• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سیرت خاتم النبیین ۔ مرزا بشیر احمد ایم اے رض ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت خاتم النبیین ۔ مرزا بشیر احمد ایم اے رض ۔ یونی کوڈ

بیاد گار مقدس
حضرت اقدس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود جری اﷲ فی حلل الانبیاء علیہ و علی مطاعہ محمد الصلٰوۃ والسلام جن کی بعثت کے ذریعہ اس زمانہ میں اﷲ کے حکم کے ساتھ دوبارہ جمال محمدی کا ظہور ہوا۔
از طرف احقر الخدام
خاکسار
مرزا بشیر احمد
قادیان مورخہ ۱۴ شوال ۱۳۳۸ ھ
مطابق یکم جولائی ۱۹۲۰ء

آغازِ رسالت
طلُوعِ آفتاب
صبح کی سفیدی اُفقِ مشرق میں نمودار ہو رہی تھی اور آفتاب عالمتاب طلوع کرنے کو تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حسب معمول غار حرا میں تشریف لے جاتے اور اپنے
رنگ میں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ رؤیا صالحہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اسی حالت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھ ماہ گذارے۔ ۱؎
اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عُمر چالیس سال کی تھی اور طبیعت نبوت و رسالت کی پختگی کو پہنچ چکی تھی۔ رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور اس کے آخری عشرہ کے ایّام تھے اور پیر کا دن تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حسب معمول غارِ حرا میں عبادتِ الٰہی میں مصروف تھے کہ یکلخت آپؐ کے سامنے ایک غیر مانوس ہستی نمودار ہوئی۔ اُس ربّانی رسُول نے جو خدائی فرشتہ جبرائیل تھا آپؐ سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ اِقْرَأْ‘‘ ’’پڑھ‘‘ یعنی مُنہ سے بول یا لوگوں تک پہنچا۔ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’ مَا انَا بِقَارِیٍ ٔ ‘‘۔ ’’میں تو نہیں پڑھ سکتا۔‘‘یعنی مَیں تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ ۳؎ فرشتہ نے یہ جواب سُنا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پکڑا اور اپنے سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر چھوڑکر کہا اِقْرَأ مگر آنحضرت کی طرف سے پھر وہی جواب تھا۔ فرشتہ نے پھر پکڑا اور زور سے بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا اِقْرَأ ۔ مگر ادھر سے پھر وہی تأمل تھا۔ اس پر اُس ربّانی رسُول نے آپؐ کو تیسری دفعہ پکڑا اور نہایت زور سے بھینچا گویا اپنی انتہائی کوشش سے اس معانقہ کے ساتھ آپؐ کے قلب پر اثر ڈالتا تھا اور پھر اس تسلی کے بعد کہ اب آپؐ کی طبیعت اس پیغام کے لینے کے لیے آمادہ ہو چکی ہے اس نے آپؐ کو چھوڑکر کہا:
۱؎
’’پڑھ یعنی مُنہ سے بول یا لوگوں تک پہنچا اپنے رب کا نام۔ ۲؎ جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے۔ ہاں پڑھ۔ تیرا ربّ بہت عزّت و شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ سکھایا اس نے انسان کو وہ کچھ جو وُہ جانتا نہ تھا۔‘‘ ۳؎
یہ کہہ کر فرشتہ غائب ہو گیا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حالت سخت گھبراہٹ اور اضطراب کی تھی اور دل دھڑک رہا تھا کہ خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ اسی حالت میں آپؐ جلدی جلدی غارِ حرا سے نِکل کر گھر کی طرف لوٹے اور خدیجہ ؓ سے فرمایا۔ ’’زَمِّلُوْ نِیْ۔ زَمِّلُوْنِیْ۔‘‘ مجھ پر کوئی کپڑا ڈالو۔ مجھ پر کوئی کپڑا ڈالو۔ حضرت خدیجہ ؓ اپنے محبوب خاوند کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئیں اور جلدی سے آپ ؐ کو کپڑا اوڑھا دیا۔ جب ذرا اطمینان ہوا اور گھبراہٹ کچھ کم ہوئی تو آپؐ نے سارا ماجرا حضرت خدیجہ ؓ کو سُنایا اور آخر میں فرمایا۔ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ۔ ’’مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ مگر حضرت خدیجہ ؓ جو آپؐ کی حالت سے خوب واقف تھیں بولیں:
کَلَّااَبْشِرْفَوَاﷲِ لَا یُخْزِیْکَ اﷲُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرِّ حْمَ وَتَصْدِقُ الْحَدِیْث وَتحْمِلُ الْکَلَّ و تکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نوََائِبِ الْحَقَّ۔
’’نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ آپ خوش ہوں۔ خُدا کی قسم اﷲ آپ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیںاور صادق القول ہیں اور لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور معدُوم اخلاق کو آپ نے اپنے اندر جمع کیا ہے اور آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی باتوں میں لوگوں کے مدد گار بنتے ہیں۔‘‘
اِس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہؔ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو شِرک کا تارک ہو کر عیسائی مذہب کا پَیرو ہو چکا تھا اور گذشتہ صحفِ انبیاء سے کسی قدر واقف تھا اور اب بوڑھا تھا حتیٰ کہ اس کی آنکھوں کی بینائی تک بھی جاچکی تھی۔ اس کے پاس آپؐ کو لے جاکر حضرت خدیجہ ؓ نے کہا۔ ’’بھائی ذرا اپنے اس بھتیجے کی بات تو سُن لو۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’ہاں کیا معاملہ ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب ماجرا سُنادیا۔ جب وَرقہ ساری کیفیت سُن چکا تو بولا۔ ’’یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ ؑپر وحی لاتا تھا۔ اے کاش ! مجھ میں طاقت ہوتی۔ اے کاش! مَیں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھے وطن سے نکال دے گی۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حیران ہو کر پوچھا۔ اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ ’’کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟‘‘ وَرقہ نے کہا۔ ’’ہاں کوئی رسُول نہیں آیا کہ اس کے ساتھ اس کی قوم نے عداوت نہ کی ہو۔ اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو مَیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ تیری مدد کروں گا۔‘‘ مگر وَرقہ کو یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوئے کیونکہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ ۱؎
فترۃِ وحی
اس کے بعد وحی کا سلسلہ رُک گیا۔ ۲؎ اور ایک عرصہ تک جس کا اندازہ ابنِ عباس ؓ کی ایک روایت کے مطابق چالیس یوم بیان ہوا ہے۔ ۳؎ یہ سلسلہ رُکا رہا۔ اس زمانہ کو فترۃ کا زمانہ
کہتے ہیں۔ گویا آفتابِ رسالت کی روشنی ایک دفعہ نظر آئی اور پھر غائب ہو گئی۔ آپؐ کے لبہائے تشنہ پر بارش کا ایک چھینٹا پڑا اور پھر بادل پھٹ گئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ایّام سخت گھبراہٹ اور بے چینی کی حالت میں گذارے۔ دن رات اُٹھتے بیٹھتے یہی خیال تھا کہ خُدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کیا ہونے والا ہے اور اس غیر مانوس غیبی رسُول کا آنا کیا معنے رکھتا ہے اور کیا یہ پیام و سلام خُدا کی طرف سے ہے یا میرے اپنے نفس کا ہی کوئی مخفی پر تَو ہے؟ ان سوالات نے آپؐ کو سخت بے چین کر رکھا تھا حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ ان ایّام میں آپؐ کو اتنی گھبراہٹ تھی کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپؐ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور ارادہ کیا کہ وہاں سے اپنے آپ کو گِرا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیں مگر ہر ایسے موقع پر الٰہی فرشتہ آواز دیتا۔ ’’دیکھو محمد ؐ ایسا نہ کرو تم واقعی اﷲ کے رسُول ہو۔‘‘ یہ آواز سُن کر آپؐ رُک جاتے مگر پھر بے چینی اور اضطراب کی حالت پیدا ہوتی تو بے اختیار ہو کر پھر اپنے آپ کو ہلاک کر دینے کے لیے تیار ہوجاتے۔ ۴؎
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ میں ظاہری معنے مُراد نہ ہوں اور اپنے آپ کو بلندی سے گِرا کر زندگی کا خاتمہ کر دینے کا یہ مطلب ہو کہ چونکہ آپؐ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اس غیبی فرشتہ کا نظر آنا نفس ہی کا پَر تو نہ ہو۔ یا یہ سب نظارہ خدا کی طرف سے بطور امتحان کے ہو، اس لیے آپؐ نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے نفس کو مزید گِرا کر اور پست و مغلوب کر کے گویا خدا کی راہ میں اسے بالکل ہی مار دیں۔ اس صورت میں پہاڑ پر سے اپنے آپ کو گِرا دینے کے الفاظ گویا بطور استعارہ کے سمجھے جائیں گے۔ بہرحال خواہ کوئی بھی معنے ہوں آپؐ کے لیے یہ دن بڑی کش مکش کے دن تھے اور اسی کش مکش کی حالت میں آپؐ ایک دن غارِ حرا سے گھر کی طرف واپس آرہے تھے کہ اچانک ایک آواز آئی۔ گویا کوئی شخص آپؐ کومخاطب کررہا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آگے پیچھے، دائیں بائیں سب طرف دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا۔ آخر آپؐ نے اُوپر نظر اُٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک عظیم الشان کُرسی پر وہی فرشتہ بیٹھا ہے جو غارِ حرا میں آپؐ کو نظر آیا تھا۔ آپؐ نے یہ نظارہ دیکھا تو سہم گئے اور گھبرائے ہوئے جلدی جلدی گھر آئے اور حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا: دَثِّرُوْ نِیْ ! دَثِّرُوْنِیْ ! ’’مجھ پر کوئی کپڑا ڈھانک دو۔‘‘ خدیجہ ؓ نے جلدی سے کپڑا اوڑھا دیا اور آپؐ لیٹ گئے۔ آپؐ کا لیٹنا تھا کہ ایک پُر جلال آواز آپؐ کے کانوں میں آئی:

’’یعنی اے چادر میں لپٹے ہوئے شخص! اُٹھ کھڑاہو۔ اور لوگوں کو خُدا کے نام پر بیدار کر۔ اُٹھ اور اپنے ربّ کی بڑائی کے گیت گا اور اپنے نفس کو پاک و صاف کر اور ہر قسم کے شِرک سے پرہیز کر۔‘‘
اس کے بعد وحی کا سلسلہ برابر جاری ہو گیا۔ ۱؎
آغازِ تبلیغ
اب آپؐ کی طبیعت میں یکسوئی اور اطمینان تھا؛ چنانچہ آپؐ نے لوگوں کو توحیدِ باری تعالیٰ کی طرف بلانا شروع کیا اور شِرک کے خلاف تعلیم دینے لگے مگر شروع شروع میں آپؐ نے
اپنے مشن کا کھُلّم کھُلا اظہار نہیں فرمایا۔ بلکہ نہایت خاموشی کے ساتھ کارروائی شروع کی اور صرف اپنے ملنے والوں کے حلقہ تک اپنی تعلیم کو محدود رکھا۔ ۲؎
اسلام کا پیغام
گو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا ڈھانچہ بیان کرنے کے لیے اصل موقع آگے آئے گا، لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ بھی ایک مختصر سا خاکہ اسلام
کا درج کر دیا جائے تاکہ ہمارے ناظرین کو معلوم ہو سکے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مشن کیا تھا اور اس کے اصول کیا تھے۔ سو جاننا چاہئے کہ جو مذہب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا اس کا نام اسلام ہے جس کے معنے اپنے آپ کو خُدا کے سُپرد کر دینے کے ہیں اور یہی آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم کا حقیقی خلاصہ ہے۔ آپؐ کے مذہب کا پہلا اور سب سے بڑا اصول توحید باری تعالیٰ ہے۔ یعنی یہ کہ اس دنیا کا خالق و مالک ایک خُدا ہے جو اپنی ذات و صفات میں واحد لاشریک ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی پیدا کردہ اور اسی کے سہارے سے قائم ہے، اس لیے اس کے سِوا کِسی کی پرستش جائز نہیں اور وہ تمام معبود جو خُدا کے سوا لوگوں نے بنا رکھے ہیں وہ سب فرضی اور باطل ہیں۔ یہ وہ سب سے پہلا اور سب سے بڑا اصول ہے جو آپؐ نے اہلِ مکّہ کے سامنے پیش کیا۔ دوسرا اصول آپؐ نے یہ بیان کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو ایک خاص غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ لوگ اُسے پہچان کر اس کے رنگ میں رنگین ہوں اور اپنے لیے ابدی ترقی کا سامان پیدا کریں اور اس غرض کے لیے اُس نے انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک دنیا کی زندگی جو کہ دارالعمل ہے اور ایک آخرت کی زندگی جو کہ دارالجزاء ہے اور ان ہر دو زندگیوں کے درمیان موت کو حدّ فاصِل مقرر کیا گیا ہے۔ تیسرا اصول آپؐ نے یہ پیش کیا کہ اﷲ تعالیٰ دُنیا کی ہدایت کے لیے اپنی طرف سے رسُول اور نبی مبعوث کرتا رہتا ہے جو خدا سے علم پا کر دُنیا کی ہدایت کا انتظام کرتے ہیں۔ایسے رسُول اور نبی ہر قوم اور ہر مُلک اور ہر زمانہ میں گذرے ہیں اور انہیں میں سے آپؐ بھی خُدا کے ایک رسُول ہیں۔ یہ وُہ تین اصل الاصول ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ابتدائی مشن کی بنیاد تھے۔ مگر جوں جوں زمانہ گذرتا گیا بعض مزید اصول اور ان اصول کی مزید فروع اور مزید تفصیلات نازل ہوتی گئیں حتّٰی کہ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم موجودہ قرآن کریم کی صورت میں اپنی تکمیل کو پہنچ گئی اور آپؐ سب اوّلین و آخرین کے سردار اور خاتم النّبیین اور آخری اور کامل شریعت لانے والے قرار دیئے گئے۔
سب سے پہلا مسلمان
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ ؓ تھیں جنہوں نے ایک لمحہ کے
لیے بھی تَردّد نہیں کیا۔ حضرت خدیجہ ؓ کے بعد مَردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ بعض حضرت ابو بکر ؓ عبداﷲ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں۔ بعض حضرت علی ؓ کا جن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید ؓ بن حارثہ کا۔ مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے۔ حضرت علی ؓ اور زیدؓ بن حارثہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے اور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا۔ بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کِسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی۔ پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابو بکر ؓ مسلّمہ طور پر مقدّم اور سابق بالایمان تھے؛ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے درباری شاعر حسّانؓ بن ثابت انصاری حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق کہتے ہیں۔ ؎
اِذَا تَذَکَّرْتَ شَجْوًا مِنْ اَخِیْ ثِقَۃٍ
خَیْرَ الْبَرِ یَّۃِ اَتْقَا ھَاوَاَ عَدَّلَھَا
اَلثَّانِیّ اَلتَّالِیَّ الْمَحْمُوْدَ مَشْھَدَہٗ
فَاذْکُرْ اَخَاکَ اَبَا بَکْرٍ بِمَا فَعَلَا
بَعْدَا النَّبِیِّ وَاَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا
وَاَوَّلَ النَّاسِ مِنْھُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا
یعنی ’’ جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اس وقت اپنے بھائی ابو بکر ؓ کو بھی یاد کر لیا کرو۔ اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں میں سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ منصف مزاج تھا اور وہ سب سے زیادہ پورا کرنے والا تھا اپنی اُن ذمہ داریوں کو جو اس نے اٹھائیں۔ ہاں ابو بکر ؓ وہی تو ہے جو غارِ ثور میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو آپؐ کی اِتّباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا اور وہ ان سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسول پر ایمان لائے۔ ۱؎
حضرت ابو بکر ؓ اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قریش میں بہت مکرّم و معزز تھے اور اسلام میں تو ان کو وہ رتبہ حاصل ہوا جو کسی اور صحابی کو حاصل نہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ نے ایک لمحہ کے لیے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعویٰ میں شک نہیں کیا بلکہ سُنتے ہی قبول کیا اور پھر انہوں نے اپنی ساری توجہ اور اپنی جان اورمال کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی خدمت میں وقف کر دیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں ابو بکر ؓکوزیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپؐ کی وفات کے بعد وُہ آپؐ کے پہلے خلیفہ ہوئے۔ اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی انہوں نے بے نظیر قابلیت کا ثبوت دیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپرؔنگر لکھتا ہے کہ:
’’ابو بکر ؓکا آغازِ اسلام میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیںتھے۔ بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسُول یقین کرتے تھے۔‘‘
اور سروؔلیم میور کو بھی سپرؔنگر کی اس رائے سے کلی اتفاق ہے۔ ۱؎
سابقین
حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت علی ؓ اور زیدؓ بن حارثہ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کے سب اسلام میں
ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب نکلے کہ چوٹی کے صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
اوّلحضرت عثمان ؓ بن عفان جو خاندان بنو امیّہ میں سے تھے۔ اسلام لانے کے وقت اُن کی عمر قریباً تیس سال کی تھی۔ حضرت عمر ؓ کے بعد وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ نہایت باحیا، باوفا، نرم دل، فیّاض اور دولتمند آدمی تھے۔ چنانچہ کئی موقعوں پر انہوں نے اسلام کی بہت بہت مالی خدمات کیں۔حضرت عثمان ؓ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے انہیں پے در پے اپنی دو لڑکیاں شادی میں دیں جس کی وجہ سے انہیں ذوالنّورین کہتے ہیں۔
دوسرے عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے جو خاندان بنو زہرہ سے تھے جس خاندان سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ تھیں۔ نہایت سمجھدار اور بہت سُلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے۔ حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا سوال انہی کے ہاتھ سے طے ہوا تھا۔ اسلام لانے کے وقت اِن کی عمر قریباً تیس سال کی تھی۔ عہدِ عثمانی میں فوت ہوئے۔
تیسرے سعد بن ابی وقاص ؓ تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے یعنی اس وقت اُن کی عمر انیس سال کی تھی۔ یہ بھی بنوزہرہؔ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں فوت ہوئے۔
چوتھے زبیر بن العوام ؓ تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ یعنی صفیہ بنت عبدالمطلب کے صاحبزادے تھے اور بعد میں حضرت ابو بکر ؓ کے داماد ہوئے۔ یہ بنو اسد میں سے تھے اور اسلام لانے کے وقت ان کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زبیرؔ کو غزوئہ خندق کے موقع پر ایک خاص خدمت سرانجام دینے کی وجہ سے حواری کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ زبیر ؓ حضرت علی ؓ کے عہدِ حکومت میں جنگِ جمل کے بعد شہید ہوئے۔
پانچویں طلحہ بن عبیداﷲ تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کے خاندان یعنی قبیلہ بنو تیم میں سے تھے اور اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ طلحہ بھی اسلام کے خاص فدایان میں سے تھے۔ حضرت علی ؓ کے عہد میں جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔
یہ پانچوںاصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی اُن دس اصحاب میں داخل ہیں جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پر جنت کی بشارت دی تھی اور جو آپؐ کے نہایت مقر ّب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے۔ ۱؎
ان لوگوں کے بعد اور لوگ جو شروع شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بعض تو قریش میں سے تھے اور بعض دوسرے قبائل میں سے تھے ۔ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
ابو عبیدہ بن عبداﷲ بن الجراح ؓ جن کے ہاتھ پر حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں شام فتح ہوا۔ یہ نہایت نیک اور صوفی مزاج آدمی تھے جنہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے امین الملّۃ کا خطاب عطا ہوا تھا۔ ابو عبیدہ قریش کے قبیلہ بنو خلج میں سے تھے جنہیں بعض اوقات فہر بن مالک کی طرف منسوب کر کے فہری بھی کہہ لیتے تھے۔ حضرت عائشہ کی نظر میں ابو عبیدہ کی اتنی قدر و منزلت تھی کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حضرت عمر ؓ کی وفات پر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو وہی خلیفہ ہوتے۔ حضرت ابو بکر ؓ بھی ابو عبیدہ ؓ کی بہت قدر کرتے تھے؛ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر جن لوگوں کو حضرت ابو بکر ؓ نے خلافت کا اہل قرار دیا تھا، اُن میں سے ابو عبیدہ ؓ بھی تھے۔ ابو عبیدہ ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں وبائے طاعون سے شہید ہوئے۔
پھر عبیدۃ ؓ بن الحارث تھے جو بنو مطلب میں سے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے ۔ پھر ابو سلمہ ؓ بن عبدالاسد تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے اور بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کی وفات پر اُن کی بیوہ امّ سلمہ ؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادی ہوئی۔ ابوحذیفہ ؓ بن عتبہ تھے جو بنو امیّہ میں سے تھے۔ ان کا باپ عتبہ بن ربیعہ سردارانِ قریش میں سے تھا۔ ابوحذیفہ ؓ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے جو حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں مسیلمہ کذّاب کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدؔ بن زید ؓ تھے جو بنو عدی میں سے تھے اور حضرت عمر کے بہنوئی تھے۔ یہ زید بن عمرو بن نفیل کے صاحبزادے تھے جنہوں نے زمانہ ٔ جاہلیت میں ہی شِرک ترک کر رکھا تھا۔ سعید ؓ بھی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں فوت ہوئے۔ عثمان بن مظعون ؓ تھے جو بنو جمح میں سے تھے۔ نہایت صوفی مزاج آدمی تھے۔ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی شراب ترک کر رکھی تھی اور اسلا م میں بھی تارکِ دنیا ہونا چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے کہ اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے اس کی اجازت نہیں دی۔ ارقم بن ابی ارقم ؓ جن کے مکان کو جو کوہِ صفا کے دامن میں تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں اپنا تبلیغی مرکز بنایا۔ ارقم ؓ بنو مخزوم میں سے تھے۔ پھر عبداﷲ ؓ بن جحش اور عبید اﷲ ؓ بن جحش تھے۔ یہ دونوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے مگر قبیلہ قریش سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ زینب ؓ بنت جحش جو بعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں انہی کی بہن تھیں۔ عبید اﷲ بن جحش ان لوگوں میں سے تھا۔ جنہوں نے زمانہ جاہلیّت میں ہی بُت پرستی ترک کر رکھی تھی۔ اسلام آیا تو وہ مسلمان ہو گیا، لیکن جب وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گیا تو کسی وجہ سے وہاں اسلام سے منحرف ہو کر عیسائی ہو گیا۔ اس کی بیوہ اُمِّ حبیبہؓ جو قریش کے مشہور رئیس ابو سفیان کی لڑکی تھی بعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقد میں آئی۔ ۱؎
ان لوگوں کے علاوہ عبداﷲ بن مسعود ؓ تھے جو غیر قریشی تھے اور قبیلہ ھذیل سے تعلق رکھتے تھے۔ عبداﷲ ایک بہت غریب آدمی تھے اور عقبہ بن ابی معیط رئیس قریش کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے اور آپؐ کی صُحبت سے بالآخر نہایت عالم و فاضل بن گئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد زیادہ تر انہی کے اقوال و اجتہادات پر مبنی ہے۔ پھر بلال ؓ بن رباح تھے جو امیّہ بن خلف کے حبشی غلام تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اذان دینے کا کام انہی کے سُپرد تھا۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے اذان کہنا چھوڑ دیا تھا لیکن جب حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں شام فتح ہوا تو ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے اصرار پر انہوں نے پھر اذان کہی جس پر سب کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آگیا؛ چنانچہ وہ خود اور حضرت عمرؓ اور دوسرے اصحاب جو اس وقت موجود تھے اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔حضرت عمر ؓ کو بلال ؓ سے اتنی محبت تھی کہ جب وہ فوت ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔ ’’آج مسلمانوں کا سردار گذر گیا۔‘‘ یہ ایک غریب حبشی غلام کے متعلق بادشاہ وقت کا قول تھا۔ پھر عامر بن فہیرہ تھے جن کو حضرت ابو بکر ؓ نے غلامی سے آزاد کر کے خود اپنے پاس نوکر رکھ لیا تھا۔ پھر خباب ؓ بن الارت تھے جو ایک آزاد شدہ غلام تھے اور اُن دنوں مکّہ میں لوہار کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر ابوذر ؓ تھے جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا دعویٰ سُنا تو تحقیقات کے لیے اپنے بھائی کو مکّہ بھیجا۔ چنانچہ وہ مکّہ آیا اور واپس جاکر ابو ذرؓ کو حالات سے اطلاع دی، مگر اس سے ابو ذر ؓ کی تسلی نہیں ہوئی اس لیے اس کے بعد وہ خود مکّہ میں آئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مِل کر مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا قصّہ بخاری میں مفصّل درج ہے اور بہت دلچسپ ہے۔ ۱؎ ابو ذر ؓ نہایت زاہد و صوفی مزاج آدمی تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ کسی صورت میں بھی مال جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس بناء پر بعض اوقات بعض دوسرے صحابہ سے ان کا جھگڑا ہو جاتا تھا۔ ۲؎
یہ وہ چند لوگ ہیں جو ابتدائی تین چار سال میں اسلام لائے۔ ان میں سے شادی شدہ لوگوں کے بیوی بچے بھی عموماً ان کے ساتھ تھے؛چنانچہ اس زمانہ میں مسلمان ہونے والی عورتوں میں مؤرخین نے حضرت خدیجہ ؓ کے بعد اسماء بنت ابی بکر ؓ اور فاطمہ ؓ بنت خطاب زوجہ سعید بن زید کا نام خاص طور پر لیا ہے۔ ان کے علاوہ عورتوں میں عباس ؓ بن عبدالمطلب کی بیوی اُمّ فضل بھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں مگر یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت تک عباس ؓ خود اسلام نہیں لائے تھے۔ بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تین چار سالہ تبلیغی جِدّوجُہد کا نتیجہ یہی چند گنتی کی جانیں تھیں۔ مگر ان سابقین الاوّلین میں سے سوائے حضرت ابو بکرؓ کے ایک بھی ایسا نہ تھا جو قریش میں کوئی خاص اثر یا وجاہت رکھتا ہو۔ بعض غلام تھے اور اکثر لوگ غریب اور کمزور تھے۔ بعض البتہ قریش کے اعلیٰ گھرانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان میں سے بھی زیادہ تر نوجوان تھے۔ بلکہ بعض کو تو گویا بچے ہی کہنا چاہئے اس لیے وہ ابھی اس حالت کو نہ پہنچے تھے کہ اپنے قبیلے میں کوئی اثر پیدا کر سکیں اور جو معمر تھے وہ غربت یا کسی اور وجہ سے کوئی اثر نہ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے قریش میں یہ عام خیال تھا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو صرف چھوٹے اور کمزور لوگوں نے مانا ہے؛ چنانچہ جب کئی سال بعد ہرؔقل شہنشاہ روم نے رئیس مکّہ ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا ’’محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو بڑے لوگ مانتے ہیں یا کہ کمزور اور چھوٹے لوگ؟‘‘ تو ابو سفیان نے یہی جواب دیا کہ ’’کمزور اور چھوٹے لوگ مانتے ہیں۔ جس پر ہرؔقل نے کہا اور خوب کہا کہ‘‘ اﷲ کے رسولوں کو شروع شروع میں چھوٹے لوگ ہی مانا کرتے ہیں۔ ۱؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیعت لینے کا طریق
اس موقع پر یہ ذکر نامناسب نہ ہو گا کہ جب کوئی شخص مسلمان ہونے کے لئے
آتا تھا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپؐ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر مقررہ الفاظ میں اسلام کا اقرار کرواتے تھے اور یہ عہد لیتے تھے کہ آئندہ وہ ہر معروف امر میں آپؐ کی فرمانبرداری کرے گا۔اسلام کے اقرار میں اصولی باتوں کا صراحت کے ساتھ ذکر کروا کے اقرار لیا جاتا تھا مثلاً یہ کہ خدا کو ایک واحد لاشریک یقین کروں گا اور کسی قسم کا شِرک نہیں کروں گا اور ہر قسم کے اعمالِ شنیعہ مثلاًچوری، زنا، قتل، جھوٹ وغیرہ سے پرہیز کروں گا وغیرہ وغیرہ۔ عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے آپ اقرار تو یہی لیتے تھے جو مردوں سے لیا جاتا تھا ، مگر آپؐ عورتوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے بلکہ صرف زبانی اقرار لے لیا جاتا تھا۔ بعد میں جب جہاد بالسیف کے متعلق احکام نازل ہوئے تو آپؐ نے بیعت میں جہاد کے متعلق بھی الفاظ زیادہ فرمادیئے، لیکن عورتوں کی بیعت آخر تک اسی ابتدائی صورت میں قائم رہی۔۲؎ بیعت کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپؐ غیر محرم عورتوں کے ساتھ مصافحہ نہیں کرتے تھے۔ ۳؎ اور پَردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد تو شرعاً غیر محرم مردوعورت کا ایک دوسرے پر اپنی زینت کا اظہار خواہ وہ نظر کے ذریعہ ہو یا لمس وغیرہ کے ذریعہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ۴؎
ابتدائی اِخفأ اور قریش کا رویہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابتداء میں قریباً تین برس تک اسلام کی تبلیغ کو عموماً خفیہ رکھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں مسلمانوں کا کوئی
خاص مرکز بھی نہ تھا جہاں وہ جمع ہو سکتے۔ بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دیگر مسلمانوں کی تبلیغ سے جو متلاشیانِ حق آتے تھے اُن سے آپؐ عموماً اپنے مکان کے اندر ہی ملتے تھے یا شہر سے باہر کسی جگہ ملاقات فرماتے تھے۔ اس اخفاء کا یہاں تک اثر تھا کہ بعض اوقات خود مسلمانوں کو ایک دوسرے کے اسلام کا پتہ نہ لگتا تھا جس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں مسلمان اپنے اسلام کو عام طور پر چھپاتے تھے اور سردارانِ قریش کے کانوں تک تو بہت ہی کم خبر پہنچتی تھی لیکن اگر کبھی خبر پہنچ بھی جاتی تو بھی ان کی طرف سے ان ایام میں عموماً مسلمانوں سے کوئی تعارض نہ ہوتا تھا بلکہ اُن کی مخالفت عملاً ہنسی مذاق تک ہی محدود رہتی تھی کیونکہ وہ اس تمام کارروائی کو ایک بچوں کا کھیل سمجھتے تھے۔ یا اگر کبھی کوئی شخص زیادہ سختی سے مخالفت کرتا بھی تھا تو یہ اس کا ذاتی فعل ہوتا تھا اور اسلام کے خلاف قریش کی طرف سے اس وقت کوئی متحدہ مخالفانہ کوشش نہ تھی۔
ابتدائی زمانہ کے ارکانِ اسلام
اصول اسلام کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے یعنی یہ کہ اس ابتدائی زمانہ میں جب کہ شریعتِ اسلامی کے نزول کی ابتداء تھی ارکان اسلام
میں سے صرف ایمان باﷲ اور توحید پر اصل زور تھا۔ اس کے بعد ایمان بالرسل، بعث بعد الموت اور جزاسزا کا عقیدہ تھا اور گو درحقیقت یہ وہ بنیادی اصول ہیں کہ اگر غور سے دیکھو تو سب کچھ ان کے اندر آجاتا ہے لیکن جس طرح بعد میں یہ اور دوسری اصولی باتیں تدوینی رنگ میں ارکانِ ایمان قرار دی گئیں یہ حال اوائل میں نہ تھا۔ اسی طرح ارکانِ اعمال کا حال تھا۔ بلکہ اعمال میں تو موجودہ ارکان یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں سے کوئی رکن بھی اس وقت تک باقاعدہ طور پر قائم نہ ہوا تھا۔ البتہ احادیث سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء میں جبرائیل نے آپؐ کو نماز اور وضو کا طریق سکھا دیا تھا مگر باقاعدہ پانچ وقت کی نماز بہت بعد میں شروع ہوئی اور روزہ وغیرہ تو اس سے بھی بہت عرصہ بعد میں شروع ہوئے۔ ابتداء میں صرف نماز تھی اور وہ بھی ایک نفلی رنگ رکھتی تھی۔ یعنی ان ابتدائی ایّام میں مسلمان اپنے طور پرگھروں میں یا مکّہ کے پاس کی گھاٹیوں میں دو دو چار چار مل کر جب موقع ملا ایک عام عبادت کے رنگ میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے؛ چنانچہ اس ابتدائی زمانہ کے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علی مکہّ کی کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس طرف سے ابو طالب کا گذر ہوا۔ ابوطالب کو ابھی تک اسلام کی کوئی خبر نہ تھی اس لیے وہ کھڑا ہو کر نہایت حیرت سے یہ نظارہ دیکھتا رہا۔ جب آپؐ نماز ختم کر چکے تو اس نے پوچھا ’’بھتیجے یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’چچا ! یہ دین الٰہی اور دینِ ابراہیم ہے۔‘‘ اور آپؐ نے ابوطالب کو مختصر طور پر اسلام کی دعوت دی، لیکن ابو طالب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’مَیں اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر ساتھ ہی اپنے بیٹے حضرت علی ؓ کی طرف مخاطب ہو کر بولا۔’’ ہاں بیٹا تم بے شک محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا ساتھ دو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ تم کو سوائے نیکی کے اور کسی طرف نہیں بلائے گا۔ ۱؎ غالباً اسی زمانہ کے قریب کا ایک اور واقعہ ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور چند اور مسلمان مل کر کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک چند مشرکین وہاں آنکلے اور انہوں نے مسلمانوں کو ایک نئے رنگ کی عبادت کرتے دیکھ کر ڈانٹا۔ جس پر باہم کچھ تکرار بھی ہو گئی۔ ۲؎
کھلی تبلیغ کا آغاز
یہ ابتدائی زمانہ اسی طرح خاموش اور خفیہ تبلیغ میں گذر رہا تھا اور بعثتِ نبوی ؐ پر قریباً تین سال گذر چکے تھے اور اب چوتھا سال شروع تھا کہ الٰہی حکم نازل ہوا کہ
’’۔‘‘
’’یعنی اے رسُول ! جو حکم تجھے دیا گیا ہے وہ کھول کھول کر لوگوں کو سُنا دے۔‘‘ ۳؎
اور اس کے قریب ہی یہ آیت اُتری کہ :۔ ’’یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار و بیدار کر۔‘‘ ۴؎
جب یہ احکام اُترے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پُکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا۔۵؎ جب سب لوگ جمع ہو گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے قریش ! اگر مَیں تم کو یہ خبر دُوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے؟‘‘ بظاہر یہ ایک بالکل ناقابلِ قبول بات تھی مگر سب نے کہا۔ ’’ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’تو پھر سنو! مَیں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اﷲ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے۔ خُدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ۔ ‘‘ جب قریش نے یہ الفاظ سُنے تو کھل کھلا کر ہنس پڑے اور آپؐ کے چچا ابو لہب نے آپؐ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تبًّا لَکَ اَلِہٰذَا جَمَعْتَنَا۔‘‘ محمد تو ہلاک ہو۔ کیا اس غرض سے تو نے ہم کو جمع کیا تھا؟‘‘ پھر سب لوگ ہنسی مذاق کرتے ہوئے منتشر ہو گئے۔ ۶؎
اقرباء کی دعوت
انہی دنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبدالمطلب کو بلاؤ تاکہ اس ذریعہ سے اُن تک
پیغامِ حق پہنچایا جاوے؛ چنانچہ حضرت علی ؓ نے دعوت کا انتظام کیا اور آپؐ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس نفوس تھے اس دعوت میں بُلایا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو آپؐ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بد بخت ابو لہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ ’’یہ موقع تو جاتا رہا اب پھر دعوت کا انتظام کرو۔‘‘ چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپؐ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ ’’اے بنو عبدالمطلب! دیکھو مَیں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا۔ میں تمہیں خُدا کی طرف بُلاتا ہوں۔ اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دُنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے۔ اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مدد گار ہو گا؟‘‘ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سنّاٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دُبلا پتلا بچہ جس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اُٹھا اور یوں گویا ہوا۔ ’’گو مَیں سب میں کمزور ہوں اور سب میں چھوٹا ہوں مگر مَیں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔‘‘ یہ حضرت علی ؓ کی آواز تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کے یہ الفاظ سُنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ ’’اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سُنو اور اسے مانو۔‘‘ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا ’’لو اَب محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پَیروی اختیار کرو۔‘‘ اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمزوری پر ہنسی اُڑاتے ہوئے رُخصت ہو گئے۔ ‘‘ ۱؎
دارارقم میں پہلا تبلیغی مرکز
غالباً انہی ایّام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ مکّہ میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جاوے۔ جہاں مُسلمان نماز وغیرہ کے لیے
بے روک ٹوک جمع ہو سکیں اور امن و اطمینان اور خاموشی کے ساتھ باقاعدہ اسلام کی تبلیغ کی جاسکے۔ اس غرض کے لیے ایک ایسے مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے ایک نو مسلم ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا۔ جو کوہِ صفا کے دامن میں واقع تھا۔ اس کے بعد تمام مسلمان یہیں جمع ہوتے۔ یہیں نماز پڑھتے۔ یہیں متلاشیانِ حق آتے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت رکھتا ہے اور ’دار الاسلام ‘کے نام سے مشہور ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا۔ یعنی بعثت کے چوتھے سال آپؐ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپؐ نے اُس میں اپنا کام کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارارقم سے نکل کر برملا تبلیغ کرنے لگ گئے۔ ۱؎
دارِ ارقم میں جو اشخاص ایمان لائے وہ بھی سابقین میں شمارہوتے ہیں۔ اُن میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں۔ اوّل مصعب ؓ بن عمیر جو بنو عبدالدار میں سے تھے اور بہت شکیل اور حسین تھے اور اپنے خاندان میں نہایت عزیز و محبوب سمجھے جاتے تھے یہ وہی نوجوان بزرگ ہیں جو ہجرت سے قبل یثرب میں پہلے اسلامی مبلّغ بنا کر بھیجے گئے اور جن کے ذریعہ مدینہ میں اسلام پھیلا۔ پھر زیدؓ بن الخطاب تھے جو حضرت عمر ؓ کے بڑے بھائی تھے۔ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کو ان کی وفات کا بہت صدمہ ہوا؛ چنانچہ جب اُن کے عہد خلافت میں کسی شخص نے اُن کے سامنے اپنے بھائی کا مرثیہ پڑھا، تو اُنہوں نے فرمایا کہ ’’اگر مَیں ایسے شعر کہہ سکتا تو مَیں بھی اپنے بھائی کا ایسا مرثیہ کہتا۔ ‘‘ اُس شخص نے جواب دیا۔ ’’ اے امیر المؤمنین ! جس قسم کی مبارک موت آپ کے بھائی کو نصیب ہوئی ہے وہ اگر میرے بھائی کو نصیب ہوتی تو مَیں کبھی بھی اُس کا نوحہ نہ کرتا اور مرثیہ نہ کہتا۔‘‘ حضرت عمر ؓ کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی۔ فرمایا۔ خُدا کی قسم جس طرح آج تم نے اس قول سے مجھے تسلی دی ہے ایسی کبھی کسی نے نہیں دی اور اس کے بعد پھر کبھی اپنے بھائی کی وفات پر اس طرح غم کااظہار نہیں کیا۔ ۲؎
پھر اس زمانہ میں ایمان لانے والوں میں سے ایک عبداﷲ ابن امِّ مکتوم ؓ تھے جو نابینا تھے اور حضرت خدیجہ ؓ کے عزیزوں میں سے تھے۔ اُن کے متعلق ایک دلچسپ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ کو جو قریش کا ایک بہت معزّز رئیس تھا نہایت شوق اور سرگرمی سے تبلیغ فرما رہے تھے ابن امّ مکتوم ؓ جلدی جلدی آئے اور کِسی دینی مسئلہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرنا چاہا لیکن اپنے شوق میں انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ یہاں کن لوگوں کا مجمع ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کس کام میں مصروف ہیں اور آدابِ مجلسِ رسُول کے ماتحت ان کو ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو موقع کے لحاظ سے اُن کا یہ فعل پسند نہ آیا اور آپؐ کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے مگر آپؐ کے اخلاق کریمانہ کا یہ تقاضا تھا کہ آپؐ نے اُن کو زبان سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ صرف آپؐ نے یہ کیا کہ اُن کی طرف سے بے التفاتی کر کے ولید سے اپنی بات جاری رکھی۔ عبداﷲ ابن امّ مکتوم کو اپنی غلطی کی طرف تو خیال نہیں گیا مگر آپؐکی اس بے التفاتی پر ملال ہوا اور اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ چونکہ ولید ایک بڑا آدمی ہے اس لیے آپؐ نے شاید اس کے مقابلہ میں مجھ غریب کی پروا نہیں کی۔ حالانکہ یہ خیال بالکل غلط اور بے بنیاد تھا کیونکہ اس وقت غریب امیر کا کوئی سوال نہ تھا بلکہ آپؐ ایک ایسے شخص کو تبلیغ فرمانے میں مصروف تھے جس کو ان باتوں کے سُننے کا بہت کم موقع ملتا تھا اور ابنِ امِّ مکتوم کے لیے یہ موقع ہروقت میّسر تھا اس لیے آپؐ نے اس موقع کو ہاتھ سے دینا پسند نہ فرمایا اور ابنِ امِّ مکتوم کے قطعِ کلام کو بُرا مانا جو حقیقت میں تھا بھی آدابِ مجلس کے خلاف۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کا یہ عالم تھا کہ جب آپؐ کو ابنِ اُمّ مکتوم کے دلی ملال پر اطلاع ہوئی اور ایک قرآنی وحی بھی اس بارے میں نازل ہوئی تو آپؐ نے اُن کی بڑی دلداری کی اور عرب کے طریق کے مطابق اپنی چادر مبارک بچھا کر اس پر ان کو بٹھایا۔۱؎
پھر اس زمانہ میں مسلمان ہونے والوں میں ایک جعفر بن ابی طالب تھے جو حضرت علی ؓ کے حقیقی بھائی تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی عزیز تھے۔ جعفر ؓ کے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں کہ خَلق اور خُلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت ملتے تھے۔ پھر عمار ؓ بن یاسر تھے جو قبیلہ مذ حج سے تھے اور اپنے باپ یاسرؔ اور والدہ سمیّہکے ساتھ مکّہ میں رہتے تھے۔ پھر صہیبؓ بن سنان تھے جو عام طور پر صہیب ؓ رومی کے نام سے مشہور ہیں مگر دراصل وہ رُومی نہ تھے بلکہ کسی زمانہ میں جبکہ ان کا باپ ایرانی حکومت کی طرف سے کسی جگہ کا عامل تھا رُومیوں کے ہاتھ قید ہو کر غلام بنا لیے گئے تھے اور پھر کچھ مدت تک اُن میں بطور غلام مقیم رہے بالآخر عبداﷲ بن جدعان قرشی نے جو مکّہ کا ایک رئیس تھا انہیں خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ صہیب ؓ جب مسلمان ہوئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نیک فال کے طور پر فرمایا کہ یہ ہمارا پہلا رُومی پھل ہے۔ صہیب ؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صُحبت کے اتنے دلدادہ تھے کہ جب یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے تو قریش نے ان کو روکا کہ تو ہمارے اندر ایک غریب غلام کی حیثیت میں آیا تھا اور اب تو ہم میں رہ کر امیر ہو گیا ہے اس لیے ہم تجھے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے کہا۔ تم میری ساری دولت لے لو اور مجھے جانے دو۔ اس شرط پر قریش نے انہیں جانے دیا۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر پہنچی تو آپؐ نے خوشی کے ساتھ فرمایا کہ:
’’صہیب ؓ نے بہت نفع والی تجارت کی ہے۔‘‘ جب حضرت عمر ؓ اپنے عہدِ خلافت میں مہلک طور پر زخمی ہوئے تو انہوں نے اپنی جگہ صُہیب ؓ کو ہی جو اس وقت پاس موجود تھے امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کا جنازہ بھی صہیب ؓ نے پڑھا تھا۔ ابو موسیٰ ؓ اشعری بھی غالباً اُسی زمانہ میں یا اس کے قریب مسلمان ہوئے تھے۔ ابو موسیٰ ؓ یمن کے رہنے والے تھے اور نہایت خوش الحان تھے۔ حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ ’’ابو موسیٰ کو تو لحنِ داؤدی سے حصہ ملا ہے۔‘‘ یہ وہی ابو موسیٰ ہیں جو حضرت علی ؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ کے درمیان ثالث مقرر ہوئے تھے۔
قریش کی مخالفت کا آغاز اور اس کے اسباب
جیسا کہ اُوپربیان کیا جاچکا ہے دارارقم میں داخل ہونے کے زمانہ سے کچھ پہلے ہی کھلم
کھلی تبلیغ شروع ہو گئی تھی اور مکّہ کے گلی کوچوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تھا۔ قریش اب تک تو ایک حد تک خاموش تھے لیکن اب ان کو بھی فکر شروع ہوا کہ کہیں یہ ’’مرض‘‘ زیادہ نہ پھیل جاوے اور اسلام کا پودا مکّہ کی زمین میں جڑ نہ پکڑ جاوے۔ اس لیے اب انہوں نے بھی اس کی طرف توجہ شروع کی اور اسلام کی اشاعت کو بزور روکنا چاہا۔ اس مخالفت کے کیا اسباب تھے؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر نیا الٰہی سلسلہ جو دنیا میں قائم ہوتا ہے دُنیا کی طرف سے ضرور اس کی مخالفت ہوتی ہے کیونکہ وہ لازماً اپنے اندر ایسی باتیں رکھتا ہے جس سے اس وقت کی دُنیا محض ناآشنا ہوتی ہے بلکہ یہ وُہ باتیں ہوتی ہیں جن کو دُنیا اپنی موجودہ عادات اور موجودہ عقائد و خیالات کے واسطے ایک یقینی موت سمجھتی ہے۔ درحقیقت انبیاء کی بعثت ہی ایسے وقت میں ہوتی ہے کہ جب دُنیا کے لوگ اس راستہ کو چھوڑچکے ہوتے ہیں جس پر اﷲ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ چلیں اور وہ اپنے موجودہ غلط راستہ کو ہی صحیح راستہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ پس جب بھی کبھی کوئی نیا نبی آتا اور دُنیا کو سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہے تو دُنیا اس کی باتوں کو غلط خیال کرتی اور اس کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتی ہے؛ چنانچہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
’’یعنی وائے حسرت لوگوں پر کہ کوئی بھی رسُول اُن کی طرف ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے ہنسی اور ٹھٹھا نہ کیا ہو۔‘‘
اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں وہی عموماً مخالفت میں بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
’’یعنی سنت اﷲ اسی طرح پر جاری ہے کہ ہر جگہ رسُول کے مقابلہ پر بڑے لوگ ہی خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والے اور فتنہ و فساد کے بانی بن جاتے ہیں۔‘‘
چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم ؑ مبعوث ہوئے تو اُن کی قوم کے بڑے بڑے لوگوں نے اُن کو پکڑ کر آگ میں جھونک دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ آئے تو ان کو بھی اکابر قوم کی طرف سے جنگ و جدل کے مصائب دیکھنے پڑے۔ حضرت مسیح ؑکی باری آئی تو اُن کی قوم کے علماء اور فریسیوں نے مل ملا کر اُن کو دار پر کھچوا دیا۔ ہندوستان میں کرشن مبعوث ہوئے تو اُن کی قوم ان کو ہلاک کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تو کیا سرورِ انبیاء ؐ اس سنّتِ رسل سے باہر رہتا؟ نہیں بلکہ جتنا عظیم الشان مشن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اُتنی ہی شدید آپؐ کی مخالفت ہونی چاہئے تھی کیونکہ آپؐ ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ جب تاریکی کا خاص زور تھا اور ضروری تھا کہ نور کے آنے پر تاریکی کی فوجیں اپنی انتہائی طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سارے گذشتہ انبیاء کی نسبت آپؐ کی مخالفت سب سے زیادہ ہوئی۔ اوراس مخالفت کے موٹے موٹے ظاہری اسباب یہ تھے:
(۱) قریش ایک پرلے درجہ کی بُت پرست قوم تھی اور بُتوں کی عزّت و محبت ان کے دلوں میں اس قدر جمی ہوئی تھی کہ اُن کے خلاف ایک لفظ بھی سُننا اُنہیں گوارا نہ تھا۔ خانہ کعبہ جو محض اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے واسطے بنایا گیا تھا اس میں بھی ان ظالموں نے سینکڑوں بُت جمع کر رکھے تھے اور اپنی تمام ضروریات کے لیے انہی بتوں کا مُنہ تکتے تھے۔ اب اسلام آیا تو اس کا بنیادی اصول ہی توحید باری تعالیٰ تھا اور صاف حکم تھا کہ کسی انسان یا درخت یا پتھر یا ستارے وغیرہ کے سامنے سرمت جھکاؤ بلکہ:
۔ ۲؎
’’صرف اسی ذات کے سامنے جھکو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘
پھر یہی نہیں بلکہ قریش کے بتوں کو اُن کے خیال میں ہتک آمیز لفظوں میں یاد کیا جاتا تھا اور ان کو جہنم کا ایندھن قرار دیا جاتا تھا۔ جیسے مثلاً فرمایا:
۔ ۱؎
’’یعنی اے لوگو! تم اور تمہارے وہ بُت جن کو تم پوجتے ہو دوزخ کا ایندھن ہیں۔‘‘
ان باتوں نے قریش کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اور وہ ایک جان ہو کر اسلام کو مٹانے کے واسطے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
(۲) بُت پرستی کے علاوہ عرب میں عادات اور اخلاق کا جو حال تھا وہ اس کتاب کے شروع میں بیان ہو چکا ہے۔ زنا، شراب، قمار بازی، غارت گری، قتل، حرام خوری کا بازار ہر وقت گرم رہتا تھا، مگر اسلام ان سب باتوں سے روکتا تھا۔ گویا اسلام لانے سے ان کو ایک نئی زندگی اختیار کرنی پڑتی تھی اور قریش اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے ۔ یہی حال رسُوم پرستی کا تھا جو گویا عربوں کے دین و مذہب کا جُز و بن چکی تھیں، مگر اسلام سب گندی اور خلافِ اخلاق اور خلافِ مذہب رسوم کو پاؤں کے نیچے مَسلتا تھا۔
(۳) اپنے آباؤ اجداد کی عزّت اور ہر بات میں خواہ وُہ دُرست ہو یا غلط ان کی پیروی اختیار کرنا عربوں کے دین و مذہب کا جُزو تھا۔ اسی وجہ سے اُن کو اصرار تھا کہ:
۔ ۲؎
’’یعنی ہم تو بہرحال اُسی بات کی اِتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایاہے۔‘‘
مگر اسلام خدا داد عقل کو سچ اور جھوٹ کے درمیان حَکَمْ قرار دیتا تھا اور اُن کے مُشرک آباء کے متعلق صاف کہتا تھا:
۳؎
’’کیا وُہ اپنے آباؤ اجداد ہی کی اِتباع کریں گے خواہ ان کے آباء گمراہ اور بیوقوف ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
(۴) قریش ایک نہایت متکبّر قوم تھی۔ یہ لوگ کسی کو اپنے برابر نہ سمجھتے تھے اور غلاموں کو تو خصوصیت سے ذلیل اور زیر رکھنا چاہتے تھے۔ مگر اسلام حقوق کے معاملہ میں ان سب امتیازات کو مٹا کر ایک عالمگیر اخوت قائم کرتا اور آقا اور غلام کو خدا تعالیٰ کے حضور میں ایک صف میں کھڑا کرتا تھا اور یہ بات رؤسائے قریش کے واسطے موت کے پیالہ سے کم نہ تھی۔
(۵) قریش میں بڑے بڑے صاحبِ اثر اور مالدار لوگ موجود تھے۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم باوجود ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے کے ان دونوں باتوں سے خالی تھے۔ یعنی نہ تو آپؐ اپنی خلوت پسند طبیعت کی وجہ سے لیڈرانِ قریش میں سے تھے اور نہ مال و دولت کے لحاظ سے کوئی ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ ایسی حالت میں سردارانِ مکّہ کے لیے آپؐ کی اِتباع اختیار کرنا ایک ایسی بڑی قربانی تھی جس کے لیے یہ لوگ ہر گز تیار نہیں تھے اور اسی وجہ سے وہ کہتے تھے کہ:
۱؎
’’کیوں نہ یہ قُرآن مکّہ یا طائف کے کِسی بڑے آدمی پر نازل ہوا۔‘‘
(۶) ان اسباب کے علاوہ ایک باعث یہ بھی تھا کہ قریش کے مختلف قبائل کے درمیان سخت رقابت اور دشمنی رہتی تھی اس لیے باقی قبائل کو ہر گز یہ گوارا نہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا قبیلہ اُن پر کِسی قسم کا امتیاز لے جاوے اور قبائل بنو امیّہ اور بنو مخزوم کو تو خصوصیت سے بنو ہاشم کے ساتھ سخت عداوت تھی۔ اسی لیے سب قبائل سے بڑھ کر ان دو قبائل نے اسلام کی مخالفت میں حصہ لیا۔
ائمۃ الکفر
قریش میں سے جن لوگوں نے اسلام کی زیادہ مخالفت کی اور اس تحریک میں وہ دوسروں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے وہ سب ایک قسم کے نہ تھے بعض میں ذاتی شرافت تھی اور وہ اپنے
رنگ میں بالعموم شرافت ہی کا معاملہ کرنا چاہتے تھے مگر کچھ تو اپنی بڑائی کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت قبول نہ کر سکتے تھے اور کچھ انہیں یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی کہ اس طرح بعض ’’خام خیالوں‘‘ کے ہاتھ سے اُن کے دینِ آبائی کی بربادی ہو رہی ہے اُن میں زیادہ ممتاز یہ لوگ نظر آتے ہیں۔ اوّل مطعم بن عدی جو قبیلہ بنونوفل سے تھا اور رؤساء قریش میں سے تھا۔ مطعمؔ پکّا مشرک تھا مگر معاملات میں حتّی الوسع شرافت کا طریق اختیار کرتا تھا؛ چنانچہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف قریش کے معاہدئہ بائیکاٹ کو توڑنے اور سفرِ طائف سے واپسی پر آپؐ کو اپنی پناہ میں مکّہ میں داخل کرنے میں مطعمؔ نے خاص شرافت اور خاص جرأت سے کام لیا تھا۔ دُوسرے ابو البخترؔی تھا جو قبیلہ بنو اسد سے تھا۔ ابوالبخترؔی بھی مخالفت میں حتّی الوسع شرافت کو ہاتھ سے نہیں دیتا تھا۔ اسی ذیل میں ایک شخص زبیربن ابو امیّہ تھا جو حضرت اُمّ سلمہ ؓ کا بھائی تھا اور باوجود مخالفت کے عموماً شرافت کا پہلو اختیارکرتا تھا۔
دوسری قسم کے وہ لوگ تھے جن کی مخالفت کچھ شرارت کا پہلو بھی لیے ہوئے تھی ۔ ان میں یہ لوگ ممتاز تھے۔ اوّل عتبہ بن ربیعہ جو بنو عبد شمس میں سے تھا اور بہت مالدار اور صاحب اثر تھا۔ جنگِ بدرؔ کے موقع پر جب عتبہ اپنے سُرخ اُونٹ پر سوار ہو کر اسلامی لشکر کے سامنے آیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُسے دیکھ کر فرمایا کہ اگر اس گروہ میں کِسی میں کچھ شرافت ہے ، تو اس سُرخ اُونٹ کے سوار میں ہے۔ عتبہ کا بھائی شیبہ بھی اسی کے زیرِ اثر تھا۔ یہ دونوں جنگِ بدرؔ میں حضرت حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ دُوسرے ولید بن مغیرہ تھا جو حضرت خالد ؓ بن ولید کا والد اور قریش کا رئیسِ اعظم تھا۔ حتّٰی کہ قریش اسے اپنا باپ سمجھتے تھے۔ ولیدؔ ہجرتِ نبوی کے تین ماہ بعد اتفاقی طور پر تیر چُبھ جانے سے ہلاک ہوا۔ تیسرے عاصؔ بن وائل سہمی تھا۔ جو حضرت عمرو ؓ بن عاص کا باپ تھا۔ یہ بھی نہایت دولت مند اور بڑا صاحبِ اثر تھا۔ عاصؔ ہجرت کے دُوسرے ماہ پاؤں سُوج جانے سے نہایت تکلیف اُٹھا کر مکّہ میں مر گیا۔
تیسری قِسم کے گروہ کی حالت بالکل مختلف تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میں بالکل اندھے ہو رہے تھے اور ہر جائز و ناجائز طریق سے کوشش کرتے تھے کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحۂ دُنیا سے مِٹا دیں اور مسلمانوں کو اپنے پاؤں کے نیچے کچل ڈالیں اور قریش میں انہی لوگوں کا زیادہ زور تھا اور انہی لوگوں کی کثرت تھی۔ اُن میں خاص طور پر ممتاز یہ لوگ نظر آتے ہیں۔ اوّل عمرو بن ہشام جو بنومخزوم میں سے تھا۔ یہ وہ شخص ہے جسے گویا رأس المعاندین سمجھنا چاہئے۔ قریش میں یہ نہایت ممتاز حیثیت رکھتا تھا اور وہ اسے ابو الحکم یعنی ’’دانائی کا باپ‘‘ کہتے تھے۔ مگر مسلمانوں نے اس کا نام ابو جہل رکھا۔ یہ جنگِ بدرؔ میں دو انصار لڑکوں کے ہاتھ سے واصل جہنم ہوا۔ دُوسرے ابو لہب بن عبدالمطلب جو بنو ہاشم میں سے تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔ ابو لہب مخالفت اور ایذاء رسانی میں ابو جہل کا ہم پلّہ تھا اور اسے یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ معاندین اسلام میں سے صرف اس کا نام قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ ابولہب جنگِ بدر سے تھوڑا عرصہ بعد مکّہ میں بیمار پڑ کر ہلاک ہوا۔ تیسرے عقبہ بن ابی معیط تھا جو بنو امیّہ میں سے تھا اور پَرلے درجہ کا شریر اور بد باطن شخص تھا۔ یہ جنگِ بدر میں شریک ہوا اور مارا گیا۔ پھر امیّہ بن خلف تھا جو بنو جمح میں سے تھا۔ شرارت اور عداوت میں یہ ابو جہل کا مثل تھا۔ جنگ بدر میں قتل ہوا۔ امیّہ کا بھائی اُبیّ بن خلف بھی اسی قماش کا آدمی تھا۔ یہ جنگِ اُحد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے زخمی ہوا اور اسی زخم سے اپنی کیفر کردار کو پہنچا۔ پھر النضر بن الحارث تھا جو بنو عبدالدار میں سے تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سخت دُکھ دیا کرتا تھا۔ یہ جنگِ بدرؔ میں قید ہوا اور اپنے جُرموں کی پاداش میں مارا گیا۔ پھر اسودؔ بن عبدیغوث ، حارثؔ بن قیس، اسودؔ بن مطلب، ابو قیسؔ بن فاکہد، منبّہ ؔبن الحجاج، نبیّہ ؔ بن الحجاج ، مالکؔ بن طلاطلہ، حکم ؔبن ابی العاص، رُکانہؔ بن یزید وغیرہ بھی شرارت اور عداوت میں کم و بیش بہت حصہ لیتے تھے۔ ۱؎
ان کے علاوہ بعض اور لوگ بھی تھے جو عداوت میں بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن چونکہ وہ بعد میں مسلمان ہو گئے اس لئے ان کا اس جگہ اس فہرست میں ذکر کرنا شاید دُرست نہ ہو البتہ اپنے اپنے موقع پر اُن کا ذکر خود آجائے گا۔
اسلام اور بانی ٔ اسلام کے خلاف کفّارِ مکہ کی عداوت
اسلام کے خلاف جب قریش کی مخالفت شروع ہوئی تو پھر وُہ دن بدن
بڑھتی گئی اور خطرناک صورت اختیار کرتی گئی؛ چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے کہ قریش نے فیصلہ کر لیا تھا کہ:
’’یہ نیا مذہب صفحہ ٔ دُنیا سے ملیامیٹ کر دیا جاوے اور اس کے متبعین اس سے بزور روک دیئے جاویں اور قریش کی طرف سے جب ایک دفعہ مخالفت شروع ہوئی تو پھر دن بدن اُن کی ایذاء رسانی بڑھتی اور آتشِ غضب تیز ہوتی گئی۔ ‘‘ ۲؎
در حقیقت جو فتنہ مخالفینِ اسلام نے اسلام کے خلاف برپا کیا اور اس کے مٹانے کے واسطے جو جو تدابیر کیں وہ ایک لمبی اور درد ناک کہانی ہے جس کا سلسلہ ہجرت کے آٹھویں سال تک پہنچتا ہے۔
ابو طالب کے پاس قریش کا پہلا وفد
سب سے پہلی کوشش قریش کی یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابو طالب کی ہمدردی اور
حفاظت سے محروم کر دیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک ابو طالب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اس وقت تک وہ بین القبائل تعلقات کو خراب کئے بغیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے۔ ابو طالب قبیلہ بنو ہاشم کے رئیس تھے اور باوجود مُشرک ہونے کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مربی اور محافظ تھے اس لیے ان کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ اُٹھانا بین القبائل سیاست کی رُو سے بنو ہاشم کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے مترادف تھا جس کے لیے دُوسرے قبائلِ قریش ابھی تک تیار نہ تھے۔ لہذا پہلی تجویز اُنہوں نے یہ کی کہ ابو طالب کے پاس دوستانہ رنگ میں ایک وفد بھیجا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اشاعتِ اسلام سے روک دیں؛ چنانچہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، ابو سفیان وغیرہ جو سب رؤساء قریش میں سے تھے ابو طالب کے پاس آئے اور نرمی کے طریق پر کہا کہ ’’آپ ہماری قوم میں معزّز ہیں۔ اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی اشاعت سے روک دیں اور یا پھر اس کی حمایت سے دستبردار ہوجاویں اور ہمیں اور اس کو چھوڑ دیں کہ ہم آپس میں فیصلہ کر لیں۔‘‘ ابو طالب نے اُن کے ساتھ بہت نرمی کی باتیں کیں اور اُن کے غصّہ کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر انہیں ٹھنڈا کر کے واپس کردیا۔ ۱؎
دوسرا وفد
لیکن چونکہ اُن کی ناراضگی کا سبب موجود تھا بلکہ دن بدن ترقی کرتا جاتا تھا اور قرآن شریف میں بڑی سختی سے شِرک کے ردّ میں آیات نازل ہو رہی تھیں۔ اس لیے کوئی لمبا عرصہ نہ
گذرا تھا کہ یہ لوگ پھر ابوطالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہا کہ ’’اب معاملہ حد کو پہنچ گیا ہے اور ہم کو رجس اور پلید اور شرّالبریہّ اور سہفہاء اور شیطان کی ذریّت کہا جاتا ہے اور ہمارے معبودوں کو جہنّم کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کو لا یعقل کہہ کر پُکارا جاتا ہے۔ اس لیے اب ہم صبر نہیں کرسکتے اور اگر تم اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو پھر ہم بھی مجبور ہیں۔ ہم پھر تم سب کے ساتھ مقابلہ کریں گے حتّٰی کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جاوے ۔‘‘ ابو طالب کے لیے اب نہایت نازک موقع تھا اور وہ سخت ڈر گئے اور اُسی وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بُلایا۔ جب آپؐ آئے تو اُن سے کہا کہ ’’اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی۔ تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا۔ اُن کے بزرگوں کو شرّ البریہّ کہا۔ ان کے قابلِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزمِ جہنم اور وقود النّار رکھا اور خود اُنہیں رجس اور پلید ٹھہرایا۔ مَیں تجھے خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ اس دُشنام دہی سے اپنی زبان کو تھام لو اور اس کام سے باز آجاؤ؛ ورنہ مَیں تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب ابو طالب کا پائے ثبات بھی لغزش میں ہے اور دنیاوی اسباب میں سے سب سے بڑا سہارا مخالفت کے بوجھ کے نیچے دَب کرٹوٹا چاہتا ہے۔ مگر آپؐ کے ماتھے پر بل تک نہ تھا۔ نہایت اطمینان سے فرمایا۔ ’’چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وُہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کی خرابیاں اُن پر ظاہر کر کے اُنہیں سیدھے رستے کی طرف بلاؤں اور اگر اس راہ میں مجھے مرنا درپیش ہے تو مَیں بخوشی اپنے لیے اس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اِس راہ میں وقف ہے اور مَیں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا۔ اور اے چچا! اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جاویں۔ مگر مَیں احکامِ الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رُکوں گا اور خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سُورج اور دُوسرے ہاتھ پر چاند بھی لا کر دے دیں تب بھی مَیں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور مَیں اپنے کام میں لگا رہوں گا حتّٰی کہ خُدا اسے پورا کرے یا مَیں اس کوشش میں ہلاک ہوجاؤں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہ تقریر فرما رہے تھے اور آپؐ کے چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقّت نمایاں تھی اور جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو آپؐ یکلخت چل پڑے اور وہاں سے رُخصت ہونا چاہا مگر ابو طالب نے پیچھے سے آواز دی۔ جب آپؐ لوٹے تو آپؐ نے دیکھا کہ ابو طالب کے آنسو جاری تھے۔ اس وقت ابوطالب نے بڑی رِقت کی آواز میں آپؐ سے مخاطب ہو کرکہا۔’’ بھتیجے جا اور اپنے کام میں لگا رہ جب تک مَیں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے مَیں تیرا ساتھ دُوں گا۔‘‘ ۱؎
تیسرا وفد
جب اس دفعہ بھی قریش ناکام رہے تو اُنہوں نے ایک اور چال چلی اور وہ یہ کہ قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے ایک ہونہار نوجوان عمارہؔ بن ولید کو ساتھ لے کر ابو طالب کے پاس
گئے اور کہنے لگے کہ ’’ہم عمارہؔ بن ولید کو اپنے ساتھ لائے ہیں اور تم جانتے ہو کہ یہ قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے ہے۔ پس تم ایسا کرو کہ محمد کے عوِض میں تم اِس لڑکے کو لے لو اور اس سے جس طرح چاہو فائدہ اُٹھاؤ اور چاہو تو اسے اپنا بیٹا بنا لو۔ ہم اس کے حقوق سے کلیۃً دستبردار ہوتے ہیں اور اس کے عوض تم محمد کو ہمارے سُپرد کر دو جس نے ہمارے آبائی دین میں رخنہ پیدا کر کے ہماری قوم میں ایک فتنہ کھڑا کر رکھا ہے۔ اس طرح جان کے بدلے جان کا قانون پورا ہو جائے گا اور تمہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘ ابو طالبؔ نے کہا۔ ’’یہ عجیب انصاف ہے کہ میں تمہارے بیٹے کو لے کر اپنا بیٹا بناؤں اور اسے کھلاؤں اور پلاؤں اور اپنا بیٹا تمہیں دے دُوں کہ تم اسے قتل کردو۔ واﷲ یہ کبھی نہیں ہو گا۔‘‘ قریش کی طرف سے مطعمؔ بن عدی نے کہا کہ ’’پھر اے ابوطالب! تمہاری قوم نے تو تم پر ہر رنگ میں حجت پوری کر دی ہے اور اب تک جھگڑے سے اپنے آپ کو بچایا ہے مگر تم ان کی کوئی بات بھی مانتے نظر نہیں آئے۔‘‘ ابوطالب نے کہا۔ ’’واﷲ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا اور مطعم میں دیکھتا ہوں کہ تم بھی اپنی قوم کی پیٹھ ٹھونکنے میں میرے ساتھ بے وفائی کرنے پر آمادہ ہو۔ پس اگر تمہارے تیور بدلے ہوئے ہیں تو مَیں کیا کہہ سکتا ہوں۔ تم نے جو کرنا ہو وہ کرو۔‘‘ ۱ ؎
مسلمانوں کے متعلق قریش کا فیصلہ
رؤساء قریش ابو طالب کی طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہاتھ ڈالنے سے
پہلے یہ تجویز کی کہ جس جس قبیلہ میں سے کوئی شخص مسلمان ہو چکا تھا وہ قبیلہ اپنے اپنے آدمی پر دباؤ ڈال کر اسے اسلام سے منحرف کرنے کی کوشش کرے؛ چنانچہ سب نے مِل کر باہم مشورہ سے یہ فیصلہ کیا کہ نومسلموں پر ان کے اپنے اپنے قبیلہ کی طرف سے زور ڈالا جائے تاکہ کسی قِسم کی بین القبائل پیچیدگی نہ پیدا ہو اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ جب خود مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں گے تو آپؐ اکیلے کچھ نہیں کر سکیں گے اور یہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ اس فیصلہ میں یہ بھی قرار پایا کہ صرف زبانی دباؤ تک نہ رہا جائے بلکہ ہر رنگ میں تنگ کر کے اور تکلیف میں ڈال کر نو مسلموں کو واپس لانے کی کوشش کی جائے۔ جب ابو طالب کو اس مشورہ سے اطلاع ہوئی تو انہوں نے بھی ایک جوابی تدبیر کے طور پر بنوہاشم اور بنو مطلب کو ایک جگہ جمع کیا اور حالات بتا کر تحریک کی کہ اس عداوت کے طوفان میں ہمیں محمد کی حفاظت کرنی چاہئے چنانچہ ابو لہب کے سوا جو اسلام کی عداوت میں اندھا ہو رہا تھا باقی سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور قومی غیرت میں آکر دُوسروں کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اعانت کے لئے تیار ہو گئے۔ ۲؎ ان حالات نے مکّہ کی فضا میں ایک آتشی مادہ پیدا کر دیا تھا۔ مگر چونکہ ابھی تک مسلمانوں کی ایذارسانی کا فیصلہ ہر قبیلہ کی حدود کے اندر محدود تھا، اس لئے کوئی بین القبائل پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں مسلمانوں کے لئے انفرادی طور پر سخت مصائب و آلام کا دروازہ کھُل گیا اور اس وقت سے لے کر ہجرتِ یثرب تک کی داستان ایک خُون کے آنسو رُلانے والی داستان ہے۔
مسلمانوں کی تکالیف کا نمونہ
ان ایّام میں جو جو تکالیف مسلمانوں کو پہنچیں اُن کو وہی جانتے تھے جن کو یہ مصائب جھیلنے پڑے۔ مگر ہاں تاریخ نے جہاں تک ان
واقعات کو محفوظ رکھا ہے اور وُہ یقینا اصل واقعات سے بہت کم ہیں۔ ان کا نمونہ درج ذیل ہے:
حضرت عثمان ؓ بنو اُمیّہ میں سے تھے اور ایک نسبتاً پختہ عمر کے اور مرفہ الحال آدمی تھے، لیکن قریش کے مذکورہ بالا فیصلہ کے بعد اُن کے چچا حکم بن ابی العاص نے ان کو رسیّوں سے باندھ کر پیٹااور ان بیچاروں نے سامنے سے اُف تک نہیں کی۔۱؎ زبیر ؓ بن العوام قبیلہ اسد سے تھے اور ایک جوانمرد آدمی تھے مگر ان کا ظالم چچا اُن کو چٹائی میں لپیٹ کر اُن کے ناک میں آگ کا دُھوآں دیا کرتا تھا کہ اسلام سے باز آجاویں مگر وُہ بڑی خوشی کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرتے اور کہتے کہ مَیں صداقت کوپہچان کر پھر انکار نہیں کر سکتا۔ ۲؎ سعیدؓ بن زید جو حضرت عمر ؓ کے بہنوئی تھے بنو عدی سے تھے اور اپنے حلقہ میں معزز تھے ، لیکن جب عمر بن الخطاب کو ان کے اسلام کا علم ہوا تو وُہ انہیں گرا کر ان کی چھاتی پر سوار ہو گئے اور اسی کش مکش میں اپنی بہن کو بھی زخمی کر دیا۔۳؎ عبداﷲ بن مسعود جو قبیلہ ھذیل میں سے تھے انہیں قریش نے عین صحنِ کعبہ میں مار مار کر ہلکان کر دیا۔۴؎ ابو ذر غفاری کو قریش نے اتنا پیٹا کہ مارتے مارتے زمین پر بچھا دیا اور قریب تھا کہ جان سے مار ڈالتے، مگر عباس بن عبدالمطلب نے یہ کہہ کر ان کو قریش سے چھڑایا کہ ’’جانتے ہو کہ یہ شخص بنو غفار میں سے ہے جو تمہارے شامی تجارت کے راستہ پر آباد ہیں۔ اگر اُن کو علم ہوا تو تمہارا راستہ روک دیں گے۔‘‘۵؎ یہ سختیاں اُن لوگوں پر تھیں جو طاقتور قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، مگر جو حال غلاموں اور دُوسرے کمزور لوگوں کا تھا وہ پڑھ کر تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ذیل کی چند مثالیں قریش کے مظالم کا صرف ایک معمولی نمونہ ہیں۔
بلال بن رباح اُمیّہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے۔ اُمیّہ ان کو دوپہر کے وقت جبکہ اُوپر سے آگ برستی تھی اور مکّہ کا پتھریلا میدان بھٹی کی طرح تپتا تھا، باہر لے جاتا اور ننگا کر کے زمین پر لِٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینے پر رکھ کر کہتا لات اور عُزّیٰ کی پرستش کر اور محمد سے علیحدہ ہو جا وَرنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دُوں گا۔ بلال ؓ زیادہ عربی نہ جانتے تھے۔ بس صرف اتنا کہتے اَحد اَحد یعنی اﷲ ایک ہی ہے۔ اﷲ ایک ہی ہے۔ اور یہ جواب سُن کر اُمیّہ اور تیز ہو جاتا اور ان کے گلے میں رسّہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وُہ ان کو مکّہ کی پتھریلے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے اُن کا بدن خون سے تَر بتر ہو جاتا۔ مگر اُن کی زبان پر سوائے اَحد اَحد کے اور کوئی لفظ نہ آتا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اُن پر یہ جو روستم دیکھے تو ایک بڑی قیمت پر خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔
ابو فکیہ ؓ صفوان بن اُمیّہ کے غلام تھے۔ ان کو بھی یہ لوگ اسی طرح گرم زمین پر لٹا دیتے اور سینے پر اتنے بھاری پتھّر رکھتے کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی۔
عامرؓ بن فہیرہ بھی ایک غلام تھے انہیں بھی اسلام کی وجہ سے سخت تکالیف دی جاتی تھیں۔ ان کو حضرت ابو بکر ؓ نے خرید کر اپنے پاس بکریاں چرانے پر نوکر رکھ لیا۔
لبینہ ؓ بنو عدی کی لونڈی تھی۔ اسلام لانے سے پہلے عمر ؓ اس کو اتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے، لیکن جب ذرا دَم لے لیتے تو پھر اُسی طرح مارنا شروع کر دیتے وُہ سامنے سے صرف اتناکہتی کہ عمر اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو خُدا اس ظلم کو بے انتقام نہیں چھوڑے گا۔
زنیرہ ؓ بنو مخزوم کی لونڈی تھی۔ ابو جہل نے اُسے اس بے دردی سے پیٹا کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں۔ ابو جہل اس کی طرف اشارہ کر کے طنزاً کہا کرتا تھا کہ ’’اگر اسلام سچا ہوتا تو کیا بھلا اسے مِل جاتا اور ہم محروم رہتے۔‘‘
صہیب ؓ بن سنان رُومی ہر چند کہ اب غلام نہ تھے اور تھے بھی نسبتاً خوشحال لیکن قریش ان کو اتنا پیٹتے کہ اُن کے حواس مختل ہو جاتے۔ یہ وہی صہیب ؓ ہیں جن کو حضرت عمر ؓ نے زخمی ہونے پر امام الصلوٰۃ مقرر کیا تھا اور انہوں نے ہی حضرت عمر ؓ کا جنازہ پڑھایا تھا۔ ۱؎
خبّاب ؓ بن الارت بھی اب غلام نہ تھے بلکہ آزاد تھے اور لوہار کا کام کرتے تھے، مگر ایک دفعہ قریش نے اُن کو پکڑ کر اُنہی کی بھٹی کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر اُلٹا لِٹا دیا اور ایک شخص اُن کی چھاتی پر چڑھ گیا، تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں؛ چنانچہ وہ کوئلے اُسی طرح جل جل کر اُن کے نیچے ٹھنڈے ہو گئے۔ خباب ؓ نے مدّتوں کے بعد حضرت عمر ؓ سے یہ واقعہ بیان کیا اور اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی جو زخموں کے داغوں سے بالکل سفید تھی۔ خبابؓ کے متعلق یہ روایت بھی آتی ہے کہ ایک دفعہ مکّہ کے ایک رئیس عاص بن وائل نے اُن سے کچھ تلواریں بنوائیں اور جب خبابؓ نے قیمت کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا تم لوگ یہ دعویٰ کرتے ہو کہ جنت میں انسان کو ہر قسم کی نعمت سونا اور چاندی وغیرہ سب حسب خواہش ملے گی۔ سو تم اپنی تلواروں کی قیمت مجھ سے جنت میں آکر لے لینا۔ کیونکہ و اﷲ اگر تمہیں جنت میں جانے کی توقع ہے تو مجھے تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہئے اور یہ کہہ کر قیمت دینے سے انکار کر دیا۔ ۲؎
عمارؓ اور ان کے والد یاسرؓ اور ان کی والدہ سُمیّہکو بنی مخزوم جن کی غلامی میں سمیّہ کسی وقت رہ چکی تھیں اتنی تکالیف دیتے تھے کہ ان کا حال پڑھ کر بدن پر لَرزہ پڑنے لگتا ہے۔ ایک دفعہ جب ان فدائیانِ اسلام کی جماعت کسی جسمانی عذاب میں مبتلا تھی اتفاقاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس طرف آنکلے۔ آپؐ نے اُن کی طرف دیکھا اور درد مندانہ لہجہ میں فرمایا: صَبْرًا اٰلَ یَاسِرْ فَاِنَّ مَوَعِدُکُمُ الْجَنَّۃَ۔ ’’اے آلِ یاسر صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدانے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلے میں تمہارے لئے جنّت تیار کر رکھی ہے۔‘‘ آخر یاسرؔ تو اسی عذاب کی حالت میں جاں بحق ہو گئے اور بوڑھی سمیّہؔ کی ران میں ظالم ابوجہل نے اس بے دردی سے نیزہ مارا کہ وُہ اس کے جسم کو کاٹتا ہوا ان کی شرمگاہ تک جانکلا اور اس بے گناہ خاتون نے اسی جگہ تڑپتے ہوئے جان دے دی۔ اب صرف عمارؔ باقی رہ گئے۔ ان کو بھی ان لوگوں نے انتہائی عذاب اور دُکھ میں مبتلا کیا اور ان سے کہا کہ ’’جب تک محمدؐ کا کفر نہ کرو گے اسی طرح عذاب دیتے رہیں گے۔‘‘ چنانچہ آخر عمارؔ نے سخت تنگ آکر کوئی نازیبا الفاظ مُنہ سے کہہ دیئے جس پر کفّار نے انہیں چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے بعد عمارؔ فوراً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زار زار رونے لگے۔ آپؐ نے پوچھا ’’کیوں عمار کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’یا رسول اﷲ مَیں ہلاک ہو گیا۔ مجھے ظالموں نے اتنا دُکھ دیا کہ مَیں نے آپؐ کے متعلق کچھ ناگفتنی الفاظ مُنہ سے کہہ دیئے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’تُم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو؟‘‘ اُس نے عرض کیا۔ ’’یا رسُول اﷲ میرا دل تو اُسی طرح مومن ہے اور اﷲ اور اس کے رسُول کی محبت میں اُسی طرح سرشار۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ تو پھر خیر ہے خدا تمہاری اس لغزش کو معاف کرے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی تکالیف
مسلمانوں کی ان تکالیف کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی حالت بھی
مخالفت کے اِس طوفان بے تمیزی میں چنداں تسلی بخش نہ تھی۔ بے شک بنو ہاشم اور بنو مطلب کے اس فیصلہ کے بعد جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے آپؐ کو اپنے اعزّہ و اقارب کی عمومی حمایت حاصل تھی اور قریش کی بین القبائل سیاست میں یہ حمایت خاصہ وزن رکھتی تھی، لیکن اوّل تو آپؐ کے چچا ابو لہب کی بیوفائی اور غدّاری نے اس فیصلہ کی طاقت کو ایک حد تک کمزور کر دیا تھا۔ دوسرے خود قریش بھی یہ دھمکی دے چکے تھے کہ اگر بنو ہاشم اور بنو مطلب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پشت و پناہ بننے سے باز نہیں آئیں گے تو پھر ہم ان سب کا مقابلہ کریں گے اور گو ابھی تک انہوں نے اس دھمکی کو پورے طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا تھا ، لیکن وہ اس کی تیاری میں مصروف تھے اور طعن وتشنیع اور نوک جھونک سے گذر کر کبھی کبھی اپنا بچاؤ رکھ کر عملی چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے تھے؛ چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے ایک مجلس کر کے اس سوال پر غور کیا کہ اب جو حج کا موسم آئے گا تو اس موقع پر لازماً باہر سے آنے والے حاجیوں میں اسلام کے متعلق چرچا ہو گا اور لوگ آآکر ہم سے پوچھیں گے کہ یہ نیا نبی کون ہے اور کیا کہتا ہے اس لیے ہمیں باہم مشورہ سے کوئی جواب سوچ رکھنا چاہئے تاکہ ہمارا آپس کا اختلاف کوئی بُرا اثر پیدا نہ کرے ؛ چنانچہ سب روساء قریش ولیدؔ بن مغیرہ کے مکان پر جمع ہوئے اور ولیدؔ نے ان کے سامنے ایک افتتاحی تقریر کر کے ساری بات سمجھائی اور بتایا کہ اب حج کا وقت آرہا ہے اور محمد کے اس دعویٰ کی خبر باہر پہنچ چکی ہے اور لازماً حج پر آنے والے لوگ ہمیں اس کے متعلق پوچھیں گے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم باہم مشورہ سے کوئی ایک پختہ جواب سوچ رکھیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم ایک دُوسرے کے خلاف باتیں کہہ کر خود اپنے اثر کو مٹالیں۔ اس پر ایک شخص بولا کہ ہمارا جواب صاف ہے کہ یہ شخص ایک کاہن ہے اور کاہنوں کی سی باتیں کر کے اس نے چند لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ولیدؔ نے کہا کہ ہم اسے کاہن کس طرح کہہ سکتے ہیں جب کہ اس میں کاہنوں کی کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔ نہ کاہنوں کا سا ترنم ہے اور نہ کاہنوں کا سا مخصوص اندازِ بیان۔ دوسرے نے کہا کہ پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد مجنون ہے اور اپنے جنون کے جوش میں باتیں کرتا رہتا ہے۔ ولیدؔ نے کہا۔ ہماری یہ بات کون مانے گا۔ اور جنون کی وہ کونسی علامتیں ہیں جو ہم محمد میں دکھا سکیں گے۔ نہ ا س میں وہ وحشت ہے اور نہ وہ اضطراب اور نہ ہی وہ وسوسہ جو ایک مجنون میں لازماً پائے جاتے ہیں۔ پھر ہمارے جنون کے ادّعا کو کون سُنے گا۔ تیسرا بولا کہ پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے اور اپنے جادُو اثر اشعار سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ ولیدؔ نے کہا ہم اسے شاعر کہہ کر اس کے کلام میں شعر کے خصائصِ از قِسم رجزؔ اور ہزجؔ اور قریضؔ اور مقبوضؔ اور مبسوطؔ ۱؎ کہاں سے دکھائیں گے۔ اس پر ایک چوتھا شخص بولا کہ اسے ایک ساحرؔ کے طور پر پیش کرنا چاہئے۔ولیدؔ نے کہا پھر ہم اس میں ساحروں کی سی پھُونکیں مارنا اور گرہیں ڈالنا اور گرہیں کھولنا کس طرح دکھائیں گے۔ لوگوں نے کہا تو پھر اے عبدشمس تم ہی بتاؤ کہ پھر ہمیں کیا کہنا چاہئے۔ ولیدؔ نے کہا اس معاملہ میں مَیں خود حیران ہوںکہ کیا کیا جائے۔ جو بات بھی سوچتا ہوں وہ محمد پر چسپاں ہوتی نظر نہیں آتی اور ایسی بات کہنا جس سے لوگوں کو تسلی نہ ہو خود اپنے آپ کو ہنسی کا نشانہ بنانا ہے۔ اس طرح اس مجلس میں کچھ عرصہ باتیں ہوتی رہیں۔ آخر یہ مشورہ قرار پایا کہ اور کوئی بات تو خیال میں آتی نہیں اور جو باتیں پیش کی گئی ہیں ان میں ساحر والی زیادہ وزن دار ہے۔ پس یہ فیصلہ ہوا کہ حج کے موقع پر باہر سے آنیوالے لوگوں کے سامنے محمد کے متعلق سب لوگ یہی کہیں کہ یہ ایک ساحر ہے جو اپنی مخفی سحر کاری سے باپ کو بیٹے سے ،بھائی کو بھائی سے ، خاوند کو بیوی سے جُدا کرتا چلا جا رہا ہے؛ چنانچہ جب حج کا موقع آیا تو قریش کے بچہ بچہ کی زبان پر یہی فقرہ تھا کہ محمد تو ایک ساحر ہے جو جس گھر میں داخل ہوتا ہے انشقاق و اختلاف کا بیج بو کر نکلتا ہے اور ان کے اس پروپیگنڈا نے تمام قبائل عرب میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف ایک خطرناک ہیجان پیدا کر دیا۔۱؎
قریش نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ مکّہ کے اوباشوں اور خود سرلوگوں کو اکسایا کہ وہ جس طرح بھی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تنگ کرتے رہیں؛ چنانچہ اس انگیخت میں آکر شہر کے آوارہ مزاج لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق آپؐ کے سامنے بھی اور پیچھے بھی طرح طرح کی بکواس کرتے رہتے تھے جس کی غرض سوائے دل دُکھانے اور اشتعال پیدا کرکے فساد برپا کرنے کے اور کچھ نہ تھی۔ جو لوگ آپؐ کے پڑوس میں رہتے تھے ان کا یہ معمول تھا کہ آپؐ کے گھر میں پتھر پھینکتے ۔ دروازے پر کانٹے بچھاتے۔ گھر کے اندر گندی اور بد بو دار چیزیں لا کر ڈال دیتے اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان چیزوں کی وجہ سے عملاً کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ خوش ہو کر ہنستے اور قہقے لگاتے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے ایک نہایت گندی اور متعفن چیز آپؐ کے گھر میں پھینک دی۔ آپؐ خود اُسے اُٹھا کر باہر لائے اور فرمایا۔ ’’اے بنو عبدمناف! یہ تم اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہو۔‘‘ ۲؎ مگر جن کانوں تک یہ آواز پہنچتی وہ شرافت کی اپیل کے لئے بالکل بہرے تھے۔ انہی دنوں میں قریش نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بجائے محمد کے مُذَمَّم یعنی بد نام اور مذمّت شدہ کہہ کر پکارا جاوے؛ چنانچہ کچھ عرصہ تک مکّہ میں اس نام کا چرچا رہا اور قریش کو اتنی بھی شرم نہ آئی کہ یہ وہی شخص ہے جسے ہم اس کے دعویٰ سے پہلے امین کہہ کر پکارتے رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کے اس فعل سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میرا نام تو محمد ہے اور جو محمد ہو وہ مُذَمَّم کیسے ہو سکتا ہے۔ دیکھو خُدا مجھے ان کی گالیوں سے کس طرح محفوظ رکھتا ہے۔ ۳؎
مگر اس زمانہ میں بھی قریش کی ایذاء رسانی صرف زبانی باتوں تک محدود نہ تھی بلکہ وہ بعض اوقات جوش میں آکر یا موقع نکال کر آپؐ کو عملی نقصان پہنچانے اور جسمانی تکلیف میں مبتلا کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ چنانچہ غالباً یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب آپؐ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط غصّہ میں اُٹھا اور آپؐ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اس زور کے ساتھ بھینچا کہ آپؐ کا دَم رُکنے لگ گیا۔ حضرت ابو بکر ؓکو علم ہوا تووہ دوڑے آئے اور آپؐ کو اس بد بخت کے شر سے بچایا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہا:
اَتَقْتُلُوْ نَ رَجَلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اﷲُ
’’کیا تم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب خدا ہے۔‘‘ ۱؎
ایک اور موقع پر آپؐ نے صحنِ کعبہ میں توحید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آکر آپؐ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ آپؐ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہؓ کے فرزند حارثؔ بن ابی ہالہ کو اطلاع ہوئی تو وہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پاکر آپؐ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا۔ مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بد باطن نے تلوار چلا کر حارثؔ کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ ۲؎ اور اس وقت کے شور و شغب میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا۔
ان مصائب پر مسلمانوں کو صبر کی تلقین
الغرض یہ وقت اسلام اور اہلِ اسلام کے لئے سخت نازک وقت تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی کسی
ذاتی تکلیف کی تو پَروا نہیں تھی مگر مسلمانوں اور خصوصاً کمزور مسلمانوں کے مصائب کی وجہ سے آپؐ ضرور فکرمند تھے، مگر دُوسری طرف آپؐ اس بات کو بھی خوب جانتے اور سمجھتے تھے کہ قومیں مصائب میں سے گذر کر ہی بنا کرتی ہیں۔ اس لئے آپؐ ایک جہت سے ان مصائب کو مسلمانوں کی تربیت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے اور اپنے صحابہ کو صبر و تحمل کی تعلیم دیتے اور گذشتہ انبیاء کے متبعین کی تکالیف کا ذکر کر کے ان کو بتاتے تھے کہ قدیم سے یہی سُنّت چلی آئی ہے کہ اﷲ کے رسُولوں اور اُن کے متبعین کو دُکھ دیئے جاتے ہیں، لیکن آخر کار مومنوں کی فتح ہوتی ہے؛ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے تھے خباب بن الارت اور بعض دوسرے صحابہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’یارسول اﷲ! مسلمانوں کو قریش کے ہاتھ سے اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں آپؐ ان کے لئے بددُعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آپؐ یہ الفاظ سُنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپؐ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا:
’’دیکھو تم سے پہلے وُہ لوگ گذرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اور وہ لوگ گذرے ہین جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا مگر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ دیکھو خدا اس کام کو ضرور پُورا کرے گا۔ حتیٰ کہ ایک شُتر سوار صنعا (شام) سے لے کے حضر موت تک کا سفر کرے گا۔ اور اس کو سوائے خدا کے اور کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ مگر تم تو جلدی کرتے ہو۔‘‘ ۱؎
ایک اور موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف مع چند دوسرے اصحاب کے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’یا رسُول اﷲ ہم مُشرک تھے تو ہم معزّز تھے۔ اور کوئی ہماری طرف آنکھ تک نہیں اُٹھا سکتا تھا، لیکن جب سے مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور ناتواں ہو گئے ہیں اور ہم کو ذلیل ہو کر کفّار کے مظالم سہنے پڑتے ہیں۔ پس یا رسُول اﷲ ؐ! آپؐ ہم کو اجازت دیں کہ ہم ان کفّار کا مقابلہ کریں۔‘‘ آپ نے فرمایا:
اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ ۔ فَلَا تُقَا تِلُوْا۔ ۲؎
یعنی ’’مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عفو کا حکم ہے۔ پس میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
صحابہ ؓ کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر قول کے سامنے سر تسلیم خم تھا۔ انہوں نے صبر اور برداشت کا وہ نمونہ دکھایا کہ تاریخ اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔

ایّامِ کش مکش
ہجرتِ حبشہ
جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں
اور فرمایا کہ ’’حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظُلم نہیں ہوتا۔‘‘ ۱؎ حبشہ کا مُلک جو انگریزی میں ایتھوپیاؔ یا ابیؔ سینیا کہلاتا ہے، برِّ اعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحیرہ احمر کے سِوا کوئی اور مُلک حائل نہیں۔ اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشیؔ کہلاتا تھا۔ بلکہ ابتک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پُکارا جاتا ہے۔ حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے۔ ۲؎ اور ان ایّام میں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں حبشہ کا دارالسلطنت اکسومؔ (Axsum) تھا جو موجودہ شہر عدوا (Adowa) کے قریب واقع ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے۔ اکسومؔ ان دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا۔ ۳؎ اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہؔ تھا۔ ۴؎ جو ایک عادل بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ رجب ۵نبوی ۵؎ میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اُن میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہؔ بنت رسُول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، عبدالرحمن بن عوف، زبیر ابن العوام، ابو حذیفہ بن عتبہ، عثمان بن مظعون، مصعب بن عمیر، ابو سلمہ بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ اُمِّ سلمہ۔ ۶؎ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ اوّل یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔
جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شعیبہؔ پہنچے جو اُس زمانہ میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا تو اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا؛ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ قریشِ مکّہ کو اُن کی ہجرت کا عِلم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نِکل گیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا، اس لئے خائب و خاسر واپس لوٹے۔ ۱؎ حبشہ میں پہنچ کر مُسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خُدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔
قریش کے اسلام کی جھوٹی افواہ اور بعض مہاجرین حبشہ کی واپسی
لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے بیان کیا
ہے ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ ایک اُڑتی ہوئی افواہ ان تک پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں مکّہ میں اب بالکل اَمن و امان ہے۔ اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آگئے۔ جب یہ لوگ مکّہ کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ اب ان کے لئے بڑی مصیبت کا سامنا تھا۔ بالآخر بعض تو راستہ میں سے ہی واپس لوٹ گئے اور بعض چھپ چھپ کر یا کسی ذی اثر اور طاقتور شخص کی حمایت میں ہو کر مکّہ میں آگئے۔ ۲؎ یہ شوال ۵ نبوی کا واقعہ ہے ۳؎ یعنی آغاز ، ہجرت اور مہاجرین کی واپسی کے درمیان صرف ڈھائی تین ماہ کا فاصلہ تھا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم اُوپر بیان کر چکے ہیں حبشہ کی ہجرت رجب کے مہینہ میں ہوئی تھی اور مہاجرین کی مزعومہ واپسی کی تاریخ شوال بیان کی گئی ہے۔
گو حقیقۃً یہ افواہ بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی جو مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے اور ان کو تکلیف میں ڈالنے کی غرض سے قریش نے مشہور کر دی ہو گی۔ بلکہ زیادہ غور سے دیکھا جاوے تو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا قصّہ ہی بے بنیاد نظر آتا ہے لیکن اگر اسے صحیح سمجھا جاوے تو ممکن ہے کہ اس کی تہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور وہ جیسا کہ بخاری میں آتا ہے یہ ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحنِ کعبہ میں سورۃ نجم کی آیات تلاوت فرمائیں۔ اس وقت وہاں کئی ایک رؤسائِ کفّار بھی موجود تھے اور بعض مُسلمان بھی تھے۔ جب آپؐ نے سُورۃ ختم کی تو آپؐ نے سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ ہی تمام مسلمان اور کافر بھی سجدہ میں گِر گئے۔‘‘ ۱؎ کفّار کے سجدہ کی وجہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت پُر اثر آواز میں آیات الٰہی کی تلاوت فرمائی اور وہ آیات بھی ایسی تھیں جن میں خصوصیت کے ساتھ خدا کی واحدانیت اور اس کی قدرت و جبروت کا نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں نقشہ کھینچا گیا تھا اور اس کے احسانات یاد دلائے گئے تھے اور پھر ایک نہایت پُر رعب و پُر جلال کلام میں قریش کو ڈرایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کا وہی حال ہو گا جو اُن سے پہلے اُن قوموں کا ہوا جنہوں نے خُدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر آخر میں ان آیات میں حکم دیا گیا تھا کہ آؤ اور اﷲ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ ۲؎ اور ان آیات کی تلاوت کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور سب مسلمان یکلخت سجدہ میں گِر گئے تو اس کلام اور اس نظّارہ کا ایسا ساحرانہ اثر قریش پر ہوا کہ وہ بھی بے اختیار ہو کر مُسلمانوں کے ساتھ سجدہ میں گر گئے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ ایسے موقعوں پر ایسے حالات کے ماتحت جو اُوپر بیان ہوئے ہیں بسا اوقات انسان کا قلب مرعوب ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو دراصل اس کے اصول و مذہب کے خلاف ہوتی ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات ایک سخت اور نا گہانی آفت کے وقت ایک دہریہ بھی ’’اﷲ اﷲ‘‘ یا ’’رام رام‘ پکار اُٹھتا ہے اور قریش تو دہریہ نہ تھے بلکہ بہرحال خدا کی ہستی کے قائل تھے۔ پس جب اس پُر رعب و پُر جلال کلام کی تلاوت کے بعد مُسلمانوں کی جماعت یکلخت سجدہ میں گر گئی تو اس کا ایسا ساحرانہ اثر ہوا کہ ان کے ساتھ قریش بھی بے اختیار ہو کر سجدہ میں گِر گئے۔ لیکن ایسا اثر عموماً وقتی ہوتا ہے اور انسان پھر جلد ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے؛ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور سجدہ سے اُٹھ کر قریش پھر وہی بُت پرست کے بُت پرست تھے۔
بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پس اگر مہاجرینِ حبشہ کی واپسی کی خبر دُرست ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد قریش نے جو مہاجرینِ حبشہ کے واپس لانے کے لیے بیتاب ہو رہے تھے اپنے اس فعل کو آڑ بنا کر خود ہی یہ افواہ مشہور کر دی ہو گی کہ قریشِ مکّہ مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ کہ اب مکّہ میں مُسلمانوں کے لئے بالکل اَمن ہے اور جب یہ افواہ مہاجرین حبشہ تک پہنچی تو وُہ طبعاً اُسے سُن کر بہت خوش ہوئے اور سُنتے ہی خوشی کے جوش میں واپس آگئے لیکن جب وہ مکّہ کے پاس پہنچے تو حقیقت امر سے آگاہی ہو ئی جس پر بعض تو چھپ چھپ کر اور بعض کسی طاقتور اور صاحبِ اثر رئیس قریش کی حفاظت میں ہو کر مکّہ میں آگئے اور بعض واپس چلے گئے۔ پس اگر قریش کے مُسلمان ہو جانے کی افواہ میں کوئی حقیقت تھی تو وہ صرف اسی قدر تھی جو سورۃ نجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے والے واقعہ میں بیان ہوئی ہے۔ واﷲ اعلم۔
بہرحال اگر مہاجرین حبشہ واپس آئے بھی تھے تو اُن میں سے اکثر پھر واپس چلے گئے اور چونکہ قریش دن بدن اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے جاتے تھے اور ان کے مظالم روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اس لئے آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد پر دُوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پاکر آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ یہ ہجرت کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر ان مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو ایک تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں بھی تھیں۔ ۱؎ اور مکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی تھوڑے مسلمان رہ گئے۔ اس ہجرت کو بعض مؤرخین ہجرت حبشہ ثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
ایک جھوٹا واقعہ
ہجرتِ حبشہ کے تعلق میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ کفارِ قریش کے سجدہ کرنے اور مہاجرین حبشہ کے واپس چلے آنے کے متعلق بعض مؤرخین ایک عجیب قصہ نقل
کرتے ہیں جو یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس بات کا از حد شوق رہتا تھا کہ اﷲ کی طرف سے کوئی ایسی بات نازل ہو جو قریش کو اسلام کی طرف کھینچنے والی اور ان کی منافرت کو دُور کرنے والی ہو۔ لہٰذا جب آپؐ سورۃ نجم کی آیات تلاوت فرماتے ہوئے ان آیات پر پہنچے کہ:
۲؎
’’یعنی کیا تم نے مشرکین کے بتوں لات اور عزٰی اور منات کی طرف دیکھا ہے؟‘‘
تو شیطان نے آپؐ کے اس شوق سے فائدہ اُٹھایا اور آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری کر دیئے کہ:
تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجیٰ
’’یعنی لات اور عزّیٰ اور منات بڑے جلیل القدر بُت ہیں اور ان کی شفاعت کی اُمید رکھنی چاہئے۔‘‘
جب قریش نے یہ الفاظ سُنے تو وہ خاموش ہو گئے کہ ان کے بتوں کی عظمت اور قوت کو مان لیا گیا ہے۔ لہٰذا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے سُورۃ نجم ختم کرنے پر سجدہ کیا تو قریش نے بھی آپؐ کے ساتھ سجدہ کیا اور اس طرح گویا صلح صفائی ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی جبرائیل آپؐ کے پاس آئے اور آپؐ کو اس غلطی سے آگاہ کیا اور شیطان کی القاء کردہ آیت کی جگہ وہ الٰہی کلام آپؐ پر وحی کیا جو اب قرآن شریف میں موجود ہے اور اس طرح قریش پھر ناراض ہو گئے۔ لیکن چونکہ قریش کے ساتھ صلح صفائی ہو جانے کی خبر شائع ہو چکی تھی اس لئے پیشتر اس کے کہ اس کی تردید ہوتی وہ حبشہ بھی پہنچ گئی اور اس طرح بعض مہاجرین واپس آگئے۔
یہ وُہ قصّہ ہے جو اس موقع پر بعض مؤرخین لکھتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قِصّہ سراسر جھوٹ ہے اور ہر معقول رنگ میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہے؛ چنانچہ کبار محدّثین اور ائمہ حدیث مثلاً علّامہ عینی۔ قاضی عیاض اور علّامہ نووی نے کھول کھول کر اور دلائل دے دے کر اس کو غلط اور موضوع ثابت کیا ہے۔ چنانچہ علّامہ عینی اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لَاصِحَۃَ لَہٗ نَقلْاً وَّلَا عَقلْاً۔ ۱؎
یعنی’’ نقل اور عقل دونوں سے یہ قصّہ غلط ثابت ہوتا ہے۔‘‘
اور قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ:
لَمْ یَخْرُجْہُ اَھْلُ الصِّحَۃِ وَلَا رَوَاہُ ثِقَۃٌ بِسَنَدٍ سَلِیْمٍ مَعَ ضُعْفِ نَقْلَتِہٖ وَاضْطِرَابِ رِوَایَاتِہٖ وَانْقِطَاعِ اَسَانِیْدِہٖ وَاَکْثَرُالطُّرُقِ فِیْہَا ضَعِیْفَۃٌ وَاھِیَۃٌ لَمْ یَسْنِدَ ھَا اَحَدٌ مِنْھُمْ وَلاَرَفَعَھَا اِلٰی صَاحِبٍ۔ ۲؎
یعنی ’’ محتاط اور ثقہ لوگوں نے اس کی روایت نہیں کی، کیونکہ اس قصّہ میں روایت کا اضطراب اور سند کی کمزوری بہت پائی جاتی ہے۔ اور اس کے طریقے بہت کمزور اور بودے ہیں۔ اور کسی راوی نے اس کی سند کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یا آپؐ کے کِسی صحابی تک نہیں پہنچایا۔‘‘
اور علامہ نووی لکھتے ہیں:
لا یَصِحُّ فِیْہِ شَیْ ئٌ لَا مِنْ جِھَۃِ النَّقْلِ وَلَا مِنْ جِھَۃِ الْعَقْلِ۔ ۳؎
یعنی’’ اس قصّہ میں کوئی بات بھی دُرست نہیں نہ نقل کے طریق پر اور نہ عقل کے طریق پر۔‘‘
دُوسری طرف اکثر ائمۃ الحدیث نے اس قصّہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ مثلاً صحاح ستّہ میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں؛ حالانکہ صحاحِ ستہ میں سورۃ نجم کی تلاوت اور قریش کے سجدہ کا ذکر موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان محدّثین کے سامنے یہ روایت آئی۔ لیکن انہوں نے اسے غلط اور ناقابلِ اعتبار سمجھ کر ردّ کر دیا۔
اِسی طرح کبار مفسّرین مثلاً امام رازیؔ نے اس قِصّہ کو لغو اور جھوٹا قرار دیا ہے۔۱؎ اور صوفیاء میں سے ابنِ عربیؔ جیسے باریک بین انسان نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ: ’’لَا اَصْلَ لَھَا۔‘‘ یعنی اس قصّہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔۲؎ ویسے بھی اگر صرف سورۃ نجم کی آیات پر ہی جو شروع سے لے کر آخر تک شِرک کے خلاف بھری پڑی ہیں نظر ڈالی جاوے تو اُسی سے اس کا بطلان ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ہر گز خیال نہیں کیا جاسکتا کہ اس قِسم کے مواحدانہ کلام میں جس میں توحیدِ باری تعالیٰ پر اس قدر زور دیا گیا ہے ایک صریح طور پر مشرکانہ فقرہ داخل کیا جاسکتا تھا اور ایک ہی وقت میں ایک ہی زبان پر دو انتہائی طور پر متضاد باتیں جاری ہو سکتی تھیں۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات زندگی کے لحاظ سے بھی عقلِ انسانی اس قصّہ کو دُور سے دھکّے دیتی ہے۔ بھلا جس شخص نے اپنی بعثت سے پہلے بھی ساری عمر بُت پرستی نہ کی ہو حالانکہ اس کی ساری قوم بُت پرست ہو تو کیا عقل اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ اس وقت جب کہ اس کے پاس اﷲ تعالیٰ کا صریح حکم آگیا ہو کہ بُت پرستی کے خلاف آواز اُٹھا اور صرف خدائے واحد کی پرستش کا لوگوں کو حکم دے اور اس کے مذہب کا بنیادی پتھر ہی توحیدِ باری تعالیٰ ہو جس کی وجہ سے وہ دن رات لوگوں کے ساتھ جھگڑتا ہو تو کیا اس وقت وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے بُت پرستی کی طرف جھُک جائے گا؟ آخر عقل بھی کوئی چیز ہے؟ ذرا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالو۔ کیا کبھی آپؐ نے کفار کو خوش کرنے کی غرض سے اپنے مذہب کے کسی اصول کو چھوڑا؟ کیا کبھی آپؐ نے کفار کو اپنے ساتھ ملانے کی غرض سے مداہنت اختیار کی؟ قرآن تو صریح کہتا ہے:
۳؎
یعنی ’’کفّار کو ہمیشہ یہ حسرت ہی رہی کہ تُو مداہنت کر کے ان کی ہاں میں ہاں ملاوے تو وُہ بھی مداہنت اختیار کر لیں اور اس طرح ظاہری صورت میل ملاپ کی ہو جاوے۔‘‘
کیا ایسے شخص کی نسبت یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے کبھی قریش کی خاطر توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کیا ہو گا؟ البتہ ایک توجیہہ اس قصّہ کی ممکن ہے اور جیسا کہ علّامہ قسطلانی اور زرقانی نے لکھا ہے اور بہت سے محققین نے اس کی تائید کی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ توجیہہ دُرست ہو اور وہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بخاری کی روایت کے مطابق صحنِ کعبہ میں سورۃ نجم کی آیات تلاوت فرمائی ہوں تو ممکن ہے کہ شیاطینِ قریش میں سے کسی نے آپؐ کی آواز میں آواز ملا کر تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ کا فقرہ ملا دیا ہو جس کی وجہ سے اس وقت بعض لوگوں میں اشتباہ واقع ہو گیا ہو کہ شاید یہ الفاظ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہے ہیں۔ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کی تلاوت کے وقت قریش کی یہ عام عادت تھی کہ وُہ اس کے اثر کو مٹانے کے لئے شور کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی ان کے یہ الفاظ آتے ہیں کہ:
۱؎
یعنی قریش کہا کرتے تھے کہ ’’جب تمہارے سامنے قرآن پڑھا جاوے تو اُس میں شور کرکے گڑ بڑ پیدا کر دیا کرو۔ شاید اس طرح تم غالب آسکو۔‘‘
اِس توجیہہ کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش کی یہ عادت تھی کہ وہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہی فقرہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقْ الْعُلیٰ والا پڑھا کرتے تھے۔ ۲؎ پس تعجب نہیں کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی آیات تلاوت فرمائی ہوں تو اُن میں سے کسی نے حسب عادت یہاں بھی اس فقرہ کو داخل کردیا ہو۔ اور اس طرح بعض لوگوں کو عارضی طور پر یہ اشتباہ واقع ہو گیا ہو کہ شاید یہ الفاظ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلے ہیں۔ اس توجیہہ کی تائید ابن عربیؔ۔ قاضی عیاضؔ ، ابن جریرؔ ، امام رازیؔ اور حافظؔ ابن حجر نے بھی کی ہے۔ ۳؎ لیکن ایک اور بات ہے جو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کے قِصّہ کو سِرے سے ہی مشتبہ کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ میں ہجرت حبشہ کے آغاز کی تاریخ رجب پانچ نبوی اور سجدہ کی اریخ رمضان پانچ نبوی بیان ہوئی ہے اور پھر تاریخ میں ہی یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اس افواہ کے نتیجہ میں مہاجرین حبشہ کی واپسی شوال ۵ نبوی میں ہوئی تھی۔ ۴؎ گویا آغاز ہجرت اور واپسی مہاجرین کے زمانوں میں صرف دو سے لے کر تین ماہ کا فاصلہ تھا اور اگر سجدہ کی تاریخ سے زمانہ کا شمار کریں تو یہ عرصہ صرف ایک ہی ماہ کا بنتا ہے۔ اب اُس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ مکہ اور حبشہ کے درمیان اس قلیل عرصہ میں تین سفر مکمل ہو سکے ہوں۔ یعنی سب سے پہلے مسلمان مکّہ سے حبشہ پہنچے۔ اس کے بعد کوئی شخص قریش کے اسلام کی خبر لے کر مکّہ سے حبشہ گیا اور پھر مسلمان حبشہ سے روانہ ہو کر مکّہ میں واپس آئے۔ ان تین سفروں کی تکمیل قطع نظر اس عرصہ کے جو زائد امور میں صرف ہو جاتا ہے اس قلیل عرصہ میں قطعًا ناممکن تھی۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ بات ناممکن تھی کہ سجدہ کے زمانہ سے لے کر مہاجرین حبشہ کی مذعومہ واپسی تک دو سفر مکمل ہو سکے ہوں کیونکہ اس زمانہ میں مکّہ سے حبشہ جانے کے لئے پہلے جنوب میں آنا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے کشتی لے کر جوہر وقت موجود نہیں ملتی تھی بحرِ احمر کو عبور کرکے افریقہ کے ساحل تک جانا ہوتا تھا اور پھر ساحل سے لے کر حبشہ کے دارالسلطنت اکسوم تک جو ساحل سے کافی فاصلہ پر ہے پہنچنا پڑتا تھا۔ اور اس زمانہ کے آہستہ سفروں کے لحاظ سے اِس قسم کا ایک سفر بھی ڈیڑھ دو ماہ سے کم عرصہ میں ہر گز مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس جہت سے گویا یہ قصّہ سرے سے ہی غلط اور بے بنیاد قرار پاتا ہے لیکن اگر بالفرض اِس میں کوئی حقیقت تھی بھی تو وہ یقینا اس سے زیادہ نہیں تھی جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ واﷲ اعلم
نجاشی کے دربار میں قریش کا ناکام وفد
بہرحال قریش نے جب مسلمانوں کو اس طرح اپنے ہاتھوں سے صحیح سلامت نکلے جاتے دیکھا اور حبشہ
میں ان کو امن و امان کی زندگی بسر کرتے پایا تو ان کے غضب کی آگ اور بھڑک اٹھی اور بالآخر اُنہوں نے اپنے دو ممتاز ممبر یعنی ایک عمروؔ ابن العاص اور دُوسرے عبداﷲؔ بن ربیعہ کو حبشہ کی طرف روانہ کرنے کی تجویز کی اور اس وفد کے ساتھ نہ صرف نجاشی کے واسطے گراں قیمت تحفے تیار کئے بلکہ اس کے تمام درباریوں کے واسطے بھی تحائف تیار کئے گئے جو زیادہ تر چمڑے کے سامان کے تھے جس کے لئے ان دنوں میں عرب خاص شہرت رکھتا تھا اور اس طرح بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ یہ وفد روانہ ہوا۔ اس وفد کی غرض یہ تھی کہ مسلمانوں کو حبشہ سے واپس لا کر پھر ان کو اپنے مظالم کا تختہ مشق بنائیں؛ چنانچہ حبشہ میں پہنچ کر عمروؔ بن العاص اور ان کے ساتھی نے پہلے نجاشی کے درباریوں کے ساتھ ملاقات کی اور اُن کے سامنے تحائف پیش کئے اور پھر ان کے ذریعہ سے نجاشی کے دربار تک رسائی حاصل کی اور تحفے تحائف پیش کرنے کے بعد نجاشی سے اِن الفاظ میں درخواست کی کہ : ’’اے بادشاہ سلامت ہمارے چند بیوقوف لوگوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کردیا ہے اور ایک نیا دین نکالا ہے جو آپ کے دین کے بھی مخالف ہے اور ان لوگوں نے ملک میں فساد ڈال دیا ہے اور اب ان میں سے بعض لوگ وہاں سے بھاگ کر یہاں آگئے ہیں۔ پس ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ان کو ہمارے ساتھ واپس بھجوادیں۔‘‘ درباریوں نے ان کی تائید کی لیکن نجاشی نے جو ایک بیدار مغز حکمران تھا یکطرفہ فیصلہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’یہ لوگ میری پناہ میں آئے ہیں۔ پس جب تک مَیں خود ان کا اپنا بیان نہ سُن لوں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ چنانچہ مسلمان مہاجرین دربار میں بلائے گئے اور اُن سے مخاطب ہو کر نجاشی نے پوچھا کہ: ’’یہ کیا معاملہ ہے اور یہ کیا دین ہے جو تم نے نکالا ہے؟‘‘ حضرت جعفر بن ابی طالب نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا کہ ’’اے بادشاہ! ہم جاہل لوگ تھے۔ بُت پرستی کرتے تھے۔ مُردار کھاتے تھے۔ بدکاریوں میں مبتلا تھے۔ قطع رحمی کرتے تھے۔ ہمسایوں سے بدمعاملگی کرتے تھے اور ہم میں سے مضبوط کمزور کا حق دبا لیتا تھا۔ اس حالت میں اﷲ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا جس کی نجابت اور صدق اور امانت کو ہم سب جانتے تھے۔ اُس نے ہم کو توحید سکھائی اور بُت پرستی سے روکا اور راست گفتاری اور امانت اور صلہ رحمی کا حکم دیا اور ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی اور بدکاری اور جھوٹ اور یتیموں کا مال کھانے سے منع کیا اور خونریزی سے روکا اور ہم کو عبادتِ الٰہی کا حکم دیا۔ ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی اِتباع کی۔ لیکن اس وجہ سے ہماری قوم ہم سے ناراض ہو گئی اور اُس نے ہم کو دکھوں اور مصیبتوں میں ڈالا اور ہم کو طرح طرح کے عذاب دیئے اور ہم کو اس دین سے جبراً روکنا چاہا۔ حتّٰی کہ ہم تنگ آکر اپنے وطن سے نِکل آئے اور آپ کے مُلک میں آکر پناہ لی۔ پس اے بادشاہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہو گا۔‘‘ نجاشی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور حضرت جعفر سے کہنے لگا کہ ’’جو کلام تم پر اُترا ہے وُہ مجھے سُناؤ۔‘‘ اس پر حضرت جعفر نے بڑی خوش الحانی کے ساتھ سورۃ مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر سُنائیں۔ یہ آیات سُن کر نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے رقّت کے لہجہ میں کہا: خُدا کی قسم یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی منبعٔ نور کی کرنیں معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر نجاشی نے قریش کے وفد سے کہا۔ ’’ تم واپس چلے جاؤ۔ مَیں ان لوگوں کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔‘‘ اور نجاشی نے ان کے تحفے بھی واپس کر دیئے۔
لیکن قریش کے خونی سفیر اس طرح آسانی کے ساتھ خاموش نہیں کئے جاسکتے تھے۔ دوسرے دن عمرو بن العاص نے دربار میں پھر رسائی حاصل کی اور نجاشی سے عرض کیا کہ ’’حضور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ مسیح کے متعلق کیا کہتے ہیں؟‘‘ نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بُلا بھیجا۔ مسلمان فکر مند ہوئے کہ چونکہ ہم مسیح کے ابن اﷲ ہونے کے مُنکر ہیں اس لئے کہیں عمرو بن العاص کی یہ چال چل نہ جاوے۔ مگر یہ لوگ تلوار کے سایہ کے نیچے بھی حق بات کہنے سے رکنے والے نہ تھے؛ چنانچہ جب نجاشی نے پوچھا کہ ’’تم مسیح کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو؟‘‘ تو جعفر نے صاف عر ض کیا کہ ’’اے بادشاہ! ہمارے اعتقاد کی رُو سے مسیح اﷲ کا ایک بندہ ہے خدا نہیں ہے مگر وہ اس کا ایک بہت مقرب رسول ہے اور اس کے اُس کلام سے عالمِ ہستی میں آیا ہے جو اُس نے مریم پر ڈالا۔‘‘ نجاشی نے فرش پر سے ایک تِنکا اٹھایا اور کہا۔ ’’واﷲ جو تم نے بیان کیا ہے مَیں اس سے مسیح کو اس تِنکے کے برابر بھی بڑا نہیں سمجھتا۔ نجاشی کے اس کلام پر دربار کے پادری سخت بَرہم ہوئے مگر نجاشی نے ان کی کچھ پروا نہ کی اور قریش کا وفد بے نیلِ مرام واپس آگیا۔
اس کے بعد مہاجرین حبشہ ایک عرصہ تک بڑے امن کے ساتھ حبشہ میں رہے لیکن اُن میں سے اکثر تو ہجرتِ یثرب کے قریب مکّہ میں واپس آگئے اور بعض حبشہ میں ہی مقیم رہے حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور جنگِ بدرؔ اور اُحدؔ اور احزابؔ تمام ہو چکیں تب یہ لوگ عرب میں واپس آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جنگِخیبر سے واپس آرہے تھے۔
ابتداء میں جبکہ ابھی اکثر مہاجرین حبشہ میں ہی تھے نجاشی کو اپنے ایک حریف سے جنگ پیش آگئی۔ اس پر صحابہ نے باہم مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ضرورت پیش آئے تو ہمیں بھی نجاشی کی امداد کرنی چاہئے چنانچہ انہوں نے زبیر ابن العوام کو دریائے نیل کے پار میدانِ جنگ میں بھیجا کہ حالات سے اطلاع دیں اور پیچھے صحابہ خُدا سے دُعائیں کرتے رہے کہ نجاشی کو فتح ہو۔ چنانچہ چند دن کے بعد حضرت زبیر نے واپس آکر اطلاع دی کہ نجاشی نے خدا کے فضل سے فتح پائی ہے۔ ۱؎
حضرت ابو بکر ؓکا ہجرت کے ارادے سے نِکلنا
حدیث میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت آتی ہے کہ جب مُسلمان حبشہ کی طرف ہجرت
کر گئے تو ایک دفعہ حضرت ابو بکر ؓبھی ہجرت کے ارادہ سے مکّہ سے نکلے مگر جب جنوب کی طرف جاتے ہوئے برک الغماد میں پہنچے تو وہاں اتفاقاً قبیلہ قارہؔ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہو گئی۔ ابن الدغنہؔ نے اس سفر کا سبب پوچھا تو حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ ’’میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے مَیں نے اب ارادہ کیا ہے کہ اﷲ کی زمین میں کہیں نِکل جاؤں اور آزاد ہو کر اپنے ربّ کی عبادت کروں۔‘‘ ابن الدغنہؔ نے کہا۔’’ تمہارے جیسے شخص کو تو نہ خود مکّہ سے نکلنا چاہئے اور نہ لوگوں کو چاہئے کہ اسے نکالیں … آؤ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ واپس لَوٹ چلو اور مکّہ میں ہی اپنے ربّ کی عبادت کرو۔‘‘ چنانچہ ابو بکرؓ ان کے کہنے پر واپس چلے آئے۔ مکّہ پہنچ کر ابن الدغنہؔ نے رؤساء قریش کو ملامت کی اور کہا کہ: کیا تم ایسی ایسی نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو؟ ‘‘ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے اپنے گھر کے صِحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی جس میں وہ نماز اور قرآن شریف پڑھا کرتے تھے اور چونکہ وہ نہایت رقیق القلب تھے۔ اس لیے جب وہ قرآن شریف پڑھتے تو بسا اوقات ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے۔ قریش کی عورتیں اور بچے جو نسبتاً سادہ طبع اور تعصبات مذہبی سے آزاد تھے یہ نظارہ دیکھتے تو ان کے قلوب پر اس کا ایک خاص اثر ہوتا اور چونکہ ویسے بھی حضرت ابو بکر ؓ قریش میں بہت معزز تھے اس لیے ان کی یہ والہانہ عبادت لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرتی تھی۔ اس پر قریش نے ابن الدغنہ کے پاس شکایت کی کہ ابو بکر ؓ اونچی آواز سے قرآن پڑھتا ہے اور اس سے ہماری عورتیں اور بچے اور کمزور لوگ فتنہ میں پڑتے ہیں۔ لہٰذا تم اسے روک دو۔ اس نے حضرت ابو بکر ؓ کو روکنا چاہا۔ مگر اُنہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ : ’’مَیں یہ کام ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں اگر تمہیں کوئی ڈر ہے تو مَیں تمہاری پناہ سے نِکلتا ہوں مجھے اپنے مولیٰ کی پناہ بس ہے۔‘‘ ۱؎ اس کے بعد قریش نے حضرت ابوبکرؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے۔
اسلام حمزہؓ
ہجرتِ حبشہ کے متعلق سلسلہ واقعات کو ایک جگہ بیان کرنے کی وجہ سے ہم نے بعض درمیانی واقعات کا ذکر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اب بیان کرتے ہیں۔ اب تک مسلمانوں کی ظاہری حالت
نہایت کمزور تھی۔ کیونکہ مُسلمان ہونے والوں میں سے سوائے حضرت ابو بکر ؓ کے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو قریش میں کوئی اثر رکھتا ہو یا کم از کم جس سے قریش کچھ دَبتے ہوں مگر اب خدا کے فضل سے دو ایسے شخص اسلام میں داخل ہوئے جو اپنی وجاہت اور رعب کی وجہ سے اسلام کی ظاہری شان کو ایک حد تک مضبوط کرنے والے ثابت ہوئے۔ ہماری مراد حضرت حمزہ ؓ بن عبدالمطلب اور حضرت عمر ؓ بن الخطاب سے ہے جو دونوں ایک دُوسرے کے آگے پیچھے ۶ نبوی میں مسلمان ہوئے۔
حمزہ ؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے اور اُن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، لیکن ابھی تک مشرک تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہرروز صبح سویرے تیر کمان لے کر باہر نِکل جاتے تھے اور سارا دن شکار کھیلتے رہتے تھے۔ شام کو واپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور پھر قریش کی ان مجلسوں میں دورہ لگاتے جو وہ صحنِ کعبہ میں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں جما کر بیٹھا کرتے تھے اور یہاں سے فارغ ہونے کے بعد گھر جاتے تھے۔ ایک دن حمزہ اسی طرح شکار سے واپس آئے تو ایک خادمہ نے اُن سے کہا۔ ’’کیا آپ نے سُنا کہ ابھی ابھی ابو الحکم (یعنی ابو جہل) آپ کے بھتیجے کو سخت بُرا بھلا کہتا گیا ہے اور بہت گندی گندی گالیاں دی ہیں۔ مگر مُحمد نے سامنے سے کچھ جواب نہیں دیا۔ یہ سُن کر حمزہؔ کی آنکھوں میں خُون اُتر آیا اور خاندانی غیرت جوش زن ہوئی۔ فوراً کعبہ کی طرف گئے اور پہلے طواف کیا۔ طواف کرنے کے بعد اس مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابوجہلؔ بیٹھا تھا اور جاتے ہی بڑے زور کے ساتھ ابو جہل کے سر پر اپنی کمان ماری اور کہا۔ ’’مَیں سُنتا ہوں کہ تو نے مُحمد کو گالیاں دی ہیں۔ سُن مَیں بھی محمد کے دین پر ہُوں اور مَیں بھی وہی کہتا ہوں جو وُہ کہتا ہے۔ پس اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔‘‘ ابو جہل کے ساتھی ابو جہل کی حمایت میں اُٹھے اور قریب تھا کہ لڑائی ہو جاتی مگر ابو جہل حمزہؔ کی دلیری اور جرأت کو دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر روک دیا کہ حمزہ حق بجانب ہے واقعی مُجھ سے زیادتی ہو گئی تھی اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ ۱؎
حمزہؔ جوش میں یہ الفاظ تو کہہ بیٹھے تھے کہ ’’مَیں بھی محمدؐ کے دین پر ہوں۔‘‘ لیکن جب گھر آئے اور غصّہ کم ہوا تو کچھ گھبرائے اور سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیئے آخردل نے یہی فیصلہ کیا کہ اب شِرک چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ ۲؎ یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کا واقعہ ہے جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی دارارقم میں ہی مقیم تھے۔ ۳؎ حضرت حمزہ ؓ کے مُسلمان ہونے کی خوشی میں یا ویسے ہی اپنے اخلاص کے جوش میں مگر بہرحال اُسی دن جس دن حمزہ مُسلمان ہوئے حضرت ابوبکرؓ نے صحنِ کعبہ میں برملا توحید کا اعلان کیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور بعض دُوسرے مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔ قریش نے حضرت ابوبکرؓ کی اس جسارت کو دیکھا تو جوش میں آکر اُن پر ٹوٹ پڑے اور اس بے دردی سے مارا کہ لکھا ہے کہ جب اُن کے قبیلہ کے لوگ انہیں اُٹھا کر اُن کے گھر لے گئے تو وہ بالکل بے ہوش تھے اور ضربات کی وجہ سے ان کا ناک مُنہ ایک ہو رہا تھا۔ جب انہیں ہوش آیا تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا حال ہے اور جب تک آپؐ کی خیریت کی خبر نہیں سُنی حضرت ابوبکرؓ کو چین نہیں آیا۔ ۴؎
اسلام عمر ؓ
ابھی حضرت حمزہ ؓ کو اسلام لائے صرف چند دن ہی گذرے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے مُسلمانوں کو ایک اور خوشی کا موقع دکھایا یعنی حضرت عمر ؓ جو ابھی تک اشد مخالفین میں سے تھے مُسلمان
ہوگئے۔ ان کے اسلام لانے کا قصّہ نہایت دلچسپ ہے۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی کا مادہ تو زیادہ تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے دور بھی زیادہ کر دیا تھا، چنانچہ اسلام سے قبل عمرؓ غریب اور کمزور مُسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے بہت سخت تکلیف دیا کرتے تھے، لیکن جب وُہ انہیں تکلیف دیتے دیتے تھک گئے اور اُن کے واپس آنے کی کوئی صورت نہ دیکھی تو خیال آیا کہ کیوں نہ اس ’’فتنہ‘‘ کے بانی کا ہی کام تمام کر دیا جاوے۔ یہ خیال آنا تھا کہ تلوار لے کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش شروع کی۔ راستہ میں ایک شخص نے اُنہیں ننگی تلوار ہاتھ میں لیے جاتے دیکھا تو پُوچھا۔’’عُمر! کہاں جاتے ہو؟‘‘ عمر نے جواب دیا۔’’محمد کا کام تمام کرنے جاتا ہوں۔‘‘ اُس نے کہا ’’کیا تم محمد کو قتل کرکے بنو عبدمناف سے محفوظ رہ سکو گے؟‘‘ ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی مُسلمان ہو چکے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ جھٹ پلٹے اور اپنی بہن فاطمہ کے گھر کا راستہ لیا۔ جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آئی۔ جو خبابؔ بن الارت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سُنا رہے تھے۔ عمر نے یہ آواز سُنی تو غصّہ اور بھی بڑھ گیا۔ جلدی سے گھر میں داخل ہوئے لیکن ان کی آہٹ سنتے ہی خباب تو جھٹ کہیں چھُپ گئے اور فاطمہ نے قرآن شریف کے اوراق بھی اِدھر اُدھر چھُپا دیئے۔ ۱؎ حضرت عمرؓ اندر آئے تو للکار کر کہا! ’’میں نے سُنا ہے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعیدؔ بن زیدؔ سے لِپٹ گئے۔ فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہوئیں۔ مگر فاطمہ نے دلیری کے ساتھ کہا۔ ’’ہاں عمر! ہم مُسلمان ہو چکے ہیں اور تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ حضرت عمرؓ نہایت سخت آدمی تھے لیکن اس سختی کے پَردہ کے نیچے محبت اور نرمی کی بھی ایک جھلک تھی جو بعض اوقات اپنا رنگ دکھاتی تھی۔ بہن کا یہ دلیرانہ کلام سُنا تو آنکھ اُوپر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا وُہ خُون میں تربہ تر تھی۔ اس نظّارہ کا عمرؓ کے قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر بہن سے کہنے لگے ’’مجھے وُہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے؟‘‘ فاطمہ نے کہا ۔ ’’مَیں نہیں دکھاؤں گی کیونکہ تم ان اوراق کو ضائع کر دو گے۔‘‘ عمر ؓ نے جواب دیا۔ ’’نہیں نہیں تم مجھے دکھادو۔ مَیں ضرور واپس کر دوں گا۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔ ’’مگر تم نجس ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہیئے۔ پس تم پہلے غسل کر لو اور پھر دیکھنا۔‘‘ غالباً ان کا منشاء یہ بھی ہو گا کہ غسل کرنے سے عمرؔ کا غصّہ بالکل فرو ہو جائے گا اور وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جب عمرؔ غسل سے فارغ ہوئے تو فاطمہ نے قرآن کے اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔ اُنہوں نے اُٹھا کر دیکھا تو سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا اور ایک ایک لفظ اس سعید فطرت کے اندر گھر کئے جاتا تھا۔ پڑھتے پڑھتے حضرت عمرؓ اس آیت پر پہنچے کہ:
۱؎
یعنی مَیں ہی اس دُنیا کا واحد خالق و مالک ہُوں میرے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں۔ پس تمہیں چاہئے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لئے انپی دعاؤں کو وقف کر دو۔ دیکھو موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے کئے کا سچا سچا بدلہ پاسکے۔‘‘
جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور سوئی ہوئی فطرت چونک کر بیدار ہو گئی بے اختیار ہو کر بولے۔’’ یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے‘‘!
خبابؔ نے یہ الفاظ سُنے تو فوراً باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا۔’’یہ رسُول اﷲ کی دُعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم ابھی کل ہی مَیں نے آپؐ کو یہ دُعا کرتے سنا تھا کہ یا اﷲ تو عُمر ابن الخطاب یا عمرو بن ہشام (یعنی ابوجہل) میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطا کر دے۔‘‘ حضرت عمرؓ کو اب ایک ایک پل گراں تھی۔ خبابؔ سے کہا۔’’مجھے ابھی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا راستہ بتاؤ۔‘‘ مگر کچھ ایسے آپے سے باہر ہو رہے تھے کہ تلوار اُسی طرح ننگی کھینچ رکھی تھی۔ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دارارقم میں مقیم تھے؛ چنانچہ خبابؓ نے انہیں وہاں کا پتہ بتادیا۔ عمرؔ گئے اور دروازہ پر پہنچ کر زور سے دستک دی۔ صحابہ نے دروازے کی دراڑ میں سے عمرؔ کو ننگی تلوار تھامے ہوئے دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تأمل کیا۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’دروازہ کھول دو۔‘‘ اور حضرت حمزہ ؓ نے بھی کہا۔ دروازہ کھول دو۔ اگر نیک ارادہ سے آیا ہے تو بہتر: ورنہ اگر نیّت بَد ہے تو واﷲ اسی کی تلوار سے اُس کا سَر اُڑادوں گا۔‘‘ دروازہ کھولا گیا۔ عمر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوئے۔ اُن کو دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عمر کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور کہا: ’’عمرؔ کس ارادہ سے آئے ہو؟ واﷲ مَیں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لئے نہیں بنائے گئے۔ ’’عمرؔ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اﷲ! مَیں مسلمان ہونے آیا ہوں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سُنے تو خوشی کے جوش میں اﷲ اکبر کہا اور ساتھ ہی صحابہ نے اس زور سے اﷲ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکّہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں۔ ۱؎
حضرت عمرؓ کی عمر اس وقت ۳۳سال کی تھی اور آپ اپنے قبیلہ بنو عدی کے رئیس تھے۔ قریش میں سفارت کا عہدہ بھی انہی کے سُپرد تھا اور ویسے بھی نہایت بارُعب اور جَری اور دلیر تھے۔ ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور اُنہوں نے دارارقم سے نکل کر بَرملا مسجدِ حرام میں نماز ادا کی۔ حضرت عمرؓ آخری صحابی تھے جو دارارقم میں ایمان لائے اور یہ بعثتِ نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے۔ اس وقت مکّہ میں مُسلمان مَردوں کی تعداد چالیس تھی۔ ۲؎
جب حضرت عمرؓ کے اسلام کی خبر قریش میں پھیلی تو وہ سخت جوش میں آگئے اور اسی جوش کی حالت میں اُنہوں نے حضرت عمرؓ کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عمرؓ باہر نِکلے تو ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جو شیلے لوگ اُن پر حملہ آور ہو جائیں لیکن حضرت عمرؓ بھی نہایت دلیری کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹے رہے۔ آخر اُسی حالت میں مکّہ کا رئیس اعظم عاصؔ بن وائل اُوپر سے آگیا اور اس ہجوم کو دیکھ کر اس نے اپنے سردارانہ انداز میں آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا۔’’عمرؔ صابی ہو گیا ہے۔‘‘ اُس نے موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’تو خیر پھر بھی اس ہنگامہ کی ضرورت نہیں۔ مَیں عمرؔ کو پناہ دیتا ہوں۔‘‘ اس آواز کے سامنے عربی دستور کے مطابق لوگوں کو خاموش ہونا پڑا اور وُہ آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ چند دن تک امن میں رہے کیونکہ عاص بن وائل کی پناہ کی وجہ سے کوئی ان سے تعرض نہیں کرتا تھا، لیکن اس حالت کو حضرت عمرؓ کی غیرت نے زیادہ دیر تک برداشت نہ کیا؛ چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ انہوں نے عاصؔ بن وائل سے جاکر کہہ دیا کہ میں تمہاری پناہ سے نکلتا ہوں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد مَیں مکّہ کی گلیوں میں بس پِٹتا پٹیتاہی رہتا تھا۔۲؎ مگر حضرت عمر ؓ نے کبھی کسی کے سامنے آنکھ نیچی نہیں کی۔
حضرت عمر ؓ کے مسلمان ہونے کے قریب ہی ان کے صاحبزادے عبداﷲ بن عمر بھی مسلمان ہوئے۔ عبداﷲ اس وقت بالکل بچہ تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُنہوں نے بہت بڑا رُتبہ حاصل کیا اور اسلام کے چوٹی کے علماء میں سے سمجھے جانے لگے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قریش کے ایک وفد سے ملاقات
جب قریش نے دیکھا کہ حضرت حمزہ ؓ اور
حضرت عمرؓ جیسے ذی مقدرت لوگ بھی اسلام میں داخل ہوتے جاتے ہیں تو انہیں بہت فِکر دامنگیر ہوا اور اُنہوں نے باہم مشورہ کر کے پہلے تو عتبہ بن ربیعہ کو آپؐ کے پاس بھیجا تاکہ وہ کسی طرح آپؐ کو راضی کر کے اشاعتِ اسلام سے باز رکھنے کی کوشش کرے لیکن جب عتبہ کو اس مشن میں ناکامی ہوئی بلکہ قریش نے دیکھا کہ اُلٹا عتبہؔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے متاثر اور مرعوب ہو کر واپس آیا ہے۔ ۱؎ تو انہوں نے ایک دن کعبہ کے پاس جمع ہو کر باہم مشورہ کیا اور یہ تجویز کی کہ چند رؤسا اکٹھے ہو کر آپؐ کے ساتھ بات کریں؛ چنانچہ اس تجویز کے مطابق ولیدؔ بن مغیرہ اور عاصؔ بن وائل اور ابوجہلؔ اور امیّہؔ بن خلف اور عتبہؔ اور شیبہؔ اور ابوسفیانؔ اور اسودؔ بن مطلب اور نضرؔ بن حارث اور ابولبختریؔ وغیرہ صحن کعبہ میں مجلس جما کر بیٹھ گئے اور ایک آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف پیغام دے کر روانہ کیا گیا کہ تمہاری قوم کے رؤساء تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ تم ذرا صحنِ کعبہ میں آکر اُن کی بات سُن جاؤ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو ایسے موقعوں کی تلاش میں خود رہتے تھے، فوراً تشریف لے گئے اور رسمی علیک سلیک کے بعد قریش نے یوں گفتگو شروع کی کہ … ’’اے محمد! دیکھو تمہاری وجہ سے قوم میں کتنا اختلاف و انشقاق پیدا ہو رہا ہے۔تم نے اپنے آباؤ اجداد کے مذہب میں رخنہ ڈال کر اپنی قوم کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہا۔ ان کے قابلِ تکریم معبودوں کو گالیاں دیں اور ان کے ذی عزّت بزرگوں کو لایعقل قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر کسی قوم کی ہتک اور ذلّت کیا ہو سکتی ہے جو تم نے کی ہے اور کر رہے ہو۔ مگر ہم تمہارے معاملہ میں حیران ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اگر تو تمہاری یہ ساری جِدّوجہد اس غرض سے ہے کہ تم اس ذریعہ سے مال جمع کر کے مالدار بن جاؤ تو ہم تمہیں اتنا مال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم ہم سب سے زیادہ دولتمند کہلاسکو۔ اگر جاہ و عزّت کی طلب ہے تو ہم تہیں اپنا سردار اور رئیس بنا لینے کے لئے تیار ہیں۔ اگر حکومت کی حِرص ہے تو ہمیں اس میں بھی تأمل نہیں کہ تمہیں اپنا بادشاہ قرار دے لیں اور اگر تمہارا یہ شورو شغب کسی بیماری یا آسیب کا نتیجہ ہے تو ہم اپنے پاس سے خرچ کر کے تمہارے علاج کا انتظام کر سکتے ہیں اور اگر تم کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کر کے خوش ہو سکتے ہو تو تمہیں عرب کی بہترین لڑکی تلاش کر کے پیش کیے دیتے ہیں۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت خاموشی کے ساتھ رؤسائے قریش کی اس تقریر کو سُنا اور جب وہ اپنی بات ختم کر چکے تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے معشرِقریش! مجھے ان چیزوں میں سے کسی کی تمنا نہیں ہے اور نہ مجھے کوئی آسیب یا بیماری لاحق ہے۔ مَیں تو خُدا کی طرف سے ایک رسول ہوں اور خدا کا یہ پیغام لے کر تمہاری طرف آیا ہوں اور میرا دل تمہاری ہمدردی سے معمور ہے۔ اگر تم میری بات سنو اور مانو تو دین و دُنیا میں تمہارا فائدہ ہے اور اگر تم اسے رَدّ کر دو تو مَیں اس صورت میں صبر و تحمل کے ساتھ اپنے ربّ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا۔‘‘ قریش نے کہا۔ ’’تو اے محمد! گویا تم ہماری اس تجویز کو منظور نہیں کرتے۔ اچھا! اگر تم نے اپنی رسالت ہی منوانی ہے تو آؤ اسی کے متعلق فیصلہ کر لو۔ تم دیکھتے ہو کہ ہمارا یہ ملک کس قدر بے آب و گیاہ ہے اور خشک پتھروں اور چٹانوں یا ریت کے بے پناہ تودوں کے سوا یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر تم واقعی خدا کے رسُول ہو تو اپنے خدا سے کہہ کر اس ملک میں بھی شام و عراق کی طرح نہریں جاری کرو ا دو اور ان پہاڑوں کو اڑا کر زرخیز میدان بنوا دو۔ پھر ہم ضرور تمہاری رسالت کے قائل ہو جائیں گے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مَیں تو خدا کی طرف سے ایک پیغامبر ہوں اور میرا کام صرف یہ ہے کہ تمہیں حق و باطل کا راستہ دکھادوں اور تمہارے نفع نقصان کی بات تمہیں سمجھا دوں۔ ہاں مَیں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو خدا اپنے وقت پر ضرور تمہیں دین و دُنیا کے انعامات کا وارث بنائے گا۔‘‘ قریش نے کہا اچھا یہ بھی نہیں تو کم از کم تمہارے ساتھ خدا کا کوئی فرشتہ ہی اُترتا نظر آتا اور محلّات میں تمہارا بسیرا ہوتا اور تمہارے ہاتھ میں سونے چاندی کے ڈھیر ہوتے مگر ان میں سے کوئی چیز بھی تو تمہیں میسّر نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہماری طرح بازاروں میں پھرتے اور ہماری طرح اپنی روزی کے متلاشی ہوتے ہو۔ پھر وہ کونسی علامت ہے جس سے ہم تمہیں خدا کا بھیجا ہوا سمجھ لیں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’مَیں ان باتوں کا اس رنگ میں مدّعی نہیں ہوں جو تم ڈھونڈتے ہو۔ ہاں یہ مَیں نے کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ اگر تم مجھے مانو گے تو خدائی سُنت کے مطابق دین و دُنیا کی حسنات سے ضرور حِصّہ پاؤ گے۔‘‘ قریش نے بگڑ کر کہا کہ ’’اگر یہ بھی نہیں تو پھر وہ عذاب ہی لاؤ، جس کا تُم وعدہ دیتے ہو۔ آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہم پر آگرے۔ یا فرشتوں کی کوئی فوج ہی خدائی جھنڈے کے نیچے ہمارے سامنے آدھمکے۔ خدا کی قسم ہمیں تو اب بس یہی نظر آرہا ہے کہ یا ہم زندہ رہیں گے یا تو رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے غصّہ کو دباتے ہوئے خاموش ہو گئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مغموم دل کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر واپس تشریف لے آئے۔ جب آپ واپس چلے آئے تو ابوجہل نہایت غضبناک ہو کر بولا کہ ’’اے معشرِ قریش! تم نے دیکھ لیا کہ محمد نے تمہاری ساری باتوں کو ٹھکرا دیا ہے اور وہ اپنی اس فتنہ انگیزی سے کبھی باز نہیں آئے گا۔ اب واﷲ مَیں بھی اس وقت تک چَین نہیں لوں گا کہ جب تک محمد کا سر کچل کر نہ رکھ دُوں اور پھر بنوعبدمناف میرے ساتھ جو کرنا چاہیں کر گذریں۔‘‘ بنو عبدمناف کے جو لوگ وہاں موجود تھے اور وہ وہی تھے جو بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ماسوا تھے۔ ان سب نے بیک آواز کہا۔ ’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تم محمد کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہو بے شک کرو۔‘‘ دُوسرے دن ابو جہل ایک بڑا سا پتھر لے کر صحنِ کعبہ کے ایک طرف کھڑا ہو گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگا۔ مگر جب آپؐ تشریف لائے تو اس کے دل پر کچھ ایسا رُعب طاری ہوا کہ وہیں بُت بن کر کھڑا رہا اور آگے بڑھ کر وار کرنے کی ہمت نہیں پڑی۔ ۱؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خدا داد رُعب
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ابو جہل کے مرعوب ہونے کے متعلق ایک اور روایت بھی
آتی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدائی سنّت اسی طرح پر ہے کہ جو لوگ خدا کے مرسلین کے سامنے زیادہ بیباک ہوتے ہیں عموماً انہیں پر خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کا رعب زیادہ مسلّط کرتا ہے؛ چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اراشہؔ نامی شخص مکہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابو جہل نے اُس سے یہ اُونٹ خریدلیے مگر اُونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد قیمت ادا کرنے میں حیل و حجت کرنے لگا۔ اس پر اراشہؔ جو مکّہ میں ایک اجنبی اور بے یارومددگار تھا بہت پریشان ہوا اور چند دن تک ابو جہل کی منّت و سماجت کرنے کے بعد وہ آخر ایک دن جبکہ بعض رؤسا قریش کعبۃ اﷲ کے پاس مجلس جمائے بیٹھے تھے، ان لوگوں کے پاس گیا اور کہنے لگا اے معززین قریش آپ میں سے ایک شخص ابوالحکم نے میرے اُونٹوں کی قیمت دبارکھی ہے آپ مہربانی کرکے مجھے یہ قیمت دلوادیں۔ قریش کو شرارت جو سوجھی تو کہنے لگے ایک شخص یہاں محمد بن عبداﷲ نامی رہتا ہے تم اس کے پاس جاؤ۔ وہ تمہیں قیمت دلا دے گا اور اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو بہرحال انکار ہی کریں گے اور اس طرح باہر کے لوگوں میں آپؐ کی سُبکی اور ہنسی ہوگی۔جب اراشہؔ وہاں سے لوٹا تو قریش نے اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی کر دیا کہ دیکھو کیا تماشا بنتا ہے؛ چنانچہ اراشہؔ اپنی سادگی میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں ایک مسافر آدمی ہُوں اور آپ کے شہر کے ایک رئیس ابوالحکمؔ نے میری رقم دبا رکھی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ مجھے یہ رقم دلوا سکتے ہیں۔ پس آپ مہربانی کر کے مجھے میری رقم دلوا دیں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو مَیں تمہارے ساتھ چلتا ہوں؛ چنانچہ آپؐ اُسے لے کر ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازہ پر دستک دی۔ ابوجہل باہر آیا تو آپؐ کو دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا اور خاموشی کے ساتھ آپؐ کا مُنہ دیکھنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پیسے آپ کی طرف نکلتے ہیں۔ یہ ایک مسافر ہے آپ اس کا حق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ اس وقت ابوجہل کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’محمد ٹھہرو! مَیں ابھی اس کی رقم لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ اندر گیا اور اراشہؔ کی رقم لاکر اسی وقت اس کے حوالے کر دی۔ اراشہؔ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بہت شکریہ ادا کیا اور واپس آکر قریش کی اسی مجلس میں پھر گیا اور وہاں جاکر ان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے مجھے ایک بہت ہی اچھے آدمی کا پتہ بتایا۔ خُدا اُسے جزاء خیر دے اُس نے اُسی وقت میری رقم دِلادی۔ رؤساء قریش کے مُنہ میں زبان بند تھی اور وہ ایک دوسرے کی طرف حیران ہو کر دیکھ رہے تھے۔ جب اراشہؔ چلا گیا تو انہوں نے اس آدمی سے دریافت کیا جو اراشہؔ کے پیچھے پیچھے ابوجہل کے مکان تک گیا تھا کہ کیا قصّہ ہوا ہے۔ اُس نے کہا۔ واﷲ ! ’’مَیں نے تو ایک عجیب نظّارہ دیکھا ہے اور وہ یہ کہ جب محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے جاکر ابوالحکم کے دروازہ پر دستک دی اور ابو الحکم نے باہر آکر محمد کو دیکھا تو اسوقت اس کی حالت ایسی تھی کہ گویا ایک قالب بے رُوح ہے اور جونہی کہ اسے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے کہا کہ اس کی رقم ادا کر دو، اُسی وقت اُس نے اندر سے پائی پائی لاکر سامنے رکھ دی۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد ابوجہل بھی اس مجلس میں آپہنچا۔ اسے دیکھتے ہی سب لوگ اس کے پیچھے ہو لیے کہ اے ابو الحکم تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ محمد سے اس قدر ڈر گئے۔ اُس نے کہا۔ خُدا کی قسم! جب مَیں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا، تو مجھے یوں نظر آیا کہ اُس کے ساتھ لگا ہوا ایک مَست اور غضبناک اُونٹ کھڑا ہے اور مَیں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون و چرا کروں گا تو وہ مجھے چبا جائے گا۔ ۱؎
ایک عیسائی غلام سے تعلیم حاصل کرنے کا الزام
جو الزامات قریش مکّہ کی طرف سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف
لگائے جاتے تھے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپؐ بعض عیسائیوں سے باتیں سیکھتے ہیں اور پھر انہیں اپنا رنگ دے کر اپنی تعلیم کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر ایک جبرؔ نامی عیسائی کا نام لیا جاتا تھا جو مکّہ کے ایک مشرک رئیس ابن حضرمی کا غلام تھا۔ یہ شخص چونکہ عیسائی تھا اور عیسائیت کی تعلیم بُت پرستی کی نسبت اسلام کے زیادہ قریب تھی اور مکّہ کے مناظر میں جبرؔ کو شِرک اور بُت پرستی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، اس لیے وہ کبھی کبھی اپنے مذہبی شوق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتا رہتا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس کے شوق کو دیکھ کر کبھی کبھی اس کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے۔ قریش نے یہ نظارہ دیکھا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کی غرض سے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ ’’محمد تو جبرؔ سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔‘‘ ۱؎ اسلام اور مسیحیت کی تعلیم کے اختلاف اور جبرؔ کی علمی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ ایک نہایت فضول اور لغو اعتراض تھا، مگر قریش کو تو صرف اعتراض کی ضرورت تھی۔ معقول یا غیرمعقول ہونے سے سروکار نہ تھا۔ اس لیے وُہ بڑے شوق سے اس اعتراض کو دوہراتے رہے۔ قرآن شریف نے اس اعتراض کا خوب جواب دیا ہے کہ جس شخص کی طرف تم محمد رسول اﷲ کی تعلیم کو منسوب کرتے ہو اس کی زبان تو ظاہری اور معنوی ہر دو رنگ میں گنگ ہے، پھر وُہ قرآن جیسی کتاب میں محمد رسول اﷲ کا استاد کس طرح ہو سکتا ہے۔ ۲؎ یعنی یہ شخص غیر عربی ہونے کی وجہ سے اس فصیح اور بلیغ عربی کلام کا معلّم کس طرح سمجھا جاسکتا ہے جو قرآن شریف میں استعمال ہوا ہے اور دُوسری طرف معنوی رنگ میں اس شخص کی جہالت معارفِ قرآنی کا سرچشمہ کس طرح قرار دی جاسکتی ہے۔
قرآنی آیات محولہ بالا میں جو عجمی یعنی غیر عربی کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک ابھی اناجیل کا عربی ترجمہ نہیں ہوا تھا۔۳؎ اس لیے اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جبرؔ اناجیل کے کوئی حصّے سُناتا ہو گا تو وہ لازماً عبرانی یا یونانی میں ہوں گے ۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں کس طرح سمجھتے اور کس طرح عربی کے قالب میں ڈھالتے ہوں گے۔
بعض روایتوں میں جبرؔ کے سوا بعض اور لوگوں کے نام بھی اس تعلّق میں بیان ہوئے ہیں جن کے متعلق قریش اعتراض کیا کرتے تھے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سکھاتے ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ یہ سب لوگ غلاموں کے طبقہ میں سے تھے ۔۴؎ بہرحال قریشِ مکّہ نے کچھ دن اس اعتراض کو شہرت دے کر بھی اپنے دل کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر جو آگ نہ بجھنے والی تھی وہ کیسے بجھتی؟
اَبتر ہونے کا الزام
انہی ایّام میں بعض قریش نے یہ کہہ کر بھی اپنے دل کو تسلّی دینے کی کوشش کی کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) تو لاوارث اور بے نسل ہے۔ چند دن تک اس کا سِلسِلہ
خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس پر یہ وحی نازل ہوئی کہ:
۱؎
یعنی ’’اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ! ہم نے تیری نسل اور تیری برکات و فیض کے سلسلہ کو بہت لمبا بنایا ہے۔ پس تو خدا کے لیے اپنے نفس کی طاقتوں اور اپنی نسل و اموال کو بیشک بے دریغ خرچ کر۔ کیونکہ یہ خزانہ ختم ہونے والا نہیں ہے؛ البتّہ تیرے بدخواہ دشمنوں کے سارے سِلسلے مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے جس شاندار اور آپؐ کے معاندین کے لیے جس ہیبت ناک طریق پر آپؐ کا یہ الہام پورا ہوا ہے وہ تاریخ کا ایک کھلا وَرق ہے جسے کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ انہی اعتراض کرنے والوں کی اولاد نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو کر اس بات پر مہر لگا دی کہ نہ صرف قریش بلکہ تمام قبائلِ عرب میں سے اگر کسی شخص کی نسل حقیقتاً قائم رہی ہے تو وہ صرف محمد رسول اﷲ ہیں۔
قریش کی طرف سے مصالحت کی تجویز
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ان ایّام میں قریش سخت پیچ و تاب کھا رہے تھے اور ہر شخص اس سوچ میں پڑا ہوا
تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔ اس ادھیڑ بُن میں ایک دن روسائے قریش میں سے ولیدؔ بن مغیرہ اور عاصؔ بن وائل اور اُمیّہ بن خلف وغیرہ آپس میں بات کر کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہنے لگے۔ ’اے محمد! یہ اختلاف تو بہت بڑھتا جاتا ہے اور ہمارا قومی شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کیا کوئی باہم مصالحت کی تدبیر نہیں ہو سکتی‘‘؟ آپؐ نے دریافت فرمایا۔ ’’وہ کیسے؟‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تم اپنی عبادت کو مشترک کر لیتے ہیں۔ یعنی تم اپنے خُدا کے ساتھ ہمارے بتوں کو بھی پُوج لیا کرو اور ہم اپنے بتوں کی عبادت میں تمہارے خُدا کو بھی شریک کر لیا کریں گے۔ اس طرح مصالحت سے ایک یہ فائدہ بھی ہو گا کہ ہم میں سے جو فریق حق اور راستی پر ہے اس کا فائدہ دُوسرے کو بھی پہنچتا رہے گا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا۔ ذرا غور تو کرو یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ مَیں اپنے خُدا کو مانتے ہوئے تمہارے بتوں کو کس طرح پوج سکتا ہوں اور تم بُت پرستی پر قائم رہتے ہوئے میرے خُدا کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو؟ یہ دونوں باتیں تو ایک دُسرے کے اس قدر مخالف اور متضاد واقع ہوئی ہیںکہ کسی طرح ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں؛۱؎ چنانچہ انہی ایّام میں قرآن شریف کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ:
۲؎
’’یعنی اے کفّار کے گروہ! جن بتوں کو تم پُوجتے ہو مَیں انہیں قابل پرستش نہیں سمجھتا۔ اور نہ تم اپنے بتوں کو پُوجتے ہوئے میرے خدا کی پرستش کر سکتے ہو۔ پس یہ نا ممکن ہے کہ مَیں کبھی تمہارے بتوں کی پرستش کروں جس طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ تم اپنے بتوں پر ایمان لاتے ہوئے میرے واحدہٗ لاشریک خُدا کے سامنے جھکو۔ میرا دین اور ہے اور تمہارا دین اور ہے اور یہ دونوں کبھی بھی ایک جگہ مِل نہیں سکتے۔‘‘
اس جواب سے قریش نے سمجھ لیا کہ ان کے اس ہوائی قلعہ کے کوئی پاؤں نہیں ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف قریش کا معاہدہ اور مسلمانوں کا بائیکاٹ
قریش کو ان کی اُوپر تلے کی ناکامی نے سخت
مشتعل کر دیا تھا۔ سب سے اوّل ابوطالب کے معاملہ میں اُنہیں ذلّت کا مُنہ دیکھنا پڑا اور وہ بنو ہاشم کو مُسلمانوں سے جُدا نہ کر سکے۔ اس کے بعد اُنہوں نے مُسلمانوں کو ہر طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کرکے دیکھ لیا کہ یہ چٹان اپنی جگہ سے ہلنے والی نہیں ہے۔ بعدہٗ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے اسلام نے ان کی آنکھیں اس حقیقت کے دیکھنے کے لیے کھول دیں کہ شروع شروع میں مخالف رہنے کے بعد بھی ان کے بڑے سے بڑے لوگ اسلام کی رَو میں بہہ جانے سے محفوظ نہیں ہیں۔ زاں بعد حبشہ کا وفد نجاشی کے دربار سے خائب و خاسر ہو کر لوٹا اور قریش کو اس معاملہ میں سخت ذلّت نصیب ہوئی اور اب اُنہوں نے خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ سلسلہ جنبانی کر کے ایسی مُنہ کی کھائی کہ بایٔد و شایٔد ۔ اِن پے در پے ناکامیوں اور ذلتوں نے قریش کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی؛ چنانچہ اُنہوں نے ایک عملی اقدام کے طور پر باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام افراد بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے جاویں اور اگر وُہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت سے دستبردار نہ ہوں تو ان کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کر دیا جاوے؛ چنانچہ محرّم ۷ نبوی میں ۱؎ ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا۔ نہ اُن سے کچھ خریدے گا اور نہ اُن کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اور نہ اُن سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا۔ جب تک کہ وہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے الگ ہو کر آپ کو ان کے حوالے نہ کر دیں۔ ۲؎ یہ معاہدہ جس میں قریش کے ساتھ قبائل بنو کنانہ بھی شامل تھے۔ ۳؎ باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اُس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا؛ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا ) شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی دَرَہ کی صورت میں تھا، محصور ہو گئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکّہ کی تمدّنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہو گئے اور شعبِ ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی دَرہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے۔ ۴؎ چند گنتی کے دُوسرے مُسلمان جو اس وقت مکّہ میں موجود تھے وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔
جو جو مصائب اور سختیاں ان ایّام میں ان محصورین کو اُٹھانی پڑیں اُن کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے۔ صحابہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات اُنہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتّے کھا کھا کر گذارہ کیا۔ ۵؎ سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوئی تھی (غالباً کوئی کھجور کا ٹکڑا ہو گا)۔ اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اُسے اٹھا کر نِگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ اُنہیں ایک سو کھا ہوا چمڑا زمین پر پڑا ہوا مِل گیا تو اُسی کو اُنہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیا اور پھر بھُون کر کھا یا اور تین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کئے۔ ۶؎ بچوں کی یہ حالت تھی کہ محلّہ سے باہر ان کے رونے اور چلّانے کی آواز جاتی تھی جسے سُن سُن کر قریش خوش ہوتے ۔ ۷؎ لیکن مخالفین اسلام سب ایک سے نہ تھے۔ بعض یہ درد ناک نظارے دیکھتے تھے تو ان کے دل میں رحم پیدا ہوتا تھا۔ چنانچہ حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خفیہ خفیہ کھانا لے جاتے تھے۔ مگر ایک دفعہ ابو جہل کو کسی طرح اس کا عِلم ہو گیا تو اس کمبخت نے راستہ میں بڑی سختی کے ساتھ روکا اور باہم ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ ۱؎ یہ مصیبت برا بر اڑھائی تین سال تک جاری رہی اور اس عرصہ میں مُسلمان سوائے حج وغیرہ کے موسم کے جب کہ اشہر حرم کی وجہ سے امن ہوتا تھا باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ ۲؎
اس ظلم سے مُسلمانوں کی رہائی
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے قریش میں بعض نرم دل اور شریف مزاج لوگ بھی تھے۔ یہ لوگ ان مظالم کو دیکھتے تو دل میں
کُڑھتے مگر قوم کے متفقہ فیصلہ کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتے تھے، اس لیے دل، ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتے آخر خُدا کی طرف سے ایسا سامان پیدا ہو گیا کہ انہیں اس معاملہ میں جرأت کے ساتھ قدم اُٹھانے کی ہمت پڑ گئی۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ جب اس بائیکاٹ پر قریباً تین سال کا عرصہ گذر گیا، تو ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا کہ مجھے خُدا نے بتایا ہے کہ ہمارے خلاف جو معاہدہ لکھا گیا تھا اس میں سوائے خدا کے نام کے ساری تحریر مِٹ چکی ہے اور کاغذ کھایا جاچکا ہے۔ ابو طالب فوراً اٹھ کر خانہ کعبہ میں پہنچے جہاں بہت سے رؤسائے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے اور ان کو مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ تمہارا یہ ظالمانہ معاہدہ کب تک چلے گا۔ میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ خدا نے اس معاہدہ کی ساری تحریر سوائے اپنے نام کے محو کر دی ہے۔ ۳؎ تم ذرا یہ معاہدہ نکالو تاکہ دیکھیں کہ میرے بھتیجے کی یہ بات کہاں تک دُرست ہے بعض دُوسرے لوگوں نے کہا کہ ہاں ہاں! ضرور دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ معاہدہ منگا کر دیکھا گیا تو واقعی وہ سب کِرم خوردہ ہو چکا تھا اور سوائے شروع میں خُدا کے نام کے کوئی لفظ پڑھا نہیں جاتا تھا۔ اس پر بعض قریش تو اور بھی زیادہ چمک اُٹھے لیکن وہ جن کے دل میں پہلے سے انصاف اور رحم اور قرابت داری کے جذبات پیدا ہو رہے تھے ان کو اس معاہدہ کے خلاف آواز اٹھانے کا ایک عمدہ موقع ہاتھ آگیا۔ ۴؎ چنانچہ رؤسائے قریش میں سے ہشامؔ بن عمرو۔زہیرؔ بن ابی امیّہ ۔ مطعمؔ بن عدی۔ ابوؔالبختری اورزمعہؔ بن اسود نے باہم مل کر یہ تجویز کی کہ اس ظالمانہ اور قطع رحمی کرنے والے معاہدہ کو اب ختم کر دینا چاہئے۔ یہ تجویز کر کے یہ لوگ دوسرے رؤسائِ قریش کی مجلس میں گئے اور ان میں سے ایک نے قریش سے مخاطب ہو کر کہا ’’اے قریش کیا یہ مناسب ہے کہ تم تو مزے کے ساتھ زندگی بسر کرو اور تمہارے بھائی اس طرح مصیبت میں دن کاٹیں۔ یہ معاہدہ ظالمانہ ہے اسے اب منسوخ کر دینا چاہیئے۔‘‘اس کے دُوسرے ساتھیوں نے اس کی تائید کی۔ لیکن ابو جہل بولا: ’’ہر گز نہیں یہ معاہدہ قائم رہے گا اسے کوئی شحص ہاتھ نہیں لگا سکتا۔‘‘ کِسی نے جواب دیا۔ ’’نہیں اب یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جب یہ لکھا گیا تھا اس وقت بھی ہم راضی نہ تھے۔‘‘ اسی حیل و حجت میں مطعم بن عدی نے ہاتھ بڑھا کر یہ بوسیدہ دستاویز چاک کر دی اور ابو جہل اور اس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
صحیفہ چاک کرنے کے بعد یہ لوگ ہتھیار لگا کر شعبِ ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور تلواروں کے سایہ کے نیچے محصورین کو باہر نکال لائے۔ یہ واقعہ بعثتِ نبوی کے دسویں سال کا ہے۔ ۱؎ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اڑھائی تین سال تک محصور رہے کیونکہ جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ہے۔ آپؐ بعثت کے ساتویں سال ماہ محرم میں محصور ہوئے تھے۔
شق القمر کا معجزہ
غالباً ابھی آپؐ شعب ابی طالب میں ہی تھے کہ شق القمر کا مشہور معجزہ ظاہر ہوا یعنی بعض کفارِ مکّہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ طلب کیا اور آپؐ نے
اُنہیں چاند کے دو ٹکڑے ہو جانے کا معجزہ دکھایا۔ اس واقعہ کا قرآن شریف میں اس طرح ذکر آتا ہے:
۲؎
’’موعود گھڑی قریب آگئی ہے اور چاند پھٹ گیا۔ اگر یہ لوگ کوئی نشان دیکھیں تو مُنہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک جادُو ہے اور ایسا جادو ہوتا ہی چلا آیا ہے۔ اُنہوں نے ہمارے رسول کی تکذیب کی اور اپنی حرص و آز کے پیچھے پڑے رہے؛ حالانکہ ہر بات کا وقت مقرر ہوتا ہے ۔ بہرحال ہم نے انہیں ایک ایسی خبر پہنچا دی ہے جس میں ان کے لیے ایک تنبیہہ اور بیداری کا سامان موجود ہے۔‘‘
اور حدیث میں اس معجزہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے:
اِنَّ اَھْلَ مَکَّۃَ سَأَ لُوْا رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ اَنْ یُّرِیَھُمْ اٰیَۃً فَاَرَاھُمْ الْقَمَرَ شَقَّتَیْنِ حَتّٰی رَأَوْ حَرَا أَبَیْنَھُمَا۔۱؎
’’یعنی کفّارِ مکّہ نے آپؐ سے کوئی معجزہ طلب کیا جس پر آپؐ نے انہیں چاند کو دو ٹکڑوں میں دکھایا۔ حتّٰی کہ انہیں چاند کا ایک ٹکڑا حراء پہاڑی کے ایک طرف نظر آتا تھا اور دُوسرا دُوسری طرف۔‘‘
اور ایک دُوسری روایت میں جو عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے یہ الفاظ ہیں:
اِنْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِیّ ﷺ بِمَنیٰ فَقَالَ اشْھِدُوْا … فِرْ قَۃٌ فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْ قَۃٌ دُوْنَہٗ۔ ۲؎
’’یعنی ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں تھے کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ ایک ٹکڑا پہاڑی کے اُوپر کی جانب تھا اور دُوسرا نیچے کی طرف۔‘‘
اس کے علاوہ حدیث اور کتبِ سیرۃ میں شق القمر کے متعلق اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں بعض مزید تفصیلات بھی دی گئی ہیں مگر زیادہ معتبر روایات وہی ہیں جو اُوپر دَرج کر دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں چونکہ ہمیں اس جگہ اس مسئلے کے متعلق مناظرانہ رنگ میں کوئی بحث کرنا مقصود نہیں اس لیے اس موقع پر صرف مندرجہ بالا روایات کا اندراج کافی ہے؛ البتہ ایک مختصر تشریحی نوٹ اس بات کے متعلق درج کرنا ضروری ہے کہ اس معجزہ کی حقیقت کیا تھی۔ آیا واقعی چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا یا یہ کہ صرف دیکھنے والوں کی نظروں پر ایسا تصرّف ہوا کہ چاند انہیں دو ٹکڑوں میں نظر آیا۔ نیز یہ کہ اس معجزہ کی غرض و غایت کیا تھی؟
سو اس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ گو خدا کی قدرت کے آگے کوئی بات بھی اَنہونی نہیں اور جو شخص یہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ سارا عالم خُدا کے دستِ قدرت سے عالمِ وجود میں آیا ہے وہ اس بات کے ماننے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تأمل نہیں کر سکتا کہ اگر خدا چاہے تو اپنے ایک اشارہ سے اس کے سارے تارو پود کو ملیامیٹ کر کے رکھ دے مگر جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے ثابت شدہ بات یہی ہے کہ چاند حقیقتاً دو ٹکڑے نہیں ہوا بلکہ خدائی تصرّف کے ماتحت صرف دیکھنے والوں کو دو ٹکڑوں میں نظر آیا تھا اور یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں کیونکہ جب کہ ایک مشّاق انسان اپنی قوت ارادی یعنی ہپنوٹزم کے زور سے دوسروں کو ایک مرئی چیز اپنی غیر اصلی صور ت میں دکھا سکتا ہے تو خدا کی قدرت اور اس کے رسول کی رُوحانی طاقت کے آگے تو یہ بات کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی کہ اس وقت دیکھنے والوں کی آنکھوں پر ایسا تصرّف ہوا ہو کہ انہیں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹتا نظر آیا ہو۔ بہرحال ہمارے نزدیک اصل حقیقت یہی ہے کہ چاند حقیقۃً دو ٹکڑے نہیں ہوا تھا بلکہ صرف دیکھنے والوں کو دو ٹکڑوں میں نظر آیا تھا اور اگر غور کیا جاوے تو حدیث کے الفاظ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایک تصرّفِ الٰہی تھا جو دیکھنے والوں کی نظروں پر کیا گیا اور اکثر محققین نے اسی تشریح کو صحیح قرار دیا ہے لیکن اگر بالفرض اس معجزہ کو اس کی ظاہری صورت میں بھی قبول کیا جائے تو پھر بھی ہر گز جائے اعتراض نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی قُدرتیں لامحدود ہیں جن کی معمولی وسعت تک بھی انسان کی نظر نہیں پہنچ سکتی۔ ابھی ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے کہ جنوبی امریکہ کے ملک لاپلاٹا میں ایک ستارہ دو ٹکڑے ہوتا دیکھا گیا۔ اس ستارے کا نام نووا پکٹورس (Nova Pictoris) تھا جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی رصد گاہ واقع جونس برگ نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے اور سائنسدان کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی آسمانی ستارہ دو ٹکڑے ہو گیا ہو۔ ۱؎ پس کوئی تعجب نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں خدائی تصرّف کے ماتحت چاند میں سے کوئی ٹکڑا الگ ہو گیا ہو یا چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر مِل گیا ہو اور کوئی سائنسدان اس پر اعتراض نہیں کر سکتا لیکن حقیقت وہی ہے جو اُوپر بیان کی گئی ہے۔ واﷲ اعلم
اب رہا دُوسرا سوال کہ اس معجزہ کی غرض و غایت کیا تھی اور دراصل اس بحث میں یہی اصل اور اہم سوال ہے کیونکہ اسی سے اس معجزہ کی حقیقت اور شان ظاہر ہو سکتی ہے۔ سو اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ دراصل علم تعبیرِ رؤیا میں چاند سے حکومت و بادشاہ مُراد ہوتے ہیں۔ خواہ وُہ عادل و انصاف پسند ہوں یا کہ ظالم و جابر۔ ۲؎ اور اس تاویل کی متعدد مثالیں تاریخ میں مِلتی ہیں؛ چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ جب خیبر کے یہودی رئیس حُیَیّؔ بن اخطب کی لڑکی صفیہؔ نے یہ خواب دیکھا کہ چاند اس کی گود میں آگِرا ہے تو اس کے باپ نے اس کی یہی تعبیر کی تھی کہ صفیہؔ کسی دن عربوں کے بادشاہ کے عقد میں آئے گی؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فتح خیبر کے بعد صفیہؔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقد میں آئی۔ ۳؎ اسی طرح جب حضرت عائشہ نے خواب دیکھا کہ ان کے حجرے میں تین چاند آگرے ہیں تو واقعات نے اس خواب کی یہی تعبیر ثابت کی کہ اس سے اُن کے حجرے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کا دفن ہونا مراد ہے۔۱؎ اس صورت میں گویا کفار مکّہ کو چاند کے دو ٹکڑے ہو جانے کا معجزہ دکھانے میں یہ اشارہ تھا کہ اب تمہاری حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے اور اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم ہو گی۔ گویا جب کفّار قریش نے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو خدا تعالیٰ نے ان کی نظروں میں چاند کو دو ٹکڑے کر کے زبانِ حال سے بتا دیا کہ تم معجزہ مانگتے ہو اور یہاں تمہاری موت کی گھنٹی بج رہی ہے۔چنانچہ قرآن شریف نے اس معجزہ کے بیان کے ساتھ جو اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ (یعنی تمہاری قیامت قریب آگئی ہے) کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ گویا جب کفّار نے معجزہ مانگا تو انہیں جواب میں شق القمر کا معجزہ دکھا کر یہ بتایا گیا کہ اب تمہاری حکومت کا خاتمہ ہو کر محمد رسول اﷲ کی حکومت کا دَور دَورہ شروع ہونے والا ہے جو آپؐ کے منجانب اﷲ ہونے کی دلیل ہو گا اور چونکہ کفار اپنی روایات کی بنا پر اس اشارے کو سمجھتے تھے وہ بے اختیار ہو کر بول اُٹھے کہ سِحْرٌ مُّسْتَمِّرٌ یعنی اے محمد! اگر تمہاری موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا ہو گیا تو پھر یہ ایک بڑا پکّا جادو ہو گا۔ الغرض شق القمر کے معجزہ میں اصل غرض و غایت یہی تھی کہ کفّارِ مکّہ کو بتایا جائے کہ اب تمہاری حکومت کا خاتمہ ہے۔ اسی تشریح کے ساتھ شق ایک عظیم الشان معجزہ قرار پاتا ہے؛ ورنہ محض ظاہر میں بے نتیجہ طور پر چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا گو علمِ ہیٔت کی رُو سے ایک عجوبہ ہو مگر رُوحانی رنگ میں اس کا کوئی وزن نہیں۔ اسی لیے گذشتہ علماء میں سے بھی امام غزالی اور شاہ ولی اﷲ صاحب محدّث دہلوی جیسے محققین نے یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ صرف ایک خدائی تصّرف تھا جس کے ماتحت کفّار کو چاند دو ٹکڑوں میں ہو کر نظر آیا؛ وَرنہ حقیقت میں چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا تھا۔۲؎ اور جب حقیقۃً چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا بلکہ صرف دیکھنے والوں کو ایسا دکھائی دیا تو لامحالہ اس میں کوئی خاص حکمت ہو گی اور وہ حکمت وہی تھی جو ہم نے اُوپر بیان کی ہے۔ واﷲ اعلم۔ ۳؎ شق القمر کا معجزہ ہجرت سے قریباً پانچ سال قبل ۹ نبوی میں ہوا تھا۔ ۴؎
حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کی وفات
جب آپؐ شعب ابی طالب سے نِکلے تو آپؐ کو پے دَر پے دو نہایت شدید صدمے پہنچے۔ یعنی حضرت خدیجہؓ اور
ابو طالب یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے۔ یہ دونوں عمر رسیدہ تھے اور وفات ہر انسان کے لئے مقدّر ہے لیکن ان دونوں کا شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے زمانہ کے اس قدر قریب فوت ہونا اس بات کا قوی شُبہ پیدا کرتا ہے کہ محصور ہونے کی غیر معمولی سختی کا ان کی وفات میں بہت کچھ دخل تھا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلسل سختی کے اثر کے نیچے اُن کی صحتیں بالکل شکستہ ہو گئی تھیں لیکن جب تک تو وہ محصور رہے ان کی طبیعتوں کو مقابلہ کے خیال نے سنبھالے رکھا مگر جونہی کہ وہ باہر آئے محاصرہ کی لمبی سختی نے اپنا اثر ظاہر کر دیا اور دونوں ایک دُوسرے کے آگے پیچھے موت کا شکار ہو گئے۔ ان پے در پے صدموں کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سال یعنی ۱۰ نبوی کا نام عامُ الحُزن یعنی غموں کا سال رکھا۔ ۱؎ ابوطالب گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے بطور باپ کے تھے اور آپؐ سے بہت محبت کرتے تھے اور آپؐ کو بھی ان سے بہت محبت تھی۔ جب ابو طالب مرض الموت میں تھے تو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم باقاعدہ ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے؛ چنانچہ ایک دفعہ جب ان کی وفات قریب تھی۔ آپؐ اُن کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابو جہل وغیرہ مشرکین بھی بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو طالب کی وفات قریب دیکھ کر فرمایا۔ ’’چچا! آپ صرف کلمۂ شہادت پڑھ دیں۔ مَیں قیامت کے دن خُدا کے حضور آپ کے متعلق عرض کروں گا۔‘‘ یہ سُن کر ابو جہل وغیرہ گھبرائے اور ابو طالب سے کہنے لگے کہ کیا آپ اپنے والد عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دیں گے؟ اور مختلف صورتوں میں ابو طالب کو سمجھاتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو طالب کی زبان سے جو آخری الفاظ سُنے گئے وہ یہ تھے کہ ’’مَیں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سُنے تو درد مند ہو کر فرمایا۔ ’’اچھا مَیں بھی اپنے رب سے آپ کے واسطے مغفرت چاہتا رہوں گا سوائے اس کے کہ مَیں اس سے روک دیا جاؤں۔‘‘ مگر ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ آپؐ اس سے روک دیئے گئے اور شرک اور کفر پر مرنے والوں کے لیے یہ حکم نازل ہوا کہ اُن کے لیے مغفرت کی دُعا کرنا جائز نہیں بلکہ ان کا معاملہ خدا پر چھوڑنا چاہیئے۔ ۲؎
ایک روایت یہ بھی آتی ہے جو بعید نہیں کہ دُرست ہو کہ ابو طالب نے مرتے ہوئے رؤسا قریش سے یہ الفاظ کہے کہ : ’’اے قریش کے گروہ! تم خدا کی خلق میں ایک برگزیدہ قوم ہو اور خُدا نے تمہیں بڑی عزت دی ہے۔ مَیں تمہیں محمد کے متعلق نصیحت کرتا ہوں کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ وہ تم میں ایک اعلیٰ اخلاق کا انسان ہے اور عربوں میں اپنے صدق اور سداد کی وجہ سے امتیاز رکھتا ہے اور سچ پوچھو تو وہ ہماری طرف وہ پیغام لایاہے جس سے خواہ زبان انکار کرتی ہے، مگر دل اُسے مانتا ہے۔ مَیں نے عمر بھر محمد کا ساتھ دیا ہے اور ہر تکلیف کے موقع پراس کی حفاظت کے لیے آگے بڑھا ہوں اور اگر مجھے اور مہلت ملی تو آئندہ بھی ایسا ہی کروں گااور اے قریش! میری تمہیں بھی یہ نصیحت ہے کہ اسے دُکھ دینے کے دَر پے نہ ہو بلکہ اس کی نصرت اور اعانت کرو کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ ۱؎ اس کے بعد ابو طالب کی جلد ہی وفات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی وفات پر سخت صدمہ ہوا اور چونکہ ابو طالب ہمیشہ قریش کے مقابل میں آپؐ کے حامی اور محافظ رہے تھے، اس لیے ان کی وفات سے آپؐ کی پوزیشن اور بھی زیادہ نازک ہو گئی۔ وفات کے وقت جو ۱۰نبوی میں واقع ہوئی ابوطالب کی عمر اسّی سال سے اُوپر تھی۔ ۲؎ ابو طالب گو زندگی بھر شِرک پر قائم رہے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوئی مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ انہیں اپنے باپ کی طرح سمجھا اور ان کی محبت و وفاداری اور خدمت و اطاعت اور عزت و احترام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ دُوسری طرف ابو طالب نے بھی آپؐ کے ساتھ ہمیشہ نہایت درجہ مربّیانہ اور وفادارانہ سلوک رکھا اور اپنے آپ کو ہر قسم کی تکلیف میں ڈالنا گوارا کیا مگر آپؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان کا یہ سلوک جہاں اُن کی اپنی شرافت و وفاداری کا ثبوت ہے وہاں اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خواہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے مشرکانہ خیالات کے ماتحت غلطی خوردہ خیال کرتے ہوں، مگر جھوٹا اور دھوکا دینے والا ہر گز نہیں سمجھتے تھے اور آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور راست گفتاری اور اخلاص کے دل سے قائل تھے؛ چنانچہ اس موقع پر میورؔ صاحب لکھتے ہیں:
’’ابو طالب نے باوجود اپنے بھتیجے کے مِشن پر ایمان نہ لانے کے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر جس رنگ میں ہر قسم کی تکلیف برداشت کی اور جس طرح اپنی ذات اور اپنے خاندان کو اپنے بھتیجے کی خاطر قربانی کے لیے پیش کیا، اس سے ابوطالبؔ کی ذاتی شرافت و نجابت پر ایک نمایاں روشنی پڑتی ہے۔ دُوسری طرف ابوطالب کی یہ قُربانیاں اس بات کا بھی قطعی ثبوت ہیں کہ وُہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے دعویٰ میں مخلص خیال کرتا تھا۔ یقینا ابو طالب ایک خود غرض اور دھوکے باز انسان کے واسطے اس قدر قربانی کے لیے تیار نہیں ہو سکتا تھا اور اُسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات کو دیکھنے اور پڑتال کرنے کے لیے بھی غیر معمولی مواقع حاصل تھے۔‘‘ ۳؎
ابو طالبؔ کی وفات سے چند دن بعد حضرت خدیجہ ؓ نے بھی انتقال کیا۔ ۴؎ خدیجہؓ نے بڑی بڑی دُکھ اور تکلیف کی گھڑیوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ دیا تھا اور اُن کوآپؐ سے اور آپؐ کو ان سے بہت محبت تھی۔ اس لیے طبعاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُن کی وفات کا سخت صدمہ ہوا۔ وفات کے بعد جب کبھی ان کا ذکر آتا تو آپؐ کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں اور آپؐ اکثر اُن کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ خدیجہؓ اپنے زمانہ کی بہترین عورتوں میں سے تھی اور حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپؐ حضرت خدیجہ ؓ کا اس کثرت سے ذکرِ خیر کیا کرتے تھے کہ مجھے اُن پر غیرت آنے لگتی تھی اور مَیں کہتی تھی کہ آپؐ تو اس طرح خدیجہؓ کا ذکر فرماتے ہیں کہ گویا دُنیا میں بس وہی ایک عورت پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ فرماتے تھے ’’عائشہؓ! اس میں بڑی بڑی خوبیاں تھیں اور خدا نے مجھے اولاد بھی اسی سے دی۔‘‘ غرض آپؐ ہمیشہ نہایت محبت کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا ذکر فرماتے تھے۔ اگر گھر میں کبھی کوئی جانور وغیرہ ذبح ہوتا تو آپؐ حضرت خدیجہ ؓ کی سہیلیوں کو ضرور حصّہ بھیجتے۔ ایک دفعہ آپؐ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف رکھتے تھے کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہؔ بنت خویلد آپؐ سے ملنے کے لیے آئیں اور دروازہ پر آکر اجازت چاہی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپؐ بیتاب ہو کر اُٹھے کہ خدیجہؓ کی سی آواز ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بہن ہالہ آئی ہے۔ ۱؎ جنگِ بدرؔ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد ابوؔالعاص جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے قید ہو کرآئے تو ان کی زوجہ یعنی آپؐ کی صاحبزادی زینبؓ نے جو ابھی تک مکّہ ہی میں تھیں۔ ان کے فدیّہ کے طور پر اپنے گلے کا ہار اُتار کر بھیجا۔ یہ وُہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے زینبؓ کو جہیز میں دیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہؓ یاد آگئی اور آپؐ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ صحابہ سے فرمایا: ’’اگرچاہو تو خدیجہؓ کی یہ یاد گار اس کی بیٹی کو واپس کر دو۔‘‘ انہیں اشارہ کی دیر تھی فوراً ہار واپس کر دیا۔ ۲؎ وفات کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر ۶۵ سال کی تھی۔ مکّہ کے مقام جحون میں دفن کی گئیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اُترے مگر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ کیونکہ ابھی تک جنازہ کی نماز مقرر نہ ہوئی تھی۔ ۳؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکالیف میں اضافہ
حضرت خدیجہؓ اور ابوطالب کی وفات کے بعد قریش مکّہ آپؐ کی ذات کے
متعلق بہت دلیر ہو گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سخت تکالیف پہنچانی شروع کیں۔ ۴؎ ایک دفعہ آپؐ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسرِ عام آپؐ کے سَر پر خاک ڈال دی۔ ایسی حالت میں آپؐ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی ایک صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپؐ کا سَر دھویا اور زار زار رونے لگیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو تسلّی دی اور فرمایا۔ ’’بیٹی رو نہیں۔ اﷲ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دُور ہو جائیں گی۔ ۱؎ پھر ایک دفعہ آپؐ صحنِ کعبہ میں خداتعالیٰ کے سامنے سربسجود تھے اور چند رؤسائِ قریش بھی وہاں مجلس لگائے بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے کہا۔ ’’اس وقت کوئی شخص ہمّت کرے تو کِسی اُونٹنی کا بچہ دان لا کر محمد کے اوپر ڈال دے۔‘‘ چنانچہ عقبہ بن ابی معیط اُٹھا اور ایک ذبح شدہ اُونٹنی کا بچہ دان لا کر جو خون اور گندی آلائش سے بھرا ہوا تھا آپؐ کی پُشت پر ڈال دیا اور پھر سب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ فاطمۃ الزہراؓ کو اس کا عِلم ہوا تو وہ دوڑی آئیں اور اپنے باپ کے کندھوں سے یہ بوجھ اُتارا۔ تب جاکر آپؐ نے سجدہ سے سَر اٹھایا۔ روایت آتی ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے ان رؤسائِ قریش کے نام لے لے کر جو اس طرح اسلام کو ذلیل کرنے اور مٹانے کے دَر پے تھے بَد دُعا کی اور خدا سے فیصلہ چاہا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر مَیں نے دیکھا کہ یہ سب لوگ بدرؔ کے دن مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو کر داویٔ بدرؔ کی ہوا کو متعفن کر رہے تھے۔ ۲؎
حضرت عائشہ ؓ اور سودہ ؓ کی شادی
نکاح کرنا اسلام میں ضروری قرار دیا گیا ہے اور سوائے معذوری کی صورت کے تجرّد سے روکا گیا ہے؛ چنانچہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ ۳؎
’’یعنی شادی کرنا میری سُنّت میں داخل ہے اور جو میری سُنّت پر عمل نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘
اور خصوصاً ایک نبی اور شارع نبی کے واسطے تو شادی کرنا از بس ضروری ہے نہ صرف اس لیے کہ تا اس ذریعہ سے وُہ حُسنِ معاشرت کا نمونہ اپنی اُمّت کے واسطے قائم کر سکے بلکہ اس لیے بھی کہ تبلیغ احکام کے کام میں اس کی بیوی اس کی مددگار ہو۔ کیونکہ عورتوں کے متعلق جو مسائل ہوتے ہیں اُن کی تبلیغ و تعلیم جس خُوبی کے ساتھ ایک عورت کر سکتی ہے مرد نہیں کر سکتا بلکہ درحقیقت انبیاء کے واسطے تو مناسب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو وہ حتّیالوسع ایک سے زیادہ بیویاں کریں تا ان کے لیے تبلیغ و تعلیم کا کام اور بھی زیادہ آسان ہو جاوے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر گذشتہ انبیاء علیہم السلام تعدّد از دواج کے مسئلہ پر کار بند تھے۔ انبیائے بنی اسرائیل میں سے بھی کثرت ایسے ہی نبیوں کی تھی جن کی ایک سے زائد بیویاں تھیں۔ ۱؎ اور تعجب ہے کہ عیسائی لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر اس مسئلہ کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں مگر اپنے ان بزرگوں کی طرف نہیں دیکھتے جن کو وُہ خدا کے مقرب اور برگزیدہ رسُول یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسری قوموں کے بھی اکثر نبی تعدّد از دواج پر عامل تھے۔ ۲؎ غرضیکہ شادی کرنا بلکہ حتّی الوسع ایک سے زیادہ شادیاں کرنا انبیاء علیہم السلام کی سُنّت ہے۔ لہٰذا حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں جلد ہی دُوسری شادی کا خیال آنا آپؐ کے منصبِ نبوت کے لحاظ سے ایک طبعی امر تھا، مگر ایسے حالات میں ایک نبی کے واسطے بیوی کا انتخاب بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا کیونکہ کئی باتوں کو دیکھنا اور کئی امور کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے لہٰذا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کیں کہ وہ اس معاملہ میں آپ کا ہادی اور رہنما ہو۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی دُعا کو سُنا اور آپؐ کو ایک رؤیا کے ذریعہ اپنے انتخاب سے اطلاع دی؛ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ انہی ایّام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپؐ کے سامنے ایک سبز رنگ کا ریشمی رومال پیش کر کے عرض کیا کہ ’’یہ آپؐ کی بیوی ہے دُنیا اور آخرت میں۔‘‘ آپؐ نے رومال لے کر دیکھا تو اس پر حضرت عائشہ ؓ بنت ابو بکرؓ کی تصویر تھی۔ ۳؎
اس کے کچھ عرصہ بعد خولہ بنت حکیم زوجہ عثمان ؓ بن مظعون آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپؐ سے عرض کیا کہ ’’یا رسول اﷲ آپؐ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’کِس سے کروں؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ۔’’آپؐ چاہیں تو کنواری لڑکی بھی موجود ہے اور بیوہ عورت بھی۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’کون‘‘ خولہ نے عرض کیا۔ ’’کنواری تو آپؐ کے عزیز دوست ابو بکرؓ صدیق کی لڑکی عائشہ ہے اور بیوہ سودہ بنت زمعہ ہے جو آپؐ کے خادم سکران بن عمرو مرحوم کی بیوہ ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اچھا تو پھر تم ان دونوں کے متعلق بات کرو؛ چنانچہ خولہ نے پہلے حضرت ابو بکرؓ اور اُن کی اہلیہ اُمّ رومان سے ذکر کیا۔ وہ پہلے بہت حیران ہوئے اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو ہمارے بھائی ہیں۔ ۱؎ مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہلا بھیجا کہ دین کی اخوت سے رشتہ پر اثر نہیں پڑتا تو پھر انہیں کیا عذر ہو سکتا تھا بلکہ ان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی تھی کہ اُن کی بیٹی رسولِؐ خدا کی بیوی بنے۔ اس کے بعد خولہؓ حضرت سودہ ؓ بنت زمعہ کے پاس گئیں۔ وہ اور ان کے عزیز بھی راضی تھے۔ لہٰذا شوال ۱۰ نبوی میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ان ہر دو کے ساتھ چار چار سو درہم مہر پر نکاح پڑھا گیا اور حضرت سودہؓ کا تو نکاح کے ساتھ ہی رُخصتانہ بھی ہو گیا۔ لیکن چونکہ عائشہ ؓ کی عمر اس وقت صرف سات سال کی تھی اس لیے ان کا رخصتانہ ہجرت کے بعد تک ملتوی رہا۔ ۲؎
اس موقع پر یاد رکھنا چاہیئے کہ جو جگہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حرم میں خدیجۃ الکبریؓ کی وفات سے خالی ہوئی تھی وہ دراصل حضرت عائشہ ؓ سے ہی پُر ہوئی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصل تجویز حضرت عائشہؓ ہی کے متعلق تھی اور وہی آپؐ کو خواب میں بھی دکھائی گئی تھیں لیکن حضرت سودہؓ کا نکاح ایک خاص مصلحت اور خاص ضرورت کے ماتحت تھا اور وہ یہ کہ چونکہ یہ زمانہ مسلمانوں کے واسطے ایک سخت تکلیف اور مصیبت کا زمانہ تھا اور ظالم قریش کی طرف سے سب مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر جوروجفا کے تبر چل رہے تھے اور خصوصاً بے یارومددگار غرباء کے لیے تو یہ انتہائی مصائب کے دن تھے اس لیے ایسی حالت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ صدمہ خوردہ اور غم رسیدہ بیوہ بغیر کسی انتظام کے چھوڑ دی جاوے اور اسلام کی وجہ سے مصیبت کے دن کاٹے اس لیے اور نیز اس لیے بھی کہ آپؐ نے مسلمانوں کو آپس میں محبت رکھنے اور ایک دُوسرے کی ہمدردی اور مدد کرنے کا عملی سبق بھی دینا تھا۔ جب آپؐ کے سامنے سودہ ؓ کا ذکر آگیا تو آپؐ نے بلا تأمل یہی فیصلہ کیا کہ آپؐ انہیں خود اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیں اور یہ آپؐ کی طرف سے ایک قربانی تھی جو حالات پیش آمدہ کے ماتحت کی گئی۔ کیونکہ اوّل تو سودہؓ ایک بیوہ تھیں۔ دُوسرے وہ اچھی عمر رسیدہ تھیں۔ حتّٰی کہ شادی سے تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ مباشرت کے بالکل ناقابل ہو گئیں۔ تیسرے اُن میں آپؐ کی زوجیت کے واسطے کوئی امتیازی قابلیت بھی نہ تھی اور نہ کوئی خاص وجہ کشش تھی۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کا آپؐ کے حرم میں آنا یہ معنے رکھتا تھا کہ آپؐ اپنی اس بیوی پر ایک سوت لا رہے ہیں جو خدائی اِنتخاب کے ماتحت آپؐ کی زوجہ بنی تھی اور اس وجہ سے آپؐ کو بہت محبوب تھی اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اپنی محبوب بیوی پر کوئی شخص یونہی بلا خاص وجہ کے سوت نہیں لایا کرتا۔ پس حضرت عائشہ ؓ کے ہوتے ہوئے آپؐ کا حضرت سودہؓ جیسی عمر رسیدہ خاتون کے ساتھ نکاح کرنا صاف بتا رہا ہے کہ نعوذ باﷲ یہ کوئی عیش و عشرت کا سامان نہ تھا جو آپؐ اپنے گھر لا رہے تھے بلکہ یہ ایک قربانی تھی جو آپؐ کو حالاتِ پیش آمدہ کے ماتحت کرنی پڑی تھی۔
پس آپؐ کی اصل اور مستقل تجویز حضرت عائشہ ؓ ہی کے لیے تھی جن کے متعلق خود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہوا تھا اور وہی دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے مناسب بھی تھیں کیونکہ:
اوّل :- وہ بالکل نو عمر لڑکی تھیں اور اس لیے پوری طرح اس قابل تھیں کہ اسلامی تعلیمات کو جلد، بآسانی اور بخوبی سیکھ کر ایک دینی معلمہ بن سکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی کے واسطے ضروری ہے۔
دوسرے:- وُہ نہایت درجہ ذہین اور ذکی تھیں جس کی وجہ سے دینی مسائل کے سیکھنے اور تفقّہ فی الدین کے لیے نہایت مناسب تھیں۔
تیسرے:- بوجہ کم عمر ہونے کے ان کے متعلق بظاہر توقع تھی جو پوری بھی ہوئی کہ وہ ابھی بہت لمبی عمر پائیں گی اور اس طرح انہیں مُسلمان عورتوں میں تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا زیادہ موقع مِل سکے گا۔
چوتھے:- اسلام ہی میں اُن کی پیدائش ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسلامی تعلیم گویا اُن کی گھٹی میں پڑی تھی اور بچپن سے ہی اُنہوں نے اسلامی عادات و اطوار اچھی طرح سیکھ لیے تھے اور تعلیمِ اسلامی کا ایک بہت عمدہ نمونہ تھیں۔
پانچویں :- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد وہ اوّل المومنین اور افضل المسلمین کی صاحبزادی تھیں جس کی وجہ سے ان کی تربیت نہایت اعلیٰ اور کامل اور شعارِ اسلامی کے عین مطابق ہوئی تھی اور اس لیے وہ عورتوں میں نمونہ بننے کے خاص طور پر قابل تھیں۔
ان وجوہات سے حضرت عائشہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ بننے کے واسطے سب سے بڑھ کر مناسب تھیں اور انہی وجو ہ کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے واسطے ان کو پسند فرمایا؛ چنانچہ یہ باتیں اپنا پھل لائیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے وجود سے امّتِ محمدیہ کو بڑے بڑے فائدے پہنچے ہیں۔ احادیث کا وہ حصہ جو عورتوں کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے زیادہ تر حضرت عائشہؓ ہی کے اقوال و روایات پر مبنی ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ عام دینی مسائل میں بھی ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہے؛ چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
کَانَ الْاَکَابِرُ مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِّیِ صَلّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْجِعُوْنَ اِلٰی قَوْ لِھَا یَسْتَفْتُوْنَھَا۔ ۱؎
’’یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ بھی حضرت عائشہ ؓ کے قول کی طرف رجوع کرتے اور ان سے فتویٰ پوچھتے تھے۔‘‘
غرض اصل اور مستقل تجویز آپؐ کی حضرت عائشہؓ سے تھی اور وہی اس منصبِ عالی کے لائق تھیں۔ باقی رہی حضرت سودہؓ بنت زمعہ کی شادی۔ سو جیسا کہ ہم اُوپر بیان کر چکے ہیں وُہ ایک قربانی تھی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی۔ کیونکہ یہ شادی ایک خاص مربّیانہ اصول کے ماتحت تھی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس دلی محبت اور قلبی توجہ اور حقیقی مہربانی کا ایک بیّن ثبوت ہے جو آپؐ ان مصائب کے زمانہ میں اپنے خدّام اور ان کے پسماندگان کے حال پر فرماتے تھے اور یہ بات حضرت سودہ ؓ کی ہی شادی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جیسا کہ آگے چل کر اپنے اپنے موقع پر ظاہر ہو جائے گا حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ کے نکاح کے سوا جو کہ خود بالذّات مقصود تھا باقی جتنے بھی نکاح آپؐ نے کیے وہ سب خاص حالات ، خاص ضروریات اور خاص مصالح کے ماتحت کئے گئے؛ چنانچہ آپؐ کا خواب بھی یہی ظاہر کرتا ہے جس میں آپؐ کو صرف حضرت عائشہ ؓ کی تصویر دکھائی گئی تھی اور یہ الفاظ کہے گئے تھے کہ ’’اب تیری یہ بیوی ہے دُنیا اور آخرت میں۔‘‘ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سے خاص محبت تھی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے آپؐ سے دریافت کیا۔ ’’اَیُّ النَّاسِ اَحَبُّ اِلَیْکَ۔‘‘ یعنی ’’یارسُول اﷲ ! لوگوں میں سے آپؐ کو کس سے زیادہ محبت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’عائشہ سے‘‘۔ اس نے پوچھا ’’یا رسول اﷲ مردوں میں سے کس سے زیادہ ہے؟‘‘ فرمایا: اَبُوْھا۔ ’’عائشہؓ کے باپ سے۔‘‘ ۲؎
حضرت عائشہ ؓ اور حضرت سودہؓ کا نکاح شوال ۱۰ نبوی میں ہوا تھا اور عام روایات کے مطابق حضرت سودہؓ کے نکاح کی رسم حضرت عائشہ ؓ کے نکاح سے چند روز پہلے وقوع میں آئی تھی۔ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال سے اُوپر تھی۔
تعدّد ازدواج پر ایک مختصر نوٹ
حضرت عائشہ ؓ اور حضرت سودہ ؓ کی شادی کے ذکر میں ہمارے غیر مُسلم ناظرین کے دل میں تعدّدِ ازدواج کا مسئلہ ضرور کھٹکا
ہوگا۔ اس مسئلہ کے متعلق مفصّل بحث تو انشاء اﷲ کتاب کے حصّہ دوم میں آئے گی، مگر اس جگہ بھی ایک مختصر سا نوٹ لکھنا خالی از فائدہ نہ ہو گا۔ سو جاننا چاہیئے کہ اسلام کے کئی ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق مخالفین نے یک طرفہ خیالات کے ماتحت اعتراض کر دیئے ہیں اور کبھی ٹھنڈے دل سے اُن پر غور نہیں کیا اور نہ تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں ان کی حقیقت کو پَرکھا ہے۔ انہی میں سے ایک تعدّد ازدواج کا مسئلہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ سو اس بارہ میں پہلے تو یہ جاننا چاہیئے کہ فطرت بے شک ایک نور ہے جو اﷲ تعالیٰ نے انسان کے اندر اس کی ہدایت کے واسطے و دیعت کیا ہے لیکن یہ نُور بعض اوقات مخالف عناصر کے نیچے دب کر کمزور یا مُردہ بھی ہو جاتا ہے اور ایسے حالات میں اس کا فتویٰ قابلِ قبول نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو پھر تعصّبات سے پاک نہ کیا جاوے؛ چنانچہ دیکھ لو مسئلہ طلاق کے متعلق عیسائی فطرت صدیوں سے مخالف عناصر کے نیچے دَب کر کمزور ہو گئی تھی اس لیے اس کا آج تک یہی فتویٰ چلا آیا ہے کہ عورت کی طرف سے زنا سرزد ہونے کے سوا اسے طلاق دینا ہر گز جائز نہیں ہے؛ چنانچہ اسی کے مطابق مسیحیوں نے اپنے قوانین بھی وضع کر لئے لیکن اب مشاہدہ اور تجربہ کے دھکّے کھا کر ان کی سوئی ہوئی فطرت کچھ بیدار ہوئی ہے اور وہ اس طرف آرہے ہیں کہ زنا ہی نہیں بلکہ دُنیا میں اور بھی ایسے حالات ہو سکتے ہیں جن کے ماتحت میاں بیوی کا حسنِ معاشرت کے ساتھ اکٹھا رہنا محال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اب عیسائی ممالک میں اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کے متعلق قانون پاس ہو رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کان کو بھلی معلوم ہوتی ہیں اور دل اُن کی طرف پسندیدگی کا میلان محسوس کرتا ہے مگر دراصل یہ ایک دھوکا ہوتا ہے۔ کیونکہ عملی زندگی میں آکر ان کی حقیقت کا راز کھل جاتا ہے۔ انہی میں سے مسئلہ طلاق ہے جس کا ہم نے اُوپر ذکر کیا ہے اور انہی میں سے تعدّدِ ازدواج کا مسئلہ ہے جس کے متعلق یہ مختصر نوٹ سپرد قلم کیا جا رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک بڑی اچھی تعلیم ہے کہ انسان ہر حالت میں ایک بیوی رکھے اور کسی حالت میں بھی اسے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا اختیار نہ ہونا چاہیئے لیکن اگر ہم غور سے کام لیں اور بنی نوع انسان کی مختلف ضروریات پر نظر ڈالیں تو ماننا پڑتا ہے کہ بعض اوقات انسان پر ضرور ایسے حالات آتے ہیں کہ جب نہ صرف خود اس کی بلکہ سوسائٹی کی فلاح و بہبودی اس بات کی مُقتضی ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ مثلاً (۱) کوئی ایسا شخص ہے جس کی ایک بیوی موجود ہے مگر بیوی کے کسی نقص کی وجہ سے اُس سے اولاد نہیں ہوتی یا (۲) ہوتی تو ہے مگر ماں کے کسی نقص کی وجہ سے مَرمَر جاتی ہے یا (۳) کوئی ایسا شخص ہے جس کی بیوی ایسے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے کہ جس کی وجہ سے وُہ خاوند کی خاص ہمدردی اور توجہ کی تو ضرور حق دار ہے مگر وہ صحیح اہلی مباشرت کے قابل نہیں رہی یا (۴) کوئی شخص بوجہ اپنے مخصوص حالات کے ایک بیوی کے ساتھ اپنے تقویٰ اور اخلاق کو قائم نہیں رکھ سکتا یا (۵) کسی شخص کو دُوسری شادی کے ساتھ کوئی اہم ملکی یا قومی مفاد وابستہ ہیں یا (۶) کسی زمانہ میں کسی ملک اور قوم کی حالت اس بات کی مُقتضی ہے کہ نسل کی ترقی یا قومی اخلاق کی حفاظت کے واسطے لوگ عام طور پر ایک سے زیادہ شادیاں کریں یا (۷) دُوسری شادی کے واسطے کوئی اور ایسی وجوہ ہیں جن کو عقل جائز قرار دیتی ہے تو ایسے حالات میں ہر اک صحیح الدماغ شخص کا ضمیر بشرطیکہ وُہ تعصبات کے نیچے دَب کر مَر نہ گیا ہو تعدّد از دواج کو نہ صرف جائز بلکہ ضروری قرار دے گا اور اس قِسم کے حالات میں مرد اور عورت دونوں سے توقع رکھی جائے گی کہ وہ زیادہ اہم اغراض کے حصول کے لیے اپنے جذبات کی قربانی کرنے کے واسطے تیار ہو جائیں۔
اسلام ایک عملی مذہب ہے اور بنی نوع انسان کی تمام جائز ضروریات کو پورا کرنے والا ہے اور شکر کا مقام ہے کہ صدیوں کی ٹھوکروں کے بعد اب عیسائی دنیا بھیآہستہ آہستہ اسلامی تعلیم کی طرف آرہی ہے اور وہ دن دُور نہیں کہ دُنیا جان لے گی کہ جو پاک اور کامل تعلیم تعصباتِ مذہبی و سیاسی کے سبب صدیوں سے اعتراضات کا تختۂ مشق بنی رہی ہے وہی اس قابل ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام جائز ضروریات کو پورا کرکے دُنیا میں حقیقی امن کی بنیاد قائم کر سکے۔
افسوس معترضین نے بغیر سوچے سمجھے اسلامی مسئلۂ تعدّدِ ازدواج کے متعلق یہ خیال کر لیا ہے کہ نعوذباﷲ یہ ایک عیش و عشرت کا راستہ ہے جو اسلام اپنے متبعین کے واسطے کھولتا ہے؛ حالانکہ اگر ان قیود کو جن کے ساتھ اسلام نے تعدّدِ از دواج کی اجازت دی ہے نظرِ غور سے دیکھا جاوے تو صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ ایک سچّے مُسلمان کے واسطے دوسری شادی ہر گز عیش و عشرت کا سامان نہیں ہو سکتی۔ بلکہ سچ پوچھو تو یہ ایک قربانی ہے جو اسے خاص حالات اور خاص ضروریات کے ماتحت کرنی پڑتی ہے اور اگر کوئی مسلمان اِن قیود کو توڑ کر عیش و عشرت کی غرض سے ایک سے زیادہ شادیاں کرتاہے تو یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہو گا جو کسی صورت میں بھی اسلامی شعار نہیں کہلا سکتا۔ وہ ایک ایسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ بعض دُوسرے مذاہب کے آزاد طبع لوگ جن کا مذہب کسی صورت میں بھی تعدّدِ ازدواج کی اجازت نہیں دیتا گھر میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے اِدھر اُدھر مُنہ کالا کرتے پھرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ اسلام میں تعدّدِ ازدواج کا حکم نہیں دیا گیا۔ یعنی یہ لازمی نہیں قرار دیا گیا کہ ہر مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ بلکہ صرف یہ ایک استثناء ہے جو خاص حالات کے پیش آجانے کی صورت میں جائز رکھی گئی ہے اور عملاً بیشتر مسلمان ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں۔
توسیع اشاعت
قبائل کا دورہ
حج کے ایّام میں ہر دُور دراز کے علاقہ سے مکّہ میں لوگ جمع ہوتے تھے اور اَشہرِ حرم میں عکّاظ۔ مجنہ اور ذوالمجاز میں بڑی بڑی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم کا ابتداء سے ہی یہ طریق تھا کہ ان موقعوں سے فائدہ اُٹھاتے تھے اور مختلف قبائلِ عرب کی فرودگاہوں پر جاجا کر اُنہیں اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔۱؎ مگر طبعاً اب تک آپؐ کی زیادہ توجہ قریشِ مکّہ کی طرف تھی، لیکن جن ایّام میں قریشِ مکّہ نے مُسلمانوں کو شعبِ ابی طالب میں محصور کر کے ان کے ساتھ تعلقات قطع کر دیئے اور ان کے ساتھ میل ملاپ بند ہو گیا تو ان دنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیگر قبائلِ عرب کی طرف زیادہ توجہ شروع کی؛ چنانچہ محصور ہونے کے زمانہ میں آپؐ اَشہرِ حرم میں جب کہ سب طرف اَمن ہوتا تھا حج میں آنے والے قبائل کا خاص طور پر دورہ کیا کرتے تھے اور عکاظ وغیرہ کے اجتماعات میں بھی باقاعدہ جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے لیکن قریشِ مکّہ نے اس تبلیغ میں بھی روک تھام شروع کر دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قبائل کا مُسلمان ہو جانا ان کے لیے قریباً قریباً ویسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ خود مکّہ والوں کا اسلام لے آنا؛ چنانچہ یہ قریش ہی کی مخالفت کا نتیجہ تھا کہ باوجود اس کے کہ آپؐ نے کئی دفعہ قبائل کا دورہ کیا اور ہر کیمپ میں جاجا کر اسلام کی دعوت دی لیکن کہیں بھی کامیابی کی اُمّید نہ بندھی۔ ۲؎
طائف کا سفر
جب محاصرہ اُٹھ گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی حرکات و سکنات میں ایک گونہ آزادی نصیب ہوئی تو آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ طائف میں جاکر وہاں کے
لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکّہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس زمانہ میں قبیلہ بنو ثقیف سے آباد تھا۔ کعبہ کی خصوصیت کو الگ رکھ کر طائف گویا مکّہ کا ہم پلّہ تھا اور اس میں بڑے بڑے صاحبِ اثر اور دولتمند لوگ آباد تھے اور طائف کی اس اہمیت کا خود مکّہ والوں کو بھی اقرار تھا چنانچہ یہ مکّہ والوں کا ہی قول ہے کہ:
۱؎
’’یعنی اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو مکّہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔‘‘
غرض شوال ۱۰ نبوی میں ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم طائف اکیلے تشریف لے گئے۔ ۳؎ یا بعض روایتوں کی رُو سے زید بن حارثہ ؓ بھی ساتھ تھے۔۴؎ وہاں پہنچ کر آپؐ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی، مگر اس شہر کی قِسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدّرنہ تھا۔ چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپؐ نے طائف کے رئیسِ اعظم عبدیالیل ۵؎ کے پاس جاکر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ ’’اگر آپؐ سچے ہیں تو مجھے آپؐ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو گفتگو لا حاصل ہے، اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپؐ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے، آپؐ سے کہنے لگا بہتر ہو گا کہ آپؐ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپؐ کی بات سُننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد اس بد بخت نے شہر کے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھے لگا دیئے۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شہر سے نِکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپؐ کے پیچھے ہو لئے اور آپؐ پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے آپؐ کا سارا بدن خُون سے تَر بتر ہو گیا۔ برابر تین میل تک یہ لوگ آپؐ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھّر برساتے چلے آئے۔
طائف سے تین میل کے فاصلہ پر مکّہ کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس میں آکر پناہ لی اور ظالم لوگ تھک کر واپس لوٹ گئے۔ یہاں ایک سایہ میں کھڑے ہو کر آپؐ نے اﷲ کے حضور یوں دُعا کی:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّ تِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَا نِیْ عَلَی النَّاسِ اَللّٰھُمَّ یَااَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَانْتَ رَبِّیْ۔ الخ
یعنی ’’اے میرے ربّ مَیں اپنے ضعفِ قوت اور قلّتِ تدبیر اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا تُو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بیکسوں کا تُو ہی نگہبان و محافظ ہے اور تُو ہی میرا پروردگار ہے … مَیںتیرے ہی مُنہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تُو ہی ہے جو ظلمتوں کو دُور کرتا اور انسان کو دُنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے۔‘‘
عتبہ و شیبہ اس وقت اپنے اس باغ میں موجود تھے۔ جب اُنہوں نے آپؐ کو اس حالت میں دیکھا تو دُور و نزدیک کی رشتہ داری یا قومی احساس یا نہ معلوم کس خیال سے اپنے عیسائی غلام عدّاسؔ نامی کے ہاتھ ایک کشتی میں کچھ انگور لگا کر آپؐ کے پاس بھجوائے۔ آپؐ نے لے لیے اور عدّاس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور کس مذہب کے پابند؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’مَیں نینوا کا ہُوں اور مذہباً عیسائی ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا وہی نینوا جو خُدا کے صالح بندے یونس بن متی کا مسکن تھا۔‘‘ عدّاس نے کہا۔ ’’ہاں۔ مگر آپؐ کو یونس کا حال کیسے معلوم ہوا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ میرا بھائی تھا۔ کیونکہ وہ بھی اﷲ کا نبی تھا اور مَیں بھی اﷲ کا نبی ہوں۔‘‘ پھر آپؐ نے اُسے اسلام کی تبلیغ فرمائی جس کا اس پر بہت اثر ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر جوشِ اخلاص میں آپؐ کے ہاتھ چُوم لیے۔ اس نظارہ کو دُور سے کھڑے کھڑے عتبہ اور شیبہ نے بھی دیکھ لیا؛ چنانچہ جب عدّاس ان کے پاس واپس گیا۔ تو اُنہوں نے کہا عدّاس! ’’یہ تجھے کیا ہوا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ چومنے لگا۔ یہ شخص تو تیرے دین کو خراب کر دے گا حالانکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔‘‘ ۱؎
تھوڑی دیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس باغ میں آرام فرمایا اور پھر وہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہؔ میں پہنچے جو مکّہ سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں کچھ دن قیام کیا۔ اس کے بعد نخلہ سے روانہ ہو کر آپ کوہ حرا پر آئے۔ اور چونکہ سفرِ طائف کی بظاہر ناکامی کی وجہ سے مکّہ والوں کے زیادہ دلیر ہو جانے کا اندیشہ تھا اس لیے یہاں سے آپؐ نے کسی شخص کی زبانی مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ مَیں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے اس کام میں مدد دے سکتے ہو؟ مطعم پکّا کافر تھا مگر طبیعت میں شرافت تھی اور ایسے حالات میں اِنکار کرنا شرفاء عرب کی فطرت کے خلاف تھا، اس لیے اُس نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور سب مسلّح ہو کر کعبہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپؐ کو کہلا بھیجا کہ آجائیں۔ آپؐ آئے اور کعبہ کا طواف کیا اور وہاں سے مطعم اور اس کی اولاد کے ساتھ تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ راستہ میں ابو جہل نے مطعم کو اس حالت میں دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگا۔ ’’اَمُجِیْرًاَمْ تَابِعٌ۔‘‘ یعنی کیا تم نے محمد کو صرف پنا ہ دی ہے یا اس کے تابع ہو گئے ہو۔‘‘؟ مطعم نے کہا۔ ’’مَیں صرف پنا ہ دینے والا ہُوں تابع نہیں ہوں۔‘‘ اس پر ابو جہل نے کہا۔ ’’اچھا پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘ مطعم کفر کی حالت میں ہی فوت ہوا مگر مُسلمان ناقدر شناس نہیں تھے۔ حضرت حسان بن ثابت انصاری نے جو گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے درباری شاعر تھے مطعم کے اس شریفانہ بَرتاؤ پر اس کی مَدح میں زور دار اشعار کہے جو ان کے دیوان میں اب تک محفوظ ہیں۔ ۱؎ طائف کا سفر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک خاص واقعہ ہے۔ اس سفر کے حالات سے آپؐ کی ارفع شان اور بلند ہمتی اور بے نظیر صبرواستقلال کا پتہ چلتا ہے ؛ چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے:
’’محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے سفرِ طائف میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک تنہا شخص جسے اُس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور رَدّ کر دیا۔ وہ خُدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نِکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا، اسی طرح وہ ایک بُت پرست شہر میں جاکر اُن کو توحید کی طرف بلاتا اور توبہ کا وعظ کرتا ہے۔ اس واقعہ سے یقینا اس بات پر بہت روشنی پڑتی ہے کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو اپنے صدقِ دعویٰ پر کس درجہ ایمان تھا۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپؐ کو کبھی جنگ اُحد والے دن سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ ’’عائشہ تیری قوم کی طرف سے مجھے بڑی بڑی سخت گھڑیاں دیکھنی پڑی ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے سفر طائف کے حالات سُنائے اور فرمایا کہ اس سفر سے واپسی پر میرے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے خدا نے آپؐ کے پاس بھیجا ہے تا اگر ارشاد ہو تو مَیں یہ پہلو کے دونوں پہاڑ اِن لوگوں پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کر دُوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’نہیں نہیں۔ مجھے امّید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اِنہی لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کر دے گا جو خدائے واحد کی پرستش کریں گے۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں جنّات کا وفد
طائف کے سفر کے متعلق یہ بھی روایت آئی ہے کہ جب آپؐ
اس سفر سے واپس تشریف لا رہے تھے تو نخلہ میں رات کے وقت جب کہ آپؐ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے جنّات کا ایک گروہ جو سات نفوس پر مشتمل تھا اور شام کے ایک شہر نصیبین * سے آیا تھا آپؐکے پاس سے گذرا اور اُس نے آپؐ کی تلاوت کو سُنا اور اس سے متأثر ہوا اور جب یہ جِنّ اپنی قوم کی طرف واپس گئے تو اُنہوں نے اپنی قوم سے آپؐ کی بعثت اور قرآن شریف کا ذکر کیا۔ قرآن شریف میں اس واقعہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے ۱؎ اور دونوں جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان جنوں کے آنے کا خود براہ راست عِلم نہیں ہوا بلکہ ان کے چلے جانے کے بعد خدائی وحی کے ذریعہ اس بات کی اطلاع دی گئی کہ ایک جنوں کا گروہ آپؐ کی تلاوت کو سُن گیا ہے۔ حدیث میں بھی متفرق جگہ اس واقعہ کا ذکر آتا ہے اور گو تاریخی بیان سے حدیث کا بیان بعض تفصیلات میں مختلف ہے مگر مآل ایک ہی ہے کہ جنّات کے ایک وفد نے ایک سفر کی حالت میں آپؐ کی تلاوتِ قرآنِ کریم کو سُنا اور پھر اس سے متأثر ہوکراپنی قوم کی طرف واپس لَوٹ گیا۔ ۲؎ یہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ دفعہ ہوا ہو جس کی وجہ سے روایات میں باہمی اختلاف ہو گیا ہے لیکن اس جگہ ہمیں اس واقعہ کی ظاہری تفصیلات سے زیادہ سروکارنہیں ہے بلکہ مختصر طور پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اس جگہ جنّات سے کیا مراد ہے اور ان کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلنا اور پھر کلامِ مجید کی تلاوت سُن کر واپس لوٹ جانا کس غرض و غایت کے ماتحت تھا۔
سو جاننا چاہیئے کہ جنوں کی ہستی کا عقیدہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کم و بیش دُنیا کی ہر قوم میں پایا جاتا ہے اور مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو قسم کے لٹریچر میں اس کا وجود ملتا ہے مگر اس کی تفصیلات میں بہت اختلاف ہے بعض قوموں کے لٹریچر میں جنّات کے اندر ایک قسم کی خدائی طاقت تسلیم کی گئی ہے اور انہیں قابلِ پرستش مانا جاتا ہے۔ بعض میں ان کو بلا استثناء ایک ناپاک مخلوق قرار دیا گیا ہے اور گویا شیطان اور ابلیس کی طرح خیال کیا جاتا ہے ، مگر اسلام ان ہر دو قسم کے خیالات کو ردّ کرتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ جنّ اﷲ تعالیٰ کی ایک مخفی مخلوق ہے جس میں انسانوں کی طرح اچھے اور بُرے دونوں قِسم کے افراد پائے جاتے ہیں لیکن اس مخلوق کا دائرہ انسانوں سے بالکل جُدا ہے اور ایک علیحدہ عالم سے تعلق رکھتا ہے۔ البتہ کہیں کہیں اﷲ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت تمثیلی رنگ میں جنوں کے وجود کا خاص خاص انسانوں کو نظارہ کرا دیا جاتا ہے۔ مگر ظاہر حالات میں یہ ہر دو مخلوق ایک دُوسرے سے بالکل جُدا ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق اور واسطہ نہیں۔ قرآن شریف میں جنوں کا ذکر چھبیس مختلف مقامات پر آتا ہے۔ ۱؎ ان سب مقامات میں جنّ کے لفظ سے ایک ہی معنے مُراد نہیں ہیں، کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کریں گے یہ لفظ عربی زبان میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ان ۲۶ مقامات کے مجموعی مطالعہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ جنّ خدا تعالیٰ کی ایک مخفی مخلوق ہے جو انسانوں کی طرح (گو اپنی تفصیلات میں یقینا اس سے بہت مختلف) ترقی اور تنزّل دونوں کا مادہ رکھتی ہے اور اپنے اعمال میں اچھے اور بُرے رستے کے اختیار کرنے کے لیے اپنی حدودِ مقررّہ کے اندر اندر صاحبِ اختیار ہے مگر جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جنّ کا لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ اس مخفی مخلوق کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ بعض جگہ یہ لفظ غیر اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
دراصل جنّ ایک عربی لفظ ہے جس کے روٹ میں چھپنے یا چھپانے یا نظروں سے پوشیدہ ہونے یا پردہ میں رہنے یا آڑ میں آجانے یا سایہ یا اندھیرا کرنے کے معنے ہیں۔ چنانچہ عربی میں جنت باغ کو کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کے درخت زمین پر سایہ کر کے اُسے چھپالیتے ہیں۔ جنین اس بچہ کو کہتے ہیں جو ابھی رحم مادر میں ہے کیونکہ وہ رحم کے پَردوں میں مخفی ہوتا ہے۔ مجنّہ ڈھال کو کہتے ہیں ، کیونکہ اس کے پیچھے ایک جنگجو سپاہی لڑائی کے وقت میں آڑ لیتا ہے۔ جنون دیوانگی کو کہتے ہیں کیونکہ وہ عقل پر پَردہ ڈال دیتی ہے۔ جَنان دل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ سینہ میں مخفی ہوتا ہے۔ اسی طرح جنانؔ رات یا لباس کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ اندھیرا کرنے یا ڈھانکنے کا ذریعہ ہیں۔ جَنَن قبر یا کفن کو کہتے ہیں کیونکہ یہ دونوں مُردے کو اپنے اندر چھپا لیتے ہیں۔ جَانؔ سانپ کو کہتے ہیں کیونکہ وہ عموماً زمین کے مخفی سوراخوں میں زندگی گذارتا ہے۔ جُنّہ اوڑھنی کو کہتے ہیں کیونکہ وہ سر اور چھاتی کو ڈھانکتی ہے وغیرہ ذالک۔ ۲؎ اس اصل کے ماتحت بعض اوقات عربی محاورہ میں جِنّ کا لفظ ایسے اُمراء و رؤساء کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے جو بوجہ امارت اور عُلّوِ منزلت اور استکبار کے عام لوگوں کی سوسائٹی میں میل جول نہیں رکھتے اور علیحدگی میں زندگی گذارتے ہیں؛ چنانچہ بسا اوقات قرآن شریف میں جنّ کا لفظ اِنْس یعنی عامۃّالناس کے مقابلہ میں امراء کے طبقہ کے لئے استعمال ہوا ہے اور ان معنوں میں یہ لفظ عموماً بُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسی قوموں پر بھی جنّ کا لفظ بول دیتے ہیں جو کسی ایسی علیحدہ اور منقطع جگہ میں آباد ہوں کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا زیادہ میل ملاپ ممکن نہ ہو اور انہی دو معنوں کے پیش نظر بعض محققین نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں جنوں کے وفد کے حاضر ہونے سے یہ مراد لیا ہے کہ یہ لوگ یا تو خاص امراء کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں گے جنہوں نے برملا طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پرہیز کیا اور علیحدگی میں آپؐ کا کلام سُن کر واپس چلے گئے اور یا وہ کسی دُور افتادہ قوم کے افراد ہوں گے جو اپنے ماحول کی وجہ سے دُوسرے لوگوں سے بالکل جُدا اور علیحدہ رہتی ہو گی۔ ہمیں ان معنوں کے قبول کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہے اور اگر نخلہ میں جنوں کے وفد کے حاضر ہونے سے مراد اُمراء کے کسی وفد کا حاضر ہونا یا کسی دُور افتادہ منقطع قوم کے افراد کا پیش ہونا مراد ہے تو پھر اس میں خدا تعالیٰ کا یہ اشارہ ہو گا کہ اے رسُول! مکّہ اور طائف میں بظاہر اپنی ناکامیوں کو دیکھ کر پریشان اور دلگیر نہ ہو کیونکہ اب وقت آتا ہے کہ عوام النّاس تو کیا بڑے بڑے امیر و کبیر لوگ تیرے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے اور دُنیا کی دُور افتادہ قومیں تیری غلامی کا جوا اپنی گردنوں پر رکھیں گی۔
لیکن اگر جنّ سے وہ مخفی مخلوق مراد ہے جس کی تفصیلات کا ہم کو علم نہیں ، لیکن اس کا وجود نصوصِ قرآنی کے ساتھ ثابت ہے تو اس میں بھی کسی عقلمند انسان کو شُبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی خلق کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ کسی مخلوق کی نظر اس کی انتہاء کو نہیں پاسکتی جہاں انسان کے سوا اس مَرئی دنیا میں ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں قسم کی دوسری مخلوق موجود ہے جن میں سے بعض قسم کی مخلوق مرئی ہونے کے باوجود ہماری کوتاہ نظر سے پوشیدہ رہتی ہے اور اس مخلوق کے وجود پر عِلم طب اور سائنس کے دُوسرے شعبے یقینی قطعی شاہد ہیں تو پھر اس بات کے ماننے میں کیا تأمل ہو سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی کوئی مخلوق جنّ کی قِسم کی بھی موجود ہو گی جو باوجود انسانی نظر سے پوشیدہ ہونے کے اسی طرح زندہ اور قائم ہو گی جس طرح انسان اپنے دائرہ کے اندر زندہ اور قائم ہے۔ بے شک اسلام ہمیں اس رنگ میں جنّات کی تعلیم نہیں دیتا کہ ہم موہومہ بھوتوں وغیرہ کی صورت میں کسی ایسی مخلوق کے قائل ہوں جس کے افراد انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوئے انسان کے لیے ایک تماشہ بنتے پھریں اور انسان کے سامنے مختلف صورتیں بدل بدل کر اُس کی تفریح یا تخویف کا سامان بہم پہنچائیں۔ یہ خیالات جاہلانہ توہّم پر مبنی ہیں۔ جن کا کوئی ثبوت اسلامی تاریخ یا حدیث یا قرآن کریم میں نہیں ملتا مگر یہ کہ جس طرح دُنیا میں اﷲ تعالیٰ کی بیشمار دُوسری مخلوق ہے جس میں بڑی چھوٹی کثیف لطیف مَرئی وغیر مَرئی ہر قسم کی چیزیں شامل ہیں اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی ایک مخلوق جنّ بھی ہے جو جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے، انسان کی نظروں سے مخفی ہے اور ایک جداگانہ عالم سے تعلق رکھتی ہے اور عام حالات میں انسان کے ساتھ اس کا کوئی سروکار نہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس پر کوئی عقلمند اعتراض نہیں کر سکتا۔
باقی رہا یہ سوال کہ ان معنوں کی رُو سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں جنّات کے وفد آنے سے کیا مراد ہے سو اس صورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ نظارہ ایک کشفی نظارہ سمجھا جائے گا اور اس سے مراد یہ ہو گی کہ اس انتہائی درجہ پریشانی اور بے بسی کے زمانہ میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہ نظارہ دکھا کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے رسُول گو ویسے ہر وقت ہی ہماری نصرت تیرے ساتھ ہے لیکن جس طرح گرمی کی شدّت خاص طور پر بادل کو کھینچتی ہے اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ ہماری مخفی طاقتیں تیری رسالت کی تائید میں خصوصیّت کے ساتھ مصروفِ کار ہو جائیں؛ چنانچہ اس کے بعد جلد ہی حالات نے پلٹا کھایا اور ہجرت یثرب کا پردہ اُٹھتے ہی خدا کی مخفی تجلّیات اسلام کے جھنڈے کو اٹھا کر کہیں کا کہیں لے گئیں۔ اور روایات میں جو سات کا لفظ آتا ہے سو اس سے مخفی طاقتوں کا کامل ظہور مراد ہے کیونکہ عربی میں سات کا عدد کمال کے اظہار کے لیے آتا ہے اور شام کے شہر نصیبین میں یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فتوحات کی رَو عرب کے بعد شام کے مُلک سے شروع ہو گی۔ واﷲ اعلم
قبیلہ دَوس میں اسلام
ابتدائی ایام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی کوششوں کے علاوہ اشاعتِ اسلام کا بڑا ذریعہ یہی تھا کہ کسی قبیلہ کا کوئی شخص اسلام لے آیا تو
پھر اس کے ذریعہ سے اس قبیلہ میں آہستہ آہستہ اسلام پھیلنے لگا۔ یا مُسلمان مکّہ سے نکل کر کہیں گئے تو اپنے ساتھ اِس نور کی شعاعوں کو بھی لیتے گئے۔ مثلاً قبیلہ بنو غفار میں ابوذرؓ غفاری کے واسطے سے اور حبشہ میں مہاجرین حبشہ کے ذریعہ سے اور یمن کے قبیلہ اشعر میں ابو موسیٰ اشعری کے مُسلمان ہونے سے اسلام داخل ہو چکا تھا۔ اب خُدا کے فضل سے ایک اور قبیلہ میں بھی اس کا اثر پہنچ گیا اور وہ یوں ہوا کہ طفیلؔ بن عمرو قبیلہ دوس کا ایک معزّز رئیس تھا اور شاعر بھی تھا۔ وہ کسی تقریب پر مکّہ آنکلا۔ قریش نے اُسے دیکھا تو فکر پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملے اور مُسلمان ہو جاوے۔ اس لیے وہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ ’’تم ہمارے شہر میں ایسی حالت میں آئے ہو کہ یہاں ایک شخص نے ہم میں سخت فِتنہ اورتفرقہ ڈال رکھا ہے۔ اس کی باتیں باپ کو بیٹے سے ، بھائی کو بھائی سے اور خاوند کو بیوی سے جُدا کر دیتی ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ تم اس کی ساحرانہ باتیں سُنو اور متاثر ہو جاؤ۔ لہٰذا ہم تمہیں بروقت ہو شیار کرتے ہیں کہ دیکھنا کہیں اس کی باتوں میں نہ آجانا۔ طفیل کہتے ہیں کہ مجھے قریش نے اِس معاملہ میں اس طرح بار بار تاکید کی کہ میں ان کی بات کو سچا سمجھ کر بہت خائف ہو گیا حتّٰی کہ میں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے کان میں اچانک اس ساحر کی کوئی آواز پڑ جاوے اور میں کسی فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں۔ میں ایک دن اسی حالت میں صبح کے وقت مسجد حرام میں گیا تو وہاں میں نے ایک کونہ میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ مجھے یہ نظارہ بھلا معلوم ہوا اور میں آہستہ آہستہ آپؐ کے قریب چلا گیا۔ خدا کی قدرت باوجودیکہ میرے کان بند تھے پھر بھی کچھ کچھ آواز مجھے سُنائی دینے لگی اور میں نے دل میں کہا۔ ’’میری ماں مجھے کھوئے۔ ۱؎ میں ایک سمجھدار شخص ہوں اور نیکی بدی کی تمیز رکھتا ہوں۔ پس کیا حَرج ہے کہ میں اس شخص کی بات سُن لوں۔ اگر وہ اچھی ہوئی تو مان لوں گا اور اگر بُری ہوئی تو انکار کر دوں گا۔‘‘ یہ خیال دل میں آنا تھا کہ میں نے کانوں سے روئی نکال پھینکی اور قرآن کی تلاوت سُنتا رہا اور جب رسول اﷲ نماز ختم کر چکے اور گھر کی طرف لوٹے تو میں ساتھ ہو لیا اور آپؐ سے عرض کیا کہ مجھے آپؐ اپنی باتیں سُنائیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے کلام الٰہی سنایا اورتوحید کی تبلیغ فرمائی۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ میں وہیں مسلمان ہو گیا۔ پھر میں نے آپؐ سے عرض کیا۔ یارسُول اﷲ! مَیں اپنے قبیلے میں ممتاز حیثیت رکھتا ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں۔ پس آپؐ دُعا کریں کہ میرے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان کو اسلام کی ہدایت دے۔ آپؐ نے اجازت دی اور دُعا فرمائی۔ جب طفیل اپنے قبیلہ میں پہنچے تو اُنہوں نے سب سے پہلے اپنے والد اور بیوی کو تبلیغ کی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ پھر قبیلہ والوں کی طرف رُخ کیا اور ان کو اسلام کی طرف بلایا، مگر اُنہوں نے انکار کیا اور نہ مانا بلکہ نفرت و مخالفت میں بڑھتے گئے۔ یہ حالت دیکھ کر طفیل پھر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’یا رسُول اﷲ! میری قوم نے تکذیب کی ہے اور مخالفت میں بڑھ گئی ہے۔ پس اب آپ اُن کے واسطے بد دُعا کریں۔ آپؐ نے ہاتھ اُٹھاے مگر بجائے بد دُعا کرنے کے یہ الفاظ فرمائے کہ ’’اَللّٰھُمَّ اِھْدِدَوْسًا‘‘ یعنی ’’اے میرے اﷲ تُو قببلہ دَوس کو ہدایت دے۔‘‘اور پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے جاؤ اور نرمی اور محبت سے تبلیغ میں لگے رہو۔ طفیل کہتے ہیں کہ میں پھر اپنے قبیلہ کی طرف واپس آیا اور ان میں تبلیغ کرتا رہا۔ حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکّہ سے ہجرت کی اور جنگِ بدرؔ اور اُحد اور اَحزابؔ ہو چکیں تب جاکر میری قوم نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد میں اُن میں سے ستّر خاندانوں کے ساتھ مدینہ میں ہجرت کر آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جنگِ خیبر میں مصروف تھے۔ ۱؎ حضرت ابوہریرہؓ جو احادیث کے ایک مشہور راوی ہیں قبیلہ دَوس سے تھے اور انہی لوگوں میں مدینہ آئے تھے۔
طفیلؓ بن عمرو دَوسی کے متعلق یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش مکّہ نے بہت زیادہ تنگ کرنا شروع کیا تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسُول اﷲ! آپؐ میرے پاس چل کر قیام فرماویں۔ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’یہ معاملہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب ہجرت کا حکم دے گا، تبھی میرا نِکلناہو گا اور پھر جہاں کا ارشاد ہو گا وہیں جانا ہو گا۔‘‘
معراج اور اسراء
معراج اور اسراء کے مسئلہ کو اسلامی لٹریچر میں جو پوزیشن حاصل ہے اور جو لمبی لمبی بحثیں اس بارے میں کی گئی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ بحثیں آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے تھوڑا عرصہ بعد سے لے کر آج تک کے لٹریچر میں پائی جاتی ہیں، مگر ہمیں ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں ان بحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ معراج اور اسراء کے متعلق تاریخی لحاظ سے جو بات ثابت ہے اسے مختصر طور پر اپنے ناظرین کے سامنے رکھ دیں مگر پیشتر اس کے کہ اصل واقعات بیان کیے جائیں بعض ان اصولی غلطیوں کا ذکر ضروری ہے جو اس بحث میں عام طور پر واقع ہوئی ہیں جن میں بد قسمتی سے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی مبتلا ہو گیا ہے۔
پہلی غلطی یہ ہوئی ہے کہ مُسلمانوں کے ایک حِصّہ نے اور ان کی پیروی میں بیشتر غیر مسلم مؤرخین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ معراج اور اسراء ایک ہی واقعہ کے دو مختلف نام ہیں یا کم از کم یہ کہ وہ ایک ہی واقعہ کے دو مختلف حصوں کے نام ہیں حالانکہ قرآن شریف اور صحیح احادیث اور مستند تاریخی روایات کے مطالعہ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دراصل معراج اور اسراء دو مختلف چیزیں ہیں جو خواہ ایک دُوسرے کے قریب قریب واقع ہوئی ہوں اور خواہ ان کا آپس میں رُوحانی رنگ میں کوئی جوڑ اور رابطہ بھی ہو مگر حقیقۃً وہ ایک دوسرے سے جُدا اور مختلف ہیں یعنی معراج تو اس رُوحانی سفر کا نام ہے جس میں آپؐ کو مکّہ سے اُٹھا کر آسمان تک پہنچایا گیا جہاں بالآخر آپؐ خداوندِ عالمیان کے دربار میں پیش ہوئے اور اسراء ایک دوسرا سفر ہے جو آپ کو بعض مصالح کے ماتحت مکّہ سے لے کر بیت المقدس تک کرایا گیا۔ قرآن شریف نے ان ہر دو سفروں کو علیحدہ علیحدہ سورتوں میں علیحدہ علیحدہ کیفیات اور تفاصیل کے ساتھ بیان کیا ہے؛ چنانچہ سورۃ نجم ۱؎ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جس رُوحانی پرواز کا ذکر آتا ہے وہ معراج ہے۔ جیسا کہ بخاری میں بھی سورۃ نجم کی آیات کو معراج کے واقعہ پر چسپاں کر کے اشارہ کیا گیا ہے۔ ۲؎ اور سورۃ بنی اسرائیل میں ۳؎ جس سفر کا ذکر ہے وہ اسراء ہے اور ان دونوں کی تفصیلات اور کیفیات ایک دُوسرے سے بالکل جدا ہیں ۔ مثلاً سورۃ بنی اسرائیل میں اسراء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قرآن شریف نے آسمان کا ذکر تک نہیں کیا اور سورۃ نجم کے بیان میں بیت المقدس کا کوئی ذکر نہیں آتا۔
اسی طرح احادیث کے بغور مطالعہ سے بھی معراج اور اسراء کا جُدا جُدا ہونا ثابت ہوتا ہے چنانچہ بخاری میں جو قرآن شریف کے بعد اسلامی لٹریچر میں صحیح ترین کتاب مانی جاتی ہے۔ اسراء اور معراج کے علیحدہ علیحدہ باب باندھ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ۴؎ اور دونوں سفروں کی جُدا جُدا ابتداء بیان کرنے میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ ہر دو سفر ایک دوسرے سے جُدا تھے۔ یعنی جہاں اسراء کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مکّہ سے لے کر بیت المقدس تک کی سیر کرائی گئی وہاں معراج کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپؐ کو مکّہ سے آسمان کی طرف اُٹھایا گیا۔ گویا ہر دو سفروں کی ابتداء علیحدہ علیحدہ طور پر مکّہ سے ہی ہوئی جس سے ان کا ایک دوسرے سے جُدا اور متغائر ہونا ظاہر و عیاں ہے۔۵؎ علاوہ ازیں باوجود اس کے کہ معراج کی حدیث بخاری میں چھ مختلف جگہوں میں بیان ہوئی ہے اور اسی طرح اِسراء کی حدیث بھی متعدد جگہ آئی ہے اور بعض جگہ راویوں کی بے احتیاطی سے جزوی طور پر اسراء اور معراج کے بیان میں کسی قدر خلط بھی ہو گیا ہے لیکن کہیں بھی معراج کے بیان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف جانا مذکور نہیں ہوا بلکہ ساری کی ساری روایات میں مکّہ سے سیدھا آسمان کی طرف اُٹھایا جانا بیان کیا گیا ہے۔ ۱؎ جس سے معراج کا اسراء سے جُدا ہونا یقینی طور پر ثابت ہے۔ اسی طرح سیرتِ ابن ہشام میں جو سیرۃ کی کتابوں میں سب سے زیادہ متداول کتاب ہے۔ معراج اور اسراء کو بالکل علیحدہ علیحدہ طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ تصریح ہے کہ مکّہ سے لے کر بیت المقدس تک کے سفر کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں واپس تشریف لے آئے تھے اور معراج کا واقعہ علیحدہ طور پر ہوا تھا۔ ۲؎ اسی طرح مشہور مؤرخ ابنِ سعد نے بھی معراج اور اسراء کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں میں علیحدہ علیحدہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ۳؎ ان شہادتوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ خواہ معراج اور اسراء کا روحانی طور پر آپس مین کوئی تعلق اور رابطہ ہو مگر واقعہ کے لحاظ سے وہ ایک دُوسرے سے بالکل مختلف اور متغائر چیزیں تھیں جو جُدا جُدا طور پر علیحدہ علیحدہ کوائف کے ساتھ وقوع پذیر ہوئیں؛ چنانچہ متقدین میں سے بھی ایک معتدبہ حصّہ نے معراج اور اسراء کو علیحدہ علیحدہ قرار دیا ہے۔ ۴؎
دُوسری غلطی اس بحث میں یہ ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان سفروں کو ظاہری سفر قرار دے دیا گیا ہے جو گویا اس مادی جسم کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے؛ حالانکہ مذکورہ بالا تینوں شہادتین اس خیال کو بھی سختی سے ردّ کرتی ہیں؛ چنانچہ قرآن شریف میں معراج کے متعلق جو بیان آتا ہے۔ اس میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ۵؎ یعنی اس موقع پر جو کچھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل نے دیکھا وہ بالکل ٹھیک ٹھیک اور سچ تھا اور آپؐ کے قلبِ صافی نے اس نظّارہ کے دیکھنے اور سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ ایک قلبی نظارہ تھا نہ کہ ایک جسمانی اور مادی سفر۔ اسی طرح حدیث میں بھی یہ واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ معراج ایک روحانی امر تھا۔ چنانچہ حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ جس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آسمان پر اُٹھائے جانے کا نظارہ دکھایا گیا۔ اس وقت آپؐ سو رہے تھے مگر یہ کہ آپؐ کا یہ سونا عام لوگوں کی طرح کا سونا نہ تھا بلکہ اس خاص شانِ نبوت سے تعلق رکھتا تھا جس میں آپؐ کی آنکھ تو سوتی تھی مگر دل بیدار رہتا تھا۔۱؎ اور ایک دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ معراج کا نظارہ آپؐ کو نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دکھایا گیا۔ ۲؎ اور ایک تیسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ معراج کے نظارہ کے بعد آپؐ بیدار ہو گئے۔ ۳؎ اور ایک چوتھی روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اگر کوئی شخص تم میں سے یہ کہے کہ معراج میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان جسمانی آنکھوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کو دیکھا تو وہ جھوٹا ہے۔ اس کی بات ہر گز نہ مانو اور فرماتی ہیں کہ میرے تو اس خیال سے ہی بدن کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں کہ آپؐ نے ان جسمانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ ۴؎ پھر کتب سیرۃ میں بھی ایسی روایات کی کمی نہیں ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معراج ایک روحانی امر تھا نہ کہ ظاہری اور جسمانی سفر۔ چنانچہ مشہور اسلامی مؤرخ ابن اسحاق نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ مَافَقَدَ جَسَدَہٗ یعنی معراج کی رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا بلکہ تمام وقت اِسی مادی دُنیا میں موجود رہا۔۵؎ اس سے بڑھ کر معراج کے روحانی ہونے کے متعلق کیا شہادت ہو گی؟
اسی طرح اسراء کے متعلق قرآن شریف اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ وہ ایک رُوحانی امر تھا جو خاص مصالح کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھایا گیا؛ چنانچہ قرآن شریف نے اس کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں۔ اوّلؔ یہ کہ سفر رات کے وقت ہوا جیسا کہ اَسْرٰی کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ دومؔ یہ کہ وہ ایک ہی رات کے دوران میں مکمل ہو کر ختم ہو گیا جیسا کہلَیْلاً کے لفظ سے پایا جاتا ہے۔ اور سومؔ یہ کہ اس سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ ہم اپنے رسول کو اپنے بعض نشانات دکھائیں۔ ۶؎ اب جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ تینوں باتیں اسراء کو ایک رُوحانی سیر ثابت کرتی ہیں نہ کہ ایک ظاہری اور جسمانی سفر۔ کیونکہ اوّل تو عام حالات میں ظاہری سفر کا وقت دن ہے اور رات کے وقت سفر کرنا ایک استثنائی صورت رکھتا ہے اور اس کے مقابل پر روحانی سَیر یعنی رؤیا وغیرہ کے لئے اصل وقت رات ہے اور دن کے وقت اس کا واقع ہونا ایک گو نہ استثنائی رنگ رکھتا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے رات کا لفظ استعمال کر کے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ایک روحانی سفر تھا جو بصورت رؤیا وقوع پذیر ہوا۔ ورنہ رات کے ذکر میں کوئی خاص حکمت نظر نہیں آتی۔ دُوسرے اس سفر کے متعلق ان الفاظ کا استعمال کیا جانا کہ وہ ایک رات کے دوران میں مکمل ہو کر ختم ہو گیا سوائے اس کے اور کسی غرض و غایت کے لیے نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے رُوحانی ہونے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ کیونکہ عام حالات میں مادی اسباب کے ماتحت مکّہ سے لے کر بیت المقدس تک کا سفر ایک رات کے اندر اندر پورا ہونا بالکل ممکن نہ تھا۔ تیسرے اس سفر کی غرض و غایت کے متعلق جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے اپنے بندے کو یہ سفر اس لیے کرایا ہے کہ اُسے اپنے بعض نشانات دکھائیں، یہ بھی اسے ایک رُوحانی امر ثابت کرتا ہے کیونکہ مکّہ سے لے کر بیت المقدس کا ظاہری اور جسمانی سفر خواہ وہ ایک رات کے قلیل عرصہ میں ہی تکمیل کو پہنچ جائے ایک عجوبہ نمائی کے سوا اپنے اندر کوئی خاص شان کا پہلو نہیں رکھتا جِسے مقامِ نبوت کے مناسب حال سمجھا جاسکے؛ البتّہ اگر اس سفر کو کشفی رنگ میں ایک روحانی امر سمجھا جائے جس سے تصویری زبان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مُسلمانوں کی آئندہ ترقیات اور فتوحات مراد ہوں تو تب بیشک وہ ایک مقتدرانہ پیشگوئی کی صورت میں ایک بہت بڑا نشان قرار پاتا ہے جس کے مقابل پر ظاہری سفر کو کچھ بھی حیثیت حاصل نہیں۔ علاوہ ازیں قرآن شریف نے اسی سورۃ بنی اسرائیل میں جس کے ابتداء میں اسراء کا ذکر آتا ہے ، اسراء کے متعلق رؤیا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ۱؎ جس سے اس بات میں کوئی شُبہ نہیں رہتا کہ سفر ایک رؤیا کے رنگ میں تھا نہ کہ ایک ظاہری اور جسمانی سفر۔ مگر اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عربی میں رؤیا کے معنے صرف خواب کے نہیں ہوتے بلکہ عربی محاورہ کے مطابق رؤیا کا لفظ ہر اس رُوحانی نظارہ پر بولا جاتا ہے جو کسی انسان کو بطریق خواب یا کشف وغیرہ دکھایا جائے اور ہر قِسم کے رُوحانی مناظر اس کے اندر شامل ہیں۔ پس جہاں اسراء یا معراج کے متعلق رؤیا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہاں اس سے اُردو محاورہ کے مطابق خواب مُراد نہیں ہوتی بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کا رُوحانی کشف مُراد ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپؐ کی اَرفع اور اَعلیٰ شان کے مطابق خاص مصالحِ الٰہی کے ماتحت دکھایا گیا ۔ بہرحال قُرآن شریف نے واضح ارشادات کے ذریعہ اس بات کو کھول کر جتا دیا ہے کہ اسراء کوئی مادی امر نہیں تھا بلکہ وہ روحانی سفر تھا جس کی غرض و غایت خدا کے بعض مقتدرانہ نشانات دکھانا ہی تھی۔
اسی طرح حدیث میں بھی اسراء کے متعلق صاف اشارہ آتا ہے کہ وہ ایک رُوحانی امر تھا نہ کہ جسمانی اور ظاہری سفر۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے مکّہ کی مسجد حرام سے لے کر بیت المقدس کی مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرائی تو اس پر کفّارِ مکّہ نے جن میں سے بعض بیت المقدس کو دیکھ چکے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کبھی بیت المقدس نہیں گئے۔ یہ اعتراض کیا کہ اگر آپؐ کا یہ دعویٰ دُرست ہے تو آپؐ بیت المقدس کا کوئی نظارہ بیان کریں۔ اس پر آنحضرت کی طبیعت میں بے چینی پیدا ہوئی۔ کیونکہ گو آپؐ رؤیا میں بیت المقدس کو دیکھ چکے تھے مگر آپ جانتے تھے کہ یہ ایک رؤیا کا معاملہ ہے جس میں ممکن ہے کہ آپؐ کے ذہن کا نقشہ ظاہر کے ساتھ بالکل مطابقت نہ کھاتا ہو اور آپؐ کو رؤیا کے مخصوص مناظر کے سوا بیت المقدس کے عام مناظر کا علم بھی نہیں تھا اس لیے طبعاً آپؐ کو کفّار کے اس اعتراض پر لوگوں کی ٹھوکر کے خیال سے فکر پیدا ہوا مگر اﷲ تعالیٰ نے فوراً کشفی رنگ میں بیت المقدس کا ظاہری نقشہ آپؐ کی آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا اور آپؐ نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرماتے ہوئے کفّارکو بتایا کہ بیت المقدس کی یہ یہ نشانیاں ہیں۔ ۱؎ اس پر کفّار شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئے۔ اب اگر اسراء اس ظاہری جسم کے ساتھ ہوا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بیت المقدس کے مناظر کو واقعی اپنی ان جسمانی آنکھوں کے ساتھ ملاحظہ فرما چکے تھے۔ تو کفّار کے اعتراض پر آپؐ کو فکر مند ہونے اور اﷲ تعالیٰ کو بیت المقدس کا دوبارہ نظارہ کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کفار کے اعتراض پر آپؐ کا فکر مند ہونا اور خدا تعالیٰ کا دوبارہ نظارہ دکھانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے قبل بیت المقدس کو حقیقی طور پر نہیں دیکھا تھا اور صرف اعتراض ہونے پر اس کا حقیقی نظارہ دکھایا گیا اور پہلا نظارہ جو اسراء کے موقع پر ہوا تھا، اس میں بیت المقدس کا نقشہ صرف عالمِ رؤیا کا ایک اجمالی نقشہ تھا جس کی بنا پر آپؐ اس بستی کی تفصیلات نہیں بتا سکتے تھے۔
الغرض قرآن شریف اور احادیث اور تاریخ تینوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ معراج اور اسراء خالصۃً رُوحانی امور تھے جو بعض خاص مصالح کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھائے گئے اور جن لوگوں نے اس کے خلاف ادّعا کیا ہے ان کے ہاتھ میں سوائے کمزور اور بودے استدلالات کے اور کچھ نہیں۔ ہاں جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ہماری مراد معراج اور اسراء کے رُوحانی ہونے سے ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہ نظارے معمولی خواب کے نظارے تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نیند کی حالت میں دکھائے گئے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے اس نے اسراء اور معراج کی حقیقت کو ہر گز نہیں سمجھا اور یقینا وہ ان لوگوں سے بڑھ کر غلطی خوردہ ہے جو ان مناظر کو جسمانی اور ظاہری حالت کے ساتھ وابستہ قرار دیتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جس طرح ہر شخص کے روحانی مقام کے لحاظ سے اس کے رُوحانی قویٰ تیز اور لطیف ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے مقابل پر اسی نسبت سے اﷲ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے لیے اُن کے مقامِ قرب کے لحاظ سے روحانی بلندیوں کے دروازے کھولتا ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ روحانی مناظر آپؐ کے اَرفع و اَعلیٰ مقام کے لحاظ سے دوسروں کے لطیف ترین کشوف سے بھی آگے نکلے ہوئے تھے جن میں آپؐ کو ایک سراسر نورانی جسم کے ساتھ ان بلند ترین رُوحانی چوٹیوں کی سیر کرائی گئی جہاں آج تک کسی بشر کا قدم نہیں پہنچا تھا اور ظاہر ہے کہ اس کے مقابل پر محض ایک خواب کو کچھ بھی حیثیت حاصل نہیں اور نہ ہی اس کے سامنے محض ایک ظاہری اور جسمانی پرواز کو جو ایک عجوبہ نمائی سے بڑھ کر نہیں کوئی حقیقت حاصل ہے۔
ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ نعوذ باﷲ خدا تعالیٰ کسی بشر کو اس جسمِ عنصری کے ساتھ آسمان پر لے جانے کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ قرآن شریف اور صحیح احادیث اور مستند تاریخی روایات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اسراء یا معراج میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس جسمِ عنصری کے ساتھ اٹھائے گئے ہوں بلکہ اس کے برعکس جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت لطیف اور پاکیزہ قسم کی رُوحانی پرواز تھی جو بطریق رؤیا آپؐ کو کرائی گئی اور تصویری اور تعبیری زبان میں اس پرواز کے اندر بہت سے حقائق اور اشارات مخفی تھے جو ایک عظیم الشان نشان کے طور پر اپنے وقت پر پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ دُوسری طرف اس جگہ اس بات کے بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیںہے کہ گو خدائی قدرت کے لحاظ سے سبھی کچھ ممکن ہے مگر خدا تعالیٰ نے بعض امور کو خود اپنی سنّت کے خلاف قرار دیدیا ہے اور انہی میں کسی بشر کا اس جسمِ عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر آتا ہے کہ جب ایک موقع پر کفّارِ مکّہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپؐ ہمیں آسمان پر چڑھ کر دکھلاویں تو آپؐ نے انہیں خدائی منشاء کے ماتحت یہ جواب دیا کہ سُبْحَانَ اﷲ! مَیں تو صرف ایک انسان رسول ہُوں اور ایک انسان رسُول کا اس طرح آسمان پر جانا خدائی سُنّت کے خلاف ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ واقعہ قرآن شریف نے اسی سورۃ میں بیان فرمایا ہے جس میں اسراء کا ذکر آتا ہے۔ ۱؎ اسی طرح بعض دوسری آیات میں بھی یہ صاف مذکور ہے کہ ایک انسان اس دنیوی زندگی میں عالمِ مادی کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ۲؎
اسراء اور معراج کے بارے میں دو اصولی غلطیوں کے ازالہ کے بعد ہم اصل واقعہ کو لیتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ان کشوف کی تفصیلات کیا تھیں۔ وہ کِس جہت سے آیاتِ الٰہی کے حامل تھے اور وہ کب وقوع پذیر ہوئے۔ پہلے ہم معراج کو لیتے ہیں۔ سو جاننا چاہیئے کہ معراج ایک عربی لفظ ہے جو عَرَجَ سے نِکلا ہے جس کے معنے اُوپر چڑھنے کے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے عربی میں معراج سیڑھی کو بھی کہتے ہیںجو گویا اوپر چڑھنے کا آلہ اور واسطہ ہے۔ معراج کی تفصیل قرآن شریف میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ:
۱؎
’’یعنی خدا نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو خود تعلیم دی ہے۔ وہی خُدا جو بڑی طاقتوںکا مالک اور صاحبِ قوّت وسطوَت ہے سو (اس تعلیم کے نتیجہ میں) یہ رسول ایستادہ ہو کر بلند ہوا حتّٰی کہ وہ بلند ہوتا ہوتا افقِ اعلیٰ تک جا پہنچا۔ پھر وہ خدا سے قریب ہوا اور خدا بھی اس کی طرف جھُکا حتّٰی کہ وہ دونوں یوں ہو گئے جیسے دو کمانوں کے ملنے سے اُن کا چلّہ ایک ہو جاتا ہے (یعنی کمانیں تو الگ الگ رہتی ہیں مگر تیر چلانے کی جگہ ایک ہو جاتی ہے اور مقصد و مَرْمیٰ کے لحاظ سے کوئی دوئی نہیں رہتی) اس حالت میں خدا نے اپنے اس رسول کو وہ وحی کی جو اُسے کرنا تھی اور رسول کے قلبِ صافی نے اس نظارہ کے دیکھنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ جو کچھ دیکھا ٹھیک ٹھیک دیکھا۔ کیا اے لوگو تم ہمارے رسول کے اِن رُوحانی مناظر کو شک کی نظر سے دیکھتے ہو؟ حالانکہ اس نے تو اس وقت(اس سے بھی بڑھ کر) ایک اور نظارہ بھی دیکھا تھا۔ وہی جو اُس نے اس انتہائی بیری کے قریب دیکھا۔ وہ بیری جو اَبدی رہائش والی جنت کے پاس ہے جبکہ اس بیری پر ایک خاص تجلی کا ظہور ہو رہا تھا۔ یقینا اس وقت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھ غلط راستہ پر نہیں پڑی اور نہ ہی وہ حدِّ مقررہ سے آگے نکلی اور آپؐ نے اس نظارہ میں خدائے ذوالجلال کے بڑے بڑے نشان ملاحظہ کئے۔‘‘
اِس قرآنی بیان کی تشریح و تفصیل میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں اُن میں بد قسمتی سے کسی قدر اختلاف پایا جاتا ہے اور جیسا کہ قاعدہ ہے جوں جوں کوئی روایت اعتبار کے اعلیٰ مقام سے نیچے گِرتی گئی ہے توں توں اس میں کمزور حِصّہ کا دخل زیادہ ہوتا گیا ہے۔ اس لیے ہم اس جگہ صرف مضبوط اور معتبر روایتوں تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے۔ اور اُن میں سے بھی صرف اِس حصہ پر اکتفا کریں گے جو ہماری تحقیق میں اختلاف و اختلاط سے پاک ہے۔ سو جاننا چاہیئے کہ معراج کے متعلق صحیح روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد حرام کے اس حِصہ میں جو حطیم کہلاتا ہے لیٹے ہوئے تھے اور یقظہ اور نوم کی درمیانی حالت تھی۔ یعنی آپؐ کی آنکھ تو سوتی تھی مگر دل بیدار تھا کہ آپؐ نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوئے ہیں۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کے قریب آکر آپؐ کو اُٹھایا اور چاہِ زمزم کے پاس لاکر آپؐ کا سینہ چاک کیا اور آپؐ کے دل کو زمزم کے مصفّا پانی سے اچھی طرح دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کی طشتری لائی گئی جو ایمان و حکمت سے لبریز تھی اور حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کے دل میں حِکمت و ایمان کا خزانہ بھر کر آپؐ کے سینہ کو پھر اُسی طرح بند کر دیا۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام آپؐ کو اپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور پہلے آسمان کے دروازہ پر پہنچ کر دستک دی۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جبرائیل ؑ نے جواب دیا مَیں جبرائیل ہُوں اور میرے ساتھ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ دربان نے پوچھا۔ کیا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو بُلایا گیا ہے؟ جبرائیل ؑنے کہا۔ ہاں ۔ اس پر دربان نے دروازہ کھول کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ اندر داخل ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بزرگ انسان کو دیکھا۔ جس نے آپؐ کو مخاطب ہو کر کہا۔ ’’مَرحبا اے صالح نبی اور اے صالح فرزند۔‘‘ اور آپؐ نے بھی اُسے سلام کیا۔ اس شخص کے دائیں اور بائیں ایک بہت بڑی تعداد میں رُوحوں کا سایہ پڑ رہا تھا۔ جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا تھا تو اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھتا تھا اور جب بائیں طرف دیکھتا تھا تو غم سے اس کا مُنہ اُتر جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرائیل ؑ سے پوچھا ! یہ صاحب کون ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا یہ آدم ؑ ہیں اور ان کے دائیں طرف ان کی نسل میں سے اہلِ جنّت کا سایہ پڑ رہا ہے، جسے دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف اہلِ نار کا سایہ ہے جسے دیکھ کر وہ غم محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل آپؐ کو لے کر آگے چلے اور دُوسرے آسمان کے دروازہ پر بھی آپؐ کو وہی واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے اندر داخل ہو کر آپؐ نے دو شخصوں کو دیکھا جنہوں نے ان الفاظ میں آپؐ کو خیر مقدم کیا کہ ’’مَرحبا اے صالح نبی اور صالح بھائی۔‘‘ اور آپؐ نے بھی انہیں سلام کہا۔ اور جبرائیل ؑ نے آپؐ کو بتایا کہ یہ حضرت عیسیٰ اور حضرت یحیٰ ؑہیں۔ جو خالہ زاد بھائی تھے۔ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام آپؐ کو اپنے ساتھ لے کر تیسرے اور چوتھے اور پانچویں آسمان میں سے گذرے جن میں آپؐ نے علی الترتیب حضرت یوسف ؑ اور حضرت ادریس ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو پایا۔ چھٹے آسمان پر آپؐ کی ملاقات حضرت موسیٰ ؑسے ہوئی اور حضرت موسیٰ ؑنے بھی آپؐ کو اسی طرح مرحبا کہا اور آپؐ نے سلام کیا۔ جب آپؐ ان سے آگے گذرنے لگے تو حضرت موسیٰ ؑرو پڑے جس پر آواز آئی۔ اے موسیٰ ؑ! کیوں روتے ہو؟ حضرت موسیٰ ؑنے کہا۔ اے میرے اﷲ! یہ نوجوان میرے پیچھے آیا مگر اس کی اُمّت میری امّت کی نسبت جنت میں زیادہ داخل ہو گی۔ اے میرے اﷲ! میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے آکر مجھ سے آگے نِکل جائے گا۔ ۱؎ اس کے بعد آپؐ ساتویں آسمان میں داخل ہوئے جہاں آپؐ کی حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی جو بیتِ معمور کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ یہ بیتِ معمور آسمانی عبادت گاہ کا مرکز تھا (جس کے گویا ظِل کے طور پر دُنیا میں کعبۃ اﷲ تعمیر ہوا تھا) حضرت ابراہیم ؑنے بھی آپؐ کو دیکھ کر اُسی طرح مرحبا کہا جس طرح حضرت آدمؑ نے کہا تھا۔ (کیونکہ وہ بھی حضرت آدمؑ کی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جدِّامجد تھے) اور آپؐ نے بھی اسی طرح اُن کو سلام کہا۔
اس کے بعد آپؐ اور آگے بڑھے اور وہاں پہنچے جہاں اس وقت تک کسی بشر کا قدم نہیں پہنچا تھا۔ یہاں آپؐ نے اپنے اُوپر سے بہت سی قلموں کے چلنے کی آواز سُنی (جو گویا قضا و قدر کی قلمیں تھیں) اس کے بعد آپؐ کو اپنے سامنے ایک بیری کا درخت نظر آیا جو گویا زمینی تعلقات کے لیے آسمان کا آخری نقطہ تھا اور اس کے ساتھ سے جنت ماوٰی شروع ہوتی تھی۔ اس بیری کے درخت کے پھَل اور پتے بڑے بڑے اور عجیب وغریب قسم کے تھے۔ جب آپؐ نے اس درخت کو دیکھا تو اس پر ایک فوق البیان اور گونا گوں تجلّی کا ظہور ہوا جس کے متعلق آپؐ فرماتے ہیں کہ الفاظ میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں بیان کر سکیں۔ اس بیری کے نیچے چار دریا بہہ رہے تھے جن کے متعلق جبرائیل ؑ نے آپؐ کو بتایا کہ ان میں سے دو دریا تو دنیا کے ظاہری دریا نیل و فرات ہیں اور دو باطنی دریا ہیں جو جنت کی طرف کو بہتے ہیں۔ اس موقع پر آپؐ کو حضرت جبرائیل اپنی اصلی شکل و صورت میں نظر آئے اور آپؐ نے دیکھا کہ وہ چھ سو پَروں سے آراستہ ہیں۔ اس کے بعد آپؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور بالآخر آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ خدائے ذوالجلال کے دربار میں پیش ہوئے ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے آپؐ سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور بعض بشارات دیں اور آخر کار خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ آپؐ کی اُمّت کے لیے رات دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ آپؐ یہ حکم لے کر واپس آئے تو راستہ میں حضرت موسیٰ ؑنے آپ کو روک کر پوچھا کہ آپؐ کو کیا احکام ملے ہیں؟ آپؐ نے پچاس نمازوں کا حکم بیان کیا۔ حضرت موسیٰ ؑیہ حکم سن کر چونک پڑے اور کہا کہ مَیں بنی اسرائیل کے ساتھ واسطہ پڑنے کی وجہ سے صاحب تجربہ ہوں۔ آپؐ کی امّت کو اتنی نمازوں کی ہر گز برداشت نہ ہو گی پس آپ واپس جائیں اور خدا سے اس حکم میں تخفیف کی درخواست کریں۔ آپؐ گئے اور اﷲ تعالیٰ نے پچاس میں دس کی کمی کر کے چالیس نمازوں کا حکم دیا۔ مگر واپسی پر حضرت موسیٰ نے پھر روکا اور کہا کہ یہ بھی بہت زیادہ ہیں آپ واپس جاکر مزید رعایت مانگیں۔ اس پر آپؐ پھر گئے اور دس کی مزید رعایت منظور ہوئی۔ غرض اس طرح حضرت موسیٰ ؑکے مشورہ پر آپؐ بار بار خدا کے دربار میں گئے اور بالآخر اﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا حکم دیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے آپؐ کو پھر روکا اور مزید رعایت کے لیے واپس جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مَیں بنی اسرائیل کو دیکھ چکا ہوں اور وہ اس سے بھی کم عبادت کو نباہ نہیں سکے، مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اب مجھے واپس جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس پر غیب سے آواز آئی۔ ’’اے محمد! یہ پانچ نمازیں بھی ہیں اور پچاس بھی کیونکہ ہم نے ایک نماز کے بدلے میں دس کا اَجر مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح ہمارے بندوں سے تخفیف بھی ہو گئی اور ہمارا اصل حکم بھی قائم رہا۔ اس کے بعد جب آپؐ مختلف آسمانوں میں سے ہوتے ہوئے نیچے اُترے تو آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ (یعنی یہ کشف کی حالت جاتی رہی) اور آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ اسی طرح مسجدِ حرام میں لیٹے ہوئے ہیں۔ ۱؎
بعض روایتوں میں معراج ہی کے ذکر میں ایک گھوڑے کی قسم کی سواری براق نامی کا لایا جانا اور آپؐ کا اس پر سوار ہو کر یہ سفر طے کرنا اور آپؐ کے سامنے دو یا تین دُودھ اور شراب وغیرہ کے پیالوں کا پیش کیا جانا وغیرہ بیان ہوا ہے۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظارے دراصل اسراء کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جیسا کہ بعض متقدمین کی بھی رائے ہے۔ ۲؎ راویوں کی غلطی سے معراج کے ذکر میں مخلوط ہو گئے ہیں۔ واﷲ اعلم
دوسرا واقعہ اسراء کا ہے۔ اسراء بھی ایک عربی لفظ ہے جس کے معنے کسی کو رات کے وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا سفر کرانے کے ہیں۔ چونکہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو یہ روحانی سیر رات کے وقت کرائی گئی تھی، اس لیے اس کا نام اسراء رکھا گیا ۔ اسراء کے متعلق جو ذکر قرآنِ شریف میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ:
۱؎ ۲؎
’’یعنی پاک ہے وہ خدا جو اپنے بندے کو ایک رات کے دوران میں مسجدِ حرام سے لے کر مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اپنے اس بندے کو اپنے بعض نشانات دکھاویں۔ بے شک خدا بہت سُننے والا اور دیکھنے والا ہے … یہ وہی موقع تھا جب اے رسول ہم نے تجھے یہ کہا کہ تیرے ربّ نے اب لوگوں کو گھیر لیا ہے اور جو رؤیا ہم نے تجھے دکھائی وہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش تھی۔‘‘
اور حدیث میں جو تفصیلات اسراء کے واقعہ کی بیان ہوئی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’ایک رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک خدائی فرشتہ آپؐ کے پاس آیا اور ایک گدھے سے بڑا مگر خچر سے چھوٹا جانور بُرَاق نامی جو نہایت خوبصور ت سفید رنگ لمبے جسم کا تھا آپؐ کے سامنے پیش کر کے اس پر آپؐ کو سوار کیا اور پھر آپؐ کو ساتھ لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس جانور کا قدم اس تیزی کے ساتھ اٹھتا تھا کہ ہر قدم نظر کی انتہائی حد تک لے جاتا تھا اور آپؐ بہت جلد بیت المقدس میں پہنچ گئے۔ یہاں آپؐ نے اس جانور کو اس حلقہ میں باندھ دیا جہاں گذشتہ انبیاء اسے باندھا کرتے تھے اور پھر آپؐ مسجد میں تشریف لے گئے۔ یہاں گذشتہ انبیاء کی ایک جماعت جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السّلام خاص طور پر مذکور ہوئے ہیں، پہلے سے موجودتھی۔ آپؐ نے ان انبیاء کے ساتھ مل کر نماز پڑھی جس میں آپؐ امام ہوئے اور باقی انبیاء مقتدی بنے۔ اس کے بعد جبرائیل نے (کیونکہ یہ فرشتہ جبرائیل تھا) آپؐ کے سامنے دو پیالے پیش کئے۔ ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ آپؐ نے دُودھ کا پیالہ لے لیا اور شراب ردّ کر دی۔ جس پر جبرائیل نے کہا آپ نے فطرت کی بات پہچان لی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی اُمّت بھٹکتی پھرتی۔ ۱؎
اور بعض دُوسری روایتوں میں اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ:
’’جب حضرت جبرائیل ؑ آپؐ کے سامنے بُرَاق لائے اور آپؐ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ کچھ چمکا جس پر جبرائیل ؑ نے بُرَّاق سے کہا۔ بُرَاق ٹھہرو ٹھہرو۔ واﷲ آج تک تم پر کوئی اس شان کا شخص سوار نہیں ہوا۔ اس پر بُرَاق شرم سے پسینہ پسینہ ہو کر خاموش کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد آپّ اس پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل کے ساتھ بیت المقدس کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ میں آپؐ کو ایک بڑھیا ملی جسے دیکھ کر آپؐ نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جبرائیل نے کہا آگے چلئے آگے چلئے۔ جب آپؐ آگے روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کو راستہ کے ایک طرف سے کسی نے آواز دے کر بلایا کہ محمد ادھر آؤ۔ مگر جبرائیل نے آپؐ سے پھر کہا۔ چلئے آگے چلئے۔ جب آپؐ آگے آئے تو کچھ دیر کے بعد آپؐ کو راستہ میں چند آدمیوں کی ایک جماعت ملی جنہوں نے ان الفاظ میں آپؐ کو سلام کہا کہ ’’اے اوّل تجھ پر خدا کا سلام ہو۔ اے آخر تجھ پر خدا کا سلام ہو۔ اے حاشر (یعنی جمع کرنے والے) تجھ پر خدا کا سلام ہو۔‘‘ جبرائیل نے کہا آپؐ بھی ان کے سلام کا جواب دیں؛ چنانچہ آپؐ نے بھی انہیں سلام کہا اور پھر آگے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر یہی جماعت آپؐ کو راستہ میں ملی اور پھر انہی الفاظ میں سلام کہا اور کچھ وقفہ کے بعد پھر تیسری دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد آپؐ بیت المقدس میں پہنچ گئے۔ یہاں جبرائیل نے آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کئے۔ ایک میں پانی تھا۔ دوسرے میں شراب تھی اور تیسرے میں دُودھ تھا۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور باقی دونوں ردّ کر دیئے۔ جبرائیل نے کہا۔ آپ نے فطرت کی بات اختیار کی ہے۔ اگر آپ پانی لیتے تو آپ کی اُمّت غرق ہو جاتی اور اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت بھٹکتی پھرتی۔ پھر آپؐ کے سامنے حضرت آدم ؑ اور ان کے بعد کے انبیاء لائے گئے اور آپؐ نے ان کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد جبرائیل نے آپ سے کہا کہ وہ جو آپ نے راستہ میں بڑھیا دیکھی تھی وہ دنیا تھی اور دنیا کی عمر میں اب صرف اسی قدر وقت باقی رہ گیا ہے جو اس بڑھیا کی عمر میں باقی رہتا ہے اور وہ جو آپ کو کوئی شخص راستہ کے ایک طرف بُلاتا تھا وہ شیطان تھا جو آپ کو راستہ سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا اور وہ جو آپ کو آخر میں ایک جماعت ملی تھی اور اُنہوں نے آپ کو سلام کہا تھا وہ خدا کے رسُول حضرت ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام تھے۔ اس کے بعد آپؐ مکّہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ ۱؎
یہ وہ واقعات ہیں جو معراج اور اسراء میں آنحضرت صلی ا ﷲعلیہ وسلم کو پیش آئے اور جو شخص ان واقعات کو غور سے مطالعہ کرے گا وہ ان کی غرض و غایت کے متعلق کبھی بھی شک و شُبہ میں نہیں رہ سکتا۔ خصوصاً جب کہ اس بات کو مدِّ نظر رکھا جائے کہ یہ واقعات ظاہر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ نہایت اعلیٰ قسم کے کشوف تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدائی تصرّف کے ماتحت دکھائے گئے۔ یہ بات تو ادنیٰ مطالعہ سے بھی ظاہر ہے کہ معراج اور اسراء دونوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ارفع شان اور آپؐ کی اُمّت کے مرتبہ کی بلندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ علاوہ اَور اشارات کے دونوں کشوف میں آپؐ کا گذشتہ انبیاء سے ملنا اور اُن سے آگے نِکل جانا یا نماز میں ان کا امام بننا اسی حقیقت کا حامل ہے۔ ان کشوف میں بعض انبیاء کا خاص طور پر آپؐ کی ملاقات کے لیے منتخب کیا جانا بھی اپنے اندر ایک معنی رکھتا ہے۔ دراصل یہ انبیاء وہی ہیں جن کی اُمتوں سے یا تو آپؐ کی اُمّت کو خاص طور پر واسطہ پڑنے والا تھا اور یا یہ انبیاء بعض خاص صفات کے حامل تھے اور ان کشوف میں اس حقیقت کا اظہار مقصود تھا کہ آپؐ کا وجود ان انبیاء کی مخصوص صفات میں بھی ان سے بالا و ارفع ہے۔ اُمتوں کے تعلق کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ اور ایک جہت سے حضرت ابراہیم اور حضرت آدم علیہم السلام خاص امتیاز رکھتے ہیں اور اسی لیے اسراء اور معراج دونوں میں ان انبیاء کو خاص طور پر نمایاں کر کے دکھایا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑتو مسیحی اقوام کے مرکزی نقطہ تھے جو اُس زمانہ میں بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل کر چکی تھیں۔ حضرت موسیٰ ؑنہ صرف یہودیت کے بانی مبانی تھے جن کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عنقریب واسطہ پڑنے والا تھا بلکہ وہ ایک ایسی شریعت کے لانے والے تھے جو اپنی تدوین اور تعیین اور الہامی نوعیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کے ساتھ بہت قریب کی مشابہت رکھتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ وسیع شامی اقوام کے جدِّ امجد ہونے کے علاوہ مسیحیت اور یہودیت اور حنیفیت اور اسلام کے لیے ایک مشترک واجب الاحترام ہستی تھے اور بالآخر حضرت آدم کا وجود تھا جو گویا تمام بنی نوع آدم کا اجتماعی نقطہ تھا۔ اس جہت سے معراج اور اسراء میں ان انبیاء کا مخصوص طور پر چُنا جانا صاف طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود باجود میں وہ عظیم الشان ہستی مبعوث ہوئی ہے جو سیّدِ وُلدِ آدم اور فخر اوّلین و آخرین ہے اور خُدا کی طرف سے یہ مقدّر ہو چکا ہے کہ آپؐ کی اُمّت کا قدم ان سب اُمتوں پر بالا و ارفع رہے۔ حضرت موسیٰ ؑچونکہ ایک خاص سلسلہ کے بانی ہونے کی وجہ سے ان رموز سے زیادہ آشنا تھے۔ اُنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس پروازِ رُوحانی کی حقیقت کو فوراً سمجھ لیا اور اِس طبعی رشک کی وجہ سے جو فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے (نہ کہ کسی حَسد کی بنا پر) اِس انکشاف نے انہیں وقتی طور پر غم میں ڈال دیا کہ ایک پیچھے آنے والا نوجوان اُن سے آگے نِکلا جارہا ہے۔ اسراء میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا راستہ پر کھڑے ہو کر آپؐ کو اوّلؔ اور آخرؔ اور حاشرؔ کہہ کر پُکارنا اور سلام کرنا بھی اپنے اندر یہی لطیف اشارہ رکھتا ہے کہ ’’اے نبیوں کے سرتاج ہم پہچان گئے ہیں کہ گو آپؐ سب انبیاء کے آخر میں مبعوث ہوئے ہیں مگر رُتبہ کے لحاظ سے آپؐ ہی سب سے اوّل ہیں اور آپؐ ہی نسلِ آدم کا وہ مرکزی نقطہ ہیں جس کے قدموں میں مختلف اقوامِ عالم کا جمع ہونا مقدّر کیا گیا ہے۔ ۱؎ پس لیجئے ہماری طرف سے سلام اور دُعا کی پیش کش حاضر ہے اسے قبول کیجئے۔‘‘
مندرجہ بالا غرض و غایت کے اظہار کے علاوہ جو معراج اور اسراء ہر دو میں مقصود ہے ان رُوحانی سفروں کی علیحدہ علیحدہ غرض اور علیحدہ علیحدہ تشریح بھی ہے اور جہاں تک ہم نے غور کیا ہے وہ یہ ہے کہ معراج تو زیادہ تر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رُوحانی کمالات کے اظہار کے لیے ہے اور اسراء آپؐ کی ظاہری اور دنیوی ترقی کو ظاہر کرنے کے واسطے ہے۔ اسی لیے جہاں معراج کے واسطے آسمان کو چُنا گیا اسراء کا آخری نقطہ زمین رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جہاں معراج میں آپؐ کا بغیر کسی سواری اور بغیر کسی ظاہری اور مادی واسطہ کے اُوپر اُٹھایا جانا بیان ہوا ہے وہاں اسراء میں بُراق کی سواری کا واسطہ رکھا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ آپؐ کی اور آپؐ کے اتباع کی دنیوی اور ظاہری ترقی میں مادی اسباب کا بھی دخل ہو گا گو جیسا کہ بُراق کی غیر معمولی رفتار میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ مادی اسباب محض ایک پَردہ کے طور پر ہوں گے اور اصل سبب وہ غیبی تائید ہو گی جو ہر قدم پر آپؐ کے ساتھ رہے گی۔ معراج میں آپؐ کا سب نبیوں سے آگے نِکل جانا اس بات کی طرف اشارہ رکھتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپؐ اپنے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بالا اور اَرفع ہیں اور نہ صرف یہ کہ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت اپنے رُوحانی کمالات میں سب شریعتوں سے فائق و برتر ہے بلکہ آپؐ کے فیضانِ روحانی میں وہ خصوصیت رکھی گئی ہے جو پہلے کِسی بشر کو حاصل نہیں ہوئی یعنی آپؐ کی سچی اور کامل پیروی انسان کو بلند ترین رُوحانی مدارج تک پہنچا سکتی ہے اور کوئی رُوحانی مرتبہ ایسا نہیں ہے جہاں تک آپؐ کی پیروی کی برکت سے انسان نہ پہنچ سکتا ہو۔ آپؐ سے پہلے جتنے بھی نبی آئے وہ بیشک اپنے متبعین کے لیے سراسر رحمت و برکت بن کر آئے اور بیشک اُنہوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے خدائی انعامات کے دروازے کھولے ، لیکن آپؐ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس کی پیروی انسان کو انتہائی کمالات تک پہنچانے کے لیے کافی ہو اور اسی لیے پہلی اُمّتوں میں اﷲ تعالیٰ کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی شخص کسی نبی کی کامل پیری کے نتیجہ میں ترقی کر کے اس انتہائی رُوحانی حد تک پہنچ جاتا تھا جہاں تک یہ پیروی اُسے لے جاسکتی تھی تو اس کے بعد اگر یہ شخص اپنی استعداد اور شوق اور کوشش کے لحاظ سے مزید رُوحانی ترقی کے قابل ہوتا تھا تو خدا تعالیٰ اُسے براہِ راست مَوہبَت اور انعام کے رنگ میں اُوپر اُٹھا لیتا تھا جس میں اس کے نبیٔ متبوع کی پیروی کا کوئی دخل نہیں ہوتاتھا، لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ اعلیٰ اور اَرفع مقام ہے کہ ایک انسان آپؐ کی اتّباع میں ہی جُملہ قسم کے رُوحانی مقامات تک پہنچ سکتا ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے کہ جس کی طرف آپؐ کی اس رُوحانی پرواز میں اشارہ کیا گیا ہے جو معراج کے سفر میں آپؐ کو کرائی گئی اور اسی حقیقت کی طرف قرآن شریف کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ:
۔ ۱؎
’’یعنی ’’محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) صرف ایک رسول ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ ‘‘ جن کی مُہرِ تصدیق سے انسان کو ہر قسم کے اعلیٰ ترین رُوحانی انعامات مِل سکتے ہیں اور کوئی رُوحانی مرتبہ آپؐ کے اَتْباع کی رسائی سے باہر نہیں ہے۔
معراج میں جن نبیوں کے ساتھ آپؐ کی ملاقات ہوئی وہ یہ ہیں:
حضرت آدم ، حضرت عیسیٰ ، حضرت یحیٰ ؔ ، حضرت یوسفؔ، حضرت ادریسؔ ، حضرت ہارونؔ ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السّلام۔
ان آٹھ نبیوں میں سے دو تو صرف ایک ضمنی تعلق کی وجہ سے اس نظارہ میں آئے ہیں۔ یہ دو نبی حضرت یحییٰ ؑاور حضرت ہارون ؑہیں جن میں سے مقدّم الذکر نبی حضرت عیسیٰ کے خالہ زاد بھائی ہونے کے علاوہ اُن کے لیے بطور ارہاص کے بھی تھے اور مؤخر الذکر نبی حضرت موسیٰ ؑکے نائب تھے اور بھائی بھی تھے۔ پس اس جسمانی اور روحانی تعلق کی وجہ سے یہ دو نبی اس نظارہ میں شامل کئے گئے۔ لیکن ایک لطیف بات یہ ہے کہ جہاں حضرت یحییٰ کو بوجہ جُدا اور علیحدہ حیثیت رکھنے کے حضرت عیسیٰ کے ساتھ رکھا گیا وہاں حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ ؑکی ماتحتی کی وجہ سے ان سے نیچے کے مگر متصل آسمان میں دکھایا گیا۔ باقی جو چھ انبیاء ہیں اُن میں سے حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت آدم ؑکی خصوصیت اوپر بیان ہو چکی ہیں کہ وہ اپنی اپنی نسل اور اپنی اپنی اُمّت کے نمائندوں کی حیثیت میں دکھائے گئے ہیں اور بقیہ دو انبیاء یعنی حضرت یوسف ؑ اور حضرت ادریس ؑ کی خصوصیت خود حدیث میں اس طرح مذکور ہے کہ حضرت یوسف اپنے خداداد حُسنِ ذاتی کی وجہ سے اور حضرت ادریس ؑ اپنے مخصوص علّوِ مکانی کی وجہ سے ممتاز تھے۔۱؎ اور انہیں اس نظارہ میں لا کر یہ اظہار مقصود تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا قدم ان امتیازی خصائص رکھنے والے نبیوں سے بھی ان کے امتیازی خصائص میں بالا اور اَرفع ہے۔ واﷲ اعلم
معراج کا ایک نظارہ اس خاص تجلی سے تعلق رکھتا ہے جو سِدرۃ المنتہیٰ پر ہوئی جس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کے بیان کی الفاظ میں طاقت نہیں ہے سو اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قربِ الٰہی کی طرف اشارہ تھا جس میں محب و محبوب میں جلوہ ہائے خاص کی نیر نگیوں کا ظہور ہوا جس کے بیان کی کوشِش تو درکنار اس کے علم کی کوشش بھی بے سُود ہے؛ البتہ یہ ظاہر ہے کہ اس نظارہ میں آپؐ نے خُدا کی ان خاص اور ممتاز تجلیات کا مشاہدہ کیا جن کے دیکھنے کی طاقت صرف اس مقام پر پہنچ کر ہی حاصل ہو سکتی ہے جو آپؐ کو حاصل ہوا۔ سِدرہ کے نیچے چار دریاؤں کو بہتے دیکھنا جن میں دو ظاہری دریا تھے اور دو باطنی، اس غرض کے اظہار کے لیے تھا کہ خدا کی یہ تجلیات ہر دو صورتوں میں اثر انداز ہوں گی۔ ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ رُوحانی طور پر بھی اور دنیوی رنگ میں بھی۔ اور چار کے عدد میں یہ اشارہ تھا کہ آپؐ کی اُمت پر ظاہری اور رُوحانی ترقی کے دو۲ دو۲ دور آئیں گے۔ ایک دَور ان ہر دو قسم کی تجلیات کا خود آپّ کے وجودِ باجود سے شروع ہو گا اور ایک بعد کے زمانہ میں آئے گا۔ جب کہ مسلمان اپنے درمیانی زمانہ میں گِر کر پھر دوبارہ اُٹھیں گے اور اس طرح ہر دور میں دو۲ دو۲ تجلیات کا ظہور ہو کر چار نہریں مکمل ہو جائیں گی۔
بالآخر پنجگانہ نماز کے فرض کئے جانے کا نظارہ ہے۔ اس کا ایک حِصّہ تو ظاہر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تعبیر سے خارج ہے، لیکن پچاس سے پانچ تک کی کمی کا منظور ہونا ایک نہایت لطیف رُوحانی نظارہ ہے جس میں اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ اصل تعداد جو فرض کی جانیوالی تھی وہ پانچ ہی تھی مگر ساتھ ہی یہ مقدّر تھا کہ ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس کے برابر ملے گا ، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا تھا کہ اُمّتِ محمدیہ کو ان کی نیکیوں کا بدلہ بڑھ چڑھ کر عطا کیا جائے، اس لیے یہ نمازیں ابتداء میں پچاس کی صُورت میں فرض کی گئیںاور پھر ایک لطیف رنگ میں جس میں ضمنی طور پر اﷲ تعالیٰ کی شفقت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رأفت کا اظہار بھی مقصود ہے یہ تعداد گھٹا کر پانچ کر دی گئی اور باتوں باتوں میں مُسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ تمہارے متعلق یہ اندیشہ کیا گیا ہے کہ تم ان پانچ نمازوں کی ادائیگی میں بھی سُستی نہ دکھاؤ۔ اس لیے دیکھنا تم اس میں سُست نہ ہونا۔ ان حقائق کے علاوہ معراج میں اور بھی بہت سے اشارات تھے مگر ایک تاریخی مضمون میں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں نکالی جاسکتی۔
اسراء کا واقعہ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے اس تعلق کی طرف اشارہ کرنے والا تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپّ کی اُمّت کو عنقریب دُوسری اُمتوں کے ساتھ پڑنے والا تھا۔ نیز اس میں اُن آزمائشوں پر متنبہّ کرنا مقصود تھا جو آپؐ کے متبعین کو ان کی ترقی کے زمانہ میں پیش آنے والی تھیں۔ اس واقعہ میں سب سے پہلا اشارہ یہ تھا کہ اب جو اسلام پر ایک تنگی کا زمانہ ہے اسے ہم عنقریب دُور کر دیں گے اور مصائب کی موجودہ تاریکی دن کی روشنی میں بدل جائے گی۔ چنانچہ آیت اسراء میں ’’رات‘‘ کا لفظ استعمال کیاجانا اسی حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کیونکہ تصویری زبان میں تنگی اور مصیبت کا زمانہ رات کے وقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر اس سفر کی ابتداء اور انتہا کے لیے مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کے الفاظ کا بیان کیا جانا اس غرض سے ہے کہ اے مُسلمانو! اب تک تمہارا واسطہ صرف قدیم عربی مذہب و تمدّن کے ساتھ رہا ہے جس کا مرکز مسجدِ حرام ہے لیکن اب وقت آتا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی تمہارا واسطہ پڑے گا اور تمہاری توجہ کا مرکز مسجدِ حرام سے وسیع ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی مرکز بیت المقدس تک جاپہنچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہجرت کے بعد اسلام کا محاذ غیر معمولی طور پر وسیع ہو کر یہودیت اور مسیحیت کے مقابل پر آگیا اور اسراء میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
اس کے بعد بُرَاق کی سواری کا منظر ہے جس کے متعلق اوپر اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اس سے یہ مُراد تھی کہ جو مقابلہ دُوسری قوموں کے ساتھ مُسلمانوں کو پیش آنیوالا ہے اس میں بیشک مُسلمانوں کی کامیابی بظاہر مادی اسباب کے ماتحت نظر آئے گی مگر ان اسباب میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی طاقت ودیعت کی جائے گی جس مین ان نتائج کو جو خدا پیدا کرے گا ان کے ظاہری اسباب سے کوئی نسبت نہیں ہوگی اور مُسلمانوں کی سواری گویا بجلی کی طرح اُڑتی ہوئی آگے نِکل جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تیسرے اس رُوحانی نظارہ میں یہ اشارہ تھا کہ مُسلمانوں کے لیے جس نئے ماحول کا دروازہ کھولا جارہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس میں اسلام کے لیے ہر قسم کی برکات رکھی ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔۔ ۱؎ یعنی ہم نے اس نئے میدان کے ماحول کو تمہارے لیے بابرکت بنایا ہے۔‘‘ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا کہ عرب اور اہلِ عرب کی حدود سے باہر نکل کر اسلام نے ایسا محسوس کیا کہ گویا یہ ماحول پہلے سے ہی انہی کے لیے تیار کیا جا چکا تھا اور اس محاذ میں اسلام کی غیر معمولی فتوحات پہلے سے مقدّر تھیں۔ دورانِ سفر میں جو نظارے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھائے گئے ان کی تشریح تو خود کشف کے اندر موجود ہے کہ ان فتوحات کے زمانہ میں مُسلمانوں کو دُنیا کے اموال و اَمْتِعَہ اپنی طرف کھینچیں گے مگر گو یہ دُنیا کی نعمتوں کا پانی پینے کی حد تک بے شک استعمال کیا جائے لیکن چونکہ اس کی کثرت غرق کر دینے کا سامان بھی اپنے ساتھ رکھتی ہے اس لیے مُسلمانوں کو اس کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ ابلیس کا نظارہ عقیدہ کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا مجسمہ ہے اور مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی فاتحانہ یلغار میں انہیں شیطانی طاقتیں جاوۂ صواب سے منحرف نہ کر دیں۔ پھر نبیوں کی ملاقات ہے جو اپنے اندر برکت اور سلام کے پیغام کے علاوہ یہ معنی بھی رکھتی ہے کہ آئندہ فتوحات میں دُنیا کی قومیں اسلامی برکات سے مُتمتّع ہو کر اس کی برتری کا سکّہ مانیں گی۔ چنانچہ یہ ایک تاریخ کا کھلا ہوا وَرق ہے کہ یورپ و امریکہ کی موجودہ بیداری اسلام ہی کے ساتھ واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں ہے۔ ورنہ اسلام سے قبل یہ سب قومیں جہالت کی نیند سو رہی تھیں اور یورپ کے غیر متعصّب محققین نے اسلام کے اس فیض وبرکت کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا ہے اوراس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغرب نے علومِ جدیدہ کا پہلا سبق اسلام ہی سے سیکھا ہے۔۲؎ بالآخر بیت المقدس میں پہنچ کر آپّ کی اقتداء میں گذشتہ نبیوں کے نماز پڑھنے کا نظارہ ہے۔ مگر یہ نظارہ ایسا ہے جو خود اپنی آپ تفسیر ہے جس کے لیے کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اسراء میں بعض اور حقائق بھی ہیں مگر ہم اختصار کے خیال سے صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
الغرض معراج اور اسراء آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دو نہایت اعلیٰ درجہ کے کشوف تھے جن میں آپ کو آپؐ کی اور آپؐ کی اُمّت کی آئندہ فتوحات اور ترقیوں کے نظارے دکھائے گئے اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ کشوف خدا کی طرف سے تھے کیونکہ ان میں آپؐ کو جو کچھ دکھایا گیا اسی طرح وقوع پذیر ہوا اور اب تک ہو رہا ہے اور آئندہ ہو گا۔ اب دیکھو کہ اس عظیم الشان پہلو کے مقابلہ پر محض ظاہری اور جسمانی سفر کو کیا حقیقت حاصل ہے۔ اگر ان سفروں کو ظاہری جسمانی سفر قرار دیا جائے تو اس سے زیادہ اس کے معنے نہیں بنتے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کے ماتحت آپؐ کو ایک خارقِ عادت رنگ میں جسمانی طور پر مکّہ سے اُٹھا کر بیت المقدس تک پہنچا دیا اور زمین سے اُٹھا کر آسمانوں کی سیر کرادی۔ یہ بیشک ایک بہت پُر لطف اور مقتدرانہ نظارہ سمجھا جاسکتا ہے مگر اسے اس عظیم الشان حقیقت سے جو ان رُوحانی مناظر میں مخفی ہے جس کا دامن ہجرتِ یثرب سے لے کر گویا قیامت تک پھیلا ہوا ہے کچھ دُور کی بھی نسبت نہیں۔ مگرافسوس ہے کہ خود مُسلمان کہلانے والوں کا ایک طبقہ بھی اسے ایک عجوبہ نمائی سے زیادہ حیثیت نہیں دینا چاہتا؛ حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان روحانی مناظر میں اس کے بڑے بڑے نشانات مخفی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس قسم کے کشوف کم و بیش سبھی انبیاء کو ہوتے آئے ہیں اور سارے نبیوں کو ہی اُن کی اُمتوں کے آئندہ حالات کافی الجملہ نظارہ کرایا جاتا رہا ہے اور اسی لئے بعض صُوفیا نے لکھا ہے کہ معراج بھی ہر نبی کو ہوا ہے اور حضرت موسیٰ ؑکے کشفِ رُوحانی کا ذکر تو خود قرآن شریف ۱؎ میں بھی آتا ہے مگر ’’فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو نظارہ دکھایا گیا اور جو معراج آپؐ کو نصیب ہوا وہ اپنی بلندی اور اپنی وسعت اور اپنے گوناگوں کوائف میں ایک ایسی اَرفع شان رکھتا ہے جو کسی دُوسرے کو حاصل نہیں۔اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
معراج اور اسراء کے وقوع کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے مگر روایات کا کثیر حِصّہ اِس طرف گیا ہے کہ یہ نظارے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہجرتِ یثرب سے کچھ عرصہ پہلے دکھلائے گئے تھے اور کم از کم اسراء کے کشف کی جو تشریح ثابت ہوتی ہے وہ اسی خیال کی مؤید ہے کہ اسراء کا کشف ہجرت کے قریب ہی ہوا تھا اور امام بخاری نے بھی جن کا پایہ روایت میں بہت بلند مانا گیا ہے اسراء اور معراج کو ہجرت کے واقعات سے معاً پہلے لکھا ہے۔ ۲؎ پس اکثر مؤرخین کا یہ خیال دُرست معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج ہجرت سے کم و بیش ایک سال پہلے وقوع پذیر ہوئے اس طرح ان کا زمانہ ۱۲ نبوی یا ابتداء ۱۳ قرار پاتا ہے۔ اور اسراء کے متعلق تو یقینا یہی صحیح ہے گو معراج کا واقعہ غالباً اس سے پہلے کا ہے۔ ان کی آپس کی ترتیب کے متعلق بھی مؤرخین میں اختلاف ہے۔ جو لوگ ان دونوں سفروں کو ایک ہی سفر یا ایک ہی سفر کے دو حصے قرار دیتے ہیں اُنہوں نے بالعموم اسراء کو پہلے اور معراج کو بعد میں رکھا ہے کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ پہلے آپ مکّہ سے بیت المقدس تک گئے اور پھر وہاں سے آسمانوں کی طرف اُٹھائے گئے لیکن ہم ثابت کر چکے ہیںکہ یہ خیال دُرست نہیں ہے بلکہ اسراء اور معراج جُدا جُدا چیزیں ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو جُدا گانہ چیزیں ماننے والوں کے درمیان بھی ان کی ترتیب کے متعلق اختلاف ہے۔ ابنِ اسحاق نے اسراء کو پہلے رکھا ہے اور معراج کو بعد میں ۱؎ اور اس خیال کی تائید بخاری سے بھی ہوتی ہے جس میں اسراء اور معراج کے الگ الگ باب باندھ کر اسراء کو معراج سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ ۲؎ مگر ابنِ سعد نے صراحت کے ساتھ اس کے خلاف رائے ظاہر کی ہے اور معیّن تاریخیں بیان کر کے معراج کو اسراء سے پہلے رکھا ہے؛ چنانچہ ابنِ سعد نے معراج کی تاریخ رمضان ۱۲ نبوی بیان کی ہے اور اسراء کی ربیع الاوّل ۱۳ ۳؎ اور طبری کا بھی اسی طرف میلان نظر آتا ہے کہ معراج کا واقعہ اسراء سے پہلے کا ہے کیونکہ طبری نے معراج کو ابتداء دعویٰ میں رکھا ہے۔ ۴؎ ہم ان تاریخوں کی تحقیق میں تو نہیں گئے مگر واقعات کے تفصیلی مطالعہ سے ہم اس طرف ضرور مائل ہیں کہ معراج کا واقعہ اسراء سے پہلے ہوا تھا۔ واﷲ اعلم۔
پنجگانہ نماز کا فرض ہونا
معراج سے پہلے اسلام میں نماز کا آغاز تو ہو چکا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں ہی آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم اور آپؐ کے
اصحاب مکّہ کی گھاٹیوں میں اکیلے اکیلے یا ایک ایک یا دو دو مل کر نماز پڑھا کرتے تھے مگر باقاعدہ صورت میں پانچ وقت کی نماز کا آغاز معراج میں ہوا اور اس وقت سے اسلامی عبادات کا پہلا اور سب سے بڑا رکن اپنی موجودہ صورت میں قائم ہو گیا۔ یعنی اوّل پَوپھٹنے کے بعد مگر سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ دُوسرے سورج ڈھلنے کے بعد مگر اس کے زیادہ نیچے ہونے سے پہلے ظہر کی نماز۔ تیسرے سورج کے نیچے ہو جانے کے بعد مگر روشنی دھیمی پڑنے سے پہلے عصر کی نماز۔ چوتھے سورج کے ڈوبنے کے بعد مگر شفق غائب ہونے سے پہلے مغرب کی نماز۔ پانچویں شفق غائب ہونے کے بعد مگر نصف شب سے پہلے عشاء کی نماز۔ ان پانچوں فرض نمازوں کے اوقات کے متعلق گو قرآن شریف نے صرف ایک اجمالی اشارہ کیا ہے۔ ۵؎ مگر حدیث میں صراحت کے ساتھ ان کی تعیین بیان ہوئی ہے۔ جہاں یہ مذکور ہے کہ معراج کے بعد حضرت جبرائیل ؑ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آکر پانچوں نمازوں کے اوقات بالتفصیل سمجھائے۔ ۶؎
اسلامی نماز کی ظاہری شکل و صورت جو خدائی حکم کے ماتحت قائم کی گئی ہے یہ ہے کہ نماز کی ابتداء قیام کی حالت سے ہوتی ہے۔ جبکہ نماز پڑھنے والا اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ کر خُدا کے سامنے مؤدّبانہ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد رکوعؔ کی حالت ہے جو گویا خُدا کی تعظیم اور بندے کے تذلُّل کا دُسرا درجہ ہے جبکہ نماز پڑھنے والا قیامؔ کی حالت کو چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کے سامنے دوہرا ہو کر جھُک جاتا ہے۔ تیسریؔ حالت سجدہؔ کی ہے جو ایک درمیانی قیام کے بعد آتی ہے جبکہ نماز پڑھنے والا انتہائی عاجزی اور تذلّل کی صورت میں خدا کے سامنے زمین پر گِر کر اپنی جبینِ نیاز اس کے آگے رکھ دیتا ہے اور چونکہ یہ حالت انتہائی تذلّل اور تعبّد کی حالت ہے، اس لیے اسے ایک درمیانی وقفہ کے ساتھ دو دفعہ دہرایا جاتا ہے اور اس طرح نماز کی ایک رکعت پوری ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد اسی صورت میں دُوسری اور تیسری اور چوتھی رکعت پڑھی جاتی ہے اور آخر میں نماز پڑھنے والا قعدہؔ میں دوزانو بیٹھ کر جو گویا ایک مقرب اور تسکین یافتہ درباری کی کیفیت ہے، اپنی نماز کو تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ نماو کی ہر حالت یعنی قیامؔ اور رکوعؔ اور سجدہ اور قعدہ کے لیے علیحدہ علیحدہ کلمات جو ہر حالت کے مناسبِ حال دُعا اور تحمید اور تسبیح وغیرہ پر مشتمل ہیں مقرر کر دیئے گئے ہیں، مگر ساتھ ہی اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ علاوہ مقررہ کلمات کے نماز پڑھنے والا اپنی زبان میں بھی جس طرح مناسب خیال کرے نماز کے اندر دُعا اور تحمید اور تسبیح وغیرہ سے کام لے سکتا ہے۔ ۱؎ نماز میں اتحاد فی الصورت کی غرض سے یہ پابندی بھی لگائی گئی ہے کہ خواہ کوئی مسلمان کسی جگہ ہو وہ کعبہ کی طرف مُنہ کر کے نماز ادا کرے۔ ۲؎ اور سوائے کسی ناگزیر مجبوری کے یہ بھی لازمی ہے کہ ایک محلہ یا گاؤں یا قصبہ کے سب مسلمان مقررہ اوقات میں مسجد میں جمع ہو کر یا اگر مسجد نہ ہو تو کسی دوسری جگہ میں اکٹھے ہو کر ایک امام کی اقتداء میںنماز ادا کیا کریں تاکہ ان کی اجتماعی زندگی کا شیرازہ بجائے منتشر ہونے کے دن بدن مضبوط ہوتا چلا جاوے۔ نماز میں نشاط کی کیفیت پیدا کرنے اور خدا کے دربار میں صفائی کی حالت میں پیش ہونے کی غرض سے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ نماز سے پہلے ہر مُسلمان کو چاہئے کہ اپنے جسم کی ہر سہ اطراف کو یعنی مُنہ ہاتھ اور پاؤں کو پانی سے دھو لیا کرے۔۳؎ اس عمل کو اسلامی اصطلاح میں وضو کہتے ہیں جو گویا نماز کی اغراض کے لیے غسل کا قائم مقام ہے۔
الغرض معراج کے ساتھ اسلامی عبادات کے سب سے بڑے رُکن کا قیام عمل میں آیا اور پانچ وقت کی باقاعدہ نماز کا آغاز ہو گیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے جس میں وہ خدا کے حضور میں حاضر ہو کر اس سے باتیں کرتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اگر نماز کو اس کے جُملہ شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے اور دِل کی توجہ بھی اس کے ساتھ ہو تو وہ ذاتِ باری تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے لیے ایک بہترین کیفیت کی حامل ہے۔ انسانی جسم اور رُوح میں فطری طور پر ایک ایسا رابطہ اور اتحاد رکھا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا چھوٹے سے چھوٹا تغیر بھی دُوسرے پر ایک گہرا اثر پیدا کرتا ہے۔ مثلاً جسم کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو فوراً روح بھی بے قرار ہونے لگتی ہے اور اگر رُوح کو کوئی صدمہ پہنچے تو اس کا فوری اثر جسم پر پڑتا ہے اور جسم میں بھی ساری کیفیات پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں جو خود جسم کو تکلیف پہنچنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ رُوح خوش ہو تو جسم پر بھی خوشی کے آثار تبسّم وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اگر روح مغموم ہو تو انسان کا چہرہ فوراً غم کا نقشہ پیش کرنے لگ جاتا ہے۔ الغرض جسم اور روح کے درمیان ایک فطری رابطہ اور اتحاد ہے جس کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے سے گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس لیے اسلامی شریعت میں کمال حکمت سے عبادت کا جسمانی نقشہ ایسا تجویز کیا گیا ہے جو انسانی رُوح میں تعبّد اور تذلّل کی کیفیات پیدا کرنے کے لیے اپنے اندر ایک طبعی خاصیّت رکھتا ہے؛ چنانچہ نماز میں قیامؔ اور رکوعؔ اور سجدہؔ اور قعدہؔ کی حالتیں اسی غرض و غایت کے ماتحت رکھی گئی ہیں کہ تا انسانی رُوح کے اندر ان جسمانی کیفیات کے مناسب حال رُوحانی کیفیات پیدا کی جائیں اور ہر حالت کے لیے جو دُعایا تحمید یا تسبیح کے الفاظ مقرر کیے گئے ہیں وہ بھی اس رُوحانی کیفیت کے مناسبِ حال تجویز کئے گئے ہیں جو ہر جسمانی کیفیت کے مقابلہ میں رُوح کے اندر پیدا کرنی مقصود ہے۔ مثلاً نماز میں سجدہ کی حالت میں جس میں انسان اپنا ماتھا زمین پر رکھ دیتا ہے انتہائی تعبّد اور تذلّل کی حالت ہے۔ اس لیے جو الفاظ سجدہ کی حالت میں پڑھنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی (میرا رب جو سب سے بالا و بلند ہے وہ عیبوں سے پاک اور سب کمزوریوں سے منزّہ ہے) وہ بھی خدا تعالیٰ کی بڑائی اور بزرگی کے سب سے زیادہ حامل ہیں تاکہ انسانی رُوح یہ محسوس کرے کہ میں جس ہستی کے سامنے سجدہ کر رہی ہوں وہ ایک ایسی برتر و بالا ہستی ہے کہ اس کے سامنے میرا یہی منصب ہے کہ انتہائی تعبدّ و تذلّل کے ساتھ اس کے آگے گِری رہوں۔ اس حساس کے پیدا ہوتے ہی انسانی رُوح قربِ الٰہی کی طرف بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ناممکن ہے کہ سجدہ کی حالت میں ایک انسان اپنی توجہ کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دل میں کوئی روحانی تغیر محسوس نہ کرے۔ البتہ جو لوگ نماز کو محض ایک رسم کے طور پر ادا کرتے ہیں اور دل کی توجہ ان کے ساتھ نہیں ہوتی ان کی رُوح بے شک نماز کے اعمال میں سے گذر کر بھی خالی کی خالی نکل آتی ہے کیونکہ ان کے عمل میں کوئی جان نہیں ہوتی اور بے جان عمل کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔
الغرض اس میں قطعاً کوئی شک نہیں ہے کہ نماز حقیقی معنوں میں مومن کی معراج ہے اور مسلمان اس مبارک عبادت پر جتنا بھی فخر کریں وہ تھوڑا ہے۔ یقینا نماز کے مقابلہ پر کسی مذہب کی کوئی عبادت نہیں ٹھہر سکتی کیونکہ جس طرح نماز میں جسم اور رُوح کی ان باریک درباریک کیفیات کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو تعبّد کے لیے ضروری ہیں وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتا۔ پھر نماز میں ان مختلف کیفیات کو جس ترتیب کے ساتھ رکھا گیا ہے وہ بھی فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ سب سے پہلے درجہ پر قیامؔ ہے اور یہ وہ کیفیت ہے جس میں سینہ پر ہاتھ باندھے ہوئے ایک مومن خُدا کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ اس کے بعد رکوعؔ ہے جو قیام اور سجدہ کے بین بین تعبّد و تذلّل کا ایک درمیانی مرتبہ ہے۔ اس کے بعد سجدہؔ ہے جس میں گویا انسانی رُوح اپنے خالق و مالک کی اعلیٰ اور کامل صفات کا مطالعہ کر کے اس کے سامنے بیتاب ہو کر زمین پر گر جاتی ہے سب سے آخر میں قعدہ ہے جو سجدہ کے بعد ایک سکون کی کیفیت ہے جس میں انسان تعبّد و تذلّل کے مراحل میں سے گذرکر گویا خدا کے تسلی یافتہ بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد نماز پڑھنے والا دونوں طرف مُنہ پھیر کر سلام کہتا ہے اور نماز سے فارغ ہو جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب اسے دنیا میں واپس جاکر دوسرے لوگوں تک بھی اس سلامتی کے پیغام کو پہنچانا چاہیئے جو اُس نے اپنے خُدا سے حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کی کوئی حالت بھی خاموشی کی حالت نہیں بلکہ ہر حالت کے ساتھ اس حالت کے مناسبِ حال دُعا اور تحمید اور تسبیح وغیرہ کے کلمات مقرر کر دیئے گئے ہیں تاکہ یہ مبارک کلمات جسم کی ظاہری حالت اور دل کی باطنی توجہ کے ساتھ مل کر ایک پورا اور حقیقی نقشہ تعبّد اور تذلّل اور سوال کا پیدا کر دیں۔ بھلا اس کامل و مکمل عبادت کے مقابلہ پر دُوسرے مذاہب کا گانا یا بجانا یا کسی غیر فطری حالت میں محض کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر کوئی الفاظ مُنہ سے کہہ دینا کیا حقیقت رکھتا ہے؟ اور پھر اسلام نے نماز کی عبادت کو ایک اجتماعی صورت دینے کے لیے ایک ضروری شرط یہ بھی قراردے دی ہے کہ ایک حلقہ کے سب مسلمان باہم مل کر ایک امام کے پیچھے باترتیب صفوں میں قبلہ رُخ کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کریں۔ اور ضمنی طور پر اس روزانہ پنجوقتہ اجتماع میں بہت سے دوسرے اجتماعی مفاد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا ہے۔ غرض وضو سے لے کر اپنے اختتام تک نماز ایک نہایت ہی بابرکت عبادت ہے جس سے بڑھ کر قربِ الٰہی کے حصول اور دل کی طہارت کے لیے کوئی دُوسری عبادت تصور میں نہیں آسکتی اور دن رات کے مختلف وقتوں میں پانچ نمازوں کا مقرر کیا جانا بھی اپنے اندر روحانی حفاظت اور روحانی تقویت کا ایک ایسا غیر معمولی سامان رکھتا ہے جویقینا کسی اور مذہب میںپایا نہیں جاتا۔
کیا اسلامی عبادتوں میں ظاہری شکل و صورت پر زیادہ زور دیا گیا ہے
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے اپنی عبادتوں میں ظاہری فارم یعنی شکل و صورت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے اور اس کے بغیر انہیں ناقص سمجھا ہے
اور اصل چیز جو دل کی کیفیت سے تعلق رکھتی ہے اور جو گویا عبادت کی رُوح سمجھی جانی چاہیئے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ بلکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ عبادت میں اصل چیز اس کی رُوح ہے اس لیے اس کے واسطے کسی ظاہری شکل و صورت کے مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہیں صرف دل کی توجہ کافی ہونی چاہیئے اور یہ کہ اسلام نے عبادت کی ایک فارم مقرر کر کے اور پھر اس پر ضرورت سے زیادہ زور دے کر اس کی اصل رُوح کو مٹا دیا ہے۔ یہ وہ اعتراض ہے جو آجکل اسلامی عبادتوں کے متعلق کیا جاتا ہے، لیکن غور کیا جائے تو یہ اعتراض بالکل فضول اور بودا ہے۔ یعنی نہ تو یہ خیال دُرست ہے کہ عبادت چونکہ دل کی توجہ کا نام ہے اس لیے عبادتوں میں کسی فارم یعنی ظاہری شکل و صورت کے مقرر کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ یہ دُرست ہے کہ اسلام نے عبادت کی ظاہری شکل و صورت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اصل حقیقت کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ دونوں خیال اسلامی تعلیم کی رُو سے قطعاً غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔
پہلے ہم اس اعتراض کو لیتے ہیں کہ کیا عبادت میں کسی ظاہری شکل و صورت کے مقرر کئے جانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ سو جاننا چاہیئے کہ یہ خیال کہ چونکہ عبادت کا حقیقی تعلق انسان کی قلبی کیفیت سے ہے اس لیے اس کے واسطے کسی ظاہری فارم یعنی شکل و صورت کی ضرورت نہیں ایک بالکل جہالت اور نادانی کا خیال ہے کیونکہ اوّل تو جب جسم بھی خدا کا پیدا کردہ ہے تو اس کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی خدا کی عبادت میں حصّہ لے اور اسے اپنے خالق و مالک کی عبودیت سے خارج یا آزاد قرار دے دینا کسی طرح بھی جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ انسان کا جسم اور اس کے سارے اعضاء اور ان اعضاء کی ساری طاقتیں خدا کی پیدا کردہ ہیں۔ پس اگر رُوح پر خُدا کی مخلوق ہونے کی وجہ سے عبادت کا فرض عائد ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جسم اس فرض کی ادائیگی سے باہر رہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ:
۔ ۱؎
یعنی’’ سچا مُسلمان وہ ہے کہ جو ان سب چیزوں اور سب طاقتوں کو جو خدا نے اُسے عطا کی ہیں خواہ وہ جسمانی ہیں یا رُوحانی۔ مادی ہیں یا غیر مادی ہمارے رستے میں خرچ کرتا ہے اور ہر ایک چیز میں سے جو ہم نے اُسے دی ہے ہمارا حق نکالتا ہے۔‘‘
پس اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ عبادت کا حق صرف رُوح کے ذمہ ہے اور جسم اس سے آزاد ہے بلکہ اسلامی تعلیم کی رُو سے روح اور جسم دونوں اس بوجھ کے نیچے ہیں اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہو۔
دوسرے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر رُوح یعنی سپرٹ کے لیے کسی نہ کسی جسم یعنی ظاہری فارم کا ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی رُوح بغیر جسم کے زندہ نہیں رہ سکتی اور جو شخص کسی روح کو جسم کے بغیر زندہ رکھنے کی سعی کرتا ہے وہ یقینا بہت جلد رُوح کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔ مثلاً بزرگوں اور افسروں کا ادب و احترام ایک سراسر روحانی کیفیت ہے مگر کیا کوئی شخص اس جذبہ کی رُوح کو بغیر کسی ظاہری اور جسمانی پابندی کے زندہ رکھ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یقینا اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں اپنے بزرگوں اور افسروں کے سامنے بھی اسی طرح آزادی اور بے پروائی کے ساتھ رہتے ہوئے جس طرح میں اپنے ہم عمر دوستوں یا اپنے عزیزوں وغیرہ کے ساتھ رہتا ہوں ان کے ادب و احترام کے جذبہ کو اپنے دل میں قائم رکھ سکتا ہوں تو اس کا یہ دعویٰ غلط اور باطل ہو گا اور ایسا شخص بہت جلد ادب و احترام کی رُوح کو ضائع کر کے خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ دراصل فطرتِ انسانی کے ماتحت رُوح اور جسم کے درمیان ایک ایسا گہرا رابطہ اور عمیق تعلق ہے کہ کبھی بھی ایک دُوسرے سے جُدا نہیں کیا جاسکتا اور یہ دونوں چیزیں ہر وقت ایک غیر معلوم مگر حکیمانہ قانون کے ماتحت ایک دُوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک انسان تکلّف کے ساتھ رونے کی شکل بنائے تو وہ محسوس کرے گا کہ اس ظاہری تبدیلی کے ساتھ ہی اس کے دل کے اندر بھی غم و اَلم کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص کا دل مغموم ہے مگر کسی وجہ سے اس کے ظاہری جسم میں ہنسی کی صورت پیدا کر دی جاوے تو اس کے ساتھ ہی اس کے دل کا غم خوشی میںمبدّل ہونا شروع ہو جائے گا۔ پس عبادات میں جسم یعنی ظاہری فارم اور شکل و صورت کا تجویز کیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جسم اور رُوح ایک دوسرے کے ساتھ غیر منفک صورت میں پیوست ہیں اور جسم کو شامل کرنے کے بغیر عبادت کی روح ہر گز زندہ نہیں رہ سکتی اور لحظہ بہ لحظہ کمزور ہو کر بہت جلد مر جاتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کے ہر نظام میں ہر رُوح کے لیے کوئی نہ کوئی جسم مقرر کیا جاتا ہے اور تعجب ہے کہ جو لوگ اسلامی عبادات پر زیادہ معترض ہیں وہی اس مزعومہ ’’ظاہر پرستی‘‘ میں دُوسروں سے آگے نکلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و امریکہ کے سارے نظام اور سارے تہذیب و تمدّن کی بنیاد ظاہری فارم اور ضابطہ پر مبنی ہے اور یقینا جتنا زور مغربی ممالک میں ہر چیز کی فارم پر دیا جاتا ہے اتنا کسی اور جگہ نظر نہیں آتا۔ مثلاً ایک ماتحت کے لیے افسر کا ادب لازمی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے ادب محض ایک قلبی کیفیت کا نام ہے لیکن کوئی مغربی حکومت اس بات پر تسلی نہیں پاتی کہ اس کے افراد صرف اپنے دل میں اپنے افسروں کا ادب محسوس کر لیا کریں اور بس۔ بلکہ اس کے لیے یورپ و امریکہ کی ہر حکومت میں بے شمار ضوابطہ مقرر ہیں اور افسروں کے احترام کی غرض سے ماتحتوں کو سینکڑوں ظاہری پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے کیونکہ دنیاوی معاملات میں ان لوگوں کے دل دُوسروں کی نسبت اس بات کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی جذبہ کی رُوح کو بغیر ظاہری فارم کے زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ دینی معاملات میں اس فطری قانون کو نظر انداز کیا جاوے۔ الغرض جسم کو عبادت میں شامل کرنا نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ جسم بھی خدا کی مخلوق ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق کی پرستش میں حِصّہ لے بلکہ اس لیے بھی کہ ظاہری اور جسمانی پابندی کے بغیر اندرونی رُوح کا بقا ممکن نہیں۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے اپنی عبادات میں ظاہری شکل و صورت پر زیادہ زور دیا ہے اور عبادت کی رُوح کی طرف جو اصل چیز ہے پوری توجہ نہیں دی۔ سو یہ اعتراض بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے گو اسلام نے جسم کو عبادت میں شامل کر کے ہر عبادت کے لیے ایک ظاہری صورت تجویز کی ہے لیکن چونکہ بہرحال رُوح جسم پر مقدّم ہے اس لیے اسلام نے اصل زور عبادت کی رُوح پر دیا ہے۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس قدر زور عبادت کی رُوح پر اسلام میں پایا جاتا ہے وہ کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتا۔ چنانچہ نماز جو اسلام میں ساری عبادتوں سے افضل قرار دی گئی ہے اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی نماز کی اصل حقیقت سے غافل ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں جو لوگوں کو تو نظر آتا ہے مگر اس کے اندر کوئی رُوح نہیں ہے۔ اُنہوں نے صرف برتن کو روک رکھا ہے اور اصل رُوح جس کے لیے یہ برتن مقرر ہے اُن کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔‘‘
اِس قرآنی آیت میں جس وضاحت اور زور کے ساتھ اور جس مؤثر انداز میں اسلامی عبادات کے فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی دوسرا مذہب اس سے بہتر تعلیم نہیں پیش کر سکتا۔ ان مختصر اور سادہ الفاظ میں اس غایت درجہ اہم اور نہایت وسیع مسئلہ کا ایسا نچوڑ آجاتا ہے کہ جس کے بعد حقیقتاً کسی اور تشریح کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ آیت ہم نے صرف مثال کے طور پر دی ہے ورنہ اسلامی شریعت اس قسم کی تعلیم سے بھری پڑی ہے کہ عبادات میں گو فطرتِ انسانی کے ازلی قانون کے ماتحت جسم کا ہونا بھی ضروری ہے مگر اصل چیز رُوح ہے جس کے بغیر کسی جسم کو زندہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ مثلاً قربانی کے مسئلہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی ’’ ہم نے قربانی کے جانوروں کو تمہارے لیے خُدا کی شناخت کا ایک ذریعہ بنایا ہے اور ان میں تمہارے لیے بہت خیر و برکت رکھی گئی ہے۔ پس جب تم انہیں ذبح کرنے کے لیے باندھو تو اُن پر خدا کا نام پڑھ لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر کر جاں بحق ہو جائیں تو تم ان کا گوشت خود بھی کھاؤ اور حاجت مندوں اور فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ ہم نے ان جانوروں کو اس غرض سے تمہارے قابو میں دے رکھا ہے تاکہ تم خُدا کے شکر گذار بندے بنو۔ مگر یاد رکھو کہ ان جانوروں کا گوشت اور خُون خدا کو نہیں پہنچتا بلکہ جو چیز خدا کو پہنچتی ہے وہ اس تقویٰ کی رُوح ہے جس سے تم یہ کام کرتے ہواور ہم نے اسی تقویٰ کی رُوح کو تمہارے قابو میں رکھنے کے لیے یہ طریق مقرر کیا ہے تاکہ تم اس رنگ میں جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے اس کی بڑائی بیان کر سکو اور اے رسول بشارت دے ان لوگوں کو جو اس رنگ میں خدا کی عبادت بجا لاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث میں بھی کثرت کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال وارد ہوئے ہیں جن میں آپؐ نے اسلامی عبادات کے متعلق یہ تشریح فرمائی ہے کہ ان میں اصل اور حقیقی مقصود عبادت کی رُوح ہے۔ چنانجہ روزہ کے متعلق آپؐ فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ یَدَعَ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بہٖ فَلَیْسَ ِﷲِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ ۔ ۱؎
یعنی ’’ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور ریا کاری کو ترک نہیں کرتا اور اسی پر عامل رہتا ہے تو وہ یاد رکھے کہ خُدا کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ یعنی اس صورت میں اس کا روزہ کوئی روزہ نہیں بلکہ وہ بلا وجہ بھوکا اور پیاسا رہتا ہے جس کا اسے کوئی بھی ثواب نہیں۔‘‘
پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اسلام نے اپنی مختلف عبادات میں ایسی تعلیم دی ہے کہ جس میں اس اصول کو کہ عبادت میں اصل چیز اُس کی رُوح ہے عملاً ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً نماز کے متعلق اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وہ قبلہ رُخ ہو کر ادا ہونی چاہیئے لیکن ایسے حالات میں جب کہ کسی مجبوری سے قبلہ رُخ ہونا مشکل ہو جائے۔ مثلاً انسان جب کسی سواری پر سوار ہو اور سواری کا رُخ اس کے قابو میں نہ ہو یا کسی وقت بادل وغیرہ کی وجہ سے قبلہ کا رُخ معلوم نہ ہو سکے تو اس قسم کی صورتوں میں اسلام کا یہ حکم ہے کہ پھر جدھر سواری کا رُخ ہو یا جس طرف انسان قیاس کرے کہ ادھر قبلہ ہے اُدھر ہی مُنہ کر کے نماز ادا کر لی جاوے۔ یا مثلاً نماز کے لیے قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ کی حالتیں لازمی قرار دی گئی ہیں، لیکن بایں ہمہ اگر بیماری کی وجہ سے کوئی شخص کھڑا نہ ہو سکے یا کوئی اور معذوری ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ بیٹھ کر ہی نماز ادا کر لے اور اگر بیٹھ بھی نہ سکے تو لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لے۔ یہی اصول دوسری عبادتوں پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ گویا جہاں کہیں بھی عبادت کی رُوح اور اس کا جسم وقتی حالات کی مجبوری کی وجہ سے آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اور دونوں کو ایک وقت میں اختیار نہیں کیا جاسکتا تو وہاں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جسم کو چھوڑ دو اور رُوح کو اختیار کر لو۔ جو اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام میں اصل مقصود عبادت کی رُوح کو قرار دیا گیا ہے اور جسم کو محض جسم کی ظاہری شرکت اور رُوح کے بقا کے لیے رکھا گیا ہے۔ وھوالمراد۔ پس یہ الزام کہ اسلام نے اپنی عبادات میں جسم کو شامل کر کے رُوح کو مٹا دیا ہے یا یہ کہ جسم پر زیادہ زور دے کر رُوح کو کمزور کر دیا ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس معاملہ میں اسلامی تعلیم ایک ایسا اعلیٰ اور وسطی اور دلکش نمونہ پیش کرتی ہے جو نہ صرف ہر اعتراض سے بالا ہے بلکہ دُنیا کا کوئی دوسرا مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ اور پھر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اسلام نے اپنی عبادات کے لیے جسم بھی ایسے تجویز کئے ہیں کہ ان سے بڑھ کر عبادت کی رُوح کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کوئی صورت خیال میں نہیں آسکتی۔
سلطنت ہائے روم و فارس کی باہمی جنگ اوراس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی
اسلام سے قبل اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تمام متمدّن دُنیا میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ وسیع
سلطنتیں دو تھیں۔ سلطنتِ فارس اور سلطنت روم اور یہ دونوں سلطنتیں عرب کے قریب واقع تھیں۔ سلطنت فارس عرب کے شمال مشرق میں تھی اور سلطنتِ روم شمال مغرب میں۔ چونکہ ان سلطنتوں کی سرحد ملتی تھی اس لیے بعض اوقات ان کا آپس میں جنگ و جدل بھی ہو جاتا تھا۔ اس زمانہ میں بھی جس کا اب ہم ذکر کر رہے ہیں یہ سلطنتیں برسرِ پیکار تھیں اور سلطنت فارس نے سلطنت روم کو زیر کیا ہوا تھا اور اس کے کئی قیمتی علاقے چھین لیے تھے اور اُسے برابر دباتی چلی جاتی تھی۔ ۱؎ قریش چونکہ بُت پرست تھے اور فارس کا بھی قریباً قریباً یہی مذہب تھا۔ اس لیے قریشِ مکّہ فارس کی ان فتوحات پر بہت خوش تھے۔ مگر مسلمانوں کی سلطنتِ روم سے ہمدردی تھی کیونکہ رومی سلطنت عیسائی تھی اور عیسائی بوجہ اہلِ کتاب ہونے اور حضرت مسیحؑناصری سے نسبت رکھنے کے بُت پرست اور مجوس اقوام کی نسبت مسلمانوں کے بہت قریب تھے۔ ایسے حالات میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ سے علم پاکر پیشگوئی فرمائی کہ گو اس وقت رُوم فارس سے مغلوب ہو رہا ہے مگر چند سال کے عرصہ میں وہ فارس پر غالب آجائے گا اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ ۲؎ یہ پیشگوئی سُن کر مسلمانوں نے جن میں حضرت ابوبکرؓ کا نام خاص طور پر مذکور ہوا ہے مکّہ میں عام اعلان کر نا شروع کیا کہ ہمارے خدا نے یہ بتایا ہے کہ عنقریب رُوم فارس پر غالب آئے گا۔ قریش نے جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو آؤ شرط لگا لو۔ چونکہ اس وقت تک اسلام میں شرط لگانا ممنوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اسے منظور کر لیا اور رؤسائِ قریش اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان چند اُونٹوں کی ہارجیت پر شرط قرار پا گئی اور چھ سال کی معیاد مقرر ہوئی مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’چھ سال کی میعاد مقرر کرنا غلطی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تو میعاد کے متعلق بِضْعِ سِنِیْنَ کے الفاظ فرمائے ہیں جو عربی محاورہ کی رُو سے تین سے لے کے نو تک کے لیے بولے جاتے ہیں۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کہ آپؐ مکہّ میں ہی مقیم تھے اور ہجرت نہیں ہوئی تھی اس کے بعد مقررہ میعاد کے اندر اندر ہی جنگ نے اچانک پلٹا کھایا اور رُوم نے فارس کو زیر کر کے تھوڑے عرصہ میں ہی اپنا تمام علاقہ واپس چھین لیا۔ یہ ہجرت کے بعد کی بات ہے۔ ۱؎ اس واقعہ کا سرولیمؔ میور نے اپنی کتاب میں یوں ذکر کیا ہے کہ:
’’جب فارس کی فتوحات کا سیلاب ابھی تک برابر بڑھا چلا جاتا تھا۔ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اپنی تیسویں سورۃ میں یہ پیشگوئی کی کہ عنقریب رُوم فارس پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں واقعات نے اس پیشگوئی کو سچا ثابت کیا۔‘‘ ۲؎
قبائلِ عرب کو تبلیغِ اسلام
قبائل کے دَورہ کے متعلق مختصراً اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ انبیاء تو کبھی بھی مایوس نہیں ہوتے مگر ظاہری حالات کے لحاظ سے مکّہ کی حالت اس
وقت سخت مایوس کُن تھی۔قریش عداوت اور ایذا رسانی میں دن بدن ترقی کرتے جاتے تھے اور موجودہ صورت میں اُن کے مُسلمان ہونے کی بظاہر بہت ہی کم اُمید تھی۔ دُوسری طرف آپؐ کے طائف کے سفر نے اس شہر کے متعلق بھی فی الحال کوئی اُمید پیدا نہیں کی تھی۔ انہیں حالات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم دن بدن اپنی توجہ کو دیگر قبائل عرب کی طرف زیادہ پھیرتے جاتے تھے اور چونکہ قبائل کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ یہ تھا کہ حج کے موقع پر مکّہ اور منیٰ میں اوراشھرحرم کے دیگر ایّام میں عکاظ ، مجنّہؔ اور ذوالمجازؔ کے میلوں کے موقع پر ان کے پاس جاکر تبلیغ کی جاوے، اس لیے آپؐ نے ان موقعوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا شروع کیا اور کثرت کے ساتھ قبائل کا دَورہ شروع کر دیا۔ بعض اوقات حضرت ابو بکرؓ اور حضرت علی ؓ یا زیدؓ بن حارثہ بھی آپؐ کے ساتھ ہوتے تھے۔ مگر جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے قریش نے اس میں بھی روک ٹوک شروع کر دی۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے حقیقی چچا ابولہبؔ نے تو گویا اپنا یہ معمول کر لیا تھا کہ جہاں آپؐ تشریف لے جاتے وہ آپؐ کے پیچھے پیچھے جاتا اور جب آپؐ اپنی تقریر شروع فرماتے تو وہ شور کرنے لگتا اور لوگوں سے کہتا کہ اس کی بات نہ مانو کیونکہ یہ اپنے دین سے پھر گیا ہے اور تمہار ا دین بھی بگاڑنا چاہتا ہے۔ ۳؎ لوگ جب دیکھتے کہ آپؐ کے اپنے رشتہ دار ہی آپؐ کو جھٹلا رہے ہیں تو وہ بھی تکذیب کرتے۔ ۴؎ اور بعض وقت ہنسی اور مذاق بھی اڑاتے۔ ابولہب کے علاوہ ابو جہل نے بھی کئی دفعہ آپؐ کے پیچھے جاکر لوگوں کو آپؐ سے بدظن کرنے کی کوشش کی؛ چنانچہ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب مَیں ابھی مُسلمان نہیں ہوا تھا، مَیں نے آپؐ کو ذوالمجازؔ میں دیکھا کہ آپؐ لوگوں کے مجمعوں میں گھس کر توحید کا وعظ فرماتے پھرتے تھے۔ اُس وقت ابو جہل آپؐ کے پیچھے پیچھے تھا اور آپؐ پر خاک پھینکتا جاتا تھا اور کہتا تھا۔ ’’اے لوگو! اس کے فریب میں نہ آنا۔ یہ چاہتا ہے کہ تم کو لات و عزیٰ کی پرستش سے پھیر دے۔‘‘ ۱؎
ایک دفعہ آپؐ بنو عامر بن صعصہ کے ڈیرے میں تشریف لے گئے۔ خوش قسمتی سے اس وقت کوئی قریش آپؐ کے ساتھ نہ تھا۔ آپؐ نے انہیں توحید کا وعظ فرمایا اور اسلام کی تائید میں اُن سے مدد چاہی۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو اُن میں سے بیحرہؔ بن فراس نامی ایک شخص بولا۔ ’’واﷲ اگر یہ شخص میرے ہاتھ آجاوے تو میں سارے عرب کو زیر کرلوں۔‘‘ اور پھر آپؐ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ’’اچھا یہ بتاؤ کہ اگر ہم نے تمہارا ساتھ دیا اور تم اپنے مخالفوں پر غالب آگئے۔ تو تمہارے بعد حکومت میں ہمارا حصہ ہو گا یا نہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ حکومت کا معاملہ تو اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’خوب! تمام عرب کے سامنے سینہ سپر ہم ہوں اور حکومت غیر کے ہاتھ میں جاوے! جاؤ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘ ۲؎ غرض آپ نے مختلف قبآئل کا دورہ فرمایا اور بنو عامرؔ بن صعصہ ، بنو محاربؔ ، فزارہؔ ، غسانؔ ، مرّہؔ ، حنیفہؔ، سلیمؔ ، عبسؔ ، کندہؔ ، کلبؔ، حارثؔ ، عذرہؔ ، حضارمہؔ، وغیرہ سب کو باری باری اسلام کی دعوت دی، مگر سب نے انکار کیا۔۳؎ اور سب سے زیادہ سختی کے ساتھ انکار کرنے والے بنو حنیفہ تھے جو یمامہ کے رہنے والے تھے۔ ۴؎ مسلیمہ کذاب جس نے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے آخر عہد میں نبوت کا دعویٰ کیا اسی قبیلہ کا رئیس تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا قبائل کا دورہ بھی ایک عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ ہر دو جہان کا بادشاہ جس کا نام لینے پر بعد کے مُسلمان شہنشاہ جن کے نام سے دُنیا کانپتی تھی اپنے تختوں سے نیجے اُترآتے تھے ، قبائلِ عرب کے بدوی رئیسوں کے خیموں میں جاتا ہے اور ایک ایک رئیس کے خیمہ پر دستک دے کر خالقِ کونین کا پیغام پیش کرتا ہے اور پیچھے پڑ پڑ کر استدعا کرتا ہے کہ یہ تمہارے بھَلے کی چیز ہے اسے لے لو۔ مگر ہر دروازہ اس کے لیے بند کیا جاتا ہے اور ہر خیمہ سے اس کو یہ آواز آتی ہے کہ جاؤ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں اور خدا کا یہ بندہ اپنے مقدس مال کی گٹھڑی اٹھا کر اگلے خیمے کا راستہ لیتا ہے۔
بہر حال اب اسلامی منظر چاروں طرف تاریک و تار تھا۔ مکّہ میں قریش اسلام کے جانی دشمن تھے اور ہر وقت اُسے نیست و نابود کر دینے کی فکر میں رہتے تھے۔ طائف والوں نے اسلام کا نام لینے پر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم پر پتھر برسادیئے تھے۔ دیگر قبائلِ عرب آپؐ کو صاف صاف جواب دے چکے تھے۔ گویا ظاہری اسباب کے لحاظ سے اب اسلام کے لیے ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔‘‘ کی حالت تھی، مگر اسلام خدا کا بھیجا ہوا دین تھا اور اُسی نے اسے قائم کرنے کا وعدہ فرمایا تھا اور اس زمانہ میں بھی اس کی تائید و نصرت کے وعدے ہو رہے تھے بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ کی وحیٔ الٰہی میں خصوصیت کے ساتھ بڑے پُر شوکت اور پُر رُعب الفاظ میں اسلام کی آئندہ ترقی اور فتوحات کے نقشے کھینچے جارہے تھے اور مخالفینِ اسلام کی آئندہ ناکامیاں اور ان کی ہلاکت کی پیشگوئیاں دُنیا کو سُنائی جارہی تھیں۔ قریش ان باتوں کو سُنتے اور بے اختیار ہنس دیتے۔ مگر خداوندِ عالمیان اپنی قدرت کے زور سے یہ سب نظارے دکھانے والا تھا اور پردۂ غیب سے عنقریب کچھ ظاہر ہونے والا تھا؛ چنانچہ ناگاہ یثرب کی جانب کا کنارہ ٹوٹ کر گِرا اور اسلامی چشمہ کا پانی جو چاروں طرف راستہ بند ہونے کی وجہ سے اب تک اپنے کناروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر رہ جاتا تھا بڑے زور کے ساتھ اس راستہ سے بہ نِکلا۔ مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کی کیفیت بیان کریں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یثرب اور اہلِ یثرب کا مختصر سا حال تحریر کر دیں تاکہ ان واقعات کا سمجھنا آسان ہو جاوے۔

