی‘۔
۳۔ ’اس کی ابتداء حضرت خواجہ محمد ناصر سے ہوئی‘۔
۴۔ اور اس ’نعمت‘ کا انجام مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔
اس پیشگوئی میں اس خاندان کی برکات کی مدت کو محدود کر دیا گیا کہ یہ برکت جو اَب تمہارے وجود سے شروع ہوتی ہے۔ ظہور حضرت مہدی ؑ تک رہے گی پھر یہ نعمت تمہارے خاندان سے ختم ہو جائے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظہور مہدی ؑ کا وقت اس پیشگوئی کے بعد جلد ہونے کا اظہار کیا گیا۔
یہ پیشگوئی مکمل نہیں سمجھی جائے گی۔ جب تک میں حضرت خواجہ میردرد ؒ کی ایک تحریر کو اس کے ساتھ شامل نہ کر دوں۔ جو اس پہلی پیشگوئی کی تائید مزید اور تشریح مکمل ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نُور سے روشن ہو گا اور اس نّیراعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی۔‘‘ ۷؎
اب دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلے گا:
جو نعمت حضرت خواجہ محمد ناصر پر نازل ہوئی اس کا انجام حضرت مہدی موعودؑ کے ظہور کے وقت ہو گا۔ مہدی موعود ایک نّیراعظم ہو گا جس کے انوار میں باقی تمام فرقوں کی ’’روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
اللہ، اللہ کتنی واضح پیشگوئی تھی۔ جس میں یہ بھی بتلایا گیا کہ یہ طریقے، اور صوفیائے کرام کے طریقے ستاروں کا حکم رکھتے ہیں اور ستارے اِسی وقت اپنی روشنی سے منور کر سکتے ہیں جبکہ نیراعظم مطلعِ شہود پر نہ ہو۔ لیکن جب روشنی کا بادشاہ مطلعِ شہود پر جلوہ فگن ہوتا ہے۔ تو ستاروں کی روشنی پھر کسی کونظر نہیں آتی۔ بلکہ اس کی روشنی میں گُم ہو جاتی ہے۔ کیسی صاف اور واضح مثال سے اس پیشگوئی کو واضح کیا گیا۔
ایک خاص نتیجہ
اس پیشگوئی سے یہ بھی نکلتا ہے کہ محمدیّینّ کا حضرت مہدی موعود علیہ السلام سے کوئی خاص تعلق ہوگا کیونکہ محمدیّینّ پر اُتری ہوئی نعمت جہاں ایک طرف ختم ہو رہی ہوگی وہاں ایک دوسری نعمت کا آغاز ہو رہا ہوگا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی نعمت کا آخری سرا مہدی موعود علیہ السلام کی نعمت کے ابتدائی سرے سے مل کر پھر نئی صورت میں اس کا آغاز ہو جائے گا۔
چنانچہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ حضرت خواجہ محمد امیر صاحب اس سلسلہ محمدیہ میں آخری خلیفہ تھے۔ جو ۱۰/ستمبر ۱۸۰۴ء؁ کو فوت ہو گئے اور ان کے بعد کوئی حقیقی جانشین نہ ہو سکا۔ اگرچہ خانہ پُری کے طور پر حضرت محمد امیر صاحب کے بیٹے خواجہ ناصر وزیر کو گدی نشین کر دیا گیا۔ مگر اُن کے بعد خانہ پُری بھی نہ ہو سکی۔ اب اِس خلافت کے اصل وارث حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مہدی موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی نصرت جہان بیگم کو جو ان تمام برکات اور نوروں کی حامل تھیں جو حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ سے اُس وقت چلے آتے تھے۔ حضرت مسیح موعود مہدیٔ مسعود ؑ کے نکاح میں دے دیا۔ اس طرح وہ روشنی اس نیرِّ اعظم میں گم ہو گئی اور اس طرح اس خاندان کی روشنی کا آخری سرا جو خاتمہ کا سرا تھا مہدی موعودؑ کے ابتدائی سرے سے مل کر نئے روپ، نئی شان، نئے رنگ میں ظہور پذیر ہوا۔
جن کی آنکھیں ہیں دیکھیں اور جن کے کان ہیں سن لیں اور جن کو دل و دماغ میسّر ہیں وہ سوچیں کہ کیا یہ انسانی تدابیر ہیں۔ کیا یہ سوچا ہوا منصوبہ ہے۔ کیا کوئی اس طرح انسانی تدابیر سے خدا کی مقرر شدہ تقدیروں کو بدل سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ پس دیکھو آفتابِ صداقت چڑھ آیا ہے اس کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کیوں چندھیا گئیں اور کیوں تم قبولِ حق کے لئے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ پیشگوئی جو بڑی وضاحت سے پوری ہوئی ایک اتمامِ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی جائے فرار نہ رہے گی۔
اب صوفیوں کا کوئی فرقہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس لئے کہ اب اُن کی روشنی اس نَیرِّ اعظم کی روشنی میں گم ہو چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے صوفیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وہ جو کہلاتے تھے صوفی کیں میںسب سے بڑھ گئے
کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار
کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں
پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار
پھر وہی نافہم ملہم اوّل الاعداء ہوئے
ہو گیا تیرِ تعصّب اُن کے دل میں وار پار
دیکھتے ہرگز نہیں قدرت کو اس ستّار کی
گو سناویں ان کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار
صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار
پھر فرمایا:
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار
سلسلہ محمدیہّ
اس سلسلہ کا نام کشفی حالت میں سلسلہ محمدیہّ خالصہ رکھا گیا۔ دراصل یہ لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے راستہ صاف کرنے والے تھے۔ اس نسبت محمدی کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بڑی نسبت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے۔
بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل ہی لوگ تبلیغ دین اور خدمتِ اسلام کا کام کر رہے تھے۔ اس لئے اس خدمت کا یہ صلہ تو نہیں تھا کہ ان کو مٹا دیا جاتا بلکہ یہ تھا کہ ان کو اور مضبوط و مستحکم کیا جاتا۔ اسی کی طرف اس الہام الٰہی میں اشارہ تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میں ہو کر ان محمدیان کا پائوں اور بھی بلند و محکم ہو گیا۔
روشنی اور منار
حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب کو کشف میں روشنی دکھائی گئی۔ روشنی دی گئی۔ مسیح موعود ؑ کا نام نَیرِّ اعظم (خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں آپ کو شمس و قمر کے نام سے بھی پکارا گیا) رکھا جو روشنی کا منبع اور مصدر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جو لفظ منار رکھا گیا تھا اس کو اس روشنی سے نہ صرف ایک نسبت ہی تھی بلکہ اس روشنی کا مقام اونچا کر کے بھی دکھایا گیا۔ یہ باتیں اس کشف میں غور طلب ہیں اس لئے مَیں نے ایک لمبی اور مفصل بحث اس پر کی۔ ابھی اس کشف کے بعض دوسرے غوامِض بھی ہیں جو اپنی جگہ پر واضح کئے جائیںگے۔ وباللّٰہ التوفیق
یہ امر بھی یاد رہے کہ دنیا میں تصوف کے بہت سے طریقے ہیں۔ شادلی، رفاعی، چشتی، صابری، سہروردی، نظامی وغیرہ وغیرہ۔ مگر فرقہ محمدیہ صرف اور صرف ایک یہی تھا۔
حضرت شیخ سعداللہ صاحب عرف شاہ گلشن صاحب مجددی نقشبندی کی صُحبت
حضرت خواجہ میر محمد ناصر صاحب کو اس ارشاد کے ماتحت جو حضرت امام حسنؓ کے ذریعے حاصل ہوا تھا کہ ظاہری طور پر بھی کسی کی بیعت کر لینا۔ کسی بزرگ کی جستجو ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ حضرت شاہ گلشن صاحب نقشبندی کی طرف رجوع کریں جو حضرت بہاء الدین نقشبند کے سلسلہ نقشبندیہ میں اس وقت دہلی میں شہرت کامل رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے ان کے پاس حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا۔ انہوں نے ان کی عظمت اور نیکی کے مقام کو جانتے ہوئے بیعت لینے سے عذر کیا۔ البتہ یہ کہا کہ آپ کبھی کبھی میرے فقیر خانہ پر تشریف لایا کریں۔ ۸؎
’’جو کچھ مجھے آتا ہے بغیر بیعت کے آپ کو بتا دونگا۔نیز چونکہ آپ صاحبِ مذاق شعر و شاعری کے بھی ہیں اور فقیر بھی موزون طبع ہے۔ اس لئے نظم و نثر کی بھی مشق رہے گی‘‘۔
اس زمانے میں تمام امراء کے بچے اور شاہزادے اور شعراء اور علماء فضلاء، ادباء، حکماء سب آپ کی مجلس میں حاضر ہواکرتے تھے اور بڑی علمی مجلسیں قائم ہوا کرتی تھیں۔ میرزا عبدالقادر صاحب بیدل جو اس زمانہ کے مشہور شعراء میں سے تھے، آپ کی مجلس میں مؤدّب بیٹھاکرتے تھے اور شمس ولی اللہ ولی جن کو مصنف آبِ حیات نے صفحہ۸۸ پر نظم اُردو کا آدم لکھا ہے۔ آپ کے مرید اور شاگرد تھے۔
ولی کے متعلق مولانا آزاد نے لکھا ہے:
کہ ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج ہند کی شاعری نظم فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں۔ تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اس کے رباعی، قطعہ مخمس اور مثنوی کا ستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی نظم میں چاسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔ ۹؎
ان کی وجہ سے اُردو زبان میں بڑی ترقی ہوئی تھی۔ وہ احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے۔ مگر دلّی میں سکونت پذیرہوگئے تھے۔ ایک شعر میں کہتے ہیں۔
دل ولی کا لے لیا دلّی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سون۱۰؎
الغرض شاہ گلشن کی صحبت میں ہر قسم کے باکمال علم و ادب جمع ہوا کرتے تھے۔ شاہ گلشن صاحب کے کہا جاتا ہے کہ دو لاکھ کے قریب شعر تھے مگر اب ان کا کوئی دیوان موجود نہیں۔ بعض اشعار ادھر اُدھر سے دستیاب ہوتے ہیں۔ آب حیات میں بھی دو شعر لکھے ہیں:
گشتم شہید تیغِ تغافل کشیدنت

جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت
بدقت میتوانی فہمد معنی ہائے نازِ او

کہ شرح حکمت العین است مژگانِ داز او
۱۱؎
ایسے علامہ اور فاضل اجل اور ادیب کبیر کی صحبت میں حضرت خواجہ محمد ناصر آنے جانے لگے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی بیعت ظاہری
کچھ دنوں کے بعد جناب شاہ گلشن صاحب آپ کو اپنے مرشد زادہ خواجہ محمد زبیر صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر خندہ پیشانی سے اپنا مرید کر لیا۔ خواجہ محمد زبیر صاحب کا سلسلہ درویشی بھی سیّد خواجہ بہاء الدین صاحب نقشبند رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتا ہے۔ خواجہ محمد زبیر صاحب نے بیعت لے کر اسی وقت ان کو بھی بیعت لینے کی اجازت دے دی۔ ۱۲؎
ان کا یہ خاندان حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان تھا۔ وہ اورنگ زیب کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور ۴/ ذیقعدہ ۱۱۵۲ھ؁ کو محمد شاہ کے زمانہ میں دلّی میں فوت ہوئے اور سرہند میں دفن کئے گئے۔ اس طرح سے آپ کی ظاہری تکمیل بھی ہوگئی۔ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ خواجہ محمد ناصر صاحب شاہجہان آباد کو چھوڑ کر میر عمدہ کے نالہ پر آ رہے تھے جو شاہجہان آباد کے مقابلہ میں ایک اُجاڑ اور قصبہ تھا۔ مگر ان کے خاندان کے قدیم مکانات اسی جگہ تھے۔ جب ان کی درویشی کا چرچہ اور شہرہ ہونے لگا تو بادشاہِ وقت نے برمدہ کے نالہ پر بنفسِ نفیس پہنچ کر خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی زیارت کی اور چاہا کہ وہ اس ویران مقام کو چھوڑ دیں۔ مگر آپ نے اسے پسند نہ فرمایا۔ اس وقت مشائخ و سادات عام طور پر شاہجہان آباد دلّی کو ایک چھائونی خیال کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ شرفاء کی بہو بیٹیوں کو چھائونیوں میں نہیں رہنا چاہئے۔ لیکن رفتہ رفتہ ہندو مسلم شرفاء پُرانی دلّی سے نکل کر شاہجہان آباد میں آباد ہونے لگے اور پرانی دلّی اُجڑتی چلی گئی حتیّٰ کہ پانی لانے کے لئے سقّے اور صفائی کے لئے حلال خوری تک نہ ملتی تھی۔ بنئے، بقال، کنجڑے، قصائی سب پرانی دلّی سے منتقل ہو کر شاہجہان آباد میں آ گئے مگر یہ گھرانا پھر بھی نہ اُٹھا۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی تھیں۔ مگر افسوس کہ وہ سب کتابیں غدر کے ایام میں مفقود ہو گئیں کیونکہ قلمی نسخے تھے۔ ایک کتاب نالۂ عندلیب جو ایک ہزار آٹھ سو صفحہ کی بڑی تقطیع پر لکھی تھی جسے نواب شاہجہان بیگم صاحبہ بیگم بھوپال نے طبع کرایا تھا اور اب یہ کتاب پھر تقریباً نایاب ہو گئی ہے۔ مگر ہمارے سلسلہ کی لائبریری جو احمدیہ جوبلی ہال میں ہے۔ وہاں حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد مرحوم وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد کی وقف شدہ کتابوں میں ایک نسخہ موجود ہے۔ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ نالہ عندلیب تصوف کی کتاب ہے۔ مثنوی مولانا روم کی طرح بہت سی باتیں کہانیوں کے رنگ میں لکھی ہیں۔ جگہ جگہ فارسی اشعار سے اسے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار ان کے اپنے ہی ہیں۔ انہوں نے کلام کو اور بھی جاذبِ نظر اور ملیح بنا دیا ہے۔ مثنوی مولانا روم تو نظم میں ہے۔ مگر یہ کتاب نثر میں ہے اور خوب ہے۔ اس مختصر کتاب میں ہم ان کی اس کتاب سے بہت کچھ لکھ نہیں سکتے تا ہم مختصر طور پر چند باتیں اس کتاب میں مَیں دوسری جگہ درج کر دوں گا تا کہ اُن کے خیالات اور فرقہ محمدیہّ کے حالات پر ایک نظر پڑ سکے۔ اس لئے بھی کہ اُن کے خیالات ہمارے سلسلہ کے خیالات سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور پڑھنے والوں کو ایک بڑی حد تک موازنہ اور مقارنہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔ یہاں اس قدر درج کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسرارِ تصوف میں یہ ایک بے نظیر کتاب ہے۔ مصنف نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’کہ عرش سے فَرش تک جو کچھ کون و مکان میں ہے اس کی امثال اور نمونے اس کتاب میں بہم کئے ہیں‘‘۔ ۱۳؎
اور یہ بھی لکھا ہے:
’’کہ میری یہ کتاب الہامی کتا ب ہے اور مَیں نے جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ مکاشفہ اور معائنہ سے کیا ہے اور خوبی یہ ہے کہ تمام مکاشفے اور الہام قرآن پاک اور حدیث صاحبِ لولاک کے مطابق اور موافق ہیں اور مرکز شریعت سے بال برابر اِدھر اُدھر نہیں ہیں‘‘۔ ۱۴؎
اس بیان کے پڑھنے سے مندرجہ ذیل امور کی وضاحت ہوتی ہے۔
۱۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب الہامِ الٰہی کا دروازہ بند نہیں سمجھتے تھے۔
۲۔ نیز ان کے نزدیک کشف اور معائنہ کا دروازہ بھی کھلا تھا۔
۳۔ الہامات الٰہیہ کے جاننے کے لئے معیار قرآن کریم اور حدیث نبوی کو ہی ٹھہرایا گیا تھا جو الہامات قرآن کریم اور احادیث یا مرکز شریعت کے خلاف ہوں وہ کبھی بھی آسمانی کلام نہیں ہو سکتے۔
لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی اصل کو پیش فرمایا تو اس زمانے کے علمائِ سُوء نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ الہام کے قطعی منکر ہو گئے۔ ان کے نزدیک مکالمہ اور مکاشفہ الٰہیہ اب کسی کو حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ باتیں درست ہوتیں تو اس زمانہ کے بزرگ اور مقتدر علماء جن میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اور حضرت مولانا محمد فخر الدین صاحب جیسے بزرگ جو ان کے معاصرین میں سے تھے اور انہی کے محلے میں رہتے تھے، کیوں خاموش رہتے۔ ان بزرگ علماء کی طرف سے یہ سننے کے بعد کہ خواجہ محمد ناصر مدعی الہام و مکاشفہ ہیں اور اپنی کتاب کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں خاموش رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک ایسا دعویٰ کرنا شریعت الٰہیہ کے خلاف نہ تھا۔ پس یہ ایک حجت ہے کہ اس زمانے کے علماء اور صوفی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اسلام ایک ایسا زندہ مذہب ہے کہ جو خدا دانی اورخدا نمائی کا ذریعہ ہے اور انسان اس مذہب کے ذریعے مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے۔ لیکن آج کل کے علمائِ سُوء جادۂ صواب سے منحرف ہو گئے جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ان دَعاوی کی مخالفت کی اور ان کو شریعتِ الٰہیہ کے خلاف قرار دیا۔
حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جو کچھ لکھا اور کہا وہ مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ اور ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے بعد لکھا اور کہا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نُور ہے نُور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے
آج ان نُوروں کا اِک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نُوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نُور ملا نُورِ پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیؐ پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت
اُسؐ سے یہ نُور لیا بار خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے میری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانے کے علماء اس زمانے کی نسبت زیادہ سیاہ دل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو آسمان کی آواز سنائی نہ دی۔نالۂ عندلیب بڑی مقبول ہوئی۔ شاہان دہلی اور امرائے دہلی اور صوفیائے کرام نے اس کتاب کی نقلیں کروائیں اور سنہری اور لاجور دی جدولوں کے ساتھ ان کے اوراق سجائے گئے اور کتب خانوں میں رکھی گئیں۔
آپ کا ایک الہام
ایک دفعہ آپ کو یہ الہام ہوا:
’’ہم نے تمہارے نام کو پسند اور مقبول فرمالیا اور تمہاری اولاد، اور تمہارے معتقدین اور مُریدوں کے لئے اس میں دونوں جہان کی برکات داخل فرما دیں۔ جو شخص ازراہِ عقیدت لفظ ناصر کو اپنی یا اپنی اولاد کے نام میں شامل کرے گا۔ اس کی برکت سے ہمیشہ مظفر و منصور رہے گا اور آتش دوزخ اس پر حرام کر دی جائے گی اور جو شخص اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ’’ھُوَالنَّاصِر‘‘ تحریر کرے گا۔ اس کتاب اور خط کے مطالب کو کامیابی ہو گی۔‘‘ ۱۵؎
اس بناء پر آپ نے یعنی حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے اپنا نام دلیل الناصر رکھا اور اس کے بعد آپ کی تمام اولاد ذکورواناث کے ناموں میں لفظ ناصر ایک جزو قرار دیا گیا۔ یہاں تک اپنے غلاموں کے نام بھی ناصر قلی اور ناصر بخش وغیرہ رکھے گئے۔ حتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ کر سہارا لیتے تھے اس کا نام بھی ناصری رکھ دیا گیا۔
ایک عجیب اتفاق
جیسے کہ پیشگوئی تھی کہ ’’یہ نسبت حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو جائے گی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہو گا اور اس نَیرِّاعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
بالکل اس پیشگوئی کے مطابق سب فرقوں کی روشنی گم ہو گئی اور فرقہ محمدیہّ خالصہ بھی ختم ہو گیا اب ان کے ناموں میں بھی وہ بات نہ رہی۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہان بیگم کے ذریعے کسی خاص قصد سے نہیں بلکہ خود بخود یہ چیز سلسلہ احمدیہ اور خاندان نبوت میں منتقل ہو گئی۔ صاحبزادگان میں سے میرزا ناصر احمد صاحب، میرزا منصور احمد صاحب، صاحبزادیوں میں سے صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ، منصورہ بیگم صاحبہ۔ لفظ ناصر کے حامِل ہیں۔ ناصر آباد ایک محلہ کا نام رکھا گیا۔ نصرت گرلز سکول ایک مدرسہ کانام رکھا گیا۔ النصرت حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کی کوٹھی کا نام رکھا گیا اور اس طرح وہ لفظ ناصر بھی سلسلہ محمدیہّ سے منتقل ہو کر سلسلہ احمدیہ میں آ گیا۔ جماعت میں ہزارہا افراد کے نام کے ساتھ ناصر کا لفظ استعمال ہونے لگا۔
عبداللہ ناصر مجھے یاد ہے کہ میرا ایک عزیز بھائی تھا۔ جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے عبداللہ رکھا تھا۔ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ازراہِ شفقت و محبت حضرت والد صاحب کے پاس اکثر تشریف لایا کرتے تھے نے دریافت فرمایا۔ بچے کا کیا نام رکھا ہے۔ حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ حضرت نے عبداللہ نام تجویز فرمایا ہے۔ اس پر حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ناصر کا اضافہ کر دو۔ چنانچہ ان کے فرمانے پر اس کا نام عبداللہ ناصر کر دیا گیا۔ خدا کی قدرت اس کی زندگی تھوڑی تھی وہ ڈوب کر فوت ہو گیا۔ ہمارے خاندان میں لفظ ناصر بہت پسند کیا گیا۔ چنانچہ عزیزم شیخ ابراہیم علی عرفانی میرے چھوٹے بھائی کے لڑکی ہوئی تو اس کا نام ناصرہ رکھا گیا۔ خدا کی قدرت یہ بچی بھی پندرہ سولہ سال کی ہو کر فوت ہو گئی۔ تب یہ دونوں نام عزیزم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی کے بچوں کی طرف منتقل ہو گئے چنانچہ ان کے ایک لڑکے کا نام محمد زکریا ناصر رکھا گیا اور بچی کا نام صدیقہ ناصرہ۔
الغرض اس طرح سلسلہ احمدیہ میں لفظ ناصر بکثرت پھیل گیا اور مکانوں ،محلوں اور مدرسوں تک کے ناموں میں لفظ ناصر کا استعمال ہونے لگا۔
خطوں اور کتابوں کی پیشانی پرھُوَ النَّاصِر
محمدیہّ الخاصہ تو اب اپنے خطوں اور کتابوں پر اس پیشگوئی کے مطابق الناصر نہیں لکھتے مگر یہ چیز بھی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو گئی۔حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنی تمام تحریروں پر اپنی ایک رؤیا مبارکہ کی بناء پر (اس رؤیا کا تفصیلی ذکر خود ان کی سوانح میں آئے گا) ہمیشہ یہ عبارت لکھا کرتے ہیں:
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُوَالنَّاصِرُ
آپ کی ہر کتاب پر اور تصنیف پر یہ عبارت کنندہ ملے گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے مضمون نگار اور مصنف بھی جب کوئی اہم تحریر لکھتے ہیں تو اس عبارت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ قادیان کے محلہ جات میں پھرنے والے انسان کو بہت سے مکانوں کی پیشانی پر یہی عبارت لکھی ہوئی نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان کی پیشانی کا ذکر کر سکتا ہوں اور خود ہمارے گھر میں عزیز مکرم یوسف علی عرفانی کے مکان پر ھُوَالنَّاصِرْ لکھا ہوا موجود ہے اور اسی طرح اور بہت سے احباب کے مکانوں پر بھی یہ لکھا ہوا ہے۔اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھرانہ کی ہرچیز اُمُّ المؤمنین کے وجود کے ساتھ ہی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو آئی۔ ہر وہ شخص جسے ایک ذرہ بھی ایمان اور بصیرت سے حصہ ملا ہے وہ اس مقارنہ اور موازنہ سے اپنے ایمان میں ایک نئی لذت محسوس کرے گا۔یہ قدرت الٰہی کے نوشتے ہیں جو پورے ہو کر رہے۔ کس انسان کی طاقت تھی کہ وہ ان چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لے۔ اگر یہ انسانی تدابیراور ہوشیاریوں کا نتیجہ ہے تو چاہئے کہ کوئی اور شخص بھی اس میدان میں قدم رکھ کر دنیا کو محوِ حیرت بنائے۔ مگر نہیں! نہیں!! ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانی مکرو دجل کا کام نہیں یہ خدا کی عین منشاء کے ماتحت ہونے والے امور ہیں جو پورے ہوئے۔اے سچائی کے طالبو! آؤ دیکھو کہ ہم تمہارے سامنے ایک سچائی کا چمکتا ہوا سورج رکھتے ہیںاگر تم روشنی سے پیار کرتے ہو تو دیکھو کہ نیّربیضا اپنی پوری تجلی سے چمک رہا ہے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی روشن ضمیری
ایک قصہ جو خاندانِ خواجہ محمدناصر صاحب میں مشہور ہے۔اس کا بھی تذکرہ کر دینا کوئی بیجا نہ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ ایک سیاح صاحب آئے اور وہ مولانا محمد فخرالدین صاحب کے ہاں مہمان ہوئے اُس سیاح نے کہا کہ یا حضرت آپ کو تو میں نے چشتیہ نظامیہ طریقہ کا آفتاب پایا ہے ۔ کیا یہاں کوئی نقشبند یہ طریقہ کا بھی کوئی کامل فقیر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ہے ان کا نام خواجہ محمد ناصر ہے اور وہ اس طریقہ کے یکتادرویش ہیں۔ سیاح نے آپ سے ملنے کی خواہش کی۔ مولانا نے ساتھ چل کر ملانا منظور فرما لیا۔ وہ وقت دوپہر کا تھا۔ اس وقت حضرت خواجہ صاحب کا دسترخوان بچھا کرتا تھا اور جو مہمان آتا اسے الگ دستر خوان بچھا کر کھانا کھلایا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ نہیں کھلایا کرتے تھے۔ مولانا فخرالدین نے فرمایا کہ ان کا یہ معمول ہے۔ کہیں آپ کو برا نہ معلوم ہو۔ سیاح نے کہا کہ میں ان کی روشن ضمیری کے امتحان کے لئے جا رہا ہوں۔ میں نے اپنے دل میں دو خواہشیں سوچ رکھی ہیں اگر وہ صاحب باطن ہوں گے تو دونوں خواہشوں کو پورا کر دیں گے۔مولانا فخرالدین صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا خواہشات ہیں؟ سیاح نے کہا کہ ایک تو یہ کہ وہ مجھے اپنے ساتھ کھلائیں اور دوسرے مجھے ایک تربوز بھی کھلائیں۔
چنانچہ جب حضرت مولانا فخر الدین صاحب سیاح کو لیکرآپ کی بارہ دری میں آئے۔ تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے مولانا فخر الدین صاحب کے لئے اپنے کندھے کی چادر اُتار کر بچھا دی کہ اس پر تشریف رکھیں اور سیاح صاحب کو زبردستی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا اور ایک خادم سے کہا۔ بازار سے تربوز لاؤ۔ ہمارے مہمان گرمی میں آئے ہیں اس سے کچھ تسکین ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کو ساتھ لیکر کھانا کھایا کرتے تھے۔ آپؑ کے قلب کی صفائی کا حال تھا کہ آپؑ کے پاس بیٹھنے والے مریدین مخلصین کے دل میں کوئی بات آتی آپؑ فوراً اسے پورا کر دیتے۔ مثلاً کھانا کھاتے ہوئے کسی کے دل میں یہ خیال آتا کہ فلاں چیزمل جائے تو حضرت فوراً ہی بغیر سوال کے لا دیتے۔
مثلاً منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری جو ہمارے ہمسائے ہیں اور حضورؑ کے پرانے صحابی کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ حضرتؑ اس دن سیر کو اپنے باغ میں تشریف لے گئے ۔ باغ میں سے شہتوت تڑوا کر ٹوکرے بھروائے۔ دوستوں کو کھانے کے لئے فرمایا۔ خود بھی کھانے لگے اور مجھے بار بار فرماتے۔ منشی صاحب! اچھی طرح کھاؤ۔منشی صاحب کا بیان ہے کہ مجھے کچھ شرمندگی سی ہونے لگی کہ کہیں حضرتؑ کو میری خواہش کا علم تو نہیں ہو گیا۔اسی طرح انہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ ایک مقدمہ کے دوران میں گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ حضرت کو کسی نے دودھ پیش کیا۔ بہت سے لوگ اردگرد تھے اور میں فاصلے پر تھا میرے دل میں آپؑ کا تبرک پینے کا خیال آیا۔ مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ مجھے کیسے مل سکتا ہے۔ حضرتؑ نے دودھ پی کر باقی برتن میری طرف بڑھا کر کہا کہ لو منشی صاحب پی لو۔ اس طرح میں آپؑ کے تبرک کی نعمت سے مالا مال ہو گیا۔ایسے صدہاواقعات ہیں۔ ایک دوست نے ایک روایت میں لکھا کہ ایک دفعہ کھانے میں بیٹرے پک کر آئے۔ حضرتؑ نے بعض دوستوں کو کھانے کو دیئے۔ میرے دل میں بھی بٹیر کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ خیال کا آنا تھا کہ حضرتؑ نے اپنی تھالی سے بیٹر اُٹھا کر میری تھالی میں رکھ دیا۔*

*نوٹ: یہ روایات میں نے اپنے حافظہ کی بناء پر لکھی ہیں۔ اس لئے مفہوم تو درست ہے۔ الفاظ میرے اپنے ہی ہیں۔ اصل الفاظ نہیں ہیں۔ (محمود احمد عرفانی)
یہی حال سائل کا تھا کہ ایک سوال کسی کے دل میں پیدا ہوا اور حضور ؑ نے فوراً ہی اس کا جواب خود بخود اپنی تقریر میں دے دیا۔ سچ ہے کہ حضور اقدسؑ اس زمانے کے نیّراعظم تھے۔ جن میں سب ستاروں کی روشنیاں گم تھیں۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی وفات
آپ کی وفات ۲ شعبان ۱۱۷۲ ؁ہجری کو ہفتہ کے دن ہوئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ کی لاش کو قبرستان میں لایا گیا۔ حضرت خواجہ میردرد صاحب نے کشفی حالت میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ بھی تشریف فرما ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم خواجہ محمد ناصر کے جنازہ کے انتظار میں ہیں اور جب تک خواجہ صاحب کو دفن نہیں کیا گیا حضور کھڑے رہے۔ حضرت خواجہ میردرد نے جس جگہ حضورؐ پُرنور کو دیکھا تھا وہاں ایک سنگِ سرخ کا نشان لگوا دیا تھا۔ اس پتھر پر یہ رباعی کنندہ تھی۔
ایں ارضِ مقدس است بس پاک بود
رشکِ عرش و نجوم و افلاک بود
از بس زکرم داشتہ تشریف شریف
نقشِ قدم صاحبِ لولاک بود
آپ کے مزار کا کتبہ
آپ کے مزار پر حسبِ ذیل کتبہ لگا ہوا ہے:
محبوبِ خدا خواجہ محمد ناصر
حق راہ نما خواجہ محمد ناصر
ہادی و شفیع و دستگیرہمہ است
درد ہر دوسرا خواجہ محمد ناصر
ناصرالملت والدین امیرالمُحمدّیین الخالصین محمدی المتخلص بہ عندلیب۔ علیہ التحیات
ولادت ۲۵ شعبان۔ ع۔ وارثِ علمِ امامینؓ و علیؓ
رحلت۔ یوم شنبہ بعدالعصر۔ قرب شام
دوم ماہِ شعبان ۱۱۷۲ ؁ہجری ۔ عمر شریف ۶۶ سال
آپ کی وفات کے بعد بادشاہِ دہلی نے آپ کا مقبرہ سنگ مرمر کا بنوانا چاہا مگر حضرت خواجہ میردرد صاحب نے منظور نہ کیا اور فرمایا:
’’اِن تکلفات سے فقیروں کو کیا سروکار‘‘
خواجہ میر اثر صاحب جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے چھوٹے صاحزادے تھے۱۶؎ نے اپنے والد بزرگوار کے حالات ایک منظوم کتاب میں لکھے ہیں۔ جس کا نام بیان واقع ہے اس منظوم کلام کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ بالا حالات کا ماخذ بیان واقع اور بعض دوسری کتابیں ہیں۔جس میں خود نالہ عندلیبؔ اور بیانِ درد، سوزِدرد، شمع محفل وغیرہ رسائل شامل ہیں۔
خواجہ میر درد کے نزدیک خواجہ محمد ناصر کا مقام
خواجہ میر درد صاحب نے اپنی کتاب علم الکتاب میں خواجہ محمد ناصر صاحب کے مقام کا اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے:
’’نسبت خالصِ محمدیہّ کہ درزمان آن سرور علیہ السلام بود۔ تا حضرت امام حسنؓ عسکری علیؓ جدہ علیہ السلام بطناً بعد بطنٍ رسیدہ می آمد۔ و بعد ازیں او باختفا آوردہ بود۔ باز از بعد یک ہزارویک صدوچند سال ہجری ازیں فیض خاص از متبع باطن سیّد بحق و مقتدائے احق آفتاب عالم تاب فلک سیادت نیّراعظم پسرولایت وارثِ منصبِ کمالاتِ نبوت خلیفہ مرتبہ الوہیت صاحب سجادہ قرب امامت مظہر انوارِ محمدیہّ صاحب شریعت واصلِ حقیقت واقفِ طریقت۔ کاشفِ معرفت خداوند حکمت الٰہیہ۔ حامی ملتِ مصطفویہ۔ اولوالعزم عالی جاہ بے نیاز کبریاء۔ دستگاہ سلالہ ورودجان نقشبندیہ وقادریہ۔ قدر افزائے طریقہ محمدیہّ۔ ناصرِ دینِ نبوی حضرت خواجہ محمد ناصررضی اللہ عنہ ظہور فرمود‘‘۔
خواجہ محمد ناصر کی تصانیف
خواجہ محمد ناصر صاحب کی کئی ایک تصانیف تھیں مگر افسوس غدر میں اکثر تلف ہو گئیں۔ آپ نے ایک رسالہ ہوش افزا تصنیف کیا تھا۔ یہ رسالہ صوفیانہ شطرنج بازی میں تھا۔ کہتے ہیں آپ کے خاندان کے بعض نوجوان اور بعض مرید شطرنج کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ آپ نے ان کو منع کیا مگر وہ نہ رُکے۔ اس لئے آپ نے ایک صوفیانہ شطرنج ایجاد کیا۔ جس میں بڑی پُرعبرت بازیاں رکھی گئیں تھیں۔ ان بچوں اور مُریدوں کو جب یہ رسالہ دیا گیا کہ شطرنج کھیلتے ہوئے ان امور کو ملحوظ رکھ لینا۔ جب انہوں نے پڑھا تو انہوں نے شطرنج سے توبہ کر لی۔ افسوس کہ غدرمیں یہ چیز بھی ضائع ہو گئی۔سنتا ہوں کہ اس کی ایک کاپی حضرت میرناصر نواب صاحب کے سوتیلے بھائی سیّدناصروزیر کے پاس تھی معلوم نہیں کہ اب تک ہے یا نہیں۔ ان کے ایک پوتے زندہ ہیں۔ جن کا نام سیّد ناصر جلیل ولد سیّد ناصر خلیل ولدسیّد ناصر وزیر ہے اور گلبرگہ میں ملازم ہیں۔ افسوس کہ ان کے ہاں بھی اس رسالہ کا پتہ نہیں مل سکا۔
ایجادات
خواجہ محمدناصر صاحب نے بہت سی چیزیں بھی ایجاد کی تھیں۔مثلاً خیمہ روان، خانہ روان، حمام ہر مقام، پلنگ سفری شمع بید مع چراغ ظلمت، سوزفانوس بے افسوس، حربہ لوائے محمدی، نصرت بخش کبیر، نصرت بخش صغیر وغیرہ۔ ان چیزوں کے نام و نشان کا پتہ کتاب نالہ عندلیب سے بخوبی ملتا ہے۔ ان سے بہت سی کرامات اور خارق عادت باتیں بطورنشان کے ظاہر ہوئیں تاکہ لوگوں کے لئے از دیادِ ایمان کا باعث ہوں۔ آپ کا تخلص عندلیب ؔتھا اور آپ فارسی زبان کے بڑے شاعر تھے۔
حضرت خواجہ میر درد
اس خاندان میں حضرت خواجہ میر درد ایک خاص بزرگ تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب کی دوبیویاں تھیں۔ پہلی شادی حضرت شاہ میربن سیّد لطف اللہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے محمد محفوظ صاحب پیدا ہوئے اور انیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ان کی والدہ محمد محفوظ سے قبل ان کو بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی تھیں۔
آپ نے دوسری شادی سیّدالعارفین سیّد محمد قادری بن نواب عظیم القدر میراحمد خان شہید کی صاحبزادی سے کی تھی۔ ان کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ پہلے سیّد میرمحمدی تھے۔ دوسرے خواجہ میر درد۔ تیسرے خواجہ محمد میر اثر۔ سیّد میر محمدی صاحب نے بھی ۱۹ سال کی عمر میں وفات پائی۔ دوسرے درمیانی خواجہ میردرد اور خواجہ محمدمیراثر باقی رہے۔ان کی والدہ صاحبہ کا نامی بخش بیگم عرف منگا بیگم تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی ولادت نوز دہم ذیقعدہ ۱۱۳۳ ؁ہجری بروز سہ شنبہ دہلی میں میرعمدہ کے نالہ پر ہوئی۔ آپ نے دو سال کی عمر میں باتیں کرنی شروع کر دی تھیں۔ آپ بڑی لطیف باتیں بچپن ہی سے کرتے تھے سننے والے بڑا لطف اُٹھاتے اور محظوظ ہوتے تھے۔ بچپن میں آپ کو رونے کی بڑی عادت تھی۔ گھر والوں کو پتہ نہ لگتا تھا کہ کیا تکلیف ہے۔ ہر ممکن ذریعے سے اُن کو چپ کرایا جاتا مگر چپ نہ ہوتے۔ جب ہر ممکن ذریعے سے چپ نہ کرتے تو اُن کے ابا جان کو بلایا جاتا تو آپ اُن کے سینے سے چمٹ جاتے اور کبھی کبھی اس امر کا اظہار کرتے کہ مَیں بعض ایسے نظارے دیکھتا ہوں جن کو مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔ اُن کے والد صاحب اُن کو سینے سے لگاتے اور کچھ تسلی آمیز کلمات کہتے جس سے تسلی ہو جاتی۔
تعلیم
خاندان کے سب بچوںکی تعلیم دس برس کے بعد ہوتی تھی مگر خواجہ میر درد صاحب کی تعلیم کا خلافِ معمول بچپن ہی میں آغاز ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ نے تیرہ برس کی عمر میں علوم و فنون عربیہ کی تکمیل کر لی تھی اور یہ تکمیل اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی تھی۔ مگر فارسی کے علم ادب کے واسطے آپ نے خان آرزو سے فخر تلمذ حاصل کیا اور مثنوی مولانا روم، مفتی دولت صاحب سے پڑھی تھی۔
خواجہ میر درد کو اپنے والد سے بڑی محبت تھی اور اُن کے رنگ میں رنگین تھے۔ جب خواجہ محمد ناصر صاحب مجاہدات کیا کرتے تھے اور اپنے حجرہ میں بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ خواجہ میر درد جن کی عمر اُس وقت تیرہ سال کی تھی حجرہ کے دروازہ پر بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ اُن کا جذبہ یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ابا جان کسی ضرورت سے پکاریں اور مَیں پڑا سوتا رہوں۔ اِسی محبت اور جوش میں اکثر فاقے بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اُن کی والدہ کو ان کی اس حالت سے بہت صدمہ ہوتا تھا وہ اس حالت کو دیکھ کر اکثر رو دیا کرتی تھیں کبھی کھانے کے وقت اُن کو پکڑ کر بلوا بھیجتیں اور اپنے سامنے کھانا کھلاتیں۔ خواجہ میر درد اکثر رو دیا کرتے اور کہہ دیتے کہ اماں جان! مجھ سے بغیر ابا جان کے ایک نوالہ نہیں کھایا جاتا۔ اُن کی اِس محبت کا اُن کے والد صاحب کے قلب پر بھی اثر تھا۔
خواجہ میر درد کی بیعت
جب خواجہ محمد ناصر صاحب کو محمدیہ فرقہ کی بناء رکھنے کا حکم ہوا تو اُس وقت اُن کو یہ بھی بشارت دی گئی کہ اِس وقت جس شخص کو تو بیعت کرے گا اُسے بقا باللہ کا مقام حاصل ہوگا۔ اس محبت کی وجہ سے اور ان آثار رشدو ہدایت کی وجہ سے جو خواجہ میر درد کے اندر ظہور پذیر تھے، خواجہ محمد ناصر کو خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے لخت جگر کو اپنا مرید بنا کر بقا باللہ کا درجہ دلا دیں۔ چنانچہ ان کو خیال ہوا کہ وہ گھر میں اپنی والدہ کے پاس سو رہا ہوگا وہیں سے اس کو جگا کر لے آتا ہوں انہوں نے اپنے حجرہ کا دروازہ کھولا چونکہ اندھیرا تھا کچھ پتہ نہ لگتا تھا۔اِدھر خواجہ میر درد کی یہ حالت تھی کہ وہ حجرہ کی سیڑھی سے جدا نہ ہوتے۔ چنانچہ وہیں سو رہے تھے۔ خواجہ میر محمد ناصر صاحب نے دروازہ کھولا تو اُن کا پائوں بیٹے کے جسم پر پڑا۔ حیران ہو کر پوچھا کون سوتا ہے؟ خواجہ میر درد نے فوراً عرض کی۔ حضور مَیں ہوں۔ اور سا تھ ہی اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر فرطِ محبت سے رونے لگے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے اُن کو تسلی دی اور کہا کہ خدا نے ہم کو ایک عزت سے مشرف کیا ہے اور حجرہ میں لے جا کر سب حالات بتلا کر ان کی بیعت لے لی۔ اس طرح تیرہ سال کی عمر میں نہ صرف ظاہری علوم سے حصہ وافر حاصل کر لیا بلکہ روحانی فیض سے بھی فیض یاب ہوگئے۔
خواجہ میر درد کی دُعا کا اثر
جس روز خواجہ میر درد صاحب نے اپنے والد صاحب کی بیعت کی اُس کی صبح کو برمدہ کے نالہ میں ایک شخص آیا۔ اس کے ساتھ ایک زنانی ڈولی تھی۔ اُس نے لوگوں سے خواجہ میر درد کا گھر پوچھا۔ لوگوں کی توجہ اس طرف نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی خواجہ میر درد نہیں رہتا ایک لڑکا ۱۳،۱۴ سال کا ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ ہاں وہی ہیں چنانچہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان کا پتہ دیا گیا۔ وہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان پر آیا اور عرض کی کہ میری بیوی سِل دق میں مبتلا ہے۔ مَیں روزانہ اس کی صحت کیلئے دعا کرتا تھا آج مجھے خواب میں کہا گیا کہ وہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگی۔ چنانچہ وہ مریضہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دعویٰ سے قبل بہت سے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ مثلاً لالہ ملاوامل جس کو تپ دق ہو گیا تھا وہ آپؑ کی دعا سے اچھے ہو گئے۔ ۱۷؎
اسی طرح جناب میرزا غلام قادر صاحب جو بالکل مُردہ ہوچکے تھے آپؑ کی دعا سے اچھے ہوگئے۔۱۸؎
پہلی تصنیف
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے ۱۵ سال کی عمر میں پہلی تصنیف کی۔ یہ ایک چند اوراق کا رسالہ تھا جس کا نام اسرار الصلوٰۃ تھا۔ اس رسالہ کی لطافت اور عمدگی کا یہ عالم تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور مولانا فخر الدین صاحب چشتی نظامی دہلوی نے دیکھ کر بہت پسند فرمایا۔ اور فرمایا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ اس کے بعد انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
رسالہ حرمت غنا، وارداتِ درد، علم الکتاب، آہِ سرد، نالہ درد، درد ِدل، شمع محفل، سوزدل۸، واقعاتِ درد، دیوانِ درد اُردو، دیوانِ درد فارسی۔ ممکن ہے اور بھی تصانیف ہوں کیونکہ ان کی بہت سی تحریریں غدر میں تلف ہو گئیں۔ اس طرح ۱۵ سال کی عمر میں انہوں نے قلم کو ہاتھ میں لیا اور ۶۸ سال کی عمر تک قلم کے ذریعے خدمتِ دین کرتے رہے۔
خواجہ میر درد کی شہرت
خواجہ میر درد کی شہرت بہت جلد دہلی میں پھیل گئی۔ چنانچہ خود بادشاہ دہلی بنفسِ نفیس برمدہ کے نالے پر تشریف لائے اور دونوں باپ بیٹے کی زیارت کی اور ان سے درخواست کی کہ آپ شاہجہان آباد میں چل کر رہئے مگر ان دونوں نے اسے منظور نہ کیا اور اسی اجاڑ جنگل میںجہاں صرف چند خال خال ہستیاں رہا کرتی تھیں رہنا پسند کیا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی بہو جس کا نام مہر پرور بیگم تھا خواجہ میر درد صاحب کی بہت معتقد تھی۔ اس نے بار بار خواہش ظاہر کی کہ آپ شہر چلے چلیں۔ مگر آپ ایک عرصہ تک اُسے ردّ ہی کرتے رہے اور ۱۸۳۸؁ء تک وہیں مقیم رہے۔
نادری قتل عام
حتیّٰ کہ وہ زمانہ بھی آ گیا جب کہ نادر شاہ ایران نے دہلی میں قتل عام کروایااُس وقت پھر شاہزادی مہر پرور بیگم نے بڑے ادب سے اپنے ایک خاص ایلچی کو بھیجا اور عرض کی کہ:
’’حضرت یوں تو سب جگہ خدا ہی حافظ و ناصر ہے مگر برمدے کا نالہ شاہجہان آباد کی شہر پناہ سے باہر ہے اور ایرانی فوجیں بے تمیز ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حضرت کے دشمنوں کو کوئی گزند پہنچائیں اس لئے آپ مع اہل بیت کے شاہجہان آباد کے اندر چلے آئیں مَیں نے دو محل آپ کیلئے خالی کرا دیئے ہیں‘‘۔
حضرت خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ:
’’جس خدا نے میدانِ کربلا میں اہلبیت کی حفاظت کی تھی وہی اب بھی اِن سیّدانیوں کے ناموس کی حفاظت کرے گا۔ یہ بھی انہیں کی ذریّت ہیں‘‘۔
اس واقعہ سے ان کی اس ایمانی قوت کا پتہ چلتا ہے جو اُن کے قلب میں موجزن تھی اور یہ کہ وہ ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ جیسے انہوں نے خدا پر بھروسہ رکھا تھا ویسا ہی ہوا۔ نادر شاہ نے دہلی میں قتل عام کیا اور صد ہا گھرانے زیر و زبر ہو گئے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ہاتھوں سے ایک ایسی مضبوط دیواربرمدہ کے نالہ کے گرد کھینچوائی کہ کسی نے بھی اُدھر کا رخ نہ کیا اور یہ خاندان معجزانہ طور پر محفوظ رہا اور محفوظ کیوں نہ رہتا جب کہ وہ ابھی اُمُّ المؤمنین جیسی عظیم الشان امانت کو اپنے اندر سنبھالے ہوئے تھا جو اپنے وقت پر مہدی ؑ موعود کی طرف منتقل ہونے والی تھی۔
الغرض یہ وقت تو نکل گیا لیکن شاہزادی مہر پرور کا مطالبہ روز بروز بڑھنے لگا اور اس نے کہنا شروع کیا کہ آپ اس ویران محلہ کو چھوڑ دیجیئے۔ مہر پرور کے زور دینے پر بالآخر آپ نے دہلی کے اندر رہنا منظور کر لیا مگر ایک شرط پر کہ مَیں کسی محل میں نہیں رہوں گا بلکہ جیسے ہمارے یہ مکان ہیں ویسے ہی مکان بنوائے جائیں۔ شہزادی مہر پرور بیگم نے بخوشی اس شرط کو منظور کر لیا اور کوچہ چِیلوں میں ایک قطعہ لے کرنو مکان چھوٹے بڑے بنوائے اور ایک بارہ دری جس کا ایک بڑا صحن تھا اور ایک مسجد تیار کروائی۔ آٹھ مکانوں میں آپ کے اہل و عیال اور عزیز واقارب رہنے لگے۔ نویں حویلی حُجرہ بن گئی۔ بارہ دری میں مختلف قسم کی بزم آرائیاں ہوا کرتی تھیں اور کبھی کبھی مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ اس واقعہ سے خواجہ میر درد کی قناعت اور درویشی پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ اُن کے دل میں اگر دنیا اور جاہ طلبی کی خواہش ہوتی وہ محلات میں چلے جاتے۔ مگر انہوں نے نادری قتل عام کے وقت بھی لال قلعہ کی مضبوط دیواروں کی طرف نہ دیکھا اور مہر پرور بیگم کے مجبور کرنے پر اگر قبول کیا تو یہ کہ جیسے ہمارے فقیرانہ مکان ہیں ویسے بنوا دو۔
محمد شاہ بادشاہ
اُس وقت دہلی کے تخت پر محمد شاہ بیٹھا ہوا تھا جب اُس نے حضرت میر درد کی شہرت سنی تو اُس نے چاہا کہ آپ قلعہ میں تشریف لائیں۔ مگر اُسے معلوم ہو گیا کہ آپ بادشاہوں کی مجلس اور صحبت سے بہت دور رہتے ہیں۔ اس لئے ایک دن بغیر اطلاع دیئے ہوئے ہاتھی پر سوار ہو کر خواجہ صاحب کی بارہ دری میں تشریف لے آیا۔ مگر آپ نے بادشاہ سے کسی قسم کا تملق نہیں کیا۔ بادشاہ آپ کی زیارت سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ کوئی خدمت میرے لائق ہو تو اس سے سرفراز فرمایا جائے۔ حضرت خواجہ میر درد نے ارشاد شاہی سن کر فرمایا:
’’آپ کے لائق یہی خدمت ہے کہ اب کبھی فقیر خانہ پر تشریف نہ لائیے گا کیونکہ آپ کے آنے سے فقیر کا نفس موٹا ہوتا ہے‘‘۔
محمد شاہ اُٹھ کر خاموشی سے چلے گئے اور بارہ دری سے نکل کر کہا بیشک یہ آلِ رسول ہیں حضرت خواجہ میر درد کا یہ استغناء قابلِ رشک ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مقام کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
آن کس کہ بتو رسد شہاں راچہ کند
حضرت خواجہ میر درد نے اپنی عُمر فاقوں میں بسر کی اور بعض اوقات کئی کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا۔ خواجہ میر درد نے تمام عمر کسی امیر، وزیر اور شاہزادے کے پاس جانا پسند نہ کیا۔ ہاں اپنے والد خواجہ محمد ناصر کے مزار پر روزانہ بلا ناغہ جایا کرتے تھے۔ حتیّٰ کہ جس دن نادر شاہ دہلی تک آیا دہلی کے چاروں طرف قتل اور لوٹ کا بازار گرم تھا۔ اُس دن بھی باوجود گھر والوں کے روکنے کے آپ نادر شاہ کے سپاہیوں میں سے ہو کر گذر گئے اور اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ وہاں آپ نے یہ رباعی پڑھی:
در کوئے تو اے مُونسِ جان می آیم
تاجان باقی ست بے گمان می آیم
گرم شام کشان کشان برندم زینجا
چون صبح شود باز ہمان می آیم
آپ اپنے زمانے کے ولی کامل تھے
آپ نے مقامِ ولایت کے متعلق خود لکھا ہے کہ:
’’برکت جامعیّتِ محمدیہ کی تمام نسبتیں فقر کی خدا تعالیٰ نے میری ذات میں جمع فرمائی ہیں اور مجھے حق و باطل میں ، فقر میں فارق بنایا ہے… اور مجھے نجابتِ طرفین اور سیادتِ والدین کی طرف سے مشرف فرمایا تا کہ مَیں محمدیہ خالص کے طریقہ کو رواج دوں اور مجھے جہان کیلئے صفی اور خلیفہ تجویز فرمایا اور آدم علیہ السلام کا مقامِ ولایت عطا کیا اور مکا یٔدِ نفس و شیطان سے نجات دی‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے حضرت دائود علیہ السلام کی ولایت کا مقام بخشا۔…… حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقامِ ولایت مجھے دیا۔ ……حضرت ابراہیم علیہ السلام کامقامِ ولایت مجھے دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقامِ ولایت مرحمت فرمایا۔ پھر…… حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی مقامِ ولایت عطا فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقامِ ولایت بھی عنایت کیا اور پھر اس جامعیّت کا کمال اور اختتام کے لئے ولایت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف فرمایا اور محمدیت خالص کی رِدا میں مجھے چھپا لیا اور رسول پاکؐ کی ذات میں مجھے فنا کر دیا۔ پس نہ مَیں رہا اور نہ میرا نام و نشان‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے خدا تعالیٰ نے عقل کامل و نفس کامل اور روح کامل اور جسد کامل کے ساتھ مظہر اپنے تمام اسماء کا پیدا کیا تا کہ مَیں مومنین کو طریقہ خالصہ محمدیہ کی دعوت دوں‘‘۔
پھر فرمایا:
’’ ہر فرد انسان بقدرِ عقل و فہم و استعدادِ شخصی کے علومِ کلیّہ اضافیہ کو اخذ کرتا ہے اور طاقتِ بشریہ کے موافق ہر امر کا ادراک کرتا ہے اور ہر شخص واحد کو معانی اور مراد میں بہت سے اختلاف مثل اُن کی اشکال مختلفہ بایک دِگر کے لاحق ہوتے ہیں اور اس حیثیت سے فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ جداگانہ قائم ہو جاتے ہیں اور ملّتِ واحدہ میں اگرچہ باعتبار نوعیت کے ایک ہوتے ہیں مگر صور استعدادی کے اختلاف کی وجہ سے آدمیوں اور رنگوں کی طرح اسے رنگا رنگ کر ڈالتے ہیں اور اصلی دین کو قیود اضافی میں مقید کر کے وحدت پر قائم نہیں رکھتے اور انتزاجات نفسانی کے ساتھ اسے ممتزج کر کے اسے متفرق کر دیتے ہیں اور وہ ایک مِلّت جس پر ربانی مِلّت کے عہد میں سب متفق باقی نہیں رہتے۔ اس لئے ضرور ہے، کہ ہر زمانہ میں خدا کی طرف سے ایک فرد اکمل آتا رہتا ہے تا کہ مِلّتِ حقیقی کی نوعیت اور اصلیت کو سنوارتا رہے۔ اس لئے اُمتِ محمدیہ میں ایک ولی کامل کا وقت مقررہ پر آنا جو دینِ متین کو از سرِ نو زندہ کر دیتا ہے اور اس کی تجدید ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المحمدیّین خواجہ محمد ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہویں صدی کے آغاز میں اس خدمت کے لئے مامور فرمایا اور آپ نے اس دین مبین کے آفتاب کو نصف النہار میں پہنچا دیا اور محمدیہ خالصہ کے انوار سے جہان کو منور کر دیا… یہی فرقہ ناجیہ ہے۔ اسی اصل نسبت سے تعلق رکھتا ہے جو جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جاری تھا اور زمانہ اسے فراموش کر چکا تھا اور مَیں کہ اوّل المحمدیّین ہوں اسی نسبت خاصہ خالصہ کا دروازہ ہوں……فیاقوم لا تکونوا کالّذی فرّقوا دین اللّٰہ الذی لہ الدّین الخالص وماثلثۃ و سبعین فرقۃ واختلفوا بالاختلاف المنکرۃ المبتدعۃ۔
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعودعلیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو گئی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہوگا اور اس نیرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی‘‘۔ ۱۹؎
اس بیان کو پڑھ جانے سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کو سب انبیاء کا مقامِ ولایت دیا گیا اور بالآخر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقامِ ولایت بھی دیا گیا اور آپ کو رسول کریمؐ کی ذات سے ایک ایسی نسبت تھی کہ آپ پر ردأ محمدی ڈال دی گئی اور آپ وجودِ محمدی میں فنا ہو گئے۔
دوسرے: آپ اس حدیث کے ماتحت یاتی علی کل رأس مائۃ سنۃ من یجدّدنا دینھا۔ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کی آمد کو تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اعتقاد کرتے تھے۔
تیسرے: اور ان کا یہی اعتقاد تھا کہ جو لوگ وقت کے مجدد کو نہیں مانتے وہ ناجی نہیں ہیں جیسے کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیّۃ۔
چوتھے: اُن کا یہ مذہب تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک نیرِّ اعظم ہیں جن کی آمد پر سب فرقوں کی روشنی گُم ہو جائے گی اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ وہ اعتقادات ہیں جو بالکل سلسلہ احمدیہ کے ساتھ ملتے جلتے ہیں۔ آج ہم بھی اس امر کو مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اُمت محمدیہ میں فیض کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں اور ولایت ہی کا نہیںبلکہ نبوت کا مقام بھی آپؐ کی برکت اور فیض سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جب حضرت خواجہ میر درد کو تمام انبیاء کا مقامِ ولایت حاصل تھا جو آسمانِ مجددیت پر ایک ستارہ تھا۔ اس نیرِ اعظم کو جسے وہ خود نیرِ اعظم کہتے ہیں جس میں سب ستاروں کی روشنی گم ہونے والی تھی کیا کہا جائے گا؟ کیا اس کے لئے نبوت کے سوا اور کوئی مقام باقی رہ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی اس مسئلہ کو حل فرما دیا۔
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار
مَیں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اک شجر ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے
مَیں ہوا دائود اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے مَیں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمدؐ جس پہ میرا سب مدار
سر سے میرے پائوں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار ۲۰؎
اس مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے بہت بڑی روشنی اپنی کتب میں ڈالی ہے۔ مگر افسوس! کہ کاغذ کی نایابی اور حصولِ اشیاء کی دِقت مجھے مجبور کرتی ہے کہ مَیں اس موضوع پر زیادہ نہ لکھوں۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سارے انبیاء کا مقامِ نبوت عطا کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں آپؑ کو جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خطاب دیا اور اپنی وحی میں آپ کو شمس و قمر بھی فرمایا جو حضرت خواجہ میر درد رضی اللہ عنہ کو نیرِّ اعظم دکھایا گیا۔
حضرت خواجہ میر درد فنافی الرسول کے مقام پر اپنے آپ کو بیان کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے دونوں مقاموں پر فائز تھے۔ آپؑ اپنی محبت رسول کا ذکر اپنی کتابوں میں صدہا جگہ فرما چکے ہیں۔ مگر مختصر طور پر آپؑ فرماتے ہیں:
بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
……
نقشِ ہستی تیری اُلفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرہ تری راہ میں اُڑایا ہم نے
……
دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میںبُھلایا ہم نے
……
بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش
جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے
دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا
نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے
اس طرح بہت سا کلام آپؑ کے عربی، فارسی، اُردو اشعار میں اور اس کے علاوہ عربی، اُردو، فارسی نثر میں موجود ہے۔ جس سے اس عشق و محبت کا پتہ چلتا ہے۔ جو آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور اس خصوص میں آپؑ کا مقام اس قدر بلند ہوا کہ آپؑ کامل طور پر بروز محمدہوگئے اور خدا سے علم پا کر آپ نے فرمایا۔’’من فرّق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وما اری‘‘ یعنی اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی ؐمیں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا۔ ۲۱؎
آپ فنا فی اللہ کے مقام پر
آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’مَیں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ مَیں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور مَیں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہو گیا ہوں یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔ اس اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہوگئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا۔ یہاں تک میرا کوئی ذرّہ بھی باقی نہ رہا۔ اور مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان، اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔ میرے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا۔ کہ مَیں بالکل اس میں محو ہو گیا اور مَیں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی ہے۔ اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ حضرتِ عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے۔ اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔ سو نہ تو مَیں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی۔ میری اپنی عمارت گِر گئی اور رب العالمین کی عمارت نظر آنے لگی اور الوہیت بڑے زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور مَیں سر کے بالوں سے ناخن پا تک اس کی طرف کھینچا گیا۔ پھر میں ہمہ مغز ہو گیا جس میں کوئی پوست نہ تھا اور ایسا تیل بن گیا جس میں کوئی مَیل نہیں تھی اور مجھ میں اور میرے نفس میں جدائی ڈال دی گئی۔ پس مَیں اُس شے کی طرح ہو گیا جو نظر نہیں آتی۔ یا اس قطرہ کی طرح جو دریا میں جا ملے اور دریا اس کو اپنی چادر کے نیچے چھپا لے۔ اس حالت میں مَیں نہیں جانتا تھا۔ کہ اس سے پہلے مَیں کیا تھا اور میرا وجود کیا تھا۔ الوہیّت میری رگوں اور پٹھوں میں سرایت کر گئی۔ اور مَیںبالکل اپنے آپ سے کھویا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضاء اپنے کام میں لگائے۔ اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کر لیا کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی گرفت سے مَیں بالکل معدوم ہو گیا اور مَیں اس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں اور مَیں خیال کرتاتھا کہ مَیں اپنے سارے وجود سے معدوم اور اپنی ہویّت سے قطعًا نکل چکا ہوں اب کوئی شریک اور منازع روک کرنے والا نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہو گیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اسی کا ہو گیا۔ اور اس حالت میں مَیں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو مَیں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر مَیں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی۔ اور مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں اُس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر مَیں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا کہ اِنَّا زَیّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ پھر مَیں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالتِ کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا۔ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘۲۲؎
اس کشف کی عظمت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس مقام پر حضرت مسیح موعود ؑ فائز تھے اور کتنا فرق تھا اُس ستارہ میں اور اِس نیرِّ اعظم میں۔ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ کی وحی میں بھی آپؑ کا نام یاشمس یا قمر بھی رکھا۔ یعنی نیرِّ اعظم ۔ اور یہ بھی فرمایا۔ انت منی بمنزلۃِ توحیدی و تفریدی۔ ۲۳؎
مسئلہ کفر اسلام
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے اس فرقہ کو جو مجدّدِ وقت کو مانے، ناجی فرقہ قرار دیا ہے اور حدیث نبوی بھی یہی کہتی ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقدمات میتۃ الجاھلیّۃ اس ایک بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو اس نیرِّ اعظم کا انکار کرے گا اس کا ناجی ہونا کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟
حضرت خواجہ میردرد صاحب فرماتے ہیں:
’’درویشی فقط قُربِ الٰہی کا نام ہے اور فقیری شعبدہ بازی اور بھنڈیلہ پن کا نام۔‘‘
وہ تمام ان امور کو جو شریعت کے خلاف تھے ناجائز قرار دیتے تھے۔ حضرت خواجہ میردرد کو موسیقی میں کمال دستگاہ حاصل تھی۔ ان کے پاس بڑے بڑے موسیقار جمع ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کا مشہور موسیقار فیروز خان آپ کے فنِ موسیقی کا بڑا مداح تھا۔ ہر ماہ کی دوسری تاریخ کو بارہ دری میں خواجہ محمد ناصر صاحب کی یاد میں محفلِ موسیقی ہوا کرتی تھی اور اس کا بڑا شاندار انتظام کیا جاتا تھا۔ ہزارہا لوگوں کا مجمع ہو جاتا۔ خواجہ میردرد بھی تشریف لے آتے۔آپ کی مجلس میں سب لوگ دوزانو ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شاہ عالم بادشاہ دہلی آپ کی مجلس میں آئے اور دوزانونہ بیٹھے آپ نے بادشاہ سے کہا کہ اگر آپ فقیروں کی محفل میں آیا کریں تو دوزانو ہو کر بیٹھا کریں۔ بادشاہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے پاؤں میں درد تھا اس وجہ سے بیٹھ نہ سکا۔اس سے اس جرأت اور شجاعت کا پتہ لگتا ہے جو حضرت میر درد میں تھی اور یہ شرفِ سعادت اس خاندان میں چلی آئی۔ حضرت میرناصر نواب رضی اللہ عنہ کی جرأت و صاف گوئی مشہور اور زبان زد ہے۔ وہ حق گو تھے اور اِس کے کہنے میں دلیر۔
آپ کا مقولہ تھا کہ میں نغمہ و سرود کو عالموں فاضلوں کی طرح سنتا ہوں۔ جو علم ریاضی و طبیعی پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس کے دقائق کو خوب جانتے ہیں مگر حکماء کی طرح اس کا اعتقاد نہیں رکھتے اسی طرح میں بھی موسیقی کے ساتھ تو غسل کیا کرتا ہوں کیونکہ موسیقی ریاضی کی ایک پُرمیوہ شاخ ہے۔ وہ اسے علمی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نہ کہ ذریعہ حظِّ نفس۔ پھر فرمایا:
’’میں نے نہ آج تک اپنے کسی مرید کو راگ سننے کی اجازت دی نہ اپنی اولاد کو کیونکہ جو چیز ہماری شریعت میں ممنوع اور ہمارے طریقہ میں مکروہ ہو اس کیلئے میں کب کسی کو اجازت دے سکتا ہوں۔ میں اپنے تئیں گناہگار جانتا ہوں اور ہمیشہ اسی دھیان میں ہوں کہ راگ سننے سے توبہ کروں جو لوگ راگ نہیں سنتے ہیں میں انہیں اپنے سے اچھا جانتا ہوں۔‘‘۲۴؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو کبھی موسیقی نہیں سنی۔ البتہ آپؑ کی مجلس میں کبھی کبھی کوئی شاعر اپنے اشعار خوش گلوئی سے سنا دیتا تھا۔ آپؑ کے ایک مرید شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی جو صوفیانہ طرز کے آدمی ہیں کی ایک روایت ہے کہ میں چونکہ قوالی سن لیا کرتا تھا ایک دفعہ حضو ؑر نے مجھے فرمایا۔ میاں اسمٰعیل! قوالی کی لذت کتنی دیر رہتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں جب تک سنتے رہو۔ فرمایا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ لذت ہو جو ہمیشہ قائم رہے۔ اس طرح حضو ؑر نے موسیقی کی اس کمی کا اظہار فرمایا جسے صوفی کمال سمجھ رہے تھے۔
اُردو علم ادب پر آپ کا احسان
حضرت خواجہ میر درد کو عربی،اُردو، فارسی میں کامل دستگاہ تھی۔ اُردو زبان پر آپ کا بڑا احسان تھا کہ آپ نے اس زبان کو صاف کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اے اُردو گھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی۔ تو پروان چڑھے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آ کر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طباعت تجھ میں آ جائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی۔‘‘ ۲۵؎
یہ ایک پیشگوئی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پوری ہوئی جبکہ قرآن و حدیث نے آ کر آرام حاصل کیا۔
بارہ دری میں مہینہ میں ایک دو دفعہ مشاعرہ ضرور ہو جایا کرتا تھا۔ میر حسن دہلوی، جھمن لال، شاہ محمدی، شیخ محمد قیام، حکیم ثناء اللہ خان، لطیف علی، میرزا اسمٰعیل، شیخ محمد بقا، محمد پناہ خان، لالہ مکند لال، میرزا محمد جان، لالہ نرائین داس، علی نقی وغیرہ شاعری میں اُن کے شاگرد تھے۔
وفات
حضرت خواجہ میردرد صاحب اپنی پیشگوئی کے مطابق ۱۱۹۹؁ہجری میں صفر ۲۴ کو صبح صادق کے وقت ۶۸ برس کی عمر میں عالم قدسی کی طرف رحلت فرما گئے۔ آپ کو آپ کے والد کے داہنے پہلو میں دفن کیا گیا۔
آپ کی اولاد
آپ کا ایک ہی فرزند تھا جس کا نام خواجہ صاحب میر اور لقب ضیاء الناصر اور المؔ تخلص تھا اور آپ کی دوصاحبزادیاں تھیں۔ ایک براتی بیگم صاحبہ تھیں اور دوسری زینت النساء بیگم صاحبہ تھیں۔
خواجہ میر درد صاحب کی وفات کے بعد ان کے بھائی خواجہ ظہورالناصر سیّد میر اثر صاحب ان کے خلیفہ اور جانشین ہوئے اور صفر ۱۲۰۹؁ہجری میں وفات پائی۔
ان کی ایک ہی دختر تھیں جس کا نام بیگما جان تھا۔ جس کی شادی نواب سیّد اسد اللہ خان بن نواب سیّد جعفر علی خان صاحب سے ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد خواجہ سیّد ضیاء النّاصر المعروف بہ سیّد صاحب میر۔ متخلص بہ المؔ آپ کے خلیفہ ہوئے۔ آپ کی وفات ۲۱ جمادی ا لآخر ۱۲۱۵؁ہجری کو ہوئی۔ خواجہ میردرد صاحب کے پائیں میں دفن ہوئے۔
ان کی اولاد
ان کے ایک صاحبزادے میر محمد بخش نام اور ایک صاحبزادی بی امانی بیگم تھیں۔
میرمحمد بخش
میر محمد بخش صاحب جو حضرت خواجہ میر درد کے پوتے تھے۔ بڑینچ نامی جگہ میں کمپنی کی حکومت کی طرف سے حاکم تھے۔ ان کے پاس ایک نوکر تھا جس نے چوری کی اور گرفتا ر ہوا اسے خیال تھا کہ میرا مالک میری مدد کرے گا مگر آپ نے فرمایا کہ میں چور کا حامی نہیں ہوں اسے سزا ہو گئی وہ قید سے جب آزاد ہوا اس نے آپ کو آپ ہی کی تلوار سے سوتے میں قتل کر دیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر کل تیس برس کی تھی۔ ان کی لاش دہلی لائی گی اور خاندانی قبرستان میں دفن ہوئی۔
امانی بیگم صاحبہ
امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی تھیں مگر ان کی والدہ میر محمد بخش صاحب کی والدہ نہ تھیں بلکہ بی عزت النساء صاحبہ جو اُمّ سلمہ کر کے مشہور تھیں اور خواجہ صاحب میر صاحب کی دوسری بیوی تھیں کے بطن سے تھیں۔اٹھوانسی پیدا ہوئی تھیں مگر لمبی عمر پائی۔ ۱۲۰۳ ؁ہجری کو پیدا ہوئیں اور ۱۲۷۲؁ہجری میں ۱۱ربیع الاوّل کو وفات پائی۔
خواجہ محمد نصیر صاحب
خواجہ میر درد کے بعد ان کے بھائی صاحب ان کے جانشین ہوئے پھر خواجہ میردرد کے بیٹے جانشین ہوئے۔خواجہ میردرد کے پوتے میر محمد بخش صاحب اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نرینہ نہ ہوئی اور نہ میرمحمد بخش صاحب ہی کی کوئی اولاد تھی۔ اس لئے خلافت کا مسئلہ کچھ الجھن میں پڑ گیا مگر اس کا حل یہ پیدا ہوا کہ خلافت خواجہ میر درد صاحب کی لڑکی کی اولاد میں منتقل کی جائے چنانچہ خواجہ صاحب کی دو لڑکیاں تھیں بڑی کا نام براتی بیگم تھا جن کی شادی مولوی عبدالحی صاحب سے ہوئی تھی جو خواجہ میردرد صاحب کے چچازاد بھائی تھے۔ مولوی عبدالحی صاحب کلکتہ میں سرکار کمپنی کے مجلس واضع قوانین کے رُکن تھے۔ بڑی آمدنی تھی۔ آپ نے بنارس کے قریب ایک تعلقہ بھی خریدا تھا۔
ناصری گنج
ایک قصبہ خواجہ محمد ناصر صاحب کی یادگار کے طور پر آباد کیا تھا جس کا نام ناصری گنج رکھا۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنی بیوی کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ بھیجا کرتے تھے وہ ایک ہی دن میں اسے بانٹ کر ختم کر دیتیں۔ چاندی کے روپے تقسیم کرتے کرتے ہاتھ کالے ہو جاتے تو آپ فرماتیں:
’’خدا اس سفید ڈائن کی محبت کسی مسلمان کو نہ دے۔ جس طرح اس کے چھونے سے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی محبت سے آدمی کا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔‘‘
مولوی عبدالحی صاحب لا ولد فوت ہو گئے۔ ناصری گنج کا علاقہ از روئے وصیت اپنے ورثاء میں تقسیم کر گئے۔ جس میں سے اب تک ایک گاؤں کا بڑا حصہ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے پاس موجود ہے اور کچھ تھوڑا سا بِک بھی گیا ہے۔
زینت النساء بیگم
زینت النساء بیگم دوسری صاحبزادی کی شادی میرکلّو صاحب سے ہوئی تھی۔ جو میرنعمان بدخشانی کی اولاد میں سے تھے۔ میرنعمان صاحب بڑے مرتبہ کے درویش تھے۔ ان کا ذکر شیخ عبدالقدوس صاحب گنگوہی چشتی صابری کے مکتوبات میں بکثرت ملتا ہے۔ ان کا مقبرہ بھی آگرہ میں اب تک موجود ہے۔ خواجہ شاہ محمد نصیر صاحب زینت النساء بنت خواجہ میردرد رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے تھے۔ ۱۱۹۹ ؁ہجری میں پیدا ہوئے تھے خواجہ محمد نصیر صاحب اپنے ماموں کے لاولد رہ جانے کی وجہ سے خلیفہ بنائے گئے۔ خواجہ محمد نصیر صاحب بھی شاعر تھے اور رنج تخلص کیا کرتے تھے۔
خواجہ رنج صاحب کو بھی فنِ موسیقی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ہمت خان گویّا جو دہلی کا ممتاز ترین گویہ تھا اپنا گانا بغرض اصلاح حضرت رنج کو سنایا کرتا تھا۔
خواجہ محمد نصیر صاحب نے خواجہ میردرد صاحب کے خاندان کے مفصل حالات پر ایک کتاب لکھی تھی جو افسوس ہے غدر ۱۸۵۷؁ء میں تلف ہو گئی۔
خواجہ محمد نصیر کی وفات ۲ شوال کو ۱۲۶۱ ؁ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات پر مومن خان نے یہ تاریخ لکھی۔
شیخِ زمان شد ز دہر روزپئے سال وفات
فکر بلندم رہ جنت ماویٰ گرفت
گفت بمومن ملک خواجہ محمد نصیر
در قدم ناصر و درد نِکوجا گرفت
ان کی عمر بہتر۷۲ سال کی ہوئی۔ آپ خواجہ صاحب میر اپنے ماموں کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کے اشعار میں سے ایک شعر بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔
خط دیکھ کر ادھر تو میرا دم اُلٹ گیا
قاصد ادھر بدیدہ پرنم اُلٹ گیا
خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی اولاد
آپ کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے ایک لڑکا خواجہ سیّد ناصر جان اور دختر بی نصیرہ بیگم صاحبہ دو ہی اولادیں ہوئیں۔ دوسری بیوی سے دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں ایک کا نام اشرف النساء بیگم صاحبہ اور دوسری کا انجمن النساء بیگم صاحبہ تھا ۔
خواجہ سیّد ناصر جان
خواجہ سیّد ناصر جان جو آپ کے صاحبزادے تھے کی شادی خواجہ میر درد صاحب کی پوتی امانی بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی۔ میر ناصر جان بھی شاعر تھے اور اپنا تخلص محزون ؔ کرتے تھے۔ آپ کو فنِ ریاضی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ یہ علم آپ نے نواب فرید الدین احمد خان صاحب ہمدانی دہلوی سے حاصل کیاتھا۔ آپ اسی فن ریاضی کی وجہ سے سرکار کمپنی کے بعض حکام کی نظروں میں بہت معزز تھے اور انہوں نے آپ کو گڑینی میں منصف مقرر کرا دیا تھا۔ جہاں وہ ۱۳ جنوری ۱۸۴۶؁ء مطابق ۲رمضان ۱۲۴۹؁ھ میں فوت ہو گئے۔
ان کا خیال تھا کہ میں اپنے بزرگوں کی سب کتابیں خود شائع کروں گا چنانچہ آپ نے اس غرض کے لئے ایک مطبع بھی خرید لیا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ ان کی شاعری کے نمونہ کے لئے ایک شعر یہاں درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
نہ تو نامہ ہی نہ پیغام زبانی آیا
حیف محزونؔ تجھے یارانِ وطن بھول گئے۔
آپ کی لاش وہاں سے دہلی لائی گئی اور خاندانی قبرستان میں دفن کی گئی۔
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ کی شادی نواب خان دوران خان صاحب کے پوتے میرہاشم علی صاحب کے ساتھ ہوئی جو ایک صحیح النسب سیّد تھے۔
خواجہ میر ناصر امیر صاحب
ان کے بطن سے ایک صاحبزادے خواجہ ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے اور ایک دختر فرحت النساء بیگم پیدا ہوئیں۔ میر ناصر امیر صاحب کی شادی میربھکاری صاحب کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ جن کا نام سعیدہ بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادہ پیدا ہوئے۔ جن کا نام سیّد ناصر وزیر تھا۔ خواجہ ناصر امیر صاحب نے ایک اور شادی بھی کی تھی جو میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ ان محترمہ کا نام بی بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے وہ عظیم الشان بزرگ پیدا ہوا جو اس مقدس امانت کو جو بخارا سے لائی گئی تھی۔ اپنی صُلب میں اٹھائے ہوئے تھا اور سلسلہ بسلسلہ یہ امانت منتقل ہوتی آئی تھی اور انقلاب آفرین زمانہ میں شاید خدا نے اس کے طفیل سے اس خاندان کو محفوظ رکھا۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،آپ کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ جن کے نام رفعت النساء بیگم صاحبہ اور انجمن آراء بیگم صاحبہ تھے۔ پہلی کی شادی قصبہ جلیسر میں پیرجی بشیرالدین صاحب سے ہوئی اور دوسری کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب ولد مولوی عبدالقیوم صاحب دہلوی سے ہوئی جو شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی کے نواسے تھے اور بھوپال میں رہتے تھے۔
سیّد محمد نصیر کی وفات کے بعد پھر خلافت کا مسئلہ اٹھا کیونکہ ان کے بیٹے تو پہلے ہی فوت ہو چکے تھے اس لئے مشورہ کے بعد یہ قرار پایا کہ بی امانی بیگم سے پوچھا جائے جو خواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ تما م مشایخ ڈیوڑھی پر جمع ہوئے اور یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’جس رتبہ کے بزرگ خواجہ میردرد صاحب اور میراثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں کوئی نظر نہیں آتا۔ اگر تھے تو میرے شوہر مولوی ناصر جان مگر وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ اب رسمی سجادہ نشین باقی رہ گئے ہیں۔ وہ میں اپنے داماد کو دلوانی نہیں چاہتی۔ میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ گدی پر بٹھا دیئے جائیں۔‘‘
چنانچہ بی امانی بیگم کے اِس ارشاد کو سب نے قبول کیا اور خواجہ ناصر امیر خلیفہ منتخب ہو گئے اور یہاں سے خلافت اور درویشی اور طریقہ محمدیہ کا سلسلہ منتقل ہو کر بالکل ایک دوسرے خاندان میں آ گیا جو ماں کی طرف سے حضرت خواجہ میردرد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خانِ دوران کا خاندان تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی پوتی بی امانی بیگم کا ارشاد قابل غور ہے کہ انہوں نے کس اخلاص سے امرِ خلافت کا فیصلہ فرمایا اور جو حقدار تھا اسی کا نام لیا یعنی جس میںاہلیت تھی اور یہ منشاء الٰہی کے ماتحت ہوا کیونکہ آخر یہ خلافت محمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں ختم ہو جانے والی تھی اس کا ظہور ابتدائی اس رنگ میںہوا۔ پہلا انتقالِ خلافتِ محمدیہ باپ کے سلسلہ میں منقطع ہو کر بیٹی کے خاندان میں چلا گیا اور حضرت ناصر امیر پر ختم ہو گیا اس سلسلہ میں وہی آخری خلیفہ تھے۔
اس لئے قبل اس کے کہ ہم نواب خانِ دوران کے خاندان کا ذکر کریں ہم خواجہ میردرد کے خاندان کے ذکر کو ختم کر دیتے ہیں اور مختصر سا شجرہ نسب شامل کر دیتے ہیں تاکہ یکجائی طور پر نظر ڈالی جا سکے۔
اگرچہ ایک رنگ کی خلافت بعد میں بھی جاری رہی اور ہے مگر یہ صرف عرس وغیرہ کرانے کے لئے ہے چنانچہ خواجہ ناصر امیر کے بعد ان کے بیٹے ناصر وزیر خلیفہ ہوئے اور اب بھی ناصر عزیز خلیفہ ہیں۔

ء…ء…ء













شجرہ نسب حضرت خواجہ میر درد صاحب
و حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب
نمبر۱

۱
خواجہ میر درد

بن
۲
خواجہ محمد ناصر

بن
۳
نواب روشن الدولہ

بن
۴
خواجہ فتح اللہ خان

بن
۵
خواجہ محمد طاہر

بن
۶
خواجہ عوض بخاری

بن

خواجہ سلطان احمد

بن
۸
خواجہ میرک

بن
۹
سلطان احمد ثانی

بن
۱۰
خواجہ قاسم

بن
۱۱
خواجہ شعبان

بن
۱۲
خواجہ عبداللہ

بن
۱۳
خواجہ زین العابدین

بن
۱۴
حضرت بہائوالدین نقشبند

بن
۱۵
خواجہ عبداللہ بخاری

بن
۱۶
خواجہ جلال الدین بخاری

بن
۱۷
سید کمال الدین بخاری

بن
۱۸
سید حسین ملقب بہ محبوب

بن
۱۹
سید حسین اکبر

بن
۲۰
سید عبداللہ

بن
۲۱
سید فخر الدین

بن
۲۲
سید یلاق

بن
۲۳
سید محمود اعلیٰ

بن
۲۴
سید حسین مقبول

بن
۲۵
سید حسین محمد تقی

بن
۲۶
سید حسین محمدنقی

بن
۲۷
سید عبداللہ

بن
۲۸
سید جامع

بن
۲۹
سید علی اکبر

بن
۳۰
امام حسن عسکری

بن
۳۱
امام علی تقیؓ

بن
۳۲
امام علی نقیؓ

بن
۳۳
امام موسیٰ رضا

بن
۳۴
امام موسیٰ کاظم

بن
۳۵
امام جعفرؓ

بن
۳۶
امام باقرؓ

بن
۳۷
امام زین العابدین

بن
۳۸
امام حسینؓ

بن
۳۹
حضرت علیؓ

بن
۴۰
ابوطالبؓ

اس طرح انتالیسویں پشت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ یہ شجرہ تفصیلات کا حامل نہیں ہے۔

شجرہ نمبر۲
حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب

















نوٹ: حضرت میر ناصر نواب صاحب سے جو نسل چلی اس کا نقشہ دوسری جگہ دیا جائے گا۔

توضیح
۱۔ بی بی زینت النساء بیگم صاحبہ جو حضرت خواجہ میردرد کی دوسری بیٹی تھیں وہ شاہ محمد نصیر کی والدہ تھیں اور شاہ محمد نصیر کے نواسہ ناصر امیر تھے جن کے دو بیٹے ہوئے ایک ناصر وزیر اور دوسرے حضرت میرناصر نواب صاحب جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر اور آپؑ کی اولاد کے نانا ہونے کا فخر حاصل ہوا اور جن کے وجود باجود کے ذریعہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیھا السلام کا وجود دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں خُدَیْجَتِیْ فرمایا اور آپ کو نعمت عظمیٰ قرار دیا جس کی تصریحات اپنے مقام پر آئیں گی۔
۲۔ خواجہ میردرد کا جو خاندان کہلاتا ہے وہ ان کی بیٹیوں سے ہی چلا ہے کیونکہ خواجہ میر درد کے بیٹے ضیاء الناصر سے کوئی نرینہ اولاد نہیں چلی۔
۳۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے دُدھیال کے خاندان کا جو شجرہ ہم کو دستیاب ہو سکا وہ نواب خانِ دورانِ خان منصور جنگ سے شروع ہوتا ہے اوپر مورثانِ اعلیٰ حضرت علاؤ الدین عطارؒ نقشبندی ہیں۔
۴۔ نواب خانِ دوران منصور جنگ کے ناناعزیز میرزا گوکلتاش تھے جو افواجِ مغلیّہ میں شاہنشاہ اکبر کے زمانہ سے افواج مغلیّہ کے کمانڈرانچیف تھے اور ان کو خانِ زمان کا خطاب بھی تھا اور تاریخ ہند میں ان کے ذکر سے صفحات کے صفحات پُر ہیں۔
۵۔ نواب خانِ زمان کے چھوٹے بھائی نواب اعظم خان تھے جو خود بھی افواج مغلیّہ کے ارکان حرب میں سے تھے اور تاریخ ان کے ذکر کو بھی محفوظ رکھنے پر مجبور ہے۔
۶۔ نواب خانِ دوران کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام مظفر خان تھا۔ جو صوبہ دار گجرات بھی رہ چکے تھے۔ اور بعد میں افسر بارودخانہ مقرر ہو گئے تھے۔ ان کے عہدہ کا نام میرآتش تھا۔ دوسرے بھائی خواجہ جعفر تھے جو درویشی کے رنگ میں تھے۔ تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
۷۔ نواب خانِ دوران کے زمانہ میں ارکان حرب حسب ذیل تھے۔
الف ۔ صمصام الدّولہ امیرالامراء نواب خانِ دَوران۔ منصور جنگ بخشی اوّل
ب۔ نواب اعتماد الدّولہ معزالدین خان۔ بخشی دوم
ج۔ نواب روشن الدّولہ رستم جنگ۔ بخشی سوم
د۔ سیّد صلابت خان۔ بخشی چہارم
حوالہ جات

۱؎ حیات النبی حصہ اوّل صفحہ۷۲،۷۳
۲؎ بیانِ واقع
۳؎ تذکرہ صفحہ ۲۱،۲۲ بحوالہ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۰۳ حاشیہ در حاشیہ
۴؎ تذکرہ صفحہ ۲۲،۲۳ کتاب البریہ صفحہ ۱۶۴تا ۱۶۷
۵؎ تذکرہ صفحہ۷۶،۷۷ و براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۰۲،۵۰۳
۶؎ میخانہ درد صفحہ۱۲۸
۷؎ میخانہ دردصفحہ ۱۲۸
۸؎ نالہ عندلیب صفحہ۲
۹؎ آب حیات صفحہ۸۸
۱۰؎ آب حیات صفحہ۹۳
۱۱؎ حاشیہ آب حیات صفحہ۹۰
۱۲؎ نالہ عندلیب صفحہ۳
۱۳؎ نالہ عندلیب صفحہ۶
۱۴؎ نالہ عندلیب صفحہ۶،۷
۱۵؎ میخانہ درد صفحہ ۹۲
۱۶؎ دیکھو تذکرہ شعرائے ہند مصنفہ میر حسن دہلوی (مصنفہ مولوی حبیب الرحمن شروانی انجمن ترقی اردو
۱۷؎ تذکرہ صفحہ۳۸
۱۸؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۷
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ ۱۲۵ تا صفحہ۱۲۸
۲۰؎ درثمین
۲۱؎ خطبہ الہامیہ صفحہ۱۷۱
۲۲؎ تذکرہ صفحہ۱۹۴ و صفحہ۱۹۶ و آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۶۴ تا ۵۶۶
۲۳؎ تذکرہ صفحہ۶۴
۲۴؎ میخانہ درد صفحہ۱۵۰
۲۵؎ میخانہ درد صفحہ ۱۵۳




















امیر الامراء صمصام الدّولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ کمانڈرانچیف افواج مغلیّہ








حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا جدّی خاندان
اس وقت تک ہم نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ننھیال کے خاندان کا ذکر کیا تھا اب ہم آپ کے ددھیال کا مختصر ذکر کریں گے۔
نواب خانِ دَوران
حضرت میر ناصرنواب صاحب کے جدی بزرگوں کا سلسلہ خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اس سلسلہ کی درمیانی کڑیوں کی مَیں تلاش نہیں کر سکا۔ مگر اس سلسلہ میں سب سے قریب کے زمانے میں جس نامور بزرگ کا پتہ چلتا ہے وہ نواب خانِ دَوران ہیں۔ نواب خانِ دَوران کا اصلی نام خواجہ محمد عاصم تھا اور ان کے والد کا نام خواجہ محمد قاسم تھا مگر تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب جلد دہم مطبوعہ ۱۸۹۸؁ء کے صفحہ ۹۵ پر ان کا اصلی نام خواجہ حسن خان لکھا ہے مگر میرا خیال ہے کہ خواجہ محمد عاصم زیادہ درست اور صحیح نام معلوم ہوتا ہے اور سیرالمتاخرین جلد۲ صفحہ۱۱ پر خواجہ عاصم ہی نام لکھا ہے۔ مغلیّہ سلطنت میں سادات کرام کو فوج میں بڑے مناصب بآسانی مل جایا کرتے تھے۔ تاریخی کاغذات اور قلمی وثائق کے غدر ۱۸۵۷ء؁ میں گم ہو جانے سے بہت سی قیمتی اور تاریخی معلومات دنیا سے ناپید ہو گئیں۔
اس لئے ہمارے لئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوگا کہ یہ خاندان جو حضرت علاء الدین عطارؒ کا خاندان تھا، کب واردِ ہند ہوا۔ مگر قرائن اس قدر بتلاتے ہیں کہ سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت علائو الدین عطار خواجہ محمد ناصر سے گیارہ پشت اُوپر کے بزرگوں میں سے ہیں۔ اس طرح خواجہ میر درد کے خاندان کو حضرت عطارؒ سے تعلق ارادت تھا۔ پھر سلسلہ نسب میں دونوں خاندانِ سادات میں سے تھے۔ اس لئے قیاس یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ تعلق رشتہ داری پہلے سے چلا آتا ہوگا۔ لیکن تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ نواب خانِ دَوران کے نانا جو پہلے اکبر پھر بہادر شاہ اور پھر عزیز میرزا گوکلتاش معزالدین جہاندار شاہ کے زمانے میں فوج کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ معز الدین جہاندار شاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل تھا اور جو چاہتے تھے کرتے تھے اور جو چاہتے تھے بادشاہ سے کراتے تھے۔ گوکلتاش خان اُن کا خطاب تھا اور وہ اسی نام سے مشہور تھے۔ چنانچہ مولوی ذکاء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’بادشاہ کا ایمان تھا کہ وہ گوکلتاش خان کی خاطر داری کرے۔ اس لئے وہ ذوالفقار خان کی کچھ نہ سنتا تھا‘‘۔ ۱؎
اسی طرح سیر المتاخرین نے بھی لکھا ہے کہ معز الدین جہاندار شاہ نے گوکلتاش کو خانِ جہان کا خطاب دیا تھا اور اس پر جو اعتماد تھا اس میں روز بروز اضافہ کرتا جاتا تھا۔ ۲؎
خان جہان گوکلتاش کو بادشاہ کسی وقت اپنے سے الگ نہیں کرتا تھا اس لئے جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے کے لئے آیا تو اس وقت ۱۲/ ذیقعدہ ۱۱۲۴؁ھ دوشنبہ کی شب کے دو بجے جہاندار شاہ شاہجہان آباد سے لڑنے کے لئے اکبر آباد کی طرف روانہ ہوا۔ ہراول کی فوج کا افسر ذوالفقار خان تھا۔ گوکلتاش خان جہاندار کے ساتھ تھا۔ ستر اسّی ہزار فوج ساتھ تھی۔ ۳؎
فرخ سیر اور جہاندار شاہ کی جنگ
۱۴/ ذی الحج کو میدانِ جنگ میں دونو طرف کی فوجیں جم گئیں۔ خانِ جہان بمع اعظم خان و جانی خان ہمراہیان کے دستِ راست پر تھے۔ اُن کے مقابل پر خانِ زمان اور جھیلہ رام ٹھاکر صف آرا ہوئے۔ ۴؎
جنگ نے نازک صورت اختیار کر لی خانِ جہان جہاندار شاہ کی طرف جا رہے تھے کہ خان زمان اور جھیلہ رام کمین گاہ سے نکل کر حملہ آور ہوئے اور خانِ جہان کو مجروح اَور بے دست وپا کر دیا۔ ۵؎
چونکہ تاریخ میں اس واقعہ کے بعد خانِ جہان کا ذکر نہیں آتا۔ اس لئے اغلب خیال ہے کہ وہ زخموں سے چور ہو کر مر گئے۔ مَیں لکھ چکا ہوں کہ خانِ جہان کے ساتھ جو افسرانِ فوج اعظم خان اور جانی خان تھے۔ اعظم خان کے متعلق سیرالمتاخرین کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ گوکلتاش خان کے بھائی تھے۔ ۶؎ وہ بھی اِس جنگ میں زخمی ہو کر مارے گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دیگر عزیز رشتہ دار اکبر و بہادر شاہ کے زمانے یا اس سے بھی پہلے سے حکومت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز تھے۔ بادشاہانِ وقت کو ان پر پورا پورا اعتماد تھا اور باوجود اس کے کہ وہ زمانہ وساوسں اور فتنہ سازی کا زمانہ تھا۔ مگر ان لوگوںکا مقام اس قدر مضبوط تھا کہ ان کو کسی قسم کا خطرہ کبھی دامن گیر نہ ہوا۔
خانِ دَوران خان
اغلباً بہادر شاہ کے زمانہ میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اُن کے ابتدائی مناصب کا علم نہیں۔ جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے آیا۔ اُس وقت خانِ دَوران کا منصب پنج ہزاری تھا۔ معز الدین جہاندار شاہ نے اُس وقت خانِ دَوران کا منصب بڑھا کر ہفت ہزاری بنا دیا نیز جب تک وہ پنج ہزاری تھے۔ اُس وقت تک وہ اپنے اصلی نام ہی سے یاد کئے جاتے تھے۔ مگر ہفت ہزاری ہونے کے ساتھ ہی اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا۔
میرا خیال یہ ہے کہ چونکہ اُن کے نانا جو ابھی زندہ تھے اور ان کو خانِ جہان کا خطاب تھا اس لئے اسی مناسبت سے اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا اور اپنے شاہزادے کا بھی اُن کو مربی تجویز کیا اور تمام فوج اور توپ خانے کا اختیار دیا گیا۔ ۷؎
اگرچہ خان جہان مر گیا۔ مگر خانِ دَوران کا ڈنکہ بدستور بجتا رہا۔ خانِ دَوران خان متعدد لڑائیوں میں لڑتا رہا۔ مگر جہاندار شاہ کو شکست ہوئی اور اس شکست کا اصل سبب بدنظمی اور افسران کی بد اعتمادی تھی۔ اس کے نتیجہ میں فرخ سیر بادشاہ ہو گیا۔فرخ سیر نے اپنے وفاداروں کو نئے منصب اور خطابات دیئے۔ چنانچہ سیّد عبداللہ خان قطب الملک یار وفادار ظفر جنگ کا خطاب ملا۔ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار، دواسپہ سہ اسپہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ دی گئی۔ سیّد حسین علی خان کو امیر الامراء بہادر فیروز جنگ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار کا منصب اور میر بخشی محمد امین خان کو اعتماد الدولہ کا خطاب ہزاری ہزار کا منصب نظام الملک فتح جنگ کا خطاب اور دکن کا صوبہ دار مقرر کیا۔
قاضی عبد اللہ تورانی کو خانخاناں میر جملہ کا خطاب، ہفت ہزاری اور ہفت ہزار سوار کا منصب ملا۔ ۸؎
اس سلسلہ میں جہاندار شاہ کے مقربین نے بھی کسی نہ کسی طرح عذر معذرت کر کے رسوخ حاصل کیا۔ چنانچہ نواب خانِ دَوران کو صمصام الدولہ خانِ دَوران کا خطاب عطا ہوا اور منصب ہفت ہزار شش ہزار سوار عطا ہوا۔ ۹؎
فرخ سیر کے زمانے میں بھی صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران خان کا ستارہ عروج پر چڑھتا چلا گیا۔ بادشاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل ہوا۔ ۱۱۴۹؁ہجری ۸/ذیقعدہ بروز یک شنبہ کا تقرر باجی رائو مرہٹہ کی سرکوبی کیلئے ہوا اس وقت ان کے خطابات میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور وہ امیرالامراء اور منصور جنگ کے گراں قدر خطابات کے حامل ہو چکے تھے اور اب ان کا نامِ نامی اس طرح لکھا جاتا تھا۔ امیر الامراء صمصام الدولہ خانِ دَوران خان بہادر، منصور جنگ اس وقت نواب خانِ دَوران کی یہ عظمت تھی کہ وہ بادشاہ کے علم کے بغیر گورنروں تک کے عزل و نصب کے احکام جاری کر دیتے تھے۔ ۱۰؎
امیر الامراء کے معاصرین
امیر الامراء کا لقب معمولی لقب نہ تھا اور یہ ہر کس و ناکس کو نہیں دیا جاتا تھا۔ قطب الملک، نظام الملک، آصف جاہ اوّل جیسے بڑے بڑے عمائدین نواب خانِ دَوران کے معاصرین میں سے تھے۔ اس زمانہ میں نواب روشن الدولہ رستم جنگ بھی ان کے معاصرین میں تھے جو خواجہ میر درد کے بزرگوں میں سے تھے۔ نواب روشن الدولہ کا تذکرہ مَیں پہلے کر چکا ہوں۔ مگر یہاں صمصام الدولہ کے ذکر کے ساتھ اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ نواب روشن الدولہ افسر خزانہ تھے۔ کابل کے محاصیل جو بارہ لاکھ سالانہ تھے اُنہی کے پاس آتے تھے۔نواب روشن الدولہ کے گرانے کیلئے ان کے دشمن سازشیں کرتے رہتے تھے۔ آخر فرخ سیر کے دل میں بھی شک پیدا ہوا تو اس نے روشن الدولہ سے چارج لینے کا کام بھی صمصام الدولہ کے سپرد کیا اور اس طرح روشن الدولہ کے بعد اُن کو افسر خزانہ اور افسر محاصیل افغانستان بھی مقرر کر دیا گیا۔ ۱۱؎
فخر الدولہ صوبہ دار عظیم آباد پٹنہ
فخر الدولہ جو نواب روشن الدولہ رستم جنگ کا حقیقی بھائی تھا، بھی حکومت مغلیّہ میں بڑا بااثر شخص تھا۔ وہ صوبہ عظیم آباد پٹنہ کا گورنر تھا۔ اس زمانہ کی گورنری ایک مطلق العنان بادشاہ سے کم نہ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ جب کہ وہ اپنے علاقہ حکومت سے آیا ہوا تھا اس نے خواجہ معتصم سے کوئی ایسا سلوک کیا جو اُسے ناگوار گزرا۔ خواجہ معتصم ایک باشان و شوکت انسان تھا۔ مگر وہ فقراء اور مشائخ کے رنگ میں رنگین تھا۔ یہ نواب صمصام الدولہ کا بھائی تھا۔ اس نے اپنے بھائی صمصام الدولہ سے اس بے ادبی کا ذکر کیا جسے سن کر صمصام الدولہ اس قدر برہم ہوا کہ فخر الدولہ کو وہاں سے بدل دیا گیا۔ ۱۲؎
اس سے بآسانی اِس امر کا پتہ چل سکتا ہے کہ اُس وقت صمصام الدولہ کی کیا طاقت تھی اور اُسے بادشاہ کی طبیعت میں کس قدر دخل تھا۔
مظفر خان میر آتشی
۱۱۳۸؁ ہجری میں مظفر خان صاحب جو نواب خانِ دَوران کے بھائی تھے کو میر آتشی یعنی بارود خانہ کی افسری کا عہدہ سرفراز کیا گیا۔ ۱۳؎ ۱۱۴۶ ؁ہجری میں مرہٹوں نے گجرات اور مالوہ کے صوبوں کو تسخیر کر لیا تھا۔ اُن کی سرکوبی کیلئے مظفر خان میر آتشی کو بھیجا گیا۔ بائیس امیر مع سپاہ کے ساتھ تھے۔ مگر مرہٹوں نے کسی جگہ مظفر خان کے لشکر سے جنگ نہ کی۔ ۱۴؎ بالآخر اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے ۷/ذیقعدہ ۱۱۴۹؁ہجری میں صمصام الدولہ خود تیس چالیس ہزار سوار مع توپ خانہ کے گئے اور ہندوستان کے بعض عمدہ راجے بھی ہمراہ تھے۔ بادشاہ کے حضور صمصام الدولہ کی اس قدر عزت تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف کسی کی بات نہ سنتا تھا اور جو بادشاہ کے دل میں آتا، اُسے لکھ بھیجا کرتا تھا۔ ۱۵؎
محمد شاہ کا زمانہ
فرخ سیر کا زمانہ بھی گذر گیا۔ اب محمد شاہ کا زمانہ آ گیا۔ مگر نواب خانِ دَوران ابھی تک بدستور کمانڈر انچیف افواجِ مغلیّہ تھا۔ محمد شاہ بھی اُن کی ہر ایک بات مانتا تھا۔ حتیّٰ کہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ تاریخ کی عام کتابوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نادر شاہ کا مقابلہ کرنال کے قریب خانِ دَوران خان سے ہوا مگر ایک کتاب جس کا نام ہی نادر شاہ ہے اور ۱۷۴۳؁ء میں لنڈن میں طبع ہوئی تھی اور اب بالکل نادر ہے اس کا ایک نسخہ مَیں نے جناب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدرآباد دکن کی لائبریری میں دیکھاتھا جس میں لکھا ہوا ہے کہ خانِ دَوران نے نادر شاہ کا دو دفعہ مقابلہ کیا۔ ایک تو جب کہ وہ کابل سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا۔ اٹک میں اس سے جنگ ہوئی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔
دوسرے جب نادر خان دہلی کے قریب آ گیا تو خانِ دَوران خان اپنے دو بیٹوں سمیت کرنال کے قریب اس سے لڑنے کیلئے نکلا۔ دہلی کے تمام عمائدین اُس وقت اپنے حوصلے ہار چکے تھے۔ اطلاع آئی کہ چند قزلباش برہان الملک کے ڈیروں پر ہاتھ مار گئے۔ یہ سن کر برہان الملک تلوار ٹیک کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ:
’’صاحب اب کونسی بات باقی ہے جس کا انتظار کیا جائے‘‘
اُسی وقت فوج لے کر لڑنے کو روانہ ہوا۔ نواب خانِ دَوران نے اس واقعہ کی اطلاع بادشاہ کو دی۔ انہوں نے آصف جاہ اوّل کو خبر کی۔ آصف جاہ نے کہا پہر دن باقی ہے۔ اس لئے برہان الملک کو روکنا چاہئے کیونکہ اُن کا لشکر منزلیں مارتا ہوا آیا ہے۔ اس وقت بے موقع جرأت کرنی مناسب نہیں۔ کل توپخانہ سامنے رکھ کر اور سب لشکر کو ترتیب دے کر بندوبست سے لڑیں۔ بادشاہ نے یہی بات خانِ دَوران کو کہلا بھیجی۔ خانِ دَوران سنتے ہی بِگڑ کر اُٹھ بیٹھا اور کہا کہ بڑے حیف کی بات ہے۔ ایسا جوانمرد سردار آقا کے نمک پر نثار ہونے جائے اور ہم پہلو میں بیٹھے اس کے مرنے کا تماشا دیکھا کریں۔ اُسی وقت ہاتھی پر سوار ہو کر فوج لے کر روانہ ہوا۔ نادر خان کی فوج سے جنگ ہوئی۔ خانِ دَوران زخمی ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام ڈیرے خیمے لٹ گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی تو بادشاہ کی طرف سے خواجہ سراء آئے اور آصف جاہ وغیرہ امراء عیادت کو آئے۔ خانِ دَوران خان نے آنکھ کھولی اور کہا:
’’ہم نے تو اپنا کام کر لیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ مگر کہتے ہیں کہ بادشاہ کو نادر کے پاس اور نادر کو شہر میں نہ لے جانا‘‘۔ ۱۶؎
سیرالمتاخرین کے مصنف نے اس سارے واقعہ پر اس قدر اضافہ کیا ہے کہ اُس کا بھائی مظفر خان اور اُس کا بڑا لڑکا بھی اس جنگ میں تھا۔ ملاحظہ ہو صفحہ۱۰۷ جلد۲ نادر شاہ مطبوعہ لنڈن میں خانِ دَوران خان کے دو لڑکوں کا ذکر ہے۔
تاریخ اسلام مصنفہ ذاکر حسین جعفر مطبوعہ ۱۳۴۴ ؁ہجری نے صفحہ۱۴۹ میں لکھا ہے کہ نادر شاہ سے صمصام الدولہ کی فوجوں کی جنگ ۱۷۳۹؁ء میں کرنال پر ہوئی۔ یہ مختصر سے واقعات اُن لمبے واقعات سے لئے گئے ہیں تا کہ یہ بتلایا جا سکے کہ نواب خانِ دَوران اپنے زمانہ میںکس پایہ کے آدمی تھے۔ وہ فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ وہ خزانہ کے افسر اعلیٰ تھے۔ ان کا سارا خاندان نانا، بھائی، بیٹے وغیرہ فوج میں سربرآوردہ عہدوں پر فائز تھے۔ وہ ہر وقت حکومت وقت کے لئے فدا کارانہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سلطنت کی مضبوطی کی کوشش کی۔ اُن کے دروازوں پر ہاتھی جھومتے تھے۔ سونے چاندی کی نہریں اُن کے محلات میں بہا کرتی تھیں۔ نوکر چاکر، خدم حشم سب کچھ موجود تھا اور کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دو ہی بیٹے تھے۔ بڑے کا نام قمر الدین خان تھا جو محمد شاہ کا وزیر اعظم تھا اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا جو شاہی محلات کا داروغہ تھا۔ احتشام علی خان کا ذکر مسٹر جیمس فریزر نے اپنی کتاب موسومہ نادر شاہ میں احتشام خان کے نام سے کیا ہے اور امیر الامراء کا خطاب جو اُس وقت سلطنت کے سب سے بڑے آدمی کو حاصل تھا، اس خاندان سے نکل کر نواب آصف جاہ اوّل کی طرف منتقل ہو گیا اور بالآخر یہ خطاب ہی سلطنت کی تباہی کا باعث ہوا۔ بُرہان الملک کو امید تھی کہ یہ خطاب مجھے ملے گا۔ مگر جب آصف جاہ اوّل کو مل گیا تو برہان الملک نے وہ کچھ کیا جو غدّاری کے مفہوم میں داخل ہو گیا۔
آخری واقعہ نواب خانِ دَوران کا اس شجاعت اور بہادری کا ثبوت دیتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس کی غیرت نے پسند نہ کیا کہ وہ برہان الملک کی فوج کو موت کے منہ میں جھونک دے۔ وہ خود مٹ گیا مگر اپنے خون سے تاریخ میں یہ ثبت کر گیا۔
ثبت است برجریدۂ عالَم دوامِ ما
صمصام الدولہ دن کو ایک بہادر سپاہی تھا اور رات کو اس کی مجلس میں علماء حکماء، شعراء جمع ہوا کرتے تھے۔ وہ خود بھی شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ فرخ سیر بادشاہ کے سامنے آئینہ تھا اور وہ بار بار آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے۔ نواب خانِ دَوران خان نے فی البدیہہ ایک غزل کہی جس کا مطلع ہے۔
سحر خورشید لرزاں برسہ کوئے تو می آید
دلِ آئینہ را نازم کہ بر روئے تو می آید
الغرض اس طرح امیر الامراء صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ ایک لمبی مدت تک اپنی حکومت، اپنی صولت و جاہ اپنی شوکت و طاقت و حکومت کا چار دانگِ عالم میں دُہل بجوا کر ۱۱۵۰؁ہجری راہے ملکِ بقا ہوئے۔ دہلی میں اُن کی یادگا ایک شاندار مسجد ہے۔ اُسی کے ایک پہلو میں اُن کا مرقد بنا ہوا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
میر ہاشم علی صاحب
مَیں لکھ چکا ہوں کہ نواب خانِ دَوران نادر شاہ کی جنگ میں مار ے گئے اُن کے ساتھ اُن کے بھائی مظفر خان اور اُن کے دو بیٹے بھی اس جنگ میں لڑ رہے تھے۔ جن میں سے بڑے کا نام قمر الدین خان اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا۔ احتشام علی خان کے بیٹے میر ہاشم علی خان تھے… میر ہاشم علی صاحب غالباً کسی سرکاری منصب پر نہ تھے۔ باپ دادا کی جائیداد اُن کے گزارے کیلئے کافی ہوئی۔ غدر ۵۷ء؁ میں اُن کی عمر اسّی سال کی ہو چکی تھی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ:
’’دادا اسّی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی‘‘۔ ۱۷؎
میر ہاشم علی صاحب کی اولاد
میر ہاشم علی صاحب کے ایک صاحبزادے تھے جن کا نام خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب تھا۔ خواجہ سیّد ناصر امیر کی والدہ بی نصیرہ بیگم صاحبہ تھیں جو شاہ محمد نصیر صاحب رنج کی بیٹی تھیں۔ بی نصیرہ بیگم کے بطن اور میر ہاشم علی صاحب کی صُلب سے ایک صاحبزادی فرحت النساء بیگم اور ایک صاحبزادے یعنی سیّد ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے۔ فرحت النساء بیگم کی شادی حافظ منیرالدین صاحب سے ہوئی جو قصبہ جلیسر میں رہتے تھے۔ اُن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کا نام حاجی کبیر الدین احمد صاحب اور پیر جی بشیر الدین احمد صاحب ہے۔ یہ پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ اِن دونو حضرات کا بفضلہ سلسلہ نسل چل رہا ہے۔
سیّد ناصر امیر صاحب
سیّد ناصر امیر صاحب بن میر ہاشم علی صاحب کے جوان ہونے پر اُن کی پہلی شادی میر بھکاری صاحب کی دختر سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ یہ سعیدہ بیگم صاحبہ خواجہ محمد نصیر صاحب رنج کے نواسہ کی بیٹی تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک لڑکا سیّد ناصر وزیر پیدا ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے دوسری شادی میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے کی۔ اُن کا نام بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ بی روشن آراء بیگم کے متعلق خاندان کے تمام افراد یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے نام کی طرح روشن آراء ہی تھیں۔ وہ بڑی بزرگ اور مقدسہ خاتون تھیں۔ بڑی نیک بخت اور عبادت گذار تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک صاحبزادے جو ہمارے واجب الاحترام بزرگ ہوئے، پیدا ہوئے۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ ان کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ ایک کا نام رفعت النساء بیگم صاحبہ تھا جن کی شادی حافظ منیر الدین صاحب کے صاحبزادے پیر جی بشیر الدین صاحب سے قصبہ جلیسر میں ہوئی اور دوسری صاحبزادی کا نام بی انجمن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ اُن کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب بن مولوی عبدالقیوم صاحب سے ہوئی جو شاہ محمد اسحاق صاحب محدث کے نواسے تھے اور بھوپال میں سکونت پذیر تھے۔
خواجہ ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی
جب خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی وفات ہوگئی تو مسئلہ سجادہ نشینی بہت پیچیدہ ہو گیا۔ خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کے بیٹے مولوی سیّد ناصر جان اُن کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ بالآخر تمام مشائخ بارہ دری میں جمع ہوئے اور مشورے کے بعد طَے ہوا کہ بی امانی بیگم صاحبہ کیونکہ امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی اورخواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ ان سے استصواب کیا گیا۔ یہ مولوی سیّد ناصر جان کی بیوہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ :
’’جس رُتبہ کے بزرگ خواجہ میر درد صاحب، خواجہ میر اثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر صاحب تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں مجھے کوئی نظر نہیں آتا۔ میرے شوہر تھے وہ تو رحلت کر گئے ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ کو گدی پر بٹھا دیا جائے‘‘۔
چنانچہ اس مشورے کے ماتحت سب مشائخ نے سیّد ناصر امیر صاحب کو سجادہ نشین تسلیم کر لیا۔ اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھر میں جو نور آیا تھا وہ منتقل ہو کر منشاء الٰہی کے ماتحت سیّد ناصر امیر صاحب کے گھر میں آ گیا۔
سیّد ناصر امیر صاحب کی گدی نشینی کی مخالفت
شاہ محمد نصیر صاحب کی ایک اور بیوی تھیں۔ جن کے بطن سے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کا نام تھا انجمن النساء اور اشرف النساء۔ انجمن النساء صاحبہ کی شادی حکیم مومن خان صاحب مشہور شاعر سے ہوئی۔ چونکہ حکیم مومن صاحب شاہ محمد نصیر صاحب کے داماد تھے اس لئے اُن کو سیّد ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی سخت ناگوار گزری۔ ان کاخیال تھا کہ وہ شاہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوتے۔ مگر وہ خود بھی اپنے آپ کو اس کا اہل خیال نہ کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے ہم زلف مولوی سیّد یوسف علی صاحب مدراسی کو آمادہ کیا۔ جمعہ کے دن ان کے گلے میں کفنی ڈالی اور ایک ناصری اُن کے کندھے پر رکھی جو خواجہ میر درد کے خاندان کی خاص علامت ہے اور اُن کو جامعہ مسجد میں لے گئے۔ جمہور مسلمانوں سے کہا گیا کہ یہ خواجہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوئے ہیں۔ مگر دلی کے لوگ ان کی طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہوئے اور یہ جادو بھی نہ چل سکا۔ ۱۸؎
اس ناکامی کے بعد حکیم مومن نے اپنی بیوی اور سالی کی طرف سے یہ دعویٰ کر دیا کہ بارہ دری اور اس کے متعلق تمام جائیداد ہماری ہے۔ اس مقدمہ بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ دری اور حجرہ یعنی خواجہ میر درد کا عبادت خانہ تو وقف ہو کر دعویٰ سے مستثنیٰ ہو گیا اور باقی جائیداد کا دعویٰ خارج ہو گیا کہ یہ تمام جائیداد خواجہ محمد نصیر کی نہیں بلکہ خواجہ میر درد کی متروکہ ہے البتہ خواجہ محمد نصیر صاحب کا چوتھائی حصہ تسلیم کیا گیا۔ اس مقدمہ بازی کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکیم مومن کی بیوی اور سالی کے مکانات مصارف مقدمہ میں بِک گئے۔
اب چوتھائی حصہ کے لئے پھر دعویٰ ہوا۔ اس میں مومن خان کو کامیابی ہوئی۔ خاندان کی جائیداد اِس مقدمہ میں تباہ ہو گئی۔ کئی مکانات نیلام ہو گئے اور اس طرح اس جائیداد کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
ناصری گنج کی طرف نظر
اب ان کی آنکھوں کے سامنے صرف ناصری گنج کی جائیداد تھی اس کے لئے مومن خان صاحب نے مولوی یوسف علی صاحب کو ناصری گنج بھیجا تا کہ میر عبدالناصر صاحب پر نالش کر کے وہاں چوتھا حصہ وصول کیا جائے۔ مگر میر عبدالناصر صاحب نے پہلے ہی بائیس کے بائیس گائوں اپنی بیوی کے نام مہر پر لکھ دیئے تھے۔ اس لئے وہاں جانا سوائے زیر باری کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکا۔ ہاں اس چھیڑ چھاڑ کا یہ نتیجہ ہوا کہ میر عبدالناصر صاحب جو روپیہ بی امانی بیگم صاحبہ اور دیگر حقداروں کو بھیجا کرتے تھے وہ بھی بندکر دیا اس لئے ان سب متعلقین کو تکلیف ہو گئی۔ اسی سلسلہ میں خواجہ ناصر امیر صاحب بھی ناصری گنج تشریف لے گئے تا کہ نالش کر کے اپنے حقوق حاصل کریں۔ مگر قضاء الٰہی کے ماتحت وہ ۱۶/ذوالحجہ ۱۲۷۰؁ ہجری مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴؁ء کو مرض ہیضہ میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے۔
خواجہ سیّد ناصر وزیر صاحب
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات کے بعد بی امانی بیگم کے مشورے سے سیّد ناصر امیر کے بڑے بیٹے ناصر وزیر صاحب کو گدی نشین کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے طریقہ محمدیہ کے علاوہ طریقہ مجددیہ نقشبندیہ اور سہروردیہ اور قادریہ کو بھی حاصل کیا۔ فقہ حدیث بھی پڑھی۔ خط نسخ، نستعلیق، شفیعہ، شکستہ و خط ناخن وغیرہ میں کمال حاصل کیا۔ مسجد میر درد کی تجدید کرائی۔ آپ نے عرسوں وغیرہ کو خوب ترقی دی۔ آپ ۱۲۹۸ ؁ہجری ماہ شعبان میں حج سے واپس آ کر مرض اسہال کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ سیّد ناصر وزیر کی شادی نواب امین الدین خان صاحب جاگیر دار لوہارو کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔
آپ کی اولاد
آپ کے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
سیّد ناصر خلیل عرف کلن، سیّد ناصر سعید عرف ابن، چھوٹے کا نام سیّد ناصر وحید تھا۔ یہ تینوں اصحاب بھی فوت ہوچکے ہیں۔ البتہ سیّد ناصر خلیل صاحب کے بیٹے سیّد ناصر جلیل صاحب گلبرگہ دکن میں ملازم ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔
سیّد ناصر وزیر صاحب کی تین صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی لڑکی جناب محی الدین صاحب کو بیاہی گئیں۔ وہ خود فوت ہو گئی ہیں۔ اُن کی اولاد موجود ہے۔ دوسری لڑکی مومن خان کے نواسہ سے بیاہی گئیں۔ یہ بھی صاحبِ اولاد ہیں۔ تیسری لڑکی کی شادی میرزا محمد سعید بیگ صاحب بن میرزا مہر علی بیگ صاحب ساکن کوچہ پنڈت دہلی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک لڑکی اور دو لڑکے پیدا ہوئے۔
آخری انجام
خواجہ ناصر وزیر کی وفات کے بعد خواجہ ناصر خلیل اور ناصر سعید میں جھگڑا ہو گیا۔ اس جھگڑے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواجہ میر درد صاحب کا عبادتخانہ جسے حجرہ کہتے تھے بِک گیا اور بارہ دری جو عبادت خانہ کے ساتھ وقف تھی مکان مسکونہ بنا لی گئی اور اس طرح مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ ہی وہ ظاہری آثار بھی گم ہو گئے اور اب اس بارہ دری میں ناصر سعید صاحب کی اولاد رہتی ہے۔ یہ حالات دیدۂ بینا کے لئے بہت کچھ حقائق اور بصیرت افروز امور اپنے اندر لئے ہوئے ہیں۔ کس شان و شوکت سے جس چیز کا آغاز ہوا تھا کیسا بھیانک اس کا انجام ہوا۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس خاندان کے لئے یہی مقدر تھا کہ اس کی روشنی اس نیر اعظم میں جس کا نام مسیح موعود علیہ السلام ہے گم ہو جائے گی۔ کاش! دنیا سمجھے اور سوچے اور عبرت پکڑے۔ خواجہ میر درد صاحب کی درگاہ کے ساتھ ایک بڑی شاندار باغیچی تھی یہیں اُن کا قبرستان بھی تھا اور عید گاہ بھی تھی۔ خواجہ میر درد اسی جگہ عید پڑھنے جایا کرتے تھے۔ قبرستان میں عام مسلمانوںکے مُردے بھی دفن ہوتے تھے۔ باغیچی سَو سال تک خوب بہار اور رونق پر رہی۔ ایک چلّہ خانہ بھی یہاں تھا جہاں صوفی لوگ چلّہ کشی کرتے تھے۔ اسی چلّہ خانہ کے اوپر بارہ دری بنی ہوئی تھی اس ساری زمین کو بڑی رونق تھی۔ لاکھوں بندگانِ خدا آتے تھے۔ ذکرِ الٰہی ہوتا تھا بادشاہ، امراء حاضر ہوتے تھے۔ مگر آج یہ سب کچھ ویران ہے۔ درخت کلہاڑوں اور آروں کی نظر ہوگئے۔ قبروں پر گائے، بیل چرنے لگے اور وہاں نہ کوئی عمارت رہی اور نہ کوئی رونق اور نہ درخت۔ وحشت اور ویرانگی چھا گئی۔ وہ محفلیں جو کل نظر آتی تھیں۔ آج اُن کی خاک اُڑتی بھی نظر نہیں آتی۔ یہ سب کیوں ہوا؟ تا کہ الٰہی نوشتے پورے ہوں۔ حضرت میر درد کا اپنا ایک شعر ہے جو اس ساری حالت پر گویا بطور پیشگوئی کہا گیا تھا خوب صادق آتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
گُزروں ہوں جس خرابہ پہ کہتے ہیں واں کے لوگ
ہے کوئی دِن کی بات یہ گھر تھا وہ باغ تھا ۱۹؎
حوالہ جات
۱؎ تاریخ ہند صفحہ۹۹، سیر المتاخرین صفحہ ۵۵
۲؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ ۳۸
۳؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۴۹
۴؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۱
۵؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۲
۶؎ تسیر المتاخرین صفحہ۵۳
۷؎ تاریخ ہند صفحہ۹۴، ۹۵ مصنفہ ذکاء اللہ، سیر المتاخرین صفحہ۳۸
۸؎ تاریخ ہند صفحہ۱۰۸ مصنفہ ذکاء اللہ جلد دہم۔ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۹؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۱۰؎ سیر المتاخرین صفحہ ۱۶ جلد۲
۱۱؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۲۲۵
۱۲؎ سیر المتاخرین صفحہ۱۲ جلد۲
۱۳؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۳۵
۱۴؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۳۶
۱۵؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۴۱
۱۶؎ سیر المتاخرین صفحہ۲۴۳۔ تاریخ ہند جلد دہم صفحہ۲۵۴
۱۷؎ حیات ناصر صفحہ۳
۱۸؎ میخانہ درد صفحہ۲۰۶
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ۲۴۲



















حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ










حضرت میر ناصر نواب صاحب
اب ہم اس بزرگ انسان کا ذکر کرتے ہیں جس کا وجود ان تمام برکتوں کا جامع تھا جو ایک طرف خواجہ میردرد کے گھرانے کو حاصل تھیںاور دوسری طرف خواجہ علائو الدین عطارؒ نقشبندی کے گھرانے کو حاصل تھیں یہ وہی بزرگ انسان تھا جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خسر کہلائے اور جس کی بیٹی کے لئے مقدر تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی بعثتِ ثانیہ میں مومنوں کی ماں کہلائے۔ یہی وہ خاتون تھی جسے میں نے بخارا سے آنے والی امانت قرار دیا تھا۔ جس کو ہندوستان میں لانے کے لئے جہاں مسیح موعود ؑ نے پیدا ہونا تھا یہ خاندان جو محمدیین کا خاندان کہلایا ہندوستان ہجرت کر کے آیا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب میر ناصر امیر صاحب کے دوسرے بیٹے تھے اور دوسری بیوی محترمہ روشن آراء بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ حضرت میرناصر نواب صاحب کے سن پیدائش کا صحیح علم نہیں ۔ البتہ ایک قیاسی حساب کی رو سے ۱۸۴۶؁ء آپ کا سن پیدائش بنتا ہے اور وہ قیاسی حساب یہ ہے کہ غدر ۱۸۵۷؁ء حضرت میر صاحب نے دیکھا تھا غدر کے بعد جب آپ کی عمر ۱۶ سال کی ہوئی تو اس وقت آپ کی شادی ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر غدر کا زمانہ چار سال قبل کا رکھا جائے تو ان کو ۱۴ سال کی عمر میں غدر کا حادثہ پیش آیا اور دو سال بعد شادی قرار دی جائے تو سولہ سال کی عمر بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ۱۸۴۵؁ء یا ۱۸۴۶؁ء کے قریب کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک دوسرا قرینہ حضرت میر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
’’ایک زمانہ آیا کہ میں پیدا ہوا اور دہلی شہر میں جنم لیا۔ خواجہ میردرد صاحب علیہ الرحمۃ کے گھرانے میں پیدا ہو کر نشوونما پایا اور ان کی بارہ دری میں کھیل کود کر بڑا ہوا ۔ان کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا۔ ماں باپ کے سایہ میں پرورش پا رہا تھا۔ کوئی فکرواندیشہ دامن گیر نہ تھا کہ ناگہان میرے حال میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی۔ جس کا بظاہر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اتفاقاً میرے والد ماجد کسی کام کے لئے بنارس تشریف لے گئے اور شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور میں مع اپنی دو ہمشیرہ کے یتیم رہ گیا۔‘‘ ۱؎
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات ۱۰ ستمبر ۱۸۵۴؁ء میں ہوئی۔ زمانہ تعلیم کا آغاز چونکہ پانچ چھ سال سے ہوتا ہے۔ اس لئے یہی قیاس لگایا جا سکتا ہے کہ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی سال بعد غدر ہوا اور غدر کے سال ڈیڑھ سال بعد آپ کی شادی ہوئی تو قرین قیاس یہی ہے کہ ۱۸۴۵؁ء یا ۱۸۴۶؁ء کے اندر آپ کی پیدائش ہوئی ہو گی۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے گھر میں سجاد گی تھی۔ آپ کے والد صاحب خواجہ میردرد کی گدی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ شان و شوکت تو نہ تھی جو نواب خانِ دوران منصور جنگ کے زمانہ میں تھی۔ مگر تاہم شریفانہ طور پر گھر کا کام چل رہا تھا کیونکہ حضرت میر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’سامانِ معیشت بظاہر کچھ نہ رہا۔ فقط اللہ ہی کا آسرا تھا۔ دادا صاحب اگرچہ موجود تھے مگر وہ اسی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی اور مفلس محض رہ گئے تھے۔ اس پر ظاہر آراستہ رکھنا بھی ضروری تھا۔‘‘ ۲؎
یہ آخری فقرہ اس وقت کی حالت پر خوب روشنی ڈالتا ہے۔ باوجود دولت و شوکت کے چلے جانے کے بعد خاندان کا رویہ ایسا تھا کہ دیکھنے والے جانتے تھے کہ جس طرح شرفاء اور باحیاء اپنی تکلیف کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے بالکل اسی طرح کسی کو معلوم نہ تھا کہ خاندان کی مالی حالت کیسی ہے۔ایسی حالت میں حضرت میر صاحب کے کنبہ کی کفالت کا بوجھ نانا صاحب میرشفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ نے اُٹھایا۔ حضرت میرصاحب کے دو ماموں تھے بڑے ماموں ڈپٹی کلکٹر انہار تھے اور دوسرے جن کا نام میر ناصر حسین صاحب تھا وہ بھی مادھوپور ضلع گورداسپور میں محکمہ نہر ہی میں ملازم تھے۔ ماموں صاحبان نے اس وقت مدد کی۔
غدر کی مصیبت
ابھی داغ یتیمی کا اثر دور نہیں ہوا تھا کہ ۱۸۵۷؁ء میں دہلی میں غدر ہو گیا۔ غدر کی داستان بہت طویل ہے وہ اس مختصر کتاب میں نہیں آ سکتی۔ مگر مختصرکیفیت اور وہ بھی حضرت میر صاحب کی زبانی یوں ہے کہ دلّی غدرمیں اُجڑ گئی اور تو اور شاہی خاندان بھی تباہ وبرباد ہو گیا۔ شہزادوں تک کو برسرِعام قتل کر دیا گیا ہر شخص کو اپنی جان و مال کا دغدغہ لگا ہوا تھا۔ دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا۔ جوں جوں محاصرہ تنگ ہوتا جاتا تھا۔ تو ں توں شہر کی آفت بڑھتی جاتی تھی۔ شہر پر اس قدر گولے پڑتے تھے کہ فصیل اور متصلہ مکانات چھلنی ہو گئے تھے۔ بعض لوگ گولوں سے ہلاک بھی ہوتے جاتے تھے۔ چند ماہ کے محاصرہ کے بعد دلّی انگریزوں نے فتح کر لی اور باغی فوج وہاں سے بھاگ گئی۔ دلّی والوں کی شامت آ گئی۔ کر گیا ڈاڑھی والا۔ پکڑا گیا مونچھوں والا۔ نانی نے خصم کیا اور نواسہ پر جرمانہ ہوا۔ فتح مندوں نے شہر کو برباد کر دیا اور فتح کے شکریہ میں صدہا آدمیوں کو پھانسی چڑھا دیا۔ مجرم اور غیرمجرم میں تمیز نہ تھی چھوٹا بڑا ادنیٰ اعلیٰ برباد ہو گیا سوائے چوہڑے ،چماروں، سقوں وغیرہ کے یا ہندوؤں کے خاص محلوں کے کوئی لوٹ مار سے نہیں بچا۔ ایک طوفان تھا کہ جس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا غرضیکہ گہیوں کے ساتھ جَو کا گھن بھی پس گیا۔ شہر کے لوگ ڈر کے مارے شہر سے نکل گئے اور جو نہ نکلے تھے وہ جبراً نکالے گئے اور قتل کئے گئے۔
اس حالت سے یہ معزز خاندان بھی بچ نہ سکا چنانچہ حضرت میر صاحب خود لکھتے ہیں کہ:
’’یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دلّی دروازہ کی راہ سے باہر گیا چلتے وقت لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اٹھا سکے ہمراہ لے لیں۔ میری والدہ صاحبہ نے اللہ ان کو جنت نصیب کرے میرے والد کا قرآن شریف جو اب تک میرے پاس ان کی نشانی موجود ہے اٹھا لیا۔ شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سربصحرا چل نکلا اور رفتہ رفتہ قطب صاحب تک جو دلّی سے گیارہ میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ایک دو روز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ دنیا نے ایک اور نقشہ بدلا۔ یکایک ہڈسن صاحب افسر رسالہ مع مختصر اردل کے قضاء کی طرح ہمارے سر پر آ پہنچے اور دروازہ کھلوا کر ہمارے مَردوں پر بندوقوں کی ایک باڑ ماری اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار سے قتل کیا یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو۔ اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز راہی ملک عدم ہو گئے۔ پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ حکم حاکم مرگِ مفاجات ہم سب زن ومرد و بچہ اپنے مُردوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران وپریشان وہاں سے روانہ ہوئے لیکن بہ سبب رات کے اندھیرے اور سخت واژگون کی تیرگی کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے۔ صبح کو معلوم ہوا کہ تیلی کے بَیل کی طرح وہیں کے وہیں ہیں۔ ایک کوس بھی سفر طے نہیں ہوا۔
صبح کو نظام الدین اولیاءؒ کی بستی میں پہنچے اور وہاں رہ کر چند روز اپنے مقتولوں کو روتے رہے۔ زیادہ دقت یہ پیش آئی کہ اب بعض کے پاس کچھ کھانے کو بھی نہ رہا تھاکہ ناگہاں رحمت الٰہی نے دستگیری فرمائی۔ ایک میرے ماموں صاحب محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے ان کا کنبہ ہم سے پہلے پانی پت میں پہنچ چکا تھا۔ جب ان کو ہماری پریشانی کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو چند چھکڑے دے کر ہمارے لینے کیلئے بھیجا وہ ہم سب کو ان چھکڑوں میں بٹھا کر پانی پت لے گئے وہاں پہنچ کر ذرا ہمیں آرام و اطمینان ملا۔‘‘ ۳؎
اس دردناک واقعہ سے اس کیفیت اور حالات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ جس میں سے حضرت میر صاحب کو گذرنا پڑا پہلے یتیمی،پھر غدر کے مصائب، آنکھوں کے سامنے عزیزواقارب کا قتل، بھوک پیاس کی شدت، صحرا کی خانہ بدوشی وہ کیا کچھ مصائب نہ تھے جو چھوٹی اور ننھی عمر میں آپ کو برداشت نہ کرنے پڑے۔
ان کی والدہ صاحبہ حضرت روشن آراء بیگم کی نیکی، عفت، پاکیزگی اور خدا سے محبت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے آباد گھر میں سے اگر کوئی چیز اٹھائی تو وہ خدا تعالیٰ کا کلام پاک تھا اس کے سوا ان کو ہر ایک چیز اس محشرستان میں ہیچ نظر آئی۔ یہ تھی وہ ماں جس کا نورِ نظر تھا یہ بزرگ جس کی پشت سے وہ خاتون اعظم پیدا ہونے والی تھی جس کے ذریعہ سے دنیا کے نجات دہندے اور تاریکی کو دور کرنے والے نور پیدا ہونے والے تھے۔ ان حالات میں آپ کی زندگی کا آغاز ہوا۔
تعلیم
تعلیم کا آغاز تو والد صاحب کی زندگی میں گھریلو مکتب میں ہی ہوا۔جب غدر وغیرہ کی طوفانی حالت سے سکون ہوا اور لوگ دلّی واپس آئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں نے گھروں کی چوکھٹیں تک اُتار لی تھیں حضرت میر صاحب کے ایک ارشاد کے ماتحت اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کی تھی ۔ تو اس لحاظ سے غدر کا واقعہ دس سال کی عمر میں ہوا ہو گا دو اڑھائی سال میں پھر دلی آباد ہوئی اس طرح واپسی کے وقت آپ کی عمر بارہ سال کی ہو جاتی ہے۔ دہلی سے آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو آپ کے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے پاس صوبہ پنجاب میں ضلع گورداسپور کے مقام مادھوپور میں بھیج دیا۔ یہاں حضرت میر صاحب نے کس قدر تعلیمی ترقی کی اس کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان کو خود اعتراف ہے کہ کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ آپ کے ماموں رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور آپ کے سوتیلے بھائی خود گدی نشین تھے اور ان کی حالت مذہبی ایسی ہو گئی تھی کہ حضرت میر صاحب کا نور ایمان اس کا نام ’’بدعت‘‘ رکھتا تھا اور اس میں شک بھی نہیں کہ وہ طرح طرح کی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے اور وہاں بھی وہی قوالیاں اور عرس اور دین سے دور لے جانے والی باتیں ہو رہی تھیں۔ حضرت میر صاحب کا قلب ان بدعتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس لئے آپ نے اس چھوٹی سی عمر میں سب امور کا موازنہ کیا اور آپ اہلحدیث ہو گئے اور یہ سب سولہ سال کی عمر سے قبل ہی ہو گا۔
شادی خانہ آبادی
۱۶ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ نے ایک شریف سادات کے خاندان میں آپ کی شادی کر دی۔ حضرت میر صاحب اپنی بیوی سے ہمیشہ خوش رہے۔ اس کا ہم الگ ذکر کریں گے۔ شادی کے بعد آپ نے مولوی عبداللہ غزنوی کی بیعت کر لی اور آپ کے ساتھ ہی آپ کی حرم محترم نے بھی ان کی بیعت کر لی۔
اُس وقت آمدنی کا کوئی خاص انتظام نہ تھا مگر ناصری گنج کے علاقے سے ایک پانچ ہزار کی جائیداد ان کو مل گئی تھی جس کی آمدنی پندرہ روپیہ ماہوار تھی۔
ملازمت
۲۱سال کی عمر میں یعنی ۱۸۶۵؁ء کے قریب آپ کی والدہ نے آپ کو پھر آپ کے ماموں ناصر حسین صاحب کے پاس بغرض کارآموزی بھیجا۔ وہ اب لاہور میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کو نقشہ نویسی اور نہر کا کام سکھلا کر آپ کو ۱۸۶۶؁ء میں محکمہ نہر میں بعہدہ اوورسیر ملازم کر دیا اور آپ کی تعیناتی امرتسر میں ہوئی۔ اسی سلسلہ ملازمت میں آپ کی تبدیلی موضع سٹھیالی اورکاہنووان اور موضع تتلہ میں ہوئی جو متصل قادیان دیہات تھے۔ حضرت میر صاحب محکمہ نہر میں ملازم تھے اور یہ محکمہ جس قدر اپنی رشوت ستانی کی وجہ سے بدنام ہے اسے ہر شخص جانتا ہے۔ مگر حضرت میر صاحب جن پر پچپن ہی سے وہابیت کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ وہ کب اس قسم کی حرام دولت کو لے سکتے تھے۔
حضرت عرفانی کبیر نے ان کی سوانح حیاتِ ناصر میں ان کی پاکیزہ زندگی پر لکھتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے۔ جو ان کی دیانت داری اور پاکیزگی کی شان کو دوبالا کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’وہ محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ افسران نہر نے ایک قاعدہ کے ماتحت ان سے سَو روپیہ نقد کی ضمانت طلب کی۔ ان کے معاصرین نے زرِضمانت داخل کر دیا مگر میر صاحب نے کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں ہے اور فی الحقیقت نہیں تھا۔جو کام ان کے سپرد تھا (اوورسیری کا) وہ اس میں ہزاروں روپے پیدا کر سکتے تھے اور لوگ کرتے تھے۔ مگر وہ حلال اور حرام میں خدا کے فضل سے امتیاز کرتے تھے اور ان کی ملازمت کا عہد رشوت ستانی کے داغ سے بالکل پاک رہا اور اکل حلال ان کا عام شیوہ تھا۔ غرض انہوں نے صاف کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں دوستوں نے، افسروں نے ہر چند کہا۔ کہ آپ روپیہ کسی سے قرض لیکر داخل کر دیں۔ آپ یہی کہتے رہے کہ میں قرض ادا کہاں سے کروں گا۔ میری ذاتی آمدنی سے قرض ادا نہیں ہو سکتا اور رشوت میں لیتا نہیں۔ آخر ان کو نوٹس دیا گیا کہ یا تو روپیہ داخل کرو ورنہ علیحدہ کئے جاؤ گے۔ انہوں نے عزم کر لیا کہ علیحدگی منظور ہے مگر معاملہ چیف انجنیئرتک پہنچا۔ جب اس نے کاغذات کو دیکھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس کے محکمہ میں ایسا امین موجود ہے۔ وہ جانتا تھا کہ سب اوورسیر ہزاروں روپیہ کما لیتے ہیں۔ جو شخص ایک سَو روپیہ داخل نہیں کر سکتا اور اسے علم ہے کہ اس عدم ادخال کا نتیجہ ملازمت سے علیحدگی ہے قرض بھی نہیں لیتا کہ اس کے ادا کرنے کا ذریعہ اس کے پاس نہیں۔ وہ یقینا امین ہے اور میر صاحب کو ادخالِ ضمانت سے اس نے مثتثنیٰ کر دیا۔ یہ تھا اثر ان کی دیانتداری اور راستبازی کا تمام محکمہ کو اس پر حیرت تھی۔‘‘ ۴؎
اس واقعہ سے حضرت میر صاحب کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کی راستبازی،دیانت،ادائے فرض کا فکر، عہدکی پابندی، یہ سب امور اس واقعہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہی ہیں جن حالات میں سے حضرت میر صاحب گزرے تھے۔ ان کا عام تقاضا یہی تھا کہ وہ ایک تکلیف کی حالت میں سے گزرے ہوئے شخص کی طرح دولت جمع کرنے کے درپے ہو جاتے۔ مگر ان کا کیریکٹر اس قدر مضبوط تھا کہ انہوں نے اپنے لئے کبھی یہ پسند نہ کیا کہ وہ اکلِ حرام کا تر لقمہ قبول کریں۔ ان کی زندگی میں جس قدر غذا اُن کے جسم میں داخل ہوئی وہ سب حلال اور طیب تھی اور اس سے جس قدر خون پیدا ہوا وہ صالح تھا اور اسی حلال، طیب زرق سے انہوں نے اپنے بال بچوں کی پرورش کی۔
ایک ایسا شخص جس کے گردوپیش ادنیٰ و اعلیٰ سب رشوت ستانی میں مبتلا ہوں اور وہ اس فعل میں اپنے ساتھیوں کا شریک نہ ہو اس کے لئے کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میںحضرت میر صاحب کو جن دشوار گذار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا ہو گا وہ ظاہر ہی ہے مگر انہوں نے دنیا کی زندگی کو مالی تنگی میں گزارنے کو اس فراوانی ء رزق پر ترجیح دی اس سے ان کے اس مقام تقویٰ کا پتہ چل سکتا ہے۔ جس پر وہ ابتداء سے ہی گامزن تھے۔ ایسے متقی شخص کیلئے جس نے باوجود آسانی سے ملنے کے ناجائز روپیہ پیدا نہ کیا اور ساری عمر تنخواہ پر بسر کی۔ اس کے متعلق اگر کبھی کوئی شخص زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے یہ کہے کہ اس نے سلسلہ کا روپیہ تباہ کیا تو یہ اس کی اپنی سیاہ باطنی کی ایک کھلی تصویر ہو گا اور سوائے اس کے کہ یہ اس کی اپنی سیاہ بختی کی تصویر ہو اور کیا ہو سکتا ہے۔
رسول کریم ﷺ جو اپنی قوم میں راستباز اور امین مشہور تھے انہوں نے یہی چیز بطور دلیل کے پیش فرمائی۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کہ جو شخص ساری عمر تم میں امین اور راستباز مشہور رہا۔ وہ یک بیک خدا پر کیسے افتراء کر سکتا ہے۔
پس بالکل یہی دلیل حضرت میر صاحب قبلہ کی نیکی اور پارسائی اور دیانت و امانت پر دلیل ہے کہ جس نے باوجود ضرورت کے باوجود تکلیف کے کبھی ایک پیسہ اپنی زندگی میں ناجائز قبول نہ کیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں سلسلہ کے روپیہ میں کیسے تصرف کر سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ تیرہ قلب لوگوں کو خود بخود اپنی ہی ایسی تصویریں نظر آتی ہیں ورنہ یہ پاک لوگ تو پاک ہی ہوتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش
۱۸۶۵؁ء میں حضرت میر صاحب کی شادی کے تین سال بعد وہ بااقبال لڑکی پیدا ہوئی جس کی پیدائش کی صدیوں سے انتظار تھی اور جس کی پیدائش کا فیصلہ روزِ ازل سے ہی الٰہی پروگرام کے ماتحت مقدر ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تخلیق میں اس کی اصلاح کے لئے انبیاء ؑ اور مرسلین مبعوث فرمائے۔ اس نے سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ قائم کیا۔ سلسلہ موسویہ کی اصلاح کیلئے ایک مسیح کو مبعوث فرمایا جو احیائِ دین موسوی کے لئے مبعوث ہوا پھر سلسلہ محمدیہ قائم کیا اور اس سلسلہ کو سلسلہ موسویہ کے بالکل متوازی قائم کیا اور اس کے لئے یہ مقدر کیا کہ جب یہ سلسلہ بنی اسرائیل کی طرح بِگڑ جائے گا تب ایک مسیح بروزِ محمدؐ بنا کر بھیجا جائے گا جو اتباع محمد ﷺ میں اس قدر محو ہو گا کہ اس میں اور اس کے متبوع میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ حتی کہ وہ خود پکار اُٹھے گا کہ: مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی اس پر محمدیت کی چادر ڈال دی جائے گی۔ اور وہ اس قدر اس میں محو ہو گا کہ وہ زندگی تو زندگی مرنے کے بعد بھی رسول کریم ﷺ کی قبر میں ہی مدفون ہو گا۔
اس کے لئے مقدر تھا کہ وہ ایک شادی کرے گا اور اس شادی سے ایسی اولاد پیدا ہو گی جن کے وجود سے اسلام کو بڑی تقویت ملے گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا: یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ اسی شادی کی طرف خواجہ محمد ناصر صاحب کو پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ اس نور کی روشنی جو تم کو دی گی مسیح موعود ؑ کے نور میں گم ہو جائے گی اور اس کی طرف نعمت اللہ ولی ؒ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
پسرش یاد گار مے بینم
اور اسی کی طرف خود خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا: اُشْکُزنِعْمَتِیْ رَأَیْتُ خَدِیْجَتِیْ ۵؎ ان تمام پیشگوئیوں سے اس عظمت اور شان کا بآسانی پتہ لگ سکتا ہے جو اس خاتون اعظم کو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ اور راستبازوں کی دنیا میں حاصل ہونے والی تھی وہ ایک خاص مقصد کے لئے دنیا میں لائی جا رہی تھی وہ ایک نئی نسل کی بنیاد رکھنے کے لئے پیدا کی جا رہی تھی۔
وہ ان ذمہ واریوں کو برداشت کرنے کے لئے لائی جا رہی تھی جو ذمہ واریاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بروزِ محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ذریعہ آپ کے وجود پر اصلاح خلق کیلئے عائد ہونیوالی تھیں۔ جس طرح مسیح موعود ؑ کی طرف روحانی دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں بالکل اسی طرح اس پاک خاتون کی طرف بھی لگی ہوئی تھیں جس نے ایک طرف ان ذمہ واریوں کا بوجھ اُٹھانا تھا اور دوسری طرف اس پاک نسل کو عالمِ وجود میں لانا تھا۔
قدرت الٰہی نے اس امر کا فیصلہ کر رکھا تھا کہ ایسی خاتون خود محمد الرسول اللہ ﷺ کی اپنی نسل ہی سے ہو۔ وہ فاطمہؓ کی بیٹی ہو اور ان تمام اَئمۃ اور اولیاء کے ساتھ اس کو خون کا رشتہ ہو تاکہ نیک اور پاک خون کا ایک مسلسل تعلق چلتا ہوا آنحضرت ﷺ تک پہنچ جائے اور اس سے اعلیٰ اور بہتر اور کوئی رشتہ خدا کے مسیح کے لئے نہیں ہو سکتا تھا۔ جس طرح حضرت علی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے تعلق کی وجہ سے اہل بیت میں داخل ہو گئے۔ اسی طرح سَلْمَانَ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِفارسی النسل مسیح موعود اس خاتون کے تعلق کے ساتھ جسمانی طور پر بھی اہلبیت میں داخل ہو گئے۔ اتنی بڑی شان کی خاتون ۱۸۶۵؁ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں پیدا ہوئی۔
آپ کی پیدائش کی پہلی برکت
حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد صاحب خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب ناصری گنج کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے گئے۔ مگر ان کو وہاں نہ صرف یہ کہ کامیابی نہ ہوئی بلکہ وہ وہیں فوت ہوگئے مگر اس پیدائش کے بعد پہلی برکت یہ نازل ہوئی کہ حضرت میر صاحب کو پانچ ہزار کی جائیداد بغیر کسی قسم کی سعی کے مل گئی جس کی آمدنی پندرہ روپے ماہوار تھی۔ ۵؎
اس کے بعد حضرت میر صاحب کی بیکاری کا زمانہ ختم ہوا۔ اور ملازمت کا دور شروع ہوگیا۔ اس طرح سے آپ کا وجود خاندان کے لئے خیرو برکت کا باعث ہوا۔
آپ کا نام
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نام حضرت میر صاحب نے نصرت جہان بیگم رکھا۔ یہ نام اپنے اندر خود بھی بہت سی برکات رکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب صفحہ ۶۴،۶۵ میں تحریر فرمایا ہے:
’’ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی۔ اس کا نام نصرت جہان بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ ۷؎
قارئین کرام سے میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کو اپنے ذہن میں رکھیں گے۔ جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی ذات کے متعلق وقتاً فوقتاً درج کی جاری ہیں۔ اِن پیشگوئیوں پر بحث اور ان سے استدلال تو اپنی جگہ پر ہو گا یہاں صرف اس قدر بتلانا مطلوب تھا کہ آپ کے نام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک پیشگوئی کو مستور پایا۔ اور وہ پیشگوئی یہ تھی کہ جو خاندان نصرت جہان بیگم کے ذریعے چلے گا اس خاندان کے ذریعے تمام جہان کی مدد کی جائے گی۔
پس اس شان اور عظمت کی خاتون حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں ۱۸۶۵؁ء میںپیدا ہوئی اور اس فضل کے لئے خدا تعالیٰ نے اس انسان کو چُنا جو آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی یتیم ہو گیا تھا اور بچپن ہی میں صدہا قسم کی تکلیفوں کو عبور کر چکا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی آزمائش
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثََّمَرٰتِ
اس آیت شریفہ کے ماتحت والد کی وفات سے خوف، غدر کے وجود سے جوع اور نقص من الاموال کی آزمائشوں میں سے آپ کو گذرنا پڑا۔ مگر اب ایک اور آخری آزمائش بھی آپ کے سامنے کھڑی تھی اور وہ ثمرات کا نقصان تھا۔
حضرت میرناصر نواب صاحب کے ہاں سیّدہ نصرت جہان بیگم کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے اور سب ہی مشیت الٰہی نے اپنے پاس بلا لئے مگر پانچ بچوں کا داغ جدائی کھا کر بھی ثابت قدم ناصر نواب اپنے رب کا عبدشکور رہا اور اس کے اخلاص اور ثبات میں کوئی کمی نہ آئی۔ تب خدا تعالیٰ نے ۱۸۸۱ء؁ میں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ایک زندہ رہنے والا اور نافع الناس بچہ عطا فرمایا جس کا نام محمد اسماعیل رکھا گیا جو بعد میں اپنے وقت کا ایک خاص آدمی ثابت ہوا اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ترقی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کہلایا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا ذکر ہم الگ کسی جگہ تفصیل سے کریں گے اس لئے صرف اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
۱۸۸۴؁ء میں حضرت میر صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نکاح کر دیا اس نکاح کی تفصیلات بھی الگ ایک باب میں آئیں گی۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی پیدائش
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی پیدائش کے بعد بھی حضرت میر صاحب کے پانچ بچے اور پیدا ہوئے جو سب کے سب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔حضرت میر صاحب نے ان سب کی وفات پر رضاء بالقضاء کا ثبوت دیا۔ تب ۱۸۹۰ء؁ میں اللہ تعالیٰ نے بمقام لدھیانہ ایک اور بچہ عطا فرمایا۔ اس کا نام حضرت میر صاحب نے محمد اسحق رکھا۔
وجہ تسمیہ
حضرت میر صاحب کو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے بڑی محبت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت میر صاحب کے استاد بھی تھے اور دہلی کے اہلحدیث کے سرگروہ بھی تھے۔ ایک دفعہ مولوی نذیر حسین صاحب لدھیانہ میںحضرت میر صاحب سے ملنے آئے جہاں وہ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔
حضرت میر صاحب میر محمد اسماعیل صاحب کو جو ابھی بچے ہی تھے ملانے کیلئے لے گئے۔ مولوی سیّد نذیر حسین صاحب نے ازراہِ شفقت سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
برائے کردن تنبیہ فُسّاق
دوبارہ آمدِ اسماعیل و اسحاق
اس بناء پر جب حضرت میر محمد اسحق صاحب پیدا ہوئے تو حضرت میر صاحب نے ان کا نام محمد اسحق رکھا اور خدا کی قدرت کہ وہ شعر جو اس وقت اتفاقی طور پر ان کے منہ سے نکلا وہ ایک حقیقت بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
سلسلہ ملازمت میںتبدیلیاں
حضرت میر صاحب سلسلہ ملازمت میں بہت جگہ رہے۔ ضلع گورداسپور میں سٹھیالی، کاہنووان، تَتلہ وغیرہ میں رہے۔ پھر آپ کی تبدیلی ضلع لاہور میں ہو گئی اور وہاں سے انبالہ چھاؤنی میں ہو گئی۔ وہاں سے لدھیانہ ، لدھیانہ سے پٹیالہ اور پٹیالہ سے پھر لدھیانہ اور وہاں سے پھر پٹیالہ میںتبدیلی ہو گئی۔ پٹیالہ سے پھر فیروز پور تبدیلی ہوئی۔ یہ ۱۸۹۳ء؁ کا زمانہ تھا۔ فیروزپور سے آپ کی تبدیلی آتھم کے رشتہ داروں نے ہوتی مردان میں کرا دی۔ حضرت میر صاحب کو مردان پسند نہ آیا۔ طبعیت اُچاٹ رہتی تھی اس لئے فَرلو لے لی اور قادیان آ گئے اور اسی فَرلو کے بعد آپ کی پنشن ہو گئی اور آپ ہمیشہ کیلئے قادیان کے ہو گئے۔
یہ مختصر حالات ان کی ملازمت کے ایام کے ہیں۔ تفصیل کے لئے حضرت عرفانی کبیر کی کتاب ’’حیاتِ ناصر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات کا آغاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں بالکل لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھے مگر میرزا غلام قادر صاحب جو ابتداء میں محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بعد میں بعض دیگر ملازمتوں میں بھی رہے۔ بحیثیت ایک اہلکار ہونے کے ضلع کے تمام اہلکاروں سے میل جول اور تعلق رکھتے تھے۔ میر ناصر حسین صاحب سے جو حضرت میر صاحب کے ماموں تھے مراسم دوستی رکھتے تھے۔ ان کی وجہ ہی سے حضرت میر صاحب کی بھی ان سے واقفیت ہو چکی تھی۔ میر صاحب جب موضع تَتلہ میں نہر کی کُھدوائی کروارہے تھے ان دنوں حضرت نانی اماں یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین کی والدہ کچھ بیمار ہو گئیں تو میرزا غلام قادر صاحب نے جو اکثر گورداسپور سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا کرتے تھے۔ میر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو بغرض طبّی مشورہ قادیان حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس لے جائیں۔ چنانچہ بغرض طبّی مشورہ آپ قادیان آئے۔
یہ قادیان میں پہلی آمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعارف کے سلسلہ میں ایک مزید قدم تھا مگر دراصل یہ بیماری تو ایک بہانہ تھی ورنہ مشیت ایزدی اس کے پیچھے کھڑی ہنس رہی تھی۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
اس واقعہ کو حضرت نانی اماں صاحبہ مرحومہ نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے یوں بیان کیا جسے انہوں نے اپنی قیمتی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم کے صفحہ ۱۰۹ پر درج فرمایا ہے:
’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے ناناجان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گزرتی ہے (یعنی موضع تَتلہ کی نہر) تو اس وقت تمہارے تایا میرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والد صاحب بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کرائیں۔ چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔
جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ اُن کے آپس پاس ایک نیچے کی کوٹھڑی میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآنِ شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے۔ تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دلّی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ (یہ واقعہ ۱۸۷۶؁ء کا ہے) اس کے بعد جب میں دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تَتلہ میں رہتے ہیں وہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں۔ میں گورداسپور رہتا ہوں۔ غلام احمد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں کم آتا ہے۔ اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہ ہو گی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آ کر رہنے لگے۔ ۸؎
ان دنوں حضرت اُمُّ المؤمنین کی عمر تیرہ سال کی تھی۔
اس واقعہ سے جہاں اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح قادیان تک پہنچایا۔ وہاں حضرت میر صاحب کی سادہ زندگی اور شرافتِ نفس کا پتہ بھی چلتا ہے۔ کیونکہ موضع تَتلہ آج پون صدی گزر جانے کے بعد بھی اس قابل نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا آدمی وہاں رہ سکے۔ تمدن کی ہر منزل سے دور وہاں کے لوگ آج بھی بالکل گنوار اور اُجڈ ہیں ان کے مکان بالکل دیہاتی وضع قطع کے ہیں۔ چہ جائیکہ ایک دہلی کا معزز انسان جو نہ صرف اپنے حسب و نسب کی وجہ سے ہی بڑا آدمی تھا۔ بلکہ اس شان و شوکت کے لحاظ سے جس کا نقشہ ہم پچھلے اوراق میں دکھا چکے ہیں ایک بڑے خاندان کا ایک فرد تھا۔ ان کے گھر کے لوگ اس قسم کی دیہاتی زندگی کے قطعاً عادی نہ تھے مگر حضرت میر صاحب نے ان گنواروں میں ہی ایک مدت گزار دی۔
جناب میرزا غلام قادر صاحب جو ان ایام میں ضلع کے افسروں میں سے ہونے کے علاوہ اپنے علاقہ کے رئیس تھے ان کا اس گاؤں کے لوگوں کو بدمعاش کہنا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا مگر یہ ان لوگوں کا کمال نہ تھا کہ انہوں نے حضرت میر صاحب کو کوئی گزنذ نہیں پہنچایا۔ بلکہ حضرت میر صاحب کا کمال اور ان کی شرافت ذاتی کا نتیجہ تھا کہ اس قسم کے لوگ بھی ان کے سامنے مسخر ہو کر رہتے۔
الغرض حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ ملازمت کے سلسلہ میں قادیان سے دو میل کے فاصلہ پر لے آیا اور پھر نانی اماں کی بیماری کے سلسلہ میں ان کو قادیان لے آیا۔ اور پھر حالات نے ذرا اور صورت بدل لی اور حضرت میر صاحب قادیان میں ہی آ رہے اور نہ صرف قادیان میں ہی آ رہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کے گھرمیں اور یہ اس لئے ہوا کہ حضرت میر صاحب اور ان کی حرم محترم قریب سے ہو کر اس برگزیدہ انسان کو دیکھ سکیں جو کل کو حضرت میر صاحب سے نسبت ِدامادی حاصل کرنے والا تھا۔ چنانچہ نانی اماں فرماتی ہیں:
’’ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں۔ جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں۔ میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت بُرا منایا کہ میں کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں ان کو تکلیف پہنچاتی تھیں۔ مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔
ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہا کرتے تھے کہ میرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے۔‘‘ ۹؎
روایت کے اس ٹکڑے سے بھی بہت سے امور کا استدلال ہوتا ہے قبل اس کے کہ ہم اس استدلال کو لکھیں۔ یہاں اس قدر توضیح کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نانی اماں نے اپنی روایت میں جو یہ لکھا ہے کہ ہم قادیان سے رخصت پر دہلی گئے۔ یہ ان کو ذہول ہوا ہے۔ کیونکہ حضرت نانا جان نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ:
’’چند ماہ کے بعد اس عاجز کی بدلی قادیان سے لاہور کے ضلع میں ہو گئی۔ اس وقت چند روز کے لئے بندہ اپنے اہل و عیال کو حضرت میرزا صاحبؑ کے مشورے سے ان کے دولت خانہ چھوڑ گیا تھا اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو آ کر لے گیا۔ میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ میرزا صاحبؑ کے گھر میں رہے میرزا صاحبؑ کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے۔ اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا۔ وہ بھی عجب وقت تھا۔ حضرت صاحبؑ گوشہ نشین تھے عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔‘‘ ۱۰؎
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب کی تبدیلی قادیان سے ضلع لاہور میں ہوئی تھی اور حضرت میر صاحب قادیان سے لاہور ہی کو تشریف لے گئے تھے نہ کہ دہلی کو۔الغرض اس طرح حضرت میر صاحب ایک نہایت عجیب طریق سے الٰہی منشاء کے ماتحت حضرت صاحب کے گھر میں آئے۔ یہاں اُن پر اور اُن کی حرم محترم پر جو اثر پڑا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
۱۔ ایک بہت نیک اور بزرگ انسان تھے۔
۲۔ گھر کے لوگ اُن سے شدید نقار رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی دوسرا بھی اُن سے کسی قسم کا نیک سلوک کرے۔
۳۔ وہ ان تکالیف کے مقابل میں کسی قسم کی بدسلوکی نہ کرتے تھے بلکہ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے تھے۔
۴۔ میر صاحب قبلہ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بڑا تعلق نہ رکھتے تھے مگر اس کے باوجود اُن پر یہی اثر تھا کہ آپؑ بہت نیک اور متقی ہیں۔
۵۔ جب میر صاحب قبلہ باہر چلے گئے تو آپؑ کی نیکی نے یہاں تک تقاضا کیا کہ گھر میں قدم تک نہ رکھا تا کہ مستورات کو اجنبی مرد کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو۔
۶۔ اُس زمانہ میں حضرت صاحبؑ کا وقت عبادت اور تصنیف میں گذرتا تھا۔
یہ تأثرات جو قدرتی طور پر اس واقعہ سے نکلتے ہیں وہ اس رشتہ کیلئے اندر ہی اندر مؤید ہوگئے تھے۔ جن کی تشریح و توضیح حضرت اُمُّ المؤمنین کی شادی کے تذکرے میں آ سکے گی۔ یہ واقعات ۱۸۷۷؁ء کے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
یہاں تفصیلی حالات لکھنے مقصود نہیں ہیں مگر اس قدر بطور تاریخی واقعہ کے لکھتا ہوں کہ:
حضرت میر صاحب کا یہاں سے جانے کے بعد کوئی خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہ رہا۔ مگر جب براہین احمدیہ طبع ہوئی تو حضرت میر صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ منگوایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض امور کیلئے دعا منگوانے کیلئے خط لکھاجن میں سے ایک امر یہ تھا۔
’’دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے‘‘۔
خدا تعالیٰ کا یہ عجیب کام تھا کہ اس نے حضرت میر صاحب کے دل میں یہ تحریک ڈالی کہ وہ حضرت اقدس ؑ کو دعا کے لئے تحریک کریں اور اُدھر حضرت اقدس ؑ کو نئی شادی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریکیں ہو رہی تھیں اور خدا تعالیٰ اپنے عرش سے فرما رہا تھا۔
۱۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھروالنسب ۱۱؎
۲۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔ اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
۳۔ ہرچہ باید نو عروسی راہمہ سامان کنم وآنچہ مطلوبِ شماباشد عطائے آں کنم ۱۲؎
اِس پر حضرت اقدس ؑ نے اپنی طرف سے تحریک کر دی اور یہ تحریک بہت کچھ تردّد کے بعد منظور ہوگئی۔
اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہ تھا البتہ آپؑ تائید اسلام کے کام میں پورے زور سے منہمک تھے۔ براہین احمدیہ لکھی جا رہی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ
۱۸۸۹؁ء میں آپؑ نے لدھیانہ میں بیعتِ اُولیٰ لی۔ اُس وقت اگرچہ حضرت میر صاحب کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے قلبی عقیدت تھی اور وہ آپؑ کو بڑا راستباز سمجھتے تھے مگر انہوں نے آپؑ کے دعویٰ کو قبول نہیں کیا۔
حضرت میر صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو قبول نہ کرنا اُن کی نیکی اور صفائی قلب کی ایک دلیل تھا کیونکہ حضرت میر صاحب اپنے پرانے عقاید کی وجہ سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ مسیح غالباً آسمان سے اُترے گا۔
قدیم اعتقادات جو لوگوں کے قلوب میں ایک فولادی میخ کی طرح جمے ہوئے تھے اور لوگوں کا ان قدیم اعتقادات کے خلاف فوراً نئی تبدیلی پیدا کر لینا بہت مشکل تھا۔ بالکل اسی خیال کے مطابق حضرت میر صاحب اپنے خیالات پر جمے رہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے نہایت سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کی مخالفت کی اور اس پر مضمون بھی لکھے اور نظمیں بھی لکھیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جس چیز کو سچائی سمجھا، اس کے لئے کسی چیز کی پرواہ نہ کی حتیّٰ کہ اس امر کی بھی پرواہ نہ کی کہ حضرت صاحب سے میرے کیا تعلقات ہیں۔ اگر کوئی دنیا دار آدمی ہوتا تو وہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو دیکھ کر اگر حضرت صاحب کے دعویٰ کو قبول نہ کرتا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ بھی نہ ہوتا۔
ممکن ہے کسی شخص کو حضرت میر صاحب کی یہ مخالفت ایک بُرا فعل نظر آئے۔ مگر اس واقعہ نے میرے دل میں تو اُن کی بڑی عزت پیدا کر دی اور مَیں اس امر کو ان کی صفائی قلب کی ایک بڑی دلیل سمجھتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ میر صاحب کا طُرۂ امتیاز اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ تھا۔ انہوں نے جس چیز کو سچائی جانا اُسے بہادری سے قبول کیا اور جس چیز کو غلط سجھا اُسے پوری طاقت سے مٹانے کی کوشش کی اور یہی اُن کی زندگی بھر کا کیریکٹر تھا۔ سلسلہ کے اندر آ کر جس کسی شخص کے فعل کو انہوں نے سلسلہ کے مفاد کے خلاف جانا یا منافقت پر مبنی سمجھا اس کی پوری شدت سے مخالفت کی اور کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ یہ فعل کس شخص سے سرزد ہوا ہے۔ انہوں نے غلطی کو غلطی جانا خواہ وہ بڑے سے بڑے آدمی سے سرزد ہو۔ اُن کا یہ وصف جو اُن کی زندگی کا عین کمال تھا لوگوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹکا کرتا تھا۔ اس لئے اُن کا نظریہ حضرت میر صاحب کی نسبت ایسا غلط ٹھہر گیا کہ انہوں نے ان کی نسبت طرح طرح کی غلط فہمیوں میں لوگوں کو مبتلا کرنا چاہا مگر ایک مؤرخ جو واقعات کی چھان بین کرنے کا عادی ہوتا ہے وہ سرسری نگاہ سے دیکھ کر لوگوں کے نظریے قبول نہیں کر سکتا۔ حضرت میر صاحب نے خود بھی اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
’’۱۸۸۹؁ء میں سلسلہ بیعت (یہ بیعت اولیٰ تھی جو حضرت منشی احمد جان صاحب کے مکان پر ہوئی) لدھیانہ میں شروع ہوا۔ اُس وقت مَیں احمدی نہیں ہوا تھا اور نہ مَیں حضرت صاحبؑ کو مسیح و مہدی مانتا تھا۔ لہٰذامَیں نے بیعت نہیں کی تھی۔ مَیں منافق نہیں تھا کہ بظاہر بیعت کر لیتا اور دل میں مرزا صاحبؑ کو سچا نہ سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستباز اور صاف گو بنایا ہے۔ یہ بھی مجھ پر اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے ایک بڑا فضل ہے‘‘۔ ۱۳؎
الغرض حضرت میر صاحب نے اُس وقت بیعت نہیں کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی بیعت
۱۸۹۲؁ء ٭؎ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسہ کی بنیاد قادیان میں رکھی گئی۔ اس جلسہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت میر صاحب کو مکرر، سہ کرر لکھ کر سالانہ جلسہ پر آنے کی دعوت دی۔

٭ دراصل پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا۔ (عرفانی کبیر)
حضرت میر صاحب نے اس سارے واقعہ کو خود لکھا ہے۔ چونکہ یہ تحریر بہت ہی بصیرت افروز ہے اور ممکن ہے کہ بہتوں کی راہنمائی کا باعث ہو اس لئے مَیں باوجود اس کے طویل ہونے کے شائع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
’’مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجود یہ کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مَیں ان کا مخالف ہوں۔ نہ صرف مخالف بلکہ بدگو بھی اور یہ مکرر سہ کرر مجھ سے وقوع میں آ چکا ہے۔ جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے۔ اگرچہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی۔ اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو مَیں ہر گز نہ جاتا اور محروم رہتا۔ مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا۔ آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اِس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے۔ مَیں ۲۷/تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا۔ اُس وقت مولوی حکیم نور الدین صاحب مرزا صاحبؑ کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھے۔ افسوس کہ مَیں نے پورا نہ سنا۔ لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا۔ پھر حامد شاہ صاحبؓ نے اپنے اشعار مرزا صاحبؑ کی صداقت اور تعریف میں پڑھے لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا۔ کچھ شوق اور محبت سے نہیںسنا لیکن اشعار عمدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عنایت فرماوے۔
’’جب مَیں مرزا صاحبؑ سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا۔ گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبارِ کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دُور ہو گیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانی خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی مرزا صاحبؑ کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو مَیں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا۔ اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے۔ بعد عصر مرزا صاحبؑ نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میرے تمام شبہات رفع ہو گئے اور آنکھیں کھل گئیں۔ دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب (یہ بابو محکم الدین صاحب وکیل سے مراد ہے۔ عرفانی) نے اپنا عجیب قصہ سنایا۔ جس سے مرزا صاحبؑ کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے۔ جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علمائے وقت و پیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا۔ سنی سے شیعہ بنے۔ وہاں بجز تبرّا بازی اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا۔ آریہ ہوئے چند روز وہاں کا بھی مزہ چکھا مگر لطف نہ آیا۔ برہمو سماج میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا۔ نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت، کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ آخر مرزا صاحبؑ سے ملے اور بہت بیباکانہ پیش آئے مگر مرزا صاحبؑ نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخر کار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے۔ اللہ اور رسولؐ کے تابعدار بن گئے اب مرزا صاحبؑ کے بڑے معتقد ہیں۔
’’رات کو مرزا صاحبؑ نے نواب صاحب (نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اس وقت مع چند اپنے ہمراہیوں کے شریک جلسہ تھے۱۲) کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے۔ چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن کے روبرو وہ الہام پورے ہوئے۔ ایک صاحب نے صبح کو بعدنماز فجر عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا جب کہ عبداللہ صاحب خَیْردِیْ گائوں میں تشریف رکھتے تھے۔ عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمدحسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کرتہ پارہ پارہ ہو گیا۔ یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کرتے سے مراد علم ہے۔ آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویاعلم کی پردہ دری مراد ہے جو آج کل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہاں تک ہوگی۔ جو اللہ تعالیٰ کے ولی کو ستاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے آخر پچھڑے گا۔
’’اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں۔ جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال، کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنی گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے۔ مرزا صاحب جو آسمانی شہد اُگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجابِ عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتداء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا۔ جس کے عوض مِیں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراطِ مستقیم سے جدا کر دیا۔ چلو برابر ہوگئے۔ مگر مولوی صاحب ابھی درپے ہیں۔ اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر کر دی۔ انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں۔ پھر دعویٰ محبت ہے۔ افسوس!
’’اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا۔ امیر، غریب، نواب، انجنیئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم غرض ہر قسم کے لوگ تھے۔ ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی۔ مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ، یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحبؑ سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں۔ ورنہ آج کل مسکین مولوی اور بِدعات سے بچنے والا صوفی، کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اُن میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قدر فساد ہی کیوں ہوتا یہ نوبت بھی کیوں گذرتی۔ اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی۔ اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے۔ اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو مَیں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں۔ انصافًا و ایمانًا اپنے احباب کی فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحبؑ کے مرید مرزا صاحبؑ سے محبت رکھتے ہیں۔ مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاکِ پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں۔ مرزا صاحبؑ کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحبؑ پر دل و جان سے قربان ہیں۔ اختلاف کا تو کیا ذکر ہے۔ رُوبرو اُف تک نہیں کرتے۔
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگرد یا دوست بتاویں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کے لئے مستعد ہوں۔ اگر مولوی صاحب یہ فرماویں کہ سچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹوں اور مکاّروں سے لوگوں کو اُلفت ہوتی ہے تو مَیں پوچھتا ہوں کہ اصحاب و اہلبیت کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں؟ وہ حضرتؐ کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا۔ بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیرو مرشد تھے۔ اُن کے مرید اُن سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر اُن کے تابع فرمان تھے۔ سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ مُلک عرب میں جا کر رسائل توحید مصنفہ محمد عبدالوہاب نقل کرلائو۔ وہ مرید فوراً رخصت ہوا۔ ایک دم کا بھی توقف نہ کیا۔ حالانکہ خرچ راہ و سواری بھی اُس کے پاس نہ تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید منظور نہ کرے اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے۔ع
ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بکُجا
’’یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہر صدی میں ہزاروں اولیاء (جن پر اُن کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں) گذرے ہیں اور کم و بیش اُن کے مرید اُن کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے نیکوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا۔
’’مرزا صاحبؑ کو چونکہ سچی محبت اپنے مولا سے ہے۔ اس لئے آسمان سے قبولیت اُتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوںکی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی اُلفت ترقی کرتی جا رہی ہے۔ (اگرچہ ابوسعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج ماشاء اللہ آفتابِ پنجاب بنے ہوئے ہیں۔ اپنے حال میں غور فرماویں کہ کس قدر سچے محب اُن کے ہیں اور اُن کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے؟ شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے۔ مگر اب تو انہیں حبِّ جاہ اور علم و فضل کے فخر نے عرشِ عزت سے خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
’’اب مولوی صاحب غور فرماویں کہ یہ کیا پتھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علمائِ پنجاب (بزعمِ خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ موحّدین کی جامع مسجد میں اگر اتفاقًا لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے اور مرزا صاحبؑ کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کافر بلکہ اکفر اور دجال ہیں)گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپور تھلہ، لدھیانہ، بمبئی، ممالک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بندھنا باندھے چلے آتے ہیں۔ پھر آنے والے بدعتی نہیں، مشرک نہیں، جاہل نہیں، کنگال نہیں، بلکہ مؤحد، اہلحدیث، مولوی، مفتی، پیرزادے، شریف، امیر، نواب، وکیل۔ اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین صاحب کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جلشانہٗ نے مرزا صاحبؑ کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر خلقِ خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر، وطن سے جدا ہو کر، روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آ کر زمین پر سوتے، بلکہ ریل میں ایک دو رات جاگتے بھی ضرور ہونگے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے۔ مَیں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی۔ مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مُرید ہوئے۔ مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پوری ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحبؑ نے ساری خلقت کے رُوبرو سنایا جس کے بارے میں نور افشاں نے مرزا صاحبؑ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا تھا۔
’’اب نور افشاں خیال کرے کہ پیشگوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں۔ یہ بات بجز اہل اسلام کے کسی دین والے کو آج کل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصًا مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر، اکفر، دجال، مکار کی پیشگوئیاں باوجود یکہ اللہ تعالیٰ پر افترائوں کے طومار باندھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ صلعم کے (بزعمِ خود) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے۔ افسوس، صدافسوس، آج کل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبر کے نیچے دبے پڑے ہیں اور بایں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندۂ خدا آریہ، برہمو، عیسائیوں، نیچریوں سے لڑ رہا ہے۔ کوئی کافر تابِ مقابلہ نہیں لا سکتا۔ نہ کوئی مولوی باوجود کافر، ملعون، دجال بنانے کے خلقت کے دلوں کو اُن کی طرف سے ہٹا سکتا ہے۔ معاذ اللہ
’’عصاء موسیٰ و یدِ بیضاء کو بزعمِ مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے۔ نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت کچھ نورانیت نہیں رہی اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خُلقِ محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنا لیں۔ کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفینِ اسلام کو زیر کرنا تو درکنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے۔ برخلاف اس کے مرزا صاحبؑ نے شرقًا غربًا مخالفینِ اسلام کو دعوتِ اسلام کی اور ایسا نیچا دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جوگا نہیں رہا۔ اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آ سکتے۔ توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا۔ اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے۔ مرزا صاحبؑ کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے۔ اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں۔ نشہ بازوں نے نشے ترک کر دیئے۔ کئی لوگوں نے حُقّہ تک ترک کر دیا۔ مرزا صاحب کے شیعہ مریدوں نے (یعنی چند مرید مرزا صاحبؑ کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے) تبرّا ترک کر دیا صحابہؓ سے محبت کرنے لگے۔ تعزیہ داری، مرثیہ خوانی موقوف کر دی۔ بعض پیرزادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسماعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحبؑ کے معتقد ہونے کے بعد مولانا اسماعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے۔ اگر یہ تاثیریں، دجّالین، کذابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبولؐ نیک تاثیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجّالی ہونا منظور ہے۔
’’پھلوں ہی سے تو درخت پہچانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچانا۔ ورنہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ لیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے اس کو کوئی منافق کافر، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے۔ سفید کسی کے کالا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں۔ یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگرچہ تکالیف تو پا سکتا ہے مگر نابود نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کرے گا اور کرتا جاتا ہے۔ یعنی مولویوں کے سدِّ راہ ہونے سے مرزا صاحبؑ کا گروہ مٹ نہیں سکتا۔ بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بند باندھنے سے دریارُک نہیں سکتا لیکن چند روز رُکا معلوم ہوتا ہے۔ آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہہ نکلے گا اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بھی بہا لے جاوے گا۔ آندھی اور ابر سورج کو چھپا نہیں سکتے۔ خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چند روز میں یہ غُل غپاڑہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحبؑ کی صداقت کا سورج چمکتا ہوا نکل آوے گا۔ پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحبؑ سے موافق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور مرزا صاحبؑ کی کشتی میں جو مثل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے۔ لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر او رغلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے۔ مگر ایک ہی موج میں غرق بحرِ ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے۔
’’یا الٰہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہمِ کامل عنایت فرما۔ اُمّتِ محمدی کا تو ہی نگہبان ہے۔ حجابوں کو اُٹھا دے۔ صداقت کو ظاہر فرما دے۔ مسلمانوں کو اختلاف سے راہِ راست پر لگا دے۔ آمین یا رب العلمین۔
’’العلم حجاب الاکبر جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آج کل بخوبی ظاہر ہو رہی ہے۔ پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا لیکن اب اس پر پورا یقین ہوگیا۔ جس قدر مرزا صاحبؑ کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے۔ ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کر لیتے اور ایک جم غفیر مرزا صاحبؑ کے ساتھ ہو جاتا۔ لیکن مخالفت کا ہونا کچھ تعجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے۔ نہ آتا۔ تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا۔ دجال ہی کے قتل کو عیسیٰ تشریف لائے ہیں۔ اگر دجال نہ ہوتا تو عیسیٰ کا آنا محال تھا اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے۔
’’یا اللہ! تو ہمیں اپنے رسولؐ کی، اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور تردّدات سے امان بخش، صادقین کے ساتھ ہمیں اُلفت دے، کاذبوں سے پناہ میں رکھ۔ ہماری انانیت دُور کر دے اور حرص و حواس سے نجات بخش۔ آمین یا رب العلمین‘‘۔ ۱۴؎
حضرت میر صاحب سلسلہ کی خدمت میں
حضرت میر صاحب قادیان آ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ جیسے انہوں نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:
’’گویا مَیں اُن کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ خدمتگار تھا، انجنیئرتھا، مالی تھا، زمین کا مختار تھا، معاملہ وصول کیا کرتا تھا‘‘۔ ۱۴؎
گویا کہ تمام وہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی انہماک کی وجہ سے یونہی پڑے ہوئے تھے، وہ حضرت میر صاحب نے سنبھال لئے تھے۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت میر صاحب کی توجہ سے ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ کا باغ گلزار بنا ہوا تھا۔ ہزار ہا گملوں میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے مختلف قسم کے خوشبو دار پھول، دیواروں اور دروازوں پر چڑھنے والی پھولوںکی بیلیں، انگوروں کی بیلیں، ہر قسم کے پھل دار درخت، رنگا رنگ کے آم، لوکاٹ، شہتوت، امرود وغیرہ باغ میں بڑی محنت سے لگوائے گئے۔
ایام زلزلہ میں جو ۱۹۰۵ء ؁کے دن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں اصحابؓ کے ساتھ مقیم تھے۔ اُس وقت باغ کی رونق کے کیا کہنے تھے۔ باغ پورے جوبن پر تھا۔ مدرسہ وہیں لگا کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ کا محبوب اس زمانے کا ہادی اور راہنما اپنے عشّاق کے حلقے میں وہاں جلوہ افروز ہوا کرتا تھا۔ باغ کی ٹھنڈک اور سایہ۔ پتوں میں سے دھوپ کا چھن چھن کر آنا۔ پھولوں کی مہک اور اُن کا پورا جوبن ایک پُرکیف صورت پیدا کرتا تھا۔ باغ کی یہ کیفیت حضرت میر صاحب کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔ آپ کو باغ کی صفائی اور ترقی کا اس حد تک خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ کو الہام ہوا۔
’’کہاں تک کرے گا صفائیے باغ‘‘
گویا کہ اس صفائی کے انہماک کا ذکر خود خدا تعالیٰ کو بھی اپنے عرش سے کرنا پڑا۔ کھیتوں میں سبزی ترکاری کا سلسلہ بھی حضرت میر صاحب نے شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ باغ کے علاوہ بھی جہاں جہاں زمین اس غرض کے لئے مل سکی حضرت میر صاحب نے کارآمد بنا ڈالی۔ مدرسہ احمدیہ کے متّصل جہاں اب جناب قاضی اکمل صاحب کا مکان اور تشحیذالاذہان کا دفتر تھا، وہاں بھی مدتوں سبزی وغیرہ پیدا کی جاتی رہی۔ یہ کھیت حضرت میر صاحب کی ’’پَیلی‘‘ یعنی کھیت کے نام سے زبان زد تھا۔
حضرت صاحب کے الدار میں کوئی تعمیر ہوتی، تو حضرت میر صاحب قبلہ سارا سارا دن کھڑے تعمیر کا کام کراتے رہتے تھے۔ عمالیق جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے محض خدا واسطے کا بغض رکھتے تھے۔ اُن کی فہمائش بھی کبھی کبھی حضرت میر صاحب کے ذریعے ہو جایا کرتی تھی۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ہر ایک چیز کی حفاظت اپنا فرض خیال کرتے تھے۔ وہ یہ سب کام ایک عشق کے ساتھ کرتے تھے اور مَیں پورے وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا کہ اُس نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت کے لئے حضرت میر صاحب جیسا ایک انسان بھیج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر ایک چیز کو اپنی جان کر ان کی نگہداشت کرتا تھا۔ ان کی ترقی کے لئے کوشاں تھا۔ دشمنوں سے ان کی حفاظت کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زندگی تو بالکل ایک ایسے انسان کی تھی جو بالکل ہی یتیم ہو۔ انہوں نے خود لکھا ہے۔
لَفَاظَاتِ الْموَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ
گھر کی بچی کھچی چیزیں میرے کھانے کیلے آتی تھیں۔
ان کو خود ان زمینوں اور جائیدادوں کی طرف توجہ نہ تھی اور وہ اس مخمصہ میں پڑ کر دین کے کاموں میں روک نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
ان کی جائیداد ان بچوں کے خزانہ کی طرح پڑی تھی جس پر گرنے والی دیوار تھی اور خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑاور خضر ؑ کو بھیج کر اس کی اصلاح کرا دی اور اس طرح اس خزانہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو بھیج دیا کہ وہ ان چیزوں کی حفاظت کریں جو کسی وقت سلسلہ کے لئے ایک شاندار جائیداد بننے والی تھیں۔ گویا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دنیاوی چیزوں کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس کوئی آدمی ایسا موجود نہ تھا جو ایک درد اور ایک عشق سے ان کاموں کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتا تو خدا تعالیٰ نے خود حضرت میر صاحب کو بھیج دیا جو جوانوں سے بڑھ کر باہمت تھے، جو بڑے تجربہ کار تھے۔ بڑے امین تھے۔ جن کے لئے یہ گھر اب اپنا گھر ہو گیا تھا۔ اُن سے بڑھ کر اور کون درد خواہ ہو سکتا تھا۔
حضرت میر صاحب حضرت اقدس ؑ کواور سلسلہ کو دو الگ وجود خیال نہ کرتے تھے اور یہ تھی بھی ایک حقیقت۔ اس لئے حضرت میر صاحب حضرت صاحب کے خدمتگاروں کو لنگر سے کبھی روٹی وغیرہ دے دیاکرتے تھے۔
ہمیشہ ہر جگہ کچھ طبائع ایسی آ جاتی ہیں جو صرف اپنی ترقی کے سوا کسی دوسرے کی ترقی کو دیکھ نہیں سکتیں۔ حضرت میر صاحب سادہ زندگی بسر کرنے والے درویشانہ رنگ کے بزرگ تھے۔ وہ ایسے لوگوں کو کب پسند آ سکتے تھے۔ ان کو حضرت میر صاحب کی ہر کام میں پیش قدمی ناگوار معلوم ہوتی۔ چنانچہ ہم کو سلسلہ کے لٹریچر سے سب سے پہلا اعتراض یہ نظر آتا ہے کہ اصحابِ نمود اندر ہی اندر اس امر سے جلا کرتے تھے کہ سلسلہ کے اموال کا خرچ ہمارے ہاتھ میں کیوں نہیں دے دیا جاتا ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتداء میں جرأت نہ ہوتی تھی اس لئے تبر کا نشانہ پہلے حضرت میر صاحب کو بنایا گیا اور ان لوگوں کے ایک لیڈر نے جو بعد میں کھل نکلے۔ یہ اعتراض کیا:
’’کہ میر صاحب مالیوں کو یوں روٹیاں دیتے ہیں اور باغ کے کتے کو یوں گوشت دیا جاتا ہے‘‘۔ ۱۶؎
یہ اعتراض بہت بڑے فتنے کا پیش خیمہ تھا۔ اس کی تہہ میں مالی اعتراض چھپا ہوا تھا۔ گویا کہ وہ رقوم جو چندے کے طور پر آتی ہیں وہ ناجائز طور پر صَرف کی جاتی ہیں (العیاذ باللہ) ورنہ لنگر خانہ تو نہ صرف مہمانوں کے لئے ہی تھا بلکہ اس سے بہت سے غریب لوگ بھی پرورش پاتے تھے اور حضرت اقدس ؑ پسند کرتے تھے کہ لنگر پر آنے والے سائلوں کو بھی رد نہ کیا جائے۔ چنانچہ مَیں نے جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی سے بارہا سنا کہ وہ ایک زمانہ میں مہمانوں کے کھانا کھلانے پر مامور تھے۔ اس زمانہ میں مارواڑ میں سخت قحط پڑا۔ بہت سے لوگ یہاں بھی آ گئے اور وہ مانگنے کے لئے لنگر پر آ جایا کرتے تھے۔ شیخ صاحب ان کو کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے۔ اس امر کی کسی نے شکایت کر دی تو حضرت صاحبؑ سن کر خاموش ہو رہے۔ مگر شیخ صاحب کو جب شکایت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضور! اس کام پر کسی اور کو مقرر کر دیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کیوں میاں اسماعیل! تھک گئے! انہوں نے کہا۔ نہیں حضرت۔ اس طرح لوگ آتے ہیں تو مَیں پسند نہیں کرتا کہ حضور کے لنگر سے کوئی محروم جائے۔ اس لئے کسی کو چوتھا حصہ کسی کو نصف کسی کو پوری روٹی دے دیا کرتا ہوں اور اس کی پھر شکایت ہوتی ہے۔ حضور نے فرمایا:
’’ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ فی کس ایک روٹی دے دیا کرو اور فرمایا کہ میاں! یہ اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے کسی کو خالی نہ جانے دیا کرو‘‘۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لنگر کی عطاء بہت وسیع تھی اور مَیں نے خود ایام جلسہ میں کام کر کے دیکھا ہے کہ مزدور اور محنت کرنے والے لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو خواہ مزدوری کم دی جائے مگر ان کو کھانا دیا جائے۔ ابتدائی ایام میں جب کہ قادیان کے لوگ غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے لئے لنگر سے روٹی مل جانی ایک نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں کام کرنے والے مالی کو اس کی درخواست پر اگر روٹی لنگر سے مل گئی تو یہ ایسی چیز نہ تھی کہ جو حضرت میر صاحب کیلئے باعثِ اعتراض بن سکتی۔ حضرت میر صاحب کا اگر الگ کوئی کاروبار ہوتا۔ اُن کا ذاتی کوئی باغ ہوتا تو جو مقام اُن کو صہری ابوت کا حاصل تھا اس لحاظ سے بھی میرے نزدیک اُن کا اپنے نوکروں کیلئے روٹی لے لینا بھی ناجائز نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نوکر کو یا ان کے کسی کتے کو لنگر سے روٹی لے کر ڈال دینے پر اعتراض کرنا تو محض شقاوت قلبی ہے اور یہ ایسی ہی بات تھی جیسے مدینہ کے چند نوجوانوں نے فتح مکہ کے بعد یہ اعتراض کر دیا کہ:
’’خون تو ہماری تلواروں سے ٹپکتا ہے اور مالِ غنیمت مکے والے لے گئے‘‘۔
اِن اعتراض کرنے والوں کے اعتراض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل و انصاف پر ایک اعتراض پوشیدہ تھا۔ اگرچہ مدینہ کے مخلص صحابہؓ نے اس کی ہر طرح تردید کی اور معذرت کی۔ مگر دنیا میں اس کا اجر لینے سے محروم ہوگئے۔
پس یہ اعتراض بظاہر ایک معمولی بات تھی مگر اس اعتراض کا وار دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تھا اور یہ اعتراض پہلا کیڑا تھا جو ان کے قلب کے اندر گھن کے کیڑے کی طرح داخل ہوا اور جس نے اندر ہی اندر اُن کے سارے قلب کی حالت کو بدل دیا اور کھا لیا۔
لنگر کا انتظام ابتداء میں ایسا تھا کہ حضرت اقدس ؑ یہ چاہتے تھے کہ ہر احمدی لنگر خانہ سے ہی کھائے۔ چنانچہ سلسلہ کے سب عمائدین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ، حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ، حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ وغیرہ وغیرہ ابتداء میں سب کے ہاں لنگر سے ہی کھانا جاتا تھا۔ ایسی حالت میں لنگر کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ سینکڑوں آدمی لنگر سے کھانا کھا رہے تھے۔ حضرتؑ کے باغ کے مالی کی روٹی کو اعتراض کا ذریعہ بنا لینا ان کی اندرونی اور نفسی حالت کا آئینہ دار ہو سکتا ہے۔ الغرض اس طرح حضرت میر صاحب بعض لوگوں کی نگاہ میں بلاوجہ کھٹکے اور ان کو حضرت اقدس ؑ پر اعتراض کرنے کا پہلا زینہ بنایا گیا۔
دوسرا قدم
حضرت میر صاحب پر یہ اعتراض سن کر سننے والے نے کہا:
’’پھر آپ لوگ اس کو روکتے نہیں۔ تو خواجہ صاحب نے ماتھا پیٹ کر کہا کہ اگر ہم کہیں تو پھر کچھ بھی کام نہیں کر سکتے اور اگر کہہ سکتے تو بات ہی کیا تھی۔ یہ تو آپ جیسے بزرگوں کا کام ہے اور اسی وجہ سے آپ سے ذکر کیا ہے۔ تب اُس نے وعدہ کیا کہ اچھا، پھر مَیں اس کا ذکر کروں گا‘‘۔ ۱۷؎
اِس بالائی عبارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے کہ اس طریق پر لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا کہ وہ حضرت میر صاحب کے خلاف آواز اٹھائیں۔ گویا حاسد لوگوں نے سلسلہ کے اموال کو اپنے قبضے میں لینے کیلئے حضرت میر صاحب کو زینہ بنایا اور یہ طریق عام انسانی اخلاق کی حد سے بھی گرا ہوا تھا۔ چہ جائیکہ اس کا کوئی تعلق تقویٰ کی کسی راہ سے ہو۔
چنانچہ انسانی فطرت اپنی عادت کے مطابق کام کرتی ہے اور جب ایک قدم اُٹھ جاتا ہے تو پھر دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اُٹھتا چلا جاتا ہے اور انسان یہ نہیں معلوم کر سکتا کہ وہ ہلاکت کے گڑھے کی طرف جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح معترض لیڈر کا دوسرا قدم اُٹھا اور یہ قدم حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے خلاف براہِ راست تھا۔ ۱۹۰۶ء؁ میں مسجد مبارک کی توسیع ہو رہی تھی اس غرض کے لئے ایک وفد تین اصحاب پر مشتمل گجرات اور کڑیانوالہ کی طرف بغرض حصول چندہ جا رہا تھا تو وفد کے لیڈر نے ایک لمبا سوال شروع کیا۔ جو ۳۶ میل کے سفر میں طَے ہوا اس سوال کا خلاصہ یہ تھا۔
’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہؓ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آ کر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جُھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہؓ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اورتعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے‘‘۔
بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔۱۸؎
اس اعتراض کو پڑھیئے اور پھر خط کشیدہ عبارت کوغور سے ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچئے کہ جس دماغ کے یہ خیالات ہوں کیا اس کے قلب میں اپنے مرشد پر کوئی ایمان معلوم ہوتا ہے؟
۱۔ خاندانِ مسیح موعود ؑکی زندگی پرتعیّش کا اعتراض۔
۲۔ صحابہؓ کی زندگی سے بالکل مختلف زندگی بسر کرنے کا نقشہ پیش کرنے والے۔
۳۔ قومی روپیہ کو کھا جانے والے۔
۴۔ قومی روپیہ سے زیوارت اور کپڑے بنانے والے۔
یہ کن کو قرار دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کی مقدس بیوی کو۔ کسی مذہب کے آدمی سے دریافت کرو۔ وہ جس شخص کو اپنا ہادی اور راہنما تسلیم کرتا ہوگا۔ اس کے کسی فعل پر اعتراض نہیں کرے گا اور اگر کوئی شخص اس کے فعل پر اعتراض کرتا ہوگا تو وہ اس کو یقینا مسلوب الایمان سمجھے گا۔ اس امر کی حقیقت سے تو مَیں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے باب میں پردہ اُٹھائوں گا۔ مگر یہاں صرف اس قدر کہنا کافی ہوگا کہ یہ دوسرا قدم تھا جو حضرت میر صاحب کے بعد ان گم گشتہ طریق لوگوں نے اُٹھایا اور اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب پر اعتراض ہی اُن کو اس نتیجہ کی طرف لے گیا کہ وہ سلسلہ سے کٹ گئے۔ عبرت! عبرت! عبرت!!!
مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ناظم
سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیاد رکھنے کا ۱۸۹۷؁ء میں فیصلہ فرمایا اور ۱۸۹۸؁ء میں اس مدرسہ کا آغاز فرمایا۔ مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کیلئے جو لوگ بنیادی پتھر قرار دیئے گئے ان میں سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ تھے جو مدرسہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مدرسہ کے ناظم مقرر ہوئے اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ بنیادی تعمیر میں حصہ لینے والے لوگوں کو کس قدر محنت کرنی پڑتی ہے وہ ایک واضح امر ہے۔
ڈھابوں کی بھرتی کا کام
مدرسہ احمدیہ جس جگہ واقع ہے۔ یہ سب جگہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور یہاں بہت بڑی ڈھاب تھی۔ حضرت میر صاحبؓ کی دُور رس نگاہ نے اس جگہ کی قدرکو جانا اور سلسلہ کی ترقی اور ضرورت کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے سلسلہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اس ڈھاب میں جہاں ہاتھی غرق ہوتا تھا مٹی ڈلوانے کاانتظام کیا۔ چنانچہ بھرتی پڑنے لگ گئی۔ بھرتی پڑرہی تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور اُن کے رفقاء لاہور سے آئے انہوں نے ان بھرتیوں کو دیکھ کر کہنا شروع کیا کہ:
’’میر صاحب سلسلہ کا روپیہ غرق کر رہے ہیں‘‘۔
یہ اعتراض بھی اسی پہلے اعتراض کی ہی کڑی تھا۔ ورنہ میر صاحب کا مقام تو ان تمام اعتراضوں سے بہت بالا تھا۔ میر صاحب نے جب سنا تو فرمایا:
’’میں غرق کرتا ہوں تو تم سے لے کر نہیں۔ حضرت صاحب کا روپیہ ہے تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو۔ جائو حضرت صاحب کو کہو‘‘۔ ۱۹؎
بالآخر حضرت اقدس ؑ سے اس امر کا ذکر کیا گیا۔ حضور ؑ نے فرمایا:
’’کہ میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔
بعد کے واقعات نے بتلایا کہ اگر حضرت میر صاحب نے ان زمینوںکو پانی سے نکال کر سلسلہ کے لئے ایک قیمتی جائیداد نہ بنا لیاہوتا تو مرکزِ سلسلہ میں بہت مشکلات کا اضافہ ہو جاتا۔ آج وہ زمین سلسلہ کے مرکزی کاموں کے لئے کام آئی اور آج علوم عربیہ اور دینیہ کے پھیلانے کیلئے ایک ایسا مرکز بنی ہوئی ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے علم اور معرفت کی نہریں بَہہ رہی ہیں۔ جب تک دنیا رہے گی اور جب تک دنیا کو اس زمین سے فیض پہنچتا رہے گا۔ اُس وقت تک خدا کے نیک بندے حضرت میر صاحب کی اس خدمت کو یاد کر کے ان کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور ان معترضین کے اس قول کو نفرت سے دیکھتے رہیں گے کہ میر صاحب قوم کا روپیہ غرق کر رہے ہیں۔
سلسلہ کی عمارات
جہاں تک میرا علم ہے۔ مہمانخانہ، مدرسہ وغیرہ کی عمارتوں کا کام بھی حضرت میر صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ گول کمرے کے سامنے کا صحن کھلا پڑا تھا۔ حضرت میر صاحب نے کچھ پرانی اینٹیں جو زمین میں مدفون تھیں کھدوا کر نکلوائیں اور گول کمرے کے سامنے دیوار بنوا دی۔ حضرت میر صاحب جب زمین سے یہ مدفون اینٹیں نکلوا رہے تھے۔ اُس وقت بعض کوتاہ اندیشوںنے کہا کہ میر صاحب لغو کام کر رہے ہیں۔ مگر بعد میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ لغو کام کس قدر مفید اور بابرکت ثابت ہوا۔ حضرت عرفانی کبیر نے حیاتِ ناصر کے صفحہ۳۰ پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہی تعمیراتِ سلسلہ کے ناظم تھے اور اس کام کو انہوں نے نہایت دیانت اور درد اور اخلاص سے سرانجام دیا۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں بھی کبھی عار نہ ہوتا تھا اور نہ پیدل سفر کرنے سے پرہیز، نہایت کفایت شعاری سے وہ سلسلہ کے اموال کو جو اُن کے ہاتھ میں ہوتے خرچ کرتے تھے۔ ایک دنیا دار کی نظر میں اسے بے حیثیت کہا جائے مگر سچ یہ ہے کہ وہ ان اموال کے امین تھے۔
حضرت نانا جان نے جس دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو اداکیا وہ ہمیشہ آنے والی نسلیں عزت سے یاد کریں گی۔ انہوں نے کبھی اپنے آرام کی پرواہ نہ کی۔ کڑکتی دھوپ میں نگرانی کر رہے ہیں۔ پسینہ سر سے لے کر پائوں تک جا رہا ہے۔ برستی بارش میں اگر کوئی خطرہ ہوا ہے تو کھڑے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ان کی یہ ہمت اور یہ فرض شناسی اور اموالِ سلسلہ کی دیانت سے خرچ کرنے کی مثال ہمارے لئے سبق ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ یہ تمام کام وہ آنریری طور پر کرتے تھے۔ کوئی معاوضہ ان کاموں کا دنیا کے کسی سکہ کی شکل میں نہ لیا اور نہ خواہش کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی شاعری
حضرت میر صاحبؓ شاعر بھی تھے۔ اُن کے اشعار بہت آسان اور سلیس زبان میں ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گوندھی ہوئی مٹی ان کے سامنے پڑی ہے اور وہ اس سے حسبِ منشاء جو چاہتے ہیں بناتے جاتے ہیں۔ سلسلہ کی تائید میں حمد الٰہی، نعت نبیؐ اور اپنے سفر نامے اور بعض تحریکیں انہوں نے شعر میں لکھے۔ یہ بجائے خود ایک طویل مضمون ہے۔ وہ اپنی شاعری میں خیالی باتوں کی طرف نہ جاتے تھے۔ دشمنانِ سلسلہ کے خلاف منہ توڑ اشعار بھی لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دشمن کے متعلق لکھا:
اک سگِ٭ دیوانہ لدھیانہ میں ہے
آج کل وہ خر شتر خانہ میں ہے
الغرض اس طرح اُن کے دن اور رات خدمتِ سلسلہ میں لگے ہوئے تھے اور وہ بے غرض خدمت میں منہمک تھے کہ ان کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی ہوئی اور ۱۹۰۸ء ؁کا زمانہ آ گیا۔
۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء؁ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اور حضرت میر صاحبؓ کے کاموں کی نوعیت بدل گئی۔ حضرت میر صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
’’اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا کیونکہ وہ کام لینے والا ہی نہ رہا۔ دنیا سے اُٹھ گیا۔ میرصاحب، میر صاحب کی صدائیں اب مدھم پڑ گئیں بلکہ کئی اور میر صاحب پیدا ہو گئے۔ شکر ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا غرور مجھ سے دور ہوا اور ناز جاتا رہا کیونکہ کوئی ناز بردار نہ رہا۔ حضرت صاحب کی جدائی کے غم اور آپ کے سلسلہ کے کاموں سے سبکدوشی نے مجھے پریشان کر دیا‘‘۔ ۲۰؎
مسجد مبارک کی توسیع
اگرچہ مجھے اس امر کا ذکر پہلے کرنا چاہئے تھا مگر مَیں بھول گیا اور اس امر کا ذکر رہ گیا کہ مسجد مبارک کی توسیع جو ۱۹۰۶ء؁ سے ۱۹۰۷ء؁ تک جاری رہی۔ اُن معترضین کو جو میر صاحب کی مسابقت فی الدین کو بُری نگاہ سے دیکھتے تھے یہ چیز بھی تکلیف دے رہی تھی۔ مگر بے بس تھے۔ بعض کھڑکیوں وغیرہ کے متعلق جھگڑا ہوا۔ حضرتؑ تک معاملہ گیا۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ میر صاحبؓ نے ’’جہاں کھڑکیاں دروازے رکھ دیئے ہیں وہیں رہنے دیئے جائیں‘‘۔
اس سے اُس مقام کا پتہ چل سکتا ہے جو حضرت کے دل میں حضرت میر صاحبؓ کا تھا۔
بھرتیوں کے معاملہ میں فرمایا:
’’میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔

٭ بہ سگِ دیوانہ لودھانہ کے ایک محلہ شتر خانہ میں رہتا تھا۔ (عرفانی کبیر)
اور اس موقعہ پر فرمایا:
کہ جو کھڑکی وغیرہ میر صاحب نے جہاں رکھ دی ہے وہیں رہنے دی جائے۔
کاش! وہ معترضین اس امر سے اس پاک نفس بزرگ کے مقام کو سمجھ لیتے اور ٹھوکر سے بچ جاتے۔یہ تھی شان حضرت میر صاحبؓ کی اور اس مقام کا تھا وہ انسان۔
ایک اور موقعہ
حضرت میر صاحبؓ نے ایک دفعہ ایک کوٹ جو مستعمل تھا۔ اپنے ایک عزیز کو بھیجا مگر اس عزیز نے مستعمل کوٹ لینے سے انکار کر دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے نبی اور مامور کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے وہ کوٹ محض اس لئے رکھ لیا کہ کہیں میر صاحبؓ کو اس واپسی سے رنج نہ ہو۔ یہ تھا حضرت میر صاحب کا احترام اور اُن کے جذبات کا احساس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب میں۔
عہد خلافت اولیٰ اور حضرت میر صاحبؓ
خلافتِ اولیٰ کے ایام میں حضرت میر صاحبؓ نے قادیان کے غرباء کی حالت کا اندازہ لگا کر یہ چاہا کہ ان کی بہتری کی کوئی تجویز کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے ماتحت حضرت میر صاحب نے مسجد نور، ناصر وارڈ، ہسپتال مردانہ، زنانہ، دارالفعفاء کو مدنظر رکھ کر سارے ملک میں پھر کر چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ حضرت میر صاحب نے اس کام کے لئے شب و روز ایک کر دیا اور پیدل چل چل کر یہ کام کیا۔ چنانچہ آپ نے دو حصوں میں اپنا سفر نامہ تصنیف فرمایا جو نظم میں ہے۔ اس کے چند ٹکڑے نمونے کے طور پر یہاں درج کرتا ہوں۔ جن سے ان کی محنت، سعی اور تکلیف کا بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
قصبۂ قادیان کو کیوں چھوڑا

کیوں عزیزوں سے اپنا منہ موڑا
کیوں سفر اختیار تو نے کیا

کیوں انہیں دلفگار تو نے کیا
دین کے کام کے لئے مَیں چلا

تا جماعت سے لائوں میں چندا
احمدی بھائیوں سے لائوں مال

دینی کاموں پہ وہ لگائوں مال
چار کاموں کا ہے خیال مجھے

واسطے ان کے ہے ملال مجھے
مسجد و ہسپتال مردانہ

اک زنانہ بھی ہے شفاخانہ
کچھ غریبوں کے واسطے ہیں مکاں

امن و آرام سے بسیں وہ جہاں
مَیں نے کی ہے یہ اس لئے تکلیف

میرا مالک قوی ہے مَیں ہوں ضعیف
میرے دکھ کو خدا کرے آسان

غیب سے بخشے وہ مجھے سامان

…………

پانچ تاریخ تھی ستمبر کی

مجھ کو توفیق جب خدا نے دی
قادیان سے چلا بسوئے سفر

کی سواری سے میں نے قطع نظر
پاپیادہ چلا بٹالہ کو

اس سے مقصد تھے میرے دل میں دو
اپنی قوت کو آزمائوں مَیں

ریل تک پا پیادہ جائوں مَیں
دوسرے کچھ کرایہ بچ جائے

راہِ مولیٰ میں وہ بھی کام آئے
مجھ کو دُکھ ہووے قوم سُکھ پائے

میری خدمت یہ اس کو یاد آئے
لاہور کی طرف روانگی
فرمایا:
تیسرے درجہ کا ٹکٹ لے کر

فضل حق سے چلا مَیں بسوئے سفر
پہلے لاہور تک کا قصد کیا

ابر و باراں نے میرا ساتھ دیا
خوف آتا تھا سخت بارش سے

دل ڈراتے ہوا کے دھکے تھے
اسی بارش میں پہنچے ہم لاہور

نظر آتے تھے طَور کچھ بے طَور
اسی کیچڑ میں مَیں گیا لاہور

میری ہمت پہ آپ کیجئے غور
سفر میں گرمی کی تکلیف
فرمایا:
وہاں سے بھلوال میں مَیں جا اُترا

سخت گرمی تھی اُس جگہ بخدا
انسپکٹر کے ڈیرے پر جو گیا

نہ ملا مجھ کو کچھ بھی اُن کا پتا
اسی گرمی میں پہنچا چک پنیار

گرمی اور ماندگی سے تھا ناچار
ایک چک میں مَیں ہو گیا داخل

ہوا آرام نہ کچھ وہاں حاصل
کیونکہ احباب تھے گئے باہر

عورتیں بس گھروں کے تھیں اندر
ایک مسجد میں ایک مکتب تھا

اس جگہ مَیں غریب بیٹھ گیا
پانی مانگا تو وہاں ملی لسی

ہو کے ناچار مَیں نے پی لسّی
اس سفر کی تکالیف کا ذکر
آخرش جنڈ میں مَیں جب پہنچا

بے خبر ریل سے جو مَیں اُترا
مَیں گرا اپنے ہی ٹرنک پہ جب

پڑ گیا میری پسلیوں پہ غضب
دَ ہنی جانب کو سخت چوٹ آئی

دَرد سے ہو گیا مَیں سودائی
یار تھا اور نہ کوئی یاور تھا

ساتھ بس اک خدائے برتر تھا
فضل سے اس کے بچ گئی میری جان

بچ گیا مَیں یہ اس کا ہے احسان
میرے ہمراہ اک سوار ہوا

میرے صدمہ میں غمگسار ہوا
اس نے ہاتھوں سے میری خدمت کی

اور زباں سے مجھے تسلّی دی
پانچ گھنٹے وہاں رہا ناچار

خاک پر پڑ گیا بحالتِ زار
تھا نہ بستر نہ چار پائی تھی

مَیں نے تکلیف سخت پائی تھی
رمضان اور عید کیسے گذرے
آج ہے عید بس گیا رمضان

ہائے افسوس! چل دیا مہمان
سارا رمضان مَیں سفر میں رہا

اسی چندہ کے درد سر میں رہا
صبح سے شام تک رہا چلتا

ایبٹ آباد رات کو پہنچا
ایک جگہ فرماتے ہیں:


میرے مولیٰ نے مجھ پہ فضل کیا

تَن دیا اور وہ تندرست دیا
شکر حق پر تواں ہوا ہوں مَیں
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
شصت سالہ جواں ہوا ہوں مَیں
یہ نمونہ ہے، اس محنت، ہمت اور استقلال کا جو آپ نے اس سفر میں دکھایا۔
مسجد نور
اِن مساعی کے سلسلہ میں ۱۹۱۰ء؁ میں آپ نے مسجد نور کے لئے رقم جمع کرکے دی اور وہ تیار ہو گئی۔
ہسپتال
پھر تین ہزار روپیہ کی رقم جمع کر کے نور ہسپتال بنوایا۔
دَارُالضُّعَفأ
بہشتی مقبرہ کے قریب حضرت میر صاحب کی تحریک پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے بیس مکانوں کے لئے زمین دے دی اور آپ نے وہاں
غرباء کیلئے ایک محلہ آباد کر دیا۔ اس جگہ ایک کنؤان اور مسجد بھی بنوائی۔ بعد میں اِس جگہ کا نام ناصر آباد رکھا گیا اور اب اِسی نام سے مشہور ہے۔ جہاں اب تک غرباء کی ایک جماعت آرام کرتی ہے۔ اُن کے اندر رفاہِ عام کا بڑا جذبہ تھا۔ احمدیہ چوک میں انہوں نے پختہ اینٹوں کا فرش لگوایا اور وہاں کی نالیوںکی درستی کا کام کروایا۔ وہ غرباء کے لئے کپڑوں اور بستروں، رضائیوں وغیرہ کا بھی انتظام کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مجلس ایسی بنائی تھی جس میں لوگ مل کر دعائیں کیا کرتے تھے۔ ہفتہ میں ایک دفعہ لوگ اپنے گھروں سے کھانا لا کر اکٹھے بیٹھ کر کھاتے تھے۔ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو اپنے دوستوں کی ایک جماعت لے کر اس کی عیادت کو جاتے اور کبھی غریب اور معذور دوستوں کے کپڑے تک دھونے سے گریز نہ کرتے۔ وہ افسر مقبرہ بہشتی بھی رہے۔
الغرض انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں ہی کام کئے اور اُن کی تفصیل حیاتِ ناصر میں مل سکتی ہے۔ حضرت میر صاحب کی طبیعت میں غصہ تھا وہ جلد ناراض ہو جاتے تھے۔ مگر فوراً ہی صلح کر لیتے تھے۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کی اشاعت کے لئے بڑا جوش تھا۔ یہ ہے مختصر سی تصویر اس مرد کامل کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کا بڑا اداب کرتے تھے۔ ایک دفعہ ۱۹۰۵ء؁ میں جبکہ حضرت اقدس ؑ دہلی تشریف لے گئے تھے۔ حضرت میر صاحبؑ بھی وہاں ہی تھے۔ وہ وہاں بیمار ہو گئے تو فوراً حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو بذریعہ تار طلب کیا اور لکھا کہ بلا توقف چلے آئو۔ ان کا بھی کمال تھا کہ تار ملتے ہی بغیر گھر میں اطلاع دیئے اور بغیر سامانِ سفر لئے کے روانہ ہو پڑے۔ ۲۱؎
خلافتِ اولیٰ کیلئے حضرت میر صاحبؓ کا نام
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوگئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے اپنی تقریر میں جن لوگوں کو منصب خلافت کا اہل قرار دیا ان میں حضرت میر صاحب بھی ایک تھے۔ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا:
’’حضرت صاحب کے اقارب میں سے اس وقت تین آدمی موجود ہیں۔ اوّل میاں محمود احمد وہ میرا بھائی بھی ہے۔ میرا بیٹا بھی ہے۔ اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں۔ قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں۔ تیسرے قریبی نواب محمد علی خان صاحب ہیں‘‘۔ ۲۲؎
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب کا مقام حضرت خلیفہ اوّل کی نگاہ میں کیا تھا۔ گویا وہ ان کو اس مقام کے لوگوں میں سمجھتے تھے جو منصب خلافت پر فائز ہونے کے قابل تھے۔
اس مقام کا بزرگ، بے نفس خدمت کرنے والا انسان، سچ کہنے والا، غریبوں سے محبت کرنے والا، خدا کے دین کیلئے ذلیل سے ذلیل کام سے بھی پرہیز نہ کرنے والا۔ یہ تھا میر ناصر نواب حضرت اُمُّ المؤمنین کا باپ۔ مگر یہ بزرگ انسان ایک غدار گروہ کی آنکھوں میں بُری طرح سے کھٹکا کرتا تھا۔ اُن کو اس کی سچائی اور خدا لگتی بات پسند نہ آتی تھی کیونکہ یہ بزرگ نفاق سے سخت نفرت کرنے والا تھا اور منافقوں کو سخت حقارت سے دیکھا کرتا تھا ان کو بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ جو اپنے اندر کئی قسم کی روحانی امراض رکھتے ہیں مجھے اچھا نہیں جانتے۔ چنانچہ وہ اکثر کہا کرتے تھے: ’’سچی بات سعد اللہ کہے سب کے منہ سے اُترا رہے‘‘ اُن کی سچائی ہی اُن لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خاندان مسیح موعو دعلیہ السلام کے ابتداء سے دشمن تھے۔ اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد سے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اہل بیت سے انتہا درجے کی دشمنی تھی۔ وہ ان لوگوں کو خدا کے نشانات اور آیات میں سے نہیں سمجھتے تھے۔ اور ان لوگوں کے وجود کو ان برکات کا حامل نہیں سمجھتے تھے جن کا حامل ان کو خدا نے بنایا تھا اور ان مبارک وجودوں کو اپنی آزادیوں کے راستے میں روک خیال کرتے تھے اس لئے اُن کے دل بغض و حسد سے جل رہے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عشاق کی دنیا اس دنیا سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ وہ لیلیٰ کے کتے سے بھی پیار کرتے ہیں کیونکہ وہ محبوب کی گلی سے پھر کر آیا کرتا ہے مگر منافقوں کی دنیا بھی تو بالکل الگ ہوتی ہے وہ محبوب کی اولاد تو ایک طرف رہی اس کے کتے کے منہ کے لقمے پر بھی اعتراض کیا کرتے ہیں اور یہی اُن کے منافق ہونے کی نشانی ہے۔
چنانچہ باغ کی حفاظت کرنے والے کتے کی ہڈیوں پر اعتراض کرنے والے منافق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد، اہلبیت اور دیگر قرابت والوں کو ہمیشہ ٹیڑھی نگاہ سے دیکھاکرتے تھے اور یہی اُن کی سلسلہ سے دشمنی کی ایک کھلی دلیل تھی۔ چنانچہ وہ انسان جسے خدا تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کا باپ بنایا جسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صہری ابوت کا فخر حاصل ہوا جسے حضرت خلیفۃالمسیح اپنے ادب کا مقام قرار دیتے تھے اور منصب خلافت کا اہل قرار دیتے تھے۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی آنکھیں بند ہوتے ہی ان کے عتاب کا مورد بن گیا۔ چنانچہ خلافتِ اولیٰ کے خلاف سازشوں کا ایک جال ان لوگوں نے بچھایا اور اُن کی بُزدلی کا یہ عالم تھا کہ وہ خفیہ ہی خفیہ کارروائیاں کیا کرتے تھے۔ خفیہ مجلس اور خفیہ تجویزیںاور خفیہ ٹریکٹ شائع کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک ٹریکٹ خفیہ اور گمنام لاہور کی احمدیہ بلڈنگس سے اظہار الحق نمبر۲ کے نام سے شائع ہوا جس میں انہوں نے حضرت میر صاحب ؓ کے متعلق یوں لکھا:
’’اصل بات یہ ہے کہ جماعت میں سب سے بڑا فتنہ بپا کرنے والا میر ناصر نواب ہے جس کی زبان سے کوئی بزرگ سلسلہ بچا ہو تو بچا ہو۔ ورنہ اس نے جماعت میں وہ فتور مچا رکھا ہے کہ الامان والحفیظ۔ عوام تو اس کی اس لئے عزت کرتے ہیں کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رشتہ دار ی ہے مگر یہ شخص اس تعلق کو قوم میں فتنہ ڈالنے کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ اور جہاں جہاںجاتا ہے اس کی زبان سے کبھی انجمن یا اس کے سرکردگان خصوصاً مولوی غلام حسن صاحب،میر حامد شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب کی نسبت کلمہ خیر نہیں نکلا بلکہ ان لوگوں کی برائی کرنا اس نے اپنی تبلیغ کا ایک فرض سمجھ رکھا ہے۔
’’اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کا اپنا ایک الہام یاد آتا ہے جو اس نے قادیان میں سب کو سنایا تھا اور وہ یہ ہے کہ
ناصر تیری درندگی اب تک نہیں گئی
اور تو نے خداکی بندگی اب تک نہیں کری
’’غالباً میر صاحب موصوف کو ساری عمرمیں یہی ایک الہام ہوا ہے اور یہ جیسا کہ ان کی حالت پر صادق آتا ہے اور جاننے والے بخوبی جاتے ہیں اس شخص نے پیغام صلح کے بند کرانے کیلئے ناخنوں تک زور لگایا ہے اور ڈانٹ ڈپٹ سے ،گالی گلوچ سے پیغام صلح کے خریداروں کی خبر لی ہے۔
’’اگرمیرزا محمود صاحب یا مسیح موعود صاحبؑ کے دیگر رشتہ دار میر ناصر نواب اور ایڈیٹر الحکم کی زبان اور قلم کے طفیل بدنام ہوں تو ان کو برا نہ ماننا چاہئے کیونکہ ان کے داعیوں کے اخلاق ہی اس قسم کے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ پناہ دے تعجب آتا ہے کہ اس بوڑھے کو سوائے لوگوں کی برائی کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں رہا۔ جب اس کی زبان اور دلی کدورت کا یہ حال ہے جو روپیہ یہ لوگوں سے قومی کاموں کے ناموں پر بٹورتا ہے اور جس کا اس نے آج تک کبھی حساب آمد و خرچ شائع نہیں کیا ان میں یہ کیسے اخلاص سے کام لیتا ہو گا۔ ساری قوم کو ایسے آدمیوں نے اُلّو بنا رکھا ہے اور کن کن طریقوں سے یہ لوگوں کے دلوں میں زہر پھیلا رہے ہیں۔ قوم کے سرکردہ لوگ ہیں کہ قوم کی خبر تک نہیں لیتے ہیں۔ مولوی نورالدین صاحب نے ذرا ہنس کر میر صاحب کا نام لیا تو ساری قوم واہ واہ کرنے لگ پڑی اگر یہ شخص اس قسم کا فتور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ڈالتا تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا مگر اب پیر پرستی کا زور ہو رہا ہے۔
’’یہ شخص پہلے خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب اور ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار کے فوٹو لئے پھرتا رہا اور جماعت کو یہ بتاتا رہا کہ دیکھو خواجہ اور اس کا دوست عباد اللہ ڈاڑھی منڈوائے انگریزی فیشن میں بیٹھے ہیں۔ اپنے آدمیوں کی برائی کر کے ایڈیٹر زمیندار کی تعریف کرتا رہا کہ اس نے فیشن نہیں بدلا۔ یہی باعث ہے کہ خواجہ صاحب کی ڈاڑھی کی نسبت اس قدر بدگمانی جماعت میں پھیلی۔ جب اپنوں کا یہ حال ہے تو بیگانوں پر کیا الزام۔
’’جب تک ہماری جماعت میں اخلاقی جرأت پیدا ہو کر پیر پرستی کی بنیاد نہ اُکھڑے گی ایسے لوگوں کی زبانیں کبھی بند نہ ہوں گی اور جماعت سے ایسے فاسد خیال کبھی دور نہ ہوں گے۔ اب وقت ہے کہ بزرگانِ سلسلہ مل کر قومی مصائب سے چھٹکارے کا کوئی علاج تلاش کریں۔ یہ سلسلہ مولوی نورالدین صاحب یا میرزا محمود صاحب کا ذاتی نہیں بلکہ جملہ احمدیوں کا ہے۔ ہماری جماعت میں میر ناصر نواب کا یا رِغار یعقوب علی ایڈیٹر الحکم فتنہ پھیلانے میں بڑا حصہ لے رہا ہے‘‘۔ ۲۳؎
اس عبارت میں حضرت میر صاحبؓ پر مندرجہ ذیل الزامات لگائے گئے ہیں:
۱۔ مولوی غلام حسن صاحب،میر حامد شاہ صاحب ، مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب کی نسبت کبھی کلمہ خیر نہیں نکلا۔ ان کی برائی اپنی تبلیغ کا ایک فرض خیال کر رکھا ہے۔
۲۔ حضرت میر صاحبؒ کو ایک الہام ہوا تھا۔
ناصر تیری درندگی اب تک نہیں گئی
اور تو نے خدا کی بندگی اب تک نہیں کری
غالباً یہ اُن کو ساری عمر میں ایک ہی الہام ہوا ہے۔
۳۔ انہوں نے پیغام صلح کے بند کرانے کے لئے ناخنوں تک کا زور لگایا اور اس کے خریداروں کی گالی گلوچ سے خبر لی۔
۴۔ اگر (حضرت) میرزا محمود (احمد) صاحب یا مسیح موعود ؑکے دیگر رشتہ دار میر صاحب اور ایڈیٹر الحکم کی قلم کی وجہ سے بدنام ہوں۔
۵۔ جب ان کی دلی کدورت کا یہ حال ہے تو جو روپیہ وہ قومی کاموں کے نام سے بٹورتا ہے جس کا اس نے کبھی حساب نہیں دیا اس میں کس اخلاص سے کام لیتا ہو گا۔
۶۔ انہوں نے ساری قوم کو اُلّو بنا رکھا ہے۔
۷۔ لوگوں میںپیر پرستی کا زور بڑھ رہا ہے۔
۸۔ یہ شخض خواجہ صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب کی ڈاڑھی منڈی ہوئی اور انگریزی فیشن میں ملبوس ہونے کے فوٹو لئے پھرتا رہا۔
۹۔ جماعت میں سے پیر پرستی کی بنیاد اُکھاڑنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ایسے لوگوں کی زبانیں بند ہو سکیں۔
۱۰۔ سلسلہ مولوی نورالدین صاحب یا میرزا محمود صاحب کا نہیں بلکہ جملہ احمدیوں کا ہے۔
یہ دس باتیں اس تحریر سے نکلتی ہیں۔ اظہار الحق ٹریکٹ ایک خفیہ انجمن کا سرکلر تھا جس کا مرکز احمدیہ بلڈنگس لاہور میں تھا۔ اگر ان دس باتوں کی تردید پر پورے زور سے لکھا جائے تو یہ بجائے خود ایک کتاب کا مضمون ہے اور اس کتاب میں اس کی گنجائش نہیں۔ تاہم میں سرسری نگاہ سے ان اعتراضات پر کچھ لکھ دینا چاہتا ہوں۔
(۱)
حضرت میر صاحبؓ کا معمول یہ تھا کہ وہ حق کو حق کہتے تھے اور باطل کو باطل۔ چنانچہ جب تک ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر یقین نہ آیا انہوں نے پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور جب ان پر حق کھل گیا تو پھر اس کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔
جب ان کا یہ اصول تھا اور اسی اصول کے ماتحت ایک وقت انہوں نے اپنے عزیز ترین عزیز کی بھی مخالفت کی تو ان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ ان لوگوں کی ناجائز باتیں دیکھتے ہوئے بھی ان کی طرف داری کریں گے۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
کیا خواجہ صاحب یا مولوی محمد علی صاحب یا کوئی اور صاحب محض اس لئے کہ وہ بظاہر بڑے سمجھے جاتے تھے۔ ہرحد اور قانون سے باہر ہو گئے تھے۔ شریعت کا قانون تو ایک مزدور اور گداگر اور ایک بادشاہ کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ کیا تاریخ اسلام جبلہ کے ارتداد کو بھول سکتی ہے جو غسّانیوں کا بادشاہ تھا۔ مگر قانونِ شریعت کی زد سے بچنے کے لئے مرتد ہو گیا تھا۔
پس جب قانونِ شریعت کسی کو نہیں چھوڑتا تو خواجہ صاحب جو مبلغ اسلام کے لباس میں تھے ان کے ڈاڑھی منڈوانے کے فعل کے متعلق میر صاحبؓ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس کی تعریف کریں گے خود اس امر کی دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کے قلب میں شعائر اسلام کی کوئی عزت نہیں تھی۔
معترض چاہتا ہے کہ حضرت میر صاحبؓ ان لوگوں کی جاوبیجا تعریف کریں اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیتا ہے۔
ان لوگوں کی حالت اس حد تک مسخ ہو چکی تھی کہ یہ چاہتے تھے کہ خواجہ صاحب مبلغ اسلام ہو کر بھی اگر ڈاڑھی منڈوادیں تو ان کی مذمت نہیں تعریف کرنی چاہئے اور اہلِ بیت اگر لوگوں کی نیکی کی طرف بلائیں اَور لوگ ان کی بات مان لیں تو پیر پرست بن جائیں۔ العجب!
انہوں نے لکھا ہے کہ میر صاحب کبھی ان کی تعریف نہیں کرتے تھے یہ بھی غلط ہے۔ چنانچہ میر صاحب کی تحریریں ان کی اس بات کی تردید کرتی ہیں۔ حضرت میر صاحب حضرت مولوی غلام حسن صاحب کی نسبت فرماتے ہیں:
ہیں یہاں مولوی غلام حسن

خَلق میں خوب خُلق میں احسن
ہیں جماعت کے وہ یہاں سردار

کل جماعت ہے ان کی تابعدار
پائی مَیں نے وہاں بہت راحت

سنے ان سے کلام پُر اُلفت
۲۴؎
حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ کی نسبت فرماتے ہیں:
ملے مسجد میں مجھ کو حامد شاہ
ان سے راضی رہے سدا اللہ
خواجہ کمال الدین صاحب کے لیکچر کی نسبت فرماتے ہیں:
خواجہ صاحب کا تھا وہاں لیکچر

پر نہ مسرور مَیں ہوا سن کر
ہمراہی کو نہ مجھ کو کوئی ملا

جو جوانوں میں مجھ کو لے جاتا
لوگ کہتے تھے خوب لیکچر تھا

خوب بولا مرا سخنور تھا
بھائیوں کو خوشی ہوئی سن کر

خواجہ لاتے تھے بات کو چن کر
خیر سے وعظ تمام ہوا

خواجہ صاحب کا خوب نام ہوا
یہ چھپی ہوئی شہادت موجود ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحبؓ اچھی بات کو اچھا کہتے تھے اور بُری کو بُرا۔
اس طرح جب انہوں نے ان لوگوں کی نیتوں میں فتور ان کے اخلاص میں کمی۔ سلسلہ کے اموال کو اپنے ہاتھ میں لینے کا شوق، لوگوں پر حکومت کرنے کا جذبہ محسوس کیا تو ان کو ان لوگوں سے نفرت ہو گئی اور یہ چاہتے تھے کہ کوئی ان کو روکنے والا نہ رہے اور کوئی ان کی حرکات سے سلسلہ کے افراد کو آگاہ اور مطلع نہ کرے۔ مگر فداکارانِ سلسلہ سے کب ایسی توقع ہو سکتی تھی اور یہی چیز ان کی نگاہ میں کھٹکتی تھی۔
(۲)
حضرت میر صاحبؓ کی طرف ایک الہام انہوں نے منسوب کیا ہے۔ جو ان لوگوں کے خلاف ہمیشہ ایک حُجت رہے گا کہ یہ لوگ افتراء علی اللہ سے بھی پرہیز نہیں کرتے تھے۔ حضرت میر صاحبؓ کے گھرانے کو خداتعالیٰ کا حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے انتخاب کرنا اور پھر خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکم الصِّھْرَوَالنَّسْبَ
بذاتِ خود حضرت میر صاحبؓ کی نیکی، تقویٰ، پاکیزگی، شرافت ذاتی، شرافت نسبی کی ایک کھلی کھلی دلیل ہے۔ خدا کی اس شہادت کے بعد یہ مصنوعی الہام ان لوگوں کے منہ پر ایک تھپڑ ہے جو ہر نیک اور صاحبِ بصیرت کی اس طرح راہنمائی کرے گا کہ ان لوگوں کے قلوب کی حالت کس قدر خراب ہو چکی تھی کہ وہ لوگوں کو حق بات سے ہٹانے کے لئے افتراء تک سے پرہیز نہ کرتے تھے۔ اگر ان سے کوئی دریافت کرے کہ تم بتلاؤ کہ یہ الہام کہاں درج ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت میر صاحبؓ کو یہ الہام ہوا تھا؟
سوال نمبر ۳ کی بھی ایسی ہی نوعیت ہے یہ بھی ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔
(۴)
اہلبیت اگر حضرت میر صاحبؓ اور ایڈیٹر الحکم کی وجہ سے بدنام ہوں تو ان کا برا نہیں ماننا چاہئے۔
بدنامی کا سبب حضرت میر صاحبؓ یا حضرت ایڈیٹر صاحب الحکم نہ تھے بلکہ خفیہ سازشیں، خفیہ ٹریکٹ، خفیہ منصوبے، خفیہ انجمنیں تھیں جو ان لوگوں نے بنا رکھی تھیں اور بعد کے واقعات نے سب کچھ طشت ازبام کر دیا تھا۔
(۵)
حضرت میر صاحبؓ کے جمع شدہ چندہ پراعتراض۔ یہ بھی ایک لغو اور فضول اعتراض تھا۔ مزہ تو تب تھا کہ تم دو چار ایسے آدمیوں کو کھڑا کرتے جو مؤکدبعذاب قسم کھا کر کہتے کہ ہم نے حضرت میر صاحبؓ کو اتنی اتنی رقوم دی تھیں اور وہ انہوںنے کھا لیں۔ حضرت میر صاحبؓ جو روپیہ لاتے تھے وہ صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ میں جمع کروا دیا کرتے تھے۔ ان کی بنی ہوئی عمارتیں زبانِ حال سے آج پھر حضرت میر صاحبؓ کی خدمات کا اعتراف کر رہی ہیں۔
مسجد نور صدرانجمن کی نگرانی میں بنی۔ نور ہسپتال کا روپیہ دو سال سے زائد مولوی محمد علی صاحب کے پاس امانت پڑا رہااور بالآخر انہوں نے ہی اسے بنوایا۔ ان کا دامن تو ان واقعات کے لحاظ سے پاک نظر آتا ہے اور پھر ان کی پاکیزگی پر دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ زندگی بھر حضرت مسیح موعود ؑ کے دامن سے وابستہ رہے۔ خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں اپنی اطاعت کا یکرنگ ثبوت دیا اور آج وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بہشتی مقبرہ کے اس حصہ میںمیٹھی نیند سو رہے ہیں جس پر باوجود انتہائی دشمنی کے تمہارے عمائدین اعتراض نہیں کر سکتے اور وہ جن کو یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ سلسلہ کے اصل بہی خواہ ہیں۔ آج ان کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہیں اس دنیا میں بھی وہ الگ ہو گئے اور موت نے ان کی قبروں کو بھی دور کی زمین میں منتقل کر دیا۔ ان کے عقائد بھی بدل گئے ان کے خیالات بھی بدل گئے ان کو مسیح موعود علیہ السلام کی ہر ایک چیز سے دشمنی ہو گئی۔ یہی ایک چیز بطور حدِ فاصِل اور سنگِ میل کے دنیا کو نظر آتی رہے گی۔
بالکل یہی صورت دوسرے اعتراضوں کی ہے۔ ان کی قلم اور زبان خلافتِ اولیٰ، خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام اورجماعت احمدیہ کے خلاف یکساں چلی اور کوئی بزرگ اور نیک نفس ان کی فتنہ سازی سے بچ نہ سکا۔
پس حضرت میر صاحبؓ کی مخالفت کا محوری نقطہ یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ دار تھے۔ وہ ان لوگوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے تھے۔ وہ ان سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ قوم ان کی بات سنتی تھی اور ان کا اثر قوم میں تھا۔ حتی کہ خلیفہ وقت بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ یہ تھا اصل جرم اور یہی چیز تھی جس سے ان کو ڈر آتا تھا اور ان کو خیال پیدا ہوتا تھا کہ یہ چیز ہمارے لئے کسی وقت ایک پہاڑ بن جائے گی اور ان کا خوف بھی سچا تھا۔ بالآخر سچائی کا یہ پہاڑ ان کے راستہ میں کھڑا ہو کر رہا۔
(۴۔۵)
قوم کو اُلّو بنا رکھا ہے۔ پیر پرستی کا زور بڑھ رہا ہے۔ یہ الفاظ سلسلہ کے افراد کی کھلی کھلی توہین تھے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ قوموں کی سائیکالوجی جاننے والے جانتے ہیں کہ الفاظ کے پیچھے بھی ایک قوت ہوتی ہے۔ حکومتیں ،اصطلاحات اور الفاظ کی طاقت سے کی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں وکٹری ایک لفظ ہے یا ایک اصطلاح جس کا کتنا گہرا اثر ہے۔ غدّاری ایک لفظ ہے اس کا کس قدر شدید اثر ہے۔ اتحادی،دوست،ساتھی ان سب الفاظ کا ایک اثر ہے۔ اسی طرح کانگرس کے زور کے زمانے میں ٹوڈی بچہ،جھولی چُک، طاعونی کیڑے وغیرہ الفاظ وضع کئے گئے تھے اور ان کا کس قدر گہرا اثر تھا۔ عدم تشدّد سوراج، اکھنڈہند، پاکستان۔ اِن سب الفاظ کے پیچھے بہت بڑے مطالب پوشیدہ اور پنہاں ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مذہبی خیال کے لوگوں کی مذمت دقیانوسی اور اولڈ فیشن کے الفاظ سے کی جاتی تھی۔
بالکل اسی سائیکالوجی کے ماتحت ان لوگوں نے جنہوں نے سلسلہ میں ایک فتنہ کی بنیاد رکھی۔ ہر اس شخص کی بھیانک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جو ان کے خیالات کے راستے میں روک تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ پر بھی ڈھنگ ڈھنگ سے اعتراض کئے۔ انہوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام پر بھی اعتراض کئے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پاک پر بھی اعتراض کئے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خُسر پر اعتراض کئے۔ انہوں نے خلافتِ اولیٰ پر بھی اعتراض کئے اور مجھے فخر ہے کہ ان پاکبازوں کی جماعت کے ساتھ میرے والد بزرگوار حضرت عرفانی کبیر پر بھی اعتراض کئے۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے جماعت کے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کیلئے اُلّو اور پیر پرست کے خطابات وضع کئے تھے۔ یہ ایسے ہی خطابات تھے جیسے ٹوڈی بچہ، دقیانوسی غدّار وغیرہ خطابات وضع کئے گئے تھے تاکہ لوگ ان الفاظ کی تاثیراور شناخت سے متاثر ہو کر دامن خلافت سے،سچائی سے، اہلِ بیت کی محبت سے الگ ہو جائیں مگر خدائی قلعہ میں رہنے والی جماعت اس قسم کے سحر سامری سے متاثر نہیں ہوا کرتی۔ وہ ایک بنیانِ مرصوص کی طرح آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت میر صاحبؓ خلافت ثانیہ میں
حضرت میر صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت ثانیہ کا زمانہ بھی دکھایا۔ انہوں نے جیسی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں دکھائی۔ جس فرمانبرداری کا ثبوت خلافتِ اولیٰ میں دیا اسی اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت خلافتِ ثانیہ میں دیا۔ ابتدائے خلافتِ ثانیہ میں وہ دبا ہوا فتنہ کھڑا ہو گیا۔ ایک فریق نے جو ان لوگوں سے متاثر تھا اس بغاوت میںحصہ لیا اور وہ خلافت کے مقابل میں دشمن بن کر کھڑے ہو گئے۔ حضرت میر صاحبؓ کو اس فتنہ کو دبانے کی بھی توفیق ملی۔
میر صاحبؓ کی زندگی کے چند اور واقعات
میں نے لکھا ہے کہ حضرت میر صاحب قبلہ کی طبیعت میں سختی تھی۔ قرآن کریم نے مومنوں کی صفت یہ بیان کی ہے۔
اَشِدَّآ ئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ
ان میں ایک سختی بھی ہوتی ہے۔ جو سختی غیرت دینی کے ماتحت ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل تعریف ہوتی ہے۔ حضرت میر صاحبؓ کی سختی بھی غیرت دینی کے ماتحت ہی تھی اور جن لوگوں کو وہ نیک دل مومن یقین کرتے تھے ان کی ہر خدمت کرنے کے لئے تیار تھے۔ بعض اوقات نانا جان عرف عام کے لحاظ سے نہایت ہی غریب طبقہ کے لوگوں کو مگر جن کے سینے نورایمان سے معمور ہوتے تھے ساتھ ساتھ لئے پھرتے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے۔ محبت کی باتیں کرتے اور اپنے ساتھ بڑے بڑے آدمیوں کی مجلسوں میں لے جاتے تھے۔ یہ شان ان کی بے نفسی، محبت صلحاء کی ایک کھلی کھلی دلیل ہے۔ وہ غریب لوگوں کی حالت پر رقیق القلب بھی تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ وہ جب کسی بھائی سے ناراض ہوتے تو فوراً صلح میں بھی پیش دستی فرمایا کرتے تھے۔
عرفانی کبیر سے ناراضگی اور صلح
ابتدائی ایام میں ۱۸۹۸ء؁ کی بات ہے۔ جبکہ عرفانی کبیر مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈماسٹر تھے اور حضرت میر صاحب ناظم تھے۔ کسی بات پر دونوں میں ناراضگی ہو گئی حضرت عرفانی کبیر نے چاہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شکایت کریں۔ حضرت اقدس ؑ متوجہ ہوئے ہی تھے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے انہیں ڈانٹ دیا اور حضرت اقدس ؑکے دریافت کرنے پر عرض کی کہ میں سمجھا دوں گا۔ دوسرے دن حضرت مخدوم الملت نے حضرت میر صاحبؓ کے مناقب بیان فرمائے۔ فرمایا:
’’یہ وہ شخص ہے جو حضرت اُمُّ المؤمنین کا باپ ہے وہ طبیعت میں بیشک تیز ہوں۔ مگر بہت صاف باطن اور خیرخواہ ہیں۔ تم ان سے صلح کر لو‘‘
عرفانی کبیر نے ان کی بات مان لی اورچاہا کہ جا کر ان سے معذرت کریں۔ مگر دیکھا کہ حضرت میر صاحبؓ خود تشریف لا رہے ہیں۔ آتے ہی بآواز بلند السلام علیکم کہا اور عرفانی کبیر کو پکڑ لیا اور اظہار محبت فرمایا۔
ایک اور واقعہ
جناب شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی جو خود بھی تیز طبیعت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت میرصاحب سے کسی بات پر ناراض ہو گئے۔ یہ ۱۳ء ؁کی بات ہے۔ حضرت میر صاحبؓ جب حج سے واپس آئے۔ تو شیخ صاحب کی دکان پر آئے ان سے ملاطفت کی باتیں کیں اور فرمایا کہ:
’’یہ دیگچی اور رکابی ہے۔ اس میں ہم مکہ مکرمہ میں کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔ میں نے وہیں ایام حج میں ہی نیت کر لی تھی کہ واپس آ کر آپ کو دوں گا۔ اگر آپ خوشی سے لے لیں۔‘‘
اس طرح شیخ صاحب کی دلداری بھی کی اور ان سے صلح بھی کر لی۔ الغرض حضرت میر صاحب صلح کرنے میں بھی بہت پیش پیش تھے۔
آپؓ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مجھے حضرت میر صاحبؓ کی سیرت کا ایک عجیب واقعہ سنایا۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک زمانہ میں مَیں دکان کیا کرتا تھا۔ جس میںناشتہ وغیرہ کیک‘ پیسٹری‘ سوڈا برف‘ دودھ وغیرہ ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی حضرت میر صاحب میری دکان میں تشریف لایا کرتے اور جس چیز کی خواہش کرتے وہ پیش کر دی جاتی۔ بھائی جی کا مذہب تو دراصل مذہب عشق تھا۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سچا عشق تھا۔ اس عشق کی وجہ سے خاندانِ مسیح موعود ؑ کے ہر فرد سے عشق تھا اور ہے ۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ بعض اوقات خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے نونہالوں کے ہاتھوں کو بوسہ دے دیا کرتے ہیں کیونکہ ان کو یہ اس درخت کے پھول اور پھل نظر آتے ہیں جو ہمیشہ ان کی محبت کا نقطہ مرکز یہ رہا۔ الغرض اسی محبت کی وجہ سے ان کو حضرت میر صاحبؓ کا بڑا ادب اور پاس تھا اور محبت تھی۔ وہ خوشی سے لبریز ہو جایا کرتے تھے۔ جب کبھی حضرت میر صاحبؓ دوکان میں آتے اور اس خوشی میں ہر اچھی سے اچھی چیز اٹھا کر آگے رکھتے چلے جاتے۔ حضرت میر صاحبؓ ؓخود کھاتے اور کبھی اپنے دوستوں کو بھی کھلاتے اور کبھی کبھی موج میں آ کر فرما دیا کرتے کہ:
’’میاں عبدالرحمن! ہم اپنا حق سمجھ کر کھاتے ہیں اور یہ اس لئے کہ ہمارا اور آپ کا تعلق بڑھے۔‘‘
بھائی جی فرماتے تھے کہ اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت میر صاحب ؓمفت کھاتے تھے۔ بیشک وہ اس وقت عام خریداروں کی طرح قیمت ادا نہ کرتے تھے۔ مگر جب تک وہ دگنی تگنی خدمت دوسرے رنگ میں نہیں کر لیتے تھے وہ مطمئن نہ ہوتے تھے۔
بھائی جی کے دل میں ایک سوال ہمیشہ گدگدی کیا کرتا تھا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے ایک دن دکان میں تنہا ہی تھے۔ حضرت میر صاحبؓ تشریف لے آئے۔ ان کی طبیعت اس وقت بہت خوش تھی۔ بھائی جی جو موقع کی تلاش میں تھے نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر سوال کر دیا۔ حضرت! یہ مقام جو آپ کو حاصل ہوا اس میں کیا راز ہے۔ وہ کونسی بات تھی جو آپ کو اس جگہ پر لے آئی؟ حضرت میر صاحبؓ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ رقت ان کے گلے میں گلوگیر ہو گئی مگر اس بھرائی آواز میں فرمایا:
’’میرے ہاں جب یہ بلند اقبال لڑکی پیدا ہوئی۔ اس وقت میرا دل مرغِ مذبوح کی طرح تڑپا اور میں پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الٰہی پر گر گیا میں نے اُس وقت بہت درد اور سوز سے دعائیںکی۔ کہ اے خدا! تو ہی اس کے لئے سب کام بنائیو۔ معلوم نہیں اس وقت کیساتھ قبولیت کا وقت تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے صدقے میں مجھے یہاں لے آیا۔‘‘
یہ روح ہے۔ اس جواب کی ممکن ہے الفاظ میں مُرور ایام سے کچھ فرق پڑ گیا ہو۔
بھائی جی جب مجھے یہ واقعہ سنا رہے تھے ان کے چہرے کی ایسی حالت تھی۔ گویا کہ وہ میر صاحبؓ کو سامنے بیٹھے دیکھ رہے ہیں اور ان کی رقتِ قلب ان کے قلب پر اثر کر رہی تھی اور خود بھائی جی کی بھی اس وقت آواز بھرا آئی اور رقت سے آنکھیں لبریز تھیں۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش کا واقعہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ اس وقت کوئی خاص گھڑی تھی۔ دعا کی قبولیت کا خاص وقت تھا ۔ کیونکہ ایک بڑی پاکیزہ روح آسمان سے لائی جا رہی تھی۔ ملائکہ زمین پر اُترے ہوئے تھے۔ جو زمین کو اپنی برکتوںسے مالا مال کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب قبلہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق متواتر دعاؤں میں لگے رہے۔ کیونکہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی شادی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی لکھا کہ:
’’دعا کرو کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے۔‘‘
دعاؤں کی یہ کثرت اور حضرت میر صاحبؓ جیسے باخدا انسان کی دن رات کی گریہ وزاری جہاںحضرت میر صاحب کی ذاتی سیرت پر ایک بڑا بیّن اثر ڈالتی ہے۔ وہاں حضرت اُمُّ المؤمنین کے مقام کا بھی پتہ دے رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا
۱۳ مارچ ۱۹۰۶ء؁ کو حضور ؑ نے ایک رؤیا دیکھی کہ ’’میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں جو پھلدار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہو گیا جو بیدانہ توت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سبز تھا اور پھلوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور پھل اس کے نہایت شیریں تھے اور عجیب تر یہ کہ پھول بھی شریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیںتھا۔ ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دنیا میں دیکھا نہیں گیا میں اس درخت کے پھل اور پھول کھا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی‘‘۔ ۲۵؎
یہ رؤیا بالکل واضح ہے وہ درخت جو حضرت میر صاحب کی معرفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا وجود مبارک ہی تھا جو ایک بڑا درخت بن گیا۔ جس کے پھل اور پھول سب شریں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ میں تو ایسے پاکیزہ درخت کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگرپیشگوئیاں جو اس بابرکت خاندان کے متعلق ہیں۔ وہ اس رؤیا کی کھلی کھلی تفسیر ہیں۔
الغرض حضرت میر صاحبؓ کا مبارک وجود بذاتِ خود ایسا قیمتی وجود تھا کہ جن کو اتنی بڑی سعادت و دولت نصیب ہوئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین جیسی بیٹی ملی۔ یہ مرد کامل اپنی زندگی کے ایام نیکی،تقویٰ، بھلائی، مخلوق کی ہمدردی میں گزار کر ۱۹۔ستمبر ۱۹۲۴؁ء کو بروز جمعہ ۹ بجے صبح اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
نماز جنازہ
جماعت کے ساتھ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے پڑھائی کیونکہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس وقت سفر یورپ میں تھے۔
خطبہ جمعہ میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا:
’’مجھے ضرورت نہیں کہ میں ان کے اوصاف آپ لوگوں کے سامنے بیان کروں کیونکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ان کو خداتعالیٰ نے ہم میں سے یہ خاص امتیاز اور سعادت بخشی تھی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خُسر تھے۔ آپ نے اپنی زندگی مومنانہ اور متقیانہ طور پر بسر کی ہے۔ ہمیشہ قال اللہ اور قال الرسول پر کاربند رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ایسے عہدے کی ملازمت میں گزارا جس میں رشوتیں لی جاتی ہیں اور پھر انواع واقسام کے لالچوں کا بھی موقع تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ بچائے رکھا اور کبھی کوئی ناجائز چیز نہ لی۔ آپ بہت عرصہ حضرت مسیح موعود ؑ کے قُرب میں رہے اور اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر دی اور بنی نوع کی خبر گیری اور بہتری کے لئے کوشاں رہے باوجود بوڑھے اور کمزور ہونے کے دین کی خدمت، غریبوں اور ضعیفوں کی مدد کرتے رہے۔ دین کے لئے چندہ وصول کرنے کے لئے ایسی ایسی جگہیں گئے جہاں ابھی تک ہمارے مبلغ بھی نہیں گئے۔ آپ نے چندہ سے مسجد نوربنوائی۔ جو آپ کی یادگار ہے۔ پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے نور ہسپتال بنوایا جو آپ کے نام کو ہمیشہ کیلئے روشن کرتا رہے گا۔ دُورالضعفاء کا محلہ آباد کیا۔ ہرممکن صورت سے غریبوں کی امداد کرتے رہے اور اسی کام میں انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔یہاں تک کہ آپ کو موت آ گئی۔ جس سے چارہ نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ جس طرح انہوں نے ہماری خبر گیری اور امداد میں زندگی گزاری ہے ہم بھی ان کے لئے بہت بہت دعائیںکریں کہ خدا تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں داخل کرے۔‘‘ ۲۶؎
حضرت امیرالمومنین کی سفر یورپ سے واپسی
۲۴۔ نومبر ۱۹۲۴؁ء کی صبح کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنے قافلہ سمیت واپس تشریف لے آئے۔ آپ نے تمام خدام سے ملاقات کے بعد فرمایا:
’’میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب میں پیدل ہی قادیان جاؤں گا۔ لیکن قادیان میں داخل ہونے سے پہلے میرا منشاء ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر جاؤں کیونکہ وہاں جا کر دعا کرنی ہے اور میر صاحب (یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب) کا جنازہ بھی پڑھنا ہے مگر وہاں صرف میں اور میرے ہمراہی ہی جائیں گے جو میرے ساتھ سفر سے آئے ہیں۔ وہاں سے لَوٹ کر ہم مسجد مبارک میں نماز پڑھیں گے۔‘‘ ۲۷؎
چنانچہ اسی پروگرام کے ماتحت مقبرہ بہشتی میںتشریف لے گئے۔ مقبرہ کے کنوئیں پر وضو کر کے پہلے اکیلے حضرتؑ کے مزار پر جا کر دعا کی۔ پھر اپنے رفقائے سفر کو بھی بلا لیا۔ پھر سب نے مل کر دعا کی۔ دعا کے بعد حضور نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی قبر پر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھی۔
یہ ہے مختصر تاریخ اس باخدا انسان کی جو آج اپنے محبوب کے قدموں میں بہشتی مقبرہ کی چاردیواری کے اندر ابدی نیند سو رہا ہے اور اس کا یہ قرب اس تعلق کو خوب ظاہر کرتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ع
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
یہ قرب اور یہ زندگی میں اور پھر موت کے بعد یہ دائمی قرب ان تمام اعتراضات کا خداتعالیٰ کی طرف سے منہ توڑ جواب ہے۔ جو معترضین نے حضرت میر صاحبؓ کی ذات پر کئے اور یہ ہے خداتعالیٰ کی فعلی شہادت ۔ اے دیدہ بینا! دیکھ اور سبق لے!
نقشہ قطعہ نمر۲


سیّدہ سارہ بیگم صاحبہؓ
مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیّدہ امۃ الحی صاحبہؓ
مزار حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ


سیّدہ بیگم صاحبہؓ۔ نانی اماں







حضرت نانی اماںؓ
حضرت اُمُّ المؤمنین کی والدہ محترمہ کا اسم مبارک سیّد بیگم تھا۔ نانی اماں کے بزرگوں میں سے میرزا فولاد بیگ ایران سے آئے تھے۔ میرزا فولاد بیگ کے بیٹے میرزا نیاز بیگ صاحب تھے۔ آگے میرزا نیاز بیگ صاحب کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ یعنی ۱۔میرزا محمد بیگ صاحب ۲۔نذر محمد بیگ المعروف کپتان صاحب ۳۔علی محمد بیگ۔ ۴۔بیگم جان صاحبہ منسوب بہ نواب احمد بخش خان صاحب لوہارو ۵۔ شہزادہ بیگم صاحبہ۔ نذر محمد بیگ صاحب عرف کپتان صاحب کی نو اولادیں تھیں۔ جن میں سے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ جن کے اسماء میں ترتیب وار لکھتا ہوں۔
۱۔قادری بیگم صاحبہ۔ ۲۔عبدالقادر بیگ۔ ۳۔سکینہ بیگم۔ ۴۔عبدالحکیم بیگ۔ ۵۔عبدالعزیز بیگ۔ ۶۔عبدالرزاق بیگ۔ ۷۔سردار بیگ۔ ۸۔عبدالرحمن بیگ۔ ۹۔عبدالرحیم بیگ۔
ان میں سب سے بڑی قادری بیگم تھیں۔ جو حضرت نانی اماں سیّد بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں۔ نانی اماں کی ایک چھوٹی ہمشیرہ تھیں جن کا نام معظم بیگم تھا۔
قادری بیگم صاحبہ کی شادی سیّد عبدالکریم صاحب سے ہوئی۔ جو کپتان نذر محمد صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے۔ سیّد بیگم صاحبہ کی شادی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے ہوئی تھی اور معظم بیگم صاحبہ کی شادی سیّد ابراہیم صاحب سے ہوئی تھی۔
عبدالقادر بیگ جو قادری بیگم کے بھائی تھے۔ ان کی اولاد چار لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ جن کے حسب ذیل اسماء ہیں:
۱۔عبدالقدیر بیگ۔ ۲۔عبدالرشید بیگ۔ ۳۔عبدالجلیل بیگ۔ ۴۔جمیل بیگ۔ ۵۔مشرف جہان بیگم۔
ان میں سے نمبر ۱ اور نمبر۵ کے سوا باقی ۲،۳،۴ لاولد رہے۔ نمبر ایک کی اولاد میں سے میرزا سلیم بیگ صاحب، میرزا رفیق بیگ صاحب، بلقیس بیگم صاحبہ زوجہ حکیم ظفر احمد صاحب دہلوی اور میرزا سلام اللہ بیگ صاحب اور ان کی اولادیں ہیں اور مشرف جہان بیگم صاحبہ کی اولاد سے میرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدرآباد دکن ہیں۔ یہ کنبے اب حیدرآباد میں آباد ہیں۔
الغرض نانی اماں کی والدہ کا نام قادری بیگم اور والد کا نام سیّد عبدالکریم صاحب تھا۔ سیّد عبدالکریم صاحب سرکار انگریزی کے خیرخواہوں میں تھے۔ مگر افسوس کہ دہلی کے غدر ۱۸۵۷؁ء میں بلاتحقیق ان کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی۔ بعد میں یہ حقیقت کھلی مگر اب اس کا کیا علاج کیا جا سکتا تھا۔
نانی اماں کا خاندان بہت پھیلا ہوا ہے۔ لوہارو والوں سے بھی رشتہ داری پرانی چلی آتی ہے۔ باقی عزیز دہلی،بھوپال، بہار، جلیسر، حیدر آباد دکن، جدہ، اجمیر اور قادیان وغیرہ مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بقول میرزا سلیم بیگ صاحب ہندوستان کے چاروں کھونٹوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور سب تعلیم یافتہ معزز عہدوں پر فائز ہیں۔ جن کی کلی تفصیل اس جگہ نہیں آ سکتی۔
ایک عجیب اتفاق
ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب سے یہ خاندان ہندوستان میں آیا ان کا تعلق مغلوں سے کچھ ایسا رہا کہ خاندان کے آدھے افراد مغل اور آدھے سیّد نظر آتے ہیں۔ کہں میاں مغل ہے تو بیوی سیّدانی اور کہیں میاں سیّد ہے تو بیوی مغلانی اور یہ بھی اس لئے ہوا تھا تاکہ حضرت مسیح موعود ؑ سے رشتہ کرنے میں مسئلہ قومیت روک نہ بن سکے۔
شادی
حضرت سیّد بیگم صاحبہ کی شادی حضرت میرناصر نواب صاحبؓ کے ساتھ ۱۶ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت میر صاحبؓ کے والد فوت ہو چکے تھے۔ حضرت میر صاحب ؓ کا سنِ پیدائش ۱۸۴۶؁ء بنتا ہے۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ نانی اماں سیّد بیگم صاحبہ کی عمر بھی قریب قریب حضرت میر صاحبؓ سے ۳،۴ سال کم ہو گی۔ کیونکہ شادی سے تین سال بعد حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہان بیگم پیدا ہوئیں تو اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت سیّد بیگم شادی کے وقت بالغ تھیں نیز حضرت میر صاحب کے یہ الفاظ کہ:
’’۱۶ سال کی عمر میں میری فہمیدہ اور دانا اماں نے نشیب و فراز زمانہ کو مدنظر رکھ کر میری شادی ایک شریف اور سادات کے خاندان میں کر دی اور میرے پانْوں میں بخیال خود ایک بیڑی پہنا دی تاکہ میں آوارہ نہ ہوں۔ اس باعث سے میں بہت سی بلاؤں اور ابتلاؤں سے محفوظ رہا‘‘۔ ۲۸؎
ان فقرات اور بعد کے اس علم سے کہ تین سال بعد حضرت اُمُّ المؤمنین پیدا ہوئیں۔ یہی یقین کرنا پڑتا ہے کہ حضرت سیّد بیگم صاحبہ کی عمر پیدائش کے لحاظ سے حضرت میر صاحبؓ کے برابر یا ۳،۴ سال کم تھی۔ اس لئے ان کا سنِ پیدائش بھی ۱۸۴۸؁ ء یا ۱۸۴۹؁ء کے قریب ہی بنتا ہے اور شادی کا سَن اور شادی کا سال ۱۸۶۱ء؁ کے آخیر یا ۱۸۶۲؁ء کا شروع بنتا ہے۔
حضرت میر صاحب اور نانی اماں کی شادی سے قبل حضرت میر صاحب کے والد فوت ہو چکے تھے اور وہ یتیم رہ گئے تھے مگر ایک واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب کی نسبت اس جگہ ان کے والد صاحب کی زندگی ہی میں ہو چکی تھی یہ واقعہ مجھے جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرسادی مہاجر نے سنایا کہ جب حضرت میر صاحبؓ کے بڑے بھائی سیّد ناصر وزیر صاحب کی شادی لوہارو والوں کے ہوئی اس وقت ان کی عمر چھوٹی ہی تھی (میرا خیال ہے کہ اس وقت ۸ یا ۹ سال کی عمر ہو گی۔ محمود عرفانی) برات لوہارو میں گئی۔ حضرت میر صاحب کے والد صاحب بھی ساتھ تھے۔ رات کو لوہارو والوں کی طرف سے (کیونکہ وہ نواب لوگ تھے) کنچنی کے ناچ کا انتظام تھا۔ سب لوگ اس ناچ کو دیکھنے میں مشغول تھے۔ مگر حضرت میر صاحب ؓنے بیان فرمایا کہ مجھے اس قدر شرم آئی کہ میں نے ایک دفعہ بھی نظر اُٹھا کر نہ دیکھا۔ میرا سر جھکا رہا۔
میر صاحب ؓکے بچپن کا زمانہ اور اس خورد سالی کے زمانہ میں ان کی حیا اور نیکی دیکھ کر سیّد عبدالکریم صاحب کے دل میں بڑا خیال پیدا ہوا۔ انہوں نے اسی وقت حضرت میر صاحب کے والد صاحب کو کہہ دیا کہ یہ لڑکا میرا ہوا۔ اس سے سیّد عبدالکریم صاحب کی نیکی اور دوربین نگاہ کا بھی پتہ چلتا ہے اور پھر میر ہاشم علی صاحب کی وفات کے بعد جبکہ گھر میں سوائے اللہ کے نام کے کچھ نہ رہا تھا۔ان کا ایک یتیم بے یارومدد گار لڑکے کو جس کا کوئی مستقبل نہ تھا۔اپنی لڑکی دے دینا یہ ان کا اور بھی کمال تھا۔
نانی اماں کی تعلیم
میرے پاس وہ حالات نہیں ہیں کہ جن سے میں نانی اماں کی ابتدائی زندگی پر کچھ روشنی ڈال سکوں۔ مگر اس سلسلہ میں میری مدد قرائین بھی کر سکتے ہیں۔ اول تو خاندان میردرد اور ان کے ساتھ ملے ہوئے ایسے خاندان جن کی قرابت داریاں اس خاندان سے تھیں اس کا عام رواج یہ تھا کہ لڑکیوں کو قرآن کریم اور معمولی دینیات کی کتابیں پڑھاتے تھے اور بعض تو ان میں سے عربی اور فارسی اور اردو میں پوری دستگاہ رکھتی تھیں۔ مغلیّہ سلطنت کا زمانہ اور پھر قرب تھا اور شاہی گھروں میں تعلیم عام تھی۔ شہزادیاں فارسی،اردو میں مہارت تامہ رکھتی تھیں۔ شعروشاعری کے مشغلے تھے۔ اس کا اثر شرفاء کے تمام خاندانوں پر تھا۔
اسی اصل کے ماتحت سیّد بیگم صاحبہ نانی اماں بھی قرآن شریف اور اردو زبان کی تعلیم رکھتی تھیں۔ چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت نانی اماں اردو زبان کی کتابیں اکثر مطالعہ میںرکھتی تھیں۔ دہلی میںایسی تعلیم بہت آسان تھی اس لئے پانچ چھ سال کا زمانہ کھیل کود کا نکال کر تھوڑ اتھوڑا سبق رکھ کر ۹،۱۰ سال کی عمر تک قرآن کریم کی تعلیم اور پھر دو تین سال میں اردو کی تعلیم مکمل ہو جاتی تھی اور میرا قیاس ہے کہ نانی اماں کی تعلیم بھی اسی نہج پر ہوئی ہو گئی۔
نانی اماں اور حضرت میر صاحب کی طبیعت میں بہت فرق تھا۔ میر صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی اور پھر اس پر وہابیت کا رنگ تھا اگر نانی اماں کی طبیعت میں بھی تیزی ہوتی تو بڑی مشکل پڑ جاتی مگر ان کی طبیعت اس کے مقابل میں بالکل ٹھنڈی واقع ہوئی تھی۔ حضرت میر صاحب ؓنے ان کے اخلاص اور کیریکٹر کو اپنی سوانح میں اِن الفاظ میں بیان فرمایا:
’’اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑاتھا مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہایت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات بسری کی اور ہمیشہ مجھے نیک صلاح دیتی رہی اور کبھی بے جا مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا۔ نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی۔ میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا نہ کبھی بچوں کو کوسا نہ مارا۔ اللہ تعالیٰ اسے دین و دنیا میں سرخرو رکھے اور بعد انتقال جنت الفردوس عنایت فرماوے۔ بہرحال عُسرویُسر میں میرا ساتھ دیا جس کو میں نے مانا اس کو اس نے مانا۔ جس کو میں نے پیر بنایا اس نے بھی اس سے بلا تأمل بیعت کی۔ چنانچہ عبداللہ صاحب ؓ غزنوی کی میرے ساتھ بیعت کی نیز میرزا صاحبؓ کو جب میں نے تسلیم کیا تو اس نے بھی مان لیا۔ ایسی بیویاں بھی دنیا میں کم میسر آتی ہیں یہ بھی میری ایک خوشی نصیبی ہے جس کا میں شکرگزار ہوں۔ کئی لوگ بسبب دینی اور دینوی اختلاف کے بیویوں کے ہاتھ سے نالاں پائے جاتے ہیں۔ جو گویا کہ دنیا میں دوزخ میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ میں تو اپنی بیوی کے نیک سلوک سے دنیا میں ہی جنت میں ہوں۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیمِ‘‘o ۲۹؎
یہ مختصر عبارت اپنے اندر بہت وسیع سیرت کا مضمون لئے ہوئے ہے۔ ایک دفعہ آپؓ نے نظم میں بھی آپ کی سیرت پر بڑی روشنی ڈالی تھی جس کا عنوان تھا ’’حرم محترم‘‘
حرم محترم
اے میرے دل کی راحت میںہوں تیرا فدائی
تکلیف میں نے ہرگز تجھ سے کبھی نہ پائی
صورت سے تیری بڑھ کر سیرت میں دل ربائی
میں ہوں شکستہ خاطر اور تو ہے مومیائی
مجھکو نہ چین تجھ بن، بے میرے سُکھ نہ تجھ کو
میں تیرے غم کا دارو تو میری ہے دوائی
شرمندہ ہوں میں تجھ سے مجھ سے نہیں خجل تو
مجھ میں رہی کدورت تجھ میں رہی صفائی
تو نے کرم کیا ہے میرے ستم کے بدلے
دیکھی نہ میں نے تجھ سے اک ذرہ بے وفائی
تو لعلِ بے بہا ہے انمول ہے تو موتی
ہے نقش میرے دل پر بس تیری پارسائی
میں نے نہ قدر تیری پہچانی ایک ذرّہ
ہیرے کو میں ہوں سمجھا افسوس ایک پائی
خاطر سے تو نے میری کنبہ کو اپنے چھوڑا
جنگل میں ساتھ میرے پیارے وطن سے آئی
تھی نازکی پلی تو اور میں غریب گھر کا
تو نے ہر اِک مصیبت گھر میں میرے اٹھائی
محنت کا تیری ثمرہ اللہ تجھ کو بخشے
چُولھے میں سرکھپایا بچوں پہ جاں کھپائی
دُکھ سُکھ میںساتھ میرا تو نے کبھی نہ چھوڑا
خود ہو گئی مقابل جب غم کی فوج آئی
دنیا کے رنج و غم کو ہنس ہنس کے تونے کاٹا
اللہ رے تیری ہمت بل بے تیری سمائی
بچوں کو تو سُلاتی اور آپ جاگتی تھی
سَو بار مُوت گُو میں تو رات کو نہائی
بچوںکے پالنے میں لاکھوں اٹھائے صدمے
جب تک یہ سلسلہ تھا راحت نہ تو نے پائی
ہوتا تھا ایک پیدا اور دوسرا گزرتا
تھی صابرہ تو ایسی ہرگز نہ بلبلائی
صدمہ کو اپنے دل کے لاتی نہ تو زباں پر
جہاں کی طرح سے دیتی ہرگز نہ تو دہائی
تنگی میں عمر کاٹی بچوں کو خوب پالا
شکوہ نہ سختیوں کا لب پر کبھی تو لائی
دکھ درد اپنے دل کا تو نے کیا نہ افشا
غیروں سے تو چھپاتی ہوتی اگر لڑائی
جو میں نے تجھ کو بخشا تو نے لیا خوشی سے
مانگی نہ تو نے مجھ سے ساری کبھی کمائی
دھوکہ دیا نہ ہرگز بولی نہ جھوٹ گاہے
مجھ سے نہ بات کوئی تو نے کبھی چھپائی
تھی جتنی تجھ میں طاقت کی تو نے میری خدمت
خود کھایا روکھا سوکھانعمت مجھے کھلائی
عیبوں کو تو نے میرے اغیار سے چھپایا
تھا تیرے بس میں جتنا عزت میری بنائی
صدمہ سے میرے صدمہ تجھ کو ہوا ہمیشہ
جب شاد مجھ کو پایا تو نے خوشی منائی
تھی میرے دشمنوں کی تو جان و دل سے دشمن
اور میرے دوستوں سے تیری رہی صفائی
جو کچھ تھا میرا مذہب تھا وہی تیرامشرب
تھی تیرے دل میں الفت ایسی میری سمائی
مجھ پر کیا تصدق جو تیرے پاس تھا زر
یاں تک کہ پاس تیرے باقی رہی نہ پائی
کرتا ہوں شکر حق کا جس نے تجھے ملایا
اور میری تیری قسمت آپس میں یوں ملائی
ہو تجھ پہ حق کی رحمت تجھ کو عطا ہو جنت
اور میری تیری اک دم ہووے نہ واں جدائی
آرام تجھ کو دیوے فضل و کرم سے مولیٰ
ہررنج و غم سے بخشے مالک تجھے رہائی
ہرگز نہ تو دکھی ہو ہر وقت تو سُکھی ہو
بچوں کا عیش دیکھے تو اور تیری جائی
فضل خدا کی بارش دن رات تجھ پہ برسے
پانی میں مغفرت کے ہر دم رہے نہائی
دولت ہو تجھ سے ہمدم عزت ہو ساتھ تیرے
اولاد میں ہو برکت کہلائے سب کی مائی
تیرا نہیں ہے ثانی لاکھوں کی تو ہے نانی
عیسیٰ سے کر کے رشتہ دولت یہ تو نے پائی
اسلام پر جئیں ہم ایمان سے مریں ہم
ہر دم خدا کے در کی حاصل ہو جبہ سائی
جب وقت موت آوے بے خوف ہم سدہاریں
دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی
مہدی کے مقبرہ میں ہم پاس پاس سوئیں
دنیا کی کشمکش سے ہم کو ملے رہائی
حضرت نانی اماں اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر جو حضرت اُمُّ المؤمنین اور حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کے وجودوں کے ذریعہ سے ہوا خدا کی شکرگزار تھیں۔
حضرت نانی اماںؓ کی شفت علی الاولاد کا ایک واقعہ
ایک دفعہ حضرت میر محمد اسحق صاحب سخت بیمار ہو گئے۔ ان کی طبیعت زیادہ بیمار تھی۔ ان ایام میںحضرت میر صاحبؓ حضرت عرفانی کبیر سے کچھ ناراض ہو گئے تھے اور دونوں الگ الگ تھے۔ کسی نے اس واقعہ کا ذکر حضرت نانی اماں سے کر دیا۔ ان کو خیال گزرا کہ کہیں شخ صاحب نے کوئی بددعا ہی نہ کر دی ہو جس کی وجہ سے میرا لختِ جگر میرا بچہ بیمار ہو گیا اور اس قدر تکلیف اٹھا رہا ہے۔ وہ فوراً ہمارے مکان پر آئیںاورگلی میں ڈیوڑھی کے دروازے پر آ کر بیٹھ گئیں اور کسی کو کہا۔ شیخ صاحب کو اطلاع کر دو کہ نانی اماں آئی ہیں۔
والد صاحب اسی وقت دوڑے ہوئے آئے۔ نانی اماں کو یوں دروازے پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر گھبرائے۔ قبل اس کے کہ ان کی سنیں انہوں نے نانی اماں کی اس حالت کو دیکھ کر اپنی پریشانی اور معذرت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا۔ آپ نے یہ تکلیف کیوںکی آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں اس قسم کی بہت سی باتیںکہہ ڈالیں۔ نانی اماں نے میر صاحبؓ کی طرف سے معذرت کی اور میر محمد اسحق صاحب کی تکلیف کا رقت آمیز لہجے میں ذکر کر کے کہا کہ آپ کا دل دُکھا۔ مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ نے کوئی بددعا نہ کی ہو۔
والد صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ میں تو ان کی ناراضگی کا کبھی خیال نہیں کرتا وہ ہمارے فائدے کے لئے کہتے ہیں اور میں آپ کی اولاد کے لئے کیوں بددعا کرنے لگا۔ جب ان کو یقین آیا اور تسلی ہوئی تو واپس ہوئیں اس واقعہ سے ان کی شفقت علی الاولاد کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت نانی اماںؓ حضرت میر صاحب ؓ کی وفات کے بعد تقریباً آٹھ سال زندہ رہیں۔ اخیر وقت تک وہ چلتی پھرتی رہتی تھیں اور عینک لگا کر پڑھ بھی لیتی تھیں۔
حضرت میر صاحبؓ کے ساتھ ان کا تعلق بہت وفادارانہ تھا۔ حتی کہ ایام ملازمت میں معمولی معمولی دیہات میں بھی وقت گزار لیا اور کوئی شکوہ نہ کیا۔ اس قسم کے صبر ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت نانی اماںؓ نے اپنی اولاد کے عروج کو دیکھا۔ بیٹی ملی تو ایسی جو اُمُّ المؤمنین کہلائی۔ داماد ملا تو ایسا جو جری اللہ فی حلل الانبیاء تھا۔ خاوند ملا تو وہ اپنی شان میں بینظیر۔ بیٹے ملے تو ایسے عارف باللہ اور خادم دین۔ انہوں نے سلسلہ کی ابتدائی حالت بھی دیکھی اور ترقی اور عروج بھی دیکھا۔ انہوں نے صدہا نشانات اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھے۔ قادیان کی ابتدائی حالت بھی دیکھی اور عروج بھی دیکھا۔ بہرحال انہوں نے بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ سب کچھ دیکھ کر وہ ۲۳، ۲۴ نومبر ۱۹۳۲ء؁ کی درمیانی رات کو تقریباً ۸۵ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ-
انہوں نے اپنی زندگی تقویٰ ،طہارت اور پاکیزگی سے گزاری اور وفات سے قبل ایک بڑی جماعت اپنی نسل در نسل لوگوں کی چھوڑی جو سب کے سب باخدا اور متقی اور پرہیز گار ہیں۔ ایک بڑی جماعت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور آپ مقبرہ بہشتی میں چاردیواری کے اندر حضرت مسیح موعود ؑ کے قدموں کی طرف حضرت میر صاحبؓ کے پہلو میں دفن ہوئیں۔
حضرت میر صاحبؓ قبلہ نے نظم ’’حرم محترم‘‘ میں تین اشعار ایسے کہے جو لفظ بلفظ پورے ہو کر رہے۔
اسلام پر جئیںہم ایمان سے مریں ہم

ہر دم خدا کے در کی حاصل ہو جبہ سائی
جب وقت موت آوے بے خوف ہم سدھاریں

دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی
مہدی کے مقبرہ میں ہم پاس پاس سوئیں

دنیا کی کشمکش سے ہم کو ملے رہائی
یہ دعا ایسی پوری ہوئی کہ اب دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ خوش قسمت جوڑا جس طرح دنیا میںاکٹھا رہا اسی طرح مرنے کے بعد بھی اکٹھا نظر آرہا ہے۔
حضرت اُمّ المومنین کے دَدھیال
شجرہ نمبر۳
نواب دوراں خان کمانڈز انچیف افواج مغلیہ

قمر الدین خان وزیر اعظم
احتشام خان داروغہ محلات شاہی

ان کی اولاد کی نسبت کچھ پتہ نہیں چلا۔ خود نادر شاہ ایرانی کی جنگ میں مارے گئے

میر ہاشم علی صاحب

سید ناصر امیر صاحب (زوجہ روشن آرا بیگم)
سید ناصر وزیر صاحب (ان کی شادی نواب صاحب لوہارو کے ہاں ہوئی)

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ
سید ناصر خلیل
سید ناصر سعید
سید ناصر وحید
نصیرہ بیگم
ناصر سلطان
ناصرہ بیگم
ناصر جلیل
ناصر سعید
یہ اور ان کی اولاد دہلی میں ہے
یہ خود اور ان کی اولاد دکن میں ہے




حضرت نصرت جہاں بیگم اُمّ المومنین
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب
حضرت میر محمد اسحاق صاحب

حضرت اُمّ المومنین اَور اُن کے بھائیوں کی اولاد کا شجرہ الگ طور پر شائع کیا جائے گا۔
خاندانی حالات میں کچھ اور
میں جب کہ نواب خانِ دوران کے متعلق لکھ رہا تھا۔ اس وقت بعض معلومات جن کے بروقت پہنچنے کی توقع تھی وہ مجھ تک نہ پہنچ سکیں۔ اس لئے بعض اہم معلومات درج ہونے سے رہ گئیں۔ مگر بعد میں جبکہ وہ حصہ لکھا گیا تو وہ معلومات بھی مجھ تک پہنچ گئیں۔ چونکہ یہ معلومات بہت اہم ہیں۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ان کو کتاب میں ہر حالت میں شائع کر دوں۔ ا س لئے اس زائد عنوان سے ان معلومات کو لکھ رہا ہوں۔
یہ معلومات دو ذرائع سے مجھے ملی ہیں۔ اول جناب میرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدر آباد دکن کے ذریعے مسٹر جیمس فریزر ایک انگریز مصنف تھا جو نادرشاہ ایرانی کا ہمعصر تھا۔ اس نے ۱۷۴۳؁ء میں ایک کتاب موسومہ نادر شاہ لنڈن میں شائع کی۔ یہ کتاب تاریخ میں بہت مستند خیال کی جاتی ہے کیونکہ اس میںمسٹر فریزر نے چشم دیدہ حالات دیکھنے والوں سے دریافت کر کے لکھے ہیں۔ میں بہت ممنون ہوں کہ جناب میرزا فرحت اللہ بیگ صاحب نے اپنے اوقات گرامی میں سے وقت نکال کر مجھے اس پرانی کتاب کا ترجمہ کر کے ارسال فرمایا اور اس طرح مجھے یہ قیمتی معلومات شائع کرنے کاموقع میسر آیا۔ دوسرے مجھے مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب کی راہنمائی سے ایک کتاب کا علم ہوا جو میں نے دفتر پیسہ اخبار لاہور سے منگوائی۔ اس کتاب کا نام ہے’’ہندوستان پر حملے‘‘ یہ کتاب ایک روسی میجر جنرل سیولوف نے ابتداء میں روسی زبان میں لکھی۔ جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں لیفٹیننٹ کرنل ڈبلیو۔ ای گووان پنشنر بنگال نے کیا اور پھر انگریزی سے میرزا علی حسین صاحب نے اُردو میں ترجمہ کر دیا اور دفتر پیسہ اخبار نے ۱۹۰۹ء؁ میں اسے شائع کیا۔
میجر جنرل سیولوف نے اپنی کتاب میںمسٹر فریزر کی کتاب سے بھی استشہاد کیا ہے۔ اس لحاظ سے مسٹر فریزر کی کتاب کا مستند ہونا اور بھی قوی ہو جاتا ہے۔
نادرشاہ اور نواب خانِ دوران
نادر شاہ نے جب پشاور فتح کر لیا اور اس کی اطلاع دہلی میں یکم رمضان ۱۱۵۱ھ؁کو موصول ہوئی۔ تو ۳ دسمبر ۱۷۳۸؁ء کو محمد شاہ شاہنشاہ دہلی نے خان دوران ،نظام الملک اور قمر الدین خان کو نادر خان کے خلاف مہم پر روانہ کیا۔ نواب خانِ دوران خان کی اپنی آمدنی جاگیر کے علاوہ شاہنشاہ نے ایک کروڑ روپیہ اپنے خزانہ سے فوج جمع کرنے کے لئے دیا۔ ۷۰۰ توپیں اور ۳۰۰۰ بندوقیں دیں اور دیگر امراء کو حکم دیا کہ وہ بھی امراء بالا کے ہمراہ رہیں۔ اس حکم کی بناء پر یہ سب امراء اسی روز دہلی سے روانہ ہو پڑے۔ شہر سے کچھ فاصلہ پر خیمے لگا کر فوج جمع کرنے لگے۔ ۳۰؎
نوٹ: اس جگہ خانِ دوران نمبر اول کے امراء میں شمار کئے گئے ہیں۔ نظام الملک سے مراد آصف جاہ اوّل بانی سلطنت آصفیہ حیدرآباد ہیں اور قمرالدین خان جو وزیراعظم تھے۔ نواب خان دوران خان کے بڑے بیٹے تھے۔ یہ لوگ فوج جمع کرنے میں مصروف ہی تھے کہ لاہور فتح ہونے کی خبر آ گئی ۔تب ۹ جنوری ۱۷۳۹؁ء کو خانِ دوران نظام الملک اور قمرالدین خان دہلی سے دس کوس آگے بڑھے اور دوسرے دن بھی دس کوس چلے اور سونی پت پہنچ گئے۔ یہ تفصیل ایک خط سے لی گئی۔ جو سربلند خان کے سیکریٹری نے میرزا مغل ولد علی محمد خاں کو ۱۵/شوال ۱۱۵۱ھ؁ کو احمد آباد میں لکھا تھا۔
۱۲/ذی قعدہ ۱۱۵۱ھ؁ کوبمطابق ۱۱ فروری ۱۷۳۹؁ء کو شاہی کیمپ کرنال میں ہوا۔ لشکر گاہ کا نقشہ یوں تھا:
وسط میں خود بادشاہ کا خیمہ تھا۔ اس کے سامنے نظام الملک اور قمر الدین کے مورچے تھے۔ ان مورچوں پر شاہی توپ خانہ قائم کیا گیا تھا یہ سیدھی طرف خان دوران خان،مظفر خان، علی احمد خان، میرگلو اور شہ داد خان کے خیمے تھے۔
۱۵/ ذیعقدہ کو نادر خان کے کیمپ میں پانی کی کمی ہو گئی تو وہ تلاوڑی کی طرف گیا۔ اس نے خانِ دوران کے کیمپ کی پشت پر جا کر چار کوس کے فاصلہ پر قیام کیا۔
یہاں اس امر کو بھی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب فوج دہلی سے روانہ ہو رہی تھی۔ اس وقت بادشاہ نے چاہا تھا کہ اسے دہلی میں رہنے دیا جائے مگر وزراء اور امراء سلطنت نے یہی مشورہ دیا کہ نہیںبادشاہ کا ساتھ رہنا از حد ضروری ہے۔ اس لئے بادشاہ بھی ساتھ ہی تھا۔
۱۶ /ذیقعدہ کو سعادت خان شاہی کیمپ پر حاضر ہوا۔ ۹ بجے اطلاع آئی کہ نادر شاہ کے ہمراہیوں نے سامان پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ جس سے بہت سے آدمی مارے گئے اور بہت سامان لوٹ لیا گیا۔ یہ سن کر سعادت خاں دربار سے رخصت ہوا اور جلدی سے اپنے آدمیوں کی مدد کو پہنچا۔
خانِ دوران بھی قریب تھا وہ بھی اپنے دو لڑکوں اور اپنی فوج کے ساتھ سعادت خاں سے مل گیا اور اس کے ساتھ ہی مظفر خان،سیّد حسین خان ،خان زمان خان میر گلو،شہ داد خان وغیرہ جملہ رؤساء اور امراء اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ہو گئے۔
نادرشاہ تلاوڑی میںتھا۔ اسے خبر ہوئی تو وہ بھی آگے بڑھا۔ اس کے ساتھ اس وقت ایک ہزار کرد ،ایک ہزار قاچاری،ایک ہزار بختاری، ایک ہزار بندوقچی تھے۔ یہ چار ہزار سوار فوج سے علیحدہ کر کے بڑھا۔ تین ہزار سوار تو چھپا دیئے اور ۵۰۰ سوار بندوقچی سعادت خان کی طرف اور ۵۰۰ سَو خان دوران خان کی طرف بڑھے تاکہ ان کو باہر میدان میں لائیں۔ اس تجویز میں نادرشاہ کو کامیابی ہوئی وہ دو نوں باہر نکلے۔ ان کے نکلتے ہی تین ہزار سوار جو چھپے ہوئے تھے انہوں نے یکدم حملہ کر دیا۔ سخت خونریز لڑائی ہوئی۔ نادرشاہ ایک ہزار افشار سواروں کے ساتھ ہر جگہ پہنچ کر فوج کا دل بڑھا رہا تھا۔باقی فوج الگ کھڑی رہی تا اشارہ ملنے پر آگے بڑھے۔ شام تک بڑی شدت کی جنگ جاری رہی۔ سعادت خاں،شیر جنگ اور خانِ دوران کا چھوٹا لڑکا قید ہو گئے۔ خان دوران خان کو مہلک زخم آئے اور اسے اس کے خیمہ میں لے آئے۔ ایک گولی اس کے ہاتھ میں لگی اور دوسری اس کے پہلو میں اور اس کا بڑا لڑکا مارا گیا۔ نادرشاہ نے حکم دیا کہ سعادت خان،شیر جنگ اور خان دوران کے لڑکے کیلئے ایک خیمہ اس کے کیمپ میں نصب کیا جائے۔
۱۸/ذیعقدہ کو خان دوران کا انتقال زخموں کی وجہ سے ہو گیا۔ ۲۰ تاریخ کو خانِ دوران کی نعش کیمپ سے کرنال لے گئے۔
نادرشاہ جب دلّی میںآیا تو اس کے قزلباشوں کا قیام خان دوران کے محل میں تھا۔ نادرشاہ نے خان دوران اور مظفر خان کے ہاں کے جواہرات اور خزانہ اور سارا سامان ضبط کر لیا جو مال خان دوران خان کے ہاں سے ملا اس کی قیمت ایک کروڑ روپیہ سے کم نہ تھی۔
۱۳ /مئی ۱۷۳۹؁ء کو محمد شاہ بادشاہ دلّی نے خان دوران کے لڑکے احتشام خان کو خلعت سراپا عطا کر کے داروغہ خاص (داروغہ محلات) مقرر کیا۔ یہ نادرشاہ کے اس روزنامچہ کا اقتباس ہے جو سربلند خاں میرزا زماں نے دہلی میں لکھا تھا ۔ ۳۱؎
اس اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خان دوران اول درجہ کے امراء میں سے تھا۔ اس کا بیٹا وزیراعظم تھا۔ نظام الملک اور دیگر اراکین دربار بھی اس کے بعد شمار کئے جاتے تھے۔
مظفر خان ا س کا بھائی تھا اور ان کی مالی حالت کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ صرف خان دوران خان کے گھر سے ایک کروڑ روپیہ کا مال برآمد ہوا۔
روسی میجر جنرل سیولوف لکھتا ہے:
’’محمد شاہ سرتاپا عیش و عشرت میں غرق ہو گیا۔ خان دوران میر بخشی یعنی پے ماسٹر جنرل مقرر ہوا اور امیرالامراء کے خطاب سے مخاطب ہوا۔ اس طرح تمام اراکین دولت سے رتبہ میں بڑھ گیا۔ امیرالامراء ذمہ داری کے عہدوں پر اپنے آدمیوں کو مامور کر کے محمد شاہ پر بخوبی حاوی ہو گیا۔ بادشاہ کو اس پر کامل اعتماد تھا ۔تھوڑے ہی دنوں میں یہ سابق مقتول امیرالامراء حسین علی خان کی طرح خود مختاری سے حکومت کرنے لگا۔ جب محمد امین خان وزیراعظم کا انتقال ہوا۔ تو اس کا نوجوان لڑکا قمرالدین خان اس منصبِ جلیلہ پر سرفراز ہوا۔‘‘۳۲؎
’’میدان جنگ میں جب نادرشاہ سے جنگ ہو رہی تھی۔ اس وقت سعادت خان نے اپنی فوج سمیت اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر دیا اور خان دوران تن تنہا نادر شاہ کے مقابلہ کے لئے رہ گیا۔ تاہم خان موصوف نے دشمن کو خوفناک طور پر شکست دی…مگر وہ خود بھی مہلک طور سے زخمی ہو گیا تھا۔ خان دوران جب محمد شاہ کے حضور لایا گیا تو اس نے بادشاہ سے گزارش کی کہ وہ باقی ماندہ ۳۸ ہزار سپاہ اور دو سَواتواپ سے دشمن کا مقابلہ کرے اور اسے ہرگز دم نہ لینے دے مگر بدقسمتی سے بادشاہ مذبذب رہا۔
خان دوران کے سپاہ اس کے بہادر بھائی مظفر خان کی ماتحتی میں نادری سپاہ کے مقابلہ میں بدستور ڈٹی رہیں۔ رات کو خان دوران نے پھر شاہنشاہ سے ملاقات کی اور قرار پایا کہ صبح کو از سر نوجنگ شروع کی جائے۔ مگر بدقسمتی سے خان موصوف اس مہلک زخم کی وجہ سے جو میدان جنگ میں لگا تھا۔ جانبر نہ ہو سکا۔ ۳۳؎
خان دوران کی وفات کے بعد نظام الملک آصف جاہ اوّل کمانڈر انچیف افواج ہند اور خطاب امیرالامراء سے سرفراز ہوا۔‘‘ ۳۴؎
ان دونوجوانوں سے خان دوران کے اثر رسوخ، سلطنت دہلی پر اقتدار اور ان کے خاندان کا بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونا معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ خانِ دوران وہ فرد وحید تھا۔ جس نے نادرشاہ کی افواج سے ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ مر گیا مگر اس نے سلطنت سے وفاداری نہ چھوڑی۔ اس کی شجاعت اور بہادری تاریخ کے سنہری اوراق کا جزو بن کر رہ گئی۔ جب کہ حکومت کے اراکین خود بادشاہ عیش و عشرت میں محو تھا۔ اس وقت خانِ دوران ایک چوکس محافظ کی طرح سلطنت کو سنبھالے ہوئے تھا۔ گویا کہ وہ ہی محمد شاہ کے پردے میں ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا۔
میں نے یہ سب کچھ کیوں لکھا؟
حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے متعلق میں نے بہت زیادہ لکھا ہے۔ حتی کہ نصف سے بھی زیادہ کتاب اسی موضوع پر بھر گئی۔ دیکھنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا مضمون زیادہ سے زیادہ پچاس صفحات میں آسکتا تھا مگر مصنف کے دماغ کے اندر کئی مخفی خیالات کام کر رہے ہوتے ہیں جن کو کبھی وہ پبلک کیلئے کھولنا ضروری نہیں سمجھتا اور پبلک ان امور کو کبھی محل اعتراض بنا لیتی ہے اور کبھی مقام مدح۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں پبلک کو کسی خلجان میں ڈالے بغیر اس حقیقت کو بھی کھول دوں۔ دراصل یہ سارا بیان تفسیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند فقروں کی۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے۔ چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی کا تعلق بخشا……بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خداتعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی۔ یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب اور بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہو ا ‘‘۔۳۵؎
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس خاندان کی نجابت،شرافت، عالی نسبی اور بزرگواری کی کوئی تفصیل نہیں دی۔ البتہ اس قدر لکھا ہے کہ یہ خاندان خواجہ میر درد صاحب مرحوم دہلوی کے روشن خاندان کی یادگار ہیں جن کی علوخاندانی کو دیکھ کر بعض نوابوں نے انہیں اپنی لڑکیاں دی تھیں۔
’’جیسے نواب امین الدین خان والد بزرگوار نواب علاؤ الدین خان والئے ریاست لوہارو کی لڑکی میر ناصر نواب صاحب خُسر اس عاجز کے بڑے بھائی کو بیاہی گئی ایسے بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا‘‘۔ اس سے زیادہ تشریح نہیں فرمائی۔ مگر میں نے اس خاندانی تذکرے میں یہ بتلایا ہے کہ کس طرح مغل بادشاہ خواجہ میر دردؒ کے بزرگوں کی عزت کرتے تھے کس طرح قلعہ دہلی میں ان کو دعوتیں ہوئی تھیں۔
مغلیّہ بادشاہوں نے اپنی لڑکیاں ان کے لڑکوں کو دیں اور پھر بڑے بڑے عہدے ان کو دیئے۔ ان میں سے بعض بڑے خطاب یافتہ تھے۔ ان میں سے نواب بھی تھے۔ ہفت ہزاری تھے۔ فوج اور سول کے عہدہ دار تھے۔ پھر یہی نہیں کہ خواجہ میر درد کے گھرانے کا یہ حال تھا۔ بلکہ نواب خانِ دوران جو حضرت میرناصر نواب صاحب ؓکے پردادا تھے وہ اتنی شخصیت کے آدمی تھے کہ روسی میجر جنرل سیولوف ان کے متعلق لکھتا ہے کہ:
’’وہ ہندوستان کے خود مختار حاکم تھے۔‘‘
ان کا ایک بیٹا وزیر اعظم تھا۔ دوسرا بیٹا بھی فوج میں افسر تھا۔ بھائی بھی فوج میں میر آتش یعنی افسر بارودخانہ تھا۔ ان کے ماموں امیر الامراء عزیز میرزا گوکلتاش کمانڈر انچیف افواج ہند تھے۔ وہ لوگ صاحبِ جاگیر بھی تھے۔ ان کے پاس اپنی ذاتی فوجیں بھی تھیں۔ دولت، شوکت، حکومت سب کچھ تھا اور وہ اپنے حسب نسب کے لحاظ سے اور اپنے تقویٰ طہارت کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ وہ مرجعِ خلائق بنے ہوئے تھے۔ بادشاہ، امراء، وزراء، ادباء، شعراء، علماء سب ان کی مجلسوں میں مؤدّب بیٹھا کرتے تھے۔ ہندوستان میں ان میں سے بعض اپنے وقت میں ایسے تھے کہ بادشاہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، اگر چاہتے تو آخری زمانہ میں اپنی سلطنتیں قائم کر لیتے۔ الغرض مَیں نے اِس خاندان کی ساری اور مفصل تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ کی تشریح کے لئے لکھی۔ تا خدا کے مامور و مرسل اور نبی ؑکے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوشتے واقعات سے سچے ثابت ہوں۔
سیرت اور سوانح
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سیرت اور سوانح میں فرق نہیں کرتے۔
سوانح سے مراد وہ واقعات و حالات ہوتے ہیں جو کسی انسان کی زندگی میں اچھے یا بُرے، خوشگوار یا بدمزہ پیش آتے رہتے ہیں۔ مگر سیرت سے مراد ایسا موضوع ہوتا ہے جو اس کی عملی زندگی اور اس کی اخلاقی قوتوں اور اس کے مخفی جذبات کو اُبھار کر اور بڑا کر کے لوگوں کو دکھا سکے تا کہ لوگ اس سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔
زندگی کے وہ پہلو جو کسی نہ کسی رنگ میں مشعلِ ہدایت بن سکتے ہیں اور جن سے ہماری تربیتِ ناقصِ کامل ہو جاتی ہے جو ہماری اخلاقی، تمدنی، معاشرتی، روحانی، علمی الغرض کسی قسم کی تکوین میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں موضوع سیرت کے زرّیں پہلو ہیں۔ اسی غرض کے ماتحت دنیا کے کسی شعبہ میں ترقی یافتہ انسان کی زندگی ہمارے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ وہ ہمارے لئے ایک اسوۂ حسنہ ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور یہی آیت اس زمانہ میں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ظہور ہوا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ پس انبیاء اور مصلحین امّت اور ہر وہ انسان جو بطور نمونہ کے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے واقعاتِ زندگی کو اس کے ضابطۂ عمل کو اس کے اخلاق و کیریکٹر کو پڑہتے ہی یہ جذبہ جب تک پیدا نہ ہو کہ ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں اُس وقت تک ہم کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور یہی چیز ہم کو اس کتاب میں بھی تلاش کرنی ہوگی۔
حوالہ جات
۱؎ حیاتِ ناصر صفحہ۲
۲؎ حیاتِ ناصر صفحہ۳
۳؎ حیاتِ ناصر صفحہ۲۰۔۲۱
۴؎ حیاتِ ناصر صفحہ۲۱
۵؎ تذکرہ صفحہ ۳۵
۶؎ حیات ناصر صفحہ۷
۷؎ تذکرہ صفحہ۳۷
۸؎ سیرۃ المہدی صفحہ۱۰۹ حصہ دوم
۹؎ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ۱۱۰
۱۰؎ حیاتِ ناصر صفحہ۶،۷
۱۱؎ تذکرہ صفحہ۳۶
۱۲؎ تذکرہ صفحہ۳۶
۱۳؎ حیاتِ ناصر صفحہ۹
۱۴؎ راقم ناصر نواب، تاریخ ۲/جنوری ۱۸۹۳ء
۱۵؎ خود نوشت سوانح
۱۶؎ کشف الاختلاف صفحہ۱۶
۱۷؎ کشف الاختلاف صفحہ۱۶
۱۸؎ کشف الاختلاف صفحہ۱۴
۱۹؎ حیاتِ ناصر صفحہ۲۹
۲۰؎ حیاتِ ناصر صفحہ۱۵
۲۱؎ سلسلہ احمدیہ صفحہ۳۴۴
۲۲؎ الحکم ۶/جون ۱۹۰۸ء صفحہ۷
۲۳؎ ٹریکٹ اظہار الحق صفحہ۶،۷
۲۴؎ سفر نامہ صفحہ۱۵
۲۵؎ بدر جلد۲ نمبر۱۱، الحکم جلد۱۰ نمبر۹۔ الفضل جلد۱۹ نمبر۳۶ تذکرہ صفحہ۶۰۲،۶۰۳
۲۶؎ الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء
۲۷؎ الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ۲
۲۸؎ حیاتِ ناصر صفحہ۵
۲۹؎ حیاتِ ناصر صفحہ۵
۳۰؎ نادر شاہ صفحہ۱۴۵
۳۱؎ نادر شاہ صفحہ ۱۵۳ تا ۲۴۳ مصنفہ مسٹر جیمس فریزر
۳۲؎ ہندوستان پر حملے صفحہ۱۳۲
۳۳؎ ہندوستان پر حملے صفحہ۱۴۴،۱۴۵
۳۴؎ صفحہ۱۴۵
۳۵؎ شحنہ حق صفحہ۵۷،۵۸ تذکرہ صفحہ ۳۶







سیّدۃ النّساء حضرت اُمُّ المؤمنین
نصرت جہاں بیگم




حضرت اُمُّ المؤمنین کی شان
جس عظیم الشان خاتون کی سیرت لکھنے کیلئے مَیں یہ کتاب لکھ رہا ہوں وہ ایک طرف سے حضرت خواجہ میر دردؒ کے خاندان کی ایک روشن چراغ ہیں اور دوسری طرف دَدہیال کے رشتہ سے نواب خانِ دَوران خان امیر الامراء کمانڈر انچیف افواجِ ہند اور ننہیال کی طرف سے ان کامیرزا فولاد بیگ ایرانی تک سلسلہ جا ملتا ہے۔ الغرض وہ ہر طرح سے عریق فی النسب ہیں اور یہ درمیانی کڑیاں باوجود اس کے کہ وہ سب درست، مضبوط اور اعلیٰ درجے کی ہیں۔ مگر مَیں ان کو نظر انداز کرتا ہوا کہتا ہوںکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیّدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ہیں اور اس تعلق کی وجہ سے آپ محمدی بیگم ہیں۔ آپ کی شان و عظمت کے کیا کہنے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے وجود کو عالم روحانی میں دیکھا اور اس تعلق کو محسوس کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فارسی النسل کو جسمانی طور پر اہل بیت میں شامل کرنے کا باعث ہوگا۔ اسی تعلق اور نسب کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا سلمان منا اھل البیت اور ان ہی الٰہی مقدرات کو مدِّنظر رکھ کر فرمایا لوکان الایمان معلّقا بالثریا لنالہ رجل من ابناء الفارس۔ اِسی رجل فارسی کے لئے فرمایا کہ وہ ایک طرف ایمان آسمان سے لائے گا دوسری طرف وہ دجّال کو قتل کرے گا۔ صلیب کو توڑے گا اَور وہ میرا بروز ہوگا۔ وہ مسیح بھی ہوگا۔ ’’یَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُلَہٗ‘‘ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کے اولاد بھی ہوگی اور اس کی اولاد بھی خاص ہوگی۔ یہ سب پیشگوئیاں مستند اور مسلّمہ ہیں۔
وہ خاتون جو موعود امام اور بروزِ محمدؐ اور مثیلِ مسیحؑ کی بیوی بننے والی تھی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وقت دکھائی گئی تھی۔ وہ عظیم الشان خاتون خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی بیٹی تھی۔
الغرض جیسے خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات مقدر تھی کہ ایک زمانہ اسلام پر ایسا آئے گا کہ یَأْتِیْ عَلَی الـنّاسِ زَمَانٌلَمْ یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ ایسے زمانے میں جب کہ اسلام ایک اسمی اور رسمی چیز رہ جائے گا۔ اُس وقت ایک شخص کا اسلام کی حفاظت و صیانت کیلئے مبعوث ہونا بھی مقدر تھا۔ جو اِن فتنوںکو مٹا کر شیطان سے آخری جنگ کر کے اسلام کا بول بالا کرے گا۔ پھر دشمنوںکے اس اعتراض کا رد کرنے کے لئے جو انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا کہ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی مقدر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانیہ حضرت احمدؑ کی شکل میں ہو اور پھر اس کی اولاد نرینہ بھی ہو اور وہ اولاد ایسی ہو جو موعود ہو۔ اُسے برکت پر برکت دی جائے اور اسے قوت پر قوت دی جائے اور ان کو اس زمانے کے یزیدوں پر فتح اور نصرت اور غلبہ دیا جائے۔ اس لئے ایسی عظیم الشان اولاد کی ماں بننے کے لئے جس خاتون کو چناگیا اس ماں کی عظمت اور اس خاتون کی شان تو خود ہی واضح اور عیاں ہے۔ پھر یہی نہیں مختلف اوقات میں، مختلف زمانوں اور مکانوں میں اس موعود ؑ کی پیشگوئیاں اہل اللہ نے دنیا کو سنائیں تو انہوں نے اس موعود ؑکے ساتھ موعود بیٹے کی بشارت ضرور دی جس کے معنی یہ تھے کہ وہ ایک عظیم الشان خاتون کی بھی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ یعنی وہ خاتون ایسی عظیم الشان ہو گی جو ان نوروں کی ماں ہوگی جو دنیا کی راہنمائی اور ہدایت کیلئے پیداکئے جائیں گے۔
چنانچہ نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی بھی اسی قسم کی پیشگوئی تھی اور خواجہ میر دردؒ کے گھرانے کے لئے بھی یہی پیشگوئی مقدر کی گئی کہ جو روشنی اور نور ان کو دیا گیا ہے وہ مسیح موعود ؑ میں جا کر گُم ہو جائے گی۔
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک تمام راستباز اس خاتون کی عظمت اور شان کے قائل تھے جو مسیح موعود علیہ السلام کی حرم بننے والی تھی۔
کیا صرف مسیح موعود ؑ کی بیوی بننا کوئی فضلیت ہے؟
بعض نادان جن کو بصیرت سے کوئی حصہ نہیں ملا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کی بیوی بننا کوئی فضلیت نہیں۔ مَیں ان اندھوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر لگے ہوئے کپڑے بابرکت ہو سکتے ہیں ، اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رہنے کی وجہ سے الدار بابرکت اور طاعون کی پناہ گاہ ہو سکتا ہے اور اگر آپؑ کے وجود سے ایک غیر آباد کو ردیہہ بستی تختِ گاہ رسول بن سکتی ہے اور اگر حضرت ہاجرہؓ کے صفا مروہ پر دَوڑنے سے وہ پہاڑ شعائر اللہ میں داخل ہو سکتے ہیں تو مسیح موعود علیہ السلام سے اس قدر قُرب رکھنا کیوں باعثِ فضیلت نہیں ہو سکتا؟ مگر یہاں تو صرف تعلق نہیں بلکہ یہ تعلق اُس وقت آسمان پر جوڑا گیا جب کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو اس دنیا میں آنے میں ابھی صدیوں انتظار کرنا باقی تھا۔ پھر اس تعلق کی صلحاء اُمت تصدیق کرتے چلے آئے۔ حتیّٰ کہ خواجہ محمد ناصر پر یہ راز پھر ایک دفعہ کھولا گیا اور بتلایا گیا کہ تم کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ مسیح موعود ؑ پر جا کر ختم ہو جائے گا اور پھر جب مسیح موعود ؑ پیدا ہوئے اور ان کے ظہور کا وقت قریب آیا تو ان کوآسمان سے کہا گیا۔ اشکر نعمتی رأیت خد یجتی اس پیشگوئی میں دو چیزیں قابلِ غور ہیں۔ اوّل: نعمت۔ دوسرے: خدیجہؓ۔ جس چیز کا نام اللہ تعالیٰ نعمت رکھے۔ اس کے پیچھے جو برکات ہو سکتے ہیں وہ ظاہر ہے۔
۱۔ پھر خدیجہ کا نام اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ جس طرح پہلی خدیجہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنحضرت کے دعویٰ سے قبل دی گئی۔ اسی طرح یہ خدیجہؓ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے قبل دی جائے گی۔
۲۔ جس طرح اس خدیجہؓ کے وجود سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بڑا آرام، بہت بڑی راحت ملی۔ ویسے ہی اس خدیجہ سے بھی آپؑ کو آرام اور راحت ملے گی۔
۳۔ جس طرح اُس خدیجہؓ کا مال خدمتِ اسلام کے لئے صرف ہوا۔ اِس خدیجہؓ کا مال بھی اسلام کے لئے صرف ہوگا۔
۴۔ جس طرح اُس خدیجہؓ کے بطن سے خادمِ اسلام اولاد پیدا ہوئی۔ اسی طرح اس خدیجہؓ کے بطن سے بھی خادمِ اسلام اولاد پیداہوگی۔
۵۔ جس طرح اُس خدیجہؓ کی اولاد کے لئے کچھ یزیدی کھڑے ہوئے تھے اس کی اولاد کے لئے بھی کچھ یزیدی کھڑے ہوں گے۔ مگر ناکام کئے جائیں گے۔
پس خدیجہ کے لفظ میں وہ سب کچھ پوشیدہ تھا جو پہلی خدیجہؓ کی زندگی میں ظہور پذیر ہوا۔ اس لئے شدید مناسبت اور شدید تعلق کی وجہ سے اس زمانہ کی نصرت جہاں بیگم آسمان پر خدیجۃ اللہ کہلائی۔
۶۔ اس میں یہ راز بھی پوشیدہ تھا کہ جس طرح یہ بروزِ خدیجہ ہے اسی طرح اس کا شوہر بروزِ محمدؐ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
پس خدیجہ کے نام میں بہت سی پیشگوئیاں تھیں جو پوری ہو کر رہیں۔ ان پیشگوئیوں میں ایسی نسل کو بھی عالم وجود میں لانا مقصود تھا۔ جن کے ذریعے سے اسلام کو بڑی تقویت ملے گی۔ چنانچہ ان پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ تھی:
’’سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلادے‘‘۔ ۱؎
اس طرح اس پیشگوئی میں مندرجہ ذیل اُمور پوشیدہ تھے:
اوّل: خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے حمایتِ اسلام کی بڑی بنیاد ڈالے گا۔
دوم: ایک خاص شخص پیداہوگا جو آسمانی رُوح اپنے اندر رکھے گا۔
سوم: اللہ تعالیٰ ایسی اولاد پیدا کرے گا جن کا یہ کام ہو گا کہ وہ ان نوروں کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں پھیلا وے جن کی تخمریزی حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمائی۔
ان تینوں باتوں کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں لائے۔
سوچو! اور غور کرو!! کہ کیا یہ انسانی کام تھا؟ خدا تعالیٰ کی پسندیدگی کیا انسانی تصرف کے ماتحت ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی اپنی اولاد کے متعلق اس قسم کے دعوے کر سکتا ہے؟ کہ ایک لڑکا خاص امتیاز کا مالک ہوگا باقی کی ساری اولاد اس مقصد کی حمایت اور اشاعت میں ہمہ تن لگ جائے گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے کر آئے۔ کون قبل از وقت کہہ سکتا ہے کہ اس کے اولاد ہوگی اور پھر اگر ہوگی تو وہ اِس مقصد کے پورا کرنے والی ہوگی جس کے لئے وہ مامور ہوا ہے۔ یہ سب کچھ سوائے منشاء الٰہی کے نہیں ہوسکتا۔ اسی پر بس نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تعلق پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا۔ اُسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاںبیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے‘‘۔ ۲؎
ان عبارتوں سے مندرجہ ذیل امور خوب واضح ہوتے ہیں:
۱۔ نصرت جہاں بیگم کے ذریعے ایک خاندان بنے گا۔
۲۔ اس خاندان میں ایک آسمانی روح والا لڑکا ہوگا۔
۳۔ باقی اولاد بھی حضرت مسیح موعود ؑکے مشن کو تمام دنیا میں پھیلا دے گی۔
۴۔ اس خاندان کے ذریعے تمام جہان کی مدد کی جائے گی۔
یہ امور تھے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے خود اپنی مرضی سے اپنے ہاتھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق حضرت اُمُّ المؤمنین سے جوڑا۔ اِس مقصد اور غرض کو دیکھ کر بآسانی یہ اندازہ لگ سکتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کس شان کی خاتون ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش
۱۸۶۵؁ء میں آپ کی پیدائش حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے مشکوئے معلّٰی میں حضرت نانی اماں سیّد بیگم صاحبہؓ کے بطن مبارک سے دہلی میں ہوئی۔ حضرت میر صاحبؓ عنفوانِ جوانی میں تھے۔ اُن کے سر پر سے والد کا سایہ اُٹھ چکا تھا۔ کئی قسم کے مشکلات تھے اور بیکاری کا زمانہ تھا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش کی برکات
جس طرح اہل اللہ کی پیدائش بہت سی برکات کا موجب ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش بھی بہت سی برکات لے کر آئی۔ تنگی فراخی سے بدل گئی۔ ناکامیاں کامیابیوں میںتبدیل ہوگئیں۔ چنانچہ غدر کا یہ لُٹا ہوا گھرانہ پھر نسیمِ رحمت کی آماجگاہ بن گیا۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی بیکاری جاتی رہی اور ان کو کام مل گیا۔ ناصری گنج کی جائیداد جس کے حصول کے لئے جناب خواجہ میر ناصر امیر صاحب حضرت اُمُّ المؤمنین کے دادا ناصری گنج کی طرف گئے تھے اور اسے حاصل کئے بغیر فوت ہوگئے تھے اس جائیداد کا ایک حصہ خود بخود بغیر کسی سعی کے مل گیا۔ اس طرح برکات سماوی کا دروازہ کھل گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مناسبت
اس سلسلہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کی حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے خاندان سے ایک بڑی مناسبت ہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ایک شاہی خاندان تھا۔ ہندوستان سے باہر جب کہ وہ سمر قند میں آباد تھے وہ سلطنت اور جاگیر کے مالک تھے اور ہندوستان میں آ کر پھر دریائے بیاس کے کنارے ایک بڑی جاگیر کے مالک ہوئے جو بعد میں ایک خود مختار حکومت کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش سے قبل یہ حکومت سلطنت، شوکت، دولت سب ختم ہو گئی تھی اور آپؑ کے والد صاحب نے بڑے مصائب کا زمانہ دیکھا۔ ایک دفعہ سکھوں نے ان کو بسراواں کے قلعہ میں قید بھی کر دیا تھا وہ قادیان سے نکالے بھی گئے۔ ان کے والد صاحب کو پیادہ پا ہندوستان کا سفر بھی کرنا پڑا۔ مگر یہ سب مشکلات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی دور ہوگئیں اور خاندان مسیح موعود ؑعنایاتِ الٰہی کا مورد بن گیا۔
چلنے لگی نسیم عنایاتِ یار سے‘‘۳؎
بالکل اسی طرح خواجہ میر درد کا گھرانہ اپنی دولت و ثروت ختم کر چکا تھا۔ نواب خانِ دَوران کی حکومت، دولت لُٹ کر ایران جا چکی تھی۔ رہی سہی کسر غدر نے نکال دی۔ دہلی سے یہ خاندان پیادہ پا نکلنے پر مجبور ہوا۔ گھروں میں جو کچھ تھا وہیں چھوڑنا پڑا۔ ملک سے بے ملک ہوئے۔ گھر سے بے گھر ہوئے اور جس طرح خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۳۵؁ء میں نسیم رحمت کو حضرت مسیح موعود ؑ کی پیدائش سے قبل چلتے دیکھا اور انہوں نے اطمینان کا سانس لیا، اور اُجڑے ہوئے گھر میں خاندان واپس آ گیا۔ بالکل اسی طرح اس بابرکت رُوح کی پیدائش کے ساتھ ہی اس خاندان کی حالت بدل گئی اور خاندان کے دن فارغ البالی کی طرف عود کر آئے اور اس برکت کو والدین نے پہلے ہی محسوس کر لیا تھا اور یہ تاریخ کا ایک اہم واقعہ جو دونوں خاندانوں کی یکساں کیفیت کو بیان کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔
الغرض یہ خاتون اسی طرح اپنے باپ کے خاندان کے لئے بچپن سے ہی اور اپنے بطن سے پیدا ہونے والے خاندان کے لئے ہمیشہ بابرکت ثابت ہوئیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی بچپن کی عمر تمام ان مقامات پر گذری جہاں جہاںحضرت میر صاحبؓ کو ملازمت کے سلسلہ میں رہنا پڑا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پرورش رزقِ حلال سے ہوئی
اسلام نے جہاں کھانے پینے کے مسائل بیان فرمائے ہیں وہاں یہ حکم دیا ہے۔ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا کہ تمہارا کھانا اور پینا حلال اور طیب ہو۔ غذائوں کا جسم پر جو اثر ہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ ہم جس قسم کی غذائیں کھاتے ہیں وہ ہمارے جسم پر اسی قسم کا اثر ڈالتی ہیں اورجس قسم کا اثر ہمارے جسم پر پڑتا ہے۔ اسی قسم کا اثر ہمارے اخلاق اور روح پر پڑتا ہے۔ اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہماری غذا عام نہیں رہتی بلکہ اسے لطیف بنا دیا جاتا ہے وہ ٹھوس نہیں ہوتی اسے سیّال کر دیا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں بھنا ہوا گوشت، بٹیر، مرغ، پلائو، زردہ ثقیل اور دیر ہضم غذائیں ہمارے لئے مہلک ثابت ہو جاتی ہیں۔ لیکن یخنی، دودھ، سوڈا، پھلوں کے رس ہمارے لئے زندگی بخش ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح مُردار یا سڑی گلی کچی غذائیں ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ایسے ہی وہ غذائیں جو ناجائز مال سے تیار کی جائیں وہ مُردار اور سڑی گلی اور ناقص غذائوں کی ذیل میں ہی آتی ہیں۔ ایسی غذائوں سے جو جسم بنتا ہے اس کو روحانیت سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدبودار چیز کھا کر مسجد میں نہ آئو۔ جس چیز سے مومنوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے ملائکہ کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اس قول نبویؐ کے ذریعے کتنا لطیف سبق ہم کو دیا گیا۔ ہمارا مذاق کس قدر پاکیزہ ہونا چاہئے کہ پبلک مقامات پر کسی بدبو والی چیز کا اثر لے کر نہ جائیں بلکہ جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرنے کا حکم دیا۔ جو مذہب اس قدر اعلیٰ تعلیم دے وہ کب اس امر کو پسند کر سکتا ہے کہ ایسی غذائیں جو کسب حرام سے میسر ہوں ان کو کھائو۔ اس کا یہی فلسفہ ہے کہ انسان کے اندر ایسا خون صالح بنے کہ جس کے اثرات رُوح پر نہایت پاکیزہ ہوں۔ اس فلسفہ کے ماتحت جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی پرورش ایسے رنگ میں ہوئی کہ کبھی زندگی بھر ان کے منہ میں ایک نوالہ نہیں گیا جو ایسے مال سے بنایا گیا ہو جو ناجائز ہو تو کتنی عظمت معلوم ہوتی ہے آپ کے وجود کی کہ سارا جسم ان پاکیزہ غذائوں سے تیار ہوا جن میں کبھی کسی قسم کی حرام کی ملونی نہ تھی۔ اس سے جو خون پیدا ہوتا تھا وہ بھی صالح تھا۔ اس لئے اس وجود کا تعلق غذائوں کے فلسفے کے ماتحت قدرتی طور پر روحانی عالم کے ساتھ تھا اور بے شک ایسی پاکیزہ ہستی جو حسب و نسب کے لحاظ سے اعلیٰ تھی اور اپنی ذاتی پاکیزگی کی وجہ سے بھی اعلیٰ اور ارفع تھی۔ اس قابل تھی کہ وہ اس زمانہ کے نبی ؑ کی بیوی بنے اور اُن نوروں کی ماں بنے جن پر آئندہ دنیا کے امن کا انحصار ہے۔
آپ کی تعلیم
پانچ چھ سال کی عمر میں گھر کی چاردیواری میں قرآن کریم، اُردو نوشت و خواند کی تعلیم شروع ہوئی جو حضرت میر صاحبؓ نے خود ہی کرائی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین بچپن ہی سے زیرک، فہیم اور سلیقہ شعار تھیں۔ حضرت میر صاحبؓ کی زندگی کچھ ملازمت کے سلسلہ میں اور پھر قادیان میںہجرت کی صورت میں پنجاب ہی میں گذری۔ مگر حضرت میر صاحبؓ کے گھر کا طور و طریق بالکل دلّی کی قدیم تہذیب کے مطابق رہا۔ اس لئے حضرت اُمُّ المؤمنین کے باوجود پنجاب میں پرورش پانے کے دہلی کی طرز زندگی، بود ماند کے طریقے وہی رہے۔ باوجود اس کے کہ پنجابی زبان پر ان کو ایک قدرت حاصل ہے۔ مگر اُردو زبان پر آپ کو آج بھی ایسا اقتدار ہے گویا کہ وہ دہلی سے کبھی جدا ہوئیں ہی نہیں۔ جہاں جہاں حضرت میر صاحبؓ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں رہے، حضرت اُمُّ المؤمنین اپنے کنوار پنے میں وہاں رہیں اور شادی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ان مقامات پر ان کے والدین سے ملانے لے جایا کرتے تھے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نام
حضرت اُمُّ المؤمنین کا اصلی نام نصرت جہاں بیگم تھا۔ مگر بعد میں حضرت میر صاحبؓ نے وہابیّت کے اثر کے ماتحت آپ کا نام عائشہ بھی رکھا اور خدا تعالیٰ کی وحی نے آپ کا نام خدیجہؓ رکھا۔ اس لئے آپ کے تین نام ہوئے یعنی نصرت جہاں بیگم، عائشہ بیگم، خدیجہ بیگم۔ خاندان کی بوڑھی بیگمات آپ کو نصیرالجہان کے نام سے بلایا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن نے میری درخواست پر جو مضمون تحریر فرمایا۔ اس میں آپ کے نام کے متعلق لکھا ہے:
’’والد صاحب حضرت میر صاحبؓ نے آپ کا نام بسبب وہابیت کے اثر کے عائشہ بیگم تبدیل کر دیا تھا گو اصلی نام نصرت جہاں تھا جسے بعض بوڑھی عورتیں خاندان کی اب بھی نصیر الجہان کے لفظ سے ادا کرتی ہیں۔ مگر حضرت والد صاحبؓ عائشہ بیگم کے نام سے ہی پکارا کرتے تھے۔جب تک کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں کی وجہ سے اصلی نام مشہور عالم نہ ہو گیا‘‘۔
یہ تینوں نام ایک حقیقت پر مشتمل ہیں۔ نصرت جہاں بیگم نام کے معنی تو حضرت مسیح موعود ؑ ؑنے خود فرمائے ہیں کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ ۴؎
اگرچہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے لکھا ہے کہ وہابیت کے اثر کے ماتحت آپ کا نام حضرت نانا جانؓ نے عائشہ بیگم کر دیا تھا۔ مگر مَیں تو اسے الٰہی تقدیر سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ اِس نصرت جہاں بیگم کو اس زمانہ کی خدیجہؓ اور عائشہؓ بنانا چاہتا تھا۔ اس لئے کسی بھی اثر کے ماتحت اُن کے والد کی زبان سے بچپن ہی میں اُن کا نام عائشہ بھی رکھوا دیا تھا۔ اُن کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ لڑکی کل کو ایسے شخص کی بیوی بنے گی جسے خدا تعالیٰ نے بروز محمدؐ ٹھہرایا ہے اور اس طرح وہ اس زمانے کی عائشہ بھی کہلائے گی۔ اُمّ المومینن آپ کا خطاب ہے۔ اُمّ محمود آپ کی کنیت ہے۔ آپ نے اپنے بعض اعلانات میں جو الفضل اور الحکم اور دیگر سلسلہ کے اخبارات یا رسالہ جات میں شائع کرائے اپنی کنیت اُمّ محمود کو استعمال کیا ہے۔
اُمُّ المؤمنین آپ کا خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی کے بعد ہوا۔ اس خطاب پر آج بھی بعض لوگ چڑتے ہیں اور وہ مائی صاحبہ یا بیوی صاحبہ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح آپ کے ناموں نصرت جہاں بیگم، عائشہ بیگم، خدیجہ بیگم میں ایک سرّ مخفی تھا جو اپنے وقت پر آ کر کھولا گیا۔ اسی طرح اُمُّ المؤمنین کا خطاب بھی اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۰۱ء ؁کی بات ہے ایک روز مغرب کی نماز کے وقت خدا تعالیٰ کا فرستادہ نبی ؑ اپنے خدام کے حلقے میں جلوہ افروز تھا کسی نے عرض کی کہ:
’’اُمُّ المؤمنین کا لفظ جو مسیح موعود ؑ کی بیوی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں‘‘۔
حضرت اقدس ؑ نے سن کر فرمایا:
’’اعتراض کرنے والے بہت ہی کم غور کرتے اور اس قسم کے اعتراضات صاف بتاتے ہیں کہ وہ محض کینہ اور حسد کی بناء پر کئے جاتے ہیں۔ورنہ اگر نبیوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگر اُمہاتُ المومنین نہیں ہوتیں ہیں تو کیا ہوتی ہیں؟ خداتعالیٰ کی سنت اور قانونِ قدرت کا اس تعامل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی۔ ہم کہتے ہیں ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین کیوں کہتے ہو پوچھنا چاہیئے کہ تم بتاؤ جو مسیح موعود ؑ تمہارے ذہن میں ہے اور جسے تم سمجھتے ہو کہ وہ آ کر نکاح بھی کرے گا کیا اس کی بیوی کو تم اُمُّ المؤمنین کہو گے یا نہیں؟ مسلم میں تو مسیح موعود ؑ کو نبی ہی کہا گیا ہے اور قرآن شریف میں انبیاء علیھم السلام کی بیویوں کو مومنوںکی مائیں قرار دیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ میری مخالفت اور بُغض میں ایسا تجاوز کرتے ہیں کہ منہ سے بات کرتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہو گا۔
جن لوگوں نے مسیح موعود ؑ کو شناخت کر لیا اور اس کو رسول اللہ ﷺ کے فرمودہ کے مطابق اس کی شان کو مان لیا ہے۔ ان کا ایمان تو خود بخود انہیں اس بات کے ماننے پر مجبور کرے گا اور جو آج اعتراض کرتے ہیںیہ اگر رسول اللہ ﷺ کے وقت میں بھی ہوتے تب بھی اعتراض کرنے سے باز نہ آتے۔
’’یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کا مامور جو ہدایت کرتا ہے اور روحانی علاج کا موجب ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت باپ سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ افلاطون حکیم لکھتا ہے کہ باپ تو روح کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے مگر استاد زمین سے پھر آسمان پر پہنچاتا ہے۔ باپ کا تعلق تو صرف فانی جسم کے ہی ساتھ ہوتا ہے۔ مُرشد اور مُرشد بھی وہ جو خدا کی طرف سے ہدایت کے لئے مامور ہوا ہو اس کا تعلق روح سے ہوتا ہے۔ جس کو فنا نہیں ہے۔ پھر جب وہ روح کی تربیت کرتا ہے اور اس کی روحانی تولید کا باعث ہوتا ہے تو وہ اگر باپ نہ کہلائے گا تو کیا کہلائے گا۔ اصل یہی ہے کہ یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی باتوں پر بھی کچھ توجہ نہیں کرتے ورنہ اگر ان کو سوچتے اور قرآن کو پڑھتے تو یہ منکرین میں نہ رہتے۔‘‘ ۵؎
یہ بحث کسی مزید توضیح یا تشریح کی محتاج نہیں بلکہ اس سے نبوت مسیح موعودؑ کا مسئلہ بھی کلّی طور پر حل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کی بیویوں کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کہلاتی ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ آنے والے مسیح موعود ؑ کے متعلق تو جمہور مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ اس کی بیوی اُمُّ المؤمنین ہی کہلائے گی اور ایسے معترضین کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ اگر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوتے تو بھی یہ اعتراض کرتے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے اعتراض کرنے والے ایک اندرونی جذام میں مبتلا تھے۔ ایک کوڑھ تھا جو ان کو اندر ہی اندر کھاتا جاتا تھا۔جس نے ان کے ایمان کی عمارت کو جڑوں تک کھوکھلا کر دیا تھا۔
پس اُمُّ المؤمنین اس لئے اُمُّ المؤمنین ہے کہ وہ ایک نبی کی بیوی ہے۔ اور وہ اس لئے اُمُّ المؤمنین ہے کہ مسیح موعود ؑ کی بیوی ہے۔ وہ اس لئے اُمُّ المؤمنین ہیں کہ وہ ہمارے ایسے باپ کی زوجہ ہیں جو انسانی روح کی تولید کرتا ہے۔ اس لئے یہ حتمی فیصلہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے اعتراضات کرتے تھے یا کرتے ہیں یا کریں گے ان کا روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ان کو نہ معرفت حاصل ہے اور نہ قرآن اور نہ حضرت رسول کریمؐ کی احادیث پر کوئی ایمان ہے۔ پس اس سے حضرت اُمُّ المؤمنین کے مقام اور شان کا بآسانی پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ کیوں اور کیسے اُمُّ المؤمنین کہلائیں۔
اُمُّ المؤمنین کہلانے کا حق صرف اماں جان ہی کو ہے!
دسمبر ۱۹۲۴ء؁ میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سیّدہ امۃ الحی مرحومہ کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا تھا۔ کہ ’’وہ بھی ایک رنگ میں آپ کی والدہ ہیں۔‘‘ اس پر بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے حضرت امیرالمومنین کی بیویوںکو بھی اُمُّ المؤمنین لکھنا شروع کر دیا۔ اس پر آپ نے ۱۹ دسمبر کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ انہوں نے میری بیویوں کی نسبت اُمُّ المؤمنین کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس خیال سے کہ کسی کے لئے یہ امر ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے۔ میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اُمُّ المؤمنین کا خطاب صرف انبیاء ؑ کی بیویوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ بعض محاورے خاص ہوتے ہیں۔ جن کو عام نہیں کیا جا سکتا۔…… پس بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیںکہ وہ ایک خاص مقام پر جا کر استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کا استعمال جائز نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ایک شخص جس کے پاس ایک پیسہ یا پانچ سات روپے ہوں ہم کہتے ہیں کہ اس کے پاس مال ہے لیکن ہم اس کو مالدار نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک ایسا محاورہ ہو گیا ہے جو ایک خاص مقدار پر پہنچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اُمُّ المؤمنین کا لفظ انبیاء کی بیویوں کے ساتھ ہی خصوصیت رکھتا ہے اور یہ مرتبہ انبیاء سے قُرب اور تعلق کی وجہ سے ان کو دیا جاتا ہے کیونکہ جب خاوند ایک عزت اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو ساتھ ہی اس کے بیوی بچے بھی عزت اور احترام کے لحاظ سے اس مرتبہ کو حاصل کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ۔
’’پس جس روز سے ایک شخص بادشاہ ہو جاتا ہے۔اس روز سے اس کی بیوی بھی ملکہ ہو جاتی ہے۔ کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ وہ ملکہ کیوں ہو گئی۔
’’اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شیعوںنے ٹھوکر کھائی ہے۔ ایک طرف تو اتنی افراط سے کام لیا کہ اولاد کو نبوت میں شریک سمجھ لیا اور دوسری طرف اتنی تفریط کی کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج کی کچھ شان ہی نہیں سمجھی۔ انبیاء کی عظمت ایسی بلند ہوتی ہے جیسا کہ زمین کے لوگ ستاروں کو دیکھیں۔ مگر تعلق کی وجہ سے اور ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونے کے باعث قُرب کے لحاظ سے ان کے بیوی بچے بھی بلند کئے جاتے ہیں۔ ان کے اس حق کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
’’پس نسبتی طور پر تو ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت کسی نسبت کے لحاظ سے ماں کہلائے جیسا کہ خلیفہ ایک رنگ میں روحانی تربیت،محبت اور ہمدردی کے باعث ایک باپ ہوتا ہے اور اس کی بیویاں اس کی وجہ سے مائیں کہلا سکتی ہیں مگر اُمُّ المؤمنین کے نام کی صرف نبیوں کی بیویاں مستحق ہیںکیونکہ ان پر وہی احکام جاری ہوتے ہیں جو ماؤں کے متعلق ہیں۔ نبی کی وفات کے بعد نبی کی بیوی سے نکاح اسی طرح حرام ہوتا ہے۔ جس طرح کہ سگی ماں سے۔ لیکن استاد یا خلیفہ کی بیوی سے نکاح جائز ہے اور خلفاء کی بیویوں کا خلفاء کی وفات کے بعد نکاح کرنا ثابت ہے۔
’’پس اُمُّ المؤمنین کی اصطلاح انبیاء ؑ کی بیویوں کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔ ہاں استاد کی بیوی کو خلیفہ کی بیوی کو والدہ کہہ سکتے ہیں مگر اُمُّ المؤمنین نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے کسی اور کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کرنا شریعت کے خلاف ہے۔‘‘ ۶؎
اس ساری بحث سے میری غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کے صحیح مقام کو پیش کرنا ہے۔ حضرت امیرالمومنین کے ارشاد کے بموجب اُمُّ المؤمنین ایک خطاب ہے۔ جو صرف نبی کی بیوی کے لئے مختص ہے۔
پس حضرت اُمُّ المؤمنین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجود گی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں قوم کا ان کو اُمُّ المؤمنین کہنا۔ پھر معترضین کا اعتراض کرنا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان معترضین کو منہ توڑ جواب دینا۔ پھر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح کا اس امر کو واضح کر دینا کہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جو صرف نبی کی بیوی کے لئے مختص ہے۔ ایک طرف مسئلہ نبوت پر کھلی روشنی ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف ان تمام بدگمانیوں اور شکوک کا ازالہ کر رہی ہے۔ جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی شان کو کم کرنے کے لئے پیدا کئے جاتے رہے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِلٰہِ النَّاسِo مِنْ شَرِّالْوَاسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُوْرِالنَّاسِo مِنَ الجِنَّۃِ وَالنَّاسِo
الٰہی! تو ہم کو اپنی پناہ میں لیلے۔ تاہم خناسوں کے وساوس سے محفوظ رہیں جواندر ہی اندر سینہ بسینہ پھونکنے کی کوشش کرتے رہے یا اب بھی کرتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی شادی
میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش ۱۸۶۵ء؁ میں ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ۱۸۳۵ء؁ میں ہوئی۔ اس طرح حضرت اُمُّ المؤمنین کی عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تیس سال کم تھی اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی آپ سے ہوئی اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کی عمر انچاس سال تھی اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی عمر ۱۸ سال یا ۱۹ سال کی تھی۔ اس شادی کی تقریب کیسے پیدا ہوئی؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی ۱۸۴۹ء؁ میں ہوئی تھی۔ اورغالباً ۱۸۵۰ء؁ میں میرزا سلطان احمدصاحب پیدا ہوئے تھے اور پھر میرزا فضل احمد صاحب پیدا ہوئے تھے۔ اس کے بعد حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق پہلی بیوی سے رسمی طور پر رہ گیا اور عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی بند ہو چکی تھی۔ اس حالت میں آپ کو ایک الہام ہوا۔ اِنَّانُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَسِیْنِ ۷؎ یہ سب سے پہلی بشارت تھی۔ جو اس حالت میں جبکہ آپؑ کی موجودہ بیوی سے عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی بند ہو چکی تھی۔ یہ الہام اپنے اندر شادی کی بشارت لئے ہوئے تھا۔ مگر اس وقت سننے والوں کو تعجب ہوا۔ اس کے بعد پھر الہام ہوا۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأَیْتَ خَدِیْجَتِیْ ۸؎
اس الہام میں اس دلہن کا نام خدیجہ رکھا گیا۔ نزول المسیح کے صفحہ ۱۴۷ میں تحریر فرمایا:
’’یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا۔… اور خدیجہ اسلئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم سے ہوگی۔
پھر الہام ہوا۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الصِّھْرَوَالنَّسْبَ- یعنی وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سیّد تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا ۔ جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے۔‘‘ ۹؎
پھر بوقت عصر الہام ہوا:
’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کرونگا۔ اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہرچہ باید نوعروسے را ہماں ساماں کنم
وآنچہ مطلوب شماباشد عطائے آں کنم۱۰؎
اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے دوسری شادی کے متعلق خود اپنے ارادے کا اظہار فرمایا۔اس میں سب سے پہلا لفظ جو قابل غور ہے وہ ’میں نے ارادہ کیا ہے‘ کا لفظ ہے۔ ارادہ عربی لفظ ہے۔ قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔مثلًاقرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَo۱۱؎
یعنی جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرلیتا ہے۔ تو اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ خدا جس کے قبضہ میںہر چیزکی حکومت ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پس خدا تعالیٰ جو خالق الاسباب ہے اور ساری کائنات کا مالک و حاکم ہے اس کے ارادے میں کون روک ہو سکتا ہے۔ پس اس کا ارادہ ایک تقدیر مبرم اور اٹل ہے۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اس کاارداہ ٹل نہیں سکتا۔
خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور بھی ایک اٹل تقدیر تھی جو انسانی منصوبوں سے ٹل نہیں سکتی تھی۔ اس ظہور کی بڑی غرض یہ تھی کہ خداتعالیٰ جس نے دنیا سے اپنا چہرہ چُھپا لیا تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر اپنا روئے منور دنیا پر ظاہر کرے۔وہ چاہتا تھا کہ ایک سورج کی طرح اپنی کرنیں ایک دفعہ پھر تاریک دنیا پر ڈال کر زندگی،روشنی،نور اور معرفت و حیات کا عالم پیدا کرے۔ وہ دنیا کو اس مادی اور دہریت کے زمانہ میں ایک دفعہ پھر اپنے کلام سے مست و دیوانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ پھر چاہا کہ وادیٔ غیر ذی زرع کی روحانیت کو دنیا پر آشکارا کرے۔
ا س نے ایک دفعہ پھر چاہا کہ وہ ابراہیم ؑ و موسیٰؑ و عیسیٰؑ کے نظارہ سے زمین کو آسمان کی ہم پلّہ بنادے اس نے چاہا کہ ایک دفعہ پھر گنگا کی وادی میں محبت کی بنسری بجانے والا کرشن بھیج کر دنیا کو مست وبیخود بنادے۔ یہ اٹل اور بالکل اٹل ارادہ تھا۔ جس نے اس محبوب و دلر باودلنواز کو دنیا میں بھیجا۔ بالکل وہی اٹل تقدیر تھی اور اس مالک الکل کی تقدیر تھی کہ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنے اس محبوب اور پیارے کے لئے ایک اور شادی کا انتظام کرے۔
اس الہام میں دوسرا فقرہ ’ایک اور شادی کروں‘ کا ہے۔ جو قابل غور ہے۔ ’’ایک اور‘‘ کا لفظ اسی جگہ بولا جاتا ہے۔ جہاں پہلی چیز کافی نہ ہو یا اس ضرورت کو پوری نہ کرتی ہو۔ جس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی چیز وضع کی گئی تھی یہی دنیا کا دستور ہے۔ الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں ’ایک اور‘ کا لفظ اسی وقت بولا جاتا ہے۔ جبکہ پہلی چیز کافی نہ ہو۔ بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بیوی پہلے سے موجود تھیں مگر جن اغراض و مقاصد کو لیکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث کئے گئے تھے۔ ان مقاصد کے بوجھ اور ان ذمہ داریوں کی وہ بیوی متحمل نہ ہو سکتی تھیں۔ جیسے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ منشاء الٰہی تھا کہ:
۱۔ایک آسمانی روح والا لڑکا پیدا کیا جائے۔
۲۔ اور ایسی اولاد پیدا کرے۔ جو ان نوروں کو تمام دنیا میں پھیلا دے۔
۳۔ اور اس خاندان کے ذریعہ تمام دنیا کی مدد کی جائے۔
ان امور کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بیّن فرق رکھ دیا اور وہ فرق وحی الٰہی نے یوں بیان فرمایا:
’’سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی زاَدَمَجَدَکَ یَنْقَطِعُ اٰبَاؤُکَ وَیَبْدَأَمِنْکَ- ۱۲؎
’’سب پاکیاں خدا تعالیٰ کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔ اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقِطع ہو جائے گا۔ یعنی بطور مستقل ان کا نام نہیں رہے گا اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کا کرے گا۔‘‘
اس وحی سے معلوم ہؤا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پہلے خاندان کو ختم کر دے اور آپؑ کے وجود مبارک سے نئے خاندان کی بنیاد رکھے۔ اس نئے خاندان کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی ۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کا گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں ارد گِرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈرائونا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذرّیت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوںتک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے۔ عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچادے گا۔‘‘۱۳؎
اس وحی کا یہ مطلب تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نئے خاندان کی بنیاد رکھنے کے لئے پرانے خاندان کو ختم کر دیا جائے گا اور نئے خاندان کی بنیاد رکھی جائے گی۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جب کسی عظیم الشان قصر کی تعمیر مقصود ہوتی ہے تو تمام بوسیدہ عمارتوں کو گرا کر زمین کو صاف کر دیا جاتا ہے اور پرانی عمارت کی ایک اینٹ بھی نئی عمارت میں نہیں لگائی جاتی۔ بالکل اسی طرح خداتعالیٰ نے اس نئے خاندان کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے خاندان کو ختم کر دیا جائے گا اور نئے خاندان کو بڑھایا جائے گا۔ وہ کثرت سے ملکوں میں پھیل جائیں گے اور ان کو کبھی منقطع نہیں کیا جائے گا اور وہ آخری دنوں تک سرسبز رہیں گے اور وہ اس مقصد وحید میں لگے رہیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے مقصود تھا۔
ان الہامات سے اس نئے خاندان کی شان و عظمت کا پتہ چلتا ہے اور اس کی غرض و غایت معلوم ہوتی ہے۔ یہ غرض اور یہ غایت اور یہ مقصد چونکہ پہلی بیوی سے پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ پہلی بیوی سے صرف دو لڑکے تھے۔ یعنی حضرت میرزا سلطان احمد صاحب اور میرزا فضل احمد صاحب۔ اوّل الذکر محکمہ مال میں ملازم تھے اور آخر الذکر محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور وہ اپنے دنیاوی کاروبار میں اس قدر منہمک تھے کہ اس مقصد کے لئے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے کوئی وقت نہ دے سکتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ میرزا فضل احمد صاحب کو تو بیعت کرنے تک کا موقع نہ ملا اور حضرت میرزا سلطان احمد صاحب بھی حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی میں بیعت نہ کر سکے۔ اس لئے چونکہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد سے وہ مقصد پورا نہ ہو سکتا تھا اس لئے ایک اور کی طرف توجہ ہونی قدرتی امر تھا۔ اس لئے جس قدر اہم مقصد تھا اسی قدر اہم خاندان کی لڑکی کا انتخاب ضروری تھا ۔ سو ایسا ہی ہوا ۔ اس الہام میں تیسرا فقرہ یہ تھا کہ: ’سب کا م میں خود ہی کروں گا‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ تو ایسا تھا کہ کسی کو آپؑ کا علم ہی نہ تھا۔ آپؑ خود فرماتے ہیں:
اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
ایسی گمنامی کی حالت میں رہنے والے انسان کے لئے نئی شادی کا انتظام کرنا کئی وجوہ سے بڑا مشکل تھا۔
اوّل۔ خاندان کے افراد جو موجود تھے وہ تو سب آپؑ کے دشمن تھے۔ گھر کی مستورات کا یہ حال تھا کہ وہ اس قدر بھی پسند نہ کرتی تھیں کہ حضرت صاحبؑ کو کوئی کھانے کی چیز ہی تحفہ کے طور پر پیش کر دے۔ جیسے کہ نانی اماںؓ کی روایت میں قبل ازیں آ چکا ہے۔ چہ جائیکہ کوئی ان کو پہلی بیوی کی موجودگی میں اپنی بیٹی کا رشتہ دے۔
دوم ۔رشتہ داروں سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ اس وقت دنیا کے کاموں میں انہماک تھا۔ جس سے حضرت اقدس کو دور کا بھی تعلق نہ تھا۔
سوم ۔حضرت اقدس ؑ کی جسمانی حالت کسی شادی کی طرف راغب نہ تھی۔
چہارم ۔عمر کا تفاوت بھی روک تھا۔
پنجم۔ ایک بیوی کی موجودگی بھی روک تھی۔
ششم۔ حضرت صاحبؑ اپنے رشتہ داروں میں تحریک کر ہی نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ اس مقصد عظیم کے پورا کرنے کے لئے آپؑ کے خاندان میں کوئی بھی گھرانہ ایسا نہ تھا جس میں دینداری کی روح پیدا ہوتی۔
ان حالات اور وجوہ کی موجودگی میں آپؑ کا شادی کے لئے کوئی تحریک کرنا اور پھر اس کا کامیاب ہو جانا بہت مشکل تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں سب سامان خود ہی کروں گا۔ اس الہام کا آخری فقرہ تھا: ’تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی‘ یعنی رشتہ کا انتخاب،شادی کے لئے ضروریات کا مہیا کرنا سب کچھ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ چنانچہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ ادھر آسمان سے یہ تحریک ہو رہی تھی اُدھر حضرت میرناصر نواب صاحبؓ کو اپنی بلند اقبال صاحبزادی کے لئے رشتہ کی فکر تھی۔ حضرت میر صاحب جو پہلے ہی دن سے دعاؤں میں لگے ہوئے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی بیٹی کے لئے صالح داماد ملنے کی دعا کے لئے لکھا ۔ حضرت مسیح موعود کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی شادی کیلئے تحریکیں ہو رہی تھیں۔ یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ رشتہ سادات میں ہو گا اور یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ وہ خاندان دہلی میں سکونت پذیر ہے۔ جب حضرت میر صاحبؓ کی طرف سے دعا کی تحریک ہوئی۔ تو آپؑ نے ایک خط حضرت میرصاحبؓ کو لکھا اگرچہ اصل خط محفوظ نہیں۔ مگر حضرت میر صاحبؓ کا بیان ہے:
’’اس کے جواب میں مجھے حضرت میرزا صاحبؑ نے تحریر فرمایا کہ میرا تعلق میری بیوی سے گویا نہ ہونے کے برابر ہے اور میں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے۔ ایسا ہی تم کو سادات کے عالی شان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا اور ا س نکاح میں برکت ہو گی اور اس کا سب سامان میں خود بہم پہنچاؤں گا۔ تمہیں کچھ تکلیف نہ ہو گی۔ یہ آپؑ کے خط کا خلاصہ ہے۔ اور یہ بھی لکھا کہ آپ مجھ پر نیک ظنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں اور تاتصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں اور رد کرنے میں جلدی نہ کریں۔‘‘ ۱۴؎
حضرت نانی اماںؓ اس سلسلہ میں سیرۃ المہدی حصہ دوم میں بیان فرماتی ہیں:
’’ایک خط میر صاحبؓ نے تمہارے ابا کے نام لکھاکہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے۔ آپ دعا کریں کہ خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے۔ تمہارے ابا نے جواب میں لکھا ۔ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو معلوم ہے کہ گومیری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیں ۔ مگر آج کل میں عملاً مجرد ہی ہوں۔ وغیرہ ذالک ۔میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی۔ حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے متموّل آدمی بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے۔
’’مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا کے بہت تعلقات تھے۔ انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ میرزا صاحبؑ بڑے نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں۔ مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا۔ دوسرے ان دنوں میں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا۔ بالآخر ایک دن میر صاحبؓ نے ایک لدھیانہ کے باشندے کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی اسے رشتہ دے دو۔ میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا۔ جس پر میر صاحبؓ نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے۔ کیا ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی۔ میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ؑہی ہزار درجہ اچھا ہے۔ میر صاحبؓ نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر میرزا غلام احمد ؑکا بھی خط آیا ہوا ہے جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہئے۔ میں نے کہا اچھا پھر غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمہارے نانا جانؓ نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا۔‘‘۱۵؎
نانی اماںؓ کے بیان کے ساتھ حضرت نانا جان کے بیان کا بقیہ حصّہ دے دینا بھی ضروری ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں:
’’پہلے تو میں نے کچھ تأمل کیا۔ کیونکہ میرزا صاحب کی عمر کچھ زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے۔ مگر پھر حضرت میرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا۔ میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں۔ نیز مجھے دلّی کے لوگ اور وہاں کی عادات و اطوار بالکل ناپسند تھے اور وہاں کے رسم و رواج سے سخت بیزار تھا۔‘‘ ۱۶؎
ان دونوں بیانوں سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی اماں اور ابا کے دلوں میں الگ الگ قسم کے خیالات تھے اور الگ الگ قسم کے موانع۔
حضرت میر صاحبؓ کے دل میں تین روکیںتھیں۔
۱۔عمر کا فرق
۲۔ پہلی شادی اور اولاد
۳۔ قوم کا فرق
نانی اماںؓ کو پہلی روک یہ تھی کہ اول تو ان کا دل نہیں مانتا تھا۔ دوسرے عمر کا بہت فرق تھا۔ تیسرے دلّی والوں میں پنجابیوں کے خلاف سخت تعصب تھا۔
ان موانع کے باوجود ایک چیز تھی جو اندر ہی اندر کام کر رہی تھی اور وہ حضرت میر صاحب کا یہ جذبہ تھا کہ ان کا داماد نیک اور صالح ہو۔ یہ ایک اعلیٰ مقصد تھا جس کے پیمانہ پر کوئی پورا نہ اُترتا تھا۔ درخواستیں کرنے والے لوگ اچھے متموّل تھے۔ مگر نیک اور صالح نہ تھے۔ حضرت میر صاحب کو دلّی کے لوگوں کے عادات اور اطوار سے سخت نفرت تھی۔ اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ میرا مربی و محسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرمائے۔ یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی اور آخر قبول ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے بیوی کے متعلق فرمایا کہ لوگ مال اور حسن کے لئے شادی کرتے ہیں۔ مگر آپ نے فرمایا۔ خُذْبِذَاتِ الدِّیْن۔تم دیندار عورت سے شادی کرو۔ بالکل اسی اصل کے ماتحت حضرت میر صاحبؓ اپنی صاحبزادی کے لئے دیندارخاوند کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے اور خدا تعالیٰ سے رشتہ مانگا کرتے تھے۔ سو ان دعاؤں کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحبؓ کو وہ کچھ دے دیا جو انہوں نے مانگا۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس وقت روئے زمین پر ایک ہی انسان تھا جو نیکوںکا سردار اور راستبازوں کا راستباز تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود ؑ اور اس وقت دنیا میں ایک ہی شخص تھا جو خدا کے حضور اپنی بیٹی کے رشتہ کے لئے ہمیشہ خدا کے آگے رویا کرتا تھا اور گڑ گڑایا کرتا تھا اور وہ تھا میر ناصر نوابؓ۔ خدا نے اس کی دعاؤں کو سنا اور قبول کیا اور خود حضرت مسیح موعود ؑ کو تحریک کی اور خود حضرت میر صاحبؓ اور ان کی حرم کے دل میں باقی سب رشتوں سے نفرت پیدا کر کے صرف اور صرف حضرت مسیح موعود ؑ کیلئے انشراح پیدا کر دیا۔ اس طرح سے یہ ابتدائی مراحل طے ہو کر اس مبارک اور مقدس جوڑے کی نسبت قرار پا گئی جس سے ایک نئی دنیا ،ایک نیا خاندان،ایک نیا قصرِامن تعمیر ہونے والا تھا۔ جس رشتہ کے ذریعہ بننے والی دلہن خدیجہ ثانیہ بننے والی تھی اور خدیجہ ثانیہ کا شوہر بروز محمدؐبن کر جلوہ افروز ہونے والا تھا۔ جس جوڑے کے عالمِ وجود میں لانے کی ایک غرض ایک موعود بیٹا جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ کی بشارت سے دی تھی پیدا کرنا تھا اور ایک پاک نسل پیدا کرنی تھی جن کی مخالفت مخالفوں کو یزیدی اور جن کی محبت سعادت اور خداتعالیٰ کی رضا کا موجب بنانے والی ہے۔
پس یہ مبارک جوڑا باوجود روکوں اور حالات کی ناموافقت کے خدا کی منشاء کے ماتحت نامزد ہو گیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ خُلَفَائِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔ آمین
تقریب نکاح اور اس کی کیفیت
جس تاریخ کو خط لکھا اس تاریخ سے آٹھ دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلّی پہنچ گئے۔ حافظ حامد علی صاحبؓ بطور خادم کے ساتھ تھے۔ اور لالہ ملاوامل صاحب اور ایک دو اور آدمی ساتھ تھے۔ حضرت میر صاحبؓ کی برادری کے لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا اور کئی لوگ اس ناراضگی کی وجہ سے شامل بھی نہ ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہ لے گئے تھے۔ صر ف ڈھائی سو روپیہ نقد تھا۔ اس پر بھی رشتہ داروں نے بہت طعن کئے کہ اچھا نکاح کیا ہے کہ نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا۔ حضرت میر صاحبؓ اور ان کے گھر کے لوگ لوگوں کو یہ جواب دیتے تھے کہ میرزا صاحبؑ کے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ تعلقات نہیں ہیں۔ گھر کی عورتیں ان کی مخالف ہیں پھر وہ جلدی میں آئے ہیں۔ اس حالت میں وہ زیور کپڑاکہاں سے بنوا لاتے۔ مگر برادری کے لوگوں کا طعن و تشنیع کم نہ ہوا۔ ۱۷؎
حضرت اُمُّ المؤمنین نے خود بھی اپنی شادی کے متعلق سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۴۴ پر ایک روایت بیان فرمائی جس کے بعض ضروری فقرات یہ ہیں:
’’پھر حضرت صاحبؑ مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپؑ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا۔ یہ ۲۷ محرم ۱۳۰۲؁ ہجری بروز پیر کی بات ہے۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحبؑ نے نکاح کے بعد مولوی نذیرحسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذر دیا تھا۔‘‘
حضرت میر صاحبؓ نے لکھا ہے کہ نکاح ۱۸۸۵؁ء میں ہوا۔ مگر صحیح یہ ہے کہ نکاح نومبر ۱۸۸۳؁ء٭ میں ہوا تھا۔ حضرت میر صاحبؓ کو سن کے متعلق غلطی لگی وہ لکھتے ہیں:
’’اس نکاح کے متعلق سوائے ان کی رفیق بیوی کے کسی کو علم نہ تھا۔ حضرت صاحبؑ کو چپکے سے بلا بھیجا تھا۔‘‘
خواجہ میر درد کی مسجد میں بین العصر والمغرب مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے نکاح پڑھا۔ وہ ڈولی میں بیٹھ کر آئے تھے کیونکہ بوجہ ضعف اور بڑھاپے کے وہ چل پھر نہیں سکتے تھے۔
گیارہ سَو روپیہ مہر مقرر ہوا۔ حضرت میر صاحبؓ نے عین وقت پر اپنے اور اپنی بیوی کے رشتہ داروں کو بلا بھیجا۔ اس لئے وہ کچھ نہ کر سکے۔ بعض رشتہ داروں نے گالیاں بھی دیں اور بعض دانت پیس کررہ گئے۔
رسم و رسوم
جانبین کی طرف سے کوئی رسم و رسوم کا نام تک نہ لیا گیا۔ ہر ایک کام سیدھا سادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاکؐ کے حکم وارشاد کے مطابق ہوا۔ جہیز کا سامان ایک صندوق میں بند کر کے کنجی حضرت صاحبؑ کو دے دی گئی اور چپ چپاتے حضرت اُمُّ المؤمنین کو رخصت کر دیا۔۱۸؎
الغرض اس طرح سے نہایت سادگی کے ساتھ شریعت حقہ کے ارشاد کے مطابق اس پاک جوڑے
٭ میری تحقیق میں شادی کا سال ۱۸۸۴؁ء ہے۔ عرفانی کبیر۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی نکاح اور شادی نومبر ۱۸۸۴؁ء ہی لکھاہے۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ۵۸)
کاتعلق مسجد خواجہ میر دردؒ میں بین العصر و المغرب باندھا گیا۔ حضرت میر صاحبؓ کے رشتہ دار برا بھلا کہہ رہے تھے۔ مگر آسمان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ برکات نازل فرما رہے تھے۔ کیونکہ اس وقت عالم روحانیت میں ایک تعمیر نو کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔
اس زمانے میں بٹالے تک ریل بن چکی تھی۔ حضرت صاحبؑ رخصتانہ کرا کے حضرت اُمُّ المؤمنین کو لیکر قادیان آ گئے۔
ایک اور روایت
سیّد غلام حسین صاحب انیمل ہز بنیڈری٭ وٹرنری آفیسر بھوپال برادرحضرت قاضی سیّد امیر حسین صاحب نے مجھے بھوپال سے ایک روایت لکھی ہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے مجھ سے فرمایا کہ ہم نے میرناصر نواب صاحب سے ایک دن یہ دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی ایسی نیکی بتا سکتے ہیں۔ جس کے باعث آپ کی صاحبزادی حضرت مسیح موعود ؑ کے نکاح میں آئی۔ اس پر میر صاحب نے فرمایا کہ اور تو مجھے کچھ یاد نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب سے یہ پیدا ہوئی اس دن سے لیکر جس دن میں نے ان کو ڈولی میں ڈالا یہی دعا روزانہ کرتا رہا ہوں کہ اے خدا تو اس کو کسی بہت نیک کے پلے باندھیو۔‘‘
میکے سے سُسرال میں
حضرت اُمُّ المؤمنین دلّی سے رخصت ہو کر قادیان آئیں۔ نئی دلہنوں کی سُسرال میں بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ چاؤ اور لاڈ ہوتے ہیں مگر حضرت اُمُّ المؤمنین ایک ایسی جگہ تشریف لائیں۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب رشتہ دار آپ کے مخالف تھے اور ان کو آپ سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو یہاں کی تنہائی سے بڑی تکلیف ہوئی ان کے ساتھ دلّی سے ایک خادمہ فاطمہ بیگم ساتھ آئی تھیں۔ان کی بھی یہ حالت تھی کہ نہ ان کی کوئی سمجھتا تھا اور نہ وہ کسی

٭ Animal Husbandary
کی سمجھتی تھیں۔ اس عالم تنہائی میںحضرت اُمُّ المؤمنین بہت گھبرائیں۔ انہوں نے خط لکھا کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوںاور شاید میںاس غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی۔
رخصتانہ سے ایک ماہ بعد حضرت میر صاحبؓ قادیان آ کر حضرت اُمُّ المؤمنین کو لے آئے۔ فاطمہ بیگم سے حضرت نانی اماں نے پوچھا کہ لڑکی کیسی رہی؟ تو اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کی بڑی تعریف کی اور کہا:
’’لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہو گی۔ ورنہ میرزا صاحبؑ نے تو ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘
نانی اماںؓ نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا:
’’مجھے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا۔ مگر میں یونہی گھبرا گئی تھی۔‘‘ ۱۹؎
ان بیانات سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کن حالات میں پہلی مرتبہ قادیان میں رہیں۔ گھر کے عام افراد سے تو میل جول نہ تھا۔ البتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عَاشِرُوْا ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کا کامل نمونہ تھے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان
میری درخواست پر حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک قیمتی مضمون لکھ کر شملہ سے بھجوایا۔ میں ان کی کرم فرمائی اور اس احسان کا ازحد شکر گزار ہوں۔ انہوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی زبانی ایک روایت تحریر فرمائی ہے:
’’اماں جان نے ایک دفعہ ذکر فرمایا۔ جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں سب کنبہ سخت مخالف تھا (اس وقت تک شادی کی ہی وجہ سے غالباً )۔ دو چار خادم مرد تھے اور پیچھے سے ان بچاروں کی بھی گھر والوں نے روٹی بند کر رکھی تھی۔ گھر میں عورت کوئی نہ تھی۔ صرف میرے ساتھ’فاطمہ بیگم‘ تھیں۔ وہ کسی کی زبان نہ سمجھتی تھیں نہ ان کی کوئی سمجھے۔ شام کا وقت بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے۔ تنہائی کا عالم،بیگانہ وطن، میرے دل کی عجیب حالت تھی اور روتے روتے میرا بُرا حال ہو گیا تھا نہ کوئی اپنا تسلّی دینے والا۔ نہ منہ دُھلانے والا،نہ کھانے پلانے والا، کنبہ نہ ناطہ، اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کر اُتری، کمرے میں ایک کھرّی چارپائی پڑی تھی۔ جس کی پائینتی ایک کپڑا پڑا تھا اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہو گئی۔
’’یہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہان کا بستر عروسی تھا اور سُسرال کے گھر میں پہلی رات تھی مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اے کھرّی چار پائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن! دیکھ تو سہی دو جہان کی نعمتیں ہوں گی اور تو ہو گی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے خادموں سے لگے ہوں گے انشاء اللہ۔
’’اگلی صبح حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک خادمہ کو بلوا دیااور گھر میں آرام کا سب بندوبست کر دیا۔‘‘
یہ ہے شادی کی تفصیل۔ اس طرح وہ دُلہن جسے خدا نے نوعروسے کہا تھااور جس کو ’’خدیجتی‘‘ اپنی خدیجہ فرمایا تھا۔ اپنے عظیم الشان شوہر کے گھر میں آ گئی۔
میرے عزیز دوست ثاقب صاحب زیروی جو ایک مخلص اور نوجوان شاعر ہیں۔ انہوں نے اس مبارک تقریب کے ذکر پر ایک نظم لکھ کر اس کتاب میں شائع کرنے کے لئے میرے پاس بھیجی ہے۔ میں ان کے اخلاص اور محبت کو مدنظر رکھ کر خوشی سے ان کی نظم کو جگہ دے رہا ہوں۔ (محمود عرفانی)
’’اُمُّ المؤمنین‘‘ کی شان
معیّن وقت پر خالق نے مضرابِ حسین چھیڑا

محبت اور اخوت کے ہوئے نغمات پھر پیدا
چَھٹے ظلمت کے بادل مہر حق بالائے بام آیا

زمیں والوں کو پھر سے نور و رحمت کا پیام آیا
ندا آئی جہاں میں پھر ہمارا پہلواں جائے

جہاں والوںکو جو اسلام کے آداب سکھلائے
مٹائے جا کے ہر گلکاریٔ شرک و توہم کو

بدل دے زہر خنداں سے جو تثلیثی تبسم کو
جہاں کو خوابِ غفلت سے جگانا کام ہو جس کا

ہر اک شے کو مٹا کر پھر بنانا کام ہو جس کا
چناؤ میں محمد کا جواں٭؎ سب سے پسندآیا

یقینا ایسے آڑے وقت میں تھا چاہئے ایسا
جمالی سناں کے ہر ہتھیار سے آراستہ کر کے

نگاہوں میں، جگر میں، دل میں نورِایزدی بھر کے
فرشتوں کو دیا یہ حکم بس اک بار پھر جاؤ

رفیق ایسا ہمارے پہلواں کے واسطے ڈھونڈو
جو یکتائے زمانہ ہو رحیمی اور کریمی میں

جہاں بھر میں بدل نہ مل سکے جس کا حلیمی میں
ہو دل معمور جس کا درد جذبِ غمگساری سے

کہ اُس کو کھیلنا ہے دنیا بھر کی بیقراری سے
ہمارے دین پر جو جان تک دینا رَوا جانے

برے کا جو بھلا چاہے بُرے کو جو بھلا جانے
زمانے کے مصائب کو دعا و صبر سے جھیلے

فلک کی گردشوں کی یورشوں سے شُکر سے کھیلے
ہم اس کو اپنی شفقت سے بھراساغر پلائیںگے

ہم اس کو اس زمانے کیلئے رحمت بنائیں گے
خدیجہ کے مقدس نام سے اس کو ضیاء دیں گے

اُسے اِس دَور کے سب مومنوں کی ماں بنا دیں گے
فرشتے سن کے اس ارشاد کی تعمیل کو دوڑے

جھپک میں آنکھ کی دنیا سے خوش اور شادماں لوٹے
سروں کو خم کیا اور التجاکی! ملجا و ماویٰ!