وطن سے بے وطن
یثرب اور اہلِ یثرب
مکّہ کے شمال کی طرف قریباً اڑھائی سو میل کے فاصلہ پر ایک شہر ہے جس کا نام مدینہؔ ہے۔ اب تو اس کے نام سے ساری دنیا واقف ہے کیونکہ ہمارے
آقا انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری دس سال یہیں گذارے اور یہیں فوت ہوئے اور یہیں آپؐ کا مزارِ مبارک ہے اور یہی ابتداء میں خلافتِ اسلامی کا مرکز رہا ہے۔ مگر اسلام سے پہلے یہ شہر ایک گمنامی کی حالت میں تھا اور اس کا نام یثربؔ تھا۔ ہجرت کے بعد رسولِ خدا کامسکن ہو جانے کی وجہ سے اس کا نام مدینۃ الرسُول مشہور ہو گیا اور پھر آہستہ آہستہ صرف مدینہ رہ گیا۔ اسلام سے پہلے یثرب کی آبادی مذہباً دو حصوں میں تقسیم تھی۔ یعنی یہود اور بُت پرست ۔ یہود پھر آگے تین قبائل میں منقسم شدہ تھے یعنی بنوقینقاع بنو نضیرؔ اور بنو قریضہؔ اور بُت پرستوں کی بھی دو شاخیں تھیں جن کا نام اوسؔ اور خزرجؔ تھا۔ یہی اوسؔ اور خزرجؔ بعد میں اسلام لا کر اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو پناہ دے کر انصار کے لقب سے ملقّب ہوئے۔ اسلام سے پہلے اوس و خزرج عموماً آپس میں برسرِ پیکار رہتے تھے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں ان کے درمیان ایک خطرناک لڑائی ہوئی جو جنگِ بُعاث کے نام سے مشہور ہے۔ اس لڑائی میں اوسؔ و خزرجؔ کے بڑے بڑے نامور سردار کٹ کر ہلاک ہو گئے۔
چونکہ یہودی لوگ علمی اور مذہبی لحاظ سے ان بُت پرستوں پر فوقیت رکھتے تھے اور دولت و اقتدار میں بھی عموماً بڑھے ہوئے تھے ، اس لیے یہود کا اُن پر خاص اثر تھا۔ حتیٰ کہ اگر کسی مُشرک کے اولاد نرینہ نہ ہوتی تھی تو وہ منّت مانتا تھا کہ اگر میرے اولاد نرینہ ہوئی تو میں اپنے پہلے لڑکے کو یہودی بنادوں گا۔ ۱؎ یہود کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اوسؔ و خزرجؔ بھی کتب سماوی اور سلسلہ رسالت سے کچھ کچھ آشنا ہو گئے تھے اور چونکہ یہود میں الٰہی نوشتوں کی رُو سے ان دنوں ایک نبی کا انتظار تھا، اس لیے یہ بات اوسؔ اور خزرجؔ کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ کیونکہ یہود اُن سے کہا کرتے تھے کہ اب ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے۔ وہ جب آئے گا تو ہم اس کا ساتھ دے کر بُت پرستوں اور کافروں کو نیست و نابود کردیں گے اور وہ ایک بڑی سلطنت قائم کرے گا اور ہم اُسے مان کر دُنیا میں طاقتور ہو جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۱؎
یثرب میں اسلام
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حسب دستور مکّہ میں اَشْھر حرم کے اندر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ آپؐ کو معلوم ہوا کہ یثرب کا ایک مشہور شخص سویدؔ بن صامت مکّہ میں
آیا ہوا ہے۔ سویدؔ مدینہؔ کا ایک مشہور شخص تھا اور اپنی بہادری اور نجابت اور دُوسری خوبیوں کی وجہ سے کاملؔ کہلاتا تھا اور شاعر بھی تھا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم اس کا پتہ لیتے ہوئے اس کے ڈیرے پر پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ اُس نے کہا میرے پاس بھی ایک خاص کلام ہے، جس کا نام مجلہ لقمان ہے۔ آپؐ نے کہا مجھے بھی اس کا کوئی حصہ سناؤ۔ جس پر سویدؔ نے اس صحیفہ کا ایک حصہ آپ کو سُنایا۔ آپ نے اس کی تعریف فرمائی کہ اس میں اچھی باتیں ہیں، مگر فرمایا کہ میرے پاس جو کلام ہے وہ بہت بالا اور اَرفع ہے چنانچہ پھر آپؐ نے اُسے قرآن شریف کا ایک حصہ سُنایا۔ جب آپ ختم کر چکے تو اُس نے کہا۔ ہاں واقعی یہ بہت اچھا کلام ہے اور گو وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے فی الجملہ آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ کو جھٹلایا نہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مدینہ میں واپس جاکر اُسے زیادہ مہلت نہیں ملی اور وہ جلد ہی کسی ہنگامہ میں قتل ہو گیا۔ یہ جنگِ بُعاث سے پہلے کی بات ہے۔ ۲؎ اس کے بعد اسی زمانہ کے قریب یعنی جنگِ بُعاث سے قبل آپؐ پھر ایک دفعہ حج کے موقع پر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ اچانک آپؐ کی نظر چند اجنبی آدمیوں پر پڑی۔ یہ قبیلہ اوسؔ سے تھے اور اپنے بُت پرست رقیبوں یعنی خزرج کے خلاف قریش سے مدد طلب کرنے آئے تھے۔ یہ بھی جنگِ بعاث سے پہلے کا واقعہ ہے۔ گویا یہ طلبِ مدد اسی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ آپؐ کی تقریر سُن کر ایک نوجوان شخص جس کا نام ایاسؔ تھا بے اختیار بول اُٹھا۔ ’’خُدا کی قسم جس طرف یہ شخص (محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) ہم کو بُلاتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘ مگر اس گروہ کے سردار نے ایک کنکروں کی مُٹھی اٹھا کر اس کے مُنہ پر ماری اور کہا ’’چُپ رہو۔ ہم اس کام کے لیے یہاں نہیں آئے اور اس طرح اس وقت یہ معاملہ یونہی دب کر رہ گیا۔ مگر لکھا ہے کہ ایاسؔ جب واپس وطن جاکر فوت ہونے لگا، تو اس کی زبان پر کلمۂ توحید جاری تھا۔ ۳؎
اس کے کچھ عرصہ بعد جب جنگِ بُعاث ہو چکی تو ۱۱ نبوی کے ماہ رجب میں ۴؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکّہ میں یثرب والوں سے پھر ملاقات ہو گئی۔ آپؐ نے حسب و نسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرجؔ کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت محبت کے لہجہ میں کہا ’’کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ہاں! آپ کیا کہتے ہیں۔‘‘ آپؐ بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سُنا کر اپنے مِشن سے آگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا اور کہا ’’یہ موقع ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جاویں۔‘‘ یہ کہہ کر سب مسلمان ہو گئے۔ یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں:
۱- ابو امامہ اسعد بن زرارہ جو بنو نجارؔ سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اوّل تھے۔
۲- عوف بن حارث یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کا قبیلہ تھا۔
۳- رافع بن مالک جو بنوزؔریق سے تھے۔ اب تک جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا۔ وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا۔ ۱؎
۴- قطبہ بن عامر جو بنی سلمہ سے تھے۔
۵- عقبہ بن عامر جو بنی حرام سے تھے اور
۶- جابر بن عبداﷲ بن رِئاب جو بنی عبید سے تھے۔
اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے رُخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے اور ہم میں آپس میں بہت نااتفاقیاں ہیں۔ ہم یثرب میں جاکر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اﷲ تعالیٰ آپؐ کے ذریعہ ہم کو پھر جمع کر دے پھر ہم ہر طرح آپؐ کی مدد کے لیے تیار ہوں گے؛ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔ ۲؎
ُْبیعتِ عقبہ اولیٰ ۱۲ نبوی
یہ سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکّہ میں یثرب والوں کی طرف سے ظاہری اسباب کے لحاظ سے ایک بیم ورجاکی حالت میں گذارا۔ آپؐ اکثر
یہ خیال کیا کرتے تھے کہ دیکھیں ان چھ مصدّقین کا کیا انجام ہوتا ہے اور آیا یثرب میں کامیابی کی کوئی امید بندھتی ہے یا نہیں۔ مُسلمانوں کے لیے بھی یہ زمانہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بیم ورجا کا زمانہ تھا۔ وہ دیکھتے تھے کہ سردارانِ مکّہ اور رؤسائِ طائف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشن کو سختی کے ساتھ رَدّ کر چکے ہیں دیگر قبائل عرب بھی ایک ایک کر کے اپنے انکار پر مُہر لگا چکے تھے۔ مدینہ میں اُمید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی، مگر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کرن مصائب و آلام کے طوفان اور شدائد کی آندھیوں میں قائم رہ سکے گی۔ دوسری طرف مکّہ والوں کے مظالم دن بدن زیادہ ہو رہے تھے اور انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسلام کو مٹانے کا بس یہی وقت ہے مگر اس نازک وقت میں بھی جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے مخلص صحابی ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم تھے اور آپؐ کا یہ عزم و استقلال بعض اوقات آپؐ کے مخالفین کو بھی حیرت میں ڈال دیتا تھا کہ یہ شخص کس قلبی طاقت کا مالک ہے کہ کوئی چیز اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ بلکہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے الفاظ میں خاص طور پر ایک رُعب اور جلال کی کیفیت پائی جاتی تھی اور مصائب کے ان تُند طوفانوں میں آپؐ کا سَر اور بھی بلند ہوتا جاتا تھا۔ یہ نظارہ اگر ایک طرف قریش مکّہ کو حیران کرتا تھا تو دُوسری طرف ان کے دلوں پر کبھی کبھی لَرزہ بھی ڈال دیتا تھا۔ ان ایّام کے متعلق سرولیم میور لکھتا ہے:
’’ان ایّام میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے اس طرح سینہ سپر تھا کہ انہیں بعض اوقات حرکت کی تاب نہیں ہوتی تھی۔ اپنی بالآخر فتح کے یقین سے معمور مگر بظاہر بے بس اور بے یارومددگار وہ اور اس کا چھوٹا سا گروہ اس زمانہ میں گویا ایک شیر کے مُنہ میں تھے مگر اس خُدا کی نُصرت کے وعدوں پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے جس نے اسے رسُول بنا کر بھیجا تھا۔ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) ایک ایسے عزم کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا تھا جسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ یہ نظارہ ایک ایسا شاندار منظر پیش کرتا ہے جس کی مثال سوائے اسرائیل کی اس حالت کے اور کہیں نظر نہیں آتی کہ جب اس نے مصائب و آلام میں گھِر کر خُدا کے سامنے یہ الفاظ کہے تھے کہ اے میرے آقا! اب تو میں۔ ہاں صرف مَیں ہی اکیلا رہ گیا ہوں۔ نہیں بلکہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کا یہ نظارہ اسرائیلی نبیوں سے بھی ایک رنگ میں بڑھ کر تھا … محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے یہ الفاظ اسی موقع پر کہے گئے تھے کہ اے میری قوم کے صنادید تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو۔ مَیں بھی کسی اُمید پر کھڑا ہوں۔‘‘
الغرض اسلام کے لیے یہ ایک بہت نازک وقت تھا۔ مکّہ والوں کی طرف سے تو ایک گونہ ناامیدی ہو چکی تھی ، مگر مدینہ میں اُمید کی کِرن پیدا ہو رہی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بڑی توجہ کے ساتھ اس طرف نظر لگائے ہوئے تھے کہ آیا مدینہ بھی مکّہ اور طائف کی طرح آپؐ کو رَدّ کرتا ہے یا کہ اس کی قسمت دُوسرے رنگ میں لکھی ہے؛ چنانچہ جب حج کا موقع آیا تو آپؐ بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منیٰ ، کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ ناگاہ آپؐ کی نظر اہلِ یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپؐ کو دیکھ کر فوراً پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپؐ کو ملے۔ اب کے یہ بارہ اشخاص تھے جن میں سے پانچ تو وہی گذشتہ سال کے مصدّقین تھے اور سات نئے تھے اور اوسؔ اور خزرجؔ دونوں قبیلوں میں سے تھے۔
ان کے نام یہ ہیں:
۱- ابو امامہ اسعد بن زرارہ
۲- عوف بن حارث
۳- رافع بن مالک
۴- قطبہ بن عامر
۵- عقبہ بن عامر
۶- معاذ بن حارث از قبیلہ بنی نجار (خزرج)
۷- ذکوان بن عبدقیس از قبیلہ بنو زریق (خزرج)
۸- ابو عبدالرحمن یزید بن ثعلبہ از بنی بلی (حلیف خزرج)
۹- عبادہ بن صامت از بنی عوف (خزرج)
۱۰- عباس بن عبادہ بن نضلہ از بنی سالم (خزرج)
۱۱- ابو الہیشم بن تیّہان از بنی عبدالاشہل (اوس)
۱۲- عویم بن ساعدہ از بنی عمرو بن عوف (اوس)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں ان سے ملے۔ اُنہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھی۔ چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا، اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن سے صرف اِن الفاظ میں بیعت لی جن میں آپؐ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم خُدا کو ایک جانیں گے۔ شِرک نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپؐ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم صِدق و ثبات کے ساتھ اِس عہد پر قائم رہے تو تمہیںجنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہے گا کرے گا۔‘‘
یہ بیعت تاریخ میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عقبہ کہلاتی ہے جو مکّہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے عقبہ کے لفظی معنی بلند پہاڑی رستے کے ہیں۔
مکّہ سے رُخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلّم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مُشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آپؐ نے مصعب بن عمیر ؓکو جو قبیلہ عبدالدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مقریٔ کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سُنانا تھا، کیونکہ یہی تبلیغِ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مصعبؓ بھی یثرب میں مقریٔ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ۱؎
یثرب میں اسلام کا چرچا
مصعبؓ بن عمیر نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا جو مدینہ میں سب سے پہلے مسلمان تھے اور ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور
بااثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور چونکہ مدینہ میں مُسلمانووں کو اجتماعی زندگی نصیب تھی اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اسعد بن زرارہ کی تجویز پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مصعبؓ بن عمیر کو جمعہ کی نماز کی ہدایت فرمائی اور اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز ہو گیا اور اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگااور اوسؔ اور خزرج بڑی سُرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا؛ چنانچہ بنو عبدالاشہل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا۔ یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہّ تھا اور اس کے رئیس کا نام سعد بن معاذ تھا جو صرف قبیلہ بنوعبدالاشھل کے ہی رئیس اعظم نہ تھے بلکہ تمام قبیلہ اوسؔ کے سردار تھے۔ جب مدینہ میں اسلام کا چرچا ہوا تو سعد بن معاذ کو یہ بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا۔ مگر چونکہ اَسعد بن زرارہ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی یعنی وہ ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اَسعد مسلمان ہو چکے تھے، اس لیے سعد بن معاذ خود براہِ راست دخل دیتے ہوئے رُکتے تھے کہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہاکہ اسعد بن زرارہ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے مگر تم جاکر مصعبؓ کو روک دو کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں اور اسعد سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے۔ اُسَیدؔ قبیلہ عبدالاشھل کے ممتاز رؤساء میں سے تھے۔ حتیّٰ کہ ان کا والد جنگِ بعاث میں تمام اوس کا سردار رہ چکا تھا اور سعد بن معاذ کے بعد اُسَید بن الحضیر کا بھی اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا۔ چنانچہ سعد کے کہنے پر وہ مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کے پاس گئے اور مصعب سے مخاطب ہو کر غصّہ کے لہجہ میں کہا۔ ’’تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو اُس سے باز آجاؤ؛ ورنہ اچھا نہ ہو گا۔ پیشتر اس کے کہ مصعب کچھ جواب دیتے اسعد نے آہستگی سے مصعب سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک بااثر رئیس ہیں ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا؛ چنانچہ مصعب نے بڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اُسَیدؔ سے کہا کہ ’’آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں اور ٹھنڈے دل سے ہماری بات سُن لیں اور اُس کے بعد کوئی رائے قائم کریں۔‘‘ اُسَید اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے اور مصعب نے انہیں قرآن شریف سُنایا اور بڑی محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اُسَید پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے کہ جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مُسلمان ہو جائے گا۔ تم ٹھہرو میں اسے ابھی یہاں بھیجتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اُسَید اُٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سعد بن معاذ کو مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کی طرف بھجوا دیا۔ سعد بن معاذ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اسعد بن زرارہ سے کہنے لگے کہ ’’دیکھو اسعد تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اُٹھارہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ اس پر مصعبؓ نے اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا اور کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سُن لیں اور پھرا گر اس میں کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو بے شکر ردّ کردیں۔ سعدؔ نے کہا۔ ہاں یہ مطالبہ تو معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے اور مصعبؓ نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی۔ ابھی زیادہ دیرنہ گذری تھی کہ یہ بُت بھی رام تھا۔ چنانچہ سعد نے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمۂ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعد بن معاذ اور اُسَید بن الحضیر دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعدؓ نے اُن سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ ’’اے بنی عبدالاشھل تم مجھے کیسا جانتے ہو‘‘؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سردار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے۔‘‘ سعد نے کہا۔ ’’تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اﷲ اور اس کے رسُول پر ایمان نہ لاؤ۔‘‘ اس کے بعد سعد نے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے اور ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی کہ تمام قبیلہ مُسلمان ہو گیا اور سعدؓ اور اُسَید ؓ نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کے بُت نکال کر توڑے۔ ۱؎
سعد بن معاذ اور اُسَید بن الحضیرؓ جو اس دن مسلمان ہوئے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور انصار میں تو لاریب ان کا بہت ہی بلند پایہ تھا۔ بالخصوص سعد بن معاذؓ کو تو انصارِ مدینہ میں وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو مہاجرین مکّہ میں حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھی۔ یہ نوجوان نہایت درجہ مخلص، نہایت درجہ وفادار اور اسلام اور بانیٔ اسلام کا ایک نہایت جاں نثار عاشِق نِکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا۔ اسلام میں اُسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ اَخَص صحابہ کو حاصل تھی اور لاریب اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’سعدؓ کی موت پر تو رحمن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے۔‘‘ ایک گہری صداقت پر مبنی تھا۔ ۲؎
غرض اس طرح سُرعت کے ساتھ اوسؔ اور خزرجؔ میں اسلام پھیلتا گیا ۔ یہود خوف بھری آنکھوں کے ساتھ یہ نظارے دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔
یہ تو مدینہ کے خوش کن واقعات ہیں۔ جو بیعت عقبہ اُولیٰ کے بعد پیش آئے مگر ادھر مکّہ میں یہ سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے واسطے نہایت تنگی اور سختی کا گذرا۔ قریش دن بدن اپنے مظالم میں ترقی کرتے جاتے تھے خصوصاً جب ان کو مدینہ کے حالات سے اطلاع ہوئی تو ان کی دشمنی کی آگ بہت ہی بھڑک اُٹھی اور اُنہوں نے آگے سے بھی بڑھ کر مظالم شروع کر دیئے اور بے چارے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔
بیعت عقبہ ثانیہ ۱۳ نبوی
اگلے سال یعنی ۱۳ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقع پر اوسؔ اور خزرجؔ کے کئی سو آدمی مکّہ میں آئے۔ اُن میں ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو
مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکّہ آئے تھے۔ مصعبؓ بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ مصعبؓ کی ماں زندہ تھی اور گو مُشرکہ تھی، مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مصعبؓ نے جواب دیا کہ ’’میں ابھی تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نہیں مِلا آپؐ سے مِل کر پھر تمہارے پاس آؤں گا۔‘‘ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماںکے پاس گئے۔ وہ بہت جلی بھُنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مصعبؓ نے کہا ’’ماں! مَیں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اس نے کہا وہ کیا ہے؟ مصعبؓ نے آہستہ سے جواب دیا۔’’بس یہی کہ بُت پرستی ترک کر کے مُسلمان ہو جاؤاور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔‘‘ وہ پکی مُشرکہ تھی، سُنتے ہی شور مچادیا کہ ’’مجھے ستاروں کی قسم ہے مَیں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی۔‘‘ اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مصعبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں۔ مگر وہ بھاگ کر نکل گئے۔ ۱؎
آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو مصعبؓ سے انصار کی آمد کی اطلاع مِل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپؐ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے۔ مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی، اس لئے مراسِم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپؐ کو آکر ملیں تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپؐ نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے وقتِ مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔۲؎ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباسؔ کو ساتھ لیا جو ابھی تک مُشرک تھے، مگر آپؐ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے۔ یہ ستّر اشخاص تھے اور اوسؔ و خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ سب سے پہلے عباسؔ نے گفتگو شروع کی کہ ’’اے خزرجؔ کے گروہ! ۳؎ (محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑکر تمہارے پاس چلے آنے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے ساتھ سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔‘‘ البرائؔ بن معرور جو انصار کے قبیلہ کے ایک معمرّ اور بااثر بزرگ تھے نے کہا’’عباسؔ!ٖ ہم نے تمہاری بات سُن لی ہے۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسُول اﷲ خود بھی اپنی زبان مبارک سے کچھ فرماویں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرماویں۔‘‘ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اورحقوق اﷲ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو۔ اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو البرائؔ بن معرور نے عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’یا رسُول اﷲ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپؐ کی حفاظت کریں گے ہم لوگ تلواروں کے سایہ میں پلے ہیں اور … مگر ابھی وہ بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ ابوالہیشم بن تیہّان نے جن کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے ان کی بات کاٹ کر کہا ’’یارسول اﷲ! یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔ آپؐ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب اﷲ آپؐ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آویں اور ہم نہ ادھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے۔‘‘ آپؐ نے ہنس کر فرمایا ’’نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ تمہارا خون میرا خون ہو گا۔ تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن۔‘‘ اس پر عباس بن عبادہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا۔ لوگو کیا تم سمجھتے ہوکہ اس عہد و پیمان کے کیا معنے ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اَسوَد و اَحمرَ کے مقابلہ کے لیے تیار ہونا چاہیئے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیئے۔‘‘لوگوں نے کہا’’ہاں ہم جانتے ہیں۔ مگر یا رسول اﷲ ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تمہیں خدا کی جنت ملے گی، جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔‘‘ سب نے کہا ’’ہمیں یہ سودا منظور ۔ یا رسول اﷲ! اپنا ہاتھ آگے کریں۔‘‘ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک آگے بڑھادیا اور یہ ستّر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپؐ کے ہاتھ پر بِک گئی۔۱؎ اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے۔
جب بیعت ہو چکی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ موسیٰ ؑنے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے، جو موسیٰ ؑکی طرف سے اُن کے نگران اور محافظ تھے۔ مَیں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کئے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا۔ ۲؎ اور انہیں ایک ایک قبیلہ کا نگران مقرر کر کے اُن کے فرائض سمجھا دیئے اور بعض قبائل کے لیے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ بہرحال ان بارہ نقیبوں کے نام یہ ہیں:
۱- اسعد بن زرارہ
ان کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے۔ قبیلہ خزرجؔ کے خاندان بنو نجار میں سے تھے۔ جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رشتہ داری تھی۔ یثرب میں نمازِ جمعہ کی ابتداء انہی کے ہاتھوں سے ہوئی۔ اوّل درجہ کے مخلصوں میں سے تھے۔ ہجرت کے بعد جنگِ بدر سے پہلے فوت ہو گئے۔
۲- اُسَید بن الحضیر
ان کا ذکر بھی گذر چکا ہے۔ قبیلہ اوسؔ کے خاندان بنو عبدالاشھل سے تھے اور اکابر صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا والد جنگِ بُعاث میں قبیلہ اوسؔ کا قائدِ اعظم تھا۔ اُسَید نہایت مخلص اور نہایت سمجھدار تھے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ انصار میں سے تین اشخاص اپنی افضلیت میں جواب نہیں رکھتے تھے یعنی اُسَید بن الحضیر۔ سعد بن معاذ اور عباد بن بشر اور اس میں شُبہ نہیں کہ اُسید بڑے پائے کے صحابی تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ اُسَید کی بڑی عزت کرتے تھے۔ عہدِفاروقی میں وفات پائی۔
۳-ابو الھیثم مالک بن تیہّان
ان کا ذکر بھی اُوپر گذر چکا ہے۔ حلفاء بنی عبدالاشھل سے تھے۔ جنگِ صفین میں حضرت علی ؓ کی طرف سے ہو کر لڑے اور شہادت پائی۔
۴- سعد بن عبادہ
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھے اور تمام قبیلہ خزرج کے رئیس تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدِمبارک میں ممتاز ترین انصار میں شمار ہوتے تھے۔ حتیّٰ کہ آنحضرت ؐ کی وفات پر بعض انصار نے انہی کو خلافت کے لیے پیش کیا تھا جس کی وجہ سے وہ خلافتِ ابو بکرؓ کے سوال پر متزلزل ہو گئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فوت ہوئے۔
۵- البراء بن معرور
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تھے اور بڑے معمر اور بزرگ آدمی تھے۔ ہجرت سے پہلے ہی وفات پاگئے۔
۶- عبداﷲ بن رواحہ
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حارث سے تھے اور مدینہ کے مشہور شاعر اور اوّل درجہ کے مخلصین میں سے تھے۔ جنگِ موتہ میں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی تھی حضرت جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے بعد یہ امیر العسکر ہوئے اور لڑتے لڑتے شہادت پائی۔
۷- عبادہ بن صامت
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عوف میں سے تھے اور علماء صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان سے کئی احادیث مروی ہیں۔ حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں فوت ہوئے۔
۸- سعد بن الربیع
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ثعلبہ میں سے تھے۔ بڑے مخلص اور ممتاز صحابی تھے۔ حضرت ابو بکرؓ انہیں بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جنگِ اُحد میں شہید ہوئے۔
۹- رافع بن مالک
ان کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے۔ قبیلہ خزرج کے خاندان بنی زریق میں سے تھے۔ جب یہ اسلام لائے تو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے ان کو وہ قرآنی سورتیں عطا فرمائیں جو اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں۔ جنگِ احد میں شہید ہوئے۔
۱۰- عبداﷲ بن عمرو
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سلمہ سے تھے جنگِ اُخد میں شہید ہوئے ان کی وفات پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے صاحبزادہ جابر بن عبداﷲ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے والد سے اﷲ تعالیٰ نے بالمشافہ کلام کیا اور ان سے خوش ہو کر کہا کہ ’’اے میرے بندے! تم نے جو مانگنا ہو مانگو۔‘‘ تمہارے والد نے عرض کیا۔ اَے میرے خالق و مالک میری بس یہی خواہش ہے کہ پھر زندہ کیا جاؤں تا پھر اسلام کے راستہ میں جان دُوں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ہم ایسا ضرور کر دیتے، مگر ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ کوئی بَشر اس دُنیا سے گذر کر پھر اس دُنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ عبداﷲ بن عمرو کے متعلق یہ روایت بھی آتی ہے کہ ایک دفعہ جنگِ اُحد کے چھیالیس سال بعد کسی سیلاب کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوا تو اُن کی قبر کھود کر ان کو دُوسری جگہ منتقل کرنے کی تجویز کی گئی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ان کی نعش اسی طرح صحیح و سلامت تھی جس حالت میں کہ انہیں دفن کیا گیا تھا۔
۱۱- سعد بن خیثمہ
قبیلہ اوس کے خاندان بنو حارثہ میں سے تھے۔ جنگِ بدر میں شہید ہوئے۔ جب یہ جنگِ بدر کے لیے مدینہ سے نکلنے لگے تو ان کے والد نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو گھر پر ٹھہرنا چاہیئے اور چونکہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جانا چاہتا ہوں ، تم گھر پر ٹھہرو۔ مگر انہوں نے اصرار کیا اور آخر یہ تجویز ہوئی کہ اس غرض کے لئے قرعہ ڈالا جائے؛ چنانچہ قرعہ میں ان کا نام نکلا اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے اور اُسی جنگ میں شہید ہوئے۔
۱۲- منذر بن عمرو
قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھے اور ایک صوفی مزاج آدمی تھے۔’’بئر معونہ‘‘ میں شہید ہوئے۔ ۱؎
جب نقیبوں کا تقرر ہو چکا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے انصار سے تاکید کی کہ انہیں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ قریش کے جاسوس سب طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قول و اقرار کی خبر نِکل جائے اور مشکلات پیدا ہو جائیں۔ ابھی غالباً وہ یہ تاکید کر ہی رہے تھے کہ گھاٹی کے اُوپر سے رات کی تاریکی میں کسی شیطان کی آواز آئی کہ ’’اے قریش! تمہیں بھی کچھ خبر ہے کہ یہاں (نعوذ باﷲ) مُذَمَّم اور اس کے ساتھ کے مرتدین تمہارے خلاف کیا عہدوپیمان کر رہے ہیں۔‘‘ اس آواز نے سب کو چونکا دیا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بالکل مطمئن رہے اور فرمایا کہ اب آپ لوگ جس طرح آئے تھے اُسی طرح ایک ایک دو دو ہو کر اپنی قیام گاہوں میں واپس چلے جائیں۔ عباس بن نضلہ انصاری نے کہا۔ ’’یارسُول اﷲ! ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے۔ اگر حکم ہو تو ہم آج صبح ہی ان قریش پر حملہ کر کے اُنہیں ان کے مظالم کا مزہ چکھادیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ نہیں نہیں مجھے ابھی تک اس کی اجازت نہیں ہے۔ بس تم صرف یہ کرو کہ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ۔‘‘ جس پر تمام لوگ ایک ایک دو دو کر کے دبے پاؤں گھاٹی سے نِکل گئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اپنے چچا عباس کے ساتھ مکّہ میں واپس تشریف لے آئے۔ قریش کے کانوں میں چونکہ بھِنک پڑ چکی تھی کہ اس طرح رات کوکوئی خفیہ اجتماع ہوا ہے۔ وہ صُبح ہوتے ہی اہلِ یثرب کے ڈیرہ میں گئے اور ان سے کہا کہ ’’آپ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ان تعلّقات کو خراب کریں، مگر ہم نے سُنا ہے کہ گذشتہ رات محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھ آپ کا کوئی خفیہ سمجھوتہ ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ اوسؔ اور خزرجؔ میں سے جو لوگ بُت پرست تھے ان کو چونکہ اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہ تھی، وہ سخت حیران ہوئے اور صاف انکار کیا کہ قطعاً کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ عبداﷲ بن اُبی بن سلول بھی جو بعد میں منافقینِ مدینہ کا سردار بنا۔ اس گروہ میں تھا۔ اس نے کہا۔ ’’ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ اہلِ یثرب کوئی اہم معاملہ طے کریں اور مجھے اس کی اطلاع نہ ہو؟‘‘ غرض اس طرح قریش کا شک رَفع ہوا اور وہ واپس چلے آئے۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد انصار واپس یثرب کی طرف کوچ کر گئے، لیکن ان کے کوچ کر جانے کے بعد قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اہلِ یثرب نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہدوپیمان کیا ہے جس پر ان میں سے بعض آدمیوں نے اہل یثرب کا پیچھا کیا۔ قافلہ تو نِکل گیا تھا، مگر سعد بن عبادہ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے اُن کو یہ لوگ پکڑ لائے اور مکّہ کے پتھریلے میدان میں لاکر خوب زدوکوب کیا اور سرکے بالوں سے پکڑ کر ادھر اُدھر گھسیٹا۔ آخر جبیرؔبن مطعم اور حارثؔ بن حرب کو جو سعدؔ کے واقف تھے اطلاع ہوئی تو انہوں نے ان کو ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑا دیا۔۱؎
ہجرتِ یَثرب
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک دفعہ رؤیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپؐ کو ایک دن مکّہ سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانا ہو گا اور ساتھ ہی آپؐ کو ہجرت کی جگہ دکھائی گئی
جو ایک باغوں اور چشموں والی جگہ تھی۔ چونکہ ابھی تک اس کی تشریح آپؐ پر نہیں کھلی تھی اور تشریح سے قبل ایک نبی بھی بعض اوقات اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے، اس لیے آپؐ فرماتے ہیں کہ:
ذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّھَا الْیَمَامَۃُ اَوْحَجَرُفَاِذَا ھِیَ مَدِیْنَۃُ یَثْرِبَ۔۲؎
یعنی ’’میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ جگہ یمامہؔ یا حجرؔ ہے (جو نجد میں دو شاداب جگہیں ہیں) مگر وہ یثرب نِکل آیا۔‘‘
چنانچہ جب یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو تب آپؐ پر یہ منکشف ہوا کہ ہجرت کی جگہ یثرب ہے نہ کہ یمامہؔ یا حجرؔ۔ اس کے بعد جب انصار کے ساتھ سب قول و قرار ہو چکا اور وہ ایک دفاعی عہدوپیمان کی بیعت کر کے واپس چلے گئے تو آپؐ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اب جو لوگ جاسکیں وہ سب یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں باوجود قریش کی طرف سے کئی قسم کی روکوں کے اکثر مسلمان ہجرت کر گئے اور مکّہ کے بہت سے مکانات خالی ہو گئے اور بالآخر صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علی ؓ اور ان کے اہل و عیال اور ایسے کمزور لوگ جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتے تھے یا جنہیں قریش ہجرت کے لیے نکلنے نہ دیتے تھے باقی رہ گئے۔ یہ سب مہاجرین مدینہ اور انصار کے مکانات میں متفرق طور پر بطور مہمان کے ٹھہرے اور اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے اور مہاجرین کے واسطے آہستہ آہستہ الگ مکانات کا انتظام ہو گیا۔ مدینہ والوں نے جن کو مہاجرین آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصرت کرنے اور پناہ دینے کی وجہ سے انصار کہتے ہیں نہایت گرمجوشی کے ساتھ مہاجرین کا استقبال کیا اور اپنے حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر اُن کے ساتھ سلوک کیا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپؐ نے سب مہاجرین کو انصار کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔ ۳؎
خدا تعالیٰ کا نبی مہاجر کے لباس میں
اب ہم اس عظیم الشان واقعہ کے قریب پہنچ گئے ہیں جس سے اسلام میں ایک نئے دَور کا آغاز ہوتا ہے یعنی
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے وطنِ مالوف کو چھوڑ کر یثرب کی طرف ہجرت کر جانا۔ اسلامی سنہ جو سن ہجری کہلاتا ہے اسی انقلابی تاریخ سے شمار کیا جاتا ہے۔
جب تمام مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو قریش کو اپنی سابقہ کارروائیوں کی وجہ سے اندیشہ ہوا کہ اس طرح تمام مسلمانوں کا وطن سے بے وطن ہو جانا ضرور کوئی رنگ لائے گا۔ علاوہ ازیں ان کو یہ بھی غصّہ تھا کہ ان کا شکار اُن کے ہاتھ سے نکلا جاتاہے، اس لیے انہوں نے اپنی جگہ سوچا کہ کوئی ایسی تدبیر کریں جس سے یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے مِٹ جائے اور اُن کے مظالم کی پاداش کا کوئی سوال باقی نہ رہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی مکّہ میں ہی تھے اور اﷲ تعالی کی طرف سے ہجرت کے متعلق اجازت کے منتظر تھے۔ مکّہ والوں نے دیکھا کہ یہ موقع بہت اچھا ہے۔ مُسلمان سب جاچکے ہیں اور محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اب گویا اکیلا تن تنہا ہے۔ اس لیے اس کے متعلق کوئی ایسی تدبیر ہو کہ بس اس کا خاتمہ ہی ہو جائے؛ چنانچہ وہ اس خیال سے اپنے قومی مشورہ گاہ یعنی دارالنّدوہ میں جمع ہوئے اور باہم مشورہ کرنے لگے کہ کیا کیا جاوے۔ اس مشورہ میں قریباً ایک سو قریش شامل تھے اور ایک ابلیس صفت معمر نجدی شیخ بھی شریک تھا۔ پیش آمدہ صورتِ حال پر گفت و شنید ہونے کے بعد مشورہ کے آخری مراحل میں یوں گفتگو ہوئی:
ایک شخص: محمد کو آہنی زنجیروں سے جکڑ کر ایک کمرہ میں بند کر دو کہ وہیں پڑا پڑا ہلاک ہو جائے۔
شیخ نجدی: یہ رائے دُرست نہیں کیونکہ جب محمد کے رشتہ داروں اور متبعین کو علم ہو گا تو وہ ضرور حملہ کرکے آئیں گے اور اس کو چھڑا لیں گے اور پھر فساد آگے سے بھی بڑھ جائے گا۔
دوسرا شخص: محمد کو مکّہ سے جلا وطن کر دو۔ جب وہ ہماری آنکھوں سے دُور ہو گیا اور ہمارے شہر سے نکل گیا تو ہمیں کیا کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ ہمارے شہر کو اس فتنہ سے نجات مِل جائے گی۔
شیخ نجدی: کیا تم نے محمد کی شیریں زبانی اور طلاقتِ لسانی اور سحر بیانی نہیں دیکھی۔اگر وہ یہاں سے یونہی سلامت نِکل گیا تو یقین جانو کہ اس کے بہکائے میں آکر کوئی نہ کوئی قبیلۂ عرب تمہارے خلاف اُمڈ آئے گا اور پھر تم اس کے خلاف کچھ نہ کر سکو گے۔
غرض اسی طرح تھوری دیر تک باہم گفتگو ہوتی رہی۔ کسی نے کچھ رائے دی اور کسی نے کچھ۔ آخر ابوجہل بن ہشام بولا:
ابوجہل: میری رائے تو یہ ہے کہ قریش کے ہر اک قبیلہ سے ایک ایک جوان چُنا جائے اور اُن کے ہاتھ میں تلواریں دے دی جاویں۔ پھر یہ لوگ ایک آدمی کی طرح اکٹھے ہو کر محمد پر حملہ کریں اور اُسے قتل کر دیں۔ ایسا کرنے سے اس کا خون سب قبائلِ قریش پر پھیل جائے گا اور بنو عبدمناف کو اتنی جرأت ہر گز نہیں ہو گی کہ ساری قوم کے ساتھ لڑیں۔ پس لامحالہ ان کو اس خون کے بدلے میں دیت قبول کرنی ہو گی۔ سو وہ ہم دے دیں گے۔
شیخ نجدی: رائے ہے تو بس اس شخص کی۔ باقی سب فضول باتیں ہیں۔ پس اگر کچھ کرنا ہے تو جو یہ کہتا ہے وہ کرو۔
غرض اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ ۱؎
قرآن شریف میں ان کے اس مشورہ کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:
۲؎
’’اور یاد کر جبکہ کفّار تیرے متعلق منصوبے کرتے تھے تاکہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر دیں یا وطن سے نکال دیں۔ ۳؎ اور وہ اپنی طرف سے خوب پختہ منصوبے گانٹھ رہے تھے مگر اﷲ نے بھی اپنی جگہ تدبیر کر لی تھی اور اﷲ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
ادھر یہ لوگ مشورہ کر کے نکلے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خون سے اپنے پلید ہاتھ رنگیں اور اُدھر اﷲ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے اپنے نبی کو ان کے اس بداراوے سے اطلاع دے دی اور اجازت عطا فرمائی کہ یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں اور آنے والی رات مکّہ میں نہ گذاریں۔ ۴؎
یہ اطلاع پاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم گھر سے نکلے۔ گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کا وقت تھا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ صبح یا شام آپؐ ہمارے مکان پر حضرت ابوبکرؓ سے ملنے تشریف لایا کرتے تھے۔ ۵؎ اُس دن جو بے وقت آئے اور آئے بھی اس طرح کہ آپؐ نے اپنا سَر ایک کپڑے سے ڈھانکا ہوا تھا۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ آج کوئی خاص بات ہے۔ آپؐ اجازت لے کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا۔ ’’اگر یہاں کوئی غیر شخص ہو تو اُسے ذرا باہر بھیج دیں۔‘‘ ابو بکرؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اﷲ! آپؐ ہی کے گھر کے لوگ ہیں۔‘‘ فرمایا ’’مجھے ہجرت کی اجازت مِل گئی ہے۔‘‘ حضرت ابو بکرؓ دن رات اس خبر کے انتظار میں تھے۔فوراً بولے اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُوْلَ اﷲِ۔ یعنی ’’یارسول اﷲ! مجھے بھی ساتھ رکھیئے گا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’ہاں۔‘‘ ۱؎ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے اس وقت تک کسی شخص کو خوشی میں روتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اب دیکھا کہ جونہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ حضرت ابوبکر ؓ کے آنسو جاری ہو گئے۔ ۲؎ پھر اُنہوں نے آپؐ سے عرض کیا۔ یارسول اﷲ! میں نے ہجرت کی تیاری میں دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھِلا کھِلا کر پال رکھی ہیں۔ ان میں سے ایک آپؐ قبول فرماویں۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ہاں، مگر قیمتاً لوں گا۔‘‘ ابوبکر ؓ نے ناچار قبول کیا اور ہجرت کی تیاری شروع ہوئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے جلدی جلدی ضروری سامان تیار کیا اور کھانا تیار کر کے ایک چمڑہ کے برتن میں بند کیا اور پھر میری بہن اسمائؔ نے اپنے نطاق یعنی کمر پر باندھنے والے پٹکے کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا کھانے کے برتن پر باندھ دیا اور ایک پانی کے برتن پر۔ اس سبب سے اُن کو ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ یعنی دو نطاقوں والی کہتے ہیں۔ ۳؎ اس کے بعد آپؐ حضرت ابوبکر ؓ سے اسی رات مکّہ سے نِکل جانے اور غارِ ثور میں پناہ لیٹے کی قرار داد کر کے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے۔
آغازِ سفرِ ہجرت اور قریش کا تعاقب
رات کا تاریک وقت تھا اور ظالم قریش جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے خُونی ارادے کے ساتھ آپؐ کے
مکان کے ارد گرد جمع ہو کر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے اور انتظار تھا کہ صُبح ہو یا آپؐ اپنے گھر سے نِکلیں تو آپؐ پر ایک دم حملہ کر کے قتل کر دیا جاوے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بعض کفّار کی اَمانتیں پڑی تھیں۔ کیونکہ باوجود شدید مخالفت کے اکثر لوگ اپنی امانتیں آپؐ کے صِدق و امانت کی وجہ سے آپؐ کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ ۴؎ لہٰذا آپؐ نے حضرت علیؓ کو ان امانتوں کا حساب کتاب سمجھا دیا اور تاکید کی کہ بغیر امانتیں واپس کئے مکّہ سے نہ نِکلنا۔ اس کے بعد آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور تسلّی دی کہ انہیں خُدا کے فضل سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ وہ لیٹ گئے اور آپؐ نے اپنی چادر جو سُرخ رنگ کی تھی اُن کے اُوپر اُڑھا دی۔ اس کے بعد آپؐ اﷲ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے اُس وقت محاصرین آپؐ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس قدر اوّل شب میں ہی گھر سے نِکل آئیں گے۔ وہ اُس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپؐ اُن کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے اُن کے درمیان سے نِکل گئے اور اُن کو خبر تک نہ ہوئی۔ اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ مگر جلد جلد مکّہ کی گلیوں میں سے گذررہے تھے اور تھوڑی ہی دیرمیں آبادی سے باہر نکل گئے اور غارِ ثور کی راہ لی۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ پہلے سے تمام بات طے ہو چکی تھی وہ بھی راستہ میں مل گئے۔ غارِ ثور جو اسی واقعہ کی وجہ سے اسلام میں ایک مقدس یادگار سمجھی جاتی ہے مکّہ سے جانب جنوب یعنی مدینہ سے مختلف جانب تین میل کے فاصلہ پر ایک بنجر اور ویران پہاڑی کے اُوپر خاصی بلندی پر واقع ہے اور اس کا راستہ بھی بہت دشوار گذار ہے وہاں پہنچ کر پہلے حضرت ابوبکرؓ نے اندر گھُس کر جگہ صاف کی اور پھر آپؐ بھی اندر تشریف لے گئے۔
دوسری طرف وہ قریش جو آپؐ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوتے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھتے تھے، تو حضرت علی ؓ کو آپؐ کی جگہ پر لیٹا دیکھ کر مطمئن ہو جاتے تھے لیکن صبح ہوئی تو انہیں علم ہوا کہ ان کا شکار اُن کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس پر وہ اِدھر اُدھر بھاگے۔ مکّہ کی گلیوں میں صحابہ کے مکانات پر تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ اس غصّہ میں انہوں نے حضرت علیؓ کو پکڑا اور کچھ مارا پیٹا۔ حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر جاکر شور کیا اور ان کی صاحبزادی کو ڈانٹا ڈپٹا مگر ان باتوں سے کیا بنتا تھا۔
آخر اُنہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو زندہ یا مُردہ پکڑ کر لائے گا، اس کو ایک سو اُونٹ انعام دیئے جاویں گے؛ چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکّہ کے چاروں طرف اِدھر اُدھر نکل گئے۔ خود رؤساء قریش بھی سُراغ لیتے لیتے آپؐ کے پیچھے نِکلے اورعین غارِ ثور کے مُنہ پر جاپہنچے۔ یہاں پہنچ کر اُن کے سُراغ رسان نے کہا کہ ’’بس سُراغ اس سے آگے نہیں چلتا۔ اس لیے یا تو محمد یہیں کہیں پاس ہی چھپا ہوا ہے یا پھر آسمان پر اُڑ گیا ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔’’ کوئی شخص ذرا اس غار کے اندر جاکر بھی دیکھ آئے۔‘‘ مگر ایک اور شخص بولا کہ ’’واہ یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ بھلا کوئی شخص اس غار میں جاکر چھپ سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت تاریک و تاراور خطرناک جگہ ہے اور ہم ہمیشہ سے اسے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔‘‘ یہ بھی روایت آتی ہے کہ غار کے مُنہ پر جو درخت تھا۔ اُس پر آپؐ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور عین مُنہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے تھے۔ یہ روایت تو کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو ہر گز تعجب کی بات نہیں۔ مکڑی بعض اوقات چند منٹ میں ایک وسیع جگہ پر جالا تن دیتی ہے اورکبوتری کو بھی گھونسلا تیار کرنے اور انڈے دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ اس لیے اگر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کے لیے ایسا تصرف فرمایا تو ہر گز بعید نہیں ہے بلکہ اس وقت کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔ بہرحال قریش میں سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور یہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے۔ ۱؎
روایت آتی ہے کہ قریش اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اُن کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور ان کی آواز سُنائی دیتی تھی۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر مگر آہستہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’یارسول اﷲ! قریش اتنے قریب ہیں کہ اُن کے پاؤں نظر آرہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:
لَاتَخْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا
یعنی ’’ہرگز کوئی فکر نہ کرو۔ اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
وَمَاظَنُّکَ یَااَبَابَکْرٍ بِاِثْنَیْنِ اَﷲُ ثَالِثُھُمَا
یعنی ’’اے ابوبکرؓ! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خُدا ہے۔‘‘ ۲؎
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے مُنہ کے پاس پہنچے، تو حضرت ابوبکرؓ سخت گھبرا گئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلّی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے رِقّت بھری آواز میں کہا:
اِنْ قُتِلْتُ فَاَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَاِنْ قُتِلْتَ اَنْتَ ھَلَکَتِ الْاُمَّۃُ۔ ۳؎
یعنی ’’یا رسول اﷲ! اگر میں مارا جاؤں تو میں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری اُمّت کی اُمّت مِٹ گئی۔‘‘
اس پر آپؐ نے خدا سے الہام پاکر یہ الفاظ فرمائے کہ:
’’لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا‘‘ ۴؎
یعنی ’’اے ابوبکرؓ! ہر گز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خُدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں۔‘‘یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مند ہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں۔ مگر خداتعالیٰ اس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔۱؎
سفر ہجرت اور تعاقب سراقہ بن مالک
حضرت ابو بکرؓ نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے بیٹے عبداﷲ کو جو ایک بہت زِیرک اور ہوشیار نوجوان تھے ہدایت
کی تھی کہ قریش کی حرکات کا خیال رکھیں اور روزانہ غارِ ثور میں اِطلّاع دے جایا کریں۔ چنانچہ وہ ایسا کرتے تھے کہ رات کو اندھیرا ہوتے ہی غارِ ثور میں پہنچ جایا کرتے تھے اور رات وہیں گذار کر صبح سویرے ہی واپس آجایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے خادم عامرؔ بن فہیرہ کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ دن بھر بکریاں چرائیں اور رات کو اُن کے پاس دُودھ پہنچا جایا کریں۔ اس طرح آپؐ تین رات تک غارِ ثور میں ٹھہرے اور اس عرصہ تک یہی انتظام جاری رہا۔ پھر جب قریش کے تعاقب کی کوشش میں کمی آگئی تو تیسرے دن صُبح کے وقت آپؐ غار سے نِکلے۔ ۲؎ یہ پیر کا دن تھا اور چار ربیع الاوّل یا بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۴ نبوی مطابق ۱۲؍ستمبر ۶۲۲ء کی تاریخ تھی۔۳؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ نے پہلے سے ایک شخص عبداﷲ بن اریقط کو جو قبیلہ بنی الدیل سے تھا اور باوجود عاص بن وائل رئیس مکّہ کے ساتھ تعلق رکھنے کے قابلِ اعتماد تھا معقول اُجرت دینی کر کے بطور رہنما کے ساتھ چلنے کے لیے مقررکر رکھا تھا۔ یہ شخص اپنے فن کا خُوب ماہر تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسے پہلے سے اپنی اُونٹنیاں سُپرد کر رکھی تھیں اور سمجھا رکھا تھا کہ تین رات کے بعد تیسرے دن کی صُبح کو اُونٹنیاں لے کر غارِ ثور میں پہنچ جائے۔ ۴؎ چنانچہ وہ حسبِ قرار داد پہنچ گیا۔ یہ بخاری کی مشہور روایت ہے، مگر مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رات کو روانہ ہوئے تھے اور خود بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں اس کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ ۱؎ اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ آپؐ رات کو روانہ ہوئے ہوں۔ بہرحال غارِ ثور سے نِکل کر آپ ایک اُونٹنی پر جس کا نام بعض روایات میں اَلقصوا بیان ہوا ہے، سوار ہو گئے اور دُوسری پر حضرت ابو بکر ؓ اور اُن کا خادم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے۔ ۲؎ روانہ ہوتے ہوئے آپؐ نے مکّہ کی طرف آخری نظر ڈالی اور حسرت کے الفاظ میں فرمایا۔ ’’اے مکّہ کی بستی تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔‘‘ ۳؎ اس وقت حضرت ابو بکر ؓ نے کہا۔ ’’اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے۔ اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔ ۴؎
چونکہ ابھی تک تعاقب کا ڈر تھا، اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اصل راستہ چھوڑ کر ساحل سمندر کے قریب قریب یثرب کی طرف روانہ ہوئے اور برابر ایک رات اور دُوسرے دن کا کچھ حِصّہ چلتے رہے۔ دوسرے دن دوپہر کے قریب جب سُورج کی گرمی تیز ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کے عرض کرنے پر آپؐ ایک بڑے پتھر کے سایہ میں آرام فرمانے کے لیے اُترے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے آگے بڑھ کر آپؐ کے واسطے جگہ تیار کی اور آپؐ ذرا لیٹ کر سو گئے اور حضرت ابو بکر ؓ اِدھر اُدھر نظر دَوڑا کر دیکھنے لگے کہ کوئی تعاقب کرنے والا تو نہیں آرہا۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ کو ایک چرواہا نظر آیا جس کے ساتھ چند بکریاں تھیں۔ جنہیں وہ اُسی پتھر کی طرف سایہ کی غرض سے لارہا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے دودھ کی اجازت لے کر اس کے ہاتھ اور بکری کے تھن خوب اچھی طرح صاف کروائے اور پھر اسے دُودھ دُوہنے کو کہا۔ چنانچہ اس نے ایک برتن میں دُودھ دوہا اور پھر حضرت ابوبکرؓ اُسے پانی میں ٹھنڈا کر کے آپؐ کے پاس لائے۔ اس وقت تک آپؐ نیند سے جاگ چکے تھے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کے سامنے دودھ کا برتن پیش کیا اور آپ نے اسے نوش فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ روایت کرتے ہیں کہ اس سے میری طبیعت خوش ہو گئی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے آپؐ سے عرض کیا ’’یا رسول اﷲ کوچ کا وقت ہو گیا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہاں چلو‘‘۔
چنانچہ آپؐ آگے روانہ ہو گئے لیکن ابھی آپؐ تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آرہا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے گھبرا کر کہا۔ ’’یارسُول اﷲ! کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آرہا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’کوئی فکر نہ کرو۔ اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ۵؎
یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصّہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ سے نکل گئے تو کفّارِ قریش نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی بھی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) یا ابو بکرؓ کو زندہ یا مُردہ پکڑ کر لائے گا اسے اس اس قدر انعام دیا جائے گا اور اس اعلان کی انہوں نے اپنے پیغام رسانوں کے ذریعہ سے ہمیں بھی اطلاع دی۔ اس کے بعد ایک دن مَیں اپنی قوم بنو مدلج ۱؎ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ قریش کے ان آدمیوں میں سے ایک شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی ابھی ساحلِ سمندر کی سمت میں دُور سے کچھ شکلیں دیکھی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہوں گے۔ سراقہؔ کہتا ہے کہ مَیں فوراً سمجھ گیا کہ یہ ضرور وہی ہوں گے مگر مَیں نے اُسے ٹالنے کے لیے (اور یہ فخر خود حاصل کرنے کی غرض سے) کہا کہ یہ تو فلاں فلاں لوگ ہیں جو ابھی ہمارے سامنے سے گذرے ہیں۔ اس کے تھوڑی دیر کے بعد مَیں اس مجلس سے اُٹھا اور اپنے گھر آکر اپنی خادمہ سے کہا کہ میرا گھوڑا تیار کر کے گھر کے پچھواڑے میں کھڑا کر دے اور پھر مَیں نے ایک نیزہ لیا اور گھر کی پشت کی طرف سے ہو کر چپکے سے نکل گیا اور گھوڑے کو تیز کر کے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مَیں زمین پر گِر گیا، لیکن مَیں جلدی سے اُٹھا اور اپنا ترکش نکال کر مَیں نے (ملک کے دستور کے مطابق) تیروں سے فال لی۔ فال میرے منشاء کے خلاف نکلی۔ مگر (اسلام کی عداوت کا جوش اور انعام کا لالچ تھا) مَیں نے فال کی پرواہ نہ کی اور پھر سوار ہو کر تعاقب میں ہو لیا اور اس دفعہ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی (جو اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے جارہے تھے) قرأت کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو ایک دفعہ بھی مُنہ موڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔ لیکن ابو بکر ؓ (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فکر کی وجہ سے) بار بار دیکھتے تھے۔ مَیں جب ذرا آگے بڑھا تو میرے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس دفعہ اس کے پاؤں ریت کے اندر دھنس گئے اور مَیں پھر زمین پر آرہا۔ میں نے اُٹھ کر گھوڑے کو جو دیکھا تو اس کے پاؤں زمین میں اس قدر دھنس چکے تھے کہ وہ انہیں زمین سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر بڑی مشکل سے وہ اُٹھا اور اس کی اس کوشش سے میرے ارد گرد سب غبار ہی غبار ہو گیا۔ اس وقت میں نے پھر فال لی اور پھر وہی فال نکلی۔ جس پر میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو صلح کی آواز دی۔ اس آواز پر وہ ٹھہر گئے اور مَیں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اُن کے پاس پہنچا۔ اس سرگذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی مَیں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم غالب رہیں گے؛ چنانچہ مَیں نے صُلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپؐ کی قوم نے آپؐ کو قتل کرنے یا پکڑ لانے کے لیے اس اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپؐ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اور مَیں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب مَیں واپس جاتا ہوں۔ اس کے بعد مَیں نے انہیں کچھ زادِ راہ پیش کیا مگر انہوں نے نہیں لیا اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور سوال کیا۔ صرف اس قدر کہا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد مَیں نے (یہ یقین کرتے ہوئے کہ کسی دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملک میں غلبہ حاصل ہو کر رہے گا) آپؐ سے عرض کیا کہ مجھے ایک اَمن کی تحریر لکھ دیں۔ جس پر آپؐ نے عامر بن فہیرہ کو ارشاد فرمایا اور اُس نے مجھے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ دی۔ ۱؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی آگے روانہ ہو گئے۔ ۲؎
جب سراقہ واپس لوٹنے لگا تو آپؐ نے اُسے فرمایا۔ ’’سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا۔ جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے ؟ ‘‘ ۳؎ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ ’’کسریٰ بن ہرمز شہنشاہِ ایران‘‘؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں۔‘‘ سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسریٰ شہنشاہِ ایران کے کنگن! مگر قدرتِ حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مُسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسریٰ کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے۔ حضرت عمر ؓ نے سراقہ کو بُلایا جو فتح مکہ کے بعد مُسلمان ہو چکا تھا اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن جو بیش قیمت جواہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے۔ ۴؎
سراقہ کے تعاقب سے رہائی ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم آگے بڑھے ۔ راستہ میں زبیر بن العوام ؓ سے ملاقات ہو گئی جو شام سے تجارت کر کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مکّہ کو واپس جارہے تھے۔ زبیرؔ نے ایک جوڑا سفید کپڑوں کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اور ایک حضرت ابوبکرؓ کی نذر کیا۔ ۵؎ اور کہا مَیں بھی مکّہ سے ہو کر بہت جلد آپؐ سے مدینہ میں آمِلوں گا۔ اَور بھی کئی لوگ راستہ میں ملتے تھے اور چونکہ حضرت ابو بکر ؓ بوجہ تجارت پیشہ ہونے کے اس راستہ سے بارہا آتے جاتے رہتے تھے اس لئے اکثر لوگ ان کو پہچانتے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے۔ لہٰذا وہ ابو بکرؓ سے پوچھتے تھے کہ یہ تمہارے آکے آگے کون ہے۔ حضرت ابو بکرؓ فرماتے۔ ھٰذا یَھْدِیْنِیَ السَّبِیْلَ۔ ’’یہ میرا ہادی ہے۔‘‘ وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ کوئی دلیل یعنی گائیڈ ہے جو راستہ دکھانے کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے ساتھ لے لیا ہے۔ مگر حضرت ابو بکرؓ کا مطلب کچھ اور ہوتا تھا۔ ۱؎
اختتام سفر اور تکمیلِ ہجرت
آٹھ روز کے سفر کے بعد راستہ میں مختلف جگہ ٹھہرتے ہوئے بارہ ربیع الاوّل ۱۴ نبوی مطابق ۲۰؍ ستمبر ۶۲۲ء کو آپؐ مدینہ کے پاس پہنچے۔ ۲؎
اہلِ یثرب کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکّہ سے روانگی کے متعلق خبر پہنچ چکی تھی، اس لیے وہ ہر روز مدینہ سے باہر آپؐ کے استقبال کے لیے آتے اور دیر دیر تک انتظار کرتے رہتے تھے، مگر جب دُھوپ تیڑ ہونے لگتی تھی تو مایوس ہو کر واپس لَوٹ جاتے تھے۔ اُس دن بھی وہ آپؐ کے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے، مگر چونکہ دن بہت چڑھ آیا تھا اس لیے آج بھی مایوس ہو کر واپس چلے گئے تھے کہ اچانک جبکہ وہ ابھی اپنے گھروں میں پہنچے ہی تھے ایک یہودی نے جو اپنی گڑھی میں ایک بلند مقام پر کسی اپنی غرض سے کھڑا تھا دُور سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو سفید لباس میں چمکتے ہوئے دیکھا اور زور سے پُکار کر کہا۔ ’’اے اہلِ عرب! جس کا تم راہ دیکھتے ہو وہ یہ آتا ہے۔‘‘ مخلص جماعت کے کان میں یہ آواز پہنچی اور مسلمان خوشی کے جوش میں دیوانے ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور جلدی جلدی ہتھیار سنبھال کر دوڑتے بھاگتے ہوئے شہر سے باہر نکل آئے۔ ۳؎

مکّی زندگی پر ایک سرسری نظر
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے پہلے دور یعنی قبل از بعثت زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے جو قلّتِ واقعات کی شکایت ہم نے بیان کی تھی وہ آپؐ کی زندگی کے دُوسرے دَور میں بھی پوری طرح دُور نہیں ہوئی۔ یہ دُرست ہے کہ ماموریّت کے دعویٰ کے بعد ایسے لوگ موجود تھے جن کے واسطے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ایک نمونہ کا حکم رکھتی تھی اور جو آپؐ کی تمام حرکات و سکنات کو غور کی نظر سے مطالعہ کرتے تھے اور ہر وقت آپؐ کی صحبت میں رہنے کے خواہشمند تھے مگر جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں قریش کے مظالم نے مکّہ میں مسلمانوں کو کبھی بھی اکٹھا نہیں ہونے دیا اور کبھی بھی ان کو اتنی فرصت اور موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے آقا کی صحبت میں رہ کر اس کی زندگی کے تمام حالات کو آنے والی نسلوں کے لیے بالتفصیل محفوظ کردیں۔ باایں ہمہ بعثت سے قبل اور بعد کی زندگی کے حالات میںایک بہت نمایاں فرق نظر آتا ہے اور انشاء اﷲ تعالیٰ مدنی زندگی کے حالات میں یہ فرق بہت ہی نمایاں ہو جائے گا۔ کیونکہ مدینہ میں صحابہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے اور آپؐ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے کا ہر وقت موقع ملتا تھا اور انہوں نے بھی جس تفصیل اور بسط کے ساتھ اس زمانہ کے متعلق آپؐ کے سوانح کو ہم تک پہنچایا ہے وہ انہی کا حِصّہ ہے۔ دُنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں انبیاء گذرے ہوں گے مگر جس تفصیل اور بسط کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات تاریخ و حدیث میں محفوظ ہیں اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے نبی کے متعلق میسّر نہیں۔ خدا ہزار ہزار رحمتیں نازل فرمائے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کی مقدس جماعت پر جس کے طفیل آج بھی جب کہ ساڑھے تیرہ سو سال کا عرصہ آپؐ کی وفات پر گذر چکا ہے آپؐ کی جیتی جاگتی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے اور ہم اپنی زندگی کے ہر قدم پر آپؐ کے پاک نمونہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
قیامِ مکّہ اور سنین نبوی و ہجری
بعثت کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں قریباً تیرہ سال ٹھہرے۔ بعض روایات میں دس سال بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی
ایک لحاظ سے دُرست ہے کیونکہ ابتدائِ وحی کے بعد آپؐ نے تین سال تک اپنے مشن کو مخفی رکھا تھا۔ پس اگر ان تین سالوں کو نکال دیں تو باقی دس سال ہی رہ جاتے ہیں۔ بہرحال یہ مسلّم ہے کہ ہجرت کے وقت آپؐ کی عمر ترپن سال کی تھی۔
ظہور اسلام سے پہلے قریش میں سنہ تاریخ عموماً عام الفیل کے حساب سے شمار ہوتا تھا؛ چنانچہ مؤرخین بھی بعثتِ نبوی سے پہلے کے واقعات کی تاریخ بتانے کے لیے عموماً عام الفیل کا حوالہ دیتے ہیں لیکن بعثت سے بعد کے واقعات کا سنہ بعثتِ نبوی سے شمار کیا جاتا ہے مگر یہ سنہ بھی صرف تیرہ سال یعنی ہجرت تک چلتا ہے۔ اس کے بعد سے مستقل طور پر سنہ ہجری شروع ہوتا ہے۔ جس کی تجویز اور تعیین ابتدائً حضرت عمرؓ کے عہد میں ہوئی تھی۔ ۱؎
یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ بعثتِ نبوی عام الفیل کے چالیسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی تھی اور چونکہ رمضان عربی مہینوں میں نواں مہینہ ہے اس لیے بعثتِ نبوی کا پہلا سال صرف چند ایّام اور تین ماہ یعنی بقیہ رمضان اور شوال۔ ذیقعد اور ذی الحجہ کا شمار ہوتا ہے اور چونکہ ہجرتِ نبوی ۱۴ نبوی ابتداء ماہ ربیع الاوّل میں ہوئی تھی۔ ۲؎ اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بعد از بعثت مکّی قیام دراصل صرف بارہ سال پانچ ماہ اور چند ایام کا بنتا ہے۔ ہاں اگر رؤیا صالحہ کازمانہ یعنی ابتدائی چند ماہ بھی زمانۂ نبوت میں شمار کر لیے جاویں تو یہ کل عرصہ قریباً تیرہ سال کا ہو جاتا ہے۔
نزولِ وحی کی کیفیت
کلامِ الٰہی کے نزول کی کیفیت اور اس کے نزول کے وقت مُنْزَل عَلَیْہ کے قلب کی حالت کو حقیقی طور پر سمجھنا تو صرف اسی شخص کا کام ہے جو اس کوچہ سے آشنا
ہو۔ تاہم جو اجمالی نقشہ قرآن شریف اور حدیث میں بیان ہوا ہے۔ وہ درج ذیل کیا جاتا ہے:
قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۳؎
یعنی ’’نہیں کلام کرتا اﷲ کسی بندے سے مگر وحی کے طریق پر یا کسی پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجتا ہے جو القاء کرتا ہے بندہ پر اﷲ کے اذن سے۔ بیشک اﷲ تعالیٰ بہت بلند اور حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے کلام الٰہی کے تین طریق بتائے ہیں:
اوّل۔ وحی یعنی براہِ راست لفظی کلام جس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
(الف) یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی الفاظ براہِ راست انسان کے کانوں میں پہنچیں۔ وحی کی یہ صورت عموماً سب سے زیادہ بارُعب اور شاندار ہوتی ہے۔
(ب) یہ کہ اس کی زبان پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی الفاظ جاری کیے جائیں۔ ان دونوں طریقوں کو اسلامی اصطلاح میں وحیؔ کہتے ہیں۔
دوسرے۔ مِنْ وَّ رَآیِٔٓ حِجَابٍ یعنی کسی تحریر کے سامنے آجانے یا کشف یا خواب یا قلبی القاء وغیرہ کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر بندہ پر ظاہر ہو۔
تیسرے۔ یُرْ سِلَ رَسُوْلًا۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کا کوئی فرشتہ وغیرہ بندہ کے پاس آوے اور خدا کی طرف سے اس کے ساتھ کلام کرے۔
اسی کے مطابق حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسُول اﷲ آپؐ کے پاس وحی کِس طرح آتی ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ:
اَحْیَانًا یَأْ تِیْنِیْ مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجَرْسِ وَھُوَاَشَدُّہٗ عَلَیَّ فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعِیْتُ عَنْہُ مَاقَالَ وَاَحْیَانًا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلِکُ رَجُلًا فَیُکَلِّمُنِیْ فَاَعِی مَایَقُوْلُ۔ ۱؎
یعنی ’’کبھی تو میرے پاس وحی آتی ہے گھنٹی کی چھنکار کی طرح (تاکہ ٹیلیفون کی طرح پہلے الارم بجا کر ہوشیار اور متوجہ کیا جائے) اور یہ طرز وحی کی (بوجہ خدائی کلام کی براہِ راست حامِل ہونے کے) مجھ پر سخت ترین ہوتی ہے۔ پھر بعد اس کے کہ مَیں اس کا کلام خوب محفوظ کر چکا ہوتا ہوں یہ آواز مجھ سے جُدا ہو جاتی ہے اور کبھی کوئی فرشتہ میرے پاس انسان کی صُورت اختیار کرکے آتا ہے اور مُجھ سے کلام کرتا ہے سو میں اس کی بات کو بھی محفوظ کر لیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث میں مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ والی صورت نہیں بیان کی گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صورت جو رؤیا وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے ایک نسبتاً عام صورت ہے اور اکثر لوگ علیٰ قدرِ مراتب اس کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں بمقابلہ باقی دو صورتوں کے جن کا حلقہ صرف رسولوں اور خاص خاص لوگوں تک محدود ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی کی بڑی اقسام تین ہیں مگر یہ کہ یہ تینوں قسمیں پھر آگے بہت سی ماتحت اقسام میں منقسم ہیں جن کا موٹا نقشہ حسب ذیل صورت میں سمجھا جاسکتا ہے۔
اوّل: کلام بصورت وحی یعنی براہِ راست لفظی کلام۔ جس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(الف) کلامِ الٰہی کا براہِ راست انسانی کانوں تک پہنچنا جو کئی طریق پر ہو سکتا ہے۔
(ب) خدائی تصرّف کے ماتحت خود انسان کی زبان پر کوئی کلام جاری ہونا۔ یہ ہر دو صورتیں یقظہ اور نوم ہر دو حالتوں میں ممکن ہیں۔
دوم: کلام بواسطہ ارسالِ رُسل یعنی خدا کی طرف سے کوئی فرشتہ وغیرہ انسان کے سامنے نمودار ہو کر اس کے ساتھ خدائی منشاء کے ماتحت کلام کرے۔ یہ بھی کئی صورتوں میں ہو سکتا ہے اور یقظہ اورنوم ہر دو حالتوں میں ممکن ہے۔
سوم: کلام پس پردہ یعنی نہ تو خدا کا براہِ راست کلام ہو اور نہ ہی کسی فرشتہ کا براہ راست واسطہ اختیار کیا جائے بلکہ اﷲ تعالیٰ کسی پَردے کے پیجھے رہ کر کسی رنگ میں اپنے منشاء کا اظہار فرماوے۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً
(الف) کشف یعنی عین بیداری یا نیم بیداری میں خدائی تصرف کے ماتحت کوئی نقشہ دکھایا جانا۔خواہ وہ نقشہ اصل حالت کا مظہر ہو یا قابلِ تعبیر ہو۔ یہ حالت یقظہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور حواس ظاہری کے تعطّل اور عدم تعطّل ہر دو حالتوں میں ممکن ہے یعنی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری حواس بھی کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسی حالت میں باطنی حواس میں ایک بیداری پیدا ہو کر کوئی نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور بعض اوقات ایک آنِ واحد کے لیے ظاہری حواس معطل ہو کر حواس باطنی کو جگہ دے دیتے ہیں۔
(ب) رؤیا یا خواب جس کی کیفیت سے اکثر لوگ واقف ہیں جو نیند کی حالت میں دکھائی جاتی ہے اور بالعموم تعبیر طلب ہوتی ہے۔
(ج) کسی تحریر کا آنکھوں کے سامنے پھر جانا۔ جو یقظہ اور نوم ہر دو حالتوں میں ممکن ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ ایک وحی خفی بھی ہوتی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات انسان کے دل میں ڈالا جانا مگر اس کا پہچاننا خاص مشق چاہتا ہے۔
یہ صرف ایک موٹا اور سرسری نقشہ ہے ورنہ درحقیقت کلام الٰہی کی صورتیں بہت ہیں اور بسا اوقات ایک سے زیادہ قسمیں ایک ہی وقت میں جمع بھی ہو جاتی ہیں۔ ۱؎
نزولِ وحی کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جو حالت ہوتی تھی اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ:
لَقَدْ رَأُیْتُہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ فِی الْیَوْمِ الشَّدِیْدِ الْبَرْدِ فَیَفْصِمُ عَنْہُ وَاِنَّ جَبِیْنَہٗ لَیَتَفَصَّدُ عَرْقًا۔ ۱؎
’’یعنی میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات سخت سردی کا دن ہوتا تھا ، لیکن جب آپؐ پر وحی اُترتی تھی تو پسینہ آپؐ کی پیشانی سے پھُوٹ پھُوٹ کر بہتا تھا۔‘‘
پھر زید بن ثابت ؓ جو آپؐ کے کاتبِ وحی تھے روایت کرتے ہیں کہ:
اَنْزَلَ اﷲُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَخْذُہٗ عَلٰی فَخْذِیْ فَثَقُلَتْ عَلیَّ حَتّٰی خِفْتُ اَنْ قَرَضَ فَخْذِیْ ثُمَّ سُرِیَ عَنْہٗ۔ ۲؎
’’یعنی ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ران میری ران پر تھی کہ آپؐ پر وحی کی حالت طاری ہوئی اس وقت آپؐ کی ران مجھے اس قدر بوجھل محسوس ہوتی تھی کہ میں ڈر گیا کہ کہیں میری ران بوجھ سے ٹوٹ نہ جاوے۔ پھراس کے بعد آپؐ کی یہ حالت جاتی رہی۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کے نزول کے وقت چونکہ رُوحانی حِسّیں بیدار ہو کر بہت تیز ہو جاتی ہیں۔ اس لیے عموماً انسان کی جسمانی طاقت معطّل ہو جاتی ہے اور جسم مُردہ کی طرح بے سہارا ہو کر گرجاتا ہے۔
اِس جگہ اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری ہے جو بعض ناواقف اور سادہ مزاج لوگوں کے دل میں پیدا ہوا کرتا ہے کہ خُدا بولتا کس طرح ہے؟ یعنی کیا خدا کی کوئی زبان ہے جس سے وہ کلام کرتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ہستی کے حالات اور صفات کے مطابق اس کی طاقتوں کا اظہار ہوا کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ہستی چونکہ نہایت لطیف اور غیر مادی اور غیر محدود اور وراء الوراء ہستی ہے اس لیے انسان کے حالات پر جو مادی بھی ہے اور مخلوق بھی اور محدود بھی اس کا قیاس ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پس یہ ایک انتہائی درجہ جہالت کا خیال ہو گا اگر یہ سمجھا جاوے کہ چونکہ انسان کو کلام کرنے کے لیے ایک گوشت کے لوتھڑے کی ضرورت ہے اس لیے خدا کی بھی کوئی ایسی زبان ہونی چاہیئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا اپنی دوسری لاتعداد طاقتوں کو کام میں لاتا ہے۔ اسی طرح وہ بولتا بھی ہے مگر بغیر ظاہری زبان کے اور سُنتا بھی ہے مگر بغیر ظاہری کانوں کے اور دیکھتا بھی ہے مگر بغیر ظاہری آنکھوں کے۔ بے شک اس کی ہستی کو محسوس کرنا انسانی عقل سے بالا نہیں مگر اس کی ہستی کی کُنہ کو سمجھنا یقینا عقلِ انسانی سے بالا وبرتر ہے۔ ایک گرامو فون کو ہی دیکھو۔ کیا انسان کی طرح اس کی بھی کوئی زبان ہے جس سے وہ بولتا ہے؟ پس جب مخلوق اور ادنیٰ چیزوں میں اس قدر اختلاف موجود ہے تو خدا جیسی خالق و مالک ، اوّل و آخر، ازلی و ابدی ، لطیف و غیر محدود قادرِ مطلق ہستی کو انسان پر قیاس کرنا کِس قدر جہالت کا فعل ہو گا۔
جمعِ قرآن
جمعِ قرآن کے متعلق اصل بحث تو کتاب کے حِصّہ دوم میں آئے گی مگر اس جگہ ایک مختصر نوٹ میں ہم یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن شریف جو ہم مسلمانوں کی مذہبی کتاب ہے اور
جسے ہم اﷲ کا کلام سمجھتے ہیں جو اُس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اتارا یکلخت نازل نہیں ہوا، بلکہ آہستہ آہستہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہوا تھا اور اس تدریجی نززل میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن کے بیان کی اس جگہ ضرورت نہیں۔ جو سورتیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہیں وہ مکّی سُورتیں کہلاتی ہیں اور بعد کی مدنی۔ قرآن شریف کا جو جو حِصّہ نازل ہوتا جاتا تھا وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کو سُنا دیتے تھے اور بعض کو یاد کروا دیتے تھے اور اس کے مختلف نسخے لکھوا بھی دیتے تھے۔ جس کے لیے آپؐ نے اپنے خواندہ صحابیوں میں سے متعدد کاتبِ وحی مقرر کیے ہوئے تھے؛ چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب زمانہ جاہلیت میں حضرت عمرؓ غصّہ کی حالت میں اپنی بہن کے گھر میں داخل ہوئے تو اس وقت ان کے پاس لکھا ہوا قرآن شریف موجو دتھا جس پر سے خباب بن الارت تلاوت کر کے حضرت عمر ؓ کی بہن اور بہنوئی کو سُنا رہے تھے۔
قرآنی سورتیں قرآن شریف میں اسی ترتیب سے نہیں رکھی گئیں جس ترتیب سے ان کا نزول ہوا بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود الٰہی حکم کے ماتحت اُن کی ایک خاص ترتیب مقرر فرما دی۔ چنانچہ ہر سُورۃ کے ختم ہونے پر آپؐ ہدایت فرماتے تھے کہ اسے فلاں موقع پر رکھو۔ اسی طرح ہر آیت کے نزول پر بھی خود فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں جگہ ڈالو۔ ۱؎ جو ترتیب قرآنی آیات اور سورتوں کی آپؐ نے خدائی تفہیم کے ماتحت مقرر فرمائی وہی اب تک موجود ہے اور غور و تدبر کرنے والوں پر اس ترتیب کی خوبی مخفی نہیں رہ سکتی۔
مکّی سُورتیں
چونکہ مکّہ میں نزولِ شریعت کی ابتداء تھی اس لیے زیادہ تر عقائد کی اصولی باتوں پر ہی اکتفاء کی گئی ہے۔ ویسے بھی چونکہ مکّہ میں صرف مشرکین اور بُت پرست بستے تھے اس
لیے مکّی آیات میں زیادہ تر شرک اور بُت پرستی ہی کی تردید کی گئی ہے اور ہستی باری تعالیٰ اور توحید کے دلائل بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد سِلسلۂ رسالت کی حقانیت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا ثبوت اور اس پر کفار کے اعتراضوں کے جوابات اور گذشتہ انبیاء کے حالات مذکور ہیں۔ پھر ملائکہ کے وجود، قیامت، جزا سزا، جنت و دوزخ، تقدیر وغیرہ کے مسائل پر دلچسپ بحثیں ہیں۔اس کے علاوہ جاہلانہ رسُوم اور بدعات سے روکا گیا ہے اور نیک عادات و اخلاقِ حسنہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور پھر اس سے اعلیٰ مقام یعنی عرفانِ الٰہی کی راہوں اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے طریقوں کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
عبادات میں مکّی سورتیں سوائے نماز کے حکم کے باقی سب احکام سے خالی ہیں؛ چنانچہ حج، روزہ، زکوٰۃ کا کہیں ذکر نہیں آتا، کیونکہ یہ سب مدینہ میں فرض ہوئے تھے۔ جہاد بالسیف کا ذکر بھی مکّی آیات ہیں نہیں ملتا، کیونکہ مکّہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عفو کا حکم تھا اور کفار پر اتمام حجت کیا جارہا تھا۔ پھر جب اتمامِ حجت ہو چکا اور کفّار اپنے مظالم سے باز نہ آئے بلکہ دن بدن ترقی کرتے گئے۔ حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو اپنے وطن سے بے وطن ہونا پڑا اور پھر ہجرت کے بعد بھی قریش نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا تب جاکر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جہاد بالسیف کی اجازت نازل ہوئی۔
اِسی طرح چونکہ مکّہ میں اسلامی سوسائٹی کی بالکل ابتدائی حالت تھی بلکہ حق تو یہ ہے کہ مکّہ میں کوئی اسلامی سوسائٹی تھی ہی نہیں کیونکہ قریش کے بیدروانہ مظالم نے سب کو منتشر کر رکھا تھا اس لیے مکّی سورتوں میں تمدنی احکام بھی نظر نہیں آتے۔ اسی طرح سیاسی احکام بھی مکی سُورتوں میں مفقود ہیں۔ گویا فقہی مسائل سے مکّی سُورتیں قریباً قریباً خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مکّی سورتیں عام طور پر بہت چھوٹی ہیں اور ان کی زبان بھی زیادہ زور دار، جوش والی اور موزوں ہے بمقابلہ مدنی سورتوں کے جن میں احکام کی کثرت اور فقہی مسائل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے طرزِ بیان میں مناسب تبدیلی آگئی ہے اور یہ تبدیلی نہایت موززں اور بر محل ہے کیونکہ بلاغت اسی میں ہے کہ طرزِ کلام واقعات کے مناسبِ حال ہو۔
ارتقائِ نبوی
مسئلہ ارتقاء یعنی درجہ بدرجہ ترقی کرنا ایک مسلّم مسئلہ ہے اور گو اس کی وہ صورت جو اہلِ مغرب پیش کرتے ہیں دُرست نہ ہو مگر جہاں تک اصول کا تعلق ہے اس میں شُبہ نہیں کہ
دن بدن اس کی حقانیت پر زیادہ سے زیادہ روشنی پڑتی جارہی ہے۔ درحقیقت اﷲ تعالیٰ نے خود اس مسئلہ کو قرآن شریف میں متعددموقعوں پر بیان کیا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے اور انسانی پیدائش کے بیان میں تو خلقِ آدم کے ارتقائی مراحل بھی صراحت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ ۱؎ دراصل اﷲ تعالیٰ کے تمام کاموں میں تدریجی ترقی کا اصول نمایاں طور پر کام کرتا نظر آتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہی اصول انبیاء علیہم السلام کے حالاتِ زندگی میں پایا جاتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ انبیاء کا وجود کسی فوری انقلاب کا نتیجہ ہوتا ہے وہ بالکل غلط سمجھا ہے اور اس نے نبوت کی حقیقت پر بالکل غور نہیں کیا۔ کیونکہ جس طرح صحیفۂ قدرت پر ہر اک چیز تدریجاً بنتی ہے اسی طرح انبیاء بھی اپنی نبوت میں تدریجاً نشوونما پاتے ہیں اور قطعاً کسی فوری انقلاب کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ آہستہ آہستہ کئی درمیانی حالتوں میں سے گذرنے کے بعد اُس آخری مقام کو حاصل کرتے ہیں جس پر ان کے مراتب سلوک ختم ہوتے ہیں۔تمام انبیاء جس طرح جسمانی لحاظ سے مراحلِ خلق میں سے گذرتے ہوئے پیدا ہوئے پھر اُنہوں نے اپنے بچپن کے دن گذارے۔ پھر وہ نوجوان ہوئے اور پھر اپنی پختگی کو پہنچے۔ اسی طرح رُوحانی لحاظ سے بھی وہ پہلے پیداہوتے ہیں اور پھر درجہ بدرجہ آہستہ آہستہ اپنی پختگی کو پہنچتے ہیں اور پھر مقامِ نبوت میں بھی وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے بلکہ دن بدن شاہراہ ترقی پر آگے قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تدریجی نشوونما قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے اور فوری انقلاب کے بداثرات سے محفوظ رکھتا ہے نیز اَور بھی کئی طرح سے مفید بلکہ ضروری ہوتا ہے مگر اس جگہ اس مسئلہ کی تفصیلات کی گنجائش نہیں اس جگہ ہمیں مختصر طور پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی میں یہ تدریجی نشوونما کس طریق پر کام کرتا نظر آتا ہے۔ سو اختصار کی غرض سے ہم آپؐ کی ابتدائی زندگی سے قطع نظر کر کے صرف دعویٰ اور اس کے مقدمات سے آپؐ کی زندگی کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔
سب سے اوّل ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلاشِ حق میں ترکِ دنیا کا طریق اختیار کیا اور خلوت میں رہنا شروع کیا۔ اس پر ایک عرصہ گذرا تو آپؐ پر رؤیا صادقہ کا دروازہ کھولا گیا اور آپ کو سچے خواب آنے شروع ہوئے جو اپنے وقت پر پورے ہو ہو کر آپؐ کی پختگی کا موجب ہوتے رہے اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ جب آپؐ اس کوچے سے ایک حد تک آشنا ہو گئے اور طبیعت نبوت کے مناسب حال پختگی کو پہنچ گئی تو غارِ حرا میں آپؐ کے پاس الٰہی فرشتہ آیا اور اُس نے اﷲ کی طرف سے آپ کے ساتھ کلام کیا اور رؤیا صادقہ سے اُوپر کا مقام آپؐ پر کھولا گیا، لیکن باوجود اس کے کہ آپؐ اس کوچہ سے آشنا ہو چکے تھے آپؐ کی طبیعت اس تبدیلی کو پہلی دفعہ پوری طرح برداشت نہیں کر سکی اور آپؐ سخت خوفزدہ ہو گئے اور یہ خوف و اضطراب آپؐ کو ایک عرصہ تک تکلیف دیتا رہا۔ حتیّٰ کہ اس ربّانی رسول کے بار بار آپؐ کے پاس آنے اور آپؐ کو تسلی دینے کے بعد آپؐ کو پورا پورا سکون حاصل ہوا۔
اس اطمینان کے بعد آپؐ نے اپنا کام شروع فرمایا۔ مگر اس میں بھی تدریجی ترقی کا پہلو موجود تھا۔ پہلے پہل آپؐ نے عام تبلیغ شروع نہیں کی۔ بلکہ صرف اپنے دوستوں اور عزیزوں تک تبلیغ کا کام محدود رکھا اور اڑھائی تین سال تک صرف خفیہ طور پر فرض تبلیغ ادا فرماتے رہے اس کے بعد آپؐ نے الٰہی حکم کے تحت کھلی تبلیغ کا سِلسلہ شروع کیا۔ مگر اس زمانہ میں بھی آپؐ کے کام کا دائرہ عموماً مکّہ والوں تک محدود رہا۔ بے شک باہر سے آنے والوں کے لیے بھی پیغامِ حق کا دروازہ کھلا تھا اور مسیح ناصری کی طرح متلاشیانِ حق سے یہ نہیں کہا جاتا تھاکہ ’’میں بچوں کا کھانا کُتّوں کے آگے کیونکر ڈال دُوں۔‘ ‘ مگر اوائل میں آپؐ کا اصل رُوئے سخن قریش مکّہ کی طرف تھا اور وہی اصل زیرِ تبلیغ تھے اور یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن جب مکّہ والوں نے نہ صرف انکار پر اصرار کیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو سخت سے سخت مظالم کا تختۂ مشق بنایا بلکہ اس بات کا بھی عہد کر لیا کہ مُسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے اور عملاً اپنے اوپر تبلیغِ اسلام کا دروازہ بند کر لیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنی توجہ مکہ والوں سے ہٹا کر دیگر قبائلِ عرب کی طرف پھیر لی۔ طائف کا سفر اسی تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں قریش مکّہ میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد بہت ہی کم نظر آتی ہے اور ان کی جگہ دیگر قبائل عرب میں اسلام زیادہ پھیلتا نظر آتا ہے۔ یثرب کے قبائل اوسؔ اور خزرج اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ہجرت کے بعد یہود اور نصاریٰ کے ساتھ معاملہ پڑا اور زینۂ تبلیغ کی آخری سیڑھی اس وقت ختم ہوئی جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلاطین عجم کے نام تبلیغی مراسلات بھیجے اور اَسوَد و اَحمَر کو پیغام شروع ہوا۔
اپنے مقام کے متعلق بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر تدریجاً انکشاف ہوا چنانچہ شروع شروع میں تو آپؐ کی وحی میں آپؐ کے متعلق نبی اور رسول کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوا۔ صرف ایک عمومی رنگ میں تبلیغِ حق کا حکم تھا اور جب نبوت اور رسالت کے مقام کا اظہار ہوا تو اس کے بعد بھی آپؐ ایک عرصہ تک اپنے آپ کو صرف یکے از انبیاء خیال فرماتے رہے اور بس۔ اپنی فضیلت اور ختمِ نبوت کے متعلق قطعاً کوئی دعویٰ نہ تھا۔ بلکہ ہجرت کے بعد تک یہ حال تھا کہ اگر کوئی صحابی اپنے جوشِ عقیدت میں آپؐ کو دیگر انبیاء پر افضل قرار دیتا تھا تو آپؐ اسے سختی کے ساتھ روک دیتے تھے؛ چنانچہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ مدینہ میں ایک دفعہ ایک صحابی نے ایک یہودی کے سامنے حضرت موسیٰ ؑ پر آپؐ کی فضیلت بیان کی تو آپؐ اس صحابی پر بہت ناراض ہوئے اور حضرت موسیٰ ؑکی ایک فضیلت بیان کر کے اس یہودی کی دلداری فرمائی۔ ۱؎ لیکن پھر ایک وقت آیا کہ آپؐ نے خود فرمایا کہ:
لَوْ کَانَ مُوْسیٰ وَعِیْسیٰ حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔۲؎
’’یعنی اگر اس وقت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السّلام زندہ ہوتے تو اُن کو بھی بجُز میری پیروی کے چارہ نہ تھا۔‘‘
پھر اوائل میں جب کسی صحابی نے آپؐ کو خیر البریّہ یعنی افضل الخلق کہہ کر پکارا تو آپؐ نے اُسے روکا اور فرمایا ’’ذَالِکَ اِبْرَاھِیْمُ‘‘ یعنی افضل الخلق تو ابراہیم ؑ تھے۔ ۳؎ نیز فرمایا۔ ’’مجھے یونس بن متیّٰ پر فضلیت مت دو۔‘‘ ۴؎ لیکن پھر خود فرمایا کہ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ۔ ۵؎ یعنی مَیں تمام بنی آدم کا سردار ہوں۔ مگر اس وجہ سے مَیں اپنے اندر کوئی تکبّر نہیں پاتا۔‘‘ یہ گویا ارتقائِ علمی تھا کیونکہ آپؐ افضل الرّسل اور سیّد ولد آدم تو اوائل سے ہی تھے مگر اس کا انکشاف آپؐ پر آہستہ آہستہ ہوا اور یہ بھی دُرست ہے کہ آپؐ کے مدارج میں بھی آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی تھی۔
مکّی زندگی میں اشاعتِ اسلام
بعثت کے بعد جو قریباً تیرہ سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکّہ میں گذارے اُن میں اسلام سر زمینِ عرب میں گوجڑ پکڑ چکا
تھا اور قریشِ مکّہ سے باہر بھی اس کا اثر پہنچ چکا تھا؛ چنانچہ ابوذرغفاری، عبداﷲ بن مسعود ھذیلی ، ضماد بن ثعلبہ ازدی، ابو موسیٰ اشعری، طفیل بن عمرو دوسی، سعد بن معاذ اَوسی، سعد بن عبادہ خزرجی وغیرہ کئی غیر قبائل کی مثالیں موجود ہیںجو اس زمانہ میں اسلام لائے ، مگر اس میں شک نہیں کہ ابھی تک اسلام ایک نہایت کمزور حالت میں تھا اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے ان مخالف عناصر کے مقابلہ میں جن کا اسے سامنا تھا اس کی زندگی خطرہ سے باہر نہیں تھی۔
قریش مکّہ میں سے ہجرتِ نبوی تک اسلام لانے والوں کی تعداد صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اور نہ کسی روایت میں بیان ہوئی ہے لیکن قرائن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قریش اور ان کے متعلقین میں سے ہجرت تک مسلمان ہونے والوں کی تعداد تین سو نفوس سے کسی صورت میں زیادہ نہیں ہو گی۔ اس تعداد میں عورتیں اور بچے سب شامل ہیں۔ گویا قریشِ مکّہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ کوششوں کا نتیجہ یہی تین سو جانیں تھیں اور یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ ان میں سے کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنی کم سِنی یا مفلسی یا کسی اور وجہ سے قریش میں کوئی اثر و رسوخ نہیں رکھتے تھے۔
قریش کے علاوہ دیگر قبائل عرب میں سے مُسلمان ہونے والوں کی تعداد اہلِ یثرب کو الگ رکھتے ہوئے بہت ہی کم نظر آتی ہے۔ ہاں یثرب میں البتّہ جلد جلد اسلام پھیلا اور قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت نبوی سے پہلے مدینہ والوں میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد بشمولیت زن و فرزند کئی سو تک ضرور پہنچ چکی ہو گی۔ اس طرح گویا ہجرت تک کل مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ قریباً ایک ہزار بنتی ہے۔ جن میں اگر عورتوں اور بچوںکو الگ الگ رکھیں تو بالغ مرد شاید تین چار سو ہوں گے لیکن یہ بھی ہجرت کے بعد سب کے سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں موجود نہیں تھے بلکہ کچھ متفرق طور پر اپنے اپنے قبائل میں تھے۔ کچھ حبشہ میں تھے اور کچھ ہجرت کی طاقت نہ رکھنے والے ابھی تک مکّہ میں ہی قریش کے مظالم کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے۔ اس قلیل نفری کے ساتھ اسلام مذاہبِ عالم کی جو لانگاہ میں بازی لے جانے کا دعویٰ بھرتا ہوا قدم زن ہو رہا تھا۔
قریش کی ایذا رسانیوں کا اثر مسلمانوں پر
قریش کے مظالم کی مختصر کیفیت اُوپر بیان ہو چکی ہے۔ ان مصائب پر مسلمانوں نے صبر اور
برداشت کا جو اعلیٰ نمونہ دکھایا وہ اپنی نطیر آپ ہی ہے۔ صحیح روایات سے ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی شخص نے ان مصائب سے ڈر کر ارتداد کی راہ اختیار کی ہو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین میں بلاشبہ ہم کو بعض مرتدین نظر آتے ہیں اور دراصل ارتداد کا سلسلہ ایک حد تک ہر نبی کے زمانہ میں پایا جاتا ہے لیکن آپؐ کی مکّی زندگی میں محض مصائب کے ڈر کی وجہ سے کسی مسلمان کے حقیقی ارتداد کا ذکر کم از کم مجھے کسی صحیح روایت میں نہیں ملا۔ اس کی یہ وجہ تھی کہ چونکہ قریش کے یہ مظالم برملا ہوتے تھے اور ہر شخص مسلمانوں کے مصائب و آلام سے آگاہ تھا اس لئے اس زمانہ میں جو بھی ایمان لاتا تھا وہ اس بات کے فیصلہ کے بعد اسلام لاتا تھا کہ مجھے حق کی راہ میں جتنی بھی تکالیف سہنی پڑیں وہ مَیں برداشت کروں گا۔ اس لیے مسلمان ہونے کے بعد یہ مصائب کسی شخص کو اسلام سے پھیر نہیں سکتے تھے مگر وقتی طور پر ان مصائب کا ایک ضرر رساں اثر ضرور تھا اور وہ یہ کہ بہت سے ایسے لوگ تھے جو ان مصائب کی وجہ سے اسلام لانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کا اثر پہنچتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ شِرک و بُت پرستی کی تاریکیوں سے نِکل کر اسلام کی روشنی میں آجائیں مگر ان مصائب کے طوفان کے سامنے ایمان کی چنگاری ان کے قلوب میں چمک چمک کر بُجھ بُجھ جاتی تھی۔ پھر بہتیرے ایسے بھی تھے جن کو ان مصائب کے منظر نے اسلام کی طرف توجہ کرنے سے ہی روک رکھا تھا۔ علاوہ ازیں قریش کے مظالم کا ایک یہ بھی اثر تھا کہ مسلمان پوری طرح اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے تھے اور چونکہ جتنی تبلیغ زیادہ ہو اسی نسبت سے پیغامِ حق زیادہ لوگوں تک پہنچتا ہے اور پھر اسی نسبت سے ماننے والے بھی زیادہ نِکل آتے ہیں۔ اس لیے بھی مکّہ میں مُسلمانوں کی تعداد جلد جلد ترقی نہیں کر سکی۔ مُسلمان ان رُکاوٹوں کو محسوس کرتے تھے اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’یا رسُول اﷲ! جب ہم مشرک تھے تو ہم معزّز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ تک نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ لیکن مسلمان ہو کر ہم کمزور و ناتواں ہو گئے ہیں اور ہمیں ذلیل ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ پس آپؐ ہمیں ظالموں کے مقابلہ کی اجازت دیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:
اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَاتُقَاتِلُوْا۔ ۱؎
’’مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے۔ اس لیے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
اپنے آقا کے اس حکم پر مسلمانوں نے ہاں انہی شیر دل مسلمانوں نے جنہوں نے اس کے چند سال بعد قیصرو کسریٰ کے تخت اُلٹ کر رکھ دیئے جس صبرو رضا کے ساتھ ان مظالم کو برداشت کیا اس کی کسی قدر تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مکّہ میں مسلمانوں کا کفّار کے مقابلہ میں تلوار نہ اٹھانا اور خاموشی اور صبر کے ساتھ ان مظالم کو برداشت کرنا اس وجہ سے نہیں تھا جیسا کہ بعض مخالفین نے سمجھا ہے کہ وہ کمزور تھے اور مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے تھے بلکہ اس لیے تھا کہ ابھی تک انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عفو کا حکم تھا اور صحابہ کو مقابلہ کی اجازت نہیں تھی، لیکن جب اتمام حجت ہو چکا اور کفّار اپنے مظالم سے باز نہ آئے بلکہ دن بدن زیادہ شوخ اور زیادہ متمرّد ہوتے گئے اور انہوں نے اسلام کے پودے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کی ٹھان لی اور ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا تو باوجود اس کے کہ اس وقت بھی آپؐ کے پاس عرب کے مقابلہ کے لیے قطعاً کوئی جمعیت نہ تھی آپؐ نے وہی مٹھی بھر جماعت لے کر ان کا مقابلہ کیا اور چونکہ اﷲ کی نصرت آپؐ کے شاملِ حال تھی آپؐ اس مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔
ہجرت نبویؐ اور اس کی علّت
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کی ہجرت کوئی خوشی کا سفر نہ تھا جو سیرو سیاحت کی غرض سے کیا گیا ہو بلکہ یہ سفر قریش کے
ان بیدردانہ مظالم کا نتیجہ تھا جن کا مُسلمان سالہاسال سے تختۂ مشق بنے ہوئے تھے۔ حتیّٰ کہ آخر تنگ آکر مُسلمانوں اور ان کے محبوب آقا ؐکو وطن سے بے وطن ہونا پڑا۔ جو جو مظالم ان ابتدائی تیرہ سالوں میں مسلمانوں نے قریش مکہ اور ان کے ہم خیالوں کے ہاتھوں برداشت کئے ان کا صحیح صحیح اندازہ کرنا محال ہے۔ صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ عرب جیسے جاہل اور آزاد ملک میں قریش جیسی وحشی اور متکبّر قوم اپنی عداوت کے جوش و خروش میں جو جو مظالم کمزور و بے بس مسلمانوں پر کر سکتی تھی وہ سب اس نے کئے۔ مسلمانوں کی تذلیل کے لیے ان پر ہنسی اور مذاق اڑایا گیا۔ ان کے خلاف دلآزار طعن و تشنیع اور گندی گالی گلوچ سے کام لیا گیا۔ ان کو خُدا کی عبادت سے روکا گیا اور توحید کے اعلان سے جبراً منع کیا گیا۔ ان کو اُن کے پیارے اور محبوب آقا سے الگ کر دینے کی کوشش کی گئی۔ اُن کو نہایت بے دردانہ طور پر مارا اور پیٹا گیا۔ ان میں سے بعض کو نہایت وحشیانہ طور پر قتل کیا گیا۔ ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ان کا بائیکاٹ کر کے اُن کو بھوک اور پیاس سے ہلاک کرنے کی ٹھانی گئی۔ ان کے مال و متاع چھین لیے گئے۔ حتیّٰ کہ ان کو اپنے وطن سے نکل کر بھاگنا پڑا اور جو ٹھہرے وہ سینے پر پتھر رکھ کر ٹھہرے ۔ پھر ان کے آقا اور سردار کو جو انہیں اُن کی جانوں سے زیادہ عزیز تھا سخت سے سخت دُکھ دیئے گئے اور برملا بدنی تکالیف پہنچائی گئیںاور اس پر پتھر برسائے گئے حتّٰی کہ اس کا بدن خون سے تر بتر ہو گیا اور آخر اس کے قتل کا منصوبہ کیا گیا اور منصوبہ بھی ایسا کہ جس میں سب قبائلِ قریش شریک تھے اور ہر قبیلہ اس کے مقدس خون سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگنے کے واسطے تیار ہو گیا اور اسلام کے پودہ کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کی ٹھان لی گئی۔ تو کیا ان مظالم کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کی ہجرت کوئی معمولی سفر تھا کہ یونہی رائیگاں جاتا اور خدائے غیّور کی غیرت جوش میں نہ آتی؟ نہیں بلکہ ہجرت میں خدا کی طرف سے یہ صاف اشارہ تھا کہ اب قریش کے مظالم کا پیالہ لبریز ہو چکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ ظالم اپنی کیفرِ کردار کو پہنچے۔


خاتمہ
اَلْحَمْدُ ِﷲِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ ِﷲِ کہ سیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کا پہلا حصہ ختم ہوا۔ خاکسار راقم الحروف خدا تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالاتا ہے کہ اُس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اس کے پورا کرنے کی توفیق دی۔ اب اے اﷲ! تو اپنے فضل سے ایسا کر کہ تیرے بندے اِسے پڑھیں اور اس سے فائدہ اٹھاویں اور تیرے برگزیدہ رسول ؐ کے پاک نمونہ پر چل کر تیری رضا حاصل کریں اور اے میرے مولا! تو مجھے بھی توفیق عطا کر کہ میں تیری رضا کے ماتحت اس کتاب کے باقی حصوں کی تکمیل کر سکوں اور اپنے فضل کو میرے شامل حال رکھ۔
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اٰمِیْن
راقم آثم
مرزا بشیر احمد

سیرتِ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم

حصہ دوم

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
عرض حال
جلد دوم
سیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کا اصل دیباچہ تو تکمیل تصنیف کے وقت ہی لکھا جاسکے گا مگر اس جگہ چند الفاظ حصہ دوم کے متعلق مخصوص طور پر عرض کرنے ضروری ہیں۔ ابتدائً ۱۹۱۹ء میں جب میں نے بطورخود رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان کے لئے سیرۃ کی تصنیف کا کام شروع کیا تو اس وقت اس کی غرض و غایت بہت محدود تھی۔ چنانچہ سیرۃ کا حصہ اوّل جو۱۹۲۰ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا وہ اسی محدود غرض و غایت کے ماتحت تھا جو صرف یہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک سادہ اور مختصر سوانح عمری میسر آجاوے۔ کوئی علمی تحقیق یا محققانہ تبصرے اس وقت میرے مد نظر نہ تھے۔ چنانچہ اسی غرض سے حصہ اوّل میں حوالے تک درج نہیں کئے گئے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ قادیان کو اس کام کی تکمیل کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے ۱۹۲۹ء کے اوائل میں مجھے سیرت کے حصہ دوم کی تیاری کے متعلق ارشاد فرمایا تو ساتھ ہی یہ ہدایت فرمائی کہ ہر قسم کے طبقہ کو مدنظر رکھ کر اس حصہ میں حصہ اوّل کی نسبت زیادہ مستقل تحقیق و تدقیق سے کام لیا جاوے لیکن یہ کوشش کی جاوے کہ کتاب کا حجم حتی الوسع زیادہ نہ ہونے پائے۔
جس حد تک میں اس ہدایت کی تعمیل کر سکا ہوں وہ اب سیرۃ خاتم النبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم حصہ دوم کی صورت میں ناظرین کے سامنے ہے۔ اگر اس کے بعض حصوں میں میں نے حد مناسب سے زیادہ طوالت سے کام لیا ہے تو وہ غالباً میرے اس طبعی نقص کی وجہ سے ہے کہ میں تحریر میں اختصار پر زیادہ قابو نہیں رکھ سکتااور میں ڈرتا ہوں کہ شاید اس جہت سے میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اﷲ بنصرہ کی ہدایت پر پوری طرح عمل نہیں کر سکا۔
تحقیق و تدقیق کی جہت سے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ میدان اس قدر وسیع ہے کہ اگر اسے ایک نہ ختم ہونے والا میدان کہہ سکیں تو بے جانہ ہو گا۔ میرے اپنے احساس کا یہ حال ہے کہ جب بھی میں نے سیرت کے مسودے کی نظر ثانی کی ہے مجھے اس میں قریباً ہمیشہ ہی تحقیق کے لئے ایک نیا دروازہ نظر آیا ہے اور بعض حصے تو یقینا ایسے ہیں کہ ان میں مزید تحقیق کی ضرورت عیاں ہے مگر فی الحال جو کچھ بھی ہے وہ ہدیہ ناظرین ہے اور خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اسے قبولیت کا شرف عطا کرے اور اس کے ذریعہ سے اس مقصد کو پورا فرمائے جو اس کی تصنیف کی اصل غرض و غایت ہے۔ اللھم آمین۔
حصہ دوم کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ حصہ اوّل کی نسبت اس حصہ میں چار زائد خصوصیات ہیں: اوّل زیادہ تحقیق و تدقیق۔ دوم زیادہ تفصیل و تشریح۔ سوم بہت سے شکمی اور ضمنی مسائل کی بحث۔ چہارم حوالہ جات کا اندراج۔ ان خصوصیات کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اگر اور جب حصہ اوّل کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اسے ان مزید خصوصیات کی روشنی میں نظر ثانی کرنے کے بعد شائع کیا جاوے ورنہ یہ دونوں حصے بالکل غیر مربوط نظر آئیں گے۔
جن کتب سے میں نے حصہ دوم کی تیاری میں استفادہ کیا ہے ان کا اندازہ صرف ان اسماء سے نہیں لگ سکتا جو حوالہ کی صورت میں حاشیہ میں درج ہوئے ہیں۔ بالعموم متاخرین کی کتب کے حوالے درج نہیں کئے گئے کیونکہ جب بھی مجھے ان کتب میں کوئی نئی یا مفید بات ملی ہے تو میں نے بجائے ان کتب کا حوالہ دینے کے ان کے ماخذ کی طرف رجوع کر کے اصل کتاب کا حوالہ درج کر دیا ہے مگر ظاہر ہے کہ اس وجہ سے متاخرین کی کتب کی طرف سے میرے جذبہ تشکر میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔
ممکن ہے کہ بعض طبائع میں یہ سوال پیدا ہو کہ مولانا شبلی کی سیرت کے ہوتے ہوئے اس تصنیف کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال کا اصل جواب تو ہر دو کتب کے مطالعہ سے ہی مل سکتا ہے، لیکن میں اس قدر عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے سیرۃ النبیؐ کی خوبیوں کا اعتراف ہے اور میں نے بعض جگہ اس سے اور دارالمصنفین کی دوسری تصنیفات سے فائدہ بھی اٹھایا ہے مگر تحقیق کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اور پھر ہر شخص کا نقطۂ نظر اور اسلوب بیان بھی جدا ہوتا ہے اس لئے میری یہ ناچیز کوشش کسی کے ناگوار خاطر نہیں ہونی چاہئے بلکہ اگر کل کو کوئی اور شخص اپنی کوئی جدید تحقیق یا کوئی جدید نقطۂ نظر اور جدید اسلوب بیان دنیا کے سامنے پیش کرے تو یقینا اسلامی لٹریچر کی یہ ایک مزید خوش قسمتی ہو گی۔ ولکل امرء مانوی و انما الاعمال بالنیات۔
میرے لئے اس جگہ ان بزرگان و احباب کرام کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے اس کتاب کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں امداد فرمائی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز نے کمال مہربانی سے اپنا نہایت قیمتی وقت خرچ کر کے حصہ دوم کے مسودے کا بیشتر حصہ ملاحظہ فرمایا اور وقتاً فوقتاً اپنے بیش قیمت ارشادات سے مستفیض ہونے کا موقع عطا کیا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب بی۔اے ناظر تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ قادیان نے قریباً ساری کاپیاں ملاحظہ کیں اور مجھے ان کی تصحیح میں امداد دینے کے علاوہ بعض جگہ مفید مشورے بھی دئے۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے سابق مبلغ اسلام لنڈن نے مسودے کے بعض خاص خاص حصے دیکھے اور مجھے اپنی قیمتی رائے سے مستفید کیا۔ مولوی ارجمند خان صاحب مولوی فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے کاپیوں کی درستی میں بہت قابل قدر امداد دی۔ فجزاھم اﷲ خیرا۔ اسی طرح مینجر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان اور مینجر الہ بخش سٹیم پریس قادیان اور کاتب کتاب ہذا بھی اپنی ہمدردانہ توجہ کی وجہ سے قابل شکر ہیں۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
کارکن نظارت تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ قادیان
۳۰؍مارچ ۱۹۳۱ء


بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
مدینہ کاابتدائی قیام اورحکومت اسلامی کی تاسیس
مدینہ کے حالات
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ ؐکے اصحاب کی ہجرت کا بیان کتاب کے حصہ اوّل میں گزر چکا ہے۔ اب ہجرت کے بعدسے آپؐکی مدنی زندگی کاآغاز ہوتا
ہے۔لیکن پیشتر اس کے کہ ہم آپؐ کی مدنی زندگی کابیان شروع کریں یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ خود مدینہ اوراس کی آبادی کامختصر حال بیان کردیا جاوے،کیونکہ اس کے بغیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے بعض حالات کاپوری طرح سمجھنا مشکل ہے۔یہ بتایا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل مدینہ کا شہریثرب کے نام سے مشہور تھا لیکن آپؐ کی ہجرت کے بعد لوگ اسے مدینۃ الرسولؐ (یعنی خدا کے رسول کا شہر)کہہ کر پکارنے لگے اورپھر آہستہ آہستہ اس کانام صرف مدینہ مشہور ہوگیا۔ مدینہ عرب کے علاقہ حجاز کا قدیم شہر ہے جو مکہ سے شمال کی طرف دواڑھائی سومیل کے فاصلہ پربحراحمر کے مشرقی ساحل سے قریباًپچاس میل مشرق کی طرف ہٹ کر واقع ہے۔گویا مدینہ اس قدیم مگرصحرائی تجارتی راستے کے قرب میں آباد ہے جو مکہ سے شام کی طرف جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ مکہ اور شام کے درمیان آنے جانے والے تاجر بعض اوقات راستے سے کچھ ہٹ کر مدینہ میں بھی قیام کرتے جاتے تھے اور اس لئے مکہ اور مدینہ کے بہت سے لوگ آپس میں روشناس تھے اور بعض تو ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی رکھتے تھے۔
جگہ کے لحاظ سے مدینہ کو ایک وادی کہنا چاہئے جوچھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے گھری ہوئی تھی اور انہی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی اُحد تھی جہاں بعد میں مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان ایک نہایت خطرناک جنگ وقوع میں آئی۔عرب کے دوسرے مقامات کے مقابلہ میں مدینہ میں بارش عموماًخاصی ہوجاتی ہے اور زمین بھی ویسی رتیلی اورناقص نہیں جو عموماًعرب کے دوسرے حصوں میں پائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے باشندے قدیم زمانہ سے عموماًزراعت پیشہ رہے ہیں۔مدینہ میں گرمی شدت کی پڑتی ہے اورسرما میں سردی بھی بہت تیزہوتی ہے اورجس زمانہ کا ہم ذکر کررہے ہیںاس میں مدینہ میں ملیریا وغیرہ کی وبا بھی بہت پڑتی تھی اورلوگ بخار سے سخت تکلیف اُٹھاتے تھے۔چنانچہ جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے اصحاب مدینہ میں ہجرت کرکے آئے توبوجہ آب وہواکی تبدیلی کے انہوں نے بہت تکلیف اُٹھائی اوربہت سے مسلمان بخار میں مبتلا ہوگئے اور ان کی صحتوں کوبہت نقصان پہنچا۔چنانچہ احادیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ دعا مروی ہے جوآپؐنے مسلمانوں کی اس تکلیف کودیکھ کر خدا کے حضورکی اور جس کے نتیجہ میںخدا نے مسلمانوں کو اس تکلیف سے نجات دی اور مدینہ کی فضا ایک بڑی حد تک وبائی جراثیم سے پاک ہوگئی۔ ۱؎
اس زمانہ میں مدینہ کی آبادی اکٹھی نہیں تھی بلکہ کسی قدر پھیلی ہوئی تھی اورہر قوم الگ الگ حصوں میں آباد تھی اور خود حفاظتی کے لئے سب نے اپنے اپنے واسطے چھوٹے چھوٹے قلعے سے بنا رکھے تھے۔پُرانی روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یثرب میں سب سے پہلے آباد ہونے والے لوگ عمالیق قوم کے آدمی تھے جنہوں نے وہاں کھجوروں کے باغات لگائے اورچھوٹے چھوٹے قلعے تیار کئے۔ان کے بعد یہودی لوگ آباد ہوئے۔ان یہود کے متعلق روایات میں اختلاف ہے کہ وہ نسلاًعرب تھے یا کہ باہر سے آئے تھے۔مگرعام مؤرخین کی رائے یہی ہے کہ وہ زیادہ تربنی اسرائیل تھے جو اپنے وطن سے نکل کر عرب میں آکر آباد ہوگئے تھے اورپھر بعد میں آہستہ آہستہ عرب کے بعض اصلی باشندے بھی ان کا مذہب اختیار کرکے ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔بہرحال عمالیق کے بعد مدینہ میں یہود آکر آباد ہوئے اورانہوں نے آہستہ آہستہ عمالیق کو نیست ونابودیاجلاوطن کرکے ان کی جگہ خود لے لی۔یہ یہود تین بڑے قبائل میں منقسم تھے یعنی بنوقینقاع،بنونضیراور بنوقریظہ۔یہ تینوں قبائل شروع میں عموماًبہت اتفاق اور اتحاد کے ساتھ رہتے تھے۔ان یہود نے بھی اس زمانہ کے دستور کے مطابق اپنی رہائش کے لئے چھوٹے چھوٹے قلعے تیار کئے جوایک دوسرے سے ملحق نہ تھے بلکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر مدینہ کے آس پاس پھیلے ہوئے تھے۔یہود کا پیشہ عموماًتجارت تھا،ان میں سے بعض زراعت کاشغل بھی رکھتے تھے۔بنوقینقاع زیادہ ترصناعی کا کام کرتے تھے۔یہود چونکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی نسبت زیادہ مہذب ومتمدن تھے اور تعلیم میں بھی آگے تھے۔اس لئے انہوں نے مدینہ کے گردونواح میں اپنا اثر پیدا کرنا شروع کیااور جلد ہی بہت اقتدار حاصل کرلیا۔وہ اسی اقتدار کی حالت میں تھے کہ یمن کی طرف سے بنوقحطان کے دو قبیلے جواوس اور خزرج کے نام سے پکارے جاتے تھے مدینہ میں آکر آباد ہوئے۔یہ قبائل ایک شخص حارثہ بن ثعلبہ کے دو بیٹوں اوس اور خزرج کی اولاد تھے اورآپس میں بہت اتفاق ومحبت کے ساتھ رہتے تھے۔شروع شروع میں تو وہ یہود سے بالکل الگ تھلگ رہے لیکن آخر یہود کے زوراقتدار کی وجہ سے اُن کے حلیف بن گئے۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ اوس وخزرج نے بھی پھیلنا اورزور پکڑنا شروع کیااورکچھ کچھ یہود کی ہمسری کادم بھرنے لگے،لیکن چونکہ یہودی لوگ زیادہ ہوشیار اور زیادہ متمدن اور زیادہ بااثر ہونے کے علاوہ تعلیم اوراُمور مذہبی میں بھی زیادہ دخل رکھتے تھے اوراوس وخزرج محض بت پرست اورعموماً جاہل تھے اس لئے اوس وخزرج پر یہود کا ایک گہرا اثر تھا حتّٰیکہ جب کبھی کسی اوسی یاخزرجی شخص کے کوئی نرینہ اولادنہ ہوتی تو وہ یہ منت مانتا تھاکہ اگر میرے گھر لڑکا پیدا ہواتو میں اُسے یہودی بنائوں گا۔چنانچہ اسی طرح کئی لوگ یہودی بن گئے اوران کا زور دن بدن بڑھتا گیا۔ حتّٰی کہ یہودیوں نے اپنی طاقت کے گھمنڈمیں اوس وخزرج پر طرح طرح کے مظالم شروع کردئے جس کے نتیجہ میں یہود اور اوس وخزرج کے تعلقات بہت خراب ہوگئے اور بالآخر مؤخر الذکرقبائل نے تنگ آکر ریاست غسان کے فرمانرواکی امداد سے یہود کے تمام سربرآوردہ لوگوں کو ہوشیاری سے قتل کروادیا۔جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یہود کا زور ٹوٹ گیااور اوس وخزرج شہر میں طاقت پکڑ گئے،لیکن یہود کے کمزور ہوجانے کاآہستہ آہستہ یہ اثر بھی ظاہر ہونے لگا کہ اوس وخزرج جو اس وقت تک یہود کے مقابلہ کی وجہ سے آپس میں اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے تھے اب آپس میں لڑنے اور جھگڑنے لگ گئے اور بالآخر یہ خانہ جنگیاں ایسی وسیع اور خطرناک صورت پکڑ گئیں کہ دونوں قومیں آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ سے کٹ کٹ کر بہت کمزور ہوگئیں اور یہود کو جوغالباًاس خانہ جنگی کی آگ کو بھڑکانے والے تھے پھر طاقت پکڑ جا نے کا موقع مل گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اوس وخزرج نے پھر یہودی قبائل کی امداد کا سہارا ڈھونڈا اورایک دوسرے کے خلاف ان کی مدد چاہی۔چنانچہ بنوقینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بن گئے اور بنونضیر اور بنوقریظہ قبیلہ اوس کے ،اوراس طرح سارا شہر ایک خطرناک خانہ جنگی کی آگ سے شعلہ بارہوگیا۔
اہل یثرب اسی خانہ جنگی کی حالت میں تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا سے حکم پاکر مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔چنانچہ اوس وخزرج کے درمیان آخری جنگ جوتاریخ عرب میں جنگ بعاثؔ کے نام سے مشہور ہے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانۂ نبوت میں ہی ہوئی تھی جب کہ آپؐ مکہ میں مقیم تھے۔اس لڑائی میں اس قدر خونریزی ہوئی اور فریقین کے اتنے آدمی مارے گئے کہ اوس اورخزرج ناچارآپس میں صلح کرنے پر مجبور ہوگئے۔چنانچہ دونوں قبیلوں نے آپس میں مشورہ کرکے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ چند شرائط کے ماتحت عبداللہ بن ابیّ بن سلول کوجو قبیلہ خزرج کا ایک نامور اور ہوشیار رئیس تھااپنا متحدہ سردار تسلیم کرلیا جاوے اور عبداللہ کی باقاعدہ تاجپوشی کی تیاری ہونے لگی۔مگرعبداللہ کاسرہنوزقبائل اوس وخزرج کی سرداری کے تاج سے مزین نہ ہونے پایا تھاکہ اسلام کی آواز مدینہ تک پہنچ گئی اورحالات نے ایک نیا رُخ اختیار کرلیا۔یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابیّ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کو ایک ایسے رقیب کی آمد سمجھا جس نے اس سے اوس اورخزرج کی سرداری کا مجوزہ تاج چھین لیا۔چنانچہ اس کے دل میں حسدوعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اورچونکہ وہ اتنی جرأت نہیں رکھتا تھاکہ اپنے قبیلہ والوں کے خلاف ہوکر کھلم کھلا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کھڑا ہوسکے اس لئے اُس نے برملا طورپر مخالفت کرنے کی بجائے خفیہ عداوت اور ریشہ دوانی کاطریق شروع کردیااورجنگ بدر کے بعد اس نے بظاہراسلام بھی قبول کرلیا،مگراس کے دل کایہ مرض کم نہ ہوا اورآخر اسی حالت میں اس نے جان دی۔۱؎
نزول قباء ،۲۰ستمبر۶۲۲ء
مدینہ اوراس کی آبادی کے یہ مختصر حالات بیان کرنے کے بعد ہم اپنے اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جب
انصار کے کانوں میںآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کی آواز پہنچی تومدینہ کا میدان تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا اورلوگ جلدی جلدی اپنے ہتھیاروں کو درست کرکے نہایت شوق کے ساتھ اس سمت میںلپکے جدھر سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے۔یہ وقت بھی ایک عجیب وقت تھا۔سرورِعالم یعنی خدا کا وہ مقدس فرستادہ جس کے وجود میں نبوت ورسالت کے پیغام نے اپنے کمال کو پہنچنا تھا اپنے عزیزواقارب کے مظالم سے تنگ آکر اپنے وطن سے نکلتا ہے اورایک ایسی بستی کی طرف آتا ہے جو دنیوی رشتہ کے لحاظ سے گویاایک غیروں کی بستی ہے مگر خدا انہی غیروں کے دلوں میں وہ محبت ڈال دیتا ہے کہ جس کے سامنے خون کے رشتے کی محبت بالکل ہیچ نظر آتی ہے اورآج سے مدینہ کے اوس وخزرج کی قسمت اسلام کے نوشتۂ تقدیر کے ساتھ اس طرح مخلوط طورپربُن دی جاتی ہے کہ ناممکن ہے کہ دنیا کا کوئی مؤرخ ایک کے ذکر سے دوسرے کے ذکر کو جدا کرسکے۔بیشک اسلام نے عرب کے ان بادیہ نشینوں کو جن کے بیشتر اوقات شراب اورزنا اور جوئے اورآپس کی لڑائی میں گزرتے تھے ایک تاریک ترین قعرمذلت سے اٹھایااورایک روشن ترین اوج سعادت پر پہنچا دیااوراسلام پرکسی کا احسان نہیں ہے بلکہ ہراک مسلمان کی گردن اسلام کے احسان کے نیچے ہے،لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان ابتدائی فدایان اسلام نے جس جاں نثارانہ قربانی اورجس والہانہ عشق ومحبت سے اسلام کے نازک اور کم سن پودے کو اپنے خون کے پانی سے سینچا اس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔مگر مجھے اپنے مضمون کی طرف لوٹنا چاہئے۔انصار کی نظریں جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرپڑیں تو ان کے چہرے خوشی سے تمتمااٹھے اورانہوں نے ایسا محسوس کیاکہ گویا دنیاوآخرت کے سارے انعامات انہیں آپؐ کے وجود میں حاصل ہوگئے ہیں۔چنانچہ بخاری میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ جو خوشی انصار کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے وقت پہنچی ویسی خوشی کی حالت میں مَیں نے انہیں کبھی کسی اور موقع پر نہیں دیکھا۔ترمذی اور ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو ہم نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لئے مدینہ روشن ہوگیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔ ۱؎
استقبال کرنے والوں کی ملاقات کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر تاریخ میں نہیں آیا سیدھے شہر کے اندر داخل نہیں ہوئے بلکہ دائیں طرف ہٹ کر مدینہ کی بالائی آبادی میں جو اصل شہر سے دواڑھائی میل کے فاصلہ پر تھی اورجس کانام قباء تھاتشریف لے گئے۔ اس جگہ انصار کے بعض خاندان آباد تھے جن میں زیادہ ممتاز عمروبن عوف کا خاندان تھا اوراس زمانہ میں اس خاندان کے رئیس کلثوم بن الہدم تھے۔قباء کے انصار نے آپؐکا نہایت پُرتپاک استقبال کیا اورآپؐ کلثوم بن الہدم کے مکان پرفروکش ہوگئے۔وہ مہاجرین جوآپؐ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے ہوئے تھے وہ بھی اس وقت تک زیادہ ترقباء میں کلثوم بن الہدم اوردوسرے معززین انصار کے پاس مقیم تھے اورشاید یہی وجہ تھی کہ آپؐنے سب سے پہلے قباء میں قیام کرنا پسند فرمایا۔ایک آن کی آن میں سارے مدینہ میں آپؐ کی آمد کی خبر پھیل گئی اور تمام مسلمان جوشِ مسرت میں بیتاب ہوکر جوق در جوق آپؐکی فرودگاہ پر جمع ہونے شروع ہوگئے۔اس وقت ایک عجیب لطیفہ ہوا جس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس کی سادگی کاپتہ چلتا ہے اوروہ یہ کہ جن اہالیان مدینہ نے آپؐ کواس سے پہلے نہیں دیکھا ہوا تھاان میں سے بعض اپنے خیال میں حضرت ابوبکرؓکوہی رسول اللہ سمجھتے رہے مگر جب مجلس میں دھوپ آگئی اورحضرت ابوبکرؓ نے اپنی چادرسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر سایہ کیااس وقت ان کی یہ غلط فہمی دور ہوئی۔۱؎ اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ باوجود عمر میںچھوٹا ہونے کے حضرت ابوبکرؓآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت زیادہ بوڑھے نظرآتے تھے اور بمقابلہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان کے بہت سے بال سفید ہوچکے تھے اورچونکہ مجلس میں نشست کی کوئی خاص ترتیب بھی نہیں تھی اورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے کوئی ممتاز جگہ معین تھی اس لئے ناواقف لوگوں کو دھوکا لگ گیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزول قباء یعنی تکمیل سفر ہجرت کی تاریخ کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلاف ہے۔عام مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پیرکادن اورربیع الاول۱۴ نبوی کی بارہ تاریخ تھی۔مگر بعض محققین نے آٹھ تاریخ لکھی ہے۔عیسوی سن کے شمار سے یہ تاریخ بعض حساب دانوں کے خیال کے مطابق۲۰؍ستمبر۶۲۲ء تھی۔۲؎ اسلامی سن کاشمار اسی واقعہ ہجرت سے شروع ہوتا ہے مگر سال کی ابتداء ربیع الاول سے نہیں ہوتی جو کہ ہجرت کا مہینہ ہے بلکہ محرم سے ہوتی ہے جوکہ قمری مہینوں کاپہلا ماہ سمجھا جاتا ہے اوراس طرح پہلا سال ہجرت کا دراصل بارہ ماہ کا نہیں تھابلکہ نو ماہ اور کچھ دن کا تھا۔اس بارہ میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ اسلام میں ہجرت کے سن کا حساب ابتدائً کس کے عہد میںشروع ہوا۔حاکم نے اکلیل میں روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ہجرت کے بعد اس کا حکم دیا تھا۔۳؎ لیکن دوسری روایات کی بنا پر جمہورمؤرخین کایہ خیال ہے اوریہی درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ حساب حضرت عمرؓ کے عہدخلافت میں شروع ہوا تھا۔۴؎ واللہ اعلم
مؤرخین لکھتے ہیں کہ پہلا کام جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قباء میں کیا وہ ایک مسجد کی تعمیر تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی اور صحابہ نے مل کر مزدوروں اور معماروں کا کام کیا۔اورچند دن کی محنت سے یہ مسجد تیار ہوگئی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس مسجد سے آخر وقت تک بہت محبت رہی۔چنانچہ مدینہ میں چلے جانے کے بعد آپؐہر ہفتہ قباء تشریف لے جاتے اور اس مسجد میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔بعض علماء کاخیال ہے کہ قرآن شریف میں جس مسجد کے متعلق ۵؎ کے الفاظ بیان ہوئے ہیں وہ یہی مسجد قباء ہے۔اوراس میں شک نہیں ہے کہ گو اس سے پہلے بھی بعض مسجدیں مسلمانوں نے بنائی تھیں،لیکن یقینا قباء کی مسجد اسلام میں وہ پہلی مسجدتھی جس کی بناء آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے تکمیل ہجرت کے بعد پہلے دن رکھی گئی اورجسے مسلمانوں نے گویا ایک قومی عبادت گاہ کے طورپر تعمیر کیا۔
یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے اپنی جگہ حضرت علیؓ کو چھوڑ آئے تھے اوران کو تاکید فرماآئے تھے کہ امانتیں وغیرہ واپس کرکے بہت جلد مدینہ پہنچ جائیں۔چنانچہ ابھی آپؐ کو قباء میںتشریف لائے صرف تین دن ہی ہوئے تھے کہ حضرت علیؓ بھی مع الخیر قباء میں پہنچ گئے لیکن ابھی تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت مکہ میں ہی تھے۔
ورودمدینہ اورجمعہ کی پہلی نماز
غالباًابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قباء میں ہی مقیم تھے کہ مسلمانان مدینہ میں اس بات کے متعلق گفتگو شروع ہوئی کہ مدینہ
میں آپؐ کس کے ہاں قیام فرما ہوں گے۔ہرایک خاندان یہ چاہتا تھاکہ اسے آپؐ کی میزبانی کافخر حاصل ہو۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ اختلاف پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ میںعبدالمطلب کے ننھیال بنونجار کے ہاں ٹھہروں گا۔ ۱؎ یہ ایک نہایت حکیمانہ فیصلہ تھاجس سے آپؐنے انصار کے مختلف قبائل میں ناواجب جذبات رقابت کے پیدا ہونے کا سدباب فرمادیا اورآپؐ کے اس ارشاد پر سب کی تسلی ہوگئی۔کیونکہ گوایمان واخلاص میں سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھے لیکن بنونجارکویہ ایک مزیداورمسلّم خصوصیت حاصل تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ اسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
قباء میں زائد از دس دن ۲؎ کے قیام کے بعد جمعہ کے روز آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ کے اندرونی حصہ کی طرف روانہ ہوئے۔انصارومہاجرین کی ایک بڑی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔آپؐ ایک اونٹنی پر سوار تھے اورحضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پیچھے تھے۔یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔راستہ میں ہی نماز جمعہ کا وقت آگیا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو سالم بن عوف کے محلہ میں ٹھہر کر صحابہ کے سامنے خطبہ دیااور جمعہ کی نماز ادا کی۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ گو اس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہوچکا تھا۔۳؎ مگر یہ پہلا جمعہ تھاجوآپؐ نے خود ادا کیا۔۴؎ اوراس کے بعد سے جمعہ کی نماز کا طریق باقاعدہ جاری ہوگیا۔دراصل جمعہ نمازوں کی عید ہے جیسا کہ روزوں کی عید عیدالفطر اور حج کی عید عیدالاضحی ہے اور اسی لئے شریعت اسلامی میں جمعہ کی نماز کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔اس نماز میں امام ایک خطبہ دیتا ہے جس میں حاضر الوقت مسائل پر تقریر ہوتی ہے اورحاضرین کوایمان واعمال کے متعلق مناسب نصائح کی جاتی ہیں اوراس کے بعد دورکعت نماز فرض ادا کی جاتی ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ بھی حکم ہے کہ حتّی الوسع ہر مسلمان کو چاہئے کہ جمعہ کے دن غسل کرے اورکپڑے بدلے اور خوشبو لگائے اورخطبہ شروع ہونے سے قبل مسجد میں پہنچ جاوے۔ جس جگہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ پہلا جمعہ ادا کیا۔اس جگہ اب ایک مسجد ہے جسے اس جمعہ کی یادگار میں مسجد الجمعہ کہتے ہیں۔
جمعہ سے فارغ ہوکر آپؐ کاقافلہ پھر آہستہ آہستہ آگے روانہ ہوا۔راستہ میں آپؐ مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ جوش محبت میںبڑھ بڑھ کر عرض کرتے تھے’’یارسول اللہ! یہ ہمارا گھر یہ ہمارا مال وجان حاضر ہے اورہمارے پاس حفاظت کاسامان بھی ہے آپؐ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں۔‘‘ آپؐ ان کے لئے دعائے خیر فرماتے اورآہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پرچڑھ چڑھ کر گانا شروع کیا
طَلَعَ البَدْرُ عَلَیْنَا
وَجَبَ الشُّکْرُعَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
مَادَعیٰ لِلّٰہِ دَاعِ ۱ ؎
یعنی آج ہم پر کوہ وداع ۲؎کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے۔اس لئے اب ہم پر ہمیشہ کے لئے خدا کا شکر واجب ہوگیا ہے۔‘‘مسلمانوں کے بچے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے تھے کہ ’’محمد صلی اﷲ علیہ وسلم آگئے۔خدا کے رسولؐ آگئے۔‘‘اورمدینہ کے حبشی غلام آپؐ کی تشریف آوری کی خوشی میںتلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے تھے۔جب آپؐ شہر کے اندر داخل ہوئے تو ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے پاس قیام فرمائیں اور ہرشخص بڑھ بڑھ کراپنی خدمت پیش کرتا تھا۔آپؐ سب کے ساتھ محبت کاکلام فرماتے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ حتّٰی کہ آپؐ کی ناقہ بنونجار کے محلہ میں پہنچی اس جگہ بنونجار کے لوگ ہتھیاروں سے سجے ہوئے صف بند ہوکر آپؐ کے استقبال کے لئے کھڑے تھے اورقبیلہ کی لڑکیاں دَفیں بجا بجا کر یہ شعر گارہی تھیں۔
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی نَجَّارِ
یَاحَبَّذَا مُحَمَّداً مِنْ جَارِ
یعنی ہم قبیلہ بنونجار کی لڑکیاں ہیں اورہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے محلہ میں ٹھہرنے کے لئے تشریف لائے ہیں۔‘‘بنونجار میں پہنچ کرپھر یہ سوال درپیش تھا کہ آپؐ کس شخص کے ہاں مہمان ٹھہریں۔قبیلہ کاہر شخص خواہشمند تھا کہ اسی کو یہ فخر حاصل ہو،بلکہ بعض لوگ تو جوش محبت میںآپؐ کی اونٹنی کی باگوں پرہاتھ ڈال دیتے تھے۔اس حالت کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔’’میری اونٹنی کوچھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے۔‘‘یعنی جہاںخدا کا منشاء ہوگاوہاں یہ خود بیٹھ جائے گی۔اوریہ کہتے ہوئے آپؐ نے بھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔اونٹنی آگے بڑھی اور تھوڑی دور خراماں خراماں چلتی ہوئی جب اس جگہ میں پہنچی جہاں بعد میں مسجد نبویؐ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حجرات تعمیرہوئے اورجو اس وقت مدینہ کے دو بچوں کی افتادہ زمین تھی تو بیٹھ گئی، لیکن فوراً ہی پھراٹھی اورآگے کی طرف چلنے لگی۔ مگرچند قدم چل کرپھرلوٹ آئی اوراسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاھٰذَا اِنْ شَائَ اللّٰہُ الْمَنْزِلُ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی منشاء میںیہی ہماری مقام گاہ ہے۔ ۱؎ اورپھر خدا سے دعا مانگتے ہوئے اونٹنی سے نیچے اتر آئے اوردریافت فرمایا کہ اپنے آدمیوں میں سے یہاں سے قریب ترین گھر کس کا ہے ابوایوب انصاری فوراًلپک کرآگے ہوگئے اورعرض کیا۔’’یارسول اللہ!میرا گھر ہے اوریہ میرا دروازہ ہے۔ تشریف لے چلئے۔‘‘آپؐ نے فرمایا۔’’اچھاجائو اورہمارے لئے کوئی ٹھہرنے کی جگہ تیار کرو۔‘‘ ۲؎
قیام دارِاَبی اَیُّوب
ابوایوب انصاری فوراًاپنے مکان کو ٹھیک ٹھاک کرکے آگئے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے ساتھ اندر تشریف لے گئے۔یہ مکان دومنزلہ تھا۔ابوایوب
چاہتے تھے کہ آپؐ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں،لیکن آپؐ نے اس خیال سے کہ ملاقات کے لئے آنے والے لوگوں کو آسانی رہے نچلی منزل کو پسندفرمایااوروہاں فروکش ہوگئے۔رات ہوئی تو ابوایوب اوران کی بیوی کوساری رات اس خیال سے نیند نہیںآئی کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نیچے ہیں اورہم آپؐ کے اوپر ہیں اور مزید اتفاق یہ ہوگیا کہ رات کوچھت پرایک پانی کابرتن ٹوٹ گیااورابوایوب نے اس ڈر سے کہ پانی کاکوئی قطرہ نیچے نہ ٹپک جاوے،جلدی سے اپنا لحاف پانی پر گراکراسے خشک کردیا۔صبح ہوئی تو وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال اصرار آپؐ کی خدمت میںاوپر کی منزل میں تشریف لے چلنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے پہلے توتامل کیا،لیکن بالآخرابوایوب کے اصرار کودیکھ کررضامند ہوگئے۔اس مکان میں آپؐ نے سات ماہ تک یاابن اسحاق کی روایت کی رو سے ماہ صفر۲ ہجری تک قیام فرمایا۔گویاجب تک مسجد نبوی اوراس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہوگئے آپؐ اسی جگہ مقیم رہے۔ابوایوب آپؐ کی خدمت میں کھانابھجواتے تھے اورپھر جو کھانا بچ کر آتاتھاوہ خود کھاتے تھے اورمحبت واخلاص کی وجہ سے اُسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپؐ نے کھایا ہوتا تھا۔ ۱؎ دوسرے اصحاب بھی عموماًآپؐ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے۔چنانچہ ان لوگوںمیں سعد بن عبادہ رئیس قبیلہ خزرج کانام تاریخ میں خاص طور پر مذکور ہوا ہے۔انس بن مالک مدینہ کے ایک دس سالہ یتیم بچے تھے۔ان کی والدہ جن کا نام اُم سلیم تھااورجو بہت مخلص تھیں ان کو اپنے ساتھ لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا کہ یارسول اللہ میںانس کوآپؐ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں آپؐ اس کے لئے دعا فرماویں اوراپنی خدمت کے لئے اسے قبول فرماویں۔آپؐ نے ان کے لئے دعائے خیر کی اوراپنی خدمت میں انہیں منظورفرمایا اور اس کے بعدسے انس بن مالک ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں رہنے لگ گئے اورآپؐ کی وفات تک اس خدمت سے جدا نہیں ہوئے۔یہ وہی انس ہیں جن سے بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہوئی ہیںاورجو خاص صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔انس نے بڑی لمبی عمرپائی اور۹۱ہجری یا۹۳ہجری میں بصرہ میں فوت ہوئے جبکہ ان کے سواغالباًایک یا دو صحابی اور زندہ تھے۔اپنی آخری عمر میں انس اکثر کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا سے میرے مال اور میری اولاد میں اتنی برکت ہوئی ہے جو میرے وہم وگمان میںبھی نہیں تھی اور اب مجھے صرف جنت کی دعا کے پورا ہونے کا انتظار ہے۔
مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زیدبن حارثہ کوکچھ روپیہ دے کر مکہ روانہ فرمایا جو چند دن میں آپؐ کے اوراپنے اہل وعیال کوساتھ لے کر مع الخیر مدینہ میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی بکر حضرت ابوبکرؓ کے اہل وعیال کوبھی ساتھ لے کر مدینہ پہنچ گئے۔
تعمیرمسجد نبویؐ
مدینہ کے قیام کا سب سے پہلاکام مسجد نبویؐ کی تعمیر تھا۔جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اسعدبن زرارہ
کی نگرانی میں رہتے تھے۔یہ ایک افتادہ جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے مسجد اوراپنے حجرات کی تعمیر کے لئے پسند فرمایااور دس دینار یعنی قریب نوے۹۰ روپے میں یہ زمین خرید لی گئی اور جگہ کوہموار کرکے اور درختوں کوکاٹ کر مسجد نبویؐ کی تعمیر شروع ہوگئی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود دعامانگتے ہوئے سنگِ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قباء کی مسجد میں ہواتھا صحابہ نے معماروں اورمزدوروں کاکام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود بھی شرکت فرماتے تھے۔بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے ہوئے صحابہ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری کایہ شعر پڑھتے تھے۔
ھٰذَا الْحِمَالُ لَاحِمَالَ خَیْبَرَ ھٰذَا اَبَرُّ رَبَّنَا وَاَطْھَرٗ
یعنی’’یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جوجانوروں پرلَد کرآیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے مولیٰ!یہ بوجھ تقویٰ اورطہارت کا بوجھ ہے جوہم تیری رضا کے لئے اٹھاتے ہیں۔‘‘
اورکبھی کبھی صحابہ کام کرتے ہوئے عبداللہ بن رواحہ کایہ شعر پڑھتے تھے
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَۃْ فَارْحَمِ الْاَنْصَارَوَ الْمُھَاجِرَہ
یعنی’’اے ہمارے اللہ!اصل اجرتوصرف آخرت کا اجر ہے۔پس تواپنے فضل سے انصار ومہاجرین پراپنی رحمت نازل فرما۔‘‘
جب صحابہؓیہ اشعار پڑھتے تھے توبعض اوقات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملادیتے تھے اوراس طرح ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی۔ ۱؎ مسجد کی عمارت پتھروں کی سلوں اور اینٹوں کی تھی جولکڑی کے کھمبوں کے درمیان چن دی گئی تھیں اور چھت پر کھجور کے تنے اورشاخیں ڈالی گئی تھیں۔مسجد کے اندرچھت کے سہارے کے لئے کھجورکے ستون تھے اورجب تک منبر کی تجویز نہیں ہوئی انہی ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خطبہ کے وقت ٹیک لگاکرکھڑے ہوجاتے تھے۔مسجدکا فرش کچاتھااورچونکہ زیادہ بارش کے وقت چھت ٹپکنے لگ جاتی تھی اس لئے ایسے اوقات میں فرش پر کیچڑہوجاتاتھا۔ چنانچہ اس تکلیف کودیکھ کر بعد میں کنکریوں کافرش بنوادیاگیا۔شروع شروع میں مسجد کا رخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا تھا،لیکن تحویل قبلہ کے وقت یہ رخ بدل دیا گیا۔مسجد کی بلندی اس وقت دس فٹ اورطول ایک سو پانچ فٹ اور عرض نوے فٹ کے قریب تھا،لیکن بعد میں اس میں توسیع کردی گئی۔
مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دارچبوترہ بنایاگیاتھاجسے صُفَّہکہتے تھے۔یہ ان غریب مہاجرین کے لئے تھا جو بے گھر بار تھے۔یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اصحاب الصفہ کہلاتے تھے۔ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا،عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اورجب کبھی آپؐ کے پاس کوئی ھدیہ وغیرہ آتاتھایاگھر میں کچھ ہوتا تھا تواُن کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔بلکہ بعض اوقات خود فاقہ کرتے اورجو کچھ گھر میں ہوتا تھاوہ اصحاب الصُفَّہ کو بھجوادیتے تھے۔انصار بھی ان کی مہمانی میں حتّی المقدور مصروف رہتے تھے اوران کے لئے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے۔ ۱؎ لیکن بایںہمہ ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقہ تک نوبت پہنچ جاتی تھی اوریہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتّٰی کہ کچھ تومدینہ کی آبادی کی وسعت کے نتیجہ میں ان لوگوں کے لئے کام نکل آیا۔اورکچھ قومی بیت المال سے امداد کی صورت پیدا ہوگئی۔
مسجد کے ساتھ ملحق طورپرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے رہائشی مکان تیار کیا گیا تھا۔ مکان کیا تھاایک دس پندرہ فٹ کاچھوٹا ساحجرہ تھا اوراس حجرہ اورمسجد کے درمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھاجس میںسے گزر کرآپؐ نماز وغیرہ کے لئے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔جب آپؐ نے اور شادیاں کیں تواسی حجرہ کے ساتھ ساتھ دوسرے حجرات تیار ہوتے گئے۔مسجد کے آس پاس بعض اور صحابہ کے مکانات بھی تیار ہوگئے۔
یہ تھی مسجد نبویؐ جومدینہ میں تیار ہوئی اوراس زمانہ میں چونکہ اورکوئی پبلک عمارت ایسی نہ تھی جہاں قومی کام سرانجام دئے جاتے اس لئے ایوان حکومت کا کام بھی یہی مسجد دیتی تھی۔یہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس لگتی تھی۔یہیںتمام قسم کے مشورے ہوتے تھے۔یہیں مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا۔یہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے۔ یہی قومی مہمان خانہ تھا اورضرورت ہوتی تھی تواسی سے جنگی قیدیوں کی حبس گاہ کا کام بھی لے لیا جاتا تھا۔
سرولیم میوراس مسجد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’گویہ مسجد سامان تعمیر کے لحاظ سے نہایت سادہ اور معمولی تھی،لیکن محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔رسول خدا اوران کے اصحاب اسی مسجد میںاپنے وقت کابیشتر حصہ گزارتے تھے۔ یہیںاسلامی نماز کا باقاعدہ باجماعت صورت میں آغاز ہوا۔یہیں تمام مسلمان جمعہ کے دن خدا کی تازہ وحی کو سننے کے لئے مؤدبانہ اورمرعوب حالت میں جمع ہوتے تھے۔یہیں محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنی فتوحات کی تجاویز پختہ کیاکرتے تھے۔یہی وہ ایوان تھا جہاں مفتوح اورتائب قبائل کے وفود ان کے سامنے پیش ہوتے تھے۔یہی وہ دربار تھاجہاں سے وہ شاہی احکام جاری کئے جاتے تھے جو عرب کے دور دراز کونوں تک باغیوں کوخوف سے لرزا دیتے تھے اور بالآخر اسی مسجد کے پاس اپنی بیوی عائشہؓ کے حجرے میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اپنی جان دی اور اسی جگہ اپنے دو خلیفوں کے پہلو بہ پہلو وہ مدفون ہیں۔‘‘ ۱؎
یہ مسجد اوراس کے ساتھ کے حجرے کم وبیش سات ماہ کے عرصہ میں تیار ہوگئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے نئے مکان میں اپنی بیوی حضرت سودہؓ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ بعض دوسرے مہاجرین نے بھی انصار سے زمین حاصل کرکے مسجد کے آس پاس مکانات تیار کرلئے اور جنہیں مسجد کے قریب زمین نہیں مل سکی انہوں نے دور دور مکان بنا لئے اوربعض کوانصار کی طرف سے بنے بنائے مکان مل گئے تھے۔
ابتدائے اذان
ابھی تک نماز کے لئے اعلان یااذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا۔صحابہ عموماًوقت کااندازہ کرکے خود نماز کے لئے جمع ہوجاتے تھے،لیکن یہ صورت کوئی قابل اطمینان
نہیں تھی۔اب مسجد نبویؐ کے تیار ہوجانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طورپرپیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کووقت پر جمع کیا جاوے۔کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی۔کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی۔ کسی نے کچھ کہا مگر حضرت عمرؓنے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کومقرر کردیاجاوے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کردیا کرے کہ نماز کاوقت ہوگیا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس رائے کوپسند فرمایااور حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ وہ اس فرض کو اداکیا کریں۔ ۲؎ چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلالؓ بلندآواز سے اَلصَّلوٰۃُ جَامِعَۃٌ کہہ کر پکارا کرتے تھے اورلوگ جمع ہوجاتے تھے بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لئے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا مقصود ہوتاتھا تویہی ندادی جاتی تھی۔اس کے کچھ عرصہ کے بعد ایک صحابی عبداللہ بن زیدانصاری کوخواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکراپنے اس خواب کاذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کواذان کے طریق پریہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے۔آپؐ نے فرمایایہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبداللہؓکو حکم دیا کہ بلالؓ کو یہ الفاظ سکھادیں۔عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلالؓ نے الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓاسے سن کرجلدی جلدی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ!آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں۔ ۱؎ اورایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اذان کے الفاظ سنے توفرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔ ۲؎ الغرض اس طرح موجودہ اذان کاطریق جاری ہوگیا اورجوطریق اس طرح جاری ہواوہ ایسا مبارک اور دلکش ہے کہ کوئی دوسرا طریق اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔گویا ہرروز پانچ وقت اسلامی دنیا کے ہر شہر اورہرگائوں میں ہر مسجد سے خدا کی توحید اورمحمدؐ رسول اللہ کی رسالت کی آواز بلند ہوتی ہے اوراسلامی تعلیمات کاخلاصہ نہایت خوبصورت اورجامع الفاظ میں لوگوں تک پہنچا دیاجاتا ہے۔
رکعات نماز میں ایزادی
یہ بیان کیاجاچکا ہے کہ نماز جواسلامی عبادات میں سب سے افضل عبادت سمجھی گئی ہے مکہ میں ہی فرض ہوچکی تھی،لیکن اب تک سوائے نماز
مغرب کے جس میں تین رکعات تھیں باقی تمام فرض نمازوںمیں صرف دودورکعات تھیں،لیکن ہجرت کے کچھ عرصہ بعدآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خداسے حکم پاکر سفر کے لئے تووہی دودورکعات نماز رہنے دی لیکن حضر کے لئے سوائے نمازفجر اور مغرب کے جواپنی پہلی صورت میں قائم رہیں باقی نمازوں میںچار چاررکعات فرض کردیں اور اس طرح سفروحضر کا امتیاز قائم ہو گیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اس کے تمام احکام میں میانہ روی کو اختیارکیاگیا ہے اوران عملی مشکلات کا پورا پورالحاظ رکھا گیا ہے جوانسان کو اس کی زندگی میں پیش آتی رہتی ہیں۔چنانچہ نماز کے مسائل میں ہی بہت سے احکام ایسے پائے جاتے ہیںجوحالات کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں مثلاًسفروحضر کی نمازکے امتیاز کے علاوہ جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے نماز کی ظاہری شکل وصورت کا ملحوظ رکھنا عام حالات میں ضروری ہے،لیکن جو شخص بیماری وغیرہ کی وجہ سے نماز کواس کی مقررہ صورت میں ادا نہ کرسکتا ہواس کے لئے اجازت ہے کہ ظاہری صورت کو ترک کرکے بیٹھے بیٹھے یااگریہ بھی مشکل ہوتو لیٹے لیٹے ہی نماز ادا کرلے۔اسی طرح نماز میں کعبہ کی طرف منہ کرنا واجبات میںسے ہے لیکن جب کوئی شخص سفرمیں ہواورسواری پربیٹھے ہوئے اسے جہت کا پتہ نہ لگ سکے یاوہ جہت کوقائم نہ رکھ سکے تو اسلام اسے اختیار دیتا ہے کہ جدھر اس کی سواری کارخ ہوادھر منہ کرکے نمازاداکرلے۔اسی طرح نمازکے لئے مقررہ طریق پروضو کرنا ضروری ہے،لیکن ایسا شخص جسے پانی نہ ملے یا جسے وضو کرنے سے بیماری کااندیشہ ہووہ وضو ترک کرسکتا ہے۔وغیر ذالک
اسی طرح دوسرے امور میںبھی جہاں کہیں کوئی معقول عملی دقت پیدا ہوجاتی ہے اسلام اپنے احکام کی صورت کو مناسب طورپر بدل کراس کی جگہ کوئی دوسری صورت پیش کردیتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اول تواسلام کا پیغام ایک عالمگیر وسعت رکھتا ہے جس میں حالات کے اختلاف کاپورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اوردوسرے یہ کہ شریعت اسلامی میں اصل مقصود عبادات کی روح ہے اور عبادات کا جسم صرف اس روح کے بقا اور حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا ہے اوراسی لئے جہاں کہیں بھی حالات کے بدل جانے سے جسم کااختیار کرنا مشکل ہوجاتا ہے وہاں جسم کوترک کرکے روح کواختیار کرلیا جاتا ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی جملہ عبادات میں سب سے زیادہ زورنماز پر دیا ہے۔آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ نماز مومن کا معراج ہے۔نیز فرماتے تھے کہ نماز ایسی عبادت ہے جس میں بندہ اپنے خدا سے ہمکلام ہوتا اورگویااس کی مجلس میںپہنچ جاتا ہے اورآپؐ کو نماز سے اس قدر محبت تھی کہ نماز پنجگانہ توخیر فرض ہی ہے دوسری نوافل نمازیںبھی آپؐ نہایت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اورنماز تہجدیعنی نصف شب کی نماز سے تو آپؐ کو اتنا شغف تھا کہ آپؐ نہایت التزام کے ساتھ بلاناغہ اس نماز کے لئے اٹھا کرتے تھے اور روایت آتی ہے کہ آپؐ اس قدر دیر تک نماز تہجد میں کھڑے رہتے تھے کہ بعض اوقات آپؐ کے پائوں متورم ہوجاتے تھے اورآپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جُعِلَتْ قُرَّۃَ عَیْنِیْ فِی الصَّلوٰۃِ یعنی نماز تو میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے اور آپؐ اپنے صحابہ کونماز کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگر لوگوں کو یہ علم ہوکہ نماز باجماعت میں کیا خوبی ہے تو خواہ انہیں اپنے گھٹنے گھسیٹتے ہوئے مسجد میںآنا پڑے وہ ضرور آئیں۔اپنی آخری بیماری میں جبکہ آپؐ کو غشی پر غشی آتی تھی اورسخت بے چینی کی حالت تھی آپؐ نے ایک دفعہ صبح کے وقت اپنے دروازے کاپردہ اٹھا کر دیکھا تومسجد میں صحابہ نماز پڑھ رہے تھے۔یہ نظارہ دیکھ کرآپؐ کاچہرہ اس قدر خوشی سے تمتمااٹھاجیسے کوئی مرجھایا ہوا پھول یکلخت شگفتہ ہوجاوے کہ اوربعض روایات میں ہے آخری فقرہ جوآپؐ کی زبان سے سناگیا وہ اَلصَّلوٰۃُ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ تھا۔ یعنی میری امت کے لوگو! نماز اورغلاموں کے متعلق میری تعلیم کوفراموش نہ کرنا۔ ۱؎
یہودیوں میں پہلا مسلمان
اب تک مسلمان ہونے والے لوگوں میں غالباًبعض مسیحی توشامل ہوچکے تھے،مگریہودی کوئی نہیں تھا،لیکن اب ہجرت کے بعد یہ سلسلہ
بھی شروع ہوااورگویہودیوں میں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت ہی تھوڑے لوگ ایمان لائے لیکن یہ قوم بھی بالکل محروم نہیں رہی۔ سب سے پہلا یہودی جو مشرف بہ اسلام ہوا اس کانام حصین بن سلام تھا۔یہ شخص مدینہ کا رہنے والا تھا اوریہودیوںمیں اپنے علم وفضل کی وجہ سے بہت اثر رکھتا تھا۔ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں ہی تھے کہ یہ شخص آپؐ کے دعویٰ کوسن کر کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہوچکا تھا،مگرابھی تک اس نے اپنی اس حالت کاکسی سے اظہار نہیں کیا تھا۔جب آپؐ مدینہ میں تشریف لائے تو یہ شخص خفیہ طور پر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوااورچونکہ طبیعت میں سعادت تھی پہلی ملاقات میں ہی مسلمان ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعداسے یہ شوق ہوا کہ اس کی قوم کے لوگ بھی اس نور سے محروم نہ رہیںجس سے خدا نے اس کے سینے کو منور کیا تھا۔چنانچہ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ یہودیوں کے سربرآوردہ لوگوں کو اپنے پاس بلائیں اورانہیں اسلام کی تبلیغ کریں اوران سے میرے متعلق رائے دریافت فرمائیںکہ میںان میںکیسا آدمی سمجھا جاتا ہوں تاکہ اگر وہ میرے متعلق اچھی رائے کااظہار کریں تو شاید میرے اسلام لانے کی خبر ہی ان کی ہدایت کا موجب ہو جاوے۔ چنانچہ حصین بن سلام ایک طرف ہوکر چھپ گئے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہودی عمائد کو اپنے پاس بلاکر اسلام کی تبلیغ کی مگرانہوں نے نہ مانا۔اس کے بعد آپؐ نے حصین بن سلام کے متعلق رائے دریافت کی۔جس پر انہوں نے حصین کے علم وفضل کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمارا سرداراورابن سردار ہے وغیر ذالک۔آپؐ نے کہا دیکھو اگر وہ مسلمان ہوجائے توپھر تم بھی مسلمان ہونے کے لئے تیار ہوگے؟ انہوں نے کہا نعوذ باللہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتاکہ حصین مسلمان ہو جاوے۔آپؐ نے حصین کو آواز دی۔اوروہ اپنے چھپنے کی جگہ سے باہرآگئے اور یہودی عمائد سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ اے میری قوم کے لوگو!خدا کا تقویٰ اختیار کرواوراس کے عذاب کواپنے اوپر مت لو۔تم جانتے ہو کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کاذکر تمہاری کتاب میں موجود ہے اور وہ وہی نبی ہیں جس کا تمہیں وعدہ دیاگیا تھا۔پس خداسے ڈرواورانکار کی طرف قدم نہ بڑھائو۔یہ سن کر پہلے تو یہودی لوگ سخت مبہوت ہوگئے اورپھر کہنے لگے کہ ہم حصین کی بات نہیں مانتے یہ جھوٹا اورکذاب ہے اورپھر حصین بن سلام کوگالیاں دیتے ہوئے آپؐ کی مجلس سے اٹھ گئے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمان ہونے پر حصین کانام بدل کر عبداللہ کردیا اور اسی نام سے وہ تاریخ وحدیث میں معروف ہیں۔دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ طریق تھا کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا تھاتوعام طورپر اس کا وہی نام رہنے دیتے تھے جو پہلے ہوتا تھا ہاں اگر کسی شخص کانام مشرکانہ ہوتا تھا توآپؐ اسے بدل دیتے تھے۔حصین بن سلام کانام مشرکانہ تونہیں تھا،لیکن غالباًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ یہ شخص یہود میں سے پہلا نومسلم ہے اس کے نام کو خالص اسلامی رنگ میںبدلنا مناسب خیال فرمایا۔
اہل فارس میں پہلا مسلمان
اسی زمانہ کے قریب قریب سلمان فارسیؓ مسلما ن ہوئے۔سلمان ملک فارس کے بسنے والے تھے اورابتدائً زرتشتی مذہب کے پیرو تھے،
لیکن فطری سعادت نے اس مذہب کی اس وقت کی حالت پر تسلی نہ پائی اوروہ کسی بہتر مذہب کی تلاش میں وطن سے نکلے اوربالآخر شام میں آکر عیسائی ہوگئے۔ اسی زمانہ میں کسی لوٹ مار میں وہ غلام بنالئے گئے۔مگر یہی غلامی ان کے اسلام کاباعث بن گئی۔ کیونکہ کئی آقائوں کے تبادلہ کے بعد بالآخر مدینہ کے ایک شخص نے انہیں خرید کر اپنے پاس رکھ لیا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میںتشریف لائے توسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے پھرانہوں نے آہستہ آہستہ روپے کا انتظام کرکے اپنے آقا سے آزادی حاصل کرلی اورسب سے پہلی مرتبہ وہ غزوۂ خندق میں شریک جہاد ہوئے اورانہی کے مشورے سے خندق کھودی گئی۔سلمان نہایت پارسااورمتقی آدمی تھے اوربالکل درویشانہ زندگی گزارتے تھے۔ان سے ایک دفعہ کسی شخص نے دریافت کیا کہ آپ ؑ کے باپ کاکیا نام ہے توانہوں نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ میں ابن سلام ہوں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے متعلق فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ۔ ۱؎ کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں۔اورایک دفعہ جب کہ یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ آئندہ ایک زمانہ میں ایک جماعت صحابہ کی مانند اورانہیں کی تعلیم کی حامل پیدا ہوگی توصحابہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ!یہ کون لوگ ہوں گے۔اس پر آپؐنے سلمان فارسی پراپنا ہاتھ رکھ کر فرمایاکہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رِجَالٌ اَوْرَجُلٌ مِنْ ھٰٓؤُلآَئِ۔۱؎ یعنی اگر ایمان ثریاتک بھی اٹھ جائے گاتوان فارسی الاصل لوگوں میںسے ایک شخص اسے دنیا میں پھر قائم کردے گا۔
قبیلہ اوس وخزرج کے غیر مسلم رئوساء
یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ مدینہ میں ابھی تک اوس وخزرج کے بہت سے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ بدستور
اپنے مذہب پر قائم تھے۔ان میں سے دوشخص خاص طورپر ممتاز اورمعزز سمجھے جاتے تھے۔چنانچہ عبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس خزرج کاذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وہ کس طرح شروع میں تو اسلام سے الگ الگ رہا مگر بعد میں بظاہر مسلمان ہوگیا،لیکن درپردہ وہ اسلام کا دشمن رہا اور منافقین مدینہ کا سردار بن گیا۔دوسرا شخص ابوعامر تھاجوقبیلہ اوس کا رئیس تھا۔یہ شخص اپنی زندگی کے ابتدائی حصہ میں ایک سیاح رہ چکا تھااوربہت سے ممالک میں سفر کرنے کے بعد اب گویا تارک الدنیا ہوکر راہب کہلاتاتھا۔ابوعامر کچھ کچھ نصرانیت کی طرف مائل تھا اورایک آزاد مذہبی معلم ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد پراس نے آپؐ کی مخالفت شروع کی اوربالآخر اپنے بغض وحسد میں جلتا ہوا مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف چلاگیااوراس کے ساتھ وہ چند لوگ بھی جواس کے زیراثر تھے مدینہ چھوڑ گئے۔جنگ اُحد میں ابوعامر مکہ والوں کی طرف سے ہوکر میدان جنگ میں آیا اورقدرت حق کاعجیب نظارہ ہے کہ اسی جنگ میں اس کا لڑکا حنظلہ جو ایک نہایت مخلص مسلمان تھا، مسلمانوں کی طرف سے لڑتا ہوا شہیدہوا۔ابوعامر فتح مکہ تک مکہ میں ہی مقیم رہا اورفتح مکہ کے بعد طائف چلا گیا اورجب طائف بھی صحابہؓ کے ہاتھ پرفتح ہوگیا تو وہ مسلمانوں کے خلاف رومی سلطنت کے ساتھ سازش کرنے کی نیت سے شام کی طرف نکل گیا،لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ابوعامرجب مدینہ میںتھاتوطعن وتحقیرکے طورپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوطریدووحید(یعنی وطن سے نکالا ہوااکیلا چھوڑاہوا شخص )کہہ کرپکاراکرتاتھا،لیکن آخر خود اس کا یہ انجام ہوا کہ بالآخر وہیں شام میںوہ بے وطنی اوربے کسی وبے بسی کی حالت میں بھٹکتا ہوامرگیا۔ ۲؎
مواخاتِ انصارومہاجرین
اس وقت مدینہ کے مسلمان دوحصوں میں منقسم تھے۔ایک تو وہ تھے جو مدینہ کے باشندے نہ تھے بلکہ مکہ یا کسی اورجگہ سے ہجرت کرکے مدینہ
میں آباد ہوگئے تھے۔یہ لوگ بوجہ اپنی ہجرت کے مہاجرین کہلاتے تھے۔دوسرے وہ لوگ تھے جومدینہ کے رہنے والے تھے اور چونکہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوردوسرے مہاجرین کوپناہ دی تھی اوران کی اعانت کا بیڑا اٹھایا تھا اس لئے وہ انصار کے نام سے موسوم ہوتے تھے ۔مہاجرین عام طورپرمدینہ میں بالکل بے سروسامان تھے کیونکہ غریب توغریب تھے ہی متمول مہاجرین بھی عموماًاپنا سب مال ومتاع وطن میں چھوڑ کر نکل آئے تھے۔انصار نے ان کے ساتھ حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا اورکوئی دقیقہ ان کی مہمان نوازی کااٹھا نہیںرکھا۔لیکن اس رشتہ اخوت کواوربھی مضبوط کرنے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ تجویز فرمائی کہ انس بن مالک کے مکان پر انصارومہاجرین کوجمع فرمایااورباہم مناسبت کوملحوظ رکھتے ہوئے دودو کاجوڑا بناکر انصارومہاجرین کے کم وبیش نوے اشخاص کے درمیان باقاعدہ رشتہ اخوت قائم کردیا۔اس سلسلۂ مواخاۃ پرطرفین کی طرف سے جس محبت اوراخلاص اوروفاداری کے ساتھ عملدرآمد ہوا وہ آجکل کی حقیقی اخوت کو بھی شرماتا ہے۔انصارومہاجرین بھائی بھائی کیا بنے گویا ایک جان دوقالب ہوگئے۔پہلی تجویز انصار نے اس رشتہ اخوت کے بعد یہ کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ درخواست پیش کی کہ آپؐ ہمارے باغات کو ہم میں اور ہمارے بھائیوں میں تقسیم فرمادیں۔لیکن چونکہ مہاجرین عموماًتجارت پیشہ تھے اورکھیتی باڑی کے کام سے قطعاً ناواقف تھے بلکہ مکہ والے تو اس کام کو پسند بھی نہیں کرتے تھے، اس لئے پھر انصار نے خود ہی یہ تجویز پیش کی کہ باغات کاانتظام اورمحنت ہم کریں گے،مگر ماحصل میںسے مہاجرین کوحصہ مل جایا کرے۔ ۱ ؎ چنانچہ اسی کے مطابق عمل ہوتا رہا حتّٰی کہ آہستہ آہستہ مہاجرین کی تجارتیں جن میںوہ مدینہ میںآکر مشغول ہوگئے تھے چل نکلیں اوران کی اپنی جائیدادیں بھی بن گئیں اورانصار کی طرف سے امداد کی ضرورت نہ رہی۔۲؎ لکھا ہے کہ جب مہاجرین نے انصار کی طرف سے اس غیر معمولی لطف و شفقت کودیکھا توانہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر انصار کے اس سلوک کی بہت تعریف کی اور کہا کہ یارسول اللہ انصار کی اس نیکی کو دیکھ کر ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں خدا سے سارااجر وہی نہ لے جائیں۔آپؐ نے فر مایا۔نہیں نہیںایسا نہیں ہوگاجب تک تم ان کی نیکی کے شکر گزاراورخدا کے حضوران کے لئے دست بدعا رہوگے تم اجر سے محروم نہیں ہوسکتے۔ ۱؎ حضرت عبدالرحمن بن عوف سعد بن الربیع انصاری کے بھائی بنے تھے سعد نے اپنا سارا مال ومتاع نصف گن گن کر عبدالرحمن بن عوف کے سامنے رکھ دیا اورجوش محبت میں یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں۔میں ان میں سے ایک کو طلاق دئے دیتا ہوںاورپھر اس کی عدت گزرنے پر تم اس کے ساتھ شادی کرلینا۔یہ سعد کی طرف سے جوش محبت کاایک بے اختیاری اظہارتھا۔ورنہ وہ اورعبدالرحمن دونوں جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔چنانچہ عبدالرحمن بن عوف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ خدا یہ سب کچھ تمہیں مبارک کرے۔مجھے بازار کا رستہ بتادو۔چنانچہ عبدالرحمن بن عوف نے تجارت شروع کی اور چونکہ وہ نہایت ہوشیاراورسمجھ دار آدمی تھے۔آہستہ آہستہ ان کی تجارت چمک اٹھی اوربالآخر وہ ایک نہایت امیرکبیر آدمی بن گئے۔ابھی ان کی تجارت ابتدائی حالت میں ہی تھی اورانہیں مدینہ میں آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ انہوں نے مدینہ کی ایک انصاری لڑکی سے شادی کرلی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے کپڑوں پرزعفران کا رنگ دیکھا جو عرب دستور کے مطابق شادی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔تومسکراتے ہوئے دریافت فرمایا۔ ’’ابن عوف یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘عبدالرحمن نے عرض کیا۔’’یارسول اللہ!میں نے ایک لڑکی سے شادی کرلی ہے۔‘‘آپؐ نے پوچھا۔’’مہرکیا دیا ہے؟‘‘عبدالرحمن نے جواب دیا۔’’یارسول اللہ!کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا دیا ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا۔اَوْلِمْ وَلَوْبِشَاۃٍ تواب پھر ولیمہ کی دعوت کرنی ہوگی خواہ صرف ایک بکری کے گوشت کی کیوں نہ ہو۔‘‘یعنی اب تمہاری حیثیت ایسی نہیں ہے کہ ایک دو دوستوں کوکھانا کھلا کرسمجھو کہ بس ولیمہ ہوگیا بلکہ کم از کم ایک بکری کے اندازہ کاگوشت تودعوت میں پکنا چاہئے۔‘‘ ۲؎ اس سلسلہ مواخات کااثر وراثت تک پر تھا۔چنانچہ یہ فیصلہ تھا کہ اگر کوئی انصاری فوت ہوتو اس کا ترکہ بحصہ رسدی اس کے بھائی مہاجر کو بھی ملے۔یہ سمجھوتہ جنگ بدر تک قائم رہا جس کے بعد یہ طریق وراثت خدا کی وحی کے ماتحت منسوخ ہوگیا اورصرف حقیقی رشتہ داروارث قرار دئے گئے۔۳؎ اس سلسلہ مواخات میں حضرت ابوبکر خارجہ بن زید کے بھائی بنے،حضرت عمرعتبان بن مالک کے، حضرت عثمان اوس بن ثابت کے،ابوعبیدۃ بن الجراح سعد بن معاذ کے،سعیدبن زید ابیّ بن کعب کے،سلمان فارسی ابودرداء کے،مصعب بن عمیرابوایوب انصاری کے،عماربن یاسرحذیفہ بن یمان کے۔وغیر ذالک
مواخات کایہ سلسلہ کئی لحاظ سے مفید اوربابرکت ہوا۔
اوّل: جوپریشانی اوربے اطمینانی مہاجرین کے دلوں میں اس بے وطنی وبے سروسامانی کی حالت میں پیدا ہوسکتی تھی وہ اس سے بڑی حد تک محفوظ ہوگئے۔
دوم: رشتہ داروں اورعزیزوں سے علیحدگی کے نتیجہ میں جس تکلیف کے پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ وہ ان نئے روحانی رشتہ داروں کے مل جانے سے جو جسمانی رشتہ داروں کی نسبت بھی زیادہ محبت کرنے والے اورزیادہ وفادارتھے پیدا نہ ہوئی۔
سوم: انصارومہاجرین کے درمیان جو محبت واتحاد مذہبی اورسیاسی اورتمدنی لحاظ سے ان ایام میں ضروری تھا وہ مضبوط ہوگیا۔
چہارم:بعض غریب اور بے کار مہاجرین کے لئے ایک سہارا اورذریعہ معاش پیدا ہوگیا۔
مدینہ کی سوسائٹی کی تقسیم اوریہود کے ساتھ معاہدہ
یہ بتایا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مدینہ کی آبادی
دوحصوں میںمنقسم تھی۔ایک تو بت پرست تھے جوقبائل اوس وخزرج میں منقسم تھے۔اوردوسرے یہود تھے جن کے تین قبائل کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔اسلام کی آمد نے ایک تیسری جماعت مسلمانوں کی پیدا کردی اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کی آبادی میں ایک اور فرقہ کااضافہ ہوگیا جو منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاوجود مبارک ایک آسمانی بارش کے طور پر تھا۔جس کے نتیجہ میںزمین سے ہرقسم کی اچھی بُری روئیدگی نمودار ہونی شروع ہوجاتی ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ کی مسلمان آبادی بھی دوشاخوں میں منقسم ہوگئی اور مہاجرین وانصار کی اصطلاح کاآغاز ہوگیا۔اب گویا مدینہ میں مندرجہ ذیل فرقوں کا وجود پایا جاتاہے۔
اوّل: مسلمان جو دو شاخوں میں منقسم تھے۔
(الف)مہاجرین جوعموماًمکہ کے رہنے والے تھے اور جو کفارکے مظالم سے تنگ آکراپنے وطن سے نکل آئے تھے۔
(ب)انصار جو مدینہ کے باشندے تھے اور جنہوں نے اسلام اوربانی ٔاسلام کی مدد اور حفاظت کابیڑا اٹھایاتھا۔یہ لوگ قریباًسب کے سب اوس وخزرج کے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔
دوم: منافقین یعنی اوس وخزرج کے وہ لوگ جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے مگر دل میں کافر تھے اور اسلام اوربانی ٔاسلام کے خلاف خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے نیز ایسے لوگ بھی اسی گروہ میں شامل سمجھے جاتے تھے جو ویسے تو ایمان لے آئے تھے مگران کی عملی حالت عموماًغیرمومنانہ تھی اورغیروں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی اسی طرح قائم تھے۔
سوم: بت پرست یعنی اوس وخزرج کے وہ لوگ جوابھی تک شرک پر قائم تھے۔
چہارم:یہود جو قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ میں منقسم تھے۔
ان چارفرقوں میں سے پہلے فرقہ کی دونوں شاخیں پورے طور پر ایک نقطہ پر جمع تھیں کیونکہ ہر امرمیں ان کی آنکھیں ایک ہی وجود کی طرف اٹھتی تھیں اورگوعادات واطوارمیں ان کا رنگ ڈھنگ مختلف تھا اور عرب کے قدیم دستور اوررسم ورواج کے مطابق ان کا ایک نقطہ پرجمع ہونا آسان کام نہ تھا، لیکن اسلام کی تعلیم اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقناطیسی شخصیت نے دوسرے سب جذبات کو دبادیاتھا۔دوسرا گروہ جو منافقین کا تھا وہ ایک نہایت خطرناک گروہ تھا۔یہ لوگ ظاہر میں مسلمان تھے مگر دل میں اسلام کے سخت دشمن تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بُغض اورحسد کی آگ سے جلے جاتے تھے۔ان کی خفیہ ریشہ دوانیوں اورمخفی شرارتوں نے اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے کئی موقعوں پرنہایت خطرناک حالات پیدا کردئے مگر چونکہ یہ لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے، اس لئے انہیں بہرحال مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا پڑتا تھا۔اوروہ اس بات پر مجبور تھے کہ کم از کم ظاہری طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت کو اپنے اوپر تسلیم کریں۔تیسرا گروہ،بت پرستوں کاتھا۔یہ لوگ ہجرت کے وقت تک تو کافی تعداد میں تھے مگر اس کے بعد ان کی تعداد جلد جلد کم ہوتی گئی اورتھوڑے عرصہ میں ہی مدینہ کاشہر شرک کے عنصر سے بالکل پاک ہوگیا۔یہ لوگ گو مذہباًمسلمان نہ تھے لیکن عرب کے تمدن کے ماتحت وہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ اپنے کثیر التعدادمسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر رہیں۔پس سیاسی طور پر یہ گروہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے تھا اورآپؐ کی حکومت کوتسلیم کرتا تھا۔مگرچوتھاگروہ جو یہود پر مشتمل تھاوہ ہر طرح آزاد اورخود مختار تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوراندیش طبیعت سے یہ بعیدتھا کہ آپؐ ایسے حالات میں جبکہ شہر کا امن اورمسلمانوں کے جان ومال معرض خطر میں تھے اور پھر قریش کی عداوت کی وجہ سے اسلام کی موت اور زندگی کا سوال سامنے تھاان یہود کو مدینہ میں بغیر کسی معاہدہ کے چھوڑ دیتے۔چنانچہ ابھی ہجرت پربہت تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھاکہ آپؐ نے ایک طرف مہاجرین اوراوس وخزرج اوردوسری طرف یہود کے عمائد کو جمع کرکے ان کے سامنے اس ضرورت کو بیان کیا کہ مدینہ کی مختلف اقوام کے درمیان ایک باہمی معاہدہ ہوجانا چاہئے جس کے ماتحت آئندہ شہر کے امن اوراس کے مختلف الاقوام باشندوں کی حفاظت اوربہبودی کاانتظام ہوسکے اور کوئی صورت جھگڑے اورامن شکنی کی پیدا نہ ہو۔چنانچہ پہلے توآپؐ نے مسلمانوں اوس اورخزرج کے اندرونی نظم ونسق کے متعلق چند قواعد فیصلہ فرمائے اورپھراتفاق رائے سے یہود کے ساتھ ایک معاہدہ طے فرمایاجوباضابطہ ضبط تحریر میں لایاگیا۔یہ معاہدہ جس کی طرف احادیث اورقرآن شریف میں بھی اشارہ آتا ہے پوری تفصیل کے ساتھ تاریخ میں درج ہے اوراس جگہ ہم اس کی موٹی موٹی شرطیں اپنے الفاظ میں ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
ا- مسلمان اوریہودی آپس میں ہمدردی اوراخلاص کے ساتھ رہیںگے اورایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہیں لیںگے۔
۲- ہرقوم کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
۳- تمام باشندگان کی جانیں اوراموال محفوظ ہوں گے اوران کا احترام کیاجائے گا۔سوائے اس کے کہ کوئی شخص ظلم یاجرم کا مرتکب ہو۔
۴- ہرقسم کے اختلاف اورتنازعات رسول اللہ کے سامنے فیصلہ کے لئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم(یعنی ہر قوم کی اپنی شریعت)کے مطابق کیا جائے گا۔
۵- کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ جنگ کے لئے نہیں نکلے گا۔
۶- اگریہودیوں یا مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تووہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے۔
۷- اسی طرح اگر مدینہ پرکوئی حملہ ہوگاتوسب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۸- قریش مکہ اوران کے معاونین کویہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یاپناہ نہیں دی جائے گی۔
۹- ہرقوم اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔
۱۰- اس معاہدہ کی رُو سے کوئی ظالم یاآثم یامفسداس بات سے محفوظ نہیں ہوگاکہ اسے سزادی جاوے یااس سے انتقام لیا جاوے۔ ۱؎
اس معاہدہ کی رُوسے مسلمانوں اوریہودیوں کے باہمی تعلقات منضبط ہوگئے اورمدینہ میں ایک قسم کی منظم حکومت کی بنیادقائم ہوگئی جس کے ماتحت ہرقوم باوجود اپنے مذہب اوراپنے اندرونی معاملات میں آزاد ہونے کے ایک اجتماعی قانون اورمرکزی حکومت کے ماتحت آگئی اوراس مرکزی حکومت کے صدر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قرار پائے۔
مشرکین مدینہ کے نام قریش مکہ کاتہدیدی خط
ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیںگزراتھا کہ
قریش مکہ کی طرف سے عبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس قبیلہ خزرج اوراس کے مشرک رفقاء کے نام ایک تہدیدی خط آیا کہ تم لوگ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی پناہ سے دستبردار ہوجائو ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے۔چنانچہ اس خط کے الفاظ یہ تھے۔
اِنَّکُمْ اٰوَیْتُمْ صَاحِبَنَا وَاِنَّا نَقْسِمُ بِاللّٰہِ لَتُقَاتِلُنَّہٗ اَوْتُخْرِجَنَّہٗ اَوْلَنَسِیْرَنَّ اِلَیْکُمْ بِاَجْمَعِنَا حَتّٰی نَقْتُلَ مَقَاتِلَتَکُمْ وَنَستَبِیْحَ نِسَائَ کُمْ۔ ۱؎
یعنی’’ تم لوگوں نے ہمارے آدمی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کوپناہ دی ہے اورہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یاتو تم اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے خلاف جنگ کرویاکم از کم اسے اپنے شہرسے نکال دو ورنہ ہم اپنا سارا لائو لشکر لے کر تم پر حملہ آور ہوجائیں گے اورتمہارے سارے مردوں کو تہ تیغ کردیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے لئے جائز کرلیں گے۔‘‘
جب یہ خط مدینہ میں پہنچا توعبداللہ اوراس کے ساتھی جو پہلے سے ہی دل میں اسلام کے سخت دشمن ہورہے تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔آپؐ کو اطلاع ملی توآپؐ فوراًان لوگوں سے ملے اوران کو سمجھایا کہ میرے ساتھ جنگ کرنے میں تمہارا اپنا ہی نقصان ہے۔کیونکہ تمہارے ہی بھائی بند تمہارے مقابلہ میں ہوں گے۔یعنی اوس اورخزرج کے مسلمانوں نے بہرحال میرا ساتھ دینا ہے۔پس میرے ساتھ جنگ کرنے کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ تم لوگ اپنے ہی بیٹوں اوربھائیوں اورباپوںکے خلاف تلواراٹھائو۔اب تم خود سوچ لو۔‘‘ عبداللہ اوراس کے ساتھیوں کو جن کے دلوں میں ابھی تک جنگ بعاث کی تباہی کی یاد تازہ تھی یہ بات سمجھ آگئی اوروہ اس ارادے سے باز آگئے۔ ۲؎ جب قریش کو اس تدبیر میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے کچھ عرصہ کے بعد اوراسی قسم کا ایک خط مدینہ کے یہود کے نام ارسال کیا۔مگراس کا ذکر آگے چل کر اپنے وقت پر آئے گا۔دراصل کفار مکہ کی غرض یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو اسلام کے نام ونشان کو صفحۂ دنیا سے مٹادیا جاوے۔مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ گئے تو وہاں انہوں نے ان کا پیچھا کیااوراس بات کی کوشش میں اپنی انتہائی طاقت صرف کردی کہ نیک دل نجاشی ان مظلوم غریب الوطنوںکو مکہ والوں کے حوالے کردے۔پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے توقریش نے آپ کا تعاقب کرکے آپؐ کوگرفتار کرلینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اوراب جب انہیں یہ علم ہوا کہ آپؐ اورآپؐ کے اصحاب مدینہ پہنچ گئے ہیں اور وہاں اسلام سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے توانہوں نے یہ تہدیدی خط بھیج کر مدینہ والوں کوآپ کے ساتھ جنگ کرکے اسلام کو ملیامیٹ کردینے یاآپؐ کی پناہ سے دستبردار ہوکرآپ کومدینہ سے نکال دینے کی تحریک کی۔ قریش کے اس خط سے عرب کی اس رسم پربھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ جنگوں میں اپنے دشمنوں کے سارے مردوںکو قتل کرکے ان کی عورتوں پر قبضہ کرلیا کرتے تھے اورپھر ان کو اپنے لئے جائز سمجھتے تھے اورنیز یہ کہ مسلمانوں کے متعلق ان کے ارادے اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے۔کیونکہ جب یہ سزا انہوں نے مسلمانوں کے پناہ دینے والوں کے لئے تجویز کی تھی توخود مسلمانوں کے لئے تو یقینا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ارادے رکھتے ہوں گے۔
ابوجہل کی دھمکی
قریش مکہ کا یہ خط ان کے کسی عارضی جوش کا نتیجہ نہ تھا۔بلکہ وہ مستقل طورپر اس بات کاتہیہ کر چکے تھے کہ مسلمانوں کو چین نہیں لینے دیں گے اوراسلام کو دنیا سے مٹا کر
چھوڑیں گے۔چنانچہ ذیل کا تاریخی واقعہ قریش مکہ کے خونی ارادوں کا پتہ دے رہا ہے۔
بخاری میںروایت آتی ہے کہ ہجرت کے کچھ عرصہ بعد سعد بن معاذ جو قبیلہ اوس کے رئیس اعظم تھے اورمسلمان ہوچکے تھے عمرہ کے خیال سے مکہ گئے اوراپنے زمانۂ جاہلیت کے دوست امیہ بن خلف رئیس مکہ کے پاس مقیم ہوئے۔چونکہ وہ جانتے تھے کہ مکہ والے ان کے ساتھ ضرور چھیڑ چھاڑ کریں گے اس لئے انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لئے امیہ سے کہا کہ میں کعبۃ اللہ کاطواف کرنا چاہتاہوںتم میرے ساتھ ہوکرایسے وقت میں مجھے طواف کرادو جبکہ میں علیحدگی میںامن کے ساتھ اس کام سے فارغ ہوکر اپنے وطن واپس چلاجائوں۔‘‘چنانچہ امیہ بن خلف دوپہر کے وقت جبکہ لوگ عموماً اپنے اپنے گھروں میںہوتے ہیں سعدکو لے کر کعبہ کے پاس پہنچا،لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ عین اسی وقت ابوجہل بھی وہاں آنکلااورجونہی اس کی نظر سعد پر پڑی اس کی آنکھوں میں خون اترآیامگراپنے غصہ کو دبا کروہ امیہ سے یوں مخاطب ہوا کہ’’اے ابوصفوان یہ تمہارے ساتھ کون شخص ہے‘‘امیہ نے کہا۔ ’’یہ سعد بن معاذ رئیس اوس ہے۔‘‘اس پر ابوجہل نہایت غضبناک ہوکر سعد سے مخاطب ہواکہ’’کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہوکہ اس مرتد محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کوپناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کرسکو گے اورتم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اس کی حفاظت اورامداد کی طاقت رکھتے ہو؟خدا کی قسم اگراس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تو تواپنے گھروالوں کے پاس بچ کر نہ جاسکتا؟سعد بن معاذ فتنہ سے بچتے تھے مگران کی رگوں میںبھی ریاست کا خون تھا اوردل میں ایمانی غیرت جوش زن تھی۔کڑک کربولے’’واللہ اگرتم نے ہم کو کعبہ سے روکاتو یاد رکھو کہ پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستے پرامن نہیں مل سکے گا۔‘‘امیہ نے کہا’’سعد!دیکھو ابوالحکم سیداہل وادی کے مقابلہ میں یوں آواز بلندنہ کرو۔‘‘سعد نے جواب دیا’’جانے دو امیہ!تم اس بات میں نہ آئو۔واللہ مجھے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی نہیں بھولتی کہ تم کسی دن مسلمان کے ہاتھ سے قتل ہوگے۔‘‘یہ خبر سن کر امیہ بن خلف سخت گھبراگیااورگھر میں آکر اس نے اپنی بیوی کو سعد کی اس بات سے اطلاع دی اور کہا کہ خدا کی قسم میں تواب مسلمانوں کے خلاف مکہ سے نہیں نکلوں گا۔ ۱؎ مگرتقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔بدر کے موقع پر امیہ کومجبوراًمکہ سے نکلنا پڑااوروہیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوکر اپنے کیفرکردار کوپہنچا۔یہ امیہ وہی تھا جوحضرت بلالؓ پراسلام کی وجہ سے نہایت سخت مظالم کیا کرتا تھا۔
ولید بن مغیرہ کی موت اورقریش کے خونی ارادے
پھر اسی زمانہ کی بات ہے کہ خالدبن ولید کاوالد ولید بن مغیرہ جومکہ کا ایک نہایت
بااثراورمعزز رئیس تھا بیمار ہوگیااورجب اس نے دیکھا کہ اب اس کی موت قریب ہے تووہ بے اختیار سا ہوکر رونے لگ گیا اس وقت مکہ کے بعض بڑے بڑے رئیس اس کے پاس بیٹھے تھے۔انہوں نے حیران ہوکراس کے رونے کا سبب پوچھاتوولید نے کہا’’کیاتم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں۔واللہ ایسا ہرگز نہیں۔مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کادین پھیل جائے اورمکہ بھی اس کے قبضہ میں چلاجائے۔‘‘ابوسفیان بن حرب نے جواب دیا کہ’’اس بات کا غم نہ کرو۔جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا،ہم اس بات کے ضامن ہوتے ہیں۔‘‘ ۲؎
مدینہ میں خوف کی راتیں
یہ تمام باتیں قریش مکہ کے ان خونی ارادوں کاپتہ دے رہی ہیں جووہ ہجرت کے بعد اسلام کے متعلق رکھتے تھے اورمسلمان ان ارادوں سے
ناواقف نہ تھے بلکہ خوب سمجھتے تھے کہ مکہ والوں کے یہ بدلے ہوئے تیورعنقریب کوئی رنگ لائیں گے اورگوان کو خدا کے وعدوں پرپورابھروسہ تھا،لیکن فطرتاً وہ سخت خوفزدہ اورپریشان بھی تھے کہ دیکھئے ہمیں کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتاہے۔شروع شروع میں تو یہ خوف ایسا غالب تھاکہ صحابہ کو مدینہ میں رات کے وقت نیند نہیں آتی تھی کہ نہ معلوم کس وقت ان پر کوئی حملہ ہوجاوے اوریہ خطرات طبعاًدوسرے مسلمانوں کی نسبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے زیادہ تھے اورچونکہ ویسے بھی آپؐ کو سب کی نسبت مسلمانوں کی حفاظت کا زیادہ فکر تھا اس لئے آپؐسب سے زیادہ محتاط تھے۔چنانچہ نسائی ۱؎ میں ایک روایت آتی ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَّلُ مَاقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ یَسْھَرُ مِنَ اللَّیْلِ۔’’یعنی جب شروع شروع میںآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے توآپؐ عموماًراتوںکو جاگتے رہتے تھے۔‘‘اوراسی مضمون کی ایک روایت بخاری ۲؎ اور مسلم ۳؎ میں ہے کہ اَرِقَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ثُمَّ قَالَ لَیْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ اَصْحَابِیْ یَحْرِسُنِی اللَّیْلَۃَ اِذَا سَمِعْنَا صَوْتَ السِّلَاحِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ ھٰذَا قَالَ سَعْدُ بْنُ اَبِیْ وَقَّاصٍ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ جِئْتُ اَحْرسَکَ فَنَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ یعنی ’’ایک رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت دیر تک جاگتے رہے اورپھر فرمایاکہ اگر اس وقت ہمارے دوستوں میں سے کوئی مناسب آدمی پہرہ دیتا تو میں ذرا سولیتا۔اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی جھنکار سنی۔آپؐ نے پوچھا کون ہے؟آواز آئی۔یارسول اللہ!میںسعد بن ابی وقاص ہوں۔میں اس لئے حاضر ہوا ہوںکہ پہرہ دوں۔اس اطمینان کے بعد آپ تھوڑی دیر کے لئے سو گئے۔‘‘اورمسلم کے اسی باب کی دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ابتدائے ہجرت کا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ فکر اپنی ذات کے متعلق نہ تھابلکہ اسلام اورمسلمانوں کی حفاظت کا فکر تھااوران خوف کے ایام میں آپؐ یہ ضروری خیال فرماتے تھے کہ مدینہ میں رات کے وقت پہرہ کاانتظام رہے چنانچہ اس غرض سے بسااوقات آپؐ خود رات کو جاگا کرتے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ہوشیاروچوکس رہنے کی تاکید فرماتے تھے اورآپؐ کا یہ فکرڈرنا یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھابلکہ احتیاط اور بیدار مغزی کی بناء پر تھا۔ورنہ آپؐ کی ذاتی شجاعت اورمردانگی تو دوست ودشمن میں مسلم ہے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک رات مدینہ میں کچھ شور ہوا اور لوگ گھبرا کر گھروں سے نکل آئے اور جس طرف سے شور کی آواز آئی تھی ادھر کا رُخ کیا۔ابھی وہ تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ سامنے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تلوار حمائل کئے ابوطلحہؓکے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار واپس تشریف لارہے تھے۔جب آپؐ قریب آئے تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔’’میں دیکھ آیا ہوں کوئی فکر کی بات نہیں،کوئی فکرکی بات نہیں۔‘‘ ۱؎ جس پر لوگ واپس لوٹ آئے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی آپ جاگ رہے تھے اور جونہی آپؐ نے شور کی آواز سنی آپؐ جھٹ ابوطلحہ والے گھوڑے پرسوار ہوکر اس طرف نکل گئے اور لوگوں کے روانہ ہوتے ہوتے پتہ لے کر واپس بھی آگئے۔
قبائل عرب کی متحدہ مخالفت اورمسلمانوں کی نازک حالت
قریش مکہ کے جن خونی ارادوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے
وہ صرف انہی تک محدودنہ تھے بلکہ ہجرت کے بعد سے انہوں نے قبائل عرب میںمسلمانوں کے خلاف ایک باقاعدہ پراپیگنڈہ جاری کررکھا تھا اورچونکہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے ان کا سارے عرب پر ایک گہرا اثر تھا،اس لئے ان کی اس انگیخت سے تمام عرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورمسلمانوں کا سخت دشمن ہورہا تھا۔قریش کے قافلوں نے تو گویا اپنا یہ فرض قرار دے رکھا تھا کہ جہاں بھی جاتے تھے راستہ میں قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔چنانچہ قرآن شریف ۲؎ میں قریش کے ان اشتعال انگیز دوروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔بیچارے مسلمان جو اس وقت تک صرف قریش کے خیال سے ہی سہمے جاتے تھے اب بالکل ہی سراسیمہ ہونے لگے۔چنانچہ حاکم اورطبرانی کی مندرجہ ذیل روایت ان کی اس وقت کی مضطربانہ حالت کاپتہ دیتی ہے۔
لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُہٗ الْمَدِیْنَۃَ وَاٰوَتْھُمُ الْاَنْصَارُ رَمَتْھُمُ الْعَرَبُ عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَۃٍ وَکَانُوْا لاَ یُبِیْتُوْنَ اِلاَّ بِالسِّلَاحِ وَلَا یَصْبَحُوْنَ اِلاَّ فِیْہِ وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اَلاَ تَرَوْنَ اَنَّا نَعِیْشُ حَتّٰی نَبِیْتُ اٰمِنِیْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَانَخَافُ اِلاَّ اللّٰہَ۔ ۳؎
’’یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ ؓ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے اورانصار نے انہیں پناہ دی توتمام عرب ایک جان ہوکر ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔اس وقت مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ رات کو بھی ہتھیار لگا کر سوتے تھے اوردن کو بھی ہتھیار لگائے رہتے تھے کہ کہیں کوئی اچانک حملہ نہ ہو جاوے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں جب ہم رات کو امن کی نیند سوسکیں گے اورسوائے خدا کے ہمیں اورکسی کاڈر نہ ہوگا۔‘‘
قرآن شریف نے جو مخالفین اسلام کے نزدیک بھی اسلامی تاریخ کاسب سے زیادہ مستند ریکارڈ ہے مسلمانوں کی اس حالت کامندرجہ ذیل الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے۔
۱؎
’’یعنی اے مسلمانو!وہ وقت یاد رکھو جبکہ تم ملک میں بہت تھوڑے اورکمزور تھے اورتمہیں ہروقت یہ خوف لگا رہتا تھاکہ لوگ تمہیں اُچک کرلے جائیں یعنی اچانک حملہ کرکے تمہیں تباہ نہ کردیں مگر خدا نے تمہیں پناہ دی اوراپنی نصرت سے تمہاری مدد فرمائی اورتمہارے لئے پاکیزہ نعمتوں کے دروازے کھولے۔ پس تمہیں اب شکرگزار بندے بن کر رہنا چاہئے۔‘‘
سچ ہے اگراللہ کی نصرت شامل حال نہ ہوتی تواس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت واقعی ایسی نازک ہورہی تھی کہ ظاہری اسباب کے ماتحت ان کی زندگی کے دن بہت محدود نظر آتے تھے۔بیشک مکہ میں بھی ان کے لئے مصائب تھے اور سخت مصائب تھے اورانہیں دن رات قریش کے بے دردانہ مظالم کاتختۂ مشق بن کر رہنا پڑتا تھا،لیکن مدینہ میںان کی حالت شروع شروع میں کئی لحاظ سے زیادہ نازک اورزیادہ خطرناک ہوگئی تھی،کیونکہ مکہ میں صرف قریش کی طرف سے اندیشہ تھااورقریش کے متعلق مسلمانوں کو ایک حد تک یہ اطمینان تھا کہ خواہ ان کی مخالفت کیسی بھی سخت صورت اختیار کرے جب تک مسلمان مکہ میں ہیں قبائل کے باہمی تعلقات کاخیال قریش کواس بات سے باز رکھے گاکہ وہ ایک جتھے کی صورت میں مسلمانوں پرحملہ آور ہوکر بلاتمیز سب کو تہ تیغ کردیں۔مختلف قبائل کی باہمی رقابتیں رشتہ داری کے احساسات وغیرہ کئی اس قسم کی باتیں تھیں جوعموماً قریش کو مسلمانوں کے خلاف ہاں کم از کم معززخاندانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف انتہائی کاروائی کرنے سے باز رکھتی تھیں۔چنانچہ یاد ہوگا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کافیصلہ کس قدر طویل بحث وتامّل کے بعداورپھر کتنی احتیاطوں کے ساتھ اختیار کیا تھا،لیکن اب ہجرت کے بعدنہ صرف یہ کہ قریش مکہ کی مخالفت بہت زیادہ چمک گئی تھی اوراس خیال نے کہ مسلمان ان کے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے ہیں اورغیروں کے ہاں پناہ گزیں ہوئے ہیںان کے بغض وعداوت کی آگ کوخطرناک طورپر بھڑکادیاتھا۔بلکہ عرب کے دوسرے قبائل بھی ایک جان ہوکرمسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اورخود مدینہ کے شہر میں ایسے منافقین موجود تھے جومخالفین کے ہاتھ میں مسلمانوں کے خلاف ایک نہایت کارگرہتھیار کاکام دے سکتے تھے اوریہود کا وجودمزید براں خطرے کے احتمالات پیدا کررہا تھااوران خطرات کے مقابلہ میں انصار کی جمعیت کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی تھی۔ان حالات میں گومسلمانوں کوخدا کے وعدوں پر بھروسہ تھا،لیکن اس ظاہری حالت کو دیکھ کران میں سے بہتوں کے دل اندر ہی اندر بیٹھے جاتے تھے اورخوف اوربے چینی کاایسا غلبہ تھاکہ ان بے چاروں کورات کے وقت نیند نہیں آتی تھی۔ناظرین کوچاہئے کہ ان باتوں کواچھی طرح یاد رکھیں کیونکہ آگے چل کر انہیں باتوں نے اس جنگ عظیم کی بنیاد بننا ہے جو مسلمانوں اورکفارعرب کے درمیان وقوع میں آئی اورجس نے عرب کی وسیع سرزمین میں خون کی ندیاں بہادیں۔
ہجرت کے بعد مہاجرین کاپہلا بچہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت
ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں جو پہلا بچہ مدینہ میں پیدا ہوا وہ عبداللہ بن زبیر تھے اور اسی لئے ان کی پیدائش پر مہاجرین کو بہت خوشی ہوئی۔عبداللہ بن زبیر
تاریخ اسلامی میں ایک بہت مشہور ومعروف آدمی ہیں۔ان کے والد زبیرابن العوام کاحال کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے۔زبیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اورکبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔حضرت ابوبکرؓنے اپنی لڑکی اسماء کوجوحضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں زبیر کے عقد میں دیا تھااورانہی اسماء کے بطن سے ہجرت کے پہلے سال میں عبداللہ بن زبیرپیدا ہوئے۔جس وقت عبداللہ کواٹھا کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاتوآپؐ نے ایک کھجور کواپنے منہ میں نرم کرکے اس کا لعاب عبداللہ کے منہ میں ڈالا اوران کے لئے دعائے خیرفرمائی اوریہی اس کی پہلی خوراک تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میںتو عبداللہ بالکل بچہ تھے،لیکن بعد میں بڑے ہوکرانہوں نے اپنے علم وفضل سے بڑا رتبہ حاصل کیا۔شاہان بنوامیہ کے قابل اعتراض مسلک کودیکھ کر انہوں نے اپنی علیحدہ حکومت قائم کرلی تھی،لیکن بالآخر عبدالملک بن مروان کے عہدحکومت میں شہید ہوئے۔حضرت عائشہؓ انہیں اپنے بچے کے طورپرسمجھتی تھیں اوراسی لئے ان کی کنیت عبداللہ کے نام پر ام عبداللہ مشہور ہوگئی تھی۔
انصار کے دورئیسوں کی وفات
ہجرت کے پہلے سال میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے دومخلص اصحاب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑایعنی کلثوم بن الہدم
جن کے مکان پرآپؐقباء میں قیام فرما ہوئے تھے اورجو ایک معمر آدمی تھے فوت ہوگئے اوراسی زمانہ میں اسعد بن زرارۃ کا بھی انتقال ہوا۔اسعدان ابتدائی چھ اشخاص میں سے تھے جنہوں نے مکہ میںبیعت عقبہ اولیٰ سے بھی ایک سال قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی اورجن کے مکان پر اسلام کے سب سے پہلے مبلغ مصعب بن عمیرنے مدینہ میں قیام کیا تھااورجو ہجرت سے قبل مدینہ میں نماز باجماعت اورجمعہ کاالتزام کیا کرتے تھے۔ نیزاسعدان بارہ نقیبوںمیں سے ایک تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصارمیں مقرر فرمائے تھے۔چنانچہ ان کی وفات پربنونجار نے جن کے وہ نقیب تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ اسعد بن زرارۃ کا کوئی قائم مقام مقرر فرمایا جاوے،لیکن چونکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی آپؐ نے فرمایااب میں خود تمہارا نقیب ہوں کسی اور نقیب کی ضرورت نہیں۔ ۱؎
دومعاندین اسلام کی ہلاکت
اسی سال اسلام کے دو نہایت ذی اثر مخالفین کی موت بھی وقوع میں آئی،چنانچہ ولید بن مغیرہ کی موت کاذکر اوپرگزرچکا ہے۔اسی
کے قریب مکہ میں عاص بن وائل کی موت واقع ہوئی۔ ۲؎ یہ دونوں شخص اسلام کے سخت مخالف تھے اور مکہ میں نہایت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے مگر یہ ایک عجیب منظر ہے کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ان مرنے والوں کی اولادآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوکر فدایان اسلام کی صف اول میں کھڑی نظر آتی ہے۔چنانچہ خالد بن ولید اورعمروبن العاص کے کارنامے تاریخ اسلام میں کسی معر ّفی کے محتاج نہیں۔

جہاد بالسیف کا آغاز
اور
جہاد کے متعلق اصولی بحث
جہاد بالسیف کا آغاز
اب ہم ہجرت کے دوسرے سال اوراسلامی تاریخ کے اس حصہ میںداخل ہوتے ہیں جس میں کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کاآغاز ہوا۔جہاد بالسیف
کا مسئلہ جس کے ماتحت مسلمانوں کی تلوار نیام سے باہر آئی باوجود درحقیقت ایک بہت صاف اورسادہ مسئلہ ہونے کے ان متضادخیالات کی وجہ سے جو بدقسمتی سے خودبعض مسلمانوں کی طرف سے اس کے متعلق ظاہر کئے گئے ہیں اورنیز بعض غیر مسلم مؤرخین کی تحریرات کی وجہ سے جوانہوں نے مؤرخ کی حیثیت سے ہٹ کرایک متعصب مذہبی مناظرکی حیثیت میں لکھی ہیں ایک نہایت پیچ دار مسئلہ بن گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسلام نے ابتداء ً تلوارکے سایہ کے نیچے پرورش پائی جوہراس شخص کے سرپراٹھتی تھی جواسلام لانے سے انکار کرتا تھا اورمسلمانوں کایہ مذہبی فرض مقرر کیاگیا تھا کہ وہ تلوار کے زور سے لوگوں کومسلمان بنائیں۔یہ خیال حقیقت سے کس قدر دوراورصحیح تاریخی واقعات کے کس قدرخلاف ہے؟اس کا جواب ذیل کے اوراق میں ملے گا۔حقیقت حال یہ ہے اوراس حقیقت کے شواہد ابھی ظاہر ہوجائیںگے کہ اس ابتدائی زمانہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ نے ابتداء ًجوکچھ کیا وہ دفاع اور خود حفاظتی میں کیا اوروہ بھی اس وقت کیا جبکہ قریش مکہ اوران کی انگیخت پردوسرے قبائل عرب کی معاندانہ کارروائیاں اس حد کوپہنچ چکی تھیں کہ ان سے مقابلہ میں مسلمانوں کاخاموش رہنااوراپنی حفاظت کے لئے ہاتھ نہ اٹھاناخود کشی کے ہم معنی تھاجسے کوئی عقل مند نظراستحسان سے نہیں دیکھ سکتا اورپھرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دفاعی جنگ کے دوران جوجوکارروائیاں فرمائیں وہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت نہ صرف بالکل جائز اوردرست تھیں بلکہ جنگی ضابطہ اخلاق کاجو معیار آپؐنے قائم فرمایاوہ آج بھی دنیا کے واسطے ایک بہترین نمونہ ہے جس سے زیادہ سختی اورسزا کی طرف مائل ہونا عدل اوررحم کے منافی ہے اورجس سے زیادہ نرمی اوررعایت کاطریق اختیار کرنا دنیا کے امن کے لئے سم قاتل۔درحقیقت اسلام کادعویٰ ہے کہ وہ فطرت کامذہب ہے اس لئے نہ تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہرصورت میں ہرگناہ اورہرجرم کی سزا ہونی چاہئے اورنہ وہ یہ سکھاتا ہے کہ کسی حالت میںبھی بدی کامقابلہ نہیںکرنا چاہئے کیونکہ یہ ہر دو تعلیمات افراط وتفریط کی راہیں ہیںاوران پر عمل کرنے سے کبھی بھی امن قائم نہیں رہ سکتااورنہ اقوام وافراد کے اخلاق کی اصلاح ہوسکتی ہے اورصحیح اورسچی تعلیم یہی ہے کہ ۔ ۱؎ یعنی ’’بدی اور جرم کی سزا اس کے مناسب حال ہونی چاہئے،لیکن اگر عفو کرنے سے اصلاح ہوتی ہو توعفو کرنا چاہئے اوراس رنگ میں عفو کرنے والا شخص خدا کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔‘‘یہ قرآنی آیت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جنگی ضابطۂ اخلاق کا خلاصہ ہے اورآپؐ کی تمام جنگی کارروائیاں اسی آیت کی تفسیر ہیں۔
کیا اسلام میں مذہب کے معاملہ میں جبر کرناجائز ہے؟
ابتدائی اسلامی لڑائیوں پر نظرڈالنے سے پیشتر ہمارا فرض
ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام مذہبی معاملات میں جبرکرنے کے متعلق کیا تعلیم دیتا ہے ۔یعنی کیا اسلامی تعلیم کی رو سے یہ جائز ہے کہ لوگوں کوجبراًاسلام میں داخل کیاجاوے اور تلوارکے ذریعہ اسلام پھیلایا جاوے۔ اگراسلام جبر کی اجازت دیتاہے توپھربیشک معاملہ مشتبہ ہوجائے گا۔کیونکہ اس صورت میں اس بات کا امکان ہوگا کہ شاید ابتدائی اسلامی جنگیں بھی لوگوں کوبزور مسلمان بنانے کی غرض سے کی گئی ہوں،لیکن اگریہ ثابت ہوکہ اسلامی تعلیم کی رو سے مذہب میں جبر ممنوع ہے توپھر یہ ایک قومی ثبوت اس بات کا ہوگا کہ یہ ابتدائی اسلامی لڑائیاں لوگوں کو جبراًمسلمان بنانے کی غرض سے نہ تھیں بلکہ ان کی وجوہات کوئی اور تھیں۔کیونکہ یہ ہرگز ممکن نہیں اورکوئی عقل منداسے قبول نہیں کرسکتا کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ نے ایسے برملاطور پراس تعلیم کے خلاف قدم مارا ہوجووہ خدا کی طرف منسوب کرکے لوگوں کوسناتے تھے اورجس پر ان کی قومی ہستی کادارومدار تھا۔
اب ہم قرآن شریف پرنظر ڈالتے ہیں تووہاںصریح طورپر جبری اشاعت کے خلاف احکام پاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
۔ ۱؎
’’اے رسول!توکہہ دے لوگوں سے کہ یہ اسلام حق ہے تمہارے رب کی طرف سے پھراس کے بعد جو چاہے اس پر ایمان لے آئے اورجو چاہے انکار کردے۔‘‘
پھرفرماتاہے:
۲؎
یعنی’’اے رسول!تولوگوں سے کہہ دے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آتا ہے پس اب جو شخص ہدایت کو قبول کرے گا تو اس کا فائدہ خود اسی کے نفس کو ہوگا اورجو غلط راستہ پر چلے گا اس کا وبال بھی خود اسی کی جان پر ہے اورمیں کوئی تمہاری ہدایت کاذمہ دار نہیںہوں۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہونا چاہئے۔ہدایت اور گمراہی کامعاملہ پوری طرح کھل چکا ہے۔پس اب جو شخص گمراہی کوچھوڑ کر اللہ پرایمان لے آئے گا۔وہ گویا ایک نہایت مضبوط کڑے کوپکڑلے گاجوکبھی نہیں ٹوٹ سکتا اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اس قرآنی آیت کی عملی تشریح میں ایک حدیث آتی ہے کہ فَلَمَّا اُجْلِیَتْ بَنُو نَضِیْرٍ کَانَ فِیْھُمْ مِنْ اَبْنَائِ الْاَنْصَارِ فَقَالُوْا لَانَدَعُ اَبْنَائَ نَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لاَاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِیْ۔ ۴؎ یعنے جب بنونضیرمدینہ سے جلاوطن کئے گئے توان میںوہ لوگ بھی تھے جوانصار کی اولاد تھے۔ ۵؎ انصار نے انہیں روک لینا چاہا؟مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس قرآنی آیت کے ماتحت کہ دین کے معاملہ میں جبر نہ ہونا چاہئے انصار کو منع فرمایا کہ ایسا نہ کریں۔‘‘ پھرحضرت عمرؓکے زمانۂ خلافت کے متعلق وثیق رومی کی ایک روایت آتی ہے کہ کُنْتُ مَمْلُوْکًا لِعُمَرَ فَکَانَ یَقُولُ اَسْلِمْ…قَالَ فَاَبَیْتُ فَقَال لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ اِعْتَقَنِی فَقَالَ اِذْھَبْ حَیْثُ شِئْتَ۔ ۱؎ یعنی وثیق رومی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں میں ان کا غلام ہوتا تھا۔آپؓ مجھ سے فرماتے رہتے تھے کہ مسلمان ہوجائو مگر میں انکار کرتا تھا اورحضرت عمرؓ یہ کہہ کرخاموش ہوجاتے تھے کہ اچھا لاَاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ یعنی دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں ہے۔‘‘پھرجب ان کی وفات کاوقت قریب آیاتوانہوں نے مجھے خود بخود آزاد کردیا اور فرمایا اب جہاں چاہتے ہو چلے جائو۔
پھرخدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۲؎
’’یعنی اے رسول!کہہ دے اہل کتاب اورمشرکین سے کہ کیا تم اسلام کو قبول کرتے ہو؟یعنی ان کو اسلام کا پیغام پہنچادے۔پھراگروہ اسلام کوقبول کرلیں توجانو کہ وہ ہدایت پاگئے،لیکن اگروہ تیری دعوت کورد کردیں توتیرا کام توصرف پیغام کاپہنچا دینا ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوخود دیکھ رہا ہے۔‘‘
قرآن شریف کی یہ آیات جن کو میں نے ان کے نازل ہونے کی تاریخ کے مطابق ترتیب کے ساتھ درج کیا ہے اس بات کا ایک قطعی ثبوت ہیں کہ اسلامی تعلیم کی رو سے دین کے معاملہ میں جبر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اسلام نے دین کے معاملہ کوہرشخص کے ضمیرپرچھوڑ دیا ہے کہ جس مذہب کو کوئی شخص اپنے لئے پسند کرے اختیار کرے۔ ان آیات میں سے سورۃ کہف کی آیت مکی زمانہ کی ہے۔سورۃ یونس کی آیت بعض محققین کے نزدیک مکی زمانہ کے آخری ایام کی ہے اوربعض کے نزدیک مدنی ہے۔ سورۃ بقرۃ کی آیت مدینہ کے ابتدائی سالوں کی ہے جبکہ اسلامی جنگوں کا آغاز ہوا تھا اورسورۃ آل عمران کی آیت مدینہ کے آخری زمانہ کی ہے جبکہ مکہ اور طائف وغیرہ فتح ہوچکے تھے اور عرب کی جنگوں کاقریباً خاتمہ تھا۔گویا یہ مختلف آیات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف زمانوں میں نازل ہوئی تھیں اورآخری آیت آپؐکی وفات کے قریب نازل ہوئی تھی اوریہ ساری آیات قطعی اور یقینی طورپر جبری اشاعت کوممنوع قراددیتی ہیں اوررسول کاصرف یہ کام بتاتی ہیںکہ وہ اپنی تعلیم کو کھول کھول کر لوگوں کوسنادے۔آگے ماننا نہ ماننالوگوں کا اپنا کام ہے۔اب کیا یہ ممکن ہے کہ اس صریح اورواضح تعلیم کے ہوتے ہوئے جوببانگ بلند دن رات لوگوں کو سنائی جاتی تھی اورجس کی طرف کفار کو بلایا جاتا تھا۔خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ لوگوں کوجبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار ہاتھ میں لے کر نکلتے۔اورپھر کیا اس صورت میں کفاریہ اعتراض نہ کرتے کہ تم اپنے خداکاکلام توجبرکے خلاف سناتے ہواورخود جبرکرتے ہو،مگرتاریخ سے ثابت ہے کہ کفار کی طرف سے کبھی یہ اعتراض نہیں ہوا۔حالانکہ ان کی عادت تھی کہ خوب جی کھول کھول کر آپؐکے خلاف اعتراض کیا کرتے تھے اوران کے اعتراضات قرآن کریم اورکتب حدیث وتاریخ میں کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
آغازِ جہادکے وقت مسلمانوں کی حالت جبر کے خیال کی مُکذِّب ہے
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت
مسلمانوں کی طرف سے جہاد کا آغاز ہوااس وقت ان کی جو حالت تھی وہ بھی جبر کے خیال کو جھٹلاتی ہے۔بھلاگنتی کے چند لوگ جن کے خلاف گویا سارا ملک ہتھیار بند تھااور جن کا یہ حال تھاکہ خوف کے مارے ان کو رات نیند نہیں آتی تھی وہ جبر کے خیال سے جنگ شروع کرسکتے ہیں؟ایسی حالت میں تو صرف وہی شخص لڑائی کے لئے نکل سکتا ہے جویا تویہ سمجھتا ہو کہ اب موت سے بچنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو یہی ہے کہ خود حفاظتی کے لئے تلوار نکال لی جاوے اور یاوہ یہ خیال کرتا ہو کہ اب مرنا تو ہے ہی کیوں نہ مردوں کی طرح میدان جنگ میں جان دی جاوے۔ان دوغرضوں کے سوا کسی اور غرض کے لئے کوئی شخص جومجنون نہیں ہے اس حالت میں لڑائی کے لئے نہیں نکل سکتاجواس وقت مسلمانوں کی تھی۔اور یہ اس بات کاثبوت ہے کہ مسلمانوں کی ابتدائی لڑائیاں دفاع اورخود حفاظتی کے لئے تھیں نہ کہ جبراورتشددکی غرض سے۔
کبھی کوئی شخص جبراًمسلمان نہیں بنایا گیا
پھریہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ کی یہ لڑائیاں لوگوں کو جبراً
مسلمان بنانے کی غرض سے تھیںتوتاریخ سے ہمیں ایسے لوگوں کی مثالیں نظر آنی چاہئیں جوبزورمسلمان بنائے گئے آخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کے ہزاروں مسلمانوں اور کافروںکے نام تاریخ میں محفوظ ہیں کوئی ایک مثال توایسے شخص کی ملنی چاہئے جسے تلوار کے زور سے مسلمان بنایاگیا ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی جبری تبلیغ کی نظر نہیں آتی۔ ہاں دوسری طرف ایسی مثالیں تاریخ سے ثابت ہیں کہ عین لڑائی کے دوران میں کسی مشرک نے اسلام کااظہار کیا،لیکن مسلمانوں نے اس خیال سے کہ یہ شخص ڈرکراسلام کااعلان کررہا ہے اوراس کے اسلام کے اظہار کے ساتھ دل کی تصدیق شامل نہیں ہے اس کے اسلام کواسلام نہیں سمجھا اوراسے تلوار کی گھاٹ اتاردیا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک لڑائی میں اسامہ بن زید جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام زیدبن حارثہ کے صاحبزادے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت عزیز تھے ایک کافرکے سامنے ہوئے۔ جب اس کافر نے دیکھا کہ اسامہ نے اس پر غلبہ پالیا ہے توکہنے لگاکہ میں مسلمان ہوتا ہوں،لیکن اسامہ نے اس کی پروا نہ کی اوراپنا نیزہ چلادیا۔جب لڑائی کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعہ کاذکر ہواتوآپؐ اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ جب وہ شخص اسلام کااظہار کرتا تھا توتم نے اسے کیوں مارا؟اسامہ نے عرض کیا یارسول اللہ!وہ ڈر کے مارے ایسا کہتا تھا اوردل میں مسلمان نہیں تھا۔آپؐ نے فرمایا’’کیا تم نے اس کا دل چیر کردیکھ لیا تھا؟‘‘یعنی بالکل ممکن ہے کہ اسی وقت اس پر اسلام کی صداقت کھل گئی ہو اوروہ دل سے مسلمان ہوگیا ہو۔مثلاًایسا ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے دل میں فیصلہ کایہ میعار رکھا ہوکہ اگر میں لڑائی میں غالب آگیاتومعلوم ہوگا کہ ہمارے بت جن کے لئے لڑ رہا ہوں سچے ہیں لیکن اگر میں مغلوب ہوگیاتوثابت ہوگا کہ خدا ایک ہے۔بہرحال اس کا میدان جنگ میں مسلمان ہونا اس بات کا یقینی ثبوت نہیں تھا کہ وہ ڈر کر مسلمان ہوتا ہے۔پس جب اس بات کا امکان تھا کہ وہ دل سے مسلمان ہوتا ہے تواسامہ کواپنا ہاتھ روک لینا چاہئے تھااوراسی لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے اور اسامہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ مجھ پر اس قدر ناراض ہوئے کہ میں نے یہ تمنا کی کہ کاش میں اس واقعہ سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اوراب اس کے بعد مسلمان ہوتا تا کہ آپؐ کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی۔۱؎
پھر تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیںکہ اگر کسی وجہ سے خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوکسی شخص کے متعلق یہ علم ہوگیا ہے کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا بلکہ محض ڈریاطمع کی وجہ سے ایسا کررہا ہے توآپؐ نے اس کا اسلام قبول نہیں فرمایا۔چنانچہ صحیح مسلم میں ایک روایت آتی ہے کہ کسی لڑائی میں صحابہ نے ایک ایسے کافر کو قید کیا جو بنوثقیف کے حلیفوں میں سے تھا۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس قیدی کے پاس سے گزرے تو اس نے قید سے رہائی پانے کے خیال سے کہا کہ’’اے محمدؐ!مجھے کیوں قید میں رکھا جاتا ہے میں تومسلمان ہوتا ہوں۔‘‘آپؐ نے فرمایا۔’’اگرتم اس حالت سے پہلے اسلام لاتے توخدا کے حضور یہ اسلام مقبول ہوتااورتم نجات پاجاتے مگراب نہیں۔‘‘اس کے بعد آپؐ نے اس کے بدلے میں دو مسلمان قیدی بنوثقیف سے چھڑوالئے اوراسے کفار کو واپس کردیا۔ ۱؎ الغرض تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ صحابہ نے کسی شخص کو تلوار سے ڈرا کر مسلمان بنایا ہوبلکہ جو مثال ملتی ہے اس کے خلاف ملتی ہے اوریہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی یہ لڑائیاں لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی غرض سے نہ تھیں۔
اس جگہ اگرکسی کو یہ شبہ پیدا ہو کہ لڑائی میں کسی کافر کی طرف سے اسلام کے اظہارپر اسے چھوڑ دینا یہ بھی توایک رنگ کا جبر ہے تو یہ ایک جہالت کااعتراض ہوگا۔وجہ مخاصمت کے دور ہوجانے پر لڑائی سے ہاتھ کھینچ لینا حسن اخلاق اوراحسان ہے نہ کہ جبروظلم۔کفارعرب کے خلاف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاجنگ کرنا صرف اس بناء پر تھا کہ انہوں نے آپؐ کے خلاف تلوار اٹھائی تھی اور اسلام کی پُرامن تبلیغ کوبزور روکنا چاہتے تھے اوراس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ملک میںامن اورمذہبی آزادی قائم کرنا چاہتے تھے۔اب اگر کوئی شخص مسلمان ہوجاتا ہے توقطع نظر اس کے کہ اسے گھر میں بیٹھے ہوئے اسلام پرشرح صدرپیدا ہوتا ہے یامیدان جنگ میں۔ جب بھی وہ اسلام کااظہار کرے گا تو اس کے اس اظہار کے کم از کم یہ معنے ضرور ہوں گے کہ اب اس کی طرف سے وہ خطرہ دورہوگیا ہے جن کی بناء پر یہ جنگ ہورہی تھی تواس صورت میں لازماًاس کے خلاف کارروائی بندکردی جاوے گی۔درحقیقت جیسا کہ ابھی ظاہر ہوجائے گا جنگ کی ابتداء توکفار کی طرف سے تھی۔پس جب کوئی شخص مسلمان ہوتا تھا تو طبعاًاس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ اب وہ جنگ کو ترک کرکے صلح کی طرف مائل ہوتا ہے۔پس اس کے خلاف لڑائی روک دی جاتی تھی۔یہی مفہوم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کاہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔ ۲؎ یعنی’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کفار سے جنگ کروں جو اسلام کے خلاف میدان جنگ میں نکلے ہیںسوائے اس کے کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔‘‘ مگرغلطی سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنے سمجھ لئے ہیں کہ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کودنیا کے تمام کافروں کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ حالانکہ یہ معنے قرآنی تعلیم اورتاریخی واقعات کے صریح خلاف ہیں اوریہ ایک سراسر خلاف دیانت فعل ہوگا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی قول کے وہ معنے چھوڑ کر جو قرآن وتاریخ کے مطابق ہیںاور لغت عرب کی رو سے بھی ان پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا وہ معنے کئے جاویں جوواضح قرآنی تعلیم اور صریح تاریخی واقعات کے بالکل خلاف ہیں۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ جن کفار نے مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائی ہے اورملک میں نقض امن کا موجب ہو رہے ہیںمجھے ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن اگروہ مسلمان ہوجائیں اوران کی طرف سے یہ خطرہ جاتا رہے تومجھے لڑائی بندکردینے کاحکم ہے۔گویامراد یہ ہے کہ مجھے ان کفار کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے کہ یا تو جنگ کا طبعی نتیجہ ظاہر ہوجاوے یعنی یہ لوگ جو اسلام کے خلاف اٹھے ہوئے ہیں مفتوح ہوجائیں اورجنگ کا خاتمہ ہوجاوے اوریا وہ اسلام کی صداقت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں اوران کی طرف سے امن شکنی کاکوئی اندیشہ نہ رہے۔اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ صرف اسلام کے اظہار پرہی لڑائی بند نہیں ہوتی تھی بلکہ اگرکوئی قبیلہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ترک کردیتا تھااورمسلمانوں کی سیاسی حکومت کوقبول کرلیتا تھا توخواہ وہ کفروشرک پرہی قائم رہتا تھا اس کے خلاف بھی جنگ کی کارروائی روک دی جاتی تھی ۔چنانچہ اس کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں جو اپنے موقع پربیان ہوںگی۔الغرض اسلام کے اظہار پر لڑائی بندکردینے کے حکم کا قطعاً کوئی تعلق جبرسے نہیں ہے بلکہ یہ ایک حسن سیاست کا فعل ہے جو ہر عقل مند کے نزدیک قابل تعریف سمجھاجانا چاہئے۔یہ تشریح جواس حدیث کی کی گئی ہے یہ محض عقلی تشریح نہیں بلکہ خود قرآن کریم کمال صراحت کے ساتھ اس تعلیم کوپیش کرتا ہے کہ اگر کفار اپنے مظالم سے باز آجائیں اورملک میں فساد اورامن شکنی کا موجب نہ بنیں تو اس صورت میں مسلمانوں کوان کے خلاف فوراًکارروائی روک دینی چاہئے۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!تم جنگ کرو ان کفار سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اورہر شخص اپنے خدا کے لئے(نہ کسی ڈر اور تشددکی وجہ سے)جودین بھی چاہے رکھ سکے اوراگر یہ کفار اپنے ظلموں سے باز آجائیں توتم بھی رک جائو کیونکہ تمہیں ظالموں کے سوا کسی کے خلاف جنگی کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیرحدیث میں اس طرح آتی ہے کہ عَنِ ابْنِ عُمَرَاَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ۔قَالَ ابْنُ عُمَرَقَدْ فَعَلْنَا عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْکَانَ الْاِسْلَامُ قَلِیْلاً فَکَانَ الرَّجْلُ یُفْتَنُ فِی دِیْنِہٖ اِمَّا یَقْتُلُوْہُ وَاِمَّا یُوثِقُوْہُ حَتّٰی کَثُرَ الْاِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ۔ ۱؎ یعنی’’یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لڑوان کفار سے جوتم سے لڑتے ہیں اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اس کے متعلق ابن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے اس الہٰی حکم کی تعمیل یوں کی کہ جبکہ رسول اللہ کے زمانہ میں مسلمان بہت تھوڑے تھے اورجو شخص اسلام لاتا تھا اسے کفار کی طرف سے دین کے راستے میں دکھ دیا جاتا تھا اوربعض کو قتل کردیا جاتا تھااوربعض کوقید کردیا جاتا تھا۔پس ہم نے جنگ کیا اس وقت تک کہ مسلمانوں کی تعداد اورطاقت زیادہ ہوگئی اور نومسلموںکے لئے فتنہ نہ رہا۔‘‘اس واضح اوربین آیت اوراس واضح اوربین حدیث کے ہوتے ہوئے ذومعنیین حدیث سے جبری اشاعت کی تعلیم ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہرگز دیانت داری کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔
صحابہ کی زندگیاں جبر کے خیال کی مکذب ہیں
پھر سچے ایمان کی بعض علامات ہیں جن سے وہ پہچانا جاتا ہے اورجوکبھی بھی اس شخص میں
پیدا نہیں ہوسکتیں جوتلوار کے زور سے مسلمان بنایاگیا ہو۔مثلاًسچے ایمان میں محبت ہوتی ہے۔اخلاص ہوتا ہے،قربانی ہوتی ہے غیرت ہوتی ہے اورناممکن ہے کہ یہ باتیں اس شخص میںپائی جائیں جس کا ایمان محض دکھادے کاایمان ہے اورجو صرف خوف کی وجہ سے کسی عقیدہ کااظہار کرتا ہے مگر اس کا دل اس ایمان سے خالی ہوتا ہے۔پس ہمیں صحابہؓ کی زندگیوں کامطالعہ کرنا چاہئے اورپھر دیکھنا چاہئے کہ کیا ان کا حال ان لوگوں کاسا نظر آتا ہے جن کا مذہب تلوار کے زور سے تبدیل کیاگیا ہو؟کیا ان کے ایمان میں محبت کی بونہیں؟کیا ان کے دل اخلاص سے خالی نظر آتے ہیں؟ کیا ان میںقربانی کی روح نہیں پائی جاتی؟کیا ان میں غیرت کی کمی محسوس ہوتی ہے؟ اگریہ نہیں اورہرگز نہیں۔اوریہ سب علامات صحابہ میں موجود ہیں اورنہ صرف موجود ہیں بلکہ بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں اوران کی زندگیوں کاہر کارنامہ ان کے ایمان ان کے اخلاص اوراسلام کے لئے ان کی محبت اورقربانی اورغیرت پرشاہد ہے تویہ کس قدرظلم ہوگا کہ ان کے ایمان کی سچائی پرشبہ کیا جاوے۔دور نہ جائو عکرمہ بن ابوجہل کی ہی مثال لے لو۔باپ ابوجہل ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خون کاپیاسا تھا اوراسی کوشش میں ہلاک ہوا۔خود عکرمہ کایہ حال تھا کہ ہرلڑائی میں وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لڑا اوراسلام کو مٹانے کے لئے اس نے اپنی تمام کوشش صرف کردی اوربالآخر جب مکہ فتح ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ماتحتی کواپنے لئے موجب ذلت سمجھ کر مکہ سے بھاگ گیا اور مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھاجن کے قتل کاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا،لیکن بالآخر جب وہ مسلمان ہوا تواس کے ایمان واخلاص کا یہ حال تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں اس نے باغیوں کے قلع قمع کرنے میں بے نظیر جان نثاریاں دکھلائیں اورجب ایک جنگ میں سخت گھمسان کارن پڑا اورلوگ اس طرح کٹ کٹ کر گررہے تھے جیسے درانتی کے سامنے گھاس گرتا ہے اس وقت عکرمہ چند ساتھیوں کو لے کر عین قلب لشکر میں جاکودا۔بعض لوگوں نے منع کیاکہ اس وقت لڑائی کی حالت سخت خطرناک ہورہی ہے اس طرح دشمن کی فوج میں گھسنا ٹھیک نہیں ہے لیکن عکرمہ نہ مانا اوریہی کہتا ہوا آگے بڑھتا گیا کہ ’’میں لات وعزی کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لڑا ہوں۔آج خدا کے رستے میں لڑتے ہوئے پیچھے نہیں رہوںگا۔‘‘لڑائی کے خاتمہ پردیکھا گیا تو اس کی لاش نیزوں، تلوار کے زخموں سے چھلنی تھی۔مالی قربانی کایہ حال تھا کہ جب غنائم میں سے عکرمہ کوکوئی حصہ ملتا تو وہ اسے صدقہ وخیرات اورخدمت دین میں بے دریغ خرچ کردیتاتھا اورکہا کرتا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ میں خدا کے دین کے خلاف خرچ کیا کرتا تھا اب جب تک خدا کی راہ میں خرچ نہ کرلوں مجھے چین نہیں آتا۔ ۱؎ کیا یہ وہ لوگ ہیں جوتلوار کے ڈر سے مسلمان ہوئے تھے؟
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلح کی خواہش جبر کے خیال کوجھٹلاتی ہے
ایک اورثبوت اس بات کا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ لڑائیاں لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی غرض سے نہ تھیں یہ ہے کہ آپؐ صلح کے خواہش مند رہتے تھے۔اورآپؐ کی
یہ انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح یہ لڑائیاں بند ہوجاویں اورملک میں امن وامان کی صورت پیدا ہو۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش نے سخت سے سخت شرطیں پیش کیں۔حتیٰ کہ اکثر مسلمانوں نے ان شرطوں کے قبول کرنے کواپنے لئے موجب ذلت سمجھا،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی بات کی پروا نہ کی اورجس طرح قریش نے کہااسی طرح ان کی شرطیں مان کر صلح کرلی۔اب غور کا مقام ہے کہ اگر ان لڑائیوں میں آپؐ کی غرض یہ تھی کہ کفارکوتلوار کے زور سے مسلمان بنایاجاوے توصورت حال یہ ہونی چاہئے تھی کہ قریش صلح پر زور دیتے اورایسی نرم شرطیں پیش کرتے جنہیں مسلمان بخوشی مان لینے کو تیا ہوجاتے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے مقابلہ میں سختی کا پہلواختیار کرتے اورصلح کی تجویز کو آنوں بانوں سے ٹال کر جنگ چھیڑے رکھتے تا کہ کفار کے جبراًمسلمان بنانے کا موقع میسر رہتا،لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے جواس بات کا ایک یقینی ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دلی خواہش یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو یہ جنگ رک جاوے اورملک میں امن وامان کی صورت پیدا ہو۔پھراسی موقع پر جوقرآنی آیت نازل ہوئی وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لڑائیوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی غرض جبری تبلیغ نہ تھی بلکہ قیام امن تھی۔چنانچہ بخاری ۱؎ میں روایت آتی ہے کہ یہ آیت قرآنی کہ ۔ ۲؎ یعنی ہم نے تجھے یہ ایک بڑی کھلی کھلی فتح عطا کی ہے۔صلح حدیبیہ ہی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔گویا اللہ تعالیٰ نے صلح اور قیام امن کانام مسلمانوں کے لئے ایک کھلی کھلی فتح رکھا ہے اورحق بھی یہ ہے کہ صلح حدیبیہ ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی جس کے مقابل میں ایک طرح سے بدرؔوخندقؔ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔کیونکہ گوبدرؔوخندقؔ میں کفار کوہزیمت ہوئی اور وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں پسپا ہوکر لوٹے لیکن ان جنگوں میں مسلمانوں کوان کے جہاد کامقصد حاصل نہیں ہوا۔کیونکہ کفار ابھی تک اسی طرح برسرپیکار تھے اور جنگ جاری تھی،لیکن حدیبیہ میں گو کوئی کشت وخون نہیں ہوااوربظاہر مسلمانوں کو دب کر صلح کرنی پڑی،لیکن ان کے جہاد کا مقصد حاصل ہوگیایعنی جنگ رک گئی اورملک میں امن قائم ہوگیا۔پس حقیقی فتح صلح حدیبیہ ہی تھی اوراسی لئے خدا نے اس کا نام فتح مبین رکھا اور یہ ایک نہایت زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کی لڑائیاں دفاع یاقیام امن کے لئے تھیں نہ کہ اسلام کوبزورپھیلانے کی غرض سے۔
صلح کے زما نہ میں مسلمانوں کوغیر معمولی ترقی نصیب ہوئی
ایک اورجہت سے بھی اس سوال پرغور ہوسکتا ہے اوروہ
یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ آیاصلح کے زمانہ میں اسلام کوزیادہ ترقی حاصل ہوئی یاکہ جنگ کے زمانہ میں۔اگر یہ ثابت ہوجاوے کہ صلح کے زمانہ میں اسلام نے جنگ کے زمانہ کی نسبت غیر معمولی سرعت کے ساتھ ترقی کی تھی تویہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہوگا کہ یہ لڑائیاں اسلام کی جبری اشاعت کی غرض سے نہ تھیں۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال سے عملی جنگ کا آغاز ہوگیا تھااورصلح حدیبیہ ہجرت کے چھٹے سال میں وقوع میں آئی ۔گویا صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں پرقریباًپانچ سال جنگ کی حالت میں گزرے تھے۔ان پانچ سالوں میں مسلمانوں کی تعداد کااندازہ ان سپاہیوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے جو اسلامی فوج میں شامل ہوکرشریک جنگ ہوتے تھے۔اعلان جنگ ماہ صفر۲ہجری میں ہوا اور قریش کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی لڑائی رمضان۲ہجری میں بدر کے موقع پر ہوئی جہاں مسلمان کچھ اوپر تین سوتھے۔دوسری لڑائی شوال۳ہجری میں احد کے موقع پر ہوئی جہاں مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی۔تیسری لڑائی شوال ۵ہجری میں ہوئی جوغزوہ احزاب یاغزوہ خندق کے نام سے مشہور ہے اس میں مسلمانوں کی تعدادتین ہزار تھی۔مگریہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ لڑائی چونکہ مدینہ میں ہوئی تھی اس لئے اس میںمسلمان زیادہ کثرت کے ساتھ شامل ہوسکے تھے وَاِلَّا اگردور کا سفر ہوتا تو غالباًاس زمانہ میں اس کثرت کے ساتھ مسلمان شامل نہ ہوسکتے کیونکہ کمزور اور ضعیف اورغریب لوگ کثرت سے رہ جاتے۔بہرحال اس جنگ میں تین ہزار مسلمان شریک ہوئے۔اس کے بعد ذوقعدہ ۶ہجری میں غزوہ صلح حدیبیہ وقوع میں آیااوراس میں ڈیڑھ ہزارمسلمان شامل ہوئے۔گویا اس چار پانچ سالہ جنگی زمانہ کے آخری غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد تین سو سے لے کر ڈیڑھ ہزار تک پہنچی تھی اوراگر غزوہ خندق کی تعداد پربنیاد رکھیںتوکہہ سکتے ہیں کہ یہ تعداد تین ہزار تک پہنچی تھی۔اس کے بعد صلح کا زمانہ شروع ہوااورقریباًپونے دوسال تک صلح رہی،لیکن اس صلح کے زمانہ میں جس غیر معمولی سرعت سے اسلام کی ترقی ہوئی وہ اس تعداد سے معلوم کی جاسکتی ہے جوغزوہ فتح مکہ کے موقع پر جو رمضان ۸ہجری میں ہوا مسلمانوں کی تھی۔مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ میں اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔گویا چار پانچ سالہ جنگ کے زمانہ میں قابل جہاد مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار یا زیادہ سے زیادہ تین ہزار تک پہنچی تھی اورپونے دو سالہ امن کے زمانہ میں یہ تعداد دس ہزار کو پہنچ گئی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لڑائیاں اسلام کی جبری اشاعت کی غرض سے نہ تھیں بلکہ دراصل یہ جنگ اسلام کی ترقی میں ایک روک تھی کیونکہ جونہی یہ جنگ ختم ہوئی اسلام سرعت کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا۔دراصل جنگ کی حالت میں کئی لوگ اسلام کی طرف توجہ نہیں کرسکتے تھے اورکئی کمزور طبیعت لوگ کفار کی مخالفت سے بھی ڈرتے تھے اورمسلمانوں کوبھی جنگ کی مصروفیت کی وجہ سے اصل تبلیغ کا موقع بہت کم ملتا تھا،لیکن جب جنگ رک گئی تو ایک طرف لوگوں کو اسلام کے متعلق غور کرنے کا موقع مل گیااورکمزور طبائع کا خوف جاتارہا اور دوسری طرف تبلیغ کی سرگرمی زیادہ ہوگئی اور اس کانتیجہ جوکچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔
فتح مکہ کے موقع پر سینکڑوںکفاراسلام سے منکر رہے
ایک اوردلیل اس بات کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ
لڑائیاں اسلام کی جبری اشاعت کے لئے نہیں تھیں یہ ہے کہ غزوہ مکہ کے موقع پر جب مکہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہوا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے اصحاب ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوئے اس وقت گوبعض لوگ قریش مکہ میں سے اپنی مرضی سے مسلمان ہوگئے تھے،لیکن بہت سے قریش کفر پر قائم رہے اوران سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیاگیا۔اورپھر آہستہ آہستہ جوں جوں ان لوگوں کواسلام کے متعلق شرح صدر ہوتا گیا اوروہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوتے گئے ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں تھی۔چنانچہ صفوان بن امیہ جوکہ مکہ کے رئیس امیہ بن خلف کالڑکاتھا اوراسلام کا سخت دشمن تھاوہ بھی فتح مکہ کے موقع پر مسلمان نہیںہوا اورکفر کی حالت میں ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہوکرغزوہ حنین میں شریک ہواجس میں اوربھی بہت سے مشرک شریک ہوئے تھے لیکن پھرآہستہ آہستہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق سے اس پر اسلام کی حقانیت کھلتی گئی اوربالآخر وہ خودبشرح صدر مسلمان ہوگیا۔ ۱؎ اب سوال یہ ہے کہ اگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓلوگوں کو جبراًمسلمان بناتے تھے توفتح مکہ کے بعد جبکہ قریش کی طاقت بالکل ٹوٹ چکی تھی اوراسلامی لشکر مکہ پر قابض تھااس وقت مکہ والوں کو کیوں نہ جبراًاسلام میں داخل کیا گیا۔فتح مکہ سے بہتر مسلمانوں کے لئے اسلام کی جبری اشاعت کاکون سا موقع ہوسکتا تھا۔جبکہ تلوار کے ذرا سے اشارے سے ایک بہت بڑی جماعت اسلام میں داخل کی جاسکتی تھی،لیکن چونکہ اسلام مذہبی آزادی کا پیغام لے کر آیا تھا اورحکم تھا کہ دین کے معاملہ میں قطعاًکوئی جبر نہیں ہونا چاہئے۔اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے اصحاب نے کمال دیانت داری کے ساتھ ہرایک شخص کواس کے ضمیر پرآزاد چھوڑ دیا کہ جس مذہب پر کوئی چاہے رہے۔لیکن اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں تھا کہ مشرکین عرب اس کے متعلق ٹھنڈے طورپر غورکرنے کاموقع پاتے اورپھراپنے مذہب کے مقابلہ میں اس کی خوبیوں کے قائل نہ ہوتے۔چنانچہ لوہے کی تلوار نے نہیںبلکہ براہین وآیات کی تلوار نے اپنا کام کیا اورایک نہایت قلیل عرصہ میں مکہ کی سرزمین شرک کے عنصر سے پاک تھی۔
وجوہات جنگ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کوکن حالات میں اور کن لوگوں کے خلاف جہاد بالسیف کی اجازت دی گئی اوراس کی کیا وجوہات تھیں اس سوال کے جواب میں ہمیں
اپنے پاس سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے،تاریخ کے واقعات واضح ہیںاورایک ادنیٰ عقل کا آدمی بھی ان کے مطالعہ سے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی آنکھوںپرتعصب کی پٹی نہ ہو۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں جوجو مظالم قریش نے مسلمانوں پرکئے اورجوجو تدابیر اسلام کو مٹانے کی انہوں نے اختیار کیں وہ ہرزمانہ میں ہرقسم کے حالات کے ماتحت کسی دو قوموں میں جنگ چھڑ جانے کا کافی باعث ہیں۔تاریخ سے ثابت ہے کہ سخت تحقیرآمیزاستہزاء اور نہایت دلآزارطعن وتشنیع کے علاوہ کفارمکہ نے مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اورتوحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ان کو نہایت بے دردانہ طورپر مارااورپیٹا۔ان کے اموال کوناجائزطورپر غصب کیا۔ان کا بائیکاٹ کرکے ان کو ہلاک وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ان میں سے بعض کو ظالمانہ طور پر قتل کیا۔ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی۔حتیٰ کہ ان مظالم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے،لیکن قریش نے اس پر بھی صبر نہ کیا اورنجاشی کے دربار میں اپنا ایک وفد بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طرح یہ مہاجرین پھر مکہ میں واپس آجائیں اورقریش انہیں اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہوجائیں اوریا ان کا خاتمہ کردیا جاوے۔ پھرمسلمانوں کے آقا اور سردار کوجسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے سخت تکالیف پہنچائی گئیںاورہرقسم کے دکھوں میں مبتلا کیا گیا اورقریش کے بھائی بندوں نے طائف میں خدا کا نام لینے پرآپؐپرپتھربرسادئیے حتّٰی کہ آپؐ کابدن خون سے تربترہوگیااوربالآخر مکہ کی قومی پارلیمنٹ میں سارے قبائل قریش کے نمائندوں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمدرسول اللہ کوقتل کردیاجاوے تاکہ اسلام کانام ونشان مٹ جاوے اور توحید کاہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو اورپھر اس خونی قرارداد کوعملی جامہ پہنانے کے لئے نوجوانانِ مکہ جو مختلف قبائل قریش سے تعلق رکھتے تھے رات کے وقت ایک جتھہ بناکرآپؐ کے مکان پر حملہ آور ہوئے لیکن خدا نے آپؐ کی حفاظت فرمائی اور آپؐ ان کی آنکھوں پرخاک ڈالتے ہوئے اپنے مکان سے نکل آئے اور غارِ ثور میں پناہ لی۔کیا یہ مظالم اوریہ خونی قراردادیں قریش کی طرف سے اعلان جنگ کا حکم نہیں رکھتیں؟کیا ان مناظرکے ہوتے ہوئے کوئی عقل مند یہ خیال کرسکتا ہے کہ قریش مکہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف برسرپیکار نہ تھے؟پھرکیا قریش کے یہ مظالم مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کی کافی بنیاد نہیں ہوسکتے تھے؟کیا دنیا میں کوئی باغیرت قوم جوخودکشی کاارادہ نہ کرچکی ہو ان حالات کے ہوتے ہوئے اس قسم کے الٹی میٹم کے قبول کرنے سے پیچھے رہ سکتی ہے جو قریش نے مسلمانوں کودیا؟یقینایقینااگرمسلمانوں کی جگہ کوئی اور قوم ہوتی تووہ اس سے بہت پہلے قریش کے خلاف میدان جنگ میں اترآتی۔مگرمسلمانوں کوان کے آقا کی طرف سے صبراورعفو کاحکم تھا۔چنانچہ لکھا ہے کہ جب مکہ میں قریش کے مظالم بہت بڑھ گئے توعبدالرحمن بن عوف اوردوسرے صحابہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر قریش کے مقابلہ کی اجازت چاہی۔مگر آپؐ نے فرمایا اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِفَلاَ تُقَاتِلُوا۔ ۱؎ یعنی’’مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘چنانچہ صحابہؓ نے دین کی راہ میں ہرقسم کی تکلیف اورذلت برداشت کی مگر صبر کے دامن کونہ چھوڑا حتّٰی کہ قریش کے مظالم کاپیالہ لبریز ہوکر چھلکنے لگ گیا اور خداوند عالم کی نظر میں اتمام حجت کی میعاد پوری ہوگئی۔تب خدا نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ تواس بستی سے نکل جاکہ اب معاملہ عفو کی حد سے گزر چکا ہے اوروقت آگیا ہے کہ ظالم اپنے کیفرکردار کوپہنچے۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ہجرت قریش کے الٹی میٹم کے قبول کئے جانے کی علامت تھی اور اس میں خدا کی طرف سے اعلان جنگ کاایک مخفی اشارہ تھا جسے مسلمان اورکفار دونوں سمجھتے تھے چنانچہ دارالندوہ کے مشورہ کے وقت جب کسی شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومکہ سے نکال دیا جاوے تورئوساء قریش نے اس تجویز کواسی بناء پر رد کردیا تھا کہ اگر محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مکہ سے نکل گیا توپھرضرور مسلمان ہمارے الٹی میٹم کوقبول کرکے ہمارے خلاف میدان میں نکل آئیں گے اور مدینہ کے انصار کے سامنے بھی جب بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کاسوال آیا تو انہوں نے فوراًکہا کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں تمام عرب کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجانا چاہئے اورخود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے اورآپؐ نے مکہ کے درودیوار پرحسرت بھری نگاہیں ڈال کرفرمایاکہ اے مکہ تومجھے ساری بستیوں سے زیادہ عزیزتھا مگرتیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے تواس پر حضرت ابوبکرؓنے بھی یہی کہا کہ انہوں نے خدا کے رسول کواس کے وطن سے نکالا ہے اب یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے۔ ۲؎ خلاصہ کلام یہ کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں مقیم رہے آپؐ نے ہرقسم کے مظالم برداشت کئے،لیکن قریش کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی۔کیونکہ اول تو پیشتر اس کے کہ قریش کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی سنت اللہ کے مطابق ان پر اتمام حجت ضروری تھا اوراس کے لئے مہلت درکار تھی۔دوسرے خدا کایہ بھی منشاء تھا کہ مسلمان اس آخری حد تک عفواورصبر کانمونہ دکھلائیں کہ جس کے بعد خاموش رہناخودکشی کے ہم معنے ہوجاوے جو کسی عقل مند کے نزدیک مستحن فعل نہیںسمجھا جاسکتا۔ تیسرے مکہ میں قریش کی ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم تھی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے شہریوں میں سے ایک شہری تھے۔پس حسن سیاست کاتقاضا تھا کہ جب تک آپؐ مکہ میں رہیں آپؐ اس حکومت کااحترام فرمائیں اور خود کوئی امن شکن بات نہ ہونے دیں اورجب معاملہ عفو کی حد سے گزر جاوے توآپؐ وہاں سے ہجرت کرجائیں۔چوتھے یہ بھی ضروری تھا کہ جب تک خدا کی نظر میں آپؐکی قوم اپنی کارروائیوں کی وجہ سے عذاب کی مستحق نہ ہوجاوے اوران کو ہلاک کرنے کاوقت نہ آجاوے آپؐ ان میں مقیم رہیں اورجب وہ وقت آجاوے توآپ وہاں سے ہجرت فرماجائیں۔ کیونکہ سنت اللہ کے مطابق نبی جب تک اپنی قوم میں موجود ہو ان پر ہلاک کردینے والا عذاب نہیں آتا۔ ۱؎ اورجب ہلاکت کاعذاب آنے والا ہوتو نبی کووہاںسے چلے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ان وجوہات سے آپؐ کی ہجرت اپنے اندر خاص اشارات رکھتی تھی مگرافسوس کہ ظالم قوم نے نہ پہنچانا اور ظلم وتعدی میں بڑھتی گئی ورنہ اگراب بھی قریش باز آجاتے اوردین کے معاملہ میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اورمسلمانوں کوامن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو خدا ارحم الراحمین ہے اوراس کا رسول بھی رحمتہ للعالمین تھا یقینا اب بھی انہیں معاف کردیا جاتااور عرب کو وہ کشت وخون کے نظارے نہ دیکھنے پڑتے جواس نے دیکھے،مگرتقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت نے قریش کی عداوت کی آگ پر تیل کا کام دیااوروہ آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان غریب اور کمزور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کے علاوہ جوابھی تک مکہ میں ہی تھے سب سے پہلا کام جوقریش نے کیا وہ یہ تھا کہ جونہی کہ ان کو یہ علم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے بچ کر نکل گئے ہیں وہ آپؐ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اوروادی بکّہ کی چپہّ چپہّ زمین آپؐ کی تلاش میں چھان ماری اورخاص غارِثور کے منہ تک بھی جاپہنچے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نصرت فرمائی اورقریش کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ عین منزلِ مقصود تک پہنچ کر خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔جب وہ اس تلاش میں مایوس ہوئے توانہوں نے عام اعلان کیا کہ جو شخص بھی محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کوزندہ یامردہ پکڑ کر لائے گا اسے ایک سو اونٹ جوآج کل کی قیمت کے حساب سے قریباًبیس ہزارروپیہ بنتا ہے انعام دیا جائے گااوراس انعام کے لالچ میں مختلف قبائل کے بیسیوں نوجوان آپؐ کی تلاش میں چاروں طرف نکل کھڑے ہوئے۔چنانچہ سراقہ بن مالک کاتعاقب جس کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے اسی انعامی اعلان کا نتیجہ تھا مگر اس تدبیر میں بھی قریش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔غور کیا جاوے تودوقوموں میں جنگ چھڑ جانے کے لئے صرف یہی ایک وجہ کافی ہے کہ کسی قوم کے آقا وسردارکے متعلق دوسری قوم اس طرح انعام مقررکرے۔بہرحال یہ تجویزبھی کارگر نہ ہوئی اورقریش کو علم ہوگیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم امن وعافیت کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے ہیں تو جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے رئوسائے قریش نے مدینہ کے رئیس اعظم عبداللہ بن ابیّ بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے نام ایک خطرناک تہدیدی خط ارسال کیاجس میں لکھا کہ:
اِنَّکُمْ اَوَیْتُمْ صَاحِبَنَا وَاِنَّا نَقْسِمُ بِاللّٰہِ لَتُقَاتِلُنَّہٗ اَوْتُخْرِجُنَّہٗ اَوْلَنَسِیْرَنَّ اِلَیْکُمْ بِاَجْمَعِنَا حَتّٰی نَقْتُلَ مَقَاتِلَتَکُمْ وَنَسْتَبِیْحَ نِسَائَ کُمْ۔ ۱؎
’’یعنی تم لوگوں نے ہمارے آدمی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کوپناہ دی ہے اورہمیں خدا کی قسم ہے کہ یاتو تم اس کا ساتھ چھوڑ کراس کے خلاف جنگ کرو یا کم سے کم اسے اپنے شہر سے نکال دوورنہ ہم ضرور بالضروراپنا سارا لائولشکر لے کر تم پر حملہ آور ہوجائیں گے اورتمہارے مردوں کوقتل کرڈالیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے لئے جائز کرلیں گے۔
اس خط سے جو تشویش بے چارے مہاجرین کودامن گیر ہوسکتی تھی وہ توظاہر ہی ہے لیکن انصار میں بھی اس نے ایک خطرناک سنسنی پیداکردی۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ خود عبداللہ بن ابیّ کے پاس تشریف لے گئے اوراسے یہ سمجھا کرٹھنڈا کیا کہ تمہارے اپنے عزیزواقارب میرے ساتھ ہیں کیاتم اپنے جگر گوشوں سے جنگ کرو گے؟انہی ایام کے قریب سعد بن معاذرئیس اوس عمرہ کی غرض سے مکہ آئے توانہیںدیکھ کر ابوجہل کی آنکھوں میں خون اتر آیااوراس نے بگڑ کرکہا کہ ’’تم نے (نعوذ باللہ) اس مرتد محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کوپناہ دی ہے کیا تمہارا خیال ہے کہ تم اس کی حفاظت کرسکو گے۔‘‘ ۲؎ اس زمانہ میں قریش کواسلام کے استیصال کااتناخیال تھا کہ ولید بن مغیرہ رئیس مکہ جب مرنے لگاتوبے اختیار ہوکر رونے لگ گیا۔لوگوں نے پوچھا کہ کیا تکلیف ہے۔ اس نے جواب دیا۔میں ڈرتا ہوں کہ میرے بعد محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم )کادین نہ پھیل جاوے۔رئوساء قریش نے کہاتم فکرمند نہ ہو۔’’ہم اس بات کے ضامن ہیں کہ اس کے دین کو نہیں پھیلنے دیںگے۔‘‘ ۳؎ یہ سب ہجرت کے بعد کی باتیں ہیں جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قریش کے مظالم سے تنگ آکر مکہ کوچھوڑ چکے تھے اورخیال کیا جاسکتا تھا کہ اب قریش مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں گے۔پھر اسی پر بس نہیں بلکہ جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اوراندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے توانہوں نے دوسرے قبائل عرب کادورہ کرکرکے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکساناشروع کردیا اور چونکہ بوجہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کے قریش کا سارے قبائل عرب پر ایک خاص اثر تھا اس لئے قریش کی انگیخت سے کئی قبائل مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے اورمدینہ کایہ حال ہوگیا کہ گویا اس کے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔چنانچہ یہ روایت اوپر گزرچکی ہے کہ:
لَمَّاقَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَیّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُہٗ الْمَدِیْنَۃَ وَاٰوَتْھُمُ الْاَنْصَارُ رَمَتْھُمُ العَرَبُ عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَۃٍ فَکَانُوا لَایُبِیْتُوْنَ اِلاَّ بِالسِّلَاحِ وَلَا یَصْبَحُوْنَ اِلاَّفِیْہِ وَقَالُوا اَتَرَوْنَ اَنَّانَعِیْشُ حَتّٰی نَبِیْتُ اٰمِنِیْنَ لَانَخَافُ اِلاَّ اللّٰہَ۔ ۱؎
یعنی ’’ ابی بن کعب جوکبار صحابہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے اصحاب مدینہ میں تشریف لائے اور انصار نے انہیں پناہ دی توتمام عرب ایک جان ہوکران کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔چنانچہ ان دنوں مسلمانوں کایہ حال تھا کہ خوف کی وجہ سے وہ راتوں کوبھی ہتھیار لگالگا کرسوتے تھے اوردن کو بھی ہتھیار لگائے پھرتے تھے کہ کہیں کوئی اچانک حملہ نہ ہوجاوے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک بچتے بھی ہیں یانہیں کہ ہمیں امن کی راتیں گزارنے کا موقع ملے گا اور خدا کے سوا کسی کاڈر نہ رہے گا۔‘‘
خود سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ حال تھا کہ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَیْ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَّلُ مَاقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ یَسْھَرُمِنَ اللَّیْلِ۔ ۲؎ ’’جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے،تو دشمن کے حملہ کے خوف سے آپؐ عموماًراتوں کوجاگا کرتے تھے۔‘‘
اسی زمانے کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے:
۳؎
’’مسلمانو!وہ زمانہ یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اورملک میں بہت کمزور سمجھے جاتے تھے اورتمہیں یہ خوف لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں اچک کر تباہ کردیں۔ پھر خدانے تمہیں پناہ دی اوراپنی نصرت سے تمہاری تائید فرمائی اورتمہارے لئے پاکیزہ رزق کے دروازے کھولے۔پس تمہیں شکرگزارہوکر رہنا چاہئے۔‘‘
یہ بیرونی خطرات کا حال تھااورخود مدینہ کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک ایک معتدبہ حصہ اوس وخزرج کاشرک پرقائم تھا اورگووہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے،لیکن ان حالات میں ایک مشرک کاکیا اعتماد کیا جاسکتا تھا۔پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو بظاہر اسلام لے آئے تھے مگر درپردہ وہ اسلام کے دشمن تھے اورمدینہ کے اندر ان کا وجود خطرناک احتمالات پیدا کرتا تھا۔تیسرے درجہ پر یہود تھے جن کے ساتھ گو ایک معاہدہ ہوچکا تھامگران یہود کے نزدیک معاہدہ کی کوئی قیمت نہ تھی۔غرض اس طرح خود مدینہ کے اندر ایسا مواد موجود تھا جومسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرۂ بارود سے کم نہ تھااورقبائل عرب کی ذرا سی چنگاری اس بارود کو آگ لگانے اورمسلمانانِ مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کے لئے کافی تھی۔ اس نازک وقت میں جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرخدا کی وحی نازل ہوئی کہ اب تمہیں بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار استعمال کرنی چاہئے جوتمہارے خلاف تلوار لے کر سراسرظلم وتعدی سے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اورجہاد بالسیف کااعلان ہوگیا۔
اس وقت لڑائی کے قابل مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی اوران چند سو نفوس میں بھی کثرت ان لوگوں کی تھی جو سخت درجہ کمزوری اورغربت کی حالت میں تھے اور بعض کوتو آئے دن فاقے کی نوبت رہتی تھی اوران میں سے بہت کم ایسے تھے جواپنے لئے لڑائی کامعمولی سامان تک مہیا کرسکتے تھے۔دوسری طرف فریق مقابل کایہ حال تھا کہ مذہبی لحاظ سے تو بلااستثناء سارا ملک دشمن تھا۔عملاًبھی قریش کے علاوہ جن کی تعداد ہزارہا نفوس پرمشتمل تھی اورجو دولت وثروت اورسامانِ حرب میں مسلمانوں سے کئی درجہ زیادہ مضبوط تھے بہت سے دوسرے قبائل عرب قریش کے پشت پناہ بن گئے تھے اوران خطرات کی وجہ سے مسلمانوں کوراتوں کونیند نہیں آتی تھی۔ایسی نازک حالت میں خدا کایہ حکم نازل ہوا کہ اے مسلمانو!اب تم بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہو۔اس جہاد کی غرض وغایت کے متعلق کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔کیونکہ ایسی حالت میں صرف وہی شخص میدان میں نکل سکتا ہے جودوباتوں میں سے ایک کا ارادہ کرچکا ہو یا یہ کہ اب میں نے مرنا تو ہے ہی کیوں نہ مردوں کی طرح میدان میںجان دوں اوریا یہ کہ اب مرنے سے بچنے کا اگر کوئی امکانی ذریعہ ہوسکتا ہے توصرف یہ کہ تلوار لے کر میدان میں نکل جائوںاورپھر’’ہرچہ باداباد‘‘۔مسلمانوں کی ابتدائی لڑائیاں اسی آخر الذکر عزم کے ماتحت تھیں مگر باوجوداس خدائی حکم اور مسلمانوں کے اس اضطراری عزم کے اس وقت بہت سے کمزوردل مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ لڑائی کے خیال سے ان کے دل بیٹھے جاتے تھے۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱؎
یعنی جب مسلمانوں پر جہاد فرض کیا گیاتوان میں سے ایک گروہ کفار سے اتنا ڈرتا تھا کہ خدا کے ڈر سے بھی ان کا ڈر بڑھا ہوا تھا اوریہ لوگ کہتے تھے کہ اے رب ہمارے تو نے ابھی سے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا اور کیوں ہمیں تھوڑی دیر اور مہلت نہ دی۔‘‘
پھر فرماتا ہے:
۲؎
’’یعنی اے مسلمانو! ہم جانتے ہیں کہ جہاد بالسیف تم پر ایسے وقت میں فرض کیا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے ایک مشکل اورتکلیف دہ کام ہے مگر یاد رکھو ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اپنے لئے موجب تکلیف سمجھو مگر دراصل وہ اچھی ہو۔ یاتم ایک چیز کو اپنے لئے اچھا سمجھو مگر دراصل وہ بُری ہواوربیشک اللہ اس بات کو جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔‘‘
جہاد کے متعلق پہلی قرآنی آیت
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ۱۲صفر۲ہجری۳؎ مطابق
۱۵؍ اگست ۶۲۳ء ۴؎ کونازل ہوئی جبکہ آپؐ کو مدینہ میں تشریف لائے قریباًایک سال کاعرصہ گزرا تھا اوروہ یہ آیت ہے:
۵؎
’’اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی مسلمانوں کو جن کے خلاف کفار نے تلوار اٹھائی ہے۔کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اورضرور اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پرقادر ہے۔وہ ظلم کے ساتھ اپنے گھروں سے نکالے گئے صرف اس بناء پر کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اوراگر اللہ تعالیٰ نہ روکے (دفاعی جنگ کی اجازت دے کر)ایک قوم کو دوسری قوم کے خلاف تویقینا راہبوں کے صومعے اور عیسائیوں کے گرجے اوریہود کے معابداورمسلمانوں کی مسجدیں جن میں کثرت کے ساتھ خدا کا نام لیا جاتا ہے ایک دوسرے کے ہاتھ سے تباہ وبرباد کردی جاویں اوراللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ قوی اور غالب خدا ہے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ جس وضاحت اورصفائی کے ساتھ ابتدائی اسلامی جنگوں کی غرض وغایت اور اس وقت کے مسلمانوں کی حالت کوظاہر کررہے ہیں وہ کسی تفسیر کی محتاج نہیں ہے اوراگر غور سے دیکھا جاوے تواس آیت سے چار باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ اس جنگ میں ابتداء کفار کی طرف سے تھی جیسا کہ ’’ یُقَاتَلُوْنَ‘‘کے لفظ سے ظاہر ہے۔دوسرے یہ کہ کفار مسلمانوںپر سخت ظلم کیا کرتے تھے اوران کے یہی مظالم جنگ کاباعث تھے جیسا کہ ’’بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔تیسرے یہ کہ کفار کی غرض یہ تھی کہ دین اسلام کو تلوار کے زور سے نیست ونابودکردیں جیسا کہ ’’لَھُدِّمَتْ‘‘کے لفظ میں اشارہ ہے۔چوتھے یہ کہ مسلمانوں کے اعلان جنگ کی غرض خود حفاظتی اور دفاع تھی جیسا کہ ’’لَوْلَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ‘‘کے لفظ سے پایا جاتا ہے۔الغرض یہ آیت کریمہ جو جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت ہے کمال صفائی کے ساتھ یہ بتار ہی ہے کہ ان جنگوں میں ابتداء کفار کی طرف سے تھی جو اسلام کوبزورمٹانا چاہتے تھے اورمسلمان مظلوم تھے اورانہوں نے محض خود حفاظتی اوردفاع میں تلوار اٹھائی تھی۔میںسمجھتا ہوں کہ مخالفین اسلام کی طرف سے جہاد بالسیف کے متعلق جتنے بھی اعتراض ہوئے ہیں ان کے جواب کے لئے یہی ایک آیت کافی ہے اگر کوئی سمجھے۔
قرآن سب سے زیادہ صحیح تاریخی شہادت ہے
اس جگہ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ قرآن توخود مسلمانوں کی اپنی
مذہبی کتاب ہے اس کی شہادت کوکس طرح یہ رتبہ دیا جاسکتا ہے کہ اس پر ایک اہم تاریخی واقعہ کی بنیاد رکھی جاوے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا شبہ صرف اس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جوفن تاریخ اوراسلامی لٹریچر سے قطعاًناواقف ہو۔قرآن کریم کاتو وہ مرتبہ ہے کہ جس کے مقابل میں اسلامی تاریخ کاکوئی دوسرا ریکارڈ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔بھلا حدیث وتاریخ کی روایت کوباوجود محدثین اورمؤرخین کی اتنی چھان بین کے قرآن کے مقابلہ میں کیا وزن حاصل ہوسکتا ہے؟یہ صرف خوش عقیدگی کادعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک بیّن صداقت ہے،جس کو دوست ودشمن نے تسلیم کیا ہے۔بات یہ ہے کہ یہاں کسی مذہبی مسئلہ کا سوال نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم یہ کہہ کر قرآن کے خیال کورد کردے کہ میںقرآنی تعلیم کوخدا کی طرف سے نہیں مانتا۔بلکہ یہاں تاریخی شہادت کاسوال ہے اوریہ مسلّم ہے کہ تاریخی شہادت سب سے زیادہ صحیح اورسب سے زیادہ مستند وہی ہوتی ہے جواس وقت کی ہو جبکہ کوئی واقعہ ہوا ہے اوران لوگوں کی ہو جن کے سامنے وہ واقع ہوا ہے اوروہ اسی وقت ضبط تحریرمیں آجاوے اورپھر اس کے بعدبھی ہرقسم کی تحریف سے پاک رہے اوراس جہت سے جو مرتبہ قرآن کریم کوحاصل ہے وہ ہرگز کسی اورکتاب کو حاصل نہیں ہے۔قرآن کریم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی نہ صرف ضبط تحریر میں آگیاتھابلکہ بہت سے حفّاظ نے اس کو اپنے ذہنوں میں لفظ بلفظ محفوظ بھی کرلیا تھا اوراس کے بعد وہ آج تک ہرقسم کی تحریف سے پاک رہا ہے اوراب بھی بعینہٖ اسی شکل وصورت میں ہے جیسا کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورصحابہؓ کے زمانہ میںتھا۔چونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے،میں اس بحث میں زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ورنہ میں بتاتا کہ قرآن کی صحت کامرتبہ کیسا عالی شان ہے اوراس کے مقابلہ میں کسی اورسند کولاناصداقت کی ہتک کرنا ہے۔صرف بطورمثال کے دو شہادتیں پیش کرتا ہوں اوروہ بھی ان لوگوں کی جو مخالفین اسلام میںسے ہیں۔وَالْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ۔
سرولیم میور جو ایک بہت مشہور انگریز مؤرخ گزرے ہیں اورجن کی کتاب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح میںغالباًسب مغربی کتب سے زیادہ متداول ہے وہ اپنی کتاب’’لائف آف محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس بات کی مضبوط ترین شہادت موجود ہے کہ مسلمانوں کاقرآن محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے وقت سے لے کر آج تک غیرمحرّف ومبدّل رہا ہے۔‘‘
پھرلکھتے ہیں:
مسلمانوں کے قرآن کا ہماری اناجیل کے ساتھ مقابلہ کرنا جو بدقسمتی سے بہت کچھ محرّف ومبدّل ہوچکی ہیں دو ایسی چیزوں کامقابلہ کرنا جن کوایک دوسرے سے کوئی بھی مناسبت نہیں۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:
اس بات کی پوری پوری اندرونی اوربیرونی ضمانت موجود ہے کہ قرآن اب بھی اسی صورت وشکل میں ہے جیسا کہ وہ محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے وقت میں تھا۔‘‘ ۱؎
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سرولیم میور اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہیںبلکہ انہوں نے اپنی کتاب میں جابجا اسلام اوربانی ٔاسلام پرسخت حملے کئے ہیں مگر قرآن کی وہ ارفع شان ہے جسے کسی کا تعصب گرد آلود نہیں کرسکتا۔پھر نولڈیکی جوجرمنی کاایک نہایت مشہورعیسائی مستشرق گزرا ہے اور جو اس فن میں گویا استاد مانا گیا ہے قرآن کے متعلق لکھتا ہے کہ:
’’آج کا قرآن بعینہٖ وہی ہے جوصحابہؓ کے وقت میں تھا۔‘‘
پھرلکھتا ہے کہ:
’’یوروپین علماء کی یہ کوشش کہ قرآن میں کوئی تحریف ثابت ہوسکے قطعاً ناکام رہی ہے۔‘‘ ۲؎
یہ تو قرآن کی عام صحت کے متعلق اہل مغرب کی شہادت ہے۔ پھر خاص تاریخی نقطہ نگاہ سے سرولیم میور لکھتے ہیں کہ:
’’اسلام اور بانی ٔاسلام کے متعلق تاریخی تحقیقات کرنے کے لئے قرآن ایک بنیادی پتھر ہے جس سے ہرواقعہ کی صحت جانچی جاسکتی ہے‘‘
پھرلکھتے ہیں:
’’نبی ٔاسلام کے سوانح کے لئے قرآن ایک یقینی کلید ہے۔‘‘ ۳؎
پھر پروفیسر نکلسن جوانگلستان کاایک مسیحی مستشرق ہے اورجس کی تصنیف’’عرب کی ادبی تاریخ‘‘بہت شائع اور متعارف ہے،اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے:
’’اسلام کی ابتدائی تاریخ کاعلم حاصل کرنے کے لئے قرآن ایک بے نظیر اورہرقسم کے شک وشبہ سے بالاکتاب ہے اوریقینا بدھ مذہب اورمسیحیت یاکسی قدیم مذہب کواس قسم کا مستند تاریخی ریکارڈ حاصل نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں اسلام کوحاصل ہے۔‘‘ ۴؎
الغرض قرآن کریم ابتدائی اسلامی تاریخ کابالکل سچا اورسب سے زیادہ مستند ریکارڈ ہے اوراس کو وہ مرتبہ حاصل ہے جوحدیث یاسیرت یاتاریخ کوحاصل نہیںہے۔پس جب قرآن کریم اپنی اس آیت میں جو سب سے پہلے جہاد بالسیف کی اجازت میں نازل ہوئی نہایت واضح اورغیر مشکوک الفاظ میںیہ شہادت دے رہا ہے کہ ابتداء کفار کی طرف سے تھی اورمسلمانوں نے محض دفاع میں تلوار اٹھائی تھی تورکیک اوربودے استدلالات کرکے مسلمانوں کی طرف سے ابتداء ہونے کا ثبوت تلاش کرنا ہرگز دیانت داری کافعل نہیں سمجھا جاسکتا۔
جہاد کے متعلق بعض دوسری قرآنی آیات
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیات بھی درج کردی جاویں جو
وقتاًفوقتاًجہاد بالسیف کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں کیونکہ ان سے ابتدائی اسلامی جنگوں کے حالات پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جوکسی دوسری جگہ میسر نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
اے مسلمانو!لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیںمگر دیکھنا زیادتی نہ کرنا کیونکہ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔اورلڑو ان کفار سے جو تم سے لڑتے ہیں جہاں بھی ان کا اورتمہارا سامنا ہو۔اورنکالو ان کو اس جگہ سے جہاں سے وہ تمہیں نکالیں۔یعنی جہاں بھی وہ تمہارے اثر کو بزور مٹانا چاہیں تم ان کا مقابلہ کرو۔اوربیشک وہ فتنہ جس کے یہ لوگ مرتکب ہورہے ہیں وہ قتل سے بھی سخت تر ہے مگر ہاں لڑائی مت کرو حرم کے علاقہ میں لیکن اگر یہ کفار خود تم سے حرم میں لڑائی کی ابتداء کریں توپھر بے شک تم بھی ان کا مقابلہ کرو۔کیونکہ ناشکرگزاروں کی یہی سزا ہے اوراگر کفار اس سے باز آجائیں تو جانو کہ اللہ بھی غفورورحیم ہے اوراے مسلمانو!تم لڑو ان کفار سے اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اوردین خدا ہی کے لئے ہوجاوے۔یعنی دین کے معاملہ میں سوائے خدا کے اور کسی کاخوف نہ رہے اورہر شخص آزادی سے اپنی ضمیر کے مطابق جودین پسند کرے وہ رکھ سکے اوراگر یہ کفار جنگ سے باز آجائیں توتم بھی فوراًرک جائو۔کیونکہ کسی کو جنگ کشی کا حق نہیں ہے مگر صرف ظالموں کے خلاف۔‘‘
یہ آیت بھی اپنے معانی میں نہایت واضح ہے اوراس سے صاف طورپر پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کاحکم صرف ان لوگوں کے خلاف دیا گیا تھا جوان سے دین کے معاملہ میں جنگ کرتے تھے اور ان کو تلوار کے زور سے ان کے دین سے پھیرنا چاہتے تھے اورنیز یہ کہ مسلمانوں کویہ بھی حکم تھا کہ اگر یہ کفار جنگ سے باز آجائیں تو تمہیں بھی چاہئے کہ فوراًرک جائواوراس آیت میں جنگ کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے اوروہ یہ کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اور مذہبی آزادی قائم ہوجاوے۔
پھرفرماتا ہے:
۱؎
’’اوراگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو اے نبی تمہیں چاہئے کہ تم بھی صلح کی طرف جھک جائو اور اللہ پر توکل کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۔ ۲؎
’’اوراگر کوئی مشرک تمہاری پناہ میں داخل ہوکر تمہارے پاس تحقیق دین کے لئے آنا چاہے تو اسے آنے دو اورپھر اپنی حفاظت میںاسے اس کی امن کی جگہ میں واپس پہنچا دو۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۳؎
’’اوروہ لوگ جوایمان تو لے آئے ہیں مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی۔یعنی وہ تمہارے مصائب میں تمہارا ہاتھ نہیں بٹاتے وہ تمہاری سیاسی دوستی کے حقدار نہیں ہیں۔البتہ اگروہ کسی دینی معاملہ میں تم سے مددمانگیں توتمہارا فرض ہے کہ تم ان کو مدد دو،لیکن ان کفار کے خلاف تمہیں مدد دینے کی اجازت نہیں ہے جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو، اور اے مومنو! ہوشیارہوکہ خداتعالیٰ تمہارے اعمال کودیکھ رہا ہے۔‘‘
۱؎
’’اور پوراکرو اپنے عہد کو کیونکہ یقینا تمہیں اپنے عہد کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۔ ۲؎
’’نہیں منع کرتا اللہ تم کو ان لوگوں سے جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملہ میں لڑائی نہیں کی اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یہ کہ تم ان سے مہربانی کاسلوک کرواور ان سے عدل اوراحسان سے پیش آئو۔بیشک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے تم کو کہ دوست بنائو ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارے خلاف دین کے معاملہ میں لڑائی کی اورتمہارے گھروں سے تمہیں نکالا یا تمہارے نکالے جانے میں اعانت کی۔ اورجو کوئی دوستی لگائے گا ایسے دشمنوں کے ساتھ تو ایسے لوگ ظالموں میں سے سمجھے جائیں گے۔‘‘
پھرفرمایا:
۳؎
’’اے مومنو!چاہئے کہ تم دنیا میں خدا کے لئے عدل وانصاف کوقائم کرو اور چاہئے کہ ہرگز نہ آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پرکہ تم اس کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش نہ آئو۔بلکہ تمہیں چاہئے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل وانصاف کامعاملہ کرو کیونکہ عدل وانصاف کرنا تقویٰ کاتقاضا ہے۔پس تم متقی بنو اوریاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
جہاد بالسیف کے متعلق بعض اصولی روایات
یہ قرآن شریف کا بیان گزرا ہے اورگوقرآن کے بیان کے بعد کسی اور بیان کی حاجت نہیں
رہتی، لیکن اس خیال سے کہ کسی شخص کویہ شبہ نہ گزرے کہ شاید عام تاریخی روایات قرآن کے مخالف ہوں اس جگہ بعض روایات بھی درج کردینی مناسب ہیں جن سے اسلام کی ابتدائی لڑائیوں پرایک اصولی روشنی پڑتی ہے۔سوروایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ:
یٰاَیُّھَا النَّاسُ لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَاسْئَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَاِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا۔ ۱؎ ’’اے مسلمانو!تمہیں چاہئے کہ دشمن کے مقابلہ کی خواہش نہ کیا کرو اورخدا سے امن وعافیت کے خواہاں رہو اوراگرتمہاری خواہش کے بغیر حالات کی مجبوری سے کسی دشمن کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہوجائے توپھر ثابت قدمی دکھائو۔‘‘
اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ کفار کی طرف سے اعلان جنگ ہوچکا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ان کا چیلنج قبول کرلیا تھا اورجنگ کاآغاز ہوچکا تھا پھر بھی مسلمانوں کویہی حکم تھا کہ وہ اس جنگ کے جزوی مقابلوں میں بھی لڑائی کی خواہش نہ کیا کریں۔ہاں البتہ اگردشمن سے مقابلہ ہوجاوے توپھر جم کر لڑیں۔
پھرروایت آتی ہے کہ:
سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ یُقَاتِلُ شُجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ رِیَائً اَیُّ ذٰلِکَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ۲؎
’’یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص ہے کہ وہ اپنی بہادری کے اظہار کے لئے جنگ کرتا ہے اورایک شخص ہے کہ وہ خاندانی یاقومی غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے اورایک شخص ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے لڑائی کرتا ہے۔ان میں سے کون سا شخص فی سبیل اللہ لڑنے والا سمجھا جاسکتا ہے۔آپؐ نے فرمایاکوئی بھی نہیں بلکہ خداکے رستے میں وہ شخص لڑنے والا سمجھا جائے گا جو اس لئے لڑتا ہے کہ جو کوشش کفار کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے دین کومغلوب کرنے کی جاری ہے اس کا قلع قمع ہواورخدا کادین کفار کی ان کوششوں کے مقابل پر غالب آجاوے۔‘‘
عَنْ بَرِیْدَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا لَقِیْتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ فَادْعُھُمْ اِلٰی ثَلٰثِ خِلَالٍ فَاِنْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ اُدْعُھُمْ اِلٰی الْاِسْلَامِ فَاِنْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلَی التَّحُوُلِ مِنْ دَارِھِمْ اِلٰی دَارِالْمُھَاجِرِیْنَ وَاخْبِرْھُمْ اَنَّھُمْ اِنْ فَعَلُوْا ذَالِکَ فَلَھُمْ مَالِلْمُھَاجِرِیْنَ وَعَلَیْھِمْ مَاعَلَیْھِمْ فَاِنْ اَبَوا اَنْ یَتَحَوَّلُوْا مِنْھَا فَاخْبِرْھُمْ اَنَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ کَاَعْرَابِ الْمُسْلِمِیْنَ یَجْرِیْ عَلَیْھِمْ حُکْمُ اللّٰہِ تَعَالٰی الَّذِیْ یَجْرِیْ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ وَلاَ یَکُوْنُ لَھُمْ فِی الْغَنِیْمَۃِ وَالْفَیئِ شَیٌٔ اِلاَّ اَنْ یُجَاھِدُوْا مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِنْ ھُمْ اَبَوْا فَسَلْھُمُ الْجِزْیَۃَ فَاِنْ ھُمْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ فَاِنْ اَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَقَاتِلْھُمْ۔ ۱؎
’’یعنی بریدۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب کوئی فوجی دستہ روانہ کرتے تھے تواس کے امیر کویہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جب تم اپنے دشمنوں کے سامنے ہو یعنی اس قوم سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہو جاوے جن سے تمہاری لڑائی چھڑی ہوئی ہے تو لڑائی شروع کرنے سے پہلے انہیں تین باتوں کی دعوت دیا کرو۔اگران تینوں میں سے وہ کوئی ایک بھی مان لیں تو پھران سے مت لڑو۔سب سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو۔اگر وہ مان لیں توان کے اسلام کو قبول کرو اوران سے اپنا ہاتھ کھینچ لو۔ پھر اس کے بعد تم ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی تحریک کرواوران سے کہو کہ اگر وہ ہجرت کریںگے توان کو مہاجرین کے حقوق دئے جائیںگے اورمہاجرین والی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی۔ اگر وہ ہجرت پر رضامند نہ ہوں تو پھر ان سے کہہ دو کہ وہ اسلام میں تو داخل ہوجائیں گے لیکن مہاجرین کے حقوق ان کونہیں ملیں گے کیونکہ وہ صرف جہاد فی سبیل اللہ سے حاصل ہوتے ہیں۔اوراگر وہ تمہاری دعوت اسلام کوہی رد کردیں توپھر ان سے کہو کہ ٹیکس دینا قبول کرکے اسلامی حکومت کے ماتحت آجائو۔اگروہ یہ صورت مان لیں تو پھربھی ان سے لڑائی مت کرو،لیکن اگر وہ انکار کریں تو پھر خدا کانام لے کر ان سے لڑو۔‘‘
پھرروایت آتی ہے کہ:
عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرْیَۃٍ فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَغَارَ اِسْتَحْثَثْتُ فَرَسِیْ فَسَبِقْتُ اَصْحَابِیْ فَتَلَقَّانِیْ اَھْلُ الْحَیِّ بِالرَّنِیْنَ فَقُلْتُ لَھُمْ قُوْلُوْا لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ فَقَالُوْھَا فَلاَ مَنِیْ اَصْحَابِیْ فَقَالُوْا حَرَّمْتَنَا الْغَنِیْمَۃَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَخْبَرُوْہُ بِالَّذِیْ صَنَعْتُ فَدَعَانِیْ فَحَسَنَ لِیْ مَا صَنَعْتُ ثُمَّ قَالَ لِیْ اَمَا اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْکَتَبَ لَکَ بِکُلِّ اِنْسَانٍ مِنْھُمْ کَذَا وَکَذَا مِنَ الْاَجْرِ وَقَالَ اَمَا اِنِّی سَاَکْتُبُ لَکَ الْوِصَائَۃَ بَعْدِیْ فَفَعَلَ وَخَتَمَ عَلَیْہِ وَدَفَعَہٗ اِلَیَّ۔ ۱؎
’’یعنی حارث بن مسلم بن حارث اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میںبھیجا۔جب ہم منزل مقصود پرپہنچے تو میں نے اپنے گھوڑے کوایڑ لگا کراپنے آپ کو ساتھیوں سے آگے کرلیا۔جب قبیلہ کے لوگ مجھے ملے تووہ اچانک حملہ کی وجہ سے ڈر کر عاجزی کرنے لگ گئے۔جس پر میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔اس پر میرے بعض کمزور ساتھیوں نے مجھے ملامت کی کہ تم نے ہمیں غنیمت سے محروم کردیا ہے۔پھر جب ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے تو لوگوں نے اس واقعہ کی آپؐ کو اطلاع دی۔ آپؐنے مجھے بلایا اورمیرے فعل کی تعریف کی اورفرمایا کہ تم نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اورپھر کہا کہ خدا نے تمہارے لئے اس قبیلہ کے ہر آدمی کے بدلنے میں اتنا اجرمقرر کیا ہے اورجوشِ مسرت میںفرمایا کہ آئو میں تمہیں ایک پروانہ خوشنودی لکھ دیتا ہوں تاکہ ہمیشہ کے لئے میری یہ خوشنودی تمہارے پاس رہے۔ چنانچہ آپؐ نے مجھے ایک پروانہ لکھ دیا اوراس پر اپنی مہر ثبت فرمائی۔‘‘
پھرروایت آتی ہے کہ:
عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْاَنْصَارِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَاَصَابَ النَّاسُ حَاجَۃً شَدِیْدَۃً وَجَھْدًا فَاَصَابُوْا غَنَمًا فَانْتَھَبُوْھَا فَاِنَّ قُدُوْرُنَا لَتُغْلِیْ اِذْجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِیْ بِاِکْفَائِ الْقُدُوْرِ بِقَوْسِہٖ ثُمَّ جَعَلَ یَرْمِلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ النَّھْبَۃَ لَیْسَتْ بِاَحَلَّ مِنَ الْمَیْتَۃِ۔ ۲؎
یعنی’’ عاصم بن کلیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے توایک موقع پر لوگوں کو خطرناک بھوک لگی اوروہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے اور(ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا)جس پر انہوں نے ایک بکریوں کے گلہ میں سے چند بکریاں پکڑ لیں اورانہیں ذبح کرکے پکانا شروع کردیا۔ہماری ہنڈیاں اس گوشت سے ابل رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوپر سے تشریف لے آئے اورآپؐ نے آتے ہی اپنی کمان سے ہماری ہنڈیوں کوالٹ دیااورغصہ میںگوشت کے ٹکڑوں کومٹی میں مسلنے لگ گئے اور فرمایا کہ لوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ہے۔‘‘
یہ ان لوگوں کا قصہ ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ان کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میںسمجھتا ہوں کہ اگر آج کسی یورپین فوج کواس طرح کی حالت پیش آئے کہ ان کے پاس زادراہ ختم ہوگیا ہواورفوجی لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں توکسی چرتے ہوئے گلہ کی بکریوں پرقبضہ کرلینا تو معمولی بات ہے وہ نہ معلوم کیا کچھ جائز قرار دے لیں۔
پھر روایت آتی ہے کہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَارَسُوْْلَ اللّٰہِ رَجُلٌ یُرِیْدُالجِھَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَھُوَ یَبْتَغِیْ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا فَقَالَ لَااَجْرَلَہٗ فَاَعَارَلَہٗ ثَلاَ ثًا کُلُّ ذَالِکَ یَقُوْلُ لَااَجْرَلَہٗ۔ ۱؎
’’یعنی ابوہرہرہؓروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ایک شخص ہے کہ اس کی اصل نیت توجہاد فی سبیل اللہ کی ہے،لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ جنگ میں کچھ مال ومتاع بھی مل رہے گا تواس میں کوئی حرج تونہیں ہے۔ آپؐنے فرمایا۔ایسے شخص کے لئے ہرگز کوئی ثواب نہیں ہے۔اس شخص نے حیران ہوکر تین دفعہ اپنا سوال دوہرایا۔مگر ہر دفعہ آپؐ نے یہی جواب دیا کہ اس کے لئے ہرگز کوئی ثواب نہیں۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کرنے والے کی نیت خالصۃً دینی ہونی چاہئے اوراگر حفاظت دین کے علاوہ کوئی ذراساخیال بھی اس کے دل میں پیدا ہوتو وہ ثواب سے محروم ہوجاتا ہے اور غنیمت اوردنیوی مال ومتاع کی امید رکھنا مجاہد کے لئے قطعی حرام ہے۔
پھر روایت آتی ہے کہ:
مَامِنْ غَازِیَۃٍ تَغْزُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُصِیْبُوْنَ غَنِیْمَۃً اِلاَّ تَعَجَّلُوْا ثُلَثَی اَجْرِھِمْ مِنَ الْاٰخِرَۃِ وَیَبْقٰی لَھُمُ الثُّلُثُ وَاِنْ لَمْ یُصِیْبُوْا غَنِیْمَۃً تَمَّ لَھُمْ اَجْرُھُمْ۔ ۱؎
یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جومجاہدین خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے نکلتے ہیں اوران کو لڑائی میں غنیمت کامال ہاتھ آجاتا ہے توان کا دوتہائی ثواب آخرت کاکم ہوجائے گا اورصرف ایک تہائی ثواب ملے گا۔لیکن اگر انہیں کوئی غنیمت ہاتھ نہ آئے توان کو پورا پوراثواب ملے گا۔‘‘
یہ حدیث گزشتہ حدیث کی نسبت زیادہ واضح ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لڑائی میں خالصۃًجہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے شامل ہوتا ہے اوراس میں کوئی ملونی دنیا کی نہیں ہوتی اورپھر اسے بغیرخیال اورامیدکے غنیمت کامال بھی مل جاتا ہے توپھر بھی چونکہ اسے دنیا کے اموال سے حصہ مل گیا ہے اس لئے اس کا آخرت کااجرکم ہوجائے گا۔لیکن جو شخص خالص جہادکی نیت سے نکلتا ہے اوراسے غنیمت کامال مطلقاًنہیں ملتا وہ پورے پورے ثواب کاحق دار ہوگا۔گویا جہاں گزشتہ حدیث صحابہ کے دل میں دنیا کے اموال سے محض عدم رغبت پیدا کرتی تھی وہاں یہ حدیث دوری اور ایک قسم کی نفرت پیدا کرتی ہے اوراس تعلیم کے ہوتے ہوئے ایک سچا مسلمان نہ صرف یہ کہ غنیمت وغیرہ کاخیال تک دل میں نہیں لائے گا بلکہ غنیمت کے مواقع سے بھی حتی الوسع پرہیزکرے گا اور اس کی یہی خواہش اورکوشش ہوگی کہ جس طرح بھی ہو غنیمت اسے نہ ملے تاکہ جہاد کے ثواب میں کمی نہ آئے۔چنانچہ کمزور لوگوں کوالگ رکھ کر جس کا وجود کم وبیش ہرقوم میں پایا جاتا ہے مگر جو یقینا صحابہ کی جماعت میںدنیا کی ہر قوم سے کمتر تعداد میںتھے صحابہ اس حقیقت کوخوب سمجھتے تھے اوراس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔چنانچہ ابودائودکی روایت میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح مسلم بن حارث نے ایک دشمن قبیلہ پر حملہ کرکے غنیمت حاصل کرنے کی بجائے اسلام کی تحریک کرکے مسلمان بنالیا اورخود غنیمت سے محروم ہوگیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے فعل کی بہت تعریف فرمائی اوراسے اپنی طرف سے ایک پروانہ خوشنودی عطا فرمایا۔
پھرابودائود ہی کی روایت ہے کہ جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک غزوہ میں مدینہ سے نکلنے لگے توایک بوڑھے انصاری نے ۱؎ ایک غریب صحابی واثلہ بن اسقع کواپنی طرف سے سواری وغیرہ کاانتظام کردیا۔جہاد کے بعدواثلہ بن اسقع،کعب بن عجرۃکے پاس آئے اورکہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ یہ اونٹنیاں غنیمت میں دی ہیں تم اپنا حصہ لے لو۔کعب نے کہا۔بھتیجے!خدا تمہیں یہ مال مبارک کرے۔میری نیت غنیمت کی نہ تھی بلکہ ثواب کی تھی اورحصہ لینے سے انکار کردیا۔ ۲؎
پھرنسائی میں ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرایک اعرابی ایمان لایا اور ایک غزوہ میں ساتھ ہولیا۔جب کچھ مال غنیمت ملاتوآپ نے اس کا حصہ بھی نکالا۔اسے معلوم ہوا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ!آپؐ نے میراحصہ نکالا ہے۔خدا کی قسم میں تو اس خیال سے مسلمان نہیں ہوا تھا ۔میری تو یہ نیت تھی کہ مجھے خدا کی راہ میں(حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)اس جگہ تیرلگے اورمیں جنت میں جائوں۔آپؐ نے فرمایا۔اگریہ شخص سچی خواہش کا اظہار کرتا ہے توخدااسے پورا کرے گا۔تھوڑی دیربعد لڑائی ہوئی تو وہ شخص وہیں حلق میں تیرکھا کر شہیدہوا۔جب صحابہؓ اسے آپؐکے سامنے اٹھا کرلائے توآپؐ نے پوچھا کیا یہ وہی ہے۔صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔آپ ؐ نے فرمایا!’’خدا نے اس کی آرزو کوپوراکردیا‘‘۔پھرآپؐ نے اس کے کفن کے لئے اپنا جبہ عطا کیا اوراس کے لئے خاص طورپر دعا فرمائی۔ ۳؎
افسوس۔صدافسوس! ان شہادتوں کے ہوتے ہوئے بعض لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ پر یہ الزام لگاتے ہوئے خدا کا خوف نہیں کرتے کہ ان لڑائیوں میں ان کی غرض لوٹ ماراوردنیا کمانا تھی۔ ۴؎
عرب میں جنگ کاطریق
کفار اورمسلمانوں کی لڑائیوں کواچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ عرب میں جنگوں کاطریق دورنگ رکھتا تھا،جسے انگریزی
میں فیوڈ(FEUD )کہتے ہیں۔یعنی جب کسی وجہ سے عرب کے دو قبائل میں جنگ چھڑتی تھی تو پھرجب تک ان میں باقاعدہ صلح نہ ہوجاتی تھی وہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں سمجھے جاتے تھے اورموقع پاکر وقفہ وقفہ سے آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ حتّٰی کہ بعض اوقات یہ جنگیں بڑے بڑے لمبے عرصہ تک جاری رہتی تھیں۔چنانچہ جنگ بسوس جس کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے اسی طرح وقفہ وقفہ سے چالیس سال تک جاری رہی تھی اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض جنگیں سو سو سال تک بھی جاری رہیں مگر مسلسل لڑتے رہنے کاعرب میں دستور نہیں تھاجس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اول توچونکہ قبیلہ کا ہر شخص سپاہی ہوتا تھااورکوئی باقاعدہ الگ فوج نہیں ہوتی تھی اس لئے قبائل عرب اپنی جنگوں کو مسلسل طورپر جاری نہیں رکھ سکتے تھے اوراپنے دوسرے کاروبار کی وجہ سے اس بات پر مجبور تھے کہ وقفہ دے کر لڑائی کریں۔دوسرے چونکہ جنگ میں ہرشخص اپنا اپنا خرچ خود برداشت کرتا تھااوراس غرض کے لئے عموماًکوئی قومی خزانہ نہیں ہوتا تھااس لئے یہ انفرادی مالی بوجھ بھی عربوں کو مجبور کرتا تھا کہ دم لے لے کر میدان میں آئیں۔اس غیر مسلسل جنگ کوجاری رکھنے کے لئے بعض اوقات یہ طریق بھی اختیار کیا جاتا تھا کہ جب ایک لڑائی ہوتی تھی تواسی میں آئندہ کے لئے وعدہ ہوجاتا تھا کہ اب فلاں وقت فلاں جگہ پھر ملیں گے اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا تھا۔چنانچہ احد کے موقع پر ابوسفیان نے اسی قسم کا وعدہ مسلمانوں سے کیا تھاجس کے نتیجہ میں غزوہ بدرالموعدہ وقوع میں آیا۔الغرض عربوں میں مسلسل لڑتے رہنے کا طریق نہیں تھابلکہ وہ وقفہ ڈال ڈال کر لڑتے تھے اوردرمیانی وقفوں کولڑائی کی تیاری اوراپنے دوسرے کاروبار میں صرف کرتے تھے اوران کی یہ ساری لڑائیاں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہوتی تھیں۔یہ ایک بڑا عجیب نکتہ ہے جسے نظر انداز کردینے کی وجہ سے بعض مؤرخین نے ٹھوکر کھائی ہے۔کیونکہ انہوں نے قریش اورمسلمانوں کی باہمی لڑائیوں میں سے ہر لڑائی کے لئے الگ الگ وجوہات تلاش کرنی چاہی ہیں۔حالانکہ حق یہ ہے کہ جب قریش اورمسلمانوں کے درمیان ایک دفعہ جنگ شروع ہوگیا تو پھراس وقت تک کہ ایک باقاعدہ معاہدہ کے ذریعہ سے ان کے درمیان صلح نہیں ہوگئی۔یعنی صلح حدیبیہ تک جو ہجرت کے چھٹے سال ہوئی یہ دونوں قومیں حالت جنگ میں تھیں اوراس عرصہ میں ان کے درمیان جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں وہ اسی جنگ کے مختلف کارنامے تھے اوران کے لئے الگ الگ وجوہات تلاش کرنا سخت غلطی ہے۔ہاں بعض اوقات بے شک ایسا ہوا ہے کہ کسی درمیانی لڑائی کے لئے کوئی الگ تحریکی باعث بھی پیدا ہوگیا ہے،لیکن اصل سبب وہی مستقل پہلا جھگڑا رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات عرب کے جنگوں میں یہ بھی ہوتا تھا (اوردراصل یہ بات توآج کل کے جنگوں میں بھی پائی جاتی ہے)کہ جنگ کرنے والے قبائل کے ساتھ دوسرے قبائل بھی اپنے اپنے قومی مصالح کے ماتحت جنگ میں شامل ہوجاتے تھے مثلاًاگر الف اورب میں جنگ شروع ہوئی توعلاوہ اس کے الف کے حلیف الف کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اورب کے حلیف ب کے ساتھ۔ایسا بھی ہوتا تھا کہ دوران جنگ میں کوئی قبیلہ کسی وجہ سے الف کے ساتھ مل جاتا تھا اورکوئی دوسرا قبیلہ ب کے ساتھ ہوجاتا تھا اوراس طرح جنگ کادائرہ وسیع ہوتا چلاجاتا تھا۔قریباًقریباًیہی صورت اسلامی جنگوں میں پیش آئی۔یعنی ابتدائً مسلمانوںکوقریش مکہ کی طرف سے جنگ کاالٹی میٹم ملا جسے بالآخر انہوں نے مجبور ہوکر قبول کیا،لیکن بعد میں آہستہ آہستہ بہت سے دوسرے قبائل بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آتے گئے۔مثلاً قریش مکہ نے کسی دوسرے قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھ گانٹھ لیا تو مسلمانوں کی اس کے ساتھ بھی جنگ چھڑ گئی یاقریش کے نمونہ کودیکھ کر کسی دوسرے قبیلہ نے خود بخود مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کردی تواس سے بھی جنگ کاآغاز ہوگیا یا قریش کی ساز باز سے کسی حلیف قوم نے مسلمانوں سے دغا بازی کی تو اس طرح اس کے ساتھ بھی مسلمانوں کی لڑائی ہوگئی۔وغیر ذالک۔الغرض جب جنگ کی آگ ایک دفعہ مشتعل ہوگئی تو اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا۔ حتّٰی کہ ایک تھوڑے عرصہ میں ہی عرب کی سرزمین کے بیشتر حصہ سے اس آگ کے شعلے بلند ہونے لگ گئے۔
اسلامی جنگوں کے اقسام
ابتدائی اسلامی جنگوں کے متعلق پوری بصیرت حاصل کرنے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ مندرجہ بالاقرآنی آیات اوردیگر تاریخی
روایات میںبھی اشارے کئے گئے ہیں یہ اسلامی جنگیں سب ایک قسم کی نہ تھیں بلکہ مختلف قسم کے اسباب کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں مثلاًبعض لڑائیاں دفاع اورخود حفاظتی کی غرض سے تھیں یعنی ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشاء یہ تھا کہ اسلام اورمسلمانوں کوکفار کے مظالم اورتباہی سے بچایا جاوے۔بعض قیام امن کے لئے تھیںیعنی ان کا مقصد ملک میں فتنہ کودور کرنااورامن کوقائم کرنا تھا۔بعض مذہبی آزادی کے قائم کرنے کی غرض سے تھیں۔بعض تعزیری رنگ رکھتی تھیںیعنی ان کی غرض وغایت کسی قوم یاقبیلہ یاگروہ کوان کے کسی خطرناک جرم یاظلم وستم یادغابازی کی سزادینا تھی۔بعض سیاسی تھیں یعنی ان کا مقصد کسی معاہد قبیلہ کی اعانت یااس قسم کاکوئی اورسیاسی تقاضا تھا اوربعض ایسی بھی تھیںجن میںان اغراض ومقاصد میںسے ایک سے زیادہ اغراض مدّنظر تھیں مثلاًوہ دفاعی بھی تھیں اورتعزیری بھی یاسیاسی بھی تھیں اور قیام امن کی غرض بھی رکھتی تھیں۔وغیرذالک۔یہ ایک بڑا ضروری علم ہے جس کے نہ جاننے کی وجہ سے بعض مؤرخین نے ساری لڑائیوں کوایک ہی غرض کے ماتحت لانے کی کوشش کی ہے اور پھر ٹھوکر کھائی ہے۔اس جگہ یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ اوپر کی بحث میں ہم نے عام طورپر صرف دفاع اور خود حفاظتی کی غرض کاذکر کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کی ابتداء زیادہ تراسی غرض کے ماتحت ہوئی تھی جیسا کہ ابتدائی قرآنی آیت سے ظاہر ہے اورباقی اغراض بعد میں آہستہ آہستہ حالات کے ماتحت پیدا ہوتی گئیں۔
اسلامی آداب جہاد
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مغازی کابیان شروع کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ مختصر طورپر وہ آداب بھی بیان کردئے جائیں جو
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماً جہاد میںملحوظ رکھتے تھے اورجن کی صحابہ کوتاکید کی جاتی تھی۔یہ آداب عموماًصحاح ستہ کی کتب الجہاد والیسرو المغازی سے ماخوذ ہیں۔اوراس لئے میںنے صرف ان باتوں کاحوالہ درج کیا ہے جویاتو بہت اہم ہیںاوریانسبتاًکم معروف ہیں اورباقی کے حوالے کی ضرورت نہیںسمجھی ۔سوجاننا چاہئے کہ:
ا- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سفروں کو حتّی الوسع جمعرات کے دن شروع کرنا پسند فرماتے تھے اورگھر سے عموماًصبح کے وقت نکلتے تھے۔
۲- روانگی سے قبل دعاکرنا آپؐ کی سنت تھی۔
۳- دشمن کی حرکات وسکنات کاعلم حاصل کرنے کے لئے آپؐ خبررسانی کاپختہ انتظام رکھتے تھے اور عام طورپر خبررسانوں کویہ ہدایت ہوتی تھی کہ جب کوئی خبر لائیں توعام مجلس میں اس کا ذکر نہ کریںاوراگرکوئی تشویشناک خبرہوتی تھی توآپؐ پھرخود بھی اس کا عام اظہار نہیں فرماتے تھے۔البتہ خاص خاص صحابہ کواس کی اطلاع دے دیتے تھے۔ ۱؎
۴- جب آپؐکسی جنگی غرض سے نکلتے تھے توآپؐ کایہ عام طریق تھاکہ اپنی منزل مقصودکاعلم نہیں دیتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ اگر مثلاًجنوب کی طرف جانا ہوتا تھاتوچند میل شمال کی طرف جاکر پھر چکر کاٹ کرجنوب کی طرف گھوم جاتے تھے۔ ۲؎
۵- آپؐکی عادت تھی کہ شہر سے تھوڑی دورنکل کر فوج کاجائزہ لیا کرتے تھے اورسب انتظام ٹھیک ٹھاک کرنے کے بعد آگے روانہ ہوتے تھے۔
۶- جب کوئی اہم مہم پیش آتی تھی توآپؐ اس کے لئے صحابہؓ میں تحریک فرماتے تھے پھرجو لوگ اس کے لئے تیار ہوتے تھے وہ اپنا اپنا سامان جنگ اورسواری وغیرہ کاانتظام خود کرتے تھے۔البتہ کسی ذی ثروت صحابی کومقدرت ہوتی تھی تووہ دوسروں کی امداد بھی کردیتاتھااور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماًاس قسم کی امداد کی تحریک فرمایا کرتے تھے اوربعض اوقات جب گنجائش ہوتی تھی توخود بھی امداد فرماتے تھے۔
۷- چھوٹے بچے یعنی پندرہ سال سے کم عمر کے بچے عموماًجنگ میںساتھ نہیں لئے جاتے تھے اور جو بچے اس شوق میںساتھ ہولیتے تھے انہیں جائزہ کے وقت جوعموماًشہر سے باہرنکل کرلیا جاتا تھاواپس کردیا جاتا تھا۔
۸- جنگ میں عموماًچند ایک عورتیں بھی ساتھ جاتی تھیں جوکھانے پینے کا انتظام کرنے کے علاوہ تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کاکام بھی کرتی تھیں اورلڑائی کے وقت فوجیوں کوپانی بھی لاکر دیتی تھیں۔بعض خاص خاص موقعوں پر مسلمان عورتوں نے کفار کے خلاف تلوار بھی چلائی ہے۔
۹- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ طریق تھا کہ سفر میں اپنی ازواج میں سے کسی ایک کویا ایک سے زیادہ کوجیسا کہ موقع ہواپنے ساتھ رکھتے تھے اوراس کے لئے آپؐ قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام قرعہ میں نکلتا تھااسے ساتھ لے جاتے تھے۔
۱۰- جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ عام طریق تھا کہ جب کبھی آپ کو کسی دشمن قبیلہ کے متعلق یہ اطلاع ملتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے توآپؐ پیش دستی کرکے اس کے حملہ کوروکنے کی کوشش فرماتے تھے اورایسا نہیں کرتے تھے کہ دشمن کوپوری طرح تیاری کرلینے کاموقع دیں اور اس کے حملہ کاانتظار کرتے رہیں اورجب وہ عملاًحملہ کردے توپھراس کا مقابلہ کریں۔نیز آپؐکی یہ کوشش ہوتی تھی کہ اسلامی لشکر دشمن تک اچانک پہنچ جائے اوراسے اطلاع نہ ہو۔ ان تدابیر سے آپؐ نے مسلمانوں کوبہت سے مصائب سے بچا لیا۔
۱۱- جب آپؐکوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تھے توانہیں چلتے ہوئے یہ نصیحت فرماتے تھے کہ جب تم دشمن کے سامنے ہوتو اسے تین باتوں کی طرف دعوت دو۔اوراگر ان باتوں میں سے وہ کوئی ایک بات بھی مان لے تواسے قبول کرلواورلڑائی سے رک جائو۔سب سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دو اگروہ لوگ مسلمان ہونا پسند کریں تو پھر انہیں ہجرت کرنے کی تحریک کرو۔ اگروہ ہجرت کرنا قبول نہ کریں،توان سے کہو کہ اچھاتم مسلمان رہواوراپنے گھروں میں ٹھہرو،لیکن اگروہ مسلمان ہونا ہی پسند نہ کریں توپھر ان سے کہو کہ اپنے مذہب پررہو،لیکن مسلمانوں کی عداوت اوران سے جنگ کرنا چھوڑدواوراسلامی حکومت کے ماتحت آجائو۔ اگر وہ لوگ یہ بھی نہ مانیں توپھر اس کے بعد تمہیں ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ ۱؎
۱۲- نیز جب آپ کوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تھے تواسے نصیحت فرماتے تھے کہ اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُغْلُوْا وَلاَ تُغْدِرُوْا وَلاَ تُمَثِّلُوْا وَلاَ تَقْتُلُوْا وَلِیْداً وَلاَاِمْرَأۃً۲؎ وَلاَ تَقْتُلُوْا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ۳؎ وَلاَ تَقْتُلُوْا شَیْخًا فَانِیًا وَلاَطِفْلاً وَلَا صَغِیْراً وَلاَ اِمْرَأۃً وَاصْلِحُوْا وَاحْسِنُوا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ۴؎ یعنی اے مسلمانو!نکلو اللہ کانام لے کر اورجہاد کروحفاظت دین کی نیت سے۔مگر خبردارمال غنیمت میں بددیانتی نہ کرنا اورنہ کسی قوم سے دھوکہ کرنا۔اورنہ دشمنوں کے مقتولوں کامثلہ کرنا اور نہ بچوں اور عورتوں اورمذہبی عبادت گاہوں کے لوگوں کو قتل کرنااورنہ بہت بوڑھوں کوقتل کرنا اور ملک میں اصلاح کرنا۔اورلوگوں کے ساتھ احسان کامعاملہ کرنا۔کیونکہ تحقیق خداتعالیٰ احسان کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔‘‘اورحضرت ابوبکرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب کسی فوج کوروانہ فرماتے تھے تو اس کے امیر کویہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ اَلَّذِیْنَ زَعَمُوْا اَنَّھُمْ حَبَسُوْا اَنْفُسَھُمْ لِلّٰہِ فَذَرْھُمْ وَمَا زَعَمُوْا اَنَّھُمْ حَبَسُوْا اَنْفُسَھُمْ لَہٗ…وَلاَ تَقْطَعُنَّ شَجَراً مُثْمِراً وَلاَ تَخْرِبُنَّ عَامِراً۔ ۵؎ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے خیال میں اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لئے وقف کررکھا ہے ان کو کچھ نہ کہنا اوراسی طرح جس چیز کو وہ مقدس سمجھتے ہوں اسے بھی کچھ نہ کہنا اورپھل داردرخت کونہ کاٹنا اورنہ کسی آبادی کوویران کرنا۔‘‘
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عرب میں یہ دستور تھا کہ بعض اوقات لڑائی میں دشمن کے بچوں اوربوڑھوں اورعورتوں کو قتل کردیتے تھے اوربعض اوقات نہایت بے رحمی کے ساتھ دشمن کے مقتولوں کے ہاتھ پائوں اور ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالتے تھے جسے مُثلہ کرنا کہتے تھے اوردشمن کے اموال واَمْتِعہ اوران کی آبادی کوتباہ وبرباد کردیتے تھے اورعہدوپیمان کی تو کوئی قیمت ہی نہ تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب باتوں سے روک دیا۔مذہبی لوگوں اورمذہبی چیزوں کی حفاظت کے طریق میں بھی اسلام نے ایک نمایاں امتیاز پیدا کیا۔بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپؐ جب کسی جماعت کو روانہ فرماتے تھے تواسے نصیحت فرماتے تھے کہ بَشِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا۔۱ ؎ یعنی’’لوگوں کوخوشخبریاں دویعنی ان کوخوش رکھنے کی کوشش کرواورایسا طریق اختیار نہ کروجس سے ان کے دلوں میں نفرت پیداہواوران کے لئے آسانیاں پیداکرواورانہیں مشکلوں میں مت ڈالو۔‘‘
۱۳- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ لازمی طریق تھاکہ جب کسی پارٹی یادستہ یافوج کوروانہ فرماتے تھے توان میں سے کسی شخص کوان کا امیر مقررفرمادیتے تھے اورفرمایا کرتے تھے کہ اگر تین آدمی بھی ہوں توانہیں چاہئے کہ اپنے میں سے کسی کواپنا امیربنالیاکریں اورآپؐ امیر کی اطاعت کی سخت تاکید فرماتے تھے۔ حتّٰی کہ فرمایاکہ اگرکوئی تم پر ایک بیوقوف حبشی غلام بھی امیر مقرر کردیاجاوے تواس کی پوری پوری اطاعت کرو۔مگر ساتھ ہی یہ حکم تھا کہ اگر امیر کوئی ایسا حکم دے جوخدا اوراس کے رسول کے حکم کے صریح خلاف ہوتواس معاملہ میں اس کی اطاعت نہ کرو مگر اس حال میں بھی اس کاادب ضرورملحوظ رکھو۔
۱۴- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ جب کسی غزوہ میں کسی چڑھائی پرچڑھتے تھے توتکبیر کہتے جاتے تھے یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرتے تھے اورجب کسی بلندی سے نیچے اترتے تھے توتسبیح کہتے تھے یعنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے تھے۔
۱۵- سفر میں صحابہ کوحکم ہوتا تھا کہ اس طرح پرپڑائو نہ ڈالا کریں کہ لوگوں کے لئے موجب تکلیف ہو۔نیز حکم تھا کہ کوچ کے وقت اس طرح نہ چلاکرو کہ راستہ رک جاوے اوراس میں یہاں تک سختی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ اعلان فرمایاکہ جوشخص پڑائواوررستے میں دوسروں کاخیال نہیں رکھے گاوہ جہاد کے ثواب سے محروم رہے گا۔۲؎
۱۶- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب دشمن کے سامنے ہوتے تھے توپہلے ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے۔
۱۷- لڑائی کے لئے آپؐ صبح کا وقت پسند فرمایا کرتے تھے اورجب دھوپ تیز ہوجاتی تھی تورک جاتے تھے اورپھردوپہر گزارکرلڑائی کاحکم دیتے تھے۔ ۳؎
۱۸- لڑائی سے قبل آپؐ خود صحابہ ؓکی صف آرائی فرمایا کرتے تھے اورصفوں میں بے ترتیبی کوبہت ناپسند فرماتے تھے۔
۱۹- اسلامی لشکر کے ساتھ عموماًدو قسم کے جھنڈے ہوتے تھے ایک سفید ہوتا تھاجوکسی لکڑی وغیرہ پر لپٹاہوتاتھا اسے لواء کہتے تھے۔دوسراعموماًسیاہ ہوتا تھاجس کی ایک طرف کسی لکڑی وغیرہ سے بندھی ہوتی تھی اور وہ ہوا میں لہراتا تھااسے رایہ کہتے تھے۔یہ دونوں قسم کے جھنڈے لڑائی کے وقت خاص خاص آدمیوں کے سپرد کردئے جاتے تھے۔
۲۰- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماًہرلڑائی میں اپنی فوج کاکوئی لفظی شعار ۱؎ مقرر فرمادیا کرتے تھے جس سے اپنا بیگانہ پہچانا جاتا تھا۔
۲۱- فوج میں شوروشغب کوناپسند کیا جاتا تھا اورنہایت خاموشی کے ساتھ کام کرنے کا حکم تھا۔ ۲؎
۲۲- لڑائی سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسلامی فوج کے مختلف دستوں پرمختلف صحابیوں کوامیر مقرر کرکے ان کی جگہیں متعین فرما دیتے تھے اورفرائض سمجھا دیتے تھے۔ ان کمانڈروں کے تقررمیں عموماًاس اصول کومدنظررکھا جاتا تھا کہ کسی دستہ پر اس شخص کوامیر بنایا جاوے جوان میں صاحب اثر ہو۔
۲۳- بعض خاص خاص موقعوں پرآپؐ کایہ بھی طریق تھا کہ صحابہ سے خاص بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت لینے کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔
۲۴- میدان جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاحکم ہوتاتھاکہ جب تک میں حکم نہ دوں لڑائی شروع نہ کی جاوے۔
۲۵- لڑائی کے دوران میں بھی آپؐ خاص خاص احکام جاری فرماتے رہتے تھے اورخود یاکسی بلند آواز صحابی کے واسطے سے پکارپکار کرضروری ہدایات کااعلان فرماتے تھے۔
۲۶- مسلمانوں کوبھاگنے یا ہتھیار ڈالنے کی قطعاًاجازت نہیں تھی۔حکم تھا کہ یا غالب آئو یا شہید ہوجائو۔ہاں جنگی اغراض کے لئے وقتی طور پر پیچھے ہٹ آنے کی اجازت تھی۔ ۳؎ لیکن اگر کبھی کسی بشری کمزوری کے ماتحت بعض لوگ بھاگ جاتے تھے تو آپؐ ان سے زیادہ ناراض نہیں ہوتے تھے بلکہ انہیں آئندہ کے لئے ہمت دلاتے تھے اورفرماتے تھے کہ شاید تم لوگ جنگی تدبیر کے طورپر دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہوگے۔
۲۷- صحابہ کو حکم تھاکہ لڑائی میں کسی کے منہ پرضرب نہ لگائیں۔ ۱؎
۲۸- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ضرب لگانے میں سب لوگوں سے زیادہ نرم مسلمان کو ہونا چاہئے۔ ۲؎
۲۹- تاکیدی حکم تھاکہ جب تک عملاًلڑائی نہ ہولے۔قیدی نہ پکڑے جائیں۔یہ نہیں کہ دشمن کو دیکھااورکمزور پاکر قیدی پکڑنے شروع کردئے۔ ۳؎
۳۰- حکم تھا کہ جو قیدی پکڑے جائیں انہیں بعد میں حسب حالات یاتوبطوراحسان کے یونہی چھوڑ دیا جاوے یاضروری ہوتو قید میں رکھا جاوے،مگریہ قیدصرف اس وقت رہ سکتی ہے کہ جب تک جنگ جاری رہے یا جنگ کی وجہ سے جوبوجھ پڑے ہوں وہ دور نہ ہوجائیں،اس کے بعد نہیں۔ ۴؎
۳۱- قیدیوں کے ساتھ نہایت درجہ نرمی اورشفقت کے سلوک کا حکم تھا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے صحابہ کوخود اپنے آرام کی نسبت بھی قیدیوں کے آرام کاخیال زیادہ رہتا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ بھی حکم تھا کہ جو قیدی آپس میں قریبی رشتہ دارہوں ان کو ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ کیا جاوے۔ ۵؎
۳۲- قیدیوں کا فدیہ صرف نقدی کی صورت میں لینے پراصرار نہ کیا جاتا تھا۔چنانچہ بدر کے بعض خواندہ قیدیوں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ سمجھوتہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کو نوشت وخواند سکھادیں توانہیں چھوڑ دیاجاوے گا۔بعض اوقات کفار قیدیوں کومسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔نقد فدیہ کی صورت میں بھی مکاتبت کے طریق کی اجازت تھی۔
۳۳- مسلمانوں کو لوٹ مار اورغارت گری سے نہایت سختی سے روکا جاتاتھا۔چنانچہ اس کے متعلق کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے۔
۳۴- حکم تھاکہ اگر لڑائی کے وقت بھی کوئی دشمن اسلام کا اظہار کرے توخواہ اس نے مسلمانوں کا کتنا ہی نقصان کیا ہو فوراً اس سے ہاتھ کھینچ لو۔کیونکہ اب اس سے خطرہ کااحتمال نہیں رہا۔ چنانچہ اس ضمن میں اسامہ بن زید کاواقعہ اوپر گزرا ہے۔
۳۵- عہدوپیمان کے پورا کرنے کی نہایت سختی سے تاکید کی جاتی تھی ۱؎ اورخود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوعہد کااس قدر پاس تھا کہ جب حذیفہ بن یمان مکہ سے ہجرت کرکے بدر کے موقعہ پرآپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے توانہوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ میں جب مکہ سے نکلا تھا توقریش نے یہ شبہ کرکے کہ شاید میں آپؐ کی مدد کے لئے جارہاہوں مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ میں آپؐ کی طرف سے نہ لڑوں گا۔توآپؐ نے فرمایاتوپھر تم جائواوراپنا عہد پورا کروہمیں خدا کی امداد بس ہے۔ ۲؎ (یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمال احتیاط تھی۔حالانکہ فتویٰ کے طورپرایسا عہدجوجبر کے طور پر حاصل کیا جاوے واجب الایفاء نہیں)اورحضرت عمرؓنے اپنے عہدخلافت میں تویہاں تک اعلان کیا تھا کہ جو مسلمان دشمن کے ساتھ دھوکا یابدعہدی کرے گا میںاس کی گردن اڑادوں گا۔ ۳؎
۳۶- میدان جنگ میں جو مسلمان شہید ہوتے تھے انہیں غسل نہیںدیا جاتا تھااورنہ ہی خاص طور پر کفنایاجاتاتھا۔
۳۷- مجبوری کے وقت ایک ہی قبر میںکئی کئی شہداء کواکٹھا دفن کردیا جاتاتھااورایسے موقعوں پر ان لوگوں کوقبرمیںپہلے اتارا جاتاتھا جوقرآن شریف زیادہ جانتے تھے۔نیز شہداء کے متعلق حکم تھاکہ انہیں میدان جنگ میں ہی دفنا دیاجاوے۔
۳۸- شہداء کا جنازہ بعض اوقات تولڑائی کے فوراًبعد پڑھ دیاجاتا تھا اوربعض اوقات جب امن کی صورت نہ ہوتو بعد میں کسی اورموقع پرپڑھادیا جاتاتھا۔
۳۹- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ طریق تھا کہ حتّی الوسع دشمن کے مقتولوں کوبھی اپنے انتظام میں دفن کروادیتے تھے۔ ۴؎
۴۰- اسلامی جنگوں میں لڑنے والے تنخواہ دار نہیں ہوتے تھے۔
۴۱- مال غنیمت کی تقسیم کایہ اصول تھاکہ سب سے پہلے امیر لشکر غنیمت کے مال میںسے کوئی ایک چیزاپنے لئے چن لیتا تھاجسے صفیہ کہتے تھے۔پھرسارے اموال کا پانچواں حصہ خدا اوراس کے رسول کے لئے الگ کردیا جاتاتھا۔اوراس کے بعد بقیہ مال فوج میں بحصہ برابرتقسیم کردیا جاتا تھااس طرح پر کہ سوار کو پیدل کی نسبت دوحصے زیادہ دیا جاتاتھا اورنیز مقتول کافر کاذاتی سامان جو اس کے جسم پر ہووہ بھی مسلمان قاتل کاحق سمجھا جاتا تھا۔
۴۲- جوخمس خدا اوراس کے رسول کے لئے الگ کیا جاتا تھااس میں کچھ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال اوراقرباء میں تقسیم فرمادیتے تھے اوربیشترحصہ اس کا مسلمانوں کی اجتماعی دینی اورقومی اغراض میںصرف ہوتا تھااور اسی لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایاکہ مال غنیمت میں سے مجھے خمس کے علاوہ ایک اونٹ کے بال کے برابر بھی لینا حرام ہے وَالْخُمْسُ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکُمْ۔ ۱؎ اورپھر یہ خمس بھی تمہارے ہی کام آتا ہے۔
۴۳- لڑائی کے میدان میںعام طورپر نماز کی ادائیگی کایہ طریق تھا کہ امام توایک ہی رہتا تھا لیکن فوج کے آدمی مختلف حصوں میں باری باری آکر امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے اوربقیہ فوج دشمن کے سامنے رہتی تھی اسے صلوٰۃ خوف کہتے ہیں اور مختلف حالات کے ماتحت اس کی مختلف صورتیں تھیں۔
۴۴- شروع شروع میں بعض صحابہ سفروں میں روزے رکھتے تھے اوربعض افطار کرتے تھے،لیکن آخری ایام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھاکہ سفر میں روزہ نہ رکھا جاوے اورفرمایا تھا کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔ جن صحابہ نے آپؐ کے اس حکم کومحض ایک سفارش سمجھ کر روزہ رکھ لیاان کے متعلق آپ نے فرمایا:اُولٓئِکَ العُصَاۃُ۔ ۲؎ یعنی یہ لوگ نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
۴۵- جاسوس کے قتل کاعرب میں دستورتھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔
۴۶- دشمن کے قاصد کو روک لینے یا کسی قسم کا نقصان پہنچانے یاقتل کرنے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سختی سے منع فرماتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ بعض لوگ کفار کے قاصد ہوکر آئے اورانہوںنے آپؐ کے سامنے گستاخانہ طریق سے باتیں کیں۔آپؐ نے فرمایا تم قاصد ہو اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ایک اورموقع پرایک قاصد آیا اورآپؐ سے مل کر مسلمان ہوگیا اورپھر اس نے آپؐ سے عرض کیا کہ میں اب واپس جانا نہیں چاہتا۔آپؐ نے فرمایا۔ میںبدعہدی کامرتکب نہیں ہوسکتا۔تم قاصد ہو تمہیں بہرحال واپس جانا چاہئے۔ہاں اگرپھر آنا چاہو توآجانا۔چنانچہ وہ گیااورکچھ عرصہ کے بعد موقع پاکر پھر واپس آگیا۔ ۳؎
۴۷- جب مکہ اورمدینہ کی سرزمین شرک کے عنصر سے پاک ہوگئی اس وقت یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اب بھی کوئی بیرونی مشرک مذہبی تحقیق کے لئے حجازمیں آنا چاہے توبخوشی آسکتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اس کی حفاظت اورپُرامن واپسی کے ہم ذمہ وار ہوں گے۔ ۱؎
۴۸- کفار میں سے جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرلیتے تھے ان کی حفاظت اورحقوق کاآپؐ کوخاص خیال رہتا تھا۔چنانچہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِداً لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔۲ ؎ یعنی جو مسلمان کسی معاہدکافر کوقتل کرے گے،اسے جنت کی ہوا تک نہیں پہنچے گی۔
نیز آپؐنے یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ جو مسلمان کسی معاہد کافر کو یونہی غلطی سے بلاارادے کے قتل کردے اس کا فرض ہوگا کہ اس کے رشتہ داروں کواس کی پوری پوری دیت ادا کرنے کے علاوہ ایک غلام آزاد کرے۔ ۳؎
۴۹- معاہد کافر کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِداً اَوِنْتَقَصَہٗ اَوْکَلَّفَہُ فَوْقَ الطَّاقَۃِ اَوْاَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسِہٖ فَاَنَا حَجِیْجُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ۴؎ یعنی جو مسلمان کسی معاہد کافرپرکسی قسم کا ظلم کرے گایااسے نقصان پہنچائے گایااس پر کوئی ایسی ذمہ داری یا ایسا کام ڈالے گاجو اس کی طاقت سے باہر ہے یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی خوشی اور مرضی کے لے گاتواے مسلمانو!سن لو میں قیامت کے دن اس معاہد کافر کی طرف سے ہوکر اس مسلمان کے خلاف انصاف چاہوں گا۔‘‘
۵۰- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی قوم کے خلاف جنگ کرنے کو نکلتے تھے تو فتح حاصل ہونے کے بعد عموماً تین دن سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرتے تھے اوریہ غالباًاس لئے کرتے تھے کہ وہاں کے لوگوں کے لئے اسلامی لشکر کا قیام موجب تکلیف اورپریشانی نہ ہو۔ ۵؎
۵۱- سب سے آخر میں مگر غالباًسب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد میں دین کی حفاظت اورفتنہ کے سدباب کے سواکسی اور نیت کوسخت ناجائز سمجھا جاتا تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا عام اعلان تھا کہ جو شخص غنیمت کے لالچ میں یا لڑائی کے اظہار کے لئے یا کسی اوردنیاوی غرض سے نکلتا ہے وہ جہاد کے ثواب سے قطعی محروم ہے۔اس ضمن میں کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ اس زمانہ میں عرب میں لڑنے کا طریق یہ ہوتا تھا کہ جب فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوجاتیں تھیں توخاص خاص لوگ انفرادی مقابلوں کے لئے نکل کر مبارزطلبی کرتے تھے اوران انفرادی مقابلوں کے بعد عام حملہ کیا جاتاتھا۔جنگ میں پیدل اور گھوڑے پرسوار ہوکردونوں طرح لڑنے کا دستور تھامگرگھوڑے پرسوار ہو کرلڑنا بہترسمجھا جاتا تھا۔ اونٹ عموماً صرف سفر کاٹنے یااسباب اٹھانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔آلات حرب حملہ کے لئے تلوار، نیزہ اورتیر کمان تک محدود تھے اور دفاع کے لئے ڈھال اورزرہ اورخود استعمال کئے جاتے تھے۔عرب کے بعض قبائل میں دشمن پرپتھر کی بارش برسانے کے لئے ایک قسم کی مشین بھی استعمال ہوتی تھی جسے منجنیق کہتے تھے۔اس مشین کاخیال غالباًایران سے عرب میں آیا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا استعمال محاصرہ طائف کے موقع پرفرمایا تھا۔
آغاز جہاد اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی احتیاطی تدابیر
یہ بتایا جاچکا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی
قرآنی آیت بارہ صفر۲ہجری کو نازل ہوئی تھی۔یعنی دفاعی جنگ کے اعلان کا جو خدائی اشارہ ہجرت میں کیا گیا تھا اس کا باضابطہ اعلان صفر۲ہجری میں کیاگیا جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قیام مدینہ کی ابتدائی کارروائیوں سے فارغ ہوچکے تھے اوراس طرح جہاد کا آغاز ہوگیا۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کفار کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابتداء ًچار تدابیراختیار کیں جوآپؐ کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اورجنگی دوربینی کی ایک بیّن دلیل ہیں۔
یہ تدابیر مندرجہ ذیل تھیں۔
اوّل آپؐنے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کئے تاکہ مدینہ کے اردگرد کاعلاقہ خطرہ سے محفوظ ہوجائے۔ اس امر میں آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کومدنظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریش مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کرسکتی تھی۔
دوم آپؐ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینہ کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیںتاکہ آپؐ کوقریش اوران کے حُلفاء کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتارہے اورقریش کوبھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اوراس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہوجائے۔
سوم ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تااس ذریعہ سے مکہ اوراس کے گردونواح کے کمزوراورغریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جاوے۔ابھی تک مکہ کے علاقہ میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جودل سے مسلمان تھے مگرقریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کابرملا طورپراظہار نہیں کرسکتے تھے اورنہ اپنی غربت اورکمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کوہجرت سے جبراً روکتے تھے۔چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے: ۱؎ یعنی’’اے مومنو!کوئی وجہ نہیں کہ تم لڑائی نہ کرواللہ کے دین کی حفاظت کے لئے اوران مردوں اورعورتوں اوربچوں کی خاطر جوکمزوری کی حالت میں پڑے ہیں اوردعائیں کررہے ہیںکہ اے ہمارے رب!نکال ہم کو اس شہر سے جس کے باشندے ظالم ہیں اورہم ناتوانوںکے لئے اپنی طرف سے کوئی دوست ومددگار عطا فرما۔پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میںایک یہ مصلحت بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قوم سے چھٹکاراپانے کاموقع مل جاوے۔یعنی ایسے لوگ قریش کے قافلوں کے ساتھ ملے ملائے مدینہ کے قریب پہنچ جائیں اور پھر مسلمانوں کے دستے کی طرف بھاگ کرمسلمانوں میں آملیں۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایاتھا اورجس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہوگیا تھا اس میں مکہ کے دوکمزور مسلمان جوقریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے،قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے تھے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
فَرَّمِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ المِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍوحَلِیْفُ بْنِ زَھْرَۃَ وَعُتْبَۃُ بْنَ غَزْوَانَ حَلِیْفُ بَنِی نَوْفَلَ وَکَانَا مُسْلِمَیْنِ وَلٰکِنَّھُمَا خَرَجَایَتَوَصَّلاَنِ بِالْکُفَّارِ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔ ۲؎ یعنی’’اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکرِ قریش کے سامنے آئی تودو شخص مقداد بن عمراور عتبہ بن غزوان جو بنوزہرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اوریہ دونوں شخص مسلمان تھے اورصرف کفار کی آڑ لے کرمسلمانوں میں آملنے کے لئے نکلے تھے۔‘‘پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقع ملتا رہے۔
چہارم: چوتھی تدبیر آپؐنے یہ اختیار فرمائی کہ آپؐ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرمادی جومکہ سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے۔ کیونکہ(الف)یہ قافلے جہاں جہاںسے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اورظاہر ہے کہ مدینہ کے گردونواح میںاسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک تھا۔(ب)یہ قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اورہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کامدینہ سے اس قدر قریب ہو کر گزرناہرگز خطرہ سے خالی نہیں تھا۔(ج)قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھااوراندریں حالات قریش کو زیرکرنے اوران کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پرمجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اورسریع الاثر ذریعہ تھاکہ ان کی تجارت کا راستہ بندکردیا جاوے۔چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخرقریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جواپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی۔(د)قریش کے ان قافلوں کا نفع بسااوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہوتا تھابلکہ بعض قافلے توخصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی۔
بعض متعصب عیسائی مؤرخین نے جن کو اسلام کی خوبیاں بھی بدی کی شکل میں نظر آتی ہیں یہ اعتراض کیا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ قریش کے قافلوں کو لوٹنے کی غرض سے نکلتے تھے۔ہم ان عدل وانصاف کے مجسموں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا تمہاری قومیں جنہیں تم تہذیب وشرافت کے معراج کوپہنچا ہواسمجھتے ہوجنگ کے زمانہ میں دشمن قوموں کے تجارتی رستے نہیں روکتیں؟اورکیا انہیں جب یہ خبر پہنچتی ہے کہ فلاں دشمن قوم کا کوئی تجارتی جہاز فلاں جگہ سے گزررہا ہے تووہ فوراًاس کے پیچھے ایک بحری دستہ روانہ کرکے اس کو تباہ وبرباد کردینے یا اسے مغلوب کرکے اس کے اموال پرقبضہ کرلینے کی تدابیر نہیں اختیار کرتیں؟توپھر کیا اس وجہ سے تمہارے فرمانرواوںکانام ڈاکو اورلیٹرے اورغارت گررکھا جاسکتا ہے؟یقینا اگر مسلمانوں نے قریش کے قافلوں کی روک تھام کی تو اس غرض سے نہیں کی کہ ان کے قافلوں کے اموال پرقبضہ کریں بلکہ اس لئے کی کہ تدابیر جنگ کا تقاضا تھاکہ قریش کی تجارت کارستہ بند کردیاجاوے کیونکہ اس سے بہتر ان کو ہوش میں لانے اورصلح کی طرف مائل کرنے کا اورکوئی ذریعہ نہ تھا۔باقی اگرقریش کا کوئی قافلہ مغلوب ہوگیااوراس غلبہ کے نتیجہ میں اس کا مال ومتاع مسلمانوں کے ہاتھ آیاتووہ جنگ کی فتوحات کاحصہ تھا جس کا ہرقوم اورہر زمانہ میں فاتح کوحق دار سمجھا گیا ہے۔ کیا معترضین کایہ مطلب ہے کہ مسلمان کفار کے قافلوں کو توبیشک روکتے اوران کے آدمیوں کو مارتے،لیکن قافلوں کے اموال کو اپنے تصرت میں نہ لاتے بلکہ اپنے خرچ پراپنی فوج کی حفاظت میں نہایت احتیاط کے ساتھ مکہ بھجوا دیا کرتے تاکہ ان اموال کی مددسے قریش دوچاراورجرار لشکر تیار کرکے مسلمانوں کے خلاف مدینہ پر چڑھالاتے؟اگران کا یہی خیال ہے توانہیں یہ خیال مبارک ہو۔ہمیں اعتراف ہے کہ اسلام کادامن اس قسم کی بے وقوفی اوربے غیرتی اورخودکشی کی تعلیم سے پاک ہے اوریہ کہنا کہ ان قافلوں کی روک تھام میں مسلمانوں کولوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی کس قدر ظلم، کس قدر انصاف سے بعید ہے۔کیا اس قوم کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں سے بعض نے ایک جہاد کے سفر میں بھوک سے سخت تنگ آکر اور گویاموت کے منہ پر پہنچ کرکسی کے ایک گلہ میںسے دوچار بکریاں پکڑ کرذبح کرلیں مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تشریف لاکر غصہ میں ہنڈیوں کوالٹ دیااورگوشت کومٹی میں مسلتے ہوئے فرمایاکہ’’یہ لوٹ کا مال تمہارے لئے کس نے حلال کیا ہے؟یہ تو ایک مردار سے بڑھ کر نہیں؟‘‘پھر کیا اس قوم کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں سے نومسلم لوگ جہاد پر جاتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آآکر پوچھتے تھے کہ یارسول اللہ!اگرلڑائی میں ایک شخص کی اصل نیت تو حفاظت دین ہو لیکن اسے کچھ یہ بھی خیال ہوکہ شاید غنیمت کامال بھی مل جائے گا،توکیا ایسے شخص کو جہادکاثواب ہوگا؟اورآپؐ فرماتے تھے ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں ایسے شخص کے لئے کوئی ثواب نہیں ہے‘‘کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے قافلوں کی روک تھام کو لوٹ مار کی تعلیم سمجھا جاسکتا ہے؟ پھر یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کوسمجھاتے رہتے تھے کہ جہاد میں دنیا کے خیالات کی ملونی نہیں ہونی چاہئے بلکہ صحابہ پرآپؐکی اس تعلیم کا اثر بھی تھا اوریہ اثراس قدر غالب تھا کہ وہ نہ صرف اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کے دلوں میں دنیا طلبی کے خیالات جاگزیں نہ ہوں بلکہ بعض اوقات وہ ایسے جائز موقعوں سے بھی بچتے تھے جن میں کمزور طبیعتوں کے لئے اس قسم کے خیالات پیدا ہونے کااندیشہ ہوسکتا تھا۔چنانچہ غزوہ بدر کے متعلق روایت آتی ہے کہ کئی صحابہ اس غزوہ میں اس لئے شریک نہیں ہوئے تھے کہ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ مہم صرف قافلہ کی روک تھام کے لئے اختیار کی جارہی ہے وَاِلاَّ اگران کو یہ علم ہوتا کہ قریش کے لشکر کے ساتھ جنگ ہوگا تو وہ ضرور شامل ہوتے۔ ۱؎ اوریہ اس بات کاایک عملی ثبوت ہے کہ صحابہ کوقافلوں کی روک تھام میں ان کے اموال واَمِّتعہ کی وجہ سے کوئی شغف نہیں تھا۔کیونکہ اگرایساہوتا تو صورت حال یہ ہونی چاہئے تھی کہ کسی قافلہ کی روک تھام کے موقع پر صحابہ زیادہ کثرت کے ساتھ شامل ہونے کے لئے آگے بڑھتے،مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس نظر آتاہے۔میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے صحابہ ایک جیسے تھے۔بیشک ان میں بعض کمزور بھی تھے اورطبعاً یہ کمزوری ابتداء میں نسبتاً زیادہ تھی۔مگر جو تبدیلی صحابہ کی جماعت نے آپؐ کی تربیت کے ماتحت دکھائی وہ فی الجملہ نہایت محیرالعقول اورحقیقتاً بے نظیر تھی۔

پیش لفظ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح پر آج تک ہزاروں کتب لکھی گئی ہیں لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اﷲ عنہ کی تصنیف سیرت خاتم النّییّن صلی اﷲ علیہ وسلم اس لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں تمام واقعات کی صحت کا مدار سب سے اوّل قرآن کریم اور دوسرے نمبر پر صحاح ستہ پر رکھا گیا ہے اور کتب تاریخ میں متأخرین کی بجاہے ابتدائی مؤرخین اور سیرت نگاروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ غیر مستند مواد سے پاک ہے اور اس کی صحت اور مستند ہونے پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
حضرت میاں صاحب نے اپنی اس تصنیف میں اس امر کا خاص طور پر اہتمام فرمایا ہے کہ مغرب کے متعصب مستشرقین نے جن مقامات پر تاریخ اسلام کے بعض واقعات کو قابل اعتراض ٹھہرایا ہے یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کردار کشی کی کوشش کی ہے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں ان کا ردّ فرمایا ہے۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں علاوہ تاریخی مواد کے آج کل زیر بحث آنے والے بہت سے علمی مسائل مثلاً جمع و ترتیب قرآن کریم، معجزہ کی حقیقت، جہاد بالسیف، غیر مسلموں سے رواداری، جزیہ، غلامی، عورتوں کے حقوق، تعدّد ازدواج، شادی اور طلاق کے متعلق اسلامی قوانین اور اسلام کی عادلانہ جمہوری طرز حکومت پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔
حضرت میاں صاحب نے کمال عشق اور محبت سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شخصیت اور کردار کو موجودہ دور کے ذوق کے مطابق انتہائی دلنشین رنگ میں پیش فرمایا ہے اور فرط عقیدت کے باوجود سند اور درایت کے لحاظ سے ضعیف روایات کو اس مجموعہ میں راہ نہیں پانے دی اور واقعات کو مستند ماخذ سے ان کے صحیح تناظر میں پیش فرمایا ہے۔
انہی خصوصیات کی بنا پر یہ تصنیف بہت مقبول ہوئی۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے اس کے متعلق فرمایا:
’’میں سمجھتا ہوں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جتنی سیرتیں شائع ہو چکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے۔ اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پرتَو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے۔ اس کے ذریعہ انشاء اﷲ اسلام کی تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہو جائے گی‘‘۔
سیرت خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کا موجودہ ایڈیشن ان تین جلدوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۲۰ء ، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی تھیں (پہلی جلد پر حضرت میاں صاحب نے بعد میں نظر ثانی بھی فرمائی تھی)۔ اس طرح یہ مجموعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر ۷ ہجری تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ افسوس ہے کہ حضرت میاں صاحب رضی اﷲ عنہ باوجود انتہائی خواہش کے اپنی زندگی میں اس مہتم بالشان علمی شاہکار کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ حضرت میاں صاحب نے سیرت خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری حصّہ کے لئے مجوزہ عنوانات بھی اپنے مخصوص انداز میں مرتب فرما کر شائع کر دیئے تھے۔ یہ عنوانات بھی موجودہ ایڈیشن میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ اس کام کی تکمیل جماعت کے تعلیم یافتہ طبقہ پر ایک قرض ہے۔ خدا تعالیٰ کرے کہ ہم اس کو ادا کر سکیں۔
حضرت میاں صاحب ؓ نے اس گرانقدر تصنیف کو محض ایک تاریخ کی حیثیت سے نہیں لکھا بلکہ آپ کااوّل ترین مقصد اس سے یہ تھا کہ قوم کے نوجوان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنے لئے مشعلِ راہ قرار دیں۔ آپ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے اﷲ! تو اپنے فضل سے ایسا کر کہ تیرے بندے اسے پڑھیں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور تیرے برگزیدہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک نمونہ پر چل کر تیری رضا حاصل کریں‘‘۔
جماعت کے ہر فرد کو یہ کتاب پڑھ کر حضرت میاں صاحب رضی اﷲ عنہ کی اس نیک خواہش کو پورا کرنے کی حتّی الامکان کوشش کرنی چاہئے اور دوسروں کو اسے تحفہ میں دینا چاہئے کیونکہ یہ تصنیف ایک مثبت دلیل ہے اس عقیدہ و ارادت کی جو جماعت احمدیہ کا ہر فرد حضرت خاتم النّبییّن محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم سے رکھتا ہے۔
آخر میں ان واقف زندگی کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے اس ایڈیشن کی تیاری میں مختلف خدمات سرانجام دی ہیں۔ سلطان احمد شاہداور مقصود احمد قمر ۔احباب انہیں بھی اور خاکسار کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
والسلام
سیّد عبدالحی
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عرض حال
جلد اوّل
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سوانح عمری جو ’’ہمارا آقا‘‘ کے نام سے رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان کے اردو ایڈیشن میں ۱۹۱۹ء کے ابتدا سے شائع ہو رہی ہے اس وقت اس کا پہلا حصّہ جو آپ کی مکی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے بعد نظر ثانی کتابی صورت میں ہدیہ ناطرین کیا جاتا ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ اس زمانہ کے عام تاریخ اور صحابہ کرام ؓ کے حالات پر بھی ہر مناسب موقع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ گویا مضمون کے لحاظ سے اس کتاب کا نام دراصل تاریخ اسلام حصّہ اوّل سمجھنا چاہئے۔
میرا ارادہ ہے واﷲ الموفق کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سوانح عمری کو تین حصّوں میں تقسیم کروں۔
پہلا حصّہ وہ ہے جو بعض ابتدائی امور، جغرافیہ عرب، بعثت نبوی ؐ کے وقت قبائل عرب کی تقسیم اور ان کی مذہبی ، تمدنی اور سیاسی حالت، تاریخ کعبہ و مکّہ ، تاریخ قریش، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قبیلہ کے حالات، آپ کی پیدائش و حالات زندگی تا بعثت، دعویٰ نبوت و اشاعت اسلام اور حالات زندگی بعد بعثت تا ہجرت تحریر کئے گئے ہیں۔ یہ وہ حصّہ ہے جو بعد نظر ثانی و مناسب تغیر و تبدل اب ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔
دوسرا حصّہ جو ابھی معرض تحریر میں ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے حالات اور اس زمانے کی اسلامی تاریخ پر مشتمل ہو گا۔
اور تیسرا حصّہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق ہو گا انشاء اﷲ تعالیٰ ۔ وھو الموفق۔
اس کتاب کی تصنیف سے میری یہ غرض ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو جو عموماً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات زندگی اور ابتدائی اسلامی تاریخ سے بالکل بے خبر ہیں مختصر طور پر عام فہم اور سادہ مگر دلچسپ پیرایہ میں صحیح حالات سے واقف کیا جاوے اور نیز یہ بھی کہ تا اس ذریعہ سے خدا چاہے تو میرے لئے سعادت اخروی کا سامان پیدا ہو۔
یہ ایک نہایت تکلیف دہ منظر ہے کہ ہمارے نوجوان دیگر اقوام و مذاہب کے بادشاہوں، جرنیلوں اور مدبروں کے حالات سے تو واقف ہیں اور ان کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں مگر اپنے آقا اور مقتدا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات زندگی سے قطعاً نا واقف ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں مگر ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک اُردو زبان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی بھی ایسی سوانح عمری نہیں لکھی گئی جو اس زمانہ کی طبائع کو اپنی طرف کھینچ سکے۔
مولانا شبلی کی تصنیف جس کے بعض حصّے ابھی تک معرض طبع میں نہیں آئے میرے اس ریمارک سے مستثنیٰ ہے مگر بعض وجوہات سے وہ بھی عام اسلامی پبلک کے دائرہ تمتمع میں نہیں آ سکتی۔ بہرحال میری طبیعت نے اردو لٹریچر میں ایک کمی کو محسوس کیا ہے جسے پورا کرنے کی میں نے حتّی الوسع کوشش کی ہے۔ اگر میں اس کوشش میں کامیاب ہو گیا ہوں تو زہے قسمت اور اگر نہیں تو خدا سے دعا ہے کہ میری یہ ادھوری اور ناقص کوشش کسی ایسے نیک دل میں تحریک کرے کہ جو اس کمی کو پورا کر سکے۔
میں نے اس کتاب کی تیاری کے لئے کسی ایک کتاب پر بھروسہ نہیں کیا خصوصاً متأخرین کی تصنیفات کو بغیر اپنی مستقل تحقیق کے ہر گز قابل اعتماد نہیں سمجھا۔ متقدمین میں سے چار کتب تاریخی طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح کے لئے اصل مآخذ سمجھی گئی ہیں۔ اعنی اوّل سیرۃ ابن ہشام جو سیرۃ ابن اسحاق سے ماخوذ ہے۔ دوسرے طبقات ابن سعد۔ تیسرے طبری اور چوتھے واقدی۔ ان سب کا میں نے حتّی الوسع باقاعدہ مطالعہ کیا ہے اور سب سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ ان کتب کے بیان کردہ واقعات کی چھان بین اور تحقیق کے واسطے میں نے قرآن شریف اور کتب احادیث خصوصاً صحاح ستہ کو حتّی الوسع ہمیشہ اپنے سامنے رکھا ہے۔ متأ خرین کی کتب میں سے زرقانی، شرح مواہب اللدنیہ، تاریخ الکامل ابن اثیر، اسد الغابہ اور اصابہ فی معرفۃ الصحابہ اور سیرۃ النبی مصنفہ مولانا شبلی سے میں نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔ یورپ کے اعتراضات اور طرز تحریر کو مدّ نظر رکھنے کے واسطے میں نے لائف آف محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مصنفہ سر ولیم میور، محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مصنفہ پروفیسر مارگولیس اور بعض دیگر تصنیفات کو زیر مطالعہ رکھا ہے۔ جغرافیہ عرب کے واسطے معجم البلدان کو میں نے نہایت کار آمد اور قابلِ اعتبار رفیق پایا ہے۔ جامعیت کے لحاظ سے تاریخ خمیس اور سیرۃ الحلبیہ کا میں نے جواب نہیں دیکھا مگر افسوس تحقیق سے خالی ہیں۔
غرض میں نے اپنی طرف سے پوری تحقیق اور چھان بین سے کام لیا ہے مگر الانسان مرکب من الخطاء و النسیان فارجوممن طالع کتابی ھذا ان یسامحنی اذا وقف علی خطاء اوسھو فیہ و یدعوا اﷲ ان یھدینی الی الصراط المستقیم فانہ لا مضل لمن ھداہ و لا ھادی لمن اضلہ بیدہ الخیر کلہ و ھوالمستعان۔
اس کتاب کی تیاری میں جن احباب کی طرف سے مجھے کسی قسم کی مدد پہنچی ہے ان سب کا میں دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خصوصاً استاذی المکرم حضرت مولوی شیر علی صاحب بی اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز قادیان کا جن کے مفید مشورہ سے میں نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے اور مکرمی جناب مولوی فضل دین صاحب وکیل قادیان کا جنہوں نے مسودوں کے مطالعہ کے علاوہ مجھے ضروری حوالجات کی تلاش میں بہت مدد دی اور مکرمی ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی ثم قادیانی کا جنہوں نے ادبی لحاظ سے مضمون میں مناسب اصلاح کی۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۱۴؍شوال ۱۳۳۸ ھ مطابق یکم جولائی ۱۹۲۰ء