ترے لطف و کرم سے مل گیا ہے وہ دُرِّ یکتا!
ہے جس کے حال پر تیرے کرم کی بارشِ پہیم

وہ تیری بہتریں مخلوق ہے نصرت جہاں بیگم
خدا کو یہ چناؤ بھی فرشتوں کا پسند آیا

بنا کر پھر جہاں میں اس کو اُمُّ المؤمنیں بھیجا
خدا اس ماں کو ہم سب سے زیادہ زندگی بخشے

جہاں جس سے مزّین ہے اسے وہ ہر خوشی بخشے
کہ اس کے بطن سے محمود سا گوہر ہوا پیدا

مرا ہادی، مرا رہبر، مرا آقا، مرا پیارا
۲۰؎
اُن پرانی مستورات میں سے جہنوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو دُلہن بنے ہوئے دیکھا اب کوئی موجود نہیں۔ البتہ میرے محترم بھائی مولوی جلال الدین شمس صاحب کی پھوپھی جو مائی کاکو صاحبہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی خادمہ ہیں اور ایک عشق و شوق سے خدمت کرتی ہیں نے مجھے سنایا کہ جب حضرت اُمُّ المؤمنین نئی نئی بیاہی ہوئی آئیں۔ یعنی ۱۸۸۳؁ء ٭کے نومبر یا دسمبر کے ابتدائی دنوں میں ہم بھی ایک دفعہ قادیان آئی ہوئی تھیں۔ تو ہم نے سنا کہ میرزا صاحب ’ووہٹی‘ بیاہ کر لائے ہیں۔ اس لئے ہم دیکھنے کے لئے چلی گئیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین ۱۸،۱۹ سال کی لڑکی تھیں۔ بالکل پتلی دبلی اور نحیف سی تھیں۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ پنجاب کے رواج کے بالکل خلاف،رنگین یا سرخ جوڑا نہ تھا۔ اس وقت کھلے پائچے کا غرارہ پہنے ہوئے تھیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ہم کو دیکھ کر کمرے سے باہر آ گئیں اور ہم کو جب ایک دُبلی
٭ ۱۸۸۴؁ء
سی کم عمر لڑکی سفید لباس میں نظر آئی تو ہم کو تعجب ہوا۔ اور ہم نے کہا کہ ’’اے کس طرح دی ووہٹی اے‘‘ اس کے بعد مائی کاکو صاحبہ بیان کرتیں ہیں کہ ہم نے پھر حضرت اُمُّ المؤمنین کی جو شان دیکھی اسے مَیں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔
سب سے بڑی چیز جو انسان کو ہر ایک جاندار سے ممیز کرتی ہے نہ صرف ہر ایک جاندار سے ممیز کرتی ہے بلکہ انسانوں میں بھی ممتاز بناتی ہے وہ انسانی اخلاق ہیں۔ اس مختصر سی کتاب میں مَیں فلسفۂ اخلاق پر بحث نہیں کر سکتا۔ مگر اخلاق روحانیت کے لئے پہلا زینہ ہیں۔ ہمارے گھروںکی اندرونی زندگی کے خراب ہونے کے بڑے اسباب میں ایک اخلاقی تفاوت بھی ہے۔ میاں بیوی کی زندگی کی گاڑی اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک ان دونوں کا نقطہ نگاہ ایک نہ ہو۔ مثلاً فرض کر لو ایک گھر کا مالک مہمان نواز واقع ہوا ہے مگر بیوی کسی مہمان کو پانی پلانا بھی پسند نہ کرتی ہو تو اس کانتیجہ ظاہر ہے اس گھر میں ہر روز جنگ ہوتی رہے گی۔ بیوی کہے گی کہ مَیں تمہاری خدمت تو کر سکتی ہوں مگر یہ ہر آئے گئے کی خدمت مجھ سے نہیں ہو سکتی۔ مَیں ان لوگوں کی نوکر نہیں لگی ہوئی مَیں اپنا گھر لوگوں کیلئے لٹا نہیں سکتی۔
الغرض اس قسم کی سینکڑوں ایسی باتیں پیدا ہوتی رہیں گی جن سے گھر خانہ جنگی کا مرکز بنا رہے گا۔ اسی طرح اگر میاں دیندار ہو اور بیوی دیندار نہ ہو، میاں فیاض ہو بیوی بخیل ہو، میاں تعلیم یافتہ ہو، بیوی جاہل ہو، میاں ہمدردِ خلائق ہو بیوی لوگوں کو دیکھ کر گھبراتی ہو۔ توان حالات میں مزاجوں میں چِڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے میاں بیوی خود اپنے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور ایسے گھر ہر وقت کی لڑائی کی آما جگاہ بنے رہتے ہیں۔ ان سے برکت، آرام اور چین چلا جاتا ہے۔ اس لئے صرف مرد کے اخلاق پر گھر کی عافیت مبنی نہیں بلکہ گھر کو جنت بنانے میں عورت کا بہت بڑا دخل ہے۔ عورت گھر کی ملکہ ہے، جہاں اس کی کلی حکومت ہوتی ہے وہ اگر چاہے تو اسے جنت بنا دے اور چاہے تو اسے جہنم بنا دے۔ اس لئے عورت کے اخلاق پر گھر کی بہتری اور بہبودی کا بڑا انحصار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی اصلاح،تربیت،درستی کیلئے مبعوث ہوئے، ان کو وَسّع مکانک- یاتیک من کلّ فجّ عمیق ویاتون من کلّ فجّ عمیق کی بشارتیں ہو رہی تھیں۔ ایسی حالت میں اگر خدانخواستہ آپ کو ایسی بیوی ملتی جو ان ذمہ واریوں کا احساس نہ کر سکتی جو بحیثیت ایک نبی کی بیوی ہونے کے اس پر عائد ہوتی ہیں تو وہ کام جس کی تکمیل کے لئے آپؑ مبعوث ہوئے تھے بالکل ادھورا رہ جاتا۔ اس لئے اس کام کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ آپؑ کے بیوی بچے اس ذمہ واری کے بوجھ کو برابر کااُٹھائیں اور وہ اخلاق اور اعمال میں دوسروں کے لئے نمونہ ہوں۔ اس اصل کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ پاکیزہ خصائِل عورتیں پاکیزہ خصائِل مردوںکے لئے ہیں اور پاکیزہ خصائِل مرد پاکیزہ خصائِل عورتوں کے لئے ہیں۔
اس اصل کے ماتحت اس زمانے کے نبی کی بیوی کا دنیا میں سب سے بڑی نیک اور پاکیزہ خاتون ہونا یقینی امر تھا اور یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گھر اس دنیا میں جنت کا نمونہ تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین جب اس گھر میں تشریف لائیں تو ان کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو باوجود رشتہ دار ہونے کے بالکل الگ تھلگ تھے اور حضرت اقدس ؑ سے ایک دشمنی کا رنگ رکھتے تھے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کو اس وقت دلّی والی کے نام سے رشتہ دار لوگ پکارتے تھے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اور سَوت
میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پہلی بیوی بھی تھیں جن سے ایک عرصہ سے عملی رنگ میں علیحدگی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دوسری شادی کر لی تو آپ نے پہلی بیوی کو کہلا کر بھیجا کہ:
’’اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو مَیں گنہگار ہوں گا۔ اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو۔ مَیں تم کو خرچ دوں گا۔ تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ مَیں اب بڑھاپے میں طلاق کیا لوں گی مجھے خرچ ملتا رہے مَیں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔‘‘
یہ روایت حضرت اُمُّ المؤمنین کی زبانِ مبارک سے بیان ہو کر سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ۳۳ مصنفہ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب میں مفصل طور پر شائع ہو چکی ہے۔
اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی بیوی سے الگ ہی تھے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین باوجود اس کے کہ یہ جانتی تھیں کہ وہ سَوت ہیں ان سے کوئی رنج،بُغض یا نقار نہ رکھتی تھیں بلکہ کبھی کبھی ان سے مل بھی لیا کرتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ان کو بھی کوئی روک اور ممانعت نہ تھی۔ چنانچہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی روایت ہے کہ:
’’ایک دفعہ میرزا سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی ۔ مَیں ان کو دیکھنے کے لئے گئی۔ واپس آ کر مَیںنے حضرت صاحبؑ سے ذکر کیا کہ پھجے کی ماں بیمار ہے اور یہ یہ تکلیف ہے۔ آپؑ خاموش رہے۔ مَیں نے دوسری دفعہ کہا تو فرمایا۔ مَیں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ۔ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحبؑ نے اشارۃً کنایۃً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحبؑ کا نام نہ آئے اپنی طرف سے کچھ مدد کروں سو مَیں کرد یا کرتی تھیں۔‘‘ ۲۱؎
اس روایت سے حضرت اُمُّ المؤمنین کے قلب کی گہرائی پر ایک وسیع نظر پڑتی ہے گویا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا صاف اور مصفّاقلب دیا تھا جو ہر شخص کی محبت،ہمدردی اور خیرخواہی سے لبریز تھا۔ میرزا فضل احمد صاحب کی والدہ کی بیماری کی اطلاع پا کر آپ ان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیں۔
عورت کا کیریکٹر یہ ہے کہ وہ دنیا کی ہرچیز کی قربانی کر سکتی ہے۔ مگر اس کے قلب میں سَوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ مٹی کی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت میںسَوت کے لئے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کا اپنی سَوت کے پاس جانااور ان کی عیادت کرنا اور نہ صرف عیادت کرنا بلکہ بیماری کی تفصیل دریافت کرنی اور پھر اس حد تک اس معاملہ کو ختم نہ کر دیا بلکہ ان کی تکلیف سے متاثر ہوئیں اور وہاں سے آ کر حضرت اقدس ؑ کو ساری تکلیف بتلائی اور باوجود حضرتؑ کی خاموشی کے پھر دوسری دفعہ توجہ دلا کر دوائی حاصل کر لی اور پھر دوبارہ جا کر ان کو دوائی دی۔ مَیں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ واقعہ اگر کسی اور کے گھر میں ہوتا خواہ حالات یہی ہوتے کہ پہلی بیوی نے اپنے حقوق چھوڑ دیئے ہوں۔ مگر دوسری بیوی یقینا یہ کہتی کہ مجھے کیا اگر کل مرتی ہے تو آج ہی مرے۔ پھر اس پر اکتفاء نہیں بلکہ فرماتی ہیںکہ وقتاً فوقتاً ان کی مدد بھی کر دیا کرتی تھی۔
یہ پاک نمونہ ہے آپ کے اخلاقِ کریمانہ کا جو آپ نے اپنی ایک سَوت کے متعلق دکھایا۔ ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ مسلمان عورتیں اسلام کے صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں کہ ایک سے زائد عورتوں سے شادی کی جا سکتی ہے۔سَوت سے اس قسم کی عداوت کرتی ہیںکہ الامان! والحفیظ!! لوگوں نے اس قسم کی بدمزگی کے قصے اور کہانیاں لکھ ڈالیں جن میں دو بیویوں والے خاوند کی دُرگت کے نقشے کھینچے گئے۔ اس طرح ان لوگوں نے اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرنے کی سعی باطل کی کہ اسلام کا یہ مسئلہ ناقابل عمل، غیرمفید اور مضر ہے۔
دراصل یہ بات عدم تربیت اور جہالت سے پیدا ہوئی ۔ ورنہ اگر سچا اور کامل ایمان کسی کے قلب میں پیدا ہو جائے تو پھر اس قسم کے لغو اور بودے وساوس اس کے اندر پیدا نہیں ہو سکتے۔ اس زمانہ میں جبکہ اسلام کی ساری خوبیاں مفقود ہو چکی تھیں۔ مسلمان بالکل مذہب کو چھوڑ چکے تھے۔ ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایسا واقعہ بھی پیش آتا جس کے رونما ہونے سے یہ بات صاف ہو جاتی کہ مسلمان باخدا عورت سَوت کے جھگڑے اور ناراضگی کو کچھ چیز نہیں خیال کرتی۔ اصل چیز تو خدا اور اس کی رضا ہے۔
ایک اور واقعہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی فرمائی تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے بار ہا اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب سیرت مسیح موعود علیہ السلام میںتحریر فرمایا ہے اور پھر حضرت عرفانی کبیر نے اپنی سیرت مسیح موعود ؑ حصہ سوم کے صفحہ ۳۷۴ میں بھی اس واقعہ کو درج کیا ہے:
’’کہ آپ نے بارہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے۔ مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت اور جھوٹ کا زوال و ابطال ہو۔‘‘
’’ایک روز آپ دعا مانگ رہی تھیں‘ حضرت نے پوچھا آپ کیا دعا مانگتی ہیں؟ آپ نے یہ بات سنائی کہ یہ مانگ رہی ہوں حضرت نے فرمایا۔ سَوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے؟ آپ نے فرمایا ۔ کچھ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں۔ خواہ مَیں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں۔‘‘
اس واقعہ کی تَہ میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں:
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اور آپؑ کے دعویٰ پر آپؓ کا ایمان
۲۔ شوہر کی سچی محبت
۳۔اسلام سے سچا پیار
۴۔دعاؤں پر ایمان
۵۔اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت و سچائی کیلئے ہر تکلیف کو برداشت کرنے کی قوت کا اپنے اندر پانا۔
پہلا اور پھر یہ دوسرا واقعہ اس سچی محبت اور اس سچی وفاداری کا ببانگِ دُہل اعلان کر رہا ہے جو آپ کو اپنے مقدس شوہر سے تھی۔ آپ ان کی اطاعت میں اس قدر مخلص اور وفا شعار تھیں کہ ایک سَوت کو قبول کرنے اور ایک سَوت سے حسنِ سلوک کرنے میں دریغ نہ کرتی تھیں۔ اس کی مثال ذرا ڈھونڈو کہیں نظر آتی ہے؟
کیاحضرت سارہؓ اور حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ ہزارہا سال سے بندگانِ خدا کے سامنے نہیں آرہا؟ ہاجرہؓ کی ہجرت میں الٰہی قدرت کے کیا کیا راز تھے مگر بادیٔ النظر میں تو یہی نظر آرہا ہے کہ وہ دو سوتوں کا جھگڑا تھا۔
رام چندر جی ہندو مذہب کے مقدس ہادیوں میںسے تھے۔ ان کے بن باس کاواقعہ کیا ہے؟ وہ دوسَوتوں کا جھگڑا تھا جس نے اس قدر بھیانک صورت اختیار کر لی کہ رام چندر جی مہاراج کو تو بارہ برس کے لئے بن باس جانا پڑا۔ ان کے باپ راجہ دسرتھ کی موت واقعہ ہو گئی اور حالات کچھ کے کچھ ہو گئے۔ رانی کیکئی جو بھرت کی ماں تھی اس نے خاوند کی موت،سلطنت کی تباہی، ان سب امور کو قبول کر لیا مگر اس امر کو پسند نہ کیا کہ سَوت کا لڑکا تخت نشین ہو ۔
مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا یہ سنہری اورزریں واقعہ ایسا ہے کہ جس نے مسلمان عورتوں کی شوہر پرستی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ گویا کہ اس دل کو پہلو سے نکال کر پھینک دیا۔ جس دل میں سَوت کیلئے نفرت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اس واقعہ پر حسبِ ذیل نوٹ لکھا ہے:
’’برادران! یہ ایمان تو مَیں مسلمانوں کے مردوں میں بھی نہیں دیکھتا کیا ہی مبارک ہے وہ مرد اور مبارک ہے وہ عورت، جن کا تعلق باہم ایسا سچا اور مصفّا ہے اور کیا بہشت کا نمونہ وہ گھر ہے جس کا ایسا مالک اور ایسے اہلِ بیت ہیں۔ میرا اعتقاد ہے کہ شوہر کے نیک وبد اور اس کے مکاراور فریبی یا راستباز اور متقی ہونے سے عورت خوب آگاہ ہوتی ہے۔ حقیقت میں ایسے خلا ملا کے رفیق سے کون سی بات مخفی رہ سکتی ہے۔ مَیں ہمیشہ سے رسول کریم ﷺ کی نبوت کی بڑی محکم دلیل سمجھا اور مانا کرتا ہوں۔ آپ کے ہم عمر اور محرمِ راز دوستوں اور ازواج مطہرات کے آپؐ پر صدق دل سے ایمان لانے اور اس پر آپؐ کی زندگی میں اور موت کے بعد پورے ثبات اور وفاداری سے قائم رہنے کو صحابہ کو ایسی شامہ اور کامل زیر کی بخشی گئی تھی کہ وہ اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جو اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کہتا اور اس محمد ﷺ میں جو اِنَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا کہتا صاف تمیز کرتے۔ وہ بے غش اخوان الصفاء اور آپؐ کی بیبیاں جیسے اس محمدؐ سے جو بشر محض ہے۔ایک وقت انبساط اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے اور کبھی کبھی معمولی کاروبار کے معاملات میں پس و پیش اور ردّوقدح بھی کرتے ہیں اور ایک وقت ایسے اختلاط اور موانست کی باتیں کر رہی ہیں کہ کوئی حجاب حشمت اور پردۂ تکلف درمیان نہیں وہی دوسرے وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابل یوں سرنگوں اور متادب بیٹھے ہیں۔ گویا لٹھے ہیں جن پر پرندے بھی بیباکی سے گھونسلا بنا لیتے ہیں اور تقدم اور رفع صوت کو آپؐ کے حضور میں حبط اعمال کا موجب جانتے ہیں اور ایسے مطیع و منقاد ہیں کہ اپنا ارادہ اور اپنا علم اور اپنی رسم اور اپنی ہوا امر رسول کے مقابل یوں ترک کر دیتے ہیں۔کہ گویا وہ بے عقل اور بے ارادہ کٹھ پتلیاں ہیں۔ ایسی مخلصانہ اطاعت اور خودی اور خودرائی کی کینچلی سے صاف نکل آنا ممکن نہیں۔ جب تک دلوں کو کسی کے سچے بَیریا منجانب اللہ زندگی کا زندہ یقین پیدا نہ ہو جائے۔
’’اسی طرح مَیں دیکھتا ہوں حضرت اقدس ؑ کو آپ کی بی بیؓ صاحبہ صدقِ دل سے مسیح موعود مانتی ہیں اور آپؑ کی تبشیرات سے خوش ہوتی اور انذارات سے ڈرتی ہیں۔ غرض اس برگزیدہ ساتھی کو برگزیدۂ خدا سے سچا تعلق اور پورا اتفاق ہے‘‘۔ ۲۲؎
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جس نتیجہ پر پہنچے ہیں وہ ایک عارفانہ نتیجہ ہے اور حق یہی ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہ ایمان عارفوں کی معرفت میں بہت بڑا اضافہ کرنے کا باعث ہوا۔
بڑے بڑے باخدا بزرگ دنیا میں ہوئے۔ اُن کی بیویوں نے ان سے بڑی بڑی وفاداریاں کیں۔ مگر اس امر کی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی عورت نے یہ دعا کی ہو کہ اس کے پاکباز خاوند کے منہ کی بات پوری ہو اور بے شک اس کے گھر میں سَوت آ جائے۔ اس کی مثال تاریخ میں کوئی نہیں۔
دوسری شادی
میں اس جگہ یہ بحث نہیں کروں گا کہ دوسری شادی ضروری ہے یا نہیں؟ لیکن یہ ایک مسلّمہ بات ہے کہ اسلام نے اس چیز کو بعض حالات میںنہایت ضروری قرار دیا ہے۔ قوموں کی زندگی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک کثرت بھی ہوتی ہے اور کثرت دو طرح سے واقع ہوتی ہے۔
اوّل: بذریعہ نسل۔
دوم: بذریعہ اشاعتِ مذہب
اسلام نے ان دونوں چیزوں پر زور دیا ہے۔ جس طرح اشاعتِ مذہب ضروری ہے۔ اسی طرح اکتثارِ نسل بھی ضروری ہے۔ ایسی صورت میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ دینی قومیت کا ایک سپاہی ہوتا ہے اور وہ شوکت اسلام کو قریب کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے حالات میں عند الضرورت جو لوگ زیادہ شادیاں کر کے تقویت دین کا باعث نہیں بننا چاہتے وہ قوم ،ملت اور مذہب کے دشمن گردانے جائیں گے۔
پس کبھی ایک سے زیادہ شادیاں ایک قومی،ملی اور مذہبی مقدس فریضہ بن جاتا ہے۔اس لئے اس کے خلاف جذبہ خواہ مردوں کی طرف سے ہو یا عورتوں کی طرف سے ہو ایک قومی جرم ہے۔
اس زمانہ میں مسلمانوں نے یورپ کے اعتراضوں سے مرعوب ہو کر اس امر کو تسلیم کر لیا کہ دوسری شادی وحشت ہے،ظلم ہے،بربریت ہے۔ بعض اسلامی ملکوں میں ایسے قوانین وضع کئے گئے کہ وہاں کے مسلمان باشندے ایک سے زیادہ شادیاں نہ کریں۔ انہوں نے عورتوں کی آواز سے اپنی آواز ملائی اور اس پر صدائے احتجاج بلند کی۔ اخبارات اور رسالوں میں مضمون لکھے۔ زنانہ مردانہ انجمنوں میں لیکچر دیئے اور جن لوگوں نے اسلام کے اس رکن کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کو انہوں نے اپنا لیڈر راہنما اور ہادی تسلیم کیا۔ حالانکہ ان کو ا س قدر معلوم نہ تھا کہ یورپ وامریکہ نے تو مذہب کا گلا گھونٹ کر اور اس کی لاش پر کھڑے ہو کر اباحت اور بدکاری کا دروازہ کھول کر مردوں عورتوں کو جامۂ انسانی سے باہر نکال کر محض بہائم کی زندگی میں داخل کر دیا اور یہ وہ زندگی ہے۔ جس کے لئے نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی شریعت مگر یہ عقل کے اندھے بھی ان بہائم طبیعت لوگوں کے پیچھے لگ گئے۔ یہ سب لوگ اسلام کے دشمن ہیں اور اس اسلام دشمنی نے مسئلہ تعدّد ازدواج کو ایسی بھیانک صورت دے دی کہ یورپ کے لوگوں نے تُرک یعنی مسلمان کو دنیا کا وحشی ترین انسان قرار دے دیا۔
حرم یعنی عرب سرداروں کے محلات جن کی ان کے خیال میں سربفلک دیواریں ہر وقت آسمان سے باتیں کرتی رہتی ہیں تاکہ حرم کے اندر محبوس عورتوں کو ہوا نہ لگ سکے۔ اس کے اندر ایسے قیدی رہتے ہیں جن کے پاس کبھی ہوا بھی نہیں گزرتی۔ جہاں وہ عورتیں اندر ہی اندر سڑتی رہتی ہیں۔ دِق اور سِل کے جراثیم اندر ہی اندر ان عورتوں کو ہلاک کرتے رہتے ہیں۔ اس قسم کی بھیانک تصویران لوگوں نے جو دشمنانِ اسلام تھے اسلام کی بنائی۔ ان کو پڑھ کر یورپ کی لڑکیاں مشرق کے دوردراز کے شہروں کو عالم تصور میں دیکھتیں اور کانپ کر رہ جاتیں۔
اگر خدانخواستہ کبھی کسی مسلم کا ذکر سن پاتیں تو ان کو ہسٹیریا کا دورہ شروع ہو جاتا۔ اس پراپیگنڈہ سے خود مسلمان ملکوں کے مرد اور عورتیں بھی متاثر ہو کر رہیں اور انہوں نے بھی ایسے احکام کو جہالت اور وحشت قرار دیا۔ اللہ اکبر! حالت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اس وقت اس زمانہ میںکوئی عورت نہ تھی جو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ تب خدا نے اس ظلم کے خلاف عملی آواز اٹھانے کے لئے نصرت جہاں بیگم کو پیدا کیا۔ جس نے اپنے عمل سے اور اپنی دعاؤں سے اسلام کے اس حکم کی سچائی اور بزرگی کو ظاہر کیا اور فرمایا:
’’میں صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہو اور جھوٹ کا زوال اور ابطال ہو۔‘‘
یہ الفاظ مرقع ہیں اس قلبِ مطہر کے۔ یہ الفاظ آئینہ ہیں ایک سچی مسلم عورت کے خیالات کے۔ اور یہ فعل ماٹو ہے۔ اُسوہ حسنہ ہے ہر مسلمان عورت کے لئے اگر اسلام کے لئے کسی ایسے کام کی ضرورت پڑے جس سے وہ عورت ہویا مرد ہلاک ہو جاتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ہلاک ہو جائے مگر اس چیز کو خوشی اور مسرت سے صدق دل اور شرح صدر سے قبول کرے۔ جیسے حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنے نمونہ سے ثابت کر دیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں
قبل اس کے کہ مَیں یہ لکھوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس نگاہ سے حضرت اُمُّ المؤمنین کو دیکھتے تھے۔ پہلے میں یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ گذشتہ صدی ہندوستان پر ہر لحاظ سے جہالت کی صدی تھی۔ عورتوں کے ساتھ ہندوستان میں سلوک کرنا ایک قسم کا جُرم سمجھا جاتا تھا۔ اچھا مرد وہ سمجھا جاتا تھا جو گھر میں جب داخل ہو تو چہرے پر شِکن ڈال لے اور ڈانٹ ڈپٹ، گالی گلوچ اور عندالضرورت مار پیٹ کرتا رہے۔ ایسے مرد کو مرد سمجھا جاتا تھا اور جو شخص اپنی بیوی سے ذرا سلوک کرے اُسے زن مُرید خیال کیا جاتا تھا۔
عورتیں صاف ستھری نہ رہ سکتی تھیں۔ ان کو تعلیم نہ دی جاتی تھی اور اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح عورت جو دنیا کی نصف آبادی ہے وہ ذلیل اور مقہور ہو رہی تھی۔ بلکہ عربوں کے زمانہ جاہلیت کے بہت سے اطوار اس زمانہ میں واپس آ چکے تھے۔ چونکہ انبیاء کی آمد کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں اور ہر اس شخص کو اس کا حق دلائیں جو اپنے حق سے محروم کر دیا گیا ہو۔
اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد جو دراصل رسول کریم ﷺ کی ہی بعثت ثانیہ تھی عورتوں کے لئے بھی باعث رحمت ہوتی اور ان کو ان کے حقوق دلانے کا باعث ہوتی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ خیرکم خیر کم لاھلہٖ- اس لئے اگر آپؑ حضرت اُمُّ المؤمنین سے شادی نہ کرتے تو یقینایہ حصۂ عمل لوگوں کے سامنے نہ آتا اور عورتیں شاید اس حق سے محروم ہی رہ جاتیں مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس مخلوق کو چھوڑ دیتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس مبارک تعلق کی برکت اور پاکیزہ نمونہ کی وجہ سے ہزارہا گھروں کو اپنی برکتوں سے بھر دیا اور ہزار ہا گھر جنت کا نمونہ بن گئے۔
میاں بیوی کے جھگڑوں میں سے ایک جھگڑا
سب سے پہلی چیز جو میاں بیوی کے درمیان جھگڑا پیدا کرتی ہے وہ میاں کا یہ شعور ہے کہ اسے اپنی بیوی پر کوئی غیرمعمولی حکومت حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے اسے حق حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے اس سے سلوک کرے۔ اس شعور کے ماتحت اس قسم کی باتیں پیدا ہو جاتیں ہیں کہ کھانے میں نمک کیوں تیز ہو گیا۔ چاول سخت کیوں رہ گئے۔ یہ برتن یہاں کیوں پڑا ہے۔ الغرض چھوٹی چھوٹی باتیں مرد کو جوش میں لاتیں اور غصہ دلاتی ہیں ان ساری چیزوں کے پیچھے ایک چیز کام کرتی ہے اور وہ یہ کہ مرد کو گھر پر رعب رکھنا چاہئے اور قطعاً اس امر کی پرواہ نہ کی جاتی کہ یہ کوئی میری غلام تو نہیں۔ یہ دائرہ انسانی سے خارج تو نہیں۔ مجھے کیا حق ہے کہ مَیں اس طرح اس سے بدسلوکی سے پیش آؤں۔ مگر یہی حالت تھی جس نے عام گھروں کی حالت بہت بُری بنا رکھی تھی اور عورتیں مردوں کے ہاتھوں سخت نالاں تھیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر میں اسلامی گھر کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھا دیا۔
محترمہ استانی سکینۃ النساء بیگم صاحبہ جو مکرم قاضی اکمل صاحب کی حرم محترم ہیں اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور جن کو حضرت اقدس ؑ کے گھر میں بہت قریب سے حالات دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ اپنی ایک روایت میں جو انہوں نے مجھے لکھ کر دی لکھا:
’’ایک دفعہ حضرت اُمُّ المؤمنین فرماتی تھیں کہ میں پہلے پہل جب دلّی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گُڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بہت شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گُنا گڑ ڈال دیا۔ سو وہ بالکل راب سی بن گئی۔ جب پتیلی چولہے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے۔ ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں حضرت صاحبؑ آ گئے۔ میرے چہرہ کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپؑ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ پھر فرمایا۔ نہیں! یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مذاق کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گڑ والے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کہیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا۔‘‘
اس واقعہ سے سبق
یہ واقعہ ہمارے گھروں کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین دلّی کی رہنے والی تھیں۔ وہاں گڑ کے چاولوں کا کوئی رواج نہیں تھا۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے بحیثیت بیوی کے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میرے شوہر کو کون کونسی چیز پسند ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت میں کیسی دور رسی تھی۔ ہر عقل مند اور سلیقہ شعار عورت کا فرض ہے کہ وہ اپنے میاں کے گھر میں جا کر پہلے یہ جاننے کی کوشش کرے کہ میرے میاں کی طبیعت کا کیا رنگ ہے۔ وہ کون سے کھانے پسند کرتا ہے۔ وہ کس کس چیز کو اور کس کس عادت کو پسند کرتا ہے۔ جو بیوی نئے گھر میں آکر شوہر کی پسند کی چیزوں کو معلوم کرنے کی کوشش کرے گی اس کی زندگی بحیثیت بیوی کے کامیاب زندگی ہو گی۔
اس واقعہ میں جہاں حضرت اماں جان کی طبیعت کا یہ رنگ معلوم ہوا وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کا رنگ بھی معلوم ہوا۔ آپؑ نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ شور اور غل سے مکان سر پر نہیںاٹھایا۔ جیسے مغلوب الغضب شوہر کرتے ہیں۔ بلکہ اپنی نادم اور پریشان بیوی کو اپنی نیکی اور خوش خُلقی سے اور بھی موہ لیا۔
ایسے موقعوںپر شوروغل کرنے والے شوہر بھی یا تو کھپ کھپا کر اسی غذا کو کھایا کرتے ہیں اور یا خود بھی بھوکے رہتے ہیں اور بیوی کو بھی بھوکا رکھتے ہیں۔ لیکن یہ واقعہ ہمارے لئے ایک ایسا سبق ہے کہ اگر ا س پر عمل کیا جائے تو کبھی بدمزگی کی صورت پیدا ہی نہ ہو۔
اس واقعہ کی تائید میں ایک اور واقعہ:
مئی ۱۸۹۳؁ء میں ڈپٹی عبداللہ آتھم سے امرتسر میں مباحثہ تھا۔ ایک رات جبکہ خان محمد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر بڑا مجمع تھا۔ اطراف سے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ حضرت اس روز سر درد سے بیمار تھے۔ شام کو مشتاقانِ زیارت ہمہ تن چشم انتظار بنے ہوئے تھے۔ حضرتؑ مجمع میں تشریف لائے۔ منشی عبدالحق صاحب لاہوری پنشنر نے جو پہلے آپؑ سے بڑی محبت اور حسن ظنی رکھتے تھے۔ مگر بعد میں الگ ہو گئے۔ آپؑ سے آپؑ کی بیماری کی تکلیف پوچھی۔ اور پھر کہا:
’’آپؑ کا کام بہت نازک اور آپؑ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے۔ آپؑ کو چاہئے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال رکھا کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازماً آپ کے لئے ہر روز تیار ہونی چاہئے۔‘‘ اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف رہتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پرواہ نہیں کرتیں۔‘‘
اس پر منشی عبدالحق صاحب نے کہا کہ:
’’اجی حضرت آپؑ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رُعب پیدا نہیں کرتے۔ میرا یہ حال ہے کہ مَیں کھانے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمامِ خاص میں سرِمو فرق آ جائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں۔‘‘
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے خیال کیا کہ یہ بات میرے محبوب آقا کے حق میں مفید ہے۔ اس لئے بغیر سوچے سمجھے اس کی تائید کر دی۔ حضرت اقدس ؑ نے حضرت مولانا کی طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا:
’’ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہئے‘‘۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بڑے زکی الحِسّ آدمی تھے وہ فرماتے ہیں:
’’بس خدا ہی جانتا ہے کہ میں اس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا اور مجھے سخت افسوس ہوا۔‘‘ ۲۳؎
اس ایک واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بعض ایسے لوگ بھی آتے تھے جو بظاہر محبت سے ایک بات کہتے تھے مگر ان کی بات پر عمل کرنا اہلی زندگی کو خراب کرنے کے برابر ہوتا اور پھر اللہ تعالیٰ کے ان اوامر کے بھی خلاف جو بیوی کے ساتھ بھلائی،خیر اور حسنِ سلوک کے متعلق نازل ہوئے ہیں۔ منشی عبدالحق صاحب کا یہ قول:
’’اگر میرے کھانے کے اہتمام خاص میںکوئی سرموفرق آ جائے تو ہم دوسری طرح خبر لیں۔‘‘
اس بداخلاقی کا پتہ دیتا ہے۔ جو بڑے بڑے گھروں میں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میںرائج تھی کہ وہ محض کھانے کے اہتمام میں نقص آنے کی وجہ سے کیا صورت پیدا کر دیتے تھے اور حضرت کا یہ فرمانا کہ:
’’ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘
اس مقام بلند کا پتہ دیتا ہے جو چشم پوشی اور لطف و کرم کا پہلو لئے ہوئے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین پر ناراض ہونا جانتے ہی نہ تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اُمُّ المؤمنین کو شعائر اللہ میں سے سمجھتے تھے
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے جو مضمون لکھ کر بھیجا اس میں ایک روایت لکھی ہے کہ:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرونِ خانہ جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے۔ جس کی ایک کھڑکی کوچہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں۔ اس کمرے کی لمبائی کے برابر اس کے آگے جنوبی جانب ایک فراخ صحن ہوا کرتا تھا۔ گرمی کی راتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے اہل و عیال سب اس صحن میں سویا کرتے تھے۔ لیکن برسات میں یہ دقت ہوتی تھی کہ اگر رات کو بارش آ جائے تو چار پائیاںیا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں یا نیچے کے کمروں میں۔ اس واسطے حضرت اُمُّ المؤمنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے تاکہ برسات کے واسطے چار پائیاں اس کے اندر کی جا سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم صادر فرما دیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا ،ہوا نہ آئے گی ،صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ دیگر احباب نے بھی مولوی صاحبؓ کی بات کی تائید کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ مگر آخری بات جو حضور ؑ نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے وہ یہ تھی:
’’کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کئے ہیں۔ جو شعائر اللہ میں سے ہیں۔ اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔‘‘
یہی روایت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؒ نے اپنی سیرت اور حضرت عرفانی کبیر نے اپنی سیرت حصہ سوم کے صفحہ ۳۶۸ پر لکھی ہے۔ مگر اس میں کچھ لفظی تغیر ہے ۔جو یوں ہے:
فرمایا:
’’خداتعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس لئے مَیں اسے شعائر اللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو وہ کہے مان لیتاہوں‘‘۔
نفِس روایت یا موضوع کی روح میں کوئی فرق نہیں۔ بہرحال یہ ایک واقعہ ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ اس وفد کی پرواہ کی نہ ان دلائل کو وزنی قرار دیا ۔ بلکہ ان سب چیزوں کے مقابل میں عملی طور پر حضرت اُمُّ المؤمنین کی بات اور منشاء کو ترجیح دی۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے بڑی محبت تھی۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کے معاملہ میں ان کی بات بھی گِر ہی گئی۔
مولوی سیّد محمد احسن صاحب کا واقعہ
ایک دفعہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس سیڑھی کے بدلنے کی ضرورت محسوس کی جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے مکان کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اسے اس بالاخانہ کے ساتھ رکھنا تھا جس میںمولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اور نیچے مولوی سیّد محمد احسن صاحب رہتے تھے۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اس سیڑھی کے وہاں رکھنے کی مخالفت کی کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا۔حضرت اُمُّ المؤمنین نے حکم دیا کہ سیڑھی وہیں ہی رکھی جائے۔
حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ انتظام کر رہے تھے اور ان کو اس کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ آخر ان کے مزاج میں گرمی تھی اور جہیرالصوت تھے۔ انہوں نے زور زور سے بولنا شروع کیا کہ یہ سیڑھی یہاں ہی رہے گی۔ مولوی محمد احسن صاحب بھی اونچی آواز سے انکار اور تکرار کرتے رہے۔ اتنے میں حضرت صاحبؑ باہر سے تشریف لے آئے۔ اور پوچھا کیا ہے؟ میر صاحبؓ نے کہاکہ مجھ کو اندر سیّدانی (مراد اُمُّ المؤمنین) آرام نہیں لینے دیتی اور باہر سیّد سے پالا پڑ گیا ہے۔ نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہیں میں کیا کروں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:
’’مولوی صاحب! آپ کیوں جھگڑتے ہیں۔ میر صاحبؓ کو جو حکم دیا گیا ہے ان کوکرنے دیجئے۔ روشنی کا انتظام کر دیا جائے گا ۔ آپ کو تکلیف نہیں ہو گی‘‘۔
اس طرح پر حضرت اُمُّ المؤمنین کے ارشاد کی تعمیل ہو گئی۔
الغرض کبھی بھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں حضرت اقدس ؑ کی طرف سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی دل شکنی ہوئی ہو۔ ۲۴؎
حضرت اُمُّ المؤمنین کے احترام کے متعلق ایک اور روایت
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے میری اس کتاب کیلئے ایک اور روایت تحریر فرمائی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کا اس قدر اکرام و اعزاز کرتے تھے آپ کی خاطرداری اس قدر ملحوظ رکھتے تھے کہ عورتوں میں اس بات کا چرچا رہتا تھا۔ جب میں لاہور میں ملازم تھا۔ ۱۸۹۷؁ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے۔ لاہور کا ایک معزز خاندان قادیان آیا۔ ان میں سے بعض نے بیعت کی اور سب حسنِ عقیدت کے ساتھ واپس گئے۔ واپسی پر اس خاندان کی ایک بوڑھیا نے ایک مجلس میں یہ ذکر کیا کہ میرزا صاحب اپنی بیوی کی کس قدر خاطر اور خدمت کرتے ہیں۔ اتقاقاً اس مجلس میں ایک پرانے طرز کے صوفی بزرگ بھی بیٹھے تھے۔ وہ فرمانے لگے ہر سالک کا ایک معشوق مجازی بھی ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میرزا صاحبؑ کا معشوق ان کی بیوی ہے۔
’’یہ خیال تو ان صوفی بزرگ کا تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا احترام ان خوبیوں اور نیکیوں کے سبب سے تھا جو ان میں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے باعث تھا جو ہمیشہ ان پر ہوتے رہے۔‘‘
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کا عینی مشاہدہ
حضرت میر صاحب نے میرے لئے لکھی روایات میںتحریر فرمایا:
’’میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت اُمُّ المؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا۔ بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک Ideal آئیڈیل جوڑے کی ہونی چاہئے۔بہت کم خاوند اپنی بیویوں کی وہ دلداری کرتے ہیں جو حضور علیہ السلام حضرت اُمُّ المؤمنین کی فرمایا کرتے تھے اور آپ کو لفظ تم سے مخاطب فرمایا کرتے تھے اور ہندوستانی میںہی اکثر کلام کرتے تھے۔ مگر شاذونادر پنجابی میںبھی۔ حالانکہ بچوں سے اکثر پنجابی بولا کرتے تھے۔‘‘
حضرت میر صاحب کا علم ذاتی اور عینی مشاہدے پر مبنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شادی کے بعد ۲۵ سال تک اپنی حرم محترم کے ساتھ رہے اور اس ۲۵ سال کے عرصے میں حضرت میر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے نہ کبھی آپؑ کو ناراض ہوتے دیکھا اور نہ سنا۔
ہمارے ملک میں ایک ضرب المثل ہے۔ اکٹھے برتن بھی پڑے پڑے کبھی ایک دوسرے سے ٹکڑا جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ دو آدمی اکٹھے رہیں اور وہ جھگڑیں نہیں۔ پھر ہم اس جوڑے کو کیا کہیں گے جو چوتھائی صدی تک اکٹھے رہے مگر ان میں کبھی ناراضگی پیدا نہ ہوئی۔ میںمجبور ہوں کہ ان کو ملائکۃ اللہ کہوں ۔ جن کے سینے ہر قسم کے جھگڑوں، رنجشوں اور ناراضگیوں سے پاک ہیں۔
غالباً ۱۹۳۱؁ء کی بات ہے۔ کہ آنریبل سر عبدالقادر اور لیڈی سرعبدالقادر لنڈن سے واپسی پر قاہرہ میں اُترے۔ میں ان کو لے کر زاغلول پاشا جو مصریوں کے ایک بہت بلند پایہ لیڈر تھے کی لیڈی صاحبہ کے پاس گیا۔ لیڈی زاغلول جن کو مصری اُمُّ المصریین کہتے ہیں اپنے شوہر کی سیرت کے متعلق گفتگو کر رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا شوہر اتنے اعلیٰ اخلاق کا انسان تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی نوکر کو جھِڑکا نہیں اور شدید سے شدید غصہ کی حالت میں بھی اگر کچھ کہا تو یہ کہ دیکھو تم کو ہمارے ساتھ رہتے ہوئی اتنی مدت ہو گئی ہے۔ مگر تم کو اب تک اس بات کی عقل نہ آئی جس کا افسوس ہے۔
لیڈی زاغلول پاشا نے کہا کہ یہ تھا سعد پاشا کا بڑے سے بڑا غصہ اور یہ ہے سعد زاغلول پاشا کی سیرت کا سب سے بڑاواقعہ جو اس کی قابل بیوی نے بیان کیا ہے۔
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اخلاق کا یہ کمال ہے کہ اسے اپنے عواطِف اور اپنی غضب یا غصے کی مخفی طاقتوں پر اس قدر کنٹرول ہو ۔ گویا کہ وہ اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ اس سے سرمُوانحراف نہیں کر سکتیں۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا بڑا احترام کرتے تھے اور عام طور پر عورتوں کی زبان زد تھا:
کہ مرجا بیوی دی بڑی گل مندا ہے
بیوی کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ میں
حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی بیگم صاحبہ ۱۸۹۸؁ء میں فوت ہو گئی تھیں۔ حضرت اقدس ؑ نے ان کو ایک تعزیت کا خط لکھا۔ جس میں بیوی کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ یہ خط آئینہ ہے ان خیالات کا جو آپؑ کے اندر موجزن تھے اور اس آئینہ میں ہم کو آپؑ کی اہلی زندگی کا پتہ ملتا ہے۔ آپؑ نے تحریر فرمایا:
’’درحقیقت اگرچہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں۔ بھائی اور بہنیں بھی عزیز ہوتی ہیں۔ لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں۔ میاں بیوی ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہو جاتے ہیں۔ ان کو صدہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا عضو ہو جاتے ہیں۔ بسااوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس محبت اور باہم اُنس پکڑنے کے زمانہ کو یاد کر کے کون دل ہے جو پُرآب نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ تعلق ہے جو چند ہفتہ باہر رہ کر آخر فی الفور یاد آتا ہے۔ اسی تعلق کا خدا نے بار بار ذکر کیا ہے کہ باہم محبت اور اُنس پکڑنے کا یہی تعلق ہے۔ بسااوقات اس تعلق کی برکت سے دنیوی تلخیاں فراموش ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انبیاء علیہ السلام بھی اس تعلق کے محتاج تھے۔ جب سرورِکائنات ﷺ بہت ہی غمگین ہوتے تھے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے ارحنا یا عائشۃ- یعنی اے عائشہ ہمیں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ اپنی پیاری بیوی۔ پیارا رفیق اور انیس عزیز ہے۔ جو اولاد کی ہمدردی میں شریک غالب اور غم کو دُور کرنے والی اور خانہ داری کے معاملات کی متولی ہوتی ہے۔‘‘ ۲۵؎
اگرچہ یہ خط حضرت نواب صاحب کے نام ہے۔ مگر اس میں بیوی کی حقیقت اور اس کے تعلق کی مٹھاس اور شیرینی پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور بتلایا ہے کہ انبیاء علیہ السلام اور خود آنحضرت ﷺ بھی اس تعلق کے محتاج تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انبیاء ؑ پر بعض اوقات غم اور فکر کے ایسے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اگر ان کو فوق القوۃ طاقت نہ ملی ہوتو شاید وہ ان مصائب کو اُٹھا نہ سکیں۔
ایک طرف وہ اپنے فرض منصبی کی نزاکت کو دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف وہ قوم کی پستی، ذلّت، ادبار، نکبت، بداخلاقی، عداوت، دشمنی کو دیکھتے ہیں۔ ان کا دل اس حالت کو دیکھ کر خون ہو جاتا ہے۔ ان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ بالکل ناکام ہو جائیں گے۔
اس حالت میں ان کے اندر سے عجیب عجیب قسم کے نعرے نکلتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں۔ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ اے خدا تو ان مُردوں کو کیسے زندہ کرے گا اور کبھی کہتے ہیں۔ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ اے خدا! تیری نصرت کب آئے گی اور کبھی کہتے ہیں:
دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار
اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مِرا
پھیر دے میری طرف اے سارباںجگ کی مُہار
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے
خاک میں ہو گا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار
فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کر میری مدد
کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفان سے پار
ایسے وقت میں جبکہ دنیا خداتعالیٰ کے انبیاء کو قتل و غارت کرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہوتی ہے منصوبے اور دسائیس، مکر اور مکاید کے جال ہر سو پھیلے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ تیغ و تفنگ سے اور کبھی فتنوں کی بھڑکتی آگ سے وہ اندر اور باہر ہر قسم کے حیلوں بہانوں سے نقصان پہنچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اگر کوئی انسانی ہستی ان پاک وجودوں کی راحت کا باعث بن سکتی ہے اور ان کے غم کے بوجھ کو ہلکا کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پاک بیوی ہی ہو سکتی ہے۔
اس سے انبیاء ؑ کی پاکیزہ بیویوں کا مقام سمجھ میں آ سکتا ہے وہ ان کی رفیق اور انیس ہوتی ہیں۔ وہ ان کی اولاد کی تربیت اور پرورش کی شریکِ غالب ہوتی ہیں۔ وہ ان کے غموں کے بوجھ کو ہلکا کرنے والی ہوتی ہیں اور ان کے خانہ داری کے تمام معاملات کی متولّی ہوتی ہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ وہ اس تبلیغ و اشاعت کے کام میں جو اس نبی کو سونپی جاتی ہے سب سے بڑی مؤیّد و مبلغ ہوتی ہیں۔
وہ اصلاحِ مخلوق، تبلیغ دین، استحکامِ شریعت، درسِ اخلاق، ہمدردیٔ خلائق، الغرض نبی کی زندگی کے ہر شعبہ میں شریک ہو جاتی ہیں۔ جیسے میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ پیش کروں گا۔
جب یہ مقام کسی عورت کو حاصل ہو تو وہ کیوں سیّدۃ النساء نہ کہلائے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایسی خاتون کو عورتیں تو عورتیں مردوں پر بھی ایک عظیم الشان فضیلت ہوتی ہے تو اس میں کوئی غلطی نہ ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اُمُّ المؤمنین کہلاتی ہے۔ اس لئے کہ قوموں کو اس کے روحانی وجود سے بالکل اسی طرح روحانی غذا میسر آتی ہے جس طرح ماں کے جسمانی وجود سے بچوں کو جسمانی غذا میسر آتی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی تو روحانی پاکیزگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ خداتعالیٰ بہت سی باتیں آپ پر بھی اسی طرح کھول دیتا تھا۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھولا کرتا تھا۔ اس سے اس مناسبت کا پتہ چلتا ہے جو آپ کی روح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح کے ساتھ تھی۔ نیز اس روحانیت اور اس قلب کی طہارت کا پتہ چلتا ہے۔ جس کی وجہ سے آسمانی طاقتوں کا وقتاً فوقتاً انعکاس ہوا کرتا تھا۔
الغرض اُمُّ المؤمنین کے وجود کو ایک پاکیزہ نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ جس کے وجود سے آپ کو آرام ملتا تھا۔ آپ کے غموں کا بوجھ ہلکا ہوتا تھا۔ یہ وہ اِس زمانہ کی عائشہؓ ہے جسے بروز محمد اَرِحْنَا یَاعَائیشہ کہا کرتا تھا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوعُودِ
حضرت اُمُّ المؤمنین کی مبشر اولاد
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم اور کرم کے ساتھ حضرت اُمُّ المؤمنین کو وہی خاتون ٹھہرایا تھا جس کے متعلق پہلے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اطلاع دی تھی کہ مسیحؑ اس سے شادی کرے گا اور اس سے اولاد پیدا ہوگی۔ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ
پس آپ وہ خاتون ہیں جس کے بطن مبارک سے مسیح موعود ؑکے لئے اولاد پیدا کرنا مقدر تھا۔ نیز آپ اُن عورتوں میں سے تھیں جن کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خیر النساء ولود۔ عورتوں میں سے بہترین عورتیں وہی ہیں جو جننے والی ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو اس لحاظ سے بھی خیر النساء بنا دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بطن سے دس اولادیں دیں۔
آپ کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اصل بیان فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’تیری نسل بہت ہوگی۔ مَیں تیری ذریّت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دونگا۔ مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی‘‘۔ ۲۶؎
اس پیشگوئی میں بتلایا گیا کہ:
۱۔ نسل بہت ہوگی۔
۲۔ اسے بہت بڑھایا جائے گا۔
۳۔ وہ کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی۔
۴۔ اُن میں سے بعض کم عمری میں فوت ہو جائیں گے۔
گویا کہ جو زندہ رہیں گے وہ بہت ہوں گے۔ وہ بہت بڑھیں گے۔ وہ بہت پھیلیں گے اور جو فوت ہوں گے وہ کم عمری میں ہی فوت ہو جائیں گے۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک پیشگوئی کا اعلان فرمایا۔ یہ پیشگوئی ایک خاص لڑکے کے متعلق تھی اور یہ پیشگوئی ہوشیار پور کی چالیس روزہ خلوت اور لمبی دعائوں کے بعد عطا کی گئی تھی۔ چنانچہ فرمایا:
’’مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی۔ اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدہیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا‘‘۔ ۲۷؎
پس یہ پیشگوئی، یہ نشان ان دعائوں کی قبولیت پر ایک کھلی کھلی صداقت کی مہر تھا۔ اس الہام میں اس پیشگوئی کی عظمت کا تذکرہ یوںفرمایا:
’’سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح و ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام‘‘۔
گویا کہ یہ نشانِ قدرت، رحمت اور قربت، فضل و احسان کا نشان قرار دیا گیا اور فتح و ظفر کی کلید اور اس نشان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی درگاہ میں مظفر قرار دئے گئے۔
یہ نشان کیوں دیا گیا؟ اس لئے کہ:
’’خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں۱ موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ ۲ جو قبروں میںدبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ۳ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہرہو اور تاحق ۴ اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل۵ اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور۶ تا لوگ سمجھیںکہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ۷ یقین لائیںکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور ۸ خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے‘‘۔ ۲۸؎
یہ آٹھ عظیم الشان امور ہیں جن کی بناء پر اس پیشگوئی کا ظہور میں لانا ضروری قرار دیا گیا۔ ان عظیم الشان امور کے ظہور میں لانے کے لئے جس انسان کا پیدا کیا جانا مقدر تھا۔ وہ کون تھا؟ وہ وہی شخص تھا جس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ
مسیح موعود ؑ کی سچائی کی دلیل قدیم پیشگوئیوںکے مطابق ایک موعود لڑکے کا عالم وجود میں آنا بھی تھا جو لازم اور ملزوم کی طرح سے تھے۔ اس امر کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وحی میںاشارہ تھا:
’’اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے‘‘۔
یعنی ایک وہ لوگ ہیں جو راستبازی کے ساتھ ان تمام پیشگوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کو عطا کی گئیں۔ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے خدا تعالیٰ کے وجود پر ایک کامل ایمان پیدا ہو اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پر بھی کامل ایمان پیدا ہو تا جب وہ اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے تو ان کا دل خود بخود ایمانِ کامل سے لبریز ہو جائے گا۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو منکرین ہیں۔ اُن کے نزدیک نہ کوئی مسیح موعود ؑآنے والا تھا اور نہ اس کے ہاں کوئی موعود لڑکا پیدا ہونے والا تھا۔ ان کے نزدیک یہ ساری باتیں یونہی خیالی اور وہمی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا کہ اس موعود لڑکے کی پیدائش سے صدیوں کے پُرانے نوشتے پورے ہو جائیں گے۔ منکروں اور مکذبوں پر اتمام حُجت ہو جائے گی۔ خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر ایک عظیم الشان حجت مل سکے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ مَیں اِنِّیْ مَعَکَ، اِنِّیْ مَعَکَ کہنے والا خدا تیرے ساتھ ہوں۔
اس لحاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی کتنی شان اور کتنی عظمت کی تھی۔ اگر خدانخواستہ یہ پوری نہ ہوتی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت تو ایک طرف رہی اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور خدا تعالیٰ کی قدرت سب مشکوک ٹھہر جاتی۔ اس لئے اس کا ٹلنا ناممکن تھا کیونکہ یہی وہ چیز تھی جسے حاصل کر کے خدا کا برگزیدہ نبی مظفر و منصور ٹھہرا۔ یہی وہ چیز تھی جو مانگی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے دے دی تھی۔ پھر کیسے ہو سکتا تھا، کہ وہ دی ہوئی عطاء جس پر خدا تعالیٰ کی اپنی سچائی اور اس کے دین، کتاب اور سیّد الانبیاء اور مسیح موعود ؑکی سچائی کا انحصار ہو، وہ ہی ٹل جائے اور یہ دیکھ کر کئی کمزور دماغ انسان اپنے آپ کو ان عظیم الشان پیشگوئیوں کا مصداق سمجھنے لگ جائیں۔ ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کئی دیوانے مٹی اور پتھر کے کنکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ ان کو جواہرات کا ڈھیر سمجھ لیتے ہیں۔ کیا حقیقت میں وہ جواہرات کا ڈھیر ہوتے ہیں؟ یا اُن کے دماغ کا نقص ہوتا ہے۔ اور ایسے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی بسنے والے اور آباد گھر جب اُجڑ جاتے ہیں تو جنگلوں سے آ کر گیدڑ اور بھیڑیئے اُن میں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں اور کئی ایسے اُجڑے ہوئے مکانوں میں اُلّو اور چمگادڑ اپنی سلطنت قائم کر لیتے ہیں۔
کیا کوئی صحیح الدماغ انسان گیدڑوں اور بھیڑیوں کی وجہ سے ان مکانوں کو آباد کہہ سکتا ہے؟ کیا اُلّوئوں اور چمگادڑوں کی آمد و رفت اور آوازوں سے کوئی عقلمند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ وہاں بڑی گہما گہمی ہے۔ ہر گز نہیں۔ یہ چیزیں تو ویرانی اور بربادی کی ایک کھلی اور بیّن دلیل ہیں۔
پس وہ لوگ جو آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا اور وہ جو کہتے ہیں کہ وہ اس مادرِ مہربان کے بطن سے پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ سب درپردہ اس خدائی سلسلہ کے دشمن ہیں۔
اگرچہ ان کی زبانیں اور منہ اس امر کو تسلیم نہ کریں۔ لیکن ان کے اعمال ان کی قلمیں، ان کے اخبار اور ان کی ساری کوششیں اس امر پر مبنی ہیں کہ وہ یہ ثابت کریں کہ یہ سارا سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی نہیں۔انہی کی ان کوششوں سے تاریکی کے پردے اسلام کے اس قصر کو خالی سمجھ کر اپنا گھونسلا بنانے کی فکر میں ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کا سورج آج پوری شان کے ساتھ چمک رہا ہے اور کوئی تیرہ پرست اس جگہ اپنا سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں پا سکتا۔
یاد رہے! کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کی سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لڑکا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ظاہر کیا گیا تھا جسے صلحائِ اُمت اپنی پیشگوئیوں میںہمیشہ ظاہر کرتے رہے اور جس کے لئے خدا تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان الفاظ میں فرمایا:
’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت سے ہوگا‘‘۔ ۲۹؎
اس پیشگوئی میں لفظ تیرے ہی تخم اور تیری ہی ذریّت نے ایسی حد بندی کر دی ہے کہ کسی مدعی کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اس پیشگوئی میں ایک اور پیشگوئی بھی تھی جو پیشگوئی میںبالکل اس طرح مل کر آئی تھی کہ عام طور پر اس کی طرف توجہ نہ گئی اور یہی خیال کیا گیا کہ یہ پہلی پیشگوئی کی ہی جزو ہے اور وہ پیشگوئی یہ تھی۔
’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتاہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے‘‘۔ ۳۰؎
اس پیشگوئی کو پہلی پیشگوئی کا حصہ ہی سمجھا گیا۔ حالانکہ یہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا حصہ تھی جو ۱۸۸۱ء؁ میں اِن الفاظ میں کی گئی تھی۔ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَسِیْنٍ۔ ہم تجھے ایک حسین لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم الشان لڑکے کی پیشگوئی بذریعہ اشتہار شائع فرما دی اور اسی اشتہار میں ایک اور لڑکے کی بھی پیشگوئی تھی جس کو مہمان کے نام سے ظاہر کیا گیا۔ مگر سب کی توجہ اس عظیم الشان لڑکے کی طرف تو گئی مگر مہمان کی طرف نہ گئی۔
صاحبزادی عصمت کی پیدائش
جن ایام میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی۔ اُن ایام میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے مشکوئے معلّٰے میں امیدواری تھی۔ چنانچہ مئی ۱۸۸۶؁ء میں اس امیدواری سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بیوی سے پہلی اولاد تھی۔ چونکہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶؁ء کو آپؑ نے اس عظیم الشان لڑکے کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی۔ اس لئے جب مئی ۱۸۸۶؁ء یعنی اشتہار کے تیسرے مہینے میں لڑکی پیدا ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک مخالفت کا طوفانِ بے تمیزی کھڑا ہو گیا۔ ابھی تک حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دعویٰ نہیں کیا تھا مگر عقیدت مندوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ اس لڑکی کی پیدائش پر جو ہوا، اسے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۱۰۵ روایت نمبر۱۱۶ میں یوں لکھا ہے:
’’جب شروع ۱۸۸۶؁ء میں حضرت مسیح موعود ؑنے خدائی حکم کے ماتحت ہوشیار پور جا کر وہاں چالیس دن خلوت کی اور ذکرِ خدا میں مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپؑ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت دی۔ جس نے اپنے مسیحی نفس سے مصلح عالم بن کر دنیا کے چاروں کونوں میں شہرت پانی تھی۔ یہ الہام اس قدر جلالی اور شان و شوکت کے ساتھ ہوا کہ جب حضور ؑ نے ۲۰/ فروری ۱۸۸۶؁ء کے اشتہار میں اس کا اعلان فرمایا تو اس کی وجہ سے ملک میں ایک شور برپا ہو گیا اور لوگ نہایت شوق کے ساتھ اس پسرِ موعود کی راہ دیکھنے لگے۔ اور سب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس پسرِ موعود کے متعلق امیدیں جما لیں۔ بعض نے اس پسر موعود کو مہدی معہود سمجھا۔ جس کا اسلام میں وعدہ دیا گیا تھا اور جس نے دنیا میں مبعوث ہو کر اسلام کے دشمنوں کو ناپَید اور مسلمانوں کو ہر میدان میں غالب کرنا تھا۔ بعض نے اور اِسی قسم کی امیدیں قائم کیں اور بعض تماشائی کے طور پر پیشگوئی کے جلال اور شان و شوکت کو دیکھ کر ہی حیرت میں پڑ گئے تھے اور بغیر کوئی امید قائم کئے اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
’’غیر مذاہب والوں کو بھی اس خبر نے چونکا دیا تھا۔ غرض وحی الٰہی کی اشاعت رجوعِ عام کا باعث ہوئی۔ ان دنوں حضورؑ کے ہاںبچہ پیدا ہونے والا تھا۔ مگر اللہ نے بھی ایمان کے راستہ میں ابتلاء رکھے ہوتے ہیں۔ سو قدرت خدا کہ چند ماہ کے بعد مئی ۱۸۸۶؁ء میں بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی تھی۔ اس پر خوش اعتقادوں میں مایوسی اور بداعتقادوں اور دشمنوں میں ہنسی اور استہزاء کی ایک لَہر اُٹھی۔ کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا۔ اس وقت تک بیعت کا سلسلہ تو تھا ہی نہیں کہ مریدین الگ نظر آتے۔ پس عام لوگوں میں چہ میگوئی ہو رہی تھی کہ یہ کیا ہوا۔ کوئی کچھ کہتا تھا کوئی کچھ۔ حضور علیہ السلام نے بذریعہ اشتہار اور خطوط اعلان فرمایا کہ وحی الٰہی میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس وقت جو بچہ کی امید واری ہے تو یہی وہ پسرِ موعود ہوگا اَور اس طرح لوگوں کی تسلّی کی کوشش کی۔ چنانچہ اس پر اکثر لوگ سنبھل گئے‘‘۔ ۳۱؎
اس طرح مئی ۱۸۸۶؁ء میں ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے گھر میں ایک بچی کی پیدائش پر خوشیاں ہو رہی تھیں اور دوسری طرف اس کی ولادت نے ملک بھر میں ایک طوفانِ بے تمیزی پیدا کر دیا اور اپنوں اور غیروںنے زبانِ طعن دراز کی اور اس قدر بدگوئی سے کام لیا کہ دلوں کو چھلنی کر دیا۔ مَیں اس چھوٹی سی کتاب میں اُن عبارتوں اور تحریروں کے کٹنگ نہیں دے سکتا۔ مگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ تحریر فرمانا کہ:
’’دشمنوں میں ہنسی اور استہزاء کی ایک ایسی لہر اُٹھی کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا‘‘۔ کافی ہے۔
یہ معصوم صاحبزادی ۱۸۹۱ء؁ تک زندہ رہیں۔ گویا تقریباً ۵ سال تک زندہ رہیں۔ ان کی نسبت حضرت اقدس ؑکا الہام تھا۔ ’’کَرَمُ الْجَنَّۃِ دوحۃ الجنَّۃِ‘‘ یعنی انگور کی جنتی بیل۔ جنت کا بڑا درخت۔
اس لڑکی کا وجود مومنوں کے علاوہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایمانوں کی مضبوطی، قوت، خدا تعالیٰ کی محبت، اور خدا کی محبت میں سب کچھ برداشت کرنے کی قوت کا مظاہرہ کرانے کے لئے آیا تھا۔ لوگ ہنستے تھے، استہزاء کرتے تھے، ٹھٹھے اُڑاتے تھے، گالیاں دیتے تھے۔ مگر خدا کے یہ پاک بندے ایک مضبوط چٹان کی طرح جمے کھڑے تھے۔ ۱۸۹۱ء؁ میں حضرت اقدس ؑ لودہیانہ بمع اہل و عیال کے تشریف لے گئے وہاں صاحبزادی صاحبہ بیمار ہو گئیں۔ انہیں ہیضہ ہوا۔
’’حضرت اقدس ؑ اس کے علاج میں اس قدر مصروف تھے کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی…… عصمت کے بیمار ہونے پر آپ اس کے علاج میں یوں دوا کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی نہیں کر سکتا۔ مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔ یہ مصالحت اور مسالمت خدا کی قضاء و قدر سے بجز منجانبِ اللہ لوگوں کے اور سے ممکن نہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صاحبزادی عصمت کی وفات سے جہاں تک بشیریت کا تعلق ہے، گو نہ صدمہ ہوا جو اسی حد تک تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی مقادیر سے کامل صلح اور مسالمت تھی اورآپ خدا کے اس فعل پر خوش و خرم تھے‘‘۔ ۳۲؎
اس کی وفات پر بھی بہت کچھ شور و شر ہوا کہ لو وہ لڑکی بھی زندہ نہ رہی۔ اس طرح یہ معصوم جنتی انگور کی بیل اس دنیا میں پانچ سال تک رہ کر جنت میں جہاں سے آئی تھی واپس چلی گئی۔ وہ لوگوں کے ایمان کو صیقل کرنے کے لئے، ان کے اندر قوتِ ایمان پیدا کرنے کیلئے آئی تھی، اس کا کام جلد پورا ہو گیا اور وہ جلد اپنے رب کے حضور چلی گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے اِس بچی کی پیدائش پر سارے شور و غوغا کو نہایت حوصلہ سے سنا اور ان کے ایمان میں ذرا جنبش پیدا نہ ہوئی اور جب وہ خدا کے پاس بلائی گئی تو آپ نے نہ کوئی گھبراہٹ کا اظہار کیا اور نہ جزع فزع کیا بلکہ بالکل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرح رضا بالقضأ کا ثبوت دیا۔ جیسے مَیں واقعات سے ثابت کروں گا۔
جس خوشی سے اُسے لیاتھا۔ اسی خوشی سے اپنے مولا کو واپس کر دی۔
پہلی اولاد
صاحبزادی عصمت
تاریخ پیدائش مئی ۱۸۸۶؁ء
تاریخ وفات جولائی ۱۸۹۱ء؁
کل عمر پانچ سال دو ماہ
اس کی شان
کَرَمُ الجنَّۃِ دوحۃ الجنَّۃِ
بشیر اوّل
حضرت اُمُّ المؤمنین کے بطن سے دوسرا بچہ بشیر اوّل پیدا ہوا۔ بشیر اوّل کی پیدائش ۷/اگست ۱۸۸۷؁ء کی رات کو ڈیڑھ بجے کے قریب ہوئی یعنی اس وقت یکشنبہ کے دن کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس بچہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی موعود لڑکا خیال کیا۔ چنانچہ آپ نے ۷/اگست ۱۸۸۷؁ء کو ایک دو ورقہ اشتہار بعنوان خوشخبری شائع فرمایا۔ اس میں تحریر فرمایا:
’’اے ناظرین! مَیں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولّد کے لئے مَیں نے اشتہار ۸/ اپریل ۱۸۸۶؁ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھلے کھلے بیان میں لکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں، جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا۔ آج ۱۶/ ذیقعدہ ۱۳۰۴ہجری مطابق ۷/اگست ۱۸۸۷؁ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہوا۔ فالحمدللّٰہ علی ذٰلک‘‘۔
اس لڑکے کی نسبت پیشگوئی تھی۔
’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے‘‘۔
اس لڑکے کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے الہامات میں اور بھی نام رکھے تھے۔ جیسے مبشر اور بشیر اور نور اللہ۔ صَیِّب اور چراغ دین وغیرہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّل کو ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا کہ:
(ب) ’’خدا تعالیٰ نے پسر متوفّٰے کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے ان میں سے ایک بشیر اور ایک عنموائیل اور ایک خدابا ماست اور رحمت حق باماست اور ایک ید اللہ بجلالٍ و جمالٍ ہے‘‘۔ ۳۳ ؎
ایک الہام اس کے متعلق یہ ہوا تھا:
’’جَائَ کَ النُّوْرُ وَھُوَاَفْضَلُ مِنْکَ‘‘ ۳۴؎
اس بچے کی پیدائش پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ حضرت اقدس ؑ نے اس کے عقیقہ کی تقریب پر بہت سے دوستوں کو اس خوشی میں مدعو بھی کیا تھا۔ یہ خوشی کی تقریب عام دنیا داروں کی طرح نہ تھی جو بچوں کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں بلکہ آپؑ کی غرض یہ تھی کہ آپ اس بچے کی پیدائش پر جس کی روحانی استعداد کا علم قبل از وقت دیا گیا تھا۔ جس کا وجود اسلام کی سچائی کے لئے ایک چمکتے ہوئے نشان کی طرح تھا۔ خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں۔
پس یہ خوشی دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار کے لئے تھی۔ آپ نے اپنے دوستوں کو خط لکھ کر اس تقریب پر بلایا۔ چنانچہ حضرت منشی رستم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے ایک مکتوب تحریر فرمایا جو حسبِ ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
آج سولہویں ذیقعدہ ۱۳۰۴ ؁ہجری بفضلہ تعالیٰ و کرمہٗ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ ۲۲/ذیقعدہ مطابق ۱۳/ اگست روزِ عقیقہ ہے۔ اگر کچھ موجبِ تکلیف و حرج نہ ہو تو آپ بھی تشریف لا کر ممنونِ احسان فرماویں۔ فقط۔ ۷/ اگست ۱۸۸۷؁ء
خاکسار مرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور ۳۵؎
پھر ۱۰/ اگست کو ایک کارڈ تحریر فرمایا کہ دو شطرنجی کلاں بھی دو روز کے لئے ساتھ لائیں۔
پھر ایک دوسرا کارڈ اسی روز تحریر فرمایا کہ ایک سائیبان بھی درکار ہے۔جو خیمہ کی طرز کا ہو کیونکہ مکان کی تنگی ہے۔
پھر ایک مکتوب ملفوف تحریر فرمایا۔ جس پر تاریخ نہیں۔ مگر اغلباً وہ بھی اسی روز کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں تحریر فرمایا کہ تین روز کی رخصت لے کر حسب ذیل اشیاء عقیقہ کے لئے ساتھ لائیں۔
روغن زرد عمدہ ڈیڑھ من خام۔ ۳۰؎ نقد۔ تین بوتل عمدہ چٹنی۔ بیس ثار آلو پختہ۔ چار ثار اربی پختہ۔ کسی قدر میتھی پالک وغیرہ ترکاری۔ پان بھی طلب فرمائے تھے۔
پھر ایک اور ملفوف تحریر فرمایا۔ جس میں پھر خیمہ سائیبان کی ضرورت پر تحریر فرمایا:
’’مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ آپ کیلئے ثواب حاصل کرنے کا نہایت عمدہ موقع ہے‘‘۔
ان خطوط سے اس انہماک کا پتہ لگ سکتا ہے جو حضور ؑ کو صاحبزادہ بشیر احمد اوّل کی پیدائش پر عقیقہ کے متعلق تھا۔ الغرض سب سامان ہو گئے۔ بکثرت احباب قادیان میں جمع ہوئے اور خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر ادا کرتے رہے۔
اس طرح حضرت اُمُّ المؤمنین کے بطن مبارک سے جو لڑکی پیدا ہوئی تھی وہ اپنی ذات میں مومنوں کے ایمان میں ایک نئی قوت پیدا کرنے کیلئے آئی تھی اور یہ مبارک لڑکا جو بہت بڑی استعدادوں کے ساتھ اس دنیا میں آیا تھا۔ والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ہوا تھا۔ کیسی مبارک ہے وہ ماںجس کی بچی کی یہ شان تھی کہ خدا نے اسے کَرَمُ الجنَّۃِ دوحۃ الجنَّۃِ کہا اورجس کے بیٹے کی یہ شان کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے عرش سے مبشر،بشیر، نوراللہ، چراغ دین وغیرہ اسماء سے یاد فرما رہا تھا۔ یہ کھلی کھلی دلیل تھی کہ یہی وہ خاتون تھی کہ جس میں اس قدر پاکیزہ استعداد تھی کہ وہ مسیحی صفت بچے پیدا کر سکے۔ ایسی ماں کی عظمت میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
الغرض بشیر احمد اوّل اپنے مقدس اور بزرگ باپ اور عظیم الشان ماں کی آغوش میں شفقت کے ساتھ بڑھنے لگا۔ حضرت اقدس ؑ اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو اس کے آرام کا بہت بڑا خیال تھا۔ چنانچہ خاص اس بچہ کی خدمت کے لئے ایک نوکر کی تلاش ہوئی۔ حضرت اقدس ؑ نے ۲۱/ اگست ۸۷ء ؁کو چوہدری رستم علی صاحبؓ کی خدمت میں لکھا کہ:
’’ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے جو طفل نوزاد کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ اس میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دیندار خادم کہ جو کسی قدر جوان ہو مل جائے‘‘۔
پھر ایک پوسٹ کارڈ ۶/ستمبرکو تحریر فرمایا جس میں خادمہ کی ضرورت کے متعلق لکھا:
’’صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ رکھنے کے لائق ہو… گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اس جگہ موجود ہیں‘‘۔
پھر ۲۱/ ستمبر کو تحریر فرمایا:
’’اب ایک خادمہ، محنت کش، ہوشیار، دانا، دیانتدار کی اشد ضرورت ہے اور اس کا کام یہی ہوگا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ گھر میں تین خادمائیں موجود تھیں۔ مگر اس بچے اور پہلی بچی کی خدمت کے لئے ایک الگ خادمہ کی تلاش کی جا رہی تھی تا کہ ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ آرام مل سکے اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ نوکرانی بھی ایسی چاہتے تھے جو نیک اور دیانتدار اور تمام اچھی صفات سے متصف ہو۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان بچوں کے متعلق کس قدر اہتمام تھا اور یہ بچے کیسے بابرکت تھے، جو ایسے والدین کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے۔
بشیر احمد کی علالت
جب بشیر احمد کی عمر ایک سال کے قریب ہوئی تو وہ سخت بیمار ہو گیا۔ حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بعد میں خلیفۃ المسیح اوّل ہوئے کو جموں میں مکتوبِ گرامی تحریر فرمایا:
’’بشیر احمد عرصہ تین ماہ تک برابر بیمار رہا۔ تین چار دفعہ ایسی نازک حالت تک پہنچ گیا ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید دو چار دم باقی ہیں۔ مگر عجیب قدرت قادر ہے کہ ان سخت خطرناک حالتوں تک پہنچا کر پھر ان سے رہائی بخشتارہا ہے۔ اب بھی کسی قدر علالت باقی ہے۔ مگر بفضلہ تعالیٰ آثار خطرناک نہیں ہیں…… اور ایسے وقتوں کی دعا بھی عجیب قسم کی دعا ہوتی ہے۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ آپ ایسے وقتوں میں یاد آجاتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد پھر ایک خط تحریر فرمایا جس میں تحریر فرمایا:
’’ایک خط روانہ خدمت کر چکا ہوں۔ اب باعثِ تکلیف دہی یہ ہے کہ بشیر احمد میرا لڑکا جس کی عمر قریب برس کے ہوچلی ہے۔ نہایت ہی لاغر اندام ہو رہا ہے۔ پہلے سخت تپ محرقہ کی قسم بخار چڑھا تھا۔ اس سے خدا تعالیٰ نے شفا بخشی۔ پھر بعد کسی قدر خفّت تپ کے یہ حالت ہوگئی کہ لڑکا اس قدر لاغر ہو گیا ہے کہ استخواں ہی استخواں رہ گیا۔ سقوطِ قوت اس قدر ہے کہ ہاتھ پَیر بیکار کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ یا تو وہ جسم قوی ہیکل معلوم ہوتا تھا اور یا اب ایک تنکے کی طرح ہے۔ پیاس بشدت ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ حرارت کا اندر موجود ہے۔ آپ براہِ مہربانی غور کر کے کوئی ایسی تجویز لکھ بھیجیں جس سے اگر خدا چاہے بدن میں قوت ہو اور بدن تازہ ہو۔ اس قدر لاغری اور سقوطِ قوت ہو گیا ہے کہ وجود میں کچھ باقی نہیں رہا۔ آواز بھی نہایت ضعیف ہوگئی ہے۔ یہ بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دانت بھی اس کے نکل رہے ہیں۔ چار دانت نکل چکے تھے کہ یہ بیماری شیر کی طرح حملہ آور ہوئی۔ اب بباعث غایت درجہ ضعفِ قوت اور لاغری اور خشکی بدن کے دانت نکلنے موقوف ہوگئے ہیں اور یہ حالت ہے، جو مَیں نے بیان کی ہے۔ براہِ مہربانی بہت جلد جواب سے مسرور فرماویں۔
والسلام‘‘
اس سے اس توجہ اور شفقت اور محبت کا پتہ چل سکتا ہے کہ جو حضرت اقدس ؑ کو بشیر کی بیماری کے متعلق تھی۔ نیز اس حالت میں آپ کس قدر دعائیں فرما رہے تھے۔
حضرت اماں جان کی جو حالت ہوگی وہ خود بخود ہی واضح ہو جاتی ہے وہ ماں جس کا پہلا بچہ ہو اور جو خوبصورت بھی ہو اس کی ذات کے متعلق بڑی بڑی امیدیں وابستہ ہوں۔ وہ ایسا سخت بیمار ہو تو اس ماں کے قلب کی کیا کیفیت ہوگی۔ یہ کسی تشریح کی محتاج نہیں۔
صاحبزادہ بشیر احمد اوّل اس شدید بیماری سے بالکل اچھا ہو گیا۔ چنانچہ ۱۸/ اگست ۱۸۸۸؁ء کو ایک خط میں حضرت مولوی صاحب کو لکھا کہ آپ کے آنے کی اب ضرورت نہیں۔ اب بشیر احمد خدا کے فضل سے اچھا ہے۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے ان دعائوں کو جو کی گئیں۔ شرفِ قبولیت بخشا اور صاحبزادہ بشیر اوّل اچھا ہو گیا۔ مگر اصل تقدیر جو ’’مہمان‘‘ کے الہام میں پوشیدہ تھی، ابھی پوری ہونے والی تھی۔ چنانچہ بشیر اوّل پھر بیمار ہوا اور ۴/ نومبر ۱۸۸۸؁ء کو تئیس دن بیمار رہ کر فوت ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ نے حضرت مولوی صاحبؓ کو جموں خط لکھا اور اس میں بشیر اوّل کی وفات کی اطلاع دی۔ چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا:
’’میرا لڑکا بشیر احمد تئیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے رب عزوجل انتقال کر گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اِس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہونگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ وانّا راضون برضائہٖ وصابرون علٰی بلائہٖ یرضٰی عنّا مولیٰنا فی الدنیا والاْخرۃ وھوارحم الرّاحمین۔ والسلام ۴۔ نومبر ۱۸۸۸؁ء
حضرت حکیم الامّتؓ کو آپ نے جو مختصر خط لکھا۔ اس میں دو امور کی طرف اشارہ فرمایا:
۱۔ اب مخالفوں کی زبانیں دراز ہونگی۔
۲۔ موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے۔
سو ایسا ہی ہوا۔ ایک بڑا زلزلہ آیا۔ مخالفت کا طوفان بے تمیزی اُٹھا سیرۃ المہدی حصہ اوّل مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے صفحہ۸۸ پر لکھا ہے:
’’مگر قدرت خدا کہ ایک سال کے بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا ملک میں طوفانِ عظیم برپا ہوا اور سخت زلزلہ آیا۔ حتیّٰ کہ میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری کا خیال ہے کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کیلئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا۔ گویا وہ دعویٔ مسیحیت پر جو زلزلہ آیا تھا۔ اسے بھی عامۃ الناس کیلئے اس سے کم قرار دیتے ہیں۔ مگر بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اُٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکہ لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے… حضرت صاحبؑ نے لوگوں کو سنبھالنے کیلئے اشتہاروں اور خطوط کی بھرمار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ مَیں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہی وہ لڑکا ہے۔ ہاں یہ مَیں نے کہا تھا کہ چونکہ خاص اس لڑکے کے متعلق بھی مجھے بہت سے الہام ہوئے ہیں جن میں اس کی بڑی ذاتی فضیلت بتائی گئی تھی۔ اس لئے میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو۔ مگر خدا کی وحی میں جو اس معاملہ میں اصل اتباع کے قابل ہے، ہرگز کوئی تعیین نہیں کی گئی تھی۔ غرض لوگوں کو بہت سنبھالا گیا۔ چنانچہ بعض لوگ سنبھل گئے۔ لیکن اکثروں پر مایوسی کا عالم تھا اور مخالفین میں پرلے درجہ کے استہزاء کا جوش تھا‘‘۔
یہ ایسا وقت تھا کہ دشمن تو دشمن اپنے بھی بہت خطرے میں پڑ گئے تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے جو اس وقت رضأ بالقضاء کا نمونہ دکھایا اس کی یہ حالت تھی کہ آپ نے جب دیکھا کہ بچے کے اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو آپ نے فرمایا کہ مَیں پھر اپنی نماز کیوں قضاء کروں۔ چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر کے دریافت فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے تو اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ بچہ فوت ہو گیا ہے تو آپ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر خاموش ہو گئیں۔
یہ واقعہ الحکم میں شائع شدہ موجود ہے۔ اس وقت جب کہ چاروں طرف شور بے تمیزی مچ رہا تھا۔ ایک زلزلہ آیا ہوا تھا۔ ایک ماں کے ایمان کی پختگی کی ایسی مثال کم ملے گی کہ اپنے لختِ جگر کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے سکونِ قلب کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ جائو ڈھونڈو! دیکھو کہ اس کی مثال کہیں نظر آتی ہے؟ ان کی زبان سے کوئی شکوہ، کوئی کلمہ قابلِ اعتراض نہیں نکلا۔ انہوں نے اپنے خاوند سے یہ نہیں پوچھا کہ آپؑ تو اس لڑکے کے متعلق ایسا خیال کرتے تھے اب یہ کیاہوا۔
پورا اطمینان، پورا سکون، قلب میں موجود تھا۔ اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر خاموش ہوگئیں۔ یہ شان ہے حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایمان کی پختگی کی اور رضاء بالقضاء کی اور یہی ایک مسلمان عورت کی شان ہے۔
حضرت اقدس ؑ نے اپنے مخلص مریدوں کو اس پیشگوئی کی وضاحت پر مفصل خط لکھے جو سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہیں۔ الغرض صاحبزادہ بشیر اوّل خدا کے ان الہاموں کے ماتحت فوت ہوگیا۔ آپؑ نے ایک اشتہار لکھا جس پر یہ شعر لکھا۔ع
ہم نے اُلفت میں تری بار اُٹھایا کیا کیا
تجھ کو دِکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا
اور تحریر فرمایا:
’’غرض جو اس کی نگاہ میں راستباز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اُٹھاتے چلے آئے ہیں۔ سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے۔ اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ آزار اُٹھائیں تو ہمیں شکر بجا لانا چاہئے اور خوش ہونا چاہئے کہ ہم اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دُکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں‘‘۔ ۳۶؎
پھر آپؑ نے ایک مفصّل اشتہار بنام ’’حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر‘‘ شائع کیا۔ اس میں آپؑ نے بتلایا کہ یہ الہامی طور پر تصفیہ نہیں ہوا تھا کہ یہی وہ مصلح موعود لڑکا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ اگرچہ بشیر اوّل اپنی ذاتی استعدادوں کے لحاظ سے بڑی عظمت اور شان والا لڑکا تھا اور یہ استعدادیں اس کے اندر اسی طرح موجود تھیں، جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کے اندر نبوت کی استعداد موجود تھی۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا۔’’ لو عاش ابراہم لکان صدّیقا نبیّا‘‘۔ ایسی ہی استعدادوں کے ساتھ یہ بشیر بھی آیا۔
وہ کیوں فوت ہوا؟
اس کی وفات کی یہی وجہ تھی کہ وہ خود مصلح موعود نہ تھا بلکہ جیسے حضرت اقدس ؑ نے سبز اشتہار کے حاشیہ صفحہ۲۱ پر لکھا ہے۔
’’بشیر اوّل جو فوت ہو گیا ہے۔ بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا‘‘۔
وہ مصلح موعود کی پیشگوئی کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے آیا تھا۔ اگر بشیر اوّل زندہ رہتا تو لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہوتی اور یہ قدرتی بات تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ مصلح موعود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی مشیّتِ خاص نے اسے مصلح موعود کے لئے راستہ صاف کرنے کیلئے بھیجا تھا۔ یہ مختصر حالات ہیں بشیر اوّل کے۔ اس طرح وہ ۱۷/ اگست ۱۸۸۷؁ء کورات کے ڈیڑھ بجے کے قریب پیدا ہوا اور ۱۴ نومبر ۱۸۸۸؁ء بروز یکشنبہ اپنی عمر کے سولہویں مہینہ میں فوت ہو گیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ -
بشیر اوّل
تاریخ پیدائش ۱۷/ اگست ۱۸۸۷؁ء
تاریخ وفات ۱۴/ نومبر ۱۸۸۸؁ء
عمر ۱۶ماہ
اس کی شان! مبشر ، بشیر، نور اللہ، صیّب، چراغ دین، عنموائیل وغیرہ وغیرہ
حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
جب بشیر اوّل اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت واپس بلا لیا گیا تو جیسے کہ میں لکھ چکا ہوں بہت بڑازلزلہ نموادر ہوا۔ خود حضرت اقدس ؑ نے ’’حقانی تقریر‘‘ میں لکھا کہ:
’’عجیب طور کا شوروغوغا خام خیال لوگوں میں اُٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں۔ مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افتراء ہے۔ انہوں نے اس بچے کی وفات پر انواع و اقسام کے افتراء گھڑنے شروع کئے۔‘‘ ۳۷؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال دیگر انبیاء ؑ کے ساتھ
یہ واقعہ ایساتھا کہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر انبیاء ؑ سے ایک بڑی مماثلت قائم کر دی۔ چنانچہ آپؑ ’’حقانی تقریر‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سا کر کے ان کو دکھاتا ہے۔ یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے۔ کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ وہ ہلاک کر ڈالے۔ بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر بَبر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولت کے بلند مینار تک پہنچا دے۔ اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے ان کو سکھا دے۔ یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے۔
’’زبور میںحضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعّات اسی عادت اللہ پردال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخرالرسلؐ کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانونِ قدرت کی تصریح کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارجِ عالیہ کو ہرگز نہ پا سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پا لئے۔ ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے ائور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اَور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربّیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیاکہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میںچھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت موردِ غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں۔ بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا۔ ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا۔ غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے۔ ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں۔ پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا‘ ان کی ہمت بلند اَور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی۔ بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اوّل درجہ کے پاس یافتہ ہو کر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت و حُرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا۔‘‘ ۳۸؎
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو کچھ حکایتِ دیگراں کی صورت میں تحریر فرمایا ہے وہ دراصل ان کی اپنی سیرت،ان کی اپنی وفاشعاری ،ان کے اپنے عشق و محبت،ان کی اپنی مشکلات اور مصائب کی داستان ہے۔ میری اس کتاب کو پڑھنے والے ان الفاظ کو پڑھیں اور پھر پڑھیں اور وہاں وہ غائب کی ضمیروں کو حاضر کی ضمیروں میں تبدیل کریں اور اپنی آنکھوں کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کو دیکھیں کہ وہ خدا کا فرستادہ اپنی اس حالت کو کن الفاظ میں بیان فرما رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
۱۔ یہ ابتلا شیر بَبر کی طرح تھا۔
۲۔ یہ ابتلاء سخت تاریکی کی مانند تھا۔
۳۔ ان ابتلاؤں نے طول کھینچ لیا تھا۔
۴۔ اس کی مثال ایسی تھی جیسے سخت تاریک رات میں شدت کی بارش ہوتی ہے۔
۵۔ یہ ابتلاء آندھی کی طرح تھا۔ سخت تاریکی کے مانند تھا۔ بڑے بڑے زلزلوں کی مانند تھا۔
۶۔ اس چیز نے ان کو بظاہر ذلیل کیا اور دشمنوں نے ان کو جھوٹوں ،مکاروں، بے عزتوں میں شمار کر لیا۔
۷۔ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ تنہا چھوڑ دیئے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان سے جاتی رہی۔
تصور کرو! ہاں! اچھی طرح تصور کرو!! کہ اس نبی یا مامور و مرسل کے قلب کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔ جس کے متعلق ایسی حالت پیدا کر دی گئی ہو۔ آپ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور آنحضرت ﷺ کی مماثلت کا اس میں ذکر فرمایا۔ تاکہ ہم ان کی مشکلات سے بھری ہوئی زندگی پر نظر ڈال سکیں اور پھر یہ جان سکیں کہ یہ مشکلات تو سنت انبیاء ہیں۔ مگر اس کیفیت کو بیان کرنے کیلئے آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی عبارت سے واضح کر کے اور بھی اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ حضرت داؤد فرماتے ہیں:
’’اے خدا! تو مجھ کو بچا لے کہ پانی میری جان تک پہنچے ہیں۔ میں گہری کیچ میں دھس چلا۔ جہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں میں چلاتے چلاتے میری آنکھیںدُھند ہو گئیں۔ وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں۔اے خداوند رب الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں میرے لئے شرمندہ نہ ہوں۔ وہ جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں وہ میرے لئے ندامت نہ اُٹھاویں۔ وے پھاٹک پر بیٹھے ہوئے میری بابت بکتے ہیں اور نشے باز میرے حق میں گاتے ہیں تو میری ملامت کشی اور میری رسوائی اور میری بے حرمتی سے آگاہ ہے۔ میں نے تاکا کہ کیا کوئی میرا ہمدرد ہے کوئی نہیں۔‘‘ ۳۹؎
یہ کلام جو پہلے داؤد نے کہاتھا۔ اسی حالت کا نقشہ کھینچ رہا ہے جو اس زمانہ میں ان ابتلاؤں کی وجہ سے ہوئی اور یہ دعا جو اس قلبی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔ اِس زمانہ کے داؤد نے دوبارہ درج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ میری حالت پہلے داؤدؑ سے ذرہ بھی کم نہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اور کیوں ہوتا ہے! اس لئے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستبازوں کی اس لاانتہاء قوت کو دنیا پر ظاہر کرے ۔ جو وہ خداتعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اور اس کی تبلیغ کے پہنچانے کے لئے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ چیز انبیاء کی سیرت کا ایک باب ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس پر ان کے سوا کوئی پہنچ نہیں سکتا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بالآخر تمام امتحانات سے اوّل درجہ کے پاس یافتہ ہو کر نکلتے ہیںاور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو جاتے ہیں اور عزت و حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا جاتا ہے۔بالکل اسی اصل کے مطابق خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر وہ تاج عزت و حرمت رکھ دیا۔ ان آزمایشوں کی تمام تاریکیوں کو تار تار کر دیا۔
ایک سوال یہاں پیدا ہو سکتا ہے کہ تم سیرت تو اُمُّ المؤمنین کی لکھ رہے ہو اور یہاں یہ ساری بحث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق کی جا رہی ہے؟ اس کے جواب میں اس قدر کہناکافی ہو گا کہ بعض چیزیںایسی ہوتی ہیں جو میاں بیوی میں مشترک ہوتی ہیں۔ کوئی مصیبت اور کوئی تکلیف ایسی نہیں ہوتی جو میاں کو آئے اور بیوی اس سے متاثر نہ ہو یا بیوی کو تکلیف ہو اور میاں اس سے حصہ نہ لے میدانِ جنگ میں ایک گھرانا جو توپوں،گولوں، بموں کا ہدف بن رہا ہے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس گھر کا مالک اس مصیبت کا شکار ہے ۔ اصل تو یہی ہے کہ وہ سارا خاندان،وہ سارا کنبہ، وہ سارے افراد جو ایک سِلک میں منسلک ہوتے ہیں شکار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ایک نبی کسی ابتلاء میں ڈالا جاتا ہے۔ جب اس کی روح خدا کے حضور عاجزی کر رہی ہوتی ہے۔ جب وہ پانی کی طرح اس کے آستانہ پر بہہ رہا ہوتا ہے۔ تو اس کے بیوی بچے بشرطیکہ وہ اس سے راستبازی کا تعلق رکھتے ہوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہی نہیں بلکہ وہ لوگ جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی برابر کے دکھ اور سکھ میں شریک ہوتے ہیں جیسے حضرت داؤد کہتے ہیں:
’’اے خدا وند رب الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں۔ میرے لئے شرمندہ نہ ہوں۔ وہ جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں وہ میرے لئے ندامت نہ اُٹھائیں۔‘‘
پس یہ ایک اصل الاصول ہے کہ جب کسی ایسی تکلیف کا اظہار کیاجائے جس میں حضرت اقدس ؑ تکلیف میں مبتلا ہوں تو جان لینا چاہئے کہ ان کی وفا شعار بیوی جو خدا نے خود بطور ایک نعمت کے دی تھی جس کی وفاشعاری خدیجہؓ کی طرح تھی جس کے بطن سے موعود اور مبشر اولاد دیئے جانے کے وعدے دیئے گئے تھے۔ جس کے بطن سے ایسا عظیم الشان بچہ پیدا ہوا جیسے بشیر اوّل تھا پھر اس کی وفات ہو گئی اور بظاہر یہ معلوم ہوا کہ خدا کے وعدے ٹل گئے۔ اندر اور باہر لوگ بیٹھے ہوئے پھبھتیاں اُڑاتے ہوں اور اس کے پیارے اور نہایت ہی پیارے خاوند کے قلب پر غم واندوہ کے پہاڑ لوگوں کی تباہی کے خوف سے ٹوٹ پڑے ہوں۔ اس وفا شعار بزرگ خاتون کے قلب اور رنج کی کیا حالت ہو سکتی ہے ظاہر ہے۔
پس حضرت اُمُّ المؤمنین کادکھ بالکل وہی صورت لئے ہوئے تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دکھ لئے ہوئے تھا۔ اس لئے یہ سارا واقعہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ثبات، استقلال،بے پناہ عشقِ الٰہی، وفاداری کا ثبوت ہے۔ وہاں حضرت اُمُّ المؤمنین کی مومنانہ شان اور عُسر و یُسر کی گھڑیوں میں خاوند کا مکمل ساتھ اور رضاء بالقضاء کے علاوہ خداتعالیٰ سے سچی وفاداری کا ثبوت ہے۔ اس استقلال،اس نیکی، اس تقویٰ کا نتیجہ یہ تھا کہ خداتعالیٰ نے اپنا اٹل فیصلہ صادر فرمایا کہ ایسی بہادر ماں کے بطن سے اور ایسے عظیم الشان باپ کے صلب سے وہ عظیم الشان بیٹا پیدا ہو جو مصلح موعود ہو اور اس کے سوا اور بھی بیٹے پیدا کئے جائیں جو ان نوروں کی تخمریزی کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا۔
اس لئے بشیر اوّل کا جیسے آنا بابرکت تھا اسی طرح اس کا جانا بھی دنیا کے لئے بڑا ضروری تھا۔ یہ سب کچھ جو ملا وہ اسی لئے ملا کہ مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین اور مومنوں کے صبر کا اجر ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے ہی قرآن کریم میں یہ اصول درج فرما دیا تھا کہ:
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ-
یہ قانون الٰہی ہے کہ مصیبت پر صبر کرنے والوں پر رحمت اور فضل کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس نے تقریر حقانی میں لکھا:
’’خدا تعالیٰ کی انزالِ رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کیلئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں۔
۱۔ اوّل یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے۔……
۲۔ دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسالِ مرسلین و نبیین و ائمّہ و اولیاء و خلفاء ہے۔ تاان کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہِ راست پر آ جائیں اور ان کے نمونے پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں۔ سو خداتعالیٰ نے چاہاکہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعے سے یہ دو نوںشق ظہور میں آ جائیں‘‘۔
آپ نے تحریر فرمایا کہ:
قسم اوّل کے انزالِ رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ کا سامان مومنوں کے لئے تیار کر کے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے……۔ اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا……اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا۔ جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہو گا یخلق اللّٰہ مایشاء‘‘ ۴۰؎
اس طرح ایسے بیٹے کی نسبت جو اس قدر ابتلاؤں کے بعد آنے والا تھا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل سے ہوگا۔…
’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیورّی نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مظہر الاوّل و الاٰخر- مظہر الحق والعلاء کانّ اللّٰہ نزل من السّماء- جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خداتعالیٰ نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔ اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘ ۴۱؎
پھر دوسری جگہ فرمایا:
’’ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔ سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا تھا۔ اولاد بھی عطاء کی اور ان میں سے وہ لڑکابھی جو دین کا چراغ ہو گا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا۔ جس کانام محمود احمد ہو گا اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا۔‘‘ ۴۲؎
پھر تحریر فرمایا:
’’میرا پہلا لڑکا زندہ موجود ہے۔ جس کا نام محمود ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہواتھا۔ جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کانام لکھا ہوا پایا۔ محمود ۔ ۴۳؎
پھر تحریر فرمایا:
’’دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸؁ء ہے پیدا نہیں ہوا۔ مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی معیاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں۔ پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اَور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے۔ کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشید ہے۔ اور انجامِ کار اس کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ ۴۴؎
پھر تحریر فرمایا:
’’جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اے وے لوگو جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو۔ بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلوکہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی۔ ۴۵؎
پھرتحریر فرمایا:
’’اور یہ دھو کہ کھانا نہیں چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے۔ کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیااور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اُٹھایا جاتا۔ کیونکہ یہ سب امور حکمتِ الٰہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اوّل جو فوت ہو گیا ہے۔ بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا۔ اس لئے دونوں کاایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔‘‘ ۴۶؎
پھر تحریر فرمایا:
’’ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا۔یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا یخلق اللّٰہ مایشاء۔‘‘ ۴۷؎
پھر تحریر فرمایا:
’’وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے‘‘۔ ۴۸؎
پھر تحریر فرمایا:
’’مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا۔
اے فخر رسل قُربِ تو معلومم شد
دیر آمدہٖ ز رہِ دُور آمدہٖ۴۹؎
یہ تمام حوالہ جات جو میں نے ایک جگہ کر دیئے ہیں۔ اس بیٹے کی عظمت کو واضح کرتے ہیں۔ جو بشیر اوّل کے بعد آنے والا تھا۔ چنانچہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹؁ء بمطابق۹جمادی الاوّل ۱۳۰۶؁ ہجری بروز شنبہ وہ عظیم الشان موعود بیٹا جو اصلاح خلق کے لئے مصلح موعود بنا کر بھیجا جانا مقصود تھا پیدا ہو گیا۔ یہ وہ شخص تھا جو فضل تھا،عمر تھا، محمود تھا،بشیر تھا، حُسن و احسان میں مسیح موعود کی نظیر تھا۔ یہ وہی انسان تھا جس کا نام روشنی رکھا گیا۔ اس کی آمد پر خوشی سے اچھلنے کے لئے کہا گیا۔ یہ ہی وہ شخص تھا جس کے آنے سے پہلے شدید زلزلے آئے اور دنیا ہلائی گئی۔ یہی وہ شخص تھا جو فخر رسل کہلایا اور اس کی آمد پر کہا گیا
دیر آمدہٖ ز رہِ دَور آمدہٖ
یہ وہی شخص تھا جو مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی ایک دلیل تھا اور آپؑ کے تخم اور آپؑ کی ذرّیت سے تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی تھی اور یہی وہ شخص تھا جس کی آمد کی خبر صلحاء امّت دیتے چلے آئے تھے۔ یہی وہ شخص تھا جس کی آمد ایسی اٹل تھی کہ زمین و آسمان ٹل سکتے تھے مگر اس کی آمد ٹل نہیں سکتی تھی۔ اتنی شان، اتنی عظمت، اتنی خوبیوں کا انسان ۱۲/ جنوری ۱۸۸۹؁ء کو پیدا ہو گیا۔ یہ سب اس لئے ہوا۔ ’’تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں‘‘۔ ۵۰؎
پس یہ اسلام کی صداقت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، قرآن کریم کی صداقت اور خود خدا تعالیٰ کی صداقت کے لئے ضروری تھا۔
مصلح موعود کی جس قدر علامتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی تھیں وہ سب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح ثانی میں پائی گئیں۔ ان کی تفصیل مَیں اس جگہ نہیں دے سکتا۔ یہ تفصیلی بحث خود سیرۃ امیرالمومنین میں آ جائے گی۔ مگر یہاں ایک شک کا ازالہ کر دینا ضروری ہے۔ حضرت اقدس ؑ نے ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا:
’’ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر و الباطن تم کو عطا کیا جائے گا‘‘۔
یہاں تک تو پیشگوئی کے الفاظ ہیں۔ اس کے آگے حضرت اقدس ؑ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزندِ مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا اور جنابِ الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحبِ اولاد ہوگی‘‘۔ ۵۱؎
اس خط سے جو حضرت اقدس ؑنے ایک اور نکاح کا ذکر فرمایا تو یہ بات کمزور ایمان لوگوں کے لئے ٹھوکر کا پتھر بن گئی۔ ان کی طبیعت میں جو کجی تھی وہ سامنے پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئی اور ان لوگوں نے شور مچانا شروع کیا کہ دیکھئے واضح ہو گیا کہ اس بی بی کے بطن سے تو وہ مصلح موعود پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ شیطانی وسوسہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے جس چیز کو اٹل قرار دیا تھا وہ کیسے ٹل سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے تو ایک نور بھیجنے کا فیصلہ کیا اور یہ لوگ اپنی اپنی بولیاں بول کر اس نور کے راستے میں روک بننا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ مہِ نور مے فشاندوسگاں بانگ مے زنند۔
حالانکہ انہوں نے کہا کہ دیکھئے! اس بیوی کے متعلق حضرت لکھتے ہیں:
’’کہ اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا‘‘۔
مگر جب قدرت الٰہی نے وہ دوسری بیوی جس کے متعلق ان لوگوں نے امیدیں لگائی ہوئی تھیں حضور کے نکاح میں لانی پسند نہ کی خواہ اس کے اسباب کچھ ہی ہوں تو کیا اس کے معنی یہ ہونگے؟ کہ اب مصلح موعود کا ظہور میں آنا ہی جاتا رہا اور وہ ساری پیشگوئیاں منسوخ ہو گئیں۔ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر بتلائو کہ وہ تحدّیاں کہاں جائیں گی اور پھر خدا تعالیٰ کا روشن چہرہ لوگوں کو نظر آنے کی بجائے لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ ہو جائے گا؟
جس طرح بشیر اوّل جس کے متعلق خیال کیا گیا تھا کہ وہ مصلح موعود ہوگا، مصلح موعود نہ تھا۔ اسی طرح کسی اور بیوی کا جب وجود ہی ظہور میں نہیں آیا تو اب کونسی بات حجاب کی رہی۔ یہ چمکدار نشان خود بخود پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آنے لگتا۔ خدا نے سب روکوں کو خود دور کر دیا۔ بشیر اوّل کے متعلق شبہ تھا مگر خدا تعالیٰ نے اس شبہ کو دور کرنے کیلئے اُسے واپس بلا لیا۔ پھر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کے متعلق بھی ایسا ہی خیال پیدا ہوا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صاحبزادہ مبارک احمد کو بھی واپس بلا لیا۔ پھر ایک شبہ یہ پیدا ہوا کہ شاید کسی اور بیوی سے پیدا ہوگا۔ وہ بیوی ہی حضور ؑکے گھر میں نہ آئی۔ اب اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اسی بیوی کے بطن سے اس کے زندہ رہنے والے بچوں میں اس مصلح موعود کو تلاش کریں۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کی نسبت فرمایا کہ اسے رمضان میںتلاش کرو۔ پھر فرمایا۔ آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ پھر فرمایا۔ آخری تین دنوں میںتلاش کرو۔ بالکل اسی طرح مصلح موعود کے ساتھ جو مشتبہات لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس لئے کہ مومنوں کے ایمان کی پرکھ ہو سکے۔ ورنہ بشیر اوّل کے بعد دیا جانے والا لڑکا جس کا نام محمود رکھا گیا جو مقامِ خلافت پر فائز ہوا۔ جیسے آپؑ نے دوسرے طریقِ انزالِ رحمت میں تحریر فرمایا تھا جو حسن و احسان میں آپ کی نظیر ہے جو روشنی ہے جس کی وجہ سے ظلمتیں دور ہو گئیں۔ حجاب پھٹ گیا اور اسلام کا نیرّ اعظم چمکتا ہوا ہمارے سروں پر آ گیا جو آپؑ کی نسل، آپؑ کی ذرّیت اور آپؑ کے تخم سے ہے۔ اس کے بعد جس قدر تاویلیں کی جا رہی ہیں سب غلط، جھوٹی اور بودی ہیں۔ اب دنیا میں کوئی محمدی بیگم نہیں مگر نصرت جہاں بیگم۔ اب دنیا میں کوئی ایسی عورت نہیں جو مصلح موعود کی ماں کہلائے مگر اُمُّ المؤمنین۔ اب کسی عورت کو یہ فخر حاصل نہ ہوگا کہ وہ مسیح موعود کے لئے نوروںکی تخمریزی کرنے والی اولاد پیدا کرے سوائے حضرت اُمُّ المؤمنین کے۔ اب کوئی عورت خدیجہ ثانیہ نہیں کہلائے گی۔ مگر یہی مومنوں کی ماں۔ پس کون ہے، اس کی شان کی مزاحمت کرنے والا! یہی وہ خاتون تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بطور ایک نعمت کے بھیجی تھی اور اس نعمت کا شکر کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس طرح میرے نزدیک مصلح موعود کا مسئلہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ الغرض آپ ان تمام صفات کے ساتھ ۱۲/ جنوری ۱۸۸۹؁ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت ہفتہ سے پہلی رات کو دس بارہ بجے ہوئی ۵۲؎ اور ماں اور باپ کی آنکھوں کا نور بن کر پروان چڑھتے رہے اور بالآخر اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ ۱۴/ مارچ ۱۹۱۴ء؁ کو جماعت احمدیہ کے امام منتخب ہوئے اور خلیفۃ المسیح ثانی مقرر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ حضور کی زندگی میں بڑی برکت عطا فرمائے اور سلسلہ کو آپ کے ہاتھ پر تمام برکتوں کا وارث بنائے۔ آمین
صاحبزادی شوکت
(۴)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح ثانی کی پیدائش کے بعد ۱۸۹۱ء؁ میں صاحبزادی شوکت پیدا ہوئی۔ اس صاحبزادی کی پیدائش بروز پیر ۴ بجے شام کے وقت ہوئی اور ۱۸۹۲ء؁ میں فوت ہوگئی۔ یہ معصوم صاحبزادی اس پیشگوئی کے موافق کہ ’’بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے‘‘۔۵۳؎ کم عمری میں فوت ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے
(۵)
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پانچویں اولاد حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب ایم۔ اے ہیں آپ کی ولادت باسعادت ۱۲/ اپریل ۱۸۹۳؁ء جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب ہوئی۔ آپ کی پیدائش اس پیشگوئی کے ماتحت ہوئی کہ:
’’اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلائے‘‘۔۵۴؎
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پیدائش سے قبل آپ نے کتابِ آئینہ کمالات اسلام میںایک پیشگوئی شائع کی تھی جو یوں ہے۔
یَوْمَ یَجِیْ ئُ الْحَقُّ وَیُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ- اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ وَلَا یَعْلَمُھَا اِلاَّ الْمُسْتَرْشِدُوْنَ نَرُدُّ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ وَنُبَدِّلَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِکَ اَمْنًا- یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَائِ وَاَمْرُکَ یَتَاتّٰی- یَسُرُّ اللّٰہُ وَجْھَکَ وَیُنِیْرُ بُرْھَانَکَ سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ- اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ- وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ- وَلَا تـیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ- اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ- قَدْ جَائَ وَقْتُ الْفَتْحِ والْفَتْحُ اَقْرَبُ- یَخِرُّوْنَ عَلٰی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ- لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیُوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ- اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ- نَجِّیُّ الْاسْرَارِ اِنَّا خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ یَوْمٍ مَوْعُودٍ-
’’یعنی اس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں۔ ہم پھر تجھ کو غالب کریںگے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کر دیں گے نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے بُرہان کو روشن کر دے گا۔ اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا۔ اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا۔ اور میرا نور نزدیک ہے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں؟ ان کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے۔ اس کے ایسے ہی کام ہیں۔ جس کو چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے اور میرے فضل سے نااُمید مت ہو۔ یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو۔ فتح کا وقت آ رہا ہے اور فتح قریب ہے۔ مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں میںگریںگے کہ ہمارے خدا! ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ جو نجیّ ُالاسرار ہے۔ ہم نے ایسے دن اس کو پیدا کیا جو وعدہ کا دن تھا‘‘۔۵۵؎
مذکورہ بالا وحی الٰہی دسمبر ۱۸۹۲ء؁ کی ہے۔ اس کے بعد جب ۲۰/ اپریل ۱۸۹۳؁ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پیدا ہوئے تو اسی تاریخ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار میں مندرجہ بالا پیشگوئی کے پورا ہونے کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں:
’’۲۰/ اپریل ۱۸۹۳؁ء سے چار مہینے پہلے صفحہ۲۶۶ آئینہ کمالاتِ اسلام میں بقیدِ تاریخ شائع ہو چکاہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور بیٹے کا اس عاجز سے وعدہ کیا ہے جو عنقریب پیدا ہوگا…… سو آج ۲۰/ اپریل ۱۸۹۳؁ء کو وہ پیشگوئی پوری ہوگئی‘‘۔ ۵۶؎
اس پیشگوئی میں قمر الانبیاء سے مراد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہیں۔ علاوہ اس پیشگوئی کے قمر الانبیاء کے متعلق ۱۰/دسمبر ۱۸۹۲ء؁ کو دوسری مرتبہ پیشگوئی فرمائی جو تذکرہ صفحہ۲۱۵ پر موجود ہے اور تیسری مرتبہ تذکرہ صفحہ۲۸۰ پر درج ہے۔
حقیقۃ الوحی صفحہ۲۱۷ پر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کو حضرت اقدس ؑ نے اپنا پینتیسواں نشان قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضور ؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’پینتیسواں نشان یہ ہے کہ پہلا لڑکا محمود احمد پیدا ہونے کے بعد میرے گھر میںایک اور لڑکا پیدا ہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی اور اس کا اشتہار بھی لوگوں میں شائع کیا گیا چنانچہ دوسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا‘‘۔
علاوہ ازیں مندرجہ ذیل رئویا اور الہام میں بھی آپ کا ذکر ہے۔ حضور ؑ نے ایک رئویا میں دیکھا کہ:
’’بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا‘‘۔ ۵۷؎
اس رئویا کے مطابق جنوری ۱۹۳۴؁ء میںایک زبردست زلزلہ علاقہ بہار (ہندوستان) میں آیا اور اس نشان کے ظہور کی اشاعت کا شرف بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ہی حاصل ہوا۔ چنانچہ آپ نے ایک رسالہ ’’ایک اور تازہ نشان‘‘ کے عنوان سے تصنیف کر کے شائع فرمایا:
حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی بچپن میں آنکھیں دکھتی رہتی تھیں۔ پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا۔ حضرت اقدس ؑ نے آپ کے لئے دعا کی تو الہام ہوا۔
’’بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ‘‘
یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اس سے قبل کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کئے گئے تھے مگر فائدہ نہ ہوتاتھا‘‘۔ ۵۸؎
ان الہامات سے آپ کی عظمت اور آپ کے مقام کا بآسانی پتہ چل سکتا ہے۔ آپ کا وجود سلسلہ کیلئے بڑا بابرکت ہے۔ سلسلہ کی اہم ترین نظارت تعلیم و تربیت کی نگرانی کا کام آپ کے سپرد سالہا سال رہا۔ آپ نے متعدد و اہم ترین کتابیں تصنیف فرمائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خلافت کے بعد اخبار الفضل کی ایڈیٹری کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ابتدائی زمانہ میں بچوں کی اعلیٰ تعلیم، ورزش اور اعلیٰ اخلاقی تربیت کیلئے جانفشانی سے کام کرتے رہے۔ مدرسہ احمدیہ کی ہیڈ ماسٹری، سالانہ جلسہ کی افسری اور اس طرح کی بے شمار خدمات آپ کے ذریعہ سے سرانجام ہوئیں۔ انگریزی ریویو کی ایڈیٹری کی خدمت بھی ایک عرصہ تک آپ کے سپرد رہی۔ الغرض آپ کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک منٹ خدمتِ سلسلہ کے لئے نہایت سرشاری سے لگا ہوا ہے۔ آپ نہایت معاملہ فہم، مدبر اور حکیم انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی میں برکت پر برکت ڈالے۔ آمین
حضرت مرزا شریف احمد صاحب
آپ کی پیدائش کی خبر آپؑ کو بذریعہ وحی الٰہی قبل از وقت دی گئی۔ اس پیشگوئی کے موافق آپ ۲۴/ مئی ۱۸۹۵؁ء مطابق ۲۷/ذیقعدہ ۱۳۱۲ ؁ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کا دن جمعرات تھا اور آپ بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے۔
(جنتری کی رُو سے یہ تاریخ ۲۴/ نہیں بنتی بلکہ ۲۳/ بنتی ہے کیونکہ جمعرات اور ۲۷/ ذیقعدہ ۲۳/ تاریخ کو ہی واقع ہوا تھا۔ محمود احمد عرفانی)
حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے لخت جگر ہیں۔ ان کی نسبت حضرت اقدس ؑنے حقیقۃ الوحی میں یوں تحریر فرمایا:
’’چھتیسواں نشان یہ ہے کہ بشیر احمد کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی۔ چنانچہ وہ بشارت بھی بذریعہ اشتہار لوگوںمیں شائع کی گئی۔ بعد اس کے تیسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام شریف احمد رکھا گیا‘‘۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نسبت بھی متعدد الہامات حضور ؑ شائع فرما چکے ہیں۔ جن میں سے بعض الہامات درج کرتا ہوں۔
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُـلَامٍ
’’یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں‘‘ ۵۹؎
پھر دوسری جگہ تحریر فرمایا:
’’ہمیں خدا تعالیٰ نے عبدالحق کی یا وہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گا جیسا کہ ہم اُسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کر چکے ہیں۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ اس الہام کے مطابق ۲۷/ذیقعدہ ۱۳۱۲؁ہجری میں مطابق ۲۴/ مئی ۱۸۹۵؁ء میں میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کانام شریف احمد رکھا گیا‘‘۔ ۶۰؎
’’جب یہ پیدا ہوا تھا اس وقت عالم کشف میں ایک ستارہ دیکھا تھا جس پر لکھا تھا۔ مُعَمَّرُ اللّٰہِ‘‘ ۶۱؎
حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ بادشاہ آیا دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے‘‘۔ ۶۲؎
فرمایا:
’’قاضی کو حَکم بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائیدِ حق کرے اور باطل کو رد کرے‘‘۔
ایک کشف
فرمایا: ۔
’’چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘‘۔ ۶۳؎
ایک دفعہ صاحبزادہ مرزا شریف احمد کی بیماری کی حالت میں حضرت اقدس ؑ کو حسب ذیل الہام ہوئے۔
۱۔ عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ
۲۔ اَمَّرُہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُعِ
۳۔ مُرَادُکَ حَاصِلٌ
۴۔ اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّھُوَاَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن ۶۴؎
ان الہامات سے حضرت میاں شریف احمد صاحب کے متعلق پوری روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنا بڑا مقامِ عزت دیا ہوا ہے۔
نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
حضرت اُمُّ المؤمنین کی ساتویںاولاد حضرتہ علیا صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم دام اقبالہا ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۸۹۷؁ء میں ہوئی۔ آپ منگل سے پہلی رات کے نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس آف مالیر کوٹلہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمائی تھی۔ نواب صاحب موصوف کی اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے احمدیت کے قبول کرنے میں پیش کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو حُجّۃ اللّٰہ کا معزز خطاب عطا فرمایا۔
نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسب ذیل الہامات ہیں:
’’سینتیسواں نشان یہ ہے کہ بعد اس کے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا تُنَشَّائُ فِیْ الْحِلْیَۃِ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی، نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا۔ اس کی پیدائش سے جب سات روز گذرے تو عین عقیقہ کے دن یہ خبر آئی کہ پنڈت لیکھرام پیشگوئی کے مطابق کسی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ تب ایک ہی وقت میں دو نشان پورے ہوئے‘‘۔۶۵؎
فرمایا:
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلمھا پنجابی زبان میں بول رہی ہے۔ کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی‘‘۔ ۶۶؎
حضرت مبارکہ بیگم کے متعلق الہام ہوا:
’’نواب مبارکہ بیگم‘‘۶۷؎
صاحبزادہ مبارک احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپؓ آٹھویں بچے تھے جو حضرت اُمُّ المؤمنین کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ ؓ کی پیدائش ۱۸۹۹ء؁ میں ہوئی اور آپؓ ۱۹۰۷ء؁ میں فوت ہوگئے۔ آپؓ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا خیال تھا کہ ممکن ہے کہ یہی وہ خاص لڑکا ہو کیونکہ ان کی پیدائش سے تین چار ہوگئے۔ آپؓ بدھ کے دن سہ پہر کو پیدا ہوئے۔ صاحبزادہ مبارک احمد کے متعلق ایک الہام یہ بھی تھا:
اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَاُصِیْبُہٗ
اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے اور جلد خدا کی طرف چلا جائے گا۔ پھر یہ بھی الہام ہوا تھا اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ حَالٍ-
صاحبزادہ مبارک احمد کی بیماری میں حضرت اقدس ؑ کی ساری توجہ اس کے علاج اور اس کی تیمار داری کی طرف لگی ہوئی تھی۔ مگر اس کی وفات پر حضرت اقدس ؑنے اور حضرت اُمُّ المؤمنین نے جو نمونہ صبر اور رضاء بالقضاء کا دکھایا اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک الہام تھا:
’’ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر‘‘۔ ۶۸؎
پھر کئی دفعہ الہام ہوا:
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَ کَمْ تَطْھِیْرًا‘‘ ۶۹؎
پھر اہل بیت کو مخاطب کر کے الہام ہوا:
یـٰاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ۷۰؎
یہ الہامات جو صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات سے قبل ہو رہے تھے ان کی دو غرضیں تھیں:
اوّل:اہلِ بیت کو اس حادثہ فاجعہ کیلئے تیار کرنا تھا۔ اور ان سے ایک قسم کی ہمدردی اور تعزیت کرنا مقصود تھا۔
دوسرے: اس واقعہ سے اہل بیت کے مدارج بلند کرنا مقصود تھا۔
یہ ایسی بات تھی کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد کی وفات سے قبل الطارق و ما الطارق کا الہام نازل ہوا اور اس میں اس حادثہ کی طرف اشارہ کر کے آپؑ سے تعزیت کی گئی تھی۔
انما یرید عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا کا الہام چار مرتبہ ہوا۔ حضرت اقدس ؑ نے جو اس وقت تقریر فرمائی اس میں اس الہام کا ذکر فرمایا اور فرمایا:
’’کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے یہ بڑا تطہیر کا موقعہ ہے۔ انکو بڑے بڑے تعلقات ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے رنج بہت ہوتا ہے‘‘۔
بعض ایسے لوگوں نے جن کی طبائع میں مَیل اور کجی تھی، انہوں نے اس الہام کے یہ معنی کئے کہ خدا تعالیٰ تو تم کو رجس سے پاک کرنا چاہتا ہے مگر تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ تم اس کے اہل نہیں۔ کس قدر ظلم ہے کس قدر بددیانتی ہے۔ کس قدر بے حیائی ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے وہ معنی کئے جائیں جو محض خدا کی مخلوق کو دھوکہ دینے کا باعث ہوں اور دین الٰہی سے دور لے جانے کا باعث ہوں۔ خدا کا رسول ؑ تو یہ معنی کرے کہ ماں کے قلب میں جو بچوں کی محبت ہوتی ہے وہ اس مقام کے لحاظ سے جو خدا تعالیٰ سے صفائی، عشق، طہارت، پاکیزگی کی وجہ سے انبیاء اور ان کے اہلبیت کو حاصل ہوتا ہے کہ اس میں اولاد کی محبت کا غلبہ بھی رجس ٹھہر جاتا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو اپنے اس مقامِ رضاء پر دیکھے جس مقام پر حضرت مسیح موعود ؑ خود کھڑے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام تو یہ تھا کہ مبارک احمد فوت ہوتا ہے، لوگ روتے ہیں، غمگین ہوتے ہیں، آپ ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’مَیں اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی‘‘
یہ تھا اس زمانے کا راستباز نبی ؑ، جو بیٹے کے مرنے پر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بڑاخوش ہوںکہ خدا کی بات پوری ہوئی۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اس امتحان میں پوری اُتریں
مبارک احمد کی بیماری میں ماں کا دل تھا کہ گھبرا اُٹھا کرتا تھا۔ تو حضرت اقدس ؑ فرمایا کرتے تھے کہ آخر نتیجہ موت ہی ہونا ہے یا کچھ اور، اور فرماتے کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ امتحان بھی آیا کرتے ہیں۔
جب مبارک احمد کی وفات ہوئی تو حضرت اُمُّ المؤمنین کی زبان سے پہلا کلمہ یہ نکلا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کوئی نعرہ نہیں مارا، کوئی چیخیں نہیں ماریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس بات کی مجھے بڑی خوشی ہوئی‘‘۔
یہ رضاء بالقضاء کا مقام تھا۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی خدیجہ فائز تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس وقت فرمایا:
’’مَیں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں‘‘۔
جب اس طرح آپؑ نے اس امتحان کو قبول کر لیا تو آسمان پر حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس امتحان کا ریزلٹ بذریعہ وحی الٰہی نازل ہوا۔
’’خدا خوش ہو گیا!‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الہام جب حضرت اُمُّ المؤمنین کو سنایا تو آپ نے فرمایا:
’’مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو مَیں پرواہ نہ کرتی‘‘۔
لوگو! اٹھو اپنے ہاتھ میں چراغ لے لو۔ بجلی کی بیٹریاں پکڑ لو اور اگر ممکن ہو تو بجلی کا کوئی سورج چڑھا لو اور دنیا کاکونہ کونہ چھان مارو اور ڈھونڈو، اس ماں کو جو اپنے دو ہزار فرزند کی موت کو خدا کی رضاء کے مقابل بالکل ہیچ جاننے والی ہو کیا ہر گھر میں عورتیں نہیں؟ اور کیا ہر گھر میں مائیں نہیں؟ کیا ہم میں سے ہر شخص عورت کی اس فطرت کو جو اُم الحنون اور شفقتِ مادری کے پیچھے چھپی ہوئی ہے، نہیں جانتے؟ کیا ہم نے بارہا نہیں دیکھا کہ ایک عورت ایسے بچے کو جو بالکل لنگور یا بندر سے ملتا جلتا ہوتا ہے اور جسے سوکے یعنی سوکھ جانے کی بیماری ہو، جس پر مکھیاں بھنبھناتی ہوں لئے پھرتی ہے اور اس کی شفقت اور محبت میں ذرا فرق نہیں آتا۔
کیا اپنے بچوں کے غم میں عورتیں صدہا قسم کے دکھوں اور مرضوں میں مبتلا نہیں ہو جاتیں؟ کیا بعض ان میں سے پاگل نہیں ہو جاتیں؟ یہ سب محبت مادری کے کرشمے ہیں۔
مگر اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کے قلب میں تو ہر جگہ، ہر کونہ اور ہر گوشہ میں خدا ہی خدا بستا تھا۔ اس نے خدا کی رضاء کو ہر چیز پر قبول کر لیا۔ یہ تھی وہ حسینی رُوح جو آپ کے اندر موجود تھی اور یہ تھی وہ صفائیِ قلب جو آپ کو حاصل تھی۔ اس لحاظ سے اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم عصرِ حاضر کی سب سے بڑی باخدا خاتون ہیں! اور یہی وہ خاتون ہیں جن کے قلب سے ہر قسم کے غیر اللہ کی محبت سلب کر لی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر مطہر کر دیاتھا اور یہی تھیں وہ خدیجہ عصرِ حاضر جسے خدا نے فرمایا کہ مَیں خوش ہو گیا! اب بتلائو، ان ظالموں کیلئے کوئی جگہ باقی رہ جاتی ہے جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی ان فطری استعدادوں پر اعتراض کرتے ہیں، جو آپ کے اندر موعود اولاد کے لئے ودیعت کی گئی تھیں؟ یہ خدا تعالیٰ کا قولی جواب ہے اور آپ کی اولاد کا ان تمام برکات کا وارث ہو جانا جو خدا نے اپنی پاک وحی کے ذریعے دیئے جانے کا وعدہ کیا تھا خدا تعالیٰ کا فعلی جواب ہے۔ اس کے باوجود جو شخص کسی قسم کی جرأت و جسارت کرتا ہے یا کرے گا وہ اپنے انجام کا خود ذمہ وار ہے۔
حضرت اقدس ؑ نے مبارک احمد کی وفات پر یہ تین شعر لکھے تھے جو اب تک لوحِ مزار بنے ہوئے ہیں۔
جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن
کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر
برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
صاحبزادی امۃ النصیر
صاحبزادی امۃ النصیر آپ کی نویں اولاد تھیں۔ آپ ۱۹۰۳؁ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پیدائش پر آپؑ کو الہام ہوا تھا۔ ’’غَاسِقُ اللّٰہِ‘‘
چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت ہے کہ:
’’جس رات امۃ النصیر پیدا ہوئی ہے حضرت صاحبؑ خود مولوی محمد احسن صاحبؑ کے کمرے کے دروازے پر آئے اور دستک دی۔ مولوی محمد احسن نے پوچھا کون ہے؟ حضرت نے فرمایا ’’غلام احمد‘‘ (علیہ السلام) مولوی صاحب نے جھٹ اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت نے جواب دیا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اس کے متعلق مجھے الہام ہوا ہے کہ غاسق اللّٰہ۔… غاسق اللّٰہ سے مراد یہ ہے کہ جلد فوت ہو جانے والا‘‘۔۷۱؎
چنانچہ چند ماہ بعد یہ صاحبزادی فوت ہوگئی۔
صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ
صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ ۱۹۰۴ء؁ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی پیدائش پیر سے پہلی رات کو عشاء کے بعد ہوئی۔ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا۔ ’’دُختِ کرام‘‘۔ یہ الہام الحکم اور بدر میں چھپا ہوا موجود ہے۔ حقیقۃ الوحی میں آپؑ نے اس نشان کو چالیسواں نشان قرار دیا ہے۔ ۷۲؎
صاحبزادی صاحبہ کی شادی خان محمد عبداللہ خان صاحب آف مالیر کوٹلہ سے ہوئی اور آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صاحبِ اولاد ہیں اور ہر طرح سے فارغ البال ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی اور عمر میں برکت دے۔ آمین
اس طرح سے کل دس اولادیں ہوئیں جن میں سے پانچ اللہ تعالیٰ نے چھوٹی عمر میں حسب پیشگوئی واپس بلا لیں۔ جن کے نام حسب ذیل ہیں۔
عصمت، بشیر اوّل، شوکت، مبارک احمد، امۃ النصیر اور جن پانچ کو خدا تعالیٰ نے ان نوروں کی تخمریزی کے لئے لمبی عمریں عطا فرمائیں ان کے اسماء حسبِ ذیل ہیں۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ثانی، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت نواب سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ۔ ان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہیں
یہی ہیں پنج تن جن پر بناء ہے
عام طور پر لوگوں میں اس شعر کے متعلق یہی مشہور ہے کہ اس شعر کی مصداق موجودہ پانچوں اولادیں ہیں۔ مگر حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن جنہوں نے از راہِ شفقت و کرم بڑی توجہ سے میری اس کتاب کو دیکھا اور مناسب اصلاح فرمائی ہے، نے اس تاریخی غلطی کی اصلاح فرمائی ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ یہ شعر صاحبزادی امۃ الحفیظ کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ یعنی ۱۹۰۴ء؁ کا ہے۔ اس میں پانچویں ممبر صاحبزادہ مبارک احمد صاحب ہیں۔
چنانچہ مَیں اس تاریخی غلطی کی اصلاح کرتا ہوں کہ چونکہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات ہوگئی اور اس کے بعد بھی پانچ اولادیںرہیں اس لئے اس تاریخی حقیقت کے باوجود بھی اگر اس شعر کو آج بھی استعمال کر لیا جائے تو کوئی حرج نہ ہوگا۔ جب تک صاحبزادہ مبارک احمد زندہ رہے وہ اس پنج تن میں شامل رہے۔ اور ان کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے پانچ کا وجود قائم رکھا اس لئے ہم اس مفہوم کیلئے اس شعر کو استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ سب کے سب خدا کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی خدمت اور تائید کے لئے پیدا کئے گئے اور یہ سب اور ان کی اولادیں اس کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اور تربیت اولاد
یہ ایک نہایت اہم مضمون ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین تربیت کس طرح فرماتی تھیں۔ ہر شخص کو اپنے گھر میں تربیتِ اولاد کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ اس کتاب میں اس موضوع کی ضرور تلاش کرے گا۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم بیان حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ہے جو آپ نے اس کتاب کے لئے لکھ کر مجھے مرحمت فرمایا۔ آپ تحریر فرماتی ہیں:
’’اصولی تربیت میں مَیں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔ آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی (بجز معمولی اُردو خواندگی کے) مگر جو آپ کے اصولِ اخلاق و تربیت ہیںان کو دیکھ کر مَیں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیحؑ کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟
’’۱۔ بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصولِ تربیت ہے۔
’’۲۔ جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اوّل سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے۔ پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ جس وقت بھی روکا جائے گا باز آ جائیگا اور اصلاح ہو جائے گی۔ فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے۔ یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔
’’حضرت اُمُّ المؤمنین ہمیشہ فرماتی تھیں کہ ’’میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے‘‘ اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔
’’مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔ پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس ؑکے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپؑ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی۔ بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ ’’پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگائو دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔
یہ کیسے زرّیں اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے واقعی بچوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اب گنجائش نہیں کہ ان زرّیں اصولوںکی کوئی مزید تشریح کی جائے۔ احباب خود اپنی اپنی جگہ فائدہ اٹھا لیں۔
استانی سکینۃ النساء بیگم تحریر فرماتی ہیں:
’’تربیت اولاد کا حضرت اُمُّ المؤمنین کو خاص ملکہ ہے۔ آپ کی اولاد میں سے ایک تو روشن چاند خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہیں۔ مجھ ایسی ناچیز کو کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ دنیا جہان پر روشن ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے، حضرت مرزا شریف احمد صاحب نہایت صالح نہایت نیک اخلاق، سارے جہان پر ان کے علم و فضل اور حسن و احسان کا شہرہ ہے۔ ماشاء اللہ نواب مبارکہ بیگم اور صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم دونوں باوقار، صالحہ، بے حد متقی، عالمہ، فاضلہ، باعزت، باعصمت، خوش اخلاق، سچائی پسند، برائیوں سے دور لوگوں سے بھلائی کرنے والی ہیں۔ یعنی اگر مجموعہ حسن و خوبی دیکھنا ہو تو اماں جان کی اولاد کو دیکھو۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے نرمی اور سختی سے بھی بارہا یہ بات بیان فرمائی ہے کہ جھوٹ بولنا اور مبالغہ آمیز بات کرنا کبیرہ گناہ ہے‘‘۔
تربیت اولاد کے سلسلہ میں چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار اوکاڑہ نے ایک روایت لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وصال کے بعد غالباً ۱۹۰۹ء ؁میں حضرت اُمُّ المؤمنین سارے کنبہ سمیت دہلی تشریف لے گئی تھیں۔ اس سال حضرت خلیفۃ المسیح ثانی جو اس وقت ابھی صاحبزادہ صاحب ہی کہلاتے تھے، کا لیکچر بھی دہلی میں جامع مسجد کے پاس ہوا تھا جس کی صدارت خواجہ حسن نظامی صاحب نے کی تھی۔ اس وقت چوہدری صاحب محکمہ بندوبست کے انگریزی دفتر میں سیکنڈ کلرک تھے اور حضرت میر قاسم علی صاحب مرحوم بھی نائب ناظر تھے اور یہ دونوں صاحب دریا گنج کے مکان میں اکٹھے رہا کرتے تھے۔ وہیں خاندان مسیح موعود علیہ السلام ان ایام میں قیام پذیر ہوا تو حضرت میر صاحبؓ کی زبانی یہ امر معلوم ہوا کہ:
’’حضرت اُمُّ المؤمنین اپنے بچوں، بہو، بیٹیوں کی عبادات وغیرہ کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرماتی ہیں۔ نماز تہجدکا خاص اہتمام فرماتی ہیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتی ہیں‘‘۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت اپنے خدام سے
یہاں مَیں چند روایات بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ یہ روایات میری درخواست پر سلسلہ کے مردوں، عورتوں کی طرف سے موصول ہوئی ہیں۔ان روایات کو مَیں نمبر دے کر درج کرتا ہوں تا کہ ان بہت سی روایات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جو میرے پاس درج کرنے کیلئے موصول ہو چکی ہیں۔
(۱)
بیگم صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت کے متعلق لکھا کہ:
’’۱۹۱۷ء؁ کے جلسہ میں مَیں سیٹھ صاحب کے ہمراہ قادیان گئی۔ اُس وقت میری پیاری بچی … زینب گود میں تھی۔ ہم کو وہاں اماں جان کی زیارت نصیب ہوئی۔ حضرت اماں جان نے ہمارے ساتھ نہایت شفقت کا سلوک فرمایا جسے مَیں کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ نے ہمارے لئے حضرت مریم صدیقہ صاحبہ کے کمرے کے ساتھ جنوبی جانب کا کمرہ خالی کرا دیا۔ میری بچی کی آیا بیمار ہوگئی تھی۔ اماں جان کو جب یہ معلوم ہوا تو فوراً دو لڑکیوں کو میرے پاس کام کیلئے بھیج دیا۔ اماں جان ہمارا، ہمارے زمانہ قیام میں ہر طرح خیال رکھتی رہیں اور ہماری ہر طرح دلداری فرماتی رہیں۔ ہم اپنی مخدومہ کے ان اخلاق پر بڑے حیران ہو رہے تھے‘‘۔
(۲)
محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب لکھتی ہیں:
’’۱۹۴۲ء؁ کے سالانہ جلسہ پر مَیں بھی اپنے والدین کے ساتھ قادیان گئی۔ ہم اماں جان کے مہمان ہوئے۔ آپ ان ایام میں بہت مصروف الوقت ہوتی ہیں۔ ہزار ہا عورتیں آپ کی زیارت کے لئے آتی ہیں۔ اس مصروفیت کے علاوہ اماں جان کی اپنی طبیعت بھی ناساز تھی مگر ان دونوں باتوںکے باوجود اماں جان ہمارا پورا پورا خیال رکھتی تھیں۔
’’میری والدہ صاحبہ تھکان سے بیمار ہو گئیں تو اماں جان نے اُن کے لئے دوا کا انتظام فرمایا اور بار بار ان کی صحت کا حال دریافت فرماتیں۔ کھانے کے وقت اماں جان ہم کو اپنے پاس بلا بھیجتیں۔ ہم کو کھانے میں شریک فرماتیں اور ساتھ ساتھ اپنے بچپن کے زمانے کی باتیں سناتیں۔ آپ کے اندر بڑا جذب اور بڑی کشش ہے۔ آپ جب بلاتیں تو مجھے ’’پیاری بٹیا‘‘ کہہ کر بلاتیں۔ آپ کی محبت اور شفقت تو ایسی ہے کہ مَیں نے کہیں دیکھی ہی نہیں۔ اپنے پیارے اور متبرک ہاتھوں سے کھانا ڈال کر دیتیں۔ گرم گرم روٹی میں گھی اور گڑ ڈال کر اس کو مَل کو نوالہ بنا کر دیتیں۔ سبحان اللہ! یہ اخلاق تو سوائے اماں جان کے اور کسی کے نہ ہونگے۔ اماں جان خود بہت ہی کم خوراک تناول فرماتی ہیں۔
’’اس سفر میں ہمارا سامان ریل میں دہلی کے سٹیشن پر رہ گیا۔ اس لئے ہم کو بڑی تکلیف ہوگئی۔ کپڑے بہت میلے کچیلے ہو گئے۔ اس لئے میں شرم کے مارے ہر وقت برقع پہنے رہتی تو اماں جان نے وجہ دریافت فرمائی جب ان کو سامان پیچھے رہ جانے کا علم ہوا تو بہت رنج ہوا اور سامان ملنے کے لئے دعا فرمانے لگیں۔
’’دو دن بعد سامان آ گیا اور ہم نے کپڑے بدلے تو اماں جان نے ہم کو مبارکباد دی۔ میری پیٹھ پر تھپکی دے کر فرمایا۔
’میں اپنی پیاری بیٹی کے لئے اُٹھتی بیٹھتی دعاکرتی تھی‘۔
’’جلسہ کے دوسرے دن اماں جان کے سردرد ہو رہی تھی ھم کچھ عورتیں حلقہ بناکراماں جان کے گرد بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک خادمہ نے آ کر کہا کہ اماں جان! باہر صحن میں بہت سی بیبیاںزیارت کے لئے بیٹھی ہیں۔ آپ اسی وقت ان کو ملنے کے لئے باہر تشریف لے گئیں ہر ایک سے بات کی اس کی حالت دریافت کی۔ شرفِ مصافحہ بخشا۔
اماں جان نے ہمارے ساتھ اس قدر شفقت کا برتاؤ کیا کہ واپسی پر ہمارے لئے اپنے ہاتھ سے توشہ تیار کر کے دیا۔ ہمارے سامان کی گنِتی فرمائی اور اپنی دعاؤں کے ساتھ ہم کو رخصت کیا۔ ہم یہ تبرک سکندر آباد تک ساتھ لائے‘‘۔
(۳)
سیٹھ یوسف الہ دین صاحب لکھتے ہیں:
’’کہ جب میں قادیان میں تعلیم حاصل کر رہاتھا تو میں بچہ ہی تھا۔ حضرت اماں جان کے پاس میں زیارت کے لئے جایا کرتا تھا۔ حضرت اماں جان مجھ سے اس طرح سلوک فرماتیں‘ جس طرح ایک حقیقی ماں اپنے بچے سے سلوک کرتی ہے۔ آپ گھنٹوں مجھے اپنے پاس بٹھائے رکھتیں کھانے کا وقت ہوتا تو کھانا کھلاتیں۔ آپ ایسے طرز اور شفقت سے باتیں فرماتیںکہ جس سے میری گھر اور والدین سے دوری کی وجہ سے گھبراہٹ اور بے چینی دور ہو جاتی اور گھر اور والدین کی یاد بھول جاتی۔ میرے ساتھ ایک اور لڑکا محمد اسحاق جو منٹگمری کا تھا جایا کرتا تھا۔ اماں جان کا اس سے بھی یہی سلوک تھا‘‘۔
(۴)
محترمہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر بی۔اے واقفِ تحریک جدید و بنت حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدرآباد تحریر فرماتی ہیں:
۱۔’’دو سال قبل میں سخت بیمار ہو گئی تھی۔ مگر حضرت امیرالمومنین اور خاندان مسیح موعود کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دے دی۔ صحت کے بعد میں جب سالانہ جلسہ پر آئی اور حضرت اماں جان سے ملنے گئی تو اس وقت حضرت اماں جان پلنگ پر آرام فرما رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر ہمہ شفقت اماں اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ مسرت سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اُٹھا اور فرمانے لگیںکہ:
’خدایا شکر ہے میں نے حفیظ کو زندہ دیکھ لیا‘۔
یہ ہے اس شفقت کا ایک ادنیٰ کرشمہ جو اپنے خدام سے ہمیشہ روا رکھتی ہیں‘‘۔
۲۔’’میں نے ایک دفعہ حضرت اماں جان سے عرض کی کہ اماں جان میری انگوٹھی پر دعا کر دیں۔ آپ نے میری اس درخواست پر نہایت شفقت سے اس انگوٹھی کو لے لیا اور فرمایا کہ میں رات کو اچھی طرح اس پر دعا کروں گی یہ کہہ کر انگوٹھی اپنی انگلی مبارک میں پہن لی اور رات کو دعا فرما کر صبح کو ملازمہ کے ہاتھ میرے مکان پر بھیج دی‘‘۔
(۵)
والدہ صاحبہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب قادیان جو جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی حرم محترم ہیں نے تحریر فرمایا:
’’حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلّہا العالی کے مبارک قدموں میں رہتے ہوئے اس عاجزہ کو ۲۵ سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس عرصہ میں مَیں نے ہمیشہ ہی ان کو ماؤں کی طرح شفقت کرتے ہوئے پایا۔ شروع شروع میں وطن چھوڑنے کی وجہ سے میری طبیعت بہت اُداس رہتی تھی۔ پریشانی کی حالت میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میںحاضر ہو جایاکرتی اور جب میں وہاں جاتی تو مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ میں نئی دنیا میں آ گئی ہوں اور مجھے وہ نعمت حاصل ہو گئی جس کے آگے تمام نعمتیں ہیچ ہیں کچھ عرصہ بیٹھ کر گھر واپس آ جاتی اور دلی سکون و اطمینان حاصل ہو جانے کی وجہ سے اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ کبھی میرا چہرہ دیکھ کر اماں جان پہچان لیتیں اور فرماتیں کیوں پریشان کیوں ہو‘‘۔
(۶)
محترمہ امۃ الحی صاحبہ بنت جناب سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد دکن لکھتی ہیں:
’’میں پہلی مرتبہ ۱۹۳۳؁ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان آئی اور یہی میرا پہلا قادیان کا سفر تھا اور اس موقع پر میں نے حضرت اماں جان کی پہلی مرتبہ زیارت کی۔ اس سال ہم اپنی والدہ مرحومہ کا جنازہ بھی لے کر گئے تھے۔
’’دوسرے دن ہم حضرت اماں جان سے ملنے گئیں۔ شام کا وقت تھا سردی کافی تھی۔ حیدرآباد دکن میں سردی کم پڑتی ہے۔ اس لئے عام طور پر ٹھنڈے کپڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اماں جان نے مجھے جالی کاکرتہ پہنے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
’لڑکی! تم کم از کم انگیٹھی کے پاس ہی بیٹھ جاؤ۔ ان دنوں نمونیہ ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے خوب گرم رہا کرو‘۔
’’۱۹۳۹؁ء کے جلسہ سالانہ پر ہم پھر قادیان گئے۔ ان ایام میں صاحبزادی امۃ القیوم کی شادی کی تقریب ہونے والی تھی۔ اس لئے میںاور میری باجی امۃ الحفیظ بیگم وہاں چھ ماہ تک حضرت اُم طاہر احمد صاحب کے مکان میں مقیم رہیں۔ اس لئے ہم کو خاندان کے ہر فرد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
’’وہ دن ہمارے لئے بڑے ہی ایمان پرور اور روح افزاء تھے۔ ہم ہر روز حضرت اماںجان کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے۔ آپ ہم سے حیدرآباد کے تمدن، وہاں کے لوگوں کے اخلاق، عادات، دینی حالات، رسم و رواج کے متعلق پوچھا کرتی تھیں۔ آپ اکثر مغرب کے وقت تشریف لایا کرتیں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ پھولوں کے ہار گلے میں ہوتے اور ایک دو اپنے ہاتھ میں وہ ہار آپ باجی قیوم کو پہناتیں۔
’’ایک دن حضرت آپا جان (اُم طاہر) نے اماں جان سے آپ کے گلے کا ہار تبرکاً مانگا۔ اس وقت میں بھی وہاں کھڑی تھی۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ازراہِ شفقت ایک ہار مجھے بھی مرحمت فرما دیا۔ وہ ہار! وہ انمول ہار!! جس کی قیمت کا اندازہ نہیں وہ آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ ہے اماں جان کی شفقت اپنے خدام کے ساتھ۔
’’آپ کی شفقت کی باتیں تو گنی نہیں جا سکتیں۔ جب میں قادیان سے آنے لگی۔ تو میں آپ سے ملنے گئی۔ آپ نے دعا دی فرمایا:
’اچھا جاؤ۔ خداتمہارا حافظ و ناصر ہو۔ خدا تمہیں خیریت سے اپنے گھر پہنچائے۔ اپنے ابا کو میرا سلام کہنا‘۔
’’پھر جب میں چلنے لگی تو فرمایا کہ ۔ ’کیا گلے نہیں ملو گی‘ آپ اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھیں۔ آپ کے اس فقرے نے میرے اندر رقت بھر دی اور میں چشم پُرآب ہو کر آپ کے گلے سے لپٹ گئی۔ آپ نے بڑی دیر تک مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ میں اس وقت دنیا کی تمام راحتوں سے ہم آغوش تھی۔ مجھے سارے دکھ اور درد بھول گئے۔ اور بارہ سال کے بعد مجھے پھر ایک بار اپنی ماں کی کھوئی ہوئی محبت اور شفت آپ کے سینے سے لگ کر محسوس ہو رہی تھی۔‘‘
(۷)
مولوی محمد الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ تہال گجرات لکھتے ہیں:
’’میری پہلی بیوی جو ڈاکٹر محمد احمد و سلطان احمد سلمھا اللہ تعالیٰ آف عدن کی والدہ تھیں بڑی ہی نیک خاتون تھیں۔ ان کے بطن سے میرے دو بچے جن میں سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھے ایک ہی دن میں بخار اور خسرہ سے فوت ہو گئے۔ اس نیک بی بی نے نہایت ہی قابلِ تقلید نمونہ دکھلایا اور قطعاً جزع فزع نہ کی۔ بلکہ تسبیح و تحمید میں لگی رہی۔ ایک طر ف تو اس کی یہ حالت تھی دوسری طرف وہ بیعت بھی نہ کرتی تھیں۔
’’بالآخر میں نے آخری علاج یہ سوچا کہ اسے قادیان لے آیا۔ دارالمسیح میں ٹھہرایا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے جب میری بیوی کے دو عزیز بچوں کے ایک وقت انتقال کا سنا تو آپ نے اس قدر شفقت اور محبت کا برتاؤ کیا اور اس قدر تسلی دی کہ جس سے اس کو بہت اطمینان حاصل ہوا اور وہ اپنے گھر جا کر بھی حضرت اُمُّ المؤمنین کے محبت بھرے کلمات اور پُر از محبت ملفوظات کا ذکر کرتی تھیں۔
’’انہوں نے بارہا کہا کہ حضرت اماں جان تو سگی والدہ سے بھی بڑھ کر سلوک کرتی ہیں۔ آپ کی اس صحبت نے اور اس احسان اور شفقت نے ان کی طبیعت کو بدل دیا اور انہوں نے احمدیت کو قبول کر لیا۔ یہ اماں جان کی شفقت اور ہمدردی کا ہی نتیجہ تھا‘‘۔
(۸)
حضرت اُمُّ المؤمنین کی قیدیوں پر شفقت
محترم جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:
۱۔’’غالباً ۱۹۱۶ء؁ کا واقعہ ہے کہ حضرت ممدوحہ پٹیالہ تشریف لے گئیں۔ حضور کی آمد سے ہر احمدی فرد مرد ہو یا عورت دلی مسرت سے پُر ہو گیا اور اکثر مردوزن حضور کی خدمت کے لئے کمربستہ نظر آتے تھے۔ حضور کے چند روزہ قیام سے جماعت کو بے حد خوشی حاصل ہوئی۔
’’انہی دنوں میں حضرت ممدوحہ نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا یہاں کی جیل کے قیدیوں کو ہماری طرف سے عمدہ قسم کا کھانا کھلانے کی اجازت مل سکتی ہے؟ خاکسار نے سول سرجن صاحب کے ذریعہ جو میرے افسر تھے اور جیل کے بھی بڑے ڈاکٹر تھے کوشش کی اور کھانا کھلانے کی اجازت حاصل کر کے عرض کی کہ مل سکتی ہے۔ تب حضور نے پچاس روپے کی رقم مجھے دی۔اس طرح پر قیدیوں کو عمدہ قسم کا کھانا کھلوایا گیا۔
’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ممدوحہ کا قلب مخلوق خدا کی محبت اور ہمدردی سے پُر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر چھوٹا بڑا حضور کی آمد سے خوش ہوا اور حضرت ممدوحہ نے ہمدردی خلق کے جذبہ کو پورا کرنے کے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک معقول رقم قیدیوں کو کھانا کھلانے کے لئے عطا کی۔ اور یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا پر عمل کرتے ہوئے محبت الٰہی کا ثبوت بھی بہم پہنچایا۔‘‘
۲۔’’حضور کے قرب میں رہتے ہوئے ۲۵ سال کا عرصہ خاکسار کو گذر گیا ہے۔ حضورکو ہمیشہ خدا ترس،خدا پرست اور خداکے حضور دعائیں کرنے والا پایا۔‘‘
۳۔’’ حضور کی یہ صفت خاص دیکھنے میں آئی کہ اگر کبھی کوئی کھانے کی چیز خواہ کتنی ہی چھوٹی سے چھوٹی ہو حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تو نہایت خندہ پیشانی اور تشکر کے رنگ میں اسے قبول کیا اور بسااوقات اسی برتن میں اپنی طرف سے کوئی دوسری چیز بطور تحفہ ڈال دی۔ برتن کو بحفاظت واپس بھجوانے کی خاص صفت حضور کے اندر پائی گئی۔‘‘
۴۔’’ میری معرفت کئی بار حضرت ممدوحہ نے دوائیں یا اور چیزیںقیمتاً منگوائیں میں نے ہمیشہ دیکھا کہ ان کی قیمت بلا توقف حضور نے ادا فرما دی اور ایسامعلوم ہوتا تھا کہ گویا قیمت ادا کرنے کی تاک میں بیٹھی ہیں۔‘‘
۵۔ ’’بطور خادم قُرب میں رہتے کئی دفعہ ایسے مواقع آئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ حضرت ممدوحہ مجھ سے ناراض نہ ہو گئی ہوں اور دل فکر مند ہوا۔ لیکن میرا یہ خیال ہمیشہ ہی غلط نکلا اور حضور کو ہمیشہ ہی مشفق اور محسن پایا‘‘۔
اللہ تعالیٰ حضور کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور دین اور دنیا کے بہترین حسنات نصیب کرے اور حضور کی اولاد اور دَر اولاد اور دَراولادکو بھی دین اور دنیا کے حسنات نصیب فرمائے اور ہم عاجزوں کو بھی حضور کا ایسا قُرب میسر رکھے کہ کوئی جدائی اس میں نہ ہو۔ جس طرح وہ پیارے محمود کی پیاری والدہ ہیں ہماری بھی پیاری والدہ بنی رہیں‘‘۔
(۹)
محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ بنت جناب سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد (دکن) سے اماں جان کی شفقت کے متعلق روایت بیان کرتی ہیں کہ:
یہ عاجزہ راقمہ اپنے بچپن سے حضرت اُمُّ المؤمنین مدّظلہا العالی کو حضرت اماں جان کے نام سے موسوم سنا کرتی تھی۔ ۱۹۱۸ء؁ کے جلسہ سالانہ پر حضرت اماں جان سے مجھے شرف نیاز حاصل ہوا ۔ میں نے فی الحقیقت حضرت اماں جان کو کیا بلحاظ شفقت و محبت اور کیا بلحاظ ہمدردی ، خلوصِ دل و عنایات و احسان سے اسم بامسمّٰی پایا۔ آپ کو ہر نیک سے نیک اور پیاری سے پیاری صفت سے متصف پایا۔
’’میری والدہ مرحومہ کو فوت ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر اس دوران میں ہر دو تین سال کے بعد اماں جان کی شفقت مادرانہ نے میرے غمگین دل کو ماں جیسی خوشیوں اور راحتوں سے بھر دیا۔ جب کبھی بھی اماں جان سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔ آپ نے ہر بڑے چھوٹے کا حال دریافت فرمایا اور معمولی سے معمولی باتیں اس طرح دریافت فرمائیں۔ گویا ایک شفیق ماں مدتوں کی بچھڑی ہوئی بیٹی سے حال پوچھتی ہے۔ یہ آپ کی شفقت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔
(۱) ’’۱۹۳۶؁ء یا ۱۹۳۷؁ء میں جلسہ سالانہ پر ایک دفعہ حاضر ہوئی۔ اس وقت اماں جان کی خدمت میں خاندان کی بیگمات کے سوا دوسری عورتیں بھی موجود تھیں۔ میرا پہلا لڑکا پیدائشی طور پر بصارت اور سماعت اور چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس کے بعد متواتر پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جب حضرت اماں جان کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کے دل میں میرے لئے شفقت پیدا ہوئی۔ آپ نے اس بچے کا حال دریافت فرمایا اور پھر فرمایا:
’اللہ تعالیٰ تم کو اب کی دفعہ خادمِ دین لڑکا عطا فرمائے‘۔
پھر جو خواتین موجود تھیں ان سے فرمایا:
’اس بیچاری کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو لڑکا دے‘۔
چنانچہ آپ کی دعاؤں کے طفیل چھ ماہ کے بعد ہی میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کا نام منور احمد تجویز فرمایا: یہ تھی حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت اور یہ تھا حضرت اُمُّ المؤمنین کی دعا کا اثر۔ جس نے میرے دل کو روشن اور منور کر دیا۔‘‘
(۲) ’’۱۹۴۲؁ء میںمیری بڑی لڑکی امۃ الرشید بعارضہ ٹائیفائڈ سخت بیمار ہو گئی۔ حالت خطرناک تھی۔ یہ بیماری مسلسل چارہ ماہ تک رہی ۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی اپنی طبیعت بھی ان دنوں ناساز رہتی تھی۔ لیکن باوجود اپنی ناسازی طبیعت کے آپ ہفتہ دو ہفتہ بعد برابر میری لڑکی کی عیادت کو تشریف لایا کرتی تھیں۔ بچی کے نزدیک بیٹھ کر بہت تسلی دیتیں۔ تیمارداری کی ہدایات فرماتیں۔ ہر آنے والی بہن سے دعاکی تحریک کرتے ہوئے فرماتیں:
’’اللہ تعالیٰ پردیسی جوان لڑکی کو صحت و عمر عطا فرمائے۔ محض دوبارہ جلسہ سالانہ اور نماز عید کی خاطر دس ماہ ماں باپ سے جدا رہی‘‘۔
اللہ نے اُمُّ المؤمنین کی دعائوں کو سنا اور میری لڑکی کو دوبارہ زندگی عطا فرما دی۔ اس واقعہ سے نہ صرف آپ کی عیادت اور تیمارداری کی صفت کا پتہ چلتا ہے بلکہ ہر احمدی کے ساتھ جو قادیان میں آتا ہے۔ آپ کو جو لگائو، جو محبت، جو اُنس اور جو شفقت ہے۔ اس کا بھی پتہ چلتا ہے‘‘۔
۳۔ ’’مَیں ایک دفعہ حضرت اماں جان کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ آپ بیماری کی وجہ سے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ اُس وقت ایک دوسری خاتون بھی موجود تھیں۔ اماں جان نے بیماری کی وجہ سے مجھ خادمہ کو پان بنانے کیلئے کہا۔ اس پر اُس خاتون نے کہا۔ کہ اماں جان! مَیں تو آپ کے ہاتھ کا پان کھانے آئی تھی۔ آپ اسی تکلیف کی حالت میں اُٹھ کر بیٹھ گئیں اور اپنے ہاتھ سے اُس خاتون کو پان بنا کر دے دیا اور خود میرے ہاتھ کا لگا ہوا پان لے لیا۔ یہ واقعہ اماں جان کی اس اندرونی کیفیت کا پتہ دیتا ہے کہ باوجود شدید سے شدید تکلیف کے دوسروں کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہیں‘‘۔
(۱۰)
محترمہ سیّدہ فضیلت بیگم صاحبہ سیالکوٹ سے لکھتی ہیں کہ:
’’۱۹۴۰؁ء یا ۱۹۴۱؁ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کی طبیعت بہت علیل تھی اس لئے ہجوم خلائق کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں ادھر ہر جلسے پر جانے والی خاتون مادرِ مہربان کی ملاقات سے محرومی کو ناقابل برداشت خیال کرتی ہے۔ چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت اماں جان کی ملاقات کا ایک وقت مقرر کر دیا جائے اور احتیاط سے ملاقات کروا دی جائے تا عورتوں کاہجوم نہ ہو اور اماں جان کو تکلیف نہ ہو۔
’’یہ ڈیوٹی مجھے دی گئی۔ وقت مقررہ پر عورتوں کا تانتا لگ جاتا تھا اس لئے میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ عورتیں صرف مصافحہ پر اکتفا کریں تا اماں جان کو تکلیف نہ ہو مگر اماں جان کی شفقت و محبت کے کیا کہنے اماں جان باوجود ضعف و نقاہت کے ہر ملنے والی کی خیریت خود دریافت فرماتیں بلکہ اکثر ان کے متعلقین کی خیریت بھی دریافت فرماتیں۔ مثلاً تمہاری والدہ یا بہن یا بچے کیسے ہیں؟ اتنا عرصہ ہوا نہیں آئے۔ کسی سے فرماتیں کہ تم گذشتہ سال نہیں آئیں یا دیر بعد آئی ہو۔
’’ان اخلاقِ کریمانہ کو دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔ ہزاروں عورتوں میں سے شاید ہی آپ نے کسی سے تعارف چاہا ہو۔ ہر ایک کو آپ اچھی طرح جانتی پہچانتی تھیں۔ اپنی تکلیف کے باوجود آپ کے ان اخلاق کا جو آپ نے ہر عورت سے ظاہر کئے مجھ پر ایک گہرا اثر ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ آپ کا حافظہ بھی میرے لئے حیرت کا باعث بنا ہوا تھا‘‘۔
(۱۱)
حضرت مولوی شیر علی صاحب قبلہ اپنی ایک روایت میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
(۱) ’’ایک احمدی دوست جو کچھ عرصہ کیلئے اپنے روز گار کے سلسلہ میں ولایت گئے ہوئے تھے۔ مَیں نے ان کی واپسی پر حضرت اُمُّ المؤمنین کو اُن سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’کوئی نماز ایسی نہ تھی جس میں مَیں نے تمہارے لئے دعا نہ کی ہو‘۔
’’اُس احمدی سے حضرت اُمُّ المؤمنین کا کوئی رشتہ داری کا تعلق نہ تھا اور نہ وہ کوئی مال و دولت رکھتا تھا۔ صرف اُس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے اخلاص و محبت تھا۔ جس کی وجہ سے آپ کے دل میں اس کے لئے اس قدر شفقت تھی کہ اس کی غیر حاضری میں تین ماہ کے لمبے عرصے تک بالالتزام ہر نماز میں اس کے لئے دعا فرماتی رہیں۔ اس احمدی دوست کا نام شیخ احمد اللہ صاحب ہے‘‘۔
(۲) ’’اپنے خدام سے آپ کی محبت و شفقت کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے خدام کی خوشی اورغمی کے موقعوں پر اب تک شرکت فرماتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جب بندے کی اہلیہ فوت ہو ئیں تو آپ بذات خود معہ دیگر خواتین خاندان تشریف لائیں اور نہایت شفقت سے میری اہلیہ مرحومہ کے سر پر دستِ شفقت پھیرتی رہیں‘‘۔ جزاھا اللّٰہ احسن الجزاء
(۳) ’’اسی طرح جب عزیزم عبدالرحیم کا لڑکا فضل الرحیم یعنی میرا پوتا پیدا ہوا تو آپ بندے کے غریب خانے پر تشریف لے گئیں اور بڑی دیر بچے کو مادرِ مہربان کی طرح اپنے ہاتھوں میں اٹھائے رکھا۔ یہ آپ کی خدام سے شفقت اور مہربانیوں کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ یہ شفقت کسی خاص طبقہ سے مخصوص نہیں بلکہ غرباء بھی اس سے اسی طرح مستفیض ہوتے رہتے ہیں جس طرح کہ دوسرے‘‘۔
(۱۲)
آپ کی جانوروں پر شفقت!!
خان صاحب حکیم عبدالعزیز صاحب مالک طبیہ عجائب گھر نے اپنی روایات میں ایک عجیب واقعہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے بندوق کے شکار کا بہت شوق تھا۔ صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ میں شکار کو نکل جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب کہ ماہ مئی کا مہینہ تھا مَیں نے صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ میاں! بندوق لائو۔ شکار کو چلیں۔ ان دنوں میاں صاحب چھٹی جماعت میں پڑھا کرتے تھے۔ میاں صاحب شوق سے بندوق لینے چلے گئے اور جلد واپس آئے اور کہنے لگے کہ اماں جان بندوق نہیں دیتیں اس پر مَیں نے خود کہلا بھیجا کہ تھوڑی دیر کیلئے بندوق بھیج دیں۔ فرمایا: ’آج کل پرندے انڈوں پر ہوتے ہیں۔ مَیں بھی بچوں والی ہوں۔ مَیں آج کل بندوق ہر گز نہیں دوں گی‘‘۔ یہ واقعہ اپنی شان کا ایک عجیب واقعہ ہے۔ جس سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی اس شفقت کا پتہ چلتا ہے جو انسانوں سے اُتر کر پرندوں کے لئے پائی جاتی ہے۔
(۱۳)
محترمہ امۃ الرحمن صاحبہ بنت حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے اخلاق کریمانہ کے متعلق ایک عجیب روایت قلمبند کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
(۱) ’’مَیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے پاس ابتدائی زمانہ میں پانچ سال رہی۔ ایک دفعہ حضرت اُمُّ المؤمنین موسم گرما میں بیت الدعاء میں نماز پڑھ رہی تھیں اور امۃ الرحمن صاحبہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو حالتِ نماز میں پنکھا کرتی رہیں۔ جب حضرت اُمُّ المؤمنین نماز سے فارغ ہوگئیں تو امۃ الرحمن صاحبہ نے وہیں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ ان کو نماز پڑھتے دیکھ کر حضرت اماں جان نے پنکھا ہاتھ میں لے لیا اور پنکھا کرنے لگیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے گھبرا کر جلدی سے نماز ختم کر دی تا کہ کہیں بے ادبی نہ ہو اور مَیں توبہ توبہ کرنے لگی۔ حضرت اماں جان نے سن کر فرمایا کہ: ’کیا مَیں ثواب حاصل نہ کروں؟‘ جائو پیر خانوں میں ڈھونڈو! کہیں تم کو ان اخلاق کریمانہ کا نظارہ نظر نہ آئے گا‘‘۔
یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واقعہ سے ملتا جلتا ہے جو مفتی فضل الرحمن صاحب کی روایات میں چھپا ہوا موجود ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی کام سے گورداسپور سے ہو کر آئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ گول کمرے میں حضرت اقدس ؑکو اس کام کے نتیجہ سے اطلاع دی۔ حضور ؑنے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ ذرا ٹھہریں مَیں آپ کیلئے شربت بنا کر لاتا ہوں۔ مفتی صاحب تھکے ہوئے تھے چارپائی پر لیٹ گئے اور لیٹتے ہی سو گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے پنکھا کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب اسی طرح سے گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور توبہ توبہ کرنے لگے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت پر جس قدر گہری نظر ڈالی جائے گی ہم کو یہی نظر آئے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر رنگ میں رنگین ہیں۔
(۲) ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں لوگ باہر سے بکثرت تحفے اور پھل لایا کرتے تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین سب خادمائوں کو حصہ رسدی ان میں سے دیا کرتی تھیں۔ آپ جب اس طرح پھل دینے لگتیں تو مَیں اکثر بیچ میں سے چلی جایا کرتی اور میرا حصہ جہاں مَیں ہوتی وہیں روانہ کر دیتیں۔
ایک دفعہ مَیں نے ایسا ہی کیا اور چلی گئی۔ باقی خادمائیں اپنا اپنا حصہ لے کر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد مَیں واپس آئی تو آپ نے فرمایا: ’امۃ الرحمن! آج ہم نے تمہارا حصہ نہیں رکھا کیونکہ تم ہمیشہ چلی جاتی ہو‘ اور بطور مزاح فرمایا۔ ’اور تیرا مکلاوہ پیچھے روانہ کرنا پڑتا ہے‘۔
مَیں نے کہا بیوی جی! کوئی بات نہیں۔ مگر اسی وقت میرا حصہ مجھ کو دے دیا تا کہ میرے دل میں کوئی رنج نہ رہے۔ یہ آپ کی شفقت اور محبت کی ایک ادنیٰ مثال ہے‘‘۔
(۱۴)
حضرت اماں جی صغریٰ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ المسیح اوّلؓ حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت و محبت کا تذکرہ یوں کرتی ہیں:
’’میری شادی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ساتھ برات میں گئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی عمر اس وقت تقریباً چھ ماہ کی ہوگی۔ شادی کے دو تین دن کے بعد حضرت اُمُّ المؤمنین کی موجودگی میں مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت ہوئی۔ میری بیعت شہزادہ حیدر کے مکان میں ہوئی تھی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے میری بیعت پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور مٹھائی بھی تقسیم کی۔
’’مَیں اپنے شوہر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے ساتھ جموں چلی گئی اور حضرت اُمُّ المؤمنین کچھ دنوں لدھیانہ میں ہی ٹھہری رہیں کیونکہ حضرت میر ناصر نواب ان دنوں لدھیانہ میں ملازم تھے۔ مَیں جب جموں سے واپس آئی تو قادیان بھی آئی۔ اماں جان نے مجھے اپنے گھر اُتارا۔ اپنا سارا زیور اور لباس مجھے پہنایا۔ مجھے ان کا یہ حسن اخلاق کبھی اور کسی وقت نہیں بھولتا۔
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ میر حسام الدین صاحب کے مکان پر اُترے ہوئے تھے اور مَیں ان دنوں مولوی صاحبؓ کے پاس جموں میں تھی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے بھاگ بھری نائن کو میرے لئے بہت سے تحفے اور کپڑے دے کر جموں بھیجا کہ مجھے وہاں سے بلا لائے۔ مگر حضرت خلیفہ اوّلؓ اُن ایام میں کشمیر گئے ہوئے تھے اس لئے مَیں حاضر نہ ہو سکی۔
’’حضرت اُمُّ المؤمنین نے جس نگاہ سے مجھ کو پہلے دن دیکھا اسی نگاہ سے آج تک دیکھتی ہیں اور ہمیشہ بڑی بہو کے لقب سے پکارا۔ نیک اور مادرانہ سلوک فرمایا۔ مجھے ہر تنگی اور ترشی میں اپنے پاس رکھا کبھی اپنے سے جدا نہیں کیا۔ چنانچہ اب تک حضرت اماں جان میرے پاس خود تشریف لاتی ہیں اور باوجود بیماری کے میرا احساس رکھتی ہیں‘‘۔
(۱۵)
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت کا ایک واقعہ یوںتحریر فرمایا ہے:
’’۱۹۱۶ء؁ کا واقعہ ہے کہ میری بیوی چند دنوں کے لئے قادیان میں حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے پاس ٹھہری۔ جب خاکسار اپنی بیوی کو واپس لانے کے لئے بٹالہ اسٹیشن سے اُتر کر منڈی میں آیا۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب منشی عبدالکریم صاحب کے مکان پر اُترے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اماں جان آپ کو بلاتی ہیں مجھے دیکھ کر اماں جان نے فرمایا: ’کہ مَیں مالیر کوٹلہ چند دن کے لئے جا رہی ہوں اور اپنے مکان مَیں تمہاری بیوی امۃ الحفیظ کے پاس چھوڑ آئی ہوں اگر تم خوشی سے رہنے دو تو رہے گی ورنہ تم مالک ہو خوشی سے اپنی بیوی کو لے آئو‘۔ مَیں نے عرض کیا۔ ’’حضور! خاکسار بمعہ اپنی بیوی بچوں کے آپ کا غلام ہے۔ یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ میری بیوی کو اللہ تعالیٰ نے حضور کے قدموں میں رہنے کا موقعہ عطاء فرمایا ہے۔ مَیں یہاں سے ہی چلا جاتا ہوں اس پر فرمایا: ’ایک رات جا کر حضرت صاحب کی زیارت کر آئو‘۔
’’اتنے میں اسٹیشن پر لے جانے کے لئے تانگہ آ گیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین بیٹھ گئیں۔ حضرت قبلہ میاں صاحب جو آپ کے ہمراہ جا رہے تھے مجھ سے مصافحہ کرنے لگے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور کو گاڑی پر سوار کرا کر قادیان جائوں گا۔ اس پر حضرت قبلہ میاں صاحب میرے ہمراہ پیدل چل پڑے یہ دیکھ کر حضرت اُمُّ المؤمنین نے فرمایا۔ ٹھہرو مَیں بھی تمہارے ساتھ پیدل چلتی ہوں اور تانگے سے اُتر کر پیدل روانہ ہو پڑیں۔
’’جب خاکسار قادیان آیا۔ تو مجھے حضرت ممدوحہ کی ذرّہ نوازی کا ایک اور واقعہ دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے کھانے اور رات کے رہنے کا انتظام حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے گھر میں تھا۔ جس سے مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ بھی حضرت اُمُّ المؤمنین نے ہی کروایا ہوگا‘‘۔
یہ پندرہ واقعات جو مختلف راویوں کی زبان سے میں نے آپ کی شفقت کے متعلق تحریر کئے ہیں۔ پڑھنے والوں کو بہت کچھ سبق دیں گے۔ مَیں اِس وقت کتاب کے اس حصے میں ان واقعات پر کوئی توضیحی نوٹ نہیں لکھ سکتا۔ آپ کی شفقت کے اور سیرت کے دیگر سینکڑوں واقعات راویوں کی زبان سے جمع ہو کر میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ جنہیں مَیں زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کتاب کے دوسرے حصے میں شائع کر سکوں گا۔ وَبِاللّٰہِ التّوفِیْقُ۔
یہ محض ایک مختصر سا نمونہ ہے اُس خلقِ عظیم کا جو آپ کو دیا گیا۔ اُس صبر و تحمل کا جو باوجود بیماری، ضعف اور نقاہت کے نہایت قوتِ برداشت کے ساتھ اپنے خدام سے آپ ملتی ہیں۔ ان کی باتوں کو سنتی ہیں ان کی ہمدردی اور غمخواری کرتی ہیں۔ ان کی درخواستوں پر توجہ دیتی ہیں آپ کی سیرت کے دیگر بیسیوں ابواب پر مجھے ابھی بہت کچھ لکھنا ہے جو میں دوسری جلد میں لکھ سکوں گا۔ مَیں یہاں اب چند صفحات کے اندر آپ کی زندگی کے بعض اور واقعات پر مختصر نظر ڈالنا چاہتا ہوں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا علمی اور ادبی ذوق
حضرت اُمُّ المؤمنین کے علمی اور ادبی ذوق کے متعلق میرے پاس کوئی زیادہ مواد جمع نہیں لیکن اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا علمی اور ادبی ذوق نہایت ہی ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے بچوں میں سے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے ممتاز تریں ہستیاں ہیں۔ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے متعلق سنتا ہوں کہ وہ بھی علمی و ادبی ذوق سے حصہ وافر رکھتی ہیں۔ اگرچہ میری نظر میں ان کی کوئی تحریر یا نظم نہیں آئی۔ لیکن مجھے بتلانے والوں نے بتلایا ہے کہ اُن کا ذوقِ علمی بھی اپنے خاندان کے کسی فرد سے کم نہیں۔ جب آپ کی اولاد کا ذوقِ علم اس قدر بڑھا ہوا ہو تو نہایت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ آپ کا ذوقِ علم کس بلند پائے کا ہونا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب کسی اُردو لفظ کی بابت تفتیش کرنا ہوتی تھی تو سب سے پہلے حضرت اُمُّ المؤمنین ہی سے سوال کیا کرتے تھے اور پھر اگر کچھ شبہ رہ جاتا تو حضرت نانی اماںؓ صاحبہ یا حضرت میر صاحب سے دریافت فرمایا کرتے تھے۔ اس سے بھی آپ کے ادبی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت میرمحمد اسماعیل صاحبہ قبلہ کے ذریعے مجھ کو یہ علم حاصل ہوا ہے کہ کسی زمانہ میں حضرتہ عُلیا کبھی کبھی ذوقِ شعر بھی فرمایا کرتی تھیں۔ افسوس! کہ وہ اشعار محفوظ نہ رہ سکے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک بکری اور اس کے دو بچوں کے مرنے کا مرثیہ لکھ کر غالباً ۱۸۹۲؁ء یا ۱۸۹۳؁ء میں حضرت میر صاحب کو بھیجا تھا۔ مگر افسوس کہ وہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔
حضرت میر صاحب قبلہ کے ذریعہ سے تین شعر مجھے میسر آئے ہیں۔ جو مَیں بصد مسرت شائع کرتا ہوں۔ یہ اشعار بطور عید مبارک نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو مالیر کوٹلہ میں لکھے تھے۔ تحریر فرمایا:
عید مبارک
تم تو اپنے گھر میں بیٹھی خرم و دِلشاد ہو
ہر طرح کے فکر و غم سے دُور ہو آزاد ہو
دیکھ کر بچوں کو اپنے گرد ہنستے، کھیلتے
فضل مولیٰ سے مناتی عید کیا، اعیاد٭؎ ہو
حال کیا اُس٭٭؎ کا بتائوں جس کی بچی ہے جدا
تم بُھلا بیٹھی ہو اُس کو، پر اُسے تم یاد ہو
منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک روایت حضرت اُمُّ المؤمنین کے ادبی ذوق کے متعلق میرے پاس بیان فرمائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ:
ابتدائی زمانہ میں اس امر کا ذکر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بعض طالب علموں میں ہوا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین شعر لکھ سکتی ہیں۔ چنانچہ اس امر کا اندازہ لگانے کے لئے ایک طالب علم مولوی نظام الدین صاحب نے ایک کاغذ پر اُس روٹی کی شکایت لکھ کر بھیجی جو اندر سے پک کر آتی تھی۔ لکھا:
اگر روٹی یہی بڑھیا پکاوے
کرو رخصت کہ پھر سب گھر کو جاویں
٭ یعنی کئی عیدیں ٭٭ یعنی اپنا
واِلاّ عرض کرنا ہے ضروری
کہ ہو روٹی مصفّا اور تنوری
مولوی نظام الدین صاحب نے جو رباعی لکھی وہ تو نری تک بندی ہی تھی۔ مگر چونکہ اُن کو حضرت اُمُّ المؤمنین کا امتحان کرنا مقصود تھا اس لئے وہ جو کچھ بھی لکھ سکے انہوں نے لکھ دیا اور ایک لڑکے کے ہاتھ اندر بھیج دیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے اُسی کاغذ کی پشت پر اسی وقت پنسل سے حسب ذیل رباعی لکھ دی۔
ہمیں تو ہے یہی بڑھیا غنیمت
جو روٹی کو پکا دیتی ہے بروقت
جسے بڑھیا کے ہاتھوں کی نہ بھاوے
تو لا دے اس کو جو اچھی پکاوے
یہ فی البدیہ رباعی جو آپ نے لکھی اپنے اندر وہی روح رکھتی ہے۔ جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس واقعہ میں ہے جو ایک نانبائی کی شکایت کے متعلق آپ کی سیرت میں موجود ہے۔
ایک نظم کے متعلق اظہارِ پسندیدگی
۱۹۳۹؁ء کے اوائل میں محلہ دارالرحمت میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت اُمُّ المؤمنین بھی تشریف فرما تھیں۔ اُس میں عزیز مکرم میاں عبدالستار صاحب قمر اجنالوی نے اپنی ایک نظم پڑھی جس کا مطلع یہ تھا۔
کس شان سے مسلم آئے تھے، اے ہند! تیرے میدانو ں میں
شمشیر بکف قرآن بلب، تھا جوش عجب، دیوانوں میں
حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس نظم کو بہت پسند فرمایا اور ملک عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل کے ذریعے اس نظم کو لکھوا کر منگوایا۔ اس نظم کی وجہ سے پھر بھی کبھی کبھی قمر صاحب کو اپنی نظمیں سنانے کا اتفاق ہوا۔ جنہیں سن کر حضرتہ عُلیا پسندیدگی کا اظہار فرمایا کرتیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا ہمیشہ یہ معمول ہے کہ آپ کوئی نہ کوئی کتاب پڑھوا کر سنتی رہتی ہیں جس سے آپ کے علمی اور ادبی ذوق کا بآسانی پتہ لگ سکتا ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا جود و کرم
حضرت اُمُّ المؤمنین کے جود و کرم کی اتنی روایات موجود ہیں کہ ان کو جمع کرنے سے بذاتِ خود ایک کتاب بن جاتی ہے مگر مَیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے جودو کرم کی یہاں چند روایات بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ تفصیل آئندہ جلد میں دی جا سکے گی۔
عزیز مکرم ملک مبارک احمد صاحب ایمن آبادی نے دو روایتیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے جود و کرم کے متعلق لکھی ہیں۔ پہلی روایت انہوں نے جناب مولوی محمد الدین صاحب سابق مبلغ امریکہ کی زبانی لکھی ہے جو انہوں نے کسی گفتگو کے دَوران میں بیان کی۔
(۱) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت اُمُّ المؤمنین موسم سرما کے شروع ہوتے ہی اپنے خرچ سے بہت سی نئی رضائیاں تیار کروا کر غرباء میں تقسیم فرمایا کرتی تھیں۔
(۲) دوسرا واقعہ انہوں نے اپنی ہمشیرہ کے متعلق لکھا ہے جو حضرت اماں جان کے پاس رہا کرتی تھیں۔ ۱۹۲۶ء؁ میں جب اُن کی شادی ہوئی تو حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام نے مبلغ ساٹھ (۶۰) روپے کا طلائی گلوبند جو غالبًا ۳ تولے خالص سونے کا تھا۔ اسے تحفۃً عطا فرمایا۔
مولوی سیّد عبدالحلیم صاحب کٹکی کی بیوی محترمہ مسرت النساء عرف روضہ بی بی نے سونگڑا (اڑیسہ) نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایسی ہی عطا کا ذکر کیا ہے وہ لکھتی ہیں کہ:
۱۹۳۸؁ء میں مَیں پہلی بار قادیان گئی۔ اڑیسہ میں چونکہ برقعے کا رواج نہیں۔اس لئے مَیں مونگھیر کی ایک بہن سے ایک برقع مستعار لے کر آئی جو غلاف کی طرح سے تھا اور دامن کی طرف سے اوڑھا جاتا تھا اور اسی طرف سے نکالا جاتا تھا۔ مجھے اوّل تو برقعے کی عادت نہ تھی اور کچھ برقعہ غلاف کی طرح تھا۔ اسے پہن کر مَیں راستہ میں چل نہ سکتی تھی۔ مائی کاکو صاحبہ مجھے مہمان خانے سے اس طرح لے گئیں جیسے کوئی اندھے کو لے کر جاتا ہے اور اسی طرح لے جا کر مجھے اماں جان کے دربار میں کھڑا کر دیا۔ حاضرات مجلس نے قہقہہ مارا۔ برقعہ اُتارا تو میری ساڑھی کا پلّو اور بال سب اُلٹ گئے اور اُلجھ گئے۔
اماں جان نے بعد جواب سلام و پُرسش احوال پہلا سوال برقعے کا کیا۔ مَیں نے حال سنایا تو آپ نے حکم دیا۔ ہمارا وہ برقعہ لائو۔ برقعہ ہلکے زرد رنگ کا تھا اور مصری طرز کا۔ جس کے دو حصے تھے۔ ایک کوٹ کی طرح اور ایک سر پر چادر کی طرح۔ فرمایا۔ اس کو پہن کر دیکھو۔ مَیں کھڑی ہوگئی اور پہن کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ اماں جان! اب تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ آپ ہنس پڑیں اور فرمایا اس کو پہن کر قادیان میں آنا جانا کیا کرو۔
واپسی پر جب مَیں حاضر ہوئی تو برقعہ واپس دینے کو مَیں نے پوچھا فرمایا۔ تمہاری طرف تو استعمال نہیں ہوتا تم لے کر کیا کرو گی۔ مَیں نے عرض کیا کہ اب جب کہ آپ نے عنایت کیا ہے تو ضرور استعمال کروں گی۔ اور اس عطاء کے بعد مَیں اس کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ مسکرا کر فرمایا۔ اچھا لے جائو۔ غالباً یہ پہلا ہی برقعہ ہے جو صرف اور صرف مجھے حاصل ہوا۔
مکان کیلئے زمین
(۱) محترمہ استانی سکینۃ النساء بیگم لکھتی ہیں کہ:
جب عزیزہ محترمہ صاحبزادی امۃ الحفیظ صاحبہ ۵۔۶ سال کی ہوئیں تو اماں جان نے فرمایا کہ امۃ الحفیظ کو پڑھائو۔ سو اس عاجزہ نے صاحبزادی صاحبہ کو اُردو لکھنا، پڑھنا سکھانا شروع کیا۔ اس اثناء میں اماں جان نے ایسی ایسی مرحمتیں عطا فرمائیں کہ مجھے کسی قسم کا فکر و اندیشہ اپنی ضروریات زندگی کا نہ تھا اور جب محترمہ صاحبزادی صاحبہ کی شادی ہوئی تو اپنی شفقتِ خاص سے اپنے قدموں میں زمین عطا کی کہ اس پر مکان بنا لو۔ جہاں یہ واقعہ ایک طرف علمی قدردانی کا ایک ثبوت پیش کرتا ہے۔ وہاں آپ کی فیاضی طبع کا بھی۔
(۲) ایک دفعہ ایک ملتان کی فقیرنی کمبل اوڑھے ، گلے میں لمبی تسبیح ڈالے گھر میں آ گئی اور لگی اپنی غیر معمولی کرامات کی بڑیں مارنے۔ ہم سب عورتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر بیٹھی تھیں کہ وہ باہر شہ نشین پر بیٹھ گئی۔ عورتیں اس کو حیرت، تعجب اور تماشے کے طور پر دیکھ رہی تھیں اور وہ منتظر تھی کہ میں ابھی ایک دو عورتوں کا ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتاؤں گی۔ اتنے میں اماں جان نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلیں اور اس کی مٹھی میں ایک روپیہ دے دیا ۔ اماں جان تو اندر جا کر قرآن کریم پڑھنے بیٹھ گئیں اوروہ روپیہ لے کر یوں بھاگی کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
(۳) آپ نے کئی یتیم لڑکیوںکو پرورش کیا۔ ان کی عمدہ اور بہترین تربیت کر کے پھر اپنی عنایت و مہربانی سے اچھے اچھے رشتے تلاش کر کے ان کو گھر والیاں بنا دیا۔ کئی یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کو ضروری امداد بہم پہنچائی۔ ان کو کھانا ،پہننا اور ہر طرح کا سامانِ ضروریات زندگی عطا فرمایا۔ کئی غریب عورتوں کو آپ خفیہ خفیہ رقمیں دیتی رہتی ہیں اور یہ بارہا دیکھا گیا ہے۔‘‘
آپ کی فیاضی کی ایک اور مثال
حافظ مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی حضرت اُمُّ المؤمنین کی فیاضی کے متعلق اپنے ذاتی واقعات کو یوں تحریر کرتے ہیں:
۱۹۱۶ء؁ یا ۱۹۱۷ء؁ میں جب میں مولوی عبید اللہ صاحب مرحوم شہید ماریشس کے بال بچوںکو لانے کے لئے ماریشس جانے والا تھا تو میں بغرضِ حصولِ پاسپورٹ گورداسپور گیا۔
(۱) ملک مولا بخش صاحب کلرک آف دی کورٹ حال پریذیڈنٹ ٹاؤن کمیٹی قادیان وہاں تھے میں جب ان کے مکان پر گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بھی آپ کے مکان پر ہیں۔ آپ کو جب میرے ماریشس جانے کا علم ہوا تو آپ نے مجھے دس دس روپے کے دو نوٹ مرحمت فرمائے جو آپ کی فیاضی اور دینی امور میں اعانت کاایک ثبوت تھے۔
(۲) میں عرصہ بارہ سال سے ہجرت کر کے قادیان آ گیا ہوں اور تقریباً سات سال سے مرض فالج میں مبتلا ہوں۔ اس لمبے عرصے میںحضرت اُمُّ المؤمنین ہمیشہ وقتاً فوقتاً مجھے اپنے عطیہ جات سے مستفیض فرماتی رہیں۔
ایک دن ایک عورت جو غریبانہ طرز کی تھی میرے پاس آئی اور اس نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر ایک لفافہ مجھے دیا کہ یہ کاغذ اُمُّ المؤمنین نے دیا ہے۔ اس کے بعد جب میںنے اسے کھولا تو اس میں پانچ پانچ روپے کے چار نوٹ تھے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی فیاضی کی ایک اور مثال
حکیم محبوب الرحمن صاحب بنارسی کی اہلیہ صاحبہ اپنی ایک روایت میں مجھے لکھتی ہیں کہ:
ایک سال میں اپنا چندہ تحریک جدید ادا نہ کر سکی۔ میرے پاس میرا ایک زیور تھا۔ جو میں نے گروی رکھ کر روپیہ نکلوایا اور تحریک جدید کو بھیج دیا ۔ اب مجھے اس زیور کے چُھڑانے کی فکر پیدا ہوئی تو میں نے حضرت اماں جان کو لکھا کہ مجھے بیس روپے درکار ہیں۔ مجھے منی آرڈر کردیں۔ حضرت اماں جان نے بیس روپے مجھے بذریعہ منی آرڈر فوراً بھیج دیئے اور میںنے وہ زیور چُھڑا لیا۔
میںان واقعات پر بھی کوئی تشریحی یا توضیحی نوٹ نہیں لکھ رہا۔ احباب خود اندازہ لگا لیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اور سلسلہ کیلئے آپ کی مالی قربانیاں
حضرت اُمُّ المؤمنین نے سلسلہ کے ہر کام میں بے دریغ روپیہ صرف کیا اور آپ کی ان مالی قربانیوں کے متعلق میں ایک نہایت تفصیلی بحث سیرت کی دوسری جلد میں لکھنے والا ہوں۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
سلسلہ کی کوئی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور پھر آپ کے بعد ایسی نہیںاٹھی جس میں آپ نے مالی قربانی کا حصہ نہ لیا ہو۔ سلسلہ کی مساجد، سلسلہ کے تبلیغی مشن، لنگر خانہ، لجنہ اماء اللہ، لنڈن مسجد، برلن مسجد، لنگر کیلئے دیگوں کی ضرورتوںکا مہیا کرنا، اخبار الفضل کے قیام میںحصہ لینا، منارۃ المسیح ، تحریک جدید۔ الغرض سلسلہ کی کوئی تحریک پیدا نہیں ہوئی جس میںحضرت اُمُّ المؤمنین نے نہایت فیاضی اور فراخ دلی سے حصہ نہ لیا ہو۔ یہاں اس حصے میں مَیں صرف آپ کی اس مالی قربانی کو جو آپ نے تحریک جدید کے دس سالہ سلسلہ میں کی ہے کا ذکر کروں گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس عظیم الشان تحریک میں اُمُّ المؤمنین اور آپ کے خاندان نے شاندار اور قابلِ تعریف قربانی کی ہے۔
حضرت اماں جان
از محترمہ امۃ اللہ بشیرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ حیدر آباد (دکن) اہلیہ مولوی سیّد بشارت احمد صاحب امیر جماعت حیدر آباد (دکن)
دامانِ نگہ تنگ و گلِ حُسن تو بسیار
گلچین بہار تو زِدامان گِلہ دارد
ایک مدت سے مجھے خیال تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کے شمائل پر میںاپنے دیرینہ ذاتی مشاہدات میں سے کچھ لکھوں۔ مگر یہ دیکھ کر کہ سلسلہ کے سارے زبردست اہل قلم کبھی بھی آپ کی سیرت پر کوئی خامہ فرسائی نہیں کرتے اور میں نے یہ خیال کیا کہ غالباً حضرتہ عُلیا اماں جان کی ناپسندیدگی کے مدنظر کوئی نہیں لکھتا ہو گا۔ اس لئے میں بھی اپنی جگہ دم گھونٹ کر خاموش ہو رہی۔
مگر اب جبکہ ہمارے قابل قدر بھائی جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی (اللہ تعالیٰ آپ کی صحت و عمر میںبرکت دیوے) نے اس مبار ک کام کیلئے اخباری دنیا میں غلغلہ مچا دیا تو میں بھی اپنے دیرینہ شوق کے مدنظر چند واقعات سپرد قلم کرتی ہوئی ڈر رہی ہوں کہ کہیں میرے اس مقالہ کو ناظرین و ناظرات حضرتہ علیا کا ایک مکمل خاکہ زندگی ہی تصورنہ فرما لیں۔ اس لئے میں نے ایک فارسی شعر زیبِ عنوان کیا ہے۔ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ میری ممدوحہ کی سیرت و حسنِ اخلاق کے تذکرے بہت کثیر ہیں۔ میں ان کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ مجھے خود اپنی تنگ نگاہی صاف طور پر محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ممدوحہ کے شمائل میں سے کچھ وہ بھی اپنے ذوق و نقطہ نگاہ سے پیش کرنا چاہتی ہوں۔
یوں تو عاجزہ کو اب تک قادیان شریف میں ۸۔۱۰ مرتبہ سے زیادہ بار حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ لیکن غالباً دو مواقع ایسے آئے کہ خاندان سمیت کافی طویل عرصہ تک مجھے قادیان جنت نشان میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک تو ۱۹۲۰ء؁ میں جبکہ حیدرآباد میں میری خوشدامن سردار بیگم صاحبہ مرحومہ کے اصرار پر سیّد صاحب میرے شوہر (سیّد بشارت احمد صاحب) نے ہم تمام کو لیکر تقریباً ۴ ماہ قادیان شریف میںحضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ کے قدموں میں گزارے تھے۔
پھر دوبارہ ۱۹۳۵؁ء یا ۱۹۳۶؁ء میں تقریباً ایک سال میں معہ اپنے جملہ متعلقین کے قادیان شریف میں رہی۔ ان ہر دو موقعوں پر عاجزہ کو حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ اور خاندان کی تمام محترم و قابل عزت ہستیوں کو دیکھنے کی عزت حاصل رہی۔
میں بوجہ ایسے خاندان سے قریبی ربط رکھنے کے جو کہ مرشدی گھرانہ کہلاتا ہے اس امر سے زیادہ واقف اور باخبر تھی کہ عموماً مشائخین و سجادہ نشینوں کے گھروں کی معاشرت و طرزِ معیشت و طریق تہذیب و تمدن و لباس کا رنگ ڈھنگ بات چیت کا طور و طریق کیسا ہوتا ہے۔ میرے والد مرحوم حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب قادری خداتعالیٰ انہیںغریقِ رحمت فرمائے ایک جید مشائخ مولانا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کشمیری مرحوم و مغفور کے واحد فرزند تھے۔ جن کا مریدین کا حلقہ ۲۔۳ لاکھ سے کم نہ تھا۔ اسی طرح میرے ننہیالی قریبی رشتہ کے نانا حضرت مسکین شاہ صاحب نقشبندی مرحوم جو اعلیٰ حضرت نظام دکن اور حیدرآباد کے ملک کے ۵ لاکھ مریدین کے مرشد تھے۔ نیز میرے سُسرالی وغیرہ رشتہ داروں میں مولوی سیّد عمر علی شاہ صاحب و یکی میاں صاحب وغیرہ جو میرے چچا خُسر ہوتے تھے بڑے مرشد تھے۔ اس لئے فطرتاً میں اس ماحول کو جس سے میں بہت حد تک مانوس اور واقف تھی خاندان میں قیاس کرنے پر مجبور تھی۔ مگر میرے ذاتی مشاہدات نے میری تمام قیاس آرائیوںپر پانی پھیر دیا مجھے نہ اُمُّ المؤمنین میں اور نہ خاندان کی کسی خاتون میں یہ بات نظر آئی کہ وہ گفتگو و ملاقات میںکسی قسم کا تکلف کرتی ہیں یا بناوٹ کا پہلو اختیار کرتی ہیں۔ یا کوئی خاص قسم کا مشائخانہ یا صوفیانہ لباس زیب تن فرماتی ہیں یا دنیاوی آرائش و زینت کی اشیاء سے اس قدر متنفر ہیں کہ گویا رہبانیت اختیار کر رہی ہیں بلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین اور خاندان کے اس پاکیزہ و بے ریا عمل کا اس قدر گہرا اثر ہر غائر نظر سے دیکھنے والے پر پڑتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان پاک قلوب کے آئینہ میں ریا و بناوٹ میں خود کو ملوث دیکھتا ہے۔
مجھے خوب یاد ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جبکہ میں نے اپنی خوشدامن صاحبہ مرحومہ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم محض حضرت اُمُّ المؤمنین کے فیض صحبت کی وجہ سے دیکھا وہ یہ کہ میری خوشدامن صاحبہ ایک بڑے امیر کبیر گھرانے کی خاتون تھیں ۔ جو ۲۷ سال میں ہی ۳ لڑکے اور ایک لڑکی کی ماں ہو کر بھرپور جوانی میں بیوہ ہو گئیں تو انہوں نے اپنی جوانی اور بیوگی کو اس قدر سادگی اور صوفیانہ رنگ میں گزارا کہ جب میری شادی ہوئی اور ان کے خاندانی طمطراق اور خدم و حشم اور امارت کے مدنظر ان کو معمولی لباس میں ملبوس دیکھا تو مجھے سخت حیرت ہوئی۔ مگر جبکہ میری یہی خوشدامن صاحبہ مرحومہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی صحبت میں چند ماہ رہیں تو یہ دیکھاکہ کوئی روزناغہ نہ ہوتا کہ وہ اس ضعیفی میںکنگھی چوٹی کر کے پاک و صاف لباس اور خوشبوئوں وغیرہ کا استعمال کر کے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں روزانہ نہ جایا کرتیں اور اس کے بعد سے انتقال تک میں نے مرحومہ کو دیکھا کہ سابقہ اس دنیا دارانہ و صوفیانہ طرزِ زندگی کو بالکل خیرباد کر کے متقیانہ رنگ میں اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ کے ماتحت حسب ضرورت عمدہ لباس پہنا کرتیں۔ چنانچہ جب حضرت اُمُّ المؤمنین پر بھی یہ امر ظاہر ہوا تو وہ بہت مسرور ہوئیں۔ چنانچہ جب ہماری خوشدامن صاحبہ کا انتقال ہوا تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کی اولاد کے نام ایک تعزیت نامہ اپنی انتہائی کرم فرمائی سے جو تحریر فرمایا۔ اتفاقاً وہ میرے پاس محفوظ رہ گیا تھا۔ وہ درج ذیل کرتی ہوں۔
حضرت میرے شوہر مولوی سیّد بشارت احمد صاحب و میرے دیور مولوی حکیم میر سعادت علی صاحب مرحوم کو تحریر فرماتی ہیں کہ:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از قادیان دارالامان
۱۵ دسمبر ۱۹۲۳؁ء
عزیزانِ من سلامت رہیں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کے عزیز نامہ سے یہ سن کر از حد رنج و تاسف ہوا کہ آپ کی والدہ صاحبہ اور ہماری مخلص اخلاص مند خاتون نے داغ جدائی دیا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ- مرحومہ بہت اخلاص مند احمدی خاتون تھیں۔ ان کی علالت کی حالت میں بھی دعائیںکیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے ہر طرح آرام و راحت میں رکھنے پسندیدہ ہیں۔ گو ہمارے لئے وہ جدا اور نظروں سے پوشیدہ ہیں مگر بیٹوںکے ہاتھوں سپردخاک ہو کر مقامِ اعلیٰ کو پہنچ گئیں۔
خدائے ذوالجلال نیکوں کو ضائع نہیںکرتا اور آخر جو ملا ہے وہ بچھڑے گا۔ چند روز بعد ہم بھی ان سے ملاقاتی ہونے والے ہیں۔
مرحومہ مغفورہ اپنے اخلاقِ حسنہ اور نیکی و تقوی کے باعث ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کے باعث اجر ِعظیم عنایت کرے گا اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے گا۔ باقی رہا اولاد کے لئے جدائی کا صدمہ سو جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارارکھتے ہیں وہ کبھی غمزدہ نہ ہونے چاہئیں۔ اس پیارے پر سب پیارے قربان ہیں۔
اب دعا ہے کہ خداوند کریم مغفورہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیوے۔ اور جنت کے اعلیٰ مقامات کا وارث کرے۔ ہم کو جملہ متعلقین سے دلی ہمدردی ہے۔ والسلام
آپ کی ہمشیرہ اور بہوؤں سے خاص اظہار ہمدردی ہے۔ سب کو مرحومہ کی نیکیوں کا وارث بناوے۔ اور صبر جمیل کی توفیق عطا فرماوئے۔
والدہ میرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح علیہ السلام از قادیان
درحقیقت میری خوشدامن نے جب سے حضرت اُمُّ المؤمنین کو دیکھا ۔ ان کے اخلاص ویکرنگی میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی عاشق وفدائی تھیں۔ چنانچہ ایک واقعہ اسی ضمن میں درج کرتی ہوں۔ اگرچہ حضرت ممدوحہ کا وہ مکتوب اس وقت دستیاب نہیں ہوا مگر اس کا مفہوم مجھے یاد ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ:
حضرتہ خوشدامن صاحبہ کی مرض الموت میں جو دس ماہ کی طویل علالت کا زمانہ تھا حیدر آباد کے ایک محترم احمدی نواب اکبر یار جنگ بہادر نے میری نند مسماۃ حاجی بیگم مرحومہ کے لئے اپنا پیغام دیا۔ تو حضرت خوشدامن صاحبہ محض اس وجہ سے متامل ہو گئیں کہ نواب صاحب ایک تو پٹھان ہیں دو سرے غیر ملکی ہیں۔ ممکن ہے بعد وظیفہ حسنِ خدمت یہ اپنے وطن فرخ آباد کو میری لڑکی کو نہ لے جائیں۔ تب سیّد صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ جس پر حضرت اُمُّ المؤمنین نے خوشدامن صاحبہ کو خط تحریر فرمایا۔ اس کا مفہوم یہی تھا کہ :
’’میں یہ مناسب سمجھتی ہوں کہ آپ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھوں یہ کام کر دیں تاکہ آپ کو اطمینان نصیب ہو۔‘‘
پس جونہی حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہ مکتوب بستر علالت پر سنایا گیا بلا کسی پس و پیش کے فوراً اسی ہفتہ میںرُخصتانہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مرحومہ کے اخلاص اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس ارشاد پر عمل کے نتیجہ میںایک عمدہ پھل یہ عنایت فرمایا کہ میری نند مرحومہ کو ایک اولادِ نرینہ پیدا ہوئی جو کہ اس وقت بفضلہ تعالیٰ سردار محمود رشید الدین خان طولعمرہ ایک ۱۹ سالہ نوجوان ہے۔ جو علی گڑھ میں ایف۔اے کلاس کا طالب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صالح مبلغ اسلام و خادم اسلام بنائے۔ آمین
تحریک جدید فنڈ میں خاندانِ نبوت کی قربانیاں!
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس شادی کے متعلق بتایا گیا تھا کہ یہ شادی اس غرض کے لئے جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے بہت بابرکت ثابت ہو گی۔ چنانچہ اسے نعمت قرار دیا تھا۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اپنے ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق خدا تعالیٰ نے تذکرہ میں اس قدر مدح اور بشارات نازل فرمائی ہیں کہ اس طرح کی شان اور فضیلت کسی نبی کی بیوی کو حاصل نہیں ہوئی۔ قرآن کریم میں پارہ۷ میںحضرت مسیحؑ کی نسبت فرمایا اُذْکُرْنِعْمَتِی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اُمُّ المؤمنین عطا کیں تو فرمایا اُذْکُرُنِعْمَتِیْ‘‘
آپ کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ جو اولاد آپ کے بطن سے پیدا ہو گی اور پھر جو اولاد ان سے پیدا ہو گی۔ وہ سب کے سب اس نور کی تخمریزی میں لگ جائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا۔ گویا کہ وہ احمدیت کی اشاعت،احمدیت کی تبلیغ، احمدیت کی حفاظت و صیانت اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے ہوں گے۔ سلسلہ کی اشاعت و قیام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مدات صدرانجمن کے ماتحت قائم کیں۔ جنہیںمخلص احمدی ہر قسم کی قربانیاںکر کے حصہ لیتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کی اولاد ان تمام فداکاروں سے بڑھ چڑھ کر نہایت باقاعدگی کے ساتھ ان مدات میںحصہ لے رہی ہے اور اس پر نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔
میں نے چاہا تھا کہ صدرانجمن کے ناظر صاحب بیت المال مجھے خاندانِ نبوت کی مالی قربانیوں کا ایک گوشوارہ بنا دیں مگر ان کے لئے اس قسم کا حساب قلیل مدت میں تیار کرنا مشکل تھا اس لئے وہ تیار نہ ہو سکا۔
۱۹۳۴؁ء میںحضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے دشمنانِ احمدیت کی بڑھتی ہوئی کوششوں کو دیکھ کر ایک تحریک کی جس کا نام تحریک جدید رکھا۔ اس تحریک جدید میں جس طرح سلسلہ کے دیگر مردوں عوروتوں نے فداکارانہ رنگ میںحصہ لیا۔ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کے خاندان نے حصہ لیا۔ جس کی تفصیل میں آگے پیش کروں گا۔
۱۹۳۵؁ء سے لے کر ۱۹۴۳ء؁ تک خاندان کی مجموعی قربانی بہتر ہزار چھ سو ستاون روپے ہے۔ ۱۹۴۴ء؁ کی قربانی جو دسویں سال کی قربانی ہے ملا کر یہ رقم یقینا ایک لاکھ کی گرانقدر رقم بن جاتی ہے۔ دس سال میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صرف ایک مَد میں ایک لاکھ کی قربانی ان تمام دیگر مالی قربانیوں پر ہمارے لئے ایک وسیع نظر ڈالنے کا موقعہ پیدا کر دیتی ہے اور ہم کو بتلاتی ہے کہ کس طرح خاندان کا ہر چھوٹا بڑا فرد سلسلہ کی حفاظت ، سلسلہ کی اشاعت میں لگا ہوا ہے اور کس قدر شان کے ساتھ حضور ؑ کی وہ پیشگوئی جو اس مبشر اولاد کی دینی خدمات کے متعلق تھی پوری ہوئی۔
میں از حد ممنون ہوں چوہدری برکت علی خان صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید کا جہنوں نے نہایت محنت کے ساتھ مجھے یہ دس سالہ فہرست تیار کرا کے دی۔ اس فہرست کے ساتھ انہوں نے تحریک جدید کے متعلق ایک مفصل تقریر بھی لکھ کر دی ہے۔ اگرچہ اس تقریر کا اصل کتاب یا نفِس موضوع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کے پڑھنے سے تحریک جدید کی تحریک پر ایک جستہ نظر پڑ جاتی ہے اور اس تحریک کی عظمت معلوم ہو جاتی ہے۔ میں فنانشل سیکرٹری صاحب کی اس تحریر کے کچھ حصہ کو اس نیت سے کہ ممکن ہے کہ اس سے خداتعالیٰ کے بندوں میں سے کسی کی راہنمائی ہو اور اس طرح میں بھی تحریک جدید کے مقصد عظیم کی خدمت میں شریک ہو سکوں۔ باوجود کاغذ کی گرانی اور کتاب کے حجم کے بڑھ جانے کے زائد صفات لگا کر شائع کر رہا ہوں کہ شاید میری یہ ادنیٰ خدمت بارہ گاہِ الٰہی میں قبول ہو۔
رَبَّناَتَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریک جدید کے
جہاد میں شاندار اور قابلِ تعریف قربانیاں!
اسماء گرامی
اوّل
دوم
سوم
چہارم
پنجم
ششم
ہفتم
ہشتم
نہم
میزان
سیّدہ اُمُّ المؤمنین مدظلہا اللہ تعالیٰ
۳۰۰
۳۰۰
۵۰۰
۳۰۰
۳۰۵
۳۵۰
۳۶۰
۳۶۲
۳۶۵
۳۱۴۲
سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۷۲۰
۱۰۳۴
۱۷۴۰
۲۰۰۰
۲۰۸۸
۲۲۶۲
۲۴۳۶
۲۶۱۰
۲۷۸۴
۱۷۶۷۴
حضرت اقدس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی نوسالہ رقوم کی اسم وار تفصیل حسبِ ذیل ہے
حضرت اقدس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز از خود
۳۰۰
۳۰۱
۵۰۰
۵۷۵
۶۰۰
۶۵۰
۷۰۰
۷۵۰
۸۰۰