ابتدائی لڑائیاں،روزہ کی ابتدائ،تحویل قبلہ
اور
جنگ بدر کے متعلق ابتدائی بحث
غزوات وسرایا کاآغاز اورغزوہ ودّان صفر۲ہجری
اب مغازی کاعملی آغاز ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاطریق تھا
کہ کبھی تو خود صحابہ کوساتھ لے کر نکلتے تھے اور کبھی کسی صحابی کی امارت میں کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے۔ مؤرخین نے ہردوقسم کی مہموں کوالگ الگ نام دئے ہیں ۔چنانچہ جس مہم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود بنفس نفیس شامل ہوئے ہوں اس کا نام مؤرخین غزوہ رکھتے ہیں اورجس میں آپؐ خود شامل نہ ہوئے ہوں اس کا نام سریہؔ یابعثؔ رکھا جاتا ہے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غزوہ اورسریہ دونوں میں مخصوص طورپر جہادبالسیف کی غرض سے نکلنا ضروری نہیں بلکہ ہروہ سفر جس میں آپؐ جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں غزوہ کہلاتا ہے خواہ وہ خصوصیت کے ساتھ لڑنے کی غرض سے نہ کیا گیا ہواور اسی طرح ہروہ سفر جوآپؐ کے حکم سے کسی جماعت نے کیا ہو مؤرخین کی اصطلاح میں سریہؔ یابعث کہلاتا ہے خواہ اس کی غرض وغایت لڑائی نہ ہو،لیکن بعض لوگ ناواقفیت سے ہرغزوہ اورسریہؔ کولڑائی کی مہم سمجھنے لگ جاتے ہیں جودرست نہیں۔
یہ بیان کیا جاچکاہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی۔چونکہ قریش کے خونی ارادوں اوران کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کومحفوظ رکھنے کے لئے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لئے آپؐ اسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے۔روانگی سے قبل آپؐ نے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادہ رئیس خزرج کوامیر مقررفرمایا اور مدینہ سے جنوب مغرب کی طرف مکہ کے راستہ پرروانہ ہوگئے اوربالآخر مقام ودّان تک پہنچے۔اس علاقہ میں قبیلہ بنوضمرۃ کے لوگ آباد تھے۔یہ قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھا اوراس طرح گویا یہ لوگ قریش کے چچا زاد بھائی تھے۔یہاں پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوضمرۃ کے رئیس کے ساتھ بات چیت کی اورباہم رضامندی سے آپس میں ایک معاہدہ ہوگیا۔جس کی شرطیں یہ تھیں کہ بنوضمرۃ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بلائیں گے،تو وہ فوراً آجائیں گے۔دوسری طرف آپؐ نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنوضمرۃ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے۔یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیااورفریقین کے اس پر دستخط ہوئے اورپندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ ۱؎ غزوہ ودّان کادوسرا نام غزوہ ابوابھی ہے کیونکہ ودّان کے قریب ہی ابواکی بستی بھی ہے اور یہ مقام ہے جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس غزوہ میں بنوضمرۃ کے ساتھ قریش مکہ کابھی خیال تھا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپؐ کی یہ مہم قریش کی خطرناک کارروائیوں کے سدباب کے لئے تھی اور اس میں زہریلے اورخطرناک اثرکاازالہ مقصودتھا جوقریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں پیدا کررہے تھے اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی۔
سریہ عبیدۃ بن الحارث ربیع الاول ۲ہجری
غزوہ ودّان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپؐ نے اپنے ایک قریبی رشتہ
دارعبیدۃ بن الحارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شترسوارمہاجرین کاایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔چنانچہ جب عبیدۃ بن الحارث اوران کے ساتھی کچھ مسافت طے کرکے ثنیۃ المرّۃ کے پاس پہنچے توناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی ۲؎ ،لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہوگی ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ ۳؎ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان، عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پاکر مسلمانوں میں آملیں۔ ۱؎ کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کوبددل کردیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کرلیاہو۔تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کایہ لشکر جویقینا کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھااورجس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم(یعنی ایک بڑا لشکر)کے الفاظ استعمال کئے ہیںکسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا،لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کوچوکس پاکراوراپنے آدمیوں میںسے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اوروہ واپس لوٹ گئے۔اورصحابہ کواس مہم کایہ عملی فائدہ ہوگیاکہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پاگئیں۔
سریہ حمزہ بن عبدالمطلب ربیع الاول ۲ہجری
اسی ماہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیس شترسوار مہاجرین کے ایک اوردستہ کواپنے حقیقی
چچاحمزہ بن عبدالمطلب کی سرداری میں مدینہ سے مشرقی جانب سیف البحر علاقہ عیص کی طرف روانہ فرمایا۔حمزہ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیادیکھتے ہیں کہ مکہ کارئیس اعظم ابوجہل تین سوسواروں کاایک لشکر لئے ان کے استقبال کو موجود ہے۔مسلمانوں کی تعداد سے یہ تعداد دس گنے زیادہ تھی،مگر مسلمان خدااوراس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں گھر سے نکلے تھے اورموت کا ڈرانہیں پیچھے نہیں ہٹاسکتا تھا۔دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرائی کرنے لگ گئیں اورلڑائی شروع ہونے والی ہی تھی کہ اس علاقہ کے رئیس مجددی بن عمروالجہنی نے جو دونوں فریق کے ساتھ تعلقات رکھتا تھادرمیان میں پڑکربیچ بچائو کروایااور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی۔ ۲؎ ابن سعد نے جوعموماًاپنے استاد واقدی کی اتباع کرتا ہے لکھا ہے کہ یہ قریش کا ایک قافلہ تھا جس سے مسلمانوں کاسامنا ہواتھا،لیکن ابن اسحاق نے بروایت ابن ہشام قافلہ کاکوئی ذکر نہیںکیا،بلکہ صرف یہ لکھا ہے کہ قریش کے تین سو سواروں سے سامنا ہواتھا جوابوجہل کے زیر کمان تھے اورکفار کی تعداد اوردوسرے قرائن سے ابن اسحاق کی روایت صحیح ثابت ہوتی ہے اور یہ یقینی ہے کہ کفار کایہ دستہ مسلمانوں کے خلاف نکلا تھا۔چنانچہ کرزبن جابرفہری کاحملہ بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے اس خیال کامؤید ہے۔
غزوہ بواط ربیع الآخر۴ہجری
اسی مہینہ کے آخری ایام یاربیع الآخر کے شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپھر قریش کی طرف سے کوئی خبر موصول ہوئی جس پرآپؐ
مہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر خود مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے سائب بن عثمان بن مظعون کومدینہ کاامیر مقررفرمایا لیکن قریش کاپتہ نہیں چل سکااورآپؐبواط تک پہنچ کر واپس تشریف لے آئے۔ ۱؎
غزوہ عشیرۃ اور سریہ سعد بن ابی وقاص جمادی الاولیٰ ۲ہجری
اس کے بعدجمادی الاولیٰ میں پھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی
خبرپا کر آپؐمہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اوراپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابوسلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقررفرمایا۔اس غزوہ میں آپؐکئی چکرکاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب ینبع کے پاس مقام عشیرۃ تک پہنچے اورگوقریش کامقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ ؐ نے قبیلہ بنومدلج کے ساتھ انہیں شرائط پر جو بنوضمرۃ کے ساتھ قرار پائی تھیںایک معاہدہ طے فرمایااورپھرواپس تشریف لے آئے۔اسی سفر کے دوران میں آپؐ نے سعدبن ابی وقاص کو آٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر امیر مقرر کرکے قریش کی خبررسانی کے لئے خراء کی طرف روانہ فرمایا۔ ۲؎
کرزبن جابرکاحملہ اورغزوہ سفوان جمادی الآخر ۲ہجری
مگر باوجود صحابہؓ کی اس قدر بیدارمغزی اورمسلمان پارٹیوں کے
مدینہ کے گردونواح میں اس طرح ہوشیاری کے ساتھ چکر لگاتے رہنے کے قریش کی شرارت نے اپنے لئے راستہ پیدا کرہی لیا۔چنانچہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میں تشریف لائے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس کرزبن جابرفہری نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پرجوشہر سے صرف تین میل پر تھی اچانک حملہ کیا اورمسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر چلتا ہوا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ اطلاع ہوئی توآپؐ فوراًزید بن حارثہ کواپنے پیچھے امیر مقرر کرکے اور مہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سفوان تک جوبدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا،مگر وہ بچ کر نکل گیا۔اس غزوہ کو غزوہ بدرالاولیٰ بھی کہتے ہیں۔ ۳؎
کرزبن جابرکایہ حملہ ایک معمولی بدویانہ غارت گری نہیں تھی بلکہ یقینا وہ قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف خاص ارادے سے آیاتھا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی نیت خاص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کونقصان پہنچانے کی ہو،مگر مسلمانوں کو ہوشیار پاکران کے اونٹوں پرہاتھ صاف کرتا ہوا نکل گیا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے یہ ارادہ کرلیاتھا کہ مدینہ پرچھاپے مار مار کر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کیا جاوے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گواس سے پہلے مسلمانوں کو جہاد بالسیف کی اجازت ہوچکی تھی اور انہوں نے خود حفاظتی کے خیال سے اس کے متعلق ابتدائی کارروائی بھی شروع کردی تھی،لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کفار کوعملاًکسی قسم کامالی یاجانی نقصان نہیں پہنچا تھا،لیکن کرزبن جابر کے حملہ سے مسلمانوں کو عملاًنقصان پہنچا۔گویا مسلمانوں کی طرف سے قریش کاچیلنج قبول کرلئے جانے کے بعد بھی عملی جنگ میں کفار ہی کی پہل رہی۔
سریہ عبداللہ بن جحش بطرف نخلہ
کرزبن جابر کے اچانک حملہ نے طبعاً مسلمانوں کو بہت متوحش کردیا تھا اورچونکہ رئوساء قریش کی یہ دھمکی پہلے سے
موجود تھی کہ ہم مدینہ پرحملہ آور ہوکر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کردیں گے،مسلمان سخت فکرمند ہوئے اورانہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کازیادہ قریب سے ہوکر علم حاصل کیا جاوے تاکہ ان کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہوجاوے اورمدینہ ہرقسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔چنانچہ اس غرض سے آپؐ نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی۔ ۱؎ اورمصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔۲؎ تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہواوراس پارٹی پرآپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش کوامیر مقررفرمایا۔اوراس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض وغایت عامۃ المسلمین سے بھی مخفی رہے آپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کوبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اورکس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا اورفرمایا کہ اس خط میں تمہارے لئے ہدایات درج ہیں۔جب تم مدینہ سے دودن کا سفر طے کرلو توپھراس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا۔چنانچہ عبداللہ اوران کے ساتھی اپنے آقا کے حکم کے ماتحت روانہ ہوگئے اورجب دودن کا سفرطے کرچکے تو عبداللہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے۔اِمْضِ حَتّٰی تُنْزِلَ نَخْلَۃً بَیْنَ مَکَّۃَ وَالطَّائِفِ فَتَرْصِدُبِھَا قُرَیْشًا وَتَعْلَمُ لَنَامِنْ اَخْبَارِھِمْ۔ ۳؎ یعنی’’تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں جائو اوروہاں جاکر قریش کے حالات کاعلم لواورپھر ہمیں اطلاع لاکردو۔‘‘اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہو کر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا۔آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگرتمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہواور واپس چلاآنا چاہے،تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کوسنا دی اورسب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لئے حاضر ہیں۔۱؎ اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔راستہ میں سعد بن ابی وقاص اورعتبہ بن غزوان کا اونٹ کھویاگیااوروہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اوراب یہ پارٹی صرف چھ کس کی رہ گئی۔مسٹر مارگولیس اس موقع پر لکھتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ نے جان بوجھ کراپنا اونٹ چھوڑدیا تھا اوراس بہانہ سے پیچھے رہ گئے۔ان جاں نثاران اسلام پر جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اورجن میں سے ایک غزوہ بئر معؤنہ میں کفار کے ہاتھوں شہیدہوا اوردوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کربالآخر عراق کافاتح بنا اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بناء پر کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے اورپھرلطف یہ ہے کہ مارگولیس صاحب اپنی کتاب میں دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ہرقسم کے تعصب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اوراپنے کام میں مصروف ہوگئی اوران میں سے بعض نے اخفاء راز کے خیال سے اپنے سر کے بال منڈوادئے تاکہ راہگیر وغیرہ ان کو عمرہ کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں،لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ بھی آن پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھااورہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہوگئیں۔مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لئے بھیجا تھا،لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہوچکی تھی اوراب دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے اور پھرطبعاًیہ اندیشہ بھی تھاکہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کودیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی کاراز بھی مخفی نہ رہ سکے گا۔ایک دقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھاکہ شاید یہ دن رجب یعنی شہرحرام کاآخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہئے تھی۔اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزرچکا ہے اور شعبان شروع ہے۔ ۲؎ اوربعض روایات میں ہے کہ یہ سریہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا ہے یارجب کا۔ ۱؎ لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کویہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہوجائے گا جس کی حرمت یقینی ہوگی۔غرض ان سب باتوں کو سوچ کرمسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پرحملہ کرکے یاتو قافلہ والوں کو قید کرلیاجاوے اور یا ماردیاجاوے۔چنانچہ انہوں نے اللہ کانام لے کر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں کفار کاایک آدمی جس کا نام عمروبن الحضرمی تھا مارا گیا اور دو آدمی قید ہوگئے، لیکن بد قسمتی سے چوتھاآدمی بھاگ کرنکل گیااورمسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کرلیا اور چونکہ قریش کاایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی عبداللہ بن جحش اوران کے ساتھی سامان غنیمت لے کر جلد جلد مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔
مسٹر مارگولیس اس موقع پرلکھتے ہیں کہ دراصل محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شہرحرام میں بھیجاتھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعاًغافل ہوں گے۔ مسلمانوں کوان کے قافلہ کے لوٹنے کاآسان اوریقینی موقع مل جائے گا،لیکن ہرعقل مند سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دوردراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لئے نہیں بھیجا جاسکتاخصوصاًجبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلہ پر حملہ کیا تھا توآپؐ سخت ناراض ہوئے۔چنانچہ روایت ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورآپؐ کو سارے ماجرا کی اطلاع ہوئی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا مَااَمَرْتُکُمْ بِقِتَالٍ فِی الشَّھْرِ الْحَرَامِ۔ ۲؎ ’’میں نے تمہیں شَہرِ حرام میں لڑنے کی اجازت نہیںدی ہوئی۔‘‘ وَاَبٰی اَنْ یَاخُذَ مِنْ ذَالِکَ شَیْئًا۔ ۳؎ اورآپؐ نے مال غنیمت لینے سے انکار کردیا۔‘‘اس پر عبداللہ اوران کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے۔وَظَنُّوْاانَّھُمْ قَدْھَلَکُوْا۔ ۴؎ اورانہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔‘‘صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی اور کہا صَنَعْتُمْ مَالَمْ تُؤْمَرُوْا وَقَاتَلْتُمْ فِی الشَّھْرِالْحَرَامِ وَلَمْ تُؤْمَرُوْا بِقِتَالٍ۔ ۱؎ یعنی ’’تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا اورتم نے شَہرِ حرام میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کومطلقاً لڑائی کاحکم نہیں تھا۔‘‘ دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شَہرِ حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص ماراگیا تھا یعنی عمروبن الحضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اورپھروہ عتبہ بن ربیعہ رئیس مکہ کاحلیف بھی تھااس لئے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کوبہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی ۔چنانچہ جنگ بدر جس کا ذکر آگے آتا ہے زیادہ ترقریش کی اسی تیاری اورجوش عداوت کانتیجہ تھا۔الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفارہردو میں بہت چہ میگوئی ہوئی اور بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہوکر مسلمانوں کی تشفی کاموجب ہوئی۔۲؎ یعنی’’لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شَہرِحرام میں لڑنا کیسا ہے؟تو ان کو جواب دے کہ بے شک شَہرِحرام میں لڑنا بہت بری بات ہے ،لیکن شَہرِحرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبراًروکنا بلکہ شَہرِحرام اور مسجد حرام دونوں کاکفرکرنا یعنی ان کی حرمت کوتوڑنااورپھرحرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزورنکالنا جیسا کہ اے مشرکو تم لوگ کررہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شَہرِحرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بری ہیں اوریقینا شَہرِحرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کوروکنے لے لئے کیا جاوے۔اور اے مسلمانو! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہورہے ہیں کہ کسی وقت اورکسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اوروہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیںگے حتّٰی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیںبشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔‘‘ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رئوسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈا کواشَہرِحرام میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اشَہرِحرم کے اجتماعوںاورسفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اوربھی زیادہ تیز ہوجاتے تھے اورپھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے وہ عزت کے مہینوں کواپنی جگہ سے ادھرادھرمنتقل بھی کردیاکرتے تھے جسے وہ نسئی کے نام سے پکارتے تھے اورپھرآگے چل کر تو انہوں نے غضب ہی کردیا کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں باوجود پختہ عہدوپیمان کے کفار مکہ اوران کے ساتھیوں نے حرم کے علاقہ میںمسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ کے خلاف تلوار چلائی اورپھر جب مسلمان اس قبیلہ کی حمایت میںنکلے توان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی۔پس اس جواب سے مسلمانوں کی تو تسلی ہونی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اوراس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کوچھڑوانے کے لئے مدینہ پہنچ گئے،لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاص اور عتبہ واپس نہیں آئے تھے۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان کے متعلق سخت خدشہ تھا کہ اگروہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیںگے۔اس لئے آپؐ نے ان کی واپسی تک قیدیوں کوچھوڑنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیںگے تو پھر میںتمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوںگا۔چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے،تو آپؐ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا،لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اوراسلامی تعلیم کی صداقت کااس قدر گہرا اثر ہوچکا تھا کہ اس نے آزاد ہوکر بھی واپس جانے سے انکار کردیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوکرآپؐ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگیا اور بالآخر بئر معؤنہ میں شہیدہوا۔اس کا نام حکم بن کیان تھا۔ ۱؎
تحویل قبلہ
باوجود جنگ وجدال کی بے انتہا مصروفیت کے تکمیل وتاسیس مذہب کا کام نہیں رک سکتا تھاکیونکہ بعثت نبویؐ کی یہی علت اولیٰ تھی۔پنجگانہ نماز مکہ میں ہی شروع ہوچکی تھی۔
مدینہ میں باجماعت نماز کے التزام نے اذان کی ضرورت محسوس کرائی اوراس کا انتظام کیا گیا۔مگر مسلمانوںکاقبلہ ابھی تک بیت المقدس تھا اورمکہ میںبھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اورمدینہ کے ابتدائی زمانہ میںبھی یہی طریق جاری رہا،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ مکہ کے کعبہ کوقرار دیا جاوے،کیونکہ وہ خدا کی عبادت کاپہلا گھرتھاجو دنیا میں تعمیر ہوا اورابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ اورعربوں کے جدِّاعظم اسماعیل ذبیح اللہ کی یاد گار بھی اسی گھر سے وابستہ تھی اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامولدومسکن اوراسلام کامبداء ومنبع ہونے کی حیثیت میں بھی کعبہ ہی مسلمانوں کاقبلہ بننے کاحق دار تھا،لیکن چونکہ ابھی تک کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز اداکرنے کا حکم نازل نہیں ہوا تھااس لئے آپؐ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور یہ سلسلہ ہجرت کے سولہ سترہ ماہ بعد تک جاری رہا،لیکن اب وقت آگیا تھا کہ مسلمانوں کوان کے اصل قبلہ پر قائم کردیا جاوے۔چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان کے مہینہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی توجہ حکم الہٰی کے نزول کی محرک ہوئی اوریکلخت مسلمانوں کارخ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف پھرگیا۔ قرآن شریف میں جو آیات اس بارہ میں نازل ہوئیں۔وہ یہ ہیں۔
۱؎ … ۲؎
’’ضرور بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمانوں کوان کے اس قبلہ سے کس بات نے پھیردیا جس پر کہ وہ تھے۔توکہہ دے کہ مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف راستہ دکھادیتا ہے اوراے رسول!ہم نے تیرے پہلے قبلہ کوتوصرف اس امتحان کے طورپررکھاتھا کہ یہ ظاہر ہوجاوے کہ کون خدا کے رسول کی سچی اتباع اختیار کرتا ہے اورکون اپنی ایڑیوں کے بل پھرجاتا ہے اوربے شک پہلا قبلہ طبائع پرایک بوجھ رہا ہے سوائے ان لوگوں کے جواللہ کی طرف سے ہدایت پرقائم ہیں اوراے رسول! ہم دیکھتے ہیں کہ تیری توجہ قبلہ کے معاملہ میں آسمان کی طرف لگی ہوئی ہے کہ کب کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم اترتا ہے۔لہذا ا ب ہم پھیر دیتے ہیں تجھے اس قبلہ کی طرف جو تجھے پسند ہے۔پس اے رسول اپنے رخ کومسجد حرام کی طرف پھیر لے اوراے مسلمانو!جہاں کہیں بھی تم ہواپنا رخ مسجدحرام کی طرف رکھاکرواورجانو کہ ہر قوم کے لئے توجہ کی ایک خاص سمت ہوتی ہے اورگو ہم نے تمہاری ظاہری سمت کعبہ کومقرر کیاہے لیکن یاد رکھو تمہاری باطنی سمت نیکیوں کی طرف بڑھنا ہونی چاہئے اوراس ظاہر وباطن کی یکجہتی سے یہ فائدہ ہوگا کہ تم خواہ دنیا کے کسی حصہ میں پھیلے ہوئے ہوگے تم میں اتحاد رہے گا۔بے شک اللہ جو چاہتا ہے اس پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
ان آیات قرآنی میں جہاں تحویل قبلہ کا حکم ہے وہاں قبلہ کی حکمت اورضرورت بھی بیان کی گئی ہے کہ اس سے قوم میںظاہری یکجہتی اوراتحاد فی الصورت قائم رہتے ہیں اوریہ بھی بتایا گیا ہے کہ شروع شروع میں اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک مسلمانوں کو بیت المقدس کے قبلہ پراس مصلحت سے قائم رکھا تھا کہ وہ مشرکین عرب کے لئے جن کی ساری توجہ کا مرکز کعبہ تھا بطورایک امتحان کے رہے اوروہ اپنے اندر ایمان کی خاطر قربانی کرنے کی روح پیدا کریں،لیکن جب آزمائش کا مناسب زمانہ گزر گیا تواصل قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔اس موقع پر سرولیم میور نے اعتراض کیا ہے کہ شروع شروع میں مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اس لئے نماز پڑھتے تھے تا کہ اس طرح مدینہ کے یہودیوں کواپنی طرف مائل کریں، لیکن جب دیکھا کہ وہ اس دائو میں نہیں آتے تورخ بدل کرکعبہ کی طرف کرلیا گیا تاکہ مشرکین عرب کو خوش کرنے کی کوشش کی جاوے۔تعصب بے شک انسان کو اندھا کردیتا ہے لیکن اگر سرولیم جیسا قابل شخص جو ہندوستان کے ایک بہت بڑے صوبے کاکامیاب حاکم رہ چکا ہے اسلام کے متعلق ایسی بے بنیاد باتیں کرے توجائے تعجب ضرور ہے،مگرحقیقت ایسی واضح ہے کہ کسی کے چھپائے چھپ نہیںسکتی۔جوطریق عمل ہجرت سے کئی سال پہلے مکہ میں جاری ہوا ہو اور مدینہ جانے پر چند ماہ کے بعد منسوخ کردیا ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ یہود مدینہ کو خوش کرنے کے لئے جاری کیا گیا تھا اوراس کی منسوخی کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مشرکین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقوع میں آئی تھی کسی عقل مند کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلا قبلہ مشرکین کے لئے بطور ایک امتحان کے تھا اوراس امتحان کاوقت ہجرت سے پہلے ہی مناسب تھا،لیکن چونکہ مدینہ میں بھی مشرکین بستے تھے اس لئے مدینہ کے ابتدائی ایام میں بھی وہ امتحان جاری رہا۔مگر جب مشرکین مدینہ قریباًمفقود ہوگئے تو اس امتحان کی ضرورت نہ رہی اورتحویل قبلہ کا حکم نازل ہوگیا اوراس حکم میں دو مصلحتیں تھیں۔ایک یہ کہ مسلمان اپنے اصل قبلہ پرقائم ہوگئے اوردوسرے یہ کہ نیا قبلہ یہود کے لئے ایک امتحان بن گیا جیسا کہ پہلا قبلہ مشرکین کے لئے امتحان تھا۔پس حقیقت وہ نہیں جو میور صاحب کے خامۂ تعصب نے خلق کی ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے اور قرآن جس کی شہادت کی تاریخی حیثیت کو میور صاحب نے سب شہادتوں سے بڑھ کر قرار دیا ہے اس کا شاہد ہے۔
صیامِ رمضان
نماز سے اتر کر اسلامی عبادات کادوسرا بڑارکن روزہ ہے۔دراصل اسلام نے مختلف قسم کی عبادات مختلف قسم کے تزکیۂ نفس کومدنظر رکھ کر شروع کی ہیں۔یعنی اگرنماز ایک رنگ
میں انسان کی آلائشوں اورکمزوریوں کو دور کرتی ہے اوراسے خدا کا مقرب بننے کے قابل بناتی ہے تو روزے کسی دوسرے رنگ میں یہ کام سرانجام دیتے ہیں اورزکوٰۃ ایک تیسرے میدان کے لئے مقرر ہے اور حج ان تینوں کے علاوہ ایک چوتھا مقصد ہے اوراس طرح مختلف عبادتیں مختلف مقاصد کوپورا کرتی ہیں اور مختلف جہات سے انسان کی اصلاح اورترقی کے کام میںممد ہوتی ہیں اور اگر غور کیا جاوے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس ترتیب سے اسلامی عبادات کے مختلف ارکان شروع ہوئے ہیں وہی ان کی اہمیت کی ترتیب بھی ہے۔یعنی سب سے زیادہ اہم اورسب سے زیادہ وسیع طورپرانسانی اخلاق اورروحانیت پراثر ڈالنے والی عبادت وہ ہے جو سب سے پہلے قائم کی گئی اوراس کے بعد اس سے کم درجہ کی قائم کی گئی اوراس کے بعد اس سے کم کی وعلیٰ ھذاالقیاس۔اورجولوگ عبادات کو محض ایک رسم کے طور پر ادا نہیں کرتے اوران کے اثر کو اپنے نفوس میں مطالعہ کرنے کے عادی ہیں وہ یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں کہ عبادات میں اول نمبر نماز کا ہے اورپھراس سے اتر کر روزہ کا۔اورپھردوسری عبادات کا۔ بہرحال اس وقت تک صرف نماز مشروع ہوئی تھی اوراب ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی آمد پرروزوںکابھی آغاز ہوا۔ ۱؎ یعنی یہ حکم نازل ہوا کہ رمضان کے مہینہ میںتمام بالغ مسلمان مردوعورت باستثناء بیماروں اورناتوانوں کے اور باستثناء مسافروں کے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہر قسم کے کھانے پینے سے پرہیز کریں اوران اوقات میں خاوند بیوی کے مخصوص تعلقات سے بھی پرہیز کیا جاوے اورروزوں کے ایام کوخصوصیت کے ساتھ ذکر الہٰی اور قرآن خوانی اورصدقہ وخیرات میں گزاراجاوے اورروزوں کی راتوں میں مخصوص طورپر نماز تہجد کاالتزام کیا جاوے وغیرذالک۔ ۲؎ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے کہ آپؐ کارمضان گویاایک مجسم عبادت کا رنگ رکھتا تھااورگویوں توآپؐ کی ساری زندگی ہی عبادت تھی،مگر روزوں میں آپؐ خصوصیت سے بیشتر حصہ وقت کا نوافل اورذکر الہٰی میں گزارتے تھے اورراتوں کو کثر ت کے ساتھ جاگتے تھے اوررمضان میں آپؐ اتنا صدقہ وخیرات کرتے تھے کہ صحابہؓ نے اس کو ایک تیز ہوا کے ساتھ تشبیہہ دی ہے جوکسی روک کوخیال میں نہ لائے۔ ۳؎ نیز روزہ کی روح کوزندہ رکھنے کے لئے آپؐ ہمیشہ صحابہ کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس کھانا پینا چھوڑنے کی رسم ادا کرکے تم خدا کے نزدیک روزہ دار شمار ہوجائو گے بلکہ تمہیں روزہ کی اصل روح کوملحوظ رکھنا چاہئے تاکہ اس سے تمہارے اندر طہارت نفس اورضبط خواہشات اورمادۂ قربانی اورغرباء کی امدادکااحساس پیداہواورفرماتے تھے کہ وہ شخص بہت بدقسمت ہے جس کو کوئی رمضان میسرآئے اورپھراس کے گزشتہ گناہ معاف نہ ہوں۔آپؐ نوافل کے طورپر بھی روزہ کی تحریک فرمایا کرتے تھے مگرآپؐکی یہ سنت تھی کہ آپؐ ہر بات میں میانہ روی کا حکم دیتے تھے ۔چنانچہ آپؐ اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا چلاجاوے اورفرماتے تھے کہ انسان پرخدا نے اس کے نفس کا بھی حق رکھا ہے اوراس کی بیوی کا بھی حق رکھا ہے اوراس کے بچوں کا بھی حق رکھا ہے اوراس کے دوستوں کا بھی حق رکھا ہے اور ہمسایوں کا بھی حق رکھا ہے اوراسی طرح دوسرے حقوق ہیں اوران میں سے ہرحق کو خدا کی شریعت اورمنشاء کے ماتحت ادا کرنا عبادت میںداخل ہے۔پس ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی شخص ایک خاص عبادت پرزور دے کر دوسرے حقوق کو نظر انداز کردے۔ غرض اس طرح اس سال رمضان کے روزے فرض ہوگئے اوراسلامی عبادات میںدوسرے رکن کا اضافہ ہوا،لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح پنجگانہ نماز فرض ہونے سے قبل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے رنگ میں نفلی نماز پڑھا کرتے تھے اورصحابہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔اسی طرح رمضان کے روزے فرض کئے جانے سے پہلے آپؐ نفلی روزے بھی رکھتے تھے،مگر وہ اس طرح باقاعدہ اورمعیّن اورموّقت صورت میں مشروع نہیں ہوئے تھے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل آپؐ یوم عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کاروزہ رکھا کرتے تھے اورصحابہ کوبھی اس کی تحریک فرماتے تھے۔
عیدالفطر
رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رمضان کاآخرآیا توآپؐ نے خدا سے حکم پاکر صدقۃ الفطر کاحکم جاری فرمایا کہ ہرمسلمان جسے اس کی طاقت ہو اپنی طرف سے اور اپنے
اہل عیال اورتوابع کی طرف سے فی کس ایک صاع ۱؎ کے حساب سے کھجور یاانگور یاجَو یاگندم وغیرہ بطورصدقہ عید سے پہلے ادا کرے اور یہ صدقہ غرباء اور مساکین اوریتامیٰ اوربیوگان وغیرہ میں تقسیم کردیا جاوے تاکہ ذی استطاعت لوگوں کی طرف سے عبادت صوم کی کمزوریوں کا کفارہ ہوجاوے اور غرباء کے لئے عید کے موقع پرایک امداد کی صورت نکل آئے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے ہر عید رمضان سے پہلے صدقتہ الفطر باقاعدہ طورپر ہرچھوٹے بڑے مردعورت مسلمان سے وصول کیا جاتا تھا اوریتامیٰ اورغرباء اورمساکین میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔
عیدالفطر بھی اسی سال شروع ہوئی یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رمضان کامہینہ ختم ہوجانے پر شوال کی پہلی تاریخ کومسلمان عید منایا کریں۔یہ عید اس بات کی خوشی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی عبادت ادا کرنے کی توفیق عطافرمائی ہے۔مگر کیا شان دلربائی ہے کہ آپؐ نے اس خوشی کے اظہار کے لئے بھی ایک عبادت ہی مقرر فرمائی۔ چنانچہ حکم دیا کہ عید کے دن تمام مسلمان کسی کھلی جگہ جمع ہو کر پہلے دو رکعت نماز ادا کیا کریں اورپھر اس نماز کے بعد بے شک جائز طورپر ظاہری خوشی بھی منائیں کیونکہ روح کی خوشی کے وقت جسم کا بھی حق ہے کہ وہ خوشی میں حصہ لے۔دراصل اسلام نے ان تمام بڑی بڑی عبادتوں کے اختتام پر جواجتماعی طورپرادا کی جاتی ہیںعیدیں رکھی ہیں۔چنانچہ نمازوں کی عید جمعہ ہے جوگویا ہرہفتہ کی نمازوں کے بعد آتا ہے اور جسے اسلام میں ساری عیدوں سے افضل قرار دیا گیا ہے پھرروزوں کی عید عید الفطر ہے جو رمضان کے بعد آتی ہے۔اورحج کی عید عیدالالضحیٰ ہے جو حج کے دوسرے دن منائی جاتی ہے اوریہ ساری عیدیں پھر خود اپنے اندر ایک عبادت ہیں۔ الغرض اسلام کی عیدیں اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتی ہیں اوران سے اسلام کی حقیقت پربڑی روشنی پڑتی ہے اوریہ اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کس طرح اسلام مسلمانوں کے ہر کام کو ذکر الہٰی کے ساتھ پیوند کرنا چاہتا ہے۔مجھے تاریخ سے ہٹنا پڑتا ہے ،ورنہ میں بتاتا کہ کس طرح اسلام نے ایک مسلمان کی ہرحرکت وسکون اورہرقول وفعل کو خدا کی یاد کا خمیر دیا ہے۔ حتّٰی کہ روزمرہ کے معمولی اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے،سونے جاگنے،کھانے پینے،نہانے دھونے،کپڑے بدلنے، جوتاپہننے،گھر سے باہر جانے،گھرکے اندر آنے،سفر پر جانے،سفر سے واپس آنے،کوئی چیز بیچنے،کوئی چیز خریدنے،بلندی پرچڑھنے،بلندی سے اترنے،مسجد میں داخل ہونے، مسجد سے باہرآنے،دوست سے ملنے،دشمن کے سامنے ہونے،نیا چاند دیکھنے،بیوی کے پاس جانے غرض ہرکام کے شروع کرنے اور ختم کرنے حتّٰی کہ چھینک اوراباسی تک لینے کو ۱؎ کسی نہ کسی طرح خدا کے ذکر کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔اس حالت میں اگر مشرکین عرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق جو دراصل اس تعلیم کے لانے والے،لیکن کفار کے خیال میں اس تعلیم کے بنانے والے تھے یہ کہتے ہوں کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کوخدا کا جنون ہوگیا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔واقعی ایک دنیادار کویہ باتیں جنون کے سوا اورکچھ نظر نہیں آسکتیں،مگر جس نے اپنی ہستی کی حقیقت کو سمجھا ہے وہ جانتا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔
جنگ بدر کے متعلق ایک ابتدائی بحث
اسی سال رمضان کے مہینہ میں بدر کی جنگ وقوع میں آئی۔یہ جنگ چونکہ کئی لحاظ سے تاریخ اسلام کاایک
نہایت اہم واقعہ ہے،اس لئے ضروری ہے کہ اس کے متعلق کسی قدر زیادہ تفصیلی نظر ڈالی جاوے۔بدر وہ پہلی باقاعدہ لڑائی ہے جوکفار اورمسلمانوں کے درمیان ہوئی اوراس کے اثرات بھی ہردو فریق کے لئے نہایت وسیع اورگہرے ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے اس کانام’’یوم الفرقان‘‘یعنی حق وباطل کے درمیان فیصلہ کا دن رکھا ہے اور اس کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہی عذاب ہے جس کی خبر رسول خدا کے ذریعہ قریش مکہ کو ہجرت سے پہلے دی گئی تھی۔جنگ بدر کے تحریکی سبب کے متعلق زمانہ حال میں بعض محققین نے اختلاف کیا ہے اوراسی اختلاف کے متعلق ہم اس ابتدائی نوٹ میں کچھ بحث کرنا چاہتے ہیں۔ عام مؤرخین کایہ خیال ہے اورمتقدمین میں سے تو اس بارہ میں کسی ایک مؤرخ نے بھی اختلاف نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوقریش کے ایک تجارتی قافلہ کی اطلاع ملی تھی جوابوسفیان کی سرداری میں شام کی طرف سے مکہ کوواپس آرہاتھا اورآپؐ اسی قافلہ کی روک تھام کے لئے مدینہ سے نکلے تھے،لیکن جب آپؐ بدر کے قریب پہنچے تواس وقت آپؐ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کاایک بڑا لشکرمکہ سے آیا ہے اورپھر قافلہ توبچ کرنکل گیا اورقریش کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی مٹھ بھیڑ ہوگئی۔دوسری طرف زمانہ حال میں جماعت احمدیہ قادیان کے ایک معزز فرد مولوی شیرعلی صاحب بی۔اے نے رسالہ ریویوآف ریلیجنزقادیان بابت سال ۱۹۱۰ء میں اور ہندوستان کے مشہور مؤرخ مولانا شبلی نعمانی نے سیرۃ النبیؐ میں بعض قرآنی آیات اوردیگر شہادات سے استدلال کرکے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ مسلمانوں کومدینہ میں ہی قریش کے لشکر کی اطلاع مل گئی تھی۔اوروہ مدینہ سے ہی لشکر کے مقابلہ کے خیال سے نکلے تھے اور قافلہ کے ارادے سے نکلنے کاخیال غلط ہے۔چنانچہ مولاناشبلی اپنی رائے کا خلاصہ یہ لکھتے ہیں کہ
’’مدینہ میں یہ مشہور ہوا کہ قریش ایک جمعیت عظیم لے کر مدینہ آرہے ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدافعت کاقصد کیا اوربدر کا معرکہ پیش آیا۔‘‘ ۱؎
جہاں تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذاتی خلق اور مسلمانوں کے قومی اخلاق پرروشنی پڑنے کاسوال ہے یہ اختلاف چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔صحابہ قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلے تھے یا لشکر قریش کے مقابلہ کی غرض سے یا یہ کہ انہیں دونوں کی اطلاع اوردونوں کاخیال تھا ان میں سے کوئی بھی مقصد ہووہ مقصد جیسا کہ ہم جہاد کی اصولی بحث میں ثابت کرچکے ہیں بالکل درست اورجائز تھا اورکوئی معقول اورغیرمتعصب شخص اس پر اعتراض نہیں کرسکتا،لیکن تاریخی اورعلمی نکتہ نگاہ سے یہ اختلاف ایک دلچسپ بحث کا رنگ اختیار کرگیا ہے اورکوئی علم دوست مؤرخ اس کی طرف سے بے توجہی نہیں برت سکتا اورپھرصحتِ واقعات کی تحقیق کی ذمہ داری مزید برآں ہے ،لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کی پوری پوری بحث اورمکمل چھان بین کے لئے ایک طویل مقالہ کی ضرورت ہے جس کی گنجائش ایک خالص تاریخ کی کتاب میںنہیں نکالی جاسکتی اورحق یہ ہے کہ میں نے اس بحث میں ایک مفصل مضمون لکھا بھی تھا،لیکن پھر اسے اس خیال سے خارج کردیا کہ اس قسم کامضمون حقیقتاً علم کلام میں داخل ہے اورعام تاریخ کاحصہ نہیں بننا چاہئے۔ سواب میں نہایت مختصر طورپر اس معاملہ میں اپنی تحقیق کاذکر کرکے اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں۔
میں نے ہر دوقسم کے خیالات کے متعلق کافی غور کیا ہے لیکن جہاں میں مولوی شیرعلی صاحب اور مولانا شبلی کی تحقیق کوقدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں وہاں میں افسوس کے ساتھ بعض باتوں میں ان بزرگوں سے اختلاف بھی رکھتا ہوںاور میری رائے میں اصل حقیقت ان ہردوقسم کے خیالات کے بین بین ہے۔یعنی میری تحقیق یہ ہے کہ ایک طرف توجدید تحقیق کایہ حصہ ٹھیک ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میںہی لشکرقریش کی آمد کی اطلاع ہوگئی تھی اوردوسری طرف عام مؤرخین کایہ خیال بھی ہرگز غلط نہیں ہے کہ صحابہ(یعنی اکثرصحابہ جیسا کہ ابھی ظاہر ہوجائے گا)صرف قافلہ ہی کی روک تھام کے خیال سے نکلے تھے اور لشکر قریش کا علم انہیں بدر کے قریب پہنچ کر ہوا تھااورجہاں تک میں نے غور کیا ہے قرآن شریف اور تاریخ وحدیث دونوں میرے اس خیال کے مؤید ہیں۔دراصل ہمارے ان جدیدمحققین نے قرآن شریف کے سارے بیان کواپنے مد نظر نہیں رکھا اورصرف اس کے ایک حصہ کو لے کر(جوبظاہر تاریخی بیان کے مخالف نظر آتا ہے حالانکہ دراصل وہ بھی تاریخی روایات کے مخالف نہیں ہے بلکہ تاریخ سے ایک زائد بات بتاتا ہے)اس بحث میں ساری تاریخی روایات کو عملاًردی کی طرح پھینک دیا ہے۔ حالانکہ خود قرآن شریف کے دوسرے حصے ان تاریخی روایات کی تصدیق کرتے ہیں اورسوائے ایک زائد بات کے جس کی طرف قرآن شریف اشارہ کرتا ہے باقی ساری باتوں میں قرآنی بیان اور تاریخی بیان ایک دوسرے کے مطابق ہیںاورہرگز کوئی اختلاف نہیں۔تفصیلات سے قطع نظر کرتے ہوئے تاریخی بیان کا ماحصل جومضبوط روایات سے ثابت ہے اورجس کی تائید میں صحیح احادیث بھی پائی جاتی ہیں یہ ہے کہ بدر کے موقع پرمسلمان صرف قافلہ کی روک تھام کے خیال سے مدینہ سے نکلے تھے اورلشکر قریش کاعلم انہیں بدر کے پاس پہنچ کر ہوا تھا او راس طرح گویا لشکر قریش اورمسلمانوں کا مقابلہ اچانک ہوگیا تھا۔اب اس تاریخی بیان کے مقابلہ میں ہم قرآن شریف پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے سوسورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱؎ … ۲؎ … ۳؎
یعنی’’اے رسول!جس طرح نکالا تجھے تیرے رب نے تیرے گھر (مدینہ)سے حق کے ساتھ اس حال میں کہ مومنوں میںسے بعض لوگ تیرے اس نکلنے کوایک سخت مشکل اورنازک کام سمجھتے تھے۔ اسی طرح نکلے تیرے دشمن تجھ سے لڑتے ہوئے حق کے رستہ میںبعد اس کے کہ وہ حق ان کے لئے ظاہر ہوچکا تھا۔(یعنی ان پر خدائی سنت کے مطابق اتمام حجت ہوچکا تھا)اورحق کو قبول کرنا ان کے لئے ایسا تھا کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہوں اورموت بھی وہ جو سامنے نظر آرہی ہو۔اوریاد کرو اے مسلمانو!جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ وعدہ دیتاتھا کہ کفار کے دو گروہوں(یعنی لشکر اور قافلہ)میں سے کسی ایک گروہ پر ضرور تمہیں غلبہ حاصل ہو گا اور تمہارا حال یہ تھا کہ تم خواہش کر رہے تھے کہ ان گروہوں میں سے کم تکلیف اور کم مشقّت والے گروہ(یعنی قافلہ)سے تمہارا سامنا ہو،لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ(لشکر سے تمہارا مقابلہ کراکے)اپنی پیشگوئی کے مطابق حق کو قائم کر دے اور ان کفّار مکّہ کی جڑ کاٹ ڈالے (یعنی ائمۃ الکفر ہلاک کر دئیے جائیں)…جبکہ تم بدر کی وادی کے ورلے کنارے پر پہنچے تھے اور قریش کا لشکر پرلے کنارے پر تھا (یعنی تم ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو گئے تھے)اور قافلہ تمہارے نیچے(مکّہ کی طرف کو)نکل چکا تھا (یعنی قافلہ تو بچ کر نکل گیا اور تم اچانک لشکر کے سامنے آگئے اور یہ سب کچھ خدائی تصرف کے ماتحت ہوا ورنہ)اگر لڑائی کے وقت کی تعیین تم پر چھوڑ دی جاتی تو(اس وقت ظاہری اسباب کے لحاظ سے تمہاری حالت ایسی کمزور تھی کہ)تم ضرور اس میں اختلاف کرتے(یعنی گو تم میں سے بعض یہ کہتے کہ ہم ہر حالت میں لڑنے کو تیار ہیں،لیکن ضرور اس بات پر زور دیتے کہ لڑائی کے وقت کو پیچھے ڈال دیا جاوے تا کہ وہ کفار کے مقابلہ کے لیے اچھی طرح مضبوط ہو جائیں تو پھر لڑائی کے لیے ان کے سامنے آئیں)لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ(تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر لا کر )وہ کام کر گزرے جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا(یعنی وہ پیشگوئی پوری کرے جو خدائی نشان کے طور پر ائمۃ الکفر کی ہلاکت کے متعلق کی گئی تھی)…پھر وہ وقت بھی یاد کرو جب میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں میں کفار کو تھوڑا کر کے دکھاتا تھا(تا کہ تم بد دل نہ ہو)اور تمہیں کفار کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھاتا تھا (تا کہ وہ بھی مقابلہ سے پیچھے نہ ہٹ جائیں)یہ بھی خدا نے اس لیے کیا کہ وہ اس بات کو کر گزرے جس کا پہلے سے فیصلہ ہو چکا تھا اور بیشک اللہ ہی کی طرف ہر کام کا مآل ہے(یعنی تمام کاموں کا انتہائی تصرف اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جس طرح چاہے واقعات کو چلا سکتا ہے‘‘۔)
ان قرآنی آیات سے جو مسلمہ طور پر جنگ بدر کے متعلق تسلیم کی گئی ہیں اور جن کے ترجمہ کی تشریح کیلئے میں نے بعض الفاظ زائد کر ئیے ہیں مندرجہ ذیل یقینی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
اوّل۔ جس وقت آپؐ مدینہ سے نکلے اس وقت مومنوں میں سے بعض لوگ آپؐ کے نکلنے کو ایک مشکل اورنازک کام سمجھتے تھے۔
دوم۔مومنوں کی(مگریہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کی یااکثر کی۔مگرغالباً اکثر کی) یہ خواہش تھی کہ قافلہ کے ساتھ مقابلہ ہو۔
سوم۔یہ خواہش اس لئے نہیں تھی کہ انہیں قافلہ کے اموال واَمتعہ کا خیال تھا بلکہ اس لئے تھی کہ قافلہ والوں کی تعداد تھوڑی تھی اوران کا سامانِ حرب بھی کم تھااس لئے اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اور کم مشکل پیش آنے کا احتمال تھا۔
چہارم۔مگر اللہ تعالیٰ کا شروع سے ہی یہ ارادہ تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ لشکر قریش کے ساتھ ہو۔تا کہ وہ اَئمۃ الکفرجواپنے مظالم اورسرکشیوں اورخونی کارروائیوں کی وجہ سے ہلاک کئے جانے کے سزاوار ہوچکے تھے ایک خدائی نشان کے طور پر کمزور لوگوں کے ہاتھوں سے ہلاک کردیئے جائیں اور وہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کی ہلاکت کے متعلق پہلے سے کی جاچکی ہیں۔
پنجم۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کا میلان قافلہ کے مقابلہ کی طرف تھا قافلہ توبچ کر نکل گیااورلشکر قریش سے ان کا اچانک سامنا ہوگیا۔
ششم۔یہ تصرف اس لئے کیا گیا کہ مسلمانوں کی حالت اس وقت ظاہری اسباب کے ماتحت اتنی کمزور تھی کہ اگر خود ان پر اس لڑائی کے وقت تعیین چھوڑدی جاتی توان میں سے ایک فریق ضرور اس مقابلہ کے وقت کو پیچھے ڈالنے کی کوشش کرتا حالانکہ اللہ کا منشاء یہ تھا کہ ابھی مقابلہ ہواورفیصلہ ہوجائے۔
ہفتم۔یہ خدائی تصرف لشکرقریش اورمسلمانوں کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوجانے کے وقت تک بھی جاری رہا۔چنانچہ خدائی تصرف کے ماتحت دونوں فوجیں ایسے طور پر ایک دوسرے کے سامنے آئیں کہ دونوں ایک دوسرے کوان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتے تھے اوریہ اس لئے کیا گیا کہ تا مسلمانوں میں بددلی نہ پیدا ہواورقریش بھی جرأت کے ساتھ آگے بڑھیں اور مقابلہ ہوجاوے۔
یہ وہ سات باتیں ہیں جوامرزیربحث کے متعلق قرآن شریف سے یقینی طورپر پتہ لگتی ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے نمبراول کے یہ ساری باتیں تاریخی بیان کے عین مطابق ہیں اوران میں وہی حالات بیان کئے گئے ہیں جوصحیح تاریخی روایات اوراحادیث میں مذکور ہوئے ہیں۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم تاریخی بیان کو رد کردیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآنی بیان کے مخالف نہیں ہے بلکہ اس کے رد کرنے سے قرآنی بیان کارد لازم آتا ہے۔غور کا مقام ہے کہ تاریخی روایات سوائے اس کے اورکیا کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا لشکر قافلہ کے خیال سے نکلا تھا،مگر اچانک اس کا مقابلہ لشکر قریش سے ہوگیا۔ مگر کیا قرآن شریف بھی یہی نہیں کہتا کہ مسلمانوں کو قافلہ کی خواہش تھی،مگر خداتعالیٰ نے اس کا مقابلہ اچانک لشکرقریش سے کرادیا؟اور قرآن شریف اس کی وجہ بھی بتاتا ہے کہ خدا نے یہ کام اپنے خاص تصرف کے ماتحت اس لئے کیا کہ تابطورایک خدائی نشان کے اَئمۃ الکفر مسلمانوں کے ہاتھ سے ہلاک کروا دیئے جائیںاوروہ پیشگوئی پوری ہوجوان کی ہلاکت کے متعلق پہلے سے کی جاچکی تھی۔ اندریں حالات اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ مسلمان مدینہ سے ہی لشکر قریش کے مقابلہ کے لئے نکلے تھے اس بات کے ہم معنی ہے کہ نہ صرف یہ کہ تاریخ واحادیث کی کثیرالتعداد مضبوط اور صحیح روایات کو بالکل ردی کی طرح پھینک دیا جاوے ،بلکہ اس قرآنی بیان کو بھی غلط قراردیاجاوے جسے خداتعالیٰ نے بدر کے قصہ میں بطور مرکزی نقطہ کے رکھا ہے۔
پس حق یہی ہے کہ مسلمان قافلہ ہی کی روک تھام کے خیال سے نکلے لیکن جب بدرکے پاس پہنچے تو اچانک یعنی علیٰ غیرمیعاد لشکر قریش کاسامنا ہوگیا اور جیسا کہ ہم اوپر ثابت کرچکے ہیں قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلنا ہرگز قابل اعتراض نہیں تھا۔کیونکہ اول تویہ مخصوص قافلہ جس کے لئے مسلمان نکلے تھے ایک غیر معمولی قافلہ تھا جس میں قریش کے ہر مردوعورت کاتجارتی حصہ تھا۔ ۱؎ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق روساء قریش کی یہ نیت تھی کہ اس کا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہی منافع جنگ اُحد کی تیاری میں صرف کیا گیا ۔ ۲؎ پس اس قافلہ کی روک تھام تدابیر جنگ کا ضروری حصہ تھی۔دوسرےؔ عام طور پر بھی قریش کے قافلوں کی روک تھام اس لئے ضروری تھی کہ چونکہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بہت قریب ہوکرگزرتے تھے ان سے مسلمانوں کوہروقت خطرہ رہتا تھاجس کا سدباب ضروری تھا۔تیسرےؔ یہ قافلے جہاں جہاں سے بھی گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے پھرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت نازک ہورہی تھی۔پس ان کا راستہ بند کرنادفاع اورخود حفاظتی کے پروگرام کا حصہ تھا۔چوتھےؔ قریش کا گزارہ زیادہ ترتجارت پر تھااس لئے ان قافلوں کی روک تھام ظالم قریش کوہوش میں لانے اوران کو ان کی جنگی کارروائیوں سے باز رکھنے اورصلح اورقیامِ امن کے لئے مجبور کرنے کا ایک بہت عمدہ ذریعہ تھی اور پھران قافلوں کی روک تھام کی غرض لوٹ مار نہیں تھی بلکہ جیسا کہ قرآن شریف صراحتاً بیان کرتا ہے خود اس خاص مہم میں مسلمانوں کوقافلہ کی خواہش اس کے اموال کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اورکم مشقت کا اندیشہ تھا۔
اب رہی وہ بات جوقرآن شریف میں تاریخی بیان سے زائد پائی جاتی ہے سووہ بھی تاریخ کے مخالف نہیں کہلا سکتی کیونکہ تاریخی بیان میں کوئی ایسی بات نہیں جو اس کے خلاف ہوالبتہ یہ ایک زائد علم ہے جو ہمیں قرآن شریف سے حاصل ہوتا ہے اوربعض تاریخی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بہرحال یہی ایک بات ہے جو تاریخی نکتہ نگاہ سے قابل تشریح سمجھی جاسکتی ہے اوریہ بات قرآنی بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے نکلے تو اس وقت بعض مسلمان آپؐ کی اس مہم کو ایک مشکل اورنازک کام سمجھتے تھے۔ اس پر طبعاًیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے صحابہ کے دل میں یہ احساس تھا۔ اگر محض قافلہ کی روک تھام کا خیال ہوتا تو تین سوجانثاروں سے زائد کی جمعیت کے ہوتے ہوئے یہ احساس ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔پس معلوم ہوا کہ قافلہ کی خبر کے ساتھ ساتھ کوئی اورخیال بھی تھا جوبعض مسلمانوں کو فکر مندکررہا تھا۔یہ خیال کیا تھا؟اس سوال کا جواب تاریخ سے واضح طور پر نہیںملتا اورنہ ہی قرآن شریف نے اسے صراحتاً بیان کیا ہے۔پس اس کے متعلق لازماًقیاس کرنا ہو گااورخوش قسمتی سے یہ قیاس مشکل نہیں ہے کیونکہ تاریخ وقرآن شریف ہردو میں قافلہ کے ساتھ ساتھ لشکر قریش کا ذکر بھی چلتا ہے اوراس سارے قصہ میں اگر کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں فکر پیدا کرسکتی تھی تووہ لشکر قریش کی اطلاع ہے۔پس ماننا پڑے گا کہ مدینہ میں ہی لشکر قریش کی خبر بھی پہنچ گئی ہوگی۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کویہ فکر دامن گیر ہواہوگا کہ اگر لشکر سے مقابلہ ہوگیا توسخت مشکل کا سامنا ہوگا۔یہ وہ استدلال ہے جو اس آیت سے کیا گیا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ استدلال ایک عمدہ استدلال ہے جواس آیت کی روشنی میں یہ واقعی ماننا پڑتا ہے کہ قریش کی آمد آمد کی اطلاع مدینہ میں ہی پہنچ گئی ہوگی لیکن جو وسعت اس استدلال میں پیدا کرلی گئی ہے وہ ہرگز درست نہیں۔یعنی اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مدینہ میں ہی سارے یااکثر مسلمانوں کویہ اطلاع پہنچ گئی تھی اوروہ سب کے سب یاان میں سے اکثر اسی علم کے ماتحت مدینہ سے نکلے تھے۔یہ یقینا غلط ہے کیونکہ علاوہ اس کے قرآن شریف کا بقیہ بیان اورکثیر التعداد تاریخی روایات اسے قطعی طورپر غلط ثابت کرتی ہیں۔خود آیت زیربحث بھی اس وسعت کوقبول نہیں کرتی کیونکہ آیت میں یہ صاف طور پر موجود ہے کہ یہ احساس صرف بعض صحابہ کوتھا جیسا کہ فریقاً کے لفظ سے پایاجاتا ہے ۔یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکلنے کے متعلق صرف بعض صحابہ فکر مند تھے سب یااکثر صحابہ فکر مند نہ تھے۔پس ثابت ہوا کہ قرآن شریف کی رو سے مدینہ میں لشکر قریش کی خبر صرف بعض صحابہ کو پہنچی تھی اوراکثر اس سے بے خبر تھے اور یہ وہ صورت ہے جو قرآن شریف کے بقیہ بیان اور تاریخی روایات کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ جب لشکر قریش کی خبر مدینہ میں پہنچی ہوتوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی مصلحت سے اس کی اطلاع صرف بعض خاص خاص صحابہ کو دی ہو اوراکثر مسلمان اس سے بے خبر رہے ہوں اور وہ اسی بے خبری کی حالت میں صرف قافلہ کے خیال سے مدینہ سے نکلے ہوں اورپھر بدر کے پاس پہنچ کر قریش سے اچانک ان کا سامنا ہوگیا ہو۔اور یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے،کیونکہ قرآن شریف کا بقیہ بیان اس کی تائید میں ہے اورتاریخ وحدیث میں بھی اس کے متعلق اشارات پائے جاتے ہیں۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامدینہ سے نکلنے سے قبل خاص طور پر صحابہ سے مشورہ کرنا اوراس مشورہ کو ایسے رنگ میں چلاناکہ انصار بھی آپؐ کے ساتھ چلنے کوتیار ہوجائیں تاکہ آپؐ کے ساتھ زیادہ جمعیت ہو۔ ۱؎ حالانکہ انصار اس سے پہلے کسی مہم میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ۲؎ اورپھر جب بدر کے پاس پہنچ کر قریش کے ایک حبشی غلام کے ذریعہ لشکر قریش کی اطلاع ہوئی توصحابہ کا اس کے متعلق شک کرنا اوراسے جھوٹا سمجھنا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فوراًبلاتأمّل مان لینا اور فرمانا کہ یہ غلام سچ کہتا ہے۔۱؎ وغیرذالک۔یہ سب اس بات کی شہادتیں ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہلے سے ہی لشکر قریش کی آمدکی اطلاع تھی مگر صحابہ اس سے بے خبر تھے۔سوائے ان خاص خاص صحابہ کے جنہیں قرآنی بیان کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس خبر کی اطلاع ہوگئی ہوگی۔
اب صرف یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ کیا یہ ممکن تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کولشکر قریش کی خبر مدینہ میں ہی مل جاتی اورپھر یہ کہ اگر آپؐکویہ خبر مل گئی تھی توآپؐنے کیوں صرف بعض صحابہ کو اطلاع دی اوراکثر مسلمان اس سے بے خبر رہے؟سواس کا پہلاجواب تو یہ ہے کہ ہاں ایسا ممکن تھاکیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اوررسول تھے اورآپؐپرخدا کا کلام نازل ہوتا تھااورتاریخ سے ثابت ہے کہ بسااوقات آپؐکوآئندہ ہونے والے واقعات یاغیب کی خبروں سے خدائی وحی کے ذریعہ اطلاع دی جاتی تھی۔پس اگر اس موقع پر بھی آپؐ کو خدائی الہام کے ذریعہ یہ اطلاع مل گئی ہو کہ قریش کاایک لشکر آرہا ہے تواس میں کوئی تعجب کی بات نہیں اورآپؐ کی زندگی کے واقعات کے لحاظ سے یہ ایک نہایت معمولی واقعہ سمجھا جائے گا۔اورچونکہ ایسا الہام جو کسی پیشگوئی کا حامل ہو بعض اوقات تاویل طلب ہوتا ہے اوراس کی پوری تفہیم بعض اوقات خود ملہم کوبھی واقعہ سے قبل نہیں ہوتی ۔اس لئے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے احتیاطاًاس الہٰی خبر کی اطلاع صرف خاص خاص صحابہ کو دی ہواوراکثر مسلمانوں کواس کی اطلاع نہ دی گئی ہوتاکہ ان میں اس خبر سے کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے جیسا کہ قرآن شریف سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اسی جنگ میں دوسرے موقع پر بددلی کے سدباب کے لئے خدانے یہ تصرف فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی نظروں میں کفار کا لشکران کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔دوسرؔا جواب اس کا یہ ہے کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے بھی یہ بات بالکل ممکن تھی کہ آپؐ کو مدینہ میں ہی لشکر قریش کی اطلاع موصول ہوجاتی ۔کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب ابوسفیان کا قاصد مکہ میں پہنچا توقریش نے تین دن تیاری میں صرف کئے۔ ۲؎ اورپھر بدر تک پہنچنے میں آٹھ یانودن مزید لگ گئے۔ ۳؎ یہ کل گیارہ یابارہ دن ہوئے۔ باوجود اس کے جب اسلامی لشکربدر میں پہنچا تولشکر قریش پہلے وہاں پہنچا ہواتھا اورچونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بدر میں سولہ رمضان کوپہنچے تھے اس لئے یہ مانناپڑے گاکہ قریش کالشکر غالباً پندرہ تاریخ کو وہاں پہنچ گیا ہوگا اب ان پندرہ دنوں میں سے گیارہ یابارہ دن تیاری اورسفر کے نکال دیں تو یہ یقینی نتیجہ نکلتا ہے کہ قریش نے تین یاچار رمضان کومکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر کے مدینہ سے نکلنے کی تاریخ عقلاًبھی اورروایتہ بھی بارہ رمضان ثابت ہوتی ہے۔ ۱؎ گویا قریش کی تیاری اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خروج از مدینہ کے درمیان پورے آٹھ یانودن کا وقفہ تھا۔اس عرصہ میں لشکر قریش کی اطلاع بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں پہنچ سکتی تھی بلکہ یہ عرصہ ایک شخص کے مکہ سے مدینہ جانے اور مدینہ سے پھر مکہ واپس آجانے کے لئے بھی کافی تھا۔کیونکہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ایک تیزروسوار جوہرقسم کے بوجھوں سے آزاد ہوتیسرے چوتھے دن مکہ سے مدینہ پہنچ جاتا تھا۔۲؎
اوراگر یہ سوال ہوکہ مکہ سے اطلاع دینے والا کون تھا؟تواس کا جواب یہ ہے کہ علاوہ اس کے کہ ابھی تک مکہ میں بعض کمزور اورغریب مسلمان موجود تھے جواس قسم کے خطرات کی حالت میں خبر رسانی کاانتظام کرسکتے تھے۔ابھی تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچاعباس بن عبدالمطلب بھی مکہ میںہی تھے اورتاریخ سے ثابت ہے کہ وہ ہرقسم کی ضروری خبریں مکہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھجوایاکرتے تھے۔۳؎ چنانچہ غزوہ احد کے متعلق توخاص طورپر یہ ذکر آتا ہے کہ عباس نے اس موقع پر لشکر قریش کی خبر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخفی طورپربھجوائی تھی اورقاصد سے یہ شرط کی تھی کہ وہ تین دن کے اندر اندر یہ خبر مدینہ پہنچا دے گا۔چنانچہ یہ قاصد واقعی تین دن میں مدینہ پہنچ گیا تھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو لشکر قریش کی بروقت اطلاع ہوگئی اورآپؐ نے شروع شروع میں یہ خبر صرف خاص خاص صحابہ پرظاہر فرمائی اور بعد میں اعلان کیا۔۴؎ ان حالات میں کیایہ قرین قیاس نہیں بلکہ میں کہوں گا کہ یہ اغلب نہیں ہے کہ بدر کے موقع پر بھی عباس کی کوئی مخفی تحریر آپؐکوپہنچ گئی ہواورآپؐنے اس خیال سے کہ مسلمانوں میں بددلی نہ پیدا ہواس کا ذکر صرف خاص خاص صحابہ سے فرمایااورعامۃ المسلمین سے اس خبر کو مخفی رکھا ہو؟بلکہ ان حالات کی وجہ سے جواوپر بیان ہوچکے ہیں بدرؔ کے موقع پر اس قسم کاپردہ رکھنا زیادہ ضروری تھا اورپھر یہ راز داری بدر میں اُحد کی نسبت آسان بھی زیادہ تھی کیونکہ اس موقع پرقافلہ کی آمد کی خبر بھی ساتھ موجود تھی جس کی وجہ سے لشکر قریش کی خبر آسانی کے ساتھ اورآخر وقت تک پردہ میں رکھی جاسکتی تھی۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اُحد کے موقع پر عباس کی چٹھی کی خبر ظاہرہوگئی۔کیونکہ گوشروع میں راز رکھا جاسکتا تھا،لیکن بالآخر اس کے اظہار کے بغیر چارہ نہیں تھا۔بدر کے موقع پر یہ خبر آخروقت تک بالکل پردہ میں رہی اورممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ خدائی منشاء کے ماتحت جس کا قرآن شریف میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخری وقت تک یہ پردہ رکھنا ضروری خیال کیا ہو۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن شریف اورتاریخ وحدیث کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو عام مؤرخین کایہ خیال درست ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورسارے کے سارے مسلمان محض قافلہ کے خیال سے مدینہ سے نکلے تھے اورلشکر قریش کی ا طلاع سے وہ سب قطعی طورپر بے خبر تھے اور نہ ہمارے جدیدمحققین کی یہ رائے درست ہے کہ مدینہ میں ہی سارے مسلمانوں کو لشکر قریش کی آمد کی اطلاع ہوگئی تھی اوروہ اس اطلاع کے بعد مدینہ سے نکلے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ پیشتر اس کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے نکلتے لشکر اورقافلہ دونوں کی اطلاع آپؐ کوپہنچ چکی تھی۔مگر لشکر کی آمدمصلحتاً بصیغہ راز رکھی گئی اورسوائے بعض خاص خاص صحابہ کے جو غالباًصرف اکابرمہاجرین میں سے تھے باقی سارے مسلمان اس سے بالکل بے خبر رہے اوراسی بے خبری کی حالت میں وہ مدینہ سے نکلے حتّٰی کہ بدر کے پاس پہنچ کر لشکر قریش سے ان کا اچانک سامنا ہوگیا۔واللہ اعلم۔
یہ سوال کہ کفار کی طرف سے جنگ بدر کا سبب کیا تھا ۔یعنی لشکر قریش مکہ سے کس غرض وغایت کے ماتحت نکلا تھا۔ اس کے متعلق قرآن شریف مندرجہ ذیل صداقت پیش کرتا ہے۔
۱؎ ’’یعنی اے مسلمانو!تم ان کفار کی طرح مت بنوجواپنے گھروںسے تکبر اورنمائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلے تھے اوران کی غرض یہ تھی کہ اللہ کے دین کے رستے میں جبری طور پر روکیں پیدا کریں۔مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی کارروائیوں کامحاصرہ کرکے انہیں خائب وخاسر کردیا۔‘‘
اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خواہ تحریکی سبب کوئی ہواہو اس مہم میں قریش مکہ کی اصل غرض وغایت ان کے ان خونی ارادوں پرمبنی تھی جو وہ شروع سے اسلام اوربانی ٔاسلام کے متعلق رکھتے تھے اور قافلہ کی حفاظت یا عمروبن حضرمی کے قتل کے انتقام کاخیال محض ایک آلہ تھاجس سے وہ عوام کو اشتعال دلانے اوران کے جوشوں کوقائم رکھنے کا کام لیتے تھے اورتاریخ سے بھی اسی کی تصدیق ہوتی ہے۔چنانچہ قافلہ کے خطرے کی اطلاع آنے پربجائے اس کے کہ قریش جلدی سے نکل کھڑے ہوتے ان کا پورے سازوسامان اورپوری تیاری کے ساتھ تین دن کے بعد نکلنااورراستہ میں قافلہ کے بچ کرنکل جانے کی اطلاع آجانے پربھی بڑی رعونت کے ساتھ آگے بڑھنے پراصرارکرنا اورپھر عین میدان جنگ میں پہنچ کر جب کہ بعض لوگو ں کی طرف سے جنگ کے روک دیئے جانے کی تحریک ہوئی ابوجہل وغیرہ کا نہایت سختی کے ساتھ لڑنے پراصرار کرنا اورسارے لوگوں کااسی کی تائید میں ہونا یہ سب اس بات کی یقینی شہادتیں ہیں کہ دراصل قافلہ کی حفاظت اورعمرو بن حضرمی کے قتل کے انتقام کاخیال ایک محض بہانہ تھا اوراصل غرض اسلام کو مٹانا اورمسلمانوں کونیست ونابود کرناتھی۔
اس اصولی بحث کے بعد ہم جنگ بدر کے حالات کابیان شروع کرتے ہیں۔مگر ہم ناظرین سے استدعا کریں گے کہ ہماری اس اصولی بحث کوبدر کے حالات کے مطالعہ کے بعد ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں۔کیونکہ جنگ بدر کے حالات معلوم ہونے پر یہ بحث زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ آسکتی ہے۔

جنگ بدر
اسلامی سلطنت کااستحکام
اور
رئوسا قریش کی تباہی
جنگ بدر۔رمضان ۲ہجری مطابق مارچ ۶۲۳ء
اب ہم جنگ بدر کے حالات کاذکر شروع کرتے ہیں۔یہ بیان کیاجاچکا ہے کہ ہجرت نبوی کے
بعد قریش مکہ نے مدینہ پر حملہ آور ہوکر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کردینے کی تیاری شروع کردی تھی اور اس دوران میں سریہ وادیٔ نخلہ میں جو عمروبن حضرمی کے قتل کا واقعہ ہوا تھا اس سے رئوسا قریش نے ناجائزفائدہ اٹھا کر عامۃ الکفار کے دلوں میں مسلمانوں کی عداوت کی آگ کواوربھی زیادہ خطرناک طورپر شعلہ زن کردیا تھا اوراس شخص کی طرح جسے اپنے وہ مظالم تو بھول جاتے ہیں جووہ خود دوسروں پرکرتا رہا ہے لیکن اگرکسی دوسرے کی طرف سے اسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچ جاوے تووہ اسے ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔خواہ وہ جوابی رنگ ہی رکھتی ہو۔قریش مکہ مسلمانوں پرحملہ کرکے ان کو تباہ وبرباد کردینے کی تیاری میں پہلے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منہمک ہوگئے تھے۔اسی اثناء میں مدینہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کاایک تجارتی قافلہ جس کے ساتھ تیس چالیس یابعض روایات کی رو سے ستر آدمی تھے ابوسفیان کی سرداری میں شام کی طرف سے مکہ کوواپس آرہا ہے۔ ۱؎ اس قافلہ میں غیرمعمولی طورپر قریش کے ہرمرد عورت کاحصہ تھا بلکہ لکھا ہے کہ جو چیز اورجو رقم بھی وہ تجارت میں لگا سکتے تھے وہ اس موقع پر انہوں نے لگا دی تھی۔ ۲؎ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباًاس تجارت کے منافع کے متعلق قریش کایہ فیصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگی مصارف میں خرچ ہوگا۔چونکہ قافلوں کی روک تھام ،ظالم قریش کو ہوش میں لانے اورانہیں ان کی خطرناک کارروائیوں سے روکنے کاایک بہترین ذریعہ تھی اوردوسرے ان قافلوں کامدینہ سے اس قدر قریب ہوکر گزرنا ویسے بھی مسلمانوں کے لئے کئی طرح سے خطرے کے احتمالات رکھتا تھااورپھر اس قافلہ کے خاص حالات ایسے تھے کہ اس کا بچ کر نکل جانا بظاہر حالات مسلمانوں کی تباہی کاپیش خیمہ سمجھا جاسکتا تھا۔اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ خبر پاکراپنے دومہاجرصحابی طلحہ بن عبیداللہ اورسعید بن زید کوخبر رسانی کے لئے روانہ فرمایااوردوسرے صحابہ کوبھی اطلاع دے دی کہ وہ اس قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلنے کوتیار رہیں مگر اتفاق ایسا ہوا کہ کسی طرح ابوسفیان کوبھی آپؐ کے اس ارادے کی اطلاع ہوگئی یایہ بھی ممکن ہے کہ اس نے ویسے ہی بطور خود اندیشہ محسوس کیا ہو۔ بہرحال اس نے ایک سوار ضمضم نامی مکہ کی طرف بھگا دیااوراسے تاکید کی کہ بڑی تیزی کے ساتھ سفر کرتا ہوا مکہ میں پہنچے اوروہاں سے قریش کالشکر قافلہ کی حفاظت اورمسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے نکال لائے اورخود ابوسفیان نے یہ احتیاط اختیار کی کہ اصل راستے کو چھوڑ کر سمندر کے کنارے کی طرف ہٹ گیا اورچھپ چھپ کرمگر تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔جب ابوسفیان کا یہ قاصد مکہ پہنچا تواس نے عرب کے دستور کے مطابق ایک نہایت وحشت زدہ حالت بناکر زور زور سے چلانا شروع کیا کہ اے اہل مکہ تمہارے قافلہ پر محمد اوراس کے اصحاب حملہ کرنے کے لئے نکلے ہیں چلواوراسے بچالو۔ ۱؎ یہ خبرسن کر مکہ کے لوگ گھبراکر کعبۃ اللہ کے گرد جمع ہوگئے اور رئوساء قریش نے پھر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نہایت درجہ اشتعال انگیز تقریریں کیں جس سے لوگوں کے سینے اسلام کی عداوت کے جوش سے بھر گئے اور انہوں نے مسلمانوں پر حملہ آور ہوکر تباہ وبرباد کردینے کاپختہ عزم کرلیا۔اس وقت قریش کے جوش کایہ عالم تھا کہ انہوں نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ ایک بڑاجرار لشکرتیار کرکے مسلمانوں کے خلاف نکلیں اوراس مہم میںہروہ شخص جو لڑنے کے قابل ہے شامل ہو جو شخص کسی مجبوری کی وجہ سے خود شامل نہ ہوسکتا ہو وہ اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کوبھیجنے کاانتظام کرے۔ اور رئوساء قریش اس تحریک میں خود سب سے آگے آگے تھے۔صرف دوشخص تھے جنہوں نے اس مہم میں شمولیت سے تامّل کیا اور وہ ابولہب اورامیہ بن خلف تھے مگر ان کے تامّل کی وجہ مسلمانوں کی ہمدردی نہیں تھی بلکہ ابولہب تواپنی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب کے خواب سے ڈرتا تھاجواس نے ضمضم کے آنے سے صرف تین دن پہلے قریش کی تباہی کے متعلق دیکھا تھا اورامیہ بن خلف اس پیشگوئی کی وجہ سے خائف تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے قتل ہونے کے متعلق فرمائی تھی اورجس کا علم اسے سعد بن معاذ کے ذریعہ مکہ میں ہوچکا تھا،لیکن چونکہ ان دو نامی رئوساء کے پیچھے رہنے سے عامۃ الکفار پربرااثر پڑنے کا اندیشہ تھا اس لئے دوسرے رئوساء قریش نے جوش اورغیرت دلادلاکر آخر ان دونوںکو رضامند کرلیا۔یعنی امیہ توخود تیار ہوگیا اور ابولہب نے ایک دوسرے شخص کوکافی روپیہ دیناکرکے اپنی جگہ کھڑا کردیا اوراس طرح تین دن کی تیاری کے بعد ۱؎ ایک ہزار سے زائد جانباز سپاہیوں کالشکر مکہ سے نکلنے کوتیار ہوگیا۔
ابھی یہ لشکرمکہ میں ہی تھا کہ بعض رئوساء قریش کویہ خیال آیا کہ چونکہ بنوکنانہ کی شاخ بنو بکر کے ساتھ اہل مکہ کے تعلقات خراب ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کے پیچھے مکہ پرحملہ کردیں اور اس خیال کی وجہ سے بعض قریش کچھ متزلزل ہونے لگے۔مگر بنوکنانہ کے ایک رئیس سراقہ بن مالک بن جعشم نے جو اس وقت مکہ میں تھاان کو اطمینان دلایا اورکہا کہ میں اس بات کا ضامن ہوتا ہوں کہ مکہ پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔بلکہ سراقہ کو مسلمانوں کی مخالفت کاایسا جوش تھا کہ قریش کی اعانت میں وہ خود بھی بدر تک گیا،لیکن وہاں مسلمانوں کودیکھ کر اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ جنگ سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کوچھوڑ کربھاگ آیا۔اسی واقعہ کی طرف قرآن شریف کی اس آیت میں اشارہ سمجھا گیا ہے کہ…۔ ۲؎ ’’جبکہ شیطان قریش مکہ کومسلمانوں کے خلاف حق بجانب قرار دیتا تھا اور انہیں ابھارتا تھا۔‘‘الخ
مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جاکردعا کی کہ’’اے خدا ہم دونوں فریقوںمیں سے جو گروہ حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اورزیادہ افضل ہے تو اس کی نصرت فرما اور دوسرے کوذلیل ورسواکر۔‘‘ ۳؎ اس کے بعد کفار کالشکر بڑے جاہ وحشم کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔تمام رئوساء قریش ساتھ تھے اورگانے بجانے والی عورتیں بھی جواپنے اشعار کے ساتھ دفیں بجاتی ہوئی غیرت اورجوش دلاتی تھیںہمراہ تھیں۔راستہ میں رئوساء قریش نے اس مہم کوایک خاص قومی کارنامہ خیال کرتے ہوئے اپنے خرچ سے لشکر کی خوراک کاانتظام کیا۔چنانچہ ان کی طرف سے ہرروز باری باری نونو دس دس اونٹ سپاہیوں کی ضیافت کے لئے ذبح کئے جاتے تھے۔۴؎ جب یہ لشکر جحفہ میں پہنچا جومکہ اوربدرکے درمیان مگر بدر کے قریب ترایک مقام ہے تو ابوسفیان کے ایک قاصد کے ذریعے انہیں یہ خبر موصول ہوئی کہ ان کا قافلہ خطرہ کی جگہ سے بچ کر نکل گیا ہے اوراس لئے اب لشکر کوآگے جانے کی ضرورت نہیں۔اس خبرپربعض لوگ واپس جانے کوتیار ہوگئے،لیکن ابوجہل اوراس کی پارٹی کے اثر کے ماتحت اکثر اہل لشکر نے جن کی نیتیں کچھ اور تھیں بلکہ ایک روایت کی رو سے سب نے ۱؎ بڑی سختی سے انکار کیا اور کہا کہ’’خدا کی قسم ہم بدر تک ضرور جائیںگے اوروہاں جاکر تین دن تک جشن منائیںگے تاکہ ہمیشہ کے لئے ملک میں ہمارا رعب بیٹھ جاوے اور لوگ ہم سے ڈرنے لگ جائیں۔‘‘ ۲؎ چنانچہ سوائے چندآدمیوں کے جو واپس لوٹ گئے۔۳؎ باقی سارا لشکر بڑے کروفرکے ساتھ آگے بڑھا اورمکہ سے نکلنے کی تاریخ سے نویں دن(ایک دن درمیان میں راستہ کھوئے جانے کی وجہ سے ضائع ہوگیا تھا۔۴؎ )یعنی ضمضم کی اطلاع پہنچنے کے گیارہ یابارہ دن کے بعد بدر کی وادی کے ورلے کنارے پرپہنچا اوروہاں ڈیرے ڈال دئے۔اس وقت لشکر قریش کی تعداد ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہ لوگ رائج الوقت سامان حرب سے خوب آراستہ تھے۔چنانچہ فوج میں سواری کے سات سواونٹ اورایک سوگھوڑے تھے اور سب سوار اوراکثر پیادہ زرہ پوش تھے اور دیگر سامان جنگ بھی مثلاًنیزہ اورتلوار اور تیر کمان وغیرہ کافی تعداد میں موجود تھا۔
اب ہم تھوڑی دیر کے لئے لشکر قریش سے جدا ہوکر مدینہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے قافلہ کی خبر پاکر اپنے دو صحابی اطلاع حالات کے لئے روانہ فرمادئے تھے لیکن ابھی وہ واپس نہیں لوٹے تھے کہ آپؐ کوکسی ذریعہ سے مخفی طورپر یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔اس وقت جو کمزورحالت مسلمانوں کی تھی اسے ملحوظ رکھتے ہوئے نیز جنگی تدابیر کے عام اصول کے مطابق آپؐ نے اس خبر کو مشتہر نہیں ہونے دیا تاکہ عامۃ المسلمین میں اس کی وجہ سے کسی قسم کی بددلی نہ پیدا ہو،لیکن ایک بیدار مغز جرنیل کی طرح آپؐ نے بغیر اس خبر کے اظہار کے ایسے رنگ میں صحابہ میں تحریک فرمائی کہ بہت سے صحابہ باوجود یہ خیال رکھنے کے کہ یہ مہم قافلہ کی روک تھام کی غرض سے اختیار کی جارہی ہے آپؐ کے ساتھ چلنے کوتیار ہوگئے حتّٰی کہ انصار بھی جو بیعت عقبہ ثانیہ کے معاہدے کے موافق صرف مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں آپؐ کی حفاظت کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے اورجو اس وقت تک کسی غزوہ یاسریہ میںشامل نہیں ہوئے تھے۔ ۱؎ شریک جہاد ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ آپؐ نے مدینہ میں ایک مجلس قائم کی اور صحابہ سے مشورہ دریافت فرمایا۔حضرت ابوبکروعمرنے جان نثارانہ تقریریں کیں مگر آپؐ نے ان کی طرف کچھ التفات نہ کیا جس پر رئوساء انصار سمجھ گئے کہ آپؐ کاروئے سخن ان کی طرف ہے۔چنانچہ ان میں سے سعد بن عبادۃ رئیس خزرج نے جان نثارانہ تقریر کی اور عرض کیا یارسول اللہ!انصار ہرخدمت کے لئے حاضر ہیں اورجہاں بھی آپ ارشاد فرمائیں جانے کے لئے تیار ہیں۔اس کے بعد آپؐ نے صحابہ میں عام تحریک فرمائی اور انصارومہاجرین کی ایک جمعیت آپؐ کے ساتھ نکلنے کو تیار ہوگئی۔ ۲؎ لیکن پھر بھی چونکہ عام خیال قافلہ کے مقابلہ کا تھا بہت سے صحابہ یہ خیال کرکے کہ محض قافلہ کی روک تھام کا معاملہ ہے جس کے لئے زیادہ لوگوں کاشامل ہونا ضروری نہیں ہے شامل نہیں ہوئے۔ ۳؎ دوسری طرف وہ بعض خاص صحابہ جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے لشکر قریش کی آمد کاعلم ہوگیا تھا مگر جن کو اخفاء راز کاحکم تھا وہ اپنی جگہ فکرمند تھے کہ دیکھئے اس موقع پر جبکہ لشکر قریش سے بھی مٹھ بھیڑ ہوجانے کا احتمال ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کی اہم ذمہ داری سے عہدہ براہوسکتے ہیں یا نہیں۔چنانچہ انہی لوگوں کومدنظر رکھتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے ۴؎ یعنی مدینہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکلنے کو مومنوں کاایک فریق(اپنی ظاہری طاقت کا خیال کرتے ہوئے)پسند نہیں کرتا تھااوراسے ایک مشکل اورنازک کام سمجھتا تھا۔‘‘ مگرچونکہ ان کے آقا کا یہی منشاء تھاوہ دلی جوش کے ساتھ لبیک لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت تک گو وہ دوصحابی جن کو آپؐ نے خبر رسانی کے واسطے بھیجا تھا واپس نہیں لوٹے تھے مگر چونکہ لشکر قریش کی اطلاع آچکی تھی آپؐ نے مزید توقف کرنا مناسب خیال نہ کیا۔اوربارہ رمضان کوبروز اتوار مدینہ سے انصار ومہاجرین کی ایک جمعیت کے ساتھ اللہ کانام لیتے ہوئے روانہ ہوگئے۔ ۵؎ اکابر صحابہ میں سے جولوگ اس غزوہ میںشامل نہیںہوسکے ان میں سے حضرت عثمان بن عفان کانام خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔ان ایام میں چونکہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں۔اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو خود حکم دیا تھا کہ وہ ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں ہی ٹھہریں ۔اسی طرح قبیلہ خزرج کے رئیس اعظم سعد بن عبادۃ بھی عین وقت پر بیمار ہو جانے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے۔۱؎ قبیلہ اوس کے رئیس اسید بن الحضیر بھی کسی مجبوری کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید چونکہ ابھی تک خبر رسانی کی مہم سے واپس نہیں آئے تھے اس لیے وہ بھی لڑائی کی عملی شرکت سے محروم رہ گئے باقی اکثر اکابر صحابہ آپؐ کے ہمرکاب تھے۔
مدینہ سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور فوج کا جائزہ لیا۔کم عمربچے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے،واپس کئے گئے۔سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بھی کم سن تھے۔انہوں نے جب بچوں کی واپسی کاحکم سنا تو لشکر میں اِدھراُدھر چھپ گئے لیکن آخران کی باری آئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی واپسی کا حکم دیا۔یہ حکم سن کر عمیر رونے لگ گئے اور آپؐ نے ان کے غیرمعمولی شوق کو دیکھ کر انہیں اجازت دے دی۔۲ ؎ اب لشکر اسلامی کی تعداد کچھ اوپرتین سودس تھی۔ جن میںمہاجرین کچھ اوپرساٹھ تھے اورباقی سب انصار تھے۔۳؎ مگربے سروسامانی کا یہ عالم تھاکہ ساری فوج میں صرف ستراونٹ اوردوگھوڑے تھے اورانہی پرمسلمان باری باری سوار ہوتے تھے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی کوئی الگ سواری نہیں تھی یعنی آپؐ کو بھی دوسروں کے ساتھ باری باری سے چڑھنا اوراترنا پڑتا تھا۔آپؐ کے ساتھیوں نے بڑے اصرار سے عرض کیا کہ ہم پیدل چلتے ہیں حضور سوار رہیں،مگر آپؐ نے نہ مانا اورمسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں تم سے چلنے میں کمزور نہیں ہوں اور ثواب کی خواہش بھی مجھے کسی سے کم نہیں پھر میں کیوں نہ باری میں حصہ لوں۔۴؎ لشکر میں زرہ پوش صرف چھ سات تھے اورباقی سامانِ حرب بھی بہت تھوڑا اورناقص تھا۔الغرض جائزہ وغیرہ کے کام سے فارغ ہوکر آپؐ آگے روانہ ہوئے ۔ابھی تھوڑی دورہی گئے تھے کہ ایک شخص نے جو مشرک تھاآپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں آپؐ کے ساتھ چل کر جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ شخص اپنی بہادری اورشجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔مگرآپؐ نے یہ فرماکر اسے ردّ کردیا کہ میں اس موقع پر ایک مشرک سے مدد نہیں لینا چاہتا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص پھرآیا،لیکن اِدھرسے پھروہی جواب تھا۔تیسری دفعہ وہ پھر حاضر ہوا اور اپنی خدمات پیش کیں اورساتھ ہی عرض کیا کہ میں اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ہاںاب بڑی خوشی سے ہمارے ساتھ چلو۔ ۱؎
مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتوم کومدینہ کاامیر مقرر کیا تھا۔مگر جب آپؐ روحاء کے قریب پہنچے جومدینہ سے۳۶میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اورلشکرقریش کی آمد آمد کی خبر کاتقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کاانتظام مضبوط رہے آپؐنے ابولبابہ بن منذر کومدینہ کاامیر مقرر کر کے واپس بھجوادیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام صلوٰۃ رہیں،مگر انتظامی کام ابولبابہ سرانجام دیں۔مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپؐ نے عاصم بن عدی کوالگ امیر مقرر فرمایا۔اسی مقام سے آپؐ نے بسیس اور عدی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات وسکنات کاعلم حاصل کرنے کے لئے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں۔۲؎ روحاء سے آگے روانہ ہوکر جب مسلمان وادیٔ صفراء کے ایک پہلو سے گزرتے ہوئے زفران میں پہنچے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قافلہ کی حفاظت کے لئے قریش کاایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔اب چونکہ اخفاء راز کا موقع گزرچکا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جمع کرکے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اورپھران سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ظاہری اسباب کاخیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ سے سامنا ہوکیونکہ لشکر کے مقابلہ کے لئے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں ہیں۔مگر آپؐ نے اس رائے کوپسند نہ فرمایا۔۳ ؎ دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تواٹھ اٹھ کرجاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہمارے جان ومال سب خدا کے ہیں۔ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں ۔چنانچہ مقداد بن اسود نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمرو بھی تھا کہا’’یارسول اللہ!ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپؐ کو یہ جواب دیں کہ جاتُو اورتیراخدا جاکر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیںبلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؐ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور ہم آپؐ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہوکر لڑیں گے۔‘‘آپؐ نے یہ تقریر سنی تو آپؐ کاچہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگ گیا۔ ۴؎ مگر اس موقع پر بھی آپؐ انصار کے جواب کے منتظرتھے اورچاہتے تھے کہ وہ بھی کچھ بولیں۔کیونکہ آپؐ کویہ خیال تھا کہ شاید انصار یہ سمجھتے ہوں کہ بیعت عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگرعین مدینہ پر کوئی حملہ ہوتو اس کا دفاع کریں۔چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے آپؐ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے۔سعد بن معاذ رئیس اوس نے آپؐ کا منشاء سمجھا اورانصار کی طرف سے عرض کیا’’یارسول اللہ!شاید آپؐ ہماری رائے پوچھتے ہیں۔خداکی قسم جب ہم آپؐ کو سچا سمجھ کر آپؐ پرایمان لے آئے ہیں اورہم نے اپنا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے توپھر اب آپؐ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اوراس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے،اگرآپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں توہم کود جائیں گے اورہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اورآپؐ انشاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اورہم سے وہ بات دیکھیں گے جوآپؐ کی آنکھوں کوٹھنڈا کرے گی۔‘‘آپؐ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔سِیْرُوْا وَابْشِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَنِی اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ وَاللّٰہِ لَکَاَنِّیْ اَنْظُرُاِلٰی مَصَارِعَ الْقَوْمِ۔ یعنی توپھر’’اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہوکیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دوگروہوں (یعنی لشکر اور قافلہ) میںسے کسی ایک گروہ پروہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا۔اورخدا کی قسم میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہوہوکر گریں گے۔‘‘ ۱؎ آپؐ کے یہ الفاظ سن کر صحابہ خوش ہوئے مگر ساتھ ہی انہوں نے حیران ہوکر عرض کیاھَلَّا ذَکَرْتَ لَنَاالْقِتَالَ فَنَسْتَعِدَ۔۲؎ یعنی ’’یارسول اللہ!اگرآپؐ کو پہلے سے لشکر قریش کی اطلاع تھی توآپؐ نے ہم سے مدینہ میں ہی جنگ کے احتمال کاذکر کیوں نہ فرمادیاکہ ہم کچھ تیاری توکر کے نکلتے۔‘‘مگر باوجود اس خبر اور اس مشورہ کے اور باوجود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اس خدائی بشارت کے کہ ان دوگروہوں میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کوضرور فتح حاصل ہوگی ابھی تک مسلمانوں کو معین طور پر یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ ان کا مقابلہ کس گروہ سے ہوگا اور وہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ مٹھ بھیڑ ہوجانے کا امکان سمجھتے تھے اور وہ طبعاً کمزور گروہ یعنی قافلہ کے مقابلہ کے زیادہ خواہش مند تھے۔
اس مشورہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ بدر کی طرف بڑھنے شروع ہوئے اورجب آپؐ بدرؔ کے قریب پہنچے توکسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپؐ حضرت ابوبکرؓ صدیق کو اپنے پیچھے سوارکرکے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐ کو ایک بوڑھا بدوی ملاجس سے آپ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔آپؐ یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اورحضرت علی اورزبیر بن العوام اور سعد بن وقاص وغیرہ کودریافت حالات کے لئے آگے روانہ فرمایا۔جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھررہے ہیں۔ان صحابیوں نے اس جماعت پرحملہ کرکے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ ۱؎ اس وقت آپؐ نماز میں مصروف تھے۔صحابہ نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو نمازمیں مصروف ہیں،خود اس غلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ابو سفیان کاقافلہ کہاں ہے۔ ۲؎ یہ حبشی غلام چونکہ لشکر کے ہمراہ آیا تھا اورقافلہ سے بے خبر تھا اس نے جواب میں کہا کہ ابو سفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے،البتہ ابوالحکم یعنی ابو جہل اورعتبہ اورشیبہ اورامیہ وغیرہ اس وادی کے دوسرے کنارے ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ صحابہ نے جن کا میلان قافلہ کی طرف زیادہ تھا سمجھا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اوردیدہ دانستہ قافلہ کی خبر کو چھپانا چاہتا ہے۔ جس پر بعض لوگوں نے اسے کچھ زدوکوب کیا،لیکن جب وہ اسے مارتے تھے تووہ ڈر کے مارے کہہ دیتا تھا کہ اچھا میں بتاتا ہوں اورجب اسے چھوڑ دیتے تھے تو پھر وہی پہلا جواب دیتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا توکوئی علم نہیں ہے البتہ ابوجہل وغیرہ یہ پاس ہی موجود ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز میں یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے جلدی سے نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کو مارنے سے روکا اور فرمایا۔’’جب وہ سچی بات بتاتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اورجھوٹ کہنے لگتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘۳؎پھرآپؐ نے خود نرمی کے ساتھ اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے۔اس نے جواب دیا اس سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐ نے پوچھاکہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں۔اس نے جواب دیاکہ بہت ہیں مگر پوری پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایااچھا یہ بتائوکہ ان کے لئے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔اس نے کہا کہ دس ہوتے ہیں۔آپؐ نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاکہ ایک ہزارآدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ۴؎ اور حقیقۃً وہ اتنے ہی تھے۔ ۵؎ پھرآپؐ نے اس غلام سے پوچھا کہ رئوساء قریش میں سے کون کون لوگ ہیں۔اس نے کہا۔ عتبہ، شیبہ،ابوجہل،ابوالبختری،عقبہ بن ابی معیط،حکیم بن حزام،نضربن حارث، امیہ بن خلف،سہیل بن عمرو،نوفل بن خویلد،طعیمہ بن عدی،زمعہ بن اسود وغیرہ وغیرہ سب ساتھ ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکرفرمایاھٰذَا مَکَّۃَ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلاَ ذَکَبِدِھَا۔یعنی’’لومکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کرڈال دئیے ہیں۔‘‘ ۱؎ یہ نہایت دانشمندانہ اورحکیمانہ الفاظ تھے جوآپؐ کی زبان مبارک سے بے ساختہ طورپر نکلے۔کیونکہ بجائے اس کے کہ قریش کے اتنے نامور رئوساء کاذکر آنے سے کمزور طبیعت مسلمان بے دل ہوتے ان الفاظ نے ان کی قوت متخیلہکو اس طرف مائل کردیاکہ گویا ان سردارانِ قریش کوتو خدا نے مسلمانوں کا شکار بننے کے لئے بھیجا ہے۔
جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی ۔اس پر حباب بن منذر نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے ماتحت آپؐ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے؟آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے ،تم کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتائو؟حباب نے عرض کیاتو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پرقبضہ کرلیا جاوے۔میں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔اس کا پانی اچھا ہے اورعموماًہوتا بھی کافی ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اورچونکہ ابھی تک قریش ٹیلہ کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا،مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہوگئے لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت اس چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اورمسلمانوں کوپانی کی قلت محسوس ہوتی تھی ۔پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پائوں اچھی طرح جمتے نہیں تھے۔
جگہ کے انتخاب کے بعد سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان ساتیار کردیا اورسعد نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ’’یارسول اللہ!آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیںاورہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے،لیکن اگرخدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوا توآپؐ اپنی سواری پرسوار ہوکر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آجائے گی اس لئے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کاعلم ہوگا ،تووہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ ۲؎ یہ سعد کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے، ورنہ بھلا خدا کا رسول اورمیدان سے بھاگے۔چنانچہ حنین کے میدان میں بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی،مگر یہ مرکز توحید اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔بہرحال سائبان تیار کیا گیا اور سعداوربعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لئے کھڑے ہوگئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر نے اسی سائبان میں رات بسر کی۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اورلکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے ،باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولئے۔اورچونکہ نیند کا آنا بھی ایک اطمینان کی علامت سمجھا جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔پھر خدا کامزید فضل یہ ہوا کہ کچھ بارش بھی ہوگئی جس سے مسلمانوں کویہ موقع مل گیا کہ حوض بنابناکر پانی جمع کرلیں۔اور یہ بھی فائدہ ہوگیا کہ ریت جم گئی اورپائوں زمین میں دھسنے سے رک گئے۔دوسری طرف قریش والی جگہ میں کیچڑ کی سی صورت ہوگئی اوراس طرف کاپانی بھی کچھ گدلا ہوکر میلا ہوگیا۔اس واقعہ کابھی قرآن شریف نے ذکر کیا ہے۔ ۱؎
اب رمضان ۲ہجری کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھا۔ ۲؎ اورعیسوی حساب سے ۱۴؍مارچ۶۲۳ء تھی۔ ۳؎ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پرستارانِ احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد پرایک خطبہ فرمایااور پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپؐ نے ایک تیر کے اشارہ سے مسلمانوں کی صفوں کودرست کرنا شروع کیا۔ایک صحابی سوادؓ نامی صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا آپؐ نے اسے تیر کے اشارہ سے پیچھے ہٹنے کو کہا،مگر اتفاق سے آپؐ کے تیر کی لکڑی اس کے سینہ پر جا لگی۔اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا۔’’ یارسول اللہ!آپؐ کوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔مگرآپؐ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔‘‘صحابہ انگشت بدنداں تھے کہ سواد کوکیا ہوگیا ہے ،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سواد تم بھی مجھے تیر مارلو‘‘اورآپؐ نے اپنے سینہ سے کپڑا اٹھادیا۔سواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کرآپؐ کاسینہ چوم لیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔’’سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔‘‘اس نے رقت بھری آواز میں عرض کیا۔’’یارسول اللہ!دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں ۔میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجائوں۔‘‘ ۴؎ غالباً اسی وقت کے قریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حذیفہ بن یمان اورابوجَبَل حاضرہوئے اور عرض کیاہم ابھی ابھی مکہ سے آرہے ہیں۔جب ہم وہاں سے نکلے تھے تو قریش نے ہم کو روک دیا تھا اورپھر یہ عہد لے کر چھوڑا تھاکہ ہم آپؐ کے ساتھ ہوکر ان کے خلاف جنگ نہیں کریں گے۔گویہ عہد قابلِ ایفاء نہیں تھا کیونکہ جبراًلیا گیا تھامگرآپؐنے فرمایا۔’’توپھر تم جائو اوراپنے عہد کو پوراکرو۔ہم اللہ ہی سے مدد چاہتے ہیں اوراسی کی نصرت پر ہمارابھروسہ ہے ۔‘‘ ۱؎
ابھی آپ صفوں کی درستی میں ہی مصروف تھے کہ قریش کے لشکر میں حرکت پیدا ہوئی اورلشکر کفار میدان قتال کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔یہ وہ موقع تھا جبکہ کفار کو مسلمان اصلی تعداد سے کم نظر آتے تھے۔ ۲؎ اس لئے وہ جرأت کے ساتھ بڑھتے آئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں دور سے دیکھا تو فرمایا ’’اے میرے مولا!یہ لوگ تکبروغرور سے بھرے ہوئے تیرے دین کے مٹانے کے لئے آئے ہیں تو اپنے وعدہ کے مطابق اپنے دین کی نصرت فرما۔‘‘ ۳؎ اسی اثناء میں قریش کے چند آدمی مسلمانوں کے چشمہ کی طرف بڑھے۔صحابہ نے روکنا چاہا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا اورحکم دیا کہ ان کو پانی پی لینے دیا جاوے۔چنانچہ انہوں نے امن کے ساتھ پانی پیااوراپنے لشکر کوواپس لوٹ گئے۔ ۴؎ دشمن کے ساتھ اس عدل واحسان کامعاملہ کرنا عرب کے ضابطۂ اخلاق میں مفقود تھا اوریہ اسلام کی ایک خصوصیت ہے کہ اس نے خود حفاظتی قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے دشمن سے بھی نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں ۔مگر قدرت الہٰی کاعجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکروں کے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ ۵؎ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اوردوسری طرف قریش کالشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ ۶؎ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔ قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں۔اس کے لئے رئوساء قریش نے عمیر بن وہب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کردیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اورآیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں؟ چنانچہ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کاایک چکر کاٹا،مگر اسے مسلمانوں کی شکل وصورت سے ایسا جلال اورعزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہوکر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا مَا رَأَیْتُ شَیْئًا وَلٰکِنِّی قَدْ رَأَیْتُ یَامَعْشَرَ الْقُرَیْشِ اَلبَلاَیَا تَحْمِلُ الْمَنَایَانَوَاضِحُ یَثْرَبَ تَحْمِلُ الْمَوْتَ النَّاقِعَ۔ ۱؎ یعنی’’مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نظر نہیں آئی، لیکن اے معشرقریش!میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاوں نے اپنے اوپر آدمیوں کونہیں بلکہ موتوں کواٹھایا ہوا ہے اوریثرب کی سانڈنیوں پرگویا ہلاکتیں سوار ہیں۔‘‘قریش نے جب یہ بات سنی توان میں ایک بے چینی سی پیدا ہوگئی۔سراقہ جوان کا ضامن بن کر آیا تھا کچھ ایسا مرعوب ہواکہ الٹے پائوں بھاگ گیا۔اورجب لوگوں نے اسے روکا تو کہنے لگا ۲ ؎ ’’مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھتے۔‘‘حکیم بن حزام نے عمیرکی رائے سنی تو گھبرایاہوا عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اورکہنے لگا۔اے عتبہ!تم محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) سے آخر عمروحضرمی کا بدلہ ہی چاہتے ہو۔۳؎ وہ تمہارا حلیف تھاکیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس کی طرف سے خون بہاادا کردو اور قریش کو لے کر واپس لوٹ جائو اس میں ہمیشہ کے لئے تمہاری نیک نامی رہے گی۔‘‘عتبہ جو خود گھبرایا ہوا تھا اورکیا چاہئے تھا جھٹ بولا۔’’ہاں ہاں میں راضی ہوں اورپھر حکیم! دیکھو تو یہ مسلمان اور ہم آخر آپس میں رشتہ دار ہی تو ہیں۔کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ بھائی بھائی پرتلوار اٹھائے اورباپ بیٹے پر۔تم ایسا کرو کہ ابھی ابوالحکم (یعنی ابوجہل)کے پاس جائو اوراس کے سامنے یہ تجویز پیش کرو۔‘‘ ۴؎ اورادھر عتبہ نے خود اونٹ پر سوار ہوکر اپنی طرف سے لوگوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ’’رشتہ داروں میں لڑائی ٹھیک نہیں ہے۔ہمیںواپس لوٹ جانا چاہئے اور محمدکو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ دوسرے قبائل عرب کے ساتھ نپٹتا رہے جو نتیجہ ہوگا دیکھا جائے گا۔اورپھر تم دیکھو کہ ان مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔کیونکہ خواہ تم مجھے بزدل کہو حالانکہ میں بزدل نہیں ہوں اِنّی اَریٰ قَوْمًا مُسْتَمِیْتِیْنَ۔ ۵؎ یعنی’’مجھے تو یہ لوگ موت کے خریدار نظر آتے ہیں۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دور سے عتبہ کو دیکھا تو فرمایا۔’’اگر لشکرکفارمیں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرورہے۔اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں توان کے لئے اچھا ہو۔‘‘لیکن جب حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیا اوراس سے یہ تجویزبیان کی تو وہ فرعونِ امت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا۔’’اچھا اچھا اب عتبہ کواپنے سامنے اپنے رشتہ دار نظر آنے لگے ہیں۔‘‘اور پھر اس نے عمروحضرمی کے بھائی عامر حضرمی کوبلاکر کہا’’تم نے سنا تمہارا حلیف عتبہ کیا کہتا ہے اوروہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گویا ہاتھ میں آیا ہوا ہے۔‘‘عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوراس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہوکر چلانا شروع کیا ’’واعمراہ واعمراہ‘‘ہائے افسوس!میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے!!اس صحرائی آواز نے لشکر قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کردیئے اور جنگ کی بھٹی اپنے پورے زورسے دہکنے لگ گئی۔‘‘ ۱؎
ابوجہل کے طعنے نے عتبہ کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔اس غصہ میں بھرا ہوا وہ اپنے بھائی شیبہ اوراپنے لڑکے ولید کوساتھ لے کر لشکر کفار سے آگے بڑھا اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق انفرادی لڑائی کے لئے مبارزطلبی کی۔چند انصاران کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھنے لگے۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو روک دیااورفرمایا۔’’حمزہ تم اٹھو،علی تم اٹھو،عبیدہ تم اٹھو!‘‘یہ تینوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اورآپؐ چاہتے تھے کہ خطرہ کی جگہ پر سب سے پہلے آپؐ کے عزیزواقارب آگے بڑھیں ۔دوسری طرف عتبہ وغیرہ نے بھی انصار کو دیکھ کر آوازدی کہ ’’ان لوگوں کو ہم کیا جانتے ہیں۔ہماری ٹکر کے ہمارے سامنے آئیں۔‘‘چنانچہ حمزہ اور علی اور عبیدہ آگے بڑھے۔عرب کے دستور کے مطابق پہلے روشناسی ہوئی۔پھرعبیدۃ بن مطلب ولید کے مقابل ہوگئے اور حمزہ عتبہ کے اورعلی شیبہ کے۔۲؎ حمزہ اورعلی نے تو ایک دو واروں میں ہی اپنے حریفوں کو خاک میں ملادیا،لیکن عبیدۃ اورولید میں دو چار اچھی ضربیں ہوئیں۔اوربالآخر دونوںایک دوسرے کے ہاتھ سے کاری زخم کھاکرگرے۔جس پر حمزہ اورعلی نے جلدی سے آگے بڑھ کر ولید کا تو خاتمہ کردیا اور عبیدۃ کواٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔مگر عبیدہ اس صدمہ سے جانبر نہ ہوسکے اور بدر سے واپسی پر راستہ میں انتقال کیا۔
ان انفرادی مقابلوں کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پھراپنے سائبان میں تشریف لے گئے اورجاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ جب تک میں حکم نہ دوں عام دھاوا نہ کیا جائے اور فرمایا کہ’’اگر کفار فوری حملہ کرکے آئیں توپہلے تیروں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرو،لیکن دیکھو تیرذرا احتیاط سے چلانا۔ایسانہ ہو کہ یونہی بے فائدہ طورپر اپنے ترکش خالی کردواورتلوار صرف اس وقت نکالو کہ جب دونوں لشکرآپس میں مل جائیں۔‘‘غالباًاسی موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر یہ بھی فرمایا کہ لشکر کفار میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنے دل کی خوشی سے اس مہم میں شامل نہیں ہوئے بلکہ رئوساء قریش کے دبائو کی وجہ سے شامل ہوگئے ہیں۔ورنہ وہ دل میں ہمارے مخالف نہیں۔اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ میں ہماری مصیبت کے وقت میں ہم سے شریفانہ سلوک کیا تھا اورہمارا فرض ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ اتاریں۔پس اگر کسی ایسے شخص پر کوئی مسلمان غلبہ پائے تواسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے۔اور آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ قسم اول میں عباس بن عبدالمطلب اور قسم ثانی میں ابوالبختریکانام لیا اوران کے قتل سے منع فرمایا۔مگرحالات نے کچھ ایسی ناگریز صورت اختیار کی کہ ابوالبختری قتل سے بچ نہ سکاگواسے مرنے سے قبل اس بات کاعلم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے قتل سے منع فرمایاہے۔ ۱؎ اس کے بعد آپؐ سائبان میں جاکر پھردعا میں مشغول ہوگئے۔حضرت ابوبکرؓبھی ساتھ تھے اورسائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت سعد بن معاذ کی زیرکمان پہرہ پر متعین تھی۔تھوڑی دیر کے بعد میدان میں سے ایک شور بلند ہوا اورمعلوم ہوا کہ قریش کے لشکر نے عام حملہ کردیا ہے۔اس وقت آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نہایت رقت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کررہے تھے اورنہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَوَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لاَ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ۔’’اے میرے خدااپنے وعدوں کو پورا کر۔اے میرے مالک!اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہوگئی تودنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ ۲؎ اوراس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گرجاتے تھے اور کبھی کھڑے ہوکر خداکو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادرآپؐ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اورحضرت ابوبکر اسے اٹھا اٹھا کرآپؐ پر ڈال دیتے تھے۔ ۳؎ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تومیں آپؐکے سائبان کی طرف بھاگ جاتا تھا،لیکن جب بھی میں گیامیں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔اور میں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَا حَیُّی یَاقَیُّومُ یَاحَیُّی یَاقَیُّومُ۔ ۴؎ یعنی’’اے میرے زندہ خدا!اے میرے زندگی بخش آقا!‘‘حضرت ابوبکر آپ کی اس حالت کودیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اورکبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے ’’یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔آپؐ گھبرائیں نہیں۔اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔ ۱؎ مگراس سچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تراست ترساں تر۔‘‘آپؐ برابردعااورگریہ وزاری میں مصروف رہے۔
دوسری طرف جب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے بھڑ گئیں توابوجہل رئیس قریش نے بھی یوں دعا کی کہ ’’اے خدا!وہ فریق جس نے رشتو ں کو توڑ رکھا ہے اوردین میں ایک بدعت پیدا کی ہے توآج اسے اس میدان میں تباہ وبرباد کر۔‘‘ ۲؎ ایک دوسری روایت ۳؎ میں آتا ہے کہ اس موقع پریا اس سے قبل ابوجہل نے یہ دعا کی تھی کہ’’اے ہمارے رب اگر محمد کا لایا ہوا دین سچا ہے تو آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش برسایا کسی اوردردناک عذاب سے ہمیں تباہ وبرباد کر۔‘‘ ۴؎
اب میدان کارزار میں کشت وخون کامیدان گرم تھا۔مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی جو ہرقسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہوکر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیاجاوے۔اورمسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے،غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے،مگر توحید اوررسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنارکھا تھا اوراس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ہراک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اورخدا کی راہ میں جان دینے کے لئے بے قرار نظر آتا تھا۔حمزہ اور علی اورزبیر نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔انصار کے جوشِ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی۔مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔انہیںدیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسے جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کابہت انحصار ہوتا تھا اوروہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔مگر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویا وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جومکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا یاقتل کرنے کی کوشش میں مارا جائوں گا۔میں نے ابھی اس کا جواب نہ دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا۔میں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیا۔کیونکہ ابوجہل گویا سردارِلشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔میں نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اوراس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اوراس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اورابوجہل خاک پرتھا۔ ۱؎ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا۔وہ اپنے باپ کو تو نہ بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پرایسا وار کیا کہ ان کا بایاں بازو کٹ کرلٹکنے لگ گیا۔معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کرنکل گیا۔چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاہم ہوتا تھا۔معاذ نے اسے زور کے ساتھ کھینچ کراپنے جسم سے الگ کردیا اورپھر لڑنے لگ گئے۔ ۲؎ غرض کیا مہاجر اورکیا انصار سب مسلمان پورے زوروشور اوراخلاص کے ساتھ لڑے۔مگر دشمن کی کثرت اوراس کے سامان کی زیادتی کچھ پیش نہ جانے دیتی تھی اورنتیجہ ایک عرصہ تک مشتبہ رہا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم برابر دعا و ابتہال میں مصروف تھے اورآپ کا اضطراب لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا مگر آخر ایک کافی لمبے عرصے کے بعد آپؐ سجدہ سے اٹھے اور خدائی بشارت سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ کہتے ہوئے سائبان سے باہر نکل آئے۔ ۳؎
باہر آکر آپؐ نے چاروں طرف نظر دوڑائی توکشت وخون کا میدان گرم پایا۔اس وقت آپؐ نے ریت اورکنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اوراسے کفار کی طرف پھینکا۔۴؎ اورجوش کے ساتھ فرمایاشَاھَتِ الْوُجُوْہُ ’’دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں۔‘‘ ۵؎ اورساتھ ہی آپؐ نے مسلمانوں سے پکار کر فرمایا یکدم حملہ کرو۔۶؎ مسلمانوں کے کانوں میں اپنے محبوب آقا کی آواز پہنچی اورانہوں نے تکبیر کا نعرہ لگا کر یکدم حملہ کردیا۔دوسری طرف ادھرآپؐ کا مٹھی بھر کر ریت پھینکنا تھا کہ ایسی آندھی کا جھونکا آیا کہ کفار کی آنکھیں اورمنہ اورناک ریت اورکنکر سے بھرنے شروع ہوگئے۔۱؎ آپؐ نے فرمایا۔یہ خدائی فرشتوں کی فوج ہے جو ہماری نصرت کوآئی ہے اورروایتوں میں مذکور ہے کہ اس وقت بعض لوگوں کویہ فرشتے نظر بھی آئے۔بہرحال عتبہ،شیبہ اورابوجہل جیسے رئوساء قریش توخاک میں مل ہی چکے تھے۔ مسلمانوںکے اس فوری دھاوے اورآندھی کے اچانک جھونکے کے نتیجہ میں قریش کے پائوں اکھڑنے شروع ہوگئے اور جلد ہی کفار کے لشکر میں بھاگڑ پڑگئی اورتھوڑی دیر میں میدان صاف تھا۔ مسلمانوںنے ستر قیدی پکڑے اور جب لڑائی کے بعد مقتولین کی دیکھ بھال کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہی تعداد قریش کے مقتولین کی تھی اورجب مقتولین کی شناخت ہوئی توقرآنی آیت وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۲؎ کی ہیبت ناک تفسیرآنکھوں کے سامنے تھی۔یعنی تمام بڑے بڑے رئوساء قریش خاک میں ملے پڑے تھے اورجو ایک دو رئیس بچے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ میں قیدی تھے۔البتہ شروع شروع میں ابو جہل کی لاش نظر نہ آتی تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی جاکر اچھی طرح دیکھے کہ ابوجہل کاکیا حال ہے۔عبداللہ بن مسعود گئے اور دیکھ بھال کے بعد اسے ایک جگہ جان توڑتے ہوئے پایاجبکہ وہ قریباًٹھنڈا ہوچکاتھا۔عبداللہ نے اس سے پوچھا توہی ابوجہل ہے؟ اس نے کہاھَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوْہٗکیا تم نے مجھ سے بھی کوئی بڑا شخص قتل کیا ہے؟‘‘یعنی میں سب سے بڑا آدمی ہوںجو تم نے مارا ہے۔‘‘پھر کہنے لگا لَوْ غَیْرَ اِکَارٍقَتَلَنِیْ ۳؎ ’’کاش میں کسی کسان کے ہاتھ سے قتل نہ ہوتا۔‘‘۴؎ پھر اس نے پوچھا کہ میدان کس کے ہاتھ میں رہا ہے؟ عبداللہ نے جواب دیاخدا اوراس کے رسول کے ہاتھ۔‘‘اس کے بعد ابو جہل بالکل بے حس وحرکت ہو گیا اور جان دے دی۔ ۵؎ اور عبداللہ بن مسعود نے واپس آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دی۔امیہ بن خلف جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی وجہ سے مکہ سے نہیں نکلتا تھا، مگر جس کا دل عداوتِ اسلام اوربغضِ رسولؐ سے بھرا ہوا تھا اس کا انجام یوں ہوا کہ جس وقت لشکر قریش پسپا ہوا اس نے اپنے جاہلیت کے دوست عبدالرحمن بن عوف کے پاس پناہ ڈھونڈی جن کا اس کے ساتھ یہ معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے ،لیکن جونہی کہ بلالؓ کی نظر امیہ پرپڑی اس نے شور مچا دیا کہ دیکھو یہ رأس الکفر بچ کر نکلا جارہا ہے،جس پر چند انصاریوں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے ساتھ لڑکر اسے مار کرگرا دیابلکہ اسے بچاتے بچاتے حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی کسی قدر زخمی ہوگئے۔۱؎
جب دوسرے کاموں سے فراغت حاصل ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رئوساء قریش کوایک جگہ جمع کر کے دفن کردیا جاوے۔چنانچہ ایک گڑھے میں چوبیس رئوساء کی لاشوں کو اکٹھا کرکے دفنا دیا گیا۔اور دوسرے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پردفن کردیا گیا کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ عام طریق تھا کہ حتّی الوسع کسی لاش کوکھلا نہیں رہنے دیتے تھے خواہ وہ دشمن ہی کی کیوں نہ ہو۔ ۲؎ واپسی سے قبل آپؐ اس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رئوساء قریش دفن کئے گئے تھے اورپھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُمْ مَاوَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًافَاِنِّیْ وَجَدْتُ مَاوَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا۔یعنی’’کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا۔تحقیق میں نے اس وعدہ کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا۔۳؎ نیز فرمایا یَااَھلَ الْقَلِیْبِ بِئْسَ عَشِیْرَۃِ النَّبِّیِ کُنْتُمْ لِنَبِیِّکُمْ کَذَّبْتُمُوْنِیْ وَصَدَقَنِیَ النَّاسُ وَاَخْرَجْتُمُوْنِیْ وَآوَانِیَ النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ۔ ۴؎ یعنی’’اے گڑھے میں پڑے ہوئے لوگو!تم اپنے نبی کے بہت برے رشتہ داربنے۔تم نے مجھے جھٹلایا اوردوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی۔تم نے مجھے میرے وطن سے نکالا اوردوسروں نے مجھے پناہ دی۔تم نے میرے خلاف جنگ کی۔اوردوسروں نے میری مدد کی۔‘‘حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔یارسول اللہ!وہ اب مردہ ہیں وہ کیا سنیں گے۔آپؐ نے فرمایا۔’’میری یہ بات وہ تم سے بھی بہتر سن رہے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اس عالم میں پہنچ چکے ہیں جہاں ساری حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے اورکوئی پردہ نہیں رہتا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ کلمات جواوپردرج کئے گئے ہیں اپنے اندر ایک عجیب درد واَلَم کی آمیزش رکھتے ہیں اوران سے اس قلبی کیفیت کاکچھ تھوڑا سااندازہ ہوسکتا ہے جواس وقت آپؐ پر طاری تھی۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش کی مخالفت کی گزشتہ تاریخ آپؐ کی آنکھوں کے سامنے تھی اور آپؐعالمِ تخیل میں اس کا ایک ایک ورق الٹاتے جاتے تھے اورآپؐ کادل ان اوراق کے مطالعہ سے بے چین تھا۔آپؐ کے یہ الفاظ اس بات کا بھی یقینی ثبوت ہیں کہ اس سلسلۂ جنگ کے آغاز کی ذمہ داری کلیتہً کفار مکہ پر تھی۔جیسا کہ آپؐ کے الفاظ قَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُسے ظاہر ہے۔ یعنی’’اے میری قوم کے لوگو!تم نے مجھ سے جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی۔اورکم از کم ان الفاظ سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی جگہ یہی یقین رکھتے تھے کہ ان جنگوں میں ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی ہے اورآپؐ نے مجبور ہوکر محض خود حفاظتی میں تلوار اٹھائی ہے۔
اپنے مقتولین کی دیکھ بھال ہوئی تو معلوم ہواکہ کل چودہ آدمی شہید ہوئے ہیں۔جن میں سے چھ مہاجرین میں سے تھے اورباقی انصار تھے۔انہیں میں وہ مخلص بچہ عمیروقاص بھی تھا،جس نے رو کر ساتھ آنے کی اجازت حاصل کی تھی ۔اس کے علاوہ زخمی توبہت سے صحابہ ہوئے تھے،لیکن یہ نقصان ایسا نہیں تھا کہ اس عظیم الشان دینی فتح کی خوشی کو مکدر کرسکتا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور جملہ مسلمان شکروامتنان کے جذبات سے معمور تھے۔تین دن تک آپؐ نے بدر کی وادی میں قیام فرمایا۔ اور یہ وقت اپنے شہداء کی تکفین وتدفین اوراپنے زخمیوں کی مرہم پٹی میں گزرا۔اورانہی دنوں میں غنیمت کے اموال کو جمع کرکے مرتب کیا گیا اور کفار کے قیدیوں کو جن کی تعداد ستر تھی محفوظ کرکے مختلف مسلمانوں کی سپردگی میں دے دیا گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوتاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کاسلوک کریں اوران کے آرام کا خیال رکھیں۔صحابہؓ نے جن کو اپنے آقا کی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھاآپؐ کی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے،لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کرگزارہ کرلیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تھاتووہ اصرار کے ساتھ پھرمجھی کو دے دیتے تھے۔ ۱؎ جن قیدیوں کے پاس لباس کافی نہیںتھاانہیں کپڑے مہیا کردیئے گئے تھے۔چنانچہ عباس کو عبداللہ بن ابیّ نے اپنی قیمص دی تھی۔ ۲؎
سرولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
’’محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ہدایت کے ماتحت انصارومہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اورمہربانی کاسلوک کیا۔چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ ’’خدا بھلا کرے مدینہ والوں کاوہ ہم کوسوار کرتے تھے اور آپ پیدل چلتے تھے۔ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اورآپ صرف کھجوریں کھا کر پڑ رہتے تھے۔اس لئے(میور صاحب لکھتے ہیں)ہم کویہ معلوم کرکے تعجب نہ کرنا چاہئے کہ بعض قیدی اس نیک سلوک کے اثر کے نیچے مسلمان ہوگئے اور ایسے لوگوں کو فوراًآزاد کردیا گیا…جوقیدی اسلام نہیں لائے ان پر بھی اس نیک سلوک کا بہت اچھااثر تھا۔‘‘
یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب یہ قیدی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے توآپ نے فرمایاکہ اگر آج مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو میں ان کو یونہی چھوڑ دیتا۔۲؎ مطعم پکا مشرک تھااوراسی حالت میں وہ مرا لیکن طبیعت میں شرافت کامادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ قریش کا ظالمانہ صحیفہ جس کی وجہ سے مسلمان شعبِ ابی طالب میں محصور کردیئے گئے تھے اسے مطعم نے ہی چاک کیا تھا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم طائف سے واپس آئے تھے تو اس وقت بھی مطعم نے ہی آپؐکواپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخل کیا تھا۔یہ اسی احسان کی یاد تھی جس سے متأثر ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے۔دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ جب کبھی کوئی شخص آپؐ کے ساتھ ذرا سابھی نیک سلوک کرتا تھاتوآپؐاس کے احسان کو کبھی نہیں بھولتے تھے اورآپؐ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ آپؐ کواس کے احسان کا عملی شکریہ ادا کرنے کا موقع ملتا رہے اور یہ نہیں تھاکہ دنیاداروں کی طرح جب آپؐ ایک دفعہ کسی کے احسان کے جواب میں نیک سلوک کرلیتے تھے تو پھر یہ کہنے لگ جاتے تھے کہ بس اب احسان کابدلہ اتر گیا ہے۔بلکہ جب کبھی کوئی شخص آپؐ کے ساتھ نیک سلوک کرتا تھاتو پھر وہ ہمیشہ کے لئے آپؐ کواپنا خاص محسن بنا لیتا تھااورآپؐ کبھی بھی اس کے احسان کواترا ہوا نہیں سمجھتے تھے اور دراصل اعلیٰ اخلاق کایہی تقاضا ہے۔کیونکہ جس احسان کے نیچے انسان ایک دفعہ آجاوے پھر اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ کسی جوابی احسان سے اس کا بدلہ اتر سکتا ہے ایک تجارتی لین دین توکہلا سکتا ہے مگر ایک اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآئی ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔
جولوگ قید ہوئے تھے ان میں سے بعض رئوساء قریش میںسے تھے۔چنانچہ النضربن الحارث اور سہیل بن عمرو مکہ کے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔بعض قیدی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نہایت قریبی رشتہ دارتھے مثلاًعباس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا تھے۔عقیل آپؐ کے چچازاد بھائی اور حضرت علی کے حقیقی بھائی تھے۔ابوالعاص بن ربیع تھے جو آپؐ کی صاحبزادی زینب کے خاوند یعنی آپؐ کے داماد تھے۔بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رئوساء میں عقبہ بن ابی معیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت حالت قیدمیں قتل کردیا گیا تھا۔مگر یہ درست نہیں ہے۔ حدیث ۱؎ اورتاریخ ۲؎ میںنہایت صراحت کے ساتھ یہ روایت آتی ہے کہ عقبہ بن ابی معیط میدانِ جنگ میں قتل ہوا تھااوران رئوساء مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں۔البتہ نضر بن حارث کا حالت قید میں قتل کیا جانا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اوراس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جوان بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے براہ راست ذمہ دارتھے جومکہ میں کفار کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ اور اغلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ربیب حار ث بن ابی ہالہ جوابتداء اسلام میں نہایت ظالمانہ طورپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے تھے۔ ۳؎ ان کے قتل کرنے والوں میں نضر بن حارث بھی شامل تھا۔لیکن یہ یقینی ہے کہ نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیااورنہ ہی اسلام میں صرف دشمن ہونے اورجنگ میں خلاف حصہ لینے کی وجہ سے قیدیوں کے قتل کرنے کا دستور تھا۔چنانچہ اس کے متعلق بعد میں ایک معین حکم بھی قرآن شریف میں نازل ہوا۔ ۴؎ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گو بہت سی روایات میں نضر بن حارث کے قتل کئے جانے کاذکر آتا ہے لیکن بعض ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل نہیں کیا گیاتھابلکہ بدر کے بعد مدت تک زندہ رہا اور بالآخر غزوہ حنین کے موقع پر مسلمان ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگیا تھا۔ ۵؎ مگر مقدم الذکر روایات کے مقابلہ میں یہ روایتیں عموماًکمزور سمجھی گئیں ہیں۔واللہ اعلم۔ بہرحال اگرقیدیوں میںسے کوئی شخص قتل کیا گیا تو وہ صرف نضر بن حارث تھا جو قصاص میں قتل کیا گیا تھااوراس کے متعلق بھی یہ روایت آتی ہے کہ جب اس کے قتل کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بہن کے وہ دردناک اشعارسنے جن میں آپؐسے رحم کی اپیل کی گئی تھی توآپؐ نے فرمایا کہ اگریہ اشعارمجھے پہلے پہنچ جاتے تو میں نضرکو معاف کردیتا۔۶ ؎ بہرحال نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیا۔بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاکیدی حکم دیا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جاوے۔
بدرسے روانہ ہوتے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کومدینہ کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ آگے آگے جاکر اہلِ مدینہ کو فتح کی خوشخبری پہنچاویں۔چنانچہ انہوں نے آپؐ سے پہلے پہنچ کر مدینہ والوں کوفتح کی خبرپہنچائی۔جس سے مدینہ کے صحابہ کو اگر ایک طرف اسلام کی عظیم الشان فتح ہونے کے لحاظ سے کمال درجہ خوشی ہوئی تواس لحاظ سے کسی قدر افسوس بھی ہوا کہ اس عظیم الشان جہاد کے ثواب سے وہ خود محروم رہے۔اس خوشخبری نے اس غم کو بھی غلط کردیاجو زید بن حارثہ کی آمد سے تھوڑی دیر قبل مسلمانانِ مدینہ کوعموماًاورحضرت عثمانؓ کو خصوصاًرقیہ بنت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سے پہنچا تھا جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پیچھے بیمار چھوڑ کر غزوہ بدر کے لئے تشریف لے گئے تھے اورجن کی وجہ سے حضرت عثمانؓ بھی شریک غزوہ نہیں ہوسکے۔
مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کردینے یامستقل طورپر غلام بنالینے کا دستور تھا۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی۔اورپھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الہٰی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے۔کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہوجائیں۔مگر حضرت عمرؓنے اس رائے کی مخالفت کی اور کہاکہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کاکوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اوریہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہوچکے ہیں۔پس میری رائے میں ان سب کو قتل کردینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کوقتل کریں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکر کی رائے کوپسند فرمایااورقتل کے خلاف فیصلہ کیا اورحکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کردیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ ۱؎ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الہٰی حکم نازل ہوا۔۲؎ چنانچہ ہر شخص کے مناسب حال ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک۳؎ اس کا فدیہ مقرر کردیا گیا۔ اس طرح سارے قیدی رہا ہوتے گئے۔ عباس جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے اور ان کو آپ سے اورآپ کو ان سے بہت محبت تھی ان کے متعلق انصار نے عرض کیا کہ یہ ہمارا بھانجہ ہے۔۴؎ ہم انہیں بغیر فدیہ کے چھوڑ دیتے ہیں،لیکن گوقیدی کو بطور احسان کے چھوڑ دینا اسلام میں جائز بلکہ پسندیدہ تھا مگر اس موقع پر عباس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں مانااور فرمایا کہ عباس فدیہ ادا کریں توتب چھوڑے جائیں۔ ۱؎ عباس کے متعلق یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب وہ مسجد نبوی میں بندھے ہوئے پڑے تھے تو رات کے وقت ان کے کراہنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کونیند نہیں آتی تھی۔ انصار کو معلوم ہوا تو انہوں نے عباس کے بندھن ڈھیلے کردیئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی توآپؐ نے فرمایااگر بندھن ڈھیلے کرتے ہو تو سب کے کرو۔عباس کی کوئی خصوصیت نہیں۔چنانچہ سارے قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کردیئے گئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامادابوالعاص بھی اسیرانِ بدر میں سے تھے۔ ان کے فدیہ میں ان کی زوجہ یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں۔ان میں ان کا ایک ہار بھی تھا۔یہ ہار وہ تھاجوحضرت خدیجہ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینب کو دیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہؓ کی یاد دل میں تازہ ہوگئی اورآپؐ چشم پُرآب ہوگئے اورصحابہ سے فرمایااگرتم پسند کروتوزینب کا مال اسے واپس کردو۔صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی زینب کامال فوراًواپس کردیا گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جاکر زینب کو مدینہ بھجوادیں اوراس طرح ایک مومن روح دارِکفر سے نجات پاگئی۔ کچھ عرصہ بعد ابوالعاص بھی مسلمان ہوکر مدینہ میں ہجرت کرآئے اوراس طرح خاوند بیوی پھراکٹھے ہو گئے۔ حضرت زینب کی ہجرت کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ جب وہ مدینہ کے لئے مکہ سے نکلیں تومکہ کے چند قریش نے ان کو بزور واپس لے جانا چاہا۔جب انہوں نے انکار کیا توایک بدبخت ھبار بن اسود نامی نے نہایت وحشیانہ طریق پران پرنیزے سے حملہ کیا جس کے ڈر اورصدمہ کے نتیجہ میں انہیں اسقاط ہوگیا۔۲؎ بلکہ اس موقع پر ان کو کچھ ایسا صدمہ پہنچ گیا کہ اس کے بعد ان کی صحت کبھی بھی پورے طورپر بحال نہیں ہوئی اور بالآخر انہوں نے اسی کمزوری اورضعف کی حالت میں بے وقت انتقال کیا۔ ۳؎
قیدیوں میں جو غریب لوگ تھے اورفدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت یونہی بطور احسان رہا کردیئے گئے۔ ۴؎ مگر جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کی رہائی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شرط کے ساتھ مشروط فرمائی کہ دس دس بچوں کو نوشت وخواند سکھادیں تورہا کئے جاویں۔چنانچہ زیدبن ثابت نے جوبعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتبِ خاص کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔اسی طرح لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔۱؎
قیدیوں میں سہیل بن عمروبھی تھا جورئوساء قریش میں سے تھا اورنہایت فصیح وبلیغ خطیب تھا اور عموماًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لیکچر دیتا رہتا تھا۔جب وہ بدر میں قید ہوا تو حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!سہیل بن عمروکے اگلے دانت نکلوا دیئے جاویں تاکہ وہ آپ کے خلاف زہر نہ پھیلاسکے۔مگرآپؐ نے اس تجویز کو بہت ناپسند کیااور ساتھ ہی فرمایا کہ عمر تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا آئندہ اسے ایسے مقام پر کھڑاکرے جو قابل تعریف ہو۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سہیل مسلمان ہوگیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کے لئے اسلام کی تائید میں نہایت پراثرخطبے دئیے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے اوراسی سہیل کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں وہ اورابوسفیان اوربعض دوسرے رئوساء مکہ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کوملنے کے لئے گئے۔اتفاق سے اسی وقت بلالؓ اورعمارؓ اورصہیبؓ وغیرہ بھی حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے آگئے۔یہ وہ لوگ تھے جو غلام رہ چکے تھے اوربہت غریب تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتداء میں اسلام قبول کیا تھا۔حضرت عمرؓ کواطلاع دی گئی تو انہوں نے بلال وغیرہ کوپہلے ملاقات کے لئے بلایا۔ابوسفیان نے جس کے اندر غالباًابھی تک کسی قدر جاہلیت کی رگ باقی تھی یہ نظارہ دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔چنانچہ کہنے لگا ’’یہ ذلت بھی ہمیں دیکھنی تھی کہ ہم انتظار کریں اوران غلاموں کوشرفِ ملاقات بخشا جاوے۔‘‘ سہیل نے فوراًسامنے سے جواب دیا کہ’’پھر یہ کس کا قصور ہے؟محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم سب کو خدا کی طرف بلایا لیکن انہوں نے فوراًمان لیا اور ہم نے دیر کی۔ پھر ان کو ہم پر فضیلت حاصل ہویانہ ہو؟۲؎ قیدیوں میں ایک شخص ولید بن ولیدتھاجومکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کالڑکا اورخالد بن ولید کا بھائی تھا۔صحابہ نے اس سے چارہزار درہم فدیہ مانگا جواس کے بھائیوں نے ادا کردیا اورولید رہا ہوکر مکہ پہنچ گیا۔مکہ میں پہنچ کر ولیدنے اسلام کااظہار کردیا۔اس کے بھائی اس پر سخت ناراض ہوئے اورکہا کہ تو نے مسلمان ہی ہونا تھاتوفدیہ کیوں ادا کیا۔ولید نے جواب دیا کہ میں نے اس لئے فدیہ ادا کرنے کے بعد اسلام کا اظہار کیا ہے کہ تالوگ یہ خیال نہ کریں کہ میں فدیہ سے بچنے کے لئے مسلمان ہوا ہوں۔اس کے بعد مکہ والوں نے ولید کواپنے پاس قید کرلیا اور سخت تکالیف پہنچائیں مگر وہ ثابت قدم رہا اورآخر کچھ عرصہ کے بعد موقع پاکر مدینہ بھاگ آیا۔ ۱؎
مکہ میں جب لشکر قریش کی شکست اوررئوساء قریش کی ہلاکت کی خبر پہنچی توایک کہرام مچ گیا اس حالت کودیکھ کر ابوسفیان اوربعض دوسرے ذی اثر قریش نے اعلان کروایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مقتولین بدر پر نوحہ نہ کرے جب تک کہ ہم لوگ مسلمانوں سے بدر کا بدلہ نہ لے لیں اوراس طرح عامۃ الناس کے جوش نوحہ کوانتقام کی تیاری میں لگا دیا گیا،مگر بدر کا صدمہ ایسا نہ تھا کہ عرب کی فطرت اسے آسانی سے دبا سکتی۔چنددن کے صبر وخاموشی کے بعد پھر گھر گھر سے صدائے ماتم بلند ہونی شروع ہوئی اوربدر کے مقتول مکہ کی گلی کوچوں میں برملا طورپر پیٹے جانے لگے۔عرب کی سی آتشی فطرت اورپھربدر کی سی تباہی اس کے نتیجہ میں جو ماتم بھی ہوسکتا تھا وہ ہوااوربرابر ایک ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔شروع شروع میں جبکہ قریش اظہارِ ماتم سے رکے ہوئے تھے اورپھر جوشِ ماتم کودبا نہ سکنے کی وجہ سے پھوٹ پڑے اس وقت کی ایک مثال روایات میں خاص طورپر مذکور ہوئی ہے اور ناظرین کی بصیرت کے لئے ہم اسے یہاں درج کرتے ہیں۔اسود بن عبدیغوث مکہ کا ایک رئیس تھا۔ اس کے دو لڑکے اورایک پوتا جنگ بدر میں مارے گئے تھے مگر رئوساء قریش کے فیصلہ کی وجہ سے وہ خاموش تھا اور فرطِ غم سے اندر ہی اندرگھلا جاتا تھا۔ایک رات اس نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے باہر گلی میںسے رونے چلانے کی آواز سنی۔اس آواز نے اسے بے چین کردیااوراس نے اپنے نوکرکوبلا کرکہادیکھو تویہ آواز کیسی ہے۔شاید رئوساء قریش نے ماتم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اگر یہ درست ہے تو میرے سینے میں ایک آگ لگ رہی ہے میں بھی جی کھول کر رولُوں کہ دل کا کچھ بخار تو نکل جاوے۔نوکر گیا اورخبرلایا کہ ایک عورت کااونٹ کھویا گیا ہے اوروہ اس پر نوحہ کررہی ہے۔ شاعری عرب کی فطرت میں تھی اسود کے منہ سے بے اختیار یہ شعر نکلے اوردَبے ہوئے جذبات پھوٹ کر باہرآگئے۔
اَتَبْکِیْ اَنْ یُضِلَّ لَھَا بَعِیْرُ
فَلاََ تْبکِیْ عَلٰی بَکْرٍوَلٰکِنْ
وَبَکِّیْ اِنْ بَکَیْتِ عَلٰی عَقِیْلٍ
وَیَمْنَعُھَا مِنَ النَّوْمِ السُّھُوْدُ
عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
وَبَکِّیْ حَارِثًا اَسَدِ الْاُسُوْدِ
یعنی’’کیا وہ عورت اس بات پر رورہی ہے کہ اس کا ایک اونٹ کھوگیاہے اوراس نقصان کا غم اسے رات کو سونے نہیںدیتا۔اے عورت!تواس اونٹ پر کیا روتی ہے۔روبدرپرجہاں کہ ہماری قسمت نے یاوری نہ کی۔ہاں!اگر تو نے رونا ہے تو رومیرے عقیل پراوررومیرے حارث پر جو شیروں کا شیر تھا۔‘‘ ۱؎
غرض اس طرح ماتم کے رکے رہنے کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا اورایک ایک کرکے سارے قریش ماتم کی رَو میں بہ گئے۔صرف ایک گھر تھا جوخاموش تھا اوروہ ابوسفیان کاگھر تھا۔ابوسفیان کی بیوی ہندؔ قریش کے رئیس اعظم عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی تھی اوریہ بیان کیا جاچکا ہے کہ بدر کے میدان میں عتبہ اوراس کا لڑکا ولید اوراس کا بھائی شیبہ سب خاک میں مل چکے تھے،مگر مردانہ صفت ہندؔ نے ایک لفظ بھی نوحہ کااپنے منہ سے نکلنے نہیںدیا۔لوگ آآکر اس سے پوچھتے تھے کہ اے ہند!توکیوں خاموش ہے۔ہند جواب دیتی تھی کہ’’اگرآنسو میرے غم کی آگ کوبجھا سکتے تو میں بھی روتی لیکن میںجانتی ہوں کہ آنسو میری آگ کو نہیںبجھا سکتے۔ اب یہ آگ اس وقت بجھے گی کہ تم لوگ پھر محمد کے خلاف میدان میں نکلو اور بدر کا بدلہ لو۔ ۲؎
جنگِ بدر کااثر کفار اورمسلمانوں ہردو کے لئے نہایت گہرا اوردیر پا ہوا اوراسی لئے تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتّٰی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔یعنی وہ دن جبکہ اسلام اورکفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہوگیا ۔بے شک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک نازک موقعے بھی آئے،لیکن جنگِ بدرمیں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طورپر درست نہیں کرسکا۔تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔قریش جیسی قوم میںستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیںکہلاسکتا۔جنگِ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی،لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیںہوا۔پھروہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی۔یعنی جنگِ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اوروہ دوٹکڑے ہوگئی۔اگر یہی ضرب بجائے جڑ کی شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا،لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کاڈھیر کردیا اورصرف وہی شاخیں بچیں،جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہوگئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اورجب ہم اس نقطۂ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقع قریش کی جڑ کٹ گئی۔عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف اور ابوجہل اورعقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کی روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کے لئے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی اورخود قریش بھی اس نقصان کے اندازہ کو خوب سمجھتے تھے۔چنانچہ قریش کا ایک معززشاعر بدر کے مقتولین کا نوحہ کرتا ہوا کہتا ہے اورکیا خوب کہتا ہے ؎
اَلاَ قَدْسَادَبَعْدَھُمْ اُنَاسٌ
وَلَوْلاَ یَوْمُ بَدْرٍلَمْ یَسُودُوْا
’’ان رئوساء قریش کے بعد کہ جو بدر کے دن مارے گئے ایسے لوگ قومی ریاست کے مسند پر بیٹھے ہیں کہ اگر بدر کادن نہ ہوتا تویہ لوگ ہرگزرئیس نہ بن سکتے۔ ۱ ؎ اللہ اللہ کیا تباہی تھی جو اس قوم پر آئی! بدر کی شکست کیا تھی کہ گویا قوم رانڈ ہوگئی۔بے شک رئوساء زادے اب بھی قریش میں کافی موجود تھے اوروہ لوگ بھی تھے جوریاست کی صف دوم میں شمار کئے جاسکتے تھے ،مگر وہ چوٹی کے سردار جو اسلام کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کی روح رواں تھے اورجن کے پیچھے ان کی قوم باوجود عرب کی فطری آزادی کے اس معاملہ میں گویا بھیڑوں کی طرح چلتی تھی،سب کے سب خاک میں مل گئے تھے اورمعلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں کوئی خاص تقدیر کام کررہی تھی کیونکہ ابولہب جوبدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا مگر جو مخالفین اسلام کی صف اول میں تھا وہ بھی ہلاکت سے نہیں بچا کیونکہ بدر کے چند دن بعد ہی وہ مکہ میں ایک مکروہ بیماری میںمبتلا ہوا اورنہایت ذلت کی موت مرکر اپنے ان ساتھیوں سے جاملا جوبدر میں مارے گئے تھے۔ ۲؎ اب لے دے کہ صرف ایک ابوسفیان رہ گیا تھا جسے شاید اس کی قسمت نے فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے کے لئے بچا لیا تھااوربدر کے بعد اسی کے سر پر قریش کی سرداری کا تاج رکھا گیا تھا۔بدر کے نتائج پربحث کرتے ہوئے سرولیم میور لکھتے ہیں:
’’بدر کے حالات میں ایسی باتوںکابہت کچھ عنصر نظر آتا ہے ،جس کی وجہ سے محمد صاحب اس فتح کو جائز طور پرخدائی تقدیرکاکرشمہ شمار کرسکتے تھے۔نہ صرف یہ کہ یہ فتح بہت نمایاں اورفیصلہ کن تھی بلکہ اس جنگ میں غیر معمولی طورپر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اکثر بااثر دشمن خاک میں مل گئے تھے۔ان رئوساء مکہ کے علاوہ جوجنگ میں قتل کئے گئے یاقید کرلئے گئے تھے ابولہب جوجنگ میں شامل نہیں ہوا تھا وہ بھی قریش کی بھگوڑی فوج کے مکہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی مکہ میں مر گیا۔گویا کہ وہ خدائی حکم جس کی ماررئوساء مکہ پر پڑی ایک اٹل تقدیر تھی۔‘‘ ۱؎
دوسری طرف جنگِ بدر کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوزیشن نمایاں طورپر مضبوط ہوگئی تھی کیونکہ اول تواس عظیم الشان اورغیر متوقع فتح کی وجہ سے قبائلِ عرب پرمسلمانوں کاایک قسم کارعب بیٹھ گیا تھا۔دوسرے خود مسلمانوںکی ہمتیں بھی لازماً بلند ہوگئی تھیں اورایک جائز رنگ خود اعتمادی کاپیدا ہو گیا تھا۔اس فتح کایہ نتیجہ بھی ہوا کہ منافقین مدینہ مرعوب ہوکر دب گئے اور چونکہ یہ فتح بالکل غیر متوقع حالات میں حاصل ہوئی تھی اورفریقین کے لئے اپنے نتائج اوراثرات کے لحاظ سے ایک عظیم الشان قومی یادگار تھی اس لئے مسلمانوں میں جنگِ بدرایک خاص نظر سے دیکھی جانے لگی۔چنانچہ جن صحابہ نے اس جنگ میں حصہ لیا تھاوہ دوسروں سے ممتاز سمجھے جاتے تھے۔ حتّٰی کہ ایک دفعہ ایک بدری صحابی سے کوئی سخت غلطی سرزد ہوگئی اور حضرت عمرؓنے اسے ایک قومی غدار سمجھ کر(حالانکہ دراصل وہ ایک مخلص صحابی تھا مگراس سے یہ غلطی ہوگئی تھی)اسے سزادینی چاہی توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔اورفرمایا کہ’’عمر!تم جانتے نہیں ہوکہ یہ شخص بدری ہے اور بدریوں کی اس قسم کی غلطیاں اللہ کے نزدیک معاف ہیں۔‘‘ ۲؎ حضرت عمرؓ کے زمانہ میںبھی جب صحابہ کے وظیفے مقرر ہوئے توبدری صحابیوں کاوظیفہ ممتاز طورپر خاص مقرر کیا گیا۔ خود بدری صحابہؓ بھی جنگِ بدرکی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں:
’’بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے۔سعد بن ابی وقاص جب اسّی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے توانہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لاکردوجومیںنے بدر کے دن پہنا تھااورجسے میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اورجن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اورجو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اورفخر جنگِ بدرمیں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میںبالکل ہیچ تھیں اورجنگِ بدروالے دن کے لباس کووہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اوران کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے۔‘‘ ۳؎
خدا نے بھی قرآن شریف میں جنگِ بدر کے تذکرہ کوخاص اہمیت دی ہے اور سورۃ انفال گویا ساری کی ساری اسی کے بیان میں ہے اور بدر کے متعلق جوپیشگوئی مکہ میں ہوئی تھی وہ بھی نمایاں طورپر قرآن شریف میں بیان ہوئی ہے۔چنانچہ سورۃ قمرمیں اس کاان الفاظ میں ذکر ہے۔ ۱؎ یعنی ’’کیایہ کفار کہتے ہیں کہ ہم انتقام لینے کے لئے جمع ہوئے ہیں؟یہ لشکر ضرور پسپا ہوگااورپیٹھ دکھائے گا بلکہ یہ گھڑی ان کے عذاب کی گھڑی ہوگی۔اوریہ وقت ان پر سخت کڑا اورکڑوا وقت ہوگا۔ مجرم لوگ گمراہی اور جلانے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس وقت یہ لوگ آگ یعنی جنگ میں اپنے منہ کے بل گھسیٹے جائیںگے اوران سے کہا جائے گا کہ لواب اس آگ کا عذاب چکھو۔‘‘کیا یہ پیشگوئی لفظ بلفظ پوری نہیں ہوئی؟پھرصحفِ گزشتہ میں بھی بدر کا تذکرہ مخصوص طور پرموجود ہے۔چنانچہ کتاب یسعیاہ ۲؎ میں’’عرب کے متعلق الہامی کلام‘‘کے عنوان کے نیچے یہ پیشگوئی درج ہے:
’’عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کااستقبال کرنے آئو۔اے تیما کی سرزمین کے باشندو!روٹی لے کر بھاگنے والے کے ملنے کونکلو۔کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھچی ہوئی کمان اورجنگ کی شدت سے بھاگے ہیں۔۳؎ کیونکہ خداوند نے مجھ سے یوں فرمایا۔ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس۔ ۴؎ قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اورتیراندازوں کی تعداد کا بقیہ یعنی بنی قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘
الغرض یہ جنگ تاریخ اسلام کا ایک نہایت اہم اور عظیم الشان واقعہ ہے اوراس کے اثرات کفار اور مسلمانوں ہردو کے واسطے نہایت گہرے اوردیر پاثابت ہوئے اورجہاں کفارِ مکہ کی جڑ کٹ گئی وہاں ظاہری اسباب کے لحاظ سے مسلمانوں کی جڑ زمین میں قائم ہوگئی لیکن اگر ایک لحاظ سے جنگِ بدرکے یہ خوش کن ثمرات مسلمانوں کے لئے پیدا ہوئے تو دوسرے لحاظ سے وقتی طور پر مسلمانوں کے خطرات بھی بدر کے بعد زیادہ ہوگئے۔کیونکہ لازماًبدر کی تباہی کی وجہ سے کفارِ مکہ کے سینے جذبہ انتقام سے بھر گئے اورچونکہ اب قریش کے قومی کاموں کا حل وعقدزیادہ تر نوجوانوں کے ہاتھ میں تھا جو طبعاً زیادہ جوشیلے اورعواقب کی طرف سے بے پروا ہوتے ہیں اس لئے بدر کے بعد مدینہ پر کفار کے حملہ کا خطرہ زیادہ مہیب صورت اختیار کرگیا۔دوسری طرف دوسرے قبائل عرب جہاں جنگِ بدر سے مرعوب ہوئے وہاں مسلمانوں کی طرف سے ان کا فکرآگے سے بھی زیادہ بڑھ گیااورانہوں نے یہ خیال کرنا شروع کیاکہ اگر اسلام کو مٹانے اورمسلمانوں کوتباہ وبرباد کرنے کی کوئی صورت جلدی نہ ہوئی تو یہ قوم ملک میں اس قدر مضبوط ہوجائے گی کہ پھر اس کا مٹانا ناممکن ہوگا،اس لئے جنگِ بدر کے نتیجہ میں ان کی معاندانہ کوششیں زیادہ عملی اور خطرناک صورت اختیار کرگئیں اوریہودان مدینہ بھی چونک کر ہوشیار ہوگئے۔ایک اور خطرناک نتیجہ بدرؔکا یہ نکلا کہ کفار مکہ جو اب تک صرف ظاہری زور اور گھمنڈ پر لڑرہے تھے اب ایک کھلے میدان میں مسلمانوں سے زک اٹھا کر مخفی اوردَرپردہ سازشوں کی طرف بھی مائل ہونے لگ گئے۔چنانچہ ذیل کا تاریخی واقعہ جو جنگِ بدر کے صرف چند دن بعدوقوع میں آیا اس خطرہ کی ایک بین مثال ہے لکھا ہے کہ بدر کے چند دن بعد عمیربن وہب اور صفوان بن امیہ بن خلف جوذی اثر قریش میں سے تھے صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر کا ماتم کررہے تھے کہ اچانک صفوان نے عمیر سے مخاطب ہو کرکہا کہ’’اب تو جینے کا کوئی مزا نہیں رہا۔‘‘عمیر نے اشارہ تاڑا اور جواب دیا کہ’’میںتو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں لیکن بچوں اور قرض کا خیال مجھے مانع ہوجاتا ہے۔ورنہ معمولی بات ہے مدینہ جاکر چپکے سے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)کا خاتمہ کرآئوں اور میرے لئے وہاں جانے کا یہ بہانہ بھی موجود ہے کہ میرا لڑکا ان کے پاس قید ہے۔‘‘ صفوان نے کہا۔’’تمہارے قرض اوربچوں کا میں ذمہ دار ہوتا ہوں تم ضرور جائو اورجس طرح بھی ہو یہ کام کرگزرو۔‘‘غرض تجویز پختہ ہوگئی اورصفوان سے رخصت ہوکر عمیراپنے گھر آیا اورایک تلوار زہر میں بجھا کر مکہ سے نکل کھڑا ہوا جب وہ مدینہ پہنچا تو حضرت عمرؓنے جو ان باتوں میں بہت ہوشیارتھے اسے دیکھ کرخوفزدہ ہوئے اور فوراًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جاکر عرض کیا کہ عمیرآیا ہے اور مجھے اس کے متعلق اطمینان نہیں ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے آئو۔حضرت عمرؓ اسے لینے کے لئے گئے۔مگر جاتے ہوئے بعض صحابہ سے کہہ گئے کہ میں عمیر کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملانے کے لئے لاتا ہوں،مگر مجھے اس کی حالت مشتبہ معلوم ہوتی ہے تم لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیٹھ جائواورچوکس رہو۔اس کے بعد حضرت عمرؓعمیر کوساتھ لئے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐنے اسے نرمی کے ساتھ اپنے پاس بٹھا کر پوچھا’’کیوں عمیر کیسے آنا ہوا؟‘‘ عمیر نے کہا ’’میرا لڑکاآپؐ کے ہاتھ میں قید ہے اسے چھڑانے آیا ہوں۔‘‘آپؐ نے فرمایا’’توپھر یہ تلوار کیوں حمائل کررکھی ہے؟‘‘اس نے کہا’’آپؐ تلوار کاکیا کہتے ہیں۔بدر میں تلواروں نے کیا کام دیا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ نہیں ٹھیک ٹھیک بات بتائو کہ کیسے آئے ہو؟‘‘اس نے کہا بات وہی ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ بیٹے کو چھڑانے آیا ہوں۔آپؐ نے فرمایا’’اچھا تو گویا تم نے صفوان کے ساتھ مل کر صحن کعبہ میںکوئی سازش نہیں کی۔‘‘عمیرسناٹے میں آگیا۔مگر سنبھل کر بولا’’نہیں میں نے کوئی سازش نہیں کی۔‘‘آپؐ نے فرمایا’’کیا تم نے میرے قتل کا منصوبہ نہیں کیا؟مگر یاد رکھو خدا تمہیں مجھ تک پہنچنے کی توفیق نہیں دے گا۔‘‘عمیر ایک گہرے فکر میں پڑ گیااورپھربولا’’آپؐ سچ کہتے ہیں ہم نے واقعی یہ سازش کی تھی۔مگر معلوم ہوتا ہے خدا آپؐ کے ساتھ ہے جس نے آپؐ کوہمارے ارادوں سے اطلاع دے دی ورنہ جس وقت میری اورصفوان کی بات ہوئی تھی اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھااورشاید خدا نے یہ تجویز میرے ایمان لانے ہی کے لئے کروائی ہے اور میںسچے دل سے آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘آپؐ عمیر کے اسلام سے خوش ہوئے اور صحابہ سے فرمایا۔’’اب یہ تمہارا بھائی ہے اسے اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرواوراس کے قیدی کو چھوڑ دو۔‘‘الغرض عمیر بن وہب مسلمان ہوگئے اوربہت جلد انہوں نے ایمان واخلاص میں نمایاں ترقی کرلی اور بالآخر نورِ صداقت کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے باصرار عرض کیاکہ مجھے مکہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں کے لوگوں کو جاکر تبلیغ کروں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دی اور عمیرنے مکہ پہنچ کراپنے جوش تبلیغ سے کئی لوگوں کو خفیہ خفیہ مسلمان بنا لیا۔صفوان جودن رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کا منتظر تھا اور قریش سے کہا کرتا تھا کہ اب تم ایک خوشخبری سننے کے لئے تیار رہو۔اس نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بے خود سارہ گیا۔ ۱؎
اگر اس جگہ کسی کو یہ سوال پیدا ہوکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ کس طرح علم ہوگیا کہ عمیر اس نیت سے آیا ہے تواس کا سیدھا اورسادہ جواب یہ ہے کہ جس خدا نے آپؐ کودنیاکی اصلاح کے لئے نبی بناکر بھیجا تھا اور جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسی نے آپؐ کو اطلاع دے دی۔ دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کامطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آپ کوئی معمولی انسان نہ تھے بلکہ آپؐ کوخدا کی طرف سے نبی اور رسول بلکہ خاتم النبییّن ہونے کا دعویٰ تھا۔ لہذاضروری ہے کہ آپؐکی سیرت وسوانح کا منہاجِ نبوت کی روشنی میں مطالعہ کیا جاوے۔پس جس طرح ضرورتِ زمانہ کے ماتحت دوسرے انبیاء ومرسلین کواللہ غیب کی باتوں پر آگاہ کرتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً خوارق ومعجزات ظاہر ہوتے رہے ہیں اسی طرح ضروری تھا کہ آپؐکے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ اپنے علم وقدرت کی مخفی طاقتوں کا اظہار کرے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم دنیا کی دوسری باتوں کومعتبرلوگوں کی شہادت کی وجہ سے مانتے ہیں توآیات ومعجزات کو معتبر شہادت کے ہوتے ہوئے نہ مانیں۔البتہ جس طرح دوسری باتوں میں تحقیق کے بعد ایک بات کو مانا جاتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آیات ومعجزات کے متعلق پوری پوری تحقیق سے کام لیا جاوے اور صرف اسی بات کو مانا جاوے جو معتبر شہادت سے پایۂ ثبوت کوپہنچی ہوئی ہو تاکہ غلط اور موضوع قصے صحیح تاریخ کا حصہ نہ قرار پاجائیں ،مگر یہ ایک نازک اور اہم مسئلہ ہے جس کے متعلق مفصل بحث انشاء اللہ کسی اور موقع پر آئے گی۔
بدرکااثر مشرکین مدینہ پر
ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کردی اوران میں سے
بہت سے لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اورخارق عادت فتح کودیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے۔اوراس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصربڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہوگیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کردی اورانہوں نے برملا مخالفت کوخلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہرتواسلام قبول کرلیا لیکن اندر ہی اندراس کے استیصال کے دَرپے ہوہوکر منافقین کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ان مؤخر الذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن ابیّ ابن سلول تھا جوقبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ میںتشریف لانے کے نتیجہ میںاپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔یہ شخص بدر کے بعدبظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کادل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کاسردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کردیا۔ چنانچہ بعد کے واقعات سے پتہ لگے گا کہ کس طرح یہ شخص بعض اوقات اسلام کے لئے نہایت نازک حالت پیدا کردینے کاباعث بنا۔
رومی سلطنت کی فتح اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی
کتاب کے حصہ اول میں بیان کیا گیا تھاکہ ان ایام
میںروم اور فارس کی مملکتیںبرسرپیکار تھیں اورمکہ والوں کی ہمدردی طبعاًاہلِ فارس کے ساتھ تھی جوانہی کی طرح مشرک تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ آپؐ نے خدا سے الہام پاکر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس جنگ میں گوابتداء ً روم کو نیچا دیکھنا پڑے گا،لیکن بالآخر اسے فارس پر فتح حاصل ہوگی اور تین سال سے لے کر نوسال کے عرصہ تک روم غالب آجائے گا۔یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ فارس کی افواج روم کودباتی چلی جاتی تھیںاوربہت سے رومی علاقے فارس نے چھین لئے تھے اوربظاہر حالات روم کے لئے کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔اس حالت کو دیکھ کر کفار مکہ بہت خوش تھے اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تو وہ کہتے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگاکہ اب روم کوغلبہ حاصل ہو۔چنانچہ ان کی تحریک پر حضرت ابوبکرؓنے ان سے ایک شرط بھی باندھ لی۔ ۱؎ مگر حضرت ابوبکرسے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے کفار مکہ کے کہنے میں آکرقرآن شریف کی بیان کردہ معیاد کوجو تین سال سے لے کر نو سال کے عرصہ پرمشتمل تھی صرف چھ سال میں محصور کردیااوراس طرح قریش کو ایک جھوٹی خوشی کاموقع مل گیا،مگر بعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرمادی کہ خدائی معیاد کوتنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے پوری معیاد نوسال ہے اور اس وقت تک پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔چنانچہ ابھی نو سال نہیں گزرے تھے کہ جنگ نے یکلخت پلٹا کھایا اورروم نے فارس کو شکست پر شکست دے کراپنا سارا علاقہ واپس چھین لیا اور جنگ کا اختتام روم کی فتح پر ہوا۔یہ ایام وہی تھے جبکہ صحابہ نے قریش مکہ کو بدر کے میدان میں شکست دی تھی۔گویااس موقع پر مسلمانوں کے لئے دو خوشیاں جمع ہوگئیں اور قریش مکہ کے لئے دو ماتم۔ ۲؎ بعض روایات میں یہ مروی ہوا ہے کہ یہ فتح روم کوصلح حدیبیہ کے زمانہ میں حاصل ہوئی تھی مگر یہ دونوں روایتیں متضاد نہیں ہیں کیونکہ دراصل روم کی فتح کازمانہ جنگِ بدر سے لے کر صلح حدیبیہ کے زمانہ تک پھیلا ہوا تھا۔

غلاموں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا
سلوک اور مسئلہ غلامی کے متعلق آپؐ کی تعلیم
مسئلہ غلامی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
چونکہ جنگ کو غلامی کے مسئلہ کے ساتھ ایک بنیادی تعلق ہے اوربدر وہ پہلی باقاعدہ جنگ ہے جو کفار
اور مسلمانوں کے درمیان وقوع میں آئی۔اس لئے جنگ بدرکے تذکرہ میںطبعاًیہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسئلہ غلامی کے متعلق کیا تعلیم دی اورکیا طریق اختیار کیا؟ لہذا پیشتر اس کے کہ ہم آگے چلیں مسئلہ غلامی کے متعلق ایک مختصر سا نوٹ درج کرنا نامناسب نہ ہوگا۔مگر چونکہ یہ مسئلہ نہایت وسیع اورنہایت نازک ہے اوراس پر پورے تبصرہ کے لئے بہت سے مباحث میں داخل ہونا پڑتا ہے جس کی اس جگہ گنجائش نہیںاور نہ ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں ہم اس قسم کی علمی بحثوں میں زیادہ پڑ سکتے ہیں،اس لئے ہم اس جگہ صرف اصولی نقطۂ نگاہ سے اس مسئلہ پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے اوراس میں بھی اپنے آپ کو صرف اس حد تک محدود رکھیںگے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اورطریق عمل کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے۔
سو سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیابرٹینیکا میں تصریح کی گئی ہے دنیا میں غلامی کی ابتداء دراصل جنگ سے ہوئی ہے۔شروع شروع میں غلام بنائے جانے کا طریق اس طرح پر جاری ہوا کہ جب دو قبیلوں یادوقوموں یادوملکوں کے درمیان کسی وجہ سے جنگ چھڑتی تھی تو مفتوح فوج کے جنگجو لوگ بلکہ بسااوقات مفتوح قوم کے پیشتریاسارے کے سارے مرد قتل کردئیے جاتے تھے اور عورتوں اور بچوں کو (سوائے اس کے کہ انہیں بھی واجب القتل سمجھا جاوے)قید کرکے غلام بنا لیا جاتا تھا اورپھر ان غلاموں سے مختلف قسم کے کام اور محنتیں لی جاتی تھیں۔اس کے بعدایک طرف دنیا میںتمدن اورکاروبار نے ترقی کی اور مزدور پیشہ لوگوں اور خدمتگاروں کی مانگ زیادہ ہونی شروع ہوئی اوردوسری طرف عورتوں اور بچوں کوغلام بنالینے کے عملی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ خدمت اور مزدوری حاصل کرنے کا یہ ایک عمدہ اورآسان ذریعہ ہے کہ مفتوح قوم کے لوگوں کو غلام بناکر رکھا جاوے اس لئے آہستہ آہستہ یہ طریق جاری ہوگیاکہ باستثناء ان لوگوں کے جو کسی وجہ سے واجب القتل سمجھے جاتے تھے مفتوح قوم کے مردوں کو بھی بجائے قتل کرنے کے غلام بنالیا جاتا تھااورپھر ان سے ملکی اورقومی اورانفرادی کاموں میں جبری محنت لی جاتی تھی۔اس طرح آہستہ آہستہ یہ طریق ایسا وسیع ہوگیاکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض ممالک میں غلاموں کی تعداد اصل باشندوں سے بھی زیادہ ہوگئی اورغلامی کا طریق دنیا کے تمدن اورمعاشرت کا ایک ضروری حصہ بن گیا۔یہ غلام مالک کی کامل ملکیت سمجھے جاتے تھے اوراسے اختیار حاصل ہوتا تھا کہ انہیں جس طرح چاہے رکھے۔جوکام چاہے ان سے لے۔ جو سزا چاہے انہیںدے اورجب اور جس طرح چاہے انہیںکسی اور شخص کے پاس فروخت کردے۔
اوربالآخر اس سلسلہ نے ایسی وسعت اختیار کرلی کہ ان غلاموں کی اولاد بھی مالک کی ملک متصور ہونے لگی۔اوراس طرح ایک مستقل اور غیر متناہی سلسلہ غلامی کا جاری ہوگیا اورجب لوگوں نے یہ دیکھا کہ یہ ایک بڑا فائدہ مندسلسلہ ہے کہ گویا مفت میں ایسے نوکروں اور مزدوروںکی خدمت حاصل ہوجاتی ہے جن کو کوئی تنخواہ وغیرہ نہیںدینی پڑتی اورجو ہر حالت میں اورہرقسم کی خدمت پر مجبور ہوتے تھے بلکہ علاوہ خدمت کے ان سے اور بھی بعض فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں تو جنگی قیدیوں کے طریق کے علاوہ لوگوں نے اور بھی کئی قسم کے ظالمانہ طریق غلام بنانے کے ایجاد کرلئے۔مثلاً بلاوجہ کسی کمزور قبیلہ یاقافلہ پرحملہ کرکے ان کے مردوزن کوپکڑ کر غلام بنالیاجاتا تھااورپھر ان بدنصیب لوگوںکی نسل میں یہ غلامی کاداغ ہمیشہ کے لئے چلتا چلا جاتا تھا۔الغرض آہستہ آہستہ غلامی کا جائزو ناجائزطریق دنیا میںرائج اور مستحکم ہوگیااورجس وقت اسلام کی ابتداء ہوئی اس وقت تمام ممالک میں یہ طریق کم وبیش جاری تھا اورمملکت ہائے روم اوریونان اورایران وغیرہ میں لاکھوں غلام دکھ اور مصیبت کی زندگی کاٹ رہے تھے اورکوئی ان کا پرسانِ حال نہیں تھا اوربحیثیت مجموعی ان کی حالت جانوروں سے بڑھ کر نہیں تھی۔اس زمانہ میں عرب کے ملک میں بھی ہزارہا غلام پائے جاتے تھے اور امراء کی امارت میں غلاموں کی تعداد بھی گویا ایک ضروری حصہ سمجھی جاتی تھی اورعرب کے لوگ خصوصیت کے ساتھ غلاموں کو سخت حقیروذلیل خیال کرتے تھے اورجیسا بھی ظالمانہ سلوک چاہتے تھے ان سے کرتے تھے۔چنانچہ کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے کہ مسلمان ہونے والے غلاموں پر رئوساء مکہ نے کیسے کیسے سخت مظالم کئے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب خدا سے الہام پاکر رسالت کادعویٰ کیا تو آپؐ کی ابتدائی تعلیمات میںیہ بات بھی داخل تھی کہ غلاموں کے ساتھ نرمی اور شفقت کاسلوک ہونا چاہئے۔ اورغلاموں کے آزاد کئے جانے کے متعلق بھی آپؐ نے اسی ابتدائی زمانہ میںتحریک شروع کردی تھی بلکہ اس بارہ میں تو خصوصیت کے ساتھ ایک قرآنی وحی بھی نازل ہوئی کہ غلام کاآزاد کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ ۱؎ اسلامی تعلیم کی خوبی اور کشش کے ساتھ اس مخصوص تعلیم نے مل کر عرب کے غلاموں پر ایک نہایت گہرااثر پیدا کیا اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز کواپنے لئے ایک نجات دہندہ کی آواز سمجھنے لگ گئے۔یہی وجہ تھی کہ باوجود ان نہایت درجہ بے دردانہ مظالم کے جو رئوساء مکہ مسلمان ہونے والوں پر کرتے تھے، غلاموں میں اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا۔ چنانچہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میںبیان کیا جاچکا ہے ابتدائی مسلمانوں میں غلاموں کی نسبت غیر معمولی طور پر زیادہ تھی اورتاریخ سے ثابت ہے کہ یہ لوگ ابتدائی زمانہ میںبھی اسلامی سوسائٹی میں ہرگز ذلیل نہیں سمجھے جاتے تھے۔اس کے بعد جوں جوں اسلامی احکام نازل ہوتے گئے غلاموں کی پوزیشن زیادہ مضبوط اوران کی حالت زیادہ بہتر ہوتی گئی اوربالآخر اس انتظامی فرق کے سوا کہ ایک افسر ہوتا تھا اور دوسرا اس کے ماتحت، کوئی اور امتیاز باقی نہ رہا۔دوسری طرف غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی دن بدن زیادہ مضبوط ہوتی گئی اور مسلمانوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرزور تعلیم اورآپؐ کے عملی نمونہ کے ماتحت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس تحریک میںحصہ لیا۔چنانچہ قرآن شریف اورکتاب حدیث وتاریخ اس کی تفاصیل سے بھری پڑی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کام صرف اس حد تک محدود رہا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اورآپؐنے غلامی کے ناجائز اورظالمانہ طریقوں کو منسوخ کرنے کے لئے کوئی تدابیراختیار نہیں کیں؟اگریہی ہے تو گوپھر بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کے ایک عظیم الشان محسن قرار پاتے ہیں کہ آپؐ نے غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے اور ان کی آزادی کی تحریک جاری کرنے اوراس تحریک کو عملی جامہ پہنانے میں ایک نہایت نمایاں خدمت سرانجام دی مگر یقینا اس سے آپؐکاوہ حقیقی کام پردہ میں رہتا ہے جوآپ کی اس تحریک کی اصل روحِ رواں تھے۔کیونکہ جہاں تک ہماری تحقیق ہے اوریہ تحقیق خوش عقیدگی کاثمرہ نہیں بلکہ تاریخی واقعات پر مبنی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف غلاموں کی حالت کو بہتر ہی نہیں بنایابلکہ آپؐ نے آئندہ کے لئے غلامی کے ناجائز اورظالمانہ طریقوں کو منسوخ بھی کردیا۔گویا مسئلہ غلامی کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں اصلاح کاکام دوحلقوں میں تقسیم شدہ تھا۔
اوّل حاضر الوقت غلاموں کی حالت کی اصلاح اوران کی آزادی کاانتظام۔دوم آئندہ کے لئے اصول احکامات۔اورہم اس جگہ ان دونوں قسم کے کاموں کے متعلق آپؐ کی تعلیم اور آپ ؐکے طریق عمل کا نمونہ مختصر طور پر ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
موجود الوقت غلاموں کی اصلاح کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
طبعی ترتیب کو مدّنظر رکھتے ہوئے پہلے ہم اس بحث کو لیتے ہیں جوحاضرالوقت غلاموں سے تعلق رکھتی ہے۔سوجاننا چاہئے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
… ۱؎
’’اے مسلمانو!اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کاسلوک کرو اوراپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ…اوراپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ۔اورجانو کہ اللہ تعالیٰ نہیںپسند کرتا ان لوگوں کو جو تکبر اوربڑائی کا طریق اختیار کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں غلاموں کے ساتھ نیکی اوراحسان کا حکم دیا گیا ہے۔پھر فرماتا ہے:
۲؎
’’اوراے مسلمانو!نہ شادی کرو تم مشرک عورتوں کے ساتھ حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں اورجانو کہ ایک مسلمان لونڈی بہتر ہے ایک آزاد مشرک عورت سے خواہ تمہیں مشرک عورت اچھی ہی نظر آئے۔اوراے مسلمانو!نہ نکاح کرو مسلمان عورتوں کا تم مشرک مردوں کے ساتھ حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں اور جانو کہ ایک مسلمان غلام بہتر ہے ایک آزاد مشرک آدمی سے خواہ تمہیں مشرک آدمی اچھا ہی نظر آئے۔‘‘
اس آیت میںعلاوہ اس کے کہ غلاموں کی پوزیشن کو نمایاں طورپر مضبوط کیا گیا ہے۔ آزاد مسلمان مردوں اورعورتوں اور مسلمان لونڈیوں اورغلاموں کے باہمی شادیوں کے لئے دروازہ کھولا گیا ہے تااس مساویانہ اوررشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجہ میں غلاموں کی حالت جلد تر اصلاح پذیر ہوسکے۔چنانچہ منجملہ اورمصالح کے اس اصل کے ماتحت قرآن شریف میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ چار بیویوں کی انتہائی اوراستثنائی حد کے پورا ہوچکنے کے بعد بھی اگر کسی مسلمان کے لئے کسی غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرنے کا سوال پیدا ہوتو یہ چار کی حد بندی اس کے رستہ میں روک نہیں ہوگی اور وہ ہرحالت میں غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرسکے گا۔ ۱؎ تاکہ غلاموں کی حالت کی اصلاح کارستہ کسی صورت میں بھی مسدود نہ ہونے پائے۔پھر فرماتا ہے:
… ۲؎
’’اوراے رسول!جو شادیاںتم اب تک کرچکے ہو(یہ تمہاری تبلیغی تربیتی اورسیاسی ضروریات کے لئے کافی ہیں اس لئے)اب اس کے بعد تمہیں کوئی اور شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔البتہ اگر کسی غلام عورت کے ساتھ رشتہ کاسوال پیدا ہو تو تمہیں اس کی اجازت ہے۔‘‘
یہ حکم بھی اسی غرض وغایت کاحامل ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اوراس میں مزید غرض یہ شامل ہے کہ تا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریق عمل سے مسلمانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ قائم ہوجاوے۔
پھرفرماتا ہے:
َّ… ۳؎
’’یعنی اے مسلمان عورتو!تم اپنی زینت سوائے اپنے خاوندوں اور فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں کے کسی پر ظاہر نہ کیا کرو۔یعنی پردے کی ان حدود کو مدنظررکھو جو تمہارے لئے مقرر کی گئی ہیں۔البتہ تمہیں اپنے غلاموں سے پردہ نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلاموں کے متعلق اسلامی تعلیم کا اصل منشاء یہ تھا کہ مسلمان انہیں بالکل اپنے قریبی عزیزوں کی طرح سمجھیں۔ حتّٰی کہ مسلمان عورتیں اپنے غلاموں سے پردہ بھی نہ کریں تاکہ غیریت کااحساس بالکل جاتا رہے اور رشتہ داروں کاسااختلاط پیدا ہوجائے۔
پھرحدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اِخْوَانَکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَھُمُ اللّٰہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ فَمَنْ کَانَ اَخُوْہُ تَحْتَ یَدِہٖ فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَاکُلُ وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبِسُ وَلاَ تُکَلِّفُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاَعِیْنُوْھُمْ۔ ۱؎
یعنی’’ابوذر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔پس جب کسی شخص کے ماتحت کوئی غلام ہوتو اسے چاہئے کہ اسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی لباس دے جووہ خود پہنتا ہے اور تم اپنے غلاموںکوایسا کام نہ دیا کرو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اوراگرکبھی ایسا کام دو توپھر اس کام میں خود ان کی مدد کیا کرو۔‘‘
اور مدد کرنے کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ وہ کام ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر وہ آقا کوخودکرنا پڑے تو وہ اسے اپنے لئے موجب عار سمجھے بلکہ ایسا ہونا چاہئے کہ جسے آقا خود بھی کرسکتا ہو اور کرنے کو تیار ہو۔یہ حدیث اپنے مطالب میں نہایت واضح ہے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں نہ صرف یہ کہ غلاموں کے ساتھ کامل درجہ کے حسنِ سلوک اور انتہائی شفقت کاحکم دیا گیا ہے جس کی نظیر یقینا کسی اور مذہب اورکسی اور قوم میں نہیں ملتی بلکہ یہ کہ درحقیقت اس تعلیم کا اصلی منشاء تھا کہ مسلمان اپنے غلاموں کوبالکل اپنے بھائیوں کی طرح سمجھیں اورہر امر میں جس طرح خود رہتے ہیں اسی طرح انہیں رکھیں تاکہ ان کے تمدن و معاشرت میں اسی طرح کی بلندی پیدا ہوجائے جیسی کہ دوسرے آزاد لوگوں میں ہے اوران کے دلوں سے پستی کے احساسات بالکل مٹ جائیں ورنہ محض حسنِ سلوک کی غرض سے اس قدر انتہائی تعلیم نہیں دی جاسکتی تھی کہ غلاموں کو بعینہٖ اسی طرح رکھو جس طرح کہ خود رہتے ہو۔کیونکہ حفظِ مراتب توہوا ہی کرتا ہے اوراسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَباَدَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبَادَۃَ الصَّامِتِ قَالَ لَقِیْنَا اَبَا الْیُسْرِ صَاحِبَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہٗ غَلاَمٌ وَعَلَیْہِ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ وَعَلٰی غُلاَمِہٖ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ قَالَ قُلْتُ لَہٗ یَاعَمِّ لَوْاَنَّکَ اَخَذْتَ بُرْدَۃّ غُلاَمِکَ وَاَعْطَیْتَہٗ مَعَافِرَیْکَ وَاَخَذْتَ مَعَافِرَیْہِ وَاَعْطَیْتَہٗ بُرْدَتَکَ فَکَانَتْ عَلَیْکَ حُلَّۃٌ وَعَلَیْہِ حُلَّۃٌ قَالَ فَمَسَحَ رَأسِیْ وَقَالَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ ثُمَّ قَالَ یَا ابْنَ اَخِیْ بَصَرَتْ عَیْنَایَ حَاتانِ وَسَمِعَتْہُ اُذُنَایَ ھَاتَانِ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ ھٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَقُوْلُ اُطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبِسُوْنَ فَکَانَ اِنْ اَعْطَیْتُہٗ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ یَّاخُذَ مِنْ حَسَنَاتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ۱؎
یعنی’’عبادہ بن ولید روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی ابوالیسر کوملے۔اس وقت ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھااورہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دارچادر اورایک یمنی چادر ان کے بدن پر تھی اوراسی طرح ایک دھاری دار چادراورایک یمنی چادر ان کے غلام کے بدن پر تھی۔ میں نے انہیں کہاچچا تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے یا اس کی یمنی چادر خود لے لیتے اور اپنی دھاری دار چادر اسے دے دیتے تاکہ تم دونوںکے بدن پر ایک ایک طرح کا جوڑا تو ہوجاتا۔ ابوالیسرنے میرے سر پر ہاتھ پھیرااورمیرے لئے دعا کی اورکہا بھتیجے!میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اورمیرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ’’اپنے غلاموں کووہی کھانا کھلائو جو تم خود کھاتے ہواوروہی لباس پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔پس میں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میںدنیاکے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آوے۔‘‘
یہ حدیث اپنے الفاظ کے زوردار ہونے میں گزشتہ حدیث سے بھی زیادہ واضح ہے اور اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے۔بلکہ اس کی تعمیل میں انہیں اس درجہ انہماک تھا کہ وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے اوران کے غلاموں کے لباس میں درجہ کااختلاف توالگ رہا ظاہری صورت کا بھی خفیف سا اختلاف پیدا ہو۔
پھر روایت آتی ہے:
عَنْ اَبِی النَّوَارِ بَیَّاعِ الْکَرَابِیْسِ قَالَ اَتَانِیْ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَمَعَہٗ غُلاَمٌ لَہٗ فَاشْتَریٰ مِنِّیْ قَمِیْصَیْ کَرَابِیْسَ فَقَالَ لِغُلاَمِہٖ اخْتَرَاَیَّھُمَا شِئْتَ فَاَخَذَ اَحَدَھُمَا وَاَخَذَ عَلِیُّ الآخَرَ فَلَبِسَہٗ۔ ۱؎
یعنی’’ابونوار جو روئی کے کپڑوں کی تجارت کرتے تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ ان کی دوکان پر آئے۔اس وقت ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھا۔علیؓ نے دو ٹھنڈی قمیصیں خریدیں اورپھر اپنے غلام سے کہنے لگے کہ ان میں سے جو قمیص تم چاہو لے لو۔چنانچہ غلام نے ایک قمیص چن لی اور جو دوسری قمیص رہ گئی وہ حضرت علیؓ نے خود پہن لی۔‘‘
اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت خاص خاص صحابہؓ بعض اوقات یہاں تک احتیاط کرتے تھے کہ اپنی چیزوں میں سے انتخاب کاحق پہلے غلام کو دیتے تھے اور پھر جو چیز باقی رہ جاتی تھی وہ خود استعمال کرتے تھے۔یہ انتہائی درجہ کا ایثار ہے جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے کرسکتا ہے اور یقینا غلاموں کے متعلق اس درجہ کا ایثار محض حسنِ سلوک کی غرض سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں وہی دور کی غرض بھی مدنظر تھی کہ یہ غلام جلد تر اپنے اخلاق اورمعاشرت میں آزاد لوگوں کے مرتبہ کو پہنچ کر آزاد کردئیے جانے کے قابل ہوجائیں۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ لاَ یَقُلْ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ اَمَتِیْ وَلْیَقُلْ فَتَایَ وَفَتَاتِیْ…وَلْیَقُلْ سَیِّدِیْ وَمَوْلاَ یَ ۲؎
یعنی ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ’’اے مسلمانو!تم یوں نہ کہا کرو کہ’’میرا غلام میری لونڈی‘‘بلکہ یوں کہا کرو کہ’’میرا آدمی میری عورت‘‘ اورغلام بھی اپنے آقا کو رب یعنی مالک نہ کہا کرے بلکہ سیداوربزرگ کہہ کر پکارا کرے۔‘‘
اس حدیث میںآقا اورغلام کی ذہنیتوں کودرست کیا گیا ہے۔یعنی جہاں ایک طرف آقا کے دل ودماغ سے بڑائی اور تکبر کے خیالات کو مٹایا گیا ہے۔وہاں دوسری طرف غلام کے دل میں خود داری اورعزتِ نفس کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں اورعملی اورمعاشرتی اصلاح کے ساتھ جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ ذہنی اصلاح مل کر سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے اوراس کے بعد حالات اور خیالات کی کامل تبدیلی میںکوئی امرمانع نہیں رہتا۔اسی طرح اور بھی بہت سی احادیث اورآثار ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام میں موجود الوقت غلاموں کی اصلاح اور ان کی بہبودی اور آرام وآسائش کے متعلق انتہائی درجہ کا زور دیاگیا ہے بلکہ یہ کہ اس تعلیم میں اسلام کا اصل منشاء یہ تھا کہ غلاموں اوران کے مالکوں کے تمدن ومعاشرت اورعزت وآبرو کوایک مساویانہ درجہ پر لاکرغلاموں کوجلد تر اس قابل بنادیا جاوے کہ وہ آزاد ہوکر ملک کے مفید اورکارآمد شہری بن سکیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غلاموں کے یہ حقوق جن کاکسی قدر نمونہ اوپر درج کیا گیا ہے محض سفارشی رنگ نہیں رکھتے تھے بلکہ شرعی اورسیاسی احکام تھے اور حکومتِ اسلامی کی طرف سے نہایت سختی کے ساتھ غلاموں کے حقوق کی نگرانی کی جاتی تھی۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْبَدْرِیِّ قَالَ کُنْتُ اَضْرِبُ غُلاَ مًا بِالسَّوْطٍ فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِیْ اِعْلَمْ اَبَامَسْعُوْدٍ فَلَمْ اَفْھَمُ الصَّوَّاتَ مِنَ الْغَضَبِ قَالَ فَلَمَّادَنٰی مِنِّیْ اِذَا ھُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِذَا ھُوَیَقُوْلُ اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ قَالَ فَاُلْقِیْتَ السَّوْطُ مِنْ یَدِیْ فَقَالَ اِعْلَمْ اَبَامَسْعُوْدٍ اِنَّ اللّٰہَ اَقْدَرُ عَلَیْکَ مِنْکَ عَلٰی ھٰذَا الْغُلاَمِ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھُوَحُرٌّ لِوَجِْہِ اللّٰہِ فَقَالَ اَمَّالَوْلَمْ تَفْعَلْ لَلَفْحَتْکَ النَّارُ اَوْلَمَسَتْکَ النَّارُ۔ ۱؎
یعنی ابو مسعود بدری روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میںنے کسی بات پر اپنے غلام کو مارا۔ اس وقت میںنے اپنے پیچھے سے آواز سنی کہ کوئی شخص کہہ رہا تھا’’دیکھو ابومسعود یہ کیا کرتے ہو۔مگر غصہ کی وجہ سے میں نے اس آواز کو نہ پہچانااورغلام کو مارتا ہی گیا۔اتنے میں وہ آوازمیرے قریب آگئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہی آواز دیتے ہوئے میری طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں کہ’’دیکھو ابو مسعود یہ کیا کرتے ہو۔آپؐ کو دیکھ کر میری چھڑی میرے ہاتھ سے گر گئی اور آپؐ نے غصہ کی نظر سے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔’’ابو مسعود تمہارے سر پر ایک خدا ہے جو تمہارے متعلق اس سے بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے جو تم اس غلام پر رکھتے ہو۔‘‘میں نے عرض کیایارسول اللہ!میں خدا کی خاطر اس غلام کو آزاد کرتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا۔’’اگر تم ایسا نہ کرتے توجہنم کی آگ تمہارے منہ کو جھلستی۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ سَیِّدِیْ زَوَّجَنِیْ اَمَتَہٗ وَھُوَ یُرِیْدُ اَنْ یُفَرِّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَھَا قَالَ فَصَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْمِنْبَرَ فَقَالَ اَیُّھَا النَّاسُ مَابَالُ اَحَدِکُمْ یُزَوِّجُ عَبْدَہٗ اَمَتَہٗ ثُمَّ یُرِیْدُ اَنْ یُفَرِّقُ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا الطَّلاَ قُ لِمَنْ اَخَذَ بِالسَّاقِ۔ ۱؎
یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک غلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا یارسول اللہ!میرے آقا نے اپنی لونڈی کے ساتھ میری شادی کردی تھی مگر اب وہ چاہتاہے کہ ہمارے نکاح کو فسخ کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردے۔آپؐ یہ بات سن کر غصہ کی حالت میں منبر پر چڑھ گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا۔’’اے مسلمانو!یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرتے ہو اور پھر خود بخود اپنی مرضی سے ان میں علیحدگی کرانا چاہتے ہو؟سن لو کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔طلاق دینے کا حق صرف خاوند کو ہے اورتم اپنے غلاموں کو طلاق پر مجبور نہیں کرسکتے۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
کَانَ عُمَرُ ْبنُ الْخَطَّابِ یَذْھَبُ اِلَی الْحَوَالِی کُلَّ یَوْمٍ سَبْتٍ فَاِذَا وَجَدَ عَبْداً فِیْ عَمَلٍ لاَ یُطِیْقُہٗ وَضَعَ عَنْہُ مِنْہُ۔ ۲؎
یعنی امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کایہ قاعدہ تھا کہ ہر ہفتہ مدینہ کے مضافات میں جایا کرتے تھے اور جب انہیں کوئی ایسا غلام نظر آتا تھا جسے اس کی طاقت اور مناسبت کے لحاظ سے زیادہ کام دیا گیا ہوتو حکماًاس کے کام میں تخفیف کردیتے تھے۔‘‘
موجود الوقت غلاموں کی آزادی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
اب ہم اس سوال کے دوسرے حصہ کو لیتے ہیں جوحاضر الوقت غلاموں کی آزادی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جو اسلام اور بانی ٔاسلام کااصل
نصب العین تھا۔سوجاننا چاہئے کہ اس کے متعلق اسلام میں دو طریق اختیار کئے گئے اول سفارشی طریق اور دوسرے جبری طریق۔اوران دونوں طریقوں کے متحدہ اثر کے ماتحت آزادی کی تحریک کو تقویت پہنچائی گئی۔پہلے ہم سفارشی طریق کو لیتے ہیں۔ سب سے پہلے جبکہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعویٰ کی ابتداء ہی تھی اورآپؐ مکہ میں مقیم تھے آپؐ پر یہ خدا کی وحی نازل ہوئی:
۱؎
یعنی’’ اے رسول !کیا تم جانتے ہو کہ دین کے راستے میں ایک بڑی گھاٹی والی چڑھائی کون سی ہے جس پر چڑھ کر انسان قربِ الہٰی کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے؟اگر تم نہیں جانتے تو ہم بتاتے ہیں کہ وہ غلام کاآزاد کرنا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
… ۲؎
یعنی اللہ کے نزدیک بہت بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے …اوراس کی محبت میں مال خرچ کرے رشتہ داروں پر یتیموں پر اور مسکینوں پر اور مسافروں پر اور غلاموں کے آزاد کرنے پر۔
اورحدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اِعْتَقَ رَقَبَۃً مُسْلِمَۃً اِعْتَقَ اللّٰہُ بِکُلِّ عُضْوٍمِنْہُ عُضْواً مِنَ النَّارِ۔ ۳؎
یعنی’’ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا۔اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے کلی نجات عطا کردے گا۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ جَائَ اَعْرَابِیُّ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَلِّمْنِیْ عَمَلاً یَدْخُلُنِیْ الْجَنَّۃَ قَالَ لِاَنْ کُنْتَ اقْتَصَرْتَ الْخُطْبَۃَ لَقَدْاَعْرَضْتَ الْمُسْئَلَۃَ اِعْتِقِ النِّسْمَۃَ وَفَکِّ الرَّقَبَۃَ۔ ۴؎
یعنی’’براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا۔یارسول اللہ!مجھے آپؐ کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بس میں اس سے سیدھا جنت میں چلاجائوں۔آپؐ نے فرمایا تم نے لفظ تو مختصرکہے ہیں،مگر بات بہت بڑی پوچھی ہے۔تم ایسا کرو کہ غلام کوآزاد کرو اور اگر خود اکیلے آزاد نہ کرسکو تو دوسروں کے ساتھ مل کرآزاد کرو۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّمَا رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہٗ وَلِیْدَۃٌ فَعَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا وَاَدَّبَھَا فَاَحْسَنَ تَادِیْبَھَا ثُمَّ اعْتَقَھَا وَتَزَوَّجَھَا فَلَہٗ اَجْرَانِ۔ ۱؎
یعنی’’ابوبردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کے پاس ایک لونڈی ہو اور وہ بہت اچھی طرح اسے تعلیم دے اور بہت اچھی طرح اس کی تربیت کرے اورپھراسے آزاد کرکے اس کے ساتھ خود شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دوہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔‘‘
ان پُرزور سفارشات کے علاوہ اسلامی تعلیم میںبعض غلطیوں اورگناہوں کے کفارہ میں غلام کے آزاد کرنے کا قاعدہ مقرر کیا گیا ہے۔جسے گویا سفارشی اورجبری طریق کے بین بین سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
… ۲؎
یعنی’’کوئی شخص کسی مومن کو یونہی غلطی سے قتل کردے تو اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کوخون بہا بھی ادا کرے سوائے اس کے کہ اس کے ورثاء اسے یہ خون بہا خود بخود معاف کردیں …اور اگر ایسے شخص کو کوئی غلام آزاد کرنے کے لئے نہ ملے تو دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
… ۱؎
اگر مقتول ایسی قوم میں سے ہے جو مسلمانوں کی دشمن اوران سے برسرپیکار ہے،لیکن مقتول خود مومن ہو تو پھر قاتل کی صرف یہ سزا ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے… اور اگر وہ کوئی غلام نہ پاوے تودو ماہ کے لگاتار روزے رکھے۔‘‘
۲؎
اوراگر مقتول کسی ایسی قوم میں سے ہو جن کے اور تمہارے درمیان عہدوپیمان ہے تو خواہ مقتول کافر ہی ہو۔اس کے قاتل کی سزا یہ ہے کہ وہ مقتول کے وارثوں کوخون بہا ادا کرے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور اگر کوئی غلام نہ پائے تو دوماہ کے لگاتارروزے رکھے۔‘‘
پھر فرماتا ہے:
۳؎
یعنی اگر کوئی شخص خدا کی قسم کھا کر پھر اسے توڑے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو لباس عطا کرے یاایک غلام آزاد کرے اور اگر کوئی غلام نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
……۔ ۴؎
یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد کرلیتے ہیں لیکن پھر کسی وجہ سے انہی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے تو ان کا کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک غلام آزادکریں …اوراگر کوئی غلام نہ پائے تو ایساشخص دومہینے کے لگاتارروزے رکھے …اوراگر روزوں کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔‘‘
یہ وہ مختلف صورتیں ہیں جواسلام نے کفارہ میں غلاموں کے آزاد کئے جانے کی بیان کی ہیں اور اسلام نے حسبِ عادت ان کے حالات کے اختلاف کوملحوظ رکھتے ہوئے دو دو تین تین مقابلہ کی صورتیں تجویزکرکے ان میں مسلمانوں کو اختیار دے دیا ہے کہ جو صورت آسانی کے ساتھ اور بہترطور پر اختیار کی جاسکے اسے اختیار کرلیا جاوے اور کمال حکمت کے ساتھ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی غلام کے آزاد کرنے کا ذکر ہے وہاں لازماً ساتھ ہی یہ الفاظ بھی زیادہ کردیئے ہیں کہ اگرکوئی غلام نہ پائے تو پھر یہ یہ صورت اختیار کی جاوے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل منشاء یہ تھا کہ بالآخر غلامی کا سلسلہ بالکل مفقود ہوجانا چاہئے۔اس کے مقابلہ میں جب سورۃ مجادلہ کی آیت میں دو ماہ کے روزوں کے مقابلہ کی صورت تجویز کی گئی ہے تو وہاں یہ الفاظ رکھے گئے ہیں کہ اگراس کی طاقت نہ ہو تو پھر یوں کیا جاوے۔پس غلام کے آزاد کئے جانے کی صورت کے مقابلہ میں لازماًان الفاظ کاآنا کہ’’اگرکوئی غلام نہ پاوے‘‘اس بات میں کوئی شبہ نہیں چھوڑتا کہ اسلام کی انتہائی غرض موجودالوقت غلاموںکی کلی آزادی تھی۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ قَالَتْ اَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعِتَاقِ فِی کُسُوْفِ الشَّمْسِ۔ ۱؎
یعنی’’اسماء بنت ابی بکر روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کو حکم دیتے تھے کہ سورج گرہن کے موقع پر غلام آزاد کیا کریں۔‘‘
اب ہم جبری آزادی کے طریق کو لیتے ہیں۔سو اس کے متعلق اسلام نے مختلف صورتیں تجویز کی ہیں۔چنانچہ حدیث میںآتا ہے:
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ مُقْرَنٍ قَالَ لَقَدْرَ أْیْتُنِیْ وَاِنِّیْ سَابِعُ اِخْوَۃٍ لِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَالَنَا خَادِمٌ غَیْرَ وَاحْدٍ فَعَمَدَ اَحَدُنَا فَلَطَمَہٗ فَاَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَعْتِقَہٗ۔ ۲؎
یعنی’’سوید صحابی روایت کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ہم میںسے ایک کو کسی بات پر غصہ آیاتو اس نے اس غلام کو ایک طمانچہ رسید کردیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوعلم ہوا تو آپؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس غلام کوآزاد کردیں۔‘‘
یہی حدیث ابن عمر سے بھی مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارے اورپھر اسے آزاد کردے تو اسے اس کے فعل کا کوئی ثواب نہیں ہوگا۔کیونکہ غلام کاآزاد کیا جانا اسلام میں مالک کے مارنے کے فعل کی سزا قرار پاچکا ہے۔ ۱؎ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غلاموں کو جبری طور پر آزاد کرنے کا ایک طریق یہ اختیار کیا کہ مالک کے لئے غلام کومارنے کی سزایہ مقرر کردی کہ وہ اسے فوراًآزاد کردے۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ مَلَکَ ذَارِحْمٍ مُحَرَّمٍ فَھُوَحُرٌّ۔ ۲؎
یعنی’’ابن عمرروایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی شخص کے قبضہ میں کوئی ایسا غلام آجاوے جو اس کا قریبی رشتہ دارہے تو وہ غلام خود بخود آزاد سمجھا جائے گا۔‘‘
پھرحدیث میں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اعْتَقَ شِرْکًالَّہٗ فِیْ مَمْلُوْکٍ فَعَلَیْہِ عِتْقَہٗ کُلَّہٗ اِنْ کَانَ لَہٗ مَالٌ یَبْلُغُ ثَمَنَہٗ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَاِلَّاقُوِّمَ عَلَیْہِ فَاسْتَسْعیٰ بِہٖ غَیْرَ مَشْقُوْقٍ عَلَیْہِ۔ ۳؎
یعنی’’ابن عمراور ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی غلام کی ملکیت میںد وسروں کے ساتھ حصہ دار ہو اور وہ اپنے حصہ میں غلام کوآزاد کردے تو اس کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مال میںسے دوسرے حصہ داروں کو بھی روپیہ دے کر غلام کو کلیتہً آزاد کرادے اور اگر اس کے پاس اتنا روپیہ نہ ہو توپھر بھی غلام کوعملاًآزاد کردیا جائے گا تاکہ وہ خوداپنی کوشش سے بقیہ رقم پیدا کرے اوردوسرے مالکوں کو ادا کرکے کلی طور پر آزاد ہوجاوے اوراس معاملہ میں غلام کوہر قسم کی سہولت دی جائے گی۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ کے بعض غلام بھاگ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آگئے جس پر مشرکوں نے آپؐ سے درخواست کی کہ وہ غلام انہیں واپس دے دیئے جائیں اور بعض مسلمانوں نے بھی ان کی سفارش کی،مگراس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
غَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلِی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیٰ اَنْ یَرُدَّھُمْ وَقَالَ ھُمْ عُتَقَائُ اللّٰہِ۔ ۱؎
یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس موقع پر سخت ناراض ہوئے اور غلاموںکے واپس کرنے سے انکار کردیااور فرمایا کہ یہ تو خدا کے آزاد کردہ غلام ہیں۔کیا میں انہیں پھر غلامی اور شرک کی طرف لوٹادوں۔‘‘
پھر حدیث میںآتا ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّمَا رَجُلٍ وَلَدَتْ اَمَتُہٗ مِنْہُ فَھِیَ مُعْتَقَۃٌ عَنْ دُبُرٍمِنْہُ۔ ۲؎ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اُمُّ الْوَلَدِ حُرَّۃٌ وَاِنْ کَانَ سَقْطًا۔ ۳؎
یعنی ’’ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کے ساتھ رشتہ کرلے اور اسے آزادنہ بھی کرے تو پھر بھی اگر اس لونڈی کے بطن سے اس کے ہاں کوئی اولاد ہوجاوے تو اس کے بعد وہ لونڈی خود بخود آزادسمجھی جائے گی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اُمِّ وَلَد بیوی بہرحال آزاد سمجھی جائے گی خواہ بچہ کی پیدائش اسقاط کی صورت میں ہی ہو۔‘‘
غلاموں کی آزادی کے لئے ایک مستقل انتظام
یہ مختلف طریقے جبری آزادی کے تھے جو اسلام نے قائم کئے۔مگر ظاہر ہے کہ باوجود
ان جبری آزادیوں کے پھر بھی بہت سے غلام ایسے رہ جاتے تھے جو ان صورتوں میں سے کسی صورت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اوردوسری طرف عام سفارشی رنگ میں ان کا آزادی حاصل کرنا یقینی نہیں تھا اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا مستقل اورپختہ انتظام کیا جاتاجس سے یہ موجود الوقت غلام خود بخود آزادی حاصل کرتے جاتے۔سو اس کے متعلق اسلام نے وہ پُراز حکمت انتظام تجویز کیا جو مُکاتبت کے نام سے موسوم ہوتا ہے اورجس میں مالک اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر غلام اپنے حالات کے لحاظ سے(جس کا فیصلہ حکومت یا عدالت کے ہاتھ میں ہوتا ہے نہ کہ مالک کے ہاتھ میں)آزادی کی اہلیت کوپہنچ چکا ہوتو وہ اس سے مناسب رقم پیدا کرنے کی شرط کرکے اسے آزاد کردے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!تمہارے غلاموں میں سے جوغلام تم سے مکاتبت کا عہد کرنا چاہیں تمہارا فرض ہے کہ ا ن سے مکاتبت کا عہد کرکے انہیں آزاد کردو بشرطیکہ وہ آزادی کے اہل بن چکے ہوں۔اورایسی صورت میں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اس مال میں سے انہیں بھی حصہ دوجودراصل تو خدا کا ہے مگر خدا نے اس مکاتبت کے نتیجہ میں تمہیں عطا کیا ہے۔‘‘
یہ آیت غلاموں کی جبری آزادی کے انتظام کابنیادی پتھر ہے اوراس کے الفاظ بہت مختصر ہیں مگر اس کے معانی نہایت وسیع اورنہایت وقیع ہیں۔اس میں مسلمانوں کویہ حکم دیا گیا ہے کہ جو غلام ان کے ساتھ مکاتبت کا عہد کرکے آزاد ہونا چاہیں ان کا فرض ہے کہ انہیں آزاد کردیں بشرطیکہ وہ آزادی کے قابل بن چکے ہوں اور مکاتبت کے عہد سے یہ مراد ہے کہ غلام اور آقاکے درمیان یہ فیصلہ ہو جاوے کہ اگر غلام اپنے آقا کو اس قدر رقم ادا کردے گا تو وہ آزاد سمجھا جائے گااوراس کا طریق یہ تھا کہ اس قسم کے فیصلہ کے بعد غلام عملاًآزاد ہوجاتا تھااوراس نیم آزادی کی حالت میںوہ کوئی کام یا پیشہ از قسم تجارت یاصنعت وحرفت یازراعت یاملازمت وغیرہ اختیار کرکے مکاتبت کی رقم پوری کرنے کی کوشش کرتا تھااورجب یہ رقم پوری ہوجاتی تھی تووہ کلی طورپرآزاد سمجھا جاتا تھا اور مکاتبت کی رقم گومالک کے تصرف میں سمجھی جاتی تھی مگر مالک کایہ فرض تھاکہ اس میںسے مناسب حصہ غلام کو بھی دے۔یہ انتظام ایسا مبارک اور پُرحکمت تھاکہ اس کے نتیجہ میں غلاموں میںسے اہل لوگ نہ صرف خود بخود بطورحق کے آزاد ہوتے چلے جاتے تھے بلکہ بوجہ اس کے کہ انہیں مکاتبت کی رقم پوری کرنے کے لئے کسی آزادنہ کام میں پڑنا پڑتا تھااورایک سول معاہدہ کی ذمہ داری برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ان میں آزاد زندگی گزارنے اور ملک کے مفید شہری بننے کی قابلیت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔
مکاتبت کایہ انتظام مالک کی مرضی پرمنحصر نہیں تھا بلکہ جبری تھا۔یعنی غلام کی طرف سے مکاتبت کا مطالبہ ہونے پر مالک کوانکار کا حق نہیں ہوتا اوریہ کام عدالت یاحکومت کاتھا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا غلام آزادی کے قابل ہوچکا ہے یانہیں۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
اِنَّ سِیْرِیْنَ سَأْلَ اَنَسًا اَلْمُکَاتِبَۃَ وَکَانَ کَثِیْرَ الْمَالِ فَابٰی فَانْطَلَقَ اِلٰی عُمَرَفَقَالَ کَاتِبْہُ فَاَبٰی فَضَرَبَہٗ بِالدُّرَّۃِ وَیَتْلُوْ عُمَرُ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْراً فَکَاتَبَہٗ۔ ۱؎
یعنی’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی انسؓ کاایک غلام تھا جس کا نام سیرین تھا اس نے انس کے ساتھ مکاتبت کرنی چاہی مگر انس نے یہ خیال کرکے کہ میرے پاس بہت روپیہ ہے مجھے مکاتبت کے روپے کی ضرورت نہیں ہے۔مکاتبت سے انکار کردیا۔اس پر سیرین نے حضرت عمرؓکے پاس حضرت انسؓ کی شکایت کی۔حضرت عمرؓ نے سیرین کی شکایت سن کر انسؓ کوحکم دیا کہ وہ مکاتبت کریں،لیکن انس نے پھر بھی نہ مانا۔جس پر حضرت عمرؓ نے انسؓکودُرّہ سے مارا اوریہ قرآنی آیت سنائی کہ’’اے مسلمانو!اگر تمہارے غلام تمہارے ساتھ مکاتبت کرنا چاہیںتوتمہارا فرض ہے کہ ان کے ساتھ مکاتبت کرو۔اس پر انس نے سیرین سے مکاتبت کاعہد کرلیا۔‘‘
مکاتبت کی فرضیت کادارومدار اس بات پر تھا کہ آیا کوئی غلام آزادی حاصل کرنے کا اہل بن چکا ہے یا نہیں۔چنانچہ یحییٰ بن کثیر سے روایت آتی ہے کہ:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْراً قَالَ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ حِرْفَۃً وَلاَ تُرْسِلُوْھُمْ کَلاَّ عَلَی النَّاسِ۔ ۲؎
یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو قرآن شریف میں آتا ہے کہ’’اگر تم غلاموں میںبھلائی پائو توتمہارا فرض ہے کہ تم مکاتبت سے انکار نہ کرو۔اس میں بھلائی سے مراد پیشہ وغیرہ کی اہلیت ہے یعنی مقصود یہ ہے کہ ایسے غلاموں کے ساتھ مکاتبت ضروری ہوجاتی ہے جو کوئی پیشہ یاکام وغیرہ جانتے ہوں یاجلد سیکھ سکتے ہوں تاکہ وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سوسائٹی پرکسی قسم کے بوجھ کاباعث نہ بنیں۔‘‘
اوریہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ اس بات کافیصلہ کہ کوئی غلام اس بات کی اہلیت کو پہنچا ہے یا نہیں حکومت کے ہاتھ میںتھانہ کہ مالک کی مرضی پر۔یہ حدیث اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ دراصل اسلامی تعلیم کا اصل منشاء یہی تھا کہ موجود الوقت غلاموں کی حالت کو بہتر بناکر انہیں آزادی کے قابل بنایا جاوے اور جوں جوں یہ غلام آزادی کے قابل ہوتے جائیں تُوں تُوں انہیں آزادی ملتی جاوے۔
یہ مکاتبت کا طریق چونکہ غلاموں کی آزادی کے انتظام کابنیادی پتھرتھا اس لئے اسلام میں اسے نہایت پسندیدہ سمجھا گیا ہے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَ ثَۃُ حَقٍّ عَلَی اللّٰہِ عَوْنُہُمْ اَلْمُکَاتِبُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْاَدَائَ وَالنَّاکِحُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْعِفَافَ وَالْمُجَاھِدُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ۱؎
یعنی’’ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کواپنے اوپرایک حق کے طورپرقرار دے لیا ہے۔اول مکاتب غلام جواپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کی فکر میں ہے۔دوسرے وہ شادی کرنے والا شخص جواپنی عفت کے بچانے کی نیت رکھتا ہے اورتیسرے مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘
غلاموں کی آزادی کی تحریک صرف افراد تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اسلامی سلطنت کابھی یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ قومی بیت المال میںسے ایک معتدبہ حصہ غلاموں کے آزاد کرانے میں صرف کرے۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۲؎
یعنی’’زکوٰۃ کے اموال فقراء اورمساکین پرخرچ ہونے چاہئیں اور محکمہ زکوٰۃ کے عاملین پراورکمزور نومسلموں پراورغلاموں کے آزاد کرنے میں۔اور مقروضوں کے قرض کی ادائیگی میں اور اشاعت دین کے لئے اورمسافروں کو آرام پہنچانے کے لئے۔یہ ایک فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا۔‘‘
اس آیت کی رو سے اسلامی سلطنت کافرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ زکوٰۃ کے محاصل میں سے غلاموں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
آزادشدہ غلاموں کے متعلق تعلیم
غلاموں کی آزادی کے اس انتظام میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد بھی آزاد شدہ غلام بالکل
بے سہارااوربے یارومددگار نہ رہیں۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا انتظام فرمایا تھا کہ مالک اور آزادشدہ غلام کے درمیان ایک قسم کارشتۂ اخوت مستقل طور پر قائم رہے۔چنانچہ آپؐ کے حکم کے ماتحت مالک اورآزاد شدہ غلام ایک دوسرے کے’’مولیٰ‘‘ یعنی دوست اور مددگار کہلاتے تھے تاکہ آقا اورغلام دونوں کے دلوں میں یہ احساس رہے کہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور بوقت ضرورت ہم نے ایک دوسرے کے کام آنا ہے اسی مصلحت کے ماتحت آزادشدہ غلام اور مالک کو ایک دوسرے کے متعلق حق موروثیت بھی عطاکیا گیا تھا۔یعنی اگر غلام بے وارث مرتا تھاتواس کا ترکہ اس کے سابقہ آقا کوجاتا تھااوراگر مالک بے وارث رہ جاتا تھا تو اس کا ورثہ اس کے آزاد کردہ غلام کوملتا تھا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْوِلَائَ لِمَنِ اعْتَقَ۱؎ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَجُلاً مَاتَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَدَعَ وَارِثًا اِلاَّ عَبْدًا ھُوَ اِعْتَقَہٗ فَاَعْطَاہُ النَّبِیُِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِیْرَاثَہٗ۔ ۲؎
یعنی’’عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی آزاد شدہ غلام لاوارث مرجاوے تواس کا ترکہ اس کے سابق مالک کو ملے گا اورابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔البتہ اس کاایک آزاد شدہ غلام تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا ترکہ اس کے آزاد شدہ غلام کو عطا فرمادیا۔‘‘
چونکہ اس حق موروثیت کی بنیاد مالی اوراقتصادی خیالات پر مبنی نہیں تھی بلکہ اصل منشاء مالک اور آزادشدہ غلام کے تعلق کو قائم رکھنا تھا اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم جاری فرمایا کہ یہ حق موروثیت کسی صورت میںبھی بیع یاہبہ وغیرہ نہیں ہوسکتا۔چنانچہ ابن عمرؓ سے روایت آتی ہے کہ:
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْوِلاَئِ وَھِبَتِہٖ۔ ۳؎
یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آزادشدہ غلام اورآقاکے حق موروث کی خرید وفروخت اوراس کے ہبہ وغیرہ سے منع فرمایا ہے:
پھرآزاد شدہ غلاموں کی عزت واحترام کے قیام کے لئے حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍ واَنَّ اَبَاسُفْیَانَ اَتٰی عَلٰی سَلْمَانَ وَصُھَیْبٍ وَبَلاَلٍ فِیْ نَفَرٍفَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَااَخَذَتْ سُیُوْفُ اللّٰہِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللّٰہِ مَأْخَذَھَا قَالَ فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَتَقُولُوْنَ ھٰذَا لِشَیْخِ قُرَیْشٍ وَسَیِّدِھِمْ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَخْبَرْہٗ فَقَالَ یَااَبَابَکْرٍلَعَلَّکَ اَغْضَبْتَھُمْ لَئِنْ کُنْتَ اَغْضَبْتَھُمْ لَقَدْ اَغْضَبْتَ رَبَّکَ فَاَتَاھُمْ اَبُوْبَکْرٍ فَقَالَ یَااِخْوَتَاہُ أَغَضَبْتُکُمْ قَالُوْا لاَ یَغْفِرَاللّٰہُ لَکَ یَااَخِیْ ۔ ۱؎
یعنی’’ایک دفعہ سلمان اورصہیب اوربلال وغیرہ جوآزاد شدہ غلام تھے ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے سے ابوسفیان گزرا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ’’یہ خدا کا دشمن خدائی تلوار سے بچ گیا ہے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ نے ان کی یہ بات سنی تو انہیں فہمائش کی اور کہا کہ کیا تم قریش کے سردار کے متعلق ایسی بات کہتے ہو؟اس کے بعد ابوبکرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے سارا ماجرا عرض کیا۔آپؐ نے فرمایاابوبکر!تم نے بلال وغیرہ کوکہیں ناراض تونہیں کردیا؟اگر تم نے انہیں ناراض کیا ہے تو ان کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے۔حضرت ابوبکر فوراً بلال وغیرہ کے پاس واپس آئے اورکہا بھائیو!تم میری بات پرناراض تونہیں ہوئے۔انہوں نے کہا نہیںبھائی ہم ناراض نہیں ہوئے۔فکر نہ کرو۔‘‘
مسلمانوں نے غلاموں کی آزادی کی تعلیم پرکس طرح عمل کیا
اب صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ان سفارشات
اوران کفارہ جات اورجبری آزادیوں اوراس انتظام مکاتبت کے نتیجے میں غلاموں کی آزادی عملاًبھی وقوع میں آئی یا نہیں؟سو اس کاجواب یہ ہے کہ جیسا کہ اوپربیان کیا جاچکا ہے اس زمانہ میں غلام نہایت کثرت کے ساتھ پائے جاتے تھے۔حتّٰی کہ بعض ممالک میں بعض اوقات غلاموں کی تعداد اصل آبادی سے بھی زیادہ ہوجاتی تھی۔ ۲؎ پس اس غیر متناہی ذخیرہ کوختم کرنا کوئی آسان کام نہیںتھا اورنہ ہی یہ سارے غلام محدوداسلامی سلطنت اورمحدودترمسلمان مالکوں کے ماتحت تھے۔پس لازماًیہ آزادی کی تحریک آہستہ آہستہ ہی چل سکتی تھی،لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ جہاں تک صحابہ اوران کے متبعین کی کوشش کاتعلق تھاانہوں نے غلاموں کے آزاد کرنے اور آزاد کرانے میں اپنی پوری توجہ اورپوری سعی سے کام لیا اوروہ نمونہ دکھایا جویقینا تاریخ عالم میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے غلاموں کو کثرت سے آزاد کرتے رہتے تھے بلکہ خاص اس نیت اوراس ارادے سے غلام خریدتے بھی تھے کہ انہیں خریدکرآزاد کردیں اوراس طرح بے شمار غلام مسلمانوں کی مساعی جمیلہ سے داغ غلامی سے نجات پاگئے۔چنانچہ مندرجہ ذیل فہرست جویقینا مکمل نہیں ہے اور جس میں نمونہ کے طور پر صرف چند صحابیوں کانام لیا گیا ہے ہمارے اس دعویٰ کوثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔ سُبُلُ السَّلام میںروایت آتی ہے کہ:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے
تریسٹھ
غلام آزاد کئے
حضرت عائشہؓ نے
سٹرسٹھ
غلام آزاد کئے
حضرت عباسؓ نے
ستر
غلام آزاد کئے
حکیم بن حزام نے
یکصد
غلام آزاد کئے
عبداللہ بن عمر نے
ایک ہزار
غلام آزاد کئے
عبدالرحمن بن عوف نے
تیس ہزار
غلام آزاد کئے
حضرت عثمان بن عفان نے
بیس
غلام آزاد کئے
صرف ایک دن میں جوان کی شہادت کا دن تھا وَاِلّاان کی مجموعی تعداد بہت زیادہ تھی
ذوالکلاع الحمیری نے
آٹھ ہزار
غلام آزاد کئے
صرف ایک دن میں
میزان
اُنتالیس ہزار تین سو بیس ۱؎
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے اس روایت میںبطور نمونہ صرف چند صحابہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر اسی نسبت سے دوسرے کثیرالتعداد صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے متعلق قیاس کیا جاوے تو یہ تعداد یقینا کروڑوں سے اوپر پہنچتی ہے،لیکن حق یہ ہے کہ اس روایت میں جو تعدادمذکورہ بالاصحابہ کے آزاد کردہ غلاموں کی بیان کی گئی ہے وہ بھی درست نہیں بلکہ اصل تعداداس سے بہت زیادہ ہے۔ مثلاًحضرت عائشہ کے متعلق ایک روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے صرف ایک موقع پر چالیس غلام آزاد کئے تھے۔ ۲؎ اوردوسری روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا یہ طریق تھا کہ وہ نہایت کثرت کے ساتھ غلام آزاد کیا کرتی تھیں۔پس ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ انہوں نے ساری عمر میں صرف سرسٹھ غلام آزاد کئے تھے یقینا درست نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق جو تعدادبتائی گئی ہے وہ گو آپؐکی ذاتی حیثیت میں درست ہو کیونکہ آپؐ کی ذاتی مالی حالت اچھی نہیں تھی اورآپؐ ان احکامات کے جاری ہونے کے بعد زندہ بھی بہت تھوڑا عرصہ رہے تھے،لیکن یقینا اس تعداد میں وہ غلام شامل نہیں ہیں جوآپؐ نے اسلامی حکومت کے ہیڈ ہونے کی حیثیت میں آزاد کئے اور جن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اوروہ یہ کہ آپ کے متعلق بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ کبھی کوئی ایک غلام بھی آپؐ کے قبضہ میںنہیں آیا کہ اسے آپ نے آزاد نہ کردیا ہو۔چنانچہ مندرجہ ذیل روایت میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ اَخِیْ جُوَیْرِیَۃَ اُمِّ الْمُؤمِنِیْنَ قَالَ مَاتَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْھَمًا وَلاَ دِیْنَاراً وَلاَ عَبْداً وَلاَ اَمَۃً۔۱؎
یعنی’’عمرو بن الحارث سے روایت ہے جوام المؤمنین جویریہؓ کے حقیقی بھائی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سالے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت کوئی درہم کوئی دینار کوئی غلام اورکوئی لونڈی اپنے پیچھے نہیں چھوڑی۔‘‘
الغرض اسلام کی یہ تعلیم جواس نے غلاموں کے متعلق دی صرف کاغذوں کی زینت نہیں تھی بلکہ یہ تعلیم اسلامی تہذیب وتمدن اوراسلامی طریق معاشرت کاایک ضروری جزو بن گئی تھی اورافراد وحکومت دونوں پورے شوق کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھے۔
آزاد شدہ غلاموں کے لئے تمام ترقی کے دروازے کھلے تھے
یہ بتایا جاچکاہے کہ غلاموں کوآزادی اس اطمینان کے بعد دی جاتی تھی کہ وہ اخلاق وعادات اور روزی کمانے کی اہلیت کے لحاظ سے آزادی کے قابل ہوجائیں۔اب ہم یہ بتانا
چاہتے ہیں کہ جو غلام آزاد کئے جاتے تھے وہ واقعی مفید شہری بن جاتے تھے اور اسلامی سوسائٹی میں ویسے ہی معزز ومکرم سمجھے جاتے تھے جیسے کہ دوسرے لوگ۔بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ لوگوں کے پرانے خیالات کی اصلاح کی غرض سے آپ غلاموں اورآزاد شدہ غلاموں میںسے قابل لوگوں کی تعظیم وتکریم کاخیال دوسرے لوگوں کی نسبت بھی زیادہ رکھتے تھے۔چنانچہ آپ نے بہت سے موقعوںپر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ اوران کے لڑکے اسامہ بن زید کو جنگی مہموں میں امیر مقرر فرمایااوربڑے بڑے صاحب عزت اورجلیل القدر صحابیوں کو ان کے ماتحت رکھااورجب ناسمجھ لوگوں نے اپنے پرانے خیالات کی بناء پر آپ کے اس فعل پراعتراض کیا توآپ نے فرمایا:
اِنْ تَطْعِنُوْا فِیْ اَمَارَتِہٖ فَقَدْکُنْتُمْ تَطْعِنُوْنَ فِیْ اَمَارَۃِ اَبِیْہِ مِنْ قَبْلُ وَاَیْمُ اللّٰہِ اِنْ کَانَ لَخَلِیْقًا لِلْاَ مَارَۃِ وَاِنْ کَانَ لَمِنْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیَّ وَاِنَّ ھٰذَا لَمِنْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیَّ بَعْدَہٗ۔ ۱؎
یعنی’’تم لوگوں نے اسامہ کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے باپ زید کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو،مگرخدا کی قسم جس طرح زید امارت کا حق دار اوراہل تھا اورمیرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھااسی طرح اسامہ بھی امارت کااہل ہے اورمیرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔‘‘
پھراس سے بڑھ کرکیا ہوگا کہ آپؐنے اپنی حقیقی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش کو زید بن حارثہ سے بیاہ دیا اور عجیب کرشمہ یہ ہے کہ سارے قرآن میں اگر کسی صحابی کانام مذکور ہوا ہے تو وہ یہی زیدبن حارثہ ہیں۔۲؎ پھرعلم وفضل میںبھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے بہت بڑا رتبہ حاصل کیا۔ چنانچہ سالم بن معقل مولی ابی حذیفہ خاص الخاص علماء صحابہ میں سے سمجھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی تعلیم کے لئے جن چار صحابیوں کو مقرر فرمایا تھا ان میں سے ایک سالم بھی تھے۔ ۳؎ اورتقویٰ وطہارت کی وجہ سے تعظیم وتکریم کایہ حال تھا کہ حضرت عمرؓبلالؓ کے متعلق اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ہماراسردار ہے۔۴؎ پھرصحابہ کے بعدبھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے اسلامی سوسائٹی میں بہت بڑا مرتبہ حاصل کیا۔چنانچہ عطاء بن ابی رباح،مجاہدبن جبیر،نافع مولیٰ ابن عمر اور موسیٰ بن عقبہ بزرگ ترین تابعین میں سے سمجھے جاتے تھے۔جن کے سامنے بڑے بڑے جلیل القدر لوگ زانوئے تلمیذی طے کرتے تھے۔ ۵؎
تمام غلاموں کویکلخت کیوں نہ آزاد کردیا گیا
پیشتر اس کے کہ ہم اس بحث کو ختم کریں اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ جب اسلام
غلاموں کی آزادی اور رستگاری کاپیغام لے کرآیا تھا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیوں نہ تمام حاضر الوقت غلاموں کو یکلخت حکماًآزاد کروادیا؟سو اس کا مختصراورسادہ جواب تو صرف اس قدر ہے کہ آپؐ نے اس لئے ایسا نہیں کیاکہ آپؐغلاموں کے حقیقی دوست تھے اورآپؐکاکام اصلاح کرنا تھانہ کہ نمائش۔پس آپؐ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایاجوبظاہرتودوستی کا رنگ رکھتا ہو،لیکن حقیقتاً وہ غلاموں کے لئے نقصان دہ اورملک کی ترقی اورتمدن کے لئے ضرررساں ہو۔ہرایک عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت لاکھوں غلاموں کا یکلخت آزاد ہوجانا غلاموں کو ایک ایسی بے سہارا اورغیر محفوظ حالت میں چھوڑ دیتاجو ان کے لئے کئی لحاظ سے خطرناک ہوسکتی تھی اوراس زمانہ کے حالات کے ماتحت اس فوری اور عالمگیر آزادی کانتیجہ یقینا یہ ہوتا کہ ان آزاد شدہ غلاموں میں سے اگر ایک حصہ غربت کی حالت میں فاقوں سے مرتا تو دوسرا حصہ بیکاری اور ارتکاب جرائم کی طرف مائل ہوکر اپنی اخلاقی تباہی اور ملک وقوم کی بے چینی اور بدامنی کاباعث بن جاتا۔انقلابی تجاویز خواہ بعض اوقات جذباتی رنگ میں کیسی ہی دل خوشکن نظر آئیں مگر حقیقتاً وہ اکثر صورتوں میں نفع مند ثابت نہیں ہوتیںبلکہ بعض صورتوں میں تو ان سے افراد کے عادات وخصائل اورقوم کی اجتماعی زندگی اور تمدن پرخطرناک اثر پڑتا ہے۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جو ایک حقیقی مصلح تھے اور غلاموں کے لئے وہ کام کرنا چاہتے تھے جوان کے لئے فی الواقع مفید اور بابرکت ہو۔ایسے رستہ پر قدم زن نہیں ہوئے جو عرب کی سوسائٹی میں ایک تباہ کن زلزلہ پیدا کرنے والا ثابت ہوتااور غلاموں کو اس سے بجائے فائدہ کے نقصان پہنچتا۔خوب سوچ لو کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت لاکھوں غلاموں کوبغیر کسی دوراندیشانہ انتظام کے یکلخت آزاد کردینے کے یقینا یہ معنے تھے کہ ان غلاموں کی دنیا بھی تباہ ہوتی اوردین بھی۔یعنی دنیا کے لحاظ سے ان میںسے اکثر نہ صرف بالکل بے سہارا اوربے ذریعہ معاش رہ جاتے۔بلکہ ان کے لئے کسب سیکھنے کے موقعے بھی میسر نہ رہتے اور دینی لحاظ سے ان کی یہ فوری اور عالمگیرآزادی ان کے اخلاق وعادات پرایک نہایت ضرررساں اثر پیدا کرتی خصوصاًجبکہ ایک بہت لمبے عرصے کی ظالمانہ غلامی کے نتیجہ میں ان کے اندر دنایت اور سنگدلی اوراسی قسم کے دوسرے مذموم اخلاق پیدا ہوچکے تھے جو فوری آزادی کے نتیجہ میں نہ معلوم کس رستے پر پڑ کرکیا کیا رنگ لاتے اوراس عالمگیر آزادی کے نتیجے میں جو دوسرے مضر اثرات سوسائٹی پر پڑ سکتے تھے وہ مزید براں تھے۔پس اسلام نے کمال دانش مندی سے یہ تجویزاختیار فرمائی کہ ایک طرف تو آئندہ کے لئے غلامی کے ظالمانہ طریقوں کوبندکرکے اس حلقہ کی مزید وسعت کوروک دیاجیسا کہ آگے چل کراس کی بحث آئے گی اوردوسری طرف وقتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجود الوقت غلاموں کی اخلاقی اورمعاشرتی اور اقتصادی اصلاح وبہبودی کے لئے عملی تدابیر اختیار فرمائیں اورساتھ ہی یہ انتظام فرمایا کہ جوں جوں یہ غلام آزادزندگی کو مفید طورپر بسرکرنے کے قابل ہوتے جائیں تُوں تُوںوہ لازماً آزاد ہوتے جائیں اوریہی وہ حقیقی اصلاح کاطریق تھا جو اس زمانے کے حالات کے ماتحت بہترین نتائج کی امید کے ساتھ اختیار کیا جاسکتا تھا بلکہ اس انتظام کا تفصیلی مطالعہ اس بات میں ذرابھی شک نہیں رہنے دیتا کہ یہ ایک عدم المثال نظام تھا جس کی نظیر نہ تو اس سے پہلے کسی زمانہ میں نظر آتی ہے اورنہ اس کے بعدآج تک ایسا نمونہ کسی قوم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
اگراس جگہ کسی کو یہ شبہ پیدا ہوکہ گزشتہ صدی کے دوران بہت سے یورپین اور امریکن مصلح ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کوغلاموں کی آزادی کی تحریک میں گویا وقف کردیا تھا اوران کی کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر ممالک میں غلامی کاسلسلہ یکلخت منسوخ ہوگیا تھا۔مثلاً ابراہام لنکن نے جو اپنے وقت میں امریکہ کی جمہوری سلطنت کاصدر تھا۔امریکہ کے لاکھوں حبشی غلاموں کو یکلخت آزادی دلادی اوراس فوری اورعالمگیرآزادی کاکوئی برا نتیجہ نہیںنکلا بلکہ ابراہام لنکن کی یہ خدمت انتہائی تحسین کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ اول تو آج سے چودہ سو سال قبل کے زمانہ اورآج کے زمانہ کے حالات میں زمین وآسمان کا اختلاف ہے اور چونکہ اسلام کی یہ تعلیم جواس زمانہ کے غلاموں کی تدریجی آزادی کے متعلق دی گئی تھی اس زمانہ کے حالات کے ماتحت تھی اورمستقل تعلیم اسلام کی اس بارے میں اور تھی جن کا ذکر آگے آتا ہے اس لئے عقلاًیہ مقابلہ کسی صورت درست نہیں سمجھا جاسکتا۔پس اگر موجودہ زمانہ کے حالات میں فوری اورعالمگیر آزادی مضر ثابت نہیں ہوئی تو اس سے لازمی طورپر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آج سے پہلے زمانوں اورآج کی نسبت دوسری قسم کے حالات میںبھی یہ طریق ضرر رساں ثابت نہ ہوتا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلاموں کی اخلاقی اور معاشرتی حالت نہایت درجہ پست تھی اوردوسری طرف دنیا کاتہذیب وتمدن بھی اس تہذیب وتمدن سے بالکل جدا تھاجو آج کل دنیا میںپایا جاتا ہے۔پس اس زمانہ کے حالات کے ماتحت یہی مناسب تھا کہ بجائے فوری اور عالمگیر آزادی کے تدریجی آزادی کے طریق کو اختیارکیا جاتاورنہ نتیجہ بجائے مفید ہونے کے یقینا مضر ہونا تھا۔یہ ایک اصولی جواب ہے جو اس اعتراض کادیا جاسکتا ہے۔مگرحق یہ ہے کہ جو تجاویز اسلام نے اختیار کیںوہ بہرحال زیادہ مفیداور نفع مندتھیںاورہر غیر متعصب شخص جو ٹھنڈے طورپراس مسئلہ کے متعلق غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گاجو ہم نے بیان کیا ہے۔حضرت مسیح ناصری کاایک نہایت سچا مقولہ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتا ہے۔پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں قسم کے طریقوں میںسے کس طریق کے نتائج زیادہ مفید اور زیادہ نفع مند ثابت ہوئے ہیں۔ آیا اس طریق کے جواسلام نے آج سے چودہ سوسال قبل اختیار کیا تھایااس طریق کے جو موجودہ زمانہ میں بعض یورپین اورامریکن مصلحین نے اختیار کیا ہے؟اس جگہ ہم کسی تفصیلی بحث میںداخل نہیں ہوسکتے،صرف موٹے طورپر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان ہر دو طریقوں کے نتائج کی نسبتی خوبی کادوطرح پر امتحان کیا جاسکتا ہے۔
اوّل اس پہلوسے کہ ان طریقوں میںسے کس طریقہ کے نتیجہ میں زیادہ حقیقی آزادی قائم ہوئی۔دوسرے اس پہلو سے کہ ان میں سے کس طریقہ کے نتیجہ میں آزاد شدہ غلاموں نے زیادہ ترقی کی۔اورہم دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے وہ طریقہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو برس قبل اختیار کیا تھااس طریق سے بدرجہابہتر تھا،جوبعض مغربی مصلحین نے اس زمانہ میں اختیار کیا ہے۔ظاہر ہے کہ صرف نام کے طور پر کسی غلام کوآزاد کردینا مگرغلامی کی اصل روح کونہ مارنا ہرگز حقیقی آزادی کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا،لیکن غور سے دیکھاجائے تو جو اصلاح مغربی مصلحین نے کی ہے وہ کسی صورت میں بھی اس نام نہاد اصلاح سے بڑھ کر نہیں۔بیشک انہوں نے لاکھوں غلاموں کو آزاد کیااوریکلخت حکماًآزاد کیا،مگروہ غلامی کی روح کو نہیں مار سکے بلکہ اس آزادی کے بعد بھی آزاد کرنے والوں اورآئندہ آزاد ہونے والوں کے دل ودماغ میں غلام بنانے اورغلام بننے کی روح اسی طرح زندہ رہی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقیقی طور پر غلامی بھی نہ مٹی اورآقائوں اورغلاموں کے تعلقات بھی سخت کشیدہ ہوگئے۔امریکہ کی ہی مثال لے لو۔بیشک ریاستہائے متحدہ میں بظاہر لاکھوںحبشی غلاموں نے یکلخت آزادی حاصل کرلی مگر قطع نظراس کے کہ اس عالمگیر آزادی کی وجہ سے ملک ایک خطرناک خانہ جنگی کی آگ سے شعلہ بار ہوگیا تھا۔کیا اس وقت امریکہ کا حبشی غلام واقعی آزاد ہوگیا تھا؟بلکہ ہم پوچھتے ہیںکہ کیااس وقت تک بھی ملک کاکوئی قانون امریکہ کے حبشی غلام کو حقیقی آزادی دلاسکا ہے؟کیا امریکہ کاگورا آدمی اپنے آزاد کردہ حبشی غلام کو آج تک دنیا کے بدترین غلاموںسے عملاًبدتر نہیںسمجھتا؟پھرکیا یہ آزاد شدہ حبشی اپنے آپ کو حقیقی طورپر امریکہ میں آزاد سمجھتا ہے؟یقینا امریکہ میں آزاد کرنے والے گورے لوگوں اورآزاد ہونے والے کالے حبشیوں کے تعلقات بین الاقوام تعلقات کی بدترین مثال ہیںجو اس وقت دنیا میں پائی جاتی ہے اوریہ حالت اس بات کا نتیجہ ہے کہ ان غلاموں کے آزاد کرنے میںوہ طریق اختیار کیا گیا ہے جس سے غلام لوگ نام کو تو بیشک آزادہوگئے مگر ان کو حقیقی آزادی نہیں مل سکی اورآزاد کرنے والوں اورآزاد ہونے والوں کی ذہنیتوں میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی۔اس کے مقابلہ میں اسلامی طریق پرجولوگ آزاد کئے گئے وہ گو تدریجی طورپر آزاد ہوئے مگرآزاد ہونے کے بعد وہ حقیقتاًآزاد تھے۔یعنی ان کے جسم بھی آزاد تھے، ان کی روحیں بھی آزاد تھیں،ان کے خیالات بھی آزادتھے،ان کی ذہنیتیں بھی آزاد تھیں اوران آزاد شدہ غلاموں اوران کے آزاد کرنے والے لوگوں کے درمیان وہ محبت واخلاص کے تعلقات قائم ہوگئے تھے کہ آج کی حقیقی اخوت بھی ان کے سامنے شرماتی ہے۔میںجب اس زمانہ کے امریکن حبشی ٹام اورآج سے چودہ سوسال قبل کے عربی حبشی بلالؓکے حالات پرنگاہ کرتا ہوں توایک عجیب منظرنظر آتا ہے۔باوجود اس کے کہ یہ دونوں شخص حبشی ہیں اوردونوں آزاد شدہ غلام ہیں۔عربی غلام(یعنی بلالؓ)جب بادشاہ وقت(یعنی عمربن الخطاب)سے ملنے کے لئے جاتا ہے توباوجود اس کے کہ اس وقت بڑے بڑے رئوساء عرب بادشاہ کی ملاقات کے انتظار میںدروازے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ بادشاہِ وقت بلالؓ کی خبر پاکران رئوساء عرب کو جو وہ بھی مسلمان ہی تھے نہیں بلاتااوربلالؓ کو فوراً بلا لیتا ہے اورجب بلالؓ ملاقات سے فارغ ہوکر چلا جاتا ہے توپھر اس کے بعد ان رئوساء عرب کی باری آتی ہے اورجب اس بادشاہ کی مجلس میں بلال کاذکر آتاہے تو بادشاہ کہتا ہے’’بلال ہمارا سردار ۱؎ ہے۔‘‘ لیکن اس کے مقابلہ میں امریکہ کے آزادشدہ حبشی ٹام کی کیا حیثیت ہے؟دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آزاد کرنے والوں کے پائوں کی ٹھوکریں کھاتا اورمجلسوں میںذلت کی جگہوں میں بٹھایا جاتا اورہر قسم کے مظالم سہتااوردم نہیں مار سکتا۔یہ اختلاف کیوں ہے؟یقینا اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام نے جو طریق غلاموں کی آزادی کا اختیار کیا،وہ حقیقی اصلاح کا طریق تھا۔پس اس کے نتیجہ میں حقیقی آزادی پیداہوئی،لیکن مغربی مصلحین کی اصلاح ناقص اوران کا طریق غلط تھا۔پس اس کے نتیجہ میں بیشک نام کو تو آزادی مل گئی،مگرغلامی کی روح پرموت نہیں آئی اورذہنیتیں وہی کی وہی رہیں۔
دوسرا طریق اس سوال پر غور کرنے کا یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ ان طریقوں میں سے کس طریق کے نتیجہ میں آزاد شدہ غلاموں نے زیادہ ترقی کی۔سومذکورہ بالابحث کے بعداس سوال کا جواب بھی مشکل نہیںرہتا۔کیونکہ طبعاًوہی رستہ غلاموں کی زیادہ ترقی کاہونا چاہئے،جس میں انہیں زیادہ حقیقی آزادی حاصل ہو۔اوروہ وہی تھا جواسلام نے اختیار کیا۔مگر عملاًبھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس جہت سے بھی اسلامی طریق زیادہ کامیاب اورزیادہ مفیدنظر آتا ہے کیونکہ اسلامی طریق پر آزاد ہونے والے لوگوں میںایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی نظر آتی ہے جوہرقسم کے میدان میں ترقی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہیں اورجنہوں نے مختلف شعبوں میں مسلمانوں میں لیڈرہونے کا مرتبہ حاصل کیا۔مثلاًجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔صحابہ میں زید بن حارثہ ایک آزاد شدہ غلام تھے مگر انہوں نے اتنی قابلیت پیدا کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت کی وجہ سے بہت سی اسلامی مہموں میں انہیں امیرالعسکر مقرر فرمایااوربڑے بڑے جلیل القدرصحابی حتّٰی کہ خالدبن ولید جیسے کامیاب جرنیل بھی ان کی ماتحتی میں رکھے۔پھر سالم بن معقل تھے جوابوحذیفہ بن عتبہ کے معمولی آزادکردہ غلام تھے،مگروہ اپنے علم وفضل میں اتنی ترقی کرگئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن چار صحابیوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لئے مسلمانوں میں مقرر فرمایاتھااوراس معاملہ میں گویا انہیںاپنا نائب بننے کے قابل سمجھا تھا،ان میں ایک سالم بھی تھے۔اسی طرح صحابہ کے بعد نافع مولیٰ ابن عمراورعکرمہ مولی ابن عباس اورمکحول بن عبداللہ اور عطاء بن ابی رباح اورعبداللہ بن مبارک اور محمد بن سیرین حدیث اور فقہ کے امام مانے جاتے تھے جن کی شاگردی کوبڑے بڑے جلیل القدر لوگ فخر خیال کرتے تھے۔پھر حسن بصری تصوف میں اور مجاہدبن جبیرعلم قرأت میں یکتائے زمانہ تھے اور موسیٰ بن عقبہ اورمحمدبن اسحاق علم تاریخ میں استاذالکل تھے،جن کے علم کا لوہا دنیا مانتی تھی۔مگر یہ سب لوگ معمولی غلام سے اس مرتبہ کوپہنچے تھے۔ ۱؎ پھرہندوستان کاخاندان غلاماں بھی جس کے بعض ممبروں نے سیاست اورملک داری میںکمال پیدا کیاکسی معرفی کا محتاج نہیں۔یہ درخشندہ مثالیں جو صرف بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں (ورنہ اسلام کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے)اسلامی طریق آزادی کاثمرہ ہیں۔مگر اس کے مقابلہ میں مغربی مصلحین کی اصلاح کاثمرہ کیا ہے؟کیا سارے یورپ وامریکہ اورسارے افریقہ وآسٹریلیامیں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر آتی ہے کہ کبھی کسی آزاد شدہ غلام نے کسی میدان میں ایسی لیڈری اورامامت کامرتبہ حاصل کیا ہو کہ آزادکرنے والی قوم بھی اسے اپنا مقتداء تسلیم کرنے لگ جاوے؟ہمیں اقوام کی تاریخ کے عبورکادعویٰ نہیں ہے لیکن جہاں تک ہمارا علم ہے ہمیں مسیحی اقوام کے آزادکردہ غلاموں میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ان غلاموں میںسے کبھی کسی نے کوئی خاص نمایاں امتیاز پیدا کیا ہوبلکہ یہی نظر آتاہے کہ آزادہونے کے بعدبھی یہ لوگ معمولی درجہ کے انسان رہے ہیں۔جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی طریق آزادی یقینا بہت زیادہ نفع منداوربہت زیادہ بابرکت تھا۔اندریں حالات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصلاح کے مقابلہ میں موجودہ زمانہ کے کسی مصلح کانام لینا صداقت کی ہتک کرنا ہے۔بیشک ہم ان لوگوں کے کام کوبھی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اوران کی کوششوں کے مداح ہیں۔ مگر ہرشخص کی کوشش کاایک مرتبہ ہوتا ہے اورحق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصلاحات کاوہ مرتبہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں کسی شخص کی کوشش کانام نہیں لیا جاسکتا۔ آج سے چودہ سوسال قبل جبکہ دنیا غلامی کو اپنا پیدائشی حق سمجھے ہوئے تھی اورغلاموں کی حالت جانوروں سے بدتر ہورہی تھی اس وقت آپ کا غلاموںکی حمایت میں آواز اٹھانا اورآئندہ کے لئے غلامی کے ظالمانہ طریقوں کو قطعی طورپر منسوخ کرکے موجود الوقت غلاموں کی حالت کی اصلاح کے لئے نہایت دانشمندانہ عملی تدابیر اختیار کرنا اور پھر ان غلاموں کی آزادی کے متعلق پُرزورسفارشات کرنے کے علاوہ ایک ایساپُرحکمت انتظام جاری کردینا کہ جس کے نتیجہ میں یہ غلام اپنی حالت کوبھی بہتر بناتے جائیں اور ساتھ ساتھ لازماًآزاد بھی ہوتے جائیں اورحکومت کایہ فرض مقررکرنا کہ وہ غلاموں کی حالت کی اصلاح اوران کی تدریجی مگرلازمی آزادی کے عمل کی سختی کے ساتھ نگرانی کرے اورپھر اس انتظام کو اس خوبی کے ساتھ چلانا کہ جو غلام آزاد ہوئے اوران کی تعداد کروڑوں تھی وہ نہ صرف حقیقی معنوں میں آزاد ہوئے بلکہ وہ ملک وقوم کے نہایت مفیدشہری بھی بن گئے۔اوران میںسے وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے مسلمانوں میں امارت وامامت کامرتبہ حاصل کیاجن کے سامنے ان کے آزاد کرنے والوں کی گردنیں بھی جھک گئیں۔یہ وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا اوریہ وہ کام ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی پس عامی لوگوں کی طرح یہ اعتراض اٹھاناکہ ابراہام لنکن یادوسرے مغربی لوگوں کی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام غلاموں کویکلخت کیوں نہیں آزاد کردیا جذبات انسانی کاایک محض سطحی ابال ہے جس کے اندر کوئی بھی گہرائی نہیں۔
اسلامی ممالک میںغلامی کیوںقائم رہی؟
اس موقع پریہ سوال بھی پیدا کیا گیا ہے کہ اگراسلام کی تعلیم کااصل منشاء یہ تھا کہ غلام آہستہ
آہستہ آزاد ہوجائیں توپھر اسلامی ممالک میں موجودہ زمانہ تک غلامی کاسلسلہ کیوں جاری رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک طرف تواسلامی حکومت ترقی کرتی گئی اوراس کے اثر کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اوردوسری طرف مسلمان اسلامی تعلیمات کی اصل روح کوسمجھتے رہے اوراس پر کاربند رہے اس وقت تک غلاموں کی آزادی کی تحریک نہایت سرعت کے ساتھ جاری رہی اورمسلمانوں کی کوشش سے کروڑوں غلام داغ غلامی سے نجات پاگئے،لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے اس زمانہ میں دنیا میں غلاموں کی تعداد بے شمار اوربے حساب تھی اوردنیا کا کوئی متمدن ملک ایسا نہیں تھا جہاں نہایت کثرت کے ساتھ غلام نہ پائے جاتے ہوں۔پس پیشتر اس کے کہ یہ نہ ختم ہونے والا خزانہ ختم ہوتا ۔ایک طرف تو اسلامی فتوحات کی رو آہستہ آہستہ کمزور ہوکر بالآخربالکل رک گئی۔اوردوسری طرف زمانہ نبوی کے بعد کے نتیجہ میں وہ نورنبوت کی روشنی جس سے یہ سارا باغ وبہار تھا مسلمانوں کے دلوں میں مدھم پڑنی شروع ہوگئی اوراسلامی تعلیمات کی حقیقت کوسمجھنے اوران پر عمل پیراہونے کاوہ ولولہ انگیزشوق جسے صحابہ لے کر اٹھے تھے اورجوصحابہ نے اپنے پیچھے آنے والوں کوورثہ میںدیا تھا وہ مسلمانوں کے دلوں سے آہستہ آہستہ مٹنا شروع ہوگیا بلکہ اس فیج اعوج کے زمانہ میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے اپنی جہالت یادنیاداری کے نتیجہ میں دین کو بگاڑکراسے کچھ کاکچھ رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کی طرح جوابھی تک غلامی کی نہایت مکروہ صورت پر کاربند تھیں مسلمان بھی اسلامی تعلیمات اوراسلامی روایات کوچھوڑ کر غلامی کی اس ظالمانہ صورت کی طرف لوٹ گئے جس کے استیصال کے لئے اسلام کھڑا ہوا تھااورگواس کج خیالی اورکجروی کے زمانہ میں بھی اسلامی ممالک میں غلاموں کی حالت دوسرے ممالک کی نسبت بحیثیت مجموعی اچھی رہی ہے اور مسلمان لوگ ظاہری طورپر غلام رکھتے ہوئے بھی کبھی غلامی کی اصل روح کے حامی نہیں بنے۔ اوراس کے مقابلہ میںابی سینیا کے عیسائی ملک میں تو اس وقت تک غلامی کی وہ بھیانک صورت قائم ہے جسے دیکھ کر انسانیت شرماتی ہے اوریورپ وامریکہ کے مہذب اورمتمدن عیسائی ممالک میںبھی ابھی تک غلامی کی روح پر موت نہیں آئی،لیکن کسی ہمسایہ قوم کی خراب ترحالت ہماری خرابی کے داغ کودھو نہیں سکتی اوراس بات کی فوری اوراشد ضرورت ہے کہ اسلامی حکومتیں اوراسلامی سوسائٹیاں پوری توجہ اور پوری کوشش کے ساتھ غلامی کے ظالمانہ طریق کو مٹانے میں لگ جائیں اوردنیاکوپھر اس مبارک نقطہ پر لے آئیں جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اسے قائم کرنا چاہتے تھے اور جس کا مقصد دنیا سے غلامی اوراس کی روح کومٹانا اورحقیقی آزادی اورحقیقی مساوات کاقائم کرنا تھا۔
غلاموں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت
میں اس بحث کوان نہایت درجہ پیارے
الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں جواس مادی دنیا میں مقدس بانی ٔاسلام کے آخری الفاظ تھے۔حضرت علی بن ابی طالب اورانس بن مالک روایت کرتے ہیں:
کَانَ اٰخِرُ کَلاَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یُغَرْغِرُ بِنَفْسِہٖ اَلصَّلوٰۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ ۱؎
یعنی آخری الفاظ جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنے گئے اس حال میں کہ آپؐ پرموت کاغرغرہ طاری تھا یہ تھے کہ اَلصَّلوٰۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ یعنی اے مسلمانو!میری آخری وصیت تم کویہ ہے کہ نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کونہ بھولنا۔‘‘
اس وقت جبکہ آپؐ نے یہ الفاظ فرمائے۔آپؐ کی وہ رفیق حیات بیویاں جنہوں نے ہر تنگی وترشی میں آپؐ کاساتھ دیا تھا آپؐ کے پاس تھیں۔آپؐ کی لخت جگر صاحبزادی اوراس کے بچے اورآپؐ کے دوسرے عزیزواقارب بھی سامنے تھے۔وفادار مہاجرین کی مخلصانہ رفاقت میں آپؐ کی عمرگزری تھی وہ بھی موجود تھے۔جان نثارانصار جنہوں نے اپنے خون کے پانی سے اسلام کے پودے کو سینچا تھا وہ بھی قریب تھے اوریہ وقت بھی وہ تھاجس کے بعد آپؐ کوکسی اورکو نصیحت کے کرنے کا موقع نہیں ملنا تھا اورآپؐاس بات کوبھی جانتے اورمحسوس کرتے تھے کہ ایسے وقت کی نصیحت آپؐ کی ساری نصیحتوں سے زیادہ وزن رکھے گی مگر آپؐ کی نظر ان لوگوں میں سے کسی پر نہیں پڑی اوراگر دنیا میں سے آپؐ نے کسی کویاد کیااوراس کی یاد نے موت کے غرغرہ میں بھی آپؐ کوبے چین کردیا تو وہ یہی مظلوم غلام تھے۔اللہ!اللہ!!غلاموں کایہ کیسا سچا دوست کیسا دردمند مخلص تھا جوخدا نے دنیا کوعطا کیا مگر افسوس کہ دنیا نے اس کی قدر نہیں کی۔
آئندہ غلامی کوروکنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
اب ہم اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتے ہیں اورجو اس امر سے تعلق رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسئلہ غلامی کے متعلق اصولی طورپرکیا تعلیم دی ہے یعنی
موجود الوقت غلاموں کے سوال سے قطع نظر کرتے ہوئے آپ نے آئندہ کے لئے غلامی کے مسئلہ اور غلام بنائے جانے کے متعلق کیا اصولی احکام صادر فرمائے ہیں لیکن چونکہ گزشتہ بحث نے ہمارے اندازہ سے بہت زیادہ جگہ لے لی ہے اس لئے اگلی بحث کو ہم نہایت مختصر طورپر بیان کریں گے۔سو اس کے متعلق سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ یہ بحث دراصل دوحصوں پر منقسم ہے۔اول حقیقی غلامی کا سوال یعنی کسی آزاد انسان کو اس کی جائز آزادی کے حق سے کلیتہً اورمستقل طورپر محروم کردینا۔یہ صورت غلام بنانے کے ان طریقوں سے تعلق رکھتی ہے جو مذہبی جنگوں میں قیدی پکڑے جانے کے علاوہ ہیں۔ یعنی غلام بنانے کے بہت سے ظالمانہ طریق جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا کے تمام ممالک میں کم وبیش رائج تھے اور اسلام کے بعد بھی مختلف غیراسلامی ممالک میں رائج رہے۔ دوسرے مذہبی جنگوں میں قیدی پکڑنے جانے کا سوال جسے اسلامی تعلیم کی روشنی میں گویا ایک قسم کی غیر حقیقی غلامی کہہ سکتے ہیں۔ ۱؎
پہلے ہم مقدم الذکر بحث کولیتے ہیں۔سواس کے متعلق جاننا چاہئے کہ جیساکہ گزشتہ بحث میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔اسلام نے حقیقی غلامی کو یعنی غلامی کے ان ظالمانہ طریقوں کو جو مذہنی جنگوں میں قیدی پکڑے جانے کے علاوہ ہیں یکدم اورقطعی طورپر منسوخ کردیا تھا مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس بارے میں کوئی معیّن اورمنصوص اسلامی احکام پیش کریں ہم اس کے متعلق دومنفی قسم کے دلائل ہدیۂ ناظرین کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی دلیل یہ ہے کہ قطع نظر اس کے کہ اصولی طورپر اسلام بڑی سختی کے ساتھ ظلم وتعدی کے طریق سے منع فرماتا ہے اورانسانی آزادی اورانسانی مساوات کانہایت زبردست حامی ہے اوریہ تمام باتیں حقیقی غلاموں کے طریق سے بُعد المشرقین رکھتی ہیںوہ واضح اورپُرزور تعلیم جواسلام نے حاضر الوقت غلاموں کے ساتھ محسنانہ اورمساویانہ سلوک کئے جانے اوران کی آزادی کے متعلق دی ہے اور جس کا ایک خاکہ اوپر درج کیا جاچکا ہے وہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ اسلام غلامی کے ظالمانہ طریق کی تائید میں نہیں ہوسکتا۔انسانی عقل ہرگزاس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ کہ غلاموں کواپنا بھائی سمجھو اورانہیںاپنے گھر کے آدمیوں کی طرح رکھواوران کی تعلیم وتربیت کا خاص انتظام کرواورپھرجُوں جُوں ان کی حالت بہتر ہوتی جاوے اوروہ دنیامیں آزاد زندگی گزارنے کے قابل بنتے جائیں انہیں آزاد کرتے جائو۔اسلام میں یہ تعلیم بھی دی جاسکتی تھی کہ کسی آزادانسان کواس کی جائزآزادی کے حق سے کلیتہً محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنانا جائزہے۔ان دونوں قسم کی تعلیم میں بُعدالقطبین ہے اوروہ کبھی بھی کسی ایک ہی شخص کی تعلیم کاحصہ نہیں بن سکتیں۔پس غورکیا جاوے تو دراصل وہ تعلیم ہی جس کا خاکہ اوپر والے مضمون میں درج کیا گیا ہے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اسلام میں حقیقی غلامی کی تعلیم نہیں دی گئی۔
دوسری دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز نہیں سمجھا گیا یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر کے کسی حصہ میں یہ حکم موجود نہیں کہ کسی آزاد شخص کواس کی آزادی کے جائز حق سے محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنالینا جائز ہے یایہ کہ اگرکسی آزاد شخص کو غلام بنانا ہوتو اس کا یہ یہ طریق ہے۔ حالانکہ غلامی کے دوسرے مسائل مثلاًغلاموں کے ساتھ سلوک کرنے اوران کے حقوق کی حفاظت کرنے اورانہیں آزاد کرنے کے متعلق اسلامی شریعت میں نہایت تفصیلی احکام موجود ہیں۔پس غلاموں کے بارے میںدوسرے ہرقسم کے مسائل کاپایا جانا،لیکن غلام بنانے کے سوال کے متعلق قطعاًکسی جوازی حکم کا پایانہ جانا اس بات میں ہرگز کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ دراصل اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز ہی نہیں سمجھا گیا۔میں نے بہت تلاش کی ہے مگر مجھے کسی قرآنی آیت یاکسی روایت میں خدایا اس کے رسول کا یہ حکم نظر نہیں آیا کہ کسی آزادانسان کو حقیقی طورپر غلام بنانا جائز ہے یا یہ کہ کسی آزادشخص کوغلام بناناہوتواس کا یہ طریق ہے۔حالانکہ اگراسلام میں کسی آزاد انسان کو حقیقی طور پر غلام بناناجائز ہوتا توغلامی کے جملہ مسائل میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ وسیع الاثر اورسب سے زیادہ نازک مسئلہ جوتوضیح وتنصیص کا حق دار تھااور جس میں ایک نہایت واضح اور منصوص حکم دئیے جانے کی ضرورت تھی وہ یہی غلام بنانے کامسئلہ تھا مگرتنصیص وتوضیح توالگ رہی قرآن وحدیث میں اس کا ذکر تک نہیں ہے جواس بات کی ایک یقینی دلیل ہے کہ اسلام میںکسی آزاد شخص کو حقیقی طورپر غلام بناناجائز نہیں ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ہمارے دعویٰ کی بنیاد صرف منفی قسم کے دلائل پر نہیں ہے بلکہ خدا کے فضل سے اسلامی شریعت میں نہایت واضح اورمنصوص طورپر یہ حکم موجود ہے کہ کسی آزاد انسان کو اس کی جائزآزادی سے محروم کرکے غلام بنانا ایک سخت ممنوع اورحرام فعل ہے جس کے متعلق قیامت کے دن خداکے حضور سخت مواخذہ ہوگا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ ثَلَا ثَۃٌ اَنَا خَصَمُھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اَعْطیٰ بِیْ ثُمَّ غَدَرَوَرَجُلٌ بَاعٍ حُرًّا فَاٰکِلٌ ثَمَنَہٗ وَرَجُلٌ اِسْتَأْجَرَ اَجِیْرًا فَاسْتَوْ فٰی مِنْہُ وَلَمْ یُعْطِ اَجْرَہٗ۔ ۱؎
یعنی’’ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جنگ کروں گا۔اول وہ شخص جومیرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتا ہے اورپھر غداری کرتا ہے۔ دوسرے وہ جو کسی آزاد شخص کو غلام بناتاہے اوراسے فروخت کرکے اس کی قیمت کھا جاتا ہے اور تیسرے وہ جو کسی شخص کو کام پر لگاتا ہے اورپھر اس سے کام توپورا لے لیتا ہے مگر اس کی مزدوری اسے نہیں دیتا۔‘‘
اوردوسری روایت میں یوں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ…لاَ تُقْبَلُ مِنْھُمْ صَلاَ ۃٌ وَرَجُلٌ اِعْتَبَدَ مُحَرَّرًا…الخ۔ ۲؎
یعنی’’ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایاہے کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کی نماز میرے حضورہرگز قبول نہیں ہوگی اور میں ان سے قیامت کے دن لڑوں گا۔ایک وہ شخص جومیرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتا ہے اور پھر بدعہدی کرتا ہے۔دوسرے وہ جو اسے غلام بناتا ہے جسے خدا نے آزاد رکھا ہے اورتیسرے وہ جو مزدور سے کام لیتا ہے اورپھر اس کی مزدوری نہیں دیتا۔‘‘
ان حدیثوں میںجس وضاحت اورتعیین کے ساتھ اورجس زوردارطریق پر حقیقی غلامی کو منسوخ کیا گیا ہے وہ کسی تشریح کامحتاج نہیں ہے اورپھر یہ حدیثیں بھی حدیث کی اس قسم میں داخل ہیں جو محدثین کی اصطلاح میں حدیثِ قدسی کہلاتی ہے یعنی جوہوتی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے ہے مگراس میںحکم اورالفاظ خدا کے ہوتے ہیں۔اب اس واضح اورصریح تعلیم کے ہوتے ہوئے کسی کا یہ کہنا کہ اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز رکھا گیا ہے یعنی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی آزاد انسان کواس کی جائز آزادی کے حق سے محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنالیا جاوے ایک انتہائی درجہ کا ظلم ہے جس کے ارتکاب کی کوئی دیانت دارشخص جرأت نہیں کرسکتا۔
جنگی قیدیوں کامسئلہ
اب ہم جنگی قیدیوں کے سوال کولیتے ہیں اوردرحقیقت اگراسلام میں غلام بنانے کے جواز کی کوئی صورت سمجھی جاسکتی ہے تو وہ صرف اسی سوال کے
ماتحت آتی ہے،لیکن جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا غلامی کی یہ قسم دراصل حقیقی غلامی نہیں ہے بلکہ ایک محض جزوی مشابہت کی وجہ سے اسے یہ نام دے دیا گیا ہے اورپھراس غیر حقیقی غلامی کوبھی اسلام نے ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کردیا ہے کہ وہ ایک عالمگیرچیز نہیںرہتی بلکہ بعض خاص قسم کے حالات میں محدود ہوجاتی ہے اس بحث میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ تاریخ عالم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے غلامی کی ابتداء دنیا میں جنگی قیدیوں سے ہوئی تھی اوربعد میں آہستہ آہستہ دوسرے ظالمانہ طریق ایجاد ہوتے گئے۔جس کی وجہ سے بالآخر غلامی جودراصل ابتدائی زمانہ کے حالات کاایک لازمی نتیجہ تھی ایک بھیانک صورت اختیار کرگئی اوربجائے ظلم کوروکنے کاباعث بننے کے جو اس کی اصل غرض تھی وہ خود ظلم وستم کاایک خطرناک آلہ بن گئی۔ ابتداء ًیہ طریق تھا گوبعد میں اس کے ساتھ اَوراَورظالمانہ طریق شامل ہو گئے (جنہیں نہ صرف اسلام نے مٹادیا بلکہ اس ابتدائی طریق کو بھی مزید پاک وصاف کرکے اسے ایک نہایت پاکیزہ صورت دے دی)کہ جب ایک قوم دوسری قوم پرحملہ آور ہوکراسے صفحۂ دنیا سے مٹا دینے یا اس کی آزادی کو چھین کر اسے بلاوجہ اپنے ماتحت کرلینے کے درپے ہوتی تھی تومؤخر الذکر قوم غلبہ حاصل کرنے پر حملہ آور قوم کے آدمیوں کوقیدکرکے اپنے پاس روک لیتی تھی کیونکہ اگر ظالم لوگوں کو اس طرح روک لینے کا طریق اختیارنہ کیا جاتاتوبین الاقوام جنگوں کا کبھی بھی خاتمہ نہ ہوسکتااورظالم لوگ اپنی درازدستیوں اورامن شکن کارروائیوں سے باز نہ آتے اورظلم وستم کامیدان وسیع ہوتا چلا جاتا۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس قسم کی غلامی کاطریق ابتدائی زمانہ میں تمام اقوام عالم میں کم وبیش پایا جاتاتھا۔ حتّٰی کہ بنواسرائیل میں بھی جو نبیوں کی اولاد تھے اورکثیر التعداد نبیوں کے تربیت یافتہ تھے یہ طریق کثرت کے ساتھ رائج تھا بلکہ اسرائیلی شریعت نے خود اس کا حکم دیا تھا۔ ۱؎ اوراگر غور کیا جاوے تواس ابتدائی زمانہ میں مذہبی جماعتوں کے لئے اس کی ضرورت دوسری قوموں کی نسبت بھی زیادہ تھی۔کیونکہ جیسا کہ قاعدہ ہے مذہبی سلسلوں کی سخت مخالفت ہوتی تھی اوردوسری قومیں انہیں تلوار کے زور سے مٹانے کے لئے کھڑی ہوجاتی تھیں۔پس انہیں بھی دفاع اورخود حفاظتی میں غلامی وغیرہ کے طریق اختیار کرنے پڑتے تھے۔اسی طرح مسیحی قوم میں بھی جودراصل بنواسرائیل ہی کی ایک شاخ تھے غلامی کاسلسلہ جاری رہا۔ ۲؎ بلکہ اب تک بھی حبشہ کے عیسائی ملک میں جو اس وقت تک ابتدائی مسیحی روایات پربڑی سختی کے ساتھ قائم ہے غلامی کارواج پایا جاتا ہے بلکہ شاید اس ملک کی غلامی دوسرے ممالک کی غلامی سے بھی سخت تر ہے۔اسی طرح ہندوستان کی قدیم آریہ قوم میںبھی غلامی کارواج تھا۔چنانچہ یہ شودروغیرہ جوآج تک ہندوستان میں پائے جاتے ہیں یہ اسی سلسلۂ غلامی کاایک ناگواربقیہ ہیں۔الغرض ابتدائی زمانوں میں غلامی کارواج کم وبیش سب ممالک اورسب اقوام میں پایا جاتا تھااوریہ ان زمانوں کے حالات کالازمی نتیجہ تھا۔اوراس کی غرض ظلم وستم کا سدباب تھی اورپھر یہ کہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت بلکہ حقیقی ضرورت صرف مذہبی جماعتوں کو تھی جو سب سے زیادہ مظالم کاتختۂ مشق بنتی تھیں اورلوگ ان کے مذہب کوتباہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اوراس رنگ کی غلامی جسے اسلام نے اوربھی پاک وصاف کردیا حتّٰی کہ وہ حقیقتاًایک محض قید کی صورت اختیار کرگئی کوئی ناانصافی نہیں تھی۔کیونکہ جوقوم دوسروں کے مذہب کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہتی ہے اورظالم وسفاک ہے اور امن شکنی کاطریق اختیار کرکے ملک میں فتنہ وفساد اورقتل وغارت کابیج بوتی ہے،وہ ہرگز آزادی کی حق دار نہیں سمجھی جاسکتی جیسے کہ ایک چوریا ٹھگ یاڈاکو جیل خانہ سے باہر رہنے کاحق دار نہیں سمجھا جاتا اوریہ مظالم سب سے زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کوپیش آئے۔ ہمارے ناظرین بھولے نہیں ہوں گے کہ کفار نے مسلمانوں کواسلام کی وجہ سے نہایت درد ناک عذاب دیئے۔ ۱؎ ان کے دین ومذہب کوبزور مٹانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف تلوار نکالی۔ ۲؎ اوران کے محبوب آقا کے مقدس خون سے اپنے ناپاک ہاتھوں کو رنگنا چاہا۔ ۳؎ اور کمزورمگربے گناہ اورآزاد مسلمانوں کو غلاموں کی طرح اپنے پاس قید رکھا۔ ۴؎ اوربے گناہ مسلمانوں کو ذلیل ترین دھوکے کے ساتھ قیدکرکے اپنا غلام بنایا اورپھران میں سے بعض کونہایت ظالمانہ طریق پر تہ تیغ کیا۔ ۵؎ اوران کی عورتوں کواپنی لونڈیاں بنانے کے لئے سازشیں کیں اور لڑائیاں لڑیں۔ ۶؎ اوران کے معزز شہیدوں کامثلہ کیااوران کے ناک کان کاٹ کراپنے گلوں میں ہار پہنے۔ ۷؎ اوران کی معزز مستورات پر وحشیانہ حملے کرکے ان کے حمل گرائے۔ ۸؎ اوران کی عصمت شعار بیبیوں کی شرمگاہوں میں نیزے مارمارکرانہیں ہلاک کیا۔ ۹؎ ان حالات میں اگران ظالموں کو ان کی آزادی سے محروم کرکے مستقل طورپر غلام بنالیا جاتا تویہ ہرگزناانصافی نہیں تھی۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاسراسر احسان تھا کہ آپؐ نے ایسے لوگوں میں سے بھی اکثرکومعاف فرمادیا۔اوران میں سے جو لوگ جنگ میں پکڑے جاکر قیدی بنے ان کی آزادی میں بھی سوائے وقتی حد بندی کے کوئی روک نہیں ڈالی اور اس وقتی حد بندی کے زمانہ میں بھی آپؐ نے قیدیوں کے آرام وآسائش کے متعلق ایسے تاکیدی احکام صادرفرمائے کہ ان سے متأثرہوکر صحابہ نے اپنی قمیصیں اتاراتار کر قیدیوں کوہاں اپنے خون کے پیاسے قیدیوں کودے دیں۔ ۱۰؎ خود خشک کھجوروں پرگزارہ کیا۔اورانہیں پکاہواکھانا دیا۔ ۱۱؎ آپ پیدل چلے اور انہیں سوار کیا۔ ۱۲؎ کیا دنیا کی کسی قوم میں کسی زمانہ میں اس کی مثال ملتی ہے؟
جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کاخلاصہ تین قرآنی آیتوں میں آجاتا ہے جن میںسے دوتو خاص جنگی قیدیوں کے متعلق ہیں اور ایک اصولی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی نبی کی شان سے یہ بہت بعید ہے کہ اس کے لئے جنگی قیدی پکڑے جائیں حتّٰی کہ دشمن کے ساتھ کسی میدان میں اچھی طرح عملی جنگ نہ ہولے۔ اے مسلمانو!تم قریب کے فوائدپرنگاہ رکھتے ہو(کہ قیدی پکڑنے میں جلدی کی جاوے تاکہ تم ان کے فدیہ کی رقم سے دشمن کے مقابلہ کی تیاری کرسکو) مگر اللہ تعالیٰ انجام کارکودیکھتا ہے(اورچونکہ انجام کے لحاظ سے یہ طریق پسندیدہ نہیں اوراخلاقی طورپر اس کا اثرخراب ہے اس لئے وہ تمہیں اس طریق سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے)اوراگر تمہیں دشمن کی تعداد وطاقت کاخوف ہوتو جانو کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں پرغالب ہے اوروہ حکیم یعنی تمہاری حقیقی ضرورتوں کوپورا کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی کمزوری اوردشمن کی طاقت کے خیال سے یافدیہ کے ذریعہ اپنی مالی حالت کو مضبوط بنانے کی غرض سے دشمن کے قیدی پکڑنے کے معاملہ میں جلدی اوربے احتیاطی سے کام نہیں لینا چاہئے کہ جہاں بھی دشمن کوکمزورپایا قیدی پکڑنے شروع کردیئے یامیدان جنگ میں عملی مقابلہ ہونے سے پہلے ہی قیدی پکڑ لئے۔بلکہ مسلمانوں کوصرف اس صورت میں قیدی پکڑنے کی اجازت ہے کہ میدان جنگ میں عملاًدشمن کامقابلہ ہواورلڑائی کے بعدقیدی پکڑے جائیں۔ اس اسلامی تعلیم میں جو بین الاقوامی ضابطۂ جنگ کی اعلیٰ ترین بنیاد پرقائم ہے جنگی قیدیوںکی تعداد اوروسعت کوامکانی طورپرتنگ سے تنگ دائرہ میں محدود کردیا گیا ہے جو اس بات کوظاہرکرتا ہے کہ اسلام کامنشاء یہ تھاکہ سوائے ان صورتوں کے جو لابدی اوراٹل ہوں حتّٰی الوسع جنگی قیدی نہیں پکڑنے چاہئیں۔
پھر فرماتا ہے:
۲؎
یعنی’’ اے مسلمانو!جب کفار کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو خوب جم کرلڑو اور ظالموں کو قتل کرو اورجب اچھی طرح جنگ ہولے تواس کے بعد دشمن کے آدمیوں میں سے قیدی پکڑو۔پھراگر اصلاح کی امید ہواورحالات مناسب ہوں توان قیدیوں کوبعد میںیونہی احسان کے طور پر چھوڑ دو یامناسب فدیہ لے کر انہیں رہا کردواوریااگرضروری ہوتو انہیں قید میں ہی رکھو حتّٰی کہ جنگ ختم ہوجاوے اوراس کے بوجھ تمہارے سروں سے اترجاویں۔‘‘
یہ آیت جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی شریعت میں بطوربنیادی پتھر کے ہے جس میں وہ مختلف صورتیں بتادی گئی ہیں جو قیدیوں کے معاملہ میں مختلف حالات کے ماتحت اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اور وہ تین ہیں:
اوّل:بطور احسان چھوڑدینا۔دوم:فدیہ لے کر چھوڑ دینا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعامل سے پتہ لگتا ہے کہ فدیہ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں(ا)نقد فدیہ خواہ وہ یکمشت اورفوری ادائیگی کی صورت میں ہو یامکاتبت کے اصول پرجس کی مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے(ب)مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ(ج)کوئی مناسب خدمت لے لینا مثلاً اگرقیدیوں کوکوئی فن آتا ہوتو ان کے ساتھ یہ شرط کرلینا کہ اگر وہ بعض مسلمانوں کویہ فن سکھا دیں تو رہا کردئیے جائیں گے۔
سوم:قید کی حالت کوہی جنگ کے اختتام تک لمبا کردینا اورجنگ کے اختتام سے اس کا کامل اختتام مراد ہے جبکہ وہ صرف جنگی کارروائیوں کاسلسلہ عملاًختم ہوجاوے بلکہ وہ بوجھ بھی جواس کی وجہ سے ملک اورقوم پر پڑے ہوں اور جن کی ذمہ داری دشمن قوم پر سمجھی جاوے دور ہوجائیں۔جیسا کہ قرآنی الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے۔اوریہ آخری صورت اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ اگر حالات ایسے ہوں کہ نہ تو کفار کے قیدیوں کواحسان کے طور پر چھوڑنا قرین مصلحت ہواورنہ ہی وہ یاان کے رشتہ داراپنی ضدیاعداوت کی وجہ سے فدیہ ادا کرنے پرآمادہ ہوں توپھر انہیں جنگ کے حقیقی اختتام تک قید رکھا جاسکے تاکہ ان کے رہا ہونے سے مسلمانوں کی مشکلات اورخطرات میں اضافہ نہ ہو۔اوریہی وہ صورت ہے جسے اسلام میں غلامی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اورجس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔مگر غور کیاجاوے تودراصل یہ غلامی نہیں بلکہ محض ایک قید ہے اورپھراس قید یاغیر حقیقی غلامی کوبھی اسلام نے ایک اصولی قاعدہ کے ساتھ مشروط ومحدود کردیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’ اے مسلمانو!اگرتم کفار کے مقابلہ میں انتقام اورسزا کے طریق پر کوئی سختی کرنا مناسب خیال کروتوضروری ہے کہ تمہاری سختی اس سختی سے تجاوز نہ کرے جوکفار تمہارے خلاف کرتے ہوں۔اوریہ بھی ضروری ہے کہ تم کوئی ایسی سختی نہ کرو جس میں کفار نے سبقت اورپہل نہ کی ہو اوراگر تمہارے لئے صبر کرنا ممکن ہوتوپھر صبرہی سے کام لوکیونکہ صبر کرنا بہتر ہے۔‘‘
اس اصولی آیت کے ماتحت جنگی قیدیوں کے متعلق وہ صورت جوقید کی حالت کے لمبا کئے جانے سے تعلق رکھتی ہے مختلف رنگ اختیار کرسکتی ہے۔مثلاًاگرکفار مسلمان قیدیوں سے خدمت لیتے ہوں تومسلمان بھی کفار کے قیدیوں سے مناسب خدمت لے سکتے ہیں۔مگریہ خدمت بہرحال ان شرائط کے ماتحت ہوگی جوغلاموں وغیرہ سے خدمت لینے کے متعلق اسلام نے مقرر فرمائی ہیں۔مثلاً یہ کہ ان کو ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ دیا جاوے اورایسا کام نہ دیا جاوے جسے آقا خود کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔اسی طرح اگرکفار مسلمان قیدیوں کوبجائے قومی اورملکی قیدخانوں میں رکھنے کے اپنے افراد میں تقسیم کردیتے ہوں تومسلمان بھی کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد کی سپردگی میںدے سکتے ہیں۔وغیرذالک۔مگر بہرحال یہ ضروری ہے کہ اس قسم کی تفصیلات میں جو صورت بھی اختیار کی جاوے وہ کسی مخصوص اسلامی حکم کے خلاف نہ ہو۔مثلاًیہ کہ یہ ضروری ہے کہ قید کاسلسلہ جنگ کے اختتام پر لازماًختم کردیا جاوے ۱؎ یایہ کہ قیدی محض دشمن کی فوج کاسپاہی ہونے کی وجہ سے قتل نہ کیا جاوے ۲؎ یایہ کہ قیدیوں سے خدمت ان کی طاقت اورحیثیت کے مطابق لی جاوے ۳؎ یایہ کہ قیدیوں کے آرام وآسائش کاخاص خیال رکھا جائے۔ ۴؎ وغیرذالک
یہ وہ تعلیم ہے جوجنگی قیدیوں کے متعلق اسلام دیتا ہے۔اب ناظرین خود انصاف کے ساتھ غور کریں کہ خواہ نام کے لحاظ سے اسے غلامی کہہ دیا جائے مگرکیااس تعلیم میں کوئی حقیقت غلامی کی پائی جاتی ہے؟کیاآج کل کی حکومتیں جنگی قیدی نہیں پکڑتیں؟کیاآج کل کی حکومتیں جنگی قیدیوں سے خدمت نہیں لیتیں؟پھرکیا آج کل کی حکومتیںجنگی قیدیوں کی قید کے عرصہ کوجنگ کے لمبا ہوجانے کی صورت میں لمبا نہیںکردیتیں؟جب یہ سب کچھ ہرقوم میں ہوتا ہے اوراب بھی ہوتا ہے اورہرزمانہ میں بین الاقوامی قانون اسے جائز قرار دیتا ہے توپھر ازروئے انصاف اس بناء پراسلام اوربانی اسلام پراعتراض نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ اسلام کاایک احسان ہے کہ اس نے جنگی ضابطہ میں نرمی اور شفقت کے عنصر کونمایاں کرکے دنیا کے امن اوراتحاد بین الاقوام کے لئے راستہ صاف کردیا ہے۔باقی رہا انفرادی قبضہ کا سوال ۔سویہ درست ہے کہ ابتداء میں کفار کے قیدی عام طورپر مسلمان سپاہیوں میں تقسیم کردئیے جاتے تھے اوردراصل یہی ایک بات ہے جو اس قانون کوغلامی کارنگ دینے والی سمجھی جاسکتی ہے مگر غور کیا جاوے تویہ بات ان حالات میں جن کے ماتحت اسے اختیار کیا جاتا رہا ہے ہرگز قابل اعتراض نہیں ہے اورنہ اسے حقیقی غلامی سے یعنی غلامی کی اس اصطلاح سے جو غیر اسلامی دنیا میں رائج ہے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اول تویہ طریق اسلام میں بالذات اختیار نہیں کیا گیا اورنہ مخصوص تعلیم میں جو اسلام جنگی قیدیوں کے متعلق دیتا ہے اس کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ ۱؎ بلکہ درحقیقت یہ ایک جوابی تدبیر تھی جوکفار کے ظالمانہ رویہ کی وجہ سے اختیار کی گئی تھی۔ یعنی چونکہ کفار مسلمان قیدیوں کوغلام بناکر اپنے افراد میں تقسیم کردیتے تھے اس لئے انہیں ہوش میں لانے کی غرض سے اسلام میں بھی کفار کے قیدیوں کو مسلمانوں کی انفرادی حراست میںدے دینے کا طریق اختیار کیا گیا۔مگرپھر بھی اسلام نے ان قیدیوں کو اس رنگ میں غلام بنانے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ کفار بناتے تھے نیز یہ شرط کہ جنگ کے اختتام پروہ لازماًآزاد کردئیے جائیں۔ دوسری وجہ انفرادی حراست کے طریق اختیار کئے جانے کی یہ تھی کہ اس زمانہ میںشاہی قیدخانوں کا دستور نہیں تھابلکہ دشمن کے قیدی فاتح قوم کے افراد میں تقسیم کردیئے جاتے جوانہیں اپنی زیرنگرانی رکھتے تھے اور یہی طریق ابتداء میں اسلام میںرائج رہا۔پس درحقیقت یہ غلامی نہیں تھی۔بلکہ قیدیوں کے رکھنے کا ایک سسٹم تھا جوبعد میں آہستہ آہستہ بدل گیا اوراس کی جگہ شاہی قیدخانوں کاطریق قائم ہوگیا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں تک اسلامی حکومت کاتعلق تھا یہ طریق قیدیوں کے لئے ہرگز تکلیف دہ نہیں تھابلکہ یقینا اس میںان کو آج کل کے شاہی قیدیوں کی نسبت بھی زیادہ آرام ملتا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پُرزورتعلیم اورحکومت کی چوکس نگرانی کی وجہ سے کفار کے قیدی مسلمانوں کے جس خاندان میں رہتے تھے اس کے نوکر اورخادم بن کر نہیں رہتے تھے بلکہ خاندان کے ممبر سمجھے جاتے تھے اوران کی خاطر وتواضع مہمانوں کی طرح ہوتی تھی۔چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کوجوعموماً اسلام کے بدترین دشمن تھے مسلمانوں نے اس آرام وآسائش کے ساتھ رکھا کہ وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور ان میں سے کئی محض اس حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ ۲؎ الغرض اس نام نہاد غلامی میںبھی جس کی اسلام اجازت دیتا ہے اسلام نے احسان ومروت کاوہ اعلیٰ نمونہ قائم کیا جوآج کل کی آزادی کی برکات کو بھی شرماتا ہے،لیکن بہرحال چونکہ یہ طریق ایک محض جوابی رنگ رکھتا تھا اس لئے وہ ان خاص حالات کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے گا جن کے جواب میں وہ اختیار کیا گیا۔اوراسی لئے اب اس زمانہ میں یہی فتویٰ ہے کہ چونکہ آج کل شاہی قیدیوں کادستور قائم ہوگیا ہے اورمسلمان قیدیوں کوکفار غلام نہیں بناتے اس لئے شریعت اسلامی کے اصولی حکم کے ماتحت اب مسلمانوں کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد میںتقسیم کرکے ایک رنگ غلامی کا پیدا کریں۔چنانچہ مقدس بانی ٔسلسلہ احمدیہ جن کا دعویٰ خدا کی طرف سے اس زمانہ کے لئے مامور ومصلح ہونے کا تھاتحریرفرماتے ہیں:
’’یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میںاسلام کے مقابل پرجو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اورزیادتی کاطریق چھوڑدیا ہے اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کولونڈی غلام بنائیں کیونکہ خداقرآن شریف میں فرماتا ہے جوتم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اُسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو۔پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اوراب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کواوران کے مردوں اورعورتوں کولونڈیاں اورغلام بنادیں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کوبھی ایسا کرنا ناجائز اورحرام ہے۔‘‘ ۱؎
خلاصہ کلام یہ کہ جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کے اصل الاصول صرف دو ہیں۔یعنی اول یہ کہ حتّی الوسع قیدی پکڑنے میں جلدی نہ کی جاوے اورصرف انتہائی حالات میں عملی جنگ ہونے کے بعد قیدی پکڑے جائیں۔دوم یہ کہ قیدی پکڑنے کے بعد حالات کے ماتحت یاتو انہیں بلافدیہ احسان کے طورپر چھوڑ دیا جاوے اوریہ سب سے زیادہ پسندیدہ صورت ہے اوریامناسب فدیہ لے کر انہیں رہاکردیا جاوے اوریااگرضروری ہوتو اختتام جنگ تک ان کی قید کے سلسلہ کولمبا کردیا جاوے۔ اس سے زیادہ جنگی قیدیوںکے متعلق کوئی منصوص تعلیم اسلامی شریعت میںپائی نہیں جاتی۔البتہ ایک عام قاعدہ کے طورپر اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگرسیاسی اغراض کے ماتحت کفار کے متعلق کوئی سخت جوابی تدبیراختیار کی جانی ضروری ہوتووہ اس شرط کے ماتحت کی جاسکتی ہے کہ اول اس میںکوئی ایسی سختی نہ کی جاوے جس میںکفار نے خودپہل نہ کی ہو اوردوسرے وہ اسلام کی کسی دوسری منصوص تعلیم کے خلاف نہ ہو۔کفارکے قیدیوں کامسلمان افراد میںتقسیم کردیا جانا اسی عام قاعدہ کے ماتحت تھا، لیکن چونکہ آج کل کفار مسلمانوں کے قیدیوں کوغلام نہیں بناتے اورشاہی قیدیوں کے طور پر رکھتے ہیں۔اس لئے اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے بھی ناجائز ہے کہ وہ کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد میں تقسیم کرکے کوئی رنگ غلامی کاپیدا کریں۔
کیا قیدیوں کوقتل کیا جاسکتا ہے؟
یہ سوال کہ آیا قیدیوں کوقتل کرنا جائز ہے یانہیں؟اس کا مجمل جواب اوپر گزرچکا ہے کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا،لیکن
چونکہ اس معاملہ میں بعض مسلمان علماء نے بھی اختلاف کیا ہے اورمسیحی مؤرخین نے بھی اسے اعتراض کا نشانہ بنایا ہے اس لئے اس کے متعلق کسی قدر تشریح کے ساتھ لکھنا ضروری ہے۔ سو سب سے پہلے تو جاننا چاہئے کہ سورۃ محمدکی آیت سے جس کا حوالہ اوپر دیا جاچکا ہے نہایت واضح طورپر پتہ لگتا ہے کہ جنگی قیدیوں کا قتل کرناجائز نہیں ہے اورقرآنی فیصلہ کے بعد کسی کو حق نہیں ہے کہ کوئی اورطریق تجویز کرے،لیکن ناظرین کی مزید تسلی کے لئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآنی آیت کے جو معنے ہم نے کئے ہیں اس زمانہ کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہی معنے صحابہ بھی کرتے تھے اوراسی پر ان کا عمل تھا۔چنانچہ حدیث میں روایت آتی ہے کہ:
عَنِ الْحَسَنِ اَنَّ الْحَجَّاجَ اُتِیَ بِاَسِیْرٍ فَقَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَقُمْ فَاقْتُلْہُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ مَابِھٰذَا اُمِرْنَا یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی حَتّٰی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوِثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُوَ اِمَّا فِدَائً۔ ۱؎
یعنی’’حسن روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حجاج کے سامنے ایک قیدی پیش ہوا اس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی پاس تھے۔حجاج نے ابن عمرؓ سے کہا ’’آپ اٹھیں اوراس قیدی کی گردن اڑادیں۔‘‘ابن عمرؓنے جواب دیا۔ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔اللہ تعالیٰ توفرماتا ہے کہ جب جنگ میں قیدی پکڑے جائیں تو ان کو یا تو احسان کے طور پر چھوڑ دینا چاہئے یا فدیہ لے کر رہا کردینا چاہئے۔ قتل کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح حسن بصری اورعطاء بن ابی رباح سے روایت آتی ہے کہ:
لاَ تُقْتَلُ الْاُسٰرٰی یُتَخَیَّرُ بَیْنَ الْمَنِّ وَالْفِدَائِ۔ ۲؎
یعنی’’قیدی قتل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے یہی حکم ہے کہ یاتو اسے احسان کے طور پر چھوڑ دیاجاوے اوریافدیہ لے کر رہا کردیاجاوے۔‘‘
قرآن شریف کی محولہ بالاواضح آیت کے ساتھ یہ واضح تشریح مل کراس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ قیدیوں کے قتل کے جوازکامسئلہ بالکل غلط اوربے بنیاد ہے اوراسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیںدیتاکہ کسی جنگی قیدی کوقتل کیا جاوے اوراگراس جگہ یہ سوال ہوکہ پھر اس معاملہ میں بعض مسلمان علماء کوغلطی کیوں لگی ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ تاریخ میں بظاہر ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن جنگی قیدیوںکے قتل کاحکم دیا تھاوہ جنگی قیدی ہونے کی حیثیت میں قتل نہیں کئے گئے بلکہ ان کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ بعض دوسرے جرائم کی وجہ سے واجب القتل تھے اوریہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی قیدی کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوا جس کی سزاقتل ہے تواس کا قیدی ہونااسے اس سزا سے نہیںبچاسکتا۔اگرایک آزاد شخص کسی جرم کی سزا میں قتل کیا جاسکتا ہے تو ایک قیدی کیوں نہیںکیا جاسکتا۔پس جیسا کہ اپنے اپنے موقع پرثابت کیا جائے گا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے جوجو قیدی بھی قتل کیا گیا وہ اس جرم کی بناء پرقتل نہیں کیا گیاکہ وہ ایک دشمن فوج کا سپاہی یاایک جنگجو قوم کا فرد ہے بلکہ وہ اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ وہ کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوچکا تھا جس کی سزا قتل تھی لیکن بعض علماء نے صرف ظاہری حالت کو دیکھ کر کہ بعض قیدی قتل کردئیے گئے تھے یہ نتیجہ نکال لیا کہ قیدی کوقتل بھی کیا جاسکتا ہے حالانکہ یہ بات اسلامی تعلیم اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعامل ہردو کے لحاظ سے قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔
یہ اس تعلیم کا ڈھانچہ ہے جواسلام نے جنگی قیدیوں کے متعلق دی ہے اورہر عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک نہایت منصفانہ قانون ہے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا نے دنیا کو عطاکیا ہے اور موجودہ زمانہ کی ترقی یافتہ اورمہذب کہلانے والی اقوام بھی اس سے بہتر قانون دنیا کو نہیں دے سکیں کہ جس میں اگر ایک طرف جنگ کے ناواجب طورپر طول پکڑ جانے اور بین الاقوامی مظالم کاسدباب کیا گیا ہے تودوسری طرف احسان ومروت کے پہلو کوبھی بہترین صورت میںقائم رکھا گیا ہے۔بلکہ اگرغور کیا جاوے تواس قانون میں دشمن کے ساتھ نرمی اوراحسان کاپہلو اپنی حفاظت کے پہلو سے بھی غالب ہے اور یقینا آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے اپنے خونی دشمن کے ساتھ جواسے ملیا میٹ کردینے کے درپے ہوایسے منصفانہ اورمحسنانہ سلوک کا حکم دیا ہو۔
لونڈیوں کامخصوص مسئلہ
اب ہم ایک لفظ لونڈیوں یعنی غلام عورتوں کے متعلق کہہ کر غلامی کی بحث کو ختم کرتے ہیں۔یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
نے لونڈیوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی عام اجازت دے کرنعوذ باللہ اپنے متبعین کے لئے تعیش کادروازہ کھول دیا ہے۔اس کے متعلق ہم سب سے پہلے اصولی طورپر یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ اسلام میں مردوعورت کے مخصوص تعلق کی غرض وغایت کیا رکھی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐکے صحابہ کے اعمال کو جج کرنے اوران کے پیچھے جونیتیں مخفی تھیں ان کا پتہ لگانے کے لئے سب سے زیادہ صحیح ذریعہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ جس مذہب کے احکام کی تعمیل میں آپؐ اورآپؐکے صحابہ یہ اعمال بجالاتے اوران کی اجازت دیتے تھے وہ اس قسم کے اعمال کاحکم کس غرض وغایت کے ماتحت دیتا ہے۔سو ہم قرآن شریف میں دیکھتے ہیں کہ نکاح کی اغراض میںسے جو غرض مردوعورت کے مخصوص تعلق کے ضمن میں بیان کی گئی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!فلاں فلاں قریبی رشتہ دارعورتوں کوچھوڑ کر باقی سب عورتیںتمہارے لئے حلال اور جائز کی جاتی ہیں یہ کہ تم اپنے اموال میںسے ان کے مہر مقررکرکے ان کے ساتھ نکاح کرو۔مگر تمہارے نکاح کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ تم اس کے ذریعہ اپنے آپ کو بدیوں اور بیماریوں سے محفوظ کرلو اور یہ غرض ہرگز نہیں ہونی چاہئے کہ تم شہوت رانی کاطریق اختیار کرو۔‘‘
اس تعلیم کا صحابہ کرام کی طبیعت پر اس قدر گہرا اثر تھا کہ اس انسان کی طرح جو ایک بات سے متأثر ہوکر اس کے انتہائی نقطہ کی طرف جھک جاتا ہے صحابہ کرام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عورتوں سے بالکل ہی مجتنب ہوجانے کی اجازت چاہتے تھے۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جوفطرت صحیحہ کے مالک تھے اوراسلامی تعلیم کی اصل غرض وغایت کو سمجھتے ہوئے اپنے متبعین کوافراط وتفریط کی راہوں سے بچا کر اعتدال کے مقام پر قائم رکھنا چاہتے تھے انہیںاس طریق سے باز رکھتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَاصٍ یَقُوْلُ رَدَّرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنَ التَّبَتُّلَ وَلَوْ اَذِنَ لَہٗ لاَ خْتَصَیْنَا۔ ۲؎
یعنی’’سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعون نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عورتوں سے بالکل ہی علیحدہ ہوجانے کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے اس کی اجازت نہیںدی اور اگرآپؐ اجازت دے دیتے توہم لوگ تیار تھے کہ اپنے آپ کوگویا بالکل خصی ہی کرلیتے۔‘‘
ان حالات میں تعیش وغیرہ کا سوال توبالکل خارج ازبحث ہے اوراس قسم کی بدظنی وہی شخص کرسکتا ہے جویا تو اسلامی تعلیم اوراسلامی تاریخ سے قطعی طورپر ناواقف ہواوریاوہ خوداس گندمیں اس حدتک مبتلا ہوکہ اسے دوسروں کے اعمال میں بھی اس گندی نیت کے سوا کوئی اور نیت نظر نہ آتی ہو۔ مگربہرحال یہ سوال قابل جواب ہے کہ لونڈیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کیا ہے؟سواس کے متعلق سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ غلامی کے عام احکام میںغلام اورلونڈی کے معاملہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی جو حقوق غلاموں کے ہیں وہی لونڈیوں کے بھی ہیں۔البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ لونڈیوں کو اچھی تعلیم وتربیت دینے اورانہیں آزاد کرکے اپنے عقد میں لے لینے کے بارے میں اسلام نے زیادہ تاکیدی سفارش کی ہے۔ ۱؎ اورجب تک لونڈیاں غلامی کی حالت میں رہیں اس وقت تک ان کے لئے بھی یہ پسند کیا گیا ہے کہ آزاد لوگ ان کے ساتھ رشتے کریں تاکہ اس رشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجے میں غلاموں کے تمدن ومعاشرت میں جلد تر اصلاح پیداہوسکے اوراسی غرض وغایت کے ماتحت لونڈیوں کامعاملہ تعدادازدواج کی انتہائی حد بندی سے مستثنیٰ رکھاگیا ہے ۲؎ تاکہ غلاموںاورلونڈیوںکے تمدن ومعاشرت میں اصلاح کے موقعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں کھلے رہیں اوروہ جلدترآزاد کئے جانے کے قابل ہوجائیں۔اس کے متعلق بعض قرآنی آیات اوپر والے مضمون میں درج کی جاچکی ہیں اس جگہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
یہ سوال کہ آیالونڈیوں کے ساتھ باقاعدہ رسمی نکاح کی ضرورت ہے یا نہیں۔اس کی مختلف صورتیں ہیں۔اوّل جبکہ کسی لونڈی اورغلام کے آپس کے رشتہ کاسوال ہو۔دوم جبکہ کسی لونڈی اور ایسے آزاد مرد کے رشتہ کاسوال ہوجواس کا مالک وآقا نہیں ہے۔سوم جبکہ کسی غلام اورآزاد عورت کے رشتہ کاسوال ہو۔چہارم جبکہ کسی لونڈی اور اس کے اپنے آقاومالک کے رشتہ کاسوال ہو۔ان چاروں امکانی صورتوں میں سے پہلی تین صورتوں میں مسلمہ طورپر رسمی نکاح ضروری سمجھاگیا ہے اوراس کے بغیررشتہ قائم نہیں ہوسکتا،لیکن چوتھی صورت میں اکثرعلماء آقااورلونڈی کے رشتے کے معاملہ میں رسمی نکاح کی ضرورت نہیںسمجھتے اوران کی دلیل کاخلاصہ یہ ہے کہ چونکہ آقا کولونڈی پرحق ملکیت حاصل ہوتا ہے اس لئے قانونی رنگ میں یہی حق نکاح کاقائم مقام سمجھاجانا چاہئے اورکسی الگ رسمی نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اخلاقی اورتمدنی اورنسلی حفاظت جورسمی نکاح میں ملحوظ ہے وہ اس رشتہ میں بھی جوحق ملکیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اسی طرح حاصل ہوتی ہے۔واللہ اعلم۔
قیدی عورتوں کا سوال
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسلام نے ان عورتوں کے متعلق بھی جو کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیں اوربطورقیدی کے
پکڑی جائیں اس قسم کاایک استثنائی انتظام جاری کیا ہے جس کے ماتحت ان قیدی عورتوں کے ساتھ جن کے مرد انہیں فدیہ دے کر چھڑانے کے لئے جلد نہ پہنچ جائیں یاجوقیدہونے پرخودمکاتبت کے طریق پرآزاد کئے جانے کا مطالبہ نہ کریں ،مسلمانوں کارشتہ نکاح قائم ہوسکتا ہے۔اوراس انتظام کی غرض وغایت اسلام نے یہ رکھی کہ تاقیدی عورتوں اور اس کی وجہ سے ان کے قید کرنے والوں کے اخلاق خراب ہونے سے محفوظ رہیں اور سوسائٹی میں بدی اوربدکاری پھیلنے نہ پائے۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ عموماًجب کبھی بھی کسی قوم کوکوئی بڑی جنگ پیش آئی ہے تواس کے بعد اس قوم میںعموماًزنااوربدکاری کامرض پھیل گیا ہے۔کیونکہ اول تو جنگ میں عموماًعورتوں کی تعدادزیادہ ہوجاتی ہے۔دوسرے جنگ کے مصائب کی وجہ سے مردوں کے اعصاب پرایسا اثر پڑتا ہے کہ جس کی وجہ سے ان میں عموماًضبطِ نفس کامادہ کمزور ہوجاتا ہے۔پس چونکہ اسلام انفرادی اورقومی اخلاق کی حفاظت کے سوال کوباقی تمام تمدنی اور معاشرتی امور پر ترجیح دیتا ہے،اس لئے ضروری تھا کہ اس قسم کے حالات کے لئے کوئی خاص احتیاطی احکام جاری کئے جاتے۔چنانچہ ایسا کیا گیاکہ ایک طرف توتعدّدازدواج کی استثنائی اجازت دے دی گئی اوردوسری طرف ان عورتوں کے متعلق جوایسے جنگوں میںقید ہوکرآئیں جن میں کوئی قوم مسلمانوں کے مذہب کوبرباد کرنے کے لئے ان پر حملہ آورہوئی ہو یہ حکم دیاگیاکہ اگران کے مرد ان کے ساتھ قیدنہ ہوں اورنہ ہی وہ انہیں چھڑانے کے لئے جلد پہنچیں اورنہ ہی یہ قیدی عورتیں خود مکاتبت کے طریق پرآزادکئے جانے کامطالبہ کریں توان کے ساتھ مسلمانوں کواستثنائی طورپر رشتہ قائم کرنے کی اجازت ہے تاکہ نہ توان قیدی عورتوں کے اخلاق خراب ہوں اورنہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کی سوسائٹی میں بدکاری رونما ہونے پائے اوراس انتظام میں نسلی اختلاط واشتباہ سے بچانے کے لئے یہ شرط لگا دی گئی کہ قیدی عورتوں کے ساتھ اس اطمینان کے بعد رشتہ ہونا چاہئے کہ وہ حاملہ نہیں ہیں۔ ۱؎ یہ سسٹم شایدجدید تہذیب وتمدن کے دل دادگان کواچنبھانظرآئے گا،لیکن اگران حالات کومدنظررکھا جاوے جن کے لئے یہ انتظام مقصود ہے تو کم از کم وہ لوگ جوانفرادی اورقومی اخلاق کی حفاظت کے خیال پر دوسرے خیالات کوقربان کرنا جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات کے ماتحت جن میں یہ انتظام جاری کیا گیا تھا۔یہ ایک بہت دانشمندانہ انتظام تھا جوبنی نوع انسان کی حقیقی بہتری کے لئے استثنائی حالات میں ضروری سمجھا گیا۔علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب مکاتبت کادروازہ ہرقیدی عورت کے لئے کھلا ہے تو جو عورت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے سابقہ رشتوں کوقطع کرکے اسلامی سوسائٹی کاجزوبننا چاہتی ہے۔پس اس حالت میں اس کے ساتھ کسی مسلمان کارشتہ قائم ہونا قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔
یہ سوال ہوسکتا ہے کہ عورتوں کوجنگوں میں پکڑا ہی کیوں جاتا تھاکہ اس قسم کے خطرات پیدا ہوتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانہ میںعرب میںیہ عام دستور تھا کہ عورتیں بھی کثرت کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتی تھیںاوربعض اوقات جنگ میں عملی حصہ بھی لیتی تھیں اورمیدان جنگ میں سپاہیوں کو جوش دلانے کاکام توزیادہ ترعورتوں کے ہی سپرد ہوتا تھا۔پس کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان حالات میں انہیں قید نہ کیاجاتا۔اگرفوجداری مقدمات میں عورت قیدکی جاسکتی ہے اورہرایک ملک وقوم میں قید کی جاتی ہے توکیوں جنگجو عورت میدان جنگ میںقید نہ کی جاتی؟علاوہ ازیں چونکہ اس زمانہ میں کفار لوگ مسلمانوں کی عورتوں کوقید کرتے تھے بلکہ لونڈی تک بنا کررکھتے تھے اوران ابتدائی جنگوں میں تو ان بدباطنوں کی طرف سے یہ عام الٹی میٹم تھا کہ وہ مسلمان عورتوں کوقید کرکے اپنی لونڈیاں بنائیںگے اورلونڈیوں کی طرح ان سے تعلقات قائم کریں گے۔ ۱؎ اس لئے خدائے اسلام نے جواگرایک طرف حلیم ہے تودوسری طرف سب سے زیادہ غیرت مند بھی ہے۔ مسلمانوں کو بھی اجازت دے دی کہ اگر ضرورت ہوتووہ بھی کفارکے ساتھ اگرویسا نہیں تواسی قسم کا سلوک کرکے انہیں ہوش میں لائیں،تاکہ وہ اپنے مظالم میں زیادہ شوخ اوردلیرنہ ہوتے جائیں۔جنگی ضروریات سے واقف لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ بسااوقات جنگوں میں انتقامی طریق اختیار کئے جانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ جنگی قانون سول قانون سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے۔پس یہ ایک ناگزیر حالات کی مجبوری تھی جس کے بغیر چارہ نہیں تھااورجب یہ صورت حال پیدا ہوگئی کہ عورتیں قید میں آتی تھیں اورنیز یہ کہ کفارلوگ مسلمان عورتوں کے ساتھ ہرقسم کا سلوک روا رکھتے تھے تواس کے لازمی اورخطرناک نتائج کے سدباب کے لئے کوئی خاص قانون جاری کرنا بھی ضروری تھا۔ البتہ چونکہ موجودہ زمانہ میں کفارلوگ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کاسلوک نہیں کرتے اوراگرعورتیں قید بھی ہوں توانہیں شاہی قیدی کے طورپر رکھا جاتا ہے اس لئے اصولی قرآنی حکم کے مطابق جواوپردرج کیا گیا ہے اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے بھی یہ ناجائز ہوگا کہ وہ کفار کی عورتوں کوبلاکسی حقیقی مجبوری کے قید کریں یاقیدکرنے کے بعد انہیں مسلمانوں کی انفرادی حراست میں دے کر کوئی رنگ غلامی کا پیدا کریں۔۲؎
اس جگہ اگرکسی کو شبہ پیدا ہوکہ ایسا کیوں ہے کہ بعض حالات میں شریعت اسلامی کافتویٰ اور ہوتا ہے اوربعض میں اور۔تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ کوئی نقص کی بات نہیں بلکہ اگرغور کیا جاوے تویہی بات اسلامی شریعت کے کامل اورعالمگیر ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں حالات کے اختلاف کوپوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے اورجہاں بعض احکام جواصل الاصول کے طور پر ہیں ٹھوس اورغیر مبدل صورت میں رکھے گئے ہیں جن میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں وہاں بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں یاتو حالات کے اختلاف سے حکم کی صورت بدل جاتی ہے اوریاان میں مختلف حالات کے ماتحت نئی مگر جائزتشریحات کی گنجائش ہوتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف خود فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’خدا نے یہ قرآن شریف اس صورت میں اتارا ہے کہ اس کی بعض آیات تومحکم ہیں یعنی اصل الاصول کے طورپر ہیں جو سب حالات میں ایک سی چسپاں ہوتی ہیں اوربعض متشابہات ہیں یعنی ان میںایسی لچک رکھی گئی ہے کہ وہ مختلف حالات میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی مختلف صورتیں اختیار کرسکتی ہیں۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ کہ غلامی کے متعلق اسلامی تعلیم دوحصوں میںمنقسم ہے۔اوّل وہ تعلیم جوان لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جوکسی وجہ سے ظالمانہ غلامی کے چکر میں آچکے تھے اوران کے اخلاق وعادات میں عموماًنہایت درجہ پستی اوردنائت پیدا ہوچکی تھی اوروہ جوہرجوانسان کودنیا میں آزاد زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے ان میں مفقود ہوچکا تھا۔ ایسے لوگوں کے متعلق اسلام نے یہ تجویز کی کہ پہلے ان کے اخلاق اور تمدن کو درست کیا جاوے اورپھر جُوں جُوں ان کی اصلاح ہوتی جاوے وہ ساتھ ساتھ آزاد کئے جاتے رہیں اورایسا انتظام کیا کہ آزاد ہونے کے بعد ایسے لوگوں کی آزادی حقیقی آزادی ہونہ کہ محض رسمی اورنمائش کی آزادی۔اوراس انتظام کی نگرانی کاکام اسلامی حکومت کے فرائض میںداخل کردیا گیاتاکہ لوگ اس معاملہ میں کسی قسم کی سستی یاغفلت سے کام نہ لیں۔دوم وہ تعلیم جو غلام بنانے کے سوال کے متعلق اسلام نے اصولی طورپردی اورجس کی رو سے غلامی کے تمام ظالمانہ طریق قطعی طورپر منسوخ کردئے گئے۔باقی رہا جنگی قیدیوں کاسوال سواس میں بے شک بعض حالتوں میں انتقامی طریق پر غلامی کی اجازت دی گئی ہے مگراس کی تفصیلات پرغورکیا جاوے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس رنگ کی غلامی نہیں ہے جو غیراسلامی دنیا میںعام طورپر معروف ہے بلکہ حقیقتاً ایک نوع قیدکی ہے اوریہ جوابی اورغیرحقیقی غلامی بھی جس کی اجازت دی گئی ہے موجودہ زمانہ میں ناجائز اورحرام ہے کیونکہ اب شاہی قیدخانوں کاسسٹم رائج ہوگیا ہے اور کفار مسلمانوں کے قیدیوں کوغلام نہیںبناتے بلکہ شاہی قیدیوں کے طورپر رکھتے ہیں۔اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھی ناجائز ہے کہ کفار کے قیدیوں کومسلمانوں کی انفرادی حراست میں تقسیم کرکے کوئی رنگ غلامی کا پیدا کریں۔باقی رہاغلاموں اورجنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کرنے کامعاملہ سو اس میں اسلام نے وہ منصفانہ اورمحسنانہ تعلیم دی ہے کہ جس کی نظیرکوئی قوم کسی زمانہ میں پیش نہیں کرسکتی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

حضرت عائشہ ؓ کارخصتانہ اور ان کی عمر کی بحث
تعدّداز دواج کا مسئلہ ۔دو فرضی واقعات
حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ، ماہ شوال ۲ ہجری
کتاب کے حِصّہ اوّل میں یہ ذکر گذر چکا ہے ۔ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم نے عائشہ ؓ صدیقہ کے ساتھ شادی فرمائی تھی یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھا۔ ۱؎ اور اُس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر سات سال کی تھی۔۲؎ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا نشوونما اس وقت بھی غیرمعمولی طور پر اچھا تھا؛ ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ خولہ بنت حکیم کو جو اُن کے نکاح کی محرک بنی تھیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادی کے لیے اُن کی طرف خیال جاتا لیکن بہرحال ابھی تک وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اُس وقت نکاح تو ہو گیا مگر رخصتانہ نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے والدین کے پاس مقیم رہیں، لیکن اب ہجرت کے دُوسرے سال جب کہ اُن کی شادی پر پانچ سال گذر چکے تھے اور ان کی عمر بارہ سال کی تھی وہ بالغ ہو چکی تھیں؛ چنانچہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رخصتانہ کی تحریک کی۔ ۳؎ جس پر آپؐ نے مہر کی ادائیگی کا انتظام کیا۔ (اس زمانہ میں مہر کے نقد ادا کرنے کا دستور تھا۔) اور ماہ شوال ۲ ہجری میں حضرت عائشہ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔
یہ سوال کہ رُخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کتنی تھی اس زمانہ میں ایک اختلافی سوال بن گیا ہے۔ عام کتب تاریخ اور کتبِ حدیث میں حضرت عائشہ کی عمر نو یا دس سال کی بیان ہوئی ہے حتیٰ کہ صحیح بخاری میں خود حضرت عائشہ ؓ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ رخصتانہ کے وقت میری عمر صرف نو سال تھی اور اسی بناء پر جمہور مؤرخین نے نو سال کی عمر بیان کی ہے مگر اس کے مقابلہ میں بعض جدید محققین نے مختلف قسم کے استدلالات سے چودہ سال بلکہ سولہ سال تک عمر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر چند کہ ہم ان نو محققین کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے مگر حالات کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ نو سال کی عمر کا خیال بھی درست نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر پورے بارہ سال یا قریباً بارہ سال کی ثابت ہوتی ہے۔ دراصل اس معاملہ میں متقدمین کو تو ساری غلطی اس وجہ سے لگی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ کے نو سال والے اندازے کو جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے بالکل یقینی اور قطعی سمجھ کر کسی اور بات کی طرف توجہ نہیں کی؛ حالانکہ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ روایت کا صحیح ہونا اور بات ہے اور اندازے کا صحیح ہونا بالکل اور بات یعنی باوجود اس کے کہ یہ روائتیں جن میں حضرت عائشہ کا یہ اندازہ بیان ہوا ہے کہ رُخصتانہ کے وقت میری عمر نو سال کی تھی اصل روایت کے لحاظ سے بالکل صحیح ہوں۔ حضرت عائشہ کا یہ اندازہ خود اپنی ذات میں غلط ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ بسا اوقات لوگوں کے اندازے اپنی عمر کے متعلق غلط ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے نو سال والے خیال کو غلط سمجھ کر آزادانہ تحقیق کرنی چاہی ہے انہوں نے یہ غلطی کی ہے کہ تحقیق کے سیدھے اور صاف راستہ کو ترک کر کے ایک ایسا پیچیدہ طریق اختیار کیا ہے کہ جو دل کی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ہر فہمیدہ شخص ہمارے ساتھ اتفاق کرے گا کہ سب سے زیادہ پختہ اور سب سے زیادہ آسان ذریعہ حضرت عائشہ کی عمر کاپتہ لگانے کایہ ہے کہ ہمیں ایک طرف تو انکی پیدائش کی تاریخ اور دوسری طرف ان کے رخصتانہ کی تاریخ کا پتہ چل جاوے۔ کیونکہ ان دونوں تاریخوں کے معین ہو جانے کے بعد رخصتانہ کے وقت کی عمر کے متعلق کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ پہلے ہم پیدائش کے سوال کو لیتے ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت نقل کی ہے کہ کَانَتْ عَائِشَۃُ وَلَدَتِ السَّنَۃَ الرَّابِعَۃَ مِنَ النُّبُّوَۃِ فِی اَوَّ لِھَا۔۱؎ یعنی ’’ حضرت عائشہ ۴ نبوی کے ابتداء میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ‘‘ حضرت عائشہ کی تاریخ پیدائش کے متعلق اس روایت کے سوا کوئی اور معین روایت ابتدائی مؤرخین کی کسی کتاب میں میری نظر سے نہیں گذری اور نہ ہی حدیث کی کسی کتاب میں اس کے متعلق کوئی روایت آتی ہے۔ پس پیدائش کی تاریخ تو آسانی کے ساتھ معین ہو گئی اور وہ ابتداء ۴ نبوی ہے۔
اب ہم دوسرے سوال کو لیتے ہیں جو رخصتانہ کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں بیشک روایات میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں یہ تاریخ شوال ۱ ہجری بیان ہوئی ہے اور بعض میں شوال ۲ ہجری لیکن غور کیا جاوے تو مؤخر الذکرروایات زیادہ صحیح قرار پاتی ہیں۔ شوال ۱ ہجری والی روایت کا اصل منبع ابن سعد ہے جس نے ایک سلسلہ رواۃ کے ذریعہ اس روایت کو حضرت عائشہ تک پہنچایا ہے۔ ؎۱ اور اکثر مؤرخین نے ابن سعد والی روایت پر ہی بنا رکھ کر رُخصتانہ کی تاریخ شوال ۱ ہجری قرار دی ہے لیکن گو ابن سعد خود اپنی ذات میں ثقہ ہے مگر اس روایت میں اس کے راویوں میں ایک راوی واقدی ہے جس کے غیر ثقہ اور ناقابلِ اعتماد بلکہ جھوٹا ہونے کے متعلق محققین نے قریباً قریباً اجماع کیا ہے۔ ؎۲ پس محض اس واقدی والی روایت پر جبکہ وہ دوسری روایات کے خلاف ہو ایک تاریخی واقعہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کے مقابلہ پر علامہ نودی علامہ عینی اور قسطلانی اور بعض دوسرے محققین نے شوال ۲ ہجری والی روایت کو صحیح اور قابل ترجیح قرار دیا ہے۔۳؎ اور علامہ نودی نے تو بڑی صراحت اور اصرار کے ساتھ لکھا ہے کہ اس روایت کے مقابلہ میں شوال ۱ ہجری والی روایت کمزور اور قابل ردّ ہے۔۴؎ پس کوئی وجہ نہیں کہ صرف اس بناء پر کہ عام مؤرخین نے شوال ۱ ہجری والی روایت کی تقلیدکی ہے ہم ایک زیادہ مضبوط خیال کو ردّکر دیں اور دراصل عام مؤرخین نے بھی واقدی کی روایت کو محض اس خیال سے نوازا ہے کہ وہ نو سال والی عمر کے اندازے کے ساتھ جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے زیادہ مطابقت کھاتی ہے ، چنانچہ زرقانی جیسا محقق صاف لکھتا ہے کہ شوال ۲ ہجری والی روایت اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس طرح نو سال سے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ؎۵ حالانکہ جب خود عمر کا سوال اور عمر کی روایتیں ہی زیر بحث ہوں تو کسی خاص روایت کو صحیح فرض کر لینا درست نہیں ہے اور پھر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں نو سال والے اندازے کو غلط ماننے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ نو سال والی روایتیں بھی غلط ہیں اور پھر تعجب یہ ہے کہ خود علامہ زرقانی نے دوسری جگہ ۶؎ شوال ۲ ہجری والے قول کو مقدم کیا ہے۔ اندریں حالات شوال ۱ ہجری والی روایت شوال ۲ ہجری والی روایت کے مقابلہ میں قابل قبول نہیں سمجھی جا سکتی اور حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ کا رخصتانہ شوال ۲ ہجری میں ہوا تھا۔ واﷲ اعلم
اب جب پیدائش اور رخصتانہ کی تاریخوں کی تعیین ہو گئی تو عمر کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک موٹا حسابی سوال رہ جاتا ہے جسے ایک بچہ بھی نکال سکتا ہے۔ حضرت عائشہ ۴ نبوی کے شروع میں پیدا ہوئیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت ۱۴ نبوی کے ربیع الاوّل میں ہوئی۔ ؎۱ اس طرح ہجرت تک حضرت عائشہ کی عمر کچھ ماہ اوپر دس سال بنتی ہے اور ہجرت کے بعد جو ربیع الاوّل ۱ہجری میں ہوئی شوال ۲ ہجری تک جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ ہوا دو سال سے کچھ کم کا عرصہ ہوتا ہے اور ان دونوں عرصوں کو ملانے سے وہی بارہ سال حاصل ہوتے ہیں جو ہم نے ابتداء میں بیان کئے ہیں اور اگر ابنِ سعد کی روایت کے مطابق رخصتانہ کو ہجرت کے پہلے سال میں سمجھا جاوے تو پھر بھی یہ عرصہ گیارہ سال کا بنتا ہے نہ کہ نو یا دس سال کا اور یہ ایک حسابی نتیجہ ہے جس کے مقابلہ میں کوئی تخمینی اندازہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اب رہا یہ سوال کہ متعدد احادیث میں حضرت عائشہ ؓ نے خود اپنی عمر نو سال کی کیوں بیان کی ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ان روایتوں کو غلط نہیں کہتے یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا یہی خیال تھا کہ رخصتانہ کے وقت ان کی عمر نو سال کی تھی ، لیکن یقینا ان کا یہ خیال محض تخمینی تھا اور درست نہیں تھا اور یہ کوئی قابلِ تعجب بات نہیں کیونکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عمروں کے اندازوں میں لوگوں سے غلطی ہو جایا کرتی ہے۔ پس اگر پیدائش اور رخصتانہ کی تاریخوں کے حسابی مقابلہ سے حضرت عائشہ کی عمر نو سال نہیں بنتی تو محض حضرت عائشہ کے اس اندازے کی وجہ سے کہ رخصتانہ کے وقت میری عمر نو سال کی تھی نو سال والی روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا؛ البتہ اگر کسی صحیح حدیث میں حضرت عائشہ کی پیدائش کی تاریخ اوائل ۴ نبوی کے علاوہ کوئی اور بیان کی گئی ہو یا رخصتانہ کی تاریخ شوال ۲ ہجری کے علاوہ کوئی اور ثابت ہو تو بیشک یہ روایتیں قابل قبول ہوں گی اور انہی پر عمر کے حساب کو مبنی قرار دیا جائے گا لیکن ایک محض اندازے اور خیال کے مقابلہ میں خواہ وہ صحیح احادیث میں ہی بیان کیا گیا ہو ایک حسابی نتیجہ کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ تو ایک اصولی بحث ہے جو ہم نے اس جگہ پیش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اندازے والی روایتوں کی چھان بین کی جائے تو ان سے بھی بالآخر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یعنی یہ کہ رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر بارہ سال کی تھی نہ کہ نو سال کی۔ اس کے سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دراصل حضرت عائشہ نے صرف رخصتانہ کی عمر کا اندازہ ہی نہیں بتایا بلکہ ساتھ ہی نکاح کی عمر کا اندازہ بھی بتایا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں یہ دونوں اندازے ساتھ ساتھ بیان ہوئے ہیں؛ چنانچہ حضرت عائشہ کا یہ قول کثرت کے ساتھ مروی ہوا ہے کہ جب میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور جب میرا رخصتانہ ہوا تو میری عمر نو سال کی تھی اور بعض روایتوں میں رخصتانہ کی عمر دس سال بھی بیان ہوئی ہے۔ اب اصولی قاعدہ کے مطابق ہمیں ان دونوں اندازوں میں سے پہلے اندازے کو جو نکاح کے وقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اَقرب بالصحت سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ اول تو یہ اندازہ زیادہ چھوٹی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جبکہ غلطی کاامکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ دوسرے چونکہ وہ سب سے پہلا اندازہ ہے۔ وہی اصل اندازہ سمجھا جائے گا اور بعد کی عمر کے ساتھ تعلق رکھنے والے اندازے اس اندازے کی فرع سمجھے جائیں گے نہ کہ مستقل اندازے۔ پس اندازوں کی بحث میں اصل بنیاد لازماً پہلے اندازے پر رکھی جائے گی جو نکاح کے وقت کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جس میں چھ یا سات سال کی عمر بیان کی گئی ہے۔ اب جب ہم اس اندازے سے حساب شماری کرکے رخصتانہ کی عمر کا پتہ لگاتے ہیں تو اس طرح بھی وہی بارہ سال کی عمر ثابت ہوتی ہے نہ کہ نو یا دس سال کی مکر پیشتر اس کے کہ ہم یہ حساب پیش کریں چھ اور سات کے باہمی اختلاف کا حل ضروری ہے۔ یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ شادی کے وقت کی عمر بعض روایتوں میں چھ سال بیان ہوئی ہے اور بعض میں سات سال اور یہ دونوں قسم کی روایتیں کتب حدیث اور کتب تاریخ ہر دو میں پائی جاتی ہیں۔ سات سال والی روایت خصوصیت کے ساتھ صحیح مسلم و نسائی ؎۱ اور ابن ہشام ؎۲ اور ابن سعد ؎۳ اور طبری ؎۴ میں بیان ہوئی اور اس کے مقابلہ میں چھ سال والی روایت بھی ان سب کتب میں باستثناء سیرت ابنِ ہشام مروی ہوئی ہے اور علاوہ اس کے بخاری میں بھی چھ سال والی روایت پائی جاتی ہے۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوقسم کی روایتوں میں سے کونسی روایتیں قابل ترجیح ہیں۔ ہر شخص جو علم روایت سے تھوڑا بہت بھی مس رکھتا ہے اس بات کو تسلیم کرے گا کہ جہاں تک محض روایت کی صحت کا تعلق ہے کہ دونو قسم کی روایتیں ہر طرح صحیح اور قابلِ اعتماد ہیں اور ہم ان میں سے کسی کو غلط کہہ کر رد نہیں کر سکتے۔ پس ماننا پڑے گا کہ خود حضرت عائشہ ؓ نے ہی مختلف موقعوں پر یہ دو مختلف اندازے بیان کیے ہیں۔ یعنی کبھی تو انہوں نے اپنی عمر چھ سال کی بیان کی ہے اور کبھی سات سال کی اور کبھی ان دونوں کو ملا کر یہ کہہ دیا ہے کہ شادی کے وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی۔ پس روایت کے لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں ہے لیکن درایتاً غور کیا جاوے تو سات سال والے اندازے کو ترجیح دینی پڑتی ہے اور وہ اس طرح پر کہ یہ ایک عام دستور ہے کہ جب تک عمر کا کوئی سال پورا نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تک صرف نیچے کے سال کا نام لیا جاتا ہے اور اوپر کی کسر کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اوپر کے سال کا نام صرف اسی وقت لیا جاتا ہے کہ جبکہ یا تو اوپر کا سال پورا ہو چکا ہو اور یا پورا ہونے کے اس قدر قریب ہو کہ عملاً اسے پورا سمجھا جا سکے۔ پس حضرت عائشہ کی عمر کے متعلق بعض روایات میں چھ سال کا ذکر آنا اور بعض میں سات سال کا یقینی طور پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھ سے گذر کے سات کے اس قدر قریب پہنچ چکی تھی کہ اس پر سات سال کا اطلاق عام محاورہ کی رو سے جائز ہو گیا تھا اور صرف تھوڑی سی برائے نام کمی کی وجہ سے چھ سال کا لفظ استعمال کر لیا جاتا تھا ورنہ عملاً ان کی عمر سات سال کی ہی تھی؛ چنانچہ اسی خیال کے ماتحت بعض مؤرخین نے چھ سال کے ذکر کو بالکل ترک کر دیا ہے اور صرف سات سال کا ذکر کیا ہے مثلاً ابن ہشام ؎۱ نے چھ سال کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف سات سال کا ذکر کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں میری نظر سے کوئی ایسی مستند تاریخ کی کتاب نہیں گذری جس میں صرف چھ سال کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہو۔ پھر صاحب سیرت حلبیہ نے بھی جہاں ازواج النبی ؐ کا ذکر کیا ہے، وہاں حضرت عائشہ کی عمر صرف سات سال بیان کی ہے اور چھ سال کا ذکر نہیں کیا۔ ؎۲ اور حضرت عائشہ کے نکاح کے بیان میں ذکر تو دونوں کا ہے مگر صراحتاً لکھا ہے کہ سات سال والی روایت اقرب بالصحت ہے۔۳؎ اندریں حالات گوروایتاً دونوں قسم کی روایتیں صحیح ہیں مگر درایت کے طریق پر اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال کے اس قدر قریب پہنچی ہوئی تھی کہ گویا عملاً وہ سات سال ہی تھی۔
اب جب یہ ثابت ہو گیا کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال کی تھی تو اگلا حساب کوئی مشکل کا م نہیں رہتا۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت عائشہ کی شادی شوال ۱۰ نبوی میں ہوئی تھی ۔ ؎۴ اور یہی تاریخ جمہورِ مؤرخین میں مسلم ہے گویا شوال ۱۰ نبوی میں حضرت عائشہ کی عمر سات سال یا اس کے قریب تھی۔ اس کے بعد ربیع الاوّل ۱۴ نبوی میں ہجرت ہوئی۔۵؎ اس طرح شادی اور ہجرت کے درمیان کا عرصہ تین سال اور کچھ ماہ بنتا ہے اور ہجرت کے وقت حضرت عائشہ کی عمر دس سال اور کچھ ماہ کی قرار پاتی ہے اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہجرت اور رخصتانہ کے درمیان کا عرصہ کس قدر ہے۔ یہ مسلّم ہے کہ ہجرت ربیع الاوّل میں ہوئی، اس لیے ہجرت کا پہلا سال ساڑھے نو ماہ کا ہوا اور پھر چونکہ رخصتانہ شوال ۲ ہجری میں ہوا اس لیے ساڑھے نو ماہ ہی دوسرے سال کے ہوئے اور یہ دونوں عرصے مل کر ہجرت اور رُخصتانہ کے درمیان کا عرصہ انیس ماہ یعنی ایک سال اور سات ماہ کا ہوا۔ اب اگر اس عرصہ کو دس سال اور کچھ ماہ کے عرصہ کے ساتھ ملائیں جو ہجرت سے قبل کا ہے تو اس کی میزان وہی بارہ سال ہوتی ہے جو ہم نے دوسری جہت سے قرار دی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خواہ حضرت عائشہ ؓکے انداز ے سے حساب شماری کریں یا یہ کہ ان کی تاریخ پیدائش سے شمار کریں نتیجہ دونو صورتوں کا یہی ہے کہ رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر بارہ سال کی تھی نہ کہ نو سال کی اور یقینا حضرت عائشہ ؓکا یہ خیال کہ اُس وقت میری عمر نو سال کی تھی غلط اندازے یا غلط حساب شماری پر مبنی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے مہینوں کی کسر چھوڑ کر اپنے نکاح کی عمر کا اندازہ چھ سال لگایا تو اس کے بعد انہوں نے حسابی طور پر درمیانی عرصہ کو شمار نہیں کیا بلکہ یونہی موٹے طور پر اندازہ کر لیا کہ رخصتانہ کے وقت ان کی عمر نو سال کی ہو گی اور پھر یہی خیال ان کے دل میں قائم ہو گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ اس وقت تک ابھی جنتری وغیرہ کا حساب مروّج نہیں ہوا تھا اور ہجری کی تاریخ بھی ابھی ضبط و تدوین میں نہیں آئی تھی اور پھر شادی اور رخصتانہ کے درمیان کی میعاد بھی دو مختلف سنین (یعنی سن نبوی ؐ اور سن ہجری) کے حسابات سے تعلق رکھتی تھی اس لیے حضرت عائشہ سے حساب شماری میں سہواً غلطی ہو گئی ہو اور پھر یہ غلط خیال ان کے دل میں ایسا راسخ ہو گیا ہو کہ بعد میں کبھی اس حسابی غلطی کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہ ہوا ہو لیکن بہرحال کچھ بھی ہو اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال یا اس کے قریب تھی تو پھر رخصتانہ کے وقت نو سال کی عمر کا اندازہ کسی صورت میں بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ایک حسابی سوال ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور دلیل نہیں ٹھہر سکتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ خواہ کسی جہت سے بھی دیکھا جاوے رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر بارہ سال یا اس کے قریب قریب ہوتی ہے اور اگر رخصتانہ کی تاریخ شوال ۱ ہجری قرار ی جاوے تو پھر بھی ان کی عمر گیارہ سال کی بنتی ہے۔ پس نو سال کا اندازہ بہرحال غلط اور نا درست ہے۔
لیکن اگر بالفرض نو سال کی عمر کو ہی صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر بھی کوئی جائے اعتراض نہیں ہے ، کیونکہ عرب جیسے ملک میں نو یا دس سال کی لڑکی کا بالغ ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ خود ہمارے ہندوستان میں بھی بعض لڑکیاں جن میں نشوونما کا مادہ غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ دس سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں۔ دراصل بلوغ کا انحصار زیادہ تر آب و ہوا اور خوراک اور گردو پیش کے حالات پر ہوتا ہے۔ٹھنڈے ممالک میں اور خصوصاً ایسے ممالک میں جہاں کی خوراک میں گرم مسالہ جات کا دخل کم ہوتا ہے لڑکیاں عموماً بہت دیر میں بالغ ہوتی ہیں؛ چنانچہ انگلستان وغیرہ میں سنِ بلوغ اوسطاً اٹھارہ سال کا ہوتا ہے اورلڑکیوں کی شادی عموماً بیس سال بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ عمر میں ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اگر کوئی لڑکی بیس سال کی عمر تک بغیر شادی کے بیٹھی رہے تو عموماً لوگوں میں انگشت نمائی شروع ہو جاتی ہے کہ اس میں کوئی نقص ہو گا تبھی اسے کوئی رشتہ نہیں ملا۔ کیونکہ یہاں بلوغ کی اوسط عمر تیر ہ چودہ سال ہے۔ عرب کا ملک چونکہ ہندوستان کی نسبت بھی زیادہ گرم اور خشک ہے اس لیے وہاں کے سنِ بلوغ کی اوسط ہندوستان سے بھی گری ہوئی ہے اور کئی لڑکیاں ایسی ملتی ہیں جو نو دس سال کی عمر میں ہی سنِ بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ اندریں حالات حضرت عائشہ کا نو یا دس سال کی عمر میں بالغ ہو کر رخصتانہ کے قابل ہو جانا ہرگز قابلِ تعجب نہیں سمجھا جا سکتا۔ خصوصاً جبکہ اس امر کو مدِّ نظر رکھا جاوے کہ حضرت عائشہ میں نشوونما کا مادہ غیر معمولی طور پر زیادہ تھا۔ جیسا کہ سرولیم میور نے بھی اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے۔ ۱؎
بہرحال اب حضرت عائشہ پوری طرح بالغ تھیں اور ہجرت کے بعد شوال ۲ ہجری میں ان کا رخصتانہ ہوا۔ اس وقت حضرت عائشہ کی والدہ مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ السُّنْح نامی میں مقیم تھیں؛ چنانچہ انصار کی عورتوں نے وہاں جمع ہو کر حضرت عائشہ کو رخصتانہ کے لیے آراستہ کیا اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت عائشہ اپنے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبوی ؐ میں داخل ہو گئیں۔ ۲؎ مہر پانچ سودرہم ۳؎ یا بعض روایات کی رُو سے چار سودرہم ۴؎ یعنی کم و بیش یک صد روپیہ تھا ، جو رخصتانہ کے وقت نقد ادا کر دیا گیا۔ ۵؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں سے صرف حضرت عائشہ ہی وہ بیوی تھیں جو باکرہ ہونے کی حالت میں آپؐ کے نکاح میں آئیں۔ ۶؎ باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں اور اس خصوصیت کو حضرت عائشہ بعض اوقات اپنے امتیازات میں شمار کیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کے رُخصتانہ کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر قریباً پچپن سال کی تھی اور آپ حضرت عائشہ کی خوردسالی کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہت دلداری کا سلوک فرماتے اور ان کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے؛ چنانچہ ایک دفعہ جب چند حبشی شمشیر زن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو نیزہ کے کرتب دکھانے لگے تو آپؐ نے انہیں مسجدِ نبوی کے صحن میں کرتب دکھانے کے لیے ارشاد فرمایا اورخود حضرت عائشہ کو سہارا دے کر مکان کی دیوار کے ساتھ اپنی اوٹ میں لے کر کھڑے ہو گئے تاکہ وہ بھی ان لوگوں کے کرتب دیکھ لیں اور جب تک وہ اس فوجی تماشہ سے خود سیر نہیں ہو گئیں آپؐ وہاں سے نہیں ہٹے۔ ۱؎ ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا۔ پہلی دفعہ تو حضرت عائشہ آگے نکل گئیں لیکن جب ایک عرصہ بعد آپؐ دوسری دفعہ ان کے ساتھ دوڑے تو اس وقت وہ پیچھے رہ گئیں، جس پر آپؐ نے مُسکراتے ہوئے فرمایا ۔ ھٰذِہٖ بِتِلْکَ ۲؎ یعنی ’’ لو عائشہ اب وہ بدلہ اُتر گیا ہے۔‘‘ بعض اوقات حضرت عائشہ کی بعض سہیلیاں اُن کے گھر میں معصومانہ اشعار وغیرہ پڑھنے کا شغل کرتیں، تو آپؐ بالکل تعرض نہ فرماتے بلکہ جب ایک دفعہ حضرت ابو بکر نے یہ نظارہ دیکھ کر لڑکیوں کو کچھ تنبیہہ کرنی چاہی تو آپؐ نے منع فرمایا اور کہا ابو بکر جانے دو۔ یہ عید کا دن ہے لڑکیاں اپنا شغل کرتی ہیں لیکن جب آپؐ دوسری طرف متوجہ ہوئے تو حضرت عائشہ نے خود لڑکیوں کو اشارہ کر کے انہیں رخصت کر دیا۔۳؎ مگر باوجود اس صغر سنی کے حضرت عائشہ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میںلے آنے سے آپ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے، چنانچہ آپؐ اس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیثِ نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتّٰی کہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔۴؎ ان کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کا لوہا مانتے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہ کے پاس نہ مل گیا ہو۵؎ اور عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے کوئی شخص علمِ قرآن اور علم میراث اور علم حلال و حرام اور علمِ فقہ اور علمِ شعر اور علمِ طِب اور علمِ حدیثِ عرب اور علمِ انساب میں عائشہ ؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔۶ ؎ زہد و قناعت میں ان کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے سب خیرات کر دیئے ! حالانکہ گھر میں شام کے کھانے تک کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ۱؎ انہی اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے جن کی جھلک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی نظر آنے لگ گئی تھی۔ آپؐ انہیں خاص طور پر عزیز رکھتے تھے اور بعض اوقات فرماتے تھے کہ سب لوگوں میں عائشہ مجھے محبوب ترین ہے۔۲؎ ایک دفعہ فرمایا کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہوئی ہیں۔ پھر آپؐ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔۳؎ ایک دفعہ بعض دوسری ازواج مطہرات نے کسی اہلی امر میں حضرت عائشہ کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کوئی بات کہی مگر آپؐ خاموش رہے لیکن جب اصرار کے ساتھ کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا ’’ میں تمہاری ان شکایتوں کا کیا کروں میں تو یہ جانتا ہوں کہ کبھی کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر میرے خدا کی وحی نازل نہیں ہوئی، مگر عائشہ کے لحاف میں وہ ہمیشہ نازل ہوتی ہے۔۴؎ اﷲ اﷲ ! کیا ہی مقدس وہ بیوی تھی جسے یہ خصوصیت حاصل ہوئی اور کیا ہی مقدس وہ خاوند تھا جس کی اہلی محبت کا معیار بھی تقدس و طہارت کے سوا کچھ نہیں تھا!!
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح خاص خدائی تجویز کے ماتحت وقوع میں آیا تھا! چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ان کے نکاح سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آپؐ کے سامنے ایک ریشمی کپڑا پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپؐ کی بیوی ہے آپؐ اسے کھولتے ہیں تو اس میں حضرت عائشہ کی تصویر پاتے ہیں مگر آپؐ نے اس خواب کا کسی سے ذکر نہیں فرمایا اور سمجھ لیا کہ اگر اس خواب نے اپنی ظاہری صورت میں پورا ہونا ہے تو خدا خود اس کا سامان کر دے گا! چنانچہ بالآخر خولہ بنت حکیم کی تحریک سے یہ رشتہ قائم ہو گیا۔ ۵؎ احادیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ آخری ایام میں حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی تھی اور اس طرح حضرت عائشہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہونے کا دوہرا موقع میسر آگیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اس زمانہ میں شریعت کا نزول ہو رہا تھا اور ہر امر میں جدید دستور العمل کی بنیاد پڑ رہی تھی، اس لیے جب حضرت سودہ بوڑھی ہو گئیں اور پورے طور پر حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے قابل نہ رہیں تو انہیں اپنی جگہ یہ خیال پیدا ہواکہ شاید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس حال میں انہیں علیحدہ کر دیں اس لیے انہوں نے خود ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کر کے کہ یا رسول اﷲ مجھے اب باری کی ضرورت نہیں ہے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی۔ ۱؎ ان کا یہ خیال تو سراسر غلط اور محض وہم پر مبنی تھا ، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال تھا اور وہ اپنی عمر اور حالات کے لحاظ سے اس قابل تھیں کہ ان پر خاص توجہ صرف کی جاوے اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باری کے متعلق سودہؔ کی تجویز منظور فرمالی۔ مگر اس کے بعد بھی آپؐ حضرت سودہ ؓ کے پاس باقاعدہ تشریف لے جایا کرتے تھے اور دوسری بیویوں کی طرح ان کی دلداری اور آرام کا خیال رکھتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کے خواندہ ہونے کے متعلق اختلاف ہے مگر بخاری کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک نسخہ قرآن شریف کا لکھا ہوا موجود تھا۔۲؎ جس پر سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات خود املاء کرائی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خواندہ ضرور تھیں اور اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے رخصتانہ کے بعد ہی لکھنا سیکھا تھا، لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ غالباً لکھنا نہیں جانتی تھیں۔ ۳؎ حضرت عائشہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کم و بیش اڑتالیس سال زندہ رہیں اور ۵۸ ہجری کے ماہِ رمضان میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔ اس وقت ان کی عمر قریباً اڑسٹھ سال کی تھی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعدّد ازدواج اور اس کی حکمتیں
حضرت عائشہ کے رخصتانہ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حرم میں تعدّد از دواج کا آغاز ہوتا ہے ، اس لیے اس موقع پر اس مسئلہ کے متعلق ایک مختصر سا نوٹ درج کرنا نا مناسب
نہ ہو گا، لیکن پیشتر اس کے کہ تعدّد از دواج کے متعلق کچھ بیان کیا جاوے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ اغراض بیان کر دی جائیں جو اسلامی شریعت میں نکاح کی مقرر کی گئی ہیں۔ کیونکہ منجملہ اور اغراض کے ان اغراض کے توسیعی مصالح پر ہی تعدّد از دواج کا ایک حد تک دارومدار ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف سے نکاح کی اغراض چار معلوم ہوتی ہیں۔ اوّل انسان کا بعض جسمانی اور اخلاقی اور روحانی بیماریوں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ ہو جانا۔ اس صورت کو عربی میں احصان کہتے ہیں جس کے لفطی معنے کسی قلعہ کے اندر محفوظ ہو جانے کے ہیں۔ دومؔ بقائے نسل ، سوم حصولِ رفیق حیات اور سکینتِ قلب ، چہارم محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع ، چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱؎
’’ اور اے مسلمانو! جائز کی جاتی ہیں تمہارے لیے تمام عورتیں سوائے ان عورتوں کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ کہ تم ان کے مہر مقرر کر کے ان کے ساتھ نکاح کرو۔ مگر تمہارے نکاح کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ تم بیماریوں اور بدیوں سے محفوظ ہو جاؤ اور یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ تم شہوت کے طریق پر عیش و عشرت میں پڑو۔‘‘
اس آیت میں احصان والی غرض بیان کی گئی ہے یعنی (الف) یہ کہ نکاح کے ذریعہ انسان بعض ان خاص قسم کی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بچ جاوے جو تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں اور (ب) یہ کہ وہ بعض روحانی اور اخلاقی بیماریوں سے محفوط ہو جاوے ، لیکن ناپاک خیالات اور ناپاک تعلقات میں مبتلا نہ ہو۔ اسی غرض و غایت کو ایک دوسری آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:-
۔۲؎
’’ اے مسلمان مردو ! یاد رکھو کہ تمہاری عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم اپنی عورتوں کا لباس ہو۔‘‘
یعنی تم ایک دوسرے کو بدیوں اور بیماریوں سے محفوظ کرنے کا ذریعہ ہو جیسا کہ لباس انسان کے لیے سردی اور گرمی کی تکلیف سے بچنے کاذریعہ ہوتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ عورتوں کو بھی شامل کرنا تھا اس لیے طریقِ بیان زیادہ لطیف کر دیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا بھی ذریعہ ہیں جیسا کہ لباس بھی پردہ پوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
پھر فرماتا ہے:
۳؎
یعنی ’’ اے مسلمانو! تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں جن سے تمہاری آئندہ نسل کی فصل نے پیدا ہونا ہے۔ پس اب تمہیں اختیار ہے کہ جس طرح چاہو اپنی کھیتیوں کے ساتھ معاملہ کرو اور جس قسم کی فصل اپنے لیے پیدا کرنا چاہو پیدا کر لو۔‘‘
اس آیت میں بقائے نسل کی غرض بیان کی گئی ہے یعنی یہ کہ انسانی نسل کا سلسلہ قائم رہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرا یہ میں یہ اشارہ بھی کر دیا ہے کہ جب بیویوں کے ذریعہ آئندہ نسل کا وجود قائم ہونا ہے تو پھر انسان کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات رکھنے میں ایسا طریق اختیار کرے کہ جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل خراب نہ ہو بلکہ بہتر سے بہتر نسل پیدا ہو۔
پھر فرماتا ہے:
۱؎
یعنی ’’ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری جنس میں سے ہی تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان کے تعلق میں سکینتِ قلب حاصل کرو اور پھر اس تعلق کو خدا نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘
اس آیت میں نکاح کی تیسری اور چوتھی اغراض بیان کی گئی ہیں۔ یعنی یہ کہ خاوند کو بیوی میں اور بیوی کو خاوند میں رفیقِ حیات میسر آجاوے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے تعلق میں تسکین قلب پائیں اور دوسرے یہ کہ نکاح کے ذریعہ سے خاوند اور بیوی کے متعلقین کے درمیان رشتہ وِداد و اتحاد قائم ہو جاوے اور نسلی رشتہ داری کے تعلق کے علاوہ رحمی تعلق کے ذریعہ بھی مختلف خاندانوں اور مختلف قوموں کے درمیان محبت اور رحمت کی زنجیر سے منسلک ہو جانے کے موقعے میسر رہیں۔
الغرض اسلامی شریعت میں نکاح کی چار اغراض بیان کی گئی ہیں۔ اوّلؔ احصان یعنی بعض جسمانی اور روحانی بیماریوں اور ان کے نتائج سے محفوظ ہو جانا۔ دومؔ بقاء نسل ، سومؔ رفاقتِ حیات اور تسکین قلب، چہارمؔ مختلف خاندانوں یا مختلف قوموں کا آپس میں محبت اور رحمت کے رشتہ کے ذریعہ سے مل جانا اور اگر غور کیا جاوے تو یہ ساری اغراض نہ صرف بالکل جائز اور مناسب ہیں بلکہ نہایت درجہ پاکیزہ اور فطرتِ انسانی اور ضروریاتِ بنی نوع انسان کے عین مطابق ہیں اور ان سے خاوند بیوی کے تعلق کو ایک بہترین بنیاد پر قائم کر دیا گیا ہے اور اس تعلق سے بہترین ثمرہ پیدا کرنے کی صورت نکالی گئی ہے اور ان اغراض کے مقابلہ میں جس غرض کو قرآن شریف نے نام لے کر ناجائز قرار دیا اور اس سے مسلمانوں کو روکا ہے وہ تعیّش اور شہوت رانی کی غرض ہے۔
اب ہم وہ اغراض بیان کرتے ہیں جو تعدّد از دواج کی اجازت میں اسلام نے مدّ نظر رکھی ہیں۔ سواسلامی شریعت کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اغراض دو قسم کی ہیں۔ اوّلؔ وہی عام اغراض جو نکاح میں اسلام کے مدِّ نظر ہیں اور جو اوپر بیان کی جاچکی ہیں۔ دومؔ وہ خاص اغراض جو مخصوص طور پر تعدّد ازدواج کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مقدم الذکر اغراض کو تعدّد ازدواج کے معاملہ میں اس لیے بحال رکھا گیا ہے کہ بعض اوقات ایک بیوی سے نکاح کی غرض پورے طور پر حاصل نہیں ہوتی اور اس لیے اسی غرض کے ماتحت دوسری بیوی کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً نکاح کی ایک غرض احصان ہے یعنی یہ کہ اس ذریعہ سے انسان بعض بیماریوں اور بدیوں اور بدکاریوں سے بچ جاوے لیکن ہو سکتا ہے کہ انسان کے حالات ایسے ہوں کہ وہ ایک ہی عورت کے تعلق سے جس پر حیض اور حمل اور وضع حمل اور رضاعت اور پھر مختلف قسم کی بیماریوں وغیرہ کی حالتیں آتی رہتی ہیں اپنے تقویٰ اور طہارت کو قائم نہ رکھ سکتا ہو۔ اور اگر وہ غیر معمولی کوشش کے ساتھ اپنے آپ کو عملی بدی سے بچائے بھی رکھے تو کم از کم اس کے خیالات میں ناپاکی کا عنصر غالب رہتا ہو اور یا اس طرح رکے رہنے سے اسے کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کا صحیح علاج سوائے تعدّد از دواج کے اور کوئی نہیں۔ یعنی وہی غرض جو ایک نکاح کی محرّک تھی اس صورت میں اس کے لیے دوسرے نکاح کی محرک ہو جائے گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض بقائے نسل ہے، لیکن اگر کسی شخص کے ہاں ایک بیوی سے کوئی اولاد نہ ہو یا نرینہ اولاد نہ ہو تو یہی غرض دوسرے نکاح کی جائز بنیادبن جائے گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض رفاقتِ حیات اور تسکینِ قلب ہے، لیکن اگر کسی کی بیوی دائم المریض ہو اور اس کا مرض اس حالت کو پہنچا ہوا ہو کہ وہ بالکل صاحبِ فراش رہتی ہو یا وہ مجنون ہو جاوے تو اس صورت میں ایسے شخص کو رفاقتِ حیات اور تسکینِ قلب کی غرض کو پورا کرنے کے لیے دوسری بیوی کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض مختلف خاندانوں کا آپس میں ملنا اور ایک دوسرے کے لیے محبت و رحمت کے موقعے پیدا کرنا ہے، لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے ابتدائً کسی ایسے خاندان میں شادی کی ہو جہاں اس کے لیے اس رشتہ محبت کا قائم ہونا ضروری تھا، مگر اس کے بعد اس کے لئے اس سے بھی زیادہ ضروری اور اہم موقعے پیش آجائیں جہاں اس کا تعلق قائم ہونا خاندانی یا قومی یا ملکی یا سیاسی یا دینی مصالح کے ماتحت نہایت ضروری اور پسندیدہ ہو تو اس صورت میں اس کے لیے تعدّد ازدواج پر عمل کرنا ضروری ہو جائے گا۔ الغرض وہ ساری اغراض جو اسلام نے نکاح کے متعلق بیان کی ہیں وہی خاص حالات میں تعدّد ازدواج کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں اور مندرجہ بالا صورتیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں ؛ ورنہ اور بعض صورتیں بھی پیدا ہو سکتی ہیں کہ جب نکاح کی غرض ایک بیوی سے پورے طور پر یا احسن صورت میں حاصل نہیں ہوتی اور دوسری بیوی کی جائز طور پر ضرورت پیش آجاتی ہے ، لیکن ان اغراض کے علاوہ اسلام نے تعدّد ازدواج کی بعض خاص وجوہات بھی بیان کی ہیں وہ تین ہیں۔ اوّلؔ حفاظتِ یتامیٰ ، دوم ؔ انتظام بیوگان ، سومؔ تکثیرِ نسل۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
اور ’’ اے مسلمانو! (ان جنگوں میں جو تمہیں در پیش ہیں لازماً یتامیٰ کی کثرت ہو گی اور تمہیں ان یتامیٰ کی حفاظت کے لیے تعدّدِ ازدواج کی ضرورت پیش آئیگی۔ پس) اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ (ایک بیوی تک محدود رہتے ہوئے) تم یتامیٰ کی حفاظت اور ان کے حقوق کی خاطرخواہ ادائیگی سے قاصر رہو گے تو پھر اپنی پسند کے مطابق زیادہ عورتوں سے شادیاں کرو۔ دو دو کے ساتھ ، تین تین کے ساتھ اور چار چار کے ساتھ (مگر اس سے زیادہ نہیں کیونکہ خدا کی نظر میں یہ حد تمہاری استثنائی ضروریات کے لیے کافی ہے، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ اپنی مالی یا جسمانی یا انتظامی کمزوری کی وجہ سے یا طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے) تم ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی کر کے ان کے ساتھ عدل نہیں کر سکو گے تو پھر تمہیں لازماً ایک ہی بیوی سے شادی کرنی چاہئے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں تعدّد ازدواج کے حکم کو یتامیٰ کے ذکر کے ساتھ ملا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دراصل یتامیٰ کی کثرت بھی تعدّدِ ازدواج کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے اور چونکہ یتامیٰ کی کثرت ایک طرف تو بیوگان کی کثرت کو چاہتی ہے اور دوسری طرف وہ آئندہ کے لیے نسل کی قلّت کا اندیشہ پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی یہ تینوں حالتیں جنگ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ اس لیے گویا اس آیت میں ہی خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرایہ میں تعدّدِ ازدواج کی ساری زائد اغراض کو جمع کر دیا ہے۔ یعنی حفاظتِ یتامیٰ، انتظامِ بیوگان اور علاجِ قلّتِ نسل اور پھر مزید تشریح و توضیح کے لیے ان کا علیحدہ علیحدہ ذکر بھی کیا ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:-
۲؎
یعنی ’’ اے مسلمانو! (اب جب ہم نے تمہارے لیے تعدّد ازدواج کا استثنائی علاج تجویز کر دیا ہے تو) اب تمہیں ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ حتّی الوسع کوئی غیر شادی شدہ عورت خواہ وہ کنواری ہو یا بیوہ ہو بغیر شادی کے نہ رہے۔‘‘
اس آیت میں غیر شادی شدہ عورتوں خصوصاً بیوگان کی شادی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ۔ ؎۱
یعنی ’’ معقل بن یسار روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ تمہیں چاہئے کہ محبت کرنے والی زیادہ بچے دینے والی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیا کرو، تاکہ تمہاری تعداد ترقی کرے اور میں قیامت کے دن اپنی امت کی زیادتی پر فخر کر سکوں۔‘‘
اس حدیث میں تکثیر نسل والی غرض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس طرح یہ کل سات اغراض ہوتی ہیں جو اسلام نے تعدد از دواج کے متعلق بیان کی ہیں۔ یعنی جسمانیؔ اور روحانی بیماریوں سے حفاظت ، بقائےؔ نسل ، رفاقتِؔ قلب ، محبتؔ و رحمت کے تعلقات کی توسیع ، انتظامِ یتامیٰ ، انتظامِ بیوگان اور ترقی نسل ۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اغراض کو حاصل کس طرح کیا جاوے۔ یعنی کس اصل کے ماتحت بیوی کا انتخاب کیا جاوے کہ یہ اغراض احسن صورت میں حاصل ہو سکیں۔ سو اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
تُنْکَحْ الْمَراْۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَاوَلِحَسَبِھَاوَلِجَمَالِھَاوَلِدِ یْنِھَا فَاظْفِرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ۔ ؎۲
یعنی ’’ نکاح میں عورت کا انتخاب چار قسم کے خیالات کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ عورت کی مالی حالت کی بناء پر بیوی کا انتخاب کرتے ہیں بعض کو حسب و نسب کا خیال ہوتا ہے۔ بعض خوبصورتی اور حُسن دیکھتے ہیں اور بعض لوگ عورت کی اخلاقی اور دینی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہیں، لیکن اے مسلمانو! تمہیں چاہئے کہ تم ہمیشہ دینی پہلو کو ترجیح دیا کرو۔ یہی تمہاری کامیابی کا طریق اور یہی دین و دنیا کی خرابی سے بچنے کا طریق ہے۔‘‘
اس حدیث میں نکاح کی اغراض کے حصول کے لیے بیوی کے انتخاب کا اصول بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دینی پہلو کو ترجیح دی جاوے اور دین سے صرف عورت کی ذاتی دینی یا اخلاقی حالت مراد نہیں ہے اور نہ دین کا لفظ عربی زبان میں محض مذہب اور عقیدہ کے معنوں میں آتا ہے بلکہ جیسا کہ عربی کی مشہور لغت اقرب الموارد میں تشریح کی گئی ہے دین کا لفظ عربی زبان میں مندرجہ ذیل معانی کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اوّلؔ اخلاق و عادات ، دومؔ رُوحانی پاکیزگی اور طہارت ، سومؔ مذہب ، چہارمؔ قوم و ملّت ، پنجم سیاست و حکومت۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ عورت کے انتخاب میں دینی پہلو کو ترجیح دی جاوے اس میں جہاں یہ مراد ہے کہ بیوی ایسی ہونی چاہئے جو ذاتی طور پر اخلاق و عادات اور تقویٰ و طہارت اور مذہب و عقیدہ میں اچھی ہو تاکہ خاوند اور بیوی کے تعلقات بھی اچھے رہیں اور آئندہ اولاد پر بھی اچھا اثر پڑے ، وہاں یہ بھی مراد ہے کہ بیوی کے انتخاب میں وہ عام دینی پہلو بھی جو مصالحِ مذہب اور مصالحِ قوم و ملّت اور مصالحِ سیاست و حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مدِّنظر رہنے چاہئیں اور اگر اس جگہ کسی کو یہ شبہ گذرے کہ گو لغوی طور پر یہ سب معانی درست ہوں مگر یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ایک ہی لفظ میں ایک ہی وقت میں اتنے معانی مراد ہوں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مُقَنِّن نبی تھے۔ آپؐ کا کلام قانونی کلام کا رنگ رکھتا تھا جو ہمیشہ جامع المعانی اور وسیع المفہوم ہوتا ہے اور اس کے ایک ایک لفظ میں کئی کئی پہلو مدِّ نظر ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں ہمیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کے معنے کرنے چاہئیں اور بہرحال جب لغوی طور پر یہ معانی درست ہیں تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔
خلاصہء کلام یہ کہ اسلام نے نکاح کی اغراض چار اور تعدّدِ ازدواج کی اغراض سات بیان کی ہیں اور ان اغراض کے بہترین حصول کے لیے بیوی کے انتخاب کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ اس میں عورت کی ذاتی خوبی کے علاوہ مصالحِ مذہب اور مصالحِ قوم و ملّت اور مصالحِ سیاست و حکومت کو ترجیح دینی چاہئے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نکاح کے معاملہ میں اور خوبیوں کو نہ دیکھا جاوے کیونکہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ نے مسلمانوں کو عورت کی دوسری خوبیوں کے مدّ نظر رکھنے کی بھی اجازت دی ہے بلکہ بعض اوقات خود اس کی تحریک فرمائی ہے کہ دوسری باتوں کو بھی دیکھ لیا کرو۔ چنانچہ باوجود پردہ کے احکام کے آپؐ یہ تحریک فرماتے تھے کہ نکاح سے پہلے مرد کو چاہئے کہ عورت کو خود دیکھ لے۔ ؎۱ تاکہ بعد میں شکل و صورت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے اس کی طبیعت میں کسی قسم کا تکدّر نہ پیدا ہو۔ اسی طرح مناسب حد تک مالی حالت کے مدِّ نظر رکھنے کی بھی تحریک کی گئی ہے۔۱؎ اسی طرح ایک حد تک عمر اور طبیعت کی مناسبت کو بھی ملحوظ رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ۲؎ اور یہی اصول دوسرے حالات میں چسپاں ہوتا ہے مگر جس بات کی اسلام ہدایت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ان باتوں کو دینی پہلو کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ کیونکہ اگر دینی پہلو کی خوبیاں موجود نہ ہوں تو محض یہ خوبیاں حقیقی اور دائمی خوشی کی بنیاد نہیں بن سکتیں بلکہ بعض صورتوں میں مُضر اور نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
اب ایک طرف تعدّدِ ازدواج کی اغراض اور دوسری طرف اس اصول کو جو بیویوں کے انتخاب کے لیے اسلام نے تجویز کیا ہے، مدِّ نظر رکھا جاوے تو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بابرکت انتظام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور اس میں بنی نوع انسان کے بڑے سے بڑے حصہ کی بڑی سے بڑی بھلائی مدِّ نظر ہے۔ دراصل جن لوگوں نے تعدّد ازدواج کے خلاف رائے ظاہر کی ہے انہوں نے اپنی نظر کو بہت ہی محدود رکھا ہے اور خاوند وبیوی کے جذباتی تعلقات کے سوا کسی اور بات کی طرف ان کی نظر نہیں اٹھی اور نہ ان لوگوں نے کبھی ٹھنڈے دل سے نکاح کی اغراض اور بنی نوع انسان کی ضروریات کے متعلق غور کیا ہے؛ ورنہ یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کی خوبیوں سے انکار کی گنجائش پاتا۔ پھر یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ تعدّد از دواج کا انتظام اسلام میں قاعدہ کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک استثناء ہے جو نکاح کی جائز اغراض کے حصول اور نسل انسانی کی جائز ضروریات کے پورا کرنے کے لیے خاص خاص قسم کے حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جاری کی گئی ہے۔ پس اس کے متعلق رائے لگاتے ہوئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا دُنیا میں انسان کو ایسے حالات پیش نہیں آسکتے کہ جن کے ماتحت تعدّدِ ازدواج ایک ضروری علاج قرار پاتا ہے اور انسان کی ذات یا اس کے خاندان یا اس کی قوم یا اس کے ملک کے مفاد اس بات کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسری بیوی سے شادی کرے۔ مجھے شہنشاہ نپولین کی زندگی کا وہ واقعہ نہیں بھولتا کہ جب اس نے اپنے ملکی مفاد کے ماتحت حصولِ اولاد کی غرض سے دوسری بیوی کی ضرورت محسوس کی۔ مگر یہ ضرورت کس طرح پوری کی گئی؟ اس کے تصور سے میرے بدن پر ایک لرزہ آجاتا ہے۔ شہنشاہ کی ملکہ جوزفین کی طلاق کا واقعہ تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں سے ہے اور اس کی تہہ میں یہی جھوٹا جذباتی خیال ہے کہ انسان کو کسی صورت میں بھی ایک سے زیادہ بیوی نہیں کرنی چاہئے۔ افسوس! اس جھوٹے جذباتی خیال نے کئی کمزور لوگوں کے تقویٰ پر ڈاکہ ڈالا۔ کئی خاندانوں کو بے نسل کر کے دنیا سے مٹا دیا۔ کئی گھروں کی خوشیوں کو تباہ کیا۔ کئی گھرانوں اور کئی قوموں اور کئی ملکوں کے اتحاد کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کئی یتیموں کو آوارہ کیا۔ کئی بیوگان کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑا۔ کئی قوموں کی نسل کو تنزّل کے رستے پر ڈال کر ان کی تباہی کا بیج بویا اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ عورت ہر صورت میں اپنے خاوند کی توجہ کی اکیلی مالک بنی رہے! مگر یہ ایک عجیب قربانی ہے کہ بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان کیا جاتا ہے؛ حالانکہ حق یہ تھا کہ اخلاقی فوائد پر مادی فوائد قربان کئے جاتے۔ دینی منافع پر دنیاوی منافع قربان کئے جاتے۔ خاندانی مصالح پر ذاتی مصالح قربان کئے جاتے۔ قومی مفاد پر انفرادی مفاد قربان کیے جاتے اور درحقیقت تعدّدِ ازدواج کا تو انتظام ہی ایک مجسم قربانی کا انتظام ہے اور اس میں خاوند اور بیوی دونوں کی ذاتی اور جسمانی قربانی ذریعہ اخلاق اور دینی اور خاندانی اور قومی اور ملکی مصالح کے لیے راستہ کھولا گیاہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں تعدّد ازدواج کا انتظام ایک استثنائی انتظام ہے جو انسانوں کی خاص ضروریات کو مدِّ نظر رکھ کر جاری کیا گیا ہے اور یہ ایک قربانی ہے جو مرد اور عورت دونوں کو اپنے اخلاق اور دین اور خاندان اور قوم اور ملک کے لیے خاص حالات میں کرنی پڑتی ہے اور اسلام ہر شخص سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس قسم کے حالات کے پیدا ہونے پر جو تعدّد ازدواج کے لیے ضروری ہیں اپنی خواہش اور اپنے جسمانی آرام کو زیادہ بڑے مفاد کے لیے قربانی کر دینے میں تامل نہیں کریگا اور موقع پیش آنے پر یہ ثابت کردے گا کہ اس کی زندگی صرف اس کی ذات یا اس کے گھر تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ دنیا کی وسیع انسانیت کا ایک فرد ہے جس کی خاطر اسے اپنے شخصی مفاد کے قربان کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تعدّد از دواج کی جائز ضرورت کے پیدا ہونے پر بھی اسلام نے تعدّدِ ازدواج کو لازمی نہیں قرار دیا۔ بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسے اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان عدل کرنے کے قابل ہو تو تب تعدّدِ ازدواج پر عمل کرے؛ ورنہ بہرحال صرف ایک بیوی پر ہی اکتفاء کرے اور عدل سے اس جگہ صرف بیویوں کے درمیان عدل کرنا مراد نہیں بلکہ ان کے ہر قسم کے حقوق کا ادا کرنا مراد ہے جو تعدّدِ ازدواج کی صورت میں انسان پر عائد ہوتے ہیں۔ پس تعدّد از دواج کی دو شرطیں ہوئیں۔ اوّل ان جائز اغراض میں سے کسی غرض کا پیدا ہو جانا جو اسلام نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ دومؔ انسان کا عدل کر سکنے کے قابل ہونا اور ان دونوں شرطوں کے پورا ہونے کے بغیر تعدّدِ ازدواج پر عمل کرنے والا شخص اپنے وقت، اپنی توجہ، اپنے مال، اپنے ظاہری سلوک غرضیکہ دل کی محبت کے سوا جس پر انسان کو اختیارا نہیں ہوتاباقی سب چیزوں میں اپنی بیویوں کے ساتھ بلا کم و کاست ایک سا معاملہ کرے۔ ؎۱ اور غور کیا جاوے تو یہ پابندی خود ایک عظیم الشان قربانی ہے جو خاوند کو کرنی پڑتی ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسے اپنی بیویوں میں سے ان کے ذاتی حالات اور ذاتی قابلیت کے فرق کی وجہ سے کسی سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور کسی سے کم ۔ مگر پھر بھی وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی ہر چیز کو ترازو کی طرح تول کر اپنی بیویوں میں برابر برابر تقسیم کرے اور یہ قربانی صرف خاوند ہی کی قربانی نہیں بلکہ اس قربانی میں اس کی بیویاں بھی برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ہر عقلمند شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے تعدِّد ازدواج کے معاملہ میں تعیش کے خیال تک سے منع فرمایا ہے بلکہ اس نے اس کے لیے عملی طور پر شرطیں بھی ایسی لگادی ہیں کہ کوئی شخص ان شرطوں پر کاربند ہوتا ہوا عیش و عشرت میں پڑہی نہیں سکتا۔
اس موقع پر یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں بلکہ دنیا کی کسی قوم میں بھی تعدِّد ازدواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی اور ہر شخص جتنی بیویاں بھی چاہتا تھا رکھ سکتا تھا۔ مگر اسلام نے علاوہ دوسری شرائط عائد کرنے کے تعداد کے لحاظ سے بھی اسے زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دیا؛ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن نو مسلموں کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں انہیں یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ باقیوں کو طلاق دیدیں۔ مثلاً غیلان بن سلمہ سقفی جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں ۔ جن میں سے چھ کو حکماً طلاق دلوادی گئی۔ ۲؎
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں میں کون سی اغراض مدِّ نظر تھیں کیونکہ ہمارا اصل مضمون یہی ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ عام اغراض تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں میں وہی تھیں جو اسلام نے عام طور پر نکاح اور تعدّدِ ازدواج کی بیان کی ہیں اور جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے اور ان اغراض میں سے خصوصیت کے ساتھ آپؐ کے مدِّنظر بقائے نسل محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع اور انتظام یتامیٰ و بیوگان کی غرضیں تھیں اور محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع کی غرض کے ماتحت آپ کے پیشِ نظر ایسی عورتیں تھیں جو مصالح قوم و ملت اور مصالح سیاست و حکومت کے لحاظ سے زیادہ مناسب تھیں، لیکن ان عام اغراض کے علاوہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخصوص حالات کے ماتحت آپؐ کی شادیوں کی بعض خاص وجوہات بھی تھیں اور یہ اغراض دو۲ تھیں۔ اوّلؔ آپؐ کے ذاتی نمونہ سے بعض جاہلانہ رسوم اور غلط عقائد کی عملی تردید۔ دومؔ بعض مناسب عورتوں کو آپؐ کی تربیت میں رکھ کر ان کے ذریعہ اسلامی شریعت کے اس حصہ کا استحکام جو مستورات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
۱؎
یعنی ’’ اے رسول! جب تیرے مُنہ بنائے بیٹے زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب کو طلاق دیدی تو ہم نے اس کی شادی کی تجویز خود تیرے ساتھ کر دی تاکہ اس ذریعہ سے یہ جاہلانہ رسم مِٹ جاوے کہ مُنہ بُلایا بیٹا اصل بیٹے کی طرح ہو جاتا ہے اور اس کی مطلقہ بیوی یا بیوہ بیٹا بنانے والے شخص کے لیے جائز نہیں ہوتی اور آئندہ کے لیے مومنوں کے دلوں میں اس امر کے متعلق کوئی دبدہ یا خلش باقی نہ رہے۔‘‘
اس آیت میں پہلی غرض بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عملی نمونہ کے ذریعہ سے بعض ان جاہلانہ رسوم کا استیصال کیا جاوے جو عربوں کی طبیعت میں اس قدر راسخ ہو چکی تھیں کہ ان کا حقیقی استیصال بغیر اس کے ناممکن تھا کہ آپ اس معاملہ میں خود ایک عملی نمونہ قائم کریں؛ چنانچہ متبنّٰی بنانے کی رسم عرب میں بہت راسخ اور رائج تھی اور اس معاملہ میں الٰہی حکم نازل ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا، اس لیے جب یہ حکم نازل ہوا کہ کسی شخص کو محض منہ بولا بیٹا بنالینے سے وہ اصل بیٹا نہیں ہو جاتا اور اس کے بعد یہ واقع پیش آگیا کہ زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو طلاق دیدی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائی حکم کے ماتحت زینب کے ساتھ خود شادی فرمائی اور اس طرح اس جاہلانہ رسم کا استیصال کیا جو آپؐ کے عملی نمونہ کے بغیر پوری طرح مِٹنی محال تھی۔ علاوہ ازیں آپؐ نے زینب کے ساتھ شادی کر کے اس بات میں بھی عملی نمونہ قائم فرمایا کہ کسی طلاق شدہ عورت کے ساتھ شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
پھر فرماتا ہے:
۱؎ … ۲ ؎
یعنی ’’ اے نبی! تم اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ دنیا کی زندگی کا سازوسامان تمہیں مل جاوے تو آؤ میں تمہیں دنیا کا مال و متاع دیئے دیتا ہوں، مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں بلکہ پھر میں احسان و مروت کے ساتھ تمہیں رخصت کر دوں گا۔ لیکن اگر تم خدا اور اس کے رسول کی خواہش رکھتی ہواور آخرت کا اجر چاہتی ہو تو سُن لو کہ تم میں سے ان نیکو کاروں کے لیے جو خدا کے منشاء کو پورا کریں خدا نے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے …… اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور نماز کو اس کی اصلی صورت میں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور خدا اور اس کے رسول کی پوری پوری اطاعت کرو (کیونکہ خدا نے تمہیں ایک خاص کام کے لیے چُنا ہے) اے نبی کے اہلِ بیت! اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی کمزوریوں اور نقصوں کو دُور کر کے تمہیں خوب اچھی طرح پاک و صاف کر دے تاکہ تم ان آیاتِ الٰہی اور ان حکمت کی باتوں کو لوگوں تک پہنچاؤ جو نبی کے ذریعہ سے تمہارے گھروں میں سُنائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے یہ کام اس لیے لینا چاہتا ہے کہ وہ اگر بوجہ لطیف ہونے کے خود لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہے تو بوجہ خبیر ہونے کے وہ لوگوں کی ضروریات سے آگاہ بھی ہے۔ پس ضروری ہے کہ وہ ہدایتِ خلق کا کام انسانوں کے واسطے سے سرانجام دے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعدّد ازدواج کی مخصوص غرض میں سے دوسری اور بڑی غرض بتائی گئی ہے یعنی یہ کہ آپؐ کے ساتھ مناسب مستورات کو بطور بیویوں کے رکھ کر انہیں مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تیار کیا جاوے۔ یہ وہ خاص الخاص غرض ہے جس کے ماتحت آپؐ کی شادیاں وقوع میں آئیں اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی غرض ہے جو آپؐ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھی اور اسی لیے عام مسلمانوں کے لیے جو حد بندی تعدّدِ ازدواج کی مقرر کی گئی ہے اس سے آپ مستثنیٰ تھے۔ دراصل چونکہ آپ ایک شرعی نبی تھے اور آپؐ کے ذریعہ سے دنیا میں ایک نئے شرعی قانون اور نئے تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑنی تھی اس لیے صرف اس قدر کافی نہیں تھا کہ آپؐ کے ذریعہ نئے احکام کی اشاعت ہو جاتی بلکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ آپ خود اپنی نگرانی میں اس نئی شریعت کو تفصیلاً جاری فرماتے اور لوکوں کی زندگیوں کو اس جدید داغ بیل پر عملاً چلا دیتے جو اسلام نے قائم کی تھی۔ یہ کام ایک نہایت مشکل اور نازک کام تھا اور گو مردوں کے معاملہ میں بھی آپ کے رستے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن مستورات کے متعلق تو یہ ایک نہایت ہی مشکل کام تھا کیونکہ اوّل تو بوجہ ان کے عموماً اپنے گھروں میں رہنے اور اپنے خانگی مشاغل کی مصروفیت کے انہیں آپؐ کی صحبت سے مستفیض ہونے کے زیادہ موقعے نہیں تھے۔ دوسرے اس طبعی حیاء کی وجہ سے جو عورتوں میں ہوتی ہے وہ ان مخصوص مسائل کو جو عورتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں زیادہ آزادی کے ساتھ آپؐ سے دریافت نہیں کر سکتی تھیں اور اس کے مقابلہ میں عورتوں میں تعلیم کی نسبتاً کمی اور جاہلانہ رسوم کی پابندی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مقررہ طریق میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کے لیے جلد تیار نہیں ہوتیں ان حالات میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق خاص انتظام کی ضرورت تھی اور اس کی بہترین صورت یہی تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مناسب عورتوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں اپنی تربیت میں اس کام کے قابل بنادیں اور پھر آپ کی یہ ازواج مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیں؛ چنانچہ یہ تجویز کارگر ہوئی اور مسلمان عورتوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اور نہایت قلیل عرصہ میں اپنی زندگیوں کو جدید شریعت کے مطابق بنالیا۔ حتّٰی کہ دنیاکی کسی قوم میں یہ مثال نظر نہیں آتی کہ طبقہ نسواں نے ایسے قلیل عرصہ میں اور اس درجہ تکمیل کے ساتھ ایک بالکل نئے قانون اور نئے تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیا ہو۔
اس بات کا ایک عملی ثبوت کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیاں نفسانی اغراض کے ماتحت نہیں تھیں بلکہ دینی اغراض کے ماتحت تھیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپؐ نے بعض ایسی عورتوں کے ساتھ شادی فرمائی جو اتنی عمر کو پہنچ چکی تھیں کہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ مثلاً حضرت ام سلمہ ؓ جن سے آپؐ نے ۴ ہجری میں شادی فرمائی۔ ان کی عمر شادی کے وقت پیدائش اولاد وغیرہ کی حد سے تجاوز کر چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس بناء پر عذر بھی کیا، مگر چونکہ آپؐ کی غرض و غایت دینی تھی اور اس غرض کے لیے وہ بہت مناسب تھیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کو باصرار رضا مند کر کے ان کے ساتھ شادی فرمالی۔ ؎۱
الغرض وہ اغراض جن کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیاں وقوع میں آئیں نہایت مبارک اور پاکیزہ تھیں اور ان میں غالب طور پر فرائضِ نبوت کی ادائیگی مدِّ نظر تھی اور شادیوں پر ہی موقوف نہیں بلکہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ آپؐ جو کام بھی کرتے تھے خواہ وہ بظاہر دنیا کا ہو یا دین کا اس میں بلا واسطہ یا بالواسطہ آپؐ کی مقدم اور غالب غرض فرائض نبوت کی ادائیگی ہوتی تھی اور دنیا کی نعمتوں سے آپؐ کو کبھی بھی شغف نہیں ہوا اور مندرجہ ذیل حدیث یقینا آپ کی زندگی کا بہترین نقشہ ہے:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم نَامَ علیٰ حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ اَثَرَ فِیْ جَسَدِہٖ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یَا رَسُوْلَ اﷲِ لَوْ اَمَرْ تَنَا اَنْ نَبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ فَقَالَ مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا وَمَااَنَا وَالدُّنْیَا اِلَّاْ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا۔ ۱؎
یعنی ’’ ابنِ مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک موٹی اور کھردری چٹائی پر لیٹ کر سوگئے جب آپؐ اُٹھے تو اس چٹائی کا نشان آپؐ کے جسم پر نظر آتا تھا۔ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ آپ پسند فرمائیں تو ہم آپّ کے لیے آرام و آسائش کا سامان مہیا کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا ابنِ مسعود! مجھے دنیا کی نعمتوں سے کیا کام ہے میری اور دنیا کی مثال تو یہ ہے کہ ایک سوار راستہ پر چلا جاتا ہو اور وہ تھوڑی دیر کے لیے کسی درخت کے سایہ کے نیچے دم لینے کے لیے ٹھہر جاوے اور پھر اُٹھ کر اپنا راستہ لے لے۔‘‘
اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ دُنیا کی نعمتوں سے متمتّع ہونا منع ہے کیونکہ اسلام کسی جائز نعمت سے جائز طور پر مُتمتّع ہونے سے منع نہیں کرتا بلکہ خود قران شریف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ:
۲؎
یعنی ’’ اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور آخرت کی نعمتوں سے بھی حصہ دے۔‘‘
پس حدیث مندرجہ بالا سے صرف مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا اصل مقصد دنیا کی نعمتوں کا حصول نہیں سمجھنا چاہئے اور نیز اس حدیث سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر دنیا کی نعمتوں سے قطعاً کوئی شغف نہیں تھا اور جہاں تک نعماء دنیا کا تعلق ہے آپ کی زندگی ایک محض مسافرانہ زندگی تھی۔
تعدّد ازدواج کے متعلق اس نوٹ میں یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہو گا کہ تعدّد ازدواج کی اجازت دینے میں اسلام اکیلا نہیں ہے بلکہ دُنیا کے اکثر مذاہب میں تعدّد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے مثلاً موسوی شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ ۱؎ اور بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء اس پر عملاً کاربند رہے ہیں۔ ۲؎ ہندوؤں کے مذہب میں تعدّدازدواج کی اجازت ہے۔ ۳؎ اور کئی ہندوبزرگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے رہے ہیں مثلاً کرشن جی تعدّدِ ازدواج پر عملاً کاربند تھے۔ ۴؎ اور ہندو راجے مہاراجے تو اب تک تعدّد ازدواج پر کار بند ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری کا بھی کوئی قول تعدّد ازدواج کے خلاف مروی نہیں ہے اور چونکہ شریعت موسوی میں اس کی اجازت تھی اور عملاً بھی حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں تعدّد ازدواج کا رواج تھا، اس لیے ان کی خاموشی سے یہی نتیجہ نکالا جائیگا کہ وہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ پس اسلام نے اس میں کوئی جدّت نہیں کی؛ البتہ اسلام نے یہ کیا کہ تعدّدِ ازدواج کی حد بندی کر دی اور اسے ایسے شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا کہ افراد اور اقوام کے استثنائی حالات کے لیے ایک مفید اور بابرکت نظام قائم ہو گیا۔
اس نوٹ کے خاتمہ پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو مخالفین کی طرف سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں پر بہت سخت سخت اعتراض کئے گئے ہیں اور ہر شخص نے اپنی فطرت اور اپنے خیالات کے مطابق آپؐ کے تعدّدِ ازدواج کے مسئلہ کو دیکھا ہے مگر پھر بھی صداقت کبھی کبھی مخالفین کے قلم و زبان پر بھی غالب آگئی ہے اور انہیں اگر کلی طور پر نہیں تو کم از کم جزواً حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا ہے؛ چنانچہ مسٹر مارگو لیس بھی جن کی آنکھ عموماً ہر سیدھی بات کو اُلٹا دیکھنے کی عادی ہے اس معاملہ میں حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی بہت سی شادیاں جو خدیجہ ؓ کے بعد وقوع میں آئیں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذبہ پر مبنی نہیں تھیں۔ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعہ سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں۔ ابو بکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقینا اسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں۔ اسی طرح سربرآوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں …… باقی شادیاں اس نیت سے تھیں کہ تا آپ کو اولاد نرینہ حاصل ہو جاوے جس کی آپؐ کو بہت آرزو رہتی تھی۔‘‘ ۱؎
یہ اس شخص کی رائے ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح نگاروں میں عناد اور تعصب کے لحاظ سے غالباً صفِ اوّل میں ہے اور گو مارگولیس صاحب کی یہ رائے غلطی سے بالکل پاک نہیں ہے۔ مگر اس سے یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ صداقت کس طرح ایک عنید دل کو بھی مغلوب کر سکتی ہے۔ والفضل ماشھدت بہ الاعدائ۔
دو فرضی واقعات
جنگِ بدر کے حالات کے بعد واقدیؔ اور بعض دُوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا کتب حدیث اور صحیح تاریخ روایات میں نشان نہیں
ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ دُرست ثابت نہیں ہوتے مگر چونکہ ان سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے بعض عیسائی مؤرخین نے حسبِ عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ فرضی واقعات یوں بیان کئے گئے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت عصماء نامی رہتی تھی جو اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اُگلتی رہتی تھی اور اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپؐ کے خلاف بہت اُکساتی تھی اور آپؐ کے قتل پر اُبھارتی تھی۔ آخر ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی نے اشتعال میں آکر رات کے وقت اس کے گھر میں جبکہ وہ سوئی ہوئی تھی اُسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اس کے فعل کی تعریف کی۔۲؎ دوسرا واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابو عفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐ کے خلاف جنگ کرنے اور آپؐ کو قتل کر دینے کے لیے اُبھارتا تھا۔ آخر ایک دن اُسے بھی ایک صحابی سالم بن عمیر نے غصّہ میں آکر رات کے وقت اُس کے گھر کے صحن میں قتل کر دیا۔ ۱؎ اور واقدی اور ابن ہشام نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کئے ہیں جو عصمأؔ اور ابو عفک نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف کہے تھے۔ ۲؎ ان دو واقعات کو سرولیم میور وغیرہ نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات دُرست ثابت ہی نہیں ہوتے۔ پہلی دلیل جو ان کی صِحت کے متعلق شبہ پیدا کرتی ہے یہ ہے کہ کتب احادیث میں ان واقعات کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام لے کر اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا۔ ۳؎ بلکہ حدیث تو الگ رہی بعض مؤرخین نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا؛ حالانکہ اگر اس قسم کے واقعات واقعی ہوئے ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ ان کے ذکر سے خالی ہوتیں۔ اس جگہ یہ شُبہ نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ ان واقعات سے بظاہر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کے خلاف ایک گونہ اعتراض دارد ہوتا تھا۔ اس لئے محدّثین اور بعض مؤرخین نے ان کا ذِکر ترک کر دیا ہو گا، کیونکہ اوّل تو یہ واقعات ان حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جن میں وہ وقوع پذیر ہوئے قابلِ اعتراض نہیں ہیں۔ دوسرے جو شخص حدیث و تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہو سکتی کہ مسلمان محدّثین اور مؤرخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بناء پر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانیٔ اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلّمہ طریق تھا کہ جس بات کو بھی وہ ازروئے روایت صحیح پاتے تھے اُسے نقل کرنے میں وہ اس کے مضمون کی وجہ سے قطعاً کوئی تأمل نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اُن میں سے بعض محدّثین اور اکثر مؤرخین کا تو یہ طریق تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کے متعلق جو بات بھی انہیں پہنچتی تھی خواہ وہ روایت و درایت دونوں لحاظ سے کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہو وہ اُسے دیانتداری کے ساتھ اپنے ذخیرہ میں جگہ دے دیتے تھے اور اس بات کا فیصلہ مجتہد علماء پر یا بعد میں آنے والے محققین پر چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اصول روایت و درایت کے مطابق صحیح و سقیم کا خود فیصلہ کر لیں اور ایسا کرنے میں اُن کی نیّت یہ ہوتی تھی کہ کوئی بات جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہوتی ہے خواہ وہ دُرست نظر آئے یا غلط وہ جمع ہونے سے نہ رہ جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں ہر قسم کے رطب و یابس کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ سب قابلِ قبول ہیں بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان میں سے کمزور کو مضبوط سے جُدا کر دیں۔ بہرحال اس بات میں ذرّہ بھر بھی گنجائش نہیں کہ کسی مسلمان محدّث یا مؤرخ نے کبھی کسی روایت کو محض اس بناء پر ردّ نہیں کیا کہ وہ بظاہر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا صحابہ ؓ کی شان کے خلاف ہے یا یہ کہ اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے۔ چنانچہ کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات جو عصمائؔ اور ابو عفک کے مزعومہ واقعات سے بالکل ملتے جلتے ہیں اور جن کا بیان آگے چل کر اپنے اپنے موقع پر آئے گا حدیث و تاریخ کی تمام کتابوں میں پوری پوری صراحت اور تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور کسی مسلمان راوی یا محدّث یا مؤرخ نے ان کے بیان کو ترک نہیں کیا۔ اندریں حالات عصمائؔ اور ابو عفکؔ یہودی کے قتل کا ذکرکسی حدیث میں نہ پایا جانا، بلکہ ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مؤرخین کا بھی اس کے متعلق خاموش ہونا اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصّے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حِصّہ بن گئے ہیں۔ پھر اگر ان قِصّوں کی تفصیلات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان کا بناوٹی ہونا اور بھی یقینی ہو جاتا ہے۔ مثلاً عصماؔء کے قصّہ میں ابنِ سعد وغیرہ کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں ابن دریدؔ کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی نہیں بلکہ غشمیر ۱؎ ہے۔ سہیلیؔ ان دونوں ناموں کو غلط قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ دراصل عصماؔء کو اس کے خاوند نے قتل کیا تھا۔ ۲؎ جس کا نام روایتوں میں یزید بن زید بیان ہوا ہے۔ ۳؎ اور پھر بعض روایتوں میں یہ آتا ہے کہ مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی بھی عصماؔء کا قاتل نہیں تھا بلکہ اس کا قاتل ایک نامعلوم الاسم شخص تھا جو اسی کی قوم میں سے تھا۔ ۴؎ مقتولہ کا نام ابنِ سعد وغیرہ نے عصماء بنت مروان بیان کیا ہے۔ لیکن علامہ عبدالبرکا یہ قول ہے کہ وہ عصماء بنت مروان نہیں تھی بلکہ دراصل عمیرؔ نے اپنی بہن بنت عدی کو قتل کیا تھا۔ ۵؎ قتل کا وقت ابنِ سعد نے رات کا درمیانی حِصّہ لکھا ہے لیکن زرقانی کی روایت سے دن یا زیادہ سے زیادہ رات کا ابتدائی حِصّہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مقتولہ اس وقت کھجوریں بیچ رہی تھی۔ ۱؎
دوسرا واقعہ ابو عفک کے قتل کا ہے اس میں ابنِ سعد اور واقدی وغیرہ نے قاتل کا نام سالم بن عمیر لکھا ہے لیکن بعض روایتوں میں اس کا نام سالم بن عمرو بیان ہوا ہے۔ ۲؎ اور ابن عقبہ نے سالم بن عبداﷲ بیان کیا ہے۔ ۳؎ اسی طرح ابو عفک مقتول کے متعلق ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا، لیکن واقدیؔ اسے یہودی نہیں لکھتا۔ ۴؎ پھر ابنِ سعدؔ اور واقدیؔ دونوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ سالمؔ نے خود جوش میں آکر ابوعفک کو قتل کر دیا تھا، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت سے قتل کیا گیا تھا۔ ۵؎ زمانہ قتل کے متعلق بھی ابن سعد اور واقدی اسے عصماء کے قتل کے بعد رکھتے ہیں، لیکن ابنِ اسحاق اور ابو الربیع اسے عصماء کے قتل سے پہلے بیان کرتے ہیں۔۶؎ یہ جملہ اختلافات اس بات کے متعلق قوی شبہ پیدا کرتے ہیں کہ یہ قصّے جعلی اور بناوٹی ہیں یا اگر ان میں کوئی حقیقت ہے تو وہ ایسی مستور ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا ہے اور کس نوعیت کی ہے۔
ایک اور دلیل ان واقعات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان دونوں قصّوں کا زمانہ وہ بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس وقت تک ابھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما نہیں ہوا تھا؛ چنانچہ تاریخ میں غزوہ بنی قینقاع کے متعلق یہ بات مسلّم طور پر بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ پہلی لڑائی تھی جو وقوع میں آئی اور یہ کہ بنو قینقاع وہ پہلے یہودی تھے جنہوں نے اسلام کی عداوت میں عملی کارروائی کی۔ ۷؎ پس یہ کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا کشت و خون ہو چکا تھا اور پھر اگر غزوہ بنوقینقاع سے قبل ایسے واقعات ہو چکے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ اس غزوہ کے بواعث وغیرہ کے بیان میں ان واقعات کا ذکر نہ آتا۔ کم از کم اتنا تو ضروری تھا کہ یہودی لوگ جو ان واقعات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ایک ظاہری رنگ اعتراض کا پیدا کر سکتے تھے کہ انہوں نے ان کے ساتھ عملی چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی ہے ان واقعات کے متعلق واویلا کرتے۔ مگر کسی تاریخ میں حتیّٰ کہ خود ان مؤرخین کی کتب میں بھی جنہوں نے یہ قصّے روایت کئے ہیں قطعاً یہ ذکر نہیں آتا کہ مدینہ کے یہود نے کبھی کوئی ایسا اعتراض کیا ہو اور اگر کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ شاید اُنہوں نے اعتراض اُٹھایا ہو مگر مسلمان مؤرخین نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتو یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کبھی کسی مسلمان محدّث یا مؤرخ نے مخالفین کے کسی اعتراض پر پَردہ نہیں ڈالا؛ چنانچہ مثلاً جب سریہ نخلہ والے قصّہ میں مشرکینِ مکّہ نے مسلمانوں کے خلاف اشہرِ حرم کی بے حرمتی کا الزام لگایا تو مسلمان مؤرخین نے کمال دیانت داری سے اُن کے اس اعتراض کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔ پس اگر اس موقع پر بھی یہود کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا ہوتا، تو تاریخ اس کے ذکر سے خالی نہ ہوتی۔ الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمنِ اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصّے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کے لیے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں۔ واﷲ اعلم۔
یہ تو وہ اصل حقیت ہے جو ان واقعات کی معلوم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اگر یہ واقعات دُرست بھی ہوں تو پھر بھی ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن کے ماتحت وہ وقوع پذیر ہوئے وہ قابلِ اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے۔ ان ایام میں جو نازک حالت مسلمانوں کی تھی اس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ ان کا حال بعینہٖ اس شخص کی طرح ہو رہا تھا جو ایک ایسی جگہ میں گھِر جاوے جس کے چاروں طرف دُور دُور تک خطرناک آگ شعلہ زن ہو اور اس کے لیے کوئی راستہ باہر نکلنے کا نہ ہو اور پھر اس کے پاس بھی وہ لوگ کھڑے ہوں جو اس کے جانی دشمن ہیں۔ مسلمانوں کی ایسی نازک حالت میں اگر کوئی شریر اور فتنہ پرداز شخص ان کے آقا اور سردار کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہہ کہہ کر لوگوں کو اس کے خلاف اکساتا اور اس کے قتل پر دشمنوں کو اُبھارتا تھا، تو اس زمانہ کے حالات کے ماتحت اس کا علاج سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جاتا اور پھر یہ قتل بھی مسلمانوں کی طرف سے انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا۔ جس حالت میں کہ معمولی قتل بھی قصاص کے قابل نہیں سمجھا جاتا؛ چنانچہ مسٹر مارگولیس جیسا شخص بھی جو عموماً ہر امر میں مخالفانہ پہلو لیتا ہے ان واقعات کی وجہ سے مُسلمانوں کو قابلِ ملامت نہیں قرار دیتا؛ چنانچہ مسٹرمارگولیس لکھتے ہیں:
’’چونکہ عصمائؔ نے اپنے اشعار میں اگر وہ اس کی طرف صحیح طور پر منسوب کئے گئے ہیں محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے قتل پر اُن کے دشمنوں کو عمدًا ابھارا تھا۔ اس لیے اس کا قتل خواہ اُسے دُنیا کے کسی معیار کے مطابق ہی جج کیا جاوے ایک بے بنیاد اور ظالمانہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اشتعال انگیزی کا وہ طریق جو ہجوکے اشعار کی صورت میں اختیار کیا گیا وہ عرب جیسے ملک میں دُوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتا تھا … اور یہ بات کہ صرف مجرموں کو ہی قتل کیا گیا عرب کے رائج الوقت دستور پر ایک بہت بڑی اصلاح تھی۔ کیونکہ عربوں میں اشتعال انگیز اشعار کی وجہ سے صرف افراد تک معاملہ محدود نہیں رہتا تھا بلکہ سالم کے سالم قبائل میں خطرناک جنگ کی آگ مشتعل ہو جایا کرتی تھی۔ اس کی جگہ اسلام میں یہ صحیح اصول قائم کیا گیا کہ جُرم کی سزا صرف مجرم کو ہونی چاہیئے نہ کہ اس کے عزیزو اقارب کو بھی۔ ‘‘ ۱؎
مسٹر مارگولیس کو اگر ان قتلوں کے متعلق کوئی اعتراض ہے، تو اس طریق کی وجہ سے ہے جو اختیار کیا گیا یعنی یہ کہ کیوں نہ ان کے جرم کا باقاعدہ اعلان کر کے انہیں باضابطہ طور پر قتل کی سزا دی گئی۔ سو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر ان واقعات کو دُرست بھی سمجھا جاوے تو وہ بعض مسلمانوں کے محض انفرادی فعل تھے جو ان سے سخت اشتعال کی حالت میں سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا حکم نہیں دیا تھا جیسا کہ ابنِ سعد کے بیان سے یقینی طور پر پایا جاتا ہے۔ ۲؎ دوسرے اگر بالفرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم ہی سمجھا جاوے تو پھر بھی یقینا اس زمانہ کے حالات ایسے تھے کہ اگر عصماء اور ابو عفک کے قتل کے متعلق باقاعدہ طور پر ضابطہ کا طریق اختیار کیا جاتا اور مقتولین کے متعلقین کو پیش از وقت اطلاع ہو جاتی کہ ہمارے آدمی قتل کئے جائیں گے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے تھے اور اس بات کا سخت اندیشہ تھا کہ یہ واقعات مسلمانوں اور یہودیوں اور نیز مسلمانوں اور مشرکین مدینہ کے درمیان ایک وسیع جنگ کی آگ مشتعل کر دیتے۔ تعجب ہے کہ مسٹر مارگولیس نے جہاں محض قتل کے فعل کو عرب کے مخصوص حالات کے ماتحت جائز قرار دیا ہے وہاں طریقۂ قتل کے متعلق ان کی نظر اس زمانہ کے مخصوص حالات تک کیوں نہیں پہنچی۔ اگر وہ اس پہلو میں بھی اس وقت کے حالات کو مدِّ نظر رکھتے تو غالباً انہیں یقین ہو جاتا کہ جو طریق اختیار کیا گیا وہی اس وقت کے حالات اور اَمنِ عامہ کے مفاد کے لیے مناسب اور ضروری تھا، لیکن اس کے متعلق زیادہ تفصیلی بحث ہم انشاء اﷲ کعب بن اشرف کے قتل کے بیان میں ہدیۂ ناظرین کریں گے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اوّل تو عصماء اور ابو عفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً دُرست ثابت ہی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض انہیں دُرست سمجھا بھی جاوے تو وہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابلِ اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے اور پھر یہ کہ جو بھی صورت ہو یہ واقعات قتل بہرحال بعض مسلمانوں کے انفرادی افعال تھے جو سخت اشتعال کی حالت میں اُن سے سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق حکم نہیں دیا تھا۔