دس نادار احمدیوںکی طرف سے
۳۰۰
۳۰۱
۵۰۰
۵۷۵
۶۰۰
۶۵۰
۷۰۰
۷۵۰
۸۰۰

از سیّدہ امۃ الحی صاحبہ مرحومہ
۶۰
۶۱
۷۰
۸۰
۸۴
۹۱
۹۳
۹۵
۹۷

از سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ
۶۰
۶۱
۷۰
۸۰
۸۴
۹۱
۹۳
۹۵
۹۷

از حضرت نبی کریم ﷺ و حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۸۰
۳۰۱
۵۰۰
۵۷۵
۶۰۰
۶۵۰
۷۰۰
۷۵۰
۸۰۰

ان روحوں کی طرف سے جو صداقت کیلئے تڑپ رہی ہیں
۱۰
۱۱
۱۰۰
۱۱۵
۱۲۰
۱۳۰
۱۵۰
۱۷۰
۱۹۰

سیّدہ اُم ناصر احمد صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰۰
۱۳۰
۱۵
۱۵۱
۱۵۲
۱۵۳
۱۵۴
۱۶۰
۱۶۱
۱۳۱۱
سیّدہ اُم طاہر احمد صاحبہ سلمہا اللہ
۱۷۵
۸۲/ ۱۸۸
۸/ ۲۲۲
۴/ ۲۲۴
۲۲۵
۱۲/ ۲۲۵
۸/ ۲۲۷
۲۳۴
۲۳۵
۱۲/ ۱۹۵۷
صاحبزادی امۃ الحکیم صاحبہ سلمہا اللہ
۵
۴/ ۵
۸ / ۵
۱۲/۵
۶
۴/ ۶
۸/۶
۸
۱۵
۴/ ۶۳
صاحبزادہ طاہر احمد صاحب
۵
۴/۵
۸/۵
۱۲/ ۵
۶
۴/ ۶
۸/۶
۸
۱۰
۴/ ۵۸
صاحبزادی امۃ الجمیل صاحبہ سلمہا اللہ
۵
۴/۵
۸/۵
۱۲/۵
۶
۴/ ۶
۸/ ۶
۸
۱۰
۴/ ۵۸
صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ سلمہا اللہ
۵
۴ / ۵
۸/ ۵
۱۲/ ۵
۶
۴/ ۶
۸/ ۶
۸
۱۵
۴/ ۶۳
صاحبزادہ میرزا خیل احمد صاحب
۵
۴ / ۵
۸/ ۵
۱۲/ ۵
۶
۴/ ۶
۸/ ۶
۸
۲۰
۴/۶۸
صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ
۵
۸/۵
۶
۸/۶
۷
۸/ ۷
۸
۸/۸
۹
۶۳
سیّدہ اُم وسیم احمد صاحبہ
۶۰
۹۰
۱۲۰
۸۰
۶۰
۶۱
۶۲
۶۴

۵۹۷
سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ
۱۰
۹۰
۹۵
۵۰
۶۱
۶۳
۶۵
۶۷
۷۰
۵۷۱
صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ
۵
۸/۵
۶
۸/۶
۷
۸/۷
۸
۸/۸
۱۰
۶۴
صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب
۶۰
۹۰
۱۵۰
۱۶۰
۷۰
۱۰۰
۱۰۱
۱۰۲
۱۰۳
۹۳۶
سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ
۱۰۰
۵۰
۱۲۵
۱۵۰
۱۰۰
۷۱
۸۰
۸۱
۹۰
۸۴۷
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب
۳۰
۵۰
۶۱
۷۱
۷۳
۷۵
۷۶
۷۷
۱۰۰
۶۱۳
صاحبزادی طیبہ بیگم صاحبہ
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۳۰
۴۰
۴۱
۴۲
۵۵
۲۷۸
صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب
۵
۱ / ۵
۲/ ۵
۳/ ۵
۴/ ۵
۵/ ۵
۶/ ۵
۷/ ۵
۸/ ۵
۴/ ۴۷
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب
۳۰
۵۰
۶۱
۶۵
۶۷
۶۹
۷۱
۷۵
۸۰
۳۶۸
سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہ
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۳۰
۳۵
۴۰
۴۵
۵۰
۲۷۰
میاں عبدالرحیم احمد صاحب
۵
۸
۲۰
۲۱
۲۲
۲۳
۴۲
۶۱
۷۰
۲۷۲
سیّدہ امۃ الرشید صاحبہ
۵
۲۰
۳۰
۳۱
۳۲
۳۳
۶۰
۶۱
۷۰
۳۴۲
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
۳۰۰
۴۰۰
۴۸۰
۳۱۲
۳۱۵
۳۱۸
۳۲۱
۳۲۴
۳۳۰
۳۱۰۰
سیّدہ اُم مظفر صاحبہ سلمہا اللہ
۳۰
۵۰
۷۰
۱۰۰
۵۰
۵۱
۵۲
۵۴
۵۵
۵۱۲
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ اللہ
۳۰
۶۰
۷۵
۱۵۰
۱۶۵
۲۵۰
۲۷۵
۲۷۰
۴۰۰
۱۶۷۵
سیّدہ امۃ القیوم صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰
۲۰
۳۱
۵۰
۶۰
۱۲۰
۱۳۰
۱۳۵
۱۴۰
۶۹۶
صاحبزادہ میرزا حمیداحمد صاحب سلمہ اللہ
۹
۱۰
۲۵
۲۶
۲۵
۱۵
۲۵
۳۰
۵۰
۲۱۵
سیّدہ امۃ العزیز صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰
۲۰
۲۵
۲۶
۳۰
۴۰
۴۵
۴۶
۵۰
۲۹۲
صاحبزادہ میرزا منیر احمد صاحب سلمہ اللہ


۲۵
۲۵
۳۰
۱۵
۱۷
۲۱
۱۲۱
۲۵۴
سیّدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۳۰
۴۰
۴۵
۵۰
۶۱
۲۹۶
صاحبزادہ میززا مبشر احمد صاحب سلمہ اللہ
۵
۶
۷
۸
۹
۱۴
۱۵
۱۶
۱۷
۹۷
صاحبزادہ میرزا مجید احمد صاحب سلمہ اللہ
۵
۶
۷
۸
۹
۱۲
۸/ ۱۲
۱۵
۲۴
۸/ ۹۸
حضرت میرزا شریف احمد صاحب سلمہ اللہ
۱۰۰
۱۵۰
۱۵۰
۱۰۰
۱۰۱
۱۰۲
۱۰۳
۱۵۰
۲۵۰
۱۲۰۶
حضرت صاحبہ بیگم
۶۰
۹۰
۱۱۵
۲۰۰
۱۵۰
۱۰۰
۱۰۱
۱۰۵
۱۰۷
۱۰۶۸
صاحبزادہ میرزا منصور احمد صاحب سلمہ اللہ
۵
۱۵۰
۲۰۰
۲۱۰
۲۱۱
۳۵
۴۵
۵۰
۱۲۰
۱۰۲۶
صاحبزادی سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰۰
۱۵۰
۲۰۰
۲۱۰
۲۱۰
۵۰
۵۵
۶۰
۱۵۰
۱۱۵۸
صاحبزادہ میرزا داؤد احمد صاحب سلمہ اللہ
۵
۳۰
۳۱
۳۲
۳۳
۳۴
۴۰
۵۰
۲۰۰
۴۵۵
بیگم صاحبہ………
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۲۵
۴۰
۴۵
۵۰
۱۰۰
۳۳۰
حضرت نواب خان محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ
۳۰۰
۵۰۰
۷۰۰
۵۰۰
۵۵۰
۲۰۰
۲۰۱
۱۰۰
۱۰۰
۳۱۵۱
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سلمہااللہ
۳۰۰
۵۰۰
۶۲۵
۷۱۰
۷۲۵
۷۴۰
۷۵۵
۷۷۰
۸۰۰
۵۹۲۵
میاں محمد احمد خان صاحب سلمہ اللہ
۳۰
۳۱
۵۰
۵۵
۵۶
۳۰
۳۱
۷۰
۱۰۰
۴۵۳
بیگم صاحبہ میاں محمد احمد صاحب
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۳۰
۳۰
۳۱
۵۰
۸۰
۲۹۱
حامد احمد خان صاحب پسر
۵
۶
۷
۱۰
۱۱
۱۰
۱۲
۲۵
۴۵
۱۳۱
صاحبزادی راشدہ بیگم صاحبہ
۵
۵
۵
۵
۵
۵
۶
۱۵
۳۵
۸۶
میاں مسعود احمد خان صاحب
۳۰
۳۱
۳۱
۴۰
۴۵
۵۰
۵۵
۵۸
۶۰
۴۰۰
بیگم صاحبہ میاں مسعود احمد خان صاحب
۱۰
۱۵
۲۰
۲۵
۳۰
۳۵
۴۰
۴۱
۴۵
۲۶۱
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب سلمہ اللہ
۵۰۰
۶۵۰
۷۵۰
۵۵۰
۶۰۰
۶۰۱
۶۲۶
۶۳۱
۱۱۰۰
۶۰۰۸
حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ
۲۰۰
۳۵۰
۴۵۰
۳۰۰
۳۵۰
۳۵۱
۳۷۶
۳۰۱
۴۰۰
۳۰۷۸
صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ
۵
۶
۷
۸
۹
۱۰
۱۲
۲۰
۲۵
۱۰۲
میاں عباس احمد خان صاحب سلمہ اللہ
۱۰۰
۵۰
۶۵
۷۰
۷۵
۷۶
۷۷
۷۸
۸۰
۶۷۱
میرزا عزیز احمد صاحب بمعہ اہل و عیال و اہلیہ مرحومہ سعید احمد صاحب مرحوم و مبارک احمد صاحب مرحوم
۳۱۰
۴۶۵
۶۰۰
۳۱۰
۳۰۵
۴۰۸
۴۱۵
۴۲۰
۵۷۵
۳۸۰۸
میرزا رشید احمد صاحب سلمہ اللہ
۳۰۰
۶۰۰
۹۰۰
۴۰۰
۴۲۵
۴۵۰
۴۵۵
۵۰۰
۵۲۵
۴۵۵۵
سیّدہ امۃ السلام صاحبہ سلمہا اللہ
۱۰۰
۱۵۰
۲۰۰
۲۰۱
۲۰۵
۲۰۶
۲۰۶
۲۰۷
۲۰۸
۱۶۸۳
بیوہ مرحومہ میرزا فضل احمد صاحب مرحوم
۵
۱/۵
۲/۵
۳/۵
۴/۵
۵/۵
۶/۵
۷/۵
۵/۸
۱/۵۰
میرزا سعید احمد صاحب مرحوم ابن میرزا عزیز احمد صاحب سلمہ اللہ
۳۰
۶۰
فوت ہو گئے۔ انا اللّٰہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم اپنے والد کے ساتھ شامل ہیں۔
۹۰
مبارک احمد صاحب مرحوم ابن میرزاعزیزاحمد صاحب سلمہ اللہ
اپنے والد صاحب میرزا عزیز احمد صاحب سلمہ اللہ کے ساتھ شامل ہیں
۱۳
۱۵
فوت ہو گئے
۲۸
سیّدہ امۃ الودود صاحبہ مرحومہ دختر حضرت میرزا شریف احمد صاحب
۵
۶
۷
۸
۹
۱۵
فوت ہو گئیں۔ انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون
۵۰
کل میزان
۴۲/۷۲۹۶۳
تیار کنندہ: طالب دعا عبدالرحیم عفا اللہ عنہ عاد ل گڑھی محلہ دارالبرکات قادیان۔
خاکسار برکت علی خان۔ فنانشل سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمدیہ قادیان دارالامان
تحریک جدید کے دس سالہ جہاد میں خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کی شاندار اور قابلِ تعریف قربانیاں
حمد و ثناء اسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی
تمام قسم کی تعریفیں اس ذات پاک کیلئے ثابت ہیں جو تمام جہانوں کے پالنے والا ہے۔ بے انت درود و سلام ہو اس نبیوں کے سردار پر جو اس کے دوستوں میں سے سب سے برگزیدہ اور سب سے زیادہ پیارا ہے اور اس کی تمام مخلوق اور ہر ایک پیدائش سے پسندیدہ اور خاتم الانبیاء اور فخراولیاء ہے۔ وہ ہمارا سیّد ہمارا امام ہمارا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو زمین کے باشندوں کے دل خوش کرنے کے لئے خدائے وحدہٗ لاشریک کا آفتاب ہے۔
بے شمار اور ان گنت سلام اور درود نازل ہوں خدائے پاک کے اس برگزیدہ بندے پر جسے اس نے اس زمانہ کیلئے مسیح موعود ؑ اور مہدی معہود ؑ کر کے بھیجا۔ سلام اور درود ہوں اس کی آل و اصحاب پر اور اس کے نیک بندوں پر سلام ہوں۔ سلام ودرود ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب و صدیقین پر جو اپنے امام پاک۔ امام کی ہدایات پر عمل کرتے اور خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہوئے اپنے مولا کو خوش کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
الٰہی تو اپنے رحم سے احمدیہ جماعت کو توفیق بخش کہ وہ اپنے امام سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے ماتحت تیری راہ میں وہ شاندار قربانیاں کرے جس سے ان تمام کو تیری رضا حاصل ہو جائے۔ تو جماعت کی تمام کمزوریوں، سُستیوں اور غفلتوں سے درگذر فرما کہ تیرا نام ستاروغفّار ہے۔ تو اپنے بندے محمود جو تیرے نام اور تیرے اسلام کا جھنڈا ہر ایک ملک ہر ایک جگہ اور ہر مقام پر گاڑنے کے لئے رات دن کو شاں ہے اپنے فضل و رحم سے کامیاب فرمااور اسے وہ صحت کاملہ عطا فرما جس سے رہتی دنیا تک اس کا فیض جاری رہے۔
اس کے بعد واضح ہو کہ تمام دنیا کو یہ بات معلوم ہے کہ آج سے نو سال قبل اسلام اور احمدیت کا دشمن اپنے سارے لاؤ لشکر سمیت اسلام اور احمدیت پر حملہ آور ہوا ۔ احمدیت کے اولوالعزم جرنیل، پہلوانِ جلیل نے جو خدا کا ’’موعود خلیفہ‘‘ ہے اس دشمن کو شکست دینے کے لئے میدانِ عمل میں آیا اور اس نے احمدیت کے ہر ایک سپاہی سے یہ چاہا کہ وہ مقابلہ کے لئے آوے۔ چنانچہ آپ نے احمدیت کے ہر ایک سپاہی سے انیس مطالبات کئے۔ ان انیس مطالبات کا نام ’’تحریک جدید‘‘رکھا گیا۔
ان مطالبات میں سے پہلا مطالبہ یہ تھا اور ہے کہ ہر ایک احمدی عورت ہو یا مرد سادہ زندگی بسر کرے۔
دین کی خاطر خاص قربانیاں کرنے کیلئے ماحول پیدا کرنے کی ضرورت۔ مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مطالبات
’’میں کہتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب کہ اس کے لئے مال پیدا نہ کیا جائے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا مال سلسلہ کا ہے۔ مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے۔ اس قسم کی قربانی نہ قربانی کرنے والے کو کچھ نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سلسلہ ان کے الفاظ کو کہ میرا سب مال حاضر ہے کیا کرے۔ جبکہ سارے مال کے معنے صفر کے ہیں۔ جس شخص کی آمد سو روپیہ اور خرچ بھی سو روپیہ ہے وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ جب تک کہ پہلے خرچ کو نوے پر نہیں لاتا۔ تب بیشک اس کی قربانی کے معنی دس فیصدی قربانی کے ہوں گے۔ پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کے ماحول کو پیدا کیا جائے۔
’’اصل بات یہ ہے کہ قربانی کرنا مشکل نہیں ایمان لانا مشکل ہے۔ جس کے دل میں ایمان پیدا ہو جائے اس کے لئے کوئی بھی قربانی مشکل نہیں ہوتی اور میں امید کرتا ہوں کہ جن مردوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ عورتوں کی اور جن بچوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ اپنے ماں باپ کی مدد کریں گے اور آئندہ قربانیوں کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔‘‘
پس جماعت سے قربانی کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ کھانے میں سادگی پیدا کی جائے یعنی ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے۔
تحریک جدید امانت فنڈ اور احرار کی خطرناک شکست
’’دوسرا مطالبہ یہ کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک ایسی جماعت نکلے جو اپنی آمد کا ۵/۱ سے ۳/۱ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تحریک جدید میں جمع کرائے۔ اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر وہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں وہ سب رقم اس حصہ میں سے لوٹا لیں۔ باقی رقم اس تحریک کی امانت میں جمع کرا دیں۔ بہرحال یہ قربانی مالی لحاظ سے بھی مفید ہو گی۔ انشاء اللہ‘‘
اس میں فائدہ یہ ہے کہ احتیاط اور کفایت کے ساتھ دوست خرچ کریں گے اور بچت کر سکیں گے۔ تین سال کے بعد تمام کی تمام رقم بصورت نقدی یا بصورت جائیداد انہیں واپس مل جائے گی۔ یہ چیز چندہ تحریک جدید سے کم اہمیت نہیں رکھتی اور پھر اس میں یہ سہولت ہے کہ اس طرح تم پس انداز کر سکو گے۔ اگر کوئی شخص اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اس کے پاس جائیداد ہے۔ اتنی ہی قربانی کی روح اس کے اندر موجود ہے تو اس کا جائیداد پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے۔ اس کا دنیا کمانے میں وقت لگانا بھی نماز سے کم نہیں۔
امانت فنڈ تحریک جدید کے ذریعہ احرار کو خطرناک شکست ہوئی ہے۔ اتنی بڑی شکست کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شکست میں کم از کم ۲۵ فیصدی حصہ امانت فنڈ تحریک جدید کا ہے۔ باوجود اس قدر فوائد ہونے کے دوستوں کا تمام روپیہ محفوظ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دس بارہ سال تک ہماری جماعت کے دوست اپنے نفسوں پر زور ڈال کر امانت فنڈ تحریک جدید میں روپیہ جمع کراتے رہیں اور اس دوران میں جس کو ضرورت ہو وہ روپیہ لیتا رہے تو خدا کے فضل سے قادیان اور اس کے گردو نواح میں ہماری جماعت کی مخالفت ۹۵ فیصدی کم ہو جائے۔
تحریک جدید کا امانت فنڈ الہامی تحریک ہے!
غرض یہ تحریک ایسی اہم ہے کہ میں تو جب بھی تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق غور کرتا ہوں۔ ان سب میں سے امانت فنڈ تحریک جدید کو دیکھ کر خود حیران ہو جایا کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ امانت فنڈ تحریک جدید کی تحریک الہامی ہے کیونکہ بغیر کسی قسم کے بوجھ اور غیر معمولی چندہ کے اس فنڈ سے ایسے ایسے کام ہوئے ہیں جو جاننے والے جانتے ہیں وہ ان کی عقل کو حیرت میں ڈال دینے والے ہیں۔ اب جو نیا فتنہ اٹھا تھا اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو درحقیقت اس میں بہت حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا تھا۔ پس جو دوست اس میں شامل نہیں ہوئے وہ اس وقت شامل ہو جائیں۔
پس اب اس امانت فنڈ کے بارے میںحضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ جب چاہے واپس لے لے۔ لہذا جو دوست اب تک ایسے اہم امانت فنڈ میں شامل نہیںہوئے وہ اب شامل ہو جائیں۔
سال اوّل میں چندہ تحریک جدید کی قربانیوں کا مطالبہ
امانت فنڈ تحریک جدید کے مطالبہ کے بعد تیسرا مطالبہ ’دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب‘۔ چوتھا ’تبلیغ بیرون ہند‘۔ پانچواں ’تبلیغ خاص‘ اور چھٹا مطالبہ ’سروے سکیم‘ بطور چندہ کے تھا۔ پہلے سال میں ان چاروں مدّات کے لئے حضور ایدہ اللہ نے مخلصین جماعت سے ساڑھے ستائیس ہزار کا مطالبہ فرمایا۔ مگر خدا کے فضل اور اس کی ہی دی ہوئی توفیق سے احمدیہ جماعت نے اپنے امام کے حضور وہ شاندار او رقابل تعریف نمونہ پیش کیا جو ایک مخلص مومن کا فرض ہے اور ان مومنوں کے اس نمونہ کی مثال سوائے رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے اور کہیںنہیں ملتی۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک لاکھ دس ہزار روپیہ نقد قدموں میں لاڈھیر کیا۔ جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اصل مطالبہ سے چار گنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مدات مذکورہ بالا کی تقسیم نہیں رہ سکی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے منظوری عطا فرما دی تھی کہ بجائے مدات کے اس کا نام چندہ تحریک جدید رکھا جائے۔ احباب کو یاد رہے کہ :
’’یہ غفلت کا زمانہ نہیں ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ آج نہیں تو کل ثواب کا موقعہ مل جائے گا۔ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور یہ مسیح موعود ؑ کے زمانے کے متعلق ہی ہے۔ پس ڈرو اس دن سے کہ جب تم کہو کہ ہم جان و مال دینا چاہتے ہیں۔ مگر جواب ملے گا کہ اب قبول نہیں کیا جا سکتاہے۔‘‘
پس احباب کوتحریک جدید کے جہاد میں جلد سے جلد اپنے آپ کو شامل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔
تحریک جدید سال دوم کا مطالبہ
حقیقی قربانی کا ثبوت
’’میں جماعت کو بتا چکا ہوں کہ ابتلاؤں کا ایک لمبا سلسلہ ان کے سامنے ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ان کے سامنے ہے۔ جسے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہی ختم کرے گا۔ گذشتہ قوموں سے زیادہ قربانیوں کی اُمید ان سے کی جاتی ہے۔ چونکہ ان کے سپرد دنیا کی جنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پس یاد رکھو کہ جو اس وقت کی حقیر قربانی نہیں کر سکتا کہ یہ جو مطالبات میں کر رہاہوں آئندہ کے مقابلہ پر بالکل حقیر ہیں۔ اسے اس سے بڑی قربانیوں کی توفیق نہیں مل سکتی جو آج چھوٹی کلاس کا سبق یاد نہیں کرتا وہ کل کے بڑے امتحان میں ضرور فیل ہو گا۔ جو آج قربانی کی مشق نہیں کرتا وہ کل ضرور میدانِ کا رزار سے بھاگے گا۔ منافق یہی کہتے ہوئے مر جائیں گے کہ ہائے چندہ،ہائے چندہ۔ مگر ان کاٹھکانا خدا کے پاس نہیں ہو گا۔ ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ پس میں دوسرے سال کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کرتا ہوں کہ دوست پہلے سے زیادہ اس سال حصہ لیں گے۔ اور حقیقی قربانی کا ثبوت دیں گے تا ایمان کی قیمت میں اضافہ کا ثبوت مل سکے۔
’’میں اللہ تعالیٰ پر اس تحریک کی تکمیل کو چھوڑتا ہوں کہ یہ کام اسی کا ہے اور میں صرف ایک حقیر خادم ہوں۔ لفظ میرے ہیں مگر حکم اس کا ہے۔ وہ غیر محدود خزانوں والا ہے اسے میرے دل کی تڑپ کا علم ہے اور اس کام کی اہمیت کو جو ہمارے سپرد ہے وہ ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔ پس میں اُسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے سینوں کو کھولے اور ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تا وہ ایک مخلص اور باوفا عاشق کی طرح اس کے دین کی خدمت کیلئے آگے بڑھیںاور دیوانہ وار اپنی بڑی اور چھوٹی قربانی کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں اور اپنے ایمان کا ایک کھلا ثبوت دے کر دشمن کو شرمندہ کریں اور اس کی ہنسی کو رونے سے بدل دیں اور نہ صرف یہ قربانی کریں بلکہ دوسرے مطالبات جو جانی اور وقتی قربانیوں سے تعلق رکھتے ہیںان میں دل کھول کر حصہ لیں۔ اللھم آمین یا رب العلمین۔‘‘
ہر جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے
مندرجہ بالا تحریک جدید کے نو سالہ جہاد کا نہایت مختصر خلاصہ سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں دیا گیا ہے۔ اس غرض سے کہ سیّدہ حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کی سیرت پاک کے پڑھنے والے کو تحریک جدید کی اہمیت اور ضرورت اور اس کے اعلیٰ شیریں ثمرات کا علم ہو جائے۔ اگر وہ اب تک اس جہاد میں شامل نہیں ہوا اور اب اسے اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے تو وہ بھی سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہو کر رضا ء الٰہی حاصل کر سکے۔
مکرمی مخدومی شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم نے سکندر آباد سے ایک خط لکھا کہ میں اس سیرۃ میں سیّدہ حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کی مالی قربانیوں کا نقشہ دینا چاہتا ہوں۔ اس لئے آپ سیّدہ حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کی تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا نقشہ بنا دیں اور ساتھ ہی اس کے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر ایک ممبر کا نقشہ بھی بنا دیا جائے تا خاندان کے ہر ایک فرد کی تحریک جدید کے جہاد میں مالی قربانیوں کاحصہ شائع کیا جاسکے۔
میں نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانیوں کا نقشہ تیار کرنے سے پہلے ضروری سمجھا کہ اس کی سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجازت حاصل کروں۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور جب یہ معاملہ پیش کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ:
’’بے شک دے دیں‘‘۔
سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت کے بعد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تحریک جدید کے نو سالہ جہاد کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ذیل کے ارشاد کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’انجیل میں کہا گیا ہے کہ تم اپنے نیک کاموں کو لوگوں کے سامنے دکھلانے کیلئے نہ کرو۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ تم حسب مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجا لاؤ۔ جبکہ تم دیکھو کہ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کیلئے بہتر ہے اور بعض اعمال دکھلا کر بھی کرو جبکہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے۔ تا تمہیں دو بدلے ملیں اور تا کمزور لوگ جو کہ ایک نیکی کے کام پر جرأت نہیں کر سکتے وہ بھی تمہاری پیروی سے اس نیک کام کو کر لیں۔ غرض خدا نے جو اپنے کلام میں فرمایا۔ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً- یعنی پوشیدہ بھی خیرات کرو اور دکھلا دکھلا کر بھی ان احکام کی حکمت اس نے خود فرما دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھاؤ بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو کیونکہ ہر ایک جگہ قول اثر نہیں کرتا۔ بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانیوںکی فہرست اسی غرض سے شائع ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے خاندان کے ہر ایک ممبر کی قربانی ایسی شاندار اور قابلِ تعریف ہے کہ وہ خود بخود ہر ایک احمدی کو اپیل کرتی ہے کہ وہ بھی اسی طرح اشاعت اسلام اور اشاعت احمدیت کے لئے قربانیاں کرے۔ تااللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو۔ فہرست کے پڑھنے سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاندان کے اکثر ممبروں کا چندہ ہر سال پہلے سال سے اضافہ کے ساتھ ہے اور خاندان کی طرف سے نوسالہ قربانی میں بہتّر ہزار چھ سو ستاون روپیہ ادا ہوا ہے۔ علاوہ ان چندوں کے جو معمولی چندے حصہ آمد یا عام چندہ یا صدقات و خیرات میں دیئے جاتے ہیں۔ صرف خاندان کی تحریک جدید کی رقم ہی باقی جماعت کے چندہ کا ۱۶/۱ حصہ ہے۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْجَزَائَ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃِ-
پس احمدیہ جماعت کے ہر فرد کو اسی جذبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتے ہوئے ثواب حاصل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَااَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ-
خاکسار
برکت علی خان
فنانشل سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمدیہ قادیان دارالامان۱۵ نومبر ۱۹۴۳؁ء
سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین کی پہلی جلد کی تکمیل اور داستانِ تصنیف
گذشتہ سال کے سالانہ جلسہ کے بعد تین کتابوںکی تصنیف و اشاعت کا میں نے اعلان کیا تھا ۔ جن میں سے پہلی تصنیف سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین تھی۔ کتاب کے اعلان کے بعد میں سخت بیمار ہو گیا۔ میری زندگی ایسے لمحات میں سے گذرنے لگی جو نہ صرف مرض کی وجہ سے شدید تھے بلکہ اپنی شدت تکلیف کی وجہ سے بھی بڑے خطرناک تھے۔ صحت کو ایسا دھکا لگا کہ مبصرین صحت کے نزدیک ایک لمبے عرصہ تک مجھے ہر قسم کے کاروبار سے الگ ہو کر محض سیروسیاحت اور تبدیلی آب و ہوا میں لگ جانا چاہئے تھا۔ چنانچہ میں قادیان سے سکندر آباد دکن چلا گیا۔ کچھ دن والد صاحب قبلہ کے ظلِ عاطفت میں اور کچھ دن وارنگل میں برادر عزیز شیخ دائود احمد عرفانی کے پاس اور کچھ دن عزیز مکرم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی کے پاس بمبئی میں گزارے۔ اس تبدیلی مکانی سے میری صحت پر اچھا اثر پڑا اور میری صحت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی۔
اس حالت میں پھر قلب میں وہ وارفتگی پیدا ہوئی اور دماغی جنون نے قلم ہاتھ میں پکڑنے کے لئے پکارنا شروع کیا۔ لکھنا پڑھنا بذاتِ خود ایک مرض ہے جن کو یہ مینیا ہو جاتا ہے وہ کسی حالت میں بھی کتاب اور کاغذ سے الگ نہیں ہو سکتے۔
میری اپنی یہ حالت ہے کہ میں شدید سے شدید بیماری میں بھی اخبارکو ہاتھ میں لینے اس کی سطروں پر نظر ڈالنے سے تسکین پایا کرتا ہوں۔ کتابوں پر صرف ہاتھ پھیر لینے سے بھی ایک قسم کی تسلی ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ جنون اور بھی بڑھ جاتا ہے وہ تو سکرات ِ موت میں بھی ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ ایک مشہور اخبار نویس کا لکھا ہے کہ مرنے سے پہلے وہ حالت بے ہوشی میں بار بار کہتا تھا:
اس ٹکڑے کو محفوظ کر لو۔ یہ بہت کار آمد ہے۔ اور اپنے گریبان کو انگلیوں سے کاٹ کر کہتا کہ یہ لوکٹنگ سنبھال کر رکھو یہ کام کا جنون ہے۔
مجھے سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین لکھنے کے لئے ایساہی جنون تھا۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے میرے دماغ پر یہ دُھن سوار تھی۔ چنانچہ میں نے اپنی صحت اور طاقت کا اندازہ کئے بغیر اپنے آپ کو میدانِ عمل میں پھینک دیا۔
سیرت اُمُّ المؤمنین کا مواد
سیرت اُمُّ المؤمنین کا مواد میری نگاہ میں بہت کم تھا۔ اس لئے مجھے تلاش و جستجو میں بہت کچھ سرگردان ہونا پڑا۔ میں نے بلا مبالغہ ہزارہا صفحے اس غرض و غایت کے ماتحت پڑھ ڈالے۔ کئی نوٹ اور یادداشتیں لکھیں۔ چند دن کی محنت نے مجھے بتلا دیا کہ جسم اس قدر محنت کو برداشت نہیں کر رہا۔ ریت کی دیوار کھسِکتی ہوئی نظر آنے لگی۔ مگر اب کتاب کا اعلان ہو چکا تھا۔ جماعت کی طرف سے اس کا ویلکم ہو رہا تھا۔ میں نے جو مانگا وہ مجھے مل رہا تھا۔ اب میں نے دونوں حالتوں کا پورا پورا موازنہ کیا۔ ایک طرف اپنی صحت اور دوسری طرف اس ذمہ واری کا جسے میں نے اپنے اوپر لے لیا تھا اور میں نے پورے غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میں اس کام کو جاری رکھوں گا اور ہر قیمت پر جاری رکھوں گا۔ خواہ مجھے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے پہنچاتے اپنی زندگی کا کھیل ختم کر دینا پڑے۔ مجھے اس ذمہ واری کو نبھانا ہو گا اور ہر قیمت پر نبھانا ہو گا۔ چنانچہ میں ایک تندرست آدمی سے بھی زیادہ مشقت کا بار اٹھاتارہا اور دن اور رات کام کرتا چلا گیا۔
اس محنت نے مجھے بخار میں مبتلا کر دیا اور کھانسی کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ بعض راتیں تو میں نے کھانستے کھانستے ختم کر دیں۔ مگر میں نے کئی کئی دن اپنے بخار کا کسی سے ذکر نہ کیا کہ مبادا یہ میرے عزیز مجھے کام کرنے سے روک دیں۔ چنانچہ جب ان کو پتہ لگا تو انہوں نے میرے کام کو روکنے کی ہر ممکن صورت اختیار کی مگر میں نے کسی بات پر بھی توجہ نہ کی۔ انہوں نے ڈاکٹر کو بُلانا چاہا میں نے اس کو بھی پسند نہ کیا۔ کیونکہ ڈاکٹر کے آنے کے یہی معنی تھے کہ کام بند۔ جسے میں کسی قیمت پر بند کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ بالآخر مرض نے مجھ پر اس قدر غلبہ کر لیا کہ ایک دن جبکہ میں لکھ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرا دماغ کچھ سوچ رہا ہے اور میرا قلم کچھ لکھ رہا ہے۔ ہردفعہ مجھے اپنے لکھے ہوئے فقرے کاٹنے پڑتے تھے۔ اس طرح چند صفحات خراب ہو گئے۔
تب مجھے مایوسی ہوئی۔ یہ میری زندگی کا بالکل پہلا واقعہ تھا۔ میں لکھ کر کاٹنے کا عادی نہیں دماغ ہر فقرے کو مکمل اور درست طور پر وضع کرتا ہے اور پھر اس پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن آج کی کیفیت نے مجھے گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے سمجھا کہ ا ب میرے اعصاب میرا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور دماغ اور دوسرے پٹھوں کا تعاون نہیں رہا۔ تب میں نے ان لکھے ہوئے صفحات کو پھاڑ کر پھینک دیا اور میںایک تھکے ہوئے اور بہت تھکے ہوئے بیمار کی طرح چار پائی پر لیٹ گیا۔
کتاب حیدر آباد میں چھپ رہی تھی مضمون میرے دماغ میں تھا وقت بہت تنگ تھا ان حالا ت نے میرے اندر ایک مایوسی کی لہر پیدا کی اور میں مایوس ہو کر بستر علالت پر لیٹ گیا۔ چند یوم کام چھوڑنا پڑا۔ ڈاکٹر کا مشورہ تو مجھے معلوم ہی تھا۔ ذرا آرام ملنے پر باوجود سخت کمزوری اور نقاہت کے اس کتاب کے کام کو مکمل کرنے کی توفیق پا لی اور وہ کتاب جسے میں چار سو صفحے پر ختم کرنا چاہتا تھا ۴۶۴ صفحات تک بڑھ گئی۔
یہ جو کچھ ہوا میری طاقت اور ہمت سے بالکل بڑھ کر ہوا۔ میرے وہم و گمان سے بالکل باہر ہوا۔ میرے جیسا بیمار ایسے کام کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ سب کام اپنے فضل سے ایسے رنگ میں کرا دیئے کہ میں خود محوِحیرت ہوں۔
میرا پہلا مطالبہ پانچ ہزار کتاب شائع کرنے کا تھا۔ کاغذ کی مشکلات کی وجہ سے میں خود اس مطالبہ پر قائم نہ رہ سکا اور میں خود اس سے نیچے اُتر کر تین ہزار پر آ گیا۔ میرے دل میں یہ شوق تھا کہ کتاب زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کے ہاتھوں میں جائے اور یہ کتاب چھپنے سے قبل بِک جائے تا ہماری محبت کا ایک مظاہرہ ہو سکے۔
میں نے اپنی طرف سے یہ ہی قربانی نہیں کی کہ کتاب کے لکھنے کا ایسے وقت عزم کیا جبکہ میری صحت اس کی اجازت نہ دیتی تھی بلکہ یہ بھی قربانی تھی کہ میں نے اس کی قیمت اتنی کم رکھی جو آج اس زمانہ میں کوئی رکھ نہیں سکتا۔ سوائے چند کاپیوں کے ساری کی ساری کتاب دو روپے فی جلد کے حساب سے دے دی۔ میں اپنی اس خواہش کے پورا کرنے کے لئے تحریکات کرنے، اعلانات کرنے، خطوط لکھنے، روپیہ جمع کرنے کا کام بھی خود ہی کر رہا تھا۔ خدا تعالیٰ کا شُکر ہے کہ قوم نے میری آواز کو سنا اور اپنی محبت اور شوق اور عشق کا ٹھیک ویسا ہی مظاہرہ کیا جس کی مجھے خواہش تھی۔
تین ہزار کتاب ریزرو ہو گئی۔ بیشتر حصہ کی قیمت نقد وصول ہو گئی۔ مجھ سے بہت سے بزرگ احباب اور خواتین نے کتاب کے کم از کم چار ہزار چھاپنے کا مطالبہ کیا۔ مگر افسوس! کہ میں ان کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ کتاب کے خریدار اور خواہشمند آج بھی اس کے خریدنے کے لئے بے قرار ہیں۔ مگر کتاب مل نہیں رہی۔ یہی وہ نظارہ تھا جس کے دیکھنے کے لئے میری آنکھیں بے قرار تھیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ
جب میں نے سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین کے کام کو شروع کیا اس وقت میرا خیال تھا کہ اگر میں تین سو صفحے کی کتاب بھی لکھ دوں گا تو یہ میرا ایک بڑا کارنامہ ہو جائے گا۔ مگر جب میں لکھنے بیٹھا تو اس قدر مواد سامنے آیا کہ ۴۶۴ صفحے لکھ کر بھی کتاب مکمل نہ ہوئی۔ اگر سو صفحے میں بھی باقی مضمون آ جاتا تو میں ایک ہی حصہ میں اس کتاب کو ختم کر دیتا مگر جو مواد سامنے ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ چار سو صفحے سے کم میں ختم نہ ہو گا۔ اس لئے میں مجبور ہوا کہ اس کتاب کو جلد اوّل بنا کر جلد ہی دوسری جلد شائع کرنے کا اہتمام کروں۔
میری طبیعت کی کمزوری
میری طبیعت کی ایک یہ کمزوری ہے کہ میں بعض قسم کے اعتراضوں سے ڈرتا ہوں۔ چنانچہ مجھے اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں ایسے لوگ نہ پیدا ہوں جو یہ اعتراض کر دیں کہ محض روپیہ کمانے کی خاطر شاید دوسرا حصہ بنانے کی تجویز کی ہے۔ سو میں ایسے احباب کی خدمت میں عرض کروں گا کہ میری اس محنت کو وہ کسی مبصر کے سامنے پیش کر کے دریافت کر لیں کہ میں نے اس کتاب میں کس قدر کما لیا ہو گا۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ ایسی کتاب کی قیمت دو روپے بہت کم ہے۔ پس جب میں نے پہلے حصے میںحصولِ زر کو مقدم نہیں کیا تو دوسرا حصہ شائع کرنے کے خیال میں بھی کسبِ زر کا خیال جاگزیں نہیں۔
میری غرض ان حقائق کو پبلک میں لانا ہے جو اس زمانہ کی خدیجہ کی ذات سے وابستہ ہیں اور جماعت جن حقائق سے ناواقفِ محض ہے اور چونکہ جماعت ان حقائق سے واقف نہیں اس لئے ان برکات سے بھی پورے طور پر حصہ نہیں لے سکتی۔ ان واقعات کے اظہار کے بعد اگر کسی کے دل میں ایسا خیال باقی رہے تو میں اسے اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دیکر کہوں گا کہ وہ اس کتاب کے دوسرے حصے کی خرید میںحصہ نہ لے۔
دوسرا حصہ کب شائع ہو گا
میں اب حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ سیرت اُمُّ المؤمنین کا دوسرا حصہ کب شائع ہو گا۔ مگر سال کے اندر کسی وقت بھی شائع ہو سکے گا۔ اس کتاب کی آئندہ مستقل قیمت تین روپے ہو گی۔ پہلے حصہ کی بھی اور دوسرے کی بھی۔ میں چاہتا ہوں کہ اگلا حصہ پورا پانچ ہزار شائع ہو اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پانچ ہزار خریداروں کا مہیا ہو جانا بہت آسان ہے۔ جن احباب اور خواتین کو اس کتاب کے پڑھنے میں کوئی لذت محسوس ہو اور وہ اسے اپنے ایمان میں اضافہ کا باعث خیال کریں وہ اپنی خریداری کو اگلی کتاب کیلئے ابھی سے رجسٹر کرا دیں اور قیمت بھی بطور پیشگی حضرت سیٹھ صاحب کے پاس جمع کرا دیں۔ تاکہ جس وقت کتاب تیار ہو جائے اسی وقت سال کے کسی بھی حصہ میں پریس میں دے دی جائے۔
اس کتاب کی اشاعت میں حصہ
جن احباب نے اس کتاب کی اشاعت میںحصہ لیا ہے میں ان کا از حد شکر گزار ہوں اور ان معاونین کرام کا جنہوں نے ۵ نسخوں سے لیکر ۳۰۰ نسخوں تک خرید کر میرا ہاتھ بٹایا اور سیرت کے عالم وجود میں لانے کا باعث ہوئے۔ میں ان کے اسماء گرامی بطور ایک تاریخی واقعہ کے اس کتاب میں شائع کرتا ہوں۔ جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔ اور احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان سب احباب کیلئے دعا کریں جو اس کتاب کی خرید میں شریک ہوئے۔ حتیّٰ کہ جن کے اسماء میں شائع نہیں کر سکا ان کیلئے بھی دعا کریں اور میں نہایت ادب سے سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضرت سیّدۃ النساء اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہان بیگم صاحبہ کی خدمت میں اِن تمام مشترکین کرام کیلئے درخواست دعا کرتا ہوں۔
خاکسار
محمود احمد عرفانی
مصنّف سیرۃ حضرت اُمُّ المؤمنین
۳ دسمبر ۱۹۴۳؁ء مطابق ۵ ذی الحجہ ۱۳۶۲؁ھ

اسم مشترک
تعداد جلد
اسم مشترک
تعداد جلد
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مع خاندان
۳۰۰
جناب مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر قادیان
۵۰
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب
مع بیگم صاحبہ
۱۰۰
جناب مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل
یادگیر دکن

جناب ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ
۱۰۰
جناب میرزا برکت علی صاحب آباد ان بمعہ فیملی
۴۰
آ لِ عرفانی
۱۶۵
جماعت احمدیہ لنڈن بذریعہ مولانا شمس صاحب
۴۰
جناب حکیم عبداللطیف صاحب شہید قادیان
۱۰۰
آنریبل سر محمد ظفراللہ خان صاحب
۳۳
جناب میاں غلام محمد صاحب اختر کنٹرولر آف ریلوئے سپلائی لاہور
۶۱
مولوی بشیر الدین خان صاحب مڈرانجھا
حضرت نواب سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ
۳۰
۲۵
جناب میرزا ارشد بیگ صاحب آف پٹی
۵۱
صاحبزادہ میرزا ظفر احمد صاحب
۲۵
حضرت میرزا شریف احمد صاحب
۵۰
جناب مہتہ عبدالقادر صاحب (قادیانی) کلکتہ
۲۵
جناب میرزا رشید احمد صاحب رئیس قادیان
۵۰
مکرم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی
۲۱
جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد دکن
۵۰
جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر حیدرآباد دکن
۲۵
جناب سیٹھ پیارا لال صاحب صراف قادیان
۵۰
عزیز نسیم احمد خان بمبئی
۲۱
حضرت عرفانی کبیر صاحب
۵۰
چوہدری غلام احمد صاحب آوان بمبئی
۲۰
عزیز مکرم محمود علی حسین ابن حضرت بابو فیروز علی صاحب مرحوم
۵۰
جناب شیخ مظفرالدین صاحب امپریل الیکٹرک سٹور پشاور
۲۰
محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحب و استانیاںنصرت گرلز ہائی سکول
۵۰
جناب احمد اللہ خان صاحب کوئٹہ
۳۰
جناب سیّد بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد دکن
۵۰
جناب صوفی غلام محمد صاحب بی ایس سی کی معرفت بورڈران تحریک جدید
۲۰
حضرت میر محمد اسماعیل صاحب
۱۶
جناب شیخ عبدالرحمن صاحب ہیڈ کلرک نوشہرہ
۲۰
جناب بابو عبدالرحمن صاحب امیر جماعت انبالہ
۱۶
جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب بی اے ایل ایل بی۔ باجوہ قادیان
۱۰
جناب جمعدار شیر محمد خان صاحب ۱۵/۸ پنجاب رجمنٹ لنڈی کوتل
۱۵
جناب سردار مصباح الدین صاحب قادیان
۱۰
جناب جمعدار محمد اشرف خان صاحب ۱۵/ ۸ پنجاب رجمنٹ لنڈی کوتل
۱۵
صاحبزادہ میرزا منیر احمد صاحب دہلی
۱۰
جناب سیّد ارتضیٰ علی صاحب گورنمنٹ کنٹریکٹر دہلی
۱۵
حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے
۱۰
طالبات مدرسہ دینیات قادیان
۱۵
حضرت میر محمد اسحق صاحب قادیان
۱۰
لجنہ اماء اللہ محلہ دارالرحمت قادیان
۱۴
جناب حافظ بشیر احمد صاحب قادیان
۱۰
جناب مطیع اللہ صاحب قریشی قادیان
۱۲
جناب مرزا فتح محمد صاحب عراق
۱۰
جناب عبدالغفار صاحب کانپور
۱۲
جناب شیخ فضل الرحمن صاحب اختر ملتان
۱۰
واقفین تحریک جدید بذریعہ مولانا انور صاحب
۱۱
جناب میرزا اجمل بیگ صاحب قادیان
۱۰
حوالدار محمد عبداللہ خان صاحب ۱۵/ ۷ ۔انبالہ چھاؤنی
۱۰
محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد دکن
۱۵
جمعدار کواٹر ماسٹر عبداللہ خان انبالہ چھاؤنی
۱۰
جناب ملک بشیر احمد صاحب کنجاہی ٹھیکیدار (دکن)
۱۰
جناب میاں عباس احمد خان صاحب قادیان
۱۰
محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ گلبرگ
۱۰
جناب میرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور
۱۰
جناب خلیفہ ناصر الدین صدیقی صاحب تحصیلدار چونیاں
۱۰
عزیز مکرم مہتہ عبدالرزاق صاحب قادیان
۱۰
لائبریری تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان
۱۰
جناب ڈاکٹر محمد احمد صاحب
۱۰
محترمہ سیّدہ فضیلت بیگم صاحبہ سیالکوٹ
۱۰
جماعت احمدیہ محبوب نگر دکن
۱۰
صاحبزادہ میرزا حمید احمد صاحب قادیان
۱۰
جناب قاضی عبدالرشید صاحب ہیڈکلرک سکندر آباد (دکن)
۱۰
حضرت مفتی محمد صادق صاحب قادیان
۴
جناب پیر نیاز احمد صاحب نصراللہ
۱۰
جناب میاں محمد یوسف صاحب سپرنٹنڈنٹ لاہور
۵
ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان قادیان
۶
محترمہ اہلیہ صاحبہ چوہدری احمد جان صاحب
۵
جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی اور ان کی صاحبزادی امۃ السلام بیگم صاحبہ
۶
جناب منشی فضل الدین صاحب مدرس بنگہ
۵
مولوی عبدالواحد صاحب مبلغ کشمیر
۵
جناب حاجی اسماعیل صاحب ریٹائرڈ قادیان
۵
جناب چوہدری ابوالہاشم صاحب ایم۔اے
۵
جناب مولوی ارجمند خان صاحب قادیان
۵
جناب سیّد عبدالحی صاحب (منصوری)
۵
شیخ نیاز احمد صاحب ریٹائرڈ انسپکڑ پولیس قادیان
۵
جناب صاحبزادہ مجید احمد صاحب قادیان
۵
جناب محمد عمر بشیر احمد صاحب
۵
جناب سیّد حیدر علی صاحب حیدرآباد
۵
جناب سردار احمد خان صاحب
۵
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی
۵
جناب نذیر احمد خان صاحب بنگلور
۵
حضرت منشی عبدالعزیز صاحب قادیان
۵
محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کنٹرولر سپلائی دہلی
۵
جناب ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب قلات
۵
محترمہ احمدہ بیگم صاحبہ
۵
جماعت احمدیہ جبل پور معرفت محمد عثمان صاحب بھیروی
۵
جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب
بیرسٹرایٹ لا لاہور
۵
جناب چوہدری غلام حسین صاحب اوورسیر جنرل سروس کمپنی قادیان
۵
نورالدین خوشنویس کاتب سیرت حضرت اُمُّالمؤمنین کاتب الحکم و ریویو اُردو قادیان
۵
اشاعت سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین میں خاندان عرفانی کا حصہ
تحدیث بالنّعمت کے طور پر میں افراد خاندان عرفانی کے اشتراک کی فہرست بھی تفصیلی طور پر دینی چاہتا ہوں۔
اسم مشترک
تعداد جلد
اسم مشترک
تعداد جلد
حضرت عرفانی کبیر صاحب
۵۰
والدہ صاحبہ شیخ محمود احمد عرفانی
۱۰
اہلیہ صاحبہ شیخ محمود احمد عرفانی
۱۰
شیخ محمد ابراہیم علی صاحب عرفانی
۱۰
اہلیہ صاحبہ شیخ محمد ابراہیم علی صاحب عرفانی
۵
شیخ یوسف علی صاحب عرفانی
۲۱
اہلیہ صاحبہ شیخ یوسف علی صاحب عرفانی
۵
شیخ داؤد احمد صاحب عرفانی بمعہ بچگان عزیزہ سلطان فیروز بخت عرفانی‘ عزیزہ سلیمہ سلطانہ‘ عزیزہ سعیدہ درشاہوار
۱۵
اہلیہ صاحبہ شیخ داؤد احمدصاحب عرفانی
۱۰
اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالرب صاحب عرفانی
۵
عزیز محمد سلیمان صاحب عرفانی
۵
اہلیہ صاحبہ محمد سلیمان صاحب عرفانی
۵
عزیز محمد عثمان عرفانی صاحب
۵
عزیز مبارک یحیٰ عرفانی صاب
۲
عزیزہ جمیلہ خاتون،عزیزہ نسیمہ خاتون، عزیزہ زکیہ خاتون، عزیزہ طاہرہ خاتون، عزیز رفیق احمد مظفر عرفانی اولاد شیخ محمود احمد عرفانی ہر ایک کی طرف سے ایک ایک۔
۵
عزیزہ صدیقہ ناصرہ بنت شیخ محمد یوسف صاحب عرفانی
۱
عزیزہ صداقت خاتون بنت بابو فیروز علی صاحب مرحوم
۱
میزان
۱۶۵
اس میں اگر عزیز مکرم محمود علی حسین اور عزیز مکرم حوالدار محمد عبداللہ صاحبان جو دونوں میرے نسبتی بھائی ہیں کی تعداد شامل کر لی جائے تو ساری تعداد ۲۲۵ ہو جاتی ہے۔
ضروری اعلان
میرا لخت جگر عزیز محبوب احمد عرفانی مرحوم و مغفور بھی اپنے قلب میں اپنی خاندانی روایات کے مطابق خاندان کی بڑی محبت رکھتا تھا۔ وہ آج اگر زندہ ہوتا تو اس کتاب کے اشاعت پذیر ہونے پر بڑی خوشی اور مسرت محسوس کرتا مگر مشیت الٰہی اسے اپنے پاس لے گئی اور میں آج اس کی عدم موجودگی کی کمی کو محسوس کر رہا ہوں۔ اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اس کی روح کو ثواب پہنچانے کی غرض سے دس کتابیں مدرسہ احمدیہ کے نادار اور نیک لڑکوں کو مفت اس شرط پر دوں گا کہ وہ عزیز محبوب احمد عرفانی کے لئے دعا کیا کریں گے۔ (محمود احمد عرفانی)
جذباتِ امتنان!
۱۔ سب سے اوّل تو اللہ کی بے حد حمدوشکر ہے کہ جس نے باوجود شدید حالاتِ مرض کے مجھے توفیق دی کہ میں اس کتاب کو ایک حد تک پایہ تکمیل کو پہنچا سکوں۔ پھر اس نے اپنے فضل سے اس کی قبولیت کیلئے احباب کے قلوب میں تحریک کی اور اس کی قبولیت اس کی اشاعت سے قبل ہی قائم کر دی۔ پس سب شکر و حمد اسی کو ہے۔ الحمد للّٰہ اوّلاً واٰخرًا وظاھراًوباطنًا ولہ الحمد-
۲۔ پھر میں خاندان کے افراد کا شکر گذار ہوں جن میں سے اکثر افراد نے میری ہر رنگ میں حوصلہ افزائی فرمائی۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جن کو میں نے ان کی علالت طبع کے پیش نظر کسی قسم کی تکلیف دینی پسند نہ کی تھی۔ ان کے متعلق مجھے متعدد مرتبہ معلوم ہوا کہ ان کی ذات گرامی کی عنایات ہر وقت میرے شامل حال رہیں۔ حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بمبئی سے بعض روایات کے متعلق لکھا وہ اس وقت ڈلہوزی میں تھیں انہوں نے حضرت سے میری خواہش کا ذکر کیا۔ حضور نے ان سے میری سفارش فرمائی کہ وہ ضرور اپنی روایات مجھے لکھ دیں یا لکھوا دیں۔فنانشل سیکرٹری صاحب تحریک جدید سے جب میں نے نوسالہ حسابات مانگے اور انہوں نے حضرت سے اجازت چاہی تو حضور نے بخوشی اجازت مرحمت فرما دی۔ اسی طرح کتاب کے نام کے متعلق بھی آپ نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی معرفت بعض اہم ہدایات مرحمت فرمائیں۔ ان سب امور سے حضور کی عنایت و شفقت کا بآسانی پتہ چل سکتا ہے۔
آپ کے بعد حضرت میرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میرزا شریف احمد صاحب، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، نواب محمد عبداللہ خان صاحب، حضرت میر محمد اسحق صاحب، جناب میرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے، جناب میرزا رشید احمد صاحب، صاحبزادہ میرزا ظفر احمد صاحب ان سب کی طرف سے میری ہر رنگ میںحوصلہ افزائی ہوئی۔ جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔
۳۔ ان بزرگوں کے ذکر کے بعد میں سب سے زیادہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے باوجود اپنی علالت طبع کے پوری توجہ سے کتاب کو ملاحظہ فرمایا۔ ضروری ضروری غلطیوں کی اصلاح فرمائی۔ ہر قسم کے مشورے اور علمی امورمیں میری راہنمائی فرمائی۔ میں حضرت میر صاحب قبلہ کی ا س قیمتی اعانت کے بغیر ہرگز اس کتاب کے شائع کرنے کے قابل نہ تھا۔
۴۔ حضرت میر صاحب کے بعد حضرت عرفانی کبیر قبلہ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کیلئے ہر قسم کی دوڑ دھوپ اور اس کی طباعت کا سارا بار اپنے اوپر لے لیا۔ روزانہ ڈاک میں قیمتی مشورے،اَن تھک دعائیں اور ہر قسم کی حوصلہ افزائی ان کا معمول رہا۔ یہ چیز میرے لئے بڑی بابرکت اور مفید ثابت ہوئی۔
۵۔ ان کے سواء حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی مجھے ہر قسم کی مدد حاصل رہی۔ مہاشہ فضل حسین صاحب نے خاندان کے تاریخی حالات کے متعلق بعض مفید کتابوں کی طرف راہنمائی کی جن کے ذریعے مجھے اچھی مدد ملی۔ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے دعاؤںکے ذریعہ میری بڑی مدد فرمائی۔ شیخ محمود احمد صاحب ٹی سنڈیکیٹ حیدرآباد دکن نے روایات کے حصول اور خریداروں کے مہیا کرنے میں بہت سرگرم امداد مجھے بہم پہنچائی۔ اس کے علاوہ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل، خواجہ خورشید احمد صاحب مجاہد ،مولوی محمد نذیر صاحب ،مولوی فاضل وغیرہ دوستوں نے حصہ رسدی میری مدد کی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو میری طرف سے خود جزائے خیر دے۔
۶۔ اخیر میں مَیں اسی سلسلہ میں اپنی بیوی کا بھی ذکر کروںگا جس نے میری دیکھ بھال اور غذا اور دوا وغیرہ کا نہایت محنت اور توجہ سے خیال رکھا اورا س کے سوا روزانہ بڑے اہتمام سے دعائیں جاری رکھیں۔ اس کی اس کوشش سے مجھے آرام ملا جس کی وجہ سے میں کام کرنے کے قابل ہو سکا اور دعاؤںسے بھی طاقت و قوت ملی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو میری طرف سے بہترین جزا دے۔
اس کے سوا ہر وہ شخص جس نے ذرا بھی میری اس سلسلہ میں کوئی خدمت کی میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔ (محمود احمد عرفانی)
اگلی تصنیفات!
میںاللہ تعالیٰ کے فضل و رحم پر بھروسہ کر کے اعلان کرتا ہوںکہ آئندہ سالوں میں مندرجہ ذیل کتابیں شائع کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میری صحت کو درست کر دے اور ان خدمات کی سرانجام دہی کی توفیق دے۔ آمین
۱۔سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین حصہ دوم
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا دوسراحصہ جس میں بہت سے تاریخی واقعات، سیرت و شمائل پر سیرکن بحث، حضرت اُمُّ المؤمنین کی دینی خدمات، حضرت اُمُّ المؤمنین کے مکتوبات کے فوٹو، پیغامی اعتراضات کے جوابات، حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت پر صحابہ اور صحابیات کی روایات، حضرت اُ م المومنین کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق بیان کردہ روایات، حضرت اُمُّ المؤمنین کی تبلیغی مساعی وغیرہ وغیرہ نہایت قیمتی معلومات کم ازکم چار سو صفحات قیمت تین روپے بغیر محصول ڈاک۔
۲۔ تعارف
یہ کتاب صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کے حالات پر مبنی ہو گی۔ یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی ایک خواہش کو پورا کرنے کے لئے شائع کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ اس کتاب کی متعدد جلدیں ہوں گی۔ حتی کہ سلسلہ کے تمام بزرگ اور قابل ِذکر ہستیوں کا ذکر آ جائے۔
۳۔ سیرت حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی
یہ کتاب بھی میرے بچپن کے زمانے سے میرے دماغ پر حاوی ہے۔ میں نے حضرت امیرالمومنین کی سیرت کو ایک ایسے مصلح کی سیرت میں دیکھا جو دنیا کے نہایت خطرناک دور میں دنیا کی نجات کیلئے خدا کی نہاں در نہاں مصلحتوں نے دنیا کو عطا فرمایا۔ جو نئی دنیا ،نئی زمین، نئے آسمان کی تکوین کے وقت خلیفۃ اللہ فی الارض قرار دیا گیا۔ اس کی زندگی کی ہر حرکت،ہر سکون، دنیا کی نئی تخلیق میں راہنما ثابت ہوئی۔ جس کی خلافت پر بہت شور ہوا۔ مگر ملائکہ کو فتح ہوئی۔
شیطان سے آخری جنگ میں اس عظیم انسان نے اپنی ساری طاقت ملائکہ کی فوج ساتھ لے کر لڑائی اور فتح پائی۔
یہ کتاب کیسی ہو گی صرف اور صرف پڑھنے سے اس کا اندازہ لگ سکے گا۔ کم از کم دوہزار صفحات کا چار جلدوں کا مجموعہ ہو گا۔ یہ کتاب مصورہو گی۔
وَبِاللّٰہِ التَّوفِیْقُ
طالب دعا
محمود احمد عرفانی

(خاکسار نور الدین خوشنویس کاتب قادیان دارالامان کو اس مبارک کتاب کے لکھنے کا شرف ملا۔ الحمدللّٰہ علی ذالک۔ ۵ دسمبر ۱۹۴۳؁ء)

حوالہ جات
۱؎ تریاق القلوب صفحہ۶۴،۶۵۔ تذکرہ صفحہ۳۷
۲؎ تذکرہ صفحہ۳۷
۳؎ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو حیاۃ النبیؐ حصہ اوّل صفہ۴۹ (ملحض)
۴؎ تذکرہ صفحہ۳۹
۵؎ الحکم جلد ۵ صفحہ نمبر۳۹۔۴۰ پرچہ ۱،۲: ۲۴ اکتوبر و ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۱ء
۶؎ الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ۷،۸
۷؎ تذکرہ صفحہ۳۶ تریاق القلوب صفحہ۳۴
۸؎ براہین احمدیہ صفحہ۵۵۸ تذکرہ صفحہ۳۵
۹؎ تریاق القلوب صفحہ۶۴۔ تذکرہ ۳۶
۱۰؎ شحنہ حق صفحہ۵۷،۵۸ تذکرہ صفحہ۳۶
۱۱؎ سورۃ یسین: ۸۳۔۸۴
۱۲؎ تذکرہ صفحہ ۶۵
۱۳؎ تذکرہ صفحہ ۱۴۲۔ ۱۴۳ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ۵۸،۶۳
۱۴؎ حیاتِ ناصر صفحہ ۷
۱۵؎ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ۱۱۰،۱۱۱
۱۶؎ حیاتِ ناصر صفحہ۷،۸
۱۷؎ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ۱۱۱
۱۸؎ حیاتِ ناصر صفحہ۸
۱۹؎ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ۱۱۲
۲۰؎ ثاقب زیروی ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۴۳؁ء
۲۱؎ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ۳۴ روایت نمبر۴۰
۲۲؎ سیرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ صفحہ۳۱،۳۲
۲۳؎ سیرت حضرت مسیح موعود ؑمصنفہ عرفانی کبیر حصہ اوّل صفحہ۵۲،۵۳
۲۴؎ سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی کبیر صفحہ۳۷۶
۲۵؎ سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی کبیر حصہ دوم صفحہ۲۱۰
۲۶؎ تذکرہ صفحہ ۱۴۳: اشتہار ۲۲/ مارچ ۱۸۸۶؁ء
۲۷؎ تذکرہ صفحہ ۱۳۹: تبلیغ رسالت صفحہ۵۹ جلد اوّل
۲۸؎ تذکرہ صفحہ۱۳۹، ۱۴۰
۲۹؎ تذکرہ صفحہ ۱۴۰
۳۰؎ تذکرہ صفحہ۱۴۰
۳۱؎ سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۸۷،۸۸
۳۲؎ سیرۃ حضرت مسیح موعود حصہ دوم صفحہ۲۱۵،۲۱۶ مصنفہ عرفانی کبیر
۳۳؎ تذکرہ صفحہ ۱۶۵
۳۴؎ تذکرہ صفحہ۱۶۵
۳۵؎ مکتوباتِ احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم
۳۶؎ تبلیغ رسالت صفحہ۸۳
۳۷؎ حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر اوّل مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۴۷
۳۸؎ حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر اوّل مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۱۷۴تا۱۷۶
۳۹؎ حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر اوّل مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۱۷۴۔ ۱۷۵ حاشیہ
۴۰؎ حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر اوّل مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۷۸،۱۷۹
۴۱؎ تذکرہ صفحہ۱۴۱،۱۴۲
۴۲؎ تتمہ اشتہار دھم جولائی ۱۸۸۸ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۱۶۱،۱۶۲
۴۳؎ تذکرہ صفحہ۱۶۴
۴۴؎ سبز اشتہار صفحہ۷ حاشیہ
۴۵؎ سبز اشتہار صفحہ۱۷
۴۶؎ سبز اشتہار صفحہ۲۱ حاشیہ
۴۷؎ مکتوب احمد بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ۴۔دسمبر : تذکرہ صفحہ ۱۶۸
۴۸؎ اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹؁ء۔ تذکرہ صفحہ ۱۷۱
۴۹؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۱
۵۰؎ تذکرہ صفحہ۱۳۹،۱۴۰
۵۱؎ تذکرہ صفحہ ۱۴۸،۱۴۹
۵۲؎ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ۵۰
۵۳؎ تذکرہ صفحہ۱۴۳
۵۴؎ تذکرہ صفحہ۳۷
۵۵؎ تذکرہ صفحہ۲۱۱
۵۶؎ اشتہار ۲۰/ اپریل ۱۸۹۲؁ء
۵۷؎ تذکرہ صفحہ۶۶۲
۵۸؎ تذکرہ صفحہ۳۱۸
۵۹؎ انوار الاسلام صفحہ ۳۲ حاشیہ ۔ تذکرہ صفحہ ۲۵۶
۶۰؎
۶۱؎ تذکرہ صفحہ ۲۶۱
۶۲؎ تذکرہ صفحہ ۶۳۹
۶۳؎ تذکرہ صفحہ ۶۳۹
۶۴؎ تذکرہ صفحہ ۶۶۷
۶۵؎ حقیقۃ الوحی صفحہ۲۱۷
۶۶؎ تذکرہ صفحہ ۳۲۵
۶۷؎ الحکم جلد۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ۳ و تذکرہ صفحہ ۳۸۸
۶۸؎ تذکرہ صفحہ ۷۰۰
۶۹؎ تذکرہ صفحہ ۶۵۱
۷۰؎ تذکرہ صفحہ ۶۴۸
۷۱؎ سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۲۳۴ مصنفہ صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب
۷۲؎ تذکرہ صفحہ۴۷۵
















حصہ دوم










بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

عرض حال
سیرۃ اُمُّ المؤمنین کے دوسرے حصہ کی اشاعت کا اعلان میں فطرتی جذبات کے اُمڈتے ہوئے سیلاب میں کر رہا ہوں اس کے مصنف شیخ محمود احمد عرفانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن حالات میں اس کتاب کی تالیف شروع کی وہ احباب سے مخفی نہیں۔ سالہا سال کے ایک مریض نے اپنی ساری طاقتوں کو اس کی تکمیل میں لگا دیا۔ بیماری کے شدید حملے ایک طرف اور باوجود طبی مشوروں کے اس کی محنت ایک طرف آخر اسی معرکہ قلم میں وہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔
کتاب کی تالیف کی داستان وہ خود حصہ اوّل میں لکھ چکا ہے دوسرا حصہ اس کے نوٹوں اور یادداشتوں کو لے کر مرتب کر دیا گیا ہے جہاں میرا نوٹ ہے وہاں امتیاز کیلئے (عرفانی کبیر) لکھ دیا ہے۔ میں نے اس کتاب کے لئے تشہیر کی ضرورت نہیں سمجھی۔ مرحوم کی خواہش کی تکمیل ہی میرے لئے خوشی کا موجب ہے کہ اس سے اس کی روح کو سُرور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور جس مقصد کے لئے اسے لکھا گیا ہے وہ پورا ہو۔ آمین
میں نے خود بھی اسے بیماری کی حالت میں مکمل کیا جس کی وجہ سے طباعت میں غلطیاں ممکن ہیں جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
میری بیماری کی وجہ سے فوٹو نہیں دیئے جا سکے۔
خاکسار
یعقوب علی عرفانی کبیر
۲۵/جولائی ۱۹۴۵؁ء










حضرت امَّاں جان سلمہا اللہ الرّحمن










ھــــــــــوالنّـــــــاصـــــــــــــــــر
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ

ابتدائی کلمہ
سیرۃ اُمُّ المؤمنین (متعناللّٰہ بطول حیاتہا) مرحوم محمود احمد عرفانی نور اللہ مرقدہٗ نے بستر علالت نہیں بستر مرگ میں لکھی اور اس نے مجھے لکھا کہ ابا جی میں نے اس کتاب کی تالیف کے لئے جان کی بازی لگا دی ہے آخر وہ کتاب لکھ گیا اور جان قربان کر گیا جو تبویب اس کے زیر نظر تھی وہ اس کو بھی بوجہ غلبہ مرض پورے طور پر ملحوظ نہ رکھ سکا۔ بہرحال اس نے بہت قابل قدر کام کیا مجھے یقین ہے خدا تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا۔ کتاب کی پہلی جلد میں حضرت اماں جان کا مضمون تاثرات صحابہ اور صحابیات کے سلسلہ میں آنا چاہئے تھا لیکن چونکہ وہ شروع ہو چکا ہے اس لئے دوسری جلد کا آغاز اسی کی تکمیل سے کیا جاتا ہے تا کہ سلسلہ قائم رہے احباب جلد اوّل میں اس مضمون کا ابتدائی حصہ صفحہ……… سے …… تک پڑھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے میں مرحوم کے مرتب کردہ نوٹس کی بناء پر اس جلد کی تکمیل کرتا ہوں۔ اللّٰہ الموفق والمستعان-
عرفانی کبیر یکم اکتوبر ۱۹۴۴ء؁








بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حضرت امَّاں جان
از محترمہ امۃ اللہ بشیرہ بیگم صدر لجنہ اماء اللہ حیدر آباد دکن اہلیہ مولوی سیّد بشارت احمد صاحب
امیر جماعت حیدر آباد دکن
دامان نگہ تنگ و گلِ حسن تو بِسیار
گلچیں بہار تو ز داماں گلہ دارد
ایک مدت سے مجھے خیال تھاکہ حضرتہ اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کے شمائل پر میں اپنے دیرینہ ذاتی مشاہدات میں سے لکھوں مگر یہ دیکھ کر کہ سلسلہ کے سارے زبردست اہل قلم کبھی بھی آپ کی سیرت پر کوئی خامہ فرسائی نہیں کرتے ہیں اور میں نے یہ خیال کر لیا کہ غالباً حضرتہ علیا اماں جان کی ناپسندیدگی کے مدنظر کوئی نہیں لکھتا ہوگا اس لئے میں بھی اپنی جگہ دم گھونٹ کر خاموش ہو رہی مگر اب جب کہ ہمارے قابل قدر بھائی مولوی محمود احمد صاحب عرفانی (اللہ تعالیٰ آپ کی صحت و عمر میں برکت دیوے) نے اس مبارک کام کیلئے اخباری دنیا میں غلغلہ مچا دیا تو میں بھی اپنے دیرینہ شوق کے مدنظر چند واقعات سپرد قلم کرتے ہوئے ڈر رہی ہوں کہ کہیں میرے اس مقالہ کو ناظرین و ناظرات حضرت عالیہ کا ایک مکمل خاکہ زندگی ہی تصور نہ فرما لیں اس لئے میں نے ایک فارسی شعر زیب عنوان لکھا ہے۔جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ میری ممدوحہ کی سیرت و حسن اخلاق کے تذکرے بہت کثیر ہیںمیں ان کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ مجھے خود اپنی تنگ نظری صاف طور پر محسوس ہوتی ہے البتہ ممدوحہ کے شمائل میں سے کچھ وہ بھی اپنے ذوق و نقطۂ نگاہ سے پیش کرنا چاہتی ہوں۔ یوں تو عاجزہ کو اب تک قادیان شریف میں ۸۔۱۰ مرتبہ سے زیادہ مرتبہ حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن غالباً دو مواقع ایسے آئے کہ خاندان سمیت کافی طویل عرصہ تک مجھے قادیان جنت نشان میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی ایک تو ۱۹۲۰؁ء میں جب کہ حیدر آباد میں میری خوشدامن سردار بیگم صاحبہ مرحومہ کے اصرار پر سیّد صاحب میرے شوہر نے (سیّد بشارت احمد صاحب) ہم تماموں کو لے کر تقریباً ۴ ماہ قادیان شریف میں حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا کے قدموں میں گزارے تھے۔ پھر دوبارہ ۱۹۳۵؁ء ۱۹۳۶؁ء میں تقریباً ایک سال میں نے معہ اپنے جملہ متعلقین کے قادیان شریف میں گزارا ان ہر دو موقعوں پر عاجزہ کو قریب سے حضرت اُمُّ المؤمنین سلمہا اور خاندانِ نبوت کی تمام محترم و قابلِ عزت ہستیوں کو دیکھنے کی عزت حاصل رہی۔ میں بوجہ ایسے خاندان سے قریبی ربط رکھنے کے جو کہ مرشدی گھرانہ کہلاتا ہے اس امر سے زیادہ واقف اور باخبر تھی کہ عموماً مشایخین سجادہ نشینوں کے گھروں کی معاشرت و طرز معیشت و طریق تہذیب و تمدن و لباس کا رنگ ڈھنگ بات چیت کا طور و طریق کیسا ہوتا ہے۔ میرے والد مرحوم حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب قادری احمدی مرحوم (خدا تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے) ایک جید مشائخ مولانا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کشمیری مرحوم و مغفور کے واحد فرزند تھے جن کے مریدین کا حلقہ دو تین لاکھ سے کم نہ تھا اسی طرح میرے ننھیالی قریبی رشتہ کے نانا حضرت مسکین شاہ صاحب نقشبندی جو مرحوم اعلیٰ حضرت نظام دکن اور حیدر آباد ملک کے پانچ لاکھ مریدین کے مرشد تھے۔ نیز میرے سسرالی رشتہ داروں میں مولوی سیّد عمر علی شاہ صاحب مکی میاں صاحب وغیرہ جو میرے چچا خسر ہوتے تھے بڑے مرشد تھے اس لئے فطرتًا اس ماحول کو جس سے میں بہت حد تک مانوس و واقف تھی خاندان نبوت میں قیاس کرنے پر مجبور تھی مگر میرے ذاتی مشاہدات نے میری تمام قیاس آرائیوں پر پانی پھیر دیا مجھے نہ اُمُّ المؤمنین میں اور نہ خاندان نبوت کی کسی خاتون میں یہ بات نظر آئی کہ وہ گفتگو و ملاقات میں کسی قسم کا تکَلُّف کرتی ہیں یا بناوٹ کا پہلو اختیار کرتی ہیں یا کوئی خاص قسم کا مشائخانہ یاصوفیانہ لباس زیب تن فرماتی ہیں یا دنیاوی زیب و زینت و اشیاء سے اس قدر متنفر ہیں کہ گویا رہبانیت اختیار کر رہی ہیں بلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین اور خاندان نبوت کے اس پاکیزہ و بے ریا عمل کا اس قدر گہرا اثر ہر غائر نظر سے دیکھنے والے پر پڑتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان پاک قلوب کے آئینہ میں ریا و بناوٹ میں خود کو ملوث دیکھتا ہے مجھے خوب یاد ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب کہ میں اپنی خوشدامن صاحبہ مرحومہ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم محض حضرت اُمُّ المؤمنین کے فیض صحبت کی وجہ سے دیکھا وہ یہ کہ میری خوشدامن صاحبہ ایک بڑے امیر کبیر گھرانے کی خاتون تھیں جو ۲۷ سال میں ہی تین لڑکے اور ایک لڑکی کی ماں ہو کر بھرپور جوانی میں بیوہ ہوگئیں تو انہوںنے اپنی جوانی اور بیوگی کو اس قدر سادگی اور صوفیانہ رنگ میں گزارا کہ جب میری شادی ہوئی اور ان کے خاندانی طمطراق اور خدم و حشم اور امارت کے مدنظر ان کو معمولی لباس میں ملبوس دیکھا تو مجھے سخت حیرت ہوئی مگر جبکہ میری یہی خوشدامن صاحبہ مرحومہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی صحبت میں چند ماہ رہیں تو یہ دیکھا کہ کوئی روز ناغہ ہوتا تھا کہ وہ اس ضعیفی میںکنگھی چوٹی کر کے پاک و صاف لباس اور خوشبوئی وغیرہ کا استعمال کر کے حضرت اُمّ المومین کی خدمت میں روزانہ جایا کرتی ہوں اور اس کے بعد سے انتقال تک میںنے مرحومہ کو دیکھا سابقہ اس دنیا دارانہ و صوفیانہ طرزِ زندگی کو بالکل خیر باد کر کے متقیانہ رنگ میں وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث کے ماتحت حسب ضرورت عمدہ لباس وغیرہ پہنا کرتیں چنانچہ حضرت اُمُّ المؤمنین پر بھی یہ امر جب کہ ظاہر ہوا تو وہ بہت مسرور ہوئیں چنانچہ جب کہ ہماری خوشدامن صاحبہ کا انتقال ہوا تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کی اولاد کے نام ایک تعزیت نامہ اپنی انتہائی کرم فرمائی سے جو تحریر فرمایا اتفاقًا وہ میرے شوہر (مولوی سیّد بشارت احمد صاحب و میرے دیور مولوی حکیم میر سعادت علی صاحب مرحوم) کے پاس موجود ہے کو تحریر فرماتی ہیں کہ:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از قادیان دارالامان
۱۵۔ دسمبر ۱۹۲۳؁ء
عزیزانِ من سلامت رہیں!
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کے عزیز نامہ سے یہ سن کر از حد تأسف ہوا کہ آپ کی والدہ صاحبہ اور ہماری مخلص اور اخلاص مند خاتون نے داغ جدائی دیا۔ الَلَّھُمَّ اغْفِرْ مرحومہ بہت اخلاص مند احمدی خاتون تھیں۔ ان کی علالت کی حالت میں بھی دعائیں کیں مگر اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے ہر طرح آرام و راحت میں رکھنے پسندیدہ ہیں گو ہمارے لئے وہ جدا اور نظروں سے پوشیدہ ہیں مگر بیٹوں کے ہاتھوں سپرد خاک ہو کر مقامِ اعلیٰ کو پہنچ گئیں۔
خدائے ذوالجلال نیکیوں کو ضائع نہیں کرتا اور آخر جو ملا ہے وہ بچھڑے گا۔ چند روز بعد ہم بھی ان سے ملاقی ہونے والے ہیں۔ مرحومہ مغفورہ اپنے اخلاق حسنہ اور نیکی و تقویٰ کے باعث ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کے باعث اجر عظیم عنایت کرے گا اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے گا باقی رہا اولاد کیلئے جدائی کا صدمہ ہو جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا رکھتے ہیں وہ کبھی غمزدہ نہ ہونے چاہئے اس پیارے پر سب پیارے قربان ہیں۔
اب دعا ہے کہ خدا وند کریم مغفورہ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دیوے اور جنت کے اعلیٰ مقامات کا وارث کرے ہم کو جملہ متعلقین سے دلی ہمدردی ہے۔ والسلام
آپ کی ہمشیرہ٭؎ اور بہوئوں سے خاص اظہار ہمدردی ہے اللہ تعالیٰ سب کو مرحومہ کی نیکیوں کا
٭؎ حاجی بیگم صاحبہ اور عاجزہ اور شرف النساء بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم صاحب مرحوم
وارث بنادے اور صبر جمیل کی توفیق عطا فرماوے۔
والدہ مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح علیہ السلام (از قادیان)
درحقیقت میری خوشدامن نے جب سے حضرت اُمُّ المؤمنین کو دیکھا ان کے اخلاص ایک رنگی میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی عاشق و فدائی تھیں۔ چنانچہ ایک واقعہ اسی ضمن میں درج کرتی ہوں اگرچہ حضرت ممدوحہ کا وہ مکتوب اس وقت دستیاب نہیں ہوا مگر اس کا مفہوم یاد ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرت خوشدامن صاحبہ کے مرض الموت میں جو دس ماہ کی طویل علالت کا زمانہ تھا حیدر آباد کے ایک محترم احمدی نواب اکبر یار جنگ بہادر نے میری نند مسماۃ حاجی بیگم مرحومہ کیلئے اپنا پیغام دیا تو حضرت خوشدامن صاحبہ محض اس وجہ سے متاء مّل ہوگئیں کہ چونکہ نواب صاحب ایک تو پٹھان ہیں دوسرے غیر ملکی ہیں ممکن ہے بعد وظیفہ حسن خدمت اپنے وطن فرخ آباد کو میری لڑکی کو نہ لے جائیں۔ تب سیّد صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں عریضہ لکھا جس پر حضرت اُمُّ المؤمنین نے خوشدامن صاحبہ کو خط تحریر فرمایا۔ اس کا مفہوم یہی تھا کہ مَیں یہ مناسب سمجھتی ہوں کہ آپ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھوں یہ کام کر دیں تا کہ آپ کو اطمینان نصیب ہو۔ پس جونہی حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہ مکتوب بستر علالت پر سنایا گیا بلا کسی پس و پیش کے فوراً اسی ہفتہ میں رخصتانہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مرحومہ کے اخلاص اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس ارشاد پر عمل کے نتیجہ میں ایک عمدہ پھل یہ عنایت فرمایا کہ میری نند مرحومہ کو ایک اولاد نرینہ پیدا ہوئی جو کہ اس وقت بفضلہ تعالیٰ سردار محمود رشید الدین خاں طول عمرہٗ ایک ۱۹ سالہ نوجوان ہے جو علی گڑھ میں ایف، اے٭؎ کلاس کا طالب علم ہے اللہ تعالیٰ اس کو صالح مبلغ اسلام و خادم اسلام بنائے۔ آمین
طَعام و لِباس کے متعلق
حضرت اُمُّ المؤمنین کی معاشرت بہ خلاف گدی نشینوں اور مشائخین کے ٹھیٹھ اسلامی سادگی پر مبنی ہے آپ کے ہاں جو ہر وقت مخلصین تحائف پیش کرتے ہیں اور آپ انہیں قبول فرماتی ہیں اگر تحفہ کھانے
٭؎ اب بی۔اے میں ہے۔ ماشاء اللہ (عرفانی کبیر)
کی قسم سے ہے تو کھا لیتی ہیں اگر کپڑے کی قسم سے ہے تو انہیں پہن لیتی ہیں اگر زیور کی قسم ہو تو زیب تن فرماتی ہیں یہاں تک کہ اس عمر میں اگر پیش کرنے والے مخلصین رنگین و شوخ کپڑے بھی پیش کریں تو بھی آپ قبول فرما لیتی ہیں محض پیش کرنے والے مخلصین کے اخلاص و محبت کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو ایک مجاہدہ میں ڈال لیتی ہیں تا کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو ۔ ریا و نام و نمود سے کوسوں دور ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کبھی وہ فاخرہ لباس زیب تن فرماتی ہیں اور کبھی تھوڑی دیر بعد ہی بالکل سادہ لباس میں آ جاتی ہیں کبھی معمولی زیور پہن لیتی ہیں کبھی نہیں بھی پہنتیں اور کبھی دیکھا کہ وہ غرباء کے ہاں کھانوں کے حصے بھیج رہی ہیں اور مسکینوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی فرما رہی ہیں یہاں تک کہ اپنی عزیز سے عزیز چیز کو دوسروں کے فائدہ کیلئے قربان کرتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔ اس معاشرہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ آپ کی طبیعت میں رہبانیت کا میلان ہے اور نہ ہی تکلّف، ریاکاری کی جھلک ہے جیسا کہ عام طور پر مشائخوں کے گھرانوں میں ہوتا ہے کہ محض ریا و عوام کی نکتہ چینی کے مدنظر وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے بھی مستفید نہیں ہوتیں۔
مُلاقات
ملاقات کے وقت بالعموم مشائخین کی جانب سے یہ عمل ہوتا ہے کہ ریاکاری کی وجہ سے منہ سے بہت سے غیر ضروری بناوٹی الفاظ نکال دیں گے کہ بیٹا تم کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور بہت دنوں کی آرزو پوری ہوئی وغیرہ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ بے رخی و بے مُروتی سے بات کریں گے یہ دونوں طریق افراط و تفریط کے پہلو لئے ہوئے ہیں اور حضرت اُمُّ المؤمنین ملاقات کے وقت حفظ مراتب کا خیال فرماتی ہیں اور جیسا اخلاص ملنے والے میں محسوس فرماتی ہیں اسی مناسبت سے ملاطفت کے ساتھ اس سے ملاقات فرماتی ہیں نہ تو ظاہرداری کے الفاظ فرماتی ہیں اور نہ کسی سے بے مُروتی سے پیش آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسا رعب عطاء فرمایا ہے کہ ملاقاتی اس کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور جائز تعظیم و ادب کرنا اس کا حق ہو جاتا ہے۔
قوتِ احساس اور شفقت
حضرت اُمُّ المؤمنین ایک بہت بڑے کنبہ کی سرپرست اعلیٰ ہونے کی حیثیت میں ایک بڑی مشغول زندگی گزارتی ہیں باوجود اس کے آپ بڑی ذکی الحس واقع ہوئی ہیں۔ ملاقاتی کے بشرے سے جان لیتی ہیں کہ وہ کس حالت میں ہیں کہ وہ کس حال میں ہے چنانچہ اس بارے میں مَیں ہی اپنے آپ ایک مثال ہوں۔ میری والدہ ماجدہ مرحومہ جن دنوں قادیان میں سخت علیل تھیں۔ زیست کی امید کم ہوتی جا رہی تھی۔ میں عالم بدحواسی میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوتی تو وہ فوراً پہچان لیتیں اور مجھے اپنے ہاں سے کھانا کھلا کر روانہ کرتیں۔
ہَمدردِی
میری والدہ جب علیل تھیں تو بوجہ مسافرت انہیں بان کی چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین جب عیادت کیلئے تشریف لائیں تو دیکھا کہ چارپائی بان کی ہے اپنے گھر پہنچیں تو فوراً ایک سوت کی بنی ہوئی نفیس چارپائی روانہ فرمائی یہ ذرہ نوازی کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ممدوحہ کی درازی عمر کے لئے بے اختیار دعائیں نکلوانے کا موجب۔
بیکاری سے بیزاری
حضرت اُمُّ المؤمنین عورتوں میں بیکاری کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ان کا یہ مسلک رہا ہے کہ کبھی بیکار نہ رہیں اور نہ کسی اور کو بیکار رہنے دیں۔ چنانچہ مجھ سے بھی حضرت ممدوحہ نے کارچوبی بٹوے بہت سارے سلوائے تھے۔ غرض آدمی جو کام جانتا ہو اس کام پر اس کو لگا دینا وہ بہت ضروری خیال کرتی ہیں٭؎۔ صاحبزادی امۃ الحمید بیگم صاحبہ کی شادی کے موقعہ پر یہ روح عملاً کام کرتی ہوئی دکھائی دی صاحبزادی موصوفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی لڑکی ہیں جو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے صاحبزادے میاں محمد احمد خاں صاحب سے بیاہی گئی ہیں۔

٭؎ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ عورتیں بیکاری میں اکثر غیبت و بیجا شکایات میں مبتلا رہتی ہیں تو کچھ نہ کچھ کام میں لگ جانے سے بدعادت جاتی رہتی ہے۔
دُعاء
ایک دفعہ حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کی صاحبزادی غالباً حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سالی صا حبہ نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے عرض کیا کہ امتحان کی کامیابی کیلئے دعا فرما دیں آپ نے جواب دیا کہ ہمارے لئے ایک تکیہ کا غلاف تیار کر کے روانہ کرو یہ طریق تعلق کی زیادتی کیلئے بزرگانِ دین کرتے رہے ہیں آپ نے بھی ایسا ہی فرمایا۔
تہذیب و شائستگی
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں بیٹھی ہوئی تھی ایسا اتفاق ہوا کہ ایک خاندان نبوت کی خاتون میری طرف سے گزریں اور چلتے چلتے نادانستہ طور پر ان کی اوڑھنی مجھے لگ گئی حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس کو دیکھ لیا اور اس معمولی فروگذاشت پر ہی کافی چشم نمائی فرمائی میں ندامت سے عرق عرق ہوئی کہ میری وجہ سے اس محترمہ خاتون کو یہ باتیں سننی پڑیں اور جب کہ یہ واقعہ قلمبند کر رہی ہوں تو بھی میری پشیمانی کی کوئی حد نہیں اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکیوں کی تربیت کا خیال حضرت کو کس درجہ ہے وہاں آپ کی تہذیب و شائستگی کے خلق اتم کا پتہ چلتا ہے ہمارے ہاں تو عام طور پر مجلسوں میں شانہ کو شانہ اور مونڈھے کو مونڈھا ٹکراتا ہے مگر کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور اس کو سادگی پر محمول کیا جاتا ہے۔
ایفائے عہد
میرے شوہر مولوی سیّد بشارت احمد صاحب جب مجھے قادیان میں چھوڑ کر حیدر آباد واپس ہونے لگے تو حضرت اُمُّ المؤمنین سے یہ التماس کی کہ وہ عاجزہ کو اپنی نگرانی میں رکھیں اور عرض کیا کہ سوائے آپ کی اجازت کے عاجزہ نہ کسی دعوت میں شریک ہو اور نہ کہیں مہمان جائے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس کو قبول فرما لیا اور بہت پسند فرمایا جتنے دنوں میں وہاں رہی میرا وہ خاص خیال فرماتیں کئی مواقع ایسے آئے کہ انہوں نے بعض جگہ دعوتوں میں شریک ہونے سے روکا اور بعض میں شرکت کی اجازت عطا فرمائی تو اکثر ایسا ہوا کہ مجھے پہلے روانہ کر دیتیں۔ تھوڑی دیر بعد دیکھتی کہ وہ خود بھی تشریف لاتیں ہیں۔ ایک دفعہ حضرت نے دریافت فرمایا کہ فلاں جگہ تم کیوں گئیں تھیںعاجزہ کے عرض کرنے پر کہ کہیں نہیں گئی تھی فرمایا کہ برقعہ تو تمہارا یا تمہارے جیسا تھا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس کام کو وہ اپنے ذمہ لیتیں ہیں اس کو وہ کس خوبی سے نباہنے کی عادی ہیں۔
تاگہ کاتنا
ایک دفعہ دیکھا کہ چرخہ لے کر تاگا کات رہی ہیں۔ میں جب حاضر ہوئی تو فرمایا کہ کیا تمہیں چرخہ کاتنا آتا ہے مَیں نے عرض کیا نہیں تو پھر آپ نے مجھے اپنے آغوش میں لے کر مجھے سکھلایا اس میں آئندہ نسلوں کو یہ سبق ہے کہ بیکار نہ رہیں اور کوئی نہ کوئی مفید کام کرتے رہیں یا ممکن ہے کہ زمانہ ایسا پلٹا کھائے کہ ہم میں سے اکثروں کو چرخہ کاتنا پڑے۔
حضرت مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے خلفاء پر راسخ ایمان
باوجود اس کے کہ آپ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی چہیتی بیوی اور حرم محترم ہیں لیکن اس تعلق زوجیت سے بڑھ کر حضرت اُمُّ المؤمنین اپنے تعلقِ روحانیت کو زیادہ عزیز رکھتی ہیں۔ جیسا کہ ہم وابستگانِ دامن مسیح موعود علیہ السلام جس طرح اور جن القاب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی ادب سے یاد فرماتی ہیں جب کبھی بھی وہ حضرت صاحب کا ذکر فرمائیں گیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت صاحب یا حضرت اقدس فرمائیں گیں۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی یا تو میاں صاحب کہیں گیں یا خلیفۃ المسیح فرمائیں گیں۔
ظِل عَاطفت
آپ بالعموم جب سیر کو تشریف لے جاتیں ہیں تو جاتے جاتے یا آتے آتے احمدی اصحاب کے گھروں میں ایک ایک دو دو منٹ کے لئے تشریف لے جاتیں ہیں اور ہر گھر کو ان کے مناسب حال ضروری ہدایات دے آتی ہیں۔ مثلاً گھروں کی صفائی، لباس کی صفائی، بچوں کی دیکھ بھال یا علاج معالجہ کے متعلق مشورہ دے دیتیں ہیں۔ اس طرح آپ جماعت کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش فرماتی ہیں اور حسبِ ضرورت و جائز و ضروری امداد و ہمدردی میں مصروف رہتی ہیں۔
اِسراف سے اجتناب
میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی طبیعت باوجود بے انتہا سخی ہونے کے پھر بھی ذرہ سے اسراف سے اجتناب کرتی ہیں ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کسی کپڑے کے رنگنے کے لئے نمک شریک کرنے کی ضرورت ہوئی۔ نمک منگوایا اور رنگ میں شریک کرنے کے بعد جو بچ رہا وہ ایک چٹکی ہوگا جس کو ہم یونہی پھینک دیتے ہیں مگر نہیں آپ نے اپنے دستِ مبارک سے وہ چٹکی بھر نمک نمک دانی میں ڈال کر محفوظ کر دیا اور ضائع نہ ہونے دیا۔ اس کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔
جزاکم اللہ کہنا
یہ ایک عجیب بات مشاہدہ میں آئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین جس کسی مخلص کو جزاکم اللہ فرما دیتیں تو وہ اپنے مقاصد میں کامیاب و بامراد ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فیض کو تمام جماعت احمدیہ کے لئے عام کرے اور اس عاجزہ کو بھی اس سے خاص حصہ ملے۔ آمین
عیدین کا اِحترام
میرے زمانہ قیام میں عیدالضحیٰ و عید الفطر کے موقع پر میں نے دیکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ہمہ تن مصروفِ انتظام ہیں۔ خود بھی کام کر رہی ہیں اوروں سے بھی کام لے رہی ہیں۔ گھر کے ایک ایک حصہ کو التزام کے ساتھ صاف کر رہی ہیں۔ تمام اشیاء کو جھٹکوا رہی ہیں یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا کہ مٹی کے برتنوں کو بھی لال گیرو کے رنگ سے رنگ دے رہی ہیں۔ عیدین کے مواقع پر بڑی خوشی کا اظہار فرماتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عید اسی لئے بنائی ہے کہ مومنین خوش ہوں۔
خوشبوئوں سے محبت
حضرت اُمُّ المؤمنین کو خوشبوئوں سے بڑی الفت و رغبت ہے دکن کی اگربتی و برمکھی شوق سے استعمال فرماتی ہیں یہ آپ کے طہارت نفس کی کافی دلیل ہے جتنے نیک و پاک بندگانِ خدا ہوتے ہیں ان سب کو بہ ابتاع سنت یہی طریق عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔
مہمان نوازی
باوجود اس کے کہ مَیں ایک طویل زمانے تک خدمت میں حاضر رہی لیکن مجھے وہ اپنا مہمان ہی خیال فرماتی رہیں اور ہر طرح کی تواضع و اکرام کا اظہار فرماتی رہیں اور جب سالانہ جلسہ کے موقعہ پر مجھے جلسہ گاہ جانا ہوتا تو آپ موٹر میں مجھے بھجوا دیتیں۔
میرے باغ کا پھلنا پھولنا
مَیں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں ایک مرتبہ اپنے باغ کے پپیتے٭؎ اور لال موز٭٭؎ بطورتحفہ پیش کیا تھا آپ نے قبول فرمایا اور اسی وقت تناول فرمایا اور دعا دی اور مَیں دیکھتی ہوں کہ اس کے بعد سے میرا باغ اتنا ثمر ور ہوا کہ پہلے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا بالخصوص پپیتے کے درخت اب مختلف قسم کے صد ہا کی تعداد میں نصب ہوگئے ہیں۔ پہلے سے دُگنی تگنی آمدنی ہونے لگی میرا ایمان ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی دعا کی ہی برکت ہے خدائے تعالیٰ مجھے حضرت کی دعائیں لینے کے مواقع عطا فرمائے۔ آمین
اپنے پوتے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے محبت
یوں تو خاندان کے بنیادی فرد ہونے کی حیثیت میں آپ ہر فردِ خاندان سے محبت و الفت سے پیش آتی ہیں لیکن صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے بڑے پوتے سے خاص اُلفت ہے۔ ایک مرتبہ عاجزہ کو صاحبزادہ صاحب کا مکان لے جا کر بتلایا جو کہ حضرت نے تعمیر کروایا ہے آپ نے اس مکان کے بالائی حصہ پر بیت الدعاء بتلا کر فرمایا کہ میں نے تبرکًا حضرت مسیح موعود کے گھر کی ایک اینٹ مکان کے بالائی حصہ میں لگوا دی ہے۔ حضرت کا یہ جذبۂ عقیدت حضرت مسیح موعود کی صداقت کی ہزار دلیلوں سے بڑھ کر ایک دلیل ہے۔
شادی و غمی کے نظارے
میرے قادیان کے قیام کے دوران میں کئی مواقع ایسے آئے جن میں مجھے حضرت اُمُّ المؤمنین کی

٭؎ ارنڈ خربوزہ ٭٭؎ لال کیلا
وساطت سے شادی و غمی کے نظارے دیکھنے نصیب ہوئے حضرت صاحبزادی امۃ الحمید بیگم صاحبہ کی شادی کی تقریب جو نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ کے صاحبزادہ سے ہوئی ساری کی ساری میرے سامنے عمل میں آئی مَیں ٭؎سچ کہتی ہوں کہ جس انتہائی سادگی و بُردباری کے ساتھ تقریب عمل میں آئی اس کا نشان کچھ تیرہ سو سال پہلے میں ہی ملتا ہے اسی طرح کئی دفعہ تعزیت کی تقریبیں آئیں یہاں بھی اسی حد تک رنج و غم جتنا کہ خدا کے احکام اجازت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں علم اور عمل میں بڑا فرق ہوتا ہے لیکن میں یہاں یہ مشاہدہ کرتی ہوں کہ علم اور عمل میں مطابقت پیدا کی جا رہی ہے۔
خاوند کی آمد پر مُبارک باد
اگرچہ ذاتی طور پر مجھے حیا آتی ہے کہ میں ظاہر کروں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایک خلق کا اظہار اس حیا پر غالب آ رہا ہے اس لئے عرض کرتی ہوں جس وقت حیدر آباد سے میرے شوہر قادیان شریف تشریف لائے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے مبارک باد دی کہ تمہارے شوہر آگئے۔اس سے آپ کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بیویوں پر خاوندوں کی عظمت ظاہر ہو۔
سادگی و صداقت
جس وقت کوئی مخلص خاتون یہ عرض کرتی کہ میں آپ کی خدمت میں فلاں تحفہ بھیجنا چاہتی تو آپ قبول کرتے ہوئے سادگی سے کبھی فرما دیتی ہیں کہ فلاں وقت تک جو بھیجنا ہو بھیج دو۔
اچھے ناموں سے یاد کرنا
حضرت اُمُّ المؤمنین کی یہ عادت شریف ہے کہ آپ اپنے ملنے والوں کو خواہ وہ چھوٹی ہیں یا بڑی عمر کی ان کے اچھے ناموں سے یاد فرماتی ہیں۔ بُرے مختصر ناموں سے نہیں یاد فرماتیں۔ مثلاً میری خوشدامن صاحبہ مرحومہ مجھے دلہن پاشاہ کے نام سے بلاتی تھیں اور حضرت اُمُّ المؤمنین نے اسے سن لیا تو خود بھی اپنی شفقت سے دلہن پاشاہ ہی فرمایا کرتی ہیں۔

٭؎ آپ نے خصوصیت سے اس مبارک شادی کی شرکت کے لئے کئی ماہ روک لیا تھا۔
ماں کی اطاعت
حضرت نانی جان مرحومہ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایک دفعہ حضرت نانی صاحبہ کے ہاں تشریف لے گئیں اور ہم سب حضرت میر ناصر نواب صاحب کو جو اُمُّ المؤمنین کے والد بزرگوار تھے۔ اُمت کے نانا جان تصور کرتے تھے ان کے مکان پر گئے۔ پس کہ ہم مہمان کی خدمت اور خاطر و تواضع کیلئے حضرت نانی جان صاحبہ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو ارشاد فرمایا کہ بیٹا ان مہمانوں کی تم خاطر کرو تو میں نے دیکھا کہ اس خدمت میں اُمُّ المؤمنین ایسی مصروف ہوگئیں گویا کہ آپ اس گھر کی منتظمہ ہیں۔ ایک ایک مہمان کے آگے پان سیپاری نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش فرماتی رہیں اور مہمانوں کو خوش کرتی رہیں۔ ماں کی اطاعت کا یہ جذبہ کس قدر خُلقِ عظیم ہے۔
عبادات
حضرت اُمُّ المؤمنین عبادت کے بروقت ادا کرنے کی سختی سے پابندی فرماتی ہیں۔ میں نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ مغرب کی نماز کے بعد دیر تک عبادت میں مشغول رہتی ہیں یا تو کوئی نوافل آپ اس وقت پڑھتی ہیں یا بوجہ خرابی صحت جو عام طو رپر آپ کی صحت درست نہیں رہتی۔ عشاء کی نماز ملا لیتی ہیں میں جرأت نہ کر سکی دریافت کی۔
شرعی پردہ
حضرت اُمُّ المؤمنین شرعی پردہ کی سختی سے پابند ہیں۔ آپ کبھی بے نقاب نہیں ہوتیں۔ چہرہ کو حتی الامکان چھپاتی ہیں۔ اگر کوئی خاص نقاب وغیرہ نہ ہو تو کم از کم چہرہ کے آگے پنکھا رکھ لیتی ہیں یا کسی اور چیز کی اوٹ لے لیتی ہیں۔
التماس دُعا
حضرت اُمُّ المؤمنین ہم میں خدا تعالیٰ کی ایک برکت ایک زبردست انعام اور اس کا فضل ہیں جو مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے وہ آپ کے پردہ کرنے کے بعد دنیا پھر کبھی نہ دیکھے گی۔ وہ نبی وقت کی حرم محترم صفاتِ الٰہی کی جلوہ گری کی محل رہی ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان اندھیری رات کی گھڑیوں کی شاہد ہیں جہاں تکلف و تصنع کام نہیں آتا۔ اس نبی کی صحبت میں جو کچھ حاصل ہوا وہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے۔ اے مادر مہربان تجھ پر ہزاروں صلوٰۃ السلام ہم غریبوں پر بھی نظر کرم رکھو۔ گناہ گارو کمزور ہونے کی وجہ سے ساتھ رہنے کے قابل نہیں۔ میرے اللہ اپنے فضل و کرم سے اور اپنے عاجز بندوں پر رحم کر کے اس وجود باجود کو ہمارے سروں پر دیر تک سلامت رکھیو۔ آمین


ء……ء……ء




















حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کی سیرت
پر
صحابہ اور صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے
تاء ثرات اور روایات






صحابہ اور صحابیات کی روایات اور تاثرات
اس باب میں مَیں ان بزرگ صحابیات اور صحابہ کے تاثرات اور روایات بیان کروں گا جہنوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین (متعنا اللّٰہ بطول حیاتہا) کی مادرانہ شفقت وعطوفت سے سعادت حاصل کی ہے میرے پاس روایات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس خصوص میں ہے مگر میں ان سب کو درج کرنے سے قاصر ہوں اس لئے کہ کتاب کا حجم اس کی اجازت نہیں دیتا۔ خصوصاً ان ایام میں جبکہ کاغذ کی گرانی اور کمیابی کی عالمگیر شکایت ہے۔ اس لئے میں ان تمام محترم بزرگوں اور صحابیات سے معذرت خواہ ہوں کہ جن کی روایات کو میں درج نہ کر سکوں۔ میں یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض جگہ میں ایک طویل بیان کا صرف اس قدر خلاصہ دینے پر مجبور ہوں گا جو سیرت کے کسی پہلو سے متعلق ہو سکتا ہے۔ (عرفانی)
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب قبلہ کے تاثرات
جیسا کہ میں جلد اوّل میں بیان کر آیا ہوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ حضرت اُمُّ المؤمنین کے حقیقی بھائی ہیں اور حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کی ذکور زندہ رہنے والی اولاد میں بڑے بیٹے ہیں۔
بھائی اور بہن کی محبت یوں تو فطرتی طور پر ایک مسلّم چیز ہے مگر دنیا جانتی ہے کہ کتنے بھائی اپنی بہنوں کے حقوق کا اور کتنی بہنیں (خصوصاً جبکہ ان کو ایک مقام رفیع حاصل ہو) اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں محبت اور شفقت کے مراتب کو کبھی نظرانداز نہیں ہونے دیتیں۔ لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم کی زندگی بہ حیثیت ایک بہن کے ایک نمونہ کی زندگی ہے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی زندہ رہنے والی اولاد میں حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اور حضرت سیّد محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ آہ! حضرت میر محمد اسحاق صاحب اس جلد کی اشاعت کے وقت واصل باللہ ہو چکے ہیں اور ان کا مختصر تذکرہ بطور ضمیمہ لکھا گیا ہے اور مؤلف سیرت عرفانی صغیر بھی اپنے مولا سے جا ملا۔
(عرفانی کبیر)
حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو تو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کو اپنا دودھ بھی پلایا۔ اس لئے کہ حضرت نانی اماں رضی اللہ عنہا دودھ نہیں پلا سکتی تھیں۔ انَّا رکھی جا سکتی تھی مگر شفیق بہن بڑی بہن نے اپنے دودھ کو بھائی کیلئے قربان کر دیااور اس طرح بڑی بہن تو خدا نے ان کو بنایا ہی تھا۔ انہیں یہ شرف بھی عطا ہوء ا کہ اگرچہ وہ حضرت مسیح موعود نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ مطہرہ ہو کر اُمُّ المؤمنین روحانی طور پر تو ہیں مگر حضرت میر محمد اسحاق کے حصہ میں یہ شرف بھی آیا کہ وہ اُمُّ المؤمنین اور حضرت مسیح موعود ؑکے رضاعی بیٹے ہوں ۔
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کی اس شفقت اور محبت کی جو ایک بہن کو اپنے بھائیوں سے ہونی چاہئے یہ ایک جھلک ہے۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب قبلہ کے تاثرات کو ان کی اپنی زبان سے سنو۔ میں نے اس خاندان کے حالات میں ایک بات کو نمایاں کیا ہے کہ یہ لوگ حق گو اور حق پسند تھے۔
حضرت میر ناصر نوابؓ کی صداقت پسندی اور دلیری الم نشرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ریاء اور نفاق، خوشامد و خود غرضی سے ہمیشہ انہیں محفوظ رکھا اور یہ خصوصیات ان کی اولاد میں بھی موجود ہیں۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کا بیان کسی امر کے متعلق ہو بالکل ایک حقیقت اور کھلی ہوئی صداقت ہوتا ہے جس میں غلو، خوشامد یا ظاہرداری کو کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ ایک بے ریا صادق مسلم ہیں۔
اس لئے ان کا بیان بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ میں یہاں ایک وہم کا ازالہ کر دینا نہایت ضروری سمجھتا ہوں بعض نادان گھر والوں کے تاثرات کو یہ کہہ کر مشکوک کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں کہ یہ ذاتی تعلق یا رشتہ کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ گھر والوں سے بہتر حالات کا واقف کون ہو سکتا ہے! حضرت نبی کریم ﷺ کی صداقت کے بے انتہا دلائل میں سے یہ دلیل سب سے زیادہ قوی اور موء ثر ہے کہ ازواج مطہرات بھی آپ پر ایمان رکھتی ہیں۔
یہ ایک فلسفہ ہے جس کے نہ سمجھنے سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور خود مسلمانوں کے اندرونی جھگڑوں میںایسی روایات پر جرح کی گئی۔ پس حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کے تاثرات حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم کی سیرت کے اس حصہ پر جو بہن اور بھائی کے تعلقات سے وابستہ ہے ایکموء ثر حقیقت ہے۔ اب میں بغیر کسی مزید تمہید کے ان کے اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ حضرت میر صاحب نے اپنے متعلق صرف ایک واقعہ بیان کیا ہے اور یہ ہے بھی سچ کہ وہ اپنی زندگی کے بے شمار واقعات لطف و کرم کو بیان ہی کب کر سکتے ہیں۔ حضرت میر صاحب نے اپنے بیان کے آخر میں ایک نہایت ہی قابل قدر اور آب زر سے لکھنے کے قابل بات لکھی ہے گویا اس ایک فقرہ میں دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے۔
میری آپا
۱۹۰۰؁ء میں مَیں ایف۔اے کا امتحان دے کر جب قادیان آ گیا تو آتے ہی پہلے تو نتیجہ کا انتظار رہا پھر اس کے بعد یہ کہ اب تعلیم کا رخ کس طرف پھیرا جاوے۔ دو ماہ کے بعد نتیجہ نکلا تو میں فسٹ ڈویژن میں پاس تھا۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے تتبع میں سب کا مشورہ یہی تھا کہ ڈاکٹری کی تعلیم شروع کی جاوے۔ لیکن مشکل یہ آ کر پڑی کہ والد صاحب صرف دس روپے ماہوار خرچ دے سکتے تھے۔ کیونکہ ان کی پنشن کل تیس روپے ماہوار تھی۔ مزید براں تقریباً دو سَو بیس روپے سالانہ گاؤں کی آمد کا آتا تھا۔ مشورہ تو ہو گیا مگر تعلیم کا خرچ ان کی مقدرت اور حیثیت سے بہت زیادہ تھا۔ یعنی تیس روپے ماہوار عام اخراجات کیلئے اور پچاس روپے سالانہ فیس کالج کی اور قریباً سات سَو روپے کی کتابیں و آلات جو مختلف اوقات میں تعلیم کے دوران میں خریدے جاتے تھے۔ آخر ایک دن والد صاحب نے گھر میں ذکر کر دیا کہ اس تعلیم کا خرچ میری طاقت سے بڑھ کر ہے۔ میں گاؤں کاسارا روپیہ یعنی دس روپے ماہوار تو اسے دے سکتا ہوں مگر اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ خیر بات گئی آئی ہوئی مگر اکتوبر کا مہینہ نزدیک آ رہا تھا۔ جب میڈیکل کالج کا داخلہ ہوناتھا اور میرا اضطراب بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ دیکھئے اب دفتر اگزامینر ریلوے کی کلرکی کرنی پڑتی ہے یا اور کوئی نوکری۔ کہ اتنے میں ایک دن گھر کی کسی خادمہ نے میرے ہاتھ میں ایک ملفوف خط دیا۔ افسوس وہ خط میرے پاس محفوظ نہیں رہا مگر اس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ تم اپنی ڈاکٹری تعلیم کے لئے تردّد نہ کرو۔ انشا ء اللہ جو خرچ مزید درکار ہو گا وہ میں پورا کروں گی اور یہ مت خیال کرو کہ حضرت صاحب سے لیکر دوں گی بلکہ جو میرا ذاتی خرچ ہے اسی سے دیا کروں گی بلکہ انشاء اللہ حضرت صاحب کو بھی اس کی اطلاع نہ ہو گی۔ آخر میں’’نصرت جہاں‘‘ لکھا تھا۔
اس کے بعد جب داخلہ کا وقت قریب آیا تو میں نے حضرت والد صاحب سے کہا کہ آپا صاحبہ کا اس مضمون کا خط مجھے ملا ہے اور اب داخلہ قریب ہے آپ تیاری کریں۔ انہوں نے آپا صاحبہ سے ذکر کیا کہ فلاں تاریخ کو داخلہ ہے اور محمد اسمٰعیل لاہور ڈاکٹری میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ خیر میں لاہور گیا۔ وہاں معلوم ہوا کہ میرا نمبر سب سے اُوپر ہے اور بہ سبب فسٹ ڈویژن کے مجھے بارہ روپے ماہوار وظیفہ بھی ملے گا۔ غرض نام داخل کرا کر میں آ گیا یہاں آ کرماہوار خرچ کا یہ انتظام ہوا کہ بارہ روپے ماہوار وظیفہ سرکاری، دس روپے حضرت والد صاحب کی طرف سے اور دس روپے حضرت اُمُّ المؤمنین صاحبہ کی طرف سے۔ اس طرح ماہوار خرچ بآسانی پورا ہو گیا۔ جو ان دنوں کے مطابق کافی تھا۔ اب رہی فیس اور کتابیں ان کے لئے پہلے سال تقریباً تین سَو روپے داخل کرنا پڑے۔ دوسرے اور تیسرے سالوں میں قریباً سَو روپے اور چوتھے سال پھر قریباً تین سَو پچاس روپے۔ آپا صاحبہ نے ان دس روپے ماہوار اور فیسوں اور کتابوں کے لئے تمام رقم جمع کرنے کی یہ تجویز ہوئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے ایک صندوقچی مقفل جس میں روپے ڈالنے کا سوراخ بنا ہوا تھا۔ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس بطور امانت رکھوا دی اس صندوقچی میں قفل لگا رہتا تھا اور دوسرے تیسرے روز حضرت اُمُّ المؤمنین جو روپیہ ان کے پاس ذاتی خرچ کا ہوتا تھا اس صندوقچی میں ڈال دیا کرتی تھیں جس میں سے دس روپیہ ماہوار والد صاحب کے دس روپیوں کے ساتھ مجھے لاہور پہنچ جایا کرتے تھے تو پچاس روپے فیس کے اور چار سَو روپے نئی کتابوں کی قیمت دستی لے جایا کرتا تھا۔ ان دنوں لاہور کے اخراجات بمقابل آج کل کے کم ہوا کرتے تھے۔ میں اپنے تیس پنتیس روپے ماہوار میں سے ایک مکان کرایہ پر لے کر رہا کرتا تھا اور ایک ملازم لڑکا بھی جو باورچی کا کام کر سکتا ہو رکھا کرتا تھا اور ہم دونوں کا کھانا،سقّہ خاکروب، نائی وھوبی اور بالائی اخراجات سب اس میں پورے ہو جاتے تھے۔
کپڑے رخصتوں کے ایام میں قادیان میں بن جایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی خدا نے یہ فضل بھی فرمایا کہ مجھے پانچوں سال برابر سرکاری وظیفہ ملتا رہا۔ اس طرح میری میڈیکل کالج کی تعلیم اس طرح ختم ہوئی۔ جس میں بیشتر حصہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی طرف سے اور کچھ میرے وظیفہ کا اور دس روپے ماہوار حضرت والد صاحب کی طرف سے حصہ تھا۔ میرا یقین ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے نہ صرف اپنی شفقت کو نباہا بلکہ وہ وعدہ بھی پورا کیا کہ اس بات کا علم سوائے میرے اور حضرت والدہ صاحبہ کے اور کسی کو بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی نہیں ہوا اور جو روپیہ ان کو اپنے ذاتی جیب خرچ کیلئے ملتا تھا اس میں مسلسل اتنے سال اپنے پر تنگی ترشی گوارا فرما کر انہوں نے میرے پر اتنا بڑا احسان فرمایا جس کے اظہار کا موقعہ اس سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان کی سیرت میں اسے درج کر کے ان کا ایِتَائِ ذَوِالقُربیٰ ان کی لمبی اور مسلسل قربانی اور مجھ پر ان کی خاص شفقت اور محبت۔ کے اخلاق فاضلہ کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور سبق کے پیش کروں۔ یہ تو صرف ایک خاص واقعہ ہے جس کا علم چونکہ عام لوگوں کو نہیں ہے اس لئے لکھ دیا ورنہ جو جواِن کے احسانات مجھ پرہیں ان کا بیان نہیں ہو سکتا۔اور سب سے بڑھ کر یہ احسان کہ ان کے تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک ایسے عظیم الشان انسان سے ہمارا پیوند کرا دیا کہ اس کے شکر سے ہماری زبانیں بالکل قاصر ہیں۔
(نوٹ) اس تحریر کو جو شخص بھی ٹھنڈے دل سے پڑھے گا وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے متعدد پہلوؤں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اوّل: حضرت اُمُّ المؤمنین نے یہ پسند نہ فرمایا کہ اپنے اس ایثار مُوّدۃ فِی الْقُرِبیٰ کا اعلان کریں حتیّٰ کہ خود حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کو بھی زبانی نہیں فرمایا بلکہ لکھ کر دیا تھا کہ ان کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہ معلوم ہو۔
دوم: آپ اس امر کی منتظر نہیں رہیں کہ حضرت نانا جان رضی اللہ عنہ یا نانی اماں رضی اللہ عنہا یا خود میر محمد اسمٰعیل صاحب اپنی تعلیم کی آئندہ مشکلات یا ضروریات کا ذکر کریں بلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے خود ایک ضرورت کا احساس فرما کر بغیر کسی قسم کی خارجی تحریک کے اپنا فرض ادا کیا۔
سوم: اس نیکی کے اخفا کی اس قدر کوشش فرمائی کہ اگر حضرت میر اسمٰعیل صاحب اس واقعہ کا اظہار نہ فرماتے تو دنیا اس سے بے خبر رہتی۔
یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے مخلص فی الدین اور آپ کے ایثاروقربانی کا نظارہ ہے حضرت اُمُّ المؤمنین ان ایام میں جوان تھیںاور بالطبع مستورات کو اپنے لباس اور ذاتی ضروریات کا خصوصاً خیال رہتا ہے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنی ذاتی ضروریات کو بھائی کی تعلیم کے لئے قربان کر دیا۔
چہارم: حضرت اُمُّ المؤمنین کی اقتصادی اور انتظامی قابلیت بھی اس سے ظاہر ہے کہ کس طرح کفایت شعاری سے پس انداز کرنے کے لئے ایک تجویز فرمائی۔ اگر ہماری خواتین اس طرح اپنی زندگی کو بسر کریں تو ذاتی یا دینی ضروریات کے لئے وہ بہت آسانی سے روپیہ جمع کر سکتی ہیں۔
سب سے آخر میں حضرت میر صاحب نے جو بات فرمائی ہے وہ نہایت پُرمعنی ہے اور اس سے خود حضرت میر صاحب کی سیرت پر بھی روشنی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نکاح میں آ جانے سے اس خاندان پر وہ انعام ہوا کہ اسے دنیا میں بھی غیرفانی زندگی مل گئی۔
بیشک وہ ایک بڑے جلیل القدر انسان امیرالامراء صمصام الدولہ نواب خانِ دَوراں میر بخشی منصور جنگ کمانڈر انچیف عساکر مغلیہ کے خاندان سے ہیں مگر تاریخ اب ان کو بھی بھول چکی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام اور سلسلہ کو زمانہ مٹا نہیں سکتا بلکہ خدا نے خود بشارت دے دی۔
ثبتْ اَستَ بر جریدۂ عالم دوامِ مَا
اس لئے یہ ایک تاریخی اور دائمی حیات ہے مگر اتنا ہی نہیںبلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے ذریعہ فی الحقیقت بے انتہا برکات نازل ہوئیں۔ والحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔ (محمود احمد عرفانی)
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کی تحریکِ شادی
محترم بہن نے بھائی کی تعلیم کے لئے مُودۃ فی القُربیٰ کا جو عملی نمونہ پیش کیا وہ آپ نے ابھی پڑھا ہے اور اس سے اس شفقت اور محبت کا پتہ لگتا ہے کہ جو ایک سعادت مند، ذی حوصلہ بہن کو اپنے بھائی سے ہونی چاہئے۔ اپنے گھروں میں اس روح کو پیدا کرو۔ سعادت مند بہنیں اس رنگ میں اپنے آپ کو رنگین کریں۔ اب میں ایک اور شان حضرت اُمُّ المؤمنین کے فہم و فراست اور اہلی زندگی کے نشیب و فراز سے واقفیت کی دکھاتا ہوں۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی شادی کی تحریک ہوئی اور یہ تحریک اپنے ہی خاندان میں ڈاکٹر صاحب کی پھوپی صاحبہ کی لڑکی سے تھی۔
مذہبی اختلافات نے بھی ایک خلیج حائل کر رکھی تھی۔ حضرت میر صاحب قبلہ اور نانی اماں اور حضرت اُمُّ المؤمنین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی چاہتے تھے کہ یہ رشتہ قبول کر لیا جائے مگر شادی کے معاملہ میں خود لڑکی اور لڑکے کی رضا مندی نہایت اہم ہے اور حضرت ڈاکٹر صاحب بعض وجوہ سے آمادہ نہ تھے اور اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس لئے خاندان کے بزرگ باوجود اپنی خواہش کے ان پر جبر بھی نہ کرنا چاہتے تھے۔ البتہ تحریک کر سکتے تھے اور مشورہ دے سکتے تھے۔ بہن بھائی کے تعلقات میں ایک خصوصیت ہوتی ہے اور خصوصاً وہ بہن جس نے عمل سے بھائی کے کردار کو بنایا ہو اور اس کی تعمیر سیرت میں ایک قربانی کی ہو۔ ایسے موقعہ پر وہ بہن کب خاموش رہ سکتی تھی۔اس نے نہایت غمگساری کے ساتھ اس رشتہ کے متعلق اپنا اظہار خیال کیا اور بھائی کے خیال کو صحیح رنگ میں تبدیل کرنے کیلئے ایک طریق تفہیم اختیار کیا اور نہایت اخلاص اور محبت سے مشورہ دیا۔ چنانچہ حضرت ڈاکٹر صاحب کو انہوں نے ایک خط لکھا اس خط کا عکس میں دوسری جگہ دوں گا (انشاء اللہ العزیز) یہاں اصل خط کا مضمون درج کرتا ہوں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمہارا خط میں نے پڑھا میرے نزدیک اس موقعہ کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ تم ابھی بچہ ہو تمہیں معلوم نہیں کہ رشتہ ناطہ کے وقت کیسی کیسی مشکلیںپیش آتی ہیں اور ایسا خاندان جو کسی طور سے کوئی عیب نہ رکھتا ہو۔ کس طرح مشکل سے ملتا ہے اور نئی جگہ میں کیسی کیسی خرابیاں نکل آیا کرتی ہیں ۔ اب خدا نے بشیرالدین کو دوسری طرف سے روک کر تمہاری طرف توجہ دی ہے یہ خدا کا کام ہے اس کی قدر کرنی چاہئے اگر اس وقت انکار کرو گے تو یہ خدا کے کام کی بے قدری اور ناشکری ہے۔ بلکہ مجھے ڈر ہے کہ اس ناشکری کی شامت سے مدت تک کوئی دوسرا موقعہ پیش نہ آوے۔ اس لئے میں تمہیں صلاح دیتی ہوں کہ اپنے دل کو سمجھاؤ اور جو حضرت صاحب نے لکھا ہے ضرور اس پر عمل کر لو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ تم ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور وہ باتیں تمہارے لئے بہتر ہوتی ہیں۔ اسی غرض سے میں نے یہ خط لکھا ہے اور مجھے بہت خوشی ہو گی جب میں تمہارا یہ خط پڑھوں گی کہ لو میں نے تمہاری بات مان لی اور اپنی ضد چھوڑ دی اور اس کا جواب مجھے جلدی لکھو کہ سکندرہ جانے کیلئے ہم تیار بیٹھے ہیں والدعا۔ از قادیان والدہ محمود احمد
میں ہر سلیم الفطرت انسان کے ضمیر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مکتوب کو پڑھے اور پھر پڑھے یہ خط حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ سب سے اوّل یہ کہ اس بلند پایہ خاتون کے قلب مُطّہرپر اللہ تعالیٰ کی عظمت غالب ہے۔ آپ نے بھائی کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ خداتعالیٰ کی نعمت کی ناشکری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہے اور اس طرح چھوٹے بھائی کی تربیت دینی کے فرض کو ادا کیا ہے۔ کتنی بہنیں ہیں جو ایسے مواقع پر اپنے بھائیوں کی اصلاح کاخیال رکھتی ہیں اور پھر اس پُر حکمت طریق پر اصلاح کرتی ہوں۔ آپ نے یہ تو نہیں کیا کہ بھائی کو حکم دے دیا کہ نہیں تم کو یہ رشتہ منظور کرنا ہو گا۔ میرا یقین ہے کہ اگر حضرت میرمحمد اسمٰعیل صاحب کو ایسا حکم دیا جاتا تو خواہ وہ ان کی اپنی طبیعت کے خلاف ہوتا مگر وہ اس حکم کی تعمیل اپنی سعادت مندی قرار دیتے۔ مگر شادی بیاہ کے معاملہ میں ایک گونہ آزادیء رائے ہونی چاہئے حضرت اُمُّ المؤمنین نے اسے مدنظر رکھا۔ ہاں صحیح مشورہ دیا اور ان کے خیالات میں اصلاح کی سعی کی اور اس کے لئے عقلی دلائل پر حصر نہیں کیا بلکہ ایک ایسی بات کہی جو ایک دیندار اور صادق الیقین مسلمان پر موء ثر ہو سکتی ہے۔
اس کے سامنے قرآن مجید کا مبشر حکم پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہو سکتا ہے ایک امر تم کو مکروہ معلوم ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اسی میں بہتری رکھی ہو۔ قرآن مجید کے اس حکم کو سن کرایک نیک اور متقی نوجوان کا سرادب سے جھک جاتا ہے اور حضرت میراسمٰعیل نے بھی اسے قبول کیا۔ پھر اس خط میں بھائی کو اپنے مشورہ پر کاربند ہونے کے لئے ایسے رنگ میں اپیل کی ہے کہ بے اختیار ہر سلیم الفطرت انسان اس کی داد دے گا۔ بڑی بہن کی اطاعت اور اس کی بات کو ماننا جو محض اس کے ہی فائدہ اور نفع کے لئے ہو۔ ہر سعادت مند بھائی کا فرض ہے اس لئے آپ نے اپنے بھائی کی فطرت اور نیک خصلت پر غور کر کے یہ لکھا کہ تم میری بات مان لو گے تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ غرض جس جس قدر انسان اس خط پر غور کرتا ہے اور اس آئینہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کے اخلاقِ حمیدہ کو دیکھتا ہے تو اسے آپ کی مُطّہر زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا ہی کے لئے ہر کام کرنے کی روح نظر آتی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی تربیت ظاہر ہے کہ ایک نہایت دیندار اور متقی خاندان میں ہوئی تھی اور خداتعالیٰ نے اپنی مشیت میں انہیں ایسے جلیل القدر انسان کے حبالہ نکاح میں لانے کے لئے مقرر کر رکھا تھا۔ جسے آنحضرت ﷺ نے اپنا سلام کہا اور جس کو اپنی امت کو ہلاکت سے بچانے والا قرار دیا۔ پھر ایسے گھر میں آ کر وہ تمام جوہر جو تقویٰ و طہارت کریم النفسی اور خداترسی کے تھے اجاگر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت اور اس کی مخلوق پر شفقت و ہمدردی نمایاں ہو گئی۔ اس لئے ان کی ہر بات اور ہر تحریر میں خداتعالیٰ پر توکل اور اس کی محبت و عظمت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب نے سونے پر سُہاگہ کا کام کیااور یہ ایک بیّن ثبوت خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک زندگی کا بھی ہے۔
غرض بالآخر حضرت اُمُّ المؤمنین کے مشورہ کو حضرت ڈاکٹر صاحب نے باانشراحِ صدر قبول کر لیا الحمد للّٰہ علیٰ ذالک
یہ خط حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنے قلم سے لکھا تھا اس کا چربہ کسی دوسری جگہ آپ کے خط کے نمونہ کے اظہار کے لئے دیا گیا ہے اور یہ خط ۱۹۰۶؁ء کا ہے۔ جبکہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی پہلی شادی کی تجویز ہو رہی تھی۔ اس خصوص میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی خط لکھا تھا۔ (عرفانی)
بہن کی محبت و شفقت کا نمونہ ابھی میں نے حضرت میر اسمٰعیل صاحب کی زبان سے بیان کیا اور حضرت میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہ پر جو شفقت تھی وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ حضرت سیّدہ نے اسے اپنا دودھ پلایا بھائی اپنی بہن کی عزت و تکریم محض اس وجہ سے نہ کرتے تھے کہ وہ ان کی آپا جان ہے بلکہ ان کی ذاتی خوبیاں ان کے احسانات ان کی ہمدردی و خیرخواہی کی عملی صورتیں ایسی تھیں کہ ہر آن وہ اپنے ادب اور محبت کے مقام میں بڑھتے جاتے تھے۔ حضرت سیّدہ کے دامنِ شفقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت نے دونوں بھائیوں میںایک خاص رنگ روحانیت کا پیدا کر دیا تھا۔ میں اسی اثر کے دکھانے کے لئے ذیل میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا ایک خط درج کرتا ہوں۔ جو انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر تعزیت کے طور پر حضرت اُمُّ المؤمنین اپنی بہن کو لکھا ۔ اس خط سے روحِ رضا بالقضا نمایاں ہے۔
از روجھان
۳۰ مئی ۱۹۰۸؁ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی
مکرمہ مخدومہ جناب ہمشیرہ صاحبہ۔ سلامت باشد!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کی خبر وحشت اثر معلوم ہو کر جو صدمہ ہوا اس کے بیان کی ضرورت نہیں۔ پر ساتھ ہی میرا تو یہ حال ہے کہ میں لکھتا جاتا ہوں اور اعتبار نہیں آتا کہ یہ واقعہ سچ ہے۔ دل کو یقین ہی نہیں آتا یا یہ کہو کہ دل یقین کرنا نہیں چاہتا۔ مگر جو امر ہونا تھا اور خدا تعالیٰ کے ہاں سے مقدر تھا وہ ہوا۔ اس میں کسی انسان اور فرشتے کا دخل نہیں۔ آج تک نہ کوئی انسان موت سے بچا نہ بچے گا۔ تمام پیمبر،انبیاء، اولیاء، بزرگ،پیر، صاحب کرامات خدا کے پیارے۔ غرض بڑے بڑے رتبے والے حتیّٰ کہ سب کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ تک نے چند روزہ زندگی بسر کر کے اس جہان سے رحلت کی۔ ہزاروں روئے، لاکھوں نے اپنی جان ان پر کرنی چاہی۔ نہایت تضرع اور سچے دل سے ہر شخص نے دعا کی کہ یہ پیالہ ٹل جائے مگر نہ ٹل سکا اور آخر سب کو پینا ہی پڑا۔خدا کے نبی، رسول، اللہ کے پیارے دوست ہوتے ہیں وہ ان کو کچھ مدت کیلئے دنیا میں ہدایت کے لئے بھیجتا ہے جب وہ اپنا کام کر چکتے ہیں تو پھر دنیا میں ان کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب تک وہ یہاں رہتے ہیں لوگ ان کے مخالف اور درپے آزار رہتے ہیں۔ ہر طرح کے دکھ دیتے اور سب وشتم کرتے ہیں۔ غرض ہرانداز اور ہر طور سے ان کو تکلیف اور ایذا دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پس خداتعالیٰ بھی جب ان کا کام ہو چکتا ہے تو فوراً ہی ان کو اپنے پاس دائمی آرام اور ہمیشہ کی راحت میں بلا لیتا ہے اور نہیں چاہتا کہ ضرورت سے زیادہ وہ دنیا میں رہ کر تکلیف اٹھاویں۔ غرض انبیاء اور اولیاء کی موت ایسی نہیں ہوتی کہ مرتے وقت ان کو کوئی کاوش یا ہم وحزن ہو بلکہ وہ ان کو دنیا سے بشارت اور دائمی برکت اور رحمت کے ساتھ لے جاتی ہے اور وہ لوگ جس طرح ایک بھوکا بچہ دیر کے بعد اپنی ماں کی گود میں ہُمک کر جاتا ہے اسی طرح اپنے رب سے وصال پاتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کے طرح طرح کے افضال اور الطاف کے مورد بنتے ہیں۔ پس موت کا وارد ہونا اس شخص کے لئے تو موجب فکر وتشویش ہو سکتا ہے جسے اگلے جہاں میں اپنے اعمال کا فکر ہو مگر جو شخص معصوم خدا کی درگاہ میں واپس جاتا ہے۔ نہیں۔ بلکہ اسکا عزیز مہمان اور پیارا دوست بن کر جاتا ہے تو اس کے انتقال پر ہم کو رشک کرنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ جس طرح یہ مرنے والا تیرا مقرب اور پسندیدہء درگاہ تھا۔ اسی طرح تُو ہم کو بھی توفیق دے کہ تیرے فضل سے ہم بھی جب مریں تو تیرے نیک اور پیارے بندے ہو کر مریں اور آخرت میں ہم اس کے ساتھ ایسے ہی وابستہ رہیں جس طرح دنیا میں تھے۔
دوسری بات جو ہم کو اس واقعہ پر پیش آئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا صبر اور ہماری استقامت اس ابتلاء کے موقعہ پر آزمانی چاہتا ہے۔ ایک ہمارا سب سے پیار اس جہان سے رحلت فرما ہوا۔ اگر ایسی حالت اور ناگہانی صدمہ کے وقت انسان شدتِ غم میں خداتعالیٰ کی حدود سے باہر نہ جاوے اور جو کچھ سر پر گزرا اس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر اسی سے صبر بھی مانگے اور ہر حال میں جیسا کہ ہم نے بیعت کے وقت منہ سے اقرار کیا تھا۔اپنے عملوں سے بھی کر دکھاوے کہ خدا کی رضا پر ہر طرح راضی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے دل کو صبرو قرار اور تسکین سے بھر دیتا ہے اور اس کے ایمان میں ترقی دیتا ہے۔ دل پر جو رنج گزرتا ہے وہ فطرتی ہے مگر کثرت ہموم کے وقت کسی ایسی بات کا ہو جانا ممکن ہے جو خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہو۔ حضرت عائشہ ۱۸ سال کی تھیں جب رسول خدا صلعم نے وفات پائی۔ انہوں نے اور آپؐ کی اور ازدواج نے جو نمونہ آپؐ کی وفات کے وقت دکھایا وہ قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ تم بھی اس فرقہ کی عورتوں کیلئے نمونہ ہو۔ احتیاط رکھنی چاہئے کہ ایسے موقعہ پر جبکہ مَردوں کے چھکے چُھوٹے ہوئے ہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جس کی تقلید کر کے آئندہ امت کی عورتیں کوئی بُری رسم اختیار کر لیں۔ تمہارے افعال،تمہارے اقوال، تمہاری باتیں آئندہ کے لوگ سند پکڑیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا میں تمہاری ہر بات ہو اور کوئی نمونہ ایسا نہ چھوڑ جاؤ جس پر قیامت تک کسی کی حرف گیری ہو سکے۔
عورت کے لئے خاوند کا مرنا سب سے بڑھ کر صدمہ اور غم ہے۔ مگر ہمیشہ کیلئے نہیں۔ اگر کوئی مر جاتا اور کوئی ہمیشہ کے لئے زندہ رہ جاتا تو واقعی یہ صدمہ سخت صدمہ تھا۔ مگر جب سب ایک راہ چل رہے ہیں اور آگے پیچھے سب کو مرنا ہے تو اگر یہی سمجھ لیا جائے کہ مرنے والا سفر پر گیا ہے یا چند دن کے لئے غائب ہے اور پھر ہم اس کو ضرور ملیں گے اور یہ ملاقات ایسیہو گی کہ پھر اس میں جدائی نہ ہو گی تو کیا یہ خوش آئند خیال نہیں ہے؟ ہاں اور لوگوں کو تو ڈر ہو سکتا ہے کہ بیوی شائد وہاں اپنے میاں سے یا میاں اپنی بیوی سے وہاں نہ مل سکے کیونکہ ہر ایک کو اپنے اعمال کے سبب اجردیا جاوے گا اور انجام کی کس کو خبر ہے مگر یہاں تو یہ بات نہیں ہے ایمان لانے والی بی بی جو خداتعالیٰ کی بشارت اور خوشخبری سے دنیا میں اس کے ساتھ رہی ہو وہ اگلے جہاں میں بھی اپنے میاں کے ساتھ ہو گی اور ضرور ہو گی۔
جماعت احمدیہ کے لئے یہ ایک سخت ابتلا ہے۔ پہلے وہ ایک بے فکر کی طرح تھے اور نام کے مددگار تھے۔ اب ان کو معلوم ہو گا کہ کتنا بڑا کام وہ شخص اکیلا کرتا رہا۔
میرا ایمان ہے کہ اگر یہ فرقہ سچ ہے اور یقینا سچ پر ہے تو خدا اس کو ہر طرح کی ہلاکت سے بچا لے گا اور ہر دشمن کی دشمنی سے محفوظ رکھے گا اور اسے دنیا کے اطراف میں پھیلا دے گا۔ وہ شخص تو اپنا کام پورا کر گیا بلکہ وصیت بھی ایک چھوڑ دو دفعہ چھپوا دی تھی اور لوگوں پر تبلیغ پوری ہو چکی تھی اور یہ ایک دن آنے والا باقی تھا سو آ گیا مگر وہ دن بھی خدا کا نشان ہو کر آیا اور دوپیشین گوئیوں کو پورا کر گیا۔ یعنی ایک تو الہام انتقال کے متعلق الرّحیل ثم الرّحیل والا اور ’’مباش،ایمن از بازی ٔروزگار‘‘ اور دوسرے وہ پرانا اور بار بار ہونے والا الہام ’’داغ ہجرت‘‘ یعنی ہجرت اور وطن کی جدائیگی میں رحلت ہو گی۔ غرض خدا کے بندے مرتے مرتے بھی اپنا خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت دے جاتے ہیں اور ان کی ذات تو ایسی تھی کہ ان کا مرنا جینا سب خدا کی مرضی اور اس کی فرمانبرداری میں تھا۔ مگر ہم کو بھی جو پسماندگان رہ گئے ہیں ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہئے جس میں خداتعالیٰ کی مرضی پر سر رکھ دینے اور راضی بقضا ہونے کے خود ہمارے دل گواہی دے دیں۔ آپ مجھ سے بڑی ہیں اور سب باتوں میں مجھ سے زیادہ واقف ہیں اور مجھے ایسا لکھنے کی ضرورت کچھ نہیں مگر میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ اس ناگہانی حادثہ کا آپ کے دل پر کیا صدمہ ہوا ہو گا۔ دنیا کی زندگی ایک تو خود چند روزہ ہے مگر ان چند روزہ میں بھی اس سرائے کے مسافر اس طرح تعلق پذیر ہو جاتے ہیں کہ جدائی کا دن ایک بڑا سخت دن ہوتا ہے اور جو اس سختی کو اللہ کی مرضی کے مطابق سہہ لیتا ہے وہ آئندہ اس سے بڑھ کر خوشی دیکھے گا۔ مجھے خود بے حد رنج ہے کہ میں ایسی دُور ایسے ایسے وقت پرپڑا ہوا ہوں۔ علاوہ ازیںیہ کہ دریا کی طغیانی کے سبب راستے بہت مشکل اور قریباً مسدود ہیں۔ آپ کی بھاوج بھی آنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ عرضی رخصت کی گئی ہوئی ہے۔ اگر منظور ہوئی تو حاضر خدمت ہوں گا۔ ایک وہی ذات سب کا آسرا ہے۔ اسی سے ہر وقت دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہر مصیبت پر ثابت قدم رکھے اور اعلیٰ درجہ کا نیک نمونہ آئندہ نسلوں کے لئے بنائے اور ہماری زندگی اور موت اسی ایمان پر ہو اور جس کی جدائی میں آج یہ دل کو تپش سی لگی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ اور اس کے قدموں میں ہمارا حشر ہواور ہمیشہ اس کے اصحاب اور متعلقین میں داخل رہیں۔ خدا کے ہزار ہزار درود اور سلام تجھ پر ہوں اے غلامِ احمدؐ کی روح اور بڑی بڑی برکتیں اور مراتب اور درجات اللہ تعالیٰ تجھے دیوے بدلے اس رحمت اور شفقت کے جو تو نے امت محمدؐی سے کی اور جو تعلیم تو نے ہم کو دی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
محمد اسمٰعیل
ازروجھان
مجھ کو اس مکتوب پر کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں اس کا ایک ایک لفظ اور جملہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور توکل کا اظہار کرتا ہے۔ ہاں میں اس دعا پر آمین کہتا ہوں جو حضرت میر صاحب نے کی اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رنگِ ایمان سے حصّہ دے۔ یہی وہ صبغۃ اللہ ہے جو خدا تعالیٰ کا پسندیدہ ہے۔
سیرت اُمُّ المؤمنین کا خُلاصہ
حضرت میر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب میں یہ ایک کمال ہے کہ وہ ایک دریا کو کوزہ میں بند کر دیتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے متعلق بھی انہوں نے ایک اجمالی نقشہ پیش کیا حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ:
(۱) بہت صدقہ خیرات کرنے والی (۲) ہر چندہ میں شریک ہونے والی (۳)اوّل وقت اور پوری توجہ اور انہماک سے پنجوقتہ نماز ادا کرنے والی (۴)صحت اور قوت کے زمانہ میں تہجد کا التزام رکھتی تھیں (۵) خدا کے خوف سے معمور (۶)صفائی پسند (۷)شاعر بامذاق (۸) مخصوص زنانہ جہالت کی باتوں سے دور (۹) گھر کی عمدہ منتظم (۱۰) اولاد پرازحد شفیق (۱۱) خاوند کی فرمانبردار (۱۲) کینہ نہ رکھنے والی (۱۳) عورتوں کا مشہور وصف ان کی تریاہٹ ہے مگر میں نے حضرت ممدوحہ کو اس عیب سے ہمیشہ پاک اور بَری دیکھا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین بھی لیلۃ القدر ہیں
رمضان ۱۹۳۶؁ء کا ذکر ہے کہ قادیان میں لوگ حسب معمول لیلۃ القدر کی تلاش میں تھے کہ ایک روز مکرمی اخویم بابو فضل احمد صاحب بٹالوی مہاجر نے مجھے اپنی رؤیا سنائی کہ مجھے تو آج معلوم ہوا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین لیلۃ القدر ہیں ۔ میں پہلے تو اس فقرہ کو سن کر کچھ حیران سا ہوا پھر مجھ پر بھی واضح ہو گیا کہ حقیقتاً انسان ہی لیلۃ القدر ہوتے ہیں نہ کہ زمانہ، زمانہ بعض مبارک وجودوں سے منور اور مبارک ہو کر لیلۃ القدر کہلانے لگتا ہے۔ مگر یہ خاصیت اِس زمانہ کی نہیں ہے بلکہ اس مبارک وجود کے فیضان کی ہے جو اسے بابرکت کر دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود اور اسی طرح دیگر سب انبیاء علیہم السلام کے زمانے ان کی برکات کی وجہ سے لیلۃ القدر کہلاتے ہیں اور جب تک ایسے وجود دنیا میں رہتے ہیں۔ برکات کی ایک فضا عالم پر چھائی رہتی ہے۔ پس اگرچہ لیلۃ القدر کہنے کو ایک زمانہ یا ایک رات ہوتی ہے مگر اس کی پشت پر کسی زندہ وجود کے برکات ہوتے ہیں جو اسے بابرکت بنائے رکھتے ہیں۔ ان معنوں میں کیاشک ہے کہ حضرت عُلیاء کا وجود بھی ایک بہت بڑی لیلۃ القدر ہے۔ یہ چند فقرے آپ کی کتاب ’’سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین‘‘ میں جو چھپ رہی ہے درج کرنے کیلئے ارسال خدمت ہیں۔ والسلام
محمد اسمٰعیل
الصفہ قادیان
حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے تاثرات
حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب قبلہ میری کسی معرفی کے محتاج نہیںاللہ تعالیٰ نے انہیں جماعت میں ایک خاص شرف عطا فرمایا ہے وہ اپنے اخلاص فی الدین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اہلِ بیت کے ساتھ لِلّٰہ و فی اللّٰہ محبت و اخلاص رکھتے ہیں اور سلسلہ کے لئے ان کی خدمات کا دامن بہت وسیع ہے عزیز محترم محمود احمد عرفانی مرحوم و مغفور کی تحریک پر انہوں نے اپنے تاثرات باوجود معذوری کے لکھ کر بھیجے تھے اس میں سے بعض حصص مرحوم نے سیرت میں درج کر دیئے تھے جو تبرکات باقی ہیں انہیں خاکسار عرفانی کبیر بادل اندوہ گیں درج کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں سے ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقتِ مادری کے بہت قریب سے حصہ لینے کا موقعہ اور سعادت نصیب ہوئی اور انہوں نے آپ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق اپنے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ممدوحہ کو حیات طیبہ بخش کر بعد میں آنے والے خدام کو بھی اس سے حصہ بخشا۔ والحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک!
(عرفانی کبیر)
عذروعزم
اب نظر کی کمزوری اور طبیعت کی ضعیفی کے سبب پڑھنے اور لکھنے کے کام میں مجھے بہت دقت ہوتی ہے۔ خطوں کے جواب بھی کسی اور سے لکھواتا ہوں۔ لیکن عزیز شیخ محمود عرفانی سلمہ اللہ تعالیٰ کے بار بار اصرار پر ان کی نہایت مفید اور بابرکت تازہ تصنیف کے لئے چند سطریں ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔
مہمان نوازی
دسمبر ۱۸۹۰ء؁ تھا یا جنوری ۱۸۹۱ء؁ جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے مشرف ہوا۔ اس وقت میری عمر انیس سال کے قریب تھی۔ ان دِنوں ہم صرف دو مہمان تھے ایک یہ عاجز اور دوسرے سیّد فضل شاہ صاحب مرحوم اور ہمارا کھانا حضرت اُمُّ المؤمنین کے انتظام کے ماتحت اندر سے پک کر آتا تھا۔ اس کے بعد عاجزان گنت دفعہ مکرمہ کی مہمان نوازیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بیوی صاحبہ بہت ہی مخیر ہیں۔
غربا پروری
ان کے ذریعہ سے بہت سے غریبوں کی پرورش ہوتی ہے۔ کئی یتیموں اور بیکسوں کو انہوں نے پالا۔ تربیت کی تعلیم دلائی اور ان کی شادیوں کے بھی خرچ برادشت کئے۔
قدرت الٰہی کی بات ہے کہ پیدائش سے ہی ان کا نام نصرت جہاں بیگم رکھا گیااور ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نکاح میں آنا اللہ تعالیٰ کی ان نصرتوں اور فتوحات کے واسطے ایک فالِ نیک تھا جو بعد میں حضورکے شامل حال ہوئیں۔ یہ خداوندکریم کا آ پ پر ایک فضل عظیم تھا جس کو آپ کی زبانی اس شعر میں ظاہر کیا گیا ہے۔
چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے
سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا
میں یورپ ،امریکہ کے سفر میں تھا جب کہ ہمیں وہاں اخباروں کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ’’ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز‘‘ ایسے سخت بیمار ہوگئے کہ حضور نے مناسب سمجھاکہ اپنی ایک وصیّت لکھیں اور اس وصیّت میں حضور نے ایک بورڈ بھی بنایا جو آپ کے بعد خلیفہ کا انتخاب کرے۔ مجھے اس خبر سے طبعًابہت صدمہ ہوااور میں نے بہت دعا کی میرے دل کو تشفی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ حضور کر صحتِ کامل دے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فالحمدلِلّٰہ۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ اس وقت انتخابِ خلیفہ کی ضرورت پیش آئے تو اگر احادیث میں ایسے اشارات نہ پائے جاتے کہ خلیفہ مَردوں میں سے منتخب کیا جائے تو میں حضرت اُمُّ المؤمنین کا نام پیش کرتا۔ میرے اس خیال کے محرک میری وہ معلومات ہیں جو مجھے مکرمّہ کے تقوے، نیکی، زُہد، انتظامی قوت اور حکومت کی طاقت کے متعلق حاصل ہیں۔ مکرمّہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا موقعہ عطاء کیا کہ انھوں نے ایک شاندار نبی کے حا لات کو سفر و حضر میں شب و روز ایک لمبے عرصہ تک دیکھا۔
خداتعالیٰ کی تازہ وحیوں کو سنا ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے زبردست نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے صداقت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل کو بروقت سنا اور جا نچا اور ما نا۔ہزاروں پشین گوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا اور اس طرح آپ کا ایمان ہمیشہ ترقی کرتا رہا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وعدہ کی اولاد آپ کے بطن سے عطا فرمائی۔ اپنی بعض اولاد کی وفات کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا صبر عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قضاپر راضی رہنے کا بہت ہی پُراثر نیک نمونہ آپ نے قائم کیا۔
تربیت اولاد
اولاد کی تربیت و تعلیم کا کام حضرت اُمُّ المؤمنین نے ایسی عمدگی سے سر انجام دیا کہ آج وہ سب آسمان کے ستاروںکی طرح چمک رہے ہیں اور دنیا کو روشن کر رہے ہیں۔اللہ کریم ان کی عمر اور صحت میں مزید بر کت دے۔آمین
حضرت مولوی شیر علی صاحب قبلہ کے تاثرات
حضرت مولوی شیر علی صاحب قبلہ سلمہ اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ سیرت بزرگ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی آپ کو فرشتہ لکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشوف میں بھی ایک فرشتہ شیر علی نام دکھایا گیا۔ حقیقت میں حضرت مولوی صاحب تقویٰ و طہارت اور خدمت سلسلہ کے لئے فدایانہ رنگ رکھنے میں اپنی آپ نظیر ہیں حضر ت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جب دینی ضروریات کے لئے قادیان سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو آپ ہی کو امیر جماعت مقرر فرماتے ہیں ۔آج کل آپ قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کے کام میں مصروف ہیں ۔انھوں نے عزیزمکرم مرحوم محمود احمد عرفانی کی درخواست پر کچھ روایات لکھ کر روانہ کی تھیں۔ان میں سے بعض درج ہو گئی ہیں باقی ذیل میں در ج کرتاہوں ۔ ( عرفانی کبیر)
حضرت اُمُّ المؤمنین کی روحانیت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد مرتبہ اس کا ذکر فرمایا کہ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب رؤیا یا وحی کے ذریعہ سے کسی امر کا مجھ پر انکشاف ہوا تو بسا اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ہمارے گھروالوں کو بھی اس امر کے متعلق کو ئی خواب یا رؤیا دکھایا جاتا ہے یہ امر آپ کی روحانی صفائی کا بیّن ثبوت ہے کہ جس امر کا انکشاف اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرماتا ہے اسی کا انعکاس آپ کے قلبِ مطہر پر بھی ڈالا جاتا ہے ۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا صبر
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک صحبت کا ہی یہ حیرت انگیزاثر ہے کہ آپ نے سخت سے سخت غم کی گھڑیوں میں صبر کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اور کبھی جزع فزع سے کا م نہیں لیا۔چنانچہ جب آپ کا پیارابیٹامبارک احمد فوت ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ اس کی والدہ نے اس موقعہ پر سوائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے کے اور کسی قسم کی بے قراری اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاوصال ہوا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی روایت ہے کہ اس وقت جو کلمات حضرت اُمُّ المؤمنین کی زبان پر جاری ہوئے وہ یہ تھے آپ نے اس وقت اپنے خداکو مخاطب کر کے کہاکہ
’’اے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑ چلے ہیں پر تو ہمیں نہ چھوڑیو‘‘۔
اس وقت یہ صرف آپ کے صبر کا ہی مظاہرہ نہ تھا بلکہ آپ کے ایمان اور توکّل علی اللہ کا بھی موء ثر نمونہ تھا اور یہ آپ کی معرفت الہٰیہ پاکیزہ فطرتی کا اثر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قرب میں خدا تعالیٰ کے چمکتے ہوئے نشانات دیکھ کر ترقی کرتی گئی۔ اس وقت آپ نے عام عورتوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ:
یہ تو گزر گئے ہیں اب ہم کیا کریں گے
اور ہمارا کیا حال ہوگا بلکہ اس وقت نہایت ہی موء ثر اور رقت انگیزالفاظ میں اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دیا۔ یہ اسی قسم کے ایمان کا مظاہرہ تھاجو حضرت ہاجرہ علیہاالسلام نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جدائی پر دکھایاتھا جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل کو ایک بیابان میں جہاں نہ پانی تھانہ کھانا چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہم کو یہا ں چھوڑکر چلے ہواور جب حضرت ابراہیم علیہ والصلواۃوالسلام نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت ہا جرہ نے کہا اِذاً لا یِضُیعنَا تب اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ بیابان مکہ میں چھوڑی ہوئی ماں اور اس کا بیٹا ایک بے شمار نسل کے بانی ہوئے۔یہاں تک کہ انہیں کے نسل سے رحمۃ اللعالمین پیداہوئے۔ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنّک حَمِیْدٌ مَجِیْد
آپ کے دلی جذبا ت کا نقشہ
آپ کے دلی جذبات کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ ولصلوٰۃوالسلام نے اپنی ایک نظم۱؎ میں کھینچاہے۔ اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے دل کی ترجمانی ہے۔
خدا تعالیٰ کا شکر اور دعا بزبان حضرت اُمَّ المؤمنین
ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں ترا

کس طرح شکر کروں اے میرے سلطاں ترا
ایک ذرہ بھی نہیں تونے کیا مجھ سے فرق

مرے اس جسم کا ہر ذرہ ہو قرباں تیرا
سر سے پاتک ہیں الٰہی تیرے احساں مجھ پر

مجھ پہ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا
تونے اس عاجزہ کو چاردیئے ہیں لڑکے

تیری بخشش ہے اور یہ فضل نمایاں تیرا

۱؎ بعض کا خیال ہے کہ یہ نظم خود حضرت اُمُّ المؤمنین کی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ترجمانی فرمائی اور خاکسار کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اس نے سب سے اوّل بذریعہ الحکم اس کو نمایاں کیا۔ والحمد للّٰہ علی ذالک (عرفانی کبیر)
پہلا فرزند ہے محمود مبارک چوتھا

دونوں کے بیچ بشیر اور شریفاں تیرا
تو نے ان چاروں کی پہلے سے بشارت دی تھی

تو وہ حاکم ہے کہ ٹلتا نہیں فرماں تیرا
تیرے احسانوں کا کیونکر ہو بیاں اے پیارے

مجھ پہ بیحد ہے کرم اے میرے جاناں تیرا
تخت پر شاہی کے ہے مجھ کو بٹھایا تو نے

دین و دنیا میں ہوا مجھ پہ یہ احساں تیرا
کس زباں سے کروں شکر کہاں ہے وہ زبان

کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا
مجھ پہ وہ لطف کئے تو نے جو برتر ز خیال

ذات برتر ہے تیری پاک ہے دیواں تیرا
چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے

سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا
کس کے دل میں یہ ارادے تھے یہ تھی کس کی خبر

کون کہتا تھا کہ یہ بخت ہے رخشاں تیرا
پر میرے پیارے یہی کام تیرے ہوتے ہیں

ہے یہی فضل تیری شان کے شایاں تیرا
فضل سے اپنے بچا ہم کو ہر اک آفت سے

صدق سے ہم نے لیا ہاتھ میں داماں تیرا
کوئی ضائع نہیں ہوتا جو ترا طالب ہے

کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا
آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں

کوئی ہو جائے اگر بندۂ فرماں تیرا
جس نے دل تجھ کو دیا ہو گیا سب کچھ اس کا

سب ثناء کرتے ہیں جب ہو جائے ثنا خواں تیرا
اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں

وہ جو اک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا
عمر دے رزق دے اور عافیت و صحت بھی

سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا
اب مجھے زندگی میں ان کی مصیبت نہ دکھا

بخش دے میرے گناہ اور جو عصیاںتیرا
اس جہاں کے نہ رہیں کیڑے یہ کر فضل ان پر

ہر کوئی ان میں سے کہلائے مسلماں تیرا
غیر ممکن ہے کہ بنا تیرے پاؤں یہ مراد

بات جب بنتی ہے جب سارا ہو ساماں تیرا
بادشاہی ہے تری ارض و سما دونوں میں

حکم چلتا ہے ہر اک ذرّہ پہ ہر آں تیرا
میرے پیارے مجھے ہر درد و مصیبت سے بچا

تو ہے غفار یہی کہتا ہے قرآں تیرا
صبر جو پہلے تھا اب مجھ میں نہیں ہے پیارے

دکھ سے اب مجھ کو بچا نام ہے رحمن تیرا
ہر مصیبت سے بچا اے میرے آقا ہر دم

حکم برتر ہے زمیں تیری ہے دوراں تیرا
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے۔ کیونکہ یہ ساری برکت اور یہ تقویٰ یہ طہارت اور یہ ایمان اور روحانیت آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک صحبت کے طفیل میسر ہوئی۔ آپ کا وجود دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور عافیت کے ساتھ دیر تک سلامت رکھے اور آپ کا مبارک سایہ ایک لمبے عرصہ تک خاندان اور تمام جماعت کے سر پر قائم رہے۔ آمین ثم آمین۔
اَللّٰھمُ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ و بٰارِکْ وَسَلِّمْ انَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْد
وَاٰخِرُدَعْوٰنٰا اَنِ الْحَمْد للّٰہَ رَبِ العٰلَمِیْنَ
خاکسار
شیر علی عفی عنہ
۱۷ /اخاء ۱۳۳۱؁ہش
(۴)نواب محمد عبداللہ خاں صاحب کے تاثرات
نواب محمد عبداللہ خاں سلمہ اللہ تعالیٰ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب شیروانی کے صاحبزادہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ صہری تعلقات کی وجہ سے آپ کے اہلِ بیت میں داخل ہیں۔ حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحب آپ کے حَبالہ نکاح میں آئیں۔ نواب صاحب ممدوح کے تاء ثرات عزیز مکرم محمود احمد عرفانی نے الحکم ۷/۱۴ مئی ۱۹۴۳؁ء میں ان کے ایک جلسہ نصرت آباد اسٹیٹ کی روئداد کے ذیل میں شائع کئے تھے۔ میں ان کو معہ اس نوٹ کے جو انہوں نے لکھا تھا۔ یہاں درج کرتا ہوں۔ (عرفانی کبیر)
ہمارے سب کام خداہی کے لئے ہیں
نصرت آباد اسٹیٹ سندھ کی ان جدید اسٹیٹس میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فرزندوں کو خود عطا فرمائی ہیں۔ یہ اسٹیٹ جناب مخدوم محترم خان محمد عبداللہ خاں صاحب کی ہے۔ ۱۹۴۰ء؁ میں کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے۔ خاں صاحب موصوف بہت سے مالی خسارے میں گھر گئے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مشکلات کے بادل دھوئیں کے بادلوں کی طرح سے اڑا دیئے اور اس سال اللہ تعالیٰ نے اس قدر فضل و رحم فرمایا کہ خاں صاحب موصوف کی پوزیشن اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو سات سو روپے کے انعامات عطا فرمائے ہیں۔
خان محمد عبداللہ خاں صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف حاصل ہے اور اس طرح وہ اس مبارک خاندان میں شامل ہو گئے ہیں جو خاندان نبوت کے مبارک نام سے قیامت تک معزز اور مشرف رہے گا۔
خان محمد عبداللہ خاں صاحب کے حالات بہت کم پریس میں آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک گوشہ نشین بزرگ ہیں اور ہر قسم کے نام و نمود سے دور بھاگتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اس میں ان کا اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ تحریک جدید کے چندوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خدام الاحمدیہ کی عمارت کے فنڈ میںمعقول رقم دی۔ ماہواری چندوں میں پوری باقاعدگی، سلسلہ کی تمام تحریکوں میں شوق سے حصہ لینا ان کا معمول ہے۔ انہوں نے اپنے دونوں لخت جگر خدمت دین کے لئے وقف کر رکھے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ وہ بچے بھی اپنے دل میں خدمت دین کا بے پناہ جذبہ محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ سال کے موسم گرما کی بات ہے کہ صاحبزادہ عباس احمد خاں سلمہ اللہ تعالیٰ علاقہ سری گوبندپور میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے۔ ان کا ہیڈکوارٹر ماڑی بچیاں نامی گاؤں میں تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ امیر ابن امیر کانونہال جو نازونعمت کے گہوارے میں پرورش پائے ہوئے تھا۔ دھوپ کی بھی پروا نہ کرتا ہوا گاؤں گاؤں شوق تبلیغ میں پھرتا رہتا تھا اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر گزارا کرلیا کرتا تھا۔ یہ بات ایک ایسے گھرانے کے نونہال میں جو ہمیشہ متنعمانہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو۔ نہیں پیدا ہو سکتی جب تک وہ خاندان اور خصوصاً والدین ایک پاکیزہ زندگی گزانے کے عادی نہ ہوں۔ میاں عباس احمد کا یہ جذبہ اور یہ شوق خان محمد عبداللہ خاں صاحب اور صاحبزادی امۃ الحفیظ صاحبہ کی اپنی ذاتی پاکیزگی اور دینداری کا نتیجہ ہے۔
خان محمد عبداللہ خان صاحب نے اس جلسہ میں ایک تقریر کی جو اس قابل ہے کہ ہر ایک مخلص احمدی اسے پڑھے تا وہ جان سکے کہ وہ کونسا جذبہ اور وہ کونسی روح ہے جو ایک احمدی رئیس کے دل میں کام کر رہی ہے اور اس سے اس انقلاب کا بآسانی پتہ لگ سکے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد روحوں میں ہوا ہے۔ (محمود احمد عرفانی)
تقریر دلپذیر جو خان محمد عبداللہ خاں صاحب نے فرمائی