قبائلِ نجداوریہود کے ساتھ جنگ کاآغاز
حضرت فاطمہؓ اورحفصہؓ کی شادی
بعض متفرق واقعات
غزوہ قرقرۃ الکدرشوال ۲ ہجری
یہ بتایا جاچکا ہے کہ ہجرت کے بعد قریش مکہ نے مختلف قبائل عرب کادورہ کرکے بہت سے قبائل کومسلمانوں کاجانی دشمن
بنادیا تھا۔ان قبائل میں طاقت اورجتھے کے لحاظ سے زیادہ اہم عرب کے وسطی علاقہ نجد کے رہنے والے دوقبیلے تھے۔جن کا نام بنوسلیم اوربنوغطفان تھا اورقریش مکہ نے ان دوقبائل کوخصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھ گانٹھ کرمسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا تھا۔چنانچہ سرولیم میور لکھتے ہیں کہ
’’قریش مکہ نے اب اپنی توجہ اس نجدی علاقہ کی طرف پھیری اوراس علاقہ کے قبائل کے ساتھ آگے سے بھی زیادہ گہرے تعلقات قائم کرلئے اوراس وقت کے بعد قبائل سلیم وغطفان محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت دشمن ہوگئے اوران کی اس دشمنی نے مسلمانوں کے خلاف عملی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ قریش کی اشتعال انگیزی اورابوسفیان کے عملی نمونہ کے نتیجہ میں انہوں نے مدینہ پرحملہ آور ہونے کی تجویز پختہ کرلی۔‘‘ ۱؎
چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدرسے واپس تشریف لائے توابھی آپؐکو مدینہ میں پہنچے ہوئے صرف چند دن ہی ہوئے تھے ۲؎ کہ آپؐکویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سلیم وغطفان کا ایک بڑالشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کی نیت سے قرقرۃ الکدرمیں جمع ہو رہا ہے۔ ۳؎ جنگ بدر کے اس قدر قریب اس اطلاع کا آنا یہ ظاہرکرتا ہے کہ جب قریش کا لشکر مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہونے کی نیت سے مکہ سے نکلا تھا تورئوساء قریش نے اسی وقت قبائل سلیم وغطفان کویہ پیغام بھیج دیا ہوگا کہ تم دوسری طرف سے مدینہ پرحملہ آور ہوجائو۔یایہ بھی ممکن ہے کہ جب ابوسفیان اپنے قافلہ کے ساتھ بچ کرنکل گیا ،تو اس نے کسی قاصد وغیرہ کے ذریعہ ان قبائل کومسلمانوں کے خلاف نکلنے کی تحریک کی ہو۔بہرحال ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے فارغ ہوکرمدینہ میں پہنچے ہی تھے کہ یہ وحشتناک اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سلیم وغطفان مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔یہ خبر سن کر آپ فوراًصحابہ کی ایک جمعیت کوساتھ لے کر پیش بندی کے طورپر نجد کی طرف روانہ ہوگئے،لیکن جب آپ کئی دن کاتکلیف دہ سفرطے کرکے موضع الکدر کے قرقرہ یعنی چٹیل میدان میں پہنچے تومعلوم ہوا کہ بنو سلیم اوربنوغطفان کے لوگ لشکر اسلام کی آمد آمد کی خبر پاکر پاس کی پہاڑیوں میں جاچھپے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں مسلمانوں کاایک دستہ روانہ فرمایا اورخود بطن وادی کی طرف بڑھے،مگر ان کا کچھ سراغ نہیں ملا۔ ۱؎ البتہ ان کے اونٹوں کاایک بڑا گلہ ایک وادی میں چرتا ہوا مل گیا ،جس پر قوانین جنگ کے ماتحت صحابہ نے قبضہ کرلیااور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کوواپس لوٹ آئے۔ان اونٹوں کاچرواہا ایک یسار نامی غلام تھا،جو اونٹوں کے ساتھ قید کرلیا گیا تھا۔اس شخص پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا اورگوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب عادت اسے بطور احسان کے آزاد کردیا۔ ۲؎ مگروہ مرتے دم تک آپ کی خدمت سے جدا نہیں ہوا۔ ۳؎
غزوہ سویق ذوالحجہ ۲ہجری
بدر کے نتیجہ میں جو ماتم مکہ میں بپا ہوا تھا اس کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔قریباً سارے رئوساء قریش قتل ہوچکے تھے اوراب مکہ کی ریاست ابوسفیان بن
حرب کے حصہ میں آئی تھی۔چنانچہ بدر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولین بدرکاانتقام نہ لے لے گا کبھی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے گا۔ ۴؎ اورنہ کبھی اپنے بالوں کوتیل لگائے گا۔ ۵؎ چنانچہ بدرکے دوتین ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں ابوسفیان دوسومسلح قریش کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکلا اورنجدی راستہ کی طرف سے ہوتا ہوا مدینہ کے پاس پہنچ گیا۔یہاں پہنچ کراس نے اپنے لشکر کوتومدینہ سے کچھ فاصلہ پرچھوڑا اور خود رات کی تاریکی کے پردہ میں چھپتا ہوایہودی قبیلہ بنونضیر کے رئیس حیی بن اخطب کے مکان پر پہنچا اوراس سے امداد چاہی ،مگرچونکہ اس کے دل میں اپنے عہدوپیمان کی کچھ یاد باقی تھی اس نے انکار کیا۔پھرابو سفیان اسی طرح چھپتا ہوابنونضیر کے دوسرے رئیس سلام بن مشکم کے مکان پر گیا اوراس سے مسلمانوں کے خلاف اعانت کاطلب گار ہوا۔اس بدبخت نے کمال جرأت کے ساتھ سارے عہدوپیمان کوبالائے طاق رکھ کر ابوسفیان کی بڑی آئو بھگت کی اوراسے اپنے پاس رات کو مہمان رکھا اور اس سے مسلمانوں کے حالات کے متعلق مخبری کی۔ ۱؎ صبح ہونے سے قبل ابوسفیان وہاں سے نکلا اوراپنے لشکر میں پہنچ کر اس نے قریش کے ایک دستے کو مدینہ کے قریب عریض کی وادی میں چھاپہ مارنے کے لئے روانہ کردیا۔ ۲؎ یہ وہ وادی تھی جہاں ان ایام میں مسلمانوں کے جانور چراکرتے تھے اورجو مدینہ سے صرف تین میل پر تھی اورغالباً اس کا حال ابوسفیان کوسلام بن مشکم سے معلوم ہوا ہوگا۔جب قریش کا یہ دستہ وادیٔ عریض میں پہنچا توخوش قسمتی سے اس وقت مسلمانوں کے جانور وہاں موجود نہ تھے۔البتہ ایک مسلمان انصاری اوراس کا ایک ساتھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ قریش نے ان دونوں کو پکڑ کر ظالمانہ طورپر قتل کردیا۔ ۳؎ اورپھر کھجوروں کے درختوں کو آگ لگاکر ۴؎ اوروہاں کے مکانوں اورجھونپڑوں کوجلا کر ۵؎ ابوسفیان کی قیام گاہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ ابوسفیان نے اس کامیابی کواپنی قسم کے پورا ہونے کے لئے کافی سمجھ کر لشکر کوواپسی کاحکم دیا۔دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوابو سفیان کے حملہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ صحابہ کی ایک جماعت ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے،مگر چونکہ ابوسفیان اپنی قسم کے ایفاء کومشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ ایسی سراسیمگی کے ساتھ بھاگا کہ مسلمان اس کے لشکرکوپہنچ نہیں سکے اوربالآخر چند دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس لوٹ آئے۔اس غزوہ کوغزوہ سویق کہتے ہیں،جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان مکہ کوواپس لوٹا توتعاقب کے خیال کی وجہ سے کچھ توگھبراہٹ میں اورکچھ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے وہ اپنا سامان رسد جوزیادہ ترسویق یعنی ستو کے تھیلوں پرمشتمل تھا راستہ میں پھینکتا گیا تھا۔
عیدالاضحی ذوالحجہ۲ہجری
عیدالفطر کے ذکر میں اسلامی عیدوں کا فلسفہ بیان کیا جاچکا ہے۔اسی سال ماہ ذی الحجہ میں دوسری اسلامی عید یعنی عیدالاضحی مشروع ہوئی جو ماہ ذوالحجہ کی
دسویں تاریخ کوتمام اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔ ۶؎ اس عید میں علاوہ نماز کے جو ہر سچے مسلمان کی حقیقی عید ہے۔ہرذی استطاعت مسلمان کے لئے واجب ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی چوپایہ جانور قربان کرکے اس کا گوشت اپنے عزیزواقارب اوردوستوں اورہمسایوں اوردوسرے لوگوں میں تقسیم کرے اورخود بھی کھائے۔چنانچہ عیدالاضحی کے دن اوراس کے بعد دودن تک تمام اسلامی دنیا میں لاکھوں کروڑوں جانور فی سبیل اللہ قربان کئے جاتے ہیں اوراس طرح مسلمانوں کے اندر عملی طورپر اس عظیم الشان قربانی کی یادزندہ رکھی جاتی ہے جوحضرت ابراہیم ؑاورحضرت اسمٰعیل ؑاورحضرت ہاجرہ ؑنے پیش کی اورجس کی بہترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تھی اورہرایک مسلمان کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے آقا ومالک کی راہ میں اپنی جان اورمال اوراپنی ہرایک چیز قربان کردینے کے واسطے تیار ہے۔ یہ عیدبھی عیدالفطر کی طرح ایک عظیم الشان اسلامی عبادت کی تکمیل پرمنائی جاتی ہے اوروہ عبادت حج ہے جس کا ذکر انشاء اللہ اپنے موقع پر آئے گا۔
حضرت فاطمہؓ کا نکاح ذوالحجہ ۲ہجری
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے بیان میں حضرت فاطمہؓ کا ذکر گزرچکا ہے جمہور مؤرخین کے قول کے
مطابق حضرت فاطمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں جو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ ۱؎ اورآپؐاپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہؓکوعزیز رکھتے تھے۔ ۲؎ اوراپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل تھیں۔اب ان کی عمر کم وبیش پندرہ سال کی تھی اورشادی کے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت فاطمہؓکے لئے حضرت ابوبکرؓ نے درخواست کی،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کردیا۔پھرحضرت عمرؓنے عرض کیامگر ان کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی۔ ۳؎ اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ حضرت علیؓ کے متعلق معلوم ہوتا ہے حضرت علیؓ سے تحریک کی کہ تم فاطمہؓ کے متعلق درخواست کردو۔حضرت علیؓ نے جوغالباً پہلے سے خواہش مند تھے مگر بوجہ حیا خاموش تھے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست پیش کردی۔ ۴؎ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہ ؓکی شادی حضرت علی ؓسے ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے درخواست پیش کی تو آپؐنے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہوچکا ہے۔ ۵؎ پھر آپؐنے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں۔ ۶؎ یہ ایک طرح سے اظہار رضا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصار کی ایک جماعت کوجمع کرکے حضرت علیؓ اورفاطمہؓ کا نکاح پڑھ دیا۔ ۱؎ یہ۲ہجری کی ابتداء یاوسط کا واقعہ ہے۔اس کے بعد جنگ بدرہوچکی ۲؎ توغالباً ماہ ذوالحجہ ۲ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی۔ ۳؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کوبلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لئے کچھ ہے یا نہیں؟حضرت علیؓنے عرض کیا۔ یارسول اللہ!میرے پاس توکچھ نہیں۔آپؐنے فرمایا وہ زرہ کیاہوئی ۴؎ جومیں نے اس دن(یعنی بدر کے مغانم میں سے)تمہیں دی تھی؟ حضرت علی نے عرض کیا وہ تو ہے۔آپؐنے فرمایا۔بس وہی لے آئو۔ ۵؎ چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کردی گئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کئے۔۶؎ جوجہیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کودیا وہ ایک بیل دار چادر،ایک چمڑے کاگدیلا جس کے اندر کجھور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا۔ ۷؎ اورایک روایت میں ہے کہ آپؐنے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی۔ ۸؎ جب یہ سامان ہوچکا تومکان کی فکر ہوئی۔حضرت علی ؓاب تک غالباًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرہ وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہوجس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔حضرت علی نے عارضی طورپر ایک مکان کا انتظام کیا اوراس میں حضرت فاطمہؓ کارخصتانہ ہوگیا۔۹؎ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اورتھوڑا ساپانی منگا کر اس پر دعا کی اورپھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اورحضرت علیؓہردو پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکَ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔ ۱۰؎ یعنی ’’اے میرے اللہ!توان دونوں کے باہمی تعلقات میںبرکت دے اوران کے ان تعلقات میں برکت دے جودوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اوران کی نسل میں برکت دے۔‘‘ اور پھر آپؐاس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کرواپس تشریف لے آئے۔اس کے بعد جوایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حارثہ بن نعمان انصاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں آپؐ ان سے فرماویں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کردیں۔آپؐنے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کرچکے ہیں،اب مجھے توانہیںکہتے ہوئے شرم آتی ہے۔حارثہ کوکسی طرح اس کا علم ہواتو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!میرا جو کچھ ہے وہ حضور کا ہے اورواللہ جوچیز آپؐمجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے اورپھر اس مخلص صحابی نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کردیا اورحضرت علیؓاورفاطمہؓ وہاں اٹھ گئے۔ ۱؎
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد میں صرف حضرت فاطمہؓ ہی آپؐ کی وفات کے بعد زندہ رہیں باقی سب بچے آپؐ کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے۔حضرت فاطمہؓ کویہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد میں صرف انہی کی نسل کا سلسلہ قائم رہا۔ ۲؎ چنانچہ مسلمانوں میں سادات کی قوم انہی کی نسل سے ہے۔حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد وفات پائی۔ ۳؎
غزوہ بنوقینقاع اواخر۲ہجری
یہ بتایا جاچکا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تھے اس وقت مدینہ میں
یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ان کے نام بنوقینقاع، بنونضیر اوربنوقریظہ تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی ان قبائل کے ساتھ امن وامان کے معاہدے کرلئے اورآپس میں صلح اورامن کے ساتھ رہنے کی بنیاد ڈالی۔معاہدہ کی رو سے فریقین اس بات کے ذمہ دار تھے کہ مدینہ میں امن وامان قائم رکھیں اوراگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوتو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ ۴؎ شروع شروع میں تو یہود اس معاہدہ کے پابند رہے اورکم ازکم ظاہری طورپرانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا۔لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں توان کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کوروکنے کاتہیہ کرلیا اوراس غرض کے لئے انہوں نے ہرقسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنی شروع کیں۔حتّٰی کہ انہوں اس بات کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ پیدا کرکے خانہ جنگی شروع کرادیں۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک موقع پر قبیلہ اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے باہم محبت واتفاق سے باتیں کررہے تھے کہ بعض فتنہ پرداز یہود نے اس مجلس میں پہنچ کر جنگِ بُعاث کا تذکرہ شروع کردیا۔یہ وہ خطرناک جنگ تھی جوان دوقبائل کے درمیان ہجرت سے چند سال قبل ہوئی تھی اورجس میں اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔اس جنگ کا ذکر آتے ہی بعض جوشیلے لوگوں کے دلوں میں پرانی یاد تازہ ہوگئی اورگزشتہ عداوت کے منظر آنکھوں کے سامنے پھرگئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ باہم نوک جھونک اورطعن وتشنیع سے گزر کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی مجلس میں مسلمانوں کے اندر تلوار کھچ گئی۔مگرخیر گزری کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبروقت اس کی اطلاع مل گئی اورآپؐمہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ فوراًموقع پرتشریف لے آئے اورفریقین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیااورپھر ملامت بھی فرمائی کہ تم میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کاطریق اختیار کرتے ہو اورخدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے کہ اس نے اسلام کے ذریعہ تمہیں بھائی بھائی بنادیا ہے۔انصار پر آپؐکی اس نصیحت کاایسا اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوروہ اپنی اس حرکت سے تائب ہوکر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے۔ ۱؎
جب جنگ بدر ہوچکی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرارلشکر پرنمایاں فتح دی اورمکہ کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینہ کے یہودیوں کی مخفی آتش حسدبھڑک اٹھی اورانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کردی اورمجلسوں میں برملا طورپرکہنا شروع کیا کہ قریش کے لشکر کوشکست دینا کون سی بڑی بات تھی ہمارے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ ۲؎ حتّٰی کہ ایک مجلس میں انہوںنے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توآپؐنے ایک دن یہودیوں کوجمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اوراپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔آپؐ کی اس پرامن اورہمدردانہ تقریر کارئوسائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔اگرہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتہ لگ جاوے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ ۳؎ یہود نے صرف عام دھمکی پرہی اکتفا نہیں کی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیئے تھے کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن براء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے توانہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع نہ دی جاوے تا ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزرجاوے۔ ۱؎ الغرض جنگ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کردی اورچونکہ مدینہ کے یہود میں بنوقینقاع سب میں زیادہ طاقتور اوربہادر تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کی طرف سے عہد شکنی شروع ہوئی۔چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اِنَّ بَنِیْ قَیْنِقَاعَ کَانُوْا اَوَّلَ یَہُوْدٍ نَقَضُوامَابَیْنَھُمْ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ ۲؎ فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ بَدْرٍ اَظْھَرُوَا الْبَغْیَ وَالْحَسَدَ وََنَبَذُوا الْعَھْدَ۔ ۳؎ یعنی مدینہ کے یہودیوں میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدہ کو توڑا جوان کے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اوربدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کردی اوربرملاطورپر بغض وحسد کااظہار کیا اورعہدوپیمان کوتوڑ دیا۔
مگرباوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا کی ہدایت کے ماتحت ہرطرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی،بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدہ کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دلداری کاخیال رکھتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اورایک یہودی میں کچھ اختلاف ہوگیا ۔یہودی نے حضرت موسیٰ ؑ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔صحابی کواس پر غصہ آیااوراس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی توآپؐ ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی اورکہا کہ’’تمہارا یہ کام نہیں کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو۔‘‘اورپھر آپ ؐنے موسیٰ ؑکی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے یہودی کی دلداری فرمائی۔ ۴؎ مگرباوجود اس دلدارانہ سلوک کے یہودی اپنی شرارت میں ترقی کرتے گئے اوربالآخر خود یہود کی طرف سے ہی جنگ کاباعث پیدا ہوا اوران کی قلبی عداوت ان کے سینوں میں سما نہ سکی اوریہ اس طرح پرہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کے لئے گئی۔بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریق پر چھیڑا اورخود دوکاندار نے یہ شرارت کی کہ اس عورت کہ تہہ بندکے نچلے کونے کو اس کی بے خبری کی حالت میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کرلوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی۔ اس پر اس یہودی دوکاندار اوراس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اورہنسنے لگ گئے۔مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اورمدد چاہی۔اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔وہ لپک کر موقع پر پہنچا اورباہم لڑائی میں یہودی دوکاندار مارا گیا۔جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں اوروہ غیور مسلمان وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ مسلمانوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو غیرت قومی سے ان کی آنکھوں میں خون اترآیا اوردوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہوگئے اورایک بلوہ کی صورت پیدا ہوگئی۔ ۱؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ہوئی توآپؐ نے رئوسائے بنوقینقاع کوجمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں،تم ان شرارتوں سے بازآجائو اورخدا سے ڈرو۔انہوںنے بجائے اس کے کہ اظہار افسوس وندامت کرتے اورمعافی کے طالب بنتے سامنے سے نہایت متمردانہ جواب دئے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پرغرور نہ کرو،جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتہ لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ ۲؎ ناچارآپؐ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہوگئے۔اب یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنے افعال پرپشیمان ہوتے،مگر وہ سامنے سے جنگ پرآمادہ تھے۔ ۳؎ الغرض جنگ کا اعلان ہوگیا اوراسلام اوریہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پرنکل آئیں۔اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اورفریق مخالف قلعوں کامحاصرہ کرلیتا تھا اورموقع موقع پرگاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے ۔حتّٰی کہ یاتو محاصرہ کرنے والی فوج قلعہ پر قبضہ کرنے سے مایوس ہوکر محاصرہ اٹھالیتی تھی اوریہ محصورین کی فتح سمجھی جاتی تھی اوریا محصورین مقابلہ کی تاب نہ لا کر قلعہ کادروازہ کھول کراپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کردیتے تھے اس موقع پر بھی بنوقینقاع نے یہی طریق اختیار کیااوراپنے قلعوں میں بندہوکر بیٹھ گئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیااورپندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا۔بالآخر جب بنوقینقاع کاسارا زوراورغرور ٹوٹ گیا توانہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے،مگر ان کی جانوں اوران کے اہل وعیال پرمسلمانوں کاکوئی حق نہیں ہوگا ۱؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرمالیا کیونکہ گوموسوی شریعت کی رو سے یہ سب۔لوگ واجب القتل تھے ۲؎ اورمعاہدہ کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کافیصلہ ہی جاری ہونا چاہئے تھا۔مگر اس قوم کایہ پہلا جرم تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جوایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہوسکتی تھی،لیکن دوسری طرف ایسے بدعہد اورمعاندقبیلہ کامدینہ میں رہنا بھی ایک مارآستین کے پالنے سے کم نہ تھا۔خصوصاً جب اوس اورخزرج کاایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اوربیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کاناک میں دم کررکھا تھا۔ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہوسکتا تھاکہ بنو قینقاع مدینہ سے چلے جائیں۔یہ سزاان کے جرم کے مقابل میں اورنیزاس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اوردراصل اس میں صرف خود حفاظتی کاپہلو بھی مدنظر تھا۔ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک نقل مکانی کوئی بڑی بات نہ تھی۔خصوصاً جبکہ کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اورباغات کی صورت میں نہ ہوںجیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں۔ ۳؎ اورپھر سارے کے سارے قبیلہ کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقع مل جاوے۔چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کرشام کی طرف چلے گئے۔ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اورنگرانی وغیرہ کاکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عبادۃ بن صامت کے سپرد فرمایا تھا جوان کے حلفاء میں سے تھے۔چنانچہ عبادۃ بن صامت چند منزل تک بنوقینقاع کے ساتھ گئے اورپھرانہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کرکے واپس لوٹ آئے۔ ۴؎ مال غنیمت جومسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف آلات حرب اورآلات پیشہ زرگری پرمشتمل تھا۔ ۵؎
بنوقینقاع کے متعلق بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ جب ان لوگوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھول کر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا توان کی بدعہدی اور بغاوت اورشرارتوں کی وجہ سے آپؐکاارادہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل کرادینے کا تھا،مگرعبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس منافقین کی سفارش پرآپؐنے یہ ارادہ ترک کردیا،لیکن محققین نے ان روایات کو صحیح تسلیم نہیں کیا۔ ۶؎ کیونکہ جب دوسری روایات میں یہ صریحاً مذکور ہے کہ بنو قینقاع نے اس شرط پر دروازے کھولے تھے کہ ان کی اوران کے اہل وعیال کی جان بخشی کی جائے گی تویہ ہرگز نہیں ہوسکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کرلینے کے بعد دوسرا طریق اختیار فرماتے۔ البتہ بنوقینقاع کی طرف سے جان بخشی کی شرط کاپیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود ہی سمجھتے تھے کہ ان کی اصل سزاقتل ہی ہے،مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کے طالب تھے اور یہ وعدہ لینے کے بعد اپنے قلعے کادروزاہ کھولنا چاہتے تھے کہ ان کو قتل کی سزا نہیں دی جاوے گی،لیکن گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحیم النفسی سے انہیں معاف کردیا تھا،مگر معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی نظر میں یہ لوگ اپنی بداعمالی اورجرائم کی وجہ سے اب دنیا کے پردے پرزندہ چھوڑے جانے کے قابل نہیں تھے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جس جگہ یہ لوگ جلاوطن ہوکر گئے تھے وہاںانہیں ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھاکہ ان میں کوئی ایسی بیماری وغیرہ پڑی کہ سارے کا سارا قبیلہ اس کا شکار ہوکر پیوندخاک ہوگیا۔ ۱؎
غزوہ بنوقینقاع کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔واقدی اورابن سعد نے شوال۲ ہجری بیان کی ہے اورمتاخرین نے زیادہ تراسی کی اتباع کی ہے،لیکن ابن اسحاق اورابن ہشام نے اسے غزوہ سویق کے بعدرکھا ہے جو مسلمہ طورپر ماہ ذی الحجہ۲ہجری کے شروع میں ہوا تھا اورحدیث کی ایک روایت میں بھی یہ اشارہ ملتاہے کہ غزوہ بنوقینقاع حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے بعد ہوا تھا۔ کیونکہ اس روایت میں یہ بیان کیا گیاہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے ولیمہ کی دعوت کاخرچ مہیا کرنے کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ بنوقینقاع کے ایک یہودی زرگرکوساتھ لے کر جنگل میں جائیں اوروہاں سے اذخر گھاس لاکر مدینہ کے زرگروں کے پاس فروخت کریں۔ ۲؎ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے وقت جو عام مؤرخین کے نزدیک ذوالحجہ ۲ہجری میں ہوا تھا ابھی تک بنوقینقاع مدینہ میں ہی تھے۔ان وجوہات کی بنا پرمیں نے غزوہ بنوقینقاع کوغزوہ سویق اورحضرت فاطمہؓکے رخصتانہ کے بعد اواخر ۲ہجری میں رکھا ہے۔واللہ اعلم۔
اس موقع پریہ ذکر بھی خالی ازفائدہ نہ ہوگا کہ غزوہ بنوقینقاع کا سبب بیان کرتے ہوئے مسٹر مارگولیس نے اپنی طرف سے ایک عجیب وغریب بات بناکرلکھی ہے جس کا قطعاًکسی روایت میں اشارہ تک نہیںآتا۔بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ حضرت حمزہؓنے شراب کے نشہ میں(اس وقت تک ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی)حضرت علیؓکے وہ اونٹ مار دئے تھے جوانہیں جنگ بدر کی غنیمت میں حاصل ہوئے تھے۔ ۱؎ اس منفرد واقعہ کوبغیر کسی قسم کی تاریخی سند کے غزوہ بنوقینقاع کے ساتھ جوڑ کر مسٹرمارگولیس رقمطراز ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوقینقاع پراس غرض سے چڑھائی کی تھی کہ تا اس کی غنیمت سے حضرت علیؓ کے اس نقصان کی تلافی کریں۔تاریخ نویسی میں یہ جرأت غالباًاپنی مثال آپ ہی ہے اورپھر لطف یہ ہے کہ مسٹرمارگولیس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنی طرف سے قیاس کرکے زائد کی ہے۔ ۲؎
’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارو‘‘
جنت البقیع اوراس کا پہلامدفون
اسی سال کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے لئے مدینہ میں ایک مقبرہ تجویز فرما یاجسے جنت البقیع
کہتے تھے اس کے بعد صحابہ عموماً اسی مقبرہ میں دفن ہوتے تھے۔سب سے پہلے صحابی جو اس مقبرہ میں دفن ہوئے تھے وہ عثمان بن مظعون تھے۔ ۳؎ عثمان بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اورنہایت نیک اورعابد اورصوفی منش آدمی تھے۔مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تومیں چاہتا ہوں کہ بالکل تارک الدنیا ہوکراوربیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی زندگی خالصتہً عبادت الہٰی کے لئے وقف کردوں ،مگرآپؐنے اس کی اجازت نہیںدی۔ ۴؎ بلکہ جولوگ ترک دنیا تواختیار نہیںکرتے تھے ،لیکن روزہ اورنماز کی اس قدر کثرت کرتے تھے کہ اس سے ان کی متعلقین کے حقوق پراثر پڑتا تھا،ان کے متعلق بھی آپؐنے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ خدا کاحق خدا کو دو۔بیوی بچوں کا حق بیوی بچوں کودو۔مہمان کا حق مہمان کو دواوراپنے نفس کا حق نفس کودو کیونکہ یہ سب حقوق خدا کے مقررکردہ ہیں اوران کی ادائیگی عبادت میں داخل ہے۔ ۵؎ الغرض آپؐنے عثمان بن مظعون کوترک دنیا کی اجازت نہیں دی۔اوراسلام میںتبتل اوررہبانیت کوناجائز قرار دے کر اپنی امت کے لئے افراط وتفریط کے درمیان ایک میانہ روی کا راستہ قائم کردیا۔عثمان بن مظعون کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت صدمہ ہوا اورروایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپؐ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اوراس وقت آپؐ کی آنکھیں پرنم تھیں۔ ۶؎ ان کے دفنائے جانے کے بعد آپؐنے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر بطورعلامت کے نصب کرادیا اورپھرآپؐکبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کے لئے دعافرمایا کرتے تھے۔ ۱؎ عثمان پہلے مہاجر تھے جومدینہ میںفوت ہوئے۔
غزوہ ذی امرمحرم یاصفر۳ھ
غزوہ قرقرۃ الکدر کے بیان میں یہ ذکر گزرچکا ہے کہ کس طرح قریش کی انگیخت پر نجد کے قبائل سلیم وغطفان نے مسلمانوں کے خلاف
جارحانہ طریق اختیار کرکے اسلام اوربانی ٔاسلام کوتباہ وبرباد کردینے کاتہیہ کرلیا تھا۔ابھی اس واقعہ پرکوئی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بنوغطفان کے بعض قبائل یعنی بنوثعلبہ اوربنومحارب کے لوگ اپنے ایک نامورجنگجو دعثوربن حارث کی تحریک پرپھر مدینہ پر اچانک حملہ کردینے کی نیت سے نجد کے ایک مقام ذی امر میں جمع ہونے شروع ہوئے۔ ۲؎ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کی حرکات وسکنات کاباقاعدہ علم رکھتے تھے آپؐکوان کے اس خونی ارادے کی بروقت اطلاع ہوگئی اورآپؐایک بیدارمغزجرنیل کی طرح پیش بندی کے طورپر ساڑھے چار سوصحابیوں کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر۳؎ محرم ۳ھ کے آخر یاصفر کے شروع میں ۴؎ مدینہ سے نکلے اورتیزی کے ساتھ کوچ کرتے ہوئے ذی امر کے قریب پہنچ گئے۔دشمن کو آپؐکی آمد کی اطلاع ہوئی تواس نے جھٹ پٹ آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ کراپنے آپ کو محفوظ کرلیااور مسلمان ذی امر میں پہنچے تو میدان خالی تھا۔البتہ بنوثعلبہ کاایک بدوی جس کا نام جبار تھا صحابہ کے قابو میں آگیا۔جسے قید کرکے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ بنوثعلبہ اوربنو محارب کے سارے لوگ پہاڑیوں میں محفوظ ہوگئے ہیں اوروہ کھلے میدان میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئیں گے۔ ۵؎ ناچار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوواپسی کا حکم دینا پڑا،مگراس غزوہ کااتنا فائدہ ضرورہوگیا کہ اس وقت جوخطرہ بنوغطفان کی طرف سے پیدا ہوا تھا۔وہ وقتی طور پر ٹل گیا۔جبار جومسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوا تھاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے بخوشی مسلمان ہوگیا اورآپؐ نے اس کی تربیت کاکام بلالؓ کے سپرد فرمایا۔ ۶؎ اورتین دن کے قیام کے بعد آپؐمدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے۔
بعض تاریخی روایات کی رو سے اسی غزوہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آیا جس میں ایک بدوی سردار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواکیلا اورغافل پاکر آپ پرتلوار کے ساتھ حملہ کیا تھا۔مگر پھر خود مرعوب ہوکر اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔۱؎ لیکن حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ بشرطیکہ وہ دو دفعہ نہیں ہواغزوہ ذات الرقاع میں پیش آیا تھا جو بروایت صحیح ۷ہجری میں ہوا تھا۔ ۲؎
تزویج اُمّ کلثوم ربیع الاول۲ہجری
رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ حضرت عثمانؓبن عفان کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔ ان کی وفات کے بعد
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری لڑکی ام کلثوم کی شادی جو حضرت فاطمہ سے بڑی مگر رقیہ سے چھوٹی تھیں حضرت عثمانؓسے کردی۔اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین دونوروں والا کہتے ہیں۔ام کلثوم کی یہ دوسری شادی تھی کیونکہ وہ اوران کی بہن رقیہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب کے دولڑکوں سے بیاہی گئیں تھیں۔مگر قبل اس کے کہ ان کا رخصتانہ ہوتا مذہبی مخالفت کی بنا پر یہ رشتہ منقطع ہوگیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت عثمانؓسے رقیہ کی شادی کی اوررقیہ کی وفات کے بعدام کلثوم کی شادی کردی۔مگر افسوس ہے کہ ان دونوں صاحبزادیوں کی نسل کاسلسلہ نہیں چلا۔کیونکہ ام کلثوم کے تو کوئی بچہ ہواہی نہیں اور رقیہ کا صاحبزادہ عبداللہ چھ سال کاہوکر وفات پاگیا۔ ام کلثوم کانکاح ریبع الاول ۳ہجری میں ہوا تھا۔ ۳؎
غزوہ بحران ربیع الاول۳ہجری
بنو سلیم اوربنو غطفان کے دوحملوں کی تیاری کا ذکر اوپرگزر چکا ہے اوریہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کی فوری اوربروقت تدبیر نے خدا کے فضل سے اس وقت مسلمانوں کوان خونخوار قبائل کے شر سے محفوظ رکھا تھا۔مگر جس کے دل میں عداوت کی آگ سلگ رہی ہووہ نچلا کس طرح بیٹھ سکتا تھا۔ابھی غزوہ ذی امر پرزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا یعنی اواخرربیع الاول۳ھ میں ۴؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ وحشتناک اطلاع موصول ہوئی کہ بنوسلیم پھرموضوع بحران میں مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کی غرض سے بہت بڑی تعداد میں جمع ہورہے ہیں۔ ۵؎ اوریہ کہ ان کے ساتھ قریش کابھی ایک جتھہ ہے۔ ۶؎ ناچارآپؐ پھرصحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے، لیکن حسب عادت عرب کے یہ وحشی درندے جواپنے شکار پراچانک اورغفلت کی حالت میں حملہ کرنے کا موقع چاہتے تھے آپؐ کی آمد آمد کی خبر پاکرادھر ادھرمنتشر ہوگئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ عرصہ قیام کرکے واپس تشریف لے آئے۔
بنوسلیم اوربنوغطفان کااس طرح باربار مدینہ پرحملہ کرنے کے ارادے سے جمع ہونا صاف ظاہر کررہا ہے کہ صحرائے عرب کے یہ وحشی اورجنگجو قبائل اسلام کے سخت جانی دشمن تھے اوردن رات اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو مسلمانوں کوتباہ وبرباد کردیں۔ذرا مسلمانوں کی اس وقت کی نازک حالت کااندازہ لگائو کہ ان پر اس زمانہ میںکیسے دن گزر رہے تھے۔ایک طرف مکہ کے قریش تھے جن کو اسلام کی عداوت اورجنگ بدر کی انتقامی روح نے اندھا کررکھا تھا اورانہوں نے خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر قسمیں کھائی ہوئی تھیں کہ جب تک مسلمانوں کو ملیا میٹ نہ کریں گے چین نہیں لیںگے۔دوسری طرف صحرائے عرب کے یہ خونخوار درندے تھے جن کو قریش کی انگیخت اور اسلام کی دشمنی نے مسلمانوں کے خون کی پیاس سے بے چین کررکھا تھا۔چنانچہ دیکھو کہ بدر کے بعد چندماہ کے اندر اندر آپؐکو کتنی دفعہ بذات خود ان وحشی قبائل عرب کے خونی ارادوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے سفر کرنا پڑا اور جیسا کہ سرولیم میور نے تصریح کی ہے یہ دن بھی بہت سخت گرمیوں کے دن تھے اورگرمی بھی عرب کے صحرا کی گرمی تھی۔اگرخدا کی خاص نصرت شامل حال نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی مسلمانوں کوہروقت ہوشیار اورچوکس نہ رکھتی اورآپؐدشمن کی جمعیت کوچھاپہ مارنے سے قبل ہی منتشر کردینے کی تدابیر اختیار نہ کرتے توان دنوںمیں مسلمانوں کی تباہی وبربادی میں کوئی شک نہیں تھااوریہ صرف بیرونی خطرات تھے۔باقی اندرونی خطرات بھی کسی طرح کم نہ تھے۔خود مدینہ کے اندر مسلمانوں سے ملے جلے رہنے والے منافقین موجود تھے جن کو مارآستین کہنا یقینا کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ان کے علاوہ غداراورخفیہ سازشوں کے عادی یہودی لوگ تھے جن کی عداوت کی گہرائی اوروسعت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔اللہ اللہ ان ابتدائی مسلمانوں کے لئے یہ کیسی مصیبت کے دن تھے!!خود ان کی زبان سے سنئے۔ابیّ بن کعب ایک مشہور صحابی روایت کرتے ہیں۔
کَانُوْالَایُبِیْتُوْنَ اِلاَّفِی السِّلَاحِ وَلَایُْصْبِھُوْنَ اِلاَّ فِیْہِ وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اَلاَ تَرَوْنَ اَنَّانَعِیْشُ حَتّٰی نَبِیْتُ اٰمِنِیْنَ مُطْمَئِنِیْنَ لَانَخَافُ اِلاَّاللّٰہَ۔ ۱؎
یعنی’’ اس زمانہ میں صحابہ کایہ حال تھا کہ وہ ڈر کے مارے راتوں کوہتھیار لگا لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہروقت مسلح رہتے تھے کہ کہیں ان پر کوئی اچانک حملہ نہ ہوجاوے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں کہ جب ہم امن واطمینان کی زندگی گزاریں گے اورخدا کے سوا ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘
ان الفاظ میں کس مصیبت اورکس بے کسی کااظہار ہے اورامن اوراطمینان کی زندگی کی کتنی تڑپ مخفی ہے۔اس کااندازہ ہرانصاف پسند شخص خود کرسکتا ہے۔
سریہ زیدبن حارثہ بطرف قردہ جمادی الآخرۃ۳ہجری
بنو سلیم اوربنو غطفان کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک
اورخطرہ کے سدباب کے لئے وطن سے نکلنا پڑا۔اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کے لئے عموماًحجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کردیاکیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اورقریش کے لئے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لئے موجب خطرہ سمجھتے تھے۔بہرحال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کرکے نجدی راستہ اختیار کرلیا جو عراق کوجاتا تھااورجس کے آس پاس قریش کے حلیف اورمسلمانوں کے جانی دشمن قبائل سلیم وغطفان آباد تھے۔ ۱؎ چنانچہ جمادی الآخرۃ کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کاایک تجارتی قافلہ نجدی راستہ سے گزرنے والا ہے۔ظاہر ہے کہ اگرقریش کے قافلوں کاساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کے لئے موجب خطرہ تھا تونجدی راستے سے ان کا گزرنا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھا کیونکہ برخلاف ساحلی راستے کے اس راستے پرقریش کے حلیف آباد تھے جوقریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اورجن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ پر خفیہ چھاپہ مار سکتے یاکوئی شرارت کرسکتے تھے اورپھر قریش کوکمزور کرنے اورانہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستہ پربھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزادکردہ غلام زیدبن حارثہ کی سرداری میں اپنے اصحاب کاایک دستہ روانہ فرمادیا۔
قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سفیان بن حرب ۲؎ اورصفوان بن امیہ ۳؎ جیسے رئوساء بھی موجود تھے۔زید نے نہایت چستی اورہوشیاری سے اپنے فرض کوادا کیا اورنجد کے مقام قردہ میں ان دشمنان اسلام کوجادبایا۔اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال وامتعہ کوچھوڑ کربھاگ گئے اورزید بن حارثہ اوران کے ساتھی ایک کثیر مال غنیمت کے ساتھ مدینہ میںبانیل ومرام واپس آگئے۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کاراہبر ایک فرات نامی شخص تھاجومسلمانوں کے ہاتھ قید ہوااورمسلمان ہونے پر رہا کردیا گیا۔ ۱؎ لیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا،مگر بعد میں مسلمان ہوکرمدینہ میں ہجرت کرکے آگیا۔ ۲؎
قتل کعب بن اشرف جمادی الآخرۃ۳ہجری
بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کوظاہر کردیا تھا اس کا ذکر غزوہ
بنوقینقاع کے بیان میں گزرچکا ہے،مگر افسوس ہے کہ بنو قینقاع کی جلاوطنی بھی دوسرے یہودیوں کو اصلاح کی طرف مائل نہ کرسکی اوروہ اپنی شرارتوں اورفتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔کعب گومذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا،بلکہ عرب تھا۔اس کا باپ اشرف بنونبہان کاایک ہوشیار اورچلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے اوران کا حلیف بن گیا اوربالآخر اس نے اتنا اقتدار اوررسوخ پیداکرلیا کہ قبیلہ بنونضیرکے رئیس اعظم ابورافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی۔ ۳؎ اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیداہواجس نے بڑے ہوکر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا۔ حتّٰی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگ گئے۔کعب ایک وجہیہ اورشکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعراورایک نہایت دولتمندآدمی تھا اورہمیشہ اپنی قوم کے علماء اوردوسرے ذی اثر لوگوں کواپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا، ۴؎ مگراخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اورخفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کرکے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اورامن وامان اورمشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا۔۵؎ مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اوراس نے خفیہ چالوں اورمخفی ساز باز سے اسلام اور بانیٔ اسلام کی مخالفت شروع کردی۔چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہرسال یہودی علماء ومشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا،لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تواس نے باتوں باتوں میں ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر شروع کردیا اوران سے آپ کے متعلق مذہبی کتب کی بنا پر رائے دریافت کی۔انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا۔کعب اس جواب پر بہت بگڑا اوران کو سخت سست کہہ کر وہاں سے رخصت کردیا۔اورجو خیرات انہیںدیا کرتا وہ نہ دی۔یہودی علماء کی جب روزی بند ہوئی توکچھ عرصہ کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اورکہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی ہم نے دوبارہ غورکیاہے دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔اس جواب سے کعب کامطلب حل ہوگیا اوراس نے خوش ہوکر ان کو سالانہ خیرات دے دی۔ ۱؎ خیر یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی جوگوناگوارصورت میں اختیار کی گئی،لیکن چنداں قابل اعتراض نہیں ہوسکتی تھی اورنہ اس بنا پرکعب کوزیرالزام سمجھا جاسکتا تھا،مگر اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی گئی اوربالآخر جنگ بدر کے بعد تواس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اورفتنہ انگیز تھا۔اورجس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک حالات پیدا ہوگئے۔دراصل بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کایہ جوش ایمان ایک عارضی چیزہے اورآہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہوکراپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جائیں گے،لیکن جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اوررئوساء قریش اکثر مارے گئے تواس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا ۔چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اورتباہ وبرباد کرنے میں صرف کردینے کا تہیہ کرلیا۔اس کے دلی بغض وحسد کاسب سے پہلا اظہار اس موقع پرہوا جبکہ بدر کی فتح کی خبر مدینہ میں پہنچی۔اس خبر کو سن کر کعب نے علی رئوس الاشہادیہ کہا کہ یہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہواورمکہ کے اتنے نامور رئیس خاک میں مل جائیں اوراگر یہ خبر سچ ہے توپھراس زندگی سے مرنا بہتر ہے۔ ۲؎ جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور کعب کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کووہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا تووہ غیض وغضب سے بھر گیااورفوراًسفر کی تیاری کرکے اس نے مکہ کی راہ لی اوروہاں جاکر اپنی چرب زبانی اورشعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بارکر دیا اوران کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی اوران کے سینے جذباتِ انتقام وعداوت سے بھردئے۔ ۱؎ اورجب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک اتنہائی درجہ کی بجلی پیدا ہوگئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اورکعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میںدے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اوربانی ٔاسلام کو صفحۂ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے،اس وقت تک چین نہ لیں گے۔ ۲؎ مکہ میں یہ آتش فشاں فضاپیدا کرکے اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اورقوم بقوم پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کوبھڑکایا۔ ۳؎ اورپھر مدینہ میں واپس آکر مسلمان خواتین پرتشبیب کہی۔یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اورفحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا۔ ۴؎ حتّٰی کہ خاندان نبوت کی مستورات کوبھی اپنے ان اوباشانہ اشعار کانشانہ بنانے سے دریغ نہیںکیا۔ ۵؎ اورملک میں ان اشعار کاچرچا کروایا۔اوربالآخر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپؐ کوکسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پربلاکر چندنوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا۔مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہوگئی اوراس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ ۶؎
جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اورکعب کے خلاف عہدشکنی،بغاوت،تحریک جنگ،فتنہ پردازی، فحش گوئی اورسازش قتل کے الزامات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوام معاہدہ کی رو سے جوآپؐکے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیان مدینہ میں ہوا تھا مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدراورحاکم اعلیٰ تھے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کاروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اوراپنے بعض صحابیوں کوارشاد فرمایا کہ اسے قتل کردیا جاوے۔ ۷؎ لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضاء ایسی ہورہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طورپر اعلان کرکے اسے قتل کیا جاتا تومدینہ میں ایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کااحتمال تھا ۔جس میں نہ معلوم کتنا کشت وخون ہوتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرممکن اور جائز قربانی کرکے بین الاقوام کشت وخون کو روکنا چاہتے تھے۔آپؐنے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کوبرملاطورپر قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیںاوریہ ڈیوٹی آپؐنے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اورانہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے کریں۔۱؎ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لئے توکوئی بات کہنی ہوگی۔یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گاجس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کرکسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے۔آپؐنے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جواس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کوچھوڑنے سے پیدا ہوسکتے تھے فرمایا’’اچھا‘‘۔چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابونائلہ اوردوتین اورصحابیوں کواپنے ساتھ لیا اورکعب کے مکان پر پہنچے اورکعب کواس کے اندرون خانہ سے بلاکر کہا کہ’’ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اورہم تنگ حال ہیں۔کیاتم مہربانی کرکے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو؟۲؎یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا اورکہنے لگا۔واللہ ابھی کیا ہے،وہ دن دور نہیںجب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ دوگے۔محمد نے جواب دیا۔’’خیر ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرچکے ہیں اوراب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔مگر تم یہ بتائو کہ قرض دوگے یا نہیں؟کعب نے کہا ’’ہاں!مگرکوئی چیز رہن رکھو۔‘‘محمد نے پوچھا کیا چیز؟اس بدبخت نے جواب دیا۔’’اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔‘‘محمد نے غصہ کو دبا کرکہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں۔اس نے کہا اچھا توپھر بیٹے سہی۔محمد نے جواب دیا کہ یہ بھی ناممکن ہے۔ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے،البتہ اگرتم مہربانی کرو توہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں۔کعب راضی ہوگیا اورمحمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے۔جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر (کیونکہ اب وہ برملا طورپر ہتھیار اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے)کعب کے مکان پر پہنچے اوراسے اس کے گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف کولے آئے۔تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے محمد بن مسلمہ یاان کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اورنہایت پھرتی کے ساتھ اس کے بالوں کو مضبوطی سے قابو کرکے اپنے ساتھیوں کو آوازدی’’مارو‘‘صحابہ نے جو پہلے سے تیار اورہتھیار بند تھے فوراًتلواریں چلادیں۔ اور بالآخر کعب قتل ہوکر گرا۔اورمحمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی وہاںسے رخصت ہوکر جلدی جلدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اورآپؐکو اس قتل کی اطلاع دی۔ ۱؎
جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اوریہودی لوگ سخت جوش میں آگئے اوردوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کاایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے اورپھرآپؐنے اجمالاًان کو کعب کی عہد شکنی اورتحریک جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اورسازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں۔ ۲؎ جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہوگئے۔ ۳؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے ہی امن اورتعاون کے ساتھ رہو اورعداوت اورفتنہ وفساد کابیج نہ بوئو۔چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اوریہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اورفتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا۔ ۴؎ اوریہ عہدنامہ حضرت علی کی سپردگی میں دے دیا گیا۔ ۵؎ اورتاریخ میںکسی جگہ مذکور نہیںکہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام قائم کیا ہوکیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔
کعب بن اشرف کے قتل پر بعض مغربی مؤرخین نے بڑی خامہ فرسائی کی ہے اوراس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پرایک بدنما دھبے کے طورپرظاہر کرکے اعتراضات جمائے ہیں،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اوّل آیا یہ قتل فی ذاتہٖ ایک جائز فعل تھا یانہیں؟دوسرے آیا جو طریق اس قتل کے واسطے اختیار کیا گیا وہ جائز تھا یا نہیں؟امراوّل کے متعلق تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن وامان کا معاہدہ کر چکاتھااورمسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تودرکنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہربیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی امداد کرے گااورمسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔اس نے اس معاہدہ کی رو سے یہ بھی تسلیم کیاتھا کہ جو رنگ مدینہ میں جمہوری سلطنت کاقائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدرہوں گے اورہرقسم کے تنازعات وغیرہ میں آپؐکا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہوگا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدہ کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپؐان میں احکام جاری فرماتے تھے۔چنانچہ آپؐنے ایک زنا کے مقدمہ میں ایک یہودی مرد اوریہودی عورت کو تورات کے حکم کے مطابق رجم کی سزادی تھی۔ ۱؎ اب اگران حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہدوپیمان کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی اورمدینہ میں فتنہ وفساد کا بیج بویا اورملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طورپر ابھارااورمسلمانوں کی عورتوں پراپنے جوش دلانے والے اشعار میں تشبیب کہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کئے۔اوریہ سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان پہلے سے ہی چاروں طرف سے مصائب میں گھِرے ہوئے تھے اورعرب کے خونخوار درندے ان کے خون کی پیاس میں مجنون ہورہے تھے اورصحابہ کی ایسی حالت تھی کہ نہ دن آرام میں گزرتا تھا اورنہ رات اوردشمن کے حملہ کے خطرہ میں ان کی نیند تک حرام ہورہی تھی۔توکیا ان حالات میں کعب کا جُرم بلکہ بہت سے جُرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم اٹھایا جاتا؟اورپھر کیا قتل سے کم کوئی اورسزا تھی جو یہود کی اس فتنہ پردازی کے سلسلہ کوروک سکتی؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی غیر متعصب شخص کعب کے قتل کوایک غیر منصفانہ فعل سمجھ سکتا ہے۔کیا آج کل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اورعہد شکنی اوراشتعال جنگ اورسازش قتل کے جرموں میں مجرم کوقتل کی سزا نہیں دی جاتی؟
دوسرا سوال قتل کے طریق سے تعلق رکھتا ہے۔سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی،بلکہ ہرشخص اورہرقبیلہ آزاداورخود مختار تھا۔ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کرکے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟کیا یہود کے پاس اس کی شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اورجو خود مسلمانوں کے خلاف غداری کرچکے تھے اور آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے؟کیا مکہ کے قریش کے سامنے مقدمہ پیش کیا جاتا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے؟کیا قبائل سلیم وغطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گزشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کرچکے تھے؟اس وقت کی عرب کی حالت پر غورکرو اور پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اورتحریک جنگ اور فتنہ پردازی اورسازش قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لئے اورملک کے امن کے لئے خطرناک پاتے توخود حفاظتی کے خیال سے موقع پاکر اسے خود قتل کردیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہوجاوے بجائے اس کے کہ بہت سے پرامن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اورملک کا امن برباد ہو۔پھرجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس معاہدہ کی روسے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اوریہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہ تھی،بلکہ آپؐاس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جومدینہ میں قائم ہوئی تھی۔اورآپؐ کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اورامور سیاسی جوفیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔ ۱؎ پس اگر آپؐنے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا تو آج تیرہ سو سال گزرنے پر جبکہ اس زمانہ کے بہت سے تفصیلی حالات بھی ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپؐکے فیصلہ پر عدالت اپیل بن کر بیٹھے۔خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خود یہود نے کعب کی اس سزا کو اس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اوراس پر اعتراض نہیں کیا۔ اوراگریہ اعتراض کیا جاوے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ قتل کا حکم دینے سے پہلے یہود کو بلا کران کو کعب کے یہ جرم سنائے جاتے اورحجت پوری کرنے کے بعد اس کے قتل کا باقاعدہ اوربرملا طور پر حکم دیا جاتا،تواس کا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ اس وقت حالات ایسے نازک ہورہے تھے کہ ایسا طریق اختیار کرنے سے بین الاقوام پیچیدگیوں کے بڑھنے کا سخت خطرہ تھااورکوئی تعجب نہ تھا کہ مدینہ میں ایک خطرناک سلسلہ کشت وخون اورخانہ جنگی کا شروع ہوجاتا۔پس ان کاموں کی طرح جو جلد اورخاموشی کے ساتھ ہی کر گزرنے سے فائدہ مند ہوتے ہیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن عامہ کے خیال سے یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی کے ساتھ کعب کی سزا کا حکم جاری کردیا جاوے مگر اس میں قطعاً کسی قسم کے دھوکے کا دخل نہ تھااورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشاء تھا کہ یہ سزا ہمیشہ کے لئے بصیغہ ٔراز رہے کیونکہ جونہی یہود کا وفد دوسرے دن صبح آپؐکی خدمت میں حاضر ہوا آپؐنے فوراًبلاتوقف انہیں ساری سرگزشت سنا دی اور اس فعل کی پوری پوری ذمہ داری اپنے اوپر لے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس میں کوئی دھوکے وغیرہ کا سوال نہیں ہے اور یہودیوں کو یہ بات واضح طورپربتادی کہ فلاں فلاں خطرناک جرموں کی بنا پر کعب کے متعلق یہ سزا تجویز کی گئی تھی جو میرے حکم سے جاری کی گئی ہے۔ اس وفدنے آپؐکے اس بیان کی معقولیت کوتسلیم کیا اورکعب کے جرموں کو اس کی سزا کاکافی اورجائز باعث یقین کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ اس موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جھوٹ اور فریب کی اجازت دی۔سو یہ بالکل غلط ہے اورصحیح روایات اس کی مکذب ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاًجھوٹ اورغلط بیانی کی اجازت نہیںدی بلکہ صحیح بخاری کی روایت کے بموجب جواصح الروایات ہے جب محمد بن مسلمہ نے آپؐسے یہ دریافت کیا کہ کعب کو خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کے لئے توکوئی بات کہنی پڑے گی توآپ نے ان عظیم الشان فوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو خاموش سزا کے محرک تھے جو اب میں صرف اس قدر فرمایا کہ’’ہاں‘‘اوراس سے زیادہ اس موقع پر آپؐ کی طرف سے یامحمد بن مسلمہ کی طرف سے قطعاًکوئی تشریح یاتوضیح نہیں ہوئی۔ ۱؎ اورظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ محمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی جو کعب کے مکان پر جاکر اسے باہر نکال کرلائیں گے تواس موقع پرانہیں لازماً کوئی ایسی کہنی ہوگی جس کے نتیجہ میں کعب رضامندی اورخاموشی کے ساتھ گھر سے نکل کران کے ساتھ آجاوے اوراس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں ہے۔ آخر جنگ کے دوران میں جاسوس وغیرہ جواپنے فرائض ادا کرتے ہیں توان کو بھی اسی قسم کی باتیں کہنی ہی پڑتی ہے جس پر کبھی کسی عقل مند کو اعتراض نہیں ہوا۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادامن توبہرحال پاک ہے۔باقی رہا محمد بن مسلمہ وغیرہ کا معاملہ جنہوں نے وہاں جاکر عملاًاس قسم کی باتیں کیں۔سوان کی گفتگو میں بھی درحقیقت کوئی بات خلاف اخلاق نہیں ہے۔انہوں نے حقیقتاً کوئی غلط بیانی نہیں کی۔البتہ اپنے مشن کی غرض وغایت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ذومعنیینالفاظ ضرورکہے مگر ان کے بغیر چارہ نہیں تھا اورحالات جنگ میں ایک اچھی اورنیک غرض کے ماتحت سادہ اورصاف گوئی کے طریق سے اس قدرخفی انحراف ہرگز کسی عقل مند دیانت دارشخص کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔بلکہ حق یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ اوران کے ساتھیوں کی یہ گفتگو اس نیک اثر کی ایک بہت عمدہ اوردلچسپ دلیل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے آپؐکے صحابہ پرپیدا کیا تھا۔عرب کے لوگوں کی اسلام سے قبل کیا حالت تھی؟کیا اس میں کوئی شک ہے کہ وہ ہرقسم کے گندوں میں مبتلا تھے اور دھوکہ فریب جھوٹ توگویا ان کی فطرت کاحصہ بن چکا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قلیل صحبت نے ان کے قلوب پراس قدر گہرااثر پیدا کیا کہ جھوٹ بولنا تودرکنار رہا وہ ایک نہایت اچھی اورنیک غرض کے ماتحت بھی سادہ اورصاف گوئی کے طریق سے ذرا بھر بھی ادھرادھر نہیں ہونا چاہتے تھے۔چنانچہ اس خطرناک موقع پربھی جو کعب بن اشرف کی شرانگیزی نے پیداکردیا تھاان کو صاف گوئی کے راستے سے ایک نہایت خفی انحراف کرنے کے لئے بھی اپنے آقا کی اجازت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ان کے اس نمونے کے مقابلہ میں اگر یہ دیکھا جاوے کہ آج کل دنیا میں ہر قوم وملت میں اس جھوٹے اصول کے ماتحت کہ ایک نیک غرض کے لئے ہرکام کرنا جائز ہے کیاکچھ ظلم ڈھایا جاتا اورکیسے مظالم اوراکاذیب روارکھے جاتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک اورمعجزہ نمااثر کی دل سے تعریف نکلتی ہے جو آپ کی تربیت نے عرب کے جاہل اوروحشی لوگوں میں ایسے قلیل عرصہ میں پیدا کیا۔
کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اوردھوکا دینا جائز ہے
بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے
تھے کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی ’’جنگ توایک دھوکا ہے۔‘‘ اوراس سے نتیجہ یہ نکالاجاتا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنگ میں دھوکے کی اجازت تھی۔حالانکہ اول تو اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌکے یہ معنی نہیں ہیں کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ’’جنگ خود ایک دھوکا ہے۔‘‘یعنی جنگ کے نتیجہ کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا۔یعنی جنگ کے نتیجہ پر اتنی مختلف باتیں اثرڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیںکہہ سکتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اوران معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث ۱؎ میں یہ روایت دوطرح سے مروی ہوئی ہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی’’جنگ ایک دھوکا ہے۔‘‘ اوردوسری روایت میں یہ ہے کہ سَمَّی الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ ’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کانام دھوکا رکھا تھا‘‘اوردونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کامنشاء یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے،لیکن اگرضرور اس کے یہی معنی کئے جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے توپھر بھی یقینا اس جگہ دھوکے سے جنگی تدبیر اورحیلہ مراد ہے جھوٹ اورفریب ہرگز مراد نہیں ہے کیونکہ اس جگہخُدْعَۃٌ کے معنے دائو پیچ اورتدبیر جنگ کے ہیں جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں۔پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کوکسی حیلہ اورتدبیر سے غافل کرکے قابو میں لے آنا یا مغلوب کرلینا منع نہیں ہے اور اس قسم کے دائو پیچ کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ مثلاً صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم میںنکلتے تھے توعموماًاپنا منزل مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا تھا،مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کرکے روانہ ہوجاتے تھے اورپھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یاجب کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو توبجائے مدینہ کا نام لینے کے قریب یادور کے پڑائو کانام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اورجائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے صحابہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کے لئے میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے تھے اورجب دشمن غافل ہوجاتا تھا اوراس کی صفوں میں ابتری پیدا ہوجاتی تھی توپھر اچانک حملہ کردیتے تھے اوریہ ساری صورتیں اس خُدْعَۃٌ کی ہیں جسے حالات جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً فرمایا کرتے تھے کہ’’اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔‘‘ ۱؎ نیز فرماتے تھے کہ ایمان اوربزدلی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں مگر ایمان اورجھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ ۲؎ اوردھوکے اورغداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہوگا۔ ۳؎ الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدْعَۃٌ کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جوجنگ میںدشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کے لئے اختیار کی جاتی ہیں اورجوبعض صورتوں میں ظاہری طورپر جھوٹ اوردھوکے کے مشابہ توسمجھی جاسکتی ہیں مگروہ حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔چنانچہ مندرجہ ذیل حدیث ہمارے اس خیال کی مصدق ہے۔
عَنْ اُمِّ کُلْثُوْمَ بِنْتِ عَقَبَۃَ بْنِ اَبِیْ مُعِیْطٍ قَالَتْ لَمْ اَسْمَعِ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُرَخِّصُ فِیْ شَیْ ئٍ مِمَّا یَقُوْلُ النَّاسُ کِذْبٌ اِلاَّفِیْ ثَلاَتٍ اَلْحَرْبِ وَالِاْ صْلاَحِ بَیْنَ النَّاسِ وَحَدِیْثِ الرَّجُلِ امْرَاتَہٗ وَحَدِیْثِ الْمَرْأَۃِ زَوْجَھَا۔ ۴؎
یعنی’’ام کلثوم بنت عقبہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تین موقعوں کے لئے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقتاً توجھوٹ نہیںہوتیںمگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔اوّل جنگ ۔دوم لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اورسوم جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اورخوش کرنا مقصود ہو ۔‘‘
یہ حدیث اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس قسم کے خُدْعَۃٌ کی جنگ میں اجازت دی گئی ہے ،اس سے جھوٹ اوردھوکا مراد نہیں ہے بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرنی ضروری ہوتی ہیں اورجو ہر قوم اورہرمذہب میں جائز سمجھی گئی ہیں۔
کعب بن اشرف کاواقعہ ذکرکرنے کے بعد ابن ہشام نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کعب کے قتل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اب جس یہودی پرتم قابو پائو اسے قتل کردو۔ چنانچہ ایک صحابی محیصہ نامی نے ایک یہودی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا تھا اوریہی روایت ابو دائود ۱؎ نے نقل کی ہے اوردونوں روایتوں کا منبع ابن اسحاق ہے۔علم روایت کی رو سے یہ روایت کمزور اورناقابل اعتماد ہے کیونکہ ابن ہشام نے تو اسے بغیر کسی قسم کی سند کے لکھا ہے اور ابودائودنے جوسند دی ہے وہ کمزور اورناقص ہے۔اس سند میں ابن اسحاق یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ زین بن ثابت کے ایک آزاد کردہ غلام سے سنا تھا اوراس نامعلوم الاسم غلام نے محیصہ کی ایک نامعلوم الاسم لڑکی سے سنا تھااوراس لڑکی نے اپنے باپ سے سنا تھا…الخ۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی روایت جس کے دوراوی بالکل نامعلوم الاسم اورمجہول الحال ہوں ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی اوردرایت کے لحاظ سے بھی غور کیا جاوے تویہ قصہ درست ثابت نہیںہوتا،کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعام طریق عمل اس بات کوقطعی طورپر جھٹلاتا ہے کہ آپؐنے اس قسم کا عام حکم دیا ہو۔ علاوہ ازیں اگرکوئی عام حکم ہوتا تویقینا اس کے نتیجہ میں کئی قتل واقع ہوجاتے مگرروایت میں صرف ایک قتل کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی عام حکم نہیں تھا اورپھر جب صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ نیا معاہدہ ہوگیا تھا ۲؎ تو اس صورت میں یہ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاہدہ کے ہوتے ہوئے اس قسم کا حکم دیا گیا ہواوراگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو یہودی لوگ اس کے متعلق ضرورواویلا کرتے،مگر کسی تاریخی روایت سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہود کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی شکایت کی گئی ہو۔پس روایت اوردرایت دونوں طرح سے یہ قصہ غلط ثابت ہوتا ہے اوراگر اس میں کچھ حقیقت سمجھی جاسکتی ہے تو صرف اس قدر کہ جب کعب بن اشرف کے قتل کے بعد مدینہ میںایک شور پیدا ہوا اوریہودی لوگ جوش میں آگئے تواس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف سے خطرہ محسوس کرکے صحابہ سے یہ فرمایا ہوگا کہ جس یہودی کی طرف سے تمہیں خطرہ ہو اورتم پرحملہ کرے تم اسے دفاع میں قتل کرسکتے ہو،مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالت صرف چند گھنٹے رہی تھی۔کیونکہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ ازسرنو معاہدہ ہوکر امن وامان کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔واللہ اعلم
کعب بن اشرف کے قتل کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔ابن سعد نے اسے ربیع الاول ۳ہجری میں بیان کیا ہے ،لیکن ابن ہشام نے اسے سریہ زید بن حارثہ کے بعد رکھا ہے جو مسلّم طورپر جمادی الآخرۃ میں واقع ہوا تھا۔میں نے اس جگہ ابن ہشام کی ترتیب ملحوظ رکھی ہے۔
حفصہؓ بنت عمرؓکی شادی شعبان۳ہجری
حضرت عمر ؓبن خطاب کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا۔،وہ خنیس بن حذافہ کے عقد میں
تھیںجوایک مخلص صحابی تھے اورجنگ بدر میںشریک ہوئے تھے۔بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خنیس بیمارہوگئے اوراس بیماری سے جانبر نہ ہوسکے۔ ۱؎ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓکو حفصہ کے نکاح ثانی کافکر دامن گیر ہوا۔اس وقت حفصہ کی عمر بیس سال سے اوپرتھی۔ ۲؎ حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میںخود عثمان بن عفان سے مل کر ان سے ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ اب بیوہ ہے، آپ اگرپسند کریں تواس کے ساتھ شادی کرلیں،مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا۔اس کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ سے ذکر کیا،لیکن حضرت ابوبکرؓ نے بھی خاموشی اختیار کی اورکوئی جواب نہیںدیا۔ ۳؎ اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا اورانہوں نے اسی ملال کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐسے ساری سرگزشت عرض کردی۔آپؐ نے فرمایا۔ عمر! کچھ فکر نہ کرو۔خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان وابوبکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اورعثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔ ۴؎ یہ آپؐنے اس لئے فرمایا کہ آپؐحفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کوحضرت عثمان کے ساتھ بیاہ کردینے کاارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان دونوں کواطلاع تھی اوراسی لئے انہوں نے حضرت عمر کی تجویز کوٹال دیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی فرمادی جس کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اوراس کے بعد آپؐنے خود اپنی طرف سے حضرت عمر کو حفصہ کے لئے پیغام بھیجا۔حضرت عمرؓکو اس سے بڑھ کراورکیا چاہئے تھا۔انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا۔۱؎ اورشعبان ۳ہجری میں حضرت حفصہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبویؐ میں داخل ہوگئیں۔ ۲؎ جب یہ رشتہ ہوگیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہو۔بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی،لیکن میں آپؐ کی اجازت کے بغیر آپؐکے راز کو ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ہاں اگر آپؐ کا یہ ارادہ نہ ہوتا تومیں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کرلیتا۔ ۳ ؎
حفصہ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں جوگویا حضرت ابوبکرؓ کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین خاص میں سے تھے۔پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمراورحفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جوخنیس بن حذافہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرمالیں اوردوسری عام مصلحت یہ مدّنظر تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتناہی عورتوں میں جو بنی نوع انسان کانصف حصہ بلکہ بعض جہات سے نصف بہتر حصہ ہیں دعوت وتبلیغ اورتعلیم کاکام زیادہ وسیع پیمانے پر اورزیادہ آسانی اورزیادہ خوبی کے ساتھ ہوسکے گا۔
تعدّدازدواج کے مسئلہ کے متعلق اصولی بحث ہم حضرت عائشہ کی شادی کے بیان میں کرچکے ہیں۔اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں لیکن اس قدر ذکر اس جگہ بے موقع نہ ہوگا کہ جو پابندیاں تعدّدازدواج کے متعلق اسلام عائد کرتا ہے اورجن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود عملاً کاربند تھے ان کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنا ہرگز عیش وعشرت کاذریعہ نہیں بن سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ ان شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج ایک بہت بڑی قربانی ہے جومرد اورعورت دونوں کو اپنے ذاتی یاخاندانی یاقومی یاملکی یادینی مصالح کے ماتحت اختیار کرنی پڑتی ہے اوراس قربانی کو اختیار کرنے والا شخص خانگی عیش وعشرت اورخانگی راحت وخوشی سے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ دور ہوتا ہے جس کے مال اورجس کی توجہ اورجس کے وقت اورجس کی ظاہری محبت کی مالک صرف ایک عورت ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص عیش وعشرت کے خیال سے زیادہ شادیاں کرتا ہے،وہ لازماًاپنی بیویوں کی خوراک اورپوشش اوررہائش وغیرہ کا خاص خیال رکھتا ہے اوران کے لئے ہرطرح کا سامان عیش وعشرت مہیا کرتا ہے۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل اس کے خلاف نظارہ نظرآتا ہے ۔دور نہ جائو قرآن ہی کو کھول کر دیکھو کہ جو مسلّم طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح میں صحیح ترین صحیفہ ہے کہ ایک موقع پر جبکہ باہر سے اموال کی آمد آمد شروع ہوگئی تھی اورصحابہ کسی قدر خوشحال ہورہے تھے آپؐکی بیویوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ اب اس فراخی سے کچھ حصہ ہمیں بھی ملنا چاہئے اوراب تک جوتنگی کے دن کاٹے ہیں اس کا کچھ ازالہ ہونا چاہئے تواس پرآپ نے فرمایا۔
۱؎
یعنی’’اگر تم دنیا کی زندگی اوراس کے مال ومتاع کوپسند کرتی ہوتو آئو میں تمہیں دنیا کے اموال دے دیتا ہوں،مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں(کیونکہ میں اپنی زندگی کودنیا کے اموال کی آلائش سے پاک رکھنا چاہتا ہوں)اوراگر میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو محض خدا کی خاطر اورمیرے منصب رسالت کی خاطر اورآخرت کی خاطر میرے ساتھ رہو۔اس صورت میں تم کو خدا کی طرف سے وہ عظیم الشان اجر ملے گا جونیکوکاروں کے لئے مقدر ہے۔‘‘
آپؐکے اس فرمان کو سن کر سب ازواج نے بالاتفاق عرض کیا کہ ہمیں خدا اوراس کا رسول بس ہیں۔دنیا کے اموال درکار نہیں۔ ۲؎ کیا اس زبردست تاریخی شہادت کے ہوتے ہوئے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاتعدّد ازدواج نعوذباللہ عیش وعشرت کاذریعہ تھا؟یقینا یقینا ہرنئی بیوی جوآپؐکے گھر آتی تھی وہ آپؐ کی خانگی تنگی کو زیادہ کرنے والی ہوتی تھی اوریہ آپؐ کی عظیم الشان قربانی کی روح تھی جس کی وجہ سے آپؐ نے اپنے دین اوراپنی قوم اوراپنے ملک کی خاطر ان تنگیوں کوخوشی کے ساتھ برداشت کیا اوراپنی زندگی کے امن اورقرار کوبرباد کرکے ایک بالکل درویشانہ اورمسافرانہ زندگی اختیار کی۔
آپؐ کے پیش کردہ مسئلہ تعدّدازدواج میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ علائق کمزور ہو جائیںجو دنیا میں انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کے بہت سے تعلقات ہیں جن کو اسے نبھانا پڑتا ہے۔مثلاًوالدین ہیں ،بھائی بہن ہیں،بیوی ہے،اولاد ہے،دوست ہیں،ہمسائے ہیں وغیرہ ذالک۔اوران سارے علائق میں سے جذباتی رنگ میں سب سے زیادہ گرم جوشی اورحدّت حس کا رشتہ بیوی کارشتہ ہے۔مرد کی محبت اپنی بیوی سے بعض اوقات ایسی صورت اختیار کرلیتی ہے جسے عرف عام میں عشق کے نام سے موسوم کرتے ہیں اوربعض اوقات جذبات کی تیزی اس عشق کوایک گونہ جنون کی حدتک بھی پہنچا دیتی ہے اورپھر ایسی حالت میں انسان سوائے اس عشق کے مظاہرے میںزندگی گزارنے کے اورکسی کام کا نہیں رہتا۔حالانکہ یہ مسلّم ہے کہ دنیا کی زندگی کے بہترین کام وہ ہیں جوانفرادی زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ اجتماعی اورقومی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان کے اندران فرائض کے پورا کرنے کے لئے بہترین قابلیت پیدا کرنا چاہتے تھے جوبنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپؐنے بعض حالات میں خاص شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج کی اجازت دے کر مرد اورعورت کے اس رشتے کو ایسی صورت دے دی ہے کہ اس کے اندر محویت کا عالم نہ پیدا ہوسکے۔اوراس اصل کے ماتحت آپؐ کا تعدّد ازدواج پرعمل کرنا علائق خانگی کوکمزور کرنے کی غرض سے تھا نہ کہ انہیں مضبوط کرنے کے واسطے۔چنانچہ آپؐکاوہ جواب جو آپؐنے اپنی بیویوں کوان کی طرف سے مال کا مطالبہ ہونے پر دیا اس پر شاہد ہے اوراس سے پتہ لگتا ہے کہ آپؐ نہ صرف خود اپنی توجہ کوخدا کے لئے اوراپنے منصب رسالت کے لئے وقف رکھنا چاہتے تھے بلکہ اپنی بیویوں کے متعلق بھی آپ کے دل میں یہی خواہش تھی کہ ان کا آپ کے ساتھ تعلق محض خدا کے لئے اورآپ کے منصب رسالت کے لئے اورآخرت کے لئے ہو۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعدّد ازدواج دینی اورقومی اورملکی مفاد کے ماتحت تھا اوران حالات میں یقینا یہ ایک شخصی مفاد کی بہت بڑی قربانی تھی جو آپ نے اختیار کی کیونکہ آپ نے اپنی خانگی زندگی میں ایک سخت درجہ تلخی اورتنگی پیدا کرکے اپنے ان فرائض کے انجام دینے کے لئے آسانی پیدا کی جو ایک شارع اوردینی مصلح اورلیڈر کی حیثیت میں آپ پرعائد ہوتے تھے اوراس لئے آپ کایہ فعل ہر اس شخص کے شکریہ کا مستحق ہے جو جنگل کے وحشی جانوروں کی طرح صرف اپنی جسمانی خواہشات اورشخصی اورانفرادی مفاد کا خیال نہیں رکھتا بلکہ اخلاقی اورروحانی اورقومی اوراجتماعی زندگی کی اصلاح اورترقی کواپنا نصب العین بناتا ہے۔
حضرت حفصہؓکی عمرشادی کے وقت قریباًاکیس سال تھی اوربوجہ اس کے کہ حضرت عائشہ ؓکے بعد وہ صحابہ میں سے ایک افضل ترین شخص کی صاحبزادی تھیں۔ازواج مطہرات میں ان کا ایک خاص درجہ سمجھا جاتا ہے اورحضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی ان کا بہت جوڑ تھا اورسوائے کبھی کبھار کی کش مکش کے جوایسے رشتہ میں ہوجایا کرتی ہے،وہ دونوں آپس میں بہت محبت کے ساتھ رہتی تھیں۔ حضرت حفصہؓلکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔چنانچہ حدیث ۱؎ میں ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے ایک صحابی عورت شفاء بنت عبداللہ سے لکھنا سیکھا تھا۔ان کی وفات ۴۵ہجری میں ہوئی جبکہ ان کی عمر کم وبیش تریسٹھ سال کی تھی۔
ولادت امام حسنؓرمضان ۳ہجری
۲ہجری کے واقعات میں حضرت علی ؓاورحضرت فاطمہؓ کے نکاح کاذکر گزر چکا ہے۔ان کے ہاں رمضان ۳ہجری میں
یعنی نکاح کے قریباًدس ماہ بعد ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن ؓرکھا۔یہ وہی حسنؓ ہیں جو بعد میں مسلمانوں میں امام حسن علیہ الرحمتہ کے نام سے ملقب ہوئے۔حسنؓاپنی شکل وصورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح اپنی اولاد حضرت فاطمہ سے بہت محبت تھی اسی طرح حضرت فاطمہ کی اولاد سے بھی آپؐکوخاص محبت تھی۔کئی دفعہ فرماتے تھے خدایا مجھے ان بچوں سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت کراوران سے محبت کرنے والوں سے محبت کر۔کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ آپؐنماز میں ہوتے تو حسنؓآپؐسے لپٹ جاتے۔رکوع میں ہوتے تو آپؐکی ٹانگوں میں سے راستہ بنا کرنکل جاتے۔بعض اوقات جب صحابہ انہیں روکتے توآپؐصحابہ کومنع فرمادیتے کہ روکو نہیں۔دراصل چونکہ ان کا لپٹنا آپؐکی توجہ کومنتشر نہیں کرتا تھا۔اس لئے آپ ان کی معصوم محبت کے طفلانہ مظاہرہ میں مزاحم نہیں ہونا چاہتے تھے۔امام حسنؓکے متعلق ایک دفعہ آپؐنے فرمایا کہ میرا یہ بچہ سید یعنی سردار ہے اورایک وقت آئے گا کہ خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوگرہوں میں صلح کرائے گا۔چنانچہ اپنے وقت پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ ۲؎

ایک مصیبت کادھکّہ ۔قانون ورثہ۔ حرمت شراب
کفار کی غداری اوردودردناک واقعات
جنگ اُحد۔ شوال ۳ہجری مطابق مارچ ۶۲۴ء
جنگ بدرکے نتیجے میں جو ماتم عظیم مکہ میں برپا ہوا تھا اس کا ذکر جنگ بدر کے حالات
میں کیا جا چکا ہے۔سرداران قریش نے قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک مقتولین بدرکا انتقام نہ لے لیں گے اس وقت تک چین نہ لیں گے۔ان کے اس جذبۂ انتقام کومدینہ کے بدعہد یہود کی خفیہ اشتعال انگیزیوں نے اور بھی زیادہ بھڑکا دیا تھا۔چنانچہ بدر کے بعد قریش مکہ نے دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بہت سخت اکسانا شروع کردیا اورخود بھی برابر اس تاک میں رہے کہ جب بھی موقع ملے مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں کچل ڈالیں۔بنوسلیم اوربنو غطفان کا مدینہ پر حملہ آور ہونے کی غرض سے بار بار جمع ہونا جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے زیادہ تر قریش مکہ ہی کی اشتعال انگیزیوں کا نتیجہ تھا۔غزوہ سویق بھی جس میں ابوسفیان نے مدینہ پرشب خون مارنے کی تجویز کی تھی اسی زنجیر کی ایک کڑی تھی اورچونکہ خدا کے فضل سے اس غزوہ میں قریش کو ذلت کامنہ دیکھنا پڑا تھا،اس لئے ان کا جوش انتقام اوربھی زیادہ ہوگیا تھا اورگو اس وقت انہوں نے عرب کے سامنے اپنی عزت رکھنے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ ہماری قسم پوری ہوگئی ہے،لیکن ان کے دل اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ غزوہ سویق نے ان کے ماتھے پرذلت کاایک اوردھبہ لگادیا تھا۔ لہذا اس کے بعد انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کی۔چنانچہ غزوہ اُحد جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں اسی تیاری کا نتیجہ تھا۔
جس تجارتی قافلہ کا ذکر جنگ بدر کے حالات میں گزر چکاہے اس کے منافع کاروپیہ جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ ۱ ؎ رئوسائے مکہ کے فیصلہ کے مطابق ابھی تک دارالندوہ میں مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کے واسطے محفوظ پڑا تھا۔ ۲ ؎ اب اس روپے کو نکالا گیا اوربڑے زورشور سے جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔ ۳ ؎ مسلمانوں کواس تیاری کاعلم بھی نہ ہوتا اورلشکر کفار مسلمانوں کے دروازوں پرپہنچ جاتا،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیدار مغزی نے تمام ضروری احتیاطیں اختیار کررکھی تھیں۔یعنی آپؐنے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کوجو دل میں آپؐکے ساتھ تھے مکہ میں ٹھہرے رہنے کی تاکید کررکھی تھی اوروہ قریش کی حرکات وسکنات سے آپؐکو اطلاع دیتے رہتے تھے۔ ۴ ؎ چنانچہ عباس بن عبدالمطلب نے اس موقع پر بھی قبیلہ بنوغفار کے ایک تیزروسوار کو بڑے انعام کا وعدہ دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور ایک خط کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوقریش کے اس ارادے سے اطلاع دی۔ ۵ ؎ اوراس قاصد کوسخت تاکید کی کہ تین دن کے اندر اندر آپ کو یہ خط پہنچا دے۔جب یہ قاصد مدینہ پہنچا تواتفاق سے اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ کے حوالی قبا میں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔چنانچہ یہ قاصد آپؐ کے پیچھے وہیں قبا میں پہنچااورآپؐ کے سامنے یہ بندخط پیش کردیا۔آپؐ نے فوراًاپنے کاتب خاص ابیّ بن کعب انصاری کویہ خط دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھ کر سنائو کہ کیا لکھا ہے ابیّ نے خط پڑھ کر سنایا تواس میں یہ وحشت ناک خبردرج تھی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آرہاہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خط سن کر ابی بن کعب کوتاکید فرمائی کہ اس کے مضمون سے کسی کو اطلاع نہ ہو۔ ۶ ؎ اورپھر آپؐ نے مدینہ میں واپس تشریف لا کر اپنے دوصحابیوں کولشکر قریش کی خبر رسانی کے لئے مکہ کے راستہ کی طرف روانہ فرمادیا۔غالباًاسی موقع پر آپ نے مسلمانوں کی تعدادو طاقت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مدینہ کی تمام مسلمان آبادی کی مردم شماری کی جاوے۔ چنانچہ مردم شماری کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس وقت تک کل پندرہ سو مسلمان متنّفس ہیں۔اس وقت کے حالات کے ماتحت اسی تعداد کوبہت بڑی تعداد سمجھا گیا۔ چنانچہ بعض صحابہ نے تو اس وقت خوشی کے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ کیا اب بھی جبکہ ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی ہے ہمیں کسی کاڈر ہوسکتا ہے؟مگرانہی میں سے ایک صحابی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم پرایسے ایسے سخت وقت آئے کہ بعض اوقات ہمیں نماز بھی چھپ چھپ کرادا کرنی پڑتی تھی۔ ۷ ؎ ایک موقع پراس سے پہلے بھی آپؐنے مسلمانوں کی مردم شماری کروائی تھی تواس وقت چھ اور سات سو کے درمیان تعداد نکلی تھی۔ ۱ ؎
غالباً رمضان ۳ہجری کے آخر یاشوال کے شروع میں قریش کالشکر مکہ سے نکلا۔لشکر میں دوسرے قبائل عرب کے بہت سے بہادر بھی شامل تھے۔ ۲ ؎ ابو سفیان سردار لشکر تھا۔لشکر کی تعداد تین ہزارتھی جس میں سات سوزرہ پوش سپاہی شامل تھے۔سواری کا سامان بھی کافی تھا۔یعنی دوسوگھوڑے اورتین ہزار اونٹ تھے۔ ۳ ؎ اورسامان حرب بھی کافی وشافی مقدار میں تھا۔عورتیں بھی ساتھ تھیں جن میں ہند زوجہ ابوسفیان اور عکرمہ بن ابوجہل،صفوان بن امیہ،خالد بن ولید اورعمرو ابن العاص کی بیویاں اور مصعب بن عمیرصحابی کی مشرکہ ماں خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ ۴ ؎ یہ عورتیں عرب کی قدیم رسم کے مطابق گانے بجانے کاسامان اپنے ساتھ لائی تھیں تاکہ اشتعال انگیز اشعار گاکر اور دفیں بجا کر اپنے مردوں کو جوش دلاتی رہیں۔
قریش کا یہ لشکر دس گیارہ دن کے سفر کے بعد مدینہ کے پاس پہنچا اورچکر کاٹ کر مدینہ کے شمال کی طرف احد کی پہاڑی کے پاس ٹھہرگیا۔اس جگہ کے قریب ہی عریض کاسرسبز میدان تھا جہاں مدینہ کے مویشی چرا کرتے تھے اورکچھ کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی۔قریش نے سب سے پہلے اس چراگاہ پر حملہ کرکے اس میں من مانی غارت مچائی۔ ۵ ؎ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے مخبروں سے لشکر قریش کے قریب آجانے کی اطلاع موصول ہوئی توآپؐنے اپنے ایک صحابی حباب بن منذر کو روانہ فرمایا کہ وہ جاکر دشمن کی تعداد اورطاقت کا پتہ لائیں۔ ۶ ؎ اورآپؐنے انہیں تاکید فرمائی کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کی صورت ہو توواپس آکر مجلس میں اس کا ذکر نہ کریں بلکہ علیحدگی میں اطلاع دیں تاکہ اس سے کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے۔حباب خفیہ خفیہ گئے اورنہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں ہی واپس آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سارے حالات عرض کردئے۔۷ ؎ یہ جمعرات کا دن تھا اوراب لشکر قریش کی آمد کی خبر مدینہ میں پھیل چکی تھی اورعریض پر جو اِن کا حملہ ہوا تھا اس کی اطلاع بھی عام ہوچکی تھی اورگوعامتہ الناس کولشکر کفار کے تفصیلی حالات کا علم نہیں دیاگیا تھا،مگر پھر بھی یہ رات مدینہ میں سخت خوف اورخطرہ کی حالت میں گزری ۔خاص خاص صحابہ نے ساری رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکان کے اردگرد پہرہ دیا۔ ۱ ؎ صبح جمعہ کادن تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوجمع کرکے ان سے قریش کے اس حملہ کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی ٹھہرا جاوے یاباہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے۔ ۲ ؎ اس مشورہ میں عبداللہ بن ابیّ بن سلول بھی شریک تھا جودراصل تو منافق تھا،مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہوچکا تھا اوریہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے مشورہ میں شرکت کی دعوت دی۔مشورہ سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اوران کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اورفرمایا کہ ’’آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے اورنیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسرا ٹوٹ گیا ہے۔ ۳ ؎ اورپھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اورمیں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ ۴ ؎ اورایک روایت میں یہ بھی مذکور ہوا ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوارہوں۔ ۵ ؎ صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ!آپؐنے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔’’گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے اورمیری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ ۶ ؎ یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے۔ ۷ ؎ اورزرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے مقابلہ کے لئے ہمارا مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔ ۸ ؎ اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپؐنے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علمبردار مراد ہے جو انشاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ ۹ ؎ اس کے بعد آپؐنے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورت میں کیا کرنا چاہئے۔بعض اکابر صحابہ نے حالات کے اونچ نیچ کو سوچ کراورشاید کسی قدر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خواب سے بھی متاثر ہوکریہ رائے دی کہ مدینہ میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے یہی رائے عبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس المنافقین نے دی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند فرمایا اورکہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر ان کامقابلہ کریں،لیکن اکثر صحابہ نے خصوصاًان نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اوراپنی شہادت سے خدمت دین کا موقع حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہورہے تھے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ ۱ ؎ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ اپنی رائے کوپیش کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اورپھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐنے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہوکر ثواب حاصل کریں۔اس کے بعد آپؐ اندرون خانہ تشریف لے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓاورحضرت عمرؓکی مدد سے آپؐنے عمامہ باندھا اورلباس پہنا اورپھر ہتھیار لگا کر اللہ کانام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔لیکن اتنے عرصہ میں حضرت سعدبن معاذ رئیس قبیلہ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے سے نوجوان پارٹی کواپنی غلطی محسوس ہونے لگی تھی کہ رسول خدا کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہئے تھا اوراب اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔
جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اوردوہری زرہ اورخود وغیرہ پہنے ہوئے تشریف لاتے دیکھا توان کی ندامت اوربھی زیادہ ہوگئی اورانہوں نے قریباًیک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔انشاء اللہ اسی میں برکت ہوگی۔ ۲ ؎ آپؐ نے فرمایا۔’’خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ ۳ ؎ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔۴ ؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لشکر اسلامی کے لئے تین جھنڈے تیار کروائے۔قبیلہ اوس کا جھنڈا اسیدبن الحضیر کے سپرد کیا گیا اورقبیلہ خزرج کاجھنڈا حباب بن منذر کے ہاتھ میں دیا گیا اورمہاجرین کاجھنڈا حضرت علی کودیا گیااور پھر مدینہ میں عبداللہ بن ام مکتوم کوامام الصلوٰۃ مقرر کرکے آپؐصحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینہ سے نکلے۔قبیلہ اوس اورخزرج کے رئوساء سعد بن معاذ اورسعد بن عبادۃ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اورباقی صحابہ آپؐکے دائیں اوربائیں اورپیچھے چل رہے تھے۔۵ ؎ اُحدکا پہاڑ مدینہ کے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔اس کے نصف میں پہنچ کر اس مقام میں جسے شیخین کہتے ہیں آپؐنے قیام فرمایا اورلشکر اسلامی کاجائز لئے جانے کا حکم دیا۔کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے واپس کئے گئے۔ ۱ ؎ چنانچہ عبداللہ بن عمر،اسامہ بن زید،ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کئے گئے۔رافع بن خدیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگرتیراندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جاوے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھاکردیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کرکھڑے ہوگئے تاکہ چست اورلمبے نظرآئیں۔چنانچہ ان کا یہ دائو چل گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔اس پر ایک اوربچہ سمرۃ بن جندب نامی جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اورکہا کہ اگررافع کولیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہئے ۔کیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اوراسے کشتی میں گرا لیتا ہوں۔باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بہت خوشی ہوئی اوروہ اسے ساتھ لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنے بیٹے کی خواہش بیان کی ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھارافع اورسمرۃ کی کشتی کروائو،تاکہ معلوم ہوکہ کون زیادہ مضبوط ہے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقع میں سمرۃ نے پل بھر میں رافع کواٹھا کردے مارا ۔جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سمرۃ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اوراس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا۔ ۲ ؎ اب چونکہ شام ہوچکی تھی اس لئے بلال نے اذان کہی اورسب صحابہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی اورپھررات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات کے پہرے کے لئے محمد بن مسلمہ کومنتظم مقررفرمایا جنہوں نے پچاس صحابہ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکر اسلامی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا۔ ۳ ؎
دوسرے دن یعنی ۱۵شوال ۳ہجری ۴ ؎ مطابق ۳۱مارچ ۶۲۴ء ۵ ؎ بروز ہفتہ سحری کے وقت لشکر اسلامی آگے بڑھا اورراستے میں نماز اداکرتے ہوئے صبح ہوتے ہی اُحد کے دامن میں پہنچ گیا۔ اس موقع پربدباطن عبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس المنافقین نے غداری کی اوراپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کریہ کہتا ہوا مدینہ کی طرف واپس لوٹ گیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اورناتجربہ کارنوجوانوں کے کہنے میں آکر باہرنکل آئے ہیں،اس لئے میں ان کے ساتھ ہوکر نہیں لڑسکتا۔بعض لوگوں نے بطور خود اسے سمجھایا بھی کہ یہ غداری ٹھیک نہیں ہے،مگر اس نے ایک نہ سنی اوریہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی تومیں بھی شامل ہوتامگر یہ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ خود ہلاکت کے منہ میں جانا ہے۔ ۱ ؎ اب اسلامی لشکر کی تعدادصرف سات سونفوس پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلہ میں ایک چہارم سے بھی کم تھی اورسواری اورسامان حرب کے لحاظ سے بھی اسلامی لشکر قریش کے مقابلہ میں بالکل کمزور اورحقیر تھا۔کیونکہ مسلمانوں کی فوج میں صرف ایک سوزرہ پوش اورفقط دو گھوڑے تھے۔ ۲ ؎ اس کے بالمقابل کفار کے لشکر میں سات سوزرہ پوش اوردو سو گھوڑے اورتین ہزار اونٹ تھے۔اس کمزوری کی حالت میں جسے مسلمان خوب محسوس کرتے تھے عبداللہ بن ابیّ کے تین سو آدمی کی غداری نے بعض کمزوردل مسلمانوں میں ایک بے چینی اور اضطراب کی حالت پیدا کردی اور ان میں سے بعض متزلزل ہونے لگ گئے۔چنانچہ جیسا کہ قرآن شریف ۳ ؎ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے اسی گھبراہٹ اوراضطراب کی حالت میں مسلمانوں کے دو قبائل بنوحارثہ اوربنوسلمہ نے مدینہ کی طرف واپس لوٹ جانے کاارادہ بھی کرلیا،مگر چونکہ دل میں نور ایمان موجود تھاپھرسنبھل گئے اورظاہری اسباب کے لحاظ سے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنے آقا کے پہلو کونہ چھوڑا۔ ۴ ؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اوراُحد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ایسے طریق پرکہ اُحد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اورمدینہ گویا سامنے رہا۔اوراس طرح آپؐنے لشکر کا عقب محفوظ کرلیا۔عقب کی پہاڑی میں ایک درہ تھاجہاں سے حملہ ہوسکتا تھا۔اس کی حفاظت کا آپؐنے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیرانداز صحابی وہاں متعین فرمادئے اوران کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے وہ اس جگہ کونہ چھوڑیں اوردشمن پرتیر برساتے جائیں۔ آپؐکو اس درہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐنے عبداللہ بن جبیر سے بہ تکرار فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔حتّٰی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہوگئی ہے اوردشمن پسپا ہوکر بھاگ نکلا ہے،تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اوراگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کوشکست ہوگئی ہے اوردشمن ہم پر غالب آگیا ہے توپھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ ۵ ؎ حتّٰی کہ ایک رو۱یت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتّٰی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کاحکم جاوے۔ ۱ ؎ اس طرح اپنے عقب کو پوری طرح محفوظ کرکے آپؐنے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اورمختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقع پرآپؐ کو ایہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہے۔طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قصی بن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔یہ معلوم کرکے آپؐنے فرمایا۔’’ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیںچنانچہ آپ نے حضرت علی سے مہاجرین کاجھنڈا لے کر مصعب بن عمیر کے سپرد فرمادیا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔ ۲ ؎
دوسری طرف قریش کے لشکر میں بھی صف آرائی ہوچکی تھی۔ابو سفیان امیرالعسکر تھا۔میمنہ پر خالدبن ولید کمانڈر تھا۔اور میسرہ پرعکرمہ بن ابوجہل تھا۔تیر انداز عبداللہ بن ربیعہ کی کمان میںتھے۔ ۳ ؎ عورتیں لشکر کے پیچھے دفیںبجابجا کر اوراشعار گاگاکر مردوں کوجوش دلاتی تھیں۔ ۴ ؎
سب سے پہلے لشکر قریش سے ابوعامر اوراس کے ساتھی آگے بڑھے۔اس شخص کاذکر اوپر گزر چکا ہے کہ یہ قبیلہ اوس میں سے تھا اورمدینہ کا رہنے والا تھا اورراہب کے نام سے مشہور تھا۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اس کے کچھ عرصہ بعد یہ شخص بغض وحسد سے بھرگیا اوراپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ چلاگیا اورقریش مکہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوںکے خلاف اکساتا رہا۔چنانچہ اب جنگ احد میںوہ قریش کاحمایتی بن کر مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ ہوا۔اوریہ ایک عجیب بات ہے کہ ابوعامر کابیٹا حنظلہ ایک نہایت مخلص مسلمان تھا اوراس جنگ کے موقع پراسلامی لشکر میں شامل تھا اورنہایت جانبازی کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوا۔ابو عامرچونکہ قبیلہ اوس کے ذی اثر لوگوں میںسے تھا۔اس لئے اسے یہ پختہ امید تھی کہ اب جو میں اتنے عرصہ کی جدائی کے بعد مدینہ والوں کے سامنے ہوں گا تو وہ میری محبت میںفوراًمحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میرے ساتھ آملیں گے ۔اسی امید میں ابوعامر اپنے ساتھیوں کوہمراہ لے کر سب سے پہلے آگے بڑھا اوربلند آواز سے پکار کرکہنے لگا۔’’اے قبیلہ اوس کے لوگو!میںابو عامرہوں۔‘‘انصار نے یک زبان ہوکرکہا۔’’دورہوجااے فاسق!تیری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو۔‘‘۵؎ اورساتھ ہی پتھروں کی ایک ایسی باڑماری کہ ابو عامر اوراس کے ساتھی بدحواس ہوکر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔ ۱ ؎ اس نظارہ کو دیکھ کر قریش کاعلمبردار طلحہ بڑے جوش کی حالت میںآگے بڑھا اوربڑے متکبرانہ لہجہ میں مبارز طلبی کی۔ حضرت علی آگے بڑھے اوردوچار ہاتھ میں طلحہ کوکاٹ کررکھ دیا۔اس کے بعد طلحہ کابھائی عثمان آگے آیااورادھر سے اس کے مقابل پرحضرت حمزہ نکلے اورجاتے ہی اسے مارگرایا۔کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا کردیا۔مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوںفوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا۔’’کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے۔‘‘بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے۔ ۲ ؎ جن میںحضرت عمراورزبیرؓبلکہ بعض روایات کی رو سے حضرت ابوبکر وحضرت علی بھی شامل تھے۔ ۳ ؎ مگرآپؐنے اپنا ہاتھ روکے رکھا اوریہی فرماتے گئے۔’’کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟‘‘آخر ابودجانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اورعرض کیا۔’’یارسول اللہ! مجھے عنایت فرمایئے۔‘‘آپؐنے یہ تلوار انہیں دے دی اورابو دجانہ اسے ہاتھ میں لے کر تَبَخْتُرکی چال سے اکڑتے ہوئے کفار کی طرف آگے بڑھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا خدا کو یہ چال بہت ناپسند ہے ،مگر ایسے موقع پر ناپسند نہیں۔۴ ؎ زبیر جو غالباً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اورقرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے یہ تلوار نہیں دی اورابودجانہ کو دے دی اوراپنی اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابودجانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اوردیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابودجانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اوراس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اورمیں نے دیکھا کہ وہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیرتا جاتا تھااورمیں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو۔ حتّٰی کہ وہ لشکر قریش میں سے اپنا راستہ کاٹتا ہوالشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں۔ہند زوجہ ابوسفیان جوبڑے زورشور سے اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھی اس کے سامنے آئی اورابو دجانہ نے اپنی تلوار اس کے اوپر اٹھائی۔جس پر ہند نے بڑے زور سے چیخ ماری اوراپنے مردوں کوامداد کے لئے بلایا۔مگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا،لیکن میں نے دیکھا کہ ابودجانہ نے خود بخود ہی اپنی تلوار نیچی کرلی اوروہاں سے ہٹ آیا۔زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودجانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی اورپھر نیچی کرلی۔اس نے کہامیرا دل اس بات پر تیار نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پرچلائوں اورعورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں۔زبیر کہتے ہیں۔میں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ کی تلوار کاابودجانہ نے اداکیا ہے وہ شاید میں نہ کرسکتا اورمیرے دل کی خلش دورہوگئی۔ ۱ ؎
الغرض قریش کے علمبردار کے مارے جانے کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں اور سخت گھمسان کا رن پڑا اورایک عرصہ تک دونوں طرف سے قتل وخون کا سلسلہ جاری رہا۔آخر آہستہ آہستہ اسلامی لشکر کے سامنے قریش کی فوج کے پائوں اکھڑنے شروع ہوئے۔چنانچہ مشہور انگریز مؤرخ سرولیم میورلکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پائوں اکھڑنے لگ گئے۔قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہوکر حملہ کریں۔مگر ہردفعہ ان کو ان پچاس تیراندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعین کئے ہوئے تھے۔مسلمانوں کی طرف سے اُحد کے میدان میں بھی وہی شجاعت ومردانگی اور موت وخطر سے وہی بے پروائی دکھائی گئی جوبدر کے موقع پرانہوں نے دکھائی تھی۔مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں۔جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودجانہ ان پر حملہ کرتا تھا اوراس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔حمزہ اپنے سر پرشترمرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہواہرجگہ نمایاں نظر آتا تھا۔علی اپنے لمبے اورسفید پھریرے کے ساتھ اورزبیر اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادران اِلْیَڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت وپریشانی کاپیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔یہ وہ نظارے ہیںجہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیرہوئے۔‘‘ ۲ ؎
غرض لڑائی ہوئی اوربہت سخت ہوئی اورکافی وقت تک غلبہ کاپہلو مشکوک رہا۔لیکن آخر خدا کے فضل سے قریش کے پائوں اکھڑنے لگے اوران کے لشکر میں بدنظمی اورابتری کے آثار ظاہر ہونے لگے۔قریش کے علمبردار ایک ایک کرکے مارے گئے اوران میںسے تقریباًنوشخصوں نے باری باری اپنے قومی جھنڈے کواپنے ہاتھ میں لیا۔مگر سارے کے سارے باری باری مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ ۱ ؎ آخر طلحہ کے ایک حبشی غلام صواب نامی نے دلیری کے ساتھ بڑھ کر علم اپنے ہاتھ میں لے لیا،مگر اس پر بھی ایک مسلمان نے آگے بڑھ کروار کیا اورایک ہی ضرب میں اس کے دونوں ہاتھ کاٹ کر قریش کاجھنڈا خاک پرگرادیا،لیکن صواب کی بہادری اورجوش کابھی یہ عالم تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہی زمین پرگرا اورجھنڈے کواپنی چھاتی کے ساتھ لگاکراسے پھربلند کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس مسلمان نے جوجھنڈے کے سرنگوں ہونے کی قدروقیمت کو جانتاتھا اوپرسے تلوار چلاکر صواب کو وہیں ڈھیرکردیا۔اس کے بعد پھرقریش میں سے کسی شخص کو یہ جرأت اورہمت نہیں ہوئی کہ اپنے عَلم کو اٹھائے۔ ۲ ؎ ادھرمسلمانوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاحکم پاکر تکبیر کانعرہ لگاتے ہوئے پھر زور سے حملہ کیا اوردشمن کی رہی سہی صفوں کوچیرتے اور منتشر کرتے ہوئے لشکر کے دوسرے پار قریش کی عورتوں تک پہنچ گئے اورمکہ کے لشکر میں سخت بھاگڑ پڑگئی ۳ ؎ اوردیکھتے ہی دیکھتے میدان قریباً صاف ہوگیا۔حتّٰی کہ مسلمانوں کے لئے ایسی قابل اطمینان صورت حال پیداہوگئی کہ وہ مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ۴ ؎
جب عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے توانہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب توفتح ہوچکی ہے اورمسلمان غنیمت کامال جمع کررہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جاکر شامل ہوجائیں۔عبداللہ نے انہیں روکا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی،مگروہ فتح کی خوشی میں غافل ہورہے تھے اس لئے وہ باز نہ آئے۔۵ ؎ اوریہ کہتے ہوئے نیچے اترگئے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ جب تک کہ پورا اطمینان نہ ہولے درہ خالی نہ چھوڑا جاوے اوراب چونکہ فتح ہوچکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اورسوائے عبداللہ بن جبیر اوران کے پانچ سات ساتھیوں کے درہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا۔ ۶ ؎ خالد بن ولید کی تیزآنکھ نے دور سے درہ کی طرف دیکھا تومیدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کوجلدی جلدی جمع کرکے فوراًدرّہ کارخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اوریہ دونوں دستے عبداللہ بن جبیر اوران کے چند ساتھیوں کوایک آن کی آن میں شہید کرکے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہوگئے۔ ۱ ؎ مسلمان جو فتح کے اطمینان میں غافل اورمنتشر ہورہے تھے اس بلائے ناگہانی سے گھبرا گئے۔مگرپھر بھی سنبھلے اورپلٹ کرکفار کے حملہ کوروکناچاہا اس وقت کسی چالاک معاند نے یہ آواز دی کہ اے مسلمانو!دوسری طرف سے بھی کفار کادھاوا ہوگیا ہے۔ ۲ ؎ مسلمانوں نے سراسیمہ ہوکر پھرپلٹا کھایا اورگھبراہٹ میں بے دیکھے سمجھے اپنے آدمیوں پرہی تلوار چلانی شروع کردی۔ ۳ ؎ دوسری طرف مکہ کی ایک بہادر عورت عمرۃ بنت علقمہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو جھٹ آگے بڑھ کر قریش کاعَلَم جوابھی تک خاک میں پڑا تھا اٹھا کربلند کردیا جسے دیکھتے ہی قریش کامنتشر لشکر پھر جمع ہوگیا۔ ۴ ؎ اوراس طرح مسلمان حقیقتاً چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میںگھرگئے اور اسلامی فوج میں ایک خطرناک کھلبلی کی صورت پیداہوگئی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو ایک بلند جگہ پرکھڑے ہوئے یہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے مسلمانوں کوآواز پرآواز دی،مگر اس شورشرابے میں آپ کی آواز دب دب کررہ جاتی تھی۔۵ ؎ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنے قلیل عرصہ میں ہوگیا کہ اکثرمسلمان بالکل بدحواس ہوگئے۔حتّٰی کہ اس بدحواسی میں بعض مسلمان ایک دوسرے پر وارکرنے لگ گئے اوراپنے پرائے میں امتیاز نہ رہا۔چنانچہ خود مسلمانوں کے ہاتھ سے بعض مسلمان زخمی ہوگئے اورحذیفہ کے والد یمان کوتو مسلمانوں نے غلطی سے شہید ہی کردیا۔حذیفہ اس وقت قریب ہی تھے وہ چلاتے رہ گئے کہ اے مسلمانو!یہ میرے والد ہیں مگراس وقت کون سنتا تھا۔۶ ؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں مسلمانوں کی طرف سے یمان کاخون بہااداکرنا چاہا مگر حذیفہ نے لینے سے انکار کردیا اورکہا کہ میں اپنے باپ کا خون مسلمانوں کو معاف کرتا ہوں۔ ۷ ؎
حضرت حمزہ جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچاہونے کے علاوہ آپؐکے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ۸ ؎ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے اورجدھر جاتے تھے ان کے سامنے قریش کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں مگر دشمن بھی ان کی تاک میں تھا اورجبیربن مطعم اپنے ایک حبشی غلام وحشی نامی کو خاص طورپرآزادی کاوعدہ دے کر اپنے ساتھ لایا تھا کہ جس طرح بھی ہو حمزہ کوجنہوں نے جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کوبدر کے موقع پر تلوار کی گھاٹ اتارا تھا قتل کرکے اس کے انتقام کوپورا کرے۔ چنانچہ وحشی ایک جگہ پر چھپ کر ان کی تاک میں بیٹھ گیا اورجب حمزہ کسی شخص پر حملہ کرتے ہوئے وہاں سے گزرے تواس نے خوب تاک کر ان کی ناف کے نیچے اپنا چھوٹا سانیزہ مارا جو لگتے ہی بدن کے پار ہوگیا۔ ۱ ؎ حمزہ لڑکھڑاتے ہوئے گرے مگرپھر ہمت کرکے اٹھے اورایک جست کرکے وحشی کی طرف بڑھنا چاہا مگر پھرلڑکھڑا کرگرے اورجان دے دی اوراس طرح اسلامی لشکر کاایک مضبوط بازو ٹوٹ گیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوجب حمزہ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپؐکوسخت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ غزوہ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آیا توآپؐ نے اسے معاف توفرمادیا۔مگرحمزہ کی محبت کااحترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے۔اس وقت وحشی نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ جس ہاتھ سے میں نے رسول خدا کے چچا کوقتل کیا ہے۔جب تک اسی ہاتھ سے کسی بڑے دشمن اسلام کوتہ تیغ نہ کرلوں گا چین نہ لوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اس نے جنگ یمامہ میں نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کوقتل کرکے اپنے عہد کو پورا کیا۔۲ ؎ اس گھمسان کے موقع پر وہ مسلمان عورتیں بھی جو اس غزوہ میں ساتھ تھیں پوری تندہی اورجانفشانی سے اپنے کام میں مصروف تھیں اورادھر ادھر بھاگ کرصحابہ کوپانی پلانے اورزخمیوں کی خبرگیری کرنے اوراسی قسم کی دوسری خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ان خواتین میں حضرت عائشہ اور ام سلیم اورام سلیط کے اسماء صحابہ کوپانی لالا کرپلانے کی خدمت کی ضمن میں خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔ ۳ ؎
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکاہے یہ وقت مسلمانوں کے واسطے سخت پریشانی کاوقت تھا۔قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اوراپنے پے درپے حملوں سے ہرآن دباتا چلاآتا تھا۔ اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیربعد سنبھل جاتے مگرغضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادرسپاہی عبداللہ بن قمئہ نے مسلمانوں کے علمبردار مصعب بن عمیرپرحملہ کیا اوراپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔مصعب نے فوراًدوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اورابن قمئہ کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے۔مگراس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کردیا۔اس پر مصعب نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کوجوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کوسنبھالنے کی کوشش کی اوراسے چھاتی سے چمٹالیا۔جس پر ابن قمئہ نے ان پر تیسرا وار کیااوراب کی دفعہ مصعب شہید ہوکر گرگئے۔ ۴ ؎ جھنڈا توکسی دوسرے مسلمان نے فوراًآگے بڑھ کر تھام لیا۔مگرچونکہ مصعب کاڈیل ڈول آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قمئہ نے سمجھاکہ میں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کومار لیا ہے۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اوردھوکا دہی کے خیال سے ہو۔بہرحال اس نے مصعب کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچادیا کہ میں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کومار لیا ہے۔ ۱ ؎ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے۔اوران کی جمعیت بالکل منتشر ہوگئی اوربہت سے صحابی سراسمیہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے۔
اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ ۲ ؎ ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا ،مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا۔۳ ؎ ان لوگوں میں حضرت عثمان بن عفان بھی شامل تھے۔ ۴ ؎ مگرجیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اوران لوگوں کے دلی ایمان اوراخلاص کومدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ ۵ ؎ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جاپہنچے اوراس طرح مدینہ میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خیالی شہادت اورلشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی جس سے تمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا اور مسلمان مرد،عورتیں بچے بوڑھے نہایت سراسیمگی کی حالت میں شہر سے باہر نکل آئے اوراحد کی طرف روانہ ہوگئے۔اوربعض توجلد جلد دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اوراللہ کانام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جوبھاگے تونہیں تھے،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر یاتو ہمت ہار بیٹھے تھے اوریااب لڑنے کوبیکار سمجھتے تھے اوراس لئے میدان سے ایک طرف ہٹ کرسرنگوں ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جوبرابر لڑ رہا تھا۔ان میںسے کچھ تو وہ لوگ تھے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اوربے نظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اوراکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طورپر لڑ رہے تھے۔ ان لوگوں اورنیز گروہ ثانی کے لوگوں کوجوں جوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے اردگرد جمع ہوتے جاتے تھے۔ ۶ ؎ اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کالشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلاآتا تھااور میدان جنگ میں ہرطرف سے تیر اورپتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ جان نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارد گرد گھیراڈال کر آپؐکے جسم مبارک کواپنے بدنوں سے چھپا لیا،مگر پھربھی جب کبھی حملہ کی رَواٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دئے جاتے تھے اورایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قریباًاکیلے رہ جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی موقع پر حضرت سعدبن ابی وقاص کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کاایک پتھر آپؐ کے چہرہ مبارک پرلگا۔جس سے آپؐکا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ۱ ؎ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک اورپتھر جوعبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھااس نے آپؐکی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابن قمئہ نے پھینکا تھا آپؐ کے رخسار مبارک پر آکرلگا جس سے آپؐ کے مغفر (خود)کی دوکڑیاں آپؐکے رخسار میں چبھ کررہ گئیں۔ ۲ ؎ سعد بن ابی وقاص کواپنے بھائی عتبہ کے اس فعل پراس قدر غصہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی دشمن کے قتل کے لئے اتنا جوش نہیں آیا جتنا مجھے اُحد کے دن عتبہ کے قتل کاجوش تھا۔ ۳ ؎
اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہورہی تھی اورمسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلاء اورامتحان کاوقت تھا اورجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اورہتھیار پھینک کرمیدان سے ایک طرف ہوگئے تھے ۔انہی میں حضرت عمرؓبھی تھے۔چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی انس بن نضرانصاری آگئے اوران کو دیکھ کر کہنے لگے۔’’تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘انہوں نے جواب دیا۔’’رسول اللہؐنے شہادت پائی۔اب لڑنے سے کیا حاصل ہے؟‘‘انس نے کہا۔یہی تو لڑنے کا وقت ہے تاجوموت رسول اللہ نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہواورپھرآپؐکے بعد زندگی کا بھی کیا لطف ہے؟ ۴ ؎اور پھر ان کے سامنے سعد بن معاذ آئے تو انہوںنے کہا۔’’سعد مجھے تو پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘یہ کہہ کر انس دشمن کی صفوں میں گھس گئے اورلڑتے لڑتے شہید ہوئے۔جنگ کے بعد دیکھا گیا توان کے بدن پراسّی سے زیادہ زخم تھے۔اورکوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔ ۵ ؎
جوصحابہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیرلانے سے عاجز ہے۔یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐکے ارد گرد گھومتے تھے اورآپؐ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے۔حضرت علیؓ اورزبیرؓنے بے تحاشا دشمن پر حملے کئے اوران کی صفوں کو دھکیل دھکیل دیا۔ابوطلحہ انصاری نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اوردشمن کے تیروں کے مقابل پرسینہ سپرہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بدن کواپنی ڈھال سے چھپایا۔ ۱ ؎ سعد بن وقاص کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اورسعدؓیہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ایک دفعہ آپؐنے سعدؓسے فرمایا۔’’تم پر میرے ماں باپ قربان ہوںبرابر تیرچلاتے جائو۔‘‘ ۲ ؎ سعدؓاپنی آخری عمر تک آپؐکے ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ابودجانہؓنے بڑی دیرتک آپؐکے جسم کواپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیریاپتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے۔حتّٰی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہوگیا،مگر انہوں نے اُف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہوجاوے اورآپؐکوکوئی تیرآلگے۔ ۳ ؎ طلحہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچانے کے لئے کئی واراپنے بدن پرلئے اوراسی کوشش میں ان کا ہاتھ شل ہوکرہمیشہ کے لئے بیکار ہوگیا۔ ۴ ؎ مگریہ چند گنتی کے جاں نثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہرلحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔دشمن کے ہرحملہ کی ہرلہر مسلمانوں کوکہیں کاکہیں بہا کرلے جاتی تھی مگرجب ذرا زورتھمتاتھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھراپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔بعض اوقات توایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐکے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دوآدمی ہی رہ گئے۔۵ ؎ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ،علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ،سعدؓبن وقاص، ابودجانہؓ انصاری، سعدؓ بن معاذ اور طلحہؓ انصاری کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔ایک وقت جب قریش کے حملہ کی ایک غیر معمولی لہر اٹھی توآپؐنے فرمایا۔’’کون ہے جو اس وقت اپنی جان خدا کے رستے میں نثار کردے؟‘‘ایک انصاری کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ اورچھ اورانصاری صحابی دیوانہ وارآگے بڑھے اوران میں سے ایک ایک نے آپؐکے اردگرد لڑتے ہوئے جان دے دی۔ ۶ ؎ اس پارٹی کے رئیس زیاد بن سکن تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دھاوے کے بعد حکم دیا کہ زیادؓ کواٹھا کرمیرے پاس لائو۔لوگ اٹھا کر لائے اورانہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیا۔اس وقت زیادؓ میں کچھ کچھ جان تھی،مگروہ دم توڑ رہے تھے۔اس حالت میں انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں پررکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی۔۱ ؎ ایک مسلمان خاتون جس کا نام اُمّ عمارہ تھا تلوارہاتھ میں لے کر مارتی کاٹتی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچی۔ اس وقت عبداللہ بن قمئۃ آپؐپروار کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا۔ مسلمان خاتون نے جھٹ آگے بڑھ کروہ واراپنے اوپر لے لیا اورپھرتلوار تول کراس پراپنا وار کیا،مگر وہ ایک دوہری زرہ پہنے ہوئے مرد تھا۔اور یہ ایک کمزور عورت۔اس لئے وارکاری نہ پڑا۔ ۲ ؎ اور ابن قمئۃ درّاتا ہوا اورمسلمانوں کی صفوں کوچیرتا ہوا آگے آیا اورصحابہ کے روکتے روکتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اورپہنچتے ہی اس زوراوربے دردی کے ساتھ آپؐکے چہرہ مبارک پروار کیا کہ صحابہ کے دل دہل گئے۔جاں نثار طلحہ نے لپک کراپنے ننگے ہاتھ پر لیا ،مگر ابن قمئۃکی تلوار ان کے ہاتھ کو قلم کرتی ہوئی آپ کے پہلو پر پڑی۔زخم توخدا کے فضل سے نہ آیا کیونکہ آپؐنے اوپر تلے دوزرہیں پہنی ہوئی تھیں اوروار کازور بھی طلحہ کی جاں نثاری سے کم ہوچکا تھا،مگر اس صدمہ سے آپ چکرکھا کرنیچے گرے اورابن قمئۃ نے پھر خوشی کانعرہ لگایا کہ میں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کومار لیا ہے۔ ۳ ؎
ابن قمئۃ توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پروار کرکے خوشی کانعرہ لگاتا ہوا پیچھے ہٹ گیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھا کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مار لیا ہے ،مگر جونہی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم گرے حضرت علی اورطلحہ نے فوراًآپ ؐکواوپر اٹھا لیااوریہ معلوم کرکے مسلمانوں کے پژمردہ چہرے خوشی سے تمتمااٹھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ سلامت ہیں۔ ۴ ؎ اب آہستہ آہستہ لڑائی کازور بھی کم ہونا شروع ہوگیا۔کیونکہ ایک توکفار اس اطمینان کی وجہ سے کچھ ڈھیلے پڑگئے تھے کہ محمد رسول اللہ شہید ہوچکے ہیں اوراس لئے انہوںنے لڑائی کی طرف سے توجہ ہٹاکر کچھ تواپنے مقتولین کی دیکھ بھال اورکچھ مسلمان شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کی طرف پھیرلی تھی۔اور دوسری طرف مسلمان بھی اکثر منتشر ہوچکے تھے۔جب قریش ذرا پیچھے ہٹ گئے اورجو مسلمان میدان میں موجود تھے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہچان کرآپؐکے اردگرد جمع ہوگئے تو آپؐنے اپنے ان صحابہ کی جمعیت میں آہستہ آہستہ پہاڑ کے اوپرچڑھ کرایک محفوظ درہ میں پہنچ گئے۔ ۱ ؎ راستہ میں مکہ کے ایک رئیس ابی بن خلف کی نظر آپ پر پڑی اور وہ بغض وعداوت میں اندھا ہوکر یہ الفاظ پکارتا ہوآپؐ کی طرف بھاگا کہ لَانَجَوْتُ اِنْ نَجَا۔’’اگر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) بچ کر نکل گیا تو گویامیں تو نہ بچا۔‘‘صحابہ نے اسے روکنا چاہا مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑ دو اورمیرے قریب آنے دو۔اورجب وہ آپؐ پرحملہ کرنے کے خیال سے آپؐ کے قریب پہنچا توآپؐنے ایک نیزہ لے کر اس پرایک وار کیا جس سے وہ چکر کھا کر زمین پرگرا اور پھراٹھ کرچیختا چلاتا ہوا واپس بھاگ گیا اور گو بظاہر زخم زیادہ نہیں تھا مگرمکہ پہنچنے سے پہلے وہ پیوند خاک ہوگیا۔ ۲ ؎ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم درہ میں پہنچ گئے توقریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پرچڑھ کر حملہ کرنا چاہا،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمرؓنے چند مہاجرین کوساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپا کردیا۔ ۳ ؎
درہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کی مدد سے اپنے زخم دھوئے اور جودوکڑیاں آپؐکے رخسار میں چبھ کر رہ گئی تھیں وہ ابوعبیدہ بن الجراح نے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں کے ساتھ کھینچ کھینچ کرباہر نکالیں حتّٰی کہ اس کوشش میں ان کے دودانت بھی ٹوٹ گئے۔اس وقت آپؐکے زخموں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔اورآپؐاس خون کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ فرماتے تھے۔کَیْفَ یَفْلَحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَیَدْعُوْھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ۔ ۴؎ کس طرح نجات پائے گی وہ قوم جس نے اپنے نبی کے منہ کو اس کے خون سے رنگ دیا۔اس جرم میں کہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئے اورپھرفرمایا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنَ۔ ۵ ؎ یعنی ’’اے میرے اللہ!تومیری قوم کومعاف کردے۔کیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اورلاعلمی میں ہوا ہے۔‘‘روایت آتی ہے کہ اسی موقع پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْئٌ۔یعنی عذاب وعفو کامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں خدا جسے چاہے گا معاف کرے گااورجسے چاہے گا عذاب دے گا۔ ۶ ؎ فاطمۃ الزہرا ؓجوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق وحشتناک خبریں سن کر مدینہ سے نکل آئی تھیں وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد اُحد میں پہنچ گئیں اورآتے ہی آپؐکے زخموں کودھونا شروع کردیا،مگر خون کسی طرح بندہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔آخر حضرت فاطمہؓنے چٹائی کاایک ٹکڑا جلا کر اس کی خاک آپؐکے زخم پرباندھی تب جاکر کہیں خون تھما۔ ۱ ؎ دوسری خواتین نے بھی اس موقع پرزخمی صحابیوں کی خدمت کرکے ثواب حاصل کیا۔
اِدھر مسلمان اپنی مرہم پٹی میںمصروف تھے تواُدھر دوسری طرف یعنی نیچے میدان جنگ میں مکہ کے قریش مسلمان شہیدوں کی نعشوں کی نہایت بے دردانہ طور پربے حرمتی کررہے تھے۔مثلہ کی وحشیانہ رسم پوری وحشت کے ساتھ اداکی گئی اورمسلمان شہیدوں کی نعشوں کے ساتھ مکہ کے خونخوار درندوں نے جو کچھ بھی ان کے دل میں آیا وہ کیا۔قریش کی عورتوں نے مسلمانوں کے ناک کان کاٹ کران کے ہار پروئے اورپہنے۔ابوسفیان کی بیوی ہند حضرت حمزہؓکاجگر نکال کر چبا گئی۔ ۲؎ غرض بقول سرولیم میور’’مسلمانوں کی نعشوں کے ساتھ قریش نے نہایت وحشیانہ سلوک کیا۔‘‘ ۳؎ اور مکہ کے رئوساء دیر تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعش میدان میں تلاش کرتے رہے اور اس نظارے کے شوق میں ان کی آنکھیں ترس گئیں مگرجوچیزکہ نہ پانی تھی نہ پائی۔اس تلاش سے مایوس ہوکر ابوسفیان اپنے چند ساتھیوں کوساتھ لے کر اس درہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اس کے قریب کھڑے ہوکر پکار کر بولا۔’’مسلمانو!کیا تم میں محمدہے؟‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکوئی جواب نہ دے۔چنانچہ سب صحابہ خاموش رہے۔پھر اس نے ابوبکر وعمر کاپوچھا، مگر اس پر بھی آپ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا۔جس پر اس نے بلند آواز سے فخر کے لہجہ میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگروہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔اس وقت حضرت عمر سے نہ رہا گیا اوروہ بے اختیار ہوکر بولے۔اے عدواللہ توجھوٹ کہتا ہے ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔ ۴ ؎ ابوسفیان نے حضرت عمر کی آواز پہچان کر کہا۔ ’’عمر! سچ سچ بتائو کیا محمدزندہ ہے؟‘‘حضرت عمرؓنے کہا۔’’ہاں ہاں!خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اورتمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں۔‘‘ابوسفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا۔توپھر ابن قمئۃ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ میں تمہیں اس سے زیادہ سچاسمجھتا ہوں۔ ۵ ؎ اس کے بعد ابوسفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کرکہا۔اُعْلُ ھُبَلْ یعنی’’اے ہبل ۶؎ تیری بلندی ہو۔‘‘’’صحابہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کاخیال کرکے خاموش رہے،مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جواپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بت کانام آنے پربے تاب ہوگئے اور فرمایا’’تم جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘صحابہ نے عرض کیا’’یارسول اللہ!کیا جواب دیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلّ یعنی’’بلندی اوربزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔‘‘ابوسفیان نے کہا لَنَاالْعُزّٰی وَلاَ عُزّیٰ لَکُمْ۔’’ہمارے ساتھ عزی ہے۔ ۱؎ اور تمہارے ساتھ عزی نہیں ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلٰناَ وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ۔عزّٰی کیا چیز ہے۔ ’’ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اورتمہارے ساتھ کوئی مدد گار نہیں۔‘‘اس کے بعد ابوسفیان نے کہا۔’’لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اورکبھی گرتا ہے۔پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اورتم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پائو گے جن کے ساتھ مثلہ کیا گیا ہے۔میں نے اس کا حکم نہیں دیا،مگرجب مجھے اس کا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ برا بھی نہیں لگا۔‘‘ ۲؎ اورہمارے اورتمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا۔ایک صحابی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ ۔’’بہت اچھا۔یہ وعدہ رہا۔‘‘ ۳؎
یہ کہہ کرابوسفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اترگیا اورپھر جلد ہی لشکر قریش نے مکہ کی راہ لی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کواس موقع پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہوا تھا اورظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تواپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اورمدینہ پرحملہ آور ہونے کا راستہ توبہرحال ان کے لئے کھلا تھا،مگر خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اورانہوں نے اسی غلبہ کوغنیمت جانتے ہوئے جو احد کے میدان میں ان کوحاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا،مگر بایں ہمہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراًستر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اورحضرت زبیرؓبھی شامل تھے تیار کرکے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کردی۔ ۴؎ یہ بخاری کی روایت ہے۔ عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐنے حضرت علیؓیابعض روایات کی رو سے سعد بن وقاص کو قریش کے پیچھے بھجوایا اوران سے فرمایا کہ اس بات کاپتہ لائو کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اورآپؐنے ان سے فرمایااگرقریش اونٹوں پر سوار ہوں اورگھوڑوں کوخالی چلارہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جارہے ہیں مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اوراگر وہ گھوڑوںپرسوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں۔اورآپؐنے ان کوتاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراًآپؐ کواطلاع دی جاوے اورآپؐنے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پرحملہ کیا تو خدا کی قسم ہم ان کا مقابلہ کرکے انہیں اس حملہ کامزا چکھا دیں گے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپؐکے ارشاد کے ماتحت گئے اوربہت جلد یہ خبر لے کر واپس آگئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے۔ ۱ ؎
اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی میدان میں اُتر آئے ہوئے تھے اور شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔جو نظارہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ستّر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے ۲ ؎ اور عرب کی وحشیانہ رسم مُثلہ کا مہیب نظّارہ پیش کر رہے تھے ۔ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ ۳ ؎ قریش کے مقتولوں کی تعداد تیئس تھی۔ ۴ ؎ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلب کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند زوجہ ابوسفیان نے اُن کی نعش کو بری طرح بگاڑا ہوا تھا۔تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرہ سے غم وغصّہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لئے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکّہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالبًا ہوش میں نہیں آئیں گے مگر آپؐ اس خیال سے رُک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپؐ نے مُثلہ کی رسم کو اسلام میں ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار دیدیا اور فرمایا دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو ۔ ۵ ؎ آپؐ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی حمزہ سے بہت محبت رکھتی تھیں ۔وہ بھی مسلمانوں کی ہزیمت کی خبرسُن کر مدینہ سے نکل آئیں تھیں ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے صاحبزادے زبیر ابن العوام سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو ماموں کی نعش نہ دکھانا مگر بہن کی محبت کب چین لینے دیتی تھی ۔انھوں نے اصرار کے ساتھ کہا کہ مجھے حمزہ کی نعش دکھادو۔مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ صبر کروں گی اور کوئی جزع فزع کا کلمہ مُنہ سے نہیں نکالوں گی؛چنانچہ وہ گئیں اور بھائی کی نعش دیکھ کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ پڑھتی ہوئی خاموش ہو گئیں۔ ۱ ؎ قریش نے دُوسرے صحابہ کی نعشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش کی نعش کو بھی بُری طرح بگاڑا گیا تھا ۔جُوں جُوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک نعش سے ہٹ کر دُوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرہ پر غم واَلَم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے۔غالباً اسی موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیسِ انصار کا کیا حال ہے آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت دیکھاتھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے۔ آپؐکے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابیّ بن کعب گئے اورمیدان میں ادھر ادھر سعد کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔آخر انہوں نے اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کیں اور سعد کا نام لے لے کر پکارا مگر پھربھی کوئی سراغ نہ ملا۔مایوس ہوکر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کانام لے کر توپکاروںشاید اس طرح پتہ چل جاوے۔ چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کرکہا۔سعد بن ربیع کہاں ہیں مجھے رسول اللہ نے ان کی طرف بھیجا ہے۔اس آواز نے سعد کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی اورانہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’کون ہے میں یہاں ہوں۔‘‘ابیّ بن کعب نے غورسے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعد کو پایا جواس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے۔ابیّ بن کعب نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہاری حالت سے آپؐکو اطلاع دوں۔سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ سے میرا سلام عرض کرنا اورکہنا کہ خدا کے رسولوں کوجو ان کے متبعین کی قربانی اوراخلاص کی وجہ سے ثواب ملا کرتا ہے خداآپؐکووہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کرعطافرمائے اورآپؐکی آنکھوںکوٹھنڈاکرے اورمیرے بھائی مسلمانوں کوبھی میرا سلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہوگا۔یہ کہہ کر سعد نے جان دے دی۔ ۲ ؎
اُحد کے شہداء میں ایک صاحب مصعب بن عمیرتھے۔یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔زمانہ جاہلیت میں مصعب مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اوربانکے سمجھے جاتے تھے اوربڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ ۳؎ اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے بدن پرایک کپڑا دیکھا۔ جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔آپؐکوان کا وہ پہلازمانہ یاد آگیا تو آپؐچشم پرآب ہوگئے۔ ۱؎ اُحد میں جب مصعب شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جاسکتا۔ پائوں ڈھانکتے تھے توسرننگا ہوجاتا تھا اورسرڈھانکتے تھے توپائوں کھل جاتے تھے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے سرکوکپڑے سے ڈھانک کر پائوں کو گھاس سے چھپادیاگیا۔ ۲ ؎
نعشوں کی دیکھ بھال کے بعد تکفین و تدفین کاکام شروع ہوا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جوکپڑے شہداء کے بدن پرہیں وہ اسی طرح رہنے دئے جائیں اورشہداء کو غسل بھی نہ دیا جاوے۔البتہ کسی کے پاس کفن کے لئے زائد کپڑا ہوتو وہ پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر لپیٹ دیا جاوے۔نماز جنازہ بھی اس وقت ادا نہیں کی گئی۔چنانچہ بغیر غسل دئے اوربغیر نمازجنازہ اداکئے شہداء کودفنا دیا گیا۔اورعموماًایک ایک کپڑے میں دو دوصحابیوں کواکٹھا کفنا کرایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کردیا گیا۔ جس صحابی کو قرآن شریف زیادہ آتا تھا اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت لحد میں اتارتے ہوئے مقدم رکھا جاتا تھا۔ ۳؎ گواس وقت نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی ،لیکن بعد میں زما نہ وفات کے قریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاص طورپرشہداء اُحد پر جنازہ کی نماز ادا کی اور بڑے درددل سے ان کے لئے دعا فرمائی آپؐاُحد کے شہداء کوخاص محبت اوراحترام سے دیکھتے تھے۔۴؎ ایک دفعہ آپؐ اُحد کے شہداء کی قبروں کے پاس سے گزرے توفرمایا’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کا میں شاہد ہوں‘‘۔حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا یارسول اللہ!کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟کیا ہم نے انہیں کی طرح اسلام قبول نہیں کیا؟کیا ہم نے انہی کی طرح خدا کے رستے میں جہاد نہیں کیا؟ آپؐنے فرمایا’’ہاں!لیکن مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے بعد تم کیا کیا کام کرو گے۔‘‘اس پر حضرت ابوبکرؓ روپڑے اوربہت روئے اورعرض کیا۔یارسول اللہ!کیا ہم آپؐکے بعد زندہ رہ سکیں گے۔ ۵؎ صحابہ بھی اُحد کے شہداء کی بڑی عزت کرتے تھے اوراُحد کی یاد کو ایک مقدس چیز کے طورپر اپنے دلوں میں تازہ رکھتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف کے سامنے افطاری کاکھانا آیاجوغالباًکسی قدر پرتکلّف تھا۔اس پر اُنہیں اُحد کا زمانہ یادآگیا جب مسلمانوں کے پاس اپنے شہداء کو کفنا نے کے لئے کپڑا تک نہیں تھا اوروہ ان کے بدنوں کوچھپانے کے لئے گھاس کاٹ کاٹ کران پر لپیٹتے تھے اوراس یاد نے عبدالرحمن بن عوف کوایسا بے چین کردیا کہ وہ بے تاب ہوکر رونے لگ گئے اور کھانا چھوڑکر اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ روزے سے تھے۔ ۱؎
سارے انتظامات سے فارغ ہوکرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شام کے قریب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستہ میں عقیدت کیش دوردور تک آگے آئے ہوئے تھے۔ایک انصاری عورت سخت گھبراہٹ کی حالت میں گھر سے نکل کراُحد کے راستہ پرآرہی تھی کہ راستہ میں اسے وہ صحابی ملے جو اُحد سے واپس آرہے تھے اورجن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تھے ۔صحابہ نے اسے اطلاع دی کہ تمہارا باپ اوربھائی اورخاوند سب اُحد میں شہید ہوئے۔مخلص خاتون جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خیریت سننے کے لئے بے تاب ہورہی تھی بے چین ہوکر بولی۔مجھے یہ بتائو کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟انہوں نے کہارسول اللہ توخدا کے فضل سے بخیریت ہیں اور یہ تشریف لارہے ہیں۔ جب اس کی نظر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرپڑی تو بے اختیار ہوکربولی۔کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلُ۔ ’’اگر آپؐ زندہ ہیں توپھر سب مصیبتیںہیچ ہیں۔ ۲؎ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں پہنچے اورانصار کے گھروں کے پاس سے گزرے توگھرگھر سے رونے چلانے کی آواز آتی تھی اورعورتیں عرب کی قدیم رسم کے مطابق نوحہ کررہی تھیں۔آپؐ نے یہ نظارہ دیکھا تو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال کرکے آپؐکی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ پھرآپؐ نے ان کو تسلی دینے کے خیال سے فرمایا۔لٰکِنْ حَمْزَۃُ فَلاَ بَوَا کِیَ لَہٗ یعنی ہمارے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں مگر کسی عورت نے اس طرح ان کا ماتم نہیں کیا۔‘‘رئوساء انصار سمجھے کہ آپؐشاید اس حسرت کا اظہار فرمارہے ہیں کہ اس غریب الوطنی کی حالت میں حمزہ کوکوئی رونے والا نہیں۔وہ فوراًاپنی عورتوں کے پاس گئے اورکہا کہ بس اپنے مردوں پررونا بند کرواورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکان پرجاکر حمزہ کاماتم کرو (اللہ اللہ!اس غلط فہمی میں بھی کیا جذبۂ اخلاص مخفی تھا)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مکان پرماتم کاشورسنا تو پوچھا یہ کیسا شور ہے؟عرض کیاگیاانصار کی عورتیں حمزہ کا نوحہ کرتی ہیں۔ آپؐ نے ان کی محبت کی قدر کرتے ہوئے ان کے واسطے دعائے خیر فرمائی لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اس طرح نوحہ کرنا اسلام میں منع ہے۔ ۳؎ اورآئندہ کے لئے نوحہ کی رسم یعنی بین کرنا یاپیٹنا یابال نوچنا وغیر ذالک اسلام میں ممنوع قراردے دی گئی۔ ۴؎ ایک نوجوان صحابی آپؐ کے سامنے آئے اورآپؐنے دیکھا کہ ان کا چہرہ اپنے باپ کی شہادت پرمغموم ہے۔فرمایا جابر کیا میں تمہیں ایک خوشی کی خبر سنائوں؟جابر نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! آپؐنے فرمایاجب تمہارے والد شہید ہوکر اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بے حجاب ہوکر کلام فرمایا اورفرمایا کہ جو مانگنا چاہتے ہو مانگو۔تمہارے باپ نے عرض کیا،اے میرے اللہ!تیری کسی نعمت کی کمی نہیں ہے ،لیکن خواہش ہے کہ پھردنیا میں جائوں اورتیرے دین کے رستہ میں پھرجان دوں۔خدا نے فرمایا ہم تمہاری اس خواہش کو بھی ضرورپورا کردیتے لیکن ہم یہ عہد کرچکے ہیں کہ اَنَّھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ۔ یعنی ’’کوئی مردہ پھر زندہ ہوکر اس دنیا میں نہیں آسکتا۔‘‘جابر کے والد نے کہا تو پھر میرے بھائیوں کو میری اطلاع دے دی جاوے تاکہ ان کی جہاد کی رغبت ترقی کرے۔اس پر یہ آیت اتری کہ جو لوگ خدا کے رستے میں شہید ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھا کرو کیونکہ وہ زندہ ہیں اوراپنے خدا کے پاس خوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ۱؎ حضرت سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس نے اپنی بوڑھی والدہ کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔آپؐ نے ان سے ان کے لڑکے عمرو بن معاذ کی شہادت پراظہارہمدردی کیا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ جب آپؐ سلامت ہیں تو ہمیں کیا غم ہے۔‘‘ ۲؎
غزوہ حمراء الاسد
یہ رات مدینہ میں ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجوداس کے کہ بظاہر لشکر قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کوغافل
کرنے کی نیت سے نہ ہو اورایسا نہ ہو کہ وہ اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں لہذا اس رات کومدینہ میں پہرہ کاانتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا۔ ۳؎ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینہ سے چند میل جاکر ٹھہر گیا ہے اوررئوساء قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینہ پرحملہ کردیا جاوے اوربعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے ہیںکہ نہ تم نے محمد کوقتل کیا اورنہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اورنہ ان کے مال ومتاع پرقابض ہوئے،بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اورتمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردو توتم انہیں یونہی چھوڑ کرواپس چلے آئے تاکہ وہ پھرزور پکڑ جاویں۔پس اب بھی موقع ہے واپس چلو اورمدینہ پرحملہ کرکے مسلمانوں کی جڑکاٹ دو۔اس کے مقابل میں دوسرے یہ کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے،اسے غنیمت جانواورمکہ واپس لوٹ چلو ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھواور یہ فتح شکست کی صورت میں بدل جاوے کیونکہ اب اگرتم لوگ واپس لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہوگے تویقینا مسلمان جان توڑ کرلڑیں گے اورجو لوگ اُحد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے۔ ۱؎ مگربالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اورقریش مدینہ کی طرف لوٹنے کے لئے تیار ہوگئے۔ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوجب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐنے فوراًاعلان فرمایا کہ مسلمان تیارہوجائیں مگرساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو اُحد میں شریک ہوئے تھے اورکوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ ۳ ؎ چنانچہ اُحد کے مجاہدین جن میں سے اکثرزخمی تھے اپنے زخموں کوباندھ کراپنے آقا کے ساتھ ہولئے۔اورلکھا ہے کہ اس موقع پرمسلمان ایسی خوشی اورجوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐحمراء الاسد میں پہنچے۔ ۴؎ جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں میدان میں پڑی ہوئی پائی گئیں اورتحقیقات پرمعلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے پیچھے روانہ کئے تھے،مگر جنہیں قریش نے موقع پاکر قتل کردیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان شہداء کوایک قبر کھدوا کر اس میں اکٹھا دفن کروادیا۔اوراب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے یہیں ڈیراڈالنے کاحکم دیا اورفرمایاکہ میدان میں مختلف مقامات پرآگ روشن کردی جاوے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراء الاسد کے میدان میں پانچ سوآگیںشعلہ زن ہوگئیں جوہردور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں۔۵؎ غالباً اسی موقع پرقبیلہ خزاعہ کاایک مشرک رئیس معبد نامی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اورآپؐ سے اُحد کے مقتولین کے متعلق اظہار ہمدردی کی اورپھر اپنے راستہ پرروانہ ہوگیا۔دوسرے دن جب وہ مقام روحاء میں پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑاہے۔اورمدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔معبد فوراًابوسفیان کے پاس گیااوراسے جاکر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو۔واللہ میں تو ابھی محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے لشکر کوحمراء الاسد میں چھوڑکرآیاہوں اورایسابارعب لشکر میں نے کبھی نہیں دیکھا اوراُحد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کرجائیں گے۔ ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں پرمعبد کی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۶؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کولشکر قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی توآپؐ نے خدا کاشکر کیا اورفرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔ ۱؎
اس کے بعد آپؐنے حمراء الاسد میں دوتین دن اورقیام فرمایا اَورپھرپانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔اس مہم میں قریش کے دوسپاہی جن میں سے ایک غدار اوردوسرا جاسوس تھامسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے اورچونکہ قوانین جنگ کے ماتحت ان کی سزا قتل تھی، اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے ان کو قتل کردیا گیا۔ان میں سے ایک مکہ کامشہور شاعر ابوعُزّہ تھا جوبدر کی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوا تھا اورپھر اس کے معافی مانگنے اور یہ وعدہ کرنے پر کہ وہ پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لئے نہیں نکلے گاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے بلافدیہ چھوڑ دیا تھا،مگر وہ غداری کرکے پھر مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ ہوا اورنہ صرف خود شریک ہوا بلکہ اس نے اپنے اشتعال انگیز اشعار سے دوسروں کوبھی ابھارا۔چونکہ ایسے آدمی کی غدّاری مسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہوسکتی تھی۔پس جب وہ دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے قتل کئے جانے کاحکم دیا۔ابوعُزّہ نے پھر پہلے کی طرح زبانی معافی سے رہائی حاصل کرنی چاہی مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے انکار فرمادیا کہ لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍوَاحِدٍمَرَّتَیْنِ۔’’یعنی مومن ایک سوراخ میں سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا۔‘‘ ۲؎ دوسرا قیدی معاویہ بن مغیرہ تھا۔یہ شخص حضرت عثمان بن عفان کے رشتہ داروں میں سے تھا،مگر سخت معاند اسلام تھا۔جنگ اُحد کے بعد وہ خفیہ خفیہ مدینہ کے گردونواح میں گھومتا رہامگر صحابہ نے اسے دیکھ لیا اورپکڑ کرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔آپؐ نے اسے حضرت عثمان کی سفارش پریہ وعدہ لے کر چھوڑ دیا کہ تین دن کے اندر اندر وہاںسے رخصت ہوجاوے وَاِلّا اسے جاسوسی کی سزا میں قتل کردیا جائے گا۔معاویہ نے وعدہ کیا کہ میں تین دن تک چلا جائوں گا۔مگر جب یہ میعاد گزرگئی توپھربھی وہ وہیںخفیہ خفیہ پھرتا ہواپایا گیا،جس پراسے قتل کردیا گیا۔ ۳؎ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہوا کہ اس کی نیت کیا تھی۔مگر اس طرح خفیہ خفیہ مدینہ کے علاقہ میں رہنا اور باوجود متنبہ کردئے جانے کے مقررہ معیاد کے بعد بھی ٹھہرے رہنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی خطرناک ارادے سے وہاں ٹھہرا ہوا تھا اورکوئی تعجب نہیں کہ وہ اُحد کے میدان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچ جانے پرپیچ وتاب کھاتا ہوامدینہ میں آپؐکے خلاف کوئی بدارادہ لے کر آیا ہوا اوریہود یامنافقین مدینہ کی سازش سے کوئی مخفی وارکرنا چاہتا ہو،مگر خداتعالیٰ نے حفاظت فرمائی اوراس کی تجویز کارگرنہ ہوئی۔
جنگ اُحد کے نتائج
مستقل نتائج کے لحاظ سے تو جنگ اُحد کوکوئی خاص اہمیت حاصل نہیں اوربدر کے مقابل میں یہ جنگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی،لیکن وقتی طورپر ضرور اس جنگ
نے مسلمانوں کوبعض لحاظ سے نقصان پہنچایا۔اول ان کے ستر آدمی اس جنگ میں شہید ہوئے جن میں سے بعض اکابر صحابہ میں سے تھے اور زخمیوں کی تعداد توبہت زیادہ تھی۔دوسرے مدینہ کے یہود اورمنافقین جو جنگ بدر کے نتیجہ میں کچھ مرعوب ہوگئے تھے اب کچھ دلیر ہوگئے۔بلکہ عبداللہ بن ابیّ اوراس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑایا اورطعنے دئے۔ ۱؎ تیسرے قریش مکہ کو بہت جرأت ہوگئی اورانہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نہ صرف بدر کا بدلہ اتار لیا ہے بلکہ آئندہ بھی جب کبھی جتھا بناکرحملہ کریں گے مسلمانوں کوزیر کرسکیں گے۔چوتھے عام قبائل عرب نے بھی اُحد کے بعد زیادہ جرأت سے سراٹھانا شروع کردیا۔ ۲؎ مگر باوجود ان نقصانات کے یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جو نقصان قریش کو جنگ بدر نے پہنچایا تھاجنگ اُحد کی فتح اس کی تلافی نہیں کرسکتی تھی۔جنگ بدر میں مکہ کے تمام وہ رئوساء جودرحقیقت قریش کی قومی زندگی کی روح تھے ہلاک ہوگئے تھے اورجیسا کہ قرآن شریف بیان کرتا ہے اس قوم کی صحیح معنوں میں جڑکاٹ دی گئی تھی اوریہ سب کچھ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں ہوا تھا جو ظاہری سامان کے لحاظ سے ان کے مقابلہ میں بالکل حقیر تھی۔اس کے مقابلہ میں بے شک مسلمانوں کو اُحد کے میدان میں نقصان پہنچا،لیکن وہ اس نقصان کے مقابلہ میں بالکل حقیر اورعارضی تھا جو بدر میں قریش کو پہنچا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جواسلامی سوسائٹی کے مرکزی نقطہ تھے اور جوقریش کی معاندانہ کارروائیوں کا اصل نشانہ تھے خدا کے فضل سے زندہ موجود تھے۔اس کے علاوہ اکابر صحابہ بھی سوائے ایک دو کے سب کے سب سلامت تھے اورپھرمسلمانوں کی یہ ہزیمت ایسی فوج کے مقابلہ میں تھی جوان سے تعداد میں کئی گنے زیادہ اورسامان حرب میں کئی گنے مضبوط تھی۔پس مسلمانوں کے لئے بدر کی عظیم الشان فتح کے مقابلہ میں اُحد کی ہزیمت ایک معمولی چیز تھی اوریہ نقصان بھی مسلمانوں کے لئے ایک لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوگئی کہ رسول اللہ کے منشاء اورہدایت کے خلاف قدم زن ہونا کبھی بھی موجب فلاح اوربہبودی نہیں ہوسکتا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں ٹھہرنے کی رائے دی اوراس کی تائید میں اپنا ایک خواب بھی سنایا مگر انہوں نے باہر نکل کر لڑنے پراصرار کیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اُحد کے ایک درہ میں متعین فرمایا اورانتہائی تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے اس جگہ کو نہ چھوڑنا مگروہ غنیمت کے خیال سے اس جگہ کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے اورگو یہ عملی کمزوری ایک محدود طبقہ کی طرف سے ظاہر ہوئی تھی مگر چونکہ انسانی تمدن سب کو ایک لڑی میں پروکر رکھتا ہے اس لئے اس کمزوری کے نتیجہ میں نقصان سب نے اٹھایا جیسا کہ اگر کوئی فائدہ ہوتا تو وہ بھی سب اٹھاتے۔پس اُحد کی ہزیمت اگرایک لحاظ سے موجب تکلیف تھی تودوسری جہت سے وہ مسلمانوں کے لئے ایک مفید سبق بھی بن گئی اورتکلیف ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک محض عارضی روک تھی جو مسلمانوں کے راستے میں پیش آئی اور اس کے بعد مسلمان اس سیلاب عظیم کی طرح جوکسی جگہ رک کر اورٹھوکر کھا کر تیز ہوجاتا ہے۔نہایت سرعت کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے گئے۔قرآن شریف میں جنگ اُحد کا ذکر زیادہ تر سورۃ آل عمران ۱؎ میں آتا ہے جہاں اس جنگ کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے اورمسلمانوں کوآئندہ کے لئے بعض اصولی ہدایتیں دی گئی ہیں۔
اسلامی قانون ورثہ
جنگ اُحد کے بیان میں سعد بن الربیع کی شہادت کا ذکر گزرچکا ہے۔سعدؓایک متمول آدمی تھے اوراپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ان کی کوئی نرینہ
اولاد نہ تھی صرف دو لڑکیاں تھیں اوربیوی تھی۔چونکہ ابھی تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر تقسیم ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اورصحابہ میں قدیم دستور عرب کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا۔یعنی متوفی کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے جدی اقرباء جائیداد پر قابض ہوجاتے تھے اوربیوہ اورلڑکیاں یونہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔اس لئے سعد بن الربیع کی شہادت پر ان کے بھائی نے سارے ترکہ پرقبضہ کرلیا اوران کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارا رہ گئیں۔اس تکلیف سے پریشان ہوکر سعد کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سرگزشت سنا کر اپنی پریشانی کاذکر کیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فطرت صحیحہ کواس درد کے قصہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپؐ پرکوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپؐ نے فرمایاتم انتظارکروپھرجو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے ان کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔چنانچہ آپؐنے اس بارہ میں توجہ فرمائی اورابھی زیادہ وقت نہیںگزرا تھا کہ آپؐ پرورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جوقرآن شریف کی سورۃ النساء ۱؎ میں بیان ہوئی ہیں۔اس پر آپؐنے سعدؓ کے بھائی کو بلایا اوراس سے فرمایا کہ سعدؓکے ترکہ میں سے دو ثلث ان کی لڑکیوں اورایک ثمن اپنی بھاوج کے سپرد کردو اورجو باقی بچے وہ خود لے لو۔ ۲؎ اور اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتداء قائم ہوگئی جس کی رو سے بیوی اپنے صاحب اولادخاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اوربے اولاد خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اورلڑکی اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اوراگر بھائی نہ ہوتو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یانصف کی اورماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی۔اوربے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دارقرار دی گئی اوراسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے۔ ۳؎ اورعورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جاچکا تھا اسے واپس مل گیا۔
اس موقع پریہ نوٹ کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ نے طبقۂ نسواں کے تمام جائز اورواجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہے۔بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپؐسے پہلے یاآپؐکے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپؐنے کی ہے۔چنانچہ ورثہ میں،بیاہ شادی میں، خاوند بیوی کے تعلقات میں،طلاق وخلع میں،اپنی ذاتی جائیداد پیدا کرنے کے حق میں،اپنی ذاتی جائیداد کے استعمال کرنے کے حق میں،تعلیم کے حقوق میں،بچوں کی ولایت وتربیت کے حقوق میں،قومی اور ملکی معاملات میں حصہ لینے کے حق میں،شخصی آزادی کے معاملہ میں،دینی حقوق اورذمہ داریوں میں۔الغرض دین ودنیا کے ہر اس میدان میں جس میں عورت قدم رکھ سکتی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے تمام واجبی حقوق کوتسلیم کیا ہے اوراس کے حقوق کی حفاظت کواپنی امت کے لئے ایک مقدس امانت اورفرض کے طور پر قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب کی عورت آپؐکی بعثت کواپنے لئے ایک نجات کاپیغام سمجھتی تھی۔مجھے اپنے رستہ سے ہٹنا پڑتا ہے ورنہ میں بتاتا کہ عورت کے معاملہ میں آپؐکی تعلیم حقیقتاً اس اعلیٰ مقام پر قائم ہے جس تک دنیا کا کوئی مذہب اورکوئی تمدن نہیں پہنچا اوریقینا آپؐکایہ پیارا قول ایک گہری صداقت پرمبنی ہے کہ حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمُ النِّسَائُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلوٰۃِ ۔ ۱؎ یعنی’’دنیا کی چیزوں میں سے میری فطرت کو جن چیزوں کی محبت کا خمیر دیا گیا ہے وہ عورت اورخوشبو ہیں مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز یعنی عبادت الہٰی میں رکھی گئی ہے۔
شراب کی حرمت
یہ بیان گزرچکا ہے کہ عرب میں شراب کثرت کے ساتھ پی جاتی تھی بلکہ شراب نوشی عربوں کے قومی اخلاق کاایک حصہ بن چکی تھی اورکوئی مجلس شراب کے بغیر
مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی،بلکہ خاص فیشن کے لوگوں میں شراب نوشی کے لئے خاص خاص اوقات مقرر تھے جب وہ مجلسیں جماجما کر بدمستیاں کرتے تھے۔گوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی فطری سعادت کے ماتحت خود کبھی شراب نہیں پی اورنبوت سے قبل بھی اس بدعادت سے ہمیشہ مجتنب رہے اوربعض صحابہ بھی ابتداء سے ہی تارک شراب تھے ،لیکن چونکہ اس وقت تک مذہبی طورپر شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لئے صحابہ میں بہت سے لوگ شراب پیتے تھے اوربعض اوقات شراب نوشی کے بدنتائج بھی صحابہ میں رونما ہو جاتے تھے۔چنانچہ حدیث میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت حمزہؓنے شراب کے نشہ میں حضرت علیؓ کے اونٹ ذبح کردئے اورجب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں سمجھانے کے لئے گئے توانہوں نے آپؐ کو بھی نہیں پہچانا اورآپؐسے بے اعتنائی کی۔ ۲؎ اسی طرح روایت آتی ہے کہ ایک دعوت میں ایک صحابی نے کسی قدر زیادہ شراب پی لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس کے بعد وہ نماز پڑھانے کے لئے اہل مجلس کے امام بنے توقرأت میں اصل آیت کی بجائے کچھ کا کچھ پڑھ گئے۔ ۳؎ اس قسم کے واقعات کی وجہ سے بعض صحابہ جن میں حضرت عمرؓکانام خاص طورپر مذکور ہوا ہے۔ اپنی جگہ پیچ وتاب کھاتے تھے کہ شراب نوشی کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ ہونا چاہئے۔لیکن گو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود اس عادت کو بہت مکروہ اورضرررساں سمجھتے تھے مگر چونکہ ابھی تک اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نازل نہیں ہوا تھا ،اس لئے آپؐ عملاًکچھ نہیں کرسکتے تھے۔
بالآخر غزوہ احد کے بعد ۳ہجری کے آخر یا۴ہجری کے شروع میں خدائی وحی نازل ہوئی اور شراب نوشی اسلام میں قطعی طورپر حرام قرار دے دی گئی۔ ۴ ؎ اس حُرمت کے حکم کوصحابہ کرام نے جس انشراح اوررضا کے ساتھ قبول کیا وہ اس روحانی اثر کی ایک بہت دلچسپ مثال ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک صحبت نے ان کے دلوں میں پیدا کیا تھا۔حدیث میں انس بن مالک سے ایک روایت آتی ہے کہ جب شراب کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا اعلان فرمایا اورپھرآپؐنے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا کہ وہ مدینہ کی گلی کوچوں میں چکر لگا کر اس کی منادی کردیں۔انسؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں ایک مکان میں ابوطلحہ انصاری اوربعض دوسرے صحابیوں کوشراب پلارہا تھا۔ہم نے اس منادی کی آواز سنی توابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ دیکھو یہ شخص کیا منادی کررہا ہے۔میں نے پتہ لیا تومعلوم ہوا کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔جب میں نے واپس آکر اہل مجلس کو اس کی اطلاع دی تواسے سنتے ہی ابوطلحہ نے مجھ سے کہا۔اٹھو اورشراب کے مٹکے زمین پر بہادو۔ ۱؎ انسؓ کہتے ہیں کہ اس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی ہوئی نظر آتی تھی۔ ۲؎ اوراسی باب کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص کی منادی سن کر کسی نے یہ نہیں کہا کہ پہلے تحقیق توکرلو کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ ۔بلکہ فوراً سب نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے اورشراب نوشی سے دفعتہ رک گئے۔۳؎ شراب نوشی کی سی عادت کواورعادت بھی وہ جو گویا عرب کی گُھٹی میں تھی یکلخت ترک کردینا اور ترک بھی ایسی حالت میں کرنا کہ شراب کادَور عملاً چل رہا ہو اورپینے والے اس کے نشہ میں متوالے ہو رہے ہوں ضبط نفس کی ایک ایسی شاندار مثال ہے جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گوجیسا کہ بخاری کی بعض روایات میں اشارہ پایا جاتا ہے شراب کی قطعی حرمت کا حکم غزوہ اُحدکے بعد نازل ہوا۔مگر اس سے پہلے بھی بعض قرآنی آیات اس مضمون کی نازل ہوچکی تھیں جن میں شراب کی برائی بیان کی گئی تھی۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ سب سے پہلے جو آیت شراب کے بارے میں نازل ہوئی وہ یہ تھی کہ بے شک شراب میں بعض فوائد ہیں مگر اس کے نقصانات اس کے فوائد پرغالب ہیں۔۴؎ اس پر حضرت عمرؓنے جنہیں شراب کے خلاف غالباًسارے صحابہ میں سے زیادہ جوش تھا دعا کی کہ اے خدا!ہمیں شراب کے معاملہ میں کوئی زیادہ کھلا کھلا حکم عطا کر۔جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے مومنو!جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز میں شامل نہ ہوا کرو۔۵؎ اس پر حضرت عمرؓنے پھر یہی دعا کی کہ خدایا کوئی قطعی حکم نازل فرما۔جس پر بالآخر یہ آیت اتری کہ ’’اے مسلمانو!شراب اورجوا ناپاک اورضرررساں افعال ہیں جن سے شیطان تمہارے اندر عداوت اوردشمنی پیدا کرناچاہتا اوران کے ذریعہ تمہیں خدا کے ذکر اورنماز سے غافل کرتا ہے پس تم ان چیزوںسے مجتنب رہو۔ ۱؎ جب یہ آیت اتری تومسلمانوں کی تسلی ہوگئی اوروہ شراب کوقطعی طور پر حرام سمجھ کراس سے باز آگئے۔ ۲؎ بلکہ اس کے بعد انہیں شراب سے ایسی دوری پیدا ہوگئی کہ جو مسلمان ایسی حالت میں غزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی انہیں ان شہداء کے متعلق بے چینی پیدا ہونے لگی کہ ان کا کیا حشر ہوگا ،جس پریہ آیت نازل ہوئی کہ حرمت سے پہلے پہلے لوگوں نے جو کچھ کھایا پیا ہے اس کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ۳؎ الغرض ۳ہجری کے آخر یا ۴ہجری کے شروع میںمگر بہرحال غزوہ اُحد کے بعد شراب نوشی اسلام میں قطعی طورپر حرام ہوگئی اور شراب کی تعریف میں ہر وہ چیز شامل قرار دی گئی جو نشہ پیدا کرتی اورانسان کی عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے۔ ۴؎ اوراس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس چیز کی جڑ پرتبر رکھ دیا جو صحیح طورپر بدیوں کی ماں کہلاتی ہے۔
اس جگہ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ازروئے عقل شراب نوشی کیسی ہے۔ قرآن نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شراب میں بعض فوائد بھی ہیں ،مگر یہ کہ اس کے نقصانات اس کے فوائدسے زیادہ ہیں اوراصولی طورپر انسانی عقل اس مسئلہ پر اس سے زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتی۔ اوریہ ایک خوشی کامقام ہے کہ ہزاروں سالوں کے تلخ تجربات کے بعد آج دنیا اسی حقیقت کی طرف آرہی ہے جواسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ سوسال پہلے آشکار اکی تھی اورہرملک میں شراب نوشی کے سدباب کے لئے سوسائیٹیاںبن رہی ہیں،بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تو شراب کے خلاف ایک قانون بھی نافذ ہوچکا ہے جس کی تقلید میں بعض دوسرے ممالک میں بھی تحریک شروع ہے۔
بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ محرم ۴ ہجری
جنگ اُحد میں جو ہزیمت مسلمانوں کو پہنچی اس نے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف
سراٹھانے پرآگے سے بھی زیادہ دلیرکردیا۔چنانچہ ابھی جنگ اُحد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اورصحابہ ابھی اپنے زخموں کے علاج سے بھی پوری طرح فارغ نہ ہوئے تھے کہ محرم۴ہجری میں اچانک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قبیلہ اسد کا رئیس طلیحہ بن خویلد اوراس کا بھائی سلمہ بن خویلد اپنے علاقہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کررہے ہیں۔ ۵؎ اس خبر کے ملتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اپنے ملک کے حالات کے ماتحت اس قسم کی خبروں کے خطرات کوخوب سمجھتے تھے فوراًڈیڑھ سوصحابیوںکا ایک تیز رودستہ تیار کر کے اس پر ابوسلمہ بن عبدالاسد کوامیر مقرر فرمایا اورانہیں تاکید کی کہ یلغار کرتے ہوئے پہنچیں اورپیشتر اس کے کہ بنواسد اپنی عداوت کوعملی جامہ پہنا سکیں انہیں منتشر کردیں۔چنانچہ ابوسلمہ نے تیزی مگرخاموشی کے ساتھ بڑھتے ہوئے وسط عرب کے مقام قطن میں بنو اسد کوجالیا،لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی بلکہ بنو اسد کے لوگ مسلمانوں کودیکھتے ہی ادھرادھر منتشر ہوگئے۔اورابوسلمہ چنددن کی غیرحاضری کے بعد مدینہ میں واپس پہنچ گئے۔ ۱؎ اس سفر کی غیر معمولی مشقت سے ابوسلمہ کاوہ زخم جوانہیں اُحد میں آیاتھا اور اب بظاہرمندمل ہوچکا تھا پھرخراب ہوگیا اورباوجود علاج معالجہ کے بگڑتا ہی گیا اوربالآخر اسی بیماری میں اس مخلص اورپرانے صحابی نے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات پائی۔ ۲؎ بنواسد کارئیس طلیحہ جس کا ذکراوپر کیا گیا ہے بعد میں مسلمان ہوگیا،لیکن پھر مرتد ہوگیا بلکہ نبوت کا جھوٹا مدعی بن کرفتنہ وفساد کاموجب بنا مگر بالآخر شکست کھاکر عرب سے بھاگ گیا اورپھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ تائب ہوا اورآخر کئی اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر اسلام پروفات پاگیا۔ ۳؎
بنولحیان کی شرارت اورسفیان کاقتل محرم۴ہجری
قریش کی اشتعال انگیزی اوراُحد میں مسلمانوں کی وقتی ہزیمت اب نہایت
سرعت کے ساتھ اپنے خطرناک نتائج ظاہر کررہی تھی۔چنانچہ انہی ایام میں جن میں بنواسد نے مدینہ پرچھاپہ مارنے کی تیاری کی تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ قبیلہ بنولحیان کے لوگ اپنے سردار سفیان بن خالد کی انگیخت پراپنے وطن عرنہ میں جو مکہ سے قریب ایک مقام تھا ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہے ہیںاوران کا ارادہ مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ہے۔ ۴؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو نہایت موقع شناس اورمختلف قبائل عرب کی حالت اوران کے رئوساء کی طاقت واثر سے خوب واقف تھے اس خبر کے موصول ہوتے ہی سمجھ لیا کہ یہ ساری شرارت اورفتنہ انگیزی بنولحیان کے رئیس سفیان بن خالد کی ہے اوراگراس کا وجوددرمیان میں نہ رہے تو بنولحیان مدینہ پرحملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کرسکتے اوریہ بھی آپ جانتے تھے کہ سفیان کے بغیر اس قبیلہ میں فی الحال کوئی ایسا صاحب اثر شخص نہیں ہے جو اس قسم کی تحریک کا لیڈر بن سکے۔لہذا یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر بنولحیان کے خلاف کوئی فوجی دستہ روانہ کیا گیا توغریب مسلمانوں کے واسطے موجب تکلیف ہونے کے علاوہ ممکن ہے کہ یہ طریق ملک میں زیادہ کشت وخون کادروازہ کھول دے۔آپؐ نے یہ تجویز فرمائی کہ کوئی ایک شخص چلاجائے اورموقع پاکر اس فتنہ کے بانی مبانی اوراس شرارت کی جڑ سفیان بن خالد کوقتل کر دے۔چنانچہ آپؐنے اس غرض سے عبداللہ بن انیس انصاری کوروانہ فرمایا۔اورچونکہ عبداللہ نے کبھی سفیان کودیکھا نہیں تھا اس لئے آپؐنے خودان کو سفیان کاسارا حلیہ وغیرہ سمجھادیا اورآخر میں فرمایا کہ ہوشیار رہنا،سفیان ایک مجسم شیطان ہے۔چنانچہ عبداللہ بن انیس نہایت ہوشیاری کے ساتھ بنو لحیان کے کیمپ میں پہنچے(جو واقعی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں بڑی سرگرمی سے مصروف تھے)اوررات کے وقت موقع پاکر سفیان کا خاتمہ کردیا۔بنولحیان کواس کاعلم ہوا تو انہوں نے عبداللہ کاتعاقب کیا مگر وہ چھپتے چھپاتے ہوئے بچ کرنکل آئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جب عبداللہ بن انیس آئے تو آپؐنے ان کی شکل دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ کامیاب ہوکرآئے ہیں۔ چنانچہ آپؐنے انہیں دیکھتے ہی فرمایااَفْلَحَ الْوَجْہٗیہ چہرہ توبامراد نظرآتا ہے۔عبداللہ نے عرض کیا اورکیا خوب عرض کیا ’’اَفْلَحَ وَجْھُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ‘‘یارسول اللہ سب کامیابی آپؐ کی ہے۔‘‘ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کاعصا عبداللہ کوبطور انعام کے عطا فرمایا اورفرمایا’’یہ عصا تمہیں جنت میں ٹیک لگانے کاکام دے گا۔‘‘عبداللہ نے یہ مبارک عصا نہایت محبت واخلاص کے ساتھ اپنے پاس رکھا اورمرتے ہوئے وصیت کی کہ اسے ان کے ساتھ دفن کردیا وے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ۱؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس خوشی سے جس کا اظہار آپؐنے عبداللہ کی بامراد واپسی پر فرمایا اوراس انعام سے جوا نہیں غیر معمولی طور پر عطافرمایاپتہ لگتا ہے کہ آپؐسفیان بن خالد کی فتنہ انگیزی کونہایت خطرناک خیال فرماتے تھے اوراس کے قتل کو امن عامہ کے لئے ایک موجب رحمت سمجھتے تھے۔ ۲؎
کفار کی غدّاری اورواقعہ رجیع صفر۴ہجری
یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت خطرہ کے دن تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوچاروں طرف
سے متوحش خبریں آرہی تھیں،لیکن سب سے زیادہ خطرہ آپ کو قریش مکہ کی طرف سے تھا جو جنگ اُحد کی وجہ سے بہت دلیر اور شوخ ہورہے تھے اس خطرہ کو محسوس کرکے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ صفر۴ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اوران پر عاصم بن ثابت کوامیر مقرر فرمایا اوران کویہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جاکر قریش کے حالات دریافت کریں اوران کی کارروائیوں اورارادوں سے آپؐکواطلاع دیں۔ ۱؎ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عضل اورقارۃ کے چند لوگ آپؐکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں آپؐچندآدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اوراسلام کی تعلیم دیں۔ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کرکے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جوخبررسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرمادی۔ ۳؎ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اوربنولحیان کی انگیخت پرمدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کابدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کردیا جاوے اوربنو لحیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عضل اورقارہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ ۴؎ جب عضل اورقارۃ کے یہ غدار لوگ عسفان اورمکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لحیان کوخفیہ خفیہ اطلاع بھجوادی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیںتم آجائو۔جس پر قبیلہ بنو لحیان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اورمقام رجیع میں ان کو آدبایا۔دس آدمی دوسوسپاہیوں کاکیا مقابلہ کرسکتے تھے، لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلہ پر چڑھ کرمقابلہ کے واسطے تیار ہوگئے۔کفار نے جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پرسے نیچے اترآئو ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔عاصم نے جواب دیا کہ’’ہمیں تمہارے عہدوپیمان کاکوئی اعتبار نہیں ہے ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اترسکتے۔‘‘اورپھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کرکہا۔’’اے خدا!توہماری حالت کو دیکھ رہا ہے۔اپنے رسول کوہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔‘‘غرض عاصم اوراس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔
جب سات صحابہ مارے گئے اورصرف خبیب بن عدی اورزید بن وثنہ اورایک اورصحابی باقی رہ گئے توکفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کوزندہ پکڑنے کی تھی۔پھرآواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آئو۔ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیںگے۔اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آکر نیچے آترآئے،مگرنیچے اترتے ہی کفار نے ان کواپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کرباندھ لیا۔اوراس پر خبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبداللہ بن طارق مذکور ہواہے صبر نہ ہوسکا اورانہوں نے پکار کر کہا۔’’یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے۔‘‘اورنہ معلوم تم آگے چل کر کیا کرو گے اورعبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کردیا۔جس پر کفار تھوڑی دور تک تو عبداللہ کوگھسیٹتے ہوئے اور زدوکوب کرتے ہوئے لے گئے اورپھرانہیں قتل کرکے وہیں پھینک دیا اور چونکہ اب ان کا انتقام پوراہوچکا تھا۔وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے نیز روپے کی لالچ سے خبیب اورزید کوساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اوروہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کردیا۔ ۱؎ چنانچہ خبیب کوتو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا۔کیونکہ خبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔۲؎ اورزید کو صفوان بن امیہ نے خریدلیا۔ ۳؎
ابھی یہ دونوں صحابی قریش کے پاس غلامی کی حالت میں قید تھے کہ ایک دن خبیب نے حارث کی ایک لڑکی سے اپنی ضرورت کے لئے ایک استرا مانگا اوراس نے دے دیا۔جب یہ استرا خبیب کے ہاتھ میں تھا تو بنت حارث کاایک خوردسالہ بچہ کھیلتاہواخبیب کے پاس آگیا اورخبیب نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا۔ماں نے جب دیکھا کہ خبیب کے ہاتھ میں استرا ہے اورران پراس کا بچہ بیٹھا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا۔خبیب نے اسے دیکھا تواس کے خوف کو سمجھتے ہوئے کہا ’’کیا تم یہ خیال کرتی ہو کہ میں اس بچے کو قتل کردوں گا؟یہ خیال نہ کرو۔میں انشاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔’’ماں کا کملایا ہوا چہرہ خبیب کے ان الفاظ سے شگفتہ ہوگیا۔یہ عورت خبیب کے اعلیٰ اخلاق سے اس قدرمتاثر تھی کہ وہ بعد میں ہمیشہ کہا کرتی کہ’’ میںنے خبیب کاسااچھا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ’’میں نے ایک دفعہ خبیب کے ہاتھ میں ایک انگور کا خوشہ دیکھا تھا جس سے وہ انگور کے دانے توڑ توڑ کرکھاتا تھا۔حالانکہ ان دنوں میں مکہ میں انگوروں کانام ونشان نہیں تھا اورخبیب آہنی زنجیروں میں جکڑا ہواتھا۔وہ کہتی تھی کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ خدائی رزق تھا جو خبیب کے پاس آتا تھا۔ ۱؎
مگر رئوسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کاجذبہ خارج از سوال تھا۔چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اوردوسرے رئوساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراس کے قتل پر جشن منانے کے لئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔خبیب نے شہادت کی بو پائی تو قریش سے نہایت الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دورکعت نماز پڑھ لینے دو۔قریش نے جو غالباًاسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اورخبیب نے بڑی توجہ اورحضور قلب کے ساتھ دورکعت نماز ادا کی اورپھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہا کہ’’میرا دل چاہتا تھا کہ میں اپنی نماز کواور لمبا کروں،لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ میں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔‘‘اورپھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے۔
وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلیٰ اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِ لٰہِ وَاِنْ یَشَاء
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شَلْوٍ مُمَزَّعِ
یعنی’’جبکہ میں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پروا نہیں ہے کہ میں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے۔اوراگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔‘‘غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشق رسول ؐخاک پر تھا۔ ۲؎ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔اس مجمع میں ایک شخص سعید بن عامر بھی شریک تھا۔یہ شخص بعد میں مسلمان ہوگیااورحضرت عمرؓکے زمانہ خلافت تک اس کا یہ حال تھا کہ جب کبھی اسے خبیب کاواقعہ یاد آتا تھا تو اس پر غشی کی حالت طاری ہوجاتی تھی۔ ۳؎
دوسری طرف صفوان بن امیہ اپنے قیدی زید بن وثنہ کوساتھ لے کر حرم سے باہر گیا۔رئوساء قریش کا ایک مجمع ساتھ تھا۔باہر پہنچ کرصفوان نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ زید کو قتل کردو۔ نسطاس نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھائی۔اس وقت ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ نے جو تماشائیوں میں موجود تھا آگے بڑھ کر زید سے کہا۔’’سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمدہوتا جسے ہم قتل کرتے اورتم بچ جاتے اوراپنے اہل وعیال میں خوشی کے دن گزارتے؟‘‘زید کی آنکھوں میں خون اترآیا اوروہ غصہ میں بولے۔’’ابوسفیان تم یہ کیا کہتے ہو۔خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض رسول اللہ کے پائوں میں ایک کانٹا تک چبھے۔‘‘ابوسفیان بے اختیار ہوکر بولا۔’’واللہ میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمدکو محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )سے ہے۔‘‘اس کے بعد نسطاس نے زید کو شہید کردیا۔ ۱؎
اسی واقعہ رجیع کی ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جولوگ بنولحیان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابت بھی تھے۔تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقع پرقریش کے ایک بڑے رئیس کوقتل کیا تھا ،اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اوران آدمیوں کوتاکید کی کہ عاصم کاسریا جسم کاکوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تاکہ انہیں تسلی ہواوران کا جذبۂ انتقام تسکین پائے۔ ۲؎ ایک اورروایت میں آتا ہے کہ جس شخص کوعاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے گی۔ ۳؎ لیکن خدا ئی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں اورشہد کی نرمکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اورکسی طرح وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اورمکھیاں وہاںسے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخرمجبور ہوکر یہ لوگ خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ ۴؎ اس کے بعد جلد ہی بارش کاایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کووہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہرقسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتّٰی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔حضرت عمرؓکوجب ان کی شہادت اوراس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو کہنے لگے۔ ’’خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کوپورا کروایا اورمشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا۔ ۱؎
واقعہ رجیع کی خبر سے جو صدمہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے اصحاب کوپہنچ سکتا تھا وہ ظاہر ہے مگر پیشتر اس کے کہ یہ المناک خبرمدینہ میں پہنچتی ایک اورخطرناک واقعہ پیش آگیا۔ اس لئے قبل اس کے کہ ہم واقعہ رجیع کے متعلق کوئی تبصرہ کریں اس واقعہ کابیان کردینا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں واقعات ایک ہی نوعیت کے تھے اوران کی اطلاع بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوایک ہی وقت میں موصول ہوئی تھی۔ ۲؎
واقعہ بئر معونہ صفر۴ہجری
قبائل سلیم وغطفان وغیرہ کی شرارتوں اورفتنہ انگیزیوں کاذکر اوپر گزرچکا ہے یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع نجد پر آباد تھے اورمسلمانوں کے
خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اورسارا سطح مرتفع نجد اسلام کی عداوت کے زہر سے مسموم ہوتا چلاجارہا تھا۔چنانچہ ان ایام میں جن کا ہم اس وقت ذکر کررہے ہیں ایک شخص ابوبراء عامری جووسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔آپؐنے بڑی نرمی اورشفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اوراس نے بھی بظاہرشوق اور توجہ کے ساتھ آپؐکی تقریر کو سنا ،مگر مسلمان نہیں ہوا۔البتہ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپؐمیرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جووہاں جاکر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐ کی دعوت کورد نہیں کریں گے۔آپؐنے فرمایامجھے تو اہل نجد پراعتماد نہیں ہے۔ابوبراء نے کہا کہ آپؐہرگز فکر نہ کریں۔میں ان کی حفاظت کاضامن ہوتا ہوں۔چونکہ ابوبراء ایک قبیلہ کا رئیس اورصاحب اثر آدمی تھا آپؐنے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کرلیا اورصحابہ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمادی۔ ۳؎
یہ تاریخ کی روایت ہے۔بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رعل اورذکوان وغیرہ (جومشہور قبیلہ بنو سلیم کی شاخ تھے)ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کرکے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جولوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے(یہ تشریح نہیں کی کہ کس قسم کی امداد،آیا تبلیغی یافوجی)چندآدمی روانہ کئے جائیں۔جس پر آپؐنے یہ دستہ روانہ فرمایا۔ ۱؎ اوراسی کی تائید میں ابن سعد نے بھی ایک روایت نقل کی ہے گواسے دوسری روایت کے مقابل میں ترجیح نہیں دی۔ ۲؎ مگر بد قسمتی سے بئر معونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں بھی کچھ خلط واقع ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہوسکتی۔ ۳؎ مگربہرحال اس قدر یقینی طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر قبائل رعل اورذکوان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے اورانہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہ ان کے ساتھ بھجوا ئے جائیں۔
ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رعل اورذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابوبراء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو۔چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ فرمانا کہ مجھے اہل نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اورپھر اس کا یہ جواب دینا کہ آپؐکوئی فکر نہ کریں میں اس کا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐکے صحابہ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبراء کے ساتھ رعل اورذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فکر مند تھے۔واللہ اعلم
بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفر۴ہجری میں منذر بن عمروانصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ ۴؎ یہ لو گ عموماًانصار میں سے تھے اورتعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے۔جودن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے ان کی قیمت پر اپنا پیٹ پالتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزار دیتے تھے۔ ۵؎ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جوایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا توان میں سے ایک شخص حرام بن ملحان جوانس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اورابوبراء عامری کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے اورباقی صحابہ پیچھے رہے۔جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طورپر آئو بھگت کی،لیکن جب وہ مطمئن ہوکربیٹھ گئے اوراسلام کی تبلیغ کرنے لگے توان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کواشارہ کرکے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کاوار کرکے وہیں ڈھیر کردیا۔اس وقت حرام بن ملحان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔اَللّٰہُ اَکْبَرُفُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی’’اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قسم! میں تو اپنی مراد کوپہنچ گیا۔‘‘ ۱؎ عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پرہی اکتفاء نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنوعامر کے لوگوں کواکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہوجائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اورکہا کہ ہم ابوبراء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پرحملہ نہیں کریں گے۔اس پر عامر نے قبیلہ سلیم میں سے بنورعل اورذکوان اورعصیہ وغیرہ کو(وہی جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے)اپنے ساتھ لیا اوریہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اوربے بس جماعت پرحملہ آور ہوگئے۔ ۲؎ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے۔ہم تورسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اورہم تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے ۔مگرانہوں نے ایک نہ سنی اورسب کوتلوار کے گھاٹ اتاردیا۔ ۳؎ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پائوں سے لنگڑا تھا اورپہاڑی کے اوپرچڑھ گیا ہوا تھا۔ ۴؎ اس صحابی کا نام کعب بن زید تھا اوربعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوا اور کفار اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر دراصل اس میں جان باقی تھی اوروہ بچ گیا۔ ۵؎
صحابہ کی اس جماعت میںسے دو شخص یعنی عمروبن امیہ ضمری اورمنذر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہوکر ادھرادھر گئے ہوئے تھے انہوں نے دور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی توکیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جھنڈکے جھنڈہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔وہ ان صحرائی اشاروں کوخوب سمجھتے تھے۔فوراًتاڑگئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت وخون کاکارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔دور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراًبھاگ نکلنا چاہئے اورمدینہ میں پہنچ کرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواطلاع دینی چاہئے ۔مگردوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اورکہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کرنہیں جائوں گا جہاں ہمارا امیرمنذر بن عمرو شہید ہوا ہے۔چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اورشہید ہوا۔ ۱؎ اوردوسرے کوجس کا نام عمر وبن امیہ ضمری تھا کفار نے پکڑ کرقید کرلیا۔ ۲؎ اورغالباًاسے بھی قتل کردیتے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قبیلہ مضر سے ہے تو عامر بن طفیل نے عرب کے دستور کے مطابق اس کے ماتھے کے چند بال کاٹ کر اسے رہا کردیا اور کہا کہ میری ماں نے قبیلہ مضر کے ایک غلام کے آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی ہے میں تجھے اس کے بدلے میں چھوڑتا ہوں۔گویا ان سترصحابہ میں صرف دو شخص بچے۔ ایک یہی عمروبن امیہ ضمری اور دوسرے کعب بن زید جسے کفار نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ ۳؎
بئر معونہ کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام اوراسلام کے دیرینہ فدائی عامر بن فہیرہ بھی تھے۔ ۴؎ انہیں ایک شخص جبار بن سلمی نے قتل کیا تھا۔ ۵؎ جبار بعد میں مسلمان ہوگیا اور وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرۃ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے اختیار نکل فزت واللہ۔یعنی’’خدا کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘ جبار کہتے ہیںکہ میں یہ الفاظ سن کرسخت متعجب ہوا کہ میں نے تو اس شخص کو قتل کیا ہے اوروہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں مراد کوپہنچ گیا ہوںیہ کیا بات ہے۔چنانچہ میںنے بعد میں لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان لوگ خدا کے رستے میں جان دینے کو سب سے بڑی کامیابی خیال کرتے ہیں اور اس بات کامیری طبیعت پرایسا اثر ہوا کہ آخر اسی اثر کے ماتحت میں مسلمان ہوگیا۔ ۶؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ کوواقعہ رجیع اورواقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک ہی وقت میں ملی۔ ۷؎ اورآپؐکو اس کا سخت صدمہ ہوا۔ حتّٰی کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐکو کبھی ہوا تھا اورنہ بعد میں کبھی ہوا۔ ۸؎ واقعی قریباً ۹؎ اسّی صحابیوں کااس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اورصحابی بھی وہ جو اکثر حفاظ قرآن میں سے تھے اورایک غریب بے نفس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔عرب کے وحشیانہ رسم ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اورخود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے تو یہ خبر گویا اسّی بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر،کیونکہ ایک روحانی انسان کے لئے روحانی رشتہ یقینا اس سے بہت زیادہ عزیز ہوتاہے جتنا کہ ایک دنیا دار شخص کودنیاوی رشتہ عزیز ہوتا ہے۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان حادثات کاسخت صدمہ ہوا،مگر اسلام میں بہرصورت صبرکاحکم ہے آپؐنے یہ خبر سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنّٰا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اورپھریہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہوگئے کہ ھَذَا عَمَلُ اَبِیْ بَرَّائَ وَقَدْ کُنْتُ لِھٰذَا کَارِھًا مُتَخَوِّفًا۔یعنی’’یہ ابوبراء کے کام کا ثمرہ ہے ورنہ میں تو ان لوگوں کے بھجوانے کوپسند نہیں کرتا تھا اوراہل نجد کی طرف سے ڈرتا تھا۔ ۱؎
واقعات بئر معونہ اوررجیع سے قبائل عرب کے اس انتہائی درجہ کے بغض وعداوت کاپتہ چلتا ہے جووہ اسلام اورمتبعین اسلام کے متعلق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔حتیٰ کہ ان لوگوں کواسلام کے خلاف ذلیل ترین قسم کے جھوٹ اوردغا اورفریب سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا اورمسلمان باوجود اپنی کمال ہوشیاری اوربیدار مغزی کے بعض اوقات اپنی مومنانہ حسن ظنی میں ان کے دام کا شکار ہوجاتے تھے۔حفّاظ قرآن،نماز گزار،تہجدخوان، مسجدکے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کانام لینے والے اورپھر غریب مفلس فاقوں کے مارے ہوئے یہ وہ لوگ تھے جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے سے اپنے وطن میں بلایا اورپھر جب مہمان کی حیثیت میں وہ ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کردیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا۔مگر اس وقت آپؐنے رجیع اوربئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی۔البتہ اس خبر کے آنے کی تاریخ سے لے کر برابر تیس دن تک آپؐنے ہرروز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ زاری کے ساتھ قبائل رعل اورذکوان اورعصیہ اوربنولحیان کانام لے لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی اے میرے آقا توہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جوتیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اورسنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کاخون بہا رہے ہیں۔ ۲؎

یہود کی دوسری غدّاری۔جمع وترتیب قرآن
حضرت زینبؓ کی شادی۔واقعۂ افک
اورمنافقین کی فتنہ پردازی
اخراجِ بنونضیر۔ربیع الاوّل۴ہجری
جب کسی قوم کے بُرے دن آتے ہیں توپھر اس کی بینائی کم ہوجاتی ہے اورواقعات سے سبق اورعبرت حاصل کرنے کی
طرف وہ توجہ نہیں کرتی۔چنانچہ بنوقینقاع کے جلاوطن کئے جانے پربجائے اس کے کہ یہود کے باقی ماندہ دوقبیلے عبرت حاصل کرتے اوراپنی شرارتوں اورفتنہ انگیزیوں سے باز آجاتے اورمسلمانوں کوامن کی زندگی بسرکرنے دیتے اورخود بھی امن کے ساتھ رہتے،انہوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اورمسلمانوں کے خلاف اندر ہی اندر فتنے کے شرارے پیداکرتے رہے اور قریش مکہ کے ساتھ بھی ان لوگوں نے برابر ساز باز رکھی۔ بلکہ بنوقینقاع کے بعد ان کی عداوت اور بھی ترقی کرگئی اوران کے منصوبے دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتے گئے۔چنانچہ ابھی واقعات رجیع اوربئر معونہ پرزیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ حالات نے ایسی نازک صورت اختیار کرلی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخود حفاظتی کے خیال سے مجبور ہوکر بنونضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی جس کے نتیجہ میں بالآخر یہ قبیلہ بھی مدینہ سے جلاوطن ہوگیا۔اس غزوہ کا سبب بیان کرتے ہوئے ارباب حدیث وسیر مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں اوراس اختلاف کی وجہ سے اس غزوہ کے زمانہ کے متعلق بھی اختلاف پیداہوگیا ہے۔ابن اسحاق اورابن سعد جن کی اتباع مَیں نے اس جگہ بلا کسی خاص تحقیق کے اختیار کی ہے غزوہ بنونضیر کو غزوہ اُحد اورواقعہ بئر معونہ کے بعد بیان کرتے ہیں اوراس کا سبب یہ لکھتے ہیں کہ عمرو بن امیہ ضمری جنہیں کفار نے بئر معونہ کے موقع پرقید کرکے چھوڑ دیا تھا۔وہ جب واپس مدینہ کی طرف آرہے تھے توانہیں راستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی ملے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرچکے تھے،چونکہ عمرو کو اس عہدوپیمان کا علم نہیں تھا اس لئے اس نے موقع پاکر ان دوآدمیوں کوشہداء بئر معونہ کے بدلے میں قتل کردیا جن کے قتل کا باعث قبیلہ بنوعامر کا ایک رئیس عامر بن طفیل ہوا تھا۔گوجیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے خود قبیلہ بنو عامر کے لوگ اس قتل وغارت سے دست کش رہے تھے۔جب عمرو بن امیہ مدینہ پہنچے توانہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سارا ماجراعرض کیا اوران دوآدمیوں کے قتل کاواقعہ بھی سنایا۔ آپؐکوجب ان دوآدمیوں کے قتل کی اطلاع ہوئی توآپؐعمروبن امیہ کے اس فعل پربہت ناراض ہوئے اورفرمایا کہ وہ توہمارے معاہد تھے۔اورآپؐ نے فوراًان ہردومقتولین کا خون بہاان کے ورثاء کو بھجوادیا،لیکن چونکہ قبیلہ بنوعامر کے لوگ بنو نضیر کے بھی حلیف تھے اوربنونضیر مسلمانوں کے حلیف تھے اس لئے معاہدہ کی رو سے اس خون بہا کابارحصہ رسدی بنو نضیر پر بھی پڑتا تھا۔چنانچہ آپؐ اپنے چندصحابیوں کوساتھ لے کربنونضیر کی آبادی میں پہنچے اوران سے یہ سارا واقعہ بیان کرکے خون بہا کا حصہ مانگا۔انہوں نے بظاہر آپؐکے تشریف لانے پر خوشی کااظہار کیا اورکہا کہ آپؐتشریف رکھیں ہم ابھی اپنے حصہ کا روپیہ اداکئے دیتے ہیں۔چنانچہ آپؐ مع اپنے چند اصحاب کے ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اوربنو نضیر باہم مشورہ کے لئے ایک طرف ہوگئے اورظاہر یہ کیا کہ ہم روپے کی فراہمی کاانتظام کررہے ہیں لیکن بجائے روپے کاانتظام کرنے کے انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ یہ ایک بہت ہی اچھا موقع ہے۔محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مکان کے سایہ میں دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں کوئی شخص دوسری طرف سے مکان پرچڑھ جاوے اورپھر ایک بڑا پتھر آپؐکے اوپر گرا کر آپؐکا کام تمام کردے۔ ۱؎ یہود میں سے ایک شخص سلام بن مشکم نے اس تجویز کی مخالفت کی۔اورکہا کہ یہ ایک غداری کافعل ہے اوراس عہد کے خلاف ہے جو ہم لوگ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھ کرچکے ہیں،مگران لوگوں نے نہ مانا۔ ۲؎ اوربالآخر عمرو بن حجاش نامی ایک یہودی ایک بہت بھاری پتھر لے کر مکان کے اوپر چڑھ گیا اورقریب تھا کہ وہ اس پتھر کواوپر سے لڑھکادیتا۔مگرروایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے یہود کے اس بدارادے سے بذریعہ وحی اطلاع دے دی اورآپؐجلدی سے وہاں سے اٹھ آئے اورایسی جلدی میں اٹھے کہ آپؐکے اصحاب نے بھی اور یہود نے بھی یہ سمجھا کہ شاید آپؐ کسی حاجت کے خیال سے اٹھ گئے ہیں۔چنانچہ وہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے آپؐکاانتظار کرتے رہے،لیکن آپؐ وہاں سے اٹھ کر سیدھے مدینہ میں تشریف لے آئے۔صحابہ نے تھوڑی دیرآپؐکاانتظارکیا،لیکن جب آپؐ واپس تشریف نہ لائے تو وہ گھبراکراپنی جگہ سے اٹھے اورآپؐکو ادھرادھر تلاش کرتے ہوئے بالآخر خود بھی مدینہ پہنچ گئے۔اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کویہود کی اس خطرناک سازش کی اطلاع دی۔ ۱؎ اورپھر قبیلہ اوس کے ایک رئیس محمد بن مسلمہ کوبلاکرفرمایا کہ تم بنونضیر کے پاس جائو اوران کے ساتھ اس معاملہ کے متعلق بات چیت کرو اوران سے کہو کہ چونکہ وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گئے ہیں اوران کی غداری انتہاء کوپہنچ گئی ہے اس لئے اب انکا مدینہ میںرہنا ٹھیک نہیں ہے۔بہتر ہے کہ وہ مدینہ کوچھوڑ کر کہیں اورجاکر آباد ہوجائیں اورآپؐنے ان کے لئے دس دن کی معیاد مقررفرمائی۔
محمد بن مسلمہ جب ان کے پاس گئے تووہ سامنے سے بڑے تمرّد سے پیش آئے اورکہا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے کہہ دو کہ ہم مدینہ سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تم نے جوکرنا ہوکر لو۔جب ان کا یہ جواب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہنچا توآپؐنے بے ساختہ فرمایا۔’’اللہ اکبریہود توجنگ کے لئے تیار بیٹھے ہیں۲؎ اس کے بعد آپؐنے مسلمانوں کوتیاری کاحکم دیا اورصحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنونضیر کے خلاف میدان میں نکل آئے۔
یہ وہ روایت ہے جس کی اکثر مؤرخین نے اتباع کی ہے۔حتّٰی کہ یہی روایت تاریخ میں عام طورپر شائع اورمتعارف ہوگئی ہے ،لیکن اس کے مقابل پرامام زہری کی یہ روایت صحیح احادیث میں مروی ہوئی ہے کہ جنگ بدر کے بعد مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خاص طورپر کس سال اورکس ماہ میں مکہ کے رئوساء نے بنونضیر کویہ خط لکھا تھا کہ تم محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کرو ورنہ ہم تمہارے خلاف جنگ کریں گے۔ اس پر بنونضیر نے باہم مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ کسی حکمت عملی کے ساتھ آنحضرت( صلی اﷲ علیہ وسلم) کو قتل کردیا جاوے اوراس کے لئے انہوں نے یہ تجویز کی کہ آپؐکو کسی بہانہ سے اپنے پاس بلائیں اوروہاں موقع پاکر آپؐکو قتل کردیں۔چنانچہ انہوں نے آپؐکو کہلا بھیجا کہ ہم آپؐ کے ساتھ اپنے علماء کامذہبی تبادلہ خیالات کروانا چاہتے ہیں۔۳؎ اگر ہم پر آپؐ کی صداقت ظاہر ہوگئی توہم آپؐپرایمان لے آئیں گے۔پس آپ مہربانی کرکے اپنے کوئی سے تیس اصحاب کو ساتھ لے کر تشریف لے آئیں۔ہماری طرف سے بھی تیس علماء ہوں گے اورپھر باہم تبادلہ خیالات ہوجائے گا۔ ۱؎ ایک طرف تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ پیغام بھیجا اوردوسری طرف یہ تجویز پختہ کرکے اس کے مطابق پوری پوری تیاری بھی کرلی کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہی یہودی’’علمائ‘‘ جن کے پاس خنجریں پوشیدہ ہوں موقع پاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوقتل کردیں۔مگرقبیلہ بنو نضیر کی ایک عورت نے ایک انصاری شخص کو جو رشتہ میں اس کا بھائی لگتا تھااپنے قبیلہ والوں کے اس بدارادے سے بروقت اطلاع دے دی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جوابھی گھر سے نکلے ہی تھے یہ اطلاع پاکر واپس تشریف لے آئے ۲؎ اورفوراًتیاری کاحکم دیااورصحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر بنونضیر کے قلعوں کی طرف روانہ ہوگئے اور جاتے ہی ان کا محاصرہ کرلیا اورپھر ان کے رئوساء کو پیغام بھیجا کہ جو حالات ظاہر ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے میں تمہیں مدینہ میں نہیں رہنے دے سکتاجب تک کہ تم ازسرنومیرے ساتھ معاہدہ کرکے مجھے یقین نہ دلائو کہ آئندہ تم بدعہدی اورغداری نہیں کرو گے۔مگر یہود نے معاہدہ کرنے سے صاف انکار کردیا اوراس طرح جنگ کی ابتدا ہوگئی اوربنونضیر نہایت متمرّدانہ طریق پرقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔دوسرے دن آپؐکویہ اطلاع ملی یا آپؐنے قرآئن سے خود معلوم کرلیا کہ یہود کا دوسرا قبیلہ بنو قریظہ بھی کچھ بگڑا بیٹھا ہے۔چنانچہ آپؐصحابہ کے ایک دستہ کوساتھ لے کر بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے اوران کا محاصرہ کرلیا۔بنوقریظہ نے جب دیکھا کہ راز کھل گیا ہے تووہ ڈر گئے اور معافی کے خواستگار ہوکر از سرنوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ امن وامان اورباہمی اعانت کامعاہدہ کرلیا۔جس پرآپؐنے ان کا محاصرہ اٹھا لیا اورپھر بنو نضیر کے قلعوںکی طرف تشریف لے آئے،لیکن بنو نضیر بدستور اپنی ضد اورعداوت پراَڑے رہے اورایک باقاعدہ جنگ کی صورت پیداہوگئی۔ ۳؎
یہ وہ دومختلف روایتیں ہیں جوغزوہ بنونضیر کے باعث کے متعلق بیان کی گئی ہیں اورگوتاریخی لحاظ سے مؤخرالذکر روایت زیادہ درست اورصحیح ہے اوردوسری احادیث میں بھی زیادہ تر اسی روایت کی تائید پائی جاتی ہے،لیکن چونکہ پہلی روایت کومؤرخین نے زیادہ کثرت کے ساتھ قبول کیا ہے اور بعض صحیح احادیث میں بھی اس کی صحت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔چنانچہ امام بخاری نے باوجود زہری کے قول کوترجیح دینے کے قبیلہ عامر کے دو مقتولوں کی دیت کابھی ذکر کیا ہے۔۱؎ اس لئے ہماری رائے میں اگر دونوں روایتوں کوصحیح سمجھ کرملالیا جاوے توکوئی حرج لازم نہیں آتا۔البتہ اس سے غزوہ کے زمانہ کے متعلق ان روایتوں میں سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینی پڑے گی۔کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے ہر دوروایات کوصحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنو نضیر کی طرف سے مختلف مواقع پرمختلف اسباب جنگ کے پیدا ہوتے رہے ہیں اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں ڈھیل دیتے رہے اوردرگزر سے کام فرمایا۔لیکن جب آخری سبب بئر معونہ کے واقعہ کے بعد ہوا،توآپؐنے انہیں ان کی ساری کارروائیاں جتلا کران کے خلاف فوج کشی فرمائی۔گویا یہ جتنے مختلف اسباب بیان ہوئے ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہ درست تھے مگرآخری تحریکی سبب وہ تھاجوبنوعامر کے دو مقتولوں کی دیت کے مطالبہ کے وقت پیش آیا۔واللہ اعلم بالصواب۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کعب بن اشرف جس کے قتل کاذکر اوپر گزرچکا ہے اور جس نے مسلمانوں کے خلاف گویا ایک آگ بھڑکا رکھی تھی وہ بھی بنونضیر سے تعلق رکھتا تھا۔
بہرحال یہود کے قبیلہ بنو نضیرنے خلاف عہدی اورغداری کی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ باندھا اورجب ان سے یہ کہا گیا کہ ان حالات میں تمہارا مدینہ میں رہنا ٹھیک نہیں ہے تم یہاں سے چلے جائو توانہوں نے تمرّد اورسرکشی سے کام لیا اورتجدید معاہدہ سے انکار کرکے جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔اس لئے مجبوراًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھی ان کے خلاف میدان میں نکلناپڑا۔چنانچہ آپؐ نے اپنے پیچھے مدینہ کی آبادی میں ابن مکتوم کوامام صلوٰۃ مقرر فرمایااورخود صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکل کر بنو نضیر کی بستی کامحاصرہ کرلیااوربنونضیر اس زمانہ کے طریق جنگ کے مطابق قلعہ بند ہوگئے۔غالباًاسی موقع پرعبداللہ بن ابیّ بن سلول اوردوسرے منافقین مدینہ نے بنو نضیر کے رئوساء کو یہ کہلا بھیجا کہ تم مسلمانوں سے ہرگز نہ دبنا،ہم تمہارا ساتھ دیں گے اورتمہاری طرف سے لڑیں گے۔لیکن جب عملاًجنگ شروع ہوئی تو بنو نضیر کی توقعات کے خلاف ان منافقین کویہ جرأت نہ ہوئی کہ کھلم کھلا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف میدان میں آئیں۔ ۲؎ اور نہ بنو قریظہ کویہ ہمت پڑی کہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آکر بنو نضیر کی برملا مددکریں۔ گو دل میں وہ ان کے ساتھ تھے اوردرپردہ ان کی امداد بھی کرتے تھے جس کا مسلمانوں کو علم ہوگیا تھا۔۳؎ بہرحال بنونضیر کھلے میدان میں مسلمانوں کے مقابل پرنہیں نکلے اورقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے،لیکن چونکہ ان کے قلعے اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے اس لئے ان کو اطمینان تھا کہ مسلمان ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اورآخر کار خود تنگ آکر محاصرہ چھوڑ جائیںگے اوراس میں شک نہیں کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ایسے قلعوں کافتح کرنا واقعی ایک بہت مشکل اورپرازمشقت کام تھااورایک بڑاطویل محاصرہ چاہتا تھا۔چنانچہ کئی دن تک مسلمان برابر محاصرہ کئے رہے،لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب محاصرہ پرچند دن گزرگئے اورکوئی نتیجہ نہ نکلا اوربنونضیر بدستور مقابلہ پر ڈٹے رہے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ بنو نضیر کے ان کھجوروں کے درختوں میںسے جو قلعوں کے باہر تھے بعض درخت کاٹ دئے جائیں۔ ۱؎ یہ درخت جوکاٹے گئے لینہ قسم کی کھجور کے درخت تھے۔ ۲؎ جو ایک ادنیٰ قسم کی کھجور تھی جس کا پھل عموماً انسانوں کے کھانے کے کام نہیں آتا تھا۔ ۳؎ اور اس حکم میں منشاء یہ تھا کہ تاان درختوں کوکٹتا دیکھ کربنو نضیر مرعوب ہوجائیں۔اوراپنے قلعوںکے دروازے کھول دیں۔اوراس طرح چند درختوں کے نقصان سے بہت سی انسانی جانوں کا نقصان اورملک کافتنہ وفساد رک جائے۔چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور ابھی صرف چھ درخت ہی کاٹے گئے تھے ۴؎ کہ بنو نضیر نے غالباً یہ خیال کرکے کہ شاید مسلمان ان کے سارے درخت ہی جن میں پھل دار درخت بھی شامل تھے، کاٹ ڈالیں گے آہ وپکار شروع کردی۔حالانکہ جیسا کہ قرآن شریف میں تشریح کی گئی ہے صرف بعض درخت اوروہ بھی لینہ قسم کے درخت کاٹنے کی اجازت تھی اورباقی درختوں کے محفوظ رکھنے کا حکم تھا ۵؎ اورویسے بھی عام حالات میں مسلمانوں کو دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں تھی۔۶؎ بہرحال یہ تدبیر کارگر ہوئی اوربنونضیر نے مرعوب ہوکر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پرقلعہ کے دروازے کھول دئے کہ ہمیں یہاں سے اپنا سازوسامان لے کر امن وامان کے ساتھ جانے دیا جاوے ۷؎ یہ وہی شرط تھی جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود پہلے پیش کرچکے تھے اورچونکہ آپؐ کی نیت محض قیام امن تھی آپؐنے مسلمانوں کی اس تکلیف اوران اخراجات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو اس مہم میں ان کو برداشت کرنے پڑے تھے اب بھی بنونضیر کی اس شرط کومان لیا اورمحمد بن مسلمہ صحابی کو مقرر فرمایا کہ وہ اپنی نگرانی میں بنو نضیر کوامن وامان کے ساتھ مدینہ سے روانہ کردیں۔ ۱؎ چنانچہ بنو نضیر بڑے ٹھاٹھ اورشان وشوکت سے اپنا سارا ساز وسامان حتّٰی کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کرکے ان کے دروازے اورچوکھٹیں اورلکڑی تک اکھیڑ کراپنے ساتھ لے گئے۔ ۲؎ اورلکھا ہے کہ یہ لوگ مدینہ سے اس جشن اوردھوم دھام کے ساتھ گاتے بجاتے ہوئے نکلے کہ جیسے ایک برات نکلتی ہے۔ ۳؎ البتہ ان کا سامان حرب اورجائیداد غیر منقولہ یعنی باغات وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور چونکہ یہ مال بغیر کسی عملی جنگ کے ملا تھا اس لئے شریعت اسلامی کی رو سے اس کی تقسیم کااختیار خالصتہً رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا اورآپؐنے یہ اموال زیادہ تران غریب مہاجرین میں تقسیم فرمادئے ۴؎ جن کے گزارہ جات کابوجھ ابھی تک اس ابتدائی سلسلہ مواخات کے ماتحت انصار کی جائیدادوں پرتھا اوراس طرح بالواسطہ انصار بھی اس مال غنیمت کے حصہ دار بن گئے۔ ۵؎
جب بنونضیر محمد بن مسلمہ صحابی کی نگرانی میں مدینہ سے کوچ کررہے تھے توبعض انصار نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے روکنا چاہا جو درحقیقت انصار کی اولاد سے تھے مگر انصار کی منت ماننے کے نتیجے میں یہودی ہوچکے تھے اور بنو نضیر ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے،لیکن چونکہ انصار کایہ مطالبہ اسلامی حکم ۶؎ (یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہ ہونا چاہئے)کے خلاف تھا، اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف اوریہود کے حق میں فیصلہ کیااور فرمایا کہ جو شخص بھی یہودی ہے اورجانا چاہتا ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔ ۷؎ البتہ بنو نضیر میں سے دو آدمی خود اپنی خوشی سے مسلمان ہوکر مدینہ میں ٹھہر گئے۔ ۸؎
ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے متعلق یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں۔یعنی عرب میں نہ ٹھہریں ،لیکن باوجود اس کے ان کے بعض سردار مثلاً سلام بن ابی الحقیق اورکنانہ بن ربیع اورحیی بن اخطب وغیرہ اورایک حصہ عوام کابھی حجاز کے شمال میں یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں جاکر مقیم ہوگیا اورخیبر والوں نے ان کی بڑی آئو بھگت کی۔ ۹؎ اور جیساکہ آگے چل کر اپنے موقع پربیان ہوگا یہ لوگ بالآخر مسلمانوں کے خلاف خطرناک فتنہ انگیزی اوراشتعال جنگ کا باعث بنے۔بنو قریظہ جنہوں نے اس جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے غداری کرکے اوراپنے عہدوپیمان کوبالائے طاق رکھ کر بنو نضیر کی اعانت کی تھی ان پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے احسان کیا اور معاف فرمادیا۔ ۱؎ مگر ان بدبختوں نے اس احسان کا جو بدلہ دیا اس کا ذکر آگے آتا ہے۔
غزوہ بنونضیر کاواقعہ قرآن کریم کی سورۃ حشر میں بیان ہوا ہے جوقریباًساری کی ساری سورۃ اسی غزوہ کے متعلق ہے۔
حضرت اُمّ المؤمنین زینبؓ بنت خزیمہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک پھوپھی زاد بھائی تھے جن کا نام عبداللہ بن جحش تھا۔ وہ جنگ اُحد میں شہید
ہوگئے اوران کی بیوی زینب بنت خزیمہ بیوگی کی حالت میں بے سہارا رہ گئیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو صلہ رحمی میں ایک بے نظیر نمونہ رکھتے تھے خود اپنی طرف سے زینب بنت خزیمہ کونکاح کاپیغام بھیجا اوران کی طرف سے رضامندی کااظہار ہونے پران کو اپنے عقد میں لے لیا۔اس وقت زینب بنت خزیمہ کی عمر کم وبیش تیس سال کی تھی،مگر ان کی شادی پرابھی صرف چندماہ ہی گزرے تھے کہ ربیع الآخر۴ہجری میں وہ انتقال کرگئیں اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں جنت البقیع میں دفن فرمایا۔زینب بنت خزیمہ ایک بہت نیک اورپارسا بی بی تھیں اوراپنے صدقہ وخیرات اورغرباء پروری کی وجہ سے عام طورپر ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں۔ ۲؎
ولادت حسینؓ شعبان۴ہجری
اسی سال ماہ شعبان میں حضرت فاطمہؓ کے ہاں دوسرابچہ پیدا ہوا ،جس کا نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسین رکھا،حسین بھی
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواسی طرح عزیز تھے جیسا کہ ان کے بھائی حسن تھے۔چنانچہ بعض اوقات آپؐ محبت میں ان دونوں کواپنے دوپھول کہہ کریاد فرمایا کرتے تھے۔۳؎ یہ وہی امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں جو یزیدبن معاویہ بن ابی سفیان کے زمانہ میں۶۱ہجری کے ماہ محرم کی دسویں تاریخ کوایک مظلوم حالت میں شہید ہوکراپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔۴؎ اورجن کی شہادت کی یاد میں شیعہ لوگ آج تک ماتم کرتے اورتعزیئے نکالتے ہیں۔
غزوہ بدرالموعدذوقعدہ ۴ہجری
جنگ اُحد کے حالات میں یہ ذکر گزرچکا ہے کہ میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ
سال بدر کے مقام پرہماری تمہاری جنگ ہوگی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔اس لئے دوسرے سال یعنی ۴ھ ہجری میں جب شوال کے مہینہ کاآخر آیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینہ سے نکلے اورآپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابیّ کوامیر مقرر فرمایا۔ ۱؎
دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر باوجود اُحد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اوراسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نعیم نامی کوجوایک غیر جانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا،مدینہ کی طرف روانہ کردیا اوراسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کوڈرا دھمکا کراور جھوٹ سچ باتیں بتاکرجنگ سے نکلنے کے لئے باز رکھے۔چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اورقریش کی تیاری اور طاقت اوران کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سناسناکراس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کردی۔ حتّٰی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے۔لیکن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اورآپؐنے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کرکے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے،اس لئے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے اورخواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جائوں گا اوردشمن کے مقابل پراکیلا سینہ سپر ہوں گا، تولوگوں کاخوف جاتا رہا اوروہ بڑے جوش اوراخلاص کے ساتھ آپؐکے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔ ۲؎
بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا،لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میںاپنے وعدہ پرپہنچ گئے،مگر قریش کالشکر تھوڑی دورآکر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا۔اور اس کا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کونعیم کی ناکامی کاعلم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اوراپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے لوٹا کرواپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اورلوگوں کوتنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔جب کشائش ہوگی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ ۱؎
اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اورچونکہ وہاں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلہ لگا کرتا تھا۔ان ایّام میںبہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے کافی نفع کمایا۔حتّٰی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے رأس المال کودوگنا کرلیا۔جب میلے کا اختتام ہوگیا اورلشکر قریش نہ آیا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بدر سے کوچ کرکے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ ۲؎ یہ غزوہ غزوہ بدرالموعد کہلاتا ہے۔
تزوّج ام سلمہ ؓشوال۴ہجری
اسی سال ماہ شوال میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام سلمہؓ سے شادی فرمائی۔۳؎ ام سلمہؓ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی
تھیں اوراس سے پہلے ابوسلمہ بن عبدالاسد کے عقد میں تھیں جوایک نہایت مخلص اورپرانے صحابی تھے اوراسی سال فوت ہوئے تھے۔جب اُمّ سلمہ کی عدت (یعنی وہ میعاد جواسلامی شریعت کی رو سے ایک بیوہ یامطلقہ عورت پرگزرنی ضرور ہوتی ہے پیشتر اس کے کہ وہ نکاح ثانی کرے)گزر گئی توچونکہ اُمّ سلمہ ایک نہایت سمجھ دارباسلیقہ اورقابل خاتون تھیں اس لئے حضرت ابوبکر کوان کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ۴؎ مگر ام سلمہ نے انکار کیا۔آخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخود اپنے لئے ان کا خیال آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امّ سلمہ کی ذاتی خوبیوں کے علاوہ جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں وہ ایک بہت بڑے پائے کے قدیم صحابی کی بیوہ تھیں اورپھر صاحب اولاد بھی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کوئی خاص انتظام ہونا ضروری تھا۔علاوہ ازیں چونکہ ابوسلمہ بن عبدالاسد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے۔۵؎ اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام سلمہؓکواپنی طرف سے شادی کاپیغام بھیجا۔ پہلے توام سلمہؓ نے اپنی بعض معذوریوں کی وجہ سے کچھ تامل کیا اور یہ عذر بھی پیش کیا کہ میری عمر اب بہت زیادہ ہوگئی ہے اورمیں اولاد کے قابل نہیں رہی۔۶؎ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی غرض اورتھی اس لئے بالآخر وہ رضا مند ہوگئیں اوران کی طرف سے ان کے لڑکے نے ماں کاولی ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی شادی کردی۔جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے ام سلمہ ایک خاص پائے کی خاتون تھیں اورنہایت فہیم اورذکی ہونے کے علاوہ اخلاص وایمان میں بھی ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتی تھیں اوران لوگوں میں سے تھیںجنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے ابتداء ًحبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔مدینہ کی ہجرت میںبھی وہ سب مستورات سے اول نمبر پر تھیں۔ ۱؎ حضرت ام سلمہؓ پڑھنا بھی جانتی تھیں۔ ۲؎ اورمسلمان مستورات کی تعلیم وتربیت میں انہوں نے خاصہ حصہ لیا۔چنانچہ کتب حدیث میں بہت سی روایات اوراحادیث ان سے مروی ہیں اوراس جہت سے ان کا درجہ ازواج النبی میں دوسرے نمبرپر اورکل صحابہ (مردوزن)میں بارہویں نمبر پر ہے۔ حضرت ام سلمہؓنے بہت لمبی عمر پائی اوریزیدبن معاویہ کے زمانہ میں ۸۴سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ ۳؎ اوروہ امہات المؤمنین میں سب سے آخری فوت ہونے والی تھیں۔ ۴؎ چونکہ حضرت اُمّ سلمہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج میں سب سے بڑی عمر کی تھیں۔ حتّٰی کہ وہ شادی کے وقت اولاد پیدا کرنے کے بھی ناقابل ہوچکی تھیں اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جو دورہ آپؐ اپنی بیویوں کے گھروں میں دریافت خیریت کے لئے روزانہ عصر کی نماز کے بعد فرمایا کرتے تھے اس میں سب سے پہلے آپؐ حضرت ام سلمہؓ کے پاس تشریف لے جاتے اورسب سے آخر میں حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں جاتے تھے جو عمر میں سب سے چھوٹی تھیں اورپھر اس کے بعد جس بیوی کی باری ہوتی تھی اس کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ ۵؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاکاتب خاص اورعبرانی کی تعلیم
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خط وکتابت کا سلسلہ
اب وسیع ہو رہا تھا اوراس بات کی ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ آپؐ کا کوئی مخلص صحابی عبرانی سے بھی واقفیت پیدا کرے تاکہ یہود کے ساتھ خط وکتابت اورمعاہدات وغیرہ کی تکمیل میں آسانی ہو اوردھوکے وغیرہ کااحتمال نہ رہے چنانچہ اس غرض سے آپؐ نے اپنے ایک نوجوان صحابی زید بن ثابت انصاری سے جنہوں نے جنگ بدر کے قیدیوں سے عربی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور جو گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتب خاص یاپرائیوٹ سیکرٹری کاکام کرتے تھے،ارشاد فرمایا کہ وہ عبرانی کالکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیں۔چنانچہ زید نے جو خاص طور پر ذہین واقع ہوئے تھے صرف پندرہ دن کی محنت سے عبرانی سیکھ لی۔۶؎ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ وہی زید بن ثابت ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں ان کے حکم کے ماتحت قرآن شریف کوایک مصحف یعنی کتاب کی صورت میں جمع کرکے لکھا۔ ۱؎
جمع قرآن
ہم نے جو اوپر یہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت انصاری نے حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں قرآن کریم کو مصحف کی صورت میں جمع کرکے لکھا تھا۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس سے
پہلے قرآن مجید جمع نہیں تھا بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن کریم جوں جوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوتا جاتا تھا،۲؎ آپؐ اسے الہٰی تفہیم کے ماتحت ترتیب دے کر نہ صرف خود اسے یاد کرتے جاتے تھے بلکہ بہت سے دوسرے صحابہ کو بھی یاد کرادیتے تھے اورجو صحابہ اس معاملہ میں زیادہ ماہر تھے ان کا آپؐ نے یہ فرض مقررکیا تھا کہ وہ دوسروں کو سکھائیں۔ ۳؎ اورمزید احتیاط کے طور پر آپؐاسے ساتھ ساتھ لکھواتے بھی جاتے تھے۔چنانچہ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ یہی زید بن ثابت جنہوں نے بعد میں قرآن شریف کوایک جلد کی صورت میں اکٹھا کرکے لکھا اورجوایک غیر معمولی طورپر ذہین آدمی تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآنی وحی کے قلمبند کرنے پر مامور تھے۔ ۴؎ اوران کے علاوہ بعض اور اصحاب بھی اس خدمت کوسرانجام دیتے تھے۔مثلاًحضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،زبیرؓ بن العوام، شرجیلؓ بن حسنہ،عبداللہ بن سعد بن ابی سرح،اُبیّ ؓبن کعب،عبداللہؓ بن رواحہ وغیرہ۔ ۵؎ غرض قرآن مجید کے جمع وترتیب کا حقیقی کام سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی آپؐ کی ہدایت کے ماتحت ہوگیا تھا۔اوریہ صرف ایک قیاس ہی نہیں ہے بلکہ حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے۔چنانچہ عبداللہ بن عباس سے روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان خلیفۂ ثالث فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جب آپؐ پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی توآپؐ اپنے کاتب وحی کو بلواکر اسے وہ وحی لکھوادیتے تھے اورساتھ ہی یہ فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں موقع پر رکھو۔اسی طرح آپؐ خود ہی سورتوں کی ترتیب بھی مقرر فرما دیتے تھے۔ ۱؎ اوریہ طریق آپؐ کاابتداء دعویٰ نبوت سے تھا۔چنانچہ کتاب کے حصہ اول میں ہم لکھ چکے ہیںکہ جب مکہ کے ابتدائی سالوں میں حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو انہیں اسلام کی تحریک قرآن کی تلاوت سے ہی ہوئی تھی جوخباب بن الارت ایک لکھے ہوئے صحیفہ سے حضرت عمر کی بہن اوربہنوئی کوپڑھ کر سنا رہے تھے۔ ۲؎ الغرض قرآن شریف شروع سے ہی ساتھ ساتھ ضبط تحریر میںآکر مرتب ہوتا اورجمع ہوتا گیا تھا۔اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ آپؐ اورآپؐ کے صحابہ اپنی نمازوں میں قرآن شریف کی باقاعدہ تلاوت فرمایا کرتے تھے اوربعض اوقات نمازوں میں لمبی لمبی قرأتیں پڑھتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐنے ایک ہی تہجد یعنی نصف شب کی نماز میں قرآن شریف کی پہلی پانچ سورتوں کی جو مجموعی طورپر قرآن کریم کے پنجم حصہ کے برابر بنتی ہیں اکٹھی اور بالترتیب قرأت فرمائی تھی۔ ۳؎ اوریہی وہ لمبے قیام ہیں جن کی وجہ سے بسا اوقات آپؐ کے پائوں متورم ہوجاتے تھے۔ ۴؎ اوربعض روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آپ ہرسال ماہ رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن شریف کادورفرمایا کرتے تھے اورآخری سال دو دفعہ مکمل دورفرمایا۔ ۵؎ یہ سب باتیں اس بات کو یقینی طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن شریف کی ترتیب اورجمع کاحقیقی کام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔پس زید بن ثابت کے جمع کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ خلیفۂ اول کے حکم اوران کی نگرانی کے ماتحت قرآن مجید کو ایک مصحف یعنی جلد یاکتاب کی صورت میں اکٹھا کرکے لکھا تاکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرتب کردہ قرآن کی ایک مستند اوریکجائی کاپی ضبط میں آجاوے اورروایت سے پتہ لگتا ہے کہ پھر اسی مصحف سے بعد میں حضرت عثمان خلیفۂ ثالث نے متعدد مصدّقہ نقلیں تیار کراکے انہیں اس وقت کی اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں بھجوادیا اورپھر انہی مصدّقہ نقول سے آگے مزیداشاعت ہوتی گئی۔ ۱؎ علاوہ ازیں ہرزمانہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں حفاظ نے قرآن کریم کواپنے سینوں میں لفظ بلفظ محفوظ کرکے اس کی حفاظت کاایک مزید ظاہری سبب مہیا کیا۔اس بات کا اندازہ کرنے کے لئے کہ مسلمانوں کو قرآن شریف کے حفظ کرنے کا کس قدر شوق رہا ہے صرف یہ روایت کافی ہے کہ جب ایک دفعہ کسی غرض سے حضرت عمرؓ کو قرآن کے حفاظ کے پتہ لینے کی ضرورت پیش آئی تو معلوم ہوا کہ اس وقت کی اسلامی افواج کے صرف ایک دستہ میں تین سو سے زائد حافظ قرآن تھے۔ ۲؎ موجودہ زمانہ میں بھی جبکہ لوگوں میں دین کا شوق بہت کم ہوگیا ہے اسلامی دنیا میں حفاظ قرآن کی تعداد یقینا لاکھوں سے کم نہیں ہوگی۔
ترتیب قرآن
یہ سوال کہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب کسی اصول پر قائم ہے یانہیں ؟اوراگر ہے تو کس پر؟ تاریخ سے تعلق نہیں رکھتا اورنہ ہی ایک تاریخی تصنیف میں اس قسم کے سوال
کاتشریحی جواب دیا جاسکتا ہے مگر اس جگہ اس کے متعلق ایک مختصر سا اشارہ کردینا غالباً بے سود نہ ہوگا۔سوجاننا چاہئے کہ جیسا کہ دوست ودشمن میں مسلّم ہے اور تاریخ وحدیث اس کے حوالوں سے بھری پڑی ہیں کہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب اس کے نزول کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے بلکہ وہ ایک جداگانہ ترتیب ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود خدائی تفہیم کے مطابق مقرر فرمائی تھی۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۳؎ یعنی’’قرآن کا جمع کرنا خود ہمارے ذمہ ہے اورہم ہی اس کام کو سرانجام دیں گے۔‘‘اورظاہر ہے کہ جمع قرآن کاکام خصوصاً جبکہ اسے نزول کی ترتیب سے ہٹا کر دوسری ترتیب میں جمع کیا گیا ہوترتیب کے ساتھ لازم وملزوم کے طور پر ہے اورجیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے حدیث میں توصراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہر آیت کے نزول پر اورہر سورۃ کے مکمل ہونے پر خود ہدایت فرماتے تھے کہ اس آیت یاسورۃ کو فلاں جگہ رکھو۔ ۴؎ اندریں حالات خواہ کسی شخص کو موجودہ قرآنی ترتیب سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن میں کوئی نہ کوئی اصول ترتیب ضرور مقصود ہے۔دراصل غور کیا جاوے تواصل نزول کی ترتیب کو چھوڑنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ نئی ترتیب میں کوئی نہ کوئی اصول ضرور مدّنظر رکھا گیا ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نزول کی ترتیب کوترک کرکے کوئی اورترتیب اختیار کی جاتی۔مثلاً ایک ہال میں چند آدمی یکے بعد دیگرے داخل ہوتے ہیں۔اب اگر ہال کا منتظم ان آدمیوں کے متعلق خاص اہتمام کے ساتھ یہ انتظام کرتا ہے کہ وہ داخل ہونے کی ترتیب سے نہ بیٹھیں بلکہ انہیں کسی اور ترتیب کے ساتھ بٹھاتا ہے تو اس کا یہی فعل اس بات کی دلیل ہوگا کہ خواہ اس کا اصول ترتیب کسی کو معلوم ہویانہ ہو،مگر اس کے مدّنظر کوئی نہ کوئی اصول ضرور ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ داخلہ کی ترتیب کو تبدیل کیا جاتا۔کیونکہ کوئی ہوش وحواس رکھنے والا انسان یونہی لغوطور پر بلاوجہ کوئی کام نہیں کرتا۔
اس موقع پر اکثر یورپین محققین یہ کہا کرتے ہیں کہ ہال کے منتظم نے داخلہ کی ترتیب کوبدل کر سائزنگ کے اصول پرلوگوں کوبٹھا دیا ہے۔یعنی قرآنی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے۔مگر یہ ایک سراسربے بنیاد اورغلط خیال ہے۔کیونکہ اول توہم اوپر ثابت کرچکے ہیں کہ جمع وترتیب کاکام خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائی تفہیم کے ماتحت سرانجام دیا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے انسان کی طرف اس قسم کا عبث فعل کبھی بھی منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ایسا فعل وہی شخص کرسکتا ہے جو عقل وخرد سے بالکل عاری ہو۔نزول کی ترتیب جس سے کم از کم بعض تاریخی فوائد کے حصول میں آسانی ہوسکتی تھی اسے محض اس وجہ سے ترک کرنا کہ قرآنی سورتیں لمبے اورچھوٹے ہونے کے لحاظ سے ترتیب دی جاسکیں جس میں کوئی بھی علمی فائدہ متصوّر نہیں ہے، ایک ایسا فعل ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تودرکنار ایک معمولی عقل کا آدمی بھی اس کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات تواس سے بہت بالاوارفع ہے۔دوسرے سورتوں کاوجود ہی جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کسی ترتیب کا نتیجہ ہے کیونکہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں قرآن شریف سورتوں کی صورت میں نازل نہیں ہوا بلکہ آیات کی صورت میں بہت آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے اورسورتیں آیات کے جمع ہونے سے عالم وجود میں آئی ہیں۔علاوہ ازیں یہ بات عملاً بھی بالکل غلط اورخلاف واقعہ ہے کہ قرآن میں سورتوں کے لمبا چھوٹا ہونے کی ترتیب مدنظر رکھی گئی ہے اورقرآنی سورتوں کی آیات کی تعداد کاایک سرسری مطالعہ بھی اس کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیسیوں مثالیںایسی ہیں کہ بعض لمبی سورتیں ہیں جو پیچھے رکھی گئی ہیںاوربعض چھوٹی سورتیں ہیں جو پہلے آگئی ہیں اورنہ معلوم مغربی محققین اس معاملہ میں اس قدر کوتاہ نظری اورفاش غلطی کے مرتکب کس طرح ہوئے ہیں۔
الغرض اس بات میں ہرگز کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ اوّل قرآن شریف کی موجودہ ترتیب اس کے نزول کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے۔دوم نہ ہی یہ ترتیب سورتوں کے طول وقصر کے لحاظ سے ہے بلکہ سوم یہ کوئی اورہی ترتیب ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود خدائی ارشاد کے ماتحت مقرر فرمائی تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب کیا ہے؟اس کے جواب میں اس جگہ صرف اس قدر اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن شریف جو خدا کا قول ہے اس میں اسی قسم کااصول ترتیب مدنظر رکھا گیا ہے جو خدا کے فعل یعنی صحیفۂ قدرت میں پایا جاتا ہے یعنی جس طرح اس جسمانی عالم میں دنیا کی مادی زندگی اور ترقی وبہبودی کے سامان وذرائع مہیا کئے جاکر اس میں ایک ترتیب رکھی گئی ہے اسی طرح کی خداکے قول یعنی قرآن شریف میں ایک ترتیب ہے جو علم النفس کے ان ابدی اصول کے ماتحت قائم کی گئی ہے جو دنیا کی اخلاقی اورتمدنی اورروحانی زندگی اوراصلاح وترقی کے لئے بہترین اثر رکھتے ہیں اورلطف یہ ہے کہ جس طرح بعض لوگوں کواس عالم جسمانی میں کوئی ترتیب نظر نہیں آتی اسی طرح روحانی بینائی سے محروم لوگوں کو قرآنی ترتیب بھی نظر نہیں آتی۔مگر جو لوگ گہرے مطالعہ کے عادی ہیں اورروحانی کلام کی حقیقت کوسمجھنے کے لئے اپنے اندر ضروری بینائی اور تقدس وطہارت رکھتے ہیں وہ اس ترتیب کوعلیٰ قدر مراتب سمجھتے اوراس کے اثر کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔
اس جگہ اگریہ سوال پیدا ہوکہ اگر موجودہ ترتیب ہی اصلاح وتربیت اورروحانی تاثیر کے لحاظ سے بہترین تھی تو پھر اسی کے مطابق قرآن کا نزول کیوں نہ ہوا تاکہ صحابہ کی جماعت بھی جو قرآنی تعلیم کی سب سے پہلی حامل بنتی تھی ان اثرات سے متمتع ہوتی۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کے حالات اوربعد میں آنے والے مسلمانوں کے حالات میں اختلاف ہے ۔صحابہ کے لئے وہی ترتیب بہترین تھی جس کے مطابق قرآن شریف نازل ہوا۔مگر جب ایک ابتدائی جماعت قائم ہوگئی تو پھر آئندہ کے لئے مستقل طورپروہ ترتیب بہترین تھی جوموجودہ قرآن میں پائی جاتی ہے اور یہ اختلاف دو اصول کے ماتحت ہے۔
اوّل تو بوجہ اس کے کہ صحابہ کی جماعت وہ پہلی جماعت تھی جواسلامی شریعت کے مطابق قائم ہوئی اوراس سے پہلے کوئی جماعت اسلامی شریعت کی حامل نہیں تھی اورنہ ہی دنیا میں اسلامی شریعت کا وجود تھا۔اورقرآن کے ذریعہ سے پہلے طریق وتمدن کو مٹاکر ایک بالکل ہی نئے طریق وتمدن کی بنیاد پڑنی تھی،اس لئے ضروری تھا کہ اس وقت کے لوگوں کے سامنے ان کی ذہنیت اورماحول کے مناسبِ حال قرآنی احکامات کا نزول ہوتا تا کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو بدلنے اورنئی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے میں آسانی پاتے۔اورظاہر ہے کہ اس کے لئے بہترین صورت یہ تھی کہ سب سے پہلے اس قسم کی آیات کا نزول ہوتا جن میں صرف عقیدہ کی درستی مدنظر ہے اورمشرکانہ خیالات کو مٹا کرتوحید کو قائم کیا گیا ہے اوراس کے بعد آہستہ آہستہ اسلامی طریق عبادات اوراسلامی طریق معاملات اور اسلامی طریق تمدن اوراسلامی طریق سیاست کے متعلق اوامرونواہی نازل ہوتے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ۱؎ لیکن جب ایک جماعت اسلامی شریعت کی حامل تیار ہوگئی اورآئندہ پھیلائو اورترقی کے لئے ایک وجود بطورتخم کے یعنی ایک نیوکلیئس(NUCLEUS )تیار ہوگیا تواب اس تخم یا نیوکلیئس کی آئندہ ترقی کے لئے وہ ابتدائی ترتیب نزول غیر طبعی اورناموزوں تھی۔اس لئے اسے بدل کر وہ ترتیب دے دی گئی جو اس کے لئے مناسب تھی۔چنانچہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب بالکل اس اصول کے ماتحت ہے جوایک تیار شدہ جماعت کے استحکام،اس کے پھیلائو اورترقی کے لئے موزوں ترین ہے۔
دوسرا اصول نزول کی ترتیب کو بدل کر دوسری ترتیب کے اختیار کرنے میں یہ مدِّ نظر تھا کہ نزول کی ترتیب زیادہ تران حالات کے مطابق چلتی تھی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ کوپیش آتے تھے۔مثلاًچونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ابھی کفار پر اتمام حجت ہورہا تھا اورمسلمانوں کو صبر وشکیب کے سانچے میں ڈھال کر نکالنا مقصود تھا۔اس لئے مکی آیات میں جہاد کی تعلیم نہیں دی گئی۔بلکہ صبر وبرداشت کی تعلیم پرزور ہے۔لیکن جب اتمام حجت ہوچکا اور صحابہ بھی صبروبرداشت کے سانچے میں ڈھل چکے اور کفار کے مظالم سے مسلمانوں کواپنا وطن تک چھوڑنا پڑا اورظالم کی سزا کا وقت آگیا تواس وقت جہاد کی آیات نازل ہوئیں اسی طرح مکہ میں چونکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت بصورت جمعیت نہیں تھی اورکفار کے مظالم نے انہیں بالکل منتشر کررکھا تھا۔ یعنی ان کی کوئی اجتماعی زندگی نہیںتھی اس لئے مکہ میں اسلامی طریق تمدن ومعاملات کے متعلق آیات نازل نہیں ہوئیں۔لیکن جب مدینہ میں مسلمانوں کو ایک اجتماعی زندگی نصیب ہوئی تو اس کے مناسب حال آیات کانزول ہوا اگر اس نزول میں حالات کی مناسبت اورمطابقت کو ملحوظ نہ رکھا جاتا تو یقینا ابتدائی مسلمانوں کے لئے نئی شریعت کو اپنے اندر جذب کرنا اوراس پر صحیح طورپر عامل ہونا سخت مشکل ہوجاتا۔لہذا قرآن کے نزول کوحتّی الوسع حالات پیش آمدہ کے ساتھ ساتھ چلایا گیا تھا تا کہ اس کی تعلیم صحابہ میں جذب ہوتی جاوے،لیکن جب سب نزول ہوچکا اورایک جماعت قرآنی شریعت کی حامل وجود میں آگئی توپھر اس ترتیب کو قائم رکھنا ضروری نہ تھا،بلکہ پھر اس بات کی ضرورت تھی کہ آئندہ کی مستقل ضروریات کے مطابق اسے ترتیب دی جاوے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
اگر اس جگہ کسی کو یہ اعتراض پیدا ہوکہ نزول کی ترتیب بدلنے سے قرآن کی تاریخی حیثیت ضائع ہوگئی ہے تویہ ایک بودا اورفضول اعتراض ہوگا کیونکہ اول تو جب حدیث وتاریخ میں قرآنی آیات کی نزول کی ترتیب بیشتر طورپرمحفوظ ہے اورذرا سی محنت اورتوجہ کے ساتھ اس بات کاپتہ لگ سکتا ہے کہ کوئی آیت یاسورۃ کب نازل ہوئی تھی تواس صورت میں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کی تاریخی حیثیت ضائع ہوگئی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ پوری طرح محفوظ ہے اوردوست ودشمن نے اسے تسلیم کیا ہے صرف فرق یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر قرآن کواس کے نزول کے مطابق ترتیب دیاجاتا،تو اس کی تاریخی حیثیت بدیہی اورعیاں ہوتی اور اب وہ محنت اورتوجہ کے ساتھ نکالنی پڑتی ہے۔
دوسرے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن شریف کی اصل غرض وغایت تاریخ کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس قانون کا بہترین صورت میں مہیا کرنا ہے جو لوگوں کی تمدنی اوراخلاقی اورروحانی ترقی کے لئے ضروری ہے اور جو بندہ کو خدا تک پہنچا سکتا ہے۔پس اس کی ترتیب میںبھی انہی اصول کا مدنظر رکھاجانا ضروری تھا جوان اغراض کو بہترین صورت میں پورا کرسکتے تھے اور اگر اس کی ترتیب میں ان اصولوں کوقربان کرکے تاریخی پہلو کو ترجیح دی جاتی تویہ ایک نہایت غیر حکیمانہ فعل ہوتا۔
اس مضمون کوختم کرنے سے پہلے یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب بھی اس رنگ کی ترتیب نہیں ہے جس میں عام کتب کی طرح بابوں اورفصلوں اورپیروں وغیرہ میں مضمون کوتقسیم کیا گیا ہوکیونکہ اس قسم کی ترتیب قرآن کی غرض وغایت کے منافی تھی۔قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ سب اقوام اور سب زمانوں کے لئے ایک شریعت لایا ہے ۱؎ اوراس میں علوم کے خزانے مخفی ہیں جو بقدر ضرورت ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ۲ ؎ اور حدیث میں آتا ہے کہ قرآن کی تحقیق سے علماء کبھی سیر نہیں ہوں گے اورنہ اس کے عجائب کبھی ختم ہوں گے۔ ۳؎ اورایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ قرآنی آیات کے صرف ظاہری معانی پر ہی حصر نہیں ہے بلکہ اس کی ہر آیت کے نیچے متعدد بطون ہیں اورہربطن آگے متعدد شاخیں رکھتا ہے۔ ۴؎ بالفاظ دیگر اسلام قرآن شریف کوایک روحانی عالم کے طور پر پیش کرتا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ دنیا ایک جسمانی عالم ہے۔پس اس کی ترتیب کے اصول کو سمجھنے کے لئے بھی بہترین مثال اس دنیا کی ہوسکتی ہے جس طرح اور جس رنگ میں اس دنیا میں ترتیب پائی جاتی ہے کہ ہر چیز باوجود ایک دوسرے سے بظاہر جدا اورلاتعلق نظرآنے کے دراصل اپنی گہرائیوں میں ایک دوسرے سے پیوست اورمربوط ہے اور ایک مخفی زنجیر بلکہ مختلف جہات سے کئی مخفی زنجیریں اس کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے منسلک کئے ہوئے ہیں اسی طرح قرآن کی گہرائیوں میں ربط واتحاد کی کڑیاں چلتی ہیں اورٹھیک جس طرح اس جسمانی عالم میں محققین اورسائنس دان اپنی اپنی اہلیت اوراپنی اپنی تحقیق کے مطابق علوم کے جواہر نکالتے رہتے ہیں اسی طرح قرآن کے روحانی عالم کے سمندر میں غوطہ لگانے والوں کے لئے بھی کسی زمانہ میں روحانی موتیوں کی کمی نہیں رہی اورنہ آئندہ ہوگی۔اوریہ بات قرآن کریم کے سب سے بڑے معجزوں میں سے بڑا معجزہ ہے کہ اس کے الفاظ اوراس کی ترتیب کوایسے طورپر رکھا گیا ہے کہ وہ باوجود حجم میں ساری آسمانی کتابوں میں سے چھوٹا ہونے کے اپنے اندرروحانی علوم کاایک نہ ختم ہونے والا خزانہ رکھتا ہے جو حسب تحقیق محققین اورحسب ضرورت زمانہ ہمیشہ ظاہر ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ۱؎ اوریہی وجہ ہے کہ اس کی ترتیب کوعام کتب کی طرح معین مضمون کے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے بابوں اورفصلوں اورپیروں وغیرہ کی صورت میں نہیں رکھاگیا کیونکہ اگرایسا کیا جاتا تو اس کے معانی کی ساری وسعت کھوئی جاتی اوراس کا مفہوم ایک محدود اورمعین صورت اختیار کرکے اپنی ظاہری اوربدیہی صورت میں بالکل مقید ہوجاتا۔خلاصۂ کلام یہ کہ قرآن شریف اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے اندرعلوم کے بے انتہاخزانے مخفی ہیں جو ہمیشہ بقدر ضرورت ظاہر ہوتے رہیں گے اور اس کی تحقیق کامیدان کبھی ختم نہیں ہوگا اور قرآن کی یہ حیثیت اوراس کے نزول کی یہ غرض یقینا فوت ہوجاتی اگر اس کی ترتیب کوعام کتب کی طرح بابوں اورفصلوں وغیرہ میں مضمون وار تقسیم کرکے ایک ٹھوس صورت میں جکڑ دیا جاتا۔پس جہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن ایک نہایت مرتّب اورمنظم کتاب ہے اوریہ بالکل غلط ہے کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں ہے وہاں یہ بات بھی کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس کی ترتیب عام کتب کی طرح نہیں ہے بلکہ اس جسمانی عالم کے اصول پر ہے جس میں معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں اوران گہرائیوں میں ربط واتحاد کی لاتعداد زنجیریں ایک جال کے طور پر پھیلی ہوئی ہیں جن سے ہر شخص اورہر زمانہ اپنی کوشش اور اپنی استعداد اوراپنی ضرورت اوراپنے حالات کے مطابق فائدہ اٹھاتا اوراٹھاسکتا ہے۔ہمارا یہ مختصر نوٹ اس جگہ بے شک ایک دعویٰ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتامگر افسوس ہے کہ اس تاریخی تصنیف میں اس وسیع اورعلمی مضمون کے لئے اس مختصر اشارے سے زیادہ کی گنجائش نہیں ورنہ اس دعویٰ کے ثبوت میں دلائل کاایک سورج چڑھایا جاسکتا ہے۔اب ہم اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بین الاقوام قاضی کی حیثیت میں
اس بین الاقوام معاہدہ نے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک طرح مدینہ کی مختلف اقوام میں ایک پولیٹکل لیڈر اورانتظامی حاکم کی حیثیت دے دی تھی
اور آپ اس بین الاقوام جمہوری سلطنت کے گویا صدرقرار پائے تھے جو مدینہ میں ہجرت کے بعد قائم ہوئی تھی۔اس پوزیشن میں اہم مقدمات بھی آپ ہی کے سامنے پیش ہونے لگ گئے تھے اور آپ ہر قوم کے ضابطہ عدالت کے ماتحت ان کا فیصلہ فرماتے تھے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ ۴ہجری کے آخر میں آپ کے سامنے ایک یہودی مرد اوریہودی عورت کا ایک مقدمہ پیش ہوا جس میں ان کے خلاف زنا کا الزام ثابت کیا گیا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہودی علماء سے پوچھا کہ اس بارہ میں موسوی شریعت کیا فتویٰ دیتی ہے۔انہوں نے دھوکے اورافتراء کے طریق پر یہ جواب دیا کہ جو شخص زناکرے اسے ہمارے ہاں منہ کالا کرکے اورسواری پر الٹا سوار کرکے پھرایا جاتا ہے۔ اس وقت عبداللہ بن سلام جوایک یہودی عالم تھے اوراب مسلمان ہوچکے تھے پاس ہی بیٹھے تھے۔انہوں نے عرض کیایارسول اللہ!یہ لوگ غلط کہتے ہیں۔تورات میں زنا کی سزا سنگسارکرنا لکھی ہے۔چنانچہ تورات منگوائی گئی اورگویہودیوں نے بہت پردہ ڈالنے کی کوشش کی حتّٰی کہ بہانے بہانے سے اس آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپانا بھی چاہا۔مگر عبداللہ بن سلام نے یہ صاف طورپر دکھادیاکہ ازروئے تورات زنا کی سزارجم ہے اوران کوشرمندہ ہونا پڑا اورچونکہ یہ معاہدہ تھاکہ ہر قوم کے مقدمات اس کے اپنے قانون کے مطابق فیصلہ کئے جائیں گے اوراسلام میں تو ابھی تک زنا وغیرہ کی حدود کے متعلق احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے اس لئے آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ یہودی شریعت کے مطابق ان دونوں کو سنگسار کردیا جاوے۔ چنانچہ وہ دونوں مرد وعورت سنگسار کردئے گئے۔یہ۴ہجری کے آخر کا واقعہ ہے۔ ۱؎
حضرت علیؓکی والدہ کی وفات
اسی سال ۴ہجری کے آخر میں حضرت علیؓ کی عمررسیدہ والدہ نے جن کا نام فاطمہ بنت اسدتھا مدینہ میں انتقال کیا۔یہ بزرگ خاتون
گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ماں کی قائم مقام تھیں کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب کی وفات کے بعد انہوں نے ہی آپ کو اپنے گھر میں اپنے بچوں کی طرح پالا تھا اورویسے بھی وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت محبت رکھتی تھیں۔ اس لئے ان کی وفات کاآپ کو بہت صدمہ ہوا اوران کی نعش کودیکھ کر آپ کی آنکھیں پُرآب ہوگئیں۔وفورمحبت میں آپؐنے اپنی قمیض اتارکرانہیں پہنائی اورخود ان کی قبر میں اترے اورسب تکفین وتدفین کاانتظام خود کیا۔اورجب وہ قبر میں اتاری گئیں توآپؐ نے رقت بھری آواز میں فرمایا’’جَزَاکِ اللّٰہُ مِنْ اُمٍّ خَیْرًا لَقَدْ کُنْتِ خَیْرَاُمٍّ۔‘‘خداتعالیٰ تمہیں میری طرف سے میری ایک بہت اچھی ماں بننے کی بہترین جزا دے تم حقیقتہً ایک نہایت ہی اچھی ماں تھیں۔ ۱؎ کتاب کے حصہ اول میں یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ فاطمہ بنت اسداورابوطالب کی نرینہ اولاد چار لڑکوں یعنی طالب، عقیل، جعفر، اور حضرت علی پر مشتمل تھی اورایک لڑکی تھی جس کانام ام ہانی تھا۔
غزوہ دومۃ الجندل اوراسلامی جنگوں میں ایک نیا اضافہ ربیع الاول۵ہجری
اب تک جو جنگی کارروائیاں کی گئیں تھیں وہ بالواسطہ یابلاواسطہ محض دفاع کے طور پر تھیں۔ اسی دفاع کا حصہ وہ مہمیں تھیں جو بعض قبائل عرب کے ساتھ امن وامان
کے معاہدے کرنے کے لئے اختیار کی گئیں۔نیز اس وقت تک جو سفر اختیار کئے گئے تھے وہ سب مرکزی حجاز اورنجد کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے،لیکن اب یہ میدان وسیع ہونے لگا۔چنانچہ دومۃ الجندل جس کے غزوہ کاہم اس وقت ذکرکرنے لگے ہیں۔وہ شام کی سرحد کے قریب واقع تھا اورمدینہ سے اس کا فاصلہ پندرہ سولہ دن کی مسافت سے کم نہ تھا۔ ۲؎
اس غزوہ کی وجہ یہ ہوئی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ دومۃ الجندل میں بہت سے لوگ جمع ہوکر لوٹ مار کررہے ہیں اورجو مسافر یاقافلہ وغیرہ وہاں سے گزرتا ہے اس پر حملہ کرکے اسے تنگ کرتے اوراس کا مال ومتاع لوٹ لیتے ہیں۔اورساتھ ہی یہ اندیشہ بھی پیدا ہوا کہ کہیں یہ لوگ مدینہ کا رخ کرکے مسلمانوں کے لئے موجب پریشانی نہ ہوں۔ ۳؎ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جنگی کارروائیوں کی ایک اہم غرض قیام امن بھی تھی اس لئے باوجود اس کے کہ ان لوگوں کی اس لوٹ مار سے مدینہ کے مسلمانوں کو حقیقتاً کوئی زیادہ اندیشہ نہیں تھا۔آپ نے صحابہ میں تحریک فرمائی کہ اس ڈاکہ زنی اورظلم کے سلسلہ کو روکنے کے لئے وہاں چلنا چاہئے چنانچہ آپؐکی تحریک پر ایک ہزار صحابی اس دوردرازکے تکلیف دہ سفر کواختیار کرکے آپ کے ساتھ ہولئے۔ ۱؎ اورآپ ہجرت کے پانچویں سال ماہ ربیع الاول میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ۲؎ اور پندرہ سولہ دن کی طویل اورپراز مشقت مسافت طے کرنے کے بعد دومۃ الجندل کے قریب پہنچے۔مگر وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی خبر پاکر ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے اور گو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں چند دن تک ٹھہرے اورآپ نے چھوٹے چھوٹے دستے بھی ادھر ادھر روانہ فرمائے تاکہ ان مفسدین کا کچھ پتہ چلے مگر وہ کچھ ایسے لاپتہ ہوئے کہ ان کو کوئی سراغ نہ ملا۔البتہ ان کا ایک چرواہا مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تبلیغ سے مسلمان ہوگیااور آپؐچند دن قیام کے بعد مدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے۔ ۳؎
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے یہ غزوہ اس رنگ میں پہلاغزوہ تھا کہ اس کی غرض یاکم از کم بڑی غرض ملک میںامن کاقیام تھی۔اہل ددمہ کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا وہ مدینہ سے اتنی دور تھے کہ ان کی طرف سے بظاہر یہ اندیشہ کسی حقیقی خطرہ کاموجب نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اتنے لمبے سفر کی صعوبت برداشت کرکے مدینہ میں مسلمانوں کی پریشانی کاموجب ہوں گے۔پس ان کے مقابلہ کے لئے پندرہ سولہ دن کاتکلیف دہ سفر اختیار کرنا حقیقتاً سوائے اس کے اورکسی غرض سے نہیں تھا کہ انہوں نے جو اپنے علاقہ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری کررکھا تھا اوربے گناہ قافلوں اورمسافروں کو تنگ کرتے تھے اس کا سدباب کیا جاوے۔پس مسلمانوں کا یہ سفر محض رفاہ عام اور ملک کی مجموعی بہبودی کے لئے تھا جس میں ان کی اپنی کوئی غرض مدنظر نہیں تھی۔اوریہ ایک عملی جواب ہے ،ان لوگوں کا جنہوں نے سراسرظلم اوربے انصافی کے ساتھ مسلمانوں کی ابتدائی جنگی کارروائیوں کوجو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت اختیار کیں جارحانہ یاخود غرضانہ قرار دیا ہے۔
اس غزوہ کاایک نتیجہ تویہ ہوا کہ اہل دومہ مرعوب ہوکر اپنی ان مفسدانہ کارروائیوں سے باز آگئے اور مظلوم مسافروں کواس ظلم سے نجات مل گئی اوردوسرے شام کی سرحد میں جہاں ابھی تک مسلمانوں کا صرف نام ہی پہنچا تھا اورلوگ اسلام کی حقیقت سے بالکل ناآشنا تھے اسلام کاایک گونہ انٹروڈکشن ہوگیا اور اس علاقہ کے لوگ مسلمانوں کے طریق وتمدن سے ایک حد تک واقف ہوگئے۔
دومۃ الجندل کے قرب وجوار میں بعض عیسائی بھی آباد تھے۔ ۴؎ مگر روایات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آیا یہ مفسدین جن کے خلاف یہ مہم اختیار کی گئی عیسائی تھے یا کہ بت پرست مشرک۔مگر حالات سے قیاس ہوتا ہے کہ غالباًیہ لوگ مشرک ہوں گے۔کیونکہ اگریہ مہم عیسائیوں کے خلاف ہوتی تو مؤرخین ضرور اس کا ذکر کرتے ۔واللہ اعلم
ابھی آپ واپس نہیں پہنچے تھے کہ آپ کے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادۃ رئیس قبیلہ خزرج کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ ۱؎ جب آپ واپس آئے توآپ نے ان کی قبر پر جاکر دعا فرمائی اورجب سعد نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!میری ماں اچانک بیہوشی کی حالت میں فوت ہوگئی ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں بولنے کاموقع ملتا تو وہ ضرور کچھ صدقہ وخیرات کرتیں۔کیا اس صورت میں اب ان کی طرف سے میں صدقہ کرسکتا ہوںتو آپؐنے فرمایا’’ہاں! بے شک ان کی طرف سے صدقہ کردو۔‘‘ ۲؎ اور سعد کے دریافت کرنے پر کہ کون سا صدقہ بہتر ہوگا آپؐنے فرمایا کہ لوگوں کے آرام کے لئے کوئی کنواں لگوادو۔چنانچہ سعد نے ایک کنواں لگواکر اسے رفاہ عام کے لئے وقف کردیا۔ ۳؎ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سعد کی والدہ بیہوشی کی حالت میں تو فوت نہیں ہوئی تھیں مگر چونکہ سعد خود مدینہ سے غیر حاضر تھے اورتمام جائیداد سعدکی تھی اس لئے سعد کی والدہ باوجود خواہش کے صدقہ نہیں کرسکی تھیں۔اس کے بعد جب سعد واپس آئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اجازت سے اپنی ماں کی طرف سے ایک باغیچہ خدا کی راہ میں صدقہ کردیا۔ ۴؎
مدینہ میں خسوف قمر اورصلوٰۃ خسوف
اسی سال ماہ جمادی الآخر میں مدینہ میں چاند کو گرہن لگا ۵؎ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کوحکم دیا کہ وہ
نماز کے لئے جمع ہوجائیں۔چنانچہ آپؐصحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس وقت تک نماز میں مصروف رہے کہ چاند کھل گیا اور اس وقت سے اسلام میں چاند گرہن کی نماز باقاعدہ مشروع ہوگئی۔جب ایک طرف مسلمان نماز میں مصروف تھے تو دوسری طرف یہود یہ سمجھ کر اپنے برتن وغیرہ بجارہے تھے کہ چاند کوکسی نے جادو کردیا ہے جو اس طرح شور کرنے سے جاتا رہے گا۔ ۶؎
اس موقع پریہ ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ اسلام کی یہ ایک بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے نہ صرف بے جا توہمات کو مٹایا ہے بلکہ ہرایسے موقع پرجہاں بیجاتوہمات کا دروازہ کھل سکتا تھا ایسی عبادات مقرر کردی ہیں جو فوراًانسان کو خدا کی طرف متوجہ کرکے مشرکانہ خیالات کا سدباب کردیتی ہیں۔ چنانچہ خسوف وغیرہ کے موقع پر عبادت مقرر کرنے میں بڑی حکمت یہی ہے کہ تا مسلمانوں کو اس بات کی طرف توجہ پیدا ہو کہ دنیا کی زندگی میں جو نور اورروشنی بھی انسان کو پہنچتی ہے اس کا ظاہری آلہ خواہ کوئی چیزہومگردراصل اس کا منبع ذات باری تعالیٰ ہی ہے اوراس لئے اگر کسی وجہ سے اس روشنی میں کوئی روک پیدا ہوجاوے توخواہ یہ روک عام طبعی قوانین کے ماتحت ہی ہواسے اس موقع پرخدا ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔دراصل اسلام نے انسان کی زندگی کے ہر حرکت وسکون اوراس کے ماحول کے ہرتغیر کے ساتھ ذکر الہٰی کو وابستہ کردیا ہے تاکہ کوئی گھڑی اس پر غفلت کی نہ آئے۔مگر یہ ایک الگ مذہبی مبحث ہے جس میں پڑنا ایک مؤرخ کا کام نہیں۔
مکہ کا قحط اورقریش کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی
غزوۂ بدر الموعد کے بیان میں مکہ کے قحط کا بھی ذکر گزر چکا ہے یہ قحط ابھی تک جاری تھا۔قریش مکہ اس قحط سے بہت تکلیف میں مبتلا ہوگئے اورغرباء کوتوسخت مصیبت
کاسامناہوا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو قریش کی اس تکلیف کی اطلاع ہوئی توآپ نے ازراہ ہمدردی مکہ کے غرباء کے لئے اپنی طرف سے کچھ چاندی بھجوائی۔۱؎ اوراس طرح آپ نے اس بات کا ایک عملی ثبوت دیا کہ آپ کا دل آپ کے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی ایک گہری اورحقیقی ہمدردی رکھتا ہے اوریہ کہ آپؐ کی مخالفت صرف عقائد وخیالات کے ساتھ تھی نہ کہ کسی انسان کے ساتھ۔
بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اورموقع پر بھی مکہ والے قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو ان کی طرف سے ابوسفیان بن حرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا اوررشتہ داری اورقرابت کا واسطہ دے کر تحریک کی تھی کہ ان کے لئے اس قحط کے دورہونے کی دعا کی جاوے۔ ۲؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ کے جذبات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق مخلوط قسم کے تھے۔یعنی وہ آپ کی ذاتی نیکی اورتقویٰ وؓطہارت کے بھی قائل تھے مگر آپ کی تعلیم کواپنے قدیم طریق عمل اورمشرکانہ خیالات کے خلاف پاتے ہوئے اسے مٹانے کے بھی درپے تھے۔خیالات میں اس قسم کا خلط علم النفس کے اصول کے ماتحت ناممکن نہیں ہے۔
زینب بنت جحش کی شادی۵ہجری
اسی سال یعنی ہجرت کے پانچویں سال میں غزوہ بنی مصطلق سے کچھ عرصہ پہلے جو شعبان ۵ہجری میں واقع
ہوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش سے شادی فرمائی۔بعض مؤرخین مثلاًابن اثیراورصاحب خمیس وغیرہ نے زینب بنت جحش کی شادی کوغزوہ بنی مصطلق کے بعد رکھا ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ بات صحیح بخاری ۱؎ سے ثابت ہے کہ جس وقت حضرت عائشہ پراتہام لگایاگیا تھا اس وقت زینب بنت جحش کی شادی ہوچکی تھی اورحضرت عائشہ کے خلاف الزام لگائے جانے کا واقعہ مسلمہ طورپر غزوہ بنی مصطلق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔حضرت زینب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیںاورباوجود نہایت درجہ نیک اورمتقی ہونے کے ان کی طبیعت میں اپنے خاندان کی بڑائی کااحساس بھی کسی قدر پایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طبیعت اس قسم کے خیالات سے بالکل پاک تھی اورگوآپ خاندانی حالات کوتمدنی رنگ میں قابل لحاظ سمجھتے تھے مگر آپ کے نزدیک بزرگی کا حقیقی معیار ذاتی خوبی اورذاتی تقویٰ وطہارت پرمبنی تھا۔جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۲؎ یعنی’’اے لوگو!تم میں سے جو شخص زیادہ متقی ہے وہی زیادہ بڑا اور صاحب عزت ہے۔‘‘ پس آپ نے بلا کسی تامل کے اپنی اس عزیزہ یعنی زینب بنت جحش کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اورمتبنّٰی زید بن حارثہ کے ساتھ تجویز فرمادی۔پہلے تو زینب نے اپنی خاندانی بڑائی کاخیال کرتے ہوئے اسے ناپسندکیا۔لیکن آخرکار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرزورخواہش کودیکھ کر رضامند ہوگئیں۔ ۳؎ بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواہش اورتجویز کے مطابق زینب اورزید کی شادی ہوگئی۔اورگوزینب نے ہر طرح شرافت سے نبھائو کیا۔مگر زید نے اپنے طور پر یہ محسوس کیا کہ زینب کے دل میں ابھی تک یہ خلش مخفی ہے کہ میں ایک معزّز خاندان کی لڑکی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قریبی رشتہ دار ہوں اورزید ایک محض آزاد شدہ غلام ہے اورمیراکفو نہیں۔دوسری طرف خود زید کے دل میں بھی زینب کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن کے چھوٹا ہونے کا احساس تھا۔اور اس احساس نے آہستہ آہستہ زیادہ مضبوط ہوکر ان کی خانگی زندگی کو بے لطف کردیااورمیاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی۔جب یہ ناگوار حالت زیادہ ترقی کرگئی توزید بن حارثہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بزعم خود زینب کے سلوک کی شکایت کرکے انہیں طلاق دے دینے کی اجازت چاہی۔ ۱؎ اورایک روایت میں یوں آتا ہے کہ انہوں نے یہ شکایت کی کہ زینب سخت زبانی سے کام لیتی ہے اس لئے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو طبعاً یہ حالات معلوم کرکے صدمہ ہوا مگر آپ نے زید کو طلاق دینے سے منع فرمایا۔اورغالباًیہ بات محسوس کرکے کہ زید کی طرف سے نبھائو کی کوشش میں کمی ہے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہو نبھائو کی کوشش کرو۔ ۳؎ چنانچہ قرآن شریف میں بھی آپ کے یہ الفاظ مذکور ہوئے ہیں کہ۴؎ یعنی اے زید!’’اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
آپ کی اس نصیحت کی وجہ یہ تھی کہ اول تواصولاًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم طلاق کو ناپسند فرماتے تھے۔چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ۔ ۵؎ یعنی ’’ساری حلال چیزوں میں سے طلاق خدا کو زیادہ ناپسند ہے۔‘‘اوراسی لئے اسلام میں صرف انتہائی علاج کے طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔دوسرے جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسینؓ کی روایت ہے اور امام زہری نے اس روایت کو مضبوط قرار دیا ہے۔۶؎ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہلے سے یہ وحی الہٰی ہوچکی تھی کہ زید بن حارثہ بالآخر زینب کو طلاق دے دیں گے اوراس کے بعد زینب آپ کے نکاح میں آئیں گی اس لئے آپ اس معاملہ میں اپنا ذاتی تعلق سمجھتے ہوئے بالکل غیر متعلق اورغیر جانب دارانہ رویہ رکھنا چاہتے تھے اوراپنی طرف سے اس بات کی پوری پوری کوشش کرنا چاہتے تھے کہ زید اورزینب کے تعلق کے قطع ہونے میں آپ کا کوئی دخل نہ ہواورجب تک نبھائو کی صورت ممکن ہو نبھائو ہوتا رہے اوراسی خیال کے ماتحت آپ نے بڑے اصرار کے ساتھ زید کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم طلاق نہ دو اورخدا کا تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہوسکے نبھائو کرو۔آپ کویہ بھی اندیشہ تھا کہ اگر زید کی طلاق کے بعد زینب آپ کے عقد میں آئیں تو لوگوں میں اس کی وجہ سے اعتراض ہوگا کہ آپ نے اپنے متبنّٰی کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے اور خواہ نخواہ ابتلاء کی صورت پیداہوگی۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱؎
یعنی’’اے نبی!تواپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا وہ بات جسے خدا نے آخر ظاہر کرنا تھااور تو لوگوں کی وجہ سے ڈرتا تھااوریقینا خدا اس بات کا بہت زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جاوے۔‘‘
بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید کو تقویٰ اللہ کی نصیحت کرکے طلاق دینے سے منع فرمایا اورآپ کی اس نصیحت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے زید خاموش ہوکر واپس آگئے مگر اکھڑی ہوئی طبیعتوں کا ملنا مشکل تھا اورجو بات نہ بننی تھی نہ بنی اورکچھ عرصہ کے بعدزید نے طلاق دے دی۔ جب زینب کی عدت ختم ہوچکی تو ان کی شادی کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرپھر وحی نازل ہوئی کہ آپ کوانہیں خود اپنے عقد میں لے لینا چاہئے۔اور اس خدائی حکم میں علاوہ اس حکمت کے کہ اس سے زینب کی دلداری ہوجائے گی اورمطلقہ عورت کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں میں عیب نہ سمجھا جائے گا یہ حکمت مدنظر تھی کہ چونکہ زید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی تھا اورآپ کا بیٹا کہلاتا تھا۔اس لئے جب آپ خوداس کی مطلقہ سے شادی فرما لیںگے تو اس بات کا مسلمانوں میں ایک عملی اثرہوگا کہ منہ بولابیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اورنہ اس پر حقیقی بیٹوں والے احکام جاری ہوتے ہیں۔اورآئندہ کے لئے عرب کی جاہلانہ رسم مسلمانوں میں پورے طور پر مٹ جائے گی۔چنانچہ اس بارہ میں قرآن شریف جو تاریخ اسلامی کا سب سے زیادہ صحیح ریکارڈ ہے یوں فرماتا ہے۔
۳؎
یعنی’’جب زید نے زینب سے قطع تعلق کرلیا توہم نے زینب کی شادی تیرے ساتھ کردی تاکہ مومنوں کے لئے اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی روک نہ رہے۔بعد اس کے کہ وہ منہ بولے بیٹے اپنی بیویوں سے قطع تعلق کرلیں اورخدا کا یہ حکم اسی طرح پورا ہوناتھا۔
الغرض اس خدائی وحی کے نازل ہونے کے بعد جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی خواہش اورخیال کاقطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔آپ نے زینب کے ساتھ شادی کا فیصلہ فرمایا اورپھر زید کے ہاتھ ہی زینب کوشادی کا پیغام بھیجا۔ ۱؎ اورزینب کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر ان کے بھائی ابواحمدبن جحش نے ان کی طرف سے ولی ہوکر چارسودرہم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا نکاح کردیا۔ ۲؎ اوراس طرح وہ قدیم رسم جو عرب کی سرزمین میں راسخ ہوچکی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذاتی نمونہ کے نتیجہ میں اسلام میں بیخ وبن سے اکھیڑ کر پھینک دی گئی۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عام مؤرخین ومحدثین کایہ خیال ہے کہ چونکہ زینب کی شادی کے متعلق خدا ئی وحی نازل ہوئی تھی اورخدا کے خاص حکم سے یہ شادی وقوع میں آئی اس لئے ظاہری طور پر ان کے نکاح کی رسم ادا نہیں کی گئی۔مگر یہ خیال درست نہیں ہے ۔بے شک خدا کے حکم سے یہ شادی ہوئی اور کہا جاسکتا ہے کہ آسمان پرنکاح پڑھایا گیامگراس وجہ سے شریعت کی ظاہری رسم سے جو وہ بھی خدا ہی کی مقرر کردہ ہے آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔چنانچہ ابن ہشام کی روایت جس کا حوالہ اوپر درج کیا گیا ہے اورجس میں ظاہری رسم نکاح کاواقع ہونا بتایا گیا ہے اس معاملہ میں واضح ہے اورکسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہنے دیتی۔اوریہ جو حدیث میں آتا ہے کہ دوسری امہات المؤمنین کے مقابلہ میں زینب یہ فخر کیا کرتی تھیں کہ’’تمہارے نکاح تمہارے ولیوں نے زمین پر پڑھائے ہیں اور میرا نکاح آسمان پر ہوا ہے‘‘اس سے بھی یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ زینب کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی۔کیونکہ باوجود ظاہری رسم کی ادائیگی کے ان کا یہ فخر قائم رہتا ہے کہ ان کا نکاح خدا کے خاص حکم سے آسمان پر ہوا مگر اس کے مقابل پر دوسری امہات المؤمنین کی شادیاں عام اسباب کے ماتحت محض ظاہری رسم کی ادائیگی کے ساتھ وقوع میں آئیں۔ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بغیر اذن کے زینب کے پاس تشریف لے گئے تھے اوراس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی۔مگر غور کیاجاوے تو اس بات کو بھی ظاہری رسم کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زینب کے گھر بغیر اجازت چلے گئے تھے تویہ غلط اورخلاف واقعہ ہے کیونکہ بخاری کی صریح روایت میں یہ ذکر ہے کہ شادی کے بعد زینب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں رخصت ہوکرآئی تھیں نہ کہ آپ ان کے گھرگئے تھے۔ ۳؎ اوراگراس روایت سے یہ مراد ہے کہ جب وہ رخصت ہوکرآپؐ کے گھر آگئیں تواس کے بعد آپؐان کے پاس بغیر اذن کے تشریف لے گئے تو یہ کوئی غیر معمولی اورخلاف دستور بات نہیں ہے۔کیونکہ جب وہ آپؐکی بیوی بن کر آپؐ کے گھر آگئی تھیں تو پھر آپؐ نے بہرحال ان کے پاس جانا ہی تھا اورآپؐ کواذن کی ضرورت نہیں تھی۔ پس اذن نہ لینے والی روایت کا قطعاًکوئی تعلق اس سوال سے نہیں ہے کہ آپ کے اس نکاح کی ظاہری رسم ادا کی گئی یا نہیں اورحق یہی ہے کہ جیسا کہ ابن ہشام ۱؎ کی روایت میں تصریح کی گئی ہے باوجود خدائی حکم کے اس نکاح کی باقاعدہ رسم ادا کی گئی تھی اورعقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہوا ہو کیونکہ اول تو عام قاعدہ میں استثناء کی کوئی وجہ نہیں تھی۔اوردوسرے جبکہ اس نکاح میں ایک رسم کاتوڑنا اوراس کے اثر کوزائل کرنا مقصود تھا تو اس بات کی بدرجہ اولیٰ ضرورت تھی کہ یہ نکاح بڑے اعلان کے ساتھ علیٰ رئوس الاشہادوقوع میں آتا۔
پردے کے احکام کانزول
نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مکان میں صحابہ کی دعوت ولیمہ فرمائی اورچونکہ اس نکاح میں خاص
طورپر اعلان مقصود تھا اس لئے آپ نے اپنی ساری بیویوں میں حضرت زینب کاولیمہ زیادہ بڑے پیمانے پر کیا۔ ۲؎ اس وقت تک چونکہ پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے صحابہ بے تکلف آپ کے گھر کے اندر ہی آگئے اوران میں بعض لوگ کھانے سے فارغ ہوکر بھی ادھرادھر کی باتوں میں مشغول ہوکر وہیں بیٹھے رہے جس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی۔مگرچونکہ آپ کی طبیعت میں حیاء کا مادہ بہت تھاآپ شرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے اور ان صحابہ کو باتوں کی مصروفیت میں خود خیال نہ رہا۔نتیجہ یہ ہوا کہ بہت دیر ہوگئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کابہت ساقیمتی وقت ضائع ہوگیا۔آخر آپ خود اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو اٹھتے دیکھ کر اکثر صحابہ بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے اورآپ سے رخصت ہو کر مکان سے نکل گئے لیکن تین شخص پھربھی بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے ۔یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لیکن جب تھوڑی دیر کے بعد آپ واپس تشریف لائے توابھی تک یہ لوگ وہیں بیٹھے تھے اسی طرح آپ کو دوتین دفعہ آنا جانا پڑا اور آخر کار جب یہ لوگ آپ کے مکان سے چلے گئے توآپ واپس تشریف لے آئے۔بعض اوقات الہٰی احکام کے نزول کے لئے بھی محرکات پیدا ہوجاتے ہیں یعنی حکم نے تو بہر حال نازل ہونا ہوتا ہے مگر کوئی واقعہ اس کا وقتی محرک بن جاتا ہے۔چنانچہ یہی واقعہ پردے کے ابتدائی احکامات کے نزول کاتحریکی سبب بن گیااورپردے کے متعلق وہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر پردے کی پابندی عائد کی گئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھروں میں غیر محرم لوگوں کی آزادانہ آمدورفت رک گئی۔ ۱؎ اس کے بعد آہستہ آہستہ پردے کے متعلق مزید احکامات نازل ہوتے حتّٰی کہ بالآخر اس نے وہ صورت اختیار کرلی جواس وقت قرآن شریف وحدیث میں موجود ہے۔ ۲؎ اورجس کی رو سے مسلمان عورت کی جائز اورضروری آزادی کوبرقرار رکھتے ہوئے عورت کوغیرمحرم مردوں کے سامنے اپنے بدن اورلباس کی زینت کے برملا اظہار سے منع فرمایا گیا ہے۔نیز غیرمحرم مردوعورت کاایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں اکیلے ملاقات کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا ہے اور اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو یہ وہ قیود ہیں جو ایک طرف تو عورت کی صحت اور اس کی علمی ترقی اور قومی اور ملکی کاموں میں اس کے حصہ لینے اوردوسرے معاملات میں اس کی جائز آزادی میں کوئی روک نہیں بنتیں اوردوسری طرف غیر محرم مرد وعورت کے بالکل آزادانہ اوربے حجابانہ میل جول سے جو خلاف اخلاق اورمضرت رساں نتائج پیدا ہوسکتے ہیں اور جو بے پردملکوں میں عموماًپیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا ان قیود سے سدّباب ہوجاتا ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو صورت پردے کی مسلمانوں میں رائج ہے وہ بالعموم صحیح اسلامی احکام کے مطابق نہیں ہے۔کیونکہ اگر کہیں ناواجب سختی سے کام لے کر بیچاری عورت کو اس کے گھر کی چار دیواری میں قریباً قریباًایک قیدی کی طرح بند رکھا جاتا ہے جس سے اس کی صحت اور تعلیم وتربیت اوراس کا تمدن وغیرہ تباہ ہورہے ہیں تو کہیں مغرب کی کورانہ تقلید میں اسے ناواجب آزادی دے دی گئی ہے جس سے سوسائٹی کے اخلاق وعادات پرضرر رساں اثر پڑ رہا ہے۔اور یہ ہر دورستے افراط وتفریط کے رستے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔اسلامی تعلیم کی رو سے عورت اپنی زینت کے برملا اظہار سے رکتے ہوئے تمام قسم کی جائز تفریحات اورجائز کاموں میں حصہ لے سکتی ہے مگر اسے بالکل کھلے منہ پھرنے اور غیر محرم مردوں کے ساتھ خلوت میں اکیلے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ یہ طریق اپنے اندر فتنے کے احتمالات رکھتا ہے جس کا سدباب ضروری ہے۔یورپ کے بعض ممالک میں بھی جہاں پردے کی حدود کوبالکل توڑدیا گیا ہے اعلیٰ طبقہ کے شرفاء کے گھروں میں اس قدر احتیاط ضرور برتی جاتی ہے کہ عام طور پر جوان لڑکیاں بغیر کسی محرم مرد یامعمر رفیق عورت کے بالکل آزادانہ طور پر ادھر ادھر نہیں آتی جاتیںاورنہ غیر محرم مردوں کے ساتھ خلوت میں آزادانہ ملاقات کرتی ہیں۔اورجو لڑکیاں اس معاملہ میں زیادہ آزادی دکھاتی ہیں انہیں عموماًشریف سوسائٹی میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کی بالکل غیر مقید اوربے حجابانہ آزادی کویورپ جیسی بے حجاب سرزمین میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا اور یہی وہ اصول ہے جسے اسلام نے زیادہ جامعیت اورزیادہ خوبی کے ساتھ اختیار کرکے اوراس کے ساتھ زینت کے چھپانے کے اصول کوشامل کرکے پردے کے احکام جاری کئے ہیں اور اس معاملہ میں افراط وتفریط کے رستوں سے بچ کرایک میانہ روی کاطریق قائم کردیا ہے۔
دراصل اگرغور کیا جاوے توپردہ پرسارا اعتراض اس عملی طریق کی وجہ سے ہے جو آج کل بعض اسلامی ممالک اورخصوصاًہندوستان کے مسلمانوں میں رائج ہے اورجوزیادہ تراسلامی سلطنتوں کی کمزوری کے زمانہ میں سیاسی حالات کے ماتحت مجبوراًمسلمانوں کواختیار کرناپڑا تھا۔مگر بعد میں ایک رسم کے طورپر ایک مستقل اورزیادہ سخت صورت اختیار کرگیا۔ورنہ اس معاملہ میں اصل اسلامی حکم جو قرآن وحدیث سے پتہ لگتا ہے اورابتدائی مسلمانوں کااصل تعأمل جوتاریخ وحدیث سے ثابت ہوتا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں کہ اس پر کوئی معقول اعتراض ہوسکے بلکہ ہرشخص جو ٹھنڈے طورپر غور کرنے کا عادی ہے اس کی خوبی کاقائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔اسلامی پردہ کالب لباب صرف یہ ہے کہ اول غیرمحرم مردوعورت ایک دوسرے کے سامنے اپنی نظروں کونیچا رکھیں اورعورت اپنے چہرہ اوربدن اورلباس کی زینت کو کسی غیر محرم مرد پر نظر یالمس وغیرہ کے ذریعہ ظاہر نہ کرے۔ ۱؎ دوم یہ کہ غیر محرم مردوعورت کسی ایسی جگہ میں جو دوسروں کی نظر سے اوجھل ہوخلوت میں اکیلے ملاقات نہ کریں۔ ۲؎ ان دو حد بندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میں سراسر سوسائٹی کی بہبودی اوراخلاق کی حفاظت مدّنظر ہے ایک مسلمان عورت پردہ کے معاملہ میں ہر طرح آزاد ہے۔وہ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرسکتی اور تعلیم دے سکتی ہے۔وہ ورزش اورسیر وتفریح کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔وہ خرید وفروخت کرسکتی ہے۔ وہ پبلک جلسوں وغیرہ میں شریک ہوسکتی ہے۔وہ غیر محرم مردوں سے ملاقات کرسکتی ہے اور ان کی بات سن سکتی اوران کو اپنی بات سنا سکتی ہے۔وہ محنت ومزدوری کرسکتی ہے۔وہ دفاتر اورمحکموں اور شفاخانوں اورکارخانوں میں کام کرسکتی ہے۔وہ قومی اورملکی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔وہ جنگوں میں مناسب خدمت سرانجام دینے کے لئے شریک ہوسکتی ہے۔غرض اسلامی پردہ عورت کی تعلیم وتربیت،اس کی نشوونما،اس کے ضروری مشاغل،اس کی جائز تفریحات میں ہرگز کوئی روک نہیں ہے۔ اورتاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورصحابہ کے زمانہ میں مسلمان عورتیں تمام ان جائز کاموں میں حصہ لیتی تھیں جو اس زمانہ میں پیش آتے تھے۔وہ تعلیم حاصل کرتی اورتعلیم دیتی تھیں۔وہ نمازوں میںمسلمان مردوں کے ساتھ شامل ہوتی تھیں۔وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقریریں اورخطبات سنتی تھیں۔وہ قومی کاموں میں مشورہ دیتی تھیں۔ وہ حج میں مردوں کے پہلو بہ پہلو مراسم حج ادا کرتی تھیں۔وہ سفروں میں مردوں کے ساتھ جاتی تھیں۔وہ غیر محرم مردوں کے ساتھ ضرورت پیش آنے پرملاقات کرتی اوران کی بات سنتیں اوراپنی بات سناتی تھیں۔وہ سواری کرتی تھیں۔وہ تفریحی تماشے دیکھتی تھیں۔وہ جنگوں میںشریک ہوتی اورزخموں کی تیمارداری اور نرسنگ کی خدمات سرانجام دیتی تھیں اورضرورت پڑتی تومیدان جنگ میں تلوار بھی چلالیتی تھیں۔ ۱؎ پس پردہ پر جتنے بھی اعتراض ہوتے ہیں وہ درحقیقت اصل اسلامی پردہ پر نہیں ہیں۔بلکہ موجودہ زمانہ کے بگڑے ہوئے پردہ پرہیںجس نے عورت کوگھر کی چاردیواری میں قریباًایک حیوان کی طرح قید کر رکھا ہے۔مگراس نقص کے دورکرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ایک انتہا سے ہٹ کر دوسری انتہا کواختیار کرلیا جاوے کیونکہ یہ دونوں ضلالت وہلاکت کی راہیں ہیں اورسلامت روی کاوہی رستہ ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور جوانسانی فطرت کی سچی آوازہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عورت کے کام کی اصل جگہ گھر ہے جہاں اس کے ہاتھوں میں قوم کے نونہال پلتے ہیں جن پر آئندہ چل کر قومی اورملکی کاموں کابوجھ پڑنا ہوتا ہے اوریہ ایک ایسا نازک اوروسیع اورعظیم الشان کام ہے کہ اگر عورت صرف اسی کام کوخیروخوبی کے ساتھ سرانجام دے اور اس کے لئے اپنے آپ کواہل بنائے تو اس کی توجہ کی مصروفیت کے لئے یہی کافی ہے اوراسی سے وہ ملک وقوم کی بہترین محسنہ بن سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے اسلامی پردہ ممد ہے نہ کہ خلاف۔
حضرت زینب کی شادی کے بقیہ حالات
حضرت زینب بنت جحش کی عمر شادی کے وقت پینتیس سال کی تھی۔ ۲؎ اورعرب کے حالات کے
لحاظ سے یہ عمر ایسی تھی جسے گویا ادھیڑ کہنا چاہئے۔حضرت زینب ایک نہایت متقی اورپرہیز گاراورمخیر خاتون تھیں۔چنانچہ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں صرف زینب ہی وہ بیوی تھیں جو حضرت عائشہ کے ساتھ مقابلہ کرتی اوران کی ہمسری کادم بھرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ ان کے ذاتی تقویٰ وطہارت کی بہت مداح تھیں۔ ۱؎ اوراکثر کہا کرتی تھیں کہ’’میں نے زینب سے زیادہ نیک عورت نہیں دیکھی۔وہ بہت متقی،بہت راست گو،بہت صلہ رحمی کرنے والی، بہت صدقہ وخیرات کرنے والی اورنیکی اور تقرب الہٰی کے اعمال میں نہایت سرگرم تھیں۔بس اتنی بات تھی کہ ان کی طبیعت ذرا تیز تھی مگر تیزی کے بعد وہ جلد ہی خود نادم ہوجایا کرتی تھیں۔‘‘ ۲؎ صدقہ وخیرات میں تو ان کایہ مرتبہ تھا کہ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا۔اَسُرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِیْ اَطْوَالُکُنَّ یَدًا۔ ۳؎ یعنی ’’تم میں سے جوسب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے فوت ہو کر میرے پاس پہنچے گی۔‘‘حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ظاہری ہاتھ سمجھے اورآپس میں اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں ۔لیکن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو تب جاکر ہم پر یہ راز کھلا کہ ہاتھ سے مراد صدقہ وخیرات کاہاتھ تھا نہ کہ ظاہری ہاتھ۔
جیسا کہ اندیشہ کیا جاتا تھا حضرت زینب کی شادی پر منافقین مدینہ کی طرف سے بہت اعتراضات ہوئے اورانہوں نے برملاطورپر طعن کئے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرکے گویا اپنی بہو کواپنے اوپر حلال کرلیا ہے۔ ۴؎ لیکن جبکہ اس شادی کی غرض ہی عرب کی اس جاہلانہ رسم کو مٹانا تھی توان مطاعن کا سننا بھی ناگزیرتھا۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ابن سعد اورطبری وغیرہ نے حضرت زینب بنت جحش کی شادی کے متعلق ایک سراسرغلط اوربے بنیاد روایت نقل کی ہے اورچونکہ اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات والاصفات کے خلاف اعتراض کاموقع ملتا ہے اس لئے بعض مسیحی مؤرخین نے اس روایت کونہایت ناگوارصورت دے کر اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش کی شادی زید کے ساتھ کردی تواس کے بعد آپ کسی موقع پر زید کی تلاش میں ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔اس وقت اتفاق سے زید اپنے مکان پر نہیں تھے۔چنانچہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دروازے سے باہر کھڑے ہوکر زید کوآواز دی تو زینب نے اندر سے جواب دیا کہ وہ مکان پر نہیں ہیں اورساتھ ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز پہچان کروہ لپک کر اٹھیں اورعرض کیا یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں۔آپ اندر تشریف لے آئیں،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انکار فرمایا اورواپس لوٹنے لگے مگر چونکہ حضرت زینب گھبراکرایسی حالت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں کہ ان کے بدن پراوڑھنی نہیں تھی اور مکان کادروازہ کھلا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑ گئی اورآپ نعوذباللہ ان کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر یہ الفاظ گنگناتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللّٰہِ مُصَرِّفِ الْقُلْوبِ۔’’پاک ہے وہ اللہ جو سب بڑائی والا ہے اورپاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں لوگوں کے دل ہیں جدھرچاہتا ہے انہیں پھیردیتا ہے۔‘‘جب زید بن حارثہ واپس آئے تو زینب نے ان سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا قصہ بیان کیا۔اورزید کے دریافت کرنے پر کہ آپ کیا فرماتے تھے انہوں نے آپ کے یہ الفاظ بھی بیان کئے اورکہا میں نے تو عرض کیا تھا کہ آپ اندر تشریف لے آئیں مگر آپ نے انکار فرمایا اورواپس تشریف لے گئے۔یہ سن کر زید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اورکہا یارسول اللہ!شاید آپ کوزینب پسند آگئی ہے اگر آپ پسند فرمائیں تومیں اسے طلاق دئے دیتا ہوں اورپھر آپ اس کے ساتھ شادی فرمالیں۔ آپ نے فرمایا’’زید خدا کا تقویٰ کرو اور زینب کو طلاق نہ دو۔‘‘مگر اس کے بعد زید نے زینب کوطلاق دے دی۔یہ وہ روایت ہے جو ابن سعد اورطبری وغیرہ نے اس موقع پر بیان کی ہے اورگو اس روایت کی ایسی تشریح کی جاسکتی ہے جوچنداں قابل اعتراض نہیں رہتی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ از سرتاپامحض غلط اورجھوٹ ہے اور روایت ودرایت ہردوطرح سے اس کا جھوٹا ہونا ظاہر ہے۔روایتاً تو اس قدر جاننا کافی ہے کہ اس قصہ کے راویوں میں زیادہ ترواقدی اورعبداللہ بن عامر اسلمی کاواسطہ آتا ہے اوریہ دونوں شخص محققین کے نزدیک بالکل ضعیف اورناقابل اعتماد ہیں۔ ۱؎ حتّٰی کہ واقدی تواپنی کذب بیانی اوردروغ بانی میں ایسی شہرت رکھتا ہے کہ غالباً مسلمان کہلانے والے راویوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۲؎ اوراس کے مقابلہ میں وہ روایت جو ہم نے اختیار کی ہے جس میں زید کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زینب کی بدسلوکی کی شکایت کرنا بیان کیا گیا ہے اوراس کے مقابلے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ فرمان ذکر کیا گیا ہے کہ’’تم خدا کا تقویٰ اختیار کرواورطلاق نہ دو۔‘‘وہ بخاری ۱؎ کی روایت ہے جو دوست اوردشمن کے نزدیک قرآن شریف کے بعد اسلامی تاریخ کاصحیح ترین ریکارڈ سمجھی گئی ہے اورجس کے خلاف کبھی کسی حرف گیر کوانگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوئی۔پس اصول روایت کی رو سے دونوں روایتوں کی قدروقیمت ظاہر ہے۔ اسی طرح عقلاًبھی غور کیا جاوے توابن سعد وغیرہ کی روایت کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ کیونکہ جب یہ بات مسلّم ہے کہ زینب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں حتّٰیکہ آپ ہی نے ان کے ولی بن کر زید بن حارثہ سے ان کی شادی کی تھی۔اوردوسری طرف اس بات سے بھی کس کو انکار نہیں ہوسکتا کہ اب تک مسلمان عورتیںپردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ پردہ کے متعلق ابتدائی احکام حضرت زینب اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادی کے بعد نازل ہوئے تھے تو اس صورت میں یہ خیال کرنا کہ زینب کوآپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا صرف اس وقت اتفاقی نظر پڑ گئی اورآپ ان پر فریفتہ ہوگئے ایک صریح اوربدیہی البطلان جھوٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یقینا اس سے پہلے آپ نے ہزاروں دفعہ زینب کودیکھا ہوگا اوران کے جسم کا حسن وقبح جوکچھ بھی تھا آپ پر عیاں تھا اورگواوڑھنی کے ساتھ دیکھا اوراوڑھنی کے بغیر دیکھنا کوئی فرق نہیں رکھتا،لیکن جب رشتہ اس قدر قریب تھا اورپردہ کی رسم بھی نہیں تھی اورہر وقت کی میل ملاقات تھی تو اغلب یہ ہے کہ آپ کو کئی دفعہ انہیں بغیر اوڑھنی کے دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہوگا۔اورزینب کاآپ کو اندر تشریف لانے کے لئے عرض کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ان کے بدن پراتنے کپڑے ضرورتھے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ہونے کے لئے تیار تھیں۔پس جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصہ ایک محض جھوٹا اوربناوٹی قصہ قرار پاتا ہے جس کے اندر کچھ بھی حقیقت نہیں۔اور اگر ان دلائل کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس کامل درجہ مقدس اور زاہدانہ زندگی کو بھی مدنظر رکھا جاوے جو آپؐ کی ہرحرکت وسکون سے عیاں تھی تو پھر تو اس واہیات اورفضول روایت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔اوریہی وجہ ہے کہ محققین نے اس قصہ کو قطعی طورپر جھوٹا اوربناوٹی قرار دیا ہے۔مثلاً علامہ ابن حجرنے فتح الباری میں،علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں،علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں وضاحت کے ساتھ اس روایت کوسراسر جھوٹا قرار دے کر اس کے ذکر تک کو صداقت کی ہتک سمجھا ہے اوریہی حال دوسرے محققین کا ہے۔اورمحققین پر ہی بس نہیں بلکہ ہر شخص جسے تعصب نے اندھا نہیں کر رکھا ہمارے اس بیان کو جو ہم نے قرآن شریف اوراحادیث صحیحہ کی بناء پرمرتب کرکے ہدیۂ ناظرین کیا ہے اس لچر اورناقابل التفات قصہ پر ترجیح دے گا جسے بعض منافقین نے اپنے پاس سے گھڑ کر روایت کیا۔اورمسلمان مؤرخین نے جن کا کام صرف ہر قسم کی روایات کوجمع کرنا تھا اسے بغیر کسی تحقیق کے اپنی تاریخ میں جگہ دے دی اورپھر بعض غیر مسلم مؤرخین نے مذہبی تعصب سے اندھا ہوکر اسے اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے۔
اس بناوٹی قصہ کے ضمن میں یہ بات خاص طورپر یاد رکھنی چاہئے کہ یہ زمانہ اسلامی تاریخ کا وہ زمانہ تھا جبکہ منافقین مدینہ اپنے پورے زور میں تھے اورعبداللہ بن اُبیّ بن سلول کی سرکردگی میں ان کی طرف سے ایک باقاعدہ سازش اسلام اوربانی ٔاسلام کوبدنام کرنے کی جاری تھی۔اوران کا یہ طریق تھا کہ جھوٹے اوربناوٹی قصے گھڑگھڑ کرخفیہ خفیہ پھیلاتے رہتے تھے۔یااصل بات تو کچھ ہوتی تھی اوروہ اسے کچھ کا کچھ رنگ دے کر اوراس کے ساتھ سو قسم کے جھوٹ شامل کرکے اس کی درپردہ اشاعت شروع کردیتے تھے۔چنانچہ قرآن شریف کی سورۃ احزاب میں جس جگہ حضرت زینب کی شادی کا ذکر ہے اس کے ساتھ ساتھ منافقین مدینہ کا بھی خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے اوران کی شرارتوں کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱؎ یعنی ’’اگرمنافق لوگ اوروہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے،اورمدینہ میں جھوٹی اورفتنہ انگیز خبروں کی اشاعت کرنے والے لوگ اپنی ان کارروائیوں سے باز نہ آئے تو پھر اے نبی!ہم تمہیں ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیں گے اورپھر یہ لوگ مدینہ میں نہیں ٹھہرسکیں گے مگرتھوڑا۔‘‘اس آیت میں صریح طور پر اس قصہ کے جھوٹا ہونے کی طرف اصولی اشارہ کیا گیا ہے۔پھرجیسا کہ آگے چل کر ذکر آتا ہے اسی زمانہ کے قریب قریب حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگائے جانے کا خطرناک واقعہ بھی پیش آیا اورعبداللہ بن اُبیّ اوراس کے بدباطن ساتھیوں نے اس افتراء کااس قدر چرچا کیا اورایسے ایسے رنگ دے کر اس کی اشاعت کی کہ مسلمانوں پران کا عرصہ عافیت تنگ ہوگیا۔اوربعض کمزور طبیعت اورناواقف مسلمان بھی ان کے اس گندے پروپیگنڈا کاشکار ہوگئے۔الغرض یہ زمانہ منافقوں کے خاص زور کا زمانہ تھا اوران کا سب سے زیادہ دل پسند حربہ یہ تھا کہ جھوٹی اورگندی خبریں اڑااڑا کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے متعلقین کوبدنام کریں۔یہ خبریں ایسی ہوشیاری کے ساتھ پھیلائی جاتی تھیں کہ بعض اوقات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے اکابر صحابہ کو تفصیلی علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تردید کا موقع بھی نہیں ملتا تھا اوراندر ہی اندر ان کا زہر پھیلتا جاتا تھا۔ایسی صورتوں میں بعض بعد میں آنے والے مسلمان جو زیادہ تحقیق وتدقیق کے عادی نہیں تھے انہیں سچا سمجھ کر ان کی روایت شروع کردیتے تھے۔اوراس طرح یہ روایتیں واقدی وغیرہ کے ٹائپ کے مسلمانوں کے مجموعہ میں راہ پاگئیں مگرجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے صحیح احادیث میں ان کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا اور نہ محققین نے انہیں قبول کیا ہے۔
حضرت زینب بنت جحش کے قصہ میں سرولیم میور صاحب نے جن سے یقینا ایک بہتر ذہنیت کی امید کی جاتی تھی واقدی کی غلط اوربناوٹی روایت کوقبول کرنے کے علاوہ اس موقع پریہ دلآزار طعن بھی کیا ہے کہ گویا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نفسانی خواہشات بھی ترقی کرتی جاتی تھیںاورآپ کے حرم کی توسیع کو میور صاحب اسی جذبہ پرمبنی قرار دیتے ہیں۔ میں بہ حیثیت ایک مؤرخ کے کسی مذہبی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر تاریخی واقعات کوایک غلط راستے پر ڈالا جاتا دیکھ کر اس ناگوار اورغیر منصفانہ طریق کے خلاف آواز بلند کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔ بے شک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اوریہ بات بھی مسلمہ تاریخ کا حصہ ہے کہ علاوہ حضرت خدیجہ کے آپؐ کی ساری شادیاں اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے بڑھاپے کازمانہ کہا جاسکتا ہے مگر بغیر کسی تاریخی شہادت کے بلکہ صریح تاریخی شہادت کے خلاف یہ خیال کرنا کہ آپ کی یہ شادیاں نعوذ باللہ جسمانی خواہشات کے جذبہ کے ماتحت تھیں ایک مؤرخ کی شان سے بہت بعید ہے اورایک شریف انسان کی شان سے بعید تر۔ میورصاحب اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ عورت (حضرت خدیجہؓ)سے شادی کی اورپھر پچاس سال کی عمر تک اس رشتہ کواس خوبی اوروفاداری کے ساتھ نباہا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۱؎ اور اس کے بعد بھی آپ نے پچپن سال کی عمر تک عملاًصرف ایک بیوی رکھی۔اوریہ بیوی (حضرت سودۃ ؓ) بھی حسن اتفاق سے ایک بیوہ اورادھیڑ عمر کی خاتون تھیں۔ ۲؎ اوراس تمام عرصہ میں جو جذبات نفسانی کے ہیجان کا مخصوص زمانہ ہے آپ کو کبھی دوسری شادی کا خیال نہیں آیا۔میور صاحب اس تاریخی واقعہ سے بھی ہرگز ناواقف نہیں تھے کہ جب مکہ والوں نے آپؐ کی تبلیغی مساعی سے تنگ آکر اوران کو اپنے قومی دین کامخرب خیال کرکے آپ کے پاس عتبہ بن ربیعہ کوبطور ایک وفد کے بھیجااورآپ سے پرزور استدعا کی کہ آپؐاپنی ان کوششوں سے رک جائیں اوردولت اورریاست کی طمع دینے کے علاوہ ایک یہ درخواست بھی پیش کی کہ اگرآپؐکسی اچھی لڑکی کے ساتھ شادی کرکے ہم سے خوش ہوسکتے ہیں اورہمارے دین کو برابھلاکہنے اوراس نئے دین کی تبلیغ سے باز رہ سکتے ہیں تو آپ جس لڑکی کو پسند کریں ہم آپ کے ساتھ اس کی شادی کئے دیتے ہیں۔اس وقت آپ کی عمر بھی کوئی ایسی زیادہ نہیں تھی۔پھرجسمانی طاقت بھی بعد کے زمانہ کی نسبت یقینابہترحالت میں تھی۔مگر جو جواب آپ نے رئوساء مکہ کے اس نمائندہ کودیا وہ تاریخ کاایک کھلا ہوا ورق ہے جس کے دوہرانے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔ ۱؎ یہ تاریخی واقعہ بھی میور صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں تھا کہ مکہ کے لوگ آپ کو آپ کی بعثت سے قبل یعنی چالیس سال کی عمر تک ایک بہترین اخلاق والا انسان سمجھتے تھے۔ ۲؎ مگر باوجود ان سب شہادات کے میور صاحب کایہ لکھنا کہ پچپن سال کی عمر کے بعد جب ایک طرف آپ کی جسمانی طاقتوں میں طبعاًانحطاط رونما ہونے لگا اوردوسری طرف آپ کے مشاغل اورذمہ داریاں اس قدربڑھ گئیں جوایک مصروف سے مصروف انسان کے مشاغل کوشرماتی ہیں توآپ عیش وعشرت میں مبتلا ہوگئے ہرگز کوئی غیر متعصبانہ ریمارک نہیں سمجھا جاسکتا!کہنے کوتو کوئی شخص جوکچھ بھی کہنا چاہے کہہ سکتا ہے اوراس کی زبان اورقلم کوروکنے کی دوسروں میں طاقت نہیں ہوتی۔مگر عقل مند آدمی کوچاہئے کہ کم از کم ایسی بات نہ کہے جسے دوسروں کی عقل سلیم تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔میورصاحب اور ان کے ہم خیال لوگ اگراپنی آنکھوںسے تعصّب کی پٹی اتار کر دیکھتے توانہیں معلوم ہوجاتا کہ محض یہ بات ہی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ شادیاں آپ کے بڑھاپے کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جسمانی اغراض کے ماتحت نہ تھیں بلکہ ان کی تہ میں کوئی دوسری اغراض مخفی تھیں۔خصوصاًجبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ نے اپنی جوانی کے ایام ایک ایسی حالت میں گزارے جس کی وجہ سے آپ نے اپنوں اوربیگانوں سے امین کا خطاب حاصل کیا۔مجھے اس بات کے مطالعہ سے ایک روحانی سرور حاصل ہوتا ہے کہ آپ کی عمر کے جس زمانہ میں آپؐکی یہ شادیاں ہوئیں وہ وہ زمانہ ہے جب کہ آپ پر آپ کے فرائض نبوت کا سب سے زیادہ بار تھااوراپنی ان لاتعداد اوربھاری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں آپ بالکل محو ہو رہے تھے۔اور میرے نزدیک اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر انصاف پسند شریف انسان کے نزدیک محض یہ منظر ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ آپ کی یہ شادیاں آپ کے فرائض نبوت کا حصہ تھیں جوآپ نے اپنی خانگی خوشی کوبرباد کرتے ہوئے تبلیغ وتربیت کی اغراض کے ماتحت کیں۔ایک بُرا آدمی دوسرے کے افعال میں بُری نیت تلاش کرتا ہے اوراپنی گندی حالت کی وجہ سے بسااوقات دوسرے کی نیک نیت کو سمجھ بھی نہیں سکتا مگر ایک شریف انسان اس بات کو جانتا اورسمجھتا ہے کہ بسااوقات ایک ہی فعل ہوتا ہے جسے ایک گندہ آدمی بُری نیت سے کرتا ہے مگر اسی کو ایک نیک آدمی نیک اورپاک نیت سے کرسکتا ہے اورکرتا ہے۔ میں اس موقع پر یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں شادی کی غرض یہ نہیں ہے کہ مرد اورعورت اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے لئے اکٹھے ہوسکیں۔بلکہ گونسل انسانی کے بقا کے لئے مرد وعورت کا اکٹھا ہونا نکاح کی ایک جائز غرض ہے مگر اس میں بہت سی اورپاکیزہ اغراض بھی مدنظر ہیں۔پس ایک ایسے انسان کی شادیوں کی وجہ تلاش کرتے ہوئے جس کی زندگی کا ہرحرکت وسکون اس کی بے نفسی اورپاکیزگی پرایک دلیل ہے۔گندے آدمیوں کی طرح گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگنا اس شخص کوتو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جس کے متعلق رائے لگائی جاتی ہے مگر رائے لگانے والے کے اپنے اندرونہ کاآئینہ ضرورسمجھا جاسکتا ہے۔پس اس سے زیادہ میںاس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہوں گا۔واﷲ المستعان علی مایصفون۔
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مفید مطلب وحی اتارلیا کرتے تھے؟
میور صاحب اور مارگولیس صاحب نے اس موقع پر یہ طعن بھی کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے مفید مطلب وحی اتارلی۔یعنی جب
زینب کے ساتھ شادی کی خواہش پیدا ہوئی تواسے جائز کرنے اورلوگوں کے اعتراض سے بچنے کے لئے الہام کی آڑلے لی اوراس میں ان کا اشارہ یہ ہے کہ گویاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوخدا کی طرف سے وحی والہام وغیرہ نہیں ہوتے تھے بلکہ نعوذباللہ آپؐخود ہی اپنی طرف سے الہام بناکر خدا کی طرف منسوب کردیتے تھے۔اس سوال کے مذہبی پہلو سے توبحیثیت مؤرخ ہونے کے میرا کوئی سروکار نہیں ہے مگریہ خیال تاریخی طورپر غلط اورخلاف واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوہمیشہ اپنے مفید مطلب وحی ہوجایا کرتی تھی۔آپ کی زندگی اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ بسا اوقات آپ کی ذاتی خواہش کے خلاف وحی نازل ہوتی تھی۔چنانچہ یہی قصہ اس کی ایک روشن مثال ہے۔قرآن شریف صاف فرماتاہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زینب کے ساتھ شادی کرنے سے خائف تھے اور اسے حتّی الوسع ٹالنا چاہتے تھے مگراللہ تعالیٰ نے حکماًآپ کواس طرف مائل کیابلکہ ایک گونہ تادیب بھی فرمائی کہ ۱؎ یعنی’’اے نبی!تم لوگوںکی وجہ سے خائف ہو حالانکہ صرف ہم ہی اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم سے ڈرا جاوے۔‘‘پس غور کیا جاوے توجس قصہ کے ضمن میں میورصاحب نے ایک جھوٹی روایت پربنا رکھ کر یہ اعتراض اٹھایا ہے وہی اسے جھوٹا ثابت کررہا ہے۔اسی طرح قرآن شریف میں آتا ہے کہ جب غزوۂ تبوک کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعض منافقوں کوپیچھے رہنے کی اجازت دے دی تو اس پر یہ وحی الہٰی نازل ہوئی کہ ۲؎ یعنی’’اے نبی!خداتمہیں معاف فرمائے تم نے انہیں کیوں اجازت دی؟ہم تو اس موقع پر مومن ومنافق میں امتیاز پیدا کرنا چاہتے تھے۔‘‘ اسی طرح جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبیّ بن سلول رئیس المنافقین کا جنازہ پڑھ دیا اورآپ کی رائے تھی کہ اس میں کوئی حرج نہیں تواس پر یہ وحی الہٰی نازل ہوئی کہ ۳؎ یعنی ’’آئندہ ان منافقوں میں کسی کا جنازہ نہ پڑھو۔اورنہ کسی کی قبر پر دعا مانگوکیونکہ دراصل وہ کافر ہیں اورخدا کی نافرمانی کی حالت میں مرتے ہیں۔‘‘اسی طرح بخاری میں آتا ہے کہ جب آپ نے غزوہ احد میں زخمی ہونے پر ایسے طریق پر دعا کی جو قریش کے خلاف ایک گونہ بددعا کا رنگ تھا تو اس پر یہ قرآنی آیت اتری کہ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْئٌ۔یعنی’’تمہیں اس معاملہ سے سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کسے چھوڑتے اورکسے عذاب دیتے ہیں۔‘‘ ۴؎ اسی طرح جب آپ کی بیویوں کی تعداد اس حد تک پہنچ گئی جو خدائی علم میں ضروری تھی توآپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ اب اس کے بعد تمہیں کسی اور شادی کی اجازت نہیں ہے۔ ۵؎ الغرض یہ ایک بالکل غلط اوربے بنیاد خیال ہے کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق وحی اتار لیا کرتے تھے اوریہ اعتراض وہی شخص کرسکتا ہے جو تاریخ اسلامی سے قطعاًنابلدہے۔پھر زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ میور صاحب اورمارگولیس صاحب توزینب کی شادی کے موقع پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مفید مطلب وحی اتارلی۔مگرحدیث میں یہ آتا ہے کہ چونکہ اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منشاء اورارادے کے بالکل خلاف وحی نازل ہوئی تھی اس لئے اگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی کوئی وحی چھُپائی ہوتی تو ضرور اس وحی کوچھپاتے جوآپ کی مرضی کے خلاف ہونے کے علاوہ ایک گونہ عتاب کابھی رنگ رکھتی تھی۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں لَوْکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَاتِمًا شَیْئًا لَکَتَمَ ھٰذِہٖ۔ ۱؎ یعنی اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی کسی وحی کو چھپانے والے ہوتے توضرور اس وحی کو چھپاتے۔‘‘ پس اپنے مفید مطلب وحی اتار لینے کا اعتراض بالکل غلط اوربے بنیاد ہے۔باقی رہا یہ امر کہ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیال کے مطابق وحی نازل ہوجاتی تھی۔سو یہ درست ہے مگر یہ ہرگز جائے اعتراض نہیں بلکہ یہی بات آپ کی صداقت اورکمال کی دلیل ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۲؎ یعنی ’’اے نبی! تو اس خدائی دین اسلام پر راستی اور سداد کے ساتھ قائم ہوجاجس کی بناوٹ انسانی فطرت کے مطابق بنائی گئی ہے۔‘‘اورعقلاًبھی غورکیا جاوے تویہی ہونا چاہئے تھاکہ فطرت انسانی شریعت کے مطابق بنائی جاتی۔یابالفاظ دیگر شریعت کو فطرت انسانی کے مطابق اتاراجاتا۔پس فطرت صحیحہ اورشریعت اسلامی کاتواردتوضروری ہے اور جتنی جتنی کسی شخص کی فطرت زیادہ صاف اوربیرونی اثرات سے زیادہ پاک ہوتی ہے اتناہی وہ شریعت کی روح کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہذایہ ضروری تھا کہ دوسرے انسانوں کی نسبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے طبعی میلانات شریعت اسلامی کے زیادہ قریب ہوتے ۔اورعام حالات میں آپ کی رائے اسی رستے پر چلتی جس رستے پر شریعت کانزول ہونا تھا۔مگر یہ بالکل درست نہیں کہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا تھا کیونکہ بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انسان تھے اوربشری لوازمات کے ماتحت ضروری تھا کہ کہیں کہیں اختلاف بھی ہوجاتا۔علاوہ ازیں چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات واضح کرنا منظور تھی کہ جو وحی آپ پرنازل ہوتی ہے وہ آپ کے دل ودماغ سے ایک بالا منبع رکھتی ہے اورایک وراء الوراء ہستی کی طرف سے آتی ہے۔اس لئے اس نے اپنے حکیمانہ تصرف کے ماتحت ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں رہنے دی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخیال کچھ تھا اوروحی کچھ اور نازل ہوئی یا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواہش کچھ تھی اوروحی کچھ اور نازل ہوئی۔پس میور صاحب اورمارگولیس صاحب کا اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔
غززہ بنو مصطلق اور واقعہ افک شعبان ۵ ہجری
قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔ وہ اپنی ریشہ دوانی
سے عرب کے بہت سے قبائل کواسلام اوربانی ٔاسلام کے خلاف کھڑا کرچکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کردیااوروہ یہ کہ حجاز کے وہ قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اب وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے شروع ہوگئے۔ ۱؎ اس معاملہ میں پہل کرنے والا مشہور قبیلہ بنوخزاعہ تھا جن کی ایک شاخ بنومصطلق نے مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی۔ ۲؎ اوران کے رئیس حرث بن ابی ضرار نے اس علاقہ کے دوسرے قبائل میں دورہ کرکے بعض اورقبائل کوبھی اپنے ساتھ ملالیا۔ ۳؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے مزید احتیاط کے طورپر اپنے ایک صحابی بریدہ بن حصیب نامی کودریافت حالات کے لئے بنو مصطلق کی طرف روانہ فرمایا اوران کو تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آکر حقیقۃ الامرسے آپ کواطلاع دیں۔بریدہ گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا اجتماع ہے اورنہایت زور شور سے مدینہ پرحملہ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔انہوں نے فوراًواپس آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ ۴؎ اورآپ نے حسب عادت مسلمانوں کو پیش بندی کے طور پر دیاربنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی اوربہت سے صحابہ آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے بلکہ ایک بڑا گروہ منافقین کا بھی جواس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے ساتھ ہوگیا۔ ۵؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پیچھے ابوذر غفاری ۶؎ یابعض روایات کی رو سے زید بن حارثہ ۷؎ کومدینہ کا امیر مقرر کرکے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان۵ ہجری میں مدینہ سے نکلے۔ ۸؎ فوج میں صرف تیس گھوڑے تھے۔ البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اورانہی گھوڑوں اور اونٹوں پرمل جل کر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے۔راستہ میں مسلمانوں کو کفار کاایک جاسوس مل گیا جسے انہوں نے پکڑ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اورآپ نے اس تحقیق کے بعد کہ وہ واقعی جاسوس ہے اس سے کفار کے متعلق کچھ حالات وغیرہ دریافت کرنے چاہے مگر اس نے بتانے سے انکار کیا اور چونکہ اس کا رویہ مشتبہ تھا اس لئے مروجہ قانون جنگ کے ماتحت حضرت عمرؓنے اسے قتل کردیا۔ ۹؎ اوراس کے بعد لشکر اسلام آگے روانہ ہوا۔ بنومصطلق کوجب مسلمانوں کی آمد آمد کی اطلاع ہوئی اوریہ خبر بھی پہنچی کہ ان کا جاسوس مارا گیا ہے تو وہ بہت خائف ہوئے۔کیونکہ اصل منشاء ان کا یہ تھا کہ کسی طرح مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کا موقع مل جاوے مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیدار مغزی کی وجہ سے اب ان کو لینے کے دینے پڑگئے تھے۔ پس وہ بہت مرعوب ہوگئے اور دوسرے قبائل جوان کی مدد کے لئے ان کے ساتھ جمع ہوگئے تھے وہ تو خدائی تصرف کے ماتحت کچھ ایسے خائف ہوئے کہ فوراً ان کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ۱؎ مگر خود بنو مصطلق کوقریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا کچھ ایسا نشہ پلادیا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ کے ارادے سے باز نہ آئے اورپوری تیاری کے ساتھ اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے آمادہ رہے۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مریسیع میں پہنچے جس کے قریب بنومصطلق کاقیام تھا اورجو ساحل سمندر کے قریب مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام کانام ہے تو آپ نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور صف آرائی اورجھنڈوں کی تقسیم وغیرہ کے بعد آپ نے حضرت عمر کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر بنو مصطلق میں یہ اعلان کریں کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آجائیں اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کرلیں توان کو امن دیا جائے گا اور مسلمان واپس لوٹ جائیں گے مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہوگئے۔ ۲؎ حتّٰی کہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا۔ ۳؎ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی توآپ نے بھی صحابہ کولڑنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیر تک فریقین کے درمیان خوب تیز تیراندازی ہوئی۔جس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو یکلخت دھاوا کردینے کا حکم دیا۔اوراس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پائوں اکھڑگئے مگر مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیرا ڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصور ہوکر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی اور صرف دس کفار اورایک مسلمان کے قتل پراس جنگ کا جوایک خطرناک صورت اختیار کرسکتا تھا خاتمہ ہوگیا۔ ۴؎
اس موقع پریہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسی غزوہ کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پرایسے وقت میں حملہ کیا تھا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کوپانی پلارہے تھے۔ ۵؎ مگر غور سے دیکھاجاوے تویہ روایت مؤرخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ دوروایتیں دومختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں یعنی واقع یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنو مصطلق کے قریب پہنچا تواس وقت چونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں(گوانہیں اسلامی لشکر کی آمد آمد کی اطلاع ضرور ہوچکی تھی)وہ اطمینان کے ساتھ ایک بے ترتیبی کی حالت میں پڑے تھے اوراسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں اشارہ ہے، لیکن جب ان کو مسلمانوں کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق فوراً صف بند ہوکر مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اوریہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے۔اس اختلاف کی یہی تشریح علامہ ابن حجر اوربعض دوسرے محققین نے کی ہے اوریہی درست معلوم ہوتی ہے۔ ۱؎
جنگ کے اختتام کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے چند دن تک مریسیع میں قیام فرمایا مگر اس قیام کے درمیان منافقین کی طرف سے ایک ایسا ناگوارواقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کمزور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی موقع شناسی اور مقناطیسی اثر نے اس فتنہ کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچالیا۔واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمر کا ایک نوکر جھجاہ نامی مریسیع کے مقامی چشمہ پرسے پانی لینے کے لئے گیا۔اتفاقاًاسی وقت ایک دوسرا شخص سنان نامی بھی جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا پانی لینے کے لئے وہاں پہنچا۔ یہ دونوں شخص جاہل اور عامی لوگوں میں سے تھے۔چشمہ پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑپڑے اور جھجاہ نے سنان کو ایک ضرب لگادی۔پس پھر کیا تھا سنان نے زور زور سے چلانا شروع کردیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کوپہنچو کہ میں پٹ گیا۔جب جھجاہ نے دیکھا کہ سنان نے اپنی قوم کوبلایا ہے تو اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکارنا شروع کردیا کہ اے مہاجرین بھاگیودوڑیو۔۲؎ جن انصارومہاجرین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمہ کی طرف لپکے اوردیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہوگیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے مگر اتنے میں بعض سمجھدار اورمخلص مہاجرین وانصار بھی موقع پر پہنچ گئے۔اورانہوں نے فوراً لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے صلح صفائی کروادی۔ ۳؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی توآپ نے فرمایا۔ ’’یہ ایک جاہلیت کامظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کااظہار فرمایا۔ ۴؎ اوراس طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا، لیکن جب منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبیّ بن سلول کوجو اس غزوہ میں شامل تھا اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تواس بدبخت نے اس فتنہ کوپھر جگانا چاہااوراپنے ساتھیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا۔اورکہا یہ سب تمہارا اپنا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں مسلمانوں کوپناہ دے کر ان کوسرپرچڑھالیا ہے۔اب بھی تمہیں چاہئے کہ ان کی اعانت سے دست بردارہوجائو پھریہ خود بخود چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اوربالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ ۔یعنی’’دیکھو تو اب مدینہ میں جاکر عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یاگروہ کواپنے شہر سے باہرنکال دیتاہے یانہیں؟ ۱؎ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقم بھی وہاں بیٹھا تھا اس نے عبداللہ کے منہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہوگیا۔اورفوراً اپنے چچا کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمرؓبھی بیٹھے تھے۔وہ یہ الفاظ سن کر غصہ وغیرت سے بھرگئے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے یارسول اللہ!آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑادوں۔آپ نے فرمایا’’عمر! جانے دو۔کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمداپنے ساتھیوں کوقتل کرواتا پھرتا ہے۔‘‘پھرآپ نے عبداللہ بن اُبیّ اوراس کے ساتھیوں کو بلوا بھیجا اوران سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔وہ سب قسمیں کھاگئے کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ ۲؎ بعض انصار نے بھی بطریق سفارش عرض کیا کہ زیدبن ارقم کوغلطی لگی ہوگی۔ ۳؎ آپ نے اس وقت عبداللہ بن اُبیّ اوراس کے ساتھیوں کے بیان کوقبول فرمالیا اورزید کی بات رد کردی جس سے زید کو سخت صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے زید کی تصدیق فرمائی اور منافقین کوجھوٹا قرار دیا۔ ۴؎ اِدھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبیّ وغیرہ کو بلاکراس بات کی تصدیق شروع فرمادی اوراُدھرآپ نے حضرت عمر سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کوچ کاحکم دے دو۔۵؎ یہ وقت دوپہر کا تھاجبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماًکوچ نہیں فرمایا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اوراس میں سفر کرنا نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے مگرآپ نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی کوچ ہوجاوے۔ چنانچہ آپ کے حکم کے ماتحت فوراًسارا اسلامی لشکر واپسی کے لئے تیار ہوگیا۔غالباًاسی موقع پر اسیدبن حضیر انصاری جوقبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔یارسول اللہ! آپ تو عموماًایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے آج کیا معاملہ ہے؟آپ نے فرمایا۔’’اسید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبداللہ بن اُبیّ نے کیا الفاظ کہے ہیں؟وہ کہتا ہے کہ’’ہم مدینہ چل لیں۔وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا۔‘‘اسید نے بے ساختہ عرض کیا۔ہاں یارسول اللہ آپ چاہیں توبے شک عبداللہ کو مدینہ سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ عزت والے آپ ہیں اور وہی ذلیل ہے۔‘‘پھر اسید بن حضیر نے عرض کیا یارسول اللہ!آپ جانتے ہیں کہ آپ کے تشریف لانے سے قبل عبداللہ بن اُبیّ اپنی قوم میں بہت معززتھا اوراس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی جو آپ کے تشریف لانے سے خاک میں مل گئی۔پس اسی وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیاہوا ہے۔اس لئے اس کی بکواس کی کچھ پروا نہ کریں اوراس سے درگزر فرماویں۔ ۱؎ تھوڑی دیر میں عبداللہ بن اُبیّ کالڑکا جس کا نام حباب تھا مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے بدل کر عبداللہ کردیا تھااوروہ ایک بہت مخلص صحابی تھا گھبرایا ہواآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا۔ یارسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے باپ کی گستاخی اورفتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں۔اگرآپ کا یہی فیصلہ ہے توآپ مجھے حکم فرمائیںمیں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لاڈالتا ہوںمگر آپ کسی اور کوایسا ارشاد نہ فرمائیں۔ کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی جاہلیت کی رگ میرے بدن میں جوش مارے اورمیںاپنے باپ کے قاتل کو کسی وقت کوئی نقصان پہنچابیٹھوں اورخدا کی رضا چاہتا ہوابھی جہنم میں جاگروں۔‘‘آپ نے اسے تسلی دی اورفرمایا کہ ہمارا ہرگز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہرحال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔ ۲؎ مگر عبداللہ بن عبداللہ بن اُبیّ کواپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکر اسلامی مدینہ کی طرف لوٹا توعبداللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیااورکہنے لگا کہ خدا کی قسم!میں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم معزز ہیں اورتم ذلیل ہواورعبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہوکر یہ الفاظ کہہ دئے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ ۳؎
جب واپسی کا کُوچ شروع ہواتواس دن کا بقیہ حصہ اورساری رات اوراگلے دن کا ابتدائی حصہ لشکر اسلامی برابر لگاتار چلتا رہا اورجب بالآخر ڈیرہ ڈالاگیا تولوگ اس قدر تھک کر چور ہوچکے تھے کہ مقام کرتے ہی ان میں سے اکثر گہری نیند سوگئے۔۴؎ اوراس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیدار مغزی سے لوگوں کی توجہ اس ناگوار واقعہ کی طرف سے ہٹ کر ایک لمبے وقفہ تک دوسری طرف لگی رہی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کومنافقین کی فتنہ انگیزی سے بچالیا۔ دراصل منافقین مدینہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جس طرح بھی ہوسکے مسلمانوں میں خانہ جنگی اور باہمی انشقاق کی صورت پیدا کردیں۔نیز اگر ممکن ہوتو ان کی نظر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت کو کم کردیں۔مگراسلام اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقناطیسی شخصیت نے مسلمانوں میں ایسا رشتہ اتحاد پیدا کردیا تھا کہ کوئی سازش اس میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق تومسلمانوں کے دلوں میں عزت واحترام اخلاص وایمان اورمحبت وعشق کے وہ جذبات راسخ ہوچکے تھے کہ انہیں متزلزل کرنا کسی بشر کی طاقت میں نہیں تھا۔چنانچہ اسی موقع پر دیکھ لو کہ عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین نے دوعامی مسلمانوں کے ایک وقتی جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح صحابہ میں اختلاف وانشقاق کابیج بونے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت ورعب کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کی۔مگر اسے کیسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑااورخدا نے اسے خود اس کے بیٹے کے ہاتھوں سے وہ ذلت کاپیالہ پلایا جواسے غالباًمرتے دم تک نہ بھولا ہوگا۔
واقعۂ افک
مگر نہ معلوم منافقین مدینہ کی مٹی میں کس فتنہ کا خمیرتھا کہ کوئی واقعہ ان کی آنکھوں کو نہ کھولتا تھا بلکہ ہرناکامی ان کی شرارت اور فتنہ پردازی کواوربھی زیادہ کردیتی تھی۔ چنانچہ اسی سفر
کی واپسی میں ان کی طرف سے ایک اورخطرناک فتنہ کھڑاکیا گیا جواپنی نوعیت اورمفسدانہ اثر کے لحاظ سے اس فتنہ سے بھی بہت زیادہ خطرناک تھا جس کا ذکر اوپرگزر چکا ہے۔یہ واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگائے جانے کا واقعہ ہے جواسی غزوہ کے سفر واپسی میں پیش آیا۔ ۱؎ یہ تہمت اسی نوعیت کی تھی جیسی کہ حضرت عیسیٰ ؑکی والدہ حضرت مریم اوررامچندر جی کی بیوی سیتا پربدباطن لوگوں نے لگائی ۔اوربہتر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کیا جاوے کیونکہ وہ ایک بہت مفصل اوردلچسپ بیان ہے جس سے اصل واقعہ کے متعلق یقینی علم حاصل ہونے کے علاوہ اس زمانہ کے تمدن اور طریق واطوار پربھی بہت روشنی پڑتی ہے۔چنانچہ بخاری میں حضرت عائشہ کی طرف سے جو روایت بیان ہوئی ہے اس کے ضروری ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جب آپ کسی سفر پر جانے لگتے تھے تو اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے تھے پھر جس کا نام نکلتا تھا اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ایک دفعہ آپ نے ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح قرعہ ڈالا تومیرا نام نکلا۔چنانچہ مجھے آپ اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ اس زما نہ کی بات ہے کہ جب پردہ کے احکام نازل ہوچکے تھے۔چنانچہ اس سفر میں مَیںہودہ کے اندر بیٹھتی تھی اورلوگ میرے ہودہ کواٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے اورجہاں قیام کرنا ہوتا تھاوہاں میرے ہودہ کواتار کرنیچے رکھ دیتے۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس غزوہ سے فارغ ہوکر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچے توایک دن آپ نے رات کے وقت کوچ کا حکم دیا۔ جب میں نے یہ اعلان سُنا تو میں حوائج انسانی سے فارغ ہونے کے لئے لشکر سے باہرنکل کر ایک طرف کوگئی اور فارغ ہوکر واپس لوٹ آئی۔جب میں اپنے اونٹ کے قریب پہنچی تومیں نے معلوم کیا کہ میرے گلے کاہارنداردہے۔اس کی تلاش میں میں پھر واپس آگئی اوراس تلاش میں مجھے کچھ دیر ہوگئی۔اس اَثنا میں وہ لوگ جومیرا ہودہ اٹھانے پرمتعین تھے آئے اوریہ خیال کرکے کہ میں ہودہ کے اندر ہوں انہوں نے میراہودہ اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دیااورلشکر کے ساتھ روانہ ہوگئے۔چونکہ اس زمانہ میں بوجہ کم خوری اورتنگی معیشت کے عورتیں بہت دبلی پتلی ہوتی تھیں اوران کے بدنوں پر گوشت نہیں آتا تھااس لئے ہودہ اٹھانے والوں کو ہودہ کے ہلکا ہونے کا شبہ نہیں گزرا اورپھر میری عمر بھی اس وقت بہت چھوٹی تھی۔بہرحال جب میں ہار کی تلاش کرلینے کے بعد واپس آئی توکیا دیکھتی ہوں کہ لشکر جاچکا ہے اورمیدان خالی پڑا ہے۔میں سخت پریشان ہوئی مگر میں نے دل میں سوچا کہ مجھے اپنی جگہ پرٹھہرے رہنا چاہئے کیونکہ جب لوگوں کو میرے پیچھے رہ جانے کا علم ہوگا تووہ ضرور واپس آئیں گے۔پس میں اپنی جگہ پر جاکر واپس بیٹھ گئی اوربیٹھے بیٹھے مجھے نیند آگئی۔اب واقعہ یوں ہوا کہ صفوان بن معطل ایک صحابی تھا جس کی ڈیوٹی یہ مقرر تھی کہ وہ لشکر اسلامی کے پیچھے پیچھے رہتا تھا۔(تاکہ گری پڑی چیز وغیرہ کی حفاظت ہوسکے)وہ جب پیچھے سے آیا اورصبح کے قریب میری جگہ پرپہنچا تواس نے مجھے وہاں اکیلے سوئے ہوئے دیکھا۔اورچونکہ وہ پردہ کے احکام کے نازل ہونے سے قبل مجھے دیکھ چکا تھا اس نے مجھے فوراًپہچان لیا۔جس پر اس نے گھبرا کرکہا۔ ۱؎ اس کی اس آواز سے میں جاگ اٹھی اورمیں نے اسے دیکھتے ہی جھٹ اپنا منہ اپنی اوڑھنی سے ڈھانک لیا اورخدا کی قسم اس نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اورنہ میں نے اس کلمہ کے سوا اس کے منہ سے کوئی اورالفاظ سنے۔اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کو آگے لایا اورمیرے قریب اسے بٹھادیا اوراس نے اونٹ کے دونوں گھٹنوں پراپنا پائوں رکھ دیا(تاکہ وہ اچانک نہ اٹھ سکے)چنانچہ میں اونٹ کے اوپر سوار ہوگئی اور صفوان اس کے آگے آگے اس کی مہارتھامے ہوئے چلنے لگ گیا۔حتّٰی کہ ہم چلتے چلتے اس جگہ آپہنچے جہاں لشکر اسلامی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔بس یہ وہ قصہ ہے جس پر ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنہوں نے ہلاک ہونا تھا۔اوراس بہتان کابانی مبانی عبداللہ بن اُبیّ بن سلول( رئیس المنافقین )تھا۔
اس کے بعد ہم لوگ مدینہ میں پہنچ گئے اوراتفاق ایسا ہوا کہ میں وہاں جاتے ہی بیمار ہوگئی اور برابر ایک ماہ تک بیمار رہی۔اوراس عرصہ میں لوگوں میں بہتان لگانے والوں کی باتوں کے متعلق بہت چرچا رہا اورہر طرح کی چہ میگوئی ہوتی رہی۔مگر اس وقت تک مجھے اس تہمت کے متعلق قطعاً کوئی خبر نہیں تھی۔البتہ یہ بات ضرورتھی کہ مجھے اس بیماری کے ایّام میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے وہ شفقت ومہربانی نظر نہیں آتی تھی جوآپؐ عموماًمجھ پر فرمایا کرتے تھے اوراس کا مجھے سخت قلق تھا۔رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس آتے تھے توبس سلام کہہ کر صرف اتنی بات فرماتے تھے کہ اب کیاحال ہے؟اورپھر لوٹ جاتے تھے اورآپ کے اس طریق سے مجھے دل ہی دل میں سخت تکلیف ہوتی تھی۔میں اسی بے خبری کی حالت میں پڑی رہی حتّٰی کہ میری بیماری نے مجھے سخت نڈھال اورکمزورکردیا۔انہی ایام میں مجھے ایک دن ایک عورت اُمّ مسطح سے جو دور سے ہماری رشتہ دار بھی تھی اتفاقی طورپر بہتان لگانے والوں کا قصہ معلوم ہوا۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان الزام لگانے والوں میں ام مسطح کا لڑکا مسطح بھی شامل تھا۔جب میں نے یہ باتیں سنیں تومجھے تو گویا اپنی اصل بیماری بھول کرایک نئی بیماری لگ گئی۔اس کے بعد جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسب عادت تشریف لاکر یہ دریافت فرمایا کہ’’اب کیا حال ہے؟‘‘تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!مجھے آپ اجازت دیں تو میں چند دن کے لئے اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائوں۔آپ نے اجازت دے دی اورمیں اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔اس سے دراصل میرا منشاء یہ تھا کہ والدین کے گھر جاکر میں اس خبر کے متعلق تحقیق کروں گی کہ کیا واقعی میرے متعلق اس قسم کی باتیں کی جارہی ہیں۔چنانچہ میں نے وہاں جاکر اپنی والدہ سے دریافت کیا۔میری ماں نے کہابیٹی!تو پریشان نہ ہو۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں اوروہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے توایسی عورت کے متعلق دوسری عورتیں خواہ نخواہ باتیں بنانے لگ جاتی ہیں۔میں نے بے اختیار ہوکر کہا۔سبحان اللہ سبحان اللہ!کیا لوگ میرے متعلق واقعی یہ باتیں کررہے ہیں؟پھر میں رونے لگ گئی اورساری رات میرے آنسو نہیں تھمے اور نہ میں سوئی۔اور جب صبح ہوئی تواس وقت بھی میرے آنسو جاری تھے۔
’’اس دن رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علیؓ بن ابی طالب اوراسامہؓ بن زید کو مشورہ کے لئے بلایا۔کیونکہ وحی کے نزول میں بہت وقفہ پڑگیا تھا(اورآپ اس معاملہ میں بہت فکر مند تھے) آپ نے ان دونوں سے میرے متعلق مشورہ پوچھا کہ ان حالات میں کہ اس قسم کی باتیں کی جارہی ہیں مجھے کیاکرنا چاہئے۔آیا میں عائشہ سے قطع تعلق کرلوں؟اسامہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ!عائشہ آپ کی بیوی ہیں(یعنی خداتعالیٰ نے جو عائشہ کو آپ کی بیوی بننے کے لئے چنا ہے تو انہیں اس کا اہل جان کرچنا ہے)اورخدا کی قسم ہم تو عائشہ کے متعلق سوائے نیکی کے اورکچھ نہیں جانتے۔مگر علیؓ نے (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے)یہ جواب دیا کہ’’ یارسول اللہ!اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں فرمائی اورعائشہ کے سوا عورتوں کی کمی بھی نہیں ہے(مگر میں اصل واقعہ کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا)آپ گھر کی خادمہ سے دریافت فرمالیں شائد اسے کچھ علم ہو۔اوروہ صحیح صحیح بات بتا سکے۔‘‘اس پر آپ نے اپنی خادمہ بریرہ کوبلایا۔اوراس سے پوچھا کہ کیا تم نے عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے کسی قسم کا شبہ پیدا ہوتا ہو؟بریرہ نے جواب دیا کہ’’مجھے خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ میں نے اپنی بی بی میں کوئی بری بات نہیںدیکھی سوائے اس کے کہ خورد سالی کی وجہ سے وہ کسی قدر بے پروا ضرور ہیں۔چنانچہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آٹا گوندھا ہوا کھلا چھوڑ کرسوجاتی ہیں اوربکری آتی ہے اورآٹا کھاجاتی ہے۔
پھراسی دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک تقریر کی اورفرمایا کہ’’مجھے میرے اہل کے بارے میں بہت دکھ دیا گیا ہے۔کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس کا سدباب کرسکے؟اورخدا کی قسم مجھے تو اپنی بیوی کے متعلق سوائے خیرونیکی کے اورکوئی علم نہیں ہے۔اورجس شخص کااس معاملہ میں نام لیا جاتا ہے اسے بھی میں اپنے علم میں نیک خیال کرتا ہوں۔اوروہ کبھی میرے گھر میں میری غیر حاضری میں نہیں آیا۔‘‘ آپ کی اس تقریر کو سن کر سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس کھڑے ہوگئے اور عرض کیا۔یارسول اللہ!میں اس کا سدباب کرتا ہوں۔اگر تویہ شخص ہمارے قبیلے میں سے ہے تو ہمارے نزدیک وہ واجب القتل ہے۔ہم ابھی اس کی گردن اڑائے دیتے ہیں اوراگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی قبیلہ خزرج میں سے ہے تو پھربھی جس طرح آپ حکم فرمائیں ہم کرنے کو تیار ہیں۔اس پر قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اوروہ ایک صالح آدمی تھے مگر اس وقت انہیں جاہلانہ غیرت آگئی اوروہ سعد بن معاذ کو مخاطب ہوکر کہنے لگے۔’’تم نے جھوٹ کہا ہے۔خدا کی قسم!تم ہرگز ہمارے کسی آدمی کوقتل نہیں کرسکو گے اورنہ تم میں یہ طاقت ہے کہ ایسا کرو۔اوراگر وہ تمہارے قبیلہ میں سے ہوتا توتم ایسی بات نہ کہتے۔‘‘اس پر اسید بن حضیر رئیس اوس جو سعد بن معاذ کے چچازاد بھائی تھے اٹھے اور سعد بن عبادہ سے کہنے لگے کہ’’سعد بن معاذ جھوٹا نہیں ہے بلکہ تم جھوٹے ہواورتم منافق ہوکہ منافقوں کی طرف سے ہوکر لڑتے ہو۔‘‘ان باتوں سے اوس وخزرج کے بعض لوگوں کو جوش آگیا اورقریب تھا کہ لڑائی ہوجاتی مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو ابھی تک منبر پرہی تشریف رکھتے تھے سمجھا بجھا کر سب کو ٹھنڈا کیا اورپھر آپ منبر سے اتر کر گھر تشریف لے گئے۔اور میرا بدستور وہی حال تھا کہ آنسوتھمنے میں نہ آتے تھے اورنیند حرام ہورہی تھی اوربرابر دورات اورایک دن میرا یہی حال رہا۔اورمیں سمجھتی تھی کہ میراجگر پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔
اسی حالت میںمَیں اپنے والدین کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت اجازت لے کر اندر آئی اورمیرے پاس بیٹھ کر ہمدردی کے طریق پروہ بھی رونے لگ گئی۔ہم اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے اورمیرے پاس آکر بیٹھ گئے اوریہ پہلا دن تھا کہ آپ اس اتہام کے بعد میرے پاس بیٹھے تھے اورایک مہینہ ہوگیا تھا کہ میرے متعلق کوئی خدائی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہوئے کلمہ تشہد پڑھااورخدا کو یاد کیا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر فرمانے لگے عائشہ!مجھے تمہارے متعلق اس قسم کی باتیں پہنچی ہیں۔اگر تو تم بے گناہ ہو تو مجھے امید ہے کہ خدا ضرورتمہاری بریت ظاہر فرمائے گا اور اگرتم سے کوئی لغزش ہوگئی ہے توتمہیں چاہئے کہ خدا سے مغفرت مانگو اوراس کی طرف جھکو کیونکہ جب بندہ خدا کے سامنے اپنی غلطی کااعتراف کرتا ہوا جھک جاتا ہے توخدا اس کی توبہ کوقبول کرتا اور اس پررحم فرماتا ہے۔جب رسول اللہ نے یہ تقریر فرمائی تو میں نے دیکھا کہ میرے آنسو بالکل خشک ہوگئے اور ان کا نام ونشان تک نہ رہا۔اس وقت میں نے اپنے والد اوروالدہ سے کہا کہ آپ رسول اللہ سے اس بات کا جواب عرض کریں۔انہوں نے کہا’’خدا کی قسم ہمیں تو کچھ نہیں سوجھتا کہ ہم کیا جواب دیں۔‘‘اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی اورمجھے قرآن بھی زیادہ نہیں آتا تھامگر والدین کی طرف سے مایوس ہوکر میں نے خود آپؐسے عرض کیا کہ’’خدا کی قسم میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں کووہ باتیں پہنچی ہیں جوبعض لوگ میرے متعلق کررہے ہیںاورآپ کے دل پر ان باتوں کا اثر ہے۔پس اگر میں یہ کہوں کہ میں بے گناہ ہوں توآپ میری بات میں شک کریں گے۔اوراگر میں اپنے آپ کو اس معاملہ میں گناہ گار مان لوںحالانکہ میراخدا جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں توآپ مجھے سچا جانیں گے۔ خدا کی قسم مجھے تواپنا معاملہ یوسف کے باپ کاسانظر آتا ہے جس نے یہ کہا تھا کہ۔ ’’پس میرے لئے بھی صبر ہی بہتر ہے اورمیں صرف خدا ہی کی مدد چاہتی ہوں ان باتوں کے متعلق جویہ لوگ کررہے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر میں اپنی جگہ پر دوسری طرف منہ کرکے لیٹ گئی اوراس وقت میرے دل میں یہ یقین تھا کہ میں چونکہ بے گناہ ہوں اللہ تعالیٰ ضرور جلد میری بریت ظاہر فرمائے گا۔ مگر مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ میری بریت میں کوئی قرآنی وحی نازل ہوگی اورخدا تعالیٰ اپنے صریح کلام میں میرے بے گناہ ہونے کو ظاہر فرمائے گابلکہ میں سمجھتی تھی کہ شائد اس بارہ میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کوکوئی رئویا وغیرہ دکھائی جاوے مگرخدا کی قسم آپ ابھی اس مجلس سے اٹھنے نہیں پائے تھے اورنہ گھر کا کوئی اورشخص اٹھ کر باہر گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وہ حالت طاری ہوگئی جو وحی کے وقت ہوا کرتی تھی اورباوجود سردی کے آپ کے چہرہ سے پسینہ کے قطرے ٹپکنے لگ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد وہ حالت جاتی رہی اورآپؐنے تبسم فرماتے ہوئے میری طرف دیکھا اورفرمایا عائشہ!خدا نے تمہاری بریت ظاہر فرمادی ہے۔جس پر میری ماں بے اختیار ہوکر بولیںعائشہ!اٹھو! اوررسول اللہ کاشکریہ اداکرو۔‘‘(میرا دل چونکہ اس وقت خدا کے شکر سے لبریز تھا)میں نے کہا میں کیوں آپ کا شکریہ ادا کروں۔میں تو صرف اپنے رب کی شکر گزارہوں جس نے میری بریت ظاہر فرمائی ہے۔اس وقت سورۃ نور کی وہ دس آیات نازل ہوئی تھیں جو سے شروع ہوتی ہیں۔
جب میری بریت ظاہر ہوگئی تومیرے والد ابوبکرؓنے جو بوجہ غربت اوررشتہ داری کے مسطح بن اثاثہ کی باقاعدہ امداد کیا کرتے تھے قسم کھائی کہ جب مسطح نے عائشہ پرجھوٹا اتہام باندھنے میں حصہ لیا ہے تومیں آئندہ اس کی مدد نہیں کروں گا۔مگراس پر جلد ہی یہ خدائی وحی نازل ہوئی کہ ایسا کرنا بالکل پسندیدہ نہیں ہے جس پر ابوبکرؓ نے وہ وظیفہ پھرجاری کردیابلکہ یہ عہد کیا کہ آئندہ میں کبھی یہ وظیفہ بند نہیں کروں گا۔نیز جبکہ ابھی تک میری بریت ظاہر نہیں ہوئی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے متعلق زینب بنت جحش کی رائے بھی دریافت کی تھی اورزینبؓ نے یہ جواب دیا تھا کہ’’یارسول اللہ!میں تو عائشہ کوایک نیک اورمتقی عورت سمجھتی ہوں۔‘‘حالانکہ رسول اللہ کی تمام بیویوں میں سے زینبؓ ہی وہ بیوی تھیں جو میرا مقابلہ کرتیں اورمجھ سے رقابت سے پیش آتی تھیں۔مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بوجہ ان کی پرہیزگاری کے اس گناہ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ ۱؎
میں نے حضرت عائشہ صدیقہ کی یہ طویل روایت اس خیال سے درج کی ہے کہ اول تو اس معاملہ میں یہ روایت ساری روایتوں سے مفصل اورمربوط ہے اور جو باتیں دوسرے راویوں کی روایات سے الگ الگ ٹکڑوں کی صورت میں ملتی ہیں وہ اس روایت میں یکجا طورپر جمع ہیں۔علاوہ ازیں اس روایت سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خانگی زندگی پر ایک ایسی بصیرت افزا روشنی پڑتی ہے جسے کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔اورصحت کے لحاظ سے بھی یہ روایت ایسے اعلیٰ ترین مقام پر واقع ہوئی ہے جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں سمجھی جاسکتی۔ اب غور کا مقام ہے کہ یہ کس قدر خطرناک فتنہ تھا جومنافقین کی طرف سے کھڑا کیا گیا۔اس میں صرف ایک پاک دامن اورنہایت درجہ متقی اورپرہیز گار عورت کی عصمت پر ہی حملہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ بڑی غرض بالواسطہ مقدس بانی ٔاسلام کی عزت کو برباد کرنا اور اسلامی سوسائٹی پرایک خطرناک زلزلہ وارد کرنا تھی۔اورمنافقین نے اس گندے اورکمینے پراپیگنڈا کواس طرح پرچرچا دیا تھا کہ بعض سادہ لوح مگرسچے مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں الجھ کر ٹھوکر کھاگئے۔ان لوگوں میں حسان بن ثابت شاعر اورحمنہ بنت جحش ہمشیرہ زینب بنت جحش اورمسطح بن اثاثہ کانام خاص طورپر مذکور ہوا ہے۔ ۲؎ مگرحضرت عائشہؓ کایہ کمال اخلاق ہے کہ انہوں نے ان سب کو معاف کردیا اوران کی طرف سے اپنے دل میں کوئی رنجش نہیں رکھی۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ اس کے بعد جب کبھی حسان بن ثابتؓحضرت عائشہؓسے ملنے آتے تھے تووہ بڑی کشادہ پیشانی سے ان سے ملتی تھیں۔ایک دفعہ وہ حضرت عائشہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت ایک مسلمان مسروق نامی بھی وہاں موجود تھے۔ مسروق نے حیران ہوکر کہا کہ’’ہیں!آپ حسان کواپنی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دیتی ہیں!حضرت عائشہؓنے جواب دیا’’جانے دوبیچارہ آنکھوں کی مصیبت میں مبتلا ہوگیا ہے۔یہ کیا کم عذاب ہے۔پھر میں اس بات کو نہیں بھول سکتی کہ حسان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تائید میں اورکفار کے خلاف شعر کہا کرتا تھا۔‘‘چنانچہ حسان کو اجازت دی گئی اوروہ اندر آکر بیٹھ گئے۔اورحضرت عائشہؓ کی تعریف میں یہ شعر کہا۔
حَصَانٌ رَزَانٌ مَاتُزَنُّ بِرِیْبَۃٍ
وَتُصْبِحُ غَرْثٰی مِنْ لُحُوْمِ الْغَوَافِلِ
یعنی ’’وہ ایک پاک دامن عفیفہ خاتون ہیں اورصاحب عقل ودانش ہیںاوران کی پوزیشن شک وشبہ کے مقام سے بالا ہے۔اوروہ غافل بے گناہ عورتوں کاگوشت نہیں کھاتیں یعنی ان پر اتہام نہیں لگاتیں اورنہ ان کی غیبت فرماتی ہیں۔‘‘
حضرت عائشہؓنے یہ شعر سنا توفرمایا۔وَلٰکِنْ اَنْتَ۔اورایک روایت میں یہ ہے کہ لَسْتَ کَذَالِکَ یعنی’’تمہارا اپنا کیاحال ہے تم تو اس خوبی کے مالک ثابت نہیں ہوئے۔‘‘یعنی تم نے تو مجھ بے گناہ کے خلاف الزام لگانے میں شمولیت اختیار کی۔ ۱؎ میور صاحب کی عربی دانی یاتعصب کی مثال ملاحظہ ہو کہ اس شعر کے بالکل غلط اورخلاف قواعد عربی معنی کرکے لکھتے ہیں کہ حسان نے عائشہؓ کے نازک بدن کی تعریف کی تھی جس پر عائشہ نے شوخی کے ساتھ ان کی فربہی پرطعن کیا۔ ۲؎
بریں عقل و دانش بباید گریست!
میور صاحب نے اس قصہ کے بیان کرنے میں اوربھی فاش غلطیاں کی ہیں۔مثلاً لکھتے ہیں کہ صفوانؓ اورعائشہ ؓراستے میں فوج کونہ پہنچ سکے اورپھر بعد میں برسرمنظر عام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ۳؎ حالانکہ یہ بات بالکل غلط اورقطعاًبے بنیاد ہے کیونکہ حدیث وتاریخ سے متفقہ طورپر ثابت ہے کہ صفوان اورحضرت عائشہؓچند گھنٹے کے بعد راستہ میں ہی اسلامی لشکر میں آملے تھے۔ ۴؎ مگر اس قدر غنیمت ہے کہ اصل اتہام کے متعلق میور صاحب نے حضرت عائشہؓ کی معصومیت کااعتراف کیا ہے ۔چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’عائشہؓ کی قبل اوربعد کی زندگی بتاتی ہے کہ وہ اتہام سے بری تھیں۔‘‘ ۵؎
گوعقلی اورنقلی طور پریہ اتہام بالکل غلط اورجھوٹ قرارپاتا ہے کیونکہ سوائے اس سراسر اتفاقی واقعہ کے کہ حضرت عائشہؓ لشکر اسلامی کے پیچھے رہ گئی تھیں اورپھر صفوان کے ساتھ بعد میں پہنچیں اتہام لگانے والوں کے ہاتھ میں قطعاً کوئی بات نہیں تھی۔یعنی نہ کوئی شہادت تھی اورنہ ہی کوئی اورثبوت تھا اور ظاہر ہے کہ جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو اسے ہرگز سچا نہیں سمجھا جاسکتا خصوصاً ایسے لوگوں کے متعلق جن کی زندگی ان کی طہارت نفس پر شاہد ہو۔مگر مسلمانوں کے مزید اطمینان کے لئے اورنیز اس غرض سے کہ آئندہ کے لئے ایسے معاملات میں ایک اصولی قاعدہ مقرر ہوجاوے خدائی وحی نازل ہوئی جس نے نہ صرف اس اتہام کوسراسر جھوٹا قرار دے کر حضرت عائشہ اورصفوان بن معطل کی بریت ظاہر فرمائی بلکہ آئندہ کے لئے اس قسم کے واقعات کے متعلق ایک ایسا اصولی قانون دنیا کے سامنے پیش فرمایا جس پرافراد کی عزت وآبرو اورسوسائٹی کے امن وامان اورملت کے اخلاق کی حفاظت کابڑی حد تک دارومدار ہے۔اس قانون کی بناء ان اصول پر ہے کہ:
اوّل ہر انسان کے متعلق اصل قیاس عصمت وعفت کاہونا چاہئے۔یعنی یہ کہ ہرانسان عفیف سمجھا جانا چاہئے جب تک اس کی عصمت وعفت کے خلاف کوئی یقینی اورقطعی ثبوت موجود نہ ہو۔
دوسرے یہ کہ انسان کی عزت وآبرو ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے جس کی حفاظت دنیا کی تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔
تیسرے یہ کہ فحشاء کا چرچابدی کے رعب کومٹاتا اورسوسائٹی کے اخلاق کوتباہ کردیتا ہے اس لئے اس کاسدّباب ہونا ضروری ہے۔
چوتھے یہ کہ جہاں یہ نہایت ضروری ہے کہ زنا کامجرم عبرتناک سزاپائے وہاں یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا بغیر سخت سزا کے نہ چھوڑا جاوے۔
ان اصول کے ماتحت قرآن شریف مندرجہ ذیل قانون پیش فرماتا ہے:
۱؎
’’یعنی جوشخص کسی دوسرے پر زنا کاالزام لگائے اس کا فرض ہے کہ اس الزام کے ثبوت میں کم از کم چار معتبر چشم دیدگواہ پیش کرے۔اگروہ ایسے گواہ پیش کردے توجرم ثابت سمجھا جاوے اورمجرم کو ایک سو دُرّوں کی سزا دی جاوے اوراس سزا میں ہرگز کوئی نرمی اوررعایت نہ کی جاوے اورنیز یہ سزا علی الاعلان پبلک کے سامنے دی جاوے تاکہ دوسروں کے لئے موجب عبرت ہو،لیکن اگر الزام لگانے والا اپنے الزام کو مذکورہ بالاطریق پر ثابت نہ کرسکے تو ملزم کو بے گناہ سمجھا جاوے اورالزام لگانے والے کوجھوٹا الزام لگانے کی سزا میں اسی دروں کی سزا دی جاوے۔اورآئندہ جب تک ایسے لوگ اپنی اصلاح نہ کریں کسی معاملہ میں ان کی شہادت قبول نہ کی جاوے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جو سزا زانی کی مقرر کی گئی ہے اس کا استحقاق توظاہر ہی ہے اوراس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ جھوٹا الزام لگانے والے کی سزا کاسوال بعض سادہ مزاج انسانوں کے لئے قابل اعتراض ہوسکتا ہے کہ ایسی سخت سزاکیوں تجویز کی گئی ہے۔سو اس کی حقیقت یہ ہے کہ دراصل اس معاملہ میں کسی پر جھوٹا اتہام باندھنا ایک نہایت خطرناک اورضرررسان فعل ہے کیونکہ اس میں ایک بے گناہ انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز پر ناجائز اورمفتریانہ حملہ ہونے کے علاوہ سوسائٹی کے اخلاق پربھی ایک نہایت گندہ اثر پیدا ہوتا ہے اوروہ اس طرح پرکہ جب اس قسم کی باتوں کے متعلق کسی سوسائٹی میں آزادانہ چرچاہوگا تو لازماً زناکی بدی کارعب طبائع سے کم ہونے لگے گا اورکمزور طبیعتیں گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگیں گی اورملک اور قوم کی اخلاقی فضا زہرآلود ہوجائے گی۔پس ضروری تھا کہ اس معاملہ میں جھوٹے الزام لگانے والوں کے واسطے سخت سزا تجویز کی جاتی تاکہ سوائے سچے آدمی کے کسی کو اس قسم کے الزام لگانے کی جرأت نہ پیدا ہواور صرف وہی شخص اتہام لگانے میں آگے آسکے جوواقعی اپنے پاس یقینی ثبوت رکھتا ہو۔اوراگر کسی کو یہ شبہ گزرے کہ اسلام نے اس معاملہ میں ثبوت کے متعلق ناواجب سختی سے کام لیا ہے یعنی چار چشم دید گواہوں کوضروری قرار دے کر ثبوت کے قیام کو بہت ہی مشکل بنادیا ہے تویہ ایک عامیانہ شبہ ہوگا۔ جب ہر جرم کے ثبوت کے لئے کوئی نہ کوئی تسلی بخش طریق ثبوت مقرر کیا جانا ضروری ہوتا ہے تو پھر ایک ایسے الزام کے ثبوت کے لئے جس میں انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز پر حملہ ہواورجس کے غلط اورجھوٹے استعمال سے سوسائٹی کے امن وامان اورقوم کے اخلاق وعادات پرایک سخت خطرناک اورگندہ اثرپڑتا ہو ایک نہایت زبردست اوریقینی طریق ثبوت کیوں نہ مقرر کیا جاتا خصوصاً جبکہ دنیا بھر میں قانون سازی کایہ ایک مسلّم اصول ہے کہ کسی بے گناہ کے مجرم قرار پانے سے یہ بہت بہترہوتا ہے کہ ایک مجرم بے گناہ سمجھا جاوے۔
اس جگہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ زنا کے مجرم کے لئے بدنی سزاکیوں تجویز کی گئی ہے۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں سزائوں کا فلسفہ اس اصول پر مبنی ہے کہ جس نوعیت کا جرم ہو اسی نوعیت کی سزا ہونی چاہئے تاکہ سزا کی بڑی غرض جواصلاح ہے پوری ہوسکے۔پس چونکہ زنا کاجرم خاص طورپر بدنی شہوات کے غلبہ اوران کے بے قابو ہوجانے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس جرم میں بدنی سزا مقرر کی جاتی تاکہ بدنی طاقتوں کوصدمہ پہنچنے سے مجرم کواپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو اورالزام لگانے والوں کے لئے بدنی سزا اس لئے رکھی گئی ہے کہ جو شخص دوسرے پرزنا کاجھوٹا الزام لگاکر اسے ذلیل کرنا چاہتا اوربدنی سزادلوانا چاہتا ہے اسے اسی قسم کی سزا دے کر وہ جوایک بے گناہ کودلوانا چاہتا تھا ہوش میں لایا جاوے اورنیز تا اس قسم کی سزا دوسروں کے لئے موجب عبرت ہو اورملک وقوم گندے اثرات سے محفوظ رہیں۔واللہ اعلم
جویریہ بنت حارث کی شادی
قبیلہ بنو مصطلق کے جو قیدی گرفتار ہوئے تھے ان میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن اُبیّ ضرار کی بیٹی برّہ بھی تھی جومسافع بن صفوان کے
عقد میں تھی جو غزوہ مریسیع میں مارا گیا تھا۔ ۱؎ ان قیدیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسب دستور مسلمان سپاہیوں میں تقسیم فرمادیاتھا اوراس تقسیم کی رو سے برّہ بنت حارث ایک انصاری صحابی ثابت بن قیس کی سپردگی میں دی گئی تھی۔ ۲؎ برّہ نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ثابت بن قیس کے ساتھ مکاتبت کے طریق پریہ سمجھوتہ کیا کہ وہ اگر اسے اس قدر رقم فدیہ کے طور پر ادا کردے توآزادسمجھی جاوے۔اس سمجھوتہ کے بعد برّہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورسارے حالات سنائے۔ اوریہ جتلا کر کہ میں بنو مصطلق کے سردار کی لڑکی ہوں فدیہ کی رقم کی ادائیگی میں آپ کی اعانت چاہی۔اس کی کہانی سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت متاثر ہوئے اورغالباًیہ خیال کرکے کہ چونکہ وہ ایک مشہور قبیلہ کے سردار کی لڑکی ہے شاید اس کے تعلق سے اس قبیلہ میں تبلیغی آسانیاں پیداہوجائیں آپ نے ارادہ فرمایاکہ اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرمالیں۔چنانچہ آپ نے اسے خود اپنی طرف سے پیغام دیا اور اس کی طرف سے رضامندی کااظہار ہونے پر آپ نے اپنے پاس سے اس کے فدیہ کی رقم ادا فرما کر اس کے ساتھ شادی کرلی۔ ۳؎ صحابہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقا نے بنومصطلق کی رئیس زادی کو شرف ازدواجی عطافرمایا ہے توانہوں نے اس بات کو خلاف شانِ نبوی سمجھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سسرال والوں کواپنے ہاتھ میں قید رکھیں اوراس طرح ایک سوگھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلافدیہ یک لخت آزاد کردئے گئے۔اسی وجہ سے حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ جویریہ (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے برّۃ کانام بدل کر جویریہ کردیا تھا)اپنی قوم کے لئے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔ ۴؎ اس رشتہ اوراس احسان کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو مصطلق کے لوگ بہت جلد اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگئے۔
برّۃ کانام بدلنے میںیہ حکمت تھی کہ چونکہ برّۃ کے معنی نیکی کے ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کبھی جب برّۃ گھر میں نہ ہوں اورکوئی شخص ان کے متعلق یہ دریافت کرے کہ آیا برّۃ گھر میں ہیں یانہیں تو اسے یہ جواب ملے کہ برّۃ گھر میں نہیں ہے جس کے بظاہر یہ معنی ہیں کہ گویانیکی اوربرکت گھر سے اٹھ گئی ہے۔ ۱؎ یہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے مگر اس سے اس محبت پر بہت روشنی پڑتی ہے جونیکی اورطہارت کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے قلب میں رکھتے تھے۔
حضرت جویریہ کی شادی کے متعلق ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب ان کے والد انہیں چھڑانے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے فیض صحبت سے مسلمان ہوگئے اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام ملنے پر انہوں نے خود برضا ورغبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کردی۔ ۲؎ اورایک روایت میں یہ ہے کہ جویریہ کے والد حارث نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ میں سردار قوم ہوں میری لڑکی اس طرح قید میں نہیں رکھی جاسکتی۔آپ نے فرمایا کہ جویریہ سے پوچھا جاوے اگر وہ آزاد ہوکر واپس جانا چاہے توہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اوراگر ہمارے پاس ٹھہرنا چاہے توہمارے پاس ٹھہرے۔جویریہ سے پوچھا گیا تواس نے مسلمان ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسندکیا جس پرآپ نے اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرمالی۔ ۳؎
عزل یعنی برتھ کنٹرول کی اجازت
اس غزوہ یعنی غزوہ بنو مصطلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کے دریافت کرنے پر عزل یعنی برتھ کنٹرول
کے متعلق فرمایا کہ میں اسے ناجائز نہیں کہتا۔یعنی بالفاظ دیگر آپ نے اس بات کوجائز قراردیا کہ کوئی شخص کسی ضرورت ومصلحت سے کوئی ایسی تدبیر اختیار کرے کہ اس کی بیوی کواس کی مجامعت سے حمل نہ ٹھہرے۔ ۴؎
اس فتویٰ کی رو سے ایک مسلمان کے لئے جائز ہوگا کہ اپنی بیوی کی صحت وتندرستی یااولاد کی صحت وتندرستی یاکسی اورجائز مصلحت سے برتھ کنٹرول کے اصول پر عمل پیرا ہو۔مگر جیسا کہ ایک قرآنی آیت سے استدلال ہوتا ہے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ غربت اورمالی تنگی کے اندیشہ سے برتھ کنٹرول کاطریق اختیار کیا جاوے۔ ۱؎ اورنہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر یہ طریق اختیار کیا جاوے۔۲؎ یہ مسئلہ گواس زمانہ کے لحاظ سے ایک بالکل غیراہم سا مسئلہ تھا مگر موجودہ زمانہ میں اس نے خاصی اہمیت اوردلچسپی اختیار کرلی ہے۔