آپ نے فرمایا کہ اس جلسہ کا اجلاس آج اس لیے کیا جا رہا ہے کہ چونکہ نصرت آباد اسٹیٹ میں فصل نہایت شان دار ہوا ہے۔ اس لئے پہلے رب العزت والعرش کا شکریہ ادا کیا جائے۔ پھر ان کارکنوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے میری امداد کے لئے مجھے دیا ہے۔ جب میں اپنی اسٹیٹ کے رقبہ کو دیکھتا ہوں تو ایک رشک کی نظر دوسری اسٹیٹوں کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو دیکھتا ہوں جو اس رقبہ کی پیداوار کی شکل میں ہم کو مل رہا ہے تو میرا دل اطمینان اور شکریہ سے لبریز ہو جاتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ اس رقبہ میں محنت اور کوشش سے کام کر سکیں اور بہترین ثمرات حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمی دیئے جو کہ اس فارم میں اس جذبہ اور محبت کے ساتھ کام کرتے ہیں گویا کہ یہ ان کا اپنا ذاتی رقبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محبت اور خلوص سے بھر دیا ہے۔ میری موجودگی اور عدم موجودگی ان کے لئے برابر ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس کے لئے جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کروں کم ہے۔ رَبِّ اوزعْنِی اَنْ اشکَرنعمتَک الَّتِی انعمت عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعمل صَالِحاً ترضٰہٗ وَ اصْلِح لی فی ذرّیتی اِنِی تُبتُ اِلَیکَ وانِی مِنَ المُسِلمین
جب میں نے ۱۹۳۳؁ء کے شروع میں نواب شاہ میں رقبہ حاصل کیا اور سندھ کے حالات پر نظر دوڑائی تو کیا بلحاظ قابلیت اور کیا بلحاظ بدنی استعداد میں نے اپنے آپ کو زمیندارہ کام کے بالکل نااہل پایا۔ لیکن میں ضرورت مند تھا۔ میں نے یہ کام ضرور کرنا تھا۔ اس لئے میں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اپنی جبیں اس رحیم و کریم ہستی کے آستانہ پر رکھ دی۔ جو ہر ایک بے کس بے بس انسان کا سہارا اور آسرا ہے۔ میں نے عرض کی۔ اے میرے اللہ مجھے دماغ دے کہ میں اس کام کے کرنے کی عقل وسمجھ نہیں رکھتا۔ اے میرے مولیٰ مجھے بازو دے جو کہ اس کام کے کرنے میں میری امداد کر سکیں۔ اے قادر توانا مجھے پاؤں دے جو کہ میرے لئے چلیں کیونکہ میں کمزور ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو سنا اور قبول فرمایا۔ آج ۱۹۴۳؁ء ہے۔ دس سال گزر چکے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ میری ذات نے اس کام کی سرانجام دہی میں کیا کام کیا ہے۔ لیکن محض اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے میرے رقبے کے نتائج دوسرے اچھے رقبوں سے اچھے نہیںبلکہ بہتر رہتے رہے ہیں۔ خداتعالیٰ نے عجیب در عجیب رنگ میں میری مشکلات کو دور کیا۔ مجھے ہر رنگ میں نوازا۔میری اس قدر پردہ پوشی فرمائی جس کا اندازہ سوائے میری ذات کے کوئی نہیں لگا سکتا۔ میرے پیارے رب کے رحم و کرم کا اندازہ آپ لوگوں کو اسی وقت ہو سکتا ہے کہ میرے اندرونی حالات کا آپ کو علم ہو اور ان مشکلات کا آپ کو علم ہو۔ جن میں سے میں ایک وقت گزرا تھا۔ لیکن جب کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی ستاری کی چادر میں ڈھانپا ہوا ہے۔ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اپنی پردہ دری خود کروں۔ آپ صرف ان نوازشات کو دیکھ کر میرے ساتھ شکریہ میں شامل ہوں جن کو میرا رب مجھ پر پہیم برسا رہا ہے۔ جب میں نے نواب شاہ سے یہاں آنے کے لئے استخارہ کیا کہ کیا میں اس رقبہ کو حاصل کروں یا نہ تو اس دعا اور استخارہ کے نتیجہ میں مَیں نے ایک لرزا دینے والی آواز سنی جو کہ میرے اپنے وجود میں پیدا ہو رہی تھی کہ وَتُعزمَنْ تَشَائُ وتُذِلُّ مَنْ تَشَائُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُط انَّکَ اللّٰہ عَلیٰ کُلّ شیئٍ قَدِیْر- اس رقبہ کو لینے کے بعد کس قدر مایوس کن حالات پیش آئے۔ وہ لوگ جو اس وقت میرے ساتھ تھے وہ جانتے ہیں کہ کس قدر مشکلات کا سامنا تھا۔ بسااوقات میں خود یہ محسوس کرتا تھا کہ میں سندھ میں نہ رہ سکوں گا۔ لیکن خداتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ مجھے عزت دے گا اور اپنی قدرت نمائی دکھائے گا۔ میری ہر ایک دقت اور مصیبت میرے لئے ایک سیڑھی تھی جو کہ مجھے رفعت اور بلندی کی طرف لے جاتی رہی۔ اس زمانہ میں میرے پیارے مولیٰ نے اپنی رحمت اور شفقت کا سلوک نہیںچھوڑا۔ بار بار مجھے اور میری بیوی کو بشارت دے کر میری ڈھارس بندھاتا رہا ہے۔ ۱۹۴۰ء؁ میں ہماری اسٹیٹ گورنمنٹ کی ساٹھ ہزار روپے کی مقروض تھی۔ مزید برآں مَیں کاٹن کی تجارت کر بیٹھا۔ مجھے اس میں ساٹھ ہزار روپے کا مزید نقصان ہو گیا۔ حالات نہایت مایوس کن تھے۔ میری بیوی نے اس وقت خواب میں دیکھا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ نقصان میرے حق میں بہتر ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی کرشمہ نمائی دیکھو۔ چھ ماہ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے میری لیز کی توسیع مزید پانچ سال کے لئے کرا دی اور اس کے علاوہ دہلی میں مجھے سپلائی کا کام مل گیا اور اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل سے وہ تمام کا تمام بار ایک سال کے اندر دور ہو گیا۔ الحمدللہ۔ لیز کی توسیع اس سال سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے جو فائدہ ہو گا وہ بہتری ہی بہتری ہے۔ اس کے علاوہ سپلائی میں جو کام ہو رہا ہے وہ میرے لئے مزید بہتر ہی بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی ذرہ نوازی سے کیسا اس خواب کو پورا کیا۔ پھر انہی دنوں مَیں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یہ مصیبت اور مشکلات تیری کسی ناراضگی کا موجب تونہیں۔ اگر میری کوتاہی کی وجہ سے ہیںتو مجھے آگاہ کر تا میںاپنی اصلاح کروں۔
میرے پیارے مولیٰ نے ایک رات میری زبان پر یہ الفاظ جاری کئے۔ والضُّحٰی وَاللیل اذاسجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ ومَاقَلٰی خِیرٌلک مِنَ الاُولٰی وَلَسَوْفَ یُعْطیک رَبُّکَ فَتَرْضَیٰکہ اللہ تعالیٰ نے عروج و زوال انسان کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں اور نہ تجھ کو اس نے چھوڑا ہے اور نہ ناراض ہوا ہے۔ تیری آخرت تیری پہل سے بہتر ہو گی۔ عنقریب تیرا رب تجھے اس قدر دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔ یہ الفاظ میں نے اس وقت سنے جب کہ یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود میرے لئے تنگ تھی ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی تھی۔ لیکن میں ان مشکلات اور مصائب میں ایک پہاڑ کی طرح کھڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کا امیدوار تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ آج اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے صرف مجھے دنیا ہی نہیں دی بلکہ اپنے بے شمار رحم اور کرم فرما کر حقیقی معنوں میں مجھے عبداللہ بنا دیا۔ آج میرا دل شکریہ اور اس کی محبت سے لبریز ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کی خاطر قربان ہو جائے اور میں اسی کا ہو کر رہ جاؤں ۔ میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے۔
دراصل عملی طور سے ہے بھی یہی۔ میں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں۔ میری ساری کوشش اور محنت صرف اسی لئے ہے کہ اس پاک وجود کے جگر پارے آرام پائیں۔ جن میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے۔ میرے دونوں بچے اللہ تعالیٰ کی خدمت کے لئے وقف ہیں۔ میں یہاں اس لئے کام کر رہا ہوں وہ خدا اور رسول کے چمن کے مالی بنے رہیں۔ وہ اپنے روزگار کی فکر سے آزاد رہیں۔ وہ صرف اللہ کے بندے بنے رہیں۔ ان کو کسی غیر کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جبکہ وہ خداتعالیٰ کیلئے وقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود ان کاکارساز ہو گا۔ مجھے پریشان ہونے کی کیاضرورت ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول فرماتا ہے۔ تم میں سے وہ بہتر ہے کہ جو اپنی اولاد کو آسودگی اور خوشحالی کی حالت میں چھوڑ جاتا ہے۔ بہ نسبت اس کے جو تنگی اور فلاکت کی حالت میں ان کو چھوڑے۔ یہ سب میری کوششیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کیلئے ہیں۔ پس وہ کارکن یا معاونین جہنوں نے اس کام میں میری مدد کی ہے۔ اگر وہ بھی اس کام کو اسی جذبہ اور اسی نیت کے ساتھ کریں گے جس کا میں نے اظہار کیا ہے تو یقینا وہ نہ صرف مالی منفعت ہی حاصل کریں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کے وہ مورد ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں اپنے اکثر کارکنوں کو اسی جذبہ کے ماتحت کام کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اخلاص اور محبت میں برکت دے اور اپنی نوازشوں اور رحمتوں سے ان کے گھروں کو بھرے دے۔ جہاں وہ اس دنیا میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہمارے ساتھ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں جگہ دے۔ آمین
اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ اس رحمت اور برکت کو میں نے کبھی اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں کیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کی دعائیں
میرے پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کی دعاؤں کا طفیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں میرے لئے پیار و محبت پیدا کر دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہ خود بھی دعائیں فرماتی تھیں۔ بلکہ ہر ایک کو کہتی تھیں کہ عبداللہ خاں کیلئے دعائیں کرو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بعد میری گردن جذبات شکر اور محبت سے ان کے حضور جھکی ہوئی ہے۔ میری والدہ جبکہ میں چار پانچ سال کا تھافوت ہو گئی تھیں۔ میں ماں کی محبت سے بے خبر تھا۔ لیکن میرے ودود و رؤف مولیٰ نے حضرت اماں جان کے وجود میں مجھے بہترین ماں اور بہترین ساس دی۔ میں نے آج تک اس رقبہ کو حضرت اماں جان کا عطیہ تصور کیا۔ بلکہ اس جہیزکا جز خیال کیا جو انہوں نے اپنی لڑکی کو دیا۔ میں نے اسی جذبۂ شکر اور محبت کی وجہ سے اس رقبہ کا نام نصرت آباد آپ کی اجازت سے آپ کے نام مبارک پر رکھا ہے۔ اس لئے یہ حضرت اماں جان کا عطیہ ہے۔ ان کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ اب آپ لوگ خود ہی سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر سے آئی ہوئی چیز کس قدر بابرکت ہو سکتی ہے۔ جب کبھی بھی کوئی دقت پیش آئی میں حضرت اماں جان کے حضور دعا کے لئے حاضر ہوتا ہوں۔ وہ نہایت تڑپ سے میرے لئے دعائیں فرماتی ہیں۔ اس لئے یہ سب خیروبرکت یہ دیانت وامانت کے پتلے یہ کوشش اور محنت کے مجسمے حضرت اماں جان کی دعاؤں کا ثمرہ ہیں۔ پس اگر میں یا کوئی اور اس خیروبرکت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ اس کو آج نہیں تو کل ضرور شرمندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پس نہایت فروتنی سے کام کرتے چلے جاؤ۔ اپنی کوششوں کے ساتھ بہت رو رو کر دعائیں کرو کہ جو نیک نام اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہم کو دیا ہے ہم اس کو اپنی کسی کمزوری سے ضائع نہ کریں۔ ہمارے افعال اَرحُم الراحمِیْن کے فضلوں کو ہمیشہ جذب کرنے والے بنے رہیں اور ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس حفیظ و عزیز و رفیق کی گود میں آ جائیں جو اپنے بندوں کی رفاقت کو کبھی نہیں چھوڑتا یہاں تک کہ وہ اپنی بداعمالی سے خود اس کو چھوڑ دیں۔
اس تقریر اور ان تاثرات کو بار بار پڑھو کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی دعاؤں کی قبولیت اور آپ کی ذریت مبشرہ کے متعلق خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا عملی ثبوت نظر آتا ہے۔
چشم بہ اندیش کہ برکندہ باد
عیب نماید ہنرش در نظر
خاں صاحب ڈاکٹر سیّد غلام حسین صاحب کی روایات
خاں صاحب ڈاکٹرسیّد غلام حسین صاحب قاضی سیّد امیر حسین صاحب رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں اور وہ اپنی طالب علمی ہی کے زمانہ میں سلسلہ میں داخل ہوئے وہ بیان کرتے ہیں۔
میں ۱۹۳۳؁ء میں ضلع رہتک میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھا اور حضرت میر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب وہاں سول سرجن تھے حضرت اُمُّ المؤمنین ان کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ میں رہتک کے محلہ قلعہ کی تاج منزل میں رہتا تھا کہ میرا لڑکا سیّد رفیق احمد شاہ سلمہ پیدا ہوا۔ تو میری بیوی سیّدہ جمیلہ خاتون نے فوراً ہی لڑکیوں کے ہمراہ حضر ت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں دعا کیلئے بھیج دیا حضرت اُمُّ المؤمنین نے گود میں لے کر دعا فرمائی اور حضرت میر صاحب نے گھٹی دی۔ اور حضرت اُمُّ المؤمنین ازراہ شفقت تاج منزل قلعہ رہتک میں غریب خانہ پر تشریف لائیں۔
نوٹ: یہ واقعہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت کا مظہر ہے (عرفانی)
(۲)
حضرت اُمُّ المؤمنین کی فراست کے متعلق سیّد صاحب نے اپنی صاحبزادی سیّدہ مبارکہ کی راویت بیان کی ہے کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اس لڑکی کے چہرہ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک دن استانی بنے گی۔ چنانچہ بالآخر اس کو بھوپال کے کیمبرج سکول میں (جو لڑکیوں کے لئے ہے) استانی کی جگہ مل گئی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے جب فرمایا تھا سیّدہ مبارکہ ساتویں جماعت میں تھی۔
نوٹ: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اِتَّقُوْا افِرَاسَۃَ الْمومنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بنُورِ اللّٰہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی یہ فراست صحیحہ اسی نور اللہ کا ثبوت ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد میں ہے۔
حضرت اُمُّ ا لمؤمنین کی فراست صحیحہ کے متعلق سیّدہ فضیلت نے بھی لکھا ہے۔
وہ فرماتی ہیں کہ غالباً ۱۹۱۶ء؁ میںحضرت اماں جان سیالکوٹ آئیں اور مسجد حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سے ملحقہ مکان میں جس میں ان دنوں ہمارے بزرگ حضرت سیّد حامد شاہ رضی اللہ عنہ رہتے تھے تشریف لائیں تو میں آپ کے استقبال کو سیڑھیوں پر کھڑی تھی آپ نے نظر اُٹھا کر دیکھااور معاً حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی بیوی کو (جو آپ کے ساتھ تھیں) مخاطب کر کے فرمایا۔ یہ سیّد خصیلت علی شاہ صاحب کی لڑکی ہیں میں نے ان کو آنکھوں سے پہچان لیا۔ حالانکہ میرے والد مرحوم کی وفات کے وقت میری عمر تین سال کی تھی اور اس سے پہلے یا بعد مجھے اماں جان نے نہ دیکھا تھا۔ جانے کب اور کس وقت میرے والد صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوّلین صحابہ میں سے تھے اور حضرت کے فدائی اور پروانے تھے دیکھا تھا اور جانے کتنی مدت کے بعد آپ نے مجھے ایک نظر سے پہچان لیا۔
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کی فراست اور حافظہ بے نظیر ہے (عرفانی کبیر)
(۳)
ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کی بیگم صاحبہ کو ایک شخص نے اُمُّ المؤمنین لکھا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیوی اُمُّ المؤمنین نہیں ہے۔
شیخ حبیب الرحمن صاحب کی روایات
شیخ حبیب الرحمن صاحب بی۔اے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر تعلیم میرے نہایت ہی مخلص بھائی حضرت منشی حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ کے فرزندِ رشید اور سلسلہ کے ایک کامیاب اور مخلص مبلغ و مجاہد مولوی حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ کے بر ادرِ عزیز ہیں وہ اپنی اہلیہ محترمہ عنایت بیگم صاحبہ کی بیان کی ہوئی روایات کا ذکر کرتے ہیں۔
(۱)
۱۹۳۳؁ء میںمیری اہلیہ میرے بڑے بھائی فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ کے ہاں ٹھہری ہوئی تھیں۔ وہاں حضرت اُمُّ المؤمنین میری ایک چھوٹی ہمشیرہ کی شادی کی تقریب پر تشریف فرما ہوئیں تو میری اہلیہ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خاں کی تیارکردہ دو لکڑی کی تھالیاں بطور تحفہ پیش کیں جو حضور نے کمال شفقت سے منظور فرمائیں اور دیر تک میری بیوی سے محبت سے گفتگو فرماتی رہیں۔ بچوں کو پیار کیا اور جب کھانا پیش کیا تو میری بیوی نے عذر کیا کہ حضور تناول فرمائیں میں پنکھا کرتی ہوں لیکن حضور نے پھر بھی اصرار فرمایا اس پر میری بھاوج صاحبہ نے میری اہلیہ سے کہا کہ آپ بھی کھا لیں آپ بھی مہمان ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے سن کر فرمایا نہیں یہ مہمان کس طرح ہیں یہ بھی انہیں کا گھر ہے۔ گوبات معمولی تھی اور بہ ظاہر میری بھاوج صاحبہ نے ایک طرح پر سچ کہا تھا۔ لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس معمولی سی دوئی کو بھی پسند نہ فرمایا۔
نوٹ: یہ واقعہ اس تربیت کی شان کو لئے ہوئے ہے جو حضرت اُمُّ المؤمنین اہلی زندگی میں اتحاد و یگانگت کے رنگ میں فرماتی رہی ہیں۔ وہ دو بھائیوں میں کمال اتحاد پسند فرماتی ہیں وہ اپنے معاشرہ اور تمدن کے لحاظ سے الگ الگ رہتے ہوں۔ مگر وہ علیحدگی کے قلبی اتحاد اور محبت میں دوئی اور جدائی کا شائبہ پیدا نہ کرے جبکہ وہ ایک ہی باپ اور ماں کے بیٹے ہیں اور پھرخداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ہو کر روحانی طور پر بھی ایک ہی باپ کے بیٹے اور ایک ہی زنجیر کی کڑیاں بنا دیا ہو۔ (عرفانی)
(۲)
ایک اور موقعہ پر میری بیوی نے ایک چاندنی کھیس پیش کیا جو حضور نے اسی وقت اپنے نیچے بچھا لیا اور اس طرح میری بیوی کی دلجوئی کی چھوٹے بچے ساتھ تھے انہیں فوراً مٹھائی منگوا کر دی اور آپ محبت سے کھلاتی رہیں اور ایسی محبت شفقت سے باتیں کرتی رہیں جیسے صرف یہی آپ کے بچے ہیں اور سب رشتہ داروں کا حال دریافت فرماتی رہیں۔
نوٹ: اس میں کیا کلام ہے کہ ہم سب حضرت اُمُّ المؤمنین کی روحانی اولاد ہیں اور ہماری اولادیں اور نسلیں آپ کے ساتھ یہی نسبت رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُمُّ المؤمنین کا تو مقام ہی عطا فرمایا ہے اس لئے آپ کی محبت ہم سب اور ہماری اولادوں کے ساتھ سچی اور حقیقی محبت ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد سے جو محبت کرتے ہیں وہ طبعی ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام جو محبت کرتے ہیں وہ محض خدا کی رضا کے لئے ہوتی ہے اس میں نمائش تکلف اور ذاتی اغراض کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے خدا تعالیٰ کے مامور و مرسل کی رفاقت میں اپنے فرائض اور عمل کے دائرہ کی وسعت اور اس خدادادکنبہ کی کثرت کو سمجھ لیا تھا اور خداتعالیٰ نے خود ان کے دل میں انشراح اور اخلاق میں رفق پیدا کر دیا تھا ان کا عمل ایک اسوہ حسنہ ہونے والا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کو اسی طرح اپنے بچوں کی دلداری کا خیال رہتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رہتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کو ایک بصیرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی پر ایمان تھا جس میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں سے تھکنا نہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہی حال ہے وہ اپنی ناسازی مزاج اور ایام علالت میں بھی مہمانوں سے دل تنگ نہیں ہوتی ہیں اور ان کی دلداری کو مقدم سمجھتی ہیں اور تحائف کو قبول کر کے لانے والوں کو خوشی اور دلجوئی اور ان کے نیّات کے نیک مقصد کی قدر فرماتی ہیں۔ وہ خدام کو اپنے عزیز بچے یقین کرتی ہیں۔ آج نہیں ہمیشہ سے۔ اللّٰھُمَ مَتَّعْنَا بِطُوْلِ حَیَاتِھَا آمین- (عرفانی)
حضرت والد صاحب عرفانی کبیر کے تاثرات
میری تحریک پر حضرت والد صاحب نے ایک مختصر سا مضمون لکھ کر ارسال فرمایا ہے جس کو میں باصلہا درج کرنے کی مسرت و سعادت حاصل کرتا ہوں۔ محمود احمد عرفانی
عزیز مکرم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ نے تحریک کی ہے کہ میں سیرت اُمُّ المؤمنین کے سلسلہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ میاں! حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت و شان میں ایک مبسوط کتاب بھی کافی نہیں ہو سکتی۔ میری ضعیفی اور آئے دن کی علالت الگ مانع ہے تاہم شریکِ ثواب ہونے کیلئے مختصراً اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ہوں۔ وَبِااللّٰہ التَوفِیقْ (خاکسار عرفانی کبیر)
۱۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا مقام
حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ مدظلہا العالیٰ کے مقام و رتبہ کے متعلق جب میں غور کرتا ہوں تو اسے اتنا رفیع پاتا ہوں کہ زبانِ قلم اور قلم زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے۔
حضرت ربُّ العالمین نے اسے اپنی نعمت اور اپنی خدیجہ فرمایا۔ خدا تعالیٰ کی یہ وہ نعمت ہے جس کے ذکر (یاد رکھنے) کا ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ ہاں اس جلیل القدر انسان کو جس کی آمد کو آنحضرت ﷺ نے اپنی آمد قرار دیا اور جس کے وجود کو اُمتِ محمدیہ کی ہلاکت سے صیانت کا ذریعہ فرمایا نہ صرف یہ بلکہ حضرت نبی کریم ﷺ نے اس خاتون مبارکہ کی پیشگوئی بھی فرمائی جو اس کے حبالہ نکاح میں آنے والی تھی اور جس کے بطن شریف سے وہ نسل پیدا ہونے والی تھی جو ایمان کوثر یا پر سے لانے والی تھی۔
حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم آیات اللہ میں ایک آیۃ ہیں اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور فرماتے ہوئے سنا کہ آپ حضرت سیّدہ نصرت جہان بیگم صاحبہ کو شعائر اللہ میں سے یقین کرتے تھے اور میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک مرتبہ یہ بیان کرتے بھی سنا کہ میں نے ایک دفعہ بلند آواز سے آپ کو خطاب کیا تو میں نے اس کے کفارہ میں صدقہ دیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی رفعت شان کا کسی قدر اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موعود ادیان کی زوجیت کیلئے ازل میں اسے مقدر فرمایا اور اس مقام کی عظمت اور اس نعمت کے اظہار شکر میںحضرت ممدوحہ نے فرمایا۔
چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کیلئے
۲۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا ایک ورق
جیسے حضرت اُمُّ المؤمنین کی شان و مقام کے اظہار سے قلم زبان قاصر ہے۔ آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بحث بھی آسان نہیں ۔ مجھے ۱۸۸۹ء؁ سے حضرت اُمُّ المؤمنین کو کسی قدر قریب سے اور ۱۸۹۸ء؁ سے بہت قریب سے دیکھنے اور آپ کی شفقت و کرم کا تجربہ کرنے کا موقع ملا ہے اور میں ایک بصیرت کے ساتھ بلا خوف لومۃ لائم کہہ سکتا ہوں کہ انکا وجود فی الحقیقت خدا کی ایک رحمت اور نعمت ہے۔ ان کے دل کی کیفیت جسے ان کے عمل نے نمایاں کیا۔ شاعر کے اس مصرعہ میں ہے۔
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
حضرت اُمُّ المؤمنین میں وہ تمام خوبیاں یکجائی طور پر جمع ہیں جو امہات المومنین علیہن الصلوٰۃ والسلام میں موجود تھیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت پر ایک لذیذ ایمان رکھتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اور آپ کے مرفوع ہونے کے بعد آپ کے خلفاء کے مقاصد و عزائم کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت آمادہ اور تیار رہتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں کوئی ایسی تحریک نہ ہوتی تھی جس میں آپ حصہ نہ لیتی ہوں اور خدمت سلسلہ میں آپ کی خدمات کا ایک یہ پہلو کس قدر قیمتی ہے کہ ابتداء میں باوجود خادماوئں کے۔ مہمانوں کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ تیار کرتی تھیں اور کبھی اس قسم کی خدمات سے آپ نے گھبراہٹ کا اظہار نہیں فرمایا میں ایک بصیرت سے جانتا ہوں کہ ابتداء میں جب حضرت اقدس کا کھانا وغیرہ بڑے گھر سے آتا تھا اور مہمان وقت بے وقت آ جاتے اور حضور اکرامِ ضیف کے بہترین نمونہ تھے۔ مجبوراً اسی گھر میںاطلاع دینی ہوتی تھی اور وہ اکثر برا مناتے اور کہہ دیتے کہ
تمہارے پاس تو اسی طرح آتے رہتے ہیں ہم سے یہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اور انتظام کر لو۔
خدا کی اس نعمت کو انہوں نے رد کر دیا اور خداتعالیٰ نے اس فضل کو سیّدہ نصرت جہاں بیگم کے لئے مقرر کر رکھا تھا ۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مہمانوں کے کثرت سے آنے کی بشارات دیں اور یہ بھی قبل از وقت بتا دیا کہ ان سے تھکنا اور گھبرانا نہیں اُدھر ان کے لئے مہمان نوازی کے صحیح نظام کو قائم رکھنے کے لئے اپنے وعدہ کے موافق جو
ہرچہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم
میں کیا تھا حضرت سیّدہ کو آپ کے نکاح میں لاکر انتظام کر دیا۔ مہمان دن رات کے ہر حصہ میں پیدل سوار آ جاتے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے کبھی نہ ان سے بے وقت آنے کی شکایت کی اور نہ اپنا دل چھوٹا کیا بلکہ ہر فرد کے آنے پر خوشی کا اظہار فرماتیں اور اپنی شفقت ورحمت کے دامن کو اتنا وسیع کرتیں کہ آنے والا اپنے گھر سے زیادہ راحت پاتا۔
مہمان نوازی کے واقعات اور عجائبات بے انتہاء ہیں۔ مجھے مختصراً اتنا ہی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مہمانوں کی کثرت کی بشارتیں دی تھیں اور ان کی ضروریات کے انصرام کا بھی آپ ذمہ لیا تھا اور حقیقی مہمان نوازی کے لئے اُمُّ المؤمنین کو بھیج دیا۔
۳۔سیرچشمی اور فیاضی
حضرت اُمُّ المؤمنین کا دل اتنا ہی وسیع اور ہاتھ اتنے ہی لمبے ہونے چاہئیں تھے جو خداتعالیٰ کی دی ہوئی بشارتوں کی تجلیات کے مظہر ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس مختلف رنگ کے سائل اور محتاج آتے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین اس راستہ میں نہ کبھی روک ہوتیں اور نہ کبھی برا مناتیں کہ میرے گھر کی متاع کا ایک حصہ یوں باہر جا رہا ہے۔ بلکہ آپ کو خوشی ہوتی کبھی آپ کے چہرہ پر نہ شکن آتا اور نہ کسی قسم کا خیال گزرتا بلکہ آپ دریا دلی سے کام لیتیں اور اب تک یہ عادت ہے اور میں تو ایمانی رنگ میں کہتا ہوں کہ انہیں بے انتہا مسرت ہوتی ہے جب وہ کسی کے ساتھ سلوک کا موقعہ پاتی ہیں اور خدا کی حمد اور شکر کرتی ہیں۔ غرباء کی خبر گیری اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنا آپ اپنی زندگی کا بہت بڑا مقصد سمجھتی ہیں۔ میں نے سالہائے دراز تک دیکھا کہ سردیوں کے موسم میں پچاس لحاف تیار کر کے تقسم فرمایا کرتی رہیں۔ آپ کا گھر ہمیشہ یتامیٰ، مساکین اور بیوگان کا پناہ گاہ رہا اور آپ نے ان سے خادموں کا سا نہیں عزیزوں کی طرح سلوک فرمایا۔ یہ باب بے انتہا تفصیل اپنے اندر رکھتا ہے شائد دوسرے لوگ اپنے تاثرات میں بیان کریں۔
۴۔معرفت صحابہ
حضرت اُمُّ المؤمنین کی خصوصیات میں یہ امر بھی داخل ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدام اور صحابہ سے پوری واقفیت رکھتی ہیں اور ایمانی رنگ میں جو جس قدر حضرت کے قریب تھے اُمُّ المؤمنین اسے خوب سمجھتیں اور ان کی قدر فرماتی ہیں اور جب ان میں سے کوئی حاضری کی سعادت پاتا تو اس کے گھر کے تمام چھوٹے بڑوں کا تفصیل سے حال پوچھنا آپ کے دائرہ عمل میں داخل ہے۔بعض صحابہ کو میں نے دیکھا کہ وہ بے تکلف کبھی کبھی کوئی فرمائش کھانے وغیرہ کی کر دیتے حضرت اُمُّ المؤمنین سن کر بہت خوش ہوتیں اور خاص اہتمام سے اس کو پورا کرتیں۔ اس قسم کے احباب میں سے ایک میرے نہایت ہی مخلص مخدوم بھائی حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا سیرت کا نقشہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت میں نمایاں ہے۔
۵۔ رضا بالقضاء
حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی میدان کربلا کی زندگی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن مشکلات اور مصائب میں سے ماموریت کے بعد گزرے ہیں۔ اس کا نقشہ تو خود آپ کے
صد حسینْ است در گریبَانَم
والے شعر میں موجود ہے آپ کی زندگی انبیاء کے ابتلاؤں کی زندگی تھی اور ان ابتلاؤں میں حضرت اُمُّ المؤمنین برابر کی شریک تھیں خداتعالیٰ کی بشارتیں تو سہارا اور ذریعہ تسلی تھیں مگر جیسے حضرت خدیجہ الکبریٰ علیہا السلام نے ابتدائی عہد میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دلائی ٹھیک اسی طرح پر حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت مسیح موعود ؑکے لئے ما یۂِ راحت و اطمینان ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے معرکے آپ کی آنکھوں کے سامنے پیش آئے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین ان تمام حالات میں ایک قلب مطمئنہ کے ساتھ طوفان میں چٹان کی طرح رہیں۔
بیرونی حوادث اور زلازل کے علاوہ گھر میں بعض واقعات اموات کے ہوئے اور وہ معمولی نہ تھے۔ ہر ایسی موت پر مخالفین کی طرف سے گندے اور دل آزار اشہتارات نکلتے۔ مگر آپ کے پہلو میں وہ دل تھا جو خداتعالیٰ کی مقادیر سے ہمیشہ ہم آہنگ رہا اور خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم کیا آپ کے رضا بالقضا کے مقام کی بھی خداتعالیٰ نے داد دی ۔ چنانچہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب الَلَّھُمّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وشَافِعًا کی وفات پر جو نمونہ صبر اور رضا بالقضا کا آپ نے دکھایا اسے خدا تعالیٰ نے اتنا پسند فرمایا کہ اپنی پسندیدگی کا اظہار اس وحی میں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اس واقعہ کے بعد نازل ہوئی۔
خدا خوش ہو گیا
اس سے بھی حضرت اُمُّ المؤمنین کے مقام کا پتہ لگتا ہے مگر جب آپ نے اپنے مولیٰ کی خوشنودی کا پروانہ سنا تو فرمایا۔
مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔
یہ معمولی مقام نہیں اور نہ ہر شخص کو میسر آسکتا ہے۔ ذالکَ فَضْلُ اللّٰہ یُوتیہ مَن یَشائُ
۶۔ آپ کا تقویٰ اور طہارت
تقویٰ اور طہارت کی جو اعلیٰ شان آپ کے کردار میں پائی جاتی ہے۔ وہ اُسوہ حسنہ ہے ہم سب چھوٹوں بڑوں کے لئے موجود اور آنے والی نسلوں کے لئے۔ تقویٰ کی باریک سے باریک راہوں پر آپ چلتی ہیںاور آپ کی اسی شان کیلئے خدا تعالیٰ کی وحی میں ایک مرتبہ نہیں متعدد مرتبہ ذکر آیا کہ اللہ تعالیٰ ہرقسم کے گند سے آپ کو پاک ٹھہراتا اور آپ کی تطہیر کے سامان فرماتا ہے۔ ہمارے شیعہ بھائی آیت تطہیر کو اہل بیت کی پاکیزہ فطرتی پر بطور دلیل پیش کیا کرتے ہیں۔ لاریب میں تو اگر وہ آیت نازل نہ ہوتی تب بھی اہل بیت کی تطہیر کا عقیدہ رکھتا ہوں باوجودیکہ میں شیعہ نہیں ہوں یہاں تو متعدد مرتبہ حضرت ربِ رحیم نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ للہ الحمد!
۷۔ مجھ پر عنایات
میں اس مختصر بیان کے سلسلہ میں ان عنایات اور غریب نوازیوں کاایک دھندلا سا خاکہ پیش کرنے کی سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے جب سے میں قادیان میں مستقل طور پر آ گیا ہر موقعہ پر مجھے اور میرے اہل و عیال کو نوازا ہرتقریب رنج میں ہمارے لئے آپ کا وجود تسلی بخش اور ذریعہ اطمینان ہوا اور ہر خوشی کی تقریب میں آپ نے ہماری خوشی کو اپنی خوشی یقین کیا۔ میری بیوی کو شروع سے بہو کا خطاب دیا اور اس ذرّہ بے مقدار کو شیخ صاحب کہہ کر پکارا۔ آج اس پر پچاس کے قریب برس کا زمانہ آتا ہے آپ کی نوازش اور شفقت میں ہم نے ہمیشہ اضافہ دیکھا۔
عزیز مکرم محمود احمد عرفانی کے خطوط سے میں ہر روز اس درد کا اندازہ کرتا ہوں جو حضرت اُمُّ المؤمنین کو اس کی علالت سے ہے آپ اس کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں اور اس کے لئے اپنے تبرک کو بھیجتی ہیں باقاعدہ روزانہ اس کی عیادت کے لئے مائی کاکو کو بھیجتی ہیں اور تسلی دیتی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان کا وجود ہی تو ہمارے لئے آیتِ رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے تادیر سلامت رکھے۔ آمین
محمود ! یہ مضمون بہت کچھ لکھوانا چاہتا ہے مگر میری یہ حالت ہے۔
چساں درشیشہ ساعت کنم ریگ بیاباں را
اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے خوب کھول کر لکھو۔ یہ عبادت ہے یہ تمہاری اور ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ آیات اللہ کی تلاوت بڑی نیکی ہے اور یہاں تو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا اُذکُروْ نِعْمتی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
خاکسار عرفانی کبیر نزیل سکندر آباد ۱۱۔اکتوبر ۱۹۴۳؁ء
آہ!
آج جبکہ یہ مضمون شائع ہو رہا ہے۔ عزیز محترم محمود احمد عرفانی مقبرہ بہشتی میں آرام کر رہا ہے اور میں بارہ سو میل کے فاصلہ سے اس کے مزار پر آنسوں کے پھول چڑھا رہا ہوں۔ وہ ۲۰ فروری ۱۹۴۴؁ء کی شب کو اپنے مولیٰ کے حضور بلایا گیا جبکہ میں اس کے بستر مرگ پر موجود تھا اس نے نہایت اطمینان کے ساتھ جان آفریں کو اپنی جان سپرد کی۔ وہ ایک نقیب راہ کی طرح چلا گیا اور اس سال کو ہمارے لئے عام الحزن کا رنگ دے گیا۔ اس لئے کہ اس کے بعد سیّدہ اُم طاہر اور حضرت میر محمد اسحق کی وفات ہوئی خداتعالیٰ ان سب کی تربتوں پر اپنی رحمت کے فرشتے نازل فرمائے آمین اور اس کے اس ناتمام مسودہ کو میں اس کے نوٹوں پر مرتب کر رہا ہوں۔ وباللہ توفیق۔ ہم خدا کی تقدیر پر راضی ہیں۔ کبھی کبھی دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے اور اس عالم میں کہتا ہوں محمود!
خوب کٹتا بہشت کا رستہ
ساتھ ہم کو بھی گر لئے ہوتے
عرفانی کبیر
ماسٹر حکیم عبدالعزیز خاں صاحب کے تاثرات

ماسٹر حکیم عبدالعزیز خاں صاحب مالک طبیہ عجائب گھر قادیان میں ۱۹۰۴ء؁ میں آئے اور ۱۹۰۵ئـ؁ میں انہوں نے بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے بچوں کی تعلیم میں ابتدائی حصہ لینے کا شرف ان کو حاصل ہے اور اس طرح نہایت قریب سے حضرت اُمُّ المؤمنین کے اخلاق وعادات کے مشاہدہ کا ان کو موقع ملا۔ وہ اپنے ایک مبسوط مکتوب میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں جن کا خلاصہ میں ذیل میں لکھتا ہوں۔ (محمود عرفانی )
(۱)صاحبزادگان کی تعلیم کے سلسلہ میں مجھے حضرت کے ا لدّار میں ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ اس کے سامنے ایک قنات ہوتی تھی اور میں اوقات مدرسہ کے علاوہ گھر میں رہتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین میری ضروریات کا خاص طور پر خیال رکھتی تھیں اور گھر میں جو تحفہ از قسم پھل مٹھائی وغیرہ آتا اس میں سے اس خادم کو بھی حصہ دیا جاتا۔ یہ گویا ہمسایہ ہونے کے حقوق کی نگہداشت تھی۔میں نے نہایت غور اور احتیاط سے اس امر کا مطالعہ کیا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین یہ میرے ساتھ ہی سلوک فرماتی ہیں یا اور جو لوگ قریب رہتے ہیں تو ان سے بھی یہی معاملہ ہے میں نے دیکھا کہ گھر میں رہنے والے تو سب آپ کے کرم وشفقت سے بہرہ اندوز ہوتے ہی تھے مگر آپ کا ہاتھ بہت لمباتھا۔ ا لدّار سے باہر بھی مختلف گھروں میں ان تحائف سے حصہ بھیجا جاتا تھا۔
(۲) حضرت اُمُّ المؤمنین کو میں نے ہمیشہ یتامیٰ اور مساکین کی محبت سے پرورش کرتے پایا اور کبھی ان پر احسان نہیں جتایا میری بیوی کے فوت ہو جانے پر میری لڑکی اور لڑکے کو اپنے پاس رکھا لڑکی کو اپنی صاحبزادیوں کی طرح ہی پرورش فرمایا اور اس کی آپ نگہداشت فرمائی۔ گھر کی خادمائو ں کو حکم دے دیا کہ اس کو کسی کام کے لئے نہ کہا جاوے۔ یہ اس لئے کہ بعض اوقات بے ماں کے بچوں کے بڑے گھروں میں اگر وہ رکھے جاویں ادنیٰ درجہ کے نوکر خیال کیا جاتا ہے اور ہر چھوٹا بڑاان پر حکومت کرتا ہے اس لئے کہ کوئی ان کا پُر سان حال تو ہوتا نہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنے عمل سے بتایا کہ ایسے بچوں کی پرورش اور نگہداشت کیسے کرنی چاہیئے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ میں سچائی سے عرض کرتا ہوں کہ ما ںبھی نہ کرتی اس لئے کہ ماں کی محبت صرف فطری جذبہ ہوتا لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین کی محبت خالصۃً رضائے الٰہی کے لئے تھی ہر وقت اپنے ساتھ رکھتیں سیر میں بھی وہ ساتھ رہتی ۔جوان ہو جانے پر اس کی شادی کی تقریب پر کافی حہیزدیا جو میرے وہم وگمان سے بالا تھا۔
یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی فیاضی ،شفقت اور سیر چشمی کا ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر وقت میرے قلب پر ایک خاص اثر پیدا کرتا ہے اس وقت تک حضرت اُمُّ المؤمنین میری لڑکی میرے داماد اور اس کے بچوں کا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں میرے بچوں کو شفقت مادری کے یاد آنے کا موقعہ ہی نہیں دیا وہ ہمیشہ سمجھتے ہیں کہ گو جننے والی ماں مر گئی مگر ہماری پرورش کرنے والی روحانی ماں زندہ ہے اور اللہ اسے تادیر سلامت رکھے۔آمین
(۳)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی حیات میں جو آخری جاڑا آیا تو آپ اپنے دن کا بسترہ مجھے رات کو سونے کے لئے عطا فرمایا کرتے صرف ایک چارخانی چادر منگوالیا کرتے پھر جب رات کو میں اپنے کمرہ میں پہنچتا تو وہ چادر موجود ہوتی حضور کی وفات کے بعد میں نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے وہ بسترہ مانگا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تو ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ اور شیخ رحمت اللہ صاحب بانٹ کر لے گئے ہیں میں نے عرض کیا وہ چادر چارخانی (جس کے سرخ خانے ہیں )مجھے دیدیں اور میں دروازہ پر کھڑا ہو کر واَمَّا السَّائِلَ فلا تنھر کی رٹ لگاتارہا۔ آخر آپ نے فرمایا چادر دھوبی کے ہاں گئی ہے جب آئے گی دے دوں گی۔چنانچہ ازراہ لطف وکرم آپ نے وہ چادر مجھ کوعطاکر دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کاتبرک ہونے کے لحاظ سے اور حضرت اقدس کی ایک یادگار ہونے کی وجہ سے حضرت اُمُّ المؤمنین کے لئے ایک ایسی متاع تھی جس کی کوئی قیمت سونے چاندی کے سِکوّں میں نہیں ہوسکتی مگر آپ نے اپنے ایک ادنیٰ خادم کے سوال کو ردنہ فرمایااور ایثار کردیا۔ میں اس عطیہ کو بے انتہاعزیز رکھتا رہا ہوں اسے ایک وقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے پاس بطور امانت رکھا پھر بیت المال میں بھی کچھ عرصہ تک رکھا اور اب وہ حضر ت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے گھر بطور امانت رکھی ہوئی ہے اس وصیت کے ساتھ کہ جب پہلا بادشاہ قادیان میں آئے تو اس کے سپردکردی جاوے اور اسے کہہ دیا جاوے کہ ایک صحابی نے آپ کو تحفہ دی ہے اس کی آرزوتھی کہ اس طبیہ عجائب گھر کو بیاس تک لے جاوے اور اس کے لئے ایسے لوازمات پیدا کرے کہ یہ رہتی دنیا تک قائم رہے۔
(نوٹ)اس موقعہ پر میرے دل میں ایک خاص جوش پیدا ہوااور میں اسے روک نہیں سکتا دماغ میں یہ خیال بڑی قوت کے ساتھ حرکت کرتاہے خاں صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ایک نادر اور گراں بہاتبرک کی حفاظت کا بڑا اہتمام کیا اور اس کو اس بادشاہ کو ہدیہ دینے کی وصیت کی جو سب سے پہلے قادیان میں آئے بے شک یہ بہت اچھا جذبہ ہے لیکن مجھے روحانی طور پر ایک کوفت ہوئی کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے طبیہ عجائب گھر کی وسعت اور بقاء کے لئے ایک سوال برنگ آرزوکردیا اور یہ گویااس تحفہ کی قیمت ہے میرا اپنا ذوق یہ کہتا ہے کہ یہ تحفہ اپنے حق دار کے پاس پہنچ چکا ہے یہ میرا ذوق ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب معمر اللہ ہی وہ پہلے بادشاہ ہوں گے میں پھر کہتا ہوں کہ یہ میرا ذوق ہے۔ اگر کسی بیرونی بادشاہ کے حصہ میں یہ سعادت آئے تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی پوری ہو کر ہی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت والد صاحب قبلہ کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت سے نادرات اور تبرکات عطافرمائے ہیںاور آپ نے ہمیشہ مجھے خصوصاً اور میرے بھائیوں کو عموماًیہ وصیت کی ہے کہ بادشاہ اس سلسلہ میں آئیں گے اور دنیا کے خزانے ان تبرکات کیلئے پیش کرنے میں بھی انہیں خوشی ہوگی کہ یہ تبرکات ملیں ۔ یادرکھودنیا کی کسی متاع کے بدلے ان کو جدانہ کرنا نہ مسیح موعود دوبارہ دنیامیں آسکتا ہے نہ اس کے تبرکات مل سکتے ہیں دنیا کی دولت اور سونے چاندی کے سکّے اور جواہرات کی کوئی قسم ان کا بدل نہیں ہو سکتا۔ میں جب جب حضرت والد صاحب کے پاس گیا تو وہ اپنے تاثرات اور ذوق معرفت سے مجھے سعادت بخشتے ہیں تو اس چیز کا ذکر ضرور آتا ہے۔بہر حال یہ ایک قلبی جوش تھا جس کی لہر میر ے دل میں اُٹھی اور میں نے قلم کے ذریعہ اسے کاغذ پر پھیلادیا۔ محمودعرفانی
(۴)حضرت اُمُّ المؤمنین بہت رقیق القلب ہیں وہ کسی کی مصیبت اور تکلیف سے بے حدمتاثر ہوتی ہیں وہ بنی نوع انسان کی بے حد دستگیری فرماتی ہیں اور بیسیوں یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے گھر میں رکھ کر پالا پوسا اور ان کی شادیاں کیں اور کافی جہیز دے کر احسن طور پر رخصت کیا۔ ان کے ہی نقش قدم پر خاندان نبوت کے درخشندہ گو ہر عمل پیرا ہیں اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی عملی تربیت کا نتیجہ ہیں۔ـآپ ایک مشعلِ راہ ہیں اللہ تعالیٰ اسے تادیر سلامت رکھے۔آمین
خاکسار حکیم عبدالعزیز مالک طبیہ عجائب گھر
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کے تاثرات

حضرت حافظ معین الدین حضرت مسیح موعود الصلوٰۃو السلام کے خدام قدیم میں سے تھے وہ ایک عارف وعابد زاہد صحابی تھے حضرت کی پاک صحبت نے انہیں خاک سے اُٹھا کرآسمان پر پہنچا دیا تھاان کی سیرت وسوانح کا الحکم امین ہے ۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو کتابی صورت میں بھی وہ حالات آجائیں گے وہ آج جنت میں اپنے آقا کے حضور ہیں مگر میں ان کی یاد کو تازہ اور ذکرکو زندہ رکھنے کے لئے ان کے تاء ثرات کا اظہار اپنا فرض سمجھتا ہوں یہ تاء ثرات میںنے ان کی اس سیرت سے اخذ کئے ہیں جو حضرت قبلہ عرفانی کبیر نے الحکم میں لکھی تھی۔ حضرت حافظ صاحب حضرت اُمُّ المؤمنین کا ذکر ہمیشہ ماں جی کے نام سے کیا کرتے تھے اور جب کبھی وہ حضرت والدصاحب کے پاس آتے تو حضرت عرفانی کبیر اپنے ذوق کے موافق ان سے پُرانے حالات اور حضرت اقدس کی سیرت کے متعلق تذکرے سنتے رہتے اور بعض اوقات یہ سلسلہ بڑا لمبا ہوتا ۔
حضرت حافظ صاحب فرمایا کرتے کہ میں تو ایک غریب بے کس اور معذور آدمی تھا حضرت صاحب نے مجھے اپنے دامن شفقت میں جگہ دی اور میری پرورش فرماتے رہے ہیں اولاً اپنی کمزوری اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی عظمت اور شوکت کے تصور سے ڈراکرتا تو حضرت صاحب ہمیشہ فرماتے کہ حافظ ڈرا نہ کر سب برابر ہی ہوتے ہیں حافظ صاحب جب حضرت اُمُّ المؤمنین کے احسانات کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ ماں جی میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ کبھی کبھی میرے لئے حلوہ یا کوئی اور چیزاچھی تیار کرکے خاص طور پر بھجوادیا کرتی ہیں اور ماں جی کا یہ معمول ہے کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ اسی قسم کا سلوک میرے ساتھ نہ فرماتی ہوں اور اس کے علاوہ مجھے کبھی کوئی ضرورت ہوتی ہے تو میں مانگ لیتا ہوں مگر ایسی نوبت بہت کم آتی ہے حضرت ماں جی خود خیال رکھتی ہیں۔جب وہ یہ ذکر کرتے تو ان کے قلب میں رِقّت پیدا ہو جا تی اور اس سلسلہ میں اپنے ماں باپ کا بھی مقابلہ کرتے اور کہتے کہ ایسے احسانات تو والدین سے بھی میں نے نہیں دیکھے۔
آخر عمر میں حضرت اُمُّ المؤمنین نے خاص طور پر اپنا ایک مکان ان کے رہنے کو دیدیا تھا جہاں وہ اپنی وفات تک رہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین ان کی ضروریات کا احساس رکھتی رہیں اور حافظ صاحب مرحوم و مغفور جب اس کا ذکر کرتے توبے حد متاثر ہوتے تھے۔اے اللہ اس پر بڑے بڑے رحم فرما۔آمین (محمود احمد عرفانی)
میاں رحمت علی صاحب کے تاء ثرات
میاں رحمت علی صاحب پھیروچیچی کا باشندہ اور حضرت مسیح موعود الصلوٰۃوالسلام کے صحابہ میں داخل ہے آج کل وہ سندھ میں ناصر آباد اسٹیٹ میں کاشتکار ہے وہ ایک زمانہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے باغ میں ملازم تھا اس کی والدہ نے پیغام بھیجا کہ لڑکی بیمار ہے وہ جاکر علاج کے لئے قادیان لے آیا اور باغ میں کنوئیں پر اسے رکھا حضرت اُمُّ المؤمنین صبح کو حسبِ معمول سیر کو تشریف لے گئیں اور جب آپ کو میری زبانی معلوم ہوا کہ میں اپنی بیمار لڑکی کو لے کرآیا ہوں تو آپ مریضہ لڑکی کے پاس تشریف لے گئیںاس کو بخار تھا اور ایک ٹانگ بہت زیادہ متورم تھی آپ نے اپنا دستِ مبارک اس کی متورم ٹانگ پر پھیرا اور دعا کی اور فرمایا کسی ڈاکٹر کو دکھائو میں ڈاکٹر کو دکھا لایا ۔اس نے کہا پلٹس باندھ دو اتنے میں اُمُّ المؤمنین قادرآباد کی طرف سے ہو کر واپس تشریف لائیں اور میں نے ڈاکٹر کا علاج بتایاآپ نے فرمایاتم جائو اس کو اس کی والدہ کے پاس چھوڑآئو تم پلٹس باندھوگے یا کام کرو گے۔ حقیقت میں اس کے لئے بہت مشکل کام تھاکہ وہ پلٹس وغیرہ کا انتظام کرے اور کوئی پھوڑا تو تھا نہیں صرف ورم تھا جس پر حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنا ہاتھ پھیرا تھا۔ میں جا کر چھوڑ آیا میری والدہ نے کہا تم پھر لے آئے ۔ میں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے ارشاد کا ذکرکیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ رات کو لڑکی آرام سے سو گئی اور صبح کو ورم دور ہو گیا یہ آپ کے دستِ شفاء اور دعا کی برکت تھی ۔مجھے اسی وقت یقین ہو گیاتھا کہ لڑکی اچھی ہوجائے گی جب آپ نے فرمایا کہ جائو چھوڑآئو میری والدہ نے واپسی پر کہا تھا کہ تم پھر لے آئے میں تو سمجھی تھی کہ وہیں دفن کروگے۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کے ارشاد میں بشارت تھی۔
اسی طرح میاں رحمت علی ایک اور واقعہ اپنی بیوی کی شفاء کا بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میرے بچے سات ماہ کے بعد پیدا ہو کر مر جاتے تھے۔ میں نے دوسری شادی کی اس کا بچہ نو ماہ کا ہو کر مرگیا۔مجھے سخت تشویش ہوئی پھر اگلے حمل پر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہا ۔آٹھویں مہینے میری بیوی بعارضہ پیچش سخت بیمار ہوگئی اتنا خون آتا تھا کہ زندگی کی امید نہیں رہی۔ ایک دن شام کے وقت حضرت اُمُّ المؤمنین تشریف لائیں اور مجھے پکارا میں نے جواب دیا تو فرمایا تم ہمارے نوکر تو نہیں مگر فراغت ہو تو بھاگی ننگل سے بھوسا لادو۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میرے گھر سے بیمار ہیں ان کے لئے دعا کریں آپ نے فرمایا تم جائو بھوسہ لے آئو ہم دعا کریں گے۔ میں چھکّڑوں کا انتظام کر کے صبح کو چلا آیا اور شام کو بھوسہ لے آیا آپ نے فرمایا اسے مکان میں ڈلوادو۔ تمہاری بیوی اچھی ہے اور کھانا کھاکر جانا۔ میں نے تعمیل حکم کی۔ گھر جاکر دیکھا تو بیوی اچھی تھی میں نے دریافت کیا کہ کیا کھایا اس نے کہا حضرت اُمُّ المؤمنین نے دوائی بھیجی تھی اور تبرک بھیجا تھا۔ اسی کی برکت کا یہ نتیجہ ہے۔ یہ واقعات ہیں اور یہ لوگ زندہ موجود ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی ہمدردی اور دوسروں کے لئے دعا کا جوش اور خداتعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کا اعجاز قابلِ غور ہے۔وللہ الحمد۔
حضرت مولوی غلام نبی صاحب مہاجر کا بیان

حضرت مولوی غلام نبی صاحب اپنے علم اور عمل کے لحاظ سے واجب الاحترام صحابہ میں سے ہیں ہر انسان اور ہر چیز کو اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنی بیوی کے ذریعہ معلوم کیا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد کسی خاص واقعہ یا ذکر کی وجہ سے آتی ہے توآپ فوراً قرآن شریف پڑھنے لگ جاتی ہیں اور اگر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ذکر کرتا ہے اور اس سے بشری حالات کے ماتحت صدمہ محسوس کرتی ہیں تو بھی قرآن کریم کھول کرپڑھنے لگتی ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہ عمل ہم سب کے لئے خضر طریقت ہے قرآن مجید میں اطمینا ن و تسلی کا ذریعہ ذکر اللہ فرمایا ہے اور قرآن مجید تو الذکر ہی ہے۔ حقیقت میں یہ نہایت نا قابل خطانسخہ فکروغم سے نجات پانے کا ہے جو چاہے اس کو آزما کر دیکھ لے۔ میاں نیک محمد خاں صاحب افغانی کا بیان ہے کہ جب کچھ عرصہ کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب والے مکان میں مہمان خانہ تھا ایک دفعہ شیخ عرفانی کبیر حضرت اُمُّ المؤمنین سے کچھ عرض کر رہے تھے۔ میں بہت سے چینی کے برتن اُٹھا کر لایا مگر میرے ہاتھ سے وہ سب گر کر ٹوٹ گئے۔ آپ نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ کون ہے انہوں نے عرض کیا کہ نیک محمد خاں افغان ہے فرمایا سب برتن ٹوٹ گئے انہوں نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ آپ نے انّا للَّہِ وَانّا الیَہِ رَاجِعُونپڑہا اور مجھے کچھ بھی تو نہ کہا اور اندر تشریف لے گئیں۔یہ واقعہ میرے سامنے کاہے۔ نیک محمد خان صاحب بعض مہمانوں کو چائے وغیرہ پلا کر برتن واپس لارہے تھے سیڑھیاں کمرے کے اندر سے اُوپر جاتی تھیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین پس پردہ تشریف فرما تھیں اور خاکسار سے بعض امور دریافت فرمارہی تھیں جو مہمانوں کی خدمت اور مدارات کے متعلق ہی تھے کہ اتنے میں یہ واقعہ ہوا۔حضرت ممدوحہ نے کوئی سرزنش نہیں فرمائی نہایت سکون کے سا تھ انا للّٰہ پڑھ دیا اور تشریف لے گئیں گویا کوئی واقعہ ہواہی نہیں ۔ اس قلب کی سکینت واطمینان پر نظر کرو جس کے اندر دنیا کے آلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ایک دنیا دار کی تو وہی حالت ہے جس کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مصرعہ میں فرمایا۔
نقصان جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں
اور یہاں یہ حالت ہے کہ ہر حال میں خدا کی رضا مقدم ہے اوراس کی مشیت کے ساتھ پوری مسالمت ہے اور یہی وہ بہشتی زندگی ہے جو اس دنیا سے شروع ہوتی ہے۔(عرفانی کبیر)
ڈاکٹر سیّدمحمد حسین شاہ صاحب مرحوم کے تا ء ثرات
ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب نہایت اخلاص وعقیدت کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے تھے اور ۱۹۱۴ء؁ خلافت ثانیہ کے آغاز تک وہ جماعت قادیان سے وابستہ تھے۔ بعد میں اپنے ماحول کے ماتحت وہ خلافت سے کٹ گئے۔ چونکہ اب وہ وفات پاچکے ہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے میں اس پر کچھ لکھنا نہیں چاہتا وہ زندہ تھے ایک دوسرے پر جرح قدح بھی ہوتی تھی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں پر عفوفرمائے ۔(آمین )
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے متعلق ان کے تاء ثرات کا شائع کرنا میں نے اس لئے ضروری سمجھا ہے کہ آج منکرینِ خلافت مقام ادب سے ہٹ گئے ہیں اور وہ اپنا کمال ایمان تبّرابازی میں سمجھتے ہیں۔
اے اللہ ان کو ہدایت دے کہ وہ نہیں جانتے لیکن جب تک وہ خلافت سے وابستہ تھے ان کے ایمان کی کیا حالت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال پر تاریخ سلسلہ کے امین الحکم مورخہ۳۰مئی ۱۹۰۸؁ئـ میں مَیں نے خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کا ایک اعلان اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کا ایک مضمون وفات مسیح کے عنوان پر شائع کیا اس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ان مشاہدات اور تاء ثرات کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایمان اور رضا بالقضاء کے متعلق دیکھے۔ سیّد مرحوم کے یہ ارشادات اپنے دوستوں کوحقیقت کا پیغام ہیں ۔ (عرفانی کبیر)
سیّد محمد حسین شاہ صاحب نے لکھا کہ
’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پاگئے تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس وقت وہ نمونہ دکھایا کہ اس سے انسان حضرت اقدس کی قوت قدسی کا اندازہ اچھی طرح سے کرسکتاہے۔ ہم سب چھ سات گھنٹے حضرت اقدس کی خدمت میں رہے اُمُّ المؤمنین برقعہ پہنے خدمت والا میں حاضر رہیں اور کبھی سجدہ میں گر جاتیں اور باربار یہی کہتی تھیں کہ ـــ’’اے حی وقیوم خدا۔اے میرے پیارے خدا اے قادرِ مطلق خدا۔ اے مُردوں کے زندہ کرنے والے خدا تو ہماری مدد کر۔ اے وحدہ لاشریک خدا۔اے خدا میرے گناہوں کو بخش ۔ میں گنہگار ہوں۔ اے میرے مولیٰ میری زندگی بھی تو اِن کو دیدے ۔ میری زندگی کس کام کی ہے۔یہ تو دین کی خدمت کرتے ہیں ۔میری زندگی بھی ان کو دیدے‘‘ ۔
بار بار یہی الفاظ آپ کی زبان پر تھے کسی قسم کی جزع فزع آپ نے نہیں فرمائی اور آخر میں جبکہ انجام بہت قریب تھا۔ آپ نے فرمایا۔
’’ اے میرے پیارے خدا یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں ۔ مگر تو ہمیں نہ چھوڑیوـ۔اور کئی بار یہ کہا اور جب آخر میں یٰسین پڑھی گئی اور دم نکل گیا تو اندر مستورات نے رونا شروع کیا۔ مگر آپ بالکل خاموش ہو گئیں اور ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا کہ میرے تو خاوند تھے جب میں نہیں روئی تم کون رونے والی ہو۔ ایسا صبر واستقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو کہ ایسی نازونعمت میں پلی ہوئی ہو اور جس کا ایسا بادشاہ اور نازاٹھانے والا خاوند انتقال کر جائے۔ ایک اعجاز ہے اسی طرح صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنا پورا صبر اور استقلال کا نمونہ دکھایا اور ہر طرف سے سوائے حی و قیوم کے الفاظ کے اور کوئی آواز نہ آتی تھی۔ یہ سارا نقشہ حضرت اقدس کی قوت قدسیہ کا اندازہ کرنے کے لئے ایک انصاف پسند آدمی کے لئے کافی ہے ‘‘۔
(نوٹ) یہ مضمون ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب نے اس وقت لکھا اور میں نے شائع کیا۔ اس کتاب کے موضوع کو ان اختلافی مسائل سے کچھ تعلق نہیں جن میں آج ہمارے بھائی مبتلا ہیں۔ لیکن ان سطور بالا میں ان سب کا حل موجود ہے۔ اُمُّ المؤمنین کا خطاب بجز نبی کی بیوی کے کسی اور کے لئے سزاوار نہیں۔ یہ مسلّمہ امر ہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے تعلق باللہ اور آپ کی طہارت باطنی کا یہ خاص ثبوت ہے۔ انسان کے ایمان کا کمال یا نقص ابتلائوں ہی کے ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مدارج کی ترقی ابتلائوں کے ذریعہ ہوتی ہے اور ایمانی کیفیات کا ظہور ایسے ہی ابتلائوں کے وقت ہوتا ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے توکّلْ عَلَی اللّٰہ اور رضابالقضا کے پرکھنے کا اس سے بڑا کیا واقعہ ہوگا۔ مگر اس ابتلائے عظیم کے وقت آپ نے خدائے حی وقیوم ہی کو پکارا اور اپنی جان کی قربانی پیش کی اور یہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت دین کرتے تھے ۔
غرض ان الفاظ کو بار بار پڑھواور غور کرو اس کے ساتھ ہی آپ کی ذریّت طیبّہ کے متعلق بھی ڈاکٹر صاحب نے ایک عینی شہادت پیش کی کہ انہوں نے پورے صبر اور استقلال کانمونہ دکھایا اور ان کے اس عمل کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور قوت قدسی کی دلیل ٹھہرایا اور حقیقت یہی ہے مگر آہ!
’’معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں ‘‘
سیرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق صحابیات کی روایات اور تاثرات
عزیز مکرم مرحوم محمود احمد عرفانی نے روایات کے ایک کثیر ذخیرہ میں سے بعض روایات حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت و شمائل کے بعض پہلوئوں کے اظہار کے لئے جلد اوّل میں درج کی تھیں اور ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس دوسری جلد میں توضیحی نوٹوں کے ساتھ ان روایات اور تاثرات کو شائع کریں گے مگر خداتعالیٰ کی مشیت کچھ اور فیصلہ کر چکی تھی اور یہ کام مجھے سرانجام دینا پڑا میں اُس دل و دماغ کو کہاں سے لاؤں جو خداتعالیٰ نے مرحوم کو عطا فرمایا تھا اور نہ میں اس ترتیب کو ملحوظ رکھ سکتا ہوں جو اس کے ذہن میں تھی۔ اس لئے اس باب کے تحت میں ان روایات اور تاثرات کو جمع کر دیتا ہوں جب اللہ تعالیٰ ہم میں سے کسی کو دوسرے ایڈیشن کی توفیق دے گا تو اس مواد سے جدید اصول تاریخ و سیرت پر انشاء اللہ العزیز ایک قابل قدر ایڈیشن تیار ہو سکے گا۔
پہلی جلد میں ۱۵ روایات مرحوم نے درج کی تھیں۔ میں اس جلد میں نیا سلسلہ شروع کرتا ہوں۔
وَبالِلّٰہِ التَوفیقِ وھوَنعم المولیٰ ونعم التوفیق
(خاکسار عرفانی کبیر)
اوستانی سکنیۃ النساء صاحبہ کے تاء ثرات
تعارفی نوٹ
محترمہ اوستانی سکنیۃ النساء حضرت قاضی اکمل صاحب کی اہلیہ ہیں۔ وہ جب قادیان میں آئی ہیں اس وقت تعلیم نسواں کا بہت ہی کم چرچا تھا۔ میں نے تعلیم البنات کے لئے ایک مدرسہ جاری کیا اوستانی سکنیۃ النساء نے اپنی خدمات اعزازی طور پر پیش کیں اور ان کے ذریعہ تعلیم کا عام چرچا شروع ہو گیا۔ پھر انہیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صاحبزادی سیّدہ امۃ الحفیظ صاحبہ کی تعلیم کا کام ان کے سپردہوا۔ اوستانی سکینہ ایک اہل قلم بی بی ہیں ان کے اکثر مضامین میں نے خود شائع کئے ہیں۔ انہوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو بہت قریب سے دیکھ کر اپنے تاثرات کا اظہار حسبِ ذیل کیا ہے۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہِ الکریم
وعَلٰی عَبْدہٖ المسیح المَوعُود
سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام
مجھے اپنے بچپن میں ہی حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ظاہری زیارت کا بھی از حد اشتیاق تھا۔ کیونکہ مجھے امہات المومنین کے اسوہ حسنہ کی تعلیم و حسنِ معاشرت کی کافی تعلیم دی گئی تھی۔ نیز میرا ننھیال ایک بہت بڑا علوم دینی کا مخزن اور دودھیال والے صوفی اور فقیرانہ مسلک کے پیر تھے۔ شبانہ روز رسول کریم ﷺ کی احادیث و سنت کی باتیں ہوتی رہتیں گھر میں دینی مسائل وغیرہ کا ذکر اذکار رہتا اور والدہ صاحبہ مرحومہ کا قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا ہی شغل تھا تو ایسے ماحول میں تربیت ہوئی۔ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے اور صحابہ کرام کے طرز و طریق سے ایک عشق سا تھا مگر جب یہ سوچتی کہ کئی صدیاں گزر چکیں کہ اصلی اور حقیقی زمانہ نبی عربی صلعم کا نہیں رہا۔ یہ صرف آنحضرت صلعم کی تعلیم ہے تو بہت دعائیں کرتی کہ اچھا یا اللہ خواب میں ہی حضرت اُمہات المومنین کو دکھا دے اور یہ جو کچھ کہا جاتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام یعنی بروزرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی نزدیک ہے اور ہمارے بزرگوں نے یہ قول معتبر فرمایا اور ہمارے خاندان کی بیویاں دن رات منتظر رہتیں کہ حضرت امام مہدی کا ظہور بس اسی صدی میں ہو گا۔ چنانچہ نانی صاحبہ مرحومہ فرمایا کرتیں کہ حضرت مولانا مرحوم (ان کے خاوند) کہہ گئے ہیں۔ امام مہدی پیدا تو ہو گئے ابھی اپنے آپ کو ظاہر نہیں فرمایا اور یہ بات بہت دیر کی ہے۔ قصہ مختصر مجھے شوق تھا،آرزو تھی اور زبردست خواہش کہ حضرت عائشہ صدیقہ علیہا السلام کو کسی طرح دیکھو ں الحمد لِلّٰہ اللہ تعالیٰ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام یعنی ’’نصرت جہاں بیگم‘‘ میں وہ سب تعریفیں پائیں جو کتابوں میں پڑھی تھیں میں یہاں اپنے ماموں صاحب حضرت فاضل مولوی امام الدین صاحب فیض کے ساتھ یہاں آئی صرف آٹھ دن کے لئے حضرت خلیفہ اوّل کی پدرانہ شفقت اور مہروعنایات نے یہیں رکھ لیااور دین کی خدمت کا بھی موقعہ ملتا رہا کیونکہ مدرسۃ البنات میں ۱۸ سال کم و بیش پڑھاتی رہی اور اپنی دیرینہ آرزو بھی بہت کچھ پوری ہو گئی۔
الحمد للہ کہ محترمہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کی بابرکت اور سعید مجلس میں سے بہت سی روحانی بیماریوں اور غفلتوں اور سُستیوں سے نجات پائی۔ ثم الحمد للّٰہ -جو کچھ حضرت عائشہ اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کے حالات میں پڑھا تھاو ہی حضرت نصرت جہاں بیگم میں پا لیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام ایک بے نظیر اور بے بدل خاتون ہیں اور آپ کی واجب التعظیم اور قابل احترام ذات گرامی احمدی خواتین کے لئے حسنات دارین اور فلاح و بہبودی کا موجب ہے۔ دینی لحاظ سے بھی اور دنیاوی سے بھی آپ اگر دین داری کا کامل نمونہ ہیں تو دنیا اور خانہ داری کے معاملات میں بھی ایک بے مثال مدبر اور قابلِ تقلید خاتون ہیں۔ دین داری میں تو ایسی عادات ہی بنا رکھی ہیں کہ جو حقیقی اور اصل طور سے نبی کی بیوی کو زیبا ہیں۔ میں نے ہر طرح خفیہ طور سے بھی اور ظاہری طور سے دیکھا اور غور کیا ہے مگر آپ کی معاشرت میں کبھی کوئی خلاف شرع محمدی کام نہ دیکھا حتی کہ مذاق میں بھی شرع کے خلاف کوئی لفظ بھی منہ سے نکالتے نہ سنا؟ شدتِ غم میں بھی خاموشی اختیار کی اور بس اب میں آپ کی حسن معاشرت اور عادات خوشی اور غمی میں سے چند ایک اصلی واقعات لکھوں گی۔ اس سے معلوم ہو سکے گا کہ آپ کو اپنے اللہ تعالیٰ پر اور دین محمدؐ رسول اللہ پر کس قدر یقین اور بھروسہ ہے اور آپ پر صحبت صالحہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رنگ کا کتنا بڑا اثر ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اور خانہ داری
سیّدہ عالیہ کا گھر نہایت صاف ستھرا۔ آپ کو سلیقہ سے سب چیزیں اپنی اپنی جگہ پر رکھنے رکھوانے کا خاص مذاق ہے۔ کھانا صاف ستھرا سادہ بھی اور پُرتکلف بھی خود اپنے ہاتھ سے بعض وقت پکا لیتی ہیں برتن صاف باورچی خانہ عمدہ طور پر سجا ہوا اس کی چیزیں صفائی اور ستھرائی میں بے نظیر ہوتی ہیں۔ پہلے پہل تو باہر کے مہمانوں کی روٹی بھی خود ہی پکا کر باہر بھجواتی رہیں پھر لنگر قائم ہو گیا تو خود نہ پکائی ہو گی اور اب بھی کئی بار میں نے دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں خود ہی چولہے کے آگے بیٹھ جانا اور ہانڈی پکانا آٹا گوندھنا حالانکہ خدمت گاریں بھی پاس ہی بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسی شاندار ہستی جس کے دیکھنے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے وقار اور رُعب کی خاتون کبھی باورچی خانے کی طرف جانا خلاف وقار و شان کے نامناسب بات جانتی ہو گی اور پھر آپ ہیں بھی تو ایک دہلی کے عالی وقار خاندان کی فرد آپ کا نورانی چہرہ ہی دیکھ کر تعجب میں ڈال دیتا ہے کہ ایسی باحوصلہ اور پُروقار خاتون کھانا خود پکا رہی ہے۔ یہ سب کچھ حضرت عالی قدر شوہر محترم علیہ الف الف صلوٰۃ والسلام کی خوشنودی کے لئے گوارا کیا تھا۔
آپ کا لباس اور کپڑے
آپ کا لباس نہایت نفیس صاف اور سادہ اور پردے کے لحاظ سے بہت اچھا ہوتا ہے۔ یعنی نہ تو نئے فیشن کا نہ اس میں کوئی نئی جدت ۔ کوئی کپڑا ایسا باریک یا پتلا میں نے تو ان کم و بیش تیس سالوں میں نہیں دیکھا جس میں باقاعدہ پردے کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو نہ کُرتے کیآستینیں کبھی کم دیکھی ہیں۔ اچھی طرح لمبی آستینوں کی قمیض اور اگر ململ باریک ہو تو نیچے بنیان اُوپر صدری ہوتی ہے۔ ہاں اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس کا دیاہوا کپڑا یا زیور پہن لیتی ہیں ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے جب دیتا ہے تو پھر کیوں نہ استعمال کریں یہ چیزیں لباس یا زیور مہندی یا سرمہ عطر یا عورتوں کے سنگار کی چیزیں جو عورت کے لئے حلال اور طیب ہیں ناجائز تو نہیں۔ خود آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے مجھے خوشبو اور عورت پسند ہے بلکہ خاوند کے لئے سنگھار کرنا، مہندی لگانا وغیرہ سنت رسول اللہ ہے بال کسی قسم کے بنے ہوئے نہیں۔ جوانی میں بھی بالکل سیدھی مانگ رکھتی تھیں۔
اُمُّ المؤمنین کی دینداری
میں نے آپ کو اصلی طریق سے بہت عبادت گزار پابند نماز تہجد اور نوافل کو دلی توجہ سے ادا کرتے دیکھا اور صحیح اسلامی رنگ میں نہایت درد و سوز و گداز سے نماز ادا فرماتے دیکھا۔ نمازوں میں دعائیں مانگتے سنا۔ علالت کی وجہ سے روزے اگرخود نہیں رکھ سکتی ہیں تو باقاعدہ کئی ایک غریب و صالحہ عورتوں کو خاص اپنا کھانا دے کر روزے رکھوائے۔ حجِ بدل دو تین بار اپنی طرف سے کروایا ہے۔ صدقہ و خیرات میں سب سے زیادہ حصہ لیتی ہیں۔ چندہ اپنی خاص جیب سے ادا فرماتی ہیں یعنی ہر ایک نئی تحریک یا ضرورتِ قومی کا چندہ بلکہ کئی دفعہ یہ ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا چمڑہ رنگ کر قومی ضروریات میں چندہ ادا فرماتی تھیں۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا ذاتی محنت کا کام کر کے چندہ دوں کہ ثواب زیادہ ملے۔ تحریک جدید میں ہزاروں روپے چندہ ادا فرمایا ہے۔ ہماری امۃ الحی لائبریری میں بھی چندہ دیا تو کسی نے عرض کیا کہ حضرت عالیہ آپ کے لئے ہی تو کتابیں ہیں آپ کو چندہ دینے کی کیا ضرورت فرمایا یہ ثواب کے لئے ہے۔
آپ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت قدر فرماتے
حضرت اقدس حضرت اُمُّ المؤمنین ؑ کی بہت زیادہ عزت و احترام اور قدر فرماتے ایک تو حضوراعلیٰ کو الہام بھی ہوئے اور سیّد زادی کی نسل بڑھنے کی بشارت بھی فرمائی اور خدیجہ الکبریٰ نام رکھا اور پھر حضرت اقدس ؑ سا رحیم کریم النفس انسان دنیاوی باتوں میں بھی خاطر ملحوظ نہ رکھتا یہ ناممکن۔ ایک دفعہ حضرت اماں جان نے یہ واقعہ سنایا کہ میرا جی چاہا کہ مبارکہ بیگم جب کہ چھوٹی سی تھیں کے لئے ایک بنارسی دوپٹہ بنائوں اور ایک بہو صاحبہ کے لئے (اُم ناصر احمد) جس کا شائد رخصتانہ بھی تھا تو حضرت اقدس سے کہا کہ لاہور قریشی صاحب کو لکھیں کہ عمدہ سا کپڑا لے کر بھیج دیں آپ نے فرمایا کتنا روپیہ درکار ہوگا تو عرض کیا کہ دو تین سَو میں آ جائیں گے فرمایا اتنا روپیہ تو میرے پاس نہیں فی الحال بہو کا بنا لیں۔ مبارکہ کو پھر منگوا دیں گے۔ میں نے تسلیم کیا اور کہا اچھا جتنا آپ کی مرضی تو آپ خط لکھنے لگے اور دریافت فرمایا کہ کتنا کپڑا لکھوں میں نے کہا نو گز بنارسی کپڑا لکھیں۔ آپ نے نہایت سادگی سے اپنی حالت (ذوق) میں لکھ دیا جب کپڑا آیا تو تین دوپٹے بن گئے ایک مبارکہ بیگم کا اور دو دونوں دلہنوں کے پھر جب حضور والا نے روپے ادا کر دیئے توکچھ دیر بعد بتایا گیا کہ لوجی تین دوپٹے بن گئے اس وقت حضرت اقدس کو بتایا گیا کہ تین گز کا ایک دوپٹہ ہوتا ہے تو حضرت مسکرا کر خاموش ہوگئے اور فرمایا (اچھا) اس بات سے جتنا حضور اقدس کا استغنا دنیا سے ظاہر ہوتا ہے اتنا ہی اماں جان کا تدبر اور لیاقت۔
حضرت اُمّ ناصر احمد صاحب نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ حضرت اماں جان بیمار تھیں اور حضرت اقدس تیمار داری فرماتے کھڑے دوائی پلا رہے تھے اور حالت اضطراب میں اماں جان کہہ رہی تھیں ہائے میں تو مر جائوں گی آپ کا کیا ہے بس اب میں مر چلی ہوں تو حضرت نے آہستہ سے فرمایا ’’تو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے؟‘‘ ایسی ایسی دل نوازی کی ہزاروں باتیں ہیں۔
اماں جان صابر و شاکر
حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام نہایت رقیق القلب ہیں کئی ایک غریب لڑکیوں کے بیاہ کے رخصتانہ کے وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو میں نے خود دیکھے ہیں کسی کی مصیبت کا حال سن کر نہایت درد مند ہو جاتیں ہیں مگر جب کسی اور کو تسلی یا تشفی دینی ہو بہت بہادر بہت مستقل مزاج دیکھا ہے چنانچہ اس کی نسبت مجھے دو واقعے تو اچھی طرح یاد ہیں۔
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلا بچہ میاں حمید احمد مرحوم ہنستا کھیلتا یکدم فوت ہو گیا تو اس کی والدہ نے پہلے تو ذرا صبر رکھا۔ آخر ایک دلدوز آہ اور چیخ ان کے منہ سے نکلی۔ ہم سب پاس ہی بیٹھی تھیں۔ آخر اماں جان باہر صحن سے اندر کمرہ میں تشریف لائیں اور اپنی بہو کو گلے لگایا اور فرمایا! رونا نہیںمگر چیخ مارنا بیتاب ہونا یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے محسن اور خالق سے لڑائی ہے کہ ’’تو نے ہمارا بچہ لیا کیوں‘‘ وہ حکیم و علیم ہے اگر نہ دیتا تو اس پر کیا شکوہ اور اگر ہمیں اس قابل نہیں سمجھا کہ یہ بچہ ہمارے ہاں رہتا تو اس کی یہ عین حکمت ہے۔ اس نے ایک نعمت کے لینے پر بشرط صبر رضا بالقضا مزید نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس صبر سے کام لو۔ بے صبروں پر یہ وعدہ پورا نہ ہوگا؟ یہ سن کر والدہ مظفر احمد سلمہٗ تو خاموش ہو گئیں اور میں گھنٹوں ان فقرات پر سردھنتی رہ گئی۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب خدا تعالیٰ نے پانچ لائق اور نیک و سعید لڑکے والدہ مظفر احمد کو عطا فرمائے ہیں۔ اِسی طرح نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک بچی مسعودہ نام کوئی آٹھ دس دن کی ہو کر فوت ہوگئی اور صاحبزادی صاحبہ مذکورہ ہیں کہ حضرت اقدس اپنے ابا جان کی تصویر آگے رکھے خاموش لیٹی ہیں گویا کہ چپ لگ گئی نہ بولیں نہ چالیں نہ کھائیں پئیں نہ اُٹھیں حالانکہ انکی طبیعت ہر وقت نہایت بشاش اور شگفتہ رہتی ہے۔ چہرہ سے ہر حالت میں بہ ظاہر خوش مزاجی ظاہر ہوتی ہے تو اس وقت کسی نے اسلام علیکم کہا تو وعلیکم السلام کہہ دیا اور پھر چپ۔ اماں جان گئے مَیں سامنے بیٹھی تھی تو مبارکہ بیگم صاحبہ کی حالت دیکھ کر مجھے فرمایا کہ بھئی انسان خدا کیوں بنتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جو میری مرضی تھی وہ کیوں نہ ہوا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی رہے کہ وہ مالک اور خالق ہے اب دیکھو بچی اللہ نے بلالی ہے اس کی ماں اللہ تعالیٰ سے روٹھی ہے کہ اسے لے کیوں گیا یہ تو صبر نہ ہوا حالانکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’اِنّ اللّٰہَ مَع الصابرین‘‘ پھر تو سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کو گویا شعور آ گیا اور لگیں کہنے کہ نہیں اماں جان صرف یہ صدمہ مجھے ہوا کہ بچی کی ننھی سی جان تھی ڈاکٹر نے دو ایک ٹیکے کئے تو اسے سخت تکلیف ہوئی اور وہ میرے سامنے تڑپتی رہی اللہ تعالیٰ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ استغفراللّٰہ دراصل اماں جان نے یہ تشفی و تسلی کے لئے کہا تھا۔ میں نے تو اس سے یہ سبق حاصل کیا کہ غمناک انسان سے ہمدردی غم انگیز باتیں کر کے نہ کرنی چاہئے۔
آپ کا اپنی بہوئوں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک
اماں جان محترمہ نے اپنے والدین اور اپنے دونوں بھائیوں کو یعنی حضرت میر محمد اسماعیل و حضرت میر محمد اسحق کو اپنے پاس اپنے گھر میں ایک ہی جگہ رکھا ہے۔ حضرت نانی اماں مرحومہ مغفورہ کی ایسی خدمت کرتے ہم نے دیکھا کہ کم از کم ہندوستان میں تو ایسی مثالیں کم ملیں گی۔ حضرت نانی اماں کو اپنے وطن دِلّی سے بے حد پیار تھا اور ان کے بعض غیر احمدی رشتہ دار بھی آتے تو ہماری اماں جان کے گھر اسی طرح خاطریں ہوتیں کہ ایسی تواضح خود نانی اماں بھی شائد نہ کر سکتیں۔ پھر والدین بھی اپنی قابلِ عزت بیٹی کی یوں خاطر کرتے جیسے کہ مرشد کی حرم کی کرنی چاہئے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا کا اپنے سسرال والوں سے سلوک نرمی و محبت عزت و احترام کا برتائو اکثر مخالف مغلوں کی بیگمات نے بھی آپ کا حسن سلوک اور نیک برتائو دیکھ کر ہمیشہ اماں جان یا بیوی صاحبہ کر کے سراہا اور سب بیگمات مُریدوں کی طرح آپ کا عزت و احترام کرتیں۔ اپنی بہوئوں سے آپ کا ایسا عمدہ اور اعلیٰ حسنِ سلوک ہے کہ باید و شائد اور ایسی شفقت اور مرحمت سے آپ نے اپنی آٹھ دس بہوئوں کو دیکھا کہ ان کے ماں باپ بھی ایسا نہیں کر سکتے تھے کبھی کوئی اعتراض یا کسی قسم کا دبائو ان پر نہیں رکھا بلکہ ان کو بیٹیوں کی طرح آزاد رکھا۔ سیر کو ساتھ لے جانا ان کی خبر گیری رکھنا ہر قسم کے آرام و آسائش کے اسباب مہیا کرنا یہ ہر ایک ساس کہاں کر سکتی ہے مگر اس بے مثال خاتون نے کیا۔
آپ کا علمی شوق
آپ کو تعلیم دینے دلوانے کا از حد خیال اور ذوق ہے کتابوں کے مطالعہ سے تو بہت ہی زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور انہیں کے ذوقِ علمی کا اثر ہے کہ اب پوتے پوتیاں پڑپوتے پڑپوتیاں تک اسی ذوقِ علمی میں محو ہیں۔ پہلے پہل مدرسۃ البنات میں ہر قسم کی دلچسپی لی اور بہت کچھ امداد بھی فرمائی۔اپنی ملازم لڑکیوں کو اسکول بھیجا۔ ان کے اخراجات قلم دواتیں کتابیں وغیرہ خود ادا کرتی رہیں اور اب ’’نصرت گرلز سکول‘‘ خدا کے فضل و کرم سے آپ کے ہی دم قدم کی برکت سے ترقی پذیر ہوا ہے۔ ورنہ کہاں گورداسپور کے ضلع میں قادیان ایسا علم سے دور تہذیب سے بے بہرہ گائوں اور اس کے رہنے والی نہایت پھوہڑ عورتیں کہ دو دو سال تک اپنے کپڑے خالی پانی سے بھی نہ دھوتی تھیں۔ یہ بھی ایک عجائبات زمانہ کی بات ہے مگر ایک پاکباز اور طاہرہ خاتون نے گویا غلاظت سے ثمر دار میوہ پیدا کیا۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ
آپ کی علمی قدر دانی
گو آپ کی تعریفیںاور وصف سیرت اگر لکھنے ہوں تو ہزاروں ہزار صفحے چاہئیں۔ مگر شیخ صاحب کی کتاب میں شائد زیادہ گنجائش نہ نکل سکے اس لئے میںنے اپنی طرف سے بہت مختصر لکھا ہے مگر یہ لکھنے سے نہیں رُک سکتی کہ آپ علم کی بے بدل قدرداں بھی ہیں اپنے بچوں کی آمین یعنی قرآن کریم کے ختم پر خاص خوشی اور تقریبیں جو کی ہیں وہ صرف جماعت کے احباب کو بُلا کر دعوتیں ہی نہیں کیں بلکہ استادوںاور استانیوں کو بھی انعام و اکرام عطا فرمائے۔
چنانچہ میرا اپنا اس معاملہ میں آپ کے احسانات و اکرامات سے سر اُٹھ نہیں سکتا۔ حالانکہ یہ ناچیز ایک ذرہ بے مقدار ایسی قابل قدر اور محترم علم دوست خواتین کے سامنے کیا حیثیت رکھتی تھی۔ میں پہلے پہل جب آئی ہوں تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے ارشاد گرامی کے ماتحت مدرسۃ البنات میں کام پڑھانے کا شروع کیا۔
مہمان نوازی اور غربا پروری
حضرت مخدومہ معظمہ حضرت اماں جان کی یہ ایک خاص صفت ہے کہ مہمان نوازی اورغربا پروری میں نہایت ہی بہرہ رکھتی ہیں۔ اگر گھر میں ہوں کھانے کے وقت کوئی بھی عورت آ جائے ان کو کچھ نہ کچھ کھلا کر تسلی پاتی ہیں۔ غربا پروری کا یہ وصف ہے کہ غریب عورتوں کے گھروں پر جا کر ان کا دکھ درد سننا، ہمدردی کرنا کسی کے درد و غم میں شریک ہونا بیماروں کی مزاج پُرسی اور ان کو دوا اور دعا سے مدد پہنچانا آپ کی عادت ہے۔
آپ کی طبیعت خوش طبعی کو پسند کرتی ہے
میں اس بات کی ہرگز قائل نہیں کہ نیک و سعید فطرت انسان کبھی اگر ہنستے ہی ہیں تب وہ صوفی اور مومن اور سنجیدہ معقول وغیرہ ہوتا ہے نہ یہ شرعاً یہ کوئی عیب کی بات ہے کہ مذاق اور ہنسی کی بجائے ہر وقت رونی صورت ہی بنائے رکھے یا رعب جتانے کے لئے ہر وقت قہری و غضب آلود چہرہ بنائے رکھے بلکہ خوش اخلاقی اور نرمی بشاشت اور مسکراہٹ والا چہرہ اور فردوسی نشان ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت اُمُّ المؤمنین اکثر وقت خوش اور بشاش رہتی ہیں بلکہ غمزدہ اور افسردہ انسان کو آپ کی مجلس میں جا کر یا آپ سے مل کر ایسی روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے کہ سارے رنج و غم کے دلدّر دور ہو جاتے ہیں آپ کی مہربانی اور نرمی کی گفتگو ہمدردی و غمگساری سے نصیحت کرنا سارے اَلم دور کر دیتی ہے اس کا لطف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو کبھی حضرت موصوفہ کی بے تکلف مجلس کا اتفاق ہوا۔ اس پر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ ایک دفعہ آپ کے صحن میں بہت سی عورتوں کا مجمع تھا۔ شائد کسی کے بیٹے یا اولاد کے ماتم کے متعلق عورتیں باتیں کرتی جاتی تھیں کہ آپ کی خادمہ قدیم مائی فجو مرحومہ (اللہ تعالیٰ اسے بخش دے) آگئی اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ بچاری کی دو لڑکیاں ہی تھیں تو کسی عورت نے اسے کہہ دیا دیکھو اس بیچاری کا بھی کوئی نام لیوا نہ ہوگا۔ لڑکا کوئی نہیں ہے وہ نہایت غمزدہ ہوئی اور گویا رونے لگی اتنے میں اندر سے حضرت اُمُّ المؤمنین تشریف لائیں اور دریافت فرمایا کیا ہوا۔ فضل بی بی کیوں رونا منہ بنایا ہے۔ اس نے بتایا کہ بیوی جی میرا لڑکا کوئی نہیں۔ کون میرا وارث ہوگا اور قبر پر فاتحہ پڑھے گا۔ آپ نے فرمایا کون کہتا ہے تیرا بیٹا نہیں۔ اس نے اشارہ کیا کہ یہ سب کہتی ہیں آپ نے بلند آواز سے فرمایا۔ مائی فجو کا ایسا چاند سا بیٹا ہے جو ساری دنیا کو روشن کر رہا ہے کون کہتا ہے اس کا بیٹا نہیں۔ اتنے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نماز پڑھا کر مسجد سے آگئے اور صحن میں سے گزر کر اپنے گھر تشریف لے گئے تو آپ نے پھر فرمایا دیکھا اس کا بیٹا سب حیران خاموش ہوگئیں۔ (مائی فجو نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو کھلایا تھا) یہ مائی فجو کی دلنوازی ساری عمر تک اسے خوش کرتی رہی اور اسے بہت بڑا فخر ہوگیا کہ میرا بیٹا چاند ایسا ہے آپ کی خوش وقتی اور تفریح سیر کو جانا ہوتی ہے اور وہاں کسی سایہ دار جگہ یا اپنے باغ میں اپنے ساتھ والیوں کو کھلانا، پلانا پھل تازہ پانی اچار، چٹنی سے روٹی وغیرہ کھانا۔
غرض کہ حضرت اُمُّ المؤمنین مجموعہ حسن و خوبی اور ایک رحمت مجسم مادر کی شان رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی خواتین کیلئے اس رحمت و شفقت بھری گود والی پاک دامن اور مستجاب الدعوات ماں کو دیر تک زندہ و سلامت رکھے اور اس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی نورانی فیض کو اتنی دیر تک جاری رکھے کہ ہمارے ایسے کئی بہن بھائیوں کی روحیں صدیق اور شہید پاکیزہ اور متقی لوگوں کا درجہ پائیںاور احمدیت و اسلام کی شان اتنی ترقی کرے کہ صدیوں تک یہ فیض احمدیت اور غلبہ روحانی کم نہ ہونے پائے۔ آمین
ناچیز طالب دعا
سکینۃ النساء
ازقادیان دارالامان
اُمّ محمود عرفانی کے تاثرات
میری امّی ۱۸۹۸؁ء کے اوائل میں حضرت والد صاحب عرفانی کبیر کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان آگئی تھیں اس وقت دارُ الامان میں گنتی کے چند آدمی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہتے تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین میری امی کو بہو کے خطاب سے عزت دیتے تھے اور آج تک اسی نام سے ان کو خطاب فرماتی ہیں۔ حضرت والد صاحب عرفانی کبیر کو بعض اوقات اپنے ذاتی یا سلسلہ کے کاموں کے لئے باہر جانا پڑتا تھا تو والدہ صاحبہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے ہاں چلی جاتی تھیں اور جب تک والد صاحب واپس نہ آتے رات کو وہیں قیام فرما رہتیں اور دن کو گھر آجایا کرتی تھیں۔ میں تو اس وقت چھوٹا بچہ تھا۔ میری پیدائش اکتوبر ۱۸۹۷؁ء کی ہے اور مجھ سے چند روز پیشتر حضرت عرفانی کبیر نے الحکم جاری کیا تھا اس لئے وہ ہمیشہ محبت سے مجھے الحکم کا چھوٹا بھائی کہا کرتے ہیں۔ حضرت والدہ صاحبہ کے تاء ثرات کو میں اسی زمانہ سے شروع کرتا ہوں بلکہ میں نے سیرۃ اُمُّ المؤمنین کا آغاز اسی واقعہ سے کیا ہے اور اب مکرر درج کرتا ہوں۔
میری بچپن کی زندگی کا ایک واقعہ
(۱)
میری پیدائش اکتوبر ۱۸۹۷؁ء میں ہوئی۔ ۱۸۹۸؁ء میں والد صاحب قادیان ہجرت کر کے آ گئے تھے۔ ان کا معمول یہ تھا کہ وہ اخبار کے کام امرتسر جاتے رہتے تھے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور جایا کرتے تھے۔ گھر میں مَیں ایک ننھا بچہ اور والدہ صاحبہ ہوتی تھیں۔ اس لئے تنہائی سے بچنے کے لئے حضرت والدہ صاحبہ مجھ کو لے کر حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے پاس چلی جایا کرتی تھیں۔ میری والدہ صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ان کو محبت سے ’’بہو‘‘ کے لقب سے پکارا کرتی ہیں۔
مَیں اگرچہ دو ڈھائی سال کا بچہ تھا۔ مگر گوشت کو بہت پسند کرتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے باورچی خانے میں گوشت بھونا جا رہا تھا۔ مَیں یہ دیکھ کر رونے لگا اور ضد کرنے لگا۔ میری والدہ صاحبہ جنہوں نے بارہا ہنستے ہوئے مجھے یہ کہانی سنائی فرمایا کرتی ہیں کہ میں تم کو اندر روکنے کی کوشش کرتی تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی نظر پڑ گئی۔ فرمایا بہو! بچہ کیوں روتا ہے؟ والدہ نے کہا نہیں جی کچھ نہیں فرمایا نہیں کچھ تو ہے۔ بتلائو، تب والدہ نے ندامت کے رنگ میں دبی زبان سے کہا کہ بوٹی مانگتا ہے۔ یہ سن کر پکانے والی کو حکم دیا کہ جلدی دو اور اپنے سامنے ایک برتن میں کچھ بوٹیاں نکلوا کر دے دیں میری والدہ صاحبہ بتلایا کرتی ہیں کہ میں وہ گرم گرم بوٹیاں کھاتا جاتا تھا اور منہ سے رال سی ٹپکتی تھی۔ اس واقعہ کا مجھے بار ہا لطف آیا اور میں نے اس واقعہ کے اندر بار ہا اس سیر چشمی اور کرم کو دیکھا جو آپ کی فیاضی طبیعت میں موجودتھا۔
(۲)
حضرت اُمُّ المؤمنین نے باوجود اپنے بلند رتبہ اور اعلیٰ شان کے اپنے عمل سے ہمیشہ اسلامی مساوات کا عملی سبق دیا۔ ان کے ہاں یوں تو حفظِ مراتب کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن اپنے طرز عمل سے کبھی اس روح کو پیدا نہیں ہونے دیا کہ غیر مناسب امتیاز ایسے طور پر پیدا ہو کہ کوئی دوسرے کو حقیر سمجھے یا کسی کو اپنی کمتری کا احساس پیدا ہو جس سے اس کی اخلاقی قوتیں اور شرافت انسانی کے جذبات کچلے جاویں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے معمولات میں یہ امر داخل ہے کہ وہ اپنے روحانی فرزندوں کے گھروں میں بھی تشریف لے آیا کرتیں اور نہایت بے تکلفی سے کسی قسم کے امتیاز کے بغیر مل جل کر ان کی روحانی اور عملی تربیت فرماتیں اور ان کی اہلی زندگی اور بسر اوقات کا عجیب عجیب رنگوں سے جائزہ لیتی رہتیں اور پھر جس کو حاجت مند پاتیں اس کی مدد فرماتیں۔
بہرحال ایک دن جب کہ شیخ صاحب (عرفانی کبیر) امرتسر گئے ہوئے تھے اور اس وقت ہم سیّد محمد علی شاہ مرحوم کے مکان کی اُوپر کی منزل میں بطور کرایہ دار رہتے تھے اور میں حسبِ معمول دن کو آ کر ان کے لئے کھانا وغیرہ تیار کر کے رکھا کرتی تھی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے ہاں سے ایک خادمہ آئی اور اس نے کہا۔ مجھے بیوی جی (ان ایام میں آپ کو بیوی جی بھی کہا کرتے تھے) نے بھیجا ہے اور کہا کہ اماں جان کہتی ہیں۔ آج میں اپنے مریدوں کے گھر کا کھانا کھائوں گی۔ میں بعض گھروں میں گئی تو انہوں نے عذر کر دیا کہ تیار کر کے بھیجیں گے۔ تب اماں جان نے فرمایا کہ مائی ایک گھر ہے تم شیخ صاحب کے گھر جائو (حضرت اُمُّ المؤمنین نے جس طرح میری والدہ کو بہو کے نام سے خطاب فرماتی ہیں۔ حضرت والد صاحب کا کبھی نام نہیں لیا ہمیشہ شیخ صاحب کہہ کر نوازتی ہیں۔ ان کا ذکر غائب ہو یا حاضر۔ محمود عرفانی) ان کی بیوی فوراً بھجوائے گی۔ اگر تیار نہ ہو تو بھی عذر نہ کرے گی۔ جب اس خادمہ عورت نے آ کر یہ ارشاد فرمایا تو میری والدہ کہتی ہیں مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین میرے گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہیں اور مجھ غریب پر اس قدر نوازش اور حسنِ ظن ہے۔ مَیں فوراً اُٹھی قیمہ پکا کر رکھا ہوا تھا اور آٹا گوندھ کر رکھ چھوڑا تھا کہ شیخ صاحب کے آنے پر گرم گرم تیار کروں گی۔ مَیں نے جھٹ گرم گرم پھلکے تیار کر کے کھانا بھجوا دیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس کو کھایا اور اظہار خوشی فرمایا اور یہ بھی کہ میں نے کہا تھا کہ بہو کے گھر سے ضرور مل جائے گا۔
نوٹ: یہ واقعہ معمولی ہے مگر اس میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی روح تربیت کا پتہ لگتا ہے کہ وہ جماعت کی خواتین میں مستعدی اور فرمان پذیری کی قوتوں کو نشوونما دینا چاہتی ہیں اور ان میں اس احساس کا پیدا کرنا مقصود تھا کہ ہم سب ایک ہی وجود کے اعضاء ہیں اورنیز تکلفات سے الگ رہنے کی بھی تعلیم تھی۔
(۳)
میری والدہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں اوّل اوّل آئی تھی اس وقت حضرت اُمُّ المؤمنین کا یہ بھی معمول تھا کہ کبھی کبھی موسم بہار میں اپنے باغ تشریف لے جایا کرتی تھیں اور قادیان میں آپ کے خدام جو رہتے تھے ان کی مستورات کو بھی بلا بھیجا کرتی تھیں اور ایک وحدت اور مساوات پیدا کرنے کیلئے ایک ہی قسم کا لباس سب کو پہننے کی ہدایت فرماتیں اور اپنا لباس بھی ایسا ہی رکھتیں جو دوسری خواتین کا ہوتا۔ یعنی وہ یہ کہ قیمتی اور شاندار نہ ہوتا۔ باغ میں موسمی پھل اور کھانا وغیرہ سب مستورات برابر بیٹھ کر اور مل کر کھاتیں۔ ایک مرتبہ ہر و دائی (ایک پرانی خادمہ) ہمارے گھر میں آئی اور اس نے کہا کہ کل بیوی صاحبہ باغ میں جائیںگی سب عورتوں کو چلنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ گلابی رنگ کے دوپٹہ وغیرہ پہن کر آئیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ جا کر عرض کر دو کہ میری بیوی نہیں آ سکتی۔ اسے گھر میں کل کام ہے میں تو ابھی خاموش ہی تھی۔ مائی ہرو نے کہا تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ بیوی صاحبہ کا حکم ہے انہوں نے کہا تم نے حکم پہنچا دیا تم میری طرف سے جا کر کہو کہ شیخ صاحب کہتے ہیں گھر میں کل کچھ کام ہے۔
مَیں نے کہا نہیں مجھے اجازت دے دو میں چلی جائوں گی ان کو ناراض مت کرو۔ شیخ صاحب نے کہا تم نے کیا سمجھا ہے۔ وہ ہرگز ناراض نہ ہونگی تم کو معلوم ہو جائے گا۔ غرض دو چار مرتبہ تکرار ہوا۔ آخر وہ چلی گئی اور اس نے جا کر کہا کہ اس کا آدمی نہیں بھیجتا وہ کہتا ہے کہ کل کام ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے سن کر صرف اچھا کہہ دیا۔ پھر دو تین دن بعد جو میں گئی تو فرمایا۔
’’ بہو میں بہت خوش ہوئی۔ عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کی خوشی کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے‘‘۔
میں تو اس لئے بلایا کرتی ہوں کہ تم لوگوں کو باہر نکلنے کا موقعہ مل جایا کرے۔ اس دفعہ نہیں تو پھر سہی یہاں تو اکثر دفعہ جانے کا موقعہ ملتا ہے۔ مگر مَیں تو تم سے بہت خوش ہوئی کہ تم نے اپنے میاں کی فرمانبرداری کی۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو بہت ڈرتی تھی کہ آپ ناراض ہوں گی۔ مگر شیخ صاحب نے کہا کہ وہ ہرگز ناراض نہ ہوں گی۔ اس پر فرمایا اس میں ناراضگی کی تو کوئی بات نہیں تھی۔
نوٹ: یہ واقعہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اپنے شوہروں کی اطاعت اور خوشنودی کے خیال کو ضروری سمجھنے کی تعلیم عملی رنگ میں دیتا ہے کوئی اور خاتون ہوتی جس کو کسی قسم کا امتیاز حاصل ہوتا اور اس کی کوئی خادمہ یا خادم اس قسم کا جواب دیتا تو اس کے غصہ اور غضب سے بچنا مشکل تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین تفریح کے لئے مستورات کو اس لئے ساتھ لے جاتی تھیں کہ ان میںمساوات کا رنگ پیدا ہو۔ جُھوٹے امتیازات مٹ جاویں اور ان کو اپنے احکام پر بھی اپنے شوہروں کی اس مرضی کو مقدم کرنے کا سبق سکھائیں جو خدا اور رسول کے احکام کے تابع ہو۔
(۴)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ جب ہم اپنا مکان بنا کر اس میں آ چکے ہوئے تھے بھادوں کا مہینہ تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین پھرتے پھراتے ہمارے گھر میں تشریف لے آئیں۔ ہمارے گھر کے پیچھے ڈھاب بہت بڑی تھی اور اس میں خوب پانی بھرا ہوا تھا اسے دیکھ کر فرمایا۔ ’’بچو! مجھے تَیر کر دکھائو‘‘ میرا لڑکا ابراہیم علی عرفانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی کا بچہ عزیزی عبدالقادر دونوں ڈھاب میں کُود پڑے اور دو گھنٹہ تک خوب تیرتے رہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین بہت خوش ہوئیں کہ ڈھاب کے پاس رہنے والوں کو تیرنا ضرور آنا چاہئے۔ میں نے آپ کے اس ارشاد کو سن کر فوراً بستر وغیرہ بچھا دیا تا کہ آرام سے دیکھ لیں۔ شیخ صاحب نے عرض کیا کہ حضور آج کھانا یہاں ہی کھائیں۔ فرمایا کہ میں نے تو باغ سے ساگ منگوایا ہے وہ کھائوں گی تب میں نے عرض کیا ساگ یہاں ہی منگوا لیں وہ بھی کھائیں اور یہاں بھی کھائیں۔ فرمایا اچھا میں کھائوں گی مگر ایک شرط ہے جو تم کھائو وہی میں کھائوں گی۔ میں نے کہا اماں جان یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم نمک مرچ سے کھائیں تو آپ بھی وہی کھائیں فرمایا ہاں ہاں میں بھی وہی کھائوں گی۔ غرض انہوں نے منظور فرما لیا۔ میں جلد جلد کھانا تیار کرنے لگی اور آپ نے سیّدہ اُمّ ناصر اور سیّدہ اُمّ مظفر کو بھی بلا بھیجا۔ ہمارے گھر میں بے انتہا خوشی تھی۔ شیخ صاحب پھولے نہ سماتے تھے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ہمارے گھر میں مہمان ہیں۔
کھانا کھا کر فرمایا بہو تم نے کھانے میں کیا ڈال دیا تھا ایسا لذیذ تھاکہ پیٹ کہتا بس کر منہ کہتا کھائے جا۔ آپ کی عادت میں یہ داخل ہے کہ اگر کوئی چیز خراب بھی تیار ہوئی ہو تو بھی اس کی تعریف فرمایا کرتی ہیں۔
نوٹ: اس واقعہ سے آپ کی سادہ زندگی اپنے روحانی بچوں کے گھروں میں محبت و اخلاص پیدا کرنا اور ان میں وقار کو لئے ہوئے بے تکلفی پیدا کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی روحانی اولاد کے ہر فرد کے دل میں اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ آپ انہیں اپنی اولاد کی طرح ہی عزیز سمجھتی ہیں اور مہمان نوازی کی ایسی تربیت دے رہی ہیں کہ غیر ضروری تکلفات کو مقدم نہ کر لیا جاوے۔ رشتہ محبت کو مضبوط کرنے کیلئے اسی چیز کی ضرورت ہے۔
(۵)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ:
ایک مرتبہ ہم حضرت اُمُّ المؤمنین کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں میاں محمود احمد (حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) جو اس وقت چھوٹے بچے تھے ایک ربڑ کا سانپ لئے ہوئے آ گئے اور اسے چھوڑ دیا۔ مارے دہشت کے میرا تو رنگ زرد ہو گیا اور میں کانپ گئی حضرت اُمُّ المؤمنین نے میری طرف دیکھا اور پھر میاں صاحب کو کہا میاں محمود! یہ تمہارے استاد کی بیوی ہیں تم نے یہ کیا کیا۔ میاں صاحب کہنے لگے اماں مجھ سے بھول ہو گئی۔ پھر اماں جان نے مجھے دلاسہ دیا کہ بہو یہ تو ربڑ کا سانپ تھا۔
نوٹ: یہ واقعہ حضرت امیرا لمومنین کی پاکیزہ فطرت کا بھی ایک مظاہرہ ہے کہ ایک معمولی سی بات پر بھی اپنی غلطی کا اقرار کر لیا اور کسی قسم کی بڑائی اور شان کے خلاف نہ سمجھا۔ دوسری طرف حضرت اُمُّ المؤمنین کی تربیت اولاد کا بھی بہترین سبق ہے کہ استاد اور اس کی بیوی کا ادب کس طرح ملحوظ رکھنا چاہئے۔ حضرت والد صاحب قبلہ کے ایک واقعہ کو بیان کئے بغیر میں آگے نہیں جا سکتا میرے دل میں اس کے لئے ایک محبت آمیز اور ایمان افزا جوش ہے۔
حضرت والد صاحب قبلہ نے متعدد مرتبہ با چشم نم یہ واقعہ مجھے سنایا کہ جب حضرت امیر المومنین کی تعلیم کے لئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا تو مجھے گھر سے بلایا۔ چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں پر سے اندر داخل ہوا۔ حضرت تشریف لائے اور فرمایا میاں یعقوب علی (حضرت اقدس مجرد نام لے کر کسی کو خطاب نہ فرماتے تھے) آپ میاں محمود کو پڑھایا کریں اور میں آپ کی خدمت بھی کروں گا (حضرت والد صاحب جب یہ واقعہ بیان کرتے ہیں تو وہ رو پڑتے ہیں اور ان کا جی بھر آتا ہے کہ آقا خادم سے اس طرح خطاب فرمائے) والد صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو میرے لئے اور میری نسل کیلئے عزت و سعادت ہے کہ مجھے اس خدمت کا موقعہ ملا۔ فرمایا نہیں استاد کی خدمت بھی کرنی چاہئے۔
غرض یہ کہہ کر حضرت امیر المومنین (اس عہد کے میاں محمود) کو بلا کر مسجد مبارک میں میرے سپرد فرمایا اور آپ اندر تشریف لے جا کر بیت الفکر میں سے ہو کر ہاتھ میں ایک کشتی جس میں چائے بسکٹ وغیرہ تھے لے کر نمودار ہوئے۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ میں تو شرم سے آب آب ہو گیا اور مجھ پر رقت طاری ہوگئی۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے کیوں تکلیف فرمائی۔ فرمایا استاد کی خدمت ضروری ہوتی ہے اور اس طرح بچوں کو بھی سمجھ آتی ہے۔ اللّٰھُم صلّ علیٰ مُحَمّدٍ وَعلی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّم۔ غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس واقعہ میں وہی روح کار فرما ہے آپ دوسروں کی دلداری اور تسلی کے لئے فی الحقیقت ایک شفیق ماں ہیں۔
(۶)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں ہمارا مکان حضرت اُمُّ المؤمنین کو بہت پسند تھا وہ کھلا تھا اور اس کی پشت پر بڑا چبوترہ تھا اور کیکروں کا گھنا سایہ تھا۔ نیچے ڈھاب بہتی تھی اس لئے آپ اکثر تشریف لے آتیں۔
ایک دفعہ آموں کا موسم تھا۔ آپ کے ساتھ بہت سی عورتیں بھی تھیں۔ آپ تشریف لائیں میں نے آم پیش کئے۔ آپ نے اور ہماری بہنوں نے مل کر کھائے اور پھر فرمایا کہ میں گڈّر کشمیری کے گھر جائوں گی ( گڈّر کشمیری کا اصل نام امام الدین تھا وہ اگرچہ احمدی نہ تھا مگر حضرت صاحب کا ہمیشہ ادب کرتا اور حضرت صاحب ہی کہتا اس کا بڑا بھائی بھی مخالف تھا مگر وہ عقیدہ کے اختلاف سے آگے نہ جاتا تھا۔ اس کا بیٹا اب احمدی ہے مگر امام الدین کے بیٹوں کے حصہ میں یہ سعادت نہیں آئی) میں نے سنا ہے کہ اس کے گھر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے جس کا منہ وغیرہ کچھ نہیں چنانچہ حضرت اُمُّ المؤمنین وہاں تشریف لے گئیں مگر وہ لڑکی فوت ہو چکی تھی۔
نوٹ: حضرت اُمُّ المؤمنین غیر احمدیوں کے گھر میں بھی چلی جایا کرتی تھیں اور اپنی تقریبوں میں حضرت اقدس بھی ان کو دعوت دے دیا کرتے تھے آپ ان لوگوں کو اپنی رعایا کے افراد سمجھ کر ان سے ہمیشہ سلوک کرتے رہتے اور ان کی سختیوں اور مخالفتوں کی بھی پرواہ نہ کرتے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت عامہ کا یہ واقعہ شاہد ہے۔
(۸)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ تمہارے ابا امرتسر گئے ہوئے تھے۔ میں دن کو حضرت اماں جان کے ہاں چلی گئی۔ مرحوم محمد افضل خاں کی بیوی سردار بیگم کہنے لگی۔ محمود کی اماںتم بھی میاں محمود کو کہانی سناؤ۔ میںنے کہا تم تو اردو میں کہتی ہو۔ میںپنجابی بولتی ہوں۔ میاںاسے کیا سنیں گے۔ میںنے کہانی کہی میاں نے سن کر کہا بہت اچھی کہانی ہے۔
دوسرے دن پھر گئی تو میاں حضرت اماںجان کی گود میں آ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے اماں جان محمود کی اماں آ گئی۔ تم ان کو کہو کہانی سنائے کہواماں جان۔ اماں جان نے فرمایا بہو! تم کو خیال نہیں آتا۔ میرا بچہ کیا کہہ رہا ہے۔ میرا بچہ کہانی کو کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا اماں جان دن کو کہانی کیا اچھی لگے گی اس پر اماں جان نے فرمایا ہم دن کو ہی سنیں گے۔ میں نے کہانی شروع کی اس اثناء میں حضرت مسیح موعود ؑ تشریف لائے اور دریافت فرمایا محمود کی اماںکیا کر رہی ہو؟ اماں جان نے کہا کہانی سنا رہی ہیں حضور نے فرمایا۔ ہاں ہاں سناؤ بچوں کو کہانیاں سنانے سے عقل بڑھتی ہے اور کہانی کے بعد اماں جان نے فرمایا بہو! تمہارے منہ سے تو لگتا نہیں کہ تم ایسی اچھی کہانی کہتی ہو تب ہی تو محمود میاں ضد کر رہے تھے۔
(نوٹ) یہ واقعہ بھی حضرت اُمُّ المؤمنین کے تربیت اولاد کے پہلو کو لئے ہوئے ہے اور خود حضرت امیرالمومنین کی سیرت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ حضرت والد صاحب قبلہ نے سیرت مسیح موعود میں کہانیوں کے متعلق بھی بحث کی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وعظ وتبلیغ کے لئے کہانیوں سے کام لیتے تھے۔
(۹)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اماں جان سیر کر کے آئے اور حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی کے مکان کے پاس جو بَڑ کا پرانا درخت ہے اس کے سایہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین تشریف فرما ہو گئیں۔ اس وقت وہاں کوئی مکان نہ تھے صرف ہمارا مکان ہی قریب تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے خادمہ کو فرمایا کہ بہو کو کہو جلد میرے لئے لسّی لائے۔ میںاس عزت افزائی اور شفقت کا شکر ہی نہیں کرسکتی۔ جھٹ پٹ میں خود لسّی اور پراٹھے لیکر گئی۔ حضرت اماں جان نے اور حضور علیہ السلام نے بھی غریب نوازی فرمائی اور دعا دی۔
(نوٹ) یہ واقعات بظاہر بے حقیقت سے معلوم ہوتے ہیں مگر اس سے روزانہ زندگی اور اپنے خدام کی حوصلہ افزائی اور ان کے قلوب میں حقیقی محبت اور اخوت پیدا کرنے کا سامان لئے ہوئے ہیں۔
(۱۰)
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ گزشتہ ۴۵ سال کے واقعات اس قدر ہیں کہ اس کے لئے تو پچاس کتابیں بھی کافی نہیں ہو سکتی ہیں حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی ایک نمونہ کی زندگی ہے اور ہر احمدی کے ساتھ ان کا ایسا ہی برتاؤ اور سلوک رہا ہے۔ البتہ ہم لوگ جو ابتدا ہی میں آئے تھے ان کے ساتھ خصوصیت سے حضرت اُمُّ المؤمنین کو تعلق رہا ہے۔ ہم لوگوں نے ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھا ان کی صحبت میں جا کر ہر غم اور تکلیف بھول جاتی اور وہ ہر ضرورت کے وقت مادرِ مہربان کی طرح برتاؤ کرتیں میرے بچوںکی پیدائش اور ان میں سے بعض کی وفات پر ہماری خوشی اور غمی میں شریک رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی موجودگی اور تسلی نے غم کو بھلا ہی دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے۔ میںایک اور واقعہ بیان کر دینا ضروری سمجھتی ہوں۔ اس ابتدائی زمانہ میں یہاں ایک رسم جاری ہوئی کہ عورتیں باہم بہناپا قائم کرتی تھیںاور ان میں سے بعض نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے بہناپا کیا اور اس تقریب پر بڑی دعوتیں کیں۔ یہ مرزا خدا بخش اور میاںنبی بخش بٹالوی کی بیویاں تھیں۔ ایک دن عورتوںنے مجھے بھی کہا کہ تم بھی بہناپا کرو۔ میںنے شیخ صاحب سے جا کر کہا ان کی طبیعت میں ہمیشہ سے کورا پن ہے انہوں نے کہا ہم کو اسلام نے بھائی بھائی بنا دیا پھر یہ بھائی چارہ گم ہو گیا۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زندہ کیا اگر حضرت صاحب کے ساتھ ہو کر بھی ہم بھائی بھائی اور عورتیںبہنیں نہیں بنیں تو زردہ اور پلاؤ کی رکابیوںکا بنایا ہوا بہناپا کہاں رہے گا۔ تمہارا بھائی چارہ احمدی بن کر ہو گیا اس لئے اب اس رسم کی ضرورت نہیں۔ میں نے دوسرے موقعہ پر شیخ صاحب کو دہرایا کہ میں نے تو اپنے میاں سے کہا تھا انہوں نے یہ جواب دیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے سن کر فرمایا شیخ صاحب نے بہت ٹھیک کہا۔ اصل بھائی چارہ یہی ہے۔ خدا کی قدرت ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہم تو اس برادری میں شریک ہیں۔ اور وہ زردہ پلاؤ کی بہنیں اور بھائی نکل گئے۔ یہ عبرت کا مقام ہے۔
میں نے ان روایات کو صرف بعض جگہ اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے لیکن اکثر حصہ خصوصاً ارشادات حضرت اُمُّ المؤمنین ہی کے الفاظ میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یا حضرت امیر المومنین کے ہی ہیں۔ (عرفانی)
محترمہ امۃ الرحمن کی روایات
محترمہ امۃ الرحمن مخدومی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ عنہ قاضی کوٹی کی صاحبزادی ہیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں کئی سال تک خدمت کا موقعہ اور سعادت نصیب ہوئی۔ ذیل میں ان کی رویات کو درج کیا جاتا ہے۔ (عرفانی)
محترمہ تحریر فرماتی ہیں:
میرا باپ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اس پر ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عاشق تھا۔ ابتدائی ایام بڑے بڑے دُکھ اور مصیبتوں کے تھے۔ حضرت والد صاحب بڑے صبر اور حوصلہ سے ہشاش بشاش ان مصیبتوں کو برداشت کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں فرمایا تھا۔ قاضی صاحب آپ کو اس قدر مصیبتیں آئیں گی جیسے پہاڑ پر سے برف گرتی ہے ثابت قدم رہنا ان مصائب میں مَیںبھی اپنے والد بزرگوار کی شریک تھی۔ جب میں قادیان آئی تو میں چاہتی تھی کہ خدمت کا موقعہ ملے۔ میں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے چار پانچ سال تک خدمت کا موقعہ دیا اس عرصہ میں مجھ پر جو اثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے متعلق ہوا اس کا ذکر کرتی ہوں۔
میں ایک پنجابی لڑکی تھی جو ایسے بڑے گھر کے سلیقہ اور تمدن سے ناواقف تھی مگر اس عرصہ میںکبھی ایسا اتفاق نہیں ہواکہ مجھ پر حضرت اُمُّ المؤمنین نے کوئی سختی کی ہو یا اظہار ناراضگی فرمایا ہو بلکہ مجھ پر ہمیشہ یہی اثر رہا کہ مجھ کو اس طرح حضرت اُمُّ المؤمنین نے رکھا جس طرح مائیںاپنی اولاد کو محبت کے سایہ میں پرورش کرتی ہیں۔
(۲)
اس پانچ سال کے عرصہ میں مَیں نے کبھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی بات پر خفا ہوئی ہوں بلکہ وہ ہمیشہ حضرت صاحب کا ادب کرتی رہی ہیں اور مجھ سے ایک مرتبہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے فرمایا کہ میں تو اکثر دعائیںکرتی رہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ محمدی بیگم والی پیشگوئی پوری کرائے۔ حالانکہ سوکن کے متعلق ایک پنجابی شاعر کہتا ہے۔
سوکن ہووے ماں بھی ماراں پیٹ چھرا
حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم سے بھی ہمیشہ نیک سلوک کرتی رہیں۔
(۳)
ایک دفعہ حضرت اُمُّ المؤمنین ملیریا بخار سے بیمار ہو گئیں اور بخار کی شدت بہت تھی۔ حضرت اماں جان نے اس حالت میں اپنے ہاتھ سے سونے کی آٹھ یا نو چوڑیاں اُتار کر مجھے دیںاور کانوں کی بالیاں بھی اتار کردیں کہ مجھے تکلیف ہوتی ہے ان کو رکھ دو۔ میں نے وہ زیور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صندوق میں رکھ دیا۔ جس میں حضرت اقدس لنگر کے خرچ اور دوسری ضروریات کا روپیہ رکھتے تھے اور اس صندوق کو خود حضرت یا حضرت اُمُّ المؤمنین یا ان کے حکم سے یہ خادمہ کھولتی تھی دوچار دن کے بعد بخار تو اتر گیا مگر دو تین ماہ تک حضرت اماں جان نے وہ زیور طلب نہیں کیا اور جب طلب کیا تو یہ خادمہ وہاں موجود نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سرسری طور پر صندوق میں دیکھا اور فرمایا کہ یہاںتو نہیں۔ وہ زیور کم از کم ہزار روپے کا ہو گا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر نہیں کی بلکہ میاں شادی خاںمرحوم کی والدہ صاحبہ (جس کو سب لوگ دادی کہتے تھے) کو کہا کہ امۃ الرحمن کو بلا لاؤ ۔ دادی آئی اور اس نے میری خوب خبر لی۔ مگر میں ڈرتی ہوئی آئی اور مجھے اندیشہ تھاکہ معلوم نہیں اماں جان کیا کہیں گی۔ جب میں آئی تو آپ نے مجھے صرف یہ کہا کہ زیور کہاں رکھا ہے میں نے کہا حضرت صاحب کے صندوق میں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے خود جا کر صندوق کی تلاشی لی تو زیور اس میں سے مل گیا اور اونچی ہنسی سے حضرت مسیح موعود سے کہا کہ :
آپ نے صندوق کا اچھا معائنہ کیا آپ کی تلاشی نے تو ہم دونوں کو فکر میں ڈال دیا۔ حضرت صاحب بھی یہ سن کر ہنس پڑے۔
(نوٹ) حضرت اُمُّ المؤمنین کا اعتماد علی النفس اور اپنے خدام پر اعتماد اور حسن ظن کا یہ بہترین واقعہ ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استغراق کا بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ فکر دین میں اتنے مستغرق تھے کہ جس صندوق کو روزانہ کئی مرتبہ کھولتے ہیں اس میں پڑی ہوئی اشیاء کا بھی علم نہیں۔
(۴)
حضرت اماں جان کے گھرمیں بہت سی خادمات رہتی تھیں اور حضرت اماں جان ان کی مذہبی پابندی اور نیک کرداری کا ہر طرح خیال رکھا کرتی تھیں۔ حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل ڈاکٹری پڑھ رہے تھے اور تعطیلات میں آتے تو حضرت اُمُّ المؤمنین ان کے آنے سے پیشتر سب کو حکم دے دیتی تھیں کہ چھوٹی بڑی تمام مستورات ان سے پردہ کیا کریں اس لئے کہ اب ان سے پردہ کا حکم ہے اور وہ ماشاء اللہ جوان ہو گئے ہیں۔
(نوٹ) اس سے احکام دین کے عملی اجرا کے لئے حضرت اُمُّ المؤمنین کا جوش معلوم ہوتا ہے اور نیکی اور تقویٰ و طہارت کے لئے اس حکم پر عمل کرتی اور کراتیں رہیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔
(۵)
حضرت اماں جان ہماری دلداری اور دل بہلائی کے لئے بعض نہایت پیاری پیاری باتیں اپنی زندگی کے واقعات کی کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ جب میں نئی نئی قادیان آئی تو میں روشنی کے بغیر نہیں سو سکتی تھی۔ جب میں سو جاتی تو حضرت مرزا صاحب روشنی گل کر دیتے اور میں جب پھر کروٹ لوں تو اندھیرا معلوم ہو اور میں شور کرتی تو پھر حضرت صاحب روشنی کر دیتے کچھ عرصہ تک ایسا ہی رہا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی عادت ہو گئی اور ظاہری تاریکی بھی روشنی سے بدل گئی اور سارے گھر میں ہر جگہ روشنی رہنے لگی ہر ایک کمرہ میں بیت الخلاء میں سڑھیوں پر غرض سارا گھر روشن ہوگیا اور ایک نوکر اس کام کے لئے رکھا گیا۔ اماں جان اس وقت حضرت صاحب کو حضرت صاحب یا مرزا صاحب کے لفظ سے خطاب فرماتی تھیں۔ چنانچہ اس روشنی کے معاملہ میں ایک مرتبہ فرمایا:
حضرت صاحب وہ وقت یاد ہے جب آپ کو روشنی میں نیند نہیں آیاکرتی تھی اور اب اگر کونے کونے میں روشنی نہ ہو تو آپ کو نیند نہیں آتی۔ حضرت صاحب یہ بات سن کر خوشی سے مسکرا پڑے۔
(۶)
حضرت اماں جان اکثر دہلی کی زرّین جوتی پہنا کرتی تھیں اور دن کے وقت بیت الدعا میں جا کر دعا کیا کرتی تھیںاورآپ کی زرّین جوتی باہر دروازے پر ہونے سے ہم سمجھ جاتے کہ حضرت اماں جان اندر دعا کر رہی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت اماں جان نے ازراہ کرم وشفقت ایک ویسی ہی زرّین جوتی مجھ کو بھی منگوادی اور ایسا اتفاق ہوا کہ ایک دن موقعہ پاکر میں بیت الدعا میں دعا کرنے گئی اور میری زرّین جوتی بھی باہر پڑی تھی۔ دادی کو معلوم ہوا تو اسے بہت رنج ہوا کہ امتہ الرحمن کو ایسی قیمتی جوتی مل گئی۔ حالانکہ اماں جان کا گھر خادمات سے بھرا ہواتھا اور سب کی سب آپ کے حسنِ سلوک سے خوش اور شکر گزار تھیں کبھی کسی کو ناراض ہونے یا شکایت کا موقعہ ہی نہ آتا تھا۔سبحان اللّٰہ- اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کیسا پاکیزہ وجود پیدا کیا۔
(نوٹ) اپنے گھروں میں امراء غور کریں کہ وہ اپنے جیسا لباس اپنے جیسا کھانا اپنے خدام کو نہیں دیتے اور اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں مگر عصر حاضرہ کی اس بلند پایہ خاتون کا دل کتنا وسیع اور شفقت و محبت سے خمیر کیا ہوا ہے کہ اپنی خادمات کے ساتھ اپنے جیسا سلوک فرماتی ہیں۔ خدام و خادمات کو اپنے کنبہ کا ہمیشہ ایک فرد عملاً سمجھتی رہی ہیں۔ اگر کسی نے اچھا کپڑا پہنا ہو تو ہمیشہ خوش ہوتی ہیں۔ یہ سیر چشمی اور وسعت حوصلہ کا ایک زریں واقعہ ہے۔ محترمہ امۃ الرحمن اپنی روایات کو ختم کرتے ہوئے حضرت اُمُّ المؤمنین کی شفقت و کرم کے عملی مظاہرہ سے بے خود ہو گئی ہیں اور وہ آپ کے وجود کو ایک نشان اور خداتعالیٰ کا خاص فضل یقین کرتی ہیں اور اس میںکیا شبہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنی وحی میں ان کو اپنی خدیجہ اور اپنی نعمت قرار دیا ہے۔
اہلیہ ملک غلام حسین صاحب کا بیان
ملک غلام حسین صاحب رہتاس ضلع جہلم کے باشندے ہیں ابتداً وہ لنگر خانہ میں نان پز کی خدمت پر آئے یہاں کی رہائش اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے انہوں نے بھی حصہ لیا۔ حضرت اقدس کی زندگی میںایک مرتبہ کسی شامتِ اعمال پر انہیں قادیان سے حکماً جانا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا اور اب وہ قادیان میں ایک بڑے کنبہ کے بزرگ ہیں ان کی اہلیہ صاحبہ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی دادودہش،فیاضی،چشم پوشی اور درگزر کے چند واقعات لکھ کر دیئے ہیں جن کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
(۱)
محترمہ حسن بی بی (اہلیہ ملک غلام حسین صاحب) بیان کرتی ہیں کہ جب میں پہلے پہل قادیان آئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ٹھہری۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے میرے بچوں کے لئے ایک مٹھائی کا تھال منگوایا اور میرے پرانے کپڑے جو رنگ دار تھے (ان اضلاع میں عام طور پر نیلے رنگ کے کپڑے اس زمانہ میں عورتیں پہنتی تھیں) آپ نے فوراً بدلوادیئے اور ایک نیا جوڑا اپنا نکال کر مجھے پہننے کو دیا اور آپ دوپٹہ چن کر مجھے دیا۔ حالانکہ اس سے پیشتر میری کوئی واقفیت نہ تھی۔ محض اپنے حسنِ اخلاق کی وجہ سے ایسا حسنِ سلوک کیا۔
(نوٹ)یہ واقعہ اسلامی تعلیم پر عمل کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بی بی ایک خادم کی بی بی تھی اور ایک خادمہ کی حیثیت سے آئی تھی مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی مہمان نوازی اور فیاضی نے چین نہ لینے دیا۔ جب تک اس کے بچوں کے لئے مٹھائی اور خود اس کے پرانے کپڑوں کو اتروا کر اپنا نیا جوڑا خود درست کر کے نہ پہنا دیا۔ حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؎
خواجہ و مر عاجزاں را بندۂ
بادشاہ و بیکساں را چاکرے
یہی نمونہ حضرت اقدس کی زندگی میں دیکھا گیا کہ کبھی اپنے ایک غلام کی پاسبانی فرما رہے ہیں کہ وہ نیند سے بیزار نہ ہو اور کبھی ایک دوسرے خادم کو اس کے خوابِ راحت میں پنکھا کر رہے ہیں اور کسی کے سامنے کھانا لا کر رکھتے ہیں۔ اللہ اللہ یہ شان اور یہ عمل۔ یہی روح حضرت اُمُّ المؤمنین کے عمل میں پائی جاتی ہے۔ گویا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی زندگی کو اپنے آئینہ عمل میں نمایاں کر لیا۔ یہ ایک مثال نہیں ایک خادمہ جو نماز میں آپ کو پنکھا کرتی تھی۔ جب نماز کے لئے کھڑی ہوئی تو اُمُّ المؤمنین نے اس کو پنکھا کرنا شروع کر دیا اور خدا کی ایک شکر گزار بندی کا عملی نمونہ دکھایا۔
محمود عرفانی
(۲)
میرے سپرد یہ خدمت تھی کہ میں بھینسوں کا دودھ بلو کر مکھن وغیرہ نکالا کرتی تھی اور پھر مکھن کو گرم کر کے گھی بنایا کرتی تھی ایک دن چار پانچ سیر مکھن برتن میں ڈال کر آگ پر رکھا ہوا تھا اور آگ زیادہ تیز ہو گئی۔ گھی اُبل کر ضائع ہو گیا ایک عورت نے جا کر اماں جان سے شکایت کی کہ حسن بی بی نے گھی گرا دیا۔ آپ نے نہ اس کو کچھ جواب دیا اور نہ مجھے کچھ کہا کہ تم نے کیوں نقصان کر دیا۔
(نوٹ) یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کا آئینہ ہے۔ گھر میں بعض خادم کوئی نقصان کر دیتے تو آپ کا یہ طرز عمل نہ تھا کہ ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ اس کی مثالیں سیرت مسیح موعود میں حضرت قبلہ عرفانی کبیر نے لکھی ہیں اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی چشم پوشی اور عفو تقصیر کے بیانات اور روایات بھی بہت ہیں۔ اسی کتاب میں آ پ کے ایک خادم چراغ کا بیان درج ہے کہ بازار میں ٹھوکر کھا کر گھی کا برتن اس سے گر گیا اور مٹی ملا ہوا گھی لیکر آیا تو آپ نے کچھ نہ کہا۔
یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی فطرت بلند کا ایک کرشمہ ہے آپ سمجھتی ہیں کہ خادم اور خادمات بھی آخر انسان ہیں ان سے بھی غفلت اور سُستی ہو جانی ممکن ہے اور بے احتیاطی سے نقصان ہو جاتا ہے آپ یہ خیال کر کے کہ خداتعالیٰ نے ان کو میرے لئے بطور خادم مقرر کر دیا شکر کرتی ہیں اور اس کا ظہور خطا پوشی اور معافی کے رنگ میں فرماتی ہیں۔ یہ دستور العمل آپ کا اس گھر میں آنے سے برابر نظر آ رہا ہے اس وقت تک اس میں فرق نہیں آیا ۔ زیادتی ہی ہوئی ہے۔ اللّٰھم زِدْ فَزِدْ
(۳)
اسی طرح ایک مرتبہ میرے لڑکے احمد حسین نے جو اس وقت چھوٹا بچہ تھا۔ دو تین سیر مٹی کا تیل گرا دیا۔ اس کو یا مجھے کچھ نہ فرمایا۔ ناراضگی کا تو ذکر ہی کیا۔ آپ کی عادت میں داخل ہے کہ جب کسی سے کچھ نقصان ہو جاتا تو ناراضگی کا اظہار نہ فرماتیں بلکہ اپنی رحیمانہ طبیعت سے درگزر فرما کر اصلاح کا موقع دیا کرتی ہیں۔ میں تو یہی سمجھتی ہوں کہ تمام خادمات سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی تھیں مگر سچ یہ ہے کہ ہر ایک یہی سمجھتی تھی کہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔
(۴)
جب حضرت امیر المومنین کی آمین ہوئی تو آپ نے سب کے لئے جوڑے بنوائے اور سب سے عمدہ جوڑا مجھے عطا فرمایا کسی نے اس جوڑے کے لئے درخواست کی تو آپ نے اسے فرمایا کہ یہ حسن بی بی کے لئے ہے۔ آپ سب کے ساتھ ہمیشہ خوش خلقی سے پیش آتی ہیں۔ میرے ساتھ اسی وجہ سے بھی سب سے زیادہ اچھا برتاؤ فرماتی ہیںکہ میں نے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو ایک سال تک دودھ پلایا تھا۔
(نوٹ) حضرت نبی کریم ﷺ کے حالاتِ زندگی سے پتہ لگتا ہے کہ آپ رضاعت کا خاص خیال فرماتے تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین بھی ان عورتوں کا خصوصیت سے خیال رکھتی ہیں۔ جنہوں نے کسی بچہ کو دودھ پلایا یا کھلایا ہو اور اس قسم کی رعایت سوائے ان اخلاق کے نظر نہیں آتی جو نورِ نبوت سے فیض یافتہ ہوں۔ محمود احمد عرفانی
(۵)
جب ہمیں کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے باہر جانا پڑا تو میںنے سفر کے لئے روٹیاں پکائیں اور کافی گھی آٹے میں ڈالا تو ایک عورت نے شکایت کی کہ حسن بی بی نے آٹے میں کافی گھی ڈال دیا ہے۔ آپ نے اس کو جواب دیا کہ پھر تم کو اس سے کیا اس نے ٹھیک کیا ہے۔ چشم پوشی اور درگزر کے اس پیکر پر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں۔ محمود عرفانی
(۶)
ایک مرتبہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے میرا دودھ پی لیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے مجھے ایک جوڑا کپڑوں کا اور پانچ روپے نقد عطا فرمائے۔
(نوٹ) میںحضرت اُمُّ المؤمنین کی فیاضیوں اور دادودہش کو دیکھ کر انہیں اطول الید (یعنی لمبے ہاتھ والی) ماں کہا کرتا ہوں۔ غربا اور یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری پرورش اور ان کی زندگی کے لئے بہترین تجاویز کرنے کی وجہ سے آپ کا نام اُمُّ المساکین ہے۔
محمود عرفانی
مائی امام بی بی صا حبہ کا بیان
مائی امام بی بی مرحوم محمد اکبر ٹھیکہ دار بٹالہ کی بیوہ ہیں۔ میاں محمد اکبر صاحب سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں سے تھے اور انہوں نے قادیان ہی میں وفات پائی تھی۔ ان کی وفات کے بعد مائی امام بی بی حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں رہ گئیں۔ اکثر آپ کے ساتھ سفر و حضر میں رہنے کا موقعہ ملا۔ وہ بیان کرتی ہیںکہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا سلوک اپنی خادمات سے ہمیشہ ایسا رہتا ہے جیسے ایک مہربان ماں کا اپنی اولاد سے ان کے دکھ سکھ میں شریک رہتی ہیں اور کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں کبھی ان کو حقیر نہیں سمجھا۔ اپنے عزیزوں کا سا سلوک کرتی ہیں۔
خداتعالیٰ کا خوف آپ کو ہر وقت رہتا ہے۔ کثرت سے عورتیں آپ کی ملاقات اور زیارت کو آتی رہتی ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو یا چہرہ پر شکن آیا ہو بلکہ ہر ایک سے نہایت محبت اور پیار سے باتیں کرتی ہیں اور کبھی اپنی زبان سے نہیں کہتی ہیں کہ چلی جاؤ۔ ہر ایک کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ گرمی کا موسم ہو تو شربت وغیرہ سے تواضع کرتی ہیں اور کھانا کھلاتی ہیں اور یہ کام خادمات پر نہیں چھوڑتیں بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں۔
اب تو آپ کی صحت اچھی نہیں رہتی ہے تاہم اب تک آپ کا ایسا ہی عمل جاری ہے۔ بیماری کی حالت میں آپ خاموش رہتی ہیں کوئی چڑچڑاپن وغیرہ جو بیماری کی حالت میں عام طور پر پیدا ہو جاتا ہے بالکل نہیں صبر اور سکون کے ساتھ خاموش رہتی ہیں۔ روزہ کی حالت میں بھی آپ کا معمول ہے کہ خاموش رہتی ہیں گویا آپ روزہ کی تکمیل میں خاموشی بھی ضروری سمجھتی ہیں۔ خاموشی میں ذکر الٰہی کرتی رہتی ہیں۔ تنہائی اور خلوت کو پسند کرتی ہیں۔
نوکروں سے جو سلوک آپ کرتی ہیں وہ میں نے کسی گھر میں نہیں دیکھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کی ہو یا حقارت سے اس کا نام لیا ہو۔ میں نے اتنے لمبے عرصہ میں کبھی کسی نوکر پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا کسی سے کچھ نقصان ہو جائے تو ہمیشہ درگزر فرمایا۔ میں نے کسی کو جھڑکی دیتے بھی نہیں دیکھا۔ ہمیشہ غربیوں اور مسکینوںکی پرورش کی جن کا کوئی سہارا اور آسرا دنیا میں نہ تھا۔ آپ کے ہاں اس کو آسرا مل جاتا ہے۔
صدقہ خیرات دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا اور آپ خود بھی اس کو مخفی رکھتی ہیں۔ میں نے بعض ایسی غریب لڑکیوں کو دیکھا ہے کہ جن کو کوئی پاس نہ بیٹھنے دے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کے کپڑوں کی بدبو وغیرہ کا خیال نہ کر کے آپ ان کے سروں کو صاف کیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین ہر اس چیز کو پسند کرتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پسندتھی۔ پھلوں میں آم، کیلا وغیرہ پسند کرتی ہیں۔ مٹھائیوں میں برفی اور مرغ کے سالن کو بھی پسند فرماتی ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا معمول ہے کہ جو عورتیں آپ کے پاس آتی ہیں ان کو مناسب موقعہ نصائع بھی فرمایا کرتی ہیں اور اصل طریق تربیت کا آپ نے اپنا عمل اور نمونہ رکھا ہے تاہم عام طور پر یہ فرمایا کرتی ہیں کہ:
’’جس کام کیلئے آئی ہو وہ بات کرو اور کوئی بات نہ کرو‘‘
ہم نے کبھی حضرت اُمُّ المؤمنین کو نہیں دیکھا کہ کسی بات پر بھی حضرت صاحب سے ناراض ہوئی ہوں۔ حضرت صاحب کا ادب کرتیں اور آپ کو خوش رکھتیں۔ ابتداء میں حضرت صاحب صرف تین روپے جیب خرچ دیا کرتے آپ نے کبھی نہیں کہا کہ یہ کم ہیں۔ شکر گزاری سے لے لیتیں اور عورتوں کو ہمیشہ نصیحت فرمایا کرتی ہیں کہ:
’’اپنے خاوندوں کو تنگ نہ کیا کرو‘‘
یہ ایک مختصر اور جامع بیان مائی امام بی بی کا ہے جسے مَیں نے اس کے اور اپنے ملے ہوئے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔ لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت اور اندرون خانہ زندگی کا ایک دلچسپ نقشہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح پر عورتوں کی تربیت فرمایا کرتی ہیں۔ عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب مل کر بیٹھتی ہیں تو اِدھراُدھر کے قصے شکوے شکایتیں اور غیبت وغیرہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتی ہیں آپ یہ فرما کر کہ ’’جس بات کے لئے آئی ہو اس کے سوا اور بات نہ کرو‘‘۔ ان ساری امراض سے نجات دلا دیتی ہیں۔
فرائض زوجیت کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں اور مستورات کو نصیحت فرماتی ہیں کہ خاوندوں کو تنگ نہ کیا کرو۔ آپ کی طبیعت میں قناعت کا عملی رنگ موجود ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے گھروں میں یہ روح پیدا ہو۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی شان نظر آتی ہے۔ حضرت نانا جان رضی اللہ عنہ کی طبیعت سخت تھی مگر ان کا دل رقیق تھا۔ وہ بہت جلد غصہ میں آجاتے اور معاً صاف دلی سے باتیں کرنے لگتے۔ برخلاف اس کے میں نے دیکھا کہ حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں دل اور زبان دونوں میں نرمی اور رقت ہے۔ میںنے کبھی ان میں سے کسی کو غصہ ہوتے نہیں دیکھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا تو رنگ ہی اور ہے۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کو بھی ہمیشہ مسکراہٹ کو ان کے چہروں پر کھلتے دیکھا۔ کلام میں ایک شیرینی اور محبت پائی جاتی ہے اور جب بھی کلام کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری توجہ اور دلچسپی سے اپنے مخاطب کے ساتھ ہم کلام ہیں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے مائی امام بی بی کے بیان سے بعض اور پہلو نمایاں ہوئے ہیںکہ روزہ کی حالت میں آپ خاموش رہتی ہیں اور غریب اور مسکین لڑکیوں کے سر وغیرہ آپ دیکھنا اور صاف کرنا یہ بھی خداتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور دوسروں کی تربیت تا کہ کوئی ایسے لوگوں سے نفرت نہ کرے بلکہ کوشش کی جاوے کہ ان کی ہر طرح مدد کی جاوے اور گرے ہوؤں کو اُٹھایا جاوے۔
متفرق خواتین کے تاثرات میں سے کچھ
صحابیات کے علاوہ عصر خلافت میں ہر سال اور دوران سال میں جو خواتین دارالامان آتی رہتی ہیں اور انہیںحضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں سعادت نیاز حاصل ہوتی ہے وہ آپ کی محبت و شفقت، تعلق باللہ اور اخلاق فاضلہ کا خاص اثر لیکر جاتی ہیں۔ میں ان کے تاثرات میں سے بھی کچھ درج کر دیتا ہوں۔ محمود عرفانی
بیگم صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی کے تاثرات
اس سے پہلے بیگم صاحبہ کی ایک روایت میں درج کر آیا ہوں اب اس باب میں کچھ اور روایات ان کی درج کرتا ہوں۔ حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی ان خوش قسمت قابل رشک بزرگوں میں سے ایک ممتاز بزرگ ہیں جو سلسلہ میں گو بہت پیچھے آئے مگر خداتعالیٰ کا فضل و کرم ان کو بہت آگے لے گیا۔ یہ وہ شخص ہے جس پر حضرت امیرالمومنین نے کشفی رنگ میں دیکھا کہ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور آسمان سے ان پر نور برس رہا ہے اور خداتعالیٰ کے ان بے شمار انعامات سے جو ان پر ہوئے ہیں ایک بڑا انعام یہ ہے کہ ان کی بیوی بچے سب اسی رنگ میں رنگین ہیں۔ مجھے بار ہا حضرت والد صاحب کے قیام حیدرآباد کے زمانہ میں سکندر آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے ان کے گھر کو ایک مہمان خانہ پایا۔ لوگ مختلف مقامات سے آ جاتے اور جب تک جی چاہتا ٹھہرتے۔ کبھی نہ دیکھا کہ کسی چھوٹے بڑے کے خیال میں آیا ہو کہ یہ کیوں بیٹھا ہے۔ ہر ایک کے دل میں سلسلہ کی تبلیغ اور اس کے لئے قربانی کی ایک دُھن ہے اور وہ عشق جس کو انبیاء کے دشمن جنون کہتے ہیں۔ خدائی مخلوق کی ہمدردی کے لئے ان میں پایا جاتا ہے۔ میں خود تو ان کی محبت و ہمدردی کو اپنے جسم میں خون کی گردش کی طرح محسوس کرتا ہوں۔ اللہ کریم ان پر بڑی بڑی برکات نازل کرے۔ آمین۔ اسی خانہ کی سردار یعنی بیگم سیٹھ عبداللہ بھائی کے تاثرات میں یہاں درج کرتا ہوں۔
گڑیاں اور بُت پرستی
ایک مرتبہ جب کہ ہم چند بہنیں حضرت اُمُّ المؤمنین صاحبہ کے حضور بیٹھی ہوئی تھیں تو میں نے چند کپڑے کی گڑیاں دیکھیں۔ جو بچوں کے کھلونے کے طور پر رکھی ہوئی تھیں میں نے عرض کیا کہ یہ گڑیاں کیوں رکھی ہیں؟ اسلام نے تو منع فرمایاہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے میرے سوال پر بُرا نہیں منایا بلکہ نہایت محبت سے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے تو اس چیز کو منع کیا ہے جو ہندوبت بنا کر بڑی عزت سے گھروں میں رکھتے اور ان کو خدا کی صفات سے موصوف قرار دے کر ان کی عبادت کرتے اور ان سے مُرادیں مانگتے ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بت پرستی کو دُور کرنے کے لئے بت بنانے سے منع فرمایا۔ عرب لوگ جاہلیت کے زمانہ میں بت پرست تھے اس کو دُور کرنے کے لئے آپؐ نے بتوں کی مذمت فرمائی اور ان کو منع کیا۔ اس قسم کے کھلونے کی ممانعت نہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گڑیاں کھیلاکرتی تھیں۔ اس قسم کی یا کوئی بھی چیز ہو اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو قائم کر کے اس کی عبادت کرنا یہ بہت بڑا گناہ اور شرک ہے۔
میں پہلے تو اپنے سوال کرنے سے گھبرائی کہ خلافِ ادب نہ ہو مگر جب میں نے دیکھا کہ محبت سے اماں جان سمجھاتی ہیں تو میں سوالات کرتی گئی اور حضرت اماں جان محبت سے آسان طریق پر مجھے سمجھاتی رہیں۔
تصاویر
پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے احباب کی تصاویر دیکھیں تو میں نے اعتراض کیا کیونکہ سیٹھ صاحب نے مجھے بڑی سختی سے روکا تھا کہ کوئی تصویر نہیں لگانی چاہئے۔ حتیّٰ کہ ہمارے خاندان کی بعض بڑی بڑی قیمتی تصاویر کو ضائع کر دیا تھا۔ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ:
’’حضرت صاحب کی تصویر عبادت یا پرستش کے لئے نہیں بلکہ یہ تصویر تو ا س لئے بنوائی گئی تھی کہ جو لوگ دُور دراز ملکوں میں رہتے ہیں وہ اس طرح اپنے امام کے چہرہ اور حلیہ کو دیکھ لیں کہ جو رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کے موافق ہے اور انگریز اور دوسرے مغربی لوگ تصاویر کو دیکھ کر ا س کے اخلاق وغیرہ کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ یہ تصویر تو خود تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر صرف تصویر رکھنا منع ہو تو تم جیب میں روپیہ رکھتی ہو۔ بچوں کی کتابوں میں تصویریں ہوتی ہیں‘‘۔ میں نے اس سے تصویر کا مسئلہ بھی سمجھ لیا۔
پراندہ منع نہیں ہے
ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ بعض بیبیوں نے اپنے بالوں میں پراندے ڈال کر چوٹیوں کو بڑھایا ہوا تھا۔ میں نے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو ریشم یا دھاگے کے بنے ہوئے ہیں بالوں کے نہیں ان کا ڈالنا ناجائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ظالم طبع لوگ عورتوں پر بڑے بڑے ظلم کرتے تھے ان کے بال جبراً کاٹ کر بیچتے تھے۔ اس لئے آپ نے منع فرمایا کہ عورتوں کے بال میں بال نہ ڈالے جاویں۔ اسی طرح حضرت اماں جان نے مجھے پردہ کی حقیقت سمجھائی ۔ بظاہر یہ باتیں معمولی ہیں مگر ان میں اسلام کی خوبیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مجھ پر یہ امر کھلا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین دینی باتیں پوچھنے سے برا نہیں مناتیں بلکہ خوش ہوتی ہیں اور نہایت محبت سے عام فہم طریق سے سمجھاتی ہیں۔ اس طرح مجھے حضرت اُمُّ المؤمنین کے درجہ کا پتہ لگا کہ وہ بڑی قابل قدر اور قابلِ عزت خاتون ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے آمین۔ بیگم عبداللہ الہ دین
(نوٹ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دربار بھی اسی قسم کا ہواکرتا تھا لوگ آتے اور مختلف قسم کے دینی سوال کرتے اور آپ ان کے جوابات دیتی رہتیں۔ آنحضرت ﷺ کے طریق عمل اور اُسوہٗ حسنہ کے متعلق اور بعض مسائل کے متعلق سوالات ہوتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہایت شفقت سے جواب دیتیں۔ حقیقت میں بیوی سے زیادہ محرم راز کوئی دوسرا انسان نہیں ہوتا اور اصل حقیقت اپنے شوہر کی عیاں ہوتی ہے لیکن جب وہ اس کی نبوت اور اس کے مرسل من اللہ ہونے پر یقین رکھتی تھی تو یہ امر واضح ہے کہ فی الحقیقت وہ اس کے اندرونی اعمال اور اس کے طرز زندگی میں اس روح کو کام کرتے دیکھتی ہے جو ایک خدا کے مامورومرسل میں ہونی چاہئے۔ اس کے خداتعالیٰ کے ساتھ تعلقات عظمت الٰہی کا اس کے قلب اور اعمال پر اثر خدا کی مخلوق سے اس کی ہمدردی اور شفقت،اعمال صالحہ سے محبت اور رزائیل سے نفرت زندگی کے ہرشعبہ میں وہ دیکھتی ہے۔ تب وہ صرف اپنے شوہر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ خدا کے مامورومرسل کی حیثیت سے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں گداز ہو جاتی ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنینؓ کی زندگی، امہات المومنین کی سیرت اور کردار کا ایک مکمل نقشہ ہے۔
محمود احمد عرفانی
محترمہ سلیمہ بیگم بنت جناب سیٹھ محمد غوث صاحب کی روایات
عزیزہ سلیمہ بیگم صاحبہ کی کچھ روایات پہلے دی جا چکی ہیں بقیہ درج ذیل ہیں۔ عرفانی
رشتہ سو چ کر کرو
(۱) میری لڑکی امۃ الرشید کے رشتہ کے بارے میں میرے دریافت کرنے پر حضرت اماں جان نے نہایت پاک جذبات کا اظہار فرمایا۔ خلوص اور محبت سے فرمانے لگیں۔
’’لڑکی سنو، پہلے یہ دیکھو کہ لڑکا نیک، دیندار ہے یا نہیں؟ اس کے افعال اعمال سے دیندار سچے احمدی ہونے کا پتہ لگتا ہے یا نہیں؟ اگر لڑکا نیک سچا احمدی اور مخلص ہے اور تمہاری و خاندان کی طبیعت سے ملتا جلتا ہے تو بس اللہ کا نام لیکر رشتہ طے کر دو۔ باقی دوری وغیرہ۔ سوالِ ملازمت، یہ سب اللہ تعالیٰ کے بس کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ ایسے اسباب کر دے گا کہ اتنی دُور دراز ہوتے ہوئے بھی تمہاری بچی تمہارے نزدیک معلوم ہو گی۔ بیٹی۔ دنیا میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی وطن میں بیٹیاں بیاہی جاتی ہیں لیکن حالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ برسوں آنے جانے کا اتفاق نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ باوجود دُور ہونے کے ہمیشہ ملنے ملانے کے اسباب ہو جاتے ہیں۔ بہرکیف احمدیوں کی لڑکیوں نے اکناف عالم میں پہنچنا ہے تو بھلا (حیدر آباد دکن سے) دہلی کتنی دُور۔ یہ تو میرا میکہ ہے (یعنی دہلی جہاں پر لڑکا ملازم ہے) لڑکا میرے سسرال کے وطن کا مجھے اس رشتہ سے بڑی خوشی ہوئی۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ رشتہ بابرکت کرے۔ اللھم آمین
(۲) مجھ ناچیز کو کئی مرتبہ حضرت اماں جان کی ذرہ نوازی نے بیت الدعا جیسی جگہ میں نمار پڑھنے اور لمبی لمبی دعائیں کرنے کا موقعہ عطا فرمایا۔ الحمد للّٰہ تعالٰی علی ذالک-
(۳) حضرت اماں جان کی شفقت مادرانہ اور احسان عظیم کا سب سے بڑھ کر ناچیز کے نام ایک نوازش نامہ بھی ہے جس کو آج اکیس بائیس سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ ذیل میںعاجزہ حضرت اماں جان کے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے سرفراز نامہ کو درج کرنے کی عزت وسعادت حاصل کرتی ہے۔

بِسم اللّٰہ الّرحَمٰنِ الرّحِیْم
از قادیان
۲۳۔اگست ۱۹؁ء
عزیزہ سلیمہ سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔ تمہارا خط جو امۃ الحی٭؎ کے نام تھا وہ غلطی سے میں نے کھول لیا ہے اور پھر پڑھ کر امۃ الحی کو دے دیا ہے وہ غلطی سے میری ڈاک میں آ گیا تھا وہ خط میں نے تمام کا تمام پڑھا اور اس خط کو پڑھ کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ مرحبا سلیمہ مر حبا مردوں میں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں مبلغ ہیں مگر عورتوں میں بہت کم۔ مجھے تمہاری ہمت اور اخلاص اور تبلیغ کا حال پڑھ کر اس قدر خوشی سے بے اختیار تمہارے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔اور کہ خدا تعالیٰ تم کو کامیاب اور بامراد رکھے۔ میں تم پر بہت خوش ہوں اور تمہارے لئے بہت دعا کرتی ہوں۔ جزاک اللّٰہ احسن الجزاء اور تم احمدیت کی تبلیغ میں اس طرح مشغول رہو خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارا حامی و مددگار ہو۔ اپنے گھر میں سب لوگوں کو اسلام علیکم بچوں کو پیار دعائیں۔ والسلام
والدہ مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی قادیان
میرے ناچیز قلم میں طاقت نہیں کہ اس احسان بیکراں کا اچھے سے اچھے رنگ میں ذکر کروں اللہ تعالیٰ میرے حال پر رحم فرمائے آمین یَا ربَّ العالمین-
سلیمہ بیگم بنت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدرآباد دکن
عزیزہ امۃ الحفیظ بنت جناب سیٹھ غوث صاحب کی روایات
عزیزہ امتہ الحفیظ صاحبہ کی بعض روایات پہلے آ چکی ہیں بقیہ ذیل میں درج ہیں۔ عرفانی
تسلی دینا
(۱) ۱۹۴۲؁ء کے جلسہ پر میرا نکاح ہو چکا تھا۔ حضرت اماں جان سلمہا سے جب میں ملنے گئی تو

٭؎ حضرت امۃ الحی صاحبہ مرحومہ حرم حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
آپ نے میری بڑی بہن سلیمہ بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ اس کا نکاح کہاں ہوا ہے اور ساری باتیں تفصیل سے دریافت فرمائیں۔ میری بہن نے جب یہ بتلایا کہ لڑکا کرنال٭؎ کا رہنے والا ہے تو اس پر آپ بہت خوش ہوئیں اور بڑی محبت اور مسرت سے فرمایا کہ ’’چلو ایک بہن کا میاں میرے سسرال (خلیل احمد صاحب جو سیالکوٹ ٭٭؎ کے ہیں) اور اس کا میرے میکے کا ہے میرے سسرال سے اس وقت ایک انگوٹھی،رومال اور روپے آئے تھے۔ حضرت اماں جان سلمہا سے درخواست کی گئی کہ آپ دعا فرما کر انگوٹھی پہنائیں۔ آپ نے ازراہ نوازش منظور فرما لیا اور دوسرے روز مغرب کی نماز کے بعد حضرت آپا جان صاحبہ یہ چیزیں اور مجھے آپ کے پاس لے گئیں آپ نے تمام گھر والوں کو بلا بھیجا۔ ساروں کے آنے کے بعد دعا فرمائی اور اپنے ہاتھ سے مجھے انگوٹھی پہنائی۔
شفقت دعا
(۲) اس کے دو تین دن بعد کا واقعہ ہے کہ میری بھانجی امۃ الرشید کی منگنی ہوئی اس دن بھی دعا فرمانے کے بعد آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے انگوٹھی پہنائی اور فرمایا:
’’میں نے اس کے لئے اس کے ابا کے لئے اس کے دولہا کے لئے اور اس کے نانا (سیٹھ محمدغوث صاحب) کے لئے دعا کی ہے۔‘‘
اس کے بعد اپنے ہاتھ سے اس کو اور مجھے میٹھے چاول کھلائے اور اس پر مزید شفقت یہ کہ اس دن رات کا کھانا بھی ہمیں آپ نے ہی کھلایا۔ الحمد للّٰہ اس سال میں دس ماہ قادیان میں رہی۔ چونکہ میری بھانچی وہیں بیاہی گئیں۔ اس لئے اس دفعہ میں ان کے پاس تھی۔ میں جب بھی حضرت آپا جان کے گھر جاتی تو حضرت اماں جان سلمہا سے بھی مل کر آتی۔ آپ کو اکثر مجھ پر دھوکا لگتا اور مجھے بھانجی (امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ خلیل احمد صاحب ناصر) سمجھ کر پوچھتیں۔ ’’تمہاری لڑکی کیسی ہے۔‘‘ جب میں بتلاتی نہیں ’’اماں جان‘‘ میں ہوںامۃ الحی۔ آپ کھلکھلا کر ہنس پڑتیں اور فرماتیں۔ ’’مجھے تم دونوں بہنوں پر بہت دھوکا لگتا ہے۔ تم آتی ہو تو سمجھتی ہوں حفیظ ہے اور حفیظ پر تمہارا شبہ ہوتا ہے‘‘۔

٭؎ کرنال چونکہ دلی کے قریب ہے اس لئے اُسے اپنا میکہ فرمایا اور
٭٭؎سیالکوٹ کو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا وطنِ ثانی قرار دیا ہے اس لئے اُسے اپنا سسرال فرمایا۔
(۳) آپ کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی خاتون ملنے آئی ہوتی ہیں اور تقریباً جب بھی میں گئی ہوں ان خواتین سے ہمارے خاندان کا تذکرہ فرماتیںاور اس بات کا بھی اکثر اظہار فرماتی ہیں کہ اس کی بڑی بہن کا میاں میرے سسرال کے شہر کا رہنے والا ہے اور اس کا میرے میکے کا ۔ مجھے حضرت اماں جان سلمہا کی اس دلداری،اس نوازش کا اس وقت بھی بلکہ آج تک بھی اور انشاء اللہ عمر بھر ہی اس کا اثر اور احساس رہے گا جب بھی میں ان الفاظ کا۔اس اظہار خوشی اور محبت کا تصور کرتی ہوں میرے لئے وہ نظارہ عجیب ازدیادِ ایمان کا موجب ہوتا ہے اور میرا دل مسرت اور درد بھرے جذبات کے طوفان سے بھر جاتا ہے اور میں سوچنے لگتی ہوں
’’کہاں ہم خانۂ ویراں کہاں یہ حضرت ذی شاں‘‘
ہزاروں انسان سیالکوٹ میں بستے ہیں اور ہزاروں کرنال میں لیکن میرے خدا کو دو غریب خاندان کے لڑکوں کو کس طرح نوازنا منظور تھاکہ آپ سے اس کا بار بار اظہار فرما کر سارے دلوں کو دنیوی عزت و دولت سے بے نیاز فرمایا اور اس جاودانی دولت اور فخر سے ہمارے دلوں اور روحوں کی تسکین فرمائی۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے غریب رشتہ داروں کو اپنا رشتہ دار کہتے شرماتے ہیں اور کوئی دولت مند اور بڑا آدمی ہو اور اس کا دُور کا بھی رشتہ ہو تو کہتے ہیں یہ ہمارا رشتہ دار ہے، عزیز ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے پیارے بندوں کی شان کیسی نرالی اور کیا ہی عجیب ہوتی ہے؟ سچ ہے ’’بیان سے بالا اور ترقیم سے اعلیٰ!
ہاتھ سے کام کرنا
(۴) میںنے حضرت اماں جان سلمہا کو اپنے ہاتھ سے گھر میں کام کرتے دیکھا ہے۔ آپ کی صحت اکثر ناساز رہتی ہے۔ باوجود اس کے جب بھی کچھ طبیعت اچھی ہوتی ہے آپ باورچی خانہ میں دیکھ آتی ہیں۔ ایک دفعہ آپ کو سبزی بھی بناتے دیکھا ہے۔ اتنی ضعیفی اور بیماری کے باوجود آپ کا اپنے ہاتھوں سے کام کرنا ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو دینی اور دنیوی ہر قسم کی آسائش اور آرام کے سامان دیئے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے جب بھی آپ کی طبیعت ٹھیک ہوتی ہے اپنے گھر کی دیکھ بھال خود ہی فرماتی ہیں۔
خوشنودی
(۵) جب پہلی دفعہ حضرت اماں جان سلمہا میری بھانجی حفیظ کے گھر تشریف لے آئی تھیں۔ گھر دیکھ کر بہت پسند فرمایا اور اظہار بھی کیا کہ حفیظ تمہارا گھر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تم نے بہت سلیقہ سے رکھا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ جب تشریف لے آئیں تو صاحبزادہ میاں منور احمد صاحب کی دلہن کو بھی ساتھ لے آئیں اور نہایت بے تکلفی اور محبت سے سارا گھر دکھلایا کہ یہ کھانے کا کمرہ ہے۔ اس میں حفیظ رہتی ہیں۔ اس میں خالہ بھانجیاں رہتی ہیں۔
عیادت
(۶) گزشتہ سال کی بات ہے جب میں قادیان میں ہی تھی میری بھانجی کی لڑکی بڑی سخت بیمار ہو گئی تھی۔ میں دو تین دفعہ آپ کے پاس دعا کی درخواست کرنے گئی تھی۔ اس کے دو چار دن بعد آپ خود بچی کو دیکھنے کو تشریف لے آئیں۔ اس کے بعد جب تک بچی کو صحت نہیںہوئی روزانہ کسی عورت کو بھجواتیں کہ اب لڑکی کا کیا حال ہے۔ ایک دن بچی کی حالت بہت خطرناک ہو گئی تھی۔ اس دن آپ بھی اتفاق سے تشریف لے آئیں تھیں۔ گھر جا کر ایک عورت سے نسخہ بھجوایا کہ یہ بہت ہے بچی کو ضرور پلاؤ۔
بیت الدعا میں
(۷) میں جب کبھی قادیان جاتی ہوں ضرور بیت الدعا میں دعاکر کے آتی ہوں۔ پہلے پہل اجازت لینے سے طبیعت بہت ڈرتی تھی۔ ایک دن دعا کرنے کی نیت سے آئی اور بڑی دیر ٹھہری لیکن جرأت نہ ہوئی ۔ پھر بہت دیر بعد ڈرتے ڈرتے اجازت مانگی۔ اس پر آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا۔ تم جب بھی چاہو آ کر دعا کر لیا کرو۔ الحَمدُ لِلّٰہ عَلٰی ذالک-
والدہ صاحبہ سردار امیر محمد خاں صاحب کے تاثرات
والدہ صاحبہ سردار امیر محمد خاں صاحب کوٹ قیصرانی کے تمندار خاندان کی معزز اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اہل بیت سے محبت وفداکاری کا جذبہ یہ خاندان رکھتا ہے۔ میری تحریک پر انہوں نے لکھا کہ
(۱) میں نے ۱۹۰۶؁ء میں شرف بیعت بذریعہ خط حاصل کیا۔ ۱۹۰۷؁ء کے آخر یا ۱۹۰۸ء؁ کے آغاز میں قادیان گئی اور اس کے بعد اب تک بحمداللہ یہ سلسلہ جاری ہے اور انشاء اللہ تا حیات رہے گا۔ اس عرصہ میں جو کچھ دیکھا مختصراً لکھتی ہوں۔
کبھی ناراض نہ ہونا
اس قدر زمانہ دراز میں مَیںنے کبھی حضرت ممدوحہ کو کسی پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ البتہ ایک مرتبہ ایک عورت مائی تابی نام حضرت کے گھر میں رہتی تھی اس کا کوزہ یا کوئی اور معمولی چیز اس کی غیر حاضری میں کسی نے توڑ دی۔ مائی تابی یہ نقصان دیکھ کر بدعائیں کر رہی تھیں۔ اس پر حضرت ممدوحہ نے کسی قدر سختی سے فرمایا:
’’بددعا کیوں دیتی ہوکسی نا سمجھ بچہ نے نقصان کیا ہوگا۔ تم کو خود بھی تو احتیاط کرنی چاہئیے تھی‘‘۔
یہ سختی محض اس وجہ سے تھی کہ آپ بددعا کو پسند نہیں فرماتی ہیں اور کوئی لفظ نہیں فرمایا بلکہ نصیحت کی اور یہ بھی ہدایت کی کہ انسان کو خود اپنی متاع قلیل یا کثیر کی آپ حفاظت کرنی چاہئے۔ علاوہ بریں جب خاطی کا علم ہی نہیں تو بلاوجہ عام طور پر بددعاؤں سے نفرت کا پتہ چلتا ہے۔
ایام جلسہ میں سلوک
ایام جلسہ میں مستورات کا ہجوم آپ کے گرد رہتا ہے آپ ہمیشہ کشادہ پیشانی رہتی ہیں اور ہر ایک ادنیٰ اعلیٰ سے حال دریافت کرتی ہیں اور ہر ایک یہی سمجھتی ہے کہ ’’مجھ پر حضرت ممدوحہ کی بڑی مہربانی اور شفقت ہے‘‘ اب تو آپ ضعیف ہو گئی ہیں پہلے آپ کا معمول تھا کہ جب میں جاتی تو اٹھ کر محبت و شفقت سے معانقہ فرمایا کرتیں۔
ایک واقعہ
ایک مرتبہ آپ سیر کو تشریف لے گئیں بہت سی مستورات ساتھ تھیں ایک گاؤں آ گیا (قادرآباد جس کو نیا پنڈ کہتے ہیںمحمود عرفانی) جب اس گاؤں کی مستورات کو معلوم ہوا تو باہر استقبال کو نکل آئیں اور گھر جانے کے لئے عرض کیا۔ آپ نے ان کی دلداری کے لئے قبول فرمایا مگر فرمایا کہ ’’پہلے مسجد میں جا کر نماز پڑھوں گی پھر تمہارے گھر چلوں گی‘‘ مسجد کے آگے سے پانی کی نالی جاری تھی وہاں ہم نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر ان کے گھر تشریف لے گئیں انہوں نے مکی کے دانے بھون کر شکر ملا کر پیش کئے۔ آپ نے سب کو بانٹ دیئے۔ چلتی دفعہ انہوں نے کچھ ساگ اور گُڑ پیش کیا آپ نے جزاک اللہ فرماتے ہوئے قبول کیا اور آپ نے اپنے ہاتھ میں لیا اور دریافت کیا کہ تمہارے ہاں کماد(گنا) ہوتا ہے میں نے عرض کیا کہ پہاڑی اور بارانی ملک ہے۔ اس پر آپ نے وہ تحفہ مجھے عطا کر دیا ہے۔
(نوٹ) یہ باتیں بظاہر نہایت معمولی ہیں۔ یہ گاؤں حضرت ہی کی رعایا کا ہے اور حضرت کے آباد کار رہتے ہیں۔ قادیان ہی میں داخل ہے۔ زمینداروں کے گھر کا نقشہ اور وہ بھی آج سے قریباً پچاس برس پیشتر کا ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے۔ مگر آپ نے ان مستورات کی خوشی کو مقدم فرمایا اور اس کے گھر جانے کی درخواست کو رد نہ فرمایا۔ مگر سب سے پہلا کام فریضہ نماز کا ادا کرنا ضروری سمجھا۔ قیاس یہ چاہتا ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گا۔ پنجاب کے رواج کے لحاظ سے شام کے قریب بھنے ہوئے دانوں کا ناشتہ ہوا کرتا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے دیہاتی طرز معاشرت کے رُو سے ساگ اور گُڑ کا تحفہ پیش کیا۔ آپ کے ساتھ خادمین تھیں آپ نے ان کے جذبات کا احترام کیا اور اس ہدیہ کو سونے چاندی کے سکوں سے بھی قیمتی سمجھا کہ وہ ایک اخلاص منددل کی عقیدت کا اظہار تھا اس لئے خود اپنے ہاتھ سے لیا اور پھر ایک مخلصہ کو بطور تحفہ اس لئے دیا کہ ان کے ملک میں یہ باہر سے جانے والی سوغات تھی۔
محمود عرفانی
اسی سلسلہ میں سردارنی صاحبہ لکھتی ہیںکہ میںنے مشاہدہ کیا ہے کہ جب کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو آپ ایسے انداز سے اس کو قبول فرماتی ہیں کہ پیش کرنے والے کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے کشیدہ کا بہوچن خاص طور پر حضرت اُمُّ المؤمنین کے لئے سلایا تھا۔ میں نے پیش کیا تو آپ نے فوراً اسی وقت پہن لیا۔
(نوٹ) ہر ملک اور قوم کا لباس اور ان کی پسندیدہ اشیاء الگ ہوتی ہیںاور دہلی اور ڈیرہ غازی خاں کے لباس میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس اخلاص و محبت کی قدر کی اور خداتعالیٰ کے انعامات میںاسے داخل یقین کر کے اس ہدیہ کا بھی احترام فرمایا۔ یہ روح اور جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک انسان خداتعالیٰ کی محبت اور اس کی مخلوق سے شفقت کے اعلیٰ مقام پر نہ ہو۔ محمود عرفانی
لوگ اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہیں

حضرت ممدوحہ کے طرز عمل سے پایا جاتا ہے کہ آپ سب کے ذہن نشین کرنا چاہتی ہیں کہ میرا گھر ان کا گھر ہے ایک مرتبہ میں قادیان آئی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب حضرت اُم لمومنین کے بھائی کی چھوٹی بیوی ان دنوں چھوٹی لڑکی تھی اور وہ بڑی تیز تھی۔ حضرت ممدوحہ کے سامنے ذکر آیا اور کسی نے کہا کہ جس کے ایسے بچے ہوں وہ اپنے گھر بیٹھے رہا کریں۔
آپ نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ آخر لوگ اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر آتے ہیں۔ چونکہ یہ ہر ایک کا گھر ہے تم نے یہ بات کیوں کہی؟
اس لڑکی کی والدہ نے حضرت مسیح موعود اور حضرت اُمُّ المؤمنین سے دعا کے لئے عرض کیا اور اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس لڑکی کو یہ عزت اور درجہ دیا کہ وہ اسی خاندان میں شامل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت اور برکت سے مالا مال کر دیا اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی بھاوج اور حضرت امیرالمومنین کی ساس بننے کا شرف عطا ہوا۔
(نوٹ) حضرت اُمُّ المؤمنین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعا کا یہ اعجاز ہے اور اس قسم کے معجزات بے شمار ہیں مگر اس کے لئے۔ جو دل رکھتا ہو سلیم اور آنکھ رکھتا ہو بینا۔
عرفانی
ایک مرتبہ حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کوٹ قیصرانی گئے ہمارے ملک میں بال رکھتے ہیں اور ان میں خوب تیل ڈالتے ہیں میرے محترم شوہر سردار امام بخش خاں صاحب نے نانا جان کے سر میں تیل ڈالا وہ بہت خوش ہوئے اور گھر آ کر ذکر کیا۔ میں جب قادیان آئی اور حضرت ہی کے مکان میں فروکش تھی تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے حضرت میر صاحب والا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ میرے سر میں تیل ڈالو۔ میں نے اس کو بڑی عزت اور سعادت سمجھا۔ میں تیل ڈال رہی تھی اور باتیں بھی کرتی جاتی تھی میں نے عرض کیا کہ تیل بہت اچھی چیز ہے آپ اس کا استعمال زیادہ کریں تو سر درد نہ ہوا کرے آپ اپنی بہو سے روزانہ تیل ڈالوا لیا کریں۔ آپ نے فوراً فرمایا۔ کیا تم بہو نہیں تم ہی ڈالو اس کلام نے مجھ پر بے حد اثر کیا کہ آپ ہم کو اپنی اولاد ہی کی طرح عزیز رکھتی ہیں جب تک میرا قیام رہا میں اس سعادت سے حصہ لیتی رہی۔
(نوٹ) یہ روزمرہ کا برتاؤ حضرت اُمُّ المؤمنین کا ہے۔ آنے والے مہمانوں کے ذہن میں اپنے عمل اور سلوک سے یہ امر راسخ کرتی ہیں کہ یہ ان کا اپنا گھر ہے۔
آج حق ناشناس بلکہ ناشکرگزار اس گھر کو گدّی کہتے ہیں۔ کاش انہوں نے گدّیوںاور پیروں کو جا کر دیکھا ہوتا وہاں جو امتیازات پیرومرشد اور مرید میںہیں ان کا یہاں نام و نشان نہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا طرز عمل ایک شفیق ماں کا ہے وہ باوجود دائمی علالت کے مہمان سے اسی محبت و شفقت سے پیش آتی ہیں جو ہمیشہ سے آپ کا معمول ہے ان کو اجنبیت سے دور رکھتی ہیں اوربے تکلفی پیدا کر دیتی ہیں تا کہ وہ کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کریں۔ ان کی تربیت اپنے عمل سے کرتی ہیںاور ہر ایک کو یہ سمجھنے کا موقعہ دیتی ہیںکہ وہ آپ کو اور قریب کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دراصل یہ ایک نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو خداتعالیٰ نے فرمایا تھاکہ مہمانوں سے تھکنا نہیں۔ وہی عزم بلند اور حوصلہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو عطا فرمایا ہے۔
والدہ صا حبہ احمد زمان عباسی کا بیان
حضرت حکیم محمد زمان صاحب عباسی مرحوم و مغفور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب قبلہ کے اہلکار ایک مخلص احمدی عالم اور حکیم تھے ان کی اہلیہ صاحبہ بیوہ ہونے کے بعد حضرت اُمُّ المؤمنین کے زیر شفقت رہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے میرے شوہر کی وفات کے بعد خصوصیت سے مجھ پر اور میرے بچوں سے بے حد شفقت اور محبت کا برتاؤ کیا۔ ایک مرتبہ جب آپ مالیر کوٹلہ تشریف لے گئیں تو مجھے ساتھ ہی لے گئیں۔ ہر وقت میری دلجوئی اور آرام و آسائش کاخیال فرماتی رہیں۔ آپ کا عام معمول تھا کہ میری ضرورتوں کا خود خیال فرمایا کرتیں اور حکیم صاحب کی وفات کی وجہ سے مجھے جو صدمہ تھا حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنی غمگساری سے مجھے اس میں ہر طرح اطمینان اور تسلی دلائی۔ مجھے یا میرے بچوں کو ذرا بھی تکلیف ہو تو آپ اسے محسوس کر کے بے چین ہو جاتیں اور جب تک دور نہ کر لیتیں تو آرام نہ کرتیں۔ آپ میری تکالیف کو مادرمہربان سے بھی زیادہ درد اور فکر سے محسوس فرماتی رہیں۔ مجھ پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا جس میں حضرت اماں جان نے میرا ساتھ نہ دیا ہو اور میرے دکھ کو اپنا دکھ نہ سمجھا ہو۔ ان کی بے انتہا مہربانیوں اور شفقتوںکا کوئی بدلہ ہمارے پاس نہیںاللہ تعالیٰ ہی اس غمگساری، ہمدردی، یتیم پروری اور بیوہ نوازی کا صلہ اور اجر دے سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی اولاد اور اولاد کی اولاد پر بے انتہا فضل اور کرم کئے ہیں کہ آپ کو اُمُّ المؤمنین بنا دیا اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے برکات نازل ہو رہے ہیں آپ کی اولاد میں اس اولوالعزم انسان کو چنا جو امام وقت اور خلیفۃ المسیح ہے۔
حضرت اماں جان کی خوبیاں اس قدر ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ آپ دوسروں سے جو نیکیاں اور ہمدردیاں کرتی ہیںوہ ایسے رنگ میں ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کو معلوم بھی نہیںہوتا۔

ء…ء…ء













سیرۃ و شمائل کے کچھ اوراق









تمہیدی نوٹ
حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ (متَعنَا اللّٰہ بِطُوْلِ حَیاتِھا) کی سیرۃ و شمائل کے مختلف پہلوؤں پر بحث بجائے خود کئی ضخیم مجلدات کو چاہتی ہے اس لئے کہ آپ کی زندگی میں اس قدر واقعات آپ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ان سب کو جمع کرنا بھی مشکل ہے۔ میں مختصراً آپ کی سیرۃ کے بعض پہلوؤں کو اُجاگرکرنے کی حقیر سعی کروں گا اور مختلف بزرگوں اور خواتین نے جن واقعات کا اپنی روایتوں میں ذکر کیا ہے ان میں ہر واقعہ آپ کی سیرۃ کے کسی نہ کسی پہلو کو نمایاں کرتا ہے اور پہلے حصہ میں بھی بعض واقعات بطور مثال پیش کئے جا چکے ہیں تاہم میں خاص اس عنوان کے تحت بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور میرا کام تو صرف اسی قدر ہے کہ مرحوم عرفانی صغیر کے نوٹس کو جمع کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی روح پر بے شمار فضل کرے اور اپنے دامنِ رحمت میں اسے مقام رضا پر مبعوث فرمائے۔ اگر اسے مہلت ملتی تو جس شان سے وہ اس حصہ کو لکھتا وہ اسی کا حق تھا۔ حزین عرفانی کبیر تو یہی کہتا ہے۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
عرفانی کبیر
حضرت اُمُّ المؤمنین اُمُّ المساکین ہیں
حضرت اُمُّ المؤمنین اپنی فطرت میں مساکین،یتامیٰ اور خداتعالیٰ کی اس مخلوق کیلئے (جن کو دنیا نے کمزور اور ذلیل سمجھ کراچھوت کر رکھا ہے) ایک درد مند دل لیکر آئی ہیں اور یہ شعر آپ کے حسب حال ہے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر مطبوعہ تحریرات میں ایک فقرہ درج ہے جس کو الحکم میں شائع کر دیا گیا تھا۔ اَلْمَسَاجِدُ مَکانِی وَذِکْرُاللّٰہ حَالِیْ وَخَلقُ اللّٰہ عَیَالِیْ یعنی مساجد میرا مکان ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر میری کیفیت حالی ہے اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میرا کنبہ ہے۔ اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خود حضرت اُمُّ المؤمنین کا دائرہ عمل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے متعلق کس قدر وسیع ہے۔
آپ کے خاندان میں مسکین پروری ایک خاص رنگ میں چلی آتی ہے۔ حضرت نانا جان رضی اللہ عنہ غربا اور مساکین سے محبت رکھتے اور ان کی ہرگونہ مدد اپنا فرض سمجھتے تھے۔ میر محمد اسحق اور اُمُّ المؤمنین ان کی اس فطرت کی منہ بولتی نشانیاں ہیںاور وہ خود اپنے گھر میں بھی بعض مساکین اور یتامیٰ کی پرورش اور خبر گیری فرماتے رہتے تھے۔ یہی نقوشِ فطرت حضرت اُمُّ المؤمنین کے قلب پر موجود تھے۔ پھر خداتعالیٰ انہیں ایسے گھر میں لے آیا جہاں ان کو اُمُّ المؤمنین بننا تھا اور خلق اللہ عیالی کہنے والے عظیم الشان انسان کی ذمہ داریوں میں شریک ہونا تھا۔ اس لئے اس فطرت صحیحہ کے ماتحت آپ نے ہمیشہ غرباو مساکین اور یتامیٰ کی پرورش فرمائی اور بیوہ عورتوں کی دلجوئی اور سرپرستی کو اور اپنی خوشی کو ان کے لئے قربان کرنا اپنا فرض سمجھا۔ میں تو غور کرتا ہوں اور واقعات کی روشنی میں غور کرتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان سے ایک مناسبت چلی آتی ہے اسی طرح پر حضرت اُمُّ المؤمنین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق و سیرت میں بھی بہت بڑی مناسبت اور مطابقت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے (جبکہ آپ ایک بیکس انسان کی سی زندگی بسر کر رہے تھے) ہی غرباء و مساکین کی مدد فرماتے۔ چنانچہ اپنا کھانا تک جو ایک مختصر مقدار میں آتا ان مساکین اور یتامیٰ کے ساتھ تقسیم کر کے کھاتے جن کو آپ نے خاموشی سے مقرر کر رکھا تھا اور جس کا علم خود حضرت اور ان بچوں اور علیم و خبیر خدا کے کسی کو نہ تھا اسی طرح حضرت اُمُّ المؤمنین کا طرز عمل چلا آتا ہے۔
بیوہ عورتوں کی خبر گیری
عورتوں میں سے بعض بیوہ عورتیں تھیں جن کی پرورش کا کوئی سامان اور انتظام ان ابتدائی ایام میں قادیان جیسی بستی میں نہ ہو سکتا تھا۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دی منجملہ ان کے ایک مائی امام بی بی مغلانی تھی جو عین عالم جوانی میں بیوہ ہو گئیں اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ عمرالدین اور مہردین نام ان میں سے عمر الدین اس وقت تک زندہ ہے اور ان دونوں بھائیوں کو کئی سال تک کارخانہ الحکم میں کام کرنے کا بھی موقعہ ملا اور یہ بھی حضرت اُمُّ المؤمنین کی تحریک اور سفارش کا نتیجہ ہے۔
پھر ایک اور بیوہ فضل بی بی (المعروف فجو) ایک کشمیری عورت تھی اس کے خاندان کے لوگ حضرت کے خاندان سے ہمیشہ سے خادمانہ تعلق رکھتے چلے آئے تھے۔ اس بیوہ کی بھی دو لڑکیاں یتیم تھیں۔ ان کے علاوہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا گھر ضعیف العمر اور پیرانہ سال مستورات کی پناہ گاہ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام نہایت آرام و آسائش سے آپ کے زیر سایہ گزارتی تھیں۔ میں اگر ان کے متعلق تفصیلی تذکرہ کروں تو کتاب کا بڑا حصہ اسی میں صرف ہو جاوے۔ ان عورتوں اور بچوں کے علاوہ بہت سی عورتیں اور بچے ایسے مقرر تھے جن کا کھانامقرر تھا اور موسم کے لحاظ سے ان کو کپڑے وغیرہ دیئے جاتے تھے۔ چراغ ؔاور باغؔ دو جولاہوں کے لڑکے بھی حضرت اُمُّ المؤمنین کے سایہ پرورش پاتے تھے۔ ان میں سے چراغ ابھی زندہ ہے اور صاحبِ اولاد ہے بلکہ بوڑھا ہو گیا ہے اس نے اپنے تاء ثرات کو یوں بیان کیا ہے۔
چراغ کا بیان
میری عمر سات آٹھ سال کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا اور رسالہ ریویو انگریزی کے اجرا تک حضرت اُمُّ المؤمنین (جن کو ہم اماں جان کہا کرتے ہیں) کی خدمت میں رہا۔ ریویو کیلئے مجھے حضرت اقدس سے مولوی محمد علی صاحب نے مانگ لیا تھا۔ اس وقت میری عمر گیارہ سال کے قریب ہو گی۔ جب تک میں حضرت اماں جان کے پاس رہا مجھے انہوں نے کبھی نہ جھڑکی دی اور نہ کبھی ناراض ہوئیں حالانکہ مجھ سے بعض اوقات نقصان بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اماں جان نے حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ کو گھی لانے کے لئے بازار بھیجا وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے اور گھی کابرتن بازار سے آتے دفعہ مجھے دے دیا میں برتن لیکر آ رہا تھا کہ میرا پاؤں پھسل گیا اور میرے گرنے کے ساتھ ہی برتن بھی گر گیا تمام گھی زمین پر بہہ گیا اور اس میں مٹی مل گئی اسی طرح پر اسے اکٹھا کر کے لے آئے۔ جب گھر میں لائے تو حضرت اُمُّ المؤمنین کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی موجود تھے جب ان کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہ تو حضرت اماں جان نے ہی اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ کہا اور نہ کسی قسم کی خفگی یا ناراضگی کا اظہار کیابلکہ حافظ صاحب کو کہا کہ یہ تو بچہ تھا لیکن آپ نے بھی خیال نہ کیا کہ برتن مجھے خود اٹھانا چاہئے۔ احتیاط کرنی بہتر ہوتی ہے۔
یہ سلوک ہمارے ساتھ ہی نہ تھا بلکہ ہر خادم اور خادمہ سے ایسا ہی برتاؤ تھا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام معہ اہل و عیال دہلی تشریف لے گئے اور دوران قیام میں ایک دن قطب صاحب کی لاٹ اور بھول دکھانے کے لئے تشریف لے گئے حضور ؑ کے ہمراہ میں اور پیراںدتہ پہاڑیہ بھی تھے۔ بھول کے پاس جب پہنچے تو میاں شریف احمد صاحب کو (جو کہ ابھی بچہ ہی تھے) حضرت اماں جان نے ان کو پیراںدتہ پہاڑیہ کے سپرد کیا کہ ہم ابھی سیر کر کے آتے ہیں اور تم یہیں ٹھہرو۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود حضرت اماں جان اور صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( حضرت امیرالمومنین) صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب اور غالباً نانا جان بھی سیر کے لئے گائڈ کو لیکر چلے گئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ گائڈ نے ہم سب کو اپنے ساتھ لیا اور ایک رسی کی مدد سے تا کہ گم نہ ہو جائیں ہم بھول میں داخل ہوئے۔ صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب نے سب کو غیر موجود پا کر رونا شروع کیا اور پیراںدتہ خود ہی صاحبزادہ صاحب کو لیکر بھول میں داخل ہو گیا اور راستہ بھول گیا۔صاحبزادہ صاحب کے رونے کی آواز سن کر حضرت اُمُّ المؤمنین گھبرا گئیں۔ اس پر گائڈ کو بھیجا گیا اور اس نے آواز دے کر کہا کہ جہاں کھڑے ہو وہیں رہو پھر گائڈ جا کر لے آیا اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو تسلی ہو گئی مگر پیراںدتہ کو کچھ نہ کہا کہ تم کو جب منع کر دیا گیا تھا پھر کیوں لیکر اندر چلے آئے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کے جود و کرم کا میں کیا ذکر کروں۔ آپ ہمارے ساتھ اپنے بچوں ہی کی طرح سلوک کرتی رہیں نہ کبھی ہمارے کھانے میں امتیاز کیا نہ کبھی ہم کو نوکر یا خادم سمجھا۔ جب میری شادی ہوئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ دلہن کی ڈولی پہلے میرے ہاں لانا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت اماں جان نے میری بیوی کو کچھ روپے اور کپڑوں کا نہایت عمدہ جوڑا عطا فرمایا اور ڈولی لانے والے کہاروں کو بھی انعام دیا۔ میری بیوی اس شفقت سے بے حد خوش ہوئیں اور یہ وقتی بات نہ تھی ہمیشہ ہی ہمارے حال پر نظرشفقت رہتی ہے۔
میں جب اماں جان کے ہاں رہا کرتا تھا تو میرے ساتھ مرزا عمرالدین اور مہردین بھی رہا کرتے تھے اور ہم یتیم تھے اس لئے ہماری خاص طور پر خبر گیری رکھی جاتی تھی۔ ہمارے ختنے بھی حضرت اماں جان نے اپنے اہتمام سے کرائے تھے۔ حضرت اماں جان جب کبھی کسی سفر پر جاتیںتو میں تقریباً ہر سفر میں ساتھ ہوتا تھا۔ فیروز پور، لودھیانہ، دہلی اور لاہور جاتا رہا ہوں اور جب کبھی کسی چیز کے امرتسر سے لانے کی ضرورت ہوتی تو حضرت اماں جان مجھے فرماتی تھیںاور میں جا کر لے آتا تھا اور کبھی اس معاملہ میں مجھ پر سختی یا تشدد نہ فرمایا۔ حضرت اماں جان کے سایہ میں ہم اسی طرح زندگی گزارتے رہے ہیں جس طرح گھر کے ہی افراد ہوتے ہیں اپنے بچوں کی طرح ہم کو بھی پیسے جیب خرچ کے ملتے تھے۔ کپڑے بھی اماں جان خود بنوا کر دیتی تھیں اور بہت ہی شفقت اور مہربانی سے پیش آتی تھیں کہ وہ شفقت ہم نے اپنی ماں میں بھی نہیں دیکھی۔
اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت دے اور یہ رحمت و شفقت کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رہے۔ آمین
ایک مرتبہ پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا میری بیوی نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے جا کر کہا آپ نے اسی وقت حضرت امیرالمومنین کو کہا کہ ہمارے چراغ کو پولیس نے پکڑ لیا ہے حضرت نے توجہ فرمائی اور میں گھر آ گیا۔ یہ بیان ہے ایک ایسے شخص کا جس نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے سایہ میں مسلسل گزارا اور اس کے بعد بھی اس مادر مہربان کی شفقت سے بہرہ اندوز ہوتا رہا۔ انسان کبھی نہ کبھی اپنی اولاد کی غلطیوں اور عزیزوں کی خطاؤں پر بھی خفا ہو جاتا ہے او رکچھ نہ کچھ تلخی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ کیسا قلب سلیم ہے جو رحمت اور شفقت ہی سے خمیر کیا گیا ہے۔ غصہ اور ناراضگی کی آلائشوں سے اُسے خداتعالیٰ نے آپ دھو ڈالا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت فَامَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْھَرْ کی یہ عملی تفسیر ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ایسے بہت سے واقعات ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کو ہمیشہ اس امر کا خیال رہتا ہے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو اور وہ ہر قلب مضطر کے لئے تسلی اور دلجوئی کی سعی فرماتی ہیں۔
میاں چراغ نے اپنے بیان میں امرتسر وغیرہ سے سودے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ حضرت والد صاحب قبلہ عرفانی کبیر جن دنوں امرتسر میں قیام فرما تھے وہ کہتے ہیں کہ جب قادیان سے شیخ حامد علی صاحب یا مرزا اسمٰعیل بیگ یا چراغ یا حافظ غلام محی الدین مرحوم سودا سلف لینے کے لئے آتے تھے تو وہ علی العموم میرے مکان واقعہ ہال بازار پر قیام فرماتے اس لئے کہ وہ اسٹیشن سے قریب تھا۔ مرزا صاحب اور حافظ صاحب تو تجربہ کار لوگ تھے۔ مگر جب میں چراغ کو دیکھتا تو ہمیشہ تعجب ہوتا اور میرے دل پر یہ اثر ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ آپ کو اپنے خدام پر کس قدر حسن ظن ہے اور دنیا کے معاملات کی طرف آپ کو وہ التفات نہیں جو دنیاداروں کاحصہ ہے کہ معمولی معاملات پر بال کی کھال اتارنا اور کسی پر اعتبار نہ کرنا۔
حضرت عرفانی کبیر نے سیرت و شمائل کے حصہ دوم میں حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ کا ایک اقتباس دیا ہے جو چراغ کے بیان کی تائید کرتا ہے آپ فرماتے ہیں:
’’گاؤں کے بہت ہی گمنام اور پست ہمت اور وضیع فطرت جولاہوں کے لڑکے اندر خدمت کرتے ہیں اور بیسیوں روپیہ کے سودے لاتے ہیں اور بارہا لاہور جاتے اور ضروری اشیاء خیرید لاتے ہیں۔ کبھی گرفت نہیں، سختی نہیں، باز پرس نہیں۔ خدا جانے کیا قلب ہے اور درحقیقت خدا ہی ان قلوب مطہرہ کی حقیقت جانتا ہے۔ جس نے خاص حکمت اور ارادہ سے انہیں پیدا کیا ہے اور کیا ہی سچ فرمایا ہے۔ اَللّٰہُ اعْلَمُ حَیثُ یَجْعَلُ رِسَالَتہٗ میں نے خاص غور کی اور ڈھونڈ کی ہے، آنکھ لگائی ہے، کان لگائے ہیں اور ایسے اوقات میں ایک نکتہ چیں ریویونویس کا دل و دماغ لے کر اس نظارہ کا تماشائی بنا ہوں۔ مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میری آنکھ اور کان ہر دفعہ میرے ایمان اور عرفان کو بڑھانے والی بات ہی لائے۔ اتنے دراز عرصہ میں مَیں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہو رہی ہے اور کسی شخص سے لین دین کے متعلق باز پرس ہو رہی ہے۔‘‘
یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا ایک ہی رنگ ہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی فطرت خداتعالیٰ نے ایسی ہی بنائی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رنگ میں رنگین ہو گئیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّمْ
ایک اور شہادت
اسی سلسلہ میں حضرت حافظ قدرت اللہ خاں صاحب مہاجر شاہجہان پوری کے صاحبزادہ احمد اللہ خاں صاحب کا بیان بھی قابلِ غور ہے۔ حضرت حافظ صاحب ۱۸۹۹؁ء میں شاہجہان پور سے ہجرت کر کے قادیان آ گئے ان کے اہل وعیال سب ساتھ تھے۔ حضرت اماں جان نے ازراہِ شفقت ان کو میں ہی جگہ دے دی۔ حضرت حافظ صاحب نے ایامِ ملازمت میں اچھے دن دیکھے ہوئے تھے مگر اس وقت وہ مختلف ابتلاؤں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس خاندان کو اپنے سایۂِ عاطفت میں لے لیا۔
عزیز احمد اللہ خاں نے اپنے بیان کو اپنی والدہ کی روایات پر مبنی کیا ہے وہ کہتا ہے کہ میری والدہ کے سپرد حضرت اماں جان اور حضرت اقدس کے لئے کھانا تیار کرنا اور وقت مقررہ پر دودھ یا سردائی وغیرہ تیار کر کے دینا تھا اس وجہ سے میری والدہ علی العموم حضرت اماں جان ہی کے پاس رہا کرتی تھیں۔
میری عمر اس وقت چھ سات ماہ کی تھی اور میں حضرت صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کا ہم عمر تھا۔ میری والدہ سنایا کرتی تھیں کہ کئی مرتبہ جبکہ میں کام میں مصروف ہوتی تھی اور میں بھوک کی وجہ سے رو پڑتا تو اماں جان خود اٹھا کر گود میں لے لیتی تھیں اور محبت و پیار کر کے چپ کراتیں بلکہ کئی دفعہ آپ نے اپنی کمال شفقت اور کرم سے اپنا شیرمبارک بھی پلایا اور اسی طرح میری والدہ صاحبہ مرحومہ نے حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کو دودھ پلایا اور میرے خاندان کو یہ شرف عطا فرمایا گیا کہ مجھے اپنا رضاعی بیٹا بنا لیا۔ میں اسی طرح حضرت اماں جان کی سرپرستی میں پرورش پاتا رہا۔ میرے بہن بھائی سب آپ کے فیوض و برکات سے حصہ لے رہے تھے اور کبھی ہم میں سے کسی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا۔ جب میری عمر پانچ چھ برس کی ہو گئی تو میں کبھی اپنی ماں سے کھانے کی کوئی چیز طلب کرتا یا بگڑنے لگتا تو حضرت اماں جان خود باورچی خانہ میں تشریف لے آتیں اور میری والدہ سے فرماتیں کہ اس کو کھانا کیوں نہیں دیتیں ۔ بچہ بلک رہا ہے۔ اس پر میری والدہ جواب عرض کرتیںکہ یہاں پر میری اپنی تو کوئی چیز نہیں ہے اس لئے آپ کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی چیز بھی ہلا نہیں سکتی ہوں۔ حضرت اماں جان کی شفقت دیکھو اس پر ارشاد ہوتا کہ بچہ جو مانگتا ہے دے دیا کرو یہاں تک کہ ملائی والا دودھ جو حضرت اقدس کے لئے کڑہتا رہتا تھا اس میں سے اپنے سامنے کٹورے میں ڈلوا کر مجھے پلواتیں۔ کبھی صاحبزادہ مبارک احمد صاحب دیر تک میرے ساتھ کھیلتے رہتے تو خادمہ کو بھیج کر فرمایا کرتیں کہ مبارک۔ احمد علی خاں (اس وقت میرا نام احمد علی خاں تھا۔ بعد میں حضرت اقدس نے احمد اللہ خاں بدل دیا) کے ساتھ کھیل رہا ہو گا اس کو لے آؤ ہم دونوں جاتے تو دونوںکو برابر کھانے کی چیزیں عطا فرماتے۔ میں آخر بچہ ہی تھا اور بچہ بھی شوخ، مجھے شرارت سوجھی میںنے پیپرمنٹ کی گولی کی بجائے صاحبزداہ مبارک احمد صاحب کو کونین کی گولی دے دی وہ گولی حلق میں پھنس گئی اور میں ڈر کے مارے بھاگ کر ایک کواڑکے پیچھے چھپ گیا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی حالت دگرگوں ہو گئی۔ آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ حضرت اقدس کو علم ہوا آپ نے پانی دیا جس سے گولی تو نکل گئی۔ اب میری تلاش شروع ہوئی اور میں پکڑا ہوا آیا۔ حضور نے ایک نہایت ہی ہلکی سی چپت میری گردن پر لگائی (مجھے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ چپت ابھی لگی ہے) میں رو پڑا اور میری ٹوپی گر گئی تھی۔ حضرت اقدس نے خود ٹوپی اُٹھا کر مجھے پہنائی اور پیار کرنے لگے اور نصیحت فرماتے تھے کہ اتنے میںحضرت اماں جان بھی کمرے سے باہر آ گئے اور مجھے بجائے مارنے اور سزا دینے کے پیار کیا۔ یہ مادرانہ شفقت مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی میں یہ ایک عام معمول ہے کہ وہ غرباء اور مساکین کی دلداری انتہائی درجہ فرماتی ہیں اور ان کے ساتھ ایسے رنگ میں سلوک فرماتی ہیں کہ کوئی ان کو حقیر نہ سمجھے اور نہ ان کی اپنی خودداری کی حس کو صدمہ پہنچے۔ یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اخلاق ہے کہ خداتعالیٰ کے خاص فضل کا نمونہ ہے۔
عام طور پر غرباء و مساکین اور نوکروں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے ان کی اخلاقی قوتیں مر جاتی ہیں اور وہ بیچارے اپنے آپ کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔ جانوروں کی طرح ان سے کام لیا جاتا ہے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی کا ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ آپ نے خداتعالیٰ کی اس مخلوق کو جو آپ کی خدمت میں آئی ہو کبھی ان پر اظہار ناراضگی کیا ہو یا ان کو حقیر سمجھا ہو بلکہ ان کو اپنے ہی کنبہ اور خاندان کا ایک فرد یقین کیا اور اس سے وہی سلوک فرمایا جو اپنے عزیزوں سے کرتی ہیں۔
آپ کا گھر ہر شکستہ خاطر اور مخلوق کے دھتکارے ہوئے بیکسوں کا پناہ گاہ رہا ہے یتیم مسکین بچے بیوہ عورتیں اور ضعیف اور بے سہارا کنبے آپ کی سرپرستی میں بڑھے پھلے پھولے اور آرام کی زندگی بسر کرتے رہے آپ نے ان کی ہر طرح سرپرستی فرمائی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی خوراک و پوشاک اور شادیوں میں مادرانہ شفقت کا عملی مظاہرہ فرمایا۔
(۳)
فضل الدین عرف فجا ایک معمار قادیان میں رہتا ہے۔ ابتداً وہ مرزا نظام الدین صاحب کے گھر میں رہتا تھا اور پھر وہ حضرت کے گھر میں آ گیا۔ وہ یتیم تھا اور مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں اس کی تربیت تو کیا ہو سکتی تھی اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک بھی نہ تھا قدیم زمانے کے غلاموں کی سی حالت تھی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں آیا تو وہ گویا جنت میں آ گیا۔ اس کی ہر قسم کی تربیت ہونے لگی اور گھر کے افراد کی طرح اس کے ساتھ سلوک ہونے لگا کیونکہ یہاں نوکروں کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کبھی نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ وہ جل گیا خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اس کے علاج کی طرف توجہ تھی اور شفقت اور ہمدردی سے علاج ہو رہا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کو بھی اپنی رحیم فطرت اور یتامیٰ و مساکین نوازعادت کی وجہ سے خاص توجہ تھی۔
آخر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا یاب ہوا۔ وہ ایک مخلص احمدی ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ازراہ شفقت و ہمدردی کبھی کبھی اس کے گھر پر بھی تشریف لے جا کر اس کی عزت افزائی فرماتی ہیں اور اس طرح جماعت میں ایک عملی روح پیدا کرتی ہیں کہ ذات پات نسب اور رنگ یا مال، دولت معیار تکریم نہیں۔ سلسلہ میں داخل ہو کر سب بھائی بھائی ہیں۔ ان کا امتیازی مقام ان کا اخلاص اور تقویٰ اللہ ہے۔ میں نے فضل الدین کو دیکھا ہے کہ جب وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے احسانات اور شفقتوں کا تذکرہ کرتا ہے تو اس میں ایک کیفیت وجد پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک مثال نہیں ایسی بہت سی مثالیں اور واقعات ہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے یتامیٰ،مساکین اور بیکسوں کو سہارا اور پناہ دی اور ان کے رنج کو اپنا رنج یقین کیا اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھا۔
دوسروں کی تکلیف دیکھ کر بے قرار ہو جاتی ہیں
حضرت اُمُّ المؤمنین اپنی تکالیف کو تو نہایت حوصلہ اور عزم و صبر سے برداشت کرتی ہیں اپنی بیماری میں ہائے وائے کچھ نہیں۔ عزم اتنا بلند ہے کہ ذرا طبیعت میں سکون ہوا تو فوراً اپنے روزانہ مشاغل میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ بالکل وہی رنگ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا لیکن اگر کسی دوسرے کو تکلیف اور مصیبت میں دیکھیں تو بے قرار ہو جاتی ہیں۔
چنانچہ میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت سب سے چھوٹا تھا جس کا نام عبداللہ ناصر تھا ڈھاب میں ڈوب گیا۔ حضرت والد صاحب قبلہ اس وقت حیدرآباد میں تھے۔ اس موقعہ پر حضرت اُمُّ المؤمنین باوجود سخت سردی اور بارش کے ہمارے گھر پر موجود تھیں۔ میرا دل اس وقت بھی اس واقعہ کی یاد سے دردمند ہے میرے چھوٹے بھائی یوسف علی عرفانی نے اس واقعہ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا وہ میں بلاکم و کاست اس کی زبان میں درج کر دتیا ہوں اس نے اور واقعات بھی لکھے ہیں۔ اس واقعے کو وہ تیسرا نمبر قرار دیتا ہے۔ وھُوھٰذا-
تیسرا واقعہ سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین کے اخلاق کا وہ اہم ترین واقعہ ہے جو میںکبھی فراموش نہیں کر سکتا اور اس واقعہ سے حضرت اماں جان طال عمر ہاودام اقبالہا کے شفیق قلب کا پتہ چلتا ہے کہ آپ اس طرح اپنے خدام کی خوشیوں کو اپنی خوشیاں اور ان کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر ان میں حصہ لیتی رہیں اور لیتی ہیں۔ ۱۹۲۱ء؁ کا واقعہ ہے ان دنوں قادیان کی توسیع اور طویل ڈھاب میں مٹی ڈال ڈال کر بھرتیاں ڈالی جا رہی تھیں۔ ہمارے مکان کے سامنے جہاں سے مٹی کھودی جاتی تھی۔ بہت ہی گہرا گڑھا ہو گیا تھا جس کو برسات کے پانی نے بھر کر ایک خوفناک گہرا تالاب بنا دیا تھا! کئی دنوں سے آسمان ابر آلود تھا۔
موسم سرما کے ایام تھے اس پر ٹھنڈی ہوائیںاور بارش سب نے مل ملا کر سردی کو اور بھی شدید بنا دیا ایک روز شدید سردی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکول میں جلدی چھٹی کر دی گئی تا کہ لڑکے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ میرا چھوٹا بھائی عبداللہ ناصر سکول سے گھر آیا تو کتابیں رکھ کر رفع حاجت کے لئے بیت الخلا کو جانے لگا۔ اس وقت بیت الخلاء نیا بنا تھا اس کو بڑھئی دروازہ لگا رہا تھا۔ چنانچہ مرحوم باہر رفع حاجت کے لئے چلا گیا۔ فارغ ہو کر ڈھاب پر طہارت کی غرض سے گیا جہاں اس کا پاؤں پھسلا اور وہ پانی کی گہرائیوں میں پنہاں ہو گیا اسی اثناء میں مَیں نے کچھ شور سنا اور میں بھاگ کر ڈھاب کی طرف گیا تو دوسری طرف سے ایک دہوبی چلا رہا تھا کہ لڑکا ڈوب گیا میں نے اس وقت گھر والوں کو اطلاع دی اور میرے شورمچانے پر تمام محلے والے ڈہاب پر جمع ہو گئے۔ مگر ہمیں اب تک یہ معلوم نہ ہوا کہ ہمارا کون سا بچہ ڈوب گیا ہے۔ پہلے خیال ہوا کہ برادرم ابراہیم علی عرفانی کا بیٹا سلیمان ہے جو کہ اس وقت بچہ ہی تھا مگر تلاش کرنے پر اس کو مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کے گھر موجود پایا اب معلوم ہوا کہ یقینا عبداللہ ناصر ہے۔ پھر کیا تھا تمام قادیان میں یہ خبر آن واحد میں پہنچ گئی اور ہمارے گھر کے سامنے سینکڑوں آدمیوں کا جم غفیر جمع ہو گیا خاندانِ نبوت کے اکثر افراد موجود تھے۔ زنانہ میں خاندان نبوت کی سیّدات حضرت اماں جان کی معیت میں موجود تھیں مگر اس واقع کو جو ان قیامت کی گھڑیوں میں میرے مشاہدے میں آیا ہے۔ مجھے جب یاد آتا ہے تو مجھ پر رقت بھی طاری ہو جاتی ہے اور ندامت بھی اور وہ یہ کہ حضرت اماں جان ٹھیک اسی بے قرار اور دکھ سے بیتاب تھیں جس سے ایک شفیق ماں کے دل کی گہرائیاں متزلزل ہو جاتی ہیں آپ کبھی زنانے میں والدہ، بھاوج اور ہمشیر گان کو تسلی دیتیں اور پھر بیتابی سے ڈھاب کی طرف تشریف لاتیں تاکہ دریافت کریں کہ بچہ برآمد ہوا ہے یا نہیں۔ مگر جب مرحوم کی لاش پانی سے باہر نکالی گئی۔ ارشاد مبارک کے ماتحت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور دوسرے ڈاکٹر موجود تھے جن کو سیّدی و مولائی کی طرف سے یہ حکم تھا کہ انتہائی کوشش اور انتہائی مایوسی کے باوجود بھی کوشش جاری رکھیو۔ ڈاکٹر صاحبان اپنی کوششوں میں مصروف تھے۔ میری حالت اپنی جگہ پر ایک دیوانے کی سی تھی اور اسی دیوانگی میں گھر میں گرم پانی یا آگ لینے کے لئے آتا جاتا تھا مگر میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان باہر تشریف فرما تھیں۔ میں جس وقت وہاں دوڑتا ہوا جاؤں آپ دریافت فرماتیں کہ کیا خبر ہے مگر نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا۔ میں نے حضرت اماں جان کو ہر بار دریافت کرنے پر کوئی بھی جواب نہ دیا آخری بار مجھے یاد ہے کہ میں نے اتنا کہا کہ حضور دعا فرماویں وہ وقت وہ گھڑیاں گزر گئیں۔ عرصہ گزر گیا مگر آج وہ واقعہ میری آنکھوں کے سامنے اسی طرح پیش نظر ہے اور آج اس واقعہ کی اہمیت میری نگاہوں میں کس قدر بلند اور ارفع ہے۔ میں نے اس وقت جو کچھ دیکھا تھا آج اس کی اہمیت کو محسوس کیا اس واقعہ سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی اس شفیق اور مادرانہ محبت کا اندازہ ہوتا ہے جو ان کے قلب مبارک میں اپنے خدام کے لئے موجزن ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اصل ہمدردی اور شفقت یہی ہے جس میں کوئی دنیوی غرض مخفی نہیں بلکہ محض خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہے اور یہ ہمدردی کا وہ انتہائی رنگ ہے جو ایِتَا ء ذِی القُربٰی میں تعلیم کیا گیا ہے کہ وہ ایک فطرتی اور اضطراری رنگ ہو جائے۔ اللہ ہماری مادر مہربان کو تادیر سلامت رکھے۔ آمین
ایک پاکیزہ عادت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی زندگی کا آپ پر اس قدرگہرا اثر اور رنگ چڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور توکل تام پیدا ہو گیا اور آپ کے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس سے محبت اور اس کی کارسازی پر اعتماد اور بھروسہ نظر آتا ہے اور آپ اپنی زندگی کے ہر شغل میں ذکر الٰہی اور دعاؤں میں مصروف رہتی ہیں اور جس طرح آنحضرت ﷺکے لیل ونہار کے اعمال سے پایا جاتا ہے کہ آپ اٹھتے بیٹھتے اور زندگی کی ہر حالت میں دعاؤں پر عملاً زور دیتے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی بھی یہی حالت ہے۔ مکرمی میاں غلام محمد اختر صاحب اپنے تاء ثرات میں ذکر کرتے ہیںکہ:
’’حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایک پاکیزہ عادت یہ ہے کہ سواری پر جاتے ہوئے آپ ہمیشہ دعا فرماتی رہتی ہیں اور بسم اللہ مجریہا و مرسہٰا پڑھتی ہیں اس خادم کو جب کبھی اس قسم کا کوئی موقعہ میسر آیا تو میں نے ہمیشہ اس کا پابند پایا۔‘‘
غور کرو دنیا داروں کی عادت ہے کہ وہ جب کسی سواری میں سوار ہوں تو ان میں تعلّی اور نخوت پیدا ہوتی ہے اور اپنے آپ کو ایک بلند طبقہ کی مخلوق سمجھتے ہیں اور خدا سے بُعد اور دوری پیدا کر لیتے ہیں۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت پر کہ اس نے ہم پر کیا انعام فرمایا ہے۔ شکرگزاری کے جذبات سے بھر جاتی ہیں اور اس کے حضور میں دعاؤںمیں مصروف ہو جاتی ہیں کہ اس سفر وہ چھوٹا ہو یا بڑا میں بخیروعافیت پہنچانا محض اس کے فضل پر موقوف ہے اور وہی ہماری زندگی کا سہارا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ پر کرم
حضرت اُمُّ المؤمنین عصر سعادت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدام کا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں اور حقیقت میں وہ آپ کی روحانی اولاد ہیں۔ پہلے پہل ان میں سے اکثر کو آپ اچھی طرح جانتی ہیں اور جب کوئی ان میں سے حاضر ہوتا تو آپ اس کے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق بھی دریافت فرماتی ہیں اور یہ جزئیات کے متعلق سوالات ان کے قلوب میں حضرت ممدوحہ کے لئے ارادت اور عقیدت کے جذبات کو تیز کر دیتے ہیں وہ یقین کرتے ہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ہم کو اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتی ہیں اور ہے بھی یونہی اور اگر قادیان سے باہر کسی جگہ تشریف لے جاتی ہیں تو صحابہ کے گھروں میں ضرور ان کی خیریت معلوم کرنے کیلئے تشریف لے جاتی ہیں ۔ حضرت اُمُّ المؤمنین لاہور میں جب تشریف لے جایا کرتی ہیںاور اختر صاحب وہاں تھے تو اکثر ان کے ہاں قیام فرما ہوتیں اور ان کو ایسے حالات دیکھنے کا خوب موقع ملتا چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ایک خاص وصف جو میرے مطالعہ میں آیا وہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ قادیان سے باہر تشریف لے جاتی ہیں تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے گھر والوں سے بھی ضرور ملاقات فرماتی ہیں۔ واپسی پر خواہ چند لمحوں کیلئے ہی ہو۔ سب کے گھر خواہ عرف عام کے لحاظ سے غریب ہوں یا امیر اپنے ملاقاتیوں سے ملتی ہیںاور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے گھر والوں سے خاص طور پر محبت رکھتی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی اور صداقت پر آپ کو کس قدر یقین ہے اور اس ایمان نے آپ کے قلب میں اس جماعت مومنین کے لئے ایک خاص شفقت اور محبت پیدا کر دی ہے۔ جنہوں نے ان ابتدائی ایام میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیا۔‘‘
حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس طرز عمل پر مجھے کسی ریمارک کی ضرورت نہیں اس میں آپ کی سیرت مبارکہ کے کئی پہلو روشنی میں آتے ہیں۔ عام طور پر پیروں اور مرشدوں کے گھر کا بچہ بچہ اپنا مقام اتنا بلند سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کو اپنے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں ساتھ کھلانے کا حق نہیں۔ ان کے گھروں میں جا کر ان سے مواسات اور اخلاق کا برتاؤ کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا۔ ان کی دنیا بالکل الگ ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے بالا تر یقین کرتے ہیں۔ بر خلاف اس کے ہماری اُمُّ المؤمنین اور اس خاندان کے افراد کی حالت بالکل جدا ہے وہ اپنی اس خداداد عظمت اور عزت کے باوجود دوسروں کے ساتھ برابر کا برتاؤ کرنا اپنی روحانی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنے فرائض کا ایک اہم جزو۔
مجھے تعجب ہوتا ہے جب میں ’’معلوم کر کے سب کچھ محروم ہو گئے ہیں‘‘ کے مصداق لوگوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ گدّی بنا دی گئی ہے۔ کاش عداوت نے ان کی آنکھوں پرپردے نہ ڈال دیئے ہوتے اور ان کے دل و دماغ سے فہم و فکر کی قوتوں کو مسلوب نہ کر دیا ہوتا میںاپنے ذاتی تجربہ اور علم کی بناء پر کہتا ہوں کہ :
ان پاک نفوس میں مَیں نے کبھی رعونت اور تکبر کو نہ دیکھا۔ میں نے اپنی علالت کے ایام میں مشاہدہ کیا کہ وہ میری تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرتے تھے اور ان کے اختیار و اقتدار میں ہوتا تو میرے لئے ہر قربانی کرتے۔ صاحبزادگان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر میری عیادت کو آتے رہتے اور حضرت اُمُّ المؤمنین تو بلاناغہ میری عیادت کے لئے محترمہ مائی کاکو کو بھیجتی رہتی ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے تبرکات سے بھی معزز فرماتی ہیں۔ میں ایک واقعہ کو کبھی بھول نہیں سکتا اور کیسے بھول سکتا ہوں جو میرے لئے میرے خاندان کے لئے وہ باعث فخر و ناز ہے اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی غریب نوازی کی ایک شان۔
میں لاہور گیا ہوا تھا اور مکرمی اختر صاحب کے ہاں فروکش تھا۔ اختر صاحب اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے کرم اور فضل کرے مہمان نواز، کشادہ دل بھائی ہیں اور میرے ساتھ ان کو بچپن سے محبت ہے وہ ایک عبدِشکور ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا قیام بھی وہیں تھا۔ میں ایک دن قادیان کے لئے تیار ہوا اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
محمود میں نے تو فیصلہ کیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی اور تم آج جا رہے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں آج نہیں جاتا جب آپ تشریف لے چلیں گی تب جاؤں گا۔ فرمایاتم تو ہمارے ہو۔
میں اس شفقت اور عزت افزائی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ میری روح میں وجد کی کیفیت پیدا ہو گئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین فرماتی ہیں تم تو ہمارے ہو۔
حضرت والد صاحب قبلہ حضرت میر صاحب کا ایک واقعہ سنایا کرتے ہیںکہ ایک دفعہ میں اور حضرت میر صاحب جھگڑ پڑے۔ حضرت میر صاحب نے بڑے جوش سے فرمایا کہ تم ہمارے غلام ہو۔ والد صاحب فرماتے ہیں کہ میرا سارا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے کہا: مجھے اور میری نسل کو اس غلامی پر فخر ہے۔
حقیقت میں یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی خادم نوازی اور اس کی تربیت روحانی کا ایک رنگ تھا۔ حضرت والد صاحب سے جب میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو بے حد متاثر ہوئے خوشی کے آنسو ان کی آنکھوں سے گرنے لگے اور کہا محمود شفقت و کرم کے یہ مظاہرے ہی تو مایۂ حیات ہیں اور پھر دیر تک اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے کہ مجھے اس سے خوشی ہوئی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین تمہیں اپنا سمجھتی ہیںاور ہم انہی کے تو ہیں۔ شفقت اور کرم جو روح اطاعت و وفاداری پیدا کر سکتی ہے۔ دوسری کوئی چیز اتنی موثر نہیں ہوتی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین گرے ہوؤں کو اٹھانے اور شکستہ دلوں کی ڈھارس بندھانے میں شفیق ماں سے بڑھ کر عملی قوت رکھتی ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا ایمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر

حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کے متعلق کیا ایمان رکھتی ہیں؟
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ یہ امر بجائے خود حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک پہلو ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ قریب سے دیکھنے والی آپ کی اہلیہ بھی آپ کو اپنے دعاوی میں راست باز اور صادق یقین کرتی ہیںاور اس کا عمل بتاتا ہے کہ اس پر کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اسے یہ شک پیدا ہوا ہو کہ آپ کا دعویٰ (نَعُوذُ بِاللّٰہِ) صحیح نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو یہ موقعہ حاصل تھا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے وقت میں بھی دیکھا جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہوتی تھی اور قبل از وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی بشارتوں کو سنا اور پورے ہوتے دیکھا۔ اپنے وجود میں اپنی ذرّیت طیبہ کے وجود میں جماعت کے وجود میں دشمنوں کے وجود میں غرض ہر رنگ میں خداتعالیٰ کی تائیدات اور نصرتوں کا معائنہ کیا اور آپ کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے بے شمار آیات اور معجزات کو دیکھا۔ وہ معجرات جن کو میں آیات اور نشانات کی اصطلاح سے بیان کرتا ہوں۔ قبولیت دعا کے بھی تھے۔ شفا امراض کے بھی اور اشیاء میں برکت کے بھی متحد یانہ کلام اور فصاحت و بلاغت کے نشان بھی۔ غرض بے انتہا نشانات کو قبل از وقت ان پر اطلاع پائی اور پورا ہوتے دیکھا اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشاہدہ کر رہی ہیں۔
پھر خودحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی زندگی کو مشاہدہ کیا اور یہ تمام چیزیں آپ کے ایمان کو بڑھانے والی اور ایک لذت اور بشاشت ایمانی پیدا کرنے والی تھیں۔ اس لئے آپ پر جو دن آیا وہ اپنے ایمان میں ترقی کا آیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایمان کے متعلق ایک واقعہ میں یہاں لکھے بغیر نہیں آگے جا سکتا جو مجھے حضرت والد صاحب قبلہ عرفانی کبیر نے بارہا ایک ذوق ایمان کے ساتھ سنایا اور انہوں نے ۱۹۰۹ء؁ کے سالانہ جلسہ میںبھی اپنی تقریر میں اس کو دہرایا تھا۔ وہ فرماتے ہیں۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات ہو گئی اور آپ کا جنازہ قادیان لایا گیا اور باغ کے بڑے کمرے میں رکھا گیا۔ میں حضرت کی آخری خدمت کے لئے وہاں بطور نگران متعین تھا کیونکہ لوگ آتے اور زیارت کرتے جاتے تھے اسی اثناء میںحضرت اُمُّ المؤمنین تشریف لائیں۔ آپ کے ساتھ کچھ اور خواتین بھی تھیں۔ آپ پائینتی کی طرف کھڑی ہو گئیں اور نہایت دردناک آواز میں فرمایا:
’’تو نبیوںکا چاند تھا تیرے سبب سے میرے گھر میں فرشتے اُترتے تھے‘‘
والد صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ لفظ اچھی طرح یاد ہیں اس میں شوہرکی محبت ہی کا اظہار نہیں بلکہ اس ایمان کا مظاہرہ ہے جو آپ کے قلب میں تھا۔
ان الفاظ میں آپ کی نبوت اور آپ پر ملائکہ کے نزول پر ایمان ظاہر ہے یہ کلمات ایسے وقت کہے گئے جب کہ آپ کا جنازہ آپ کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ زندگی میں بعض اوقات انسان ایک ماحول یا دوسرے اثرات کے ماتحت ایک شخص کی عظمت کا اعتراف کر لیتا ہے۔ لیکن وفات کے بعد حقیقت کھل جاتی ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس وقت کوئی جزع فزع نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام اور شان کا اظہار فرمایا۔ جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین پر کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی حقہ میں کسی قسم کا شبہ پیدا ہوا ہو۔ اس کی تائید میں آپ کا بیان ملاحظہ ہو۔
’’حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ الاحد لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ آپ نے کب بیعت کی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے توقف کیا اور کئی سال بعد بیعت کی یہ غلط ہے بلکہ میں کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہوئی۔ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی اورشروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھا اور اپنے لئے باقاعدہ الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔‘‘ ۱؎
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنے لئے علیحدہ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ اپنے آپ کو بیعت ہی میں یقین کیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا ایمان خدا کی وحی پر
حضرت اُمُّ المؤمنین نے ہمیشہ اپنے عمل سے اس ایمان کا مظاہرہ کیا جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تھا۔ میں نے حضرت عرفانی کبیر کی سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ واقعہ درج کیا ہے۔ موقعہ کی مناسبت سے میں اسے پھر درج کرتا ہوں اس لئے کہ یہ سیرت تو ایک قسم کا تذکرہ ہے اور اس کی تحریر کا مقصد اپنی جماعت میں ایک وفادار اور خلاق سے پُر رُوحِ عمل کا پیدا کرنا ہے۔
ایک عامی حقائق سے ناواقف اور مقاصد ملّی سے بے خبر انسان اسے تکرار اور تحصیل حاصل کہے گا مگر میں اسے قرآن مجید کی اس ہدایت کے ماتحت سمجھتا ہوں کہ اس نے بار بار ایک بات کو بیان کیا۔ تا کہ لوگ سمجھیں اور عمل کریں۔
ایک واقعہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی فرمائی تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے بارہا اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں تحریر فرمایا ہے اور پھر حضرت عرفانی کبیر نے اپنی سیرت مسیح موعود حصہ سوم کے صفحہ (۳۷۴) میں بھی اس واقعہ کو درج کیا ہے۔
’’کہ آپ نے بارہا خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے۔ مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہو اور جھوٹ کا زوال و ابطال ہو۔‘‘
’’ایک روز آپ دعا مانگ رہی تھیں حضرت نے پوچھا آپ کیا دعا مانگتی ہیں؟ آپ نے یہ بات سنائی کہ یہ مانگ رہی ہوں۔ حضرت نے فرمایا۔ سَوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے؟ آپ نے فرمایا کچھ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس کا پاس ہے کہ آپ کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں خواہ میں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں۔‘‘
اس واقعہ کی تہہ میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں:
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر اور آپ کے دعویٰ پر آپ کا ایمان۔
۲۔ شوہر کی سچی محبت
۳۔ اسلام سے سچا پیار
۴۔ دعاؤں پر ایمان
۵۔ اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت و سچائی کیلئے ہر تکلیف کو برداشت کرنے کی قوت کا اپنے اندر پانا۔
پہلا اور پھر یہ دوسرا واقعہ اس سچی وفاداری کا ببانگِ دُہل اعلان کر رہا ہے۔ جو آپ کو اپنے مقدس شوہر سے تھی۔ آپ ان کی اطاعت میں اس قدر مخلص اور وفاشعار تھیں کہ ایک سَوت کو قبول کرنے اور ایک سَوت سے حسنِ سلوک کرنے میں دریغ نہ کرتی تھیں۔ اس کی مثال ذرا ڈھونڈو کہیں نظر آتی ہے؟
کیا حضرت سارہؓ اور حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ ہزارہا سال سے بندگانِ خدا کے سامنے نہیں آ رہا ؟ ہاجرہؓ کی ہجرت میں الٰہی قدرت کے کیا کیا راز تھے۔ مگر بادیٔ النظر میں تویہی نظر آ رہا ہے کہ وہ دو سَوتوں کا جھگڑا تھا۔
رام چندر جی ہندو مذہب کے مقدس ہادیوں میں سے تھے۔ان کے بن باس کا واقعہ کیا ہے؟ وہ دو سَوتوں کا جھگڑا تھا جس نے اس قدر بھیانک صورت اختیار کر لی کہ رام چندر جی مہاراج کو تو بارہ برس کے لئے بن باس جانا پڑا۔ ان کے باپ راجہ دسرتھ کی موت واقع ہو گئی اور حالات کچھ کے کچھ ہو گئے۔
رانی کیکئی جو بھرت کی ماں تھی، اس نے خاوند کی موت، سلطنت کی تباہی ان سب امور کو قبول کر لیا۔ مگر اس امر کو پسندنہ کیا کہ سَوت کالڑکا تخت نشین ہو۔
مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کا یہ سنہری اور زرین واقعہ ایسا ہے کہ جس نے مسلمان عورتوں کی شوہر پرستی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
گویا کہ اس دل کو پہلو سے نکال کر پھینک دیا۔ جس دل میں سَوت کے لئے نفرت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اس واقعہ پر حسب ذیل نوٹ لکھا ہے:
’’برادران! یہ ایمان تو میں مسلمانوں کے مَردوں میں بھی نہیں دیکھتا۔ کیا ہی مبارک ہے وہ مَرد اور مبارک ہے وہ عورت جن کا تعلق باہم ایسا سچا اور مصفا ہے اور کیا بہشت کا نمونہ وہ گھر ہے۔ جس کا ایسا مالک اور ایسے اہلِ بیت ہیں۔ میرا اعتقاد ہے کہ شوہر کے نیک و بد اور اس کے مکار و فریبی، یاراستباز اور متقی ہونے سے عورت خوب آگاہ ہوتی ہے۔ درحقیقت خلا ملا کے رفیق سے کون سی بات مخفی رہ سکتی ہے۔ میں ہمیشہ سے رسول کریم ﷺ کی نبوت میں بڑی مستحکم دلیل سمجھا اور مانا بھی کرتا ہوں۔ آپ کے ہم عمر اور محرم راز دوستوں اور ازواج مطہرات کے آپ پر صدق دل سے ایمان لانے اور اس پر آپ کی زندگی میں موت کے بعد پورے ثبات اور وفاداری سے قائم رہنے کو صحابہ کو ایسی تامہ اور کامل زیر کی بخشی گئی تھی کہ وہ اس محمد میں جو اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُم کہتا اور اس محمد ﷺ میں جو اِنِی رَسُولُ اللّٰہِ الیکُمْ جمیعًاکہتا صاف تمیز کرتے۔ وہ بے غش اخوان الصتفاء اور آپؐ کی بیبیاں جیسے اس محمدؐ سے جو بشر محض ہے۔ ایک وقت انبساط اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے اور کبھی کبھی معمولی کاروبار کے معاملات میں پس و پیش اور ردوقدح بھی کرتے ہیں اور ایک وقت ایسے اختلاط اور موانست کی باتیں کر رہی ہیں کہ کوئی حجاب حشمت اور پردہ تکلف درمیان نہیں۔ وہی دوسرے وقت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے مقابل یوں سرنگوں اور مقارب بیٹھے ہیں۔ گویا لٹھے ہیں جن پر پرندے بھی بے باکی سے گھونسلا بنا لیتے ہیں اور تقدم اور رفع صوت کو آپؐ کے حضور میں حبط اعمال کا موجب جانتے اور ایسے مطیع و منقاد ہیں کہ اپناارادہ اور اپنا علم اور اپنی ہوا امررسول کے مقابل یوں ترک کر دیتے ہیں گویا وہ بے عقل اور بے ارادہ کٹھ پتلیاں ہیں۔ ایسی مخلصانہ اطاعت اور خودی اور خودرائی کی کینچلی سے صاف نکل آنا ممکن نہیں۔ جب تک دلوں کو کسی کے سچے بَیر یا منجانب اللہ زندگی کا یقین پیدا نہ ہو جائے۔ اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس ؑ کو آپؑ کی بی بی صاحبہ صدق دل سے مسیح موعود ؑ مانتی ہیں۔ اور آپ کی تبشیرات سے خوش ہوتی اور انذرات سے ڈرتی ہیں۔ غرض اس برگزیدہ ساتھی کو برگزیدہ خدا سے سچا تعلق اور پورا اتفاق ہے۔‘‘ ۲؎
ایمان کا ایک عجیب رنگ
باوجودیکہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت وماموریت پر ایک لذیذ اور کامل ایمان تھا اس لئے کہ یہ ایمان محض رسمی رنگ نہ رکھتا تھا بلکہ وہ یقین کامل کا درجہ رکھتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے وجود کو بھی ایک برکت اور نعمت قرار دیا تھا اور آپ کے آنے کے بعد برکات اور الٰہی تائیدات اور نصرتوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لئے خدا تعالیٰ کے ان انعامات اور برکات پر آپ کو اس قدر ناز تھا اور یہ ناز ایک شکر گزاری اور تحدیث بالنعمۃ کا رنگ لئے ہوئے تھا کہ آپ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کمال محبت اور آپ کے کمال و احترام کے باوجود یہ بھی فرما دیا کرتی تھیںکہ مرے آنے پر خدا کی یہ برکت نازل ہوئی۔
اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ایک مشاہدہ اور تاء ثرات کو پیش کرتا ہوں۔ حضرت امیر المومنین نے مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب کے خطبہ نکا ح میں جو حضرت میر محمد اسحق صاحب کی صاحبزادی سے ہوا ایک نہایت لطیف اور ایمان افزا خطبہ نکاح پڑھا اور اس میں آپ نے منجملہ دیگر حقائق کے اس امر پر خصوصیت سے روشنی ڈالی کہ الہامی جوڑے نہایت بابرکت ہوتے ہیںاور اسی سلسلہ میںحضرت اُمُّ المؤمنین کا ذکر اپنے مشاہدہ اور تاثرات کے رنگ میں فرمایا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ الہامی جوڑے نہایت بابرکت ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رویاء میں دکھائی گئیں کہ ان سے آپ کی شادی ہو گی۔ بہ ظاہر کس قدراختلاف کا مقام تھا کہ بڑی عمر کے مرد کی چھوٹی عمر کی عورت سے شادی تجویز ہوئی تھی اور سمجھا جا سکتا تھا کہ اس میں کوئی برکت نہ ہو گی۔ آج کل شاردا ایکٹ کا سارا دارومدار ہی اس پر ہے کہ اس کے حامی کہتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی لڑکی کی شادی بڑی عمر کے مرد سے نہیں کرنی چاہئے۔ شاردابِل میں لڑکی کے جوان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ تاکہ جب وہ جوان ہو جائے گی تو خود بڑی عمر کے مرد سے شادی کرنے سے انکار کر سکے گی۔ لیکن دنیا کی تمام شادیاں جن میں عمر کا ناگوار تفاوت نہ ہو۔ عین جوانی میں ہوئی ہوں۔ مال و دولت، آرام و آسائش کے سارے سامان انہیں میسر ہوں۔ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت محمد ﷺ کی شادی کے مقابلہ میں رکھی جا سکے؟ کیا کسی ایک شادی میں بھی وہ محبت وہ فدائیت پائی جاتی ہے جو محمد ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو محمد ﷺ سے تھی؟ باوجود اپنے انتخاب کے عمر میں تفاوت نہ ہونے کے اور ایک دوسرے کے ساتھ پہلے سے محبت رکھنے کے جو شادیاں ہوئیں ان میں برکت نہ ہوئی۔ لیکن رسول کریم ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں ایسی برکت ہوئی ہو اور کسی کو حاصل نہ ہو سکی۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کے تفکرات دور کرنے اور اس کے مقصد میںاسے مدد دینے کے لئے صحیح جوڑا رویاء میں دکھا دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ جوڑا کیسا بابرکت ہوا۔ رسول کریم ﷺ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے محبت ان خوبیوں اور نیکیوں اور تقویٰ کی وجہ سے تھی۔ جن کے باعث خداتعالیٰ نے انہیں اپنے رسول کیلئے چنا تھا۔ نہ کہ ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے سر میں درد تھا۔ رسول کریم ﷺ نے ان سے ازراہ محبت فرمایا۔ اگر اسی سردرد اور میری زندگی میں تمہاری وفات ہو جاتی تو میں تمہارے لئے استغفار کرتا۔ اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ازراہ نازنہ کہ عدمِ محبت کی وجہ سے کہا۔ آپؐ چاہتے ہیں میں مرجاؤں۔ مرد کا کیا ہے ایک عورت مر جائے تو اس کیلئے دوسری موجود ہوتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ۔ یہ نہیں میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ابوبکر کو بلا کر وصیت کر دوں۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول کریم ﷺسے عشق اور محبت کا پتہ لگانا ہو تو اس پر غور کرو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمرانیس سال یا اکیس سال کی ہو گی۔ یہ عمر عورت کے لئے عین جوانی کی عمر ہوتی ہے۔ یورپین عورت کے لئے تو شادی کرنے کی یہ عمر سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ ایک عورت جسے یہ معلوم ہو کہ اس سے ایک ایسے شخص نے شادی کی جن کی عمر وفات کے قریب پہنچی ہوئی تھی اور پھر وہ محسوس کرے کہ اُسے اب ساری عمر بیوگی میں گزارنی ہو گی (کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لئے دوسری شادی کا موقعہ نہ تھا) اگر اس میں چٹان کی طرح مضبوط اور پہاڑ کی طرح عظیم الشان ایمان نہ ہوتا تو اسے یہ شکوہ ہوتا کہ اس سے نہ صرف بڑی عمر میں شادی کی گئی بلکہ ایسی شادی کی گئی جس کے بعد وہ دوسری شادی نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے اس کے دل میں بے حد کینہ اور بغض پیدا ہو سکتا تھا۔ ہندو عورتوں کو دیکھ لو جنہیں دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے۔ ان میں اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے اس قدر بغض پیدا ہو جاتا ہے کہ ہزاروں اپنے گھروں سے نکل کر اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسلمانوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر انہوں نے رسول کریم ﷺ کی یاد میں آپ کی محبت میں گزار دی۔ حدیث میں آیا ہے۔ آپ کوئی اچھی چیز نہ کھاتی تھیں کہ رسول کریم ﷺ کو یاد کر کے آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ نکل آئے ہوں۔ ایک دفعہ میدہ کی روٹی کھانے لگیں تو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا؟ آپ نے فرمایا۔ اس لئے آنسو نکل آئے ہیںکہ خیال آیا ہے ۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس قسم کے سامان نہ تھے۔ ہم جَو کوٹ کوٹ کر اس کی روٹی بناتے اور وہی رسول کریم ﷺ کو کھلا دیتے۔ آج اگر آپ زندہ ہوتے تو ایسی روٹی آپ کو کھلاتے۔ گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بقیہ زندگی میں اگر کوئی چیز لطف دینے والی تھی تو وہ رسول کریم ﷺ کا ذکر ہی تھا اور آپ کی اس ساری زندگی میں یہی خواہش رہی کہ کاش رسول کریم ﷺ کے آرام و آسائش کے لئے آپ مزید قربانی کا موقعہ پا سکتیں۔
’’یہ خدا کا چنا ہوا جوڑا تھا۔ جسے ایسی برکت حاصل ہوئی۔ اسی طرح اس زمانہ میں ایک جوڑا بابرکت ہوا۔ جو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے چنا۔ آپ کو خداتعالیٰ نے شادی سے پیشتر اس شادی کے بابرکت ہونے کی اطلاع الہام کے ذریعہ دی۔ اس خاندان کے بابرکت ہونے کی خبر دی اور پھر فرمایا۔ یٰادم اسکن انت وزوجک الجَنۃ- یہ شادی کی طرف ہی اشارہ تھا۔ اس میں بتایا گیا کہ جیسے اس آدم کے لئے جنت تھی اسی طرح تیرے لئے بھی جنت ہے۔ مگر اس حوا نے تو آدم کو جنت سے نکلوایا تھا۔ لیکن یہ حوا جنت کا موجب ہو گی۔
’’مجھے خوب یاد ہے۔ اُس وقت تو بُرا محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب اپنے زائد علم کے ماتحت اس سے مزا آتا ہے اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باوجودیہ کہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا۔ اگر اُس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی بات کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی شان کے شایاں نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے۔ بلکہ میرے سامنے پیر اور مرید کا تعلق ہوتا۔ حالانکہ میںکبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں۔ باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی۔ مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا۔ تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے۔ اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا۔ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا۔ لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے۔ کیونکہ وہ برکت اسی الہام کے ماتحت ہوئی کہ یٰادم اسکن انت وزوجک الجنۃ پہلا آدم تو نکاح کے بعد جنت سے نکالا گیا تھا۔ لیکن اس زمانہ کے آدم کے لئے نکاح جنت کا موجب بنایا گیا ہے۔ چنانچہ نکاح کے بعد ہی آپ کی ماموریت کا سلسلہ جاری ہوا۔ خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں کرائیںاور آپ کے ذریعہ دنیا میں نور نازل کیا اور اس طرح آپ کی جنت وسیع ہوتی گئی۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے آدم کے لئے جو جوڑا منتخب کیا گیا وہ صرف جسمانی لحاظ سے تھا۔ مگر اس آدم کے لئے جوچنا گیا یہ روحانی لحاظ سے بھی تھا اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ الارواحٌ جنودٌ مجندۃ- ارواح میں ایک دوسرے سے نسبت ہوتی ہے۔ جب ایسی ارواح مل جائیں تو ان کے جوڑے بابرکت ہوتے ہیں۔ پس مومن کو چاہئے کہ خداتعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرے اور اپنی رائے پرانحصار نہ رکھے‘‘۔
جس طرح پر حضرت اُمُّ المؤمنین اللہ تعالیٰ کے انعامات اور برکات پر شکر گزاری کے رنگ میں ناز فرماتی ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُمُّ المؤمنین کو شعائر اللہ میں سے یقین کرتے اور ایک کمالِ محبت اور احترام کا جذبہ رکھتے تھے کہ آپ وعدے کے فرزندوں کی ماں ہیں۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک روایت
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تاء ثرات اور روایات پہلی جلد میں بھی آ چکے ہیں مگر کاغذات کے معائنہ سے معلوم ہوا کہ ایک نہایت عجیب روایت درج نہیں ہوئی۔ اس روایت سے حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس ایمان کا پتہ چلتا ہے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بڑھتا چلا گیا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت اُمُّ المؤمنین نے بیان فرمایا کہ جب میں پہلی مرتبہ نئی نئی آئی تھی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات کا مجھ پر خاص اثر ہوا اور وہ یہ ہے کہ خادمہ دودھ اُبال رہی تھی اور جب دودھ میں جوش آ رہا تھا تو ڈھکن اتار دیا گیا تھا۔ حضرت اقدس کی اتفاقاً نظر پڑی اور فرمایا ہیںدودھ ننگا ہے یہ ضرور پھٹ جائے گا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین فرماتی ہیںکہ میرے دل میں خیال گزرا کہ دودھ کے جوش کے وقت ڈھکنا اُتار ہی دیتے ہیں۔ یہ دودھ پھٹے گا کیونکر مَردوں کو کچھ خبر نہیں ہوتی اس لئے ایسا کہہ ہی دیتے ہیں۔ میرے دل میں یہ خیال گزر ہی رہا تھاکہ معاً وہ دودھ پھٹ کر دہی بن چکا تھا۔ حضرت اقدس کے ارشاد مبارک اور میرے دل میں اس خیال کے گزرنے میںکوئی زیادہ وقت نہیں لگا۔ گویا ارشاد مبارک ہوتے ہی دودھ پر پھٹ جانے کاعمل شروع ہو گیا۔ اس واقعہ سے میرے دل پر حضرت اقدس کا بہت رُعب طاری ہوا اور میں نے یقین کر لیا کہ یہ تو بہت بڑے بزرگ ہیں۔
بظاہر بات معمولی نظر آتی ہے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی طہارت باطنی کا ایک بیّن ثبوت ہے وہ اس دودھ کے پھٹنے کو صرف حضرت اقدس کے ارشاد کا پختہ یقین کرتی ہیںاور اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے قلب صافی پر اس واقعہ سے عظیم الشان نکتہ معرفت نازل فرمایا۔ ولِلّٰہِ الحَمْد-

حوالہ جات
۱؎ سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر۲۰
۲؎ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب



















سیرت کے متعلق کچھ اور تاثرات










حضرت نواب سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا سیرت اُمُّ المؤمنین پر جامع بیان
میں حضرت نواب سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے بیان کا کچھ حصہ تربیت اولاد کے ضمن میں درج کر چکا ہوں لیکن آپ نے جو ایک مختصر اور جامع بیان از راہ کرم باوجود اپنی مصروفیتوں کے لکھ کر بھیجا ہے۔ میں اسے تبرکًا اس شائع شدہ حصہ کو چھوڑ کر درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ محمود احمد عرفانی
نوبہار
(شملہ ایسٹ) برادرم مکرم محمود احمد صاحب سلمک اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط قادیان میں مجھے ملا اور جناب شیخ صاحب مکرم کا بھی۔ مگر ان دنوں مجھے سردرد کے کئی کئی روز کے دورے ہو رہے تھے میں آپ کے خطوں کا جواب نہ لکھ سکی اور دن گزر گئے پھر سفر کی تیاری میں وقت گزرا اور سفر میں ہی پندرہ دن لگ گئے کیونکہ ڈلہوزی کا راستہ ٹھیک ہونے کے انتظار میں پٹھانکوٹ پڑے رہے آخر تنگ آ کر شملہ کا رُخ کیا۔ یہاں آ کر باوجود روزارادہ کرنے کے لکھ نہ سکی کیونکہ یہاں علیل رہی۔
حضرت والدہ ماجدہ صاحبہ کے متعلق تو بہت کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور یہ موضوع ایسا ہے جس سے سیری نہیں ہو سکتی مگر طبیعت کی خرابی سر کی کمزوری خاص کر زیادہ لکھنے مانع رہی اور ہے۔ اس مبارک وجود کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مصرع تحریر فرما دیا وہی ایسا جامع ہے کہ اس سے بڑھ کر تعریف نہیں ہو سکتی۔ یعنی
’’چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے‘‘
اللہ تعالیٰ کا کسی کو چن لینا کیا چیز ہے اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس محسن و رحمن خدا نے کیا کیا جوہر اس روح میں رکھ دیئے ہونگے جس کو اس نے اپنے مسیحا کیلئے تخلیق کیا۔ میں ان کی تعریف اس لئے نہیں کروں گی کہ وہ میری والدہ ہیں بلکہ اس نظر سے کہ وہ فی زمانہ ’’مومنوں کی ماں‘‘ ہیں اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس امر کی گواہی ہمیشہ دوں گی کہ وہ اس منصب کے قابل ہیں۔ خدا نے میری والدہ پر فضل و احسان فرمایا کہ ان کو اپنے مسیحا کے لئے چن لیا مگر انہوں نے بھی خدا کی ہی نصرت کے ساتھ دکھا دیا وہ اس کی اہل ہیں اور اس انعام اور احسانِ خداوندی کی بے قدری و ناشکری ان سے کبھی ظہور میں نہیں آئی اور خدا کا شکر ہے کہ یہ بارانِ رحمت بے جگہ نہیں برسا بلکہ بار آور زمین اس سے فیضیاب ہوئی۔ زیادہ کیا لکھوں مجمل طور سے آپ کی چند خصوصیات اور خوبیوں کا ذکر لکھ دیتی ہوں۔
۲۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بیشک ہمارے دلوں پر آپ کی شفقت کا اثر والدہ صاحبہ سے زیادہ تھا مگر آپ کے بعد آپ کو دنیا کی بہترین شفیق ماں پایا اور آج تک وہ شفقت و محبت روز افزوں ثابت ہو رہی ہے ہمیشہ آپ کی کوشش رہی ہے۔ خصوصًا لڑکیوں کے لئے کہ ان کے مہربان باپ کی کمی کو پورا فرماتی رہیں یہ تڑپ اس لئے بھی رہی کہ دراصل آپ کو حضرت اقدس کی ہم پر مہر و محبت و شفقت کا خوب اندازہ تھا اور آپ خود باوجود سب سے اچھی ماں ہونے کے آج تک ہمارے لئے ایک کمی ہی محسوس کئے جا رہی ہیں اور مہربانیوں سے آپ کا دل بھر نہیں چکتا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین
۳۔ مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں پھر بھی آپ کا ایک رُعب خاص تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس کے حضرت والدہ صاحبہ کے بے حد قدر و محبت کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بھی بڑھا کرتی تھی۔
آپ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطر داری اور ناز برداری آپ کی حضرت اقدس ؑکو ملحوظ رہتی کبھی حضور کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں۔ بے تکلفی میں بھی آپ پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپ کے ہر انداز و کلام سے ترشح تھی جو مجھے آج تک خوب یاد ہے۔
آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے تو ان دنوں بہت غمگین رہتیں اور کئی بار میں نے آپ کو اور حضرت مسیح موعود کو اس امر کے متعلق باتیں کرتے سنا حضور اقدس بشاش رُو تھے مگر والدہ صاحبہ کی اس امر کے متعلق اداسی کا اثر لیتے اور خود بھی ذرا خاموش ہو جاتے۔
ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدس سے کہا ( ایک دن تنہائی میں الگ نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنے سے پیشتر) کہ ’’میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے پہلے اٹھا لے‘‘۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا ’’اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ کر جائوں‘‘۔
ان الفاظ پر غور کریں اور اس محبت کا اندازہ کریں جو حضرت مسیح موعود آپ سے فرماتے تھے۔ حضرت مسیح موعود کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آپ میں واقع ہوئی پھر میں نے آپ کو پُرسکون، مطمئن اور بالکل خاموش نہیں دیکھا۔ ایک بے قراری اور گھبراہٹ سی آپ کے مزاج میں باوجود انتہائی صبر اور ہم لوگوں کی دلداری کے خیال کے پیداہوگئی جو آج تک نہیں گئی یہ معلوم ہوتا ہے اس دن سے کہ آپ دنیا میں ہیں بھی مگر نہیں بھی اور ایک بے چینی سی ہر وقت لاحق ہے۔ جیسے کسی کا کچھ کھو گیا ہو اس سے زیادہ میں اس کیفیت کی تفصیل نہیں بیان کر سکتی۔
آپ کی خاص صفات یہ ہیں کہ آپ بے انتہا صابرہ ہیں اور پھر شاکرہ ہر وقت کلماتِ شکر الٰہی آپ کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔ دعائوں کی آپ بہت ہی عادی ہیں گو فرماتی ہیں کہ اب اس زور کی دعا کمزوری کے سبب سے مجھ سے نہیں ہو سکتی جس میں میری طاقت بہت خرچ ہوتی تھی۔ نماز آپ بے حد خشوع و خضوع سے ادا فرماتی ہیں اس کمزوری کے عالم میں آپ کے سجدوں کی طوالت دیکھ کر بعض وقت اپنی حالت پر سخت افسوس اور شرم معلوم ہوتی ہے۔
غریبوں کے لئے خاص طور پر دل سے تڑپ رکھتی ہیں ہر وقت کسی کو مدد پہنچانے کا آپ کو خیال رہتا ہے۔ خیرات میں آپ کا ہاتھ کسی کی حالت سنتے ہی سب سے اوّل بڑھتا ہے۔ اپنے نوکروں پر خاص شفقت فرماتی ہیں اگر کسی مزاج دار خادمہ کے تنگ کر دینے پر کبھی کچھ سخت کہتی بھی ہیں تو میں نے دیکھا کہ جب تک اس کو پھر خوش نہ کر لیں زبان سے بھی اور کچھ دے دلا کر بھی آپ کو خود آرام نہیں ملتا۔ ان کے آرام کا بہت خیال رکھتی ہیں ہم لوگ بھی اگر دو تین بار اوپر تلے کوئی کام کہہ دیں تو فرماتی ہیں کہ بس اب وہ تھک گئی ہے اس بچاری میں اتنی طاقت کہاں ہے وغیرہ۔
اس عمر میں اس وقت تک بھی کسی پر اپنا بار نہیں ڈالتیں۔ خادموں کو بھی تکلیف نہیں دیتیں۔ اپنے ہاتھ سے ہی زیادہ ترکام کرتی ہیں۔ بار بار اس حال میں کہ ضعف سے ٹانگیںکانپ رہی ہوتی ہیں خود کرسی پر چڑھ کر حجرہ (کمرہ کا نام ہے) میں جا کر جو چیز نکالنی ہو لاتی ہیں۔ اگر بہت روکا جائے تو دوسرے کو پھر بہ مشکل تکلیف دیتی ہیں۔ (خادمہ) چھوٹی لڑکیوں کو بیٹی کہہ کرپکارنا ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خود ہی خیال رکھنا دوسری عورتوں پر نہ چھوڑنا آپ کا طریق ہے بلکہ اتنا پیار آپ ان سے فرماتی ہیں کہ وہ اکثر بہت سر چڑھ جاتی ہیں۔ آپ کا معیار عصمت عام نقطۂ نظر سے بہت ہی بلند ہے۔ یہ ایک خصوصیت آپ کے اخلاق کی مدنظر رکھنے کے قابل ہے۔ عورت کی عزت کے بے حد نازک ہونے کے متعلق اکثر نصیحت فرماتی ہیں۔ عورتوں کا بھی آپس میں زیادہ بے تکلف ہونا یا فضول مذاق وغیرہ آپ کو بے حد گراں گزرتا اور ناپسند ہے جو بیوی اپنے شوہر سے زیادہ محبت کرے اس کے ذکر سے خوش ہوتیں اور پسندیدگی کا اظہار فرماتی ہیں۔
شکوہ اور چغلی سے آپ کو از حد نفرت اور چڑ ہے نہ سننا پسند کرتی ہیں نہ خود کبھی کسی کا شکوہ کرتی ہیں۔ اس معاملہ میں آپ کا وقار بہت بلند درجہ ہے کہ کبھی شکوہ کرنا یا کسی کی جانب سے تکلیف پہنچے تو اس کا اظہار کرنا پسند نہیں فرماتیں نہ یہ پسند فرماتی ہیں کہ کوئی دوسرا اس کو محسوس کر کے آپ کے سامنے اس کے جاننے تک کا اظہار کرے۔
مرضی کے خلاف بات کو اکثر سنی ان سنی کر دیتی ہیں اور یہ نہیں پسند فرماتیں کہ وہ ذکر زبانوں پر آئے یا کسی کی جانب سے گستاخانہ یا خلاف بات کا آپ کے علم میں آ جانا ہم لوگوں تک پر ظاہر ہو۔
کُل احمدیہ جماعت سے آپ کی سچی مادرانہ محبت بھی ایک خصوصیت سے قابل ذکر چیز ہے۔ آپ کو خدا نے یونہی ماں نہیں بنایا بلکہ میں دیکھتی ہوں کہ ایک ماں کی تڑپ بھی ہر فرد کے لئے آپ کے دل میں بے حد رکھ دی ہے۔ عام جماعت کے لئے خاص افراد کے لئے خصوصًا مبلغین کے لئے بہت التزام سے دعائیں فرماتی ہیں اور تڑپ سے فرماتی ہیں بعض دفعہ کسی کا ڈاک میں خط آتا ہے تو ایسی تڑپ سے بآواز بلند اس کے لئے دعا فرماتی ہیں کہ پاس بیٹھنے والوں کے دل میں بھی حرکت پیدا ہو جائے۔ میں نے بھی اکثر صرف حضرت والدہ صاحبہ کے نام خط پڑھ کر اور آپ کی تڑپ دیکھ کر بہت لوگوں کے لئے دعا کی ہے۔ کیونکہ اکثر خط آپ کو سنانے پڑتے ہیں۔ صرف لکھنے والوں پر موقوف نہیں بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ جنہوں نے کبھی خاص تعلق حضرت والدہ صاحبہ سے ظاہر نہیں رکھا ان کے لئے بیٹھے بیٹھائے خیال آ گیا ہے اور آپ پھڑک پھڑک کر دعا فرما رہی ہیں۔ (اکثر پرائیویٹ مجالس میں) بہ آواز بلند خدا کو پکارنے اور بہ آواز دعا کرنے کی آپ کی عادت ہے۔ استغفار بہت کثرت سے فرماتی ہیں۔
مجھے جو شادی کے ایام میں آپ نے چند نصائح کی تھیں وہ بھی تحریر کر دینا میرے خیال میں مفید ہوگا۔
فرمایا اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہر گز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے۔
اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا صاف کہہ دینا۔ کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے۔
کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا تم پر یا کسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں، جببھی اس وقت نہ بولنا۔ غصہ تھم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھا دینا غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی اگر غصہ میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو۔
ان کے عزیزوں کو عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اورعمل سے بھی۔ بدی کا بدلہ نہ کرنا۔ دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا ہی کرے گا۔
فرمایا میں نے ہمیشہ تمہارے سوتیلے بھائیوں کے لئے دعائیں کی ہیں اور ان کا بھلا ہی خدا سے چاہا ہے۔ کبھی اپنے دل میں ان کو غیر نہیں جانا خواہ حالات کے سبب وہ الگ رہے۔ میرا دل ہمیشہ ان کا خیر خواہ رہا ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ آپ کی شادی سترہویں سال میں ہوئی تھی۔ فرماتی ہیں کہ وہابی ہونے کے سبب سے صرف والد (حضرت نانا جان) موافق تھے اور سب کنبہ بے حد خلاف تھا۔ ہماری دادی تو بہت روتی تھیں کہ کہاں لڑکی کو (نعوذ باللّٰہ) جھونک رہے ہو فرماتی ہیں کہ ایک دن خود میں نے سنا کہ ’’ابا‘‘ ’’اماں‘‘ (نانی اماں) کی خلاف باتوں اور رونے دھونے کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ ’’ایسا داماد تو ساری دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈو گی تو بھی نہ ملے گا‘‘۔
ذکر فرمایا کہ ’’جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں سب کنبہ سخت مخالف تھا (اس وقت تک شادی کی ہی وجہ سے غالبًا) دو چار خادم مرد تھے اور پیچھے سے ان بچاروں کی بھی گھر والوں نے روٹی بند کر رکھی تھی گھر میں عورت کوئی نہ تھی صرف میرے ساتھ والی فاطمہ بیگم تھیں۔ وہ کسی کی زبان نہ سمجھیں نہ ان کی کوئی سمجھے شام کا وقت بلکہ رات تھی جب پہنچے۔ تنہائی کا عالم بیگانہ وطن میرے دل کی عجیب حالت تھی اور روتے روتے میرا بُرا حال ہو گیا تھا۔ نہ کوئی اپنا تسلی دینے والا نہ منہ دھلانے والا نہ کھلانے والا نہ پلانے والا۔ کنبہ نہ ناتا اکیلی حیران پریشانی میں آن کر اُتری۔ کمرے میں ایک کُھری چار پائی پڑی تھی۔ (جس کی پاینتی ایک میز پڑا تھا) اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہوگئی یہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہاں کا بستر عروسی تھا اور سسرال کے گھر میں پہلی رات تھی! مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اے کُھری چارپائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن دیکھ تو سہی دو جہاں کی نعمتیں ہوں گی اور تو ہوگی بلکہ تاج شاہی تیرے غلاموں کے قدموں سے لگے ہوں گے۔ ایک دن انشاء اللہ۔
اب خدا حافظ میں مضمون کی صورت میں تو کچھ لکھ نہ سکی مجھے افسوس ہے کہ یہ جلدی کا لکھا ہوا خط اس پر میرا بدخط جیسا بھی ہے حاضر ہے جو حصہ آپ چاہیں اپنی اور جناب شیخ صاحب کی مرضی سے ترتیب دے لیں۔ اس وقت جو یاد آتا گیا لکھ دیا ہے۔ قلم برداشتہ
جناب شیخ صاحب مکرم کو میرا سلام علیک پہنچا دیں اور دعا کیلئے کہیں۔
نوٹ از عرفانی کبیر: میں نے سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے مکتوب گرامی کو پورا درج کر دیا ہے بجز اس حصہ کے جو مرحوم محمود احمد عرفانی نے جلد اوّل میں شائع کر دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ مکتوب ایک پیشگوئی کا حامل ثابت ہوا۔ حضرت سیّدہ نے لکھا کہ شیخ صاحب کی مرضی سے ترتیب دے لیں۔ عزیز محمود مرحوم نے کچھ حصہ شائع کیا اور کچھ میرے حصہ میں آ گیا۔
ان تاء ثرات کو غور سے پڑھئیے حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ طاہرہ کی گہرائیوں پر روشنی پڑتی ہے اور آپ کے مقام و شان اور طہارت نفس کا ایک سرسری انداز ہوتا ہے۔
مثلاً طہارت نفس اور عصمت و عفّت کا وہ بلند معیار جو حضرت امّ المومنین نے اپنے عمل سے پیش کیا ہے وہ کتنا ارفع و اکمل ہے کہ عورتوں کا آپس میں زیادہ بے تکلف ہونا یا فضول مذاق آپ کو بے حد گراں گزرتا ہے۔ یہ مقام صرف اس قلب مطہر کا ہو سکتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کر دیا ہو جس کے دل و دماغ پر ہر وقت طہارت نفس کی لہریں پیدا ہوتی ہوں۔ عورتوں میں باہم بے تکلفی اور فضول مذاق اور کھلی باتیں اس طرح عام بے ضرر سمجھی جاتی ہیں۔ جس طرح وہ پرانے رسم و رواج کے لحاظ سے ایک دوسرے کے سامنے ضرورتًابرہنہ بھی ہو جاتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ مگر اس عفت و عصمت کے پیکر کو دیکھو کہ وہ اس قسم کی بے تکلفی اور فضول مذاق سے بھی کراہت کرتی ہے۔ مستورات میں بعض امراض اخلاقی خصوصیت سے عام طور پر پائے جاتے ہیں مگر حضرت سیّدۃ النساء ان سب سے متنفر ہے جیسے غیبت یا شکوہ سَوت کے متعلق آپ کے جذبات اور عمل کا ذکر پہلی جلد میں آچکا ہے اور جو حسنِ سلوک دائماً آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی بیوی سے فرماتی رہیں وہ ظاہر ہے اور ان کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھا۔ چنانچہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو فرمایا:
’’ہمیشہ تمہارے سوتیلے بھائیوں کیلئے دعائیں کی ہیں اور ان کا بھلا ہی خدا سے چاہا ہے کبھی اپنے دل میں ان کو غیر نہیں جانا خواہ حالات کے سبب سے وہ الگ رہے میرا دل ہمیشہ خیرخواہ رہا‘‘۔
اس دل کی تلاش کرو۔ سوتیلی اولاد سے کیا کیا سلوک دنیا کی تاریخ میں نظر آتے ہیں مگر یہ دل ہر قسم کی کدورتوں اور کینہ اور نفرت کے جذبات سے پاک کر دیا گیا اور اس پاک دل کی دعائوں نے اپنی قبولیت کا کیا نقشہ دکھایا کہ وہ گھر جو حضرت مسیح موعود ؑ کیلئے عداوت و نفرت کا مرکز بنا ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس مادرِ مطہر کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور دشمنوں کو دوستوں نہیں غلامی پر ناز کرنے والوں کی صورت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے حق میں دعائیں سنی گئیں اور بالآخر سارا خاندان ایک سلک میں منسلک ہو گیا۔
غرض سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے اس جامع بیان سے خواتین کی اصلاح اور بھلائی کا ایک بہترین ہدایت نامہ اور اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ مائیں اپنی اولاد کی تربیت کو ان اصولوں پر کریں۔ بیویاں اپنے شوہروں کے لئے اسی طریقہ عمل کو اختیار کریں جس کی ہدایت حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنی پیاری بیٹی سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کو کی ہے۔
اپنی مجلسوں اور باہمی ملاقاتوں میں اسی راہ پر چلو جو حضرت اُمُّ المؤمنین کا ہے۔ اگر اسی رنگ میں رنگین ہمارے گھر ہو جائیں تو یقینا وہ جنت کا نمونہ ہوں گے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی عملی زندگی فی الحقیقت ایک نعمت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ اذکر نعمتی رئیت خدیجتی-
میری نعمت کو یاد کرو تم نے میری خدیجہ کو پایا۔ یہ وجود سراسر نعمت اور برکت ہے مولیٰ کریم اس نعمت اور اس کے برکات کو تادیر سلامت رکھ اور توفیق دے کہ ہم اس کی قدر کریں۔ اللہم آمین
بعض بچوں کے تاء ثرات
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ کے متعلق میں نے صحابہ اور صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان خادمات کے مشاہدات اور تاثرات کو بیان کیا ہے جن کو حضرت سیّدہ کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ اب میں بعض بچوں کے تاثرات کو بیان کرتا ہوں جن کو حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں بغرض زیارت حاضر ہونے کا کوئی نہ کوئی موقعہ ملا۔ یا کسی اور وقت پر انہیں حضرت سیّدہ کی سیرۃ کے بعض پہلوئوں کے مشاہدہ کی سعادت نصیب ہوئی۔
ارشد قریشی کے تاء ثرات
مکرمی قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کے نسبتی بھائی ارشد قریشی بچپن ہی میں قادیان آ گئے تھے اور ان کی تعلیم یہاں ہی ہوئی۔ بعد تعلیم وہ سلسلہ کے مختلف صیغوں میں کام کرتے رہے اور اس وقت دعوت و تبلیغ میں کارکن ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ:
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت کا پہلا سالانہ جلسہ تھا (۱۹۰۹ء؁) کہ مجھے قادیان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ برادر محترم قاضی اکمل صاحب ان دنوں اخبار بدر میں کام کرتے تھے اور ایام جلسہ میں دفتر اخبار بدر کی کوٹھری میں ہی فروکش ہوا۔ انہیں ایام کی ایک شام کو بھائی صاحب مکرم نے مجھے ایک نوجوان (حضرت میر محمد اسحق صاحب) رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا کہ میاں اسے حضرت اماں جان (اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی) کی خدمت میں لے جائو۔ یہ صاحب مجھے مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دارالمسیح میں لے گئے اور ایک صحن سے گزر کر ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئے جس میں فرش بچھا ہوا تھا اور ایک کونے میں چھوٹی میز پر شمع (موم بتی) روشن تھی۔
یہاںپر ایک نہایت باوقار پُر رعب و جلال معزز خاتون ایستادہ تھیں۔ مجھے اشارہ کیا کہ یہ حضرت اماں جان ہیں۔ میں جھک کر کے آداب بجا لایا اور سلام کیا۔ آپ نے میرے سرپر دستِ شفقت پھیرا اور خود ساتھ کے کمرے سے ایک کرسی اٹھا لائیں اور اس چھوٹے میز کے پاس مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے تعمیل ارشاد کی تو وہ خود جا کر ایک پیالی میں دودھ یا چائے لائیں اور ایک پرچ میں کچھ بسکٹ میرے سامنے رکھ کر مجھے کھانے کو کہا جو میں شرماتے شرماتے کھا پی گیا۔ اس کے بعد میں چند منٹ بیٹھا اور حضور کی خدمت میں اپنی ہمشیرہ محترمہ کی طرف سے سلام عرض کیا اور کچھ نذرانہ پیش کیا اور درخواست دعا کر کے رخصت ہوا۔ یہ تیس چونتیس سال کے قریب کا واقعہ مجھے واضح خواب کی طرح ابھی تک یاد ہے اور گو بظاہر معمولی لیکن میری قلبی کیفیت اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے۔کیونکہ اس کاجو گہرا اثر میرے دل و دماغ پر اس وقت ہوا بیان سے باہر ہے۔ باوجود ایک دیہاتی اور اجنبی ہونے کے میں یہی سمجھا کہ میری نہایت عزیز ترین بزرگ ماں اور حقیقی رشتہ دار ہیں اور اس خیال و اثر نے مجھے اس کے بعد ہوش سنبھالنے پر قادیان کی تعلیم و رہائش کا شوق دلایا۔ اور اپنی والدہ مرحومہ کی وفات پر قادیان چلا آیا اور یہیں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اب اس گھر کو میں اپنے گھرکی بجائے سمجھتا رہا اور بے تکلف اندر آتا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ چند سال بعد حضرت نانی اماں مرحومہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح بے دھڑک اندر آنے جانے سے روک دیا۔
ان دنوں کا بھی ایک لطیفہ ہے کہ حضرت اماں جان مدظلہا العالیٰ کے ہاں ایک پوتا (صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ) پیدا ہوا تو میں چونکہ اندر آتا جاتا تھا ایک صبح کو گیا تو انہوں نے یہ بچہ اُٹھایا ہوا تھا۔ مجھے فرمایا کہ لڑکے کو ذرا باہر لے جائو باہر سے حضور کی مراد غالباً دوسرا صحن یا کچھ ایسا ہی تھا لیکن میں باہر مکان سے باہر سمجھا اور ننھے معصوم بچے کو اُٹھائے ہوئے خوش خوش سیدھا باہر باغ میں جا پہنچا اور ٹھنڈی ہوا کھلا کر جب واپس آنے کو لوٹا تو ایک بزرگ (جناب پیر افتخار احمد صاحب) کو دیکھا کہ ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر انہیں اطمینان سا معلوم ہوا اور کہاکہ تم بچے کو کہاں لئے پھرتے ہو جلدی لائو۔ سب جگہ تلاش ہو رہی ہے۔ یہ سن کر میں جلدی سے ان کے ساتھ ہو لیا اور واپس لے آیا۔ ہوا یہ کہ جب میں بچے کو باہر باغ کی طرف لے آیا تو تھوڑی دیر بعد دیکھا بھالا تو میری تلاش شروع ہوئی۔ کئی عورتیں مرد جو بھی ملا اِدھر اُدھر قصبہ کے چاروں طرف دوڑائے گئے کہ ڈھونڈ لائیں آخر پیر صاحب مکرم میری تلاش میں کامیاب ہو گئے اور میں جب ہراساں و پریشان اندر گیا اور دل میں ڈر رہا تھا کہ دیکھئے کیا گت بنتی ہے تو حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کو دیکھتے ہی اطمینان و خوشی ہوئی۔ بجائے اظہارِ ناراضگی یا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ بے تحاشا کھل کھلا کر ہنس پڑیں کہ اسے اتنی دور کہاں لے گئے تھے۔
یہ دو واقعات مجھے بچپن سے اچھی طرح یاد ہیں جو بجائے خود مادرِ مہربان کی شفقت و چشم پوشی پر دال ہیں۔
اوّل صورت میں ایک معمولی چھوٹے سے دیہاتی لڑکے پر اس قدر ذاتی توجہ مبذول فرمانا کہ اس کی خاطر تواضع کے لئے خود کرسی لا کر اس پر بٹھانا اور خود ناشتہ پیش کرنا
اور پھر ایسی صورت میں کہ عام مائیں جب کہ اتنا ننھا سا بچہ بے احتیاطی سے خطرہ میں ڈال دیا جائے۔ بے حد ناراض ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ہیں مگر آپ نے اس واقعہ کو معمولی ہنسی کا واقعہ قرار دے دیا۔ یہ بجائے ناراضگی و لعن طعن کے اطمینان سے ایک غیر معمولی عادت اور وسیع حوصلہ کی دلیل ہے۔
حضور از راہ شفقت خاص اب بھی غلام زادے پر اسی طرح مہربان اور محبت و پیار سے انہیں اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ بعد از نماز جمعہ جب کہ فراغت ہوتی ہے۔ ننھے بچے باقاعدہ حضور کو سلام و آداب کہنے اور دعا کے لئے عرض کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔
نوٹ: عزیز ارشد نے خود ہی ان واقعات کو آپ کی سیرۃ مطہرہ کا ایک روشن پہلو قرار دیا ہے۔ میں اس پر اس قدر اضافہ کرتا ہوں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ میں اَکرِمُوْا اولاد کم کے پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے بچوں کو عزت کی نظر سے دیکھا کرو اس طریق سے خود ان میں بھی تکریم ذاتی (سلف رسپیکٹ) کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ دوسروں کا ادب کرنا بھی سیکھتے ہیں اور اس میں اکرام ضیف کی شان بھی نمایاں ہے۔ ارشد گو بچہ ہی تھا مگر بہرحال حضرت سیّدہ کے حضور تو وہ ایک مہمان کی حیثیت سے گیا تھا۔ وہ اپنے لئے یہی بڑی سعادت اور عزت یقین کرتا تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کو دیکھا مگر حضرت سیّدہ نے اس کے ساتھ وہ سلوک فرمایا جو آپ کے شایان شان تھا اور اپنے طرز عمل کو جو عام طور پر ہر قسم کے آنے والے مہمانوں کے ساتھ آپ کا ہے محض ایک دیہاتی بچہ سمجھ کر تبدیل نہیں فرمایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل آپ کا روز مرہ کا عادتی عمل تھا جس میں کسی قسم کا تکلف ریا اور نمائش نہ تھی اس واقعہ سے ایک اور امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس گھر کی عام تربیت کیسی تھی؟ بڑے گھروں کے بچوں میں ایک قسم کی کبریائی پائی جایا کرتی ہے مگر یہاں حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ کو قاضی اکمل نے بدر کے حجرہ میں بیٹھے بیٹھے حکم دیا کہ میاں اسے حضرت اُمُّ المؤمنین کے پاس لے جائو اور وہ ایک فرمانبردار خادم کی طرح ساتھ ہو جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر لوگ اپنے رقعہ یا ضروری پیامات حضرت صاحبزادگان بلند اقبال کے ذریعہ بھیجتے تھے اور مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کبھی کسی نے انکار کیا ہو۔ غرض یہ تربیت کا ایک بہترین مظاہرہ تھا۔ پھر ارشد صاحب کا صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ایک غلط مفہوم لے کر باغ کی طرف لے جانا حضرت اُمُّ المؤمنین کے لئے کسی خفگی اور غصہ کا موجب نہیں ہوا بلکہ آپ نے اس کو ہنس کو ٹال دیا تا کہ چھوٹے بچے کا دل نہ ٹوٹے اور پریشانی اور خوف اس کے نشوونما پر مؤثر نہ ہوں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے واقعہ کی نوعیت کو ٹھنڈے دل سے سوچا محض جذباتی رنگ میں نہیں لیا آپ نے خیال کیا کہ باہر لے جانے کا مطلب اس نے یہی سمجھا بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو ایسے مواقع پر حوصلہ سے کام لیں مگر یہ تو خدا تعالیٰ کی نعمت کی زندگی کا ضابطہ عمل تھا۔
میں ان واقعات کو محض اس لئے جمع کر رہا تھا کہ ہمارے گھروں کی تربیت اسی اصل اور نہج پر ہو تاکہ وہ گھر جنت بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ وحی ظاہر کرتی ہے کہ آپ کا گھر جنت تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یٰـآدم اسکن اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الجَنّۃ-
یوسف علی عرفانی کے تاء ثرات
’’یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ میں بچہ ہی تھا مگر ا س قدر چھوٹا بچہ بھی نہ تھا جو دنیا و مافہیاسے بے خبر ہو ہاں کمسن ضرور تھا مگر کہتے ہیں کہ اَلْعِلْمُ فی الصغر کالنقش فی الحجر اسی مثال کے مصداق مجھے بھی اپنے بچپن کے اکثر واقعات ایسی اچھی طرح یاد ہیں کہ ذرا سی محویّت میں وہ تمام واقعات ہو بہو آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں یہ واقعہ جس کے لکھنے کی آج میں سعادت پاتا ہوں۔ میری کمسنی کا مشاہدہ ہے۔ قادیان کی بستی اس وقت بالکل ایک دیہات کا رنگ لئے ہوئے تھی۔ تھوڑے سے گھر تھے اور تھوڑے سے افراد اس میں آباد تھے مگر اس وقت کی قادیان باوجود چھوٹا سا گاؤں ہونے کے بھی اپنے اندر ہزاروں لطافتیں لئے ہوئے تھی جس سے اس وقت بھی اور آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ممالک اور شہر محروم تھے اور ہیں۔
موسم گرما کا زمانہ تھا۔ صبح گزر رہی تھی کہ یکایک حضرت اماں جان مع چند مستورات کے ہمارے گھر تشریف لائیں اس وقت ہمارا مکان دوسری وضع کا تھا جس کا صحن بہت بڑا تھا اور صحن کے سامنے بہت بڑے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ڈھاب تھی ہمارے مکان کے سامنے بہت گھنے سایہ کی چند کیکریں تھیں(ببول) اس وقت ہوا بہت لطیف تھی اور پھرٹھنڈی چھاؤں۔ حضرت اماں جان نے والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بہو یہاں پر اتنی ٹھنڈی اور عمدہ ہوا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ یہاں لیٹ کر کچھ دیر آرام کروں۔ والدہ صاحبہ نے اسی وقت جگہ کو صاف کرایا اور چار پائی بچھا کر اس پر عمدہ بستر بچھا دیا اور کچھ نیچے فرش کر دیا جہاں دوسری خواتین بیٹھ گئیں۔ حضرت اماں جان نے میری ہمشیرہ محمودہ خاتون مرحومہ کو جن کی ابھی شادی بھی نہ ہوئی تھی۔ نہایت پیار اور محبت بھرے الفاظ میں کہا کہ بیٹی میرے پاس بیٹھ کر میرے سر میں جلون کرو۔ آپا مرحومہ آہستہ آہستہ آپ کے سر مبارک میں اپنی انگلیاں پھیرتی رہیں ادھر والدہ صاحبہ نے جلد جلد کچھ مرغ ذبح کرائے اور فوراً کھانے کا انتظام شروع کر دیا۔ حضرت اماں جان نے بلاوا بھیج کر اپنے گھرانے کے بعض دوسری سیّدات کو بھی بلا لیا جس میں سے اُم ناصر احمد کے متعلق مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کھانا تیار ہو گیا اور والدہ صاحبہ نے وہیں دستر خوان لگوا دیا حضرت اماں جان نے اہل بیت و سیّدات اور دوسری خواتین کے ہمراہ کھانا تناول فرمایا اور خوب سیری سے کھانا کھایا اور والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بہو تم نے کھانا ایسا لذید پکایا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ کھانے سے ہاتھ نہ اٹھاؤں مگر پیٹ کہتا ہے کہ بس کرو۔ غرض نہایت بے تکلفی سے کھانا کھایا اور تھوڑی دیر تک دوپہر کو آرام فرمایا اور بعد میں نہایت خوش خوش دعائیں دیتی ہوئیں تشریف لے گئیں یہ واقعہ اس وقت سے لے کر آج تک میری آنکھوں کے سامنے اکثر آ جاتا ہے اور اس سے پیشتر میں یہی سمجھتا تھا کہ حضرت اماں جان ہمارے خاندان سے کس قدر شفقت اور محبت اپنے دل میں رکھتی ہیں مگر آج مجھے اس واقعہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے بلند اخلاق کے بے شمار پہلو نظر آئے‘‘!
(نوٹ) حضرت اُمُّ المؤمنین کی اپنے خدام کی دلداری،عزت افزائی کے ان واقعات میں تربیت اولاد کے عملی سبق بھی پائے جاتے ہیں۔ مرحومہ محمودہ خاتون کو جو ارشاد فرمایا اس میں یہی سبق ہے کہ بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنے کی عادت ڈالی جاوے اور ان کو نکمّا اور بے کار نہ رہنے دیا جاوے۔
’’دوسرا واقعہ سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین کے سادہ اور بے لوث اخلاق کا یہ ہے کہ ہمشیرہ مرحومہ محمودہ خاتون کی شادی تھی اس وقت قادیان کی آبادی بہت محدود تھی اور بیاہ شادیوں میں اڑوس پڑوس کی عورتیں بغیر بلائے بھی شامل ہو جاتی تھیں اور اس طرح بغیر کسی پوزیشن کا خیال رکھے ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شامل ہو کر حصہ لیا جاتا تھا اگرچہ دور رہنے والی خواتین کو بلاوا بھی دیا جاتا‘‘۔
غرض اسی سادہ لوح زمانے کا واقعہ ہے۔ ہمشیرہ مرحومہ کی شادی کا دن تھا۔ حضرت اماں جان دام اقبالہا تشریف فرما تھیں۔ جیسا کہ ہم احمدیوں میں بیاہ شادیوں میں بے ہودہ رسم و رواج نہیں ہوتا اسی طرح یہ شادی بھی لغو رسم و رواج سے پاک تھی مگر ہماری ایک پرانی خادمہ تھی اس نے خوشی میں ہمشیرہ کی ساس کو سیٹھی دی۔ گو سیٹھی کے الفاظ تو غلیظ اور کثیف نہ تھے جیسا کہ عام طور پر جہلا میں سیٹھیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس نے ایک سادہ مذاق کی سیٹھی کہہ دی جس پر ہمشیرہ کی ساس نے جو کہ اس طرح ہماری بزرگ بھی ہیں اور جنہوںنے حضرت اماں جان کے زیر سایہ کچھ عرصہ زندگی بھی بسر کی تھی اور وہ نہایت ہی سادہ لوح خاتون ہیں اور حضرت اماں جان ان کو بڑی شفقت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس بات کو برا منایا اور وہ رو پڑی۔ اس بات پر حضرت اماں جان ہنس پڑیں اور فرمایا کہ یہ تو خوشی کے موقع پر مذاق سے کہا گیا ہے تم برا کیوں مناتی ہو اور اگر تم کو برا معلوم ہوتا ہے تو لو ہم اس کو منع کر دیتے ہیںاور خادمہ کو فرمایا کہ دیکھو حلیمہ کو کچھ مت کہو تم مجھے کہہ لو ہم بُرا نہیں مانیں گے۔ محمودہ ہماری بیٹی بھی ہے اور بہو بھی‘‘۔
(نوٹ) جاؤ دنیا میں تلاش کرو محبت و شفقت کے یہ نظارے کہیں نہیں ملیں گے۔ یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پاک کئے ہوئے دل کی تجلیات ہیں۔ اپنے خدام کے بچوں کو اپنے ہی بچے آپ نے ہمیشہ سمجھا ہے اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کیا ہے۔
شیخ نیاز محمد صاحب پنشنر انسپکٹر پولیس کی روایات
شیخ نیاز محمد صاحب پنشنر پولیس انسپکٹر سلسلہ کی تاریخ میں ایک نشان کا رنگ رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب کے والد میاں محمد بخش صاحب بٹالہ میں سب انسپکٹر پولیس تھے اور وہ اپنے گردوپیش کے حالات کی وجہ سے سلسلہ کے مخالف تھے ان کے قیام بٹالہ میںبعض مقدمات حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جس کی صفات میں یَخْرُجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیّتِ بھی ہے ان کے گھر میں شیخ نیاز محمد صاحب ایسے مخلص بچہ کو راہ سعادت دکھائی اور وہ سلسلہ میں اخلاص اور صدق کے ساتھ داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا اور انہیں سعید اور خوش اقبال اولاد عطا فرمائی۔ یہ خداتعالیٰ کی دین ہے اور اس کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا اسی طرح نشان ہیں جیسے عکرمہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی صداقت کا معجزہ تھے۔ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ایسی نظیریں کثرت سے ہیںکہ باپ سخت مخالف تھا اور بیٹا بے حد مخلص ثابت ہوا۔ میں شیخ صاحب کی روایات کو ان کے اپنے الفاظ میں ان کے تاثرات کے ساتھ درج کر دیتا ہوں۔ عرفانی کبیر
۱۔ سیرۃ المہدی حصہ سوم میں روایت نمبر ۶۳۲۔ میرے لڑکے عزیزمکرم میجر غلام احمد آئی ۔ایم۔ ایس کی طرف سے شائع شدہ ہے۔ وہ روایت نامکمل اور صحیح طور پر درج شدہ نہیں ہے۔ اس لئے میں اس جگہ مفصل اور صحیح درج کرتا ہوں۔ وَہُوَہٰذَا-
میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سا ل ۱۹۰۷ء؁ کے شروع میںحضرت اقدس سیّدنا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ میری بیعت الدارالمسیح کے صحن میںحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک دو دیگر اصحاب کی موجودگی میں کی گئی تھی۔ بیعت کرنے سے پہلے میں نے دست بستہ اور چشم پُر آب کے ساتھ حضرت اقدس ؑ سے عرض کی کہ حضور۔ لِلّٰہِ اس عاجز کے والد کو معاف فرماویں اور ان کے لئے دعا فرماویں۔ حضور نے ازراہِ غریب نوازی فرمایا۔ بہت اچھا۔ بیعت کے بعد حضرت اقدس نے بہت دیر تک دعا فرمائی۔ بیعت کرنے کے بعد جب ہم سیڑھیوں سے نیچے اترے تو وہاں خواجہ کمال الدین صاحب کھڑے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓنے خواجہ صاحب کو فرمایا کہ دیکھئے اولاد ہو تو ایسی ہو آج اس لڑکے نے اپنے والد میاں محمدبخش تھانیدار کو حضرت اقدس سے معافی دلائی ہے۔ اور اس کے لئے دعا کرائی ہے۔ اس کے بعد دوسری یا تیسری مرتبہ جب میں قادیان آیا تو حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کپڑا ساتھ لیتے آیا اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا کہ وہ حضرت اقدس کے حضور پیش کر دیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب ظہر کی نماز کے وقت تشریف لائے تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے مجھے سامنے بلا کر وہ کپڑا حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے کمال شفقت سے قبول فرما کر رکھ لیا اور بعد نماز ساتھ لیکر اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد میں سنتیں پڑھنے لگا اور ابھی ختم نہ کی تھیں کہ حضرت نانا جان میرناصر نواب صاحب مرحوم ومغفور تشریف لائے اور خوشی کے لہجہ میںہنستے ہوئے فرمایا کہ بھئی میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کونسا ہے۔ میں اس وقت پڑھ رہا تھا تو حکیم محمد الدین صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے۔ اس پر حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس ایک کپڑا ہاتھ میں لئے ہوئے بہت خوشی خوشی اندر تشریف لائے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو ہنستے ہوئے وہ کپڑا دیکر فرمایا کہ یہ کپڑا محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقع پر تلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے۔ اس کے لڑکے نے دیا ہے۔ اتنے میں مَیں نے بھی پڑھ لیں تو حضرت نانا جان میرے ساتھ بہت شفقت سے ملے اور پھر فرمایا کہ آج حضرت اقدس تمہاری وجہ سے بہت خوش ہیں اور حضرت اُمُّ المؤمنین کو تمہارا کپڑا دیتے ہوئے خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔ تمہیں مبارک ہو۔
۲۔ مندرجہ بالا واقعہ کے قریباً دس، بارہ سال کے بعد میری اہلیہ قادیان میں آئیں اور حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین کی خدمت بابرکت میںحاضر ہوئیں تو حضرت سیّدہ نہایت ہی شفقت سے ان سے ملیں اور فرمایا کہ تم تو بہت دیر سے آئی ہو۔ مگر تمہارے میاں ہمارے مدت سے واقف ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں تمہارے میاں ہمارے لئے ایک کپڑا لائے تھے جو حضرت اقدس لے کر خوشی خوشی اندر تشریف لائے اور ہنستے ہوئے مجھے دے کر فرمایا کہ یہ تمہار ے لئے محمد بخش تھانیدار بٹالہ کا لڑکا لایا ہے جس کے والد نے تلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے۔ میری اہلیہ نے مجھ سے اس کا تذکرہ کیا۔ تو مجھے حضرت سیّدہ کی اس کمال شفقت اور غریب نوازی پر بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ مجھے وہ واقعہ بھول چکا تھا۔ مگر ا س رحیم و کریم مادرِ مہربان نے بکمال ذرہ نوازی اس کو یاد رکھا تھا۔
۳۔میری اہلیہ نے بیان کیا کہ اس پہلی ملاقات کے بعد جب میں واپس جانے کے لئے حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین سے اجازت لینے گئی تواس مادرِ مہربان نے بکمال شفقت مجھ سے معانقہ فرمایا اور اپنی مادرانہ آغوشِ رحمت میں لیکر بہت زور سے مجھے بڑی دیر تک اپنے مقدس سینے سے لگائے رکھااور بعد اس کے اس طریق سے دستِ شفقت میرے سر پر پھیرا اور مجھے دعائیں دیں کہ مجھے اپنے رخصتانہ کا نظارہ یاد آ گیااور میں آبدیدہ ہو گئی۔ یقینا وہ شفقت اور محبت جو اس مادرِ مہربان نے اس وقت دکھائی وہ اس سے ہزارہا درجہ زیادہ تھی جو میری والدہ ماجدہ نے میرے رخصتانہ کے وقت دکھائی تھی اور میں اس کو کبھی بھول نہیں سکتی۔ اللہ اللہ غریب نوازی اور شفقت کا بحُبِّ کمال مظاہرہ تھا۔
۴۔ جن ایام میں یہ عاجز کراچی میں ملازم تھا تو یہ عاجز ہمیشہ حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین کی خدمت بابرکت میں عرض کرتا رہا کہ وہ ازراہِ کرم کراچی تشریف لائیں۔ کئی بار حضرت اقدس سیّدنا امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت بابرکت میںبھی عرض کی کہ حضرت اماں جان کو کراچی بھیجیں مگر اس عاجز کی بدقسمتی سے حضرت سیّدہ اس وقت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کے ساتھ کراچی تشریف لے گئیں جب کہ یہ عاجز کراچی سے تبدیل ہو گیا تھا اور یہ عاجز اس خدمت سے محروم رہا۔ بہرحال انہی ایام میں یہ عاجز کسی طرح سے کراچی گیا اور حضرت اماں جان کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تو ہمیں علم ہو گیا تھا کہ تم کراچی سے تبدیل ہو کر چلے گئے ہوئے ہو۔مگر میں نے سمجھا کہ تم ضرور کراچی آ کر ملو گے۔ اس لئے میں تمہارے گھر سے ہوتی آئی ہوں۔ تمہارے مکان کے صحن میں پختہ اینٹوں کا فرش لگ گیا ہے جو میں دیکھ آئی ہوں اور پھر سب اہلِ بیت کا فرداً فرداً حال بیان فرمایا اور اس بات پر افسوس کا اظہار فرمایا کہ میں اس وقت کراچی میںنہ تھا۔ کیا یہ حد درجہ کی شفقت اور غریب نوازی نہیں کہ اگرچہ میں اس وقت کراچی میں نہ تھا۔ پھر بھی خاص طور پر قادیان میں ہمارے غریب خانہ سے سب اہل خانہ کا احوال پوچھ کر آنا۔ یقینا ایک ایسا فعل ہے جس کی عزیز ترین اقارب سے بھی بعض اوقات توقع نہیں ہوتی اور بالخصوص جبکہ آقا اور غلام کا تعلق ہو۔ تو پھر تو ناممکن ہے۔ مگر اس سیّدۃ النساء نے محبت اور شفقت اور غریب نوازی کا عدیم المثال نمونہ مجھ سے حقیر و ناچیز غلام سے دکھایا۔
۵۔میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں سندھ سے جہاں میں ملازم تھا۔ دارُالامان میں کچھ عرصہ کے بعد آئی۔ بوجہ لمبے سفر اور تھکاوٹ کے طبیعت خراب تھی۔ اس لئے میں ایک دو دن حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں حاضر نہ ہو سکی۔ دوسرے دن بعد دوپہر کیا دیکھتی ہوں کہ حضرت سیّدہ بذات خود ہم عاجزوں کے غریب خانہ میں تشریف لے آئیں اور فرمایا۔ ’’ہم تو تمہیں یاد رکھتے ہیں۔ تم آئی ہو تو ملنے بھی نہیں آئی۔ ہم نے کہا چلو ہم ہی جا کر تمہیں مل آئیں۔‘‘ اور پھر دیر تک غریب خانہ میں قیام فرمایا اور نہایت محبت و شفقت کا اظہار فرماتی رہیں اور اس عاجز ،احقر العباد کا احوال دریافت فرماتی رہیں۔ میری اہلیہ کہتی ہیں کہ اس کمال غریب نوازی کو دیکھ کر میں از حد نادم ہوئی اور مارے ندامت کے پانی پانی ہو گئی۔
۶۔ میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ گرمی کے موسم میں مَیں حضرت سیّدہ اُم المومینن (مَتَعْنَا اللّٰہُ بِطُوْلِ حَیَا تِھَا) کی خدمت اقدس میں الدارالمسیح الموعود میں حاضر ہوئی۔ وہاں مجھے کچھ دیر کے بعد گرمی کی وجہ سے پیاس لگی تو میں نے ایک خادمہ کو کان میںکہا کہ مجھے پانی پلائیں۔ خادمہ اٹھ کر جانے لگی تو حضرت سیّدہ نے بکمال شفقت و رحمت فرمایا کہ غسل خانہ میں سے ہمارے گلاس اور ہماری صراحی میں سے انہیں پانی لا کر دو۔ اللہ اللہ میںنہیں جانتا کہ اس از حد غریب نوازی کو کن الفاظ میں بیان کروں۔ یقینا آقا کا اپنے حقیر اور ناچیز خادموں سے ایسا پر شفقت اور رحیمانہ سلوک اس زمانہ میں اور کہیں نظر نہیں آتا ۔ بے شک یہ حد درجہ کی شفقت اپنی مثال نہیںرکھتی۔
۷۔ میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین کی خدمت اقدس میںحاضر ہوئی تو اس وقت حضرت سیّدہ کھانا کھا رہی تھیں۔ حضور نے ازراہ شفقت مجھے فرمایا کہ آؤ ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ میں نے مارے شرم کے اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عذر کیا۔ مگر حضرت سیّدہ بار بار اصرار کرتی رہیں کہ ضرور آؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ مگر میں نے بھی باوجود اصرار کے انکار کیا۔ آخر اس رحمت اور شفقت اور غریب نوازی کے مجسمہ نے اپنی پلیٹ میں سے نصف کے قریب سالن (قیمہ اور ماش کی دال) مجھے دوسری پلیٹ میں ڈال کر دیا او رکہا کہ لو اب تو کھاؤ جو میں نے بموجب ارشاد تبرکاً کھایا۔ روٹی بھی حضور نے اپنے پاس سے ہی دی تھی۔ میں پھر عرض کرتا ہوںکہ کیا ایسے عظیم الشان آقا کی ایک نہایت حقیر غلام کے ساتھ اس قدراز حد شفقت اور غریب نوازی کا مظاہرہ اور کہیںدیکھنے میں آیاہے؟ یقینا یہ طریق شفقت بے مثال ہے جو یہ مادرِ مہربان ہم عاجزوں پر کرتی ہیں۔
۸۔ اس عاجز کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں اس عاجز کے خلاف دشمنوں نے مقدمات بنا دیئے تھے۔ ان ایام میں مَیں اکثر حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین کی خدمت بابرکت میںحاضر ہو کر دعاؤں کے لئے عرض کیا کرتی تھی اور خود بھی حضرت سیّدہ کی اجازت سے بیت الدعا میں دعا ئیں کرتی تھی۔ حضرت سیّدہ نے خادماؤں کو حکم دے دیا تھا۔ کہ جب کبھی میں بیت الدعا میں دعائیںکرنے کے لئے آؤں تو خواہ حضرت سیّدہ موجود ہوں یا نہ ہوں۔ میرے لئے بیت الدعا کھول دیا کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا۔
یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ان دنوں میں یہ عاجز رخصت لے کر دارالامان میں آیا اور یہ عاجز بھی حضرت سیّدہ سے اجازت لیکر بیت الدعا میں دعائیںکرتا رہا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت سیّدہ کی طبیعت علیل تھی اور حضور چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ بیت الدعا کو جاتے وقت وہ چار پائی راستے میں آتی تھی۔ مجھے اس کا علم نہ تھا اور میں نے کسی صاحبزادے کی معرفت حضرت سیّدہ کو بیت الدعا میں جانے کے لئے عرض کی۔ حضرت سیّدہ بوجہ علالت طبع اٹھ نہ سکتی تھیں۔ اس لئے اسی چار پائی پر ہی لیٹے ہوئے کپڑوں سے خادماؤں سے پردہ کرایا اور اس عاجز کو ازراہ شفقت اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمائی جب یہ عاجز وہاں سے گزرا اور حالات سے آگاہی ہوئی تو سخت ندامت ہوئی۔ میں نے اس تکلیف دہی پر معذرت کی کہ مجھے علم نہ تھا۔ تو حضور پُرنور حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین (مَتَعْنَا اللّٰہُ بِطُوْلِ حَیَا تِھَا) نے کمال شفقت اور غریب نوازی سے فرمایا۔ ’’اچھا ہوا آپ اس وقت آ گئے۔ ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔‘‘ اللہ اللہ کیا ہی عجب غریب نوازی،شفقت، رحمت اور دلجوئی ہے کہ مجھ سے بدترین خلائق نہایت گندے اور سخت گناہ گار کو فرمایا جاتا ہے کہ ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔ حالانکہ آپ ہی کی شان اقدس میں اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت احمد نبی اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ وحی فرماتا ہے۔
اُشکرنعمتِیْ رَائیتَ خَدِیجتِیْ اور ایک دوسری وحی الٰہی میں فرمایا ۔ اِنِّی معَک و مَع اَھْلِکَ ھٰذِہٖ-
(۹) اس عاجز کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ میرے تین بیٹے تھے اور چوتھا ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔ حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے چار بیٹے ہیں نا۔ میں نے عرض کی کہ میرے تو تین بیٹے ہیں۔ حضرت سیّدہ نے باصرار فرمایا نہیں چار ہیں۔ تب میں نے عرض کی کہ میرے تو تین ہی بیٹے ہیں مگر حضرت سیّدہ نے پھر بھی فرمایا۔ نہیں تمہارے چار بیٹے ہیں۔ اس پر ایک اور صاحبہ نے جو ہماری ہمسائی تھی میری تائید میں عرض کی کہ اس کے تین ہی بیٹے ہیں۔ پھر حضرت اُمُّ المؤمنین خاموش ہو گئیں۔ عرصہ قریباً ایک سال کے بعد میرے ہاں چوتھا بیٹا پیدا ہوا تو حضرت سیّدہ نے خود بخود فرمایا کہ اب بتاؤ تمہارے چار بیٹے ہیں یا نہیں۔ میں نے عرض کی کہ ہاں اب تو چار ہی ہیں تو فرمایا کہ اس وقت بھی مجھے یہ چار ہی معلوم ہوئے تھے۔ اس کے بعد مجھ سے چاروں بیٹوں کے نام دریافت فرمائے تو میں نے عرض کی کہ غلام احمد، بشیر احمد، منیر احمد اور خلیل احمد ہیں تو فرمایا کہ تم نے سب ہمارے خاندان کے نام رکھے ہوئے ہیں اور پھر ازراہ غریب نوازی ان سب کے لئے خود ہی دعا فرمائی۔ اس وقت ایک اور خاتون نے عرض کی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین میرے بچوں کے لئے بھی دعا فرماویں تو فرمایا کہ اس وقت تو ان بچوں کیلئے دعا کی توفیق ملی ہے۔ پھر کسی وقت تمہارے بچوں کے لئے بھی توفیق ملنے پر دعا کی جائے گی۔
معزز ناظرین۔ حضرت سیّدہ کے یہ بے مثال حسنِ سلوک اور ازحد مادرانہ شفقتیں ہم عاجزوں، نابکاروں پر جو طرح طرح کی گندگیوںاور نجاستوں میںملوث ہیں۔ یقینا ہمارے دلوں کی تاریکیوں اور گہرائیوں میںاثر پذیر ہو کر ہمیں ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں کس منہ سے کس زبان سے اور کن الفاظ سے حضرت سیّدہ کے عظیم الشان اخلاق کریمانہ اور پُرانوارشفقت ورحمت کا اظہار کروں۔میر ی گویائی اور میری قلم بالکل قاصر ہیں۔ واللّٰہ علیٰ مااکتب شہید-
۱۰۔ اس عاجز کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کے اسوہ حسنہ کے متعلق یہ چند روایات مشتے نمونہ از خروارے کی مصداق ہیں۔ ورنہ فی الحقیقت حضرت سیّدہ بیسیوں دفعہ ہمارے غریب خانہ پر تشریف فرما ہوتی رہی ہیںاور ہر دفعہ حضور پُرنور (متعنا اللّٰہ بطول حَیاتِھاَ) قریباً آدھ گھنٹہ تشریف رکھتی رہی ہیں۔ہر موقعہ کے متعلق حضرت سیّدہ کی بے حد شفقت اور اخلاقِ کریمانہ کی نسبت عجیب وغریب روایات بیان کی جا سکتی ہیں۔ مگر اس خیال سے کہ حضرت عرفانی کبیر سلمہ اللہ تعالیٰ۔ شاید مزید روایات بوجہ تنگی جگہ کے اور بوجہ دیر ہو جانے کے درج نہ فرما سکیں اس لئے اسی پر اکتفا کی جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ حضرت سیّدہ ممدوحہ کی ذرہ نوازی اور غریب پروری ہم عاجزوں نابکاروں پر انتہا درجہ کی ہوتی رہی ہے جس کی مثال ہمیں کسی بھی اقرب ترین رشتہ داروں حتیٰ کہ والدین میں بھی نہیں پائی گئی اور یہاں تو آقا اور غلام ناچیز و حقیر غلام کا تعلق ہے۔ مگر شفقت اور رحمت ہمدردی اور ذرہ نوازی بحدِ کمال رہی ہے۔ باوجود بیماری ضعف ونقاہت اپنے ناچیز غلاموں کے غریب خانہ پر تشریف لے جانا اور وہاں دیر تک قیام فرمانا اور گھر کے سب حالات دریافت فرمانا اور مفید و بابرکت مشورے دینا اور دعائیں فرمانا غرض کہ اس عاجز کی قلم پوری طرح ادائیگی سے قاصر ہے۔ حضرت سیّدہ نے ازراہ کرم پروری ہماری چارپائیوں پر بیٹھ کر کئی بار نمازیںادا کیں اور دعائیں فرمائیں۔ جبکہ اس عاجز کے خلاف مقدمات کورٹ نے جھوٹے ثابت کئے اور یہ عاجز عزت کے ساتھ بری ہوا اور کورٹ نے فیصلہ کیا کہ مقدمات کرنے والوں پرزیردفعہ ۲۵۰ ضابطہ فوجداری جھوٹے مقدمات کرنے کی وجہ سے کارروائی کی جائے تو قادیان میں اطلاع پہنچنے پر سب سے پہلے بوقت صبح حضرت سیّدہ اُمُّ المؤمنین ہی ہمارے غریب خانہ پر تشریف فرما ہوئیںاور اس عاجز کی دختر عزیزہ عنایت بیگم کو جو اس وقت گھر میں موجود تھی۔ مبارک باد دی۔ نیز فرمایا شکر ہے میرے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے رہائی دی۔ میں تو ہرنماز میں اس کیلئے دعائیں کرتی رہی ہوں اور فرمایا کہ ہماری طرف سے شیخ صاحب (اس عاجز) کو لکھ دو کہ مقدمات کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہ کریں اور انہیں معاف کر دیں۔ اللہ اللہ شفقت اور غریب نوازی کی بھی حد ہوتی ہے۔ دشمنوںاور ایسے شدید دشمنوں کے لئے جنہوں نے مجھے دو سال تک سخت تکلیف میںڈالے رکھا۔ معافی کی تلقین فرمائی۔ الغرض ہم حضرت اقدس سیّدتنا اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی (مَتَعْنَا اللّٰہُ بِطُوْلِ حَیَا تِھَا) کے حسن سلوک، اخلاق کریمانہ، شفقت، ذرہ نوازی وغیرہ کو کہاں تک بیان کریں۔ یہی دس روایات ہیں۔ براہ کرم درج فرما دیں۔
خاکسار نیاز محمد عفی عنہ پنشر انسپکٹر پولیس
دارالرحمت۔ قادیان
متفرق روایات
ذیل میں کچھ اور روایات درج کی جاتی ہیں جن سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے۔ عرفانی کبیر
والدہ صاحبہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب فرماتی ہیں:
قبولیت دعا
قبولیت دعا کا مجھے بار ہار تجربہ ہوا ہے۔ میرے بچے اکثر بیمار ہوتے تو میں گھبرا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی اور دعا کیلئے عرض کرتی۔ عرض کرنے کے بعد میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جاتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچہ کو بہت جلد شفاء بھی ہو جاتی۔ قبولیت دعا کا نمایاں نشان جو میںنے دیکھا وہ یہ ہے کہ اکثر بیمار رہنے کی وجہ سے میری آنکھوں میں اڑتیس سال کی عمر میں ہی موتیا اُترنا شروع ہو گیا۔ نظر بند ہونے پر ڈاکٹر صاحب نے آنکھ کا آپریشن کیا۔ آپریشن کرنے کے چار دن بعد میری آنکھ میں شدید درد اُٹھا۔ ایسا معلوم ہوا کہ کوئی رگ پھٹ گئی ہے۔ مغرب کا وقت تھا اور ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ کر گھر میں آئے ہی تھے۔ آتے آنکھ کی پٹی کھولی تو معلوم ہوا کہ تمام آنکھ خون سے سرخ پڑ گئی ہے اور مجھے اس وقت نظر بھی کچھ نہ آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کیلئے خط لکھا اور میری لڑکی زیب النساء بیگم کو دیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں لے جائو۔ وہ یہ رقعہ لے کر گئی تو اماں جان مغرب کی نماز کے بعد اپنے صحن میں ٹہل رہی تھیں۔ آپ نے لڑکی کو اس طرح گھبراہٹ میں جاتے ہوئے دیکھ کر دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہی ہو۔ لڑکی نے عرض کیا کہ اماں جان میری اماں جی کی جس آنکھ کا آپریشن ہوا تھا اس میں شدید درد اُٹھا ہے اور نظربھی کچھ نہیں آتا۔ آپ نے اُسی وقت آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ یا اللہ بچوں کی ماں ہے اس کی نظر کو کچھ تکلیف نہ ہو اور آنکھ کو بہت جلد اچھا کر دے۔ ان کی خادمات سے مجھے معلوم ہوا کہ اماں جان رات کو بھی میرے لئے بہت دعائیں کرتی رہیں۔ میری آنکھ کے اچھا ہونے کی بظاہر کوئی امید نہ تھی لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین کی دعائوں کی برکت سے پندرہ دن کے اندر اندر بالکل صاف ہو گئی اور پانچ سال کا عرصہ ہو چکا ہے ابھی تک اچھی ہے۔
میرے لڑکے عزیزم محمد احمد کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے سندھ بھیجا گیا تو گھر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے اور ساتھ ہی کوئی احمدی دوست نہ ملنے کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت ہی پریشان رہتی تھی۔ میںنے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں خط لکھا اور درخواست کی کہ اسے وہاں سے بلوا کر کہیں اور داخل کروا دیا جائے۔ حضور نے فرمایا نہیں اس کو سندھ میں ہی پڑھوانا ہے اسے وہیں رہنے دیا جائے۔ اس پر میں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ محمد احمد کے لئے دعا فرمائیں کیونکہ اس کا دل وہاں پر نہیں لگتا اور سخت ہی پریشانی کے خط لکھتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا انشاء اللہ دل لگ جائے گا تم گھبرائو نہیں۔ آپ کی دعائوں کی برکت سے اس کا دل بھی وہاں پر لگ گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی تعلیم کو مکمل کر کے کامیاب و کامران واپس لوٹا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کرنے کی مشکل درپیش ہوئی۔ نہ سندھ میں ملتی تھی اور نہ ہی پنجاب میں۔ میں بار بار اماں جان کی خدمت میں عرض کرتی کہ دعا فرمائیں اس کی روزی کا کوئی بہترین انتظام فرمائے۔ فرمانے لگیں کہ اسے خدا تعالیٰ کو ابھی خاندان اور سلسلہ کی خدمت کا موقعہ دینا ہے۔ اس وقت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ امۃ الحمید (حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی) کو لے کر شملہ جا رہی ہیں تم اسے ان کے ساتھ بھیج دو۔ میں نے اسی وقت آ کر ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا انہوں نے اسے فوراً ہی تیار کر دیا اور یہ اسی دن بیگم صاحبہ کے ساتھ شملہ چل دیا۔ ابھی ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ سندھ سے اسے ایک پوسٹ کا پیغام آ گیا۔ یہ ڈیوٹی عارضی تھی اور صرف چار ماہ کی تھی۔ ہم نے اسے شملہ سے بلا کر وہاں بھیج دیا۔ دوسرے سال اسے پھر یہی ڈیوٹی مل گئی جب یہ واپس آیا تو میں نے اماں جان سے عرض کیا کہ اس کے مستقل روز گار کے لئے دعا کریں۔ اس وقت بھی آپ نے دعا کی کہ یا اللہ یہ بچہ اس طرح روزی کے لئے پھرتا ہے تو ہی اس کے لئے بہترین انتظام فرما دے۔ تیسرے سال پھر اسے اُسی ملازمت کا پیغام آیا تو یہ وہاں پر نہ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پریکٹس کا انتظام کر دیا اور اب یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عزت کے ساتھ اپنی روزی کما رہا ہے اور سلسلہ اور خاندان کی خدمت کر رہا ہے۔
ہاتھ سے کام کرنا
حضرت اُمُّ المؤمنین کو میں نے بار ہااپنے ہاتھ سے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مہمانوں کا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں اور اپنے ہاتھ سے چیزیں تیار کر کے مہمانوںکو کھلاتی ہیں۔ جب ہم پٹیالہ سے قادیان آئے تو آپ نے ہم سب کی دعوت کی اور سات آدمیوں کا کھانا پکانے والیوں کے ساتھ خود مل کر پکایا اور اپنے ہاتھوں سے نکال کر بھیجا اور اب تک بھی بہ سبب ہمسایہ ہونے کے خاص خیال رکھتی ہیں۔ جب ڈاکٹر صاحب کے لئے کوئی چیز بھیجتی ہیں تو اکثر آپ کے اپنے ہاتھوں کی تیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر باہر سے کوئی چیز تحفہ کے طور پر آئے تو ہمسایوں کا خاص خیال رکھتی ہیں۔
غریبوں سے سلوک
غریبوں اور یتیموں سے خاص ہمدردی رکھتی ہیں۔ غریبوں کی مدد کرنے کیلئے ہر وقت مستعد رہتی ہیں۔ یتیموں کی پرورشی میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ کئی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی آپ نے اپنی بیٹیوں کی طرح پرورش کی اور پھر ان کی شادی کی اور بہت سا سامانِ شادی بھی ساتھ دیا۔
نوکروں سے سلوک
نوکروں کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت اچھا ہے ان کے کھانے پینے وغیرہ کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ ان کے آرام کو مدنظر رکھتی ہیں اور حتی الوسع کام ہلکا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بیماری وغیرہ کی حالت میں خاص خیال رکھتی ہیں۔ والسلام
والدہ ڈاکٹر محمد احمد
سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاقؓ کے تاثرات
کائنات عالم میں مسرت کی لہر
آج کائنات عالم کا ہر ذرہ معمول سے زیادہ خوبصورت نظر آ رہا ہے۔ گلستاں کا ہر ایک پھول ایک نئی شان
نئے رنگ میں چمک رہا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کا دل خوشی اور مسرت کے جذبات سے اس قدر لبریزہے کہ زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے اور تمام قلوب آرام اور تسکین کی راحت سے بہرہ اندوز ہیں۔ آج خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی خوشی سے خدائے قدوس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں کہ اس کا ایک مقبول بندہ لاکھوں نفوس کو کلمۂ توحید پڑھا کر اپنی مبارک خلافت کا ابتدائی پچیس سالہ دور کامیابی و کامرانی کے ساتھ گزار چکا ہے۔ ہم اس نہایت ہی خوشی اور مسرت کے مواقع پر خدا کے مسیح کے برگزیدہ خلیفہ اور آپ کے خاندان کو ہدیۂ تبریک پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح ہم حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کی خدمت مبارک میں ہدیۂ تبریک پیش کرتی ہیں کیونکہ آپ کے لخت جگر کا ڈنکا آج تمام دنیا میں بج رہا ہے میں چاہتی ہوں کہ اس نہایت ہی خوشی اور مسرت کی تقریب پر حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کے حالاتِ زندگی بہنوں کے سامنے بیان کروں۔
پیدائش
حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالیٰ ۱۸۶۵؁ء میں ایک شریف سادات خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیاہ کے متعلق پہلے ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو
بہت سے الہام فرمائے ہوئے تھے۔ جیسے آپ کو الہام ہوا۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھر والنسب یعنی وہ خدا سچا ہے اور سب تعریفیں اسی کے لئے ہیں جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سیّد ہے کیا اور خود تمہاری نسب کو بھی اعلیٰ بنایا۔
اسی طرح آپ کو الہام ہوا اشکر نعمتی رائیت خدیجتی یعنی میرا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا۔ چنانچہ ان الہامات کے نتیجہ میں اس رشتہ کی تحریک ہوئی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں مولوی نذیر حسین دہلوی نے آپ کا نکاح پڑھا اور چند دن کے بعد آپ حضرت اُمُّ المؤمنین کو ساتھ لے کر قادیان تشریف لے آئے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اگرچہ خاص دہلی شہرکی رہنے والی تھیں مگر چونکہ آپ کے والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور ان کی مختلف جگہ تبدیلی ہوتی رہتی تھی اور وہ اپنے اہل و عیال کو بھی ہر جگہ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اس لئے آپ کو مختلف جگہوں میں رہنے کی وجہ سے مختلف زبانوں سے واسطہ پڑا اور یہاں آ کر پنجابی سمجھنے میں آپ کو زیادہ دِقت نہ اٹھانی پڑی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلوک
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خیرکم خیرکم لاھلہٖ کے
پورے پورے مصداق تھے۔ آپ کا سلوک جو اپنے گھر والوں سے تھا اس کی نظیر سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کہیں نہیں ملتی۔ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا۔ میرا یہ حال ہے کہ ایک دن میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفل پڑھے اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت کا نتیجہ ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا ایمان
حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایمانی حالت حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے ایمان کے مشابہ ہے۔ جیسا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے دعویٰ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی تھیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر حضرت اُمُّ المؤمنین کامل ایمان رکھتی ہیں۔ آپ سخت سے سخت بیماریوں اور اضطراب کے وقتوں میں بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں چھوڑتیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم والی پیشگوئی شائع کی تو آپ ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں۔ ایک روز آپ یہی دعا مانگ رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے پوچھا کہ آپ کیا دعا مانگ رہی ہیں۔ آپ نے بات سنائی کہ یہ مانگ رہی ہوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ سَوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے۔ آپ نے عرض کیا کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ میری خواہش ہے کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں۔ دیکھئے یہ کس قدر شاندار ایمان ہے۔
پھر جب مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا اور آپ کے جسد مبارک کو قادیان میں لایا گیا تو آپ وہاں گئیں اور جسد اطہر کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’تو نبیوں کا چاند تھا۔ تیرے ذریعے میرے گھر میں فرشتے اُترتے تھے اور خدا کلام کرتا تھا‘‘۔ ان فقروںپر غور کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کا ایمان کس اعلیٰ پایہ کا تھا۔
صبر
آپ ہمیشہ مصیبتوں پر خود بھی صبر کرتی ہیں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتی ہیں اور جس کو صبر کا کامل نمونہ کہتے ہیں وہ آپ میں موجود ہے۔ آپ کے بعض بچے فوت بھی ہوئے۔ مگر آپ
نے کبھی نوحہ وغیرہ نہیں کیا۔ صرف انا للّٰہ پڑھ کر خاموش ہوجاتی تھیں۔
مہمان نوازی
ابتدائی ایام میں لنگر خانہ ابھی جاری نہیں ہوا تھا اور جو مہمان آتے تھے ان سب کے کھانے اور ناشتے وغیرہ سب کا انتظام آپ ہی کے گھر میں ہوتا تھا۔ آپ خود
کھانے کا انتظام کرتی تھیں اور بعض دفعہ خود کھانا پکایا بھی کرتی تھیں۔ بعض دفعہ بغیر اطلاع دیئے بہت سے مہمان اکٹھے آ جاتے تھے۔ مگر آپ کبھی نہیں گھبراتی تھیں اور ہمیشہ اپنی پوری استعداد کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرتی تھیں۔
ہاتھ سے کام کرنا
اگرچہ ہم میں سے ہر ایک آپ کی خدمت کرنے کو ایک بڑا فخر سمجھتا ہے۔ لیکن آپ اکثراپنے چھوٹے موٹے کام خود ہی کرتی ہیں اور کئی دفعہ دیکھا
ہے کہ آپ باورچی خانے میں خود بیٹھ کر ہنڈیا پکاتی ہیں۔
ایک غیر احمدی رشتہ دار کے تاثرات
اب میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے ایک بھائی (جو ماں کی طرف سے بھائی ہوتے ہیں) مرزا سلیم بیگ صاحب کے بیان کو درج کرتا ہوں۔ مرزا سلیم بیگ صاحب سے میری ملاقات میرے قیام مصر میں ہوئی تھی جب کہ وہ ان کے بھائی مرزا رفیق بیگ اور مرزا حسین احمد بیگ صاحب کے ساتھ (جج ہائی کورٹ حیدر آباد) یورپ گئے تھے جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان سے تعلق قرابت قریب رکھتے ہیں تو قدرتی طور پر مجھے بہت خوشی ہوئی اُس وقت سے میرے ان کے تعلقات بھائیوں کی طرح ہو گئے ہیں جب حیدر آباد جاتا ہوں ان کی شفقت اور محبت کا لطف اُٹھاتا ہوں۔ حضرت والد صاحب باوجود یکہ مرزا سلیم بیگ صاحب کا اس رشتہ کی وجہ سے ادب کرتے ہیں مگر مرزا صاحب اپنے اخلاق اور شرافت کے اثر کے باعث ابا جی کا احترام کرنے میں خوش ہوتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین جب حیدر آباد تشریف لے گئے تو مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اس بچھڑے ہوئے خاندان کو حضرت صاحب کے خاندان کے قریب کیا جاوے اور الحمدللہ یہ سعادت میرے حصہ میں آئی۔ حضرت امیر المومنین کو اپنے ان عزیزوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور آپ نے مرزا سلیم بیگ صاحب کی خواہش پر اپنے حیدر آباد کے قیام میں ایک دن بڑھا دیا۔ مرزا سلیم بیگ صاحب کے دادا جناب مرزا عبدالقادر بیگ صاحب اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی نانی صاحبہ محترمہ قادری بیگم صاحبہ دونوں حقیقی بھائی بہن تھے۔ اس طرح حضرت اُمُّ المؤمنین ماں کی طرف سے اپنی نانی کے ذریعہ اور مرزا سلیم بیگ صاحب اپنے دادا کے سلسلہ میں بہن بھائی ہیں۔ ان تعلقات کی تجدید مرزا سلیم بیگ صاحب کو قادیان لے آئے اور انہوں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی موّدۃ فی القربیٰ کا جو اثر لیا اس کو انہوں نے بیان کیا ہے اگرچہ ان کا بیان ایک مختصر سا سفر نامہ قادیان ہے مگر میں نے اسے تمام و کمال اس لئے درج کیا ہے کہ اس سے جماعت کے عام حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے اور یہ ایک غیر احمدی کی آنکھ کے مشاہدات ہیں۔ محمود احمد عرفانی
حضرت اُمُّ المؤمنین
۱۹۰۹؁ء کی بات ہے جب کہ میں دہلی میں میاں بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح) اور آپا نصرت جہاں بیگم (اُمُّ المؤمنین) سے ملا تھا۔ عرصہ تک پھر ملنا نہیں ہوا۔ حالانکہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے بارہا دہلی میں ملتا جلتا رہا۔ حیدر آباد کی ملازمت نے وطن سے دور کر دیا۔ بیگانے اپنے ہو گئے اور اپنے بیگانے۔ کنبہ کے بہت سے لوگ نئی پیداوار کے ہیں۔ یہ نہ جانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں اور ان باتوں کا موقع بھی نہیں ملتا۔ دہلی کا کنبہ ہندوستان کے چاروں کھونٹوں میں آباد ہو گیا ہے۔ ہر شخص نے اپنا نیا کنبہ بنا لیا ہے اور نئی جنت بنا ڈالی ہے۔ میں بھی اپنی دنیا میں بہرحال آباد ہوں۔ اسی طرح قادیان میں ایک کنبہ آباد ہے جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں۔ زندگی میں دو چار دفعہ ملنا ہو گیا ہے۔ ہم ختم ہوئے اور نہ کنبہ داری کی زنجیر ٹوٹی۔ شجرے کی کسی ٹہنی میں ہمارا بھی نام لٹکا ہوگا۔ گرچہ لیلے گزشت کہ نوشیروان نماند۔
اکثر دل چاہتا تھا کہ قادیان جائوں اور ایک دفعہ تو مل آئوں۔ مگر دہلی تک جا کر اتنی دلچسپیاں بڑھ جاتی تھیں کہ رخصت کا مختصر زمانہ دہلی کی جنت میں ختم ہو جاتا اور قادیان جانے کی نوبت نہ آتی۔ تمنا تو ہمیشہ رہی مگر کبھی شرمندہ تعمیل نہ ہوئی۔ بالکل اتفاق تھا کہ ۱۹۳۹ء؁ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب حیدرآباد تشریف لائے اور عزیزوں سے ملنے کا انہوں نے خاص انتظام کیا۔ دید اور بازدید ملاقاتوں میں تجدید محبت ہوئی یا یوں کہئے کہ بچھڑے ہوئے اپنی زندگی میں پھر ملے۔ حیدر آباد کی یہ ملاقاتیں میرے قدیم خیال کو تقویت پہنچانے لگیں۔ ۱۹۴۰ء؁ میں کلکتہ گیا تو جنگ کی وجہ سے بازاروں میں سرد بازاری پائی اور طبیعت نے قرار نہ لیا اور قادیان کے ارادہ سے کلکۃ سے دہلی پہنچا اور دہلی سے قادیان۔ قادیان اور جماعت احمدیہ کی جو تصویر میں نے ذہن میں تیار کی تھی وہ اس کے خدوخال تازہ کرنا چاہتا تھا کہ علی الصبح گاڑی بدلنے کیلئے امرتسر کے اسٹیشن پر اُترنا پڑا۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ بہت مسافر قادیان کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نماز اور ضروریات سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا پرسان حال ہوا۔ چنانچہ میرا تعارف بھی بہت سے اشخاص سے ہوا اور کرایا گیا۔ امرتسر کے اسٹیشن پر گوشت کے بھنے کی خوشبو اس طرح پھیلتی ہے کہ بھوک تو بھوک آدمی مسلمان ہو جاتا ہے۔ ناشتہ کیلئے کئی اصحاب نے مجھے مجبور کیا۔ گوشت دال اور گرم گرم چپاتیاں معدہ کا منہ کھول دیئے۔ اسٹال والا دیتا جاتا تھا اور مسلمان بھائی اللہ کا نام لے کر بغیر کسی احترام، احرام یا نیت کے لبیک کہہ رہا تھا۔ ایک تو وقت، دوسرے کھانے کی لذت، تیسرے پنجاب کی آب و ہوا نے، بعض احباب نے تو اتنا کھایا کہ مَیں نے ان کے دستر خوان پر سے اُٹھنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ کھانا وہ لوگ کھا رہے تھے اور میں ہاضمہ کی دوا اور ہیضہ کے انسداد پر غور کر رہا تھا۔ گاڑی جب بٹالہ پہنچی تو چائے میں مجھے شریک ہونا پڑا۔ تواضع اور اخلاق کی مشین گن نے ایک پیالی چاء کی گنجائش نکال ہی لی اور قہر درویش برجان درویش شکریہ کے ساتھ چائے پی۔ بٹالہ سے گاڑی بدل کر قادیان جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئے۔
لیجئے صاحب میں قادیان پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب اور عرفانی صاحب نے اسٹیشن پر ہی گلے لگایا۔ گلے ملتے اور باتیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے۔ ہاتھ منہ دھویا، چائے اور تکلفات تو یہاں بھی بہت تھے مگر مجھے اپنی سلامتی کی ضرورت تھی۔ محمود احمد صاحب عرفانی کو لے کر نکل گیا۔ یہ وہ شہر ہے جس کا نام برسوں سے سنتا آ رہا تھا۔ ہر مکان کو دیکھتا ہر مکین پر نظریں جماتا۔ بازار کو دیکھتا اور دکانداروں کو گھورتا اس شہر نما قصبہ میں گزرتا رہا۔ قادیان کی وضع تو پنجاب کے اور قصبوں کی سی ہے۔ مگر جماعت کے اتحاد، اتفاق اور تنظیم نے اس کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ بڑے بڑے بنگلہ، خانہ باغ، سڑک، مدرسے، بورڈنگ ہائوس، اسپتال، بازار اور ساہوکارہ، برقی پریس، اطباء یونانی، ویدک دواخانہ،کارخانے جیسی چیزیں یہاں موجود ہیں۔ یہاں کی آبادی میں حضرت مسیح موعود کے خاندان کے افراد آباد ہیں۔ جماعت کے کارکن آباد ہیں۔ وہ بھی آباد ہیں جو اعتقاد و ایمان سے قربت چاہتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو قربت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو ترک وطن کر کے آباد ہوئے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو جماعت کی خاطر مقیم ہیں۔ ایسے طالب علم بھی ہیں جو شوق تبلیغ میں علم حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے طالب علم بھی ہیں جو مدارس میںابتدائی تعلیم کے لئے بورڈنگ میں ہیں۔ جماعت کا ہر شعبہ ایک افسر کی نگرانی میں ہے اور اس افسر کا عملہ اور دفتر علیحدہ ہے۔ تمام دنیا کے ڈاکخانوں سے یہاں ڈاک آتی ہے اور جاتی ہے۔ تار آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ اس لئے قادیان کو قصبہ کہنا تو غلطی ہے۔ اچھا خاصہ شہر ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ روز بروز اس میں ترقی ہی ہوگی کیونکہ جواں ہمت اور جواں عزم جماعت کام کر رہی ہے اور پابند ملت مسلمانوں کی بستی ہے جو بستے بستے بستی ہے۔
عرفانی صاحب کے ساتھ میں جماعت کے مقامات دیکھتا۔ یادگاروں پر نظر ڈالتا قدیم بستی میں آپا نصرت جہاں بیگم کے پاس پہنچا۔ یہاں جماعت کی طرف سے مسلح پہرہ ہے۔ اطلاع کرائی گئی اور زنانہ میں بلا لیا گیا۔ آپا نے بڑھ کر مجھے اپنے کمرہ میں لیا اور نہایت کراری آواز سے سلام علیکم کہا۔ مزاج پوچھا۔ خیریت دریافت کی۔ حالات پوچھے۔ گزرے ہوئوں کا ذکر کیا۔ زندوں کو دعا دی عزیزوں کو نام بنام دریافت کیا اور پھر حاضر ہونے کے وعدہ پر میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ملنے باہر چل دیا۔ میاں مجھ سے ایک سال چھوٹے ہیں۔ پنجاب کی آب و ہوا میں رہ کر وہ کسب علم اور جماعت کی ضروریات کے انہماک میں رہ کر مجھ سے بڑے معلوم ہوتے ہیں۔ قویٰ مغلوں کے سے ہیں۔ آنکھوں میں چمک ویسی ہی ہے۔ چہرے کی دونوں ہڈیاں ابھری ہوئی ہیں۔ کشادہ پیشانی، بلند قامت ہیں۔ گفتار اور رفتار میں مردانہ وضع ہے۔ میاں جس مکان میں رہتے ہیں یہ اور بھائیوں کے مکانات سے ملا ہوا ہے۔ حصے جدا جدا ہیں مگر آپس میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان مکانوں تک موٹر آ جاتی ہے۔ یہاں سے قریب ہی مسجد اقصیٰ ہے اور اسی مسجد میں مینارۃ المسیح ہے یہیں نماز جمعہ ہوتی ہے۔ مسجد شاندار نہیں کیونکہ تھوڑی تھوڑی بنی ہے اور ہر حصہ اپنے پہلے حصہ سے جدا معلوم ہوتا ہے۔
قادیان کے قیام میں میرا ناشتہ تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہوتا اور وقتوں کے کھانے دعوتوں کی صورت میں ہوتے۔ دعوتوں سے وقت بچتا تو قادیان کے قرب و جوار کے مقامات دیکھنے میں صرف کرتا۔ محمود احمد صاحب عرفانی میرے ساتھ ہوتے اور جدھر منہ اٹھتا ادھر نکل جاتے۔ پنجاب کی آب و ہوا۔ دسمبر کا مہینہ، مرغن اور مکلف کھانے کھاتا بھی اور ہضم بھی کر جاتا۔ اگر حیدر آباد میں ایک ہفتہ بھی بدپرہیزی کر جاتا تو آپریشن نہیں تو کم از کم تنقیہ معدہ کی ضرورت لاحق ہو جاتی۔ عزیزوں نے محبت سے کھلایا اور ایک عزیر مسافر نے آنکھیں بند اور دل کھول کر مسافر نوازی کی داد دی۔ میرا قیام تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں تھا۔ مگر مہمانی پورے قادیان نے ادا کی۔ ڈاکٹر صاحب اکثر جگہ ساتھ ہوتے۔ مگر وہ نقرس کے مرض سے مجبور ہو گئے ہیں۔ آہستہ چلتے ہیں۔ آہستہ بات کرتے ہیں۔ نہایت متین سنجیدہ اور حلیم ہیں۔ سب سے محبت سے پیش آتے ہیں۔ سب کی خاطر کرتے ہیں۔ سب سے خوش ہو کر ملتے ہیں دہلی کی قدیم وضع کا مکان ہے جس میں پائین باغ ہے۔ پنشن لے لی ہے اور قادیان میں اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جب تک میں قادیان میں رہا گویا دارالسلام میں رہا۔ نہ تو موسم کی تیزی نے کوئی بُرا اثر کیا اور نہ میری بدپرہیزی نے میرا کچھ بگاڑا۔ آپا صاحبہ( اُمُّ المؤمنین) کا یہ وطیرہ رہا کہ علی الصبح میرے پاس پہنچ جاتیں اور دروازہ کو کھٹک کر اندر آ جاتیں۔ سلام علیکم کرتیں اور باتیں شروع کر دیتیں میں لحاف اوڑھے پلنگ پر بیٹھا ہوتا اور ٹہل ٹہل کر باتیں کرتی جاتیں۔ آواز میں کرارہ پن باقی ہے۔ ہاتھ پائوں تندرست اور سیدھے ہیں۔ آنکھیں کام دیتی ہیں۔ قویٰ میں توانائی اور چستی معلوم ہوتی ہے۔ بات کو معقولیت سے سنتی ہیں اور معقولیت سے جواب دیتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ پر گفتگو کرتی ہیں اور بے دھڑک خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ پان کا زیادہ شوق ہے۔ بات کرتی جاتی ہیں اور پان کھاتی جاتی ہیں۔ دلی والوں کا سا لباس ہے۔ اونی پائتابہ پہن کر گرم رنگین تنگ موری پاجامہ پہنتی ہیں۔ گرم اونی کرتہ پر سوئٹر پہن کر کشمیری شال سر سے اس طرح اوڑھتی ہیں کہ سر بھی ڈھک جاتا ہے اور مفلر بھی معلوم ہوتا ہے اور کوٹ پہن کر ان سب کو ایک جگہ کر لیتی ہیں۔ ایک ہاتھ میں تسبیح اور ایک میں دستانہ ہوتا ہے۔ علی الصبح بعد نماز گھر سے نکلتی ہیں۔ پہلے عزیزوں کے ہاں، دوستوں کے ہاں، اخلاص مندوں اور معتقدوں کے ہاں جاتی ہیں۔ اس میں مزاج پرسی، دریافت حال، عیادت اور تیمارداری سب ہی کچھ ہوتا ہے۔ کہیں بچوں کا علاج کرتی ہیں۔ کہیں بڑوں کی مزاج پرسی۔ کسی جگہ دوا بتاتی ہیں اور کہیں دوا خود تیار کر کے دیتی ہیں۔ دلّی کی بڑی بوڑھی بیگمات کا یہ طریقہ تھا کہ بچوں کے درد دکھ کا علاج گھر کی بڑی بوڑھی بیگمیں کیا کرتی تھیں۔ وہی آپا صاحبہ کا طریقہ کار ہے اور اس علاج معالجہ میں ان کو اچھی دست گاہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے چٹکلے بچوں کے معمولی امراض میںبہت مفیدہوتے ہیں۔ دس گیارہ بجے تک وہ اپنی اس مصروفیت سے فارغ ہو کر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھا کر آرام کرتی ہیں۔ ظہر اور عصر کی نماز تک گھر میں بہو بیٹیوں سے ملتی رہتی ہیں اور شام کو پھر چہل قدمی کو نکل جاتی ہیں۔ اس پروگرام کی وہ حتی المقدور پابندی کرتی ہیں۔ اس وقت ان کی عمر(…) سال ہے۔ مگر ارادہ میں جوان ہیں۔ عمل میں جوان ہیں۔ اپنے عزم میں جوان ہیں۔ ایک بارعب کمانڈر کی طرح قادیان کی آبادی پر اثر ہے۔ جس طرح خلوص اور محبت سے ملتی ہیں۔ اسی طرح رعب اور اثر سے کام لیتی ہیں۔ ان امور میں ان کو دلچسپی ہے اور اسی کو انہوں نے اپنا شغل بنا رکھا ہے۔ جس طرح کنبہ کو ان کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قادیان کی آبادی کو ان کی ضرورت ہے۔ یہ بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک سے حسن سلوک کے ساتھ ملتی ہیں۔ جو کچھ ممکن ہوتا ہے اس کی خدمت کرتی ہیں۔ اطمینان اور دلاسہ دیتی ہیں۔
بہر حال برسوں کی آرزو پوری کر کے عزیزوں سے مل کے قادیان کو دیکھ کے قادیان سے رخصت ہو گیا۔ جی تو چاہتا ہے کہ ایک دفعہ اور ہو آئوں مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اب تک تو یہی ہو رہا ہے۔ آئندہ کی خبر خدا جانے۔ والسلام۔ سلیم بیگ

ء…ء…ء












حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق
حضرت اُمُّ المؤمنین کی رِوَایات









تمہیدی نوٹ
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان بہت بلند ہے اور آپ کی سیرۃ مطہرہ میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو آپ کو دوسروں سے امتیاز بخشتی ہیں۔ منجملہ ان خصوصیات کے ایک یہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ اندرونِ خانہ اور اہلی زندگی کا اسوۂ حسنہ آپ ہی کے ذریعہ معلوم ہوا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فقاہت اور فطنت کی ایک عدیم النظیر خاتون تھیں اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایام حج میں آپ کے آستانہ پر ایک بے پناہ ہجوم ہر ملک کے لوگوں کا موجود رہتا تھا تا کہ آپؓ سے بعض مسائل معلوم کریں۔ چنانچہ لوگ سوال کرتے اور آپؓ ان کے جوابات سے تربیت کے اہم فرض کو ادا فرماتی تھیں۔ اسی طرح حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اندرون خانہ زندگی کا بہترین علم آپ کے ذریعہ ملا ہے اور یہ عجیب بات ہے جیسے سب سے زیادہ موقعہ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کو ازدواج مطہرات میں ملا۔ اسی طرح یہ نعمت حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ہی کے حصہ میں آئی اور کیوں ایسا نہ ہوتا۔ مشیت ایزدی نے ازل ہی سے یہ مقرر کر رکھا تھا۔
خدا تعالیٰ کی وحی میں اذکر نعمتی جو آیا ہے تو حضرت اُمُّ المؤمنین کا وجود مختلف رنگوں میں ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ گویا وہ مجسم نعمت ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے ذریعہ جو روایات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک سیرۃ کے متعلق میں ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ الاحد کی سعی اور محنت کا نتیجہ ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کے سوا کسی دوسرے سے یہ ممکن نہ تھا۔ آپ کو حضرت اُمُّ المؤمنین کے نورِ نظر ہونے کی حیثیت سے ہر وقت یہ موقعہ حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے اوقات اور طبیعت کی درستی کو نگاہ رکھتے ہوئے تھوڑا تھوڑا دریافت کرتے رہیں۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ بہت بڑا حصہ اس طرح جمع ہو گیا۔ اس وقت تک کے شائع شدہ حصہ کو سیرۃ المہدی ہی سے لے کر میں شائع کرنے کی عزت و سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اس قدر بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ میں نے عموماً نفس روایات کو درج کیا ہے۔ کہیں کہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مختصر نوٹوں کو بغرض توضیح درج کر دیا ہے۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب قبلہ نے بھی خصوصیت سے لکھا تھا کہ روایات درج کرنی ضروری ہیں اگر ایسا اشارہ نہ بھی ہوتا تب بھی میں روایات کا اندراج ضروری سمجھتا تھا اس لئے کہ اس سے خود حضرت اُمُّ المؤمنین کی بصیرت اور سیرت پر روشنی پڑتی ہے۔ (عرفانی کبیر)
روایات
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۱۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ ان سے فرمایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ مجھے معلوم ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرمایا کہ بتایا گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم بہت پڑھنا چاہئے۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس وجہ سے آپؑ اُسے بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ حتی کہ رات کو بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے بھی یہی کلمہ آپؑ کی زبان پر ہوتا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۲۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے۔ وضو کر لیتے تھے۔ سوائے اس کے کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے آپؑ رُک جاویں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۳۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پنجوقتہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کرتے تھے۔ ایک نماز اشراق (دو یاچار رکعات) جو آپؑ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد (آٹھ رکعات) جو آپؑ ہمیشہ پڑھتے تھے۔ سوائے اس کے کہ آپؑ زیادہ بیمار ہوں۔ لیکن ایسی صورت میں بھی آپؑ تہجد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۴۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصہ آپ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اوّل تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماً بہت دیر تک لکھتے رہتے تھے دوسرے آپ کو پیشاب کے لئے بھی کئی دفعہ اُٹھنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ نماز تہجد کے لئے بھی اُٹھتے تھے۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مٹی کے تیل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر کام کرنا ناپسند کرتے تھے اور اس کی جگہ موم بتیاں استعمال کرتے تھے۔ ایک زمانہ میں کچھ عرصہ گیس کا لیمپ بھی استعمال کیا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۵۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضۂ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عموماً خفیف پڑھتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۶۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر سے واپس قادیان آ رہا تھا تو میں نے بٹالہ پہنچ کر قادیان کے لئے یکہ کرایہ پر کیا۔ اس یکہ میں ایک ہندو سواری بھی بیٹھنے والی تھی۔ جب ہم سوار ہونے لگے تو وہ ہندو جلدی کر کے اُس طرف چڑھ گیا جو سورج کے رُخ سے دوسری جانب تھی اور مجھے سورج کے سامنے بیٹھنا پڑا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب ہم شہر سے نکلے تو ناگاہ بادل کا ٹکڑاُٹھا اور میرے اور سورج کے درمیان آ گیا اور ساتھ ساتھ آیا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا وہ ہندو پھر کچھ بولا۔ والدہ نے فرمایا یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ پھر اس ہندو نے بہت معذرت کی اور شرمندہ ہوا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ گرمی کے دن تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۷۔ بیان کیا کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا۔ راستہ میں بارش آ گئی۔ میں اور میرا ساتھی یکہ سے اُتر آئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا۔ جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آ جائیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا۔ نہ میں اُسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۸۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ جب بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود کے والد صاحب) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایساہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آ گیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ تمہارے دادا کشمیر سے اپنے آدمی کو چند ماہ کے بعد خط اور روپیہ دے کر بھیجا کرتے تھے۔ نقدی وغیرہ چاندی سونے کی صورت میں ایک گدڑی کی تہہ کے اندر سلی ہوئی ہوتی تھی۔ جو وہ آدمی راستہ میں پہنے رکھتا تھا اور قادیان پہنچ کر اُتار کر اندر گھر میں بھیج دیتا۔ گھر والے کھول کر نقدی نکال لیتے تھے اور پھر گدڑی واپس کر دیتے تھے۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی اُوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آج کل ڈپٹی کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۹۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ نیز بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے کہ جب مبارکہ بیگم (ہماری ہمشیرہ) پیدا ہونے لگیں تو منگل کا دن تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ منگل گزرنے کے بعد پیدا ہو۔ چنانچہ وہ منگل گزرنے کے بعد بدھ کی رات کو پیدا ہوئیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۱۰۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جن کو دنیوی شان و شوکت کا خیال ہے کہ محکمے ہوں دفاتر ہوں بڑی بڑی عمارتیں ہوں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی مثلاً مولوی نورالدین صاحب کے اثر کے نیچے آ کر جماعت میں داخل ہوگئے ہیں اور انہی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو خاص میری ذات سے تعلق ہے اور وہ ہر بات میں میری رضا اور میری خوشی کو مقدم رکھتے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۱۱۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ عدالت میں اور اور مقدمے ہوتے رہے اور میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کرتا رہا۔ چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑنی شروع ہو گئیں۔ مگر میں نماز پڑھتا رہا۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بیرا کھڑا ہے۔ سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۱۲۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میںترقی کرنے کیلئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔فرماتے تھے ۔ پھر میںنے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھاکہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجت مند کو دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔ خصوصاً شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۳) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لدھیانہ میں لی تھی۔ پہلے دن چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی۔ پھر جب آپ گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بیعت کی۔ سب سے پہلے مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب) نے بیعت کی تھی۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ نے کب بیعت کی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے توقف کیا اور کئی سال بعد بیعت کی۔ یہ غلط ہے بلکہ میں کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہوئی ہمیشہ آپ کیساتھ رہی اور شروع سے ہی اپنے آپ کو بیعت میں سمجھااور اپنے لئے باقاعدہ الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۴) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ مسیحیت شائع کرنے لگے تو اس وقت آپؑ قادیا ن میںتھے۔ آپؑ نے اس کے متعلق ابتدائی رسالے یہیں لکھے۔ پھر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے اور وہاں سے دعویٰ شائع کیا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ دعویٰ شائع کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں ایسی بات کا اعلان کرنے لگا ہوں جس سے ملک میں مخالفت کا بہت شور پیدا ہو گا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ اس اعلان پر بعض ابتدائی بیعت کرنے والوں کو بھی ٹھوکر لگ گئی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۵) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر تھے اور سو رہے تھے۔ میں نے آپ کی زبان پر ایک فقرہ جاری ہوتے سنا۔ میں نے سمجھا کہ الہام ہوا ہے پھر آپ بیدار ہو گئے۔ تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تم کو کیسے معلوم ہوا؟ میںنے کہا مجھے آواز سنائی دی تھی۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ الہام کے وقت آپ کی کیا حالت ہوتی تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور ماتھے پر پسینہ آ جاتاتھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۶) بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا (مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی) لاولد فوت ہو گئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیدار سلطان احمد کے نام بطور متبنیٰ کے کرا دو۔ وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی۔ چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا صاحب کی تمام جائیداد مرزا سلطان احمد کے نام کرا دی۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھاکہ حضرت صاحب نے متبنیٰ کی صورت کس طرح منظور فرمالی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ یہ تو یونہی ایک بات تھی۔ ورنہ وفات کے بعدمتبنٰی کیسا۔ مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائیداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیںکرائی۔ کیونکہ اس وقت کے حالات کے تحت ویسے بھی مرزا سلطان احمد کو آپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا تھا اور باقی نصف مرزا فضل احمد کو۔ پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد کا حصہ الگ کر دیا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۷) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرزا فضل احمد فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ تمہاری اولاد کے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمد ہی تھا۔ سو وہ بیچارہ بھی گزر گیا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۸) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آ گئے۔ پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے مگر مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھااور وہ کبھی اِدھر بھاگتا تھااور کبھی اُدھر کبھی اپنی پگڑی اُتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھااور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۱۹) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر ’’پھجے دی ماں‘‘ کہا کرتے تھے بے تعلقی سی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان سے مباشرت ترک کر دی تھی۔ ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہگار ہوں گا۔ اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو۔ میں تم کو خرچ دیئے جاؤںگا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی۔ بس مجھے خرچ ملتا رہے۔ میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ محمدی بیگم کا سوال اٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا۔ بلکہ ان کے ساتھ رہیں۔ تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۰) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوقِ مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھا اور وہ قریباً ایک لاکھ تھا۔ سب ان مقدمات پر صرف کر دیا۔ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانہ میں اتنے روپے سے سَوگنی بڑی جائیداد خریدی جا سکتی تھی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۱) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ پانچ بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جن کی شادی مرزا محمد بیگ ہوشیار پوری کے ساتھ ہوئی تھی حضرت صاحب کی یہ ہمشیرہ صاحب رویا وکشف تھیں۔ ان کا نام مراد بی بی تھا۔ ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب تھے۔ ان سے چھوٹا ایک لڑکا تھا جو بچپن میں فوت ہو گیا۔ اس سے چھوٹی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھی جو آپ کے ساتھ توام پیدا ہوئی اور جلد فوت ہوگئی۔ اس کا نام جنت تھا۔ سب سے چھوٹے حضرت مسیح موعود تھے۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھی کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا۔ بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پر لکھی ہوئی سورہ مریم تھی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۲) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ طور پر دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ دیا کرتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیا کرتے تھے اور آخری ایام میں جتنا روپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقہ کیلئے الگ کر دیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیں دیتے تھے بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میں کوتاہی کرتا ہے۔ لیکن اگر صدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیا جاوے تو پھر کوتاہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھر دوسرے مصرف میں نہیں آ سکتا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تمام آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۳) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑجب کسی سے قرضہ لیتے تھے تو واپس کرتے ہوئے کچھ زیادہ دے دیتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مثال یاد ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس وقت مثال تو یاد نہیں مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے اور والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب کبھی کوئی نیکی کی بات بیان نہیں فرماتے تھے جب تک کہ خود اس پر عمل نہ ہو۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود نے کبھی کسی کو قرض بھی دیا ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں کئی دفعہ دیا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ مولوی صاحب (خلیفہ اوّل) اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے آپ سے قرض لیا۔ مولوی صاحب نے جب قرض کا روپیہ واپس بھیجا تو آپ نے واپس فرما دیا اور کہلا بھیجا کہ کیا آپؓ ہمارے روپے کو اپنے روپیہ سے الگ سمجھتے ہیں۔ مولوی صاحب نے اسی وقت حکیم فضل الدین صاحب کو کہلا بھیجا کہ میں یہ غلطی کر کے جھاڑ کھا چکا ہوں دیکھنا تم روپیہ واپس نہ بھیجنا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۴) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۵) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کھانوں میں سے پرندے کا گوشت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ شروع شروع میں بھیڑ بھی کھاتے تھے۔ لیکن جب طاعون کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے اس کا گوشت کھانا چھوڑ دیا کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ مچھلی کاگوشت بھی حضرت صاحب کو پسند تھا۔ ناشتہ باقاعدہ نہیں کرتے تھے۔ ہاں عموماً صبح کو دودھ پی لیتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو دودھ ہضم ہو جاتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہضم تو نہیں ہوتا تھا مگر پی لیتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پکوڑے بھی حضرت کو پسند تھے۔ ایک زمانے میں شکنجبین کا شربت بہت استعمال فرمایا تھا۔ مگر پھر چھوڑ دی۔ ایک دفعہ آپ نے ایک لمبے عرصہ تک کوئی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی صرف تھوڑے سے دہی کے ساتھ روٹی لگا کر کھا لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی مکی کی روٹی بھی پسند کرتے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑتے تھے۔ کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔ ایک زمانہ میں آپ نے چائے کا بہت استعمال فرمایا تھا۔ مگر پھر چھوڑ دی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ حضرت صاحب کھانا بہت تھوڑا کھاتے تھے اور کھانے کا وقت بھی کوئی خاص مقرر نہیں تھا۔ صبح کا کھانا بعض اوقات بارہ بارہ ایک ایک بجے بھی کھاتے تھے۔ شام کا کھانا عموماً مغرب کے بعد۔ مگر کبھی کبھی پہلے بھی کھا لیتے تھے۔ غرض کوئی وقت معین نہیں تھا۔ بعض اوقات خود کھانا مانگ لیتے تھے کہ لائو کھانا تیار ہے تو دے دو پھر میں نے کام شروع کرنا ہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ کس وقت کام کرتے تھے؟ والدہ صاحب نے فرمایا کہ بس سارا دن کام میں ہی گزرتا تھا۔ دس بجے ڈاک آتی تھی تو ڈاک کا مطالعہ فرماتے تھے اور اس سے پہلے بعض اوقات تصنیف کا کام شروع نہیں فرماتے تھے تاکہ ڈاک کی وجہ سے درمیان میں سلسلہ منقطع نہ ہو۔ مگر کبھی پہلے بھی شروع کر دیتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۶) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ پہلے لنگر کا انتظام ہمارے گھر میں ہوتا تھا اور گھر سے سارا کھانا پک کر جاتا تھا۔ مگر جب آخری سالوں میں زیادہ کام ہو گیا تو میں نے کہہ کر باہر انتظام کروا دیا۔ خاکسار نے والدہ صاحب سے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کسی مہمان کے لئے خاص کھانا پکانے کیلئے بھی فرماتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں بعض اوقات فرماتے تھے کہ فلاں مہمان آئے ہیں ان کے لئے یہ کھانا تیار کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ شروع میں سب لوگ لنگر سے ہی کھانا کھاتے تھے۔ خواہ مہمان ہوں یا یہاں مقیم ہو چکے ہوں۔ مقیم لوگ بعض اوقات اپنے پسند کی کوئی خاص چیز اپنے گھروں میں بھی پکا لیتے تھے۔ مگر حضرت صاحب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اگر ہو سکے تو ایسی چیزیں بھی ان کے لئے آپ ہی کی طرف سے تیار ہو کر جاویں اور آپ کی خواہش رہتی تھی کہ جو شخص جس قسم کے کھانے کا عادی ہو اس کو اسی قسم کا کھانا دیا جا سکے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۷) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے۔ مگر دونوں بچپن میں فوت ہو گئے۔ لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا۔ حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۸) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تم بچے تھے اور شائد دوسری جماعت میں ہوگے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود رفع حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم اس وقت ایک چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں ما رہے اور قلابازیاں کھا رہے تھے۔ آپ نے دیکھ کر تبسم فرمایا اور کہا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے۔ پھر فرمایا اسے ایم۔ اے کرانا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۲۹) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے پائجامہ اُتار کر تہہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کرتا بھی اُتار کر سوتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۰) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سِل ہو گئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک حالت ہوگئی حتیّٰ کہ زندگی سے نا امیدی ہو گئی۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آ کر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میں یہی حال ہے۔ سبھی کو مرنا ہے کوئی آگے گزر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہونا چاہئے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کا شوربا کھلایا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۱) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو میر صاحب (یعنی خاکسار کے نانا جان) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم یہاں چھ سات ماہ ٹھہرے تھے۔ پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی ہوئی تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑ گئے تھے۔ اور پھر ایک مہینہ کے بعد آ کر لے گئے۔ اس وقت تمہارے تایا قادیان سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں آپ نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو اسی مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھا اور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے۔ آج کل وہ کمرہ مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۲) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہوگی۔ چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہلحدیث لوگوں کی فہرست رہتی تھی اور میر صاحب بھی اہلحدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا۔ آپ نے میر صاحب کو لکھا۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوت عمر ناپسند کیا۔ مگر آخر رضا مند ہو گئے اور پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا یہ ۲۷/ محرم ۱۳۰۲؁ھ بروز پیر کی بات ہے اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی ۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذر دیا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۳) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اس لئے چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کیا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۴) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں غرارے استعمال فرمایا کرتے تھے پھر میں نے کہہ کر وہ ترک کروادیئے اس کے بعد آپ معمولی پائجامے استعمال کرنے لگ گئے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۵) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۶) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ انما اشکوبثی وَحُزنی الی اللّٰہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۷) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۸) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ مجھے دو یاد تھے۔ مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نے تین دیکھے تھے اور تین ہی لکھے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۳۹) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے۔ پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ مگرہمارے موجودہ سارے لڑکے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں۔ چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی) کو تو حضرت صاحب نے اس طرح تین کو چار کرنے والا قرار دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا اور بشیر اوّل کو بھی۔ تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل کو چھوڑ دیا۔ شریف احمد کو اس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمد اور فضل احمدچھوڑ دیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ اور شمار کر لئے اور مبارک کو اس طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل کو چھوڑ دیا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۰) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خواب شروع ہو گئی تھیں جب آپ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی۔ میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۱) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ تمہارے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بچپن کی بے پروائی میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہوگئی اور اس پر حضرت مسیح موعود کو اتنا غصہ آیا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے غصہ میں مبارک احمد کے شانہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے اس کے نازک بدن پر آپ کی انگلیوں کا نشان اُٹھ آیا اور آپ نے اس غصہ کی حالت میں فرمایا کہ اس کو اس وقت میرے سامنے سے لے جائو۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم ہم سب بھائیوں میں سے عمر میں چھوٹا تھا اور حضرت صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی چنانچہ اس کی وفات پر جو شعر آپ نے کتبہ پر لکھے جانے کے لئے کہے اس کا ایک شعر یہ ہے۔
جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
مبارک احمد بہت نیک سیرت بچہ تھا اور وفات کے وقت اس کی عمر صرف کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی۔ لیکن حضرت صاحب نے قرآن شریف کی بے حرمتی دیکھ کر اس کی تادیب ضروری سمجھی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۲) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیداہوئی تھی اور بشیر اوّل اتوار سے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود (یعنی حضرت خلیفہ ثانی) ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم (یعنی یہ خاکسار) جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیداہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کو نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔ اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شاید پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔ نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے (شدائد والے) اثر سے محفوظ رکھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثرات اور افاضۂ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تاثرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۳) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مبارک احمد فوت ہوگیا اور مریم بیگم جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی بیوہ رہ گئی تو حضرت صاحب نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آ جاوے تواچھا ہے۔ یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کر لے تو بہتر ہے۔ چنانچہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ زیادہ تر اسی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے مریم بیگم سے شادی کی ہے۔ نیز والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ جب حضرت صاحب کے سامنے تم لڑکوں کی شادی کی تجویز ہوتی تھی اور کبھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ فلاں لڑکی کی عمر لڑکے کی عمر کے قریباً قریباً برابر ہے جس سے بڑے ہو کر لڑکے کو تکلیف کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ عموماً عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے اور مرد کے قویٰ دیر تک قائم رہتے ہیں تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے اگر ضرورت ہوگی تو بڑے ہو کر بچے اور شادی کر لیں گے۔ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ اسلامی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے احمدی زیادہ شادیاں کریں تا کہ نسل جلدی جلدی ترقی کرے اور قوم پھیلے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیشک نسل کی ترقی کا یہ ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے اور نیز اس طرح یہ فائدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتوں کو اپنے سامنے زیادہ بچوں کی تربیت کاموقعہ مل سکتا ہے۔ جو قومی فلاح و بہبودی کے لئے بہت ضروری ہے لیکن ازدواج کے متعلق عدل و انصاف کی جو کڑی شرطیں اسلام پیش کرتا ہے ان کا پورا کرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ ہاں جن کو یہ توفیق حاصل ہو اور ان کو کوئی جائز ضرورت پیش آ جائے وہ بے شک زیادہ بیویاں کریں تا کہ علاوہ ان فوائد کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ یہ فائدہ بھی حاصل ہو کہ ایسے لوگوں کے نیک نمونے سے وہ اور بدگمانی دور ہو جو بعض لوگوں کے بدنمونے کے نتیجہ میں ازدواج کے متعلق اس زمانہ میں خصوصاً حلقہ نسواں میں پیدا ہو رہی ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۴) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب شروع دعویٰ مسیحیت میں دہلی تشریف لے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی۔ اُس وقت شہر میں مخالفت کا سخت شور تھا۔ چنانچہ حضرت صاحب نے افسران پولیس کا انتظام کر کے ایک پولیس مین کو اپنے طرف سے تنخواہ دینی کر کے مکان کی ڈیوڑھی پر پہرہ کے لئے مقرر کرا لیا تھا۔ پولیس مین پنجابی تھا اس کے علاوہ ویسے بھی مردانہ میں کافی احمدی حضرت صاحب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۵) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک (دفعہ) ابتدائی زمانہ میں احباب کے جمع ہونے کی وجہ سے ایک جلسہ کی سی صورت ہوگئی اور لوگوں نے خواہش کی کہ حضرت صاحب کچھ تقریر فرمائیں جب آپ تقریر کیلئے باہر تشریف لے جانے لگے تو فرمانے لگے کہ مجھے تو تقریر کرنی نہیں آتی۔ میں جا کر کیا کہوں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے جو یہ کہا تھا کہ لاَ یَنْطَلِقُ لِسَانِی اس کا بھی یہ مطلب تھا کہ میں تقریر کرنا نہیں جانتا۔ مگر خدا جس کو کسی منصب پر کھڑا کرتا ہے اس کو اس کا اہل پا کر ایسا کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتی ہے تو اسے خود پورا فرما دیتا ہے۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں پہنچتے ہیں تو آپ کی زبان ایسی چلی کہ حضرت ہارون جن کو وہ اپنی جگہ منصب نبوت کے لئے پیش کر رہے تھے گویا بالکل ہی پس پشت ہوگئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے وہ تقریر کی طاقت دی کہ دنیا داروں نے آپ کی سحر بیانی کو دیکھ کر یہ کہنا شروع کیا کہ اس شخص کی زبان میں جادو ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۶) حضرت والدہ صاحبہ یعنی اُمُّ المؤمنین اطال اللہ بقائہا نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا۔ جس کا دماغ پر بھی اثر تھا۔ اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی اور آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا۔ علاج یہ تھا کہ آپ نے مرغا ذبح کر کے سر پر باندھا۔ جس سے فائدہ ہو گیا۔ اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی۔ ورنہ آخری زمانہ میں تو حضرت خلیفہ اوّل جو ایک ماہر طبیب تھے ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے یا ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے وقت کی بات ہو جب حضرت خلیفہ اوّل عارضی طور پر کسی سفر پر باہر گئے ہوں گے۔ مگر بہرحال حضرت صاحب کے اعلیٰ اخلاق کا یہ ایک بیّن ثبوت ہے کہ ایک دشمن کی تکلیف کا سن کر بھی آپ کی طبیعت پریشان ہوگئی اور آپ اس کی امداد کے لئے پہنچ گئے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۷) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو کبھی کبھی پائوں کے انگوٹھے پر نقرس کا درد ہو جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ شروع میں گھٹنے کے جوڑ میں بھی درد ہوا تھا نہ معلوم وہ کیا تھا۔ مگر دو تین دن زیادہ تکلیف رہی۔ پھر جونکیں لگانے سے آرام آیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ نقرس کے درد میں آپ کا انگوٹھا سوج جاتا تھا اور سرخ ہو جاتا تھا اور بہت تکلیف ہوتی تھی۔ خاکسار نے بھی درد نقرس حضرت صاحب سے ہی ورثہ میں پایا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو بھی کبھی کبھی اس کی شکایت ہو جاتی ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۸) حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے ٹخنے کے پاس پھوڑا ہو گیا تھا جس پر حضرت صاحب نے اس پر سکّہ یعنی سیسہ کی ٹکیہ بندھوائی تھی جس سے آرام ہو گیا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۴۹) ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمُّ المؤمنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ میں نے حضرت اُمُّ المؤمنین سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکر آ جاتا ہے اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر پڑھ لیا کرو۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۰) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری (میں) بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا۔ اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا۔’’یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا‘‘۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۱) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب گورداسپور میں کرم الدین کے ساتھ حضرت صاحب کا مقدمہ تھا تو ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ حضرت صاحب کو امرتسر میں سولی پرلٹکایا جائے گا تاکہ قادیان والوں کو آسانی ہو۔ میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کیا تو حضرت صاحب خوش ہوئے اور کہاکہ مبشر خواب ہے۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب سولی پر چڑھنے کی یہ تعبیر کیا کرتے تھے کہ عزت افزائی ہو گی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۲) بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہا کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شائد گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت صاحب نے کہا نہیں یہ میں نہیں لیتا۔ انہوںنے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیںکہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہو گیا۔ یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۳) بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنویں پر بیٹھا ہوا لا سابنارہاتھا کہ اس وقت مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی جو گھر سے لانی تھی میرے پاس ایک شخص بکریاںچرارہا تھا میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ چیز لادے اس نے کہا کہ میاں میری بکریاں کون دیکھے گا۔ میںنے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت ہم سے پوری کرا دی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۴) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں پھر رہے تھے۔ جب آپ سنگترہ کے ایک درخت کے پاس (سے) گزرے تو میں نے(یعنی والدہ صاحبہ نے) یا کسی اور نے کہا کہ اس وقت تو سنگترہ کو دل چاہتا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ کیا تم نے سنگترہ لینا ہے؟ والدہ صاحبہ نے یا اس شخص نے کہاکہ ہاں لینا ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے اس درخت کی شاخوں پر ہاتھ مارا اور جب آپ کا ہاتھ شاخوں سے الگ ہوا تو آپ کے ہاتھ میں ایک سنگترہ تھا اور آپ نے فرمایا یہ لو۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ وہ سنگترہ کیسا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا زردرنگ کا پکا ہوا سنگترہ تھا۔ میں نے پوچھا۔ کیا پھر آپ نے اسے کھایا؟ والدہ صاحبہ نے کہا۔ یہ مجھے یاد نہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نے کس طرح ہاتھ مارا تھا؟ اس پر والدہ صاحبہ نے اس طرح ہاتھ مار کر دکھایا اور کہاکہ جس طرح پھل توڑنے والے کا ہاتھ درخت پر ٹھہرتا ہے۔ اس طرح آپ کا ہاتھ شاخوں پر نہیں ٹھہرا۔ بلکہ آپ نے ہاتھ مارا اور فوراً لوٹالیا۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت سنگترہ کا موسم تھا؟ والدہ نے فرمایا کہ نہیں اور وہ درخت بالکل پھل سے خالی تھا۔ خاکسار نے یہ روایت مولوی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے کہاکہ میں نے یہ روایت حضرت خلیفہ ثانی سے بھی سنی ہے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے میرے کہنے پر ہاتھ مارا اور سنگترہ دیا تھا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۵) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا۔ رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اسی کمرہ میں سات آٹھ اور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصہ گزر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرہ کی چھت گرنے والی ہے اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے۔ نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جاؤ۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہوا۔ میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگایا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا۔ میں پھر ناچار لیٹ گیا۔ مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہوا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے۔ میں پھرگھبرا کر اُٹھااور اِس دفعہ سختی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میںجوکہتا ہوںکہ چھت گرنے والا ہے اُٹھو۔ تو تم اُٹھتے کیوں نہیں۔ اس پر ناچار وہ اُٹھا اور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیا۔ پھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی۔ میں دروازے میں کھڑا ہو گیا اور وہ سب ایک ایک کر کے اُترتے گئے۔ جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا۔ ابھی میرا قدم شائد آدھا باہر اور آدھا دہلیز پر تھاکہ یک لخت چھت گری اور اس زور سے گری کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چارپائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے۔ وہ ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتابیگ کون تھا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دُور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کارندہ بھی تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح بیان کیاتھاکہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعو د فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۶) بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت لکھ رہے تھے۔ ایک دفعہ جب آپ شریف (یعنی میرے چھوٹے بھائی عزیزم مرزا شریف احمد) کے مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ مولوی محمد علی سے ایک انگریز نے دریافت کیا تھا کہ جس طرح بڑے آدمی اپنا جانشین مقرر کرتے ہیں کیا انہوں نے مقرر کیا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد آپ فرمانے لگے تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا میں محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) کو کہہ دوں یا فرمایا مقرر کر دوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ میں نے کہا جس طرح آپ مناسب سمجھیں کریں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(۵۷) بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلی دفعہ دورانِ سراور ہسٹیریا کا دورہ بشیر اوّل (ہماراایک بڑا بھائی ہوتا تھا جو ۱۸۸۸؁ء میں فوت ہو گیا تھا) کی وفات کے چنددن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہو گئی۔ مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے مخلص خادم تھے۔ اب فوت ہو چکے ہیں) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی۔ چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہاکہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے۔ شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہو گئی ہے۔ میں پردہ کر کے مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ میں جب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ خاکسار نے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھچ جاتے تھے۔ خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا۔ اور اس حالت میں آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے۔ پھر اس کے بعد کچھ تو دوروںکی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہو گئی۔ خاکسار نے پوچھا اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سردرد کے دورے ہوا کرتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خودنماز پڑھاتے تھے والدہ صاحبہ نے کہاکہ ہاں مگر پھر دوروں کے بعدچھوڑ دی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے کی بات ہے۔
خداتعالیٰ کی وحی میں حضرت اُمُّ المؤمنین کا ذکر
جیسا کہ پہلے لکھاجا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی بشارت کے ساتھ ہی حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کی موعود و مبشر اولاد کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو کلام وقتاً فوقتاً نازل ہوا اس میں سیّدہ ممدوحہ کے متعلق جو ذکر آیا ہے میں اسے بھی یکجائی طور پر درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے بیان کو درج کر دیا گیا ہے۔ (محمود احمد عرفانی)
شادی سے قبل کی وحی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی پیدائش کے بعد ایک لمبا زمانہ گویا تجرد کا زمانہ گزرا ہے آپ اپنے اوقات کو عبادت اور فکرِ دین میں گزارتے تھے کہ ۱۸۸۱؁ء میں آپ پر دوسری شادی اور اس کے ثمرات کے متعلق وحی کا آغاز ہوا۔
عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامِ حَسِیْنٍ
یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا۔ جو اب تک زندہ ہے اور بباعث میرے دعویٰ مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی کو جو میرے پاس رہتا تھا سنایا اور دو ہندوؤں کو جو آمد و رفت رکھتے تھے۔ یعنی شرمپت اور ملاوامل ساکنانِ قادیان کو بھی سنایا اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا۔ کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی موقوف ہو چکی تھی اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی۔ لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے۔ اس سے قریباً تین برس کے بعددہلی…… میں میری شادی ہوئی اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا اور تین اور عطا کئے۔‘‘ ۱؎
’’اُشْکُرنِعمَتِیْ رَئیتَ خَدیْجتِی: ۲؎
ترجمہ۔ میرا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا۔
یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس رشتہ کی طرف تھی۔ جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا……اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی۔‘‘۳؎
’’قریباً اٹھارہ برس (۱۸۸۱؁ء) سے ایک یہ پیشگوئی ہے۔ اَلْحمُد لِلّٰہِ الَّذِی جَعَلَ لکُم الصھر والنَسب- ترجمہ۔ وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سیّد تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا٭ جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی جن میں سے ایک شیخ حامد علی اور میاں جان محمد اور بعض دوسرے دوست ہیں اور ایسا ہی ہندوؤں میں سے شرمپت اور ملاوامل کھتریاں ساکنان قادیان کو قبل از وقت یہ پیشگوئی بتلائی گئی تھی اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہو گئی اور یہ خاندان خواجہ میردرد کی لڑکی کی اولاد میں سے ہے جو مشاہیر اکابر سادات دہلی میں سے ہے جن کو سلطنت