مدینہ کامحاصرہ اورمسلمانوں کی نازک حالت
کفّار کی نامرادی۔حقیقتِ معجزہ
جنگ احزاب یعنی غزوۂ خندق
شوال ۵ہجری مطابق فروری و مارچ ۶۲۷ء
اب ہم تاریخ اسلامی کے اس حصہ میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اسلام کے خلاف قبائل عرب کی دشمنی نہ صرف انتہاء کوپہنچ گئی بلکہ انہوں نے ایک متحدہ تدبیر
کے ماتحت اپنی طاقتوں کو جمع کرکے اسلام کی بیخ کنی کا تہیہ کرلیا۔مگر قدرت الہٰی کاایسا تصرف ہوا کہ ان کے اس اتحاد میں ہی ناکامی کاتخم پیدا ہوگیااورابھی یہ عمارت پوری طرح کھڑی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوکر گرنی شروع ہوگئیں۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مکہ کے قریش اورنجد کے قبائل غطفان وسلیم گوپہلے سے ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہورہے تھے اورآئے دن مدینہ کے خلاف حملہ آوری کی فکر میں رہتے تھے مگر ابھی تک انہوں نے اپنی طاقتوں کو اسلام کے خلاف ایک میدان میں مجتمع نہیں کیا تھا۔ لیکن جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے لوگ اپنی غدّاری اورفتنہ انگیزی کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے توان کے رئوساء نے اس شریفانہ بلکہ محسنانہ سلوک کوفراموش کرتے ہوئے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا آپس میں یہ تجویز کی کہ عرب کی تمام منتشر طاقتوں کو ایک جاجمع کر کے اسلام کوملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جاوے۔ ۱؎ اورچونکہ یہودی لوگ بڑے ہوشیار وچالاک تھے اور اس قسم کے سازشی کاموں میں خوب مہارت رکھتے تھے اس لئے ان کی مفسدانہ کوششیں بارآور ہوئیں اورقبائل عرب ایک جان ہوکرمسلمانوں کے خلاف میدان میں نکل آئے۔
یہودی رئوساء میں سے سلام بن ابی الحقیق ۔حییٔ بن اخطب اورکنانہ بن الربیع نے اس اشتعال انگیزی میں خاص طورپر حصہ لیا۔ ۱؎ چنانچہ ان فتنہ پردازوں نے اپنے نئے وطن خیبر سے نکل کر حجاز اورنجد کے قبائل کادورہ کیا اورسب سے پہلے مکہ میں پہنچ کر قریش کواپنے ساتھ گانٹھا۔ ۲؎ اوررئوساء قریش کوخوش کرنے کے لئے اس بات تک کے کہنے سے دریغ نہیں کیاکہ مسلمانوں کے دین سے تمہارا دین (شرک وبت پرستی)اچھا ہے۔ ۳؎ اس کے بعد انہوں نے نجدمیں جاکر قبیلہ غطفان کواپنے ساتھ ملایا ۴؎ اوراس قبیلہ کی شاخہائے فرارہ اورمرہ اوراشجع وغیرہ کو اپنے ساتھ نکلنے کے لئے تیار کرلیا۔ ۵؎ پھرقریش اورغطفان کی انگیخت سے قبائل بنوسلیم اوربنو اسد بھی اس مخالف اسلام اتحاد کی کڑی میں منسلک ہوگئے۔ ۶؎ اوردوسری طرف یہود نے اپنے حلیف قبیلہ بنو سعد کوپیغام بھیج کر اپنی اعانت کے لئے کھڑا کرلیا۔ ۷؎ اس زبردست اتحاد کے علاوہ قریش نے اپنے گردونواح کے قبائل میں سے بھی بہت سے لوگوں کوجوان کے توابع میں سے تھے اپنے ساتھ ملالیا۔ ۸؎ اورپھر پوری تیاری کے بعد صحرائے عرب کے یہ خونخوار قبائل مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے کے ارادے سے ایک سیل عظیم کی طرح مدینہ پرامڈ آئے۔اوریہ عزم کیا کہ جب تک اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا نہیں لیں گے واپس نہیں لوٹیں گے۔
کفار کے اس عظیم الشان لشکر کا اندازہ دس ہزار نفوس ۹؎ سے لے کر پندرہ ہزار ۱۰؎ بلکہ بعض روایات کی رو سے چوبیس ہزار ۱۱؎ تک لگایا گیا ہے۔اگردس ہزار کے اندازے کوہی صحیح تسلیم کیا جاوے توپھر بھی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ تعداد اتنی بڑی تھی کہ غالباً اس سے پہلے عرب کے قبائلی جنگوں میں اتنی بڑی تعداد کبھی کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئی ہوگی۔جنگ کی کمان کا انتظام یہ تھا کہ سارے لشکر کا قائداعظم یعنی سپہ سالار ابوسفیان بن حرب تھا۔۱۲؎ جوسپہ سالار ہونے کے علاوہ اپنے قبیلہ قریش کا امیر العسکر بھی تھا۔ ۱۳؎ قبائل غطفان کی مجموعی کمان عیینہ بن حصن فزاری کے ہاتھ میں تھی اوراس کے ماتحت ہرقبیلہ کاالگ الگ کمانڈر تھا۔بنوسلیم کاکمانڈر سفیان بن عبدشمس تھا اور بنو اسداپنے رئیس طلیحہ بن خویلد کی کمان میں تھے۔۱۴؎ سامان خوردونوش اورسامان جنگ بھی ہرطرح کافی وشافی تھا۔اس طرح یہ لشکر شوال ۵ہجری مطابق فروری ومارچ ۶۲۷ء میں مدینہ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ ۱؎
اتنے بڑے لشکر کی نقل وحرکت کا مخفی رکھنا کفار کے لئے مشکل تھا اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاجاسوسی کاانتظام بھی نہایت پختہ تھا۔چنانچہ ابھی قریش کالشکر مکہ سے نکلا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان کی خبر پہنچ گئی۔جس پر آپ نے صحابہ کو جمع کرکے اس کے متعلق مشورہ فرمایا۔اس مشورہ میں ایران کے ایک مخلص صحابی سلمان فارسی بھی شریک تھے جن کے اسلام لانے کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔چونکہ سلمان فارسی عجمی طریق جنگ سے واقف تھے انہوں نے یہ مشورہ پیش کیا کہ مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے ایک لمبی اورگہری خندق کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا جاوے۔خندق کا خیال عربوں کے لئے بالکل نیا تھا،لیکن یہ معلوم کرکے کہ یہ طریق جنگ دیار عجم میں عام طور پر کامیابی کے ساتھ رائج ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس تجویز کومنظور فرمایا۔ ۲؎ اور چونکہ مدینہ کا شہر تین طرف سے ایک حد تک محفوظ تھا یعنی مکانات کی مسلسل دیواروں اورگھنے درختوں اور چٹانوں کے سلسلے کی وجہ سے یہ اطراف لشکر کفار کے اچانک حملہ سے محفوظ تھیں اور صرف شامی طرف ایسی تھی جہاں دشمن ہجوم کرکے مدینہ پر حملہ آور ہوسکتا تھا اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس غیر محفوظ طرف میں خندق کے کھودے جانے کا حکم دیا۔ ۳؎ اورآپ نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر تقسیم کار کے اصول کے ماتحت خندق کودس دس ہاتھ یعنی پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ہرٹکڑہ دس دس صحابیوں کے سپرد فرمادیا۔ ۴؎
ان پارٹیوں کی تقسیم میں یہ خوشگوار اختلاف رونما ہوا کہ سلمان فارسی کس گروہ میں شمار ہوں۔آیا وہ مہاجر سمجھے جائیں یابوجہ اس کے کہ وہ اسلام کی آمد سے پہلے ہی مدینہ میں آئے ہوئے تھے انصار میں شمارہوں۔ بوجہ اس کے کہ سلمان اس طریق جنگ کے محرک تھے اورویسے بھی ایک مستعد اور باوجودبوڑھے ہونے کے مضبوط آدمی تھے ہرفرقہ ان کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا۔آخر یہ اختلاف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا اورآپ نے فریقین کے دعاوی سن کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سلمان دونوں میں سے نہیں ہے بلکہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ یعنی’’سلمان میرے اہل بیت میں شمار کئے جائیں۔‘‘ ۵؎ اس وقت سے سلمان کویہ شرف حاصل ہوگیا کہ وہ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی سمجھے جانے لگے۔
الغر ض خندق کی تجویز پختہ ہونے کے بعد صحابہ کی جماعت مزدوروں کے لباس میں ملبوس ہو کر میدان کارزار میں نکل آئی۔کھدائی کاکام کوئی آسان کام نہیں تھا اورپھر یہ موسم بھی سردی کا تھا جس کی وجہ سے ان ایام میں صحابہ نے سخت تکالیف اٹھائیں۔اورچونکہ دوسرے کاروبار بالکل بند ہوگئے تھے اس لئے وہ لوگ جن کا کام روز کی روٹی روز کمانا تھا اورصحابہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی ان کو تو ان دنوں میں بھوک اورفاقہ کشی کی مصیبت بھی برداشت کرنی پڑی اورچونکہ صحابہ کے پاس نوکر اور غلام بھی نہ تھے اس لئے سب صحابہ کوخود اپنے ہاتھ سے کام کرنا پڑتا تھا۔ ۱؎
جودس دس کی ٹولیاں مقرر ہوئی تھیں انہوں نے اپنے کام کی اندرونی تقسیم اس طرح کی تھی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اورکچھ کھدی ہوئی مٹی اورپتھروں کوٹوکریوں میں بھر بھر کر اپنے کندھوں پر لاد کر باہر پھینکتے جاتے تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی بیشتر حصہ اپنے وقت کا خندق کے پاس گزارتے تھے اوربسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اورمٹی کی ڈھلائی کاکام کرتے تھے اوران کی طبیعتوں میں شگفتگی قائم رکھنے کے لئے بعض اوقات آپ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے تھے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سُرملا کر وہی شعر دہراتے تھے۔چنانچہ روایات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کااس موقع پر مندرجہ ذیل شعر پڑھنا خصوصیت کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃ
فَاغْفِرْ لِلْا نْصَارِ وَالْمُھَاجِرَۃ ۲؎
یعنی’’اے ہمارے مولا!اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔پس تو اپنے فضل سے ایسا سامان کر کہ انصار ومہاجرین کوآخرت کی زندگی میں تیری بخشش اورعطا نصیب ہوجاوے۔‘‘
اس شعر کے جواب میں بعض اوقات صحابہ یہ شعر پڑھتے تھے کہ ؎
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْامُحَّمَدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَابَقِیْنَااَبَدًا ۳؎
یعنی’’ہم وہ ہیں کہ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ ہم ہمیشہ جب تک کہ ہماری جان میں جان ہے خدا کے رستے میں جہاد کرتے رہیں گے۔‘‘
اورکبھی آپ اور صحابہ عبداللہ بن رواحہ انصاری کے یہ اشعار پڑھتے تھے
اَللّٰھُمَّ لَوْلَااَنْتَ مَا اھْتَدَیْنَا
فَانْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا
اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَاصَلَّیْنَا
َوثَبِّتَ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَیْنَا
اِذَا اَرَا دُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا ۱؎
یعنی’’اے ہمارے مولا!اگر تیرا فضل نہ ہوتا توہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اورہم صدقہ وخیرات کرنے اورتیری عبادت کرنے کے قابل نہ بنتے۔پس اے خدا!جب تو نے ہمیں اس حد تک پہنچایا ہے تو اب اس مصیبت کے وقت میں ہمارے دلوں کو سکینت عطا کر۔اوراگر دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمارے قدموں کومضبوط رکھ۔توجانتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خلاف ظلم اورتعدی کے رنگ میں حملہ آور ہو رہے ہیں اوران کی نیت ہمیں اپنے دین سے بے دین کرنا ہے مگر اے ہمارے خدا!تیرے فضل سے ہمارا یہ حال ہے کہ جب وہ ہمیں بے دین کرنے کے لئے کوئی تدبیر اختیار کرتے ہیں تو ہم ان کی تدبیر کو دور سے ہی ٹھکرا دیتے ہیں اوران کے فتنہ میں پڑنے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب آخری مصرعہ پرپہنچتے تھے تو اپنی آواز کو بلند فرمادیتے تھے۔ ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اٹھانے کی وجہ سے گردوغبارسے بالکل ڈھکا ہوا تھا۔ ۲؎ بھوک اور فاقہ کشی کا یہ عالم تھا کہ اورصحابیوں کاتو کیا کہنا ہے خود سرور کائناتؐ پر کئی کئی وقت کا فاقہ آجاتا تھا اور آپ اس کی تکلیف سے بچنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے پھرتے تھے۔ ۳؎
اسی تنگی اورشدت کی حالت میںخندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا اورصحابہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہورہے تھے۔ آخر تنگ آکر وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا۔اس وقت آپ کا بھی یہ حال تھا کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھامگر آپؐفوراً وہاں تشریف لے گئے اورایک کدال لے کر اللہ کانام لیتے ہوئے اس پتھر پرماری۔ ۱؎ لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلاجس پر آپ نے زور کے ساتھ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا۔ اور فرمایا کہ مجھے مملکت شام کی کُنجیاں دی گئی ہیں۔اورخدا کی قسم اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہوگیا۔دوسری دفعہ آپ نے پھر اللہ کا نام لے کرکدال چلائی اورپھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپ نے پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا۔اورفرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کُنجیاں دی گئی ہیںاورمدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہوگیا۔تیسری دفعہ آپؐ نے پھر کدال ماری جس کے نتیجہ میں پھر ایک شعلہ نکلا اورآپ نے پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُکہااورفرمایا اب مجھے یمن کی کُنجیاں دی گئی ہیں اورخدا کی قسم صنعاء کے دروازے مجھے اس وقت دکھائے جارہے ہیں۔اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہوکر اپنی جگہ سے گرگیااورایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر موقع پربلندآواز سے تکبیر کہی اورپھر بعد میں صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ نے یہ کشوف بیان فرمائے۔ ۲؎ اورمسلمان اس عارضی روک کودورکرکے پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ نظارے عالم کشف سے تعلق رکھتے تھے۔گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اورفراخیوں کے مناظردکھا کر صحابہ میں امیدوشگفتگی کی روح پیدا فرمائی مگر بظاہر حالات یہ وقت ایسا تنگی اورتکلیف کا وقت تھا کہ منافقین مدینہ نے ان وعدوں کوسن کر مسلمانوں پر پھبتیاں اڑائیں کہ گھر سے باہر قدم رکھنے کی طاقت نہیں اورقیصر وکسریٰ کی مملکتوں کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ ۳؎ مگر خدا کے علم میں یہ ساری نعمتیں مسلمانوں کے لئے مقدر ہوچکی تھیں۔چنانچہ یہ وعدے اپنے اپنے وقت پریعنی کچھ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اورزیادہ تر آپ کے خلفاء کے زمانہ میں پورے ہوکر مسلمانوں کے ازدیادایمان وامتنان کا باعث ہوئے۔
اسی موقع پر ایک مخلص صحابی جابر بن عبداللہ نے آپ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے کمزوری اور نقاہت کے آثاردیکھ کرآپ سے اپنے گھر جانے کی اجازت لی۔اورگھر آکر اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھوک کی شدت کی وجہ سے سخت تکلیف معلوم ہوتی ہے۔کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟اس نے کہا ہاں کچھ جَو کاآٹا ہے اورایک بکری ہے۔جابر کہتے ہیں کہ اس پر میں نے بکری کوذبح کیا اورآٹے کوگوندھا اورپھر اپنی بیوی سے کہا کہ تم کھانا تیار کرو۔میں رسول اللہ کی خدمت میں جاکر عرض کرتا ہوں کہ تشریف لے آئیں۔میری بیوی نے کہا دیکھنا مجھے ذلیل نہ کرنا۔کھانا تھوڑا ہے رسول اللہ کے ساتھ زیادہ لوگ نہ آئیں۔جابر کہتے ہیں کہ میں گیا اورمیں نے آہستگی کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے پاس کچھ گوشت اورجَو کا آٹا ہے جن کے پکانے کے لئے میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے چلیں اورکھانا تناول فرمائیں۔آپ نے فرمایا۔کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا کہ اس اس قدر ہے۔آپ نے فرمایابہت ہے۔پھرآپ نے اپنے اردگرد نگاہ ڈال کربلند آواز سے فرمایا’’اے انصارومہاجرین کی جماعت!چلو جابر نے ہماری دعوت کی ہے چل کر کھانا کھالو‘‘۔اس آواز پر کوئی ایک ہزارفاقہ مست صحابی آپ کے ساتھ ہولئے۔آپؐ نے جابر سے فرمایاکہ تم جلدی جلدی جائواوراپنی بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ آلوں ہنڈیا کو چولہے پر سے نہ اتارے اورنہ ہی روٹیاں پکانا شروع کرے۔جابر نے جلدی سے جاکر اپنی بیوی کواطلاع دی اوروہ بیچاری سخت گھبرائی کہ کھانا توصرف چند آدمیوں کے اندازہ کا ہے اورآرہے ہیں اتنے لوگ!اب کیا ہوگا۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ ہنڈیا اورآٹے کے برتن پر دعا فرمائی اور پھر فرمایااب روٹیاں پکانا شروع کردو۔اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ کھانا تقسیم کرنا شروع فرمادیا۔جابر روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی کھانے سے سب لوگ سیرہوکر اٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اسی طرح ابل رہی تھی۔اورآٹا اسی طرح پک رہا تھا۔ ۱؎
معجزہ کی حقیقت
یہ واقعہ بخاری کے علاوہ اوربھی بہت سی کتب حدیث اورکتب تاریخ میں بیان ہوا ہے اورچونکہ اصول شہادت وروایت کے لحاظ سے یہ واقعہ بالکل صحیح قرار پاتا ہے
اوراس کے تمام راوی ہرطرح قابل اعتماد ہیں اورابتدائی راوی اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ اس روایت میں ایک ایسی بات بیان کی گئی ہے جو عام اورمعروف قانون قدرت کے خلاف ہے،میں نے اسے اپنے اس تاریخی بیان میں درج کرنے میں تامل محسوس نہیں کیا۔دراصل اس قسم کے واقعات کے متعلق عقلاًاورشرعاًاصل قابل تحقیق باتیں چار ہوتی ہیں:
اوّل یہ کہ واقعہ کا وقوع معتبر اورچشم دیدشہادت سے پوری طرح ثابت ہو یعنی یہ کہ اس کے وقوع کے متعلق اصول شہادت کے لحاظ سے کوئی معقول شبہ نہ کیا جاسکے۔ ۱؎
دوسرے یہ کہ اس میںکوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جوخدا تعالیٰ کی کسی بیان کردہ سنت یااس کے کسی غیرمشروط وعدے یاکسی مسلّمہ صفت کے خلاف ہو۔ ۲؎ کیونکہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ خدا کی طرف سے ایسے معجزات وخوارق ظاہرہوں جن کی وجہ سے کسی نہ کسی رنگ میں خود اسی کی ذات پر اعتراض وارد ہوتا ہو۔
تیسرے یہ کہ اس کی نوعیت ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں کسی نہ کسی جہت سے انسانی علم اور انسانی قدرت سے کوئی بالا چیز پائی جاتی ہو تاکہ وہ اس بات کی علامت سمجھی جاسکے کہ اس کا منبع انسانی دل ودماغ نہیں ہے بلکہ کوئی بالاہستی ہے۔ ۳؎
چوتھے یہ کہ اس میں ایک حد تک اخفاء کارنگ بھی پایا جاتا ہو۔یعنی ایسی صورت نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اوراس کے مرسلین کی صداقت وغیرہ کے متعلق گویامشاہدہ کامرتبہ پیداکردے اور حقیقت ایسی کھل جائے کہ اس میں امکانی طور پر بھی کسی قسم کے شک پیدا کرنے کی گنجائش نہ رہے جیسا کہ مثلاًسورج کے وجود کے متعلق کسی انسان کے لئے شک کی گنجائش نہیں ہے۔کیونکہ اگر ایسے معجزات ظاہر ہوں تو اس سے ایمان کی غرض فوت ہوجاتی ہے اورایمان لانا کارثواب نہیں رہتا۔۴؎
آخر الذکر امر کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ معجزات میں جوا خفاء کاپردہ رکھا جاتا ہے اس کے مختلف مدارج ہوتے ہیں۔یعنی بعض معجزات میں اخفاء کاپردہ زیادہ ہوتا ہے اوربعض میں نسبتاً کم ہوتا ہے اوراس جہت سے معجزات کی قسمیں موٹے طورپر دوسمجھی جاسکتی ہیں۔
اوّل وہ معجزات جوغیر مومنین کی ہدایت اوران پر اتمام حجت کرنے کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں۔ ان میں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت سے پتہ لگتا ہے اورعقل بھی یہی چاہتی ہے اخفاء کا پردہ زیادہ رکھا جاتا ہے۔یعنی اس قسم کے معجزات میں صرف اس قدر روشنی دکھائی جاتی ہے جو محض ایک دھندلے طریق پر راستہ دکھا سکے۔ چنانچہ محققین نے لکھا ہے کہ عام طورپر معجزہ کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کچھ حصہ میں بادل بھی ہو۔اس قسم کی روشنی پیدا ہونے پر وہ لوگ جن کی آنکھوں کی بینائی کانور باقی ہوتا ہے راستہ دیکھ لیتے ہیں مگر وہ لوگ جن کی آنکھوں میں بینائی کا نور مرچکا ہوتا ہے یاشب کور ہوتے ہیںیاجنہوں نے تعصبات کی پٹی اپنی آنکھوں پرباندھی ہوتی ہے وہ راستہ کی طرف ہدایت نہیں پاتے۔۱؎ اس لئے باوجود اس قسم کے معجزات دکھائے جانے کے سعید اورشقی میں امتیاز قائم رہتا ہے اورایمان کا ثواب ضائع نہیں جاتا۔دوم وہ معجزات جو مومنین کے لئے دکھائے جاتے ہیں۔ جو قسم اول کے معجزات سے روشنی پاکر صحیح راستہ اختیار کرچکے ہوتے ہیں ۔ان لوگوں کے لئے طبعاًاخفاء کے پردے کم کردیئے جاتے ہیں۔اوربسا اوقات انہیں ایسے معجزات دکھائے جاتے ہیں جو حقیقی مشاہدہ کا رنگ تو نہیں رکھتے مگر ان میں اخفاء کا پردہ صورت اول کی نسبت بہت کم ہوتا ہے اوراس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تایہ لوگ ایمان وعرفان کے اعلیٰ مراتب کی طرف ترقی کرسکیں۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کی ابتداء غیب سے شروع ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان حسب استعداد صالحیت اور شہیدیت اور صدیقیت اورنبوت کے مراتب کی طرف ترقی کرتا جاتا ہے۔ ۲؎ اورلازماً جوں جوں ایمان کا مرتبہ ترقی کرتا ہے معجزات کی نوعیت بھی ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہے اور اخفاء کے پردے کم ہوتے جاتے ہیں۔ چنانچہ شہید تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے لئے اخفاء کے پردے کم کردیئے گئے ہوں۔
اب اگر اس اصولی قاعدہ کے ماتحت اوپر والے واقعہ کے متعلق غور کیا جاوے تو کوئی حقیقی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔کیونکہ نہ صرف یہ کہ اصول شہادت وروایت کے لحاظ سے اس واقعہ کا وقوع پوری طرح ثابت ہے اورکسی معقول شبہ کی گنجائش نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ خدا کی کسی بیان کردہ سنت یاکسی غیر مشروط وعدے یاکسی مسلمہ صفت کے بھی خلاف نہیں ہے اورپھراگرایک طرف اس میں انسانی طاقت سے بالا قدرت کا مظاہرہ پایاجاتا ہے تو دوسری طرف گواس وجہ سے کہ یہ واقعہ صرف مومنین کے سامنے وقوع میں آیا اور انہی کے ایمان کی زیادتی اس کی غرض وغایت تھی اس میں اخفاء کا پردہ کم نظر آتا ہے۔مگر بہرحال وہ ایسے مشاہدہ کامرتبہ پیدانہیں کرتا جس میں امکانی طورپر بھی کوئی جہت تاویل کی باقی نہ رہے اور نصف النہار کے سورج کی طرح حقیقت ظاہر ہوجاوے۔کیونکہ مثلاً امکانی طورپر ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی مخفی تغیر کے ماتحت انسانی معدہ پرکسی وقت ایسا غیر معمولی تصرف ہو کہ وہ اپنے معمول کی نسبت بہت تھوڑی غذا کھانے سے ہی شکم سیری محسوس کرنے لگے۔ وغیرذالک
اب رہا یہ امر کہ اس حدیث میں ایک ایسی بات بیان کی گئی ہے جوہمارے عام مشاہدہ اور معروف قانون قدرت کے خلاف ہے۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو قانون قدرت کی حد بندی ایک نہایت ہی مشکل چیز ہے بلکہ حقیقتاً ناممکن ہے اوریقینی اورقطعی طور پر یہ قرار دے دینا کہ یہ یہ بات قانون قدرت میں شامل ہے اوریہ یہ بات شامل نہیں ہے ایک بہت ہی بڑا دعویٰ ہے جس کی کوئی عقل مند شخص جرأت نہیں کرسکتا اور حق یہ ہے کہ جب ایک بات عملاً وقوع پذیر ہوجاوے اورسمجھدار اورصادق القول لوگوں کی ایک جماعت اس کی شاہد ہو تو پھر وہی بات قانون قدرت کا حصہ سمجھی جانی چاہئے اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ گوعام طور پر قانون قدرت اس اس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کسی ایسے مخفی تغیر کی وجہ سے جسے ہم ابھی تک نہیں سمجھ سکے اس میں اِس اِس رنگ میں استثناء بھی ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ چونکہ معجزات کی بڑی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ تاخدا تعالیٰ کی ذات وصفات اوراس کے مرسلین کی صداقت کے متعلق ایسے نشانات قائم کئے جائیں جن سے سعید لوگ حق کی طرف یقینی راہ پانے اورپھر اس راہ پر ترقی کرنے میں آسانی محسوس کریں اور دنیا کی تاریکیوں میں ان کے لئے روشنی کی چمک پیدا ہوجاوے۔ اس لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں معجزات میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جوانسانی قدرت وعلم سے بالا سمجھی جاسکے۔پس جہاں ایک طرف ایمان کی غرض وغایت کا یہ تقاضا ہے کہ کم از کم ابتداء میں مشاہدہ کا رنگ نہ پیدا ہو اور اخفاء کا پردہ قائم رہے وہاں دوسری طرف زندہ ایمان پیدا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اخفاء کے پردوں کوایک حد تک کم کرکے کبھی کبھی حقیقت کی جھلک بھی دکھا دی جاوے اور انہی دو نقطوں کی وسطی حالت کے مظاہرہ کا نام معجزہ ہے جسے اس کی حقیقت کوملحوظ رکھتے ہوئے قرآنی محاورہ میں آیت یعنی نشان اورعلامت کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔
دراصل خدا کی ہستی ایسی وراء الوراء ہے(اوراپنے مقام کے لحاظ سے وہ وراء الوراء ہی ہونی چاہئے)کہ اس پر ایمان لانے اوراسے پہچاننے اوراس کا قرب حاصل کرنے کے لئے محض ذہنی اور قیاسی استدلالات ہرگز انسان کے دل میں وہ یقین پیدا نہیں کرسکتے جوزندہ ایمان کی بنیاد بننے کے لئے ضروری ہے جس کے نتیجہ میں خدا کا وجود ایک محض خیالی فلسفے کا حصہ نہیں رہتا بلکہ اسی طرح محسوس ومشہود ہوجاتا ہے جیسا کہ اس دنیا کی چیزیں محسوس ومشہود ہیں گو نوعیت میں اس سے بہت مختلف۔اورانسان خدا کے ساتھ ایک ذاتی تعلق پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جو اس کی زندگی کا مقصداعلیٰ ہے۔پس ضروری تھا کہ خدا کی طرف سے ایسے سامان مہیاکئے جاتے جوانسان کے دل میں اس قسم کاایمان پیدا کرسکیں اورانہیں سامانوں کا ایک حصہ آیات ومعجزات وخوارق ہیں جوخدا کے انبیاء وصلحاء کے ذریعہ ہرزمانہ میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور جس کی مثالیں ہرقوم وملت میں پائی جاتی ہیں۔
اس جگہ اگر کسی شخص کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوکہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ عام معروف قانونِ قدرت کے خلاف کوئی امرظاہر ہو۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب یہ ایک امر واقع ہے کہ اس قسم کے امور ظاہر ہوتے رہتے ہیں اورکثیر التعداد عقل مند معتبر لوگوں کی شہادت اسے سچا ثابت کرتی ہے اور یہ شہادت ہرزمانہ اورہر قوم میں پائی جاتی ہے تو کوئی عقل مند اس قسم کے واقعات کی سچائی کے متعلق شبہ نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیںکم از کم ان لوگوں کے لئے جو فی الجملہ اس دنیا کاکوئی خالق مانتے ہیں اور اس بات کومحسوس کرتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود اپنے آپ سے نہیں ہے بلکہ ایک بالاہستی کی قدرت خلق سے عالم وجود میں آئی ہے۔اوریہ کہ وہی بالاہستی اب اس کارخانہ عالم کوچلا رہی ہے اورتمام خواص الاشیاء اورقوانین قدرت اسی وراء الوراء ہستی کے حکم کے ماتحت جاری ہیں اس بات کے سمجھنے میں کوئی روک نہیں ہوسکتی کہ وہی بالا وقادر ہستی اپنے عام قانون میں کسی خاص وقت میں کسی خاص مصلحت کے ماتحت کوئی تبدیلی یااستثناء بھی کرسکتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے ۱؎ یعنی’’اللہ اپنے حکم پر بھی غالب اورحکمران ہے مگر اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘یعنی یہ نہ سمجھو کہ ہم نے دنیا کاقانون بنادیا توبس اب ہمارے ہاتھ بندھ گئے بلکہ ہم اپنے قانون پر بھی حکمران اورغالب ہیں اورجب مناسب سمجھیں اس میں تبدیلی یا استثناء کرسکتے ہیں ۔اسی لئے محققین نے لکھا ہے کہ دراصل خدا کی طرف سے دنیا میں دوتقدیریں جاری ہیں ایک تویہی عام معروف قانون قدرت ہے جسے تقدیر عام کہتے ہیںاورجس کے ماتحت یہ کارخانہ عالم اپنے عام حالات میں جاری نظر آتا ہے۔دوسرے وہ خاص قانون ہے جو خاص اوقات میں خاص مصالح کے لئے جاری ہوتا ہے جسے تقدیرخاص کہتے ہیں جو آیات ومعجزات کے طریق پر رونما ہوتی ہے اورجس کے ذریعہ خدا کا وجود تقدیر عام کی نسبت بہت زیادہ روشن صورت میں انسان کے سامنے آجاتا ہے۔ ۲؎
مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آیات ومعجزات کا ظہور صرف تقدیر خاص کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے اور تقدیر عام کے ذریعہ سے نہیں ہوتا۔کیونکہ بسا اوقات آیات کا ظہور اس رنگ میںبھی ہوتا ہے کہ چند تقادیرعام غیرمعمولی طورپر ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں یاچند تقادیر عام ایک غیر معمولی ترتیب کے ساتھ رونما ہوتی ہیں اوراس غیر معمولی اجتماع یاغیر معمولی ترتیب کے نتیجہ میں ایک رنگ آیت ومعجزہ کاپیدا ہوجاتا ہے۔مگر یہ ایک وسیع اورنازک مضمون ہے جس کے تفصیلی بیان کی اس جگہ گنجائش نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ آیات ومعجزات کا سلسلہ برحق ہے اورہمیشہ سے چلا آیا ہے اورجابر بن عبداللہ کی دعوت کاواقعہ اسی مقدس سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور چونکہ یہ معجزہ صرف مومنین کودکھایا گیا تھااس لئے سنت اللہ کے ماتحت اس میں اخفاء کاپردہ نسبتاً کم تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ ایک منفرد واقعہ نہیں ہے بلکہ آپ کی زندگی میں اس قسم کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں جو صحیح روایات سے ثابت ہیں۔اورانشاء اللہ ان میں سے بعض آگے چل کر اپنے موقع پر بیان کئے جائیں گے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ معجزات کی غرض وغایت سے ظاہر ہے اورجیسا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے بھی ثبوت ملتا ہے معجزات میں رسول کی ذات صرف ایک ذریعہ اورواسطہ ہوتی ہے اوراصل متصرف ہستی خدا کی ہوتی ہے یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک رسول جب اور جس طرح چاہے اپنی مرضی سے کوئی معجزہ دکھاوے بلکہ معجزات کامعاملہ صرف خدا کی مرضی اورمصلحت پرموقوف ہوتا ہے۔وہ جب اورجس طرح چاہتا ہے اپنے کسی رسول کے ذریعہ سے معجزات کااظہار فرماتا ہے اورگورسول کی توجہ اوردعا معجزات کی جاذب اورمحرک ضرور ہوتی ہے مگرحکم خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی مخفی قدرت رسول کے اندر سے ہوکراپنا کام کرتی ہے۔اورجب خداکاحکم نہ ہو تو رسول کی ذاتی طاقت کوئی معجزہ پیدا نہیں کرسکتی۔اورظاہر ہے کہ خدا کا حکم تبھی ہوتا ہے جب کوئی حقیقی ضرورت اور حقیقی مصلحت اس کی متقاضی ہوتی ہے۔
اس جگہ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ چونکہ معجزات کے متعلق عموماًجھوٹی اوربناوٹی روایات یا مبالغہ آمیز باتیں بھی کثرت کے ساتھ مشہور ہوجایا کرتی ہیں۔اس لئے اس معاملہ میں روایات کے قبول کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔اورصرف ان روایات کو قبول کرنا چاہئے جو اصول روایت ودرایت کے مطابق صحیح ثابت ہوں۔اوران اصولی شرائط کے مطابق پوری اتریں جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں۔یعنی اصول شہادت کے لحاظ سے وہ قابل اعتماد ہوں وہ خدا کی کسی سنت یاوعدے یاصفت کے خلاف نہ ہوں۔ان میں انسانی علم اورانسانی قدرت سے کوئی بالاچیز پائی جاتی ہواوران میں اخفاء کا پردہ اس قدر کم نہ ہو کہ جو ایمان بالغیب کے اصول کے خلاف سمجھا جاسکے ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ غلط اوربناوٹی قصے صحیح تاریخ کاحصہ قرار پاکر حقیقت کوبالکل مستور کردیں گے اور دنیا میں معجزات وخوارق کاایک غلط مفہوم قائم ہوجائے گاجوبجائے ہدایت کاباعث ہونے کے ضلالت وگمراہی کاموجب بن جائے گا۔اس مختصر اورضمنی نوٹ کے بعد ہم اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔
غزوہ خندق کے بقیہ حالات
کم وبیش بیس ایام ۱؎ یاایک روایت کی رو سے چھ شبانہ روز ۲؎ کی مسلسل محنت سے یہ طویل خندق تکمیل کوپہنچی۔اور اس غیر معمولی
محنت ومشقت نے صحابہ کو بالکل نڈھال کردیا۔مگر ادھر یہ کام اختتام کو پہنچا اورادھر یہود اورمشرکین عرب کا لائو لشکر اپنی تعداد اورطاقت کے نشہ میں مخمور افق مدینہ میں نمودار ہوگیا۔سب سے پہلے ابو سفیان نے اُحد کی پہاڑی کی طرف رخ کیا ۔مگر اس جگہ کو ویران وسنسان پاکر وہ مدینہ کی اس سمت کوبڑھا جوشہر پر حملہ کرنے کے لئے موزوں تھی مگراس کے سامنے اب خندق کھودی گئی تھی۔جب کفار کالشکر اس جگہ پہنچا تو خندق کو اپنے رستہ میں حائل پاکر سب لوگ حیران وپریشان ہوگئے اوراس بات پر مجبور ہوئے کہ خندق کے پارکھلے میدان میں ڈیرے ڈال دیں۔ دوسری طرف لشکر کفار کی آمد آمد کی خبر پاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تین ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکلے اورخندق کے پاس پہنچ کر شہر اورخندق کے درمیان سلع پہاڑی کواپنے عقب میں رکھتے ہوئے ڈیرے ڈال دئے۔ ۳؎ اورچونکہ خندق زیادہ فراخ نہیں تھی اوربعض حصے یقینا ایسے تھے کہ مضبوط اورہوشیار سوار انہیں پھاند کر شہر کی طرف آسکتے تھے۔اورپھر مدینہ کے وہ اطراف جہاں خندق نہیں تھی اورصرف مکانات اورباغات اوربے ترتیب چٹانوں کی روک تھی ان کی حفاظت بھی ضروری تھی تاکہ دشمن اس طرف سے مکانوں کونقصان پہنچا کر یاکسی اورحکمت سے تھوڑے تھوڑے آدمیوں کی لائنوں میں ہوکر شہر پرحملہ آور نہ جاوے اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کومختلف دستوں میں منقسم کرکے خندق کے مختلف حصوں پر اورمدینہ کی دوسری اطراف میں مناسب جگہوں پرپہرے کی چوکیاں مقررفرمادیں اورتاکید فرمائی کہ دن ہویارات کسی وقت میں یہ پہرہ سست یاغافل نہ ہونے پائے۔ ۴؎ دوسری طرف جب کفار نے یہ دیکھا کہ بوجہ خندق کی روک کے کھلے میدان کی باقاعدہ لڑائی یاشہر پرعام دھاوے کا حملہ ناممکن ہوگئے ہیں توانہوں نے بھی محاصرہ کے رنگ میں مدینہ کاگھیرا ڈال لیا اورخندق کے کمزور حصوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع تلاش کرنے لگ گئے۔
اس کے علاوہ ابو سفیان نے یہ چال چلی کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی رئیس حیی بن اخطب کویہ ہدایت دی کہ وہ رات کی تاریکی کے پردے میں بنو قریظہ کے قلعہ کی طرف جاوے اوران کے رئیس کعب بن اسد کے ساتھ مل کر بنو قریظہ کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔ ۱؎ چنانچہ حیی بن اخطب موقع لگا کر کعب کے مکان پر پہنچا۔شروع شروع میں تو کعب نے اس کی بات سننے سے انکار کیا اور کہا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھ ہمارے عہدوپیمان ہیں اورمحمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کووفاداری کے ساتھ نبھایا ہے اس لئے میں اس سے غداری نہیں کرسکتا۔مگر حیی نے اسے ایسے سبز باغ دکھائے اوراسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا اوراپنے اس عہد کو کہ جب تک ہم اسلام کو مٹا نہ لیںگے مدینہ سے واپس نہیں جائیں گے اس شدّومدّ سے بیان کیا کہ بالآخر وہ راضی ہوگیا۔ ۲؎ اوراس طرح بنوقریظہ کی طاقت کاوزن بھی اس پلڑے کے وزن میں آکر شامل ہوگیا جوپہلے سے ہی بہت جھکا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوجب بنوقریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا توآپ نے پہلے تو دوتین دفعہ خفیہ خفیہ زبیربن العوام کودریافت حالات کے لئے بھیجا۔ ۳؎ اور پھرباضابطہ طور پر قبیلہ اوس وخزرج کے رئیس سعد بن معاذاورسعد بن عبادہ اوربعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اوران کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہوتو واپس آکر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا۔اورسعدین کی طرف سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اوراس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کربولے کہ’’جائو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلاآیا۔اورسعد بن معاذ اورسعد بن عبادہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوحالات سے اطلاع دی۔ ۴؎
اس وقت مدینہ کا مطلع ظاہری اسباب کے لحاظ سے سخت تاریک وتار تھا۔شہر کے چاروں طرف ہزارہا خونخوار دشمن ڈیرہ ڈالے پڑے تھے جوہر وقت اس تاک میں تھے کہ کوئی موقع ملے تو مسلمانوں پر حملہ آور ہوکر ان کو ملیا میٹ کردیں۔شہر میں مسلمانوں کے پہلو میں غدار بنوقریظہ تھے جن کے سینکڑوں مسلح نوجوان اپنی ذات میں ایک جری لشکر سے کم نہ تھے اورجو جس وقت چاہتے یاموقع پاتے عقب کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکتے تھے۔اورمسلمان خواتین اور بچے جوشہر میں تھے وہ تو گویا ہروقت ان کا شکار ہی تھے۔اس صورت حال نے جس کی حقیقت کسی سمجھ دار شخص پر مخفی نہیں رہ سکتی تھی کمزور مسلمانوں میں سخت پریشانی اورسراسیمگی پیدا کردی اورمنافق طبع لوگ تو برملا کہنے لگے کہ ۱؎ یعنی’’معلوم ہوتا ہے کہ خدا اوراس کے رسول کے وعدے مسلمانوں کی فتح وکامرانی کے متعلق یونہی جھوٹے ہی تھے۔‘‘بعض منافقین نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوہوکریہ کہنا شروع کیا کہ یارسول اللہ!شہر میںہمارے مکانات بالکل غیر محفوظ ہیں آپ اجازت دیں توہم اپنے گھروں میں ٹھہر کر ان کی حفاظت کریں۔ جس کے جواب میں خدائی وحی نازل ہوئی کہ ۲؎ یعنی ’’یہ غلط ہے کہ ان لوگوں کو اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا خیال ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ میدان کارزار سے بھاگنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘ مگر یہی وقت مخلص مسلمانوں کے ایمان کے اظہار کا تھا۔ چنانچہ قرآن فرماتا ہے ۳؎ ’’جب مومنوں نے کفار کے اس لائولشکر کودیکھا توانہوں نے کہا کہ یہ تو سب کچھ خدا اوراس کے رسول کے وعدوں کے مطابق ہے اور خدا اوررسول ضرور سچے ہیں۔پس اس حملہ سے بھی ان کے ایمان وتسلیم میں زیادتی ہی ہوئی۔مگر موقع کی نزاکت اورحالات کے خطرناک پہلو کا سب کو یکساں احساس تھا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۴؎ یعنی’’یاد کروجبکہ کفار کا لشکر تمہارے اوپراور تمہارے نیچے کی طرف سے ہجوم کرکے تم پر آگیا۔جبکہ گھبراہٹ میں تمہاری آنکھیں پتھرانے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اورتم لوگ(اپنے اپنے رنگ میں یعنی کوئی کسی رنگ میں اور کوئی کسی رنگ میں) خدا کے متعلق مختلف خیالات میں پڑ گئے۔وہ وقت واقعی مومنوں کے لئے ایک سخت امتحان کا وقت تھا اور مسلمانوں پر ایک نہایت شدیدزلزلہ واردہوا تھا۔‘‘
ایسے خطرناک وقت میں مسلمانوں کی قلیل جمعیت جن میں بعض کمزور طبیعت لوگ اور بعض منافق بھی شامل تھے کیا مقابلہ کرسکتی تھی۔ان کے پاس تو اتنے آدمی بھی نہ تھے کہ کمزور مواقع پر خاطر خواہ پہرے کا انتظام کرسکیں۔چنانچہ دن رات کی سخت ڈیوٹی نے مسلمانوں کو چُور کر رکھا تھا۔دوسری طرف بنو قریظہ کی غداری کی وجہ سے شہر کی گلی کوچوں کے پہرے کو زیادہ مضبوط کرنا بھی ضروری تھا تاکہ مستورات اوربچے محفوظ رہ سکیں۔کفار کے سپاہی مسلمانوں کو ہر رنگ میں پریشان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔کبھی وہ کسی کمزور جگہ پریورش کرکے جمع ہوجاتے اورمسلمان اس کی حفاظت کے لئے وہاں اکٹھے ہونے لگتے جس پر وہ فوراًرخ پلٹ کر کسی دوسرے موقع پرزور ڈال دیتے اور مسلمان بیچارے بھاگتے ہوئے وہاں پہنچتے۔ کبھی وہ ایک ہی وقت میں دو دوتین تین جگہوں پر دھاوا کر کے پہنچتے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جمعیت منتشر ہوکر ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی اوربعض اوقات حالات بہت نازک صورت اختیار کرلیتے اورقریب ہوتا کہ کسی کمزور موقعے سے فائدہ اٹھا کر لشکر کفار حدود شہر کے اندر داخل ہوجاوے۔ان دھاووںکا مقابلہ مسلمانوں کی طرف سے عموماً تیروں کے ذریعہ کیا جاتا تھامگر بعض اوقات کفار کے سپاہی یہ طریق اختیار کرتے کہ ایک دستہ تو مسلمانوں پر تیروں کی باڑ مار مار کرانہیں پیچھے رکھتا اوردوسرا دستہ یورش کرکے خندق کے کسی کمزور حصہ پر دھاوا کرکے آجاتا اوراسے کود کر عبور کرنا چاہتا۔ ۱؎ یہ طریق جنگ صبح سے لے کر شام تک بلکہ بعض اوقات رات کے حصوں میں بھی جاری رہتا تھا۔چنانچہ سرولیم میور اس جنگ کے دودن کے واقعات کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سپرد قلم کرتے ہیں:
’’مسلمانوں کے پہرے کی ہوشیاری اتحادیوں کی فوج کے حملوں کو روکے ہوئے تھی۔اتحادی فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ممکن ہوتو خندق پردھاوا کرکے اسے عبور کرجائیں اور اس غرض سے انہوں نے خندق کے ایک کمزور اور تنگ حصہ کو منتخب کرکے اس پر ایک عام دھاوا کردیا۔چنانچہ ان میں سے بعض جانباز سپاہی عکرمہ بن ابوجہل کی کمان کے ماتحت اپنے گھوڑوں کوایڑ لگاتے ہوئے خندق کے اس حصہ پر یورش کرکے آئے اوراپنے تیز گھوڑوں کو اُڑاتے ہوئے خندق کے اوپر سے کود کر مسلمانوں کے سامنے آگئے۔ادھر سے علیؓ اپنے ایک دستہ کو ساتھ لے کر ان کی طرف لپکے اوراس پارٹی نے بڑی ہوشیاری سے عکرمہ کے دستے کا چکرکاٹ کر ان کے پیچھے ہٹنے کا راستہ بند کردیا۔اس موقع پر عکرمہ کاایک جہاں دیدہ سپاہی عمروبن عبدوُدّ اپنی پارٹی سے آگے نکل کر انفرادی جنگ کا طالب ہوا۔حضرت علیؓفوراًاس کے مقابلہ میں نکلے اورتھوڑی دیر کے لئے یہ دونوں جنگجو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔پھرعمرو اپنے گھوڑے سے اترا اوراس کی کونچیں کاٹ کر اسے نیچے گرادیا اوراس کے بعد اس عزم کے ساتھ علیؓ کی طرف بڑھا کہ یاتو فتح پائے گا یامارا جائے گا۔ پھر دونوں آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اور ان کے قدموں کی گَرد نے ان کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کردیا،لیکن ابھی زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ اس گرد کے بادل میں سے اللہ اکبر کی گرج نکلی اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ علیؓ نے عمرو کومار لیا ہے۔ اس موقع پرمسلمانوں کی توجہ کو دوسری طرف مصروف پاکر عکرمہ اوراس کے ساتھی اپنے گھوڑوں کوایڑ لگا کر پھر دوسرے پارکود گئے۔سوائے نوفل کے جو کودنے کی کوشش میں گرگیا اورزبیر کے ہاتھ سے مارا گیا۔قریش نے عمرو کی لاش ۱؎ حاصل کرنے کے لئے بہت سا روپیہ مسلمانوں کودینا چاہا۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نفرت کے ساتھ اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور عمرو کی لاش اتحادیوں کے یونہی مفت حوالہ کردی۔
اس دن اس کے سوا اورکوئی کارروائی نہیں ہوئی،لیکن یہ رات بڑی تیاریوں میں گزری اوردوسرے دن صبح کومحمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے تمام اتحادی لشکر کو اپنے سامنے صف آرا پایا۔ اتحادیوں کے ہوشیاری کے حملوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کوہر وقت چوکس رہنا پڑتا تھا۔ کسی وقت تو وہ ایک عام دھاوے کی صورت بناکر حملہ آور ہونے لگتے اورکسی وقت مختلف دستوں میں تقسیم ہوکر ایک ہی وقت میں مختلف موقعوں پر زور ڈال دیتے اور پھر ایک جگہ سے ہٹ کر یکلخت دوسری جگہ پر جاکودتے اوربالآخر اپنی تمام طاقت جمع کرکے کمزور ترین مقام پر حملہ آور ہو جاتے اور تیروں کی خطرناک بوچھاڑ کی آڑ میں خندق کوعبورکرنے کی کوشش کرتے۔کئی دفعہ خالدبن ولید اورعمروبن العاص جیسے نامور لیڈروں نے شہر پرحملہ آور ہونے کے لئے اسی طرح زور شور سے دھاوا کیا۔اورایک دفعہ تو خود محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کا خیمہ بھی خطرہ کی حالت میں ہوگیا تھا لیکن مسلمانوں کے بہادارنہ مقابلہ اورتیروں کی بارش نے حملہ آوروں کوپسپا کردیا۔یہ حالت سارادن جاری رہی اور چونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی فوج تعداد میں ایسی قلیل تھی کہ شہر کی حفاظت کے واسطے بمشکل کافی ہوسکتی تھی اس لئے مسلمانوں کو یہ سارا دن مسلسل طور پر مصروف رہنا پڑا۔بلکہ رات پڑنے پر بھی خالد کے دستے نے اس خطرہ کوجاری رکھا اور مسلمان اپنی ڈیوٹی سے فارغ نہیں ہوسکے،لیکن دشمن کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔یعنی وہ اس بات پر قادر نہیں ہوسکا کہ کسی بڑی تعداد میں خندق کوعبور کرسکے۔اس جنگ میں مسلمانوں کے پانچ آدمی مارے گئے اور اسی دن سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس کوبھی ابن العرقہ کے تیر نے مہلک طورپر کلائی میں زخمی کیا۔اس کے مقابلہ میں اتحادیوں کے صرف تین آدمی قتل ہوئے۔اس دن کے مقابلہ کی سختی اورمسلسل مصروفیت کی وجہ سے مسلمان اپنی نمازیں بھی وقت پر ادا نہیں کرسکے۔چنانچہ جب رات کاایک حصہ گزرچکا اوردشمن کا بیشتر حصہ آرام کرنے کے لئے اپنے کیمپ کی طرف لوٹ گیا، اس وقت مسلمانوں نے جمع ہو کر سارے دن کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔اور اس وقت محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے کفار پرلعنت بھیجتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں نمازوں سے روکا ہے خدا ان کے پیٹوں اوران کی قبروں کوجہنم کی آگ سے بھرے۔‘‘ ۱؎
میور صاحب کے اس دلچسپ نوٹ میں جو یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اس دن مسلمانوں کی ساری نمازیں وقت پر ادا نہیں ہوسکیں یہ درست نہیں ہے بلکہ جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے بات صرف یہ ہوئی تھی کہ چونکہ اس وقت تک صلوٰۃ خوف مشروع نہیں ہوئی تھی اس لئے بوجہ مسلسل خطرے اورمصروفیت کے صرف ایک نماز یعنی عصر بے وقت ہوگئی تھی جو مغرب کے ساتھ ملاکر پڑھی گئی۔ ۲؎ اور بعض روایات کی رو سے صرف ظہروعصر کی نماز بے وقت ادا ہوئی تھی۔ ۳؎
علاوہ ازیں حضرت علیؓ اورعمرو بن عبدوُدّ کے مقابلہ کے متعلق میور صاحب کا بیان بہت مختصر ہے۔ تاریخ میں یہ لڑائی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے اوراس کے بعض حصے نہایت دلچسپ ہیں۔ دراصل عمروایک نہایت نامور شمشیرزن تھااوراپنی بہادری کی وجہ سے اکیلا ہی ایک ہزار سپاہی کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ ۱؎ اورچونکہ وہ بدر کے موقع پر خائب وخاسر ہوکر واپس گیا تھااس لئے اس کا سینہ مسلمانوں کے خلاف بغض وانتقام کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔اس نے میدان میں آتے ہی نہایت مغرورانہ لہجے میں مبارز طلبی کی۔ ۲؎ بعض صحابہ اس کے مقابلہ سے کتراتے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت علیؓ اس کے مقابلہ کے لئے آگے نکلے ۳؎ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ان کو عنایت فرمائی اوران کے واسطے دعا کی۔ ۴؎
حضرت علی ؓ نے آگے بڑھ کر عمرو سے کہا۔میں نے سنا ہے کہ تم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تم سے دوباتوں کی درخواست کرے گا تو تم ان میں سے ایک بات ضرور مان لوگے۔ عمرونے کہا۔’ہاں‘حضرت علی نے کہا’’توپھر میں پہلی بات تم سے یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ہوجائواور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومان کر خدائی انعامات کے وارث بنو۔‘‘عمرو نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی نے کہا۔اگر یہ بات منظور نہیں ہے توپھر آئومیرے ساتھ لڑنے کو تیار ہوجائو۔ ۵؎ اس پر عمرو ہنسنے لگ گیا۔اورکہنے لگا میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے یہ الفاظ کہہ سکتا ہے۔ ۶؎ پھر اس نے حضرت علی کانام ونسب پوچھا اوران کے بتانے پرکہنے لگا’’بھتیجے! تم ابھی بچے ہو۔میں تمہارا خون نہیں گرانا چاہتا اپنے بڑوں میں سے کسی کوبھیجو۔ ۷؎ حضرت علی نے کہاتم میرا خون نہیں گرانا چاہتے مگر مجھے تمہارا خون گرانے میں تامل نہیں ہے۔ ۸؎ اس پر عمروجوش میں اندھا ہوکر اپنے گھوڑے سے کود پڑا اوراس کی کونچیں کاٹ کراسے نیچے گرادیا۔اورپھر ایک آگ کے شعلہ کی طرح دیوانہ وار حضرت علی کی طرف بڑھا اوراس زور سے حضرت علی پرتلوار چلائی کہ وہ ان کی ڈھال کوقلم کرتی ہوئی ان کی پیشانی پر لگی۔اورانہیں کسی قدر زخمی کیا مگر ساتھ ہی حضرت علی نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایسا وار کیا کہ وہ اپنے آپ کو بچاتا رہ گیا اورحضرت علی کی تلوار اسے شانے پرسے کاٹتی ہوئی نیچے اترگئی اورعمرو تڑپتا ہوا گرا اورجان دے دی۔ ۹؎
لیکن اس جزوی اوروقتی غلبہ کاعام لڑائی پرکوئی اثر نہیں تھا۔اوریہ دن مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف اورپریشانی اورخطرے کے دن تھے اورجوں جوں یہ محاصرہ لمبا ہوتا جاتا تھا مسلمانوں کی طاقتِ مقابلہ لازماًکمزور ہوتی جاتی تھی اورگو ان کے دل ایمان واخلاص سے پرتھے مگر جسم جومادی قانون اسباب کے ماتحت چلتا ہے مضمحل ہوتا چلا جارہا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان حالات کودیکھا توآپؐ نے انصار کے رئوساء سعدبن معاذ اورسعد بن عبادہ کوبلا کر انہیں سارے حالات جتلائے اورمشورہ مانگا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اورساتھ ہی اپنی طرف سے یہ ذکر فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تویہ بھی ہوسکتا ہے کہ قبیلہ غطفان کومدینہ کے محاصل میں سے کچھ حصہ دینا کرکے اس جنگ کوٹال دیا جاوے۔سعد بن معاذ اورسعد بن عبادہ نے یک زبان ہوکر عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ!اگرآپ کواس بارہ میں کوئی خدائی وحی ہوئی ہے تو سرتسلیم خم ہے اس صورت میں آپ بے شک خوشی سے اس تجویز کے مطابق کارروائی فرمائیں۔‘‘آپ نے فرمایا’’نہیں نہیں مجھے اس معاملہ میں وحی کوئی نہیں ہوئی میں تو صرف آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے مشورہ کے طریق پر پوچھتا ہوں۔‘‘ سعدین نے جواب دیا کہ’’پھرہمارایہ مشورہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کوکچھ نہیںدیا تو اب مسلمان ہوکر کیوں دیں۔واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔‘‘ ۱؎ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوانصار ہی کی وجہ سے فکر تھاجومدینہ کے اصل باشندہ تھے اورغالباًاس مشورہ میں آپ کامقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کاپتہ لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں۔اوراگروہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائیں۔اس لئے آپ نے پوری خوشی کے ساتھ ان کے اس مشورہ کو قبول فرمایااورجنگ جاری رہی۔
جنگ کے دوران میں مسلسل مصروفیت اورپریشانی کی وجہ سے صحابہ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کئی کئی وقت کا فاقہ بھی ہوجاتا تھا۔چنانچہ ایک دن بعض صحابہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فاقہ کشی کی شکایت کی اور عرض کیا کہ ہم کئی دن سے اپنے پیٹوں پر پتھرباندھے پھرتے ہیں۔اس پر آپ نے اپنے شکم مبارک پر سے کپڑا ہٹا کر دکھایا تودوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ ۲؎ ان فاقہ کشیوں کے ساتھ جنگ کے دوسرے مصائب نے مل کر مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ حالات پیدا کررکھے تھے اورہروقت کے خطرے کے اندیشے کی وجہ سے جو اثر ان کے دل ودماغ اور اعصاب پر پڑتا تھا وہ مزید براں تھا۔ اور طبعاً اس مصیبت کاسب سے زیادہ بوجھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرتھا۔چنانچہ اُمّ سلمہ روایت کرتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں رہی ہوں،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے جس قدرسخت غزوہ خندق تھا ایسا کوئی اورغزوہ نہیں گزرا۔اس غزوہ میں آپ کوبے انتہا تکلیف اورپریشانی برداشت کرنی پڑی اور صحابہ کی جماعت کوبھی سخت مصائب کاسامنا ہوا۔اوریہ دن بھی سخت سردی اورمالی تنگی کے دن تھے۔ ۱؎
دوسری طرف شہر میں مستورات اوربچوں کایہ حال تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو عموماًشہر کے ایک خاص حصہ میں جوایک گونہ قلعہ کارنگ رکھتا تھا جمع کروادیا۔ ۲؎ مگران کی خاطر خواہ حفاظت کے لئے کافی مسلمان فارغ نہیں کئے جاسکتے تھے اورخصوصاًایسے اوقات میں جبکہ میدان جنگ میں دشمن کے حملوں کا زیادہ زور ہوتا تھا مسلمان خواتین اوربچے قریباًبالکل غیر محفوظ حالت میں رہ جاتے تھے اوران کی حفاظت کے لئے صرف ایسے مرد رہ جاتے تھے جو کسی وجہ سے میدان جنگ کے قابل نہ ہوں۔چنانچہ کسی ایسے ہی موقع سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں نے شہر کے اس حصہ پرحملہ آور ہوجانے کی تجویز کی جس میں مستورات اوربچے جمع تھے اورجاسوسی کی غرض سے انہوں نے اپنا ایک آدمی اپنے آگے آگے اس محلہ میں بھیجا۔اس وقت اتفاق سے عورتوں کے قریب صرف ایک صحابی حسان بن ثابت شاعر موجود تھے ۳؎ جو دل کی غیر معمولی کمزوری کی وجہ سے میدان جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھے۔عورتوں نے جب اس دشمن یہودی کوایسے مشتبہ حالات میں اپنے جائے قیام کے آس پاس چکر لگاتے دیکھا تو صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیںحسان سے کہا کہ یہ شخص معاند یہودی ہے اوریہاں جاسوسی اورشرارت کے لئے چکر لگا رہا ہے اسے قتل کردو تاکہ واپس جاکر وہ کسی فتنہ کاموجب نہ بنے۔مگر حسان کو اس کی ہمت نہ ہوئی جس پر حضرت صفیہ نے خود آگے نکل کر اس یہودی کامقابلہ کیا اوراسے مار کر گرا دیا۔ ۴؎ اور پھر انہی کی تجویز سے یہ قرار پایا کہ اس یہودی جاسوس کاسرکاٹ کرقلعہ کی اس سمت میں گرا دیا جاوے جہاںیہودی جمع تھے تاکہ یہودیوں کومسلمان عورتوں پرحملہ آور ہونے کی ہمت نہ پڑے اور وہ یہ سمجھیں کہ ان کی حفاظت کے لئے اس جگہ کافی مرد موجود ہیں۔چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اوراس موقع پر یہودی لوگ مرعوب ہوکر واپس چلے گئے۔ ۵؎
یہ وقت مسلمانوں پر ایک سخت مصیبت کا وقت تھا۔چنانچہ اس مصیبت کی سختی سے گھبرا کر چند صحابہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئے اورعرض کیا کہ یارسول اللہ!جو صورت حال ہے وہ آپ پرعیاں ہے،ہمارا توکلیجہ منہ کوآرہا ہے۔آپ خدا سے خاص طورپر دعا فرمائیںکہ وہ اس مصیبت کودور فرمائے اورہمیں بھی کوئی دعا سکھائیں جوہم اس موقع پر خدا سے مانگیں۔آپ نے انہیں تسلی دی اورفرمایا کہ تم خدا سے یہ دعا کیا کرو کہ وہ تمہاری کمزوریوں پرپردہ ڈالے اورتمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمہاری گھبراہٹ کودور فرمائے۔ ۱؎ اورپھر آپ نے خود یہ دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔ ۲؎ اور ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ آپ نے یہ دعا فرمائی کہ یَاصَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَامُجِیْبَ الْمُضْطَرِیْنَ اکْشِفْ ھَمِّیْ وَغَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَاِنَّکَ تَرٰی مَانَزَلَ بِیْ وَبِاَصْحَابِیْ۔ ۳؎ یعنی’’اے دنیا میں اپنے احکام کوجاری کرنے والے خدا!اوراے حساب لینے میں دیر نہ کرنے والے!تو اپنے فضل سے کفار کے ان احزاب کوپسپا فرما۔ اے میرے قادر!توضرور ایسا ہی کر اورکفار کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اوران کی طاقت پر زلزلہ واردکر۔اے تکلیف میں مبتلا لوگوں کی آہ وپکار کو سننے والے!اے مضطر لوگوں کی دعائوں کوقبول کرنے والے!توہمارے غم اورفکر اوربے چینی کودور فرما کیونکہ جومجھ پراورمیرے اصحاب پر اس وقت مصیبت وارد ہے وہ تیرے سامنے ہے۔‘‘
حسن اتفاق سے اسی وقت یا اس کے قریب قریب ایک شخص نعیم بن مسعود جو قبائل غطفان کی شاخ قبیلہ اشجع سے تعلق رکھتا تھا جواس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے تھے مدینہ میں پہنچ گیا۔ یہ شخص دل میں مسلمان ہوچکا تھا مگر ابھی تک کفار کو اس کے مسلمان ہونے کی اطلاع نہیں تھی۔اس حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے کمال ہوشیاری سے ایسی تدبیر اختیار کی جس سے کفار میں پھوٹ پیدا ہوگئی۔ ۴؎
سب سے پہلے نعیم بن مسعود قبیلہ بنوقریظہ کے پاس گیا۔اورچونکہ ان کے ساتھ اس کے پرانے تعلقات تھے وہ ان کے رئوساء سے مل کر کہنے لگا کہ میرے خیال میںتم نے یہ اچھا نہیں کیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بدعہدی کرکے قریش وغطفان کے ساتھ مل گئے ہو۔قریش وغطفان تو یہاں مدینہ میں صرف چند دن کے مہمان ہیں۔مگر تم لوگوں نے بہرحال یہاں رہنا ہے کیونکہ تمہارا یہ وطن ہے اوریہاں مسلمانوں کے ساتھ ہی تمہارا واسطہ پڑنا ہے۔اورتم یہ یاد رکھو کہ قریش وغیرہ یہاں سے جاتے ہوئے تمہاراکوئی خیال نہیں کریں گے اورتمہیں یونہی مسلمانوں کے رحم پر چھوڑ کرچلے جائیں گے۔پس تم کم از کم ایسا کرو کہ قریش وغطفان سے کہو کہ بطور یرغمال کے اپنے کچھ آدمی تمہارے حوالہ کردیں تاکہ تمہیں اطمینان رہے کہ تمہارے ساتھ کوئی غداری نہیں ہوگی۔رئوساء بنو قریظہ کونعیم کی یہ بات سمجھ آگئی اوروہ اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ قریش سے یرغمالوں کامطالبہ کریں تاکہ بعد میں انہیں کسی مصیبت کا سامنا نہ ہو۔اس کے بعد نعیم بن مسعود قریش کے رئوساء کی طرف گیا اورجاکر کہنے لگا کہ بنو قریظہ خائف ہیں کہ کہیں تمہارے چلے جانے کے بعد انہیں کسی مصیبت کاسامنا نہ ہو اس لئے وہ تمہارے اس اتحاد میں متزلزل ہورہے ہیں اوریہ ارادہ کررہے ہیں کہ بطور ضمانت کے تم سے چند یرغمالوں کامطالبہ کریں۔مگر تم ان کو ہرگز یرغمال نہ دینا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے غداری کرکے تمہارے یرغمال مسلمانوں کے حوالہ کردیں وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح اس نے اپنے قبیلہ غطفان کے پاس جاکر اسی قسم کی باتیں کیں۔ ۱؎ اب خدا کی طرف سے اتفاق ایسا ہوا کہ قریش وغطفان پہلے سے ہی یہ تجویز کررہے تھے کہ مسلمانوں پرپھر ایک متحدہ حملہ کیا جاوے اوریہ حملہ شہر کے چاروں اطراف میں ایک ہی وقت میں کیا جاوے تاکہ مسلمان اپنی قلت تعداد کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرسکیں اورکسی نہ کسی جگہ سے ان کی لائن ٹوٹ کرحملہ آوروں کوراستہ دے دے۔اس ارادے کے ماتحت انہوں نے بنو قریظہ کوکہلا بھیجا کہ ’’محاصرہ لمبا ہورہا ہے اورلوگ تنگ آرہے ہیں۔پس ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ سب قبائل مل کر کل کے دن ایک متحدہ حملہ مسلمانوں پرکریں اس لئے تم بھی کل کے حملہ کے واسطے تیار ہوجائو۔بنوقریظہ نے جن کے ساتھ نعیم بن مسعود کی پہلے سے بات ہوچکی تھی یہ جواب دیا کہ کل توہمارا سبت کادن ہے اس لئے ہم معذور ہیں اور ویسے بھی جب تک آپ لوگ اس ضمانت کے طورپر کہ آپ کی طرف سے بعد میں ہمارے ساتھ غداری نہیں ہوگی اپنے کچھ آدمی ہمارے حوالے نہ کردیں ہم اس حملہ میں شامل نہیں ہوسکتے۔جب قریش وغطفان کوبنو قریظہ کایہ جواب گیا تووہ حیران رہ گئے اورکہنے لگے کہ واقعی نعیم نے سچ کہا ہے کہ بنوقریظہ ہماری غداری پر تلے ہوئے ہیں۔دوسری طرف جب بنوقریظہ کو قریش وغطفان کایہ جواب گیا کہ ہم یرغمال نہیں دیتے تم نے مدد کوآنا ہے توویسے آئو۔توبنو قریظہ نے کہا کہ واقعی نعیم نے ہمیں ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ قریش وغطفان کی نیت بخیر نہیں ہے اوراس طرح نعیم کی حسن تدبیر سے کفار کے کیمپ میں انشقاق واختلاف کی صورت پیدا ہوگئی۔ ۱؎
یہ وہ تدبیر ہے جونعیم نے اختیار کی مگر نعیم کایہ کمال ہے کہ اس نے ایسے نازک مشن کی ادائیگی میں بھی حتی الوسع کوئی ایسی بات اپنے منہ سے نہیں نکالی جومعین طورپرکذب بیانی کے نام سے موسوم کی جاسکے۔ باقی لطائف الحیل کے طریق پرکوئی تدبیر اختیارکرنا یا کوئی ایسا دائو چلنا جس سے انسان دشمن کے شر سے محفوظ ہوسکے سو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بلکہ جنگی فن کاایک نہایت مفید حصہ ہے جس سے ظالم دشمن کوخائب وخاسر کرنے اوربے جاکشت وخون کے سلسلے کوروکنے میں بہت مدد لی جاسکتی ہے۔
ممکن ہے کہ نعیم بن مسعود کی اس امن پسند کوشش کانتیجہ ضائع چلاجاتا اورایک عارضی لغزش وتزلزل کے بعد کفار میں پھر اتحاد وثبات کی روح پیدا ہوجاتی مگر خدا کی طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ ان واقعات کے بعد رات کوایک نہایت سخت آندھی چلی۔ ۲؎ جس نے کفار کے وسیع کیمپ میں جو ایک کھلی جگہ میں واقع تھا ایک خطرناک طوفان بے تمیزی برپا کردیا۔خیمے اکھڑ گئے۔قناتوں کے پردے ٹوٹ ٹوٹ کراُڑگئے۔ہنڈیاں اُلٹ اُلٹ کر چولھوں میں گرگئیں۔ ۳؎ اورریت اورکنکر کی بارش نے لوگوں کے کانوں اورآنکھوں اورنتھنوں کوبھر دیا اورپھر سب سے بڑھ کر غضب یہ ہوا کہ وہ قومی آگیں جوعرب کے قدیم دستور کے مطابق رات کے وقت نہایت التزام کے ساتھ روشن رکھی جاتی تھیں اِدھر اُدھر خس وخاشاک کی طرح اڑ کربجھنے لگ گئیں۔۴؎ ان مناظر نے کفار کے وہم پرست قلوب کو جو پہلے ہی محاصرہ کے تکلیف دہ طول اوراتحادیوں کی باہمی بے اعتمادی کے تلخ تجربے سے متزلزل ہورہے تھے ایک ایسا دھکا لگایاکہ پھر وہ سنبھل نہ سکے۔اور صبح سے پہلے پہلے مدینہ کاافق لشکر کفار کے گردوغبار سے صاف ہوگیا۔
چنانچہ ایسا ہوا کہ جب اس آندھی کازور ہوا تو ابوسفیان نے اپنے آس پاس کے قریشی رئوساء کوبُلاکر کہا کہ ہماری مشکلات بہت بڑھ رہی ہیںاب یہاںزیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ ہم واپس چلے جائیں اورمیں تو بہرحال جاتا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے اپنے آدمیوں کو واپسی کا حکم دیا اور پھر اپنے اونٹ پر سوار ہو گیا مگر گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ اونٹ کے پاؤں کھولنے یاد نہ رہے اور سوار ہونے کے بعد اونٹ کے حرکت نہ کرنے سے یاد آیا کہ اونٹ کے پاؤں ابھی تک نہیں کھولے گئے ۱؎ اس وقت عکرمہ بن ابوجہل ابوسفیان کے پاس کھڑا تھا اس نے کسی قدرتلخی سے کہا کہ ابوسفیان!تم امیرالعسکر ہوکر لشکر کوچھوڑ کر بھاگے جارہے ہو اورتمہیں دوسروں کاخیال تک نہیں ہے۔ اس پر ابوسفیان شرمندہ ہوا اوراونٹ سے اتر کر کہنے لگا لو میں ابھی نہیںجاتا مگر تم لوگ جلدی تیاری کرو اور جس قدرجلد ممکن ہویہاں سے نکل چلو۔ ۲؎ چنانچہ لوگ جلد جلد تیاری میں لگ گئے اور ابوسفیان تھوڑی دیر کے بعد اپنے اونٹ پرسوار ہوکر واپس روانہ ہو گیا۔ اس وقت تک بنو غطفان اوردوسرے قبائل کو قریش کے اس فرار کا علم تک نہیںتھا۔مگر جب قریش کاکیمپ سرعت کے ساتھ خالی ہونا شروع ہوا تو دوسروں کوبھی اس کی اطلاع ہوئی جس پر انہوں نے بھی گھبرا کرکوچ کا اعلان کردیا۔۳؎ اوربنوقریظہ بھی اپنے قلعوں کے اندر چلے گئے۔۴؎ اوربنوقریظہ کے ساتھ بنونضیر کارئیس حیی بن اخطب بھی ان کے قلعوں میں چلاآیا۔ ۵؎ اوراس طرح صبح کی سفیدی نمودار ہونے سے پہلے پہلے سارا میدان خالی ہوگیا۔ اورایک فوری اورمحیر العقول تغیر کے طور پر مسلمان مفتوح ہوتے ہوتے فاتح بن گئے۔
اسی رات جبکہ کفار اس طرح خودبخود میدان جنگ سے بھاگ رہے تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد کے صحابہ کو مخاطب فرماکر آواز دی کہ تم میں سے کوئی ہے جواس وقت جائے اورلشکر کفار کا حال معلوم کرے؟ ۶؎ لیکن صحابہ روایت کرتے ہیں کہ اس وقت سردی کی اس قدر شدت تھی اورپھر خوف اور تھکان اوربھوک کایہ عالم تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے اندر یہ طاقت نہیں پاتا تھا کہ جواب میں کچھ عرض کرسکے یااپنی جگہ سے حرکت کرے۔ ۷؎ آخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود نام لے کر حذیفہ بن یمان کوبلایا۔جس پروہ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اٹھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ ۸؎ آپ نے کمال شفقت سے ان کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اوران کے لئے دعائے خیر فرمائی اورفرمایا تم بالکل ڈرو نہیں اوراطمینان رکھو انشاء اللہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ ۹؎ بس تم چپکے چپکے کفار کے کیمپ میں چلے جائو اورکسی سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرو۔اورنہ اپنے آپ کو ظاہر ہونے دو۔ ۱؎ حذیفہ کہتے ہیں کہ جب میں روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن میں سردی کا نام ونشان تک نہیں تھابلکہ میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک گرم حمام میں سے گزررہا ہوں۔ ۲؎ اورمیری گھبراہٹ بالکل جاتی رہی۔ ۳؎ اس وقت رات کی تاریکی پورے طور پر اپنی حکومت جمائے ہوئے تھی۔میں بالکل نڈر ہوکر مگر چپکے چپکے کفار کے کیمپ کے اندر پہنچ گیا۔اس وقت میں نے دیکھا کہ ابوسفیان ایک جگہ کھڑا ہواآگ سینک رہا تھا۔میں نے اسے دیکھ کر جھٹ اپنی تیر کمان سیدھی کرلی اورقریب تھا کہ میں اپنا تیر چلادیتا مگر پھر مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشاد یاد آگیا اورتیر چلانے سے رک گیااوراگر اس وقت میں تیر چلادیتا تو ابوسفیان اس قدر قریب تھا کہ وہ یقینا بچ نہ سکتا۔ ۴؎ اس وقت ابوسفیان اپنے آدمیوں کوواپسی کاحکم دے رہا تھا اورپھر وہ میرے سامنے ہی اونٹ پرسوار ہوگیا مگر گھبراہٹ کی وجہ سے اسے اپنے اونٹ کے پائوں تک کھولنے یاد نہیں رہے۔اس کے بعد میں واپس چلا آیا۔
جب میں اپنے کیمپ میں پہنچا۔اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ کے فارغ ہونے تک انتظارکیا اورپھرآپ کوسارے واقعہ کی اطلاع دی جس پرآپ نے خدا کاشکر ادا کیا اورفرمایا کہ یہ ہماری کسی کوشش یاطاقت کانتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے اپنے دم سے احزاب کوپسپا کردیا۔اس کے بعد کفار کے فرار ہونے کی خبر فوراً سارے مسلمان کیمپ میںمشہور ہوگئی۔ ۵؎ غالباً اسی موقع پرآپ نے یہ بھی فرمایا کہ اَلْآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا۔ ۶؎ یعنی’’آئندہ ہم قریش کے خلاف نکلیں گے مگر انہیں ہمارے خلاف نکلنے کی ہمت نہیں ہوگی۔‘‘
الغرض کم وبیش بیس دن کے محاصرہ کے بعد کفار کالشکر مدینہ سے بے نیل مرام واپس چلاگیااوربنو قریظہ جوان کی مدد کے لئے نکلے تھے وہ بھی اپنے قلعہ میں واپس آگئے۔۷؎ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔یعنی صرف پانچ چھ آدمی شہید ہوئے مگرقبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن معاذ کوایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہوسکے اوریہ نقصان مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔کفار کے لشکر میں سے صرف تین آدمی قتل ہوئے،لیکن اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکا لگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھہ بناکر نکلنے یامدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
لشکر کفار کے چلے جانے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کوواپسی کا حکم دیا اورمسلمان میدان کارزار سے اٹھ کر مدینہ میں داخل ہوگئے،لیکن ابھی آپ اپنے گھر میں پہنچے ہی تھے کہ بنو قریظہ کے ساتھ لڑائی کی صورت پیدا ہوگئی۔اوربغیر اس کے کہ آپ مدینہ میں ایک رات بھی آرام کی گزارسکیں آپ کوان کے مقابلہ کے لئے گھر سے نکلنا پڑا مگر اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
جنگ خندق یااحزاب جواس طرح غیر متوقع اورناگہانی طورپر اختتام کوپہنچی ایک نہایت ہی خطرناک جنگ تھی۔اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامی مصیبت اس وقت تک مسلمانوں پر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی اتنی بڑی مصیبت ان پر آئی۔یہ ایک خطرناک زلزلہ تھا جس نے اسلام کی عمارت کو جڑ سے ہلا دیااورجس کے مہیب مناظر کودیکھ کر مسلمانوں کی آنکھیں پتھراگئیں اور ان کے کلیجے منہ کوآنے لگ گئے اورکمزور لوگوں نے سمجھ لیا کہ بس اب خاتمہ ہے۔اوراس خطرناک زلزلے کے دھکے کم وبیش ایک ماہ تک ان پر آتے رہے اورکئی ہزار خونخوار درندوں نے ان کے گھروں کا محاصرہ کرکے ان کی زندگیوں کوتلخ کئے رکھا اوراس مصیبت کی تلخی کوبنوقریظہ کی غداری نے دگنا کردیا اور اس سارے فتنہ کی تہ میں بنونضیر کے وہ محسن کش یہودی تھے جن پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے احسان کر کے ان کو مدینہ سے امن وامان کے ساتھ نکل جانے کی اجازت دے دی تھی۔یہ انہی یہودی رئوساء کی اشتعال انگیزی تھی جس سے صحرائے عرب کے تمام نامور قبیلے عداوت اسلام کے نشے میں مخمور ہوکر مسلمانوں کوملیا میٹ کرنے کے لئے مدینہ پر جمع ہوگئے تھے اوریہ قطعی طورپر یقینی ہے کہ اگراس وقت ان وحشی درندوں کو شہر میں داخل ہوجانے کا موقع مل جاتا توایک واحد مسلمان بھی زندہ نہ بچتا اورکسی پاکباز مسلم خاتون کی عزت ان لوگوں کے ناپاک حملوں سے محفوظ نہ رہتی۔مگریہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اوراس کی قدرت کاغیبی ہاتھ تھا کہ اس ٹڈی دل کوبے نیل مرام واپس ہونا پڑا۔اورمسلمان شکروامتنان کے ساتھ امن واطمینان کاسانس لیتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آگئے۔مگر بنو قریظہ کا خطرہ ابھی تک اسی طرح قائم تھا۔یہ لوگ نہایت خطرناک صورت میں اپنی غداری کامظاہرہ کرکے اب امن وامان کے ساتھ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوگئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب کوئی شخص ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا،لیکن بہرحال ان کے فتنہ کا سدباب ضروری تھا کیونکہ ان کا وجود مدینہ میں مسلمانوں کے لئے ہرگز ایک مارِآستین سے کم نہ تھا۔اور دوسری طرف بنو نضیر کا تجربہ بتاتا تھا کہ یہ سانپ ایسا ہے کہ اسے گھر سے باہر نکالنا بھی ایسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ اسے اپنے گھر میں رہنے دینا۔

بنو قریظہ کی غداری اورمدینہ میں یہود کا خاتمہ
قانون شادی وطلاق
غزوہ بنوقریظہ ذوقعدہ ۵ہجری مطابق مارچ واپریل ۶۲۷ء
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوکر شہر
میں واپس تشریف لائے تو ابھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کوخدا کی طرف سے کشفی رنگ میں یہ بتایاگیا کہ جب تک بنو قریظہ کی غداری اوربغاوت کافیصلہ نہ ہوجاتا آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہئے تھے۔اورپھر آپ کویہ ہدایت دی گئی کہ آپ بلاتوقف بنوقریظہ کی طرف روانہ ہوجائیں۔اس پر آپ نے صحابہ میں عام اعلان کروادیا کہ سب لوگ بنوقریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوجائیں اورنماز عصروہیں پہنچ کر ادا کی جاوے۔ ۱؎ اورآپ نے حضرت علیؓ کوصحابہ کے ایک دستے کے ساتھ فوراًآگے روانہ کردیا۔
جب حضرت علیؓ وہاں پہنچے توبجائے اس کے کہ بنوقریظہ(جن میں غزوہ خندق کے بعد بنونضیر کا رئیس اعظم اورفتنہ کا بانی مبانی حیی بن اخطب بھی اپنے وعدہ کے مطابق آکر شامل ہوگیا تھا)اپنی غدّاری وبغاوت پراظہارندامت کرکے عفوورحم کے طالب بنتے انہوں نے برملا طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوگالیاں دیں۔ ۲؎ اورکمال بے حیائی اورکمینگی کے طریق پرازواج مطہرات کے متعلق بھی نہایت ناگوار بدزبانی کی۔ ۳؎
حضرت علیؓاوران کے دستے کے روانہ ہوچکنے کے تھوڑی دیر بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی مسلح ہوکر مدینہ سے روانہ ہوئے۔اس وقت آپؐایک گھوڑے پرسوار تھے اورصحابہ کی ایک بڑی جماعت آپ کے ساتھ تھی۔جب آپ بنوقریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو حضرت علیؓ نے جو تھوڑی دور تک آپ کے استقبال کے لئے واپس آگئے تھے آپ سے عرض کیا کہ’’یارسول اللہ!میرے خیال میں آپ کوخود آگے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے ہم لوگ انشاء اللہ کافی ہوں گے۔ ۱؎ آپ سمجھ گئے اورفرمانے لگے’’کیا بنو قریظہنے میرے متعلق کوئی بدزبانی کی ہے؟‘‘حضرت علی نے عرض کیاہاں یارسول اللہ!آپ نے فرمایا۔خیر ہے چلو قَدْ اُوْذِیَ مُوْسٰی بِاَکْثَرَمِنْ ھٰذَا۔ یعنی ’’موسیٰ ؑکو ان لوگوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکالیف پہنچی تھیں۔ ۲؎ غرض آپ آگے بڑھے اوربنو قریظہ کے ایک کنوئیں پرپہنچ کرڈیرہ ڈال دیا۔ ۳؎
شروع شروع میںتو یہودی لوگ سخت تمرّد اورغرور ظاہر کرتے رہے حتّٰی کہ چند مسلمان جو ان کے قلعہ کی دیوار کے پاس ہوکر ذراآرام کرنے بیٹھے تھے ان پرایک یہودی عورت بناتہؔ نامی نے قلعہ کے اوپر سے ایک بھاری پتھر پھینک کر ان میں سے ایک آدمی خلاد نامی کو شہید کردیا اورباقی مسلمان بچ گئے ۴؎ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیاان کو محاصرہ کی سختی اوراپنی بے بسی کا احساس ہونا شروع ہوا اور بالآخرانہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔اس مشورہ میں ان کے رئیس کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین تجاویز پیش کیںاورکہا کہ’’ان میں سے جوبھی تمہیں پسند ہو اسے اختیار کرلو۔پہلی تجویز یہ ہے،کہ ہم محمدؐپرایمان لاکر مسلمان ہوجائیں کیونکہ اگرسچ پوچھا جاوے تو محمدؐکی صداقت عیاں ہوچکی ہے اورہماری کتب میں بھی اس کی تصدیق پائی جاتی ہے اورجب ہم مسلمان ہوجائیں گے تولازماًیہ جنگ رک جائے گی۔‘‘مگرلوگوں نے اس تجویز کوسختی کے ساتھ رد کردیااورکہا ہم ایسا کبھی نہیں کریںگے۔ جس پر کعب نے کہا کہ’’پھرمیرا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں اور عورتوںکوقتل کردیں اورپھر عواقب کی طرف سے بے فکر ہوکرتلواریں لیں اورمیدان میں نکل جائیں اور پھر جو ہوسوہو۔‘‘لوگوں نے کہا یہ بھی ہمیں منظور نہیں کیونکہ بچوں اورعورتوں کومار کر ہماری زندگی کیا رہے گی۔کعب نے جواب دیا کہ’’اچھا اگریہ بھی منظور نہیں تومیری آخری تجویز یہ ہے کہ آج سبت کی رات ہے اورمحمدؐاوراس کے اصحاب آج اپنے آپ کو ہماری طرف سے امن میں سمجھتے ہوں گے پس آج رات ہم قلعہ سے نکل کر محمدؐاوراس کے ساتھیوں پر شب خون ماریں اوربعید نہیں کہ ان کی غفلت کی وجہ سے ہم انہیں مغلوب کرلیں۔‘‘مگر بنوقریظہ نے اس تجویز کے ماننے سے بھی انکار کردیااورکہا کہ آگے ہی ہماری قوم سبت کی بے حرمتی کی وجہ سے مسخ کی جاچکی ہے پس اب ہم مزید بے حرمتی کرکے اپنی تباہی کا خود بیج نہیں بوسکتے۔اس طرح کعب کی ساری تجاویز رد ہوگئیںاورمعاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ ۱؎
آخر جب بنوقریظہ محاصرہ کی سختی سے تنگ آگئے تو انہوں نے یہ تجویز کی کہ کسی ایسے مسلمان کو جو ان سے تعلقات رکھتا ہواوراپنی سادگی کی وجہ سے ان کے دائو میں آسکتا ہو اپنے قلعہ میں بلائیں اور اس سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاان کے متعلق کیا ارادہ ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں آئندہ طریق عمل تجویز کرسکیں۔چنانچہ انہوںنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایلچی روانہ کرکے یہ درخواست کی کہ ابولبابہ بن منذر انصاری کوان کے قلعہ میں بھجوایا جاوے تاکہ وہ اس سے مشورہ کرسکیں۔آپ نے ابولبابہ کو اجازت دی اوروہ ان کے قلعہ میں چلے گئے۔اب رئوساء بنوقریظہ نے یہ تجویز کی ہوئی تھی کہ جونہی کہ ابولبابہ قلعہ کے اندرداخل ہو سب یہودی عورتیں اوربچے روتے اورچلاتے ہوئے ان کے اردگرد جمع ہوجائیں اوراپنی مصیبت اورتکلیف کاان کے دل پر پورا پورا اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔چنانچہ ابولبابہ پر یہ دائو چل گیا اور وہ قلعہ میں جاتے ہی ان کی ’’مصیبت‘‘ کا شکار ہوگئے اوربنوقریظہ کے اس سوال پر کہ اے ابولبابہ توہمارا حال دیکھ رہا ہے کیا ہم محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے فیصلہ پراپنے قلعوں سے اترآویں۔ابولبابہ نے بے ساختہ جواب دیا’’ہاں‘‘مگر ساتھ ہی اپنے گلے پرہاتھ پھیر کراشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمہارے قتل کاحکم دیں گے۔حالانکہ یہ بالکل غلط تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قطعاًکوئی ایسا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ان کی مصیبت کے مظاہرہ سے متاثر ہوکر ابولبابہ کاخیال آلام ومصائب کی رو میں ایسا بہاکہ موت سے ورے ورے نہیں ٹھہرا اور ابولبابہ کی یہ غلط ہمدردی(جس کی وجہ سے وہ بعد میں خود بھی نادم ہوئے اوراس ندامت میں انہوں نے اپنے آپ کوجاکر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں معاف کرتے ہوئے خود جاکر انہیں کھولا) بنو قریظہکی تباہی کاباعث بن گئی اوروہ اس بات پر ضد کرکے جم گئے کہ ہم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلہ پر نہیں اتریں گے۔۲؎
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ جاری رہی اورآخر کم وبیش بیس دن کے محاصرہ کے بعد یہ بدبخت یہود ایک ایسے شخص کوحَکَم مان کر اپنے قلعوں سے اترنے پررضا مند ہوئے جوباوجود ان کاحلیف ہونے کے ان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے لئے اپنے دل میں کوئی رحم نہیں پاتا تھا اورجو گوعدل وانصاف کامجسمہ تھا مگر اس کے قلب میں رحمتہ للعالمین کی سی شفقت اوررأفت نہیں تھی۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قبیلہ اوس بنوقریظہ کاقدیم حلیف تھااوراس زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذتھے جوغزوہ خندق میں زخمی ہو کراب مسجد کے صحن میں زیرعلاج تھے۔اس قدیم جتھہ داری کاخیال کرتے ہوئے بنوقریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ کواپنا حَکَم مانتے ہیں۔جوفیصلہ بھی وہ ہمارے متعلق کریں وہ ہمیں منظور ہوگا۔‘‘ ۱؎
لیکن یہود میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جواپنے اس قومی فیصلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اوراپنے آپ کو مجرم یقین کرتے تھے اوردل میں اسلام کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے۔ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی جن کی تعداد تاریخی روایات میں تین بیان ہوئی ہے بطیب خاطر اسلام قبول کرکے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگئے۔۲؎ ایک اورشخص تھا وہ مسلمان تونہیں ہوا مگر وہ اپنی قوم کی غداری پر اس قدر شرمندہ تھا کہ جب بنوقریظہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی ٹھانی تووہ یہ کہتا ہوا کہ’’میری قوم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے سخت غداری کی ہے میں اس غداری میں شامل نہیں ہوسکتا۔‘‘مدینہ چھوڑ کر کہیں باہر چلاگیا تھا۔۳؎ مگر باقی قوم آخر تک اپنی ضد پر قائم رہی اورسعد کواپنا ثالث بنانے پر اصرار کیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اسے منظور فرمایا۔اوراس کے بعد آپ نے چند انصاری صحابیوں کو سعد کے لانے کے لئے روانہ فرمایا۔سعد سوار ہوکر آئے اورراستہ میں قبیلہ اوس کے بعض لوگوں نے ان سے اصرار کے ساتھ اور بار بار یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بنوقینقاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہسے رعایت کامعاملہ کرنا اورانہیں سخت سزانہ دینا۔سعد بن معاذ پہلے تو خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے رہے،لیکن جب ان کی طرف سے زیادہ اصرار ہونے لگا توسعد نے کہا کہ’’یہ وہ وقت ہے کہ سعد اس وقت حق وانصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرسکتا۔‘‘ ۴؎ یہ جواب سن کر لوگ خاموش ہوگئے۔
جب سعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب پہنچے توآپ نے صحابہ سے فرمایا قُوْمُوْااِلٰی سَیِّدِکُمْ یعنی’’اپنے رئیس کے لئے اٹھو اورسواری سے نیچے اترنے میں انہیں مدد دو۔‘‘جب سعد سواری سے اتر کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھے توآپ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’سعد! بنو قریظہ نے تمہیں حکم مانا ہے اوران کے متعلق جوتم فیصلہ کرو انہیں منظور ہوگا۔‘‘ ۱؎ اس پر سعد نے اپنے قبیلے اوس کے لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کہا عَلَیْکُمْ بِذَالِکَ عَھْدُ اللّٰہِ وَمِیْثَاقُہٗ اِنَّ الْحُکْمَ فِیْھِمْ بِمَا حَکَمْتُ۔ ’’کیاتم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ پختہ عہد کرتے ہو کہ تم بہرحال اس فیصلہ پر عمل کرنے کے پابند ہوگے جو میں بنو قریظہ کے متعلق کروں؟‘‘لوگوں نے کہا ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں۔پھر سعد نے اس جہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کہا۔وَعَلٰی مَنْ ھٰھُنَا۔یعنی’’وہ صاحب جویہاں تشریف رکھتے ہیں کیا وہ بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بہرحال میرے فیصلہ کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔‘‘ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں وعدہ کرتا ہوں۔ ۳؎
اس عہدوپیمان کے بعد سعد نے اپنا فیصلہ سنایا جویہ تھا کہ’’بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجولوگ قتل کردئے جائیں اوران کی عورتیں اوربچے قید کرلئے جائیں اوران کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دئے جائیں۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایا۔لَقَدْ حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ۔ ۴؎ یعنی’’تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے۔‘‘جوٹل نہیں سکتی اوران الفاظ سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ بنوقریظہ کے متعلق یہ فیصلہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ اس میں صاف طورپر خدائی تصرف کام کرتا ہوا نظرآتا ہے اوراس لئے آپ کاجذبہ رحم اسے روک نہیں سکتااوریہ واقعی درست تھا کیونکہ بنوقریظہ کاابولبابہ کواپنے مشورہ کے لئے بلانا اورابولبابہ کے منہ سے ایک ایسی بات نکل جانا جوسراسر بے بنیاد تھی اورپھر بنوقریظہ کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوحَکَم ماننے سے انکار کرنا اور اس خیال سے کہ قبیلہ اوس کے لوگ ہمارے حلیف ہیں اورہم سے رعایت کامعاملہ کریں گے سعد بن معاذ رئیس اوس کواپناحَکَم مقرر کرنا۔۔پھر سعد کاحق وانصاف کے رستے میں اس قدر پختہ ہوجانا کہ عصبیت اورجتھہ داری کااحساس دل سے بالکل محوہوجاوے اوربالآخر سعد کااپنے فیصلہ کے اعلان سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کا پختہ عہد لے لینا کہ بہرحال اس فیصلہ کے مطابق عمل ہوگا۔یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہوسکتیں اوریقینا اس کی تہ میں خدائی تقدیر اپنا کام کررہی تھی اوریہ فیصلہ خدا کا تھا نہ کہ سعد کا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنوقریظہ کی بدعہدی اورغداری اور بغاوت اورفتنہ وفساد اورقتل وخونریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ ان کے جنگجولوگوں کو دنیا سے مٹا دیا جاوے۔ چنانچہ ابتدائً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس غزوہ کے متعلق غیبی تحریک ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی۔مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسول کے ذریعہ سے یہ فیصلہ جاری ہو اوراس لئے اس نے نہایت پیچ درپیچ غیبی تصرفات سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبالکل الگ رکھااورسعد بن معاذ کے ذریعہ اس فیصلہ کا اعلان کروایا اور فیصلہ بھی ایسے رنگ میں کروایا کہ اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپ بہرحال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے۔اورپھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپ کی ذات پر نہیں پڑتا تھابلکہ تمام مسلمانوں پر پڑتا تھا اس لئے آپ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کیسی ہی عفوورحم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں یہی خدائی تصرف تھاجس کی طاقت سے متاثر ہوکر آپ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے کہ قَدْحَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ یعنی’’اے سعد!تمہارا یہ فیصلہ توخدائی تقدیر معلوم ہوتی ہے‘‘جس کے بدلنے کی کسی کو طاقت نہیں۔
یہ الفاظ کہہ کر آپ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اورشہر کی طرف چلے آئے اوراس وقت آپ کا دل اس خیال سے دردمند ہورہا تھا کہ ایک قوم جس کے ایمان لانے کی آپ کے دل میں بڑی خواہش تھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ کر خدائی قہروعذاب کا نشانہ بن رہی ہے اورغالباًاسی موقع پر آپ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ لَوْاٰمَنَ بِیْ عَشَرَۃٌ مِنَ الْیَھُوْدِ وَلَآمَنَتْ بِیَ الْیَھُوْدُ یعنی ’’اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی یعنی دس بارسوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تومیں خدا سے امید رکھتا تھا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی۔‘‘اورخدائی عذاب سے بچ جاتی۔ ۱ ؎
وہاں سے اٹھتے ہوئے آپ نے یہ حکم دیا کہ بنو قریظہ کے مردوں اورعورتوں اوربچوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا جاوے۔چنانچہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مدینہ میں لایا گیا اورشہر میں دو الگ الگ مکانات میں جمع کردیا گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت صحابہ نے(جن میں سے غالباًکئی لوگ خود بھوکے رہے ہوں گے)بنوقریظہکے کھانے کے لئے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے۔ ۱؎
دوسرے دن صبح کو سعد بن معاذ کے فیصلہ کا اجرا ہونا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے چند مستعد آدمی اس کام کی سرانجام دہی کے لئے مقرر فرمادئے اورخود بھی قریب ہی ایک جگہ میں تشریف فرما ہوگئے۔ ۲؎ تاکہ اگر فیصلہ کے اجرا کے دوران میں کوئی بات ایسی پیدا ہو جس میں آپ کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپ بلاتوقف ہدایت دے سکیں۔نیز یہ کہ اگر کسی مجرم کے متعلق کسی شخص کی طرف سے رحم کی اپیل ہوتو اس میں آپ فوراً فیصلہ صادر فرماسکیں۔کیونکہ گو سعد کے فیصلہ کی اپیل عدالتی رنگ میں آپ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یاصدر جمہوریت کی حیثیت میں آپ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بنا پر رحم کی اپیل ضرور سن سکتے تھے۔آپ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ مجرموں کوایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے۔یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس موجود نہ ہوں۔چنانچہ ایک ایک مجرم کوالگ الگ لایا گیا۔ ۳؎ اوربموجب فیصلہ سعد بن معاذ قتل کیا گیا۔
جب حیی بن اخطب رئیس بنو نضیر آیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ ’’اے محمدمجھے یہ افسوس نہیں ہے کہ میں نے تمہاری مخالفت کیوں کی لیکن بات یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑتا ہے خدابھی اسے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘پھر لوگوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا’’خدا کے حکم کے آگے کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ اسی کا حکم اوراسی کی تقدیر ہے۔‘‘ ۴؎ جب کعب بن اسد رئیس قریظہ کومیدان قتل میں لایا گیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اشارۃً مسلمان ہوجانے کی تحریک کی۔اس نے کہا ’’اے ابوالقاسم! میں مسلمان توہوجاتا مگر لوگ کہیں گے موت سے ڈر گیا۔پس مجھے یہودی مذہب پر ہی مرنے دو۔‘‘ ۵؎
ایک شخص زبیر بن باطیارئوسائے قریظہ میںسے تھا۔اس نے ایک مسلمان ثابت بن قیس نامی پر کسی زمانہ میں کوئی احسان کیا تھا۔ثابت نے اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سفارش کی کہ اسے چھوڑ دیا جاوے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’بہت اچھا!اسے چھوڑ دو۔‘‘ثابت نے جاکر زبیرکوخوشخبری دی کہ تجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری سفارش پر چھوڑ دیا ہے۔زبیر نے کہا میرے بیوی بچے توقید میں ہیں میں قتل سے بچ کر کیا کروں گا۔ثابت پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گیا اورکہا کہ زبیر یوں کہتا ہے۔آپؐ نے فرمایا ’’اس کے بیوی بچوں کوبھی آزاد کردو۔‘‘ثابت نے جاکر زبیر کو پھر خوشخبری دی۔جس پر اس نے کہا میرا مال تو مسلمانوں کے قبضہ میں جاچکا ہے میں صرف بیوی بچوں کو لے کر کیاکروں گا۔ثابت نے پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا اورآپ نے زبیر کے مال کے بھی واپس دئے جانے کا حکم دے دیا۔اب ثابت بہت خوش خوش زبیر کے پاس گیا کہ لواب تمہارا مال بھی تمہیں واپس مل جائے گا۔اس نے کہایہ بتائو کہ ہمارے سردار کعب بن اسد اور یہودان عرب کے رئیس حیی بن اخطب کاکیا حال ہے۔ثابت نے کہا کہ وہ تو قتل کئے جاچکے۔اس نے کہاجب یہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر میں نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے۔چنانچہ مقتل میں گیا اورتلوار کے سامنے اپنی گردن رکھ دی۔ ۱؎
ایک اور یہودی رفاعہ نامی تھا اس نے ایک رحم دل مسلمان خاتون کی منت سماجت کرکے اسے اپنی سفارش میں کھڑا کرلیا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مسلمان خاتون کی سفارش پر رفاعہ کوبھی معاف فرمادیا۔ ۲؎ غرض اس وقت جس شخص کی بھی سفارش آپؐکے پاس کی گئی آپ نے اسے فوراًمعاف کردیا جواس بات کی دلیل ہے کہ آپؐسعدؓ کے فیصلہ کی وجہ سے مجبور تھے ورنہ آپ کا قلبی میلان ان کے قتل کئے جانے کی طرف نہیں تھا۔
مقتولین میں ایک یہودی عورت بھی تھی۔جس نے محاصرہ کے وقت قلعہ پر سے ایک پتھر گراکر ایک مسلمان کو شہید کیا تھا۔پس چونکہ اس نے اس باغیانہ جنگ میں عملی حصہ لیا تھا اور سعدؓ کا یہ فیصلہ تھا کہ جنگ میں حصہ لینے والوں کو قتل کیا جاوے۔۳؎ اورچونکہ اس عورت کی طرف سے اپنی غداری اور بغاوت اورفعل قتل کے متعلق اظہار ندامت بھی نہیں ہوا اورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںکوئی رحم کی اپیل ہوئی اس لئے اسے بھی سعدؓکے حکم کے مطابق مقتل میں لاکر قتل کیا گیا۔۴؎ غرض اس طرح کم وبیش چار سوآدمی اس دن سعدؓ کے فیصلہ کے مطابق قتل کئے گئے۔ ۵؎ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دے کران مقتولین کو اپنے انتظام میں دفن کروادیا۔
بچے اور عورتیں جو سعد کے فیصلہ کے مطابق قید کرلئے گئے تھے ان کے متعلق بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو نجد کی طرف بھجوادیا تھاجہاں بعض نجدی قبائل نے ان کا فدیہ ادا کرکے انہیں چھڑا لیا تھا اوراس رقم سے مسلمانوں نے اپنی جنگی ضروریات کے لئے گھوڑے اورہتھیار خریدے تھے۔ ۱؎ اگرایسا ہوا ہو تو کوئی بعیدنہیں کیونکہ نجدی قبائل اوربنوقریظہ آپس میں حلیف تھے اور غزوہ قریظہ سے صرف چنددن قبل ہی وہ غزوۂ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف اکٹھے لڑ چکے تھے اوردراصل اہل نجدہی کی انگیخت پر بنوقریظہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بغاوت کاجھنڈا بلند کیا تھا۔پس اگر نجدوالوں نے اپنے حلیف بنوقریظہ کے قیدیوں کومسلمانوں کے ہاتھ سے چھڑا لیا ہو تو جائے تعجب نہیں۔ لیکن صحیح روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ قیدی مدینہ میں ہی رہے تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں حسب دستور مختلف صحابیوں کی نگرانی میں تقسیم فرمادیا تھا۔ ۲؎ اورپھر ان میں سے بعض نے اپنا فدیہ اداکرکے رہائی حاصل کرلی تھی۔ ۳؎ اوربعض کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یونہی بطوراحسان کے چھوڑ دیا تھا۔ ۴؎ اورپھر یہ لوگ بعد میں آہستہ آہستہ بطیب خاطر خود مسلمان ہوگئے چنانچہ ان میں سے عطیہ قرظی اور عبدالرحمن بن زبیر بن باطیا اورکعب بن سلیم اورمحمد بن کعب کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں اور یہ سب مسلمان ہوگئے تھے اور ان میںمؤخر الذکر شخص توایک بڑے پایہ کا مسلمان گزرا ہے۔ ۵؎
ریحانہ کاغلط واقعہ
بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ بنوقریظہ کے قیدیوں میں ایک عورت ریحانہ تھی جسے آنحضرتؐ نے لونڈی کے طورپر اپنے پاس رکھ لیا تھا اوراسی روایت کی بنا پر
سرولیم میور نے اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف نہایت دلآزار طعن کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔اول توصحیح بخاری کی محولہ بالا روایت ۶؎ جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کے قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم فرمادیا تھا اس روایت کوغلط ثابت کرتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی قیدی عورت اپنے گھر کے لئے الگ کرلی تھی توطبعاً اس موقع پر بخاری کی روایت میں اس کا ذکر ہونا چاہئے تھامگربخاری میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دوسری صحیح روایات سے معین طور پر ثابت ہے کہ ریحانہ ان قیدیوں میں سے تھی جنہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بطور احسان کے چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ریحانہ مدینہ سے رخصت ہوکر اپنے میکے کے خاندان (بنونضیر)میں چلی گئی تھی اور پھر وہیں رہی اورعلامہ ابن حجر نے جو اسلام کے چوٹی کے محققین میںسے ہیں اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ ۱؎ لیکن اگر یہ تسلیم بھی کیا جاوے کہ ریحانہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا تو تب بھی یقینا وہ آپ کی بیوی تھی نہ کہ لونڈی۔چنانچہ جن مؤرخین نے ریحانہ کے متعلق یہ روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیاتھا ان میں سے اکثر نے ساتھ ہی یہ صراحت کی ہے کہ آپ نے اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی تھی۔چنانچہ ابن سعد نے ایک روایت خود ریحانہ کی زبانی نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کردیا تھا اورپھر میرے مسلمان ہوجانے پر میرے ساتھ شادی فرمائی تھی اورمیرا مہربارہ اوقیہ مقرر ہوا تھااورابن سعد نے اس روایت کے مقابلہ میں اس دوسری روایت کو جس پر سرولیم میور نے بنیاد رکھی ہے صراحت کے ساتھ غلط اورخلاف واقعہ قرار دیا ہے ۔اور لکھا ہے کہ یہی اہل علم کی تحقیق ہے۔ ۲؎
الغرض اوّل تو جیسا کہ بخاری کی روایت سے استدلال ہوتاہے اوراصابہ میں تصریح کی گئی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ریحانہ کواپنی سرپرستی میں لیا ہی نہیں بلکہ اسے آزاد کردیا تھا۔جس کے بعد وہ اپنے خاندان میں جاکر آباد ہوگئی تھی۔دوسرے اگر اس روایت کو تسلیم بھی کیا جاوے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا توتب بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرمائی تھی اوراسے لونڈی کے طورپر نہیں رکھا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ریحانہ کے نام اورحسب نسب اورقبیلہ وغیرہ کے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف ہے ۳؎ کہ اس کے وجود ہی کے متعلق شبہ کرنا غالباًغیرمعقول نہیں سمجھا جا سکتا۔خصوصاًجبکہ اس بات کو مدنظر رکھا جاوے کہ اسے ایک ایسے شخص کی بیوی کہا جاتا ہے جو دنیا میں یقینا سب سے زیادہ تاریخی شخص ہے واللہ اعلم۔
بنو قریظہ کا واقعہ اور غیر مسلم مؤرخین
بنوقریظہکے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نے نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے
خلاف حملے کئے ہیں اوران کم وبیش چارسویہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپ کوایک نعوذ باللہ ظالم وسفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا ہے اس اعتراض کی بنا محض مذہبی تعصب پر واقع ہے جس سے جہاں تک کم از کم اسلام اوربانی ٔاسلام کا تعلق ہے بہت سے مغربی روشنی میں تربیب یافتہ مؤرخ بھی آزاد نہیں ہوسکے۔
اس اعتراض کے جواب میں اوّل تویہ بات رکھنی چاہئے کہ بنوقریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعدؓبن معاذ کافیصلہ تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاہرگز نہیںتھا۔اورجب وہ آپ کافیصلہ ہی نہیں تھا تو اس کی وجہ سے آپ پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔دوم یہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہرگز غلط اورظالمانہ نہیں تھاجیسا کہ ابھی ثابت کیا جائے گا۔سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعدؓ نے فیصلہ کے اعلان سے قبل آپ سے لیا تھا آپ اس بات کے پابند تھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چہارم یہ کہ جب خود مجرموں نے اس فیصلہ کوقبول کیا اوراس پر اعتراض نہیں اٹھایا اوراسے اپنے لئے ایک خدائی تقدیر سمجھا جیسا کہ حُییّبن اخطب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے جواس نے قتل کئے جانے کے وقت کہے تو اس صورت میں آپ کا یہ کام نہیں تھا کہ خواہ نخواہ اس میں دخل دینے کے لئے کھڑے ہوجاتے۔
سعدؓ کے فیصلہ کے بعد اس معاملہ کے ساتھ آپ کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلہ کو بصورت احسن جاری فرماویں اوریہ بتایا جاچکا ہے کہ آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایاکہ جو رحمت وشفقت کابہترین نمونہ سمجھا جاسکتا ہے۔یعنی جب تک تو یہ لوگ فیصلہ کے اجرا سے قبل قیدمیں رہے آپ نے ان کی رہائش اورخوراک کابہتر سے بہتر انتظام فرمایااورجب ان پر سعدؓ کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا توآپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری کیا جو مجرموں کے لئے کم سے کم موجب تکلیف تھا۔یعنی اول تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپ نے یہ حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسرامجرم سامنے نہ ہو۔بلکہ تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ جن لوگوں کو مقتل میں لایا جاتا تھا ان کو اس وقت تک علم نہیں ہوتا تھاکہ ہم کہاں جارہے ہیں جب تک وہ عین مقتل میں نہ پہنچ جاتے تھے۔ ۱؎ اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق بھی آپ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپ نے اسے فوراً قبول کرلیا اورنہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی کی بلکہ ان کے بیوی بچوں اوراموال وغیرہ کے متعلق بھی حکم دے دیا کہ انہیں واپس دئے جائیں۔اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت وشفقت کاسلوک کیا ہوسکتا ہے؟پس نہ صرف یہ کہ بنوقریظہکے واقعہ کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرقطعاًکوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔بلکہ حق یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ کے اخلاق فاضلہ اورحسن انتظام اورآپ کے فطری رحم وکرم کاایک نہایت بین ثبوت ہے۔
اب رہا اصل فیصلہ کاسوال۔سواس کے متعلق بھی ہم بلاتأ مّل کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہرگز کسی قسم کے ظلم وتعدّی کا دخل نہیں تھا بلکہ وہ عین عدل وانصاف پر مبنی تھا۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ بنوقریظہ کاجرم کیا تھااوروہ جرم کن حالات میں کیا گیا۔سوتاریخ سے پتا لگتا ہے کہ جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے یعنی بنوقینقاع،قبیلہ بنونضیر اورقبیلہ بنوقریظہ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جو پہلا سیاسی کام کیا وہ یہ تھا کہ ان تینوں قبیلوں کے رئوساء کوبلا کر ان کے ساتھ امن وامان کاایک معاہدہ کیا۔اس معاہدہ کی شرائط یہ تھیں کہ مسلمان اوریہودی امن وامان کے ساتھ مدینہ میں رہیںگے اورایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اورایک دوسرے کے دشمنوں کوکسی قسم کی مدد نہیں دیںگے اورنہ ایک دوسرے کے دشمنوں کے ساتھ کوئی تعلق رکھیں گے۔اوراگر کسی بیرونی قبیلہ یاقبائل کی طرف سے مدینہ پر کوئی حملہ ہوگا توسب مل کر اس کا مقابلہ کریںگے اور اگر معاہدہ کرنے والوں میں سے کوئی شخص یاکوئی گروہ اس معاہدہ کو توڑے گا یافتنہ وفساد کاباعث بنے گا تو دوسروں کو اس کے خلاف ہاتھ اٹھانے کاحق ہوگا۔اورتمام اختلافات اورتنازعات محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں گے اور آپ کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا۔مگر یہ ضروری ہوگا کہ ہرشخص یاقوم کے متعلق اسی کے مذہب اوراسی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جاوے۔ ۱؎
اس معاہدہ پر یہودنے کس طرح عمل کیا؟اس سوال کا جواب گزشتہ اوراق میںتفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔سب سے پہلے قبیلہ بنوقینقاع نے بدعہدی کی اوردوستانہ تعلقات کو قطع کرکے مسلمانوں سے جنگ کی طَرح ڈالی اورمسلمان عورتوں کی بے حرمتی کاکمینہ طریق اختیار کیا اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس صدارتی پوزیشن کوجوبین الاقوام معاہدہ کی روسے آپ کو حاصل تھی نہایت متمردانہ انداز میں ٹھکرادیا۔مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے مغلوب ہوئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرمادیا اورصرف اس قدر احتیاطی تدبیر پر اکتفا کی کہ بنوقینقاع مدینہ سے نکل کرکسی دوسری جگہ جاکر آباد ہوجائیں تاکہ شہر کاامن برباد نہ ہواور مسلمان ایک مارآستین کے شر سے محفوظ ہوجائیں۔چنانچہ قبیلہ بنوقینقاع کے لوگ بڑے امن وامان کے ساتھ اپنے اموال اوربیوی بچوں کواپنے ہمراہ لے کر مدینہ سے نکل کر دوسری جگہ آبادہوگئے۔
مگراس واقعہ سے یہود کے باقی دو قبائل نے سبق حاصل نہ کیا بلکہ آپ کے رحم نے ان کو اور بھی ناواجب جرأت دلادی اورابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہود کے دوسرے قبیلہ بنونضیر نے بھی سر اٹھایا اورسب سے پہلے ان کے ایک رئیس کعب بن اشرف نے معاہدہ کوتوڑ کرقریش اوردوسرے قبائل عرب کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ساز باز شروع کی اورعرب کے ان وحشی درندوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے خلاف خطرناک طور پر ابھارا اورمسلمانوں کے خلاف ایسے ایسے اشتعال انگیز شعر کہے کہ جس سے ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک نہایت خطرناک صورت حال پیدا ہوگئی اورپھر اس بدبخت نے معزز مسلمان عورتوں کا نام لے لے کر اپنے اشعار میں ان پر پھبتیاں اڑائیں اوربالآخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے یہ شخص اپنے کیفرکردار کو پہنچا تواس کا قبیلہ یک جان ہوکر مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اوراس دن سے بنونضیر نے معاہدہ کوبالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے خلاف سازباز شروع کردی اوربالآخر سارے قبیلہ نے مل کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ باندھا اوریہ فیصلہ کرلیا کہ جس طرح بھی ہوآپ کو زندہ نہ چھوڑا جاوے۔ اورجب ان کے ان خونی ارادوں کاعلم ہونے پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہہ اور سزا کاطریق اختیار کیا تو وہ نہایت مغرورانہ انداز میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوگئے اوراس جنگ میں بنوقریظہ نے ان کی اعانت کی۔ ۱؎ مگر جب بنونضیر مغلوب ہوئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کوتوبالکل ہی معاف فرمادیا۔ ۲؎ اوربنونضیر کوبھی مدینہ سے امن وامان کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی۔ البتہ اس قدر کیا کہ انہیں ان کے اسلحہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی۔مگر اس احسان کابدلہ بنونضیر نے یہ دیا کہ مدینہ سے باہر جاکر ان کے رئوساء نے تمام عرب کا چکر لگایا اورمختلف قبائل عرب کوخطرناک طور پر اشتعال دے کر ایک ٹڈی دل لشکر مدینہ پرچڑھا لائے اورسب سے یہ پختہ عہد لیا کہ اب جب تک اسلام کونیست ونابود نہ کرلیں گے واپس نہیںجائیں گے۔
ایسے خطرناک وقت میں جس کا ایک مختصر خاکہ اوپرگزر چکا ہے۔یہود کے تیسرے قبیلہ بنوقریظہ نے کیا کیا؟ اور یہ قبیلہ وہ تھا۔جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوہ بنونضیر کے موقع پر ان کی غداری کومعاف کرکے خاص احسان کیا تھا۔اورپھر دوسرا احسان ان پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ باوجود اس کے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل بنونضیر سے مرتبہ اورحقوق میں ادنیٰ سمجھے جاتے تھے یعنی اگر بنونضیر کاکوئی آدمی بنوقریظہکے ہاتھ سے قتل ہوجاتاتھا تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا تھا، لیکن اگر بنوقریظہ کاکوئی آدمی بنونضیرکے ہاتھ سے قتل ہوجاتا تھا تو محض دیت کی ادائیگی کافی سمجھی جاتی تھی، لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کو دوسرے شہریوں کے ساتھ برابری کے حقوق عطاکئے۔۱؎ مگرباوجود ان عظیم الشان احسانوں کے بنو قریظہنے پھر بھی غدّاری کی اورغدّاری بھی ایسے نازک وقت میں کی جس سے زیادہ نازک وقت مسلمانوں پر کبھی نہیں آیا۔بنوقینقاع کی مثال ان کے سامنے تھی انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔بنونضیر کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہواتھا انہوں نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا اورکیا تو کیا کیا؟ یہ کیا کہ اپنے معاہدہ کوبالائے طاق رکھ کر اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے احسانات کو فراموش کرکے عین اس وقت جبکہ تین ہزار مسلمان نہایت بے سروسامانی اوربے بسی کی حالت میں کفار کے دس پندرہ ہزار جرّار اورخونخوار لشکر سے گھرے ہوئے بیٹھے تھے اوراپنی بیچارگی کودیکھ کر ان کے کلیجے منہ کوآرہے تھے اورموت انہیں اپنے سامنے دکھائی دیتی تھی۔وہ اپنے قلعوں میں سے نکلے اورمسلمان مستورات اوربچوں پرعقب سے حملہ آور ہوگئے اورمسلمانوں کے اتحاد سے منحرف ہوکراس خونی اتحاد کی شمولیت اختیار کی جس کا اصل الاصول اسلام اوربانی ٔاسلام کونیست ونابود کرنا تھا ہاں اس بانیٔ اسلام کوجس کامدینہ میں آنے کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ اس نے ان یہود کواپنا دوست اور معاہد بنایا اور یہود کاپہلا کام یہ تھا کہ انہوں نے اسے اپنادوست اورمعاہد مان کر اسے اپنی جمہوریت کاصدر تسلیم کیا۔اندریں حالات بنوقریظہ کایہ فعل صرف ایک بدعہدی اورغداری ہی نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک بغاوت کا بھی رنگ رکھتا تھا اوربغاوت بھی ایسی کہ اگر ان کی تدبیر کامیاب ہوجاتی تومسلمانوں کی جانوں اور ان کی عزت وآبرو اور ان کے دین ومذہب کایقینا خاتمہ تھا۔پس بنوقریظہ کسی ایک جرم کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ وہ بے وفائی اوراحسان فراموشی کے مرتکب ہوئے۔بد عہدی اورغداری کے مرتکب ہوئے۔بغاوت اوراقدام قتل کے مرتکب ہوئے اوران جرموں کا ارتکاب انہوں نے ایسے حالات میں کیا جوایک جرم کوبھیانک سے بھیانک صورت دے سکتے ہیںاوردنیا کی کوئی غیر متعصب عدالت ان کے مقدمہ میں موجبات رعایت کا عنصر نہیں پاسکتی۔
ایسے حالات میں ان کی سزاسوائے اس کے کیا ہوسکتی تھی جودی گئی۔ظاہر ہے کہ امکانی طور پر صرف تین سزائیں ہی دی جاسکتی تھیں۔اوّل مدینہ میں ہی قید یانظر بندی۔دوسرے جلاوطنی جیسا کہ بنوقینقاع اوربنونضیر کے معاملہ میں ہوا۔تیسرے جنگجو آدمیوں کاقتل اورباقیوں کی قید یانظر بندی۔ اب انصاف کے ساتھ غور کرو کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت مسلمانوں کے لئے کون سا طریق کھلا تھا۔ایک دشمن قوم کا اپنے شہر میں قید رکھنا اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل بیرون از سوال تھا۔ کیونکہ اوّل تو قید کے ساتھ ہی قیدیوں کی رہائش اورخوراک کی ذمہ داری مسلمانوں پرعائد ہوتی تھی جس کے برداشت کرنے کی ان میں ہرگز طاقت نہیں تھی۔دوسرے اس زمانہ میں کوئی جیل خانے وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اورقیدیوں کے متعلق یہی دستور تھا کہ وہ فاتح قوم کے آدمیوں میں تقسیم کردئے جاتے تھے جہاں وہ عملاًبالکل آزاد رہتے تھے۔ایسے حالات میں ایک پرلے درجہ کے معاند اور سازشی گروہ کا مدینہ میں رہنا اپنے اندر نہایت خطرناک احتمالات رکھتا تھا اوراگربنوقریظہ پر یہ فیصلہ جاری کیا جاتا تویقینا اس کے معنے یہ ہوتے کہ فتنہ انگیزی اورمفسدہ پردازی اورشرارت اورخفیہ ساز باز کے لئے توان کووہی آزادی حاصل رہتی جوپہلے تھی البتہ ان کے اخراجات کی ذمہ داری مسلمانوں پر آجاتی۔یعنی پہلے اگر وہ اپنا کھاتے تھے اورمسلمانوں کاگلا کاٹتے تھے توآئندہ وہ کھاتے بھی مسلمانوں کا(جن کے پاس اس وقت اپنے کھانے کے لئے بھی نہیں تھا)اورگلا بھی مسلمانوں کا کاٹتے۔اورمسلمانوں کے گھروں میں اور ان کے ساتھ مخلوط ہوکر رہنے سہنے کی وجہ سے جو دوسرے خطرات ہوسکتے تھے وہ مزید برآں تھے۔اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند شخص یہ رائے رکھ سکتا ہے کہ بنوقریظہ کویہ سزا دی جاسکتی تھی۔
اب رہی دوسری سزا یعنی جلاوطنی۔سویہ سزا بے شک اس زمانہ کے لحاظ سے دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ایک عمدہ طریق سمجھی جاتی تھی مگر بنونضیر کی جلاوطنی کاتجربہ بتاتا تھا کہ کم از کم جہاں تک یہود کاتعلق تھا یہ طریق کسی صورت میں پہلے طریق سے کم خطرناک نہیں تھا۔یعنی یہود کو مدینہ سے باہر نکل جانے کی اجازت دے دینا سوائے اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کہ نہ صرف یہ کہ عملی اورجنگجو معاندینِ اسلام کی تعداد میں اضافہ ہوجاوے بلکہ دشمنان اسلام کی صف میں ایسے لوگ جاملیں جواپنی خطرناک اشتعال انگیزی اورمعاندانہ پراپیگنڈا اورخفیہ اورسازشی کارروائیوںکی وجہ سے ہرمخالف اسلام تحریک کے لیڈر بننے کے لئے بے چین تھے۔تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ یہود کے سارے قبائل میں سے بنوقریظہ اپنی عداوت میں بڑھے ہوئے تھے۔ ۱؎ پس یقینا بنوقریظہ کی جلاوطنی اس سے بہت زیادہ خطرات کاموجب ہوسکتی تھی جوبنونضیر نے غزوہ احزاب کوبرپا کر کے مسلمانوں کے لئے پیدا کئے اوراگر مسلمان ایسا کرتے تو اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ان کا یہ فعل ہرگزخود کشی سے کم نہ ہوتا۔مگر کیا دنیا کے پردے پرکوئی ایسی قوم ہے جو دشمن کوزندہ رکھنے کے لئے آپ خود کشی پر آمادہ ہوسکتی ہے؟اگر نہیں تو یقینا مسلمان بھی اس وجہ سے زیرالزام نہیں سمجھے جاسکتے کہ انہوں نے بنوقریظہ کوزندہ رکھنے کے لئے خود کشی کیوں نہیں کی۔
پس یہ ہردوسزائیں ناممکن تھیں اوران میں سے کسی کو اختیار کرنا اپنے آپ کو یقینی تباہی میں ڈالنا تھا۔اوران دوسزائوں کو چھوڑ کر صرف وہی رستہ کھلا تھا جواختیار کیا گیا۔بے شک اپنی ذات میں سعدؓ کا فیصلہ ایک سخت فیصلہ تھا اورفطرت انسانی بظاہر اس سے ایک صدمہ محسوس کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی اورراستہ کھلا تھا جسے اختیار کیا جاتا۔جب ایک سرجن اپنے کسی بیمار کاجس کے لئے وہ اس قسم کا اپریشن ضروری خیال کرے ہاتھ کاٹ دیتا ہے یاٹانگ جدا کردیتا ہے یاکسی اور عضو کو جسم سے علیحدہ کردینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ہر شریف انسان کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا یعنی اگرحالات کی مجبوری اسے ضروری نہ قرار دیتی تواچھا تھا مگر حالات کی مجبوری کے سامنے جھکنا پڑتا ہے بلکہ ایسے حالات میں سرجن کایہ فعل قابل تعریف سمجھا جاتا ہے کہ اس نے تھوڑے یاکم قیمتی حصہ کی قربانی سے زیادہ قیمتی چیز کو بچا لیا۔اسی طرح بنوقریظہ کے متعلق سعدؓ کا فیصلہ گو اپنی ذات میں سخت تھا مگر وہ حالات کی مجبوری کا ایک لازمی نتیجہ تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ مارگولیس جیسامؤرخ بھی جوہرگز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہے اس موقع پر اس اعتراف پر مجبور ہوا ہے کہ سعدؓ کافیصلہ حالات کی مجبوری پرمبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔چنانچہ مسٹر مارگولیس صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’غزوہ احزاب کاحملہ جس کے متعلق محمدصاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ محض خدائی تصرفات کے ماتحت پسپا ہوا وہ بنونضیر ہی کی اشتعال انگیز کوششوں کا نتیجہ تھا یا کم از کم یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اوربنونضیر وہ تھے جنہیں محمدصاحب نے صرف جلاوطن کردینے پر اکتفا کی تھی۔اب سوال یہ تھا کہ کیا محمدصاحب بنوقریظہ کو بھی جلاوطن کرکے اپنے خلاف اشتعال انگیز کوششیں کرنے والوں کی تعداد اورطاقت میں اضافہ کردیں؟دوسری طرف وہ قوم مدینہ میں بھی نہیں رہنے دی جاسکتی تھی جس نے اس طرح برملاطور پر حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا۔ان کا جلاوطن کرنا غیر محفوظ تھا مگر ان کا مدینہ میں رہنا بھی کم خطرناک نہ تھا۔پس اس فیصلہ کے بغیرچارہ نہ تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیا جاتا۔‘‘ ۱؎
پھر یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ مدنظر رکھنی چاہئے کہ بنوقریظہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صرف حلیف اورمعاہد ہی نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ابتدائی معاہدہ کی رو سے مدینہ میں آپ کی حکومت کوتسلیم کرچکے تھے یاکم از کم آپ کی سوورینیٹی(sovereignty) کوانہوں نے قبول کیا تھا۔پس ان کی حیثیت صرف ایک غدار حلیف یامعمولی دشمن کی نہیں تھی بلکہ وہ یقینا باغی بھی تھے اورباغی بھی نہایت خطرناک قسم کے باغی۔اورباغی کی سزاخصوصاًجنگ کے ایام میں سوائے قتل کے کوئی اور نہیں سمجھی گئی۔اگر باغی کو بھی انتہائی سزا نہ دی جاوے تو نظام حکومت بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور شریر اورمفسدہ پرداز لوگوں کوایسی جرأت حاصل ہوجاتی ہے جو امن عامہ اوررفاہ عام کے لئے سخت مہلک ثابت ہوتی ہے اوریقینا ایسے حالات میں باغی پررحم کرنا دراصل ملک پر اورملک کے امن پسند لوگوں پرظلم کے ہم معنی ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام متمدن حکومتیں اس وقت تک ایسے باغیوں کوخواہ وہ مردہوں یاعورت قتل کی سزا دیتی چلی آئی ہیںاورکسی عقلمند انسان نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا۔پس سعدؓ کا فیصلہ بالکل منصفانہ اورعدل وانصاف کے قواعد کے بالکل مطابق تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بوجہ اپنے عہد کے اس فیصلہ کے متعلق رحم کے پہلو کوکام میں نہیں لاسکتے تھے سوائے افراد کے اوراس کے لئے آپ نے ہر ممکن کوشش کی۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے اس شرم سے کہ انہوں نے آپ کوجج ماننے سے انکار کردیا تھا آپ کی طرف رحم کی اپیل کی صورت میں زیادہ رجوع نہیں کیا۔اورظاہر ہے کہ بغیر اپیل ہونے کے آپ رحم نہیں کرسکتے تھے کیونکہ جو باغی اپنے جرم پرندامت کااظہار بھی نہیں کرتا اسے خود بخود چھوڑدینا سیاسی طورپر نہایت خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
ایک اوربات یاد رکھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوریہود کے درمیان ابتداء میں ہوا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابل تصفیہ پیدا ہوگا تواس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا۔چنانچہ تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ اس معاہدہ کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ یہود کے متعلق شریعت موسوی کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔اب ہم تورات پرنگاہ ڈالتے ہیں تووہاں اس قسم کے جرم کی سزا جس کے مرتکب بنوقریظہ ہوئے بعینہٖ وہی لکھی ہوئی پاتے ہیں جو سعد بن معاذ نے بنوقریظہ پرجاری کی۔
چنانچہ بائیبل میں یہ خدائی حکم درج ہے کہ:
’’اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کاپیغام کر۔تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جواس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اورتیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تواس کا محاصرہ کراورجب خداوند تیراخدا اسے تیرے قبضے میں کردیوے تو وہاں کے ہرایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوںاور لڑکوںاورمواشی کواورجو کچھ اس شہر میں ہواس کا سارالوٹ اپنے لئے لے۔‘‘ ۱؎
یہودی شریعت کا یہ حکم محض ایک کاغذی حکم نہیں تھا جس پر کبھی عمل نہ کیا گیا ہو بلکہ بنواسرائیل کا ہمیشہ اسی پر عمل رہا ہے اوریہودی قضیئے ہمیشہ اسی اصل کے ماتحت تصفیہ پاتے رہے ہیں۔چنانچہ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:۔
’’اورانہوںنے(یعنی بنواسرائیل نے)مدیانیوں سے لڑائی کی جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا اورسارے مردوں کو قتل کیا۔اور انہوں نے ان مقتولوں کے سوا عدّیؔ اورالرقمؔ اورصورؔاورحورؔ اورربع کوجومدیان کے پانچ بادشاہ تھے جان سے مارا اوربعودکے بیٹے بلعام کوبھی تلوار سے قتل کیا اوربنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اوران کے بچوں کو اسیر کیااوران کے مواشی اوربھیڑ بکری اورمال واسباب سب کچھ لوٹ لیا…اورانہوں نے سارا مالِ غنیمت اورسارے اسیر انسان اورحیوان لئے اوروے قیدی اورغنیمت اورلوٹ موسیٰ اورالیعزر کاہن اوربنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس خیمہ گاہ میں مواب کے میدانوں میں یردن کے کنارے جویریحو کے مقابل ہے،لائے۔‘‘ ۲؎
حضرت مسیح ناصری کو(جو وہ بھی بنو اسرائیل میں سے ہی تھے)گواپنی زندگی میں حکومت نصیب نہیں ہوئی اورنہ جنگ وجدال کے موقعے پیش آئے جن میں ان کا طریق عمل ظاہر ہوسکتا مگر ان کے بعض فقروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شریر اوربدباطن دشمنوں کے متعلق ان کے کیا خیالات تھے۔چنانچہ اپنے دشمنوں کومخاطب کرکے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:۔
’’اے سانپو!سانپوں کے بچو!تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچوگے؟‘‘ ۱؎
یعنی اے لوگو!تم زہریلے سانپوں کی طرح بن کر ہلاک کئے جانے کے قابل ہوگئے ہولیکن مجھے یہ طاقت حاصل نہیں ہے کہ تمہیں سزادوں مگرتم خدا سے ڈرو اور جہنم کی سزا کاہی خیال کرکے اپنی بدکرداریوں اورشرارتوں سے باز آجائو۔غالباً یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح کے متبعین کودنیا میں طاقت حاصل ہوئی تو انہوں نے حضرت مسیح کی اس تعلیم کے ماتحت کہ شریر اوربدکردار دشمن سانپوں اوربچھوئوں کی طرح ہلاک کئے جانے کے قابل ہے،جسے بھی بدکردار اورشریر سمجھا اوراپنے ارادوں میں رخنہ انداز پایااسے ہلاک کرنے میں دریغ نہیں کیا۔چنانچہ مسیحی اقوام کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ سعدؓ کافیصلہ گواپنی ذات میں سخت سمجھا جاوے مگر وہ ہرگز عدل وانصاف کے خلاف نہیں تھا اوریقینا یہود کے جرم کی نوعیت اورمسلمانوں کی حفاظت کاسوال دونو اسی کے مقتضی تھے کہ یہی فیصلہ ہوتا اورپھر یہ فیصلہ بھی یہودی شریعت کے عین مطابق تھا بلکہ اس ابتدائی معاہدہ کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتاکیونکہ اس کی روسے مسلمان اس بات کے پابند تھے کہ یہود کے متعلق انہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں۔مگر جو کچھ بھی تھا یہ فیصلہ سعدؓ بن معاذ کا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نہیں تھا۔اورسعدؓ پرہی اس کی پہلی اورآخری ذمہ داری عائد ہوتی تھی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعلق بحیثیت صدر حکومت کے اس سے صرف اس قدر تھا کہ آپ اس فیصلہ کواپنی حکومت کے انتظام کے ماتحت جاری فرماویں۔اوریہ بتایا جاچکا ہے کہ آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایا جوموجودہ زمانہ کی مہذب سے مہذب اوررحم دل سے رحم دل حکومت کے لئے بھی ایک بہترین نمونہ سمجھا جاسکتا ہے۔
انصار کے رئیس اعظم کی وفات اورنعماء جنت کی حقیقت
حضرت سعدؓ بن معاذ رئیس قبیلہ اوس کی کلائی میں جو زخم
غزوۂ خندق کے موقع پرآیا تھا وہ باوجود بہت علاج معالجہ کے اچھا ہونے میں نہیں آتا تھا۔اورمندمل ہوہوکر پھرکھل کھل جاتا تھا۔چونکہ وہ ایک بہت مخلص صحابی تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوان کی تیمارداری کاخاص خیال تھااس لئے آپ نے غزوہ خندق کی واپسی پر ان کے متعلق ہدایت فرمائی تھی کہ انہیں مسجد کے صحن میں ایک خیمہ میں رکھا جاوے تاآپ آسانی کے ساتھ ان کی تیمارداری فرماسکیں۔چنانچہ انہیں ایک مسلمان عورت رفیدہ نامی کے خیمہ میں رکھا گیا جو بیماروں کی تیمارداری اورنرسنگ میں مہارت رکھتی تھی اور عموماًمسجد کے صحن میں خیمہ لگا کر مسلمان زخمیوں کاعلاج کیا کرتی تھی۔ ۱؎ مگرباوجود اس غیر معمولی توجہ کے سعدؓکی حالت روبہ اصلاح نہ ہوئی اوراسی دوران میں بنوقریظہ کاواقعہ پیش آگیاجس کی وجہ سے سعدؓ کو غیرمعمولی مشقت اورکوفت برداشت کرنی پڑی اوران کی کمزوری بہت بڑھ گئی۔انہی ایام میں ایک رات سعدؓ نے نہایت گریہ وزاری سے یہ دعا کی کہ’’اے میرے مولا توجانتا ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش کس طرح بھری ہوئی ہے کہ اس قوم کے مقابل میں تیرے دین کی حفاظت کے لئے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کی تکذیب کی اوراسے اس کے وطن سے نکال دیا۔اے میرے آقا!میرے خیال میں اب ہمارے اورقریش کے درمیان لڑائی کا خاتمہ ہوچکا ہے،لیکن اگرتیرے علم میںکوئی جنگ ابھی باقی ہے تو مجھے اتنی مہلت دے کہ میں تیرے رستے میں ان کے ساتھ جہاد کروں، لیکن اگران کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہوچکی ہے تو مجھے اب زندگی کی تمنا نہیں ہے مجھے اس شہادت کی موت مرنے دے۔‘‘لکھا ہے کہ اسی رات سعدؓ کازخم کھل گیا اوراس قدر خون بہا کہ خیمے سے باہر نکل آیا اورلوگ گھبرا کر خیمہ کے اندر ہوگئے توسعدؓ کی حالت دگرگوں تھی آخر اسی حالت میں سعدؓ نے جان دے دی۔ ۲؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوسعدؓ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا اورواقعی اس وقت کے حالات کے ماتحت سعدؓ کی وفات مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھی۔سعدؓ کو انصار میں قریباً قریباًوہی حیثیت حاصل تھی جو مہاجرین میں ابوبکرؓصدیق کوحاصل تھی۔اخلاص میں،قربانی میں، خدمت اسلام میں، عشق رسول میں یہ شخص ایسا بلند مرتبہ رکھتا تھا جوکم ہی لوگوں کوحاصل ہوا کرتا ہے۔ اور اس کے ہر حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ اسلام اوربانی ٔ اسلام کی محبت اس کی روح کی غذا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اس کا نمونہ انصار میں ایک نہایت گہراعملی اثر رکھتا تھا۔ ایسے قابل روحانی فرزند کی وفات پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا صدمہ ایک فطری امر تھا۔مگر آپ نے کامل صبر سے کام لیا اورخدائی مشیت کے سامنے تسلیم ورضا کا سرجھکا دیا۔
جب سعدؓ کا جنازہ اٹھا تو سعدؓ کی بوڑھی والدہ نے بتقاضائے محبت کسی قدر بلند آواز سے ان کا نوحہ کیا اوراس نوحہ میں زمانہ کے دستور کے مطابق سعدؓ کی بعض خوبیاں بیان کیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس نوحہ کی آواز سنی توگوآپ نے اصولاًنوحہ کرنے کو پسند نہیں کیا مگر فرمایا کہ نوحہ کرنے والیاں بہت جھوٹ بولا کرتی ہیں لیکن اس وقت سعدؓ کی ماں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔ یعنی جوخوبیاں سعدؓ میں بیان کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں۔ ۱؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اوردفنانے کے لئے خود ساتھ تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری تک وہیں ٹھہرے رہے اورآخر وہاں سے دعا کرنے کے بعد تشریف لائے۔ ۲؎
غالباً اسی دوران میں کسی موقع پرآپ نے فرمایا۔اِھْتَزَّعَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَوْتِ سَعْدٍ۔ ۳؎ یعنی ’’سعد کی موت پر خدائے رحمان کاعرش جھومنے لگ گیا ہے۔‘‘یعنی عالم آخرت میں خدا کی رحمت نے خوشی کے ساتھ سعدؓ کی روح کااستقبال کیا ہے۔ایک عرصہ کے بعد جب آپ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پارچات ہدیۃً آئے تو بعض صحابہ نے انہیں دیکھ کر ان کی نرمی اورملائمت کا بڑے تعجب کے ساتھ ذکر کیا اوراسے ایک غیر معمولی چیز جانا۔آپ نے فرمایا’’کیا تم ان کی نرمی پرتعجب کرتے ہو۔خدا کی قسم جنت میں سعد کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اوربہت زیادہ اچھی ہیں۔‘‘ ۴؎
نعمائے جنت کی حقیقت
آپ کا یہ کلام ایک استعارے کے رنگ میں تھا جس میں سعدؓ کے اس راحت کے مقام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جوانہیں جنت میں حاصل
ہوا تھا۔ورنہ جیسا کہ قرآن شریف اوراحادیث سے اصولی طورپر پتا لگتا ہے جنت کی نعمتوں کااس دنیا کی نعمتوں پر قیاس نہیں ہوسکتا اورنہ جنت کی نعمتیں ہماری اصطلاح کے لحاظ سے مادی کہلا سکتی ہیں اور حق یہی ہے کہ جو الفاظ قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ان میں صرف استعارہ اورتشبیہہ کے طور پر نعمتوں کے کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ اصولی طور پر فرماتا ہے۔ ۵؎ یعنی’’کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا کہ نیک لوگوں کے اعمال کے بدلے میں ان کے لئے جنت میں کسی قسم کا آنکھ کی ٹھنڈک کاسامان مہیا کیا گیا ہے۔‘‘اوراس کی تفسیر میں حدیث میں آتا ہے لَاعَیُنٌ رَأَتْ وَلاَ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلاَخَطَرَعَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۔ ۶؎ یعنی جنت کی نعمتیں ایسی ہیں کہ کبھی کسی انسان کی آنکھ نے انہیں نہیں دیکھا اورکبھی کسی انسان کے کان نے انہیں نہیں سنا اورنہ ان کا تصور کبھی کسی بشر کے دل میں گزرا ہے۔‘‘پس لازماًماننا پڑے گا کہ جنت کی نعمتیں وہ نعمتیں نہیںجوہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں۔یعنی جنت کے پھل وہ پھل نہیں جوہم اس دنیا میں کھاتے ہیں اورجنت کے دودھ اورشہد وہ دودھ اورشہد نہیں جوہم اس دنیا میں پیتے ہیں۔اورجنت کی حوریں وہ حوریں نہیں جوہم اس دنیا میں خوبصورت عورت کے معنوں میں سمجھتے ہیں بلکہ وہ کچھ اورہی چیزیں ہیں جن کو بطریق استعارہ اس دنیا کی چیزوں کانام دے دیا گیا ہے مگر جن کا وہم وتصور بھی ہمارے خیال میں نہیں آسکتا۔لیکن اس قدر بہرحال یقینی ہے کہ جنت کی سب نعمتیں خواہ وہ انسانی روح کے واسطے ہوں یا جسم کے لئے وہ خالص پاکیزگی اورطہارت پرمبنی ہیں اورہر قسم کی بدی اورناپاکی کے عنصر سے کلیتہً پاک ہیں۔کیونکہ قرآن شریف فرماتا ہے ۱؎ یعنی’’جنت وہ مقام ہے کہ اس میں کوئی عنصر بے ہودگی اور بدی اورناپاکی کا نہیں ہو گا۔‘‘
۵ہجری کے بعض متفرق واقعات
اس سال میں بعض متفرق واقعات بھی ہوئے جن کی معین تاریخ روایات میں مذکور نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک واقعہ
ایک زلزلہ کاآنا ہے۔جب یہ دھکا مدینہ میں محسوس ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کونصیحت فرمائی کہ یہ قدرت کے واقعات ہیں جن سے ایک مومن کونصیحت حاصل کرنی چاہئے اوراللہ تعالیٰ بعض اوقات اس قسم کے واقعات لوگوں کے بیدار کرنے کے لئے پیدا کردیتا ہے اوران کو ہوشیار وچوکس رکھنا چاہتا ہے۔ ۲؎
بعض روایات کے مطابق اسی سال حج فرض ہوالیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ روایات درست نہیں ہیںبلکہ حج کی باقاعدہ مشروعیت کازمانہ بعد کا ہے۔گوجیسا کہ اوپربیان کیا جاچکا ہے عیداضحی جوحج کے ساتھ لازم وملزوم کے طور پر ہے ۲ہجری میں ہی مشروع ہوگئی تھی۔ اورصحیح روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مسلمان شروع سے ہی خانہ کعبہ کی حرمت کاخیال رکھتے تھے اورنفل وغیرہ کے طریق پر کعبۃ اللہ کا طواف بھی موقع پاکر کرتے رہتے تھے مگر فریضۂ حج کی باقاعدہ اوربالتفصیل مشروعیت غالباًبعد میں ہوئی تھی۔ ۳؎ اس لئے ہم اس بحث کواس جگہ ترک کرتے ہیں۔اسی سال یعنی۵ہجری میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دفعہ گھوڑے پرسے گر گئے اور آپ کی پنڈلی اورران وغیرہ پر چوٹیںآئیں جس کی وجہ سے آپ پانچ دن بیٹھ کر نماز ادا فرماتے رہے۔ ۱؎
فنون سپاہ گری کی طرف آپ کی توجہ
اسی سال آپ نے جنگی ضروریات کے ماتحت بعض گھڑدوڑیں کروائیں۔ ۲؎ اورویسے یہ تحریک تو آپ
صحابہ میں ہمیشہ فرماتے رہتے تھے کہ وہ گھوڑے رکھیں اورسواری کے فن میں کمال پیدا کریں اور جہاد کی غرض وغایت کومدنظر رکھتے ہوئے آپ اسے ایک بڑا کارثواب خیال فرماتے تھے۔ ۳؎ چنانچہ جن صحابہ کو توفیق تھی وہ خاص شوق کے ساتھ گھوڑے پالتے تھے اورایک روایت میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام گھوڑوں کی کدائی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ ۴؎ اسی طرح آپ اونٹوں کی دوڑ بھی کروایا کرتے تھے چنانچہ خود آپ کی اپنی ایک اونٹنی تھی جوعموماًسب سے آگے رہتی تھی۔ ۵؎
دراصل آپ کا یہ عام طریق تھا کہ آپ جسمانی ورزش اورتحصیل فنون سپاہ گری کی طرف اپنے صحابہ کو بہت توجہ دلاتے رہتے تھے اوربعض اوقات ان میں جوش پیدا کرنے کے لئے خود بھی ایسے موقعوں پر حصہ لیتے تھے۔چنانچہ بعض اوقات آپ نے اپنے سامنے تیراندازی اورتلوار اورنیزے کے کرتبوں کے مقابلے کرائے۔ ۶؎ آپ یہ بھی تحریک فرماتے تھے کہ مسلمانوں کوچست ہوکر اورتیز تیز چلنا چاہئے ۷؎ تاکہ دشمن پران کی مضبوطی اورچستی کارعب پڑے اورخود بھی ان میں چستی کا احساس پیدا ہو۔جنگی ضروریات کے لئے بعض صحابہ تیز دوڑنے کی بھی مشق کیا کرتے تھے۔چنانچہ اس معاملہ میں ایک صحابی سلمہ بن اکوع خاص طورپر ماہر تھے حتّٰی کہ بعض روایات سے پتا لگتا ہے کہ بعض اوقات وہ گھوڑوں سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔۸؎ دوایک دفعہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑنے کامقابلہ کیا تھا ۹؎ اورگویہ خوش مزاجی کے طریق پر ہو مگر اس سے اس زندہ اورچست روح کے اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے صحابی میں کام کرتی تھی اورجس سے ان کی مستورات بھی خالی نہیں تھیں۔
اسلامی قانون شادی وطلاق
شادی اورطلاق وغیرہ کے مسائل کے متعلق بھی بہت سے اسلامی احکام اسی سال نازل ہوئے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
اس موقع پر ایک مختصر ساخاکہ شادی اورطلاق کے مسائل کے متعلق اسلامی تعلیم کا پیش کردیا جاوے۔سو سب سے پہلے تویہ جاننا چاہئے کہ اسلام سے قبل عربوں میں کوئی خاص قانون شادی وطلاق مقرر نہیں تھابلکہ محض ایک رسم یاطریق عمل کی صورت تھی اوراس کی پابندی بھی ہرشخص کی اپنی مرضی پرموقوف تھی۔اور اسی لئے ملک کے مختلف حصوں اورمختلف قبائل میں یہ طریق عمل مختلف صورتیں رکھتا تھا۔
عام طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ عرب میں جائز وناجائز رشتوں میں زیادہ حد بندی نہیں تھی۔حتّٰی کہ سوتیلی ماں تک سے شادی کرنے میں پرہیز نہیں تھا۔۱؎ قریبی رشتہ دار کی بیوہ پربغیر اس کی مرضی کے زبردستی قبضہ کرلینے کی رسم بھی پائی جاتی تھی۔ ۲؎ نکاح کے طریق مختلف تھے اوران میں سے چارزیادہ شائع ومتعارف تھے۔ان میں سے ایک تویہی رسمی نکاح تھا جوبعد میں زیادہ پاک وصاف ہوکر اسلام میں قائم ہوا،لیکن باقی تین ایسے گندے اورناپاک تھے کہ ان کے ذکر تک سے انسانی طبیعت رکتی ہے۔ ۳؎ تعدّد ازدواج کی کوئی حدبندی نہیں تھی بلکہ بیویوں کی تعداد ہرشخص کی ذاتی ضرورت۔دولت اورشوق پر منحصر تھی۔ ۴؎ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کاکوئی ضابطہ نہیں تھا اورنہ ہی اس کے متعلق خاوند پر کوئی پابندی تھی۔مرد کے عورت پراورعورت کے مرد پر کوئی مقررہ حقوق نہیں تھے بلکہ سارا دارومدار مرد کی مرضی پرتھا۔طلاق کا کوئی قانون نہیں تھا۔مرد جب اورجس طرح چاہتا تھاعورت کو طلاق دے کر الگ کردیتا تھا۔اگر مرد کی مرضی نہ ہو تو عورت کے لئے طلاق حاصل کرنے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ طلاق کے بعد بھی جابر لوگ اپنی مطلقہ عورت پرحکومت رکھتے تھے اوراسے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ۵؎ عدت کاقانون بھی کوئی نہیں تھا بلکہ ادھر جدائی ہوتی تھی اور ادھر عورت دوسرے شخص کے ساتھ شادی کے لئے آزاد سمجھی جاتی تھی۔ ۱؎ الغرض شادی وطلاق کے معاملہ میں عرب میں کوئی قانون نہیں تھا بلکہ سارا دارومدار مرد کی مرضی پر تھا۔اورمرد عموماًاپنی بیویوں کے ساتھ نہایت جابرانہ سلوک کرتے تھے اورعورت کے لئے کوئی داد رسی کی جگہ نہیں تھی۔اسلام آیا تو اس نے گویا ایک نیاعالم پیدا کردیااورمحض انتظامی فرق کے سوا کہ جولابدّی تھا اصولاً عورت اور مرد کے مساویانہ حقوق تسلیم کئے۔ ۲؎ اوران حقوق کی حفاظت ونگہداشت کاکام مرد پر نہیں چھوڑا بلکہ حکومت کے ہاتھ میںدیااورحکومت کا یہ فرض مقرر کیا کہ وہ خاوند وبیوی کے حقوق میں ایک دوسرے کی دست درازی کوروکے اورخصوصاًضعیف طبقہ نساء کی حفاظت کرے۔اوردوسری طرف اسلام نے اپنے روحانی اوراخلاقی اثر کے ماتحت مردوں کویہ پُرزور سفارش کی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نہ صرف عدل وانصاف بلکہ شفقت واحسان کامعاملہ کریں۔اوراس معاملہ میں اسلام نے اتنا زوردیاکہ بعض صحابہ میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ اسلام نے تو گویا عورت کوآزاد کردیا ہے۔ ۳؎
اسلامی قانون شادی وطلاق کااصل الاصول یہ ہے کہ نکاح مردوعورت کے درمیان ایک سول معاہدہ کا رنگ رکھتا ہے۔ ۴؎ جسے گوعام معاہدات کی نسبت بہت زیادہ محبت اوروفاداری اورتقدس اور دوام کاعنصر دیا گیا ہے۔ ۵؎ مگر انتہائی حالات میں وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ۶؎ اوراسی ٹوٹنے کانام اسلامی اصطلاح میں طلاق یاخلع یافسخ نکاح ہے۔یہ سول معاہدہ کس طرح قائم ہوسکتا اورکس طرح ٹوٹ سکتا ہے اس کے متعلق اسلامی قانون کاڈھانچہ حسب ذیل ہے۔پہلے ہم قانون شادی کو لیتے ہیں۔
۱- نکاح کرنا اسلام میں ہراس مسلمان پرجو اس کی طاقت رکھتا ہو فرض ہے اورتتبل سے منع کیا گیا ہے۔۷؎
۲- نکاح کی اغراض تعدّدازدواج کی بحث میں دوسری جگہ مفصل بیان کی جاچکی ہیں اس جگہ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ۱؎
۳- جن جگہوں میں رشتہ منع ہے ان کااسلام نے صراحت وتعیین کے ساتھ ذکر کردیا ہے باقی سب کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔کوئی قومی یانسلی حد بندی نہیں ہے۔ممنوع رشتے اصولًا یہ ہیں۔باپ کی بیوی،ماں،رضاعی ماں،بیٹی،بیوی کی بیٹی،بہن،رضاعی بہن، خالہ، پھوپھی، بھتیجی، بھانجی، ساس، بہو،ہرخاوند والی عورت،اوردوبہنوں کاایک وقت میں جمع کرنا۔ ۲؎ اس حکم کی مزید تشریح حدیث میں کردی گئی ہے۔ ۳؎
۴- نکاح چونکہ مرد وعورت کے ایک معاہدہ کانام ہے اورانہوں نے ہی اسے نباہنا ہوتا ہے اس لئے نکاح میں فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔یعنی لڑکا اورلڑکی یامردوعورت دونوں اس تعلق کے قائم کرنے پر رضامند ہونے چاہئیں۔اوران کی رضامندی کے بغیر یہ رشتہ قائم نہیں ہوسکتا۔ ۴؎
۵- باوجود پردہ کی حدبندیوں کے اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تحریک کرتا ہے کہ نکاح سے پہلے مردوعورت ایک دوسرے پرنظر ڈال لیں تاکہ شکل وغیرہ کاسوال بعد میں موجب خلش نہ بنے۔ ۵؎
۶- اسلام میں نکاح اعلان کے ساتھ علیٰ رئوس الاشہاد ہونا ضروری ہے اورخفیہ نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ ۶؎ اسی اعلان کی غرض سے اسلام میں یہ طریق مقرر کیا گیا ہے کہ جب خاوند بیوی اکٹھے ہوں تو اس خوشی میں خاوند ایک دعوت دے جس میں حسب توفیق اعزہ واحباب اور ہمسائے وغیرہ بلائے جائیں۔اس دعوت کواصطلاحی طور پر ولیمہ کہتے ہیں۔ ۱؎
۷- اگرکسی خاص مصلحت کے ماتحت کسی لڑکے یالڑکی کاولی یعنی گارڈین اس کے بچپن کی حالت میں ہی یعنی اس کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کرناچاہے توکرسکتا ہے۔ ۲؎ کیونکہ بعض اوقات استثنائی صورتوں میں خاص مصالح کے ماتحت ایسا کرنے کی ضروت پیش آسکتی ہے جس کے لئے قانونی طورپر دروازہ کھلا رہنا چاہئے۔مگر ایسی صورت میں لڑکے کوتوحق ہے ہی، لڑکی کوبھی لازماًبالغ ہونے پر حاکم کے ذریعہ اس رشتہ کے منقطع کرنے کا حق ہوگا اوراس کی رضا مندی کے بغیر یہ رشتہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ ۳؎ اس حق کواسلامی اصطلاح میں خیارالبلوغ کہتے ہیں۔مگر یہ خیال رہے کہ ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ استثنائی حالات میں نابالغی کے زمانہ میں بھی رشتہ ہوسکتا ہے اس سے مراد صرف عقد نکاح ہے۔زنا شوئی کے تعلقات مراد نہیںکیونکہ زنا شوئی کے تعلق کے لئے ہردو کابالغ ہونا ضروری ہے۔ ۴؎
۸- گونکاح کے عقد میں اصل رضا مندی فریقین کی ہے اوران کی رضامندی کے بغیر نکاح قائم نہیں رہ سکتا اوراگر کسی خاص مصلحت سے بچپن میں نکاح ہوبھی جاوے تو نارضامندی کی صورت میں بالغ ہونے پر وہ قائم نہیں رہ سکتا،لیکن چونکہ لڑکی اورخصوصاًکنواری لڑکی طبعاً زیادہ سادہ مزا ج اوربھولی ہوتی ہے اوردنیا کاتجربہ بھی اسے نسبتاً کم ہوتا ہے اوروہ ان باتوں سے بھی زیادہ آگاہ نہیں ہوتی جن پر اہلی زندگی کی حقیقی خوشی کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔اورپھر فطرتاًعورت کے اندر قلبی جذبات کامادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بسااوقات جذبۂ عقل مستور ہوجاتا ہے اس لئے اسے کسی غلط راستہ پر پڑنے اورچالاک اورشاطر مردوں کے دھوکے سے بچانے کے لئے اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جب کسی کنواری لڑکی کے رشتہ کا سوال ہوتو اس کا باپ یاباپ نہ ہوتو کوئی اورقریبی رشتہ دار بطور ولی کے اس کے ساتھ رہے اور اس کے مشورہ کے بغیر رشتہ قائم نہ ہو۔ ۱؎ لیکن اگر لڑکی اورولی میں اختلاف ہوجاوے تو ترجیح لڑکی کی رائے کودی جائے گی۔ ۲؎ مگر اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ اس اختلاف کو حاکم کے نوٹس میں لایا جاوے تاکہ اگر لڑکی کسی دھوکے کاشکار ہورہی ہوتو اس کا سدباب کیا جاسکے۔ ۳؎ بیوہ عورت چونکہ کنواری کی نسبت شادی کے اونچ نیچ سے بہت واقف ہوچکی ہوتی ہے اوران امور کوسمجھ چکی ہوتی ہے جس پراہلی تعلقات بہترین صورت میں چل سکتے ہیں اس لئے اس کے معاملہ میں گوولی کا ساتھ رہنا پسندیدہ ہے مگر ولی کی رضامندی ضروری نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنے اختیار سے فیصلہ کرسکتی ہے۔ ۴؎
یہ مسئلہ ولایت جس کا عنصر توکم وبیش اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے مگر جسے اسلام نے ایک معین اورتفصیلی قانون کی صورت دے دی ہے ایک نہایت ہی مفید اوربابرکت نظام ہے۔ کیونکہ اس سے لڑکیوں کے نکاح کے معاملہ میں بہت سے دھوکوں کا سدباب ہوجاتا ہے اورشریر اورشاطر لوگ سادہ طبع لڑکیوں کوسبز باغ دکھا کر اپنے دام تزویر میں پھنسانے کا موقع نہیں پاتے۔مغربی ممالک میں جہاںآج کل لڑکیوں کونکاح کے معاملہ میں بہت زیادہ آزادی حاصل ہے وہاں اس قسم کے واقعات نہایت کثرت کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ شاطرلوگ بھولی بھالی لڑکیوں کواپنی چرب زبانی اورشہوانی محبت کے مظاہروں سے متاثر کرکے ان کے گارڈینوں کی مرضی اوراطلاع کے بغیر ان کے ساتھ شادی کرلیتے ہیں اور جب وہ ان کے دام میں آجاتی ہیں توپھر دھوکے کاچولہ اترنا شروع ہوجاتا ہے اورشہوانی محبت بھی آہستہ آہستہ سرد پڑنے لگ جاتی ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہ گھر جس کے اندر ان لڑکیوں نے جنت سمجھ کر قدم رکھا تھا ان کے لئے ایک دوزخ کی صورت اختیار کرلیتا ہے اورابتدائً بے التفاتی اورپھر بے اتفاقی اورپھر لڑائی اوراس کے بعد جدائی اوربالآخر طلاق تک نوبت پہنچتی ہے۔
علاوہ ازیں اس ولایت کے انتظام میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس طرح نکاح کی بنیاد صرف جذبات پرقائم نہیں ہوتی بلکہ دوسرے امور بھی جو رشتہ نکاح میں دیکھنے نہایت ضروری ہوتے ہیں مدِّنظر رہتے ہیں مثلاً اخلاقی اوردینی حالت،خاندانی حالت،مالی حالت،تمدنی مناسبت، طبائع کی موافقت،عمر،صحت وغیرہ۔ظاہر ہے کہ اگر دونوجوانوں کو بغیر کسی قسم کے مشورہ اور ولایت کے سہارے کے یونہی اکیلا چھوڑدیاجاوے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے طور پرشادی کرلیں توچونکہ نوجوانوں میں عموماًجذبات کو زور ہوتا ہے اور مستثنیات کوالگ رکھتے ہوئے یہ جذبات بھی زیادہ تر شہوانی محبت کا رنگ رکھتے ہیں اس لئے دوسرے امور کانظر انداز ہو جانابالکل اغلب ہوتا ہے اورعملاًسارا معیار صرف وقتی جذبات پر آجاتا ہے جس کا نتیجہ اکثر خطرناک نکلتا ہے۔لیکن ولایت کے انتظام میں یہ خطرہ بہت ہی کم ہوتا ہے۔کیونکہ لڑکی کے جذبات کے ساتھ ساتھ ولی کے عقل وتجربہ کی شمع بھی اپنا کام کرتی ہے۔پس ولایت کا انتظام ایک نہایت ہی مبارک انتظام ہے جس میں ایک طرف تو عورت کی جائز آزادی اور اس کا حق انتخاب قائم رہتے ہیںاوردوسری طرف وہ شریر اورشاطر لوگوں کے دام تزویر میں پھنسنے یامحض جذباتی رو میں بہہ کہ عقل وتجربہ کے مشورے کوخیر باد کہہ دینے کے بد نتائج سے بچ جاتی ہے۔
۹- اسلامی نکاح میں مہر ایک ضروری شرط ہے یعنی مرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کوئی رقم یاجائیداد یاچیز جس کا فیصلہ فریقین کی رضامندی پرموقوف ہوتا ہے عورت کودے۔۱؎ یہ مہرخاوند کے ذمہ ایک قانونی قرض کارنگ رکھتا ہے اوراس کی مالک اور متصرف کلیتہً عورت ہوتی ہے۔نیز یہ مہر اس حصہ کے علاوہ ہوتا ہے جوعورت کواس کے خاوند کی وفات پربطور ورثہ کے ملتا ہے۔گویا اسلام میں عورت کوتین مختلف ذریعوں سے مال پہنچتا ہے۔اوّل اس کے والدین وغیرہ کی طرف سے بطورورثہ کے۔ ۲؎ دوسرے اس کے خاوند کی طرف سے بطور ورثہ کے۔ ۳؎ تیسرے مہر کے ذریعہ سے اوراس پرلطف یہ ہے کہ عورت کے ذمہ خرچ کوئی نہیں ہوتا۔
۱۰- خاوند اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیوی کے ضروری اخراجات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ۴؎ اور یہ خرچ مہر وغیرہ کے علاوہ ہوتا ہے۔
۱۱- اگرعورت ومرد نکاح کے وقت آپس میں کوئی خاص معاہدہ یاشرائط کرنا چاہیں توکرسکتے ہیں اوراس کی پابندی دونوں پرواجب ہوگی۔۱؎ مگروہ کوئی ایسی شرائط نہیں کرسکتے جن سے شریعت کے کسی حکم کا بطلان لازم آئے۔۲؎ اورنہ کوئی ایسی شرط کرسکتے ہیں جواخلاقاً قابل اعتراض ہو یا جس کے نتیجہ میں کسی تیسرے فریق پر سختی لازم آتی ہو۔۳؎ اس اصل کے ماتحت اسلام میں اس بات کی اجازت سمجھی جائے گی کہ اگر کوئی عورت اپنے لئے سوکن کے وجود کوناقابل برداشت یقین کرتی ہے تو وہ نکاح کے وقت خاوند کے ساتھ یہ شرط کرلے کہ اس کے ہوتے ہوئے خاوند دوسری شادی نہیں کرے گا۔یعنی یا تو وہ دوسری شادی بالکل ہی نہیں کرے گا یاپہلے اسے طلاق دے کر جدا کرلے گا توپھر دوسری شادی کرے گا۔اورچونکہ اسلام میں تعدد ازدواج کاحکم نہیں ہے بلکہ صرف خاص حالات کے لئے اجازت ہے اور ایسی شرط سے کسی تیسرے شخص پربھی کوئی ناواجب اثر نہیں پڑتا اس لئے ایسا معاہدہ ناجائز نہ ہوگا۔۴؎
۱۲- اس انتظامی فرق کے سوا کہ خاوند نظام اہلی کاامیر ہوتا ہے اسلام میں عورت ومرد کے مساویانہ حقوق تسلیم کئے گئے ہیں۔۵؎ اوراس اہلی امارت میں بھی خاوند بالکل آزاد نہیں ہے بلکہ اسے حکم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت اورخوش اخلاقی اوردلداری اورعفو کاسلوک کرے۔ ۶؎ اورگو اسے گھر کاامیر ہونے کی حیثیت میں تادیب کابھی حق ہے مگر یہ تادیب مناسب اور واجبی ہونی چاہئے۔۷؎ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا اس قدر تاکیدی حکم ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ ۸ ؎ یعنی ’’اے مسلمانو!تم میںسے سب سے اچھا شخص وہ ہے جواپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں سب سے اچھا ہے۔‘‘ اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ عورت کی مثال پسلی کی ہڈی کی ہے جو خِلقاً خمدار ہوتی ہے اور جسے اگرکوئی انسان سیدھا کرنے کی کوشش کرے تو وہ اپنا کام نہیں دے سکے گی جواس کے خمدار ہونے کے ساتھ وابستہ ہے۔اوریہ بھی نتیجہ ہوگا کہ وہ ٹوٹ جائے گی۔اسی طرح عورت بھی فطرتاًخمدار ہے یعنی اس کی طبیعت میں بعض خاص ادائیں رکھی گئی ہیں جو ہیں توبظاہر کجیاںمگر حقیقتاً اُنثیت کی جان ہیں۔اگر اس کے اس فطری خم کوکوئی شخص سیدھا کرنا چاہے گا تو وہ اسے سیدھا تو نہیں کرسکے گا مگر یہ نتیجہ ضرور ہوگا کہ پسلی کی ہڈی کی طرح عورت ٹوٹ جائے گی۔ ۱؎ یعنی یاتو وہ اپنے خاوند کے گھر میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوجائے گی اوریاجدائی اورطلاق تک نوبت آئے گی۔پس انسان کو چاہئے کہ عورت کے اس فطری خم کو جو اس کی اُنثیت کے ساتھ لازم وملزوم کے طور پر ہے سیدھا کرنے کی بے سود کوشش نہ کرے بلکہ اسی خم کے ساتھ اس کے ساتھ نبھائو کرے۔اورآپ نے فرمایا اِنَّ اَعْوَجَ شَی ئً فی الضِّلْعِ اَعْلاَ ہٗ ۲؎ ’’پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ ہی سب سے اونچا ہوتا ہے۔‘‘یعنی حقیقتہً عورت کا یہ فطری خم ہی اس کی نوع کاکمال ہے اورایک عورت اپنی انثیت میں جتنی کامل ہوگی اتنا ہی اس میں یہ فطری خم زیادہ ہوگا۔کیونکہ یہ اس کی مخصوص نوعیت کی جان ہے اس نہایت درجہ حکیمانہ ارشاد سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرد کی ذہنیت کوعورت کے ساتھ سلوک کرنے کے معاملہ میں ایک نہایت صحیح اورفطری بنیاد پرقائم فرما دیا ہے۔اور یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ اگر عورت کے بعض مخصوص انداز غلط استعمال یا غلط اظہار کی وجہ سے بعض اوقات تمہارے لئے تکلیف وپریشانی کاموجب ہوجائیں تو ان کی مناسب اصلاح توکرو مگر ان کی وجہ سے گھبرا کر ان کوبالکل مٹا دینے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ عورت کی فطرت کا حصہ ہیں اوراگر وہ صحیح حدود کے اندر رہیں گے تو وہی تمہاری اہلی خوشی کی بنیاد بن جائیں گے۔
۱۳- عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام جائز امور میں خاوند کی اطاعت کرے۔ اس کے ساتھ محبت وامتنان اوروفاداری کا نبھائو کرے۔اس کے مال اوراس کی عزت کی حفاظت کرے۔اس کے بچوں کی تربیت کرے اوراس کے خانگی امور کا انتظام کرے۔ ۳؎
۱۴- چونکہ عورت کے حقوق مرد پر اورمرد کے حقوق عورت پر اسلام میں ایک قانونی رنگ رکھتے ہیں اس لئے ان کے باہمی تنازعات عدالت میں جاسکتے ہیں۔۱؎ چنانچہ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس مسلمان عورتیں اپنے خاوندوں کی شکائتیں لایا کرتی تھیں اورآپ ان میں فیصلہ فرماتے تھے۔ ۲؎ اوران کے حقوق ان کودلواتے اورہر طرح ان کی دلداری فرماتے تھے۔حتّٰی کہ ان حقوق اوراس قسم کے مربیانہ سلوک کی وجہ سے صحابہ میں یہ احساس پیدا ہونے لگا تھا کہ اسلام نے تو گویا عورتوں کوآزادکردیا ہے۔ ۳؎
۱۵۔ تعدّد ازدواج اوردیگر متعلقہ مسائل کے متعلق چونکہ دوسرے موقع پرمفصل بحث گزرچکی ہے اس لئے اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ۴؎
طلاق کے قانون کاڈھانچہ اس طرح پر سمجھنا چاہئے کہ:
۱- چونکہ نکاح ایک سول معاہدہ ہے اس لئے وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے مگر اسلام نے صرف انتہائی حالات میں اس کے توڑنے کی اجازت دی ہے جبکہ کوئی اورچارہ نہ رہے چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَ قُ ۵؎ یعنی ’’جن باتوں کو خاص مصالح کے ماتحت خدائی شریعت میں جائز اورحلال قرار دیا گیا ہے ان میںطلاق خدا کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے‘‘۔اس اصل کے ماتحت اسلام نے ازدواجی رشتہ کوگویا ایک گونہ تقدس اوردوام کارنگ دے دیا ہے۔اورمسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ رشتۂ نکاح کے منقطع کرنے میں کبھی بھی جلدی نہ کریں بلکہ انتہائی احتیاط سے کام لیں۔مگر ایک جامع اورعالمگیر شریعت کی حیثیت میں اسلام نے اس بات کوبھی نظر انداز نہیں کیا کہ مردوعورت کے تعلقات میں ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے اس رشتہ کا خوشگوار صورت میں قائم رہنا محال ہوجاتا ہے۔اورنہ صرف خاوند وبیوی دونوں کی خانگی زندگی تلخ ہوجاتی ہے بلکہ اس تلخی کااثر لازماً ان کے دوسرے کاموں پر بھی پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ایک افسوس کرتے ہوئے دل کے ساتھ اس رشتہ کومنقطع کردیا جاوے۔چنانچہ اسی قسم کے انتہائی حالات کومدنظر رکھتے ہوئے خداتعالیٰ نے اسلام میںطلاق کاقانون جاری فرمایا ہے۔
۲- اس قانون طلاق کو(خلاف شریعت اورناجائز نکاح کی صورتوں کوالگ رکھتے ہیں جنہیں اصطلاحاً نکاح باطل یانکاح فاسد کہتے ہیں)موٹے طور پر تین حصوں میں تقسیم شدہ سمجھنا چاہئے۔اوّل فسخ نکاح کی صورت جس کے اندر میں فقہ کی اصطلاح سے کسی قدر ہٹ کر لعان وغیرہ کی صورت کو بھی شامل کرتا ہوں یعنی تمام وہ صورتیں جبکہ عقد نکاح کاقائم رہنا ناجائز ہوجاوے۔دوم طلاق یعنی وہ صورت جبکہ علیحدگی کی خواہش اورجدائی کی تحریک خاوند کی طرف سے ہو۔سوم خلع یعنی وہ صورت جبکہ علیحدگی کی خواہش اورجدائی کی تحریک بیوی کی طرف سے ہو۔۱؎ ان تینوں صورتوں کے لئے اسلام نے الگ الگ ضابطہ مقرر فرمایا ہے۔
۳- فسخ نکاح کی صورت اس وقت پیش آتی ہے جبکہ نکاح کا قائم رہنا ناجائز ہوجاوے۔مثلاً لڑکی اپنا حق خیارالبلوغ استعمال کرے۔ ۲؎ جس کی کسی قدر تشریح اوپر گزر چکی ہے۔یامثلاً خاوند کو اپنی بیوی کی عصمت کے خلاف یقین ہوجاوے مگروہ اسے شرعی طور پر ثابت نہ کرسکے جس صورت میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مردوعورت ایک دوسرے کے خلاف مؤکدبعذاب حلف اٹھائیں اورپھران میں علیحدگی کرادی جاوے۔اس صورت کو اسلامی اصطلاح میں لعان کہتے ہیں۔ ۳ ؎
۴- طلاق کی صورت میں اسلامی حکم یہ ہے کہ جب مردوعورت میں ایسے حالات پیدا ہوجاویں کہ خاوند اپنی بیوی کوعلیحدہ کرنے کی طرف مائل ہوجاوے توپیشتر اس کے کہ وہ طلاق دے فریقین کے متعلقین کوایک موقع مصالحت کی کوشش کا ملنا چاہئے۔ ۴؎ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاوے تو فَبِھَا لیکن اگروہ کامیاب نہ ہو تو اس صورت میں خاوند کو اپنے اختیار سے بغیر عدالت میں جانے کے طلاق دینے کا حق ہے۔۵؎ مگر یہ طلاق ایسے طہر میںہونی چاہئے جس میں خاوند بیوی اکٹھے نہ ہوئے ہوں ۶؎ تاکہ یہ کام جلدبازی کے طریق پرنہ ہو کہ جب جی میں آیا طلاق دے دی اورتاعورت کی مخصوص کشش خاوند کواس کے اس ارادے سے روکنے کے لئے آزاد رہے۔
۵- گوخاوند بیوی کی جدائی ایک طلاق سے بھی ہوسکتی ہے مگر دو طلاقوں تک خاوند کو رجوع کاحق رہتا ہے اورکامل جدائی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ طلاق تین دفعہ تین مختلف وقتوں میں دی جاوے تاکہ مکمل علیحدگی کے لئے کسی عارضی ناراضگی میں قدم نہ اٹھایا جاسکے اورخاوند کواپنے ٹھنڈے لمحات میں اونچ نیچ کے سوچنے کا موقع مل جاوے۔اگرکوئی شخص جوش میں آکر ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیتاہے تو وہ ناجائز ہوگا اورصرف ایک طلاق شمار ہوگی۔ ۱؎
۶- طلاق کی صورت میں خاوند کافرض ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی کامہر پہلے نہیں ادا کرچکا تو طلاق کے وقت اسے ادا کرے اوراگرکوئی اورمال اس نے اپنی بیوی کودے رکھا ہے تو وہ بھی واپس نہ لے بلکہ ممکن ہو تواپنے پاس سے کچھ اوربھی دے دے اوربڑی خوش معاملگی اوراحسان کے طریق پر اس کام کوسرانجام دے۔۲؎
۷- طلاق کے بعد بھی جب تک عورت دوسری شادی کے لئے آزاد نہ ہوجاوے خاوند اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اپنی مطلقہ بیوی کے ضروری اخراجات کابوجھ اٹھائے۔ ۳؎ اوراگر کوئی خوردسالہ اولاد ہے جوماں سے جدانہیں ہوسکتی تووہ بھی ماں کے پاس رہے گی اوراس کے ضروری اخراجات کا ذمہ دار باپ ہوگا۔ ۴؎
۸- خلع کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ چونکہ خانگی نظام کی امارت خاوند کے ہاتھ میں ہے یعنی ازروئے شریعت اورازروئے عقل وہ نہ صرف بیوی کے اخراجات کاذمہ دار ہے بلکہ فیملی کاہیڈ بھی وہی ہے اورپھر دوسری طرف عورت ہوتی بھی نسبتاً سادہ مزاج ہے اورچالاک لوگوں کے دھوکے میں زیادہ آسانی کے ساتھ آسکتی ہے اس لئے بیوی کوخود بخود علیحدہ ہوجانے کا حق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے عورت اپنے خاوند کے ساتھ نبھائو کوناممکن خیال کرے اوردوسری طرف خاوند اسے الگ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ حاکم کے ذریعہ علیحدگی حاصل کرسکتی ہے ۔ ۵؎ اورحاکم کایہ کام مقرر کیا گیا ہے کہ اگر عورت کی طرف سے حقیقی خواہش علیحدگی کی موجود ہو اوروہ کسی دھوکے اورشرارت کا شکار نہ ہورہی ہو تو علیحدگی کاحکم دے دے اوراس سوال میں زیادہ نہ پڑے کہ عورت کی علیحدگی کی خواہش مناسب یاپسندیدہ ہے یانہیں۔ ۱؎ اس اصل کے ماتحت اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی دوسری شادی کواپنے لئے واقعی ناقابل برداشت پاتی ہے تو وہ محض اسی بنا پر خلع کامطالبہ کرسکتی ہے۔ ۲؎
۹- اگر خاوند اپنی بیوی کوکوئی مال یاجائیداد علاوہ ازاخراجات زندگی دے چکا ہو اوروہ اس کی واپسی کامطالبہ کرے تو خلع کی صورت میں عدالت اس کی واپسی کابوجھ مناسب حدتک عورت پر ڈال سکتی ہے۔ ۳؎
۱۰- فسخ نکاح اورطلاق اورخلع کی ان صورتوں میں جن میں خاوند اوربیوی کے اکٹھے ہونے کے بعد علیحدگی ہوئی ہو عورت کودوسری شادی کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ اس کی علیحدگی پر ایک مقررہ میعاد جسے موٹے طور پر تین ماہ کہہ سکتے ہیں نہ گزر جاوے یاحمل کی صورت میں وضع حمل نہ ہوجاوے۔اس معیاد کوشریعت کی اصطلاح میں عدت کہتے ہیں۔ ۴؎
یہ اس قانون شادی وطلاق کاڈھانچہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائی حکم کے ماتحت مسلمانوں کے واسطے مقرر فرمایا۔اس نظام میں اسلامی قانون شادی کی خوبی توہمیشہ ہی اہل عقل وخرد کے نزدیک مسلّم رہی ہے۔مگر یہ ایک شکر کا مقام ہے کہ صدیوں کی ٹھوکروں کے بعد اب دنیا میں آہستہ آہستہ اسلامی قانون طلاق کی طرف بھی آرہی ہے۔چنانچہ مختلف مسیحی ممالک میں کم وبیش اسی لائن پر طلاق کاقانون بنتا چلا جا رہا ہے جواسلام نے پیش کی ہے۔ گو مغربی ممالک کی روش میں یہ اندیشہ بھی ضرورپایا جاتا ہے کہ کہیں طلاق زیادہ عام نہ ہوجاوے یعنی اس معاملہ میں لوگوں کے لئے حد اعتدال سے زیادہ آزادی کادروازہ نہ کھول دیا جاوے کیونکہ جہاں ایک طرف طلاق کے دروازے کوبالکل بند کردینا یاایسی ناواجب شرائط کے ساتھ مشروط کردینا جوعملاً بند کردینے کے مساوی ہوسخت نقصان دہ ہے وہاں اسے ناواجب طورپر زیادہ کھول دینا بھی کم ضرررساں نہیں اور یقینا اصلاح کارستہ وہی ہے جو اسلام نے اعتدال پرقائم رہتے ہوئے پیش کیا ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ میورصاحب نے ۱؎ اسلامی قانون طلاق پر یہ دلآزار طعن کیاہے کہ اس کی رو سے دوطلاقوں تک تو خاوند کو اپنی بیوی کی طرف رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن تیسری طلاق ہوچکنے کے بعد اسے یہ حق صرف اس صورت میں ہے کہ عورت کسی اورشخص کے نکاح میں آکر پھر اس سے علیحدگی حاصل کرے اوراس کے بعد میورصاحب نہایت جرأت کے انداز میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں اس بات کوجائز رکھا گیا ہے کہ ایک کرایہ دار مرد کی خدمات حاصل کرکے اس کے ساتھ ایسی عورت کواس شرط کے ساتھ بیاہ دیا جاوے کہ وہ اسے نکاح کے بعد طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت اپنے اصل خاوند کی طرف لوٹ سکے۔یہ اعتراض میور صاحب کے پرلے درجہ کے تعصب اوراگر تعصب نہیں تو پرلے درجہ کی لاعلمی پرمبنی ہے۔اسلام ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ سابق خاوند کے واسطے عورت کو جائز کرنے کے لئے یہ حیلہ کیا جاوے کہ عورت کوکسی اورآدمی سے بیاہ کر پھر اس سے علیحدگی حاصل کی جاوے بلکہ حق یہ ہے کہ اسلام اس قسم کے حیلہ کوایک سخت ناپاک اور *** فعل قرار دیتا ہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہٗ۔ ۲؎ ’’یعنی وہ شخص خدا کی *** کے نیچے ہے جوکسی عورت کے ساتھ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ تابعد میں اسے طلاق دے کر اس کے سابقہ خاوند کے لئے اسے جائز کردے اوراسی طرح وہ شخص بھی خدا کی *** کے نیچے ہے جو کسی دوسرے شخص سے اپنی سابقہ بیوی کااس غرض سے نکاح کرواتا ہے کہ تا وہ شخص اس سے طلاق حاصل کرکے پھر اس کے نکاح میں آسکے۔‘‘اور حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ اگرکوئی شخص اس قسم کا فعل کرے گا تو میں اسے زنا کی سزا دوں گا۔ ۳؎ اندریں حالات اس سے بڑھ کر دیدہ دلیری کیا ہوگی کہ اسلام کی طرف اس ناپاک طریق کو منسوب کیا جاوے۔
اسلامی تعلیم کا منشاء جسے میورصاحب نے نہیں سمجھا یا نہیںسمجھنا چاہا صرف یہ ہے کہ جب تین طلاقیں ہوچکیں تواس کے بعد مردوعورت اکٹھے نہیں ہوسکتے سوائے اس کے کہ عورت اپنی جائز ضرورت وغرض کے ماتحت کسی اورآدمی کے نکاح میں آئے اوراس کے بعد وہ اپنے لئے نئے خاوند کی وفات یاکسی حقیقی اختلاف کی بنا پر طلاق کی وجہ سے نہ اس غرض سے کہ وہ اپنے پہلے خاوند کی طرف لوٹ سکے پھر شادی کے لئے آزادہ ہوجاوے تو اس صورت میں باہم رضامندی کے ساتھ پہلا خاوند اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ پھر نکاح کرسکتا ہے۔اور اس قانون میں حکمت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کویکے بعد دیگرے تین دفعہ طلاق دے چکتا ہے تو اس لمبے تجربہ کے بعد یہی سمجھا جائے گا کہ اب ان کی اہلی زندگی کسی صورت میں خوشگوار نہیں رہ سکتی۔اس لئے اب انہیں پھر اکٹھے ہوکر ایک مزید تلخ تجربہ نہیں کرناچاہئے بلکہ کامل طورپر علیحدہ ہوجانا چاہئے اورایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے ہونے کاخیال دل سے نکال دینا چاہئے،لیکن اگراس کے بعد عورت کسی اورمرد کے نکاح میں آئے اوراس کے ساتھ متاہلانہ زندگی گزارے اورپھر کسی حقیقی اورجائز وجہ سے اس نئے خاوند سے اس کی علیحدگی ہوجائے یا اس کا نیا خاوند فوت ہوجائے اوراس کے بعد وہ اوراس کا سابقہ خاوند باہم رضامندی کے ساتھ پھراکٹھے ہونا چاہیں توان کے رستے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے۔کیونکہ علاوہ اس کے کہ ان کی شادی میں کوئی امراصولاًمانع نہیں ہے ایسی صورت میں یہ امید کرنا ہرگز بعید ازقیاس نہیں کہ اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ نبھائو کرسکیں گے کیونکہ ایک عرصہ تک ایک دوسرے سے الگ رہنے اوراس عرصہ میںایک تیسرے شخص کے ساتھ معاملہ پڑنے کے نتیجہ میںان کے دلوں میں ایک دوسرے کی قدر پیدا ہوجانا بالکل ممکن اورقرین قیاس ہے اوریہ مسئلہ بھی دراصل اسلام نے اس غرض سے خاص طورپر بیان کیا ہے کہ اگر ایک طرف اہلی زندگی کے تلخ تجربات کے سلسلہ کومحدود کیا جاوے تودوسری طرف لوگوں میں اس خیال کابھی سدباب کیا جاوے کہ گویا تین طلاقوں کاوجود اپنی ذات میں کوئی حرمت کی وجہ ہے اوریہ کہ تین طلاقوں کے بعد خاوند بیوی کے اکٹھے ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں تین طلاقوں کے بعد بھی تجدیدنکاح کادروازہ کھلا رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تا اس سے لوگوں میں نکاح کے تقدس اوردوام کا احساس پیدا کیا جاوے اوریہ خیال قائم کیا جاوے کہ جب دومردوعورت کاایک دفعہ آپس میں ازدواجی تعلق قائم ہوجاوے تو پھر انتہائی کوشش اس تعلق کے نبھانے کی ہونی چاہئے اوراگرکسی وجہ سے درمیان میں یہ تعلق ٹوٹ بھی جاوے اوراس کا پھر قائم ہونا محال بھی ہوجاوے توپھر بھی آئندہ چل کرکوئی ایسا موقع جبکہ جائز طور پر اس تعلق کے دوبارہ جوڑے جانے کی امید ہوسکے ضائع نہیں جانے دینا چاہئے۔پس میور صاحب نے جس مسئلہ کوایک غلط اورناپاک صورت دے کر اس پراعتراض کیا ہے وہ دراصل اپنی حقیقی صورت میں اسلامی تعلیم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے جسے افسوس ہے کہ سرولیم کی آنکھ دیکھ نہیں سکی۔
مدنی زندگی کے پہلے دور کا خاتمہ
اور اسلامی طریق حکومت
ایک نئے دور کا آغاز
غزوہ بنو قریظہ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے پہلے دور اور ہماری کتاب کی دوسری جلد کا خاتمہ ہوتا ہے۔یہ دور کن حالات
میں گزرا؟اسلام کی حفاظت کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا؟ مسلمانوں پر کیسی کیسی نازک گھڑیاں آئیں؟اندرونی اور بیرونی خطرات نے کیا کیا مہیب صورتیں اختیار کیں ؟ان سولات کا کسی قدر مفصل جواب اوپر گذر چکا ہے ۔یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کا پہلا دور اایک مسلسل زلزلہ کا رنگ رکھتا تھا جو پانچ سال کے طویل عرصہ میں جسے مصائب نے احساسی طور پر اور بھی لمبا کر دیا تھا مدینہ کی سر زمین کو خطر ناک طور پر جنبش دیتا رہا اور اس زلزلہ کے بعض دھکے اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے تباہ کن تھے کہ اگر خدا کی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو یقینا یہ دھکے مدنیہ کی سر زمین کو بالکل تہ وبالا کر کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے خاک میں سُلا دیتے۔اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اس زلزلہ کے آتش فشاں منبع کی ایک شاخ یہود کے قلعوں میں ہو کر عین مدینہ کی دیواروں کے نیچے پہنچی ہوئی تھی۔اس زلزلہ کا سب سے بڑا دھکا غزوئہ احزاب میں پیش آیا جبکہ خونخوار اتحادیوں کے جنگی نعروں اور ان کے عربی گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سے مدنیہ کی زمین گویا لفظاً لزرہ کھا گئی تھی اور مسلمانوں کے کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور اس زلزلہ کو بد عہد یہود کی غداری نے اور بھی زیادہ خطرناک صورت دے دی تھی۔لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے یہ حملہ کفارمکہ کی عداوت کا آخری نقطہ ثابت ہوا۔جس کے بعدگو ان کی دلی عداوت اور فتنہ انگیزی تو اسی طرح قائم رہی مگر انہیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کی توفیق نہیں ملی۔اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ اَلْآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَایَغْزُوْنَنَا (یعنی ان لوگوں کی فتنہ انگیزی اور دشمنی کی وجہ سے آئندہ ہمیں تو ان کے خلاف فوج کشی کے موقعے ملتے رہیں گے مگر انہیں ہمارے خلاف مدینہ پر چڑھائی کرنے کی توفیق نہیں ملے گی)حرف بحرف پوری ہوئی اور اس طرح مدنی زندگی کے پہلے اور دوسرے دور میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہو گیا۔علاوہ ازیں چونکہ بنوقریظہ کے خاتمہ کے ساتھ مدنیہ میں یہودی آبادی کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا اور اس کے بعد مدنیہ کے شہر میں سوائے مسلمانوں یا مسلمان کہلانے والے منافقوں یا مسلمانوں کے توابع کے اور کوئی قوم باقی نہیں رہی تھی جو مسلمانوں کے مقابلہ پر کھڑی ہو سکتی یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے برملا سرتابی کرنے کی جرأت کرتی۔اس لیے اس وقت سے مدینہ میں ایک خالص اسلامی حکومت کی بنیاد بھی قائم ہو گئی۔گویا اس نئے دور کی جو غزوہ بنوقریظہ کے بعد سے شروع ہو ا،دو نمایاں خصوصیات تھیں۔ اوّل کفار کے ان حملوں کا جو مدینہ کے خلاف ہوتے تھے ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیااور اس کے نتیجہ میں میدان کارزار مدینہ کے قرب وجوار سے ہٹ کر دور دراز کے علاقوں کی طرف منتقل ہو گیا۔دوم مدینہ کا شہر سیاست و حکومت کے لحاظ سے ایک خالص اسلامی سلطنت کی صورت اختیار کر گیا جس میں کسی غیر حکومت یا غیر قوم یا غیر مذہب کا دخل نہیں تھا ۔اور پھر یہی مرکزی حکومت آہستہ آہستہ وسعت اختیار کر کے بالآخر دنیا کے ایک بڑے حصہ پر چھا گئی ۔
یہ محیر العقول تغیر پانچ سال کے قلیل عرصہ میں کس طرح ممکن ہو گیا؟ا س سوال کا حقیقی جواب اس دنیا کے مادی علوم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اور اسے پوری طرح وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو روحانی تصرفات کا علم رکھتا ہو اور اس خدائی سنت سے واقف ہو جو قدیم سے نبیوں کے ساتھ رہی ہے مگر یہ امور تاریخ کا حصہ نہیں ہیں ۔ظاہری اسباب کے لحاظ سے جو باتیں مسلمانوں کی اس بے نظیر کامیابی کا باعث سمجھی جا سکتی ہیں ان میں مندرجہ ذیل باتیں خاص طور پر نمایاں اثر رکھتی تھیں ۔مسلمانوں کا اتحاد،ان کی تنظیم،ان کا اپنے مقصد کے لیے بے نظیر استقلال۔ان کی قربانی کی روح۔اُن کا یہ کامل یقین کہ ہم حق و صداقت کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ان کا یہ گہرا احساس کہ ہم اس قدر بے سروسامان ہیں کہ جب تک ہم اپنی انتہائی طاقت کو بے دریغ صرف کردینے کے لیے تیار نہیں ہونگے ہماری حفاظت کی کوئی صورت نہیں ہے۔اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بے نظیر مقناطیسی شخصیت اور اعلیٰ درجہ کی جنگی تدابیر وغیرہ ذالک۔ان تاثیرات نے مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت میں وہ طاقت بھر دی تھی جسے عرب کی لا تعداد افواج کا نہایت وحشیانہ مظاہرہ بھی مغلوب نہیں کر سکا اور اس پانچ سالہ جنگ کے نتیجہ میں کفّارِ عرب نے اس بات کو یقینی طور پر سمجھ لیا کہ اب مدینہ پر حملہ آور ہو کر اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو ملیامیٹ کردینے کا خیال ایک خیال باطل ہے جو کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا۔اور یہ کہ اب انہیں مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے لیے اور تدابیر سے کام لینا چاہئے۔کفار کی یہ ذہنی تبدیلی اسلام کے لیے ایک نئے دور کے آغاز کا نشان تھی۔
اسلامی طریق حکومت
چونکہ اس نئے دور کی دو نمایاں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مدینہ میں خالص اسلامی حکومت کا قیام تھی اس لیے اس موقع پر اس اصولی تعلیم کا ذکر
کرنا نا مناسب نہ ہو گا جو بانیٔ اسلام نے حکومت کے طریق کے متعلق پیش فرمائی ہے۔اس کے متعلق سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئیے کہ جیسا کہ دوسرے دنیاوی امور میں اسلام کا طریق ہے اس معاملہ میں اسلام نے صرف ایک اصولی تعلیم دی ہے اور تفصیلات کے تصفیہ کو ہر زمانہ اور ہر ملک اور ہر قوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے ۔اور دراصل اس قسم کے معاملات میں یہی طریق عقل مندی اور میانہ روی کا طریق ہے کہ صرف اصولی ہدایت پر اکتفاء کیا جاوے اور تفصیلات میں دخل نہ دیا جاوے ۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہو اور حالات کے اختلاف کا لحاظ رکھنے کے بغیر ہر زمانہ میں ہر قوم پر ایک ہی ٹھوس غیر مبدل اور تفصیلی قانون جاری کر دیا جاوے تو ظاہر ہے کہ قانون شریعت رحمت کی بجائے ایک زحمت ہو جاوے اور ہدایت کی بجائے ضلالت کا سامان پیدا کر دے۔پس اسلام نے کمال دانشمندی کے ساتھ اس معاملہ میں صرف ایک اصولی ہدایت دی ہے۔جو تفصیلات کے مناسب اختلاف کے ساتھ سب قسم کے حالات پر یکساں چسپاں ہوتی ہے۔
حکومت کا اصل حق صرف جمہور کو حاصل ہے اور جمہور کی طرف سے افراد کو پہنچتا ہے
یہ اصولی ہدایت یہ ہے کہ انبیاء ومرسلین کے معاملہ کو الگ رکھتے ہوئے جنہیں خدا کی طرف سے اس کے ازلی حق میں سے حکومت کا حق پہنچتا
ہے سب لوگ حکومت کے حق میں برابر ہیں۔یعنی اصل حکومت جمہور کی ہے اور اس حق میں کسی شخص کو دوسروں کی نسبت فائق حق حاصل نہیں ہے۔لیکن چونکہ نظام حکومت کے چلانے کے لیے ایک محدود انتظامی حکومت کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کی انتہائی باگ ڈور ایک حاکم اعلیٰ یعنی صدرِ حکومت کے ہاتھ میں ہو۔اس لیے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ باہم مشورہ کے ساتھ جس شخص کو حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہل سمجھیں اسے اپنا امیر مقرر کر لیا کریں۔چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۱ ؎ یعنی ’’اے لوگو!اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کی امانت تم اس کے اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو اور پھر جو لوگ اس طرح حاکم منتخب ہوں انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ وہ لوگوں میں عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں ۔‘‘اس اصولی آیت میں حکومت کے حق کو امانت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دراصل حکومت کا حق سب لوگوں کا مشترکہ حق ہے اور خاص افراد کو جمہور کی طرف سے ایک امانت کے طور پر ملتا ہے۔ پس جس شخص کو حکومت ملے اسے سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک امانت ہے جو لوگوں کی طرف سے اسے ملی ہے ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ابوذرؓ صحابی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے کسی علاقے کا امیر مقرر فرما دیں۔اس پر آپ نے فرمایا:
یَا اَبَاذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَاَمۃٌ اِلاَّمَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا۔ ۲؎ یعنی’’اے ابو ذر!تم ایک ضعیف انسان ہو اور حکومت ایک امانت ہے اور قیامت کے دن وہ ذلّت وندامت کا موجب ہو گی سوائے اس شخص کے جو اس کے پورے پورے حقوق ادا کرے۔‘‘اس حدیث میں حکومت کو امانت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی یہ حکومت کا حق صرف جمہور کو حاصل ہے اور کسی خاص فرد کو اس کا حق جمہور کی طرف سے صرف ایک امانت کے طور پر ملتا ہے ۔
چونکہ حکومت ایک امانت ہے اس لیے حاکم اعلیٰ کا تقرر تو الگ رہا ماتحت حکام کے تقرر میں بھی اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر نہ کیا جاوے جو خود حکومت کا خواہشمند ہو۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اِنَّاوَاللّٰہِ لَانُوَلِّیْ ھٰذَاالْعَمَلَ اَحَدًاسَأَلَہٗ وَلاَ اَحَدًاحَرِصَ عَلَیْہِ۔ ۳؎ یعنی’’خدا کی قسم ہم کبھی ایسے شخص کو حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دینگے جو خود اس عہدہ کو طلب کرے یا اس کا خواہشمند ہو۔‘‘
حکومت کے لیے مشورہ ضروری ہے
جو لوگ لوگوں کے مشورہ سے حاکم منتخب ہوں انکی ہدایت کے لیے اسلام یہ اصولی تعلیم ارشاد فرماتا ہے :
۱؎ یعنی ’’مومنوں کا یہ کام ہے کہ وہ خدا کی پوری پوری فرمانبرداری اختیار کریں اور اس کی عبادت پر قائم رہیںاور حکومت کے امور باہم مشورہ کے ساتھ طے کریںاور جو اموال خدا نے انہیں دئے ہیں انہیں لوگوں پر خرچ کریں ‘‘اس آیت میں حاکم کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ امیر منتخب ہونے کے بعد خود مختارانہ اور جابرانہ طریق اختیار نہ کرے بلکہ اس اصول کو یاد رکھتے ہوئے کہ اس کی حکومت اس کے پاس محض ایک امانت ہے رائے عامہ کو معلوم کرتا رہے اور لوگوں کے مشورہ کے ساتھ حکومت کے فرائض سر انجام دے۔چنانچہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۲؎ یعنی’’اے نبی تم حکومت کے معاملات میں لوگوں سے مشورہ لیا کرو ۔مگر مشورہ کے بعد جب تم کوئی رائے قائم کرلو تو پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘ یہ ہدایت قرآنی محاورہ کے مطابق صرف آپ ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ کے خلفاء اور متبعین کے لیے بھی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ طریق حکومت کے معاملہ میں اسلام صرف دو اصولی ہدایتں دیتا ہے ۔اوّل یہ کہ حکومت کا حق سب لوگوں کا مشترک حق ہے اور ایسی صورت میں لوگوں کو چاہیے کہ اپنے میں سے بہترین شخص کو باہم مشورے کے ساتھ امیر منتخب کیا کریں۔دوسرے یہ کہ جو شخص امیر بنے اور حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آئے اس کا فرض ہے کہ اس امانت کو حق و انصاف کے ساتھ ادا کرے اور سیاست و حکومت کے جملہ اہم امور لوگوں کے مشورہ کے ساتھ سر انجام دے۔گویا حکومت کے معاملہ میں اسلام نے ورثہ کے حق کو قطعاً تسلیم نہیں کیا اور نہ اس بات کو جائز رکھا ہے کہ کوئی حاکم رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اور مشورہ کے طریق کو چھوڑ کر حکومت میں استبدادی اور خود مختارانہ طریق اختیار کرے۔ لیکن جیسا کہ موجودہ زمانہ میں بھی یہ اصول ویٹو وغیرہ کی صورت میں عام طور پر مسلم ہے اسلام نے استشنائی حالات میں امیر کے لیے یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ اگر ضروری سمجھے تو کثرت رائے کے مشورہ کو رد کر دے ۔ ۳؎ مگر اسلامی شریعت کی رو سے امیر بہر حال اس بات کا پابند قرار دیا گیا ہے کہ کوئی اہم معاملہ مشورہ لینے کے بغیر طے نہ کرے۔حتّٰی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے جو اسلامی سیاسیات میں نہایت ماہرسمجھے گئے ہیں یہاں تک فرمایا ہے کہ :لَا خِلَا فَۃَ اِلاَّ بِالْمَشْوَرَۃِ ۴؎ یعنی کوئی اسلامی حکومت مشورہ کے انتظام کے بغیر جائز تسلیم نہیں کی جاسکتی۔‘‘
یہ وہ اصولی ہدایتیں ہیں جو اسلام نے حکومت کے طریق کے متعلق جاری فرمائی ہیں ۔لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اسلام نے ان اصولی ہدایات کے سوا اس مسئلہ کی تفصیلات میں کوئی دخل نہیں دیا۔مثلاً اس قسم کے سوالات کے متعلق اسلام نے کوئی معین ہدایات نہیں دیں کہ امیر یعنی صدر حکومت کے انتخاب کے متعلق کس طریق پر مشورہ ہوناچاہیے اور مجلس شوریٰ کی تقویم کو نسے اصول پر مبنی ہو ۔اور جب کوئی امیر منتخب ہو جاوے تو وہ امور مملکت میں پبلک سے مشورہ لینے کے متعلق کیا طریق اختیار کرے اور مشورہ میں کس قسم کے امور پیش ہوںاور نظام حکومت کی جزئیات کیا ہوں وغیر ذالک۔یہ باتیں اور اسی قسم کی دوسری تفصیلات ہر ملک اور ہر قوم اور ہر زمانہ کے حالات پر چھوڑ دی گئی ہیں۔
حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کس طرح قائم ہوئی؟
اس جگہ بعض لوگوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اسلامی تعلیم کی رو سے امیر یا خلیفہ کا تقرر مشورہ اور انتخاب کے طریق پر ہونا ضروری ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی
کا تقرر اس طریق پر نہیں ہوا بلکہ انہیں حضرت ابو بکر خلیفہ اوّل نے خود مقرر کر دیا تھا اور پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عثمان خلیفہ ثالث کا تقرر بھی رائے عامہ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ حضرت عمر نے اس حق کو چھ سات صحابہ تک محدود کردیا تھا اور بالآخر کیا وجہ ہے کہ امراء بنی امیہ اور بنی عباس وغیرہ ہمیشہ اپنا ولی عہد خود مقرر کر دیتے تھے جو عموماً کوئی بیٹا یا قریبی رشتہ دار ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات یہ فیصلہ کر جاتے تھے کہ ہمارے بعد فلاں شخص امیر ہواور اس کے بعد فلاں اور اس کے بعد فلاںاور ان کے زمانہ میں کبھی بھی مشورہ اور انتخاب کے طریق پر امیر کا تقرر نہیں ہوا؟
اس شبہ کے جواب میںپہلے ہم حضرت عمرؓ کی خلافت کے سوال کو لیتے ہیں ۔سو جاننا چاہئے کہ بیشک اسلام میں خلافت وامارت کے قیام کے لئے مشورہ اور انتخاب کا طریق ضروری ہے مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مشورہ اور انتخاب کے طریق کی نوعیت اور اس کی تفاصیل کے متعلق اسلام نے کوئی خاص شرط یا حد بندی مقرر نہیں کی بلکہ اس قسم کے فروعی سوالات کو وقتی حالات پر چھوڑ دیا ہے اور ظاہر ہے کہ مختلف قسم کے حالات میں مشورہ اور انتخاب کی صورت مختلف ہو سکتی ہے اور اس اصل کے ماتحت اگر نظر غور سے دیکھا جاوے تو حضرت عمرؓ کی خلافت کا قیام بھی درحقیقت مشورہ اور انتخاب کے اصول کے ماتحت ہی ثابت ہوتا ہے۔حضرت عمرؓ کی خلافت کا معاملہ یوں طے ہوا تھا کہ جب حضرت ابوبکرؓ جو ایک منتخب شدہ خلیفہ تھے فوت ہونے لگے تو چونکہ اس وقت تک ابھی فتنہ ارتداد کے اثرات پوری طرح نہیں مٹے تھے اور خلافت کا نظام بھی ابھی ابتدائی حالت میں تھا حضرت ابو بکرؓ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ آئندہ خلافت کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور اہل شخص حضرت عمرؓ ہیں اور یہ کہ اگر خلیفہ کے انتخاب کو رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تو ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی طبیعت کی ظاہری سختی کی وجہ سے انتخاب میں نہ آسکیں۔اور امت محمدؐیہ میں کسی فتنہ کا دروازہ کھل جاوے،اہل الرائے صحابہ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا اور اس مشورہ کے بعد حضرت عمرؓ کو جن کا حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا بلکہ قبیلہ تک جدا تھا اپنا جانشین مقرر کردیا ۔ ۱؎ حالانکہ اس وقت حضرت ابوبکرؓ کے اپنے صاحبزادے اور دیگر اعزہ واقارب کثرت کے ساتھ موجود تھے۔اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ صورت ایسی ہے کہ اسے ہر گز مشورہ اور انتخاب کی روح کے منافی نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اول تو حضرت ابوبکرؓ نے یہ فیصلہ خود بخود نہیں کیا بلکہ اہل الرائے صحابہ کے مشورہ کے بعد کیا تھا۔دوسرے حضرت ابوبکر ؓ خود ایک منتخب شدہ خلیفہ تھے جس کی وجہ سے گویا ان کا ہر فیصلہ قوم کی آواز کا رنگ رکھتا تھا۔اور پھر انہوں نے اپنے کسی عزیز کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ ایک بالکل غیر شخص کو خلیفہ بنایا جس کے معاملہ میں یہ امکان نہیں ہو سکتا تھا کہ لوگ خلیفہ وقت کی قرابت کا لحاظ کر کے مشورہ میں کمزوری دکھائیں گے۔اس صورت میںہر گز یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ مشورہ اور انتخاب کے طریق کو توڑا گیا ہے بلکہ یہ صورت بھی درحقیقت مشورہ کی ایک قسم سمجھی جائیگی۔علاوہ ازیں حضرت عمرؓ کی خلافت کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک صریح پیشگوئی بھی تھی۔ ۲؎ جس کی وجہ سے کسی مسلمان کو ان کی خلافت پر اعتراض نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوا بلکہ سب نے کمال انشراح کے ساتھ اسے قبول کیا۔
دوسرا سوال حضرت عثمانؓ کی خلافت کا ہے۔سواول تو ان کا انتخاب خود محدود مشورہ سے ہی ہوا ہو مگر بہرحال وہ بطریق مشورہ تھا ۳؎ اوران کی خلافت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سابقہ خلیفہ کے حکم سے قائم ہوئی تھی۔اورچونکہ اسلام نے مشورہ اورانتخاب کے طریق کی تفاصیل میںدخل نہیں دیا بلکہ تفاصیل کے تصفیہ کووقتی حالات پرچھوڑ دیا ہے اس لئے محدود مشورہ کاطریق جوحضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق اختیار کیا گیا وہ ہرگز اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں سمجھا جاسکتا۔خصوصاً جبکہ اس بات کو بھی مدِّنظر رکھا جاوے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے جواس شوریٰ کے صدرتھے جس نے حضرت عثمانؓ کی خلافت کافیصلہ کیا اپنے طور پر بہت سے اہل الرائے صحابہ سے مشورہ کرلیا تھا اور رائے عامہ کوٹٹولنے کے بعد خلافت کافیصلہ کیا گیا تھا ۱؎ اورپھر یہ کہ اس وقت حالات ایسے تھے کہ اگر اس معاملہ کو کھلے طریق پررائے عامہ پرچھوڑا جاتا تو ممکن تھا کہ کوئی فتنہ کی صورت پیدا ہوجاتی۔علاوہ ازیں حضرت عمرؓنے یہ بھی تصریح کردی تھی کہ گومیرے لڑکے کومشورہ میں شامل کیا جاوے مگر اسے خلافت کا حق نہیں ہوگا۔ ۲؎ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت عمرؓکی طرح حضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی۔ ۳؎ اس لئے ان کی خلافت پرکسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہوا۔
بنوامیہ کی خلافت صحیح اسلامی خلافت نہ تھی
اب رہا ملوک بنوامیہ اوربنوعباس کاسوال ۔سوان کاطریق خلافت واقعی اسلامی طریق کے خلاف تھا
اور محققین اسلام نے کبھی بھی ان کی امارت کو اسلامی طریق کی امارت نہیں سمجھا اس لئے وہ قابل حجت نہیں ہے۔تاریخ وحدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے کہ جب امیر معاویہ نے بعض غلط مشوروں میں آکر پہلی دفعہ اسلام میںیہ بدعت جاری کرنی چاہی یعنی جمہور سے حق انتخاب عملاًچھین کر اپنے بیٹے یزید کواپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کردیناچاہا توان کبار صحابہ میں سے اکثر نے جو اس وقت زندہ تھے ان کی مخالفت کی اورصاف صاف کہہ دیا کہ یہ طریق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کہ خلیفہ کی زندگی میں ہی اس کے بیٹے کے لئے بیعت کاعہد لیا جارہا ہے۔ ۴؎ مگرامیر معاویہ نے نہ مانا اورعوام کاسہارا ڈھونڈ کر یزید کواپنا جانشین مقرر کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب امیر معاویہ فوت ہوگئے توجو تھوڑے بہت صحابہ اس وقت بقید حیات تھے وہ گوفتنہ کے خیال سے خاموش رہے مگر جیسا کہ تاریخ وحدیث میں اشارے ملتے ہیں انہوں نے دل میں یزید کی امارت کوقبول نہیں کیا بلکہ حضرت امام حسینؓ اورعبداللہ بن زبیرؓ نے تو اس طریق کواسلامی تعلیم کے اس قدر خلاف سمجھا کہ باوجود نہایت درجہ کمزوری کی حالت میں ہونے کے وہ یزید کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اوربالآخر اسی جنگ میں امام حسینؓ تویزید کے زمانہ میں ہی اورعبداللہ بن زبیرؓکچھ عرصہ بعد شہید ہوگئے۔ ۱؎ مگر انہوں نے اس استبدادی حکومت کے سامنے جسے وہ اسلامی طریق کے خلاف سمجھتے تھے گردن نہیں جھکائی۔لیکن امیر معاویہ کی یہ غلطی بعد میں آنے والوں کے لئے ایک مثال بن گئی اوراس وقت سے بادشاہی رنگ میں ولی عہدی کاطریق جاری ہوگیا۔
اس بات کا ثبوت کہ امیر معاویہ اور ان کے بعد آنے والے امراء کی امارت صحیح اسلامی خلافت نہیں تھی بلکہ صرف ایک بادشاہت تھی اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد صحیح اسلامی خلافت صرف تیس سال رہے گی اوراس کے بعد بادشاہت کاطریق جاری ہوجائے گا۔۲؎ اوراگر حساب کیا جاوے تو حضرت علیؓ یاامام حسنؓ کی خلافت تک یہ تیس سالہ میعاد پوری ہوجاتی ہے اورامیر معاویہ کے زمانہ سے وہ میعاد شروع ہوتی ہے جسے بادشاہت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
جانشین مقرر کرنے کی شرائط
خلاصۂ کلام یہ کہ اصل اسلامی تعلیم اورصحیح اسلامی تعامل یہی ہے کہ خلافت وامارت کاقیام لوگوں کے مشورہ سے ہونا چاہئے جیسا کہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اسلام کے پہلے خلیفہ کے معاملہ میں ہوا۔۳؎ لیکن اگر کوئی خلیفہ اپنا جانشین خود مقرر کرجانے کی ضرورت محسوس کرے تو بعض حالات میں اس طریق کے اختیار کرنے کی اجازت تو ہے مگر جیسا کہ اسلامی تعلیم کی روح اورخلفاء اربعہ کی سنت سے ثابت ہوتا ہے اس کے لئے پانچ شرطیں ضروری ہیں اول یہ کہ اس وقت کوئی ایسے خاص حالات موجود ہونے چاہئیں جن کی وجہ سے عام طریق کوچھوڑ کر اس طریق کااختیار کرنا مناسب ہو۔دوم یہ کہ جانشین کاتقرر لوگوں کے مشورہ کے ساتھ کیا جاوے۔سوم یہ کہ یہ تقرر صرف آئندہ خلیفہ یاامیر تک محدود رہے۔یہ نہیں کہ کوئی خلیفہ یہ حکم دے جاوے کہ میرے بعد فلاں شخص امیر ہواوراس کے بعد فلاں اوراس کے بعد فلاں۔کیونکہ یہ طریق آئندہ آنے والی نسلوں سے حق انتخاب چھین لینے کے مترادف ہے۔چہارم یہ کہ یہ جانشین خلیفۂ وقت کے قریبی رشتہ داروں میں سے نہ ہو۔پنجم یہ کہ جانشین مقرر کرنے والا خلیفہ خود منتخب شدہ خلیفہ ہونا چاہئے۔واللہ اعلم
کیا امارت سے دستبرداری کی جاسکتی ہے؟
یہ سوال کہ کوئی خلیفہ یاامیر باقاعدہ طورپر منتخب یامقرر ہونے کے بعد خود بعد میں کسی مصلحت کی
بناء پر خلافت سے دست بردار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ایک ایسا سوال ہے جس کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی نص نہیں پائی جاتی مگر ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں دنیوی امراء کے متعلق توکوئی امرمانع نہیں سمجھاجاسکتا۔البتہ دینی خلفاء کاسوال قابل غور ہے۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت عثمان خلیفہ ثالث سے ان کے زمانہ کے باغیوں نے یہ درخواست کی کہ آپ خود بخود خلافت سے دست بردار ہوجائیں ورنہ ہم آپ کو جبراًالگ کردیں گے یاقتل کردیں گے تواس پر حضرت عثمانؓ نے یہ جواب دیا کہ جو عزت کی قمیص خدا نے مجھے پہنائی ہے میں اسے خود اپنی مرضی سے کبھی نہیں اتاروں گا۔ ۱؎ جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف اشارہ تھا جوآپ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا تھا کہ خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اورلوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا۔ ۲؎ لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت امام حسنؓ کایہ فعل ہے کہ انہوں نے امت محمدیہؐ کے اختلاف کودیکھتے ہوئے امیرمعاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ۳؎ اورروایت آتی ہے کہ اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میرے اس نواسے کے ذریعہ خدا دو مسلمان گروہوں میںصلح کروائے گا۔ ۴؎ گویا امام حسنؓ کے اس فعل کومقام مدح میں سمجھا گیا ہے کہ ان کی اس دست برداری کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے امام حسنؓ کی ایک امتیازی خوبی بیان کی تھی اورامت محمدیہؐ پھر ایک نقطہ پرجمع ہوگئی۔ان دومثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دست برداری کاسوال حالات پر چھوڑا گیا ہے یعنی یہ کہ اگر خلافت کا استحکام ہوچکا ہو جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں ہوچکا تھا یا یہ کہ اگر دست برداری کے متعلق لوگوں کی طرف سے خواہش یامطالبہ ہوتو وہ ناپسندیدہ بلکہ ناجائز ہے۔لیکن اگر قبل استحکام خلافت جیسا کہ امام حسنؓ کے معاملہ میں پایا جاتا ہے کسی اعلیٰ غرض کے حصول کے لئے خود خلیفہ اپنی خوشی سے اپنی خلافت سے دست بردار ہوجانا مناسب خیال کرے تواس کے لئے کوئی امر مانع نہیں ہے۔اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ یہ خیال جوہم نے یہاں ظاہر کیا ہے یہ اسلام کا کوئی فیصلہ شدہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ محض ایک رائے ہے جو واقعات سے نتیجہ نکال کر قائم کی گئی ہے۔واللہ اعلم
عزل اورمیعادی انتخاب کاسوال اوردینی اوردنیوی امراء میں فرق
یہ سوال کہ آیا امیر یاخلیفہ کاانتخاب میعادی بھی ہوسکتا ہے یانہیں؟نیزیہ کہ آیا کوئی شخص امیر یاخلیفہ منتخب ہونے کے کسی نقص یاکمزوری کی وجہ سے اپنے عہدہ سے معزول بھی ہوسکتا
ہے یانہیں؟ ایک نہایت قابل غور سوال ہے۔اس معاملہ میں اسلام نے دینی اوردنیاوی امراء میںایک امتیاز رکھا ہے۔دینی امراء سے مراد وہ امراء ہیں جن کے ہاتھ میںدینی سیاست یادینی اوردنیوی سیاست مخلوط طورپر ہو اوردنیوی امراء سے وہ امراء مراد ہیں جن کا تعلق محض دنیوی سیاست کے ساتھ ہو۔اول الذکر امراء کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
۱؎ یعنی ’’اے مومنو!اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے ان لوگوں کے ساتھ جوتم میں سے (اعلیٰ) ایمان لائیں اور(اعلیٰ قسم کے)نیک اعمال کریں کہ ضرور انہیں دنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا جیساکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کوخلیفہ بنایا اوراللہ ان خلفاء کے دین کو جواس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ان کے ذریعہ سے طاقت وقوت عطا کرے گااوران کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا یہ لوگ ہمیشہ میری عبادت کریںگے اورمیرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیںکریں گے اورجو لوگ ان خلفاء کی اطاعت سے منحرف ہوں گے وہ بد عہد اورباغی سمجھے جائیں گے۔‘‘اس آیت کریمہ سے پتہ لگتا ہے کہ دینی خلفاء کی خلافت خدا تعالیٰ کے خاص تصرف اورخاص منشاء کے ماتحت قائم ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ کی خاص نصرت ان کے شامل حال رہتی ہے اوران کے ذریعہ سے دینی سیاست کی تقویت اورمضبوطی مقصود ہوتی ہے اوراسی لئے ان کی اطاعت سے خارج ہونے والا شخص خدا کی نظر میں فاسق وباغی سمجھا جاتا ہے۔اس آیت کی عملی تشریح میں ایک حدیث آتی ہے کہ:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِی مَرَضِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَوْاَرَدْتُ اَنْ اُرْسِلُ اِلٰی اَبِیْ بَکْرٍوَابْنِہٖ حَتّٰی اَکْتُبَ کِتَابًا فَاَعْھَدُ اَنْ یَتَمَنَّی الْمُتَمَنَّوْنَ وَیَقُوْلُ قَائِلٌ اَنَا اَوْلٰی ثُمَّ قُلْتُ یَأْبَی اللّٰہُ وَیَدْفَعُ الْمُؤْمِنُوْنَ اَوْیَدْفَعُ اللّٰہُ وَیَأْبَی الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ۱؎ یعنی’’حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ جس مرض میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہوئے اس کے ابتداء میں آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ تمہارے باپ اوربھائی کو بلاکر ابوبکرؓ کی خلافت کے متعلق وصیت کرجائوں تاکہ میرے بعد کوئی دوسرا شخص خلافت کی تمنا میں کھڑا نہ ہوجاوے اوریہ دعویٰ نہ کردے کہ میں ابوبکرؓ کی نسبت خلافت کازیادہ حق دار ہوں مگر پھر میں نے اس خیال سے یہ ارادہ ترک کردیا کہ مومنوں کی جماعت ابوبکرؓ کے سوا کسی اورشخص کی خلافت پررضامند نہ ہوگی اورنہ ہی خدا کسی اورشخص کی خلافت کوقائم ہونے دے گا۔‘‘اس حدیث سے یہ بات واضح طورپر ثابت ہوتی ہے کہ گودینی خلفاء کاانتخاب بظاہر لوگوں کے مشورہ سے ہوتا ہے مگردرحقیقت ان کے انتخاب میں خدا کادست غیبی کام کرتا ہے اوریہی اسلامی خلافت کاسچا فلسفہ ہے کہ بظاہر انتخاب مومن کرتے ہیں مگر حقیقتہً تصرف خدا کا ہوتا ہے یعنی ایک مرسل ومامور کی بعثت کے زمانہ کی طرح خدا خود تو سامنے نہیں آتا مگر اس کی مخفی تاریں لوگوں کے قلوب کو کھینچ کھینچ کر خلافت کے اہل شخص کی طرف مائل کردیتی ہیں۔ ۲؎ اندریں حالات دینی خلفاء کے متعلق خواہ ان کا انتخاب بظاہر مشورہ ہی کے طریق پر ہوتا ہے۔میعادی انتخاب کا سوال یا انتخاب کے بعد عزل کا سوال بالکل خارج از بحث ہے اوراسی لئے خدا نے ایسے خلفاء کی اطاعت میں داخل نہ ہونے والوں یاداخل ہوکر اطاعت سے خارج ہونے والوں کوباغی قرار دیا ہے اورعقلاً بھی غور کیا جاوے تودینی خلفاء کاانتخاب میعادی نہیں ہونا چاہئے اورنہ انتخاب کے بعد ان کے عزل کاسوال اٹھنا چاہئے کیونکہ دینی تعلق کی بنیاد عقیدت اوراخلاص پر ہوتی ہے۔اوردینی خلیفہ امام کامرتبہ رکھتا ہے اورگو وہ احکام شریعت کے ماتحت ہوتا ہے اوران میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کا حق نہیں رکھتا مگر شریعت کی تشریح اورنفاذ کاکام اسی سے تعلق رکھتا ہے اوردینی سیاست کلیتہً اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اوراعمال میں بھی وہ امت کے لئے گویا ایک نمونہ سمجھا جاتا ہے۔پس اس قسم کے روحانی تعلق کو میعادی قرار دینا یالوگوں کے لئے ایسے تعلق کے قطع کردینے کو جائز کردینا مذہب کی روح کے بالکل منافی ہے اوراس کے نتیجہ میں روحانی تعلق اور صلحاء کی بیعت وصحبت کی غرض وغایت بالکل فوت ہوجاتی ہے اورمذہب میں ایک ایسی ناجائز آزادی کادروازہ کھل جاتا ہے جس کا آخری نتیجہ سوائے لامذہبی اوربے دینی کے اورکچھ نہیں۔
لیکن اس کے مقابلہ میںدنیوی امراء کا معاملہ بالکل جداگانہ ہے۔ ان کے تعلق کی بنیاد عقیدت واخلاص پر نہیں ہوتی بلکہ محض سیاسی مصالح پرہوتی ہے اورنہ ان کے میعادی انتخاب یاعزل سے کوئی براہ راست دینی فتنہ پیداہوتا ہے۔اس لئے محض سیاسی حکام کے متعلق اسلام نے کوئی خاص پابندی عائد نہیں کی یعنی اس معاملہ میں لوگ آزاد رکھے گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے حالات کے ماتحت ضروری خیال کریں توسیاسی حکام کے انتخاب کومیعادی کردیں یااگر انتہائی حالات کے پیدا ہوجانے پر ضروری سمجھیں تومناسب طریق پر ان کے عزل کے لئے ساعی ہوں۔
اسلامی اطاعت کامیعار
لیکن چونکہ اسلام فتنوں کے سد باب اورامن کے قیام کانہایت زبردست حامی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں اس بات
پربہت زوردیا گیا ہے کہ خروج عن الطاعت اور عزل کاسوال سوائے انتہائی حالات کے نہیں اٹھنا چاہئے اورلوگوں کے لئے لازم ہے کہ حتی الوسع اپنے امیر کی فرمانبرداری اوراطاعت کے طریق سے خارج ہونے کاخیال دل میںنہ لائیں بلکہ اس معاملہ میں یہاں تک تاکید کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگوں کوچاہئے کہ اپنے حقوق کوغصب ہوتا دیکھ کر بھی صبر سے کام لیں۔اوراپنے امراء کی طرف سے ظلم اورتعدی تک برداشت کریں مگر بغاوت اورتفرقہ کے راستے پرقدم زن نہ ہوں۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ اَثَرَۃً وَّاُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَدُّوْا اِلَیْھِمْ حَقَّھُمْ وَسَلُوْا اللّٰہَ حَقَّکُمْ۔ ۱؎ یعنی’’اے مسلمانو! میرے بعد ایسازمانہ آنے والا ہے کہ تم پرایسے ایسے لوگ امیربنیںگے جو تمہارے حقوق غصب کریں گے اورایسی ایسی باتیں کریں گے جوبہت ناپسندیدہ ہوں گی اورتمہیں اوپری لگیں گی۔صحابہ نے عرض کیاتوپھر یارسول اللہ!ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایاتم اپنے امیروں کے حقوق انہیں ادا کرو اوراپنے حقوق خدا سے مانگو۔‘‘
پھرفرماتے ہیں:
مَنْ خَرَجَ عَنِ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃِ فَمَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ ۱؎ یعنی’’جو شخص امیر کی اطاعت سے خروج کرتا ہے اورجماعت کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے تقرقہ کی بنیاد قائم کرتا ہے۔وہ اگر بغیر توبہ کے اسی حالت میں مرجاوے تواس کی موت غیراسلامی موت ہوگی۔‘‘مگر ساتھ ہی رعایا کو یہ تحریک کی گئی ہے کہ اگر امیر کارویہ ظالمانہ اورغاصبانہ ہوتو وہ اسے نیک مشورہ دے کر اصلاح کی کوشش کرے اور اس کوشش کواسلام میں ایک بہت بڑا جہاد اورنیکی کافعل قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ فرمایا:
اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃَ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔ ۲؎ یعنی’’ جب کوئی امیر ظلم وتعدی کاطریق اختیار کرے تو اس حالت میں سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ انسان اس امیر کوحق وانصاف کامشورہ دے کر اسے اس کی ناجائز اورظالمانہ کارروائیوں سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘
لیکن اگر اس پر بھی امیر کی اصلاح نہ ہو اور وہ اپنی ناواجب کارروائیوں پر مصررہے اور صریح طور پر خدائی احکام کے خلاف حکم دے تو رعایا کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ نیک اور جائز باتوں میں تو بدستور امیر کی اطاعت کرتی رہے مگر ناجائز حصہ میں اس کی اطاعت سے انکار کر دے۔چنانچہ فرمایا:
اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا اَحَبَّ وَکَرِہَ وَمَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَطَاعَۃَ۔ ۳؎ یعنی’’ہر مسلمان پر اپنے امیر کا حکم ماننا فرض ہے خواہ وہ حکم اسے پسند ہو یا نہ ہو۔لیکن اگر اسے کوئی ایساحکم دیا جاوے جس میں خدائی قانون کی صریح نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسے حکم کا سننا اور ماننا اس پر فرض نہیں ہو گا۔‘‘
اگر باوجود رعایا کے اس نیک مشورہ اور اس جزوی عدم اطاعت کے کسی امیر کے ناجائز احکام کا سلسلہ ترقی کرتا جاوے اور وہ برملا طور پر خدائی قانون سیاست اور خدائی قانون شریعت کے خلاف قدم زن ہونا شروع کر دے ۔حتّٰی کہ اس کی امارت اس حد تک ضرررساں صورت اختیار کر لے کہ اسے توڑنے کے لیے ملک کے امن اور جماعت کے اتحاد تک کو خطرے میں ڈالنا مناسب ہو جاوے تو اس قسم کے انتہائی حالات میں لوگوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس امیر کی اطاعت سے خروج کر کے اس کے عزل کے لیے ساعی ہوں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِیْ مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا وَاَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَلاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلاَّاَنْ تَرَوْ اکُفْرًا بَوَّاحًا عِنْدَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ۔ ۱؎ یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشہور صحابی عبادۃؓ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سے بیعت میں یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ ہم ہر حال میں اپنے امیر کی اطاعت کریں گے۔عسر میں اور یسر میں۔پسندیدگی کی حالت میں اور ناپسندیدگی کی حالت میںخواہ ہمارے حقوق ہمیں ملیں یا ہم سے چھینے جائیں۔اور یہ کہ ہم کسی حالت میں بھی اپنے امیروں کے ساتھ امارت کے معاملہ میں تنازعہ نہیں کرینگے۔مگر آپ نے فرمایا’’ہاں اگر تم اپنے امیر کے رویہ میں کوئی ایسا کھلا کھلا کفر پاؤیعنی خدا کے کسی اصولی قانون کی ایسی صریح نافرمانی دیکھو جس کے متعلق تمہارے پاس خدا کی طرف سے کوئی روشن اور قطعی دلیل موجود ہو، تو پھر تم اس کے ساتھ امارت کے معاملہ میں تنازعہ کرنے کا حق ہے۔‘‘اس حدیث میں جو کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے صرف عقیدہ کا کفر مراد نہیں بلکہ قانون سیاست اور قانون شریعت کے کسی اصل الاصول کا توڑنا مراد ہے ۔چنانچہ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا ناجائز قتل بھی کفر میں داخل ہے۔ ۲؎ اور محقق صحابہ نے ان خلاف شریعت کارروائیوں کو بھی جو حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فتنہ پردازوں کی طرف سے شروع ہو گئی تھیں کفر قرار دیا ہے ۔ ۳؎ مگر امیر کے خلاف سر اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ کفر بالکل صریح اور کھلا کھلا ہو اور کسی اجتہادی غلطی یا مشتبہ حالات کا نتیجہ نہ ہو ۔ حتّٰی کہ امیر کی بریت کے لیے امکانی طور پر بھی تاویل کا کوئی دروازہ کھلا نہ رہے اور اسکی امارت اس حد تک خطرناک صورت اختیار کر لے کہ اس کے توڑنے کے لیے ملک کے امن اور قوم کے اتحاد تک کو خطرے میں ڈالنا ضروری ہو جاوے۔
عزل کی کوشش حکومت کے اندر رہتے ہوئے جائز نہیں
لیکن اس حالت میں بھی اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ امیر
کی مملکت میں رہتے ہوئے اور اس کی اطاعت کا جو ا اپنی گردن پر رکھتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا جاوے اور اس میں غرض یہ مد نظر ہے کہ تا ملک کے اندر سول وار یعنی خانہ جنگی کی صورت پیدا نہ ہو اور یہ خطر ناک منظر نظر نہ آوے کہ ایک امیر کے ماتحت رہتے ہوئے لوگ اس کے خلاف سراٹھاتے ہیں ۔چنانچہ اس قسم کے انتہائی حالات میں اسلامی طریق یہ ہے کہ جو لوگ امیر کی حکومت کو از بس خطر ناک سمجھیںانہیں چاہئے کہ اس کی مملکت سے نکل جائیںاور مملکت سے نکل جانے کے بعد اگر ضروری اور مناسب خیال کریں تو اس کے عزل کے لیے ساعی ہوں۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت بھی اسی اصل کے ماتحت وقوع میں آئی تھی کہ آپ نے مکہ کی حکومت کے مظالم اور مذہبی دست درازیوں سے تنگ آکر بالآخر رئوساء قریش کی حکومت سے خروج کا طریق اختیار کیا تھا۔اور پھر اس کے بعد خدا نے آپ کے ذریعہ قریش کی اس ظالمانہ حکومت کے توڑنے کی تدبیر فرمائی تھی اور قریباًیہی صورت خدائی حکومت کے ماتحت بنو اسرائیل نے فرعون کے مظالم پر اختیار کی تھی ۔یعنی یہ کہ وہ حضرت موسیٰ ؑکے ساتھ ہو کر فرعون کی حکومت سے نکل گئے تھے۔ ۱؎ اور اسی صورت سے ملتی جلتی صورت امام حسینؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓنے یزید بن معاویہ بن ابی سفیانؓ کی امارت کے موقع پر اختیار کی تھی۔یعنی جب امیر معاویہ نے بعض غلط مشوروں میں آکر خلاف تعلیم اسلام اور خلاف سنت خلفاء الراشدین اپنی زندگی میں ہی اپنے لڑکے یزید کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو ان اصحاب نے صاف صاف کہ دیا کہہ یہ طریق خلاف تعلیم اسلام ہے، لیکن جب امیر معاویہ نے ا ن کی رائے نہ مانی اور عوام کا سہارا ڈھونڈ کر یزید کو اپنا جانشین مقرر کردیا توانہوں نے ناچار خاموشی اختیارکی۔کیونکہ اس وقت امیر معاویہ برسر حکومت تھے اور یہ اصحاب ان کی بیعت اطاعت میں داخل تھے اس لیے ان کے لیے امیرمعاویہ کی حکومت کے اندر رہتے ہوئے ان کے خلاف سر اٹھانا جائز نہیں تھا اور دوسری طرف اس وقت امیر معاویہ کی حکومت سے باہر نکل جانے کی بھی کوئی عملی صورت نہیں تھی۔لیکن جب امیرمعاویہؓ فوت ہوگئے ۔اور یزید نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو اس وقت امام حسینؓ اور عبداللہ بن زبیرؓاس کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ۲؎ کیونکہ ابھی یزید کی اطاعت ان پر فرض نہیں ہوئی تھی۔اس صورت میں گویا یزید کے خلاف اٹھنا یزید کی مملکت سے باہر ہو کر مقابلہ کرنے کے مترادف تھا مگر امام حسینؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ کی یہ کوشش کوئی مستقل نتیجہ نہیں پیدا کر سکی اور بنو امیہ کی استبدادی حکومت کو فروغ حاصل ہو گیا ۔بہر حال اسلام میں کسی امیر کے ماتحت رہتے ہوئے اس کے خلاف سر اٹھانے اور اس کے عزل کی کوشش کرنے کو پسند نہیں کیا گیا بلکہ اس صورت میں اسلامی طریق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص امیر کے رویہ کو صریح طور پر خلاف اصول سیاست پائے اور اسکی امارت کو اس حد تک ضرر رساں سمجھے کہ اسکے توڑنے کے لیے ملک کے امن اور جماعت کے اتحاد تک کو خطرے میں ڈالنا ضروری خیال کرے تو اسے چاہیے کہ ایسے امیر کی مملکت سے باہر نکل جاوے اور پھر جس طرح مناسب ہو اس کے عزل کے لیے ساعی ہو۔
اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی امیر لوگوں کو باہر نکل جانے سے جبراً روکے تو پھر کیا طریق اختیار کیا جاوے تو اس کا یہ جواب ہے کہ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ اُصولی طور پر فرماتا ہے کہ ۱؎ یعنی ’’انسان صرف اس حد تک مکلف ہے جس حد تک اس کی طاقت ہے‘‘ اور جیسا کہ بنی اسرائیل کے واقعہ میں خدائی اشارہ پایا جاتا ہے جہاں خدا فرماتا ہے کہ فرعون کا بنی اسرائیل کے تعاقب میں جا کر ان کو خروج سے جبراً روکنے کی کوشش کرنا ناجائز اور خدائی قانون سے بغاوت کے ہم معنی تھا۔ ۲؎ اس قسم کی صورت میں جو خود امیر کی طرف سے پیدا کی جاوے ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی ظالم امیر کے خلاف سراٹھاناجائز سمجھا جائے گا۔
کیاامارت کا حق صرف قریش کے ساتھ مخصوص ہے؟
اسلامی اصول حکومت کی بحث کی ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا
اسلامی تعلیم کی رو سے خلیفہ یا امیر کے لیے کسی خاص قوم میں سے ہونا تو ضروری نہیں ہے؟یہ سوال خصوصیت سے اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بعض احادیث میں یہ مذکور ہوا ہے کہ خلفاء قریش میں سے ہوںگے جس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا خلیفہ یا امیر کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے۔مگر یہ خیال بالکل غلط اور بے بنیاد ہے ۔پہلی دلیل جو اس بات کو غلط ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ اسلام میںاصولاً قومی یا نسلی خصوصیات کو دینی یا سیاسی حقوق کی بنیاد نہیں تسلیم کیا گیا۔بالفاظ دیگر اسلام میں ان معنوں کے لحاظ سے کوئی ذاتیں نہیں کہ فلاں ذات کو یہ حقوق حاصل ہوںگے اور فلاں کو یہ بلکہ اس میں ذاتوں اور قوموں کو صرف تعارف اور شناخت کا ایک ذریعہ رکھا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۳؎ ۴؎ یعنی اے مسلمانو! تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی بڑائی بیان کرے یا دوسری قوم کو اپنے سے نیچا سمجھے کیونکہ تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا کی نظروں میں کون بڑا ہے۔ اور ہم نے جو تمہیں دنیا میں قوموں اور قبائل کی صورت میں بنایا ہے تو اس کی غرض صرف یہ ہے کہ تم آپس کی شناخت اور تمیز میں آسانی پاؤ۔یہ نہیں کہ تم اس تفریق پر کسی قسم کی بڑائی یا خاص حقوق کی بنیاد سمجھوکیونکہ خدا کی نظر میں تم میں سے بڑا وہ ہے جو خدائی قانون کی زیادہ اطاعت اختیار کرتا ہے خواہ وہ کوئی ہو۔‘‘
اس واضح اور غیر مشکوک اصولی تعلیم کے علاوہ قرآن شریف خاص خلافت وامارت کے سوال میں بھی قومی یا خاندانی حق کے خیال کو رد کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : ۱؎ یعنی ’’خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور صرف اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو (خواہ وہ کوئی ہو) اورجو لوگ امیر منتخب ہوں انہیں چاہیے کہ اپنی حکومت کو عدل وانصاف کے ساتھ چلائیں۔‘‘اس آیت میں خلیفہ یا امیر کے لیے صرف یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ حکومت کا اہل ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں لگائی گئی جو اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اسلام میں خلیفہ یا امیر کے لیے اہلیت کے سوا کوئی شرط نہیں ہے ۔اسی طرح حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ علیہ وسلم قَالَ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ۔ ۲؎ یعنی ’’حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے مسلمانو!اگر تم پر ایک حبشی غلام بھی امیر بنایا جاوے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔‘‘اگر اسلام میں امیر کاقریشی ہونا ضروری تھا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بے معنی قرار پاتا ہے بلکہ اس صورت میں آپ کو یہ فرمانا چاہئے تھا کہ تم ہر قریشی امیر کی فرمانبرداری کرو خواہ وہ کیساہی ہو۔الغرض کیا بلحاظ اصول کے اور کیا بلحاظ تخصیص کے یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ اسلام میں حکومت اور خلافت کو کسی خاص قوم کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے اور اسلامی تعلیم کی روح اس خیال کو دور سے دھکّے دیتی ہے ۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر ان احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خلفاء اور ائمہ قریش میں سے ہونگے۔سو ان احادیث پر ایک ادنیٰ تدبر بھی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی نہ کہ حکم یا سفارش ۔یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ اور بہت سی باتوں کا اظہار فرمایا تھا جو آئندہ ہونے والی تھیں اسی طرح جو خلفاء آپ کے بعد ہونے والے تھے ان کے متعلق آپ کو یہ علم دیا گیا تھا کہ وہ قبیلہ قریش میں سے ہوںگے اور پیشگوئی کی صورت میں قعطاً کوئی اعتراض نہیں رہتا کیونکہ بہر حال خلفاء نے کسی نہ کسی قوم یا قبیلہ میں سے ہوناتھا اور اگر اس وقت کے حالات کے ماتحت وہ سب کے سب قریش میں سے ہوئے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قریش ہی وہ قبیلہ تھا جو حکومت کی سب سے زیادہ اہلیت رکھتا تھا۔کیونکہ اوّل تو وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنا قبیلہ تھا جس کی وجہ سے طبعاً اسے مسلمانوں میں ایک جائز عزت حاصل تھی اور لوگ اس کے اثر کو قبول کرتے تھے۔دوم قریش کا قبیلہ عرب کے سب سے زیادہ مرکزی شہر کا رہنے والا تھا اور وہی کعبۃ اللہ کا بھی متولی تھا جس کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں بھی وہ سارے ملک میں خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھااور دوسرے قبائل عرب عموماً ہر معاملہ میں قریش کی طرف دیکھتے تھے اور ان کی رہبری کو قبول کرتے تھے ۔سوم قریش کے لوگ بوجہ اس نظام کے جو ان کے جدِّ اعلیٰ قصی بن کلاب نے مکہ میں جاری کیا تھا حکومت کے نظام و طریق سے ایک حد تک واقف ہو چکے تھے ۔اور ان کے سوا کوئی دوسرا قبیلہ امور حکومت سے آشنا نہیں تھا۔ چہارم بوجہ اس کے کہ اسلام میں سابقین الاولین سب قریش میں سے تھے اور انہیں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے اور آپ کی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کا سب سے زیادہ موقع ملا تھا اس لیے وہ لازماً اسلامی طریق حکومت میں بھی دوسروں کی نسبت بہت زیادہ اہلیت رکھتے تھے ۔ان وجوہات کی بنا پر اس زمانہ میں قریش کو دوسرے قبائل عرب پر ایک حقیقی اور یقینی فوقیت حاصل تھی اور انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے قبیلہ میں عنان حکومت کا جانا ملک کے لیے سخت ضرر رساں تھا اور یقینا کوئی دوسراقبیلہ اس خیرو خوبی کے ساتھ نظام حکومت کو چلا نہ سکتا جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اسلام کے ابتدائی خلفاء نے چلایا مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اسلام نے قریش کو ہمیشہ کے لیے حکومت کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔چنانچہ اگر ایک طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول مروی ہوا ہے کہ میرے بعد خلفاء وائمہ اسلام قریش میں سے ہوںگے تو دوسری طرف آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بالآخر قریش حکومت کی اہلیت کو کھو بیٹھیں گے اور اسلام کی حکومت کو تباہ وبرباد کرنے کا موجب بن جائیں گے چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھَلَکَۃُ اُمَّتِیْ عَلٰی یَدَیْ غِلْمَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ ۱؎ یعنی’’ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میری امت کی تباہی بالآخر قریش کے نوجوانوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔‘‘یعنی جب قریش کی حالت خراب ہوجائے گی اوروہ حکومت کے اہل نہیںرہیں گے توپھر اس کے بعد ان کے ہاتھ میں حکومت کا رہنا بجائے رحمت کے زحمت ہوجائے گا اوربالآخر قریش ہی کے ہاتھوں سے اسلامی حکومت کی تباہی کاسامان پیدا ہوجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اوریہ جو بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ قریش کی امارت قیامت تک رہے گی۔اس سے بھی یہی مراد ہے کہ امت اسلامی کی تباہی تک ۲؎ قریش برسرحکومت رہیںگے اورپھر بالآخر انہیں کے ہاتھوں سے تباہی کابیج بویا جاکر اسلام میں ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔خلاصہ کلام یہ کہ قرآن واحادیث کے مجموعی مطالعہ سے یہ بات قطعی طورپر ثابت ہوتی ہے کہ قریش کی امارت وخلافت کے متعلق جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشاد ہے اس سے محض پیشگوئی مراد ہے،حکم یاسفارش مرادنہیں اورپھر یہ پیشگوئی بھی میعادی اثر رکھتی تھی یعنی اسلام کے دوراول کے ساتھ مخصوص تھی اورآپ کامنشاء یہ تھا کہ چونکہ اس وقت حکومت کی اہلیت سب سے زیادہ قریش میں ہے اس لئے آپ کے بعد وہی برسرحکومت واقتدار رہیں گے،لیکن ایک عرصہ کے بعد وہ اس اہلیت کوکھو بیٹھیںگے توپھر اس وقت امت محمدیہؐ پر ایک انقلاب آئے گا۔اوراس کے بعد ایک نئے دور کی داغ بیل قائم ہوجائے گی۔الغرض یہ بات درست نہیں ہے کہ اسلام نے حکومت کے حق کو کسی خاص خاندان یا قوم کے ساتھ محدود کردیا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اسلام میں حکومت انتخاب سے قائم ہوتی ہے اورانتخاب میں ہر شخص کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔
یہ وہ مختصر ڈھانچہ حکومت کے طریق کا ہے جواسلام نے پیش کیا ہے اورہر عقل مند اورغیر متعصب شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک بہترین ہدایت ہے جو اس معاملہ میں دی جاسکتی تھی کیونکہ اصول سیاست کے لحاظ سے کامل ہونے کے علاوہ یہ تعلیم ایک ایسا جامع رنگ رکھتی ہے کہ تفاصیل کے مناسب اختلاف کے ساتھ وہ ہرزمانہ اورہرقوم کے لئے ایک شمع ہدایت کاکام دے سکتی ہے اور اس زمانہ کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے سیاست دان بھی ابھی تک اصول سیاست میں اس سے بہتر طریق دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکے۔ظاہرہے کہ سیاست کے بنیادی اصول چار ہیں۔اوّل یہ کہ امیریعنی صدر حکومت کا تقرر کس اصول پر مبنی ہو۔آیاورثہ کے حق کی بنا پریاکسی خاندانی حق کی بنا پر یابعض خاص لوگوں کی رائے سے یا جمہور اور عامۃ الناس کے مشورہ کے ساتھ۔دوسرے یہ کہ جب کوئی شخص امارت کے عہدہ پرقائم ہوجاوے تو اس کا طریق حکومت کیا ہونا چاہئے آیا خود مختارانہ اور استبدادی یا کسی قانون کے ماتحت اورلوگوں کی رائے اورمشورہ کے ساتھ۔تیسرے یہ کہ لوگوں کاامیر کے متعلق کیا رویہ ہو۔آیا وہ اس کے ساتھ انتہائی حد تک تعاون اوراطاعت کاطریق اختیارکریںیا کہ ہر بات پرجو ان کی مرضی کے خلاف ہوبگڑیں اوراس کے رستے میں روکیں ڈالیں اوربزعم خود جب بھی اپنے حقوق خطرہ میں دیکھیں یاامیر کا کوئی کام قابل اعتراض سمجھیں توشور کرتے ہوئے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔چوتھے یہ کہ اگر واقعی امیر کا رویہ صریح طورپر ناجائز اورقابل اعتراض ہو اور وہ اپنے اس رویہ میں ناقابل برداشت انتہاء کو پہنچ جاوے اوراسے اپنے ظالمانہ طریق پر اصرار ہوتو پھر اس کے متعلق کیاطریق اختیار کیا جاوے۔ان چاروں اصولی مسائل میں اسلام نے وہ تعلیم پیش کی ہے جو بہترین سیاست کی جان ہے۔اوراس میں بنی نوع انسان کی بہبودی اوردنیا کے امن وامان کے لئے ایک ایسی بنیاد قائم کردی گئی ہے جس پر قائم رہتے ہوئے اول توحاکم ومحکوم کے تعلقات بگڑ ہی نہیں سکتے اورکبھی بگڑیں بھی تو ان کے خطرناک اورضرر رساں نتائج سے ملک محفوظ رہتا ہے اوریہ تعلیم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس وقت دی جبکہ دنیا میں بیشتر طورپر نسلی اور استبدادی حکومت کا دوردورہ تھا اوراکثر ممالک نیابتی اورمشورہ کی حکومت کے خیال تک سے ناآشنا تھے۔
غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات
اس نوٹ کوختم کرنے سے قبل اس تعلیم کاذکر کرنا بھی بے موقع نہ ہوگا جواسلام نے غیر مسلم حکومتوں یااسلامی حکومت کے اندر کی
غیر مسلم رعایا کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں دی ہے۔ سو اس معاملہ میں اسلام سب سے پہلے تویہ اصول بیان کرتا ہے کہ عدل وانصاف کامعیار سب قوموں کے ساتھ ایک سا ہونا چاہئے اورایسا نہیں ہونا چاہئے اپنوں کے ساتھ توعدل وانصاف کامعاملہ کیا جاوے اورجب دوسروں کاسوال ہوتو اس اصول کو بھلادیا جاوے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!تم خدا کی خاطر دنیا میں نیکی اورعدل کے قائم کرنے کے لئے کھڑے ہوجائو اورچاہئے کہ کسی قوم کی مخالفت تمہیں عدل وانصاف کے رستے سے نہ ہٹائے بلکہ تم سب کے ساتھ عدل کامعاملہ کرو۔کیونکہ یہی طریق تقویٰ کاتقاضا ہے۔پس تم متقی بنو اوریاد رکھو کہ خدا تمہارے اعمال کوخوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہ آیت غیرحکومتوں اورغیرقوموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کے لئے بطور ایک بنیادی پتھر کے ہے کیونکہ اس میں وہ اصل الاصول بتایا گیا ہے جس پر بین الاقوام اوربین الدول تعلقات قائم ہونے چاہئیں اورغورکیاجائے تویہ اصول ایسا زرّیں ہے کہ اگر فریقین کی طرف سے اس پر پورا پورا عمل ہو تو نہ صرف یہ کہ بین الاقوام تعلقات کبھی بگڑ نہیں سکتے بلکہ وہ ایسی خوشگوار صورت میں قائم رہ سکتے ہیں کہ جس میں بگڑنے کاکوئی امکان ہی نہ ہو۔مگر افسوس کہ اکثر لوگ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے اس اصول کوعملاً نظر انداز کردیتے ہیں۔
اس جامع ومانع اصول کے بعد اسلام معاہدہ کے سوال کولیتاہے کیونکہ بین الاقوام تعلقات میں یہی سوال سب سے زیادہ اہم ہے۔چنانچہ فرماتا ہے: ۱؎ یعنی’’اے مسلمانو!تم اپنے تمام عہدوں کوپورا کروکیونکہ خدا کے حضور تمہیں اپنے عہدوں کے متعلق جواب دِہ ہونا پڑے گا۔‘‘اس حکم کے ماتحت مسلمانوں کایہ فرض قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاہدات کونہایت وفاداری اوردیانت کے ساتھ نبھائیں اور کسی ایسے فعل کے مرتکب نہ ہوں جوان کے عہدوپیمان کی روح یاالفاظ کے خلاف ہو۔
اسلام میں معاہدہ کی پابندی کااس قدر تاکیدی حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی مسلمان قوم کا کسی غیرمسلم قوم کے ساتھ معاہدہ ہو اورپھر اس غیر مسلم قوم کے خلاف کوئی دوسری مسلمان قوم اس مسلمان قوم کو اپنی مدد کے لئے بلائے تو اسے چاہئے کہ ہرگز اس کی مدد نہ کرے بلکہ بہرحال اپنے عہد پر قائم رہے۔چنانچہ فرماتا ہے:
۲؎ یعنی’’جولوگ مسلمان توہوگئے ہیں مگروہ ہجرت کرکے اسلامی حکومت میں منسلک نہیں ہوئے ان کے متعلق اے مسلمانو تم پر کوئی خاص ذمہ داری نہیں ہے یہاں تک کہ وہ ہجرت کرکے تمہارے ساتھ ایک نہ ہوجائیں۔ہاں اگر ایسے مسلمان تم سے کسی دینی معاملہ میں مدد مانگیں توتمہارا فرض ہے کہ ان کی مدد کرو۔لیکن اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کے خلاف تم سے مددمانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے توپھر تم ہرگز ان کی مدد نہ کرو اوربہرحال اپنے عہد پرقائم رہو اورجانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کودیکھ رہا ہے۔‘‘کیا اس سے بڑھ کر ایفائے عہد اورعدل وانصاف کی کوئی تعلیم ہوگی؟
اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔ ۱؎ یعنی’’جومسلمان کسی ایسے غیرمسلم کے قتل کا مرتکب ہوگا جوکسی (لفظی یاعملی)معاہدہ کے نتیجہ میں اسلامی حکومت میں داخل ہوچکا ہے وہ (علاوہ اس دنیا کی سزا کے)قیامت میں جنت کی ہوا سے محروم رہے گا۔‘‘
پھرفرماتے ہیں:
مَنْ ظَلَمَ مَعَاھِدًا اَوِنْتَقَصَہٗ اَوْکَلَّفَہٗ فَوْقَ طَاقَتِہٖ اَوْاَخَذَمِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسِہٖ فَاَنَا حَجِیْجُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ۲؎ یعنی جومسلمان کسی ایسے غیرمسلم پرجس کے ہاتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے کوئی ظلم کرے گایا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچائے گا یااس پرکوئی ایسی ذمہ داری یاایسا کام ڈالے گا جو اس کی طاقت سے باہر ہے یااس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی خوشی اوررضامندی کے لے گا تواے مسلمانو سن لو کہ میں قیامت کے دن اس غیرمسلم کی طرف سے ہوکر اس مسلمان کے خلاف خدا سے انصاف چاہوں گا۔‘‘
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام صرف منفی قسم کے سلوک تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا یعنی وہ صرف یہ نہیں کہتا کہ کسی غیر مسلم کی حق تلفی نہ کرو اوربس۔بلکہ وہ غیرمسلموں کے ساتھ نیکی اوراحسان کا بھی حکم دیتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۳؎ یعنی’’اے مسلمانو!خدا نے جو تمہیںان ظالم کافروں کے ساتھ دوستی لگانے سے منع فرمایا ہے جوتمہارے دین کو مٹانے کے لئے تمہارے ساتھ لڑ رہے ہیںتو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم ان غیر مسلموں کے ساتھ جو تمہارے دین کوجبراًمٹانے کے درپے نہیں اورتم پرظلم نہیں کرتے، تعلق نہ رکھوبلکہ تمہیں چاہئے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ نیکی اورعدل واحسان کامعاملہ کرو کیونکہ عدل واحسان کرنے والوں کوخداپسند کرتا ہے۔‘‘
مذہبی رواداری
مذہبی آزادی اوردینی رواداری کے متعلق اسلامی تعلیم کانمونہ جہاد کی بحث میں گزرچکا ہے۔ قرآن شریف نے اپنی متعدد آیات میں اس بات پر خاص زور دیا ہے
کہ دین کامعاملہ ہرشخص کی ضمیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔پس دین میں قطعاً کسی قسم کا جبرواکراہ نہیں ہونا چاہئے۔ ۱؎ اوریہ تعلیم صرف کاغذوں کی زینت یامنبروں کی سجاوٹ نہیں تھی بلکہ اس پر نہایت دیانتداری کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب سے پہلا معاہدہ جواسلام میں کیا یعنی وہ معاہدہ جوہجرت کے بعد مدینہ کی یہودی آبادی کے ساتھ کیا گیا اس کی بنیاد مذہبی آزادی اور مذہبی آزادی کے اصول پر ہی قائم کی گئی تھی۔ ۲؎ ہم یہ بھی پڑھ چکے ہیں کہ جب بنونضیر کوان کی غداری اورفتنہ انگیزی کی سزا میں مدینہ سے جلاوطن کیا گیا اوراس وقت انہوں نے اپنے ساتھ ان لوگوں کوبھی لے جانا چاہا جوانصار کی اولاد تھے مگر انصار کے منت ماننے کے نتیجہ میں یہودی بنادئے گئے تھے تو انصار نے انہیں مدینہ میں روک لینا چاہا،لیکن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے یہ اختلاف پیش ہوا توآپ نے یہ فرماتے ہوئے کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہوسکتا انصار کے خلاف فیصلہ فرمایا اوربنونضیر کواجازت دی کہ وہ ان لوگوں کواپنے ساتھ لے جائیں۔ ۳؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی آگے چل کر یہ واقعات بھی ہمارے سامنے آئیںگے کہ جب خیبر کے یہودی اورنجران کے عیسائی اسلامی حکومت میں داخل ہوئے توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عقیدہ اورعمل دونو میں انہیں کامل آزادی عطاکی۔ ۴؎ بلکہ روایت آتی ہے کہ جب نجران کے عیسائی مدینہ میں آئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی کے اندر اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت عطافرمائی اورجب بعض صحابہ نے انہیں روکنا چاہا تو آپ نے ان صحابہ کو منع فرمادیا۔چنانچہ ان عیسائیوں نے مشرق روہوکر عین مسجد نبوی میںاپنی عبادت کے مراسم اداکئے۔ ۵؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی خلفاء اربعہ نے مذہبی رواداری کاایک کامل نمونہ قائم کیا۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓکے متعلق روایت آتی ہے کہ وہ جب کبھی بھی کوئی اسلامی فوج روانہ فرماتے تھے تواس کے امیر کوخاص طورپر یہ ہدایت فرماتے تھے کہ غیرمسلم اقوام کی عبادت گاہوں اوران کے مذہبی بزرگوں کاپوراپورا احترام کیا جاوے۔ ۱؎ اورحضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام کاملک فتح ہواتو جو معاہدہ وہاں کی عیسائی آبادی کے ساتھ مسلمانوں کاقرار پایا اس میں مذہبی آزادی اورمذہبی رواداری کی روح سارے امور پر غالب تھی۔ ۲؎
جزیہ کا مسئلہ
جزیہ کامسئلہ بعض لوگوں کوقابل اعتراض نظر آتا ہے حالانکہ وہ محض ایک ٹیکس تھا جونظام حکومت کے چلانے کے لئے غیر مسلم رعایا سے لیا جاتا تھا اورجس کا فائدہ بالواسطہ خود
ٹیکس دینے والوں کوہی پہنچتا تھاکیونکہ اس روپے سے حکومت ان کے حقوق کی حفاظت ان کے آرام وآسائش اوران کی بہبودی کاانتظام کرتی تھی اوران کے جان ومال کی حفاظت کے لئے افواج مہیا کرتی تھی۔ اوراگر یہ اعتراض ہوکہ یہ ٹیکس غیر مسلم رعایا کے ساتھ مخصوص کیوں تھا تواس کاجواب یہ ہے کہ اول تویہ ٹیکس فوجی خدمت کامعاوضہ سمجھا جاتا تھا جومسلمان سپاہی سرانجام دیتے تھے مگر جس سے غیرمسلم رعایا آزاد رکھی گئی تھی یعنی جہاں ہرمسلمان گویا جبری بھرتی کے قانون کے ماتحت تھا وہاں غیر مسلم رعایا اس پابندی سے آزادتھی۔اس صورت میں یہ انصاف کاتقاضا تھا کہ اسلامی حکومت کے فوجی اخراجات کا بوجھ ایک حد تک غیر مسلم رعایا پر بھی ڈالا جاتا اوریہی جزیہ تھا۔علاوہ ازیں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اسلام میں ٹیکس کے معاملہ کوتین شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
اوّل وہ ٹیکس جوصرف مسلمانوں کے ساتھ خاص تھے مثلاً زکوٰۃ۔دوم وہ ٹیکس جوصرف غیر مسلموں کے ساتھ خاص تھے مثلاً جزیہ۔سوم مشترک ٹیکس جوحسب حالات سب پر لگائے جاسکتے تھے مثلاًزمین کامالیہ۔اس تقسیم وتفریق کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی حکومت کوبعض ایسے کام بھی کرنے پڑتے تھے جومسلمانوں کے دینی مصالح کے ساتھ خاص تھے اوریہ انصاف سے بعید تھا کہ ان کابوجھ غیر مسلم رعایا پرڈالاجاتا لہذا کمال دیانت داری کے ساتھ اسلام نے مسلمانوں اورغیر مسلموں کے بعض ٹیکس جُدا جُدا کردئے۔چنانچہ جہاں مسلمانوں کے مخصوص ٹیکس یعنی زکوٰۃ میں دینی اورسیاسی اغراض ہردو مخلوط طورپر شامل کردی گئیں ۱؎ وہاں غیرمسلموں کے مخصوص ٹیکس یعنی جزیہ کے مصارف میں کوئی دینی غرض شامل نہیں کی گئی بلکہ اسے عام رکھا گیا ہے۔ ۲؎ یہی وجہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں زکوٰۃ کاٹیکس جو مسلمانوں کے لئے خاص ہے جزیہ کے ٹیکس سے بھاری ہوتا ہے کیونکہ اس کے مصارف زیادہ ہیں۔ پس غورکیاجاوے توجزیہ کے ٹیکس کاغیر مسلموں کے ساتھ مخصوص کردیا جانا اسلام اوربانی ٔاسلام کی اعلیٰ درجہ کی دیانت کاثبوت ہے مگر افسوس ہے کہ نادان لوگوں نے اسی کوایک اعتراض کی بنیاد بنالیا ہے۔
اب رہا جزیہ کی تشخیص وتحصیل کاسوال۔سواس معاملہ میں بھی اسلام نے ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے جس کی نظیرکسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔اس کے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ جاننی چاہئے کہ اسلام نے جزیہ کے ٹیکس کی کوئی شرح معین نہیں کی بلکہ اسے ہرزمانہ اورہرقوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عرب کے مختلف قبائل کے ساتھ جزیہ کے متعلق مختلف صورتیں اورمختلف شرحیں اختیار کی تھیں۔چنانچہ مثلاًنجران کے عیسائیوں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجموعی طورپر دوہزار چادریں اوربعض ضروری چیزیں سالانہ مقرر کی تھیں۔ ۳؎ مگر اس کے مقابل پر یمن کے لوگوں سے اوسطاًایک دینار ۴؎ فی کس سالانہ مقرر ہوا تھا۔ ۵؎ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی یہی طریق جاری رکھا کہ ہرقوم کے مناسب حال ان سے جزیہ کاٹیکس وصول کیا جاتا تھا اورافراد پراس ٹیکس کی تقسیم ایسے رنگ میں کی جاتی تھی کہ ہرشخص پراس کی مالی طاقت کے مطابق بوجھ پڑتا تھا۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ خلفاء اربعہ کے زمانہ میں جزیہ کے ٹیکس کی صورت عموماًیہ تھی کہ خوشحال لوگوں سے اڑتالیس درہم ۶؎ سالانہ لیا جاتا تھا۔اورمتوسط الحال لوگوں سے چوبیس درہم سالانہ اوران سے کم حیثیت لوگوں سے صرف بارہ درہم سالانہ لیا جاتا تھا۔ ۷ ؎
یہ خفیف ٹیکس بھی ساری غیرمسلم آبادی پرنہیں لگایا جاتا تھابلکہ مندرجہ ذیل اقسام کے لوگ اس سے مستثنیٰ تھے۔
۱- تمام وہ لوگ جومذہب کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتے تھے۔
۲- تمام عورتیںاوربچے۔
۳- تمام بوڑھے اورمعمر لوگ جو کام کے ناقابل تھے۔
۴۔ تمام نابینا لوگ اوراسی قسم کے دوسرے معذور لوگ جوکوئی کام نہ کرسکتے تھے۔
۵۔ تمام مساکین اورغرباء جن کی مالی حالت جزیہ کی ادائیگی کے قابل نہ تھی۔ ۱؎
جزیہ کی تحصیل میںیہ اصول مدنظر رکھے جاتے تھے۔
(الف)جزیہ دینے والے کو اختیار تھا کہ خواہ نقد اداکرے یااس کی قیمت کے اندازے پر کوئی چیز دے دے۔
(ب)جزیہ کی وصولی کے متعلق تاکیدی حکم تھا کہ اس معاملہ میں کسی قسم کی سختی سے کام نہ لیا جاوے اوربالخصوص بدنی سزا سے منع کیا گیا تھا۔
(ج)اگرکوئی شخص ایسی حالت میں مرجاتا تھا کہ اس کے ذمہ جزیہ کی کوئی رقم واجب الادا ہوتی تھی تووہ معاف کردی جاتی تھی اورمرنے والے کے ورثاء اورترکہ کو اس کا ذمہ وار نہیں قرار دیا جاتا تھا۔ ۲؎
کیا یہ مراعات آج کوئی قوم کسی دوسری قوم سے کرتی ہے؟پھر یہی نہیں کہ جزیہ کی تشخیص میں نرمی سے کام لیا جاتا تھا بلکہ اگر جزیہ واجب ہوجانے کے بعد بھی کسی شخص کی مالی حالت جزیہ ادا کرنے کے قابل نہ رہتی تھی تواسے جزیہ کی رقم معاف کردی جاتی تھی۔چنانچہ ذیل کاتاریخی واقعہ اس کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں بعض غیر مسلموںسے جزیہ وصول کرنے میںکچھ سختی کی جارہی تھی۔یہ دیکھ کرحضرت عمرؓ فوراًرک گئے اورغصہ کی حالت میں دریافت فرمایا کہ ’’یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘عرض کیا گیا کہ’’یہ لوگ جزیہ ادا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے۔‘‘ حضرت عمرؓنے فرمایا’’تو پھرکوئی وجہ نہیں کہ ان پر وہ بوجھ ڈالا جاوے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ انہیں چھوڑدو۔میں نے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دنیا میں لوگوں کوتکلیف دیتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے عذاب کے نیچے ہوگا۔چنانچہ ان لوگوں کاجزیہ معاف کردیا گیا۔‘‘ ۳؎
حضرت عمر ؓکو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیرمسلم رعایا کااس قدر خیال تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے ہوئے خاص طور پرایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے:’’میں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کونصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیرمسلم رعایا سے بہت نرمی اورشفقت کامعاملہ کرے۔ان کے معاہدات کوپورا کرے۔ ان کی حفاظت کرے۔ان کے لئے ان کے دشمنوں سے لڑے اوران پر قطعاًکوئی ایسا بوجھ یاذمہ داری نہ ڈالے جوان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ ۱؎
عام سلوک اورسیاسی تعلقات
عام سلوک اورسیاسی تعلقات کے معاملہ میں بھی اسلام نے ایسا نمونہ قائم کیا جس کی مثال کسی دوسری قوم میں نہیں ملتی۔خیبر کے
یہودیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاہدہ کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے محاصل کی بٹائی کے لئے اپنے صحابی عبداللہؓ بن رواحہ کوبھیجا کرتے تھے۔آپ کی تعلیم کے ماتحت عبداللہؓ بن رواحہ فصل کی بٹائی میں اس قدر نرمی سے کام لیتے تھے کہ فصل کے دوحصے کرکے یہودیوں کواختیار دے دیتے تھے کہ اب ان حصوں میں سے جوحصہ بھی تم پسند کرو لے لو اورپھر جوحصہ پیچھے رہ جاتا تھاوہ خود لے لیتے تھے۔ ۲؎ حضرت عمرؓکے زمانہ میں جب شام فتح ہوا تو معاہدہ کی رو سے مسلمانوں نے شام کی عیسائی آبادی سے ٹیکس وغیرہ وصول کیا۔لیکن اس کے تھوڑے عرصہ بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہوگیاجس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابوعبیدہؓنے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کوواپس کردیااورکہا کہ جب جنگ کی وجہ سے ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کرسکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پاس رکھیں۔عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کودعادی اورکہا’’خدا کرے تم رومیوں پرفتح پائو اورپھر اس ملک کے حاکم بنو۔‘‘چنانچہ جب مسلمانوں نے دوبارہ فتح حاصل کی توعلاقہ کی عیسائی آبادی نے بڑی خوشی منائی اورواپس شدہ ٹیکس پھرمسلمانوں کوادا کئے۔ ۳؎ یہ اسی قسم کے حسن سلوک کانتیجہ تھا کہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی شام میں تشریف لے گئے تووہاں کے عیسائی لوگ گاتے اور بجاتے ہوئے ان کے استقبال کے لئے نکلے اوران پر تلواروں کاسایہ کیا اور پھولوں کی بارش برسائی۔ ۴؎
ملکی عہدوں کے معاملہ میں بھی غیر مسلم رعایا کے حقوق کاخیال رکھا جاتا تھا۔چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک عیسائی ابوزبیدنامی کوایک جگہ کاعامل مقرر فرمایا تھا۔ ۱؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اورتعامل کے ماتحت حضرت عمرؓکواسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کے حقوق اوران کے آرام وآسائش کااتنا خیال رہتا تھا کہ وہ اپنے گورنروں کوتاکید کرتے رہتے تھے کہ ذمیوں کاخاص خیال رکھیں اورخود بھی ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔چنانچہ ایک دفعہ ذمیوں کاایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت عمرؓنے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟انہوں نے جواب دیا مَانَعْلَمُ اِلاَّوَفَائً وَّحُسْنَ مَلِکَۃٍ۔ ۲؎ یعنی’’ہم نے مسلمانوں کی طرف سے حسن وفا اورحسن سلوک کے سوا کچھ نہیںدیکھا۔‘‘
عدل وانصاف
محکمۂ قضاء وعدالت میں مسلم اورغیر مسلم رعایا کے حقوق قانونی رنگ میں تومساوی تھے ہی مگر عملاً بھی انصاف کاترازو کسی طرف جھکنے نہیں پاتا تھا۔چنانچہ ہم دیکھ چکے
ہیں کہ جب بنونضیر کی جلاوطنی کے موقع پرانصار اوریہود کے درمیان اختلاف پیدا ہوا یعنی یہودی لوگ انصار کی اولاد کواپنے ساتھ لے جاتا چاہتے تھے اورانصار انہیں روکتے تھے تو اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف اوریہود کے حق میں فیصلہ فرمایا۔۳؎ اسی طرح روایت آتی ہے کہ جب ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے سامنے ایک یہودی اورمسلمان کامقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے یہ دیکھ کرکہ حق یہودی کے ساتھ ہے مسلمان کامقدمہ خارج کرکے یہودی کے حق میں ڈگری دی۔۴؎ انہی کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک یہودی قتل ہوگیا اوراس کے قاتل کاکوئی سراغ نہیںچلتا تھا۔حضرت عمرؓکواس کا علم ہواتووہ گھبراکر گھر سے نکل آئے اورصحابہ کومسجد میں جمع کرکے منبر پرچڑھ گئے اورایک نہایت زوردار خطبہ دیا جس میں کہا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایااورحکومت اسلامی کی باگ ڈور میرے ہاتھ میںدی۔اب کیا میرے ہوتے ہوئے مخلوق خدا کااس طرح خون ہوگا۔تم لوگوں کو خدا کی قسم ہے کہ جسے اس واقعہ کے متعلق کچھ علم ہووہ مجھے بتائے‘‘اس پر ایک صحابی بکربن شداخ کھڑا ہوگیا اورکہنے لگا۔’’یاامیرالمومنین! یہ قتل مجھ سے سرزد ہوا ہے۔‘‘حضرت عمرؓنے جواب دیا۔’’اللہ اکبر!تم اس کے قاتل ہو !تم سے قصاص لیا جائے گا۔ورنہ کوئی بریت ہے تو پیش کرو۔‘‘ ۱؎
غریب ذمیوں کی امداد
اسلامی حکومت میں غریب اورنادار غیر مسلم رعایا کی مالی امداد کابھی انتظام کیا جاتا تھا۔چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمرؓنے ایک بوڑھے یہودی کوبھیک
مانگتے دیکھا تو اس سے پوچھا کیا ماجرا ہے؟اس نے کہا۔بوڑھا ہوگیا ہوں اورنظر کمزور ہے۔کام ہو نہیں سکتا اورجزیہ کی رقم بھی ابھی مجھ پر لگی ہوئی ہے۔یہ سن کر حضرت عمرؓبے چین ہوگئے۔فوراًاسے اپنے ساتھ لیا اوراپنے گھر لاکر مناسب امداددی اورپھر بیت المال کے افسر کوبلا کر کہا کہ یہ کیا بے انصافی ہے کہ ایسے لوگوں پر جزیہ لگایا جاتا ہے! ہمیں تو حکم ہے کہ غرباء کی امداد کریں نہ کہ ُالٹا ان پر ٹیکس لگائیں۔اس کے بعد ایک عام حکم جاری فرمایا کہ ایسے لوگوں پر جزیہ نہ لگایا جاوے بلکہ اس قسم کے مستحق لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاوے۔ ۲؎ ذمیوںکی امداد توالگ رہی اسلام میں حربی دشمنوں کی امدادکی مثالیں بھی مفقود نہیں ہیں چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب ۵ہجری میں مکہ میں قحط پڑا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے مکہ والوں کی امداد کے لئے کچھ چاندی بھجوائی حالانکہ ابھی تک قریش مکہ اسلام کے خلاف برسرپیکار تھے۔ ۳؎
احساسات کااحترام
جذبات واحساسات کارشتہ نہایت نازک ہوتا ہے اورفاتح اورغالب اقوام عموماًاس معاملہ میں بہت بے اعتنائی دکھاتی ہیں کیونکہ اس کا دارومدار کسی
قانون پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اس روح پر ہوتا ہے جوقلوب میں مخفی ہوتی ہے اورجس پرکوئی مادی قانون حکومت نہیں کرسکتا۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ اپنے غلبہ اورحکومت کے زمانہ میںبھی غیر مسلموں کے احساسات کابہت خیال رکھتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہوگیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس کاعلم ہوا تو آپ اس کی عیادت کوتشریف لے گئے۔اوراس کی حالت کونازک پاکرآپ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی۔وہ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوا مگر چونکہ اس کا باپ زندہ تھا اور اس وقت پاس ہی کھڑا تھا ۔وہ ایک سوال کی ہیئت بناکر باپ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔باپ نے کہا ’’بیٹے !(اگر تمہیں تسلی ہے توبے شک)ابوالقاسم ۱؎ کی بات مان لو۔‘‘لڑکے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا’’خدا کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے نجات پاگئی۔‘‘ ۲؎
جب شام کا ملک فتح ہوا اوروہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ماتحت آگئی توایک دن جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی سہل بن حنیف اورقیس بن سعد قادسیہ کے شہر میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس سے ایک عیسائی کاجنازہ گزرا۔ یہ دونوں اصحاب اسے دیکھ کر تعظیماًاٹھ کھڑے ہوئے۔ایک مسلمان نے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاصحبت یافتہ نہیں تھا اوران اخلاق سے ناآشنا تھا جواسلام سکھاتا ہے یہ دیکھ کر بہت تعجب کیا اورحیران ہوکر سہل اورقیس سے کہا کہ یہ تو ایک ذمی کاجنازہ ہے۔انہوں نے جواب دیا کہ ہاں!ہم جانتے ہیں مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہی طریق تھا کہ آپ غیر مسلموں کے جنازہ کودیکھ کر بھی کھڑے ہوجاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا ان میں خداکی پیدا کی ہوئی جان نہیں ہے؟‘‘ ۳؎
دوسری اقوام کے مذہبی بزرگوں کااحترام
بین الاقوام مناقشات کی تہ میں بیشتر طورپر یہ جذبہ کام کرتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کے مذہبی
پیشوائوں کااحترام نہیں کرتی اوراپنے بزرگوں کے سواباقی سب کو جھوٹا اورمفتری اورمفسد فی الارض قراردیتی ہے اس معاملہ میں اسلام یہ تعلیم پیش کرتا ہے کہ خدا کسی ایک قوم یا ایک ملک کا خدا نہیں ہے بلکہ وہ ساری دنیا کا خدا ہے پس جس طرح اس نے دنیا کی جسمانی زندگی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو کسی ایک قوم کے ساتھ خاص نہیں۔اسی طرح اس کی ازلی رحمت نے دنیا کی روحانی زندگی کے لئے بھی سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۴؎ ۵؎ یعنی ہم نے ہر قوم میں اپنا رسول بھیج کر لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ صرف خدا کی پرستش کرو اور شیطانی رستوں کے قریب نہ جائو،لیکن افسوس کہ صرف بعض نے ہماری نصیحت کومانا اور بعض نے گمراہی کارستہ اختیار کرلیا مگر ہم نے اپنی طرف سے سب کے ساتھ ایک سا سلوک کیا کیونکہ دنیا کی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس کی طرف ہم نے کوئی نصیحت کرنے والا بھیج کراس کے لئے ہدایت کاسامان نہ پیدا کیا ہو۔‘‘اس آیت کریمہ کے ماتحت ایک مسلمان کے لئے دنیا کی ہرقوم کا مذہبی بانی ایک مقدس ہستی بن جاتا ہے اوروہ اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہرقوم کے مذہبی پیشوا کوخدا کے ایک نبی اوررسول کی حیثیت میںقبول کرے۔اس کے لئے ہندوئوں کے کرشن،بدھ مذہب والوں کے گوتم بدھ،چینیوں کے کنفوشس،پارسیوں کے زرتشت،یہودیوں کے موسیٰ اورعیسائیوں کے مسیح علیہم السلام سب ایک ہی واحد آسمانی خدا کے مقدس پیغامبر ہیں۔جن کے ذریعہ سے دنیا نے اپنے اپنے وقت میں ہدایت کانور پایا۔
اس مبارک تعلیم کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کودوسری اقوام کے مذہبی پیشوائوں کی عزت کا اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ جب ایک صحابی نے کسی یہودی کے سامنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ پرایسے رنگ میں فضیلت بیان کی جس سے اس یہودی کے دل کو صدمہ پہنچاتوآپ نے اس صحابی کو ملامت فرمائی اورفرمایا کہ تمہارا یہ کام نہیں کہ خدا کے نبیوں میں اس طرح بعض کو بعض سے افضل بیان کرتے پھرو اورپھر آپ نے حضرت موسیٰ کی ایک جزوی فضیلت بیان کرکے اس یہودی کی دلداری فرمائی۔ ۱؎ ایک دوسرے موقع پرجبکہ آپ طائف سے مکہ کوواپس آرہے تھے آپ کوایک عداس نامی شخص ملاجس نے آپ سے ذکر کیا کہ میں نینوا کارہنے والا ہوں۔ آپ نے بے ساختہ فرمایا’’نینوا!یونس بن متی کاشہر!یونس میرے بھائی تھے۔میں اسی خداکارسول ہوں جس نے یونس کومبعوث کیا تھا۔‘‘ ۲؎ یہ ذہنیت کیسی مبارک، کیسی دلکش اوراخوت اورامن کے جذبات سے کیسی معمور ہے!مگر افسوس کہ دنیا نے اس کی قدر نہیں کی۔
یہ اس ضابطۂ اخلاق کا مختصر نقشہ ہے جوغیر قوموں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے متعلق مقدس بانی اسلام نے پیش کیا اور جس پر آپ کے صحابہ اورآپ کے خلفاء نے عملاًکاربند ہوکر یہ بتادیا کہ یہ تعلیم صرف کاغذوں کی زینت یامنبروں کی سجاوٹ نہیں بلکہ سیاست اسلامی کا ایک ضروری اورعملی حصہ ہے جس کے بغیر کوئی حکومت جواسلام کی طرف منسوب ہوتی ہے صحیح معنوں میں اسلامی حکومت نہیں کہلاسکتی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
(اس جگہ سیرۃ خاتم النبیین کا حصّہ دوم ختم ہوا)

سیرتِ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم

حصہ سوم

فہرست مضامین
سیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم
حصّہ اوّل
تاریخ اسلام کے ابتدائی ماخذ
۳
قبل از اسلام روایات و اشعار
۴
قرآن شریف
۶
تاریخ اسلام کے روایتی ماخذ
۱۰
عرب کا ملک اور اس کے باشندے
۴۷
ظہور اسلام سے پہلے عرب کا تہذیب و تمدن
۵۷
تعلیم اور قدیم شاعری
۵۹
عورت کی حیثیت
۶۵
قدیم مذاہب عرب
۶۸
مکہ، کعبہ اور قریش
۷۳
ابو الانبیاء خلیل اﷲ
۷۳
اسماعیل ذبیح اللہ
۷۶
حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کے متعلق بعض اعتراضات کا جواب
۷۷
تعمیر کعبہ
۸۵
تولیت کعبہ
۸۷
کعبہ کی دوبارہ ، سہ بارہ تعمیر
۸۹
نقشہ کعبہ و مسجد حرام
۹۲
قریش
۹۳
چاہ زمزم کی تلاش
۱۰۰
اصحاب الفیل
۱۰۱
ابتدائی زندگی
۱۰۵
ولادت باسعادت
۱۰۵
کفالت
۱۱۰
سفر شام
۱۱۳
حرب فجار
۱۱۷
حلف الفضول
۱۱۸
مشاغل تجارت
۱۱۹
حضرت خدیجہ ؓ سے شادی
۱۲۱
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد
۱۲۱
کعبہ کی جدید تعمیر
۱۲۲
ابتدائی زنندگی پر ایک سرسری نظر
۱۲۸
آغاز رسالت
۱۳۳
ایام کش مکش
۱۶۵
ہجرت حبشہ
۱۶۵
مسلمانوں کے خلاف معاہدہ قریش اور مسلمانوں کا بائیکاٹ
۱۸۶
شق القمر کا معجزہ
۱۸۹
توسیع اشاعت
۲۰۳
قبائل کا دورہ
۲۰۳
طائف کا سفر
۲۰۳
آپ کی خدمت میں جنات کا وفد
۲۰۶
قبیلہ دوس میں اسلام
۲۱۰
معراج اور اسراء
۲۱۲
پنجگانہ نماز کا فرض ہونا
۲۳۲
سلطنت ہائے روم فارس کی جنگ اور اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی
۲۴۱
قبائل عرب کو تبلیغ اسلام
۲۴۲
وطن سے بے وطن
۲۴۵
یثرب میں اسلام
۲۴۶
بیعت عقبہ اولیٰ
۲۴۷
بیعت عقبہ ثانیہ
۲۵۲
آغاز سفر ہجرت اور قریش کا تعاقب
۲۶۲
سفر ہجرت اور سراقہ بن مالک کا تعاقب
۲۶۵
مکی زندگی پر ایک سرسری نظر
۲۷۰
حصّہ دوم
مدینہ کا ابتدائی قیام اور حکومت اسلامی کی تاسیس
۲۹۱
نزول قباء
۲۹۴
ورود مدینہ اور جمعہ کی پہلی نماز
۲۹۷
تعمیر مسجد نبوی
۳۰۱
ابتدائے اذان
۳۰۳
مواخات انصار و مہاجرین
۳۰۹
مدینہ کی سوسائٹی کی تقسیم اور یہود کے ساتھ معاہدہ
۳۱۱
قبائل عرب کی متحدہ مخالفت
۳۱۸
جہاد بالسیف کا آغاز اور اصولی بحث
۳۲۲
کبھی کوئی شخص جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا
۳۲۶
صحابہ کی زندگیاں جبر کے خیال کی مکذب ہیں
۳۳۰
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلح کی خواہش جبر کے خیال کو جھٹلاتی ہے
۳۳۱
فتح مکہ کے موقع پر سینکڑوں کفار اسلام سے منکر رہے
۳۳۳
وجوہات جنگ
۳۳۴
اسلامی آداب جہاد
۳۵۶
ابتدائی لڑائیاں۔ روزہ کی ابتدائ۔ تحویل قبلہ
اور جنگ بدر کے متعلق ابتدائی بحث
۳۷۰
غزوات و سرایا کا آغاز
۳۷۰
تحویل قبلہ
۳۷۸
صیام رمضان
۳۸۱
عید الفطر
۳۸۲
جنگ بدر کے متعلق ایک ابتدائی بحث
۳۸۴
جنگ بدر۔ اسلامی سلطنت کا استحکام اور رؤساء قریش کی تباہی
۳۹۵
رومی سلطنت کی فتح اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی
۴۲۷
غلاموں کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا
سلوک اور مسئلہ غلامی کے متعلق آپ کی تعلیم
۴۲۹
مسلمانوں نے غلامی کی آزادی کی تعلیم پر کس طرح عمل کیا
۴۴۹
آزاد شدہ غلاموں کے لئے تمام ترقی کے دروازے کھلے تھے
۴۵۱
تمام غلاموں کو یکلخت کیوں نہ آزاد کر دیا گیا
۴۵۲
اسلامی ممالک میں غلامی کیوں قائم رہی
۴۵۸
غلاموں کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری وصیت
۴۵۹
آئندہ غلامی کو روکنے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم
۴۶۰
جنگی قیدیوں کا مسئلہ
۴۶۳
لونڈیوں کا مخصوص مسئلہ
۴۷۲
حضرت عائشہ کا رخصتانہ اور ان کی عمر کی بحث
تعدد ازدواج کا مسئلہ ۔ دو فرضی واقعات
۴۷۹
قبائل نجد اور یہود کے ساتھ جنگ کا آغاز۔ حضرت فاطمہ ؓ
اور حفصہ ؓ کی شادی اوربعض متفرق واقعات
۵۱۱
عید الاضحی
۵۱۳
جنت البقیع اور اس کا پہلا مدفون
۵۲۲
تزویج ام کلثوم
۵۲۴
قتل کعب بن اشرف
۵۲۷
ولادت امام حسن ؓ
۵۴۲
ایک مصیبت کا دھکہ۔ قانون ورثہ۔ حرمت شراب
کفار کی غداری اور دو دردناک واقعات
۵۴۳
جنگ احد
۵۴۳
غزوہ حمراء الاسد
۵۶۷
یہود کی دوسری غداری۔ جمع و ترتیب قرآن ۔حضرت زینبؓ
کی شادی ۔ واقعہ افک اور منافقین کی فتنہ پردازی
۵۸۷
ولادت حسین ؓ
۵۹۴
تزوج ام سلمہ ؓ
۵۹۶
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کاتب خاص اور عبرانی کی تعلیم
۵۹۷
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک بین الاقوامی قاضی کی حیثیت میں
۶۰۶
مدینہ میں خسوف قمر اور صلوٰۃ خسوف
۶۰۹
پردے کے احکام کا نزول
۶۱۵
کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے مفید مطلب وحی اتار لیا کرتے تھے
۶۲۵
جویریہ بنت حارث کی شادی
۶۴۳
عزل یعنی برتھ کنٹرول کی اجازت
۶۴۴
مدینہ کا محاصرہ اور مسلمانوں کی نازک حالت۔ کفار کی نامرادی۔ حقیقت معجزہ
۶۴۶
جنگ احزاب
۶۴۶
معجزہ کی حقیقت
۶۵۲
بنو قریظہ کی غداری اور مدینہ میں یہود کا خاتمہ۔ قانون شادی و طلاق
۶۷۴
ریحانہ کا غلط واقعہ
۶۸۲
انصار کے رئیس اعظم کی وفات اور نعماء جنت کی حقیقت
۶۹۲
فنون سپاہ گری کی طرف توجہ
۶۹۶
مدنی زندگی کے پہلے دور کا خاتمہ اور اسلامی طریق حکومت
۷۱۱
حکومت کا حق صرف جمہور کو حاصل ہے
۷۱۳
حکومت کے لئے مشورہ ضروری ہے
۷۱۴
بنو امیہ کی خلافت صحیح اسلامی خلافت نہ تھی
۷۱۸
کیا امارت سے دستبرداری کی جاسکتی ہے
۷۲۰
اسلامی اطاعت کا معیار
۷۲۳
کیا امارت کا حق صرف قریش کے ساتھ مخصوص ہے
۷۲۷
غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات
۷۳۱
مذہبی رواداری
۷۳۴
جزیہ کا مسئلہ
۷۳۵
عام سلوک اور سیاسی تعلقات
۷۳۸
عدل و انصاف
۷۳۹
غریب ذمیوں کی امداد
۷۴۰
دوسری اقوام کے مذہبی بزرگوں کا احترام
۷۴۱
حصّہ سوم
مدنی زندگی کے دوسرے دور کا آغاز اور صلح حدیبہ سے پہلے کا زمانہ
۷۴۷
ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ کا اسلام لانا
۷۴۹
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں سے ستر ہزار آدمی بلا حساب جنت میں جائیں گے
۷۵۳
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص کا مسلمان ہونا
۷۵۷
ایک مسلمان اور کافر کے ازدواجی تعلق کے متعلق اسلامی تعلیم
۷۵۸
سفر سے واپسی کی دعا
۷۶۳
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق توریہ کا الزام
۷۶۴
زید بن حارثہ کی امارت پر لوگوں کا اعتراض اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب
۷۷۱
مساوات اسلامی پر ایک مختصر نوٹ
۷۷۳
عام تعلقات میں مراتب کو ملحوظ رکھنے کی تلقین
۷۷۷
سوشل اجتماعوں میں برادرانہ اختلاط
۷۸۰
خادم و آقا کے تعلقات
۷۸۲
بیاہ شادی کے معاملات میں اسلامی تعلیم
۷۸۳
مرد و عورت میں حقوق کی مساوات
۷۸۴
اسلام میں دولت کی تقسیم کا نظریہ
۷۸۷
معذور لوگوں کی ذمہ داری حکومت پر ہے
۷۹۱
اقتصادی مساوات کے متعلق ایک خاص نکتہ
۷۹۳
اسلام ایک وسطی نظریہ پیش کرتا ہے
۷۹۵
استثنائی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم
۷۹۷
دینی اور روحانی امور میں مساوات
۷۹۹
امّ قرفہ کے قتل کا غلط واقعہ
۸۰۸
اہل خیبر کی شرارت اور ابو رافع یہودی کا قتل
۸۱۲
مدینہ میں بارش کا قحط اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعائے استسقاء
۸۱۷
اسلام میں قبولیت دعا کا مسئلہ
۸۱۹
اہل خیبر کی طرف سے مزید خطرہ اور قتل اسَیر بن رزام
۸۳۰
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی سازش
۸۳۳
قبائل عکلؔ و عرینہؔ کی غداری
۸۳۶
صلح حدیبیہ اور اس کے عظیم الشان نتائج
۸۴۱
بیعت رضوان
۸۵۵
اسلامی سیاست اسلام کے دینی نظام سے علیحدہ بھی ہو سکتی ہے
۸۸۱
اسلام کی امن اور جنگ کی طاقت کا مقابلہ
۸۸۴
اسود و احمر کے نام اسلام کا پیغام
۸۸۹
قیصر و کسریٰ کو دعوت حق
۸۸۹
اسلام کا تبلیغی نظریہ
۸۸۹
دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں
۸۹۰
اسلام کا عالمگیر مشن
۸۹۲
اسلام کی دائمی شریعت
۸۹۳
انگوٹھی کی تیاری
۸۹۴
عرب کے چاروں اطراف میں تبلیغی مہم
۸۹۶
قیصر و کسریٰ کی باہمی کشمکش اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیشگوئی
۸۹۷
ہرقل کے نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تبلیغی خط
۹۰۰
کسریٰ کے نام خط
۹۱۱
مقوقس مصر کے نام خط
۹۱۶
مقوقس والے خط کا عکس
۹۲۲
نجاشی کے نام تبلیغی خط
۹۲۳
رئیس غسان کے نام خط
۹۲۸
رئیس یمامہ کے نام خط
۹۲۹
جوئے اور شطرنج کی ممانعت
۹۳۰
مجوزہ عناوین
۹۳۷
ٌُسیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بعض آراء
۹۴۹

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عرض حال
سیرۃ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے حصہ سوم کاپہلا جزو ہدیہ ناظرین کرتے ہوئے میری طبیعت میں اس وجہ سے کافی تامل ہے کہ یہ حصہ اس احتیاط کے ساتھ نہیں لکھا گیا جس احتیاط سے کہ سابقہ حصے لکھے گئے تھے اوراس کاآخری حصہ توگویا بالکل قلم برداشتہ ہی لکھا گیا اوریہ انداز ایک تاریخی تحقیق کے لئے یقینا مناسب نہیں۔اسی طرح اس حصہ کی نظر ثانی بھی ایسے حالات میں ہوئی ہے کہ میں اس کے متعلق کسی طرح تسلی کااظہار نہیں کرسکتا۔قادیان سے باہر آنے کے بعد کتابوں کا بہت سا ذخیرہ توقادیان میں ہی رہ گیا اورجوحصہ پاکستان میں پہنچا وہ لاہور اورچنیوٹ اورربوہ احمدنگر وغیرہ میں منتشرپڑا ہے اس لئے حوالوں کی آخری چھان بین بلکہ بعض صورتوں میں تو ابتدائی چھان بین بھی تسلی بخش صورت میں نہیں ہوسکتی اورمجھے اکثر جگہ حوالہ درحوالہ پراکتفا کرنی پڑی ہے۔ مثلاًاگرزرقانی نے یہ لکھا ہے کہ ابن سعد نے فلاں بات یوں بیان کی ہے تو میں اسے موجودہ تصنیف میں قبول کرلیتا ہوں حالانکہ اس سے پہلے اصل ماخذ کی طرف رجوع کرکے ذاتی پڑتال کے بعد اندراج کیا کرتا تھا۔اس کے علاوہ آخری حصہ لاہور میں آکر بہت جلدی میں لکھنا پڑا ہے اس لئے دلجمعی کی نظر ثانی کے نتیجہ میں جو اصلاح اورتصحیح ممکن ہوسکتی ہے وہ اسے میسر نہیں آئی۔مگر بہرحال جوکچھ بھی موجودہ حالات کی مجبوریوں کے ماتحت لکھا جاسکا ہے وہ دوستوں کے اس مشورہ کے نتیجہ میں کہ موجودہ مواد بہرحال شائع ہوجانا چاہئے ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔اگر خدا نے توفیق دی تو انشاء اللہ طبع ثانی کے وقت ضروری اصلاح کی جاسکے گی۔
جیسا کہ میں الفضل میں اعلان کرچکا ہوں یہ حصہ مکمل نہیں ہے بلک صرف غزوہ بنوقریظہ کے بعد کے حالات سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تبلیغی خطوط کے زمانہ تک محدود ہے اسی لئے میں نے اس کا نام’’سیرۃ خاتم النبیین حصہ سوم جزواول‘‘رکھا ہے۔جب بقیہ جزو شائع ہوگی تو انشاء اللہ حصہ سوم مکمل ہوجائے گا۔اس حصہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم (فداہ نفسی)کے اس خط کابلاک فوٹو بھی درج کیا جارہا ہے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مصر کے بادشاہ مقوقس کو لکھا تھا۔اگرچہ ان ساڑھے تیرہ سوسال کے عرصہ میں عربی کے رسم الخط میں کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن غور کرنے سے بیشتر الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں اور یہ الفاظ بعینہٖ وہی ہیں جواسلامی روایتوں سے اس خط کے ثابت ہوتے ہیں۔پس میں نے نہ صرف تبرک کے خیال سے بلکہ اس خیال سے بھی کہ اس خط کی دریافت احادیث اورتاریخ اسلام کی صحت کاایک زندہ ثبوت ہے اس خط کا فوٹو کتاب میں درج کردیا ہے اورمیرا دل اس نقشہ کوتصور میں لاکر خاص روحانی سرور حاصل کرتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے منتخب صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ مبارک الفاظ املاء فرمارہے ہوں گے اورصحابہ کے دل اس مقدس انتظار کی کیفیت سے معمور ہوں گے کہ دیکھئے ان روحانی آبشاروں کے چھینٹوں کاکیا نتیجہ نکلتا ہے۔
دوست دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کتاب کے بقیہ حصہ یاحصوں کی تکمیل کی بھی توفیق عطا کرے اوراسے دنیا کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنائے۔وباللّٰہ التوفیق وھوالمستعان۔
خاکسار
مرزابشیر احمد آف قادیان
حال رتن باغ۔لاہور
۱۲؍ اپریل ۱۹۴۹ء
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مدنی زندگی کے دوسرے دور کا آغاز
صلح حدیبیہؔ سے پہلے کازمانہ
جیسا کہ اس کتاب کے حصہ دوم کے آخر میںبیان کیا جاچکاہے ۶ہجری کی ابتداء سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔اس نئے دورکی نمایاں خصوصیات تین تھیں:
اوّل۔ یہ کہ اب مدینہ کاشہر غیرمسلم عنصر سے عملاًپاک ہوچکا تھا اورگومنافقین کاگروہ اب تک مدینہ میں موجود تھا اوریہ لوگ اپنی قلبی عداوت اورمخفی چالبازیوں میں اس وقت غالباً آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش میں تھے مگر بہرحال وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اورجہاں تک ظاہری نظام کا تعلق ہے وہ اسلامی سوسائٹی کاحصہ تھے۔
دوم ۔گوقریش مکہ ابھی تک اسلام کے خلاف میدان عمل میں تھے مگر غزوۂ احزاب کی ناکامی سے انہیں ایسا دھکا لگ چکا تھا کہ اب وہ اسلام کی عداوت کامرکزی نقطہ نہیں رہے تھے۔
سوم۔ میدانِ کارزاراب مدینہ سے ہٹ کر عرب کے مختلف اطراف میں پھیل گیا تھا۔اس مؤخر الذکر تبدیلی کی وجہ سے مسلمانوں کی بیرونی مہمیں بھی لازماًزیادہ کثرت اورزیادہ تنوّع اختیار کرگئی تھیںاوران کا حلقہ آگے سے بہت زیادہ وسیع ہوکرگوناگوں معرکوں کا منظر پیش کرنے لگا تھا۔ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ہجرت کاچھٹا سال جس میں ہم اب داخل ہورہے ہیں مسلمانوں کے لئے غیر معمولی نقل وحرکت کا سال تھا ۱؎ جس میں ا نہیں کم وبیش اٹھارہ مرتبہ مدینہ سے نکلنا پڑا اوران مہمّات میں سے ایک مہم(یعنی غزوہ حدیبیہ)توخاص طورپر نہایت اہم اورنہایت وسیع الاثر تھی۔
دراصل گوعرب کے قبائل غزوۂ احزاب میں جواواخر۵ہجری میں ہوا اپنا انتہائی زور لگا دینے کے بعد اس خیال سے توعملاًمایوس ہوچکے تھے کہ مدینہ پر حملہ آور ہوکر مسلمانوں کوان کے گھر میں ہی ملیا میٹ کیا جاسکتا ہے مگر ابھی تک عداوت اسلام کی آگ ان کے سینوں میں اسی طرح شعلہ زن تھی۔بلکہ غزوۂ احزاب کی ذلت بھری ناکامی نے ان کی دلی عداوت کواوربھی بھڑکادیا تھا۔اس لئے اب اگر ایک طرف عرب کے وحشی اورخونخوار قبائل نے مدینہ پر باقاعدہ حملہ کرنے کا خیال ترک کردیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی تھی کہ غزوۂ احزاب کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ آور نہیں ہوں گے تودوسری طرف وہ اسلام کومٹانے اورمسلمانوں کونیست ونابود کرنے کے لئے نئے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر میدان میں نکل رہے تھے۔چنانچہ اس زمانہ میں ا نہوں نے تین تدابیر اختیار کیں۔
اوّل انہوں نے یہ تجویز کی کہ مدینہ سے باہر جن جن قبائل میں اسلام کااثر پہنچ رہا تھا یا جن میں اثر پہنچنے کااحتمال تھا وہاں اسلام کی اشاعت کوجبراً روک دیا جاوے تاکہ کوئی نیا شخص مسلمان ہوکر اور مدینہ کی طرف ہجرت کرکے مسلمانوں کی تقویت کاباعث نہ بنے۔
دوسرے یہ کہ مدینہ کے مضافات پرخفیہ خفیہ چھاپے مارکر مسلمانوں کے جان ومال کونقصان پہنچایاجاوے۔
تیسرے یہ کہ کسی مخفی تدبیر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجو نظام اسلام کامرکزی نقطہ تھے قتل کروا دیا جاوے۔ ۱؎
ہرچند کہ یہ تینوں تجاویز ایک حد تک پہلے سے کفار کے مدِّنظر تھیںاوروہ عملاًان کے لئے کوشاں بھی رہتے تھے مگراب انہوں نے دوسری طرف سے خیال ہٹا کر گویا اپناسارا زور انہی تجاویز کے کامیاب بنانے میں صرف کرنا شروع کردیا۔چنانچہ وہ مہمّات جن کا ذکر اب شروع ہوتا ہے ان کا باعث زیادہ ترکفار عرب کی یہی تدابیر تھیں۔ہم ان میں سے خاص خاص غزوات وسرایا کاذکر کسی قدر تفصیلاًاورباقی کامجملاًہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
سریہ قُرْطا۔ محرم ۶ہجری مطابق مئی جون ۶۲۷ء
ابھی ۶ھ شروع ہی ہوا تھا اورقمری سال کے پہلے مہینہ یعنی محرم کی ابتدائی تاریخیں
تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواہل نجد کی طرف سے خطرہ کی اطلاعات پہنچیں۔یہ اندیشہ قبیلہ قُرْطَا کی طرف سے تھا جوقبیلہ بنوبکر کی ایک شاخ تھا اورنجدکے علاقہ میں بمقام ضَرِیّہ آباد تھا جومدینہ سے سات یوم کی مسافت پرواقع تھا۔ ۱؎ یہ خبرپاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًتیس سواروں کا ایک ہلکا سادستہ اپنے ایک صحابی محمد بن مسلمہ انصاری کی کمان میں نجد کی طرف روانہ فرمادیا مگر اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں کچھ ایسا رعب پیدا کردیا کہ وہ معمولی سے مقابلہ کے بعد ہی بھاگ نکلے اور گواس زمانہ کے طریق جنگ کے مطابق مسلمانوں کے لئے یہ موقع تھا کہ وہ دشمن کی عورتوں اور بچوں کوقید کرلیتے کیونکہ دشمن انہیں چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا مگر محمد بن مسلمہ نے عورتوں اوربچوں سے کوئی تعرض نہیں کیا اورعام سامان غنیمت لے کر جو اونٹوں اوربکریوں پرمشتمل تھا ۔مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ ۲؎
ثُمامہ بن اُثال رئیس یمامہ کا اسلام لانا۔محرم۶ہجری
اس مہم کی واپسی پرثُمامہ بن اُثال کے قید کئے جانے کاواقعہ پیش آیا۔ ۳؎ یہ شخص
یمامہ کا رہنے والا تھا اورقبیلہ بنو حنیفہ کاایک بہت بااثررئیس تھا اوراسلام کی عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ہمیشہ بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے درپے رہتا تھا۔چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایلچی اس کے علاقہ میں گیا تو اس نے تمام قوانین جنگ کو بالائے طاق رکھ کر اس کے قتل کی سازش کی۔ ۴؎ بلکہ ایک دفعہ اس نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کابھی ارادہ کیاتھا۔۵؎ جب محمد بن مسلمہ کی پارٹی ثمامہ کوقید کر کے لائی تو انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کون شخص ہے بلکہ انہوں نے اسے محض شبہ کی بنا پر قید کرلیا تھا اورمعلوم ہوتا ہے کہ ثمامہ نے بھی کمال ہوشیاری کے ساتھ ان پر اپنی حقیقت ظاہر نہیں ہونے دی،کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اسلام کے خلاف خطرناک جرائم کا مرتکب ہوچکا ہوں اور اگر اسلام کے ان غیرت مندسپاہیوں کویہ پتہ چل گیا کہ میں کون ہوں تووہ شاید مجھ پر سختی کریں یا قتل ہی کردیں مگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بہتر سلوک کی توقع رکھتا تھا۔چنانچہ مدینہ کی واپسی تک محمد بن مسلمہ کی پارٹی پرثُمامہ کی شخصیت مخفی رہی۔
مدینہ پہنچ کر جب ثُمامہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا توآپؐ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اورمحمد بن مسلمہ اوران کے ساتھیوںسے فرمایا۔جانتے ہو یہ کون شخص ہے؟انہوں نے لاعلمی کااظہار کیا جس پرآپؐ نے ان پر حقیقت حال ظاہر کی۔اس کے بعد آپؐ نے حسب عادت ثمامہ کے ساتھ نیک سلوک کئے جانے کا حکم دیا اورپھر اندرون خانہ تشریف لے جاکر گھر میں ارشاد فرمایا کہ جو کچھ کھانے کے لئے تیار ہوثمامہ کے لئے باہر بھجوادو۔ ۱؎ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ ثمامہ کوکسی دوسرے مکان میں رکھنے کی بجائے مسجد نبوی کے صحن میں ہی کسی ستون کے ساتھ باندھ کر قید رکھا جائے۔جس سے آپؐ کی غرض یہ تھی کہ تا آپؐ کی مجالس اور مسلمانوںکی نمازیں ثمامہ کی آنکھوں کے سامنے منعقد ہوں اوراس کا دل ان روحانی نظاروں سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف مائل ہوجائے۔ ۲؎
ان ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرروز صبح کے وقت ثمامہ کے قریب تشریف لے جاتے اورحال پوچھ کر دریافت فرماتے کہ’’ثمامہ!بتائو اب کیا ارادہ ہے؟‘‘ثمامہ جواب دیتا’’اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) اگرآپ مجھے قتل کردیں تو آپ کواس کا حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کاالزام ہے لیکن اگر آپ احسان کریں توآپ مجھے شکر گزار پائیں گے اوراگر آپ فدیہ لینا چاہیں تو میں فدیہ دینے کے لئے بھی تیار ہوں۔‘‘تین دن تک یہی سوال وجواب ہوتا رہا۔آخر تیسرے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ’’ثمامہ کوکھول کر آزاد کردو۔‘‘ صحابہؓ نے فوراًآزاد کردیا اورثمامہ جلدی جلدی مسجد سے نکل کر باہر چلاگیا۔غالباًصحابہ یہ سمجھے ہوں گے کہ اب وہ اپنے وطن کی طرف واپس لوٹ جائے گا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ چکے تھے کہ ثمامہ کادل مفتوح ہوچکا ہے۔چنانچہ وہ ایک قریب کے باغ میں گیا اوروہاں سے نہا دھو کر واپس آیا اورآتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا۔اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔’’یارسول اللہ ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اورآپؐ کے دین سے اورآپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی،لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اورآپؐ کادین اورآپؐ کاشہر سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ ۳؎
اس دن شام کوجب حسب دستور ثُمامہ کے لئے کھانا آیا تو اس نے تھوڑا سا کھانا کھا کر چھوڑ دیا۔ جس پرصحابہ نے تعجب کیا کہ آج صبح تک تو ثُمامہ بہت زیادہ کھاتا رہا ہے اور گویا پیٹو تھا،لیکن اب اس نے بہت تھوڑا کھانا کھایا ہے۔یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی توآپؐ نے فرمایا۔ ’’صبح تک ثمامہ کافروں کی طرح کھانا کھاتا تھا اوراب اس نے ایک مسلمان کی طرح کھایا ہے۔‘‘اور آپؐ نے اس کی تشریح یوں فرمائی کہ’’کافر سات آنتوں میں کھانا کھاتا ہے مگر مسلمان صرف ایک آنت میں کھاتا ہے۔‘‘ ۱؎ اس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ جہاں ایک کافر تودنیوی لذات میں انہماک ہوتا ہے اورگویا وہ اسی میں غرق رہتا ہے وہاں ایک سچا مسلمان اپنی جسمانی ضروریات کو صرف اس حد تک محدود رکھتا ہے جوزندگی کے قیام کے لئے ضروری ہے کیونکہ اسے حقیقی لذت صرف دین میں حاصل ہوتی ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ سات کے عدد سے حسابی عدد مراد نہیں ہے بلکہ عربی محاورہ کی رو سے سات کا عدد کثرت اورتکمیل کے اظہار کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ۲؎ گویا مراد یہ ہے کہ ایک کافر دنیوی لذات میں غرق رہتا ہے اوراس کی ساری توجہ دنیا میں صرف ہوتی ہے مگر ایک مومن اپنے آپ کو دنیوی لذات سے روک کررکھتا ہے اورضرورت حقہ کی حد سے آگے نہیںگزرتا۔کیونکہ اس کی حقیقی لذات کامیدان اورہے۔یہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فطری میلان اور آپؐکے ذاتی خلق کاایک نہایت سچاآئینہ ہے۔
مسلمان ہونے کے باعث ثُمامہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ!جب آپؐ کے آدمیوں نے مجھے قید کیا تھا تو اس وقت مَیں خانہ کعبہ کے عمرہ ۳؎ کے لیے جا رہا تھا اب مجھے کیا ارشاد ہے؟آپ ؐ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور دُعا کی اور ثمامہ مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ ۴؎ وہاں پہنچ کر ثمامہ نے جوشِ ایمان میں قریش کے اندر برملا تبلیغ شروع کردی۔قریش نے یہ نظارہ دیکھا تو اُن کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور انہوں نے ثمامہ کو پکڑ کر ارادہ کیا کہ اسے قتل کردیں۔مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ یمامہ کے علاقے کا رئیس ہے اور یمامہ کے ساتھ مکہ کے گہرے تجارتی تعلقات ہیں وہ اس ارادہ سے باز آگئے اور ثمامہ کو برا بھلا کہہ کر چھوڑ دیا۔ ۵؎ مگر ثمامہ کی طبیعت میں سخت جوش تھا اور قریش کے وہ مظالم جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پر کرتے رہے تھے وہ سب ثمامہ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔اس نے مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے قریش سے کہا۔’’خدا کی قسم آئندہ یمامہ کے علاقہ سے تمہیں غلہ کاایک دانہ نہیں آئے گاجب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہ دیںگے۔ ۱ ؎
اپنے وطن میں پہنچ کرثُمامہ نے واقعی مکہ کی طرف یمامہ کے قافلوں کی آمد ورفت روک دی اور چونکہ مکہ کی خوراک کابڑا حصہ یمامہ کی طرف سے آتا تھا اس لئے اس تجارت کے بند ہوجانے سے قریش مکہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے اورابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ انہوں نے گھبرا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ ہمیشہ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں اور ہم آپ کے بھائی بند ہیں۔ہمیں اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ ۲؎ اس وقت قریش مکہ اس قدرگھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے صرف اس خط پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے رئیس ابوسفیان بن حرب کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زبانی بھی بہت آہ وپکار کی اوراپنی مصیبت کااظہار کرکے رحم کاطالب ہوا۔جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثُمامہ بن اُثال کوہدایت بھجوادی کہ قریش کے ان قافلوں کی جن میںاہل مکہ کی خوراک کا سامان ہوروک تھام نہ کی جاوے۔چنانچہ اس تجارت کاسلسلہ پھرجاری ہوگیا اورمکہ والوں کو اس مصیبت سے نجات ملی۔ ۳؎
یہ واقعہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر شفقت اوررحم اور عفو کاایک بین ثبوت ہے وہاں اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ شروع شروع میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قافلوں کی روک تھام کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کی اصل غرض وغایت یہ نہیں تھی کہ قریش کو قحط میں مبتلا کرکے تباہ کیا جائے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ مدینہ کے قرب وجوار کوقریش کے خطرہ سے محفوظ کرلیا جائے۔اس واقعہ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے حربی دشمن کے متعلق بھی یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ عام حالات میں اس کے سلسلہ رسل ورسائل کو اس حد تک بند کردیا جائے کہ وہ نانِ جویں تک سے محروم ہوجائے۔ہاں سامان حرب کی آمدورفت یاضروری سامان خورد نوش کے علاوہ دوسری اشیاء کی برآمد ودرآمد کا سلسلہ جنگی ضروریات کے ماتحت روکا جاسکتا ہے۔اوراگر یہ صورت ہوکہ دشمن مسلمانوں کی خوراک کے سلسلہ کو روکے توپھر قرآن کی اصولی تعلیم ۴؎ کے ماتحت اس کے اس سلسلہ کو بھی روکنا جائز ہوگا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ثُمامہ بن اُثال اپنے علاقہ کاایک ذی اثر رئیس تھا۔اس کی پرجوش تبلیغ کے ذریعہ یمامہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔اس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب اورحضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے شروع میں مسیلمہ کذاب جھوٹے مدعی نبوت کے پیچھے لگ کر یمامہ کے بہت سے بادیہ نشین اسلام سے مرتد ہوگئے تو ثمامہ نہ صرف خود نہایت پختگی کے ساتھ اسلام پر قائم رہا بلکہ اس نے اپنی والہانہ جدوجہد سے بہت سے لوگوں کو مسیلمہ کے شر سے محفوظ کرکے اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع رکھااورمسیلمہ کے فتنہ کے مٹانے میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ۱؎
غزوہ عکاشہ بن محصن ربیع الاول ۶ہجری
اسی سال ماہ ربیع الاول میں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک مہاجر صحابی عکاشہ ۲؎ بن مِحصَنکو چالیس
مسلمانوں پر افسر بنا کر قبیلہ بنی اسدکے مقابلہ کے لئے روانہ فرمایا۔یہ قبیلہ اس وقت ایک چشمہ کے قریب ڈیرہ ڈالے پڑا تھا جس کا نام غَمر تھا جو مدینہ سے مکہ کی سمت میںچند دن کے فاصلہ پر واقع تھا۔عکاشہ کی پارٹی جلدی جلدی سفرکرکے غَمر پہنچی تاکہ انہیں شرارت سے روکا جاسکے تو معلوم ہوا کہ قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کی خبر پاکر ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے۔اس پر عکاشہ اور اس کے ساتھی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اورکوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ ۳؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے سترہزار آدمی بلاحساب جنت میں جائیں گے
عکاشہ فضلا صحابہ میں سے تھے اوراہل مکہ کے حلیف تھے۔وہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں جنگ مرتدین میں شہید ہوئے۔ ۴؎ یہ
وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق حدیث میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں ذکر فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔یعنی وہ ایسے روحانی مرتبہ پر فائز ہوں گے اور ان کے لئے خدائی فضل وکرم اس قدر جوش میں ہوگا کہ ان کے حساب کتاب کی ضرورت نہیں سمجھی جائے گی۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کے چہرے قیامت کے دن اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح کہ چودہویں رات کا چاند آسمان پرچمکتا ہے۔اس پر عکاشہ نے عرض کیا۔’’یارسول اللہ !دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میںسے کردے۔‘‘آپ نے اسی وقت دعا فرمائی کہ اے خدا تو اپنے فضل سے عکاشہ کوبھی ان لوگوں میں سے کردے۔اس کے بعد ایک انصاری شخص نے عرض کیا۔یارسول اللہ!میرے لئے بھی یہ دعا فرمائیں اس پر آپؐ نے فرمایا:
سَبَقَکَ بِھَا عُکَاشَۃُ
یعنی’’اب توعکاشہ تم پر اس معاملہ میں بازی لے جاچکا ہے۔‘‘ ۱؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کایہ ایک بظاہر چھوٹا ساواقعہ اپنے اندر بہت سے معارف کاخزانہ رکھتا ہے کیونکہ اوّل تواس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ امت محمدؐیہ پر اللہ تعالیٰ کا اس درجہ فضل وکرم ہے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاروحانی فیض اس کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ آپؐ کی امت میں سے ستر ہزار آدمی ۲؎ ایسا ہوگا جواپنے نمایاں روحانی مقام اورخدا کے خاص فضل وکرم کی وجہ سے گویا قیامت کے دن حساب وکتاب کی پریشانی سے بالا سمجھا جائے گا۔دوسرے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسا قرب حاصل ہے کہ آپؐ کی روحانی توجہ پر خدا تعالیٰ نے فوراً بذریعہ کشف یاالقاء آپؐکویہ علم دے دیا کہ عکاشہ بھی اس سترہزار کے پاک گروہ میں شامل ہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ عکاشہ پہلے اس گروہ میں شامل نہ ہومگر آپؐ کی دعا کے نتیجہ میں خدا نے اسے یہ شرف عطاکردیا ہو۔تیسرے اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کااس درجہ ادب ملحوظ تھااورآپ اپنی امت میں جہدوعمل کو اس درجہ ترقی دینا چاہتے تھے کہ جب عکاشہ کے بعد ایک دوسرے شخص نے آپؐ سے اسی قسم کی دعا کی درخواست کی تو آپؐ نے اس اخص روحانی مقام کے پیش نظر جواس پاک گروہ کو حاصل ہے مزید انفرادی دعا سے انکار کردیا تاکہ مسلمانوں کو تقویٰ اورایمان اورعمل صالح میں ترقی کرنے کی طرف توجہ رہے۔چوتھے اس سے آپؐ کے اعلیٰ اخلاق پر بھی غیر معمولی روشنی پڑتی ہے۔کیونکہ آپؐ نے انکار ایسے رنگ میں نہیں کیا۔جس سے سوال کرنے والے انصاری کی دل شکنی ہو بلکہ ایک نہایت لطیف رنگ میں بات کوٹال گئے۔
سریہ محمد بن مسلمہ بطرف ذوالقصہ ربیع الآخر ۶ہجری
ربیع الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ انصاری کو
ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا جومدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر تھا اورجہاں ان ایام میں بنوثعلبہ آباد تھے۔محمد بن مسلمہ اوران کے دس ساتھی رات کے وقت وہاں پہنچے تودیکھا کہ اس قبیلہ کے ایک سو نوجوان جنگ کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔صحابہ ؓ کی جماعت سے یہ پارٹی تعداد میںدس گنے زیادہ تھی مگر تعداد کافرق اسلامی ضابطۂ حرب میں چنداں قابل لحاظ نہیں تھا۔محمد بن مسلمہ نے فوراً اس لشکر کے سامنے صف آرائی کرلی اورفریقین کے درمیان رات کی تاریکی میں خوب تیزاندازی ہوئی۔ اس کے بعد کفار نے صحابہ کی اس مٹھی بھر جماعت پردھاوابول دیا اورچونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک آن کی آن میں یہ دس فدایان اسلام خاک پر تھے۔محمد بن مسلمہ کے ساتھی تو سب کے سب شہید ہوگئے مگر خود محمد بن مسلمہ بچ گئے۔کیونکہ کفار نے انہیں دوسروں کی طرح مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا اوران کے کپڑے وغیرہ اتار کر لے گئے۔ غالباً محمدبن مسلمہ بھی وہاں پڑے پڑے فوت ہوجاتے مگر حسن اتفاق سے ایک مسلمان کاوہاں سے گزرہوگیا اوراس نے محمد بن مسلمہ کوپہچان کرانہیں اٹھا کر مدینہ پہنچا دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان حالات کاعلم ہوا تو آپؐ نے ابوعبیدہؓ بن الجراح کوجو قریش میں سے تھے اورکبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے محمد بن مسلمہ کے انتقام کے لئے ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا اورچونکہ اس عرصہ میں یہ بھی اطلاع موصول ہوچکی تھی کہ قبیلہ بنوثعلبہ کے لوگ مدینہ کے مضافات پرحملہ کاارادہ رکھتے ہیں اس لئے آپؐ نے ابوعبیدہؓ کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت بھجوائی اورحکم دیاکہ راتوں رات سفر کرکے صبح کے وقت وہاں پہنچ جائیں۔ابوعبیدہؓ نے تعمیل ارشاد میں یلغارکرکے عین صبح کی نماز کے وقت انہیں جادبایا اوروہ اس اچانک حملہ سے گھبرا کرتھوڑے سے مقابلہ کے بعد بھاگ نکلے اورقریب کی پہاڑیوں میںغائب ہوگئے۔ابوعبیدہؓ نے مال غنیمت پرقبضہ کیا اورمدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ ۱؎
اس مہم میںجن دوصحابہ کاذکر ہے یعنی محمد بن مسلمہ اورابوعبیدہؓ بن الجراح وہ دونوں کبار صحابہ میں سے تھے۔محمد بن مسلمہ اپنے ذاتی اوصاف اورقابلیت کے علاوہ قتل کعب بن اشرف یہودی کے ہیرو تھے۔کیونکہ یہ مفسد انہی کے ہاتھ سے اپنے کیفرکردار کوپہنچا تھا۔محمد بن مسلمہ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمرؓ کی خلافت میں ان کے خاص معتمد سمجھے جاتے تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ عموماًانہی کواپنے عمّال کی شکایتوں کی تحقیق کے لئے بھجوایا کرتے تھے۔حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد جب مسلمانوں میں اندرونی فتنوں کادروازہ کھلا تو محمد بن مسلمہ نے اپنی تلوار کوایک پتھر پرتوڑ کر اپنے ہاتھ میں صرف ایک چھڑی لے لی اور جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہی سنا ہوا ہے کہ جب مسلمانوں کے اندر باہمی قتل وغارت کا دروازہ کھلے تو تم تلوار کوتوڑ کر گھر میں اس طرح دبک کر بیٹھ جانا جس طرح کسی کمرہ میں اس کا فرش پڑا ہوا ہوتا ہے۔ ۱؎ یہ حکم غالباًمحمد بن مسلمہ کے لئے یااس فتنہ کے لئے خاص تھا ورنہ بعض اوقات اندرونی فتنوں کامقابلہ بھی ایک اعلیٰ دینی خدمت کا رنگ رکھتا ہے۔
دوسرے صحابی ابوعبیدہؓ بن الجراح تھے۔یہ چھوٹی کے صحابہ میں سے تھے اورقریشی تھے۔ان کی رفعت شان اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امین الملّت کاخطاب عطا فرمایاتھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جن دو صحابہ کوخلافت کااہل سمجھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ابوعبیدہؓ حضرت عمرؓکے عہد میں مرض طاعون سے وفات پاکر شہید ہوئے۔ ۲؎
سریہ زید بن حارثہ بطرف بنی سلیم۔ربیع الآخر۶ہجری
اسی ماہ ربیع الآخر ۶ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
آزاد کردہغلام اورسابق متبنّٰی زیدبن حارثہ کی امارت میں چند مسلمانوں کوقبیلہ بنی سلیم کی طرف روانہ فرمایا۔یہ قبیلہ اس وقت نجد کے علاقہ میں بمقام جموم آباد تھا اورایک عرصہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکار چلاآتاتھا۔چنانچہ غزوۂ خندق میں بھی اس قبیلہ نے مسلمانوں کے خلاف نمایاں حصہ لیا تھا۔ ۳؎ جب زید بن حارثہ اوران کے ساتھی جموم میں پہنچے جومدینہ سے قریباًپچاس میل کے فاصلہ پر تھا تو اسے خالی پایا۔مگر انہیں قبیلہ مزینہ کی ایک عورت حلیمہ نامی سے جو مخالفین اسلام میں سے تھی اس جگہ کاپتہ لگ گیاجہاں اس وقت قبیلہ بنوسُلَیم کاایک حصہ اپنے مویشی چرارہا تھا۔چنانچہ اس اطلاع سے فائدہ اٹھا کرزید بن حارثہ نے اس جگہ پرچھاپامارا۔اس اچانک حملہ سے گھبراکراکثرلوگ تو ادھر ادھر بھاگ کرمنتشر ہوگئے مگر چندقیدی اورمویشی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے جنہیں وہ لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔اتفاق سے ان قیدیوں میں حلیمہ کاخاوند بھی تھا اورہرچند کہ وہ حربی مخالف تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے نہ صرف حلیمہ کوبلا فدیہ آزاد کردیا بلکہ اس کے خاوند کوبھی احسان کے طور پر چھوڑ دیا اورحلیمہ اوراس کا خاوند خوشی خوشی اپنے وطن کوواپس چلے گئے۔۴؎
سریہ زید بن حارثہ بطرف عِیص ۔جمادی الاولیٰ ۶ہجری
زید بن حارثہ کواس مہم سے واپس آئے زیادہ دن نہیں
گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ کے مہینہ میں انہیں ایک سو ستر صحابہ کی کمان میں پھر مدینہ سے روانہ فرمایا۔اس مہم کی وجہ اہل سیر نے یہ لکھی ہے کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کاایک قافلہ آرہا تھا اس کی روک تھام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ کوروانہ فرمایا تھا۔قافلوں کی روک تھام کے متعلق ہم غزوات کے ابتداء میں ۱؎ ایک اصولی بحث درج کر چکے ہیں۔اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ قریش کے قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اورمکہ اورشام کے درمیان آتے جاتے ہوئے وہ مدینہ کے بالکل قریب سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔علاوہ ازیںجیسا کہ ابتدائی بحث میں ذکر کیاجاچکا ہے یہ قافلے جہاںجہاں سے گزرتے تھے۔قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے جاتے تھے۔جس کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی ایک خطرناک آگ مشتعل ہوچکی تھی اس لئے ان کی روک تھام ضروری تھی۔بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کی خبرپاکر زید بن حارثہ کواس طرف روانہ فرمایا اوروہ اس ہوشیاری سے گھات لگاتے ہوئے بڑھے کہ بمقام عِیص قافلہ کوجادبایا۔عِیص ایک جگہ کانام ہے جو مدینہ سے چار دن کی مسافت پرسمندر کی جانب واقع ہے چونکہ یہ اچانک حملہ تھا اہل قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاسکے اوراپنے سازوسامان کوچھوڑ کر بھاگ نکلے۔زیدنے بعض قیدی پکڑ کراورسامان قافلہ اپنے قبضہ میں لے کر مدینہ کی راہ لی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ۲؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص کامسلمان ہونا
ان قیدیوں میں جو سریہ بطرف عِیص میں پکڑے
گئے ابوالعاص بن الربیع بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اورحضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ اس سے قبل وہ جنگ بدر میں بھی قید ہوکر آئے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس شرط پرچھوڑ دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کرآپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کومدینہ بھجوادیں۔ ابوالعاص نے اس وعدہ کوتوپورا کردیا تھا مگر وہ خود ابھی تک شرک پرقائم تھے۔جب زید بن حارثہ انہیں قید کرکے مدینہ میں لائے تورات کاوقت تھا مگر کسی طرح ابوالعاص نے حضرت زینبؓ کو اطلاع بھجوادی کہ میں اس طرح قید ہوکر یہاں پہنچ گیا ہوں تم اگرمیرے لئے کچھ کرسکتی ہو تو کرو۔چنانچہ عین اس وقت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ صبح کی نماز میں مصروف تھے زینبؓ نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کرکہا کہ’’اے مسلمانو!میںنے ابوالعاص کوپناہ دی ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔’’جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا۔واللہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔مگر مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے۔‘‘ ۱؎ پھر آپؐ نے زینبؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا ’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں۔‘‘اور جو مال اس مہم میں ابوالعاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا۔پھرآپؐگھر میں تشریف لائے اوراپنی صاحبزادی زینبؓ سے فرمایا’’ابوالعاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو۔مگر اس کے ساتھ خلوت میں مت ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے۔‘‘چند روز مدینہ میں قیام کرکے ابوالعاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔ ۲؎ جس پرآپؐ نے حضرت زینبؓ کوان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا۔یعنی زینبؓ کواجازت دے دی کہ اب وہ ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھ سکتی ہیں۔۳؎
بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ اورابوالعاص کا دوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا مگر پہلی روایت زیادہ مضبوط اورصحیح ہے۔ ۴؎
ایک مسلمان اورکافر کے ازدواجی تعلق کے متعلق اسلامی تعلیم
اس جگہ ضمناً یہ ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ ایک
مسلمان اورکافر کے باہمی نکاح کے بارے میں قرآنی احکام تین مختلف موقعوں پردرجہ بدرجہ نازل ہوئے ہیں۔سب سے پہلے ہجرت کے کچھ عرصہ بعد سورۃ بقرہ کی آیات نازل ہوئیں جن میں یہ حکم دیا گیا کہ کوئی مسلمان کسی مشرک عورت کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا اورنہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی مشرک مرد کے ساتھ ہوسکتا ہے۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے۔
…۔ ۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کیا کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور نہ ہی تم مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں کے ساتھ کیا کرو حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔‘‘
لیکن اس حکم میں یہ تصریح نہیں تھی کہ اگر نکاح پہلے سے ہوچکا ہوتو پھر کیا کیا جائے۔سو اس کے متعلق صلح حدیبیہ کے بعد سورۃ ممتحنہ والی آیات نازل ہوئیں جن میں یہ حکم دیا گیا کہ ایک مسلمان عورت کا کسی صورت میں بھی ایک مشرک مرد کے ساتھ نکاح قائم نہیں رہ سکتا اورنہ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی مشرک عورت کواپنے نکاح میں رکھے۔چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے:
……۔ ۲؎
یعنی’’اے مسلمانو!اگرتمہارے پاس مومن عورتوں میں سے بعض عورتیں ہجرت کرکے پہنچیں تو تم انہیں کافروں کی طرف نہ لوٹائو کیونکہ مسلمان ہونے کے بعد وہ کافروں کے لئے جائز نہیں رہیں۔ اورنہ کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے جائز ہیں…اوراگر اے مسلمانو!تمہارے نکاح میں کوئی کافر (مشرک) عورت ہوتو تم اس کے عقدنکاح کوبھی قائم نہیں رکھ سکتے۔‘‘
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں سورۃ مائدہ والی آیات نازل ہوئیں۔جن میں اس بات کی صراحت کی گئی کہ ایک اہل کتاب عورت(یعنی یہودی یاعیسائی وغیرہ)کے ساتھ مسلمان مرد کا نکاح ہوسکتا ہے۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
…۔ ۳؎
یعنی’’اے مسلمانو! آج کے دن تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں … اوراسی طرح ان پاک دامن عورتوں کے ساتھ بھی تمہارا نکاح جائز ہے جوان لوگوں میں سے ہیںجنہیں تم سے پہلے کوئی شریعت کی کتاب دی گئی۔‘‘
اس آخری حکم کے ذریعہ اہل کتاب اورغیر اہل کتاب کے درمیان نمایاں امتیاز قائم کردیا گیا۔ یعنی جہاں ایک مسلمان مرد کے لئے غیر مسلم اہل کتاب عورت کانکاح جائز قراردیا گیا وہاں ایک ایسی مشرک عورت کانکاح جوکسی الہامی کتاب کونہیں مانتی ہرحال میں ناجائز رکھا گیا۔
اب اگر اس جگہ یہ سوال پیدا ہوکہ جب سریہ عیص جس میں ابوالعاص قید ہوکر آئے تھے صلح حدیبیہ سے پہلے ہوا تھا توپھر یہ کس طرح ممکن ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہونے والے حکم مندرجہ سورۃ ممتحنہ کوسریہ عیص کے موقع پر چسپاں فرمایا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک سرسری نظر میں یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تویہ اعتراض دو طریق پر حل کیا جاسکتا ہے۔ اوّل اس طرح کہ بے شک سورۃ ممتحنہ والا حکم جس میں مشرک عورتوں کا نکاح ہرحال میں ناجائز قرار دیا گیا ہے بعد میں نازل ہوا مگر بہرحال سورۃ بقرہ والا حکم تو(جس میں کم از کم آئندہ کے لئے مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح روک دیا گیا تھا)پہلے نازل ہوچکا تھا اور اغلباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم پرقیاس کرکے احتیاط کارستہ اختیار کرتے ہوئے حضرت زینبؓ کوہدایت فرمادی ہوگی کہ جب تک ابوالعاص مسلمان نہ ہوجائیں تم ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات نہ رکھنا اورپھر بعد میں اس کے مطابق حکم بھی نازل ہوگیا۔دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ جیسا کہ بعض علماء نے لکھا ہے سریہ عیص اورابوالعاص کے قید ہونے کا واقعہ دراصل صلح حدیبیہ کے بعد ہوا ہو،لیکن مؤرخین نے غلطی سے اسے صلح حدیبیہ سے پہلے رکھ دیا ہو۔۱؎ مگر ہمارے نزدیک مقدم الذکر تشریح زیادہ صحیح اورقرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔واللہ اعلم
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگرابوالعاص کے کفر کی وجہ سے حضرت زینبؓ کا نکاح فسخ سمجھا گیاتھا تو پھر ان کے مسلمان ہونے پر بلانکاح جدید انہیں کیوں اکٹھا ہونے کی اجازت دے دی گئی؟ اس کاجواب ایک فریق نے تو اس طرح دیا ہے کہ بِلانکاح والی روایت قابل عمل نہیں بلکہ اس کے مقابل پروہ روایت زیادہ سند کے قابل ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت زینبؓ کادوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا،لیکن اصل جواب یہ ہے کہ بے شک نکاح فسخ ہوچکا تھا،لیکن چونکہ ابھی تک حضرت زینبؓ کی دوسری جگہ شادی نہیں ہوئی تھی اس لئے جب اس عرصہ میں ابوالعاص مسلمان ہوگئے تو نئے نکاح کی ضرورت نہ سمجھی گئی گویا یہ ایک معلق قسم کی صورت تھی۔یعنی اگراس عرصہ میں حضرت زینب کا دوسری جگہ نکاح ہوجاتا تووہ جائز تھا،لیکن چونکہ وہ ابھی تک آزاد تھیں اس لئے سابقہ خاوند کے مسلمان ہونے پر انہیں اس کی طرف بلانکاح لوٹا دیاگیا۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک مفقود الخبرانسان کی ہوتی ہے جس پر ایک معین عرصہ گزرنے پراس کی بیوی دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کے لئے آزاد ہوجاتی ہے۔لیکن اگرقبل شادی اس کااصل خاوند آجائے توسابقہ نکاح ہی قائم رہتا ہے۔واللہ اعلم
اس ضمن میں اس حکمت کابیان کرنا بھی مناسب ہوگا کہ اسلام میں غیر مسلم مرد کے نکاح میں مسلمان لڑکی کادینا یامسلمان مرد کے نکاح میں غیر اہل کتاب کی لڑکی لینا کیوں حرام قراردیا گیا۔سو جانناچاہئے کہ مقدم الذکرصورت یعنی غیر مسلم مرد کے ساتھ نکاح نہ کرنے کی وجہ توظاہر ہے کہ ایک مسلمان لڑکی کوغیر مسلم مرد کی شادی میں دینے کے یہ معنی ہیں کہ لڑکی کے دین کوخود اپنے ہاتھ سے خطرہ میں ڈالاجاوے اوراسلام کوترقی دینے کی بجائے اس کے تنزل کاراستہ کھولا جائے جسے اسلام کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا۔اورغیراہل کتاب کافر کی لڑکی لینے سے اس لئے روکا گیا ہے کہ چونکہ ایسی لڑکی اصول مذہب سے بالکل بے بہرہ ہوگی اس لئے وہ نہ صر ف بچوں کی تربیت کے لحاظ سے خطرناک ہوگی بلکہ خاوند کے ساتھ بھی اگروہ سچامسلمان ہے اس کا دل نہیں مل سکے گا اورخانگی زندگی حقیقی خوشی سے محروم رہے گی۔اس کے مقابل پراہل کتاب کی لڑکی لینے کی اجازت دینے میں یہ مصلحت ہے کہ اوّل توبین الاقوام تعلقات کی توسیع کاراستہ کھلا رہے دوسرے ایسی لڑکی اصول مذہب سے واقف ہونے کی وجہ سے ایک حد تک بچوں کی تربیت میں ممد ہوسکتی ہے اور تیسرے یہ کہ اس کے لئے خاوند کے مشفقانہ اثر کے ماتحت اسلام کی طرف کھنچے آنے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔واللہ اعلم
مگربایں ہمہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن وحدیث دونوں میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اہل کتاب کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا بھی اسلام میںایک استثنائی رنگ رکھتا ہے جس کی صرف خاص حالات کے ماتحت خاص مصالح کے پیش نظراجازت دی گئی ہے اورعام حالات میں بہتر یہی سمجھا گیا ہے کہ مسلمان مرد کا نکاح حتّی الوسع مسلمان عورت کے ساتھ ہو۔ ۱؎
ابوالعاص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی
یہ ذکر ہوچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے داماد ابوالعاص بن الربیع حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داریعنی حقیقی بھانجے تھے اور باوجود مشرک ہونے کے ان کا سلوک اپنی بیوی سے بہت اچھاتھا اورمسلمان ہونے کے بعد بھی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جہت سے ابوالعاص کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس نے میری لڑکی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ۱؎ ابوالعاص حضرت ابوبکرؓکے عہدخلافت میں ۱۲ہجری میں فوت ہوئے مگر ان کی زوجہ محترمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہوگئیں۔ان کی لڑکی امامہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت عزیزتھی۔حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓکے نکاح میں آئیں مگراولادسے محروم رہیں۔ ۲؎
غزوہ بنولحیان جمادی الاولیٰ ۶ہجری مطابق ستمبر۶۲۷ء
اصحاب رجیع کا المناک واقعہ ۴ھ کے واقعات میں بیان کیا جاچکا ہے۔اس
موقع پردس بے گناہ مسلمان جواسلام کی پرامن تبلیغ کے لئے بھجوائے گئے تھے نہایت بے دردی اوردھوکے کے ساتھ قتل کردئے گئے تھے اوراس سارے فتنہ کی تہ میں بنولحیان کاہاتھ تھاجواس زمانہ میں مکہ اورمدینہ کے درمیان وادی غُران میں آباد تھے۔طبعاًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کاسخت صدمہ تھا اورچونکہ بنولحیان کارویہ ابھی تک اسی طرح معاندانہ اورمفسدانہ تھا اوران کی طرف سے آئندہ کے لئے بھی اندیشہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی مزید فتنہ انگیزی کاباعث نہ بنیں اس لئے آپؐ نے انتظامی لحاظ سے مناسب خیال فرمایا کہ ان کی کسی قدرگوشمالی ہوجائے تاکم از کم آئندہ کے لئے مسلمان ان کے فتنوں سے محفوظ ہوجائیں اس خیال سے آپ دوسوصحابہ کی جمعیت کوساتھ لے کر ماہ جمادی الاولی ۶ھ میں مدینہ سے نکلے۔ ۳؎ اوراس خیال سے کہ اس سفر کی غرض وغایت مخفی رہے تاکہ بنولحیان خبرپاکر ہوشیار نہ ہوجائیں۔آپؐنے مدینہ سے نکل کر شروع شروع میں شمال کارخ کیا اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد جنوب کی طرف گھوم گئے۔ ۴؎ مگرباوجود اس احتیاط کے دشمن کسی طرح خبر پاکر ہوشیار ہوچکا تھا اورپیشتر اس کے کہ آپؐ وادی غران میں پہنچتے بنولحیان کے لوگ اردگرد کی پہاڑیوں میں منتشر ہوکر غائب ہوچکے تھے۔۵؎
آپؐ نے منزل مقصود پرپہنچ کروہاں کچھ وقت قیام فرمایا اورروایت آتی ہے کہ جب اس سفر میں آپؐ اس مقام پرپہنچے جہاں آپؐ کے صحابہؓشہید کئے گئے تھے توآپؐ پرسخت رقت طاری ہوگئی اور آپؐ نے نہایت الحاح کے ساتھ ان شہداء کے لئے دعا مانگی۔ ۱؎ پھرآپؐ مقام عسفان کی طرف آگے بڑھے جواس جگہ سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پرمکہ کی جانب واقع تھا اوراپنے اصحاب کی متفرق پارٹیاں ادھرادھرروانہ فرمائیں جن میں سے ایک پارٹی کے امیر حضرت ابوبکرؓ بھی تھے جومکہ کی سمت میں بھیجی گئی تھی مگران میں سے کسی پارٹی کوبھی لڑائی پیش نہیں آئی اورچند دن کی غیر حاضری کے بعد آپؐمدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔ ۲؎
سفر سے واپسی کی دعا
واپسی سفر کے دوران میں آپؐ نے ایک دعافرمائی جسے بعد میں مسلمان اپنے اہم سفروں سے واپسی کے موقع پرعموماًپڑھا کرتے تھے۔وہ دعایہ ہے:
آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَاحَامِدُوْنَ۔
یعنی’’ہم لوگ اپنے خدا کی طرف لوٹنے والے ہیں۔اسی کی طرف جھکنے والے۔اسی کی عبادت کرنے والے۔اسی کے سامنے گرنے والے اوراپنے رب کی تعریف کے گیت گانے والے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے بعد کے سفروں میں عموماً یہ دعافرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے ساتھ یہ الفاظ زیادہ فرماتے تھے کہ:
صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَنَصَرَعَبْدَہٗ وَحَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ
یعنی’’ہمارے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اوراپنے بندے کی نصرت فرمائی اوردشمن کے لشکروں کو خود اپنے دم سے پسپا کردیا۔‘‘ ۳؎
یہ دعا جوغزوہ بنولحیان کے تعلق میں اہل سیر نے بیان کی ہے اورمحدثین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اپنے اندر ایک خاص کیفیت کی حامل ہے اوراس کے مطالعہ سے ان جذبات کے اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے جو اس پُر آشوب زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی کے قلب مطہر میں موجزن تھے اورجنہیں آپؐ اپنے صحابہ کے اندرپیدا کرنا چاہتے تھے۔اس دعا میں یہ تڑپ مخفی ہے کہ دشمن کی طرف سے جوروک مسلمانوں کی عبادت گزاری اوراسلام کی پرامن تبلیغ کے رستے میں ڈالی جارہی ہے اللہ تعالیٰ اسے دورفرمائے اورجس حد تک اللہ تعالیٰ نے اس روک کودور کیا ہے اس پر شکر گزاری کاگیت گایا گیا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے ایک نہایت دل پسند کام میں منہمک ہواورپھریکلخت کوئی دوسرا شخص اس کے کام میں مخل ہوکراس کی توجہ کومنتشر کردے۔ مگرکچھ وقت کے بعد خدائی فضل کے ماتحت یہ روک دورہوجائے اوروہ شخص پھراپنے محبوب مشغلہ میں مصروف ہونے کاموقع پالے۔ایسے موقع پر جوجذبات اس شخص کے دل میں اٹھیں گے وہی اس دعا میں مخفی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم اس سفر کی عارضی رخنہ اندازی سے آزاد ہوکر پھر اس کیفیت کی طرف واپس آرہے ہیں کہ جس میں ہم اپنے خدا کی یاد میں وقت گزار سکیں گے اوراس کی حمد کے گیت گانے کاموقع پائیں گے۔ہاں وہی خداجو اس سے پہلے بھی متعدد موقعوں پرہمیں دشمن کے فتنہ سے محفوظ کرکے امن عطا کرتا رہا ہے۔یہ جذبہ کیسامبارک اورکیسا دلکش اورکیسا پرامن ہے!مگر افسوس کہ پھربھی بعض دشمنان اسلام اعتراض سے باز نہیں آتے اوریہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ کی اصل غرض جارحانہ فوج کشی اوردنیا طلبی تھی۔
ببیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا
غزوہ بنولحیان کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ابن سعد نے اسے ربیع الاول ۶ھ میں بیان کیا ہے مگر ابن اسحاق اورطبری نے تصریح کی ہے کہ وہ جمادی الاولیٰ ۶ھ میں ہوا تھا۔میں نے اس جگہ ابن اسحاق کی پیروی کی ہے۔واللہ اعلم
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق توریہ کاالزام
غزوہ بنو لحیان کے ذکر میں ہم نے یہ بیان کیا ہے ۱؎ کہ پردہ رکھنے کی غرض
سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں شمال کی طرف تشریف لے گئے تھے اوربعد میں مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جاکر جنوب کی طرف گھوم گئے۔اسی قسم کے واقعات بعض دوسرے غزوات کے متعلق بھی بیان ہوئے ہیں کہ دشمن سے اپنی حرکات وسکنات کومخفی رکھنے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں سفر کا مقصد ظاہر نہیں فرمایا اورمدینہ سے نکلتے ہوئے اصل جہت کو چھوڑ کر دوسری جہت کی طرف تشریف لے گئے مگر کچھ فاصلہ پر جاکر پھر اصل جہت کی طرف گھوم گئے وغیر ذالک۔اس قسم کے واقعات کی بنا پر جو عربی محاورہ کے مطابق توریۃ کہلاتے ہیں بعض کوتہ اندیش لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ نعوذ باللہ یہ افعال چالاکی اوردھوکے میں داخل ہیں جو ایک نبی کی شان سے بعید ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں ہمیں زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ اس قسم کے اعتراضات زیادہ سمجھ دار طبقہ کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ عموماًکم علم اورکم فہم لوگوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں جونہ صرف یہ کہ گزشتہ انبیاء ؑاورصلحاء کے حالات سے واقف نہیں بلکہ موقع اورمحل کو سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔اورنیکی صرف اسی بات کو سمجھتے ہیں کہ انسان اول تو دنیا کی کسی بات میں حصہ نہ لے اوراگر کبھی بصورت مجبوری حصہ لینا پڑے تواس کے لئے کوئی مادی تدبیر اختیار نہ کرے اوراگر کبھی کوئی تدبیر اختیار کرنی پڑے تو وہ نہایت سادہ اور بھونڈے طریق پر کی جائے اور ہرصورت میں ہر بات برملا ہو اورکبھی کسی بات میں اخفا اوررازداری کاطریق اختیار نہ کیا جائے۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگرنیکی اسی کا نام ہے تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال اعتراض کانشانہ بنتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نیکی کی یہی تعریف ہے اورکیااس تعریف کی رو سے دنیا کاکوئی نبی اورکوئی مصلح ایسا ہے جوایسے اعتراضوں سے بچ سکتا ہے؟
دور نہ جائو حضرت مسیحؑ ناصری کوہی لے لو جنہیں اس زمانہ میں یورپ وامریکہ کی ترقی یافتہ اقوام عرش الوہیت پربٹھائے ہوئے ہیں اورہر نیک کام کوان کے اقوال وافعال کے پیمانے سے ناپتی ہیں۔مگر کیا یہ درست نہیں کہ جب ان کے خلاف یہ الزام لگایا گیا کہ وہ حکومت وقت کے خلاف تعلیم دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ حکومت کو خراج نہ دو اوراس طرح انہیں حکومت کی نظروں میں معتوب کرنا چاہا توانہوں نے صاف اورسیدھا جواب دینے کی بجائے ایک رائج الوقت سکہ منگایا اوراس پر قیصر روما کی تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ تو قیصر کی تصویر ہے۔تو پھر جو قیصر کی چیز ہے وہ قیصر کودو اورجو خدا کی چیز ہے وہ خدا کو دو۔اوراس طرح ایک غیر حقیقی ساجواب دے کر بات کو ٹال دیا۔ ۱؎ اسی طرح ہندوئوں کی مذہبی کتب میں ذکر آتا ہے کہ شری کرش جی مہاراج (جو ہندوئوں کے سب سے بڑے اوتار گزرے ہیں)اوران کے بعض مقدس ساتھی ایک راجہ کو قتل کرنے کی غرض سے بھیس بدل کر اس کے قلعہ میں داخل ہوئے اورایک انتقامی غرض کے حصول کے لئے اپنی اصل شناخت کوچھپایا اورلوگوں کے خیال کو غلط رستے پر ڈال دیا۔ ۲؎ اسی طرح سکھوں کی کتب میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب شاہی فوج نے گوروگوبندجی کا محاصرہ کرلیا جوسکھوں کے ایک نہایت نامور اورممتاز گوروگزرے ہیں توانہوں نے اپنے ایک ہمشکل شخص کواپنا لباس پہنا کر اسے اپنی جگہ بٹھا دیا اورخود اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ مسلمان حاجیوں کا لباس پہن کر حملہ آوروں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے۔۱؎ اگر یہ مذہبی پیشوا باوجود اپنے اس قسم کے افعال کے پاک اورمقدس شمار ہوسکتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک بالکل جائز جنگی تدبیر اختیار کرنے کی وجہ سے کس طرح اعتراض ہوسکتا ہے؟
حق یہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کے دلوں میں نیکی اورصداقت کاایک نہایت ہی غلط مفہوم قائم ہو گیا ہے حالانکہ حقیقی نیکی یہ نہیں کہ انسان عقل وخرد سے عاری ہوکر بے وقوفی کی حرکات کرے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کابیج بولے بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اگر ایک طرف جھوٹ اور غداری سے بچے اور کوئی کام صداقت اوردیانتداری کے خلاف نہ کرے تو دوسری طرف پوری پوری ہوشیاری کے ساتھ اورہرپہلو سے چوکس رہتے ہوئے اپنے لئے اوراپنی قوم کے لئے دینی اوردنیوی ترقیات کے راستے کھولے اگر ایک شخص ہوشیار اورچوکس ہے مگر جھوٹ اورغداری سے پرہیز نہیں کرتا اورخیانت کا مرتکب ہوتا ہے تووہ یقینا نیک کہلانے کا مستحق نہیں۔اسی طرح اگر ایک شخص صداقت اوروفاداری کوتو اختیار کرتاہے مگر اپنے کاموں میں عقل وخرد اورہوشیاری اوربیدار مغزی نہیں دکھاتا تواسے بھی ہرگز اعلیٰ درجہ کا نیک نہیں سمجھا جاسکتا۔کیونکہ نیکی کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ انسان کاخدا کے ساتھ تعلق ہواوراگر خدا کاتعلق جو ساری دانائیوں کا سرچشمہ ہے انسان کے اندر عقل وخرد پیدا نہیں کرسکتا تواورکون سی چیز پیدا کرے گی اوریقینا اس صورت میں یہ خدا کاحقیقی تعلق نہیں سمجھاجاسکتا۔اسی لئے اسلام نے نیکی کی تعریف میں کسی خاص فعل کو داخل نہیں کیا بلکہ اصل نیکی دل کے تقویٰ کوقرار دیا ہے اورصرف اُسی فعل کونیک شمار کیا ہے جودل کے تقویٰ کے ساتھ خدا کی رضا اورمخلوق کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات پیش آمدہ کے مطابق اختیار کیا جائے۔مثلاًاگر دوستوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا سوال ہوتو اس کے مناسب حال اعلیٰ اخلاق دکھائے جائیں۔ دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا سوال ہوتو اس کے مطابق اچھے اخلاق ظاہر کئے جائیں۔امن کا ماحول ہوتو اس کے مطابق بہترسے بہتر اخلاق کااظہار کیا جائے اورجنگ کاموقع ہو تو اس کے مناسب حال اعلیٰ اخلاق دکھائے جائیں۔غرض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اورمخلوق خدا کی بہتری کومدنظر رکھتے ہوئے جو بھی اعلیٰ اورکامل اخلاق دل کے تقویٰ کے ساتھ اختیار کئے جائیں وہی نیکی ہے اوراسلام نے ہر موقع اورہر ماحول کے مناسب حال علیحدہ علیحدہ اخلاق کی تعیین فرمادی ہے اوریہی وہ صحیح تعریف ہے جو نیکی کی قرار دی جاسکتی ہے اوراسلام کے لئے یہ جائے فخر ہے کہ اس کے مقدس بانی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا میں نیکی کی صحیح تعریف قائم کی ہے اوروہی وہ بزرگ ہستی ہے جس نے ہر میدان میں اعلیٰ ترین اخلاق کااظہار کیا ہے اوراعتراض کرنے والے محض جہالت اورکوتہ بینی سے اعتراض کرتے ہیں۔
جنگ میں اپنی نقل وحرکت کودشمن سے چھپانا یاکامیاب نتائج پیدا کرنے کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرنا نہ صرف ایک بالکل جائز فعل ہے بلکہ فنون جنگ کے لحاظ سے نہایت ضروری اور واجبی ہے اوراگر کوئی جرنیل ایسی تدابیر اختیار نہیں کرتا تووہ اعلیٰ اخلاق کامالک توپھر بھی نہیں کہلا سکتا مگر یقینا وہ پرلے درجہ کا بے وقوف جرنیل ضرورسمجھا جائے گا جسے بالکل ابتدائی اوراصولی تدابیر جنگ کا بھی علم نہیں۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی تدابیر اختیار نہ فرماتے اورجنگوں میں مخفی رکھنے والی تدابیر کوکھلے بندوں کرتے توپھر یہی معترض لوگ آپ پر یہ اعتراض کرتے کہ آپؐ فنون جنگ سے بالکل بے بہرہ اورحسن تدبیر کی صفت سے بالکل محروم تھے۔ یہ ایک قیاس ہی نہیں بلکہ بعض غیر مسلم مؤرخین نے بعض اسلامی مہموں کی ظاہری ناکامی پرواقعی اس قسم کے اعتراضات کئے ہیں کہ بعض موقعوں پرمسلمانوں کاایسی حالت میں دشمن کی قیام گاہ تک پہنچنا کہ وہ ان کی خبر پاکر پہلے سے منتشر ہوچکا ہوتا تھا اس بات کوظاہر کرتا ہے کہ اسلامی مہموں میں سُوئے تدبیر سے کام لیا جاتا تھا۔حالانکہ کبھی کسی مہم میں ایسا ہوجانا سوئے تدبیر کی علامت نہیں بلکہ صرف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دشمن بھی اپنی جگہ ہوشیار اورچوکس تھا اورباوجود مسلمانوں کی ہوشیاری اوربیدار مغزی کے وہ کبھی کبھی شرارت کرکے اپنی شرارت کی سزا سے بچ جاتا تھا۔مگر پھر بھی مجموعی نتیجہ بہرحال اسلام کے حق میں پیدا ہورہا تھا۔مخالفین اسلام کی یہ ذہنیت اس بات کے سوا کچھ ثابت نہیں کرتی کہ انہوں نے ہرحال میں اعتراض کافیصلہ کررکھا ہے۔یعنی مسلمان اگربیداری مغزی اورحسن تدبیر کا اظہارکریں توتب یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام ہوشیاری اورچالاکی کی تعلیم دیتا ہے اوراگر وہ کبھی دشمن کی ہوشیاری اورچالاکی کانشانہ بن جائیں توتب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اسلام میں بیدار مغزی اور حسن تدبیر کافقدان تھا۔اس ذہنیت کاعلاج سوائے خدا کے اورکسی کے پاس نہیں۔مگر یہ ایک شکر کی بات ہے کہ اس قسم کے جاہلانہ اعتراض صرف بے وقوف اورادنیٰ طبقہ کے لوگوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اورسمجھ دار لوگ اس بات کوجانتے اورتسلیم کرتے ہیں کہ سچا مذہب روحانیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی عقل کوبھی تیز کرتا ہے اوریہ کہ اسلام کامقدس بانی صداقت اوردیانت کے ساتھ ساتھ حسن تدبیر کابھی مجسمہ تھا۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ۔
خلاصہ کلام یہ کہ جنگ میں اپنی حرکات وسکنات کوچھپاکریااسی قسم کی اورمناسب احتیاطی تدابیر اختیارکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاًکسی ناجائز یاخلاف اخلاق بات کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ حق یہ ہے کہ یہ تدابیر آپؐ کی دوراندیشی اوربیدارمغزی کی دلیل ہیں اورجو شخص ان باتوں پر اعتراض کرتا ہے۔وہ خود اپنی جہالت کاثبوت دیتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ توریہ(یعنی پردہ رکھنا)اورکذب بیان(یعنی جھوٹ بولنا)میں زمین آسمان کافرق ہے اورکوئی عقل مند ان دونوں کوایک نہیں قرار دے سکتا۔تَوریہ کے معنی چھپانے کے ہیں یعنی ایسے رنگ میں بات کرنا کہ مصلحت وقت کے ماتحت کسی بات کو پردہ میں رکھا جائے تاکہ فتنہ کی صورت پیدا نہ ہو۔لیکن کذب کے معنی خلاف واقعہ بات بیان کرنے اورجھوٹ بولنے کے ہیں اوران دونوں مفہوموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ہرشخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں سینکڑوں باتوں کوچھپاتا ہے۔کوئی شرم وحجاب کی وجہ سے اور کوئی فتنہ کی روک تھام کی بنا پر اور کسی جائز غرض کے ماتحت۔لیکن آج تک کسی عقل مند نے اس طریق پراعتراض نہیں کیا بلکہ اسے ایک بہت اچھاخلق سمجھا جاتا ہے مگرکذب بیانی اوردروغ گوئی بالکل اورچیز ہے جوہرشریف انسان کے نزدیک ایک مکروہ اورناجائز فعل ہے اوراسلام نے تو اسے نہایت سختی سے روکا اورحرام قراردیا ہے۔ حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟اس وقت آپؐ ایک مجلس میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپؐ نے پہلے شرک اوروالدین کی نافرمانی کاذکر فرمایا اورپھر بڑے جوش کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے کہ:
اَلَاوَقَوْلَ الزُّوْرِ۔اَلَاوَقَوْلَ الزُّوْرِ۔ ۱؎
یعنی’’کان کھول کر سن لو!ہاں پھر کان کھول کر سن لو کہ ان کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے۔‘‘
راوی کہتا ہے کہ آپؐ نے یہ الفاظ اس جوش کے ساتھ بار بار دہرائے کہ ہم نے آپؐ کی تکلیف کا خیال کرکے دل میں کہا کہ کاش آپؐ اب خاموش ہوجائیں اور اس نصیحت کے دہرانے میں اتنی تکلیف نہ اُٹھائیں۔
سریہ زید بن حارثہ بہ جانب طرف جمادی الآخرۃ ۶ہجری
غزوہ بنولحیان کے کچھ عرصہ بعد جمادی الآخرۃ ۶ ہجری میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی کمان میں پندرہ صحابیوں کاایک دستہ طرفؔ کی جانب روانہ فرمایا جو مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلہ پر واقع تھا اوراس جگہ ان ایام میں بنوثعلبہ کے لوگ آباد تھے۔مگرقبل اس کے کہ زیدبن حارثہ وہاں پہنچتے اس قبیلہ کے لوگ بروقت خبر پاکر ادھر ادھر منتشر ہوگئے اورزید اوران کے ساتھی چند دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے۔اس سریہ میں مسلمانوں کا جنگی شعار اَمِتْ اَمِتْ تھا۔ ۱؎
سریہ زید بطرف حِسْمٰی جمادی الآخرۃ۶ہجری
اسی ماہ جمادی الآخرۃ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کوپانچ سومسلمانوں کے ساتھ حِسْمٰی
کی طرف روانہ فرمایا جومدینہ کے شمال کی طرف بنوجذام کامسکن تھا۔اس مہم کی غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جن کانام دحیہؔ کلبی تھا شام کی طرف سے قیصرروم کو مل کر واپس آرہے تھے۔۲؎ اوران کے ساتھ کچھ سامان بھی تھا جوکچھ تو قیصر کی طرف سے خلعت وغیرہ کی صورت میں تھا ۳؎ اورکچھ تجارتی سامان تھا۔ ۴؎ جب دحیہؔ بنوجذام کے علاقہ کے پاس سے گزرے تو اس قبیلہ کے رئیس ہنید بن عارض نے اپنے قبیلہ میں سے ایک پارٹی کواپنے ساتھ لے کر وحیہ پر حملہ کردیا اورسارا سامان چھین لیا حتّٰی کہ دحیہ کے جسم پربھی سوائے پھٹے ہوئے کپڑوں کے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔جب اس حملہ کا علم قبیلہ بنوضبیب کوہواجوقبیلہ بنوجذام ہی کی ایک شاخ تھے اوران میں سے بعض لوگ مسلمان ہوچکے تھے ۵؎ تو انہوں نے بنوجذام کی اس پارٹی کاپیچھا کر کے ان سے لوٹا ہواسامان واپس چھین لیا اوردحیہؔ اس سامان کو لے کر مدینہ میں واپس پہنچے۔ یہاں آکر دحیہؔ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسارے حالات سے اطلاع دی جس پرآپؐ نے زید بن حارثہ کوروانہ فرمایا اوردحیہؔ ۶؎ کوبھی زید کے ساتھ بھجوادیا۔
زید کا دستہ بڑی ہوشیاری اوراحتیاط کے ساتھ دن کو چھپتا ہوااوررات کے وقت سفر کرتا ہوا حِسْمٰی کی طرف بڑھا اورعین صبح کے وقت بنوجذام کے لوگوں کو جادبایا۔بنوجذام نے مقابلہ کیا مگر مسلمانوں کے اچانک حملہ کے سامنے ان کے پائوں نہ جم سکے اورتھوڑے سے مقابلہ کے بعد وہ بھاگ نکلے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اورزید بن حارثہ بہت سامان اورمال مویشی اورایک سو کے قریب قیدی پکڑکر واپس لوٹ آئے۔
مگر ابھی زیدمدینہ میں پہنچے نہیں تھے کہ قبیلہ بنوضبیب کے لوگوں کوجو قبیلہ بنوجذام کی شاخ تھے زید کی اس مہم کی خبر پہنچ گئی اوروہ اپنے رئیس رفاعہ بن زید کی معیّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یارسول اللہ!ہم مسلمان ہوچکے ہیں اورہماری بقیہ قوم کے لئے امن کی تحریرہوچکی ہے توپھر ہمارے قبیلہ کواس حملہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔آپؐنے فرمایا ہاں یہ درست ہے مگرزید کواس کا علم نہیں تھا اورپھر جولوگ اس موقع پر مارے گئے تھے ان کے متعلق آپؐ نے بار بار افسوس کااظہار کیا۔اس پر رفاعہ کے ساتھی ابوزید نے کہا یارسول اللہ!جولوگ مارے گئے ہیں ان کے متعلق ہمارا کوئی مطالبہ نہیں یہ ایک غلط فہمی کاحادثہ تھا جوہوگیا۔مگرجولوگ زندہ ہیں اور جو سازوسامان زید نے ہمارے قبیلہ سے پکڑا ہے وہ ہمیں واپس مل جانا چاہئے۔آپؐنے فرمایاہاں یہ بالکل درست ہے اور آپؐنے فوراًحضرت علی ؓکوزید کی طرف روانہ فرمایا اوربطور نشانی کے انہیں اپنی تلوار عنایت فرمائی اورزید کوکہلا بھیجا کہ اس قبیلہ کے جو قیدی اوراموال پکڑے گئے ہیں وہ چھوڑ دئے جائیں۔زید نے یہ حکم پاتے ہی فوراًسارے قیدیوں کوچھوڑ دیا اورغنیمت کامال بھی واپس لوٹا دیا۔۱؎
اس سریہ کی تاریخ کے متعلق ایک اِشکال ہے جس کاذکر ضروری ہے۔ابن سعد اوراس کی اتباع میں دیگر اہل سیر نے اس سریہ کی تاریخ جمادی الآخرۃ ۶ہجری لکھی ہے اوراسی کو صحیح قرار دیا ہے مگر علامہ ابن قیّم نے زادالمعاد میں تصریح کی ہے کہ یہ سریہ ۷ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد ہوا تھا۔ ۲؎ اورغالباً ابن قیّم کے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اس سریہ کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دحیہؔ۳؎ کلبی قیصر سے مل کر مدینہ کوواپس آرہے تھے کہ انہیں راستہ میں بنو جذام نے لوٹ لیا اوریہ مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کوقیصر کی طرف خط دے کر صلح حدیبیہ کے بعد بھجوایا تھا اس لئے یہ واقعہ کسی صورت میں حدیبیہ سے پہلے نہیں ہوسکتا۔یہ دلیل اپنی ذات میں بالکل صاف اورواضح ہے اوراس کی روشنی میں ابن سعد کی روایت یقینا قابل ردّ قرارپاتی ہے۔مگرخاکسار کی رائے میں ایک توجیہہ ایسی ہے جسے علامہ ابن قیّم نے نظر انداز کردیا ہے اوروہ یہ کہ ممکن ہے کہ قیصر کی ملاقات کے لئے دحیہ شام میں دو دفعہ گئے ہوں۔یعنی پہلی دفعہ وہ صلح حدیبیہ سے قبل از خود تجارتی غرض کے لئے گئے ہوں اورقیصر سے بھی ملے ہوں۔اوردوسری دفعہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخط لے کر گئے ہوں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قیصر کی طرف پیغامبر بننے کے لئے اسی غرض سے چنا ہوکہ وہ پہلے قیصر سے مل چکے ہیں۔اس توجیہہ کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ اس سفر میں دحیہ کے پاس تجارتی سامان تھا اورصلح حدیبیہ کے بعد والے سفر میں بظاہر تجارتی سامان کاتعلق نظر نہیں آتا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دحیہ کایہ سفر محض تجارتی غرض سے ہو اورابن سعد کے راوی نے اس کے دوسرے سفر کے ساتھ اس سفر کو خلط کرکے قیصر کی ملاقات اور خلعت کے ذکر کو قیاساًشامل کرلیا ہو۔واللہ اعلم
سریہ زید بن حارثہ بطرف وادی القریٰ رجب ۶ہجری
سریہ حِسْمٰیکے قریباًایک ماہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
پھر زید بن حارثہ کووادی القریٰ کی طرف روانہ فرمایا۔ ۱؎ جب زید کا دستہ وادی القُریٰ میں پہنچا توبنوفزارہ کے لوگ ان کے مقابلہ کے لئے تیار تھے۔ ۲؎ چنانچہ اس معرکہ میں متعدد مسلمان شہید ہوئے اورخود زید کوبھی سخت زخم آئے مگر خدا نے اپنے فضل سے بچا لیا۔ ۳؎
وادی القریٰ جس کا اس سریہ میں ذکر ہوا ہے وہ مدینہ سے شمال کی طرف شامی راستہ پرایک آباد وادی تھی جس میں بہت سی بستیاں آبادتھیں اوراسی واسطے اس کانام وادی القُریٰ پڑگیا تھا۔یعنی بستیوں والی وادی۔اورہم آگے چل کردیکھیں گے کہ اس وادی میں بعض یہودی قبائل بھی آباد تھے جو خیبر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرمفتوح ہوئے۔
زید بن حارثہ کی امارت پرلوگوں کا اعتراض اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب
گزشتہ چار پانچ مہموں میںزید بن حارثہ کی کمان کاذکر آیا ہے۔ہمارے ناظرین جانتے ہیں کہ زید ایک آزادکردہ غلام تھے اورقرآنی حکم
کے نزول سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا بیٹا بنایا ہواتھا اوران کی وفات تک جو۸ہجری میں غزوہ موتہ میں ہوئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں متعدد مہموں کاامیر مقرر فرمایا اوربڑے بڑے صحابہ کو ان کی ماتحتی میں رکھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اسامہ سے بھی آپؐ کوخاص محبت تھی۔چنانچہ اکثر صحابہ کو خیال تھا کہ اسامہ جس بے تکلفی اورآزادی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرلیتے ہیں وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔اسامہ کوبھی آپؐنے متعددمہموں میں امیرمقررفرمایا اوربعض بڑے بڑے صحابہ کوان کی ماتحتی میں رکھا اورجب اس پر بعض نوآموز مسلمانوں نے اسامہ کے نسب کی وجہ سے اعتراض کیا تو آپ ؐ سخت ناراض ہوئے اورفرمایا تم اسامہ سے پہلے زید کی امارت پربھی اعتراض کرچکے ہو مگر اسلام میں صرف ذاتی اہلیت دیکھی جاتی ہے۔اورخدا کی قسم جس طرح زید امارت کا اہل تھا اسی طرح اس کا بیٹا اسامہ بھی امارت کا اہل ہے اورمجھے یہ دونوں نہایت درجہ محبوب ہیں۔ ۱؎ اس ارشادنبوی پرجو اسلام کی حقیقی مساوات کاحامل تھا صحابہ کی گردنیں جھک گئیں اورانہوں نے سمجھ لیا کہ اسلام میں کسی شخص کاغلام یاغلام زادہ ہونا یابظاہر کسی ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنا اس کی ترقی کے رستہ میں حارج نہیں ہوسکتا۔اوراصل معیار بہرصورت تقویٰ اللہ اورذاتی قابلیت پرمبنی ہے۔