٭حاشیہ: ہمارے خاندان کی قومیت ظاہر ہے اوروہ یہ ہے کہ وہ قوم کے برلاس مغل ہیں اور ہمیشہ اس خاندان کے اکابر امیر اور والیان ملک رہے ہیں وہ سمرقند سے کسی تفرقہ کی وجہ سے بابر بادشاہ کے وقت میں پنجاب میں آئے اور اس علاقہ کی ایک بڑی حکومت ان کو ملی اور کئی سو دیہات ان کی ملکیت تھے جو آخر کم ہوتے ہوتے چوراسی (۸۴) رہ گئے اور سکھوں کے زمانے میں وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے۔ اور پانچ گاؤں باقی رہ گئے اور پھر ایک گاؤں ان میں سے جس کا نام بہادر حسین ۱؎ تھا جس کو حسین نامی ایک بزرگ نے آباد کیا تھا۔ انگریزی سلطنت کے عہد میں ہاتھ سے جاتا رہا۔ کیونکہ ہم نے خود اپنی غفلت سے ایک مدت تک اس گاؤں سے کچھ وصول نہیں کیا تھا اور جیسا کہ مشہور چلا آتا ہے ہماری قوم کو سادات سے یہ تعلق رہا ہے کہ بعض دادیاں ہماری شریف اور مشہور خاندان سادات سے ہیں۔ لیکن مغل قوم کے ہونے کے بارے میں خدا تعالیٰ کے الہام نے مخالفت کی ہے جیسا کہ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۲ میں یہ الہام ہے۔ خُذواالتوحید التوحیدیا ابناء الفارس یعنی توحید کو پکڑ و توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو۔ اس الہام سے صریح طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ دراصل بنی فارس ہیں اور قریب قیاس ہے کہ مرزا کا خطاب ان کو کسی بادشاہ کی طرف سے بطور لقب کے دیا گیا ہو۔ لیکن الہام نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ سلسلہ مادری کی طرف سے ہمارا خاندان سادات سے ملتا ہے بلکہ الہامات میں اس کی تصدیق ہے اور ایسا ہی بعض کشوف میں بھی اس کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ اس جگہ یہ عجیب نکتہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا کہ سادات کی اولاد کو کثرت سے دنیا میں بڑھاوے تو ایک شریف عورت فارسی الاصل کو یعنی شہر بانو کو ان کی دادی بنایا اور اس سے اہل بیت اور فارسی خاندان کے خون کو باہم ملا دیا اور ایسا ہی اس جگہ بھی جب خداتعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ اس عاجز کو دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کرے اور بہت سی اولاد اور ذرّیت مجھ سے دنیا میں پھیلا دے جیسا کہ اس کے الہام میں ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۰ میں درج ہے۔ تو پھر دوبارہ اس نے فارسی خاندان اور سادات کے خون کو باہم ملایا اور پھر میری اولاد کیلئے تیسری مرتبہ ان دونوں خونوں کو ملایا۔ صرف فرق یہ رہاکہ حسینی خاندان کے قائم کرنے کے وقت مرد یعنی امام حسین اولاد فاطمہ میں سے تھا اور اس جگہ عورت یعنی میری بیوی اولاد فاطمہ میں سے یعنی سیّد ہے جس کا نام بجائے شہر بانوں کے نصرت جہاں بیگم ہے۔ منہ
۱؎ یہ گائوں بٹالہ سے شمالی طرف بہ فاصلہ تین کوس واقعہ ہے۔ منہ
چغتائی کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیر عطا ہوئے تھے اور اب تک اس جاگیر میں سے تقسم ہو کر اس خاندان کے تمام لوگ جو خواجہ میر درد کے ورثا ہیں اپنے اپنے حصے پاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ خاندان دہلوی جس سے دامادی کا مجھے تعلق ہے صرف اسی وجہ سے فضیلت نہیں رکھتا کہ وہ اہلِ بیت اور سندی سادات ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی فضیلت رکھتا ہے کہ یہ لوگ دخترزادہ خواجہ میر درد ہیں اور دہلی میں یہ خاندان سلطنت چغتائیہ کے زمانہ میں اپنی صحت نسب اور شہرت خاندان سیادت اور نجابت اور شرافت میں ایسا مشہور رہا ہے کہ اسی عظمت اور شہرت اور بزرگی خاندان سیادت کی وجہ سے بعض نوابوں نے ان کو اپنی لڑکیاں دیں۔ جیسا کہ ریاست لوہارو کا خاندان۔ غرض یہ خاندان اپنی ذاتی خوبیوں اور نجابتوں کی وجہ سے اور نیز خواجہ میر درد کی دختر زادگان ہونے کے باعث سے ایسی عظمت کی نگہ سے دہلی میں دیکھا جاتا تھا کہ گویا دہلی سے مراد انہی عزیزوںکا وجود تھا۔ سوچونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے سو اس میں وہ پیشگوئی مخفی ہے جس کی تصریح براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۰ و صفحہ ۵۵۷ میںموجود ہے اور وہ یہ الہام ہے۔ سُبحَانَ اللّٰہ تبَارک وتَعالیٰ زادمجدک ینَقطِعُ اٰبِائُکَ ویبدء مِنْکَ نُصِرتَ بالِرُعْبِ واحیِیتَ بِالصِدْقِ ایُّھاالصِدِیق نُصِرتَ وقَالُوا لاَتَ حیِنَ منَاصٍ-
’’میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میںایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اس کو قبول کر ے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ اور عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ تمام پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو بڑی برکتوں والا اور عالی ذات ہے اس نے تیری خاندانی بزرگی کو تیرے وجود کے ساتھ زیادہ کیا۔ اب ایسا ہو گا کہ آئندہ تیرے باپ دادے کاذکر منقطع کیا جائے گا اور ابتداء خاندان کا تجھ سے ہو گا۔ تجھے رعب کے ساتھ نصرت دی گئی ہے اور صدق کے ساتھ تو اے صدیق زندہ کیا گیا۔ نصرت تیرے شامل حال ہوئی اور دشمنوں نے کہاکہ اب گریز کی جگہ نہیں اور اردوالہام کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنی قدرت کے نشان دکھلا ئوں گا اور ایک چمک پیدا ہو گی جیسا کہ بجلی سے آسمان کے کناروں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس چمک سے میں لوگوں کو دکھلا دوں گا کہ تو سچا ہے۔ اگر دنیا نے قبول نہ کیا تو کیا حرج کہ میں اپنا قبول کرنا لوگوں پر ظاہر کر دوں گا اور جیساکہ سخت حملوں کے ساتھ تکذیب ہوئی ایسا ہی سخت حملوں کے ساتھ میںتیری سچائی ظاہر کر دوں گا۔ غرض اس جگہ عربی الہام میں جیسا کہ نصرت کا لفظ واقع ہے اسی طرح میری خاتون کا نام نصرت جہاں بیگم رکھا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ جہاں کو فائدہ پہنچانے کے لئے آسمان سے نصرت شامل حال ہو گی اور اردو الہام جو ابھی لکھا گیا ہے۔ ایک عظیم الشان پیشگوئی پرمبنی ہے کیونکہ یہ الہام یہ خبر دیتا ہے کہ ایک وہ وقت آتا ہے جو سخت تکذیب ہو گی اور سخت اہانت اور تحقیر ہو گی۔ تب خدا کی غیرت جوش میں آئے گی اور جیسا کہ سختی کے ساتھ تکذیب ہوئی ایسا ہی اللہ تعالیٰ سخت حملوںکے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ سچائی کا ثبوت دے گا اور اس کتاب کو پڑھ کر ہر ایک منصف معلوم کر لے گا کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہوئی اور الہام مذکورہ بالا یعنی یہ الہام کہ الحمَدللّٰہ الذی جَعَلَ لکم الصِھْرَ والنَسب- جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے تجھے ہر ایک پہلو اور ہر ایک طرف سے خاندانی نجابت کا شرف بخشا ہے۔ کیا تیرا آبائی خاندان اور کیا دامادی کے رشتہ کا خاندان دونوں برگزیدہ ہیں یعنی جس جگہ تعلق دامادی کا ہوا ہے وہ بھی شریف خاندان سادات ہے اور تمہارا آبائی خاندان بھی جو بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے مرکب ہے خدا کے نزدیک شرف اور مرتبت رکھتا ہے ۔ ۳؎
(نوٹ از عرفانی کبیر) سیرۃ اُمُّ المؤمنین کی جلد اوّل میں حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے خاندان کی عظمت کے متعلق جو تاریخی تحقیقات کی گئی ہے اس کی اصل غرض اور مقصد خدا تعالیٰ کے اس کلام کی صداقت کو ثابت کرنا تھا۔ چنانچہ عزیز مکرم محمود احمد عرفانی مرحوم و مغفور نے جلد اوّل کے صفحہ۲۵۵ پر ایک خاص عنوان ’’میں نے یہ سب کچھ کیوں لکھا‘‘ قائم کر کے صراحت کی ہے اسے مکرر پڑھا جاوے (عرفانی کبیر)
’’ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہو گی۔‘‘
اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہرچہ باید نو عروسے را ہمہ ساماں کنم
وانچہ مطلوب شما باشد عطائے آں کنم
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے۔ چنانچہ ایک الہام میں تھاکہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا۔ سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا۔ پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی۔ یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب……بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرا بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اسی اپنے وعدے کو پورے کئے چلا جاتا ہے۔‘‘ ۵؎
’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنہ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ بِکْرٌوَّثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کئے کہ خدا تعالیٰ کاارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بکر ہو گی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا اور اس وقت بفضلہ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیںاور بیوہ کے الہام کی انتظار ہے‘‘۔ ۶؎
(نوٹ) اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اجتہاد میں غلطی واقع ہوئی۔ اس لئے کہ پیشگوئیوں کی حقیقت تو وقوع میں آنے پر کھلتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اس الہام سے دو بیویوں کے متعلق پیشگوئی نزولِ الہام کے وقت سمجھے۔ حقیقت میں یہ ایک ہی پیشگوئی تھی جو حضرت اُمُّ المؤمنین ہی کے متعلق تھی اور اس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کی پیشگوئی بھی تھی۔ یہ شادی جس مبارک خاتون سے ہو گی وہ تیرے نکاح میں باکرہ آئے گی اور پھر تیری وفات پر بیوہ ہو جائے گی۔ یعنی آپ اس کی زندگی میںوفات پا جائیں گے۔ چنانچہ واقعات نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج تک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر چھتیس سال سے زائد گزر گئے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین سلامت باکرامت ہیں۔ وَالْحَمْدُاللّٰہ علیٰ ذَالِکَ
(عرفانی)
تخمیناً سولہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے شیخ حامد علی اور لالہ شرمپت کھتری ساکن قادیان اور لالہ ملاوامل کھتری ساکن قادیان اور جان محمد مرحوم ساکن قادیان اور بہت سے اور لوگوں کو یہ خبر دی تھی کہ خدا نے اپنے الہام سے مجھے اطلاع دی ہے کہ ایک شریف خاندان میں وہ میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سیّد ہوں گے اور اس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد ہو گی اور یہ خواب ان ایام میں آئی تھی کہ جب میں بعض اعراض اور امراض کی وجہ سے بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا بلکہ قریب ہی وہ زمانہ گزر چکا تھا جبکہ مجھے دق کی بیماری ہو گئی تھی اور بباعث گوشہ گزینی اور ترک دنیا کے اہتمامات تاہل سے دل سخت کارہ تھا اور عیالداری کے بوجھ سے طبیعت متنفر تھی تو اس حالت پُر ملامت کے تصور کے وقت یہ الہام ہوا تھا۔
’’ہرچہ باید نوعروسے را ہمہ ساماں کنم‘‘
یعنی اس شادی میں تجھے کچھ فکر نہیں کرنا چاہئے۔ ان تمام ضروریات کا رفع کرنا میرے ذمہ رہے گا۔ سو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس شادی کے بعدہر ایک بارِ شادی سے مجھے سبکدوش رکھا اور مجھے بہت آرام پہنچایا۔ کوئی باپ دنیا میں کسی بیٹے کی پرورش نہیںکرتا جیسا کہ اس نے میری کی اور کوئی والدہ پوری ہوشیاری سے دن رات اپنے بچے کی ایسی خبر نہیں رکھتی جیساکہ اس نے میری رکھی اور جیسا کہ اس نے بہت عرصہ پہلے براہین احمدیہ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ یَااحمد اسکن اَنْت وَزوجک الجنّۃ ایسا ہی وہ بجا لایا۔ معاش کا غم کرنے کیلئے کوئی گھڑی اس نے میرے لئے خالی نہ رکھی اور خانہ داری کے مہمات کے لئے کوئی اضطراب اس نے میرے نزدیک آنے نہ دیا۔ ایک ابتلا مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میںبہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھااور دو مرضیں یعنی ذیابیطس اور درد سرمع دوران سر قدیم سے میرے شامل حال تھیں جن کے ساتھ بعض اوقات تشنج قلب بھی تھا اس لئے میری حالتِ مردمی کالعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میںمیری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیااور ایک خط جس کو میں نے اپنی جماعت کے بہت سے معزز لوگوں کو دکھلا دیا ہے جیسے اخویم مولوی نور دین صاحب اور اخویم مولوی برہان الدین وغیرہ ۔ مولوی محمد حسین صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے ہمدردی کی راہ سے میرے پاس بھیجا کہ ’’آپ نے شادی کی ہے اور مجھے حکیم محمد شریف کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ بباعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے اگر یہ امر آپ کی روحانی قوت سے تعلق رکھتا ہے تو میں اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ میں اولیاء اللہ کے خوارق اور روحانی قوتوں کا منکر نہیں۔ ورنہ ایک بڑے فکر کی بات ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی ابتلا پیش آوے۔‘‘ یہ ایک چھوٹے سے کاغذ پر رقعہ ہے جو اب تک اتفاقاً میرے پاس محفوظ رہا ہے اور میری جماعت کے پچاس کے قریب دوستوں نے بچشمِ خود اس کو دیکھ لیا اور خط پہچان لیا ہے اور مجھے امید نہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب اس سے انکار کریں اور اگر کریں تو پھر حلف دینے سے حقیقت کھل جائے گی۔ غرض اس ابتلا کے وقت میں نے جناب الٰہی میںدعاکی اور مجھے اس نے رفع مرض کیلئے اپنے الہام کے ذریعہ سے دوائیں بتلائیں اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے منہ میں ڈال رہاہے۔ چنانچہ وہ دوا میںنے تیار کی اور اس میں خدا نے اس قدر برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کر لیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے اگر دنیا اس بات کو مبالغہ نہ سمجھتی ہو تو میں اس جگہ اس واقعہ حقہ کو جو اعجازی رنگ میں ہمیشہ کیلئے مجھے عطا کیا گیا بہ تفصیل بیان کرتا تا معلوم ہوتا کہ ہمارے قادر و قیوم کے نشان ہر رنگ میں ظہور میں آتے ہیںاور ہر رنگ میں اپنے خاص لوگوں کو وہ خصوصیت عطا کرتا ہے جس میں دنیا کے لوگ شریک نہیں ہو سکتے۔ میں اس زمانہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک بچہ کی طرح تھا اور پھر اپنے تئیں خداداد طاقت میں پچاس مرد کے قائم مقام دیکھا۔ اس لئے میرا یقین ہے کہ ہمارا خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ ۷؎
’’قریباً چودہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھاکہ اس پسر چہارم کاعقیقہ بروز دو شنبہ یعنی پیر ہوا ہے اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا۔ یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کہ اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا۔
اب جبکہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا۔ لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار کو عقیقہ کا سامان نہ ہو سکا اور ہر طرف سے حارج پیش آئی۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا۔ پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہو گا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدّل ہو گیا کہ کیونکر خداتعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو ۔ مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا۔ یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہو سکیں زندہ بھی رہیں۔ یہ خدا کے کام ہیں۔ مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے۔ پھر آنکھ بند کر لیتی ہے‘‘۔ ۸؎
اِصْبِرْمَلِیًّا سَاَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا
یعنی کچھ تھوڑا عرصہ صبر کر کہ میں تجھے ایک پاک لڑکا عنقریب عطا کروں گا اور یہ پانچ شنبہ کا دن تھا اور ذی الحجہ ۱۳۱۶ ؁ھ کی دوسری تاریخ تھی جب کہ یہ الہام ہوا اور اس الہام کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا۔
رَبِّ اَصِحَّ زَوْجَتِیْ ھٰذِھٖ
یعنی اے میرے خدا! میری اس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا ۔ اور بیماری سے تندرست کر۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس بچے کے پیدا ہونے کے وقت کسی بیماری کا اندیشہ ہے۔ سو اس الہام کو میں نے اس تمام جماعت کو سنا دیا جو میرے پاس قادیان میں موجود تھے۔ اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے بہت سے خط لکھ کر اپنے تمام معزز دوستوں کو اس الہام سے خبر کر دی اور پھر جب ۱۳ جنوری ۱۸۹۹؁ء کا دن چڑھا جس پر الہام مذکورہ کی تاریخ کو جو ۱۳/ اپریل ۱۸۹۹؁ء کو ہوا تھا پورے دو مہینے ہوتے تھے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا میں نے سنا۔
اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ واُصِیْبُہٗ
یعنی اب میرا وقت آ گیا اور میں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گِروں گا۔ اور پھر اسی کی طرف جاؤں گا ……اور پھر بعداس کے ۱۴ جون ۱۸۹۹؁ء کو وہ پیدا ہوا۔‘‘۹؎
’’میرے گھر میں جو ایام امید تھے۔ ۱۴ جون ۱۸۹۹؁ء کو اوّل دردزِہ کے وقت ہولنا ک حالت پیدا ہو گئی۔ یعنی بدن تمام سرد ہو گیا۔ اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اس وقت میں نے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے۔ بچوں کی سخت دردناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور ان کی والدہ تمام مردہ کی طرح اور نیم جان تھے۔ کیونکہ ردّی علامتیں یک دفعہ پیدا ہو گئی تھیں۔ اس حالت میں ان کا آخری دم خیال کرکے اور پھر خدا کی قدرت کو مظہر العجائب یقین کر کے ان کی صحت کیلئے میں نے دعا کی۔ یک دفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا۔
تَحْویلُ الُمَوْتِ
یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا اور بدن گرم ہو گیا اور حواس قائم ہو گئے اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا‘‘۔ ۱۰؎
’’حضرت اُمُّ المؤمنین علیہاالسلام کی طبیعت ۳ جنوری ۱۹۰۱ء؁ کو کسی قدر ناساز ہو گئی تھی۔ اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا کہ چند روز ہوئے میں نے گھر میں کہا کہ میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اس نے آ کر کہا کہ تمہیں کچھ ہو گیا ہے۔ اور پھر الہام ہوا۔
اَصِحَّ زَوجَتِیْ
چنانچہ کل ۳ جنوری ۱۹۰۱ء؁ کو یہ کشف اور الہام ہو گیا۔ یکایک بے ہوشی ہو گئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا اسی طرح ایک عورت نے آ کر بتا دیا‘‘۔ ۱۱؎
دیکھا کہ’’میں کسی راستہ پر چلا جاتا ہوںگھر کے لوگ بھی ساتھ ہیںاور مبارک احمد کو میں نے گود میں لیا ہوا ہے۔ بعض جگہ نشیب و فراز بھی آ جاتا ہے۔ جیسے کہ دیوار کے برابر چڑھنا پڑتا ہے۔ مگر آسانی سے اُتر چڑھ جاتا ہوں اور مبارک اسی طرح میری گود میں ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک مسجد میں جانا ہے۔ جاتے جاتے ایک گھر میں جا داخل ہوئے ہیں۔ گویا وہ گھر ہی مسجد موعود ہے۔ جس کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ اندر جا کر دیکھا ہے کہ ایک عورت بعمر اٹھارہ سال سفید رنگ وہاں بیٹھی ہے۔ اس کے کپڑے بھگوے رنگ کے ہیں۔مگر بہت صاف ہیں۔ جب اندر گئے ہیں تو گھر والوں نے کہا ہے کہ یہ احسن کی ہمشیرہ ہے‘‘۔ ۱۲؎
’’رَبِ ٭؎ اشفِ زَوجَتِی ھٰذِہٖ وَاجْعَلْ لَھَا بَرَکَاتٍ فِی السَّمَائِ وبَرَکَاتٍ فِی الَارضِ‘‘ ۱۳؎
٭ (ترجمہ از مرتب) اے میرے رب میری بیوی کو شفاء بخش اور اس کیلئے آسمانی برکتیں اور زمینی برکتیں عطا فرما۔
’’خواب میں دیکھا کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیںجو پھل دار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہو گیا جو بیدانہ توت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سبز تھا اور پھلوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور پھل اس کے نہایت شیریں تھے اور عجیب تر یہ کہ پھول بھی شریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیں تھا۔ ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دنیا میں دیکھا نہیں گیا۔ میں اس درخت کے پھل اور پھول کھا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ میری دانست میں میر ناصر سے مراد خدائے ناصر ہے کہ وہ ایک ایسے عجیب طور سے مدد کرے گا جو فوق العادت ہوگی‘‘۔ ۱۴؎
نوٹ: یہ رئویا بھی حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کی بابرکت اولاد کے متعلق ہے۔ گو جو تعبیر حضرت اقدس نے فرمائی وہ بھی اپنے رنگ میں پوری ہو رہی ہے۔ (عرفانی کبیر)
خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے۔ اس پر میں نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ :
اسی سے تو تم پر حسن چڑھا ہے۔۱۵؎
یہ فقرہ اس فقرہ سے مشابہ ہے جو زبور میں ہے کہ تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے (الہام نمبر۱۷ صفحہ۶۹۹) فرمایا کہ آج دو٭؎بجے دن کے مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر کے آدمی اب شاید امرتسر پہنچ گئے ہوں گے اور یہ بھی خیال تھا کہ امن و امان سے لاہور میں پہنچ جائیں۔ تب اس خیال کے ساتھ ہی غنودگی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نخود کی دال (جو رنج اور ناخوشی پر دلالت کرتی ہے) میرے سامنے پڑی ہے اور اس میں کشمش کے دانے قریباً اسی قدر ہیں اور میں اس میں سے کشمش کے دانے کھا رہا ہوں اور میرے دل میں خیال گزر رہا ہے کہ یہ ان کی حالت کا نمونہ ہے اور دال سے مراد کچھ رنج اور ناخوشی ہے کہ سفر میں ان کو پیش آئی ہے یا آنے والی ہے۔ پھر اسی حالت میں میری طبیعت الہام الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی اور اس بارے میں الہام ہوا۔ خَیْرٌ لَّھُمْ خَیرٌ لَّھُمْ یعنی ان کے لئے بہتر ہے۔ ان

٭؎ (نوٹ از ایڈیٹر) غرض اس الہام اور خواب کی جب کہ اچھی طرح سے اشاعت ہوگئی تو قریب شام کے اپنا ایک آدمی جو سب قافلہ کو ریل پر سوار کر کے واپس آیا تھا۔ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ عین دوپہر کی گرمی میں ریل کے اندر مسافروں کی کشا کش سے بچنے کے واسطے جو انتظام ریزرو کا کیا گیا تھا وہ نہ ہو سکا۔ کیونکہ لاہور سے کوئی الگ گاڑی اس مطلب کے واسطے نہ پہنچ سکی تھی۔ اور اس سبب سے تشویش ہوئی۔ اس طرح خواب کاحصہ پورا ہوا۔ مگر پھر بھی بموجب بشارت الہام کے خیریت رہی اور معمولی گاڑی میں آرام سے بیٹھ کر چلے گئے۔
کیلئے بہتر ہے۔ بعد اس کے اسی نظارہ خواب میں چند پیسے دیکھے کہ وہ غم اور تشویش پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ چنے کی دال بھی ایک ناگوار اور رنج کے امر پر دلالت کرتی ہے‘‘۔ فقط
اس کے بعد حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ خواب اور الہام تو ایک طرح پورا ہو گیا ہے۔ مگر ایک خیال مجھے باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو رنج اور خوشی پر دلالت کرتی ہیں۔ وہ دوبارہ دکھلائی گئی ہیں۔یعنی اوّل چنے کی دال دکھلائی گئی اور پھر چند پیسے دکھلائے گئے ایسا ہی الہام بھی دو دفعہ ہوا کہ خَیْرٌ لَّھُمْ خَیرٌ لَّھُمْ اس لئے دل میں ایک یہ خیال ہے کہ خدانخواستہ کوئی اور امر مکروہ پیش نہ آنا ہو جس کے لئے دو دفعہ ایسی چیزیں دکھلائی گئیں کہ علم تعبیر کی رو سے رنج اور تشویش پر دلالت کرتی ہیں اور ایسا ہی ان سے محفوظ رکھنے کیلئے دو دفعہ یہ الہام ہوا کہ خَیْرٌ لَّھُمْ خَیرٌ لَّھُمْ
یہ میرا خیال ہے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک رنج سے محفوظ رکھے۔ آمین‘‘ ۱۶؎
(الہام نمبر۱۸۔ صفحہ۷۰۴) ’’آیدآں٭؎ روزے کہ مستخلص شود‘‘ ۱۷؎
(الہام نمبر ۱۹ صفحہ۷۰۹) اِنِّی٭٭؎ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ لَکَمُ الْبُشریٰ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا
٭٭٭؎ اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَن فِی الدَّارِ۔ ۱۸؎
فرمایا۔ ذرا سی مجھے غنودگی ہوئی تو الہام ہوا جس کا اتنا حصہ یاد رہا۔ اِنّیِ مُبَارَکٌ اس کے معنی بہت ہیں جیسے اناشَانئک ھوالابتر ہے، ایسے ہی یہ ہے‘‘۔ ۱۹؎
(الہام نمبر۲۰ صفحہ۷۱۳) رُدَّاِلَیْھَا رَوْحُھَا وَرَیحَانُھَا۔ یعنی تمہاری بیوی کی طرف تازگی اور تازہ زندگی واپس کی گئی۔ ۲۰؎
الہام نمبر۲۱ صفحہ۷۱۴ اِنّی مَعَکَ وَمَعَ اَھِلِکَ- اِنَّکَ مَعِیْ واَھلُکَ اِنِّی اَنَا الرَّحْمٰنُ فَانْتَظِرقُلْ یَأْخُذُکَ اللّٰہُ۔
(ترجمہ) میں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ۔ تو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل۔ میں رحمن ہوں۔ میری مدد کا منتظر رہ۔ اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا۔۲۱؎
٭؎ وہ دن آرہا ہے کہ وہ تکلیف سے رہائی پائے۔
٭٭؎ (ترجمہ) میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ تمہاری اس دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے۔
٭٭٭؎ میں ان سب کی حفاظت کروں گاجو اس دار میں ہیں۔
(الہام نمبر۲۲ صفحہ۷۲۰) اِنِّی مَعَکَ وَ مَعَ اَھلِکَ۔ اَحْمِلُ اَوْزَارَکَ
(ترجمہ) میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں۔۲۲؎
(الہام نمبر۲۳ صفحہ۷۲۲) اِنِّی٭؎ مَعَکَ وَمَعَ اَھلِکَ ۲۳؎
(الہام نمبر ۲۴ صفحہ۷۲۳) اِنِّی٭٭؎ مَعَکَ وَمَعَ اَھلِکَ ھٰذِہٖ ۲۴؎
نوٹ: اس تمام وحی کو (جو مختلف اوقات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی) یکجائی طور پر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کو کیا شرف اور مقام عطا فرمایا ہے اور کس طرح پر ان کے وجود کو ایک نعمت اور آیت اللہ قرار دیا ہے۔ بلکہ اس وجود باجود کے ساتھ بہت سی آیات اور نشانات وابستہ ہیں اور بڑے وعدہ اور بشارتیں ان کی ذات میں پوری ہوئی ہیں۔ جیسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آئندہ خاندان کا آدم اور جدامجد قرار دیا ہے۔
اس طرح آنے والی نسل کی ماں ہونے کا شرف آپ کو دیا گیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی وحی نے جہاں آپ کے شرف خاندان کو ظاہر کیا آپ کی طہارت نفسی اور تطہیر باطنی کی شہادت بھی دی۔
ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء
واللّٰہ ذوالفضل العظیم

ء…ء…ء





٭؎ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ
٭٭؎ (ترجمہ)میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ جو یہ ہے
حوالہ جات
۱؎ تریاق القلوب صفحہ۳۴
۲؎ براہین احمدیہ صفحہ۵۵۸
۳؎ نزول المسیح صفحہ۱۴۶۔۱۴۷
۴؎ تریاق القلوب صفحہ ۶۴۔۶۵
۵؎ شحنۂ حق صفحہ۵۷۔۵۸
۶؎ تریاق القلوب صفحہ۳۴
۷؎ تریاق القلوب صفحہ۳۴ تا ۳۶
۸؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ ۲۶،۲۷
۹؎ تریاق القلوب صفحہ ۴۱
۱۰؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ۲۶
۱۱؎ الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۵
۱۲؎ الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۶
۱۳؎ بدر ۲۳ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲
۱۴؎ الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۱
۱۵؎ بدر ۲۱ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۳
۱۶؎ الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲
۱۷؎ نزول المسیح صفحہ۲۰۲
۱۸؎ الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۲
۱۹؎ الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۳
۲۰؎ بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۴
۲۱؎ اشتہار۵ نومبر ۱۹۰۷ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۹۱
۲۲؎ بدر ۱۹ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۴
۲۳؎ بدر ۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰
۲۴؎ بدر ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۴
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سلسلہ کیلئے مالی قربانیاں
تمہیدی نوٹ
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے ہر قسم کی قربانیاں اور ایثار کی نظیر بہت کم ملے گی۔ کوئی وقت اور موقع ایسا نہیں آیا کہ اسلام کے لئے کسی مالی ضرورت کا سامنا ہو اور حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنی ذات سے اس میں حصہ نہ لیا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عصر سعادت میں ہر تحریک میں آپ شریک ہوتی رہیں اور آپ کے رفع الی اللہ کے بعد سلسلہ خلافت کے قیام سے لے کر آج تک بدستور آپ ہر تحریک میں شریک ہوتی ہیں اور آپ کی ذریت طیبہ کی قربانیوں اور خدمات دین میں بھی آپ کا حصہ ہے اور چنانچہ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے نو سال کے اندر خاندان نے بہتر ہزار چھ سو ستاون روپے دیئے اور دسویں سال کے چندہ کو شریک کر کے تو ایک لاکھ کے قریب پہنچتا ہے۔ یہ تو صرف ایک تحریک جدید کا ذکر ہے وہ کونسی تحریک ہے جس میں خود حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کی ذریت طیبہ شریک نہیں ہوتی اس باب میں مَیں صرف حضرت اُمُّ المؤمنین کی ان قربانیوں کا ذکر کروں گا جو میرے علم میں آچکی ہیں۔ اکثر وہ ان کاموں میں اخفا سے بھی کام لیتی ہیں۔ بہرحال اس خصوص میں جو کچھ ذکر میں کر رہا ہوں۔ وہ بطور نمونہ کے ہے۔ (محمود احمد عرفانی)
حضرت اُمُّ المؤمنین اور منارۃ المسیح
منارۃ المسیح کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۲۸/ مئی ۱۹۰۰ء؁ کو ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جس میں منارۃ المسیح کے برکات اور ثمرات کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور آپ نے یہ بھی اشارہ فرمایا تھا کہ میرا زمانہ زمان البرکات ہے اس لئے کہ تمام قوموں پر اسلام کی برکات ثابت کی جائیں گی اور دکھلایا جائے گا کہ ایک اسلام ہی بابرکت مذہب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان برکات و ثمرات کا ذکر اپنی تحریروں میں فرمایا ہے۔ مجھ کو اس کتاب کے موضوع کے لحاظ سے صرف اس حد تک ذکر زیر نظر ہے جس کا تعلق حضرت اُمُّ المؤمنین کی مالی قربانی سے ہے ابتداًء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اعلان فرمایا جماعت کی ابتدائی حالت تھی اور تعمیرکیلئے دس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا۔ آپ نے اس رقم کے پورا کرنے کیلئے پھر ایک اشتہار ’’اپنی جماعت کے خاص گروہ کیلئے‘‘ شائع فرمایا اور ایک سَو ایک خدام کومخاطب فرمایا کہ وہ ایک ایک سَو روپیہ اس مقصد کے لئے ادا کریں۔ سلسلہ کی تاریخ میں یہ پہلی خاص تحریک تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ان خدام کو توفیق دی کہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہیں۔ چنانچہ آپ نے اسی اشتہار میں جو خاص گروہ کے نام شائع کیا۔ تحریر فرمایا:
’’مَیں آج خاص طور پر اپنے ان مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں تو ممکن ہے یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آ جائے تا ہم وہ کارِخیر کی توفیق پا لیتا ہے‘‘۔
اس خاص گروہ میں ایک سَو ایک آدمیوں کے نام تھے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس کے ارشاد کی تعمیل کی توفیق پائی اور عجیب بات ہے کہ جن مخلصین کو اس سعادت سے حصہ ملا انہوں نے اس دنیا میں بھی ثمرات و برکات کا لطف اُٹھایا۔ میں اس سلسلہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی شاندار قربانی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس نے دس ہزار روپے کا تخمینہ اس وقت فرمایا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے ۱۰/۱ اس چندہ کا دے دیا۔ اور یہ رقم اپنی ایک جائیداد واقعہ دہلی کو فروخت کر کے دی وہ جائیداد اگر اس وقت تک باقی رکھی جاتی تو آج اس کی قیمت کئی ہزار کی ہوتی۔ لیکن حضرت اُمُّ المؤمنین نے اس کی پرواہ نہ کی اور فورًا اس کے فروخت کر دینے کا حکم دے دیا۔ اس کے متعلق میں ایک تحریری شہادت پیش کرنی ضروری سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا احسان بے پایاں ہے کہ اس شہادت کی حفاظت حضرت والد صاحب عرفانی کبیر کے ذریعہ ہوئی۔ جس کا ذکر انہی ایام میں حضرت مخدوم الملت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مکتوب میں کیا تھا۔ یہ واقعہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی بلند ہمتی اور خدا تعالیٰ کی آیات کے لئے قربانی کا بے نظیر ہے اور سلسلہ عالیہ کی مستورات کے لئے خدمت دین کے لئے اسوہ حسنہ ہے اور نیز یہ ثبوت ہے حضرت مسیح موعود کی صداقت کا۔ آپ کی ہر تحریک اور کاموں کو حضرت اُمُّ المؤمنین کس طرح پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرتی ہیں اور اس کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرنے میں ذرا دریغ نہیں فرماتی ہیں۔ یہ مکتوب حضرت مخدوم الملت نے حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو ۲۰/جون ۱۹۰۰ء؁ کو لکھا تھا۔ اس مکتوب کا صرف اسی قدر حصہ درج ذیل ہے جو مندرجہ بالا عنوان کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے۔
’’منارہ کے لئے زمین بفضل خدا ان کو مل گئی۔ حضرت کی توجہ از بس اس طرف مبذول ہے۔ قوم کی طرف سے چندہ آ رہا ہے مگر از بس قلیل ہے حضرت نے کل ایک تجویز کی ایک سَو آدمی جماعت سے ایسے منتخب کئے جاویں کہ ان کے نام حکمًا اشتہار دیا جاوے کہ سَوسَو روپیہ ارسال کریں خواہ عورتوں کا زیور بیچ کر۔ درحقیقت یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور ایسی دینی ضرورتوں میں قوم کا روپیہ کام نہ آئے تو پھر کب ہو۔ بیوی صاحبہ نے (اس زمانہ میںبیوی صاحبہ کہا جاتاتھا۔ عرفانی) ایک ہزار روپیہ چندہ منار میں لکھایا۔ دہلی میں ان کا ایک مکان ہے اس کی فروخت کا حکم دیاہے وہ اس چندہ میں دیا جاوے گا‘‘۔ ۱؎
نوٹ از عرفانی کبیر: اس مکان کی فروخت کے لئے حضرت اُمُّ المؤمنین نے کمال شفقت سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو مقرر فرمایا تھا اور انہوں نے اس کے لئے بڑی محنت کی جزاک اللہ احسن الجزاء۔ خاکسار عرفانی کبیر ان سطور کو لکھتے وقت اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اس سراسر گناہ گار اور حقیر خادم کو بھی اس گروہ خاص میں شریک فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق عملی نہ صرف ایک بار دی بلکہ جب حضرت امیر المومنین نے مکرر دوسروں کو بھی شریک ہونے کا موقعہ دیا تو خاکسار نے پھر اپنی اور اپنی اہلیہ اور ایک بیٹی محمودہ خاتون اور مرحوم بھائی مولوی غلام غوث مولوی عالم کی طرف سے اس سعادت کا حصہ پایا والحمدللّٰہ علٰی ذالک آج منارۃ المسیح کی برکات نمایاں ہیں اور جیسا کہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ بعض برکات اور سلسلہ کی تائیدات اس کی تکمیل سے وابستہ ہیں۔ وہ پورا ہو کر رہا۔ الحمدللہ ثم الحمداللہ۔
دینی ضروریات کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرضہ
حضرت اُمُّ المؤمنین سلسلہ کی ضروریات کے لئے اپنے اموال میں سے ہمیشہ خرچ کرتی ہی رہیں ہیں اور اب تک کرتی ہیں مگر آپ کی زندگی میں ایک واقعہ عجیب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۸؁ء کی پہلی ششماہی کے آخر میں بعض اہم دینی ضروریات کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی۔ آپ نے قرضہ لینے کی تجویز کا ذکر گھر میں فرمایا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے فرمایا کہ باہر کسی سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے پاس ایک ہزار روپیہ نقد ہے اور کچھ زیورات ہیں آپ اس کو لے لیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں بطور قرض لے لیتا ہوں اور اس کے عوض باغ رہن کر دیتا ہوں گو حضرت اُمُّ المؤمنین اس رقم کو پیش کر رہی تھیں مگر آپ نے جماعت کو تعلیم دینے کے لئے کہ بیویوں کا مال ان کا اپنا مال ہوتا ہے۔ قرض ہی لیا اور قرآن کریم کی ہدایت کے ماتحت اسے معرضِ تحریر میں لے آنا اور فرہانٌ مَقْبُوْضہ پر عمل کرنے کیلئے دستاویز کو رجسٹری کروا لینا ضروری سمجھا۔ چنانچہ یہ سعادت خاکسار عرفانی( جو ان ایام میں تراب احمدی کہلاتا تھا) کے حصہ میں آئی۔ میں نے رجسٹرار کو قادیان لانے اور دستاویز کو مکمل کرانے کا انتظام کیا اور دستاویز رہن نامہ کا مسودہ منشی حسین بخش اپیل نویس بٹالہ نے مرتب کیا تھااور ہمارے مخلص بھائی خطیب بٹالوی نے (جو عرضی نویس تھے) بھی اس کام میں حصہ لیا۔
یہ دستاویز ۲۵ جون ۱۸۹۸؁ء کو رجسٹری ہوئی اس میں اقرار یہ تھاکہ تیس سال کے بعد باغ ایک سال کے اندر فک کرا لیا جاوے گا اور اکتیسواں سال بھی گزرجاوے تو اسی پانچ ہزار میں بیع بالو فاہو جائے گا۔
بالطبع عورتوں کو زیور پسند ہوتا ہے مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نے دینی ضروریات کے لئے اس کو پیش کر دینا ہی ضروری سمجھا اور یہ پہلا موقع نہ تھا حضرت اُمُّ المؤمنین نے ہمیشہ سلسلہ کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم سمجھا اور کبھی اپنی متاع کو خرچ کرنے میںپس و پیش نہیں فرمایا۔ اس معاملہ رہن میں خواتین سلسلہ اور جماعت کے مردوں کیلئے ایک عملی سبق ہے مستورات سلسلہ کی ضروریات کے لئے اپنے اموال کو قربان کرنے میں مضائقہ نہ سمجھیں ایسا ہی مردوں کے فرائض میں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے اموال کو ان کی ملکیت خالص سمجھیں ان پر ناجائز تصرف نہ کریںاور اگر کسی ضرورت سے ان کا مال لیں تو اسے بطور قرض لے کر واپس کریں۔
اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ایک واقعہ یاد آ گیا اور میں اس کو لکھے بغیر آگے نہیں چل سکتا۔
ہماری جماعت میں حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ بڑے مخلص اور سابق بالخیرات تھے۔ انہوں نے ایک روز دربار شام میں بعد نماز مغرب عرض کیا کہ حضور ؑ میری بیوی اپنامہر مجھ کو معاف کر دینا چاہتی ہے اور کئی بار کہہ چکی ہے۔ حضور نے ہنستے ہوئے فرمایا میں تو اس قسم کی معافی کا قائل نہیں ہوں۔ ہاں اگر آپ ان کے مہر کی پوری رقم ان کی جھولی میں ڈال دو اور اس رقم کے مل جانے کے بعد دو چار دن اپنے پاس رکھ کر پھر آپ کو واپس دیکر کہے کہ میں نے مہر آپ کو معاف کر دیا ہے اور یہ آپ واپس لے لیں تب تو کوئی بات بھی ہے ورنہ عورتیں بعض وقت یہ سمجھ کر کہ ملتا تو ہے ہی نہیں معاف کر دو یا شوہر بعض اوقات اپنی مشکلات کو کسی نہ کسی رنگ میں پیش کر کے معافی کی تحریک کرتے رہتے ہیں آخر وہ بیچاریاں مجبور ہو کر کہہ دیتی ہیںکہ میں نے معاف کر دیا۔ یہ کوئی معافی نہیںہوتی ایک قسم کی کرہاً معافی ہوتی ہے۔ میرا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ جیسے حضرت اقدس نے اپنے طرز عمل سے بتایا۔ بیویوں کے امول ان کے اپنے ہیںاور شوہر کو اس میں اپنی مرضی سے محض شوہر ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنے کا حق نہیں بلکہ یہ حق کلیۃً عورت کا ہے۔ اس طرح عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی تعلیم دی اور حضرت اُمُّ المؤمنین نے اپنے عمل سے یہ سبق دیا ہے کہ دین کی ضرورت سب سے مقدم ہے اور اس کیلئے پیاری سے پیاری چیز کے قربان کرنے کی ضرورت ہو تو تامل نہیںچاہئے۔
ازالہ وہم
یہاںاس وہم کا ازالہ بھی میں ضروری سمجھتا ہوں جو بعض کوتاہ فہم لوگوںکے دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے قرضہ دینے کی بجائے سلسلہ کی ضروریات کے لئے دے ہی کیوں نہ دیا؟ اگرچہ اس کا جواب اوپر آ گیا ہے خدا تعالیٰ کے مامورو مرسل اپنی عملی زندگی سے ایک نمونہ پیدا کرنا چاہتے ہیں باوجودیکہ میاں بی بی کا معاملہ تھا مگر قرآن کریم نے جو اصول اور قواعد قرضہ کے متعلق بیان کئے ہیں ان پر عمل ہر شخص کیلئے لازم ہے خواہ وہ کسی درجہ اور مقام کا ہو۔ یعنی نبی کے لئے بھی وہی احکام ہیں۔ پس حضرت اقدس نے فرہانٌ مَقْبُوْضہ پر عمل کر کے بتایا کہ قرضہ کا معاملہ معرضِ تحریر میں آنا چاہئے اور اس کے شرائط ادائیگی وغیرہ خود مقروض لکھوائے اور اگر معاملہ رہن کا ہے تو چاہئے کہ شے مرہونہ قبضہ میں دے دی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر عمل کر کے ایک صحیح تعلیم دے دی کہ معاملات لین دین کا طریق یہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشوں کو پورا کرنے کا شوق
حضرت اُمُّ المؤمنین کی ہمیشہ یہ تڑپ رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر اس خواہش کو پورا کیا جاوے جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت اسلام یا شعائر اسلام کی عملی عظمت کو ظاہر کرتی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاابتدائی زمانہ تو گوشہ تنہائی کا تھا۔ پھر جب خداتعالیٰ کی مشیت نے آپ کو خلوت سے باہر نکالا تب آپ کے دعاوی کی وجہ سے اس قدر مخالفت کا بازار گرم ہوا کہ آپ کے خلاف کفر کے فتویٰ ہی نہیں قتل کے فتویٰ دیئے گئے۔ اگرچہ اس وقت بھی آپ کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ آپ پر حج فرض ہوتا تاہم آپ کی یہ خواہش تھی کہ کسی وقت حج بھی کریں مگر وہ موقع نہ آ سکا اور آپ کو پیغام الرحیل آ گیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کو چونکہ حضور کے اس ارادہ کا علم تھا آپ نے حضور کی وفات کے بعد پہلے آپ کے ذمہ ایک قرضہ کے ادا کرنے کا انتظام کیا اور پھر حافظ احمد اللہ خاں صاحب کو جو پہلے بھی حج کر چکے تھے۔ کافی زاد راہ دیکر حج کے لئے روانہ کیا اور حافظ صاحب کے حصہ میںیہ سعادت آئی کہ انہوںنے حضرت اُمُّ المؤمنین کے ارشاد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے حج بدل کیا۔
حضرت اُمُّ المؤمنین نے حضرت کی اس خواہش کو پورا کر کے یہ ثابت کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دینی خواہشوں کو پورا کرنے کا شوق اس ایمان کی وجہ سے تھا جو آپ کو حضرت اقدس پر تھا اور آپ یقین رکھتی ہیں کہ حضو ر کی خواہشوںکو پورا کرنا خدا کی رضا کا موجب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفع کے بعد جب حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح ہوئے تو آپ ان کو سلسلہ کا امام یقین کر کے خود ان کی ذات اور سلسلہ کے مدات میں چندہ دیتی رہتی تھیں۔ اور یہ چیز مخفی رنگ میں تھی۔ دنیا کو شاید کبھی علم نہ ہوتا اگر خود حضرت حکیم الامت نے اس کا اظہار نہ فرمایا ہوتا۔ چنانچہ ۱۹۰۹ء؁ کے سالانہ جلسہ پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ نے ایک تقریر کے دوران میں فرمایا کہ:
’’لنگر کی آمدنی میں میرا یقین تھاکہ حضرت صاحب کے کنبہ اور متعلقین کو اس میں سے کافی امداد دی جاوے۔ لیکن آج تک جو ۱۷ ذلحجہ ۱۳۲۶؁ھ کوئی راہ ایسی نہیں نکلی کہ سوا معمولی کھانے پینے کے کوئی مالی نقد یا کپڑوں یا ضروری مکان بنا دینے کی امداد مَیں یا صدرانجمن احمدیہ قادیان کر سکی ہو۔……
’’حضرت صاحب کے وقت میں مَیں عمدہ سے عمدہ کھانا لنگر سے آیا ہوا اپنے سامنے دیکھتا تھا اور وہ سب کچھ حضرت صاحب کے صبح و شام کی تاکیدات کا نتیجہ تھا۔ حضرت بیوی صاحبہ نے جو میرے ایسے حالات سے زیادہ تر واقف ہیں ایک بار کچھ نقد روپیہ بہت ہی الحاح کے ساتھ دیا اور یہ کہا کہ یہ صرف تیرے کھانے کے لئے ہے اور ساتھ ہی کچھ روپیہ دیا کہ اس کو لنگر میں آپ داخل کر دیں مگر دوسرے حصہ سے نہ دیں‘‘۔ ۲؎
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے اس بیان ٭سے ظاہر ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین اولاً

اسی تقریر میں آگے چل کر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
٭ ’’…… میاں شریف احمد …… کے لئے ایک مکان کی ضرورت تھی سو اُس کو انہوں نے جن مشکلات سے بنایا ہے اُن کو وہ سمجھتے ہیں جن کو باہر سے کوئی روپیہ نہ دیا گیا ہو اور پھر مکان بھی بنانا پڑے۔ مگر مَیں یا صدر انجمن یا لنگر اس امداد میں شریک نہیں ہوسکے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں:
’’حضرت صاحب کے وقت کس قدر روپیہ بچتا تھا اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے ذمہ پانچ سَو کا قرضہ تھا جس کو کسی چندہ اور آمدنی سے ادا نہیں کیا۔ وہ ادا تو ہوا مگر ایسے راہ سے ادا ہوا کہ اُس میں کسی چندہ دِہ یا عام مرید یا کسی یک مُشت مخفی طور پر دینے والے نے اس میں شرکت نہیں کی‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس قرضہ کا ذکر کیا ہے اس کی ادائیگی بھی جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے حضرت اُمُّ المؤمنین نے کی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اُس وقت آپ پر کچھ قرض تھا۔ آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ پر اس قدر قرض ہے ادا کر دو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اُسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرض کو ادا کر دیا‘‘۔
نظامِ خلافت کی کس قدر عظمت اپنے دل میں رکھتی ہیں اور وہ اس شخص کے لئے جو نسل اور خون کے لحاظ سے آپ کا رشتہ دار نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ مطہرہ ہونے کی وجہ سے وہ آپ کے سامنے بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ اس کا اس منصب کے لحاظ سے احترام فرماتی ہیں اور سلسلہ کی اہم ضرورت لنگر خانہ میں ایک رقم الگ بھیجتی ہیں اور خود اس کی ذات کے لئے جدا گانہ یہ جوش عمل اخلاص اور جذبہ خدمت دین کا ایک قابلِ تقلید مظاہرہ ہے۔
یہ ایک واقعہ اور مثال اس امر کی نہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین مقام خلافت کی عزت اور احترام کی حد تک کرتی ہیں بلکہ آپ کی زندگی اس عملی روح کا ایک نمونہ ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں اس عملی روح کے بڑے موثر نظارے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ منصب خلافت کا احترام فرمایا اور خلفاء راشدین کے لئے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کو اپنا شیوہ قرار دیا چنانچہ یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے صاحبزادہ عبداللہ کو حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ وہ حجرہ نبوی صلعم میں دفن ہونے کی اجازت حاصل کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
یہ جگہ مَیں نے اپنے لئے محفوظ رکھی تھی لیکن عمرؓ کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی جب عبداللہؓ واپس آئے آپ نے پوچھا کیا جواب لائے عرض کی جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ ایثار حضرت فاروق اعظم کی خلافت کے کارناموں کی وجہ سے تھا اور وہ یقین رکھتی تھیں کہ یہ حضرت نبی کریم ﷺ کے خلیفہ راشد ہیں اس طرح حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا طرز عمل ہمیشہ خلافت کے احترام کا پایا جاتا ہے۔
چنانچہ میں اسی سلسلہ میں اس واقعہ کے بیان کرنے سے نہیں رُ ک سکتا جو مولوی سیّد محمود عالم صاحب صحابی اور مہاجر نے بیان کیا۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے مجھے کہا کہ خداتعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے مَیں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لئے بھیج دی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے نہایت خوش دلی سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کر کے واپس بھیج دیا۔ جب رضائی مرمت ہو کر آ گئی اس وقت حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اس طالب علم کو جس کی رضائی تھی فرمایا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ رضائی میں چیلٹر بہت تھیں۔ اس موسم میں چیلٹر قابلِ تعجب ہے اپنے کپڑوں کو صاف رکھا کرو۔
یہ ہدایت اور نصیحت تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے کی۔ طالب علم اس قسم کی غفلت کیا کرتے ہیں۔ مگر اس واقعہ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت پر نظر کرو۔ کہ ایک نہایت گندی اور دریدہ رضائی کی مرمت آپ خداتعالیٰ کی رضا کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے جانشین کے حکم کی تعمیل میں کر رہی ہیں۔ رضائے مولیٰ کے لئے یہ طلب اور تڑپ جس دل میں ہو اس کی عظمت کا اندازہ کون کر سکتاہے۔یہی تو وہ دل ہیںجو خداتعالیٰ کاعرش ہوتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس فعل سے منصب خلافت کی عظمت کا بھی اندازہ بآسانی ہو جاتا ہے اور خلیفہ کی اطاعت کیسی ضروری ہے اس عمل کی روشنی میں سیکھو۔ خلافت کے منکرین غور کریں جو نہایت بددیانتی سے یہ الزام لگاتے ہیں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خلافت سے نعوذ باللہ ناراض تھیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے تو ایک مرتبہ فرمایا تھا:
’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود۔ بشیر۔ شریف۔ نواب ناصر۔ نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں ایک بھی نظر نہیں آتا۔ میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امرِ واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کیلئے محبت ہے۔ بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں‘‘۔ ۳؎
غرض آپ کو یہ تڑپ رہتی ہے کہ مَیں کوئی ایسا کام کروں جو حضرت رب العزت کی بارگاہ میںپسندیدہ ہو اور اسی مقصد کیلئے آپ کے تمام اعمال ہیں اور خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی میں آپ کو بشارت دے دی کہ خدا خوش ہو گیا۔ واللہ الحمد
اسی سلسلہ میں مَیں ایک اور واقعہ پیش کرنے سے رُک نہیں سکتااور اپنے قلب میں ایک غیر معمولی جوش پاتا ہوں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین یوں تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بہت خیال رکھتی تھیں اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا کہ آپ سے محبت رکھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ کے مقامِ خلافت کا ادب زیر نظر رہتا۔ خود حضرت خلیفہ اوّلؓ حضرت اُمُّ المؤمنین کا ادب اسی طرح کرتے جیسے حضرت اقدس کی زندگی میں۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین اسی مقام کے لحاظ سے جو خلافت کی وجہ سے حاصل تھا حضرت خلیفہ اوّلؓ کے احکام کی تعمیل اپنا فرض سمجھتی رہیںاور اب باوجودیکہ حضرت امیرالمومنین آپ کے اپنے بیٹے ہیںاور آپ کا مقام اس حیثیت سے بہت ہی ادب کا مقام ہے لیکن مقام خلافت کا احترام حضرت اُمُّ المؤمنین کے ہمیشہ زیر نظر رہتا ہے اور اس حیثیت سے حضرت امیرالمومنین کے احکام جو سلسلہ کی تعلیم و تربیت اور نظام کے استحکام کے متعلق ہوتے ہیں ان پر عمل کرنا آپ ضروری سمجھتی ہیں۔ غرض حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے خود ایک واقعہ کا انکشاف فرمایا اور حضرت عرفانی کبیر نے اسے شائع کر دیا تھا جس کی میں اب تجدید کر رہا ہوں۔
قیام خلافت کے متعلق حضرت اُمُّ المؤمنین کا ارشاد
منکرین خلافت نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت کے خلاف مسئلہ خلافت کے متعلق نہایت ناسزا پروپگنڈا کیا ہے اگرچہ اس خصوص میں ان کو کامل ناکامی ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ خلافت ثانیہ کے لئے سازش کی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت ثانیہ کے متعلق کسی انسان کا منصوبہ اور سازش تو نہ تھی البتہ خدائے قدیر کا یہی فیصلہ کیا ہوا تھا۔ مگر میں خداتعالیٰ کی رضا کے لئے یہ شہادت دتیا ہوں کہ مَیں نے حضرت عرفانی کبیر (قبلہ والد صاحب) سے بہ حلف دریافت کیا کہ کیا اس کی کچھ حقیقت ہے؟ انہوں نے حلفاً بیان کیا کہ یہ افترا اور اتہام ہے جو ہم پر کیا گیا۔ حضرت اقدس کے خاندان میں قطعاً کسی کو یہ وہم نہ تھا اور اگر اس قسم کی خواہش ہوتی تو خلافت اولیٰ کے وقت یہ مقصد بآسانی پورا ہو سکتا تھا اس لئے کہ حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ تو سیّدہ امۃ الحفیظ سلمہا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار تھے اگر خاندان کا ذرا بھی اشارہ ہوتا تو حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ سب سے پہلے تائید کرتے مگر یہ اتہام ہے اہلِ بیت پر اور خدام مسیح موعود پر اور الحمدللہ اس اتہام میں مجھے بھی اہل بیت کی معیت کا شرف حاصل ہے اور یہ کہہ کر ان پر رقت طاری ہو گئی۔ انہوں نے خلافت اولیٰ کے متعلق مشورہ کا بھی ذکر کیا کہ یہ جب مشورہ ہوا تو میں شریک تھا اور خواجہ صاحب اور دوسرے معتمدین نے حضرت حکیم الامت کا نام تجویز کر کے حضرت سے ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ پہلے دعا کرو اور پھر میر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب اور حضرت اُمُّ المؤمنین اور نواب محمد علی خان صاحب ٭؎ سے جا کر مشورہ کرو۔ چنانچہ بالاتفاق حضرت خلیفہ اوّل منتخب ہو گئے۔

٭؎ اس کتاب کے اس حصہ کی طباعت کے وقت حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر آئی۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ اور ان کی ڈائری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انتقال کے متعلق شائع ہوئی ہے چونکہ اس میں مسئلہ خلافت کا ذکر اسی وقت کا لکھا ہوا موجود ہے اور یہ خزینہ عرفانی کبیر کے حصہ میں آیا کہ عزیز مکرم محمود احمد عرفانی کے مسودہ پر یہ حاشیہ اضافہ کرے۔ اسی ڈائری سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت اور بے نفسی اور للہیت کا پتہ لگتا ہے ۔ اس لئے میں اسے تمام و کمال درج کرتا ہوں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصا ل کا ذکر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے قلم سے
نقل مطابق اصل ڈائری خود نوشتہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب برموقعہ وفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۲۶ مئی ۱۹۰۸ء؁ منگل
’’آج حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کا انتقال ہو گیا۔ حضور علیہ السلام جس روز سے لاہور آئے تھے۔ کم و بیش مرض اسہال میں مبتلا ہو گئے۔ مگر کل کھانے کے بعد باوجود اسہالوں کے پیغام صلح کا مضمون لکھتے رہے اور معمولی اسہال سمجھے گئے۔ شام کو سیر کو گئے۔ رات کو کھانا کھایا۔ مگر چند نوالے ہی کھائے تھے کہ اسہال کی حاجت ہوئی۔ آپ نے کھانا چھوڑ دیا اور جائے ضرور گئے۔ وہاں اسہال آیا۔ اس کے بعد پھر ایک دو اسہال ہوئے۔ پھر بارہ بجے کے قریب اسہال ہوااور ایک قے بھی ہوئی جس سے طبیعت بہت گھٹ گئی اور برداطراف ہو گیا۔ نبض ساقط ہو گئی بالکل مایوسی ہو گئی مگر ادویات کے استعمال اور مالش سے پھر طبیعت گرم ہو گئی۔ نبض عود کر آئی۔تین بجے میرے بلانے کو نور محمد بھیجا گیا۔ اتفاق سے راستہ میں گھوڑا گر گیا۔ اس لئے ٹم ٹم دیر میں پہنچی۔ اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تھا۔پہرہ والے کے آواز دینے پرمیںاٹھا۔ نماز پڑھ کر روانہ ہوا۔ کوئی پانچ بجے میں حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں پہنچا۔ اس وقت حضرت اُمُّ المؤمنین برقعہ پہنے چار پائی کی باہنی پر سر رکھے زمین پر بیٹھی تھیں اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ، ڈاکٹر یعقوب بیگ موجود تھے۔ خواجہ کمال الدین، حضرت مولانا مولوی نورالدین، میاں محمود، میاں بشیر اور شیخ عبدالرحمن قادیانی وغیرہ وغیرہ موجود تھے۔ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے مجھے کہاکہ شکر ہے نہایت نازک حالت سے طبیعت ٹھیک ہوئی ہے۔ حضرت اقدس کی یہ حالت تھی کہ بدن گرم تھا اور کرب تھا مگر حو اس ٹھیک تھے۔ آہستہ آہستہ
خلافت کا مسئلہ ضمناً آ گیا۔ میں بتا یہ رہا تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے سلسلہ کے لئے کیا قربانیاںکی ہیںاور مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت اُمُّ المؤمنین کا طریق عمل بھی ان کے نفس اور جذبات کی قربانی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ظاہر کر رہا ہے۔ یہ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ حضرت اُمُّ المؤمنین سے فرمایا کہ بعض انگریز مولوی محمد علی صاحب سے پوچھتے ہیںکہ انہوں نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) اپنا جانشین کسی کو بنایا ہے کیا میں محمود کا

بقیہ حاشیہ: بولتے تھے۔ ایک دو دفعہ کروٹ بدلنے پر آنکھ کھولی۔ میری طرف دیکھا۔ میں نے سلام علیک کہا۔ آپ نے کہا وعلیکم السلام۔ چھ بجے کے قریب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو کہا کہ میری آواز نہیں نکلتی۔ یہ ہم نے بخوبی سمجھا۔ پھر کوئی ساڑھے سات بجے اٹھ کر بیٹھے اور قلم دوات منگوائی اور ایک پرچے پر لکھا جو باہر جا کر پڑھا تو یہ لکھا تھا کہ’’تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی۔‘‘ اتنا حصہ صاف پڑھا گیا چونکہ کچھ اتفاق سے سیاہی خراب اس پر قلم بھی خراب۔ نیچے رکھنے کے لئے چیز بھی جلدی میں نہ دی گئی آخری نصف سطر نہ پڑھی گئی۔ آٹھ بجے کے بعد پھر جو ریلیپس٭ ہوا ہے۔ پھر طبیعت نہیں سنبھلی۔ آخر ساڑھے دس بجے انتقال فرمایا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے وہ صبر دکھلایا کہ بایدو شاید جب حضرت کا دمِ واپسیں تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ یہ تو ہمیں چھوڑتا ٭٭؎ ہے تو ہمیں نہ چھوڑیو۔‘‘ اور جب حضرت اقدس نے انتقال فرمایا تو فرمایا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اور بس خاموش ہو گئے۔ اور کسی کو رونے نہیں دیا۔ بعد انتقال حضرت تمام جماعت نے نہایت صبر دکھلایا اور تھوڑے وقفہ بعد تمام موجودہ جماعت کے آدمی یکے بعد دیگرے آئے اور حضرت اقدس کی پیشانی پر بوسہ دیتے گئے۔ ڈاکٹروں نے مرض تشخیص کی کہ اسہالوں کی وجہ سے امعاء میں سوزش ہوئی اور حضرت اقدس کو دل گھٹنے اور برداطراف کا جو دورہ ہمیشہ ہوتا تھا وہ سخت پڑا۔ اس لئے انتقال ہوا۔ حضور علیہ السلام کا مسودہ مضمون٭٭٭؎ دیکھا گیا ۔تو اصل بات حضرت ختم کر چکے تھے۔ بعد انتقال حضرت اقدس ؑ ہم لوگ ذرا باہر بیٹھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر محمدحسین شاہ صاحب سول سرجن مسٹر کیننگھم کے پاس سر ٹیفکیٹ کے لئے گئے۔ سر ٹیفکیٹ ملنے پر جس میں سول سرجن نے صاف لکھا تھا کہ حضرت اقدس نے امعاء کی خراش سے انتقال کیا ہے۔ پھر جنازہ کے لئے جانے اور ریل کی گاڑیوں کا انتظام کیا گیا۔ مجھ کو بھی چونکہ جنازہ کے ساتھ جانا تھا۔ میں اپنی کوٹھی پر آیا اور سامان سفر کرنے آیا اس وقت کوئی دو بجے تھے۔ اس کے بعد کوئی تین بجے پھر خواجہ صاحب کے مکان پر پہنچا۔ وہاں جنازہ پڑھا گیا تھا۔ حضرت اقدس کی شکل نہایت منورتھی اور کسی قدر سرخی بھی رخساروں پر تھی۔ مستورات چار بجے روانہ ہو گئیں۔ پھر جنازہ اس کے بعد اٹھایا گیا۔ اسٹیشن پر پہنچ کر صندوق گاڑی میں رکھ کر اس میں پانچ من برف ڈالی گئی اور پھر حضرت اقدس کو صندوق میں رکھا گیا۔ کیونکہ اسٹیشن تک چار پائی پر حسب معمول جنازہ لایا گیا تھا۔ صندوق میں بند نہ کیا گیا تھا۔

٭؎ Relapse ٭٭؎ نقل مطابق اصل ٭٭٭؎ مسودہ مضمون یعنی لیکچر پیغام صلح کا مسودہ۔
نام لکھ دوں حضرت اُمُّ المؤمنین نے فرمایا۔ ’’آپ جو چاہیں‘‘ یہ روایت بامعنی ہے اگر آپ کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات ہوتی تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے صاف کہہ دیتیں کہ ہاں ضرور ایسا ہی کہہ دو مگر نہیں آپ کے قلب میں تو خدا کی رضا کا قبضہ تھا وہ اس سلسلہ کو خدا کا سلسلہ یقین کرتی تھیں اور جو بھی جانشین ہو اس کو تسلیم کرنے کو تیار تھیں اور اپنے عمل سے ثابت کیااور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے بارہا اس اخلاص اور عقیدت و احترام کا ذکر فرمایا جو حضرت اُمُّ المؤمنین کو خلافت کے منصب کا ہے۔

بقیہ حاشیہ: یہ کام ہو چکا اسٹیشن ماسٹر آیاکہ جنازہ نہیں جا سکتا۔شیخ رحمت اللہ صاحب مع اسٹیشن ماسٹر ٹریفک سپرنٹنڈنٹ کے پاس گئے اور سر ٹیفکیٹ دکھلایا جس کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ یہ سول سرجن کا سر ٹیفکیٹ تھا۔ کیونکہ کسی مخالف نے ٹریفک سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ ان کے گھر کے ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے اسے آپ سر ٹیفکیٹ لکھ دیا ہے۔ ورنہ حضرت اقدس نے ہیضہ سے انتقال کیا ہے۔ اس لئے جنازہ نہ جانا چاہئے۔ اب جب سول سرجن کا سر ٹیفکیٹ دیکھا تو ٹریفک سپرنٹنڈنٹ نے اجازت دے دی۔ اس طرح شیطانوں کے تمام منصوبے باطل ہو گئے۔
خلاصہ یہ کہ ریل ساڑھے پانچ بجے روانہ ہوئی۔ اور ہم سب نے بخیروخوبی امرتسر میں نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ اور پھر وہاں سے چل کر دس بجے بٹالہ پہنچے۔ رات بٹالہ بسر کی۔ حضرت اقدس کا جسم مبارک صبح دو بجے صندق سے نکال کر چارپائی پر رکھا۔ اور کثیر جماعت احمدیوں کی ہاتھوں ہاتھ جنازہ قادیان کو لیکر چلی۔صندوق اور برف گڈے پر پیچھے آتا رہا۔
۲۷ مئی ۱۹۰۸ء؁ بدھ
اس کے بعد کوئی چار بجے مستورات روانہ ہوئیں اور ہم بھی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے۔ کوئی آٹھ بجے جنازہ اور ہم سب قادیان میں پہنچے۔ جنازہ باغ میں لا کر بڑے مکان میں رکھا گیا۔ پل سے جماعت قادیان بھی آ شامل ہوئی۔ کوئی نو بجے مستورات بھی آ گئیں۔ ہم ان کو پہنچا کر واپس آئے۔
اکابر سلسلہ احمدیہ مثل خواجہ کمال الدین، شیخ رحمت اللہ، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ، مولوی محمد علی میرے مکان پر اکٹھے ہوئے۔ میں بھی حاضر تھا اور میاں محمود کو بھی تکلیف دی گئی۔ خلیفہ کے متعلق مشورہ ہوا۔ سب نے بالاتفاق حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ تجویز کیا اور میاں محمود صاحب نے بھی کشادہ پیشانی سے اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ بلکہ کہا کہ حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اور حضرت مولانا خلیفہ ہونے چاہئیں۔ ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے۔ اور حضرت کاایک الہام ہے کہ اسی جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہو گا اور یہ پھوٹ کا ثمر ہ ہے۔ اس کے بعد ہم سب باغ گئے اور وہاں میر ناصر نواب صاحب سے دریافت کیا۔ انہوںنے بھی حضرت مولانا کا خلیفہ ہونا پسند کیا۔ پھر خواجہ کما ل الدین صاحب جماعت کی طرف سے
مزید ازالۂ وہم
اگرچہ میں صراحت کے ساتھ واقعات کی روشنی میں بیان کر آیا ہوں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ہمیشہ نظام خلافت کی اہمیت اور احترام کا سبق جماعت کو اپنے عمل سے دیتی رہی ہیں مگر باوجود اس کے چشم بدبیں اعتراض کرنے پر آمادہ رہتی ہے وہ لوگ جو اپنی بدقسمتی سے جماعت سے کٹ چکے ہیں اس قسم کے اعتراض کرتے رہتے ہیں اور مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صادق یقین کرتے ہیں اور اس وحی پر جو آپ پر نازل ہوئی ایمان لاتے ہیںاور اس وحی میں یہ پڑھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اس کو اپنی نعمت اور اپنی خدیجہ قرار دیا اور ایک مبارک نسل کی ماں بتایا اور اہلِ بیت کی تطہیر کی بشارات بارہا دیںاور شر سے محفوظ رکھنے کی الہامی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل کی اور دوسری طرف نہایت سختی کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق کہ وہ ہمیشہ کہتے ہیں وہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت سے خوش نہ تھیں۔ چنانچہ پیغام صلح کی ۳دسمبر ۱۹۴۳ء؁ کی اشاعت میںحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو مخاطب کر کے لکھا:

بقیہ حاشیہ: حضرت اُمُّ المؤمنین کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے کہا۔ میںکسی کی محتاج نہیں٭؎ اور نہ محتاج رہنا چاہتی ہوں۔ جس پر قوم کا اطمینان ہے اس کو خلیفہ کیا جائے اور حضرت مولانا کی سب کے دل میںعزت ہے وہی خلیفہ ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد حضرت مولانا کو بھی تکلیف دی گئی۔ حضرت مولانا کے ہاتھ پرہم سب نے معہ فرزندان و میر صاحب قریباً بارہ سو آدمی نے باغ کے درختوں کے نیچے بیعت کی۔ اس کے بعد ہم سب واپس آئے اور کھانا کھایا۔ پھر نماز ظہر پڑھ کر تمام لوگ باغ میں جمع ہوئے اور نماز عصرپڑھ کر جنازہ پڑھا گیا اور پھر حضرت مولانا نے ایک خطبہ پڑھا۔ بیعت کے وقت اور خطبہ کے وقت عجب نظارہ تھا۔ کوئی آنکھ نہ تھی۔ جو پرنم نہ تھی۔ بعد خطبہ سب حضرت اقدس کا چہرہ دیکھنے کیلئے گئے پھر اس کے بعد حضرت اقدس کا جنازہ قبر پر لے جایا گیا اور حضرت اقدس کے جسم نورانی کو سپرد خاک کیا۔ یہ ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا۔ گرمی کا یہ عالم مگر جسم میں کسی قسم کا فتور نہ تھا۔ چہرہ مبارک بالکل صاف تھا۔ کسی قسم کی بے رونقی نہ تھی۔ اس کے بعد ہم سب واپس آئے اور رات کو سور ہے۔

٭؎ میں کسی کی محتاج نہیں یعنی چونکہ میں کسی کی بفضلہ محتاج نہیںہوں۔ اس لئے میں اپنی ذاتی کسی فائدہ کی غرض سے رائے نہیں دوں گی۔ بلکہ میرے نزدیک جسے جماعت منتخب کرے وہی خلیفہ ہونا چاہئے۔ اور حضرت مولوی صاحب اس کے اہل بھی ہیں۔
’’جناب میاں صاحب یاد رکھیں یا نہ رکھیں لیکن تاریخ سلسلہ کبھی واقعات کو نظرانداز نہیں کر سکتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر جب حضرت مولانا نورالدین صاحب کا انتخاب ہوا تو اس پر جناب میاں صاحب کی والدہ صاحبہ محترمہ نے انتہائی اظہار ناراضگی و اضطراب فرمایا تھااور اسی زمانہ سے میاں صاحب کو خلیفہ بنانے کی مہم کا آغاز کر کے پروپیگنڈہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔‘‘
اس کا پہلا جواب تو قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔
*** اللّٰہ علی الکاذبین- میںنے اسی کتاب میںحضرت خلیفۃ المسیح اوّل کاایک بیان درج کیا ہے جو آپ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کی اس شفقت کے متعلق ہے کہ آپ کے کھانے کے لئے سیّدہ محترمہ نے کچھ رقم بہت ہی الحاح سے پیش کی اور پھر اسی کتاب میں یہ واقعہ بھی درج کیا ہے کہ حضرت اُمُّ المؤمنین نے حضرت خلیفہ اوّل کے حکم کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے ایک طالب علم کی نہایت غلیظ رضائی کی مرمت کی اور حضرت خلیفہ ثانی کے متعلق تو آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ
میری جتنی اطاعت انہوں نے کی ہے تم میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کی(مفہوم) پھر بھی خدا کی نعمت اور خدیجہ اور پاک نسل کی ماں پر اس قسم کا ناپاک افترا ۔ العجب ثم العجب!

۲۸ مئی ۱۹۰۸ء؁ جمعرات
بقیہ حاشیہ: آج میں قادیان میں رہااور ہم کو میر ناصر نواب صاحب نے بلایا اور وہاں بھی عجیب عالم تھا۔ سب رور رہے تھے اور میر صاحب نے کہا بھائی میری سختی طبع آج تک تھی۔ میرے باپ تھے تو مرزا صاحب تھے اوربیٹے تھے تو مرزا صاحب تھے۔ اب مجھ سے تمہارا ٭؎ کام نہیں ہو سکتا۔ ہم سب نے کہا کہ ہم آپ کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں۔ جیسا پہلے اور آپ ہم کو اپنا پورا خادم پائیں گے اور پھر ہم یعنی خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور دونوں ڈاکٹر صاحبان اور میں اور مولوی محمد علی حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی اظہار ِ عقیدت کی اور ہر ایک نے کچھ کچھ رقم نذرپیش کی۔

٭؎ تمہارا کام یعنی انجمن کی تعمیرات وغیرہ کا کام۔ جس کے منصرم حضرت میر صاحب حضور علیہ السلام کے زمانہ میں تھے۔ یہ تمام ڈائری خود حضرت نواب صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر سے نقل کی گئی ہے اور حضور علیہ السلام کی وفات کے متعلق ایک مستند بیان ہے جو قابل اندارج تاریخ سلسلہ ہے اور کوئی فقرہ اس میں سے محذوف نہیںکیا گیا۔
(خاکسار محمد اسمٰعیل)
سلسلہ کی تاریخ اس افترا اور جھوٹ کو ضرور محفوظ رکھے گی اور سیرت اُمُّ المؤمنین آنے والی نسلوں میںاعلان کرتی رہے گی کہ اس قسم کے ناخلف بھی تھے جو اپنی روحانی ماں پر یہ نازیبا طعن کرتے تھے اور ہر آنے والی نسل ان پر ملامت کرے گی۔
اس اعتراض کے جواب میں وہ واقعات جن کا اوپر ذکر کیا ہے کافی ہیں۔ لیکن مَیں ایک اور دستاویز پیش کرنا بھی ضرور ی سجھتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے انتخاب پر جو اعلان صدرانجمن احمدیہ کے معتمدین نے (جس کے سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب بھی تھے) شائع کیا اس میں یہ اقرار موجود ہے اور وہ یہ ہے:
’’آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقربا حضرت مسیح موعود وبہ اجازت حضرت اُمُّ المؤمنین کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی۔ حضرت حاجی الحرمین و شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔ اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔‘‘
یہ اعلان خواجہ کمال الدین مرحوم، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم، ڈاکٹر یعقوب بیگ مرحوم اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم وغیرہ معتمدین کے دستخط سے شائع ہوا۔
فماذ ابعدالحق الِاّ الضلال
(نوٹ) اس حصہ کی طباعت کے وقت حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے اوراق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے واقعات پر شائع ہوئے ہیں۔ اس ڈائری سے حضرت اُمُّ المؤمنین کا وہ بیان ظاہر ہے جو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کو حضرت سیّدہ محترمہ نے دیا تھا اور جس کاخلاصہ خواجہ صاحب نے اعلان متذکرہ بالا میں بہ اجازت حضرت اُمُّ المؤمنین کے الفاظ میںکیا ہے۔ خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ جیسا کہ اس نے اہلِ بیت کی تطہیر کا وعدہ فرمایا تھا۔ پیغامی اعتراض کا جواب ان کے ہاتھوں ہی سے تحریر کرا دیا تھا اور اب جدید انکشاف حضرت نواب صاحب کی ڈاٹری نے کر دیا ۔ وللّٰہ الحمد (عرفانی کبیر)
بعض اعتراضوں کا جواب
عزیز مکرم محمود احمد عرفانی نے دوسری جلد کے لئے ایک باب اس غرض کے لئے بھی مخصوص کیا تھا کہ منکرین خلافت نے حضرت اُمُّ المؤمنین اور آپ کی ذریت طیبہ کے متعلق جو اعتراضات کئے ہیں ان کا جواب بھی دے دیا جاوے۔ ذریت طیبہ اور مصلح موعود کے متعلق جو شکوک اور شبہات ناشکر گزار لوگوں نے پیش کئے ہیں وہ اپنی جگہ ہر چند کوئی اہمیت نہیں رکھتے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت نے اپنے وعدہ کے موافق آیات بینات کے ساتھ ان کا جواب دے دیا ہے اور آئے دن اخبارات میں ہر نئے اعتراض کا جواب شائع ہوتا ہے۔ تاہم مستقل طور پر ہر ایک قسم کے اعتراضات کا جواب رسالہ مصلح موعود میں جو زیر تالیف ہے دیا جاوے گا کہ وہی مقام اس کے لئے موزوں ہے اور دوسری جگہ اس کتاب میں بھی کچھ صراحت کر دی گئی ہے۔ باایں مرحوم کی خواہش یا تجویز کے موافق اس جگہ بھی کچھ اور صراحت کر دی جاتی ہے۔
منکرین خلافت کا سارا زور حضرت امیرالمومنین مصلح موعود کی مخالفت میں صرف ہو رہا ہے اور وہ آپ کے اعلیٰ سے اعلیٰ مفید اور موثر کام کو بھی قابلِ اعتراض قرار دینا چاہتے ہیں۔ بمصداق
ہنر بچشم عداوت بزرگتر عیبے است
اور عجیب بات یہ ہے کہ پھر اسی تحریک،تجویز اور پروگرام کو لیکر خود عمل کرتے ہیںاور شکرگزار ہونے کی بجائے اپنے عمل سے انتہائی ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہرحال ان کے سارے تیروں کا ہدف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا موعودلخت جگر ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیںکہ جس وجود کو ایک زمانہ پیشترجبکہ وہ عنفوان شباب میں تھا۔جبکہ انسان مختلف قسم کی امنگوں اور جذبات کے سیلاب میں جا رہا ہوتا ہے وہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان قرار دیتے تھے اور آج جبکہ خود اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ وہ تقویٰ اور دیانت کے تمام اصولوں کو ترک کر کے اس پر حملے کرتے ہیں آہ! صدآہ! اس لئے قبل اس کے کہ مَیں منکرین خلافت کے اس مایہ ناز اعتراض کا جواب دوں کہ وہ سیّدنا امیرالمومنین کو پسر نوح کہہ کر کرتے ہیں۔ میںان کے اکابر کے اس عقیدہ کو پیش کر دینا چاہتا ہوں جو اس سے پہلے ان کا تھا۔
مولوی محمد علی صاحب کا اعتراف
جناب مولوی محمد علی صاحب نے ۱۹۰۶ء؁ میں رسالہ تشحیذالاذہان پر ریویو کرتے ہوئے ایک مضمون کا کچھ حصہ نقل کرنے کے بعد لکھاکہ:
’’اس وقت صاحبزادہ (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہو گا۔ مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ایک خارق عادت بات ہے…… اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں۔ اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افترا ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا۔ جھوٹ تو ایک گند ہے۔ پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی۔‘‘ ۴؎
مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۹۱۱؁ء میں جو وصیت آپ (حضرت خلیفہ اوّل) نے لکھوائی تھی اور جو بند کر کے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی۔ اس کے متعلق مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا۔‘‘
جناب پیر منظور محمد صاحب نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے عرض کیا کہ ’’مجھے آج حضرت اقدس ؑ کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ مل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں‘‘۔ تو حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا۔ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں‘‘۔ ۵؎
منکرین خلافت کااعتراف عمومی
۲۹ مارچ ۱۹۱۴ء کے پیغامِ صلح کے مقالہ افتتاحیہ میں تحریر کیا گیا۔
پیارے ناظرین! ہم آپ کو یقین کلی دلاتے ہیںکہ ہم صاحبزادہ صاحب کواپنا ایک بزرگ اور امیر اور ملجاؤ ماویٰ سمجھتے ہیں اور ان کی پاکیزگی روح اور بلندی فطرت اور علوِ استعداد اور روشن جوہری اور سعادت جبلی کو مانتے ہیں اور دل سے ان سے محبت کرتے ہیں۔ واللّٰہ علیٰ مانقول شہید صرف اعتقاد میں فرق ہونے کی وجہ سے ہم ان سے بیعت نہیںکر سکتے۔‘‘ ۶؎
حضرت نوح ؑاور حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد٭
غیر مبایعین کی طرف سے سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق طنزاً کہا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ حضرت نوح علیہ السلام کے اس بیٹے کی مانند ہیں جس نے اپنے باپ کی نافرمانی کی تھی۔ چونکہ یہ الزام منکرین خلافت کی طرف سے عام طور پر لگایا جاتا رہا ہے۔ اس لئے میں اس کے متعلق کچھ عرض کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نام خداتعالیٰ نے نوحؑ بھی رکھا ہے۔ مگر اس لئے کہ دونوں میں بہت سی باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ ذیل میں صرف ان مشابہتوں کا ذکر کروں گا جو دونوں کے درمیان بلحاظ ان کی اولاد کے پائی جاتی ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام آدم ثانی تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی آدم رکھا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے خاندان کی عادت کے برخلاف خدا کے حکم کے ماتحت بڑی عمر میں شادی کی تھی۔ شادی کے وقت یہودی روایات کے لحاظ سے آپ کی عمر پانچ سَو سال کے قریب تھی۔ حضرت مسیح موعود نے جب الٰہی ارشاد کے ماتحت شادی کی۔ اس وقت آپ کی عمر پچاس سال کے قریب تھی۔
حضرت نوح علیہ السلام کی شادی میں تاخیر کی دو وجہ لکھی ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں علم دیا گیا تھا کہ طوفان آنے والا ہے اس لئے انہوں نے کہا کہ اگر میں شادی کروں تو جو اولاد ہو گی وہ بھی ہلاک ہو جائے گی۔ اس لئے کیا فائدہ لیکن بعد میں خدا نے شادی کا حکم دیا۔ دوسری وجہ یہ لکھی ہے کہ درحقیقت خدا نے ان کی حالت ایسی کر دی تھی کہ ان میں گویا مردمی کی قوت ہی نہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب شادی کی تو آپ کی یہ قوت بھی جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں کالعدم تھی۔ مگر جب آپ نے

٭ یہ مضمون مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کا ہے جو عرفانی کبیر نے اس کتاب میں شامل کیا ہے۔
دعا کی تو الہام کے ذریعہ آپ کو ایک دوائی بتائی گئی۔ جس سے وہ حالت رفع ہو گئی اور کامل صحت و طاقت حاصل ہوئی۔ ۷؎
تالمود میں لکھا ہے کہ نوح علیہ السلام چونکہ اپنے زمانہ میں نیک اور صالح تھے اور خدا نے چاہا کہ حضرت نوح کی اولاد تمام زمین پر پھیلے۔ اس لئے خدا نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ تم ایک شادی کرو تا اس سے اولاد ہو۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’چونکہ خداتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا۔ اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جوان نوروںکی جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے۔ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔‘‘ ۸؎
نیز فرماتے ہیں:
’’خدا نے اپنے الہام سے مجھے اطلاع دی ہے کہ ایک شریف خاندان میں وہ میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سیّد ہوں گے اوراس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد ہو گی۔‘‘ ۹؎
تب حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کے حکم کے ماتحت اخنوخ (Enonch) کی لڑکی سے شادی کی جس کا نام نعمت تھا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق دہلی میں سادات کے ایک مشہور خاندان میں ہوئی یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم و مغفور کی دختر نیک اختر سے جسے خداتعالیٰ نے الہام اشکر نعمتی رئیت خدیجتی میں قرار دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت نوح کی بیوی کا صحیح نام نعمت ہی تھا۔
نعمت سے حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے ہوئے جن سے اولاد چلی، یافثؔ، حامؔ، سامؔ اور تینوں بڑے ہوئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق نیکوکار اور اللہ تعالیٰ کے راستہ پر قائم ہوئے۔ ۱۰؎
تورات اور دوسری کتب یہود کی روایات کے مطابق پہلے سامؔ پھر حامؔ پھر یافثؔ پیدا ہوئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خواب میں تین جوان لڑکوں کی خوشخبری دی گئی تھی۔ ۱۱؎
چنانچہ وہ تین لڑکے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ اور صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ جو حضور کی تعلیم کے مطابق تقویٰ اور نیکوکاری میں بڑھتے گئے اور صراط المستقیم پر قائم ہوئے۔
جیوش انسائیکلوپیڈیا میں زیر لفظ نوح عربی لٹریچر کے ماتحت لکھا ہے۔ جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔
یعنی حضرت نوح کی ایک اور بیوی بھی تھی۔ جس کا نام وائلہ تھا جو اپنے بیٹے کی طرح کافرہ تھی اور جو اپنے لڑکے کے ساتھ ہی ہلاک ہو گئی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی جو حضرت اقدس ؑ کے ان رشتہ داروں کے رنگ میں رنگین تھیں۔ جو دین سے سخت لاپرواہ تھے۔ ۱۲؎
اور جنہیں آخر کار ۱۸۹۱ء؁ میں حضرت اقدس ؑ نے طلاق دے دی تھی۔ ۱۳؎
انہوں نے بھی غیر احمدی ہونے کی حالت میں وفات پائی جیسے اُن کے بیٹے مرزا فضل احمد صاحب نے۔ پس ماں اور بیٹا دونوں نے حضرت مسیح موعود ؑ پر بغیر ایمان لائے وفات پائی۔ جیسا کہ حضرت نوحؑ کی پہلی بیوی اور بیٹے نے یٰبنی ارکب معنا حضرت مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی ترجمۃ القرآن میں اسی امر کو ترجیح دی ہے کہ وہ لڑکا جو غرق ہوا۔ وہ حضرت نوح کا صلبی لڑکا نہ تھا۔ بلکہ ان کی بیوی کا پہلے خاوند سے تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو طوفان اور کشتی بنانے کے لحاظ سے حضرت نوح علیہ السلام سے مشابہت ہے وہ روحانی رنگ میں بھی ہے۔ چنانچہ حضور اپنی وحی واصنع الفلک باعیننا ووحینا کو لکھ کر جو حضرت نوحؑ کو بھی ہوئی تھی فرماتے ہیں۔
’’اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اس کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کیلئے اس کو مدارِ نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے جس کے کان ہوں سنے۔‘‘ ۱۴؎
اس لحاظ سے آپ کے روحانی اہل وہی تھے۔
جنہوں نے آپ کو اسی رنگ میں مانا اور منکرین خلافت بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں اسی کے مطابق لکھتے رہے۔ کہ ہم اسی وقت ایمان کا دعویٰ کر سکتے ہیں جب کہ ہم ان آسمانی نشانوں کو دیکھ کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی وساطت سے اس زمانہ میں ظاہر فرمائے ہیں۔ خداتعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو پھر ہمارا ایمان ہمارے منہ کی ایک بات ہے۔ جو محض لاف ہی لاف ہے اور جس کی اصلیت کچھ نہیں۔ ۱۵؎
لیکن وہی بعد میں لکھنے والے امیر منکرین خلافت اس حد تک دور نکل گئے کہ آپ کی وحی کو بھی حدیث سے ادنیٰ مرتبہ کا بتایا۔ نیز کہا کہ آپ کے دعویٰ کو نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا اور ایسا شخص مسلمان ہی کہلائے گا اور نجات پا سکتا ہے۔ اسی طرح وہ اس وحی اور تعلیم اور بیعت والی کشتی نوح سے جو اس زمانہ میں خدا نے تیار کی تھی علیحدہ ہو کر گویا ایک پہاڑ پر جا کر کھڑے ہوئے اور خیال کیا کہ اب وہ اس طرح ترقی پائیں گے اور نہ صرف خود نجات پائیں گے بلکہ دوسروں کی نجات کا بھی موجب ہوں گے۔ لیکن ان کی یہ حالت بالکل نوحؑ کے بیٹے کی حالت کے مشابہ تھی۔ جسے حضرت نوحؑ نے فرمایا:
اے میرے بیٹے ارکب معنا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ۔ کیونکہ آج اس طوفان سے سوائے اس کے جس پر خدا کا رحم ہو کوئی بچانے والا نہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے روحانی بچوں کی یہ دوری کی حالت ان کے امیرکی صورت میں دکھائی گئی کہ وہ اتنی دور نکل گئے ہیں کہ وہ میری وحی تعلیم اور بیعت کو مدارنجات نہیں سمجھتے۔ اس لئے حضرت نوحؑ کی طرح حضور ؑ نے بھی اسے مخاطب کر کے عالم رویاء میں ندادی۔ ’’آپ بھی صالح اور نیک ارادے رکھتے تھے۔ آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ۔‘‘ کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ صرف احمدیہ جماعت ہی ایسی ہے کہ جن کا دین دشمنوں کی دست برد سے بچے گا۔ ہر ایک بنیاد جو سست ہے۔ اس کو شرک اور دہریت کھاتی جائے گی۔ مگر اس جماعت کی بڑی عمر ہو گی اور شیطان اس پر غالب نہیں آئے گا ۔ گویا آپ نے فرمایا کہ دوسروں کے ساتھ ملنے سے تم اپنے آپ کو غرق ہونے سے نہیں بچا سکو گے اور آہستہ آہستہ تم اور تمہاری اولادیں شرک اور دہریت کا شکار ہوتی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ معاملہ رہاہے کہ باوجود یوسف نام ہونے اور رب السجن احب الیکی دعا کے الہام ہونے اور مقدمات کے ہونے کے آپ کو اللہ تعالیٰ نے قید سے بچا لیا۔ باوجود مسیح نام پانے کے صلیب سے بچایا۔ بلکہ کاسر صلیب کا لقب عطا فرمایا باوجود ابراہیم ؑ اور محمدؐ نام پانے کے یہ نوبت نہ پہنچی کہ آپ کو ہجرت کرنی پڑتی۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ولاتُکَلِّمْنِی فی الذین ظلمواانہم مغرقون وَعْدٌ اعلینا حقٌ۔ جس کے متعلق حضورؑ نے فرمایا ہے کہ میرے خیال میں یہ الہام ہماری جماعت کے بعض افراد کی نسبت ہے۔ جو دنیا کے ہموم و غموم میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔ ضرور تھا کہ بعض کو صحیح راستہ کی طرف لوٹنے کی توفیق نہ ملتی ۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نداکہ ’’آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ‘‘ کے نتیجہ میں جو آپؑ نے منکرین خلافت کو عالم خواب میں دی۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں پھر اس کشتی نوح میں بیٹھنے کی توفیق بخشے۔ اور وہ غرق ہونے سے بچا لئے جائیں۔ وما ذالک علٰی اللّٰہ بعزیز-
(خاکسار۔ جلال الدین شمس از لندن)
لفظ اُمُّ المؤمنین پر اعتراض اور اس کا جواب
اُمُّ المؤمنین کے لفظ کے متعلق بعض لوگوں کواعتراض ہے کہ یہ لفظ صرف نبی کی بیویوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ مطہرہ کے نام کے ساتھ کیوں لگایا جاتا ہے یہ اعتراض بھی ان کا خلافت کے بعد دہرایا گیا ۔ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے مسئلہ کی اسی سے تائید ہوتی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراض خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی بعض کو پیدا ہوا اور حضرت کے حضور پیش ہوا۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا جو جواب دیا وہ ایک قطعی حجت ہے اور وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امام حکم عدل تسلیم کرتا ہے اس کے لئے اس کے بعد یا رائے دم زدن نہیں۔
پس میں حضرت اقدس ؑ کا دیا ہوا جواب الحکم ۲۴۔اکتوبر ۱۹۰۱؁ء سے پیش کرتا ہوں:
’’ فرمایا۔ اعتراض کرنے والے بہت ہی کم غور کرتے ہیں اور اس قسم کے اعتراض صاف بتاتے ہیں کہ وہ محض کینہ اور حسدکی بناء پر کئے جاتے ہیں۔ ورنہ نبیوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگر اُمہات المومنین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی سنت اور قانون قدرت کا اس تعامل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی۔ ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں۔ (کہ اُمُّ المؤمنین کیوں کہتے ہو) پوچھنا چاہئے کہ تم بتاؤ۔ جو مسیح موعود تمہارے ذہن میں ہے اور جسے تم سمجھتے ہو کہ وہ آکر نکاح بھی کرے گا۔ کیا اس کی بیوی کو تم اُمُّ المؤمنین کہو گے یا نہیں۔ مسلم میں تو مسیح موعود کو نبی ہی کہا گیا۔ اور قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کی بیویوں کو مومنون کی مائیں قرار دیا ہے۔‘‘ ۱۶؎
حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایک امتیازی شان
گزشتہ صفحات میں مَیں نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق اس وحی کا ذکر کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی اور یہ بھی آپ کی امتیازی شان کا اظہار ہے لیکن ایک اور خصوصیت کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں جس میں آپ منفرد ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ شرف عطا فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجیت کی عزت دی اور آپ کے وجود سے بہت سے نشانات اور آیات و برکات کو مخصوص فرمایا ان میں سے ایک بڑی برکت اور سعادت آپ کے حصہ میں یہ آئی کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے مبشر مصلح موعود کی ماں ہیں اور آپ کے بطن شریف سے وہ اوالعزم اور عظیم الشان انسان پیدا ہوا جس کی بشارت آنحضرت ﷺ نے بھی دی تھی اور حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑی تحدی اور شوکت کے ساتھ پیشگوئی فرمائی تھی گویا حضرت اُمُّ المؤمنین ایک نبی کی زوجہ اور اس نبی کے خلیفہ اور مصلح موعود کی والدہ محترمہ ہیں اور یہ خداتعالیٰ کا خاص انعام اور فضل ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے خداتعالیٰ کی اس نعمت پر مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہار تشکر کیا ہے:
حضرت اُمُّ المؤمنین کا اظہار تشکر اور جماعت کو دردمندانہ نصیحت
’’میں اپنے خدا کا کس طرح شکریہ ادا کروں کہ اس نے مجھ ناچیز کو اپنے پاک و بزرگ مسیحؑ کی زوجیت کے لئے چنا اور میرے سر کو اپنے انتہائی انعام کے تاج سے فرمایا اور پھر مَیں اپنے خدا کا کس طرح شکریہ ادا کروں کہ اس نے میرے بیٹے محمود کو مصلح موعود کے مقام پر فائز کر کے میری عمر کے آخری حصہ میں مجھے ایک دوسرا تاج عطا کیا۔ پس مجھے میرے اوپر کی طرف سے بھی تاج ملا اور میرے نیچے کی طرف سے بھی اور یہ میرے خدا کا سراسر فضل و احسان ہے۔ جس میں میری کسی خواہش اور کسی عمل اور کسی استحقاق کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں اور یہ دو تاج صرف میرا ہی حصہ نہیں ہیں۔ بلکہ میری پیاری جماعت بھی ان میں میرے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے مگر خدا کا ہرخاص انعام اپنے ساتھ خاص ذمہ داریوںکو بھی لاتا ہے اور میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اور جماعت کو بھی ان اہم ذمہ داریوں کے پورا کرنے کی توفیق دے جو اس کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہیں۔ اے ہمارے خدا تو ایسا ہی کر۔ آمین والسلام (اُم محمود) ۱۷؎
آپ کے وجود کو مَیںتو مجموعہ برکات وآیات یقین کرتا ہوں ان آیات میں سے آپ کی درازی عمر بھی ہے جو حضرت مصلح موعودکے ظہور اور دعویٰ کے لئے ایک حجت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مصلح موعود کی پیشگوئی بالاتفاق ۲۰ فروری ۱۸۸۶؁ء کے اشتہار میں کی۔ گو اب منکرین مختلف قسم کے شبہات پیدا کرنے کی سعی ناکام کرتے ہیں۔ مجھے یہاں مصلح موعود کی صداقت کے دلائل بیان نہیں کرنا ہے بلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے اسے ظاہر کرنا ہے اس لئے کہ مصلح موعود کی صداقت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا اور خاکسار کے زیرنظر بھی ایک تالیف ہے۔
حضرت مصلح موعود کے متعلق جو اعلان ۲۰ فروری ۱۸۸۶؁ء کو شائع ہوا تھا اس کے متعلق یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ وہ دو لڑکوں کی پیدائش کے متعلق تھا جن میں سے ایک اپنی صغیر سنی میں فوت ہو کر ایک نشان بننے والا تھا اور دوسرا ولوالعزم مصلح موعود جس کا ظہور اپنے وقت پر ہونے والا تھا۔ اس مصلح موعود کے متعدد نام خدا کی وحی میں آئے ہیں اور جوں جوں اس کے ظہور کا زمانہ قریب آتا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود کے ناموں اور اس کے ذاتی کاموں کی صراحت مختلف اوقات میں فرمائی مگر اسی رنگ میں اور اسی اصل پر جو خداتعالیٰ نے پیشگوئیوں کے متعلق مقرر کر رکھاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شروع سے اس امر کے منتظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلق الصبح کی طرح بشارت ملے تو آپ مصلح موعود کا اعلان فرماویں ۔ گو آپ مختلف رنگوں میں آنے والے مصلح موعود کو نامزد کرتے رہے جیسا کہ رسالہ مصلح موعود میں اس کی صراحت آئے گی۔ بالآخر جون ۱۹۰۶؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مصلح موعود کے صفاتی اسماء کے متعلق وحی ہوئی اور وہ حسب ذیل ہے:
’’بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کاایک لڑکا پیدا ہو گا جس کے دو نام ہوں گے۔
(۱) ’’بشیرالدولہ (۲) عالم کباب
(ا) ’’یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے اور ان کی تعبیر اور تفہیم یہ ہے:
(۱) ’’بشیر الدولہؔ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لئے بشارت دینے والا ہو گا۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی۔
(۲) ’’عالمؔ کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے۔ دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی۔ گویا دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا۔ غرض وہ لڑکا اس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کے لئے ایک نشان ہو گا۔ بشیرالدولہ کہلائے گا اور اس لحاظ سے کہ مخالفوں کے لئے قیامت کا نمونہ ہو گا۔ عالم کباب کے نام سے موسوم ہو گا۔
’’خداتعالیٰ کے الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے سرکش لوگوں کے لئے کچھ اور مہلت منظور ہے۔ تب بالفعل میاں منظور٭؎ محمد صاحب کے گھر میں لڑکا نہیں بلکہ لڑکی پیدا ہوگی اور لڑکا بعد میں ہو گا۔ مگر لڑکا ضرور ہو گا کیونکہ وہ خدا کا نشان ہے اور اگر دنیا پر جلد عذاب کا وقت آ پہنچا ہے۔ یعنی عذاب عظیم کا وقت تب ابھی لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام بشیرالدولہ اور شادی خاں اور کلمۃ اللہ خاں اور عالم کباب ہو گا اور وہ دنیا کے لئے نیکوںکے لئے اورنیز بدوں کے لئے خدا کا نشان ہوگا یہ اُسی قسم کا نشان ہے جیسا کہ یسعیاہ نبی نے حزقیاہ بادشاہ کیلئے فرمایا تھا اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عنقریب دو نشان ظاہر ہوں گے۔
’’پس اگر دو نشان ظاہر ہونے والے جو عنقریب ہیں وہ اور ہیں تو اس صورت میں بھی اب کی دفعہ ان کے گھر میں لڑکی پید ہو گی۔ نہیں تو اب کی دفعہ ہی لڑکا پیدا ہو گا اور وہ خدا کا نشان ہو گا اور اس کے ساتھ ایک دوسرا نشان ظاہر ہو گا اور وہ لڑکا نیکوں کے لئے اور اس سلسلہ کے لئے ایک سعد ستارہ کی طرح مگر بدوں کے لئے اس کے برخلاف ہو گا۔‘‘ ۱۸؎

٭؎ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے کہ بشیرالدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہوگا جس کا پیدا ہونا موجب خوشحالی اور دولت مندی ہو جائے۔ (بدرجلد۲ نمبر۸۔ ۲۳/فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲)
(ب) ’’وہ خدا کا کلمہ ہو گا۔ جو ابتداء سے مقرر تھا اور اس زمانہ میں پورا ہو جائے گا۔ اور ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے۔ جب تک یہ پیشگوئی پوری ہو۔ اور گزشتہ الہام ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘۔ اسی پیشگوئی کو بیان کرتا ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ ایک کلمہ اور دو لڑکیاں۔ کیونکہ میاں منظور محمد کی دو لڑکیاں ہیں۔ اور جب کلمۃ اللہ پیدا ہو گا۔ تب یہ بات پوری ہو جائے گی۔ ایک کلمہ اور دو لڑکیاں۔‘‘ ۱۹؎
اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیساکہ حاشیہ بالا سے ظاہر ہے یہ صاف کر دیا تھا کہ منظور محمد سے کس کی طرف اشارہ ہے معلوم نہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت کا رحجان یہ ضرور تھاکہ اس سے صاحبزادہ منظور محمد ہی شاید مراد ہوں۔ مگر یہ حقیقت ہے اور مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ اسی دن جب یہ الہامات مَیں نے سنے ظہر کی نماز کے بعد خاکسار شیخ غلام احمد مرحوم کی دوکان میں آ کر بیٹھا ہوا تھااور مَیں نے ان سے کہا کہ حضرت اقدس کو اجتہادی غلطی لگ رہی ہے۔ یہاں پیر منظور محمد مراد نہیں خود حضرتؑ ہی مراد ہیں اور آپ کاہی نام منظور محمد ہے اور محمدی بیگم آپ کی ہی زوجہ محترمہ ہیں۔ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ آئے اور آ کر فرمایا او شیخا! کیا بحث کرتے ہو۔ شیخ صاحب مرحوم نے فرمایا کہ شیخ صاحب کا یہ خیال ہے کہ حضرت اقدس ؑ کو اجتہادی غلطی لگ رہی ہے۔ حضرت میر صاحب نے مجھے مناسب ہدایت کی مگر میں سنتا رہا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب پیر منظور محمد صاحب کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہو گیا تب مَیں نے ایک روز اس سلسلہ میں اسی مقام پر کہا کہ دیکھوخداتعالیٰ نے اپنے فعل سے اس اجتہاد کی غلطی واضح کر دی اب پیر منظورمحمد صاحب کے اولاد کا موقعہ نہ رہا۔ حضرت میر صاحب نے اس مرتبہ فرمایا کہ یہ پیشگوئی میر محمد اسحق صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہونے سے پوری ہو گی مَیں نے کہا یہ ہرگز نہ ہو گا۔ اس پر حضرت میر صاحب کو طیش آیا اور مجھے فرمایا کہ تو نہیں چاہتا کہ میرے لڑکے کے گھر میں یہ موعود پیدا ہو۔ مَیں نے جواب دیا یہ موعود آپ کی اولاد ہی میں ہو گا۔ فرق اتنا ہے کہ آپ کہتے ہیں میرے لڑکے کے گھر میں ہو گا اور مَیں کہتا ہوں آپ کی لڑکی کے گھر میں۔ میں تو نہیں چاہتا کہ آپ کے لڑکے کے گھر میں نہ ہو مگر کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی لڑکی کے گھر میں نہ ہو۔ اس پر حضرت مرحوم خاموش ہو گئے اور مَیں اور کثیر التعداد لوگ یہی سمجھتے تھے کہ وہ آپ ہی کی اولاد میں سے ہو گا اور یہی وہ الوالعزم بشیرالدین محمود احمد ہے۔
اسی اجتہادی غلطی کی بناء پر حضرت صاحب نے اس وقت ایسا لکھا۔ بہرحال مصلح موعود کے ظہور کی علامات میں اس امر کو واضح کیا کہ ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے جب تک یہ پیشگوئی پوری ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کے ظہور کے وقت حضور ؑ کا وصال ہو چکا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور باوجودیکہ جماعت کے علماء و صلحا عوام و خواص ان آثار اور کاموں سے جو مصلح موعود کے تھے یہ یقین کرتے تھے کہ حضور مصلح موعود ہیں مگر آپ نے اس وقت تک اس کا اعلان نہ فرمایا جب تک خدا تعالیٰ نے آپ پر ایک رئویا صالحہ کے ذریعہ کامل انکشاف نہ کر دیا اور تب آپ نے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس کااعلان ہوشیار پور لودہانہ ،لاہور ،دہلی میں کیا۔ ہوشیار پور کو اس لئے اہمیت اور خصوصیت تھی کہ یہ پیشگوئی ہوشیار پور ہی سے کی گئی تھی اس موقعہ پر (۲۰ فروری ۱۹۴۴؁ء) کو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح مصلح موعود نے فرمایا:
حضور نے فرمایا آج سے پورے اٹھاون سال پہلے جس کو آج انسٹھواں سال شروع ہو رہا ہے۔ ۲۰ فروری کے دن ۱۸۸۶؁ء میں اس شہر ہوشیار پور میں اس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو کہ اس وقت شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کا طویلہ کہلاتا تھا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں وہ ایک مکان تھا۔ جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی ٹھہر جاتا ہو یا اسٹور بنا رکھا ہو یا حسبِ ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں۔ قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے لوگوں کی اس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اس کی نصرت اور مدد طلب کرنے کیلئے آیا اور چالیس دن علیحدگی میں اس نے خدا تعالیٰ سے تضرع کے ساتھ دعائیں کیں۔ ان دعائوں کے نتیجہ میں خدا نے اس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ میں تم کو نہ صرف یہ کہ جو تمہارے ساتھ میرے وعدے ہیںان کو پورا کروں گا بلکہ ان وعدوں کو زیادہ شان اور زیادہ عظمت کے ساتھ پورا کرنے کیلئے میں تمہیں ایک خاص بیٹا دوں گا وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔ کلام الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا۔ رحمت اور فضل کا نشان ہوگا اور دینی و دنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اسے عطا کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے لمبی عمر دے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت حاصل کریں گی۔
یہ اعلان بانی سلسلہ احمدیہ نے یہیں ہوشیار پور سے شائع فرمایا اور اس وقت شائع فرمایا جب کہ ابھی تک سلسلہ احمدیہ کا وجود نہیں تھا۔ قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جہاں تک دنیوی وجاہت کا تعلق ہے اس کے لحاظ سے ذاتی طور پر کوئی عزت حاصل نہیں تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا خاندان ایک معزز زمیندار خاندان تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلطنت مغلیہ کے عہد میں اس خاندان کو بڑی عزت کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں بھی اس خاندان کے افراد کو بعض معزز عہدے حاصل رہے۔ لیکن وہ خاندان قدیم عزت کھو چکا تھااور بعض وجوہ سے انگریزی زمانہ میں اس کی جائیداد کا اکثر حصہ ضبط ہو چکا تھا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیوی حیثیت ایک معمولی زمیندار کی سی تھی اور پھر آپ کو اپنی عزت بڑھانے کا بھی شوق نہ تھا۔ باپ نے انہیں بار بار توجہ دلائی کہ وہ ملازمت اختیار کر لیں مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ایسا شخص اس زمانہ میں اعلان کرتا ہے کہ میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کو پھیلائے گا اور پھر میرے کام کو لمبا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ مجھے ایک خاص بیٹا دے گا جو نو سال کے اندر پیدا ہوگا اور ان ان خاص صفات سے متصف کرے گا اور میرا جانشین ہوگا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ یہ خبر ایسی زبردست خبر ہے کہ جو شخص بھی غور کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی خبر خدا کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے۔ کوئی انسان ایسی خبر دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آخر یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔
حضور نے فرمایا جس لڑکے کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ وہ میں ہی ہوں۔ میرے ذریعہ اس پیشگوئی کی بہت سی شقیں پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے جماعت کا اصرار تھا کہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کروں مگر میں خاموش رہا۔ حتیّٰ کہ گزشتہ جنوری کے مہینہ میں لاہور میں مجھے ایک رئویا دکھایا گیا جس میں مجھے بتایا گیا کہ اس پیشگوئی کا میں ہی مصداق ہوں۔ حضور ؑ نے اس موقعہ پر رئویا کا تفصیل سے ذکر کیا اور فرمایا میں اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں نے جو رئویا بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح ہوئی۔ الاماشاء اللّٰہ کچھ خفیف سا فرق نظارہ کے بیان کرنے میںہو گیا ہو تو علیحدہ بات ہے۔ پس مَیں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔
اس تقریر کے بعد مبلغین سلسلہ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پیشگوئی شائع فرمائی تھی کہ مصلح موعود کے ذریعہ احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک روشن ہوگا وہ کس شان اور عظمت سے پوری ہوئی ہے۔
آخر میں حضور نے فرمایا:
’’مَیں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ ہوشیار پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔ حکومتیں اگر اس کے مقابلہ میں کھڑی ہوں گی تو مٹ جائیں گی۔ بادشاہتیں کھڑی ہوں گی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی۔ لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے ان کو اپنے ہاتھوں سے مَلیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا‘‘۔۲۰؎
اس کے بعد حضور نے احباب کو جانے کی رخصت عطا فرمائی اور دعا کے لئے تشریف لے گئے۔
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے تاثرات
میں کسی دوسری جگہ ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب مرحوم کے تاثرات حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے متعلق لکھ آیا ہوں اب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم کے تاثرات بھی درج کر دیتا ہوں اگرچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (مولوی محمد علی صاحب رئیس منکرین خلافت کے خسر) اپنی تحریروں میں اختلاف کے بعد نیش زنی کرتے رہے ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے خود ان پر حقیقت کھل چکی ہوگی۔ مجھے ضرورت نہیں کہ ان کے اس طرز عمل پر اس جگہ کوئی بحث کروں مجھے یہ دکھانا ہے کہ باوجود معاند ہونے کے انہوں نے جب مجدد اعظم لکھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے واقعات کے ذکر میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے صبر جمیل اور رضا بالقضا کا بھی ذکر کیا۔ مصیبت اور ابتلا کے وقت ہی دراصل انسان کے حقیقی ایمان باللہ کا پتہ چلتا ہے اور عزیزوں کی موت سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا۔
خَلقَ الموت والحیٰوۃَ لِیبلُوَکم اَیکّم اَحسنُ عملا یعنی اس خدا نے موت اور حیات کو پیدا کیا تا کہ تم کو آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے اعمال بجا لاتا ہے۔
حیات پر بھی انسان بعض وقت نازاں ہو کر نخوت و غرور کی لہروں میں بہہ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر کرنے کی بجائے اس سے دور چلا جاتا ہے اور موت کے وقت بجائے صبر اور رضا بالقضا کے جزع فزع کرتا اور ایسے ناگفتنی الفاظ کہہ اُٹھتا اور ایسے حرکات بے صبری میں ظاہر کر دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے غضب کا موجب ہو جاتے ہیں۔ پس موت بجائے خود انسان کے امتحان اور آزمائش کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اب غورکرو کہ حضرت اُمُّ المؤمنین پر وہ حادثہ گزرا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت بڑا تھا اور خود اللہ تعالیٰ کی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اُتری اسے بھی تو بھاری فرمایا گیا ہے۔ ایسے حادثہ کے وقت کمزور انسان اس وقت تک خدا کی مشیت سے صلح نہیں کر سکتا جب تک خود اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم نے اس کے قلب کو پاک نہ کر دیا ہو اور اس کی محبت اس کا بغض محض اللہ ہی کے لئے نہ ہو گیا ہو۔ اب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے الفاظ میں اس ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے الفاظ میں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذریت طیبہ اور اہل بیت کے خلاف لکھنے کے لئے اپنے زور قلم کو ختم کر دیا ہو۔ سنو! چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
’’حضرت اقدس کی زوجہ محترمہ نے اس وقت صبر جمیل کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ جس سے حضرت اقدس کی قوت قدسی کا پتہ لگتا ہے حضرت کی بیماری کے دوران میں آپ برابر چارپائی کے پاس برقع اوڑھے بیٹھی رہیں اور دعا کرتی رہیں اور کبھی سجدہ میں گر جاتیں اور بار بار یہی کہتی تھیںکہ اے حی و قیوم خدا، اے میرے پیارے خدا، اے قادر مطلق خدا، اے مُردوں کو زندہ کرنے والے خدا تو ہماری مدد کر۔ اے وحدہ لاشریک خدا میرے گناہوں کو بخش میں گہنگار ہوں۔ اے میرے مولیٰ میری زندگی بھی ان کو دے دے۔ میری زندگی کس کام کی ہے یہ تو دین کی خدمت کرتے ہیں۔
’’بار ہا آپ کی زبان پر یہی کلمات تھے اور آخر جب حالت بالکل نازک ہوگئی تو فرمایاکہ:
’اے پیارے خدا یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو نہ ہمیں چھوڑیو‘ اور حضرت اقدس کی وفات پر آپ نے کسی قسم کا جزع فزع نہیں فرمایا اور جب دیگر مستورات نے رونا شروع کیا تو آپ نے جھڑک دیا کہ’ میرے تو وہ خاوند تھے جب میں نہیں روتی تو تم رونے والی کون ہو‘‘۔
غرضیکہ صبر و استقلال کا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا‘‘۔ ۲۱؎
اگرچہ الفاظ اور اسلوب بیان میں کچھ فرق ہو مگر اس سارے واقعہ میں جو حقیقت نمایاں ہے وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ طیبہ کے بلند مقام کی راہ نمائی کرتی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ مطہرہ کچھ شبہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی کا ایک ثبوت ہے۔ مگر قرآن مجید کی نص صریح حضرت اُمُّ المؤمنین کی ذاتی طہارت اور طیب زندگی کو بھی ثابت کر رہی ہے۔ جیسا کہ اللہ کریم نے فرمایا الطیبات للطیبین۔ پھر اس المیہ کے وقت حضرت اُمُّ المؤمنین کی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی ہی طرف تھی وہ اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور صفات پر ایمان رکھتی تھیں اور آخری اور پہلا علاج ہر مصیبت کا یہی سمجھتی تھیں اور سمجھتی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کی جاوے چنانچہ اس سارے وقت کو آپ نے دعائوں میں گزارا اور بالآخر جب آپ نے دیکھا کہ قضائے الٰہی نافذ ہو چکی ہے تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جو اپنے اندر مُردہ دلوں میں زندگی پیدا کرنے کا اثر رکھتی ہے اور ہموم و غموم کی تار میں روشنی کا منار بن جاتی ہے۔
’’پیارے خدا یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو نہ چھوڑیو‘‘۔
میں ہر صاحب دل اور قرآن کریم کے اس اصول پر افمن یجیب المضطر اذا دعاہ (وہ مضطر کی دعا سننے والا کون ہے) یعنی اضطرار میں خشوع و خضوع سے جو دعا کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے واقعہ نے ایک خاص کیفیت حضرت سیّدہ پر طاری کر دی تھی اور اس حالت کرب و اضطراب میں اپنے پیارے خدا کو پکارا۔ کہ تو ہم کو نہ چھوڑیو۔ کیا یہ دعا ردّ ہو سکتی ہے؟ اس دعا کے الفاظ خدا کے فرشتے قبولیت کے لئے بارگاہ رب العزت میں عزت و احترام سے لے جا رہے تھے اور آسمان زمین کے قریب ہو گیا تھا اور خدا تعالیٰ کا وہ مبشر وعدہ جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا تھا انی معک و مع اھلک میں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں ان الفاظ میں جھلک رہا تھا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا کی محبت کا ثبوت ہر آن ہوتا رہتا ہے۔
افسوس اس ناداں پر جو اس کے بعد بھی کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت اور ذریات طیبہ جو خدا تعالیٰ کی بشارتوں اور وعدوں کے مصداق اور مبشر و موعود اور شعار اللہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو بھول گئے۔ افٍ لکم ایھا المفترون
مصلح موعودکے متعلق کچھ اور
اس کتاب کا یہ موضوع نہیں بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور کرم سے ایک مفصل کتاب زیر تالیف ہے یہاں اس سلسلہ میں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین اطال اللہ عمرہا کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ رسول جو موعود اقوام عالم ہے اور جس کی آمد و بعثت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد فرمایا اور امت کی حفاظت و صیانت کا اسے آخری حصار قرار دیا کی وعدہ کی زو جہ ہیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے وعدہ کی اولاد کی وہ ماں ہے وہ اولاد جو مبشر ہے اور اسی اولاد میں وہ عظیم الشان اولوالعزم موجود بھی ہے جو خدا تعالیٰ کی الہامی بشارتوں میں مصلح موعود ہے۔ چونکہ بعض وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرکے خلافت راشدہ کو بھی قبول کر کے خلافت ثانیہ کے زمانہ میں انکار کر دیا اور مصلح موعود ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے اس لئے میں یہاں ان سے بعض کے ان بیانات کو دے دینا چاہتا ہوں جو اختلاف سے پہلے وہ دے چکے ہیں۔ عقلمند آدمی کے لئے ان سے نتیجہ نکالنا آسان ہے۔
۱۔ مرزا خدا بخش صاحب کی شہادت
مرزا خدا بخش صاحب جھنگ کے رہنے والے تھے اور سلسلہ کے ابتدائی ایام میں انہیں حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی ملازمت کے سلسلہ میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل تھی اور خدمات کا موقعہ ملا۔ حضرت کی زندگی میں ان کو بعض تقویٰ سے گرے ہوئے شبہات پیدا ہوئے تھے مگر وہ جماعت سے وابستہ رہے خلافت ثانیہ کے وقت وہ اپنے لاہوری دوستوں کے ساتھ شریک ہو گئے اور اب کچھ عرصہ ہوا اس دنیا سے گزر گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی ستاری فرمائے۔
انہوں نے حضرت اقدس کی زندگی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام عسلِ مصفّٰی تھا اس میں انہوں نے مصلح موعودؓ کے متعلق یہ اقرار شائع کیا تھا کہ وہ موجودہ اولاد میں سے ایک ہے۔ بعد میں منکرین خلافت نے اسے تین سو برس کے بعد آنے والے پر پیشگوئی کو لمبا کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے مصلح موعودؓ کو ظاہر کر دیا۔
مرزا خدا بخش صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ ایسے وقت میں جب کہ ابھی تک مسیح موعود ؑ کی کوئی اولاد نئی زوجہ سے جو ایک بڑے مشہور خاندانِ سادات سے تھیں نہیں ہوئی تھی پیشگوئی کی کہ ایک لڑکا پیداہوگا جو مشرق سے مغرب تک دین اسلام کو پھیلائے گا۔ اس کا نام بشیر وعنموائیل ہوگا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ دیکھو ضمیمہ ریاض ہند مورخہ یکم مارچ ۱۸۸۶؁ء سو یہ پیشگوئی بھی بکمال صفائی پوری ہوگئی اس وقت تک چار ہی لڑکے موجود ہیں جن میں سے ایک وہ موعود بھی ہے جو اپنے وقت پر اپنے کمالات ظاہر کرے گا اور جو حضرت اقدس ؑ کا جانشین ہوگا‘‘۔۲۲؎
(۲) جناب مولوی محمد احسن صاحب مرحوم و مغفور کا بیان
جناب مولوی سیّد محمد احسن صاحب حضرت اقدس ؑ کے دعویٰ مسیحیت کے آغاز میں بڑے قلمی معاونین اور مخلصین میں سے تھے۔ خلافت ثانیہ کے انتخاب تک وہ خلافت ثانیہ سے وابستہ رہے بعد میں بعض حالات ذاتی کی وجہ سے انہیں لغزش ہوئی۔ لیکن بالآخر خداتعالیٰ نے ان کا خاتمہ بالخیر کر دیا اور انہوں نے توبہ کر کے خلافت سے وابستگی اختیار کر لی۔انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کے عہد خلافت میں ۶جنوری ۱۹۱۱ء؁ کو ایک خطبہ جمعہ دیا جو الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۱۱ء؁ میں ظہور القلم کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض نشانات کے پورا ہونے کو بطور شواہد پیش کر کے فرمایا۔
’’پس جبکہ صدہا یہ الہام اس زوروشور سے پورے ہوئے کہ جو الہام ذریت طیبہ کیلئے ہیں کیا وہ پورے نہ ہوں گے کلّا و حاشا ضرور پورے ہوں گے۔… ان الہامات پر بھی کامل طور پر ایمان ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ نومن ببعضٍ ونکفرببعضٍ کی وعید میں کوئی آجاوے۔ نعوذ باللہ خصوصاً ایسی حالت کہ آثار ان الہامات کے پورے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے ہماری کل جماعت کے وہ امام ہیں اور انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے جیسے کہ الہام میں تھی اور میں نے توارہاص کے طور پر یہ سب آثار مشاہدہ کئے ہیں اس لئے میں مان چکا ہوں کہ یہی وہ فرزند ارجمند ہیں جن کا نام محمود احمد سبزاشتہار میں موجود ہے۔ الحمدللّٰہ الذی ھدانا لھذا‘‘۔ ۲۳؎
کیا اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہے۔ تھوڑے عرصہ میں غیر معمولی ترقی کو انہوں نے الہام میں بیان شدہ ترقی کہا ہے اور وہ وہی ہے جو جلد جلدبڑھے گا کے الفاظ میں ہیں۔ اور سبز اشتہار والے موعود پر ایمان کا اظہار کر کے اس وعید سے منکروں کو ڈرایا ہے جو نومن ببعضٍ ونکفرببعضٍ سے وارد ہوتا ہے۔ پھر ایک تقریر میں فرمایا:
ایک یہ بھی الہام تھا کہ انا نبشرک بغلام مظہرالحق والعلا۔ جو اس حدیث کی پیشگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود ؑ کے بارے میں ہے کہ یتزوج ویولدلہ یعنی آپ کے ہاں ولد صالح عظیم الشان پیدا ہو گا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب موجود ہیں۔ منجملہ ذریّت طیبہ کے اس تھوڑی سی عمر میں جو خطبہ انہوں نے چند آیات قرآنی کی تفسیر میں بیان فرمایا اور سنایا ہے اور جس قدر معارف اور حقائق بیان کئے ہیں وہ بے نظیر ہیں۔ اب کوئی انہیں معمولی سمجھے اور کہے یہ تو کل کے بچے ہیں۔ ابھی ہمارے ہاتھوں میں پلے ہیں اور کھیلتے کودتے پھرتے ہیں تو یاد رہے یہ فرعونی خیالات ہیں۔
اس میں فرعونی خیالات کا اشارہ جن احباب کی طرف ہے سب جانتے ہیں میں تو ان کے لئے دعائے ہدایت کرتا ہوں۔
(۳) جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کا فیصلہ
مرحوم خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے رسالہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب میں مصلح موعود کے متعلق ایک فیصلہ کن بات لکھی:
’’کم از کم میں اپنے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہوں اس حَلف کے بعد مجھ پر حرام ہو گا کہ میں حضرت میاں صاحب کے عقائد کے خلاف کچھ لکھوں۔ یا طول باتیں ٭قبول کر لو نگا۔ یا میں
٭ نقل مطابق اصل ہے غالباً فقرہ یوں ہے ’’کچھ لکھوں یا طول باتیں کروں۔ یا مَیں قبول کر لوں گا‘‘
دعاؤں میں لگ جاؤں گا۔ بہرحال میں خاموش ہو جاؤں گا۔ اگر وہ مصلح موعود ہیں تو پھر وہ حلفاً یہ بیان کریں کہ آیا الہاماً ان کو اطلاع ملی کہ وہ وہی فرزند ہیں جس کا اشارہ سبز اشتہار میں ہے۔‘‘ ۲۴؎
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب حضرت مصلح موعود نے اپنے دعویٰ کا اعلان کیا تو خواجہ صاحب مرحوم اس دنیا سے گرز چکے تھے۔ انہوں نے اپنے جس فیصلہ کااظہار کیا ہے وہ ان کے رفقاء پر اتمام حجت ہے۔ کم از کم ان کو اس دعویٰ کی مخالفت اور انکار تو نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ طریق تقویٰ یہ تھا کہ وہ خاموش ہو جاتے اور دعاؤں میں لگ جاتے اور اب تو خداتعالیٰ نے ان کی تائید اور نصرت سے اس پر مہر صداقت ثبت کر دی۔ حضرت مصلح موعود نے حلف مؤکدبالعذاب کے ساتھ ہوشیار پور،لودھیانہ، لاہور، دہلی میں اعلان کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک سال کے اندر ہی لانظیرتائیدات آپ کی کی ہیں اور ہر نیا دن نئی نصرتوں کا جلوہ گاہ ہوتا ہے۔ اللّٰھُمَّ زِدفزِد۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہ ذکر ضمناً آ گیا اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی ایک امتیازی شان کا مظہر ہے اور اس دعویٰ کے اعلان کے وقت حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی بھی ایک اعجازی نشان ہے۔ ولِلّٰہ الحمد
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی ڈائری کا ایک ورق
اگرچہ حضرت اُمُّ المؤمنین متعنا اللّٰہ بطول حیاتھا کی سیرت طیبہ کے متعلق بہت سی روایات اور تاثرات مَیں درج کر چکا ہوں لیکن کچھ اور باقی بھی ہیں ان میں سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سلمہ اللہ تعالیٰ کی ڈائری کا ایک ورق جو نہایت اہم ہے سب سے اوّل درج کرتا ہوں۔ اس ورق کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ صدرانجمن احمدیہ کے اکابر عموماً اور جناب مولوی محمد علی صاحب کا طریق عمل کیا تھا اور جماعت کے مخلص بزرگ ان کے متعلق کس قسم کے جذبات رکھتے تھے اور ان کا عام اخلاق کس رنگ کا تھا اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے ساتھ ان کو قدرتی بغض تھا حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو محض اس وجہ سے رضا کارانہ جلسہ کے موقعہ پر خدمت کا موقع نہ دیا گیا کہ وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے حکم سے حضرت سیّدہ کے کام کے لئے گئے ہوئے تھے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت کی عزت و شرف کے مقابلہ میں بھائی جی اور ان کے ہم مشرب لوگ دنیا کی ہر عزت اور دولت کو قربان کر دینے کو عزیز رکھتے تھے۔
حضرت شیخ عبدالرحمن نے جس نجی کام کا ذکر کیا ہے اور جس کے برکات و ثمرات کا شکرگزاری کے لہجہ میں ذکر کیا ہے وہ الحکم کے صیغہ ادارت میں شمولیت تھی۔ بھائی جی کے ساتھ میرے تعلقات اللہ کے لئے ہمیشہ مخلصانہ رہے اور کبھی ہم میں کسی امر کے متعلق اختلاف بھی ہوا تو اس نے اس محبت کے جذبہ کو کم نہیں کیا۔ مرحوم عرفانی ؔصغیر کی علالت کے دوران میں انہوں نے خود اور ان کی اہلیہ محترمہ نے جس محبت و اخلاص کا عملی اظہار فرمایا وہ مومنانہ اخوت کی ایک شان ہے اور خاکسار کے ساتھ ان کا برتاؤ ہمیشہ ایسا رہتا ہے۔ جیسے دو مائی جائے بھائیوں میں ہو۔ یہ داستان دوسرے وقت پر بیان ہو گی۔ سردست میں ان کی ڈائری کے ایک ورق کو تبرکاً درج کر رہا ہوں۔محمود مرحوم نے اور میں نے بھی سیرت کے لئے کچھ لکھنے کو کہا تھا مگر ان کی ناسازی مزاج اور بعض افکار نے موقعہ نہ دیا اور میرا دل چاہتا تھا کہ ان کا حصہ اس میں رہے اس لئے اس ورق کو درج کرتا ہوں۔ (عرفانی کبیر)
’’۴/ دسمبر ۱۹۰۷؁ء کو جب میں احسن گنج کامٹہ کشن گنج کوٹہ (راجپوتانہ) سے ایک چیتے کے شکار میں زخمی ہو کر واپس آیا جہاں مجھ ناکارہ غلام کو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک عزیز مرزا محمد احسن بیگ صاحب کی اراضیات کی آبادی وانتظام کی غرض سے بھیجا ہوا تھا تو میں نے وجہ معاش کے لئے حضرت خلیفہ اوّل سے مشورہ چاہا۔ حضور نے فرمایا۔
’چھوٹا موٹا جو بھی کام مل سکے کر لو فارغ اور بیکار ہرگز نہ رہنا‘۔
’’میں نے ایک کام کا حوالہ دیکر عرض کیا وہ ملتا ہے۔ مگر وہ چونکہ بالکل ایک پرائیوٹ اور ذاتی حیثیت کا ہے۔ اس خیال سے اس کے لئے مجھے انشراح نہیں بلکہ تامل ہے۔ لہذا صدرانجمن احمدیہ قادیان میں اگر کوئی کام مل جائے تو اچھا ہو۔ میری خواہش اور عندیہ معلوم کر کے فرمایا۔
’بھولے میاں انجمن کے کام کو تم کیا سمجھتے ہو۔ وہ تم کیا جانتے نہیں کہ وہ کتنا زود رنج … واقع ہوا ہے اور خلاف مرضی وہ کبھی برداشت ہی نہیں کر سکتا‘۔
’’صاحب ممدوح کا مشورہ میں نے سرآنکھوں پر رکھا اور پہلے شخصی کام کو ترجیح دیتے ہوئے اسی کو قبول و اختیار کر لیا اور خدا کا فضل ہوا کہ وہ کام میرے لئے کئی قسم کی برکات و رحمتوں کا موجب ہو گیا۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت و معیت میسر آئی اور آخری ایام میں حضور پُرنور کی خدمات بجا لانے کی عزت و توفیق ہوئی تو اسی کام کی بدولت جس کیلئے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اخلاص و محبت سے مشورہ دیا تھا۔
’’سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد جہاں اور کئی قسم کے تغیرات ہوئے۔ نئے نظام قائم ہوئے۔ وہاں ایک تغیر میری ذات سے بھی متعلق ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک روز کا واقعہ ہے شام کی نماز کے بعد میں مسجد مبارک کے شہ نشیں پر بیٹھا اور حبیب اور صحبت محبوب کے زمانہ کی مبارک ساعات کو یاد کرکے لطف اٹھا رہا تھا۔ اچانک ایک آواز آئی نرم اور محبت بھری۔ ’’میاں عبدالرحمن صاحب ذرا اِدھر آنا۔‘‘ میں نے کہا ’’خواجہ صاحب بہت اچھا میںحاضر ہوا۔‘‘ مسجد کے ایک طرف محترم خواجہ کمال الدین صاحب ،مکرم جناب شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب اور ٹھیک یاد نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب بھی تھے یا نہیں۔ آپس میں دیر سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ مجھے مخاطب کر کے خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ہم بہت دیر سے سوچ رہے تھے۔ مگر موزوں آدمی کوئی نہ ملا۔ آخر نظر تم پر آن کر ٹھہری اور مجھے یقین ہے کہ تم اس کام کے اہل ہو۔ کام یہ ہے کہ حضرت کی زندگی میں تو لنگر خانہ کا نظام اور کام کلیۃً حضور ؑ کے ہاتھوں میں تھا۔ حضور ؑ کی خوشی اور مرضی پر منحصر تھا۔ مگر اب یہ بوجھ بھی انجمن کو ہی اٹھانا پڑ گیا ہے۔ ہم نے بہت سوچ بچار اور غورو پرداخت کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ تم ہی اس کام کیلئے موزوںو مناسب ہو۔ لہذا یہ کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے۔ کل سے اس کام کو ہاتھ میں لے لو۔ خدمت کا موقعہ ہے ہم خرما و ہم ثواب۔
’’میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حین حیات میں بہت کچھ سن چکا تھا بلکہ حضور ؑ کے سفر لاہور کے بالکل آخری ایام میںحضور ؑ کی زبان مبارک سے ان بزرگوں کے خیالات اور حضور ؑ پرُنور کی ناراضگی کے واقعہ کا چشم دید اور گوش شنیدگواہ تھا۔ میں نے عذر کیا اور معافی چاہتے ہوئے کہا۔ واجب الاحترام بزرگو! آپ کے حسن ظن کے لئے شکر گزار ہوں اور خواہش ہے کہ آپ کی یہ حسن ظنی قائم دوائم رہے مگر اس کی یہی صورت ہے کہ آپ برزگ مجھے اس کام سے معاف رکھیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آج جس کام کا آپ مجھے اہل سمجھ کر موزوں و مناسب خیال فرماتے ہیں۔ کل بالکل نالائق اور نااہل کہنے لگیں گے۔ کیونکہ میں آپ کی مرضی اور خوشی کے مطابق کام نہ کر سکوں گا وغیرہ۔
’’میرا جواب سن کر سبھی اصحاب دنگ و ششدرہ گئے۔ دو ایک مرتبہ سمجھایا اور بات کو دہرایا بھی۔ مگر میری طرف سے انکار پر اصرار پا کر میرا ہاتھ پکڑا اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیش جا کیا جو کہ وہیں مسجد کے شرقی حصہ اور سڑھی کے جنگلہ کے جنوبی جانب ایک چار پائی پر لیٹے ذکر الٰہی میں مصروف تھے۔ صاحب ممدوح نے مجھ سے ان اصحاب سے عدم تعاون کے لئے جو اب طلبی فرمائی۔ مگر میری عرضداشت اور تفصیلی گزارش سن کر مجھے معذور سمجھا اور انہیں کوئی اور انتظام کر لینے کی ہدایت فرمادی۔ چنانچہ اس ڈیوٹی سے سبکدوش رہا۔ مگر کارکنان انجمن کی بعض مصلحتوں کے ماتحت بہرحال مجھے صدرانجمن احمدیہ کی ملازمت میں لیا جانا ضروری سمجھ کر کسی اور کام میں لگا دیا گیا۔
’’۱۹۰۸؁ء کا جلسہ آیا ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ مجھ ناکارہ کو بھی کسی لائق سمجھ کر سیّدنا امام ہمام خیرالانام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت بجا لانے کا موقعہ دیا گیا۔ چنانچہ اپنے آقائے نامدار کی قائم کردہ اس یادگار کی تقریب پر اخلاص شوق اور محبت سے اس طرح خدمات بجا لانے کی توفیق ملی کہ صدرانجمن احمدیہ نے بھی ایک ریزولیشن کے ذریعہ اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا اور حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلوی مرحوم اور مجھ کو دس دس روپے کا نقد انعام بھی عطا فرمایا۔ میں اور حافظ عبدالرحیم صاحب مرحوم دونوں مل کر انتظام جلسہ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ مگر اس سے کہیں بڑھ کر وہ نعمت تھی جو میری حقیقی ماں سے بھی کہیں بڑھ کر میری محسنہ سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین نے ازراہ کرم اور غریب نوازی یہ احسان فرمایا کہ خود چل کر غریب خانہ پر تشریف لائیں اور سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دستار مبارک مجھے بطور تبرک دیکر نوازا۔
’’۱۹۰۹؁ء کا جلسہ سالانہ غالباً ۱۹۱۰ء؁ کے مارچ میں ہوا تھا۔ جلسہ سے قبل کا واقعہ ہے کہ سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین کو بعض ضرورتوں کے ماتحت روپے کی فوری ضرورت پیش آئی جس کے لئے سیّدہ ممدوحہ نے دہلی میں واقع اپنے ایک مکان کی فروخت کا ارادہ فرما کر مجھے حکم دیا کہ دہلی جا کر اس کام کو سرانجام دوں۔ چنانچہ میں نے رخصت کی درخواست سیکرٹری صاحب صدرانجمن احمدیہ کی خدمت میں پیش کی اور دہلی چلا گیا جہاں کام میں کچھ رکاوٹ پیدا ہو گئی اور جلسہ سے پہلے وہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
’’میں نے سیّدۃ النساء حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور حالات عرض کر کے درخواست کی کہ حضور کی اجازت ہو تو جلسہ کے موقعہ پر حاضرہو کر کچھ خدمت کر لوں۔ سیّدہ محترمہ نے ازراہ کرم ذرہ نوازی فرمائی اور نہایت محبت سے لکھا کہ جلسہ پر ضرور آ جاؤ جلسہ کے بعد پھر جا کر وہ کام ختم کر لینا۔ چنانچہ میں دارالامان آ گیا اور عجیب اتفاق کی بات ہوئی کہ جس وقت میں پہنچا۔ جناب مولوی محمد علی صاحب ایک مجلس میں بیٹھے جلسہ کے کاموں کے لئے کارکنوںکی ڈیوٹیاں لگا رہے تھے میں نے بلند آواز سے السلام علیکم کہا اور عرض کیا’’مولوی صاحب میں بھی حاضر ہوگیا ہوں۔ مجھے بھی کوئی خدمت دی جائے۔ مولوی صاحب نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا۔’’شیخ صاحب آپ اب سیر ہی کریں اور کوئی ڈیوٹی نہیں۔‘‘چنانچہ مجھے کوئی کام نہ دیا گیا اور میں جلسہ کے بعد پھر اور رخصت کی درخواست دے کر واپس دہلی چلا گیا۔ جہاں کام سے فارغ ہو کر واپس دارالامان آیا اور لمبی رخصت لیکر میں نے تجارت کا کام شروع کر دیا جس کے لئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جیب سے دس روپے بطور پونجی مرحمت فرمائے۔ خدا کے فضل سے اخلاص اور محبت سے دی گئی وہ پونجی اتنی بابرکت ہوئی کہ ہزاروں روپے اس کے ذریعہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دیئے۔ میں نے انجمن کی ملازمت سے جلدہی استعفٰی دے دیااور پھر ہمیشہ کے لئے اس کی ملازمت کا ارادہ ترک کر دیا۔کیونکہ جس بات کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب نے مجھے سیرہی کرنے کا طعن دیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ میں اس کام سے باز آنے والا نہ تھا بلکہ اس کے بغیر میری زندگی ہی محال تھی۔ اور الحمدللہ کہ آج تک اس کا م میں غیر معمولی روحانی لذت پاتا ہوں۔ اور اسے اپنے لئے دین و دنیا کی بر کات کا موجب سمجھتا ہوں‘‘۔
خاکسار عبدالرحمن قادیانی
حضرت اُمُّ المؤمنین کا ایک عجیب کار نامہ
حضرت اُمُّ المؤمنین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو محبت تھی اس کی وجہ صرف یہ نہ تھی کہ حضور ؑ آپ کے شوہر تھے بلکہ آپ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام اور رفعت شان پر ایمان رکھتی تھیںاور آپ کو خداتعالیٰ کا برگزیدہ اور مسیح موعود یقین کرتی تھیں اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آپ سے محض اس لئے محبت نہ کرتے تھے کہ وہ حضور کی زوجہ تھیں بلکہ وہ حضرت سیّدہ کو خداتعالیٰ کا ایک نشان رحمت اور شعائر اللہ میں سے یقین کرتے تھے بلکہ بہت سے نشانات کا آپ مجموعہ ہیں اور بہت سے نشانات خود آپ کے ذریعہ ظاہر ہوئے۔ میں نے پیچھے حضرت ممدوحہ کی قربانیوں کا مختصر سا ذکر کیا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں آپ ہر تحریک میں شریک ہوئی تھیں اور دینی ضروریات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس وقت کے لحاظ سے ایک کثیر رقم اپنے زیورات بیچ کر قرضہ دیا (وہ صرف حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں ورنہ آپ تو نذر کر رہی تھیں )آپ کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے حج بدل کرا دیا اور پھر خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں آپ کا ہاتھ بہت لمبا ہے اور دل بہت وسیع ہے ۔ یہاں جس واقعہ کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات کے وقت کچھ مقروض تھے یہ قرضہ اگر جماعت ادا کرتی تو اس کا فرض تھا۔ کوئی شخص واحد جو آپ کے دامن سے وابستہ تھا اس سعادت کو حاصل کرتا تو اس کو خوش قسمتی پر رشک ہوتا۔ مگر یہ سعادت صرف حضرت اُمُّ المؤمنین کے حصہ میں آئی۔ اس کے متعلق میں حضرت امیرالمومنین مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بیان کو درج کرتا ہوں اسے پڑھ کر حضرت امیرالمومنین کی اولوالعزمی اور علوہمتی پر بھی روشنی پڑتی ہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق حضرت امیرالمومنین کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مخلص اور متقی احمدی ہونے کی حیثیت سے جو ایمان ہے وہ واجب التقلید ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے بارہا فرمایا ہے کہ انہوں نے اسلام یا احمدیت کو محض اسی لئے قبول نہیںکیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پیدا ہوئے تھے بلکہ خود اپنی ذاتی تحقیقات اور خداتعالیٰ کے عطا کئے ہوئے علم و معرفت اور بصیرت کی بناء پر اسی طرح وہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی عظمت و محبت اپنے دل میں صرف اس لئے نہیں رکھتے کہ وہ آپ کی والدہ تھیں بلکہ ان کے اپنے مقام کی وجہ سے۔ غرض اس کارنامہ کو اب خود امیرالمومنین کے الفاظ میں پڑھو۔ آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں جو ۱۰ مارچ ۱۹۴۴؁ء کو دیا اپنے خاندان کو خاص خطاب کیا۔ اس سلسلہ میں اپنے اہل خاندان کو خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور باقی وقت دنیا پر صرف کریں۔ بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی تمام زندگی خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ حضرت داؤد ؑ فرماتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی بزرگ کی سات پشتوں تک کو بھیک مانگتے اور فاقہ کرتے نہیں دیکھا اس کے معنی یہی ہیں کہ سات پشتوں تک اللہ تعالیٰ خود اس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ جب سات پشتوں تک خدا خود اس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے تو اس خاندان کے افراد کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ کم سے کم سات پشتوں تک سوائے دین کی خدمت کے کام چھوڑ دیں تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو ان کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں تو پھر کیاہوا۔ سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر ا س رنگ میں ہی کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہئے اور انہیں فاقے آنے شروع ہو جائیں تب بھی اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ کیا لوگ دنیا میں فاقے نہیں کیا کرتے۔ اگر دنیا کے اور لوگ فاقے کر لیتے ہیں تو فاقہ سے ڈر کر ہمارے لئے دین کی خدمت کو چھوڑنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا ۔ والدہ صاحبہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے۔ لیکن میرے دل میںنہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی عظمت تھی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دوہری عزت میرے قلب میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا۔ آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کرو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرض کو ادا کر دیا۔ میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لئے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا۔ پھر ہمارے لئے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے کچھ گزارہ مقرر کرنا چاہا۔ میں نے اس بات کا پہلے بڑا مقابلہ کیا اور کہا کہ ہم ہرگز گزارہ نہیں لیں گے۔ لوگ مجھے کہتے تھے کہ آخر آپ کیا کریں گے تو میں یہی کہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمیں بھوکا رکھنا منظور ہے تو ہم بھوکے رہیں گے۔ مگر جماعت سے گزارہ کے لئے کوئی رقم نہیں لیں گے۔ یہا ں تک کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی۔ اس پر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ میاں خدا کا ایک الہام ہے۔ جو حضرت مسیح موعود ؑ پر نازل ہوا اور میں نے اس الہام کے یہ معنی نکالے ہیں۔ اس لئے تم اس گزارہ کو قبول کر لو۔ چنانچہ میں نے وہ گزارہ قبول کر لیا۔ مگر وہ گزارہ اس سے بہت کم تھا۔ جو آجکل ہماری اولادوں کو ملتا ہے۔٭ اس وقت مجھے ساٹھ روپے ماہوار ملا کرتے تھے اور ہم نہ صرف میاں بیوی تھے بلکہ اس وقت تک دو بچے بھی ہو چکے تھے اور ایک خادمہ بھی تھی۔ اس کے علاوہ میں انہی روپیوں میں سے دس روپے کے قریب دینی کاموں میں خرچ کرتا تھا۔ گویا پچاس روپیہ میں ہم گزارہ کیا کرتے تھے لیکن میرے دل میں کسی وقت یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہمیں گزارہ کم ملتا ہے‘‘۔
کچھ اور روایات بعض کی تصحیح اور توضیح
تمہیدی نوٹ
عزیزم مکرم شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم و مغفور نے دوسری جلد کے لئے پیغامی و اعتراضات کے جوابات کا بھی ایک عنوان تجویز کیا تھا۔ اس کے متعلق کوئی خاص نوٹ ان کے کاغذات میں نہیں ملا۔ گزشتہ صفحات میں بعض اعتراضوں کے جواب ضمنًا آ چکے ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی ذات کی نسبت تو بڑے سے بڑے منکرِ خلافت کو بھی اعتراض کا موقعہ نہیں ملا اور نہ کوئی اعتراض ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ نے آپ جس کی تطہیر اور تقدیس پر اپنے کلام میں مہر کر دی ہو۔ پیغامی یا منکرین خلافت نے ذریت طیبہ اور علی الخصوص حضرت مصلح موعود کی خلافت راشدہ کو ہدفِ اعتراض بنایا اور اس کے جوابات جداگانہ شائع ہو چکے ہیں باایں بعض روایات کے متعلق کسی قدر توضیح اور تصحیح کی ضرورت ہے جو اس عنوان کے تحت میں کر دینا چاہتا ہوں تا کہ تاریخ سلسلہ میں غلطی نہ ہو یہ روایات ہیں جن کا تعلق ایک یا دوسرے پہلو سے حضرت اُمُّ المؤمنین سے متعلق ہے۔ (عرفانی کبیر)
حضرت میاں معراج الدینؓ صاحب کی ایک روایت کی تصحیح
حضرت میاں معراج الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی روایات متعلقہ حضرت مسیح موعود
٭ یعنی جو رقم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اپنی اولاد کو دیتے تھے۔
علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ایک روایت حضرت اُمُّ المؤمنین کے متعلق بھی فرمائی ہے۔میں اسے یہاں درج کر دیتا ہوں اور اس کے متعلق ایک غلطی کی اصلاح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ روایات ۱۱/ فروری ۱۹۴۴؁ء کے الفضل میں شائع ہوئی ہیں اور حضرت اقدس کے ایک سفر ملتان کے ذکر کے ضمن میں محولہ روایت بیان کی ہے جو یہ ہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ریلوے اسٹیشن لاہور پر کچھ دیر انتظار کرنے کا موقعہ آیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھیں۔ حضرت اقدس حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا کہ آپ جا کر کہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے تو جرأت نہیں اس پر مولوی عبدالکریم صاحب خود گئے اور حضرت کے حضور عرض کیا حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگ کیا کہیں کیا یہی کہ مرزا اپنی بیوی کے ساتھ پھر رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ واقعہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبرایک اور مشرقی پل کے قریب ہوا‘‘۔
(نوٹ از عرفانی کبیر) مجھے بصیرت کے ساتھ یقین ہے کہ حضرت میاں معراج الدین صاحب کو اس روایت کے متعلق سہو ہوا ہے حضرت اقدس کی زندگی کا یہ ایک واقعہ ضرور ہے مگر وہ لاہور اسٹیشن کا نہیں بلکہ سرہند کا ہے اور اگر لاہور میں یہ واقعہ ہوا ہے تو کسی دوسرے موقعہ پر ہو سکتا ہے۔ سفر ملتان سے واپسی کا نہیں ہے اس لئے کہ سفر میں حضرت اُمُّ المؤمنین آپ کے ساتھ رفیق سفر نہ تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نشان کے متعلق
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی وضاحت
’’ایک عزیر نے لاہور سے مجھے لکھا کہ تریاق القلوب صفحہ ۷۳،۷۴ ایڈیشن اوّل میں جو ایک نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے تحریر کردہ ایک خط کی بابت ارقام فرمایا ہے۔ اس کی تشریح کریں کیونکہ اس پر اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے ان کو جواب میں لکھا کہ جو اعتراض آپ کو یا کسی اور کو پیدا ہوئے ہوں۔ وہ جب تک معلوم نہ ہوں ان کاکیا جواب لکھا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک تو اس میںکوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔ ہاں جب آپ اعتراض لکھیں گے تو پھر میں اس کے متعلق عرض کر سکتا ہوں۔ اس کے بعد ان کا تو کوئی خط نہیں آیا مگر میں اس نشان کو جہاں تک خود مجھے اس کا علم ہے اپنی ذاتی شہادت کی بناء پر لکھ دیتا ہوں۔
یاد رہے کہ حضور نے اس نشان کو بالتفصیل تریاق القلوب میں لکھا ہے۔ پھر نزول المسیح صفحہ۲۳۲،۲۳۳ پر تحریر فرمایا ہے اور بالآخر حقیقۃ الوحی صفحہ۳۸۳ پر ارقام فرمایا ہے۔ ضروری مضمون تینوں جگہ ایک ہی ہے۔ صرف اختصار اور تفصیل کا فرق ہے۔ ان لاہوری صاحب کے علاوہ بھی بعض لوگوں نے مجھ سے اس نشان کی بابت دریافت کیا ہے۔ سو آج ناظرین اخبار ’’الفضل‘‘ کے لئے میں اس کی تفصیل لکھ دیتا ہوں۔
ایک غلطی کی اصلاح
’’سب سے اوّل میں تذکرہ اور نزول المسیح کی ایک غلطی کا ذکر کرتا ہوں جہاں اندازاً تاریخ وقوعہ غلطی سے ۱۸۸۷؁ء لکھی گئی ہے (تذکرہ صفحہ۱۵۱) صحیح یہ ہے کہ یہ ۱۸۹۲ء؁ کا واقعہ ہے اور شہادت اس پر یہ ہے کہ میر محمد اسحق صاحب کی پیدائش ۱۸۹۲ء؁ کی ہے اور اس خط میں ان کا ذکر ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ خط پٹیالہ لکھا ہوا ہے اور حضرت قبلہ گا ہی میر ناصر نواب صاحب پٹیالہ میں ۱۸۹۱ء؁ کے آخر سے ۱۸۹۳؁ء تک متعین رہے۔ پس ناظرین اس غلطی کو درست کر لیں۔ میں حقیقۃ المہدی کی ایک روایت میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ پس یہ واقعہ ۱۸۹۲ء؁ کا ہے جب میری عمر گیارہ سال کی تھی اور میں مڈل کی چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور برادرم میر محمد اسحق صاحب کی عمر اس وقت تقریباً ڈیڑھ دو سال کی تھی۔
اصل واقعہ
’’واقعہ یہ ہوا کہ ان دنوں ہم پٹیالہ میں بطور اجنبیوں اور پردیسیوں کے رہتے تھے اور گھر کے صرف چار آدمی تھے۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب، حضرت والدہ صاحبہ، یہ خاکسار اور میر محمد اسحق صاحب کہ اتنے میں حضرت والدہ صاحبہ کو بخار آنا شروع ہو گیا اور ساتھ ہی میر محمد اسحق صاحب کو بھی۔ والد صاحب قبلہ دفتر چلے جاتے تھے اور میں مدرسہ۔ والدہ صاحبہ اپنی اور بچے کی بیماری کی وجہ سے سخت پریشان تھیں حتیّٰ کہ ایک دن تو میںنے یہ حال دیکھاکہ بخار کی گھبراہٹ میںکپڑے پھینکتی تھیں اور کبھی اٹھتی اور کبھی بیٹھتیں تھیں۔ اور سخت بدحواس ہو گئیں تھیں۔ میر محمد اسحق صاحب بھی بخار میں بے چین رہتے اور کبھی بے ہوش پڑے رہتے تھے۔ اس دن جب دوپہر کو میں اسکول سے آیا تو وہ اسی حالت میں تھیں کہ فرمانے لگیں کارڈ لے کر ابھی قادیان خط لکھ دے۔ میں کارڈ اور قلم دوات لے آیا۔ اس پر انہوں نے اسی گھبراہٹ میں مجھے کہا کہ اپنی آپا صاحبہ کو خط لکھو کہ تمہاری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور اسحق کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے۔ کسی آدمی کو فوراً بھیج دو میں نے یہ سن کر تردد کیا بلکہ کچھ پروٹسٹ بھی کیا۔ انہوں نے اسی گھبراہٹ میں مجھے بھی کچھ سخت سست کہا اور کہا جو کچھ میں لکھوائوں وہی لکھ۔ آخر میں نے ان کے رعب اور اصرار سے اور ان کی اپنی حالت بحران والی دیکھ کر وہی لکھ دیا۔ پھر جب یہ مضمون لکھ چکا تو فرمانے لگیں۔ جس کا مطلب قریباً یہ تھا کہ میں مر گئی۔ تو یہ بھی بے ماں کے مر جائے گا۔ یہ لکھ دے کہ اسحق بھی فوت ہو گیا ہے اور تم خط دیکھتے ہی فوراً یہاں آ جائو۔ چنانچہ میں نے یہ بھی لکھ دیا اور خط کو ڈاک کے لیٹربکس میں ڈال دیا۔ اس کے بعد دو تین دن میں شیخ حامد علی صاحب مرحوم قادیان سے حضور علیہ السلام کے بھیجے ہوئے آ گئے۔ اتنے میں والدہ صاحبہ کو بخار سے آرام آ گیا۔ (اغلباً ملیریا تھا) اس وقت سب قصہ ظاہر ہوا تو حامد علی صاحبؓ نے قادیان جا کر حضرت کے حضور عرض کر دیا۔ کہ بات یہ تھی۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
’اور اس خط لکھنے کا صرف یہ باعث ہوا کہ چند روز اسحق اور اسماعیل کی والدہ سخت بیمار رہیں۔ اور ان کی خواہش تھی کہ اس حالت بیماری میں جلد تر ان کی لڑکی ان کے پاس آ جائے۔ اس لئے کچھ تو بیماری کی گھبراہٹ اور کچھ ملنے کے اشتیاق سے یہ خلاف واقعہ خط میں لکھ کر بھیج دیا‘۔۵ ۲؎
’’کُل واقعہ یہ ہے اور والدہ صاحبہ کی بیماری کی سخت گھبراہٹ اور بحران اور بیقراری جو اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے ان کو بہت حد تک معذور قرار دیتی ہے۔ ساتھ ایک دودھ پیتے بچہ کا حشر ان کو نظر آتا تھا کہ کیا ہوگا اس لئے انہوں نے جلد سے جلد اپنی لڑکی کو قادیان سے بلانے کیلئے ایسا لکھوا دیا۔ پس کچھ حصہ بیماری کا تھا کچھ خواہش ملاقات کا جو ایسے موقعہ پر ہوا کرتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ الہام ان کیدکن عظیم تو بڑا سخت اور خطرناک الہام ہے سو اس کی بابت یہ سمجھ لینا چاہئے کہ زلیخا کے لئے بہ سبب اس کی خاص شرارت کے واقعی یہ الفاظ لفظی اور معنوی طور پر صحیح تھے لیکن قرآن میں آ کر یہ آیت بطور ضرب المثل کے بن گئی تھی اور عورتوں کے ہر قصور یا نقص پر استعمال ہونے لگ گئی تھی اس لئے یہاں اس کے معنی بطور ایک ضرب المثل یا متداول اور متعارف فصیح و بلیغ فقرہ کے لینے چاہئیں نہ کہ وہ معنی جو پہلی دفعہ اس آیت کیلئے گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنی ازواج مطہرات کو انکنّ لصْواحِبُ یوسف فرمایا تھا وہ بھی اسی رنگ میں فرمایا تھا۔
’’انبیاء اور اولیائے کرام کو خدا تعالیٰ معصومیت اور محفوظیت کا مقام دیتا ہے ورنہ ہم کہاں اور غلطی اور گناہ سے پاک ہونا چہ معنی؟ ہاں وہ مرحومہ حضور کے قدموں میں مقبرہ بہشتی میں جگہ پا کر اس بات پر گواہی ثبت کر گئیںکہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ مل چکی ہے اور اب ان کی کسی کمزوری کا ذکر کرنا یا اس کو قابل اعتراض سمجھنا ایسا ہے جیسا کہ
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
’’اور میں جو ابھی زندہ ہوں نہیں جانتا کہ میرا حشر کیا ہوگا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت پر امید لگائے بیٹھا ہوں اور میرا دل جانتا ہے کہ ان گناہوں اور غفلتوں کی موجودگی میں جن کا میں مرتکب ہوا ہوں یہ گناہ کچھ ہستی ہی نہیں رکھتا۔ اگر کسی دوست کو میرے اعمال نامہ کا ایک صفحہ بھی پڑھنے کو مل جائے تو وہ غالباً اس زمین پر نہ پھر سکے جس پر میں رہتا ہوں اور اس آسمان کے نیچے نہ ٹھہر سکے جس کے نیچے میں اپنی زندگی گزار رہا ہوں۔ پس اے سائل صاحب آپ کو بڑی غلطی لگی ہے کہ آپ کو صرف ایک تنکا تو میرا نظر آ گیا اور ناگوار خاطر معلوم ہؤا اور وہ پشتارہ کبیرہ گناہوں کا جو میرے پشت کو دہرا کر رہا ہے، نظر نہ آیا۔ اگرنظر آ جاتا تو آپ غالباً یہ خط لکھنے کی تکلیف بھی گوارا نہ فرماتے۔ اینا لم یظلم۔ ولویواخذ اللّٰہ الناس بما کسبوا ماترک علی ظہر ھامن دابۃ- پس دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے اور جہنم سے بچائے۔ آمین۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین۔
مغفرت اور پردہ پوشی کر میرے آمر زگار
٭
تجھ پہ ہیں اعمال اور نیات میری آشکار
لافِ زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا
٭
ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دل جیسے چمار‘‘
مندرجہ بالا بیان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا ہے جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک الہام کی تشریح اور توضیح میں دیا ہے یہ الہام ایک واقعہ کے متعلق آپ کوہوا تھا جو حضرت نانی اماں رضی اللہ عنہا کے ایک خط کے سلسلہ میں ہوا۔ اس بیان کے بعد حقیقت کا انکشاف ہو جاتا ہے جن حالات میں وہ خط ایک گیارہ سالہ بچے نے اپنی مریض والدہ کے انتہائی اصرار پر لکھا اس سے شدت اضطراب ظاہر ہوتی ہے نہ کچھ اور۔
حضرت نانی اماں رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اس موعود خاتون کی والدہ محترمہ ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حبالہ نکاح میں آنا اور ایک ایسی نسل کی ماں بننا اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا جس کے ذریعہ سے شوکت اسلام ظاہر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل اور رحمتیں اس ماں باپ پر ہوں جو اس امانت شریفہ کے آخری حامل تھے اور نسلاً بعد نسل یہ امانت ان کے بزرگوں کی پشتوں اور ارحام میں منتقل ہوتی چلی آئی تا آنکہ خدا کی اس مشیت کے مظہر حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ اور آپ کی اہلیہ مکرمہ رضی اللہ عنہا ٹھہریں۔ میں پھر دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر بے انتہا فضل اور رحم کرے کہ ان کے ذریعہ وہ عظیم الشان خاتون وجود میں آئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اُمُّ المؤمنین قرار پائیں۔
کوزہ میں دریا بند
اگرچہ ایک دریا کوزہ میں بند نہیں کیا جا سکتا لیکن زبان کے ایک عام مستعمل محاورہ میں جب کسی وسیع مضمون یا مفہوم کو ایک جامع اور مختصر فقرہ میں بیان کر دیا جائے تو کہتے ہیں دریا کوزہ میں بند کر دیا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم (مدظلہا العالی) کی سیرۃ کے متعلق مختلف پہلوئوں پر امکانی بحث کی جا چکی ہے اگرچہ روایات اور تاثرات کا ایک انبار میرے سامنے ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا اور توفیق دی تو سیرۃ اُمُّ المؤمنین کے دوسرے ایڈیشن میں اس کی ترتیب اور تکمیل میں خاص اہتمام انشاء اللہ ہو سکے گا اور نقش ثانی نقش اوّل سے بہتر ہوگا۔
مَیں چاہتا ہوں کہ اس عنوان کے تحت حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ پر ایک سرسری نظر ڈالوں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ ماں اور باپ کی طرف سے ایک معزز اور ممتاز خاندان میں پیدا ہوئیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اس عظیم المرتبت انسان کے حبالہ نکاح میں آئیں جس کو خدا تعالیٰ نے اقوام عالم کا موعود قرار دیا تھا اور جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام سے اور اپنے کام کے لئے مبعوث ہونے کی بشارت دی تھی اور جس کی زوجیت میں اس ممتاز خاتون کی بھی بشارت دی تھی جو عظمت اسلام قائم کرنے والی ایک نسل کی ماں ہوگی۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کو یہ امتیازی درجہ حاصل ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ ہیں اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ماں ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک نام ابراہیم بھی ہے اور آپ نے اپنی بیشمار نسلوں کی بشارت دی ہے ان بیشمار نسلوں کی ماں بھی اُمُّ المؤمنین ہیں۔ یہ امتیازات اور شرف محض ان تعلقات ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت اُمُّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم اپنی ذاتی خوبیوں اور کردار کے نمونہ کے لحاظ سے بھی ممتاز اور اسوہ حسنہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق پر لحاظ کرتے ہوئے حضرت اُمُّ المؤمنین میں وہ تمام صفات جمع ہیں جو خداتعالیٰ کے کامل فرمانبردار میں وہ مومن مرد ہو یا عورت پائی جاتی ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اللہ تعالیٰ کی زندہ ہستی پر زندہ ایمان رکھتی ہیں وہ خود خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک روشن دلیل اور شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ہر قسم کے شرک اور بدعت سے بیزار ایک سچے اور کامل موحد کا رنگ آپ کے ایمان میں ہے۔ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کاملہ اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہے اور اسی لئے آپ دعائوں کی قبولیت اور اثر پر ایک اٹل ایمان رکھتی ہیں۔ عبادات کو اپنے وقت پر اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق بجا لاتی ہیں۔ نوافل اور صدقات کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قُرب کے مقام کے حصول کے لئے دائماً ساعی رہتی ہیں۔
حقوق العباد کے متعلق ہمیشہ آپ کو خیال رہتا ہے کہ پورے طور پر ادا ہوں۔ آپ اپنے نوکروں کے ساتھ ایسا برتائو کرتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ غیر ہیں خود ان کے کاموں میں ان کی مدد کرنا ان کی غلطیوں اور کمزوریوں سے چشم پوشی کرنا خطائوں کو معاف کر کے دلجوئی کرنا آپ کی عادت میں داخل ہے۔
مہمان نوازی میں آپ کا درجہ بہت بلند ہے اور اس خصوص میں اکرام ضیف پر آپ کا عمل ہے حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے ایک خلق کثیر کے آنے کا وعدہ دیا تھا اور یہ بھی فرمایا کہ ان مہمانوں سے تھکنا نہیں۔ اس کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی جب تک آپ کی رفیقِ زندگی سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا دل بھی وسیع نہ ہوتا اور ان کے ہاتھ لمبے نہ ہوتے۔ مہمانوں کی ہر قسم کی خدمت ان کے آرام کا خیال اور اس کے لئے اپنی راحت و آسائش کی قربانی اور ایثار آپ کی فطرت میں داخل ہے۔
مساکین یتامیٰ اور بیوگان کی خبر گیری ان کی تربیت اور ان کے ساتھ رفق و محبت کا برتائو ان کی زندگی کے ہر حصہ میں آپ کی عادت ثانیہ ہے اور اس لئے آپ کو اُمّ المساکین کہنا بالکل جائز اور درست ہے۔ فیاضی اور اس کے ساتھ احسان کر کے بھول جانا اور کسی سے سلوک ایسے رنگ میں کہ دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو آپ کی شان ہے۔ باوجود عظیم المرتبت خاتون ہونے کے کمال درجہ کی انکساری آپ میں پائی جاتی ہے۔ اقوال سے حرکات و سکنات سے کسی رنگ میں رعونت اور تکبر نہیں پایا جاتا باوجود انکساری کے آپ کا رعب سب پر رہتا ہے۔ کلام میں شوکت معقولیت اور قوت فیصلہ نمایاں رہتی ہے باوجود بے تکلفی کے وقار موجود رہتا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلہ خوشی اور غمی میں ایک سکون خاطر پایا جاتا ہے خوشی میں بھی خدا تعالیٰ ہی کی حمداور اس کے حضور جھکتی ہیں اور اگر کوئی واقعہ غمی کا ہو جائے تب بھی اسی کی مشیت کے سامنے انشراح صدر سے سر جھکاتی ہیں۔ ایسے ابتلائوں کے وقت قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ مردانہ وار آگے ہی اُٹھتا ہے۔
حیاء، غض بصر آپ کی خصوصیت ہے محنت اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار نہیں کیا۔ سادگی آپ کاخاصہ ہے اولاد کی تربیت اور اکرموا اولادکم پر عمل بطور نمونہ پایا جاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین کی ماں ہونے کے باوجود ان کے مقام و منصب کا ادب اور اطاعت آپ کا طرز عمل ہے اور آپ کی تحریکوں میں جو اشاعت سلسلہ اور خدمت دین کے لئے ہوتی ہیں حضرت اُمُّ المؤمنین دائماً لبیک کہتی ہیں اور جلد سے جلد اس کی تعمیل فرماتی ہیں۔طہارت اور پاک باطنی سے آپ کو محبت ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تطہیر میں اپنا کلام نازل فرمایا۔
آپ نماز با جماعت کی پابند ہیں اور تہجد اور نوافل بھی آپ کا دستور العمل رہا ہے۔ دعائوں کا خاص ذوق اور عادت ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ دعائوں کی قبولیت کے بہت سے نمونے موجود ہیں اور بعض کا ذکر سیرت کے دوسرے مقامات اور تاثرات میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کیلئے آپ کے قلب میں انشراح اور تڑپ رہتی ہے۔ حسن ظنی میں کمال ہے کسی کی غیبت کبھی سننا پسند ہی نہیں فرماتیں اور اگر کبھی مجلس میںایسا ذکر آنے لگے فوراً روک دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت محض خدا کی رضا کیلئے ہے شوہری حیثیت سے اس کا دوسرا پہلو ہے جس میں کامل وفاداری اور دیانت کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی بداخلاقیوں سے محفوظ رکھا ہے کینہ، حسد، بغض، جذبہ انتقام، لالچ اور بدخواہی وغیرہ رزائل سے آپ کے دل و دماغ پاک ہیں۔ دوسروں کو ترقی کرتے ہوئے خوش ہوتی ہیں کسی کو اچھا لباس اچھی خوراک اچھا مکان رکھتے ہوئے دیکھیں تو خدا کا شکر کرتے ہوئے خوشی کا اظہار فرماتی ہیں۔ ریاکاری دوسروں کو حقارت سے دیکھنا یا کسی پر اعتراض کرنا یا بدخواہی کرنا کسی قسم کی گالی دینا ایک لمبے عرصہ کے تجربہ میں کبھی آپ کی نسبت سننے میں نہیں آیا۔ بیماری کی حالت میں مزاج میں چڑچڑا پن، ذرا ذرا بات پر بگڑنا یہ عادت ہی نہیں۔
غرض زندگی کے جس قدر پہلو ہیں اور عادات و خصائل کا جس قدر تجزیہ کیا جائے۔ آپ کو تقویٰ کی باریک سے باریک راہوں پر چلتے ہوئے پاتے ہیں۔ آپ سے کوئی مشورہ کیا جائے تو اس میں کامل امانت و دیانت سے مشورہ دیتی ہیں جو سراسر خیر خواہی نیک نیتی اور بہی خواہی پر مبنی ہوتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا اس راز سے واقف ہو سکے جو کسی نے اپنے دردِ دل کے اظہار کے طور پر آپ سے بیان کیا ہو۔ امانت اور دیانت کے تمام پہلوئوں پر آپ کا عمل ہے۔ بزدلی اور دون ہمتی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پاک رکھا اور اس کے بالمقابل آپ کو شجاعت اور عالی ہمتی سے بہرہ ور فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ قریباً تمام سفروں میں آپ ساتھ رہیں اور یہ سفر ایسے ایام میں ہوئے جب کہ جماعت بہت ہی قلیل اور مخالفت کا طوفان برپا تھا اور ہر قسم کے حملوں کا خوف رہتا تھا مگر آپ نے قولاً اور فعلاً کبھی کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ فرمایا۔
۱۸۹۲؁ء میں جب حضرت اقدس لاہور تشریف لائے اور محبوب رائیوں کے مکان واقعہ متصل لنگے منڈی میں فروکش تھے راقم الحروف نے بہ چشم خود مشاہدہ کیا کہ حضور نیچے کی بیٹھک میں تشریف فرما تھے اور اوپر کی منزل میں حضرت اُمُّ المؤمنین فروکش تھیں زنانہ دروازہ کی طرف ایک طوفان بے تمیزی برپا تھا مگر حضرت اُمُّ المؤمنین اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ذرا بھی گھبراہٹ اور پریشانی نہ تھی۔ ہمت بلند کا اس سے بڑھ کر کیا مظاہرہ ہوگا کہ جب اوّل اوّل آپ بطور عروس قادیان تشریف لائیں اور سسرال خاندان کے سارے لوگ مخالف اور اجنبی تھے ان کی تکلیف دہ باتوں سے کبھی دل برداشتہ نہ ہوئیں اور نہ ان سے مواسات اور ہمدردی کے ان تعلقات کو کم کیا جو کیا بوجہ ہمسایہ ہونے کے اور کیا بوجہ اقربا ہونے کے اسلامی تعلیم کے عملی حصہ میں ضروری تھے بعض اوقات ایسی باتیں بھی ہو جاتی تھیں جو ایک بڑے سے بڑے حوصلہ والے انسان کو بھی پریشان کر دیں مگر کیا مجال کہ کبھی چہرہ پر شکن اور زبان پر شکایت پیداہوئی ہو۔ عورتوں میں عام طور پر (الاماشاء اللہ) لگائی بجھائی کی عادت ہوتی ہے مگر آپ اس قسم کے رزائل سے پاک ہیں۔ کبھی کسی کی ناجائز طرفداری نہیں کی اور نہ کسی کی ایذا رسانی کا خیال آیا۔ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی اہلیہ اوّل کی وفات پر ایک نوٹ شائع کیا تھا جس کا اسلوب بیان رنجیدہ تھا۔ مگر کبھی ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں مضائقہ نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جب حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات پر مسئلہ خلافت پر اختلاف پیدا ہوا اور اسی اختلاف کے دور کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد ( موجودہ خلیفۃ المسیح) نے اپنے خاندان کے سامنے یہ صورت پیش کی کہ جماعت کو اختلاف سے بچانے کیلئے یہ بہتر ہوگا کہ مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیال جس شخص کو انتخاب کے لئے پیش کریں ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تو حضرت اُمُّ المؤمنین نے بھی اظہار رضا مندی فرمایا اور آپ کے ساتھ تمام خاندان متفق ہو گیا۔ خدا سے نہ ڈرنے والا دشمن آج جو چاہے کہے مگر اس حقیقت کو مشتبہ نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کو سلسلہ کا ایک ہی ہاتھ پر جمع رہنا مقصود تھا خواہ وہ ہاتھ کسی کا ہوتا میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ایثار تھا۔ حضرت امیر المومنین کا ساری جماعت بہ استثنائے بعض آپ کو اپنا امام منتخب کرنا چاہتی تھی اور آپ جماعت کے رجحان سے ناواقف نہ تھے باوجود اس کے سلسلہ کا اتحاد آپ کو اس قدر عزیز اور مقدم تھا کہ دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو آمادہ تھے اس وقت ملائکۃ اللہ کی جماعت کہہ رہی ہوگی کہ تیرے اس ایثار کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے تیرے ہی ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے۔
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کے دل میں کسی کی طرف کینہ اور بغض نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب و دماغ کو اس قسم کے رزائل سے مطہرکر دیا ہے۔ آپ کے نام میں ایک قوت ہے۔ مگر کسی کے دل میں آپ کا خوف نہیں بلکہ محبت ہے۔ ہر چھوٹا بڑا آپ کی شفقت و ہمدردی کو محسوس کرتا ہے اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ آپ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی۔ غرض آپ کی سیرۃ کا ہر پہلو خواتین کے لئے ایک اسوہ حسنہ ہے۔ آپ کی خدمت میں جب کسی کو حاضری کی سعادت حاصل ہو تو وہ اپنے ہم و غم سے نجات پا جاتا ہے اور ایک بہشتی زندگی کے اثرات کو محسوس کرتا ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرۃ کا خلاصہ بھی بہت کچھ لکھوانا چاہتا ہے اور دل بھی چاہتا ہے کہ اسے کھول کھول کر واقعات کی روشنی میں بیان کیا جاوے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا اور توفیق دی تو دوسرے ایڈیشن میں اس کی ترتیب اور توضیح میں ترقی ہو سکے گی۔ اس وقت تو میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں تمام خوبیوں اور کمالات کو جمع کر دیا تھا اور آپ کے اخلاق، اخلاق محمدیہ کا کامل عکس اور پَرتو تھا اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے اُمُّ المؤمنین کو وہ تمام کمالات ظاہری و باطنی عطا فرمائے جو آخری زمانے میں آنے والے موعود کی اہلیہ کے شایان شان تھے اور اسے چونکہ اُمُّ المؤمنین ہونا تھا اس لئے اس کے دل کو وسیع اور ہاتھ کو لمبا کر دیا اور آپ اس کی تطہیر کا وعدہ فرمایا۔
اللھم صل علی محمد وعلی اٰلِ محمد و بارک وسلم
میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس بابرکت وجود کو تادیر سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین
زندہ باد اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم


حوالہ جات
۱؎ ماخوذ از مکتوب مورخہ ۲۰/ جون ۱۹۰۰ء؁
۲؎ الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۰۹ء؁
۳؎ بدر ۴۔۱۱ جولائی ۱۹۱۲ء
۴؎ رسالہ ریویو آف ریلیجنز مارچ ۱۹۰۶ء؁ صفحہ۱۱۸۔۱۱۹
۵؎ رسالہ ’’پسر موعود‘‘ از حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب صفحہ۲۶۔ حیات نور صفحہ۳۹۹
۶؎ مقالہ افتتاحیہ پیغام صلح ۲۹ مارچ ۱۹۱۴؁ء
۷؎ تریاق القلوب صفحہ ۳۵
۸؎ تذکرہ صفحہ۳۷
۹؎ تریاق القلوب صفحہ۳۵
۱۰؎ دی تالمود سیلکشنز ترجمہ ایچ پولنیو صفحہ۲۳،۲۴
۱۱؎ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ۷۳
۱۲؎ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ۳۴
۱۳؎ سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ۱۵۱
۱۴؎ اربعین نمبر۴ صفحہ۵ حاشیہ
۱۵؎ ریویوآف ریلیجنزاُردو نومبر ۱۹۰۴ء جلد۳ نمبر۱۱ صفحہ۴۰۹
۱۶؎ الحکم ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۱ء؁ صفحہ۱
۱۷؎ فرقان قادیان ’’مصلح موعود نمبر‘‘ اپریل ۱۹۴۴ء؁ صفحہ۳
۱۸؎ الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۶ صفحہ۔ بدر ۱۴ جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲
۱۹؎ بدر ۱۴ جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲۔ حاشیہ
۲۰؎ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۴۴ء صفحہ۲ کالم ۳
۲۱؎ مجدد اعظم جلد دوم صفحہ ۱۲۱۰
۲۲؎ عسل مصفّٰی جلد۲ صفحہ۵۸۲ مطبوعہ ۱۹۰۰ء
۲۳؎ الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۱۱ء؁ صفحہ۸
۲۴؎ رسالہ ’’اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘‘ صفحہ۷۳
۲۵؎ تریاق القلوب ایڈیشن اوّل صفحہ۷۴








حضرت اُمُّ المؤمنین کے دستخط کا نمونہ

حضرت اُمُّ المؤمنین کی تعلیم کے متعلق ابتداً ذکر آ چکا ہے آپ کی رسمی تعلیم اسی حد تک ہے جس قدر اس زمانہ میں اشراف کے گھروں میں ضروری سمجھی جاتی تھی۔ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم اور کسی حد تک تاریخ اسلام اور خانہ داری کے متعلق۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین کی تعلیم کا معیار اس سے بہت بلند رہا۔ عام طور پر اس زمانہ میںمستورات کو لکھنا کم سکھایا جاتا تھا مگر حضرت اُمُّ المؤمنین اس خصوص میں بھی بہت خوش قسمت ہیں آپ نے پڑھنا ہی نہیں لکھنا بھی گھر میں سیکھا اور اس سے کام لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے عزیر و اقارب کو اپنے ہاتھ سے خطوط لکھتی رہیں اور اب تک بھی جب کبھی موقعہ ہو آپ خود تحریر فرماتی ہیں آپ کے شان خط میں ایک پختگی ہے اور بین السطور وغیرہ کا خاص خیال رہتا ہے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت امیر المومنین کی نعمت عطا فرمائی آپ اُمّ محمود کے نام سے دستخط فرماتی ہیں۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ سیرت میں آپ کے دستخط کا نمونہ بھی درج کر دوں۔ اگرچہ یہ خط اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلے بھی آچکے ہیں مگر نمونہ کے لئے یہاں ان کا عکس دے دیا جاتا ہے۔ (عرفانی کبیر)



حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی ایک اعجازی نشان ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ وحی ہوئی تھی یا آدم اسکن انت و زوجک الجنۃ یعنی اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ حضرت مسیح موعود ؑکی زوجیت کا شرف حضرت اُمُّ المؤمنین کو ۱۸۸۴؁ء میں حاصل ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال مئی ۱۹۰۸؁ء میںہوا۔ گویا چوتھائی صدی تک حضور کی معیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ خدا تعالیٰ کی یہ وحی شادی سے پہلے کی ہے اس پچیس سال کے اندر کبھی ایک مرتبہ بھی تو ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ حضرت اقدس کی اہلی زندگی میں کسی قسم کی کوئی ایسی بات پیدا ہوئی جس سے کوئی رنج یا کسی قسم کی تلخی محسوس ہوئی ہو۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ ایک اعجازی نشان ہے اور یہ واقعہ جہاں ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسی اور طہارت باطنی کا ایک بیّن ثبوت ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ جب تک خدا ئے قدوس کے خاص ہاتھ نے تزکیہ اور تطہیر نہ کر دی ہو رنج اور ناراضی کے جذبات مسلوب ہو جائیں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے بشارت دی اور پھر واقعات سے اس گھر کو دنیا میںجنت بنا دیا۔ دوسری طرف خود سیّدہ اُمُّ المؤمنین کی صلاحیت نفس اور تطہیر کا یہ ایک کھلا کھلا نشان ہے کہ زندگی کے اتنے لمبے دور میں اور حالات کی ایسی فضا میںکہ عمروں میں باہم تفاوت، تمدن میں من وجہ اختلاف ہو اور پھر بھی کبھی کوئی ایسی بات نہ پیدا ہو جس سے ایک لحظہ کے لئے بھی اس بہشتی زندگی میں فرق پیدا ہو۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک زندگی کا یہ نشان ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے کمالات کا بھی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کو ہر قسم کے غِل و غش سے پاک کر دیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو شعائر اللہ میں سے یقین کرتے اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کو آپ کے وجود میں پورا ہوتے دیکھ کراحترام کرتے اور حضرت اُمُّ المؤمنین آپ کو خدا تعالیٰ کا مرسل اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت موعود یقین کر کے آپ کی عظمت اور مقام کو مدنظر رکھ کر کامل فرمانبرداری اور آداب رسول کے لوازم کو اپنی عملی زندگی میں مدنظر رکھتی ہیں پھر اس گھر میں جنتی زندگی کا مظاہرہ نہ ہو تو کہاں ہو۔ یہ ایک نمونہ کی زندگی ہے اور حسن معاشرت کی بہترین مثال ہے جو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے سامنے پیدا کر دی۔ دیکھنے والوں کے تاثرات کو میں نے بیان کیا ہے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی میں ایک بھی واقعہ تو ایسا نہیں ملتا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ آپ غصہ اور انتقامی جذبات یا کینہ و حسد کے تکلیف دہ جذبات کا مظہر بنی ہوں۔ ہر قسم کے واقعات پیش آئے مگر قلب میں ایک سکون اور جمعیت باطن اور فوق العادۃ وقار حاصل ہے اور یہ چیز انسان کی اپنی کوشش اور سعی سے میسر نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم یاوری نہ فرمائے۔
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت اور آپ کے وجود میں مَیں تو بے انتہا اعجازی نشان دیکھتا ہوں نادان اسے محض اعتقاد کا نتیجہ کہہ دے گا مگر میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کو عقل اور علم کی تائیدات کے علاوہ آپ کی عملی زندگی اور خدا تعالیٰ کی تائیدات کو دیکھ کر تسلیم کیا ہے اور حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کو ایک زمانہ دراز تک بہت قریب سے رہ کر مشاہدہ کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ شمہ از شمائل ہے جس کی خدا تعالیٰ نے تعریف کی ہو جس کے مقام کی رفعت اور عظمت کا ذکر خدا کی وحی میں ہو اس کے بیان کی عاجز انسان میں کیا طاقت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے بیٹے محمود احمد عرفانی (جن کو میں شہید سیرۃ کہتا ہوں) مرحوم اور مجھ کو موقعہ دیا کہ ہم اس آیۃ اللہ کی تلاوت کریں۔ ولِلّٰہ الحمد۔ (عرفانی کبیر)

ء…ء…ء









حضرت اُمُّ المؤمنین کا مقام صبر و رضاء بالقضا میں
یہ نہایت عالی مقام ہے جو ہرشخص کو میسر نہیں آتا۔ صبر بہ ظاہر تو ایک نیچرل اور طبعی امر ہے جو انسان کو ان مصیبتوں اور بیماریوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے مگر یہ صبر کوئی اخلاق میں داخل نہیں اور نہ انسان کے اخلاقی کمال کا ثبوت اور نہ کسی نیکی کے رنگ میں اجر کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ وہ ایک طاقت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرورتًا خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ انسان یہ قدرت اور قوت نہیں رکھتا کہ ایک طویل زمانہ تک اس مصیبت پر ماتم کرتا رہے۔ بلکہ طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت روتا، چیختا، سر پیٹتا ہے۔ آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹتا ہے۔ پس یہ طبعی حرکت ہے۔ اخلاق سے اس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ اس کے متعلق خُلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کی زندگی تو مصائب اور ابتلائوں کی زندگی ہوتی ہے اور آپ کے اہل بیت اور صحابہ کی تربیت اور سلوکِ روحانی کے منازل انہیں کٹھن اور پُرخار وادیوں میں سے گزر کر طے ہوتی ہیں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ان تمام مرحلوں سے گزرنا پڑا اور کبھی اور کسی مرحلہ پر آپ کے پائے ثبات و استقلال کو جنبش نہ ہوئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلان دعویٰ مسیحیت کے ساتھ ایک طوفان مخالفت برپا ہوا۔ دہلی، لاہور، امرتسر جیسے شہروں میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں گئے تو کس قدر شرارت اور شوخی کے گندے نمونے دکھائے گئے مگر اس مخالفت میں کبھی آپ کو گھبراہٹ اور پریشانی نہ ہوئی۔ اس مخالفت کے طوفان میں امواتِ اولاد اور اعزّا کے بعض ایسے واقعات پیش آئے جہاں بڑے بڑے قوی حوصلہ انسان بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے قلب میں وہ قوت اور معرفت پیدا کر دی تھی کہ ہر ابتلا کے وقت نہ صرف آپ صبر اور رضا بالقضا کے مقام پر کھڑی رہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے مقام میں قدم آگے بڑھایا۔ میں حضرت اُمُّ المؤمنین کے اس خُلق میں چند واقعات کا ذکر کرتا ہوں۔
حضرت صاحبزادی عصمت کی وفات پر نمونۂ صبر
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سب سے پہلی اولاد صاحبزادی عصمت تھی یہ وہ لڑکی تھی جس کی پیدائش پر دشمنوں نے بہت شور مچایا کہ لڑکے کی بشارت تھی لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش اور وفات دونوں ابتلا تھے۔ فطرتی طور پر پہلی اولاد اور لڑکی مستورات کو بہت عزیز ہوتی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر اس سارے شور و شر سے واقف و آگاہ تھیں جو مخالفوں کی طرف سے ہو رہا تھا مگر وہ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صادق یقین کرتی تھیں اس شماتت و مخالفت میں بھی حضرت سیّدہ کو کبھی گھبراہٹ نہ ہوئی آخر لودہیانہ میں صاحبزادی عصمت ہیضہ سے بیمار ہو کر فوت ہوگئیں۔ اس موقعہ پر کوئی جزع فزع نہیں اور اس کے بعد کوئی ذکر ہی نہیں کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی قضاء وقدر سے مصالحت و مسالمت کا یہ بے نظیر نمونہ تھا۔
صاحبزادی عصمت کی وفات کے بعد بشیر اوّل پیدا ہوا۔ وہ خدا تعالیٰ کی بشارت اور وعدہ کے موافق پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش اور وفات پر بھی ایک طوفان مخالفت پیداہوا۔ آخر وہ خدا تعالیٰ ہی کی وحی کے موافق فوت ہو گیا اور اس کی وفات پر پھر ایک شور بلند ہوا اور یہ ایسا رنگ تھا کہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت اس کے ساتھ نہ ہوتی تو خود کشی کر لیتا مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی رفیقہ مطہرہ نے اپنے عمل سے دنیا کو دکھا دیا کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو ان کو جنت ہی میں رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے مقام کی طرف لے جاتا ہے دنیا کے مصائب اور ابتلاء ان کیلئے خدا کی چہرہ نمائی کا رنگ لے کر آتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کے لئے یہ ابتلا بڑا سخت تھا۔ پہلا بچہ فوت ہو چکاتھا۔ یہ دوسرا بچہ جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی بشارتوں میں عظیم الشان مقام بتایا گیا تھا خدا کی مشیت کے ماتحت فوت ہوتا ہے۔ بشیر اوّل کی وفات والدین کے لئے بیٹے کے داغ کی حیثیت سے ہی بڑا صدمہ تھا۔ بلکہ سب سے بڑا دُکھ اور تکلیف اور ہمت آزما ابتلاء یہ تھا کہ مخالفین نے طوفان بے تمیزی پیدا کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان مبارک والدین کو وہ مطئمن قلب اور معرفت کی مسرت و انبساط سے لبریز دل دیا ہوا تھا کہ اس سے اطمینان اور سکینت کی لہریں بجلی کی طرح نکل کر ہر دل کو سکینت بخشی تھی۔
صاحبزادی شوکت کی وفات اور بالآخر صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات اور صاحبزادی امۃ النصیر کی وفات یہ سارے واقعات ایسے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اندر درس رضا بالقضاء رکھتا ہے۔ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات پر تو خدا تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
یہ تو وفات اولاد کے واقعات تھے۔ ان حوادث کے بعد وہ عظیم الشان واقعہ ہے۔ جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا ہے۔ حضرت جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کی شان ظاہر ہے۔ وہ وجود پاک جس کی بعثت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت فرمایا اور جو موعود اقوام تھا اس کی اہلیہ ہونے کا شرف لانظیر شرف ہے اس کی وفات ہر حیثیت سے اتنا بڑا صدمہ ہے کہ الفاظ اس کے بیان کرنے سے قاصر ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رضا پر اپنی ساری خوشیوں کو مقدم کرنے کی جو قوت آپ کو خدا تعالیٰ سے عطا ہوئی تھی اس نے اس موقعہ پر بھی صبر جمیل و عظیم کا نمونہ دکھایا اور اس کے متعلق میں اس وقت کے موجود احباب کے تاثرات بیان کر آیا ہوں۔ حضرت اُمُّ المؤمنین نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی عمر پائی ہے (متعنا اللّٰہ بطول حیاتھا-آمین) اور یہ لمبی عمر بھی خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت اس عظیم الشان نشان کی صداقت کیلئے تھی جو مصلح موعود کے رنگ میں پورا ہونے والا تھا۔ قدرتی طور پر اس عرصہ میں بعض اور حادثات پیش آئے۔ سب سے اوّل حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ آپ کے والد ماجد کی وفات تھی۔ ماں باپ کتنے بھی بوڑھے ہو جائیں اور ان کی اولاد بھی خواہ کتنی ہی بڑی عمر کی ہو جاوے تب بھی فطری خواہش یہی ہوتی ہے کہ ماں باپ کا سایہ سلامت رہے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی وفات ایک صدمہ اور ابتلاء تھا۔ پھر حضرت نانی اماں کی وفات صدمہ پر صدمہ تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی خدیجہ کے منہ سے کسی وقت کوئی ایسا لفظ نہ نکلا جو شکوہ یا بے صبری کا ہو۔ یہ تو اپنے خاندان کے واقعات تھے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو مومنوں کی ماں بنا دیا۔ انہوں نے ہمیشہ ماں ہی کے فرائض ادا کئے اپنے روحانی بچوں کی ہمدردی تسلی اور غمخواری اپنی اولاد سے کم نہیں کرتی ہیں۔ پھر سلسلہ میں بعض ایسے بزرگ تھے جو اپنے اپنے وقت میں سلسلہ کے ستون تھے ان کی خدمات اور شاندار قربانیاں قابل احترام و صد ناز تھیں۔ جیسے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ وغیرہم ایک کثیر تعداد ایسے مخلصین کی تھی جنہوں نے آپ کے سامنے وفات پائی اور فطری طور پر اپنے ان روحانی بچوں کی وفات پر آپ کو صدمہ ہوا مگر خدا تعالیٰ کی مشیت یقین کر کے اس کی رضا پر راضی ہوگئیں۔ انہیں حوادث میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات اور اس کے بعد جماعت میں بعض لوگوں کی لغزش کا صدمہ بھی بڑا صدمہ تھا مگر خدا کی رضا کے لئے برداشت کیا۔
میں ایک انشراح صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی زندگی تو اس لحاظ سے ہر آئے دن اپنی جماعت کے تعلقات کے سلسلہ میں کسی نہ کسی ابتلا کو لے کر آتی ہے اور پھر آپ دائم المریض ہیں۔ تقاضائے عمر بجائے خود ہے۔ مگر باایں کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق رہتا ہے مگر کیا مجال ہے کہ کبھی شکایت ہو یا چڑچڑا پن پیدا ہو یا معمولات میں فرق آئے۔ ایک کوہ وقار کی جماعت میں صبر اور حوصلہ کے ساتھ خدا کی پناہ میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جن حوادث اور واقعات کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بھی کچھ کم نہ تھے کہ بعض اور دلوںکو ہلا دینے والے واقعات پیش آئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ہونہار اور صاحب علم صاحبزادی کا انتقال حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تین ایسی ازدواج کا انتقال جو سلسلہ کے لئے خواتین کی تعلیم و تربیت اور تنظیم کے لئے بمنزلہ روح تھیں۔ میں کس کس واقعہ کا ذکر کروں یہ ایک دردناک مگر ایمان باللہ اور قلب سلیم کے مظاہرہ کی داستان ہے۔ بالآخر دو اور روح فرسا واقعات پیش آئے جن کا حضرت اُمُّ المؤمنین کے جسم اور روح کے ساتھ خاص تعلق ہے یعنی حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کی وفات جو حضرت اُمُّ المؤمنین کے چھوٹے بھائی تھے جن کو بچوں کی طرح پرورش کیا اپنا دودھ پلایا اور دوسرے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی وفات جو حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے شوہر تھے جن کو خدا تعالیٰ نے حجۃ اللہ کا خطاب دیا تھا۔ میں ان دونوں بزرگوں کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے جماعت کے تاثرات کا پتہ لگے گا اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے مقام صبر و رضا کی شان بلند کا بھی اندازہ ہوتاہے۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکرِ خیر
حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کا ایک مختصر تذکرہ محمود احمد عرفانی دوسری جلد میں لکھنے کا عزم رکھتے تھے اور تفصیلی حالات جداگانہ کتاب میں لکھنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اور حضرت میر صاحبؓ کو اپنے حضور طلب کر لیا۔ محمود احمد عرفانی ۱۹،۲۰ فروری ۱۹۴۴؁ء کی درمیانی رات کو فوت ہو گئے اور حضرت میر محمد اسحق صاحب ۱۷ مارچ ۱۹۴۴؁ء کو فوت ہوئے گویا ایک مہینے کے وقفہ سے دونوں نے عالم بقا کی راہ لی۔ میں ان کا کسی قدر تفصیلی تذکرہ اپنے رنگ میں لکھنا چاہتا تھا مگر عزیز مکرم مولوی عبدالمنان صاحب نے مجھے لکھا کہ وہ حضرت میر صاحب کی لائف لکھ رہے ہیں مجھے اس سے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے۔ اب میں اس کتاب میں بجائے خود کچھ لکھنے کے ان مضامین کو یکجا کر دیتا ہوں جو حضرت میر صاحب کی وفات پر معزز ہم عصر الفضل نے شائع کئے ہیں۔ وباللہ التوفیق۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی پیدائش
حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ کے آبائو اجداد کے رفیع المنزلت خاندان کا تذکرہ سیرۃ اُمُّ المؤمنین کی جلد اوّل میں شرح و بسط سے ہوچکا ہے وہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی زندہ ذکور اولاد میں دوسرے بیٹے تھے۔
وجہ تسمیہ
حضرت میر صاحب کو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے بڑی محبت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت میر صاحب کے استاد بھی تھے۔ اور دہلی کے اہلحدیث
کے سرگروہ بھی تھے۔ ایک دفعہ مولوی نذیر حسین صاحب لودہیانہ میں حضرت میر صاحب سے ملنے آئے جہاں وہ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ حضرت میر صاحب میر محمد اسماعیل صاحب کو جو ابھی بچے ہی تھے، ملانے کے لئے لے گئے ۔ مولوی نذیر حسین صاحب نے ازراہ شفقت سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
برائے کردن تنبیہ فسّاق