مساوات اسلامی پرایک مختصر نوٹ
اس جگہ ایک مختصر سانوٹ اسلامی مساوات کے متعلق سپرد قلم کرنا بے موقع نہ ہوگا۔کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے متعلق اکثر لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔یعنی جہاں ایک طبقہ نے اسلامی مساوات کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ اسلام میں سب چھوٹے بڑے ہرجہت سے برابر ہیں اوراسلام کسی صورت میں کسی شخص کے امتیاز یابڑائی کوتسلیم نہیں کرتا اورتمام امتیازات کومٹا کر ہرشخص کوہر لحاظ سے ایک لیول پر کھڑا کرنا چاہتا ہے وہاں ایک دوسرے طبقہ نے اسلام میں بھی اسی رنگ کے ناگوار طبقے بنارکھے ہیں جواکثر دوسری قوموں میں پائے جاتے ہیں اوران طبقات کے علیحدہ علیحدہ حقوق قرار دے دئے گئے ہیں۔بلکہ ان طبقات کے اندر کی خلیج کووسیع ترکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔سو جاننا چاہئے کہ صحیح اسلامی تعلیم کی رو سے یہ دونوں خیالات افراط وتفریط کے طریق پر غلط اورنادرست ہیں بلکہ اصل اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جہاں تک حقوق اورذرائع ترقی کے حصول کاسوال ہے سب لوگ برابرہیں اورکسی فردیاکسی جماعت کو کسی دوسرے فردیاکسی دوسری جماعت پر کسی رنگ میں فضیلت حاصل نہیں اوراس جہت سے اسلام میں قطعاًکوئی درجے یاطبقے پائے نہیں جاتے بلکہ پوری پوری مساوات ہے،لیکن دوسری طرف اگر کوئی شخص کسی جائز وجہ سے کوئی دینی یادنیوی ترقی اوربڑائی حاصل کرلیتا ہے توحقوق کے معاملہ کو الگ رکھتے ہوئے جس میں بہر حال سب برابر ہیں اسلام عام تعلقات میں ایسے شخص کی حاصل شدہ بڑائی اورترقی کو تسلیم کرتا ہے اوراسے اس کے جائز مرتبہ سے گراکرظلم اورحق تلفی کے طریق کواختیار نہیں کرتا۔خلاصہ یہ کہ جہاں ایک طرف اسلام نے سب بنی نوع آدم کوحقوق اورذرائع ترقی کے حصول کے معاملہ میں ایک لیول یعنی ایک سطح پرکھڑا کیا ہے اور کسی ناواجب نسلی اور قومی یاخاندانی یاانفرادی امتیاز کوتسلیم نہیں کیا وہاں افراد اورقوموں کی حاصل شدہ بڑائی اورترقی کو جبروتشدد کے رنگ میں مٹایا بھی نہیں اورانہیں ان کی محنت یاخوش بختی کے ثمرہ سے محروم نہیں کیا البتہ اس صورت میں گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے کے لئے مؤثر تدابیر ضرور اختیار کی ہیں اوریہی وہ اعلیٰ اوروسطی طریق ہے جسے نظر انداز کرکے دنیا آج کل مختلف قسم کے فتنوں کاشکار بن رہی ہے اوراس زمانہ کی سرمایہ داری اوراشتراکیت انہی فتنوں سے پیدا شدہ انتہائیں ہیں جن میں سے ایک میں افراط کی صورت پیدا ہوگئی ہے اوردوسری میں تفریط کی۔
اسلامی مساوات کااصولی نظریہ
اسلامی مساوات کے فلسفہ کا نچوڑ اور خلاصہ چندقرآنی آیات اورچند احادیث نبویؐ میں آجاتا ہے۔قرآن شریف میں اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے لوگو!تم آپس کے معاملات میں خدا کاتقویٰ اختیار کیا کرو اوراسی سے ڈرتے رہو جس نے تم سب کوایک جان سے پیدا کیا اورپھر اس ایک جان سے اس نے اس کا جوڑابنایا اورپھر اس جوڑے سے اس نے دنیا میں کثیر التعداد مرد اورعورت پھیلادئے۔‘‘
اس قرآنی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کواس ابدی حقیقت کی طرف توجہ دلاکر کہ وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد اورایک ہی درخت کی شاخیں ہیں دنیا میں صحیح مساوات کی بنیاد قائم کردی ہے اور اس اصول کی طرف توجہ دلائی ہے کہ خواہ بعد کے حالات کے نتیجے میں مختلف انسانوں اورمختلف قوموں اورمختلف طبقات میں کتنا ہی فرق پیدا ہوجائے انہیں آپس کے معاملات میںاس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ بہرحال اپنی اصل کے لحاظ سے وہ ایک ہی باپ کی نسل ہیں۔کیا اگر ایک باپ کے بیٹوں میں سے بعض بچے دوسروں کی نسبت زیادہ دولت یازیادہ طاقت یازیادہ اثرورسوخ حاصل کرلیں اوردوسرے ان باتوں میں نسبتاً پس ماندہ رہیں تووہ اس فرق کی وجہ سے بھائی بھائی نہیں رہتے اورکوئی غیر چیز بن جاتے ہیں؟ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۲؎...... ۳؎ …۔ ۴؎
یعنی’’سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں…سواے مسلمانو!ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تم میں سے ایک فریق دوسرے فریق پرہنسی اڑائے اوراسے ذلیل خیال کرے کیونکہ (جب سب لوگ اپنی اصل کے لحاظ سے برابر ہیں اورسب کے لئے ترقی کے رستے یکساں کھلے ہیں تو)ہوسکتا ہے کہ وہ فریق جس پرتم آج ہنسی اڑاتے ہوکل کوتم سے آگے نکل جائے یاہوسکتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے بعض اوصاف حمیدہ کے لحاظ سے تم سے بہتر ہو…اے لوگو!اچھی طرح سن لوکہ ہم نے تم سب کو مرد وعورت کے جوڑے سے پیدا کیا ہے اوربے شک ہم نے تم میں قوموں اورقبیلوں کی تقسیم قائم کی ہے مگریاد رکھو کہ یہ تقسیم اس غرض سے ہرگز نہیں کہ تم ایک دوسرے کے مقابل پرتفاخر اوربڑائی سے کام لوبلکہ یہ تقسیم صرف اس غرض سے ہے کہ تمہارے درمیان آپس میں شناخت اورتعارف کاذریعہ قائم رہے ورنہ خدا کے نزدیک تم میں سے بڑا اورمعزز وہی ہے جوذاتی طورپر زیادہ اوصاف حمیدہ کامالک اورزیادہ متقی اورزیادہ پرہیز گار ہے۔اللہ تعالیٰ کایہ قانون جووہ تمہارے سامنے بیان کررہا ہے بڑی دوراندیشی اوربڑی حکمت پرمبنی ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر خدا ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ۔اَلاَلاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلَالِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ۔وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَالِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْویٰ۔ اَبَلَّغْتُ؟قَالُوْاقَدْبَلَّغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ ۱؎
یعنی جوخطبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر حج کے درمیانی دن میں منیٰ کے مقام میں دیا اس میں آپؐ نے لوگوں کومخاطب کرکے فرمایا’’اے لوگو!تمہارا رب ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک تھا۔پس ہوشیار ہوکر سن لو کہ عربوں کو عجمیوں پرکوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمیوں کو عربوں پر کوئی فضیلت ہے۔اسی طرح سرخ وسفید رنگ والے لوگوں کو کالے رنگ والے لوگوں پرکوئی فضیلت نہیں اورنہ کالے لوگوں کو گوروں پرکوئی فضیلت ہے۔ہاں جوبھی ان میں سے اپنی ذاتی نیکی سے آگے نکل جائے وہی افضل ہے۔لوگو!بتائو کیا میں نے تمہیں خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے؟سب نے عرض کیا۔بے شک خدا کے رسول نے اپنی رسالت پہنچادی ہے۔‘‘
پھرفرماتے ہیں:
قَدْاَذْھَبَ اللّٰہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَفَخْرَھَا بِالْاٰبَآئِ۔ اِنَّمَا ھُوَمُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَّفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَّالنَّاسُ بَنُوْ اٰدَمَ وَاٰدَمَ مِنْ تَرُاْبٍ۔ ۱ ؎
یعنی’’اے مسلمانو!خداتعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ تم میں سے زمانہ جاہلیت کے بیجا کبروغرور اورآباد اجداد کی وجہ سے بے جاتفاخر کرنے کی مرض کودور کردیا ہے۔کیونکہ اسلامی پیمانہ صرف یہ ہے کہ ایک شخص خدا کوماننے والا اورنیک عمل بجالانے والا ہوتا ہے اوردوسرا بدعمل ہوتا ہے اوراچھے اوصاف سے محروم۔اوریاد رکھو کہ سب لوگ آدم کی نسل سے ہیں اورآدم مٹی سے پیدا ہوا تھا۔‘‘
پھرفرماتے ہیں:
النَّاسِ مَعَادِنٌ۔خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَافَقِھُوْا۔ ۲؎
یعنی’’دنیا میں لوگ بھی معدنیات کی طرح ہیں۔جوایک ہی قسم کے عناصر ہوتے ہوئے اور ایک ہی قسم کی مٹی کے نیچے دبے ہوئے آہستہ آہستہ مختلف رنگ اورمختلف اوصاف اختیار کرلیتے ہیں۔مگر سن لوکہ ترقی اوربڑائی کی جومعروف علامتیں اسلام سے پہلے سمجھی جاتی تھیں۔(یعنی عقل ودانش، سخاوت وشجاعت،طاقت واثروغیرہ)وہی اب بھی قائم ہیں۔ اور جو لوگ ان اوصاف کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں بڑے سمجھے جاتے تھے وہ اب اسلام میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے (کیونکہ اسلام کسی شخص کی حاصل شدہ بڑائی کوچھینتا نہیں)مگر شرط یہ ہے کہ وہ علمِ دین اورذاتی نیکی اختیار کرلیں۔‘‘
اوپر کے حوالوں سے جواسلامی مساوات کے نظریہ کے متعلق اصولی رنگ رکھتے ہیں۔مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
۱- یہ کہ اپنی اصل کے لحاظ سے سب لوگ ایک باپ کی نسل اورایک درخت کی شاخیں ہیں اور کسی فرد کودوسرے فرد پر اورکسی قوم کودوسری قوم پر محض نسلی فرق کی بنا پر کوئی امتیاز حاصل نہیں۔
۲- یہ کہ مسلمان ایک نبی کی امت اورایک ایمان کے حامل ہونے کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
۳- یہ کہ زمین کے اندر کی معدنیات کی طرح مختلف قومیں اور مختلف افراد ایک دوسرے سے مختلف اوصاف اختیار کرسکتے ہیں اورکرلیتے ہیں مگر ان کی وجہ سے کسی فرد کو دوسرے فرد پر اور کسی قوم کودوسری قوم پر بڑائی اورفخر کرنے کاحق حاصل نہیں ہے۔
۴- یہ کہ اسلام سے قبل جو اوصاف حمیدہ قومی یاانفرادی بڑائی کی بنیاد سمجھے جاتے تھے مثلاً عقل ودانش،سخاوت وشجاعت،طاقت واثر وغیرہ وہ اسلام میںبھی بدستور قائم ہیں۔مگر اسلام نے ان پر اس شرط کا اضافہ کردیا ہے کہ عام معروف اوصاف کے علاوہ دینداری کاوصف پایا جانا بھی ضروری ہے۔
۵- یہ کہ اسلام نے سب سے بڑا وصف دینداری اورتقویٰ اللہ کوقراردیا ہے۔کیونکہ یہ وصف خدائے اسلام کوسب سے زیادہ محبوب ہے اورجو شخص اس وصف میں ممتاز ہوگا وہی دوسروں پر ممتاز سمجھا جائے گا۔
عام تعلقات میں مراتب کوملحوظ رکھنے کی تلقین
اسلامی مساوات کے متعلق یہ بنیادی نظریہ بیان کرنے کے بعد اسلام اس سوال کولیتا
ہے کہ جب اصل کے لحاظ سے ایک ہونے کے باوجود مختلف لوگوں کے حالات اوراوصاف مختلف ہوسکتے ہیں تو اس ناگزیر اختلاف کی موجودگی میں مختلف مدارج کے لوگوں کے متعلق عام تمدنی معاملات میں کیا رویہ ہونا چاہئے۔سواس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَنْزِلُوْا النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ۔ ۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!تمہارے لئے ضروری ہے کہ آپس کے معاملات میں لوگوں کے معروف مرتبوں کاخیال رکھا کرو اوران کے حالات اوردرجہ کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیاکرو۔‘‘
اس حدیث کامنشاء یہ ہے کہ جولوگ کسی دینی یادنیوی بنا پر کوئی رتبہ یابڑائی حاصل کرلیں تو عام معاملات میں ان کے مرتبہ کاخیال رکھنا اوران کے ساتھ واجبی احترام سے پیش آنا اسلامی اخلاق کاحصہ ہے۔مثلاًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے کہ جب یہودی قبیلہ بنوقریظہؔ کے فیصلہ کے لئے سعد بن معاذ انصاری قبیلہ اوسؔ کے رئیس موقع پر تشریف لے گئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں آتادیکھ کر صحابہ سے فرمایا:
قُوْمُوْا اِلٰی سَیِّدِکُمْ۔ ۲؎
یعنی’’اپنے رئیس کے اکرام اوراحترام کے لئے کھڑے ہوجائو۔‘‘
اسی طرح قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکوپیغام رسالت دے کر فرعون کی طرف بھیجا توحضرت موسیٰ ؑکوتاکید فرمائی کہ(چونکہ فرعون کواس وقت ملک میں رتبہ حاصل ہے اس لئے)اس کے ساتھ نرمی اورادب کے طریق پربات کرنا۔ ۱؎
عدالتی امور میں مکمل مساوات
لیکن اس کے مقابل پرعدالتی اورقضائی حقوق کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں اورکن شاندارالفاظ
میں فرماتے ہیں کہ:
اِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا یُقِیْمُوْنَ الْحَدَّ عَلَی الْوَضِیْعِ وَیَتْرُکُوْنَ الشَّرِیْفَ۔وَالَّذِیْ نَفْسِیْی بِیَدِہٖ لَوْاَنَّ فَاطِمَۃَ فَعَلَتْ ذٰلِکَ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔ ۲؎
یعنی’’تم سے پہلے اس بات نے کئی قوموں کوہلاک کردیا کہ جب ان میں سے کوئی چھوٹاآدمی جرم کرتاتھا تووہ اسے سزادیتے تھے اورجب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تووہ اسے چھوڑ دیتے تھے۔سو اچھی طرح کان کھول کرسن لو کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میری لڑکی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اسلامی طریق پراس کے بھی ہاتھ کاٹوں گا۔‘‘
اللہ!اللہ!کیسے زوردارالفاظ ہیں اورکس جلال کے ساتھ اسلامی مساوات کوقائم کیا گیا ہے!اور یہ تعلیم وہ تھی جسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلفاء نے بھی بڑی سختی کے ساتھ مدِّنظر رکھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:
اَلضَّعِیْفُ فِیْکُمْ قَوِیٌّ عِنْدِیْ حَتّٰی اَرِیْحَ عَلَیْہِ حَقَّہٗ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ وَالْقَوِیٌّ فِیْکُمْ ضَعِیْفٌ عِنْدِیْ حَتّٰی اٰخُذَالْحَقَّ مِنْہُ۔ ۳؎
یعنی’’اے مسلمانو!سن لو کہ تم میں سے کمزور ترین شخص میرے لئے اس وقت تک قوی ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلادوں۔اورتم میں سے قوی ترین شخص میرے لئے اس وقت تک کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اورکادبایاہواہوواپس نہ لے لوں۔‘‘
اسی طرح حضرت عمرخلیفۂ ثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ شمالی عرب کے ایک بڑے رئیس جبلہ بن ایہم نامی نے جو مسلمان ہوچکا تھا کسی غریب مسلمان کوغصہ میں آکر تھپڑ مار دیا۔جب حضرت عمرؓ کواس واقعہ کاعلم ہوا تو آپؓ نے جبلہ کوبلا کرفرمایا۔جبلہ!میں سنتا ہوں کہ تم نے ایک غریب مسلمان کوتھپڑ مارا ہے۔اگرتم نے ایسی حرکت کی ہے تو خدا کی قسم تم سے اس کابدلہ لیا جائے گا۔‘‘اس پر جبلہ جس میں غالباًابھی تک جاہلیت والے تکبر کی رگ باقی تھی مغرور ہوکر مرتد ہوگیا۔ ۱؎
ملکی عہدوں کی تقسیم میں مکمل مساوات
عدالتی حقوق کے سوال کے بعد عہدوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کاسوال آتا ہے اورایک لحاظ سے
یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے سواس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے:
۔ ۲؎
یعنی’’اے مسلمانو!اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ قومی اورملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں جوخدا کے نزدیک ایک مقدس امانت کارنگ رکھتے ہیں صرف ذاتی قابلیت اورذاتی اہلیت کودیکھا کرو۔اور جو شخص بھی اپنے ذاتی اوصاف کے لحاظ سے کسی عہدہ کااہل ہواسے وہ عہدہ سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہو۔اورپھر اے مسلمانو!جب تم کسی عہدہ یاذمہ داری کے کام پرمقرر کئے جائو توتمہارا فرض ہے کہ لوگوںمیں کامل عدل وانصاف کامعاملہ کرو۔‘‘
یہ زریں تعلیم ہمیشہ اسلامی حکومتوں کاطُرّہ امتیاز رہی ہے اوریہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں بعض بظاہر ہرادنیٰ سے ادنیٰ لوگ ترقی کرکے عروج کے کمال تک پہنچے ہیں چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کوجوایک آزاد شدہ غلام تھے کئی فوجی دستوں کاامیر مقرر فرمایا۔اورپھر زید کی وفات کے بعد آپؐ نے ان کے نوجوان فرزند اسامہ بن زید کوبھی ایک بڑی فوج کاامیر مقرر فرمایا جس میں بعض بڑے بڑے صحابہ شامل تھے جوقدیم دستور کے مطابق گویاعرب سوسائٹی میں پہاڑ کی طرح سمجھے جاتے تھے اورجب اس پر بعض ناسمجھ نومسلموں میں چہ میگوئی ہوئی کہ ایک نوجوان غلام زادہ کوایسے ایسے معمر اورجلیل القدر لوگوں پرامیر مقرر کیا گیا ہے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت غصہ کے ساتھ فرمایا کہ:
اِنْ تَطْعِنُوْا فِی اَمَارَتِہٖ فَقَدْکُنْتُمْ تَطْعِنُوْنَ فِی اَمَارَۃِ اَبِیْہِ مِنْ قَبْلُ وَاَیْمُ اللّٰہِ اِنْ کَانَ لَخَلِیْقًالِلْاَمَارَۃِ وَاِنْ کَانَ لَمِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیَّ وَاِنَّ ھٰذَالَمِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیَّ بَعْدَہٗ۔۱؎
یعنی’’تم اسامہ کی امارت پرنکتہ چینی کرتے ہواوراس سے قبل تم اس کے باپ زید پربھی نکتہ چینی کرچکے ہو۔خدا کی قسم جس طرح اس کا باپ امارت کا اہل تھا اورمجھے بہت محبوب تھا اسی طرح اس کے بعد اسامہ بھی امارت کااہل ہے اورمجھے بہت محبوب ہے۔‘‘
یہ اسی مبارک تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام میں ہمیشہ بظاہرادنیٰ ترین لوگوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی حاصل کی اور کبھی کسی شخص کی غربت یا نسلی پستی اس کی ترقی میں روک نہیں بنی۔چنانچہ اس کی مزید مثالیں دیکھنی ہوں تو اس کتاب کے حصہ دوم کاوہ باب ملاحظہ کیا جائے جو غلامی کی بحث سے تعلق رکھتا ہے۔
سوشل اجتماعوں میں برادرانہ اختلاط
اس جگہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ عہدوں اورذمہ داری کے کاموں کے متعلق توبے شک اسلام نے حقیقی مساوات کی
تعلیم دی ہے اورسب کے لئے ترقی کاایک جیسارستہ کھول دیا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ اس انتظامی مساوات کے باوجود تمدنی معاملات اورآپس کے میل ملاقات کے بارے میں مختلف قسم کے لوگوں میں خلیج باقی رہے اوراسلام نے اس خلیج کودور نہ کیا ہو۔سواس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے اس رخنہ کوبھی بڑی سختی کے ساتھ بند کیا ہے۔چنانچہ اس قرآنی ارشادکے علاوہ جو اوپرگزرچکا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اورانہیں بھائیوں کی طرح مل کر رہنا چاہئے ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمدنی تعلقات کے سب سے بڑے ذریعہ اورسب سے بڑے میدان یعنی آپس کی دعوتوں اورکھانے پینے کی ملاقاتوں وغیرہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
شَرُّالطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِیْمَۃِ یُدْعٰی لَھَاالْاَغْنِیَائُ وَیُتْرَکُ الْفُقَرَائُ وَمَنْ تَرَکَ الدَّعْوَۃَ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ۳؎
یعنی’’سب سے بری اورسب سے زیادہ قابل نفرت دعوت وہ دعوت ہے جس میں صرف امیر بلائے جائیں اورغریبوں کونہ بلایا جائے اور جو شخص کسی بھائی کی دعوت کاانکار کرتا ہے وہ خدا اوراس کے رسول کانافرمان ہے۔‘‘
اس مبارک ارشاد میںآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات کو سخت ناپسند فرمایا ہے کہ امیر لوگ اپنی دعوتوں وغیرہ میںصرف امیروں کومدعو کریں اورغریبوں کوگویا کوئی اورجنس خیال کرتے ہوئے بھول جائیں۔اوردراصل مساوات کی روح زیادہ ترتمدنی معاملات میں ہی بگڑنی شروع ہوتی ہے۔کیونکہ اس قسم کے تمدنی معاملات کااثر براہ راست دل پر پڑتا ہے۔اسی طرح آپ نے یہ تاکید بھی فرمائی ہے کہ اگر کوئی غریب کسی امیر کی دعوت کرے تو امیر کے لئے ہرگز مناسب نہیں کہ وہ اپنی امارت کے گھمنڈ میں آکر یایہ خیال کرکے کہ غریب کے ہاں کاکھانا اس کی عادت اورمزاج کے مطابق نہیں ہوگاغریب کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردے۔چنانچہ اس قسم کی دعوتوں کارستہ کھولنے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ۔۱؎
یعنی’’اگرکوئی غریب شخص کسی بکری یابھیڑکا ایک پایہ پکاکر بھی مجھے دعوت میں بلائے تو میں اس کی دعوت کوضرور قبول کروں گا۔‘‘
یاد رہے کہ اس جگہ کُراع کے معنی پائے کے نچلے حصہ کے ہیں جوٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے ۲؎ اوریقینا وہ ایک ادنیٰ قسم کی غذا ہے کیونکہ ٹخنوں کے نیچے کاحصہ قریباًکُھر ہی بن جاتا ہے،لیکن اگر کُراع کے معنی پورے پائے کے بھی سمجھے جائیں توپھر بھی عربوں کی روایات سے یہ ثابت ہے کہ قدیم زمانہ میں عرب لوگ پائے کواچھی غذا نہیں سمجھتے تھے چنانچہ عربوں میں مشہور محاورہ تھا کہ:
لَا تُطْعِمِ الْعَبْدَ الْکُرَاعَ فَیَطْمَعُ فِی النَّدَاعِ۔۳؎
یعنی’’اپنے غلام کوپایہ بھی کھانے کونہ دوورنہ وہ اس سے اوپر نظراٹھا کر دست وران کے گوشت کی بھی طمع کرنے لگے گا۔‘‘
بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنا ذاتی اسوہ پیش کرکے مسلمانوں کو تحریک فرمائی ہے کہ خواہ دعوت کرنے والا کتنا ہی غریب ہواس کی دعوت کو غربت کی وجہ سے ردّ نہ کروورنہ یاد رکھو کہ تمہاری سوسائٹی میں ایسا رخنہ پیدا ہوجائے گا جوآہستہ آہستہ سب کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔
مجلسوں میں مل کر بیٹھنے کے متعلق بھی اسلام یہی سنہری تعلیم دیتا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کوئی بڑاشخص بعد میں آئے توکسی چھوٹے شخص کو اٹھا کر اس کی جگہ اسے دے دی جائے۔چنانچہ حدیث میں آتاہے:
نَھَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ اَنْ یُّقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِہٖ وَیُجْلَسُ فِیْہِ اٰخَرُوَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَتَوَسَّعُوْا۔ ۱؎
یعنی’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے اس لئے اٹھایا جائے کہ تااس کی جگہ کوئی دوسراشخص بیٹھ جائے۔اورفرمایا کرتے تھے کہ اگر جگہ تنگ ہو اور زیادہ آدمی آجائیںتوپھر سب سمٹ سمٹ کرآنے والوں کے لئے گنجائش نکال لیاکرو۔‘‘
یہی اصول نمازوں کے موقع پر مسجدوں میں ملحوظ رکھا گیا ہے جہاں کسی شخص کے لئے کوئی جگہ ریزرو نہیں ہوتی۔اگرایک خادم پہلے آتا ہے تووہ پہلی صف میں جگہ پائے گا اوراگر ایک آقا پیچھے پہنچتا ہے تووہ آخری صف میںبیٹھے گا۔غرض خدا کے گھر میں امیروغریب،خادم وآقا،حاکم ومحکوم،طاقتور اور کمزور سب برابر ہوتے ہیں اورکوئی امتیاز ملحوظ نہیںرکھا جاتا۔یہی حال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس کاتھا جس میں آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ اس طرح مل جل کر بیٹھتے تھے کہ بعض اوقات ایک اجنبی شخص کے لئے آپؐ کی مجلس میں اس بات کاجاننا اورپہچاننا مشکل ہوجاتا تھا کہ آپؐ کون ہیں اورکہاں بیٹھے ہیں۔ ۲؎
خادم وآقا کے تعلقات
خادم وآقا کے تعلقات کاسوال بھی ایک بہت اہم سوال ہے مگر چونکہ اس سوال کے متعلق کتاب ہذا کے حصہ دوم میں مسئلہ غلامی کی ذیل میں اصولی
بحث گزرچکی ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ خادموں اورغلاموں کی حالت کوبہتر بنانے کے لئے بھی اسلام نے نہایت تاکیدی ہدایتیں دی ہیں۔مثلاًآقائوں کوہوشیار کرنے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اصولی رنگ میں فرماتے ہیں:
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ۔۳؎
یعنی’’تم میں سے ہرشخص کسی نہ کسی جہت سے بعض دوسرے لوگوں کاآقا اورافسر ہوتا ہے پس ہر شخص کوہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ اسے اس کے سب ماتحت لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘
اورخادموں اورآقائوں کی درمیانی خلیج کواڑانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
اِنَّ خَوَلَکُمْ اِخْوَانُکُمْ جَعَلَھُمُ اللّٰہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ فَمَنْ کَانَ اَخُوْہٗ تَحْتَ یَدِہ فَلْیُطْعِمْہٗ مِمَّا یَاْکُلُ وَلْیُلْبِسْہٗ مِمَّا یَلْبَسُ وَلَا تُکَلِّفُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاَعِیْنُوْھُمْ۔۱؎
یعنی’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں۔پس جب کسی شخص کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہوتو اسے چاہئے کہ اپنے خادم بھائی کواس کھانے میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دے جووہ خود کھاتا ہے اوراس لباس میںسے کچھ نہ کچھ حصہ دے جو وہ خود پہنتا ہے اوراے مسلمانو!تم اپنے خادموں کوکوئی ایسا کام نہ دیا کرو جوان کی طاقت سے زیادہ ہواوراگر کبھی مجبوراًانہیں کوئی ایسا کام دینا پڑے تو پھر اس کام میں خود بھی ان کی مدد کیا کرو۔‘‘
یہ حدیث جیسا کہ اس کے الفاظ اوراسلوب بیان سے ظاہر ہے ایک نہایت اہم اوراصولی حدیث ہے اور’’ان کی مدد کیا کرو‘‘کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کام ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر وہ خود آقا کوکرنا پڑے تووہ اسے اپنے لئے موجب عار سمجھے بلکہ ایسا ہونا چاہئے کہ جسے خود آقا بھی کرسکتا ہو اورکرنے کوتیار ہو۔گویا اس حدیث میں خادموں کے ساتھ حسن سلوک اوربرادرانہ برتائو کی تلقین کے علاوہ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ کسی مسلمان کے لئے زیبا نہیں کہ وہ کسی کام کو اپنے لئے موجب عار سمجھے یا یہ خیال کرے کہ یہ کام صرف خادم کے کرنے کا ہے میرے کرنے کا نہیں۔چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہرقسم کاکام خود اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے اور کسی کام کو عار نہیں سمجھتے تھے۔۲؎ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اوپر کی حدیث میں جو خَوَلَ کالفظ آیا ہے وہ عربی محاورہ کے مطابق نوکروں اورخادموں اورغلاموں اوراسی قسم کے دوسرے حاشیہ نشینوں سب پر بولا جاتا ہے۔اس طرح اس حدیث میں گویا ایک نہایت وسیع مضمون مدنظر رکھا گیا ہے۔بہرحال اسلام نے آقائوں اورخادموں کے تعلقات کوبھی بہترین بنیاد پرقائم کیا ہے۔
بیاہ شادی کے معاملات میں اسلامی تعلیم
بیاہ شادی کامعاملہ بھی تمدنی تعلقات ہی کا حصہ ہے مگر افسوس ہے کہ دنیا داروں نے اس میدان میں
بھی اپنے خیال کے مطابق مختلف طبقے بنارکھے ہیں اورغیر طبقہ میں رشتہ دینے کو موجب ہتک سمجھا جاتا ہے۔سو اس کے متعلق ہمارے آقاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَاوَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَافَاظْفِرْبِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ ۱؎
یعنی’’ایک عورت کے ساتھ چار خیالات کی بنا پر شادی کی جاتی ہے۔یاتو دولت کی وجہ سے بیوی کاانتخاب کیا جاتا ہے اوریاحسب نسب (یعنی قوم یا خاندان)کی وجہ سے انتخاب کیا جاتا ہے۔ اوریاحسن وجمال کی وجہ سے انتخاب کیا جاتا ہے اوریااخلاقی اوردینی حالت کی بنا پر انتخاب کیا جاتا ہے، لیکن اے مردمومن!توہمیشہ بیوی کاانتخاب دینی اوراخلاقی بنا پر کیا کر اورذاتی اوصاف اور ذاتی نیکی کے پہلو کوترجیح دیاکرو ورنہ یاد رکھ کہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیںگے۔‘‘
یہ وہ مبارک تعلیم ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے گھروں کوجنت کانمونہ بناسکتی ہے بلکہ ان کی نسلوں کوبھی دین ودنیا میں ترقی دینے کی بنیاد بننے کا بھاری ذریعہ ہے۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاذاتی نمونہ بھی اس معاملہ میں یہ ہے کہ آپؐنے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ بنت جحش کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ کردی تھی اوراس معاملہ میں عربوں کے قدیم رسم ورواج اورخیالات کی قطعاًپروا نہیں کی۔اسی طرح خود آپؐنے عربوں کی ہرمعروف قوم میں شادی کی یعنی قریش میں بھی کی غیر قریش میں بھی کی اوربنی اسرائیل میںبھی کی اورعرب میں یہی تین قومیں آباد تھیں۔مگر افسوس ہے کہ آج کل کئی مسلمان اپنی قوم سے باہر شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔مثلاًایک سیّداس بات پرمصر ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف سیّد کے گھر جائے اورایک راجپوت کااس بات پر اصرار ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف راجپوت کی بیوی بنے۔اورایک ککے زئی اس بات پر ضد کرکے بیٹھ جاتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف ککے زئی کے ساتھ ہی بیاہی جائے۔اور اس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زریں تعلیم اورآپؐ کے مبارک اسوہ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
مرد وعورت میں حقوق کی مساوات
پھرمساوات کی بحث میں مرد عورت کی مساوات کا سوال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔یعنی جہاں آج کل ایک طبقہ
عورت کو نعوذ باللہ جوتی کی طرح اپنے پائوں کے نیچے رکھنا چاہتا ہے تو وہاں دوسرا طبقہ اسے ایسی آزادی دینے پر تُلا ہوا ہے کہ گویاوہ انتظامی لحاظ سے بھی خاوند کی نگرانی سے باہر ہوگئی ہے۔اورپھر یورپ کاایک طبقہ تواسلام کی طرف یہ تعلیم بھی منسوب کرتے ہوئے نہیں شرماتا کہ اسلام عورت میں روح تک کو تسلیم نہیں کرتا۔گویا وہ صرف مشین کی طرح کاایک جانور ہے جس کی زندگی اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔مگر قرآن شریف ان سارے باطل خیالات کی تردید فرماتا ہے۔چنانچہ سب سے پہلے تواسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مرد عورت اپنے اعمال کی جدوجہد اوران کے نتائج کے حصول میں برابر ہیں اورسب کے اعمال کانتیجہ یکساں نکلنے والا ہے۔چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے لوگو!میں جو تمہارا خالق ومالک ہوں میںتم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہویا عورت ۔کیونکہ تم سب ایک ہی نسل کے حصے اورایک ہی درخت کی شاخیں ہو۔‘‘
اورخاوند بیوی کے مخصوص حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۲؎
یعنی’’جس طرح خاوندوں کے بعض حقوق بیویوں کے ذمہ ہیں اسی طرح بیویوں کے بعض حقوق خاوندوں کے ذمہ بھی ہیں۔‘‘
اس قرآنی آیت کامطلب یہ ہے کہ حقوق اورذمہ داریوں کے معاملہ میں میاں بیوی برابر ہیں کہ کچھ پابندیاں خاوند کے ذمہ لگا دی گئی ہیں اورکچھ پابندیاں بیوی کے ذمہ لگادی گئی ہیں اور دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھے جائیں گے۔
مگر چونکہ انتظامی لحاظ سے گھریلوزندگی کی باگ دوڑ بہرحال ایک ہاتھ میں رہنی ضروری ہے اس لئے اس جہت سے قرآن شریف فرماتا ہے:
۔ ۳؎
یعنی’’گھریلو زندگی میں مردوں کوعورتوں پرامیر اورنگران رکھا گیا ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے فطری قویٰ میں مردوں کوفضیلت عطا کی ہے اورپھر عورتوں کے اخراجات کی ذمہ داری بھی انہی پر ہے۔ پس نیک بیویوں کوبہرحال اپنے خاوندوں کافرمانبردار رہنا چاہئے۔‘‘
لیکن اس انتظامی فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَاخَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ۔ ۱؎
یعنی’’تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں سے سب بہتر ہے اورخدا کے فضل سے میں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘
اوراس بارے میں قرآن شریف یہ ارشاد فرماتا ہے کہ:
۲؎
یعنی’’اے مسلمانو! اپنی بیویوں کے ساتھ بہت نیک سلوک کیا کرو۔اوراگر تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کوناپسند بھی کرتا ہو تو پھر بھی یاد رکھو کہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کوپسند نہ کرو۔مگرخدا نے اس میں تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے بہت بڑی خیرمقدر کررکھی ہو۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام نے مساوات انسانی کے متعلق بہترین تعلیم دی ہے۔چنانچہ (۱)سب سے پہلے اس نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ سب لوگ ایک ہی جنس کی مخلوق اورایک ہی باپ کی نسل اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں اس لئے نسلی لحاظ سے سب کا حق برابر ہے۔(۲)اس کے بعد اس نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نسلی وحدت کے باوجود یہ ممکن ہے کہ جس طرح زمین کے پیٹ میں ایک ہی قسم کے عناصر مختلف قسم کی صورتیں اورمختلف قسم کے خواص اختیار کرکے مختلف قسم کی معدنیات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح مختلف انسان بھی بعد کے حالات کی وجہ سے مختلف قوموں اورقبیلوں میں تقسیم ہوکرمختلف اوصاف اختیار کرسکتے ہیں مگر اس فرق کی وجہ سے کسی قوم یاکسی قبیلہ یاکسی فرد کوکسی دوسرے پر بے جافخر اورتکبر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ جو قوم یاجوشخص آج نیچے ہے وہ کل کواوپر ہو جائے۔ (۳)اس کے بعد اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس وحدت نسلی کے علاوہ مسلمان خصوصیت کے ساتھ ایک دوسرے کے بھائی ہیںکیونکہ وہ ایک ہی ایمان کے حامل اورایک ہی دامن رسالت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی روحانی باپ کے بچے ہیں۔ پس انہیں ہرحال میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے۔ (۴)اس کے بعد اسلام یہ بتاتا ہے کہ بے شک مومنوں میں بھی فرق ہوسکتا ہے مگر یہ فرق ان کے ذاتی اوصاف پرمبنی ہونا چاہئے اوربہرحال خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا شخص وہ ہے جو دینداری اورتقویٰ اورجذبہ ٔخدمت میں دوسروں سے آگے ہے۔(۵)اس کے بعد اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کسی شخص کے دینی امتیاز یادنیوی بڑائی کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ قضائی اورعدالتی معاملات میں کوئی فرق ملحوظ رکھا جائے کیونکہ عدالتی حقوق کے میدان میں سب لوگ قطعی طورپربرابر ہیں۔(۶)اس کے بعد اسلام اس زرّیں اصول کوبیان کرتا ہے کہ قومی عہدوں کی تقسیم میں صرف ذاتی اہلیت کو دیکھنا چاہئے اوربلالحاظ امیروغریب اوربلالحاظ نسل وخاندان جوشخص بھی کسی عہدہ کا اہل ہو اسے وہ عہدہ سپردکرنا چاہئے خواہ وہ کوئی ہو۔(۷)اس کے بعد اسلام یہ ارشادفرماتا ہے کہ گوکسی صاحب عزت شخص کا واجبی اکرام کرنا اچھے اخلاق کاحصہ ہے مگرتمدنی معاملات میں سب مسلمانوں کو آپس میں اس طرح مل جل کر رہنا چاہئے کہ وہ ایک خاندان کے افراد نظرآئیں۔وہ مجلسوں میں بلالحاظ امیروغریب مل جل کربیٹھیں۔اگر کوئی امیردعوت کرے تو اس میں غریبوں کوبھی ضرور بلائے اوراگر کوئی غریب دعوت کرے توامیر اس سے انکار نہ کریں اور(۸)بالآخر اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ بیاہ شادی کے معاملات میںبیوی کاانتخاب اس کے ذاتی اوصاف اورذاتی نیکی کی بنا پر ہونا چاہئے نہ کہ اس کے حسب نسب اورمال ودولت وغیرہ کی بنا پر۔
اسلام میں دولت کی تقسیم کانظریہ
اس کے بعد دولت کی تقسیم کاسوال آتا ہے جوآج کل کی اشتراکیت اورسرمایہ داری کی باہمی کشمکش جولانگاہ بنا ہوا
ہے۔سوگواس بحث کااصل موقع توانشاء اللہ دوسری جگہ آئے گا۔مگر اس جگہ مختصر طورپراس قدر بیان کردینا ضروری ہے کہ اس اہم سوال کے متعلق بھی اسلام نے ایک ایسی اعلیٰ اور وسطی تعلیم دی ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔کیونکہ جہاں اسلام نے عام حالات میں دولت پیداکرنے کے انفرادی حق کو تسلیم کیا ہے وہاں اس نے ملکی دولت کوسمونے کے لئے ایک ایسی مشینری بھی قائم کردی ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے توکسی ملک یاکسی قوم کی دولت کبھی بھی عامۃ الناس کے ہاتھوں سے نکل کر چند افراد کے ہاتھوں میں جمع نہیں ہوسکتی۔میں اس جگہ اختصار کے خیال سے اس مشین کے صرف چارپرزوں کے بیان پر اکتفا کروں گا۔
۱- سب سے اول نمبر پر اسلامی قانون ورثہ ہے جس کی رو سے ہر مرنے والے کا ترکہ صرف ایک بچے یاصرف نرینہ اولاد یا صرف اولاد کے ہاتھ میں ہی نہیں جاتابلکہ سارے لڑکوں اور ساری لڑکیوں اور بیوی اور خاوند اور ماں اور باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں اور بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں میں ایک نہایت مناسب شرح کے ساتھ تقسیم ہو جاتا ہے۔ ۱؎ اگر کوئی مسلمان زمیندار مرتا ہے تو اس کی زمین اس کے سب وارثوں میں تقسیم ہو گی۔ اگر کوئی دوکاندار مرتا ہے تو اس کی دوکان کا مال سب وارثوں کو پہنچے گا۔اگر کوئی کارخانہ دار فوت ہوتا ہے تو اس کے کارخانے کا حصہ بھی سارے وارثوں میں بٹے گا وعلیٰ ہذالقیاس۔اس طرح گویا اسلام نے دولت کی دوڑ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بعض قدرتی روکیں یعنی ہرڈلیں( HURDLES )قائم کردی ہیں اور ہر نسل کے خاتمہ پر ایک روک (یعنی ہر ڈل)سامنے آکر اس فرق کو کم کردیتی ہے جو گذشتہ نسل کے دوران میں پیدا ہوچکا ہوتا ہے ۔تقسیم ورثہ کا یہ قانون جس کامل اور مکمل صورت میں اسلام نے قائم کیا ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتا اور اس قانون کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے جس کے بیان کرنے کی اس جگہ گنجائش نہیں، صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس نظام ورثہ میں صرف ورثاء کو ورثہ پہنچانا ہی مد نظر نہیں ہے بلکہ ملکی دولت کو سمونا بھی اس کا ایک بڑا مقصد ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر مرنے والے کو اپنے مال کے ایک ثلث یعنی ایک تہائی کی وصیت کی اجازت بھی دی ہے اور یہ وصیت ورثاء کے حق میں جائز نہیں رکھی گئی ۲؎ گویا اس ذریعہ سے اسلام نے ورثہ کی جبری تقسیم کے علاوہ اس بات کا دروازہ بھی کھولا ہے کہ نیک دل لوگ اپنے اموال کو مزید مستحقین میں تقسیم کرنے کا موقع پا سکیں ۔مگر افسوس ہے کہ وصیت کے نظام سے فائدہ اٹھانا تو درکنار آجکل کے مسلمانوں نے ورثہ کی جبری تقسیم والے حصہ کو بھی پس پشت ڈال رکھا ہے ۔اور سرمایہ داری کے خمار نے لڑکیوں اور بیویوں اور ماں باپ تک کو ان کے جائز حق سے محروم کر دیا ہوا ہے۔بہرحال اسلام کا قانون ورثہ ایک ایسا بابرکت نظام ہے کہ جس کے ذریعہ تھوڑے تھوڑے وقفہ پر ملک کی دولت کے سمونے کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ قومی نسل کو بڑھانے کے ذرائع اختیار کرتے رہو۔۳؎ پس جب ایک طرف نسل ترقی کرے گی اور دوسری طرف ورثہ وسیع ترین صورت میں تقسیم ہو گا تو ظاہر ہے کہ ملکی دولت خود بخود بٹتی چلی جائے گی۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس مبارک تعلیم پر عمل کریں۔
۲- دوسرے نمبر پر اسلام کا قانون امداد باہمی ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک جبری اور دوسرے طوعی۔جبری قانون نظام زکوۃ سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعہ امیر لوگوں کی دولت پر حالات کے اختلاف کے ساتھ اڑھائی(۲-۱ ۲) فی صد شرح سے لے کر بیس فی صد شرح تک خاص ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور اس ٹیکس کے ذریعہ جو روپیہ حاصل ہوتا ہے وہ حکومت وقت یا نظام قومی کی نگرانی کے ماتحت غریبوں اور مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس ٹیکس کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:
تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ۔ ۱؎
یعنی’’زکوٰۃ کے نظام کا مقصد یہ ہے کہ امیروں کے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی طرف لوٹایا جائے۔‘‘
اس حدیث میں ’’لوٹایا جائے‘‘کے پُر حکمت الفاظ کے استعمال کرنے میں یہ لطیف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ زکوۃ کا ٹیکس کوئی صدقہ وخیرات نہیں ہے جو غریبوں کو بطور احسان دیا جاتا ہے بلکہ وہ امیروں کی دولت میں غریبوں کا ابدی حق ہے جو انہیں طبعی طریق پر حاصل ہے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ ہر مال کے پیدا کرنے میں غریبوں اور مزدوروں کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کے نظام کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدائے حکیم نے ایسے اموال پر زکوٰۃ کی شرح زیادہ مقرر فرمائی ہے جو تجارت کے چکر میں نہیں آتے ۔چنانچہ بند ذخائر پر زکوٰۃ کی شرح بیس فی صد رکھی گئی ہے ۔اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جہاں تجارت یا صنعت میں لگے ہوئے روپے میں سے غریب اور مزدور پیشہ لوگ دوسرے طریق پر بھی کچھ نہ کچھ حصہ لے لیتے ہیں وہاں جمع شدہ ذخائر میں انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا۔اس لیے ذخائر میں زکوٰۃ کی شرح بہت بڑھا کر رکھی گئی ہے۔
امداد باہمی کے نظام کا دوسرا حصہ طوعی نظام کی صورت میں قائم کیا گیا ہے اس نظام کے ماتحت اسلام نے غریبوں اور بے کس لوگوں کی امداد پر اتنا زور دیاہے کہ حق یہ ہے کہ ایک نیک اور خدا ترس انسان کے لیے یہ صورت بھی قریباً جبری نظام کا رنگ اختیار کر لیتی ہے ۔گو ذاتی نیکی کے معیار کو بلند کرنے اور اُخوّت کے جذبات کو ترقی دینے کے لیے اسے قانون کی صورت نہیں دی گئی۔بھوکوں کو کھانا کھلانا،ننگوں کو کپڑاپہنانا،مقروضوں کو قرض کی مصیبت سے نجات دلانا،بیماروں کے لیے علاج کا انتظام کرانا، غریب مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانا،یتیموں اور بیواؤں کو خاک آلود ہونے سے بچانا وغیرہ وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں جن کی تحریک وتحریص میں قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ اس معاملہ میں یہ تھا کہ رمضان کے مہینہ میں جو غریبوں کی ضروریات کا خاص زمانہ ہوتا ہے اور اس کے بعد عید بھی آنے والے ہوتی ہے آپؐ کا ہاتھ غریبوں اور محتاجوں کی امداد میں اس طرح چلتا تھا جس طرح ایک تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی ۔ ۱؎ الغرض زکوٰۃ کے جبری نظام اور دوسرے صدقات کے طوعی نظام کے ذریعہ اسلام نے امیروں کی دولت کو کاٹ کر غریبوں کو دینے اور اس طرح ملکی دولت کو سمونے کی ایک عظیم الشان مشینری قائم کر رکھی ہے۔
۳- تیسرے نمبر پر اسلام کا قانون تجارت ہے جس کی رو سے اسلام میں سودی لین دین ممنوع قرار دیا گیا ہے۔آج دنیا کا سمجھدار طبقہ اس بات کو محسوس کرچکا ہے کہ سود ہی وہ چیز ہے جو ملکی دولت کے توازن کو برباد کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ وار ہے کیونکہ اس کے ذریعہ غریبوں کا روپیہ سمٹ سمٹ کر آہستہ آہستہ امیروں کے خزانوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ ۲؎ اور غور کیا جائے تو دراصل سود کی *** ہی سرمایہ داری کے پیدا کرنے کی بڑی موجب ہے۔اگر آج سود بند ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اول تو آہستہ آہستہ ملک کی بڑی بڑی تجارتیں یا تو حکومت کے ہاتھ میں چلی جائیں گی اور چھوٹی چھوٹی مناسب تجارتوں میں تقسیم ہو کر ملک کی دولت کو خود بخود سمو دیںگی اور دوسرے امیروں کے لیے غریبوں کے پسینہ کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے کا موقع نہیں رہے گا ۔یہ خیال کہ سودی نظام کے بند ہونے سے تجارت ناممکن ہو جائے گی بالکل غلط اور باطل ہے۔ ایسا خیال صرف موجودہ ماحول کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جب کہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ داروں کی نقالی کے نتیجہ میں سود کا جال وسیع ہو چکا ہے ۔ورنہ جب سود نہیں تھا اس وقت بھی دنیا کی تجارت چلتی تھی اور انشاء اللہ آئندہ بھی چلے گی اور یہ خیال کہ اسلام میں صرف وہ سود حرام کیا گیا ہے جو بڑی شرح کے مطابق چارج کیا جائے یا جس میں سود در سود کا طریق اختیار کیا جائے محض نفس کا ایک دھوکہ ہے جو اس دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے کمزور لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے ورنہ اسلام نے ہر قسم کا سود منع کیا ہے اور حق بھی یہی ہے کہ جو چیز ضرر رساں ہے وہ بہر حال ضرر رساں ہے خواہ وہ تھوڑی مقدار میں ہو یا بڑی مقدار میں۔
۴- چوتھے نمبر پر اسلام نے جوئے کی قسم کی تمام آمدنیوں کو جن کی بنیاد محض اتفاق پر ہوتی ہے منع قرار دیا ہے۔کیونکہ اس کی وجہ بھی قوم اور ملک کی دولت نا واجب تقسیم کا رستہ کھلتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!شراب اور جؤا اور بتوں کے تھان اور تقسیم کے تیر یقینا ایک شیطانی عمل ہیںپس تم ان سے بالکل دور رہوتا کہ تم کامیاب و بامراد ہو سکو‘‘
اس آیت میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جؤا ان شیطانی اعمال میں سے ہے جو قوموں کی کامیاب زندگی کو تباہ کرنے والے ہیں اور اس کی یہی وجہ ہے کہ جوئے میں دولت کے حصول کو محنت اور ہنر مندی پر مبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پر مبنی قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف قومی اخلاق کے لیے مہلک ہے بلکہ ملک میںدولت کی ناواجب تقسیم کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے ۔بظاہر یہ ایک معمولی سا حکم نظر آتا ہے مگر اس سے اس لطیف نظریہ پر بھاری روشنی پڑتی ہے جو اسلام اپنے اقتصادی اور اخلاقی نظام کے متعلق قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی آمدنی محنت اور ہنر مندی پر مبنی ہونی چاہئے نہ کہ اتفاقی حادثات پر۔مَیْسِرْ کا لفظ بھی جو یُسْرٌ (یعنی سہولت اور آسانی)سے نکلا ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے کہ جوئے کی آمدنی محنت اور ہنر مندی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ یونہی بیٹھے بٹھائے آسانی سے مل جاتی ہے جواسلام کے اقتصادی نظریہ کے سراسر خلاف ہے۔
اوپر کی چار۴ اصولی باتیں صرف اختصار کے خیال سے بیان کی گئی ہیں ورنہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں دولت کے سمونے کے بہت سے ذریعے تجویز کئے ہیں اور اسلام کا منشاء یہ ہے کہ ایک طرف تو ذاتی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہے اور ہر شخص کے لیے اپنی ذاتی محنت کے پھل کھانے کا رستہ کھلا ہو کیونکہ دنیا میں محنت اور ترقی کا یہی سب سے بڑا محرک ہے۔اور دوسری طرف ملکی دولت بھی نا واجب طور پر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے۔اور یہی وہ وسطی طریق ہے جس پر گامزن ہو کر مسلمان افراط و تفریط کے رستوں سے بچ سکتے ہیں۔
معذور لوگوں کی ذمہ واری حکومت پر ہے
لیکن اگر باوجود ان ذرائع کے ملک کا کوئی حصۃ بیماری یا بیکاری کی وجہ سے یا زیادہ کنبہ دار ہونے
کے نتیجہ میں اپنی جائز ضروریات کو اپنی جائز آمدنی کے اندر اندر پورا نہ کر سکے تو اس کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کی اقل ضرورت جوکھانے اورکپڑے اورمکان سے تعلق رکھتی ہے اس کے پورا کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے اور اس کا فرض ہے کہ اپنے ملکی محاصل سے ایسے لوگوں کی اقل بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں یہی ہوتا تھا۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب عرب کے علاقہ بحرین کارئیس مسلمان ہوا،تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ہدایت بھجوائی کہ:
اَفْرِضْ عَلٰی کُلِّ رَجُلٍ لَیْسَ لَہٗ اَرْضٌ اَرْبَعَۃَ دَرَاھِمَ وَعَبَائَ ۃً۔ ۱؎
یعنی’’جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے ان میں سے ہر شخص کو ملکی خزانہ میں سے چار درہم اور لباس گزارہ کے لئے دیا جائے۔‘‘
اسی اصول کی طرف یہ قرآنی آیات اشارہ کرتی ہے کہ:
۲؎
یعنی’’سچی بہشتی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اے انسان!تواس میںبھوکا نہ رہے اورنہ ہی ضروری لباس سے محروم ہواورنہ ہی سردی سے ٹھٹھرے اورنہ ہی پیاس کی تکلیف اٹھائے اور نہ ہی دھوپ کی شدت سے جلے۔‘‘
پس ہراسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا انتظام کرے کہ ملک وقوم کاکوئی فرد ان اَقل ضرورتوں کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھائے جونسل انسانی کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ جہاں تک ملکی دولت کی تقسیم کا سوال ہے اسلام نے اوّل توقانون ورثہ اورقانون زکوٰۃ اورقانون تجارت اورحرمت قمارکے ذریعہ ایسی مشینری قائم کردی ہے کہ اسے اختیار کرنے کے نتیجہ میں ملکی دولت کبھی بھی عامۃ الناس کے ہاتھ سے نکل کر چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں جمع نہیں ہوسکتی اوراگر بعض استثنائی حادثات کی وجہ سے پھر بھی کوئی فرد یاخاندان زندگی کی اَقل ضرورتوں سے محروم رہ جائے تو اس کے لئے اسلام اس بات کی ہدایت فرماتا ہے کہ امیروں کی دولت پرمزید ٹیکس لگا کر غریبوں کی ضرورت کوپورا کیا جائے کیونکہ ہرانسان کا جو زندگی کی جدوجہد میںکوتاہی نہیں کرتا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بہرحال بھوکا نہ رہے،ننگانہ ہواورسرچھپانے اورسردی گرمی کے بچائو سے محروم نہ ہونے پائے۔
اقتصادی مساوات کے متعلق ایک خاص نکتہ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں نہ جبری طریق پر دولت کی تقسیم کوبھی مساوی کردیا
یعنی جس طرح اسلام نے عدالتی معاملات میں پوری پوری مساوات قائم کی اورقومی اورملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں پوری پوری مساوات قائم کی اورتمدنی میل ملاقات کے معاملہ میں برادرانہ مساوات کارنگ قائم کیا اورسب انسانوں کو ایک باپ کے بیٹے اورسب مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا اسی طرح اس نے کیوں نہ دولت کوبھی سارے انسانوں میں برابر تقسیم کرنے کی سکیم جاری کی؟سو اس سوال کامختصر جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ ایسا کرنا ایک ظلم ہوتا اوراسلام ظلم کو مٹانے آیا ہے نہ کہ اسے قائم کرنے۔دولت کی اندھا دھند مساویانہ تقسیم کے یہ معنی ہیں کہ ایک تولوگوں کی ساری حاصل شدہ دولت ان سے جبری طور پر چھین لی جائے اوردوسرے آئندہ ان سے دولت پیدا کرنے کی طاقت اوردولت پیدا کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے اوریہ دونوں باتیں ظلم میں داخل ہیں۔ بے شک قومی حقوق کی خاطر انفرادی حقوق پرجائز پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اوربے شک افراد سے یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ قومی مفاد کی خاطر ضروری قربانی دکھائیں۔مگرافراد کے حقوق کوکامل طور پر مٹا کر قوم کے نام پر ان کے حقوق کو کلیتہً غصب کرلینا ظلم میں داخل ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔علاوہ ازیں اگرغور کیا جائے تو اس رستہ پر پڑنے سے صرف انفرادیت ہی نہیں مٹتی بلکہ بالآخر قومیت کابھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے اوراگرافراد کودولت کمانے اوراس کا پھل کھانے کے حق سے محروم کیا جائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان سے دولت پیدا کرنے کاسب سے زبردست فطری محرک کھویا جائے گا۔اورظاہر ہے کہ اس محرک کے کھوئے جانے سے وہ بالآخر دولت پیدا کرنے کی قوت کوبھی ضائع کردیں گے اورآہستہ آہستہ ان کے دماغی قویٰ میں انحطاط پیدا ہوجائے گا۔بے شک یہ خطرہ اس وقت صرف ایک موہوم خطرہ نظر آتا ہے لیکن ہر شخص جوصحیح تدبر کامادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ایک زمانہ کے بعد اس قسم کے قومی خطرات حقیقت بن جایا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں دولت کی کامل طور پر مساویانہ تقسیم خود اشتراکی ممالک میں بھی نہیں پائی جاتی۔مثلاً کیا مارشل سٹالن اورمسٹر مالوٹوواورروس کے دوسرے صنادید اسی قسم کا کھانا کھاتے ہیں جیسا کہ روس کامزدور یاکسان کھاتا ہے۔یا اسی قسم کاکپڑا پہنتے ہیں جیسا کہ روس کا مزدور اورکسان پہنتا ہے۔یا اسی قسم کے مکانوں میں رہتے ہیں جس میں کہ روس کا مزدور یاکسان رہتا ہے۔یا اسی قسم کے حالات میں سفر کرتے ہیں جن میںکہ روس کا مزدور یاکسان سفر کرتا ہے؟جب نہیں اور ہرگز نہیں توپھر مساوات کہاں رہی؟صرف فرق یہ ہے کہ کسی نے سرمایہ داری کے رنگ میں ملک کی دولت پر ہاتھ صاف کیا اورکسی نے اشتراکیت کاپردہ کھڑا کرکے خادم ملت کے رنگ میں اپنے لئے خاص مراعات محفوظ کرلیں حالانکہ فطری اورطبعی طریق وہ ہے جواسلام نے قائم کیا ہے۔یعنی انفرادی حقوق اور انفرادی جدوجہد بھی جاری رہے اورغریبوں کواوپر اٹھانے اورامیروں کی دولت میں سے ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی ضرورت کو پورا کرنے کاسلسلہ بھی قائم رہے اوراس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام بھی قائم ہوکہ قومی اورملکی دولت ناواجب طور پر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے۔
دراصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ انسانی حقوق کی اقسام پرغور نہیں کیا گیا۔انسانی حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں۔(۱)ایک وہ حقوق ہیں جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں جیسے کہ مثلاًعدل وانصاف کاقیام یاقومی عہدوں کی تقسیم وغیرہ۔اور(۲)دوسرے وہ حقوق ہیں جو یا تو فطری اورقدرتی رنگ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے آسمانی طاقتیں اوردماغی قویٰ وغیرہ اوریا وہ انفرادی کوشش اور انفرادی جدوجہدکے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے دولت یامکسوب علم وغیرہ۔اسلام نے نہایت حکیمانہ طریق پران دونوں قسم کے حقوق میں اصولی فرق ملحوظ رکھا ہے۔یعنی جہاں تک ان انسانی حقوق کا تعلق ہے جوحکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اسلام نے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کامل مساوات قائم کی ہے اورمختلف قوموں اورمختلف انسانوں میں قطعاًکوئی فرق پیدا ہونے نہیں دیا،لیکن جہاں دوسری قسم کے حقوق کادائرہ شروع ہوتا ہے جو فطری قویٰ اورانفرادی جدوجہد سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اسلام نے ایک مناسب حد تک دخل دے کر مختلف طبقات اورمختلف افراد کے فرق کو سمونے کی تو ضرور کوشش کی ہے لیکن ظلم وجبرکے رنگ میں سارے فرقوں کو یکسر مٹانے کا طریق اختیار نہیں کیا۔اور حق یہ ہے کہ اس میدان میں سارے فرقوں کو مٹانا ممکن بھی نہیں ہے۔ مثلاًجسمانی طاقتوں کے فرق کوکون مٹاسکتا ہے؟دماغی قوتوں کے فرق کوکون مٹا سکتا ہے؟اورجب یہ فرق نہیں مٹائے جاسکتے تو ظاہر ہے کہ ان فرقوں کے طبعی نتائج بھی نہیں مٹائے جاسکتے۔ہاں چونکہ انسان مدنی الاصل صورت میں پیدا کیا گیا ہے اوراس کی فطرت کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ مل کر اورجہاں تک ممکن ہو ان کے لئے قربانی کرتے ہوئے زندگی گزارے۔ اس لئے اسلام نے یہ ضرور کیا ہے کہ انسان کی انفرادیت کوقائم رکھتے ہوئے اس سے بعض قومی ضرورتوں کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے اوراس مطالبہ کو اس انتہائی حد تک پہنچا دیا ہے جوایک انسان کی انفرادیت کومٹانے اور ظلم کاطریق اختیار کرنے کے بغیر اس کے اردگرد کے گرے ہوئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اوپر اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھ لینے کے بعد اسلامی مساوات اور اشتراکیت کا مسئلہ خودبخود حل ہوجاتا ہے بشرطیکہ کوئی شخص دیانت داری کے ساتھ اسے سمجھنے کے لئے تیار ہو۔
اسلام ایک وسطی نظریہ پیش کرتا ہے
ایک اوراصولی بات جواسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق یاد رکھنی چاہئے یہ ہے کہ انسانی زندگی کے متعلق
اسلام یہ نظر یہ پیش کرتا ہے کہ اس میں ہروقت ایک جدوجہد کی کیفیت قائم رہنی چاہئے اوردرحقیقت زندگی ایک پیہم حرکت اور مسلسل جدوجہد کاہی نام ہے اورانسان کی ساری ترقی اسی پیہم حرکت اوراسی مسلسل سعی کے ساتھ وابستہ ہے۔پس اسلام کسی ایسے نظام کاموید نہیں ہوسکتا جس میں انسان کو جدوجہدکے میدان سے نکل کر دوسرے کے کمائے ہوئے مال کوبیٹھے بیٹھے کھانے یا دوسرے کے سہارے پر کھڑے ہوکر زندگی گزارنے کارستہ اختیار کرنا پڑے۔بے شک اسلام بھی انفرادی زندگی کے لئے بعض خارجی سہارے مہیا کرتا اوران سے واجبی فائدہ اٹھانے کا سامان پیدا کرتا ہے مگر اس کااصل زور اس بات پر ہے کہ ہرانسان خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اوراپنے ہاتھ کی طاقت یااپنے دماغ کی قوت سے اپنے لئے زندگی کارستہ بنائے۔وہ خارجی سہاروں کو ایک زائد امدادی حیثیت توضرور دیتا ہے مگر صرف انہی پر کامل تکیہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اسی لئے قرآن شریف ورثہ کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے مالوں کو بیٹھ کرکھانے والوں کے متعلق فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’تم لوگ فارغ بیٹھے ہوئے ورثہ کے مالوں کو کھانا چاہتے ہو اورخواہش رکھتے ہو کہ یہ جمع شدہ مال کبھی ختم نہ ہو۔اورتم ذخیرہ شدہ مال ودولت سے عشق لگائے بیٹھے ہو۔‘‘
اس لطیف آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خدائے اسلام کو ایسی زندگی پسند نہیں جو انسان کو جدوجہد اورسعی وعمل کے میدان سے نکال کر کسی خاص کھونٹے کے ساتھ باندھ دے۔کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ انسان کے فطری قویٰ زنگ آلود ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری اوراشتراکیت یعنی کمیونزم دونوں انسانوں کو جدوجہد والی زندگی سے نکال کر دوسروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانے کارستہ کھولتے ہیں۔یعنی جہاں سرمایہ داری جمع شدہ روپے کا کھونٹا گاڑ کراس کے ساتھ انسان کو باندھ دیتی ہے وہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم دوسری انتہا کی طرف لے جا کر اورحکومت کے کھونٹے کے ساتھ باندھ کر انسان کو گویا سلانا چاہتی ہے۔اس سے ظاہر ہے کہ گویہ انتہائیں جداجداہیں مگر حقیقتاً سرمایہ داری اوراشتراکیت دونوں میں یہی اصول چلتا ہے کہ انسان کوانفرادی جدوجہد کے میدان سے نکال کر کسی مضبوط کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جائے جہاں وہ ہروقت چوکس رہنے کی ضرورت محسوس کرنے کے بغیر آرام کی زندگی گزار سکے۔پس غور کیا جائے تو یہ دونوں افراط وتفریط کی راہیں ہیں جن سے خدائے اسلام لوگوں کوبچا کر جدوجہد کے سرگرم میدان میں کھڑا رکھنا چاہتا ہے۔ اشتراکیت کااصول کیا ہے؟یہی ناکہ قوم کے سب افراد مل کر متحدہ زندگی گزاریں اورخواہ بعض افراد دوسروں سے کمزور ہوں اوربعض مضبوط اورخواہ بعض سست ہوں اوربعض چوکس ہوں وہ گریں تواکٹھے گریں اورکھڑے ہوں تواکٹھے کھڑے ہوں۔مگرغور کرو کہ کیا یہ بھی سرمایہ داری کی طرح ایک غیر طبعی سہارا نہیں جوانفرادی جدوجہد سے انسان کو غافل کرنے کا موجب ہوسکتا ہے؟بے شک اسلام نے بھی کمزور افراد کے لئے ملک وقوم کاسہارا مہیا کیا ہے۔مگر اس نے کمال دانش مندی سے اس سہارے پرپورا بھروسہ نہیں ہونے دیا اورانفرادی بوجھ کی اصل ذمہ داری افراد پر رکھی ہے اورزائد سہارا صرف جزوی امداد کے طور پر یاغیر معمولی حالات کے لئے مہیا کیا گیا ہے۔پس اسلام ہی وہ وسطی مذہب ہے جس نے سرمایہ داری اوراشتراکیت دونوں انتہائوں سے بچتے ہوئے ایک درمیانی رستہ کھولا ہے۔وہ نہ تو جمع شدہ اموال کے ساتھ انسان کوباندھ کراسے سرمایہ داری کے طریق پربیکار کرنا چاہتا ہے اورنہ ہی اسے اشتراکیت کے اصول پر کلیتہً حکومت کے سہارے پررکھ کر اس کی انفرادی جدوجہد کوکمزور کرتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے مسلمانو!ہم نے تمہیں ایک وسطی امت بنایا ہے تاکہ تم ہرقسم کی انتہائوں کی طرف جھک جانے والی قوموں کے لئے خدا کی طرف سے نگران رہو۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں وسطی طریق اختیار کیا ہے اوراگرکوئی دل ودماغ رکھنے والا شخص اشتراکیت کے مقابلہ پر اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق منصفانہ غور کرنا چاہے تواس کے لئے اس نکتہ میںبھی بھاری سبق ہے کہ گوانتہائوں کافرق ضرور ہے یعنی سرمایہ داری ایک انتہا پر واقع ہے اوراشتراکیت دوسری انتہا پر مگر بہرحال اشتراکیت بھی ایک دوسری صورت میں اسی مصیبت کودنیا کے سامنے پیش کرتی ہے جواس کے مقابل کی انتہا یعنی سرمایہ داری نے پیش کررکھی ہے۔یعنی یہ دونوں نظام انسان کو جدوجہد کے میدان سے نکال کر کسی نہ کسی کھونٹے کے ساتھ باندھنا چاہتے ہیں اوریہ صرف اسلام ہی ہے جس نے وسطی رستہ اختیار کرکے ایک طرف تو انسان کی انفرادی جدوجہد کوقائم رکھا ہے اوردوسری طرف خاص حالات کے پیش نظر نیز قوم میں اخوّت اوراتحاد کی روح قائم رکھنے کے لئے بعض خارجی سہارے بھی مہیاکردئے ہیں اوریہی وہ رستہ ہے جس سے انسان کادماغ کُند اورمنجمد ہونے سے بچ سکتا ہے ورنہ جولعنت آج دنیا کے سامنے سرمایہ داری نے پیدا کی ہے وہی کچھ عرصہ کے بعد ایک مختلف صورت میں اشتراکیت کے ذریعہ دنیا کے سامنے آنے والی ہے۔
استثنائی حالات میںخوراک کی مساویانہ تقسیم
دولت کی تقسیم کے متعلق اس حکیمانہ نظریہ کے باوجود جس میں عام حالات کے ماتحت جبری
طریق کے اختیار کرنے کے بغیر دولت کومنصفانہ رنگ میں سمونے کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ انفرادی جدوجہد کامحرک بھی قائم رہے اورملکی دولت چند ہاتھوں میں جمع بھی نہ ہونے پائے۔اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسے خاص حالات پیدا ہوجائیںکہ کسی ملک یا قوم یابستی کی خوراک کے ذخیرہ میں کمی آجائے یعنی ایک حصہ کے پاس تو زائد خوراک موجود ہو اوردوسرے حصہ کے پاس اس کی اقل ضرورت سے بھی کم ہو یابالکل ہی نہ ہو تو اس قسم کے ہنگامی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم کاجبری نظام بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَزْوَۃٍ فَاَصَابَنَا جُھْدٌ حَتّٰی ھَمَمْنَا اَنْ نَنْحَرَ بَعْضَ ظَھْرِنَا فَاَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَمَعْنَا اَزْوَادَنَا۔ ۱؎
یعنی’’ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے مگررستہ میں ہمیں خوراک کی سخت کمی پیش آگئی۔حتّٰی کہ ہم نے ارادہ کیا کہ اپنی سواریوں کے بعض اونٹ ذبح کردیں۔ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سب لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اکٹھے کرلئے جائیں پس ہم نے سب ذخیرے اکٹھے کرلئے۔اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان میں سے سب کو مساویانہ راشن بانٹنا شروع کردیا۔‘‘
پھرایک اورروایت آتی ہے کہ:
بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْثًا قِبَلِ السَّاحِلِ وَاَمَرَّ عَلَیْھِمْ اَبَاعُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ وُھُمْ ثَلاَثُ مِائَۃٍ فَخَرَجْنَا وَکُنَّابِبَعْضِ الطَّرِیْقِ فَنِیَ الزَّادُفَاَمَرَاَ بُوْعُبَیْدَۃَ بِاَزْوَادِ الْجَیْشِ فَجُمِعَ فَکَانَ مَزُوْدَی تَمَرٍفَکَانَ یَقُوْتُنَا کُلَّ یَوْمٍ قَلِیْلاً قَلِیْلاً حَتّٰی فَنِیَ فَلَمْ یَکُنْ یُصِیْبُنَا اِلاَّتَمْرَۃٌ تَمْرَۃٌ۔ ۱؎
یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک پارٹی ساحل سمندر کی طرف روانہ کی اور اس سریہ کاامیر (اپنے مقرب صحابی)ابوعبیدہ بن جراح کومقرر فرمایا اوریہ پارٹی تین سوصحابہ پر مشتمل تھی۔راوی کہتا ہے کہ ہم سریہ میں نکلے لیکن (رستہ بھول جانے کی وجہ سے)ابھی ہم اس کے رستہ میں ہی تھے کہ ہمارازدا کم ہونا شروع ہوگیا۔اس پر ابوعبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگوں کی خوراک کاذخیرہ جمع کرلیاجائے تویہ سارا جمع شدہ ذخیرہ دوتوشہ دان بنا۔اس کے بعدابوعبیدہ ہمیں اس ذخیرہ میں سے تھوڑی تھوڑی خوراک تقسیم کرواتے تھے حتّٰی کہ یہ ذخیرہ اتنا کم ہوگیا کہ بالآخر ہمارا راشن صرف ایک کھجور فی کس پر آگیا۔‘‘
اس روایت سے یہ بھاری اصول مستنبط ہوتا ہے کہ خاص ہنگامی حالات میں خوراک کے انفرادی ذخائر کواکٹھا کرکے قومی ذخیرہ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری روایت آتی ہے کہ:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْاَشْعَرِیِّیْنَ اِذَا اَرْمَلُوْا فِی الْغَزْوِ اَوْقَلَّ طُعَامُ عَیَالِھِمْ بِالْمَدِیْنَۃِ جَمَعُوْا مَاکَانَ عِنْدَھُمْ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍثُمَّ اقْتَسَمُوْابَیْنَھُمْ فِی اِنَائٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِیَّۃِ فَھُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ۔ ۲؎
یعنی’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اشعر قبیلہ کے لوگوں کا یہ طریق ہے کہ جب کسی سفر میں انہیں خوراک کاٹوٹا پڑجاتا ہے یاحضر کی حالت میں ہی ان کے اہل وعیال کی خوراک میں کمی آجاتی ہے توایسی صورت میں وہ سب لوگوں کی خوراک ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں اور پھر اس جمع شدہ خوراک کوایک ناپ کے مطابق سب لوگوں میں مساویانہ طریق پر بانٹ دیتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا میرے ساتھ حقیقی جوڑ ہے اورمیرا ان کے ساتھ حقیقی جوڑہے۔‘‘
یہ الفاظ جس بلند اورشاندار روح کااظہار کررہے ہیں وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں مگر افسوس ہے کہ دنیا نے اپنے اس عظیم الشان محسن کی قدر نہیں کی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں دولت کی تقسیم کے متعلق چاربنیادی اصول تسلیم کئے گئے ہیں:
اوّل:تقسیم ورثہ اورنظام زکوٰۃ کے قیام اورسود اورجوئے کی حرمت کے ذریعہ ملکی دولت کوچند ہاتھوں میں جمع ہونے سے بچایا جائے۔
دوم:مگر دولت پیدا کرنے کے انفرادی حق کو قائم رکھا جائے تاکہ کام کرنے کا ذاتی محرک بھی قائم رہے اورافراد کے دماغ منجمد نہ ہونے پائیں۔
سوم:جولوگ باوجود ان ذرائع کے کسی خاص معذوری کی وجہ سے اپنی اقل ضروریات کاسامان بھی پیدا نہ کرسکیں ان کی ضروریات کے پورا کرنے کا حکومت انتظام کرے۔
چہارم:خاص ہنگامی حالت میں جب کہ خوراک کی خطرناک قلت پیدا ہوجائے۔تمام انفرادی ذخیروں کوجمع کرکے ایک مرکزی قومی ذخیرہ قائم کرلیاجائے تا کہ سب لوگوں کواقل خوراک کامساویانہ راشن ملتا رہے اوریہ نہ ہو کہ ملک کاایک حصہ توعیش اڑائے اوردوسرا قوت لایموت سے بھی محروم ہو۔
دینی اورروحانی امور میں مساوات
اس کے بعد ہم اس مساوات کی بحث کو لیتے ہیں جودینی اور روحانی امور سے تعلق رکھتی ہے سو جاننا چاہئے کہ گو لامذہب
لوگوں اوردنیا داروں کو اس میدان کی اہمیت پراطلاع نہ ہو مگر قُرب الہٰی کی تڑپ رکھنے والوں اورنجات اُخروی کے متلاشیوں کے نزدیک یہ میدان دنیا کی زندگی سے بھی بہت زیادہ اہم اوربہت زیادہ قابل توجہ ہے اورالحمد للہ کہ اس میدان میں بھی اسلامی تعلیم نے صحیح مساوات کے ترازو کوپوری طرح برابر رکھا ہے۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں دوسرے مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا کے کلام کا نزول اوراس کے نبیوں اوررسولوں کاظہور صرف خاص خاص قوموں کے ساتھ ہی مخصوص رہا ہے اوردنیا کی دوسری قومیں اس عظیم الشان روحانی نعمت سے کلی طور پر محروم رہی ہیں مثلاًیہودی لوگ اپنے سوا کسی دوسری قوم کو اس روحانی انعام کا حق دار نہیں سمجھتے اوراسی طرح ہندو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کا کلام صرف آریہ ورت تک محدود رہا ہے اورکسی دوسرے ملک اور دوسری قوم نے اس سے حصہ نہیں پایا اورعملاًعیسائی قوم بھی بنی اسرائیل کے باہر کسی نبی اوررسول وغیرہ کی قائل نہیں۔الغرض جہاں دنیا کی ہر قوم اس روحانی نعمت کو صرف اپنے آپ تک محدود قرار دے رہی ہے اورکسی دوسری قوم کو اس کا حق دار نہیں سمجھتی وہاں اسلام ببانگ بلند یہ تعلیم دیتا ہے کہ جس طرح خدا نے اپنی مادی نعمتوں کوہر قوم اورہر ملک پر وسیع کررکھا ہے اورکسی ایک قوم یاایک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں کیامثلاًاس کاسورج ساری دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے۔اس کی ہوا سارے کرۂ ارض کویکساں گھیرے ہوئے ہے۔اس کا پانی ساری دنیا کو سیراب کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح خدا نے اپنی روحانی نعمتوں کوبھی کسی خاص قوم یاخاص ملک تک محدود نہیں کیا بلکہ ہرقوم اور ہرملک کواس سے حصہ دیا ہے۔کیونکہ اسلام کی تعلیم کے مطابق دنیا کاخدا کسی خاص قوم یا خاص ملک کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا اورساری قوموں کا خدا ہے اوروہ ایک ایسا مُقْسِط اورعادل حکمران ہے کہ سب مخلوق کوایک نظر سے دیکھتا ہے۔چنانچہ فرماتا ہے :
۔ ۱؎
یعنی’’دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کی طرف خدا نے اپنی طرف سے کوئی رسول نہ بھیجا ہو تاکہ وہ انہیں ہوشیار کرکے نیکی بدی کارستہ دکھادے اورترقی کی راہیں بتاوے۔‘‘
یہ الفاظ کیسے مختصر ہیں مگر غور کرو تو ان کے اندرروحانی اوردینی مساوات کاایک عظیم الشان فلسفہ مخفی ہے جس نے دنیا کی ساری قوموں کوخدا کی توجہ کایکساں حق دار قرار دے کر ایک لیول پرکھڑا کردیا ہے اوراس خیال کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کاخدا یا صرف آریہ ورت کا خدا ہے اوردوسری قوموں کے لئے اس کی محبت اورانصاف کی آنکھ بالکل بند ہے۔الغرض اسلام نے روحانی مساوات کے میدان میں پہلا اصول یہ قائم کیا ہے کہ کلام الہٰی اورنبوت ورسالت کاوجود کسی خاص قوم یاخاص ملک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اپنے اپنے وقت میں ہرقوم اس عظیم الشان روحانی انعام سے حصہ پاتی رہی ہے۔کیونکہ ہرقوم خدا کی پیدا کردہ ہے اورخدا سے یہ بعید ہے کہ ایک ظالم باپ کی طرح اپنے ایک بیٹے کو حصہ دے اوردوسرے کو ہمیشہ کے لئے محروم کردے۔
اسی ضمن میں نجات اورقرب الہٰی کے حصول کا سوال آتا ہے ۔اکثر قوموں نے دنیوی اور اخروی امور میںبھی گویا ایک اجارہ داری کا رنگ اختیار کررکھا ہے اورایک خاص نسلی طبقہ کو خدا کا مقرب اورنجات کامستحق قرار دے کر باقی سب کو عملاًمحجوب اورملعون گردانا ہے جسے کبھی بھی نجات اور قرب الہٰی کی ٹھنڈی ہوا نہیں پہنچ سکتی۔مثلاًیہودی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف ایک اسرائیلی نسل کا انسان ہی نجات کا مستحق ہے اورباقی سب لوگ خواہ وہ کیسے ہی نیک ہوں جہنم کاایندھن ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے گو نسلی رنگ میں نجات کومحدود نہیں کیا ۱؎ مگر بہت سے دینی حقوق وفرائض کو ایک خاص گروہ کے ساتھ مخصوص کردیا ہے جسے پریسٹ ہڈ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے چنانچہ عیسائیوں کے متعدد دینی امور بلکہ بعض تمدنی امور بھی ایک پریسٹ کی وساطت کے بغیر سرانجام نہیں پاسکتے۔اسی طرح ہندوئوں میں بعض دینی حقوق کوصرف برہمن کاورثہ قرار دیا گیا ہے اوردوسرے لوگ اس سے محروم ہیں۔گویا ان قوموں نے نہ صرف دوسری اقوام کونجس اورپلید قرار دے کر دھتکار دیا ہے۔بلکہ خود اپنے اندر بھی دینی اورمذہبی امور میں ناگوار طبقات کاوجود تسلیم کرکے خدائی انعامات کوبعض خاص طبقوں کے ساتھ مخصوص کردیا ہے مگراسلام کادا من ان سب ناپاک جنبہ داریوں کے داغ سے پاک ہے بلکہ جس طرح اس نے دنیوی حقوق میں پوری پوری مساوات قائم کی ہے اسی طرح اس نے دینی امور میں بھی انصاف اورمساوات کے ترازو کوکسی طرف جھکنے نہیں دیا چنانچہ اس بارے میں ایک اصولی قرآنی آیت اوپر کی بحث میں گزر چکی ہے جویہ ہے۔
۲؎
یعنی’’اے لوگو سن رکھو کہ تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ معزز اورزیادہ مقرب وہ شخص ہے جو زیادہ متقی اورزیادہ نیک اورزیادہ صالح ہے۔‘‘
اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ قرب الہٰی کے حصول کے معاملہ میں کسی قوم یاکسی طبقہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سب گورے کالے،بڑے چھوٹے،طاقتورکمزور،مردعورت خدا کا قرب حاصل کرنے کے معاملہ میں برابر ہیں اورآگے آنے کے لئے صرف ذاتی تقویٰ اورذاتی نیکی کی ضرورت ہے۔ان مختصر الفاظ میں خداتعالیٰ نے یہ اشارہ بھی کردیا ہے کہ جب ہم بادشاہوں کے بادشاہ ہوکر سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اوراپنا قرب عطا کرنے میں ذاتی تقویٰ وطہارت کے سوا کسی اوربات کاخیال نہیں کرتے توپھر دوسروں کوتوبدرجہ اولیٰ یہ چاہئے کہ ذاتی اوصاف کے سوا کسی اوربات پراپنے انتخاب کی بنیاد نہ رکھا کریں۔
پھردینی امور میں جزااورسزا اورانعام والزام کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’جوشخص بھی خواہ وہ کوئی ہو ایک ذرہ بھر بھی نیکی کرتا ہے وہ ہم سے اس کا اجر پائے گا (اور اس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے نیک عمل کے پھل سے محروم نہیں کرسکتا)اوراسی طرح جوشخص بھی کوئی بدی کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا(اوراس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے اس کی بدی کے نتیجہ سے بچا نہیں سکتا)۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’یہودی اورعیسائی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی شخص یہود یانصاریٰ کے سوا جنت میں نہیں جاسکتا۔یہ ان لوگوں کی محض خام خیالی ہے اورایک ہَوَس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔توانہیں کہہ دے کہ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو توکوئی دلیل لائو۔ہاں بے شک جس شخص نے اپنے تئیں خدا کے سپرد کردیا یعنی اس پر سچا ایمان لایا اورپھر نیک عمل کئے تووہ خواہ کوئی ہوخدا سے اپنا اجر پائے گا اورایسے لوگوں پر خدا کے حضور کوئی خوف وحزن نہیں آئے گا۔‘‘
اس آیت کامطلب یہ ہے کہ نجات پانے اورقرب الہٰی کے حصول کے لئے صرف قومی یارسمی رنگ میں یہودی یاعیسائی یاکسی اورمذہب کی طرف منسوب ہونا ہرگز کافی نہیں بلکہ نجات اورقرب الہٰی کے لئے سچا ایمان اورعمل صالح ضروری ہے۔پس جو شخص بھی یہ دوباتیں یعنی سچا ایمان اورعمل صالح اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو پھرخواہ وہ قومی یانسلی رنگ میں کوئی ہو وہ خدا کی طرف سے ثواب اور انعام کامستحق ہوگا۔یہ آیت ضمناً مسلمانوں کوبھی ہوشیار کرتی ہے کہ وہ محض مسلمان کہلانے پرتسلی نہ پائیں۔کیونکہ خداتعالیٰ کوخالی ناموں سے سروکار نہیں بلکہ اس کی نظر حقیقت پر ہے۔
پھر دینی فرائض کی ادائیگی کے بارے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یَؤُمُّ الْقَوْمَ اَقْرَئُھُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ فَاِنْ کَانُوْافِی الْقِرْأَۃِ سَوَائً فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَّۃِ فَاِنْ کَانُوْا بِالسُّنَّۃِ سَوَائً فَاَقْدَمُھُمْ ھِجْرَۃً فَاِنْ کَانُوْا فِی الْھِجْرَۃِ سَوَائً فَاَکْثَرُھُمْ سِنًّا۔۲؎ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَلْیَؤُمُھُمْ اَحَدُھُمْ وَاَحَقُّھُمْ بِالْاِمَامَۃِ اَقْرَئُھُمْ۔ ۳؎
یعنی’’اے مسلمانو!جب تم آپس میں فریضۂ نماز کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہو(جواسلام میں سب سے اہم اورسب سے وقیع ترعبادت ہے)تواس وقت اپنا امام بنانے کے لئے صرف یہ دیکھا کرو کہ تم میں سے قرآن کاعلم کس شخص کوزیادہ حاصل ہے۔پس جو شخص بھی قرآنی علم میں زیادہ ہو اسے نماز میں اپنا امام بنالیا کرو اوراگر چند آدمی علم قرآن میں برابر ہوں توپھر ان میں سے جو شخص سنت رسول ؐکے علم میں زیادہ ہواسے امام بنایاکرو۔اوراگر چندآدمی سنت کے علم میںبھی برابر ہوں تو پھر ان میں سے جس شخص نے خدا کی راہ میں پہلے ہجرت کی ہواسے امام بنایا کرو۔اوراگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں توپھر جو شخص عمر میں زیادہ ہواسے اپنا امام بنالیاکرو۔اورایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ نمازوں میں مسلمانوں کاامام ہروہ شخص ہوسکتا ہے جو ان میں سے ہے اورکسی خاص طبقہ کی تخصیص نہیں۔مگر امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو دین کازیادہ علم رکھتا ہے۔‘‘
الغرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین ودنیا کے ہرمیدان میں حقیقی مساوات قائم فرمائی ہے اور سوسائٹی کی ہرناواجب کش مکش کوجڑ سے کاٹ کررکھ دیا ہے اورجسم اورروح دونوں کی اصلاح کی ہے اوریہ وہ مساوات ہے جس کی نظیر یقینا کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ اَللّٰھُّمَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ۔مساوات اسلامی کے متعلق یہ نوٹ سپرد قلم کرنے کے بعد ہم پھر اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔
سریہ دومۃ الجندل شعبان ۶ہجری مطابق دسمبر۶۲۷ء
اب بڑی سرعت کے ساتھ اسلامی اثر کادائرہ وسیع ہورہا تھا اورعرب
کے دوردراز کناروں میںبھی اسلام کی تبلیغ پہنچ رہی تھی۔مگراس کے ساتھ دور کے علاقوں میں مخالفت بھی بڑھ رہی تھی اور جو لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے تھے انہیں اپنے ہم قبیلہ لوگوں کی طرف سے سخت مظالم سہنے پڑتے تھے اوران مظالم سے ڈرکر بہت سے کمزور طبع لوگ اسلام کے اظہار سے رکے رہتے تھے۔اس لئے اب جنگی مہموں کی اغراض میں اس غرض کااضافہ ہوگیا کہ ایسے قبائل کی طرف فوجی دستے روانہ کئے جائیں جن میں بعض لوگ دل میں اسلام کی طرف مائل تھے مگر مظالم کے ڈر کی وجہ سے وہ اسلام کوقبول کرنے سے رکتے تھے۔گویا ان دستوں کے بھجوانے کی غرض مذہبی آزادی کاقیام تھی جس پر اسلام خاص طور پرزور دیتاہے۔ ۱؎
اس غرض وغایت کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ شعبان ۶ھ میں ایک فوجی دستہ عبدالرحمن بن عوف کی کمان میں دومۃ الجندل ۱؎ کے دوردراز مقام کی طرف روانہ فرمایا۔ ۲؎ ناظرین کویاد ہوگا کہ اسی جگہ کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود بھی ۴ھ میں قیام امن کی غرض سے تشریف لے گئے تھے اوراس طرح یہ علاقہ آج سے دو سال قبل اسلامی دائرہ اثر میں داخل ہوچکا تھا اوروہاں کے باشندے اسلامی تعلیم سے غیر مانوس نہیں رہے تھے بلکہ غالباًان میں سے ایک حصہ اسلام کی طرف مائل تھا مگراپنے رئوساء اور اہل قبیلہ کی مخالفت کی وجہ سے جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ بہرحال آپؐ نے ہجری کے چھٹے سال میں ایک بڑا فوجی دستہ عبدالرحمن بن عوف کی امارت میں جو کبار صحابہ میں سے تھے دومۃ الجندل کی طرف روانہ فرمایا۔
اس سریہ کی تیاری اورروانگی کے متعلق ابن اسحاق نے عبداللہ ابن عمر سے یہ دلچسپ روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ جب ہم چند لوگ جن میں حضرت ابوبکرؓ اورعمرؓ اورعثمانؓ اورعلیؓ اورعبدالرحمن بن عوف بھی شامل تھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے،ایک انصاری نوجوان نے حاضر ہوکرآپؐ سے دریافت کیا کہ’’یارسول اللہ!مومنوں میں سے سب سے افضل کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔’’وہ جو اخلاق میںسب سے افضل ہے۔‘‘اس نے کہا’’اوریارسول اللہ!سب سے زیادہ متقی کون ہیَ‘‘آپ ؐ نے فرمایا’’وہ جو موت کوزیادہ یاد رکھتا اوراس کے لئے وقت سے پہلے تیاری کرتا ہے۔‘‘اس پر وہ انصاری نوجوان خاموش ہوگیا اورآپؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا ’’اے مہاجرین کے گروہ!پانچ بدیاں ایسی ہیں جن کے متعلق میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ کبھی میری امت میں پیدا ہوں کیونکہ وہ جس قوم میں رونما ہوتی ہیں اسے تباہ کرکے چھوڑتی ہیں۔
اوّل:یہ کہ کبھی کسی قوم میں فاحشہ اوربدکاری نہیں پھیلی اس حد تک کہ وہ اسے برملا کرنے لگ جائیں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی بیماریاں اوروبائیں نہ ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہوں جوان سے پہلے لوگوں میں نہیںتھیں۔
دوم:کبھی کسی قوم میں تول اورناپ میں بددیانتی کرنے کی بدی نہیں پیدا ہوئی کہ اس کے نتیجہ میں اس قوم پر قحط اورمحنت اورشدت اورحاکم وقت کے ظلم وستم کی مصیبت نازل نہ ہوئی ہو۔
سوم:کبھی کسی قوم نے زکوٰۃ اورصدقات کی ادائیگی میں سستی وغفلت نہیں اختیار کی کہ اس کے نتیجہ میں ان پر بارشوں کی کمی نہ ہوگئی ہو۔حتّٰی کہ اگر خدا کواپنے پیدا کردہ جانوروں اورمویشیوں کا خیال نہ ہو توایسی قوم پر بارشوں کاسلسلہ بالکل ہی بند ہوجائے۔
چہارم:کبھی کسی قوم نے خدا اوراس کے رسول کے عہد کو نہیں توڑا کہ ان پر کوئی غیرقوم ان کے دشمنوں میں سے مسلط نہ کردی گئی ہو جوان کے حقوق کوغصب کرنے لگ جائے۔
پنجم:کبھی کسی قوم کے علماء اوراَئمہ نے خلاف شریعت فتوے دے دے کر شریعت کواپنے مطلب کے مطابق نہیںبگاڑنا چاہا کہ ان کے درمیان اندرونی لڑائی اورجھگڑوں کاسلسلہ شروع نہ ہوگیا ہو۔‘‘ ۱؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ زرّیں تقریر قوموں کی ترقی وتنزل کے اسباب پربہترین تبصرہ ہے اوراگر مسلمان چاہیں توان کے لئے موجودہ زمانہ میںبھی یہ ایک بہترین سبق ہے۔
اس کے بعد آپؐ اپنے مقرب صحابی عبدالرحمن بن عوف سے مخاطب ہوئے اورفرمایا۔’’ابن عوف! میںتمہیں ایک سریہ پرامیر بناکر بھیجنا چاہتا ہوں تم تیار رہو۔‘‘چنانچہ دوسرے دن صبح کے وقت عبدالرحمن بن عوف آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر انہی کا عمامہ لے کر باندھا اوربلال ؓکوحکم دیا کہ ایک جھنڈا ان کے سپرد کردیا جائے۔اورپھر آپؐ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ماتحت صحابہ کاایک دستہ متعین کرکے ان سے فرمایا:
خُذْہُ یَاابْنَ عَوْفٍ فَاغْزُوْاجَمِیْعًا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ وَلاَ تَغْلُوْا وَلاَ تَغْدِرُوْا وَلاَ تُمَثِّلُوْا وَلاَ تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا۔فَھٰذَا عَھْدُاللّٰہِ وَسِیْرَۃُ نَبِیِّہٖ فِیْکُمْ۔ ۲؎
یعنی’’اے ابن عوف اس جھنڈے کو لے لو اورپھر تم سب خدا کے رستہ میں جہاد کے لئے نکل جائو اورکفار کے ساتھ لڑو مگر دیکھنا کوئی بددیانتی نہ کرنا اورنہ کوئی عہدشکنی کرنا اورنہ دشمن کے مردوں کے جسموں کوبگاڑنا اورنہ بچوں کو قتل کرنا۔یہ خدا کا حکم ہے اوراس کے نبی کی سنت۔‘‘
اس روایت میں غالباًراوی نے سہواًعورتوں کا ذکر چھوڑ دیا ہے ورنہ دوسری جگہ صراحت آتی ہے کہ آپؐ جب کوئی دستہ بھجواتے تھے تویہ بھی تاکید فرماتے تھے کہ عورتوں کوقتل نہ کرنا اورنہ بوڑھے پیر فرتوت لوگوں کو قتل کرنا اورنہ ایسے لوگوں کو قتل کرنا جن کی زندگی مذہبی خدمت کے لئے وقف ہو۔ ۳؎ اس کے بعد آپؐ نے عبدالرحمن بن عوف کوہدایت فرمائی کہ وہ دومۃ الجندل کی طرف جائیں اور کوشش کریں کہ صلح صفائی سے فیصلہ ہوجائے۔کیونکہ اگر وہ لوگ جنگ وجدال سے دستکش ہوکر اطاعت قبول کرلیں تو یہ سب سے اچھی بات ہے۔اورآپؐ نے عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا کہ اس صورت میں مناسب ہوگا کہ تم ان لوگوں کے رئیس کی لڑکی سے شادی کرلو۔ ۱؎
اس کے بعد آپؐ نے اس سریہ کورخصت فرمایا اورحضرت عبدالرحمن بن عوف سات سو صحابیوں کوساتھ لے کر دومۃ الجندل کی طرف جو عرب کے شمال میں تبوک سے شمال مشرق کی طرف شام کی سرحد کے قریب واقع ہے،روانہ ہوگئے ۔جب یہ اسلامی لشکر دومہ میں پہنچا توشروع شروع میں تو دومہ کے لوگ جنگ کے لئے تیار نظر آتے تھے اورمسلمانوں کو تلوار کی دھمکی دیتے تھے۔۲؎ مگر آہستہ آہستہ عبدالرحمن بن عوف کے سمجھانے پروہ اس ارادے سے باز آگئے اورچند دن کے بعد ان کے رئیس اصبغ بن عمر کلبی نے جو عیسائی تھا عبدالرحمن بن عوف کی تبلیغ سے بطیب خاطر اسلام قبول کرلیا اور اس کے ساتھ اس کی قوم میںسے بھی بہت سے لوگ جوغالباًپہلے سے دل میں اسلام کی طرف مائل ہو چکے تھے مسلمان ہوگئے اورجو لوگ اپنے دین پر قائم رہے انہوں نے بھی بشرح صدراسلامی حکومت کے ماتحت آجانا منظور کرلیا۔ ۳؎ اس طرح بڑی خیروخوبی کے ساتھ یہ مہم اختتام کوپہنچی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق عبدالرحمن بن عوف دومۃ الجندل کے رئیس اصبغ بن عمر کی لڑکی تماضرکے ساتھ شادی کرکے مدینہ میں واپس لوٹ آئے اورخدا کے فضل اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی توجہ کی برکت سے عبدالرحمن بن عوف کے ہاںاسی تماضر کے بطن سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہوا جوخاص فدائیان اسلام میںسے نکلا اورعلم وفضل کے اس مرتبہ کوپہنچا کہ وہ اپنے وقت میں اسلام کے چوٹی کے علماء میں سے سمجھا جاتا تھا۔اس کا نام ابوسلمہ زہری تھا۔ ۴؎
سریہ حضرت علی ؓبطرف فدک شعبان۶ہجری
مدینہ میں یہودی قوم پران کی اپنی غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جوتباہی آئی تھی وہ تمام
عرب کے یہودیوں کے دل میں ایک کانٹا بن کر کھٹک رہی تھی اورغزوہ بنوقریظہ کے بعد سے جب کہ مدینہ میں یہود کا خاتمہ ہوگیا۔خیبر کی بستی جوحجاز کے یہودیوں کاسب سے بڑا مرکز تھی اسلام کے خلاف سازشوں کا اڈہ بن گئی تھی اوراس جگہ کے یہودی جوعادۃًسخت کینہ وراور حاسد وظالم واقع ہوئے تھے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کونیست نابود کرنے کی کوشش میں سرگرم رہتے تھے۔چنانچہ بالآخر یہی حالات جنگ خیبر کا باعث بن گئے جو۷ہجری کے ابتداء میں وقوع میں آئی اورجس کے نتیجہ میں خیبر کاعلاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوگیا۔اب جس واقعہ کاہم ذکر کرنے لگے ہیں وہ بھی اسی سلسلہ میں منسلک ہے۔
شعبان ۶ہجری میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبیلہ بنوسعد بن بکر اور خبیر کے یہودیوں میں مسلمانوں کے خلاف باہم سرگوشیاں ہورہی ہیںاوریہ کہ بنو سعد اہل خیبر کی اعانت میںاپنی طاقتوں کو جمع کررہے ہیں۔ ۱؎ اس اطلاع کے ملتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کی کمان میں صحابہ کاایک دستہ روانہ فرمایا جودن کو چھپتے اوررات کو سفرکرتے ہوئے فدک کے پاس پہنچ گئے جس کے قریب یہ لوگ جمع ہورہے تھے۔یہاں مسلمانوں کوایک بدوی شخص ملا جوبنو سعد کا جاسوس تھا۔حضرت علیؓ نے اسے پکڑ کرقید کرلیا اوراس سے بنو سعداوراہل خیبر کے حالات دریافت کئے۔پہلے تو اس نے بالکل لاعلمی اوربے تعلقی کااظہار کیا مگر آخر وعدہ معافی لے کر اس نے سارا راز کھول دیا اورپھر مسلمان لوگ اس شخص کواپنا گائیڈ بناکر اس جگہ کی طرف بڑھے جہاں بنو سعد جمع ہورہے تھے اوراچانک حملہ کردیا۔اس اچانک حملہ کی وجہ سے بنو سعد گھبراکرمیدان سے بھاگ نکلے اورحضرت علی ؓمال غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اوراس طرح یہ خطرہ وقتی طورپر ٹل گیا۔ ۲؎
سریہ حضرت ابوبکرؓ بطرف بنوفزارہ
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کاایک دستہ حضرت ابوبکرؓ کی کمان میں بنوفزارہ کی طرف روانہ
فرمایا۔ یہ قبیلہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار تھا اوراس دستہ میں سلمہؓ بن اکوع بھی شامل ہوئے جو مشہور تیرانداز اوردوڑنے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔سلمہ ؓ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز کے قریب اس قبیلہ کی قرارگاہ کے پاس پہنچے اورجب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے ہمیں حملہ کا حکم دیا۔ہم قبیلہ فزارہ سے لڑتے ہوئے ان کے چشمہ تک جاپہنچے اورمشرکین کے کئی آدمی مارے گئے جس کے بعد وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ہم نے کئی آدمی قید کرلئے۔سلمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ بھاگنے والے لوگوں میں ایک پارٹی بچوں اور عورتوں کی تھی جوجلدی جلدی ایک قریب کی پہاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔میں نے ان کے اور پہاڑی کے درمیان تیر پھینکنے شروع کئے۔جس پر یہ پارٹی خائف ہوکر کھڑی ہوگئی اورہم نے انہیں قید کرلیا۔ان قیدیوں میں ایک عمررسیدہ عورت بھی تھی جس نے اپنے اوپرسرخ چمڑے کی چادر اوڑھ رکھی تھی اوراس کی ایک خوبصورت لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔میں ان سب کو گھیر کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے آیا اورآپ نے یہ لڑکی میری نگرانی میں دے دی۔پھرجب ہم مدینہ میں آئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ لڑکی لے لی اوراسے مکہ بھجواکراس کے عوض میں بعض ان مسلمان قیدیوں کی رہائی حاصل کی جواہل مکہ کے پاس محبوس تھے۔ ۱؎
اُمِّ قِرفہ کے قتل کا غلط واقعہ
سریہ حضرت ابو بکر کی جگہ جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے ابن سعد نے ایک ایسے سریہ کا ذکر کیا ہے جس میں زید بن حارثہ امیر تھے۔یعنی ابن سعد
اس سریہ میں حضرت ابو بکر کی بجائے زید بن حارثہ کو امیر بیان کرتا ہے اور تفاصیل میں بھی کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ مہم بنو فزارہ کی گو شمالی کے لیے تھی جو وادی قریٰ کے پاس آباد تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ پر چھاپہ مار کر اس کا سارا مال واسباب چھین لیا تھا۔اس مفسد گروہ کی روح رواں ایک بوڑھی عورت تھی جس کا نام اُمِّ قِرفہ تھا جو اسلام کی سخت دشمن تھی۔جب یہ عورت اس لڑائی میں پکڑی گئی تو زید کی پارٹی کے ایک شخص قیس نامی نے اس عورت کو قتل کردیا۔اور ابن سعد اس قتل کا قصہ یوں بیان کرتا ہے کہ اس کے دونوں پاؤں دو مختلف اونٹوں کے ساتھ باندھے گئے تھے اور پھر ان اونٹوں کو مختلف جہات میں ہنکایا گیا جس کے نتیجہ میں یہ عورت درمیان میں سے چر کر دو ٹکرے ہو گئی۔اور اس کے بعد اس عورت کی لڑکی سلمہ بن اکوع کے سپرد کر دی گئی۔ ۲؎ یہی قصہ کسی قدر اختصار اور اجمال اور اختلا ف کے ساتھ ابن اسحاق نے بھی بیان کیا ہے۔ ۳؎
اس روایت کی بنا پر سر ولیم میور نے جو دوسرے یورپین مؤرخین کی نسبت زیادہ تفصیل دینے کا عادی ہے اس واقعہ کو مسلمانوں کی ’’وحشیانہ روح ‘‘کی مثال بڑے شوق سے اپنی کتاب کی زینت بناتا ہے بلکہ سرولیم نے اسے اپنی کتاب میں درج کرنے کی وجہ ہی یہی لکھی ہے کہ اس مہم میں مسلمان ایک ظالمانہ فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں :
’’اس سال مسلمانوں کو بہت سی مہموں میں مدینہ سے نکلنا پڑا مگر یہ سب قابل ذکر نہیں ہیں البتہ میں ان میں سے ایک مہم کے ذکر سے رک نہیں سکتا کیونکہ اس کا انجام مسلمانوں کی طرف سے ایک نہایت ظالمانہ فعل پر ہوا تھا۔‘‘ ۱؎
جو مؤرخ ایک واقعہ کو دوسرے واقعات پر محض اس وجہ سے ترجیح دے کر اسے اپنی کتاب کی زینت بناتا ہے کہ اس میں کسی قوم کے ظلم وستم کا ثبوت ملتا ہے وہ درحقیقت ایک غیر جانبدار محقق کہلانے کا حقدار نہیں ہے کیونکہ اس سے کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ اس بات کی تحقیق کی طرف توجہ کریگا کہ آیا یہ ظلم وستم کا واقعہ کوئی اصلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے ہاتھ سے اس کی ایک دلیل نکل جاتی ہے ۔بہر حال میور صاحب نے اس واقعہ کو خاص شوق کے ساتھ اپنی کتاب میں درج کیا ہے مگر جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا یہ واقعہ بالکل غلط اور قطعاً بے بنیاد ہے اور نقل و عقل ہر دو طرح سے اس کا بناوٹی ہونا ثابت ہے۔
عقلی طریق پر تو یہ جاننا چاہیے کہ ایک عورت کوجس پر قتل کا الزام نہیں ہے قید کرکے ٹھنڈے لمحات میں قتل کرنا اور پھر قتل بھی اسی طریق پر کرنا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے یہ تو ایک بہت دور کی بات ہے۔ اسلام تو عین جنگ کے میدان میں بھی عورت کے قتل کو سختی کے ساتھ روکتا ہے اور ہم جہاد کی اصولی بحث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ فرمان درج کر چکے ہیں جو آپ نے عورتوں کے قتل کو ممنوع فرماتے ہوئے جاری فرمایا تھا ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر میدان جنگ میں کسی دشمن قبیلہ کی ایک عورت مقتول پائی گئی تو باوجود اس کے کہ یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت کن حالات میں اور کس کے ہاتھ سے قتل ہوئی ہے آپؐ اسے دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور صحابہ سے یہ تاکیداً فرمایا کہ ایسا کام آئندہ نہیں ہوناچاہئے۔ ۲؎ اسی طرح یہ ذکر بھی اوپر گذر چکا ہے کہ جب کبھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تو منجملہ اور نصیحتوں کے صحابہ سے ایک نصیحت یہ بھی فرماتے تھے کہ کسی عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا۔ ۳؎
ان اصولی ہدایات کے ہوتے ہوئے صحابہ کے متعلق اور صحابہ میں سے بھی زید بن حارثہ کے متعلق جو گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے یہ خیال کرنا کہ انھوں نے کسی عورت کو اس طریق پر قتل کیا یا کروایا تھا جو ابن سعد نے بیان کیا ہے ہر گز قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔بیشک روایت میں قتل کرنے کا فعل زید کی طرف منسوب نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسرے مسلمان کی طرف کیا گیا ہے لیکن جب کہ یہ واقعہ زید کی کمان میں ہوا تو بہرحال اس کی آخری ذمہ واری بھی زید پر ہی سمجھی جائے گی اور زید کے متعلق یہ خیال کرنا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کو جانتے ہوئے اس قسم کے کام کی اجازت دی ہو گی ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔بیشک اگر کوئی عورت کسی جُرم کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اس جرم کی سزا پائے گی اور کسی مذہب کی شریعت اور کسی ملک کے قانون نے عورت کو جرم کی سزا سے مستثنیٰ نہیں رکھا۔اور آئے دن عورتوں کی سزا بلکہ قتل کے جرم میں پھانسی تک کے واقعات چھپتے رہتے ہیں مگر محض مذہبی عداوت کی وجہ سے یا شرکت جنگ کی وجہ سے کسی عورت کا قتل کرنا اور قتل بھی اسی طریق پر کرنا جو اس روایت میں بیان ہوا ہے ایک ایسا فعل ہے جسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصولی ہدایت اور ساری اسلامی تاریخ صریح طور پر ردّ کرتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ عورت مجرم تھی اور جیسا کہ بعض روایتوں میں بیان ہو اہے اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا تھا۔۱؎ اس لیے اس کے خلاف جائز طور پر قتل کی سزا جاری کی جاسکتی تھی تو یہ درست ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب صحابہ نے اُمِّ قِرفہ سے سخت اور زیادہ خونی دشمنوں اور پھر مرد دشمنوں کو بھی کبھی اس طرح قتل نہیں کیا تو یہ خیال کرنا کہ زید بن حارثہ جیسے واقف کار صحابی کی کمان میں ایک بوڑھی عورت کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہو گا ہرگز قابل تسلیم نہیں ہو سکتا۔پس معقولی رنگ میں اس قصہ کا جھوٹا اور بناوٹی ہونا ظاہر وعیاں ہے اور کوئی غیر متعصب شخص اس میں شبہ کی گنجائش نہیں دیکھ سکتا۔
اب رہا منقولی طریق سواوّل توابن سعد یاابن اسحاق ۲؎ نے اس روایت کی کوئی سند نہیںدی اور بغیر کسی معتبر سند کے اس قسم کی روایت جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح ہدایت اورصحابہ کے عام اور معروف طریق کے خلاف ہوہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔دوسرے یہ کہ یہی واقعہ حدیث کی نہایت معتبر کتب صحیح مسلم اورسنن ابو دائود میں بیان ہوا ہے مگراس میں اُمِّ قِرفہ کے قتل کئے جانے کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے اور بعض دوسری تفصیلات میںبھی اس بیان کو ابن سعد وغیرہ کے بیان سے اختلاف ہے۔اور چونکہ صحیح احادیث عام تاریخی روایات سے یقینا اورمسلمہ طورپر بہت زیادہ مضبوط اورقابل ترجیح ہوتی ہیں۔اس لئے صحیح مسلم اورسنن ابودائودکی روایت کے سامنے ابن سعد وغیرہ کی روایت کوئی وزن نہیں رکھتی۔یہ امتیاز اوربھی نمایاں ہوجاتا ہے جب ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ جہاں ابن سعد اورابن اسحاق نے اپنی روایتوں کو یونہی بلاسند بیان کیا ہے وہاں امام مسلم اورابودائود نے اپنی روایتوں کو پوری پوری سند دی ہے اورویسے بھی محدثین کی احتیاط کے مقابلہ میں جنہوں نے انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مؤرخین کی عام روایت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
صحیح مسلم اورسنن ابودائودمیں یہ واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ اوپر درج کیا جاچکا ہے۔اس میں اُمِّ قِرفہ کے قتل کا ذکر تک نہیں ہے ۔بیشک مسلم اورابودائود کی روایت میں اُمِّ قِرفہ کا نام مذکور نہیں ہے اورامیر کانام بھی زید کی بجائے ابوبکر درج ہے مگراس کی وجہ سے یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مہم اور ہے کیونکہ باقی جملہ اہم تفصیلات ایک ہیں۔مثلاً:
۱- دونوں روایتوں میں یہ تصریح ہے کہ یہ مہم بنوفزارہ کے خلاف تھی۔
۲- دونوں میں یہ ذکر موجود ہے کہ بنوفزارہ کی رئیس ایک بوڑھی عورت تھی۔
۳- دونوں میں اس عورت کے قید کئے جانے کا ذکر ہے۔
۴- دونوں میں یہ ذکر ہے کہ اس عورت کی ایک لڑکی بھی تھی جو ماں کے ساتھ قید ہوئی۔
۵۔ دونوں میں یہ ذکر ہے کہ یہ لڑکی سلمہ بن اکوع کے حصہ میں آئی تھی۔
اس کے علاوہ اور بھی بعض باتوں میں اشتراک ہے ۔اب غور کرو کہ کیا ان اہم اور بنیادی اشتراکات کے ہوتے ہوئے کوئی شخص شبہ کر سکتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں ۔مگر ہم صرف عقلی استدلال پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ گذشتہ محققین نے بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ صحیح مسلم اورسنن ابودائود میں وہی واقعہ بیان ہوا ہے جو ابن سعدنے دوسرے رنگ میں درج کیا ہے۔چنانچہ علامہ زرقانی ۱؎ اورامام سہیلی ۲؎ اورعلامہ حلبی ۳؎ نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جو ابن سعد اور ابن اسحاق نے اُمِّ قِرفہ والے قصہ میں غلط طور پر بیان کیا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر اس بات کا ثبوت کہ یہ وہی واقعہ ہے یہ ہے کہ طبری نے ان دونوں روایتوں کو پہلو بہ پہلو بیان کر کے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی واقعہ ہیں۔ ۴؎
الغرض یہ بات بالکل یقینی ہے کہ مسلم اور ابوداؤد کی سلمہ بن اکوع والی روایت میں وہی واقعہ بیان کیا گیا ہے جسے ابن سعد اور ابن ہشام نے اُمِّ قِرفہ کے سریہ کے نام سے غلط طور پر درج کیا ہے اور چونکہ صحاح کی روایت جو سند کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور ایک شریکِ واقعہ کی زبان سے مروی ہے بہرحال ابن سعد اور ابن ہشام کی غیر مستند روایت سے قابل ترجیح ہے اس لئے اس بات میں ہر گز کوئی شبہ نہیں رہتا کہ اُمِّ قِرفہ کے’’ظالمانہ قتل‘‘کا واقعہ ایک بالکل جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ ہے جو کسی مخفی دشمن اسلام اور منافق کی مہربانی سے بعض تاریخی روایتوں میں راہ پا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس سریہ کی حقیقت اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں جو مسلم اور ابو داؤد نے بیان کی ہے ۔کسی غلط واقعہ کا تاریخ میں درج ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس قسم کی مثالیں ہر قوم اور ہر ملک کی تاریخ میں ملتی ہیں۔لیکن یہ ضرور ایک تعجب کی بات ہے کہ سرولیم جیسا انسان اس غلط واقعہ کو بغیر کسی تحقیق کے اپنی کتاب میں جگہ دے اور اس بات کا برملا اعتراف کرے کہ اس کے اندارج کی وجہ محض یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ایک ظالمانہ فعل کی مثال ملتی ہے۔
اہل خیبر کی شرارت اورابورافع یہودی کا قتل رمضان ۶ہجری مطابق جنوری ۶۲۸ء
جن یہودی رئوساء کی مفسدانہ انگیخت اور اشتعال انگیزی سے ۵ہجری کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگ احزاب کا خطرناک فتنہ برپا ہوا تھا
ان میں سے حیی بن اخطب توبنو قریظہ کے ساتھ اپنے کیفرکردار کوپہنچ چکا تھا،لیکن سلام بن ابی الحقیق جس کی کنیت ابورافع تھی ابھی تک خیبر کے علاقہ میں اسی طرح آزاداورا پنی فتنہ انگیزی میں مصروف تھا۔بلکہ احزاب کی ذلت بھری ناکامی اورپھر بنوقریظہ کے ہولناک انجام نے اس کی عداوت کواوربھی زیادہ کردیا تھا۔اورچونکہ قبائل غطفان کامسکن خیبر کے قریب تھا اورخیبر کے یہودی اورنجد کے قبائل آپس میں گویا ہمسائے تھے اس لئے اب ابورافع نے جو ایک بہت بڑاتاجراورامیرکبیر انسان تھادستور بنالیا تھا کہ نجد کے وحشی اورجنگجوقبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہتا تھااوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عداوت میں وہ کعب بن اشرف کاپوراپورا مثیل تھا۔ ۱؎ چنانچہ اس زمانہ میں جس کا ہم ذکر کررہے ہیں اس نے غطفانیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف حملہ آور ہونے کے لئے اموال کثیر سے ۲؎ امداد دی تھی۔اورتاریخ سے ثابت ہے کہ ماہ شعبان میں بنو سعد کی طرف سے جوخطرہ مسلمانوں کو پیدا ہوا تھا اوراس کے سدباب کے لئے حضرت علیؓکی کمان میں ایک فوجی دستہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا اس کی تہ میں بھی خیبر کے یہودیوں کاہاتھ تھا ۳؎ جوابورافع کی قیادت میں یہ سب شرارتیں کررہے تھے۔
مگرابورافع نے اسی پر بس نہیں کی۔اس کی عداوت کی آگ مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود اس کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا تھا۔چنانچہ بالآخر اس نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنگ احزاب کی طرح نجد کے قبائل غطفان اوردوسرے قبیلوں کاپھر ایک دورہ کرنا شروع کیا اورانہیں مسلمانوں کے تباہ کرنے کے لئے ایک لشکر عظیم کی صورت میں جمع کرنا شروع کردیا۔۱؎ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اورمسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے پھروہی احزاب والے منظر پھرنے لگ گئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ اب اس فتنہ کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی طرح اس فتنہ کے بانی مبانی ابورافع کاخاتمہ کردیا جائے۔ ۲؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات کو سوچتے ہوئے کہ ملک میں وسیع کشت وخون کی بجائے ایک مفسد اورفتنہ انگیز آدمی کا مارا جانا بہت بہتر ہے ان صحابیوں کو اجازت مرحمت فرمائی اور عبداللہ بن عتیک انصاری کی سرداری میں چار خزرجی صحابیوں کوابورافع کی طرف روانہ فرمایا۔مگر چلتے ہوئے تاکید فرمائی کہ دیکھنا کسی عورت یابچے کوہرگز قتل نہ کرنا۔ ۳؎ چنانچہ ۶ھ ۴؎ کے ماہ رمضان ۵؎ میں یہ پارٹی روانہ ہوئی اورنہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کرکے واپس آگئی۔اور اس طرح اس مصیبت کے بادل مدینہ کی فضا سے ٹل گئے۔اس واقعہ کی تفصیل بخاری میں جس کی روایت اس معاملہ میں صحیح ترین روایت ہے مندرجہ ذیل صورت میںبیان ہوئی ہے۔
’’براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک پارٹی ابورافع یہودی کی طرف روانہ فرمائی اوران پر عبداللہ بن عتیک انصاری کوامیر مقرر فرمایا۔ ابورافع کایہ قصہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوسخت دکھ دیا کرتا تھا اورآپؐ کے خلاف لوگوں کو ابھارتا تھا اوران کی مدد کیاکرتا تھا۔جب عبداللہ بن عتیک اوران کے ساتھی ابورافع کے قلعہ کے قریب پہنچے اورسورج غروب ہوگیا توعبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کوپیچھے چھوڑااورخود قلعہ کے دروازے کے پاس پہنچے اوراس کے قریب اس طرح چادر لپیٹ کربیٹھ گئے جیسے کوئی شخص کسی حاجت کے لئے بیٹھا ہو۔جب قلعہ کادروازہ بندکرنے والا شخص دروازہ پرآیا تواس نے عبداللہ کی طرف دیکھ کر آواز دی کہ اے شخص میں قلعہ کادروازہ بند کرنے لگا ہوں تم نے اندر آنا ہو تو جلد آجائو۔ عبداللہ چادر میں لپٹے لپٹائے جلدی سے دروازہ کے اندر داخل ہوکر ایک طرف کوچھپ گئے۔اوردروازہ بندکرنے والا شخص دروازہ بندکرکے اوراس کی کنجی ایک قریب کی کھونٹی سے لٹکا کرچلاگیا۔
اس کے بعد عبداللہ بن عتیک کااپنا بیان ہے کہ میں اپنی جگہ سے نکلا اورسب سے پہلے میں نے قلعہ کے دروازے کاقفل کھول دیا تاکہ ضرورت کے وقت جلدی اورآسانی کے ساتھ باہر نکلا جاسکے۔اس وقت ابورافع ایک چوبارے میں تھا اوراس کے پاس بہت سے لوگ مجلس جمائے بیٹھے تھے اورآپس میں باتیں کررہے تھے۔جب یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے اورخاموشی ہوگئی تومیں ابورافع کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ کراوپر چلا گیااورمیں نے یہ احتیاط کی کہ جودروازہ میرے راستہ میں آتا تھااسے میں آگے گزر کراندر سے بند کرلیتا تھا۔جب میں ابورافع کے کمرے میں پہنچاتواس وقت وہ چراغ بجھا کر سونے کی تیاری میں تھا اورکمرہ بالکل تاریک تھا۔میں نے آواز دے کر ابورافع کو پکارا۔ جس کے جواب میں اس نے کہا ۔کون ہے؟بس میں اس آواز کی سمت کا اندازہ کرکے اس کی طرف لپکااورتلوار کاایک زوردار وار کیا مگراندھیرا بہت تھا اور میں اس وقت گھبرایا ہوا تھا اس لئے تلوار کاوار غلط پڑااورابورافع چیخ مارکر چلایا جس پر میں کمرہ سے باہر نکل گیا۔تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کمرہ کے اندر جاکر اپنی آواز کوبدلتے ہوئے پوچھا۔ابورافع یہ شور کیسا ہوا تھا؟اس نے میری بدلی ہوئی آواز کونہ پہچانا اورکہا۔تیری ماں تجھے کھوئے مجھ پر ابھی ابھی کسی شخص نے تلوار کاوار کیا ہے۔میں یہ آواز سن کر پھر اس کی طرف لپکا اورتلوار کاوار کیا۔ اس دفعہ وار کاری پڑا مگر وہ مراپھربھی نہیں جس پر میں نے اس پرایک تیسرا وار کرکے اسے قتل کردیا۔
اس کے بعد میں جلدی جلدی دروازے کھولتا ہوا مکان سے باہر نکل آیا،لیکن جب میں سیڑھیوں سے نیچے اتررہا تھا توابھی چند قدم باقی تھے کہ میں سمجھا کہ میں سب قدم اتر آیا ہوں جس پرمیں اندھیرے میں گرگیااورمیری پنڈلی ٹوٹ گئی (اورایک روایت میں یوں ہے کہ پنڈلی کاجوڑ اترگیا) مگرمیں اسے اپنی پگڑی سے باندھ کر گھسٹتا ہواباہر نکل گیا،لیکن میں نے اپنے جی میں کہا کہ جب تک ابورافع کے مرنے کا اطمینان نہ ہوجائے میں یہاں سے نہیں جائوں گا چنانچہ میں قلعہ کے پاس ہی ایک جگہ چھپ کربیٹھ گیا۔جب صبح ہوئی توقلعہ کے اندر سے کسی کی آواز میرے کان میں آئی کہ ابورافع تاجرحجاز وفات پاگیا ہے۔
اس کے بعد میں اٹھا اورآہستہ آہستہ اپنے ساتھیوں میں آملااورپھر ہم نے مدینہ میں آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوابورافع کے قتل کی اطلاع دی۔آپؐ نے ساراواقعہ سن کر مجھے ارشاد فرمایا کہ اپناپائوں آگے کرو۔میں نے پائوں آگے کیا توآپؐ نے دعا مانگتے ہوئے اس پراپنا دست مبارک پھیرا جس کے بعد میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں تھی۔‘‘ ۱؎
ایک دوسری روایت میں ذکر آتا ہے کہ جب عبداللہ بن عتیک نے ابورافع پرحملہ کیا تو اس کی بیوی نے نہایت زور سے چلانا شروع کیا جس پر مجھے فکر ہوا کہ اس کی چیخ وپکار سن کر کہیں دوسرے لوگ نہ ہوشیار ہوجائیں اس پر میں نے اس کی بیوی پرتلوار اٹھائی مگر پھر یہ یاد کرکے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے میں اس ارادہ سے باز آگیا۔ ۲؎
ابورافع کے قتل کے جواز کے متعلق ہمیں اس جگہ کسی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ابورافع کی خون آشام کارروائیاں تاریخ کاایک کھلاہوا ورق ہیں اوراس سے ایک ملتے جلتے واقعہ میں ایک مفصل بحث کتاب کے حصہ دوم میں ۳؎ کعب بن اشرف کے قتل کے بیان میں گزر چکی ہے جس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں اصولاًاس قدر یاد رکھنا چاہئے کہ:
۱- اس وقت مسلمان نہایت کمزوری کی حالت میں چاروں طرف سے مصیبت میںمبتلا تھے اور ہر طرف مخالفت کی آگ شعلہ زن تھی۔اورگویا ساراملک مسلمانوں کو مٹانے کے لئے متحد ہورہا تھا۔
۲- ایسے نازک وقت میں ابورافع اس آگ پرتیل ڈال رہاتھا جومسلمانوں کے خلاف مشتعل تھی اور اپنے اثر اوررسوخ اوردولت سے عرب کے مختلف قبائل کواسلام کے خلاف ابھاررہا تھااوراس بات کی تیاری کررہا تھاکہ غزوۂ احزاب کی طرح عرب کے وحشی قبائل پھرمتحد ہوکر مدینہ پردھاوا بول دیں۔
۳- عرب میں اس وقت کوئی حکومت نہیں تھی کہ جس کے ذریعہ دادرسی چاہی جاتی بلکہ ہر قبیلہ اپنی جگہ آزاد اورمختار تھا۔پس سوائے اس کے کہ اپنی حفاظت کے لئے خود کوئی تدبیر کی جاتی اورکوئی صورت نہیں تھی۔
۴- یہودی لوگ پہلے سے اسلام کے خلاف برسرپیکار تھے اورمسلمانوں اوریہودیوں کے درمیان جنگ کی حالت قائم تھی۔
۵- اس وقت ایسے حالات تھے کہ اگر کھلے طورپر یہود کے خلاف فوج کشی کی جاتی تو اس سے جان اورمال کا بہت نقصان ہوتا اوراس بات کااندیشہ تھا کہ جنگ کی آگ وسیع ہوکر ملک میں عالمگیر تباہی کارنگ نہ پیدا کردے۔
ان حالات میں صحابہ نے جو کچھ کیا وہ بالکل درست اور بجا تھا اورحالت جنگ میں جب کہ ایک قوم موت وحیات کے ماحول سے گزر رہی ہو اس قسم کی تدابیر بالکل جائز سمجھی جاتی ہیں اورہر قوم اورہر ملت انہیں حسبِ ضرورت ہرزمانہ میں اختیار کرتی رہی ہے مگر افسوس ہے کہ موجودہ اخلاقی پستی کے زمانے میں مجرم کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ اس ناجائز حد تک پہنچ گیا ہے کہ ایک ظالم بھی ہیرو بن جاتا ہے اوروہ سزا جووہ اپنے جرموں کی وجہ سے پاتا ہے عوام کی ہمدردی کی جاذب ہونے لگتی ہے اور اس کے جرم لوگوںکوبھول جاتے ہیں مگر اسلام کے متعلق ہمیں اعتراف ہے کہ وہ ان جھوٹے جذبات کامذہب نہیں ہے وہ مجرم کومجرم قرار دیتا ہے اوراس کی سزا کوملک اورسوسائٹی کے لئے رحمت سمجھتا ہے۔وہ ایک سٹرے ہوئے عضو کوجسم سے کاٹ دینے کی تعلیم دیتا ہے اوراس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ ایک متعفن عضواچھے اورتندرست اعضاء کوخراب کردے۔باقی رہا طریق سزا کا سوال سو اس کے متعلق بتایا جاچکا ہے کہ عرب کے اس وقت کے حالات کے ماتحت اوراس حالتِ جنگ کے پیش نظر جواس وقت مسلمانوں اوریہودیوں کے درمیان قائم تھی جوطریق اختیار کیا گیا امن عامہ کے لحاظ سے وہی بہتر اورمناسب تھا۔چنانچہ ہم اس بارے میں ایک اصولی بحث کعب بن اشرف کے معاملہ میں حصہ دوم میں درج کرچکے ہیں جس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں۔
عبداللہ بن عتیک کی پنڈلی کے شفاپانے کے متعلق بخاری کی روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آیایہ شفا خارق عادت رنگ میں فوری طور پر وقوع میں آگئی تھی یایہ کہ آہستہ آہستہ اپنے طبعی کورس کو پورا کرکے ظاہر ہوئی۔مؤخرالذکر صورت میںیہ ایک عام واقعہ سمجھا جائے گا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کا اثرصرف اس قدر متصور ہوگا کہ آپؐ کی دعا کی برکت سے اس چوٹ نے کوئی مستقل اثر نہیں چھوڑا اورکوئی خراب نتیجہ نہیںنکلا بلکہ عبداللہ کی پنڈلی نے بالآخر اپنی اصلی اور پوری طاقت حاصل کرلی اورچوٹ کا اثر کلیتہً زائل ہوگیا،لیکن اگریہ شفاخارق عادت رنگ میں فوری طور پر وقوع میں آئی تھی تویقینا یہ واقعہ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کاکرشمہ تھا جواس نے اپنے رسولؐ کی دعا اور برکت کے نتیجہ میں ظاہر فرمایا اوراس صورت میں اس کی تشریح اس اصولی بحث کے نیچے آئیگی جو ہم اس کتاب کے حصہ دوم میں معجزہ کے عنوان کے تحت درج کرچکے ہیں ۱؎ اورجس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں۔صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ اسلام کی تعلیم کی رو سے خدا ہربات پر قادر ہے اورنہ صرف قادر ہے بلکہ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ وہ اپنی تقدیر عام کو بدل کر اپنی خاص قدرت کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے جیسا کہ ہر نبی کے زمانہ میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔صرف شرط یہ ہے کہ کوئی بات خدا کی سنت یاوعدہ یاصفت کے خلاف نہ ہو اوراس میں شہود کاایسا رنگ نہ پایا جائے جو ایمان کی غرض وغایت کوباطل کردے۔
ابورافع کے قتل کے زمانہ کے متعلق روایات میںاختلاف ہے۔بخاری نے زہری کی اتّباع میں اسے معیّن تاریخ دینے کے بغیر مطلقاًکعب بن اشرف کے قتل کے بعد بیان کیا ہے جوبہرحال درست ہے اور غالباًان واقعات کومتصل کرکے اس لئے بیان کیا ہے کہ ان کی نوعیت ایک سی ہے۔طبری نے اسے ۳ہجری میں کعب بن اشرف کے واقعہ کے بعد رکھا ہے۔واقدی نے ۴ہجری میں بیان کیا ہے۔ابن ہشام نے بروایت ابن اسحاق اسے مطلقاًغزوہ بنوقریظہ کے بعد رکھا ہے جواواخر۵ہجری میں ہوا تھا اور اس طرح اسے اوائل ۶ہجری میں سمجھا جاسکتا ہے۔مگر ابن سعد نے صراحتاً۶ہجری میں بیان کیا ہے اورعام مؤرخین نے ابن سعد کی اتباع کی ہے۔واللہ اعلم
مدینہ میںبارش کاقحط اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعائے استسقاء
اسی سال ماہ رمضان میں ۲؎ مدینہ اوراس کے گردنواح میں دیر تکبارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہونے لگے جس پرصحابہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوکر اپنی تکلیف بیان کی اوردرخواست کی کہ ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی جائے اس پر آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر مصلّٰی یعنی عیدگاہ میں تشریف لے گئے اوروہاں قبلہ رخ ہو کر بارش کے لئے دعا فرمائی اوراس کے بعد خدا کے فضل سے بہت جلد بارش ہوگئی۔ ۳؎ اس کے بعد اسلام میں استسقاء کی نماز کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔اس نماز کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میںعام نمازوں کی طرح امام مقتدیوں کے آگے توکھڑا ہوتا ہے مگرقولی دعا کے علاوہ جس میںانسانوں اورجانوروں کی تکلیف کا ذکر کرکے خدا سے بارش کی التجا کی جاتی ہے امام ایک چادر کے کونے پکڑ کر اسے اپنی پیٹھ پرڈالتا ہے اورپھراسے اس طرح الٹا دیتا ہے کہ چاروں کونے بدل جاتے ہیں ۱؎ جوگویا زبان حال سے اس بات کی استدعا ہوتی ہے کہ خدایا ہم پر یہ سختی کے دن پوری طرح بدل جائیں اورتیری وہ رحمت جوہر چیز کے پیچھے مخفی ہوتی ہے تکلیف کے ظاہری پہلوئوں کوکلی طورپر دباکرباہرآجائے۔
بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اورموقع پرجبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کے خطبہ کے لئے منبر پرچڑھے ہوئے تھے ایک صحابی نے موسم کی سختی کاذکر کرکے عرض کیا کہ’’یارسول اللہ! جانور مررہے ہیں اورسفرکٹھن ہورہے ہیں۔دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔‘‘آپؐ نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے اوربارش کے لئے بلند آواز سے دعافرمائی۔انس بن مالک جو اس روایت کے راوی ہیں اورجو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاص خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا،لیکن ابھی ہم مسجد میں ہی تھے اورجمعہ سے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ ایک طرف سے بادل کاایک چھوٹا ساٹکڑا نمودار ہوااورہمارے دیکھتے دیکھتے وہ سارے آسمان پر چھاگیا۔اورپھر بارش برسنے لگی اوربرابر ایک ہفتہ تک برستی رہی اوراس عرصہ میں ہم نے سورج کی شکل تک نہیں دیکھی(حالانکہ اس ملک میں ایسی صورت بہت شاذ ہوتی ہے)پھرجب دوسرا جمعہ آیاتو ایک شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ’’یارسول اللہ!بارش نے تو رستے روک دئے اورچراگاہوں کے غرقاب ہوجانے سے مویشی بھوکے مررہے ہیں دعافرمائیں کہ اب اللہ تعالیٰ اس بارش کے سلسلہ کوروک دے۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ ۲؎ اور پھر آپؐ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ:
اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلاَ عَلَیْنَا۔الخ
یعنی’’خدایااب ہم پر اس بارش کے سلسلہ کوبند فرمااوردوسری جگہ جہاں ضرورت ہووہاں برسا۔‘‘
انسؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تودھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ۳؎
اِسلام میں قبولیت دعا کا مسئلہ
اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بادل نہیں تھے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اوربادل آگئے اوربارش ہونے لگی اورپھر جب بارش کی کثرت ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بارش کے بند ہونے کی دعا فرمائی اوربادل چھٹ گئے اورمطلع صاف ہوگیا۔یعنی جب یہ باتیں عام قانون قدرت کے ماتحت ظہور پذیر ہوتی ہیں توپھر اس معروف ومشہور قانون قدرت کے خلاف یہ بات کیونکر ہوگئی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا سے بادل نمودار ہوگئے اورپھردعا سے ہی بادلوں نے پھٹ کر سورج کورستہ دے دیا؟سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ معاملہ قبولیت دعا کے مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے اوریہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہرمذہب میں اورہرزمانہ میں اس مسئلہ کو تسلیم کیا گیا ہے اورکم وبیش ہرقوم کے مذہبی بزرگوں کی زندگی میں قبولیت دعا کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔دراصل یہ مسئلہ اپنے بیشتر پہلوئوں میں معجزات کے مسئلہ کے ساتھ مربوط ہے جس کے متعلق ایک اصولی بحث کتاب کے حصہ دوم ۱؎ میں گزر چکی ہے اورہم اپنے ناظرین سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس نوٹ کے ساتھ کتاب کے حصہ دوم کے متعلقہ اوراق بھی ضرور ملاحظہ فرمالیں۔
دعا کا مسئلہ مشاہدہ سے تعلق رکھتا ہے
بات یہ ہے کہ ایسے امور میں استدلالی براہین کوزیادہ دخل نہیں ہوتا بلکہ بحث کامرکزی نقطہ یہ بات قرار پاتی ہے کہ
آیا دعائیں عملاًقبول ہوتی ہیں یانہیں اورآیا کوئی بات دعا کے نتیجہ میں عملاً وقوع میں آتی ہے یا نہیں۔اگردعا کی قبولیت کانتیجہ عملاً نظرآجائے اورایسی صورت میں نظر آئے کہ اس میں کسی قسم کی غلط فہمی کاامکان نہ ہو اورسمجھدار اورمعتبر اورصادق القول لوگوں کی ایک جماعت اس کی شاہد ہواورپھر مختلف قسم کے حالات میں ایسا مشاہدہ باربار کے تجربہ سے پایۂ ثبوت کوپہنچ جائے تو اس صورت میں کوئی عقل مند انسان اس کے متعلق شبہ نہیں کرسکتا۔جب ہم دوسرے امور میں معتبر لوگوں کی شہادت پراپنے فیصلہ کی بنیاد رکھتے ہیں اورساری دنیا اس طریق فیصلہ کوقبول کرتی ہے حتیٰ کہ سائنس کے جدید مشاہدات بھی خواہ ان میں کس قدر ہی غیرمتوقع اورعجیب وغریب حالات کا انکشاف ہوکم از کم ابتداًء سائنسدانوں کی شہادت کے ذریعہ ہی قبول کئے جاتے ہیں توکوئی وجہ نہیں کہ سمجھ داراورصادق القول لوگوں کی شہادت کے ہوتے ہوئے جو مختلف قوموں اورمختلف زمانوں میں یکساں پائی جاتی ہے۔دعا کی قبولیت اورمعجزات وخوارق کے وجود سے انکار کیا جائے۔
مسئلہ دعا اورسائنس کامشترکہ اصول
اوراگر یہ اعتراض کیاجائے کہ سائنس کی دریافتیں توایسی ہیں کہ ہرشخص جوان کا علم حاصل کرنا چاہے اورجورستہ اس
علم کے حصول کے لئے مقرر ہے اسے اختیار کرے اوران آلات اورذرائع کو استعمال میں لائے جوان امور کے معلوم کرنے یاتصدیق کرنے کے لئے ضروری ہیں تووہ انہیں معلوم کرسکتا ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ اے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو!خداتمہاری آنکھیں کھولے بعینہٖ یہی صورت دعااورمعجزات اورخوارق کے معاملہ میںبھی پائی جاتی ہے ۔یعنی ان پر بھی یہی ازلی قانون چسپاں ہوتا ہے کہ جو شخص ان کی حقانیت کے تجربہ کرنے کا سچا خواہش مند ہواوراس رستہ پر گامزن ہوجو اس علم کے حصول کا رستہ ہے اوران ذرائع کواستعمال کرے جو اس حقیقت کی دریافت کے لئے مقرر ہیں اور اس کوشش میں وہ کسی غلط رستہ کواختیار کرکے بھٹک نہ جائے توناممکن ہے کہ وہ ان صحیح نتائج تک پہنچنے سے محروم رہے جوہرسچے اورصحیح طریق پر کام کرنے والے کے لئے مقدر ہیں خواہ وہ سائنس کے میدان سے تعلق رکھتا ہو یاکہ روحانیت کے میدان سے۔کیونکہ دونوں کا منبع خدا کی ذات ہے اوردونوں ایک ہی ازلی حکومت کے نیچے ہیں مگرافسوس ہے کہ دنیا کے علوم کے متعلق تو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ بغیر صحیح کوشش اورصحیح جدوجہد کے حاصل نہیں ہوسکتے اوراس لئے وہ دن رات اس کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اوراپنی غلطیوں کی وجہ سے میدان میں صدہا ناکامیاں بھی دیکھتے ہیں مگرپھربھی ہمت نہیں ہارتے مگرروحانی میدان میں وہ صرف دل کی خواہش یامنہ سے نکل کر اُڑ جانے والے الفاظ سے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں اورجب اس طرح ان کی خواہش پوری نہیں ہوتی اوران کا مقصود انہیںحاصل نہیں ہوتا تووہ مایوس ہوکر اس خواہش کوہی خیرباد کہہ دیتے ہیں اور اس مقصود کوایک وہمی چیز قراردینے لگ جاتے ہیں یقینا کسی اہم مقصد کے حاصل کرنے کا یہ طریق نہیں۔قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’جولوگ ہمارے معاملہ میں پوری پوری اورصحیح صحیح کوشش کرتے ہیں ہم ضرور بالضرور ان کے لئے اپنے رستے کھول دیتے ہیں۔‘‘
اب ناظرین خود غورکریں کیا انہوں نے اس معاملہ میں پوری پوری اورصحیح صحیح کوشش سے کام لیاہے؟یعنی کیا انہوں نے کم از کم اس معاملہ میں ایسی کوشش کی ہے جووہ دنیا میں اہم مقاصد کے لئے کیا کرتے ہیں؟اگرانہوں نے ایسی کوشش نہیں کی اوریقینا نہیں کی تو انصاف کایہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی زبان اورقلم کوبندرکھیں اوران لوگوں کی شہادت کے متعلق حسن ظنی سے کام لیں جواس میدان میں اپنی زندگیاں وقف رکھتے ہیں اور جن کے حالات اس بات کے ضامن ہیں کہ وہ کم از کم مفتری یا مجنون نہیں۔
دعا کا مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کے مسئلہ کی فرع ہے
درحقیقت اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعی اس دنیا کا کوئی خدا ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اورجو اس سارے کارخانہ عالم کواپنے دست قدرت سے چلارہا ہے۔اگر توایسا خدا ہے اوروہ دنیا کو پیدا کرکے
اپنے عرش الوہیت سے معزول نہیں ہوگیا اورنہ ہی اس کی طاقتیں معطل ہوئی ہیںتوپھر دعا کا مسئلہ عقل مند کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔صرف سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی مخصوص دعا عملاًقبولیت کے درجہ کوپہنچی ہے یا نہیں اورآیا اس کا کوئی معین نتیجہ نکلا ہے یانہیں؟سو یہ بات مشاہدہ کے میدان سے تعلق رکھتی ہے جس میں استدلالی براہین کادخل نہیں۔مجھے اپنے اصل مضمون سے ہٹنا پڑتا ہے ورنہ میں سینکڑوںمثالیں دے کر ثابت کرسکتا ہوں ۲؎ کہ ہمارا خدا ایک نام کا بادشاہ نہیں اورنہ ہی وہ اپنے پیداکردہ قانون کاغلام ہے کہ اس میں کسی صورت میں بھی کوئی تبدیلی نہ کرسکے۔بیشک جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے وہ اپنی سنت اور وعدہ کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا مگر دوسری طرف وہ ایک زندہ اورمتصرف خدا ہے جواپنے بندوں کی دعائوں کوسنتا اوران پریقینی نتائج مترتب کرتا ہے۔مگر ظاہر ہے کہ جس طرح وہ اپنے قانون کاغلام نہیں اسی طرح وہ اپنے بندوں کابھی غلام نہیں اورضروری نہیں کہ ہر دعا کومنظور کرے۔بلکہ دعا کی منظوری بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے جنہیں ہم انشاء اللہ آگے چل کر درج کریں گے۔
اس اصولی نوٹ کے بعد ہم مسئلہ دعا کے متعلق اپنے ناظرین کی تنویر کے لئے چند قرآنی آیات اوراحادیث پیش کرتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ اس بارے میں اسلامی تعلیم کاخلاصہ کیا ہے سو جاننا چاہئے کہ دعا ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی کسی کوبلانے یاپکارنے کے ہیں اورگوپکارنے اور بلانے میںزیادہ غالب مفہوم سوال کرنے اورمانگنے کا ہوتا ہے مگر اپنے وسیع معنوں کے لحاظ سے دعا ہررنگ کاپکارنا شامل سمجھا جائے گا خواہ یہ پکارنا سوال یاطلب نصرت کی غرض سے ہو یاکسی اورغرض سے ہو۔مثلاًاگرکوئی شخص خدا کومحض اپنی محبت اورعبودیت کے جذبات کے اظہار کے لئے مخاطب کرتاہے تویہ بھی ایک نوع دعا کی ہے خواہ اس میں کوئی پہلو سوال یااستعانت کایہ پایاجائے ۔مگر ان وسیع معنوں کے علاوہ دعا کے لفظ کواصطلاحاًایک مخصوص اورمحدودمفہوم بھی حاصل ہوگیا ہے جوسوال کرنے اورمانگنے اورطلب نصرت سے تعلق رکھتا ہے اوراس جگہ یہی مؤخرالذکر مفہوم ہمارے مدنظر ہے۔
دعا کامیابی کاایک روحانی ذریعہ ہے
سب سے پہلے اسلام مسئلہ دعا کے متعلق یہ تعلیم دیتا ہے کہ دعاصرف ایک عبادت ہی نہیں ہے بلکہ حقیقی سوال
کارنگ بھی رکھتی ہے اوراللہ تعالیٰ حسب حالات اس سوال کوقبول کرتا اور اس پر نتیجہ مترتب فرماتا ہے۔اورمسلمانوں کویہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کبھی اس روحانی ہتھیار کی طرف سے غافل نہ ہوں بلکہ اسے ہمیشہ اپنے استعمال میں رکھیں۔دراصل اسلام میں دعا کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ جس طرح خدا نے دنیا میں مختلف مقاصد کے حصول کے لئے مختلف ذرائع مقرر فرمائے ہیں اورخدا کا یہ منشا ہے کہ لوگ حسب حالات ان ذرائع اوراسباب کو اختیار کریں اوران سے فائدہ اٹھائیں اوردنیا میں ساری ترقی کاراز انہی اسباب کے استعمال میں مخفی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے ان مادی اسباب کے علاوہ ایک روحانی سبب بھی مقرر فرمایا ہے اور یہ روحانی سبب دعا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کایہ منشا ہے کہ اس کے بندے اپنے کاموں میں ظاہری اورمادی ذرائع کے ساتھ ساتھ دعا یعنی روحانی ذریعہ کوبھی استعمال کریں۔اوراس منشاء الہٰی میں دوہری غرض مدنظر ہے۔
اوّل:یہ کہ تامحض مادی اسباب میں گھرے رہنے کی وجہ سے لوگوں کی نظر مادیّت کے ماحول میں محصور ہوکر نہ رہ جائے اوروہ ان مادی اسباب کوہی اپنا آخری سہارا نہ سمجھنے لگیں۔بلکہ ان اسباب کے ساتھ ساتھ ان اسباب کے پیدا کرنے والے خدا کوبھی یاد رکھیں جس کے سہارے پریہ سارے مادی اسباب قائم ہیں۔
دوم:یہ کہ تالوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوکہ جس طرح مختلف مقاصد میں کامیابی کے لئے بعض مادی اسباب مقرر ہیں اسی طرح خدا کی ازلی تقدیر نے ایک روحانی سبب بھی مقرر کررکھا ہے اور یہ روحانی سبب دعا ہے جوہمارے معاملات میں اسی طرح مؤثر ہے جس طرح کہ مادی اسباب مؤثر ہیں۔ البتہ جس طرح قانون قدرت کے ماتحت ہرمادی سبب کے استعمال کاایک طریق مقرر ہے اسی طرح روحانی سبب کے استعمال کابھی ایک طریق مقرر ہے جسے اختیار کرنے کے بغیر وہ مؤثر نہیں ہوتا،لیکن جب اس طریق کواختیار کرلیا جائے تویہ روحانی سبب مادی اسباب کی نسبت بھی زیادہ مؤثر ہوجاتا ہے کیونکہ گومادی اورروحانی اسباب ہردو کی تہ میں خدا ہی کا ہاتھ ہے اوروہی ہرچیز کی علت العلل ہے مگر چونکہ روحانی سبب میں گویا خداتعالیٰ سے براہ راست اپیل ہوتی ہے اس لئے اگر اس میں صحیح طریق کواختیار کیا جائے تووہ لازماًمادی اسباب کی نسبت بہت زیادہ قوی الاثر اور بہت زیادہ سریع الاثر اوربہت زیادہ وسیع الاثر ثابت ہوتا ہے۔
خدادعائوں کوسنتا اورقبول کرتا ہے
اس اصولی نوٹ کے بعد ہم مسئلہ دعا کے متعلق بعض قرآنی آیات اوراحادیث اس جگہ درج کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم
ہوسکے کہ اسلام اس بارے میں کیاتعلیم دیتا ہے۔سوقرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’تمہارا پروردگارتمہیں ہدایت فرماتا ہے کہ(جب بھی تمہیں کوئی ضرورت یاحاجت پیش آیا کرے)تم مجھے پکاراکرو۔میں تمہاری پکارکوسنوں گا اورقبول کروں گا،لیکن وہ لوگ جومیری عبادت سے تکبر کرتے ہیں (اوران کی گردنیں مجھے پکارنے کے لئے نیچی نہیں ہوسکتیں)وہ عنقریب ذلیل ورسوا ہوکر آگ کے عذاب میں داخل کئے جائیں گے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۲؎
یعنی اے رسول!جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے پوچھیں تو تو انہیں کہہ دے کہ میں (تم سب کے)قریب ہوں۔میں پکارنے والے کی آواز کوسنتا اوراس کا جواب دیتا ہوں(یعنی اسے قبول کرتا ہوں)مگر میرے بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری آواز پرکان دھریں اورمجھ پر سچا ایمان لائیں تاکہ وہ(اپنی دعائوں میں)کامیابی کا منہ دیکھ سکیں۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
۱؎
یعنی’’اے لوگو اپنے رب کوہر حال میں پکارا کرو خواہ تم اضطراب اورگھبراہٹ کی حالت میں آہ وپکار کررہے ہو یاضبط اورصبر کی حالت میں خاموش ہو۔اورجانو کہ خداحداعتدال سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا اورتمہیں چاہئے کہ بعد اس کے کہ خدا نے دنیا میں اس کی اصلاح کاسامان پیدا کردیا ہے،فساد نہ برپاکرو اوراپنے خدا کو خوف اورطمع ہرحالت میں پکارتے رہو(یعنی خواہ تمہیں کسی مصیبت سے رہائی پانے کی خواہش ہویاکسی بھلائی کے حاصل کرنے کی تمنا ہوہرحالت میں دعا کرتے رہو)یقینا خدا کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔‘‘
اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَیِّیٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیٖ مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا۔ ۲؎
یعنی’’اے مسلمانو!تمہارا رب شرمیلا اوربخشش کرنے والا آقا ہے۔وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ جب کوئی بندہ اس کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے تووہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان دلربائی ہے۔
کافروں کی دعائیں
مگر اس کے مقابل پرکافروں کی دعائوں کے متعلق فرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’بے شک خدا اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھو کہ ہر شخص کی ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے بلکہ خدا کا یہ قانون ہے کہ ناشکرگزار لوگوں کی دعائیں یاکافروں کی دعائیںجووہ نیک لوگوں کے خلاف مانگتے ہیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ یونہی ادھرادھر بھٹک کرضائع ہوجاتی ہیں۔‘‘
خدا اپنے وعدے اورسنت کے خلاف دعاقبول نہیںکرتا
اور ایک اَور جگہ فرماتا ہے:
۱؎ ۲؎
یعنی’’اللہ تعالیٰ کسی صورت میں اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا…اورتم خدا کی سنت میں کبھی کسی قسم کی تبدیلی نہیں پائو گے۔‘‘
پھرحدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔ ۳؎
یعنی’’دعا کوعبادت میں وہ درجہ حاصل ہے جو ایک ہڈی میںگودے کوحاصل ہوتا ہے جو گویاہڈی کی جان ہوتا ہے۔‘‘پس جس عبادت میں دعا کاعنصر شامل نہیں وہ ایک بے جان جسم سے بڑھ کر نہیں۔
مومن کی دعا خدائی تقدیر کوبھی بدل سکتی ہے
پھرفرماتے ہیں:
لاَ یَرُدُّ الْقَضَائَ اِلاَّالدُّعَائُ۔ ۴؎
یعنی’’لوگو!سن لو کہ دعا کووہ طاقت حاصل ہے کہ وہ خدائی قضاء قدر کو بھی بدل دیتی ہے۔یعنی اگر عام قانون وقدر کے ماتحت کسی فرد یا قوم پرکوئی مصیبت آنے والی ہوتی ہے تودعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص حکم سے اس مصیبت کوٹال سکتا ہے۔‘‘اس جگہ وہ لوگ غورکریں جودعا کو محض عبادت خیال کرتے ہیں۔
دعا کی قبولیت کی تین امکانی صورتیں
پھرفرماتے ہیں:
مَامِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْبِدَعْوَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا اِثْمٌ وَلاَ قَطِیْعَۃُ رِحْمٍ اِلاَّاَعْطَاہُ اللّٰہُ بِھَا اِحْدٰی ثَلاَثٍ اِمَّا یُعَجِّلُ لَہٗ دَعْوَتَہٗ وَاِمَّا اَنْ یَدْخِرَھَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ وَاِمَّا اَنْ یَصْرِفَ عَنْہُ مِنَ السُّوئِ مِثْلَھَا۔ ۱؎
یعنی’’جب ایک مسلمان خدا سے کوئی دعا کرتا ہے توبشرطیکہ وہ دعا کسی گناہ یاقطع رحمی پرمشتمل نہ ہو خد ا اسے تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت میں ضرور قبول فرمالیتا ہے یعنی(۱)یا تووہ اسے اسی صورت میں اسی دنیا میں قبول کرلیتا ہے اور(۲)یااسے آخرت کے لئے دعا کرنے والے کے واسطے ذخیرہ کرلیتا ہے اور(۳)یا(اگراس کا قبول کرنا کسی سنت الہٰی یامصلحت الہٰی کے خلاف ہو تو)اس کی وجہ سے دعا کرنے والے سے کسی ملتی جلتی تکلیف یابدی کودور فرمادیتا ہے۔‘‘قبولیت دعا کی ان تین امکانی صورتوں کے ہوتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی؟
دعا میں جلد بازی مہلک ہے
پھرفرماتے ہیں:
اِنَّہٗ ُیسْتَجَابُ لِاَحَدِکُمْ مَالَمْ یُعَجِّلْ فَیَقُوْلُ قَدْدَعَوْتُ رَبِّیْ فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِیْ۲؎ وَفِی رِوَایَۃٍ مَالَمْ یَسْتَعْجِلْ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاالْاِسْتِعْجَالُ قَالَ یَقُوْلُ قَدْدَعَوْتُ وَقَدْدَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرْعِنْدَذٰلِکَ وَیَدَعُ الدُّعَائَ۔ ۳؎
یعنی’’دعا میں لمبے صبرواستقلال کی ضرورت ہوتی ہے اورجو انسان جلد بازی سے کام نہیں لیتا وہ بالآخر اپنی دعا کا پھل ضرور حاصل کرلیتا ہے۔ہاں اگر وہ خود تھک کر یہ کہنے لگ جائے کہ میں نے تو بہت دعائیں کرکے دیکھ لیا ہے خدا نے میری کوئی نہیں سنی اورپھر وہ اس خیال کے ماتحت دعا چھوڑ بیٹھے توایسے شخص کی دعا واقعی قبول نہیں ہوتی۔‘‘
غافل دل کی دعا قبول نہیں ہوتی
پھرفرماتے ہیں:
اُدْعُوا اللّّٰہَ وَاَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالْاِجَابَۃِ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَجِیْبُ دَعَائً مِّنْ قَلْبِ غَافِلٍ لاَہٍ۔ ۴؎
یعنی’’جب تم دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ خدا تمہاری دعا کو ضرور سنے گا۔اوریاد رکھو کہ خدا ایسے دل سے نکلی ہوئی دعا ہرگز نہیںسنتا جوغافل اوربے پروا ہے۔‘‘
دعا میں معین درخواست ہونی چاہئے
پھرفرماتے ہیں:
اِذَادَعَا اَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمِ الْمَسْئَلَۃَ وَلاَ یَقُوْلَنَّ اللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ فَاعْطِنِیْ فَاِنَّہٗ لاَ مُسْتَکْرِہٗ لَہٗ۔ ۱؎
یعنی’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرنے لگے تواسے چاہئے کہ اپنے سوال پرپختگی سے قائم ہو اورایسے الفاظ استعمال نہ کرے کہ خدایا اگرتوپسند کرے تومیری اس دعا کو قبول کرلے کیونکہ خدا تو بہرحال اسی صورت میں قبول کرے گا کہ وہ اسے پسند کرے گا کیونکہ خدا سب کا حاکم ہے اوراس پر کسی کادبائو نہیں۔پس خواہ نخواہ مشروط یاڈھیلے ڈھالے الفاظ کہہ کر اپنی دعا کے زور اوراپنے دل کی توجہ کوکمزور نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ آخری ارشاد علم النفس کے ایک بھاری اورپختہ اصول پر مبنی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ دعا کے لئے توجہ اورانہماک اوراستغراق کی کیفیت ضروری ہے اوریہ کیفیت اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ جب دعا کرنے والا عزم اوریقین کے ساتھ ایک بات پر قائم ہو کر کسی چیزکاسوال کرے،لیکن اگر وہ اس قسم کے الفاظ کہے کہ خدایا تواگرچاہے تومیری یہ بات مان لے تو اس صورت میں اس کے اندر کبھی بھی وہ توجہ اوروہ استغراق کارنگ پیدا نہیں ہوسکتا جو دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہرحال خداانسان کے ماتحت تو ہے نہیں کہ ہر چیز جوانسان مانگے تووہ ضرور اسے دے دے اورانکارکی طاقت نہ رکھتا ہو بلکہ وہ ایک حکمران خدا ہے اوراپنے مصالح کے ماتحت قبول کرنے اوررد کرنے ہردو کی طاقت رکھتا ہے توپھر انسان کیوں اپنے دل میں ایک شک کی حالت پیدا کرکے اس عزم اورتوجہ اوراستغراق کے مقام سے متزلزل ہوجو سوال میں کشش اور قوت جذب پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔
خدا پر ہمیشہ نیک گمان رکھو
اس اصول کی تشریح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:
اَنَاعِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ ۲؎
یعنی’’خدا فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں۔‘‘
یہ نکتہ بھی بے شمار کامیابیوں کی کلید ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔بہرحال دعا کے لئے عزم اوریقین کی کیفیت ضروری ہے اورعام حالات میں شک کے الفاظ میں دعاکرنا جائز نہیں مگریہ عدم جوازاسی صورت میں ہے کہ دعا کرنے والا عدم یقین یا عدم توجہ کی وجہ سے ایسا طریق اختیار کرے لیکن اگروہ خاص حالات میں توجہ اوریقین کے مقام پر قائم رہتے ہوئے پھر کسی معاملہ میں اپنے فیصلہ کو خدا پر چھوڑ دے اوراس کی وجہ سے اس کی حالت میں بے اعتمادی یا بے توجہی یاعدم یقین کارنگ پیدا نہ ہو بلکہ توکل علی اللہ اورتفویض الی اللہ کارنگ ہوتو ایسی صورت میںاس طریق پردعا کرنا بھی ناجائز نہیں ہوگا۔
دعا کے متعلق اسلامی تعلیم کاخلاصہ
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے مسئلہ دعا کے متعلق مندرجہ ذیل اصولی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
۱- ہرمسلمان کافرض ہے کہ وہ ہرحال میں خدا سے دعا کرتا رہے خواہ اسے خوف کی حالت درپیش ہویاطمع کی خواہ وہ تنگی کی حالت میں ہو یاآرام میں۔خواہ وہ کسی مصیبت سے بچنا چاہتا ہو یاکسی بھلائی کے حاصل کرنے کاآرزومند ہو۔
۲- دعا ہرحالت میں ہونی چاہئے تضرع کی حالت میں بھی اورخفیہ حالت میںبھی۔یعنی اس وقت بھی کہ جب انسان پرافکار کاایسا ہجوم ہو کہ وہ اپنے جذبات کوقابو میں نہ رکھ سکتا ہو اور وہ پھوٹ پھوٹ کر باہر آتے ہوں اوراس وقت بھی کہ جب وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر صبراورخاموشی کے ساتھ اپنی التجا کو پیش کرسکتاہو۔
۳- دعا کی قبولیت کے لئے سچا ایمان اورنیکی اورطہارت اوراطاعت اورعبودیت ضروری ہیں۔ جولوگ خدا کی آواز پر کان دھرتے ہیں خدا بھی ان کی آواز کو زیادہ توجہ اورزیادہ محبت کے ساتھ سنتاہے۔
۴- ناشکر لوگوں کی دعائیں جوخدا کے انعاموں پر شکرگزاری کاطریق اختیار نہیں کرتے اورنیز ان لوگوں کی دعائیں جوخدائی نظام کے باغی ہیں درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتیں بلکہ صداے صحرا کی طرح فضا میں گونج کر ختم ہوجاتی ہیں۔
۵- دعا میں یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ خدائی قضا وقدرکوبھی بدل سکتی ہے یعنی اگرخدا کے عام قانون قدرت کے ماتحت کوئی بات ہونے والی ہو اورپھر اس کا کوئی پاک بندہ اس سے اس بات کے ٹل جانے کی دعا کرے توخدا تعالیٰ اپنی اس عام تقدیر کوبدل کر اپنے بندے کی دعا کے مطابق خاص تقدیر جاری کردیتا ہے۔
۶- مگر خدا کایہ ازلی فیصلہ ہے کہ وہ اپنی کسی سنت یاوعدہ کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا۔پس ایسی دعائیں جواس کی کسی سنت یاوعدہ کے خلاف ہوں قبول نہیں ہوتیں۔اسی طرح ایسی دعائیں جوگناہ یاقطع رحمی کادروازہ کھولتی ہوں قبول نہیں ہوتیں۔
۷- دعا کے لئے جلد بازی سُمِّ قاتل ہے بلکہ صبراوراستقلال کے ساتھ دعا میں لگے رہنا چاہئے جو لوگ کچھ وقت دعا کرکے پھرتھک جاتے اوراس قسم کے الفاظ بولنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کرکے دیکھ لیا خدا ہماری نہیںسنتا ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
۸- دعا میں شک یاعدم یقین یامایوسی کے الفاظ ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ یقین اورعزم کے ساتھ یہ امید رکھتے ہوئے کہ خدا ہماری سنے گا دعا کرنی چاہئے۔
۹- خدا دعا قبول کرنے یاردّ کرنے میں آزاد ہے ۔اس پر کسی کا دبائو یاجبر نہیں۔جب وہ کسی دعا کو قبولیت کے قابل خیال کرتا ہے تواسے قبول کرتا ہے اورجب قبولیت کے قابل نہیں سمجھتا تو اسے ردّ کردیتا ہے۔مگربظاہر ردّ کرنے کی صورت میں بھی اگر دعا کرنے والا مستحق ہے تو خدا کسی اوررنگ میں اس کی تلافی فرمادیتا ہے خواہ اسی دنیا میں خواہ آخرت میں۔
۱۰- دعاتمام عبادتوں کی جان اورروح رواں ہے اورجو عبادت دعا سے خالی ہے وہ اس ردّی اور کھوکھلی ہڈی کی طرح ہے جوگودے سے خالی ہو۔
اس نوٹ کو ختم کرنے سے پہلے یہ ذکربھی ضروری ہے کہ اسلام نے نہ صرف دعا کے مسئلہ کو تشریح اورتفصیل کے ساتھ بیان کرکے اس پر خاص زور دیا ہے بلکہ مسلمانوں کودعا کا عملی سبق دینے اوردعا کا عادی بنانے کے لئے انسان کی ہرحرکت وسکون کے ساتھ کوئی نہ کوئی دعامقرر کردی ہے تاکہ اس کی کوئی گھڑی خدا کی یاد سے خالی نہ رہے مثلاًکسی کے پیدا ہونے،کسی کے وفات پانے،مسجد میں داخل ہونے، مسجد سے نکلنے،سفر میں جانے،سفرسے واپس آنے،سواری پرچڑھنے،سواری سے اترنے، کھاناشروع کرنے،کھانا ختم کرنے،بستر پر جانے،بستر سے اٹھنے،پہاڑی پر چڑھنے،وادی میں اترنے،دوستوں سے ملنے،دوستوں سے جداہونے،شادی کرنے،بیوی سے ملنے،نیاچاند دیکھنے، بارش کے برسنے،بارش کے رکنے،آندھی کے چلنے،گھرسے نکلنے،گھرمیں داخل ہونے،موسم کا پہلا پھل کھانے،بیمارکی تیمارداری کرنے،کسی مسلمان کی نعش کے پاس جانے،کسی مسلمان کو دفن کرنے، غرض زندگی کے ہرحرکت وسکون کوکسی نہ کسی دعا کے ساتھ وابستہ کردیا ہے اوریہ دعا محض رسمی دعا نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی زندہ چیز ہے جوایک سچا مسلمان کامل یقین اورحضور قلب کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔کاش دنیا اس عظیم الشان خزانہ کی قدر کرے۔
اہل خیبر کی طرف سے مزید خطرہ اورقتل اُسَیر بن رِزام شوال ۶ہجری
ابورافع سلام بن ابی الحقیق کے قتل کے بعد خیبر کے یہودیوں نے اپنی سرداری کاتاج ایک ایسے شخص کے سر پر رکھا جواسلام کی عداوت میں ابورافع سے کم نہیں تھا۔اس
شخص کا نام اُسیر بن رزام تھا۔ ۱ ؎ اس ظالم نے اپنے نئے عہدہ پر فائز ہوتے ہی اس کام کی تکمیل کا تہیہ کرلیا جسے ابورافع ادھورا چھوڑ کر مرگیاتھا۔چنانچہ سب سے پہلا کام اُسیر نے یہ کیا کہ تمام یہودیوں کو ایک جگہ جمع کرکے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ایک سخت اشتعال انگیز تقریر کی اورکہا کہ اب تک یہودی رئوساء نے جو تدابیر اسلام کے خلاف اختیار کی ہیں وہ درست نہیں تھیں۔اب میں ایک نیا طریقہ اختیارکروں گا اور قبائل غطفان وغیرہ کی مدد سے ایک ایسی چال چلوںگا کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے گھرکی بنیاد میں نقب لگ جائے گی ۲؎ اس کے بعد اس بدبخت نے نجدی قبائل غطفان وغیرہ کادورہ کرناشروع کیا اوراپنی اشتعال انگیز تقریروں سے ان میں ایسی آگ لگادی کہ وہ پھر حملہ آور ہونے کے لئے جمع ہونے لگے۔ ۳ ؎
جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان حالات سے اطلاع ہوئی توآپؐ نے فوراًاپنے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن رواحہ کوتین دوسرے صحابیوں کی معیت میں خیبر کی طرف روانہ فرمایا اور انہیں تاکید فرمائی کہ خفیہ خفیہ جائیں اورسارے حالات معلوم کرکے جلد ترواپس آجائیں۔ ۴؎ چنانچہ عبداللہ بن رواحہ اوران کے ساتھی گئے اورخفیہ خفیہ تمام حالات اورکوائف کاپتہ لے کر اوریہ تصدیق کرکے کہ یہ خبریں درست ہیں واپس آگئے۔بلکہ عبداللہ بن رواحہ اوران کے ساتھیوں نے ایسی ہوشیاری سے کام لیا کہ خیبر کے قلعوں کے آس پاس گھوم کراوراُسیر بن رزام کی مجلس گاہوں کے پاس پہنچ کرخود اُسیر اوراس کے ساتھیوں کی زبانی یہ سن لیا کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف یہ یہ تدبیریں کررہے ہیں۔۱؎ انہی دنوں میں ایک غیرمسلم شخص خارجہ بن حُسَیل اتفاقاًخیبر کی طرف سے مدینہ میں آیا اوراس نے بھی عبداللہ بن رواحہ کی تصدیق کی اورکہا کہ میں اُسیر کوایسی حالت میں چھوڑ کرآیا ہوں کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لئے اپنے لائو لشکر کوجمع کررہا تھا۔۲؎
اس تصدیق کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ کی امارت میں تیس صحابہ کی ایک پارٹی خیبر کی طرف روانہ فرمائی اورگوروایات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پارٹی کوکیا ہدایات دے کر روانہ فرمایا تھا مگراس گفت وشنید سے جو خیبر میں عبداللہ بن رواحہ اوراُسیر بن رزام میں ہوئی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشا یہ تھا کہ اُسیر کومدینہ میں بلا کر اس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ کیا جائے جس سے اس فتنہ انگیزی کا سلسلہ رک جائے اورملک میں امن وامان کی صورت پیدا ہو۔اس خواہش میں آپؐاس حد تک تیار تھے کہ اگراُسیر کوخیبر کے علاقہ کاامیر تک تسلیم کرنا پڑے توتسلیم کرلیا جائے بشرطیکہ آئندہ کے لئے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی فتنہ انگیزی سے باز آجائے۔۳؎
جب عبداللہ بن رواحہ کی پارٹی خیبر میں پہنچی توسب سے پہلے انہوں نے اُسیر بن رزام سے دوران گفتگو کے لئے امن وامان کاعہد لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت خطرہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ کہیں اس گفت وشنید کے درمیان ہی اُسیر کی طرف سے کوئی غداری کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔ اُسیر نے اقرار کیا کہ ایسا نہیں ہوگا مگر ساتھ ہی اپنی شرم رکھنے کے لئے اسی قسم کاعہد عبداللہ بن رواحہ سے بھی لیا ۔ ۴؎ مگرعبداللہ بن رواحہ کی طرف سے اس معاملہ میں پہل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اصل خطرہ کس کی طرف سے تھا۔بہرحال اس قول وقرار کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے اُسیر سے گفتگو شروع کی جس کا مال یہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمہارے ساتھ ایک امن وامان کامعاہدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ آپس کی جنگ رک جائے اوراس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ تم خود مدینہ میں چل کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بالمشافہ بات کرو۔ اگر اس قسم کا معاہدہ ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ رسول ؐاللہ تمہارے ساتھ احسان کامعاملہ کریں گے اورممکن ہے کہ تمہیں خیبر کا باقاعدہ رئیس تسلیم کرلیا جائے۔ ۱؎ اُسیر کوجو سخت جاہ طلب تھا،یایہ بھی ممکن ہے کہ اس کے دل میں کوئی اورنیت مخفی ہویہ تجویز پسند آئی اورکم از کم اس نے یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ تجویز پسند ہے مگر ساتھ ہی اس نے خیبر کے یہودی عمائد کوجمع کرکے ان سے مشورہ مانگا کہ مسلمانوں کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی ہے اس کے متعلق کیا کیا جائے۔یہود نے جو اسلام کے خلاف عامیانہ عداوت میںاندھے ہو رہے تھے عام طور پر اس تجویز کی مخالفت کی اوراُسیر کواس ارادے سے باز رکھنے کی غرض سے کہا کہ ہمیں امید نہیں کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) تمہیں خیبر کا امیر تسلیم کریں۔مگر اُسیر جو حالات سے زیادہ واقف تھا اپنی بات پر قائم رہا اورکہنے لگا’’تم نہیں جانتے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )اس جنگ سے تنگ آیا ہوا ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ جس طرح ہواس لڑائی کاسلسلہ رک جائے۔۲؎
الغرض اُسیر بن رزام عبداللہ بن رواحہ کی پارٹی کے ساتھ مدینہ چلنے کے لئے تیار ہوگیا اور عبداللہ بن رواحہ کی طرح خود اس نے بھی تیس یہودی اپنے ساتھ لے لئے۔ ۳؎ جب یہ دونوں پارٹیاں خیبر سے نکل کر ایک مقام قرقرہ میںپہنچیں جوخیبر سے چھ میل کے فاصلہ پرتھا۔۴؎ تواُسیر کی نیت بدل گئی یا اگر اس کی نیت پہلے سے خراب تھی تویوں سمجھنا چاہئے کہ اس کے اظہار کا وقت آگیا۔چنانچہ اس نے باتیں کرتے کرتے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کی پارٹی کے ایک معزز فرد عبداللہ بن انیس انصاری کی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا۔عبداللہ فوراًتاڑ گئے کہ اس بدبخت کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔۵؎ چنانچہ انہوں نے جھٹ اپنی اونٹنی کوایڑ لگا کر اسے آگے کرلیا اورپھر اُسیر کی طرف گھوم کر آواز دی کہ’’اے دشمن خدا کیا تم ہمارے ساتھ غداری کرنا چاہتے ہو؟‘‘عبداللہ بن انیس نے دودفعہ یہ الفاظ دہرائے۔مگراُسیر نے کوئی جواب نہیں دیا ۶؎ اورنہ ہی اس نے اپنی کوئی بریت کی بلکہ وہ سامنے سے جنگ کے لئے تیار تھا۔یہ غالباًیہودیوں میں پہلے سے مقررشدہ اشارہ تھا کہ ایسا موقع آئے توسب مل کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔چنانچہ اسی جگہ عین راستہ میں مسلمانوں اوریہودیوں میں تلوار چل گئی۔اورگو دونوں پارٹیاں تعداد میں برابر تھیں اوریہودی لوگ پہلے سے ذہنی طور پر تیار تھے اور مسلمان بالکل بے ارادہ تھے مگر خداکاایسا فضل ہوا کہ بعض مسلمان زخمی تو بیشک ہوئے مگر ان میں سے کسی جان کا نقصان نہیں ہوا،لیکن دوسری طرف سارے یہودی اپنی غداری کامزا چکھتے ہوئے خاک میںمل گئے۔ ۱؎
جب صحابہ کی یہ پارٹی مدینہ میں واپس پہنچی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوحالات سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے مسلمانوں کے صحیح سلامت بچ جانے پر خدا کا شکر کیا اورفرمایا:
قَدْنَجَاکُمُ اللّٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔۲؎
’’شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اس ظالم پارٹی سے نجات دی۔‘‘
اس واقعہ کے متعلق بعض مسیحی مؤرخین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ گویا عبداللہ بن رواحہ کی پارٹی اُسیر وغیرہ کو خیبر سے اسی نیت سے نکال کر لائی تھی کہ رستہ میں موقع پاکر انہیں قتل کردیا جائے۔مگر یہ اعتراض مغربی سینہ زوری کے ایک ناگوار مظاہرہ کے سواکچھ حقیقت نہیں رکھتا۔کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے تاریخ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مسلمان اس نیت سے وہاں گئے تھے، بلکہ غور کیا جاوے تو قطع نظر دوسرے شواہد کے صرف عبداللہ بن انیس کے یہ الفاظ ہی کہ’’اے دشمن خدا!کیاغداری کی نیت ہے؟‘‘اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ’’شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اس ظالم پارٹی سے نجات دی۔‘‘اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مسلمانوں کی نیت بالکل صاف اورپرامن تھی اورجو کچھ ہواوہ محض اس غداری کانتیجہ تھا جویہودی لوگ حسب عادت مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے مگر جسے خدا نے اپنے فضل سے خود انہی پرالٹادیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی سازش اور سریہ عمرو بن امیہ شوال۶ہجری
غزوۂ احزاب کی ذلت بھری ناکامی کی یاد نے قریش مکہ کے تن بدن میں آگ لگا رکھی تھی اورطبعاً یہ قلبی آگ زیادہ تر ابوسفیان کے حصہ میں آئی تھی
جومکہ کارئیس تھا اوراحزاب کی مہم میں خاص طور پر ذلت کی مار کھاچکا تھا۔کچھ عرصہ تک ابوسفیان اس آگ میں اندر ہی اندر جلتا رہا مگربالآخر معاملہ اس کی برداشت سے نکل گیا اوراس آگ کے مخفی شعلے باہر آنے شروع ہو گئے۔ طبعاًکفار کی سب سے زیادہ عداوت بلکہ درحقیقت اصل عداوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھی۔ اس لئے اب ابوسفیان اس خیال میں پڑ گیا کہ جب ظاہری تدبیروں اورحیلوں کاکوئی نتیجہ نہیںنکلا توکیوں کسی مخفی تدبیر سے محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کاخاتمہ نہ کردیا جائے۔وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اردگرد کوئی خاص پہرہ نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات آپؐ بالکل بے حفاظتی کی حالت میں ادھر ادھر آتے جاتے۔شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے۔مسجد میںروازنہ کم از کم پانچ وقت نمازوں کے لئے تشریف لاتے اورسفروں میںبالکل بے تکلفانہ اورآزاد طورپر رہتے ہیں۔اس سے زیادہ اچھا موقع کسی کرایہ دار قاتل کے لئے کیا ہوسکتا تھا؟یہ خیال آنا تھا کہ ابوسفیان نے اندر ہی اندر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز پختہ کرنی شروع کردی۔
جب وہ پورے عزم کے ساتھ اس ارادے پر جم گیا تواس نے ایک دن موقع پاکر اپنے مطلب کے چند قریشی نوجوانوں سے کہا کہ ’’کیا تم میں سے کوئی ایسا جوانمرد نہیں جو مدینہ میں جاکر خفیہ خفیہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا کام تمام کردے؟تم جانتے ہو کہ محمد کھلے طور پر مدینہ کی گلی کوچوں میں پھرتا ہے۔‘‘ان نوجوانوں نے اس خیال کو سنا اورلے اڑے۔ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بدوی نوجوان ابوسفیان کے پاس آیا اورکہنے لگا ’’میں نے آپ کی تجویز سنی ہے اورمیں اس کے لئے حاضر ہوں۔میں ایک مضبوط دل والا اورپختہ کار انسان ہوں جس کی گرفت سخت اورحملہ فوری ہوتا ہے۔اگرآپ مجھے اس کام کے لئے مقرر کرکے میری مدد کریں تو میں محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کوقتل کرنے کی غرض سے جانے کے لئے تیار ہوں۔اورمیرے پاس ایک ایسا خنجر ہے جوشکاری گدھ کے مخفی پروں کی طرح رہے گا۔سومیں محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) پر حملہ کروں گا اورپھر بھاگ کر کسی قافلہ میں مل جائوں گا اورمسلمان مجھے پکڑ نہیں سکیں گے۔اورمیں مدینہ کے رستے کا بھی خوب ماہر ہوں۔‘‘ ابوسفیان نے کہا۔’’بس بس تم ہمارے مطلب کے آدمی ہو۔‘‘اس کے بعد ابوسفیان نے اسے ایک تیز رواونٹنی اورزادِراہ وغیرہ دے کر رخصت کیا اورتاکید کی کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا۔ ۱ ؎
مکہ سے رخصت ہوکر یہ شخص دن کو چھپتا ہوا اوررات کو سفر کرتا ہوا مدینہ کی طرف روانہ ہوا اور چھٹے دن مدینہ پہنچ گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پتہ لیتے ہوئے سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پہنچاجہاں آپؐ اس وقت تشریف لے گئے ہوئے تھے۔چونکہ ان ایام میں نئے سے نئے آدمی مدینہ میں آتے رہتے تھے اس لئے کسی مسلمان کواس کے متعلق شبہ نہیں ہوا۔مگر جونہی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا آپؐنے فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے۔وہ یہ الفاظ سن کر اوربھی تیزی کے ساتھ آپؐ کی طرف بڑھا مگر ایک انصاری رئیس اُسید بن حضیر فوراًلپک کر اس کے ساتھ لپٹ گئے اوراس جدوجہد میں ان کا ہاتھ اس کی چھپی ہوئی خنجر پر جاپڑاجس پر وہ گھبرا کر بولا۔’’میرا خون میرا خون۔‘‘ جب اسے مغلوب کرلیاگیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ’’سچ سچ بتائو تم کون ہو اورکس ارادے سے آئے ہو؟‘‘اس نے کہا میری جان بخشی کی جائے تو میں بتا دوں گا۔آپؐ نے فرمایا ہاں اگر تم ساری بات سچ سچ بتادو توپھر تمہیں معاف کردیا جائے گا۔جس پر اس نے سارا قصہ من وعن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا اوریہ بھی بتایا کہ ابوسفیان نے اس سے اس اس قدر انعام کاوعدہ کیا تھا۔اس کے بعد یہ شخص چند دن تک مدینہ میں ٹھہرا اورپھر اپنی خوشی سے مسلمان ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگیا۔ ۱؎
ابوسفیان کی اس خونی سازش نے اس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کردیا کہ مکہ والوں کے ارادے اورنیت سے آگاہی رکھی جائے۔چنانچہ آپؐ نے اپنے دوصحابی عمرو بن امیّہ ضمری اورسلمہ بن اسلم کومکہ کی طرف روانہ فرمایا اورابوسفیان کی اس سازش قتل اوراس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں اجازت دی کہ اگر موقع پائیں تو بیشک اسلام کے اس حربی دشمن کا خاتمہ کردیں۔مگر جب امیّہ اوران کا ساتھی مکہ میں پہنچے توقریش ہوشیار ہوگئے اوریہ دوصحابی اپنی جان بچا کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ راستہ میں انہیں قریش کے دوجاسوس مل گئے جنہیں رئوساء قریش نے مسلمانوں کی حرکات وسکنات کاپتہ لینے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا۔اورکوئی تعجب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اورخونی سازش کا پیش خیمہ ہو۔مگرخدا کا فضل ہوا کہ امیّہ اورسلمہ کوان کی جاسوسی کا پتہ چل گیا جس پر انہوں نے ان جاسوسوں پرحملہ کرکے انہیں قید کرلینا چاہا مگرانہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا۔چنانچہ اس لڑائی میں ایک جاسوس تومارا گیا اوردوسرے کو قید کرکے وہ اپنے ساتھ مدینہ میں واپس لے آئے۔ ۲؎
اس سریہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ابن ہشام اورطبری اسے۴ھ میں بیان کرتے ہیں مگرابن سعد نے اسے ۶ھ میں لکھا ہے اورعلامہ قسطلانی اورزرقانی نے ابن سعد کی روایت کو ترجیح دی ہے لہذا میں نے بھی اسے ۶ھ میں بیان کیا ہے واللہ اعلم۔ابن سعد کی روایت کے مفہوم کی تائید بیہقی نے بھی کی ہے۔۳؎ مگر اس میں اس واقعہ کے زمانہ کاپتہ نہیں چلتا۔
قبائل عُکلؔ وعرینہؔ کی غداری اور اس کا ہولناک انجام شوال ۶ہجری
مسلمانوں کے لئے یہ دن بہت خطرناک تھے کیونکہ قریش اوریہود کی انگیخت سے ساراملک ان کی عداوت کی آگ سے شعلہ زن ہورہا تھا۔اوراپنی جدیدپالیسی کے ماتحت انہوں
نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ مدینہ پر باقاعدہ حملہ کرنے کی بجائے درپردہ طریقوں سے نقصان پہنچایا جائے اورچونکہ دھوکادہی اورغداری عرب کے وحشی قبائل کے اخلاق کاحصہ تھی اس لئے وہ ہرجائز وناجائز طریق سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔چنانچہ جس واقعہ کاذکر ہم اب کرنے لگے ہیں وہ اسی ناپاک سلسلہ کی ایک کڑی تھی جوایک ہولناک رنگ میں اپنے انجام کو پہنچی۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ شوال۶ہجری ۱؎ میں قبیلہ عُکل اورعُرینہ کے چند آدمی ۲؎ جوتعداد میں آٹھ تھے۔ ۳؎ مدینہ میں آئے اوراسلام کے ساتھ محبت اورموانست کااظہار کرکے مسلمان ہوگئے۔کچھ عرصہ کے قیام کے بعد انہیں مدینہ کی آب وہوامیں معدہ اورتلی وغیرہ کی جو کچھ شکایت پیدا ہوئی تو وہ اسے بہانہ بناکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنی تکلیف بیان کرکے کہا کہ یارسول اللہ!ہم جنگلی لوگ ہیں اور جانوروں کے ساتھ رہنے میں عمرگزاری ہے اورشہری زندگی کے عادی نہیں اس لئے بیمار ہوگئے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں یہاں مدینہ میں تکلیف ہے تومدینہ سے باہر جہاں ہمارے مویشی رہتے ہیں وہاں چلے جائو اوراونٹوں کا دودھ وغیرہ پیتے رہو۔اچھے ہوجائو گے۔ ۴؎ اورایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے خود کہا کہ یارسول اللہ اگرآپ ہمیں اجازت دیں تو ہم مدینہ سے باہر جہاں آپ کے مویشی رہتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں جس کی آپؐ نے اجازت دے دی ۵؎ بہرحال وہ آنحضرتؐ سے اجازت لے کر مدینہ سے باہر اس چراگاہ میں چلے گئے جہاں مسلمانوں کے اونٹ رہتے تھے۔
جب ان بدبختوں نے یہاں اپناڈیرا جمالیا اورآگے پیچھے نظرڈال کر سارے حالات معلوم کرلئے اورکھلی ہوا میں رہ کر اوراونٹوں کادودھ پی کر خوب موٹے تازے ہوگئے توایک دن اچانک اونٹوں کے رکھوالوں پرحملہ کرکے انہیں مار دیا اورمارا بھی اس بے دردی سے کہ پہلے توجانوروں کی طرح ذبح کیا اورپھر جب ابھی کچھ جان باقی تھی توان کی زبانوں میں صحرا کے تیز کانٹے چھبوئے تاکہ جب وہ منہ سے کوئی آواز نکالیں یاپیاس کی وجہ سے تڑپیں تویہ کانٹے ان کی تکلیف کواوربھی بڑھاویں۔ ۱؎ اورپھر ان ظالموں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ گرم سلائیاں لے کر ان نیم مردہ مسلمانوں کی آنکھوں میں پھیریں۔ ۲؎ اوراس طرح یہ بے گناہ مسلمان کھلے میدان میں تڑپ تڑپ کرجان بحق ہوگئے۔ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاایک ذاتی خادم بھی تھا جس کا نام یسار تھا جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اونٹوں کے چرانے پر مقرر تھا۔ ۳؎
جب یہ درندے اس وحشیانہ رنگ میںمسلمانوں کاکام تمام کرچکے تو پھر سارے اونٹوں کواکٹھا کرکے انہیں ہنکالے گئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ حالات ایک رکھوالے نے پہنچائے جو اتفاق سے بچ کر نکل آیا تھاجس پر آپؐنے فوراًبیس صحابہ کی ایک پارٹی تیار کرکے ان کے پیچھے بھجوادی اورگویہ لوگ کچھ فاصلہ طے کرچکے تھے مگر خدا کایہ فضل ہوا کہ مسلمانوں نے پھرتی کے ساتھ پیچھا کرکے انہیں جاپکڑا اوررسیوں سے باندھ کرواپس لے آئے۔اس وقت تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہ احکام نازل نہیں ہوئے تھے کہ اگر کوئی شخص اس قسم کی حرکت کرے تواس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے چنانچہ آپ نے اپنے قدیم اصول کے ماتحت کہ جب تک اسلام میں کوئی نیا حکم نازل نہ ہو اہل کتاب کے طریق پر چلنا چاہئے۔ ۴؎ موسوی شریعت کے مطابق ۵؎ حکم دیا کہ جس طرح ان ظالموں نے مسلمان رکھوالوں کے ساتھ سلوک کیا ہے اسی طرح قصاصی اورجوابی صورت میں ان کے ساتھ کیا جائے۔تاکہ یہ سزا دوسروں کے لئے عبرت ہو۔چنانچہ خفیف تغیر کے ساتھ اسی رنگ میں مدینہ سے باہر کھلے میدان میں ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔مگر اسلام کے لئے خدا نے دوسری تعلیم مقدر کررکھی تھی چنانچہ آئندہ جوابی اورقصاصی صورت میں بھی مثلہ کی سزا منع کردی گئی یعنی اس بات کو ناجائز قرار دیا گیا کہ کسی رنگ میں مقتول کے جسم کوبگاڑا جائے یاانتقامی رنگ میں اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے وغیر ذالک۔ ۲؎
اس واقعہ کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہرحال اس معاملہ میں ظلم کی ابتداء کفار کی طرف سے تھی جنہوں نے بغیر کسی جائز وجہ کے محض اسلام کی عداوت میں بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کا ظالمانہ اوروحشیانہ سلوک کیا اورجو کچھ ان کی سزا میں کیا گیا وہ محض قصاصی اورجوابی تھا اورتھا بھی ایسے حالات میں جب کہ اسلام کے خلاف سارا ملک دشمنی اورعداوت کی آگ سے بھڑک رہا تھا۔اورپھر یہ فیصلہ بھی موسوی شریعت کے مطابق کیا گیا تھا،لیکن پھربھی اسلام نے اسے برقرار نہیں رکھا اور آئندہ کے لئے ایسے طریق سے منع کردیا۔ان حالات میں کوئی عقل مند اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔اس موقع پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ لوگ شروع سے ہی بری نیت کے ساتھ مدینہ میں آئے تھے اورغالباً اپنے قبیلہ کے سکھائے ہوئے تھے کہ تامسلمانوں میں رہ کر انہیں نقصان پہنچائیں اورممکن ہے کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بھی ان کا کوئی براارادہ ہو مگر جب مدینہ میں رہ کر انہیں کوئی موقع نہیں ملا توانہوں نے یہ تجویز کی کہ مدینہ سے باہر نکل کر کارروائی کی جاوے۔ان کی اس نیت کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے چرواہوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ خالی چوروں اورلیٹروںوالا سلوک نہیں تھا بلکہ سراسر منتقمانہ رنگ رکھتا تھا۔اگروہ ابتداء میں سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے اوربعد میں اونٹ دیکھ کر ان کی نیت بدل گئی تواس صورت میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ اونٹ لے کر بھاگ جاتے اوراگر کوئی رکھوالا روک بنتا توزیادہ سے زیادہ اسے مار کر نکل جاتے مگر جس رنگ میں انہوں نے مسلمان چرواہوں کوقتل کیا اوراپنے آپ کوخطرہ میں ڈال کر قتل کے سفاکانہ فعل کولمبا کیا اورعذاب دے کر مارا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کایہ فعل اتفاقی لالچ کانتیجہ نہیںتھا بلکہ سراسرمعاندانہ رنگ رکھتا تھا اوردلی کینہ اور لمبے بغض کا نتیجہ تھا۔اوران کے اس ظالمانہ فعل کے جواب میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا وہ محض قصاصی اورجوابی تھا جواسلامی احکام کے نزول سے پہلے موسوی شریعت کے مطابق کیا گیا،لیکن اس کے بعد جلد ہی اسلامی احکام نازل ہوگئے اوراس قسم کی تعذیب انتقامی رنگ میں بھی ناجائز قراردے دی گئی چنانچہ بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
اَنَّ النَّبِّیَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذٰلِکَ کَانَ یحُث عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَنْھٰی عَنِ المُثْلَۃِ۔ ۱؎
یعنی ’’اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم احسان اور حسن سلوک کی تاکید فرمایا کرتے تھے اورہرحال میں دشمنوں کے جسموں کے مثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔‘‘
بعض مغربی محققین نے جن میں میور صاحب بھی شامل ہیں۔ ۲؎ اس واقعہ کے حالات کاذکر کرتے ہوئے حسب عادت اعتراض کیا ہے کہ جس رنگ میں ان قاتل ڈاکوئوں کو قتل کیا گیا وہ ظالمانہ اوروحشیانہ تھا،لیکن اگر سارے حالات کو سامنے رکھ کر غورکیا جائے تواس معاملہ میں اسلام کادامن بالکل پاک نظر آتاہے کیونکہ دراصل یہ فیصلہ اسلام کا نہیں تھا بلکہ حضرت موسیٰ کاتھا۔۱؎ جن کی شریعت کوحضرت مسیح ؑ ناصری نے منسوخ نہیں کیا بلکہ برقرار رکھا۔ ۲؎ ہاں اگر ہمارے معترضین کے پیش نظر حضرت مسیحؑ کایہ قول ہے کہ ایک گال پرطمانچہ کھاکر دوسرا گال بھی سامنے کردو اوراگرکوئی شخص تمہارا کرتہ لینا چاہے تو اسے اپنا چوغہ بھی دے دواوراگر کوئی تمہیں ایک کوس بیگار لے جانا چاہے تودو کوس چلے جائو ۳؎ توبے شک ہمارے معترضین کواس اعتراض کاحق ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم کسی عقل مند کے نزدیک قابل عمل ہے اورکیا آج تک ان ساڑھے انیس سوسالوں میں کسی مسیح مرد یا عورت یا کسی مسیحی جماعت یاحکومت نے اس تعلیم پرعمل کیا ہے؟منبروں پرچڑھ کروعظ کرنے کے لئے بیشک یہ ایک عمدہ تعلیم ہے مگر عملی دنیا میں اس تعلیم کوکوئی بھی وزن حاصل نہیں اورنہ کوئی عقل مند اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوسکتا ہے۔اس صورت میں اس قسم کے جذباتی کھلونے سامنے رکھ کر مسلمانوں کو اعتراض کا نشانہ بنانا خود اپنی جہالت کا ثبوت دینا ہے۔ہاں حضرت موسیٰ ؑکی تعلیم کو سامنے رکھ کردیکھو جوبخلاف حضرت مسیحؑ ایک سچے مقنّن تھے اورقانون کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے یامسیحیوں کے قول کونہیں بلکہ ان کے عملی کارناموں کی روشنی میں حالات کاامتحان کرو تو پھر حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عملی میدان میںکوئی مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔کیونکہ وہ جوکچھ کہتا ہے وہی کرتا ہے اوراس کے کھانے کے دانت اَوردکھانے کے دانت الگ الگ نہیں ہیں اور اس کے قول وفعل ہردو اس اعلیٰ مقام پرفائز ہیں کہ کوئی عقل مند غیر متعصب انسان ان پر اعتراض نہیں کرسکتا بلکہ دل سے اس کی تعریف نکلتی ہے۔نہ تو وہ موسوی شریعت کی طرح یہ کہتا ہے کہ ہرحالت میں انتقام لواوربلا امتیاز حالات قصاص کا تَبرچلاتے جائو اورنہ وہ مسیحی تعلیم کے مطابق یہ ہدایت کرتا ہے کہ کسی حالت میںبھی سزا نہ دوبلکہ اگرمجرم کوئی جرم کرے تواس کے جرم کے منشا کواپنی طرف سے مدد کرکے اور بھی مضبوط کردو۔بلکہ اسلام افراط وتفریط کے رستے کو چھوڑ کر وہ وسطی تعلیم دیتا ہے جودنیا میں حقیقی امن کی بنیاد ہے اور وہ یہ کہ: ۔ ۴؎
یعنی ’’ہربدی کی سزا اس کے مناسب حال اوراس کی شدت کے مطابق ہونی چاہئے،لیکن اگرحالات ایسے ہوں کہ معاف کرنے یا نرمی کرنے سے اصلاح کی امید ہو تو پھر معاف کرنا یا نرمی کرنا بہتر ہے اورایسا شخص خدا کے نزدیک نیک اجر کا مستحق ہوگا‘‘یہ وہ تعلیم ہے جواسلام نے اس بارے میںدی اورکوئی عقل مند اس بات سے انکار نہیںکرسکتا کہ یہ ایک بہترین تعلیم ہے جس میں انسانی ضروریات کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اورسزا کی صورت میں بھی اسلام نے یہ قید لگا دی ہے کہ وہ مناسب حد سے آگے نہ گزرے۔ اورمثلہ وغیرہ کے وحشیانہ افعال کو یک قلم بند کردیا گیا۔اس کے مقابل پرمسیحی لوگ باوجود حضرت مسیح ناصریؑ کی اس نمائشی تعلیم کے جو عملی نمونہ دشمنوں کے ساتھ سلوک کادکھاتے رہے ہیں اورجنگوں میں جن افعال کے مرتکب ہوتے رہے ہیں وہ تاریخ عالم کا ایک کھلا ہواورق ہے جس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں۔

صُلححُدیبیہؔ اوراس کے عظیم الشان نتائج
ذوقعدہ ۱؎۶ہجری

صلح حدیبیہ کی اہمیت
اب ہم اسلامی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہونے لگے ہیں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے دوسرے دور میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
میری مراد صلح حدیبیہ سے ہے جس کے نتیجہ میں کفار مکہ اورمسلمانوں کے درمیان جنگ وجدال کا سلسلہ بند ہوکر اسلام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اوردنیا کو اس بات کے اندازہ کرنے کاموقع میسرآیا کہ اسلام کی اصل طاقت صلح میں ہے نہ کہ جنگ میں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں بظاہر جنگ نہیں تھی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ رئوساء قریش کی حکومت کے ماتحت زندگی گزارتے تھے مگر قریش کی یہ حکومت جنگ سے بھی بڑھ کر مظالم ومصائب کامنظر پیش کرتی تھی کیونکہ قریش کی ساری طاقت اسلام کو مٹانے میں خرچ ہورہی تھی۔اس کے بعد مدنی زندگی کادورآیا تواس کے ساتھ ہی جنگ کاآغاز ہوگیا اوربے چارے مسلمان ایک مصیبت میں سے نکل کر دوسری مصیبت اوربعض لحاظ سے بڑی مصیبت میں مبتلا ہوگئے،اس لئے حقیقتاًآج تک اسلام کو اپنی صلح کی طاقت کے اظہار کاموقع ہی نہیں ملا تھا،لیکن صلح حدیبیہ نے جس کا اب ہم ذکر شروع کرنے لگے ہیں یہ موقع میسر کرادیا۔اوردنیا جانتی ہے کہ اس امتحان میں اسلام نے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت کردی کہ اس کی صلح کی طاقت اس کی جنگ کی طاقت سے بدرجہابہتر اوربدرجہا افضل ہے۔الغرض وہ تاریخی واقعہ جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔اورہم اپنے ناظرین سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے حالات کو نظرغور سے مطالعہ فرمائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب اور سفر حدیبیہ
ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے
مدینہ میں تشریف لائے تو اس کے جلد بعد ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس کی طرف سے بدل کر بیت اللہ کی طرف پھیر دیا تھااوراس تحویل قبلہ کے ساتھ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ حکم بھی دیا تھا کہ اپنی توجہ کومکہ کی طرف لگائے رکھیں اوراس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ مکہ اسلام کامذہبی مرکز ہے جو جتنی جلدی بھی ممکن ہو مسلمانوں کے قبضہ میں آجاناچاہئے۔ ۱؎ ان احکام کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہمیشہ مکہ کی طرف خیال لگا رہتا تھا اورپھر وطن ہونے کی وجہ سے بھی آپؐ کواورآپؐ کے ساتھ کے مہاجرین کومکہ کے ساتھ طبعاًخاص محبت تھی۔اس پر اتفاق یہ ہوا کہ انہی دنوں میں جن کاہم ذکر کررہے ہیں،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھی کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہے ہیں۔ ۲؎ اس وقت ذوقعدہ کامہینہ قریب تھا جوزمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مبارک مہینوں میںسے سمجھا جاتا تھا جن میں ہر قسم کا جنگ وجدال منع تھا۔ گویا ایک طرف آپؐنے یہ خواب دیکھی اوردوسری طرف یہ وقت بھی ایسا تھا کہ جب عرب کے طول وعرض میں جنگ کاسلسلہ رک کر امن وامان ہوجاتا تھا اورگویہ حج کے دن نہیں تھے اورابھی تک اسلام میں حج باقاعدہ طورپر مقرر بھی نہیں ہوا تھا،لیکن خانہ کعبہ کاطواف ہروقت ہوسکتا تھا اس لئے آپؐ نے اس خواب دیکھنے کے بعد اپنے صحابہ سے تحریک فرمائی کہ وہ عمرہ کے واسطے تیاری کرلیں۔عمرہ گویا ایک چھوٹی قسم کا حج تھا جس میں حج کے بعض مناسک کو ترک کرکے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی پراکتفا کی جاتی تھی اوربخلاف حج کے اس کے لئے سال کاکوئی خاص حصہ بھی معین نہیں تھا بلکہ یہ عبادت ہرموسم میں ادا کی جاسکتی تھی۔اس موقع پر آپؐ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کاجنگی مقابلہ مقصود نہیں ہے بلکہ محض ایک پرامن دینی عبادت کابجا لانا مقصود ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں البتہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کونیاموں کے اندر بند کرکے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جاسکتا ہے اورساتھ ہی آپ نے مدینہ کے گردونواح کے بدوی لوگوں میں بھی جوبظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے یہ تحریک فرمائی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوکر عمرہ کی عبادت بجالائیں۔مگر افسوس ہے کہ ایک نہایت قلیل یعنی برائے نام تعداد کے سواان مسلمان کہلانے والے کمزور ایمان بدوی لوگوں نے جو مدینہ کے آس پاس آباد تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے سے احتراز کیا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ خواہ مسلمانوں کی نیت عمرہ کے سوا کچھ نہیں مگر قریش بہرحال مسلمانوں کو روکیں گے اوراس طرح مقابلہ کی صورت پیدا ہوجائے گی اوروہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ مقابلہ مکہ کے قریب اورمدینہ سے دورہوگا اس لئے کوئی مسلمان بچ کر واپس نہیں آسکے گا۔ ۱؎ بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذوقعدہ۶ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے۔اس سفر میں آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہؓآپؐ کے ہم رکاب تھیں اورمدینہ کاامیر نمیلہ بن عبداللہ کواورامام الصلوٰۃ عبداللہ بن ام مکتوم کوجوآنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیاتھا۔ ۲؎
جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے جومدینہ سے قریباًچھ میل کے فاصلہ پر مکہ کے رستہ پرواقع ہے ۳؎ تو آپؐ نے ٹھہرنے کا حکم دیا اورنماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے اونٹوں کوجوتعداد میں ستر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اورصحابہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کامخصوص لباس جو اصطلاحاً احرام کہلا تا ہے پہن لیں اورآپؐنے خود بھی احرام باندھ لیا۔ ۴؎ اورپھر قریش کے حالات کاعلم حاصل کرنے کے لئے کہ آیا وہ کسی شرارت کاارادہ تونہیں رکھتے،ایک خبر رساں بُسر بن سفیان نامی کوجو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا جو مکہ کے قرب میں آ باد تھے آگے بھجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ۵؎ اورمزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لئے عباد بن بِشر کی کمان میں بیس سواروں کاایک دستہ بھی متعین فرمایا۔ ۶؎ جب آپؐچندروز کے سفر کے بعد عسفان کے قریب پہنچے جومکہ سے قریباً دو منزل کے رستہ پر واقع ہے توآپ کے خبر رساں نے واپس آکر آپؐ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیںاورآپ کو روکنے کاپختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔ ۷؎ حتّٰی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اوروحشت کے اظہار کے لئے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اورجنگ کاپختہ عزم کرکے بہرصورت مسلمانوں کوروکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چندجانباز سواروں کاایک دستہ خالدبن ولید کی کمان میںجو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوادیا ہے۔اوریہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اوراس دستہ میں عکرمہ بن ابوجہل بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف رستہ کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں۔چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزاراورکٹھن رستہ پر پڑ کرسمندر کی جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے۔ ۱؎
جب آپؐاس نئے رستہ پر چلتے ہوئے حدیبیہ کے قریب پہنچے جومکہ سے ایک منزل یعنی صرف نومیل کے فاصلہ پر ہے۔ ۲؎ اور حدیبیہ کی گھاٹیوں پرسے مکہ کی وادی کاآغاز ہوجاتا ہے توآپؐ کی اونٹنی جو القصوا کے نام سے مشہور تھی اوربہت سے غزوات میں آپؐکے استعمال میں رہ چکی تھی یکلخت پائوں پھیلا کر زمین پر بیٹھ گئی اورباوجود اٹھانے کے اٹھنے کا نام نہ لیتی تھی۔صحابہ نے عرض کیا کہ شاید یہ تھک گئی ہے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’نہیں نہیں یہ تھکی نہیں اورنہ ہی اس طرح تھک کر بیٹھ جانا اس کی عادت میں داخل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جس بالاہستی نے اس سے پہلے اصحاب فیل کے ہاتھی کومکہ کی طرف بڑھنے سے روکا تھا اُسی نے اب اس اونٹنی کوبھی روکا ہے۔پس خدا کی قسم مکہ کے قریش جومطالبہ بھی حرم کی عزت کے لئے مجھ سے کریں گے میں سے قبول کروں گا۔‘‘اس کے بعد آپؐ نے اپنی اونٹنی کوپھر اٹھنے کی آواز دی اورخدا کی قدرت کہ اس دفعہ وہ جھٹ اٹھ کر چلنے کو تیار ہوگئی۔اس پرآپؐاسے وادی حدیبیہ کے پرلے کنارے کی طرف لے گئے اوروہاں ایک چشمہ کے پاس ٹھہر کراونٹنی سے نیچے اتر آئے اوراسی جگہ آپؐ کے فرمانے پرصحابہ نے ڈیرے ڈال دئے۔ ۳؎
مسلمانوں کوپانی کی تکلیف اورتکثیر الماء کامعجزہ
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ صحابہ کی ایک پارٹی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی
اورعرض کیا کہ چشمہ کاپانی ختم ہوکر خشک ہوگیا ہے اوراب انسان اورجانور سخت تکلیف میں ہیں۔اس کے لئے کیا کیا جائے؟ ۴؎ آپؐ نے ایک تیر لیا اورحکم دیا کہ اس تیر کو خشک شدہ چشمہ کی تہ میں نصب کر دیاجائے۔۱؎ اورآپؐخود چشمہ کے کنارے پرتشریف لاکر وہاں بیٹھ گئے اور تھوڑا ساپانی لے کر اسے اپنے منہ میں ڈالا اورپھر خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ پانی اپنے منہ سے چشمہ کے اندر انڈیل دیا اورصحابہ سے فرمایا کہ اب تھوڑی دیر انتظار کرو۔چنانچہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چشمہ کے اندر اتنا پانی بھرآیا کہ سب نے اپنی اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا اورپانی کی تکلیف جاتی رہی۔ ۲؎
اس پر اللہ تعالیٰ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ اسی رات یا اس کے قریب بارش بھی ہوگئی۔چنانچہ جب صبح کی نماز کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تومیدان پانی سے تربتر تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مسکراتے ہوئے فرمایا’’کیا تم جانتے ہو کہ اس بارش کے موقع پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟‘‘صحابہ نے حسب عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگربعض کفر کی حالت میں پڑ کرڈگمگاگئے۔کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل ورحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تووہ بیشک چاند سورج کاتو مومن ہوگیا،لیکن خدا کا اس نے کفر کیا۔‘‘ ۳؎ اس ارشاد سے جوتوحید کی دولت سے معمور ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کویہ سبق دیا کہ بے شک سلسلۂ اسباب وعلل کے ماتحت خدا نے اس کارخانۂ عالم کوچلانے کے لئے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اوربارشوں وغیرہ کے معاملہ میں اجرام سماوی کے اثر سے انکار نہیں مگر حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو جوان سب اسباب کی پیدا کرنے والی اوراس کارخانۂ عالم کی علت العلل ہے اورجس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
معجزات کے متعلق ایک مختصر اصولی نوٹ
یہ سوال کہ اس موقع پر عام قانون قدرت کے خلاف چشمہ کاپانی کس طرح زیادہ ہوگیا؟ معجزات
کی بحث سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق ہم اس کتاب میں دوسری جگہ ایک اصولی نوٹ درج کرچکے ہیں اوراس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ۱؎ دراصل معجزات کی بحث دواصولی حصوں میں منقسم ہے۔ایک حصہ عقلی دلائل سے تعلق رکھتا ہے جن سے معجزات کاامکان اوران کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔اوردوسرا حصہ مشاہدہ سے تعلق رکھتا ہے جس سے معجزات کا عملاًوقوع میں آنا ثابت ہوتا ہے۔عقلی دلائل کا نتیجہ صرف اس حد تک ہے کہ معجزہ وقوع میں آسکتا ہے اوریہ کہ انسان کی روحانیت کی تکمیل کے لئے اسے وقوع میں آنا چاہئے۔مگراس سے آگے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ معجزہ واقعی ہوتا بھی ہے مشاہدہ کی ضرورت پیش آتی ہے اورخوش قسمتی سے اس قسم کے مشاہدہ کاوجود ہرنبی کے زمانہ میں اورہر قوم کی تاریخ میںملتا ہے مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ کی عالمگیر مادیت نے انسان کے روحانی کمالات اورروحانی حواس کواس حد تک خاک میں ملا رکھا ہے کہ مادہ پرستی کے خیالات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اورانسانیت کے اعلیٰ کمالات زمین دوزدفینوں کی طرح نظروں سے دوراور آنکھوں سے مستور ہوچکے ہیں۔مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کا قانون دوقسم کا ہے۔ایک وہ جواس کی نہ بدلنے والی سنتوں اوراس کے وعدوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مثلاً یہ کہ کوئی مردہ زندہ ہوکر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ ۲؎ اوردوسرا وہ جوان دو دائروں کے علاوہ ہے مثلاًنیک اوربدبندوں کے ساتھ خدا کے سلوک کے اظہار کاطریق وغیرہ۔ پس جہاں تک اول الذکر قانون کاتعلق ہے قرآن شریف بڑے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ وہ بالکل اٹل ہے ۳؎ اورنہ صرف دنیا کی تمام علمی وعملی ترقی بلکہ خدا کی شان اوروقار کااظہار بھی اس کے اٹل ہونے کے ساتھ وابستہ ہے،لیکن مؤخرالذکر قانون حالات کے اختلاف کے ساتھ اپنی صورت بدل سکتا ہے اوراس کا بدلنا خدا کی شان کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے اوراسی تبدیلی کے غیرمعمولی ظہور کانام معجزہ ہے۔ دراصل اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے جس نے اس دنیا کی چیزوں کو اوران چیزوں کے خواص کوپیدا کیا ہے اوریہ خدا اپنے تختِ حکومت سے معزول ومعطّل نہیں ہوگیا اوراپنے قانون کا غلام نہیں بن گیا توپھر اس خدا میں یہ قوت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اپنی سنت اوروعدہ کی باتوں کوالگ رکھ کر جن میں بہرحال کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی وہ کسی حقیقی ضرورت کے وقت اپنے ایسے قانون کوجواس کی کسی سنت یاوعدہ کے دائرہ سے تعلق نہیں رکھتا خاص استثنائی رستہ پرچلا سکتا ہے یا بعض مخفی اسباب کے ذریعہ ایک ایسا ظاہری تغیر پیدا کرسکتا ہے جوبظاہر استثناء کارنگ رکھتا ہو اوراسی استثناء یاخاص تقدیر الہٰی کے غیر معمولی ظہور کا نام معجزہ ہے۔
اورمعجزہ کی ضرورت اس طرح ثابت ہے کہ جیسا کہ ہر سمجھ دار انسان محسوس کرے گا محض عقلی دلیلوں کاوجود خدا کے متعلق اس حد تک کا ایمان ہرگز پیدا نہیں کرسکتا جوانسان کی روحانی زندگی کے لئے ضروری ہے کیونکہ عقلی دلیلیں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ اس کارخانۂ عالم کا کوئی خالق ومالک ہونا چاہئے مگر ظاہر ہے کہ یہ’’ہونا چاہئے‘‘والامقام محض ایک قیاس کامقام ہے جسے قطعی اور زندہ یقین میں بدلنے کے لئے جسے ہم’’ہے‘‘کے مقام سے تعبیر کرسکتے ہیں الہام الہٰی اورمعجزہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اس لئے ہرنبی اوررسول کے ساتھ معجزہ کاوجود لازم وملزوم کے طور پر رہا ہے۔اوراسلامی معجزات سے انکار کرنے والوں کی خود اپنی کتب معجزات کے ذکر سے(جن میں افسوس ہے کہ اکثر فرضی اوربلاثبوت اورسنت الہٰی کے خلاف ہیں)بھری پڑی ہیں۔باقی رہا مشاہدہ کاسوال سوجن ابتدائی لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات بیان کئے ہیں وہ سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی اوردن رات آپؐ کی صحبت میں رہنے والے تھے انہوں نے اپنا ذاتی مشاہدہ ہی بیان کیا ہے اورظاہر ہے کہ اگر روایت صحیح ہو اورراوی سچ بولنے والا اورسمجھ دار ہو تو یہ مشاہدہ اسی طرح قابل قبول ہے جس طرح کہ دنیا کے دوسرے پختہ مشاہدات قابل قبول ہوتے ہیں۔اور گوموجودہ مادی زمانہ میں روحانی اہلِ کمال کاوجود عنقا کارنگ رکھتا ہے مگر اس زمانہ میں بھی مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے معجزات کے متعلق معترضین کوجواب دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ:
کرامت گرچہ بے نام ونشان است
بیابنگر ز غلمان محمدؐ
یعنی’’گواس زمانہ میںمعجزات کاوجود بے نام ونشان ہوچکا ہے مگر اے منکر اسلام آ اور محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے غلاموں کے ہاتھ پر معجزات کامشاہدہ کرلے۔‘‘
ایک اور اصولی بات جومعجزات کے متعلق یاد رکھنی ضروری ہے اورجسے نظر انداز کرنے سے اکثر مذاہب میں بعد میں آنے والوں کی دست برد سے جھوٹے اورفرضی معجزات کاوجود پیدا ہوگیا ہے یہ ہے کہ معجزات کی غرض وغایت چونکہ ایمان پیدا کرنا یاپیدا شدہ ایمان کومضبوط کرنا ہوتی ہے اور ایمان کے لئے اس کے ابتدائی مراحل میں کسی قدر اخفاء کاپردہ ضروری ہے اوراسی لئے قرآن شریف نے اپنی ابتداء میںہی ایمان بالغیب کے اصول کو پیش کیا ہے۔ ۱؎ کیونکہ کامل مشاہدہ کے بعد ایمان کسی انعام یاتعریف کاحق دار نہیں رہتا اس لئے سنت اللہ اس طرح پرواقع ہوئی ہے کہ سچے معجزات کبھی بھی ایسی صورت میں ظاہر نہیں ہوتے کہ گویا بالکل شہود کارنگ پیدا ہوجائے بلکہ کسی نہ کسی جہت سے کچھ نہ کچھ اخفاء کاپردہ باقی رکھا جاتا ہے۔اسی لئے اہل اللہ نے معجزات کی مثال دن کی تیز روشنی سے نہیں دی بلکہ ایک ایسی چاندنی رات کی روشنی سے دی ہے جس میں کسی قدر بادل بھی ہوں۔ایسی صورت میں جہاں ایک طرف توجہ اورغور سے دیکھنے والوں کو رستہ نظر آجاتا ہے وہاں دوسری طرف ضدی اورکجرو لوگوں کے لئے شک کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے۔ ۲؎ البتہ بعض اوقات ایسے معجزات میں جو صرف ان مومنوں کودکھائے جاتے ہیں۔جوایمان کے ابتدائی مراحل سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں کسی قدر شہود کارنگ پیدا کردیا جاتا ہے۔مگر یہ ایک لمبا اورباریک سوال ہے جوتفصیلی بحث چاہتا ہے اوراس مختصر اورضمنی نوٹ میں تفصیل کی گنجائش نہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ معجزات اورآیات کا وجود برحق ہے اوراسلام اسے تسلیم کرتا اورہر نبی اوررسول کے زمانہ میں اس کے ظہور کادعویٰ فرماتا ہے مگر اول تو کوئی معجزہ خدا کی کسی نہ بدلنے والی سنت یا اس کے کسی وعدہ کے خلاف نہیں ہوسکتا کیونکہ اگرایسا ہوتو دنیا میںاندھیر پڑجائے۔اورقرآن شریف نے صراحت کے ساتھ ایسے معجزات کے وجود سے انکار کیا ہے۔ ۳؎ اوردوم کسی معجزہ میں جو منکرین کودکھانا مقصود ہو نصف النہار والی روشنی پیدا نہیں ہوسکتی۔کیونکہ یہ ایمان بالغیب کے اصول کے خلاف ہے جسے قرآن شریف نے اپنی ابتداء میں ہی بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ۴؎ مگر ان دونوں حدود کے اندر اندر معجزہ ہوسکتا ہے اورہر نبی کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے اورحق یہ ہے کہ اگر ایسے معجزات کادروازہ بند ہوجائے تو دنیا روحانی طورپر زندہ ہی نہیں رہ سکتی۔
قریش کے ساتھ صلح کی گفتگو کاآغاز
معجزات کے متعلق یہ مختصر اوراصولی نوٹ دینے کے بعد ہم پھر اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ہم بتا چکے ہیں
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی وادی میںپہنچ کر اس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا۔جب صحابہ اس جگہ ڈیرے ڈال چکے توقبیلہ خزاعہ کاایک نامور رئیس بُدَیل بن ورقا نامی جوقریب ہی کے علاقہ میں آباد تھا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے آیا اوراس نے آپؐ سے عرض کیا کہ مکہ کے رئوساء جنگ کے لئے تیار کھڑے ہیں اوروہ کبھی بھی آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔آپؐ نے فرمایا’’ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اورافسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش مکہ کو جنگ کی آگ نے جلاجلا کر خاک کررکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اورمیں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کرکے مجھے دوسرے لوگوں کے لئے آزاد چھوڑ دیں۔لیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی رد کردیا اوربہرصورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تومجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر میں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہوجائے اور یا خدامجھے فتح عطاکرے۔‘‘اگر میں ان کے مقابلہ میں آکر مٹ گیا توقصہ ختم ہوا،لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اورمیرے لائے ہوئے دین کوغلبہ حاصل ہوگیا توپھر مکہ والوں کوبھی ایمان لے آنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہئے،بُدَیل بن ورقا پرآپؐ کی اس مخلصانہ اوردردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اوراس نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ مہلت دیں کہ میں مکہ جاکر آپ کاپیغام پہنچائوں اور مصالحت کی کوشش کروں۔ آپؐ نے اجازت دی اوربُدَیل اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ ۱؎
جب بُدَیل بن ورقا مکہ میں پہنچا تواس نے قریش کو جمع کرکے ان سے کہا کہ میں اس شخص(یعنی محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم)]عرب کا دستور تھا کہ ایسے موقعوں پر جب ایک معروف شخص کے متعلق گفتگوکرنی ہوتو نام لینے کی بجائے ’’یہ شخص‘‘یا’’اس شخص‘‘وغیرہ کے لفظ استعمال کرتے تھے[ کے پاس سے آرہا ہوں اورمیرے سامنے اس نے ایک تجویز پیش کی ہے اگرآپ اجازت دیں تو میں اس کا ذکر کروں۔اس پر قریش کے جوشیلے اورغیر ذمہ دار لوگ کہنے لگے۔ہم اس شخص کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں مگر اہل الرائے اورثقہ لوگوں نے کہا ہاں ہاں جوتجویز بھی ہے وہ ہمیںبتائو۔ چنانچہ بُدَیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیان کردہ تجویز کااعادہ کیا۔اس پر ایک شخص عروہ بن مسعود نامی جو قبیلہ ثقیف کاایک بہت بااثر رئیس تھا اوراس وقت مکہ میں موجود تھا کھڑا ہوگیا اور قدیم عربی انداز میں قریش سے کہنے لگا ’’اے لوگو!کیا میں تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہاں‘‘۔پھر اس نے کہا’’کیا آپ لوگ میرے بیٹوں کی طرح نہیں ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہاں‘‘۔پھرعروہ نے کہا’’کیا تمہیں مجھ پر کسی قسم کی بے اعتمادی ہے؟‘‘قریش نے کہا’’ہرگز نہیں‘‘۔اس نے کہا’’توپھر میری یہ رائے ہے کہ اس شخص محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے۔آپ کو چاہئے کہ اس تجویز کوقبول کرلیں اورمجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی طرف سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جاکر مزید گفتگو کروں۔‘‘قریش نے کہا ’’بے شک آپ جائیں اورگفتگو کریں۔‘‘ ۱؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کاایک روح پرورنظارہ
عروہؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اورآپؐ
کے ساتھ گفتگو شروع کی۔آپؐ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دوہرائی جواس سے قبل آپؐبُدَیل بن ورقا کے سامنے فرماچکے تھے۔عروہ اصولاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کاحق ادا کرنے اوران کے حق میںزیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانے کی غرض سے کہنے لگا۔’’اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )اگرآپ نے اس جنگ میںاپنی قوم کو ملیا میٹ کردیا تو کیاآپ نے عربوں میں کسی ایسے آدمی کا نام سنا ہے جس نے آپ سے پہلے ایسا ظلم ڈھایا ہو۔لیکن اگر بات دگرگوں ہوئی یعنی قریش کو غلبہ ہو گیا توخدا کی قسم مجھے آپ کے اردگرد ایسے منہ نظر آرہے ہیں کہ انہیں بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور یہ سب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ جواس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ہی بیٹھے تھے عروہ کے یہ الفاظ سن کر غصہ سے بھر گئے اورفرمانے لگے’’جائو جائو اورلات کی شرمگاہ کوچومتے پھرو۔کیا ہم خدا کے رسولؐ کوچھوڑ جائیںگے؟‘‘ ۲؎ عروہ نے طیش میں آکر پوچھا ’’یہ کون شخص ہے جو اس طرح میری بات کاٹتا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا’’یہ ابوبکرؓ ہیں‘‘۔ابوبکرؓکانام سن کر عروہ کی آنکھیں شرم سے نیچی ہوگئیں۔کہنے لگا’’اے ابوبکر!اگر میرے سرپر تمہارا ایک بھاری احسان نہ ہوتا ۳؎ تو خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت بتاتا کہ ایسی بات کاجو تم نے کہی ہے کس طرح جواب دیتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر عروہ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا اوراپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے نقطۂ نظر کی طرف کھینچ لانے کی تدبیر کرتا رہا اور گاہے گاہے عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کی ریش مبارک کو بھی ہاتھ لگا دیتا تھا۔مگر جب کبھی بھی وہ ایسا کرتا ایک مخلص صحابی جن کانام مغیرہ بن شعبہ تھا اورجواس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے (اوررشتہ میں عروہ کے بھتیجے تھے)اپنی تلوار کے نیام سے عروہ کا ہاتھ جھٹک کر پرے کردیتے اور کہتے’’اپنا ناپاک ہاتھ رسول مقبول ؐکے مبارک چہرہ سے دوررکھو۔‘‘چونکہ اس وقت مغیرہ کاچہرہ ایک خود کے اندر ڈھکا ہوا تھا عروہ نے انہیں نہ پہچانتے ہوئے پوچھا۔یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا’’یہ مغیرہ بن شعبہ ہے۔‘‘ عروہ نے حقارت اورغصہ سے کہا ’’اے بے وفا!کیا تجھے میرا احسان بھول گیا ہے؟‘‘ ۱؎ اس پر مغیرہ شرم سے جھینپ گئے۔اس وقت عروہ نے اپنے اردگرد فخر کی نگاہ ڈالی مگر یہی نگاہ اسے گھائل کرگئی۔کیونکہ عروہ نے اس وقت صحابہ کی جماعت کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارد گرد اس طرح جمع پایا جس طرح شمع کے گرد پروانے جمع ہوتے ہیں اورخود عروہ کا اپنا بیان ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے جوش محبت واخلاص کایہ عالم تھا کہ اگر پانی پیتے ہوئے آپ کے منہ سے کوئی قطرہ گرتا توصحابہ اسے شوق سے اپنے ہاتھوں پر لیتے اوربرکت کے خیال سے اسے اپنے چہروں اورجسموں پر مل لیتے۔اورجب آپؐ کسی چیز کا ارشاد فرماتے تولوگ آپؐ کی آواز پراس طرح لپکتے کہ گویا ایک مقابلہ ہوجاتا تھا۔اور جب آپؐ وضو کرتے تو صحابہؓاس شوق سے آپؐ کووضو کروانے کے لئے آگے بڑھتے کہ گویا اس خدمت کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔اور جب آپؐ گفتگو فرماتے تو صحابہ خاموش ہوکر ہمہ تن گوش ہوجاتے اورمحبت اوررعب کی وجہ سے ان کی نظریں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اٹھ نہیں سکتی تھیں۔ ۲؎
عروہ ان روح پرورنظاروں کو دیکھ کر اورآپؐ کے ساتھ گفتگو ختم کرکے قریش کی طرف لوٹا اور جاتے ہی قریش سے کہنے لگا’’اے لوگو!میں نے دنیا میں بہت سفر کیا ہے۔بادشاہوں کے دربار میں شامل ہوا ہوں اورقیصروکسریٰ اورنجاشی کے سامنے بطوروفد کے پیش ہوچکا ہوں مگر خدا کی قسم جس طرح میں نے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے صحابیوں کو محمد کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کسی اورجگہ نہیں دیکھا۔‘‘ پھراس نے اپنا وہ سارا مشاہدہ بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھا تھا اورآخر میں کہنے لگا میں پھر یہی مشورہ دیتا ہوں کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تجویز ایک منصفانہ تجویز ہے اسے قبول کرلینا چاہئے۔‘‘ ۱؎
عُروہ کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک رئیس نے جس کا نام حلیس بن علقمہ تھا ۲؎ قریش سے کہا ’’اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پاس جاتا ہوں۔‘‘انہوںنے کہا’’ہاں بے شک جائو۔‘‘چنانچہ یہ شخص حدیبیہ میں آیا اورجب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دور سے آتے دیکھا توصحابہ سے فرمایا’’یہ شخص جو ہماری طرف آرہا ہے ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے مناظرکوپسند کرتے ہیں۔پس فوراًاپنے قربانی کے جانوروں کواکٹھا کرکے اس کے سامنے لائو تاکہ اسے پتہ لگے اوراحساس پیدا ہوکہ ہم کس غرض سے آئے ہیں۔‘‘چنانچہ صحابہ اپنے قربانی کے جانوروں کو ہنکاتے ہوئے اورتکبیروں کی آواز بلند کرتے ہوئے اس کے سامنے جمع ہوگئے۔جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا۔’’سبحان اللہ سبحان اللہ یہ تو حاجی لوگ ہیں۔انہیں بیت اللہ کے طواف سے کسی طرح روکا نہیں جاسکتا۔‘‘چنانچہ وہ جلدی ہی قریش کی طرف واپس لوٹ گیا اورقریش سے کہنے لگا’’میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کے گلے میں قربانی کے ہار باندھ رکھے ہیں اوران پر قربانی کے نشان لگائے ہوئے ہیں۔پس یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ انہیں طواف کعبہ سے روکا جائے۔‘‘ ۳؎
قریش میںاس وقت ایک سخت انتشار کی کیفیت پیدا ہورہی تھی اورلوگوں کی دوپارٹیاں بن گئی تھیں۔ایک پارٹی بہرصورت مسلمانوں کو واپس لوٹانے پرمصر تھی اورمقابلہ کے خیالات پر سختی سے قائم تھی۔مگر دوسری پارٹی اسے اپنی قدیم مذہبی روایات کے خلاف پاکر خوف زدہ ہورہی تھی اور کسی باعزت سمجھوتہ کی متمنی تھی اس لئے فیصلہ معلّق چلا جارہا تھا۔اس موقع پر ایک اورعربی رئیس مکرزبن حفص نامی نے قریش سے کہا’’مجھے جانے دو میں کوئی فیصلہ کی راہ نکالوں گا۔‘‘قریش نے کہا’’اچھا تم بھی کوشش کرکے دیکھ لو۔‘‘چنانچہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دور سے آتے دیکھا توفرمایا خدا خیر کرے یہ آدمی تواچھا نہیں۔بہرحال مکرز آپؐ کے پاس آیا اورگفتگوکرنے لگا۔مگرابھی وہ بات کرہی رہا تھاکہ مکہ کا ایک نامور رئیس سہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہواجسے غالباًقریش نے اپنی گھبراہٹ میں مکرز کی واپسی کاانتظار کرنے کے بغیر بھجوادیا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سہیل کو آتے دیکھا توفرمایا یہ سہیل آتا ہے۔ ۱؎ اب خدا نے چاہا تو معاملہ آسان ہوجائے گا۔ ۲؎
کفّار مکّہ کی فتنہ انگیزی
اس موقع پر ایک ضمنی مگراہم واقعہ کاذکرضروری ہے۔ وہ یہ کہ جب قریش کی طرف سے پے درپے سفیر آنے شروع ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ محسوس کرکے آپؐکی طرف سے بھی کوئی فہمیدہ شخص قریش کی طرف جانا چاہئے جوانہیں ہمدردی اوردانائی کے ساتھ مسلمانوں کازاویہؐ نظر سمجھا سکے ایک شخص خراش بن امیّہ کواس کام کے لئے چنا جوقبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا۔یعنی وہی قبیلہ جس سے قریش کے سب سے پہلے سفیر بدیل بن ورقا کاتعلق تھا اوراس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خراش کوسواری کے لئے خود اپنا ایک اونٹ عطافرمایا۔خراش قریش کے پاس گیا مگر چونکہ ابھی یہ گفتگو کا ابتدائی مرحلہ تھا اورنوجوانانِ قریش بہت جوش میںتھے ایک جوشیلے نوجوان عکرمہ بن ابوجہل نے خراش کے اونٹ پرحملہ کرکے اسے زخمی کردیا جس کے عربی دستور کے مطابق یہ معنی تھے کہ ہم تمہاری نقل وحرکت کوجبراًروکتے ہیں۔علاوہ ازیں قریش کی یہ جوشیلی پارٹی خود خراش پر بھی حملہ کرنا چاہتی تھی مگربڑے بوڑھوں نے بیچ بچائو کرکے اس کی جان بچائی اوروہ اسلامی کیمپ میں واپس آگیا۔ ۳؎
قریش مکہ نے اسی پر اکتفانہیں کی بلکہ اپنے جوش میں اندھے ہوکر اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ اب جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ مکہ سے اس قدر قریب اورمدینہ سے اتنی دور آئے ہوئے ہیں تو ان پر حملہ کرکے جہاں تک ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔چنانچہ اس غرض کے لئے انہوں نے چالیس پچاس آدمیوں کی ایک پارٹی حدیبیہ کی طرف روانہ کی اوراس گفت وشنید کے پردے میں جو اس وقت فریقین میںجاری تھی ان لوگوں کوہدایت دی کہ اسلامی کیمپ کے اردگرد گھومتے ہوئے تاک میں رہیں اورموقع پاکر مسلمانوں کا نقصان کرتے رہیں۔ ۴؎ بلکہ بعض روایتوں سے یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ تعداد میںاسّی تھے اوراس موقع پر قریش نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی۔ ۵؎ مگربہرحال خدا کے فضل سے مسلمان اپنی جگہ ہوشیارتھے۔ چنانچہ قریش کی اس سازش کاراز کھل گیااوریہ لوگ سب کے سب گرفتار کرلئے گئے۔ ۱؎ مسلمانوں کو اہل مکہ کی اس حرکت پرجو اَشہرحرم میں اورپھر گویاحرم کے علاقہ میں کی گئی سخت طیش تھا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان لوگوں کومعاف فرمادیا اورمصالحت کی گفتگو میں روک نہ پیدا ہونے دی۔۲؎ اہل مکہ کی اس حرکت کاقرآن شریف نے بھی ذکرکیا ہے چنانچہ فرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’خدا نے اپنے فضل سے کفار کے ہاتھوں کومکہ کی وادی میں تم سے روک کر رکھا اورتمہاری حفاظت کی اورپھرجب تم نے ان لوگوں پر غلبہ پالیا اور انہیں اپنے قابو میں کرلیا توخدا نے تمہارے ہاتھوں کوان سے روک کر رکھا۔‘‘
مسلمانوں کی طرف سے حضرت عثمان ؓ کی سفارت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اس شرارت کو دیکھا اورساتھ ہی
خراش بن امیّہ سے اہل مکہ کے جوش وخروش کا حال سنا توقریش کو ٹھنڈا کرنے اورراہ راست پر لانے کی غرض سے ارادہ فرمایا کہ کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوائیں جومکہ ہی کا رہنے والا ہو اورقریش کے کسی معزز قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو۔چنانچہ آپؐ نے حضرت عمرؓ بن الخطاب سے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ مکہ میں جائیں اورمسلمانوں کی طرف سے سفارت کا فرض سرانجام دیں۔حضرت عمرؓنے عرض کیایارسول اللہ آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے لوگ میرے سخت دشمن ہورہے ہیں اوراس وقت مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی موجود نہیں جس کا اہل مکہ پر دبائو ہو۔ اس لئے میرا یہ مشورہ ہے کہ کامیابی کارستہ آسان کرنے کے لئے اس خدمت کے لئے عثمان بن عفان کوچنا جائے جن کا قبیلہ (بنوامیّہ)اس وقت بہت بااثر ہے اورمکہ والے عثمانؓکے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کرسکتے اورکامیابی کی زیادہ امید ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو پسند فرمایااورحضرت عثمانؓ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اورقریش کو مسلمانوں کے پُرامن ارادوں اورعمرہ کی نیت سے آگاہ کریں۔۱؎ اورآپؐ نے حضرت عثمانؓکواپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جورئوساء قریش کے نام تھی۔اس تحریر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اورقریش کویقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجا لانا ہے اورہم پُرامن صورت میں عمرہ بجالاکر واپس چلے جائیں گے۔آپؐ نے حضرت عثمانؓ سے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اوران کی ہمت بڑھانا اورکہنا کہ ذرا ورصبر سے کام لیں خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ ۲؎
یہ پیغام لے کر حضرت عثمانؓمکہ میں گئے اورابوسفیان سے مل کر جواس زمانہ میں مکہ کا رئیس اعظم تھا اور حضرت عثمانؓکا قریبی عزیزبھی تھا اہل مکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے ۔اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تحریر پیش کی جو مختلف رئوساء قریش نے فرداًفرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔۳؎ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طواف بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں مگراس سے زیادہ نہیں۔حضرت عثمان ؓنے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ تومکہ سے باہر روکے جائیں اورمیں طواف کروں؟مگرقریش نے کسی طرح نہ مانااوربالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباًاس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گی حضرت عثمانؓاوران کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔اس پر مسلمانوں میں یہ افوہ مشہور ہوئی کہ اہل مکہ نے حضرت عثمانؓکو قتل کردیا ہے۔ ۴؎
بیعت رضوان
یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا۔کیونکہ عثمانؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اورمکہ میں بطور اسلامی سفیر کے
گئے تھے۔اوریہ دن بھی اَشْہرِحرم کے تھے اورپھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فوراًتمام مسلمانوں میں اعلان کرکے انہیں ایک ببول(کیکر)کے درخت کے نیچے جمع کیا۔اورجب صحابہ جمع ہوگئے تو آپؐ نے اس خبر کا ذکرکرکے فرمایاکہ’’اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘پھرآپؐ نے صحابہ سے فرمایا’’آئو اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر(جواسلام میں بیعت کا طریق ہے)یہ عہد کرو کہ تم میںسے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔‘اس اعلان پر صحابہ بیعت کے لئے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پرگرے پڑے تھے۔ ۱؎ اوران چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا(کہ یہی اس وقت اسلام کی ساری پونجی تھی)ایک ایک فرد ۲؎ اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا۔ ۳؎ جب بیعت ہورہی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے ۴؎ کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اس وقت وہ خدا اوراس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔‘‘ ۵؎ اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔
اسلامی تاریخ میں یہ بیعت ’’بیعت رضوان‘‘کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۶؎
یعنی’’اللہ تعالیٰ خوش ہوگیا مسلمانوں سے جب کہ اے رسول!وہ ایک درخت کے نیچے تیری بیعت کررہے تھے کیونکہ اس بیعت سے ان کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آگیا سو خدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اورانہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا۔‘‘
صحابہ کرام بھی ہمیشہ اس بیعت کو بڑے فخر اورمحبت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اوران میںسے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تم تو مکہ کی فتح کوفتح شمار کرتے ہو مگر ہم بیعت رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے۔۷؎ اوراس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی۔نہ صرف اس لئے کہ اس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اس لئے بھی کہ اس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دین محمدیؐ کاگویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہوا۔اورفدائیان اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسول اور اس رسول کی لائی ہوئی صداقت کے لئے ہر میدان میں اور اس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لئے تیار ہیں۔اسی لئے صحابہ کرام بیعت رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا۔۱؎ اوراس بیعت کاخاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد وپیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جوعارضی جوش کی حالت میں کردیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطۂ واحد پر جمع تھی۔
جب قریش کواس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہوگئے۔اورنہ صرف حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کوآزاد کردیا ۲؎ بلکہ اپنے ایلچیوں کوبھی ہدایت دی کہ اب جس طرح بھی ہو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرلیں مگر یہ شرط ضرور رکھی جائے کہ اس سال کی بجائے مسلمان آئندہ سال آکر عمرہ بجا لائیںاوربہرحال اب واپس چلے جائیں۔۳؎ دوسری طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ابتداء سے یہ عہد کرچکے تھے۔ میں اس موقع پر کوئی ایسی بات نہیںکروں گا جو حرم المحرم اوربیت اللہ کے احترام کے خلاف ہو۔اورچونکہ آپؐ کوخدا نے یہ بشارت دے رکھی تھی کہ اس موقع پر قریش کے ساتھ مصالحت آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بننے والی ہے اس لئے گویا فریقین کے لحاظ سے یہ ماحول مصالحت کاایک نہایت عمدہ ماحول تھا اوراسی ماحول میںسہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اورآپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہوتا نظر آتا ہے۔یہ بات روایتوں سے واضح نہیں ہوتی کہ سہیل معیّن طورپر کس مرحلہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیاتھا اورآیا اس کا آنا حضرت عثمانؓکے مکہ کی طرف جانے سے پہلے تھا یا کہ بعد۔اوراس بارے میں بعض روایات میں کسی قدر اختلاف وانتشار بھی پایاجاتاہے مگربہرحال یہ بات مسلّم ہے کہ صلح کی وہ تحریرجس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں وہ سہیل بن عمرو کے ذریعہ ہی تکمیل کو پہنچی۔اوریہ ایک عجیب بات ہے کہ قریش کے یہ جملہ سُفرا جویکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ سب کے سب بعد میں اسلام لاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگئے۔ ۱؎ سوائے مکرز بن حفص کے جسے دیکھتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ اس شخص سے بداخلاقی اورغداری کی بو آتی ہے۔ ۲؎
صُلح کی گفتگو
سہیل بن عمرو نے جو گفتگو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمائی اورجس رنگ میں یہ اہم تاریخی معاہدہ ضبط تحریر میں آیا وہ اسلامی تاریخ کاایک نہایت دلچسپ ورق ہے
جسے سب محدثین اور مؤرخین نے بڑے شوق اورتفصیل کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے۔ہم اس جگہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اس واقعہ کی موٹی موٹی تفاصیل ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔امام بخاری جوروایت کے لحاظ سے جملہ محدثین میں بلند ترین مقام رکھتے ہیں اس دلچسپ واقعہ کو مندرجہ ذیل صورت میںبیان کرتے ہیں۔
جب سہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آیا توآپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا یہ سہیل آتا ہے اب خدا نے چاہا تومعاملہ سہل ہوجائے گا۔ ۳؎ بہرحال سہیل آیا اورآتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔آئو جی(اب لمبی بحث جانے دو)ہم معاہدہ کے لئے تیار ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہم بھی تیار ہیں۔اوراس ارشاد کے ساتھ ہی آپؐ نے اپنے سیکرٹری (حضرت علیؓ)کوبلوا لیا۔ (اورچونکہ شرائط پرایک عمومی بحث پہلے ہوچکی تھی اور تفاصیل نے ساتھ ساتھ طے پانا تھا)اس لئے کاتب کے آتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سہیل صلح کے لئے توتیار تھا مگرقریش کے حقوق کی حفاظت اوراہل مکہ کے اکرام کے لئے بھی بہت چوکس رہنا چاہتا تھافوراًبولا یہ رحمن کالفظ کیسا ہے ہم اسے نہیں جانتے۔جس طرح عرب لوگ ہمیشہ سے لکھتے آئے ہیں اس طرح لکھویعنی بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ دوسری طرف مسلمانوں کے لئے بھی قومی عزت اور مذہبی غیرت کاسوال تھا وہ بھی اس تبدیلی پر فوراًچونک پڑے اورکہنے لگے ہم تو ضروربسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر مسلمانوں کوخاموش کرادیا کہ نہیں نہیں اس میں کوئی حرج نہیںجس طرح سہیل کہتاہے اسی طرح لکھ لو۔چنانچہ بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ کے الفاظ لکھے گئے۔اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدرسول اللہ نے کیا ہے۔‘‘سہیل نے پھرٹوکا کہ یہ رسول اللہ کا لفظ ہم نہیں لکھنے دیں گے۔اگر ہم یہ بات مان لیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں توپھر تو یہ سارا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا ہے اورہمیں آپ کو روکنے اورآپ کا مقابلہ کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔بس جس طرح ہمارے ہاں طریق ہے صرف یہ الفاظ لکھو کہ محمد بن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’آپ لوگ مانیں نہ مانیں میں خدا کا رسول تو ہوں۔‘‘مگر چونکہ میں محمد بن عبداللہ بھی ہوں اس لئے چلویہی سہی۔ لکھو کہ’’ محمدبن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔‘‘ ۱؎ مگر اس اثناء میں آپؐکے کاتب حضرت علیؓمعاہدہ کی تحریر میں’’محمد رسول اللہ‘‘کے الفاظ لکھ چکے تھے۔آپؐنے حضرت علیؓسے فرمایا محمدرسول اللہ کے الفاظ مٹادو اوران کی جگہ محمد بن عبداللہ کے الفاظ لکھ دو۔مگر اس وقت جوش کا عالم تھا حضرت علیؓنے غیرت میں آکر عرض کیا’’یارسول اللہ!میں تو آپ کے نام کے ساتھ سے رسول اللہ کے الفاظ کبھی نہیں مٹائوں گا۔‘‘آپؐ نے ان کی ازخود رفتہ حالت کو دیکھ کر فرمایا اچھا تم نہیں مٹاتے تو مجھے دو میں خود مٹا دیتا ہوں۔پھرآپ نے معاہدہ کاکاغذ (یاجو کچھ بھی وہ تھا)ہاتھ میں لے کر اورحضرت علیؓسے ان الفاظ کی جگہ پوچھ کر رسول اللہ کے الفاظ اپنے ہاتھ سے کاٹ دئے اور ان کی جگہ ابن عبداللہ کے الفا ظ لکھ دئے۔ ۲؎ (حاشیہ میں نوٹ ملاحظہ فرمائیں)
اس کے بعد آپؐ نے لکھوایا کہ’’معاہدہ یہ ہے کہ اہل مکہ ہمیں بیت اللہ کے طواف سے نہیں روکیں گے۔‘‘سہیل فوراًبولا’’خدا کی قسم اس سال تو یہ ہرگز نہیں ہوسکے گا ورنہ عربوں میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ہاں اگلے سال آپ لوگ آکر طواف کرسکتے ہیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا اچھا یہی لکھو۔پھر سہیل نے اپنی طرف سے لکھایا کہ یہ بھی شرط ہوگی کہ اہل مکہ میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ جاکر شامل نہیں ہوسکے گا خواہ مسلمان ہو۔اوراگر ایسا کوئی شخص مسلمانوں کی طرف جائے گا تواسے واپس لوٹادیا جائے گا۔صحابہ نے اس پر شورمچایا کہ سبحان اللہ!یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ ایک شخص مسلمان ہوکر آئے اورہم اسے لوٹا دیں۔اسی بات پر جھگڑا ہورہاتھا کہ اچانک قریش مکہ کے سفیر سہیل بن عمروکالڑکا ابوجندل بیڑیوں اورہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا اس مجلس میں گرتا پڑتا آپہنچا۔اس نوجوان کو اہل مکہ نے مسلمان ہونے پر قید کرلیا تھااورسخت عذاب میں مبتلا کررکھا تھا۔جب اسے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کے اس قدر قریب تشریف لائے ہوئے ہیں تو وہ کسی طرح اہل مکہ کی قید سے چھوٹ کر اپنی بیڑیوں میں جکڑا ہوا گرتا پڑتا حدیبیہ میں پہنچ گیا اوراتفاق سے پہنچا بھی اس وقت جب کہ اس کا باپ معاہدہ کی یہ شرط لکھا رہا تھا کہ ہر شخص جو مکہ والوں میں سے مسلمانوں کی طرف آئے وہ خواہ مسلمان ہی ہو،اسے واپس لوٹادیا جائے گا۔ابوجندل نے گرتے پڑتے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے لاڈالا اوردردناک آواز میںپکار کر کہا کہ’’اے مسلمانو! مجھے محض اسلام کی وجہ سے یہ عذاب دیا جارہا ہے ،خدا کے لئے مجھے بچائو۔‘‘مسلمان اس نظارہ کو دیکھ کر تڑپ اٹھے مگر سہیل بھی اپنی ضد پراڑ گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔یہ پہلا مطالبہ ہے جو میں اس معاہدہ کے مطابق آپ سے کرتا ہوں اوروہ یہ کہ ابوجندل کومیرے حوالہ کردیں۔آپؐ نے فرمایا’’ابھی تومعاہدہ تکمیل کونہیں پہنچا۔‘‘سہیل نے کہااگرآپ نے ابوجندل کو نہ لوٹایا توپھر اس معاہدہ کی کارروائی ختم سمجھیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’آئو آئو،جانے دو اورہمیں احسان ومروت کے طورپر ہی ابوجندل کودے دو۔‘‘سہیل نے کہا نہیں نہیں یہ کبھی نہیں ہوگا۔آپ نے فرمایا’’سہیل !ضد نہ کرو۔میری یہ بات مان لو۔‘‘سہیل نے کہا میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا۔اس موقع پرابوجندل نے پھر پکار کر کہا۔اے مسلمانو!کیاتمہارا ایک مسلمان بھائی اس شدیدعذاب کی حالت میں مشرکوں کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا؟ ۱؎ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس وقت ابوجندل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپیل نہیں کی بلکہ عامۃ المسلمین سے اپیل کی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں خواہ کتنا ہی درد ہوآپؐکسی صورت میں معاہدہ کی کارروائی میں رخنہ نہیں پیدا ہونے دیں گے۔مگر غالباً عامۃ المسلمین سے وہ یہ توقع رکھتا تھاکہ وہ شاید غیرت میں آکر اس وقت جبکہ ابھی معاہدہ کی شرطیں لکھی جارہی تھیں کوئی ایسا رستہ نکال لیںجس میں اس کی رہائی کی صورت پیدا ہوجائے۔مگر مسلمان خواہ کیسے ہی جوش میں تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے تھے۔آپؐ نے کچھ وقت خاموش رہ کر ابوجندل سے درد مندانہ الفاظ میں فرمایا’’اے ابوجندل!صبر سے کام لو اورخدا کی طرف نظر رکھو۔خدا تمہارے لئے اورتمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لئے ضرور خود کوئی رستہ کھول دے گا،لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہوچکی ہے اورہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ ۱؎
حضرت عمرؓکاجوش وخروش
مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہ کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔آخر حضرت
عمرؓسے نہ رہا گیا۔وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب آئے اورکانپتی ہوئی آواز میں فرمایا’’کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ہاں ہاں ضرور ہوں۔‘‘عمرؓ نے کہا’’کیا ہم حق پرنہیں اورہمارا دشمن باطل پرنہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔‘‘عمرؓ نے کہا’’توپھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟‘‘آپؐنے حضرت عمرؓ کی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا’’دیکھو عمر!میں خدا کا رسول ہوں اورمیں خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتااوروہی میرامددگار ہے۔‘‘مگر حضرت عمرؓکی طبیعت کاتلاطم لحظہ بلحظہ بڑھ رہا تھا۔کہنے لگے ’’کیا آپؐنے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟آپؐنے فرمایا’’ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضروراسی سال ہوگا؟‘‘عمرؓ نے کہا’’نہیں ایسا تو نہیں کہا۔‘‘آپؐ نے فرمایا’’تو پھر انتظارکرو تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہوگے اورکعبہ کاطواف کروگے۔‘مگراس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہیںہوئی،لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓوہاںسے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓکے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں اورحضرت ابوبکرؓنے بھی اسی قسم کے جواب دئے۔مگرساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا’’دیکھو عمرسنبھل کررہو اوررسول خدا کی رکاب پرجو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو۔کیونکہ خدا کی قسم یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میںاپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ توگیا مگر بعد میںمجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا۔ ۲؎ یعنی صدقے کئے ،روزے رکھے،نفلی نمازیں پڑھیں اورغلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے۔ ۳؎
صُلح کی شرائط
بہرحال بڑی ردّوکدّ کے بعد یہ معاہدہ تکمیل کوپہنچا اورقریباًہرامر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو چھوڑ کر قریش کامطالبہ مان لیا اور خدائی منشا کے ماتحت
اپنے اس عہد کو پوری وفاداری کے ساتھ پورا کیا کہ بیت اللہ کے اکرام کی خاطر قریش کی طرف سے جومطالبہ بھی ہوگا اسے مان لیا جائے گا اوربہرصورت حرم کے احترام کوقائم رکھا جائے گا اس معاہدہ کی شرائط حسب ذیل تھیں۔
۱- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں۔۱؎
۲- آئندہ سال وہ مکہ میں آکر رسم عمرہ اداکرسکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اورمکہ میںتین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ ۲؎
۳- اگرکوئی مرد مکہ والوں میںسے مدینہ جائے توخواہ وہ مسلمان ہی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اورواپس لوٹادیں۔چنانچہ اس تعلق میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ لاَ یَاتِیْکَ مِنَّا رَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلاَّ رَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔یعنی’’ہم میں سے اگر کوئی مرد آپ کے پاس جائے توآپ اسے واپس لوٹا دیں گے۔‘‘ ۳؎
لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ کوچھوڑ کر مکہ میں آجائے تو اسے واپس نہیں لوٹایا جائے گا۔ ۴؎ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اگر مکہ والوں میںسے کوئی شخص اپنے ولی یعنی گارڈین کی اجازت کے بغیر مدینہ آجائے تواسے واپس لوٹادیا جائے گا۔ ۵؎
۴- قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کاحلیف بن جائے اورجو چاہے اہل مکہ کا۔ ۶؎
۵- یہ معاہدہ فی الحال دس سال تک کے لئے ہوگا اوراس عرصہ میں قریش اورمسلمانوں کے درمیان جنگ بندرہے گی۔۱؎
اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں ۲؎ اوربطورگواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر دستخظ ثبت کئے۔مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، ۳؎ حضرت عثمانؓ(جو اس وقت تک مکہ سے واپس آچکے تھے)عبدالرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص اورابوعبیدہ ۴؎ تھے۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد سہیل بن عمرومعاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اوردوسری نقل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہی۔ ۵؎
صحابہؓ میں اضطراب
جب سہیل واپس جاچکا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ’’لواب اٹھو اور یہیں اپنی قربانیاں ذبح کرکے سروں کے بال منڈوا دو
(قربانی کے بعد سر کے بالوں کومنڈوایا یا کتروایاجاتا ہے)اورواپسی کی تیاری کرو۔‘‘مگرصحابہ کو اس بظاہر رسواکن معاہدہ کی وجہ سے سخت صدمہ تھا اورساتھ ہی جب انہیں اس طرف خیال جاتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں ایک خواب کی بنا پر یہاں لائے تھے اوراللہ تعالیٰ نے خواب میں طواف بیت اللہ کا نظارہ بھی دکھایا تھا توان کی طبیعت بہت ہی مضمحل ہونے لگتی تھی اوروہ قریباًبے جانوں کی طرح بے حس وحرکت پڑے تھے۔انہیں خدا کے رسول پرپوراپورا ایمان تھااوراس کے وعدہ پر بھی کامل یقین تھا مگر لوازمات بشریت کے ماتحت ان کے دل اس ظاہری ناکامی پر غموں سے نڈھال تھے اس لئے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا کہ اب یہیں قربانی کے جانور ذبح کردو اورواپس لوٹ چلو تو کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔اس لئے نہیں کہ وہ نعوذ باللہ اپنے رسولؐ کے نافرمان تھے کیونکہ صحابہ سے بڑھ کر دنیاکے پردے پرکوئی فرمانبردارجماعت نہیں گزری ۔پس ان کی طرف سے یہ عدم تعمیل بغاوت یانافرمانی کے رنگ میں نہ تھی بلکہ اس لئے تھی کہ غم اورظاہری ذلت کے احساس نے انہیں اتنا نڈھال کررکھا تھا کہ وہ گویا سنتے ہوئے نہ سنتے تھے اوردیکھتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں کام نہ کرتی تھیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کو دوبارہ سہ بارہ دہرایا مگر کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس کا صدمہ ہوا اورآپؐ خاموش ہوکر اپنے خیمہ کے اندر تشریف لے گئے ۔اندرون خیمہ آپؐکی حرم محترم حضرت امّ سلمہؓ جوایک نہایت زیرک خاتون تھیں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھیں۔انہوں نے اپنے موقر اورمحبوب خاوند کوفکر مند حالت میں اندر آتے دیکھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے آپؐکے فکروتشویش کی تفاصیل معلوم کیں توہمدردی اورمحبت کے انداز میں عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ رنج نہ فرمائیں آپ کے صحابہ خدا کے فضل سے نافرمان نہیں۔مگر اس صلح کی شرائط نے انہیں غم سے دیوانہ بنا رکھا ہے۔پس میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ان سے کچھ نہ فرمائیں،بلکہ خاموشی کے ساتھ باہر جاکر اپنے قربانی کے جانور کوذبح فرماویں اوراپنے سر کے بالوں کو منڈاودیں پھرآپ کے صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے ہولیں گے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ تجویز پسند آئی اورآپؐ نے باہر تشریف لا کر بغیر کچھ کہے اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اپنے سرکے بال منڈوانے شروع کردئے۔صحابہ نے یہ منظر دیکھا تو جس طرح ایک سویا ہوا شخص کوئی شوروغیرہ سن کر اچانک بیدار ہوتاہے وہ چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے اوردیوانہ وار اپنے جانوروں کوذبح کرنا شروع کردیا اورایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے۔مگر غم نے اس قدر بے چین کررکھا تھا کہ راوی بیان کرتا ہے کہ اس وقت ایسا عالم تھا کہ ڈرتھا کہ مسلمان کہیں ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے ایک دوسرے کا گلا ہی نہ کاٹ دیں۔ ۱؎ بہرحال حضرت ام سلمہؓ کی تجویز کارگر ہوئی اورجہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے الفاظ وقتی طورپر ناکام رہے تھے آپؐ کے عمل نے سوتے ہوئوں کو چونکا کر بیدار کردیا۔ ۲؎
حدیبیہ سے واپسی اورسورۃ فتح کانزول
قربانی وغیرہ سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کا حکم دیا۔ اس وقت آپؐ کو
حدیبیہ میں آئے کچھ کم بیس یوم ہوچکے تھے۔جب آپؐ واپسی سفر میں عسفان کے قریب کراع الغمیم میں پہنچے اور یہ رات کا وقت تھا تواعلان کراکے صحابہ کو جمع کروایا اورفرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے اور وہ یہ ہے:
۱؎.... ۱؎
یعنی’’اے رسول!ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے تاکہ ہم تیرے لئے ایک ایسے دور کاآغاز کرادیں جس میں تیری اگلی اورپچھلی سب کمزوریوں پرمغفرت کا پردہ پڑجائے اورتاخدا اپنی نعمت کو تجھ پر کامل کرے اورتیرے لئے کامیابی کے سیدھے رستے کھول دے اورضرورخدا تعالیٰ تیری زبردست نصرت فرمائے گا…حق یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول کی اس خواب کوپورا کردیا جواس نے رسول کودکھائی تھی ۔کیونکہ اب تم انشاء اللہ ضرور ضرور امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے اورقربانیوں کوخدا کی راہ میں پیش کرکے اپنے سر کے بالوں کو منڈوائو گے یاکتروائو گے اورتم پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔‘‘یعنی اگر تم اس سال مکہ میں داخل ہوجاتے تو یہ داخلہ امن کا نہ ہوتا بلکہ جنگ اور خون ریزی کاداخلہ ہوتا مگرخدا نے خواب میں امن کا داخلہ دکھایا تھا اس لئے خدا نے اس سال معاہدہ کے نتیجہ میں امن کی صورت پیدا کردی اوراب عنقریب تم خدا کی دکھائی ہوئی خواب کے مطابق امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
جب آپؐنے یہ آیات صحابہ کو سنائیں توچونکہ بعض صحابہ کے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اورخدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتّٰی کہ بعض جلد باز صحابہ نے اس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہوکر واپس جارہے ہیں؟آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی توآپؐ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اورایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا’’یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لئے ایک بڑی بھاری فتح ہے۔قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے انہوں نے خود جنگ کوترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اورآئندہ سال ہمارے لئے مکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اورہم امن وسلامتی کے ساتھ اہل مکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہوکرآئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جارہے ہیں۔پس یقینا یہ ایک عظیم الشان فتح ہے۔کیا تم لوگ ان نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش اُحد اور احزاب کی جنگوں میںکس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاں کرکر کے آئے تھے۔اوریہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی تھی اورتمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اورکلیجے منہ کو آتے تھے مگرآج یہی قریش تمہارے ساتھ امن وامان کا معاہدہ کررہے ہیں۔‘‘صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ!ہم سمجھ گئے۔ ہم سمجھ گئے۔جہاں تک آپؐ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک ہماری نظر نہیں پہنچتی۔مگراب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لئے ایک بھاری فتح ہے۔ ۱؎
حضرت عمرؓ کا مزید پیچ وتاب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر سے پہلے حضرت عمرؓبھی بڑے پیچ وتاب میںتھے۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی
واپسی پر جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رات کے وقت سفر میں تھے تواس وقت میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کچھ عرض کرنا چاہامگرآپؐخاموش رہے۔میں نے دوبارہ۔سہ بارہ عرض کیا مگر آپؐ بدستور خاموش رہے۔ ۲؎ مجھے آنحضرتؐ کی اس خاموشی پر بہت غم ہوا اورمیں اپنے نفس میں یہ کہتا ہوا کہ عمرتوتوہلاک ہوگیا کہ تین دفعہ تونے رسول اللہؐ کومخاطب کیا مگر آپؐنہیں بولے چنانچہ میں مسلمانوں کی جمعیت میں سے سب سے آگے نکل آیا اوراس غم میں پیچ وتاب کھانے لگا کہ کیا بات ہے؟اورمجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے۔اتنے میں کسی شخص نے میرا نام لے کر آوازدی کہ’’عمر بن خطاب کورسول اللہؐ نے یاد فرمایا ہے۔‘‘میں نے کہا بس ہونہ ہو میرے متعلق کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے۔چنانچہ میںگھبرایا ہوا جلدی جلدی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورسلام عرض کرکے آپؐ کے پہلو میں آگیا۔آپؐنے فرمایا’’مجھ پر اس وقت ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘پھرآپؐ نے سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔۳؎ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔یارسول اللہ!کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے؟آپؐ نے فرمایا’’ہاں یقینا یہ ہماری فتح ہے۔‘‘اس پر حضرت عمرؓ تسلی پاکر خاموش ہو گئے۔۴؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔
مسلمان مہاجر عورتوں کے لئے ایک استثنائی انتظام
معاہدوں میں رخنے رہ جایا کرتے ہیں جوبعض اوقات بعد میں اہم نتائج
کاباعث بن جاتے ہیں۔چنانچہ صلح حدیبیہ میں بھی یہ رخنہ رہ گیا تھا کہ اس میں گو مسلمان مردوں کی واپسی کے متعلق صراحۃً ذکر تھا مگر ایسی عورتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جو اہل مکہ میں سے اسلام قبول کرکے مسلمانوں میں آملیں۔مگرجلد ہی ایسے حالات رونما ہونے لگے جن سے کفار مکہ پراس رخنہ کاوجود کھلے طورپرظاہر ہوگیا۔چنانچہ ابھی اس معاہدہ پربہت تھوڑا وقت گزرا تھا کہ مکہ سے بعض مسلمان عورتیں کفار کے ہاتھ سے چھُٹ کر مدینہ میں پہنچ گئیں۔ان میں سب سے اول نمبر پر مکہ کے ایک فوت شدہ مشرک رئیس عقبہ ابن ابی معیط کی لڑکی ام کلثوم تھی جوماں کی طرف سے حضرت عثمانؓبن عفان کی بہن بھی لگتی تھی۔ امّ کلثوم بڑی ہمت دکھا کر پاپیادہ مدینہ پہنچی۔ ۱؎ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اظہار کیا۔مگر اس کے پیچھے پیچھے اس کے دوقریبی رشتہ دار بھی اس کے پکڑنے کے لئے پہنچ گئے اوراس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ان لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ(گومعاہدہ میں مرد کالفظ استعمال ہوا ہے مگر)دراصل معاہدہ عام ہے اورعورت مرد دونوں پرمساوی اثر رکھتا ہے۔مگر اُمِّ کلثوم معاہدہ کے الفاظ کے علاوہ اس بناء پر بھی عورتوں کے معاملہ میں استثناء کی مدعی تھی کہ عورت ایک کمزور جنس سے تعلق رکھتی ہے اورویسے بھی وہ مرد کے مقابلہ پر ایک ماتحت پوزیشن میں ہوتی ہے اس لئے اسے واپس کرنا گویا روحانی موت کے منہ میںدھکیلنا اوراسلام سے محروم کرنا ہے۔ ۲؎ پس عورتوں کا اس معاہدہ سے مستثنیٰ سمجھا جانا نہ صرف عین معاہدہ کے مطابق بلکہ عقلاًبھی قرین انصاف اورضروری تھا اس لئے طبعاًاورانصافاًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُمِّ کلثوم کے حق میں فیصلہ فرمایا اوراس کے رشتہ داروں کوواپس لوٹادیا اورخداتعالیٰ نے بھی اس فیصلہ کی تائید فرمائی چنانچہ انہی دنوں میں یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں کہ جب کوئی عورت اسلام کا ادعاکرتی ہوئی مدینہ میں آئے تواس کا اچھی طرح سے امتحان کرواوراگر وہ نیک بخت اور مخلص ثابت ہو توپھر اسے کفار کی طرف ہرگز نہ لوٹائو، لیکن اگروہ شادی شدہ ہوتو اس کا مہر اس کے مشرک خاوند کو ضرور اداکردو۔۳؎ اس کے بعد جب بھی کوئی عورت مکہ سے نکل کر مدینہ میں پہنچتی تھی تواس کا اچھی طرح سے امتحان لیا جاتا تھا اوراس کی نیت اور اخلاص کو اچھی طرح پرکھا جاتا تھا۔پھرجوعورتیں نیک نیت اور مخلص ثابت ہوتی تھیں اوران کی ہجرت میں کوئی دنیوی یانفسانی غرض نہیں پائی جاتی تھی توانہیں مدینہ میں رکھ لیا جاتا تھا اوراگروہ شادی شدہ ہوتی تھیں تو ان کا مہر ان کے خاوندوں کوادا کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں میںشادی کرنے کے لئے آزاد ہوتی تھیں۔ ۱؎
مشرک عورتوں کو بھی آزاد کردیا گیا
جہاں ایک طرف مسلمان عورتوں کے لئے یہ خاص صورت تجویز کی گئی وہاں دوسری طرف اس موقع پر مشرک عورتوں
کے متعلق بھی یہ خاص احکام جاری ہوئے کہ اگر کوئی مشرک عورت مسلمانوں کے نکاح میں ہو تو مسلمان اسے آزادکردیں اورآئندہ کے لئے یہ حکم نافذ کیا گیا کہ کوئی مشرک عورت کسی مسلمان مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔یہ احکام بھی قرآن شریف کے ذریعہ نازل ہوئے۔۲؎ اور ان آیات کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اوربعض دوسرے صحابہ نے جن کے نکاح میں اس وقت تک بعض مشرک عورتیں تھیں اپنی مشرک بیویوں کو طلاق دے کر آزاد کردیا۔ ۳؎ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام نے ہر غیر مسلم عورت کے ساتھ نکاح منع نہیں کیا بلکہ صرف مشرک عورتوںکے ساتھ نکاح منع کیا ہے اوراہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح جائز رکھا ہے۔ ۴؎ ان احکام میں مصلحت یہ ہے کہ:
اوّل:تومشرک کامذہب اسلام سے بعید ترین ہے اوردونوں کے درمیان کوئی اتصال کی کڑی نہیں ہے اورایک مشرک عورت کے ساتھ نکاح میں یہ اندیشہ ہے کہ اس کی تربیت میں اولاد دین کے مبادی سے ہی بے بہرہ رہے۔
دوسرے:ایک مشرک انسان کا کوئی ضابطۂ اخلاق معین نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کے ساتھ تعلقات کبھی بھی کسی معین اورمستحکم بنیاد پرقائم نہیں ہوسکتے۔دوسری طرف خاص حالات میں تعلقات کی توسیع کی گنجائش کارکھا جانا بھی ضروری تھا۔پس مشرک عورتوں سے نکاح حرام قرار دے کر باقی غیر مسلم عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی۔دنیا کے موجودہ مذاہب میںسے عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ اہل کتاب کی اصطلاح میں داخل ہیں۔جن سے ایک مسلمان کارشتہ ہوسکتا ہے۔ البتہ افریقہ وغیرہ کی اکثر وحشی اقوام اہل کتاب میںسے نہیں ہیں اوران کے ساتھ رشتہ ہرصورت میں ممنوع ہے۔چونکہ اس مسئلہ میں کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے اس لئے اس جگہ اسی قدر مختصر نوٹ پر اکتفاکی جاتی ہے۔
ابوبصیر کاواقعہ اوراس کے نتائج
معاہدہ حدیبیہ کی شرطوں میںسے ایک شرط یہ تھی کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ کی طرف آوے تو مدینہ
والے اسے پناہ نہیںدیں گے بلکہ واپس لوٹا دیں گے،لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام سے منحرف ہوکر مکہ کا رخ کرے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔بظاہر یہ شرط مسلمانوں کے لئے موجب ہتک سمجھی گئی تھی اوراسی لئے کئی مسلمان اس پر دل برداشتہ تھے۔حتّٰی کہ حضرت عمرؓجیسے جلیل القدر اورفہیم صحابی کوبھی اس وقت کی برق زدہ فضا میں اس شرط پر ناراضگی اور بے چینی پیدا ہوئی تھی۔مگر اس کے بعد جلد ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئی کہ دراصل یہ شرط قریش کے لئے کمزوری کا باعث اورمسلمانوں کی مضبوطی کاموجب تھی۔کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شروع میں ہی فرمادیا تھا اگرکوئی مسلمان مدینہ سے منحرف ہوکر جائے گا تووہ ایک گندہ عضو ہوگا جس کا کاٹا جانا ہی بہتر تھا لیکن اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص سچے دل سے مسلمان ہوکر مکہ سے نکلے گا توخواہ اسے مدینہ میں جگہ ملے یانہ ملے وہ جہاں بھی رہے گا اسلام کی مضبوطی کا باعث ہوگا اوربالآخر اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا ۔ ۱؎ اس نظریہ نے جلد ہی اپنی صداقت کوثابت کردیا۔کیونکہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک شخص ابوبصیر عتبہ بن اسیدثقفی جو مکہ کا رہنے والا تھا اورقبیلہ بنو زہرہ کاحلیف تھا مسلمان ہوکر اورمکہ والوں کی حراست سے بھاگ کر مدینہ پہنچا۔قریش مکہ نے اس کے پیچھے پیچھے اپنے دو آدمی بھجوائے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے التجا کی کہ ابوبصیر کومعاہدہ کی شرائط کے مطابق ان کے حوالہ کردیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوبصیر کوبلایا اور واپس چلے جانے کا حکم دیا۔ابوبصیر نے سامنے سے واویلا کیا کہ میں مسلمان ہوں اوریہ لوگ مجھے مکہ میںتنگ کریں گے اوراسلام سے منحرف ہوجانے کے لئے جبر سے کام لیںگے۔آپ نے فرمایا ’’ہم معاہدہ کی وجہ سے معذور ہیں اورتمہیں یہاں نہیں رکھ سکتے اوراگرتم خدا کی رضا کی خاطر صبر سے کام لوگے توخدا خود تمہارے لئے کوئی رستہ کھول دے گا۔مگر ہم مجبور ہیں اورکسی صورت میں معاہدہ کی خلاف ورزی نہیںکرسکتے۔‘‘ناچارابوبصیر ان لوگوں کے ساتھ واپس روانہ ہوگیا مگر چونکہ اس کے دل میں اس بات کی سخت دہشت تھی کہ مکہ میںپہنچ کر اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جائیں گے اوراسے اسلام جیسی نعمت کوچھپا کر رکھنا پڑے گا بلکہ شاید جبروتشدد کی وجہ سے اس سے ہاتھ ہی دھونا پڑے۔ اس لئے جب یہ پارٹی ذوالحلیفہ میں پہنچی جومدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر مکہ کے رستے پر ہے توابوبصیر نے موقع پاکر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کوجواس پارٹی کارئیس تھاقتل کردیا اور قریب تھا کہ دوسرے کوبھی نشانہ بنائے مگر وہ اپنی جان بچا کر اس طرح بھاگا کہ ابوبصیر سے پہلے مدینہ پہنچ گیا۔۱؎ پیچھے پیچھے ابوبصیر بھی مدینہ میں آپہنچا۔جب یہ شخص مدینہ میں پہنچا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد میںتشریف رکھتے تھے۔اس کی خوف زدہ حالت کودیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔معلوم ہوتا ہے اسے کوئی خوف وہراس کاسخت دھکا لگا ہے اوراس کے ساتھ ہی اس نے خود بھی ہانپتے ہانپتے آپؐ سے عرض کیا کہ’’میرا ساتھی مارا گیا ہے اور میںبھی گویاموت کے منہ میں ہوں۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے واقعہ سنا اورتسلی دی۔اتنے میں ابوبصیر بھی ہاتھ میں تلوار تھامے آن پہنچا اور آتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا’’یارسول اللہ آپ نے مجھے قریش کے حوالے کردیااورآپ کی ذمہ داری ختم ہوگئی مگر مجھے خدا نے ظالم قوم سے نجات دے دی ہے اوراب آپ پر میری کوئی ذمہ داری نہیں ۔‘‘آپؐنے بے ساختہ فرمایا:
وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ ۲؎
یعنی اس کی ماں کے لئے خرابی ہو(یہ الفاظ عربوں کے محاورہ میں لفظی معنوں کونظر انداز کرتے ہوئے ملامت یاتعجب کے موقع پر بولے جاتے ہیں)یہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے کاش کوئی اسے سنبھالنے والا ہو۔
ابوبصیر نے یہ الفاظ سنے توسمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے بہرحال معاہدہ کی وجہ سے واپس جانے کا ارشاد فرمائیں گے۔چنانچہ اس بارے میں بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ ۳؎
یعنی’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے توجان لیا کہ آپؐ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس بھجوادیں گے۔‘‘
اس پر وہ چپکے سے وہاں سے نکل آیا اورمکہ جانے کی بجائے جہاں اسے جسمانی اورروحانی دونوں موتیں نظر آتی تھیں بحیرہ احمر کے ساحل کی طرف ہٹ کر سیف البحر میں پہنچ گیا۔
جب مکہ کے دوسرے مخفی اورکمزور مسلمانوں کو یہ علم ہوا کہ ابوبصیر نے ایک علیحدہ ٹھکانا بنالیا ہے تو وہ بھی آہستہ آہستہ مکہ سے نکل نکل کر سیف البحر میں پہنچ گئے۔انہی لوگوں میںرئیس مکہ سہیل بن عمرو کا لڑکا ابوجندل بھی تھا جس کے متعلق ہم پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حدیبیہ سے واپس لوٹا دیا تھا۔آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد ستر کے قریب ۱؎ یابعض روایات کے مطابق تین سو تک پہنچ گئی۔ ۲؎ اوراس طرح گویا مدینہ کے علاوہ ایک دوسری اسلامی ریاست بھی معرض وجود میں آگئی جومذہباً تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماتحت تھی مگر سیاستاًجُدا اورآزاد تھی۔ چونکہ ایک طرف حجاز کی حدود میں ایک علیحدہ اورآزاد سیاسی نظام کا موجود ہونا قریش کے لئے خطرہ کا باعث تھا اوردوسری طرف سیف البحر کے مہاجر قریش مکہ سے سخت زخم خوردہ تھے اس لئے ابھی زیادہ وقت نہیںگزرا تھا کہ ان مہاجرین سیف البحر اورقریش کے تعلقات نے قریباًقریباًوہی صورت اختیار کرلی جوابتداء میں مہاجرین مدینہ کے متعلق پیدا ہوئی تھی اورچونکہ سیف البحر اس رستہ کے بالکل قریب تھاجو مدینہ سے شام کو جاتا تھا اس لئے قریش کے قافلوں کے ساتھ ان مہاجرین کی مٹھ بھیڑ ہونے لگی۔اس نئی جنگ نے جلد ہی قریش کے لئے خطرناک صورت اختیار کرلی کیونکہ اول تو قریش سابقہ جنگ کی وجہ سے کمزور ہوچکے تھے اوردوسرے اب وہ پہلے کی نسبت تعداد میںبھی بہت کم تھے اوران کے مقابل پر سیف البحر کی اسلامی ریاست جو ابوبصیر اورابوجندل جیسے جان فروشوں کی کمان میںتھی۔ایمان کے تازہ جوش اوراپنے گزشتہ مظالم کی تلخ یاد میں اس برقی طاقت سے معمور تھی جوکسی مقابلہ کو خیال میں نہیں لاتی۔نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی قریش نے ہتھیار ڈال دئے اورابوبصیر کی پارٹی کے حملوں سے تنگ آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سفارت کے ذریعہ درخواست کی اوراپنی رشتہ داری کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ سیف البحر کے مہاجرین کومدینہ میں بلاکر اپنے سیاسی انتظام میں شامل کرلیں اورساتھ ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوصلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ کے نومسلموں کومدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اپنی خوشی سے منسوخ کردیا۔ ۱؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرمالیااورابوبصیر اور ابوجندل کوایک خط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ چونکہ قریش نے اپنی خوشی سے معاہدہ میں ترمیم کردی ہے اس لئے اب انہیں مدینہ میں چلے آنا چاہئے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایلچی سیف البحر پہنچا تواس وقت ابوبصیر بیمار ہوکر صاحب فراش تھا اورحالت نازک ہورہی تھی۔ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کوبڑے شوق کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا اور تھوڑی دیر بعد اسی حالت میں جان دے دی اوراس کے بعد ابوجندل اوراس کے ساتھی اپنے اس باہمت اورجوانمبردامیر کوسیف البحر میں ہی دفن کرکے خوشی اورغم کے مخلوط جذبات کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ۲؎ غم اس لئے کہ ان کا بہادر لیڈر ابوبصیر جو اس واقعہ کا ہیرو تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قدم بوسی سے محروم رہا۔اور خوشی اس بات پرکہ وہ خود اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گئے اور قریش کے خونی مقابلہ سے نجات ملی۔
ابوبصیر اوران کے رفقاء کادلچسپ کارنامہ صلح حدیبیہ کے معاً بعد سے لے کر کئی ماہ کے وقفہ پر پھیلا ہوا تھا اوراس عرصہ میں بعض دوسرے واقعات بھی پیش آئے۔مگر ہم نے صلح حدیبیہ سے تعلق رکھنے والے واقعات کویکجا بیان کرنے کی غرض سے اسے صلح حدیبیہ کے ساتھ ہی بیان کردیا ہے۔
صلح حدیبیہ کے تعلق میں عیسائی مؤرخین کے دواعتراضات
غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کاکوئی
اہم واقعہ ایسا نہیں ہے جسے مسیحی مؤرخین نے بغیر اعتراض کے چھوڑا ہو اورصلح حدیبیہ کاواقعہ بھی اسی کلّیہ کے نیچے آتاہے۔بعض ضمنی اورغیر اہم اعتراضات کونظر انداز کرتے ہوئے عیسائی مصنفین نے صلح حدیبیہ کے تعلق میںدو اعتراض کئے ہیں:
اوّل: یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو صلح حدیبیہ کی شرائط سے عورتوں کومستثنیٰ قرار دیا یہ شرائط معاہدہ کی رو سے جائز نہیں تھا۔کیونکہ معاہدہ کے الفاظ عام تھے جس میں مرد عورت سب شامل تھے۔
دوم: یہ کہ ابوبصیر کے واقعہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدہ کی روح کو توڑا بلکہ ابوبصیر کویہ اشارہ دے کر کہ وہ مکہ میں واپس جانے کی بجائے ایک الگ پارٹی بناکر اپنا کام کرسکتا ہے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔
ان اعتراضوں کے جواب میں سب سے پہلی بات تویہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ معاہدہ قریش مکہ کے ساتھ ہوا تھا اورقریش مکہ وہ قوم تھی جو ابتداء اسلام سے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکارچلی آتی تھی اوربات بات پراعتراض کرنے اور طعنہ دینے کی عادی تھی۔اور ویسے بھی وہ کوئی دوردراز کی غیر قوم نہ تھی بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی ہی قوم تھی جسے سب حالات کاپوراپوراعلم تھا۔اورپھر شرائط معاہدہ کی تمام تفصیلات اوران کا مکمل پس منظر بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔پس جب مکہ کے قریش نے جوفریق معاہدہ تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فعل پراعتراض نہیں کیا اوراسے معاہدہ کے خلاف نہیںسمجھا توتیرہ سوسال بعد میں آنے والے لوگوں کوجن کی آنکھوں سے بہت سی جزئی تفاصیل پوشیدہ ہیں اورانہیں اس معاہدہ کے پس منظر پربھی پوری طرح آگاہی نہیں اعتراض کاحق کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟یہ تو مدعی سست گواہ چست والامعاملہ ہوا کہ جن کے ساتھ یہ سارا قصہ گزرا ہے۔ وہ تواسے درست قرار دے کر خاموش رہتے ہیں مگرتیرہ سوسال بعد میں آنے والوں نے گویا آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے۔آخر یہ کیا وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن وحدیث اورعرب کی تاریخ ان اعتراضوں سے بھرے پڑے ہیں جوکفار مکہ اور دوسرے کفارعرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوراسلام کے خلاف کیا کرتے تھے۔مگر یہ ذکر کسی جگہ نہیں آتا کہ مسلمانوں پرصلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کاالزام لگایاگیا ہو۔
علاوہ ازیں یہ بات مضبوط ترین شہادت سے ثابت ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف تبلیغی خط ارسال کیا اوراس وقت اتفاق سے ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ بھی شام میں گیا ہوا تھا اورہرقل شہنشاہ روم نے اسے اپنے دربار میں بلاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بعض سوالات کئے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ’’کیا تمہاری قوم کے اس مدعی نبوت نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے؟تواس سوال کے جواب میں ابوسفیان نے جو اس وقت رأس المنکرین اوراسلام کا اشدترین دشمن تھا جوالفاظ کہے وہ یہ تھے۔
لاَ وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّۃٍ لَانَدْرِیْ مَاھُوَفَاعِلٌ فِیْھَا وَلاَ یُمْکِنُنِیْ کَلِمَۃً اَدْخُلُ فِیْھَا شَیْئًا غَیْرَھٰذِہٖ الْکَلِمَۃِ۔ ۱؎
یعنی’’نہیں۔محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی ہاں آج کل اس کے ساتھ ہمارے ایک معاہدہ کی میعاد چل رہی ہے اورمیں نہیں کہہ سکتا کہ اس معاہدہ کے اختتام تک اس کی طرف سے کیا امر ظاہر ہو۔ابوسفیان کہتا ہے کہ اس ساری گفتگو میں میرے لئے اس فقرہ کے بڑھادینے کے سوا کوئی اورموقع نہیں تھا کہ میں آپؐ کے خلاف ہرقل کے دل میںکوئی امکانی شبہ پیدا کرسکوں۔‘‘
ابوسفیان اورہرقل کی یہ گفتگو صلح حدیبیہ کے معاًبعد نہیں ہوئی تھی بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل کے نام تبلیغی خط تیار کرکے روانہ کرنے اورپھر اس خط کے ہرقل تک پہنچنے اور پھر ہرقل کی طرف سے دربار منعقد ہونے اور ابوسفیان کوتلاش کرکے اپنے دربار میں بلانے وغیرہ میں لازماً وقت لگا ہوگا اورقرین قیاس یہ ہے کہ اس وقت تک ابوبصیر کے مدینہ میں بھاگ آنے اور امّ کلثوم وغیرہ مسلمان عورتوں کے مکہ سے نکل کر مدینہ پہنچ جانے کے واقعا ت ہوچکے ہوں گے۔ اسی لئے سب مؤرخ ابوبصیر اوراُمِّ کلثوم والے واقعہ کوپہلے اورقیصر روم والے خط کے واقعہ کو اس کے بعد بیان کرتے ہیں مگرباوجود اس کے ابوسفیان ہرقل کے دربار میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف عہدشکنی کاالزام نہیں لگا سکا حالانکہ اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس کی یہ خواہش تھی کہ اگر کوئی ہاتھ پڑ سکے تو دریغ نہ کروں۔مگرباوجود اس کے تیرہ سوسال بعد میں پیدا ہونے والے نقّاد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرعہد شکنی کاالزام لگاتے ہوئے خدا کاخوف محسوس نہیں کرتے۔افسوس صد افسوس!
پھراگر ان اعتراضوں کی تفصیل میں جائیں تو ان کا بوداپن اوربھی زیادہ نمایاں ہوجاتاہے مثلاً پہلا اعتراض یہ ہے کہ دراصل معاہدہ میںمرد اورعورتیں دونوں شامل تھیں مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زبردستی سے کام لے کر عورتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا،لیکن جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں یہ اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ معاہدہ کے وہ الفاظ جوصحیح ترین روایت میںبیان ہوئے ہیں ان میں صراحۃً مذکور ہے کہ معاہدہ میں صرف مرد مراد تھے نہ کہ مرد اورعورتیں دونوں۔چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں صحیح بخاری میں معاہدہ کے یہ الفاظ درج ہیں:
لاَ یَاتِیْکَ مِنَّارَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلاَّرَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔ ۱؎
یعنی’’ہم میں سے جو مرد بھی آپ کی طرف جائے گا وہ خواہ مسلمان ہی ہوگا اسے ہماری طرف لوٹا دیاجائے گا۔‘‘
ان واضح اورغیر مشکوک الفاظ کے ہوتے ہوئے یہ اعتراض کرنا کہ دراصل معاہدہ میں مرد وعورت دونوں مراد تھے صرف بے انصافی ہی نہیں بلکہ انتہائی بددیانتی ہے۔اوراگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کی بعض روایتوں میں معاہدہ کے الفاظ میں رجل(مرد)کالفظ مذکور نہیںبلکہ عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں مردوعورت دونوں شامل سمجھے جاسکتے ہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ اول توبہرحال مضبوط روایت کومقدم سمجھا جائے گا اورجب صحیح ترین روایت میں رجل(مرد)کالفظ آتا ہے تولازماً اسی کو صحیح لفظ قرار دینا ہوگا علاوہ ازیں جوالفاظ تاریخی روایت میں آتے ہیں وہ بھی اگر غور کیا جائے تواسی تشریح کے حامل ہیں جو ہم نے اوپربیان کی ہے۔مثلاًتاریخ کی سب سے زیادہ مشہور اورمعروف کتاب سیرۃ ابن ہشام میں یہ الفاظ آتے ہیں:
مَنْ اَتٰی مُحَمَّدًامِنْ قُرَیْشٍ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّہٖ رَدَّہٗ عَلَیْھِمْ۔ ۱؎
یعنی’’جو شخص قریش میںسے محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پاس اپنے گارڈین کی اجازت کے بغیر پہنچے گا اسے قریش کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا۔‘‘
عربی کے ان الفاظ میں بے شک ’’مرد‘‘کالفظ صراحۃً بیان نہیں ہوا مگر عربی زبان کاابتدائی علم رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ عربی میں بخلاف بعض دوسری زبانوں کے عورت اورمرد کے لئے علیحدہ علیحدہ صیغے اورعلیحدہ علیحدہ ضمیریں استعمال ہوتی ہیں اوراوپر کی عبارت میں شروع سے لے کر آخرتک مردوں والے صیغے اورمردوں والی ضمیریں استعمال کی گئی ہیں ۔پس جیسا کہ معاہدوں کی زبانوں کی تشریح کااصول ہے لازماًاس عبارت میں صرف مرد ہی شامل سمجھے جائی گے نہ کہ عورت اورمرددونوں۔بیشک بعض اوقات عام محاورہ میں مردانہ صیغہ بول کر اس سے مرد وعورت دونوں مراد لے لئے جاتے ہیں مگرظاہر ہے کہ زیربحث عبارت اس قسم کی عبارت نہیں ہے بلکہ معاہدہ کی عبارت ہے جسے قانون کادرجہ بلکہ اس سے بھی اوپر کادرجہ حاصل ہوتاہے ۔کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر رکھا جاتا ہے اورالفاظ کا انتخاب دونوں فریقوں کی جرح اورمنظوری کے بعد ہوتا ہے لہذا ایسی عبارت میںلازماً وہی معنی لئے جائیں گے جومحدود ترین اورمخصوص ترین پہلو رکھتے ہوں۔پس اس جہت سے بھی بہرحال یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس معاہدہ میں صرف مرد شامل تھے نہ کہ مرد اورعورت دونوں۔
علاوہ ازیں جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے عورت جو ایک کمزور جنس ہے اورعموماً اپنے خاوند یامرد رشتہ داروں کے رحم پر ہوتی ہے اسے واپس لوٹانے کے یہ معنی تھے کہ اسے اسلام لانے کے بعد پھر اپنے ہاتھوں سے کفر اورشرک کی طرف لوٹا دیا جائے جو نہ صرف رحم وشفقت بلکہ عدل وانصاف کے جذبہ سے بھی بعید تھا۔بیشک ایک مرد کو واپس لوٹانے میںبھی اس کے لئے یہ خطرہ تھا کہ مکہ کے کفار اسے مختلف قسم کے عذابوں اوردکھوں میں مبتلا کریںگے مگرمرد پھربھی مرد ہے۔وہ نہ صرف تکلیفوں کا زیادہ مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ حسب ضرورت ادھرادھرچھپ کریابھاگ کریاجتھہ وغیرہ بناکر اپنے لئے بچائو کے کئی رستے کھول سکتا ہے مگر ایک بے بس عورت کیا کرسکتی ہے؟اس کے لئے ایسے حالات میں یاتواسلام سے جبری محرومی کی صورت تھی اوریاموت۔اندریں حالات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسی رحیم وکریم ہستی سے بالکل بعید تھا کہ بے کس اوربے بس مسلمان عورتوں کوظالم کفار کے مظالم کی طرف لوٹا دیتے۔پس جو کچھ کیا گیا وہ نہ صرف معاہدہ کے الفاظ کی رو سے بالکل صحیح اور درست تھا بلکہ عدل وانصاف اوررحم وشفقت کے مسلّمہ اصول کے لحاظ سے بھی عین مناسب اور درست تھا اوراعتراض کرے والوں کے حصہ میں اس قابل افسوس شرم کے سوا کچھ نہیں آیا کہ انہوں نے مظلوم اوربے بس عورتوں کی حفاظت کے انتظام پربھی زبان طعن دراز کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
دوسرا اعتراض ابوبصیر کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے۔مگر غور کرنے سے یہ اعتراض بھی بالکل بودا اورکمزور ثابت ہوتا ہے۔بیشک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ فرمایا تھا کہ کفار مکہ میں سے جوشخص یعنی جو مرد مدینہ بھاگ کر آجائے گا تووہ خواہ مسلمان ہی ہوگا اسے مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اورواپس لوٹا دیا جائے گا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی؟ہرگز نہیں،ہرگزنہیں۔بلکہ آپؐنے اس معاہدہ کے ایفاء کاایسا کامل اور شان دار نمونہ دکھایا کہ دنیا اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔غورکرو اوردیکھو کہ ابوبصیر اسلام کی صداقت کاقائل ہوکر مکہ سے بھاگتا ہے اورکفار کے مظالم سے محفوظ ہونے اوراپنا ایمان بچانے کے لئے چھپتا چھپاتا مدینہ میں پہنچ جاتا ہے مگر اس کے ظالم رشتہ دار بھی اس کے پیچھے پیچھے پہنچتے ہیں اور اسے تلوار کے زور سے اسلام کی صداقت سے منحرف کرنے کے لئے جبراًواپس لے جانا چاہتے ہیں۔اس پر یہ دونوں فریق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ابوبصیر بھرائی ہوئی آواز اورسہمے ہونے انداز میں عرض کرتا ہے کہ یارسول اللہ!مجھے خدا نے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اورمکہ واپس جانے میں جودکھ اورخطرہ کی زندگی میرے سامنے ہے اسے آپ جانتے ہیں۔خدا کے لئے مجھے واپس نہ لوٹائیں۔مگر اس کے مقابل پرابوبصیر کے رشتہ دار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کااورہمارا معاہدہ ہے کہ ہماراجوآدمی بھی مدینہ آئے گا اسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔ابوبصیر کا دکھ اوراپنے صحابہ کی غیرت آپؐ کی آنکھوں کے سامنے ہے اور خود آپؐکے اپنے جذبات آپؐکے دل میں تلاطم برپا کررہے ہیں۔مگر یہ امانت ودیانت کامجسمہ اپنے عہدپر چٹان کی طرح قائم رہتے ہوئے فرماتا ہے اورکن پیارے الفاظ میں فرماتا ہے:
یَااَبَابَصِیْرٍاِنَّاقَدْاَعْطَیْنَا ھٰؤُلاَئِ الْقَوْمَ مَاقَدْعَلِمْتَ وَلاَ یَصْلَحُ لَنَافِیْ دِیْنِنَا الْغَدْرَوَاِنَّ اللّٰہَ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَّعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ خَرَجًاوَّمَخْرَجًافَانْطَلِقْ اِلٰی قَوْمِکَ۔ ۱؎
یعنی’’اے ابوبصیر!تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کواپنا عہدوپیمان دے چکے ہیں اورہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں ہے۔پس تم ان لوگوں کے ساتھ چلے جائو۔پھر اگر تم صبرواستقلال کے ساتھ اسلام پر قائم رہو گے توخدا تمہارے لئے اورتم جیسے دوسرے بے بس مسلمانوں کے لئے خود کوئی نجات کارستہ کھول دے گا۔‘‘
اس ارشاد نبوی ؐپرابوبصیر مکہ والوں کے ساتھ واپس چلا گیا اورجب وہ مکہ کے رستہ میں اپنے قید کرنے والوں کے ساتھ لڑائی میں غالب ہوکر پھر دوبارہ واپس آیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی غصہ کے ساتھ فرمایا:
وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ ۲؎
یعنی’’خرابی ہو اس ماں کے لئے۔یہ شخص تولڑائی کی آگ بھڑکارہا ہے۔کاش اسے کوئی سنبھالنے والا ہو۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی ابوبصیر یہ یقین کرلیتا ہے کہ آپؐاسے بہرحال واپس لوٹا دیں گے۳؎ اورمدینہ سے چپکے چپکے نکل آتا ہے اورایک دور کی علیحدہ جگہ میں اپنا ٹھکانا بنالیتا ہے۔اب اس سارے واقعہ کو انصاف کی نظر سے دیکھو کہ ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور آپ کے خلاف کیا اعتراض ہوسکتاہے؟بلکہ حق یہ ہے کہ آپؐنے اس معاملہ میںاپنے جذبات کوکچلتے ہوئے معاہدہ کوپورا کیا اورنہ صرف ایک دفعہ بلکہ دودفعہ ابوبصیر کوواپس لوٹا دیا اورواپس بھی ایسے شان دار الفاظ میں لوٹا یا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔آپؐنے اپنے جذبات کوکچلا۔ اپنے صحابہ کے جذبات کوکچلا اورابوبصیر کے جذبات کوکچلا اورہر حال میں معاہدہ کو پورا کیا۔پھر اگر ابوبصیر خود اہل مکہ سے آزاد ہوکر کسی اور جگہ چلاگیا تو اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اورمعاہدہ کی وہ کون سی شرط ہے جس کے مطابق آپؐ اس بات کے پابند تھے کہ خواہ مکہ سے بھاگا ہوا شخص کہیں بھی ہوآپؐاسے مکہ میں واپس پہنچا دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔ افسوس!افسوس!!اسلام کے دشمنوں نے کسی بات میں بھی اسلام سے انصاف نہیں کیا۔
اوراگریہ اعتراض کیا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابوبصیر کواس کے قائم کردہ کیمپ میں حکم بھجواسکتے تھے کہ تم مدینہ واپس چلے آئو اوریہ کہ چونکہ آپؐنے ایسا نہیں کیا اس لئے آپؐنے گویا معاہدہ کے الفاظ کوتو نہیں مگران کی روح کو توڑا۔سو یہ اعتراض بھی ایک سراسر جہالت کا اعتراض ہے اور خود معاہدہ کے الفاظ اوران الفاظ کی روح اسے رد کرتے ہیں۔معاہدہ کی یہ شرط کہ اگر کوئی مکہ کا رہنے والا مسلمان بھاگ کرمدینہ میں پہنچے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے واپس لوٹادیںگے صاف طورپر ثابت کرتی ہے کہ اس شرط کی غرض وغایت یہ تھی کہ ایسے شخص کوباوجود اس کے مسلمان ہونے کے مدینہ کی اسلامی سیاست کے دائرہ میں قبول نہیں کیاجائے گا یعنی گووہ عقیدہ کی رو سے مسلمان ہوگامگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے اپنی مدنی سیاست میں شریک نہیں کریں گے۔توجب ایسا شخص خود معاہدہ کی شرائط کے ماتحت مدینہ کی اسلامی سیاست سے خارج قرار دیا گیا تھا تو اس کے متعلق یہ مطالبہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جہاں بھی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے حکم دے کر واپس لوٹا دیںگے۔ پس یہ کتنا بھاری ظلم ہے کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے شخص کومدینہ میں رکھتے ہیں تو آپؐ پریہ اعتراض ہوتاہے کہ آپ کامعاہدہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود آپؐاسے اپنی سیاست میںشامل نہیں کریں گے اوراگر آپ اسے اپنی مدنی سیاست سے خارج کرکے اہل مکہ کے سپرد کرتے اورمدینہ سے نکالتے ہیں توپھر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ اسے اپنی سیاست میں شامل کرکے حکم کیوں نہیںبھجواتے۔پس سیاسی لحاظ سے یہ ایک ایسا بودا اورایسا کمزور اور ایسا لایعنی اعتراض ہے کہ کوئی سمجھ دار شخص اس کی طرف توجہ نہیں کرسکتا۔اور حق یہ ہے کہ یہ نامعقول شرط جوکفار کی طرف سے معاہدہ میں شامل کی گئی تھی کہ کسی مسلمان مہاجر کومدینہ میں پناہ نہ دی جائے خدا نے اسی کو ان کے لئے عذاب بناکر بتادیاکہ ہمارے رسولؐنے تو بہرحال معاہدہ کی پابندی کی مگر تم نے اپنے رستہ میں خود کانٹے بوئے اورخود اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیار سے اپنے ہاتھ کاٹے۔ جب تم نے خود کہا کہ مکہ کاجونوجوان بھی مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں نہیں رکھیں گے اوریہ کہ وہ مدینہ کی سیاست سے خارج سمجھا جائے گا تو پھر اسی منہ سے تم یہ مطالبہ کس طرح کرسکتے ہو کہ یہ مدنی سیاست سے خارج لوگ جہاں جہاں بھی ہوں انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حکم دے کر اوران پر اپنی سیاست قائم کرکے مکہ پہنچائیں؟تم نے خود یہ شرط پیش کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی روحوں پراوران کے اُمور اُخروی پر تو بیشک حکومت کریں مگر ان کی سیاست اوردنیوی امور پرحاکم نہ بنیں۔اورجب تم نے خود انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیاست سے نکال دیا تو پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کیسا؟بہرحال یہ قریش مکہ کا اپنا مکر تھا جوخود انہی پرلوٹ کر گرا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کادامن بہرصورت پاک تھا اورپاک رہا۔آپؐنے معاہدہ کے الفاظ کوبھی پورا کیا اور ابوبصیر کومکہ والوں کے سپرد کرتے ہوئے مدینہ سے رخصت کردیا۔اورپھرآپؐنے معاہدہ کی روح کوبھی پورا کیا کہ جیسا کہ اس شرط کااصل منشا تھا۔آپؐ نے ابوبصیراوراس کے ساتھیوں کواپنی سیاست کے دائرہ سے خارج رکھا۔پس آپ ہرجہت سے سچے رہے اورکفار مکہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال کا خود شکار ہوکر رہ گئے اوربالآخر خود ذلیل ہوکر آپؐکے پاس آئے کہ ہم اس شرط کومعاہدہ سے خارج کرتے ہیں۔
اوریہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہہ کر کہ وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ (یعنی اس کی ماں کے لئے خرابی ہویہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکار رہا ہے۔کاش کوئی اسے سنبھالنے والا ہو) ابوبصیر کواشارہ کیا تھا کہ تم الگ پارٹی بناکر قریش سے جنگ شروع کردو،کتنا ظلم اورکتنی گندی ذہنیت اورحالات پیش آمدہ سے کتنی جہالت ہے!یہ الفاظ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اورناواجب جنگ سے آپؐکی بیزاری کابین ثبوت ہیں اوراس بات کوثابت کرتے ہیں کہ آپؐ ابوبصیر کے اس فعل سے بریت اوربیزاری کااظہار فرمارہے ہیں نہ یہ کہ اسے کوئی مخفی اشارہ دے کر جنگ پر اُبھارنا چاہتے ہیں۔
اوراگر کوئی شخص یہ خیال کرے جیسا کہ سرولیم میور نے خیال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری الفاظ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌکے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ’’اگر اسے کوئی ساتھی مل جائے‘‘ اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپؐکایہی منشا تھا کہ اگرابوبصیر کوکوئی ساتھی مل جائے تووہ جنگ کی آگ بھڑکا سکتا ہے اوراس طرح اس کلام میںگویا جنگ کی انگیخت کااشارہ پایا جاتا ہے تواس کا یہ جواب ہے کہ اول توجو معنی ہم نے کئے ہیں وہ عربی محاورہ کے عین مطابق ہیں جس کی مثالیں حدیث میںبھی کثرت سے ملتی ہیں۔علاوہ ازیں اگربالفرض دوسرے معنی جائز بھی ہوں تو پھر بھی عبارت کے سیاق وسباق کے ماتحت اس فقرہ کامطلب اس کے سوا کوئی اور نہیں لیا جاسکتا کہ اگر ابوبصیر کواس کا کوئی ہم خیال ساتھی مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکادے مگر شکر ہے کہ اسے مدینہ میں کوئی ایسا ساتھی میسر نہیں۔پس خواہ کوئی معنی لئے جائیں اس عبارت کاسیاق وسباق اور اس کے ابتدائی ٹکڑے اس بات کاکافی وشافی ثبوت ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشا ابوبصیر کوملامت کرنا تھا نہ کہ جنگ کے لئے اُبھارنا۔کیااپنے کلام کو اس غصہ اورملامت کے الفاظ سے شروع کرنے والا شخص کہ’’فلاں شخص کی ماں کے لئے خرابی ہو وہ تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے۔‘‘اس کے معاًبعد اس قسم کے الفاظ منہ پر لاسکتا ہے کہ’’ہاں ہاں جنگ کی آگ بھڑکائو؟‘‘آخر اعتراض کرنے کے شوق میں عقل کوتو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے !پھرسب سے بڑی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خود ابوبصیر پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان الفاظ نے کیا اثر کیا اوراس نے آپؐکاکیامطلب سمجھا۔سواس کے متعلق اسی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ:
فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ ۱؎
یعنی’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو اس نے سمجھ لیا کہ آپ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس لوٹا دیںگے۔‘‘جس پروہ چپکے سے بھاگ کردوسری طرف نکل گیا۔
افسوس!صدافسوس!!کہ جس شخص کومخاطب کرکے یہ الفاظ کہے گئے وہ خود تو ان کا یہ مطلب سمجھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل کوناپسند کیا ہے اورآپؐ بہرحال اسے مکہ کی طرف واپس لوٹادیں گے مگر ہمارے تیرہ سوسال بعد آنے والے مہربان یہ کہہ رہے ہیں کہ دراصل آپؐنے ابوبصیر کوالگ پارٹی بناکر جنگ کرنے کی انگیخت کی تھی۔تعصب کاستیاناس ہو۔بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔
اسلامی سیاست اسلام کے دینی نظام سے علیحدہ بھی ہوسکتی ہے
ابوبصیر والے واقعہ سے اسلامی اصول سیاست کے متعلق بھی ایک اہم استدلال ہوتا ہے یعنی یہ کہ خاص حالات میں بعض علاقوں کے مسلمانوں کی سیاست ان کے مشترکہ دینی نظام سے
علیحدہ بھی ہوسکتی ہے۔میرا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کواپنے ایسے سیاسی نظام میں جوخود ان کے اپنے اختیار میں ہو اسلامی اصولوں کے ترک کردینے کااختیار ہے۔کیونکہ بہرحال جوقوم بھی اسلام پر ایمان لاتی ہے اس کا فرض ہے کہ اپنی دینی اوردنیوی زندگی کواسلام کی تعلیم کے مطابق بنائے۔پس میری مراد یہ نہیں کہ مسلمانوں کاکوئی حصہ اپنی سیاست میں دینی اصولوں کوترک کردینے کاحق رکھتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر مسلمان دویادو سے زیادہ علیحدہ علیحدہ ملکوں میں آباد ہوں،یا جغرافیائی لحاظ سے ایک ملک میں رہتے ہوئے بھی ان کی تنظیم ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتو وہ ایک مشترکہ امام اورمقتدا کی دینی اور روحانی قیادت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ سیاست قائم کرسکتے ہیں بلکہ اگر اس صورت میں ایک پارٹی امام کی روحانی اقتدا کے علاوہ امام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس کی سیاست میں منسلک ہوتو پھر بھی دوسری پارٹی امام کی دینی اورروحانی اقتدا میں ہونے کی باوجود اپنا علیحدہ سیاسی نظام رکھ سکتی ہے گویااس صورت میںجہاں ایک پارٹی دینی اورسیاسی ہردو لحاظ سے امام کے ساتھ ہوگی وہاں دوسری پارٹی دینی لحاظ سے تو امام کے ساتھ ہوگی مگر سیاست میں علیحدہ نظام رکھے گی۔یہ استدلال ابوبصیر کے واقعہ سے اس طرح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی اس شرط کوقبول کیا کہ اگر مکہ کاکوئی مسلمان مدینہ میں آئے توآپؐاسے مدینہ میں رکھ کر اپنی سیاست میں شامل نہیں کریں گے۔بلکہ واپس لوٹادیں گے اورپھر اس شرط کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملاًبھی ابوبصیر اوراس کی پارٹی کوان کے مسلمان ہونے کے باوجود مدینہ کی سیاست سے خارج رکھا۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاصلح کی اس شرط کوقبول کرنا اوراس کے مطابق عمل کرنا ثابت کرتاہے کہ آپؐنے اس طریق کوجائز قرار دیا ہے کہ مختلف علاقوں کے مسلمان ایک دین پرقائم ہوتے ہوئے بلکہ ایک امام کے ماتحت ہوتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ سیاست رکھ سکتے ہیں اوریہ ایک نہایت اہم استدلال ہے جو ابوبصیر کے واقعہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل سے ہوتا ہے اوردراصل اسی قسم کے حالات کے پیش نظر قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ:
۱؎
یعنی’’ اگرمومنوں میں سے دوپارٹیاں آپس میں لڑپڑیں توان کے درمیان صلح کرادو پھر اگر صلح کے بعد ان میں سے کوئی پارٹی دوسری کے خلاف سینہ زوری اورسرکشی سے کام لے (اورشرائط کو توڑے)توپھر سب مل کر اس پارٹی کے خلاف لڑائی کرو جوسرکشی سے کام لے رہی ہو یہاں تک کہ وہ سیدھی ہوکرخدا کے فیصلہ کے سامنے جھک جائے۔پھراگر وہ سینہ زوری اور سرکشی سے باز آکر جھک جائے توپھر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان پورے عدل وانصاف کے ساتھ صلح کرا دو اوردیکھو عدل کے ترازو کوبہرحال برابر رکھو۔کیونکہ خداعدل کرنے والے لوگوں کوپسند کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں افراد کی لڑائی یاایک سیاسی نظام کے اندر رہنے والی پارٹیوں کی باہم لڑائی مراد نہیں ہے بلکہ ایسی پارٹیوں کی لڑائی مراد ہے جواسلام پرقائم ہونے اوردینی لحاظ سے متحد ہونے کے باوجود علیحدہ علیحدہ سیاسی نظام رکھتی ہیں۔بلکہ یہ وہ زریں اصول ہے جو صرف اسلامی پارٹیوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں اورتمام پارٹیوں پریکساں چسپاں ہوتاہے اور دراصل یہی وہ اصول ہے جوبرسرپیکار قوموں کے درمیان حقیقی امن قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

صُلححُدیبیہؔ اوراس کے عظیم الشان نتائج
ذوقعدہ ۱؎۶ہجری

صلح حدیبیہ کی اہمیت
اب ہم اسلامی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہونے لگے ہیں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے دوسرے دور میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
میری مراد صلح حدیبیہ سے ہے جس کے نتیجہ میں کفار مکہ اورمسلمانوں کے درمیان جنگ وجدال کا سلسلہ بند ہوکر اسلام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اوردنیا کو اس بات کے اندازہ کرنے کاموقع میسرآیا کہ اسلام کی اصل طاقت صلح میں ہے نہ کہ جنگ میں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں بظاہر جنگ نہیں تھی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ رئوساء قریش کی حکومت کے ماتحت زندگی گزارتے تھے مگر قریش کی یہ حکومت جنگ سے بھی بڑھ کر مظالم ومصائب کامنظر پیش کرتی تھی کیونکہ قریش کی ساری طاقت اسلام کو مٹانے میں خرچ ہورہی تھی۔اس کے بعد مدنی زندگی کادورآیا تواس کے ساتھ ہی جنگ کاآغاز ہوگیا اوربے چارے مسلمان ایک مصیبت میں سے نکل کر دوسری مصیبت اوربعض لحاظ سے بڑی مصیبت میں مبتلا ہوگئے،اس لئے حقیقتاًآج تک اسلام کو اپنی صلح کی طاقت کے اظہار کاموقع ہی نہیں ملا تھا،لیکن صلح حدیبیہ نے جس کا اب ہم ذکر شروع کرنے لگے ہیں یہ موقع میسر کرادیا۔اوردنیا جانتی ہے کہ اس امتحان میں اسلام نے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت کردی کہ اس کی صلح کی طاقت اس کی جنگ کی طاقت سے بدرجہابہتر اوربدرجہا افضل ہے۔الغرض وہ تاریخی واقعہ جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔اورہم اپنے ناظرین سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے حالات کو نظرغور سے مطالعہ فرمائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب اور سفر حدیبیہ
ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے
مدینہ میں تشریف لائے تو اس کے جلد بعد ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس کی طرف سے بدل کر بیت اللہ کی طرف پھیر دیا تھااوراس تحویل قبلہ کے ساتھ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ حکم بھی دیا تھا کہ اپنی توجہ کومکہ کی طرف لگائے رکھیں اوراس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ مکہ اسلام کامذہبی مرکز ہے جو جتنی جلدی بھی ممکن ہو مسلمانوں کے قبضہ میں آجاناچاہئے۔ ۱؎ ان احکام کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہمیشہ مکہ کی طرف خیال لگا رہتا تھا اورپھر وطن ہونے کی وجہ سے بھی آپؐ کواورآپؐ کے ساتھ کے مہاجرین کومکہ کے ساتھ طبعاًخاص محبت تھی۔اس پر اتفاق یہ ہوا کہ انہی دنوں میں جن کاہم ذکر کررہے ہیں،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھی کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہے ہیں۔ ۲؎ اس وقت ذوقعدہ کامہینہ قریب تھا جوزمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مبارک مہینوں میںسے سمجھا جاتا تھا جن میں ہر قسم کا جنگ وجدال منع تھا۔ گویا ایک طرف آپؐنے یہ خواب دیکھی اوردوسری طرف یہ وقت بھی ایسا تھا کہ جب عرب کے طول وعرض میں جنگ کاسلسلہ رک کر امن وامان ہوجاتا تھا اورگویہ حج کے دن نہیں تھے اورابھی تک اسلام میں حج باقاعدہ طورپر مقرر بھی نہیں ہوا تھا،لیکن خانہ کعبہ کاطواف ہروقت ہوسکتا تھا اس لئے آپؐ نے اس خواب دیکھنے کے بعد اپنے صحابہ سے تحریک فرمائی کہ وہ عمرہ کے واسطے تیاری کرلیں۔عمرہ گویا ایک چھوٹی قسم کا حج تھا جس میں حج کے بعض مناسک کو ترک کرکے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی پراکتفا کی جاتی تھی اوربخلاف حج کے اس کے لئے سال کاکوئی خاص حصہ بھی معین نہیں تھا بلکہ یہ عبادت ہرموسم میں ادا کی جاسکتی تھی۔اس موقع پر آپؐ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کاجنگی مقابلہ مقصود نہیں ہے بلکہ محض ایک پرامن دینی عبادت کابجا لانا مقصود ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں البتہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کونیاموں کے اندر بند کرکے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جاسکتا ہے اورساتھ ہی آپ نے مدینہ کے گردونواح کے بدوی لوگوں میں بھی جوبظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے یہ تحریک فرمائی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوکر عمرہ کی عبادت بجالائیں۔مگر افسوس ہے کہ ایک نہایت قلیل یعنی برائے نام تعداد کے سواان مسلمان کہلانے والے کمزور ایمان بدوی لوگوں نے جو مدینہ کے آس پاس آباد تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے سے احتراز کیا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ خواہ مسلمانوں کی نیت عمرہ کے سوا کچھ نہیں مگر قریش بہرحال مسلمانوں کو روکیں گے اوراس طرح مقابلہ کی صورت پیدا ہوجائے گی اوروہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ مقابلہ مکہ کے قریب اورمدینہ سے دورہوگا اس لئے کوئی مسلمان بچ کر واپس نہیں آسکے گا۔ ۱؎ بہرحال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کچھ اوپر چودہ سو صحابیوں کی جمعیت کے ساتھ ذوقعدہ۶ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے روانہ ہوئے۔اس سفر میں آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہؓآپؐ کے ہم رکاب تھیں اورمدینہ کاامیر نمیلہ بن عبداللہ کواورامام الصلوٰۃ عبداللہ بن ام مکتوم کوجوآنکھوں سے معذور تھے مقرر کیا گیاتھا۔ ۲؎
جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے جومدینہ سے قریباًچھ میل کے فاصلہ پر مکہ کے رستہ پرواقع ہے ۳؎ تو آپؐ نے ٹھہرنے کا حکم دیا اورنماز ظہر کی ادائیگی کے بعد قربانی کے اونٹوں کوجوتعداد میں ستر تھے نشان لگائے جانے کا ارشاد فرمایا اورصحابہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ حاجیوں کامخصوص لباس جو اصطلاحاً احرام کہلا تا ہے پہن لیں اورآپؐنے خود بھی احرام باندھ لیا۔ ۴؎ اورپھر قریش کے حالات کاعلم حاصل کرنے کے لئے کہ آیا وہ کسی شرارت کاارادہ تونہیں رکھتے،ایک خبر رساں بُسر بن سفیان نامی کوجو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا جو مکہ کے قرب میں آ باد تھے آگے بھجوا کر آہستہ آہستہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ۵؎ اورمزید احتیاط کے طور پر مسلمانوں کی بڑی جمعیت کے آگے آگے رہنے کے لئے عباد بن بِشر کی کمان میں بیس سواروں کاایک دستہ بھی متعین فرمایا۔ ۶؎ جب آپؐچندروز کے سفر کے بعد عسفان کے قریب پہنچے جومکہ سے قریباً دو منزل کے رستہ پر واقع ہے توآپ کے خبر رساں نے واپس آکر آپؐ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیںاورآپ کو روکنے کاپختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔ ۷؎ حتّٰی کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اوروحشت کے اظہار کے لئے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اورجنگ کاپختہ عزم کرکے بہرصورت مسلمانوں کوروکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چندجانباز سواروں کاایک دستہ خالدبن ولید کی کمان میںجو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوادیا ہے۔اوریہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اوراس دستہ میں عکرمہ بن ابوجہل بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ کو حکم دیا کہ مکہ کے معروف رستہ کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں۔چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزاراورکٹھن رستہ پر پڑ کرسمندر کی جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے۔ ۱؎
جب آپؐاس نئے رستہ پر چلتے ہوئے حدیبیہ کے قریب پہنچے جومکہ سے ایک منزل یعنی صرف نومیل کے فاصلہ پر ہے۔ ۲؎ اور حدیبیہ کی گھاٹیوں پرسے مکہ کی وادی کاآغاز ہوجاتا ہے توآپؐ کی اونٹنی جو القصوا کے نام سے مشہور تھی اوربہت سے غزوات میں آپؐکے استعمال میں رہ چکی تھی یکلخت پائوں پھیلا کر زمین پر بیٹھ گئی اورباوجود اٹھانے کے اٹھنے کا نام نہ لیتی تھی۔صحابہ نے عرض کیا کہ شاید یہ تھک گئی ہے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’نہیں نہیں یہ تھکی نہیں اورنہ ہی اس طرح تھک کر بیٹھ جانا اس کی عادت میں داخل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جس بالاہستی نے اس سے پہلے اصحاب فیل کے ہاتھی کومکہ کی طرف بڑھنے سے روکا تھا اُسی نے اب اس اونٹنی کوبھی روکا ہے۔پس خدا کی قسم مکہ کے قریش جومطالبہ بھی حرم کی عزت کے لئے مجھ سے کریں گے میں سے قبول کروں گا۔‘‘اس کے بعد آپؐ نے اپنی اونٹنی کوپھر اٹھنے کی آواز دی اورخدا کی قدرت کہ اس دفعہ وہ جھٹ اٹھ کر چلنے کو تیار ہوگئی۔اس پرآپؐاسے وادی حدیبیہ کے پرلے کنارے کی طرف لے گئے اوروہاں ایک چشمہ کے پاس ٹھہر کراونٹنی سے نیچے اتر آئے اوراسی جگہ آپؐ کے فرمانے پرصحابہ نے ڈیرے ڈال دئے۔ ۳؎
مسلمانوں کوپانی کی تکلیف اورتکثیر الماء کامعجزہ
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ صحابہ کی ایک پارٹی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی
اورعرض کیا کہ چشمہ کاپانی ختم ہوکر خشک ہوگیا ہے اوراب انسان اورجانور سخت تکلیف میں ہیں۔اس کے لئے کیا کیا جائے؟ ۴؎ آپؐ نے ایک تیر لیا اورحکم دیا کہ اس تیر کو خشک شدہ چشمہ کی تہ میں نصب کر دیاجائے۔۱؎ اورآپؐخود چشمہ کے کنارے پرتشریف لاکر وہاں بیٹھ گئے اور تھوڑا ساپانی لے کر اسے اپنے منہ میں ڈالا اورپھر خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ پانی اپنے منہ سے چشمہ کے اندر انڈیل دیا اورصحابہ سے فرمایا کہ اب تھوڑی دیر انتظار کرو۔چنانچہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چشمہ کے اندر اتنا پانی بھرآیا کہ سب نے اپنی اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا اورپانی کی تکلیف جاتی رہی۔ ۲؎
اس پر اللہ تعالیٰ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ اسی رات یا اس کے قریب بارش بھی ہوگئی۔چنانچہ جب صبح کی نماز کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تومیدان پانی سے تربتر تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مسکراتے ہوئے فرمایا’’کیا تم جانتے ہو کہ اس بارش کے موقع پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟‘‘صحابہ نے حسب عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگربعض کفر کی حالت میں پڑ کرڈگمگاگئے۔کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل ورحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تووہ بیشک چاند سورج کاتو مومن ہوگیا،لیکن خدا کا اس نے کفر کیا۔‘‘ ۳؎ اس ارشاد سے جوتوحید کی دولت سے معمور ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کویہ سبق دیا کہ بے شک سلسلۂ اسباب وعلل کے ماتحت خدا نے اس کارخانۂ عالم کوچلانے کے لئے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اوربارشوں وغیرہ کے معاملہ میں اجرام سماوی کے اثر سے انکار نہیں مگر حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو جوان سب اسباب کی پیدا کرنے والی اوراس کارخانۂ عالم کی علت العلل ہے اورجس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
معجزات کے متعلق ایک مختصر اصولی نوٹ
یہ سوال کہ اس موقع پر عام قانون قدرت کے خلاف چشمہ کاپانی کس طرح زیادہ ہوگیا؟ معجزات
کی بحث سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق ہم اس کتاب میں دوسری جگہ ایک اصولی نوٹ درج کرچکے ہیں اوراس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ۱؎ دراصل معجزات کی بحث دواصولی حصوں میں منقسم ہے۔ایک حصہ عقلی دلائل سے تعلق رکھتا ہے جن سے معجزات کاامکان اوران کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔اوردوسرا حصہ مشاہدہ سے تعلق رکھتا ہے جس سے معجزات کا عملاًوقوع میں آنا ثابت ہوتا ہے۔عقلی دلائل کا نتیجہ صرف اس حد تک ہے کہ معجزہ وقوع میں آسکتا ہے اوریہ کہ انسان کی روحانیت کی تکمیل کے لئے اسے وقوع میں آنا چاہئے۔مگراس سے آگے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ معجزہ واقعی ہوتا بھی ہے مشاہدہ کی ضرورت پیش آتی ہے اورخوش قسمتی سے اس قسم کے مشاہدہ کاوجود ہرنبی کے زمانہ میں اورہر قوم کی تاریخ میںملتا ہے مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ کی عالمگیر مادیت نے انسان کے روحانی کمالات اورروحانی حواس کواس حد تک خاک میں ملا رکھا ہے کہ مادہ پرستی کے خیالات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اورانسانیت کے اعلیٰ کمالات زمین دوزدفینوں کی طرح نظروں سے دوراور آنکھوں سے مستور ہوچکے ہیں۔مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کا قانون دوقسم کا ہے۔ایک وہ جواس کی نہ بدلنے والی سنتوں اوراس کے وعدوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مثلاً یہ کہ کوئی مردہ زندہ ہوکر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ ۲؎ اوردوسرا وہ جوان دو دائروں کے علاوہ ہے مثلاًنیک اوربدبندوں کے ساتھ خدا کے سلوک کے اظہار کاطریق وغیرہ۔ پس جہاں تک اول الذکر قانون کاتعلق ہے قرآن شریف بڑے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ وہ بالکل اٹل ہے ۳؎ اورنہ صرف دنیا کی تمام علمی وعملی ترقی بلکہ خدا کی شان اوروقار کااظہار بھی اس کے اٹل ہونے کے ساتھ وابستہ ہے،لیکن مؤخرالذکر قانون حالات کے اختلاف کے ساتھ اپنی صورت بدل سکتا ہے اوراس کا بدلنا خدا کی شان کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے اوراسی تبدیلی کے غیرمعمولی ظہور کانام معجزہ ہے۔ دراصل اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے جس نے اس دنیا کی چیزوں کو اوران چیزوں کے خواص کوپیدا کیا ہے اوریہ خدا اپنے تختِ حکومت سے معزول ومعطّل نہیں ہوگیا اوراپنے قانون کا غلام نہیں بن گیا توپھر اس خدا میں یہ قوت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اپنی سنت اوروعدہ کی باتوں کوالگ رکھ کر جن میں بہرحال کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی وہ کسی حقیقی ضرورت کے وقت اپنے ایسے قانون کوجواس کی کسی سنت یاوعدہ کے دائرہ سے تعلق نہیں رکھتا خاص استثنائی رستہ پرچلا سکتا ہے یا بعض مخفی اسباب کے ذریعہ ایک ایسا ظاہری تغیر پیدا کرسکتا ہے جوبظاہر استثناء کارنگ رکھتا ہو اوراسی استثناء یاخاص تقدیر الہٰی کے غیر معمولی ظہور کا نام معجزہ ہے۔
اورمعجزہ کی ضرورت اس طرح ثابت ہے کہ جیسا کہ ہر سمجھ دار انسان محسوس کرے گا محض عقلی دلیلوں کاوجود خدا کے متعلق اس حد تک کا ایمان ہرگز پیدا نہیں کرسکتا جوانسان کی روحانی زندگی کے لئے ضروری ہے کیونکہ عقلی دلیلیں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ اس کارخانۂ عالم کا کوئی خالق ومالک ہونا چاہئے مگر ظاہر ہے کہ یہ’’ہونا چاہئے‘‘والامقام محض ایک قیاس کامقام ہے جسے قطعی اور زندہ یقین میں بدلنے کے لئے جسے ہم’’ہے‘‘کے مقام سے تعبیر کرسکتے ہیں الہام الہٰی اورمعجزہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اس لئے ہرنبی اوررسول کے ساتھ معجزہ کاوجود لازم وملزوم کے طور پر رہا ہے۔اوراسلامی معجزات سے انکار کرنے والوں کی خود اپنی کتب معجزات کے ذکر سے(جن میں افسوس ہے کہ اکثر فرضی اوربلاثبوت اورسنت الہٰی کے خلاف ہیں)بھری پڑی ہیں۔باقی رہا مشاہدہ کاسوال سوجن ابتدائی لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات بیان کئے ہیں وہ سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی اوردن رات آپؐ کی صحبت میں رہنے والے تھے انہوں نے اپنا ذاتی مشاہدہ ہی بیان کیا ہے اورظاہر ہے کہ اگر روایت صحیح ہو اورراوی سچ بولنے والا اورسمجھ دار ہو تو یہ مشاہدہ اسی طرح قابل قبول ہے جس طرح کہ دنیا کے دوسرے پختہ مشاہدات قابل قبول ہوتے ہیں۔اور گوموجودہ مادی زمانہ میں روحانی اہلِ کمال کاوجود عنقا کارنگ رکھتا ہے مگر اس زمانہ میں بھی مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے معجزات کے متعلق معترضین کوجواب دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ:
کرامت گرچہ بے نام ونشان است
بیابنگر ز غلمان محمدؐ
یعنی’’گواس زمانہ میںمعجزات کاوجود بے نام ونشان ہوچکا ہے مگر اے منکر اسلام آ اور محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے غلاموں کے ہاتھ پر معجزات کامشاہدہ کرلے۔‘‘
ایک اور اصولی بات جومعجزات کے متعلق یاد رکھنی ضروری ہے اورجسے نظر انداز کرنے سے اکثر مذاہب میں بعد میں آنے والوں کی دست برد سے جھوٹے اورفرضی معجزات کاوجود پیدا ہوگیا ہے یہ ہے کہ معجزات کی غرض وغایت چونکہ ایمان پیدا کرنا یاپیدا شدہ ایمان کومضبوط کرنا ہوتی ہے اور ایمان کے لئے اس کے ابتدائی مراحل میں کسی قدر اخفاء کاپردہ ضروری ہے اوراسی لئے قرآن شریف نے اپنی ابتداء میںہی ایمان بالغیب کے اصول کو پیش کیا ہے۔ ۱؎ کیونکہ کامل مشاہدہ کے بعد ایمان کسی انعام یاتعریف کاحق دار نہیں رہتا اس لئے سنت اللہ اس طرح پرواقع ہوئی ہے کہ سچے معجزات کبھی بھی ایسی صورت میں ظاہر نہیں ہوتے کہ گویا بالکل شہود کارنگ پیدا ہوجائے بلکہ کسی نہ کسی جہت سے کچھ نہ کچھ اخفاء کاپردہ باقی رکھا جاتا ہے۔اسی لئے اہل اللہ نے معجزات کی مثال دن کی تیز روشنی سے نہیں دی بلکہ ایک ایسی چاندنی رات کی روشنی سے دی ہے جس میں کسی قدر بادل بھی ہوں۔ایسی صورت میں جہاں ایک طرف توجہ اورغور سے دیکھنے والوں کو رستہ نظر آجاتا ہے وہاں دوسری طرف ضدی اورکجرو لوگوں کے لئے شک کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے۔ ۲؎ البتہ بعض اوقات ایسے معجزات میں جو صرف ان مومنوں کودکھائے جاتے ہیں۔جوایمان کے ابتدائی مراحل سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں کسی قدر شہود کارنگ پیدا کردیا جاتا ہے۔مگر یہ ایک لمبا اورباریک سوال ہے جوتفصیلی بحث چاہتا ہے اوراس مختصر اورضمنی نوٹ میں تفصیل کی گنجائش نہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ معجزات اورآیات کا وجود برحق ہے اوراسلام اسے تسلیم کرتا اورہر نبی اوررسول کے زمانہ میں اس کے ظہور کادعویٰ فرماتا ہے مگر اول تو کوئی معجزہ خدا کی کسی نہ بدلنے والی سنت یا اس کے کسی وعدہ کے خلاف نہیں ہوسکتا کیونکہ اگرایسا ہوتو دنیا میںاندھیر پڑجائے۔اورقرآن شریف نے صراحت کے ساتھ ایسے معجزات کے وجود سے انکار کیا ہے۔ ۳؎ اوردوم کسی معجزہ میں جو منکرین کودکھانا مقصود ہو نصف النہار والی روشنی پیدا نہیں ہوسکتی۔کیونکہ یہ ایمان بالغیب کے اصول کے خلاف ہے جسے قرآن شریف نے اپنی ابتداء میں ہی بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ۴؎ مگر ان دونوں حدود کے اندر اندر معجزہ ہوسکتا ہے اورہر نبی کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے اورحق یہ ہے کہ اگر ایسے معجزات کادروازہ بند ہوجائے تو دنیا روحانی طورپر زندہ ہی نہیں رہ سکتی۔
قریش کے ساتھ صلح کی گفتگو کاآغاز
معجزات کے متعلق یہ مختصر اوراصولی نوٹ دینے کے بعد ہم پھر اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ہم بتا چکے ہیں
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی وادی میںپہنچ کر اس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا۔جب صحابہ اس جگہ ڈیرے ڈال چکے توقبیلہ خزاعہ کاایک نامور رئیس بُدَیل بن ورقا نامی جوقریب ہی کے علاقہ میں آباد تھا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے آیا اوراس نے آپؐ سے عرض کیا کہ مکہ کے رئوساء جنگ کے لئے تیار کھڑے ہیں اوروہ کبھی بھی آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔آپؐ نے فرمایا’’ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اورافسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش مکہ کو جنگ کی آگ نے جلاجلا کر خاک کررکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اورمیں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کرکے مجھے دوسرے لوگوں کے لئے آزاد چھوڑ دیں۔لیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی رد کردیا اوربہرصورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تومجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر میں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہوجائے اور یا خدامجھے فتح عطاکرے۔‘‘اگر میں ان کے مقابلہ میں آکر مٹ گیا توقصہ ختم ہوا،لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اورمیرے لائے ہوئے دین کوغلبہ حاصل ہوگیا توپھر مکہ والوں کوبھی ایمان لے آنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہئے،بُدَیل بن ورقا پرآپؐ کی اس مخلصانہ اوردردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اوراس نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ مہلت دیں کہ میں مکہ جاکر آپ کاپیغام پہنچائوں اور مصالحت کی کوشش کروں۔ آپؐ نے اجازت دی اوربُدَیل اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ ۱؎
جب بُدَیل بن ورقا مکہ میں پہنچا تواس نے قریش کو جمع کرکے ان سے کہا کہ میں اس شخص(یعنی محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم)]عرب کا دستور تھا کہ ایسے موقعوں پر جب ایک معروف شخص کے متعلق گفتگوکرنی ہوتو نام لینے کی بجائے ’’یہ شخص‘‘یا’’اس شخص‘‘وغیرہ کے لفظ استعمال کرتے تھے[ کے پاس سے آرہا ہوں اورمیرے سامنے اس نے ایک تجویز پیش کی ہے اگرآپ اجازت دیں تو میں اس کا ذکر کروں۔اس پر قریش کے جوشیلے اورغیر ذمہ دار لوگ کہنے لگے۔ہم اس شخص کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں مگر اہل الرائے اورثقہ لوگوں نے کہا ہاں ہاں جوتجویز بھی ہے وہ ہمیںبتائو۔ چنانچہ بُدَیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیان کردہ تجویز کااعادہ کیا۔اس پر ایک شخص عروہ بن مسعود نامی جو قبیلہ ثقیف کاایک بہت بااثر رئیس تھا اوراس وقت مکہ میں موجود تھا کھڑا ہوگیا اور قدیم عربی انداز میں قریش سے کہنے لگا ’’اے لوگو!کیا میں تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہاں‘‘۔پھر اس نے کہا’’کیا آپ لوگ میرے بیٹوں کی طرح نہیں ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہاں‘‘۔پھرعروہ نے کہا’’کیا تمہیں مجھ پر کسی قسم کی بے اعتمادی ہے؟‘‘قریش نے کہا’’ہرگز نہیں‘‘۔اس نے کہا’’توپھر میری یہ رائے ہے کہ اس شخص محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے۔آپ کو چاہئے کہ اس تجویز کوقبول کرلیں اورمجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی طرف سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جاکر مزید گفتگو کروں۔‘‘قریش نے کہا ’’بے شک آپ جائیں اورگفتگو کریں۔‘‘ ۱؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کاایک روح پرورنظارہ
عروہؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اورآپؐ
کے ساتھ گفتگو شروع کی۔آپؐ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دوہرائی جواس سے قبل آپؐبُدَیل بن ورقا کے سامنے فرماچکے تھے۔عروہ اصولاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کاحق ادا کرنے اوران کے حق میںزیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانے کی غرض سے کہنے لگا۔’’اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم )اگرآپ نے اس جنگ میںاپنی قوم کو ملیا میٹ کردیا تو کیاآپ نے عربوں میں کسی ایسے آدمی کا نام سنا ہے جس نے آپ سے پہلے ایسا ظلم ڈھایا ہو۔لیکن اگر بات دگرگوں ہوئی یعنی قریش کو غلبہ ہو گیا توخدا کی قسم مجھے آپ کے اردگرد ایسے منہ نظر آرہے ہیں کہ انہیں بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور یہ سب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ جواس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ہی بیٹھے تھے عروہ کے یہ الفاظ سن کر غصہ سے بھر گئے اورفرمانے لگے’’جائو جائو اورلات کی شرمگاہ کوچومتے پھرو۔کیا ہم خدا کے رسولؐ کوچھوڑ جائیںگے؟‘‘ ۲؎ عروہ نے طیش میں آکر پوچھا ’’یہ کون شخص ہے جو اس طرح میری بات کاٹتا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا’’یہ ابوبکرؓ ہیں‘‘۔ابوبکرؓکانام سن کر عروہ کی آنکھیں شرم سے نیچی ہوگئیں۔کہنے لگا’’اے ابوبکر!اگر میرے سرپر تمہارا ایک بھاری احسان نہ ہوتا ۳؎ تو خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت بتاتا کہ ایسی بات کاجو تم نے کہی ہے کس طرح جواب دیتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر عروہ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا اوراپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے نقطۂ نظر کی طرف کھینچ لانے کی تدبیر کرتا رہا اور گاہے گاہے عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کی ریش مبارک کو بھی ہاتھ لگا دیتا تھا۔مگر جب کبھی بھی وہ ایسا کرتا ایک مخلص صحابی جن کانام مغیرہ بن شعبہ تھا اورجواس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے (اوررشتہ میں عروہ کے بھتیجے تھے)اپنی تلوار کے نیام سے عروہ کا ہاتھ جھٹک کر پرے کردیتے اور کہتے’’اپنا ناپاک ہاتھ رسول مقبول ؐکے مبارک چہرہ سے دوررکھو۔‘‘چونکہ اس وقت مغیرہ کاچہرہ ایک خود کے اندر ڈھکا ہوا تھا عروہ نے انہیں نہ پہچانتے ہوئے پوچھا۔یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا’’یہ مغیرہ بن شعبہ ہے۔‘‘ عروہ نے حقارت اورغصہ سے کہا ’’اے بے وفا!کیا تجھے میرا احسان بھول گیا ہے؟‘‘ ۱؎ اس پر مغیرہ شرم سے جھینپ گئے۔اس وقت عروہ نے اپنے اردگرد فخر کی نگاہ ڈالی مگر یہی نگاہ اسے گھائل کرگئی۔کیونکہ عروہ نے اس وقت صحابہ کی جماعت کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارد گرد اس طرح جمع پایا جس طرح شمع کے گرد پروانے جمع ہوتے ہیں اورخود عروہ کا اپنا بیان ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے جوش محبت واخلاص کایہ عالم تھا کہ اگر پانی پیتے ہوئے آپ کے منہ سے کوئی قطرہ گرتا توصحابہ اسے شوق سے اپنے ہاتھوں پر لیتے اوربرکت کے خیال سے اسے اپنے چہروں اورجسموں پر مل لیتے۔اورجب آپؐ کسی چیز کا ارشاد فرماتے تولوگ آپؐ کی آواز پراس طرح لپکتے کہ گویا ایک مقابلہ ہوجاتا تھا۔اور جب آپؐ وضو کرتے تو صحابہؓاس شوق سے آپؐ کووضو کروانے کے لئے آگے بڑھتے کہ گویا اس خدمت کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔اور جب آپؐ گفتگو فرماتے تو صحابہ خاموش ہوکر ہمہ تن گوش ہوجاتے اورمحبت اوررعب کی وجہ سے ان کی نظریں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اٹھ نہیں سکتی تھیں۔ ۲؎
عروہ ان روح پرورنظاروں کو دیکھ کر اورآپؐ کے ساتھ گفتگو ختم کرکے قریش کی طرف لوٹا اور جاتے ہی قریش سے کہنے لگا’’اے لوگو!میں نے دنیا میں بہت سفر کیا ہے۔بادشاہوں کے دربار میں شامل ہوا ہوں اورقیصروکسریٰ اورنجاشی کے سامنے بطوروفد کے پیش ہوچکا ہوں مگر خدا کی قسم جس طرح میں نے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے صحابیوں کو محمد کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کسی اورجگہ نہیں دیکھا۔‘‘ پھراس نے اپنا وہ سارا مشاہدہ بیان کیا جو اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھا تھا اورآخر میں کہنے لگا میں پھر یہی مشورہ دیتا ہوں کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تجویز ایک منصفانہ تجویز ہے اسے قبول کرلینا چاہئے۔‘‘ ۱؎
عُروہ کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک رئیس نے جس کا نام حلیس بن علقمہ تھا ۲؎ قریش سے کہا ’’اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پاس جاتا ہوں۔‘‘انہوںنے کہا’’ہاں بے شک جائو۔‘‘چنانچہ یہ شخص حدیبیہ میں آیا اورجب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دور سے آتے دیکھا توصحابہ سے فرمایا’’یہ شخص جو ہماری طرف آرہا ہے ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے مناظرکوپسند کرتے ہیں۔پس فوراًاپنے قربانی کے جانوروں کواکٹھا کرکے اس کے سامنے لائو تاکہ اسے پتہ لگے اوراحساس پیدا ہوکہ ہم کس غرض سے آئے ہیں۔‘‘چنانچہ صحابہ اپنے قربانی کے جانوروں کو ہنکاتے ہوئے اورتکبیروں کی آواز بلند کرتے ہوئے اس کے سامنے جمع ہوگئے۔جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا۔’’سبحان اللہ سبحان اللہ یہ تو حاجی لوگ ہیں۔انہیں بیت اللہ کے طواف سے کسی طرح روکا نہیں جاسکتا۔‘‘چنانچہ وہ جلدی ہی قریش کی طرف واپس لوٹ گیا اورقریش سے کہنے لگا’’میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کے گلے میں قربانی کے ہار باندھ رکھے ہیں اوران پر قربانی کے نشان لگائے ہوئے ہیں۔پس یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ انہیں طواف کعبہ سے روکا جائے۔‘‘ ۳؎
قریش میںاس وقت ایک سخت انتشار کی کیفیت پیدا ہورہی تھی اورلوگوں کی دوپارٹیاں بن گئی تھیں۔ایک پارٹی بہرصورت مسلمانوں کو واپس لوٹانے پرمصر تھی اورمقابلہ کے خیالات پر سختی سے قائم تھی۔مگر دوسری پارٹی اسے اپنی قدیم مذہبی روایات کے خلاف پاکر خوف زدہ ہورہی تھی اور کسی باعزت سمجھوتہ کی متمنی تھی اس لئے فیصلہ معلّق چلا جارہا تھا۔اس موقع پر ایک اورعربی رئیس مکرزبن حفص نامی نے قریش سے کہا’’مجھے جانے دو میں کوئی فیصلہ کی راہ نکالوں گا۔‘‘قریش نے کہا’’اچھا تم بھی کوشش کرکے دیکھ لو۔‘‘چنانچہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دور سے آتے دیکھا توفرمایا خدا خیر کرے یہ آدمی تواچھا نہیں۔بہرحال مکرز آپؐ کے پاس آیا اورگفتگوکرنے لگا۔مگرابھی وہ بات کرہی رہا تھاکہ مکہ کا ایک نامور رئیس سہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہواجسے غالباًقریش نے اپنی گھبراہٹ میں مکرز کی واپسی کاانتظار کرنے کے بغیر بھجوادیا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سہیل کو آتے دیکھا توفرمایا یہ سہیل آتا ہے۔ ۱؎ اب خدا نے چاہا تو معاملہ آسان ہوجائے گا۔ ۲؎
کفّار مکّہ کی فتنہ انگیزی
اس موقع پر ایک ضمنی مگراہم واقعہ کاذکرضروری ہے۔ وہ یہ کہ جب قریش کی طرف سے پے درپے سفیر آنے شروع ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ محسوس کرکے آپؐکی طرف سے بھی کوئی فہمیدہ شخص قریش کی طرف جانا چاہئے جوانہیں ہمدردی اوردانائی کے ساتھ مسلمانوں کازاویہؐ نظر سمجھا سکے ایک شخص خراش بن امیّہ کواس کام کے لئے چنا جوقبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھا۔یعنی وہی قبیلہ جس سے قریش کے سب سے پہلے سفیر بدیل بن ورقا کاتعلق تھا اوراس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خراش کوسواری کے لئے خود اپنا ایک اونٹ عطافرمایا۔خراش قریش کے پاس گیا مگر چونکہ ابھی یہ گفتگو کا ابتدائی مرحلہ تھا اورنوجوانانِ قریش بہت جوش میںتھے ایک جوشیلے نوجوان عکرمہ بن ابوجہل نے خراش کے اونٹ پرحملہ کرکے اسے زخمی کردیا جس کے عربی دستور کے مطابق یہ معنی تھے کہ ہم تمہاری نقل وحرکت کوجبراًروکتے ہیں۔علاوہ ازیں قریش کی یہ جوشیلی پارٹی خود خراش پر بھی حملہ کرنا چاہتی تھی مگربڑے بوڑھوں نے بیچ بچائو کرکے اس کی جان بچائی اوروہ اسلامی کیمپ میں واپس آگیا۔ ۳؎
قریش مکہ نے اسی پر اکتفانہیں کی بلکہ اپنے جوش میں اندھے ہوکر اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ اب جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہ مکہ سے اس قدر قریب اورمدینہ سے اتنی دور آئے ہوئے ہیں تو ان پر حملہ کرکے جہاں تک ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔چنانچہ اس غرض کے لئے انہوں نے چالیس پچاس آدمیوں کی ایک پارٹی حدیبیہ کی طرف روانہ کی اوراس گفت وشنید کے پردے میں جو اس وقت فریقین میںجاری تھی ان لوگوں کوہدایت دی کہ اسلامی کیمپ کے اردگرد گھومتے ہوئے تاک میں رہیں اورموقع پاکر مسلمانوں کا نقصان کرتے رہیں۔ ۴؎ بلکہ بعض روایتوں سے یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ تعداد میںاسّی تھے اوراس موقع پر قریش نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی۔ ۵؎ مگربہرحال خدا کے فضل سے مسلمان اپنی جگہ ہوشیارتھے۔ چنانچہ قریش کی اس سازش کاراز کھل گیااوریہ لوگ سب کے سب گرفتار کرلئے گئے۔ ۱؎ مسلمانوں کو اہل مکہ کی اس حرکت پرجو اَشہرحرم میں اورپھر گویاحرم کے علاقہ میں کی گئی سخت طیش تھا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان لوگوں کومعاف فرمادیا اورمصالحت کی گفتگو میں روک نہ پیدا ہونے دی۔۲؎ اہل مکہ کی اس حرکت کاقرآن شریف نے بھی ذکرکیا ہے چنانچہ فرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’خدا نے اپنے فضل سے کفار کے ہاتھوں کومکہ کی وادی میں تم سے روک کر رکھا اورتمہاری حفاظت کی اورپھرجب تم نے ان لوگوں پر غلبہ پالیا اور انہیں اپنے قابو میں کرلیا توخدا نے تمہارے ہاتھوں کوان سے روک کر رکھا۔‘‘
مسلمانوں کی طرف سے حضرت عثمان ؓ کی سفارت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اس شرارت کو دیکھا اورساتھ ہی
خراش بن امیّہ سے اہل مکہ کے جوش وخروش کا حال سنا توقریش کو ٹھنڈا کرنے اورراہ راست پر لانے کی غرض سے ارادہ فرمایا کہ کسی ایسے بااثر شخص کو مکہ میں بھجوائیں جومکہ ہی کا رہنے والا ہو اورقریش کے کسی معزز قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو۔چنانچہ آپؐ نے حضرت عمرؓ بن الخطاب سے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ مکہ میں جائیں اورمسلمانوں کی طرف سے سفارت کا فرض سرانجام دیں۔حضرت عمرؓنے عرض کیایارسول اللہ آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے لوگ میرے سخت دشمن ہورہے ہیں اوراس وقت مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی موجود نہیں جس کا اہل مکہ پر دبائو ہو۔ اس لئے میرا یہ مشورہ ہے کہ کامیابی کارستہ آسان کرنے کے لئے اس خدمت کے لئے عثمان بن عفان کوچنا جائے جن کا قبیلہ (بنوامیّہ)اس وقت بہت بااثر ہے اورمکہ والے عثمانؓکے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کرسکتے اورکامیابی کی زیادہ امید ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو پسند فرمایااورحضرت عثمانؓ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اورقریش کو مسلمانوں کے پُرامن ارادوں اورعمرہ کی نیت سے آگاہ کریں۔۱؎ اورآپؐ نے حضرت عثمانؓکواپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جورئوساء قریش کے نام تھی۔اس تحریر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اورقریش کویقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجا لانا ہے اورہم پُرامن صورت میں عمرہ بجالاکر واپس چلے جائیں گے۔آپؐ نے حضرت عثمانؓ سے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اوران کی ہمت بڑھانا اورکہنا کہ ذرا ورصبر سے کام لیں خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ ۲؎
یہ پیغام لے کر حضرت عثمانؓمکہ میں گئے اورابوسفیان سے مل کر جواس زمانہ میں مکہ کا رئیس اعظم تھا اور حضرت عثمانؓکا قریبی عزیزبھی تھا اہل مکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے ۔اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تحریر پیش کی جو مختلف رئوساء قریش نے فرداًفرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔۳؎ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طواف بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں مگراس سے زیادہ نہیں۔حضرت عثمان ؓنے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ تومکہ سے باہر روکے جائیں اورمیں طواف کروں؟مگرقریش نے کسی طرح نہ مانااوربالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباًاس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گی حضرت عثمانؓاوران کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔اس پر مسلمانوں میں یہ افوہ مشہور ہوئی کہ اہل مکہ نے حضرت عثمانؓکو قتل کردیا ہے۔ ۴؎
بیعت رضوان
یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا۔کیونکہ عثمانؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اورمکہ میں بطور اسلامی سفیر کے
گئے تھے۔اوریہ دن بھی اَشْہرِحرم کے تھے اورپھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فوراًتمام مسلمانوں میں اعلان کرکے انہیں ایک ببول(کیکر)کے درخت کے نیچے جمع کیا۔اورجب صحابہ جمع ہوگئے تو آپؐ نے اس خبر کا ذکرکرکے فرمایاکہ’’اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘پھرآپؐ نے صحابہ سے فرمایا’’آئو اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر(جواسلام میں بیعت کا طریق ہے)یہ عہد کرو کہ تم میںسے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔‘اس اعلان پر صحابہ بیعت کے لئے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پرگرے پڑے تھے۔ ۱؎ اوران چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا(کہ یہی اس وقت اسلام کی ساری پونجی تھی)ایک ایک فرد ۲؎ اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا۔ ۳؎ جب بیعت ہورہی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے ۴؎ کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اس وقت وہ خدا اوراس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔‘‘ ۵؎ اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔
اسلامی تاریخ میں یہ بیعت ’’بیعت رضوان‘‘کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۶؎
یعنی’’اللہ تعالیٰ خوش ہوگیا مسلمانوں سے جب کہ اے رسول!وہ ایک درخت کے نیچے تیری بیعت کررہے تھے کیونکہ اس بیعت سے ان کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آگیا سو خدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اورانہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا۔‘‘
صحابہ کرام بھی ہمیشہ اس بیعت کو بڑے فخر اورمحبت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اوران میںسے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تم تو مکہ کی فتح کوفتح شمار کرتے ہو مگر ہم بیعت رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے۔۷؎ اوراس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی۔نہ صرف اس لئے کہ اس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اس لئے بھی کہ اس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دین محمدیؐ کاگویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہوا۔اورفدائیان اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسول اور اس رسول کی لائی ہوئی صداقت کے لئے ہر میدان میں اور اس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لئے تیار ہیں۔اسی لئے صحابہ کرام بیعت رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا۔۱؎ اوراس بیعت کاخاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد وپیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جوعارضی جوش کی حالت میں کردیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطۂ واحد پر جمع تھی۔
جب قریش کواس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہوگئے۔اورنہ صرف حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کوآزاد کردیا ۲؎ بلکہ اپنے ایلچیوں کوبھی ہدایت دی کہ اب جس طرح بھی ہو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرلیں مگر یہ شرط ضرور رکھی جائے کہ اس سال کی بجائے مسلمان آئندہ سال آکر عمرہ بجا لائیںاوربہرحال اب واپس چلے جائیں۔۳؎ دوسری طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ابتداء سے یہ عہد کرچکے تھے۔ میں اس موقع پر کوئی ایسی بات نہیںکروں گا جو حرم المحرم اوربیت اللہ کے احترام کے خلاف ہو۔اورچونکہ آپؐ کوخدا نے یہ بشارت دے رکھی تھی کہ اس موقع پر قریش کے ساتھ مصالحت آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بننے والی ہے اس لئے گویا فریقین کے لحاظ سے یہ ماحول مصالحت کاایک نہایت عمدہ ماحول تھا اوراسی ماحول میںسہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اورآپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہوتا نظر آتا ہے۔یہ بات روایتوں سے واضح نہیں ہوتی کہ سہیل معیّن طورپر کس مرحلہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیاتھا اورآیا اس کا آنا حضرت عثمانؓکے مکہ کی طرف جانے سے پہلے تھا یا کہ بعد۔اوراس بارے میں بعض روایات میں کسی قدر اختلاف وانتشار بھی پایاجاتاہے مگربہرحال یہ بات مسلّم ہے کہ صلح کی وہ تحریرجس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں وہ سہیل بن عمرو کے ذریعہ ہی تکمیل کو پہنچی۔اوریہ ایک عجیب بات ہے کہ قریش کے یہ جملہ سُفرا جویکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ سب کے سب بعد میں اسلام لاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگئے۔ ۱؎ سوائے مکرز بن حفص کے جسے دیکھتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ اس شخص سے بداخلاقی اورغداری کی بو آتی ہے۔ ۲؎
صُلح کی گفتگو
سہیل بن عمرو نے جو گفتگو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمائی اورجس رنگ میں یہ اہم تاریخی معاہدہ ضبط تحریر میں آیا وہ اسلامی تاریخ کاایک نہایت دلچسپ ورق ہے
جسے سب محدثین اور مؤرخین نے بڑے شوق اورتفصیل کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے۔ہم اس جگہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اس واقعہ کی موٹی موٹی تفاصیل ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔امام بخاری جوروایت کے لحاظ سے جملہ محدثین میں بلند ترین مقام رکھتے ہیں اس دلچسپ واقعہ کو مندرجہ ذیل صورت میںبیان کرتے ہیں۔
جب سہیل بن عمرو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آیا توآپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا یہ سہیل آتا ہے اب خدا نے چاہا تومعاملہ سہل ہوجائے گا۔ ۳؎ بہرحال سہیل آیا اورآتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔آئو جی(اب لمبی بحث جانے دو)ہم معاہدہ کے لئے تیار ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہم بھی تیار ہیں۔اوراس ارشاد کے ساتھ ہی آپؐ نے اپنے سیکرٹری (حضرت علیؓ)کوبلوا لیا۔ (اورچونکہ شرائط پرایک عمومی بحث پہلے ہوچکی تھی اور تفاصیل نے ساتھ ساتھ طے پانا تھا)اس لئے کاتب کے آتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سہیل صلح کے لئے توتیار تھا مگرقریش کے حقوق کی حفاظت اوراہل مکہ کے اکرام کے لئے بھی بہت چوکس رہنا چاہتا تھافوراًبولا یہ رحمن کالفظ کیسا ہے ہم اسے نہیں جانتے۔جس طرح عرب لوگ ہمیشہ سے لکھتے آئے ہیں اس طرح لکھویعنی بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ دوسری طرف مسلمانوں کے لئے بھی قومی عزت اور مذہبی غیرت کاسوال تھا وہ بھی اس تبدیلی پر فوراًچونک پڑے اورکہنے لگے ہم تو ضروربسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر مسلمانوں کوخاموش کرادیا کہ نہیں نہیں اس میں کوئی حرج نہیںجس طرح سہیل کہتاہے اسی طرح لکھ لو۔چنانچہ بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ کے الفاظ لکھے گئے۔اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدرسول اللہ نے کیا ہے۔‘‘سہیل نے پھرٹوکا کہ یہ رسول اللہ کا لفظ ہم نہیں لکھنے دیں گے۔اگر ہم یہ بات مان لیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں توپھر تو یہ سارا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا ہے اورہمیں آپ کو روکنے اورآپ کا مقابلہ کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔بس جس طرح ہمارے ہاں طریق ہے صرف یہ الفاظ لکھو کہ محمد بن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’آپ لوگ مانیں نہ مانیں میں خدا کا رسول تو ہوں۔‘‘مگر چونکہ میں محمد بن عبداللہ بھی ہوں اس لئے چلویہی سہی۔ لکھو کہ’’ محمدبن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔‘‘ ۱؎ مگر اس اثناء میں آپؐکے کاتب حضرت علیؓمعاہدہ کی تحریر میں’’محمد رسول اللہ‘‘کے الفاظ لکھ چکے تھے۔آپؐنے حضرت علیؓسے فرمایا محمدرسول اللہ کے الفاظ مٹادو اوران کی جگہ محمد بن عبداللہ کے الفاظ لکھ دو۔مگر اس وقت جوش کا عالم تھا حضرت علیؓنے غیرت میں آکر عرض کیا’’یارسول اللہ!میں تو آپ کے نام کے ساتھ سے رسول اللہ کے الفاظ کبھی نہیں مٹائوں گا۔‘‘آپؐ نے ان کی ازخود رفتہ حالت کو دیکھ کر فرمایا اچھا تم نہیں مٹاتے تو مجھے دو میں خود مٹا دیتا ہوں۔پھرآپ نے معاہدہ کاکاغذ (یاجو کچھ بھی وہ تھا)ہاتھ میں لے کر اورحضرت علیؓسے ان الفاظ کی جگہ پوچھ کر رسول اللہ کے الفاظ اپنے ہاتھ سے کاٹ دئے اور ان کی جگہ ابن عبداللہ کے الفا ظ لکھ دئے۔ ۲؎ (حاشیہ میں نوٹ ملاحظہ فرمائیں)
اس کے بعد آپؐ نے لکھوایا کہ’’معاہدہ یہ ہے کہ اہل مکہ ہمیں بیت اللہ کے طواف سے نہیں روکیں گے۔‘‘سہیل فوراًبولا’’خدا کی قسم اس سال تو یہ ہرگز نہیں ہوسکے گا ورنہ عربوں میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ہاں اگلے سال آپ لوگ آکر طواف کرسکتے ہیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا اچھا یہی لکھو۔پھر سہیل نے اپنی طرف سے لکھایا کہ یہ بھی شرط ہوگی کہ اہل مکہ میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ جاکر شامل نہیں ہوسکے گا خواہ مسلمان ہو۔اوراگر ایسا کوئی شخص مسلمانوں کی طرف جائے گا تواسے واپس لوٹادیا جائے گا۔صحابہ نے اس پر شورمچایا کہ سبحان اللہ!یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ ایک شخص مسلمان ہوکر آئے اورہم اسے لوٹا دیں۔اسی بات پر جھگڑا ہورہاتھا کہ اچانک قریش مکہ کے سفیر سہیل بن عمروکالڑکا ابوجندل بیڑیوں اورہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا اس مجلس میں گرتا پڑتا آپہنچا۔اس نوجوان کو اہل مکہ نے مسلمان ہونے پر قید کرلیا تھااورسخت عذاب میں مبتلا کررکھا تھا۔جب اسے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کے اس قدر قریب تشریف لائے ہوئے ہیں تو وہ کسی طرح اہل مکہ کی قید سے چھوٹ کر اپنی بیڑیوں میں جکڑا ہوا گرتا پڑتا حدیبیہ میں پہنچ گیا اوراتفاق سے پہنچا بھی اس وقت جب کہ اس کا باپ معاہدہ کی یہ شرط لکھا رہا تھا کہ ہر شخص جو مکہ والوں میں سے مسلمانوں کی طرف آئے وہ خواہ مسلمان ہی ہو،اسے واپس لوٹادیا جائے گا۔ابوجندل نے گرتے پڑتے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے لاڈالا اوردردناک آواز میںپکار کر کہا کہ’’اے مسلمانو! مجھے محض اسلام کی وجہ سے یہ عذاب دیا جارہا ہے ،خدا کے لئے مجھے بچائو۔‘‘مسلمان اس نظارہ کو دیکھ کر تڑپ اٹھے مگر سہیل بھی اپنی ضد پراڑ گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔یہ پہلا مطالبہ ہے جو میں اس معاہدہ کے مطابق آپ سے کرتا ہوں اوروہ یہ کہ ابوجندل کومیرے حوالہ کردیں۔آپؐ نے فرمایا’’ابھی تومعاہدہ تکمیل کونہیں پہنچا۔‘‘سہیل نے کہااگرآپ نے ابوجندل کو نہ لوٹایا توپھر اس معاہدہ کی کارروائی ختم سمجھیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’آئو آئو،جانے دو اورہمیں احسان ومروت کے طورپر ہی ابوجندل کودے دو۔‘‘سہیل نے کہا نہیں نہیں یہ کبھی نہیں ہوگا۔آپ نے فرمایا’’سہیل !ضد نہ کرو۔میری یہ بات مان لو۔‘‘سہیل نے کہا میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا۔اس موقع پرابوجندل نے پھر پکار کر کہا۔اے مسلمانو!کیاتمہارا ایک مسلمان بھائی اس شدیدعذاب کی حالت میں مشرکوں کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا؟ ۱؎ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس وقت ابوجندل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپیل نہیں کی بلکہ عامۃ المسلمین سے اپیل کی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں خواہ کتنا ہی درد ہوآپؐکسی صورت میں معاہدہ کی کارروائی میں رخنہ نہیں پیدا ہونے دیں گے۔مگر غالباً عامۃ المسلمین سے وہ یہ توقع رکھتا تھاکہ وہ شاید غیرت میں آکر اس وقت جبکہ ابھی معاہدہ کی شرطیں لکھی جارہی تھیں کوئی ایسا رستہ نکال لیںجس میں اس کی رہائی کی صورت پیدا ہوجائے۔مگر مسلمان خواہ کیسے ہی جوش میں تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے تھے۔آپؐ نے کچھ وقت خاموش رہ کر ابوجندل سے درد مندانہ الفاظ میں فرمایا’’اے ابوجندل!صبر سے کام لو اورخدا کی طرف نظر رکھو۔خدا تمہارے لئے اورتمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لئے ضرور خود کوئی رستہ کھول دے گا،لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہوچکی ہے اورہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ ۱؎
حضرت عمرؓکاجوش وخروش
مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہ کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔آخر حضرت
عمرؓسے نہ رہا گیا۔وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب آئے اورکانپتی ہوئی آواز میں فرمایا’’کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ہاں ہاں ضرور ہوں۔‘‘عمرؓ نے کہا’’کیا ہم حق پرنہیں اورہمارا دشمن باطل پرنہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔‘‘عمرؓ نے کہا’’توپھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟‘‘آپؐنے حضرت عمرؓ کی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا’’دیکھو عمر!میں خدا کا رسول ہوں اورمیں خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتااوروہی میرامددگار ہے۔‘‘مگر حضرت عمرؓکی طبیعت کاتلاطم لحظہ بلحظہ بڑھ رہا تھا۔کہنے لگے ’’کیا آپؐنے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟آپؐنے فرمایا’’ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضروراسی سال ہوگا؟‘‘عمرؓ نے کہا’’نہیں ایسا تو نہیں کہا۔‘‘آپؐ نے فرمایا’’تو پھر انتظارکرو تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہوگے اورکعبہ کاطواف کروگے۔‘مگراس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہیںہوئی،لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓوہاںسے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓکے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں اورحضرت ابوبکرؓنے بھی اسی قسم کے جواب دئے۔مگرساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا’’دیکھو عمرسنبھل کررہو اوررسول خدا کی رکاب پرجو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو۔کیونکہ خدا کی قسم یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میںاپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ توگیا مگر بعد میںمجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا۔ ۲؎ یعنی صدقے کئے ،روزے رکھے،نفلی نمازیں پڑھیں اورغلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے۔ ۳؎
صُلح کی شرائط
بہرحال بڑی ردّوکدّ کے بعد یہ معاہدہ تکمیل کوپہنچا اورقریباًہرامر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو چھوڑ کر قریش کامطالبہ مان لیا اور خدائی منشا کے ماتحت
اپنے اس عہد کو پوری وفاداری کے ساتھ پورا کیا کہ بیت اللہ کے اکرام کی خاطر قریش کی طرف سے جومطالبہ بھی ہوگا اسے مان لیا جائے گا اوربہرصورت حرم کے احترام کوقائم رکھا جائے گا اس معاہدہ کی شرائط حسب ذیل تھیں۔
۱- آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں۔۱؎
۲- آئندہ سال وہ مکہ میں آکر رسم عمرہ اداکرسکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اورمکہ میںتین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ ۲؎
۳- اگرکوئی مرد مکہ والوں میںسے مدینہ جائے توخواہ وہ مسلمان ہی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اورواپس لوٹادیں۔چنانچہ اس تعلق میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ لاَ یَاتِیْکَ مِنَّا رَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلاَّ رَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔یعنی’’ہم میں سے اگر کوئی مرد آپ کے پاس جائے توآپ اسے واپس لوٹا دیں گے۔‘‘ ۳؎
لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ کوچھوڑ کر مکہ میں آجائے تو اسے واپس نہیں لوٹایا جائے گا۔ ۴؎ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اگر مکہ والوں میںسے کوئی شخص اپنے ولی یعنی گارڈین کی اجازت کے بغیر مدینہ آجائے تواسے واپس لوٹادیا جائے گا۔ ۵؎
۴- قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کاحلیف بن جائے اورجو چاہے اہل مکہ کا۔ ۶؎
۵- یہ معاہدہ فی الحال دس سال تک کے لئے ہوگا اوراس عرصہ میں قریش اورمسلمانوں کے درمیان جنگ بندرہے گی۔۱؎
اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں ۲؎ اوربطورگواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر دستخظ ثبت کئے۔مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، ۳؎ حضرت عثمانؓ(جو اس وقت تک مکہ سے واپس آچکے تھے)عبدالرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص اورابوعبیدہ ۴؎ تھے۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد سہیل بن عمرومعاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اوردوسری نقل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہی۔ ۵؎
صحابہؓ میں اضطراب
جب سہیل واپس جاچکا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ’’لواب اٹھو اور یہیں اپنی قربانیاں ذبح کرکے سروں کے بال منڈوا دو
(قربانی کے بعد سر کے بالوں کومنڈوایا یا کتروایاجاتا ہے)اورواپسی کی تیاری کرو۔‘‘مگرصحابہ کو اس بظاہر رسواکن معاہدہ کی وجہ سے سخت صدمہ تھا اورساتھ ہی جب انہیں اس طرف خیال جاتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں ایک خواب کی بنا پر یہاں لائے تھے اوراللہ تعالیٰ نے خواب میں طواف بیت اللہ کا نظارہ بھی دکھایا تھا توان کی طبیعت بہت ہی مضمحل ہونے لگتی تھی اوروہ قریباًبے جانوں کی طرح بے حس وحرکت پڑے تھے۔انہیں خدا کے رسول پرپوراپورا ایمان تھااوراس کے وعدہ پر بھی کامل یقین تھا مگر لوازمات بشریت کے ماتحت ان کے دل اس ظاہری ناکامی پر غموں سے نڈھال تھے اس لئے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا کہ اب یہیں قربانی کے جانور ذبح کردو اورواپس لوٹ چلو تو کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔اس لئے نہیں کہ وہ نعوذ باللہ اپنے رسولؐ کے نافرمان تھے کیونکہ صحابہ سے بڑھ کر دنیاکے پردے پرکوئی فرمانبردارجماعت نہیں گزری ۔پس ان کی طرف سے یہ عدم تعمیل بغاوت یانافرمانی کے رنگ میں نہ تھی بلکہ اس لئے تھی کہ غم اورظاہری ذلت کے احساس نے انہیں اتنا نڈھال کررکھا تھا کہ وہ گویا سنتے ہوئے نہ سنتے تھے اوردیکھتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں کام نہ کرتی تھیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کو دوبارہ سہ بارہ دہرایا مگر کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس کا صدمہ ہوا اورآپؐ خاموش ہوکر اپنے خیمہ کے اندر تشریف لے گئے ۔اندرون خیمہ آپؐکی حرم محترم حضرت امّ سلمہؓ جوایک نہایت زیرک خاتون تھیں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھیں۔انہوں نے اپنے موقر اورمحبوب خاوند کوفکر مند حالت میں اندر آتے دیکھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے آپؐکے فکروتشویش کی تفاصیل معلوم کیں توہمدردی اورمحبت کے انداز میں عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ رنج نہ فرمائیں آپ کے صحابہ خدا کے فضل سے نافرمان نہیں۔مگر اس صلح کی شرائط نے انہیں غم سے دیوانہ بنا رکھا ہے۔پس میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ان سے کچھ نہ فرمائیں،بلکہ خاموشی کے ساتھ باہر جاکر اپنے قربانی کے جانور کوذبح فرماویں اوراپنے سر کے بالوں کو منڈاودیں پھرآپ کے صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے ہولیں گے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ تجویز پسند آئی اورآپؐ نے باہر تشریف لا کر بغیر کچھ کہے اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اپنے سرکے بال منڈوانے شروع کردئے۔صحابہ نے یہ منظر دیکھا تو جس طرح ایک سویا ہوا شخص کوئی شوروغیرہ سن کر اچانک بیدار ہوتاہے وہ چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے اوردیوانہ وار اپنے جانوروں کوذبح کرنا شروع کردیا اورایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے۔مگر غم نے اس قدر بے چین کررکھا تھا کہ راوی بیان کرتا ہے کہ اس وقت ایسا عالم تھا کہ ڈرتھا کہ مسلمان کہیں ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے ایک دوسرے کا گلا ہی نہ کاٹ دیں۔ ۱؎ بہرحال حضرت ام سلمہؓ کی تجویز کارگر ہوئی اورجہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے الفاظ وقتی طورپر ناکام رہے تھے آپؐ کے عمل نے سوتے ہوئوں کو چونکا کر بیدار کردیا۔ ۲؎
حدیبیہ سے واپسی اورسورۃ فتح کانزول
قربانی وغیرہ سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کا حکم دیا۔ اس وقت آپؐ کو
حدیبیہ میں آئے کچھ کم بیس یوم ہوچکے تھے۔جب آپؐ واپسی سفر میں عسفان کے قریب کراع الغمیم میں پہنچے اور یہ رات کا وقت تھا تواعلان کراکے صحابہ کو جمع کروایا اورفرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے اور وہ یہ ہے:
۱؎.... ۱؎
یعنی’’اے رسول!ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے تاکہ ہم تیرے لئے ایک ایسے دور کاآغاز کرادیں جس میں تیری اگلی اورپچھلی سب کمزوریوں پرمغفرت کا پردہ پڑجائے اورتاخدا اپنی نعمت کو تجھ پر کامل کرے اورتیرے لئے کامیابی کے سیدھے رستے کھول دے اورضرورخدا تعالیٰ تیری زبردست نصرت فرمائے گا…حق یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول کی اس خواب کوپورا کردیا جواس نے رسول کودکھائی تھی ۔کیونکہ اب تم انشاء اللہ ضرور ضرور امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے اورقربانیوں کوخدا کی راہ میں پیش کرکے اپنے سر کے بالوں کو منڈوائو گے یاکتروائو گے اورتم پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔‘‘یعنی اگر تم اس سال مکہ میں داخل ہوجاتے تو یہ داخلہ امن کا نہ ہوتا بلکہ جنگ اور خون ریزی کاداخلہ ہوتا مگرخدا نے خواب میں امن کا داخلہ دکھایا تھا اس لئے خدا نے اس سال معاہدہ کے نتیجہ میں امن کی صورت پیدا کردی اوراب عنقریب تم خدا کی دکھائی ہوئی خواب کے مطابق امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
جب آپؐنے یہ آیات صحابہ کو سنائیں توچونکہ بعض صحابہ کے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اورخدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتّٰی کہ بعض جلد باز صحابہ نے اس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہوکر واپس جارہے ہیں؟آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی توآپؐ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اورایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا’’یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لئے ایک بڑی بھاری فتح ہے۔قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے انہوں نے خود جنگ کوترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اورآئندہ سال ہمارے لئے مکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اورہم امن وسلامتی کے ساتھ اہل مکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہوکرآئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جارہے ہیں۔پس یقینا یہ ایک عظیم الشان فتح ہے۔کیا تم لوگ ان نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش اُحد اور احزاب کی جنگوں میںکس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاں کرکر کے آئے تھے۔اوریہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی تھی اورتمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اورکلیجے منہ کو آتے تھے مگرآج یہی قریش تمہارے ساتھ امن وامان کا معاہدہ کررہے ہیں۔‘‘صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ!ہم سمجھ گئے۔ ہم سمجھ گئے۔جہاں تک آپؐ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک ہماری نظر نہیں پہنچتی۔مگراب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لئے ایک بھاری فتح ہے۔ ۱؎
حضرت عمرؓ کا مزید پیچ وتاب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر سے پہلے حضرت عمرؓبھی بڑے پیچ وتاب میںتھے۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی
واپسی پر جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رات کے وقت سفر میں تھے تواس وقت میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کچھ عرض کرنا چاہامگرآپؐخاموش رہے۔میں نے دوبارہ۔سہ بارہ عرض کیا مگر آپؐ بدستور خاموش رہے۔ ۲؎ مجھے آنحضرتؐ کی اس خاموشی پر بہت غم ہوا اورمیں اپنے نفس میں یہ کہتا ہوا کہ عمرتوتوہلاک ہوگیا کہ تین دفعہ تونے رسول اللہؐ کومخاطب کیا مگر آپؐنہیں بولے چنانچہ میں مسلمانوں کی جمعیت میں سے سب سے آگے نکل آیا اوراس غم میں پیچ وتاب کھانے لگا کہ کیا بات ہے؟اورمجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے۔اتنے میں کسی شخص نے میرا نام لے کر آوازدی کہ’’عمر بن خطاب کورسول اللہؐ نے یاد فرمایا ہے۔‘‘میں نے کہا بس ہونہ ہو میرے متعلق کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے۔چنانچہ میںگھبرایا ہوا جلدی جلدی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورسلام عرض کرکے آپؐ کے پہلو میں آگیا۔آپؐنے فرمایا’’مجھ پر اس وقت ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘پھرآپؐ نے سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔۳؎ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔یارسول اللہ!کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے؟آپؐ نے فرمایا’’ہاں یقینا یہ ہماری فتح ہے۔‘‘اس پر حضرت عمرؓ تسلی پاکر خاموش ہو گئے۔۴؎ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔
مسلمان مہاجر عورتوں کے لئے ایک استثنائی انتظام
معاہدوں میں رخنے رہ جایا کرتے ہیں جوبعض اوقات بعد میں اہم نتائج
کاباعث بن جاتے ہیں۔چنانچہ صلح حدیبیہ میں بھی یہ رخنہ رہ گیا تھا کہ اس میں گو مسلمان مردوں کی واپسی کے متعلق صراحۃً ذکر تھا مگر ایسی عورتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جو اہل مکہ میں سے اسلام قبول کرکے مسلمانوں میں آملیں۔مگرجلد ہی ایسے حالات رونما ہونے لگے جن سے کفار مکہ پراس رخنہ کاوجود کھلے طورپرظاہر ہوگیا۔چنانچہ ابھی اس معاہدہ پربہت تھوڑا وقت گزرا تھا کہ مکہ سے بعض مسلمان عورتیں کفار کے ہاتھ سے چھُٹ کر مدینہ میں پہنچ گئیں۔ان میں سب سے اول نمبر پر مکہ کے ایک فوت شدہ مشرک رئیس عقبہ ابن ابی معیط کی لڑکی ام کلثوم تھی جوماں کی طرف سے حضرت عثمانؓبن عفان کی بہن بھی لگتی تھی۔ امّ کلثوم بڑی ہمت دکھا کر پاپیادہ مدینہ پہنچی۔ ۱؎ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اظہار کیا۔مگر اس کے پیچھے پیچھے اس کے دوقریبی رشتہ دار بھی اس کے پکڑنے کے لئے پہنچ گئے اوراس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ان لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ(گومعاہدہ میں مرد کالفظ استعمال ہوا ہے مگر)دراصل معاہدہ عام ہے اورعورت مرد دونوں پرمساوی اثر رکھتا ہے۔مگر اُمِّ کلثوم معاہدہ کے الفاظ کے علاوہ اس بناء پر بھی عورتوں کے معاملہ میں استثناء کی مدعی تھی کہ عورت ایک کمزور جنس سے تعلق رکھتی ہے اورویسے بھی وہ مرد کے مقابلہ پر ایک ماتحت پوزیشن میں ہوتی ہے اس لئے اسے واپس کرنا گویا روحانی موت کے منہ میںدھکیلنا اوراسلام سے محروم کرنا ہے۔ ۲؎ پس عورتوں کا اس معاہدہ سے مستثنیٰ سمجھا جانا نہ صرف عین معاہدہ کے مطابق بلکہ عقلاًبھی قرین انصاف اورضروری تھا اس لئے طبعاًاورانصافاًآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُمِّ کلثوم کے حق میں فیصلہ فرمایا اوراس کے رشتہ داروں کوواپس لوٹادیا اورخداتعالیٰ نے بھی اس فیصلہ کی تائید فرمائی چنانچہ انہی دنوں میں یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں کہ جب کوئی عورت اسلام کا ادعاکرتی ہوئی مدینہ میں آئے تواس کا اچھی طرح سے امتحان کرواوراگر وہ نیک بخت اور مخلص ثابت ہو توپھر اسے کفار کی طرف ہرگز نہ لوٹائو، لیکن اگروہ شادی شدہ ہوتو اس کا مہر اس کے مشرک خاوند کو ضرور اداکردو۔۳؎ اس کے بعد جب بھی کوئی عورت مکہ سے نکل کر مدینہ میں پہنچتی تھی تواس کا اچھی طرح سے امتحان لیا جاتا تھا اوراس کی نیت اور اخلاص کو اچھی طرح پرکھا جاتا تھا۔پھرجوعورتیں نیک نیت اور مخلص ثابت ہوتی تھیں اوران کی ہجرت میں کوئی دنیوی یانفسانی غرض نہیں پائی جاتی تھی توانہیں مدینہ میں رکھ لیا جاتا تھا اوراگروہ شادی شدہ ہوتی تھیں تو ان کا مہر ان کے خاوندوں کوادا کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں میںشادی کرنے کے لئے آزاد ہوتی تھیں۔ ۱؎
مشرک عورتوں کو بھی آزاد کردیا گیا
جہاں ایک طرف مسلمان عورتوں کے لئے یہ خاص صورت تجویز کی گئی وہاں دوسری طرف اس موقع پر مشرک عورتوں
کے متعلق بھی یہ خاص احکام جاری ہوئے کہ اگر کوئی مشرک عورت مسلمانوں کے نکاح میں ہو تو مسلمان اسے آزادکردیں اورآئندہ کے لئے یہ حکم نافذ کیا گیا کہ کوئی مشرک عورت کسی مسلمان مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔یہ احکام بھی قرآن شریف کے ذریعہ نازل ہوئے۔۲؎ اور ان آیات کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اوربعض دوسرے صحابہ نے جن کے نکاح میں اس وقت تک بعض مشرک عورتیں تھیں اپنی مشرک بیویوں کو طلاق دے کر آزاد کردیا۔ ۳؎ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام نے ہر غیر مسلم عورت کے ساتھ نکاح منع نہیں کیا بلکہ صرف مشرک عورتوںکے ساتھ نکاح منع کیا ہے اوراہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح جائز رکھا ہے۔ ۴؎ ان احکام میں مصلحت یہ ہے کہ:
اوّل:تومشرک کامذہب اسلام سے بعید ترین ہے اوردونوں کے درمیان کوئی اتصال کی کڑی نہیں ہے اورایک مشرک عورت کے ساتھ نکاح میں یہ اندیشہ ہے کہ اس کی تربیت میں اولاد دین کے مبادی سے ہی بے بہرہ رہے۔
دوسرے:ایک مشرک انسان کا کوئی ضابطۂ اخلاق معین نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کے ساتھ تعلقات کبھی بھی کسی معین اورمستحکم بنیاد پرقائم نہیں ہوسکتے۔دوسری طرف خاص حالات میں تعلقات کی توسیع کی گنجائش کارکھا جانا بھی ضروری تھا۔پس مشرک عورتوں سے نکاح حرام قرار دے کر باقی غیر مسلم عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی۔دنیا کے موجودہ مذاہب میںسے عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ اہل کتاب کی اصطلاح میں داخل ہیں۔جن سے ایک مسلمان کارشتہ ہوسکتا ہے۔ البتہ افریقہ وغیرہ کی اکثر وحشی اقوام اہل کتاب میںسے نہیں ہیں اوران کے ساتھ رشتہ ہرصورت میں ممنوع ہے۔چونکہ اس مسئلہ میں کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے اس لئے اس جگہ اسی قدر مختصر نوٹ پر اکتفاکی جاتی ہے۔
ابوبصیر کاواقعہ اوراس کے نتائج
معاہدہ حدیبیہ کی شرطوں میںسے ایک شرط یہ تھی کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ کی طرف آوے تو مدینہ
والے اسے پناہ نہیںدیں گے بلکہ واپس لوٹا دیں گے،لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام سے منحرف ہوکر مکہ کا رخ کرے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔بظاہر یہ شرط مسلمانوں کے لئے موجب ہتک سمجھی گئی تھی اوراسی لئے کئی مسلمان اس پر دل برداشتہ تھے۔حتّٰی کہ حضرت عمرؓجیسے جلیل القدر اورفہیم صحابی کوبھی اس وقت کی برق زدہ فضا میں اس شرط پر ناراضگی اور بے چینی پیدا ہوئی تھی۔مگر اس کے بعد جلد ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئی کہ دراصل یہ شرط قریش کے لئے کمزوری کا باعث اورمسلمانوں کی مضبوطی کاموجب تھی۔کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شروع میں ہی فرمادیا تھا اگرکوئی مسلمان مدینہ سے منحرف ہوکر جائے گا تووہ ایک گندہ عضو ہوگا جس کا کاٹا جانا ہی بہتر تھا لیکن اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص سچے دل سے مسلمان ہوکر مکہ سے نکلے گا توخواہ اسے مدینہ میں جگہ ملے یانہ ملے وہ جہاں بھی رہے گا اسلام کی مضبوطی کا باعث ہوگا اوربالآخر اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا ۔ ۱؎ اس نظریہ نے جلد ہی اپنی صداقت کوثابت کردیا۔کیونکہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک شخص ابوبصیر عتبہ بن اسیدثقفی جو مکہ کا رہنے والا تھا اورقبیلہ بنو زہرہ کاحلیف تھا مسلمان ہوکر اورمکہ والوں کی حراست سے بھاگ کر مدینہ پہنچا۔قریش مکہ نے اس کے پیچھے پیچھے اپنے دو آدمی بھجوائے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے التجا کی کہ ابوبصیر کومعاہدہ کی شرائط کے مطابق ان کے حوالہ کردیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوبصیر کوبلایا اور واپس چلے جانے کا حکم دیا۔ابوبصیر نے سامنے سے واویلا کیا کہ میں مسلمان ہوں اوریہ لوگ مجھے مکہ میںتنگ کریں گے اوراسلام سے منحرف ہوجانے کے لئے جبر سے کام لیںگے۔آپ نے فرمایا ’’ہم معاہدہ کی وجہ سے معذور ہیں اورتمہیں یہاں نہیں رکھ سکتے اوراگرتم خدا کی رضا کی خاطر صبر سے کام لوگے توخدا خود تمہارے لئے کوئی رستہ کھول دے گا۔مگر ہم مجبور ہیں اورکسی صورت میں معاہدہ کی خلاف ورزی نہیںکرسکتے۔‘‘ناچارابوبصیر ان لوگوں کے ساتھ واپس روانہ ہوگیا مگر چونکہ اس کے دل میں اس بات کی سخت دہشت تھی کہ مکہ میںپہنچ کر اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جائیں گے اوراسے اسلام جیسی نعمت کوچھپا کر رکھنا پڑے گا بلکہ شاید جبروتشدد کی وجہ سے اس سے ہاتھ ہی دھونا پڑے۔ اس لئے جب یہ پارٹی ذوالحلیفہ میں پہنچی جومدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر مکہ کے رستے پر ہے توابوبصیر نے موقع پاکر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کوجواس پارٹی کارئیس تھاقتل کردیا اور قریب تھا کہ دوسرے کوبھی نشانہ بنائے مگر وہ اپنی جان بچا کر اس طرح بھاگا کہ ابوبصیر سے پہلے مدینہ پہنچ گیا۔۱؎ پیچھے پیچھے ابوبصیر بھی مدینہ میں آپہنچا۔جب یہ شخص مدینہ میں پہنچا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد میںتشریف رکھتے تھے۔اس کی خوف زدہ حالت کودیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔معلوم ہوتا ہے اسے کوئی خوف وہراس کاسخت دھکا لگا ہے اوراس کے ساتھ ہی اس نے خود بھی ہانپتے ہانپتے آپؐ سے عرض کیا کہ’’میرا ساتھی مارا گیا ہے اور میںبھی گویاموت کے منہ میں ہوں۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے واقعہ سنا اورتسلی دی۔اتنے میں ابوبصیر بھی ہاتھ میں تلوار تھامے آن پہنچا اور آتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا’’یارسول اللہ آپ نے مجھے قریش کے حوالے کردیااورآپ کی ذمہ داری ختم ہوگئی مگر مجھے خدا نے ظالم قوم سے نجات دے دی ہے اوراب آپ پر میری کوئی ذمہ داری نہیں ۔‘‘آپؐنے بے ساختہ فرمایا:
وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ ۲؎
یعنی اس کی ماں کے لئے خرابی ہو(یہ الفاظ عربوں کے محاورہ میں لفظی معنوں کونظر انداز کرتے ہوئے ملامت یاتعجب کے موقع پر بولے جاتے ہیں)یہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے کاش کوئی اسے سنبھالنے والا ہو۔
ابوبصیر نے یہ الفاظ سنے توسمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے بہرحال معاہدہ کی وجہ سے واپس جانے کا ارشاد فرمائیں گے۔چنانچہ اس بارے میں بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ ۳؎
یعنی’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے توجان لیا کہ آپؐ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس بھجوادیں گے۔‘‘
اس پر وہ چپکے سے وہاں سے نکل آیا اورمکہ جانے کی بجائے جہاں اسے جسمانی اورروحانی دونوں موتیں نظر آتی تھیں بحیرہ احمر کے ساحل کی طرف ہٹ کر سیف البحر میں پہنچ گیا۔
جب مکہ کے دوسرے مخفی اورکمزور مسلمانوں کو یہ علم ہوا کہ ابوبصیر نے ایک علیحدہ ٹھکانا بنالیا ہے تو وہ بھی آہستہ آہستہ مکہ سے نکل نکل کر سیف البحر میں پہنچ گئے۔انہی لوگوں میںرئیس مکہ سہیل بن عمرو کا لڑکا ابوجندل بھی تھا جس کے متعلق ہم پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حدیبیہ سے واپس لوٹا دیا تھا۔آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد ستر کے قریب ۱؎ یابعض روایات کے مطابق تین سو تک پہنچ گئی۔ ۲؎ اوراس طرح گویا مدینہ کے علاوہ ایک دوسری اسلامی ریاست بھی معرض وجود میں آگئی جومذہباً تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماتحت تھی مگر سیاستاًجُدا اورآزاد تھی۔ چونکہ ایک طرف حجاز کی حدود میں ایک علیحدہ اورآزاد سیاسی نظام کا موجود ہونا قریش کے لئے خطرہ کا باعث تھا اوردوسری طرف سیف البحر کے مہاجر قریش مکہ سے سخت زخم خوردہ تھے اس لئے ابھی زیادہ وقت نہیںگزرا تھا کہ ان مہاجرین سیف البحر اورقریش کے تعلقات نے قریباًقریباًوہی صورت اختیار کرلی جوابتداء میں مہاجرین مدینہ کے متعلق پیدا ہوئی تھی اورچونکہ سیف البحر اس رستہ کے بالکل قریب تھاجو مدینہ سے شام کو جاتا تھا اس لئے قریش کے قافلوں کے ساتھ ان مہاجرین کی مٹھ بھیڑ ہونے لگی۔اس نئی جنگ نے جلد ہی قریش کے لئے خطرناک صورت اختیار کرلی کیونکہ اول تو قریش سابقہ جنگ کی وجہ سے کمزور ہوچکے تھے اوردوسرے اب وہ پہلے کی نسبت تعداد میںبھی بہت کم تھے اوران کے مقابل پر سیف البحر کی اسلامی ریاست جو ابوبصیر اورابوجندل جیسے جان فروشوں کی کمان میںتھی۔ایمان کے تازہ جوش اوراپنے گزشتہ مظالم کی تلخ یاد میں اس برقی طاقت سے معمور تھی جوکسی مقابلہ کو خیال میں نہیں لاتی۔نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی قریش نے ہتھیار ڈال دئے اورابوبصیر کی پارٹی کے حملوں سے تنگ آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سفارت کے ذریعہ درخواست کی اوراپنی رشتہ داری کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ سیف البحر کے مہاجرین کومدینہ میں بلاکر اپنے سیاسی انتظام میں شامل کرلیں اورساتھ ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوصلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ کے نومسلموں کومدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اپنی خوشی سے منسوخ کردیا۔ ۱؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرمالیااورابوبصیر اور ابوجندل کوایک خط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ چونکہ قریش نے اپنی خوشی سے معاہدہ میں ترمیم کردی ہے اس لئے اب انہیں مدینہ میں چلے آنا چاہئے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایلچی سیف البحر پہنچا تواس وقت ابوبصیر بیمار ہوکر صاحب فراش تھا اورحالت نازک ہورہی تھی۔ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کوبڑے شوق کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا اور تھوڑی دیر بعد اسی حالت میں جان دے دی اوراس کے بعد ابوجندل اوراس کے ساتھی اپنے اس باہمت اورجوانمبردامیر کوسیف البحر میں ہی دفن کرکے خوشی اورغم کے مخلوط جذبات کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ۲؎ غم اس لئے کہ ان کا بہادر لیڈر ابوبصیر جو اس واقعہ کا ہیرو تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قدم بوسی سے محروم رہا۔اور خوشی اس بات پرکہ وہ خود اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گئے اور قریش کے خونی مقابلہ سے نجات ملی۔
ابوبصیر اوران کے رفقاء کادلچسپ کارنامہ صلح حدیبیہ کے معاً بعد سے لے کر کئی ماہ کے وقفہ پر پھیلا ہوا تھا اوراس عرصہ میں بعض دوسرے واقعات بھی پیش آئے۔مگر ہم نے صلح حدیبیہ سے تعلق رکھنے والے واقعات کویکجا بیان کرنے کی غرض سے اسے صلح حدیبیہ کے ساتھ ہی بیان کردیا ہے۔
صلح حدیبیہ کے تعلق میں عیسائی مؤرخین کے دواعتراضات
غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کاکوئی
اہم واقعہ ایسا نہیں ہے جسے مسیحی مؤرخین نے بغیر اعتراض کے چھوڑا ہو اورصلح حدیبیہ کاواقعہ بھی اسی کلّیہ کے نیچے آتاہے۔بعض ضمنی اورغیر اہم اعتراضات کونظر انداز کرتے ہوئے عیسائی مصنفین نے صلح حدیبیہ کے تعلق میںدو اعتراض کئے ہیں:
اوّل: یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو صلح حدیبیہ کی شرائط سے عورتوں کومستثنیٰ قرار دیا یہ شرائط معاہدہ کی رو سے جائز نہیں تھا۔کیونکہ معاہدہ کے الفاظ عام تھے جس میں مرد عورت سب شامل تھے۔
دوم: یہ کہ ابوبصیر کے واقعہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدہ کی روح کو توڑا بلکہ ابوبصیر کویہ اشارہ دے کر کہ وہ مکہ میں واپس جانے کی بجائے ایک الگ پارٹی بناکر اپنا کام کرسکتا ہے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔
ان اعتراضوں کے جواب میں سب سے پہلی بات تویہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ معاہدہ قریش مکہ کے ساتھ ہوا تھا اورقریش مکہ وہ قوم تھی جو ابتداء اسلام سے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکارچلی آتی تھی اوربات بات پراعتراض کرنے اور طعنہ دینے کی عادی تھی۔اور ویسے بھی وہ کوئی دوردراز کی غیر قوم نہ تھی بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپنی ہی قوم تھی جسے سب حالات کاپوراپوراعلم تھا۔اورپھر شرائط معاہدہ کی تمام تفصیلات اوران کا مکمل پس منظر بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔پس جب مکہ کے قریش نے جوفریق معاہدہ تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فعل پراعتراض نہیں کیا اوراسے معاہدہ کے خلاف نہیںسمجھا توتیرہ سوسال بعد میں آنے والے لوگوں کوجن کی آنکھوں سے بہت سی جزئی تفاصیل پوشیدہ ہیں اورانہیں اس معاہدہ کے پس منظر پربھی پوری طرح آگاہی نہیں اعتراض کاحق کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟یہ تو مدعی سست گواہ چست والامعاملہ ہوا کہ جن کے ساتھ یہ سارا قصہ گزرا ہے۔ وہ تواسے درست قرار دے کر خاموش رہتے ہیں مگرتیرہ سوسال بعد میں آنے والوں نے گویا آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے۔آخر یہ کیا وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن وحدیث اورعرب کی تاریخ ان اعتراضوں سے بھرے پڑے ہیں جوکفار مکہ اور دوسرے کفارعرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوراسلام کے خلاف کیا کرتے تھے۔مگر یہ ذکر کسی جگہ نہیں آتا کہ مسلمانوں پرصلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کاالزام لگایاگیا ہو۔
علاوہ ازیں یہ بات مضبوط ترین شہادت سے ثابت ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف تبلیغی خط ارسال کیا اوراس وقت اتفاق سے ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ بھی شام میں گیا ہوا تھا اورہرقل شہنشاہ روم نے اسے اپنے دربار میں بلاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بعض سوالات کئے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ’’کیا تمہاری قوم کے اس مدعی نبوت نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے؟تواس سوال کے جواب میں ابوسفیان نے جو اس وقت رأس المنکرین اوراسلام کا اشدترین دشمن تھا جوالفاظ کہے وہ یہ تھے۔
لاَ وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّۃٍ لَانَدْرِیْ مَاھُوَفَاعِلٌ فِیْھَا وَلاَ یُمْکِنُنِیْ کَلِمَۃً اَدْخُلُ فِیْھَا شَیْئًا غَیْرَھٰذِہٖ الْکَلِمَۃِ۔ ۱؎
یعنی’’نہیں۔محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی ہاں آج کل اس کے ساتھ ہمارے ایک معاہدہ کی میعاد چل رہی ہے اورمیں نہیں کہہ سکتا کہ اس معاہدہ کے اختتام تک اس کی طرف سے کیا امر ظاہر ہو۔ابوسفیان کہتا ہے کہ اس ساری گفتگو میں میرے لئے اس فقرہ کے بڑھادینے کے سوا کوئی اورموقع نہیں تھا کہ میں آپؐ کے خلاف ہرقل کے دل میںکوئی امکانی شبہ پیدا کرسکوں۔‘‘
ابوسفیان اورہرقل کی یہ گفتگو صلح حدیبیہ کے معاًبعد نہیں ہوئی تھی بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل کے نام تبلیغی خط تیار کرکے روانہ کرنے اورپھر اس خط کے ہرقل تک پہنچنے اور پھر ہرقل کی طرف سے دربار منعقد ہونے اور ابوسفیان کوتلاش کرکے اپنے دربار میں بلانے وغیرہ میں لازماً وقت لگا ہوگا اورقرین قیاس یہ ہے کہ اس وقت تک ابوبصیر کے مدینہ میں بھاگ آنے اور امّ کلثوم وغیرہ مسلمان عورتوں کے مکہ سے نکل کر مدینہ پہنچ جانے کے واقعا ت ہوچکے ہوں گے۔ اسی لئے سب مؤرخ ابوبصیر اوراُمِّ کلثوم والے واقعہ کوپہلے اورقیصر روم والے خط کے واقعہ کو اس کے بعد بیان کرتے ہیں مگرباوجود اس کے ابوسفیان ہرقل کے دربار میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف عہدشکنی کاالزام نہیں لگا سکا حالانکہ اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس کی یہ خواہش تھی کہ اگر کوئی ہاتھ پڑ سکے تو دریغ نہ کروں۔مگرباوجود اس کے تیرہ سوسال بعد میں پیدا ہونے والے نقّاد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرعہد شکنی کاالزام لگاتے ہوئے خدا کاخوف محسوس نہیں کرتے۔افسوس صد افسوس!
پھراگر ان اعتراضوں کی تفصیل میں جائیں تو ان کا بوداپن اوربھی زیادہ نمایاں ہوجاتاہے مثلاً پہلا اعتراض یہ ہے کہ دراصل معاہدہ میںمرد اورعورتیں دونوں شامل تھیں مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زبردستی سے کام لے کر عورتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا،لیکن جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں یہ اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ معاہدہ کے وہ الفاظ جوصحیح ترین روایت میںبیان ہوئے ہیں ان میں صراحۃً مذکور ہے کہ معاہدہ میں صرف مرد مراد تھے نہ کہ مرد اورعورتیں دونوں۔چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں صحیح بخاری میں معاہدہ کے یہ الفاظ درج ہیں:
لاَ یَاتِیْکَ مِنَّارَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلاَّرَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔ ۱؎
یعنی’’ہم میں سے جو مرد بھی آپ کی طرف جائے گا وہ خواہ مسلمان ہی ہوگا اسے ہماری طرف لوٹا دیاجائے گا۔‘‘
ان واضح اورغیر مشکوک الفاظ کے ہوتے ہوئے یہ اعتراض کرنا کہ دراصل معاہدہ میں مرد وعورت دونوں مراد تھے صرف بے انصافی ہی نہیں بلکہ انتہائی بددیانتی ہے۔اوراگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کی بعض روایتوں میں معاہدہ کے الفاظ میں رجل(مرد)کالفظ مذکور نہیںبلکہ عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں مردوعورت دونوں شامل سمجھے جاسکتے ہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ اول توبہرحال مضبوط روایت کومقدم سمجھا جائے گا اورجب صحیح ترین روایت میں رجل(مرد)کالفظ آتا ہے تولازماً اسی کو صحیح لفظ قرار دینا ہوگا علاوہ ازیں جوالفاظ تاریخی روایت میں آتے ہیں وہ بھی اگر غور کیا جائے تواسی تشریح کے حامل ہیں جو ہم نے اوپربیان کی ہے۔مثلاًتاریخ کی سب سے زیادہ مشہور اورمعروف کتاب سیرۃ ابن ہشام میں یہ الفاظ آتے ہیں:
مَنْ اَتٰی مُحَمَّدًامِنْ قُرَیْشٍ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّہٖ رَدَّہٗ عَلَیْھِمْ۔ ۱؎
یعنی’’جو شخص قریش میںسے محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پاس اپنے گارڈین کی اجازت کے بغیر پہنچے گا اسے قریش کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا۔‘‘
عربی کے ان الفاظ میں بے شک ’’مرد‘‘کالفظ صراحۃً بیان نہیں ہوا مگر عربی زبان کاابتدائی علم رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ عربی میں بخلاف بعض دوسری زبانوں کے عورت اورمرد کے لئے علیحدہ علیحدہ صیغے اورعلیحدہ علیحدہ ضمیریں استعمال ہوتی ہیں اوراوپر کی عبارت میں شروع سے لے کر آخرتک مردوں والے صیغے اورمردوں والی ضمیریں استعمال کی گئی ہیں ۔پس جیسا کہ معاہدوں کی زبانوں کی تشریح کااصول ہے لازماًاس عبارت میں صرف مرد ہی شامل سمجھے جائی گے نہ کہ عورت اورمرددونوں۔بیشک بعض اوقات عام محاورہ میں مردانہ صیغہ بول کر اس سے مرد وعورت دونوں مراد لے لئے جاتے ہیں مگرظاہر ہے کہ زیربحث عبارت اس قسم کی عبارت نہیں ہے بلکہ معاہدہ کی عبارت ہے جسے قانون کادرجہ بلکہ اس سے بھی اوپر کادرجہ حاصل ہوتاہے ۔کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر رکھا جاتا ہے اورالفاظ کا انتخاب دونوں فریقوں کی جرح اورمنظوری کے بعد ہوتا ہے لہذا ایسی عبارت میںلازماً وہی معنی لئے جائیں گے جومحدود ترین اورمخصوص ترین پہلو رکھتے ہوں۔پس اس جہت سے بھی بہرحال یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس معاہدہ میں صرف مرد شامل تھے نہ کہ مرد اورعورت دونوں۔
علاوہ ازیں جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے عورت جو ایک کمزور جنس ہے اورعموماً اپنے خاوند یامرد رشتہ داروں کے رحم پر ہوتی ہے اسے واپس لوٹانے کے یہ معنی تھے کہ اسے اسلام لانے کے بعد پھر اپنے ہاتھوں سے کفر اورشرک کی طرف لوٹا دیا جائے جو نہ صرف رحم وشفقت بلکہ عدل وانصاف کے جذبہ سے بھی بعید تھا۔بیشک ایک مرد کو واپس لوٹانے میںبھی اس کے لئے یہ خطرہ تھا کہ مکہ کے کفار اسے مختلف قسم کے عذابوں اوردکھوں میں مبتلا کریںگے مگرمرد پھربھی مرد ہے۔وہ نہ صرف تکلیفوں کا زیادہ مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ حسب ضرورت ادھرادھرچھپ کریابھاگ کریاجتھہ وغیرہ بناکر اپنے لئے بچائو کے کئی رستے کھول سکتا ہے مگر ایک بے بس عورت کیا کرسکتی ہے؟اس کے لئے ایسے حالات میں یاتواسلام سے جبری محرومی کی صورت تھی اوریاموت۔اندریں حالات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسی رحیم وکریم ہستی سے بالکل بعید تھا کہ بے کس اوربے بس مسلمان عورتوں کوظالم کفار کے مظالم کی طرف لوٹا دیتے۔پس جو کچھ کیا گیا وہ نہ صرف معاہدہ کے الفاظ کی رو سے بالکل صحیح اور درست تھا بلکہ عدل وانصاف اوررحم وشفقت کے مسلّمہ اصول کے لحاظ سے بھی عین مناسب اور درست تھا اوراعتراض کرے والوں کے حصہ میں اس قابل افسوس شرم کے سوا کچھ نہیں آیا کہ انہوں نے مظلوم اوربے بس عورتوں کی حفاظت کے انتظام پربھی زبان طعن دراز کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
دوسرا اعتراض ابوبصیر کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے۔مگر غور کرنے سے یہ اعتراض بھی بالکل بودا اورکمزور ثابت ہوتا ہے۔بیشک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ فرمایا تھا کہ کفار مکہ میں سے جوشخص یعنی جو مرد مدینہ بھاگ کر آجائے گا تووہ خواہ مسلمان ہی ہوگا اسے مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اورواپس لوٹا دیا جائے گا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی؟ہرگز نہیں،ہرگزنہیں۔بلکہ آپؐنے اس معاہدہ کے ایفاء کاایسا کامل اور شان دار نمونہ دکھایا کہ دنیا اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔غورکرو اوردیکھو کہ ابوبصیر اسلام کی صداقت کاقائل ہوکر مکہ سے بھاگتا ہے اورکفار کے مظالم سے محفوظ ہونے اوراپنا ایمان بچانے کے لئے چھپتا چھپاتا مدینہ میں پہنچ جاتا ہے مگر اس کے ظالم رشتہ دار بھی اس کے پیچھے پیچھے پہنچتے ہیں اور اسے تلوار کے زور سے اسلام کی صداقت سے منحرف کرنے کے لئے جبراًواپس لے جانا چاہتے ہیں۔اس پر یہ دونوں فریق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ابوبصیر بھرائی ہوئی آواز اورسہمے ہونے انداز میں عرض کرتا ہے کہ یارسول اللہ!مجھے خدا نے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اورمکہ واپس جانے میں جودکھ اورخطرہ کی زندگی میرے سامنے ہے اسے آپ جانتے ہیں۔خدا کے لئے مجھے واپس نہ لوٹائیں۔مگر اس کے مقابل پرابوبصیر کے رشتہ دار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کااورہمارا معاہدہ ہے کہ ہماراجوآدمی بھی مدینہ آئے گا اسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔ابوبصیر کا دکھ اوراپنے صحابہ کی غیرت آپؐ کی آنکھوں کے سامنے ہے اور خود آپؐکے اپنے جذبات آپؐکے دل میں تلاطم برپا کررہے ہیں۔مگر یہ امانت ودیانت کامجسمہ اپنے عہدپر چٹان کی طرح قائم رہتے ہوئے فرماتا ہے اورکن پیارے الفاظ میں فرماتا ہے:
یَااَبَابَصِیْرٍاِنَّاقَدْاَعْطَیْنَا ھٰؤُلاَئِ الْقَوْمَ مَاقَدْعَلِمْتَ وَلاَ یَصْلَحُ لَنَافِیْ دِیْنِنَا الْغَدْرَوَاِنَّ اللّٰہَ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَّعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ خَرَجًاوَّمَخْرَجًافَانْطَلِقْ اِلٰی قَوْمِکَ۔ ۱؎
یعنی’’اے ابوبصیر!تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کواپنا عہدوپیمان دے چکے ہیں اورہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں ہے۔پس تم ان لوگوں کے ساتھ چلے جائو۔پھر اگر تم صبرواستقلال کے ساتھ اسلام پر قائم رہو گے توخدا تمہارے لئے اورتم جیسے دوسرے بے بس مسلمانوں کے لئے خود کوئی نجات کارستہ کھول دے گا۔‘‘
اس ارشاد نبوی ؐپرابوبصیر مکہ والوں کے ساتھ واپس چلا گیا اورجب وہ مکہ کے رستہ میں اپنے قید کرنے والوں کے ساتھ لڑائی میں غالب ہوکر پھر دوبارہ واپس آیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی غصہ کے ساتھ فرمایا:
وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ ۲؎
یعنی’’خرابی ہو اس ماں کے لئے۔یہ شخص تولڑائی کی آگ بھڑکارہا ہے۔کاش اسے کوئی سنبھالنے والا ہو۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی ابوبصیر یہ یقین کرلیتا ہے کہ آپؐاسے بہرحال واپس لوٹا دیں گے۳؎ اورمدینہ سے چپکے چپکے نکل آتا ہے اورایک دور کی علیحدہ جگہ میں اپنا ٹھکانا بنالیتا ہے۔اب اس سارے واقعہ کو انصاف کی نظر سے دیکھو کہ ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور آپ کے خلاف کیا اعتراض ہوسکتاہے؟بلکہ حق یہ ہے کہ آپؐنے اس معاملہ میںاپنے جذبات کوکچلتے ہوئے معاہدہ کوپورا کیا اورنہ صرف ایک دفعہ بلکہ دودفعہ ابوبصیر کوواپس لوٹا دیا اورواپس بھی ایسے شان دار الفاظ میں لوٹا یا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔آپؐنے اپنے جذبات کوکچلا۔ اپنے صحابہ کے جذبات کوکچلا اورابوبصیر کے جذبات کوکچلا اورہر حال میں معاہدہ کو پورا کیا۔پھر اگر ابوبصیر خود اہل مکہ سے آزاد ہوکر کسی اور جگہ چلاگیا تو اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اورمعاہدہ کی وہ کون سی شرط ہے جس کے مطابق آپؐ اس بات کے پابند تھے کہ خواہ مکہ سے بھاگا ہوا شخص کہیں بھی ہوآپؐاسے مکہ میں واپس پہنچا دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔ افسوس!افسوس!!اسلام کے دشمنوں نے کسی بات میں بھی اسلام سے انصاف نہیں کیا۔
اوراگریہ اعتراض کیا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابوبصیر کواس کے قائم کردہ کیمپ میں حکم بھجواسکتے تھے کہ تم مدینہ واپس چلے آئو اوریہ کہ چونکہ آپؐنے ایسا نہیں کیا اس لئے آپؐنے گویا معاہدہ کے الفاظ کوتو نہیں مگران کی روح کو توڑا۔سو یہ اعتراض بھی ایک سراسر جہالت کا اعتراض ہے اور خود معاہدہ کے الفاظ اوران الفاظ کی روح اسے رد کرتے ہیں۔معاہدہ کی یہ شرط کہ اگر کوئی مکہ کا رہنے والا مسلمان بھاگ کرمدینہ میں پہنچے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے واپس لوٹادیںگے صاف طورپر ثابت کرتی ہے کہ اس شرط کی غرض وغایت یہ تھی کہ ایسے شخص کوباوجود اس کے مسلمان ہونے کے مدینہ کی اسلامی سیاست کے دائرہ میں قبول نہیں کیاجائے گا یعنی گووہ عقیدہ کی رو سے مسلمان ہوگامگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے اپنی مدنی سیاست میں شریک نہیں کریں گے۔توجب ایسا شخص خود معاہدہ کی شرائط کے ماتحت مدینہ کی اسلامی سیاست سے خارج قرار دیا گیا تھا تو اس کے متعلق یہ مطالبہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جہاں بھی ہو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اسے حکم دے کر واپس لوٹا دیںگے۔ پس یہ کتنا بھاری ظلم ہے کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے شخص کومدینہ میں رکھتے ہیں تو آپؐ پریہ اعتراض ہوتاہے کہ آپ کامعاہدہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود آپؐاسے اپنی سیاست میںشامل نہیں کریں گے اوراگر آپ اسے اپنی مدنی سیاست سے خارج کرکے اہل مکہ کے سپرد کرتے اورمدینہ سے نکالتے ہیں توپھر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ اسے اپنی سیاست میں شامل کرکے حکم کیوں نہیںبھجواتے۔پس سیاسی لحاظ سے یہ ایک ایسا بودا اورایسا کمزور اور ایسا لایعنی اعتراض ہے کہ کوئی سمجھ دار شخص اس کی طرف توجہ نہیں کرسکتا۔اور حق یہ ہے کہ یہ نامعقول شرط جوکفار کی طرف سے معاہدہ میں شامل کی گئی تھی کہ کسی مسلمان مہاجر کومدینہ میں پناہ نہ دی جائے خدا نے اسی کو ان کے لئے عذاب بناکر بتادیاکہ ہمارے رسولؐنے تو بہرحال معاہدہ کی پابندی کی مگر تم نے اپنے رستہ میں خود کانٹے بوئے اورخود اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیار سے اپنے ہاتھ کاٹے۔ جب تم نے خود کہا کہ مکہ کاجونوجوان بھی مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں نہیں رکھیں گے اوریہ کہ وہ مدینہ کی سیاست سے خارج سمجھا جائے گا تو پھر اسی منہ سے تم یہ مطالبہ کس طرح کرسکتے ہو کہ یہ مدنی سیاست سے خارج لوگ جہاں جہاں بھی ہوں انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حکم دے کر اوران پر اپنی سیاست قائم کرکے مکہ پہنچائیں؟تم نے خود یہ شرط پیش کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی روحوں پراوران کے اُمور اُخروی پر تو بیشک حکومت کریں مگر ان کی سیاست اوردنیوی امور پرحاکم نہ بنیں۔اورجب تم نے خود انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیاست سے نکال دیا تو پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کیسا؟بہرحال یہ قریش مکہ کا اپنا مکر تھا جوخود انہی پرلوٹ کر گرا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کادامن بہرصورت پاک تھا اورپاک رہا۔آپؐنے معاہدہ کے الفاظ کوبھی پورا کیا اور ابوبصیر کومکہ والوں کے سپرد کرتے ہوئے مدینہ سے رخصت کردیا۔اورپھرآپؐنے معاہدہ کی روح کوبھی پورا کیا کہ جیسا کہ اس شرط کااصل منشا تھا۔آپؐ نے ابوبصیراوراس کے ساتھیوں کواپنی سیاست کے دائرہ سے خارج رکھا۔پس آپ ہرجہت سے سچے رہے اورکفار مکہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال کا خود شکار ہوکر رہ گئے اوربالآخر خود ذلیل ہوکر آپؐکے پاس آئے کہ ہم اس شرط کومعاہدہ سے خارج کرتے ہیں۔
اوریہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہہ کر کہ وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ (یعنی اس کی ماں کے لئے خرابی ہویہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکار رہا ہے۔کاش کوئی اسے سنبھالنے والا ہو) ابوبصیر کواشارہ کیا تھا کہ تم الگ پارٹی بناکر قریش سے جنگ شروع کردو،کتنا ظلم اورکتنی گندی ذہنیت اورحالات پیش آمدہ سے کتنی جہالت ہے!یہ الفاظ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اورناواجب جنگ سے آپؐکی بیزاری کابین ثبوت ہیں اوراس بات کوثابت کرتے ہیں کہ آپؐ ابوبصیر کے اس فعل سے بریت اوربیزاری کااظہار فرمارہے ہیں نہ یہ کہ اسے کوئی مخفی اشارہ دے کر جنگ پر اُبھارنا چاہتے ہیں۔
اوراگر کوئی شخص یہ خیال کرے جیسا کہ سرولیم میور نے خیال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری الفاظ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌکے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ’’اگر اسے کوئی ساتھی مل جائے‘‘ اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپؐکایہی منشا تھا کہ اگرابوبصیر کوکوئی ساتھی مل جائے تووہ جنگ کی آگ بھڑکا سکتا ہے اوراس طرح اس کلام میںگویا جنگ کی انگیخت کااشارہ پایا جاتا ہے تواس کا یہ جواب ہے کہ اول توجو معنی ہم نے کئے ہیں وہ عربی محاورہ کے عین مطابق ہیں جس کی مثالیں حدیث میںبھی کثرت سے ملتی ہیں۔علاوہ ازیں اگربالفرض دوسرے معنی جائز بھی ہوں تو پھر بھی عبارت کے سیاق وسباق کے ماتحت اس فقرہ کامطلب اس کے سوا کوئی اور نہیں لیا جاسکتا کہ اگر ابوبصیر کواس کا کوئی ہم خیال ساتھی مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکادے مگر شکر ہے کہ اسے مدینہ میں کوئی ایسا ساتھی میسر نہیں۔پس خواہ کوئی معنی لئے جائیں اس عبارت کاسیاق وسباق اور اس کے ابتدائی ٹکڑے اس بات کاکافی وشافی ثبوت ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشا ابوبصیر کوملامت کرنا تھا نہ کہ جنگ کے لئے اُبھارنا۔کیااپنے کلام کو اس غصہ اورملامت کے الفاظ سے شروع کرنے والا شخص کہ’’فلاں شخص کی ماں کے لئے خرابی ہو وہ تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے۔‘‘اس کے معاًبعد اس قسم کے الفاظ منہ پر لاسکتا ہے کہ’’ہاں ہاں جنگ کی آگ بھڑکائو؟‘‘آخر اعتراض کرنے کے شوق میں عقل کوتو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے !پھرسب سے بڑی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خود ابوبصیر پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان الفاظ نے کیا اثر کیا اوراس نے آپؐکاکیامطلب سمجھا۔سواس کے متعلق اسی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ:
فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ ۱؎
یعنی’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو اس نے سمجھ لیا کہ آپ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس لوٹا دیںگے۔‘‘جس پروہ چپکے سے بھاگ کردوسری طرف نکل گیا۔
افسوس!صدافسوس!!کہ جس شخص کومخاطب کرکے یہ الفاظ کہے گئے وہ خود تو ان کا یہ مطلب سمجھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل کوناپسند کیا ہے اورآپؐ بہرحال اسے مکہ کی طرف واپس لوٹادیں گے مگر ہمارے تیرہ سوسال بعد آنے والے مہربان یہ کہہ رہے ہیں کہ دراصل آپؐنے ابوبصیر کوالگ پارٹی بناکر جنگ کرنے کی انگیخت کی تھی۔تعصب کاستیاناس ہو۔بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔
اسلامی سیاست اسلام کے دینی نظام سے علیحدہ بھی ہوسکتی ہے
ابوبصیر والے واقعہ سے اسلامی اصول سیاست کے متعلق بھی ایک اہم استدلال ہوتا ہے یعنی یہ کہ خاص حالات میں بعض علاقوں کے مسلمانوں کی سیاست ان کے مشترکہ دینی نظام سے
علیحدہ بھی ہوسکتی ہے۔میرا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کواپنے ایسے سیاسی نظام میں جوخود ان کے اپنے اختیار میں ہو اسلامی اصولوں کے ترک کردینے کااختیار ہے۔کیونکہ بہرحال جوقوم بھی اسلام پر ایمان لاتی ہے اس کا فرض ہے کہ اپنی دینی اوردنیوی زندگی کواسلام کی تعلیم کے مطابق بنائے۔پس میری مراد یہ نہیں کہ مسلمانوں کاکوئی حصہ اپنی سیاست میں دینی اصولوں کوترک کردینے کاحق رکھتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر مسلمان دویادو سے زیادہ علیحدہ علیحدہ ملکوں میں آباد ہوں،یا جغرافیائی لحاظ سے ایک ملک میں رہتے ہوئے بھی ان کی تنظیم ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتو وہ ایک مشترکہ امام اورمقتدا کی دینی اور روحانی قیادت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ سیاست قائم کرسکتے ہیں بلکہ اگر اس صورت میں ایک پارٹی امام کی روحانی اقتدا کے علاوہ امام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس کی سیاست میں منسلک ہوتو پھر بھی دوسری پارٹی امام کی دینی اورروحانی اقتدا میں ہونے کی باوجود اپنا علیحدہ سیاسی نظام رکھ سکتی ہے گویااس صورت میںجہاں ایک پارٹی دینی اورسیاسی ہردو لحاظ سے امام کے ساتھ ہوگی وہاں دوسری پارٹی دینی لحاظ سے تو امام کے ساتھ ہوگی مگر سیاست میں علیحدہ نظام رکھے گی۔یہ استدلال ابوبصیر کے واقعہ سے اس طرح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی اس شرط کوقبول کیا کہ اگر مکہ کاکوئی مسلمان مدینہ میں آئے توآپؐاسے مدینہ میں رکھ کر اپنی سیاست میں شامل نہیں کریں گے۔بلکہ واپس لوٹادیں گے اورپھر اس شرط کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملاًبھی ابوبصیر اوراس کی پارٹی کوان کے مسلمان ہونے کے باوجود مدینہ کی سیاست سے خارج رکھا۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاصلح کی اس شرط کوقبول کرنا اوراس کے مطابق عمل کرنا ثابت کرتاہے کہ آپؐنے اس طریق کوجائز قرار دیا ہے کہ مختلف علاقوں کے مسلمان ایک دین پرقائم ہوتے ہوئے بلکہ ایک امام کے ماتحت ہوتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ سیاست رکھ سکتے ہیں اوریہ ایک نہایت اہم استدلال ہے جو ابوبصیر کے واقعہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل سے ہوتا ہے اوردراصل اسی قسم کے حالات کے پیش نظر قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ:
۱؎
یعنی’’ اگرمومنوں میں سے دوپارٹیاں آپس میں لڑپڑیں توان کے درمیان صلح کرادو پھر اگر صلح کے بعد ان میں سے کوئی پارٹی دوسری کے خلاف سینہ زوری اورسرکشی سے کام لے (اورشرائط کو توڑے)توپھر سب مل کر اس پارٹی کے خلاف لڑائی کرو جوسرکشی سے کام لے رہی ہو یہاں تک کہ وہ سیدھی ہوکرخدا کے فیصلہ کے سامنے جھک جائے۔پھراگر وہ سینہ زوری اور سرکشی سے باز آکر جھک جائے توپھر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان پورے عدل وانصاف کے ساتھ صلح کرا دو اوردیکھو عدل کے ترازو کوبہرحال برابر رکھو۔کیونکہ خداعدل کرنے والے لوگوں کوپسند کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں افراد کی لڑائی یاایک سیاسی نظام کے اندر رہنے والی پارٹیوں کی باہم لڑائی مراد نہیں ہے بلکہ ایسی پارٹیوں کی لڑائی مراد ہے جواسلام پرقائم ہونے اوردینی لحاظ سے متحد ہونے کے باوجود علیحدہ علیحدہ سیاسی نظام رکھتی ہیں۔بلکہ یہ وہ زریں اصول ہے جو صرف اسلامی پارٹیوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں اورتمام پارٹیوں پریکساں چسپاں ہوتاہے اور دراصل یہی وہ اصول ہے جوبرسرپیکار قوموں کے درمیان حقیقی امن قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اسلام کی امن اورجنگ کی طاقت کامقابلہ
صُلُح حُدیبیہ اسلامی تاریخ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ہے جس کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کاایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس نئے دور کا آغاز غزوہ احزاب سے ہوا جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا۔ ۱؎ یعنی ’’آئندہ قریش مکہ پرہم چڑھائی کریں گے مگر انہیں مدینہ کے خلاف چڑھائی کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔‘‘اس نئے دور کی تکمیل صلح حدیبیہ سے ہوئی جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورکفار مکہ کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ کے ذریعہ لڑائی کاسلسلہ ختم ہوگیا اور انیس سال کی طویل کشمکش کے بعد جو شروع میں جابرانہ تشدداورتعذیب کارنگ رکھتی تھی اورآخر میں باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرگئی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے لئے کم از کم جہاں تک اہل مکہ کاتعلق تھا امن کا ماحول قائم ہوگیا۔سو اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اسلام کی اس انیس سالہ خون آلود زندگی پر نظر ڈال کردیکھیں کہ ان انیس سالوں میں اسلام نے کس رنگ میں ترقی کی اوراس کے بعد امن کے دور میں (امن سے مراد نسبتی امن ہے کیونکہ گومکہ کے ساتھ صلح ہوگئی تھی مگرعرب کی دوسری قومیں ابھی تک اسلام کے خلاف برسرپیکار تھیں)اسلام کی ترقی نے کیا صورت اختیار کی؟یہ ایک نہایت لطیف مقابلہ ہوگا جس سے ہرانصاف پسند محقق اورمبصّر کواسلام کی امن اورجنگ کی طاقت کے موازنہ کابہت اچھا معیار حاصل ہوسکے گا۔
یہ ظاہر ہے کہ اسلام کی ابتدائی مردم شماری کاریکارڈ موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں لازماً اسلام کی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس تعداد سے لگانا ہوگا جوابتدائی اسلامی لڑائیوں میں شریک ہوتی رہی ہے اورنسبتی ترقی کو دیکھنے کے لئے یہ طریق کافی تسلی بخش ہے۔سو چھوٹے چھوٹے درمیانی واقعات کو چھوڑتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی سب سے پہلی لڑائی میں یعنی جنگ بدر کے موقع پر جو ۲ہجری میں ہوئی مسلمان مجاہدین کی تعداد باختلاف روایت تین سو دس سے لے کر تین سوانیس تک تھی۔ ۲؎ اس کے بعد اُحد کی لڑائی ۳ہجری میں ہوئی اوراس میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی۔ ۳؎ اُحد کے بعد بڑی لڑائی غزوہ خندق تھی جو ۵ہجری میں ہوئی۔اس لڑائی میں گوخندق وغیرہ کے کھودنے کے کام پر بچے اوربوڑھے سب مسلمان ملا کر کل تعداد تین ہزار ہوگئی تھی۔ ۴؎ کیونکہ یہ لڑائی ہوئی بھی گویا مدینہ کے اندر تھی اورگھر سے باہر نکلنے کا سوال نہیں تھا مگرغالباًعملاًلڑائی کے وقت صرف ایک ہزار مسلمان شریک ہوئے تھے۔۵؎ اس کے بعد۶ہجری میں صلح حدیبیہ کا غزوہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کی تعداد چودہ سو بیان ہوئی ہے۔ ۶؎ یہ کل انیس سال ہوئے کیونکہ قریباًتیرہ سال مکی زندگی والے اورقریباًچھ سال صلح حدیبیہ تک کی مدنی زندگی والے ملا کر کل انیس سال بنتے ہیں۔گویا ان انیس سالوں میں جو ابتداء ًمکہ کے جابرانہ تشدّد اوربعد میں باقاعدہ لڑائی کی حالت میں گزرے اسلام کل چودہ سومسلمان جوان پیدا کرسکا۔اس کے بعد امن اورصلح کا زمانہ آتاہے۔اس میں مسلمانوں کی تعداد نے جو ترقی کی اس کااندازہ اس تعداد سے ہوسکتا ہے جوصلح حدیبیہ کے دو سال بعد یعنی ۸ہجری میں فتح مکہ کے موقع پرشریک ہوئی۔یہ تعداد مسلمہ طورپر دس ہزار تھی۔۷؎ گویا جہاں جنگ کے زمانہ میں انیس سال کی طویل جدوجہد نے صرف چودہ سو مسلمان پیدا کئے وہاں اس کے بعد امن کے زمانہ میں دوسال کی پرامن تبلیغ نے اس تعداد میں آٹھ ہزار چھ سو کااضافہ کردیا۔یہ حیرت انگیز فرق اس طرح پیدا ہوا کہ ایک طرف تو جنگ کے زمانہ میں کافروں اورمسلمانوں کے درمیان باہم میل ملاقات کابہت کم موقع ملتا تھااس لئے اسی نسبت سے کفار کو اسلام کی دلکش تعلیم کے سننے اور اس سے متاثر ہونے کاموقع بھی بہت کم میسر آتا تھا اور دوسری طرف جو لوگ جنگ کے زمانہ میں اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوتے تھے ان میں سے بھی اکثراس زمانہ کی غیرمعمولی تکالیف اورمشکلات کو دیکھتے ہوئے آگے آنے سے ڈرتے تھے،لیکن جب جنگ ختم ہونے سے صلح کا ماحول قائم ہوا تو گویا وہ بھاری بندجواسلام کے دریا کے بہائو کوروکے ہوئے تھا یکلخت ٹوٹ کر گرگیا اوراسلام کے حیات افزا پانیوں کو کھلا رستہ ملنے سے اسلام نے وہ حیرت انگیز ترقی کی جوہمارے سامنے ہے۔کیا اس واضح نظارے کو دیکھتے ہوئے کوئی منصف مزاج انسان یہ اعتراض منہ پر لاسکتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟دیکھو اورغورکرو کہ جب تلوار نیام سے باہر تھی توانیس سال کی طویل جدوجہد نے صرف چودہ سو مسلمان پیدا کئے لیکن جب یہ تلوار نیام کے اندر آگئی تودوسال کے قلیل عرصہ نے ساڑھے آٹھ ہزارانسانوں کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں لاڈالا۔یہ وہ ٹھوس اور بولتے ہوئے اعدادوشمار ہیں جن پرکسی متعصب سے متعصب انسان کا تعصب بھی پردہ نہیں ڈال سکتا۔
آئو اب ذرا ان اعدادوشمار کی مزید تفصیل میں جاکر پورا حساب نکالیں کہ اسلام کی امن کی طاقت کواس کی جنگ کی طاقت کے مقابلہ پرکیا وزن حاصل ہے۔موٹے طورپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ جنگ کے انیس سالوں نے چودہ سو مسلمان پیدا کئے اوراس کے مقابل پرامن کے دوسالوں نے اس تعداد میں آٹھ ہزار چھ سومسلمانوں کا اضافہ کیا،لیکن اگرزیادہ حسابی نظر سے دیکھا جائے تو جو زمانہ ہم نے انیس سال کا شمار کیا ہے وہ دراصل کسروں میں جاکر اٹھارہ اورانیس سال کے درمیان یعنی قریباً ساڑھے اٹھارہ سال بنتا ہے اسی طرح ہم نے صلح حدیبیہ کے وقت جو تعداد چودہ سو شمار کی ہے اس کے متعلق صحیح روایات سے پتہ لگتا ہے کہ دراصل وہ چودہ سواورپندرہ سو کے درمیان تھی۔ ۱؎ یعنی اسے ساڑھے چودہ سوسمجھنا چاہئے مگر ابھی اس کے علاوہ ایک اورفرق بھی ہے جوصحیح حسابی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے دور کرنا ضروری ہے ۔وہ فرق یہ ہے کہ تاریخ وحدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دعویٰ نبوت کے ابتدائی تین سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بالکل خاموشی کے ساتھ انفرادی تبلیغ میں گزارے تھے اوراسلام کی تبلیغ کوعام نہیں کیا تھا۔ ۲؎ پس ان ابتدائی تین سالوں کو ساڑھے اٹھارہ سال کے عرصہ میں سے منہا کرنا ضروری ہے۔اس طرح جنگ کے زمانہ میں اصل تبلیغی جدوجہد کا عرصہ ساڑھے پندرہ سال بنتا ہے۔گویانتیجہ یہ نکلا کہ جنگ والے ساڑھے پندرہ سال میں ساڑھے چودہ سومرد مسلمان ہوئے اوراس کے مقابل پرامن وصلح والے دو سال میں اس تعداد پرآٹھ ہزار پانچ سو پچاس کااضافہ ہوا۔اس طرح ان دونوں زمانوں کاخلاصہ یہ نکلا کہ جنگ والے زمانہ کی رفتار ترقی ۱۴۵۰÷ ۲-۱ ۱۵یعنی ۳۱____ ۲۹۰۰ فی سال بنی اورامن وصلح والے زمانہ کی رفتار ۲____ ۸۵۵۰ فی سال نکلی۔ اور اگلا حساب ایک بچہ بھی نکال سکتا ہے جویہ ہے کہ ان دونوں کی باہمی نسبت ایک کے مقابلہ پر چھیالیس بنتی ہے۔یعنی اگرجنگ کے زمانہ کی تبلیغی طاقت کا نتیجہ ایک ہو تو اس کے مقابل پر امن کے زمانہ کی تبلیغی طاقت کا نتیجہ چھیالیس ہوگااوریہ بعینہٖ وہی نسبت ہے جو ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک عام مومن کے مقابلہ پر ایک نبی اللہ کی قرار دی ہے۔چنانچہ آپؐفرماتے ہیں:
اَلرُّوْیَاالْحَسَنَۃُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْئٌ مِّنْ سِتّۃٍ وَّاَرْبَعِیْنَ جُزْأً مِّنَ النُّبُوَّۃِ۔ ۳؎
یعنی’’ایک مومن کی سچی رئویا ایک نبی کی نبوت کاچھیالیسواں حصہ ہوتی ہے۔‘‘
اب غور کرو کہ یہ کیسی عجیب وغریب اورکیسی لطیف مطابقت ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس کے جنگ کے زمانہ کی طاقت اس کے امن کے زمانہ کی طاقت کے مقابلہ پربعینہٖ وہی حیثیت رکھنے والی ثابت ہوئی ہے جوایک نبی اللہ کے مقابلہ میں عام مومن کی ہوا کرتی ہے اوریہ ایک باریک روحانی نکتہ ہے جس سے کئی اہم مسائل پراصولی روشنی پڑتی ہے مثلاً:
۱- اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی اصل روحانی طاقت امن کے زمانہ کی تبلیغ میں ہے نہ کہ جنگ کی معرکہ آرائی میں۔اورعقلاًبھی یہی ہونا چاہئے کیونکہ وہ پرامن تبلیغ جس میں دلائل وبراہین اورآیات بینات کے ذریعہ اسلام کی خوبی اوربرتری ثابت کی جائے یقینا وہی اسلام کی اندرونی قوت کی علمبردار ہے اوراس کے مقابل پرجنگ کاماحول ایک محض خارجی چیز ہے جوصرف منکرین کی عداوت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اورظاہر ہے کہ اصل اندرونی طاقت جوگویااسلام کے ذاتی اورمستقل جوہرکارنگ رکھتی ہے خارجی عنصر کے نتائج پر بہرحال غالب ہونی چاہئے۔
۲- پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا بلکہ خود اپنی روحانی طاقت اوراندرونی جاذبیت اوردلائل کے غلبہ سے پھیلا ہے۔
۳- اورپھر اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کااصل ذاتی میلان امن وصلح کی طرف تھا نہ کہ جنگ کی طرف۔اور جنگ کی حالت صرف منکرین کی پیدا کی ہوئی چیز تھی جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مجبوراًداخل ہونا پڑا۔
یہ وہ تین زبردست نتائج ہیں جنہیں قبول کرنے کے لئے ہر عقل مند اورمنصف مزاج انسان مجبور ہے اوران کے ذریعہ اسلام کی ابتدائی تاریخ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ وسوانح پرایک ایسی اصولی روشنی پڑتی ہے کہ اس سے یہ سارا میدان ایک خاص قسم کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔بیشک جہاد بالسیف بھی اسلامی تعلیم کا ایک ضروری حصہ ہے کیونکہ جوقوم یاحکومت اسلام کوبزور مٹانے کے لئے تلوار اٹھاتی ہے یااسلام کی اشاعت کوتلوار کے زور سے روکنا چاہتی ہے اس کے مقابلہ کے لئے اسلام بھی تلوار ہی اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔ ۱؎ اورنہ صرف تلوار اٹھانے کا حکم دیتا ہے بلکہ ہدایت فرماتا ہے کہ ایسے ظالم دشمن کے خلاف اس طرح ڈٹ کر لڑوکہ گویا تم ایک سیسہ پلائی ہوئی آہنی دیوار ہو۔ ۲؎ اور اسے ایسی مارمارو کہ صرف وہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے آنے والے دوسرے دشمن بھی لرزہ براندم ہوکر منتشر ہوجائیں۔۳؎ مگران ظالم دشمنوں کو چھوڑ کر جواسلام کے خلاف تلوار اٹھانے میں پہل کرتے اوراسلام کوجبروطاقت کے زور سے مٹانے کے درپے رہتے ہیں اسلام ساری قوموں کے لئے پرامن تبلیغ کاپیغام لے کر آیا ہے اوراس کے اس پیغام میں اس کی روحانی طاقت کی شان اوراس کے خداداد براہین کاغلبہ مخفی ہے ۔اوریہی وہ جہاد ہے جسے اسلام میں تلوار کے جہاد کے مقابل پرجہاد کبیر (یعنی بڑاجہاد)کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔۱؎ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ صحابہ کی ایک پارٹی ایک غزوہ سے واپس لوٹی توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اب تم جہاد اصغر سے لوٹ کر جہاد اکبر کی طرف آرہے ہو اور جب صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ!جہادِ اکبرسے کیا مراد ہے؟توآپ ؐنے فرمایا’’انسان کااپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا۔‘‘ ۲؎

اَسْودواَحمر کے نام اسلام کاپیغام
قیصر وکسریٰ کودعوتِ حق
ہم بتا چکے ہیں کہ صُلح حُدیبیہ کے ساتھ اسلام کی تاریخ اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔یہ نیا دورکامل امن کا دور توہرگزنہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ ابھی تک عرب کے بہت سے قبیلے اسلام کے خلاف برسرپیکار تھے،لیکن ہاں چونکہ عربوں میں قریش کا قبیلہ خانہ کعبہ کامتولی ہونے کی وجہ سے عموماًسارے قبیلوں میں معزز سمجھا جاتا تھا اوراسلام کے خلاف جنگ کی ابتداء بھی اسی قبیلہ کی طرف سے ہوئی تھی اس لئے قریش کے ساتھ صلح کامعاہدہ ہوجانے کے نتیجہ میں ملک کے ایک حصہ میں عارضی امن کی صورت ضرور پیدا ہوگئی تھی اوراس جزوی امن کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو پہلا قدم اٹھایاوہ آپؐ کے خداداد منصب نبوت کے تبلیغی پہلو کا ایک نہایت شاندار کارنامہ تھا۔ہماری مراد ان تبلیغی مراسلات سے ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے معاًبعد مختلف ملکوں کے بادشاہوں اوررئیسوں کے نام ارسال فرمائے اور اس بات کا عملی ثبوت پیش کیا کہ آپؐکی توجہ کامرکزی نقطہ تبلیغ اسلام ہے۔یعنی اس ابدی اورآخری صداقت کا اقوام عالم تک پہنچانا جوخداوند عالم نے آپؐکے ذریعہ دنیا میں نازل فرمائی۔مگران عالمگیر تبلیغی خطوط کے ذکر سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تبلیغی مذہب ہونے کے متعلق ایک اصولی نوٹ درج کرکے ناظرین کوبتایا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاتبلیغی نظریہ کیا تھا اورآپؐ کی بعثت کی غرض کتنے وسیع میدان پرپھیلی ہوئی تھی۔
اسلام کاتبلیغی نظریہ
سو سب سے پہلے جاننا چاہئے کہ اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے اوراس کے مقدس بانی کوحکم دیا گیا ہے کہ جو صداقت بھی اسلام کے ذریعہ آسمان سے نازل ہوئی
ہے اسے اپنے آپ تک چھپا کرنہ رکھے بلکہ لوگوں تک پہنچائے۔اوراس کے سارے پہلوئوں کو کھول کھول کربیان کردے۔چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومخاطب کرکے فرماتا ہے :
۔ ۱؎
یعنی’’اے خدا کے رسول جوکچھ بھی تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اُتارا گیا ہے وہ لوگوں تک کھول کھول کرپہنچا دے اوراگر تو نے ایسا نہ کیا(اورکسی حصہ کو چھپا کررکھا اورکسی کوبیان کردیا)تو جان لے کہ اس صورت میں تو خدا کی رسالت کوپہنچانے والا نہیں سمجھا جائے گا۔‘‘
اوریہ فریضۂ تبلیغ صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آپؐ پرایمان لانے والوں کا بھی یہی فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی صداقتوں کودوسروں تک پہنچائیں چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۔ ۲؎
یعنی’’اے مسلمانو!تم دنیا کی بہترین امت بناکر اقوام عالم کے فائدہ کے لئے قائم کئے گئے ہو۔تمہارا یہ کام ہے کہ لوگوں کواسلام کی نیکی کی طرف بلائو اورخلاف اسلام بدی سے روکو۔‘‘
پھراس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر حکم دیتاہے کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ہمیشہ تبلیغ اسلام کی خدمت کے لئے وقف رہنا چاہئے جوگویا اپنے آپ کوکلیتہً خدمت دین کے لئے وقف کردے چنانچہ فرماتا ہے:
۳؎
یعنی’’چاہئے کہ تم میں سے ملت کاایک حصہ تبلیغ حق کے لئے وقف رہے اس کا کام لوگوں کی نیکی کی طرف بلانا اوربھلائی کی تلقین کرنا اوربدی سے روکنا ہو۔اوربات یہ ہے کہ یہی لوگ حقیقتاًبامراد ہیں۔‘‘
دین کے معاملہ میں جبرجائز نہیں
فریضۂ تبلیغ کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ہی قرآن شریف یہ اصول سکھاتا ہے کہ تبلیغ ہمیشہ نہایت احسن طریق پرحکمت
ودانائی کے رنگ میں ہونی چاہئے تاکہ صداقت پسند مخاطب کے دل میں ضداوردوری پیدا ہونے کی بجائے اس کے دل کی کھڑکیاں سچائی کے قبول کرنے کے لئے خود بخود کھلتی چلی جائیں۔چنانچہ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے خدا کے رسول اپنے رب کے رستہ کی طرف حکمت اورعمدہ طریق نصیحت کے رنگ میں لوگوں کودعوت دو۔اوراگر کبھی بحث ومجادلہ کی صورت پیدا ہوجائے تو بحث بھی دلکش اوربہترین انداز میں کرو۔‘‘
پھراسی اصول کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبرواکراہ کاطریق کسی طرح جائز نہیں اورنہ جبروتشدد کے نتیجہ میں سچاایمان پیدا ہوسکتا ہے۔پس دلائل وبراہین کے ساتھ سمجھا دینے کے بعد مخاطب کویہ اختیار ہونا چاہئے کہ اگروہ چاہے توقبول کرے اورچاہے تو انکار کردے کیونکہ آزادانہ اقرار یاانکار کے بغیر کوئی شخص انعام یاسزا کامستحق نہیں سمجھا جاسکتا۔چنانچہ فرماتا ہے:
۱- ۔ ۲؎
یعنی’’دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہوسکتا۔ہدایت اورگمراہی کھلی کھلی چیزیں ہیں اورہر شخص خود فیصلہ کاحق رکھتا ہے۔
اوردوسری جگہ فرماتا ہے:
۲- ۔ ۳؎
پس’’جوشخص چاہے ایمان لے آئے اورجو شخص چاہے انکار کردے۔ہاں جولوگ انکار کر کے ظالم بنیں گے ان کے لئے آخرت میں ضرور آگ کاعذاب مقدر ہے۔‘‘
پھراسی لطیف مضمون کے دوسرے پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ ایمان قطعاًکوئی حقیقت نہیںرکھتا۔بلکہ حق یہ ہے کہ وہ ایمان کہلانے کا حق دارہی نہیں کیونکہ اس صورت میں انسان کی زبان پرکچھ اورہوتا ہے اوردل میں کچھ اورہوتا ہے۔اورانعام کامستحق ہونا تو درکنار ایسے دورُخے منافق دوہرے عذاب کے سزاوار ٹھہرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کفرکے جرم کے ساتھ جھوٹ اوردھوکے بازی کے جرم کابھی اضافہ کرلیتے ہیں۔وہ کافر ہیں کیونکہ ان کے دل میں کفر ہوتاہے اوروہ جھوٹے اوردھوکے باز ہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے یقین کے خلاف مسلمانوں کودھوکا دینے کے لئے زبان سے جھوٹے طورپر اسلام کااقرار کرتے ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے:
۔ ۱؎
یعنی’’منافق لوگ جوزبان سے تو اسلام کادعویٰ کرتے ہیں مگران کے دل میں کفر بھرا ہوتا ہے وہ آخرت میں دوزخ کی آگ کی سب سے سخت اورسب سے نیچے کی تہہ میں رکھے جائیںگے۔‘‘
اسلام کاعالمگیرمشن
بالآخر اسلام اس سوال کولیتا ہے کہ گزشتہ نبیوں(یعنی حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ اورکرشن علیہم السلام وغیرہ)کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامشن صرف
اپنی قوم یعنی عربوں تک ہی محدود نہیں ہے اورنہ صرف کسی خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ دنیا کی ساری قوموں کے لئے ہے اورسارے زمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔اس لئے مسلمانوں کوساری قوموں کی طرف یکساں توجہ دینی چاہئے۔چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۲؎
یعنی’’اے نبی تولوگوں سے کہہ دے کہ خدا نے مجھے تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ہاں وہی خدا جواس کل کائنات یعنی آسمانوں اورزمین کامالک وآقا ہے۔‘‘
اوراس ہدایت کی تشریح میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے عالمگیر مشن کے متعلق فرماتے ہیں:
اُعْطِیْتُ خَمْسًالَمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ۔نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍوَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِداً وَّطُھُوْراً وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَاُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَث اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَّبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً۔ ۳؎ وَفِیْ رِوَایَۃٍ بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ۔ ۴؎
یعنی مجھے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جومجھ سے پہلے کسی اورنبی کو نہیں دی گئیں۔ (۱)مجھے ایک ماہ کی مسافت تک خداداد رعب عطا کیا گیا ہے(۲)میرے لئے تمام زمین مسجد اورطہارت کا ذریعہ بنائی گئی ہے(۳)میرے لئے جنگوں میں حاصل شدہ مال غنیمت جائز قرار دیا گیا ہے(۴) مجھے شفاعت کامقام عطا کیاگیا ہے اور (۵)مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا مگر مجھے سب بنی نوع آدم کے لئے مبعوث کیا گیا ہے اور(ایک روایت میں یہ ہے کہ)میں اسود واحمر کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ پانچوں خصوصیات اپنے اندر نہایت شاندار پہلو رکھتی ہیں مگر اس جگہ ہمارا تعلق صرف پانچویں خصوصیت کے ساتھ ہے جس میں نہایت واضح الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت اوراسلام کاپیغام دنیا کی ساری قوموں کے واسطے ہے نہ کہ صرف کسی ایک قوم کے واسطے۔
اسلام کی دائمی شریعت
پھرقرآنی شریعت کے دائمی اورناقابل تنسیخ ہونے کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتاہے:
۔ ۱؎
یعنی’’اے لوگو میںنے آج تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اورتم پر اپنی تمام نعمتوں کے دروازے کھول دئے اور میں نے تمہارے واسطے اسلام کا دین پسند کیا ہے۔‘‘
روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ بعض یہودیوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ لوگوں پرایک ایسی آیت (یعنی یہی …والی آیت)اُتری ہے کہ اگروہ ہم پر اترتی توہم اس دن کو اپنے واسطے عید بنالیتے۔حضرت عمرؓنے جواب دیا کہ ہمارے لئے تو خدا نے اسے عید بنارکھا ہے کیونکہ یہ آیت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرحج کے مقدس موقع پراورعرفہ کے متبرک مقام میں نازل ہوئی تھی جبکہ اس کے بعد کادن عیدلاضحی کادن تھا اورمجھے یہ ساری تفصیل یاد ہے ۔ ۲؎
پھرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود حدیث میں فرماتے ہیں کہ:
اِنِّی آخِرُالْاَنْبِیَائِ وَمَسْجِدِیْ ھٰذَا اٰخِرُالْمَسَاجِدِ۔ ۳؎
یعنی’’میں آخری نبی ہوں(میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جومیرے دورنبوت کومنسوخ کردے)اورمیری یہ مسجد آخری مسجد ہے(جس کے بعد کوئی ایسی عبادت گاہ نہیں ہوسکتی جو میری مسجد کو منسوخ کرکے نیا طریق عبادت جاری کردے۔‘‘)
یاد رکھنا چاہئے کہ الفاظ’’میری یہ مسجد آخری مسجد ہے‘‘کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ میری اس مسجد کے بعد کوئی مسجد نہیں بنے گی کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے خلفاء نے بہت سے مسجدیں بنائیں اورآج تک اسلامی ممالک میں لاکھوں کروڑوں مسجدیں بنتی چلی آئی ہیں۔پس مراد یہ ہے کہ آئندہ میری مسجد کے مقابل پرکوئی مسجد نہیں بنے گی بلکہ جو سچی مسجد بھی ہوگی وہ لازماًمیری مسجد کی نقل اورظل ہوگی۔
اوراسی حقیقت کوایک اور لطیف رنگ میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ۔ ۱؎
یعنی’’میں اورقیامت اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیںکہ جس طرح میری یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں (اوریہ الفاظ فرماتے ہوئے آپؐ نے اپنی دوانگلیاں کھڑی کرکے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کردیں۔‘‘)
اس لطیف حدیث کابھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میری وفات کے معاًبعد قیامت آجائے گی۔ کیونکہ یہ بات نہ صرف واقعات بلکہ آپؐکی بعثت کی غرض وغایت کے بھی خلاف ہے کہ آپؐ کے معاً بعد قیامت آجاوے۔پس اس حدیث میں بھی یقینا یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ میرا دور شریعت قیامت تک چلے گااورمیرے بعد کوئی اورشریعت نہیں آئے گی جومیری شریعت کو منسوخ کرکے ایک نیادورشروع کردے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخداداد مشن مکانی لحاظ سے وسیع اور غیر محدود ہے اوردنیا کی کوئی قوم آپؐ کی دعوت سے باہر نہیں اسی طرح زمانی لحاظ سے بھی آپ کا مشن کسی ایک زمانہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک وسیع اورغیر محدود ہے۔اس تمہیدی نوٹ کے بعد جو اسلام کے تبلیغی نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری تھا ہم اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔
تبلیغی خطوط کے لئے انگوٹھی کی تیاری
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے صلح حدیبیہ کے بعد جب کہ مکہ والوں کے ساتھ صلح ہوجانے کے نتیجہ میں تلوار کے
جہاد سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی قدر فرصت حاصل ہوئی توآپؐ نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام کے عالمگیر مشن کے پیش نظر مختلف حکومتوں کے فرمانروائوں کی طرف تبلیغی خطوط بھجوانے کی تجویز کی تاکہ ان فرمانروائوں اوران کے ذریعہ ان کی رعایا کواسلام کا پیغام پہنچایا جائے کہ یہی آپؐ کی بعثت کی اصل غرض وغایت تھی۔چنانچہ آپؐ نے حدیبیہ سے واپس آتے ہی اس بارہ میں اپنے صحابہ سے مشورہ کیااورجب اس مشورہ میں آپؐسے یہ عرض کیا گیا کہ دنیوی حکمرانوں کا یہ عام دستور ہے کہ وہ مہرشدہ خط کے بغیر کسی اور خط کی طرف توجہ نہیں دیتے توآپؐ نے ایک چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی جس میں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ کندہ کروائے گئے۔ ۱؎ اورخداتعالیٰ کے نام کو مقدم اوربالا رکھنے کے خیال سے آپؐنے ان الفاظ کی ترتیب یہ مقررفرمائی کہ سب سے اوپر اللہ کالفظ لکھا گیا اوردرمیان میں رسول کالفظ کندہ کیا گیا اور سب سے نیچے کی سطر میں محمدؐکا لفظ رکھا گیا ۲؎ نیز چونکہ ان تبلیغی خطوط میں اس انگوٹھی کانقش لینا مدنظر تھا،ا س لئے یہ تدبیربھی اختیار کی گئی کہ ان الفاظ کوسیدھے رخ پرلکھنے کی بجائے الٹا لکھا گیا تاکہ جب اس کا نقش لیا جائے تویہ نقش پریس کی چھپائی کی طرح سیدھی صورت میں ظاہر ہو۔ ۳؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ انگوٹھی اس کے بعد ہمیشہ آپؐ کے ہاتھ میں رہی اورآپؐ کی وفات کے بعد اسے حضرت ابوبکر خلیفہ اولؓ نے اپنے ہاتھ میں رکھا اورحضرت ابوبکر ؓکے بعد وہ حضرت عمرخلیفہ ثانیؓ کے ہاتھ میں رہی اوران کے بعد حضرت عثمان خلیفہ ثالثؓ نے اسے پہنا حتّٰی کہ ایک دن وہ ان کے ہاتھ سے اریس نامی کنوئیں میں گرکرکھوئی گئی۔ ۴؎ حضرت عثمانؓ اوران کے ساتھیوں نے تین دن تک اس انگوٹھی کی تلاش جاری رکھی اورکنوئیں کاسارا پانی نکال کر چھان مارا مگر وہ نہ ملی۔ ۵؎
فریضۂ تبلیغ میں حسن تدبیر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تدبیر سے جو آپؐنے صحابہ کے مشورہ سے انگوٹھی تیار کرانے میں اختیار کی اس بات پراصولی روشنی
پڑتی ہے کہ آپؐ کس طرح تبلیغ کے کام میں ان تمام رستوں کو اختیار فرماتے تھے جومخاطب کو اپنی طرف مائل کرنے اوراس کے دل پر اچھا اثر پیدا کرنے کے لئے ضروری تھے۔ظاہر ہے کہ جہاں تک خالص تبلیغ کا تعلق ہے کسی مُہر کاہونا یا نہ ہونا ایک بالکل زائد چیز ہے اورکلمۂ حق مہر کے بغیر بھی اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا کہ مہر کے ساتھ،لیکن چونکہ آپؐ کو بتایا گیا تھا کہ اس زمانہ کے بادشاہ مہر کے بغیر کسی خط کی طرف توجہ نہیںدیتے اورآپؐ کسی ایسے پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے مخاطب کے دل میں کسی جہت سے بے توجہگی کی صورت پیدا ہو اس لئے آپؐنے اس معمولی سی زائد تجویز کوبھی بڑے اہتمام کے ساتھ اختیار کیا تاکہ آپؐ کی تبلیغ میں کوئی ایسا رخنہ نہ رہ جائے جو تبلیغ کے اثر کوکسی جہت سے کمزور کرنے والا ہو۔اوریہی اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے کہ:
۔ ۱؎
یعنی’’اے رسول دین حق کی تبلیغ کے معاملہ میں ہمیشہ اس رستہ کو اختیار کرو جومخاطب کے دل ودماغ پراثر پیدا کرنے کے لحاظ سے بہترین ہو۔‘‘
عرب کے چاروں اطراف میں تبلیغی مہم
جوتبلیغی خطوط اس موقع پر روانہ کئے گئے وہ عرب کے چاروں اطراف کے حکمرانوں کے نام تھے۔یعنی
شمال میںروما کی مشہور سلطنت کے شہنشاہ قیصر کے نام اورشمال مشرق میں فارس کی مشہور سلطنت کے شہنشاہ کسریٰ کے نام اورعرب کے شمال مغرب میں مصر کے بادشاہ مقوقس کے نام۔ ۲؎ اور مشرق میں یمامہ کے رئیس ہوذہ بن علی کے نام۔اور مغرب میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام جو عرب کے مقابل پربراعظم افریقہ میں ایک عیسائی حکومت تھی۔اورشمال میںعرب کی حدود کے ساتھ متصل ریاست غسان کے حاکم کے نام جوقیصر کے ماتحت تھا۔اسی طرح آپؐنے ایک خط عرب کے جنوب میں یمن کے رئیس کی طرف بھجوایا تھا اورایک خط عرب کے مشرق میں بحرین کے والی کی طرف بھی لکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔۳؎ اس طرح گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عرب کے چاروں اطراف میں اسلام کا پیغام پہنچا کر فریضۂ تبلیغ ادا کیا،لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سارے خطوط صلح حدیبیہ کے معاً بعد ایک ہی وقت میں روانہ کئے گئے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ بعض توایک ہی وقت میں روانہ کئے گئے ہوںاوربعض ایک دوسرے سے کچھ وقفہ پربھجوائے گئے ہوں مگر بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ ان کاسلسلہ صلح حدیبیہ کے بعد شروع ہوا۔اورغالباًسب سے پہلا خط قیصر رومایعنی ہرقل کے نام لکھا گیا تھا اوراسی سے ہم اپنے اس نوٹ کی ابتداء کرتے ہیں۔
قیصر وکسریٰ کی باہمی کشمکش اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیشگوئی
مگر اس خط کا ذکر کرنے سے قبل قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کے متعلق ایک ضمنی نوٹ درج کرنا ضروری ہے ۔جیسا کہ سیرۃ خاتم النبیینؐحصہ اوّل ۱؎
وحصہ دوم ۲؎ میں بتایا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب کے شمال مغرب اورشمال مشرق میں دو عظیم الشان سلطنتیں پائی جاتی تھیں۔یعنی ایک روما کی سلطنت تھی جس کا بادشاہ قیصر کہلاتاتھا اوردوسرے فارس یعنی ایران کی ساسانی سلطنت تھی جس کا بادشاہ کسریٰ کہلاتا تھا۔یہ روما کی سلطنت وہی ہے جوتاریخ میں مشرقی روما کی سلطنت یادوسرے الفاظ میں باز نطینی ۳؎ حکومت کہلاتی ہے۔جسے انگریزی میں ایسٹرن رومن ایمپائر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔روما کی مغربی سلطنت کے تنزل کے بعد روما کی مشرقی سلطنت نے جس کا دارالسلطنت قسطنطنیہ تھا عروج پکڑا اورجس زمانہ کاہم ذکر کر رہے ہیں اس زمانہ میں روما کی مشرقی سلطنت اورکسریٰ کی ایرانی سلطنت دنیا بھر میں سب سے بڑی اورسب سے زیادہ طاقتور سلطنتیں تھیں۔ان دونوں سلطنتوں کی آپس میں بھاری رقابت رہتی تھی کیونکہ سیاسی حسد کے علاوہ دونوں کامذہب اورتمدن بھی جُداجُدا تھا۔یعنی جہاں روما کی سلطنت عیسائی مذہب کی پیرو تھی وہاں فارس کی ساسانی سلطنت آتش پرست اورمشرک تھی۔اورجیسا کہ کتاب ہذا کے حصہ اول ودوم میں بیان کیا جاچکا ہے ۴؎ اس زمانہ میں ان دونوں حکومتوں کے درمیان جنگ شروع تھی اورفارس کے کسریٰ نے روما کے قیصر کواوپرتلے شکستیں دے کر اس کا بہت ساعلاقہ چھین لیا ہوا تھا۔چونکہ مکہ والے بھی مشرک اوربت پرست تھے اس لئے انہیں طبعاًاس جنگ میں ایرانیوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی تھی،لیکن مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ پرایمان لانے کی وجہ سے عیسائیوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی رکھتے تھے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ سے الہام پاکر وہ پیشگوئی فرمائی جو قرآن شریف کی سورۃ روم کے شروع میںبیان ہوئی ہے اوراس کے الفاظ یہ ہیں:
۱؎
یعنی’’رومی لوگ قریب ترین زمین میںمغلوب کئے گئے لیکن وہ اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔یہ تغیر نوسالوں کے اندر اندر ہوگا۔ ۲؎ اوراس سے پہلے اوراس کے بعد اصل حکومت تو صرف خدا ہی کی ہے۔ (یعنی اس سے پہلے روحانی حکومت خدا کی ہے اور اس کے بعد ظاہری حکومت بھی اسلام کے غلبہ کے ذریعہ خدا ہی کی ہونے والی ہے)اوراس دن مومن خوش ہوں گے اللہ کی مدد کی وجہ سے ۔وہ مدددیتا ہے جسے چاہتا ہے کیونکہ وہ طاقتور اوررحیم خدا ہے۔یہ خدا کا پختہ وعدہ ہے اورخدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا،لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘
یہ قرآنی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تشریف رکھتے تھے اورکسریٰ کی فتوحات کاسیلاب پورے زور میں تھاحتّٰی کہ وہ قیصر کابہت سا علاقہ چھین کر اور شام اورمصراورایشائے کوچک کوتاراج کرکے قیصر کے دارالسلطنت قسطنطنیہ کے دروازے کھٹکھٹا رہا تھامگراس قرآنی پیشگوئی کے مطابق جنگ نے اچانک پلٹا کھایا اورچند سال کی جدوجہد کے بعد قیصر کی فوجوں نے نہ صرف اپنا سارا علاقہ واپس چھین لیا بلکہ کسریٰ کے علاقہ میںبھی یلغار کرتی ہوئی گھس گئیں۔یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی تھی جس کی صداقت کوغیر مسلم مؤرخین بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں چنانچہ ان واقعات کے متعلق سرولیم میورلکھتا ہے:
’’قریباًقریباًاس زمانہ سے لے کر جب کہ محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) نے نبوت کادعویٰ کیا روما اور فارس کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف ایک خونی جنگ لڑرہی تھیں۔۶۲۱ عیسوی تک اس جنگ میں کسریٰ کی فوجوں کومسلسل فتح حاصل ہوتی گئی۔شام،مصر اورایشیائے کوچک یکے بعد دیگرے تاراج کئے گئے اورخود قسطنطنیہ کاشہر بھی خطرہ میں پڑگیا۔بالآخر ہرقل (شہنشاہ روم) اپنی غفلت سے بیدار ہوااورمحمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ہجرت ازمکہ کے زمانہ میں وہ دشمن کی فوجوں کوایشیائے کوچک کی قلعہ بندیوں سے پسپا کررہا تھا۔اس جنگ کی دوسری مہم میں قیصر اپنی فاتح افواج کے ساتھ یلغار کرتا ہوا کسریٰ کے علاقہ کے اندر گھس گیا۔‘‘ ۱؎
’’اس جنگ میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ہمدردی اوردعا قیصر کے حق میںتھی ۔مسیحیت ایک الہامی مذہب تھا جس کی اسلام کے ساتھ صلح ممکن تھی مگرایران کے آتش پرست مشرک محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے خیالات سے کوئی نسبت نہیںر کھتے تھے۔بہرحال ابھی کسریٰ کی فاتح فوجیں قیصر کے خلاف پیہم غلبہ پاتی جارہی تھیں کہ محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) نے قرآن کی تیسویں سورت (سورۃ روم) میں یہ حکیمانہ پیشگوئی بیان کی کہ …آلایۃ(یعنی عنقریب روما کوغلبہ حاصل ہوگا)اورجیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں یہ پیشگوئی بعد کے واقعات کے مطابق ٹھیک نکلی۔‘‘ ۲؎
قیصر کی ان غیرمعمولی فتوحات کازمانہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کے واقعہ کے ساتھ شروع ہوا اورمسلمانوں کوقیصر کی پہلی فتح کی اطلاع اس وقت ملی جب وہ قریش مکہ کے خلاف بدر کے میدان میں نمایاں فتح حاصل کرکے مدینہ کوواپس لوٹے تھے۔ ۳؎ اورکسریٰ کے خلاف قیصر کو آخری اورفیصلہ کن فتح صلح حدیبیہ کے زمانہ کے قریب حاصل ہوئی۔ ۴؎
اپنی اس غیرمعمولی فتح کی خوشی اورشکرانہ میں قیصر نے حمص ۵؎ سے لے کر ایلیا(یعنی یروشلم یابیت المقدس) تک کاپیدل سفر کیا۔ ۶؎ دراصل ہرقل کایہ سفر ایک نذر کی ایفا میںتھا جواس نے فتح حاصل ہونے کی صورت میں مانی ہوئی تھی۔چنانچہ وہ ایڈیسا ۷؎ سے لے کر یروشلم تک پیدل گیا جہاں حضرت مسیح ناصریؑ کی اصلی صلیب جواہل فارس سے واپس چھینی گئی تھی اپنی جگہ پردوبارہ رکھی جانے والی تھی۔۱؎ اور یہ سفر اس شان سے کیا گیا کہ رستہ میں ہرقل جہاں جہاں سے گزرتا تھا زمین پر فرش اورفرش کے اوپر پھولوں کی سیج بچھائی جاتی تھی۔ ۲؎
ہرقل کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاتبلیغی خط
صلح حدیبیہ کے بعد غالباًسب سے پہلا تبلیغی خط ہرقل ۳؎ قیصر روما کے نام
بھجوایا گیا۔یہ خط آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے معاًبعد ماہ ذوالحجہ ۶ہجری میں روانہ کیا۔ ۴؎ اوراس خدمت کے لئے آپؐ نے اپنے ایک ہوشیار اورمخلص صحابی دحیۃ بن خلیفۃ الکلبی کومنتخب فرمایا جواس سے پہلے بھی شام کی طرف سفر کرچکے تھے اوراس علاقہ کے واقف تھے۔دحیہ ایک خوشرو نوجوان تھے جن کی شکل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کشفی طورپر حضرت جبرائیل کوبھی دیکھا تھا۔ ۵؎ اور آپؐنے اس خط کے بھجواتے ہوئے یہ امید ظاہر فرمائی تھی کہ دحیہ یاجوشخص بھی یہ خدمت بجالائے گا خواہ وہ بظاہر اس مہم میں کامیاب ہویانہ ہو وہ انشاء اللہ ضرورجنت میں جائے گا۔ ۶؎ اس تبلیغی خط کی تیاری اورمہر وغیرہ لگانے کے بعد آپؐ نے دحیہ کوہدایت فرمائی کہ میرا یہ خط پہلے بُصریٰ ۷؎ کے رئیس کے پاس لے جائو (جوعرب کے شمال میں قیصر کی طرف سے گویا موروثی گورنر یاحاکم تھا) اور پھر اس کے توسط سے قیصر کے پاس پہنچو۔۸؎ اس وقت بُصریٰ کاگورنر حارث بن ابی شمرتھا جو اس علاقہ میںریاست غسان کاوالی اور حکمران تھا۔ ۹؎
بُصریٰ کے گورنر یعنی ملک غسان کاواسطہ اختیار کرنے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی دانش مندی اورحسن تدبیر کاثبوت دیا جوآپؐ اس سے قبل انگوٹھی کے تیار کرانے میں ظاہر فرما چکے تھے۔کیونکہ غالباًآپؐ قیصر وکسریٰ کے درباروں کے متعلق یہ بات سن چکے تھے کہ یہ لوگ اپنی دنیوی بڑائی اور عُلوّمرتبت کی وجہ سے عموماًکوئی چھٹی براہ راست وصول نہیں کرتے جب تک کہ وہ علاقہ کے گورنریارئیس کے توسط سے نہ آئے اورچونکہ آپ کی اصل غرض کلمۂ حق کی تبلیغ تھی اس لئے آپؐ نے ان درباری آداب کوملحوظ رکھنا ضروری خیال کیا تاکہ ان کی وجہ سے اصل کام میں کوئی روک نہ پیدا ہوسکے۔ضمناًآپؐ کی یہ نیت بھی ضرورہوگی کہ اس طرح اصل مخاطب کے علاوہ ایک درمیانی رئیس تک بھی آپؐکاپیغام پہنچ جائے گا اورجیسا کہ ہم آگے چل کردیکھیں گے یہی طریق آپؐ نے مملکت فارس کے کسریٰ کے متعلق اختیار کیا جسے مراسلہ بھجواتے ہوئے آپؐنے اپنے ایلچی کوہدایت فرمائی تھی کہ پہلے یہ خط بحرین کے رئیس کے پاس لے جانا اورپھر اس کے توسط سے کسریٰ کے پاس پہنچنا۔ ۱؎ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ حکیمانہ فعل جہاں ایک طرف آپؐ کے حزم واحتیاط اورحسن تدبیر کی دلیل ہے وہاں وہ اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ دنیوی حکمرانوں کے جائز آداب ملحوظ رکھنا نبوت کی شان کے منافی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے موسیٰ اورہارون کوفرعون کی طرف بھجوایا تو انہیں ہدایت فرمائی کہ:
۲؎
یعنی’’فرعون کے پاس جاکر اس کے ساتھ نرم انداز پرگفتگو کرنا شاید وہ اسی طرح نصیحت حاصل کرلے اورخدا سے ڈرنے کارستہ اختیار کرلے۔‘‘
غالباًابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہرقل کے نام خط روانہ کرنے کی تیاری ہی فرما رہے تھے کہ ایک غیبی نصرت کے ماتحت ہرقل کوخود بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف توجہ پیدا ہوگئی۔کیونکہ بخاری میں روایت آتی ہے جواغلباًاسی موقع سے تعلق رکھتی ہے کہ جونہی شہنشاہ ہرقل ایلیا میںآیا ۳؎ توایک صبح کو وہ بہت پریشان خاطر اورگھبرایا ہوا نظر آتا تھا جس پر اس کے بعض مذہبی درباریوں نے اس سے عرض کیا کہ آج آپ کی حالت کچھ پریشان نظر آتی ہے،یہ کیا بات ہے؟اس نے کہا میں نے آج رات ستاروں میں غور کرکے(ہرقل علم ہیئت میں کافی دسترس رکھتا تھا)معلوم کیا ہے کہ کسی ختنہ کرنے والی قوم میں ایک نئے بادشاہ کا ظہورہوا ہے۔اوراس نے پوچھا کہ آج کل کون کون سی قوم ختنہ کرتی ہے؟اس کے درباریوں نے جواب دیا کہ ہمارے علم میں تو یہودیوں کے سوا کوئی ختنہ نہیںکرتااورآپ کویہودیوں کی وجہ سے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔آپ اپنی حکومت کے مختلف شہروں میں حکم بھجوادیں کہ یہود کوقتل کرنا شروع کردیا جائے،لیکن ابھی یہ معاملہ اسی مرحلہ پرتھا کہ ہرقل کوریاست غسان کے رئیس کی طرف سے یہ اطلاع پہنچی کہ عرب میں ایک شخص محمد نامی (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اوراسے ملک میں کامیابی ہورہی ہے۔ہرقل نے اس خبر کے سننے پر ہدایت دی کہ فوراًمعلوم کیا جائے کہ آیا عرب لوگ ختنہ کرتے ہیں یانہیں۔جس پر اسے بتایا گیا کہ عرب لوگ ختنہ کرتے ہیں۔ہرقل نے بے ساختہ کہا۔تو پھریہی اس امت کابادشاہ معلوم ہوتا ہے اورہرقل نے مزید احتیاط کے طورپر اپنے ایک رفیق کوجو ایک بڑا عالم انسان تھا رومیۃ میں خط لکھا اوراس معاملہ میں اس کی بھی رائے پوچھی۔ ۱؎
لیکن اس عرصہ میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کااپنا خط ہرقل کوپہنچ گیا اورمناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ بخاری کے الفاظ میں ہی یہ روایت درج کردیں کیونکہ وہی اس تعلق میں صحیح ترین اورمفصل ترین روایت ہے۔سوعبداللہ بن عباس جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے بیان کرتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیصر کی طرف اسلام کی دعوت کا خط لکھا اوراپنا یہ خط دحیہ کلبی کے ہاتھ بھجوایا اورآپؐ نے دحیہ کوہدایت فرمائی کہ وہ آپؐ کے اس خط کو بُصریٰ کے رئیس کے پاس لے جائیں تاکہ وہ اسے آگے قیصر کے پاس بھجوادے۔اس زمانہ میں قیصر روما سلطنت فارس کے خلاف فتح پانے کے شکرانے میں حمص سے ایلیا کی طرف پیدل چل کر آیا تھا اورایلیا (بیت المقدس)میں ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ خط قیصر کوپہنچا۔قیصر نے جب خط کوپڑھا تو ہدایت دی کہ اگر اس مدعی رسالت کی قوم کا کوئی شخص یہاں موجود ہو تو اسے تلاش کرکے پیش کیا جائے۔ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے ابوسفیان سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ان دنوں میں اپنے بعض قریش ساتھیوں کے ساتھ شام کی طرف تجارت کی غرض سے گیا ہواتھا اوریہ صلح حدیبیہ کے بعد کا زمانہ تھا۔ ابوسفیان نے بتایا کہ قیصر کے آدمی ہمیں تلاش کرکے ایلیا میں لے گئے اورقیصر کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت قیصر اپنی پوری شان کے ساتھ دربار میں بیٹھا ہوا تھا اوراس کے سرپر حکومت کا تاج تھا اور اس کے اردگرد روما کے بڑے بڑے درباری موجود تھے۔قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان عرب لوگوں سے پوچھو کہ اس مدعی رسالت کاسب سے قریبی رشتہ دارکون ہے۔ابوسفیان نے عرض کیا میں ہی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کاسب سے قریبی رشتہ دار ہوں اوروہ رشتہ میں میرے چچا کابیٹا ہے۔ ابوسفیان بیان کرتا ہے کہ قیصر نے مجھے اپنے قریب بلایا اورمیرے ساتھیوں کواپنے سامنے مگر میری پیٹھ کی طرف کھڑاکردیا۔پھراس نے ترجمان سے کہا کہ اس کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ میں اس سے اس شخص کے متعلق بعض سوالات کرنا چاہتاہوں جس نے نبوت کادعویٰ کیا ہے۔پس اگرابوسفیان اپنے جواب میں کوئی بات غلط بیان کرے توتم مجھے فوراًبتادینا(ابوسفیان کہتا ہے کہ خدا کی قسم اگر مجھے یہ شرم نہ ہوتی کہ میرے ساتھی یہ محسوس کریں گے میں نے کوئی جھوٹ بولا ہے تو میں اس موقع پر ضرور کوئی نہ کوئی غلط بات کہہ جاتا مگر میں سچی سچی بات کہنے پر مجبور ہوگیا)اس کے بعد قیصر نے ترجمان کے ذریعہ اپنے سوالات شروع کئے۔
قیصر۔اس مُدّعی کاتمہاری قوم میں حسب نسب کیا ہے؟
ابوسفیان۔وہ ہم میں اچھے نسب کا ہے اورشریف خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
قیصر۔کیا اس سے پہلے تم میں سے کسی شخص نے اس قسم کادعویٰ کیا ہے؟
ابوسفیان۔نہیں۔
قیصر۔کیا اس دعویٰ سے پہلے تم نے مدعی کے خلاف کبھی جھوٹ کاالزام لگتے سنا ہے؟
ابوسفیان۔نہیں۔
قیصر۔کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
ابوسفیان۔نہیں۔
قیصر۔کیا اس مدعی کوبڑے بڑے لوگ مان رہے ہیں یاکہ کمزور اورغریب مزاج لوگ؟
ابوسفیان۔کمزور اورغریب لوگ۔
قیصر۔کیا اس کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یاکم ہورہے ہیں؟
ابوسفیان۔بڑھ رہے ہیں۔
قیصر۔کیا ان میں سے کبھی کوئی شخص اس کے دین کوبُراسمجھتے ہوئے مرتد ہوا ہے؟
ابوسفیان۔نہیں۔
قیصر۔کیا یہ شخص کبھی اپنے عہدکوتوڑتا ہے؟
ابوسفیان۔نہیں۔لیکن آج کل ہمارا اوراس کا ایک معاہدہ چل رہا ہے اس کے متعلق ہمیں ڈر ہے اورنہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کرکیا ہوگا۔(ابوسفیان کہتا ہے کہ مجھے اس موقع پر اس فقرہ کے سوا کوئی اورموقع نہیں مل سکاکہ میں اپنی طرف سے آپؐ کے خلاف کوئی بات لگا سکوں)
قیصر۔کیا کبھی اس کے ساتھ تمہاری کوئی جنگ ہوئی ہے؟
ابوسفیان۔ہاں جنگ ہوئی ہے۔
قیصر۔پھراس جنگ کانتیجہ کیا نکلتا رہا ہے؟
ابوسفیان۔یہ جنگ ایک اوپر چڑھنے والے اورنیچے گرنے والے ڈول کی طرح رہی ہے کہ کبھی اسے غلبہ ہوجاتا ہے اورکبھی ہمیں۔
قیصر۔یہ مدعی تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟
ابوسفیان۔وہ کہتا ہے کہ خدا کوایک سمجھو اورشرک نہ کرو۔اوروہ ہمیں اپنے باپ دادوں والی عبادت سے روکتا ہے اورکہتا ہے نماز پڑھو اورصدقہ دو اوربرائیوں سے بچ کررہو اوراپنے عہدوں کوپورا کرواورامانتوں میں خیانت نہ کیا کرو۔
اس سوال وجواب کے بعد قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ جب تم سے میں نے اس شخص کے حسب نسب کے متعلق پوچھا تھا توتم نے جواب دیا تھا کہ وہ شریف خاندان سے ہے اورخدا کے رسول ہمیشہ شریف خاندانوں میںسے مبعوث کئے جاتے ہیں۔پھر میں نے تم سے پوچھا تھاکہ کیا اس سے پہلے تم میں سے کسی شخص نے کبھی ایسادعویٰ کیا ہے توتم نے یہ جواب دیا کہ نہیں۔ یہ میں نے اس لئے پوچھا تھا کہ اگرکسی اورنے ایسا دعویٰ کیا ہوتا تویہ سمجھا جاسکتا تھا کہ شاید یہ اس کی نقل کررہا ہے۔پھر میں نے تم سے پوچھاتھا کہ کیا تم نے اس کے دعویٰ سے پہلے کبھی کسی بات میں اس کا جھوٹ دیکھا توتم نے کہا کہ نہیں۔تومیں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جو شخص انسانوں پر جھوٹ نہیں بول سکتا وہ خدا پرکیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیااس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے اورتم نے کہا کہ نہیں۔یہ میں نے اس لئے پوچھا تھا کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تویہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ شاید وہ اپنے خاندان کی کھوئی ہوئی بادشاہت کوواپس حاصل کرنا چاہتا ہے۔پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا اسے بڑے بڑے لوگ مان رہے ہیں یاکہ کمزور اورغریب مزاج لوگ۔اورتم نے جواب دیا کہ کمزور اورغریب مزاج لوگ مان رہے ہیں۔اورحق یہ ہے کہ(شروع شروع میں)خدا کے رسولوں کوکمزور اورغریب مزاج لوگ ہی مانا کرتے ہیں۔پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا اس کے ماننے والے زیادہ ہورہے ہیں یا کہ کم ہورہے ہیں؟اورتم نے یہ جواب دیا کہ زیادہ ہورہے ہیں۔اورایمان کایہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب تک کہ وہ اپنے کمال کونہیں پہنچ جاتا وہ برابر ترقی کرتا چلاجاتا ہے۔پھر میں نے تم سے پوچھاتھا کہ کیا کبھی کوئی شخص ایمان لانے کے بعد اس کے دین کوناپسندکرنے کی وجہ سے مرتد ہوتا ہے۔تم نے کہا نہیں۔اوریہی سچے ایمان کاحال ہوتا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ دل میں داخل ہوجائے توکوئی شخص (خواہ کسی اوروجہ سے مرتد ہوجائے توہوجائے مگر)اسے برا سمجھ کر پیچھے نہیں ہٹتا۔پھر میںنے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کبھی یہ شخص بدعہدی کرتا ہے۔اورتم نے کہا کہ نہیں۔اورخدا کے رسولوں کا یہی مقام ہوتا ہے کہ وہ کبھی بدعہدی نہیں کرتے۔پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا اس کے اورتمہارے درمیان کبھی کوئی جنگ ہوئی ہے اورتم نے اس کا جواب دیا کہ ہاں ہوئی ہے اور یہ کہ کبھی لڑائی میں اسے غلبہ ہوجاتا ہے اورکبھی ہمیں ہوجاتا ہے۔اوریہی خداکے رسولوں کاحال ہوتا ہے کہ ان کی جماعتوں پربھی کبھی کبھی تکلیفیں آتی رہتی ہیں مگرانجام بہرحال ان کے حق میں ہوتا ہے اورآخر کار وہی جیتتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ وہ تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے اورتم نے بتایاکہ وہ کہتا ہے کہ خدا کو ایک مانو۔ شرک نہ کرو، نماز پڑھو،صدقہ دو،بری باتوں سے پرہیز کرو،اپنے عہدوں کوپورا کرو اورامانتوں میں خیانت نہ کرو۔اور یہی ایک نبی کے اوصاف ہوا کرتے ہیں۔
اس کے بعد قیصر نے کہا۔میں جانتا تھا کہ عنقریب ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے،لیکن اے عرب کے لوگو!میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تم میںسے ہوگا۔اوراگروہ باتیں جوتم نے مجھ سے بیان کی ہیں درست ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں کہ یہ شخص اس زمین پر جواس وقت میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے ضرور قابض ہوکر رہے گا۔اوراگر مجھے توفیق ملے تو میں اس کی ملاقات کے لئے پہنچوں۔اوراگر میں اس کے پاس پہنچوں تواس کے قدموں کودھو کرراحت پائوں۔
ابوسفیان کہتا ہے کہ اس کے بعد قیصر نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط منگوایا اور اسے دربار میں پڑھے جانے کا حکم دیا۔اس خط میں یہ عبارت لکھی تھی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرّٰحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مِنْ مُحَمَّدٍعَبْدِاللّٰہِ وَرُسُوْلِہٖ اِلٰی ھِرْقَلَ عَظِیْمَ الرُّوْمِ۔سَلَامٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔اَمَّا بَعْدُفَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدَاعِیَۃِ الْاِسْلَامِ اَسْلِمْ تُسْلَمْ وَاَسْلِمْ یُوْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۔فَاِنْ تَوَلِّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْاِرِّیْسِیِّیْنَ۔ وَیَااَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ اَنْ لَانَعْبُدَ اِلَّااللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًامِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔
(ترجمہ:میں اللہ کے نام کے ساتھ اس خط کوشروع کرتا ہوں جوبِے مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کابہترین بدلہ دینے والا ہے۔یہ خط محمدخدا کے بندے اوراس کے رسول کی طرف سے روما کے رئیس ہرقل کے نام ہے۔سلامتی ہو اس شخص پرجو ہدایت کوقبول کرتا ہے۔اس کے بعد اے رئیس روما! میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔مسلمان ہوکر خدا کی سلامتی کوقبول کیجئے کہ اب یہی صرف نجات کارستہ ہے۔اسلام لایئے خداتعالیٰ آپ کواس کا دوہرا اجردے گا،لیکن اگرآپ نے روگردانی کی تو یاد رکھیئے کہ آپ کی رعایا ۱؎ کا گناہ بھی آپ کی گردن پرہوگا۔اوراے اہل کتاب!اس کلمہ کی طرف توآجائو جو تمہارے اورہمارے درمیان مشترک ہے۔یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی صورت میں خدا کاکوئی شریک نہ ٹھہرائیں اورخداکوچھوڑ کر اپنے میں سے کسی کو اپنا آقا اور حاجت روانہ گردانیں پھراگر ان لوگوں نے روگردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہرحال خدائے واحد کے دامن کے ساتھ وابستہ اوراس کے فرمانبردار بندے ہیں۔)
ابوسفیان روایت کرتا ہے کہ جب یہ گفتگو اوراس خط کاپڑھا جانا ختم ہواتودربار میں ہرطرف سے رومی رئیسوں کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوئیں اورآپس کاکلام اونچا اورخلط ملط ہونے لگا اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔اس وقت ہمیں حکم دیا گیاکہ ہم باہرچلے جائیںاور جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر آیا اورمجھے ان کے ساتھ علیحدگی میں بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ محمد کا ستارہ توبہت بلند ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ روما کی حکومت کابادشاہ اس سے خوف کھارہا ہے۔اس کے بعد میں ہمیشہ اپنے آپ کونیچا اورہٹیا محسوس کرتا رہا۔اور میرا دل اس یقین سے پُرتھا کہ محمداب غالب ہوکررہے گا۔ حتّٰی کہ میرے دل میں اسلام کی صداقت نے رستہ پالیاحالانکہ میں اس سے پہلے اسے پسند نہیں کرتا تھا۔ ۲؎
اسی سے ملتی جلتی روایت بخاری باب کَیْفَ کَانَ بَدْأْ الْوَحِیْمیں بھی آتی ہے اورطبری اورابن اسحاق اوردوسرے سب مؤرخوں کی روایتیں بھی خفیف لفظی فرق کے ساتھ اس کی مؤیدہیں اور یکجائی بیان کے لئے فتح الباری اورتاریخ خمیس اورزرقانی کاکوئی جواب نہیں۔
گواس موقع پراپنے معزز درباریوں اورخصوصاًمذہبی لیڈروں کی مخالفت کی وجہ سے ہرقل خائف ہوکر خاموش ہوگیا،لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کی طبیعت پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط اوراس سے قبل اوربعد کے حالات کاگہرااثرہوچکا تھا کیونکہ جب وہ ایلیا سے لوٹ کردوبارہ حمص کی طرف گیااوراس عرصہ میں اس کو رومیۃ کے عالم کا جواب بھی موصول ہوچکا تھا جس میں اس نے ہرقل کی رائے کی تصدیق کی تھی کہ اس زمانہ میں ایک نبی کامبعوث ہوناظاہر ہوتا ہے توہرقل نے ایک دفعہ پھرمملکت روم کے بڑے بڑے اہل الرائے لوگوں کودعوت دے کر بلایا اوراپنے حمص کے شاہی محل میں انہیں جمع کرکے راز داری کے خیال سے دربار کے تمام دروازے بند کروادئے اورپھر رئوساء روما کو مخاطب کرکے ان سے کہا کہ اے میری مملکت کے سردارو!اگرتمہیں اپنی فلاح اور بہبودی منظور ہے اورتم تباہی سے بچ کرترقی کارستہ دیکھنا چاہتے ہواوراپنے ملک کو ہلاکت سے بچانے کے خواہاں ہوتو میرا مشورہ یہ ہے کہ اس نبی کوقبول کرلوجوعرب کی سرزمین میں مبعوث ہوا ہے۔قیصر کی یہ بات سن کر اس کے درباری اس طرح بپھرے جس طرح کہ جنگل میں گورخر بپھرتا ہے۔اورقیصر کی مجلس سے بھاگ کر دروازوں سے باہر نکل جانا چاہا،لیکن قیصر کی دوراندیشی نے پہلے سے دروازے بندکروارکھے تھے اس نے فوراًان متکبررئیسوں اورپادریوں کوواپس بلایا اوران سے محبت کے انداز میں کہا کہ میں تو صرف تمہارے دین کاامتحان لیتا تھااورشکر ہے کہ تم پختہ نکلے۔جب قیصر کے درباریوں نے اپنے بادشاہ میں یہ تبدیلی دیکھی تو وہ خوش ہوگئے اورخوشی کے جوش میںاس کے سامنے سجدہ میںجاگرے۔پس یہ وہ انجام تھا جس کو ہرقل شہنشاہ روم اپنی زندگی کے اس بھاری امتحان میں پہنچا۔ ۱؎
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہرقل نے ایلیا کے دربار میں جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط پڑھا تھاتودراصل یہ دوسری بار کاپڑھنا تھا۔ورنہ اس سے پہلے وہ ایک پرائیوٹ مجلس میں اس خط کواپنے طور پر پڑھ چکا تھا۔ ۲؎ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ جب پہلی دفعہ قیصر کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط ملا تو اس نے اپنی پرائیوٹ مجلس میں دحیہ کوبلایا اوراپنے چندمصاحبوں اور عزیزوں کے سامنے اس خط کوپڑھنا چاہا۔اس وقت غالباًیہ خط پہلے ہرقل کے بھتیجے ۳؎ کے ہاتھ میںگیا اور اس نے ہرقل کے سامنے پیش کرنے سے قبل اس خط کو خود کھول کردیکھنا چاہا اورخط دیکھتے ہی چلا اٹھا کہ یہ خط توہرگز قبول کرنے کے قابل نہیںکیونکہ اس میں شروع میں آپ کے نام کی بجائے لکھنے والے نے اپنا نام لکھا ہے۔ ۴؎ جوآپ کی ہتک ہے اوراسی طرح آپ کو شہنشاہ روم لکھنے کی بجائے رئیس روما لکھا ہے اوریہ دوسری ہتک ہے،لیکن ہرقل نے اسے یہ کہہ کرچپ کرا دیا کہ یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ ایک مدّعی رسالت کی طرف سے خط آئے اور میں اسے پڑھے بغیرپھینک دوں؟اور’’شاہ روما‘‘کی بجائے’’رئیس روما‘‘کے الفاظ لکھنے میںکوئی بات نہیں ہے کیونکہ اصل بادشاہت توخدا ہی کی ہے اورمیں اوریہ مدّعی دونوں اسی کے بندے ہیں۔یہ کہہ کر اس نے اپنے بھتیجے کے ہاتھ سے خط لے لیا اورحکم دیا کہ پبلک دربار سے قبل دحیہ کلبی کوسرکاری مہمان کے طور پررکھاجائے۔۱؎ مگر بہرحال اس میں شبہ نہیںکہ ہرقل کواپنی بہت سی خوبیوں اوردانائیوں اوردور اندیشیوں کے باوجود دنیا کے خوف اورطاقت وعزت کی ہوس کی وجہ سے ہدایت نصیب نہیں ہوئی اورگویا ایمان کی چنگاری اس کے سینہ میں روشن ہوتے ہوئے بجھ کررہ گئی۔
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس انکار اورمحرومی کے اس کے دل کی گہرائیوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت گھر کرچکی تھی۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس تبلیغی خط کوایک تبرک کے طورپر اپنے پاس محفوظ رکھا۔۲؎ اوروہ کئی سوسال تک اس کے خاندان میں محفوظ رہا۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب شاہ منصور قلاون(جوساتویں صدی ہجری میں گزرا ہے)کے بعض سفیر ایک دفعہ مَلک الفرنج کے پاس گئے تواس وقت مَلک مذکور نے انہیں دکھانے کے لئے ایک سنہری ڈبہ منگوایا اوراس کے اندر سے ایک ریشمی رومال میںلپٹا ہواخط نکال کر انہیںدکھایا کہ میرے ایک دادا ہرقل کے نام آپ کے رسول کاایک خط آیا تھا وہ آج تک ہمارے گھر میں ایک متبرک تحفہ کے طورپر محفوظ ہے۔۳؎ اگرشاہ منصور قلاون کے مزید حالات دیکھنے ہوں تو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام ۴؎ میں دیکھے جائیں۔
ہرقل والے خط کے تعلق میںایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب پہلی دفعہ دحیہ کلبی قیصر کے سامنے پیش ہونے لگے توان سے کہا گیا کہ یہاں کادرباری آداب یہ ہے کہ قیصر کے سامنے جاتے ہی سجدہ میں گرجاتے ہیں اورپھر جب تک وہ خود نہ کہے سرنہیں اٹھاتے۔دحیہ نے کہا میںتو خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرسکتا خواہ مجھے اس کے سامنے جانے کاموقع ملے یانہ ملے۔مگرپھر خدا نے ایسا فضل کیا کہ وہ اس خلافِ اسلام حرکت کرنے کے بغیر ہی قیصر کے دربار میں باریاب ہوگئے۔۵؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط بنام ہرقل میں ایک بات ایسی ہے جس کی بناء پر بعض عیسائی مؤرخین نے اعتراض کیا ہے اوراس کی وجہ سے خط کی صداقت کے متعلق بھی شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اعتراض یہ ہے کہ خط میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ…الآیۃ۔یہ سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیتوں میںسے ایک آیت ہے اورروایات سے ثابت ہے کہ سورۃ آل عمران کی ابتدائی اسی آیتیں اس وقت نازل ہوئی تھیں جب ۹ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا وفد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔۱؎ اورچونکہ قیصر کے نام کاخط بہرحال صلح حدیبیہ کے معاًبعدکا ہے اس لئے ۹ہجری میں نازل ہونے والی آیت ۶ہجری یا۷ہجری میں لکھے جانے والے خط کاحصہ نہیں بن سکتی تھی۔لہذا ثابت ہوا کہ یہ خط کاقصہ سرے سے ہی درست نہیں ہے۔یہ وہ اعتراض ہے جو اس موقع پرکیا گیا ہے۔مگر یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں خود مسلمان مؤرخوں کے سامنے یہ سوال آیا اورانہوں نے بڑی مفصل بحث کرکے اس کا جواب دیا ہے۔۲؎ دراصل بات یہ ہے اورکئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ بعض کلمات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یاحضرت عمرؓ کی زبان سے نکلے اورپھر کچھ عرصہ بعد اسی کے مطابق قرآنی آیات کا نزول ہوگیا۔اوریہ صورت اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ روحانی قلوب کے متعلق ہرگز بعید ازقیاس نہیں کہ وہ اپنے خاص نورقلب یا مخصوص روحانی حِس کی وجہ سے ایک الہامی صداقت کے نزول سے قبل ہی ان کی مخفی تاروں سے متاثر ہوکر اس کا اظہار کردیں۔چنانچہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ سلوک اورمنافقین کی نماز جنازہ اور شراب کی حرمت اوراحکام پردہ وغیرہ کے متعلق اس قسم کے متعدد واقعات تاریخ اورحدیث میں مذکور ہیں۔۳؎ پس یہ ہرگز بعید از قیاس نہیں کہ اس موقع پر بھی یہ عبارت اولاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے از خود املاء فرمائی ہواورپھر بعد میں وہی عبارت قرآنی آیات کی صورت میں نازل ہوگئی ہو۔اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورۃ آل عمران کی شروع کی اسّی آیتیں سب کی سب وفدنجران کے وقت نازل نہ ہوئی ہوں بلکہ ان میں سے ایک آدھ آیت پہلے نازل ہوچکی ہو،لیکن اکثریت کی وجہ سے یہ کہہ دیاہو کہ پہلی اسّی آیتیں وفد نجران کے موقع پر نازل ہوئی تھیں۔یایہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت دودفعہ نازل ہوئی ہو۔ایک دفعہ اوائل ہجرت میں اوردوسری دفعہ۹ہجری میں وغیرہ وغیرہ۔
مگر غالباًاس بحث میں سب سے زیادہ یقینی ثبوت اس اصل خط کے دریافت ہوجانے سے ملتا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی زمانہ میں مقوقس مصر کو لکھ کر بھیجا۔یہ خط اپنی اصلی صورت میں دریافت ہوچکا ہے اورہم اس کا ایک فوٹو آگے چل کر درج کررہے ہیں۔اس خط میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہی عبارت …والی درج کرائی تھی۔پس جب یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ عبارت مقوقس والے خط کاحصہ بھی تھی اوریہ بات بھی ثابت ہے کہ مقوقس والا خط اورہرقل والا خط ایک ہی زمانہ میں لکھے گئے توپھر بہرحال ان خطوں کی صداقت کامعاملہ توکسی صورت میں مشکوک نہیں سمجھا جاسکتا۔وَھُوَالْمُرَادُ۔
جوتبلیغی خط آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام لکھا وہ اپنے معانی اورالفاظ کی خوبصورتی اورجامعیت کے لحاظ سے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی تحریر ہے۔اس تحریر کے الفاظ گوبہت مختصر ہیں مگر اس عبارت کا ایک ایک لفظ دلکش نگینوں کاحکم رکھتا ہے جوایک اعلیٰ درجہ کے جڑائو زیور میں ایک باکمال ہنرمند نصب کرتا ہے۔حق یہ ہے کہ اس مختصر سے خط میں اسلام کی تبلیغ کااورخصوصاًاس تبلیغ کا جو ایک مسیح کومخاطب کرکے ہونی چاہئے بہترین نمونہ درج کردیا گیا ہے اوراس میں توحید کابھی وہ جامع سبق موجود ہے جس کی نظیر نہیںملتی۔اورپھراسلوب بیان ایسا لطیف ہے کہ گویا بشارت وانذار کی دو کامل نہریں پہلوبہ پہلو رواں ہیں اورایک طرف بلاوجہ دل دکھانے اوردوسری طرف مداہنت کے پردہ میںحق کو چھپانے کے بغیر اسلامی صداقت کامکمل نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اورآخر میںاپنے اس فولادی عزم کااظہار بھی کردیا گیا ہے کہ تم مانو یانہ مانو ہم توبہرحال اسلام کی خدمت کابیڑا اٹھاچکے ہیں۔اَلّٰلھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍوَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
ہرقل والے خط کے واقعہ سے یہ بھاری سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ سچی قربانی کی روح کے بغیر کوئی بڑی صداقت قبول نہیں کی جاسکتی۔ہرقل کے وہ سوالات جو اس نے ابوسفیان سے کئے اس بات کاثبوت ہیں کہ وہ ایک غیر معمولی عقل ودانش کاانسان تھا جس نے سلسلۂ رسالت اورسلسلۂ ایمانیات کاکافی گہرامطالعہ کیا ہوا تھا۔پھر اس نے جس طرح اسلام کی صداقت سے متاثر ہوکر اپنے درباریوں کواپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی،وہ نہ صرف اس کی حسن تدبیر بلکہ ایک حد تک اس کے جذبۂ دینداری کی بھی دلیل ہے۔مگر پھربھی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہا اوربالآخر اسلام کی فوجوں سے لڑتا ہوا اس جہان سے رخصت ہوا۔ ۱؎ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کی روح اس بھاری قربانی کے لئے تیار نہیں تھی جوسچی دینداری کے لئے ضروری ہے۔وہ اپنی دنیا کی جاہ وعظمت کھونے کے بغیر اپنے درباریوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوااسلام کی طرف قدم اٹھانا چاہتا تھا۔وہ ایک حد تک دین کا طالب ضرور تھا مگر دنیا کوچھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا اوریہی کمزوری اس کی ہلاکت کاباعث بن گئی۔بیشک ابوبکرؓ اورعمرؓ نے بھی دنیا کی بہترین نعمتوں اورعزتوں کا ورثہ پایا مگر انہوں نے اسلام کے ساتھ سودا نہیں کرنا چاہا۔وہ خالی ہاتھ ہوکر محض دین کی خاطر اسلام کی طرف آئے اورپھر خدا نے جوکسی کا قرضہ اپنے ذمہ نہیں رکھا کرتا انہیں وہ سلطنت عطا کی جس کے سامنے قیصرو کسریٰ کی مجموعی سلطنت بھی ماند تھی۔مگر قیصر خالی ہاتھ ہو کر اسلام کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے ڈرا۔اس نے اپنا کمزور ہاتھ اسلام کی طرف بڑھایا اورمضبوط ہاتھ اپنی حکومت کے عصا پرجمائے رکھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بٹے ہوئے دل کونہ تو دین ہی ملا اورنہ ہی دنیا زیادہ دیر تک اس کے ہاتھوں میں ٹھہر سکی۔
مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کادل بڑا نکتہ شناس تھا اورآپؐ کسی کی ذرا سی نیکی کوبھی فراموش کرنا نہیں جانتے تھے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ کسریٰ نے تو آپؐکاخط پھاڑ کرپھینک دیا ہے مگر قیصر نے گوآپؐ کی دعوت کوقبول نہیں کیا لیکن بظاہر عزت اور ادب سے پیش آیا ہے توآپؐ نے فرمایا:
اَمَّاھٰوُلَائِ فَیُمَزَّقُوْنَ وَاَمَّاھٰوُلَآئِ فَسَیَکُوْنَ لَھُمْ بَقِیَّۃٌ۔ ۱؎
یعنی ’’ایرانی حکومت توفوراًپاش پاش کردی جائے گی مگررومی حکومت کو خدا کچھ مہلت عطا کرے گا۔‘‘
سوبعینہٖ یہی ہوا کہ کسریٰ کی حکومت توچند سال کے اندر خاک میں مل گئی مگر قیصر کی سلطنت بہت ساحصہ چھینے جانے کے باوجود قسطنطنیہ اوراس کے گردونواح میںسینکڑوں سال تک قائم رہی۔ ۲؎ فَاعْتَبِرُوْایَااُوْلِی الْاَبْصَارِ۔
کسریٰ کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخط
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا دوسرا تبلیغی خط کسریٰ شہنشاہ فارس کے نام تھا۔جیسا کہ
اوپر بتایا جاچکا ہے کسریٰ فارس کے بادشاہوں کا سرکاری اورموروثی لقب تھا اورجس زمانہ کا ہم ذکر کررہے ہیں اس زمانہ میں فارس کے بادشاہ کاذاتی نام خسرو پرویز بن ہرمز تھا جوایران کے مشہور ساسانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔یہ بادشاہ جوبڑی شان وشوکت اورجاہ وجلال کامالک تھا مذہباًآتش پرست یعنی مشرک تھا اوریہی اس کی رعایا کامذہب تھا جواپنے بادشاہ کوبھی قابل پرستش خیال کرتی تھی۔فارس کے کسریٰ ایک طرح سے عرب کے ملک پربھی گویا اپناسیاسی حق جماتے تھے۔کیونکہ عرب کے علاقہ بحرین اورعلاقہ یمن کے رئیس دونوں کسریٰ کے ماتحت تھے اورکسریٰ کی طرف سے ان علاقوں کے والی یعنی گورنر سمجھے جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسریٰ کی طرف تبلیغی خط لکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تودرباری آداب کے پیش نظر اپنا خط پہلے رئیس بحرین کی طرف بھیجا اوراس سے درخواست کی کہ وہ یہ خط آگے کسریٰ کے نام بھجوادے۔۱؎ اسی طرح جیسا کہ ہم آگے چل کردیکھیںگے جب خسرو پرویز نے غصہ میں آکر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی گرفتاری کے احکام صادر کئے توان احکام کے اجراء کے لئے اس نے اپنے یمن کے گورنر کوہدایت بھجوائی۔بہرحال بحرین اوریمن پراقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے کسریٰ کوعرب کے معاملات میں کافی دلچسپی تھی اوروہ عرب کی ہرنئی تحریک کوطبعاًشک کی نظر سے دیکھتا تھا۔
عرب کے معاملات میں کسریٰ کی دلچسپی کادوسرا بڑا باعث عرب کے یہودی قبیلے تھے جو مدینہ اور خیبر اوروادی القریٰ وغیرہ میں کثرت سے آباد تھے۔یہ یہودی قبیلے طبعاًاورروایتاًقیصر کی عیسائی حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ عیسائیوں کے سخت خلاف تھے اور دوسری طرف قیصر کی حکومت یہودیوں کے متعلق معاندانہ رویہ رکھتی تھی اورہرقل نے تو خصوصیت سے ان کے خلاف تشدد کادروازہ کھول رکھا تھا۔۲؎ اندریں حالات عرب کے ماحول میں صرف فارس کی حکومت ہی ایسی تھی جس کے ساتھ عرب کے یہودی تعلقات رکھ سکتے تھے۔یہ تعلقات یزدجرو اول کے عہد میں شروع ہوئے جس کی ایک بیوی یہودی نسل کی تھی اورپھر خسرو پرویز کے زمانہ میںاپنے کمال کوپہنچ گئے جبکہ یہودیوں اورایرانی حکومت کے درمیان گہرے تعلقات پیدا ہوچکے تھے۔ ۳؎ عرب کے یہودی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں کثرت کے ساتھ کسریٰ کے دربار میںجاتے رہتے تھے اورجہاں تک ان کا بس چلتا تھاخسرو پرویز کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اکساتے تھے ۔اس حقیقت کوسر ولیم میور نے بھی اشارۃً تسلیم کیا ہے۔ ۴؎
یہ وہ زمانہ تھا جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسریٰ کے نام تبلیغی خط روانہ کیا۔یہ خط آپؐ نے اپنے قدیم اورمخلص صحابی عبداللہ بن حذافہ سہمی کے ہاتھ بھجوایا۔۱؎ اورانہیں ہدایت کی کہ آپؐ کے خط کوپہلے بحرین کے رئیس کے پاس لے جائیں اورپھر اس کے توسط سے کسریٰ تک پہنچیں۔۲؎ اس رئیس بحرین کانام منذربن ساوی تھاجوبحرین کے علاقہ میں کسریٰ کانائب السلطنت تھا۔۳؎ یہ خط بھی قیصر کے خط کی طرح باقاعدہ مہرلگا کر بھیجا گیا تھا اور اس کی عبارت یہ تھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِلٰی کِسْرٰی عَظِیْمِ فَارِسَ۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّّبَعَ الْھُدٰی وَاٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرُسُوْلِہٖ وَشَھِدَاَنْ لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ اللّٰہِ فَاِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً لِاَنْذِر َمَنْ کَانَ حَیًّاوَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔ اَسْلِمْ تُسْلَمْ ۔فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمَ الْمَجُوْسٍ۔۴؎
یعنی’’میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جوبے مانگے رحم کرنے والا اوراعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔یہ خط خدا کے رسول محمدکی طرف سے فارس کے رئیس کسریٰ کے نام ہے۔سلامتی ہواس شخص پرجوہدایت کوقبول کرتا ہے اورخدا اور اس کے رسول پرایمان لاتا اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اورنہ ہی اس کا کوئی شریک ہے۔اوروہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ محمدخدا کا بندہ اوراس کا رسول ہے۔اے رئیس فارس! میں آپ کو خدا کی دعوت کی طرف بلاتا ہوں۔کیونکہ میں سب انسانوں کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوںتاکہ میں ہر زندہ انسان کو ہوشیار کردوں اورتا انکار کرنے والوں پرخدا کافیصلہ واجب ہوجائے۔اے رئیس فارس!آپ اسلام کوقبول کریں کیونکہ اب آپ کے لئے صرف اسی میں سلامتی کارستہ ہے، لیکن اگر آپ روگردانی کریں گے تویاد رکھیں کہ اس صورت میں (آپ کے اپنے گناہ کے علاوہ)آپ کی مجوس رعایا کاگناہ بھی آپ کی گردن پرہوگا۔‘‘
عبداللہ بن حذافہ کہتے ہیں کہ جب میں اس خط کے ساتھ کسریٰ کے دربار میں پہنچا اوراجازت ملنے کے بعد کسریٰ کے سامنے اس خط کوپیش کیا تو اس نے یہ خط اپنے ایک ترجمان کے سپرد کیا کہ تا وہ اسے پڑھ کرسنائے۔جب ترجمان نے اس خط کوپڑھا توکسریٰ اس کے مضمون کو سن کر غصہ سے بھر گیا اورترجمان کے ہاتھ سے خط لے کر اسے یہ کہتے ہوئے ریزہ ریزہ کردیا کہ میرا غلام ہوکر مجھے اس طرح مخاطب کرتا ہے! ۱؎ روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوکسریٰ کی اس حرکت کی اطلاع پہنچی تو آپؐنے دینی غیرت کے جوش میں فرمایا’’خداخود ان لوگوں کو پارہ پارہ کرے۔‘‘ ۲؎ اورایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے اس موقع پر یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اَمَاھٰؤْلٓائِ فَیُمَزَّقُوْنَ یعنی’’اب یہ لوگ خود ریزہ ریزہ کردئے جائیں گے۔‘‘ ۳؎
کسریٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط کوپھاڑنے پرہی اکتفا نہیں کی،بلکہ یہودی پراپیگنڈا کے گہرے تاثرات کے ماتحت اس نے اپنے یمن کے گورنر کوجس کا نام باذان تھا ہدایت فرمائی کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کادعویٰ کیا ہے اس کی طرف فوراًدوطاقتور آدمی بھجوادو تاکہ وہ اسے گرفتار کرکے ہمارے سامنے حاضر کریں۔اورایک روایت یہ ہے کہ دوآدمی بھجوا کراس سے توبہ کرائو۔اوراگروہ انکار کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔چنانچہ باذان نے اس غرض کے لئے اپنے ایک قہرمان یعنی سیکرٹری کوجس کا نام بانوَیہ تھا منتخب کیا اوراس کے ساتھ ایک مضبوط سوار مقرر کرکے مدینہ کی طرف بھجوادیا اوران کے ہاتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام ایک خط بھی بھجوایاکہ آپؐ فوراًان لوگوں کے ساتھ کسریٰ کی خدمت میںحاضر ہوجائیں۔جب یہ لوگ مدینہ پہنچے توانہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوباذان کاخط دے کر بطریق نصیحت سمجھایا کہ بہتر ہے آپ ہمارے ساتھ چلے چلیں ورنہ کسریٰ آپ کے ملک اورقوم کوتباہ کرکے رکھ دے گا۔آپؐنے ان کی یہ بات سن کر تبسم فرمایا اورجواب میں اسلام کی تبلیغ کی اورپھر فرمایا کہ تم آج رات ٹھہرومیں انشاء اللہ تمہیں کل جواب دوں گا۔پھر جب وہ دوسرے دن آپؐکے پاس آئے توآپؐ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
اَبْلِغَاصَاحِبَکُمَااَنَّ رَبِّیْ قَتَلَ رَبَّہٗ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ۔
یعنی’’اپنے آقا(والی ٔیمن)سے جاکر کہہ دو کہ میرے رب یعنی خدائے ذوالجلال نے اس کے رب’’ یعنی کسریٰ ‘‘کو آج رات قتل کردیا ہے۔‘‘
چنانچہ بانوَیہ اوراس کا ساتھی واپس لوٹ گئے اورباذان کے پاس جاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاپیغام پہنچایا۔باذان نے کہاجوبات یہ شخص کہتا ہے اگروہ اسی طرح ہوجائے تو پھر وہ واقعی خدا کانبی ہوگا۔چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھاکہ باذان کوخسرو پرویزکے بیٹے شیرویہ کاایک خط پہنچا جس میں لکھا تھاکہ’’میں نے ملکی مفاد کے ماتحت اپنے باپ خسروپرویز کوجس کا رویہ ظالمانہ تھا اورجواپنے ملک کے شرفاء کوبے دریغ قتل کرتا جارہا تھاقتل کردیا ہے۔پس جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو میرے نام پر اپنے علاقہ کے لوگوں سے اطاعت کا عہد لو۔اورمجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے تمہیں عرب کے ایک شخص کے متعلق ایک حکم بھیجا تھا اسے اب منسوخ سمجھو اورمیرے دوسرے حکم کا انتظار کرو۔‘‘جب باذان کونئے کسریٰ شیرویہ بن خسرو کایہ فرمان پہنچا تواس نے بے اختیار ہوکر کہا کہ پھرتومحمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) کی بات سچی نکلی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کے برحق رسول ہیںاور میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔چنانچہ اس نے اسی وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کاخط لکھ دیا اوراس کے ساتھ یمن کے کئی اورلوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ ۱؎ اورروایت آتی ہے کہ خسرو پرویز اسی رات قتل ہوا تھا جس رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے متعلق خدا سے اطلاع پائی تھی۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ قیصر وکسریٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خطوں کے ساتھ جو جوسلوک کیا اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے معاملہ کیا۔چنانچہ جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط پھاڑکرپھینک دینے کی وجہ سے کسریٰ کی بھاری سلطنت چندسال کے اندر ریزہ ریزہ کردی گئی وہاں قیصر کی طرف سے آپؐ کے خط کے ساتھ مؤدبانہ رویہ رکھنے پر خداتعالیٰ نے اس کی نسل کو کافی لمبی مہلت دی اور اس کے خاندان نے سینکڑوں سال حکومت کی۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب قیصر کاایک تنوخی سفیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاتوآپؐنے اسے یہ الفاظ فرمائے کہ:
’’میں نے کسریٰ کوایک خط لکھا مگر اس نے اسے پھاڑ دیا۔اس کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اوراس کی سلطنت جلد تباہ ہوکر رہے گی۔مگر اس کے مقابل پر میں نے ایک خط تمہارے آقا قیصر کو بھی لکھا اوراس نے اس کے متعلق ادب کارویہ اختیار کیا اور اسے اپنے پاس محفوظ کرلیا۔میںامیدکرتا ہوں کہ جب تک ان میں نیکی کا مادہ ہے خدا اس کے خاندان کی کچھ نہ کچھ طاقت ضرور قائم رکھے گا۔‘‘ ۲؎
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ بعینہٖ یہی ان دونوں حکومتوں کے ساتھ خدا کا سلوک ہوا بلکہ جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے ان دوخطوں کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو جو تبلیغی خطوط ان ایام میں لکھے اوران خطوں کے پہنچنے پرمکتوب الیہم نے جو جورویہ اختیار کیا اسی کے مطابق خدائے حکیم وقدیر نے ان کے ساتھ سلوک کیا۔اوراگرغور کیا جائے تویہ بات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے۔
کسریٰ والے خط کے متعلق یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ جہاں قدیم مؤرخین نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ خسروپرویز نے جو حکم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یمن کے والی کے نام جاری کیا تھا اس کا سبب وہ خط تھا جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے بھجوایا وہاں بعض جدیدمحققین نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط لکھنے کا واقعہ بعد کا ہے اورخسرو پرویز کاحکم یہودی پراپیگنڈے کی وجہ سے اس سے پہلے جاری ہوچکا تھا۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ آیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاتبلیغی خط خسرو پرویز کے نام لکھا گیا تھا یا اس کے بیٹے شَرویہ کے نام؟میں نے اس جگہ معروف خیال کی اتباع کی ہے یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط خسرو پرویز کے نام تھا اوراس نے آپؐکے خلاف احکام جاری کئے تھے۔واللہ اعلم بالصواب۔دراصل میرے پاس اس وقت لاہور میں ان کتابوں کاپورا ذخیرہ موجود نہیں ہے جن کا مطالعہ اس قسم کے سوال کی کامل تحقیق کے لئے ضروری ہے۔اس لئے فی الحال معروف خیال درج کردیاگیا ہے اوریہ اختلاف بھی ایسا نہیں ہے کہ جوزیادہ اہمیت رکھتا ہو۔اگرخدا نے چاہا توبصورت ضرورت بعد میں اصلاح کی جاسکے گی۔
مقوقس مصر کے نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاتیسرا خط مقوقس والی ٔ مصر کے نام تھاجوقیصر
کے ماتحت مصر اور اسکندریہ کاوالی یعنی موروثی حاکم تھا اورقیصر کی طرح مسیحی مذہب کاپیروتھا۔اس کا ذاتی نام جریج بن مینا تھا اوروہ اوراس کی رعایا قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خط آپؐنے اپنے ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا اوراس خط کے الفاظ یہ تھے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلَی الْمَقَوْقَسِ عَظِیْمِ الْقِبْطِ۔سَلاَمٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْاِسْلاَمِ اَسْلِمْ تُسْلَمْ یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ ۔فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْقِبْطِ۔ یَااَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْااِلَی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَنْ لَا نَعْبُدَاِلاَّاللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْافَقُوْلُوْا اشْھِدُوْابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ ۱؎
یعنی’’میںاللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جوبے مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کابہترین بدلہ دینے والا ہے۔یہ خط محمدخدا کے بندے اوراس کے رسول کی طرف سے قبطیوں کے رئیس مقوقس کے نام ہے۔سلامتی ہواس شخص پرجو ہدایت کوقبول کرتا ہے اس کے بعد اے والی ٔمصر!میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔مسلمان ہوکر خدا کی سلامتی کوقبول کیجئے کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجردے گا،لیکن اگرآپ نے روگردانی کی تو(علاوہ خود آپ کے اپنے گناہ کے)قبطیوں کاگناہ بھی آپ کی گردن پرہوگا۔اوراے اہل کتاب اس کلمہ کی طرف توآجائوجوتمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اورخدا کو چھوڑ کر اپنے میںسے ہی کسی کو اپنا آقااورحاجت روانہ گردانیں۔پھراگر ان لوگوں نے روگردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہرحال خدائے واحد کے فرمانبردار بندے ہیں۔‘‘
جب حاطب بن ابی بلتعہ اسکندریہ میںپہنچے تومقوقس کے حاجب یعنی دربان سے مل کر اس کی خدمت میںحاضر ہوئے اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط پیش کیا۔مقوقس نے خط پڑھا اور پھر حاطب بن ابی بلتعہ سے مخاطب ہوکر نیم مذاقیہ رنگ میں کہا کہ اگر تمہارا یہ صاحب واقعی خدا کا نبی ہے تو (اس خط کے بھجوانے کی بجائے)اس نے میرے خلاف خدا سے یہ دعا ہی کیوںنہ کی کہ خدا اسے مجھ پر مسلّط کر دے۔ حاطب نے جواب دیا کہ اگریہ اعتراض درست ہے تووہ حضرت عیسیٰ ؑپر بھی پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفوں کے خلاف اس قسم کی دعا کیوں نہیں کی۔پھرحاطب نے مقوقس کوازراہ نصیحت کہا کہ آپ (سنجیدگی کے ساتھ)غورفرمائیں کیونکہ اس سے پہلے آپ کے اسی ملک مصر میں ایک ایسا شخص(فرعون)گزرچکا ہے جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہی ساری دنیا کا رب اور حاکم اعلیٰ ہے۔جس پر خدا نے اسے ایساپکڑا کہ وہ اگلوں اورپچھلوں کے لئے عبرت بن گیا۔پس میں آپ سے مخلصانہ طورپر عرض کروں گا کہ آپ دوسروں کے حالات سے عبرت پکڑیں اورایسے نہ بنیں کہ دوسرے لوگ آپ کے حالات سے عبرت پکڑیں۔مقوقس نے کہا بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے سے ایک دین حاصل ہے اس لئے جب تک ہمیں اس سے کوئی بہتردین نہ ملے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔حاطب نے جواب دیا کہ اسلام وہ دین ہے جو سب دوسرے دینوں سے غنی کردیتاہے لیکن وہ یقینا آپ کو اس بات سے نہیں روکتا کہ آپ حضرت مسیح ناصری پربھی ایمان لائیں بلکہ وہ سب سچے نبیوں پرایمان لانے کی تلقین کرتا ہے۔اورجس طرح حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰ ؑکی بشارت دی تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑنے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارت بھی دی ہے۔اس پر مقوقس کچھ سوچ میںپڑ کر خاموش ہوگیا مگراس کے بعد ایک دوسری مجلس میں جبکہ بعض بڑے بڑے پادری بھی موجود تھے مقوقس نے حاطب سے پھر کہامیں نے سنا ہے کہ تمہارے نبی اپنے وطن سے نکالے گئے تھے انہوں نے اس موقع پر اپنے نکالنے والوں کے خلاف بددعاکیوں نہ کی تاکہ وہ ہلاک کردئے جاتے؟حاطب نے جواب دیا کہ ہمارے نبی توصرف وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے مگر آپ کے مسیح کوتویہودیوں نے پکڑ کرسولی کے ذریعہ ختم ہی کردینا چاہا مگر پھربھی وہ اپنے مخالفوں کے خلاف بددعا کرکے انہیں ہلاک نہ کرسکے۔مقوقس نے متاثر ہوکر کہا’’تم بیشک ایک دانا انسان ہو اورایک دانا انسان کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہو۔‘‘اس کے بعد کہنے لگا۔میں نے تمہارے نبی کے معاملہ میں غورکیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے واقعی کسی بری بات کی تعلیم نہیں دی اورنہ کسی اچھی بات سے روکا ہے۔پھر اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر اس پر اپنی مہر لگائی اوراسے حفاظت کے لئے اپنے گھر کی ایک معتبرلڑکی کے سپرد کردیا۔ ۱؎
اس کے بعد مقوقس نے اپنے ایک عربی دان کاتب کوبلایا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام مندرجہ ذیل خط املاء کراکے حاطب کے حوالہ کیا۔اس خط کی عبارت یہ تھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔لِمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ِمنَ الْمَقَوْقَسِ عَظِیْمِ الْقِبْطِ۔سَلاَمٌ عَلَیْکَ۔اَمَّابَعْدُ فَقَدْقَرَأتُ کِتَابَکَ وَفَھِمْتُ مَاذَکَرْتَ فِیْہِ وَمَاتَدْعُوْاِلَیْہِ۔وَقَدْعَلِمْتُ اَنَّ نَبِیًّاقَدْبَقِیَ وَکُنْتُ اَظُنُّ اَنْ یَّخْرُجَ مِنَ الشَّامِ۔ وَقَدْاَکْرَمْتُ رَسُوْلَکَ وَبَعَثْتُہٗ اِلَیْکَ بِجَارِیَتَیْنِ لَھُمَامَکَانٌ مِنَ الْقِبْطِ عَظِیْمٌ وَکِسْوَۃٌ وَاَھْدَیْتُ اِلَیْکَ بَغْلَۃً لِتَرْکُبَھَا۔وَالسَّلاَمُ۔
یعنی’’خدا کے نام کے ساتھ جورحمن اوررحیم ہے۔یہ خط محمدبن عبداللہ کے نام قبطیوںکے رئیس مقوقس کی طرف سے ہے۔آپ پر سلامتی ہو۔میں نے آپ کا خط اورآپ کے مفہوم کوسمجھا اورآپ کی دعوت پرغورکیا۔میں یہ ضرور جانتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے مگر میں خیال کرتا تھا کہ وہ ملک شام میں پیدا ہوگا(نہ کہ عرب میں)اورمیں آپ کے سفیر کے ساتھ عزت سے پیش آیا ہوں اور میں اس کے ساتھ دولڑکیاں بھجوا رہا ہوں جنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل ہے اورمیں کچھ پارچات بھی بھجوارہا ہوں اورآپ کی سواری کے لئے ایک خچربھی بھجوارہا ہوں۔والسلام۔‘‘ ۱؎
اس خط سے ظاہر ہے کہ مقوقس مصر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی کے ساتھ عزت سے پیش آیا اور اس نے آپؐکے دعویٰ میں ایک حد تک دلچسپی بھی لی مگر بہرحال اس نے اسلام قبول نہیںکیا اوردوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ عیسائی مذہب پرہی اس کی وفات ہوئی ۔ ۲؎ اس کی گفتگو کے انداز سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ بے شک مذہبی امور میں دلچسپی تولیتا تھا مگرجو سنجیدگی اس معاملہ میں ضروری ہے وہ اسے حاصل نہیں تھی۔اس لئے اس نے بظاہر مؤدبانہ رنگ رکھتے ہوئے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹال دیا۔
جودولڑکیاں مقوقس نے بھجوائی تھیں ان میں سے ایک کانام ماریہ اوردوسری کانام سیرین تھا۔ اوریہ دونوں آپس میں بہنیں تھیں۔اورجیسا کہ مقوقس نے اپنے خط میں لکھا تھا وہ قبطی قوم میں سے تھیں۔اوریہ وہی قوم ہے جس سے خود مقوقس کا تعلق تھااوریہ لڑکیاں عام لوگوں میں سے نہیں تھیں بلکہ مقوقس کی اپنے تحریر کے مطابق ’’انہیںقبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل تھا۔‘‘دراصل معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں میں یہ پرانا دستور تھا کہ اپنے ایسے معزز مہمانوں کوجن کے ساتھ وہ تعلقات کو بڑھانا چاہتے تھے رشتہ کے لئے اپنے خاندان یااپنی قوم کی شریف لڑکیاں پیش کردیتے تھے۔چنانچہ جب حضرت ابراہیم ؑمصر میں تشریف لے گئے تومصر کے رئیس نے انہیں بھی ایک شریف لڑکی(حضرت ہاجرہؓ) رشتہ کے لئے پیش کی تھی جو بعد میں حضرت اسماعیل ؑاوران کے ذریعہ بہت سے عرب قبیلوں کی ماں بنی۔ ۳؎ بہرحال مقوقس کی بھجوائی ہوئی لڑکیوں کے مدینہ پہنچنے پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ کوتو خود اپنے عقد میں لے لیا اوران کی بہن سیرین کوعرب کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے عقد میں دے دیا۔۴؎ یہ ماریہ وہی مبارک خاتون ہیں جن کے بطن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔۵؎ جوزمانہ نبوت کی گویا واحداولاد تھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں لڑکیاں مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئی تھیں۔۱؎ جو خچر اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تحفہ میں آئی وہ سفید رنگ کی تھی اوراس کا نام دلدل تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس پر اکثر سواری فرمایا کرتے تھے اورغزوۂ حنین میں بھی یہی خچر آپؐ کے نیچے تھی۔۲؎
یہ سوال کہ آیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ کوزوجہ کے طور پر اپنے عقد میں لیا یاکہ صرف مِلک یمین کے رنگ میں اپنے عقد میں رکھاایک اختلافی سوال ہے جس کی تفصیل میں ہمیں اس جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔بہرحال دوباتیں قطعی طور پر یقینی ہیں۔ایک یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ کو شروع سے ہی پردہ کرایا۔۳؎ اورپردہ کے متعلق ثابت ہے کہ وہ صرف آزاد عورتیں اورازواج ہی کرتی تھیں۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبرکے بعد ایک یہودی رئیس کی بیٹی صفیہ کے ساتھ عقد کیا تو صحابہ میں اختلاف ہوا کہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں یاکہ محض مِلک یمین۔پھر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں پردہ کرایا توصحابہ نے سمجھ لیا کہ وہ زوجہ ہیں نہ کہ مِلک یمین۔۴؎ دوسرے یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کوئی ذاتی غلام نہیں رکھا بلکہ جو لونڈی یاغلام بھی آپؐ کے قبضہ میں آیا آپؐنے اسے آزاد کردیا۔ ۵؎ اس لحاظ سے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاحضرت ماریہ قبطیہ کولونڈی کے طورپر اپنے پاس رکھنا بعید از قیاس اورناقابل قبول ہے۔ واللہ اعلم۔ویسے اگرلونڈیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کاخلاصہ ملاحظہ کرنا ہوتو کتاب ھٰذا کے حصہ دوم کے صفحات ۴۷۲تا۴۷۸مطالعہ کئے جائیں۔
مقوقس والے خط کے متعلق ایک خاص بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہ کئی سوسال پردۂ خفا میں مستور رہنے کے بعد قریباًایک سوسال ہواکہ اپنی اصلی صورت میں دریافت ہوچکا ہے اورہم اس جگہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس متبرک خط کافوٹو یعنی عکس درج کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔رسم خط میں کافی تبدیلی ہوجانے کے باوجود اس عکس کے اکثر الفاظ نظرغور کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں اوروہ بعینہٖ وہی الفاظ ہیں جوہم نے اسلامی کتب کے حوالہ سے اوپر درج کئے ہیں۔یہ خط ۱۸۵۸ء میں بعض فرانسیسی سیاحوں کومصر کی ایک خانقاہ میں ملا اوراب اصل خط قسطنطنیہ میں موجود ہے۔اور اس کا فوٹو بھی شائع ہوچکا ہے۔۱؎ اس خط کادریافت کرنے والا مسیوایتین برثلیمی تھا اورغالباًسب سے پہلے اس کا فوٹو مصر کے مشہور جریدہ الہلال بابت نومبر۱۹۰۴ء میں شائع ہوا تھا اورپھرپروفیسر مارگولیتھ نے بھی اپنی کتاب محمداینڈ دی رائز آف اسلام ۲؎ میں اسے شائع کیا۔اسی طرح وہ مصر کی ایک جدید تصنیف تاریخ الاسلام ایساسی مصنفہ الدکتور حسن بن ابراہیم استاذ التاریخ الاسلامی جامعہ مصریہ ۳؎ میںبھی چھپ چکا ہے اوربہت سے غیر مسلم محققین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ وہی اصل خط ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقوقس مصر کولکھا تھا۔
ضمناًاس خط کی دریافت جس کا ایک ایک لفظ اورایک ایک حرف حدیث اورتاریخ اسلامی کی روایت کے عین مطابق ہے اس بات کا بھاری ثبوت مہیا کرتی ہے کہ معتبر جامعین حدیث اور محقق مؤرخین اسلام نے روایات کے جمع کرنے میںکتنی بھاری احتیاط اورکتنی عظیم الشان امانت ودیانت سے کام لیا ہے۔انہوں نے زبانی حافظہ کی بناپر روایوں کے ایک لمبے سلسلہ کے ساتھ اس خط کی عبارت بیان کی اوربتایا کہ فلاں موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان ان الفاظ کی تحریر مقوقس کو لکھی تھی اورپھر تیرہ سوسال کے طویل زمانہ کے بعد اصل خط کے دریافت ہونے پر یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ جوروایت ان مسلمان محدّثین اورمؤرخین نے بیان کی تھی وہ حرف بحرف درست تھی۔اس سے بڑھ کر اسلامی روایات کی صحت اورمحدثین کی دیانت وامانت کاکیا ثبوت ہوگا؟میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب راوی ہرلحاظ سے قابل اعتماد ہیں کیونکہ یقینا ان میںحافظہ یا سمجھ یادیانت کے لحاظ سے بعض کمزورراوی بھی پائے جاتے تھے ،لیکن جواچھے تھے ان کا تاریخ عالم میں جواب نہیں۔
(نوٹ: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط کا عکس اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں۔)

نجاشی کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاتبلیغی خط
کتاب ہذا کے حصہ اوّل۱؎ میں براعظم افریقہ کی عیسائی حکومت حبشہ کاذکر کیا
جاچکا ہے۔اس حکومت کے بادشاہ کاموروثی لقب نجاشی ہوا کرتا تھا۔یہ بات بھی کتاب کے حصہ اول میں گزر چکی ہے کہ جب مکہ میںمسلمانوں کے خلاف قریش کے مظالم نے زور پکڑا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بہت سے صحابہ کو(جن میں بعض عورتیں بھی شامل تھیں)حبشہ بھجوادیا تھا۔اور باوجود قریش کے پیچھا کرنے اورنجاشی کو طرح طرح سے بہکانے کے نجاشی حق وانصاف کے رستہ پر قائم رہا اورمسلمان مہاجر ایک لمبے عرصہ تک اس کی حکومت میں امن وعافیت کے ساتھ رہتے رہے یہ نجاشی جس کا نام اصحمہ تھا شروع سے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بہت مداح تھااورآپؐ کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتا تھااورآپؐکے صحابہ کے ساتھ بھی اس کاسلوک صرف منصفانہ ہی نہیں تھا بلکہ حقیقتاًمربیانہ تھا،لیکن بہرحال وہ ابھی تک عمومی رنگ میںخوش عقیدہ ہونے کے باوجود مسلمان نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد مختلف بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط لکھے تو اس موقع پر ایک خط اپنے صحابی عمروبن امیہ ضمری کے ہاتھ نجاشی کے نام بھی لکھ کر بھجوایا۔اس خط کی عبارت یہ تھی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِلَی النَّجَاشِیِّ مَلِکِ الْحَبْشَۃَ سَلِّمْ اَنْتَ۔اَمَّابَعْدُ فَاِنِّیْ اَحْمَدُ اِلَیْکَ اللّٰہَ الَّذِیْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّھُوَالْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ۔وَاَشْھَدُاَنَّ عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ رُوْحُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ الْبَتُوْلِ…وَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ اِلٰی اللّٰہِ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَالْمَوَالَاۃِ عَلٰی طَاعَتِہٖ وَاِنْ تَتَّبِعُنِیْ وَتُؤْمِنُ بِالَّذِیْ جَائَ نِیْ فَاِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وِاِنِّیْ اَدْعُوْکَ وَجُنُوْدَکَ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَقَدْ بَلَّغْتُ وَنَصَحْتُ فَاقْبِلُوْا نَصِیْحَتِیْ وَقَدْ بَعَثْتُ اِلَیْکَ ابْنَ عَمِّی جَعْفَراً وَمَعَہٗ نَفَرٌمِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ ۲؎
یعنی’’میںاللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جوبن مانگے دینے والا اورباربار رحم کرنے والا ہے۔یہ خط اللہ کے رسول محمدکی طرف سے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام ہے۔ اے بادشاہ!آپ پر خدا کی سلامتی ہو۔اس کے بعد میں آپ کے سامنے اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔وہی زمین وآسمان کاحقیقی بادشاہ ہے جوتمام خوبیوں کاجامع اورتمام نقصوں سے پاک ہے۔وہ مخلوق کوامن دینے والا اوردنیا کی حفاظت کرنے والا ہے اورمیں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم خدا کے کلام کے ذریعہ مبعوث ہوئے اوراس کے حکم سے عالم وجود میں آئے جواس نے مریم بتول پر نازل کیا تھا…اوراے بادشاہ!میں آپ کو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہوںجس کا کوئی شریک نہیں اورمیں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ خدا کی اطاعت میں میرے ساتھ تعاون کریں اورمیری اتباع اختیار کرتے ہوئے اس کلام پرایمان لائیں جومجھ پر نازل ہوا ہے کیونکہ میںخدا کا رسول ہوں اوراسی حیثیت میں آپ کو اورآپ کی رعایا کو خدا کی طرف بلاتا ہوں۔میں نے آ پ کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے اوراخلاص اورہمدردی کے ساتھ آپ کوصداقت کی طرف دعوت دی ہے۔پس میرے اس اخلاص اورہمدردی کوقبول کریں۔میں(اس سے قبل)آپ کی طرف اپنے چچازاد بھائی جعفراوران کے ساتھ بعض دوسرے مسلمانوں کوبھجواچکا ہوں۔اورسلامتی ہوہر اس شخص پر جوخدا کی ہدایت کواختیار کرتاہے۔‘‘
جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ خط نجاشی کوپہنچا تو اس نے اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اورادب کے طریق پراپنے تخت سے نیچے اترآیا اورکہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں۔۱؎ پھر اس نے ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ منگوائی اوراس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط محفوظ کرکے رکھ دیا اورکہا میں یقین کرتا ہوں کہ جب تک یہ خط ہمارے گھرانے میں محفوظ رہے گا،اہل حبشہ اس کی وجہ سے خیرا وربرکت پاتے رہیںگے۔۲؎ تاریخ الخمیس کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ خط آج تک حبشہ کے شاہی خاندان میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد نجاشی نے ذیل کاجواب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں لکھا؛
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔اِلٰی مُحَمَّدٍرَسُوْلِ اللّٰہِ مِنَ النَّجَاشِیْ اَصْحَمَۃِ سَلَامٌ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُ اللّٰہِ الَّذِیْ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَالَّذِیْ ھَدَانِیْ لِلْاِسْلَامِ۔اَمَّابَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِیْ کِتَابُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَمَاذَکَرْتَ مِنْ اَمْرِعِیْسیٰ فَوَرَبِّ السّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ لَایَزِیْدُمَاذَکَرْتَ ثَفْرُوْقًا وَقَدْ عَرَفْنَا مَابَعَثْتَ بِہٖ اِلَیْنَا۔فَاَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَادِقًا مَصْدُوْقًا وَقَدْ بَایَعْتُکَ وَبَایَعْتُ ابْنَ عَمِّکَ وَاَسْلَمْتُ عَلٰی یَدَیْہِ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔‘‘ ۱؎
یعنی’’اللہ کے نام کے ساتھ جورحمن اوررحیم ہے۔یہ خط محمدرسول اللہ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے نام نجاشی اصحمہ کی طرف سے ہے۔یارسول اللہ آپ پر سلامتی ہواوراس خدا کی طرف سے برکتیں نازل ہوں جس کے سواکوئی قابل پرستش نہیں۔اوروہی ہے جس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے اس کے بعد یارسول اللہ آپ کا خط مجھے پہنچا۔خدا کی قسم جوکچھ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا ہے میںانہیں اس سے ذرہ بھر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔اورہم نے آپ کی دعوت حق کو سمجھ لیا ہے اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے سچے رسول ہیں جن کے متعلق پہلے صحیفوں میں بھی خبردی گئی تھی۔پس میں آپ کے چچا زاد بھائی جعفر کے ذریعہ آپ کے ہاتھ پر خدا کی خاطر بیعت کرتا ہوں…اوراللہ تعالیٰ کی سلامتی ہوآپ پراوراس کی رحمتیں اوربرکتیں نازل ہوں۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو خط نجاشی کولکھا اورنجاشی نے اس کا جوجواب دیا ان دونوں میں ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے جواوپر کے کسی اورخط میں نظرنہیں آتی۔یعنی ایک طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط کے الفاظ اس امید سے معمور نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ آپؐ کی تبلیغ سے نجاشی ضرور مسلمان ہوجائے گا اوردوسری طرف نجاشی کاخط اس حقیقت کاحامل ہے کہ گویا اس کی روح پہلے سے صداقت کے قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔بہرحال خداتعالیٰ نے نجاشی کو اسلام کی توفیق عطا کی۔اوریہ وہی نجاشی ہے جو۹ہجری میں فوت ہوااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے یہ فرماتے ہوئے اس کی نماز جنازہ ادا کی کہ تمہارا ایک صالح بھائی نجاشی حبشہ میں فوت ہوگیا ہے۔آئو ہم سب مل کر اس کی روح کے لئے دعا کریں۔ ۲؎
جونجاشی اس نجاشی کی وفات کے بعد حبشہ کے تخت پربیٹھا اس کا نام روایات میں محفوظ نہیں ہے مگر تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے بھی ایک تبلیغی خط لکھا تھا۔مگر بدقسمتی سے اس نے آپؐکی دعوت کوقبول نہیں کیا اورمسیحی مذہب پرہی فوت ہوا۔ ۳؎ غالباًیہی وجہ ہے کہ حبشہ میں اسلام زیادہ پھیل نہیںسکا۔
اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ چونکہ یکے بعد دیگرے دونجاشیوں کوتبلیغی خط لکھے گئے تھے۔یعنی ایک خط تواصحمہ نامی نجاشی کولکھاگیا جس کے پاس ابتدائی صحابہ پناہ لینے کی غرض سے ہجرت کرکے گئے تھے اورجس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط ملنے پراسلام قبول کیا اور اسلام پرہی ۹ہجری میں وفات پائی۔اوردوسرا خط اس کے بعد آنے والے نجاشی کولکھاگیا جس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت کوقبول نہیں کیا۔اورکفر کی حالت میں ہی فوت ہوا۔اس لئے بعض مؤرخین کو اس معاملہ میں غلطی لگ گئی ہے اورانہوں نے دونوں نجاشیوں کوایک ہی سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے علیحدہ علیحدہ زمانوں میں دو علیحدہ نجاشیوں کوخط لکھے تھے۔چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ کی صریح روایت آتی ہے کہ جس نجاشی کوبعد والا خط لکھا گیا وہ اس نجاشی کے علاوہ تھا جس کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی تھی۔ ۱؎ اورزرقانی اورتاریخ خمیس نے بھی اس معاملہ میں مفصل بحث کرکے دونوں کو علیحدہ علیحدہ ثابت کیا ہے۔ ۲؎
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے نجاشی کوتبلیغی خط ارسال کیا جس پر وہ مسلمان ہوگیا تو اسی وقت آپؐ نے اس کے نام ایک دوسرا خط پرائیوٹ مضمون کا بھی لکھا تھا۔اس خط میں آپؐنے نجاشی کودوباتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ایک یہ کہ وہ ابوسفیان کی بیٹی اُمّ حبیبہ کے ساتھ آپ کا غائبانہ نکاح پڑھ دے اوردوسرے یہ کہ حضرت جعفربن ابی طالب ۳؎ اور ان کے ساتھیوں کوجنہیں حبشہ میںگئے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا تھا اپنے انتظام میں عرب واپس بھجوادے۔نجاشی نے ان دونوں باتوں کی تعمیل کی۔یعنی اولاًاس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اُمّ حبیبہ کے نکاح کااعلان کیا اورپھر حضرت جعفر اوران کے ساتھیوں کے لئے کشتی کاانتظام کرکے انہیںعرب میں واپس بھجوادیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خیبر کی فتح سے واپس آرہے تھے اور روایت آتی ہے کہ آپؐحضرت جعفر سے مل کر اتنے خوش ہوئے کہ فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح سے زیادہ خوشی ہوئی ہے یاکہ جعفر اوراس کے ساتھیوں کی آمد سے زیادہ خوشی ہوئی ہے۔مگر افسوس ہے کہ حضرت جعفرکی زندگی نے زیادہ وفا نہیں کی اوروہ اس کے تھوڑا عرصہ بعد ہی غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے۔۳؎
اُمّ حبیبہ جن کی اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شادی ہوئی وہ مکہ کے رئیس اعظم ابوسفیان بن حرب کی بیٹی اورامیرمعاویہ کی بہن تھیں۔وہ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اوران کے خاوند عبیداللہ بن جحش آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے جوحبشہ میں ہی وفات پاگئے۔ان کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مناسب خیال کیا کہ اُمّ حبیبہ کواپنے عقد میں لے لیں۔جس میں غالباًیہ دوہری غرض تھی کہ ایک تو اس طرح شاید ابوسفیان کواسلام کی طرف مائل کیا جاسکے اوردوسرے تااُمّ حبیبہ کی جو آپ کے پھوپھی زاد بھائی کی بیوہ تھیں دلداری ہوجائے۔اُمّ حبیبہ جن کا نام رملہ تھا ۴۴ہجری میں فوت ہوئیں۔نکاح پڑھنے سے پہلے نجاشی نے اُمّ حبیبہ کوپیغام بھیج کر ان کی باقاعدہ اجازت لی اورپھر ان کی طرف سے ان کے ایک قریبی عزیز خالد بن سعیدنے ولی بن کر چار سو دینار پرنکاح منظور کیا۔۱؎ اگراس موقع پر اسلام کے مسئلہ تعداد ازدواج پربحث دیکھنی ہوتوکتاب ھٰذاحصہ دوم صفحہ ۴۸۹ تا ۵۰۴ ملاحظہ کئے جائیں۔
گودوسرے نجاشی نے جو غالباً۹ہجری میں تخت نشین ہوااسلام قبول نہیںکیا،لیکن چونکہ پہلا نجاشی مسلمان ہوگیا تھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک لمبے عرصہ تک حبشہ میں پناہ لے کرامن وعافیت کی زندگی پائی تھی اس لئے مسلمانوں نے اس ملک کے احسان کایہ بدلہ دیا کہ جہاں دنیا کے چاروں کونوں میں ان کی فاتحانہ یلغار نے اسلام کی حکومت کاجھنڈا گاڑا وہاں انہوں نے حبشہ کے خلاف کبھی فوج کشی نہیں کی۔ان کی تلوار شمال میںبھی چلی اورجنوب میں بھی چلی اور پھر مشرق میںبھی چلی اورمغرب میںبھی چلی اورچین اورراس کماری کی حدسے لے کر مراکش اورسپین کے آخری کناروں تک مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے روئے زمین کوہلادیا اورقیصر وکسریٰ جیسے عظیم الشان بادشاہ ان کے سامنے ریت کے تودوں کی طرح گرکرپیوست خاک ہوگئے مگرفتح کے اس عالمگیر سیلاب میں بھی اگرمسلمانوں کی تلوارکسی ملک کے خلاف نہیںاٹھی تووہ یہی حبشہ کی چھوٹی سی ریاست تھی۔اس کے چاروں طرف کا علاقہ مسلمانوں کے ماتحت آچکا تھا مگرجب وہ حبشہ کے قریب پہنچتے تھے توہمیشہ کتراکرادھرادھر سے گزر جاتے رہے اور اس کے خلاف کبھی انگلی تک نہیں اٹھائی۔اس کی تہ میں یہی اعلیٰ اخلاقی جذبہ کام کررہا تھا کہ وہ اپنی انتہائی فتح کے زمانہ میں سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی اس چھوٹے سے احسان کونہیں بھولنا چاہتے تھے جو حبشہ کے نجاشی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چندصحابیوں کوپناہ دے کر ابتدائی مسلمانوں پرکیا تھا۔یہ ایک بہت بھاری اخلاقی نکتہ ہے جس سے دنیا کی قومیں سبق حاصل کرسکتی ہیں۔
رئیس غسّان کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخط
پانچواں تبلیغی خط ریاست غسّان کے فرمانبرواحارث بن ابی شمر کے
نام لکھا گیا۔یہ وہی حارث ہے جس کاذکر قیصر والے خط کے تعلق میں بھی آچکا ہے۔غسان کی ریاست عرب کے ساتھ متصل جانب شمال واقع تھی اوراس کا رئیس قیصر کے ماتحت ہواکرتا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ خط اپنے صحابی شجاع بن وہب کے ہاتھ روانہ فرمایا اورآپؐ نے اپنے اس خط میں حارث کواسلام کی دعوت دی اورساتھ ہی لکھا کہ اگرآپ اسلام قبول کریں گے توآپ کی حکومت کولمبی زندگی حاصل ہوگی۔حارث اس وقت قیصر کی فتح کے جشن کے لئے تیاری کررہا تھا۔حارث سے ملنے سے پہلے شجاع بن وہب اس کے دربان یعنی مہتمم ملاقات سے ملے۔وہ ایک اچھا آدمی تھا اوراس نے شجاع کی زبانی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں سن کر فی الجملہ ان کی تصدیق کی مگر شجاع کوبتایا کہ اسے حارث سے چنداں امیدنہیںرکھنی چاہئے کیونکہ وہ قیصر سے ڈرتا ہے اوراس کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کرے گا۔چند دن کے انتظار کے بعد شجاع بن وہب کورئیس غسان کے دربار میں رسائی حاصل ہوئی اور انہوں نے اس کے سامنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخط پیش کیا۔حارث نے خط پڑھ کرغصہ میں پھینک دیا اورکہنے لگا۔مجھ سے میراملک چھیننے کی کون طاقت رکھتا ہے۔بلکہ میں خود اس مدعی کے خلاف فوج کشی کروں گا اوراگر مجھے یمن تک بھی جانا پڑے تواسے پکڑ کرلائوں گا اور اس نے اپنے سواروںکے دستے کوتیاری کاحکم دے دیا۔اوردوسری طرف قیصرکوخط لکھا کہ مجھے حجاز کے مدعی نے اس قسم کاخط لکھا ہے اورمیں اس کے خلاف فوج کشی کرنے لگا ہوں۔اس خط کاجواب قیصرنے یہ دیاکہ فوج کشی نہ کرواورمجھے آکر دربار کی شرکت کے لئے ایلیا یعنی بیت المقدس میںملو۔ ۱؎ اس کے بعد ایلیا میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفیر دِحیہ کلبی کے ساتھ جوگزری اس کا ذکر قیصر والے خط کے بیان میں کیا جاچکا ہے اوررئیس غسّان والا قصہ یہیں ختم ہوگیااوروہ مسلمان نہیں ہوا۔ ۲؎ البتہ حدیث اورتاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ مدینہ میں ایک عرصہ تک اس بات کا خوف رہا کہ غسانی قبائل مسلمانوں کے خلاف کب حملہ کرتے ہیں۔ ۳؎
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ بعد حارث بن ابی شمر کاجانشین جبلہ بن ایہم جوریاست غسّان کاآخری فرمانروا تھا مسلمان ہوگیا اورحضرت عمرؓکے زمانہ میں مدینہ میں بھی آکر رہا۔مگر جب اس نے ایک غریب مسلمان کوتھپڑ ماردیا اوراس پر حضرت عمرؓنے اسے ڈانٹا کہ حقوق کے معاملہ میں سب مسلمان برابر ہیں تم سے اس کابدلہ لیا جائے گا تووہ زمانہ جاہلیت والے تکبر میں مبتلا ہوکر یہ کہتا ہوا بھاگ گیا کہ کیا میں اورایک عام مسلمان برابرہوسکتے ہیں؟اورپھر اسی ارتداد کی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔ ۱ ؎
رئیس یمامہ کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخط
چھٹا تبلیغی خط یمامہ کے رئیس ہوذہ بن علی کے نام بھجوایاگیا۔اس خط کو
لے جانے والے سلیط بن عمروقرشی تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس خط میں ہوذہ کواسلام کی دعوت دی مگر ہوذہ ایک متکبرمزاج انسان اوردنیا کابندہ تھااس نے بظاہرسلیط بن عمرو کی بڑی آئو بھگت کی مگر جواب میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوکہلا بھیجا کہ میراعربوں میں بڑا مقام ہے (غالباًمراد یہ تھی کہ میرا وجود آپ کے سلسلہ کے لئے بہت مفید ہوسکتاہے)آپ اگرمیرے لئے وصیت کرجائیں کہ کچھ حکومت کاحصہ آپ کے بعد مجھے بھی مل جائے تومیں مسلمان ہوسکتا ہوں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا خط پڑھ کرغصہ سے فرمایا کہ’’(یہ تو خدا کی چیز ہے)اگرہوذہ مجھ سے کھجور کاایک کچا دانہ بھی مانگے تو میں اسے نہیں دوں گا۔‘‘اس کے بعد ہوذہ بن علی فتح مکہ کے بعد کفرکی حالت ہی میں مرگیا۔اورجب آپؐکوہوذہ کی موت کی اطلاع پہنچی توآپؐنے فرمایا کہ یمامہ کے علاقہ میں عنقریب ایک جھوٹانبی پیدا ہوگا جومیری وفات کے بعد قتل کیا جائے گا۔کسی نے پوچھا یارسول اللہ اسے کون قتل کرے گا؟آپؐ نے فرمایا۔تم اورتمہارے ساتھی اورکون؟چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی مسیلمہ کذاب کے ظہورمیں پوری ہوئی جومسلمانوں کے خلاف بعض خونریزلڑائیاں لڑنے کے بعد حضرت ابوبکرؓکے عہدخلافت میں ہلاک ہوا۔ ۲؎
بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یمامہ کی طرف سیلط بن عمرو کو بھجواتے ہوئے ان کے سپرد دوتبلیغی خط کئے تھے۔ایک ہوذہ کے نام اوردوسراثمامہ بن اثال کے نام۔مگریہ درست نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ اسی کتاب میں دوسری جگہ بیان کیا جاچکا ہے۔ثمامہ اس سے پہلے ایک سریہ میں قید ہوکر مدینہ میں مسلمان ہوچکے تھے۔پس اگراس موقع پرثمامہ کوکوئی خط لکھا گیا تو یقیناوہ تبلیغ کاخط نہیں ہوگا بلکہ اس تحریک کے لئے ہوگاکہ وہ آپؐ کے خط کوہوذہ تک پہنچانے اور اسے تبلیغ کرنے میں سلیط بن عمرو کی امداد کرے۔یہی وہ تشریح ہے جو علامہ زرقانی نے اس اختلاف کی کی ہے۔ ۱ ؎
اوپر کے چھ تبلیغی خط آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے معاًبعد بعض روایتوں کے مطابق ایک ہی دن میں اوردوسری روایتوں کے مطابق اوپرتلے لکھ کر بھجوائے تھے۔ ۲؎ ان کے بعد جو خط لکھے گئے وہ کچھ وقفہ کے بعد لکھے گئے تھے اورہم انہیںانشاء اللہ اپنے اپنے موقع پر بیان کریں گے۔
اوپر کے چھ تبلیغی خطوط سے اس بات کے اندازہ کرنے کاموقع ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ صلح ہوتے ہی اپنی پہلی فرصت میں کس درجہ مستعدی اورانہماک کے ساتھ تبلیغ کافرض ادا کیا۔گویاآپؐ نے ایک آن واحد میںعرب کے چاروں اطراف میں اسلام کابیج بکھیردیا۔آپؐکے اس فعل سے آپ کے اُس قول پربھاری روشنی پڑتی ہے جوآپؐ نے ایک جنگی مہم سے واپسی پرفرمایا کہ:
رَجَعْنَا مِنَ الْجَھَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجَھَادِ الْاَکْبَرِ۔ ۳؎
یعنی’’اب ہم تلوار کے چھوٹے جہاد سے تبلیغ وعبادت کے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘
حق یہ ہے کہ آپؐکی زندگی کا ہر لمحہ خدمت دین اور خدمت خلق میں خر چ ہوتا تھا اور حالات کے ماتحت جس جس قسم کے کام کی ضرورت پیش آتی تھی آپؐ کی روح اس کی طرف اس طرح لپکتی تھی جس طرح ایک محبت کے جذبات سے بھری ہوئی ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کے دوبارہ پانے پر اس کی طرف لپکتی ہے۔دنیا آپؐکے لئے ایک سفر کی منزل سے زیادہ نہیں تھی اوراپنے آسمانی آقا کی خدمت اور اس کی عبادت اوراس میں ہو کرمخلوق کی محبت سب کچھ تھی۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
بعض متفرق واقعات جوئے اور شطرنج کی ممانعت
جوتبلیغی خطوط آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے مختلف بادشاہوں کے نام لکھے گئے ان کے لکھے جانے کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔یعنی بعض روایات میںان کی تاریخ ذوالحجہ
۶ہجری بیان ہوئی ہے اوربعض میں محرم ۷ہجری بیان ہوئی ہے مگر بہرحال اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ یہ چھ تبلیغی خط جو اوپر درج کئے گئے ہیں صلح حدیبیہ کے معاًبعد لکھے گئے اس لئے میں نے انہیں ۶ہجری کے واقعات میں درج کردیا ہے،لیکن ظاہر ہے کہ اتنے دوردراز کے سفروں پرایلچیوں کاجانا اورپھرجواب لے کر وہاں سے واپس آنا لازماًکافی وقت چاہتا تھا اس لئے خواہ یہ خطوط ۶ہجری کے آخر میں لکھے گئے ہوں یا۷ہجری کے شروع میں بہرحال ان کے جوابات ۷ہجری میں موصول ہوئے،لیکن سارے متعلقہ حالات کوایک جگہ بیان کرنے کے خیال سے میں نے ان خطوط کو۶ہجری کے واقعات میںدرج کردیا ہے۔
اسی سال میں یعنی ۶ہجری کے دوران میں حضرت عائشہؓ کی والدہ اُمّ رومان کی وفات ہوئی۔ اُمّ رومان جن کانام زینب تھا ۱ ؎ پہلے عبداللہ بن منجرہ کے نکاح میںتھیں اورعبداللہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓکے نکاح میں آئیں اورانہیں کے بطن سے عبدالرحمن بن ابوبکراورحضرت عائشہ ؓپیدا ہوئے۔۲؎ اُمّ رومان ایک بہت نیک مگرسادہ مزاج عورت تھیں،لیکن حضرت ابوبکرخلیفہ اولؓکی بیوی اور حضرت عائشہؓکی ماں ہونے کی وجہ سے انہیں تاریخ اسلام میں جوامتیاز حاصل ہوا ہے وہ کسی بیان کامحتاج نہیں۔جب وہ قبر میں اُتاری جارہی تھیں توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’جس شخص نے جنت کی کوئی حور دیکھنی ہووہ ام رومان کودیکھ لے۔‘‘ ۳؎ یہ ایک بہت سادہ فقرہ ہے مگر اس سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک جنت کی حوروں سے مرادنازواداوالی خوبصورت لڑکیاں نہیں تھیں جوعالم آخرت میں پیداکی جاکر مومنوں کے ساتھ جنت میں رکھی جائیں گی بلکہ اس سے مراد دنیا کی ان پاک عورتوں کی روحیں ہیںجوجنت میںنیک لوگوں کی رفیق بنیں گی اورگوجنت میں ہرروح زندگی کے کمال کی حالت میں جوان بناکر داخل کی جائے گی۔ ۴؎ مگر بہرحال اس سے ظاہر ہے کہ جنت کی جنسی رفاقت روحانی ہوگی نہ کہ جسمانی۔
شراب کی حرمت بھی بعض لوگوںکے نزدیک ۶ہجری میں ہوئی،لیکن جیسا کہ ہم اس کتاب کے حصہ دوم میں بیان کرچکے ہیں ہمارے نزدیک اس کی حرمت میںغزوۂ احد کے بعد ۳ہجری کے آخر یا ۴ہجری کے شروع میں ہوئی تھی۔اوریہی اکثرمسلمان محققین کاخیال ہے۔عقلاًبھی میرے نزدیک شراب جیسی گندی چیز جوکئی دوسری بدیوں کی ماں ہے اس کی حرمت میںہجرت کے بعد زیادہ دیر نہیںلگی ہو گی۔ ۵؎ شراب کی حرمت کے بارے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اتنی تاکید فرماتے تھے کہ فرمایا کرتے تھے کہ جس دستر خوان(یامیز)پرکوئی اورشخص شراب پی رہا ہو تمہیں اس دسترخوان پربھی نہیںبیٹھنا چاہئے۔ ۱؎
اسی سال بعض اقوال کے مطابق جُوابھی حرام کیا گیا۔جوئے سے مراد اتفاق کی کھیل ہے جس میں آمدنی کی بنیاد محنت یاہنر پرمبنی نہیں ہوتی بلکہ محض اتفاقی حالات پرمبنی ہوتی ہے اورچونکہ ایسی آمد میں وقت لگانا کیریکٹر کی تباہی کے علاوہ ملکی دولت کے توازن کوبھی برباد کرنے کا موجب ہوتا ہے اس لئے اسلامی شریعت نے کمال دانش مندی کے ساتھ جُوا بھی حرام قراردیا ہے۔۲؎ بیشک جلد باز انسان آزادی کی رو میںبہہ کر ہرقسم کی پابندی سے گھبراتا ہے لیکن اس میں ذرہ بھربھی شبہ نہیں کہ جو پابندیاں اسلام نے مسلمانوں پرلگائی ہیںوہ سراسران کے فائدہ کے لئے ہیں اورجوئے کی حرمت بھی اسی اصول کے ماتحت آتی ہے۔ ۳؎
اسی سال شطرنج کی کھیل بھی ممنوع قراردی گئی۔۴؎ کیونکہ ایک تو وہ بالعموم جوئے کا بہانہ بن جاتی ہے اوردوسرے اس میں اتنا انہماک پیدا ہوتا ہے کہ انسان زندگی کے مفید شعبوں کی طرف سے غافل ہوجاتا ہے۔اسلام یقینا انسان کو جائز تفریحوں سے نہیں روکتا لیکن وہ اس بات سے ضرور روکتا ہے کہ انسان بالکل ہی شتربے مہار بن کر جوچاہے کرتا پھرے اوراپنی زندگی کے مفید پہلوئوں کوتباہ کر لے۔اورچونکہ شطرنج کی کھیل اپنے اندر یہ دوبھاری نقصان کے پہلو رکھتی ہے یعنی ایک تو حد سے زیادہ انہماک جوشطرنج کے کھلاڑی کو گویادنیا ومافیہا سے غافل کردیتا ہے اوردوسرے جوئے کی طرف میلان کیونکہ شطرنج بھی اکثر جوا لگا کر کھیلا جاتا ہے اس لئے کمال حکمت سے اسلام نے اس کھیل سے روک دیا ہے۔دراصل اسلام کے فلسفۂ شریعت میں صرف یہی بات داخل نہیں کہ جو چیز اپنی موجودہ صورت میںبُری ہے صرف اسی کوروکا جائے بلکہ یہ بات بھی داخل ہے کہ جوچیز خواہ وہ اپنی موجودہ صورت میںبُری نہ ہو،لیکن اگروہ عام حالات میںانسان کوبرائی کی طرف کھینچتی ہے اوراس کی یہ کشش غیرمعمولی غلبہ رکھتی ہے تواسے بھی روک دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شراب وغیرہ کے متعلق اصولی طورپر فرماتے ہیںکہ:
مَااَسْکَرَکَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ۔ ۱؎
یعنی’’جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرتی ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی جائز نہیں۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ مبارک ارشاد ایک نہایت گہرے اورلطیف نفسیاتی فلسفہ پر مبنی ہے کہ دنیا میں بعض بدیاں ایسی ہوتی ہیں کہ اکثرانسان ان میںایک دفعہ قدم رکھ کر پھر آگے بڑھنے سے رک نہیںسکتے۔اورہرپہلاقدم دوسرے قدم کی طرف دھکیلتا ہے مگر افسوس ہے کہ بہت کم لوگ اس فلسفہ کوسمجھتے یااس کی قدر کرتے ہیں۔
(اس جگہ حصہ سوم کی جزو اوّل ختم ہوئی)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
میری تصنیف سیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے دو جلدیں مکمل اور تیسری جلد جزو اً شائع ہو چکی ہیں۔ یہ محض اﷲ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے مجھے اس کتاب کی تصنیف کی توفیق عطا فرمائی اور میری اس کوشش کو قبولیت سے نوازا۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک۔
مَیں نے کچھ عرصہ سے سیرۃ خاتم النّبییّن کی تیسری جلد کے بقیہ حصّہ کے مضامین کی فہرست تیار کر کے مرتب کر رکھی تھی جو اب الفضل میں شائع کرنے کی غرض سے بھجوا رہا ہوں۔ اس اشاعت کی سہ گونہ غرض ہے۔
اوّل یہ کہ تا مجھے اس کتاب کی تکمیل کی یاد دہانی ہوتی رہے۔
دوسرے یہ کہ اگر خدا نخواستہ میں اسے اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکوں تو خدا کا کوئی اور بندہ اسے انہی لائنوں پر مکمل کر دے اور میں بھی اس کے ثواب میں حصّہ دار بن جاؤں۔
اور تیسرے یہ کہ اگر کسی دوست کے خیال میں اس فہرست کی تکمیل کے متعلق کوئی مفید تجویز آئے یعنی ان کی رائے میں اس فہرست میں کوئی عنوان زیادہ ہونے والا ہو یا ترتیب بدلنے والی ہو یا کوئی اور تبدیلی ضروری ہو تو وہ مجھے مطلع فرما کر اس تصنیف کے ثواب میں شریک ہو جائیں۔
بالاخر دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ اس ضروری تصنیف کی تکمیل کے لئے دعا بھی فرمائیں کیونکہ ہر امر حقیقتاً خدا تعالیٰ ہی کے فضل اور اس کی توفیق کے ساتھ معلق ہوتا ہے۔
خاکسارراقم آثم
مرزا بشیر احمد عفی عنہ
ربوہ ۳۱؍جنوری ۱۹۵۵ء
(منقول از روزنامہ الفضل ربوہ۔ شمارہ ۲۰؍فروری ۱۹۵۵ئ)












سیرۃ خاتم النّبییّن کے بقیہ حصّہ کے مجوزہ عناوین
از اوائل سن ۷ ہجری تا وفات
واقعات سن ۷ ہجری
ماہ
واقعہ
کیفیت
ماہ محرم ۷ ہجری
؍؍
؍؍
؍؍

ماہ محرم و صفر(یعنی اگست۶۲۸ئ)
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم پر سحر کا مزعومہ واقعہ اور اس کی حقیقت
سریہ ابان بن سعید بطرف نجد
ابو ہریرہ ؓ کا اسلام لانا (جو روایتوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کے سب سے بڑے راوی ہیں۔)
غزوہ ذی قرد یعنی غائبہ (سلمہ بن اکوع کو رسولِ پاک ؐ کا لطیف ارشاد

غزوۂ خیبر جو عرب کے یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو زہر دے کر قتل کرنے کی ناکام کوشش
کنانہ بن ابی الحقیق کے قتل کا واقعہ اور غیر مسلم مؤرخوں کے اعتراضات کا ردّ
حضرت صفیہ ؓ کی شادی جو اسرائیلی قوم سے تھیں (حضرت صفیہ ؓکی خواب اور اس کی تعبیر۔ اس خواب کا معجزۂ شق القمر سے تعلق)
بعض فقہی مسائل کی تشریح یعنی پالتو گدھےؔ کا کوشت۔ درندوںؔ کا گوشت۔ متعہؔ ۔ استبرائؔ۔ بیعؔ۔ مالِ غنیمتؔ وغیرہ


(عام مؤرخین اسے ۴ ہجری میں بیان کرتے ہیں مگر حدیث سے ۷ ہجری ثابت ہوتا ہے۔)
(امام مالک کے نزدیک یہ غزوہ سنہ ۶ ہجری میں ہوا تھا)
ماہ
واقعہ
کیفیت
ماہ محرم و صفر(یعنی اگست۶۲۸ئ)
؍؍
جمادی ا لآخرۃ
؍؍

؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
شعبان
اہلِ فدک کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مصالحت
(فدک کے متنازعہ مسئلہ کی تشریح)
غیر مسلموں کے ارضِ حجاز میں رہنے کے بارہ میں اسلامی حُکم
(اور ضمناً ارضِ حرم کے متعلق احکام)
غزوۂ وادی القریٰ
نمازِ فجر کا بے وقت ادا ہونا

مہاجرینِ حبشہ کی واپسی (حضرت جعفر بن ابی طالب کی واپسی پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی غیر معمولی خوشی)
حضرت اُمّ حبیبہ بنت ابو سفیان کا رخصتانہ
خسرو پرویز کسریٰ شاہِ ایران کا مارا جانا
غزوہ ذات الرقاع
صلوٰۃ خوف اور مختلف حالات میں اس کے مختلف طریق
اسلام میں سیرت کے پہلو پر زور اور حالات کی رعایت ملحوظ رکھنے کے متعلق اُصولی نوٹ۔ اسلامی شریعت کے ٹھوس اور لچکدار حصّے
حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حرم میں آنا
لونڈیوں کے مسئلہ پر ایک اُصولی نوٹ
سریہ حضرت عمر ؓ بطرف تربتہ
سریہ بشر بن ساعد بطرف بنی مُرۃ


(بعض کے نزدیک یہ فتح مکّہ کے بعد کا واقعہ ہے)
(اس معاملہ میں اختلاف ہے، یہ واقعہ غزوۂ تبوک میں ہوا یا کہ حدیبیہ سے واپسی پر)


(مؤرخین میں اس کی تاریخ کے متعلق اختلاف ہے)
ماہ
واقعہ
کیفیت
رمضان
شوال
؍؍
ذوقعدہ فروری ۶۲۹ء
؍؍
؍؍


؍؍
؍؍
بلا تعین ماہ

ماہ صفر ۸ ہجری
؍؍
سیریہ غالب بن عبداﷲ لیثی بطرف میفعۃ اور حضرت اسامہ ؓ کا واقعہ ۔ دربارہ قتل جہری مسلمان
سریہ بشر بن ساعد بطرف یمن و جبار
سریہ ابن عمر بطرف نجد
عمرۃ القضاء جو صُلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ادا کیا گیا۔
حضرت میمونہ ؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی شادی
(یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری شادی تھی)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں اور ازواجِ مطہرات کے متعلق ایک مجموعی نوٹ

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہلی زندگی پر نوٹ (معاشرہ نان و نفقہ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گزارہ کا ذریعہ وغیرہ)
سریہ ابن ابی العوجأ بطرف بنی سلیم
جبلہ ابن الایھم رئیس غسان کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تبلیغی خط اور اس کا مسلمان ہونا (مگر حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں یہ شخص پھر مُرتد ہو گیا)
واقعات سن ۸ ہجری
خالد ؓ بن ولید اور عمرو ؓ بن عاص کا اسلام لانا (خالد اور عمرو بن عاص کی تاریخِ اسلام میں نمایاں حیثیت)
سریہ غالب بن عبداﷲ بطرف بنی ملوح

(بعض کے نزدیک سریہ ابان بن سعید اور یہ ایک ہی ہیں)

(مزید شادیوں پر پابندی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپکی ازواج کے متعلق یہ پابندی کہ آپؐ کے بعد اَور کسی سے شادی نہ کریں)
ماہ
واقعہ
کیفیت
ماہ صفر ۸ ہجری
؍؍
؍؍

ربیع الاوّل
؍؍
جمادی الاوّل
ستمبر۶۲۹ ء
؍؍
جمادی الآخرۃ
رجب
(نومبر ۶۲۹ئ)
شعبان
رمضان
؍؍
جنوری ۶۳۰ء
سریہ غالب بن عبداﷲ بطرف فدک
مسجد نبوی ؐ میں منبر بنانے کی تجویز اور حنین الجذع کا واقعہ
(فلسفی منکرِ حنّانہ است۔ از حواس انبیاء بیگانہ است)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک شخص کو ایک شخص کے قتل کرنے کے جُرم میں قتل کی سزا دینا(یہ اسلام میں قتل کی پہلی سزا تھی)
اسلامی شریعت میں قانونِ قصاص پر اُصولی نوٹ
سریہ شجاع بن وہب بطرف بنی عامر
سریہ کعب بن عمر بطرف ذات الملاح
عرب کی شمالی سرحد میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور بیرونی ممالک کے خطرات کا آغاز
غزوہ موتہ۔ (زید بن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداﷲ بن رواحہ کی شہادت)
سریہ عمرو بن عاص بطرف ذات سلاسل اور سریہ ابو عبیدۃ کمک کی صورت میں
سریہ ابو عبیدۃ بطرف السیف البحر (اس سریہ میں راشن بندی کی ضرورت پیش آئی اور خوراک کے متفرق ذخائر کو ایک جگہ جمع کر دیاگیا)
سریہ ابو قتادۃ بطرف خضرۃ
سریہ ابو قتادہ بطرف بطن اصنم
سریہ عبداﷲ بن ابی حدرد بطرف غابہ
غزوۂ فتح مکّہ
حرم کی حدود میں اسلام کا پُر امن اور شاندار داخلہ۔ عام معافی۔ بعض خاص مجرمین (جن پر قتل و غارت کا الزام تھا) کے قتل کا حُکم۔ بیت اﷲ









بعض مؤرخین کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی ہیں۔
ماہ
واقعہ
کیفیت

جنوری ۶۳۰ء
؍؍
؍؍
شوال
؍؍
؍؍
فروری ۶۳۰ء
؍؍

؍؍
؍؍
؍؍
ذوالحجہ
(اپریل ۶۳۰ئ)
بلا تعین ماہ
؍؍
کے بتوں کا توڑا جانا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے والد ابو قحافہ ، ابو سفیان، حکیم بن حزام، صفوان بن اُمیّہ، عکرمہ بن ابو جہل ویرہ کا مسلمان ہونا۔
اس بات پر نوٹ کہ فتح مکّہ کے بعد بھی مکّہ کے کئی لوگ کُفر پر قائم رہے۔
مکّہ سے بعث خالد بطرف عزّا۔ عمرو بن عاص بطرف سواع۔
سعد بن زید بطرف مناۃ۔ سریہ خالد بطرف جذیمہ
اسلام کا ایک روحانی مذہب ہونا اور رُوحانیت پر ایک اُصولی نوٹ
غزوۂ حنین (حنین کے واقعہ میں مسلمانوں کے لئے ایک بڑا سبق تھا)
سریہ ابو عامر اشعری بطرف اوطاس
سریہ طفیل بن عامر بطرف ذوالکفین
غزوۂ طائف
جعفرانہ کے مقام میں غنائم کی تقسیم۔ بعض انصار کی طرف سے اعتراض اور اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب۔ ایک لطیف روحانی منظر۔ اپنے رضاعی عزیزوں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتہائی مربیانہ سلوک وغیرہ
رئیس بحرین کی طرف تبلیغی خط اور اس کا جواب
اسلام میں بیکار لوگوں کے گزارہ کا استثنائی انتظام
جزیہ پر ایک اُصولی نوٹ
ابراہیم ؓ ابنِ رسول اﷲ ؐ کی ولادت
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے مختلف اطراف سے وفود کی ابتداء
حضرت زینب بنت رسول اﷲ ؐ کی وفات
زکوٰۃ کا فرض ہونا
ماہ
واقعہ
کیفیت
بلا تعین ماہ
؍؍
محرم
محرم یا صفر
؍؍
؍؍
ربیع الاوّل
؍؍
ربیع الآخر
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍

رجب
ستمبر۶۳۰ء
؍؍
؍؍
نظام زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت
واقعات سن ۹ ہجری
قصّہ عام الوفود یعنی سال بھر وفدوں کا مدینہ میں آتے رہنا اور اسلام کی اشاعت میں غیر معمولی توسیع
بعث عینیہ بن حصن بطرف بنی تمیم
بعث ولید بن عقبہ بن ابی معیط بطرف بنی مصطلق
سریہ ابن عویجہ بطرف بنی عمرو
بعث قطبہ بن عامر بطرف خثعم
بعث ضحاک بطرف بنی کلاب
بعث علقمہ بن محزر بطرف حبشہ
بعث حضرت علی ؓ بطرف فلس
بعث عکاشہ بن محصن بطرف الحباب
کعب بن زہیر شاعر کا مسلمان ہونا
مشہور قصیدہ بردہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی ازواج سے ایک ماہ ہجرکرنا

غزوۂ تبوک جسے غزوہ عُسرہ بھی کہتے ہیں۔
(غزوہ موتہ کے بعد روم اور ایران کے ساتھ جنگ کا یہ پہلا قدم تھا)
سریہ خالد بطرف اکیدر از مقام تبوک
وفات عبداﷲ ذی البجادین تبوک میں




(حاکم کے نزدیک یہ ماہ صفر میں ہوا)

(ماہ ربیع الثانی اور بعض کے نزدیک سن ۸ ہجری)
(ابن حبان کے نزدیک یہ واقعہ سن ۸ ہجری میں ہوا اور ابن حجر نے بھی یہی کہا ہے)
ماہ
واقعہ
کیفیت
ستمبر ۶۳۰ ء
رمضان
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
بلا تعین ماہ
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
ذوقعدہ
؍؍
؍؍
ہرقل کے نام خط از تبوک
منافقین کا فتنہ اور مسجد ضرار کا گرایا جانا اور منافقین کی پردہ دری
قصّہ سزا ومعافی کعب بن مالک وغیرہ
قصّہ لعان اور واقعہ عویمر (مسئلہ لعان کے متعلق اسلامی حُکم)
قبیلہ بنو ثقیف کا مسلمان ہونا
لات کے بُت کا منہدم کیا جانا
ملوکِ حمیر کے نام حط
غامدیہ عورت کا رجم
رجم کی سزا پر ایک اُصولی نوٹ۔ (کیا رجم کی سزا حقیقۃً اسلامی سزا ہے)
نجاشی بادشاۂ حبشہ کی وفات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نجاشی کاغائبانہ جنازہ پڑھنا
اس بات پر نوٹ کہ یہ کون سا نجاشی تھا
مسئلہ جنازہ کے متعلق اُصولی نوٹ
وفات اُمّ کلثوم ؓ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
زکوٰۃ کی وصولی کے لئے عمال کا تقرر
عبداﷲ بن اُبیّ رئیس المنافقین کی موت
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس کا جنازہ پڑھنا اور حضرت عمر ؓ کا اعتراض
حج کا فرض ہونا
(یہ قیصر کے نام دوسرا خط تھا)



(اس واقعہ کی تاریخ قابلِ تحقیق ہے)



(علامہ ابن قیم کے نزدیک ان کی وفات شعبان میں ہوئی تھی)

(زرقانی جلد ۲ صفحہ ۱۴۳ و
زاد المعاد جلد ۱ صفحہ ۱۸۰)
ماہ
واقعہ
کیفیت
ذوقعدہ
ذوقعدہ و مارچ ۶۳۱ء
بلا تعین ماہ
؍؍
؍؍





محرم
ربیع الاوّل
؍؍
؍؍
حج پر اُصولی نوٹ
حضرت ابو بکر ؓ کی اقتداء میں مسلمانوں کا پہلا حج
اسلام میں قمری اور شمسی نظام (یعنی سہولت عامہ کے لحاظ سے کسی امر میں قمری نظام اور کسی میں شمسی)
اہلِ فارس کا کسریٰ شہر یار کو قتل کر کے اس کی لڑکی بوران کو تخت پر بٹھانا
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر نوٹ کہ عورت کو بادشاہ بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہو گی۔




واقعات سن ۱۰ ہجری
عدی بن حاتم طائی کا مسلمان ہونا
بعث ابو موسیٰ اشعری بطرف یمن
بعث معاذ بن حبل بطرف یمن
بعث خالد بن ولید۔ بطرف نجران
(علامہ زرقانی نے سفر کی ابتداء بھی ذوالحجہ میں لکھی ہے)


(آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد انفرادی حکومت کے زمانہ کا ہے اس لئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ یورپ کے بعض ممالک نے عورت کے حاکموں کے زمانہ میں خاص ترقی کی ہے کیونکہ یورپ میں اصل حکومت قوم کی ہوتی ہے اور ملکہ برائے نام ہوا کرتی ہے۔ گو پھر بھی بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں)
(یا شعبان سن ۹ ہجری)
(یا ربیع الآخر)
؍؍
ماہ
واقعہ
کیفیت
ربیع الاوّل
(جون ۶۳۱ ئ)
بلا تعین ماہ
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
رمضان
بلا تعین ماہ
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
ذوالقعدہ و ذوالحجہ
(مارچ ۶۳۲ ئ)
؍؍
؍؍

؍؍
بلا تعین ماہ
وفات ابراہیم ابن رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اور کسوف شمس
(آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میرا بچہ زندہ رہتا تو نبی بنتا)
بعث جریر بن عبداﷲ بطرف ذو الکلاع
بعث ابو عبیدہ بطرف نجران
قصّہ بدیل و تمیم الداری و ابنِ صیاد
دجّال کے متعلق اُصولی نوٹ
جبرائیل کا تمثیلی صورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو کر مسائل دریافت کرنا
بعث حضرت علی ؓ بطرف یمن
سود کی ممانعت
اشتراکیت یعنی کمیونزم پر ایک اُصولی نوٹ
ابو عامرراہب کی موت
وفات باذان والی ٔ یمن
نززل احکام بابت استئیذان
(حجۃ الوداع جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب کے خیال سے مسلمانوں کو الوداع کہا۔
آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کا نزول
اسلام کی تعلیم کا خلاصہ (سابقہ مذاہب کے متعلق اسلام کا مسلک۔ پنج ارکانِ اسلام۔ مسئلہ ختم نبوت۔ اسلام کی عالمگیر شریعت۔ شریعت کے ٹھوس اور لچکدار حصّے وغیرہ۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جَوَامِعُ الْکَلِم عطا کئے گئے۔
ماہ
واقعہ
کیفیت
بلا تعین ماہ
محرم

صفر
(مئی ۶۳۲ئ)
صفر یا ربیع الاوّل
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍

ربیع الاوّل
؍؍
آپ ؐ کے خاص خاص امتیازی کلمات
واقعات سن ۱۱ ہجری
وفد نخع از یمن (یہ آحری وفد تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا)
مدفونین جنت البقیع کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری دُعا (نیز اُحد میں جاکر شہدائِ اُحد کے لئے دُعا)
سریہ اسامہ بن زید (یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا آحری سریہ ہے گو اس کی روانگی بھی آپ ؐ کی وفات کے بعد ہوئی۔
اسود عنسی کذّاب کا ظہور
مسیلمہ کذاب کا ظہور (سجاح متنبیہ کا واقعہ)
طلیحہ بن خویلد کا ظہور
الٰہی سلسلوں میں ارتداد پر ایک اُصولی نوٹ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرض الموت کا آغاز (مرض کیاتھی۔ کتنے دن رہی۔ کیا علاج کیا گیا وغیرہ وغیرہ)
قرطاس کے واقعہ کی تشریح
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت ابو بکر ؓ کو اپنی جگہ امام الصلوٰۃ مقرر کرنا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ ؓ سے فرمانا کہ مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق خلافت کی وصیت لکھ دوں مکر پھر اُسے خدا اور مومنوں پر چھوڑ دیا۔
افاقہ قبل وفات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مسجد میں تشریف لے جاکر صحابہ ؓ سے باتیں کرنا
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری کلام
ماہ
واقعہ
کیفیت
ربیع الاوّل
(جون ۶۳۲ ئ)
؍؍

؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
؍؍
وصالِ اکبر
مسجدِ نبوی ؐ میں صحابہ ؓ کا غم و اندوہ۔ حضرت عمر ؓ کا پیج وتاب کھانا۔ حضرت ابوبکرؓ کا خُطبہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔ نیز اَلَا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ۔
اسلام کا سب سے پہلا بلکہ واحد اجماع
سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور حضرت ابو بکر ؓ خلیفۂ اوّل کی ابتدائی بیعت
مسجد نبوی ؐ میں حضرت ابو بکر ؓ کی عام بیعت
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا غُسل۔ تکفین۔ جنازہ۔ قبر اور تدفین وغیرہ
کیا آنحضرت ؐ کا جنازہ اکٹھا باجماعت پڑھا گیا۔ اگر نہیں تو کیوں؟
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر بحساب نظام قمری و شمسی۔
آنحضرت کا ورثہ (تشریح حدیث مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ)
شمائلِ نبوی ؐ کی ایک اجمالی جھلک
محمدؐ مفلح یعنی سب نبیوں میں سے زیادہ کامیاب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کتا ب کا خاتمہ

سیرۃ خاتم النّبیّٖن صلی اﷲ علیہ وسلم حصّہ دوم کے متعلق بعض آراء
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح امام جماعت احمدیہ کی رائے
اس سال ایک کتاب سلسلہ کی طرف سے بیش قیمت شائع
ہوئی ہے جس کا نام سیرۃ خاتم النّبیّٖن صلی اﷲ علیہ وسلم حصّہ دوم ہے جو میاں بشیر احمد صاحب کی تصنیف ہے۔ مَیں نے اس کا بہت سا حصّہ دیکھا ہے اور اس کے متعلق مشورے بھی دیئے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جتنی سیرتیں شائع ہو چکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے۔ اس تصنیف میں اُن علوم کا بھی پر تَو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے۔ اس کے ذریعہ انشاء اﷲ اسلام کی تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہو جائے گی۔
نواب سر سکندر حیات خان سابق ممبر مال گورنمنٹ پنجاب کی رائے
’’سیرۃ خاتم النّبیّٖن کی تکمیل غیر مذاہب تک سرورِ کائنات ؐ
کے صحیح معاشرتی و انتظامی حالات واضح کرنے کے لئے نہایت مفید ثابت ہو گی۔ انشاء اﷲ۔ بالخصوص ان بے بنیادالزامات جن کے متعلق اکثر غیر مسلم بوجہ ناواقفیت یا تعصب بیجا نکتہ چینی کرنے کے عادی ہیں اُن کے متعلق نہایت خوبی اور وضاحت سے تاریخی واقعات کا حوالہ دے کر مسکت جواب دیا گیا ہے۔ اگر اس کتاب کا ترجمہ انگریزی اور یورپ کی دیگر زبانوں میں ہو جائے تو میرے خیال میں اسلام کی ایک بڑی بھاری خدمت ہو گی۔‘‘
سیٹھ عبداﷲ ہارون ایم۔ ایل۔ اے تاجر کراچی کی رائے
’’میری رائے میں اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی
سیرۃکی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں اُن میں سے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ اُمید ہے کہ یہ کتاب مسلمانانِ ہند کے لئے نہایت مفید ثابت ہو گی‘‘۔
ڈاکٹر شیخ محمد اقبال بار ایٹ لاء لاہور کی رائے
’’اس تصنیف میں بعض اہم مباحث پر عمدہ بحث کی گئی ہے‘‘۔
جناب مولوی الف دین ایڈووکیٹ ضلع سیالکوٹ کی رائے
’’عہدِ حاضر میں سیرۃ پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور حق یہ ہے کہ
’’ہر گلے را رنگ و بُوئے دیگر است‘‘ مگر اس کتاب کی نسبت جو نہایت محنت اور جانفشانی سے لکھی گئی ہے اگر یہ کہاجائے کہ ’’گلِ سرسبد ہے‘‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ خدائے بلند و برتر نوجوان میرزاؔ کی ہمت میں برکت دے کہ انہوں نے اِس مبارک تالیف سے اسلامؔ اور اسلامیوںؔ کی ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے‘‘۔
نواب اکبر یار جنگ بہادر جج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن کی رائے
’’میری نظر میں سیرت کی اُردو تالیف میں بے مثل کتاب ہے۔
جنگؔ، غلامیؔ، تعددازدواج پر اس قدر دل نشین اور سیرکُن بحث کی گئی ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے۔ ایک زمانہ میںاِن مضامین پر مَیں نے کافی غور کیا ہے اور جو کچھ اس کے متعلق مل سکتا تھا سب پڑھ ڈالا ہے۔ مَیں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے اِن مضامین کا حق ادا کر دیا ہے‘‘۔
مولانا سیّد سلیمان ندوی کی رائے
’’سیرۃ خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کی جلد دوم موصول ہوئی۔ شکریہ۔ مباحث ضروریہ پڑھے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو آپ کی
اس خدمت کی جزائے خیر دے اور مزید سعادت عطا فرمائے۔ اختلاف و اتفاق کی بحث الگ ہے مگر اس میں شک نہیں کہ آپ نے اپنی اِس تصنیف میں محنت اُٹھائی ہے‘‘۔
ایڈیٹر رسالہ ’’المعارف‘‘ اعظم گڈھ (یو۔پی) کا ریویو
’’سیرۃ خاتم النّبیّٖن قادیان کی جماعتِ احمدیہ کی جانب سے
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ میں شائع ہوئی ہے۔ اِس کا حصّہ دوم زیرِ نظر ہے جس میں آپ ؐ کی مدنی زندگی سن ۵ ہجری تک پیش کی گئی ہے۔ کتاب کا نمایاں وصف مستشرقین اور غیر مسلم مؤرخین کے اعتراضات کا ردّ ہے … اس میں شُبہ نہیں کہ کتاب محنت اور کوشش سے لکھی گئی ہے‘‘۔
ایڈیٹر اخبار ’’سچ ‘‘ لکھنؤ کا ریویو
’’سیرۃ خاتم النبییّن ؐحصّہ دوم بہت مفصّل و مشرّح ہے اور اس میں علاوہ واقعاتِ تاریخی کے مسائل کا حصّہ بھی کثرت سے
آگیا ہے۔ قانونِ ازدواج و طلاقؔ ، غلامیؔ، تعددِ ازدواجؔ، جہادؔ وغیرہ کے مباحث خصوصاً مفصّل ہیں اور انگریزی خوان نوجوانوں کے حق میں مفید۔ معجزات پر بھی شافی بحث ہے … اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان مسائل پر بحث کرتے وقت مصنف کا قلب تحقیقاتِ فرنگ سے مرعوب و دہشت زدہ نہیں معلوم ہوتا جیسا کہ اکثر متکلمین حال کا حال ہے … سرورِ کائنات ؐ کی ذات پُر جمال تو وہ ہے جس نے خدا معلوم کتنے بیگانوں تک کے دلوں کو موہ لیا ہے۔ اہلِ قادیان تو بہرحال کلمہ گو ہیں اُن کے کسی مصوّر کے قلم نے اگر اس حسین و جمیل کی ایسی دلکش تصویر تیار کر دی ہے تو اس پر حیرت بے محل ہے‘‘۔

سیرتِ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم

حصّہ اوّل

اشاریہ
اسمائ ۳
مقامات ۲۴
غزوات ۳۰
کتابیات ۳۲
ا
آدم علیہ السلام ۲۲۰،۲۲۴،۲۲۵،۲۲۷،۲۲۸
آدمی ۶۹۱
آریہ/آریہ ورت ۴۶۴،۷۹۹،۸۰۰
آسیہ اہلیہ فرعون ۴۸۸
آمنہ بنت وھب ۱۰۳،۱۰۴،۱۰۵،۱۰۶،۱۰۹،۱۱۰
ابراہام لنکن ۴۵۴،۴۵۸
ابراہیم علیہ السلام ۵۵،۶۹،۷۳،۷۴،۷۵،۷۶،۷۷،
۸۰تا۸۷،۸۹،۱۲۳،۱۵۰،۲۲۱،۲۲۳،۲۲۵تا۲۲۸،۲۷۹
ابراہیم ابن محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۲۱،۹۱۹
ابرہتہ الاشرم ۱۰۱تا ۱۰۳
ابلیس ۲۰۷،۲۳۰
ابن ابی حاتم ۳۳
ابن ابی شیبہ ۳۳
ابن ابی طی ۴۵
ابن اثیر الجزری ۳۰،۴۴
ابن اسحاق۔ محمد ۲۷،۳۶،۳۷،۲۱۵،۲۳۲،۳۰۰،
۳۷۲،۵۰۷،۵۳۷،۵۸۷،۸۰۴،
۸۰۸،۸۱۰،۸۱۱،۸۱۷،۹۰۶
ابن جریر طبری ۳۴،۳۷،۱۷۱
ابن الجوزی ۴۵
ابن خلکان ۲۴۹،۴۲،۴۵
ابن حجر عسقلانی ۳۰
ابن حضرمی رئیس مکّہ ۱۸۴
ابن حجر حافظ ۱۷۱
ابن درید ۵۰۶
ابن راہویہ اسحاق بن ابراہیم ۴۱
ابن سعد محمد ۳۷،۳۹،۴۳،۲۱۴،۲۳۲،
۳۷۲،۴۸۰،۴۸۲،۴۸۳،۵۰۶،۵۰۷،۵۰۹،
۵۲۱،۵۳۸،۵۸۳،۵۸۷،۶۱۹،۶۲۰،۶۲۱،۶۸۳،
۷۴۵،۷۶۴،۷۷۰،۷۷۱،۸۰۸،۸۰۹،۸۱۰،
۸۱۱،۸۱۲،۸۱۷،۸۳۵
ابن صلاح صاحب المقدمہ ۲۸
ابن عباس ۷،۱۶،۱۷،۱۹،۷۵،۱۳۵،
۴۳۸،۴۴۴،۴۴۸،۴۶۲،۴۷۱
ابن عبدالبر ۴۵
ابن عبدیا لیل ۲۰۴
ابن عربی محی الدین ۱۷۰،۱۷۱
ابن العرقہ ۶۶۳
ابن عدی ابو احمد عبداﷲ بن محمد ۲۹،۴۰
ابن عساکر ۳۳
ابن عقبہ ۵۰۷
ابن عمر رضی اﷲ عنہ ۳۳۰،۴۴۳،۴۴۸،۴۶۲،۴۷۱،۸۰۴
ابن قتیبہ ۵
ابن قیم ۷۷۰
ابن کثیر اسماعیل بن عماد الدین ۳۴
ابن ماجہ محمد بن یزید ۳۱
ابن المدینی علی بن عبداﷲ بن جعفر ۴۱
ابن مردویہ ۳۳
ابن مسعود ۵۰۲
ابن ندیم ۴۵
ابن ہشام ۳۹،۲۱۴،۴۸۳،۴۸۴،۵۰۵،۵۲۱،
۵۳۷،۵۳۸،۶۱۴،۶۱۵،۸۱۱،۸۱۲،۸۱۷،۸۳۵
ابی بن خلف ۱۵۳،۵۶۰
ابی بن کعب ۷،۳۱۰،۳۳۹،۵۲۵،
۵۴۴،۵۶۴،۵۹۸
ابو احمد بن حجش ۵۶۴
ابو اسحاق ۱۷
ابو امامہ اسعد بن زرارہ ۲۴۷،۲۴۹
ابو امیہ بن مغیرہ ۱۲۳
ابو ایوب انصاری ۱۸،۲۹۹،۳۱۰
ابو البختری ۱۵۲،۱۸۰،۱۸۸،۴۰۳
ابو براء عامری ۵۸۲،۵۸۳،۵۸۴،۵۸۶
ابو بردہ ۴۳۴،۴۳۵،۴۴۰
ابو بصیر دیکھئے عقبہ بن اسید ثقفی ۸۷۰
ابو بکر صدیق عبداﷲ بن ابی قحافہ ۷،۹۶،۱۲۹،
۱۳۸،۱۴۰،۱۴۱،۱۴۲،۱۵۸،۱۵۹،۱۶۳،۱۷۴،
۱۷۵،۱۹۱،۱۹۷،۲۴۱،۲۴۲،۲۵۲،۲۵۵،۲۵۶،
۲۶۱،۲۶۲،۲۶۵،۲۶۶،۲۶۷،۲۶۹،۴۷۹،
۴۸۷،۵۰۴،۷۱۶،۷۱۷،۸۰۸
ابو جبل رضی اﷲ عنہ ۴۰۶
ابو حجیفہ رضی اﷲعنہ ۲۴
ابو جعفر محمد بن جریر طبری ۵
ابو جندل رضی اﷲ عنہ ۸۵۹،۸۶۱،۸۶۲،۸۷۲،۸۷۳
ابو جہل عمرو بن ہشام ۱۳۰،۱۳۱،۱۵۳،۱۵۵،۱۵۹،
۱۷۶،۱۸۲،۱۸۳،۱۸۸،۱۸۹،۱۹۳،۲۰۶،
۲۴۲،۲۴۳،۴۰۳،۴۱۰،۴۲۱
ابو حاتم محمد بن ادریس ۱۸۲،۱۸۳،۱۸۸،۱۸۹،۱۹۳،
۲۰۶،۲۴۲،۲۴۳،۴۰۳،۴۱۰،۴۱۲
ابن حبان ۳۳
ابن حجر ۱۷۱،۶۲۱،۶۳۰،۶۸۳
ابو حذیفہ بن عتبہ ۱۴۱،۱۶۵،۴۵۷
ابو الحکم (ابو جہل) سیّد الوادی دیکھئے ابو جہل
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ۳۲
ابو داؤد ۴۴۶،۵۳۷،۸۱۱
ابو داؤد سجستانی ۲۴،۴۱
ابو داؤد سلیمان بن اشعث ۳۱
ابو دجانہ ۵۵۱،۵۵۲
ابو الدرداء ۳۱۰
ابن الدغنہ ۱۷۴،۱۷۵
ابو ذر غفاری ۱۵۸،۲۱۰،۲۷۹،۶۲۸
ابو رافع سلام بن ابی الحقیق ۵۲۷،۵۹۳،۶۴۶،
۸۱۲،۸۳۰
ابو رافع دیکھئے سلام بن ابی الحقیق
ابو الربیع ۵۰۷
ابو زبید ۷۳۹
ابو زید ۷۷۰
ابو سعید خدری ۵۴۸
ابو سفیان بن حرب ۱۰۰،۱۱۸،۱۳۰،۱۴۱،۱۴۲،
۱۵۵،۱۸۰،۳۱۶،۳۵۴،۳۸۴،۳۹۱،۳۹۵،۳۹۶،
۳۹۷،۳۹۸،۴۰۳،۴۱۹،۴۲۰،۴۲۱،۴۲۲،۴۴۹،
۵۱۱،۵۱۲،۵۱۳،۵۲۶،۵۴۳،۵۴۵،۵۵۱،۵۶۱،
۵۶۲،۵۶۳،۵۶۸،۵۸۱،۵۹۴،۵۹۵،۶۱۰،۶۴۷،
۶۵۸،۶۵۹،۶۶۹،۶۷۰،۶۷۱،۷۵۲،۸۳۳،۸۳۴،
۸۳۵،۸۴۳،۸۷۴،۸۷۵،۹۰۲،۹۰۳،۹۰۴،
۹۰۵،۹۰۶،۹۱۰،۹۲۶،۹۲۷
ابو سلمہ بن عبدالاسد ۱۴۰،۱۶۵
ابو سلمہ زہری ابن عبدالرحمن بن عوف ۱۳۹،۱۶۴،
۱۶۵،۲۱۸،۳۱۰،۳۳۵،۴۱۰،۴۱۲،۴۱۳،۴۵۰،
۵۶۵،۵۵۶،۷۱۸،۸۰۴ تا ۸۰۶،۸۶۴
ابو صفوان امیہ بن خلف ۳۱۵،۳۱۶،۴۲۵
ابو صیفی بن ہاشم ۹۸
ابو طالب بن عبدالمطلب ۱۱۲،۱۱۳،۱۱۶،۱۱۹،۱۲۰،۱۲۱،
۱۲۵،۱۲۶،۱۴۴،۱۴۶،۱۵۴،۱۵۵،۱۵۶،
۱۵۷،۱۸۸،۱۹۲،۱۹۳،۱۹۴
ابو طلحہ انصاری ۵۵۸،۵۷۴
ابو العاص بن ربیع ۱۲۲،۱۹۵،۴۱۵،۴۱۸،
۷۵۷،۷۵۸،۷۶۰،۷۶۱،۷۶۲
ابو عامر ۳۰۸،۵۵۰
ابو عبدالرحمن یزید بن ثعلبہ ۲۴۹
ابو عبیدہ بن الجراح ۱۴۰،۳۱۰،۵۶۰،۷۵۵،۷۵۶
ابو عزہ ۵۶۹
ابو عزیز بن عمیر بن ہاشم ۴۱۴
ابو عفک ۵۰۴تا۵۰۷،۵۰۹،۵۱۰
ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن اصلاح
۲۸
ابو الفدائ ۴۵
ابو فکیہ رضی اﷲ عنہ ۱۵۸
ابو قبس بن فاکہہ ۱۵۴
ابو لبابہ بن منذر انصاری ۴۰۱،۶۷۶،۶۷۸
ابو لہب بن عبدالمطلب ۱۰۶،۱۱۲،۱۲۲،۱۴۵،
۱۴۶،۱۵۳،۱۵۷،۱۶۰،۱۸۷
ابو مسعود بدری ۴۳۷
ابو موسیٰ اشعری ۱۴۹،۲۱۰،۲۷۹
ابو نائلہ ۵۳۰
ابو نوار ۴۳۶
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ۱۶،۱۷،۲۲ تا ۲۴،۴۴۳
ابو الہیثم مالک بن تیہان ۲۴۹،۲۵۴،۲۵۵
ابو الیسر رضی اﷲعنہ ۴۳۵
ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم ۳۸
ابو یعلی ۳۳
احمد بن حجر عسقلانی ابو الفضل ۲۹
احمد بن حسین بیہقی ۳۳
احمد بن حنبل ؒ ۲۶،۲۷،۴۰
احمد بن شعیب النسائی ۳۱
احمد بن عبداﷲ العجلی ۲۹
احمد بن علی بن محمد بن علی بن حجر العسقلانی ۳۰
احمد بن محمد بن ابراہیم قاضی المعروف بابن خلکان ۴۲،۴۵
احمد بن یحیٰ بن جابر ابو جعفر ۳۸
ادریس ؑ ۲۲۱،۲۲۷،۲۲۸
الذہبی علامہ ۴۲
اراشہ ۱۸۲،۱۸۳
ارقم بن ابی ارقم ۱۴۱،۱۴۶
ازدؔ
الزرقانی محمد بن عبدالباقی بن یوسف ۴۴
اساف ۶۸
اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ ۳۲۷،۳۶۱،۴۵۱،
۴۵۲،۵۴۸،۷۷۹
اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راہویہ ۴۱
اسد بن ہاشم ۹۸
اسرائیل ۲۴۸،۴۲۴
اسعد بن زرارہ ابو امامہ ۲۴۷،۲۴۹،۲۵۰،
۲۵۱،۲۵۵،۳۰۱
اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام ۵۵،۷۳،۷۴،۷۵،۷۶،
۷۷،۷۸،۷۹،۸۰،۸۱،۸۲،۸۳،۸۵،۸۶،
۸۷،۸۸،۸۹،۹۲،۳۷۸،۵۱۴،۹۱۹
اسماعیل بن عمر ابن کثیر عماد الدین ۳۴
اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲعنہ ۱۴۲،۴۴۲
اسود بن مطلب ۱۵۴،۱۸۰
اسود بن عبد یغوث ۴۲۰
اسود بن یزید ۱۷
اسید بن حضیررئیس اوس ۴۰۰،۵۴۷،۶۳۱،۶۳۲،۶۳۷
اسیر بن رزام ۸۳۰،۸۳۱،۸۳۲
اشجع ۶۴۷،۶۶۷
اشرف ۵۲۷
اشعر ۲۱۰،۷۹۸
اصبغ بن عمر کلبی ۸۰۶
اصحاب الفیل ۱۰۱،۱۰۳،۱۰۵
اصحمہ ۱۶۵
اصحمہ نجاشی ۱۶۵،۹۲۳،۹۲۵،۹۲۶
ام ایمن ۱۰۴،۱۱۰،۱۱۱،۱۱۲،۱۲۵
ام حبیبہ ام المؤمنین (رملہ) ۹۲۶،۹۲۷
ام رومان (زینب) زوجہ حضرت ابو بکرؓ ۱۹۷،۹۳۱
ام سلمہ ام المؤمنین ۱۴۰،۱۵۲،۵۰۱،
۵۹۶،۵۹۷،۸۴۳،۸۶۵
ام سلیط ۵۵۵
ام سلیم والدہ انس بن مالک ۳۰۰
ام عبداﷲ دیکھئے عائشہ ام المؤمنین
ام عمارہ ۵۵۹
ام فضل زوجہ عباس بن عبدالمطلب
ام قرفہ ۸۰۸،۸۱۰،۸۱۱
ام کلثوم بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۲۱،۱۲۲،
۵۲۴،۵۳۸،۵۳۹
ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۵۳۷،۸۶۸
ام مسطح ۶۳۵
ام ہانی رضی اﷲ عنہا ۶۰۷
امام مسلم ۲۴،۸۱۱
امامہ بنت زینب و ابی العاص ۷۶۲
امرء القیس ۴،۶۴
امیمہ بنت عبدالمطلب ۶۱۱
امیہ بن ابی ا لصلت ۴،۶۹
امیہ بن خلف ۳۱۵،۳۱۶،۳۳۴،۳۹۶،
۴۰۳،۴۱۲،۴۲۲،۴۲۵
امیہ بن عبدشمس ۹۷
النسائی احمد بن شعیب ۳۱
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ ۲۹۵،۳۰۰،۳۰۹،
۴۵۹،۵۷۴،۵۸۳،۷۲۸،۸۱۸
انس بن نضر انصاری ۵۵۷
اوس ۲۴۵،۲۵۰،۲۵۱،۲۵۷،۲۹۳،۲۹۴،۳۰۸،
۳۱۱،۳۱۲،۳۱۳،۳۱۴،۳۱۵،۳۳۸،۳۴۰،۴۰۰،
۴۰۲،۴۰۴،۴۲۷،۵۱۷،۵۲۰،۵۳۰،۵۴۷،۵۵۰،
۵۶۷،۵۸۹،۶۳۱،۶۳۶،۶۳۷،۶۵۹،۶۶۳،۶۷۱،
۶۷۷،۶۷۸،۶۹۲،۷۵۵
اوس بن ثابت ۳۱۰
ایاس ۲۴۶،۹۱۵
ب۔پ۔ت۔ث
باذان (گورنر یمن) ۹۱۴
باز نطین ۸۹۷
باعور ۶۹۱
بانویہ ۹۱۴
بخاری امام محمد بن اسماعیل ۳۱
بحیرا راہب ۱۱۳،۱۱۶
بدیل بن ورقا ۸۵۳
براء بن عازب رضی اﷲ عنہ ۲۹۵،۴۳۹،۸۱۳
البراء بن معرور ۲۵۹
برٹن مسٹر ۵۱
برہ بنت حراث نیز دیکھئے جویریہ
بریدہ رضی اﷲ عنہ ۶۲۸
بریدہ حصیب رضی اﷲ عنہ ۶۲۸
بریرہ ۶۳۶
بزار ۳۳
بسربن سفیان ۴۸۳
بسوس ۶۱،۶۲
بسیس رضی اﷲ عنہ ۴۰۱
بشیر احمد مرزا عرض حال
بلال بن رباح رضی اﷲ عنہ ۱۴۱،۱۴۲،۱۵۸،
۴۱۹،۴۴۹،۴۵۶،۵۴۸،۸۰۵
بلعام ۶۹۱
بکر بن شداخ رضی اﷲ عنہ ۷۳۹
بکر بن وائل ۷۰
بناتہ ۶۷۵
بنو بکر بن وائل ۶۱
بنو بلی ۲۴۹
بنو بنہان ۵۲۷
بنو تغلب بن وائل ۶۱
بنو تمیم ۶۰،۹۶،۱۴۰
بنو ثعلبہ ۲۵۶،۵۲۳،۷۵۴،۷۵۵
بنو ثقیف ۶۸،۲۰۳،۳۲۷،۳۲۸،۸۴۹
بنو جذام ۷۶۹،۷۷۰
بنو جمح ۹۶،۱۴۱،۱۵۳
بنو حارث ۲۵۶
بنو حارثہ ۲۵۷،۵۴۹
بنی حرام ۲۴۷
بنو حضارمہ ۲۴۳
بنو حنیفہ ۵۲،۲۴۳،۷۴۹
بنو خزاعہ ۸۷ تا ۸۹،۹۵،۹۸،۶۲۸،۸۴۳،۸۴۸،۸۵۳
بنو خلج ۱۴۰
بنو اسد ۹۶،۱۱۸،۱۲۱،۱۴۰،۱۵۲،۵۷۵،۵۷۶،۶۴۷
بنو اسماعیل ۷۱،۷۴،۸۱
بنو اشجع ۶۴۷،۶۶۷
بنو امیہ ۱۱۳،۳۲۰،۷۱۸،۷۲۶
بنو الدیل ۲۶۵
بنو زریق ۲۴۹،۲۵۶
بنو زہرہ ۱۰۳،۱۱۸،۱۳۹،۳۶۶،۸۷۰
بنو ساعدہ ۲۵۶،۲۵۷
بنو سالم بن عوف ۲۹۷
بنو سعد ۱۰۷،۶۴۷،۸۰۷
بنو سعد بن بکر ۸۰۷
بنی سلمہ ۲۴۷،۲۵۶،۲۵۷،۵۴۹
بنو سلیم ۵۱۱،۵۱۲،۵۲۳،۵۲۴،۵۲۵،۵۲۶،
۵۳۲،۵۴۳،۵۸۲،۵۸۴،۶۴۷،۷۵۶
بنو سہم ۹۶
بنو ضبیب ۷۶۹
بنو ضمرۃ ۳۷۱،۳۷۳
بنو عامر بن صعصعہ ۲۴۳،۵۸۲،۵۸۳،
۵۸۴،۵۸۸،۵۹۱
بنو عباس ۳۸
بنو عبدالاشہل ۲۵۵،۲۴۹،۲۵۰،۸۳۴
بنو عبدالدار ۹۶،۹۷،۱۴۷،۱۵۳
بنو عبدالشمس ۹۹،۱۰۰،۱۵۳
بنو عبدالمطلب ۱۴۵،۱۴۶
بنو عبدمناف ۹۷،۱۷۷،۱۸۲،۲۶۱
بنو عبس ۲۴۳
بنو عدی ۹۶،۱۴۱،۱۵۸،۱۵۹،۱۷۹
بنو عذرہ ۲۴۳
بنو عمرو بن عوف ۲۴۹
بنو عوف ۲۵۶
بنو غسان ۲۴۳
بنو غطفان ۵۱۱تا ۵۲۶،۵۳۲،۵۴۳،۶۴۷،۶۷۰
بنو غفار ۱۴۲،۱۵۸،۲۱۰،۵۴۴
بنو فزارہ ۲۴۳،۷۷۱،۸۰۷،۸۰۸،۸۱۱
بنو قحطان ۵۱،۵۳،۷۶،۸۷،۲۹۳
بنو قریظہ ۲۹۳،۵۱۶،۵۹۰،۵۹۳،۶۵۹،
۶۶۰،۶۶۱،۶۶۸،۶۶۹،۶۷۰،۶۷۱،۶۷۲،۶۷۴،
۶۷۵،۶۷۶،۶۷۷،۶۷۸،۶۷۹،۶۸۰،۶۸۲،
۶۸۳،۶۸۴،۶۸۵،۶۸۶،۶۸۷،۶۸۸،۶۸۹،
۶۹۰،۶۹۱،۶۹۳،۷۱۱،۷۱۲،۷۴۵،۸۰۶،۸۲۱،۸۱۷
بنو قینقاع ۲۴۵،۲۹۲،۲۹۳،۳۱۲،۵۰۷،۵۱۶،
۵۱۸تا ۸۲۲،۵۲۷،۵۸۷،۶۷۷،۶۸۵ تا ۶۸۸
بنو کلب ۶۸،۲۴۳
بنو کنانہ ۵۱،۱۱۷،۱۱۸،۱۸۷،۳۷۱،۳۹۷
بنو کندہ ۲۴۳
بنو لحیان ۵۷۶ تا ۵۷۸،۵۸۱،۵۸۶،۷۶۲،
۷۶۳،۷۶۴،۷۶۸
بنو نجار ۹۸،۹۹،۱۰۴،۱۱۰،۲۴۷،۲۵۵،
۲۹۷ تا ۲۹۹، ۳۲۱
بنو نضیر ۲۴۵،۲۹۲،۲۹۳،۳۱۲،۳۲۴،۵۱۲،
۵۱۶،۵۲۷ تا ۵۹۴،۶۴۶،۶۵۹ تا ۶۷۰،
۶۷۲ تا ۶۷۴،۶۸۰،۶۸۳ تا ۶۸۹،۷۳۴،۷۳۹
بنو نوفل ۹۵،۹۹،۱۰۰،۱۱۲،۱۵۲،۳۶۶
بنو محارب ۲۴۳،۵۲۳
بنو مدلج ۲۶۷،۳۷۳
بنو مرہ ۲۴۳،۶۴۷
بنو مخزوم ۱۴۰،۱۴۱،۱۵۲،۱۵۳،۱۵۹
بنو مصطلق ۶۱۱،۶۲۷،۶۲۸،۶۲۹،۶۴۳،۶۴۴
بنو مطلب ۹۹،۱۰۰،۱۱۸،۱۴۰،۱۵۷،۱۶۰،
۱۸۲،۱۸۶،۱۸۷
بنو ہاشم ۹۵،۹۸،۹۹،۱۰۰،۱۱۳،۱۱۸،۱۵۲،
۱۵۳،۱۵۴،۱۶۰،۱۸۲،۱۸۶،۱۸۷
بنی اسرائیل ۸۳،۸۵،۱۹۷،۲۲۲،۲۹۲،۵۰۳
بنی عبیدہ ۲۴۷
بیہقی امام ۸۳۵
پولوس سینٹ پال ۷۹
تبع اسد شاہ یمن ۹۰
ترمذی امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ۳۱،۳۸
تماضر بنت اصبغ بن عمر کلبی ۸۰۶
ثابت بن قیس انصاری ۶۴۳،۶۸۰
ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ ۷۴۹،۷۵۰،۷۵۱،
۷۵۲،۷۵۳،۹۲۹
ثمود ۵۲
ثوبیہ ۱۰۶
ج۔چ۔ح۔خ
جابر بن عبداللہ بن رمان ۲۴۷،۲۵۷،۶۵۱،۶۵۲،۶۵۷
جبار ۵۲۳
جبار بن سلمیٰ ۵۸۵
جبر ۱۸۳،۱۸۴،۱۹۷،۲۲۰ تا ۲۲۴،۲۶۱،۹۰۰
جبریل علیہ السلام ۱۰۸،۱۳۳،۱۴۴،۱۶۹،۱۹۷،۲۲۰،
۲۲۱،۲۲۳،۲۲۴،۲۳۲،۲۶۱،۵۹۹،۹۰۰
جبلہ بن ایہم رئیس غسان ۷۷۹،۹۲۸
جیر بن مطعم ۲۵۸،۵۵۴
جد بن قیس ۸۵۵
جدیس ۵۲
جرہم ۵۲،۷۶،۸۷
جرہم الاولیٰ ۵۲
جرہم الثانیہ ۸۷
جریح بن مینا(مقوقس مصر) ۷۴۶،۸۹۶،۹۱۰،
۹۱۶،۹۱۷،۹۱۸،۹۱۹،۹۲۰،۹۲۱
جساس ۶۱،۶۲
جعفر بن ابی طالب ۱۴۸،۱۷۳،۲۵۶،۹۲۶
جہجاہ ۶۳۰
جوزفین ملکہ نپولین ۴۹۶
جویریہ بنت حارث ام المؤمنین ۴۵۱،۶۴۳،۶۴۴
چلپی کاتب ملا ۴۵
حاتم طائی ۶۴
حارث ۱۰۰،۱۰۴،۱۰۸،۱۱۲،۱۶۳،۲۴۳،۴۲۱
حارث بن ابی شمر رئیس غسان و گورنر بصریٰ ۹۰۰،۹۲۸
حارث بن ابی ضرار ۶۴۳
حارث بن ابی ہالہ ۱۶۳
حارث (بن اسود) ۴۲۱
حارثہ بن ثعلبہ ۲۹۳
حارث بن حرب ۲۵۸
حارث بن عامر بن نوفل ۵۷۹
حارث بن عبدالطلب ۱۰۰،۱۰۴
حارث بن قیس ۹۶،۱۵۴
حارث بن مسلم بن حارث ۳۵۰،۳۵۲
حارثہ ۱۲۵،۵۱۶
حارثہ بن نعمان انصاری ۵۱۵
حاطب بن ابی بلتعہ ۹۱۶،۹۱۷،۹۲۰
حاکم ۲۹۶
حباب بن عبداللہ بن ابی دیکھئے عبداﷲ بن
ابی حباب بن منذر رضی اﷲ عنہ ۴۰۴،۵۴۵،۵۴۷
حبی بنت حلیل بن حبشیہ خزاعی ۸۸
حجاج بن یوسف ۹۰،۴۷۱
حذیفہ بن یمان ۳۱۰،۳۶۲،۴۰۶،۶۷۰
حرام بن ملحان ۵۸۳،۵۸۴
حرب بن امیہ ۱۰۰،۱۱۸
حرث بن ابی ضرار ۶۲۸
حسان بن ثابت ۲۰۶،۶۳۹،۶۴۰،۶۶۶،۹۱۹
حسن بصری ۴۵۷،۴۷۱
حسن بن احمد بن یعقوب الہمدانی ابو محمد ۳۹
حسن بن علی رضی اﷲ عنہ ۱۱۹،۱۲۲،۵۹۴،
۶۱۲،۷۱۲،۷۲۶
حسین بن محمد بن حسن دیار بکری ۴۴
حسین ؓ بن علی ابن ابی طالب ۱۱۹
حصین بن سلام دیکھئے عبداﷲ بن سلام
حطیم ۸۶،۸۹،۲۲۰
حفصہ بنت عمر ۵۳۸،۵۳۹،۵۴۲
حکم بن ابی لعاص ۱۵۴،۱۵۷
حکم بن کیان رضی اﷲ عنہ ۳۷۸
حکیم بن حزام ۱۲۴،۱۲۹،۱۸۸،۴۰۳،۴۰۷،۴۵۰
حلبی علامہ ۲۶،۸۱۱
حلیس بن علقمہ ۸۵۲
حلیل بن حبشیہ خزاعی ۸۸
حلیلہ بنت مرہ ۶۱،۶۲
حلیمہ ۱۰۶ تا ۱۰۸، ۱۱۰
حلیمہ (مزنی) ۷۵۶
حمزہ ؓ بن عبدالمطلب ۳۷۲،۵۶۳
حمنہ بنت حجش ۶۳۹
حمیر قبیلہ ۳۹
حنظلہ بن ابو عامر ۳۰۸،۵۵۰
حور ۶۹،۹۳۱
حبی بن اخطب ۱۹۱،۵۱۲،۵۹۳،۶۴۶،۶۵۹،
۶۷۰،۶۷۴،۶۸۰،۶۸۱،۸۱۲
خارجہ بن حسیل ۸۳۱
خارجہ بن زید ۳۱۰
خالد بن ولید ۳۲۱،۴۱۹،۵۴۵،۵۵۳،۵۶۰
خباب بن الارت ۱۴۲،۱۵۹،۱۶۳،۱۷۷،۲۷۵،۵۹۹
خبیب بن عدی رضی اﷲ عنہ ۵۷۹
خدیجہ بنت خویلدام المؤمنین /خدیجہ الکبریٰ ؓ ۷۰،۱۲۱،
۱۲۲،۱۲۴،۱۲۶،۱۲۷،۱۲۹،۱۳۱،۱۳۲،۱۳۴ تا ۱۳۷،
۱۳۹،۱۴۲،۱۴۷،۱۶۳،۱۸۸،۱۹۲،۱۹۴،۱۹۵،۱۹۷،
۲۰۰،۴۱۸،۴۷۹،۵۰۳،۵۱۴،۶۲۳،۷۵۷،۷۶۲
خراش بن امیہ ۸۵۳،۸۵۴
خزاعہ ۸۷،۸۸،۸۹،۹۵،۹۸،۵۶۸،
۶۲۸،۸۴۳،۸۴۸،۸۵۳
خزرج ۵۱،۵۳،۶۸،۹۸،۲۴۵،۲۴۶،۲۴۷،۲۴۹،
۲۵۰،۲۵۲،۲۵۳،۲۵۵ تا ۲۵۸،۲۹۳،۲۹۴،۳۰۰
خسرو پرویز بن ہرمز ۹۱۱،۹۱۲،۹۱۵،۹۱۶
خطیب بغدادی ۳۳
خلاد ۶۷۵
خنساء عرب شاعرہ ۴،۶۵
خنیس بن حذافہ ۵۳۸،۵۳۹
خولہ بنت حکیم ۱۹۷،۴۷۹،۴۸۸
خویلد بن اسد ۱۲۱
د ۔ ذ۔ ر۔ز
دار قطنی امام ۲۹
داؤد علیہ السلام ۷۴،۱۹۶،۵۰۳
دبشلوم مفسر تورات ۸۴
دحیہ بن خلفیہ الکلبی ۷۷۰،۷۷۱،۹۰۲۹۰۰،۹۰۷،۹۰۸
دعثور بن حارث ۵۲۳
دوانی ۴۲۴
دوس ۲۱۰،۲۱۱
ذکوان ۵۸۲،۵۸۳،۵۸۴،۵۸۶
ذکوان بن عبدقیس ۲۴۹
ذوالکلاع ۶۸
ذوالکلاع الحمیری ۴۵۰
رازی فخر الدین ۱۷۰،۱۷۱
رافع بن خدیج ۵۴۸
رافع بن مالک ؓ ۲۴۹،۲۵۶
رام چندر جی ۶۳۳
ربع ۶۹
رعل ۵۸۲تا ۵۸۴،۵۸۶
رفاعہ ۶۸۱
رفاعہ بن زید ۷۷۰
رفیدہ رضی اﷲ عنہا ۶۹۳
رقم ۶۹۱
رقیہ بنت محمد رسول اﷲ ﷺ ۱۲۱،۱۶۵،۳۹۹،
۴۱۷،۵۲۴
رکانہ بن یزید ۱۵۴
رملہ دیکھئے ام حبیبہ ام المؤمنین
زبیر بن ابو امیہ ۱۵۲
زبیر بن باطیا ۶۸۰،۶۸۲
زبیر بن عبدالمطلب ۱۱۸
زبیر بن العوام ۷،۱۳۹،۱۵۸،۱۶۵،۱۷۴،
۲۶۸،۳۲۰،۴۰۳،۵۶۳،۵۹۸،۶۵۹
زرتشت ۷۴۲
زرقانی علامہ ۳۴،۴۲،۴۸۱،۶۲۱،۸۱۱،۸۳۵،۹۳۰
زمعہ بن اسود ۱۸۸،۱۹۷،۴۰۳،۴۸۸
زنیرہ رضی اﷲعنہ ۱۵۹
زید بن ارقم ۶۳۱
زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ ۷،۲۷۴،۵۹۷،۵۹۸،۵۹۹
زید بن ثابت انصاری ۷،۵۹۷،۵۹۸،۵۹۹
زید بن الخطاب ۱۴۷
زید بن دثنہ رضی ان عنہ ۵۷۹،۵۸۱
زید بن حارثہ ۱۱۲،۱۲۴،۲۰۴،۳۷۳،۴۱۶،۴۱۷،
۴۵۱،۴۵۲،۴۵۶،۴۹۹،۵۳۸،۶۱۱،۶۱۲،۶۲۰،۶۲۱،
۶۲۸،۷۵۶،۷۵۷،۷۶۸،۷۶۹،۷۷۱،۷۷۹،
۷۸۴،۸۰۸،۸۰۹،۸۱۰
زید بن عمرو بن نفیل ۱۴۱
زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی ۱۳،۲۸
زینب رضی اﷲ عنہا ۱۲۱،۱۲۲،۴۹۹،۶۱۳،
۶۱۴،۶۲۰،۶۲۱،۶۲۶،۷۶۱،۹۳۱
زینب دیکھئے ام رومان
زینب بنت حجش ام المؤمنینؓ ۱۴۱،۴۵۲،۴۹۹،
۶۱۱،۶۱۸،۶۱۹،۶۲۳،۶۳۸،۶۳۹
زینب بنت خزیمہ ۵۹۴
زینب بنت رسول اﷲ ﷺ ۱۴۱،۴۵۲،۴۹۹،۶۱۱،۶۱۲،
۶۱۳،۶۱۴،۶۱۵،۶۱۸،۶۱۹،۶۲۰،۶۲۱،۶۲۲،
۶۲۳،۶۲۵،۶۲۶،۶۳۸،۶۳۹،۷۵۸،۷۶۱
زہری امام ۳۵،۳۶،۵۸۹،۶۱۲
زہیر ۴
زہیر بن ابی امیہ ۱۸۸
زیاد بن سکن ۵۵۸
س۔ش۔ص۔ض۔ط
سارہ ۷۳،۷۴،۷۸،۸۳،۸۴
ساسان ۸۹۷،۹۹۱
سالم بن عبداﷲ ۵۰۷
سالم بن عمرو ۵۰۷
سالم بن عمیر ۵۰۴،۵۰۷
سالم بن معقل مولی ابی حذیفہ ۴۵۲،۴۵۷
سائب ؓ بن عثمان بن مظعون ۳۷۳
سبا ۵۱
سپرنگر ۱۳۹
سٹالن مارشل ۷۹۳
سراقہ بن مالک بن جعشم ۲۶۵،۲۶۷،۲۶۸،
۳۳۷،۳۹۷،۴۰۷
سعد ۶۱
سعد بن ابی وقاص ۱۳۹،۱۴۵،۱۸۷،۳۱۷،۳۷۳،
۳۷۵،۳۷۸،۴۰۰،۴۰۳،۴۲۳،
۴۷۳،۵۵۷،۵۵۸،۵۶۲،۸۶۴
سعد بن خیثمہ ؓ ۲۵۷
سعد بن الربیع رضی اﷲ عنہ رئیس انصار ۲۵۶،۵۶۴،۵۷۱
سعد بن عبادہ رئیس خزرج ۲۵۶،۲۵۸،۲۷۰،۲۷۹،
۳۰۰،۳۹۹،۴۰۰،۶۰۹،۶۳۷،۶۵۹،۶۶۵
سعد بن معاذ رئیس اوس ۲۵۰ تا ۲۵۲،۲۵۵،
۳۷۰،۴۰۲،۴۰۴،۵۶۷،۶۳۷،۶۵۹،۶۶۳،۶۶۵،
۶۷۱،۶۷۷،۶۷۸،۶۸۰،۶۹۱،۷۷۷
سعید بن زید رضی اﷲ عنہ ۶۹،۱۴۲،۳۹۶،۴۰۰
سعید بن عامر ۵۸۰
سعید بن منصور ۳۳
سفیان بن خالد ۵۷۶،۵۷۷،۵۷۸
سفیان بن عبدشمس ۶۴۷
سکران بن عمرو ۱۹۷
سلام بن ابی الحقیق ابو رافع ۵۹۳،۶۴۶،۸۱۲،۸۳۰
سلام بن مشکم ۵۱۲،۵۱۳،۵۸۸
سلطان بن احمد طبرانی ۳۲
سلمہ بن اسلم ۸۳۵
سلمہ بن اکوع ۶۹۶،۸۰۸،۸۱۱
سلمہ بن خویلد ۵۷۵
سلمیٰ زوجہ ہاشم ۹۸
سلمیٰ والدہ عبدالمطلب ۲۹۷
سلمان رضی اﷲ عنہ ۴۴۸،۴۴۹
سلمان فارسی ۳۰۷،۳۰۸،۳۱۰،۶۴۸
سلیم ۵۲،۵۲۳،۶۴۶،۶۴۷
سلیمان علیہ السلام ۷۴،۱۹۷،۵۰۳
سلیمان بن اشعب ابو داؤد ۳۱
سلیط بن عمرو قریشی رضی اﷲ عنہ ۹۲۹
سمرہ بن جندب ۵۴۸
سموئل بن عادیہ ۶۴
سمیّہ رضی اﷲ عنہ ۱۴۸،۱۵۹،۱۶۰
سنان ۶۳۰
سواع ۶۸
سوٹر۔ اے مصنف
‏Text. Canon of new Testament
۱۸۴
سودہ ؓ بنت زمعہ ام المؤمنین ۱۹۶،۱۹۷،۱۹۸،۱۹۹،
۲۰۰،۳۰۳،۴۸۸،۴۸۹
سوید بن صامت ۱۹۷،۱۹۸،۲۰۰،۴۸۸،۴۸۹
سوید بن مقرن رضی اﷲ عنہ ۴۴۲
سہل بن حنیف رضی اﷲ عنہ ۷۴۱
سہیل بن عمرو ۴۰۳،۴۱۵،۴۱۹،۸۵۲،
۸۵۷،۸۵۸،۸۵۹،۸۶۴،۸۷۲
سہیلی امام ۵۰۶،۸۱۱
سیتا جی ۶۳۳
سیرین (قبطیہ) ۹۱۹
شافعی امام محمد بن ادریس ۳۲
شبلی نعمانی ۲۸۸،۳۸۴،۳۸۵
شبیہ بن ہاشم دیکھئے عبدالمطلب
شجاع بن وہب رضی اﷲ عنہ ۹۲۸
شرجیل بن حسنہ ۷
شعبہ بن الحجاج ۲۹
شعی رضی اﷲ عنہ ۱۷
شعیب علیہ السلام ۵۲
شفاء بنت عبداﷲ ۵۴۲
شیبہ بن ربیعہ ۱۵۳،۱۸۰،۲۰۵،۴۰۳،۴۰۸،
۴۱۲،۴۲۱،۴۲۲
شیخین ۵۴۷
شیر علی مولوی بے اے ۲۸۹
شیرویہ بن خسرو ۹۱۵
شیما (حضرت حلیمہ کی بیٹی) ۱۰۷
شیما بنت حارث رضی اﷲ عنہ ۱۱۰
صالح علیہ السلام ۵۲،۲۲۰
صفوان بن امیہ بن خلف ۹۶،۱۵۸،۳۳۴،
۴۲۵،۵۲۶،۵۴۵،۵۷۹،۵۸۱
صفوان بن معطل ۶۳۴،۶۴۰
صفیہ ام المؤمنین ۹۲۰
صفیہ بنت عبدالمطلب ۱۳۹،۵۶۳،۶۶۶
صواب ۵۵۳
صور ۶۹۱
صہیب ؓ بن سنان رومی ۱۴۸،۱۴۹،۱۵۹،۴۴۹
ضماد بن ثعلبہ ازدی ۲۷۹
ضمضم ۳۹۶،۳۹۸
طالب بن ابی طالب ۶۰۷
طاہر بن محمد ۱۲۱
طبری ابو جعفر محمد بن جریر ۳۴،۳۷
طرفہ عرب شاعر ۴
طسم ۵۲
طعیمہ بن عدی ۴۰۳،۵۵۴
طفیل بن عمرو الدوسی ۲۷۹
طلحہ رضی اﷲ عنہ ۵۵۰،۵۵۱،۵۵۳،۵۵۹
طلحہ بن ابی طلحہ ۹۶
طلحہ بن برائ ۵۱۸
طلحہ بن عبید اﷲ ۱۴۰،۳۹۶،۴۰۰
طلیحہ بن خویلد ۵۷۵،۶۴۷
طی ۶۸
طیب بن محمد ۱۲۱
ع۔غ
عاتکہ بنت عبدالمطلب ۳۹۶
عاد ۵۲
عاص بن وائل ۱۵۴،۱۵۹،۱۷۹،۲۶۵،۳۲۱
عاصم بن ثابت رضی اﷲ عنہ ۵۷۸،۵۸۱
عاصم بن عدی ۴۰۱
عاصم بن کلیب ۳۵۱
عامر حضرمی ۴۰۸
عامر بن طفیل ۵۸۳،۵۸۴،۵۸۵،۵۸۸
عامر بن فہیرہ ۱۴۲،۲۶۶،۲۶۸،۵۸۵
عائذ بن عمرو ۲۵۵،۸۴۳
عائشہ رضی اﷲ عنہا بنت ابو بکر ؓ ۹،۱۵،۱۹،۸۹،
۱۲۷،۱۳۰،۱۴۰،۱۷۴،۱۹۱،۱۹۵،۱۹۶،۱۹۷،۱۹۸،
۱۹۹،۲۰۰،۲۰۶،۲۱۵،۲۵۵،۲۶۱،۲۶۲،۲۷۲،۲۷۴،
۳۰۳،۳۲۰،۴۴۸،۴۵۰،۴۷۹،۴۸۰،۴۸۱،۴۸۲،
۴۸۳،۴۸۴،۴۸۵،۴۸۶،۴۸۷،۴۸۸،۴۸۹،۵۳۹،
۵۴۲،۵۵۵،۵۹۷،۶۱۱،۶۱۵،۶۱۹،۶۲۲،۶۲۳،
۶۳۳،۶۳۶،۶۳۷،۶۳۸،۶۳۹،۶۴۰،۶۴۳،
۶۹۶،۷۲۲،۹۳۱
عباد بن بشر ۲۵۵،۸۴۳
عبادہ بن صامت ۲۴۹،۲۵۶
عابدہ بن الولید ۴۳۵
عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری ۲۴۹،۲۵۴
عباس بن عبدالمطلب ۹۵،۱۴۲،۱۵۸،۲۵۸،
۳۹۲،۴۰۹،۴۱۵،۴۱۷،۴۱۸،۵۴۴
عباس بن نضلہ ۲۴۹
عبدالبر ۵۰۶
عبدالدار ۹۷
عبد شمس ۹۷،۱۶۱
عبد قصی ۹۷
عبدالمطلب بن ہاشم ۸۸،۹۸ تا ۱۰۵،۱۱۱ تا ۱۱۳،
۱۱۸،۱۴۰،۱۹۳،۲۴۷،۲۹۷،۶۰۷
عبدمناف ۹۷،۹۹
عبدالرحمن بن ابی بکر ۹۳۱
عبدالرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی ۳۴
عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی ۲۹
عبدالرحمن بن زبیر بن باطیا ۶۸۲
عبدالرحمن بن عبداﷲ سہیلی ۴۴
عبدالرحمن بن عوف ۱۳۹،۱۶۴،۱۶۵،۲۸۱،
۳۱۰،۳۳۵،۴۱۰،۴۱۲،۴۱۳،۴۵۰،۴۶۵،
۵۶۶،۷۱۸،۸۰۴ تا ۸۰۶،۸۶۴
عبدالرزاق ۳۳
عبدالرؤوف المناوی ۲۹
عبدالعزی ۹۷
عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی ۲۹
عبداﷲ بن ابی ابن سلول ۲۵۸،۲۹۴،۳۰۸،۳۱۴،۳۳۸،
۴۲۷،۵۲۰،۵۴۶،۵۴۸،۵۹۱،۶۲۲،۶۲۶،۶۳۰
عبداﷲ بن ابی بکر ۳۰۱
عبداﷲ بن ابی الحمساء رضی اﷲ عنہ ۱۲۰
عبداﷲ بن ابی قحافہ ابو بکر رضی اﷲ عنہ ۱۲۹،۱۳۸
عبداﷲ بن اریقط ۲۶۵
عبداﷲ بن عثمان بن عفان ۵۲۴
عبداﷲ بن ام مکتوم ۴۰۱،۵۴۷،۸۴۳
عبداﷲ بن انیس انصاری ۵۷۷،۸۳۲،۸۳۳
عبداﷲ بن جبیر ۵۴۹،۵۵۳
عبداﷲ بن حجش ۳۷۴،۳۷۶،۵۶۴،۵۹۴
عبداﷲ بن جدعان قرشی تیمی ۱۰۰،۱۱۸،۱۴۸
عبداﷲ بن حارث ؓ (حلیمہ کا بیٹا) ۱۰۷
عبداﷲ بن حذافہ سہمی ؓ ۹۱۳
عبداﷲ بن ربیعہ ۱۷۲،۵۵۰
عبداﷲ بن سعد ابی سرح ۵۹۸
عبداﷲ بن سلام ؓ (حصین بن سلام) ۶۰۶
عبداﷲ بن شہاب ۵۵۷
عبداﷲ بن طارق ؓ ۵۷۹
عبداﷲ بن رواحہ ۳۰۱،۵۹۸،۶۴۹،۷۳۸،
۸۳۰،۸۳۱،۸۳۲،۸۳۳
عبداﷲ بن زبیرؓ ۳۲۰،۷۱۸،۷۲۶
عبداﷲ بن عامر اسلمی ۶۲۰
عبداﷲ بن عباس ۵۹۸،۹۰۲
عبداﷲ بن عبدالرحمن الدارمی ۳۲
عبداﷲ بن عبداﷲ ابی ابن سلول ۵۹۵،۶۳۲
عبداﷲ بن عبدالطلب ۸۱،۱۰۱،۱۰۳،۱۰۴
عبداﷲ بن عتیک انصاری ۸۱۳ تا ۸۱۶
عبداﷲ بن عمر ؓ ۴۵۰،۴۷۱،۵۴۸
عبداﷲ بن عمرو ؓ ۲۳
عبداﷲ بن عمرو بن العاصی ۲۳
عبداﷲ بن قمۂ ۵۵۵،۵۵۶
عبداﷲ بن مبارک ۴۵۷
عبداﷲ بن محمد ابو احمد المعروف بابن عدی ۲۹،۴۰
عبداﷲ بن محمد ۱۲۱
عبداﷲ بن مسعود ہذیلی ۱۴۱،۱۵۸،۱۹۰،۲۷۹،۴۱۲
عبداﷲ بن مسلم بن قتیبہ ۳۸
عبداﷲ بن منجرہ ۹۳۱
عبدالمالک بن ہشام ۳۶
عبدالمالک بن مروان ۹۰
عبد یالیل رئیس طائف ۲۰۴
عبید اﷲ بن جحش ۱۴۱،۹۲۷
عبیدہ بن حارث مطلبی ۳۶۶،۳۷۱،۴۰۸،۹۶۶
عبیدہ بن مطلب ۴۰۸
عتبہ ۶۳،۱۸۰،۲۰۵،۴۰۳
عتبہ بن ابی لہب ۱۲۲
عتبہ بن ابی وقاص ۵۵۷
عتبہ بن اسید ثقفی ابو بصیر ۸۷۰
عتبہ بن ربیعہ ۱۴۱،۱۵۳،۱۵۵،۱۸۰،۲۰۴،
۳۷۷،۴۰۷،۴۲۱،۶۲۴
عتبہ بن غزوان ۳۶۶،۳۷۱،۳۷۵
عتبان بن مالک انصاری ۱۸،۳۱۰
عثمان (برادر طلحہ) ۵۵۱
عثمان بن حویرث ۷۰
عثمان بن طلحہ ۹۶
عثمان بن عبدالرحمن ابو عمرو المعروف بابن الصلاح ۲۸
عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ ۱۲۲،۱۶۵،۳۹۹،
۴۵۰،۵۲۴،۵۳۸،۵۵۶،۵۶۹،۵۹۹،۸۵۴،۸۶۸
عثمان بن مظعون ۱۴۱،۱۶۵،۳۷۳،۴۷۳،۵۲۲
عداس ۷۴۲
عدنان ۵۵
عدی رضی اﷲ عنہ ۴۰۱
عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ ۴۸۷
عروہ بن مسعود ۸۴۹
عرینہ ۸۳۵
عزی (بت) ۳۳۱،۵۶۲
عصمائ ۵۰۴،۵۰۶ تا ۵۱۰
عصیہ ۵۸۴،۵۸۶
عضل ۵۷۸
عطاء بن ابی رباح ۴۵۲،۴۵۷،۴۷۱
عطیہ قرظی ۶۸۲
عقبہ ابی معیط رئیس قریش ۱۴۱،۱۵۳،۱۶۲،۱۹۶،
۴۰۳،۴۱۵،۴۱۶،۴۲۲،۸۶۸
عقبہ بن حارث ۵۸۰
عقبہ بن عامر ۲۴۷،۲۴۹
عقیل بن ابی طالب ۱۲۶،۶۰۷
عقیل (بن اسود) ۴۲۱
عقیلی حافظ ۲۹،۳۳
عکاشہ بن محصن ؓ ۷۵۳،۷۵۴
عکرمہ بن ابی جہل ۳۳۰،۳۶۶،۳۷۱،۴۱۱،۵۴۵،
۵۵۰،۵۵۳،۵۶۱،۵۷۰،۸۸۴،۸۵۳
عکرمہ مولیٰ ابن عباس ۴۵۷
عکل ۸۳۵
علقمہ عرب شاعر ۴
عشرہ عرب شاعر ۴
عوف بن حارث ۲۴۷،۲۴۹
عویم بن ساعدہ ۲۴۹
علی ؓ بن ابی طالب ۲۴،۱۲۲،۱۲۵،۱۲۶،۱۳۰،
۱۳۸،۱۳۹،۱۴۰،۱۴۴،۱۴۵،۱۴۶،۱۴۸،۱۴۹،۱۵۳،
۲۴۲،۲۵۵،۲۵۹،۲۶۳،۴۰۸،۴۱۰،۴۱۵،۴۵۹،
۵۱۴،۵۱۵،۵۳۱،۵۴۲،۵۴۷،۵۵۰،۵۵۱،۵۵۲،
۵۵۹،۵۶۰،۶۰۷،۶۶۴،۶۷۵،۷۷۰،۸۰۶،۸۰۷
علی بن برہان الدین الحلبی ۲۶،۴۴
علی بن حسین امام زین العابدین ۶۱۲
علی بن حسین مسعودی ابو الحسن ۳۸
علی بن عبداﷲ بن جعفر المعروف بابن المدینی ۴۱
علی بن محمد الدار قطنی ۳۲،۴۱
علی بن محمد بن عبدالکریم المعروف ابن اثیر ۳۰
علی بن محمد سلطان القاری المشہور ملا علی القاری ۱۳،۲۸
(مصنف موضوعات کبیر)
عمار بن یاسر ؓ ۱۴۸،۱۶۰،۳۱۰،۴۱۹
عمارہ بن ولید ۱۵۶
عمالیق ۲۹۲
عمر ؓ بن الخطاب ۷،۸،۱۸،۱۹،۶۹،۸۵،۹۶،
۱۲۹،۱۳۹،۱۴۰،۱۴۱،۱۴۲،۱۴۷،۱۴۸،۱۴۹،۱۵۸،
۱۵۹،۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷،۱۷۸،۱۷۹،۱۸۰،۱۸۶،
۱۹۱،۲۵۶،۲۶۸،۲۷۱،۲۷۵،۲۹۶،۳۰۳،۳۰۴،
۳۲۵،۳۶۲،۳۹۹،۴۱۳،۴۱۷،۴۱۹،۴۲۳،۴۲۵،
۴۲۶،۴۳۸،۴۴۶،۴۴۸،۴۵۲،۴۵۶،۴۷۱،۵۰۴،
۵۱۴،۵۳۸،۵۳۹،۵۴۷،۵۵۷،۵۶۰،۵۶۱،
۵۷۳،۵۷۴،۵۸۰،۵۸۱،۵۹۸،۵۹۹،۶۰۰،۶۲۸،
۶۲۹،۶۳۰،۶۳۱،۷۰۹،۷۱۵،۷۱۶،۷۱۷،۷۱۸،
۷۳۵،۷۳۷،۷۳۸،۷۳۹،۷۴۰،۷۵۵،۷۵۶،
۷۷۸،۷۷۹،۸۵۴،۸۶۲،۸۶۴،۸۶۷،۸۶۹،
۸۷۰،۸۹۳،۸۹۵،۹۰۹،۹۱۱،۹۲۹
عمرو بن اسد ۱۲۱
عمرو بن امیہ ضمری ۵۸۴،۵۸۵،۵۸۷،
۵۸۸،۸۳۵،۹۲۳
عمرو بن جحاش ۵۸۸
عمرو بن الحارث ؓ ۴۵۱
عمرو بن الحرث ۸۷
عمرو بن الحضری ۳۹۴
عمرو بن العاص ۲۳،۱۷۲،۱۷۳،۳۲۱،۵۴۵،۶۶۲
عمرو بن عبدود ۶۶۲
عمرو بن عوف ۲۴۹
عمرو بن کلثوم ۴،۶۴،۱۲۱
عمرو بن لحی ۸۸
عمرو بن معاذ ؓ ۵۶۷
عمرو بن ہشام (ابو جہل) ۱۵۳،۱۷۸
عمرو بن ہند ۶۴
عمرہ بنت علقمہ ۵۵۴
عمیرہ بن ابی وقاص ۴۰۰
عمیر بن عدی ۵۰۴،۵۰۶
عمیر بن وہب ۴۰۶،۴۲۶
عمیروقاص ۴۱۴
عیاض قاضی ۱۶۹،۱۷۱
عیسیٰ ؑ بن مریم ۲۲۱،۲۲۳،۲۲۵،۲۲۶،۲۲۷،۲۲۸،۲۵۵،
۲۷۹،۶۳۳،۸۹۲،۸۹۷،۹۱۷،۹۱۸،۹۲۴،۹۲۵
عینی علامہ ۱۶۹،۴۸۱
عبینہ بن حصن فزاری ۶۴۷
غزالی امام ۱۹۲
غزیہ ۶۴
غشمیر ۵۰۶
غطفان ۵۱۱،۵۱۲،۵۲۳ تا ۵۲۶،۵۳۲،۵۴۳،
۵۸۲،۶۴۶،۶۴۷،۶۶۵،۶۶۷ تا ۶۷۰،۸۱۲،۸۱۳
غفار ۱۴۲
غلام احمد قادیانی بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ۴۱۵،۸۴۷
غیلان بن سلمہ سقفی ۴۹۸
ف۔ق
فاطمہ /فاطمۃ الزہراء بنت حضرت محمد ﷺ ۱۲۱ تا ۱۲۲،۵۱۱،
۵۱۴ تا ۵۱۶،۵۲۴،۵۴۲،۵۶۱،۵۹۴،۷۶۲،۷۷۸
فاطمہ بنت اسد ۶۰۶،۶۰۷
فاطمہ بنت الخطاب ۱۴۲
فاطمہ بنت قیس ؓ ۱۷
فرات ۵۲۷
فرعون ۷۲۱،۷۲۷،۷۷۸،۹۰۱،۹۱۷
فطیون رئیس یہود مدینہ ۶۶
فہر بن مالک ۸۸،۹۲،۹۵،۱۴۰
قارہ ۱۷۴،۵۷۸
قاسم بن محمد ؐ ۱۷۲
قبط ۹۱۶،۹۱۷،۹۱۸
قرطا ۷۴۸
قریش(قبیلہ) ۵۵،۵۹،۶۸،۷۷،۷۸،۸۰،
۸۷ تا ۹۳،۹۵ تا ۱۰۳،۱۱۳،۱۱۷،۱۱۸،۱۲۲،۱۲۹،۱۳۰،
۱۳۱،۱۳۸،۱۴۰ تا ۱۴۵،۱۴۷ تا ۱۶۳، ۱۶۵ تا ۱۷۶،
۱۷۹ تا۱۸۹،۱۹۳ تا ۱۹۶،۱۹۸،۲۰۳،۲۱۰،۲۱۱،۲۱۲،
۲۴۱ تا ۲۴۴، ۲۴۶،۲۴۸،۲۵۲،۲۵۸ تا ۲۶۷،۲۷۰،
۲۷۱،۲۷۶،۲۷۸ تا ۲۸۲، ۳۱۲،۳۱۴ تا ۳۱۶،۳۱۸،۳۱۹،
۳۲۲،۳۳۱،۳۳۳،۳۳۴ تا ۳۴۰،۳۵۴،۳۵۵،۳۶۲،
۳۶۵ تا ۳۷۸،۳۸۴ تا ۳۹۹،۴۰۱ تا ۴۱۰،۴۱۲،۴۱۳،
۴۱۵،۴۱۸ تا ۴۲۳،۴۲۵،۴۲۶،۴۲۸،۴۴۹،۵۱۱،۵۱۲،
۵۱۳،۵۱۷،۵۲۳ تا ۵۲۸،۵۳۲،۵۴۳،۵۴۴ تا ۵۴۶،
۵۴۹،۵۵۰ تا ۵۶۴،۵۶۷ تا ۵۷۰،۵۷۶،۵۷۸ تا
۵۸۲،۵۸۷،۵۹۵،۵۹۶،۶۱۰،۶۲۶ تا ۶۲۹،۶۴۶،
۶۴۷،۶۴۸،۶۶۲،۶۶۴،۶۶۸ تا ۶۷۲،۶۸۶،۶۹۳،
۷۲۶ تا ۷۳۰،۷۴۰،۷۴۷،۷۵۱،۷۵۲،۷۵۵،۷۵۷،
۷۸۴،۸۳۳،۸۳۵،۸۴۱،۸۴۳،۸۴۴،۸۴۸ تا
۸۵۵،۸۵۷ تا ۸۵۹، ۸۶۳،۸۶۶،۸۶۷،۸۷۰،
۸۷۱ تا ۸۷۴،۸۷۶،۸۸۰،۸۸۲،۸۸۴،۸۸۹،
۸۹۹،۹۰۲،۹۰۳،۹۳۰
قس بن ساعدہ ۷۰
قسطلانی علامہ ۱۷۱،۴۸۱،۸۳۵
قصی بن کلاب ۸۸،۹۵،۵۵۰،۷۲۹
فضلہ بن ہاشم ۹۸
قطبہ بن عامر ۲۴۷،۲۴۹
قطورا حرم حضرت ابراہیم علیہ السلام ۷۳
قیس ۸۰۸
قیس بن سعد ؓ ۷۴۱
قیس عیلان ۱۱۷،۱۱۸
قیصر روم ۷۶۵،۷۶۹،۷۷۰،۷۷۱،۸۷۴،۸۷۵،
۸۹۶،۸۹۷،۸۹۸،۸۹۹،۹۰۰،۹۰۲،۹۰۳،۹۰۴،
۹۰۵،۹۰۷،۹۰۸،۹۰۹،۹۱۱،۹۱۲،۹۱۳،۹۱۵،۹۱۶،۹۲۸
قید اربن اسماعیل ۷۹،۸۷،۴۲۰
ک۔گ
کرزبن جابر فہری ۳۷۲،۳۷۳
کرشن جی مہاراج ۱۵۰،۵۰۳،۷۶۵
کسریٰ بن ہرمز شہنشاہ ایران ۱۰۵،۲۶۸،۲۸۱،۶۵۱،
۸۵۱،۸۸۹،۸۹۶،۸۹۷،۸۹۸،۸۹۹،۹۰۰،
۹۰۱،۹۱۱،۹۱۲،۹۱۳،۹۱۴،۹۱۵،۹۱۶،۹۲۷
کعب (زید کے چچا) ۱۲۵
کعب بن اسد رئیس قریظہ ۶۵۹،۶۷۵،۶۸۰،۶۸۱
کعب بن اشرف ۵۰۶،۵۰۹،۵۲۷،۵۲۹،
۵۳۱،۵۳۵،۵۳۷،۵۹۱،۶۸۶،۷۵۵،
۸۱۲،۸۱۵ تا ۸۱۷
کعب بن زہیر ۶۰
کعب بن زید ؓ ۵۸۴،۵۸۵
کعب بن سلیم ۶۸۲
کعب بن عجرہ ۳۵۳
کلثوم بن الہدم ۲۹۵،۳۲۰
کلیب بن ربیعہ ۶۱
کنانہ بن ربیع ۵۹۳،۶۴۶
کنفیوشس ۷۴۲
گبن ۲۳۰
گوبند جی گورو ۷۶۵
گوتم بدھ ۷۴۲
ل۔م
لات بت ۶۸،۱۵۸،۱۶۸،۲۴۳
لبید ۴
لبینہ رضی اﷲ عنہ ۱۵۹
مالک بن انس امام ۳۱،۳۲،۳۵،۴۳۸
مالک بن تیہان ابو الہیشم ۲۴۹
مالک بن طلاطلہ ۱۵۴
مالک بن نضر ۹۲
مارگولیتھ پروفیسر ۹۲۱
مارگولیس ۳۷۵،۳۷۶،۵۰۳،۵۰۴،
۵۰۸،۵۰۹،۵۲۱،۵۲۲،۵۲۵ تا ۵۲۷،۶۸۹
ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا ۱۲۱،۹۱۹،۹۲۰
مالوٹوومسٹر ۷۹۳
مجاہد بن جبیر ۴۵۲،۴۵۷
مجددی بن عمرو الجہنی ۳۷۲
مجوس ۲۴۱،۹۱۳
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ۴،۵،۶،۹،۱۰،۷۰،۷۴،۷۷،
۱۰۴،۱۰۵،۱۰۸،۱۲۳،۱۳۰،۱۳۱،۱۳۵،۱۳۹،۱۴۲،
۱۴۴،۱۴۵،۱۴۶،۱۵۶،۱۵۷،۱۵۸،۱۶۱،۱۶۲،۱۷۶،
۱۷۷،۱۷۸،۱۸۲،۱۸۳،۱۸۴،۱۸۵،۱۸۷،۱۹۲،۱۹۳،
۱۹۴،۱۹۶،۲۰۶،۲۱۰،۲۱۹،۲۲۰،۲۲۴،۲۲۷،۲۴۲،
۲۴۶،۲۴۸،۲۵۳،۲۵۴،۲۵۸،۲۶۰،۲۶۳،۲۶۷،
۲۹۸،۳۰۳،۳۰۷،۳۱۴،۳۱۵،۳۱۶،۳۳۱،۳۳۶،
۳۳۸،۳۴۳،۳۹۶،۴۱۰،۴۱۹،۴۲۱،۴۲۲،۵۰۳،
۵۰۴،۵۱۷،۵۲۸،۵۳۰،۵۴۸،۵۵۰،۵۵۲،۵۵۶،
۵۵۹،۵۶۰،۵۶۷،۵۸۸،۵۸۹،۶۱۹،۶۴۹،
۶۵۹،۶۶۲،۶۶۳،۶۶۸،۶۷۶،۶۷۷،۶۸۵،
۸۳۲،۴۳۸،۸۴۷،۸۵۰،۸۵۱،۸۵۲،۸۵۹،
۸۷۴،۸۹۹،۹۰۲،۹۰۶،۹۲۴
انادعوۃ ابراہیم ۸۷
آپ کی آمد سے عربوں میں انقلاب ۵
آپ کا زمانہ ۵۷۰ ء سے ۶۳۲ ء تک قرار دیا گیا ہے ۳
محمد ادریس ابو حاتم ۴۱
محمد اسحاق ۳۶
محمد بن احمد الذہبی ابو عبداﷲ ۳۰
محمد بن ادریس الشافعی ۳۲
محمد بن اسماعیل بخاری ۳۱
محمد بن بشاربندار ۴۲
محمد بن جریر الطبری ابو جعفر ۳۴،۳۷
محمد بن سعد ۳۷
محمد بن سیرین ۴۵۷
محمد بن عبدالباقی بن یوسف الزرقانی ۴۴
محمد بن عبداﷲ ابو عبداﷲ الحاکم ۸۵۹
محمد بن عبدالرحمن السخاوی ۲۸
محمد بن عمرالواقدی ۳۶،۴۳
محمد بن عیسیٰ ترمذی ابو عیسیٰ ۳۱،۳۸
محمد بن عبدالکریم ابو الولید ۳۸
محمد بن کعب ۶۸۲
محمد بن مسلم بن شہاب زہری ۳۵
محمد بن مسلمہ انصاری ۵۳۰،۵۳۱،۵۳۴،۵۴۸،
۵۸۹،۵۹۲،۷۴۹،۷۵۰،۷۵۴ تا ۷۵۶
محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی ۳۱
محمد مختار پاشا مصری ۲۹۶
محمود بن الربیع ۱۸
محمود پاشا مصری ۱۰۵
محیصہ ۵۳۷
مدین (قوم) ۷۳
مدیانی ۶۹۱
مذحج ۶۸
مریم بنت عمران ۴۸۸،۶۳۳
مزینہ ۷۵۶
مسافع بن صفوان ۶۴۳
مسروق ۶۳۹
مسطح بن اثاثہ ۶۳۸،۶۳۹
مسلم بن حارث ۳۵۰،۳۵۲
مسلم امام مسلم بن حجاج ۳۱
مسیح ناصری عیسیٰ بن مریم ۲۴،۷۴،۸۳،۱۱۴،۲۷۸،
۴۵۴،۵۰۳،۶۹۱،۸۴۰،۸۹۹،۹۱۷
مسیلمہ کذاب ۵۲،۱۴۱،۵۵۵،۷۵۳،۹۲۹
مسیوایتین برثلیمی ۹۲۱
مضاض بن عمرو جرہمی ۷۶،۸۷
مصعب بن عمیر ۱۴۷،۱۶۵،۲۵۰،۲۵۱،۳۱۰،
۳۲۱،۵۴۵،۵۵۵،۵۶۴
مضر ۵۸۵
مطعم بن عدی ۱۵۲،۱۸۹،۲۰۵،۴۱۵
مطلب بن عبدمناف ۹۸،۹۹،۱۰۰
معاذ بن حارث ۲۴۹،۴۱۱
معاویہ بن ابو سفیان امیر معاویہ ۱۱۸،۱۱۹،۱۳۹،
۱۴۱،۱۴۹،۵۹۴،۷۱۸،۷۱۹،۷۲۶
معاویہ بن مغیرہ ۵۶۹
معبد۔ رئیس خزاعہ ۵۶۸
معقل بن یسار ۴۹۴
مغیرہ بن شعبہ ۸۵۱
مقداد بن اسود (مقداد بن عمرو) ۴۰۱
مقداد بن عمرو ۳۷۱،۴۰۱
مقوقس ۷۴۶،۸۹۶،۹۱۰،۹۱۶،۹۱۷تا ۹۲۱
مکرز بن حفص ۸۵۲،۸۵۳،۸۵۸
مکحول بن عبداﷲ ۴۵۷
منات بت ۱۶۸
منبہ بن الحجاج ۱۵۴
منذربن ساوی ۹۱۳
منذربن عمرو انصاری ۵۸۳
منذر بن محمد ۵۸۴
منذر ثالث ملک حیرہ ۶۲
منصور قلاون ۹۰۸
موسیٰ علیہ اسلام ۵۲،۷۴،۱۳۵،۱۵۰،۲۲۱،
۲۲۲،۲۲۳،۲۲۵تا۲۲۸،۲۳۱،۲۵۵،۲۷۸،۲۷۹،
۵۱۸،۶۷۵،۶۷۶،۷۷۸،۸۳۹،۸۹۲،۹۰۱،۹۱۸
موسیٰ بن عقبہ ۳۵،۴۵۷
میور سر ولیم /سرولیم میور ۴،۸،۹،۱۴،۷۰،۱۰۹،۱۱۹،۱۳۵،
۱۵۴،۲۰۶،۲۴۲،۲۴۸،۳۴۳،۳۴۴،۳۸۰،۴۱۴،۴۱۵،
۴۲۲،۴۲۳،۴۸۶،۵۰۵،۵۱۱،۵۲۵،۶۲۳ تا ۶۲۷،
۶۴۰،۶۶۱،۶۶۳،۶۸۲،۶۸۳،۷۰۹،۷۱۰،
۸۰۸،۸۰۹،۸۳۸،۸۸۰،۹۱۲
میسرہ ۱۲۱،۵۵۰
ن۔و
نابت بن اسماعیل ۸۷
نابغہ ذبیانی ۴
نافع مولیٰ ابن عمر ۴۵۲،۴۵۷
نائلہ بت ۶۸
نبیہ بن الحجاج ۱۵۴
نپولین ۴۹۶
نجاشی ۱۶۵،۱۷۲،۱۷۳،۱۷۴،۱۸۶،۳۱۵،
۳۳۵،۸۵۱،۸۹۶،۹۰۲،۹۲۳ تا ۹۲۷
نسائی امام ۴۲
نسربت ۶۸
نسطاس ۵۸۱
النظر بن حارث ۱۳۰،۱۳۱،۱۸۰،
۴۰۳،۴۱۶،۴۲۲
نضر بن کنانہ ۹۲،۹۵
نعمان بن ثابت ابو حنیفہ ؓ ۳۲
نعیم ۵۹۵
نعیم بن مسعود ۶۶۷ تا ۶۶۹
نکلسن ۱۰،۳۴۴
نمیلہ بن عبداﷲ ؓ ۸۴۳
نوح علیہ السلام ۷۳
نوفل بن خویلد ۴۰۳
نوفل بن عبداﷲ ۶۶۲
نوفل بن عبدمناف ۹۷،۹۹
نولڈیکی ۳۴۴
نووی امام ۴۲،۱۶۹
نیل ۲۲۱
واثلہ بن اسقع ۳۵۳
الو اقدی محمد بن عمر ۳۶،۳۷،۴۰،۴۱،۴۲،۴۳،۳۷۲،
۴۸۱،۵۰۴،۵۰۵،۵۰۷،۵۲۱،۶۲۰،۶۲۳،۸۱۷
وثیق رومی ۵۵۴،۵۵۵
وحشی ۷۹
ود (بت) ۶۸
ورقہ بن نوفل ۷۰
ولی اﷲ شاہ محدث دہلوی ۱۹۲
ولید بن عتبہ بن ابو سفیان ۱۱۹
ولید بن مغیرہ ۱۲۳،۱۴۷،۱۵۳،۱۵۴،
۳۱۶،۳۲۱،۳۳۸،۴۱۹
ولید بن ولید ۴۱۹
ہ۔ ی
ہاجرہ علیہا السلام ۷۳ تا ۷۹، ۸۳ تا ۸۵،۵۱۴
ہارون ۲۲۱،۲۲۷،۲۲۸،۹۰۱
ہاشم بن عبدمناف ۹۷،۹۸،۹۹
ہالہ ابن خدیجہ ۱۲۲
ہالہ بنت خویلد ۱۹۵
ہالہ بنت وہب ۱۰۳
ہباربن اسود ۴۱۸
ہبل بت ۶۸
ہذیل ۶۸،۱۴۱،۱۵۸
ہرقل ۱۳۰،۸۷۴،۸۷۵،۸۹۷،۸۹۹ تا ۹۰۲،
۹۰۵تا ۹۱۰،۹۱۲
ہشام بن عمرو ۱۸۸
ہند بنت خدیجہ ۱۲۲
ہند بنت عتبہ زوجہ ابو سفیان ۴۲۱
ہند زوجہ ابو سفیان ۵۴۵،۵۵۱،۵۶۳
ہندہ زوجہ ابو سفیان ۶۳
ہنید بن عارض رئیس بنو جذام ۷۶۹
ہوازن ۵۱،۱۰۶،۱۱۰،۱۱۷
ہود علیہ السلام ۵۲،۵۳
ھوذہ بن علی رئیس یمامہ ۹۲۹
ہمدان ۶۸
یاسر ۱۵۹
یاقوت بن عبداﷲ الحمودی ابو عبداﷲ ۴۵
یحییٰ ؑ ۲۲۱،۲۲۷
یحی بن سعید القطان ۲۹
یحی بن کثیر ۴۴۶
یحی بن معین ۲۴،۲۵،۴۱
یزد جرو ۹۱۲
یزید بن ثعلبہ ابو عبدالرحمن ۲۴۹
یزید بن ربیعہ الاسود ۹۶
یزید بن معاویہ بن ابی سفیان ۵۹۴،۷۲۶،۷۱۸
یزید بن یزید ۵۰۶
یسار ؓ (آنحضرت ؐ کا خادم) ۵۱۲،۸۳۷
ایسعزر کاہن ۶۹۱
یعقوب علیہ السلام ۸۰،۸۱،۵۰۳
یعقوب بن ابراہیم ابو یوسف ؑ ۳۸
یعوق بت ۶۸
یغوث بت ۶۸
یمان ؓ ۵۵۴
یوسف بن زکی المزی جمال الدین ۲۹
یوسف بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالبر۔ ابو عمرو ۳۰
یوسف بن یعقوب علیہما السلام ۸۴،۸۵،۲۲۱،
۲۲۷،۶۳۸
یونس بن متی ۲۰۵،۲۰۶،۲۷۹،۷۴۲
ا
آسٹریلیا ۴۵۷
ابوا ۱۱۱،۳۷۱
ابی سینیا دیکھئے حبشہ
احد ۲۹۱،۳۹۲،۵۴۵،۵۴۷،۵۴۸،
۵۴۹،۵۵۲،۵۵۶،۵۶۰،۵۶۲،۵۶۶،
۵۶۹،۵۷۰،۵۷۱،۸۸۵
الاحقاف ۵۲
احمد نگر (ضلع جھنگ) عرض حال
اریس (اسم بئر) ۸۹۵
اسرائیل ۲۴۸
اسکندریہ ۹۱۶،۹۱۷
افریقہ ۱۰۱،۱۷۲،۴۵۷،۸۷۰
افریقہ براعظم ۱۶۵،۸۹۶،۹۲۲
اکسوم(Axsum) ۱۶۵،۱۷۲
الِیڈ ۵۵۲
امریکہ(جنوبی) ۱۹۱،۴۵۴،۴۵۵،۴۵۶،
۴۵۷،۵۷۵،۷۹۰
انگلستان ۱۰،۱۱۹،۳۴۴،۴۸۵
ایتھوپیا دیکھئے حبشہ
ایڈیسیا ۸۹۹
ایران ۲۶۸،۳۶۵،۴۲۳،۴۳۰،۶۴۸،
۸۹۷،۸۹۹،۹۱۱
ایشیائے کوچک ۸۹۹
ایلیا (بیت المقدس) ۸۹۹،۹۰۲،۹۰۶،۹۰۷،۹۲۸
ب۔پ۔ت
بابل ۸۵
بحر احمر ۵۱،۵۹،۱۶۵،۱۷۲،۲۹۱
بحر ہند ۴۷،۵۸
بحرین ۵۱،۵۲،۵۸،۵۹،۱۲۰،۲۹۲
بحیرہ احمر ۱۶۵،۸۷۲
بدر ۵۹،۳۱۶،۳۳۳،۳۶۱،۳۶۲،۳۷۳،
۳۸۴،۳۸۵،۳۸۶،۳۸۸،۳۹۰،۳۹۱،۳۹۲،
۳۹۳،۳۹۷،۳۹۸،۴۰۱،۴۰۲،۴۰۳،۴۰۸،
۴۱۴،۴۱۶،۴۲۱،۴۲۲،۴۲۵،۴۲۸
برک الغماد ۱۷۴
بصرہ (عراق) ۳۰۰
بصریٰ (شام) ۱۱۳،۹۰۰،۹۰۲
بکہ وادی ۷۴،۷۶،۸۶،۳۳۷
بواط ۳۷۳
بئر معونہ ۲۵۷،۵۸۲،۵۸۳،۵۸۵ تا ۵۸۸،۵۹۱
بیت المقدس ۲۱۳،۲۱۴،۲۱۷،۲۲۳،۲۲۴،۲۲۹،۲۳۰،
۲۳۱،۲۳۲،۳۰۲،۳۷۸ تا ۳۸۰،۸۴۲،۸۹۹،۹۰۲،۹۲۸
پاکستان عرض حال
تبوک ۸۰۶
تہامہ ۵۱
تیما ۵۲،۶۹،۴۲۴
ج۔ ج۔ح۔خ
جبل الراۃ
جحفہ ۳۹۷
جدہ ۵۱
جرمنی ۹،۳۴۴
جموم ۷۵۶
جوف ۵۲
جونس برگ ۱۹۱
چنیوٹ عرض حال
چین ۹۲۷
حبشہ ۵۱،۱۰۱،۱۰۲،۱۴۱،۱۶۵ تا ۱۶۹،
۱۷۱،۱۷۲،۱۷۴،۱۸۶،۲۱۰،۲۸۰،۳۱۵،۳۳۵،
۴۶۴،۵۷۹،۸۹۶،۹۲۲،۹۲۳،۹۲۵ تا ۹۲۷
حجاز ۴۹،۵۱،۵۲،۵۵،۵۸،۵۹،۷۴،
۷۸،۷۹،۲۹۱،۳۶۴،۵۲۶،۵۹۳،۶۰۷،
۶۲۸،۶۴۷،۸۰۶،۸۱۵،۸۷۲،۹۱۴،۹۲۸
حجر ۸۹،۲۵۹
حجون ۱۱۱،۱۹۵
حدیبیہ ۷۷۰،۸۴۴،۸۴۸،۸۵۲،۸۵۳،
۸۵۳،۸۵۵،۸۶۱،۸۶۵،۸۶۶،
۸۶۷،۸۷۰،۸۷۲،۸۹۵
حراء کوہ (جبل) ۱۹۰
الحسائ ۵۱
حسمی ۷۶۹،۷۷۱
حضر موت ۵۸،۱۶۴
حمراء الاسد ۵۶۷،۵۶۸،۵۶۹
حمص ۸۹۹،۹۰۲،۹۰۶،۹۰۷
حنین ۴۰۴
حویلہ ۷۹
حیرہ ۵۳،۶۲
خرائ ۳۷۳
خلیج عمان ۴۷
خلیج فارس ۴۷،۵۱
خیبر ۵۲،۶۹،۱۹۱،۳۰۱،۵۹۳،۶۴۷،
۷۳۴،۷۳۸،۷۷۱،۸۰۶،۸۰۷،۸۱۲،
۸۳۱،۸۳۲،۸۳۳،۹۱۲،۹۲۶
د۔ذ۔ر۔ز
دومۃ الجندل ۵۹،۶۰۷،۶۰۸،۸۰۴،۸۰۶
ذوالحلیفہ ۸۴۳،۸۷۱
ذوالقصہ ۷۵۴،۷۵۵
ذوالمجاز ۲۰۳،۲۴۲،۲۴۳
ذی امر ۵۲۳،۵۲۴
راس کماری (بھارت) ۹۲۷
الربع الخالی ۴۸
رجیع ۵۷۷،۵۷۸،۵۸۱،۵۸۲،
۵۸۵،۵۸۶،۵۸۷
روحائ ۴۰۱،۵۶۸
روس ۷۹۳،۷۹۴
روم ۳،۵۳،۲۴۱،۴۲۸،۴۳۰،۸۷۴،۹۰۷
روما ۸۹۶،۸۹۷،۸۹۸،۸۹۹،
۹۰۰،۹۰۲،۹۰۵ تا ۹۰۷
رومیۃ ۹۰۲،۹۰۶
ریحانہ ۶۸۲،۶۸۳
زمزم ۷۶،۸۷،۹۵،۱۰۰،۱۰۱،۱۰۹،۲۲۰
س۔ش
سپین ۹۲۷
سفوان ۳۷۳
سلع (پہاڑی) ۶۵۸
سنح ۴۸۶
سیف البحر ۳۷۲،۸۷۲،۸۷۳
شام ۴۷،۵۱،۵۸،۵۹،۶۹،۸۸،۹۸،۱۰۴،
۱۱۳،۱۱۶،۱۲۱،۱۴۰،۱۴۱،۱۷۵،۱۸۱،۲۰۷،۲۱۰،۲۵۲،
۲۶۸،۲۹۱،۳۰۷،۳۰۸،۳۶۷،۳۸۴،۳۹۵،۵۲۰،
۵۲۶،۵۶۶،۵۹۳،۶۰۷،۶۰۸،۶۵۱،۷۳۸،۷۴۱،
۷۵۷،۷۶۹،۸۰۶،۸۷۲،۸۹۸،۹۰۰،۹۰۲،۹۱۸
شعب ابی طالب ۹۹،۱۸۷،۱۸۹،۱۹۲،۲۰۳،۴۱۵
شعیب بنی ہاشم ۱۰۵
شعیبہ (بدر گاہ بحر احمر) ۱۶۶
شور ۷۹
ص۔ض۔ط
صفا ۷۵،۱۴۱،۱۴۵،۱۴۶
صنعاء (شام) ۵۱،۶۵۱
ضریہ ۷۴۹
طائف ۴۸،۴۹،۶۰،۶۸،۶۹،۱۱۷،۱۵۲،
۲۰۳ تا ۲۰۶،۲۰۹،۲۴۲،۲۴۴،۲۴۸،۲۴۹،۲۷۸،
۳۰۸،۳۲۵،۳۳۵،۳۶۵،۳۷۴،۳۷۵،۴۱۵،۷۴۲
طرف ۷۶۸
ع۔غ
عدوا ADOWA ۱۶۵
عراق ۴۷،۷۳،۱۳۹،۱۸۱،۳۷۵،۴۲۳،۵۲۶
عرب ۳ تا ۵،۱۰،۱۱،۳۵،۳۸،۳۹،۴۷ تا ۵۳،
۵۵،۵۷ تا ۷۱، ۷۴،۷۷ تا ۷۹،۸۵،۸۷ تا ۸۹، ۹۲،
۹۵،۹۷،۱۰۱ تا ۱۰۳، ۱۱۶ تا ۱۱۸، ۱۲۳، ۱۲۸ ،۱۲۹،۱۴۸،
۱۵۱،۱۶۲،۱۶۵،۱۶۶،۱۷۲،۱۷۴،۱۸۱،۱۸۵،۲۰۳،۲۰۵، ۲۱۰،۲۳۰،۲۴۱،۲۴۲ تا ۲۴۴، ۲۴۸،۲۵۴،۲۶۰،۲۶۸،
۲۷۸ تا ۲۸۲، ۲۹۱ تا ۲۹۴، ۳۰۳،۳۱۰،۳۱۲،۳۱۵،
۳۱۸ تا ۳۲۰،۳۲۲،۳۲۵،۳۲۸،۳۳۴،۳۳۶،۳۳۷ تا
۳۴۰،۳۴۴،۳۵۳ تا ۳۵۵،۳۵۸،۳۶۵،۳۷۱،۳۷۵،
۳۸۰،۳۸۳،۳۸۹،۳۹۶،۴۰۶ تا ۴۰۸،۴۱۷،۴۲۰،
۴۲۲،۴۲۳،۴۲۴،۴۲۵،۴۳۰،۴۳۱،۴۵۳،۴۵۶،
۴۷۶،۴۸۵ تا ۴۸۸،۴۹۹،۵۰۹،۵۱۱،۵۲۰،۵۲۴،
۵۲۷،۵۲۹ تا ۵۳۰،۵۳۲ تا ۵۳۵، ۵۴۳،۵۴۵،۵۶۳،
۵۶۶،۵۷۰ تا ۵۷۶،۵۸۲،۵۸۵،۵۸۶،۵۹۳،۶۰۷،
۶۱۳،۶۱۴،۶۱۸،۶۱۹،۶۲۷،۶۳۱،۶۴۶،۶۴۷،
۶۵۸،۶۶۹،۶۷۲،۶۸۱،۶۸۶،۶۹۷،۶۹۸،۷۱۲،
۷۲۹،۷۳۶،۷۴۷،۷۴۸،۷۵۷،۷۷۸،۷۷۹،
۷۸۱،۷۸۴،۷۹۲،۸۰۳،۸۰۶،۸۱۵،۸۱۶،۸۳۶،
۸۴۲،۸۴۹،۸۵۱،۸۵۸،۹۰۰،۹۰۲،۹۰۵،۹۰۷،
۹۱۲،۹۱۸،۹۱۹،۹۲۶،۹۲۸،۹۳۰
عرفہ ۸۹۳
عرنہ ۵۷۶
عریض ۵۱۳،۵۴۵
عسفان ۵۷۸،۷۶۳،۸۴۳،۸۶۵
عشیرہ ۳۷۳
عقبہ ۲۴۹،۲۵۰
عکاظ ۵۹،۶۰،۷۰،۱۱۷،۲۰۳،۲۴۲
عمان ۴۷،۴۸،۵۹
عیص ۳۷۲،۷۵۶،۷۵۷
غار ثور ۱۳۸،۲۶۳،۲۶۵،۲۶۶،۳۳۵،۳۳۷
غار حرائ ۱۲۶،۱۲۷،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۶،۲۷۷
غران (وادی) ۷۶۲
غمر(چشمہ) ۷۵۳
غسان ۲۴۳،۲۹۳،۸۹۶،۹۰۰،۹۰۲،۹۲۸
ف۔ق۔ک۔ل
فاران ۷۸،۷۹
فارس نیز دیکھئے ایران
فدک ۸۰۶،۸۰۷
فلسطین ۷۳
قادسیہ ۷۴۱
قادیان ۲۸۷،۲۸۹،۳۸۴،۷۴۵،۷۴۶
قبائ ۲۹۴،۲۹۵،۲۹۶،۳۰۱،۳۲۰،۴۰۱
قردہ ۵۲۶
قرقرہ ۵۱۲،۸۳۲
قرقرۃ الکدر ۵۱۱،۵۲۳
قریٰ وادی /وادی القریٰ ۷۷۱،۸۰۸،۹۱۲
قسطنطنیہ ۸۹۷،۸۹۸،۸۹۹،۹۱۱،۹۲۱
قطن ۵۷۶
الکدر ۵۱۲
کراع الغمیم ۸۶۵
کوفہ ۴۲۳
کوہ صفا ۷۵،۱۴۱،۱۴۵،۱۴۶
لا پلاٹا (جنوبی امریکہ) ۱۹۱
م
مجنہ ۲۰۳،۲۰۸
مدائن ۶۵۱
مدین ۵۱،۵۲،۷۳
مدینہ ۴۹،۵۱،۵۳،۵۹،۶۶،۷۸،۹۸،۹۹،
۱۰۴،۱۱۰،۱۱۹،۱۴۱،۱۴۷،۱۴۸،۱۷۴،۲۱۲،۲۴۵،۲۴۶،
۲۴۸،۲۴۹،۲۵۰ تا ۲۵۲،۲۵۶،۲۵۷،۲۵۹،۲۶۰،
۲۶۰،۲۶۳،۲۶۸،۲۶۹،۲۷۰،۲۷۶،۲۷۸،۲۸۰،
۲۹۱ تا ۳۰۲،۳۰۶ تا ۳۲۰،۳۲۴،۳۲۵،۳۳۳،۳۳۶،
۳۳۸ تا ۳۴۱،۳۶۴ تا ۳۶۸،۳۷۰،۳۷۲ تا ۳۷۴،
۳۷۶ ،۳۸۰،۳۸۴،۳۸۵،۳۸۷ تا ۳۹۳،۳۹۵ تا
۳۹۶،۳۹۸ تا ۴۰۴،۴۱۴،۴۱۶ تا ۴۱۸،۴۲۰،۴۲۳،
۴۲۵،۴۲۷،۴۳۸،۴۸۶،۵۰۴،۵۰۷،۵۰۹،۵۱۱ تا
۵۱۳،۵۱۶ تا ۵۱۸،۵۲۰ تا ۵۲۹، ۵۳۲،۵۳۳،۵۳۶،
۵۹۵،۵۹۶،۵۹۷،۶۰۳،۶۰۶ تا ۶۰۹،۶۱۹،۶۲۲،
۶۲۸،۶۲۹،۶۳۱ تا ۶۳۵،۶۴۰،۶۴۶ تا ۶۴۸، ۶۵۱،
۶۵۸،۶۵۹،۶۶۵،۶۶۷ تا ۶۶۹، ۶۷۱ تا ۶۷۴،
۶۷۷،۶۷۹،۶۸۲،۶۸۳،۶۸۵ تا ۶۸۸،۶۹۰،
۶۹۵،۷۱۱ تا ۷۱۳،۷۳۴،۷۴۰،۷۴۷،۷۴۸،۷۴۹،
۷۵۰،۷۵۲ تا ۷۵۸،۷۶۲ تا ۷۶۴، ۷۶۹ تا ۷۷۱،
۸۰۶ تا ۸۰۸،۸۱۲،۸۱۳،۸۱۵،۸۱۷،۸۳۱ تا ۸۳۸،
۸۴۲،۸۴۳،۸۵۳،۸۶۳،۸۶۵،۸۶۸،۸۶۹،
۸۷۰ تا ۸۷۳،۸۷۵،۸۷۷ تا ۸۸۲،۸۸۴،۸۸۵،
۸۹۹،۹۱۲،۹۱۴،۹۱۹،۹۲۰،۹۲۸،۹۲۹
مراکش ۹۲۷
مروہ ۷۴،۷۵،۸۲
مریسیع ۶۲۹،۶۳۰
مسجد اقصیٰ ۲۱۷،۲۲۳،۲۲۹
مسجد حرام ۹۲،۹۹،۲۱۱،۲۱۷،۲۲۰،۳۷۷،۳۷۹،۸۶۶
مسقط ۵۱
مشقر ۵۹
مصر ۵۸،۷۳،۷۶،۸۴،۸۵،۷۴۶،
۷۸۴،۸۵۲،۸۹۶،۸۹۹،۹۱۰،۹۱۶،۹۱۷،۹۱۹،۹۲۱
معبد ۱۰۱،۱۰۲،۵۶۸
مکہ ۴۸،۵۹،۶۰،۷۳،۷۴،۷۵ تا ۷۸،۸۲،
۸۵،۸۷ تا ۹۲، ۹۵،۹۸ تا ۱۰۰، ۱۰۲،۱۰۳،۱۰۶ تا ۱۱۳،
۱۱۷،۱۲۰ تا ۱۲۲،۱۲۶،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۷،۱۴۲،۱۴۴،۱۴۶،
۱۴۹،۱۵۲،۱۵۳،۱۵۷ تا ۱۵۹،۱۶۲ ،۱۶۶ تا ۱۶۸،۱۷۲،
۱۷۴،۱۷۹،۱۸۲ تا ۱۸۴،۱۸۷،۱۸۹،۱۹۰،۱۹۲،۱۹۵،
۲۰۳ تا ۲۰۵،۲۰۹،۲۱۲ تا ۲۱۴،۲۱۶ تا ۲۱۸،۲۲۵،۲۳۱،
۲۳۲،۲۴۱،۲۴۲،۲۴۳،۲۴۵،۲۴۶ تا ۲۵۰،۲۵۲،
۲۵۸ تا ۲۶۳،۲۶۵ تا ۲۷۰،۲۷۵،۲۷۶، ۲۷۸ تا ۲۸۱،
۳۸۶،۵۰۸،۵۶۳،۸۵۳
منٰی ۸۲،۱۲۶،۱۹۰،۲۴۲،۲۴۹،۲۵۰،۷۷۵
مواب ۲۹۱
موریا ۸۲
مہرہ ۵۱
ن
نجد ۴۸،۵۰،۵۲،۵۸،۲۵۹،۵۱۱،۵۱۲،۵۲۳،
۵۲۶،۵۸۲،۵۸۳،۵۸۶،۶۰۷،۶۴۶،
۶۴۷،۶۸۲،۷۴۹،۷۵۶،۸۱۲،۸۱۳
نجران ۵۱،۶۹،۷۳۴،۷۳۶،۹۰۹
نخلہ ۶۰،۶۸،۲۰۵،۲۰۷،۲۰۹،۳۷۴،
۳۷۵،۳۷۶،۳۹۵،۵۰۸
نصیبین ۲۰۷،۲۱۰
نینوا ۲۰۵،۲۰۶،۷۴۲
نیل دریا ۱۷۴،۲۲۱
و۔ہ۔ی
وبا ۵۹
ودان
وادی بدر ۴۰۳،۴۱۴،۴۲۲
وادی حجون (مکّہ) ۷۵،۸۴۴
وادی صفرائ ۴۰۱
وادی عریض ۵۱۳
وادی فاطمہ ۷۸
وادی القریٰ ۷۷۱،۹۱۲
ہندوستان ۵۸،۱۵۰،۲۸۷،۳۸۰،۳۸۴،۴۵۷،
۴۶۴،۴۸۵،۴۸۶،۶۱۷
یثرب ۵۹،۶۶،۶۹،۹۸،۹۹،۱۰۴،۱۱۰،۱۴۷،
۱۵۷،۱۷۴،۲۱۰،۲۳۱،۲۴۴،۲۴۵،۲۴۶،۲۴۷ تا ۲۵۰،
۲۵۴،۲۵۵،۲۵۸ تا ۲۶۱،۲۶۶،۲۶۹،
۲۷۸،۲۸۰،۲۹۱ تا ۲۹۳،۴۰۷
یرون ۶۸۸
یروشلم ۸۹۹
یریحو ۶۹۱
یسار ۵۱۲
یمامہ ۵۲،۷۴۹،۷۵۱تا۷۵۳،۸۹۶،۹۲۹
یمن ۳۹،۴۸،۵۱،۵۸،۵۹،۶۸،۸۷،
۹۰،۹۸،۱۰۱،۱۰۲،۱۴۹،۲۱۰،۲۹۳،۶۵۱،۷۳۶،
۸۹۶،۹۱۲،۹۱۴ تا ۹۱۶،۹۲۸
ینبع ۳۷۳
یورپ ۱۳۹،۲۳۰،۲۳۸،۴۵۷،۴۵۹،
۶۱۶،۶۱۷،۷۶۵،۷۸۵،۷۹۰
یونان ۳۴۰
سرایا
سریہ ابو سلمہ ۵۷۵
سریہ حمزہ بن عبدالمطلب ۳۷۲
سریہ دومۃ الجندل ۸۰۳
سریہ زید بن حارثہ بطرف بنو سلیم ۷۵۶
سریہ زید بن حارثہ بطرف حسمی ۷۶۹
سریہ زید بن حارثہ بجانب طرف ۷۶۸
سریہ زید بن حارثہ بطرف عیص ۷۵۶،۷۵۷
سریہ زید بن حارثہ بطرف قردہ ۵۲۶،۵۳۸
سریہ زید بن حارثہ بطرف وادی القریٰ ۷۷۱
سریہ سعد بن ابی وقاص ۳۷۳
سریہ قرطا ۷۴۸
سریہ عبداﷲ بن حجش ۳۷۴
سریہ عبیدہ بن الحارث ۳۷۱
سریہ عمرو بن امیہ ۸۳۳،۸۳۵
سریہ محمد بن مسلمہ ۷۵۴
سریہ نخلہ ۵۰۸
سریہ وادی نخلہ ۳۹۵
غزوات
غزوہ ابوائ ۳۷۱
غزوہ اُحد ۳۹۲،۵۴۳،۵۷۳،۵۷۴،
۶۲۶،۵۸۷،۵۷۵
غزوہ احزاب ۳۳۳،۶۸۲،۶۸۹،۷۱۱،۷۴۷،
۷۴۸،۸۱۵،۸۸۳،۸۸۴
غزوہ بدر ۳۶۸،۳۷۳،۴۱۷
غزوہ بدر الموعد ۳۵۴،۵۹۴،۵۹۶
غزوہ بنو قریظہ ۶۷۴،۶۸۲،۷۱۱،۷۱۲،
۷۴۵،۸۰۶،۸۱۷
غزوہ بنو قینقاع ۵۰۷،۵۱۶،۵۲۱،۵۲۲،۵۲۷
غزوہ بنو لحیان ۷۶۲ تا ۷۶۴،۷۶۸
غزوہ بنو/بنی مصطلق ۶۱۱،۶۴۴
غزوہ بنو نضیر ۵۸۷،۵۹۰،۵۹۴،۶۸۷
غزوہ بواط ۳۷۳
غزوہ بئر معونہ ۳۷۵
غزوہ تبوک ۶۲۶
غزوہ حدیبیہ ۷۴۷
غزوہ حمراء الاسد ۵۶۷
غزوہ حنین ۳۳۴،۴۱۶
غزوہ خندق ۴۹،۳۳۳،۶۵۸،۶۶۶،
۶۷۴،۶۷۷،۶۹۲،۸۸۵
غزوہ خیبر ۹۲۰
غزوہ دومۃ الجندل ۶۰۷
غزوہ ذات الرقاع ۵۲۴
غزوہ ذی امر ۵۲۳،۵۲۴
غزوہ سفوان ۳۷۳
غزوہ سویق ۵۱۲،۵۱۳،۵۲۱،۵۴۳
غزوہ طائف ۵۵۵
غزوہ عشیرہ ۳۷۳
غزوہ عکاشہ بن محض ۷۵۳
غزوہ قرقرۃ الکدر ۵۱۱،۵۲۳
غزوہ مریسیع ۶۴۳
غزوہ موتہ ۷۷۱،۹۲۶
غزوہ ودان ۳۷۰،۳۷۱
جنگ
جنگ احد ۶۳،۱۵۳،۲۰۶،۲۵۶،۲۵۷،
۳۰۸،۳۸۹،۴۲۱،۵۴۳،۵۵۰،۵۶۹،
۵۷۰،۵۷۱،۵۷۵،۵۷۸،۵۹۴
جنگ احزاب ۶۳،۶۴۶،۸۱۲،۸۱۳
جنگ بدر ۶۳،۷۰،۱۲۲،۱۵۳،۱۷۴،۱۹۵،
۲۱۲،۲۵۵،۲۵۷،۲۹۴،۳۱۰،۳۷۰،۳۷۷،۳۸۴،
۳۸۷،۳۹۳،۳۹۴،۳۹۵،۴۲۰ تا ۴۲۵،۴۲۸،۴۲۹،
۵۱۱،۵۱۲،۵۱۵،۵۱۷،۵۱۸،۵۲۱،۵۲۵،۵۲۷،۵۲۸،
۵۴۳،۵۷۰،۵۸۹،۵۹۷،۷۵۷،۸۸۴
جنگ بسوس ۶۲
جنگ بعاث ۲۴۵،۲۴۶،۲۵۱،۲۵۵،۲۹۳،۳۱۴
جنگ جمل ۱۴۰
جنگ خندق ۶۷۲
جنگ خیبر ۱۷۴،۲۱۲،۸۰۷
جنگ صفین ۲۵۵
جنگ فجار ۱۱۷،۱۱۸
جنگ موتہ ۲۵۶
جنگ یرموک ۷۷۹
جنگ یمامہ ۱۴۱،۱۴۷،۵۵۵
کتابیات
‏BIBLOGRAPHY
سیرت خاتم النّبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم
قرآن کریم اور تفاسیر
۱- قرآن کریم
۲- تفسیر کبیر: محمد بن عمربن الحسین امام فخر الدین رازی (۵۴۳ھ تا ۶۰۶ھ)
۳- البحر المحیط: الشیخ اثیر الدین ابو حیان بن محمد بن یوسف الاندلسی (وفات ۷۴۵ ھ)
۴- تفسیر ابن کثیر: حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی (۷۰۰ ھ تا ۷۷۴ھ)
۵- الاتقان فی علوم القرآن: عبدالرحمن بن ابی بکر علامہ جلال الدین السیوطی (وفات ۹۱۱ھ)
۶- لباب النزول فی اسباب النزول: عبدالرحمن بن ابی بکر علامہ جلال الدین السیوطی (وفات ۹۱۱ھ)
۷- ارض القرآن: سیّد محمد سلیمان ندوی (۱۳۰۲ ھ تا ۱۳۷۱ ھ)
احادیث و علوم حدیث
۱- جامع صحیح بخاری: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ البخاری (۱۹۴ ھ تا ۲۵۶ ھ)
۲- جامع صحیح مسلم: ابو الحسین مسلم بن حجاج بن مسلم نیشاپوری (۲۰۲ ھ تا ۲۶۱ ھ)
۳- جامع صحیح ترمذی: محمد بن عیسیٰ الترمذی (۲۰۹ھ تا ۲۷۹ ھ)
۴- سنن ابو داؤد: سلیمان بن اشعث السجستانی (۲۰۲ھ تا ۲۷۵ ھ)
۵- سنن ابن ماجہ: ابو عبداﷲ محمد بن یزید بن ماجہ (وفات ۲۸۳ ھ)
۶- سنن نسائی: ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی (۲۱۵ ھ تا ۲۹۵ھ)
۷- مؤطا امام مالک: امام مالک بن انس ؓ (۹۳ ھ تا ۱۸۹ھ)
۸- مسند احمد بن حنبل: احمد بن محمد بن حنبل ۔ ابو عبداﷲ (۱۶۴ ھ تا ۲۴۱ ھ)
۹- کنز العمال (فی سنن الاقوال و الافعال): شیخ علاؤ الدین المتقی بن حسام الدین (وفات ۹۷۵ ھ)
۱۰- سنن دار مطنی: ابو الحسن علی بن عمر دار قطنی (۳۰۶ ھ تا ۳۸۵ ھ)
۱۱- سنن بیہقی: احمد بن حسین ابو بکر بیہقی (۳۸۴ ھ تا ۴۵۶ ھ)
۱۲- مشکوٰۃ المصابیح: شیخ ولی الدین محمد بن عبداﷲ خطیب التبریزی (وفات ۷۴۳ ھ)
۱۳- تلخیص الصحاح (المختصر للصحاح الستہ) : ابن قیم الجوزی عبدالرحمن بن علی بن محمد (۵۱۰ ھ تا ۵۹۷ ھ)
۱۴- جامع الصغیر: علامہ جلال الدین السیوطی (وفات ۹۱۱ ھ)
۱۵- مقدمہ ابن صلاح: تقی الدین ابو عمر عثمان الشہر زوری المعروف بابن صلاح اصابہ فی معرفۃ الصحابہ ابن حجر عسقلانی (۱۱۸ھ تا ۱۲۴۳ھ)
۱۶- تہذیب التہذیب: ابن حجر عسقلانی حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر (وفات ۸۵۲ ھ)
۱۷- میزان الاعتدال: شمس الدین ابو عبداﷲ محمد بن احمد الذہبی (وفات ۷۴۸ھ)
۱۸- تاریخ کبیر فی الاحادیث و الرواۃ: امام بخاری محمد بن اسماعیل (۱۹۴ ھ تا ۲۵۲ ھ)
۱۹- المعجم الکبیر اللطبرانی: ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (۲۶۰ ھ تا ۳۶۹ ھ)
۲۰- موضوعات کبیر: ملا علی بن سلطان محمد القاری (وفات ۱۰۸۵ ھ)
۲۱- فتح الباری فی شرح صحیح بخاری: ابن حجر عسقلانی شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی (وفات ۸۵۲ھ)
۲۲- فتح المغیث فی شرح حدیث: زین الدین عبدالرحیم بن الحسین (وفات ۸۰۵ ھ)
۲۳- اکمال شرح صحیح مسلم: ابو عبداﷲ محمد بن خلفہ الوشتاتی (وفات ۸۲۸ھ)
۲۴- سبل السلام شرح بلوغ المرام: محمد بن اسماعیل الیمنی (وفات ۵۶۲ ھ)
تاریخ سیرت
۱- سیرۃ ابن اسحاق: محمد بن اسحاق (وفات ۱۵۱ ھ)
۲- سیرۃ ابن ہشام: ابو محمد عبدالملک بن ہشام (وفات ۲۱۳ ھ)
۳- طبقات ابن سعد
۴- سیرت حلبیہ
۵- المواہب اللدنیہ: شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی (وفات ۹۲۳)
۶- شرح المواہب اللدنیہ: محمد بن عبدالباقی الزرقانی (۱۰۲۵ ھ -۱۰۹۰ھ)
۷- نور النبر اس فی شرح عیون الاثر: برہان الدین ابراہیم بن محمد الحلبی (وفات ۱۴۸ھ)
۸- الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ : قاضی عیاض المغربی (۴۶۳ ھ -۵۲۹ھ)
۹- الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام: ابو القاسم عبدالرحمن بن عبداﷲ السہیلی (وفات ۵۸۱ ھ)
۱۰- طحاوی: احمد طحاوی (۲۳۳ ھ -۳۱۳ھ)
۱۱- تاریخ طبری: ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (۲۲۴ھ -۳۱۰ھ)
۱۲- کتاب المغازی: محمد بن مسلم بن شہاب الزھری (وفات ۱۲۴ھ)
۱۳- المغازی: موسیٰ بن عقبہ (وفات ۱۴۱ھ)
۱۴- مغازی الرسول: ابو عبداﷲ محمد بن عمر الواقدی (۱۳۰ ھ -۲۰۷ ھ)
۱۵- کتاب المعارف: عبداﷲ بن مسلم بن قتیبہ (وفات ۲۷۶ ھ)
۱۶- زاد المعاد: ابن قیم الجوزی عبدالرحمن بن علی بن محمد (۵۱۰ ھ -۵۹۷ھ)
۱۷- وفیات الاعیان: ابن خلکان قاضی شمس الدین احمد بن محمد (وفات ۶۸۱ ھ)
۱۸- المزھر: جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی (وفات ۹۱۱ھ)
۱۹- تاریخ الکامل ابن اثیر: عزالدین ابو حسن علی (۱۱۶۰ھ -۱۲۳۴ھ)
۲۰- وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ: نور الدین السمہودی (وفات ۸۸۶ھ)
۲۱- تاریخ مکّہ: ازرقی ابو الولید محمد بن عبدالکریم (وفات ۲۲۳ھ)
۲۲- فتوح البلدان البلاذری: ابو جعفر احمد بن یحیٰ (۲۷۲ ھ)
۲۳- معجم البلدان یا قوت حموی : شہاب الدین ابو عبداﷲ یاقوت بن عبداﷲ (وفات ۶۲۶ ھ)
۲۴- صفۃ جزیرۃ العرب: ابن حائک ابو محمد حسن بن احمد الہمدانی (وفات ۳۳۴ھ)
۲۵- تاریخ الااسلام السیاسی: ڈاکٹر حسن بن ابراہیم مصر (۱۸۳۱ء -۱۹۱۱ئ)
۲۶- التوفیقات الالہامیہ (ہجری۔ عیسوی کیلنڈر): محمد مختار باشا مصری (۱۲۱۵ ھ-۱۲۷۸ ھ)
اسلامیات
۱- مجمع البحار : شیخ محمد طاہر گجراتی (۹۱۰ ھ ۔ ۹۸۶ ھ)
۲- عوارف المعارف: شیخ شہاب الدین عمر بن عبداﷲ السہروردی ( وفات ۶۳۲ ھ)
۳- تعطیر الانام (تعبیر الرؤیا): عبدالغنی بن اسماعیل النابلسی (۱۰۵۰ ھ - ۱۱۴۳ھ)
۴- ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفائ: شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی (وفات ۱۱۷۶ھ)
۵- کشف الغمہ عن جمیع الامۃ: محمد بن عبدالوہاب بن احمد الشعرانی (وفات ۳۵۳ ھ)
۶- کتاب الخراج: امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم (وفات ۱۸۲ ھ)
۷- بدایۃ المجتہد: ابن رشد قرطبی ابو ولید محمد بن احمد بن رشد (۵۲۰ ھ -۵۹۵ھ)
۸- کشف الظنون: مصطفی بن عبداﷲ حاجی خلیفہ کاتب چلپی
کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفائِ سلسلہ
۱- براہین احمدیہ چہار حصص: ۱۸۸۰ ء ، ۱۸۸۴ء
۲- سرمہ چشم آریہ : ۱۸۸۶ء
۳- ازالہ اوہام: ۱۸۹۱ء
۴- کشتی نوح: ۱۹۰۲ء
۵- براہین احمدیہ حصّہ پنجم: ۱۹۰۸ء
۶- چشمۂ معرفت: ۱۹۰۸ء
۷- منن الرحمن: ۱۹۱۵ء
۸- فصل الخطاب: حضرت الحاج حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل (طبع اوّل ۱۳۰۵ ھ)
۹- تقدیر الٰہی: تقریر حضرت المصلح الموعود مرزا بشیر الدین محمود احمد جلسہ سالان قایان (۱۹۱۶ئ)
عربی ادب و لغات
۱- تاج العروس: امام محب الدین المرتضیٰ (وفات ۱۸۹ ھ)
۲- اقرب الموارد: سعید الخوری الشرتونی اللبنانی
۳- دیوان الحماسۃ: ابو تمام حبیب بن اوس الطائی (۱۸۸ ھ تا ۲۲۲ھ)
۴- کتاب الشعر و الشعرائ: ابن قتیبہ محمد عبداﷲ بن مسلم (۲۱۲ ھ تا ۲۷۶ھ)
۵- عربی ادب کی تاریخ: پروفیسر نکلسن (۱۸۶۸ ھ تا ۱۹۴۵ھ)
عیسائیت
بائیبل (عہد نامہ قدیم و جدید)
ٹیکسٹ اینڈ کینن آف نیو ٹسٹامنٹ مصنفہ سر ہنری سوٹر ایم اے
‏(TEXT AND CANON NEW TESTAMENT BY SIR HENERY SOVTTAR M.A.)
کتب ہند و مذہب
۱- پنتھ پر کاش: گیانی گیان سنگھ (۱۸۴۵ء تا ۱۹۲۲ئ)
۲- سری کرشن جی: لالہ لاجپت رائے (۱۸۳۲ء تا ۱۸۹۸ئ)
۳- منو سمرتی اردو: (ترجمہ منوشاستر سنسکرت ہندو دھرم) ماسٹر آتما رام جی (وفات ۱۹۱۳ئ)
۴- منوشاستر سنسکرت: از فرمودات منو مہاراج رشی
۵- یوگور کرشن: پنڈت جمویتی (وفات ۱۸۴۸ئ)
انسائیکلو پیڈیاز
۱- انسائیکلو پیڈیا آف اسلام
۲- انسائیکلو پیڈیا ببلیکا
۳- انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا
۴- جیوش انسائیکلو پیڈیا
۵- چیمبرز انسائیکلو پیڈیا
مستشرقین اور مغربی مصنفین کی کتب
‏1- CALAPHATE BY SIR WILLIAM MUIR (1883)
‏2- LIFE OF MOHAMMAD BY SIR WILLIAM MUIR (1861)
‏3- MOHAMMAD BY MARGOLIUS SIDNY (1894)
‏4- MOHAMMAD AND THE RISE OF ISLAM BY MORGOLIOUTH D.S. (1914)
‏ THE HISTORY OF THE NATIONS BY HUTCHINSON (LONDON 1886)
‏6- HISTORIAN'S HISTORY OF THE WORLD BY HENRY W. SMITH
‏ (LONDON 1884)
‏7- THE FALL OF THE ROMAN EMPIRE BY EDWARD GIBBIN (LONDON)
اخبارات و رسائل
۱- الہلال مصر: نومبر ۱۹۰۴ء
۲- ریو آف ریلیجنز اردو: قادیان
۱- ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۰۶ء
۲- ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۱۰ء
۳- ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۳۴ء
۳- ہندوستان ٹائمز دہلی: مورخہ ۲۹؍اپریل ۱۹۲۸ء
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیرتِ نبویؐ اور تاریخِ اسلام
کے ابتدائی ماخذ
اسلام کا آغاز ایک ایسے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جو اکثر ملکوں کے لئے ایک غیر تاریخی زمانہ تھا جب کہ نہ صرف ابھی مطبع کی ایجاد عالمِ وجود میں نہیں آئیُ تھی بلکہ فنِ تحریر و تصنیف بھی ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں تھا۔ معروف مسیحی سنہ کی رُو سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ ۵۷۰ ء سے لے کر ۶۳۲ء تک قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ اکثر اقوامِ عالم فنِ تصنیف سے بالکل ناآشنا تھیں اور صرف ایسی قوموں میں کسی حد تک اس کا رواج پایا جاتا تھا جو کسی نہ کسی جہت سے علمی یا سیاسی رنگ میں ترقی یافتہ تھیں، لیکن جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا، اسلام سے پہلے عرب کا ملک نہ صرف بیرونی دُنیا سے بالکل منقطع تھا بلکہ اندرونی تحریکات کے لحاظ سے بھی ہر قسم کی علمی اور سیاسی اور تمدنی تحریک سے کلیۃً خالی تھا، اس لیے گو اسلام سے پہلے بھی عرب میں بعض لکھے پڑھے لوگ پائے جاتے تھے مگر ان کا مبلغِ علم محض نوشت و خواند تک محدود تھا اور اسلام سے پہلے زمانہ کی کوئی عربی تصنیف یا اس زمانہ کے متعلق عرب کی تاریخ کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیںہے۔ بے شک بعض قدیم اقوامِ عرب کے آثار و کتبات موجود ہیں، لیکن عرب جیسے ملک کی تاریخ کے لیے یہ ماخذ کسی صورت میں مربوط اور تفصیلی معلومات کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
دوسرے درجہ پر ان قوموں اور حکومتوں کا ریکارڈ ہے جو اس زمانہ میں عرب کے پہلو میں واقع تھیں۔ جن میں سلطنت ہائے روم و فارس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے ساتھ چونکہ عرب کی حدود ملتی تھیں اس لیے ان حکومتوں کی تاریخ میں کہیں کہیں عرب کا ذکر بھی آجاتا ہے، مگر لازماً یہ ذکر بہت مختصر ہے اور صرف جُزوی اُمور سے تعلق رکھتا ہے اور ملک کے اندرونی حالات کے متعلق اس ضمنی تذکرہ سے کوئی بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اسی ذیل میں یہودی اقوام کی تاریخ اور بائیبل کا نام بھی لیا جاسکتا ہے جن میں کہیں کہیں عرب کے متعلق اشارات پائے جاتے ہیں۔
قبل از اسلام روایات و اشعار
تیسرے درجہ پر خود عرب کی اندرونی روایات ہیں اور دراصل عرب کی تاریخ قبل از اسلام کے لیے یہی روایات بطور بنیاد
کے ہیں۔ عرب میں فنِ تحریر و تصنیف کا رواج نہیں تھا لیکن زبانی روایات کو سینہ بہ سینہ محفوظ رکھنے کی طرف عام توجہ تھی اور اس غرض کے لیے عربوں کا حافظہ اس غضب کا تھا کہ اس کی مثال کسی دوسری قوم میں نظر نہیں آتی۔۱؎ ہر قبیلہ میں ایک خاص طبقہ ایسے لوگوں کا ہوتا تھا جو اپنے قبیلہ بلکہ آس پاس کے ہمسایہ قبیلوں کی تاریخ کو بھی پوری صحت اور وفاداری کے ساتھ یاد رکھتے تھے۔ اس فن کو عربوں میں علمِ انساب یعنی نسب ناموں کا علم کہتے تھے۔ تاریخ میں زمانہ قبل از اسلام کے کئی لوگوں کانا م اس فن کے ماہرین کے طور پر بیان ہوا ہے۔ اسی طرح یہ علم ایک نسل سے دوسری نسل تک اور دوسری سے تیسری تک چلتا چلا جاتا تھا اور ہر قبیلہ کی تاریخ اس کے راویوں کے سینوں میں محفوظ رہتی تھی۔
اس ضمن میں ایک خاص ذریعہ قدیم تاریخ عرب کی حفاظت کا وہ اشعار بھی ہیں جو قبل از اسلام شاعروں نے کہے ہیں کیونکہ ان میں بھی خاص خاص حصے قبائلِ عرب کی تاریخ کے آجاتے ہیں۔ اسلام سے پہلے زمانہ میں عربوں میں شعر کا فن اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ بعض ناقدینِ شعر کی رائے میں باوجود اسلامی شعراء کی ترقی کے اسلامی زمانہ بھی بعض جہت سے اس کی مثال پیش نہیں کرتا۔ عربوں کی زندگی قبائلی تمدن کا رنگ رکھتی تھی۔ اور قریباً ہر قبیلہ میں کوئی نہ کوئی شاعر ہوتاتھا جو اپنے قبیلہ کے خاص خاص حالات کو اپنے زور دار بدویانہ اشعار میں محفوظ رکھتا تھا۔ اور عربوں کی عادت تھی کہ ان اشعار کو یاد رکھتے اور اپنی مجالس میں سُناتے ۲؎ رہتے تھے۔ زمانہ جاہلیت ۳؎ کے شعراء میں امراء القیسؔ ، نابغہ ذبیانیؔ، زہیرؔ، طرفہؔ، عنترہؔ، علقمہؔ، اعشیٰ، عمروؔ بن کلثوم، امیہؔ بن ابی صلت، کعبؔ بن زہیر ، لبیدؔ ، حسّانؔ بن ثابت، خنسائؔ وغیرہ خاص شہرت رکھتے ہیں۔ جن کے بہت سے اشعار آج تک محفوظ ہیں اور اس قدر حیرت انگیز فصاحت اور زورِبیان اور قلمی مصوری کا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اُس زمانہ کی کسی قوم اور کسی ملک کی شاعری میں نظر نہیں آتا۔ مذکورہ بالا شعراء میں سے مؤخرالذکر چار شاعرجن میں آخر الذکر ایک مشہور شاعرہ کا نام ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے تھے۔۱؎
ہمارا یہ بیان کہ عربوں کی تاریخ قبل از اسلام زبانی روایتوں میں محفوظ تھی بعض ناواقف لوگوں کو تعجب میں ڈالے گا کہ ایک وسیع ملک کی تاریخ جو سینکڑوں سالوں پر پھیلی ہوئی ہو محض زبانی روایتوں میں کس طرح محفوط رہ سکتی ہے؟ لیکن ہمارے ناظرین کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کہ اقوامِ عالم کی تاریخ اسی قسم کی زبانی روایات تک محدود ہوتی تھی ۔ صرف فرق یہ ہے کہ جہاں بہت سی قوموں میں یہ روائتیں ایک غیر محفوظ صورت میں زبان زدِخاص و عام تھیں اور بعد میں تاریخی زمانہ میں آکر وہ جس صورت میں پائی گئیں، جمع کر لی گئیں۔ وہاں اس غیر تاریخی زمانہ میں بھی عربوں میں ان روایتوں کی حفاظت کا بہت سی دوسری قوموں کی نسبت بہترانتظام تھا۔ کیونکہ ان میں یہ دستور تھا کہ اپنے قبیلہ کی تاریخ کو روایات یا اشعار کے ذریعہ یا درکھتے تھے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عربوں کا حافظہ اس غرض کے لیے خاص طور پر ترقی یافتہ تھا۔ بہرحال عرب کی قبل از اسلام تاریخ کے لئے عربوں کی زبانی روایات جو بعد میں تحریری طور پر بھی ضبط میں آگئیں، سب سے بڑا ماخذ ہیں۔ اور چونکہ ان کی مدد کے بغیر قدیم تاریخِ عرب کا ڈھانچہ تیار نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کوئی مؤرخ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ان روایات کا تحریری ضبط بعد کی کئی کتابوں میں موجود ہے، مگر سب سے زیادہ مکمل صورت میں مشہور اسلامی مؤرخ ابو جعفر محمد ابنِ جریر طبری ۲؎ کی تاریخ میں پایا جاتا ہے جس میں اس منتشر مواد کے بیشتر حصہ کو ایک مربوط صورت میں ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے اور بعد کی اکثر کتابیں کم و بیش اسی مجموعہ کی خوشہ چین ہیں۔
اسلام کی آمد سے عرب کی تاریخ میں ایک بالکل نئے باب کا آغاز ہوا۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز نے عرب کی سوئی ہوئی طاقتوں کو اس طرح بیدار کر دیا تھا، جیسے ایک گہری نیند سویا ہوا شخص کسی اچانک شور سے چونک کر بیدار ہو جائے۔ اور اس وقت سے عرب کی تاریخ میں بھی ایک انقلابی صورت پیدا ہو گئی۔ جیسے کہ ایک تاریکی میں چھپی ہوئی چیز یک لخت سورج کی تیز روشنی کے سامنے آجائے۔ آنحضرت صلی ﷲعلیہ وسلم کی سیرت و سوانح اور آغازِ اسلام کی تاریخ کے متعلق اس قدر مضبوط تاریخی مواد موجود ہے کہ یقینا اس سے بڑھ کر آج تک کسی مذہب اور کسی بانی مذہب کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ مواد متعدد صورتوں میں پایا جاتا ہے اور ہم ان مختلف صورتوں کا ایک اجمالی نقشہ ذیل کے اوراق میں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
قرآن شریف
سب سے اوّل نمبر پر اسلامی تاریخ کا وہ مضبوط قلعہ ہے جو قرآن شریف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن شریف کا ایک ایک لفظ اور
ایک ایک حرف خُدا کا کلام ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بصورت وحی نازل ہوا۔ یہ نزول آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیئس سالہ نبوت کی زندگی پر پھیلا ہوا تھا۔ یعنی الہام سے ہی آپ کے دعویٰ کی ابتداء ہوئی اور قرآن شریف کا آخری حصہ اس وقت نازل ہوا جب کہ آپؐ کی وفات بالکل قریب تھی۔ اس طرح اگر آپؐ کی نبوت کے مجموعی ایام کے مقابلہ پر قرآنی آیات کی مجموعی تعداد کو رکھ کر دیکھا جائے تو روزانہ نزول کی اوسط ایک آیت سے بھی کم بنتی ہے کیونکہ جہاں آپؐ کی نبوت کے ایام کم و بیش سات ہزا نوسو ستر بنتے ہیں وہاں قرآنی آیات کی تعداد صرف چھ ہزار دو سو چھتیس ہے اور چونکہ قرانی الفاظ کی مجموعی تعداد ستتر ہزار نو سو چونتیس ہے ۱؎ اس لیے فی آیت بارہ الفاظ کی اوسط ہوئی جس سے روزانہ نزول کی اوسط کم و بیش نو لفظ سمجھی جاسکتی ہے۔ ان اعداد وشمار سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف بہت ہی آہستہ آہستہ نازل ہوا تھا۔ اور گویہ درست ہے کہ قرآن شریف کے نزول میں بعض اوقات ناغے بھی آجاتے تھے اور بعض دوسرے ایام میں ایک ہی وقت میں متعدد آیات اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں۔ لیکن پھر بھی قرآن شریف کبھی بھی ایک وقت میں اتنی مقدار میں نازل نہیں ہوا کہ اُسے لکھ کر محفوظ کرنے یا ساتھ ساتھ یاد کرتے جانے میں کوئی مشکل محسوس ہوئی ہو۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جو جو آیات قرآن شریف کی نازل ہوتی جاتی تھیں انہیں ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے اور خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے جاتے تھے۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل حدیث بطور مثال کے پیش کی جاسکتی ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَانَزَلَ عَلَیْہِ شَیْ ئٌ دَعَا بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ فَیَقُولُ ضَعُوْا ھٰٓؤُ لَآ ئِ الْاٰیٰاتِ فِیْ سُوْرَۃِ الَّتِیْ یَذْکُرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا فَاِذَانَزَلَتْ عَلَیْہِ الْاٰیَۃُ فَیَقُوْلُ ضَعُوا ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یَذْکُرُ فِیْھَا کَذَاوَکَذَا۔ ۱؎
’’یعنی حضرت ابنِ عباس جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان خلیفہء ثالث (جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں کاتبِ وحی رہ چکے تھے) فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جب کوئی آیات اکٹھی نازل ہوتی تھیں تو آپؐ اپنے کاتبانِ وحی میں سے کسی کو بُلا کر ارشاد فرماتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورۃ میں فلاں جگہ لکھو اور اگر ایک ہی آیت اُترتی تھی تو پھر بھی اسی طرح کسی کاتبِ وحی کو بُلا کر اور جگہ بتا کر اسے تحریر کروادیتے تھے۔‘‘
جن صحابہ سے کاتبِ وحی کا کام لیا جاتا تھا اُن کے نام اور حالات تفصیل و تعیین کے ساتھ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے زیادہ معروف صحابہ یہ تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علیؓ ، زبیر بن العوام ، شرجیل بن حسنہ، عبداﷲ بن رواحہ، ابی بن کعب اور زید بن ثابت۔ ۲؎ اس فہرست سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابتدائے اسلام سے ہی ایک معتبر جماعت قرآنی وحی کے قلمبند کرنے کے لیے میسر رہی تھی اور اس طرح قرآن شریف نہ صرف ساتھ ساتھ تحریر میں آتا گیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی موجودہ ترتیب بھی جو بعض مصالح کے ماتحت نزول کی ترتیب سے جُدا رکھی گئی ہے قائم ہوتی گئی تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کہ نزولِ قرآن مکمل ہو چکا تھا حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ء اوّل نے حضرت عمر ؓ کے مشورہ سے زید بن ثابت انصاری کو جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی رہ چکے تھے حکم فرمایا کہ وہ قرآن شریف کو ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا لکھوا کر محفوظ کر دیں۔ چنانچہ زیدؔ بن ثابت نے بڑی محنت کے ساتھ ہر آیت کے متعلق زبانی اور تحریری ہر دو قسم کی پختہ شہادت مہیا کر کے اسے ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا کر دیا۔۳؎ اس کے بعد جب اسلام مختلف ممالک میں پھیل گیا تو پھر حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث کے حکم سے زید بن ثابت کے جمع کردہ نسخہ کے مطابق قرآن شریف کی متعدد مستند کاپیاں لکھوا کر تمام اسلامی ممالک میں بھجوادی گئیں۔۴؎
دوسری طرف قرآن شریف کے حفظ کرانے کا ایسا انتظام تھا کہ اس کے نزول کے ساتھ ساتھ صحابہ کی ایک جماعت اُسے مقرر کردہ ترتیب کے مطابق حفظ کرتی جاتی تھی اور گو جُزوی طور پر حفظ کرنے والوں کی تعداد تو بہت زیادہ تھی مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں سارے قرآن کے حافظ بھی کافی تعداد میں موجود تھے جن میں سے کم از کم چار ایسے تھے جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود تجربہ کر کے اور ہر طرح قابلِ اِعتماد پاکر دُوسرے صحابہ کی تعلیم کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ ۱؎ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو جب کہ قران شریف مکمل ہو کر ایک مصحف کی صورت میں آچکا تھا، حفاظِ قرآن کی تعداد نے ایک حیرت انگیز رفتار کے ساتھ ترقی کی کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں صرف ایک جگہ کی اسلامی فوج میں تین سو سے زائد حافظِ قرآن موجود تھے۔ ۲؎ ان اسباب کے نتیجہ میں جن کے پیچھے خدائی حفاظت کا ہاتھ کام کر رہا تھا، ابتدائے اسلام سے ہی قرآن شریف کا متن ہر قسم کی تحریف اور دست بُرد کے خطرہ سے محفوظ ہو گیا تھا۔ اور اس زمانہ کے بعد تو اس کے مستند نسخے اس طرح مختلف ممالک میں پھیل گئے اور حفاظِ قرآن کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ تحریف کا امکان ہی باقی نہیں رہا۔ اور جیسا کہ دوست و دشمن سب نے تسلیم کیا ہے اس بات میں ذرّہ بھر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ آج کاقرآن بغیر کسی زیرو زبر کے فرق کے وہی ہے جو آج سے تیرہ سو سال قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ اس بارہ میں مثال کے طور پر بعض عیسائی محققین کی رائے درج ذیل کی جاتی ہے:
سرولیم میور لکھتے ہیں:
’’دنیا کے پردے پر غالباً قرآن کے سوا کوئی اور کتاب ایسی نہیں جو بارہ سو سال کے طویل عرصہ تک بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے اپنی اصلی صورت میں محفوظ رہی ہو۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’ہماری اناجیل کا مسلمانوں کے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنا جو بالکل غیر محرف و مبدّل چلا آیا ہے دو ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہیں آپس میں کوئی بھی نسبت نہیں۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’اس بات کی پوری پوری اندرونی اور بیرونی ضمانت موجود ہے کہ قرآن اب بھی اُسی شکل و صورت میں ہے جس میں کہ محمدنے اُسے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت محمد سے لے کے آج تک اپنی اصلی اور غیر محرف صورت میں چلی آتی ہے۔‘‘ ۱؎
نولڈ کی جو جرمنی کا ایک نہایت مشہور عیسائی مستشرق گذرا ہے اور جو اس فن میں گویا اُستاد مانا گیا ہے قرآن شریف کے متعلق لکھتا ہے کہ:-
’’یورپین علماء کی یہ کوشش کہ قرآن میں کوئی تحریف ثابت کریں قطعاً ناکام رہی ہے۔‘‘ ۲؎
اس خصوصیت کے علاوہ کہ قرآن شریف اپنے زمانہ نزول سے لے کر آج تک بالکل محفوظ چلا آیا ہے، ایک بڑی خصوصیت قرآن شریف میں یہ بھی ہے کہ بوجہ اس کے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیئس سالہ نبوت کی زندگی کے دوران میں آہستہ آہستہ کر کے نازل ہوا تھا۔ آپؐ کی نبوت کی زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر قرآن شریف کے کسی نہ کسی حصہ سے براہِ راست روشنی نہ پڑتی ہو اور یہی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے اس قول کی عملی تفسیر ہے کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰنُ یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری سیرت قرآن میں آجاتی ہے۔۳؎ گویا قرآن شریف وہ کتاب ہے جس میں آپؐ کے اخلاق و عادات اور آپؐ کی روزانہ زندگی کے حالات ہر روز ساتھ ساتھ قلمبند ہوتے جاتے تھے اور یقینا دُنیا کی تاریخ میں اور کوئی ایسا شخص نہیں گذرا جس کی سیرت کے متعلق اس قدر مضبوط اور مستند عصری ریکارڈ محفوظ ہو۔ بیشک بعض ایسے لوگ گذرے ہیں اور اس زمانہ میں بھی پائے جاتے ہیں جن کی سوانح عمریاں ان کی زندگی میں ہی یا ان کی وفات کے جلد بعد شائع ہو گئی ہیں مگر جو خصوصیت قرآن شریف کے وجود میں محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ گویا آپؐ کی روزانہ زندگی ہر روز ساتھ ساتھ ضبط میں آتی گئی ہے وہ آج تک کسی اور فرد بشر کو نصیب نہیں ہوئی۔ مغربی محققین نے قرآن شریف کی اس خصوصیت کا بھی کھلے الفاظ میں اقرار کیا ہے ؛ چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے:
’’قرآن کی یہ خصوصیت اس قدر اہم ہے کہ اس میں کسی مبالغہ کی گنجائش نہیں۔ اس خصوصیت کی وجہ سے محمد کی سیرت و سوانح اور آغاز اسلام کی تاریخ کے لئے قرآن ایک بنیادی چیز قرار پاتا ہے جس سے ان ہر دو کے متعلق تمام تحقیق طلب امور کو پوری صحت کے ساتھ جانچا جاسکتا ہے۔ قرآن شریف میں ہمیں وہ ذخیرہ میسر ہے جس میں محمد کے الفاظ خود آپ کی زندگی میں محفوظ کر لیے گئے تھے۔ اور یہ ریکارڈ آپ کی زندگی کے ہر حصہ سے یعنی آپ کے مذہبی خیالات سے، آپ کے پبلک افعال سے، آپ کی خانگی سیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے … حقیقۃً محمد کی سیرت کے لئے قرآن ایک ایسا سچا آئینہ ہے کہ اسلام کے سارے ابتدائی زمانہ میں یہ بات بطور ایک مثل اور کہاوت کے مشہور تھی کہ محمد (صلی ﷲعلیہ وسلم )کی ساری سیرت قرآن میں ہے۔‘‘ ۱؎
پھر انگلستان کا مشہور مسیحی مستشرق پروفیسر نکلسن اپنی انگریزی تصنیف ’’عرب کی ادبی تاریخ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’اسلام کی ابتدائی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لیے قرآن ایک بے نظیر اور ہر شک و شبہ سے بالا کتاب ہے اور یقینا بُدھ مذہب یا مسیحیت یا کسی قدیم مذہب کو اس قسم کا مستند عصری ریکارڈ حاصل نہیں ہے، جیسا کہ قرآن میں اسلام کو حاصل ہے۔‘‘ ۲؎
الغرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کے لیے قرآن شریف نہ صرف اسلامی لٹریچر میں سب سے زیادہ مستند اور صحیح ریکارڈ ہے بلکہ آپؐ کی سیرت کے تعلق میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہے جو دُنیا کی کسی کتاب کو دنیا کے کسی اور فرد کے متعلق حاصل نہیں ہے۔ اور اس کی صحت بھی اس پائے کی ہے کہ دوست تو دوست کسی بد ترین دشمن کو بھی اس کے متعلق حرف گیری کی جرأت نہیں ہو سکتی۔
تاریخ اسلام کا روایتی ماخذ
تاریخِ ابتدائے اسلام اور سیرتِ رسول ؐ کے لیے دوسرا بڑا ماخذ وہ روایات ہیں جو بصورت حدیث یا تفسیر یا سیرت و مغازی ابتدائے
اسلام میں ایک منظم سلسلہ روایت کے ذریعہ صحابہ سے تابعین تک اور تابعین سے تبع تابعین تک اور تبع تابعین سے ان کے بعد آنے والے لوگوں تک پہنچیں اور پھر باقاعدہ کتابوں کی صورت میں ضبطِ تحریر میں آکر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئیں۔ اس ذخیرہ کا پایہ بھی دوسری اُمتوں کی تاریخ کے مقابلہ پر بہت بلند ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک ایسی جماعت عطا فرمائی تھی جس نے اپنے اخلاص اور جوشِ محبت میں آپ کی ہر حرکت و سکون کا نظرِ غور کے ساتھ مطالعہ کیا اور اپنی عدیم المثال قلمی مصوری میں آپؐ کی ایک ایسی کامل و مکمل تصویر پیچھے چھوڑی کہ جس کے کمال کی نظیر دنیا کی کسی اور تصویر میں نظر نہیں آتی۔ حدیث میں صحابہ کے اقوال پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح صحرائے عرب کے ان ناخواندہ بادیہ نشینوں نے اپنے آقا وسردار کی ہر حرکت و سکون کو لوحِ تاریخ پر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کس طرح سوتے تھے اور کس طرح جاگتے تھے ۔ کس طرح کھاتے تھے اور کس طرح پیتے تھے۔ کس طرح اُٹھتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے اور کس طرح چلتے تھے اور کس طرح کھڑے ہوتے تھے۔ کس طرح بولتے تھے اور کس طرح خاموش رہتے تھے۔ کس طرح ہنستے تھے اور کس طرح روتے تھے۔ کس طرح خوش ہوتے تھے اور کس طرح ناراضگی کا اظہار فرماتے تھے۔ کس طرح گھر میں رہتے تھے اور کس طرح سفر میں وقت گذارتے تھے۔ کس طرح بیویوں سے ملتے تھے اور کس طرح بچوں سے ہمکلام ہوتے تھے۔ کس طرح عزیزوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے اور کس طرح غیروں کے ساتھ معاملہ رکھتے تھے۔ کس طرح دوستی نبھاتے تھے اور کس طرح دشمنوں کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کس طرح صلح میں کام کرتے تھے اور کس طرح جنگ میں لڑتے تھے۔ کس طرح بندوں کا حق ادا کرتے اور کس طرح خُدا کا حق بجا لاتے تھے۔ کس طرح اﷲ تعالیٰ کا کلام سُنتے اور کس طرح اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ غرض آپ کی زندگی کی تصویر کا ہر پہلواپنی پوری پوری تفصیل میں اور اپنے باریک در باریک خط و خال کے ساتھ ہمارے سامنے محفوظ ہے۔ حدیث کی کسی کتاب کو ہاتھ میں لے کر اس کی وَرق گردانی کریں اس کے ہر صفحہ پر آپ کی تصویر کا کوئی نہ کوئی پہلو زندگی کی اصل آب و تاب میں چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ اور یوں محسوس ہو گا کہ ایک جیتی جاگتی تصویر اپنی پوری دلکشی کے ساتھ ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔
روایت کا طریقہ
اس جگہ غیر مسلم ناظرین کی واقفیت کے لیے یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ روایت بیان کرنے کا طریق مسلمانوں میں اس طرح رائج تھا کہ نیچے کے راوی
سے شروع ہو کر درجہ بدرجہ ہر راوی کا نام لیتے ہوئے اوپر کو چلتے جاتے تھے حتیٰ کہ روایت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر یا آپؐ کے کسی صحابی پر جاکر ختم ہو جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچنے والی روایت حدیث کہلاتی ہے اور صحابی تک پہنچ کر ختم ہو جانے والی روایت اثر کہلاتی ہے۔اور ان میں سے ہرایک کی بہت سی صورتیں ہیں۔ طریق بیان عموماً یوں ہوتا تھا کہ:-مُجھ سے الفؔ نے بیان کیا اور الفؔ نے بؔ سے سُنا تھا۔ اور بؔسے تؔ نے روایت کی تھی اور تؔ کو جؔ نے خبر دی تھی کہ ایک مجلس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے سامنے فلاں امر کے متعلق یہ الفاظ بیان فرمائے تھے یا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے متعلق ہمارے سامنے یہ یہ واقعہ پیش آیا تھا وغیر ذالک۔ روایت کا یہ ایک بہت سادہ سا نقشہ ہے؛ ورنہ عملاً بیان کرنے کے کئی طریقے تھے اور فنِ اصولِ حدیث کے علماء نے ہر طریق کے متعلق مفصل بحث کر کے ان کے مدارج قائم کر دیئے ہیں۔ بہرحال طریق روایت کی تفصیلی صورت جو بھی ہو یہ ایک ایسا محفوظ طریقہ ہے جس سے ہر روایت کی قدرومنزلت اس کے ہر درجہ پر جانچی جاسکتی ہے اور دلکشی کے لحاظ سے بھی اس میں ایک ایسا ذاتی عنصر داخل ہے کہ جس سے نہ صرف وہ مجلس جس میں کوئی روایت بالآخر بیان کی گئی تھی بلکہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس بھی جس سے روایت کا آغاز ہوتا ہے ایک زندہ تصویر کے طور پر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔
جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں بیان کیا گیا ہے روایت کا یہ علم قبل از اسلام زمانہ میں بھی عربوں میں ایک حد تک رائج تھا ، مگر اسلام میں آکر وہ ایک نہایت منظم اور سائنٹیفک علم بن گیا جس کی امداد کے لیے کئی ضمنی علوم کی ایجاد بھی وقوع میں آئی۔ اس جگہ اس علم کی ساری تفصیلات کے بیان کرنے کی تو گنجائش نہیں، مگر مختصر طور پر اس علم کا ڈھانچہ بصورت ذیل سمجھا جاسکتا ہے۔
روایت و درایت کے اصول
اصل الاصول اس علم کا یہ ہے کہ ہر واقعہ کی صحت دو طریق پر آزمائی جاسکتی ہے اور جب تک ان دونوں طریق سے کسی واقعہ کی صحت
پایہء ثبوت کو نہ پہنچ جاوے اس پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ پہلاؔ طریق روایت ہے۔ یعنی یہ دیکھنا کہ جو واقعہ ہم تک پہنچا ہے، اس کی صحت کے متعلق بیرونی شہادت کیسی میسر ہے یعنی جس واسطہ سے وہ ہم تک پہنچا ہے وہ واسطہ کس حد تک قابلِ اعتماد ہے۔ دوسرا طریق درایت ہے یعنی یہ دیکھنا کہ واقعہ کی صحت کے متعلق اندرونی شہادت کیسی موجود ہے۔ یعنی قطع نظر واسطہ کے کیا وہ واقعہ اپنی ذات میں اور اپنے ماحول کی نسبت سے ایسا ہے کہ اُسے دُرست اور صحیح یقین کیا جائے۔ یہ وہ دو بنیادی اصول ہیں جو مسلمانوں نے اپنے ہر روایتی اور تاریخی علم کی پڑتال کے لیے ایجاد کئے۔ اور ابتدائے اسلام سے ان کا اس پر عمل رہا ہے۔ ان ہر دو اصول کے ماتحت بہت سے قابلِ لحاظ اُمور قرار دیئے گئے ہیں جن میں سے زیادہ معروف امور کو ہم اپنے الفاظ میں درج ذیل کرتے ہیں:
روایت کے اصول کے ماتحت یہ باتیں زیادہ قابلِ لحاظ قرار دی گئی ہیں:
۱- راوی معروف الحال ہو۔
۲- راوی صادق القول اور دیانت دار ہو۔
۳- بات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
۴- اس کا حافظہ اچھا ہو۔
۵- اُسے مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر رپورٹ کرنے یا روایت میں کسی اور طرح تصرف کرنے کی عادت نہ ہو۔
۶- روایتِ بیان کردہ میں راوی کا کوئی اپنا ذاتی تعلق نہ ہو جس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاسکے کہ اس کی روایت متاثر ہو سکتی ہے۔
۷- دو اُوپر نیچے کے راویوں کا آپس میں ملنا زمانہ یا حالات کے لحاظ سے قابلِ تسلیم ہو۔
۸- روایت کی تمام کڑیاں محفوظ ہوں اور کوئی راوی اوپر سے یا درمیان سے یا نیچے سے چھُٹا ہوا نہ ہو۔
۹- مذکورہ بالا اوصاف کے ماتحت کسی روایت کے راوی جتنے زیادہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہوں گے اتنی ہی وہ روایت زیادہ پختہ سمجھی جائے گی۔
۱۰- اسی طرح ایک روایت کے متعلق معتبر راویوں کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی وہ روایت زیادہ مضبوط قرار دی جائے گی۔
درایت کے اصول کے ماتحت مندرجہ ذیل امور زیادہ قابلِ لحاظ سمجھے گئے ہیں:
۱- روایت کسی معتبر اور مستند عصری ریکارڈ کے خلاف نہ ہو۔ اس اصل کے ماتحت ہر روایت جو قرآن شریف کے خلاف ہے قابلِ ردّ ہو گی۔
۲- کسی مسلّمہ اور ثابت شدہ حقیقت کے خلاف نہ ہو۔
۳- کسی دوسری مضبوط تر روایت کے خلاف نہ ہو۔
۴- کسی ایسے واقعہ کے متعلق نہ ہو کہ اگر وہ صحیح ہے تو اس کے دیکھنے یا سُننے والوں کی تعداد یقینا زیادہ ہونی چاہئے، لیکن پھر بھی اس کا راوی ایک ہی ہو۔
۵- روایت میں کوئی اور ایسی بات نہ ہو جو اسے عقلاً یقینی طور پر غلط یا مشتبہ قرار دیتی ہو۔ ۱؎
درایت کے متعلق بعض ابتدائی مثالیں
یہ وہ اصول ہیں جو مسلمان محققین نے اپنی روایات کی چھان بین کے لیے آغازِ اسلام میں مقرر کئے اور
انہی کے مطابق وہ اپنی روایات کی تحقیق و تدقیق کرتے رہے ہیں۔ اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ روایات کی پڑتال کے لیے ان سے برھ کر کوئی کسوٹی نہیں ہو سکتی۔ ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ ساری باتیں لازماً ہر مسلمان محدث یا مؤرخ کے پیش نظر رہی ہیں مگر اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ وہ اصول ہیں جو مسلمان محققین نے ابتدائے اسلام میں اپنی روایات کی تحقیق کے لیے وضع کئے اور جنہیں وہ بالعموم اپنی تصانیف میں ملحوظ رکھتے رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ذاتی میلان کی وجہ سے ایک محقق کسی بات کو زیادہ وزن دیتا ہو اور دوسرا کسی اور کو یا کوئی مصنف اپنے مجموعہ کو زیادہ جامع بنانے کے لیے یا بعض روایات کی امکانی صحت کے خیال سے کمزور روایتوں کو بھی لے لیتا ہو یا کوئی مصنف ایسے ہی غیر محتاط ہو، کیونکہ کسی طبقہ کے سب لوگ ایک درجہ کے نہیں ہوتے مگر بہرحال روایت ودرایت دونوں کے اصول کو ابتدائی مسلمانوں نے بالعموم اپنے مدِّ نظر رکھا ہے اور زیادہ محتاط مصنفین پوری سختی کے ساتھ ان پر کاربند رہے ہیں۔ روایت کے اصول کے متعلق تو ہمیں مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اسلامی تحقیق کا یہ پہلو دوست و دشمن سب کے نزدیک مسلم ہے؛ البتہ چونکہ بعض مغربی محققین نے جن میں سرولیم میور بھی شامل ہیں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں نے درایت کے پہلو کو مدِّ نظر نہیں رکھا اور صرف روایت کے اصول کے ماتحت اپنی روایتوں کی پڑتال کرتے رہے ہیں۔ ۱؎ اس لیے درایت کے پہلو کے متعلق اس جگہ بعض مثالیں درج کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین کو اس بات کا اندازہ کرنے کا موقع ملے کہ یہ اعتراض کس قدر غلط اور بے بنیاد ہے۔
سب سے پہلے خود قرآن شریف اس بات کو پیش کرتا ہے کہ محض روایت پر بنیاد رکھنا ہر صورت میں کافی نہیں بلکہ کسی خبر کو صحیح سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کے متعلق اچھی طرح تحقیق کر لی جائے۔ چنانچہ فرماتا ہے:
۔ ۲؎
’’یعنی اگر تمہارے پاس کوئی خبر پہنچے تو یہ دیکھ لیا کرو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ پھر اگر یہ راوی قابلِ اعتماد نہ ہو تو اچھی طرح سارے پہلوؤں پر نظر ڈال کر سوچ لیا کرو۔‘‘
اس آیت سے گو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف روایت کی صحت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر غور کرنے سے یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ دراصل یہ آیت روایت و درایت دونوں پہلوؤں کی حامل ہے؛ چنانچہ فاسق کے لفظ میں تو روایت کے پہلو کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ دیکھ لیا کرو کہ خبر لانے والا کیسا ہے اور تبّینوا کے لفظ میں درایت کا پہلو مدّ نظر ہے یعنی دوسری جہت سے بھی خبر کی اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو۔
پھر فرماتا ہے:
۱؎
’’یعنی جو لوگ رسُولِ خُدا کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں شریک ہوئے ہیں وہ اے مسلمانو! تمہیں میں سے ایک پارٹی ہیں مگر تمہیں چاہئے تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق نیک گمان کرتے۔ پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ تم نے اس بہتان کو سنتے ہی یہ کہدیا کہ خدا تعالیٰ پاک و بے عیب ہے۔ یہ تو ایک صاف بہتان نظر آتا ہے۔‘‘
ان آیات میں صراحت کے ساتھ درایت کے اصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ صحابہ کو اس بات پر توبیخ کی گئی ہے کہ خواہ حضرت عائشہ پر الزام لگانے والے بظاہر مسلمان ہی تھے، مگر جب تم حضرت عائشہ کے حالات سے اچھی طرح آگاہ تھے اور تم جانتے تھے کہ وہ خدائے پاک کے رسول ؐ کی بیوی اور دن رات آپ کی صُحبت میں رہنے والی ہے تو تمیں چاہئے تھا کہ ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے اس خبر کو سنتے ہی بہتان اور افتراء قرار دے کر ٹھکرا دیتے۔ گویا اس آیت میں ضمناً یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک روایت کے متعلق صرف یہ دیکھ کر کہ اس کے راوی بظاہر اچھے لوگ ہیں اسے نہیں مان لینا چاہئے بلکہ خدا داد عقل کے ماتحت دوسری باتیں بھی دیکھنی ضروری ہیں۔ اور اگر دوسری باتیں روایت کو مشتبہ قرار دیں تو اسے قبول نہیں کرنا چاہئے۔
اسی قرآنی اصل کے ماتحت حدیث میں بھی یہ تاکید آتی ہے کہ محض کسی بات کو سُن کر اسے سچا نہیں سمجھ لینا چاہئے بلکہ ہر جہت سے تحقیق کر کے معلوم کرنا چاہئے کہ حقیقت کیا ہے؛ چنانچہ حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّث بِکُلِّ مَاسَمِعَ ۲؎
’’یعنی ایک انسان کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ جو بات بھی سُنے اسے بلاتحقیق آگے روایت کرنا شروع کر دے‘‘
اس حدیث میں گوروایتی تحقیق کی طرف بھی اشارہ ہے، مگر اصل مقصود درایتی تحقیق ہے جیسا کہ بِکُلِّ مَا سَمِعَ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی محض کسی بات کا سُننا اس کے قبول کیے جانے کا باعث نہیں بننا چاہئے بلکہ دوسری جہات سے بھی غور کرنا چاہئے کہ آیا جو خبر ہمیں پہنچی ہے وہ قابلِ قبول ہے یا نہیں، بلکہ اس حدیث میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو شخص تحقیق کرنے کے بغیر یونہی ہر سُنی سنائی بات آگے روایت کردیتا ہے وہ جھوٹ کی اشاعت کا ایسا ہی ذمہ دار ہے جیسا کہ جھوٹ بولنے والا شخص۔
الغرض قرآن شریف و حدیث دونوں اس اصول کو بیان کرتے ہیں کہ ہر خبر کی تصدیق کے متعلق روایت و درایت دونوں پہلو مدِّ نظر رہنے چاہئیں، چنانچہ اس اصل کے ماتحت حدیث میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے مسلمان محققین نے ہمیشہ روایت کے پہلو کے ساتھ درایت کے پہلو کو بھی مدِّ نظر رکھا ہے اور بسا اوقات روایتی لحاظ سے ایک روایت کے مضبوط ہونے کے باوجود درایت کی بنا پر اسے ردّ کر دیا ہے۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم اَلْوُضُوئُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ فَقَالَ لَہٗ ابْنُ عَبَّاسٍ یَااَبَا ھُرَیْرَۃَ اَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّھْنِ اَنَتَوَضَّأُ مِنَ الْحَمِیْمِ … فَقَالَ اَبُوْ عِیْسیٰ وَاَکْثَرُ اَھْلِ الْعِلْمِ عَلیٰ تَرْکِ الْوُضُوْئِ۔ ۱؎
’’یعنی ایک مجلس میں ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس چیز کو آگ نے چھوا ہو اس کے استعمال سے وضو ضروری ہوجاتا ہے۔ اس پر ابن عباس نے ابو ہریرہ کو ٹوک کر کہا کہ کیا پھر ہم گھی یا تیل کے استعمال کے بعد بھی وضوکیا کریں۔ اور کیا ہم گرم پانی کے استعمال کے بعد بھی وضو کیا کریں؟ یہ روایت درج کر کے ترمذی علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے اکثر علماء کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر تیار کی ہوئی چیز کے استعمال سے وضو ضروری نہیں ہو جاتا۔
اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ تک کی روایت کو جن کی روایات کی تعداد سارے صحابہ سے زیادہ ہے حضرت ابنِ عباس نے اس عقلی دلیل سے ردّ کر دیا کہ اوّل تو محض آگ پر کسی چیز کا تیار ہونا اس بات سے کوئی جوڑ نہیں رکھتا کہ اس کے استعمال سے وضو ضروری ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ جب دین کی بنا یُسر اور آسانی پر ہے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف یہ قول کس طرح منسوب ہو سکتا ہے کہ بس جس چیز کو بھی آگ چھو جائے اس سے وضو واجب ہو جاتا ہے اور اسی لیے باوجود حضرت ابو ہریرہ کی اس صریح حدیث کے اکثرائمہ حدیث و فقہ کا یہی مذہب ہے کہ آگ والی چیز کے استعمال سے وضو واجب نہیں ہوتا۔ اور بعض دوسری حدیثوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باﷲ حضرت ابنِ عباس یا بعد کے ائمہ حدیث کے نزدیک ابو ہریرہ نے جو روایت بیان کی ہے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد تو ہے ، مگر وہ قابلِ عمل نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ابنِ عباس اور دوسرے محققین کے نزدیک اس روایت میں ابو ہریرہ کو غلط فہمی ہوئی ہے یا آپؐ کا ارشاد بعض خاص قسم کے حالات کے متعلق ہو گا جسے ابوہریرہ نے عام سمجھ کر اُسے وسعت دے لی۔ بہرحال باوجود اس کے کہ اصولِ روایت کے لحاظ سے یہ حدیث بالکل صحیح قرار پاتی ہے، مسلمان محققین نے درایت کی بنا پر اسے صحیح تسلیم نہیں کیا۔ اور جب ابو ہریرہ جیسے کُہنہ مشق راوی کی روایت درایت کی جرح سے محفوظ نہیں سمجھی گئی تو میورؔ صاحب کے اس قول کی حقیقت ظاہر ہے کہ مسلمان صرف روایتی پہلو کو دیکھ کر ہر بات کو صحیح مان لیا کرتے تھے اور درایت کو کام میں نہیں لاتے تھے۔
پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی اِسْحٰقَ قَالَ کُنْتُ مَعَ الْاَسْوَدِبْنِ یَزِیْدَ… فَحَدَّث الشَّعْبِیُّ بِحَدِیْثِ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم لَمْ یَجْعَلْ لَہَا سُکْنَی وَلَا نَفَقَۃَ ثُمَّ اَخَذَ الْاَسْوَدُ کَفَّا مِنْ حَصًی فَحَصَبَہُ بِہٖ فَقَالَ وَیْلَکَ تُحَدِّثُ بِمِثْلِ ھٰذَا وَقَالَ عُمَرُ لَانَتْرُکُ کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّنَا صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأَۃِ لَانَدْرِیْ لَعَلَّھَا حَفِظَتْ اَوْنَسِیَتْ۔ ۱؎
’’یعنی ابو اسحاق سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں ایک مجلس میں اسود بن یزید کے ساتھ بیٹھا تھا کہ شعبی نے یہ روایت بیان کی کہ فاطمہ بنت قیس صحابیہ بیان کرتی ہے کہ جب اس کے خاوند نے اُسے طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے مکان اور خرچ نہیں دلایا۔ اس پر اسود نے ایک کنکروں کی مُٹھی اُٹھا کر شعبی کو ماری اور کہا کیا تم یہ حدیث بیان کرتے ہو؟ حالانکہ حضرت عمر ؓ کے سامنے جب یہ حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک عورت کے بیان پر قرآن اور سنتِ رسول کو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ نہیں معلوم کہ اصل بات کیا تھی اور اس نے کیا سمجھا ،یا اصل بات کیا تھی اور اسے کیا یاد رہا۔‘‘
اس حدیث میں گویا حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی ایک صحابیہ کی روایت کو اس بنا پر ردّ کرتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں قرآنی تعلیم اور سُنتِ رسولؐ کے خلاف ہے اور اس کی توجیہہ یہ کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہو گا اُسے یا تو وہ سمجھی نہیں ہو گی یا بعد میں بھول گئی ہو گی۔ بہرحال حضرت عمر ؓ نے درایت کی بنا پر ایک روایتی لحاظ سے صحیح حدیث کو ردّ کر دیا اور جمہورِ اسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ فاطمہ کی روایت غلط تھی اور حضرت عمرؓ کا خیال درست ہے۔
پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے:
عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیْعِ اَنَّہٗ سَمِعَ عُتْبَانَ بْنَ مَالِکِ الْاَنْصَارِیَّ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اﷲَ قَدْ حرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ یَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اﷲِ قَالَ مَحْمُوْدُ فَحَدَّثْتُھَا قَوْمًا فِیْہِمْ اَبُوْاَیُّوْبَ صَاحِبُ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْکَرَ ھَا عَلَیَّ اَبُوْاَیُّوْبَ وَقَالَ وَاﷲِ مَا اَظُنُّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتُ قَطُّ۔ ۱؎
’’یعنی محمود بن الربیع روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عتبان بن مالک سے یہ سُنا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہوئی ہے جو سچی نیت سے خدا کی رضا کی خاطر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار کرتا ہے، لیکن جب مَیں نے یہ روایت ایک ایسی مجلس میں بیان کی جس میں ابو ایو ب انصاری صحابی بھی موجود تھے تو ابوایوب نے اس روایت سے انکار کیا اور کہا خدا کی قسم! میں ہر گز نہیں خیال کر سکتا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہو۔‘‘
اس حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے ایک ایسی حدیث کو جو اصولِ روایت کے لحاظ سے صحیح تھی اپنی درایت کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور گویہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ایوبؓ کا استدلال دُرست نہ ہو مگر بہرحال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صحابہ یونہی کو رانہ طور پر ہر روایت کو قبول نہیں کر لیتے تھے، بلکہ درایت و روایت ہر دو کے اصول کے ماتحت پوری تحقیق کر لینے کے بعد قبول کرتے تھے۔
پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے:
’’قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَکَرْتُ ذَالِکَ لِعَائِشَۃَ فَقَالَتْ یَرْحَمُ اﷲُ عُمَرَ وَاﷲِ مَاحَدَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسلَلَّمَ اَنَ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ وَلٰکِنْ قَالَ اِنَّ اﷲَ یَزِیْدُ الْکَافِرِ عَذَابًا بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ قَالَ وَقَالَتْ عَائِشَۃُ حَسْبُکُمُ الْقُراٰنُ وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْریٰ۔ ۱؎
’’یعنی ابنِ عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ یہ روایت بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میّت پر رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔ ابنِ عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓکی وفات کے بعد میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ سے بیان کی تو فرمانے لگیں۔ اﷲ تعالیٰ عمر ؓ پر رحم فرمائے۔ خدا کی قسم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا ہر گز نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا تھا کہ ایک کافر کے مرنے کے بعد اگر اس کے ورثاء اس پر روئیں تو اس وجہ سے اس کا عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ (کیونکہ جب وہ زندہ تھا تو اس کے اس فعل میں ان کا مؤید ہوا کرتا تھا) اور پھر حضرت عائشہ ؓ کہنے لگیں کہ ہمیں قرآن کا یہ قول کافی ہے کہ کوئی نفس دوسرے نفس کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔‘‘
اس حدیث سے بھی درایت کے پہلو کا استعمال نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے یعنی حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر انسان کی روایت کو صرف ایک بالمقابل روایت بیان کر دینے سے ہی ردّ نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی اپنے خیال میں اس کے غلط ہونے کی قرآن شریف سے ایک دلیل بھی دی۔ ہمیں اس جگہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیا حضرت عائشہ کا خیال درست تھا یا کہ حضرت عمر ؓ کا ۔ صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ الزام باکل غلط ہے کہ مسلمان محققین صرف ایک روایت کو سُن کر اسے قبول کر لیتے تھے۔ کیونکہ حق یہ ہے کہ وہ پوری طرح درایت کو کام میں لاتے اور ہر چیز کو اپنی عقل خدا داد کے ساتھ تول کر پھر قبول کرتے تھے اور اس بنا پر بعض اکابر صحابہ تک میں باہم اختلاف ہو جاتا تھا۔
درایت کے کمزور پہلو
یہ چار مثالیں جو ہم نے اُوپر بیان کی ہیں اور جو صرف نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں ورنہ اس قسم کی مثالیں اسلامی تاریخ میں کثرت کے ساتھ پائی جاتی
ہیں۔ ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چار جلیل القدر صحابیوں کے فعل سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی درایت کا پہلو روایت کے پہلو کے ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اور مسلمان محققین پوری دیانتداری اور آزادی کے ساتھ درایت کے اصول کو اپنی روایات کی تحقیق اور پڑتال میں استعمال کرتے رہے ہیں اور اسی قسم کی مثالیں بعد کے زمانوں کے متعلق بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ مگر ہم اپنے اس مضمون کو زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایک عقلمند انسان کے لیے اس قدر کافی ہے۔ بہرحال میورؔ صاحب اور ان کے ہم عقیدہ اصحاب کا یہ اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ مسلمان محققین صرف روایت کے پہلو کو دیکھتے تھے اور درایت سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ ہاں اگر ہمارے معترضین کا یہ منشاء ہے کہ ہر حال میں درایت کے پہلو کو ترجیح اور غلبہ ہونا چاہئے اور خواہ ایک بات اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو وہ اگر درایت کے پہلو کے لحاظ سے مشکوک نظر آتی ہے تو بہر صورت اسے رد کر دینا چاہئے تو یہ خیال نہ صرف بالکل غلط ہے بلکہ علمی ترقی کے لیے بھی سخت مضر اور نقصان دہ ہے۔ درایت خواہ کیس ہی اچھی چیز ہو مگر اس کے ساتھ دو خطرناک کمزوریاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کا تعلق استدلال کے ساتھ ہوتا ہے اور استدلال ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی بہت گنجائش ہے۔ دوسرے یہ کہ درایت کی بنا زیادہ تر انسان کے سابقہ تجربہ اور معلومات پر ہوتی ہے اور تجربہ اور معلومات ایسی چیزیں ہیں کہ روز بدلتی رہتی ہیں کیونکہ ان میں ہر وقت وسعت اور ترقی کی گنجائش ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر درایت کے پہلوپر زیادہ بھروسہ کرنا اپنے اندر ایسے خطرات رکھتا ہے جنہیں کوئی دانا شخص نظرانداز نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک شخص کسی روایت کو قرآن شریف کی کسی آیت کے خلاف سمجھ کر ردّ کر دیتا ہے مگر ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرا شخص اُسے کسی قرآنی آیت کے خلاف نہ پائے بلکہ وہ دونوں کی ایسی تشریح کر دے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد نہ رہے۔ یا مثلاً ایک شخص ایک روایت کو کسی ثابت شدہ حقیقت کے خلاف سمجھتا ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے شخص کے نزدیک وہ چیز جسے ایک ثابت شدہ حقیقت سمجھا گیا ہے وہ ثابت شدہ حقیقت نہ ہو۔ یا ایک شخص ایک روایت کو انسانی تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف سمجھتا ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرا شخص جس کا تجربہ اور مشاہدہ زیادہ وسیع ہے وہ اسے اس کے خلاف نہ سمجھے وغیرہ ذالک۔ ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ درایت کے پہلو پر زیادہ زور دینا نہ صرف اصولاً غلط ہے ، بلکہ علمی ترقی کے لئے بھی ایک بہت بھاری روک ہے اور اس پر زیادہ زور دینا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے محدود علم اور محدود تجربہ اور محدود مشاہدہ اور محدود استدلال سے ساری دنیا اور سارے زمانوں کے علم کو ناپنا چاہتے ہیں۔ اور ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ نظریہ دنیا کی علمی ترقی کے لئے ایک سمّ قاتل سے کم نہیں۔ اگر ابتدائی مسلمان محدث یا مؤرخ درایت پر اس قدر زور دیتے جتنا میورؔ صاحب اور ان کے ہم عقیدہ اصحاب چاہتے ہیں کہ دینا چاہئے تھا تو یقینا بانیٔ اسلام کے متعلق بہت سے مفید معلومات کا ذخیرہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا، کیونکہ اس صورت میں ان میں سے کوئی مصنّف کسی بات کو اور کوئی کسی کو اپنی درایت کے خلاف پاکر ترک کر دیتا حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ صحیح درایت کے خلاف نہ ہوتیں؛ چنانچہ ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ کئی باتیں جو گذشتہ زمانوں میں سمجھ نہیں آتی تھیں آج ان کا سمجھنا آسان ہو رہا ہے۔ پس پختہ اور صحیح اصول وہی تھا جو ابتدائی مسلمان مصنفین نے اختیار کیا کہ انہوں نے اصل بنیاد روایت کے اصول پر رکھی مگر روایت کی مدد کے لئے ایک حد تک درایت کو بھی کام میں لاتے رہے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے پیجھے آنے والوں کے لئے ایک عمدہ ذخیرہ روایات کا جمع کر دیا۔ اور اب یہ ہم لوگوں کا کام ہے کہ روایت و درایت کے اصول کے مطابق اس ذخیرہ کی چھان بین کر کے صحیح کو سقیم سے جُدا کرلیں۔
روایات کا قلمبند ہونا
گو اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے اور اسلامی روایات میں ایک بڑا حصہ ایسی روایتوں کا شامل ہے جو کم از کم ابتداء
میں صرف زبانی طور پر سینہ بہ سینہ مروی ہوئی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بعض راویوں کا یہ طریق رہا ہے کہ جو حدیث بھی وہ سُنتے تھے یا جو روایت بھی ان تک پہنچتی تھی اسے وہ فوراً لکھ کر محفوظ کر لیتے تھے اور جب کسی کو آگے روایت سُناتے تھے تو اس لکھی ہوئی یاد داشت سے پڑھ کر سُناتے تھے جس سے ان روایات کو مزید مضبوطی حاصل ہو جاتی تھی۔ اس قسم کے لوگ صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے اور بعد میں بھی۔ بلکہ بعد میں جُوں جُوں علم ترقی کرتا گیا اور فن تحریر زیادہ پھیلتا گیا، ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ اس زمانہ میں آکر جب کہ روایات کتابی صورت میں جمع ہونے لگیں اور موجودہ کتب حدیث وغیرہ کے مجموعے عالمِ وجود میں آنے شروع ہوئے جس کا آغاز دوسری صدی ہجری سے سمجھا جا سکتا ہے روایات کو لکھ کر محفوظ کر لینے کا طریق عام طور پر رائج ہو چکا تھا اور راوی لوگ اپنی روایات کو دوسروں تک پہنچاتے ہوئے اپنی تحریری یا داشتوں سے کثرت کے ساتھ مدد لینے لگ گئے تھے، لیکن چونکہ محض کسی تحریری یادداشت کا موجود ہونا اسے قابلِ سند نہیں بنا سکتا جب تک کہ اس کی تائید میں معتبر زبانی تصدیق بھی موجود نہ ہو اور اسی لیے آج تک ہر مہذب ملک کی عدالتوں میں ہر دستاویز کی تصدیق کے لئے زبانی شہادت ضروری قرار دی جاتی ہے اس لئے بالعموم محدثین نے زبانی اور تحریری روایت کے امتیاز کو اپنے مجموعوں میں ظاہر نہیں کیا۔ لیکن اس میں ہر گز کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اب جو احادیث کے مجموعے ہمارے سامنے ہیں ان سب میں ایک معتدبہ حصہ ایسی روایتوں کا شامل ہے جو زبانی انتقال کے ساتھ ساتھ تحریری طور پر بھی ایک راوی سے دوسرے راوی تک منتقل ہوتی ہوئی نیچے اُتری ہیں۔ اس دعویٰ کی تصدیق میں ہم اس جگہ اختصار کی غرض سے صرف صحابہ کے زمانہ کی چند مثالیں درج کریں گے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خود صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث اور روایات کو لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے اور پھر اُسی مجموعہ سے آگے سلسلہ روایت چلاتے تھے تو یہ ایک قطعی ثبوت اس بات کا ہو گا کہ یہ طریق بعد کے زمانہ میں (جب کہ فن تحریر بہت زیادہ وسیع ہو گیا اور روایات کے لکھنے کے لئے ہر قسم کی سہولت میسر آگئی) بدرجہ اولیٰ جاری رہا۔ سب سے پہلی اور اصولی حدیث ہم اس معاملہ میں وہ درج کرنا چاہتے ہیں جن میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ تحریک فرمائی ہے کہ جس شخص کو میری باتیں یاد نہ رہتی ہوں اسے چاہئیے کہ انہیں لکھ کر محفوظ کر لیا کرے؛ چنانچہ ترمذی میں یہ روایت آتی ہے کہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلَی النَّبِیِّ صَلُّی اﷲُ عَلُیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنَ النَّبِیِّ الْحَدِیْث وَلَا یَحْفَظُہٗ فَشَکَا ذَالِکَ اِلَی النَّبِیِّ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَاَوْ مَأَ بِیَدِہٖ لِلْخَطِّ۔ ۱؎
’’یعنی ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک انصاری شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! میں آپ کی باتیں سُنتا ہوں مگر مجھے وہ یاد نہیں رہتیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم اپنے دائیں ہاتھ کی مدد حاصل کر کے میری باتوں کو لکھ لیا کرو۔‘‘
اس حدیث سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود تحریک فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کو میری باتیں یاد نہ رہتی ہوں، وہ انہیں لکھ کر محفوظ کر لیا کرے اورآپؐ کے اس فرمان کے ہوتے ہوئے اگر ہمیں تاریخ میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر نظر نہ بھی آوے کہ فلاں فلاں صحابی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے تو بھی قیاس یہی ہو گا کہ بعض صحابی ضروری حدیثیں لکھا کرتے تھے، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس ہدایت سے صحابہ جیسی جماعت میں سے کسی فرد نے بھی فائدہ نہ اُٹھایا ہواور بہرحال جس صحابی کو آپؐ نے براہِ راست مخاطب کر کے یہ الفاظ فرمائے تھے اس نے تو ضرور اس ارشاد کی تعمیل کی ہو گی۔ مگر یہ صرف قیاس ہی نہیںہے بلکہ حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر آتا ہے کہ بعض صحابی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے؛ چنانچہ روایت آتی ہے کہ عبداﷲ بن عمرو بن العاص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی سُنتے تھے وہ لکھ لیا کرتے تھے۔ اس پر بعض لوگوں نے انہیں منع کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی خوش ہوتے ہیں کبھی غصّہ میں ہوتے ہیں، تم سب کچھ لکھتے جاتے ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ عبداﷲ بن عمرو نے اس پر لکھنا چھوڑ دیا، لیکن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا:
اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا الْحَقُّ۔ ۱؎
’’یعنی تم بے شک لکھا کرو کیونکہ خدا کی قسم میری زبان سے جوکچھ نکلتا ہے حق اور راست نکلتا ہے۔‘‘
اس کے بعد عبداﷲ بن عمرو آپؐ کی باتیں لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے؛ چنانچہ بخاری میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ مَامِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحَدٌ اَکْثَرَ حَدِیْثًا عَنْہُ مِنّیِ اِلَّا مَاکَانَ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا اَکْتُبُ۔ ۲؎
’’یعنی ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی صحابی کی مجھ سے زیادہ حدیث محفوظ نہیں ہے سوائے عبداﷲ بن عمرو کے کیونکہ ان کی عادت تھی کہ حدیث سُن کر لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘
پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ جَحِیْفَۃَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِیٍّ ؓ ھَلْ عِنْدَ کُمْ کِتَابٌ قَالَ لَا اِلَّا کِتَابُ اﷲِ اَوْ فَہْمٌ اُعْطِیَہٗ رَجُلٌ مُسْلِمٌ اَوْ مَا فِیْ ھٰذِ ہِ الصَّحِیْفَۃِ قُلتُ مَا فِی ھٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ قَالَ الْعَقْلُ وَفِکَاکُ الْاَسِیْرِ وَلَا یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ۔ ۳؎
’’یعنی ابو جحیفۃ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت علی سے یہ دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کچھ لکھا ہوا بھی ہے۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ سوائے قرآن شریف کے اور کچھ نہیں۔ ہاں ایک مسلمان کی خداداد عقل ہے جس سے وہ خود سوچ کر اور قیاس کر کے فتویٰ معلوم کر سکتا ہے؛ البتہ میرے پاس یہ ایک لکھا ہوا صحیفہ ضرور موجود ہے۔ میں نے پوچھا اس صحیفہ میں کیا ہے۔ فرمانے لگے اس میں فلاں فلاں مسئلہ کے متعلق چند حدیثیں لکھی ہیں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کا بھی یہی طریق تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاص خاص باتوں کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔ پھر ایک اور حدیث آتی ہے کہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَالَ … فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْیَمَنِ فَقَالَ اُکْتُبْ لِیْ فَقَالَ اُکْتُبُوْا لِاَبِیْ فُلاَنٍ۔ ۱؎
’’یعنی ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا۔ جس میں یہ یہ کچھ فرمایا۔ اس پر ایک یمنی شخص نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اﷲ! یہ خطبہ مجھے لکھ دیجئے۔ آپ ؐ نے حکم دیاکہ وہ خطبہ اُسے لکھ کر دے دیا جائے۔‘‘
ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ صحابہ کے زمانہ سے ہی حدیثوں کے لکھنے کا رواج شروع ہو چکا تھا۔ اور بعض صحابہ اس پر کاربند تھے اور یقینا اس کے بعد جُوں جُوں زمانہ گذرتا گیا حدیثوں کو لکھ کر محفوظ کر لینے کا رواج زیادہ ہو تا گیا مگر جیسا کہ ہم اُوپر کہہ چکے ہیں اس مختصر نوٹ میں بعد کے زمانہ کی مثالیں درج کرنے کی گنجائش نہیں؛ البتہ صرف اس اظہار کے لئے کہ بعد میں حدیثوں کے قلمبند کرنے کے طریق میں کس قدر وسعت ہو گئی تھی اس جگہ صرف ایک مثال پر اکتفا کی جاتی ہے۔ یحییٰ بن معین ایک مشہور راوی گذرے ہیں جن سے امام بخاری اور امام مسلم اور ابو داؤد سجستانی وغیرہ بڑے بڑے محدثین نے روایت لی ہے ان کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ اُن کے پاس چھ لاکھ حدیث لکھی ہوئی محفوظ تھی جس سے وہ آگے روایت کیا کرتے تھے؛ چنانچہ وفیات الاعیان میں لکھا ہے کہ:
سُئِلَ یَحْییٰ کَمْ کَتَبْتَ مِنَ الْحَدِیْثِ فَقَالَ کَتَبْتُ بِیَدِیْ ھٰذِہٖ سِتَّ مِائَۃِ اَلْفِ حَدِیْثٍ۔ ۲؎
’’یعنی یحییٰ بن معین سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کتنی حدیثیں لکھی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے چھ لاکھ حدیث لکھی ہے۔‘‘
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یحییٰ بن معین جامعین حدیث میں سے نہیں ہیں۔ جنہوں نے امام بخاری اور مسلم وغیرہ کی طرح کوئی مجموعہ حدیث پیچھے چھوڑا ہو بلکہ ان کا حدیث لکھنا صرف ایک راوی کی حیثیت میں تھا۔ اسی پر دوسرے رُواۃِ حدیث کا قیاس ہو سکتا ہے۔
الغرض اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ صحابہ کے زمانہ سے ہی احادیث و روایات کا ضبط تحریر میں آنا شروع ہو چکا تھا اور بعد میں یہ سلسلہ زیادہ وسیع ہوتا گیا حتیٰ کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں میں ایک معتدبہ حصہ ایسی روایتوں کا موجود ہے جو زبانی روایتوں کے ساتھ ساتھ تحریری طور پر بھی مروی ہوتی ہوئی جامعین حدیث تک پہنچی ہیں۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اکثر صحابہ حدیث لکھنے کے عادی تھے یا یہ کہ بعد کے راوی سب کے سب لازماً حدیث لکھ لیا کرتے تھے۔ ایسا دعویٰ یقینا واقعات کے خلاف ہوگا، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی بعض نے حدیث لکھنے کا طریق شروع کر دیا تھا اور بعد کے زمانہ میں یہ طریق زیادہ وسیع ہو گیا گو پھر بھی یقینا احادیث کا ایک معتدبہ حصہ زبانی روایت پر ہی مبنی رہاہے اور موجودہ مجموعوں میں ہر دو قسم کی روایات شامل ہیں۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بعض حدیثوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان ہوا ہے کہ میری طرف منسوب کر کے سوائے قرآن شریف کے اور کچھ نہ لکھا کرو۔ ۱؎ اور اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ صحابہ حدیث نہیں لکھتے ہوں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو واقعات کے مقابل پر کوئی استدلال قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ جب واقعہ یہ ہے کہ بعض صحابہ حدیث لکھا کرتے تھے تو کوئی استدلالی دلیل اس کے مقابل پر کیا وزن رکھ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ان احادیث کی حقیقت کے متعلق جن میں لکھنے سے منع کیا گیاہے غور نہیں کیا گیا۔ دراصل یہ احادیث خاص زمانہ اور خاص حالات کے متعلق ہیں اور صرف ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے اور اس حکم سے غرض یہ تھی کہ تا قرآنی وحی کے ساتھ کوئی دوسری چیز مخلوط نہ ہونے پائے۔ عام لوگوں کے لئے یا عام حالات میں کوئی روک نہیں تھی۔ واﷲاعلم۔
حدیث و سیرۃ کی روایتوں میں ایک بنیادی فرق
اس اصولی بحث کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو مسلمان مصنفین
نے اپنی روایات کی پڑتال میں روایت و درایت ہر دو قسم کے اصول کو علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے مگر انہوں نے ہر قسم کی روایت کے لئے ایک ہی معیار نہیں رکھا بلکہ وہ ایک دانشمند محقق کی طرح اس غرض و غایت کے مناسبِ حال جس کے لئے کوئی روایت مطلوب ہوتی تھی اپنے معیار کو نرم یا سخت کرتے رہے ہیں۔ یعنی بعض علوم میں انہوں نے اپنا معیار سخت رکھا ہے اور بعض میں نرم۔ مثلاً حدیث میں جہاں عقائد و اعمال کا تعلق تھا محدثین نے بڑی سختی کیساتھ روایات کو پَرکھا ہے اور اپنے معیار کو بہت بلند رکھا ہے لیکن سیرۃ وتاریخ وغیرہ میں اتنی سختی نہیں کی؛ چنانچہ علامہ علی بن برہان الدین حلبی ؒ اپنی سیرۃ میں لکھتے ہیں کہ:
لَا یَخْفٰی اَنَّ السِّیَرَ تَجْمَعُ الصَّحِیْحَ وَالضَّعِیْفَ وَالْمُرْ سَلَ وَالْمُنْقَطِعَ۔ ۱؎
’’یعنی یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ سیرۃ کی روایتوں میں صحیح اور ضعیف اور مرسل اور منقطع سبھی قسم کی روایتیں شامل ہیں۔‘‘
اور پھر امام احمد بن حنبل اور دوسرے اَئمہ حدیث کی زبانی اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ:
اِذَارَوَیْنَا فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ شَدَدْ نَاوَ اِذَارَوَیْنَا فِی الْفَضَا ئِلِ وَنَحْوَھَا تَسَاھَلْنّا۔ ۲؎
’’یعنی ہمارا اصول یہ ہے کہ جب ہم حلال و حرام کے مسائل کے لئے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو ہم اس کی تحقیق میں بڑی سختی سے کام لیتے ہیں۔ لیکن فضائل اور سیرۃ میں اپنے معیار کو نرم کر دیتے ہیں۔‘‘
اور اس اصول کی مزید تشریح یوں کرتے ہیں کہ:
اَلَّذِیْ ذَھَبَ اِلَیْہِ کَثِیْرٌ مِنْ اَھْلِ الْعِلْمِ اَلتَّرَخُّصُ فِی الرَّقَائِقِ وَمَا لَا حُکْم فِیْہِ مِنْ اَخْبَارِ الْمَغَازِی وَمَا یَجْرِیْ مَجْرٰی ذَالِکَ وَ اِنَّہٗ یُقْبَلُ فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ لِعَدْمِ تَعَلُّقِ الْاَحْکَامِ بِھَا۔ ۳؎
’’یعنی اکثر اہلِ علم نے یہی طریق رکھا ہے کہ ایسی باتیں جن میں شرعی احکام نہ بیان ہوں جیسے سیرۃ مغازی وغیرہ اُن میں اپنے معیار کو نرم رکھنا چاہئے، کیونکہ ان اُمور میں ہم ایسی روایتوں کو بھی قبول کر سکتے ہیں جنہیں دینی اور فقہی احکام کے معاملہ میں قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
امام احمد بن حنبل ؒ نے اس اصول کی تشریح میں ایک لطیف مثال بھی بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:
اِبْنُ اِسْحَاقَ رَجُلٌ نَکْتُبُ عَنْہُ ھٰذِہِ الْاَحَادِیْث یَعْنِی الْمَغَازِیْ وَنَحْوَھَا وَ اِذَا جَائَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ اَرَدْنَا قَوْمًا ھٰکَذَاوَ قَبِضَ اَصَابِعَ یَدَیْہِ الْاَرْبَعِ۔ ۱؎
’’یعنی ابنِ اسحاق صاحب سیرۃ و مغازی بے شک اس رتبہ کے آدمی ہیں کہ ہمیں ان سے سیرۃ و تاریخ میں روایت لیتے ہوئے تامل نہیں ہونا چاہئے، لیکن جب حلال و حرام کے مسائل کا سوال ہو تو ہمیں ایسے آدمی چاہئیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چار انگلیاں مضبوطی کے ساتھ ملا کر باہم جفت کر لیں۔ جس سے مراد یہ تھی کہ حدیث میں ایسے راوی درکار ہیں جن میں کوئی رخنہ نہ نکالا جاسکے۔‘‘
الغرض حدیث و سیرۃ کی روایتوں کے معیار میں ہمیشہ سے ایک اصولی فرق مدِّ نظر رکھا گیا ہے اور یہی ہونا چاہئے تھا، کیونکہ حدیث میں جس کی روایت نے دین کی بنیاد بننا تھا سخت معیار رکھنا ضروری تھا تاکہ کوئی کمزور روایت حدیث کے ذخیرہ میں راہ پاکر دینی فتنہ کا باعث نہ بنے، لیکن سیرۃ و تاریخ میں یہ پہلو ایسا خطرناک نہیں تھا۔ بلکہ سیرۃ و تاریخ میں زیادہ قابلِ توجہ یہ بات تھی کہ اساسی مواد جمع ہو جائے جس میں بعد میں اصولِ مقررہ کے ماتحت چھان بین کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی کُتب حدیث کا روایتی پہلو کتب سیرۃ و مغازی وغیرہ کی نسبت بہت زیادہ مضبوط اور بلند سمجھا گیا ہے۔ مگر یہ کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا تاکہ جہاں ایک طرف دین کو فتنہ و اختلاف سے بچایا جاتا وہاں تاریخ میں جامعیت قائم رہتی۔ خوب سوچ لو کہ تاریخ کے لئے یہی پالیسی مناسب تھی۔ سوائے اس کے کہ کوئی روایت با لبداہت غلط اور باطل ہو ہر وہ روایت لے لی جاوے تاکہ بعد کی تحقیق اور ریسرچ کے لئے ایک بنیادی ذخیرہ محفوظ ہو جائے مگر حدیث کے لئے یہ پالیسی سخت نقصان دہ تھی، کیونکہ اس کے لئے ضروری تھا کہ معیار کو ایسا سخت رکھا جائے کہ خواہ کوئی مضبوط روایت گِر جائے مگر بہرحال جو حدیث لی جائے وہ پختہ اور قابلِ اعتماد ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احادیث کاسارا مجموعہ غلطی سے پاک ہے یا یہ کہ سیرت و تاریخ کا مجموعہ کمزور روایات پر مبنی ہے بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ بالعموم حدیث کا معیار سیرۃ و تاریخ سے بالا و بلند ہے۔ اور اسی لیے مسلمان مؤرخین میں سے جو لوگ زیادہ محقق گذرے ہیں انہوں نے سیرۃ و تاریخ کے واقعات کے لئے ان روایات کو ترجیح دی ہے جو دینی مسائل کے ضمن میں کتب حدیث میں مروی ہوتی ہیں۔ اور مصنف کتاب ہذا کا بھی اس تصنیف میں یہی مسلک رہا ہے۔
کتب اصولِ حدیث
روایت کا جو علم مسلمانوں نے ایجاد کیا جس کے اندر اصول روایت و درایت دونوں شامل ہیں وہ عموماً علم اصولِ حدیث کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس علم کے متعلق بہت سی تصنیفات پائی جاتی ہیں جن میں متقدمین اور متاخرین ہر دو کی تصانیف شامل ہیںمگر آجکل جو کتب اس فن میں زیادہ معروف و متداول ہیں جن میں اکثر متقدمین کی تحریرات کا خلاصہ آگیا ہے وہ یہ ہیں:
۱- علوم الحدؔیث المعروف بمقدمہ ابن صلاح مصنفہ حافظ ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن صلاح المتوفی ۶۴۳ ھ۔
۲- فتح المغیثؔ فی اصول الحدیث مصنفہ حافظ زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی المتوفی ۸۰۵ھ۔
۳- شرح الفیتہؔ العراقی فی اصول الحدیث مصنفہ محمد بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی ۹۰۲ھ۔
۴- موضوعاتِ کبیر مصنّفہ نور الدین ملّا علی بن محمد سلطان القاری المتوفی ۱۰۱۶ ھ۔
ان کتب میں روایت و درایت ہر دو کے اصول پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں اور ہر پہلو کے متعلق متعدد مثالیں دے دے کر بات کو واضح کیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب حقیقۃً موضوع روایتوں کے بیان میں ہے مگر ضمناً اصولِ حدیث کی بحث بھی آجاتی ہے۔
مصطلحاتِ حدیث
فنِ اصولِ حدیث یا عِلم روایت کے ضمنی علوم میں دو عِلم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اعنی علم مصطلحات حدیث اور علم اسماء الرجال۔ مقدم الذکر عِلم میں
حدیث کی اصطلاحات کا بیان ہوتا ہے جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مختلف اعتبار سے حدیث کی کتنی قسمیں ہیں اور اِن کے کیا کیا نام ہیں اور ہر حدیث کی ایک قسم دوسری اقسام کے مقابل پر کیا وزن رکھتی ہے اس علم کے ماتحت حدیث کی جو اقسام مختلف جہات سے مقرر کی گئی ہیں، اُن میں سے زیادہ معروف یہ ہیں:
متواتر۔ مشہور۔ عزیز۔ شاذ۔ منکر۔ صحیح۔ حَسَن۔ ضعیف۔ متروک۔ موضوع۔ مرفوع۔ موقوف۔ مقطوع۔ متصل۔ منقطع۔ معلق۔ مرسل۔ معضل۔ معلل۔ مدلس۔ مضطرب۔ مدرج۔ قولی۔ فعلی۔ تقریری۔ قدسی وغیرہ وغیرہ۔
اس عِلم میں بھی متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں اس وقت زیادہ معروف و متداول یہ ہیں:
۱- نُزْھَۃ النظرفی توضیح نخبۃالفکر مصنفہ ابو الفضل احمد ابن حجر عسقلانی المتوفی ۸۵۲ھ۔
۲- الیواقیت والدررمصنّفہ شیخ عبدالرؤف المنادی المتوفی ۱۰۳۱ھ۔
اسماء الرجال
فنِ اسماء الرجال اس علم کا نام ہے جس میں حدیث و سیرت وغیرہ کے راویوں کے حالاتِ زندگی کو تنقیدی نظر کے نیچے لاکر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے تاکہ جب بھی کوئی
روایت سامنے آوے تو اس کے سلسلہ رواۃ کا امتحان کیا جاسکے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ علم بہت وسیع اور پھیلا ہوا ہے حتیٰ کہ بقول سرولیم میورؔ اس علم کے ذریعہ چالیس ہزار راویوں کے حالاتِ زندگی ضبط میں آگئے ہیں۔ ۱؎ جو یقینادنیا کی تاریخ میں ایک بے نظیر ریکارڈ ہے۔ یہ مجموعہ سرسری حالات کا ذخیرہ نہیں ہے بلکہ صحیح تنقیدی اصول کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ جس میں ہر راوی کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، جائے رہائش، حالاتِ زندگی، عادات و اطوار، علمی قابلیت، ذہن ،حافظہ اور سمجھ، دیانت و امانت، طریقِ روایت کی خصوصیات ، استادوں کے نام، شاگردوں کے نام، ہمعصروں کے نام وغیرہ وغیرہ پوری صحت اور تعیین کے ساتھ درج کئے گئے ہیں۔
سب سے پہلا شخص جس نے اس علم کی طرف باقاعدہ فن کے رنگ میں توجہ کی وہ شعبہ بن الحجاج المتوفی ۱۶۰ ھ تھے۔ ان کے بعد امام یحییٰ بن سعید القطان المتوفی ۱۹۸ ھ نے اس علم کو اور ترقی دی اور سب سے پہلا مجموعہ تیار کیا۔ بعدہٗ علّامہ احمد بن عبداﷲ العجلی المتوفی ۲۶۱ ھ نے اور امام عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی المتوفی ۳۲۷ ھ نے اس فن میں مفید کتابیں لکھیں اور ہر دو نے اپنی تصانیف کا نام کتاب الجرح و التعدیل رکھا۔ مگر اس فن میں متقدمین کی کتب میں سب سے زیادہ جامع اور مستند کتاب الکامل فی معرفتہ الضعفاء و المتروکین مصنّفہ ابو احمد عبداﷲ بن محمد ابن عدی المتوفی ۳۶۵ ھ تھی۔ ۲؎ ان کے علاوہ حافظ عقیلی اور امام دار قطنی وغیرہ نے بھی اس فن میں کتابیں لکھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان میں سے اکثر کتب اب ناپید ہو چکی ہیں گو بعد کی کتب میں ان سب کے کثرت کے ساتھ حوالے آتے ہیں۔
بعد کی کتب میں سے جو ابتدائی کتب پر مبنی ہیں مندرجہ ذیل کتابیں زیادہ معروف و متداول ہیں:
۱- الکمال فی معرفۃ الرجال مصنّفہ حافظہ عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی المتوفی ۶۰۰ ھ۔
۲- تہذیب الکمال فی معرفۃ الرجال مصنّفہ حافظہ جمال الدین یوسف بن زکی المزی۔ المتوفی ۷۲۲ھ۔
۳- میزان الاعتدال فی نقد الرجال (تین جلد) مصنّفہ حافظ شمس الدین ابو عبداﷲ محمد بن احمد الذھبی۔ المتوفی ۷۴۸ ھ۔
۴- تہذیب التہذیب (بارہ جلد) مصنّفہ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی ۸۵۲ ھ۔
۵- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب (۲ جلد) مصنّفہ حافظ ابو عمرو یوسف بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالبرالقرطبی المتوفی ۴۶۳ ھ۔
۶- اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (۵ جلد) مصنفہ حافظ عزالدین ابوالحسن علی بن محمد بن عبدالکریم المعروف ابن اثیرالجزری المتوفی ۶۳۰ ھ۔
۷- اصابہ فی معرفۃ الصحابہ (۰ ۱ جلد) مصنّفہ حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی ۸۵۲ ھ۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اوپر کی فہرست میں مؤخر الذکر تین کتابیں دراصل فن اسماء الرجال سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ محض صحابہ کے حالات میں ہیں لیکن چونکہ یہ دونوں علوم آپس میں بڑی حد تک ملتے ہیں اس لئے ہم نے ان کتب کو اس فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
کتب حدیث
اقسام کے لحاظ سے روایات کا علم تین قسموں میں منقسم ہے۔ اعنی (۱) حدیث (۲)تفسیر اور (۳)سیرۃ و تاریخ ۔مؤخر الذکر علم کے ایک حصہ کو مغازی بھی کہتے ہیں۔
حدیث روایات کے ایسے مجموعے کا نام ہے جس کی اصل غرض و غایت دینی مسائل کا ضبط ہے خواہ ضمنی طور پر اس میں تفسیری اور تاریخی حصہ بھی آجاوے۔ حدیث میں عموماً وہ روایات درج ہوتی ہیں جن کی سند بالآخر کسی نہ کسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ یعنی آخری راوی یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سُنا۔ یا یوں کرتے دیکھا۔ یامیرے سامنے آپ کے سامنے کسی نے یوں کیا اور آپ نے اُسے نہیں روکا۔ مگر کتب حدیث میں کچھ حصّہ ایسی روایات کا بھی آجاتا ہے جو صرف صحابہ کے اقوال و اعمال تک محدود ہوتا ہے جنہیں اصطلاحی طور پر آثار کہتے ہیں۔ حدیث کی کتابیں بے شمار ہیں جو زیادہ تر دوسری اور تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں، مگر یہ سب ایک درجہ کی نہیں ہیں۔ کیونکہ سب محدثین نے ایک سا سخت معیار نہیں رکھا اور نہ ایک سی احتیاط برتی ہے۔ حدیث کی زیادہ معروف کتابیں مع ان کے مختصر حالات و کوائف کے درج ذیل کی جاتی ہیں:
۱- صحیح بخاری
مصنفہ امام محمد بن اسمٰعیل بخاری
۱۹۴ ھ تا ۲۵۶ ھ
یہ سب کتب حدیث میں صحیح ترین کتاب سمجھی گئی ہے۔ امام بخاری صاحب نے چار لاکھ روایات کے مجموعہ میں سے صرف چار ہزار احادیث چُن کر اس مجموعہ میں درج کی ہیں اور انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے۔ بلا ریب ان کا معیار سب محدثین سے بالا و اَرفع ہے۔
۲- صحیح مسلم
مصنّفہ امام مُسلم بن حجاج
۲۰۴ھ تا ۲۶۱ھ
اس کا درجہ بخاری سے نیچے مگر باقی کتب حدیث سے اوپر سمجھا جاتا ہے۔ جس روایت میں بخاری اور مسلم اتفاق کر لیں اسے متفق علیہ کہتے ہیں جو سب سے مضبوط سمجھی جاتی ہے۔
۳- جامع ترمذی
۴- سُنن ابو داؤد
۵- سُنن نسائی
۶- سُنن ابن ماجہ
مصنّفہ ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی
۲۰۹ ھ تا ۲۷۹ ھ
مصنّفہ ابو داؤد سلیمان بن اشعث
۲۰۲ ھ تا ۲۷۵ ھ
مصنّفہ احمد بن شعیب النسائی
۲۱۵ھ تا ۳۰۶ھ
مصنّفہ محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی
۲۰۹ھ تا ۲۷۳ھ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ساتھ اگلی چار کتابیں مِل کر صحاحِ ستّہ کہلاتی ہیں اور یہ سب معتبر کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کا درجہ قریباً اسی ترتیب کے مطابق سمجھا جاتا ہے جو اس فہرست میں ملحوظ رکھی گئی ہے۔
۷- مؤطا امام مالک
مصنّفہ امام مالک ابن انس ؒ
۹۵ھ تا ۱۷۹ھ
یہ کتاب بہت بلند پایہ ہے بلکہ بعض نے اسے بخاری کے برابر قرار دیا ہے مگر چونکہ اس کے بیشتر حصہ کا اسلوب فقہ کے طریق پر ہے اس لیے اسے حدیث کی کتاب کے طور پر صحاح میں شمار نہیں کیا گیا ورنہ اپنے مرتبہ کے لحاظ