دوبارہ آمد اسماعیل و اسحق
اس بناء پر جب میر محمد اسحق صاحب پیدا ہوئے تو حضرت میر صاحب نے ان کا نام محمد اسحق رکھا اور خدا کی قدرت کہ وہ شعر جو اس وقت اتفاق سے ان کے منہ سے نکلا وہ ایک حقیقت بن کر عالم وجود میں آیا۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی تعلیم و تربیت
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی تعلیم و تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے آغوش محبت میں ہوئی۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا انہوں نے دودھ بھی پیا۔ عربی کی ابتدائی کتابیں انہوں نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے شروع کی تھیں بچپن ہی سے نہایت ذہین اور ذکی تھے۔ بہت جلد بات کو اخذ کرتے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر بڑی وضاحت اور عام فہم اسلوب سے تقریر کرتے تھے۔ سلسلہ تعلیم میں مولوی فاضل کا امتحان تعریف کے ساتھ پاس کیا اور علوم دینیہ کی تکمیل حضرت حکیم الامۃ خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے کی۔
سلسلہ کی خدمت
خدمت سلسلہ کا آغاز انہوں نے مدرسہ احمدیہ کے ایک مدرس کی حیثیت سے شروع کیا۔ اپنی مدت العمر خدمت سلسلہ میں نہ کبھی ترقی کا سوال پیش کیا نہ
اپنے کسی قسم کے حقوق کا تقاضا کیا۔ انہوں نے خدمت سلسلہ کو ایک واقف زندگی کی حیثیت سے شروع کیا تھا اور اسی رنگ میں ختم کر دیا۔ وہ ایک بے نظیر مدرس، عدیم المثل مبلغ اور مناظر ایک نکتہ رس مجتہد اور بے لوث قاضی اور قابل قدر مفکر اور بلند پایہ انتظامی قابلیت کے ماہر تھے۔ انہوں نے آریوں، عیسائیوں اور غیر احمدیوں سے کامیاب مباحثے کئے۔ وہ ایک جادو بیان خطیب ہی نہ تھے اعلیٰ درجہ کے اہل قلم بھی تھے ان کے بیان اور تحریر میں یہ کمال تھا کہ وہ مشکل سے مشکل مسائل کو ایسا آسان اور عام فہم بنا دیتے تھے کہ سننے والے قربان ہوتے تھے۔ تقریر یا مناظرہ کے وقت ان میں پریشانی اور گھبراہٹ کبھی نہیں دیکھی۔ چہرہ پر بشاشت اور تبسّم کھیلتا تھا اور وہ مخالف پر ایسی ضرب لگاتے تھے کہ وہ حیران ہو جاتا۔ پادری جوالا سنگھ عیسائیوں میں بڑا منطقی اورفلاسفر سمجھا جاتا تھا حضرت میر صاحب کے ساتھ مناظرہ کر کے پچھتاتا تھا۔ خاکسار عرفانی کبیر کا بھی ایک تحریری مختصر سا مباحثہ پادری جوالا سنگھ سے نور افشاں لودہیانہ میں ہوا تھا۔میرا علم اس وقت اس کے مقابلہ میں کچھ نسبت نہ رکھتا تھا مگر حق میں ایک قوت ہوتی ہے آخر نور افشاں کے افسر اعلیٰ پادری سی بی نیوٹن نے اس سلسلہ کو بند کر دیا۔ یہ تو ضمنًا ذکر کر گیا۔ حضرت میر صاحب نے گوجرانوالہ اور بمبئی میں اس کے منطق اور فلسفہ کے پرخچے اُڑا دیئے اور بمبئی میں بہت قبولیت بڑھ گئی تھی۔ اگر میر صاحب وہاں سے جلد نہ آ جاتے تو بمبئی میں بہت بڑی کامیابی کی توقع تھی۔ میر صاحب نے سلسلہ کے جس شعبہ میں کام کیا ہمیشہ اعزازی محض حبۃً للہ کیا اور جس شعبہ میں کیا اس کی اصلاح کر دی۔ مدت العمروہ ناظر ضیافت رہے اور لنگر خانہ کے انتظام میں کمال کر دیا۔ سالانہ جلسہ کی تقریب پر ہزاروں انسانوں کے لوازم ضیافت کا انتظام خندہ پیشانی اَور اَن تھک ہمت سے کرتے تھے۔ ناظر دعوت و تبلیغ، ناظر بیت المال اور مختلف صیغوں کا کام انہوں نے کیا اور جس ادارہ کو ہاتھ میں لیتے تھے اس کو چار چاند لگا دیتے۔ کام میں باقاعدگی، ماتحت کارکنوں میں ضبط پیدا کر دیتے اور وہ سختی سے نہیں اپنے عمل سے کرتے تھے۔
حدیث سے انہیں خاص شغف تھا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا نتیجہ تھا۔ وہ احادیث کی شرح ایسے رنگ میں کرتے تھے کہ عہد حاضرہ کا بڑے سے بڑا نکتہ چیں بھی اس پر اعتراض نہ کر سکتا۔ مساکین اور ضعیف العمر اور بیکسوں کے وہ آقا و مولیٰ تھے اور یہ چیز فطرتًا ان کے حصہ میں آئی تھی۔ سلسلہ کی اکثر ضروریات کو وہ دیکھتے اَور ان کی آواز پر جماعت لبیک کہتی تھی اور فوراً تعمیل کرتی۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے اغراض سلسلہ کے لئے کوئی تحریک کی ہو اور کامیاب نہ ہوئی ہو۔ یہ محض ان کے اخلاص اور اعمال میں رضا اَور عشق کا نتیجہ تھا وہ بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے۔ جماعت کی تنظیم، تبلیغ اور اس کے علمی مقام کو بلند اور ممتاز کرنے کا ان میں للّٰہی جوش تھا اور اس مقصد کے لئے وہ ہمیشہ عملی رنگ اختیار کرتے تھے۔ قرآن مجید کا درس، حدیث کا درس، مجلس ارشاد کے ذریعہ مختلف مسائل پر تحقیقی لیکچر دلاتے رہتے تھے۔ آریہ سماج کے پرچارکوں اور سکھوں کے مذہبی سیوکوں سے تبادلہ خیالات کے جلسہ کرتے اور نہایت امن اور آزادی اور سلامت روی کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا۔ ان کی ہر خوبی اور خدمت بجائے خود ایک مبسوط تالیف کی مقتضی ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اس کی توفیق دے گا۔
سلسلہ کی خدمت میںانتہائی محنت اور شفقت نے ان کی صحت پر غیر معمولی اثر کیا۔ باوجود بیماری کے متواتر اور شدید حملوں کے بھی وہ خدمت سلسلہ کے لئے کمر بستہ رہتے تھے ان کی زندگی سلسلہ کے ہر کارکن اور فرد کے لئے خضر راہ ہے۔ بیماری کا ہر حملہ جانستان نظر آیا کرتا تھا اور فی الحقیقت جہاں تک طبی نقطۂ نگاہ ہے وہ جانستان ہی ہوتا تھا لیکن ان کی علالت کا اعلان جماعت کے اہل دل اور عام افراد میں دعا کے لئے ایک غیرمعمولی جوش پیدا کرتا تھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ دعائیں تقدیر معلق کو ٹلا دیتی تھیں اور جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوںکی جان لینے کے وقت خدا تعالیٰ کو بھی تردّد ہوتا ہے۔ فی الحقیقت یہی نظارہ حضرت میر صاحب کی علالت کے وقت نظر آتا تھا لیکن آخر بیماری کے متواتر حملوں میں آخری حملہ نے ان کی زندگی کو بظاہر ختم کر دیا مگر درحقیقت موت کے دروازہ سے داخل ہو کر انہوں نے حیات ابدی حاصل کی ان کی بے ریا خدمات انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی اور آنے والی نسلیں ان پر فخر کریں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض اوقات کسی مخلص کے وفات پا جانے پر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان کے لئے دعائے صحت کرنے کا موقعہ نہ ملا اور اس سے آپ کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اگر دعا اپنے پورے لوازم سے کی جاوے تو وہ قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے اور جہاں قضائے مبرم ہو وہاں اس کاموقعہ پورے طورپر نہیں ملتا۔ حضرت میر صاحب کی اس آخری علالت میں بھی یہی ہوا کہ علالت کا حملہ تیر قضا ہی تو تھا نہ اس کا اعلان ہو سکا اور نہ جماعت کو اپنے ایک مخلص اور محسن خادم کے لئے دعائوں کا موقعہ ملا۔ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت میر صاحب پر یہ حملہ عین اس وقت ہوا جب کہ وہ سلسلہ کی خدمت میں مصروف تھے۔ یوں تو ان کی زندگی کا ہر لمحہ خدمت سلسلہ میں گزرتا تھا مگر اس روز باوجود طبیعت کے کسی قدر ناساز ہونے کے بھی صدر انجمن احمدیہ کے جلسہ میں شریک تھے۔
حضرت میر صاحب کی وفات کو جماعت نے کس طرح محسوس کیا اس کا کسی قدر اندازہ ان اقتباسات سے ہوگا جو بعض خطوط اور مختلف احباب کے تاثرات کا کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ میں اسے درج کروں میر صاحب کی آخری علالت کا مختصر سا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ معزز ہمعصر الفضل نے ان کی وفات پر جو لیڈر شائع کیا اس میں ان کی وفات کے آخری حالات بھی درج ہیں اس لئے انہیں کو درج کر دیا جاتا ہے۔
احمدیت کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا
حضرت میر محمد اسحق صاحب رحلت فرماگئے
اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلیَہِ رَاجِعُوْنَ
قادیان ۱۷ مارچ، سلسلہ عالیہ احمدیہ کا وہ نہایت ہی قیمتی اور گراں مایہ وجود نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدس خاندان سے نہایت ہی قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے بلکہ اپنی خاندانی اور ذاتی اعلیٰ صفات کے لحاظ سے ایک خاص وجود تھا جو دینی علوم و معارف کا بحر بیکراں تھا جو احمدیہ اخلاق اور تہذیب کا اعلیٰ نمونہ تھا۔جو ہر مصیبت زدہ کا مددگار اور ہر محتاج کا دستگیر تھا جو یتیموں کا ملجا اور بیوائوں کا ماوا تھا۔ جس کا دستِ سخا نہایت وسیع تھا جس نے ساری عمر متوکلانہ زندگی بسر کی۔ جس کی زندگی کاا یک ایک لمحہ خدمتِ دین اور خدمت خلق اللہ کیلئے وقف تھا جو احمدیت کا ایک درخشندہ اور ضوافشاں ستارہ تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ جس کی خوبیوں کا شمار ہم سے ممکن نہیں۔ یعنی حضرت میر محمد اسحق صاحب انہیں آج بروز جمعہ یکایک خدا تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلیَہِ رَاجِعُوْنَ
کل سارا دن آپ دینی خدمات میں مصروف رہے۔ مگر شام کے قریب گھر تشریف لے جاتے ہوئے بیمار ہو گئے اور چارپائی پر اٹھا کر آپ کو گھر پہنچایا گیا (اس کے بعد کے حالات دوسری جگہ درج کئے گئے ہیں) کل کی رات اور آج ۱۷ مارچ کا دن نہایت ہی تشویش میں گزرا۔ جس جس کو آپ کی علالت کی اطلاع پہنچی اور اعلان عام کے ذریعہ سب احمدی احباب کو پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ سب نے نہایت ہی درد اور کرب کے ساتھ دعا کی۔ علاج معالجہ میں بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مگر چھ بجے شام کے بعد نبض بہت زیادہ کمزور ہو گئی اور خطرہ بہت بڑھ گیا۔حافظ محمد رمضان صاحب بلند آواز سے قرآن کریم کی دعائیں پڑھنے لگے۔ نیز سورۂ یٰسین کی تلاوت کرتے رہے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی دوسرے صحن میں جا کر قرآن کریم پڑھتے رہے۔ پھر حضور اس کمرہ میں تشریف لے آئے۔ جہاں حضرت میر صاحب تھے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک رقت بھری آواز میں قرآن کریم کی دعائیں فرماتے رہے۔ یہ نظارہ نہایت ہی رقت انگیز تھا۔ کمرہ کے اندر اور باہر لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس وقت حضور نے فرمایا۔ اگر یہ رونا دعا کا ہے تو ٹھیک ہے۔ ورنہ گناہ ہے۔ حضور پھر باہر تشریف لے آئے۔ چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو چکا تھا حضور نے فرمایا۔ نماز کی تیاری کی جائے۔ ابھی نماز شروع نہ ہوئی تھی کہ حضرت میر صاحب کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اِنَّا للہّٰ وانّا الیہ راجعون- حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کو اطلاع دی گئی تو حضور اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس آ کر مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔ نماز سے قبل حضور نے ارشاد فرمایا کہ دوست دعائیں بہت کریں۔ نماز کے بعد فرمایا کہ دوست بیٹھے رہیں اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں آئندہ دنوں میں بالخصوص آج کی رات بہت دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا۔
حضور نے فرمایا۔ میر محمد اسحق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر انہی کو رہتا تھا۔ وہ رات دن قرآن و حدیث پڑھانے میں لگے رہتے تھے۔ زندگی کے اس آخری دور میں وہ کئی بار موت کے منہ سے بچے۔ کیونکہ جلسہ سالانہ پر وہ اس طرح اندھا دھند کام کرتے تھے کہ کئی بار ان پر نمونیہ نے حملہ کیا۔ میر صاحب کی وفات سلسلہ کا نقصان ہے اور اتنا بڑا نقصان ہے کہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں۔ مولوی عبدالکریم ؓ صاحب مرحوم اس طرز کے تھے۔ ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب اور تیسرے میر محمد اسحق صاحب اس رنگ میں رنگین تھے۔
یہ تقریر حضور نے اس رقت اور سوز سے فرمائی کہ حضور کی آواز رُک رُک جاتی تھی اور سننے والوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ تقریر کے بعد حضور نے نہایت خشوع و خضوع سے دعا فرمائی اور تمام حاضرین نے بھی نہایت عاجزی اور زاری سے خداتعالیٰ کے حضور دعائیں کیں۔
اس کے بعد حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کا انتظام کیا گیا اور غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد گیسٹ ہاؤس (جہاں حضرت میر صاحب کی رہائش تھی) کے بیرونی حصہ میں جنازہ لایا گیا اور رات بھر کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے گئے۔ اس کے بعد بارہ بجے کے قریب حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ واپس تشریف لائے۔ جنازہ کل بعد نماز عصر پڑھا جائے گا۔ اس حادثہ کی اطلاع جماعت ہائے احمدیہ لاہور، امرتسر، جالندھر، لدھیانہ، گوجرانوالا، لائل پور، منٹگمری، سیالکوٹ، گجرات وغیرہ کو بذریعہ تار رات کو ہی دے دی گئی۔ حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابہ کو نام بنام حضرت اُمُّ المؤمنین نے ان دنوں خاص طور پر دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا۔ جماعت احمدیہ کے لئے چند ہی دنوں میں یہ دوسرا صدمہ ہے اور بہت بڑا صدمہ ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہمارے دل نہایت ہی حزیں اور دردمند ہیں اور اس لئے دردمند ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنی دو بہت بڑی نعمتیں لے لی ہیں۔ ہمیں اسی کے حضور جھکنا اور اسی سے جماعت کے لئے خیروبرکت مانگنا اور غلبہ اسلام کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان عطا کرنے کی التجائیںکرنی چاہئیں۔ ۱؎
حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کی ایک امتیازی خصوصیت
اس میں تو کوئی شبہ اور کلام نہیں کہ آپ سلسلہ کے گراں قدر رتن اور رکن تھے اور ان کی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے عملاً وقف تھی مگر خدام سلسلہ میں ان کو بعض خصوصیات حاصل تھیں اور یہ محض خداتعالیٰ کا فضل تھا۔ میں ان امتیازی خصوصیات میں سے صرف ایک کا ذکر کروں گا۔
سب سے اوّل میں اس خصوصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے ان کے وجود کو شعائر اللہ میں داخل کر دیا اور خداتعالیٰ کی ہستی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر ایک آیت اللہ قرار پائے۔ خداتعالیٰ کی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی ان کی زندگی کے متعلق بعض الہامات اور پیشگوئیاں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ حتی کہ ان کی موت کے متعلق بھی اشارات پائے جاتے ہیں اور خود حضرت میر محمد اسحق صاحب بھی یہ جانتے اور سمجھتے تھے اور بعض اوقات انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا اور آخر وہ اسی پیشگوئی اور نشان کے موافق وفات پا گئے۔ اللّٰھُمَ اغْفرہٗ وارحمْہٗ
سب سے پہلی مرتبہ حضرت میر محمد اسحق کے متعلق ذکرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں اس نشان کے ضمن میں آیا جو اِنَّ کَیدَکُنَّ عَظیم کے الہام میں ہے اور جس کی تصریح اسی کتاب میںحضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کے بیان سے میں کر آیا ہوں۔ اسی نشان میں یہ ضمناً داخل ہو گئے۔ کیونکہ اس مکتوب میں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات کا بھی ذکر تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں ان کا ذکر ابتداً ان کی خبر وفات کے سلسلہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس وقت کے واقعات اور حالات ایسے ہی تھے کہ حضرت نانی اماں کی سخت تشویشناک علالت اور میر صاحب کی حالت شیرخوارگی اور خبر گیری کے اسباب کا فقدان ان کی موت کو بلا رہا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں نے موت کو حیات سے بدل دیا۔
(۱) سب سے پہلا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے متعلق ۱۴ مئی ۱۹۰۵؁ء میں ہوا جبکہ آپ بیمار تھے اور بظاہر صحت یابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الہام نازل کر کے آپ کی صحت کی خوشخبری دی چنانچہ لکھا ہے۔
’’میاں محمد اسحق حضرت میرناصر نواب صاحب کاچھوٹا صاحبزادہ بیمار تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے میںحالت اچھی نہ تھی۔ فرمایا میں نے دعا کی اور دعا کی اصل وجہ تو شماتتِ اعداء تھی ورنہ اولاد ہو یا کوئی اور عزیز موت فوت تو ساتھ ہی ہوتی ہے۔ غرض جب میں دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا۔ (۱) سلامٌ قولاً من رب رحِیم- (۲) پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں۔‘‘ ۲؎
اس الہام کا ذکر تذکرہ میں ایک اور جگہ ان الفاظ میں آیا ہے:
’’جب اسحق بیمار تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سے مردار خور جانور لم ڈھینگ ہیںاور پاس ہی ایک مردار پڑا ہوا ہے۔ اس رویاء کے بعد اس جگہ کو بدل دیا گیا وہ معاً اچھا ہو گیا۔ اس کے متعلق الہام ہوا تھا۔ سَلام قولاً من رَب رحِیم- ۳؎
یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت میر محمد اسحق صاحب کی علالت اور اس سے آپ کا شفا پانا ہمیشہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شفائی اعجاز رہا ہے۔ بلکہ میں تو اپنے ذوق کے موافق سمجھتا ہوں کہ ان کی موت کے تیر حضرت کی دعاؤں سے بدلتے رہے۔
(۲)دوسرا رؤیا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت میر صاحب کی شادی کے متعلق ہوا اور اس رؤیا کے موافق آپ کی شادی ہوئی۔ وہ رؤیا حسب ذیل ہے:
’’روز دو شبنہ عیدالاضحیٰ حضرت اقدس نے رؤیا دیکھا کہ میاں محمد اسحق پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ بی بنت صاحبزادہ منظور محمد کے باہمی تعلق نکاح کی تیاری ہو رہی ہے۔‘‘ ۴؎
چنانچہ اس رؤیا کے مطابق مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اعلان نکاح کیا اور اس تقریب مبارک پر جو بجائے خود نشان تھا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے ایک منظوم دعائیہ مبارکباد لکھی تھی اور ان دعاؤں کی قبولیت اس مبارک جوڑے کی زندگی میں ظاہر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے انتخاب فرمایا اور قبل از وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ رویا اس کی بشارت دی اور آپ کے ہونے والے خلفا نے اعلان نکاح اور تبریک نکاح میںحصہ لیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مثمر بہ ثمرات فرمایا۔
(۳) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور رؤیا ہے جس کی ایک تجلی حضرت میر محمد اسحق صاحب کے وجود میں بھی نمایاں ہے گو کامل تجلی حضرت اُمُّ المؤمنین کا وجود مبارک ہے۔اس لئے کہ آپ کے کشوف میں ایک خاص پہل کا کشف ان کے متعلق ہے تاہم میں اس رویا میں حضرت میر محمد اسحق صاحب کو بھی شریک سمجھتا ہوں اس رویا میں ان کی زندگی کی عملی تفسیر ہے جو ان کے کارناموں اور خدمات سلسلہ پر مشتمل ہے اور وہ رویا یہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور رؤیا جو حضرت میر صاحب کے وجود سے پورا ہوا۔ وہ ان الفاظ میں تذکرہ میں درج ہے:
’’خواب میں دیکھا کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں۔ جو پھل دار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہو گیا جو بیدانہ توت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سبز تھا اور پھلوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور پھل اس کے نہایت شیریں تھے۔ اور عجیب تر یہ کہ پھول بھی شیریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیں تھا۔ ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دنیا میں دیکھا نہیں گیا میں اس درخت کے پھل اَور پھول کھا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔‘‘۵؎
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اجتہاد فرمایا وہ بھی واقعاتی رنگ میں صحیح ثابت ہوا اور دوسرے رنگ میں اس کا ظہور حضرت اُمُّ المؤمنین کے وجود مبارک کے ذریعہ بشکل پہل حضرت امیرالمومنین کے وجود میں ہوا اور حضرت میر محمد اسحق بھی اس میں شامل ہیں۔
(۴) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک الہام میں حضرت میر محمد اسحق صاحب پر ہونے والے امراض کے جانستاں حملوں کی خبر دی اگرچہ اس وقت عام قاعدہ کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ الہام کس کے متعلق ہے مگر واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ الہام میر محمداسحق صاحب ہی کے متعلق تھا اور وہ الہام یہ ہے:
’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بجائے گا‘‘۔ ۶؎
حضرت میر صاحب کی زندگی میںخطرناک حملے جو بیماری کے ہوئے وہ چھ تھے اور چھٹا حملہ بالآخر جانستان ثابت ہوا۔ حضرت میر صاحب مرحوم اپنی شدید علالت کے حملوں کا شمار رکھتے تھے ان کے مخلص اور خاص احباب اور اہل بیت جانتے ہیں کہ وہ اس الہام کو اپنی نسبت یقین کرتے تھے اور فرماتے کہ چھٹا حملہ جانستان ہو گا۔ چنانچہ ایسے حملے جو موت کا پیغام ہو سکتے تھے۔ ان پر پانچ مرتبہ ہوئے اور خداتعالیٰ نے ان کو اپنے وعدہ کے موافق نجات دی لیکن یہ آخری حملہ جو چھٹا تھا جب ہوا تو جان لیوا ثابت ہوا۔ وَکَانَ اَمَراًمَقْضِیٍّا۔ یہ الہام ۱۹۰۶؁ء کا ہے اور اس کے بعد ۳۸ سال تک آپ زندہ رہے اور اس عرصہ میں پانچ شدید حملے ہو کر آپ شفا یاب ہوئے اور آخری میں واصل بحق ہو گئے۔
یہ خصوصیت اور امتیاز خاص رنگ رکھتا ہے جس سے میر صاحب کے مقام عنداللہ کا پتہ لگتا ہے اور پھر یہ عجیب بات ہے کہ سلسلہ کے دورِ ترقی اور عہدِ فضل میں بھی ایک عظیم الشان بشارت میں خداتعالیٰ نے ان کو شریک فرمایا اس سے میری مراد یہ ہے کہ حضرت امیرالومنین خلیفہ الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جو رویا سلسلہ میں آنے والے انقلاب کے متعلق ہوا۔ اس میں بھی حضرت میر محمد اسحق صاحب کا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے ایک ایسا فعل کرا دیا جو وَامْتَا زُوااْلیوَمَ اَیَّھُا المُجْرِمُوْنَ کا دن تھا۔ اس سے میری مراد وہ واقعہ ہے جو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہوا۔اور جس میں خلیفہ اور انجمن کی پوزیشن کا سوال پیدا ہوا تھا۔ انہیں ایام میںحضرت امیرالمومنین کو ایک رویا ہوئی۔
میں مناسب سمجھتا ہوںکہ واقعات کو سمجھنے کے لئے اس کی کسی قدر تفصیل آئینہ صداقت سے کر دوں۔
’’جب حضرت مسیح موعود کی وفات پر آپ کو خلیفہ تجویز کیا گیا تو مولوی صاحب ٭ کو بہت بُرا معلوم ہوا اور آپ نے انکا ر بھی کیا اور پیش کیا کہ خلافت کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے۔ مگر جماعت کی عام رائے کو دیکھ کر اور اس وقت کی بے سروسامانی کو دیکھ کر دب گئے اور بیعت کر لی۔ بلکہ اس اعلان پر بھی دستخط کر دیئے جس میں جماعت کو اطلاع دی گئی تھی کہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ الوصیتہ کے مطابق خلیفہ مقرر ہوئے ہیں۔ مگر ظاہری بیعت کے باوجود دل نے بیعت کا اقرار نہیں کیا اور اپنے ہم خیالوں اور دوستوں کی مجلس میں اس قسم کے تذکرہ شروع کر دیئے گئے جن میں خلافت کا انکا رہوتا تھا اور اس طرح ایک جماعت اپنے ہم خیالوں کی بنا لی۔ خواجہ کمال الدین سب سے بہتر شکار تھا جو مولوی محمد علی صاحب کو ملا( کیونکہ وہ خود اس فکر میں تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کو اپنا ہم خیال بنائیں اور اس کی سب سے بہتر صورت یہی تھی کہ وہ خود مولوی محمد علی صاحب کے خاص خیالات میں ان کے شریک ہو جاویں)۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود کی وفات کو ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میںمجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے۔ میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی۔ جبکہ حضرت خلیفہ اوّل نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد
٭ مولوی محمد علی صاحب
تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہو گی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کاحق غلاموں کو کب حاصل ہے۔ میرے اس جواب کو سن کر خواجہ صاحب بات کا رخ بدل گئے اور گفتگو اسی پر ختم ہو گئی۔ انہی ایام میںمولوی محمد علی صاحب کو بعض باتوں پر والدہ صاحبہ حضرت اُمُّ المؤمنین سے بعض شکایات پیدا ہوئیں۔ وہ سچی تھیں یا جھوٹی مگر مولوی صاحب کے دل میں وہ گھر کر گئیں اور آپ نے ان شکایتوں کا اشارۃً رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں بھی ذکر کر دیا۔ چونکہ خلافت کا مجھے موّید دیکھا گیا۔ اس لئے اس ذاتی بغض کی وجہ سے یہ خیال کر لیا گیا کہ یہ خلافت کا اس لئے قائل ہے کہ خود خلیفہ بنناچاہتا ہے۔ پس خلافت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کے خاندان خصوصاً میری مخالفت کو بھی ایک مدعائے خاص قرار دیا گیا اور ہمیشہ اس کے لئے ایسی تدبیریں ہوتی رہیں جن کے ذکر کرنے کی نہ یہاں گنجائش ہے نہ فائدہ۔
’’اسی عرصہ میں جلسہ سالانہ کے دن آ گئے جس کے لئے مولوی محمد علی صاحب کے احباب نے خاص طور پر مضامین تیار کئے اور یکے بعد دیگرے انہوں نے جماعت کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ خدا کے مامور کی مقررہ کردہ جانشین اور خلیفہ صدرانجمن احمدیہ ہے جس کے یہ لوگ ٹرسٹی ہیں اور اس کی اطاعت تمام جماعت کے لئے ضروری ہے مگر اس سبق کو اس قدر لوگوں کے مونہوں سے اور اس قدر مرتبہ دہرایا گیا کہ بعض لوگ اصل منشاء کو پا گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اصل غرض حضرت خلیفہ اوّل کو خلافت سے جواب دینا ہے اور اپنی خلافت کا قائم کرنا، صدر انجمن احمدیہ کے چودہ ممبروں (میں) سے قریباً آٹھ مولوی محمد علی صاحب کے خاص دوست تھے اور بعض اندھا دھند بعض حسن ظنی سے ان کی ہر ایک بات پر آمنّا و صدقنّا کہنے کے عادی تھے۔ صدر انجمن احمدیہ کی خلافت سے مراد درحقیقت مولوی محمد علی صاحب کی خلافت تھی جو اس وقت بوجہ ایک منصوبہ کے اس کے نظم و نسق کے واحدمختار تھے۔ بعض ضروری کاموں کی وجہ سے مجھے اس سال جلسہ سالانہ کے تمام لیکچروں میں شامل ہونے کا موقعہ نہ ملا اور جن میں شامل ہونے کا موقعہ ملا بھی۔ ان کے سنتے وقت میری توجہ اس بات کی طرف نہیں پھری۔ مگر جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے بعض لوگوں نے ان کی تدبیر کو معلوم کر لیا تھا اور اب ان کے دوستوں کے حلقوں میں اس امر پرگفتگو شروع ہوگئی تھی کہ خلیفہ کا کیا کام ہے۔ اصل حاکم جماعت کا کون ہے۔ صدرانجمن احمدیہ یا حضرت خلیفۃ المسیح اوّل مگر خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے اب بھی اس کا کچھ علم نہ تھا۔ اب جماعت میں دو کیمپ ہو گئے تھے۔ ایک اس کوشش میں تھا کہ لوگوں کو یقین دلایا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور دوسرا اس پر معترض تھا اور بیعت کے اقرار پر قائم تھا۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کو ان بحثوں کا کچھ علم نہ تھا اور میں بھی ان سے بالکل بے خبر تھا۔ حتیّٰ کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے پاس میر محمد اسحق صاحب نے کچھ سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی۔ ان سوالات کو حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیج دیا کہ وہ ان کا جواب دیں۔ مولوی محمد علی صاحب نے جو کچھ جواب دیا وہ حضرت خلیفہ اوّل کو حیرت میں ڈالنے والاتھا کیونکہ اس میں خلیفہ کی حیثیت کو ایسا گرا کر دکھایا گیا تھا کہ سوائے بیعت لینے کے اس کا کوئی تعلق جماعت سے باقی نہ رہتا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اس پر حکم دیا کہ ان سوالوں کی بہت سی نقلیں کر کے جماعت میں تقسیم کی جاویں اور لوگوں سے ان کے جواب طلب کئے جاویں اور ایک خاص تاریخ ۳۱ جنوری ۱۹۰۹؁ء مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے قائم مقام جمع ہو جاویں تا کہ سب سے مشورہ لیا جائے اس وقت تک بھی مجھے اس فتنہ کا علم نہ تھا حتیّٰ کہ مجھے ایک رئویا ہوئی جس کامضمون حسبِ ذیل ہے۔
فتنہ کی اطلاع بذریعہ رئویا
’’میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے۔ اس کے دو حصہ ہیں۔ ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نامکمل۔ نامکمل
حصہ پر چھتپڑ رہی ہے۔ کڑیاں رکھی جا چکی ہیں مگر اُوپر تختیاں نہیں رکھی گئیں اور نہ مٹی ڈالی گئی ہے۔ان کڑیوںپر کچھ بھوسا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحق صاحب میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب اور ایک اور لڑکا جو حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا رشتہ دار تھا اور جس کا نام نثار احمد تھا اور جو اب فوت ہو چکا ہے۔ (اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے) کھڑے ہیں۔ میر محمد اسحق صاحب کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیںمیں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھوسا جلایا تو جائے گا ہی۔ مگر ابھی وقت نہیں۔ ابھی نہ جلائیں۔ ایسا نہ ہو بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں اس پر وہ اس ارادہ سے باز رہے اور میں اس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا۔ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشہ دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں مگر اس خیال سے کہیں میں واپس نہ آ جائوں جلدی کرتے ہیں اور جلدی کی وجہ سے دیا سلائی بجھ جاتی ہے۔ میں اس بات کو دیکھ کر واپس دوڑا کہ ان کو روکوں۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہاں تک پہنچتا۔ ایک دیا سلائی جل گئی اور اس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی۔ میں دوڑ کر آگ میں کود پڑا اور آگ کو بجھا دیا۔ مگر اس عرصہ میں کہ اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا چند کڑیوں کے سرے جل گئے۔ میں نے یہ رئویا مکرمی مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے بیان کی۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہو گئی ہے۔ کچھ واقعہ انہوں نے بتایا مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھا یا وہ اس وقت بتا نہ سکے۔ میں نے پھر یہ رئویا لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے جواب دیا کہ خواب پوری ہوگئی۔ میرمحمد اسحق صاحب نے چند سوال لکھ کر دیئے ہیں۔ جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جائیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ مجھے اس فتنہ کا علم ہوا اور وہ بھی ایک خواب کے ذریعہ اس کے بعد وہ سوالات جو حضرت خلیفۃالمسیح نے جواب کے لئے لوگوں کو بھیجنے کا حکم دیاتھا مجھے بھی ملے اور میں نے ان کے متعلق خاص طور پر دعا کرنی شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے جواب کے متعلق ہدایت چاہی۔ اس میں شک نہیں کہ میں حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کر چکا تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ میں خلافت کی ضرورت کا عقلاً قائل تھا۔ مگر باوجود اس کے میں نے اس امر میں بالکل مخلع بالطبع ہو کر غور شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا میں لگ گیا کہ وہ مجھے حق کی ہدایت دے۔ اس عرصہ میں وہ تاریخ نزدیک آ گئی جس دن کہ جوابات حضرت خلیفۃ المسیح کو دینے تھے۔ میں نے جو کچھ میری سمجھ میں آیا لکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح کو دے دیا۔ مگر میری طبیعت سخت بیقرار تھی کہ خدا تعالیٰ خود کوئی ہدایت کرے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے سخت ابتلا کے دن تھے۔ دن اور رات غم اور رنج میں گزرتے تھے کہ کہیں میں غلطی کر کے اپنے مولیٰ کو ناراض نہ کر لوں۔ مگر باوجود سخت کرب اور تڑپ کے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہ معلوم ہوا۔
۳۱ جنوری ۱۹۰۹؁ء کا معرکۃ الآراء دن
’’حتیّٰ کہ وہ رات آگئی جس کی صبح کو جلسہ تھا۔ لوگ چاروں طرف سے
جمع ہونے شروع ہوئے۔ مگر ہر ایک شخص کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ آنے والے دن کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے۔ بیرون جات سے آنے والے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو یہ امر سمجھانے کی پوری طرح کوشش کی گئی ہے کہ اصل جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے اور خلیفہ صرف بیعت لینے کے لئے ہے اور تمام راستہ بھر خاص طور پر یہ بات ہر ایک شخص کے ذہن نشین کی گئی ہے کہ جماعت اس وقت سخت خطرہ میں ہے۔ چند شریر اپنی ذاتی اغراض کو مدنظر رکھ کر یہ سوال اٹھا رہے ہیں اور جماعت کے اموال پر تصرف کر کے من مانی کاروائیاں کرنی چاہتے ہیں۔ لاہور میں جماعت احمدیہ کاایک خاص جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر کیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے۔ اصل جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑ جاوے گی اور سلسلہ تباہ ہو جاوے گا اور سب لوگوں سے دستخط لئے گئے کہ حسب فرمان حضرت مسیح موعود جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے۔ صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سکرٹری انجمن احمدیہ لاہور اور بابو غلام محمد صاحب فورمین ریلوے دفتر لاہور نے دستخط کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیۃ اللہ رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے جو کچھ وہ کہے گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گے۔ غرض محضر نامہ تیار ہوئے لوگوں کو سمجھایا گیا اور خوب تیاری کر کے خواجہ صاحب قادیان پہنچے چونکہ دین کا معاملہ تھا اور لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت اگر تم لوگوںکا قدم پھسلا تو بس ہمیشہ کیلئے جماعت تباہ ہوئی۔ لوگوں میں سخت جوش تھا اور بہت سے لوگ اس کام کے لئے اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار تھے اور بعض لوگ صاف کہتے تھے کہ اگر مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) نے خلاف فیصلہ کیا تو ان کو اُسی وقت خلافت سے علیحدہ کر دیا جاوے گا۔ بعض خاموشی سے خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے منتظر تھے۔ بعض بالمقابل خلافت کی تائید میں جوش دکھا رہے تھے اور خلافت کے قیام کیلئے ہر ایک قربانی پر آمادہ تھے۔ عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ باہر سے آنے والے خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تلقین کے باعث قریباً سب کے سب اور قادیان کے رہنے والوں میں سے ایک حصہ اس امر کی طرف جھک رہا تھا کہ انجمن ہی جانشین ہے۔ گو قادیان کے لوگوں کی کثرت خلافت سے وابستگی ظاہر کرتی تھی۔
نہایت خطرناک حالت
’’ایسے وہ برادران جو بعد میں سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے ہوں اور جنہوں نے وہ درد اور تکلیف نہیں دیکھی
جو اس سلسلہ کے قیام کے لئے مسیح موعودنے برداشت کی اور ان حالات کا مطالعہ نہیں کیا جن میں سے گزر کر سلسلہ اس حد تک پہنچا ہے۔ آپ لوگ اس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو اس وقت احمدیوں پر طاری تھی۔ سوائے چند خود غرض لوگوں کے باقی سب کے سب خواہ کسی خیال یا کسی عقیدہ کے ہوں۔ مردہ کی طرح ہو رہے تھے اور ہم میں سے ہر ایک شخص اس امر کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ اور اس کے اہل وعیال کولہو میں پیس دئے جاویں بہ نسبت اس کے کہ وہ اختلاف کا باعث بنیں۔ اس دن دنیا باوجود فراخی کے ہمارے لئے تنگ تھی اور زندگی باوجود آسائش کے ہمارے لئے موت سے بدتر ہو رہی تھی۔ مَیں اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی اور صبح قریب ہوتی جاتی تھی کرب بڑھتا جاتا تھا اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعا کرتا تھاکہ خدایا میں نے گو ایک رائے کو دوسری پر ترجیح دی ہیمگر الٰہی میں بے ایمان بننا نہیں چاہتا۔ تو اپنا فضل کر اَور مجھے حق کی طرف ہدایت دے مجھے اپنی رائے کی پچ نہیں۔مجھے حق کی جستجو ہے۔ راستی کی تلاش ہے۔… دعا کے دوران میں مَیں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ اگر خدا تعالیٰ نے مجھے کچھ نہ بتایا تو میں جلسہ میں شامل ہی نہ ہوں گا تا کہ فتنہ کا باعث نہ بنوں۔ جب میرا کرب اس حد تک پہنچا تو خدا کی رحمت کے دروازے کھلے اور اُس نے اپنی رحمت کے دامن کے نیچے مجھے چھپا لیا میری زبان پر یہ لفظ جاری ہوئے کہ قل مایعبؤبکم ربی لولا دعاؤکم یعنی ان لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارا رب تمہاری پرواہ کیا کرتا ہے اگر تم اس کے حضور گر نہ جائو۔ جب یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے تو میرا سینہ کھل گیا اور میں نے جان لیا کہ میرا خیال درست ہے کیونکہ اس آیت کریمہ قُلْ یعنی کہہ کا لفظ بتاتا ہے کہ میں یہ بات دوسروں کو کہہ دوں۔ پس معلوم ہوا کہ جو لوگ میرے خیال کے خلاف خیال رکھتے ہیں ان سے خدا تعالیٰ ناراض ہے نہ مجھ سے۔ تب میں اُٹھا اور میں نے خدا تعالیٰ کا شکر کیا اور میرا دل مطمئن ہو گیا اور میں صبح کا انتظار کرنے لگا‘‘۔ ۷؎
سلسلہ کی تاریخ میں یہ ایک عظیم الشان دن ہے اور اس دن کی بنیاد میر محمد اسحق صاحب کے چند سوالات سے ہوئی جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی خدمت میں تحریراً پیش کئے تھے اور خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو قبل از وقت ایک رئویا کے ذریعہ اطلاع دی اور اس رئویا میں حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ کے کارنامے کا ذکر تھا۔
اس میں شک نہیں کہ اسی دن ایک فتنہ نمودار ہو گیا اور بہ ظاہر وہ آگ دبا دی گئی لیکن وہ بجھ نہ سکی کیونکہ خدا کی مشیت یہی تھی۔ خاکسار عرفانی کبیر بھی اس جنگ میں صف اوّل میں کھڑا تھا اور خدا تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ وہ خلافت کے پرچم کا ایک خادم ہو کر کھڑا تھا اور وہ عرصہ سے ان دبے ہوئے شراروں کو محسوس کرتا تھا چنانچہ ایک موقعہ پر اس نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے بہ کمال جرأت عرض کیا کہ حضرت آگ بجھانے سے بجھتی ہے۔ محض دبانے سے نہیں۔ ہوا لگنے پر پھر سلگ اُٹھتی ہے حضرت مغفور نے اپنی ایک تقریر میں میرے اس فقرہ کو دہرایا اور آخر وہ دبائی ہوئی آگ اپنے وقت پر پھر سلگ اٹھی اور اس نے ان چند کڑیوں کو جلا دیا جو حضرت امیر المومنین کو دکھائی گئی تھیں۔
الغرض حضرت میر محمد اسحق صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ کشوف بتا دیا تھا اور حضرت امیر المومنین خلیفہ ثانی کو بھی۔ حضرت امیرالمومنین کے کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص انقلاب آنے والا تھا۔ خلافت کے صحیح مقام اور شان کو واضح کرنے کیلئے ضروری تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے عہد ہی میں ایسا واقعہ پیش آتا۔ یہ کسی سازش یا قبل از وقت سوچی ہوئی تجویز کا نتیجہ نہ تھا بلکہ میں تو اس کو ایک خدائی فعل یقین کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے خوف سے نہ ڈرنے والوں نے اس تحریک کو خاکسار عرفانی کبیر کی سازش اور منصوبہ قرار دیا اور یہ سراسر جھوٹ ہے اور یہ افتراء انہوں نے محض اس بناء پر کیا کہ وہ جانتے تھے کہ میں خلافت حقہ راشد کا حامی اور خادم ہوں اور انجمن کو میں نے کبھی مطاع نہیں سمجھا تھا۔
اس جگہ اس کے متعلق کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں بلکہ یہ واقعہ تو صرف حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ کے امتیازی مقام کے اظہار کے ضمن میں آگیا۔
حضرت نے نہ کسی سے اس کے متعلق مشورہ کیا اور نہ کسی انسان نے تحریک کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دل میں ڈالا اور انہوں نے چند سوالات مرتب کر کے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیئے اور اس طرح وہ پھوڑا جو اندر ہی اندر ناسور کی شکل اختیار کر رہا تھا پھوٹ گیا۔ وللّٰہ الحمد
(عرفانی کبیر)

حوالہ جات
۱؎ روزنامہ الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۴ء
۲؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۵۰۵ بحوالہ الحکم جلد۹ نمبر۱۷ صفحہ۱۔ بدر جلد نمبر۱ نمبر۲ صفحہ۱
۳؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۵۰۵ بحوالہ الحکم جلد۹ نمبر۱۸ صفحہ۱ ۔ بدر جلد نمبر۱ نمبر۲ صفحہ۱
۴؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۵۳۸ بحوالہ بدر جلد۲ نمبر۶ صفحہ۵ پرچہ ۹ فروری ۱۹۰۶ء
۵؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۵۴۴۔ بدر جلد۲ نمبر۱۱ و الحکم جلد۱۰ نمبر۹
۶؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۶۴۹ بحوالہ الحکم جلد۱۰ نمبر۳۳۔ بدر جلد ۲ صفحہ۳۸
۷؎ آئینہ صداقت صفحہ۱۲۷ تا ۱۳۲













حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ کی وفات پر قومی تاثرات










تمہیدی نوٹ
یاد داری کہ وقت زادنِ تو

ہمہ خنداں بوند تو گریاں
آنچناں زی کی وقت مردنِ تو

ہمہ گریاں بوند تو خنداں
سعدی علیہ الرحمۃ نے انسانی زندگی کی عملی حالت کا نقشہ یوم پیدائش سے لے کر وفات تک کا بیان کر دیا ہے اور اس میں بتایا ہے کہ انسان کو دنیا میں اپنی زندگی کس طرح بسر کرنی چاہئے۔ جو شخص اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت اور بھلائی کا کام کرتا ہے اور خدمتِ خلق ہی اس کا نظامِ عمل بن جاتا ہے۔ یقینا اس کی موت ایک جماعت کو سوگوار بنا دیتی ہے۔ حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ ایک ایسے ہی بزرگ تھے کہ جن کی وفات کو جوانوں، بوڑھوں، عورتوں، بچوں، اپنوں، اور عزیزوں نے یکساں محسوس کیا اس لئے کہ ان کی زندگی کا نصب العین ایک ہی تھا کہ وہ ہر رنگ میں خدمتِ خلق کرنا جانتے تھے اور اس کے لئے ہر وقت بخنداں پیشانی تیار رہتے تھے اور یہ خیال تھا کہ اس خدمت کے لئے کسی شکر گزاری ستائش اور داد کے متمنی نہ ہو تے تھے۔ میں نے میر محمد اسحق کا بچپن ان کی جوانی اور بڑھاپے کا زمانہ دیکھا۔ میں نے زندگی کے مختلف مراحل میں سے اسے گزرتے ہوئے پایا مگر اسی جذبہ کو ہر حالت میں کار فرما دیکھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بڑے بڑے علماء اور اکابر کو پیدا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیض صحبت سے تربیت یافتہ بزرگوں کو مستثنیٰ کر کے میں کہوں گا کہ اگر یہ سوال ہو کہ بلحاظ جامعیت ہم کس کو سرفہرست درج کریں تو میں بلا خوف تردید حضرت میر محمد اسحق کا نام لکھ دوں گا میں اپنے اس دعویٰ پر ایک تفصیلی اور مدلل مقالہ لکھ سکتا ہوں مگر سیرۃ اُمُّ المؤمنین میں چند اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آج نہیں کل کل نہیں پرسوں وہ حالات ہدیہ قارئین کرام ہو جائیں گے اس لئے کہ ایسے لوگوں کی زندگی موت کے پردے میں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ موت کے دروازہ سے داخل ہو کر ان کی غیر فانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات پر احباب و بزرگان سلسلہ کے تاثرات کا سلسلہ بھی دراز ہے مگر میں صرف چند مضامین پر اکتفا کروں گا اور اس سے اندازہ ہو سکے گا کہ حضرت میر صاحب کا ہماری جماعت میں کیا مقام تھا اور وہ مقام محض ان کی اس قربانی اور ایثار کا نتیجہ تھا جو وہ سلسلہ کے لئے رکھتے تھے۔ میں انہیں زندہ یقین کرتا ہوں اور میں انہیں شہید سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک سلسلہ کی خدمت کی۔
ہر گز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
(عرفانی کبیر)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی تقریر
حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کی وفات پر اپنے آ پ کو خدمت دین کیلئے وقف کر دو

۱۷، مارچ نماز مغرب کے وقت حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات ہوئی۔ مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھانے کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حسبِ ذیل تقریر فرمائی۔
’’اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص کو اپنے قریب کی چیزوں کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور جو چیز بعید کی ہوتی ہے اس کا احساس اس کو کم ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو صحابہ کرام کے لئے وہ ایک موت کا دن تھا۔ مگر جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہوئے تو وہ تابعین جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا تھا اور اسلام حضرت ابوبکرؓ سے سیکھا تھا ان کو اس وفات کا شدید ترین صدمہ ہوا۔ ویسا ہی صدمہ جیسا کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ہوا تھا اسی طرح ایک کے بعد ایک زمانہ کے لوگ گزرتے چلے گئے اور جب سارے گزر گئے تو کسی وقت عالم اسلامی کے لئے حسن بصری یا جنید بغدادی کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی۔ جیسی صحابہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات۔ مگر یہ احساس نتیجہ تھا اس بات کا کہ حسن بصری اور جنید بغدادی جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شاذ پیدا ہوتے تھے۔ اگر ساری اُمت ہی حسن اور جنید ہوتی تو وہ درد اور وہ چبھن جو ان بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں یوں بلند نہ ہوتیں۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ رونا بھی جانتے ہیں۔ اظہار غم کرنا بھی جانتے ہیںمگر اکثر لوگ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنا نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حزن و غم کی چادر پڑی رہتی ہے۔ اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگے ہوتے تو دنیا کا عرفان اور علم ایسے بلند معیار پر آ جاتا کہ کسی قابلِ قدر خادم اسلام کی وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے یہ کبھی نہ ہوتا۔ میر محمد اسحق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا، تو ان کوتھا رات دن قرآن و حدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا۔ وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بار موت کے منہ سے بچے۔ جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار اُن پر نمونیہ کا حملہ ہوا۔ ایسے شخص کی وفات پر طبعاً لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا۔ جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہو تو کسی کارکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کر رہے ہیں۔ عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا۔
’’موت کا رنج تو لازمی بات ہے مگر یہ رنج مایوسی پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر شخص ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے وقت پر چاروں کونوں کو سنبھال لیا تھا۔ احباب کی اس غلطی کی وجہ سے کہ ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد نمائندہ تصور نہ کیا اور اس کے لئے کوشش نہ کی۔ آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا نقصان ہے کہ نظر آ رہا ہے اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس طرز کے آدمی تھے۔ ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے۔ اور تیسرے اس رنگ میں میر صاحب رنگین تھے اور ان کی وفات کا بڑا صدمہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان جیسے اور لوگ جماعت میںموجود نہیں ہیں۔ اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بے شک ان کی وفات کا صدمہ ہوتا۔ ویسا ہی صدمہ جیسا ایک عزیز کی وفات کا ہوتا ہے۔ مگر جماعتی پہلو محفوظ ہوتا اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہو گیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا۔ اس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں۔ جماعت کے لوگ مایوس نہ ہوتے اور وہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائم مقام موجود ہیں مگر قحط الرجال ایسی چیز ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا اور دشمن بھی کہتا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی۔ اب اس کا کام چلانے والا کوئی نہیں لیکن اگر ایک کے بعد کام کرنے والے کئی موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بروقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی۔ جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے۔ ہم نے دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کیلئے ہزار ہا علماء درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت اتنی بڑھ رہی ہے کہ آٹھ دس علماء تو ہر وقت ایسے چاہئیں جو مرکز میں رہیں اور مختلف مساجد میں قرآن و حدیث اور کتب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا درس باقاعدہ جاری رہے اور اس طرح نظر آئے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں زندہ موجود ہیں۔ اب کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود خلیفہ اسے نہیں سنبھال سکتا اگر قرآن کریم کا درس جاری رہے تو گویا کہ زندہ خدا ہم میں موجود ہوگا اگر حدیث کا درس جاری رہے تو گھر یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں زندہ ہونگے اگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری رہے تو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں زندہ ہوں گے۔ سو یہ کتنی بڑی غفلت ہے جو جماعت سے ہوئی۔ میں تواس کا خیال کر کے بھی کانپ جاتا ہوں۔ کتنے تھوڑے لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یادگار تھے اور اب تو وہ اور بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ اگر ان کے مرنے سے پہلے پہلے جماعت نے اس کمی کو پورا نہ کیا تو اس نقصان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا جو جماعت کو پہنچے گا۔ ذرا غور کرو ہمارے سامنے کتنا بڑا کام ہے اور کتنی بڑی کوتاہی ہے جو جماعت سے ہوئی۔ پس اب بھی سنبھلو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار لوگ اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور شاید تھوڑے ہی دن ہیں۔ پھر میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کہ میری عمر کتنی ہوگی اور اعلان مصلح موعود کے پیشگوئی پوری ہونے کے بعد بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جتنا کام لینا ہو لے لیا ہو۔ پس یہ بڑے خطرات کے دن ہیں۔ اس لئے سنبھلو۔ اپنے نفسوں سے دنیا کی محبتوں کو سرد کر دو اور دین کی خدمت کے لئے آگے آئو۔ اور ان لوگوں کے علوم کے وارث بنو جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت پائی۔ تاتم آئندہ نسلوں کو سنبھال سکو۔ تم لوگ تھوڑے تھے اور تمہارے لئے تھوڑے مدرس کافی تھے مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی اور ان کے لئے بہت زیادہ مدرس درکار ہیں۔ پس اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے جو شخص یہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں۔ وہ کبھی خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اسی کو ملتی ہے جو اس کا نام لے کر سمندر میں کود پڑتا ہے۔ چاہے موتی اس کے ہاتھ میں آ جائے اور چاہے وہ مچھلیوں کی غذا بن جائے۔ پس مومن کا کام عرفان کے سمندر میں غوطہ لگا دینا ہے وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اسے موتی ملتے ہیں یا وہ مچھلیوں کی غذا بنتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو تا اللہ تعالیٰ دلوں سے گھبراہٹ دور کر دے اور بشارات دیکر دلوں کو مضبوط کر دے۔ پس آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں۔ خصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی جائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلا مقدر ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹال دے اور اگر تمہارا خیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کر دے اور اپنے فضل سے ایسی سچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ ٹھوکر سے بچ جائیں۔ پس خوب دعائیں کرو اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے۔ خصوصاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بہت دعائیںکریں۔ (حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض صحابہ کے نام بھی لئے) وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا اور انہیں موقعہ ملا کہ وہ حضور علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہے خاص طور پر میرے مخاطب ہیں۔ وہ آج رات بھی اور آئندہ بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے واقعات اور ابتلاؤں سے بچائے جو کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیں اور جن سے افسردگی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور ان دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ دلوں میں ایسا عزم صمیم ہوناچاہئے کہ جس کے ماتحت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر سکیں۔ پس خوب دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کمزور لوگوں کو ٹھوکر سے بچائے اور ایسی بشارات دے کہ جو دلوں کو مضبوط کر دیں اور اطمینان پیدا کریں ایسا اطمینان کہ جو پھر کبھی نہ چھینا جائے جماعت کو کوئی ایسا نقصان نہ ہو جو ارادوں کو پست کرنے اور ہمتوں کو توڑنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ دلوں میں ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے بڑھیں اور ایسی روح پیدا ہو کہ ہم اور ہماری اولادیں اللہ تعالیٰ کے نور پر اس طرح فدا ہونے کے لئے تیار ہو جائیں کہ جس طرح برسات کی رات پروانے شمع پر قربان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قرآن کے نور کی شعاعیں ہمارے دلوں پر ڈالے اور اس نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہیں۔ انہیں اپنے فضل سے پورا فرمائے۔ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے۔ ہمارے دلوں کو ڈھارس دے ہمیں اور ہماری اولادوںکو اپنی پسندیدہ راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حتیّٰ کہ ہم اس کے ہی ہو جائیں اور کوئی چیز ہمارے اور اس کے درمیان روک نہ ہو اور کوئی چیز اس کو ہم سے جدا کرنے والی نہ ہو۔ وہ ہمارا اور ہمارا اور ہمارا ہی ہو جائے اور ہم بھی اس کے اور اس کے اور صرف اسی کے ہو جائیں۔ ۱؎
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کاذکرِ خیر جماعت احمدیہ کے بزرگوں کی زبان سے
۲۰ مارچ کو مسجد اقصٰی میں زیر صدارت جناب چوہدری فتح محمد صاحب ناظر اعلیٰ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے محامدومحاسن بیان کرنے کیلئے جو جلسہ منعقد کیا گیا۔ اس میں بعض بزرگوں نے حضرت میر صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی کے بعض نہایت سبق آموز واقعات بیان کئے جنہیں خلاصۃً درج کیا جاتا ہے۔
(۱) جناب چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے
آپ نے فرمایا میر صاحب کی وفات قابل رشک ہے۔ میرے وہ بچپن کے ساتھی تھے۔ قریباً پچیس سال ہمیں مل کر کام کرنے کا موقعہ ملا اور کسی شخص کے محاسن جتنے اس کے رفقاء پر ظاہر ہو سکتے ہیں وہ دوسروں پر نہیں ہو سکتے۔ میر صاحب مرحوم نہایت زکی فہیم اور صائب الرائے انسان تھے۔ مجھے ان پر اتنا اعتماد تھا کہ جس مجلس میں وہ موجود ہوتے میں اس میں بے فکر رہتا تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ آج ہم جو فیصلہ کریں گے وہ درست ہو گا۔ جس شام کو مرحوم بیمار ہوئے۔ اس روز ساڑھے پانچ بجے تک میرے ساتھ رہے اور جلسہ لودہیانہ کے انتظامات کا ذکر رہا۔ آخری بات جو مرحوم نے مجھ سے کی یہ تھی کہ ہماری نمازوں کے محفوظ ہونے کا انتظام ہونا ضروری ہے۔ اگر ریزرو گاڑی کا انتظام ہو جائے تو نماز میں نقص نہیں ہو سکتا۔ آپ کبھی گھبراتے نہ تھے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ساتھیوں سے لڑ پڑتے ہیں اور چڑچڑاپن دکھاتے ہیں مگر مرحوم ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اب بھی ان کا چہرہ مسکراتا ہو ا ہی میری آنکھوں کے آگے پھر رہا ہے۔
(۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب
آپ نے فرمایا کہ حضرت میر صاحب مرحوم کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ آپ نہایت ذہین اور عقلمند انسان تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں ہوئی تھی اور ان میں اور حضور علیہ السلام کے بیٹوں میں کوئی فرق نہ کر سکتاتھا۔ حضرت نانا جان مرحوم رضی اللہ عنہ نے جو نیک کام جاری کئے تھے۔ میر صاحب مرحوم نے بھی ان کو جاری رکھا۔ ناظر ضیافت کے فرائض آپ ایسی عمدگی سے ادا کرتے رہے کہ ہم لوگ ہمیشہ اس پر حیران ہوا کرتے تھے کہ وہ اتنا کام کس طرح کرتے ہیں اور اس کے صلہ میں آپ نے کبھی کوئی الاؤنس نہیں لیا۔ بارہا یہ سوال مجلس میں پیش ہوا کہ ان کے ذمہ کام بہت ہے۔ نظارت ضیافت کا کچھ الاؤنس ان کو دیا جائے مگر انہوں نے ہمیشہ انکار کیا بہت بُردبار اور متحمل انسان تھے۔ میں نے کبھی ان کو ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ اپنی رائے پر قائم رہتے تھے مگر اختلاف رائے پر ناراض نہ ہوتے تھے۔ مجلس میں ہمیں ان پر اتنا اعتماد تھا کہ میں تو کئی بار کہا کرتا تھا کہ میر صاحب آپ لکھتے جائیں ہم دستخط کر دیں گے۔ ان کے سپرد کئی کام تھے۔ ہیڈماسٹری اور نظارت ضیافت کے علاوہ قاضی بھی تھے۔ دارالشیوخ کے مہتمم تھے۔ انجمن کے ممبر تھے۔ پھر درس دیتے تھے اور اس طرح ان کے دماغ پر اتنا بوجھ تھا کہ جسے ان کا جسم برداشت نہ کر سکا اور وہ شہید ہو گئے۔
غربا کو ان سے بہت امداد ملتی تھی ایک احمدی دوست وزیر خاں صاحب فوت ہوئے تو ان کی جائیداد بھی تھی اور لڑکے بھی تھے۔ مگر ان کے ذمے وصیت کی رقم بقایا تھی۔ جو ان کے لڑکے دینا نہ چاہتے تھے اور اس طرح وہ مقبرہ بہشتی میں دفن نہ ہو سکتے تھے۔ میر صاحب مرحوم نے ان کی وصیت کا بقایا اپنے ذمہ لے لیا اور اس طرح وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہو گئے۔
(۳)جناب خلیل احمد صاحب ناصر
آپ نے کہا کہ حضرت میر صاحب بہت خوبیوں کے بزرگ تھے۔ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں کھنچی ہوئی ننگی تلوار تھے۔ اسلام اور احمدیت کے نڈر سپاہی تھے۔ ان کے وجود سے احمدیت کی تاریخ کا ایک اہم باب وابستہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ خلافت کی اہمیت سے پوری طرح واقف نہ تھی۔ اس وقت بعض ایسے افراد نے جو جماعت احمدیہ میں وجاہت رکھتے تھے۔ لوگوں کی توجہ کو اس طرف پھیرنے کی کوشش کی کہ جماعت کو خلافت کی ضرورت نہیں۔ مرحوم اس وقت۲۰ سالہ نوجوان تھے اور جب آپ نے دیکھا کہ اس طرح ایک پھوڑا اندر ہی اندر پک رہا ہے تو آپ نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خلافت کے متعلق چند سوالات لکھ کر بھیجے۔ غرض یہ تھی کہ خلافت کا صحیح مقام لوگوں کے سامنے آ جائے۔ وہ سوالات حضرت خلیفہ اوّل نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس بھیجے اور انہوں نے جو جواب دیا اس سے اس فتنہ کا پوری طرح علم ہو گیا جو اندر ہی اندر پرورش پا رہا تھا۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے ۳۱ جنوری ۱۹۰۹؁ء کا دن مقرر کر کے بیرونی جماعتوں سے نمائندے بلوائے اور اس طرح وہ پھوڑا چیرا گیا اور خلافت کے انوار و برکات کو لوگوں نے اچھی طرح سمجھ لیا۔ اگر مرحوم یہ اقدام نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ جماعت کو بہت بڑا نقصان پہنچتا۔
(۴) جناب ملک غلام فرید صاحب ایم، اے
ملک صاحب نے کہا کہ افسوس میر صاحب جو ہماری مجالس کی رونق اور کرسی صدارت کی زینت بنا کرتے تھے جن کی تقریر سننے کے لئے لوگ اس طرح کھنچے چلے آتے تھے جس طرح مقناطیس کی طرف لوہا کھنچا آتا ہے ہم سے جدا ہو گئے۔ مرحوم بڑی عظمت کے مالک تھے۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ماموں ہماری ماں سیّدہ اُمُّ المومنین مدظلہا العالی کے بھائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے برادر نسبتی ہونے کے علاوہ حضور کے رضاعی بیٹے بھی تھے کیونکہ مرحوم نے حضرت اُمُّ المؤمنین کا دودھ پیا تھا۔ مرحوم بہت بڑے خطیب اور مقرر تھے۔ عرصہ ہوا میں نے ایک رسالہ میں ان لیکچراروں کی فہرست پڑھی جن کی تقریر کو شارٹ ہینڈ میں لکھنا ممکن نہیں ان میں اوّل مولوی محمد علی صاحب مرحوم٭ اور دوسرے نمبر پر مرحوم میر صاحب کا نام تھا۔ میں نے خود حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے سنا کہ کوئی قابل سے قابل آدمی بھی اگر قرآن کریم پر اعتراض کرے تو میں اسے دو منٹ میں خاموش کرا سکتا ہوں

٭ مولانا محمد علی جوہر مراد ہیں۔
مگر میر محمد اسحق جب مجلس میں بیٹھے ہوں تو میں بہت احتیاط سے بات کرتا ہوں۔ آپ بعض ایسی خوبیاں رکھتے ہیں جو ایک دوسری کی ضد ہیں۔ مثلاً عام طور پر فلسفی اور منطقی قوت عملی بہت کم رکھتے ہیں۔ مگر آپ میں یہ دونوں صفات تھیں۔ آپ غریبوں کے بے حد ہمدرد تھے۔ ایک روزآپ احمدیہ چوک میں کھڑے تھے کہ دارالشیوخ کے بچے نماز کے لئے گزرے۔ آپ نے مولوی علی محمد صاحب اجمیری سے فرمایا کہ مولوی صاحب یہ میرا باغ ہے۔ ان کی خدمت سے زیادہ میرے لئے خوشکن کام کوئی اور نہیں۔ دارالشیوخ میں بعض بچے اندھے ہیں۔ ایک کی آنکھیں اورناک بھی خراب ہے۔ آپ لاہور کے جلسہ پر گئے تو وہاں وقت نکال کر ایک ڈاکٹر سے ملے اور اس سے پوچھاکہ اس طرح ایک بچہ ہے کیا اس کی آنکھیں اور ناک کو درست کیا جا سکتا ہے اور یہ معلوم کرکے بہت خوش ہوئے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
(۵) جناب سیّد ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ
جناب شاہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے قریباً ۲۲ سال مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ مرحوم کی قوت گویائی زبردست تھی جب بات کرتے تو معقولات نہ صرف مجسم صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتے بلکہ جذبات بھی آپ کے آنکھوں سے آب رواں بن کر بہہ پڑتے اور دوسرے دلوں میں وہی اثر پیدا کر دیتا جو آپ کے دل میں ہوتا۔
انجمن میں جب بھی کوئی مشکل سوال درپیش ہوتا تو آپ فوراً اسے نہایت احسن صورت میں حل کر دیتے۔ جلسہ ہوشیار پور کے بعد میں نے مرحوم کو اداس دیکھا۔ وجہ دریافت کی تو فرمایا میں تھکا ہوا سا ہوں۔ میں نے کہا آپ آرام کریں۔ ایسا نہ ہو صحت زیادہ خراب ہو جائے تو جواب دیا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ چند روزہ زندگی ہے۔ جو بھی خدمت ہو سکے غنیمت ہے۔ معلوم نہیں کس خدمت سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ جس روز بیمار ہوتے ہیں اس روز بھی مجلس میں شریک ہوئے اور معاملات کے طے کرنے میں پوری دلچسپی لی۔ میرے پاس مکان پر گیارہ بجے کے قریب مبارک باد کہنے کے لئے تشریف لائے اور یہ دیکھ کر کہ آپ بیمار ہیں بخار اور سردرد کی شکایت ہے میں نے دو تین دفعہ کہا کہ آپ آرام کریں بلکہ چاہا کہ میں رخصت لے لوں اور اس بہانہ سے انہیں گھر پر روک رکھوں تا انہیں آرام کا موقعہ ملے۔ مگر نہیں مانے اور فرمایا کام سے طبیعت بہلتی ہے۔ مدرسہ میں امتحان ہیں کچھ مہمان خانہ کا بھی کام ہے وہیں کچھ آرام کر لوں گا۔ آپ نے میرا مشورہ مانا نہیں میرا خیال تھا کہ آپ صدر انجمن کے اجلاس میںبوجہ بیمار ہونے کے تشریف نہیں لا سکیں گے۔ مگر جب مجلس معتمدین کے اجلاس میں گیا تو دیکھا کہ میر صاحب موصوف وہاں پہلے سے موجود ہیں۔
وہ مجلس میں محفل کی رونق تھے جو آج بے رونق ہے۔ ان کے بچپن کا زمانہ بھی مجھے یاد ہے جب وہ پتلے دبلے سے تھے اور نچلا بیٹھنا نہیں جانتے تھے۔ پھر وہ وقت بھی دیکھا کہ جب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ خلیفہ اوّل کو میں نے یہ فرماتے سنا۔ میر صاحب جب آتے ہیں تو میں محتاط ہو جاتا ہوں۔ یعنی سلسلہ اعتراضات جب ان کی طرف سے شروع ہو جاتا تو آپ کو مسکت جواب دینے میں مشکل سی محسوس ہوتی۔ وزنی اور معقول اعتراض ہوتے۔ قوت منطقی ان کی غیر معمولی تھی۔ یہی شان انکی مجلس میں ہمارے ساتھ رہی۔
ہم یہاں تعزیت کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ مگر ہماری تعزیت جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اسی طرح ہو سکتی ہے کہ میر صاحب مرحوم جیسا اسحق ہم میں پیدا ہو۔ ہمارا خدا ہر بات پر قادر ہے۔ اس لئے اس سے نعم البدل مانگیں۔ اس کے بغیر ہماری تعزیت نہیں۔ صدر انجمن کو ان کی وفات سے سخت نقصان پہنچا ہے۔
(۶) جناب مولوی عبدالرحیم صاحب درد
جناب درد صاحب نے فرمایاکہ:
مجھے کئی حیثیتوں میں مرحوم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ مجلس میں کئی بار اختلاف رائے ہوا۔ مگر میں نے مرحوم کے دل پر کبھی اس کا اثر محسوس نہیں کیا۔ پھر ایک زمانہ میں میں ناظر تعلیم و تربیت تھا اور مرحوم ہیڈ ماسٹر تھے اور اس کے باوجود مجلس کے ممبر بھی تھے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ دیگر معاملات میںتو مرحوم میری رائے کے ساتھ بعض اوقات اختلاف کر لیتے مگر محکمانہ سوال ہوتا تو ناظر کی رائے سے ہرگز اختلاف نہ کرتے۔ تقویٰ اللہ اور نظام کی شدید پابندی کے جذبہ کے بغیر ایسا ممکن نہیں اور یہ مثال ہمارے لئے قابلِ تقلید ہے۔ اختلاف رائے کے موقعہ پر بھی جو فیصلہ ہو جاتا مرحوم دیانت داری سے اس کی پابندی کرتے۔ مرحوم ناظر ضیافت تھے۔ انجمن کی طرف سے تقاضہ ہوتا تھا کہ خرچ کم کیا جائے۔ مرحوم نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی مقرر کر دی جائے۔ چنانچہ ایک کمیٹی مقرر ہوئی جس کا میں بھی ممبر تھا۔ کمیٹی نے جانچ پڑتال کی اور بعض لوگوں کے متعلق کہا کہ یہ نہ غربا میں داخل ہیں اور نہ مہمان ہیں۔ یہ لنگر خانہ سے کیوں کھانا کھاتے ہیں۔ مرحوم نے فرمایا آپ لوگ جو فیصلہ کریں گے اس کی میں تعمیل کروں گا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر سے کسی کا کھانا بند کر دوں۔
(۷) جناب مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری
حضرت سیّدہ اُمّ طاہر احمد کے دفن کے موقعہ پر بہشتی مقبرہ میں ہی حضرت میر صاحب نے مجھے فرمایا کہ آج رات کے جلسہ میں سیّدہ اُمّ طاہر احمد کی وفات کے متعلق بھی تقریر کریں اور جماعت کے جذبات کا اظہار کریں۔ چنانچہ ۶ مارچ کی شب کو حضرت میر صاحب کی صدارت میں یہ تقریر ہوئی۔ مگر کسے معلوم تھا کہ یہ مبارک انسان بھی بہت جلد ہم سے جدا ہونے والا ہے اور ہم دو ہفتے کے اندر اندر اس کی وفات پر افسردہ ہوں گے۔
آج کا یہ جلسہ کوئی رسم اور بدعت نہیں اور نہ ہمارا حق ہے کہ شریعت میں کوئی اضافہ کر سکیں۔ تعمد اور ارادہ سے ایک رسم قائم کرنا علیحدہ امر ہے اور ایک بزرگ کے بعض محاسن کا جذبات کے طبعی اثر کے ماتحت اس لئے ذکر کرنا کہ لوگ ان محاسن کی اتباع کریں بالکل علیحدہ بات ہے۔ انما الاعمال بالنیات۔ ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ سے کوئی بدعت قائم ہو۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ میرے استاد ہیں۔ ان کی شفقت و مہربانی سے تمام شاگرد واقف ہیں۔ ان کے احسانات بھلائے نہیں جا سکتے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص نیک علم سکھائے تو جب تک لوگ اس پر عمل پیرا رہیں اس سکھانے والے کو اجر ملتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت میر صاحب کا صدقہ جاریہ ہے۔ علاوہ مفوضہ تعلیمی شغل حضرت میر صاحب مسجد اقصیٰ میں بخاری شریف کا درس دیتے تھے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس محبت اور والہانہ عقیدت سے ذکر فرماتے کہ قلوب میں رقت پیدا ہو جاتی اور اس مجلس میں سننے والے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے سرشار ہو کر جاتے۔
حضرت میر صاحبؓ کی زندگی کے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک ان کی زندگی کو دو لفظوں میں یوں ادا کیا جا سکتا ہے کہ وہ باطل و غلط عقائد کے خلاف ننگی تلوار تھے۔ اور خدا اَور رسول صلعم کے ذکر کے موقع پر رَجُلٌ بکّائٌ (بہت گریہ کرنے والے انسان) تھے۔ اس ذیل میں بیسیوں واقعات اور مثالیں ذکر کی جا سکتی ہیں۔ حضرت میر صاحبؓ کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ مگر علمی خدمات کے علاوہ حضرت میر صاحب کی ایک امتیازی خوبی مسکین پروری بھی تھی۔ اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم سب جو حضرت میر صاحب کے علمی احسانات کے زیر بار ہیں۔ جماعت کے مساکین و یتامی کے لئے دارالشیوخ کے نام سے ایک مناسب حال عمارت حضرت میر صاحبؓ کے صدقہ جاریہ کے طور پر تعمیر کریں۔ اس وقت بھی ہم دعا کریں اور آئندہ بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ میر صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے بچوں کا خود متکفل ہو۔ آمین
(اس موقعہ پر حاضرین نے تعمیر دارالشیوخ کی تجویز سے اتفاق کیا)
آخر میں مولوی صاحب نے نہایت اہم امر کی طرف احباب کو توجہ دلائی انہوں نے کہا کہ:
میں بزرگوںاور بھائیوں کو اس ضروری امر کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ نے اپنے خطبہ اور ایک تقریر میں ذکر فرمایا ہے کہ مجھ پر مصلح موعود کے بارے میں انکشاف کا یہ مطلب نہیں کہ میں زیادہ دیر تک زندہ بھی رہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بہرحال مجھ پر اظہار کر دیا ہے کہ پیشگوئی کا تو ہی مصداق ہے۔
بھائیو! حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کے اس اعلان سے ہمیں بیدار ہو جانا چاہئے۔ اگرچہ یہ ایک امکانی بات کا بیان ہے مگر جہاں محبت ہوتی ہے انسان امکان سے بھی گھبرا جاتا ہے۔
یک عشق است و ہزار بدگمانی
اکثر احباب نے تو اس اعلان کو سن کر ہی خاص دعائوں کی طرف توجہ کر دی ہوگی۔ ممکن ہے بعض دوستوں نے اس خطرہ کو نہ سمجھا ہو۔ اس لئے میں التجا کرتا ہوں کہ ان دنوں خصوصیت سے ہمارا فرض ہے کہ تہجد میں اور دوسری نمازوں میں بارگاہ ایزدی میں عاجزانہ دعائیں کریں تا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں مصلح موعود کے دور سے نوازا ہے۔ وہ اپنے رحم و کرم سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور حضور کو صحت و عافیت سے رکھے اور درازی عمر عطا فرمائے۔ آمین
احباب اس ضروری امر کے لئے بالالتزام دعا فرماتے رہیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء ۲؎
حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ
ہمارے پیارے مسیح نے جو راستبازوں کا راستباز تھا (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کیا ہی سچ فرمایا ہے کہ
’’قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے‘‘
بیشک قمر نہایت خوبصورت چیز ہے بلکہ خوبصورتوں کی خوبصورتی کو بڑھانے والی چیز ہے۔ جب کہ وہ اپنی روشنی ان کے چہروں پر ڈالتا ہے اور ان کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ لیکن یہ خوبصورت اور خوبصورتی دہندہ چیز تب ہی بھلی معلوم ہوتی ہے جب کہ اندرونی راحت کے ساتھ ظاہری خوبصورتی بھی میسر ہو۔ لیکن ہمارا پیارا قرآن تو وہ چاند ہے جو ایک سیاہ فام حبشی کے دل کو بھی ایسا منور کر دیتا ہے کہ وہ شمع بن کر ہزاروں کو روشنی بخشتا اور ہزاروں اس پر پروانہ وار قربان ہونے لگتے ہیں۔ مگر اس کی خوبصورتی کا کیا اندازہ کیا جا سکتاہے جو ایک طرف تو خود چاند کی طرح خوبصورت ہو۔ دوسری طرف اس پیارے چاند جس کی شان میں پیارے مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
از مشرق معانی صدہا دقائق آورد
قد ہلال نازک زاں نازکی خمیدہ
نے اس کے دل کو روشن کر دیا ہو اور اس طرح اس کے رگ و ریشہ میں روشنی بھرگئی ہو۔ گویا نورٌ علیٰ نور ہے۔ یہ تھاہمارا پیارا اسحق۔ یہ تھا ہمارا چاند جو کل طلوع ہونے کے وقت چھپ گیا اور ہماری ترستی ہوئی آنکھوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلیٰ ترین روشنی حاصل کرنے کے لئے مبدء الانوار کے قریب میں چلا گیا۔ ہم باوجود اس کی روشنی سے محروم ہو جانے کے پیارے قرآن کی باطنی روشنی کے اثر سے یہ کہتے ہیں کہ اے اسحق! تیرا چاندوں کے چاند اور آفتابوں کے آفتاب رب العالمین کے قرب میں پہنچ کر مزید روشنی اور حسن حاصل کرنا تجھے مبارک۔ خاکسار حشمت اللہ۔ ۳؎
مَوْتُ العَالِمْ مَوت العَالَم
گلستان احمد کی خوش نوا عندلیب دینی کار زار کا ممتاز جرنیل، چوٹی کا عالم، شیخ الحدیث بہترین لکچرار۔ انتظامی امور میں غیر معمولی قابلیت کا مالک، عاشق رسول، یتیموں، مسکینوں، بیوائوں، بیکسوں اور پریشان حال لوگوں کا خاص ہمدرد، بہترین اور لائق میزبان، شاگردوں کا محسن و خیر خواہ استاد ہی نہیں بلکہ حقیقتًا ایک مشفق و مہربان باپ، اسلامی اخلاق و آداب کامجسمہ، صاحب وقار شخصیت، عوام و خواص میں ہر دل عزیز دوست و دشمن کا ممدوح، علوم اسلامیہ کا بحر مواّج حضرت میر محمد اسحق صاحب کاانتقال نہایت ہی المناک جماعتی صدمہ ہے۔ ابھی حضرت اُمّ طاہر احمد صاحبہؓ کی غمناک وفات کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے قلوب کا غم تازہ تھا کہ آناً فانًا ایک اور روح فرسا صدمہ پیش آیا جو اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ازالہ بہ ظاہر بہت مشکل ہے۔ حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ اپنے علم و فضل، اپنے زہد و اتقاء، روشن دلی اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ایک خاص انسان اور احمدیت کا درخشندہ ستارہ تھے۔
حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا مرغوب مشغلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کے مقدس حالات کی اشاعت تھی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے آپ کو حد درجہ کا عشق تھا جن اصحاب کو حضرت میر صاحبؓ کا درس حدیث سننے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ اپنے رقت آمیز طرز بیان سے حاضرین کے قلوب کو کس طرح مسحور کر لیا کرتے تھے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم کے معانی و مطالب بیان کرنے میں آپ کو کیسا یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ حدیث کا درس اس والہانہ انداز سے دیتے کہ سامعین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ ان کا پُرشوکت بیان دلوں کیلئے آبِ حیات کا کام دیتا۔ وہ اپنے دور نزدیک کے شاگردوں کو یاد رکھتے۔
۱۹۳۵؁ء میں جب میرے والد منشی محمد دین صاحب مختار عام صدر انجمن احمدیہ اور بعض دوسرے اصحاب کو پولیس نے ایک معاملہ میں حراست میں لے لیا تو حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ نے خاکسار کے بڑے بھائی شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کو لکھا:
’’کل مورخہ ۱۵/ جون ۱۹۳۵؁ء کو عید گاہ کی زمین کی حد بندی قائم کرتے ہوئے آپ کے والد صاحب اور بعض دوسرے احباب کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ مگر پھر ضمانت پر چھوڑ دیا۔ سچے سلسلوں میں ایسی خدمات کا موقعہ ملنا بھی قابل رشک ہے۔ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کے والد کو یہ موقعہ ملا ہے‘‘۔
حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے علم سے ہزار ہا انسانوں کو مستفیض کیا۔ آخر جب خدا تعالیٰ کے نزدیک آپ اپنا فرض اداکر چکے تو اس نے اپنے پاس بلا لیا اور ہم لوگ یہ بیش بہا علمی خزانہ نہایت حسرت و افسوس اور گرم آنسوئوں کے ساتھ انزل فیھا کل رحمۃ کے مقام میں دفن کر آئے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجاتہٖ فی جنت العلٰی۔ آمین
’’یکے از شاگرداں حضرت میر صاحب‘‘
خاکسار نور احمد منیر مولوی فاضل ۶؎
حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں
وہ نہایت ہی قیمتی اور مفید وجود جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالی کا بھائی ہونے کا فخر بخشا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سایہ عاطفت میں پرورش اور تربیت پائی۔ جس نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓسے دینی تعلیم حاصل کی اور جس نے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک عہد میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ اپنی زندگی کا آخری لمحہ تک خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی رضا کی خاطر قربان کر کے شہادت کے عالی شان رتبہ پر فائز ہو گیا۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ سے جو اصحاب تعارف کا شرف رکھتے ہیں اور جماعت احمدیہ کا کونسا فرد ہوگا جسے یہ شرف حاصل نہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ خدمات دین سر انجام دینے میں دن رات کس سرگرمی اور جانفشانی سے منہمک رہتے اور اس میں کس قدر فرحت اور خوشی محسوس فرماتے تھے۔ آپ دن رات میں سے صرف چند لمحات جو بشریت کے تقاضوں کے ماتحت اپنی ذات کے متعلق صرف کرنے پر مجبور ہوتے اور محنت و مشقت سے چور ہو جانے کے بعد از سر نو تازہ دم ہو کر خدمات دین ادا کرنے کے لئے اپنی ذات پر صرف کرتے۔ وہ بھی دراصل خدا کی راہ میں ہی صرف ہوتے۔ غرض آپ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی خدمت کے لئے وقف تھا۔ خدا تعالیٰ نے بھی آپ کی اس قابلِ رشک قربانی کو ایسا نوازا ایسانوازا کہ آخری لمحہ تک ان کو اپنی رضا کے حصول میں صرف کرنے کی توفیق بخشی اور آپ دنیا سے منہ موڑ لینے کے معاً بعد بارگاہ الٰہی میں جا حاضر ہوئے۔
جیسا کہ گذشتہ پرچہ میں لکھا گیا ہے۔ ۱۷/ مارچ کو صرف ۲۴ گھنٹے کی علالت کے بعد حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کا اپنے مولا سے وصال ہوگیا۔ وفات سے تھوڑی ہی دیر بعد غسل دے کر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تجویز فرمودہ خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کا لباس بارہ بجے رات کے قریب پہنا کر جنازہ حضرت میر صاحب کی رہائش گاہ کے کھلے حصہ میں رکھ دیا گیا۔ اور ۱۸/ مارچ کو باہر سے خاندان اور جماعت کے احباب کے تشریف لانے کا عصر کی نماز تک انتظار کیا گیا۔ سارا دن بہت سے مقامی اور بیرونی اصحاب جمع ہوتے رہے۔ اِردگرد کے دیہات میں خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام اطلاع دے دی گئی۔ قریباً گیارہ بجے سے احباب آخری زیارت کرنے لگے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پانچ بجے کے قریب نماز عصر مسجد مبارک میں پڑھا کر تشریف لائے۔ اس وقت آخری بار اس محبوب عام و خاص کی زیارت کرائی گئی۔ چہرہ دیکھنے سے یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس طرح نظر آتا تھا کہ نہایت آرام و اطمینان کی نیند سو رہے ہیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ جو ہر وقت آپ کے چہرہ کی زیبائش بنی رہتی تھی اس وقت بھی موجود تھی۔ اس اثناء میںحضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کسی قدر بلند آواز سے قرآنی ادعیہ کی تلاوت فرماتے رہے۔ آخر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے ارکان نے جنازہ اٹھایا اور تھوڑی دور لے جانے کے بعد باغ تک احباب جماعت نہایت اخلاص و محبت کے جذبات کے ساتھ کندھا دیتے رہے اور باری باری ثواب حاصل کرتے گئے۔
نماز جنازہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باغ میں اسی جگہ پڑھائی جہاں چند ہی روز قبل حضرت سیّدہ اُمّ طاہر احمد صاحبہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اور جہاں ابھی سفیدی کے وہ خطوط موجود تھے جو خود حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ نے ہی سیدھی صفیں باندھنے کے لئے لگوائے تھے۔
صفیں کھڑی ہونے کے بعد تعداد کا اندازہ لگایا گیا تو مردوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار معلوم ہوئی۔ نماز جنازہ نہایت رقت اور سوز کے ساتھ پڑھی گئی اور پھر جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار کے احاطہ میں شرقی سڑک کی جانب سے لے جایا گیا۔ قبر حضرت نانی اماں صاحبہ (والدہ ماجدہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) اور حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب (والد ماجد حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ ) کے پہلو میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں کھودی گئی۔ میت کو لحد میں رکھنے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب، جناب مرزا عزیز احمد صاحب، سید دائود احمد صاحب (حضرت میر صاحب مرحوم مغفور کا سب سے بڑا صاحبزادہ) اُترے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے افراد نے میت اُٹھا کر ان کے ہاتھوں پر رکھ دی اور جب وہ آخری مقام پر پہنچا کر باہر آگئے تو لحد پر اینٹیں چنی گئیں۔ اس کام میں مولوی عبدالمنان صاحب عمر خلف حضرت خلیفۃ المسیح اوّل شریک رہے۔ لحد میں رکھنے کے وقت سے مٹی ڈالنے تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نہایت رقت سے مسنون دعائیں فرماتے رہے اور دعائیں کرتے ہوئے حضور نے تین مٹھی ڈالی۔ پھر دوسرے اصحاب کو اس کا موقع دیا گیا۔ قبر مکمل ہو جانے کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت دعا فرمائی۔ لاہور، امرتسر، گورداسپور، جالندھر، کپورتھلہ، فیروزپور وغیرہ کے بہت سے اصحاب نماز جنازہ میں شریک ہونے کیلئے پہنچ چکے تھے۔ نیز اردگرد کی جماعتوں کے احباب بھی بہ کثرت شریک ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار کے احاطہ میں جنازہ کے ساتھ داخل ہونے پر اوّل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر حضرت امیرالمومنین نے دعا فرمائی۔ اور پھر حضرت سیّدہ اُمّ طاہر احمد صاحبہ مرحومہ مغفورہ کے مزار پر۔ آخر واپسی سے قبل ایک بار پھر تمام مجمع سمیت مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دعا فرمائی اور واپس تشریف لے آئے۔
دوسرے سب لوگ بھی اس محبوب اور خادم اسلام کو جس نے ساری عمر اور اپنی ساری طاقتیں سلسلہ کی خدمت میں صرف کر دیں سپردخاک اور حوالہ بہ خدا کرکے واپس آگئے۔
غرض گزشتہ جمعہ کی رات اور ہفتہ کے دن ایسا المناک منظر رونما ہوا کہ دل خدا تعالیٰ کی خشیت اور غنا سے کانپ گئے۔ چھوٹے بڑے سب کی آنکھیں بار بار اشکبار ہوئیں اور نہایت درد و سوز سے اَور بیحد کرب و الحاح سے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کی گئیں۔ حضرت سیدہ اُمّ طاہر احمد صاحبہ مرحومہ مغفورہ کی وفات کا صدمہ ابھی بالکل تازہ ہی تھا اور ان کے فیوض و برکات سے خصوصیت کے ساتھ متمتع ہونے والے خواتین کے آنسو ابھی خشک نہ ہونے پائے تھے کہ حضرت میر صاحب مرحوم و مغفور نے چپکے ہی چپکے ساری تیاری مکمل کر کے سفر آخرت اختیار فرما لیا۔ یہ دونوں وجود حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خدمت دین اور اشاعت اسلام میں نہایت مفید اور کارآمد بازو تھے۔ ان کی دینی خدمات ان کا احمدیت میں اسوۂ حسنہ اور ان کے جماعت کے لئے فیوض و برکات کا خیال کر کے جی بھر آتا ہے اور بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ مگر یہی ایسا وقت ہے جب کہ جماعت خدا تعالیٰ کے خاص برکات اور انعامات حاصل کر سکتی ہے۔ پورے طور پر خدا تعالیٰ کی رضا پر شاکر اور ان صدمات پر صابر رہ کر۔ پس جہاں ہمیں یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اے خدا ہم نے تیرے دین کے خاص خدمت گزار اور تیری راہ میں فدا ہونے والے دو خاص وجود جو تیرے سپرد کئے ہیں تو انہیں بڑے سے بڑے درجے عطا فرما وہاں یہ التجا بھی کرنی چاہئے کہ ہمیں اپنی رضا پر پوری طرح راضی رہنے کی توفیق عطا فرما اور ایسے وجود عطا فرما کہ جو اسلام کو اکناف عالم میں پھیلانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلیت رکھتے ہوں اور زیادہ سے زیادہ تیرے نور سے منور ہوں۔ آمین ۵؎
تعزیت کے بعض خطوط
۱۔بحضور حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالیٰ
مکرمہ اماںجان صاحبہ۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی جو پوری ہوئی۔ ہم لوگ جنہوں نے حضرت میر صاحب (خداتعالیٰ ان کو جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے) کے کاموں کو تھوڑا بہت دیکھا ہے۔ اور اس سلوک کا کچھ نقشہ ہمیں یاد ہے۔ جو وہ ہمارے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اب غم کے گھونٹ اندر ہی اندر پی رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں صبر کی توفیق دے۔
اماں جان۔ آپ کا لائق بھائی جماعت کا ستون اور مولا کا پیار ا،مہمان، مسافروں اور غریبوں کی خبر گیری کرنے والا۔ ہم سے جدا ہو گیا۔ اے مولا تو اسی میں راضی ہے تو ہم بھی اب اسی میں راضی ہیں۔ اے مولا تو میر صاحب کے بچوں کو میر صاحب کا حقیقی جانشین بنا۔‘‘
والسلام
خاکسار
رشیدہ پروفیسر محمد اسلم لاہور
۲۔حضرت مکرمہ اماں جان سلمہا ربہا
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل رات کے دس بجے فون پر مجھے اطلاع ملی کہ حضرت میرمحمد اسحق صاحب اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ اِنّا للّٰہ وَاِنا الیہ راجعون- آگے ہی اُم طاہر کا صدمہ ہمیں بھولنے نہ پایا تھا کہ یہ دوسرا واقعہ ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔ میرے پاس دلی احساس کو ظاہر کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت میر صاحب مرحوم کو اپنے پاس جنت میں جگہ دے۔ آمین میرے لئے آپ ضرور درد دل سے دعا فرمایا کریں۔
والسلام
ڈاکٹر میجر سیّد حبیب اللہ شاہ صاحب (سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل لاہور)
۳۔بخدمت حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب
مکرم جناب قبلہ میر صاحب۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔آج فجر کے وقت حضرت میر محمد اسحق صاحب کی اچانک وفات کی اطلاع ملی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- اس وقت تو بار بار زبان سے یہی نکلتا ہے اور دل کی کیفیات حسرت اور غم اور اندوہ اور درد کی ہیں۔ یہ صدمہ تمام خاندان نبوت کے لئے اور سلسلہ کے لئے اور خادمانِ سلسلہ کے لئے بہت سخت ہے۔ ایک سچے اور مخلص جان نثار عالم باعمل کی وفات پر دل جس قدر بھی تڑپیں قابل الزام نہیں۔ لیکن ہم نہ منہ سے کوئی ایسا کلمہ کہتے ہیں اور نہ دل میں کسی ایسے خیال کو جگہ دیتے ہیں جو ہمارے رب کو ناپسند ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ملتجی ہیں کہ وہ ارحم الراحمین اپنے اس مخلص اور سچے اور جان نثار خادم اور عاشق کو اپنی رحمت کے آغوش میں جگہ دے اور اسے اپنے انعامات سے مالا مال کرے کہ باوجود ہر وہ جوہر اور قابلیت اور اہلیت رکھنے کے جس سے انسان ترقی کر سکتا ہے۔ اس نے دنیا سے منہ موڑے رکھا اور اپنی تمام استعدادوں اور قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے دین کی خدمت کے لئے وقف رکھا۔ میر صاحب ہم سب کے لئے کس قدر اعلیٰ نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں ویسے ہی منہمک اور سرشار ہو جائیں جیسے وہ تھے۔ وہ خود ہی آپ سب کے اور ہمارے زخم خوردہ دلوں کی مرہم ہو اور مرحوم کے تمام خاندان کا کفیل اور وارث ہو اور سلسلہ کو کئی نعم البدل عطا فرمائے کہ اس کی قدرت سے کوئی بات بعید نہیں۔ آمین
’’ہم سب کی طرف سے حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں ہمارے جذبات کا اظہار فرما دیں اور میر صاحب مرحوم کے گھر میںاور ان کے عزیزان کے پاس بھی۔‘‘
والسلام
خاکسار ظفراللہ خاں ۱۸۔امان
۴۔مخدومی مکرمی حضرت میر صاحبہ قبلہ
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کی غیر متوقع خبر پہنچی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون- موصوف سلسلہ کے ایک جانباز اور مایۂ ناز فرزند تھے اور یہ سلسلہ کاایک خاص نقصان ہے مگر
ہربلا کیں قوم را حق دادہ است
زیرآں گنج کرم بنہادہ است
سیّدہ اُم طاہرکے حادثہ کے بعد بہت جلد یہ دوسرا حادثہ ایک امتحان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ ہم پر سکینت نازل فرمائے اور ہماری کمزوریوں کو معاف کرے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی معرفت اور نورایمان سے بہت بڑا حصہ بخشا ہے۔ میں آپ کو صبر جمیل کی کیا تلقین کروں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اللہ کریم کی مشیت سے کامل صلح رکھتے ہیں۔ ہاں اس پیرانہ سالی میں آپ پر مزید ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں۔ وہی رب رحیم ان کو پورا کرنے کی توفیق دے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے مقام قرب میں جگہ دے اور اس کی اولاد کو صحیح جانشین بننے کی توفیق عطا فرماوے اور اپنے فضل سے ہم پر بھی رحم فرماوے۔ میری طرف سے بیگم میرمحمد اسحق صاحب سے تعزیت کر دیں‘‘۔
خاکساریعقوب علی عرفانی ۱۸۔مارچ ۱۹۴۴؁ء
۵۔بخدمت بیگم صاحبہ میر صاحبؓ
محترمہ ممانی جان صاحبہ
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ماموں جان مرحوم (اللہ تعالیٰ انہیں جنت فردوس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میںاعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے) کی وفات کی خبر اچانک ہمیں ملی اور اس قدر تکلیف اور صدمہ کا موجب ہوئی کہ الفاظ اسے بیان نہیں کر سکتے۔ خداتعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم لوگوں کی تربیت احمدیت کی آغوش میں ہوئی ہے۔ اس لئے گوشت پوست کا دل خواہ کس قدر تکلیف ہی کیوں برداشت نہ کرے۔ روح انا للّٰہ و انا الیہ راجعونکہتی ہوئی آستانہ الٰہی پر جھکتی اور اس کی رضاء پر راضی ہوتی ہے۔ خدا کے دین کے ایک مجاہد نے اپنی ساری زندگی اس کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد اس کے دین کی خاطر کام کرتے ہوئے میدان عمل میں اپنی جان اپنے رب کے حضور پیش کی اور خدا نے اسے قبول کیا اور خود اس کی جزا بنا۔ مگر آنکھیں نمناک اور دل ہمارے دکھیا ہیں۔ اس خیال سے کہ اسلام کے اس کسمپرسی کے زمانہ میں خدا کے اسلام کا ایک مجاہد اس کے دین کا ایک اور سپاہی (جس کی زندگی ہمارے لئے صد رشک تھی جس کا نمونہ ہمارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ تھا) کم ہو گیا ہے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خاطر اپنی زندگیاں حقیقی معنی میں وقف کرنے کی توفیق عطا فرماوے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب سے وہ کام کروائے جس سے وہ راضی ہو اور جب ہم اس دنیا سے جدا ہوں تو ہمارا رب ہمیں اپنی رضا کی جنت میں اپنے ان بزرگوں کے پہلوؤں میں جگہ عنایت فرمائے جو ہم سے پہلے جام شہادت پی کر اس کے حضور حاضر ہو چکے ہیں۔ اللّٰھم اٰمین- انت مولانا ونغم الوکیل‘‘-
(صاحبزادہ حافظ) مرزا ناصر احمد
۶۔ پیاری ممانی جان
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ماموں جان کی وفات کی اچانک خبر سے سخت صدمہ ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- مجھے تو یقین نہ آتا تھا اور بڑی بے چینی اور اضطراب میں یہ گزشتہ دوچار دن گزرے ہیں۔ ماموں جان کا وجود سلسلہ کے لئے ایک بہت قیمتی وجود تھا اور ان کی اس بے وقت وفات سے سلسلہ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور اس صدمہ کے برداشت کرنے کی طاقت دے۔ پرسوں ہی میرے پاس ایک یہاں کے احمدی آئے تھے۔ بیچارے روتے رہے کہہ رہے تھے کہ باوجود اس کے کہ مشاورت اور جلسہ کے ایام میں ہزاروں آدمی باہر سے آتے تھے۔ لیکن ماموں جان کو ہر ایک کے آرام کا خیال ہوتا تھا۔ اور ہر ایک سے چلتے پھرتے پوچھتے رہتے تھے کہ کھانا کھا لیا ہے۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔
’’آپ کا درس حدیث کا شوق، مہمان نوازی اور غرباء کا خیال اور ان سے حسن سلوک اور سلسلہ کے دوسرے امور میں خدمت ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ خدا کرے کہ ماموں جان کے بچوں میں یہ روح تازہ رہے کہ ان کی روح کے لئے اس سے زیادہ خوشکن بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ کی صحت ان دنوں خراب تھی۔ مجھے بار بار اس کا خیال آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامل صحت دے تا دین کی خدمت کی توفیق کا سلسلہ جاری رہے اور اس صدمہ کے برداشت کی طاقت۔
’’مجھے بہت افسوس ہے کہ نماز جنازہ میں شمولیت سے بھی محروم رہا ۔ میں دورہ پر تھا اور خانیوال سے تار ہوتا ہوا مجھے جنازہ کے روز کوئی ایک بجے کے بعد ملا۔
طالب دعا‘‘
(صاحبزادہ) مرزا مظفراحمد (آئی سی ایس)
۷۔بنام سیّد داؤد احمد صاحب خلف حضرت میر صاحبؓ
’’عزیزی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- تمہارے والد حضرت میر محمد اسحق صاحب کے انتقال سے بہت صدمہ ہؤا۔ علالت کے سبب سے خود تعزیت سے معذور ہوں۔ عرصہ دراز سے روزانہ دعا کرتا رہتا تھا۔ کل قریباً سارا دن دعا کرتا رہا۔ مگر مشیت ایزدی یہی تھی ان کا وقت آ گیا تھا۔ ہاں غم کے ساتھ یہ اطمینان ضرور ہے کہ ان کی تمام عمر سلسلہ کی خدمت اور دین کی خدمت میں گزری اور اسی خدمت کے دوران میں انتقال کیا۔
شادی بود نوبت ماتمت
اگر بر نکوئی بود خاتمت
اللہ تعالیٰ میر صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے اور تم سب کو صبرجمیل عطا فرمائے اور سب بچوں کو دین کا خادم بنائے۔ اپنی والدہ صاحبہ اور دیگر متعلقین سے میری طرف سے تعزیت کر دینا۔ راقم (نواب) محمد علی خاں آف مالیر کوٹلہ
۸۔ گرامی گوہرو دِل نواز
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔ مکرم و محترمی صاحبزادہ میاں عبدالمنان صاحب کے تار سے اس حادثہ دل خراش و روح فرسا کی خبر مل گئی تھی جس کے اپنی زندگی میں واقع ہونے کا مجھے کبھی وہم بھی نہ گزرا تھا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
’’میاں آپ کے والد اور مجموعہ اوصاف حمیدہ و محاسن پسندیدہ والد ماجد نے وفات پائی ہے۔ ان کا بابرکت سایہ سر سے اٹھ جانا جتنا بھی موجب صدمہ واندوہ ہو کم ہے۔ لیکن ان کی وفات کا صدمہ ان کی اولاد اور قریبی رشتہ داروں تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ تمام دنیا احمدیت اس صدمہ جانکاہ میں شریک ہے اور اس میں ایسے بھی تھوڑے نہیں جو یہ خیال کرتے ہوں گے کہ اس حادثہ ہولناک کا صدمہ سب سے بڑھ کر انہیں کو ہوا ہے۔
’’بہت سے بچے اور نوجوان ان کی وفات سے یتیم اور بہت سی بیوہ خواتین دوبارہ بے سہارا ہوئی ہیں۔بہت سی مخلوق کو ایک سچے مربی ،سچے خیرہ خواہ اور سچے ہمدرد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ بہن بھائی کا بے مثل بھائی، بھانجوں بھتیجوں اور بھانجیوں بھتیجیوں کا بے نظیر ماموں اور چچا ان سے جدا ہوا ہے۔ بالآخر یہ کہ سیّد نا امام الزمان سلمہ الرحمن کے عظیم المرتبت معتمد سے دنیا خالی ہوئی ہے۔
’’کیا آپ نے ان سب کی بے چینی اور غمگینی نہیں دیکھی اور کیا اپنے اور ہم سب کے آقا و مطاع ایدہ اللہ تعالیٰ کے صدمہ و قلق کا آپ نے اندازہ نہیں کیا۔ حق یہ ہے کہ اس سانحہ عظیم کا سب سے بڑا اثر تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہی کے دل حقایق منزل پر ہو سکتا ہے۔
’’ہر شخص کا صدمہ اس کے تعلق مفاد اور معرفت کے لحاظ سے ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے الفضل کا یہ قول کہ ہم تو حضرت میر صاحب کی خوبیوں کو شمار بھی نہیں کر سکتے۔ بہت اچھا اور بالکل برمحل معلوم ہوا ہے۔ واقعی ہم ان کی خوبیوں کو شمار نہیں کر سکتے۔ یہ کام بھی ہمارے مولا ہمار ے آقا ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہی کا ہے۔ اس لحاظ سے بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر اس سانحہ کااثر ہم سب کے مجموعی اثر سے بھی کہیں زیادہ ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اسلام و مسلمین کی حفاظت و بہبودی اور قیام عظمت و شوکت کا جو خیال و جوش حضور کو ہے وہ کسی اور کو کہاں اور حضرت میر صاحب اس خیال و جوش کے جیسے دل دادہ حامی، سربکف معاون اور جان نثار مدد گار تھے۔ وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔
’’مگر آپ کی وفات حسرت آیات پر ان سب نے اور خاص کر سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا، و ہی ہم کو بھی کرنا چاہیئے۔
’’حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کا فوت ہو جانا کسی خاص فرد یا پانچ سات دس بیس افراد کا نقصان نہیں۔ بلکہ تمام سلسلہ عالیہ احمدیہ کا نقصان عظیم ہے۔ وہ یتیموں کے ملجاوماوا تھے۔ وہ مسکینوں اور محتاجوں کے ہمدرد و دستگیر تھے۔ وہ علوم دینی کے بحرز خاّر تھے۔ وہ حقائق و معارف کے دریائے ناپیداکنار تھے۔ وہ خطیب فصیح اللسان و عذب البیان تھے اور مناظر یکتاو بے ہمتا، محراب و ممبر کی ان سے زینت تھی اور کثیر خلق خدا کو ان سے راحت وہ شیدائے قرآن و حدیث اور عاشق خدا ورسول تھے۔ وہ آیات الٰہیہ میں سے ایک بہت منور آیت تھے اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے عظیم الشان حجت ، دل ان کے درد فراق سے بے قرار ہیں اور آنکھیں اشک بار لیکن
’’بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر‘‘
’’آپ ان کے خلف اکبر ہیں۔ آپ کے بھائی، چھوٹے، والدہ مکرمہ غم دیدہ و دردرسیدہ اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔ آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی اور آپ کے خیر طلب آپ سے ان اخلاقِ حمیدہ کے متوقع ہیں۔ جو حضرت میر صاحب جیسے بلند پایہ و بزرگ انسان کافر زنداکبر ہونے کے لحاظ سے آپ کے شایان شان ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ سب کو نوازے اور اپنے جامع الصفات والکمالات والد ماجد کا قائم مقام بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
’’یہاں حضرت میر صاحب کی تعزیت کا جلسہ ہوا۔ نماز جنازہ غائب بھی پڑھی گئی۔ جماعت کا ہر فرد دعا ترقی مدارج کرتا ہے اور بعض التزام کے ساتھ۔ کون ہے جس کو صدمہ نہیں پہنچا لیکن مرضی مولیٰ ازہمہ اولیٰ
’’آخر میں اس شعر پر جو اکثر زبان پر آ جاتا ہے۔ خاتمہ تحریرہے
ہو چکا اس رُخِ انور کا نظارا ہونا
چشمِ مشتاق مبارک تجھے دریا ہونا‘‘
حافظ سیّد مختار احمد شاہجہان پور
حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ
دیدہ و دل باز جوید حضرت اسحاق را
پیکر مہر و وفا سرمایۂ اخلاق را
شیخنا استاذنا جانِ من٭ و جانِ شما
دامنِ دل مے کشد ہر لحظہ ہر آنِ شما
اے دعا بامیر صاحب ایں پیامم بازگو
شد جماعت مضطرب از درد ہجرانِ شما
ایں قدر مستعجلی از بہر دیدار خدا
ویں قدر کم التفاتی بہریارانِ شما
جلسۂ سالانۂ ما باز مے آید قریب
عالمے خواہد کہ باشد باز مہمانِ شما
ہست مینار بلندش ہمچو درباں منتظر
مسجدِ اقصیٰ بخواہد درس قرآنِ شما
تشنہ کامانِ حدیثِ مصطفیٰ در مسجداند
مستَفِیْضانِ شما جویند فیضانِ شما
مدرسہ را باز مطلوب است آں نقدونظر
آہ ایں مجموعہ مے بینم پریشانِ شما
برسر ہر احمدی بردوشِ ہرخردوبزرگ
تاقیامت ہست وماند بارِ احسانِ شما
گاہ مے افتدکہ باشدیک تنے چوں صدہزار
ایں حقیقت شد عیاں از رفعتِ شانِ شما
خاکیئے نوری بگرد و آدمی گرد ملک
بودایں رازے نہاں درعلم و عرفانِ شما
ماکہ در تا پاک ِغم از ہجرتاں افتادہ ایم
در دعاہا باز مے خواہیم غفرانِ شما
مرگِ عالم راکہ مرگِ عالمے نامیدہ ایم
ما بہ چشم خویشتن ایں ماجرائے دیدہ ایم

چشم گردوں کم بہ بیند بختیارے ایں چنیں
نامدارے سرورے عالی تبارے ایں چنیں
سیّد السادات فخرِ دودمانِ عارفاں
میردرد دہلوی را یادگارے اِیں چنیں
بر سر اُو لمحہ افگن آفتاب نورِ دیںؓ
ایں چنیں تلمیذ را آموز گارے اِیں چنیں
آنکہ او را مہدیٔ ِحق زیرِ دامن پر ورید
فیض را نازم کے کردش کامگارے اِیں چنیں
جملہ اخلاص و محبت سربسر علم و عمل
احمدی اخلاق را آئینہ دارے ایں چنیں
بے تکلف بے ریا بے نفس بے خود بے غرض
مہربانے دلنوازے دوستدارے ایں چنیں
خادمِ مخدومِ ملت ناصرِ دینِ متیں
خالق و مخلوق اُو راحق گزارے ایں چنیں
ہم محققِ ہم محدث منطقی ہم فلسفی
ازہمہ فضل و ہنر سرمایہ دارے ایں چنیں
ہم مقرر ہم مبلغ ہم مصنف ہم فقیہ
خوش بیانے خوش زبانے خوش نگارے ایں چنیں
پُر معلّم پُر مُناظر پرُ سخی پُر منتظم
از برائے احمدیت جاں نثارے ایں چنیں
پُر غیور و پُر صبور و پُر دلیرو پُر شجاع
سرگروہِ یکّہ تازاں شہسوارے ایں چنیں
ہم بزیر سنگباری٭ ماندہ پایش اُستوار
ہوشمندے ایں قدر محکم حصارے ایں چنیں
ازپئے محتاج و مفلس مے نیابی درجہاں
بے قرارے دلفگارے غمگسارے ایں چنیں
قرنہا باید کہ تا اندر جہاں پیدا شود
نامبردارِ فضائل نامدارے ایں چنیں
قاطعِ اوہامِ باطل حجت اسلامیاں
برسراعدائے ملت ذوالفقارے ایں چنیں
درہمہ عالم نہ بینی جز بخاصانِ خدا
باچنیں طبع بلندے انکسارے ایں چنیں
چشمِ من بسیارگر دیداست و کمتر دیدہ است
ایں قدر گردوں و قارے خاکسارے ایں چنیں
آنکہ دربُستانِ احمد نغمۂ توحید خواند
شدہزارے ایں چنیں از نو بہارے ایں چنیں
بہر رفتن ہر نفس آمادہ و تیار باش
زندگی رانیست ہرگز اعتبارے ایں چنیں
گر زِ خود میری بہ مخدومی دمیری دارسی
برسرِ شاہی ہمانا از فقیری دارسی
چند در بند علائق پابجولاں زیستن
گاہ خنداں زیستن گہ زار نالاں زیستن


ہیچگہ فارغ نبودن از خیالِ خانماں
دزپیء فرزندوزن خاطر پریشاں زیستن
درتلاشِ چارہ جویاں دربدر حیراں شدن
تختہ مشقِ درد بودن بہرِ درماں زیستن
ازکفِ خود گم نمودن خود کلیدِ کارہا
ہمچو کافر نعمتاں من بعد پژماں زیستن
منتِ دوناں کشیدن از سر لایعقلی
کردہ ہائے خویش وا دیدن پشماں زیستن
عہد پیری در رسیدن ہوشہا رخصت شدن
دعویِٰ دانش نمودن ہمچو ناداں زیستن
قبلہء مقصود کردن عشرتِ دہ روزہ وا
جاں بجسدت در پسر دن سخت حیراں زیستن
زندگی گرایں بباشد خاک برایں زندگی
آدمی رامے نشاید ہمچو حیواں زیستن
حاصل ایں زندگی چوں نیست جز شرمندگی
زندگی باشد کہ باشد بہرجاناں زیستن
ہیچ میدانی حیاتِ عاشقاں روئے دوست
زیستن مُردن بباشد مردنِ شاں زیستن
مردِ را ہر ورا بباید اندریں مہماں سرائے
برمثال میر صاحب تا بپایاں زیستن
ابر نَیساں بود بر دارالاماں بارید و رفت
تخمِ علم و معرفت اندر جہاں کارید و رفت
تابہ گیتی گردش چرخِ کہن خواہد شدن
دل بیاد رفتگاں بیت الحزن خواہد شدن
درخط گلزار مرقوم است بر اَوراقِ گل
ہرکہ آمد لاجرم از ایں چمن خواہد شدن
نوبہارِ تازۂ ایں باغ را نجشیدہ اند
خار خارِ بوستاں گل پیرہن خواہد شدن
تخمِ اخلاص و وفا کوباغباناں کاشتند
در زماں بینی چمن اندرچمن خواہد شدن
بیخ بنیادِ نہال دشمنی برآوریم
آدم ایمن از فریب اہرمن خواہد شدن
مامنِ اسلام آید قبلہ مقصود جہاں
دیں ہمہ ریو و ریارو ما ومن خواہد شدن
زار نالی ہائے مظہر گرنباشد گو مباش
عندلیباں رابہ گل روئے سخن خواہد شدن
یا رب آں یار سفر کردہ زِما دل شادباد
تا ابد اندر جوار رحمتت آبادباد
شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپورتھلہ ۶؎
کچھ اور خطوط تعزیت
بحضور حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا العالیٰ
میری مقدس معظم محترم ماں حضرت اُمُّ المؤمنین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج عزیز مکرم غلام سرور صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ کا تار ملا۔ جس سے ہمارے بھائی حضرت میر محمد اسحق صاحب کی المناک وفات کا علم ہوا جس قدر دلی صدمہ مجھ کو اور میری بیوی کو ہوا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے قلوب مجروح اور ہمارے سینے فگار اور ہماری آنکھیں اشکبار ہیں۔ میرے ساتھ جو کچھ ہمدردی، محبت، اخلاص، شفقت حضرت میر صاحب فرمایا کرتے تھے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے دل روئیں ہماری آنکھیں اشک بہائیں اور ہم اس جدائی میں جس قدر رنج کریں کم ہیں۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول سے تسیکن پاتے ہیں کہ ’’بلانے والا ہے سب سے پیارا‘‘ اور ہم اس کی رضا پر راضی ہیں یا جیسے ہمارے مقدس پیارے امام حضرت مصلح موعود نے فرمایا ہے کہ سب سے بہتر تعزیت ہمارے رب نے ہم کو سکھائی ہے اور وہ یہ ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہی میںحضور کی خدمت بابرکت میں نہایت ادب سے پیش کرتا ہوں۔ حضور کا ادنیٰ خادم خاکسار محمد زبیر (ایم ۔بی۔بی۔ایس)
بخدمت حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب
مولانا میر محمد اسمٰعیل صاحب دام مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اماّ بعد۔ اس نئے صدمہ کا سخت قلق ہے اور آپ کے تمام خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی ہے اور دعا ہے کہ صبر جمیل خداوند کریم محض اپنے فضل سے مرحمت فرمائے۔ البتہ اس امر کا قلق رہ گیا کہ ایسا موقعہ نہیںملا کہ سیّدہ اُم طاہر کی طرح گریہ وزاری سے دعائیں کرتے۔ پھر مرضی مولیٰ پر صابر و شاکر ہو جاتے۔ اب یہی دعا ہے کہ مولا کریم مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میںترقی مدارج کے ساتھ داخل کرے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
نیاز مند عبدالماجد ا زپورینی بھاگلپور ۔بہار
محترمی! السلام علیکم
میر محمد اسحق صاحب کی اچانک وفات کی خبر سے نہایت سخت صدمہ ہوا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- مجھے اور میرے گھر کے لوگوں کو آپ سے اور جملہ خاندان سے نہایت گہری ہمدردی ہے۔ قادیان کے سب لوگوں سے بڑھ کر وہ ہمارے لئے مونس تھے اور ہم سب کے دلوں میں ان کی بہت عزت تھی۔ صدمہ بہت سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر کی توفیق دے۔
والسلام
خاکسار
خان بہادر محمد بشیر از لاہور
بخدمت بیگم صاحبہ میر صاحبؓ
محترمہ بہن۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابھی سیّدہ اُم طاہر احمد صاحبہ کے داغ دل میں ہرے ہی ہیں کہ کل شام کو حضرت میر صاحب کی رحلت کی خبر ملی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
حضرت ممدوح کی کتاب روح و مادہ و تناسخ آریہ سماج کے کیمپ میں ایک دائمی ہل چل ہے۔ حضور معقولات کے شہنشاہ تھے اور حضرت نبی کریم ﷺ سے عشق تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھاکہ حدیث کے متبحر عالم تھے اور متضاد حدیثوں کی گتھی سلجھانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حال ہی میں پیش کی تھی۔ جس کو علماء سلجھا نہ سکے۔
حضرت ممدوح ابھی کمسن ہی تھے کہ عزیز مرزا صاحب کا ایک مضمون بدھ مذہب کی تعریف میں نکلا۔ حضور نے اسلام اور بدھ مذہب نامی رسالہ لکھا۔ جس میں اسلام کی تعلیمات کی بدھ مذہب کی تعلیموں پر فضیلت ثابت کی۔ میں نے وہ کتاب بچپن میںدیکھی تھی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب میں نے عمر پانے پر بدھ مذہب کی سب سے مستند کتاب دھم پددیکھی اور یہ محسوس کیاکہ حضرت کا چھوٹا سا رسالہ جو کم سنی کے عالم میں لکھا گیا تھا بدھ مذہب کی کل بڑی تعلیمات پر حاوی ہے۔ پھر میرے دل میں یہ خواہش پیداہوئی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے سکون میسر کرے تو میں دھم پد کی ہر تعلیم کا اسلامی تعلیم سے مقابلہ کروں اور اس کام میں حضرت ممدوح سے استفادہ حاصل کروں۔ ہائے افسوس یہ حسرت دل ہی میں رہ گئی اور مولانا چل بسے۔ اللہ تعالیٰ ان کو حضرت نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں جگہ دے اور ان دعاؤں کو جو وہ حیات میں آپ کے لئے کر گئے ہیں سنے۔ وہی آپ کا والی ہو اور ساری ضرورتوں کا کفیل،خداداری چہ غم داری
علی اختر از حیدآباد
بنام سیّدہ نصیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر صاحب
پیاری نصیرہ! السلام علیکم
یہ اچانک خبر کس قدر رنجدہ اور سہما دینے والی تھی کہ ماموں جان میر صاحب جماعت کے ایک بابرکت وجود سلسلہ کے سچے خادم و خادمِ خلق ہم سے رخصت ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
کئی دن سے خط لکھنے کاارادہ کر رہی تھی۔ مگر میری طبیعت کچھ اس قدر نڈھال اور دل ایسا پریشان رہا کہ باوجود کوشش کے نہ لکھ سکی۔ ان دو صدموں سے دل ایسا غمگین اور پریشان جس کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو گئی۔ ان پریشانیوں اور غم کی کوفت نے مجھے ایسا نڈھال کئے رکھا ہے چاہا بھی تو نہیں لکھا گیا۔ ویسے تمہارا اور ممانی جان کا مجھے ہر وقت خیال رہتا ہے۔ آج کل توبس دعائیں ہی بہت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی تو سب کچھ ہے۔ یہ تو خوشی کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے ماموں جان کی خدمات کو قبول کیا۔ جو ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اسی مقصد میں جان دیکر شہید ہو گئے۔ گو اپنے دل اس وقت غمگین ہیں نہ صرف ان کی جدائی سے بلکہ اس لئے بھی کہ جماعت کو اتنے بڑے عالم اور فیض رساں وجود کے اٹھ جانے سے نقصان پہنچا ہے۔ مگر وہ خود تو خوش نصیب تھے۔ زندگی اور موت دونوںشاندار۔
ممانی جان کتنی نیک بیوی ہیں۔ کتنا اعلیٰ صبر و تحمل کا نمونہ دکھا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و مددگار ہو۔
منصورہ( بیگم مرزا ناصر احمد)
بنام سیّد داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر صاحب
داؤد بھائی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فیروز پور ایک کام جو آیا تو حضرت پیر صاحب کی کوٹھی سے یہ خبر ملی کہ وہ شفیق اور حلیم باپ وہ واجب التعظیم مسلم وہ اخلاق وہ تادّب اور تعلیم و تربیت کی جان،ہاں وہ احمدت کا جان نثار اسلام کا سپہ سالار۔ ا ترسوں ناگہانی طور پر چل بسا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون- میں گویا چکرا سا گیا اور پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ پھر ایک دفعہ سخت دردوکرب کے بعدزبان پر جاری ہؤا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
اظہار تعزیت ہو تو کس کی۔ کس سے اور کس زبان اور قلم سے ۱۹۴۴؁ء نے اپنے اوائل میں ہی جویہ دو چرکے دیئے ہیں تاریخ بھی صدیوں تک شائد ان کو مندمل نہ کر سکے۔
خدا مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین اب یہی دعا ہے جوبار بار زبان پر آ رہی ہے کہ احمدیت کو جلد اس شہسوار کا نعم البدل عطا فرمائے۔
خادم ثاقب زیروی
حال میں مکرم استاد حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات کی افسوسناک خبر پہنچی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم مغفور کو جنت فردوس بخشے۔ آمین
حضرت آپا جان سیّدہ اُم اطاہر احمد صاحبہ غفراللہ لہا کی وفات کے بعد ایک دوسرا عزیز وجود ہم سے جدا ہو گیا۔ یہ دونوں وجود یتامیٰ مساکین، بیواؤں اور غریبوں کی خبر گیری اور خدمت گزاری کے لحاظ سے جماعت میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت میر صاحب مرحوم نے حضرت نانا جان کی وفات کے بعد دورالضعفاء کے قائم رکھنے اور ضعفاء ویتامیٰ کی خبر گیری میںاز حد دلچسپی لی۔ مرحوم اکثر مبلغین کے جو اس وقت مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں استاد تھے۔ میں نے اور میرے ہم جماعت دوستوں نے تو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت سے لیکر مولوی فاضل تک ان سے تعلیم پائی۔ آپ کا طریقہ تعلیم نہایت اچھا تھا جو مضمون بھی پڑھاتے شاگردوں کے ذہن نشین کرا دیتے۔ آپ کے تمام شاگرد آپ سے خوش رہتے۔ مجھے اس وقت آپ کے مناقب کا ذکر کرنا مقصود نہیں۔ کیونکہ اخبار میں اس کے متعلق اس وقت تک کافی لکھا جا چکا ہو گا۔ صرف ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اس سال ۲۸ جنوری کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے باعلام الٰہی یہ اعلان فرمایا کہ مصلح موعود جس کے ظہور کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی تھی وہ آپ ہی ہیں۔ یہ بات تمام افراد جماعت کے لئے خوشی کا موجب ہوئی۔
میں سمجھتا ہوںکہ سیّدہ اُمّ طاہر احمد صاحبہؓ اور سیّد محمد اسحق صاحبؓ کی وفات سے پہلے جو جماعت کے لئے موجب رنج و غم ہونے والی تھیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز پر یہ انکشاف فرما کرآپ سے ایک رنگ میں ہمدردی کا اظہار کیا۔ تا وہ آنے والی مصیبت پر صبر کر کے خداتعالیٰ کی رحمت کی وارث ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سے یہی مقدر تھاکہ مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے بھی دو عزیز وجود وفات پائیں اور مصلح موعود کے دعویٰ کرنے کے بعد بھی دو معزز وجود ہم سے جدا ہوں۔ چنانچہ آپ کی پیدائش سے پہلے سیّدہ عصمت صاحبہ اور صاحبزادہ بشیر اوّل کی وفات ہوئی اور اب مصلح موعود کادعویٰ کرنے کے بعد اُم طاہرسیّدہ مریم بیگم صاحبہ اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات ہوئی۔ ایک عورتوں میں سے اور ایک مردوں میں سے جیساکہ پیدائش سے پہلے بھی ایک لڑکی کی وفات ہوئی اور بعد میںلڑکے کی۔ جس میں اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کے زمانہ میں اطفال اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور عورتوں اور مردوں سب کو غیرمعمولی طور پر قربانیاں کرنا ہوں گی۔ جن کے نتیجہ میں وہ خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت بشیر اوّل کی وفات پر فرمایا کہ اس کی وفات سے پہلی قسم انزال رحمت کی پوری ہوئی جو مصائب پر صبر کرنے والوں پر ہوتی ہے اور ان پر جو صبر کرتے ہیں کامیابی کی راہیںکھولی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ان دونوں حادثوں کو بھی جماعت کی عورتوں اور مردوں کے لئے رحمتوں اور برکات کے نزول کا موجب بنائے۔ آمین
خاکسار
جلال الدین شمس از لندن
جماعت کے مندرجہ بالا تاثرات سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کا کیا مقام اور رتبہ تھا۔ اب میں اس دردناک واقعہ کے ذکر کو طویل کرنا نہیں چاہتا ان کے آخری لمحات کا ذکر کر کے ان کے مدارج کی ترقی کی دعا کے ساتھ ختم کر دیتا ہوں۔ حضرت میر صاحب کی زندگی کا ہر لمحہ خدمت دین کے لئے وقف تھا اور وہ خدمت سلسلہ ہی کرتے ہوئے اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔ میرے اپنے ذوق اور فہم کے موافق تو وہ ایک شہید تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حیات ابدی عطا فرمائی۔ وہ اپنی اس آخری علالت کے وقت صدرانجمن احمدیہ کے اجلاس میں موجود تھے اور وہاںبھی شدید حملہ ہوا ہمت اور استقلال کا کیا کہنا ہے کہ اسی حالت میں اُٹھ کر پیدل روانہ ہوئے مگر تھوڑی دور جا کر قدیم زنانہ جلسہ گاہ تک پہنچ کر آگے چلنے کی ہمت نہ رہی۔ فرمایا چار پائی منگوائی جائے اور ہمارے بھائی ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل کو بلا لیا جاوے۔ وہ آ گئے اور مناسب موقعہ تدابیر کی گئیں مگر پیغام موت آ چکا تھا۔ رات کے نو بجے تک ہوش میں رہے پھر بے ہوشی طاری ہو گئی اور اسی حالت میں آپ نے پیکِ اجل کو لبیک کہا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
حضرت میر صاحب نے اپنی اولاد میں تین لڑکے اور چار لڑکیاں چھوڑیں ہیں اور چھ نواسے اور نواسیاں ۔ اللّٰھُمَ زدفزد-
حوالہ جات
۱؎ روزنامہ الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء؁ صفحہ۱۔۲
۲؎ حضرت میر محمد اسحاقؓ کا بزرگان جماعت کی زبان سے ذکرِ خیر ۔ روزنامہ الفضل ۲۹مارچ ۱۹۴۴ء؁ سے لیا گیا ہے۔
۳۔۴۔۵؎ روزنامہ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۴۴ء؁
۶؎ روزنامہ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۴۴ء؁
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کا مختصر تذکرہ

حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کے ممتاز رکن تھے اس خاندان کے ارکان شروانی افغان کہلاتے ہیں اور مالیر کوٹلہ کے علاوہ بھکن پور وغیرہ (یو پی) میں بھی شروانی خاندان کے بعض ممتاز اصحاب سکونت پذیر ہیں جہاں بھی ہیں دنیوی حیثیت سے معزز و ممتاز ہیں اور ان میں دینی صلاحیت بھی موجود ہے۔ خاندانی حالات اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ’’حیات نواب محمد علی خاں‘‘ میں لکھو ں گا ورنہ جسے خدا توفیق دے گا۔ یہاں مختصر تذکرہ صرف اس تعلق کی وجہ سے زیر تحریر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ کو ہے یعنی آپ کو یہ سعادت اور عزت حاصل ہے کہ آپ نہ صرف روحانی طور پر حضرت کے فرزند ہیں بلکہ صہری تعلق کی وجہ سے بھی نسبت فرزندی حاصل ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء اور آپ کی وفات خاندان کے لئے عموماً اور حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا کے لئے خصوصا ایک صدمہ عظیم ہے اور اس حادثہ پر حضرت اُمُّ المؤمنین نے صبر جمیل کا پھر کامل نمونہ دکھایا۔
حضرت نواب صاحب سے خاکسار عرفانی کبیر کو ۱۸۹۱؁ء سے سعادت ملاقات حاصل ہے۔ حضرت نواب صاحب اس وقت عنفوان شباب میں تھے اور عرفانی حدود بلوغ میں داخل ہو رہا تھا۔ قریباً نصف صدی سے زائد عرصہ کی ملاقات میں مَیں نے انہیں مستقیم الاحوال دیکھا۔
میں اس محبت و شفقت کا ذکر تفصیلاً نہیں کر سکتا جو خاکسار کے حال پر آپ کو تھی وہ ایک مردم شناس، قدرداں، معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے۔ نواب صاحب کا خاندان شیعہ تھا اور آپ کی ابتدائی تعلیم اسی ماحول میں ہوئی۔ مگر خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں قلب سلیم اور دماغ فہیم عطا فرمایا گیا تھا اس لئے وہ ہر مسئلہ کی تحقیق خود کرتے تھے۔ تعصب، ضد اور دھڑہ داری ہرگز نہ تھی سچ کے قبول کرنے کو ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ مذہبی ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور کے ایچی سن کالج میں داخل ہوئے جو حکومتِ نے رؤسائے پنجاب کے بچوں کے لئے بڑے اہتمام سے قائم کیا تھا۔ حضرت نواب صاحب باوجود ایک طالب علم ہونے کے کالج کے طلبہ میں ہردلعزیز ہی نہ تھے بلکہ اپنی معاملہ فہمی اور نیکی کے باعث وہ ایک قائدانہ حیثیت رکھتے تھے ۔ اسلامی معاملات میں وہ بڑی قوت اور جرأت کے ساتھ دلچسپی لیتے تھے اور کالج کے پروفیسربھی نواب صاحب کی قوت عمل اور بلندی ء کردار کی وجہ سے دب جاتے تھے۔ یہ سب تفصیلات اسی تذکرہ کے لئے مخصوص ہیں۔
والد صاحب کی وفات کے بعد جب اپنی جاگیر کے صاحب اقتدار ہوئے اس وقت ایک کثیر رقم آپ کے خزانہ میں موجود تھی۔ آپ ہمیشہ علم دوستی کے پیکر رہے آپ کا روپیہ ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ ہوا۔ خواتین کی حالت کی اصلاح کے لئے آپ نے ایک انجمن مصلح الاخوان قائم کی اور ایک سکول قائم کیا جس کے کل اخراجات آپ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ میں ایک بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا روپیہ ہمیشہ کارخیر میں صرف ہؤا۔اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے منہیات سے آپ کو محفوظ رکھا اور اس میں سِر یہ تھا کہ وہ ازل سے مسیح موعود و مہدی مسعود کی دامادی کیلئے منتخب ہو چکے تھے۔ حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بزرگی کا پہلے سے علم تھا اور وہ حسن ظن رکھتے تھے اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نواب ابراہیم علی خان کی علالت کے ایام میں دعا کے لئے بلایا گیا تھا۔ تا ہم حضرت اقدس سے تعلقات کی ابتداء ۱۸۸۹؁ء سے ہوئی جب کہ حضور نے باعلام الٰہی بیعت کیلئے دعوت دی۔
حضرت نواب صاحب کی پاک بازی اور مطہر فطرت کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ آپ نے پہلا خط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا اس میں آپ نے یہی سوال کیا تھا کہ پُرمعصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ اس سوال سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی روح میں تزکیہ نفس اور طہارت قلب کے لئے کس قدر جوش تھا تا کہ آپ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں جو قدوس خدا کے حضور آپ کو قریب تر کر دے۔
حضرت اقدس نے آپ کو لکھا کہ:
’’جذبات نفسانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبّانِ الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فرو ماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تروتازہ درخت کی ایک شاخ ہو کر اس کے موافق پھل لاوے‘‘۔ ۱؎
حضرت اقدس نے یہ خط ۷/ اگست ۱۸۹۰؁ء کو لودہیانہ سے لکھا تھا سعادت ازلی رفیق راہ تھی اور سعادت کے فرشتے ساتھ تھے اس لئے اس کے بعد آپ نے کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی۔ نواب صاحب کی بیعت اکتوبر ۱۸۹۰؁ء کی ہے جیسا کہ ۹/ اکتوبر ۱۸۹۰؁ء کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے ابتداً نواب صاحب نے اخفائے بیعت کی اجازت لی تھی اور حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ:
’’اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے‘‘۔ ۲؎
نواب صاحب نے خود اپنی بیعت کے متعلق جو ذکر ایک خط میں کیا تھا وہ نواب صاحب کی فطرت سلیمہ پر ایک روشنی ڈالتا ہے اس کا اقتباس ذیل قابل غور ہے۔
’’ابتداء میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا اَور نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہیانہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کا پھر بعد کی خط و کتابت میں میرے دل سے بکلّی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدّد اور دنیا کے لئے رحمت ہیں‘‘۔۳؎
اس خط سے نواب صاحب کی گناہ سوز فطرت کی بے قراری اور ایک عزم مبتلانہ کا پتہ ملتا ہے۔ پھر آپ کی خط و کتابت کا ایک سلسلہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے رہا اور جب کبھی کوئی سوال پیدا ہوا آپ نے بلاخوف لومۃ لائم حضرت سے پوچھا اور اس کا جواب پایا۔ انہوں نے احمدیت کو ایک محجوب انسان کی طرح قبول نہیں کیا بلکہ ایک محقق اور مفکر کی حیثیت سے صداقت یقین کرکے قبول کیا۔
نواب صاحب کے متعلق سب سے پہلا کشف
نواب صاحب نے جب بیعت کی اور اخفا کی اجازت چاہی اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ اس وقت حکمران خاندان کے ساتھ بعض سیاسی حقوق کے متعلق حکومت پنجاب میں مطالبات پیش تھے اور حکومت ابتداً سلسلہ سے بدظن تھی۔ محض اس خیال سے کہ ان کے ان ذاتی معاملات پر جو سارے خاندان وابستہ تھے اس سے کوئی مضر اثر نہ پڑے۔ یہ چاہا گیا تھا مگر حضرت کے اس خط کے بعد ان میں ایک خارق عادت قوت پیدا ہوگئی اور کسی مرحلہ پر ان کو اخفا کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ سلسلہ کے لئے حکام سے انہوں نے بڑی بڑی بحثیں کیں۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک کمشنر اینڈرسن تھے ان سے نواب صاحب کی ملاقات ہوئی اور اس نے بعض ظنّوں کا ذکر کیا تو نواب صاحب نے نہایت جرأت اور قوت کے ساتھ اس کو جواب دیا اور بالآخر اس گفتگو میں اس سے منوا لیا کہ حکومت کو غلطی لگی ہے اور یہ نیچے کے افسروں کی رپورٹوں کا نتیجہ ہے۔
نواب صاحب ان ایام میں حضرت اقدس سے خاص طور پر دعائیں کرا رہے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے مرزا خدا بخش صاحب کو خصوصیت کے ساتھ ان کے تمام اخراجات کثیر برداشت کر کے قادیان میں رکھا ہوا تھا تا کہ وہ یاددہانی کراتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک کشف دیکھا:
’’مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمدللّٰہ والمنتہ کہ خدائے تعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی۔ اللہ شانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اور مقاصد دلی میں برکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدا بخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچیدگی ہے مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیاہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ شانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے اگر اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں کیونکہ آپ کے مآل کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللّٰہ اعلم بالصواب‘‘ ۴؎
اس کشف کی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کوئی صراحت وقت یا نوعیت اقبال کی نہیں کی مگر اس میں ایک کلید بیان کی ہے جس کو واقعات نے صحیح ثابت کر دیا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجود ہیں اور ایک دفعہ گردن اونچی ہوگئی۔
اس کشف کی حقیقت اور ظہور اس وقت ہونے والا تھا جب نواب صاحب حضرت صاحب کے پاس ہوں یعنی وہ ہجرت کر کے قادیان آ جاویں۔ جب یہ کشف ہؤا اس وقت تک نواب صاحب مالیر کوٹلہ میں تھے اور اس کے بعد بھی نو سال تک وہ قادیان مقیم ہونے کیلئے نہیں آئے تھے اور جب آپ نے قادیان ہجرت کر لی اور جوارِ مسیح موعود بلکہ الدار میں آپ کو جگہ مل گئی اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اور آپ کی اہلیہ موجود تھیں۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا اور آپ نے دوسری شادی کی اور بالآخر وہ بھی وفات پاگئی تب حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ زیدمجدہا کا آپ سے نکاح ہو گیا۔ اور عملاً آپ کی گردن اونچی ہوگئی کیونکہ جماعت میں یہ مقام کسی کو حاصل نہ تھا۔ اس کشف کی طرف دوستوں نے توجہ نہیں کی یہ کشف حضور کا اواخر دسمبر ۱۸۹۱؁ء کا ہے اس وقت تک سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ عالم وجود میں بھی نہیں آئی تھیں بلکہ صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (امیر المومنین خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) عالم وجود میں آئے تھے۔ اس وقت کوئی خیال نہ نواب صاحب کو ہو سکتا نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ حالات اس قسم کے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ دراز پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے اقبال کی بشارت دی۔
جرأت اور طلبِ حق
حضرت نواب صاحبؓ میں ایک فطری جوش طلب حق کا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی جرأت عطا فرمائی تھی کہ جو امر ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا اس کے متعلق سوال کرنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے چنانچہ جب عبدالحق غزنوی نے مباہلہ کا اشتہار دیا تو آپ کو بعض سوالات حضرت اقدس ؑکے جواب پر پیدا ہوئے اور آپ نے بلا خوف لومۃ لائم حضرت کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ حضرت اقدس نے اسے ناپسند نہ فرمایا بلکہ بہت خوش ہوئے چنانچہ اس کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’آپ کا محبت نامہ عین انتظار میں مجھ کو ملا جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشافِ حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطۂ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہؤا بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے‘‘۔۵؎
یہ طریق مومنانہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض پیدا ہو تو فوراً پیش کرنا چاہئے۔ اس کے بعد آتھم کی پیشگوئی کے وقت بھی آپ کو ایک طالب صادق کی طرح کچھ استفسار کی ضرورت پیش آئی مگر جلد اللہ تعالیٰ نے آپ پر حقیقت کو منکشف کر دیا اور اس کے بعد کبھی کوئی موقعہ ایسا نہ آیا کہ آپ کو استفسار کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو عملی زندگی میں بعض باتیں آپ دریافت کر لیتے اور ان کو اپنا دستور العمل قرار دیتے۔
حضرت نواب صاحب کی زندگی ایک راسخ الاعتقاد عملی مومن کی زندگی تھی۔ وہ کوئی امر جس کی اسوہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نظیر نہ ہو اختیار نہیں کرتے تھے اور عامل بالسنتہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں سرشار تھے اور آپ کے احکام کی اتباع اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔
رشوت سے نفرت
حضرت نواب صاحب کی زندگی میں ایک مرد مومن کی عملی زندگی کی تصویر ہے جب مالیر کوٹلہ ریلوے برانچ جاری ہوئی تو آپ نے اس لائن پر کچھ کام بطور ٹھیکہ لے لیا۔ وہ کام دراصل آپ کے ایک خاص امتیاز کے اظہار کا موجب ہوا۔ آپ سے چاہا گیا کہ ان انجنیئروں یا افسروں کو جو اس کام کے پاس کرنے والے تھے کچھ روپیہ دے دیں آپ نے اسے رشوت قرار دیا اور صاف انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو خطرناک مالی نقصان ہوا مگر آپ نے اس کی ذرا بھی پروا نہ کی وہ نہایت عالی حوصلہ اور مستقل مزاج بزرگ تھے اپنے مقام و مرتبہ کے باوجود طبیعت نہایت منکسرانہ واقع ہوئی تھی مسجد میں آتے تو بارہا جوتیوں کی جگہ جا نماز بچھا کر بیٹھ جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو قادیان میں قیام کے لئے تحریک فرمائی اور آپ نے تعمیل کی یہاں تک کہ آپ ہجرت کر کے آہی گئے۔
ایثار نفس
طبیعت میں فطرتی سخاوت کا جوش تھا اور بسا اوقات وہ اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو مقدم کر لیتے تھے۔ میں ان واقعات کا شاہد ہوں جماعت کے غربا ان کی فیاضیوں سے آسودگی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اس قسم کی فیاضیوں نے ان کی مالی حالت پر بڑا اثر ڈالا مگر وہ ہر حالت میں مستقیم الاحوال رہے۔ میں نے کبھی ان کو غم زدہ اور فکر مند نہ پایا ہمیشہ چہرہ پر خوشی اور مسرت کھیلتی تھی اور اللہ تعالیٰ پر اس قدر توکّل اور بھروسہ تھا کہ بعض اوقات میں نے دیکھا کہ انہوں نے سفر کا ارادہ کر لیا اور کچھ ہاتھ میں نہیں مگر آخر وقت پر اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب رنگوں میں سامان کر دیا۔ سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ مدرسہ تعلیم الاسلام کے اخراجات اپنی ڈائریکٹری کے زمانہ میں ایک عرصہ تک چلاتے رہے اور جب حضرت اقدس نے خود محسوس فرمایا کہ مالی ابتلا نہ آ جائے تو انتظام دوسرے ہاتھوں میں منتقل کر دیا۔
صدر انجمن کے کاموں میںاپنی رائے پر مستقل رہتے تھے۔ خاکسار عرفانی اسسٹنٹ سیکرٹری عملاً سیکرٹری ہی کے فرائض ادا کر رہاتھا۔ اس کی ضروریات کا اہتمام اپنی جیب سے کرتے انجمن سے مجھے کچھ بھی اس خدمت کے لئے لینے کی ضرورت نہ آنے دی۔ میرے ساتھ جو تعلقات تھے اور میں نے جس قدر قریب سے انہیں پڑھاہے اس کا تفصیلی ذکر خدا نے چاہا تو حیات نواب محمد علی خان میں ہوگا۔ وباللہ التوفیق
فتنہ کے وقت آپ نے اپنی خدمات پیش کیں۔ خاکسار عرفانی اور مرحوم خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب پنشنر سب جج کے سپرد ایک خاص خدمت تھی اس سفر کے کل اخراجات نواب صاحب نے اپنی جیب سے برداشت کئے اور یو۔پی کی سخت گرمی میں اپنے اس دورہ کو پورا کیا اس دورہ کی رپورٹ سلسلہ کی تاریخ میں ایک قیمتی دستاویز ہے۔ علمِ دین کا شوق اس قدر غالب تھا کہ ایک زمانہ میںحضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کو مالیر کوٹلہ بلا کر اپنے پاس رکھا۔ حضرت حکیم الامت مع اپنے شاگردوں اور خاندان کے افراد کے وہاں رہے اور تمام اخراجات بانشراح صدر آپ نے برداشت کئے۔ پھر ایک اور موقعہ پر ان کو طلب کیا مگر حضرت اقدس بعض وقتی حالات اور مجبوربوں کی وجہ سے نہ بھیج سکے۔ ایک نہ ایک عالم دین کو اپنے پاس رکھتے اور رب زدنی علماً کی دعا کے موافق جوش رکھتے۔ چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ زمانہ دراز تک آپ کے پاس رہے۔ مرحوم بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے اور ان خصوصیات نے ہی ان کو اس مقام پر پہنچایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دامادی کا فخر نصیب ہوا اور وہ کشف پورا ہوا جس کا میں ذکر کر آیا ہوں۔
شادی کی تقریب
جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے حضرت نواب صاحب صاحبِ اولاد تھے اور پہلی بیوی کی وفات پر دوسری شادی بھی آپ نے کر لی تھی۔ مگر قیام قادیان میں یکایک آپ کی اہلیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے موافق فوت ہوگئی رضی اللہ عنہا۔
اور کچھ عرصہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم مدظلہا کیلئے آپ نے رشتہ بھجوایا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرما لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کی بے انتہا دعائوںکے ساتھ یہ نکاح ہو گیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے خطبہ نکاح پڑھا اور ۵۶ ہزار مہر مقرر ہوا اور اس مہر کی ایک دستاویز تحریر ہوئی۔ بہ ظاہر یہ بڑی رقم ہے مگر حضرت سیّدہ کے مقام اور شان کے لحاظ سے حضرت اقدس نے یہ رقم تجویز فرمائی اور میں تو اسے خفی وحی کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ہے کہ خاکسار عرفانی کبیر کو اس دستاویز کی تکمیل کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور الحمدللہ وہ حسب دلخواہ ہوگئی اور اس دستاویز پر اس کے دستخط بطور گواہ بھی ہیں۔ حضرت نواب صاحب پر اس تعلق کا کیا اثر تھا ان کی زبان سے سنو:
ڈائری نویسی
حضرت نواب صاحب کو یہ شوق تھا کہ بعض اہم امور کو اپنی ڈائری میں لکھا کرتے تھے جو ہر سال نئی خریدی جاتی تھی چنانچہ ۱۷ فروری ۱۹۰۸؁ء بروز دوشنبہ کی ڈائری میں کہتے ہیں:
’’الحمدللہ کہ آج وہ دن ہے جس روز میرا نکاح حضرت کی بڑی صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ سے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں بالعوض ۵۶ ہزار روپیہ ہو گیا۔ یہ وہ فضل اور احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھسا دوں تو بھی خداوند کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ میرے جیسا نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور یہ خدا وند تعالیٰ کا خاص رحم اور فضل ہے اے خدا، اے میرے پیارے مولیٰ جب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نور بنا دے تا کہ اس کے قابل ہوسکوں‘‘۔ ۶؎
ان الفاظ کو پڑھو اور بار بار پڑھو کہ ان میں حضرت نواب صاحب کے اس عقیدہ کا اظہار ہے جو وہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق رکھتے تھے اس سے اس مقام کا پتہ لگتا ہے جو حضرت نواب صاحب کے دل میں حضرت سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا تھا۔ اس سے اس تڑپ اور اضطراب کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو اپنی روحانی ترقی اور سراسر نور بن جانے کے لئے دعا کا تھا۔ ایسے موقعہ پر عام طور پر لوگوں کے خیالات اور ان کی آرزئوں کا کیا رنگ ہوتا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی سے پاک کئے ہوئے انسان کی نظر کدھر اُٹھتی ہے وہ سارے جوشوں اور امنگوں کو قربان کر کے خدا کا ہو جانا چاہتا ہے اور خدا نے اس کی پکار کو سنا اور اسے چن لیا۔ ولِلّٰہ الحمد
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زندگی میں نکاح کر دیا اور رخصتانہ آپ کی وفات کے بعد۱۴ مارچ ۱۹۰۹؁ء کو خلافت اولیٰ کے زمانے میں ہوا۔ رخصتانہ کے متعلق میں اپنی طرف سے کچھ بھی لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتا گو میں عینی شاہد ہوں اور اس وقت بھی وہ سب نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے میں خود حضرت نواب صاحبؓ کی ڈائری درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ یہ آپ کی ذاتی اور بظاہر روز کی چیز ہے مگر اس کے پڑھنے سے ایمان بڑھتا ہے اور خود حضرت نواب صاحب کی نسبت معرفت میں اضافہ ہوتا ہے آپ لکھتے ہیں۔
ڈائری نوشتہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ
از ۱۴ مارچ ۱۸ مارچ ۱۹۰۹؁ء بر موقعہ رخصتانہ سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
۱۴ مارچ ۱۹۰۹؁ء اتوار
الحمدللّٰہ ذالمنتہ
لِلّٰہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر میخواست
آخر آمد زپس پردہ تقدیر پدید
کہ آج مبارکہ بیگم صاحبہ صاحبزادی کلاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جن کا نکاح مجھ سے ۱۷ فروری ۱۹۰۸؁ء کو بروز دوشنبہ ہوا تھا رخصت ہو کر میرے گھر آئیں اور میرے کلبۂ احزان کو منور کیا۔ یہ رخصتانہ بوقت ۳ بجے وقوع میں آیا۔ میں نے ان میں حسن صورت و حسن سیرت دونوں کو پایا۔ لیاقت علمی بھی خاصی ہے۔ الحمدللّٰہ علی ذالک۔ یہ خدا کا عجیب فضل ہے کہ میرے جیسے ناکارہ کے ساتھ اس درج برج نبوت سے میرا پیوند کر دیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم
رخصتانہ نہایت سیدھی سادی طرز سے ہوا۔ مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام خود لے کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو میرے مکان پر ان سیڑھیوں کے راستے سے جو میرے مکان اور حضرت اقدس ؑ کے مکان کو ملحق کرتی ہیں۔ تشریف لائیں۔ میں چونکہ مسجد میں تھا۔ اس لئے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا اور جب بعد نماز میں آیا تو مجھ کو بلا کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھری آواز سے کہا کہ ‘‘میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں‘‘ اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فوراً سلام علیک کرکے تشریف لے گئیں۔
۱۵ مارچ ۱۹۰۹؁ء دوشنبہ
آج میں نے تمام احمدی بھائیوں کو جو قادیان میں ہیں اور بعض عمائد قصبہ کو دعوت ولیمہ دی ہے۔ مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ میں نے شادی محض خداوند تعالیٰ کی رضا جوئی اور حضرت اقدس ؑ کے تعلقات کے بڑھانے کے لئے کی۔ مگر خداوند تعالیٰ نے ماسوائے اس کے مجھ پر بہت فضل کیئے۔ حسب کے لحاظ سے مبارکہ بیگم صاحبہ بیٹی ہیں حضرت اقدس ؑ کی ایک معزز قوم مغل برلاس ہے اور پھر اناث کی جانب سے دو دادیاں حضور ؑ ممدوح کی سیّدانی تھیں۔ اور آپ حضرت اُمُّ المؤمنین علہیا السلام جو والدہ مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں۔ سیّدانی ہیں۔ میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی ہیں جو نبیرہ خواجہ میر درد صاحب ہیں۔ اس طرح مبارکہ بیگم صاحبہ کا ددہیال اور ننھیال دونوں آفتاب و ماہتاب ہیں اور احمدیوں میںتو اس سے معزز گھرانہ نہیں ہو سکتا اَور فی الواقع دنیا بھر میں بہ سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی گھرانہ نہیں کہ ایسا خدا کے نزدیک معزز ہو۔ پھر صورت کے لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے بھی حالت معزز ہے اور سیرت کے لحاظ سے کس باپ کی بیٹی ہیں۔ بس نہایت پیارا انداز اور عجیب دلکش طبیعت ہے۔ محبت کرنے والی بیوی ہیں پھر مجھ کو کیوں محبوب نہ ہوں۔ خداوند تعالیٰ ہمارے بہت ہی بڑے تعلقات کر دے اور غایت درجہ کا عشق آپس میں پیدا کر دے اور بہت بڑی مدت تک خداوند تعالیٰ ہم کو نیکی محبت اور عزت آبرو صحت اور خوشی و خوشحالی اور دین کی خدمت میں اکٹھا رکھے۔ آمین
۱۶ مارچ ۱۹۰۹؁ء منگل
آج بھی قادیان میں قیام رہا اور مبارکہ بیگم صاحبہ کا جہیز جس قدر ہے بہت اچھا اور کارآمد ہے۔
۱۷ مارچ ۱۹۰۹؁ء بدھ
آج بھی قادیان میں قیام رہا۔
۱۸ مارچ ۱۹۰۹؁ء جمعرات
آج میں مبارکہ بیگم صاحبہ کو ساتھ لے کر لاہور روانہ ہوا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام نے مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ بسم اللہ دختر قدرت اللہ خاں اور بسم اللہ کی دو لڑکیاں ولیہ اور رفیعہ ساتھ کر دی ہیں۔ کریمہ اور حلیمہ کو میں ساتھ لایا ہی تھا۔ مرزا خدا بخش معہ اہل و عیال میں لاہور سے ساتھ لایا تھا۔ رحم دین، مدد خاں، صفدر بھی ساتھ آئے تھے اور ساتھ گئے۔ یہ مختصر قافلہ قادیان سے کوئی دو بجے گاڑی اور یکوں وغیرہ میں روانہ ہوا اور بخیریت بٹالہ پہنچا۔ وہاں سے جو ریزرو گاڑی فرسٹ (کلاس) لی گئی اس میں سوار ہو گئے اور لاہور بخیریت پہنچ گئے۔ ہم چھ بجے شام بٹالہ سے روانہ ہو کر نو بجے لاہور پہنچے وہاں اسٹیشن پر ہم چلے تھے کہ اتفاقاً عبدالرحمن کی آواز سنی۔ معلوم ہوا کہ بچے شیخ عبدالرحیم کو لے کر بائیسکلوں پر سوار ہو کر لینے آئے ہیں۔ ان سعادت مند بچوں کی اس بات سے مجھ کو بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنی نئی ماں کا خوشی اور محبت سے استقبال کیا اور پھر کوٹھی پر پہنچ کر اور بھی طبیعت خوش ہوئی۔ کیونکہ زینب نے بھی نہایت عمدہ طرح سے مبارکہ بیگم صاحبہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ زینب اور بچوں نے خوب کوٹھی سجائی تھی جس سے ان کی خوشی اور محبت کا اندازہ لگتا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بچوں نے ان کو اپنی اصلی ماں کی طرح برتائو کیا۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک یہ سفر قادیان سے لاہور تک نہایت مزے سے گزرا۔ ۷؎
نوٹ: یہ الفاظ ’’برج نبوت‘‘ اہل پیغام کے لئے قابل غور ہیں کیونکہ حضرت نواب صاحب کی یہ تحریر حضور علیہ السلام کی وفات کے صرف نو دس ماہ بعد کی لکھی ہوئی ہے۔ اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضور کے صحابہ اس زمانہ میں بھی حضور کو نبی یقین کرتے تھے۔
بوزینب بیگم صاحبہ حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں جو صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب کے عقد میں ہیں۔
حضرت نواب صاحب رخصتانہ کے موقعہ پر لاہور سے قادیان چار پانچ روز کے لئے تشریف لائے تھے اور اپنے بچوں کو لاہور میں ہی چھوڑ آئے تھے۔
آخری علالت اور وفات
ایک عرصہ سے آپ بیمار چلے آتے تھے مگر بیماری کی حالت میں کبھی گھبراہٹ، چڑچڑاہٹ اور ہائے وائے چیخ پکار نہ تھی بلکہ ایک کامل سکون کے ساتھ اس کار زار زندگی میں مصروف رہتے۔ احباب سے اسی خندہ پیشانی سے ملتے اور استفسار حالات پر الحمدللہ کہہ کر بعض بے تکلف احباب سے تفصیل بھی بیان کر دیتے۔ بیماری بھی انسان کے اصل اخلاق کے پرکھنے کا ایک معیار ہے۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ حالت مرض میں بھی پر سکون اور بہشتی زندگی بسرکرتے ہوئے پایا۔ بہرحال بیماری کا سلسلہ تو بہت پرانا تھا آخر پیشاب میں خون آنے لگا اس کے لئے ہر قسم کے علاج کئے گئے مگر کچھ افاقہ اگر کبھی ہوا تو پھر دورہ میں شدت ہو گئی بعض بعض اوقات تو حالت نازک ہو جاتی مگر پھر زندگی کی رَو واپس آ جاتی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مومن کی جان لینے میں تامل ہوتا ہے یہ اسی قسم کا نظارہ تھا۔ آخر وقت آ گیا جو مقرر تھا۔ اس سال کے شروع میں تکلیف زیادہ ہو گئی۔ میں جلسہ سالانہ پر عیادت کے لئے گیا تو اسی انداز سے ملاقات فرمائی مگر اس مرتبہ لیٹے ہی رہے جس کا میری طبیعت پر فطرتاً ایک صدمہ رساں اثر ہوا۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔
اس کے بعد آپ کی مرض میں شدت بڑھتی چلی گئی۔ آپ کے لئے بے شمار دعائیں کی جاتی تھی۔ میں نے ۲۷،۲۸ جنوری ۱۹۴۵؁ء کی رات کو رئویا میں دیکھا کہ ایک بڑا عظیم الشان مکان ہے جو ایک قصر ہے۔ میںحضرت نواب صاحب کی عیادت کو گیا ہوں اس قصر پر بے شمار نہایت حسین و جمیل بچوں کا اژدہام ہے مجھے انہوں نے روکا۔ میںنے کہا کہ میں نواب صاحب کی عیادت کو آیا ہوں انہوں نے کہا اب تم نہیں مل سکتے۔ ان پر ہمارا پہرہ ہے میں کچھ ان کے بچپن کو دیکھ کر مسکرایا مگر انہوں نے سنجیدگی سے یہی کہا اور میں واپس چلا آیا مجھے اس خواب سے معلوم ہوگیا کہ نواب صاحب فرشتوں کے پہرہ میں ہیں اور وہ مکان اس دنیا کا نہ تھا آخر ۱۰/ فروری ۱۹۴۵؁ء کو حضرت نواب صاحب کا انتقال ہو گیا۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون۔
………O………
آپ کی وفات پر جماعت کے تاثرات کا پتہ ان بعض مضامین سے ملتا ہے جو معاصر روزنامہ الفضل نے شائع کئے اور میں انہیں یہاں درج کر رہا ہوں۔
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کا المناک انتقال
قادیان ۱۱/ فروری ۱۹۴۵؁ء۔ وہ معزز و مکرم ہستی جو اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے جماعت احمدیہ میں اپنی مثال آپ تھی۔ وہ شوکت اور تمکنت رکھنے والی ہستی۔ جس کے خاندان میں حکومت پشتوں سے چلی آ رہی تھی۔ وہ دور بیں اور دور اندیش ہستی جس نے مذہب سے بیگانہ اور دنیوی عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ماحول سے اپنی عمر کے ابتدائی زمانہ میں ہی نکل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس وقت شناخت کرنے کا شرف حاصل کیا جب بڑے بڑے علم رکھنے والے بڑی بڑی ریاضتیں کرنے والے اور مسیح موعود ؑ کی آمد کا بے تابی سے انتظار کرنے والے لوگوں کی آنکھوں پر کبر و نخوت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور قرب کی جویاں ہستی جس نے اپنا وطن چھوڑ کر جہاں اسے ہر رنگ کی ریاست حاصل تھی اور حکومت کے سامان میسر تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے در کی گدائی کو ترجیح دی اور اس وقت ترجیح دی جب کہ قادیاں کی بستی میں معمولی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں آ سکتی تھیں۔ وہ شاہانہ ماحول میں پاکیزہ اطوار رکھنے والی ہستی جس نے اپنے وسیع محلات کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں چند فٹ کی کوٹھڑیوں میں رہائش پسند کی۔ وہ جود و سخا میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی ہستی جس نے اس کثرت اور اس وسعت سے اپنے اموال احمدیت کو تقویت پہنچانے اور غربا کی امداد کرنے کے لئے صرف کئے کہ ابتدائی زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ انہیں کل ۷ بج کر ۴۰ منٹ شام کو محبوب حقیقی نے اپنے پاس بلالیا۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون
حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰؁ء کی تھی اور رحلت ۱۰/فروری ۱۹۴۵؁ء کو فرمائی۔ گویا آپ نے ۷۵ سال ایک ماہ اور دس دن عمر پائی اور اس پاکبازی اور تقویٰ شعاری کے ساتھ اس عمر کا ہر لمحہ گزارا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے متعلق نہایت ہی تعریفی کلمات استعمال فرمائے جو قیامت تک قائم رہیں گے اور نہ صرف آپ کے متعلق بلکہ آپ کے والد ماجد کے متعلق یہاں تک رقم فرمایا کہ ’’مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو‘‘۔ یہی نہیں بلکہ خود خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک بہت بڑے لقب سے نوازا۔ اور اپنے مسیحؑ کی زبان مبارک سے آپ کو یہ بشارت سنائی کہ:
’’ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا ’’حجۃ اللہ‘‘ یہ امر کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے متعلق تفہیم یوں ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا۔ یعنی آپ ان پر حُجّت ہوں گے۔ قیامت کے دن ان کو کہا جائے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا۔ یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا ہے آپ کو بھی چاہئے کہ آپ ان لوگوں پر تحریر سے تقریر سے ہر طرح سے حجت پوری کر دیں‘‘۔ ۸؎
جس انسان کی خدا تعالیٰ کے حضور اور خدا کے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہ میں یہ قدرومنزلت ہو اس کی کوئی عام انسان کیونکر اصل شان بیان کر سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے آپ کو وہ مرتبہ اور وہ شان عطا کی جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ آپ کی نیکی، اخلاص تقویٰ طہارت اور پاکبازی کو خدا تعالیٰ نے ایسے انعامات سے نوازا جو قیامت تک کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بڑے بڑے رئوسا نواب، والیان ریاست اور ملکوںکے بادشاہ داخل ہوں گے اور یقیناً داخل ہوں گے۔ مگر کسی کو وہ رتبہ کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو ہوا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہنے کا سالہا سال تک شرف حاصل کیا اور آپ کے مقرب صحابی بنے۔ آپ نے دین کی خاطر اپنے اموال بے دریغ صرف کئے۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے حجۃ اللہ کا خطاب بخشا اور آپ نے اپنے عملی نمونہ سے اپنے آپ کو اس خطاب کا پورا پورا اہل ثابت کیا۔ آپ کی تعریف و توصیف جن الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی وہ کسی اور کو کب میسر آ سکتے ہیں۔ پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دامادی کا جو شرف حاصل ہوا اور حضور کے جگر گوشہ سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا مبارک وجود آپ کے کاشانہ کی رونق بنا۔ یہ کتنا بڑا انعام ہے۔ پھر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دوسری صاحبزادی سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح آپ کے نہایت نیک اور پارسا صاحبزادہ مکرم خاں محمد عبداللہ خاں صاحب سے ہوا اور یہ خاتون مبارکہ بھی آپ ہی کے خاندان کی زینت بنیں۔
غرض خدا تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ پر جس قدر انعامات کئے وہ نہایت غیرمعمولی اور بے مثال ہیں اور آج جب کہ آپ اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کے حضور پہنچ گئے ہیں ثابت ہو گیا کہ آپ ان غیر معمولی انعامات کے پورے پورے مستحق اور اہل تھے۔ آپ دسمبر ۱۹۰۱؁ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لائے اور پھر صبر، استقلال، فداکاری اور جان نثاری کی یہ مثال قائم کی کہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اپنے مال کا بہت بڑا حصہ خدا تعالیٰ کے لئے اس کی مخلوق کی ہدایت اور اس کی پرورش کے لئے خرچ کر دیا۔ حتی کہ آخری سانس تک اسی پاک سرزمین میں لیا جہاں خدا تعالیٰ کی خاطر شاہانہ شان و شوکت چھوڑ کرانہوں نے دھونی رمائی تھی جس طرح آپ کی جوانی قابل رشک تھی جس طرح آپ کی آخری وقت تک کی زندگی قابل رشک تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر آپ کا انجام قابل رشک ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اپنے قرب میں خاص مقام عطا کرے۔ یہ آخری تحفہ ہے جو ہم پیش کر سکتے ہیں اور انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون کا پھایا اپنے قلوب پر رکھ کر امید رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے جن گرانقدر وجودوں کو اپنی مصلحت کے ماتحت اپنے پاس بلا رہا ہے۔ ان کے قدموں پر چلنے والے اور وجود عطا کرے گا۔
حضرت نواب محمد علی خاں رضی اللہ عنہ کی تجہیز و تدفین
قادیان ۱۱ فروری: حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ ایک لمبی علالت کے بعد کل انتقال فرما گئے۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون- آپ اگست ۱۹۴۴؁ء سے علیل چلے آتے تھے اور پیشاب میں خون آنے کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔ مگر آخر وقت تک ہوش و حواس بالکل درست رہے۔ اگرچہ آخر دو روز زیادہ بول نہ سکتے تھے۔
وفات کی خبر ملتے ہی قادیان کے مرد اور خواتین حضرت نواب صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بھی تشریف لے گئے اور رات کے گیارہ بجے تک وہیں رہے۔ آج صبح سے احباب جماعت کے علاوہ سکھ اور ہندو اصحاب بھی بکثرت آتے رہے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ بھی بارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے چونکہ دوپہر کی گاڑی سے بیرون جات سے بعض اعزہ کے آنے کی امید تھی اس لئے جنازہ کوٹھی سے لے جانے کے لئے تین بجے بعد دوپہر کا وقت مقرر تھا۔ اس ثناء میں کوٹھی کے اندر ہزاروں خواتین نے مرحوم کی آخری زیارت کی۔ دوپہر کی گاڑی سے مرحوم کے بعض عزیز جن میں نواب زادہ خورشید علی خان صاحب خلف سرذوالفقار علی خان، سرموصوف کی بیگم صاحبہ اور اس خاندان کی بعض دیگر خواتین تشریف لائیں۔ نواب زادہ احسان علی خاں صاحب کئی روز پیشتر سے ہی جب سے کہ حضرت نواب صاحب کی طبیعت زیادہ کمزور ہو گئی تھی۔ یہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت نواب صاحب کے فرزند اکبر نواب زادہ عبدالرحمن خاں صاحب بھی کئی روز سے یہاں تشریف فرما تھے۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب کی صاحبزادی بیگم اعزاز رسول صاحب آف سندیلہ بھی کئی روز سے یہیں تھیں۔ ان کے علاوہ لاہور، امرتسر، کپور تھلہ، جالندھر وغیرہ سے بعض احمدی احباب اور صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے پہنچ گئے۔ تین بجے جنازہ باہر لایا گیا اس وقت تک احمدی احباب کی کثیر تعداد جمع ہو چکی تھی۔ جنازہ کوٹھی کی بیرونی ڈیوڑھی میں رکھا گیا۔ جہاں ہزاروں احباب نے ایک ترتیب کے ساتھ حضرت نواب صاحب کی آخری زیارت کی اس کے بعد چارپائی کے ساتھ لمبے بانس باندھ دیئے گئے تا کہ کندھا دینے والوں کو سہولت ہو۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جنازہ کو کندھا دیا اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے کندھا دینے یا درد بھری دعائوں کے ساتھ ہاتھ لگانے کا ثواب حاصل کیا اور جنازہ دارالفضل اور دارالعلوم کی درمیانی سڑک پر سے شہر اور پھر وہاں سے باغ متصل مقبرہ بہشتی لے جایا گیا جہاں جانب غرب نماز جنازہ پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور صفیں سیدھی باندھنے کے لئے زمین پر سفیدی کے ساتھ خط کھینچ دیئے گئے تھے۔ احمدی احباب کی کثیر تعداد جنازہ میں شریک ہونے کے لئے جمع ہو چکی تھی۔ اندازہ ہے کہ قریباً تین ہزار افراد شریک ہوئے بہت سی خواتین بھی خود بخود پہنچ گئی تھیں۔ وہ اس تعداد میں شامل نہیں۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور تمام مجمع نے رقت اور خشیت کے ساتھ حضرت نواب صاحب کے لئے دعائیں کیں۔ نماز جنازہ کے بعد پھر حضور ایدہ اللہ نے چارپائی کو کندھا دیا اور جنازہ اس خاص احاطہ میں لے جایا گیا جس میں حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا مزار ہے۔ قبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے بائیں جانب کھودی گئی۔ میت کو لحد میں اتارنے کیلئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ، مکرم نواب زادہ محمد عبداللہ خاں صاحب اور مکرم نواب زادہ محمد احمد خاں صاحب اُترے اور چارپائی پر سے میت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے صاحبزادگان نے اُٹھایا۔ میت کو لحد میں رکھنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور دوسرے احباب باہر نکل آئے۔ لحد پر کچّی اینیٹیں چنی گئیں۔ اس کے بعد حضور نے دونوں ہاتھوں سے تین دفعہ مٹی اٹھا کر قبر میں ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر سیّدہ امۃ الحی صاحبہ، سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ اور سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ کی قبروں کے پاس تشریف لے گئے اور دعا فرمائی۔ اس دوران میں دوسرے دوست حضرت نواب صاحب کی قبر پر مٹی ڈالتے رہے۔ قبر مکمل ہونے پر حضور تشریف لائے اور تمام مجمع سمیت دعا فرمائی۔
چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا اس لئے حضور نے اسی جگہ نماز پڑھائی جہاں جنازہ پڑھا گیا تھا چونکہ جنازہ پڑھانے سے قبل اعلان کر دیا گیا تھا کہ حضور عصر کی نماز اسی جگہ پڑھائیں گے۔ اس لئے خادم مسجد جائے نماز لے آئے اور حضور کے لئے صفوں کے آگے بچھا دیا چونکہ سارے مجمع کے لئے فرش نہ تھا اور سب اصحاب سفید زمین پر کھڑے تھے حضور نے بھی اپنے آگے سے جا نماز اُٹھوا دیا اور خالی زمین پر نماز پڑھائی۔ ۹؎
حجۃ اللہ
عبدالحمید آصف صاحب
حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ دنیوی وجاہت اور اعزاز رکھنے والے لوگوں میں سب سے پہلے بزرگ تھے۔ جن کو حق کی قبولیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی کا شرف حاصل تھا۔ آپ السابقون الاولون میں سے تھے۔ آپ نے سلسلہ کے کاموں کے لئے بہت بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ اور خود خدا تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی۔ تذکرہ صفحہ ۴۳۸ میں لکھا کہ۔
’’صبح کی سیر کے وقت نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا۔ حجۃ اللہ یہ کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیں رکھتا اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجۃ اللہ رکھا۔ یعنی آپ ان پر حجت ہوں گے۔ قیامت کے دن ان کو کہا جائے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا۔ یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی تحریرات میں بکثرت آپ کی خداداد اعلیٰ صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں۔ جواں صالح الخیال۔ مستقل آدمی ہے۔ میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا۔ بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی۔ حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں۔ مگر شیعوں کے تمام فضول اور ناجائز اقوال سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں۔ الحمدللہ اس شخص کو خوب مستقل پایا۔ اور دلیر طبع آدمی ہے‘‘۔ ۱۰؎
ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا۔ ’’حبی فی اللہ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رئیس ہیں۔…… سردار محمد علی خان صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر اُن کے دماغی اور دلی قویٰ پر نمایاں ہے۔ ان کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی ان کے نزدیک آئے معلوم نہیں ہوتے۔ میں قادیان میں جب کہ وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے۔ پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں اُن کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اَور مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں۔ مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتو فیقہ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر زور دے کر رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ جو کچھ ناجائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں پائی گئی ہیں اور جس قدر تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عمل درآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نورِ قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے‘‘۔ ۱۱؎
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے ایک موقعہ پر آپ کی اس امداد کا ذکر کرتے ہوئے جو آپ نے الفضل کے اجراء کے وقت پیش فرمائی تحریر فرمایا:
’’تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خاں صاحب ہیں۔ آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔ پس وہ بھی اس رَو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے الفضل کے ذریعہ چلائی حصہ دار ہیں اور سابقون الاولون میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے اس قسم کے کام لے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کی مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے اُن کیلئے کھولے‘‘۔ ۱۲؎
ایک غیر مبائع نے آپ کے تقویٰ و طہارت کے پیش نظر آپ کی خدمت میں اختلافی مسائل کے متعلق تحریر کیا کہ :
’’جناب والا نے حضرت مسیح موعود ؑ کو باخدا بزرگ مجدد تسلیم کر کے بیعت کی تھی۔ اس وقت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے وقت میں جو نئے عقائد بمقابل حضرت مسیح موعود ؑ تراشے گئے ہیں اور ان کی جماعت ان کو مانتی ہے دراصل وہ مسیح موعود کی اصل تعلیم سے انحراف کرتی ہے۔ پس اس عریضہ کے ذریعہ سے جناب والا کی توجہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اصل دعویٰ مجدد کی طرف مبذول کرانے کے لئے معروض ہوں۔ آپ چوٹی کے صحابہ ہیں اور آپ کی سچی شہادت تا قیامت رہے گی‘‘۔
اس کے جواب میں حضرت نواب صاحب نے تحریر سے غیر مبائعین پر ہر طرح سے حجت پوری کر دی اور آپ کی یہ تحریر قیامت تک آپ کو حجۃ اللہ ثابت کرتی رہے گی۔ حضرت نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے لکھا:
’’جواباً عرض ہے کہ میرا مسلک سیدھا سادہ ہے۔ اس لئے مجھے کسی بات میں جھجھک نہیں ہوتی۔ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی جس وقت بیعت کی ہے۔ میری حالت ایک صاف زمین کی سی تھی۔ جس پر سے پرانے عقائد کا اثر دور ہو چکا تھا۔ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو خط و کتابت کر کے دلائل سے مانا اور میں نے آپ کو ایک راستباز انسان تسلیم کر کے مانا اور جب آپ کومیں نے مان لیا تو پھر آپ نے جو بھی دعویٰ کیا اس کو تسلیم کیا۔ آپ کا ازالہ اوہام کے وقت مجددیت کا دعویٰ تھا۔ میں نے آپ کو مجدد مانا۔ باقی رہی یہ بات کہ میں نے آپ کے مجدد ہونے پر بیعت کی یہ غلط ہے۔ میں نے حضرت اقدس کی بیعت آپ کو راستباز مان کر کی۔ آپ نے کہا کہ میں مجدد ہوں۔ اس لئے میں نے کہا اٰمنّا۔ بیعت نہ مجددیت پر کی نہ مسیحیت پر بلکہ یہ کہ احمد کے ہاتھ پر کی تھی اور انہی الفاظ سے آپ تمام عمر بیعت لیتے رہے۔ اور آخر تک لیتے رہے ہم نے کیا کیا؟ یہی کہ آپ کو راستباز مانا۔ آپ نے کہا میں مجدد ہوں۔ ہم نے کہا اٰمنّا۔ آپ نے فرمایا کہ میں مسیح موعود ہوں ہم نے کہا اٰمنّا۔ آپ نے فرمایا میں ظلّی نبی ہوں ہم نے کہا امنّا۔ آپ نے مجازی نبی ہوں کہا ہم نے اٰمنّا ہی کہا آپ نے کہا
’’من نیستم رسول نیاوردہ ام کتاب‘‘
ہم نے اس پر بھی اٰمنّا کہا۔ آپ نے فرمایا میں نبی ہوں ہم نے کہا اٰمنّا۔ آپ نے ارشاد فرمایا تشریعی نبی نہیں بلکہ متبع نبی ہوں ہم نے کہا اٰمنّا۔ آپ نے فرمایا میں نے کبھی نبی ہونے سے انکار نہیں کیا بلکہ میرا انکار صرف شرعی نبی ہونے سے تھا یعنی میں شریعت لانے والا نبی نہیں۔ بلکہ محمد رسول اللہ کا متبع نبی ہوں۔ ہم نے اس پر بھی اٰمنّا کہا۔ آپ نے فرمایا مجھے نبوت کا درجہ اتباع محمد رسول اللہ اور فیضان محمد رسول اللہ سے ملا ہے۔ میں غلام ہوں محمد رسول اللہ آقا ہیں ہم نے کہا اٰمنّا۔ آپ نے فرمایا میرا خیال تھا جیسا کہ عام خیال ہے کہ اب نبی نہیں آسکتا۔ مگر مجھے متواتر وحی سے مجبور ہو نا پڑا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ میں نبی ہوں۔ ہم نے اس پر اٰمنّا کہا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت نے جو کچھ دعویٰ کیا ہم نے اٰمنّا کہا۔ آپ نے اپنے آپ کو محمد کہا، ابراہیم کہا، موسیٰ کہا، عیسیٰ (مسیح موعود) کہا، نوح کہا، مہدی کہا اور جری اللہ فی حُلل الانبیاء کہا، کرشن کہا۔ ہم ان سب دعوئوں پر ایمان لائے۔ حضرت دعویٰ فرماتے کہ ناسخ شریعت محمدیہ ہوں تو ہم یہ بھی ماننے کو تیار تھے اس لئے یہ کہنا کہ ہم نے مجدد ہونے پر بیعت کی۔ یہ غلط ہے ہم نے حضرت کی بیعت کی کہ جس کو خدا کی بیعت سمجھا۔ یداللّٰہ فوق ایدیھم کیونکہ اصل میں ہم نے مرزا غلام احمد کی بیعت نہ کی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کی بیعت کا واسطہ تھا۔ چنانچہ بیعت کے الفاظ شاہد ہیں۔ آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں۔ یہ نہیں کہ میں احمد کی بیعت کرتا ہوں۔ یہ بیعت دراصل خدا کی بیعت اور خدا سے عہد تھا اور ہے۔ ہم تو حضرت کے تمام دعاوی پر ایمان لائے ہیں اور حضرت کے درجہ کو نہ بڑھاتے ہیں اور نہ گھٹاتے ہیں۔ ہم ٹکڑوں کو نہیں لے بیٹھتے کیونکہ تومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض۔ پر ہمارا عمل نہیں۔ ہم نے مجموعۃً جو کچھ بھی حضرت نے فرمایا اس پر اٰمنّا کہا اور یہی ہمارا ایمان ہے۔ معلوم نہیں آپ کو نبوت پر کیوں جھجک ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر نبوت کا سلسلہ جاری رکھنے سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ثابت ہوتی ہے اور ایسا نہ ہونے سے ہتک‘‘۔
حضرت نواب صاحب کی یہ تحریر اسلام اور احمدیت کی صداقت میں ایک حجت تھی حجت ہے اور حجت رہے گی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو حجۃ اللہ کہا اور آپ نے اپنے عمل سے حجۃ اللہ بن کر دکھایا۔
خاکسار
عبدالحمید آصف
غرض حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا کو رنج و غم کے متعدد واقعات پیش آئے لیکن آپ نے ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ کی مقادیر سے کامل مسالمت کا عملی ثبوت دیا اور جیسا کہ شرائط بیعت میں ہے کہ ہر عسر اور یسر میں قدم آگے بڑھائوں گا۔ ہر واقعہ اور سانحہ آپ کے رضا بالقضا کا مظہر ہوا اور میرا اپنا ایمان تو یہ ہے کہ یہ حوادث اور واقعات ضروری تھے تا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں آپ جماعت کی خواتین کے لئے پاک نمونہ قرار پائیں اور خدا تعالیٰ کی وہ وحی جو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی جس میں اہل بیعت کی تطہیر کا وعدہ فرمایا گیا ہے جب ہم اس کے ساتھ کے الہامات کو پڑھتے ہیں تو صاف کھل جاتا ہے کہ اس امتحان کے لئے بڑے بڑے ابتلا مقدر تھے جن میں بڑے بڑے انسان اپنے مقام سے ہل جاتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین مدظلہا کی سیرت کے جن پہلوئوں پر میں نے روشنی ڈالی ہے اگر ہمارے گھروں میں اس پرعمل ہو تو فی الحقیقت وہ گھر جنت کا نمونہ بن جاتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی اولاد
اگرچہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جسمانی اور روحانی طور پراولادِ کثیر عطا فرمائی۔ مگر میں یہاں جسمانی اولاد کے متعلق ایک خاص بات بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطور ایک نکتہ معرفت کے بیان کیا ہے۔ اور اس کا اظہار میں اس لئے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ بعض دشمنان اہل بیعت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیشتر اور موعود اور صالح اولاد پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور بایںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت اور اطاعت کی لاف زنی کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تریاق القلوب (ایڈیشن اوّل) کے صفحہ ۶۴ کے الہام خذوالتوحید التوحید یا ابناء الفارس کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’سلسلہ مادری کی طرف سے ہمارا خاندان سادات سے ملتا ہے بلکہ الہامات میں اس کی تصدیق ہے اور ایسا ہی بعض کشوف میں بھی اس کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ اس جگہ یہ عجیب نکتہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا کہ سادات کی اولاد کو کثرت سے دنیا میں بڑھاوے تو ایک شریف عورت فارسی الاصل کو یعنی شہر بانو کو ان کی دادی بنایا اور اس سے اہل بیت اور فارسی خاندان کے خون کو باہم ملایا اور ایسا ہی اس جگہ بھی جب خداتعالیٰ کاارادہ ہوا کہ اس عاجز کو دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کرے اور بہت سی اولاد اور ذریت مجھ سے دنیا میں پھیلا وے۔ جیسا کہ اس کے اس الہام میں موجود ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۰ میں درج ہے تو پھر دوبارہ اس نے فارسی خاندان اور سادات کے خون کو باہم ملایا اور پھر میری اولاد کے لئے تیسری مرتبہ ان دونوں خونوں کو ملایا۔ صرف فرق یہ رہا کہ حسینی خاندان کے قائم کرنے کے وقت مرد یعنی امام حسینؓ اولاد فاطمہؓ میں سے تھا اور اس جگہ عورت یعنی میری بیوی اولاد فاطمہؓ میں سے یعنی سیّد ہے جس کا نام بجائے شہر بانو کے نصرت جہاں بیگم ہے۔‘‘ ۱۳؎
اللہ تعالیٰ کے الہام میں ابناء فارس جمع کا صیغہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کثرت اولاد اور ذریت کو خدا کا ارادہ قرار دیتے ہیں۔ پھر اس مبشر اور آیات اللہ کا رنگ رکھنے والی اولاد کو ہدف ملامت بنانا کسی شریف انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ اس پیشگوئی کے موافق حضرت اُمُّ المؤمنین کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کثیر دی۔ اللھم زد فزد اور آپ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے اپنی اولاد کی تین پشتوں کو دیکھ رہی ہیں۔ یعنی بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں اور پوتوں اور نواسوں کی اولاد۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اتنی عمر دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس دعا کو پورا ہوتے دیکھیں۔
اِک سے ہزار ہوویں بابرگ و بارہویں
آمین یارَب العالمین
حوالہ جات
۱؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر۱
۲؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر۲
۳؎ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ۷۸۹۔۷۹۰
۴؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر۳
۵؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر۴
۶؎ روزنامہ الفضل مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۴۵؁ء صفحہ۲
۷؎ روزنامہ الفضل ۱۳ فروری ۱۹۴۵ء؁
۸؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۴۳۸۔ الحکم جلد۷ صفحہ۹۔۱۱ پرچہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء؁
۹؎ روزنامہ الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۵ء؁
۱۰؎ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر۲ مکتوب نمبر۶۸
۱۱؎ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ۷۸۷ تا ۷۸۹
۱۲؎ روزنامہ الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء؁
۱۳؎ تریاق القلوب حاشیہ صفحہ۶۵
 
Top