سے وہ کسی مجموعہ حدیث سے کم نہیں۔ امام مالک ؒ فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں۔
۸- مسند امام ابو حنیفہ ؒ
مصنّفہ امام نعمان بن ثابت ابوحنیفہ ؒ
۸۰ ھ تا ۱۵۰ ھ
فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے سب سے بلند تر ہیں۔ یہ محدّث نہیں تھے اور نہ انہوں نے اس طرف توجہ کی مگر بعض احادیث اپنی فقہ کی بنیاد کے لئے جمع کی ہیں۔
۹- مسند امام شافعی ؒ
مصنّفہ امام محمد بن ادریس شافعی ؒ
۱۰۵ھ تا ۲۰۴ھ
یہ بھی فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں اور ان کی کتاب اپنی فقہ کی تائید میں چند احادیث کا مجموعہ ہے۔
۱۰- مسند احمد
مصنّفہ امام احمد بن محمد بن حنبل ؒ
۱۶۱ ھ تا ۲۴۱ھ
یہ بھی فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں مگر ان کی احادیث کا مجموعہ بھی نہایت شاندار ہے اور حدیث کی کتابوں میں غالباً سب سے بڑا ہے مگر صحتِ روایت کا معیار صحاح کے برابر نہیںہے۔
۱۱- سُنن دارمی
مصنّفہ عبداﷲ بن عبدالرحمن دارمی
۱۸۱ھ تا ۲۵۵ھ
صحاح ستہ کے بعد اس کا مرتبہ اچھا ہے۔
۱۲- معجم کبیر
و اوسط و صغیر
مصنّفہ سلطان بن احمد طبرانی
۲۶۰ھ تا ۳۶۰ھ
مشہور محدث ہیں
۱۳- سنن دار قطنی
مصنّفہ علی بن محمد دار قطنی
۳۰۶ھ تا ۳۸۵ھ
؍؍
۱۴- مستدرک حاکم
مصنّفہ ابو عبداﷲمحمد بن عبداﷲ الحاکم
۳۲۱ھ تا ۴۰۵ھ
؍؍
۱۵- متفرق کتب حدیث و سیرۃ
مصنفہ احمد بن حسین بیہقی
۳۸۴ھ تا ۴۵۸ھ
مشہور محدث ہیں
مذکورہ بالا محدّثین کے علاوہ بھی ایسے محدّث گذرے ہیں جنہوں نے باوجود بُعدِ زمانہ کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا آپؐ کے صحابہ تک روایت کا سلسلہ پہنچاکر احادیث نقل کی ہیں۔۱؎ مگر ہم نے زیادہ معروف محدّثین کے نام بعد کی فہرست میں درج کر دیئے ہیں اور اس فہرست میں بھی مؤخر الذکر محدثین کے مجموعوں میں کیا بوجہ بُعدِ زمانہ اور کیا بوجہ احتیاط کی کمی کے کمزور اور ضعیف روایات کا حصہ زیادہ آگیا ہے ، مگر بہرحال حدیث کا یہی مجموعہ ہے جس سے ایک مؤرخ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ و سوانح اور آغازِ اسلام کی تاریخ کے متعلق علی قدر مراتب فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے فی الجملہ احادیث کا مجموعہ سیرت و تاریخ کی روایات سے زیادہ پختہ اور زیادہ قابلِ اعتبار ہے اور احادیث کی جو اعلیٰ کتابیں ہیں مثلاً بخاری اور مسلم ان کے مقابلہ پر تو سیرۃ کی روایات کی حیثیت بہت ہی کم ہے۔
سنّت اور حدیث میں فرق
حدیث کی بحث ختم کرنے سے پہلے سنّت کے متعلق ایک مختصر نوٹ درج کرنا نامناسب نہ ہو گا۔ سوجاننا چاہئے کہ یہ جوعام طور پر خیال
کیا جاتا ہے کہ حدیث اور سنّت ہم معنی الفاظ ہیں، یہ دُرست نہیں ہے بلکہ حق یہ ہے کہ حدیث اور سُنّت دومختلف چیزیںہیں کیونکہ جہاں حدیث ان لفظی روایات کا نام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق صحابہ سے تابعین تک اور تابعین سے تبع تابعین تک اور تبع تابعین سے ان کی بعد کی نسل تک پہنچیں اور پھر ائمہ حدیث کی تحقیق و تدقیق کے بعد کتابی صورت میں جمع ہو گئیں وہاں سُنّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فعل یعنی تعامل کا نام ہے جو کسی لفظی روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے متحدہ تعامل کے ذریعہ ایک نسل سے دوسری نسل تک اور دوسری سے تیسری تک اور تیسری سے چوتھی تک پہنچا ہے اور علیٰ ہذا القیاس۔ مثلاً قرآن شریف میں نماز کا حکم ہے اور اب قطع نظر اس کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تفاصیل کے متعلق کوئی زبانی ہدایات دی تھیں یا نہیں آپؐ نے صحابہ کے سامنے اپنے عمل سے اس کی ساری تفصیلات کر کے دکھادیں اور عمر بھر اس تعامل کو تکرار کے ساتھ دُہرادُہرا کر ان کے ذہن نشین کرا دیا اور خود اپنی نگرانی میں ان کو نماز کی تفصیلات پر قائم کر دیا اورپھر صحابہ کے ذریعہ یہ تعامل تابعین تک پہنچا۔ جنہوں نے صحابہ کی کسی زبانی تشریح سے نہیں بلکہ عملی تعامل سے اس کو صحابہ سے سیکھا اور اسی طرح یہ سلسلہ نیچے چلتا چلا گیا۔ اسی طرح دوسرے مسائل کا حال ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کی اصل بنیاد قرآن شریف اور سنّت پر ہے جو ابتداء سے ہی ایک دُوسرے کے پہلو بہ پہلو چلے آئے ہیں اور حدیث صرف ایک زائد چیز ہے جو علمی تشریح یا ضمنی تائید وغیرہ کے لئے کام آسکتی ہے ورنہ اس پر اسلام کی اصل بنیاد نہیں ہے، لیکن غلطی سے بعض لوگوں نے حدیث اور سُنّت کو ایک ہی چیز سمجھ رکھا ہے۔ اس بحث کو ہمارے اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ مگرہم نے خیال کیا کہ حدیث کے متعلق اس عام غلط فہمی کو اس جگہ دُور کر دیا جائے تاکہ ناواقف لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ نہ پیدا ہو کہ گویا اسلام کی بنیاد ایک ایسی چیز پر ہے جو ڈیڑھ دو سو سال بعد ضبط میں آئی ہے۔
کتب تفسیر
روایات کا دُوسرا مجموعہ روایتی تفسیر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں چونکہ قران شریف کی تشریح کا تعلق ہے جو زیادہ تر علمی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اس علم میں بھی حدیث کے
برابر احتیاط نہیں برتی گئی۔ مگر بہرحال یہ بھی ایک مفید مجموعہ ہے جس کے متعلقہ حصوں سے سیرۃ و تاریخ کی تدوین میں فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ کی زیادہ معروف کتابیں جن میں منقولی اور روایتی طریق پر قرآن شریف کی تفسیر درج کی گئی ہے یہ ہیں:
۱- تفسیر ابن جریر
(۲۰ جلد)
مصنّفہ امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری
۲۲۴ھ تا ۳۱۰ھ
منقولی تفسیر میں یہ سب سے جامع مجموعہ ہے ، مگر اس مجموعہ میں کمزور روایات بھی شامل ہو گئی ہیں۔
۲- تفسیر ابنِ کثیر
(۱۰ جلد)
مصنّفہ حافظ عماد الدین اسمٰعیل بن عمر ابن کثیر
۷۰۰ھ تا ۷۷۴ھ
یہ تفسیر نہایت معتبر اور مستند سمجھی جاتی ہے جس کے متعلق علامہ زرقانی کا قول ہے کہ اس جیسی اور کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔
۳- الدر المنثورفی التفسیر بالماثور ( ۶جلد)
مصنّفہ شیخ جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی
۸۴۹ ھ تا ۹۱۱ھ
یہ بعد کی تصنیف ہے جس میں رطب ویابس سب کچھ جمع ہو گیا ہے۔
سیرت و تاریخ کی ابتدائی کتب
تیسرا سلسلہ سیرۃ و تاریخ و مغازی کا ہے۔ اس سلسلہ کی غرض و غایت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات و سوانح اور
ابتدائی اسلامی جنگوں اور ابتدائی اسلامی تاریخ کے متعلق روایات جمع کرنا تھی مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے یہ روایتیں بحیثیتِ مجموعی حدیث کی روایتوں سے کمزور ہیں کیونکہ اس سلسلہ کے جمع کرنے والوں کی غرض سیرت و تاریخ کے سارے مواد کو ایک جگہ جمع کر دینا تھی تاکہ کوئی بات ضبط میں آنے سے رہ نہ جائے اور پھر بعد میں آنے والے اس کی چھان بین خود کر لیں جو قرآن شریف اور صحیح احادیث کو سامنے رکھ کر مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلہ کی ابتدائی تصنیفات جن میں ہم نے جغرافیہ اور تاریخِ عرب کی کتب بھی شامل کر لی ہیں یہ ہیں:
۱- کتاب المغازی
مصنّفہ محمد بن مسلم بن شہاب زہری
۵۱ ھ تا ۱۲۴ھ
یہ کتاب غالباً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی اور ابتدائی جنگوں کی تاریخ میں سب سے پہلی تصنیف ہے۔ امام زھری تابعین میں سے تھے اور متعدد صحابہ کو دیکھا اور ان کی باتوں کو سُنا تھا۔ نہایت ثقہ اور وسیع العلم انسان تھے مگر افسوس کہ ان کی کتاب اب ناپید ہوچکی ہے۔ البتہ بعض کتابوں میں اس کے حوالے آتے ہیں اور امام زہری کی زبانی روایات تو اکثر کتابوں میں آتی ہیں اور نہایت معتبر خیال کی جاتی ہیں۔
۲- المغازی
مصنّفہ مُوسیٰ بن عقبہ
المتوفی ۱۴۱ ھ
موسیٰ بن عقبہ امام زُھری کے شاگردانِ رشید میں سے تھے اور بعض صحابہ کو دیکھا تھا۔ نہایت محتاط مصنّف تھے اور جو کچھ لیتے تھے جانچ تول کر لیتے

تھے۔ حدیث میں امام مالکؒ ان کے شاگرد تھے، مگر افسوس کہ ان کی کتاب بھی ناپید ہے۔
۳- سیرۃ ابن اسحاق
مصنّفہ محمد بن اسحاق
المتوفی ۱۵۱ھ
ابنِ اسحاق بھی امام زھری کے شاگردوں میں سے تھے اور سیرۃ میں بڑا پایہ رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب سیرۃ و مغازی میں بطور بنیاد کے سمجھی گئی ہے اور اکثر بعد کے مؤرخین ان کے خوشہ چین ہیں۔ بعض لوگوں نے ان کی ثقاہت پر شُبہ کیا ہے مگر یہ دُرست نہیں؛ البتہ چونکہ اُن کا طبعی میلان سیرۃ کی طرف تھا۔ اس لئے حدیث کے سخت معیار کے مطابق وہ پورے نہیں اُترتے۔ اسی لیے امام بخاری نے حدیث میں ان سے روایت نہیں لی، لیکن تاریخ میں آزادی سے لی ہے۔ ان کی کتاب عام طور پر نہیں ملتی لیکن ابنِ ہشام کی سیرۃ میں اس کا بیشتر حصہ اس طرح آگیا ہے کہ اصل کتاب کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔
۴- سیرۃ ابنِ ہشام
مصنّفہ عبدالمالک بن ہشام المتوفی ۲۱۳ ھ
یہ بہت پائے کے مؤرخ تھے اور نہایت ثقہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی سیرت جو بیشتر طور پر سیرت ابنِ اسحاق پر مبنی ہے۔ بہت جامع اور مکمل تصنیف ہے۔ سیرت کی کتابوں میں ان کی سیرت سب سے زیادہ مقبول و متعارف ہے۔
۵- کتاب السیرۃ و کتاب المغازی
مصنّفہ محمد بن عمر الواقدی
۱۳۰ھ تا ۲۰۷ھ
یہ صاحب بہت وسیع المعلومات مؤرخ تھے۔ مگر چونکہ جھوٹ سچ اور صحیح و سقیم میں کوئی پرہیز نہیں تھا

اس لئے اکثر محققین کے نزیک ان کی تصنیفات بالکل ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ سند سمجھی گئی ہیں ان کے متعلق ہم ایک علیحدہ نوٹ دیں گے۔
۶- طبقاتِ کبیر
مصنّفہ محمد ابن سعد
۱۶۸ھ تا ۲۳۰ھ
ابنِ سعد ،و اقدی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کے سیکرٹری بھی تھے مگر باوجود اس
نسبت کے خود ثقہ اور معتبر سمجھے گئے ہیں ان کی کتاب بارہ جلدوں میں ہے اور بہت تفصیلی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ پہلی دو جلدیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات میںہیں اور باقی آپؐ کے صحابہ کے حالات میں۔ اگر واقدی کی روایتوں کو الگ کر دیا جائے تو یہ کتاب بہت اچھی اور مستند ہے۔
۷- تاریخ الامم
و الملوک
مصنّفہ ابو جعفر محمد ابن جریر الطبری
۲۲۴ھ تا ۳۱۰ھ
یہ کتاب سیرۃ کی کتاب نہیں بلکہ تاریخ کی کتاب ہے ، مگر چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ بھی اس کے اندر شامل ہے، اس لئے اسے سیرت کی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ طبریؔ اسلام کے مشہور مستند علماء میں سے تھے اور ان کی کتاب جو بارہ جلدوں میں ہے نہایت جامع تاریخ سمجھی گئی ہے۔ انہوں نے ابن اسحاقؔ اور واقدؔی اور ابنِ سعد کی بیشتر روایتوں کو جمع کرنے کے علاوہ بہت سی نئی روایتیں بھی دَرج کی ہیں اور سیرت و تاریخ میں ایک نہایت عمدہ ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔
۸- شمائل ترمذی
مصنّفہ ابو عیسیٰ محمد بن
عیسیٰ ترمذی
۲۰۹ ھ تا ۲۷۹ھ
ترمذی کی حدیث کا ذکر حدیث کی ذیل میں گذر چکا ہے، مگر انہوں نے شمائلِ نبوی ؐ پر ایک علیحدہ رسالہ بھی لکھا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حُلیہء مبارک اور ذاتی عادات و خصائل میں ایک مختصر مگر عمدہ تصنیف ہے۔
۹- کتاب المعارف
مصنّفہ عبداﷲ بن
مسلم بن قتیبہ
۲۱۳ھ تا ۲۷۶ھ
یہ کتاب تاریخ عرب اور اسلام کے متعلق معلومات عامہ پر مشتمل ہے جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاص خاص اصحاب کے حالات بھی درج ہیں۔
۱۰- فتوح البلدان
مصنّفہ ابو جعفر احمد بن یحییٰ بن جابرالبلاذری۔
المتوفی ۲۷۹ ھ
اس کتاب میں اُن فتوحات کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء کے ہاتھ پر ہوئیں۔ مشہور اور متداول کتاب ہے۔
۱۱- کتاب الخراج
مصنّفہ قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم
المتوفی۱۸۲ ھ
ابویوسف مشہور فقیہہ گذرے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ اس کتاب میں انہوں نے ان ٹیکسوں وغیرہ کے مسائل اور تاریخ بیان کی ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء کی طرف سے مفتوح قبائل پر لگائے جاتے تھے۔
۱۲- مُروج الذہب
مصنّفہ ابو الحسن علی بن حسین مسعودی
المتوفی ۳۴۶ ھ
اس کتاب میں دنیا کی مختلف اقوام و ممالک کی تاریخ سے ابتداء کر کے بالآخر عرب کے حالات درج کرتے ہوئے خلفائے بنوعباس تک اسلامی تاریخ کو مکمل کیا گیا ہے۔
۱۳- تاریخِ مکہ
مصنّفہ ابو الولید محمد بن عبدالکریم ازرقی۔
المتوفی ۲۲۳ ھ
مکہّ کی مستند اور ابتدائی تاریخ ہے۔
۱۴-صفۃجزیرۃالعرب
مصنّفہ ابو محمد حسن بن احمد بن یعقوب الہمدانی المعروف بابن حائک ۱؎ المتوفی ۳۳۴ ھ
جغرافیہ عرب کی ابتدائی اور مُستند کتاب ہے۔
یہ وہ ذخیرہ ہے جو تاریخی لحاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور ابتدائی اسلامی تاریخ کا اصل مأخذ اور منبع ہے اور بعد کی سب کتابیں اسی منبع کی خوشہ چین ہیں، لیکن جیسا کہ اُوپر ظاہر کر دیاگیا ہے یہ سب کتب سیرت کی کتابیں نہیں اور نہ ہی صحیح معنی میں وہ سب کی سب تاریخ کی کتابیں ہیں مگر چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آغازِ اسلام کی تاریخ کے ساتھ ان کتب کے مضامین کو ایک طبعی جوڑہے، اس لیے ہم نے انہیں سیرۃ کی کتابوں میں شامل کر لیا ہے۔ باقی جیسا کہ اوپر اشارہ کر دیا گیا ہے خالص سیرت کی اصل ابتدائی کتابیں جو اس وقت پائی جاتی ہیں، وہ صرف چار ہیں۔ اعنی سیرتؔ ابن ہشام۔ کتاب السیرت و المغازی لواقدی۔ طبقاتِ ابنِ سعد اور تاریخ طبری۔ لیکن ان میں سے چونکہ واقدی مطعُون و متروک ہے، اس لئے عملاً ماخذ صرف تین رہ جاتے ہیں۔ یعنی ابنِ ہشام۔ ابنِ سعد اور طبری۔ اور اس میں شُبہ نہیں کہ قرآن وحدیث کو چھوڑ کر سیرت کی حقیقی بنیاد انہیں تین کتابوں پر ہے۔
واقدی کے متعلق ایک مختصر نوٹ
واقدی کے متعلق ہمیں کچھ علیحدہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن بد قسمتی سے یورپین مصنفین نے اسے اتنا نوازا ہے کہ
اس کی حقیقت کے اظہار کے لئے ایک علیحدہ نوٹ ضروری ہو گیا ہے۔ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، واقدی کا زمانہ ۱۳۰ ھ سے لے کر ۲۰۷ ھ تک تھا اور اس میں شبہ نہیں کہ زمانہ کے لحاظ سے وہ کسی دوسرے مؤرخ سے کم محفوظ پوزیشن میں نہیں تھا۔ مگر یہ بات کسی شخص کے ذاتی صفات و عادات کا رُخ بدل نہیں سکتی اور حقیقت یہ ہے کہ واقدی اپنی وسعتِ علم کے باوجود ایک بالکل ناقابلِ اعتبار اور غیر ثقہ شخص تھا اور محققین نے اسے بالاتفاق جھوٹا اور دروغ گو قرار دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی ساری روایتیں غلط اور جھوٹی ہوتی تھیں۔ دُنیا میں جھوٹے سے جھوٹا انسان بھی ہمیشہ جھوٹ نہیں بولتا بلکہ حق یہ ہے کہ ایک جھوٹے آدمی کی بھی اکثر باتیں سچی اور واقعہ کے مطابق ہوتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس بات میں بھی ہر گز کوئی شُبہ نہیں ہو سکتا کہ جو شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہو اس کی کوئی بات بھی قابلِ حجت نہیں رہتی۔ واقدی کے متعلق یہ مسلّم ہے کہ وہ ایک بہت عالم انسان تھا اور اس کے تاریخی معلومات اتنے وسیع تھے کہ اس زمانہ میں کسی اور مؤرخ کے کم ہوں گے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وسعتِ معلومات نے ہی اس کے سر کو پھرا دیا تھا کہ وہ کسی بات کے متعلق لا علمی کا اظہار کرنے کی بجائے خود اپنی طرف سے بات بنا کر بیان کر دیا کرتا تھا؛ چنانچہ اس کے متعلق ایک محقق کا یہ بہت اچھا مقولہ ہے کہ ’’اگر واقدی سچا ہے تو بے نظیر ہے۔ اور اگر جھوٹا ہے تو تب بھی عدیم المثال ہے۔ ‘‘ ۱؎ مگر بد قسمتی سے واقدی کی یہی طلاقتِ لسان اور یہی وسعتِ علم ہمارے یورپین مصنفین کو اس کا دلدادہ بنا رہی ہے۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ واقدیؔ سچّا تھا یا جھوٹا۔ اس کی عادت ایک محتاط محدّث کی طرح تحقیق کر کے بات کرنے کی تھی یا کہ یونہی واہی تباہی کہتے جانے کی۔ ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ واقدیؔ جو کچھ کہتا ہے تفصیل سے کہتا ہے اور یوں کہتا ہے جیسے کوئی شخص پاس بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہو۔ اگر اس کا کوئی قول کسی صحیح اور مضبوط روایت کے خلاف ہے تو ہوا کرے اُن کے لئے سب روایتیں برابر ہیں اور سوائے اپنے دماغ کی شہادت کے اور کوئی شہادت قابلِ قبول نہیں۔ مسلمان محققین نے جو اپنی عمریں کھپا کھپا کر ہر روایت سے بال کی کھال نکالی ہے اور ہر راوی کے صحیح صحیح حالات معلوم کر کے عِلم روایت کے لئے ایک سچا ترازو مہیا کر دیا ہے اہلِ مغرب کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بہرحال ہم کسی کے قلم اور زبان کو تو روک نہیں سکتے مگر ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ واقدی کے متعلق ان مسلمان محققین نے جن کی دیانت و امانت اور اصابتِ رائے کو سب نے تسلیم کیا ہے کیا رائے دی ہے:
نام رائے دہندہ
الفاظ جن میں رائے کا
اظہار کیا گیاہے
ترجمہ اردو
امام احمد بن حنبل
علیہ الرحمۃ
۱۶۱ھ تا ۲۴۱ھ
ھُوَکَذَّابٌ یُقَلِّبُ الْحَدِیْث
واقدی ایک پَرلے درجہ کا جھوٹ بولنے والا شخص ہے جو روایتوں کو بگاڑ بگاڑ کر بیان کرتا ہے۔
ابو احمد عبداﷲ بن محمد المعروف بابن عدی
۲۷۷ھ تا ۳۲۵ھ
اَحَادِیْثُہٗ غَیْرُ مَحْفُوْظَۃٍ وَالْبَلَائُ مِنْہُ
واقدی کی روایتیں قابلِ اعتبار نہیں ہیں اور یہ خرابی خود اس کے نفس کی طرف سے ہے۔
ابو حاتم محمد بن ادریس
۱۹۵ ھ تا ۲۷۷ھ
یَضَعُ الْحَدِیْث
واقدی اپنے پاس سے جھوٹی حدیثیں بنابنا کر بیان کیا کرتا تھا۔
علی بن عبداﷲ بن جعفر المعروف بابن المدینی
۱۶۱ ھ تا ۲۲۴ھ
یَضَعُ الْحَدِیْث لَا اَرْضَاہُ فِیْ شَئیٍ
واقدی جھوٹی روایتیں بناتا تھا میرے نزدیک وہ کسی جہت سے بھی قابلِ قبول نہیں۔
امام علی بن محمد دار قطنی
۳۰۶ ھ تا ۳۸۵ھ
فِیْہِ ضُعْفٌ
واقدی کی روایتیں ضعیف ہوتی ہیں۔
اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راہویہ
۱۶۱ھ تا ۲۳۸ھ
ھُوَ عِنْدِیْ مِمَّنْ یَضَعُ الْحَدِیْث
میرے نزدیک واقدی جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ایک ہے۔۱؎
امام بخاری علیہ الرحمۃ
۱۹۴ ھ تا ۲۵۶ھ
مَتْرُوْکُ الْحَدِیْثِ
واقدی اس قابل نہیں ہے کہ اس سے کوئی روایت لی جائے۔
امام یحییٰ بن معین
۱۸۵ ھ تا ۲۳۳ھ
لَیْسَ بِشَیْ ئٍ کَانَ یُقَلِّبُ
واقدی اہلِ علم کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ وہ حدیثوں کو بگاڑ بگاڑ کر بیان کیا کرتا تھا۔
امام شافی علیہ الرحمۃ
۱۵۰ ھ تا ۲۰۴ھ
کُتُبُ الْوَاقْدِی کُلُّھَا کِذْبٌ کَا نَ یَضَعُ الْاَسَانِیْدَ
واقدی کی سب کتابیں جھوٹ کا انبار ہیں۔ وہ اپنے پاس سے جھوٹی سندیں گھڑلیا کرتا تھا۔
امام ابو داؤد سجستانی
۲۰۲ھ تا ۲۷۵ھ
لَا اَکْتُبُ حَدِیْثَہٗ۔ اِنَّہٗ کَانَ یَفْتَعِلُ الْحَدِیْث
ٓٓمیرے نزدیک واقدی کی روایات مقبول نہیں، وہ اپنے پاس سے حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا۔
امام نِسائی علیہ الرحمۃ
۲۱۵ھ تا ۳۰۳ھ
اَلْوَاقْدِی مِنَ الْکَذَّابِیْنَ الْمَعْرُوْفِیْنَ بِالْکِذْبِ
واقدی ایسے جھوٹے لوگوں میں سے تھا جن کا جھوٹ ظاہر اور عیاں ہے اور اُسے سب جانتے ہیں۔
محمد بن بشار بندار
۱۶۷ ھ تا ۲۵۲ ھ
مَارَأَیْتُ اَکْذَبُ مِنْہٗ
میں نے واقدی سے بڑھ کر کوئی جھوٹا نہیں دیکھا۔
امام نووی
المتوفی ۶۷۴ ھ
ضَعِیْفٌ بِاِتِّفَا قِہِمْ
واقدی سب محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف الروایت ہے۔
علامہ ذہبی۔
المتوفی ۷۴۸ ھ
اِسْتَقَرَّالْاِجْمَاعُ عَلٰی وَھْنِ الْوَاقْدِی
سب محققین نے واقدی کے مزور ہونے کے متعلق اجماع کیا ہے۔ ۱؎
قاضی احمد بن محمد بن ابراہیم المعروف بابن خلکان۔
المتوفی ۶۸۱ ھ
ضَعَفُوْ ہُ فِی الْحَدِیْثِ وَ تَکَلَّمُوْا فِیہِ
محققین نے واقدی کو ضعیف قرار دیاہے۔ اور اس پر بہت اعتراض کئے ہیں۔ ۲؎
علامہ زرقانی
المتوفی ۱۱۲۲ ھ
اَلْوَاقْدِی لَا یُحْتَجُّ بِہٖ اِذَا اِنْفَرَدَ فَکَیْفَ اِذَا خَالَفَ
واقدی اگر کسی بات کے بیان کرنے میں اکیلا ہو تو محققین کے نزدیک اس کی روایت قابلِ حجت نہیں ہے۔ پھر اس پر خود قیاس کر لو کہ ایسی بات میں اس کی روایت کا کیا وزن ہو سکتا ہے جو وہ دوسروں کے خلاف کہتا ہو۔ ۳؎
یہ وہ شہادت ہے جو مسلمان محققین نے جن میں بہت سے خود واقدیؔ کے ہمعصر تھے پوری پوری تحقیق کے بعد دی ہے۔ اب ہمارے یورپین مصنفین خود سوچ لیں کہ ان کا دل پسند مؤرخ کس شان کا انسان ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ واقدی کی ہر روایت غلط ہے یقینا اس کی روایتوں کا بیشتر حصہ صحیح ہو گا۔ مگر جس شخص کی صداقت وعدالت کا یہ حال ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے وہ اپنی کِسی روایت میں بھی جس میں وہ اکیلا راوی ہے یا جس میں وہ دوسرے راویوں کے خلاف بات کہتا ہے کسی عقلمند کے نزدیک قابلِ حجت نہیں سمجھا جاسکتا۔ واﷲ اعلم۔
بہرحال ہماری تحقیق میں محمد بن عمرو اقدی باوجود ابتدائی مؤرخوں میں ہونے کے ہر گز قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ اور جہاں تک خالص سیرۃ کی کتب کا تعلق ہے صرف ابنِ ہشام اور ابنِ سعد اور ابنِ جریر طبری ہی وہ تین ابتدائی مؤرخ ہیں جن کی کتب پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ و سوانح کی بنیاد سمجھی جانی چاہئے ۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ان مؤرخین کی ہر روایت دُرست اور صحیح ہے ایسا دعویٰ مؤرخین تو درکنار محدّثین کے متعلق بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ یہ تین مؤرخ عموماً اپنی ذات میں قابلِ اعتماد ہیں اور خواہ بے احتیاطی یا سَند کی کمزوری کی وجہ سے ان کی بعض روایتیں بھی غلط اور نادرست ہوں مگر بہرحال وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کے اصل حامل سمجھے جاسکتے ہیں؛ البتہ ان کی تائید میں یا بعض ضمنی مسائل کے حل کے لئے مذکورہ بالا فہرست کی دوسری تاریخی کتب بھی کام دے سکتی ہیں۔
متأخرین کی کتب
مذکورہ بالا کتب کے علاوہ باقی جتنی بھی کتابیں سیرۃ و تاریخِ اسلام کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی مفید اور جامع ہوں وہ سیرت میں اصل ماخذ نہیں سمجھی
جاسکتیں،کیونکہ انہوں نے جو کچھ لیا ہے مندرجہ بالا کتب سے لیا ہے۔ پس انہیں کسی تشریح کی تائید میں یا سہولت کی غرض سے تو پیش کیا جاسکتا ہے، مگر سَنَد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مصنّف کتاب ہذا نے بھی اپنی اس تصنیف میں جہاں کہیں کسی بعد کی کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ صرف سہولت کے خیال سے دیا ہے تاکہ متفرق حوالہ جات کی بجآئے ایک حوالہ پر ہی اکتفا ہو سکے، لیکن ایسا حوالہ ہمیشہ اس تسلّی کے بعد دیا گیا ہے کہ اس کا اصل ابتدائی کتب میں موجود ہے بایں ہمہ متأخرین کی کتب بھی بڑی قدر و قیمت کی چیز ہیں، کیونکہ اُن میں نہایت محنت و جانفشانی سے اصل کتب تاریخ و حدیث کی انتہائی وَرق گردانی کے بعد ایک قیمتی ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے اور بعض صُورتوں میں ایسا بھی ہے کہ ایک اصل کتاب تو اب ناپید ہے، لیکن کسی بعد کے مؤرخ کی کتاب میں اس کی کسی روایت کے آجانے سے اس کا یہ حصہ محفوظ رہ گیا ہے اسی طرح ایک محدود دائرہ کے اندر بعض متأخرین کی کتب بھی اصل ماخذ کا کام دے جاتی ہیں بشرطیکہ وہ خود معتبر اور مستند ہوں۔ بہرحال متأخرین کی کتب سیرۃ و تاریخ میں سے مندرجہ ذیل کتب قابلِ ذکر ہیں:
۱- الروض الانف
مصنّفہ عبدالرحمن بن عبداﷲ سہیلی ۵۰۸ھ تا ۵۸۱ھ
یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور سیرۃ ابنِ ہشام کی شرح کے طور پر لکھی گئی ہے نہایت معتبر اور مستند کتاب ہے۔
۲- تاریخ الکامل
مصنّفہ حافظ ابن اثیر الجزری
۵۵۵ھ تا ۶۳۰ھ
یہ کتاب بارہ ضخیم جلدوں میں ہے اور زیادہ تر طبری سے ماخوذ ہے اور عمدہ صورت میں مُرتّب شدہ ہے۔ اصل سیرۃ کا حصہ صرف دو جلد میں آجاتا ہے۔
۳- تاریخ الخمیس فی احوال اَنفس النفیس
مصنّفہ حسین بن محمد بن حسن دیار بکری۔ المتوفی ۹۶۶ھ
یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور بہت سی کتب کے معلومات کا مجموعہ ہے جو دلکش صورت میں مُرتّب کیا گیا ہے۔
۴- شرح مواہب اللّدنیہ
مصنّفہ علامہ محمد بن عبدالباقی بن یوسف الزرقانی
المتوفی ۱۱۲۲ ھ
یہ کتاب آٹھ ضخیم جلدوں میں ہے جو سب کی سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ سے متعلق ہیں۔ نہایت جامع اور مُستند کتاب ہے اور انتہائی تحقیق سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں سیرۃ کی روایتوں کے علاوہ احادیث کے حوالے بھی کثرت کے ساتھ دَرج ہیں۔ خاکسار کی رائے میں اس کتاب سے بڑھ کر کوئی جامع اور محققانہ مجموعہ سیرۃ میں نہیں پایا جاتا۔
۵- انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون
مصنّفہ علی بن برہان الدین الْحَلبی۹۷۵ ھ تا ۱۰۴۴ھ
یہ کتاب جو تین جلدوں میں ہے اور عرفِ عام میں سیرۃ حَلْبیہ کے نام سے مشہور ہے نہایت جامع کتاب ہے مگر افسوس کہ ترتیب چنداں دلکش نہیں ہے۔
۶- مُعجم البلدان
مصنّفہ ابو عبداﷲ یاقوت بن عبداﷲ الحموی
المتوفی ۶۲۳ ھ
یہ کتاب دس جلدوں میں ہے اور جغرافیہ کے نہایت مفصّل معلومات پر مشتمل ہے۔
ان کے علاوہ سیرۃ کازرونی ۶۹۴ ھ ، سیرۃ مغلطائی ۷۶۲ ھ، سیرۃدمیاطی ۷۰۵ ھ ، سیرۃ خلاطی ۷۰۸ھ ، سیرۃ ابنِ ابی طَیّ ۶۳۰ ھ ، شرف المصطفیٰ نیشاپوری ۴۰۶ ھ ، اکتفاء ۶۳۴ ھ ، عیون الاثرلابن سیّد الناس ۷۳۴ ھ ، نور النّبراس شرح عیون الاثر ۸۴۱ھ ، کشف اللثام ۸۵۵ ھ ، مواہب اللدنیہ ۹۲۳ ھ ، سیرۃ ابن عبدالبّر ۴۶۳ ھ ، شرف المصطفیٰ ابن جوزی ۵۹۷ ھ ،تاریخ ابو الفداء ۷۳۲ ھ وغیرہ بہت سی اور کتابیں ہیں مگر ان میں سے کئی ناپید ہیں اور جو موجود ہیں وہ عموماً اس حیثیت کی نہیں ہیں کہ مندرجہ بالا کُتب کے ہوتے ہوئے کسی سند یا تشریح میں پیش کی جاسکیں۔
خلاصہء بحث
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور ابتدائی تاریخِ اسلام کے لیے مندرجہ ذیل اصول ماخذ سمجھے جاتے ہیں:
۱- قرآن شریف
۲- کُتب تفسیر منقولہ
۳- کتب حدیث
۴- کتب سیرۃ و تاریخ و مغازی۔ ۱؎
ان کے باہمی مدارج اسی ترتیب سے واقع ہیں جس میں کہ انہیں اُوپر درج کیا گیا ہے یعنی سب سے زیادہ مضبوط اور سب سے زیادہ یقینی ماخذ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے قرآن شریف ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیئس سالہ نبوت کی زندگی میں آہستہ آہستہ کر کے نازل ہوا اور ساتھ ساتھ ضبطِ تحریر میں آتا گیا۔ یہ وہ کلید عمومی (ماسٹر کی) ۱؎ ہے جس سے سیرۃ رسُولؐ اور تاریخِ اسلام کی ہر اُلجھن یقینی صحت کے ساتھ کھولی جاسکتی ہے۔ دُوسرے درجہ پر حدیث ہے جس کے سلسلہ روایت میں محدّثین نے اپنی طرف سے بڑی احتیاط کے ساتھ کام لیا ہے، مگر پھر بھی بہرحال وہ قرآن شریف کی قطعیت کو نہیں پہنچتی اور بعض کمزور روایتیں اس مجموعہ میں راہ پا گئی ہیں۔ تیسرے درجہ پر وہ تفسیری روایات ہیں جو قرآن شریف کی تشریح و توضیح میں وارد ہوئی ہیں، مگر ان میں کمزور روایتوں کا حصہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ چوتھے درجہ پر سیرۃ وتاریخ کی ابتدائی کتابیں ہیں جو تاریخی لحاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرۃ کی اصل بنیاد ہیں مگر بد قسمتی سے یہی وہ ذخیرہ ہے جس میں کمزور اور ضعیف روایتوں نے زیادہ دخل پایا ہے، اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح نگار کا یہ پہلا فرض ہے کہ سیرۃ و تاریخ کی روایتوں کی جرح و تعدیل کے لیے قرآن شریف و حدیث کی شمع کو ہر وقت اپنے ہاتھ میں رکھے ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کا صحیح مرقع کبھی بھی تیار نہیں ہو سکے گا۔ اس اصولی بنیاد کے قائم کرنے کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
وما توفیقنا الّا باﷲ و نرجو منہ خیرًا

عرب کا ملک اور اس کے باشندے
محلِ وقوع اور حُدودِاربعہ
برّ اعظم ایشیا کے نقشہ پر اگر آپ نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے جنوب مغرب میں ایک جزیرہ نما واقع ہے جو وسعتِ رقبہ کے لحاظ
سے دُنیا کے تمام جزیرہ نماؤں میں سب سے بڑا ہے۔ یہ عرب کا ملک ہے، جہاں اسلام پیدا ہوا اور جہاں اس نے اپنی طفولیت کے ایّام گذارے۔ عرب کی وجہ تسمیہ کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا نام عرب اس لئے پڑا ہے کہ عربی زبان اصول فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ حتی کہ بعض محققین عربی کو اُمّ الالسنہ یعنی تمام زبانوں کی ماں قرار دیتے ہیں۔۱؎ اور چونکہ لفظ عرب کے روٹ میں فصاحت و بلاغت کے معنے پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اس زبان کے بولنے والی قوم اور ملک کا نام عرب مشہور ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ غیر آباد اور جنگلی حصہ کی زیادتی کی وجہ سے اس کا یہ نام پڑا ہے۔ کیونکہ عرب کے معنے ایک غیر ذی زرع علاقہ کے بھی ہیں۔
جائے وقوع کے لحاظ سے عرب کا ملک قریباً نصف منطقہ حارہ میں واقع ہے اور نصف منطقہ معتدلہ میں۔ گویا خطِ سرطان اس کے وسط سے گذرتا ہے۔ عرب کی جنوبی اور شمالی حدود علی التربیت ۱۳ عرض بلد شمالی اور ۳۳ عرض بلد شمالی ہیں اور غربی اور شرقی حدود علی الترتیب ۳۳ اور ۶۰ طول بلد شرقی ہیں۔
حدودِ اربعہ عرب کی یہ ہیں۔ مشرق میں خلیج فارس اور خلیج عمّان ۔ مغرب میں بحرِ احمر ہے۔ جنوب میں بحرِ ہند ہے اور شمال میں شام اور عراق ہیں۔
شکل اور رقبہ
عرب کی شکل ایک بے قاعدہ سے مستطیل کی ہے جس کے تین طرف پانی ہے اور ایک طرف خشکی۔ ساحل کی لمبائی ملک کی وسعت کے لحاظ سے بہت کم ہے جس کا لازمی نتیجہ
عمدہ بندر گاہوں کی کمی ہے۔
عرب کا رقبہ تقریباً بارہ لاکھ مربع میل ہے اور طول اوسطاً سولہ سو میل ہے اور عرض اوسطاً سات سو میل ہے۔ گویا وسعت کے لحاظ سے عرب دُنیا کے بڑے ملکوں میں سے ہے، لیکن آبادی پر نظر ڈالیں تو بعض چھوٹے سے چھوٹے ملک بھی اس سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں؛ چنانچہ موجودہ زمانہ میں بھی عرب کی مجموعی آبادی اَسّی لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ آگے ظاہر ہو جائے گی۔
سطح زمین
سطح زمین اور نوعیّتِ اراضی کے لحاظ سے ماہرانِ جغرافیہ عرب کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اوّل۔ ساحلی علاقہ جو ہموار زمین پر مشتمل ہے اور باقی علاقوں کی نسبت معتدل
ہے۔ دوسرے پہاڑی علاقہ جس کے درمیان کی وادیاں گویا ملک کی جان ہیں۔ اور تیسرے صحرائی علاقہ جو بوجہ ریگستان ہونے کے عموماً بنجر اور غیر آباد ہے۔
عرب کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ شمالاً جنوباً پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ جلا گیا ہے جسے جبل السراۃ کہتے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلہ کی بعض چوٹیاں آٹھ ہزار بلکہ دس ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچتی ہے مگر اوسطاً بلندی بہت کم ہے۔ اس سلسلہ کے قریباً وسط سے ایک اور پہاڑی سلسلہ جو دراصل کئی پہاڑی سلسلوں سے مرکب ہے اور شمالاً جنوباً بھی دُور تک پھیلا ہوا ہے، عرب کو دو ٹکڑوں میں کاٹتا ہوا ملک کے مشرقی ساحل کی طرف نکل گیا ہے۔ اس وسیع علاقہ کو جو عرب کے وسط میں واقع ہے اور سطح سمندر سے خاصہ اونچا ہے سطح مرتفع نجد کہتے ہیں۔ اس کی اوسط بلندی چار ہزار فٹ سمجھی جا سکتی ہے۔ سطح مرتفع نجد کے شمال اور جنوب اور کچھ مشرق میں نہایت وسیع صحرا واقع ہیں۔ عرب کا شمالی صحرا بالآخر شمال میں صحرائے شام سے جا ملتا ہے اور جنوبی صحرا جو وسعت میں بہت بڑا ہے اور خالص ریگستان ہے الربع الخالی کے نام سے مشہور ہے۔ عرب کے جنوب اور جنوب مشرق میں بھی خاصے اونچے پہاڑی سلسلے ہیں چنانچہ عمّان کی بعض چوٹیاں دس ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچتی ہیں۔
عرب میں قابلِ ذکر دریا کوئی بھی نہیں ہاں وادیاں اور برساتی نالے ہیں جو بارش کے وقت بہہ نکلتے ہیں اور بعض اوقات سیلاب کی صورت پیدا ہو جاتی ہے، مگر عام طور پر پانی کی اس قدر قلّت ہے کہ بعض جگہ سینکڑوں میل تک پانی نہیں ملتا۔ کہیں کہیں چشمے ہیں اور انہی پر تمام آبادی کی سیرابی کا دارومدار ہے۔ ایسے چشمے جن کے ارد گرد ددرخت اور باغات لگائے جاتے ہیں اور ان کے چاروں طرف میل ہا میل تک بنجر صحرا ہوتا ہے نخلستان کہلاتے ہیں جو عرب میں ایک خاص نعمت سمجھے جاتے ہیں۔ عرب میں یمن کا علاقہ سب سے زیادہ زرخیز اور شاداب ہے اور دوسرے علاقہ جات کی نسبت اس میں نالوں اور چشموں کی بھی کثرت ہے۔ اسی طرح مکّہ سے جنوب مشرق کی طرف بیس میل کے فاصلہ پر طائف کا علاقہ بھی ایک زرخیز اور خوشگوار علاقہ ہے جس میں اعلیٰ درجہ کے پھَل پیدا ہوتے ہیں۔
آب و ہوا
ماہرینِ جغرافیہ جانتے ہیں کہ عرب کو بیرونی ہوائیں دو ہی طرف سے پہنچ سکتی ہیں۔ یعنی شمال اور مشرق اور جنوب مغرب سے ۔ مگر عرب کی ان دونوں طرفوں میں گویا خشکی ہی خشکی
ہے، اس لئے یہ ہوائیں بھی لازماً خشک ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں عموماً بارش کی بہت قلّت ہے۔ ہاں پہاڑی علاقے کچھ نہ کچھ پانی ان ہواؤں سے بھی نچوڑ لیتے ہیں۔ اور اس طرح ان علاقوں میں کچھ بارش ہو جاتی ہے۔ خطِ سرطان کا ملک کے وسط سے گذرنا بھی اس کی صحرائی حالت اور کمی ٔبارش کی وجہ بتلا رہا ہے کیونکہ جیسا کہ جغرافیہ دانوں سے مخفی نہیں ایسا علاقہ دائمی ہواؤں کے لحاظ سے سکون کا منطقہ ہوتا ہے۔ پس عام طور پر یہی کہا جائے گا کہ عرب ایک بہت خشک ملک ہے اور چونکہ کیا بوجہ اپنے محلِ وقوع کے اور کیا بلحاظ نوعیتِ اراضی کے عرب عموماً ایک بہت گرم ملک ہے ، اس لئے اس کی آب و ہوا بحیثیت مجموعی گرم اور خشک کہلائے گی۔
عرب میں رات اور دن کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہوتا ہے جس کا باعث ریت کی کثرت ہے جو دن کے وقت خوب تپتی ہے اور رات کو بہت جلد اپنی گرمی چھوڑ کر خوب ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ شبنم کی کثرت بھی اسی وجہ سے ہے۔ عرب میں بعض اوقات ایک قسم کی گرم ہوا چلتی ہے جسے سموم کہتے ہیں۔ جب یہ ہوا چلتی ہے تو بالکل اندھیرا کر دیتی ہے اور اس میں اس قدر ریت اُڑتی ہے کہ بعض اوقات اس کی وجہ سے جان اور مال کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ موسم سرما میں ملک کے بعض حصوں میں کافی سردی پڑتی ہے؛ چنانچہ ہم آگے چل کر پڑھیں گے کہ جس موسم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو غزوہ خندق پیش آیا اس میں مدینہ میں سردی کی اس قدر شدّت تھی کہ لوگ سردی سے ٹھٹھرے جاتے تھے اور رات کو بستر سے اُٹھنا غیر معمولی ہمت چاہتا تھا۔ مگر یہی علاقہ گرمیوں میں بھٹی کی طرح تپتا تھا۔
پیداوار
نباتاتی پیداوار کے لحاظ سے عرب کا ملک ایک نہایت ہی غریب ملک ہے۔ بعض جگہ سینکڑوں میل تک سبزی کا نشان تک نہیں ملتا اور ملک کا بیشتر حصہ خشک پہاڑیوں اور بنجر صحراؤں سے بھرا
ہوا ہے۔ سب سے بڑی پیداوار کھجور ہے جو قریباً سارے آباد ملک میں ہوتی ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ عربوں کی اصل اور بڑی خوراک جس پر ان کا گذارہ ہے یہی ہے اور اس سے وہ کئی قسم کی اشیاء تیار کرتے ہیں۔ عرب کے بعض حصوں میں دوسرے پھل بھی ہوتے ہیں اور جہاں پانی میّسر ہے لوگوں نے اپنے باغ لگا رکھے ہیں۔ حجاز میں طائف اپنے باغات کے لئے خاص شہرت رکھتا تھا اور اب بھی رکھتا ہے۔
وہ علاقے جہاں کھیتی باڑی ہو سکتی ہے مثلاً بعض ساحلی علاقے اور پہاڑوں کی وادیاں وغیرہ۔ وہاں بعض قبائل کھیتی باڑی کر کے اپنے لیے کچھ غلّہ پیدا کر لیتے ہیں؛ چنانچہ جَو اور جوار کہیں کہیں بوئے جاتے ہیں۔ کچھ گندم بھی ہو جاتی ہے۔ لوبیا اور دالیں اکثر جگہ ہوتی ہیں۔ بعض ترکاریاں بھی پیدا کی جاتی ہیں اور قہوہ اور گرم مصالحہ جات بھی ہوتے ہیں۔ بارانی علاقوں میں گھاس وغیرہ اچھا اُگ آتا ہے ۔ یہ علاقے جانوروں کے واسطے چراگاہ کا کام دیتے ہیں۔ تمام قبائل کی اپنی اپنی چراگاہیں الگ الگ مقرر ہیں۔ سطح مرتفع نجد خصوصاً چراگاہوں کا مرکز ہے۔
حیوانی پیداوار کے ضمن میں تین جانورخصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں۔ یعنی اونٹ ، گھوڑا، اور گدھا۔ اونٹ تو گویا عرب کی ضروریاتِ زندگی کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر عرب جیسے ملک میں سفر کرنا قریباً محال ہے۔ ضرورت کے وقت اس کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ عرب کا گھوڑا بعض خوبیوں کی وجہ سے دُنیا میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ عرب لوگ اسے بہت عزیز رکھتے ہیں اور عام طور پر اس کی نسل باہر جانے نہیں دیتے۔نجدی گھوڑا عرب میں خاص قدر و وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ گدھا بھی عام ہے اور سواری کے کام میں استعمال ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب اس کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ عرب میں بھیڑ بکریاں بھی بہت ہوتی ہیں اور امراء ان کے گلّے کے گلّے رکھتے ہیں۔ گائے بیل بھی ہوتے ہیں، مگر کم۔ بھینس عرب میں نہیں ہوتی۔
جنگلی جانوروں میں شیر، چیتا بعض علاقوں میں ملتا ہے۔ بھیڑئیے، لگڑ بگڑ، بندر اور گیدڑ وغیرہ کافی ہوتے ہیں۔ ہرن بھی ملتا ہے اور جنگلی بکری بھی پہاڑوں میں پائی جاتی ہے۔ گورخر (جنگلی گدھا) بھی ہوتا ہے جس کا عرب لوگ شوق سے شکار کھیلتے ہیں۔
پرندوں میں عام پرندوں کے ذکر کو ترک کرتے ہوئے صرف شتر مُرغ قابلِ ذکر ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جانور ہوتا ہے جس کی لمبی لمبی ٹانگیں ہوتی ہیں اور ایسا تیزی سے بھاگتا ہے کہ گھوڑے کو بھی پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔
رینگنے والے جانوروں میں سے صرف گرگٹ کی قسم کے جانوروں کی کثرت ہے باقی کم ہیں۔ گو سانپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔
ٹڈی جس کا گوشت کھایا جاتا ہے کثرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور باغات اور فصلوں وغیرہ کا بڑا نقصان کرتی ہے۔ ساحل کے قریب مچھلی بھی ملتی ہے اور لوگ اسے پکڑتے ہیں۔
معدنی پیداوار عرب کی بہت کم ہے۔ قیمتی اور کارآمد دھاتیں تو گویا بالکل ہی نہیں ہیں کچھ سیسہ اور تانبا ملتا ہے اور کچھ کچھ چاندی اور لوہا۔ کوئلہ۔ گندھک اور نمک بھی پائے جاتے ہیں۔ سونا بھی کہیں کہیں موجود ہے۔ اور ایک انگریز مسٹر برٹن نے مدین میں اس کی تلاش بھی کی تھی، مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ بحرین میں سمندر کے کناروں سے موتی بھی نکالے جاتے ہیں اور ان کی خاصی تجارت ہے۔ اب تو پٹرول کے بڑے بڑے ذخائر عرب میں دریافت ہو چکے ہیں۔
ملکی تقسیم
ملکی تقسیم کے لحاظ سے عرب کئی حصّوں میں منقسم ہے جن میں بڑے بڑے حصّے یہ ہیں:
۱- مغرب میں حجاز ہے جو بحر احمر کے ساتھ ساتھ یمنؔ سے لے کر شام تک پھیلے ہوئے ساحلی
علاقے کا نام ہے۔ اس میں مکہؔ اورطائفؔ اور مدینہؔ اور جدّہؔ وغیرہ بڑے بڑے شہر آباد ہیں۔ ظہورِ اسلام کے وقت عرب مستعربہ میں سے قبائل بنو کناؔنہ ،قبائل ھذؔیل اور قبائل ہوازنؔ اور بنو قحطانؔ میں سے بعض قبائل ازوؔ وغیرہ اس علاقہ میں آباد تھے۔
حجاز کے جنوب میں اور بعض کے نزدیک اُس کے اندر شامل تہامہؔ بھی ایک مشہور علاقہ ہے جو بحرِ احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔
۲- عرب کے جنوب مغرب میں یمنؔ ہے جو ایک بہت مشہور اور نہایت شاداب علاقہ ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ ایک اچھی طاقتور اور متمدن سلطنت کا مرکز تھا اور ظہورِ اسلام سے قبل حبشہ کے اور ظہورِ اسلام کے وقت فارسؔ کے ماتحت تھا۔ اس کا بڑا شہر صنعاء کسی زمانے میں بہت مشہور اور سلطنت یمن کا پایہء تخت تھا۔ سبا کی قوم جس کا قرآن شریف میں ذکر آتا ہے ایک زمانہ میں اسی جگہ آباد تھی۔ بنو قحطان کا مولدو مسکن بھی یمن تھا۔ اور یہیں سے اکثر قبائل بنو قحطان نے عرب کے شمال کی طرف رحلت کی تھی؛ چنانچہ مدینہ کے اوسؔ اور خزرجؔ بھی جنہوں نے اسلام میں انصارؔ کا لقب پایا، یہیں سے گئے تھے۔
یمن کے ساتھ ہی ملاہو ایک اور علاقہ نجران ؔ ہے جو یمن کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت یہ علاقہ عرب کے عیسائیوں کا بڑا مرکز تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مباہلہ کے لئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی آتا ہے انہی لوگوں کو بُلایا تھا۔
۳- عرب کے جنوب میں یمن کے مشرق کی طرف حضرموت ہے اور حضر مَوت کے مشرق کی طرف مہرہؔ ہے۔ یہ ہر دو مشہور علاقے ہیں۔
۴- عرب کے جنوب مشرق میں عمّانؔ ہے جس کا دارالخلافہ مسقطؔ ایک مشہور شہر ہے۔
۵- مشرق میں خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ الحساؔء کا علاقہ ہے جس کے قریب میں بحرین کے جزائر ہیں اور اسی وجہ سے بعض اوقات الحساء کو بحرینؔ بھی کہہ لیتے ہیں۔ بحرین کے ساحل سے موتی نکالے جاتے ہیں۔
۶- وسط عرب میں نجدؔ ہے جو ایک نہایت وسیع اور مشہور علاقہ ہے اور کئی چھوٹے چھوٹے علاقوں میں جن میں سے بعض عرب کے شاداب حصّوں میں شمار ہوتے ہیں منقسم ہے۔ قبائل غطفاؔن اور سلیمؔ وغیرہ اس جگہ آباد تھے۔ یمامہؔ جو نجد کے جنوب مشرق میں ہے۔ بنو حنیفہ یعنی مسیلمہ کذاب کے قبیلے کا مسکن تھا۔
۷- یمامہ ؔ اور حضرموؔت کے درمیان الاحقاؔف ایک معروف علاقہ ہے۔ قوم عادؔ کا جن کی طرف حضرت ہود ؑمبعوث ہوئے تھے، یہی مسکن تھا۔ مگر آجکل یہ بالکل ویران وغیر آباد ہے۔
۸- نجدؔ کے شمال مشرق میں حجاز کے ساتھ ملا ہوا خیبر بھی ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو قدیم زمانہ میں یہود کا ایک بڑا مرکز تھا اور قلعوں کے ساتھ مستحکم کیا گیا تھا۔ خیبر کے شمال مشرق میں تیماؔ بھی یہود کا ایک مرکز تھا۔ تیما کے قریب ہی حجرؔ کی بستی ہے جس میں ثمود کی قوم آباد تھی جس کی طرف حضرت صالح ؑمبعوث ہوئے تھے۔ حجرؔ کے غربی جانب ساحلِ سمندر کی طرف مدین کا علاقہ ہوتا تھا جہاں حضرت موسیٰ ؑاپنی بعثت سے پہلے حضرت شعیب ؑ کے پاس آکر ٹھہرے تھے۔
باشندے
عرب ایک بہت کم آباد مُلک ہے۔ بارش کی کمی، ریگستان کی زیادتی ، نباتاتی اور معدنی پیداوار کی قِلّت وغیرہ کئی باتوں نے مل ملا کر اس کی آبادی کو بڑھنے نہیں دیا۔ پھر بھی آج
کل ستّر اسّی لاکھ کے قریب اس کی آبادی بتائی جاتی ہے جو ملک کے حالات کے ماتحت کم نہیں ہے۔
تقسیم اقوام کے لحاظ سے مؤرخین نے قبائلِ عرب کو دو اور ایک لحاظ سے تین بڑے حصّوں میں تقسیم کیاہے۔
اوّل- عرب عاربہ
یعنی مُلک کے قدیم اور اصلی باشندے جو آگے پھر دو حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں:
(الف) عرب کے وہ قدیم ترین باشندے جو اسلام سے بہت عرصہ پہلے فنا ہو چکے تھے۔ بُعدِزمانہ کی وجہ سے ہمیں اُن کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہیں، مگر اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ کئی قبائل تھے اور مُلک کے مختلف حصّوں میں آباد تھے اور ان میں سے بعض قبائل کی اچھی اچھی زبردست اور متمدن ریاستیں تھیں۔ عادؔ ، ثمودؔ ، طسمؔ، جدیسؔ اور جرہمؔ الاولیٰ وغیرہ انہی میں سے چند مشہور قبائل کے نام ہیں۔ عادؔ کا وطن احقاف میں تھا اور ثمودؔ حجاز کے شمال میں جوفؔ میں آباد تھے۔ ان قدیم ترین قبائل کو اُن کے فنا ہو جانے کی وجہ سے عرب بائدہ بھی کہتے ہیں۔
(ب) وُہ قبائل جو بنو قحطانؔ کہلاتے ہیں اور بعض روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ حضرت ہود ؑکی اولاد سے تھے۔ ۱؎ بہرحال یہ عرب بائدہ کے بعد ملک میں پھیلے ۔ ان کا اصل وطن یمنؔ تھا جہاں سے یہ سارے عرب میں پھیل گئے اور ان کی کئی شاخیں ہو گئیں۔
عرب کے شمال میں سلطنت فارس و روم کے ساتھ علی الترتیب ملی ہوئی حیرہؔ اور غسّانؔ دو مشہور ریاستیں تھیں۔ ان کے فرماں روا بھی بنو قحطان سے تھے۔ ظہورِ اسلام کے وقت بنو قحطان بہت پھیل چکے تھے اور ملک میں ان کا کافی زور تھا۔ اور مُلک کا ایک بڑا حصّہ اُن سے آباد تھا۔ مدینہ کے قبائل اوسؔ و خزرجؔ بھی بنوقحطان میں سے تھے۔
بعض اوقات عرب عاربہ کی اصطلاح صرف بنو قحطان کے واسطے استعمال کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عرب کے قدیم اور اصلی باشندوں میں سے یہی وہ قوم تھی جو مستقل طور پر مُلک میں قائم رہی۔
بنو قحطان کے مشہور قبائل کا شجرہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ (دیکھئے اگلا صفحہ)


















دوم۔ عرب مستعربہ
یعنی باہر سے آئے ہوئے لوگ جو عرب میں آکر آباد ہوئے۔ اُن میں زیادہ تر حضرت اسمٰعیل بن ابراہیم علیہما السّلام کی اولاد تھی جو حجاز میں آکر آباد ہوئی۔
ان کو عدنانیؔ بھی کہتے ہیں،کیونکہ حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں بڑا شخص جس سے یہ لوگ پھیلے عدنان تھا۔ بنو عدنان بھی آہستہ آہستہ کئی شاخوں میں منقسم ہو گئے۔ اور مُلک کے مختلف حصوں میں پھیل گئے۔ قریش جن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے بنو عدنان ہی کی ایک شاخ تھے۔ اور جیسا کہ آگے ظاہر ہو جائے گا ظہورِ اسلام کے وقت عرب مستعربہ میں سب سے زیادہ طاقتور اور صاحبِ اثر قریش ہی کا قبیلہ تھا۔
عرب مستعربہ کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چائیے کہ عدنانؔ حضرت اسمٰعیل سے کئی پُشت بعد پیدا ہوئے تھے۔ مگر چونکہ عدنانؔ اور حضرت اسمٰعیل کی درمیانی کڑیوں کے متعلق روایات میں کچھ اختلاف ہے اس وجہ سے بعض غیر مُسلم مؤرخین کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسلِ اسمٰعیل میں ہونے کے متعلق اعتراض کا موقع مل گیا ہے، حالانکہ جس صورت میں عرب کی متفقہ روایات کی رُو سے حضرت اسمٰعیل ؑکا عرب میں آکر آباد ہونا ثابت ہوتا ہے اور دُوسری طرف عدنان کے متعلق عرب کی تمام روایات متفق ہیں کہ وُہ حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد سے تھا تو درمیانی کڑیوں کے متعلق اختلاف اصل مسئلے پر ہرگز کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔ ۱؎
بہر حال مشہور عدنانی قبائل کا شجرہ درج ذیل ہے:
(دیکھئے اگلا صفحہ)















ظہور اسلام سے پہلے عرب کا تہذیب و تمدّن
ظہورِ اسلام سے پہلے عرب کا ملک سوائے چند ساحلی علاقوں کے بیرونی دُنیا سے ایک
بالکل منقطع حالت میں تھا۔ حتیٰ کہ نہ اُس پر کبھی کسی بیرونی قوم یا سلطنت کا اثر ہوا اور نہ عرب لوگ خود کبھی مستقل طور پر اپنے وطن سے باہر نکلے۔ خود مُلک کے اندر بھی اسلام سے پہلے کبھی کوئی متمدن مرکزی سلطنت قائم نہیں ہوئی۔ بے شک بعض اوقات بعض علاقہ جات میں بعض ریاستیں قائم ہوئیں مگر اُن کا اثر صرف مقامی تھا اور تمام ملک کبھی بھی کسی ایک تاجدار کے سامنے نہیں جھکا، بلکہ عموماً ہر قبیلہ آزاد تھا اور اپنا الگ الگ سردار رکھتا تھا۔ مگر عرب میں سرداری کسی کو باقاعدہ ورثہ میں نہ ملتی تھی اور نہ ہی یہ سرداری کوئی باقاعدہ حکومت کے رنگ میں ہوتی تھی، بلکہ عموماً کسی قبیلہ میں جو شخص سب سے زیادہ قابل ہوتا تھا، اُس کی مرضی پر لوگ چلتے تھے اور وہ قوم کا سردار سمجھا جاتا تھا۔
طرزِ زندگی کے لحاظ سے عربوں کی خوراک و لباس اور عام بُودوباش نہایت سادہ اور ابتدائی تھی۔ عام خوراک عربوں کی اُونٹوں اور بکریوں کا دُودھ اور کھجور تھی۔ جَو کے سَتّو بھی عموماً استعمال ہوتے تھے۔ ذی ثروت لوگ گوشت بھی کھاتے تھے اوراُونٹ یا بکری کے بھُنے ہوئے گوشت کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ شوربے میں روٹی کو بھگو کر کھانا ایک اعلیٰ قسم کی غذا سمجھی جاتی تھی جسے عرب لوگ ثرید کہتے تھے۔ لباس میں بھی یہی سادگی اور غربت کا عالم تھا۔ عام لوگوں کے پاس ایک چادر سے زائد کپڑا نہ ہوتا تھا جو وہ تہہ بند کے طور پر باندھے پھرتے تھے۔ قمیص صرف خاص خاص لوگ استعمال کرتے تھے اور جُبّہ تو گویا ایک بڑی نعمت تھی۔ گھروں میں عموماً فرش یا چارپائی نہیں ہوتی تھے۔ لوگ عموماً کھجور کی چٹائیوں پر سوتے تھے البتہ ذی ثروت لوگوں میں لکڑی کے تخت استعمال ہوتے تھے۔ اوڑھنے کو عموماً اُونٹ کی اُون کے بنے ہوئے بھَدّے سے کمبل ہوتے تھے۔ باقاعدہ مکان کم تھے عموماً خیمے یا پھُوس کے چھپّر یا کچیّ مکان استعمال ہوتے تھے؛ البتّہ بعض خاص خاص عمارتیں پتھّروں کی بھی بنائی جاتی تھیں۔
تقسیم آبادی کے لحاظ سے عرب دو حصّوں میں منقسم تھے۔ الحضرؔ اور البدوؔ یعنی شہروں میں رہنے والے اور جنگل میں رہنے والے۔ شہروں میں رہنے والے چونکہ ایک جگہ جم کر سکونت اختیار کرتے تھے۔ اس لیے اُن کا ایک خاص تمدّن تھا اور اُن میں ایک مُدنیت کا رنگ تھا مگر بدوی لوگوں کی زندگی جنگلی اور خانہ بدوشوں کی سی زندگی تھی۔ وہ خیموں اور عارضی گھروں میں رہتے تھے اور اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو لے کر ایک وسیع علاقہ میں اِدھر اُدھر آزادانہ پھرتے رہتے تھے۔ جہاں پانی اور سبزی پاتے وہیں ڈیرہ لگا دیتے۔ پھر کسی اور طرف نِکل جاتے۔ اسی طرح اُن کی ساری عمر بسر ہو جاتی تھی۔ اس طرز زندگی کے نقشے قدیم شاعروں نے اپنے کلام میں نہایت خوبی کے ساتھ کھینچے ہیں۔ ان لوگوں کی زبان شہری لوگوں کی نسبت زیادہ صاف اور خالص تھی اور ان میں اصل عربی فطرت اور عربی عادات کی تصویر زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ان کا پیشہ زیادہ تر ایک چرواہے کا سمجھنا چاہیے۔
عربوں میں لین دین عموماً جنس کا جنس سے ہوتا تھا، لیکن سونے اور چاندی کے بھدّے سے سکّے بھی چلتے تھے۔ چنانچہ چاندی کے دو سکّے رائج تھے، درہمؔ اور اوقیہؔ ۔ ایک اوقیہؔ کی قیمت چالیس درہم کے برابر سمجھی جاتی تھی۔ سونے کا مروّج سکّہ دینار تھا۔ ترازو سے تولنے کا رواج کم تھا۔ عموماً ماپ کا دستور تھا؛ چنانچہ مُدّؔ اور صاعؔ عرب کے دو مشہور پیمانے تھے۔ ناپنے کا آلہ صرف ذراعؔ یعنی ہاتھ تھا جسے گویا ڈیڑھ فٹ کے برابر سمجھنا چاہئے۔
ختنہ کی رسم عربوں میں عام تھی۔ حتّٰی کہ بعض اوقات عورتیں بھی ختنہ کرواتی تھیں۔ مُردوں کو غسل دینے اور کفن میں لپیٹ کر دفن کرنے کا رواج تھا۔ عرب لوگ داڑھی رکھتے اور عموماً مونچھیں کترواتے تھے۔ سُود لینے دینے کا رواج بھی کم و بیش پایا جاتا تھا۔
عربوں کی تجارت
عربوں کے قومی پیشے صرف تین تھے۔ اوّل زراعت جو ملک کے ایک نہایت قلیل حصّہ تک محدود تھی۔ دوسرے مویشیوں کا پالنا جسے انگریزی میں پاسچرنگ
کہتے ہیں۔ یہ بھی ملک کے صرف خاص خاص حِصّوں میں ہی ممکن تھا۔ تیسرے تجارت جسے گویا ملک کا سب سے بڑا پیشہ سمجھنا چاہئے عرب کے لوگ ہمیشہ سے تجارت پیشہ رہے ہیں۔ خصوصاً وہ قبائل جو ساحل سمندر کے پاس یا متمدن ملکوں کے قرب میں آباد تھے قدیم سے تجارت میں مصروف چلے آئے ہیں۔ ابتدائی زمانہ میں تو مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی مال لانے اور لے جانے کا بڑا ذریعہ عرب لوگ ہی تھے؛ چنانچہ ایک طرف شام و مصر اور دوسری طرف سواحلِ بحرِ ہند کے درمیان ان کے تجارتی قافلے برابر آتے جاتے تھے جو گویا ہندوستان اور شام و مصر کے درمیان ایک تجارتی کڑی کا کام دیتے تھے۔ مگر سمندر کا راستہ کھل جانے سے عربوں کی اس تجارت کو سخت نقصان پہنچا اور اس قدیم راستہ پر جو شام سے حجاز اور پھر یمن اور پھر حضر موت کے اندر سے ہوتا ہوا عرب کے مشرقی ساحل کی طرف جاتا تھا تجارتی قافلوں کی آمدورفت عملاً بالکل رُک گئی اور صرف مُلک کے اندر کی معمولی تجارت باقی رہ گئی۔ یہ اندرونی تجارت حجازؔ ، یمنؔ ، بحرینؔ اور نجد وغیرہ کے اندر محدود تھی مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت سے قریباً ایک سو سال پہلے شام کے ساتھ حجاز و یمن کی تجارت کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ گواس پہلے پیمانہ پر تو نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا، لیکن پھر بھی ملک میں اس سے کچھ جان آگئی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریشِ مکّہ کے تجارتی قافلے باقاعدہ شام اور یمن کی طرف آتے جاتے تھے اور بعض اوقات عرب کے دُوسرے حِصّوں کی طرف بھی جاتے تھے مگر اس زمانہ میں قریش مکّہ کی بڑی تجارت شام سے تھی۔ مکّہ سے شام کی طرف جانے کا زیادہ مستعمل راستہ بحرِ احمر کے ساتھ ساتھ شمال کو جاتا تھا۔ یثرب کا شہر جس نے بعد میں مدینہ کا نام پایا اسی راستہ کے قرب میں واقع تھا۔ شامی راستہ پر وہ مقام جہاں سے مدینہ کا راستہ مشرق کی طرف الگ ہو جاتا تھا بدر ہے جہاں مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان سب سے پہلی لڑائی ہوئی۔
برآمد کا مال عموماً قیمتی دھاتوں، موتیوں، جانوروں کی کھالوں، گرم مصالحہ جات اور خوشبو دار چیزوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اور جیسا کہ قیاس کیا جاتا ہے درآمد بالعموم غلّہ ۔ پارچات۔ سامانِ حرب۔ شراب اور کھانے کی خشک چیزوں پر مشتمل تھی۔
عرب میں قاعدہ تھا کہ سال کے مختلف حصوں میں ملک کے مختلف مقاموں میں تجارتی میلے لگا کرتے تھے جن میں دور دراز سے تاجر لوگ آکر شامل ہوتے اور تجارت کرتے تھے۔ ان میلوں کے لیے قرب شام میں دومۃؔ الجندل بحرین میں مشقر، عمان میں وباؔ ، یمن میں صنعاؔ اور حجاز میں عکاظؔ خاص شہرت رکھتے تھے۔
تعلیم اور قدیم شاعری
تعلیم عرب میں تھی تو سہی مگر بہت ہی کم تھی۔ سوائے خاص خاص اشخاص کے سارا ملک اَن پڑھ تھا اور یہ چند خواندہ لوگ بھی زیادہ تر شہروں میں
آباد تھے، مگر باوجود اس جہالت کے عربوں کو اپنی فصاحت اور بلاغت پر بڑا گھمنڈ تھا حتیٰ کہ عرب اپنے سوا باقی تمام دُنیا کو عجمی یعنی گنگ کہتے تھے اور اس میں شک نہیں کہ زبان کی فصاحت میں عرب کو واقعی حددرجہ کمال حاصل تھا۔ زمانہ جاہلیت کے شعراء کا کلام آج تک محفوظ ہے اس کے اندر جو فصاحت و بلاغت ،جو زور اور جوش و خروش، جو آزادانہ زندگی کی جھلک اور طبعی بہاؤ کی لہریں نظر آتی ہیں وہ کسی اور قوم اور کسی اور وقت کی شاعری میں کم ملیں گی۔ اور ان لوگوں میں یہ ایک خصوصیّت تھی کہ اپنے دلی خیالات کو نہایت بے تکلفی کے ساتھ بالکل ننگی زبان میں کہہ جاتے تھے کوئی تصنّع نہیں کوئی بناوٹ نہیں طبیعت پر کوئی زور نہیں۔ اسی لیے اُن کا کلام ان کے خیالات۔ جذبات اور عادات کی پوری پوری ترجمانی کرتا ہے۔
عرب قوم اپنی اس خوبی کو خود بھی خوب سمجھتی تھی؛ چنانچہ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب ایک دوسرے کو صرف تین موقعوں پر مبارکباد کہتے تھے۔ اوّلؔ کسی لڑکے کی ولادت پر۔ دوسرؔے کسی شاعر کے سر نکالنے پر اور تیسرےؔ عمدہ بچھیرے کے پیدا ہونے پر۔۱؎ اس مختصر فقرہ میں عربی زندگی کا پورا نقشہ آجاتا ہے۔
عرب میں شعراء گویا ملک کے لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ اُن کو یہ طاقت حاصل تھی کہ اپنے کلام کے زور سے دو قبائل کے درمیان جنگ کرادیں اور ملک میں آگ لگا دیں۔ عرب کے خاص خاص مقامات میں شعراء جمع ہو کر طبع آزمائیاں کرتے تھے۔ عکاظؔ جو نخلہ اور طائف کے درمیان مکّہ سے مشرق کی طرف ایک شاداب جگہ ہے ایسے میلوں کے لئے زمانہ جاہلیّت میں خاص شہرت رکھتا تھا۔ یہاں ہر سال ذیعقدہ میں میلہ لگتا تھا اور دُور دراز سے لوگ جمع ہوتے تھے اور علاوہ دُوسری باتوں کے مختلف قبائلِ عرب کے درمیان فصاحت و بلاغت اور شاعری کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔
فتح مکّہ کے بعد جب تمام اطراف عرب سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف قبائل کے وفد حاضر ہوئے تو اُن میں سے بنو تمیمم نے جو معیارِ صداقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اس سے ملک عرب میں شاعری کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے بجائے اور دلیلوں میں پڑنے کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو صرف اس لیے آئے ہیں کہ آپ کے اور اپنے شاعر کا مقابلہ کراکے دیکھیں؛ چنانچہ انہوں نے اپنا شاعر کھڑا کر دیا جس نے اپنے قبیلہ کی تعریف میں چند اشعار کہے۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی طرف سے حسّان بن ثابتؓ انصاری کو کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کی تعریف میں چند زور دار شعر کہے جن کی فصاحت کا لوہا بنو تمیم کو ماننا پڑا اور اس کے بعد یہ قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ ۲؎
عادات اور قومی خصائل
عرب کے گندے خصائل میں سے ان کی تین عادتیں خاص امتیاز رکھتی تھیں ۔ شراب خوری ، قمار بازی اور زنا ۔ ملک میں ان کی اتنی کثرت تھی
کہ خدا کی پناہ اور اس پر تعجب یہ ہے کہ عموماً ان کو جائے فخر سمجھا جاتا تھا؛ چنانچہ زمانہء جاہلیت کے شاعر بڑے مزے لے لے کر ان سیہ کاریوں کے متعلق اپنے کارنامے سُناتے ہیں بلکہ اس قسم کے ذکر کے بغیرعربوں میں شعر کی کچھ حقیقت ہی نہ سمجھی جاتی تھی؛ چنانچہ یہ ضروری خیال کیا جاتا تھا کہ قصیدہ کے شروع میں خواہ وہ کسی غرض سے کہا گیا ہو شاعر چند کھُلی کھُلی باتوں میں اپنی اصل یا مفروضہ معشوقہ کا ذکر کرے اور اس کے ساتھ اپنی چند مجلسوں کے کارنامے سُنائے۔ کعب بن زہیر ایک مشہور شاعر تھا وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کی مدح میں ایک قصیدہ کہہ کر لایا جو آجکل بَانَتْ سُعَادکے نام سے مشہور ہے۔ اس کے شروع میں بھی شاعراپنی محبوبہ ہی کی جدائی کا دُکھڑا روتا ہے۔ بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات خود مالک اپنی لونڈیوں سے بدکاری کرواتے اور اس کی آمد وصول کرتے تھے۔ یہ بھی گویا ایک آمد کا ذریعہ تھا، مگر شرفاء کا دامن اس قسم کی انتہائی بے حیائی سے پاک تھا۔
جہالت اور بے جا جوش وخروش کا عرب میں یہ حال تھا کہ بات بات پر تلوار چل جاتی تھی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات ایک ذرا سی بات پر دو قبیلوں میں جنگ شروع ہوئی پھر آہستہ آہستہ بعض دوسرے قبائل بھی شریک ہو گئے اور سالہا سال تک قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔ ذیل کا واقعہ ایّامِ عرب کی تاریخ کا ایک معمولی ورق ہے۔
پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں کلیب بن ربیعہ ایک بڑا طاقتور اور صاحبِ اثر رئیس گذرا ہے یہ قبیلہ بنو تغلب بن وائل کا سردار تھا جو عرب کے شمال مشرق میں رہتے تھے۔ کلیب کی بیوی حلیلہ بنت مرۃ قبیلہ بنو بکر بن وائل سے تھی۔ اس حلیلہ کا ایک بھائی تھا جس کا نام جسّاس تھا جو اپنی خالہ بسوس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اب اتفاق ایسا ہوا کہ بسوس کے پاس ایک شخص سعد نامی بطور مہمان آکر ٹھہرا۔ سعد کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام سراب تھا اور جو بوجہ تعلقات رشتہ داری کے کلیب کی چراگاہ میں جسّاس کی اونٹنیوں کے ساتھ مل کر چرا کرتی تھی۔
ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ کلیب ایک درخت کے نیچے سے گذررہا تھا کہ درخت کے اوپر سے اس کو ایک پرندے کی آواز آئی۔ کلیب نے اوپر نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک پرندے نے اس درخت پر ایک گھونسلابنا کر اس میں انڈے دے رکھے تھے۔ کلیب نے اس پرندے کی طرف اپنے سردارانہ بددی انداز میں دیکھا اور بولا ’’ کسی سے مت ڈر میں تیری حفاظت کرو ں گا۔‘‘ دوسرے دن جب کلیب وہاں سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ انڈے درخت سے نیچے گرے پڑے ہیں اور کسی جانور کے پاؤں سے مسلے ہوئے ہیں اور پرندہ اوپر درد بھری آواز نکال رہا ہے۔ کلیب کو اپنی کل کی بات یاد آئی اور اس کی آنکھوں میں خُون اُتر آیا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر کی تو سعد کی اونٹنی چر رہی تھی۔ کلیب نے خیال کیا کہ ضرور انڈے اسی اُونٹنی نے توڑے ہوں گے غصہ سے مغلوب ہو کر وہ اپنے سالے جسّاس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’ دیکھو جسّاس ! اس وقت میرے دماغ میں ایک خیال ہے اگر مجھے اس کا یقین ہو تو میں کچھ کر گذروں۔ مگر دیکھو آئندہ سعد کی یہ اونٹنی اس گلے کے ساتھ یہاں نہ چرا کرے۔‘‘ جسّاس کی رگوں میں بھی عرب کا بدوی خون تھا اس نے سامنے سے جواب دیا۔ ’’یہ ہمارے مہمان کی اونٹنی ہے جہاں میری اونٹنیاں چریں گی وہیں یہ بھی چرے گی۔‘‘ کلیب نے کہا۔ ’’اچھا تو اگر مجھے یہ اونٹنی پھر یہاں نظر آئے گی تو میں اس کے شیردان میں تیر مار کر اسے ہلاک کر دوں گا۔‘‘ جسّاس بولا۔ ’’ اگر تو نے ایسا کیا تو مجھے بھی وائل کے بُتوں کی قسم ہے کہ میں خود تیرا سینہ تیرسے چھید کر رکھ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر جسّاس وہاں سے چلا گیا اور کلیب سخت غضب کی حالت میں اپنے گھر آیا اور اپنی بیوی حلیلہ سے کہنے لگا۔ ’’ کیا تو کسی ایسے آدمی کو جانتی ہے جو میرے مقابل پر اپنے پڑوسی کی حفاظت کی جرأت کرے گا۔‘‘ اس نے کہا۔’’ ایسا تو کوئی نہیں مگر ہاں میرا بھائی جسّاس ہے اگر وہ اپنے منہ سے کوئی بات کہہ بیٹھے تو وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔‘‘
اس کے بعد حلیلہ نے اپنی طرف سے اس جھگڑے کو روکنے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکی آخر ایک دن جب کلیب اپنے اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا، اتفاقاً جسّاس بھی اوپر سے اپنے اونٹ لے آیا اور مزید اتفاق ایسا ہوا کہ اس کے گلے سے وہی سعدؔکی اونٹنی چھوٹ کر کلیب کے اونٹوں میں آکر پانی پینے لگ گئی۔ کلیب نے اسے دیکھا اور خیال کیا کہ جسّاس نے دیدہ دانستہ اسے چھوڑا ہے اس پر اس نے اپنی کمان لی اور اس کے شیردان میں تیر مارا جو سیدھا اپنے نشانہ پر بیٹھا اور سعدؔ کی اونٹنی تڑپتی اور چلاتی ہوئی دوڑی اور جسّاس کی خالہ بسوسؔ کے دروازے کے سامے پہنچ کر گر گئی۔ بسوس نے یہ نظارہ دیکھ کر اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ اور زور سے چلّا چلّا کر کہا۔ ’’ شرم شرم! ہم ذلیل کئے گئے اور ہمارے مہمان کی اونٹنی مار دی گئی۔‘‘ جسّاس نے یہ الفاظ سُنے تو شرم اور غیرت سے کٹ گیا اور غضب میں آکر اس نے کلیب کو قتل کر دیا۔ کلیب کے قتل نے قبیلہ تغلب میں آگ لگا دی اور اپنے سردار کے انتقام کے لئے وہ ایک جان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجہ میں قبائل تغلب اور بکر میں وہ خطرناک لڑائیاں ہوئیں اور اتنا قتل و خون ہوا کہ خدا کی پناہ۔ آخر چالیس سال کے بعد جب دونوں قبائل کٹ کٹ کر کمزور ہو گئے تو ریاست حیرہ کے بادشاہ مُنذر ثالث کے ذریعہ سے ان میں پھر صلح ہوئی۔ یہ جنگ تاریخِ عرب میں جنگِ بسوس کے نام سے مشہور ہے۔۱؎
عرب کے جنگوں میں عام طور پر ثار یعنی انتقام کا بڑا دخل ہوتا تھا۔ ثار کا عقیدہ گویا عرب کے دین و مذہب کا جزواعظم تھا۔ ان کا ایمان تھا کہ جب تک بدلہ نہ لے لیا جاوے مقتول کی روح ایک جانور کی صورت اختیار کر کے ہوا میں نوحہ کرتی پھرتی ہے اس جانور کو عرب لوگ صُدیٰ کہتے تھے۔ جب کسی قبیلے کا کوئی آدمی مارا جاتا تو اس کے رشتہ داروں اور اہلِ قبیلہ کایہ فرض ہوجاتا تھا کہ قاتل یا اس کے کسی رشتہ دار یا اس کے قبیلہ کے کسی آدمی کو اس کے بدلے میں قتل کریں۔ مقتول کے بدلے میں دیت یعنی خون بہا لینے کا بھی رواج تھا، مگر اس میں مالی پہلو اتنا متصور نہ تھا جتنا یہ کہ قاتل کا قبیلہ ذلیل اور شرمندہ ہو کر مقتول کا خُون بہا ادا کرے، لیکن عموماً جب تک مقتول کا بدلہ قتل کے ساتھ نہ لے لیا جاتا۔ اس وقت تک اس کے رشتہ داروں کے دلوں میں ایک آگ سی لگی رہتی تھی جسے صرف قاتل کا خون ہی بجھا سکتا تھا، لیکن جب ایک طرف کی آگ بُجھ جاتی تھی تو دوسری طرف یہی آگ بھڑک اٹھتی تھی اور اس طرح یہ سلسلہ ایسا وسیع ہوتا چلا جاتا تھا کہ بعض اوقات قبیلے کے قبیلے اس میں بھسم ہو جاتے تھے۔
صرف قاتل کو مار دینے تک مقتول کا انتقام ختم نہ ہوتا تھا بلکہ مُردوں کے ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ کاٹ کربھی اپنے دل کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ اس طریق کو عربوں میں مُثلہ کہتے تھے اور عرب کی جنگوں میں اس کا عام رواج تھا۔ چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ جنگِ اُحد میں ابو سفیان کی بیوی ہندہؔ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے ساتھ جنہوں نے جنگِ بدرؔ میں اس کے باپ عتبہؔ کو قتل کیا تھا یہی سلوک کیا بلکہ نہایت بیدردی کے ساتھ آپ کا جگر نکال کر چباگئی۔ عورتیں اور بچے جو جنگ میں قید ہو کر آتے تھے ان کو قتل کر ڈالنے میں بھی عربوں کو دریغ نہ ہوتا تھا۔ انتقام پورا کرنے کے واسطے مردوں کی کھوپڑیوں میں شراب پینا، نیزہ مارکر حاملہ عورتوں کا حمل گرا دینا، غفلت کی حالت میں سوتے ہوئے آدمیوں پر حملہ کر کے ماردینا وغیر ذالک یہ ایسی باتیں تھیں جن کو عرب کی سوسائٹی عموماً ناجائز نہیں سمجھتی تھی۔
جنگوں میں عرب کا دستور تھا کہ ایک اونچی جگہ پر آگ جلا دیتے تھے اور دورانِ جنگ میں اسے برابر جلتا رکھتے تھے اور اس کے بُجھ جانے کو بُری فال خیال کرتے تھے؛ چنانچہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ جب جنگ احزاب میں کسی وجہ سے ایک افسر کی آگ بُجھ گئی تو وہ گھبرا کر رات کے وقت اکیلا ہی میدانِ جنگ سے بھاگ نِکلا جس کی وجہ سے باقی فوج میں بھاگڑ پڑگئی۔
جنگ میں عموماً عورتیں بھی ساتھ جاتی تھیں جن کا کام یہ ہوتا تھا کہ غیرت اور جوش دلانے کے شعر پڑھ پڑھ کر آتشِ عرب کو بھڑکاتی رہیں۔ زخمیوں کی نگہداشت بھی عموماً عورتیں ہی کرتی تھیں؛ چنانچہ یہ رسم ایک حد تک اسلام میں بھی قائم رہی۔
لڑائی میں یہ عام دستور تھا کہ پہلے ایک ایک آدمی کا انفرادی مقابلہ ہوتا تھا اور پھر عام دھاوا ہو جاتا تھا۔ جنگ میں عرب لوگ عموماً تین قسم کے ہتھیار استعمال کرتے تھے ۔ تیر کمان ،نیزہ اور تلوار۔ بچاؤ کے واسطے زرہ اور خود استعمال کی جاتی تھیں۔ عرب لوگ جنگ گھوڑے پر بھی کرتے تھے اور پیدل بھی۔ لیکن بہادروں کے درمیان یہ بہادری کی علامت سجھی جاتی تھی کہ لڑائی کے وقت گھوڑے سے اتر کر اپنے عزیز گھوڑے کی کونچیں کاٹ کر اسے نیچے گرا دیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ ہم نے اپنے واسطے بھاگنے کا کوئی راستہ کھلا نہیں رکھا۔ جنگوں میں بار برداری کے لیے اونٹ استعمال ہوتا تھا۔
عربوں میں بہادری اور شجاعت نہایت اعلیٰ وصف سمجھے جاتے تھے اور عرب شاعر اپنی اور اپنے قبیلہ کی بہادری کے کارنامے دلی جوش و خروش کے ساتھ منظوم کرتے تھے اور بہادری گویا ان کے قومی خصائل میں سب سے نمایاں تھی۔ موت کے ڈر کو ایک سخت قابلِ شرم بات خیال کیا جاتا تھا اور موت سے ڈرنے والا سب کی نظروں میں مطعون ہو جاتا تھا۔ دراصل بہادری عربوں کی زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم تھی۔
عربوں کی غیرت اور غرور کے قصے بھی بہت مشہور ہیں۔ عمرو بن کلثوم کا مشہور مُعلَّقہ جس میں وہ عمروبن ہند کو خاص عربی انداز میں مخاطب کرتا ہے، عربوں کی غیرت کی ایک عام مثال ہے۔ عموماً عرب لوگ اپنے مفاد کے مقابلہ میں عہدوپیمان کا زیادہ پاس نہ کرتے تھے، تاہم عربوں کے اندر وفاداری کی بعض مثالیں حیرت انگیز ہیں۔ سُموئل بن عادیہ نے امرؤالقیس کی امانت کی حفاظت میں اپنے جوان بیٹے کے قتل کی پروا نہیں کی۔
عربوں میں سخاوت ایک نہایت اعلیٰ وصف سمجھا جاتا تھا اور پڑوسی اور مہمان کی حفاظت ان کے دین و مذہب کا حصہ تھی۔ مہمان نوازی تو عربوں کی فطرت میں تھی۔ رات کو کسی اونچی جگہ آگ جلا رکھتے تھے تاکہ اسے دیکھ کر مصیبت زدہ مسافر ان تک پہنچ سکے ۔ مہمان کی خاطر گھر کا سب کچھ خرچ کر ڈالنے میں دریغ نہ تھا۔ اس ضمن میں عرب کے مشہور ہیرو حاتم طائی کی سخاوت و مہمان نوازی کے قصے زبان زد خلائق ہیں۔
قبیلہ کی پاسداری عربوں کا فرض عین تھا۔ ایک شاعر فخر یہ کہتا ہے کہ میں تو قبیلہ غزیہ سے ہوں۔ اگر وہ غلطی کریں تو میں بھی غلطی کروں گا اور اگر غزیہ ٹھیک راستہ پر چلیں تو میں بھی ٹھیک راستہ پر چلوں گا۔ ۱؎
عرب میں اپنے حسب نسب پر فخر کرنے کی عادت عام تھی اور اپنے باپ دادوں کے کارناموں کا فخریہ لہجہ میں ذکر کرنا ان کا خاصہ تھا۔ یہ اسی تکبّر کا نتیجہ تھا کہ عرب لوگ غلاموں اور خادموں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
دشمن کے ساتھ معاملہ کرنے میں عرب لوگ عموماً ظالم اور سخت گیر تھے۔ ثارؔ کا خونی عقیدہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ یہ گویا عرب کے دین و مذہب کا جُزوِ اعظم تھا۔ ثار کے مقابلہ میں خدائی قضاء و قدر کی بھی پروا نہ تھی ایک شاعر کہتا ہے:
سَاَ غْسِلُ عَنِّی الْعَارَ بِالسَّیْفِ جَالِبًا
عَلَیَّ قَضَا ئُ اﷲِ مَا کَانَ جَالِبًا
’’ میں اپنے اوپر سے شرم و عار کو ضرور تلوار کیساتھ دھؤوںگا، پھر اﷲ کی قضاء مجھ پر جو چاہے لاوے مجھے پروا نہیں۔ ۱؎
عرب لوگ نہایت ذکی اور ذہین تھے اور ان کا حافظہ غضب کا تیز تھا چنانچہ قدیم سے ان کا دستور تھا کہ اپنی تمام قومی اور خاندانی روایت کو یاد رکھتے تھے اور مختلف موقعوں پر سُناتے رہتے تھے۔ جنگ میں جب دو جانباز سپاہی مقابلہ کے واسطے آگے بڑھتے تھے تو پہلے ایک دوسرے کا حسب نسب ضروردریافت کرتے تھے اور اگر کوئی نیچ ذات کا ہوتا تھا تو اس کو اپنے مقابلہ میں آنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔
عربوں میں سال اور ماہ چاند کی گردش کے حساب سے شمار کئے جاتے تھے اور بارہ مہینوں میں سے پہلا ، ساتواں اور آخری دو مہینے عزت کے مہینے سمجھے جاتے تھے جن میں ہر قسم کا قتال ممنوع تھا، لیکن بعض اوقات اپنی سہولت کے واسطے عرب انہیں آگے پیچھے بھی کر لیتے تھے تاکہ اگرکوئی ضرورت آپڑے تو ان مہینوں میں بھی بلا خوفِ گناہ جنگ و جدال کر سکیں۔ اس رسم کو نسئی کہتے تھے۔ ۲؎
عورت کی حیثیت
عرب میں عورت کی حالت بحیثیت مجموعی اچھی نہ تھی ۔ بیشک عموماً عورت کو اپنا خاوند خود انتخاب کرنے کا اختیار تھا مگر اس اختیار کے بعد وہ عملاً بے اختیار تھی۔
ہاں ہوشیار عورتیں اپنے خاوندوں پر اچھا اثر رکھتی تھیں۔ جنگ میں عورتوں کے ساتھ جانے کا بیان کیا جا چکا ہے۔ ان کا کام مردوں کو غیرت دلانا اور زخمیوں کی خبر گیری کرنا تھا۔ عورتیں شعر بھی کہتی تھیں ؛ چنانچہ خنسائؔ زمانہ جاہلیت کی ایک مشہور شاعرہ ہے جو بعد میں مسلمان ہو گئی تھی ۔ ۳؎
عورتوں میں پردے کی رسم نہ تھی بلکہ وہ کھلی پھرتی تھیں۔ تعدد ازدواج کی کوئی حد نہ تھی اور جتنی بیویاں کوئی شخص رکھنی چاہتا تھا رکھتا تھا۔ بعض اوقات باپ کی منکوحہ پر بیٹا وارث کے طور پر قبضہ کر لیتا تھا اور دو حقیقی بہنوں سے بھی ایک وقت میں شادی کر لیتے تھے۔ مگر ان باتوں کو اشرافِ عرب اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے۔ عرب میں طلاق کا عام رواج تھا اور خاوند جب چاہتا بیوی کو الگ کر سکتا تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے کی رسم بھی عرب میں تھی۔ مگر یہ رسم خاص خاص قبائل میں تھی۔ عام نہ تھی۔
لڑکیوں کو ورثہ نہ ملتا تھا اور نہ ہی بیوی کو حتّٰی کہ اگر کسی شخص کی نرینہ اولاد نہ ہوتی تھی تو اس کے مرنے پر سب ترکہ اُس کا بھائی لے جاتا تھا اور اس کی بیوی اور لڑکیاں یُونہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔
رسوم اور رسوم پرستی
یہ ابھی بیان کیا جائے گا کہ ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں بہت سے مذاہب پائے جاتے تھے۔ جو مختلف عقائد اور مختلف خیالات کے پَیرو تھے ۔ لیکن
عادات اور قومی اخلاق کے لحاظ سے تمام عرب گویا ایک قوم کے حکم میں تھا اور جو جو عادات اور اخلاق ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ سب میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں؛ چنانچہ زمانہ جاہلیت میں یثرب میں ایک یہودی رئیس فطیون تھا اس کمبخت کا یہ عام حکم تھا کہ شہر میں جس لڑکی کی بھی شادی ہو وہ پہلے اس کے گھر میں آوے۔ چنانچہ مدینہ کے اکثر یہودی اپنی ناکتخدا لڑکیاں شادی کے وقت پہلے اس کے گھر بھیجتے تھے اور اس کے بعد وہ کسی اور کے واسطے جائز ہوتی تھیں۔ آخر ایک غیرت مند شخص نے فطیون کو قتل کر ڈالا۔ ۱؎ اسی طرح اس زمانہ میں عیسائیوں کی حالت بھی بہت خراب تھی جیسا کہ میورؔ صاحب نے بھی اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے ۔۲؎ غرض عرب میں کیا بُت پرست ، کیا یہودی اور کیا نصاریٰ سب اخلاق و عادات اور قوی خصائل کے لحاظ سے ایک ہی رنگ میں رنگین تھے اور قتل و غارت اور قماربازی ، زنا، شراب خوری کا بازار ہر طرف گرم تھا۔
اسی طرح رسوم کی پابندی بھی سب میں مشترک تھی اور رسوم پرستی اس درجہ کی تھی کہ مذہب بھی اس کے سامنے ہیچ تھا۔ عجیب عجیب رسوم ملک میں پھیلی ہوئی تھیں مثلاً ایک تقسیم بالازؔلام کی رسم تھی۔ یعنی ایک قربانی میں دس لوگ حصہ ڈالتے تھے اور پھراس کی تقسیم حصہ رسدی سے نہ کرتے تھے بلکہ قربانی کے تیروں سے ایک قسم کا قرعہ ڈالا جاتا تھا اور پھر اس طرح جو جو کسی کا حصہ نکلتا تھا وہ اسے مل جاتا تھا اور بعض خالی بھی رہ جاتے تھے۔ ہر تیر کا نام اور الگ الگ حصہ مقرر ہوتا تھا۔
تِیروں سے فال لینے کی رسم بھی عام تھی۔ ہر کام کرتے ہوئے تیر سے فال لیتے تھے۔ کعبہ میں بھی فال کے تیر رکھے ہوئے تھے اور وہاں جا کر لوگ فال نکالتے تھے۔ پرندوں کی اڑان سے بھی فال لینے کا دستور تھا۔
ایک عجیب رسم عرب کے بعض قبائل میں یہ تھی کہ جب کسی سفر کے ارادے سے گھر سے نکلتے تھے تو اگر راستہ میں کسی وجہ سے واپس آنا پڑتا تھا ، تو دروازوں کے ذیعہ اندر نہ داخل ہوتے تھے بلکہ پُشت کی طرف سے آتے تھے ۔ قرآن شریف ۱؎ میں بھی اس کی طرف اشارہ آتا ہے۔
بعض قبائل میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی آدمی مر جاتا تھا تو اس کی قبر کے پاس اس کے اونٹ کو باندھ دیتے تھے حتیٰ کہ وہ بھوک پیاس سے مرجاتا تھا۔ عورتوں میں سخت نوحہ کرنے کی عادت تھی۔ سال سال تک ماتم چلا جاتا تھا۔
عرب میں بالعموم عورتیں جانوروں کا دودھ نہ دوہتی تھیں اور اسے عورت کے لیے ایک عیب سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی خاندان میں کوئی عورت ایسا کرتی دیکھی جاتی تھی تو وہ خاندان دوسروں کی نظروں میں گر جاتا تھا۔
جانوروں کو بتوں وغیرہ کے نام پر یا کسی نذروغیرہ کے نتیجہ میں آزاد چھوڑ دینے کی بھی رسم تھی اور اس تعلق میں چار قسم کے جانورزیادہ معروف تھے۔ اوّل سائبہؔ : ایسی اونٹنی کو کہتے تھے جس نے پے در پے دس مادہ بچے جنے ہوں ایسی اونٹنی پر سواری ترک کر دی جاتی تھی اور اس کا دودھ بھی سوائے مہمانوں کے استعمال کے حرام سمجھا جاتا تھا اور اس کی اون بھی نہیں کاٹی جاتی تھی۔ دوسرے بحیرہ ؔجو سائبہ اونٹنی کے گیارھویں مادہ بچہ کو کہتے تھے ۔ بحیرہ کو اس کے کان درمیان میں کاٹ کر اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تیسرے حامؔ : ایسے اونٹ کا نام رکھا جاتا تھا جو اوپر تلے دس بچوں کا باپ ہو ،اسے سانڈ کے طور پر کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ چوتھے وصیلہ ؔ: ایسی بکری کو کہتے تھے جو پانچ جھولوں میں مسلسل دس مادہ بچے جنتی تھی۔ ایسی بکری کی بعد کی اولاد کا گوشت صرف مرد کھاتے تھے عورتوں کے لیے حرام تھا۔ البتہ اگر ان میں سے کوئی بچہ مرجاتا تھا تو اس کا گوشت عورتیں بھی کھا سکتی تھیں۔ ۲؎ قران شریف ۳؎ میں بھی ان جانوروں کا ذکر آتا ہے۔
نکاح کے متعلق بھی عجیب عجیب رسوم رائج تھیں۔ عموماً نکاح کی صورتیں چار تھیں جن میں سب سے عجیب اور سب سے گندی صورت یہ تھی کہ ایک عورت کے پاس یکلخت چند آدمی پہنچ جاتے تھے اور وہاں یکے بعد دیگرے اپنا منہ کالا کرتے تھے اور جب وہ کوئی بچہ جنتی تھی تو پھر یہ لوگ دوبارہ اس کے پاس جمع ہوتے تھے اور وہ عورت جس شخص کے متعلق کہہ دیتی تھی کہ بچہ اس کا ہے ، اسی کی طرف وہ منسوب ہوتا تھا۔ مگر شرفاء کا دامن اس قسم کی بے حیائیوں سے پاک تھا۔ ۱؎
یہ چند رسوم صرف مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں ورنہ عرب میں رسوم کی بے حد کثرت تھی اور عجیب عجیب رسومات کا وجود پیدا ہو گیا تھا۔ اسلام نے سب گندی رسوم کو یک قلم منسوخ کر دیا۔
قدیم مذاہب عرب
عرب میں اسلام سے پہلے مختلف مذاہب کے پَیرو پائے جاتے تھے، جن میں سے زیادہ ممتاز بُت پرست ، دہریہ، مجوسی ، صابی، عیسائی اور یہودی تھے۔ ان
مذاہب میں سب سے زیادہ عام اور سارے ملک میں پھیلا ہوا بُت پرستی کا مذہب تھا جسے گویا ملک کا اصل مذہب کہنا چاہیئے۔ بُت پرست اﷲ تعالیٰ کی ہستی کے بھی قائل تھے،مگر اس تک پہنچنے کا وسیلہ بتوں کو سمجھتے تھے لیکن اس درمیانی واسطہ میں وہ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ اصل معبود کا خیال دل سے نکل گیا تھا۔ مشترک بتوں کے علاوہ عموماً ہر قبیلہ کا اپنا اپنا خاص بُت بھی تھا۔ چنانچہ مکہ میں اسافؔ اور نائلہؔ قریش کے بُت تھے، جن کے سامنے قربانیاں ذبح کی جاتی تھیں۔ عزّیٰ ؔنخلہ میں قریش اور بنو کنانہ کا مشترکہ بُت تھا۔ طائف میں لاتؔ بنو ثقیف کا بُت تھا ۔ مناتؔ ادس اور خزرج کا بُت تھا۔ دو مۃ الجندل میں وُدّ ؔبنو کلب کا بُت تھا۔ قبیلہ ھذیل کا بُت سواع ؔتھا۔ یغوثؔ قبائل مذحج اور طَیّ کا بُت تھا۔ نسرؔذوالکلاع کا بُت تھا اور یعوقؔ یمن میں ہمدان کا بُت تھا وغیرہ وغیرہ ۔ سب سے بڑا بُت ھبلؔ تھا جو کعبہ میں نصب تھا۔ جنگ میں فتح کے موقع پر اسی کے نام کے نعرے لگتے تھے۔ ۲؎
عرب کے بُت پرستوں کا مذہبی مرکز کعبہ تھا۔ جہاں انہوں نے بہت سے بُت جمع کر رکھے تھے۔۳؎ اور عرب کے مشرک لوگ ملک کے تمام حصوں سے ہر سال حج کے واسطے مکہ میں جمع ہوتے تھے۔ یہ گویا ابراہیمی تعلیم کی ایک بقیہ نشانی تھی، مگر مراسمِ حج میں بھی ان لوگوں نے کئی قسم کی مشرکانہ باتیں شامل کر لی تھیں جو اسلام نے خارج کر دیں۔ مکہ کی اس مذہبی خصوصیت کی وجہ سے مکہ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حَرم کا علاقہ تھا جہاں ہر قسم کا کشت و خون سخت ممنوع تھا۔ اسی طرح حج اور عمرہ کے لیے لوگوں کی آمدورفت میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے سال میں چار مہینے یعنی محرم ، رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ خاص عزت کے مہینے سمجھے جاتے تھے جن میں کشت و خون رُک جاتا تھا اور لوگ امن کے ساتھ اِدھر اُدھر آجاسکتے تھے۔
بُت پرستی کے علاوہ عرب میں دہریت بھی تھی۔ اس کے پَیرو خدا کی ہستی ،بعث بعد الموت ،جزا سزا وغیرہ کے قائل نہ تھے۔ قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر آتا ہے۔
پھر عرب میں مجوسی بھی تھے جو آتش پرست اور ستارہ پرست تھے، مگر یہ لوگ خدا کی ہستی کے بھی قائل تھے اور عبادات کا بھی ان کے مذہب میں دستور تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ مذہب جو اپنی اصل کے لحاظ سے ایرانی ہے درحقیقت الہامی مذاہب میں سے تھا مگر آہستہ آہستہ بگڑ گیا۔ قرآن شریف ۱؎ میں بھی اس کا ذکر آتا ہے۔ موجودہ پارسی قوم اسی مذہب کی تابع ہے۔
ایک مذہب صابی تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی آتا ہے۔ یہ مذہب مجوسیت اور یہودیت کا مجموعہ تھا ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ عرب لوگ عام طور پر صابی کالفظ ہر اس شخص پر بول دیتے تھے جس نے اپنا قدیم مذہب ترک کر کے توحید سے ملتا جلتا مذہب اختیار کر لیا ہو چنانچہ بعض اوقات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کو بھی صابی کہہ کر پکارتے تھے۔
عیسائیت عرب میں ظہورِ اسلام سے بہت عرصہ پہلے داخل ہو چکی تھی اور بعض قبائل اسے اختیار کر چکے تھے ۔ عرب میں نجران کا علاقہ اس مذہب کا بڑا مرکز تھا۔
عرب کے یہودی ابتدائً شام کی طرف سے آئے تھے اور پھر اس کی اتباع میں بعض دوسرے قبائل بھی یہودی بن گئے تھے۔ یہود کے بڑے مرکز یثرب ، خیبر اور تیما تھے۔
ایک مذہب اور تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب ہوتا تھا اور توحید کا مدعی تھا اس کا نام بعض لوگوں نے مذہب حنیفی رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوائل زمانہ میں اور اس سے کچھ پہلے بعض لوگ عرب کی انتہائی بُت پرستی سے متنفر ہو کر اور آفتاب رسالت کی طلوع کرنے والی کرنوں کی پیشگی طور پر روشنی پاتے ہوئے اس مذہب کی طرف مائل تھے مگر ان کی تعداد تمام عرب میں چند نفوس سے زیادہ نہ تھی اور یہ لوگ قریباً سب کے سب مکہ اور اس کے آس پاس کے رہنے والے تھے۔ حضرت عمر کے چچا زاد بھائی زید بن عمرو جن کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھی تعلقات تھے انہی لوگوں میں سے تھے، مگر بعثتِ نبوی ؐ سے پہلے ہی انکا انتقال ہو گیا۔ سعید ؓ بن زید جو مشہور صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہی کے صاحبزادے تھے۔ زید کو بُت پرستی سے اس درجہ نفرت تھی کہ وہ بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہ کھاتے تھے اور لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ یہ کیا چیزیں ہیں جنہیں تم پوجتے ہو۔ ۲؎ طائف میں اُ میہ بن ابی صلت ایک مشہور شاعر اور معزز رئیس تھا وہ بھی بُت پرستی ترک کر کے مذہب حنیفی اختیار کر چکا تھا۔ اُمیہ جنگِ بدر کے بعد تک زندہ رہا مگر اسلام لانا اس کی قسمت میں نہ تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بڑے شوق سے اس کے مواحدانہ اشعار سُنے اور افسوس کے ساتھ فرمایا کہ ’’ امیہ مسلمان ہوتے ہوتے رہ گیا۔‘‘ ۱؎
ایک اور شخص ورقہ بن نوفل تھا جو حضرت خدیجہؓ کا چچا زاد بھائی تھا اور مکہ میں رہتا تھا۔ یہ بُت پرستی ترک کر کے بعد میں عیسائی ہو گیا تھا اور توریت و انجیل سے واقف تھا اور ان کا مطالعہ رکھتا تھا، مگر جب آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم پر الٰہی فرشتہ نازل ہوا تو اس نے آپؐ کی تصدیق کی اور اسی تصدیق کی حالت میں فوت ہوا۔۲؎
ایک شخص قِس بن ساعدہ جو بکر بن وائل کے علاقہ میں رہتا تھا اور نہایت فصیح و بلیغ خطیب تھا چنانچہ بعثت سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی عکاظ کے میلے میں اس کا ایک خطبہ سُنا تھا؛ چنانچہ ایک دفعہ آپؐ زمانہ نبوت میں فرماتے تھے کہ میں نے عکاظ میں قِس بن ساعدہ کا ایک خطبہ سُنا تھا جو اس نے اونٹ پر چڑھے چڑھے دیا تھا اور آپؐ اس کی فصاحت کی تعریف فرماتے تھے۔ قِس بھی شِرک ترک کرکے توحید اختیار کر چکا تھا مگراسلام سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔۳؎
ایک اور شخص عثمان بن حویرث تھا۔ یہ مکہ کا رہنے والا تھا اور بُت پرستی ترک کر کے دین حنیفی کا متبع ہو گیا تھا، لیکن بعد میں جب وہ قیصرِ روم کے دربار میں پہنچا تو عیسائی ہو گیا اور اسی مذہب پر اس کی وفات ہوئی ۔ یہ اسلام سے پہلے کی بات ہے۔ ۴؎
غرض عرب میں اسلام سے پہلے مختلف مذاہب پائے جاتے تھے مگر باوجود ان مختلف مذاہب کے عرب کا اصل اور عام مذہب بُت پرستی تھا اور دوسرے لوگ اتنے بھی نہ تھے جیسے آٹے میں نمک اور وہ بھی سخت بگڑی ہوئی اور ناکامی کی حالت میں تھے جیسا کہ خود یورپین مؤرخین کو بھی اقرار ہے؛ چنانچہ قدیم مذہب عرب پر ریویو کرتے ہوئے سرولیم میور لکھتے ہیں:
’’محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی جوانی کے زمانہ میں عرب ایک بندھی لیک پر چلنے والے لوگ تھے اور ملک کی حالت ہر قسم کے تغیر و اصلاح کے سخت مخالف تھی بلکہ اس کی تمام تاریخ میں شاید اس زمانہ سے بڑھ کر کوئی ایسا زمانہ نہیں گذرا کہ جب اس کی اصلاح اس وقت سے زیادہ مشکل اور مایوس کُن ہو …عیسائی مذہب کی پانچ سو سال کی تبلیغی کوششوں کا یہی نتیجہ تھا کہ ملک میں خال خال عیسائی نظر آتے تھے اور بس۔ یہودی مذہب زیادہ طاقتور تھا۔ لیکن ایک تبلیغی مذہب کے طور پر وہ بھی اب گویا بالکل رہ چکا تھا، لیکن بُت پرستی اور بنو اسمٰعیل کے توہمانہ اعتقادات کا دریا ہر سمت سے جوش مارتا ہوا کعبہ کی دیواروں سے آآٹکراتا تھا۔‘‘ ۱؎
یہ حالت صرف عرب ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وقت ساری دنیا پر ایک سخت تاریکی کا وقت تھا اور تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور گمراہی چاروں طرف اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھی۔ اسی طرف یہ آیتِ قرآنی اشارہ کرتی ہے کہ:
۔ ۲؎
’’ یعنی اس وقت خشکی اور تری ہر دو میں فساد ظاہر ہو چکا ہے‘‘
یعنی الہام الٰہی پر بنیاد رکھنے والے مذاہب بھی خراب ہو چکے ہیں اور وہ مذاہب بھی جن کی بنیاد الہام پر نہیں ہے۔ اب دیکھو کہ جب دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے تو سورج نکلتا ہے اور جب زمین تپ جاتی ہے تو وہ بارش کو کھینچتی ہے تو روحانی اندھیرے کے بعد روحانی سورج نہ نکلتا؟ اور کیا روحانی زمین کی تپش روحانی بارش کو نہ کھینچتی؟ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۳؎
’’ یعنی اﷲ تعالیٰ رات اور دن کی حالت کو آپس میں بدلتا رہتا ہے‘‘
نیز فرماتا ہے:
۔ ۴؎
’’ جان لو ! اس وقت وہ زمین کو زندہ کر رہا ہے بعد اس کے کہ وہ مر چکی تھی‘‘
پس ناگہاں اس تاریکی کے زمانہ میں ایک سورج نکلا جس نے اپنی شعاعوں سے اطرافِ عالم میں اُجالا کر دیا اور اس شدید گرمی کے وقت میں اچانک ایک بادل اُٹھا جس نے پیاسی زمین پر رحمت کی بارشیں برسائیں اور ندی نالے جو خشک پڑے تھے پانی سے بہہ نکلے۔ یہ سورج کس اُفق سے طلوع ہوا اور کس طرح نصف النہار پر پہنچا اور یہ بادل کس دامنِ کوہ سے اُٹھااور کس طرح ساری دنیا پر چھا گیا؟ ان سوالات کا جواب انشاء اﷲ ذیل کے اوراق میں ملے گا۔وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاﷲ

مکّہ ، کعبہ اور قریش
ابو الانبیاء خلیل اﷲ
حضرت ابراہیم کا نام نامی کسی معرِّفی کا محتاج نہیں۔ کون ہے جو ابو الانبیاء خلیل اﷲ کو نہیں جانتا۔ مسلمان، عیسائی، یہودی سبھی ان کو مانتے ہیں۔ آپ کا زمانہ
موٹے طور پر اکیس بائیس سو سال قبل مسیح قرار دیا گیا ہے۔ یعنی آپ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریباً ستائیس اٹھائیس سو سال پہلے گذرے ہیں۔ آپ نوح علیہ السّلام کی اولاد میں سے تھے اور عراق کے رہنے والے تھے مگر بعد میں مصر وغیرہ میں سے ہوتے ہوئے بالآخر جنوبی فلسطین میں آباد ہو گئے۔ آپ نے تین شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا نام سارہؔ تھا۔ دوسری کا نام ہاجرہؔ تھا۔ اور تیسری کا نام قطوراؔ ۔ ان میں سے مؤخر الذکر کے ذاتی حالات زیادہ معلوم نہیں ہیں اور نہ ہی ہمیں اس جگہ ان سے تعلق ہے مگر اس قدر ذکر غیر مناسب نہ ہو گا کہ وہ قوم مدین کی نسل سے تھی۔ حضرت ابراہیم کی پہلی دو بیویوں میں سے سارہؔ حضرت ابراہیم ؑ کے قریبی عزیزوں میں سے تھیں مگر ہاجرہ ایک غیر خاندان سے تھیں اور مصر کی رہنے والی تھیں۔ ان دونوں کے بطن سے اولاد ہوئی اور اس قدر پھیلی کہ آج دُنیا کے ہر گوشہ میں پائی جاتی ہے۔ حضرت ہاجرہؔ کے بطن سے اسمٰعیل ؑ پیدا ہوئے جو حضرت ابراہیم ؑکے بڑے لڑکے تھے۔ اور حضرت سارہ ؔ سے اسحاقؔ ؑپیدا ہوئے۔ یہ دونوں بچے خُدا کی خاص بشارات کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور دونوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص برکت کے وعدے تھے۔۱؎ اور اُن کے نام بھی خدائی الہام کے ماتحت رکھے گئے تھے۔۲؎ اور اسمٰعیل کے متعلق تو حضرت ابراہیم ؑاور حضرت ہاجرہ کی خاص دُعا بھی تھی۔ ۳؎ جیسا کہ اُن کا نام بھی جو دراصل سمع ایل ہے۔ ۴؎ ظاہر کرتا ہے؛ چنانچہ ان دونوں بچوں کو خداتعالیٰ نے عظیم الشان برکات کا وارث بنایا اور حسب وعدہ ان دونوں کی نسل کو دُنیا میں ہر قسم کے انعام سے مالا مال کیا۔ چنانچہ بنو اسرائیل جن میں حضرت موسیٰ ؑاور حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ اور حضرت مسیح ناصری ؑ جیسے عالی مرتبہ نبی پیدا ہوئے۔ حضرت اسحاق ؑکی اولاد سے ہیں۔ مگر اس جگہ ہمارا تعلق بنو اسماعیل سے ہے جو عرب میں آباد ہوئے اور جن سے فخر اوّلین و آخرین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود باجود نکلا۔
سکونت حجاز اور مکّہ کی آبادی
اسمٰعیل ؑابھی بچہ ہی تھے کہ اُن کی سوتیلی ماں سارہؔ نے کسی بات پر ناراض ہو کر حضرت ابراہیم ؑ سے کہاکہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو
گھر سے نکال دو۔ حضرت ابراہیم ؑکو طبعاً اس قول پر بہت رنج پیدا ہوا۔ مگر خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے فرمایا کہ رنجیدہ مت ہو اور اس بات کو بُرا نہ جان بلکہ جیسے سارہ کہتی ہے ویسے ہی کر۔ اسحاق ؑبھی تیری اولاد ہے مگر مجھے ہاجرہ کے فرزند اسمٰعیل سے ایک قوم بنانا ہے۔ ۱؎ چنانچہ اس الٰہی ارشاد کے ماتحت حضرت ابراہیم ؑنے سینکڑوں میل کا سفر اختیار کر کے حضرت اسمٰعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ کو عرب کے علاقہ حجازؔ کے اندر وادیٔ بکّہ میں لاکر آباد کیا۔ یہ وُہ وادی ہے جہاں اب مکّہ آباد ہے۔ اُس وقت یہ ایک بالکل غیر آباد اور ویران وادی تھی۔ اس وادی میں صفاؔ اور مروہؔ کی گھاٹیوں کے پاس ان دو بے کس اور بے بس جانوں کو تھوڑے سے زاد کے ساتھ جنگل میں چھوڑ کر حضرت ابراہیم اپنے وطن کو واپس روانہ ہوئے۔ حضرت ابراہیم کو واپس جاتے دیکھ کر حضرت ہاجرہ اُن کے پیچھے پیچھے آئیں اور نہایت درد آمیز الفاظ میں کہنے لگیں ’’آپ کہاں جاتے ہیں اور ہم کو اس طرح کیوں اکیلا چھوڑ کر جارہے ہیں؟‘‘ حضرت ابراہیم خاموشی کے ساتھ قدم بڑھاتے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ آخر ہاجرہ نے کہا۔ آپ کچھ تو بولیں ’’کیا خُدا نے آپ سے ایسا فرمایا ہے؟‘‘ حضرت ابراہیم ؑنے کہا ’’ہاں‘‘ اور پھر خاموشی کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ اس پر ہاجرہ بولیں۔ ’’اگر اﷲ کا حکم ہے، تو پھر آپ بے شک جائیں۔ اﷲ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ہاجرہ واپس لوٹ آئیں۔۲؎ قرآن شریف میں اس واقعہ کا حضرت ابراہیم ؑکے ان الفاظ میں ذکر آتا ہے:
۔۳؎
یعنی جب حضرت ابراہیم ؑہاجرہ اور اسمٰعیل ؑ کو وادیٔ مکّہ میں چھوڑ کر واپس جانے لگے تو انہوں نے تھوڑی دُور جاکر پیچھے نظر ڈالی اور خداکے حضور یوں دُعا کی کہ:
’’اے ہمارے ربّ! مَیں نے اپنی نسل کے ایک حِصّے کو اس غیر آباد بنجر وادی میں تیرے عزّت والے گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے ربّ ! مَیں نے یہ کام اس لئے کیا ہے کہ تا وہ تیری عبادت کو قائم کریں اور تیرے لیے ان کی زندگی وقف ہو۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور ان کو اچھے اچھے ثمرات کا رزق عطا کر تاکہ وہ تیرے شکر گذار ہوں۔‘‘
عام مؤرخین بیان کرتے ہیں اور حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ جب حضرت ہاجرہ کا زاد ختم ہو گیا تو لوازمات بشری کے تحت ان کو اپنے بیٹے کے متعلق سخت فکر پیدا ہوا اور وہ اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں پھریں ، مگر پانی کی ایک بوند تک نہ ملی اور بچے کی حالت پیاس سے جلد جلد اَبتر ہو ئی گئی۔ آخر ہاجرہؔ سے اسمٰعیل کی حالتِ زار دیکھی نہ گئی، اس لیے وُہ وہاں سے اُٹھیں تاکہ اپنے بچے کی پیاس کی موت کو نہ دیکھیں اور آسمان کی طرف مُنہ کر کے روئیں اور پانی کی تلاش میں پھر ادھر اُدھر بھاگیں اور ارد گرد کے علاقہ پر اچھی طرح نظر ڈالنے کی غرض سے صفاؔ کی پہاڑی پر چڑھ گئیں لیکن وہاں سے بھی جب کوئی چیز نظر نہ آئی تو بھاگتی ہوئی مَروہ کی پہاڑی پر آئیں۔ وہاں سے پھر دوڑتی ہوئی صفاؔ کی طرف گئیں اور اس طرح اُنہوں نے ایک نہایت گھبراہٹ اور بیتابی کی حالت میں اِن پہاڑیوں پر سات چکر لگائے اور ساتھ ساتھ زار زار روتی بھی جاتی تھیں اور اﷲ سے دُعا بھی کرتی جاتی تھیں۔ مگر نہ تو کوئی پانی کا پتہ ملتا تھا اور نہ ہی کوئی آدمی نظر آتا تھا۔ آخر جب ہاجرہؔ کا کرب انتہا کو پہنچ گیا تو ساتویں چکر کے بعد ہاجرہ کو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ ’’اے ہاجرہ اﷲ نے تیری اور تیرے بچے کی آواز سُن لی ہے۔‘‘ یہ آواز سُن کر وہ واپس آئیں تو جس جگہ بچہ شدّتِ پیاس کی وجہ سے بے تابی کی حالت میں تڑپ رہا تھا وہاں ایک خدائی فرشتہ کو کھڑا پایا جو اپنے پاؤں کی ایڑی اس طرح زمین پر مار رہا تھا کہ گویا کوئی چیز کھود کر نکال رہا ہے۔ حضرت ہاجرہ آگے بڑھیں تو جس جگہ وہ ایڑی مار رہا تھا وہاں اُنہوں نے ایک چشمہ پایا جس میں سے پانی پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا۔ ہاجرہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اُس نے فوراً اپنے بچے کو پانی دیا اور اس خوف سے کہ پانی ضائع نہ ہو جاوے اس کے گرد پتھر رکھ دیئے اور اسے ایک حوض کی صورت میں بنا دیا۔ حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ’’خدا ہاجرہ پر رحم کرے۔ اگر وہ اس پانی کو نہ روکتی تو وُہ ایک بہنے والا چشمہ ہوجاتا۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ حج میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہاجرہ ہی کی مقدس یاد گار ہے۔ ۱؎ اِن واقعات کی ایک اجمالی اور کسی قدر محرف و مبدّل نقشہ بائیبل میں بھی مذکور ہے۔ ۲؎
حضرت ہاجرہ کی مقدس یاد گار کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنا پاس تھا کہ ایک دُوسری روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ جب خُدا تمہارے ہاتھ پر مصر کا ملک فتح کرائے تو اہلِ مصر سے نیکی اور احسان کا سلوک کرنا کیونکہ بوجہ ہماری ماں ھاجرہ کے (جو مِصری تھیں) تم پر اہلِ مصر کا خاص حق ہے۔‘‘ ۳؎ بہرحال حضرت ابراہیم ؑکے حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کو مکّہ کی ویران آبادی میں آباد کر کے واپس چلے جانے پر ایک غیبی چشمہ کا وجود ظہور میں آیا اور اس کے بعد اس چشمہ کی وجہ سے جو اسلامی تاریخ میں چاہِ زمزمؔ کے نام سے مشہور ہے وادیٔ بکّہ میں اَور لوگ بھی آباد ہونے لگے اور مکّہ کی آبادی شروع ہوئی۔ لکھا ہے کہ اس جگہ سب سے پہلے آباد ہونے والا قبیلہ جرھم تھا جو بنو قحطان کی ایک شاخ تھا۔ یہ قبیلہ یمن سے آیا تھا اور پہلے وادیٔ بکّہ سے کچھ فاصلے پر آباد تھا۔ لیکن جب اُن کو زمزم کے وجود سے اطلاع ہوئی تو ان کے رئیس مضاض بن عمرو جرہمی نے حضرت ہاجرہ سے چشمہ کے پاس ڈیرہ لگانے کی اجازت چاہی ۔ حضرت ہاجرہ نے بخوشی اجازت دے دی اور اس طرح قبیلہ جرہمؔ کے لوگ وادیٔ بکّہ میں آباد ہو گئے۔
اسمٰعیل ذبیح اﷲ
حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل کو وادیٔ بکّہ میں آباد کرنے کے بعد حضرت ابراہیم ؑگاہے گاہے مکّہ آیا کرتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے۔ جب حضرت اسمٰعیل
کی عمر کچھ بڑی ہوئی یعنی بعض روایات کی رُو سے وہ تیرہ سال کے ہو گئے تو حضرت ابراہیم ؑنے ایک خواب دیکھا کہ وُہ حضرت اسمٰعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ چونکہ ابھی تک حضرت ابراہیم ؑپر یہ تعلیم نازل نہیں ہوئی تھی کہ انسانی قربانی ظاہری صورت میں جائز نہیں ہے اور مُلک میں انسانی قربانی کا دستور تھا، اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اس خواب کو ظاہر میں پورا کرنا چاہا اور حضرت اسمٰعیل سے اس کا ذکر کیا۔ اسمٰعیل نے کہا کہ آپ بے شک اپنی خواب کوپورا کریں، مَیں خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑحضرت اسمٰعیل کو باہر لے گئے۔ اور اسمٰعیل کو زمین پر لٹا کر ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اور وفادار بیٹے نے خاموشی اور خوشی کے ساتھ اپنی گردن باپ کے سامنے رکھ دی۔ قریب تھا کہ حضرت ابراہیم ؑچھُری چلا دیتے، مگر اُس وقت خدائی فرشتہ نے آواز دی کہ اے ابراہیم! تُو نے اپنی طرف سے اپنی خواب کو پورا کر دیا۔ اب اسمٰعیل کو چھوڑ اور اس کی جگہ ایک مینڈھا لے کر خُدا کے راستے میں قربان کر دے کہ ظاہر میں یہی اس کی علامت ہے لیکن خواب کا جو حقیقی منشاء ہے وہ اَور طرح پورا ہو گا۔ ۱؎ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا اور اس کی یاد گار میں مُسلمانوں میں حج کے موقع پر قربانی کی رسم قائم ہوئی۔
اِس خواب کے حقیقی منشاء کے متعلق اختلاف ہے ، لیکن ہمارے نزدیک صحیح معنے یہی ہیں کہ ذبح کرنے سے خُدا کے رستے میں وقف کرنا مراد ہے جو گویا دنیوی لحاظ سے زندگی کا خاتمہ کر دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسمٰعیل ؑکو مکّہ میں آباد کرنے کی غرض و غایت ہی یہ تھی کہ کعبۃ اﷲ کی تعمیر ہو اور اس کی خدمت اور توحید کے قیام کے لئے حضرت اسمٰعیل کی زندگی وقف ہو جائے اور پھر جب مرورِ زمانہ سے بُت پرستی نے توحید پر غلبہ پالیا تو اس مقدس خواب کی تعبیر میں خُدا نے حضرت اسمٰعیل کی نسل میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود کو پیدا کیا جنہوں نے اپنے حلقہ بگوشوں کے ساتھ توحید کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیوں کو حقیقی معنوں میں قربان کر دیا۔ اور یہی وہ ذبح عظیم یعنی عظیم الشان قُربانی ہے جس کی طرف قرآن شریف ۲؎ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اسمٰعیل کی ظاہری قربانی کے بدلہ میں ایک عظیم الشان قربانی کو مقرر کر دیا اور حج کے موقع پر جانورقربان کرنے کی رسم بھی مسلمانوں میں اسی مقدس یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ہے کہ اُنہیں خدا کے رستے میں قربان ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
حضرت اسمٰعیل اور حضرت ہاجرہ کے متعلق بعض اعتراضات کا جواب
اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ
بعض عیسائی مؤرخین کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل کے عرب میں آباد ہونے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسلِ اسمٰعیل میں سے ہونا بھی ان کے نزدیک غیر مسلّم ہے۔ نیز ان کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے جس بیٹے کو ذبح کرنا چاہا تھا وہ جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے حضرت اسحاق ؑ تھے۔ نہ کہ حضرت اسمٰعیل ۔ اِن ہر دو اعتراضات کا جواب مختصر طور پر ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ:
۱- حضرت اسمٰعیل کا عرب میں آکر آباد ہونا اور قریش مکّہ کا حضرت اسمٰعیل کی نسل میں سے ہونا عرب کی متحدہ روایات سے قطعی طور پر ثابت ہے اور عرب کی کوئی ایک روایت بھی اس کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ نہ آنحضرت صلی ﷲعلیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے اور نہ آپؐ کے بعد۔ ۱؎ اور چونکہ کسی قوم کی تاریخ کے متعلق سب سے مقدم شہادت اس کی اپنی صحیح روایات ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے مذکورہ بالا شہادت کے ہوتے ہوئے کوئی غیر متعصب شخص اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ حضرت اسمٰعیل عرب میں آکر آباد ہوئے اور قریش کا قبیلہ آپ ہی کی مبارک نسل میں سے تھا۔
۲- قرآن شریف نے بھی جس کی تاریخی اسناد دوست و دشمن میں مسلّم ہے قریش کو نسلِ ابراہیم میں شمار کیا ہے۔ ۲؎
۳- خود بائیبل سے یہ ثابت ہے کہ حضرت سارہ کی ناراضگی کی وجہ سے حضرت اسمٰعیل اور حضرت ہاجرہ وطن سے بے طن ہوئے۔ ۳؎ اب اگر حجاز وہ ملک نہیں جہاں وہ آکر آباد ہوئے تو پھر وہ جگہ کونسی ہے جہاں اُن کی نسل پائی جاتی ہے۔
۴- بائیبل سے یہ ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل اور اُن کی والدہ ایسی جگہ جاکر آباد ہوئے تھے جو غیر آباد اور بیابان جگہ تھی۔ جہاں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور نہ کوئی آبادی تھی۔۴؎ اور یہ نقشہ مکّہ کی واد غیر ذی زرع پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔
۵- پھر بائیبل سے ہی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وطن سے نکلنے کے بعد حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل فارانؔ میں جاکر آباد ہوئے تھے۔۵؎ اور قطع نظر اس کے کہ فارانؔ کے معنے ہی ایک غیر آباد بنجر جگہ کے ہیں۔ ۶؎ عرب کے جغرافیہ دان اس بات پر متفق ہیں کہ فارانؔ مکّہ یا حجاز کی پہاڑیوں کانام ہے۔ ۷؎ اور جو لوگ عرب میں ہو آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکّہ اور مدینہ کے درمیان وادی فاطمہ میں جو بچے گُلِ جذیمہ بیچتے نظر آتے ہیں ، اُن سے اگر یہ پوچھا جاوے کہ یہ پھُول کہاں سے لائے گئے ہیں تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مِنْ بَرِیَّۃِ فَارَانَ یعنی دشتِ فاران سے۔ ۱؎ اس شہادت کے ہوتے ہوئے اگر فارانؔ کسی اَور جگہ کا بھی نام ہے تو بے شک ہو لیکن جب کہ حجاز میں بھی فارانؔ کا ہونا ثابت ہے تو لامحالہ نسلِ اسمٰعیل سے تعلق رکھنے والا فارانؔ یہی حجاز والا فاران سمجھا جائے گا نہ کہ کوئی اَور۔
۶- بائیبل میں یہ بھی مذکور ہے کہ وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسمٰعیل کی نسل ’’حویلہ سے لے کر شور تک‘‘ بستی تھی۔ ۲؎ اور خود عیسائی محققین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حویلہ اور شور سے عرب کی مقابل کی اطراف مراد ہیں۔ ۳؎
۷- بائیبل میں حضرت اسمٰعیل کے متعلق وحشی یعنی جنگل میں رہنے والے کے الفاظ بھی آتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ بات بطور بیشگوئی کے مذکورہے کہ اسمٰعیل کے مکّہ میں آباد ہونے کے ساتھ بالکل مطابقت کھاتی ہے۔ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ خود لفظ عرب کے معنے بھی جنگل اور ویران علاقہ کے ہیں۔ جیسا کہ اعراب کے لفظ سے ظاہر ہے جس کے معنے جنگل کے رہنے والوں کے ہیں۔ ۴؎
۸- مسیحیوں کے مشہور امام پولوس یعنی سینٹ پال نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی والدہ حضرت ہاجرہ کو عرب سے نسبت ہے۔ ۵؎
۹- قیدارؔ جو مسلّمہ طور پر حضرت اسمٰعیل کی اولاد سے تھا۔ اس کے متعلق بائیبل سے یہ بات ثابت ہے کہ اُس کی نسل عرب میں آباد تھی۔ ۶؎
۱۰- اِسی قیدارؔ بن اسمٰعیل کے متعلق انسائیکلو پیڈیا میں یہ الفاظ درج ہیں کہ ’’وہ اسمٰعیل کا بیٹا تھا، جس کی نسل عرب کے جنوبی حصّہ میں آباد ہوئی۔‘‘ ۷؎
مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت اسمٰعیل عرب میں آباد ہوئے اور عرب کی آبادی کا ایک حِصّہ اُنہی کی نسل سے ہے اور جب یہ ثابت ہے تو عرب کی ان زبردست روایات کو جن سے قریش کا حضرت اسمٰعیل کی اولاد میں سے ہونا ظاہرہوتا ہے ردّ کرنا ہر گز انصاف پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ذبیح کون تھا؟یعنی حضرت ابراہیم ؑنے اپنی اولاد میں سے کس کو خُدا کی راہ میں قُربان کر دینے کا تہیّہ کیا تھا۔ سو اس کے متعلق پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سوال کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ خواہ حضرت اسمٰعیل ؑذبیح ثابت ہوں یا اسحاق ؑاس کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعاوی پر یا اسلام کے کسی بنیادی اصول پر اثر نہیں پڑتا، مگر ایک تاریخی واقعہ کے لحاظ سے یہ بات ضرور قابلِ تحقیق ہے کہ ذبیح کون ہے؟سو جیسا کہ ہم نے اُوپر بیان کیا ہے ہماری رائے میں دُرست بات یہی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل ؑتھے نہ کہ حضرت اسحاق ؑ۔ بے شک بائیبل میں حضرت اسحاق کو ذبیح بیان کیا گیا ہے مگر اوّل تو بائیبل کی تاریخی حیثیت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ دُوسرے خود بائیبل ہی کے بیان سے یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے اور اسلامی روایات کی شہادت مزید برآں ہے۔ بہرحال اس مسئلہ میں ہمارے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
۱- قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابراہیم ؑنے ہم سے نیک اور صالح اولاد کی دُعا کی اور ہم نے اُسے ایک حلیم بیٹے کی بشارت دی۔ اور جب وہ لڑکا کچھ بڑا ہوا تو حضرت ابراہیم ؑنے خواب دیکھا کہ وہ اپنے اس بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس پر ابراہیم ؑ اپنے اس بیٹے کو خدا کی راہ میں جسمانی طور پر قربان کر دینے کے لئے تیار ہو گئے اور بیٹے نے بھی خدائی حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا، لیکن عین اس وقت جب کہ ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کو گِرا کر اس کے گلے پر چھُری پھیرنے لگے خدائی فرشتہ نے اُنہیں اس فعل سے روک دیا… الخ۔ اور پھر اس کے بعد آگے چل کر آتا ہے کہ ہم نے ابراہیم ؑ کو اسحق کی بشارت دی۔ ۱؎ اس بیان سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جس بیٹے کے ذبح کرنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ تیارہوئے تھے وہ اسمٰعیل تھے نہ کہ اسحق ۔ کیونکہ قرآن شریف نے حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے کا ذکر کر کے اُس کے ساتھ ذبح کے واقعہ کو جوڑا ہے اور اسحق کی پیدائش کا اس کے بعد ذکر کیا ہے؛ حالانکہ اگر حضرت اسحق ذبیح ہوتے تو ذبح کا ذکر اسحق کے ساتھ ملا کر ہونا چاہئے تھا نہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے کے ساتھ۔
۲- قرآن شریف میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ خُدا نے جب حضرت ابراہیم کو حضرت اسحق کی بشارت دی تو اس کے ساتھ ہی اسحاق کے بیٹے یعقوب کی بھی بشارت دی یعنی ایک ہی وقت میں بیٹے اور پوتے دونوں کی بشارت دی گئی۔ ۱؎ اب جب شروع سے ہی حضرت اسحق کے ساتھ ساتھ حضرت یعقوب کی بشارت بھی موجود تھی تو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم اسحاق کو جسمانی طور پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے جب کہ وہ جانتے تھے کہ اس کی زندگی کم از کم اس وقت تک مقدر ہے کہ اس کے گھر ایک لڑکا پیدا ہو۔
۳- حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اَنَا ابْنُ الذَّبِیْحَیْنِ یعنی میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔ ۲؎ یعنی ایک حضرت اسمٰعیل اور دوسرے عبداﷲ بن عبدالمطلب جنہیں آپؐ کے دادا نے ایک نذر کے نتیجہ میں قُربان کرنا چاہا تھا اور وہ اس کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ اس حدیث سے کم از کم اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک محقق بات یہی تھی کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل تھے نہ کہ حضرت اسحاق۔
۴- بائیبل سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکی نسل میں یہ طریق رائج تھا کہ سب سے بڑا بچہ خُداکے لئے وقف کر دیا جاتا تھا۔ ۳؎ اور چونکہ وقف بھی رُوحانی رنگ میں ذبح کا ہم معنے ہے، اس لئے حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں اس رَسم کے پائے جانے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل تھے، کیونکہ وہ حضرت ابراہیم کے بڑے لڑکے تھے اور اسحق چھوٹے۔
۵- ذبح کے متعلق قومی رنگ میں جتنی بھی رسوم تھیں وُہ سب عربوں میں پائی جاتی تھیں اور اب بھی پائی جاتی ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی بنو اسرائیل میں نہیں پائی جاتی جو اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل تھے نہ کہ حضرت اسحق ۔ کیونکہ اگر ذبیح حضرت اسحق ہوتے تو یہ رسوم بنو اسمٰعیل کی بجائے بنو اسرائیل میں پائی جانی چاہیئے تھیں، مگر معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ مثلاً بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وُہ لوگ جن کی زندگی خدا کے لئے وقف ہو جو ذبح کا حقیقی مفہوم ہے وُہ بال منڈوانے سے باز رہتے تھے۔ ۴؎ مگر باوجود اس کے کہ بائیبل حضرت اسحق کے ذبیح ہونے کی مدّعی ہے بنو اسرائیل میں ایسی کوئی رسم نہیں پائی جاتی جو اس قربانی کی یاد گار سمجھی جاسکے۔ لیکن اس کے بالمقابل عربوں میں جو نسلِ اسمٰعیل میں سے ہونے کے دعویدار ہیں یہ رسم اسلام سے پہلے بھی پائی جاتی تھی اور اسلام کے بعد بھی جاری رہی۔ چنانچہ حج کے موقع پر قربانی سے پہلے عربوں میں بال منڈانے یا کترانے سے باز رہنے کا دستور تھا جو اسلام میں بھی قائم رہا۔ اسی طرح عربوں میں حج کے موقع پر جانوروں کی قربانی کا دستور تھا، جو اس مینڈھے کی قربانی کی یاد گار تھا جو حضرت اسمٰعیل کے بدلے میں قربان کیا گیا۔ اور یہ دستور اسلام میں بھی قائم رہا۔ مگر بنو اسرائیل میں یہ رسم کہیں نظر نہیں آتی۔ ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ قربانی کا ورثہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد نے پایا ہے نہ کہ حضرت اسحق کی اولاد نے۔ اور ظاہر ہے کہ جس قوم نے یہ ورثہ پایا ہے اُسی کا جدِّ اعلیٰ ذبیح سمجھا جاناچاہئے۔
۶- بائیبل میں مقامِ ذبح یعنی قربان گاہ ’’موریا‘‘ کو ظاہر کیا گیا ہے، مگر یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ جگہ کہاں واقع ہے۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ یہ ایک پہاڑی جگہ ہے۔ ۱؎ بائیبل میں اس جگہ کے متعلق تصریح نہ ہونے کی وجہ سے خود یہودی اور مسیحی علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ جگہ کہاں اور کونسی ہے ، لیکن غور کریں تو مکّہ کے پاس کی پہاڑی ’’مروہ‘‘ کے ساتھ یہ نام اور یہ تشریح بالکل منطبق ہو جاتی ہے۔ اور نام میں جو خفیف سا فرق ہے وہ زبانوں کے اختلاف کی بنا پر قابلِ لحاظ نہیں ہے۔ بے شک یہ دُرست ہے کہ اب حج کے موقع پر قربانی مروہ کے پاس نہیں ہوتی بلکہ منیٰ میں ہوتی ہے لیکن اوّل تو منیٰ اور مروہ ایک دُوسرے کے پاس ہی ہیں۔ دُوسرے حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اصل قربان گاہ مروہ ہی تھی۔ ۲؎ مگر بعد میں حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے آبادی سے فاصلہ پر مقرر کر دی گئی۔
۷- بائیبل نے باوجود اس کے کہ ذبیح حضرت اسحق کو بیان کیا ہے اس واقعہ کی تفصیل میں ایسی باتیں درج کی ہیں کہ وہ حضرت اسحق پر نہیں بلکہ حضرت اسمعیل پر صادق آتی ہیں۔ قربانی کا ذکر بائیبل میں کتاب پیدائش ۳؎ میں کیا گیا ہے ، مگر اس بیان میں جہاں اسحق کو ذبیح کہا گیا ہے وہاں ساتھ ہی انہیں حضرت ابراہیم ؑ کا اکلوتا بیٹا کہہ کر پکارا گیا ہے؛ حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت اسحق کسی صورت میں بھی حضرت ابراہیم ؑ کے اکلوتے بیٹے نہیں کہلا سکتے بلکہ اکلوتا کہلانے کا حق اگر کسی کے لئے سمجھا جاسکتا ہے تو وہ حضرت اسمٰعیل ہیں۔ کیونکہ حضرت اسمٰعیل تیرہ چودہ سال کی عمر تک حقیقۃً حضرت ابراہیم ؑ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ مگر حضرت اسحق کو کبھی بھی یہ پوزیشن حاصل نہیں ہوئی۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائً بائیبل میں بھی اسمٰعیل کو ہی ذبیح بیان کیا گیا تھا مگر بعد میں قومی رقابت کے جذبات سے متاثر ہو کر یہودی علماء نے اس نام کو بدل کر اسحاق کر دیا مگر تفصیلات میں بعض ایسی باتیں باقی رہ گئیں جو اس تحریف کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ اسی طرح بائیبل کے اس بیان میں یہ مذکور ہے کہ بیٹے کے ذبح سے روک دینے کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے فرمایاکہ ’’تُو نے میرے رستے میں قربانی کے لیے اپنا اکلوتا بیٹا دریغ نہ رکھا اب میں تیری اولاد میں بہت برکت دُوں گا اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔‘‘ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ذبیح وہ لڑکا ہے جس کی نسل میں وہ عظیم الشان نبی پیدا کیا جانا مقدّر تھا جو بلا امتیاز قوم و ملّت ساری دُنیا کے لیے مبعوث ہونے والا تھا۔اور ظاہر ہے کہ یہ وعدہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم میں آکر پورا ہوا، کیونکہ آپؐ ہی وہ نبی ہیں جو ساری دُنیا کے لئے مبعوث ہوئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ مجھ سے پہلے نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف آتے تھے مگر میں سب اقوامِ عالم کی طرف بھیجا گیا ہوں۔۱؎ اس کے مقابل پر بنی اسرائیل کے آخری نبی یعنی حضرت مسیح ناصری کے یہ الفاظ خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں کہ ’’مَیں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا۔‘‘ ۲؎ اور یہ کہ مَیں بچوں (یعنی بنی اسرائیل) کی روٹی کُتّوں (یعنی غیر قوموں) کے آگے نہیں ڈال سکتا۔ ۳؎ اسرائیلی نبیوں کی یہ محدود رسالت اور اس کے مقابل پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عالمگیر دعوت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ساری قوموں کو برکت دینے کا وعدہ جو بیٹے کے ذبح کے انعام میں حضرت ابراہیم ؑ سے کیا گیا وہ حضرت اسحق کی اولاد میں نہیں بلکہ حضرت اسمٰعیل ؑکی اولاد میں پورا ہوا۔ اور یہ کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل تھے نہ کہ اسحق۔
اِس بحث کے ختم کرنے سے قبل ایک اور اعتراض کا جواب دینا بھی ضروری ہے جو بعض متعصّب مسیحیوں کی طرف سے حضرت ہاجرہ کے متعلق کیا جاتا ہے اور وُہ یہ کہ حضرت ہاجرہ محض ایک لونڈی تھیں اور حضرت ابراہیم ؑ کی اصل بیوی حضرت سارہ تھیں اور یہ کہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک لونڈی کی اولاد سے ہیں ۔ اس اعتراض کے متعلق پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ اعتراض محض حسد اور عداوت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ورنہ ایک ہی منہ سے ایک ہی وقت میں یہ دو اعتراض نہیں نکل سکتے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نسلِ اسمٰعیل میں سے نہیں ہیں اور یہ کہ آپ ایک لونڈی کی نسل سے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ لیکن چونکہ غرض یہ ہے کہ اگر ایک اعتراض نشانہ پر نہ بیٹھے، تو دُوسرا اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہو ۔ اس لیے ایک ہی سانس سے یہ گرم و سرد ہوا نکالی جارہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہر دو اعتراض غلط اور غیر مؤثر ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسلِ اسمٰعیل میں سے ہونے کی بحث تو اُوپر گذر چکی ہے اور حضرت ہاجرہ کے متعلق اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو کسی یقینی دلیل سے ان کا لونڈی ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ عربی نسخوں میں ان کے متعلق عموماً جاریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنے لونڈی اور لڑکی ہر دو۲ کے ہیں۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت ہاجرہ کبھی غلامی کی قید میں رہی تھیں تو پھر بھی اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے انہیں اپنے عقد میں لے لیا تو انہیں بیوی کے طور رکھا تھا نہ کہ لونڈی کے طور پر۔ اور اگر محض ایک عرصہ کے لیے قیدِ غلامی میں رہنا قابلِ اعتراض ہے تو ہمارے معترضین کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس داغ سے حضرت سارہؔ بھی محفوظ نہیں رہیں۔ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ مصر میں تشریف لے گئے تو مصر کے بادشاہ نے حضرت سارہ کو حضرت ابراہیم ؑ سے چھین کر اپنے حرم میں داخل کر لیا تھا اور پھر اُنہیں کچھ عرصہ کے بعد رہائی نصیب ہوئی تھی۔ ۱؎ اور بنو اسرائیل کے جدِّا مجد حضرت یوسف بن یعقوب کا مصر میں غلام بن کر فروخت ہونا اور ایک عرصہ دراز تک اسی حالت میں زندگی گذارنا تو ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس سے سکولوں کے کم سِن بچے بھی واقف ہیں۔ پس اگر حضرت ہاجرہ کی زندگی کا کوئی حِصّہ قیدِ غلامی میں بسر بھی ہوا تو یہ کوئی طعن کی بات نہیں ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ کا لونڈی ہونا ہی غیر ثابت ہے بلکہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب مصر کا بادشاہ اپنے فعلِ شنیع کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی سارہ سے مرعوب ہوا تو اس نے نہ صرف حضرت سارہ کو آزاد کر دیا بلکہ اپنے حرم سے ایک شریف اور ہونہار لڑکی بھی حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے پیش کی اور وُہ لڑکی یہی حضرت ہاجرہ ہیں۔ بائیبل اور اسلامی روایات ہر دو میں جس طرح شاہِ مصر کا حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ سے مرعوب ہونا اور اُن کی بزرگی اور قوتِ رُوحانی کا قائل ہونا بیان ہوا ہے، اس سے یہ ہر گز بعید از قیاس نہیں کہ ہاجرہ خود شاہ مصر کے قریبی عزیزوں میں سے ایک لڑکی ہوں جو اُس نے اپنے اس فعل کی تلافی میں جو حضرت سارہ کے بارے میں اُس سے سرزدہوا حضرت ابراہیم ؑ اور سارہ کی خدمت میں پیش کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ بعد میں لونڈی قرار دے دی گئی۔ یہ صرف قیاس ہی نہیں ہے بلکہ بعض پرانے محققین نے اسے بطور ایک حقیقت کے بیان کیا ہے۔ چنانچہ ایک یہودی عالم جس کا نام دبشلوم ہے اپنی تورات کی تفسیر میں یہاں تک لکھتا ہے کہ ہاجرہ خود شاہِ مصر کی اپنی لڑکی تھی جو اس نے سارہ کی کرامت دیکھ کر اس کی خدمت کے لیے پیش کر دی تھی۔ ۲؎
الغرض لونڈی ہونے کا الزام بالکل غلط اور نا دُرست ہے ، لیکن اگر بالفرض غلامی ثابت بھی ہو تو یقینا ایسی غلامی کسی داغ کا باعث نہیں ہے کہ ایک بے گناہ شخص کو جبراً اس کی آزادی سے محروم کر کے قید میں ڈال لیا جائے جیسا کہ عموماً اس زمانہ میں ہوتا تھا۔ اگر یہی غلامی ہے تو دُنیا کی کوئی شریف اور آزاد قوم بھی اس غلامی کے داغ سے محفوظ نظر نہیں آتی۔ خود بنی اسرائیل کی قوم ایک بڑے لمبے عرصہ تک یعنی ابتدائً مصر میں اور پھر بابل میں غلامی کی قید میں محبوس رہی ہے۔ ۱؎ مگر یقینا اِس وجہ سے بنی اسرائیل کے نبی اور بادشاہ غلام زادے نہیں کہلاسکتے اور نہ ہی حضرت سارہؔ کا شاہِ مصر کے حرم میں عارضی طور پر محبوس رہنا یا حضرت یوسف کا عزیزِ مصر کے گھر میں بطور غلام کے زندگی بسر کرنا کسی اسرائیلی فرزند کے لیے باعثِ طعن سمجھا جاسکتا ہے۔ فافھم
تعمیرکعبہ
اس ضمنی مگر ضروری بحث کے بعد ہم اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ بتایا جاچکا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خدائی حکم کے ماتحت حضرت ہاجرہ اور اُن کے فرزند دلبند کو مکّہ کی
وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر آباد کیا۔ اور پھر واپس تشریف لے گئے۔ جب حضرت ابراہیم عرب میں دوبارہ سہ بارہ تشریف لائے تو حضرت ہاجرہ فوت ہو چکی تھیں۔ اور اتفاق سے دونوں دفعہ حضرت اسمٰعیل بھی کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور اس وجہ سے باپ بیٹے کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ چوتھی دفعہ پھر عرب میں تشریف لائے اور اس دفعہ دونوںنے مل کر مکّہ میں ایک عبادت خانہ کی تعمیر شروع کی۔ یہ عبادت خانہ دراصل بہت پُرانا تھا۔ مگر اس کے نشان مِٹ چکے تھے۔ اور حضرت ابراہیم نے خُدا سے علم پاکر اسے نئے سِرے سے تعمیر کرنے کی تجویز کی تھی۔ حضرت اسمٰعیل تعمیر کے کام میں آپ کے مدد گار تھے اور آپ کو پتھر لا لا کر دیتے تھے۔ ۲؎ جب دیواریں کچھ اونچی ہو گئیں تو حضرت ابراہیم ؑ نے ایک خاص پتھر لے کر کعبہ کے ایک کونہ میں نصب کیا تاکہ وہ لوگوں کے لئے بطور نشان کے ہو کہ بیت اﷲ کا طواف یہاں سے شروع کرنا چاہئے۔ ۳؎ یہ حجرِ اسود ہے جسے حج میں طواف کے وقت مُنہ سے یا ہاتھ کے اشارہ سے بوسہ دیتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ حجرِ اسود کوئی بالذات مقدس چیز نہیں ہے۔ اور نہ ہی طواف کے وقت اسے بوسہ دینا کسی طرح شِرک سمجھا جاسکتا ہے بلکہ وہ محض علامت کے طور پر ہے اور اصل تقدس صرف ان پاک روایات کو حاصل ہے جو خانہ کعبہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، تو آپ نے حجرِ اسود کی طرف مُنہ کر کے فرمایا کہ ’’اے پتھر! میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے اور تجھے نفع یا نقصان کی کوئی طاقت حاصل نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہر گز بوسہ نہ دیتا۔‘‘ ۱؎ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ طواف میں صرف حجرِ اسود والے کونے کو ہی بوسہ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ والے دوسرے کونے کو بھی بوسہ دیا جاتا ہے اور باقی دو کونوںکو بوسہ دینا اس لیے ترک کیا جاتا ہے کہ بوجہ حطیم کی جگہ چھوٹ جانے کے وہ اپنی اصلی جگہ پر قائم نہیں رہے۔ اس طرح بھی حجرِ اسود کی کوئی خصوصیت نہیں رہتی۔ ۲؎ غرض حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل نے مل کر اَن گھڑت پتھروں کا ایک بے چھت چوکور کوٹھا تیار کیا جس کی بلندی نو ہاتھ تھی اور طول ۳۲ ہاتھ تھا اور عرض ۲۲ ہاتھ ۔۳؎ یہی خانہ کعبہ ہے جو آج مرجعِ خلائق ہے۔
دُعائے خلیل
قرآن شریف میں اس تعمیر کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے:
۔ ۴؎
۵؎
’’بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ کی غرض سے خُدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا وُہ وہی ہے جو وادیٔ بکّہ میں ہے جو برکت دیا گیا ہے اورہدایت کا باعث بننے والا ہے سارے جہان کے لئے۔ اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسمٰعیل اس گھر کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اُس وقت وُہ اﷲ سے دُعائیں کر تے تھے کہ اے ہمارے رب تُو ہماری طرف سے اس خدمت کو قبول کر۔ بے شک تُو بہت سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ اور اے ہمارے رب تُو ہم دونوں کو اپنے فرمانبردار بندے بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک فرمانبردار جماعت پیدا کر اور ہم کو عبادت اور حج کے طریقے بتا اور ہماری طرف رجوع برحمت ہو۔ بے شک تو رحمت کے ساتھ رجوع کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔ اے ہمارے رب تو مبعوث کیجیو ان میں اپنا ایک رسول انہی میں سے جو تیری آیات اُن کو سُنائے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو پاک و صاف کرے۔ بے شک تُو غالب اور حکیم ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت اِسی دَرد مندانہ دُعا کا نتیجہ تھی؛ چنانچہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ اَنَا دَعْوَۃُ اِبْرَا ھِیْمَ یعنی مَیں ابراہیم کی دُعا کا ثمرہ ہوں۔ ۱؎
اعلانِ حج
جب کعبہ کی تعمیرمکمل ہو چکی تو ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو ارشاد ہوا:
۲؎
میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے پاک و صاف رکھ۔ اور اعلان کر لوگوں میں کہ وہ اس کے حج کے لیے آئیں۔ وُہ آئیں گے تیرے پاس پیدل چل کر اور دُبلی دُبلی یعنی لمبے لمبے سفر کرنے والی اونٹنیوں پر سوار ہو کر جوہر دُور دراز رستے سے آئیں گی۔
یہ اعلان کعبۃ اﷲ کے مرکز بننے کی بنیاد ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد جلدی ہی کعبہ تمام عرب کا مذہبی مرکز بن گیا اور عرب کے دُور دراز حِصّوں سے اُس کے حج کے لیے لوگ آنے لگے۔
تولیّتِ کعبہ
یہ بتایا جا چکا ہے کہ مکّہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والا قبیلہ جرہم الثانیہ تھا۔ ان کے رئیس مضاض بن عمرو کی لڑکی سے حضرت اسمٰعیل ؑکی شادی ہوئی جس سے بارہ بچے پیدا
ہوئے۔ جن میں سے بڑے کا نام نابتؔ اور اُس سے چھوٹے کا نام قیدارؔ تھا۔ اہلِ عرب زیادہ تر قید اربن اسمٰعیل کی اولاد ہیں اور قریش بھی قیدارؔ کی نسل سے ہیں۔ جب تک حضرت اسمٰعیل زندہ رہے، وُہ خود کعبہ کے متولّی تھے لیکن ان کی وفات کے بعد اُن کے بڑے صاحبزادے نابتؔ متولّی ہوئے۔ جب یہ بھی وفات پا گئے تو کعبہ کی تولیت نابتؔ کے نانا مضاض بن عمرو کے پاس آگئی اور پھر ایک بڑے لمبے عرصہ تک قبیلہ جرھم ہی کے پاس رہی۔مگر ایک طویل زمانہ کے بعد بنو قحطان کی ایک شاخ قبیلہ خزاعہ نے قبیلہ جرھم پر غلبہ پالیا اور کعبہ کی تولیت اُن سے چھین لی۔
قبیلہ جرھم کو مکّہ سے نکالے جانے کا سخت صدمہ ہوا اور وہ یہاں سے نکل کر پھر یمن کی طرف ہجرت کر گئے لیکن مکّہ سے نکلنے سے پہلے اُن کے رئیس عمرو بن الحرث نے اپنے قومی اموال کو چاہِ زمزم میں ڈال کر اُسے اُوپر سے بند کر دیا اور اس طرح جب قبیلہ خزاعہ کے لوگ مکّہ میں داخل ہوئے تو یہ مقدس چشمہ غائب تھا اور پھر یہ سینکڑوں سال تک بندرہا حتیٰ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے اس کا نشان پتہ لگا کر اسے پھر جاری کیا۔ بہرحال قبیلہ جرھم کے بعد قبیلہ خزاعہ مکّہ کا حاکم اور کعبہ کا متولی ہوا۔ ۱؎ کعبہ میں بُت پرستی کی آمد اسی قبیلہ خزاعہ کے رئیس عمرو بن لحیّ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ ۲؎ جسے شام میں بُت پرستوں کو بُت پوجتے دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کعبہ میں بھی ایسے بُت ہوں اور لوگ انہیں پوجیں۔ چنانچہ اس نے چند بُت شام سے لا کر کعبہ کے آس پاس قائم کئے۔ ۳؎ چونکہ اس وقت کعبہ عرب کا مذہبی مرکز بن چکا تھا اور لوگ ہر سال یہاں حج کے واسطے جمع ہوتے تھے اس لیے اس ذریعہ سے تمام ملک میں بُت پرستی پھیل گئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے عرب کے کسی حصہ میں بُت پرستی نہ تھی بلکہ صرف یہ مقصد ہے کہ کعبہ میں بتوں کی آمد عرب کے ہر حصہ میں بُت پرستی کے پھیل جانے اور مستحکم ہو جانے کا بڑا باعث ہوئی؛ چنانچہ اس کے بعد آہستہ آہستہ صرف کعبہ میں بتوں کی تعداد ۳۶۰ تک پہنچ گئی۔ ایک بڑے عرصہ کے بعد کعبہ کی تولیت قبیلہ خزاعہ کے ہاتھ سے بھی نکل گئی۔ اس کی جہ لکھتے ہوئے مؤرخین ایک عجیب قصّہ بیان کرتے ہیں، جس کا یہاں درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
فہر بن مالک کی اولاد یعنی قبیلہ قریش میں پانچویں صدی عیسوی کے نصف کے قریب ایک شخص گذرا ہے جس کا نام قُصَیَّ بن کلاب تھا۔ یہ بہت سمجھدار شخص تھا اور نوجوانی کے ایّام میں ہی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گہی تھی کہ مکّہ کی حکومت اور کعبہ کی تولیت اسماعیل ؑ کی اولاد کا وِرثہ ہے جو کسی اور قوم کے ہاتھ میں نہیں رہنا چاہیئے۔ چنانچہ وہ مکّہ آیا اور آہستہ آہستہ رسوخ پیدا کر کے حلیل بن حبشیہ خزاعی کی لڑکی حبّٰی سے شادی کر لی جو اس زمانہ میں قبیلہ خزاعہ کا رئیس تھا اور اس وقت اُسی کے ہاتھ میں کعبہ کی تولیت تھی۔ حلیل جب مرنے لگا تو اُس نے یہ وصیت کی کہ میرے بعد کعبہ کی تولیت میری لڑکی حبّٰی زوجہ قُصَیَّکے سُپرد ہو۔ اس طرح کعبہ کی تولیّت عملاً قُصَیَّ کے ہاتھ میں آگئی۔ مگر قُصَیّ کا دل صرف ایک مختار کی حیثیت پر تسلّی نہیں پاسکتا تھا بلکہ وہ ایک اصل حقدار کے طور پر مکّہ کا حاکم اور کعبہ کا متولی بننا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ اپنا حق جمانا شروع کیا۔ جب قبیلہ خزاعہ کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو وُہ سخت برہم ہوئے اور لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ اُدھر قُصَّی نے بھی اپنی قوم کے لوگ جمع کر لیے اور دونوں قبیلوں کے درمیان سخت جنگ ہوئی۔ آخر اس بات پر صلح ہوئی کہ کسی شخص کو ثالث مقرر کیا جاوے۔ جو فیصلہ یہ ثالث کرے اُسے فریقین قبول کر لیں۔ چنانچہ ایک شخص عمروؔ بن عوف ثالث مقرر ہوا جس نے یہ فیصلہ دیا کہ کعبہ کی تولیّت کا اصل حقدار قُصَیَّ ہے اور یہ کہ جتنے آدمی قبیلہ خزاعہ کے مارے گئے ہیں ان کا کوئی فِدیہ نہیں لیکن ققُصَیَّ کے تمام مقتولوں کا فِدیہ قبیلہ خزاعہ ادا کرے۔ اس طرح ایک بڑے لمبے عرصہ کے بعد کعبہ کی تولیّت پھر بنواسمٰعیل میں آگئی۔ ۱؎ اور چونکہ کعبہ کی تولیّت دنیوی جاہ و اِقتدار کا ذریعہ بھی تھی کیونکہ وہ قبیلہ جس کے ہاتھ میں یہ تولیت ہوتی تھی تمام عرب میں خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے قریش اس ذریعہ سے بہت معزز مکرم ہو گئے۔
کعبہ کی دوبارہ سہ بارہ تعمیر
ہر دنیوی چیز کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ لگا ہوا ہے؛ چنانچہ کعبہ بھی حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر کے بعد کئی دفعہ گرا اور کئی دفعہ بنا۔ بعض
اوقات کسی سیلاب کے زور سے جو مکّہ کی وادی میں کبھی کبھی آجاتا تھا اس کی عمارت کو نقصان پہنچ جاتا تھا اور اس کے متولی اسے گِرا کر پھر تعمیر کرتے تھے اور بعض اوقات آگ یا کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں ایسا کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ ہر اس قوم کو کعبہ کی تعمیر کرنی پڑی جس کے ہاتھ میں اس کی تولیت گئی۔ بنو جرھم، خزاعہ اور قریش سبھی نے اپنے اپنے وقت میں اس کی تعمیر کی۔ قُصَیّ َنے بھی ایک دفعہ اس کی تعمیر کی اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش نے اسے دوبارہ تعمیر کیا اور انہوں نے اس کے اندر کچھ ترمیمات بھی کیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی بلندی کو زیادہ کر کے اُس کے اُوپر چھت ڈالی اور اس کے اندر چھ ستون بنائے اور چھت میں ایک روشندان بنایا اور کعبہ کے دروازے کو اونچا کر دیا۔ مگر چونکہ ان کے پاس سامان تھوڑا تھا اس لیے وہ کعبہ کو اس کی اصل ابراہیمی بنیادوں پر کھڑا نہ کر سکے، بلکہ انہوں نے ایک طرف کو قریباً سات ہاتھ جگہ چھوڑ دی۔ اس چھوڑے ہوئے حصّہ کو حطیم یا حجر کہتے ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے کعبہ کا حصہ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ طواف کے وقت اس حصّہ کے باہر سے ہو کر گذرنا ضروری ہو تا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عائشہ سے فرمایا کہ ’’حطیم خانہ کعبہ کا ہی حِصّہ ہے اور قریش نے اسے اس لیے باہر چھوڑ دیا تھا کہ ا ن کے پاس خرچ تھُڑ گیا تھا اور اُنہوں نے کعبہ کے دروازے کو اس لیے اونچا کر دیا تھا کہ تا وہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جِسے چاہیں روک دیں اور اے عائشہ اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی اور مجھے اُن کے تزلزل کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان کی تعمیر کردہ عمارت کو گرا کر پھر اصل ابراہیمی بنیادوں پر ساری عمارت کو تعمیر کرتا اور حطیم کو اس کے اندر شامل کر دیتا اور اس کے دروازہ کو نیچا کر دیتا اور اس کے موجودہ دروازے کے مقابل پر ایک اور دروازہ بھی لگواتا۔ ‘‘ ۱؎ چنانچہ ۶۴ ھ میں جب کسی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو عبداﷲ بن زبیر ؓ نے جو اس وقت مکّہ کے حاکم تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس خواہش کو پورا کیا اور کعبہ کے اندر بجائے چھ ستونوں کے صرف تین ستون بنوائے، لیکن عبدالمالک بن مروان نے جب مکّہ پر غلبہ پایا تو غالباً اس خیال سے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کام کو نہیں کیا تو اَور کسی کو بھی اس کا حق نہیں ہے، حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ عبداﷲ بن زبیر ؓ کی تعمیر کو گرا کر پھر اسی رنگ میں عمارت بنوادی جاوے جس طرح وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی؛ چنانچہ حجاج نے ایسا ہی کیا مگر تین ستونوں والی تبدیلی کو بحال رکھا۔ ۲؎
کسوۃِ کعبہ
شروع شروع میں کعبہ پر کوئی غلاف وغیرہ نہ ہوتا تھا، لیکن بعد میں یمن کے ایک بادشاہ تبّع اسد نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہا ہے چنانچہ اس نے
کعبہ پر غلاف چڑھوا دیا۔ اس کے بعد غلاف چڑھانے کی رسم جاری ہو گئی۔ چنانچہ قریش کعبہ پر ہمیشہ غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ ۳؎ اسلام میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ آج تک کعبہ پر باقاعدہ ہر سال نیا قیمتی غلاف چڑھایا جاتا ہے اور پرانا غلاف اتار کر حاجیوں میں تقسیم یا فروخت کر دیا جاتا ہے۔ آجکل جو غلاف چڑھایا جاتا ہے وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اس پر جگہ جگہ کلمہ طیّبہ اور قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
حُرمتِ کعبہ
زمانہ ٔ جاہلیت کے عربوں میں کعبہ کی عزّت غالباً کچھ اس سے بھی زیادہ تھی جو مسلمانوں کے دلوں میں ہے کیونکہ وُہ کعبہ کو گویا ایک قسم کا معبود سمجھتے تھے اور اس پر چڑھاوے
چڑھاتے تھے۔ یہ چڑھاوے ایک زمین دوز خزانہ میں کعبہ اور اس کے پجاریوں اور حجاج کی ضرورت کے واسطے محفوظ رکھے جاتے تھے۔ کعبہ خود تو حرم تھا ہی اس کے طفیل سے مکّہ بلکہ مکّہ کے آس پاس کا علاقہ بھی حرم قرار دیا گیا تھا جہاں ہر قسم کا کُشت و خون ممنوع تھا اَشْھُرِ حُرُمکی خصوصیّت بھی کعبہ ہی کی وجہ سے تھی تاکہ حاجی لوگ امن کے ساتھ بغیر کسی خوف و خطر کے حج کے واسطے آجاسکیں۔ یہ بھی دستور تھا کہ جس چیز کی خاص طور پر حُرمت ظاہر کرنی ہو وہ کعبہ پر آویزاں کر دی جاتی تھی۔ چنانچہ زمانہ ٔ جاہلیت کی سات مشہور نظمیں کعبہ پر آویزاں کئے جانے کی وجہ سے ہی سبع معلّقات کہلاتی ہیں۔
کعبہ کے ارد گرد مکانات کی تعمیر
اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ قُصَیَّ کے زمانہ تک کسی قوم نے کعبہ کے پاس مکان نہیں بنائے تھے بلکہ اس سے
کچھ ہٹ کر عارضی گھروں اور خیموں میں رہتے تھے، لیکن قُصَیَّ تحریک سے قریش نے کعبہ کے چاروں طرف مکانات تیار کر لیے اور مکّہ گویا باقاعدہ شہر ہو گیا۔ لیکن یہ مکانات کعبہ کے ساتھ ملحق نہ تھے بلکہ حاجیوں کے طواف کے واسطے کعبہ کے چاروں طرف کافی جگہ درمیان میں چھوڑ دی گئی تھی۔ یہ جگہ گویا مسجدِ حرام کا صحن تھا۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں اس جگہ کی تنگی محسوس کی گئی اور ارد گرد کے مکانات گِرا کر مسجدِ حرام کا صحن وسیع کر دیا گیا۔ کعبہ اور مسجدِ حرام کا نقشہ جس حالت میں کہ وہ اب ہے یہ ہے:
(دیکھئے اگلے صفحہ پر)







نقشہ کعبہ ومسجد حرام
اس نقشہ میں کعبہ کے ارد گرد جو سفید جگہ دکھائی گئی ہے وہ مطاف یعنی طواف کرنے کی جگہ ہے۔ اس کے ارد گرد جو سیاہ خطوط ہیں وہ نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔ اس کے ساتھ ملحق چاروں طرف کھلا میدان ہے جس میں کہیں کہیں سیاہ خطوط میں رستے دکھائے گئے ہیں۔ اس میدان کے ارد گرد قبیّ یعنی مسجد کے احاطہ کی مسقف عمارت ہے۔
قریش
قریش اس قبیلہ کا نام ہے جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور جو اس زمانہ میں مکّہ میں آباد تھا۔ یہ قبیلہ عرب کی متفقہ روایات کی رُو سے حضرت اسمٰعیل کی اولاد سے ہے اور
عدنانی قبائل کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔
قبیلہ قریش کے بانی کے متعلق روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات میں نضر بن کنانہ کو اس کا بانی قرار دیا گیا ہے اور بعض میں فہر بن مالک کو۔ مگر یہ اختلاف عملاً واقعات پر کوئی اثر نہیں ڈالتا کیونکہ نضر بن کنانہ کے ہاں مالک بن نضر کے سوا کوئی لڑکا نہیں ہوا جس کی نسل چلی ہو اور اسی طرح مالک کے ہاں سوائے فہر کے کوئی لڑکا نہیں ہوا۔ گویا نضر کی اولاد بھیعملاً وہی ہے جو فہر کی ہے۔ ۱؎
قریش کی وجہ تسمیہ میں بھی اختلاف ہے۔ بعض کا یہ خیال ہے کہ اس قبیلہ کو قریش کا نام ایک مچھلی کی مشابہت میں دیا گیا تھا جو بہت بڑی ہوتی ہے اور باقی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے اور جسے عربی زبان میں قریش کہتے ہیں۔ گویا اس لفظ میں قریش کی طاقت اور اقتدار کی طرف اشارہ تھا، لیکن دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ جب قُصَیَّ نے کعبہ کی تولیّت حاصل کرنے کے بعد اس قبیلہ کی مختلف شاخوں کو جمع کر کے مکّہ میں آباد کیا تو اس وقت ان کا نام قریش ہوا۔ کیونکہ عربی زبان میں قریش کے روٹ میں جمع کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ۲؎
قبیلہ قریش کی اندرونی شاخیں
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کئی قبائل میں تقسیم ہو چکے تھے جن کا بعض اوقات آپس میں فساد بھی ہو جاتا
تھا۔ گو باقاعدہ لڑائی کی نوبت کبھی نہیں پہنچی۔
ان قبائل میں سے بعض قبائل اور بعض مشہور افراد کا شجرہ درج ذیل ہے۔ اس شجرہ میں جن ناموں کے ساتھ بنو کا لفظ لگایا گیا ہے وہ ایسے لوگوں کے نام ہیں جن کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور قبائل قریش خاص طور پر منسوب ہوتے تھے اور جن کے ساتھ یہ لفظ درج نہیں وہ صرف مشہور افراد ہیں۔ اور جو اسماء خطوط کے اندر درج ہیں وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کے مشہور لوگوں کے نام ہیں۔ ان میں سے مسلمانوں کے نام گول دائرہ میں دکھائے گئے ہیں اور کفار کے نام چوکور خطوط میں۔ لیکن چونکہ اس شجرہ میں سب نام نہیں دکھائے گئے اس لئے ایک ہی لائن میں دَرج شدہ ناموں کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
(دیکھئے اگلا صفحہ)












بعض افراد اس شجرہ میں ایسے نظر آئیں گے جن کی طرف کوئی قبیلہ منسوب نہیں حالانکہ وہ قریش میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ عرب کی اقوام میں یہ دستور تھا کہ جب تک تو ایک شخص کی اولاد میں اتحاد و اتفاق رہتا تھا وہ اس کی طرف منسوب ہوتی تھی لیکن جب آپس میں عداوت اور رقابت ہو جاتی تھی تو طرفین ایک واحد مورث کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اپنے قبیلہ کے واسطے مشترک مورث کے نیچے کسی اور مشہور آدمی کا نام اختیار کر لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قُصَیَّ کی اولاد قُصَیَّ کی طرف منسوب نہیں بلکہ اُن میں سے کوئی بنو ہاؔشم بن گئے اور کوئی بنو امیہؔ اور کوئی بنو عبد الدارؔ وغیرہ ۔ حالانکہ ان میں سے کوئی شخص بھی قَصیّ کی سی شہرت کا نہ تھا۔
قُصیَّ بن کلاب
نضر بن کنانہ اور فہر بن مالک اپنے اپنے زمانہ میں بہت نامور اور صاحبِ اقتدار اشخاص گذرے ہیں۔ ان کے بعد پانچویں صدی عیسوی میں یعنی آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم سے قریباً سو ڈیڑھ سو سال پہلے قصیّ بن کلاب نے قریش میں بہت اقتدار حاصل کیا۔ یہ شخص ایک غیر معمولی قابلیت کا مالک تھا۔ قبیلہ خزاعہ سے اس کے کعبہ کی تولیت چھین لینے کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے اور یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ قصیّ نے تمام قبائلِ قریش کو اکٹّھا کر کے مکّہ میں آباد کیا۔ اسی واسطے اُسے مُجَمِّعیعنی جمع کرنے والا بھی کہتے ہیں مگر قصیّ کا کام اسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس نے اپنی قوم کی ایک باقاعدہ تنظیم کی اور مکّہ میں گویا ایک جمہوری سلطنت کی بنیاد ڈالی ، جس کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ قصیّ نے کعبہ کی تولیت اور قبیلہ قریش کے دُوسرے انتظامی کاموں کو مختلف حِصّوں میں تقسیم کر کے ان فرائض کی ادائیگی قریش کے مختلف قبائل کے رؤساء کے سُپرد کر دی۔
تولیّتِ کعبہ کے مناصب کی تقسیم
اس انتظام کے ماتحت کعبہ کی تولیت کے کام یہ مقرر کئے گئے:
۱- سقایہ یعنی ایّامِ حج میں حاجیوں کے واسطے پانی کا انتظام۔ چونکہ مکّہ میں پانی کی بہت قلّت تھی کیونکہ زمزم کا چشمہ ایک عرصہ سے اٹ کر گم ہو چکا تھا اور اگر وہ ہوتا بھی تو چونکہ حج کے موقعوں پر غیر معمولی تعداد میں لوگ جمع ہوتے تھے اس لیے یہ کا م خاص انتظام چاہتا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں یہ کام بنو ہاشم میں تھا اور عباس بن عبدالمطلب کے سُپرد تھا۔
۲- رفادہ یعنی ایّامِ حج میں غریب حاجیوں کی اعانت کا انتظام۔ اس کام کے لیے قریش میں ہر سال چندہ جمع ہوتا تھا۔ زمانہ نبوی ؐ میں یہ کام بنو نوفل میں تھا اور حارث بن عامر کے سُپرد تھا۔
۳- حجابہ یعنی کعبہ کی دربانی اور کلید برداری۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ کام بنوعبدالدار میں تھا اور عثمان بن طلحہ کے سُپرد تھا۔ یہ تینوں کام قُصَیَّ نے اپنی زندگی میں خود اپنے پاس رکھے تھے۔
تقسیم نظامِ قبیلہ
قریش کے عام انتظامی کاموں کی تقسیم یہ تھی:
۱- عقاب یعنی جنگوں وغیرہ کے موقع پر علمبرداری۔ یہ کام بھی قُصَیّ َکے
اپنے پاس تھا اور اس کے بعد بنو عبدالدار میں آیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں یہ کام طلحہ بن ابی طلحہ کے سُپرد تھا۔ اسی کا دوسرا نام لِواء تھا۔
۲- قیادہ یعنی جنگوں اور قافلوں میں کمان۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ کام بنوامیّہ میں تھا اور ابو سفیان کے سپرد تھے۔
۳- سفارت یعنی قریش کی طرف سے بوقت ضرورت کسی دُوسرے قبیلہ یا حکومت کی طرف سفیر ہو کر جانا - آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ کام بنو عدی میں تھا اور حضرت عمر ؓ کے سُپرد تھا۔
۴- دیات اور مغارم یعنی باہم لڑائیوں میں خون بہا وغیرہ کا فیصلہ کرنا۔ یہ کام بنو تیم میں تھا اور حضرت ابو بکر ؓ کے سُپرد تھا۔
۵- قبّہ یعنی جنگوں میں سوار فوج کی افسری اور کیمپ کا انتظام۔ یہ منصب خاندان مخزوم میں تھا اور ولیدؔ بن مغیرہ کے سُپرد تھا۔
۶- ازلام یعنی فال کشی کا انتظام۔ یہ کام بنو جمح میں تھا اور صفوان بن امیّہ کے سُپرد تھا۔
۷- مشورہ یعنی اہم اجتماعی کاموں میں بین القبائل مشورہ کا انتظام۔ یہ کام بنو اسد میں تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یزیدبن ربیعۃ الأسود کے سُپرد تھا۔
۸- قضاء یعنی مقدمات کا فیصلہ۔ یہ کام بنو سہم میں تھا اور حارث بن قیس کے سُپرد تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
دار الندوۃ
قُصَیَّ نے کعبہ کے پاس ایک دارالندوۃ بھی بنایا جس میں قریش اپنے تمام قومی کام سرانجام دیتے تھے اور یہیں سردانِ قریش باہم مشورہ کے لیے جمع ہوتے تھے۔ یہ گویا قریش کا
کونسل ہال تھا۔ ہجرت سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا فیصلہ بھی سردارانِ قریش نے دارالندوۃ میں ہی کیا تھا۔ دارالندوۃ کے مشورہ میں شریک ہونے کے لیے یہ ایک شرط تھی کہ عمر چالیس سال سے کم نہ ہو۔ بیاہ شادی کے لیے بھی قریش دارالندوۃ میں ہی جمع ہوتے تھے اور یہیں اپنی رسوم ادا کرتے تھے۔ اگر کہیں جنگ پر باہر جانا ہوتا تھا یا کسی تجارتی قافلہ کو روانہ ہونا ہوتا تو لوگ یہیں سے جمع ہو کر روانہ ہوتے تھے۔ دارالندوۃ کا انتظام قُصَیَّ نے خود اپنے پاس رکھا تھا۔
قُصَیَّکے اِن غیر معمولی کارناموں نے اسے تمام اطرافِ عرب میں مشہور کر دیا تھا اور قریش کا تو گویا وہ ایک قسم کا بادشاہ تھا، مگر اس انتظام سلطنت سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ قریش کے اندر کوئی باقاعدہ سلطنت تھی یا یہ کہ افراد کی آزادی پر کوئی خاص پابندیاں تھیں بلکہ یہ انتظام صرف اہم قومی معاملات کو آسانی کے ساتھ طے کرنے کے واسطے کیا گیا تھا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ فرائض کی یہ تفصیلی تقسیم سب کی سب قُصَیَّ کے اپنے ہاتھ سے مکمل ہوئی ہو بلکہ ممکن ہے کہ کوئی شاخ اس سے پہلے کی ہو یا کوئی شاخ بعد میں حسبِ ضرورت قائم کی گئی ہو مگر بہرحال اس کام کی اصولی داغ بیل قُصَیَّ ہی کے ہاتھ سے قائم ہوئی تھی۔
عبدمناف
قُصَیَّ کے چار بیٹے تھے ۔ عبدالدارؔ ، عبدالعزّیٰؔ ، عبدمنافؔ اور عبدقُصَیَّ ؔ۔ عبدالدارؔ چونکہ بڑا تھا اس لیے قُصَیَّ نے مرتے ہوئے اپنے تمام کام یعنی کعبہ کی تولیت کے تینوں مناصب اور
دارالندوۃ اور لِواء اس کے سُپرد کئے،مگر عبدالدارؔ اپنے باپ کی قابلیت کا آدمی نہ تھا اس لیے قریش کی عام ریاست عبدمنافؔ نے حاصل کی جو بہت لائق اور قابل آدمی تھا۔ عبدمنافؔ کے چار بیٹے تھے۔ عبدشمس ؔ، مطلبؔ ، ہاشمؔ اور نوفل ؔ۔ یہ چاروں باپ کی طرح قابل تھے۔ چنانچہ عبدمنافؔ کی وفات کے بعد ان سب نے مِل کر اس بات کی کوشش کی کہ عبدالدارؔ کی اولاد سے کعبہ کی تولیت چھین لیں۔ اس پر طرفین کا باہم جھگڑا ہو گیا۔ قریش کے بعض قبائل ایک طرف ہو گئے اور دوسرے دوسری طرف۔ اور قریب تھا کہ جنگ شروع ہو جاتی مگر آخر صلح صفائی کے ساتھ فیصلہ ہو گیا اور دو مناصب یعنی رفادہ اور سقایہ بنوعبدمنافؔ کو مل گئے اور باقی تین مناصب یعنی دارالندوۃ کا انتظام لِواء اور حجابہ بنو عبدالدارؔ کے پاس رہے۔ بنو عبدمنافؔ نے آپس میں مشورہ کے ساتھ سقایہ اور رفادہ کا متولی ہاشم کو مقرر کر دیا۔۱؎
ہاشم
ہاشم نہایت قابل، معاملہ فہم اور سخی آدمی تھا۔ اُس نے حاجیوں کو بہت آرام پہنچایا اور قریش کے سامنے بہت زور دار اپیلیں کر کر کے اُن کی مختلف ضروریات کے واسطے سامان مہیا کئے۔ اُس کے
زمانہ میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا تو اس نے اپنے پاس سے اخراجات کر کے قحط کے ایّام میں غُرباء کو کئی طرح سے مدد دی۔ ان فیاضیوں کی وجہ سے ہاشم کا نام بہت شہرت پا گیا۔ اس کے علاوہ ہاشم نے خود جاجاکر رُومی اور غسانی فرمانرواؤں سے قریش کے تجارتی قافلوں کے لیے حقوق حاصل کئے اور ہاشم کے دوسرے بھائیوں نے بھی کم و بیش اسی قسم کی خدمات انجام دیں۔ چنانچہ قریش کے تجارتی قافلوں کی شام اور یمن وغیرہ کی طرف آمدورفت ہاشم ہی کے زمانہ میں شروع ہوئی۔ عموماً سردیوں میں تجارتی قافلے یمن کی طرف جاتے تھے اور گرمیوں میں شام کی طرف اور یہ دونوں سلسلے رِحْلَتُ الشِّتَاء اور رِحْلَتُ الصَّیْف کہلاتے تھے۔۱؎
امیّہ کی رقابت
ہاشم کی اس ترقی کو دیکھ کر ہاشم کے بھتیجے امیّہ ؔ بن عبدالشمس کے دل میں حَسد پیدا ہوا اور اس نے ہاشم کا مقابلہ کرنا چاہا اور اسی کی طرح لوگوں میں سخاوت کر کے نام پیدا
کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ بلکہ اس ناکامی سے اُلٹا قریش کے ہنسی مذاق کا نشانہ بن گیا۔ آخر امیّہ کو اتنا جوش آیا کہ اُس نے ہاشم کو کھلا چیلنج دے کر اپنے مقابلہ کے لئے بلایا۔ ہاشم نے پہلے تو توجہ نہ کی، لیکن آخر قریش کے کہنے سُننے سے جو اس قسم کا تماشہ دیکھنے کے خواہشمند رہتے تھے، ہاشم راضی ہو گیا اور شرط یہ ٹھہری کہ کوئی ثالث ان کی بڑائی کا فیصلہ کرے اور جو ہارے وہ دُوسرے کو پچاس اُونٹ دے۔ اور دس سال کے لیے مکّہ سے جلا وطن کیا جاوے۔ ایک کاہن جو قبیلہ خزاعہ سے تھا ثالث مقرر ہوا۔ اُس نے اپنی کاہنی زبان کے دو چار فقرے بول کر ہاشم کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ امیّہؔ نے پچاس اُونٹ ہاشم کے حوالے کئے اور مکّہ سے نکل گیا اور دس سال تک شام وغیرہ میں پھرتا رہا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ پہلی عداوت اور رقابت ہے جو بنو ہاؔشم اور بنو امیّہؔ کے درمیان پیدا ہوئی۔ ہاشمؔ کے بعد عبدالمطلبؔ بن ہاشم نے بھی اپنے زور کے ساتھ بنو ہاشم کو بنوامیّہ پر غالب رکھا، لیکن عبدالمطلب کی وفات کے بعد ہاشم کے پوتوں میں کوئی اس جیسا صاحبِ اثر شخص نہ نِکلا اس لیے بنو امیّہ آہستہ آہستہ زور پکڑ گئے اور ہاشم کا خاندان غربت کی حالت میں مبتلا ہو کر کمزور ہو گیا۔
ہاشم ایک دفعہ شام کی طرف بغرض تجارت نکلا تو راستہ میں یثرب یعنی مدینہ بھی ٹھہرا۔ وہاں ہاشم نے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجارؔ کی ایک لڑکی سلمیٰ سے شادی کی جس سے مدینہ میں ہی سلمیٰ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہؔ رکھا گیا۔
مُطَّلِبْ
کچھ عرصہ کے بعد ہاشم کا باہر سفر میں ہی انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اُس کے چار لڑکے تھے۔ ابوصیفیؔ ، اسدؔ ، فضلہؔ اور شیبہؔ ۔ مگر یہ چاروں چونکہ کم عمر تھے اور شیبہؔ تو مدینہ میں ہی تھا اس
لیے ہاشم کی وفات پر اس کی جگہ اس کے بڑے بھائی مطلبؔ نے لی یعنی سقایہ اور رفادہ کے کام اس کے سُپرد ہوئے۔ جب مطلب کو کسی شخص نے اس کے بھتیجے شیبہ بن ہاشم کی ہوشیاری اور ہونہاری کی خبر دی تو وہ فوراً مدینہ جاکر شیبہ کو لے آیا۔ مکّہ میں جب چچا بھتیجے داخل ہوئے تو لوگوں نے خیال کیا کہ شاید مطلب کوئی غلام کا لڑکا لایا ہے۔ اسی لیے شیبہ کا نام عبدالمطلب یعنی مطلب کا غلام مشہور ہو گیا۔۱؎ یہ وہی عبدالمطلب ہیں جو ہمارے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا ہیں اور جن کی آغوش میں آپؐ نے اپنی عمر کے ابتدائی آٹھ سال گذارے۔
عَبْدَالْمُطَّلِبْ
مطلب کی پوزیشن چونکہ صرف ایک گارڈین کی تھی اس لیے اس کی تولیت کے وُہ مناصب جو عبدمناف کے گھرانے میں تھے اس کی وفات کے بعد عبدالمطلب کو ملے
کیونکہ اپنے بھائیوں میں یہی سب سے ہوشیار تھا۔ عبدالمطلب نہایت سمجھدار اور قابل شخص تھا مگر چونکہ اس وقت وہ نوجوان تھا اور اپنی عمر کا ایک حِصّہ باہر گذار کر آیا تھا، اس لیے شروع شروع میں اُسے اپنی پوزیشن کو قائم رکھنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہوا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو عبدالمطلب کی وراثت میں اس کے چچا نوفل بن عبدمناف نے جھگڑا کیا۔ عبدالمطلب نے قریش سے اپیل کی، لیکن قریش نے اس معاملہ میں دخل دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر عبدالمطلب نے یثرب میں اپنی ننھیال بنو نجار کو کہلا بھیجا کہ میرا چچا میری وراثت میں بے جا مداخلت کرتا ہے۔ وہاں سے فوراً اسّی بہادر اپنے نواسے کی مدد کو مکّہ پہنچ گئے۔ جس وقت یہ لوگ مکّہ میں پہنچے تو اس وقت نوفلؔ چند آدمیوں کے ساتھ مسجد حرام میں بیٹھا تھا۔ اُنہوں نے آتے ہی اُسے کہا کہ ہمارے نواسے شیبہ بن ہاشم کو اس کا سارا ورثہ دے دو۔ ورنہ اچھا نہ ہو گا۔ نوفلؔ مرعوب ہو گیا اور اُس نے مداخلت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بنو عبدالشمس اور بنو ہاشم کے درمیان رنجش پیداہو جانے کا ذکر اُوپر گذر چکا ہے۔ اب بنو نوفل کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے۔گویا عبدمناف بن قُصَیَّ کے باقی بیٹوں میں سے بنو ہاشم کے ساتھ صرف بنو مطلب کے تعلقات اچھے رہے اور اس طرح اس خاندان میں دو پارٹیاں بن گئیں۔ ایک طرف بنو ہاشم اور بنو مطلب تھے اور دوسری طرف بنو نوفل اور بنو عبدشمس۔ اس جتھہ بندی کا یہاں تک اثر تھا کہ جب بنو ہاشم اور دیگر مسلمانوںکو کفّارِ مکّہ نے شعب ابی طالب میں محصور کر دیا تو اس وقت بھی بنومطلبؔ نے بنو ہاؔشم کا ساتھ دیا اور قریش سے الگ رہے مگر بنو نوؔفل اور بنو عبدِؔشمس نے کفّار کا ساتھ دیا اور بنو ہاشم کی مخالفت کی۔ مطلبؔ نے جو حُسنِ سلوک کا معاملہ عبدالمطلب سے کیا تھا وہ بھی بنومطلب اور بنوہاشم کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کا موجب ہوا اور بنو مطلب ہمیشہ بنو ہاشم کے ساتھ ایک جان ہو کر رہے؛ چنانچہ اسی رشتۂ اتحاد کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ خمس کی تقسیم میں سے (یعنی مالِ غنیمت میں سے وُہ پانچواں حِصّہ جو اﷲ اور اُس کے رسُول کے قریبی رشتہ داروں اور مشترک اسلامی ضروریات کے لیے الگ کیا جاتا تھا) بنو ہاشم کے ساتھ بنو مطلب کا حِصّہ بھی نکالتے تھے اور جب بنونوفل اور بنو عبدِ شمس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے برابری رشتہ کی بنا پر درخواست کی کہ بنومطلب کی طرح اُن کو بھی خمس سے حصہ ملا کرے تو آپؐ نے انکار کیا اور فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی ہیں۔ ۱؎
چاہِ زمزم کی تلاش
چاہِ زمزم جو مکّہ کی آبادی کا پہلا سبب تھا صدیوں سے بند ہو کر گُم ہو چکا تھا۔ جب عبدالمطلب کے ہاتھ میں سقایۃ الحاج کا کام آیا تو اُس نے ایک خواب کی
بنا پر اس کھوئے ہوئے چشمہ کا نشان تلاش کرنا چاہا۔ چنانچہ وہ اور اس کا لڑکا حارث ؔ اس کی تلاش میں مصروف ہوئے لیکن قریش میں سے کسی نے بنو ہاشم کی مدد نہ کی۔ بلکہ بعض نے اُلٹا باپ بیٹے کا مذاق اڑایا۔ عبدالمطلب نے اس وقت اپنی کمزوری پر شرم و غریت کے جوش میں آکر نذرمانی کہ اگر خُدا اُسے دس بچے دے گا اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے جو ان ہو جائیں گے تو اُن میں سے ایک کو وُہ خدا کی راہ میں قربان کر دے گا۔ ۲؎ کچھ عرصہ کی محنت کے بعد عبدالمطلب کو زمزم کی جگہ کا نشان مِل گیا جسے کھودنے سے یہ پُرانا چشمہ پھر نِکل آیا اور اس کے ساتھ ہی وُہ وفینہ بھی برآمد ہوا جو قبیلہ جرھم نے مکّہ چھوڑتے ہوئے اُس میں دفن کر دیا تھا۔ اس غیر مترقبہ واقعہ نے تمام قریش پر عبدالمطلب کا سِکّہ بٹھا دیا اور گو انہوں نے شروع میں عبدالمطلب کے ساتھ دفینہ کے بارے میں جھگڑا کرنا چاہا، لیکن بالآخر مرعوب ہو کر خاموش ہو گئے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اس کی بڑائی کے اس قدر قائل ہو گئے کہ بالآخر عبدالمطلب کی یہ حالت تھی کہ تمام قریش اُسے اپنا نہایت واجب الاحترام سردار جانتے تھے۔ ۳؎
عبدالمطلب کا بڑا ہم مجلس ابو سفیان کا والد حربؔ بن امیہّ تھا لیکن بالآخر عبدالمطلب کی ترقی نے اس کے دل میں بھی حَسد کی چنگاری پیدا کر دی اور اُس نے اپنے باپ کی طرح بنو ہاشم سے مقابلہ کرنا چاہا لیکن ناکام رہا۔ اس منافرت کے بعد عبدالمطلب کی مجلس زیادہ تر عبداﷲ بن جدعان تیمی کے ساتھ رہی جو مکّہ کا ایک شریف مزاج رئیس تھا۔۱؎
عبداﷲ
چاہِ زمزم کے واقعہ کے بعد عبدالمطلب بڑا صاحبِ اثر ہو گیا اور خُدا کی قدرت کہ اس کی اولاد بھی جلد جلد بڑھنے لگی۔ حتیٰ کہ آخر اُن کی تعداد دس تک پہنچ گئی۔ جب یہ لڑکے جوان ہو گئے
اور ایفائے نذر کا وقت آگیا تو عبدالمطلب اُن سب کو اپنے ساتھ لے کر کعبہ کی طرف گیا اور وہاں جاکر ھبلؔ کے سامنے قرعہ اندازی کی۔ اﷲ کی قدرت کہ قرعے کا تیر سب سے چھوٹے لڑکے عبداﷲ کے نام نکلا جو عبدالمطلب کو سب سے زیادہ عزیز تھا۔ اس وقت عبدالمطلبؔ کی جو حالت تھی وہ بیان میں نہیں آسکتی، مگر عبدالمطلب قول کا پکّا تھا اور نذر بہرحال پوری کرنی تھی اس لیے وُہ عبداﷲ کو لے کر ذبح کرنے کے واسطے روانہ ہوا اور عبداﷲ بھی سرِ تسلیم خم کئے اپنے باپ کے ساتھ ہو لیا جب رؤسائے قریش کو اس کا عِلم ہوا تو انہوں نے عبدالمطلب کو اس سے روکا اور آخر ایک واقف کار کے مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداﷲ اور دس اُونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے اور اگر اُونٹوں کے نام قرعہ نکلے تو عبداﷲ کی جگہ دس اُونٹ قربان کر دیئے جاویں کہ یہی اس زمانے میں ایک آدمی کا خون بہا تھا۔ چنانچہ عبدالمطلب نے عبداﷲ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا، مگر پھر بھی تیر عبداﷲ ہی کے نام نکلا۔ عبدالمطلب نے دس اور زائد کئے اور بیس پر قرعہ ڈالا، لیکن اب کی دفعہ بھی عبداﷲ ہی کا نام نِکلا۔ دس اور زائد کئے گئے، لیکن پھر بھی عبداﷲ ہی کا نام تھا۔ چالیس ، پچاس، ساٹھ، ستر، اسی ، نوے مگر ہر دفعہ عبداﷲ کا نام آتا تھا۔ آخر سو تک نوبت پہنچی اور اب کی مرتبہ قرعہ اُونٹوں کے نام نِکلا۔ لیکن اس پر بھی عبدالمطلب نے مزید تسلّی کے واسطے پھر دو دفعہ قرعہ ڈالا مگر دونوں دفعہ اونٹوں کا نام نکلا۔ جس پر سو اُونٹ ذبح کئے گئے اورعبداﷲ کی جان بچی۔ ۲؎ اس وقت سے قریش میں ایک آدمی کا خون بہا سو اُونٹ مقرر ہو گئے۔ ۳؎
اصحاب الفیل
عبدالمطلب کے زمانہ میں یمن کا علاقہ افریقہ کے ملک حبشہ کے ماتحت تھا جو ان ایّام میں ایک طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور چونکہ حبشہ ایک عیسائی ملک تھا اس لئے یمن کا
گورنر بھی عیسائی ہوا کرتا تھا۔ عبدالمطلب کے زمانہ میں یمن کے والی کا نام ابرہتہ الاشرم تھا۔ یہ شخص کعبہ سے سخت دشمنی رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح عرب کے لوگوں کو کعبہ سے پھیر دے۔ چنانچہ اُس نے کعبہ کے مقابلہ پر یمن میں ایک معبد تیار کیا اور لوگوں میں تحریک کی کہ وہ بجائے کعبہ کے اس عبادت گاہ کے حج کے لیے آیا کریں۔ عرب کی فطرت بھلا اس بات کو کس طرح برداشت کر سکتی تھی کہ عرب کی سرزمین میں کعبہ کے مقابلہ پر کوئی اور معبد قائم ہو۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ایک عرب نے جوش میں آکر اس معبد میں جاکر پاخانہ کر دیا۔ ابرہہ کو اس بات کا عِلم ہوا تو اس نے غصّہ میں آکر ارادہ کیا کہ مکّہ پر فوج کشی کر کے کعبہ کو مِسمار کر دے۔۔ چنانچہ اُس نے حبشہ کے بادشاہ نجاؔشی سے اجازت لی اور ایک بڑے بھاری لشکر کے ساتھ جس کی تعداد بعض روایات سے ساٹھ ہزار پتہ لگتی ہے اور بہرحال وُہ ہزاروں پر مشتمل تھا، یمن سے نِکلا اور راستہ میں مختلف قبائل عرب کو شکست دیتا ہوا مکّہ کے قریب پہنچ گیا اور شہر کے سامنے اپنی فوجیں ڈال دیں۔ جب قریش کو اس کا علم ہوا تو وہ سخت پریشان ہوئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وُہ اس کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہوں نے عبدالمطلبؔ کو ابرہہؔ کے پاس بطور وفد کے روانہ کیا۔ عبدالمطلبؔ کی وجیہہ شکل اور نجابت نے ابرہہؔ پر بہت اچھا اثر کیا اور وہ اس سے بڑی عزّت کے ساتھ پیش آیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں۔ عبدالمطلبؔ نے جو شاید پہلے سے اس گفتگو کے طریق کو سوچ کر آیا تھا کہا کہ آپ کی فوج نے میرے اُونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے دلوا دیئے جائیں۔ اُس نے اُونٹ تو واپس دلوا دیئے، مگر جو اثر اس کے دل پر عبدالمطلب کی وجاہت اور قابلیّت کا ہوا تھا وہ سب جاتا رہا اور اُس نے مُنہ بنا کر کہا ’’مَیں تمہارے کعبہ کو مِسمار کرنے کے واسطے آیا ہوں، مگر تم نے اس کی فکر نہ کی اور اپنے اُونٹوں کی فکر کی۔‘‘ عبدالمطلب نے بے پروائی کے انذاز میں کہا۔ ’’اَنَا رَبُّ الْاِبِلِ وَ لِلْبَیْتِ رَبٌّ یَمْنَعُہٗ ۔ یعنی مَیں تو صرف اُونٹوں کا مالک ہوں، اس لیے مجھے ان کا فکر ہے۔ مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ ابرہہؔ نے یہ جواب سُنا تو بہت بگڑا اور کہا کہ۔ ’’اچھا پھر مَیں دیکھوں گا کہ اس گھر کا مالک مجھے اس سے کس طرح روکتا ہے۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے لاؤ لشکر کو لے کر آگے بڑھا مگر خدائی تصّرف ایسا ہوا کہ جونہی کہ اس ہاتھی کا رُخ جس پر ابرہہؔ سوار تھا مکّہ کی طرف کر کے اُسے چلایا گیا تو وہ چلنے سے رک گیا اور باوجود انتہائی کوشش کے آگے نہ بڑھا اور پھر اس لشکر پر ایسی آفت آئی کہ لشکر کا لشکر تباہ ہو کر پرندوں کی خوراک بن گیا۔ اس کی تفصیل روایات میں یوں بیان ہوئی ہے کہ جب یہ لشکر مکّہ کی طرف بڑھنا چاہتا تھا، تو اُس وقت خدائی تصّرف کے ماتحت اُن کے اُوپر سے ایسے پرندوں کے غول گذرے جن کے پنجوں میں ایسی زہر آلود مٹی کے ریزے لگے ہوئے تھے کہ جس جس کے اوپر یہ ریزے گِرتے تھے وہ ایک چیچک کی سی مہلک اور متعدی بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا اور جب لشکر میںایک دفعہ یہ بیماری پھوٹی تو پھر بڑی سُرعت سے ایک سے دوسرے کو لگتی چلی گئی اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ متعدی بیماریاں بسا اوقات مٹی کے ذرّات یا دُوسرے ذرائع سے پھیل جاتی ہیں۔ پس بالکل ممکن ہے کہ یہ پرندے کسی ایسی جگہ سے اُٹھ کر آئے ہوں جو کسی متعدی بیماری کے جراثیم سے ملّوث ہو اور اس طرح اُن کے واسطے سے لشکر میں کوئی چیچک وغیرہ کی مہلک بیماری پھیل گئی ہو۔ چنانچہ ابرہہؔ کے متعلق تو خاص طور پر ذکر آتا ہے کہ اُسے کوئی ایسی بیماری ہوئی تھی ، جس سے اس کا گوشت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گِر گیا تھا۔ ۱؎ قرآن شریف میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے:
۲؎
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحابِ فیل کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تجاویز کو خاک میں نہیں ملا دیا؟ اس نے ان پر پرندوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ بھیجے جو اُن پر مٹی کے پتھریلے ریزے مارتے تھے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے اُن کو ایک بوسیدہ بھوسے کی طرح کر دیا۔‘‘
اَبرھہکا یہ حملہ تاریخ میں ’اصحاب الفیل‘ کا حملہ کہلاتا ہے یعنی ہاتھی والوں کا حملہ ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ابرہہ کی فوج میں ایک ہاتھی یا بعض روایتوں کی رو سے متعدد ہاتھی بھی تھے۔ چونکہ قریش مکّہ کے لیے ہاتھی ایک عجیب اور نئی چیز تھی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، اس لیے انہوں نے نہ صرف حملہ آوروں کا نام اصحاب الفیل رکھا بلکہ اس سال کا نام بھی ’عام الفیل‘ رکھ دیا۔ اصحاب الفیل کی تباہی سے کعبۃ اﷲ کی عزّت اور قریش کا رُعب بہت بڑھ گیا اور دُوسرے قبائلِ عرب انہیں آگے سے بھی زیادہ عزّت و احترام کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ۳؎
عبداﷲ کی شادی
اصحاب الفیل کے واقعہ سے چند ماہ پیشتر عبدالمطلب نے آمنہ بنت وہب سے جو قریش کے قبیلہ بنو زہرہ میں سے ایک معزّز گھرانے کی نہایت شریف لڑکی تھی اپنے
لڑکے عبداﷲ کی شادی کی۔ اُس وقت عبداﷲ کی عمر پچیس سال کی یا بعض روایتوں کی رو سے سترہ سال کی تھی۔۴؎ اِسی موقع پر آمنہ کی ایک چچا زاد بہن ہالہ بنت وہب سے عبدالمطب نے خود بھی شادی کی۔ حمزہؔ اِسی ہالہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
عبداﷲ کی وفات
عبداﷲ کو نکاح کے بعد مصلحتِ الٰہی سے زیادہ مہلت نہیں ملی۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد جب وہ تجارت کے لیے شام کو گئے تو واپسی پر بیمار ہو کر یثرب میں
ٹھہر گئے اور وہیں انتقال کیا اور اپنے رشتہ دار قبیلہ بنو نجار کے درمیان دفن ہوئے۔ اُس وقت اُن کی زوجہ آمنہ حمل سے تھیں۔ ۱؎ اپنے اس بچہ کے لیے جو ابھی اپنی ماں کے بطن میں ہی تھا عبداﷲ نے جو ترکہ چھوڑا وہ قابلِ ذکر ہے۔ یعنی ’’پانچ اُونٹ۔ چند بکریاں اور ایک لونڈی اُمّ ایمن۔‘‘ ۲؎ یہ ترکہ اس کے لیے تھا جس نے ہر دو عالم کا بادشاہ بننا تھا۔
عبدالمطلب کو جب اپنے فرزند عبداﷲ کی بیماری کی خبر پہنچی تو اُس نے فوراً اپنے بڑے بیٹے حارثؔ کو مدینہ کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ مدینہ جاکر عبداﷲ کو اپنے ساتھ لے آوے مگر جب حارث مدینہ پہنچا، تو عبداﷲ فوت ہو چکے تھے۔ اُس نے واپس آکر بڈھے باپ کو خبر دی کہ تیرا عزیز لڑکا اس جہان فانی سے گذر چکا ہے۔ اس وقت عبدالمطلب کو جو صدمہ ہوا وہ قیاس ہی کیا جاسکتا ہے مگر اس صدمہ سے بہت بڑھ کر وہ صدمہ ہو گا جو آمنہ کے دل کو پہنچا جس کا شوہر اس غریب الوطنی کی حالت میں شادی سے تھوڑے ہی عرصہ بعد اسے داغِ ہجرت دے گیا۔ نئی نئی شادی کی حالت میں کم عمر لڑکیاں جو طبعاً اپنے اندر شرم و حیا کا زیادہ مادہ رکھتی ہیں ایسے موقعوں پر اپنے غم و الم کا اظہار نہیں کر سکتیں۔ اس لیے اُن کو اندر ہی اندر صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سے اس تکلیف کا اندازہ ہو سکتا ہے جو اس موقع پر حضرت آمنہ کو اٹھانی پڑی ہوگی۔ مگر خُدا کی تسلّی جلد ہی آمنہ کے سہارے کے لیے آئی۔ چنانچہ انہی ایّام میں آمنہ نے ایک خواب دیکھا کہ اُن کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اور انہیں خواب میں ہی بتایا گیا کہ اس لڑکے کا نام محمد ؐ رکھنا ۔ نیز انہوں نے یہ بھی خواب دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک چمکتا ہوا نور نکلا ہے اور دُور دراز ملکوں میں پھیل گیا ہے۔۳؎

اِبتدائی زندگی
ولادت باسعادت
آمنہ کے نور کے ظہور کا وقت نزدیک آرہا تھا اور وضعِ حمل کے دن قریب تھے۔ وہ شعبِ بنی ہاشم میں رہتی تھیں اور اس وقت کے انتظار میں تھیں کہ جب اُن
کے مرحوم شوہر کی یاد کو زندہ رکھنے والا بچہ دُنیا کی روشنی میں آوے اور ان کے صدمہ رسیدہ دل کے لیے تسکین و راحت کا موجب ہو۔ چنانچہ واقعہ اصحاب الفیل کے پچیس روز بعد ۱۲؍ربیع الاوّل مطابق ۲۰؍اگست ۵۷۰ عیسوی کو یا ایک جدید اور غالباً صحیح تحقیق کی رُو سے ۹؍ربیع الاوّل مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۱ ء بروز پیر بوقت صبح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ ۱؎ واقعہ فیل کے اس قدر متصِل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کا ہونا اپنے اندر یہ خدائی اشارہ رکھتا تھا کہ جس طرح خدا نے کعبہ کے خلاف اس ظاہری حملہ کو خائب و خاسر کیا ہے اسی طرح اب وقت آتا ہے کہ دینِ الٰہی کے مقابل پر باطل پرستی کا سر کچلا جائے اور قرآن شریف میں اصحاب الفیل کے حملہ کا ذکر بھی بظاہر اسی غرض و غایت کے ماتحت نظر آتا ہے ۔ بہرحال بچہ کے پیدا ہوتے ہی آمنہ نے عبدالمطلب کو اطلاع بھجوا دی جو سُنتے ہی فوراً خوشی کے جوش میں آمنہ کے پاس چلے آئے۔ آمنہ نے اُن کے سامنے لڑکا پیش کیا اور کہا کہ مَیں نے ایک خواب میں اس کا نام محمد ؐ دیکھا تھا۔ عبدالمطلب بچے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر بیت اﷲ میں لے گئے اور وہاں جاکر خدا کا شُکر ادا کیا اور بچے کا نام محمدؐ رکھا جس کے معنے ہیں ’’بہت قابلِ تعریف‘‘ اور پھر اسے واپس لاکر خوشی خوشی ماں کے سُپرد کر دیا۔ ۲؎
مؤرخین نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے متعلق بعض عجیب عجیب واقعات لکھے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس وقت کسریٰ شہنشاہِ ایران کے محل میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کِنگرے گِر گئے اور فارس کا مقدس آتشکدہ جو صدیوں سے برابر روشن چلا آتا تھا دفعۃً بُجھ گیا اور بعض دریا اور چشمے خشک ہو گئے اور یہ کہ آپ کے اپنے گھر میں بھی رنگا رنگ کے کرشمے ظاہر ہوئے وغیرہ ذالک۔ مگر یہ روایتیں عموماً کمزور ہیں۔ یہ بھی روایت آتی ہے جو غالباً صحیح ہے کہ آپؐ کے ولادت کے زمانہ میں آسمان پر غیر معمولی کثرت کے ساتھ ستارے ٹوٹتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ۱؎ اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قدرتی طور پر مختون پیدا ہوئے۔ ۲؎ اگر یہ درست ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ بعض اوقات بچوں میں اس قسم کی قدرتی باتیں دیکھی گئی ہیں۔ ایک اور بات بھی آپ میں قدرتی طور پر تھی اور وہ یہ کہ آپ کی پُشت پر بائیں جانب ایک گوشت کا اُٹھا ہوا ٹکڑا تھا جو عام طور پر مسلمانوں میں ختم نبوت یعنی مُہر نبوت کے نام سے مشہور ہے۔ ۳؎
رضاعت اور ایّامِ طفولیّت
مکّہ کے شرفاء میں یہ دستور تھا کہ مائیں اپنے بچوں کو خود دودھ نہ پلاتی تھیں بلکہ عام طور پر بچے شہرسے باہر بدوی لوگوں میں دائیوں کے
سُپرد کر دیئے جاتے تھے اس کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ جنگل کی کھلی ہوا میں رہ کر بچے تندرست اور طاقتور ہوتے تھے اور زبان بھی عمدہ اور صاف سیکھتے تھے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شروع شروع میں آپ کی والدہ نے اور پھر ثویبہ نے دُودھ پلایا۔ ثویبہ آپؐ کے چچا ابو لہب کی لونڈی تھی جسے ابو لہب نے اپنے یتیم بھتیجے کی ولادت کی خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ اسی ثویبہ نے حضرت حمزہ ؓ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ گویا اس طرح حمزہ جو آپؐ کے حقیقی چچا تھے دُودھ کے رشتہ سے آپ کے بھائی بن گئے۔ ثویبہ کی یہ چند دن کی خدمت آنحضرت صلعم کبھی نہیں بھولے۔ جب تک وہ زندہ رہی آپؐ ہمیشہ اس کی مدد فرماتے رہے اور اُس کے مرنے کے بعد بھی آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا اس کا کوئی رشتہ دار باقی ہے۔ مگر معلوم ہوا کہ کوئی نہ تھا۔
ثویبہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضاعت مستقل طور پر حلیمہ کے سُپرد ہوئی جو قوم ہوازنؔ کے قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون تھی اور دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر مکّہ میں دایہ کے طور پر کسی بچے کی تلاش میں آئی تھی۔ ایک یتیم بچے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے حلیمہ ابتدائً خوش نہ تھی، کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ کوئی زندہ باپ والا بچہ ملے جہاں زیادہ انعام و اکرام کی اُمید ہو سکتی تھی۔ چنانچہ شروع میں اُس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جانے سے تأمل کیا مگر جب کوئی اور بچہ نہ ملا اور اس کے ساتھ کی سب عورتوں کو بچے مل چکے تھے تو وہ خالی ہاتھ جانے سے بہتر سمجھ کر آپؐ کواپنے ساتھ لے گئی لیکن جلد ہی حلیمہؔ کو معلوم ہو گیا کہ جو بچہ وہ اپنے ساتھ لائی ہے۔ اس کا ستارہ بہت بلند ہے۔ چنانچہ اُس کی اپنی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے ہم پر بہت تنگی کا وقت تھا، مگر آپ کے آنے کے ساتھ یہ تنگی فراخی میں بدل گئی اور ہماری ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔ حلیمہؔ کا وہ لڑکا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ دودھ پیتا تھا اس کا نام عبداﷲ تھا اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی جس کا نام شیما تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت عزیز رکھتی تھی۔
دو سال کے بعد جب رضاعت کی مدّت پوری ہوئی تو دستور کے مطابق حلیمہ آپؐ کو لے کر مکّہ میںآئی مگر اُسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اتنی محبت ہو چکی تھی کہ اُس کا دل چاہتا تھا کہ اگر ممکن ہو تو آپ کی والدہ سے اجازت لے کر آپؐ کو پھر واپس لے جاوے؛ چنانچہ اُس نے باصرار کہا کہ ابھی اس بچہ کو کچھ عرصہ اور میرے پاس رہنے دو۔ مَیں اس کا ہر طرح خیال رکھوں گی۔ آمنہ نے پہلے تو انکار کیا، مگر پھر اس کے اصرار کو دیکھ کر اور یہ خیال کر کے کہ مکّہ کی آب و ہوا سے باہر کی آب و ہوا اچھی ہے اور ان ایّام میں مکّہ کی آب و ہوا کچھ خراب بھی تھی آمنہ نے مان لیا اور حلیمہ آپؐ کو لے کر پھر خوش خوش اپنے گھر لوٹ گئی اور اس کے بعد قریباً چار سال کی عمر تک آپؐ حلیمہ کے پاس رہے اور قبیلہ بنو سعد کے لڑکے لڑکیوں میں کھیل کود کر بڑے ہوئے۔ اس قبیلہ کی زبان خاص طور پر صاف اور فصیح تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی یہی زبان سیکھی۔
حلیمہؔ آپؐ کو بہت عزیز رکھتی تھی اور قبیلہ کے تمام لوگ آپؐ کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ خوفزدہ ہو گئی اور آپؐ کو واپس مکّہ میں لاکر آپؐ کی والدہ کے سپرد کر دیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں اس طرح پر مذکور ہے کہ ایک دفعہ آپؐ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے اور کوئی بڑا آدمی پاس نہ تھا کہ اچانک دو سفید پوش آدمی نظر آئے اور انہوں نے آپؐ کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور آپؐ کا سینہ چاک کر دیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر آپؐ کا رضائی بھائی عبداﷲ بن حارث بھاگا ہوا گیا اور اپنے ماں باپ کو اطلاع دی کہ میرے قریشی بھائی کو دو آدمیوں نے پکڑ لیا ہے اور اس کا سینہ چاک کر رہے ہیں۔ حارث اور حلیمہ یہ سنتے ہی بھاگے آئے تو دیکھا کہ کوئی آدمی تو وہاں نہیں ہے، مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک خوفزدہ حالت میں کھڑے ہیں اور چہرہ کا رنگ متغیرّ ہو رہا ہے۔ حلیمہؔ نے آگے بڑھ کر آپؐ کو گلے سے لگا لیا اور پوچھا ’’بیٹا کیا بات ہوئی ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سارا ماجَرا بتایا اور کہا کہ وہ کوئی چیز میرے سینہ میں تلاش کرتے تھے۔ ۱؎ جسے اُنہوں نے نکال کر پھینک دیا۔ پھر حلیمہؔ اور حارثؔ آپؐ کو اپنے خیمہ میں لے گئے اور حارثؔ نے حلیمہؔ سے کہا۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ اس لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ ۲؎ پس مناسب ہے کہ تو اسے فوراً لے جا اور اس کی والدہ کے سُپرد کر آ۔‘‘ چنانچہ حلیمہؔ آپ کو مکّہ میں لائی اور آمنہؔ کے سُپرد کر دیا۔ آمنہؔ نے اس جلدی کا سبب پوچھا اور اصرار کیا تو حلیمہ نے انہیں یہ سارا قصّہ سُنا دیا اور یہ ڈر ظاہر کیا کہ شاید یہ لڑکا کِسی جِنّ وغیرہ کے اثر کے نیچے آگیا ہے۔ آمنہ نے کہا۔ ’’ایسا ہر کز نہیں ہو سکتا۔ میرا بیٹا بڑی شان والا ہے۔ جب یہ حمل میں تھا تو مَیں نے دیکھا تھا کہ میرے اندر سے ایک نُور نکلا ہے جو دُور دراز ملکوں تک پھیل گیا ہے۔۳؎
اس واقعہ کی فی الجملہ تائید صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں اَنس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بعض بچوں کے ساتھ مِل کر کھیل رہے تھے آپؐ کے پاس جبرائیل ؑ آئے اور آپؐ کو زمین پر لِٹا کر آپؐ کا سینہ چاک کر دیا اور پھر آپؐ کے سینہ کے اندر سے آپؐ کا دل نکالا اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اَب تم سے جُدا کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد جبرائیل نے آپؐ کے دل کو مصفیٰ پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر اُسے پھر جوڑ دیا۔ جب بچوں نے جبرائیل کو آپؐ کو زمین پر گراتے اور سینہ چاک کرتے ہوئے دیکھا تو وہ گھبرا کر دَوڑے ہوئے آپؐ کی دائی کے پاس گئے اور کہا کہ محمد کو کِسی نے قتل کر دیا ہے۔ جب یہ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو فرشتہ غائب تھا اور آپؐ ایک خوفزدہ حالت میں کھڑے تھے۔ ۴؎ صحیح مسلم کی تصدیق کے بعد ابنِ ہشام کی روایت کو ایک ایسی تقویت حاصل ہو جاتی ہے کہ بلا کسی قوی دلیل کے ہم اسے کمزور کہہ کر ردّ نہیں کر سکتے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ واقعہ ایک کشفی نظارہ ۵؎ تھا۔ چنانچہ شقِّ صدر کی ظاہری علامات کا مفقود ہونا یعنی اس وقت آپؐ کی دائی وغیرہ کو اُس کی کسی ظاہری علامات کا نظر نہ آنا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک کشف تھا جس کا دائرہ دوسرے بچوں تک بھی وسیع ہو گیا اور جیسا کہ خود اس کشف کے اندر یہ تصریح ہے اس سے مراد یہ تھی کہ خدائی فرشتہ نے متمثل ہو کر عالمِ کشف میں آپؐ کا سینہ چاک کیا اور تمام کمزوریوں کی آلائش آپ کے اندر سے نکال دی۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ معراج کی رات بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اسی قسم کے شقِّ صدر کا واقعہ ہوا اور فرشتوں نے آپ کا دل نکال کر زمزم کے مصفّا پانی سے دھویا اور پھر اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ ۱؎
اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی غیر مناسب نہ ہو گا کہ سرولیم میورؔ نے اس واقعہ کا ذکر کر کے طعن کے رنگ میں یہ ریمارک کیا ہے کہ نعوذ باﷲ یہ ایک مِرگی کا دورہ تھا جو آنحضرت صلی اﷲ عیلہ وسلم کو ہوا۔ ہم کسی کی زبان کو تو نہیں روک سکتے مگر یقینا میور صاحب نے یہ اعتراض کرتے ہوئے پَرلے درجے کے تعصب سے کام لیا ہے۔ کیونکہ اوّل تو سب لوگ جانتے ہیں کہ مِرگی کا بیمار ایک کمزور دماغ والا انسان ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق خود میورؔ صاحب کو اقرار ہے کہ آپؐ بہترین قوائے جسمانی کے مالک تھے۔ علاوہ ازیں خود یہ روایت بھی جس کی بناء پر یہ اعتراض کیا گیا ہے اس اعتراض کا رد کرتی ہے۔ کیونکہ روایات میں یہ صاف لکھا ہے کہ اس نظارہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی نے بھی دیکھا اور اُسی نے بھاگ کر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ میرے قریشی بھائی کو دو سفید پوش آدمی زمین پر گِرا کر اس کا سینہ چاک کر رہے ہیں۔ کیا دُنیا میں کوئی مرگی ایسی بھی ہوتی ہے جس کے متعلق دوسرے لوگ اس قسم کے نظارہ کی شہادت دیں۔ بے شک وہ شخص جسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے وہ خود اپنے خیال میں یہ گمان کر سکتا ہے کہ اُسے کسی نے پکڑکر زمین پر دے مارا ہے لیکن یہ کہ اُسے دیکھنے والے لوگ بھی اس قسم کا نظارہ دیکھیں یہ ایک ایسی بات ہے جسے سوائے ایک متعصّب انسان کے کوئی شخص زبان پر نہیں لاسکتا۔
بہرحال جب آپؐ کی عمر چار سال کی ہوئی تو حلیمہ ؔ آپ کو واپس لاکر آپؐ کی والدہ کے سُپرد کر گئی۔ یہ چار سالہ خدمت حلیمہؔ کی کوئی معمولی خدمت نہ تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو چھوٹی سے چھوٹی خدمت کو بھی فراموش نہ کرتے تھے؛ چنانچہ آپؐ نے عمر بھر حلیمہؔ کی یہ خدمت یاد رکھی اور ہمیشہ اس کے ساتھ نہایت اعلیٰ سلوک کیا۔ چنانچہ جب مُلک میں ایک دفعہ قحط پڑا اور حلیمہ مکّہ میں آئی تو آپؐ نے اُسے چالیس بکریاں اور ایک اُونٹ عطا فرمایا۔ زمانہ ٔ نبوت میں وُہ ایک دفعہ آئی تو آپؐ نے اُسے دیکھتے ہی ’’میری ماں ! میری ماں!!‘‘ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اُوپر کی چادَر اُتار کر اُس کے نیچے بچھائی۔ پھر جب ایک جنگ (یعنی جنگِ حُنین) میں قبیلہ ہوازن کے ہزار ہا قیدی پکڑے ہوئے آئے تو آپ نے اسی رشتہ کی خاطر ان سب کو رہا کر دیا اور ایک پائی بھی اُن قیدیوں کے فدیہ میں نہیں لی۔ ۱؎ اور اپنی ایک رضاعی بہن کو جو اُن قیدیوں میں آئی تھی انعام سے مالا مال کر کے واپس کیا۔ حلیمہؔ اور اس کے خاوند حارث کے اسلام لانے کے متعلق اختلاف ہے، مگر راجح قول یہی ہے کہ وہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور اسلام کی حالت میں فوت ہوئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی عبداﷲ اور بہن شیماؔ نے بھی اسلام پر وفات پائی۔
والدہ کی کفالت اور سفرِ یثرب
جب حلیمہ آپؐ کو آپؐ کی والدہ کے پاس واپس لائی تو آپؐ کی عمر کم و بیش چار سال کی تھی۔ اس کے بعد آپؐ اپنی والدہ کی
کفالت میں رہے۔ جب آپؐ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو اپنے رشتہ دار بنو نجار سے ملنے کی غرض سے آمنہ یثرب گئیں اور آپؐ کو بھی ساتھ لے گئیں۔ اُمّ ایمن بھی ساتھ تھی۔ ممکن ہے اس سفر میں آمنہ کو اپنے مرحوم شوہر کا مزار دیکھنے کا بھی خیال ہو۔ بہرحال وہ یثرب گئیں اور وہاں تقریباً ایک مہینہ تک قیام کیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ زمانہ آخر عمر تک یاد رہا۔ قریباً پچاس سال کے بعد جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ گئے تو آپؐ نے صحابہ کو وہ مکان بتایا جہاں آپؐ اپنی والدہ کے ساتھ ٹھہرے تھے اور وہ جگہ بتائی جہاں آپؐ مدینہ کے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلا کرتے تھے اور وہ تالاب بھی دکھایا جہاں آپؐ نے تیرنے کی مشق کی تھی۔ ۲؎
والدہ کی وفات
قریباً ایک ماہ کے قیام کے بعد آمنہ واپس روانہ ہوئیں مگر اپنے شوہر کی طرح اُن کی موت بھی غریب الوطنی میں ہی مقدّر تھی چنانچہ راستہ میں ہی بیمار ہو گئیں اور مقام
ابوئؔ میں انتقال کیا اور یہیں دفن کی گئیں۔۱؎ زمانہ نبوت میں جب آپؐ ایک دفعہ اس مقام پر سے گذرے تو اپنی والدہ کی قبر پر بھی تشریف لے گئے اور اُسے دیکھ کر چشم پُر آب ہو گئے۔ صحابہ نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ ’’اﷲ نے مجھے یہ تو اجازت دی کہ مَیں اپنی والدہ کی قبر کو دیکھوں لیکن دُعا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ۲؎ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ کی والدہ کی مغفرت نہ ہو گی۔ کیونکہ یہ معاملہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہو گا اور کیا نہ ہو گا۔ لیکن اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور موقعوں پر فرمایا ہے کہ جو شخص شِرک کی حالت میں فوت ہو اُس کے لئے دُعا مانگنا دُرست نہیں ہے بلکہ اس کے معاملہ کو خُدا کے سُپرد کرنا چاہئے۔
والدہ کی وفات ہوئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یُتُم کی پوری پوری حالت میں آگئے اور چھوٹی عمر میں وطن سے باہر عزیز و اقرباء سے دُور ماں کی جدائی کا صدمہ ایسی حالت میں کہ باپ پہلے ہی گذر چکا ہو کوئی معمولی صدمہ نہیں؛ چنانچہ ان باتوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب پر ایک گہرا اور مستقل اثر ڈالا۔ بے شک آپؐ اﷲ کی طرف سے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کئے گئے۔ مگر ظاہری اسباب کے لحاظ سے ان باتوں کا بھی آپؐ کی طبیعت پر بہت اثر ہوا اور ایک حد تک یہ انہی ابتدائی صدموں کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کے اخلاق میں غرباء کی محبت اور مصیبت زدوں کے ساتھ ہمدردی نے ایک خاص ممتاز رنگ اختیار کیا۔ قرآن شریف نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یُتُم کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
… ۔ ۳؎
’’یعنی کیا ہم نے تجھے یتیم پاکر پناہ نہیں دی۔ پس اب تیرا فرض ہے کہ تو بھی یتیموں کے ساتھ شفقت اور نرمی کا سلوک کرے۔‘‘
عبدالمطلب کی کفالت
والدہ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی خادمہ ام ایمن کے ساتھ مکّہ پہنچے۔ یہ امّ ایمن وہی ہے جو آپؐ کے والد کی وفات پر ایک
لونڈی کی حیثیت میں آپؐ کو ورثہ میں پہنچی تھی۔ بڑے ہو کر آپؐ نے اسے آزاد کر دیا تھا اور اس کے ساتھ بہت احسان کا سلوک فرماتے تھے۔ بعد میں ام ایمن کی شادی آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ ہو گئی اور اس کے بطن سے اسامہؔ بن زید پیدا ہوئے۔ امِّ ایمن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہی ۔ بہرحال والدہ کی وفات کے بعد آپؐ امّ ایمن کے ساتھ مکّہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر آپ کو عبدالمطلب نے براہ راست اپنی کفالت میں لے لیا۔ عبدالمطلب آپؐ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو آپؐ کو اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اُن کے ساتھ بہت بے تکلف ہو گئے۔ عبدالمطلب کی عادت تھی کہ صحن کعبہ میں فرش بچھا کر بیٹھا کرتے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ اس فرش پر ان کے ساتھ بیٹھ سکے۔ حتیٰ کہ عبدالمطلب کے اپنے لڑکے بھی ہٹ کر بیٹھتے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی محبت کے جوش میں سیدھے عبدالمطلب کے پاس جابیٹھتے تھے اور وہ آپؐ کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ آپؐ کے چچا بعض اوقات آپؐ کو فرش پر بیٹھنے سے روکتے تو عبدالمطلب ان کو منع کر دیتے اور کہتے کہ اسے تم کچھ نہ کہو۔
عبدالمطلب کی وفات
اسی محبت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دن گذر رہے تھے کہ عبدالمطلب کو بھی پیغامِ اجل آگیا جب ان کا جنازہ اُٹھا تو آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم ساتھ ساتھ تھے اور روتے جاتے تھے۔ یہ تیسرا صدمہ تھا جو آپ کو بچپن میں اُٹھانا پڑا۔ اس وقت آپؐ کی عمر آٹھ سال کی تھی اور عبدالمطلب کی عمر اختلاف روایات کے ساتھ اسی سال سے لے کر ایک سو چالیس سال کی تھی۔ ۱؎
مختلف بیویوں سے عبدالمطلب ؔ کے کئی بیٹے تھے جن میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں۔ حارثؔ ، زبیرؔ ، ابو طالبؔ ، ابو لہبؔ، عبداﷲؔ ، عباسؔ، اور حمزہ۔ ان میں ابو طالب اور عبداﷲ کی ماں ایک تھی اور غالباً اسی نسبت سے عبدالمطلب نے مرتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابو طالب کی کفالت میں دیا اور ان کو آپؐ کا خاص خیال رکھنے کی وصیت کی۔ چنانچہ اس وقت سے آپؐ اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں رہنے لگے۔ قومی کاموں میں سے سقایہؔ اور رفادہؔ کا کام جو عبدالمطلب کے پاس تھا وہ انہوں نے اپنے زندہ لڑکوں میں سے بڑے لڑکے زبیرؔ کے سُپرد کیا۔ مگر چونکہ یہ کام بہت سا روپیہ چاہتا تھا اس لئے زبیرؔ نے اپنی طاقت سے زیادہ دیکھ کر دونوں کام ابو طالبؔ کے سُپرد کر دیئے لیکن ابو طالب بھی غریب آدمی تھے اس لئے رفادہ کا کام بنو نوفل کی طرف منتقل ہو گیا اور سقایہ کا کام ابو طالب نے بالآخر عباسؔ کے سُپرد کر دیا جو نسبتاً ایک امیر آدمی تھے۔
اس موقع پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عبدالمطلب کی زندگی تک تو بنو ہاشم نہایت معزز و مکرم تھے اور گویا تمام قبائل قریش میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد بنو ہاشم میں سے کوئی ایسا شخص نہ نکلا جو اس اعزاز کو قائم رکھ سکے اس لیے قریش کی عام سرداری ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور بنو ہاشم کے رقیب بنو امیہ آہستہ آہستہ بہت زور پکڑ گئے۔
ابو طالب کی کفالت
ابو طالب نے اپنے والد کی وصیت پر نہایت دیانت اور خوبی سے عمل کیا اور اپنے بچوں سے بڑھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عزیز رکھا۔ ہر وقت اپنی
آنکھوں کے سامنے رکھتے تھے اور رات کے وقت بھی عموماً اپنے ساتھ ہی سلاتے تھے۔
سفرِ شام اور واقعہ بحیرا راہب
جب آپؐ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو ابو طالب کو ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کا سفر پیش آگیا۔ چونکہ سفر لمبا اور کٹھن تھا اس لیے
اُنہوں نے ارادہ کیا کہ آپؐ کو مکّہ ہی میں چھوڑ جائیں۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابو طالب کی جدائی نہایت شاق تھی۔ چنانچہ روانگی کے وقت جوشِ محبت میں آپؐ ابو طالب سے لپٹ گئے اور رونے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور وُہ آپؐ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
شام کے جنوب میں بُصریٰ ایک مشہور مقام ہے، وہاں پہنچے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہاں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جس کا نام بحیرا تھا۔ جب قریش کا قافلہ اُس کی خانقاہ کے پاس پہنچا تو اس راہب نے دیکھا کہ تمام پتھر اور درخت وغیرہ یکلخت سجدہ میں گِر گئے۔ اُسے معلوم تھا کہ الٰہی نوشتوں کی رُو سے ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اس لیے اُس نے اپنی فراست سے سمجھ لیا کہ اس قافلے میں وہی نبی موجود ہو گا۔ چنانچہ اُس نے اپنے قیافہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور اس سے ابو طالب کو اطلاع دی اور ابو طالب کو نصیحت کی کہ آپؐ کو اہلِ کتاب کے شَر سے محفوظ رکھیں۔
علمِ روایت کی رُو سے اس واقعہ کی سند کمزور ہے لیکن اگر فی الحقیقت ایسا واقعہ گذرا ہو تو کچھ تعجب بھی نہیں۔ درختوں وغیرہ کا سجدہ کرنا راہب کا ایک کشفی نظارہ سمجھا جائے گا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقام کے لحاظ سے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
کیا اسلام مسیحیت سے متأثر ہوا ہے؟
اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ میورؔ صاحب اور بعض دوسرے غیر مسلم مؤرخین نے بحیرا ؔراہب کے واقعہ اور
اسی قسم کے دوسرے واقعات سے جن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا دعویٰ سے پہلے کسی عیسائی سے ملنا بیان ہوا ہے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ مسیحیت سے متاثر ہو کر کیا تھا اور آپؐ کی تعلیم اسی اثر کا نتیجہ تھی۔ مگر یہ خیال بالکل غلط اور خلافِ واقعہ ہے اور جس شخص کو آپؐ کی تعلیم اور سوانح کا تھوڑا بہت بھی مطالعہ ہے اور تعصب نے اُس کی آنکھ پر پَردہ نہیں ڈال رکھا وہ اس اعتراض سے کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔ بے شک یہ دُرست ہے کہ ہر ذی عقل انسان اپنی استعداد کے مطابق اپنے ماحول کا مطالعہ کرتا ہے اور ماحول کے حسن و قبح کے نتیجہ میں اچھے یا بُرے تاثرات کا قائم ہونا بھی ایک فطری امر ہے۔ پس اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کسی عیسائی کے ساتھ بعثت سے پہلے ملے ہوں گے اور آپؐ کو عیسائیت کی تعلیم کے سُننے کا موقع میسر آیا ہو گا تو طبعاً آپ کے دل میں اس کے اچھے اور بُرے حصوں کے متعلق تأثرات بھی پیدا ہوئے ہوں گے۔ مگر یہ خیال قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے کہ آپ کی نبوت اور تعلیم ان تأثرات کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ اوّل تو بعثت سے پہلے آپ کا کسی عیسائی سے ایسے حالات میں ملنا ثابت نہیں کہ جس کے متعلق یہ سمجھا جاسکے کہ اُس نے آپؐ کی طبیعت پر کوئی گہرا اور مستقل اثر چھوڑا ہو۔ لیکن اگر بالفرض اس قسم کا کوئی اثر تھا بھی تو یقینا وہ کوئی اچھا اثر نہیں تھا۔ کیونکہ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم میں عیسائیت کے اکثر اصولی مسائل سے شدید اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً موجودالوقت عیسائی مذہب کی بنیاد زیادہ تر اُلوہیتِ مسیح،تثلیث اور کفّارہ کے عقائد پر ہے۔ مگر ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ قرآن شریف میں اِن تینوں مسائل کے خلاف نہایت سختی سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ مسیح کی مزعومہ خدائی اور اِبنیت کے متعلق یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ قریب ہے کہ اس سے زمین و آسمان پھٹ جائیں۔ ۱؎ اندریں حالات اسلام کی تعلیم کو عیسائیت کی طرف منسوب کرنا ایک مجنونانہ کوشش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
باقی رہا یہ امر کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی تعریف کی گئی ہے سو اس سے بھی مندرجہ بالا اعتراض کی تائید میں کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی۔ کیونکہ اوّل تو حضرت مسیح کی جو تعریف کی گئی ہے وہ بطور ایک نبی کے ہے نہ کہ بطور ابن اﷲ یا خدا ہونے کے جو عیسائی مذہب کا دعویٰ ہے۔ دوسرے یہ تعریف حضرت مسیح کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن شریف نے سارے گذشتہ انبیاء کی تعریف کی ہے اور انہیں نہایت بزرگ اور قابلِ احترام ہستیاں قرار دیا ہے بلکہ قرآن شریف نے بڑے زور کے ساتھ اس اصول کو پیش کیاہے کہ دُنیا کی ساری قوموں میں خدا کے رسول گذرے ہیں۔۱؎ اور اس طرح اُس نے مسلمانوں کے دلوں میں تمام اقوامِ عالم کے بزرگوں کی عزّت قائم کر دی ہے مگر یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ حضرت مسیح کی خدائیت اور عیسائی مذہب کے دوسرے اصولی عقائد کو اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ ردّ کیا ہے اور حضرت مسیح کو ایک انسان رسُول سے زیادہ حیثیت نہیں دی جو اپنی زندگی کے دن گذار کردوسرے رسُولوں کی طرح وفات پاگئے پس مسیحی مذہب سے متأثرہونے کا اعتراض بالکل غلط اور باطل ہے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ مسیحی مذہب کی بعض دینی اور اخلاقی تعلیمات اسلام میں بھی پائی جاتی ہیں جس سے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اسلام نے اِن تعلیمات کو مسیحیت سے اخذ کیا ہے تو یہ بھی ایک فضول اعتراض ہو گا کیونکہ اوّل تو جب کہ اسلام اور موجود الوقت مسیحیت کی بہت سی اصولی تعلیمات ایک دوسرے سے بالکل جُدا ہیں تو کِسی ضمنی حِصّہ میں ان دو تعلیموں کا آپس میں متشابہ ہونا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں سمجھا جاسکتا کہ ایک تعلیم دُوسرے سے ماخوذ ہے۔ دوسرے جب کہ اسلام حضرت مسیح کو خُدا کا ایک برگزیدہ رسُول قرار دیتا ہے اور خود بھی خُدا کی طرف سے ہونے کا مدعی ہے تو یہ لازمی تھا کہ بوجہ ایک ہی منبع سے نکلی ہوئی چیزیں ہونے کے اسلام اور مسیحیتکی بعض تعلیمیں ایک دوسرے کے متشابہ ہوئیں۔ کیونکہ بہرحال ہدایت کے اصول ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے ایک ہی ہیں۔ تیسرے قرآن شریف خود اس بات کا مدعی ہے کہ اس نے سب گذشتہ تعلیموں کی دائمی صداقتوں کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔ ۲؎ یعنی قرآن کے اندر تمام گذشتہ صُحفکی پختہ اور مستقل باتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ پس اس جہت سے بھی مسیحیت کی کوئی خصوصیّت ثابت نہیں ہوتی۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن شریف نے اپنے اس خاصہ کو کہ اس میں گذشتہ تعلیمات کی سب دائمی صداقتیں اور پختہ اور مستقل باتیں شامل کر دی گئی ہیں ایک کمال کے رنگ میں پیش کیا ہے اور اس پہلو سے اسے گویا ایک شہد کی مکھی سے تشبیہہ دی ہے۔ ۳؎ جو ہر قسم کے پھَل اور پھُول سے اُس کا جوہر لے کر باریک در باریک کیمیائی رنگ میں ایک نہایت لطیف چیز تیار کر دیتی ہے جو باوجود مختلف پھلوں اور پھولوں کا جوہر ہونے کے ایک بالکل ہی نئی چیز ہوتی ہے جسے کسی خاص بھل یا پھُول کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں قرآن شریف نے صرف گذشتہ صحف ہی سے اُن کی پختہ تعلیمات کو اخذ نہیں کیا بلکہ چونکہ وہ ایک دائمی شریعت کا حامل ہے اس لئے اس نے قیامت تک کی ضروریات کے پیشِ نظر بہت سی نئی باتوں کو بھی زائد کر کے ایک کامل اور اَبدی شریعت پیش کی ہے اور خدا کی طرف سے اس میں ایسے خواص و دیعت کر دیئے گئے ہیں کہ اس ظاہری عالَم کی طرح وہ قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی دینی ضروریات کا سامان اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو حسبِ ضرورت ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ دراصل قرآن شریف مندرجہ ذیل تعلیمات کا مجموعہ ہے:
اوّل گذشتہ صحف کے وہ حصے جو ایک دائمی اور عالمگیر شریعت کا جزو بن سکتے تھے۔
دوم آئندہ کے لئے مختلف اقوامِ عالم کی ضروریات کے مناسبِ حال مستقل تعلیم جو حقوق العباد اور حقوق اﷲ کی کامل ادائیگی اور ہر قسم کی اخلاقی اور رُوحانی ترقی کے لئے قیامت تک کے لئے ضروری تھی۔
بہرحال یہ خیال کہ قرآن شریف یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت مسیحیت یا کسی اور مذہب کی تعلیم کا نتیجہ تھی، بالکل غلط اور باطل ہے اور ایسا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جو اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیم سے قطعاً نا بلد ہے اور بالخصوص بحیراؔ راہب وغیرہ کی ملاقات کی طرف اسلامی تعلیمات کو منسوب کرنا تو ایک بالکل ہی مضحکہ خیز بات ہے جو کسی دانا شخص کی زبان پر نہیں آسکتی۔
آپؐ کا بکریاں چرانا
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب شام کے سفر سے واپس آئے تو بد ستور ابوطالب کے پاس ہی رہتے تھے مگر چونکہ عرب میں بچوں کو عموماً مویشی
چرانے کے کام پر لگا دیتے تھے اس لئے اس زمانہ میں آپؐ نے بھی کبھی کبھی یہ کام کیا اور بکریاں چرائیں۔ زمانہ ٔ نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ بکریاں چرانا بھی انبیاء کی سنت ہے۔ ۱؎ اور مَیں نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔چنانچہ ایک موقع پر سفر میں آپؐ کے اصحاب جنگل میں پیلو جمع کر کے کھانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ کالے کالے پیلو تلاش کر کے کھاؤ۔ کیونکہ جب مَیں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس وقت کا میرا تجربہ ہے کہ کالے رنگ کے پیلو زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔ ۲؎
بدیوں سے خُدائی حفاظت
اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک رات اپنے ساتھی سے کہا جو بکریاں چرانے میں آپؐ کا شریک تھا کہ
تم میری بکریوں کا خیال رکھو تاکہ مَیں ذرا شہر جاکر لوگوں کی مجلس دیکھ آؤں۔ ان دنوں میں دستور تھا کہ رات کے وقت لوگ کسی مکان میں جمع ہو کر کہانیاں سُناتے اور شعر و غزل کا شغل کیا کرتے تھے اور بعض اوقات اسی میں ساری ساری رات گذار دیتے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی بچپن کے شوق میں یہ تماشہ دیکھنے گئے۔ مگر اﷲ تعالیٰ کو اس لغو کام میں خَاتم النّبیّینؐ کی شرکت پسند نہ آئی؛ چنانچہ ایک جگہ آپؐ گئے مگر راستے میں ہی نیند آگئی اور سو گئے اور صبح تک سوتے رہے۔ ایک دفعہ اور آپؐ کو یہی خیال آیا مگر پھر بھی دستِ غیبی نے روک دیا۔ زمانہ ٔ نبوت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مَیں نے ساری عمر میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا، مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا۔ ۱؎
حربِ فجار
عرب ایک نہایت جنگجو قوم تھی اور لڑنے مرنے کویہ لوگ فخر سمجھتے تھے۔ اسی لیے بات بات پر تلوار کھِچ جاتی تھی اور جب کبھی ایسا موقع آتا تو ایک بڑے پیالے میں خون بھر کر سب اس
کے اندر اُنگلیاں ڈبو کر قسم کھاتے تھے کہ لڑ کر مر جائیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مختلف قبائل کی آپس میں عداوت رہتی تھی کیونکہ ہر قبیلہ کواپنی عزّت اور بڑائی کا از بس خیال تھا۔ ایسی صورت میں میلوں وغیرہ میں جہاں مختلف قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں لڑائی کی وجوہات پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ابھی بچپن ہی تھا تو عکاظؔ کے میلہ کے موقع پر جو مکّہ سے جانبِ شرق تین دن کی مسافت پر ایک خوشگوار وادی میں لگا کرتا تھا، قبائل قیس عیلانؔ اور بنو کنانہؔ کے درمیان کچھ چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی۔ اس زمانہ میں قیس عیلان کے مختلف قبائل مکّہ سے جنوب مشرق میں طائف اور مکّہ کے درمیان آباد تھے۔ایک عرصہ تک تو دونوں طرف کے رؤساء نے جنگ کی نوبت آنے سے بچائے رکھا، مگر آہستہ آہستہ تعلقات کشیدہ ہوتے گئے اور بالآخر لڑائی تک نوبت پہنچ گئی۔ اس جنگ کو تاریخ میں حربِ فجار کہتے ہیں۔ جس کے معنے ناجائز جنگ کے ہیں۔ کیونکہ اس جنگ کی ابتداء شہر حرم میں ہوئی تھی جس کے اندر لڑنا عرب کے قدیم دستور کے مطابق ممنوع تھا۔
غرض یہ جنگ ہوئی اور ایسے زور شور سے ہوئی کہ زمانہ جاہلیت کی جنگوں میں خاص شہرت رکھتی ہے بنوکنانہ بشمولیت قبیلہ قریش ایک طرف تھے اور قیس عیلان بشمولیت قبیلہ ہوازن دوسری طرف۔ اس جنگ کی سب سے خطرناک آخری لڑائی تھی جو حربِ فجار کی چوتھی لڑائی کہلاتی ہے۔ اس میں جوش کا یہ عالم تھا کہ بعض سرداروں نے اپنے آپ کو رسّوں سے بندھوا دیا تھا کہ اگر بھاگنا چاہیں بھی تو نہ بھاگ سکیں۔ دن کے شروع حِصّہ میں قیس عیلان کا پلّہ بھاری رہا۔ لیکن آخر میں بنو کنانہ نے دبا لیا اور قیس عیلان کی شکست کے بعد ہر دو فریق میں صلح ہو گئی۔
اس لڑائی میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی شریک تھے۔ مگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے خود قتال نہیں کیا بلکہ آپؐ کی شرکت صرف اس حد تک محدود تھی کہ آپ فوج میں شامل تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے جاتے تھے۔ اس وقت آپؐ کی عمر بیس سال کے قریب تھی۔ اس لڑائی میں ہر قبیلہ کا افسر الگ الگ تھا۔ چنانچہ بنو ہاشم زبیرؔ بن عبدالمطلب کے ماتحت تھے مگر بنو کنانہؔ کی ساری فوج کا افسر حرب بن امیّہ تھا جو ابو سفیان کا والد اور امیر معاویہ کا دادا تھا۔ ۱؎
حِلْف الفضول
قدیم زمانہ میں عرب کے بعض شریف دل اشخاص کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ باہم مل کر عہد کیا جاوے کہ ہم ہمیشہ حقدار کو اس کا حق حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور ظالم کو
ظلم سے روکیں گے اور عربی میں چونکہ حق کو فضل بھی کہتے ہیں جس کی جمع فضول ہے، اس لئے اس معاہدہ کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔ بعض روایتوں کی رُو سے چونکہ اس تجویز کے محرّک ایسے شخص تھے جن کے ناموں میں فضل کا لفظ آتا تھا، اس لیے یہ عہد حلف الفضول کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ۲؎ بہرحال حرب فجار کے بعد اور غالباً اسی جنگ سے متأثر ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس حلف کو پھر تازہ کیا جاوے؛ چنانچہ اس کی تحریک پر بعض قبائل قریش کے نمائندگان عبداﷲ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے جہاں عبداﷲ بن جدعان کی طرف سے ایک دعوت کا انتظام تھا اور پھر سب نے اتفاق کر کے باہم قسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ اس عہد میں حصہ لینے والوں میں بنو ہاشم، بنو مطلب۳؎ ، بنو اسدؔ ، بنو زہرہؔ اور بنو تیمؔ شامل تھے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس موقع پر موجود تھے اور شریک معاہدہ تھے؛ چنانچہ آپؐ ایک دفعہ نبوت کے زمانہ میں فرماتے تھے کہ مَیں عبداﷲ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسی قَسْم میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے، تو مَیں اس پر لبیک کہوں گا اور شاید اسی خیال کا اثر تھا کہ جب ایک دفعہ امیر معاویہ کے زمانہ میں اُن کے بھتیجے ولید بن عتبہ بن ابو سفیان نے جو اس وقت مدینہ کے امیر تھے حضرت حسین ؓ بن علی ؓ بن ابی طالب کا کوئی حق دبالیا تو حضرت حسین ؓ نے کہا کہ ’’خدا کی قسم اگر ولید نے میرا حق نہ دیا تو مَیں تلوار نکال کر مسجد نبوی میں کھڑا ہو جاؤں گا اور حلف الفضول کی طرف لوگوں کو بلاؤں گا۔‘‘ جس وقت عبداﷲبن زبیر نے یہ سُنا تو کہا کہ اگر حسین ؓ نے اس قَسم کی طرف بلایا تو مَیں اس پر ضرور لبیک کہوں گا اور ہم یا تو اس کا حق دلوائیں گے اور یا اس کوشش میں سب مارے جائیں گے۔ بعض اور آدمیوں نے بھی اسی قسم کے الفاظ کہے جس پر ولیدؔ دَب گیا اور اس نے حضرت حسین ؓ کا حق ادا کر دیا ۔ ۱؎ یہ خیال رہے کہ عبداﷲ بن زبیر بنوؔ اسد میں سے تھے جو حلف الفضول میںشریک تھے۔
حُلیہ مبارک
اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جوان تھے اور جسمانی نشوونما مکمل ہو چکا تھا۔ اس لیے اس موقع پر آپؐ کا حُلیہ بیان کر دینا مناسب ہو گا۔ لکھا ہے کہ آپؐ میانہ قد تھے۔ رنگ
بہت خوبصورت تھا یعنی نہ تو بہت ہی سفید جو بُرا لگے اور نہ ہی گندم گوں بلکہ گندم گوں سے کچھ سفید تھا۔ سَر کے بال بالکل سیدھے نوکدار نہ تھے بلکہ کسی قدر خمدار تھے۔ داڑھی گھنی اور خوبصورت تھی۔ جسم درمیانہ تھا۔ جِلد نازک اور ملائم تھی اور آپؐ کے جسم اور پسینہ میں ایک قسم کی خوشبو پائی جاتی تھی۔ سَر بڑا تھا۔ سینہ فراخ۔ ہاتھ پاؤں بھرے بھرے۔ ہتھیلیاں چوڑی۔ چہرہ گول ۔ پیشانی اور ناک اونچی۔ آنکھیں سیاہ اور روشن اور پلکیں دراز تھیں۔ چلنے میں وقار تھا۔ مگر عموماً تیزی کے ساتھ قدم اُٹھتا تھا۔ گفتگو میں آہستگی ہوتی تھی حتیٰ کہ اگر سُننے والا چاہے تو آپؐ کے الفاظ کو گن سکتا تھا۔ ناراضگی کے وقت چہرہ سُرخ ہو جاتا تھا اور خوشی کے موقع پر بھی چمک اُٹھتا تھا۔ ۲؎ انگلستان کا مشہور مؤرخ سرولیم میور آپؐ کا حُلیہ بیان کر کے لکھتا ہے کہ:
’’آپؐ کا سردارانہ رنگ ڈھنگ ایک اجنبی شخص کے دل میں کچھ رُعب پیدا کر دیتا تھا جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن جب اُسے آپؐ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا اور وہ آپ سے واقف ہو جاتا تھا تو اس کے دل میں بجائے ڈرا ور خوف کے عقیدت اور محبت کے جذبات پیدا ہونے لگتے تھے۔ ‘‘۳؎
مشاغلِ تجارت
جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اب جوان تھے اور کاروبارِ زندگی میں مصروف ہونے کا وقت آگیاتھا اور چونکہ ابو طالب کی مالی حالت بھی
اچھی نہیں تھی اس لیے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوئی مناسب کام شروع کرکے اُن کے بوجھ کو ہلکا کریں؛ چنانچہ ابو طالب کی خواہش اور تحریک پر آپؐ نے تجارت کا کام شروع فرما دیا۔
مکّہ سے تجارت کے قافلے مختلفعلاقوں کی طرف جاتے تھے۔ جنوب میں یمنؔ اور شمال میں شامؔ کی طرف تو باقاعدہ تجارت کا سِلسِلہ جاری تھا۔ اس کے علاوہ بحرینؔ وغیرہ کے ساتھ بھی تجارت تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماً ان سب مُلکوں میں تجارت کی غرض سے گئے۔ ۱؎ اور ہر دفعہ نہایت دیانت و امانت اور خوش اسلوبی اور ہنر مندی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا۔ مکّہ میں بھی جن لوگوں کے ساتھ آپؐ کا معاملہ پڑا وہ سب آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے؛ چنانچہ سائب ایک صحابی تھے۔ وہ جب اسلام لائے تو بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ان کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’مَیں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔‘‘ سائب نے عرض کی۔ ’’ہاں یا رسُول اﷲ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ آپؐ ایک دفعہ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپؐ نے ہمیشہ نہایت صاف معاملہ رکھا۔ ۲؎ عبداﷲ بن ابی الحمساء ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے مَیں نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کیا اور میرے ذمّہ آپؐ کا کچھ حساب باقی رہ گیا۔ جس پر مَیں نے آپؐ سے کہا کہ آپ یہیں اِسی جگہ ٹھہریں مَیں ابھی آتا ہوں۔ مگر مجھے بھُول گیا اور تین دن کے بعد یاد آیا اس وقت جب مَیں اس طرف گیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم وہیں کھڑے تھے۔ مگر آپؐ نے سوائے اس کے مجھے کچھ نہیں کہا کہ ’’تم نے مجھے تکلیف میں ڈالا ہے۔ مَیں یہاں تین دن سے تمہارے انتظار میں ہوں۔‘‘ اس سے غالباً یہ مُراد نہیں کہ آپؐ مسلسل تین دن تک اسی جگہ ٹھہرے رہے بلکہ منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مناسب اوقات میں کئی کئی دفعہ اس جگہ جاکر دیر دیر تک عبداﷲ کا انتظار فرماتے ہوں گے تاکہ عبداﷲ کو آپؐ کی تلاش کی وجہ سے کِسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ۳؎
اسی قسم کے واقعات سے مکّہ والوں میں آپؐ کا نام امین مشہور ہو گیا تھا اور آپؐ کی دیانت اور امانت کی وجہ سے سب لوگ آپؐ کی بہت عزّت کرتے تھے اور آپؐ کو نہایت راستباز اور صادق القول یقین کرتے تھے۔ ۴؎
تجارتی کاروبارکا آغاز اس طرح ہوا کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال کے قریب ہوئی تو خدیجہ ؓ بنت خویلد نے جو قبیلہ بنو اسد کی ایک نہایت شریف اور مالدار خاتون تھی اور مکّہ کی تجارت میں اس کا بہت بڑا حِصّہ تھا آپؐ کو تجارتی مال دے کر شام کی طرف تجارت کی غرض سے بھیجا اور اپنے غلام میسرؔہ کو آپؐ کے ساتھ کر دیا۔ اس سفر میں آپؐ کی محنت اور برکت اور دیانتداری کے طفیل اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت نفع ہوا اور آپؐ نہایت کامیاب ہو کر واپس آئے۔ اسی طرح آپؐ نے دو تین تجارتی سفر دُوسرے علاقوں کی طرف بھی کئے۔
حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ شادی
حضرت خدیجہ ؓ ایک بیوہ اور صاحبِ اولاد عورت تھیں اور یکے بعد دیگرے دو خاوند کر چکی تھیں۔ مگر دونوں فوت ہو چکے تھے۔
چونکہ نہایت معزز اور دولتمند اور شریف تھیں حتی کہ اُن کی شرافت کی وجہ سے اُن کا نام طاہرہؔ مشہور ہو گیا تھا۔۱؎ اس لئے مکّہ کے کئی لوگوں نے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا، مگر انہوں نے سب کا انکار کیا۔ اب جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا معاملہ پڑا اور اُنہوں نے آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ اور قابلیّت کو دیکھا اور اپنے خادم میسرہ کو بھی آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان پایا تو اُنہوں نے خود آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو طالب کے مشورہ کے بعد قبول کر لیا؛ چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار اور خدیجہ ؓ کے قریبی رشتہ دار جمع ہوئے اور ابو طالب نے پانسو درہم مہر پر خدیجہ ؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نکاح پڑھ دیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال کی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال کی تھی۔ گویا خدیجہ ؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ اس نکاح کے وقت حضرت خدیجہ ؓ کے والد خویلد بن اسدؔ فوت ہو چکے تھے۔ اس لیے خدیجہ ؓ کی طرف سے اُن کے چچا عمرو بن اسدؔ نے شرکت کی۔ ۲؎
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جتنی بھی اولاد ہوئی وہ سب سوائے ابراہیم ؔ کے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری
عمر میں ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے خدیجہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئی؛ چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ سے آپؐ کے تین لڑکے اور چار لڑکیاں ہوئے۔ لڑکوں کے نام قاسم ؔ ، طاہرؔ اور طیبؔ تھے۔ بعض روایتوں میں ایک چوتھا بیٹا عبداﷲ بھی بیان ہوا ہے۔ مگر عام خیال یہ ہے کہ طیّب کا دوسرا نام عبداﷲ تھا۔ لڑکیوں کے نام زینب ؓ، رقیہ ؓ ، امّ کلثوم ؓ اور فاطمہ ؓ تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری اولاد جو حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے ہوئی آپؐ کے دعویٰ نبوت سے پہلے پیدا ہو چکی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم آپؐ کے بڑے بیٹے قاسم کے نام پر تھی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد سب بچپن میں ہی فوت ہو گئی۔ مگر لڑکیاں سب بڑی ہوئیں اور اسلام لائیں، لیکن سوائے چھوٹی لڑکی فاطمۃ الزہرا ؓکے باقی کِسی لڑکی کی نسل نہیں چلی۔ بڑی لڑکی زینب ؔ ابو العاص بن ربیع کے ساتھ بیاہی گئیںجو حضرت خدیجہ ؓ کے عزیزوں میں سے تھے۔ ابو العاص ؔ کے ہاں زینب ؔ ؓکے بطن سے ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئے۔ لڑکا تو بچپن میں ہی فوت ہو گیا، مگر لڑکی بڑی ہوئی اور حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد حضرت علی ؓ کے عقد میں آئی، مگر اس کی نسل نہیں چلی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم امامہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ ابو العاص ہجرت کے کئی سال بعد تک اسلام نہیں لائے۔ جس کی وجہ سے زینب ؔؓکو بھی بعض تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ زینبؔؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں۔
رقیّہ اور اُمِ کلثوم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو لہب کے دو لڑکوں عُتبہ اور عُتیبہ کے عقد میں آئیں مگر اسلام کے زمانہ میں جب ابو لہب نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی تو پیشتر اس کے کہ رُخصتانہ ہوتا یہ دونوں نکاح فسخ ہو گئے۔ اس کے بعد رقیّہ اور امِّ کلثوم یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ؓ بن عفّان کے نکاح میں آئیں، جس کی وجہ سے اُن کو ذوالنّورین یعنی دو نُوروں والا کہتے ہیں۔ مگر ان دونوں کی نسل نہیں چلی۔ یعنی رقیّہ کے بطن سے تو ایک لڑکا عبداﷲ پیدا ہو کر فوت ہو گیا اور امّ کلثوم کے کوئی اولاد ہی نہیں ہوئی۔ رقیّہ کا جنگِ بدرؔ کے زمانہ میں اور امّ کلثوم کا فتح مکّہ کے بعد انتقال ہو گیا۔
سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ تھیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ عزیز تھیں۔ یہ ہجرت کے بعد حضرت علی ؓ کے عقد میں آئیں اور انہی کے بطن سے حضرت امام حسن ؓ اور حسین ؓ پیدا ہوئے جن کی اولاد سیّد کہلاتی ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سے چھ ماہ بعد فوت ہوئیں۔ ۱؎
حضرت خدیجہ ؓ کی اولاد جو اُن کے پہلے دو خاوندوں سے تھی وہ دو لڑکوں ہندؔ اور ہالہؔ اور ایک لڑکی ھندؔ پر مشتمل تھی جو خدا کے فضل سے سب مسلمان ہو گئے تھے۔
کعبہ کی جدید تعمیر
تعمیر کعبہ کا واقعہ باب دوم میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے چونکہ کعبہ کی عمارت کو کسی وجہ سے نقصان پہنچ گیا تھا، اس لیے قریش نے اسے گِرا کر پھر
از سرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر گرانے کا کام شروع کرنے سے سب ڈرتے تھے کہ خُدا کا گھر ہے کوئی آفت نہ آجاوے۔ آخر ولید بن مغیرہ نے جو معمّر اور سرداران قریش میں سے تھا اس کام کو شروع کیا اور جب لوگوں نے ایک رات انتظار کر کے دیکھ لیا کہ ولید پر اس وجہ سے کوئی آفت نہیں آئی تو پھر سب شامل ہو گئے جب پُرانی عمارت کو گراتے گراتے حضرت ابراہیم کی بنیادوں پر پہنچے تو رُک گئے اور اُن کے اُوپر نئی تعمیر شروع کی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ساحل کے پاس ایک بڑی کشتی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی لکڑی قریش نے خرید لی لیکن چونکہ یہ لکڑی ساری چھت کے لیے ناکافی تھی۔ اس واسطے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے قریش کعبہ کی اس جدید تعمیر کو ابراہیم خلیل اﷲ کی بنیادوں پر کھڑا نہیں کر سکے، بلکہ ایک طرف سات ہاتھ جگہ چھوڑ دی۔ بعض اور تبدیلیاں بھی قریش نے کیں مگر ان کا بیان اُوپر گذر چکا ہے اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
جب قریش کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حجرِ اسود کی جگہ پر پہنچے تو قبائلِ قریش کے اندر اس بات پر سخت جھگڑا ہوا کہ کون قبیلہ اسے اس کی جگہ پر رکھے۔ ہر قبیلہ اس عزت کو اپنے لیے چاہتا تھا۔ حتّٰی کہ لوگ آپس میں لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے اور بعض نے تو زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق ایک خون سے بھرے ہوئے پیالے میں اُنگلیاں ڈبو کر قسمیں کھائیں کہ لڑ کر مر جائیں گے مگر اس عزت کو اپنے قبیلہ سے باہر نہ جانے دیں گے۔ اس جھگڑے کی وجہ سے تعمیر کا کام کئی دن تک بند رہا۔ آخر ابوؔ امیّہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص سب سے پہلے حَرم کے اندر آتا دکھائی دے وہ اس بات میں حکم ہو کر فیصلہ کرے کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے۔ اﷲ کی قدرت لوگوں کی آنکھیں جو ا ٹھیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں۔ آپؐ کو دیکھ کر سب پُکار اُٹھے۔ ’’امین امین۔‘‘ اور سب نے باتفاق کہا کہ ’’ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں۔‘‘ جب آپؐ قریب آئے تو انہوں نے آپؐ سے حقیقت امر بیان کی اور فیصلہ چاہا۔ آپؐ نے اﷲ تعالیٰ کی نصرت سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ سب سردارانِ قریش دَنگ رہ گئے اور آفرین پکار اُٹھے۔ آپؐ نے اپنی چادر لی اور اس پر حجرِ اسود کو رکھ دیا اور تمام قبائل قریش کے رؤساء کو اس چادر کے کونے پکڑوادیئے اور چادر اُٹھانے کا حکم دیا۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اُٹھایا اور کسی کو بھی شکایت نہ رہی۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تصویری زبان میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل جواب برسرِ پیکار ہیں وہ اس پاک وجود کے ذریعہ سے ایک مرکز پر جمع ہو جائیں گے۔ جب حجرِ اسود کی اصلی جگہ کے محاذ میں چادر پہنچی تو آپؐ نے اپنے دستِ مبارک سے اُسے چادر پر سے اُٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ ۱؎ یہ جیسا کہ پہلے کہا گیا تھا تصویری زبان میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عنقریب نبوت کی عمارت کے ’’کونے کا پتھر‘‘ آپؐ کے وجود سے اپنی جگہ پر قائم ہو گا۔ ۱؎
عام مؤرخین کعبہ کی اس تعمیر کی تاریخ کے متعلق صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ یہ آپؐ کی پینتیس سال کی عمر کا واقعہ ہے حالانکہ اگر اس زمانہ کے حالات کو مدِّ نظر رکھ کر دیکھا جاوے تو دراصل نئی عمارت کے واسطے سامان جمع کرنے اور پُرانی عمارت کو گرانے وغیرہ کا کام ایک کافی لمبا وقت چاہتا تھا۔ لہذا قرین قیاس یہ ہے کہ اس کام کی تیاری آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں ہی شروع ہو گئی تھی اور نئی عمارت کے واسطے سامان یعنی پتھر لکڑی وغیرہ آہستہ آہستہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا؛ چنانچہ ایک صحیح روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تعمیر کعبہ کے واسطے پتھر اٹھا اٹھا کر جمع کر رہے تھے تو آپؐ کے چچا عباس ؔ نے آپؐ سے کہا۔ بھتیجے اپنا تہ بند اپنے شانہ پر رکھ لو تاکہ پتھروں کی رگڑ وغیرہ نہ لگے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعمیلِ حکم تو کی مگر چونکہ اس سے آپؐ کے جسم کا کچھ ستر والا حصہ ننگا ہو گیا۔ آپؐ شرم کے مارے زمین پر گِر گئے اور آپؐ کی آنکھیں پتھرا گئیں اور آپؐ بے تاب ہو کر ’’میرا تہ بند میرا تہ بند‘‘ پکارنے لگ گئے۔ حتیٰ کہ پھر آپؐ نے جلدی سے اپنا تہ بند درست کر لیا۔ ۲؎ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جو صرف ابتدائی عمر کی طرف ہی منسوب ہو سکتا ہے؛ چنانچہ بعض گذشتہ مؤرخین نے بھی لکھا ہے کہ یہ صغر سنی کا واقعہ ہے۔۳؎ ہاں حجرِ اسود کے متعلق حَکَمْ بن کر فیصلہ کرنے کا واقعہ بے شک بعد کا ہے۔ کیونکہ اس کے متعلق یہ روایت ہے کہ آپؐ کو آتا دیکھ کر سب لوگ امین امین پُکار اُٹھے تھے اور ظاہر ہے کہ امین کا لقب آپؐ نے اس وقت پایا جب معاملات میں پڑ کر آپؐ کی امانت و دیانت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو کر مسلّم ہو گئی۔
زید بن حارثہ کا آپؐ کی خدمت میں آنا
حضرت خدیجہ ؓ کے ایک بھتیجے تھے جن کا نام حکیم بن حزام تھا۔ یہ بڑے تاجر آدمی تھے اور ہمیشہ
تجارتی قافلوں کے ساتھ اِدھر اُدھر آتے جاتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ یہ کہیں تجارت کے لیے گئے تو چند ایک غلام خرید کر لائے اور اُن میں سے ایک غلام اپنی پھوپھی کی نذر کیا۔ اُس کا نام زیدؔ بن حارثہ تھا۔ زیدؔ دراصل ایک آزاد خاندان کا لڑکا تھا مگر کسی لوٹ مار میں قید ہو کر غلام بنا لیا گیا تھا۔ خدیجہ ؓ نے زیدؔ کو ایک ہوشیار اور ہونہار لڑکا پاکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سُپرد کر دیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہ دستور تھا کہ اپنے غلاموں اور خادموں کو نہایت محبت اور پیار کے ساتھ رکھتے تھے اور اُن سے اپنے رشتہ داروں کی طرح سلوک کرتے تھے؛ چنانچہ زیدؔ کے ساتھ بھی آپؐ کو محبت تھی اور زیدؔ چونکہ ایک وفادار دل رکھتا تھا، اس لئے اُسے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت ارادت ہو گئی۔ اُسی زمانہ میں زیدؔ کا باپ حارثہؔ اور اس کا چچا کعبؔ زیدؔ کا پتہ لیتے لیتے مکہ آنکلے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے عاجزی سے استدعا کی کہ زیدؔ کو رہا کر کے اُن کے ساتھ بھیج دیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اگر زیدؔ جانا چاہے تو میری طرف سے بخوشی اجازت ہے۔‘‘ اِس پر زیدؔ کو بلایا گیا اور آپؐ نے اُسے کہا۔ ’’زیدؔ تم ان کو پہچانتے ہو کہ یہ کون ہیں؟ ‘‘ اُس نے عرض کی۔’’ہاں یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔’’یہ تم کو لینے آئے ہیں۔ اگر تم جانا چاہتے ہو تو میری طرف سے تم کو بخوشی اجازت ہے۔‘‘ زیدؔ نے جواب دیا۔’’مَیں آپؐ کو چھوڑ کر ہر گز نہیں جاؤں گا۔ آپؐ میرے لیے میرے چچا اور باپ سے بڑھ کر ہیں۔‘‘ زیدؔ کا باپ غصّہ میں بولا۔ ’’ہیں! تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟‘‘ زیدؔ نے کہا۔ ’’ہاں! کیونکہ مَیں نے ان میں ایسی خوبیاں دیکھی ہیں کہ اب مَیں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔‘‘
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب زیدؔ کا یہ جواب سُنا، تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اور زیدؔ کو خانہ کعبہ کے پاس لے جاکر بلند آواز سے فرمایا۔’’لوگو! گواہ رہو کہ آج سے مَیں زید کو آزاد کرتا اور اسے اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ یہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔‘‘ زیدؔ کے والداور چچا نے یہ نظارہ دیکھا تو حیران رہ گئے اور زیدؔ کو بخوشی آپؐ کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔ اُس دن سے زیدؔ بجائے زیدؔ بن حارثہ کے زیدؔ بن محمد کہلانے لگے۔ ۱؎ لیکن ہجرت کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم اُترا کہ مُنہ بولا بیٹا بنانا جائز نہیں ہے ۲؎ تو زیدؔ کو پھر زیدؔ بن حارثہ ؔ کہا جانے لگا۔ مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا سلوک اور پیار اس وفادار خادم کے ساتھ وہی رہا جو پہلے تھا، بلکہ دن بدن ترقی کرتا گیا اور زیدؔ کی وفات کے بعد زیدؔ کے لڑکے اسامہؔ بن زید سے بھی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خادمہ امِّ ایمن کے بطن سے تھے آپؐ کا وہی سلوک اور وہی پیار تھا۔
زیدؔ کی خُصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام صحابہ میں سے صرف انہی کا نام قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ ۳؎
علی بن ابی طالب کا آنحضرت ؐ کے گھر آنا
ابو طالب ایک بہت باعزّت آدمی تھے، مگر غریب تھے اور بڑی تنگی سے اُن کا گذارہ چلتا تھا۔ خصوصاً
ان ایّام میں جب کہ مکّہ میں ایک قحط کی صورت تھی اُن کے دن بہت ہی تکلیف میں کٹتے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنے چچا کی اس تکلیف کودیکھا تو اپنے دُوسرے چچا عباس سے ایک دن فرمانے لگے چچا! آپ کے بھائی ابو طالب کی معیشت تنگ ہے۔ کیا اچھا ہو کہ اُن کے بیٹوں میں سے ایک کو آپ اپنے گھر لے جائیں اور ایک کو میں لے آؤں۔‘‘ عباسؔ نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر دونوں مل کر ابوطالب کے پاس گئے اور اُن کے سامنے یہ درخواست پیش کی ۔ اُن کو اپنی اولاد میں عقیلؔ سے بہت محبت تھی۔ کہنے لگے عقیل کو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جاؤ؛ چنانچہ جعفر کو عباس اپنے گھر لے آئے اور علی ؓ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پاس لے آئے۔ حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت قریباً چھ سات سال کی تھی۔ اس کے بعد علی ؓ ہمیشہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہے۔ ۱؎
صبح کی سفیدی
اب آپ ؐ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچ گئی تھی اور وقت آگیا تھا کہ صبح کی سفیدی اُفقِ مشرق میں نمودار ہو۔ یوں تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی بھی مکہ کی عام
سوسائٹی میں زیادہ خلا ملا نہیں کیا مگر ان ایّام میں خصوصاً آپؐ کی طبیعت کا یہ حال تھا کہ دن رات اﷲ تعالیٰ کی طلب اور اُس کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ مکّہ کے پاس شہر سے تین میل کے فاصلہ پر منیٰ کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب کوہِ حرا میں ایک غار ہے جس کو غارِ حراء کہتے ہیں۔ ان ایّام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا عام دستور تھا کہ وہاں جاتے اور غور و فکر اور یادِ خدا میں مشغول رہتے۔ عام طور پر کئی کئی دن کا کھانا ساتھ لے جاتے اور شہر میں نہ آتے۔ بعض اوقات حضرت خدیجہ ؓ بھی ساتھ جاتی تھیں۔یہی وہ زمانہ ہے جسے قرآن شریف میں تلاشِ حق کا زمانہ کہا گیا ہے؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔ ۲؎
’’یعنی اﷲ نے تجھے اپنی تلاش میں سرگردان و حیران پایا۔ پس اُس نے تجھ کو اپنی طرف آنے کا راستہ بتا دیا۔‘‘
اس زمانہ میں رؤیا صالحہ کا آغاز ہوا جس کا عرصہ چھ ماہ کا بیان ہوا ہے۔۳؎ گویا نبّوت کی ابتدائی سیڑھی تھی۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ:
اَوَّلَ مَا بُدِیََٔ بِہٖ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْیِ اَلرُّؤْ یَا الصَّا لِحَۃُ فِی النّوْمِ۔ وَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیًا اِلَّا جَائَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ وَحُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَائُ فَکَانَ یَخْلُو بِغَارِ حِرَائَ فَیَتَجَنَّثُ فِیْہِ وَھُوَا لتَّعْبُّدُاللَّیَالِیْ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ اَنْ یَنْزِعَ اِلٰٰی اَھْلِہٖ وَیَتَزَوَّدُ لِذَالِکَ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی خَدِیْجَۃَ خَدِیْجَۃَ فَیَتَزَوَّ دُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی جَا ئَ ہُ الْحَقُّ وَھُوَ فِیْ غَارِ حِرَائَ ۔ ۱؎
یعنی شروع شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو جس رنگ میں وحی کی ابتداء ہوئی وہ رؤیا صالحہ کی صورت میں تھی جو آپؐ نیند کی حالت میں دیکھتے تھے۔ ہر ایک رؤیا جو آپؐ دیکھتے تھے وہ صُبح کی سفیدی کی طرح پوری ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں آپؐ کو خلوت و تنہائی میں رہنا بہت محبوب تھا۔ آپؐ غارِ حرا میں جاتے اور وہاں کئی کئی رات عبادت کرتے رہتے پھر گھر آتے اور اپنے ساتھ کچھ اور زادلے جاتے۔ جب وہ ختم ہو جاتا تو پھر خدیجہ ؓ سے آکر لے جاتے۔ آپؐ اسی حالت میں تھے کہ آپؐ کے پاس خُدا کی طرف سے حق آگیا۔ اس وقت آپؐ غارِ حرا میں تھے۔

اِبتدائی زندگی پر ایک سرسری نظر
واقعات کی قلّت
اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوا لیکن طبیعت سَیْر نہیں اور ہاتھ سے قلم رکھنے کو جی نہیں چاہتا اور دل یہ محسوس کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ابتدائی چالیس سالہ زندگی کے واقعات اس تفصیل کے ساتھ محفوظ نہیں ہیں جیسا کہ بعد کے زمانہ کے محفوظ ہیں۔ ایک حد تک یہ ایک طبعی امر ہے کیونکہ جس نظر سے آپؐ کو نبوت کے زمانہ میں دیکھا جاتا تھا، وہ پہلے زمانہ میں موجود نہیں تھی لیکن پھر بھی اگر ابتدائی مؤرخین کی طرف سے آپؐ کی قبل از بعثت زندگی کے حالات پر زیادہ توجہ کے ساتھ نظر ڈالی جاتی اور زیادہ محنت اور زیادہ کوشش کے ساتھ واقعات کی تلاش کی جاتی تو بعض مزید حالات دریافت ہو سکتے تھے؛ تاہم جو کچھ بھی موجود ہے وہ دوسرے سابقہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اور وہ اس عظیم الشان پاک و بے لوث زندگی کا کافی و شافی ثبوت ہے جو آپؐ نے بعثت سے پہلے گذاری۔
آپؐ کی اُمیّت
ناظرین نے یہ بات نوٹ کی ہو گی کہ اِس چالیس سالہ زندگی میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ دراصل عرب میں تعلیم بہت ہی کم تھی اور اس
لحاظ سے شرفاء اور عوام میں بہت کم امتیاز تھا بلکہ بڑے بڑے سردار بھی عموماً اسی طرح اَن پڑھ اور ناخواندہ ہوتے تھے جس طرح عوام تھے۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ ملک میں پڑھے لکھے لوگ بھی کہیں کہیں پائے جاتے تھے اور ایسے لوگ مکّہ میں دوسرے مقامات کی نسبت قدرے زیادہ تھے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یہ ثابت ہے کہ آپؐ بالکل ناخواندہ اور اُمّی تھے۔ ۱؎ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی اُمیّت میں خدائی تصّرف کا بھی ہاتھ تھا تاکہ دُنیا میں آپؐ کے علمی معجزہ کی شان دوبالا ہو کر چمکے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ ٔ نبوت میں چونکہ اکثر مراسلات اور معاہدات وغیرہ آپؐ کے سامنے تیار ہوتے اور آپؐ کی نظر سے گذرتے رہتے تھے۔ اس لیے آپؐ کو اپنی عمر کے آخری حصہ میں کچھ حروف شناسی ہو گئی تھی؛ چنانچہ ایک حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ صُلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدہ لکھے جانے کے وقت آپؐ نے کفّار کی طرف سے اعتراض ہونے پر اپنے نام کے ساتھ سے ’’رسُول اﷲ‘‘ کے الفاظ خود اپنے ہاتھ سے کاٹ کر ان کی جگہ ’’ابن عبداﷲ‘‘ کے الفاظ لکھ دیئے تھے۔ ۱؎
یہ بالکل ممکن ہے کہ اس موقع پر جو مجرد کَتَبَ کا لفظ حدیث میں لکھ دینے کے لیے استعمال ہوا ہے اُس سے مراد لکھا دینے کے ہوں۔ کیونکہ بعض اوقات عام محاورہ میں لکھنے اور لکھوانے ہر دو کے لیے ایک ہی لفظ بول دیتے ہیں۔ اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدہ کا جو حصہ کاٹا وہ خود اپنے ہاتھ سے کاٹا مگر کاٹنے کے بعد جو کچھ لکھا گیا وہ آپؐ نے اپنے کاتب سے لکھوایا، لیکن بہرحال جو بھی مراد لی جاوے اس سے یقینا آپؐ کی اُمیّت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
حلقہ احباب
بعثت سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوستانہ تعلقات کا دائرہ بہت ہی محدود نظر آتا ہے۔ دراصل شروع سے ہی آپؐ کی طبیعت علیحدگی پسند تھی اور آپؐ نے اپنی عمر
کے کسی حِصّہ میں بھی مکّہ کی عام سوسائٹی میں زیادہ خلا ملا نہیں کیا؛ تاہم بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے ساتھ آپؐ کے دوستانہ تعلقات تھے۔ ان سب میں ممتاز حضرت ابو بکر ؓ یعنی عبداﷲ بن ابی قحافہ تھے۔ جو قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی شرافت اور قابلیّت کی وجہ سے قوم میں بڑی عزّت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ دوسرے درجہ پر حکیم بن حزام تھے جو حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے تھے۔ یہ نہایت شریف الطبع آدمی تھے۔ شروع شروع میں یہ اسلام نہیں لائے ، لیکن اس حالت میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت محبت اور اخلاص رکھتے تھے۔ آخر سعادتِ طبعی اسلام کی طرف کھینچ لائی۔ پھر زیدؔ بن عمرو سے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعلقات تھے۔ یہ صاحب حضرت عمر ؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زمانہ ٔ جاہلیّت میں ہی شِرک تَرک کر رکھا تھا اور اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی کی طرف منسوب کرتے تھے مگر یہ اسلام کے زمانہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔
بعثت سے پہلے آپؐ کا مذہب
اسلام اپنے تفصیلی مسائل کے ساتھ تو بہرحال بعد میں ہی اُترا ہے اس لیے بعثت سے پہلے اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کار
بند ہونے کا تو کوئی شخص مدعی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی ہوا ہے لیکن یہ بات تاریخ سے پایہ ٔ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ بمقتضائے فطرتِ صحیحہ آپؐ ہمیشہ عرب سوسائٹی کی گندی رسوم سے مجتنب رہے اور شرک بھی آپ نے کبھی نہیں کیا؛ چنانچہ زمانہ ٔ نبوت میں آپؐ حضرت عائشہ ؓسے فرماتے تھے کہ مَیں نے بتوں کے چڑھاوے کا کھانا کبھی نہیں کھایا۔ ۱؎ اور ایک روایت میں حضڑت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ یا رسُول اﷲ! کیا آپؐ نے کبھی بتوں کو پوجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں ۔ پھر لوگوں نے پوچھا کیا آپؐ نے کبھی شراب پی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا کہ مَیں ہمیشہ سے ان باتوں کو قابلِ نفرت سمجھتا رہا ہوں، لیکن اسلام سے پہلے مجھے شریعت اور ایمان کا کوئی علم نہیں تھا۔ ۲؎
آپؐ کے اخلاق و عادات
یہ بتایا جاچکا ہے کہ بعثت سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قریش کے اندرامین کے لقب سے مشہور تھے جو آپؐ کی امانت و دیانت اور
اخلاق فاضلہ کا بیّن ثبوت ہے۔ آپؐ کی راست گفتاری کا یہ حال تھا کہ ابو جہل جیسا معاند جو آپؐ کے خون کا پیاسا تھا ایک دفعہ زمانہ ٔ نبوت میں آپؐ کو مخاطب ہو کر کہنے لگا:
اِنَّا لَا نُکَذِّ بُکَ وَلٰکِنْ نُکَذِّ بُ بِمَا جِئْتَ بِہٖ۔ ۳؎
’’اے محمدؐ ! ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس بات کو جھوٹا کہتے ہیں جو تو لایا ہے۔‘‘
ابو سفیان ہر قل شہنشاہ روم کے سامنے پیش ہوا۔ تو ہرقل نے اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا:
ھَلْ کُنْتُمْ تَتَّھِمُوْ نَہٗ بِا لْکَذِبِ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ مَا قَالَ؟
’’کیا تم نے اس دعویٰ سے پہلے کبھی اس شخص کا کوئی جھوٹ دیکھا؟‘‘
ابو سفیان اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے برسر پیکار تھا لیکن اس سوال کے جواب میں اُسے بھی بجز ’’لا‘‘ یعنی ’’نہیں‘‘ کے کوئی جواب نہیں بن پڑا ۴؎ امیّہ بن خلف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ لیکن جب حضرت سعدؔ بن معاذ نے اس کو یہ خبر سُنائی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیری موت کی پیشگوئی کی ہے تو اُس کے اوسان خطا ہو گئے اور اس نے گھر جاکر اپنی بیوی سے یہ ذکر کیا اور کہا:
وَاﷲ مَا یَکْذِبُ مُحَمَّدٌ اِذَا حَدَثَ ۵؎
’’خُداکی قسم۔ محمد ؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘
پھر النظر بن الحارث اشد ترین معاندینِ اسلام میں سے تھا لیکن جب اس نے کسی شخص سے یہ کہتے سُنا کہ نعوذ باﷲ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) جھوٹا ہے تو بے اختیار ہو کر بولا:
قَدْ کَانَ مُحَمّدٌ فِیْکُمْ غُلَا مًا حَدَثًا اَرْضَاکُمْ فِیْکُمْ وَاَصْدَقُکُمْ حَدِیْثًا وَاَعْظّمُکُمْ اَمَانَۃً حَتّٰی اِذَا رَئَیْتُمْ فِیْ صُدْغَیْہِ الشَّیْبَ وَ جَائَ کُمْ بِمَا جَائَ کُمْ بِہٖ قُلْتُمْ سَاحِرٌ لَا وَاﷲِ مَا ھُوَ بِسَاحِرٍ۔ ۱؎
’’یعنی محمد ؐ تم میں ہی ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا تھا اور وہ تم سب میں سے زیادہ پسندیدہ اخلاق والا تھا اور سب سے زیادہ راست گو تھا اور سب سے زیادہ امین تھا اور اس کے متعلق تمہاری یہی رائے رہی۔ حتیٰ کہ جب تم نے اس کی زلفوں میں سفیدی دیکھی اور وہ پڑھاپے کو پہنچا اور وہ تمہارے پاس وہ کچھ لایا جو کہ وہ لایا تو تم یہ کہنے لگے کہ وہ ساحر ہے اور جھوٹا ہے۔ خُدا کی قسم وُہ جھوٹا اور ساحر تو ہر گز نہیں۔‘‘
اس سے النظرین الحارث کی بھی وہی مراد تھی جو ابو جہل نے کہا کہ ہم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس کے لائے ہوئے دین کو جھوٹا کہتے ہیں۔
پھر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام شروع کی اور ایک پہاڑی پر چڑھ کر قریش کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ’’اگر مَیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کی پچھلی وادی میں ایک بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟‘‘ تو باوجود اس کے کہ بظاہر یہ بات بالکل بعید از امکان تھی۔ سب نے کہا:
نَعَمْ مَا جَرَّ بْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا۔ ۲؎
’’ہاں ! ہم مانیں گے کیونکہ ہم نے تجھ کو ہمیشہ صادق پایا ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا:
’’تو پھر مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ اﷲ کا عذاب تمہارے قریب آرہا ہے جس سے اپنے بچاؤ کا سامان کر لو۔‘‘
یہ سب شہادتیں اشد ترین دشمنوں کی ہیں اور مومنوں کی طرف سے تو کسی شہادت کی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کا ایمان لانا ہی ایک زبردست مجسم شہادت ہے۔ لیکن مَیں اس موقع پر آپؐ کی زوجہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی شہادت دَرج کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہلی دفعہ خدائی فرشتہ وحی لے کر آیا اور آپؐ نے سخت گھبرا کر خدیجہ ؓ سے کہا کہ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے۔ تو خدیجہ ؓ نے جو محرمِ حال تھی بے ساختہ طور پر یہ الفاظ کہے کہ:
کَلَّا وَاﷲِ مَا یُخْزِیْکَ اﷲُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرِّ حْمَ وَتَصْدِقُ الْحَدِیْثَ وَتحْمِلُ الْکَلَّ و تکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نوََائِبِ الْحَقَّ۔ ۱؎
’’ہر گز نہیں ہرگز نہیں ! خدا کی قسم ! اﷲ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں اور صادق القول ہیں اور لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور آپؐ نے گمشدہ اخلاق کو اپنے اندر جمع کیا ہے اور آپؐ مہمان نواز ہیں اور حق کی راہ میں لوگوں کے مددگار ہوتے ہیں۔‘‘
یہ اس معزز خاتون کی شہادت ہے جو دن رات اُٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے آپؐ کو دیکھتی تھی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
 
Top