• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سیر روحانی ۔خلیفۃ المسیح الثانی ۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیر روحانی ۔ یونی کوڈ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
برادران! ا َاَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
’’سَیْرِروحانی‘‘میرے لیکچروں کامجموعہ ہے۔یہ لیکچر ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئے تھے ابھی مکمل نہیںہوئے۔ تفصیل اور محرّک ان لیکچروںکا اندرکے صفحات پربیان ہے اس لئے اس کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ایک جلد میںپہلے سال کالیکچر شائع ہؤا تھا اس کے بعد التواء ہوتا چلاگیا اَب ایک جلد میں ۱۹۳۸ء ،۱۹۴۰ ء اور ۱۹۴۱ء تین سالوں کے تین لیکچر اکٹھے شائع کئے جا رہے ہیں۔ پہلی مطبوعہ جلد بھی اسی جلد میںشامل کردی گئی ہے اور خیال ہے کہ تین جلدوں میںسب لیکچر شائع کر دئیے جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نافع الناس بنائے۔ ٰامِیْنَ
خاکسار
مرزا محمودا حمد
۲۳؍دسمبر ۱۹۵۴ء
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمّٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
سیر روحانی (۱)
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا
تشہّدتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
ایک اہم تاریخی سفر
میرا آج کا مضمون میرے اس سفر سے تعلق رکھتا ہے جو اس سال اکتوبر کے مہینہ میںمجھے پیش آیا۔ میںپہلے کام کے لئے قادیان سے
سندھ کی طرف گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کرسمندرکی ہوا کھانے کے لئے کراچی چلا گیا کیونکہ میرے گلے میںمزمن خراش کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مجھے سالہاسال تک کاسٹک لگوانا پڑتا رہا ہے۔کچھ عرصہ ہؤا مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ اب آپ کاسٹک لگانا چھوڑ دیں ور نہ گلے کا گوشت بِالکل جل جائے گا۔ چنانچہ میں نے اُس وقت سے کاسٹک لگوانا تو ترک کر دیا ہے مگر اور علاج ہمیشہ جاری رکھنے پڑتے ہیں ورنہ گلے اور سر میں درد ہوجاتی ہے ۔چونکہ ڈاکٹروں کی رائے میںاس مرض کیلئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہے اس لئے گزشتہ دو سال میںمَیں نے کراچی سے بمبئی کا سفر جہاز میںکیا۔ پہلے سفر میںاوّل تو تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میںنمایاں فائدہ ہؤا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اُس میں بہت کمی آگئی اس لئے اس سال میں نے پھر موقع نکالا ۔اِ س سفر میںمجھے یہ بھی خیال آیا کہ حیدر آباد دکن کے دوست مجھے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ میں کبھی وہاں بھی آئوں سو اِس دفعہ حیدرآباد کے دوستوں کی اگر یہ خواہش پوری ہو سکے تو مَیں اسے بھی پورا کردوں ۔ چنانچہ مَیںسندھ سے کراچی گیا،کراچی سے بمبئی ، بمبئی سے حیدرآباد، حیدرآباد سے آگرہ ، آگرہ سے دہلی اور دہلی سے قادیان آ گیا۔
حیدرآباد کاتاریخی گولکنڈہ کا قلعہ
حیدرآباد میں مَیں نے بعض نہایت اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کاقلعہ
بھی ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہؤا ہے اور اس کے گرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابلِ دید اشیاء ہیں۔ یہاں کسی زمانہ میںقطب شاہی حکومت ہؤا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا۔ یہ قلعہ حیدرآباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہؤا ہے یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقع ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حیدرآباد کے وہ دوست جو ہمیں قلعہ دکھانے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ چنانچہ خود انہوںنے شریفے لئے اور وہیںکھانے بیٹھ گئے مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے، جب میں واپس آیا تو مَیں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاںہیں؟ انہوںنے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں۔خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آ گئیں، مَیں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں؟ وہ کہنے لگیں اِنہوں نے ہمیں روکا تو تھا اورکہا تھا کہ اوپرمت جائو اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی، مگر ہمیںتو کوئی تکلیف نہیںہوئی شاید حیدرآبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ تو خیر ہم وہاں سے پِھر پِھرا کر واپس آ گئے۔ یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پرہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان وشوکت کا ایک پُرشوکت نشان ہے۔ اِس قلعہ کی چوٹی پر مَیں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاںہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک مسجد اِس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصّہ کے برابر تھی، پہلے تو مَیں سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب مَیں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اُس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کے لئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا اِس وجہ سے اُس نے نمازیوںکے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پرہزاروں مسجدیںبنا دیں، مجھے جب یہ معلوم ہؤا تو میرا دل بہت ہی متأثرہؤا اورمَیں نے سوچا کہ اُس وقت کے مسلمان کس قدر باجماعت نمازادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کے لئے آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تا کہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے۔ وہاں کا تاج محل دُنیا کے سات عجائبات میںسے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے، وہاں کا قلعہ فتح پورسیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میںسے تھے ان کا مقبرہ عالمِ ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں۔
مَیں نے ان میںسے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرّت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت اور عظمت کے ساتھ دنیا پرحکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج اور افسوس بھی ہؤا کہ آج مسلمان ذلیل ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں، فتح پور سیکری کا قلعہ درحقیقت مُغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔چند سال کے اندر اندر اکبر کا اس قدر زبردست قلعہ اور شہر تیار کردینا جس کے آثار کو اب تک امتدادِ زمانہ نہیں مٹا سکا بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دُوربین سے ہی اس کی حدوںکودیکھا جا سکتا ہے خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصّے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں۔ یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوںکوبہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بنا سکتا۔ مُغلیہ خاندان کے جو قلعے مَیں نے دیکھے ہیں ان میںسے درحقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دہلی کا قلعہ صرف محل ہیں قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پردیا گیا ہے۔ قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میںجنگی ضرورتوں کو مدِّنظررکھا گیا ہے۔ دہلی میں مَیں نے جامع مسجد دیکھی، دہلی کا قلعہ دیکھا ، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کامقام دیکھا، منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے،قطب صاحب کی لاٹ دیکھی ،حوضِ خاص دیکھا، پرانا قلعہ دیکھا، جنتر منتر دیکھا، تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا۔ ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی، اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا۔ جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کے لئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثارِ قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا، پُرانے سکّوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیںمحفوظ کر دیا ان کے کاموں کی ہم تعریف کرتے تھے۔
ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لُطف اُٹھایا۔ مَیں نے اپنے ظرف کے مطابق، میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق۔
عبرتناک نظارہ
یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گُم ہو جاتی تھی۔ مَیں مسلمانوں کے ماضی کودیکھتا اور حیران رہ جاتا تھا کہ انہوں نے کتنے
بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔ مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا، لیکن تغلق آباد کے قلعہ کودیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہؤا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے۔یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے، خاصّہ اوپرچڑھ کر اس میںداخل ہونا پڑتا ہے جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے مَیں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اُونچی ہو جاتی ہے جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’نواب مبارکہ بیگم ۱؎ ‘‘ اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امتہ الحئ مرحومہ کے بطن سے جومیری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں، مگر مَیں، میری ہمراہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپرچڑھے اور آخرایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی۔ یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی، اس کا قُطب اس کا پُرانا قلعہ، نئی اور پُرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گُھوررہا تھا۔مَیں اس جگہ پہنچ کر کھڑ ا ہوگیا اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتارہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دہلی پربطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاںچلے گئے، وہ کس قدر اولوالعزم ، کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوںنے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں، وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میںآئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے ، مگر آج ان کی اولادوں کاکیا حال ہے، کوئی ان میں سے بڑھئی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے۔
مَیں انہی خیالات میںتھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور مَیںکہیں کاکہیں جا پہنچا، سب عجائبات جو سفر میں مَیں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے، دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے، آخر وہ سب ایک اَور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے ۔ میں اس محویت کے عالَم میںکھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اِس کوکیا ہو گیا؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابّاجان!دیرہوگئی ہے میںاس آواز کو سن کر پھرواپس اِسی مادی دنیا میں آگیا، مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پُر تھا ، نہیں وہ خون ہورہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میںایک لذّت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملاہؤا تھا۔ مَیں نے افسوس سے اِس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ’’مَیں نے پالیا۔ مَیںنے پا لیا۔‘‘ جب مَیںنے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا‘‘ تواُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دوہزار سال پہلے گِیاؔ کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بُدھ کی تھی جب کہ وہ خداتعالیٰ کا قُرب اور اُس کا وِصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بُدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا،مگر محویت کی وجہ سے اس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا، یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ بُدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا۔ تب گوتم بُدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ’’مَیںنے پا لیا۔ مَیں نے پالیا۔‘‘ میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی۔ جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار مَیں نے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ میں نے پالیا۔‘‘
اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امۃ القیو م بیگم چلی آرہی تھی اُس نے کہا، ابّاجان! آپ نے کیا پالیا؟ میںنے کہا، میں نے بہت کچھ پالیا مگر مَیںاِس وقت تم کو نہیں بتا سکتا، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو مَیں جلسہ سالانہ پربتائوں گا کہ مَیں نے کیا پایا؟ اُس وقت تم بھی سُن لینا، سو آج میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مَیںنے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ مَیں نے اُس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان کرونگا اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پر کھولا گیا گو وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میںبھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فکر میںانسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے اس لئے اُس وقت تو اس پرچندمنٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے پس جو انکشاف اُس وقت ہؤا وہ بطور بیج کے تھا اور جو کچھ مَیںبیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میںاُس کی ترجمانی ہوگی اور اُس کی شاخیں اور اُس کے پتے اور اُس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پرپیش کئے جائیں گے۔ـ
اس سفر میں مَیں نے کیا کچھ دیکھا
اب مَیں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اُس وقت کے خیالات کے ساتھ ساتھ لے جانے کی کوشش
کرتا ہوں اور آپ کو بھی اپنی اس سیر میںشامل کرتا ہوں۔ جب میں اُس وسیع نظارہ کودیکھ رہا تھا اور سَلف کے کارنامے میر ے سامنے تھے، میرے دل نے کہا مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ دیکھی ہوئی چیزوں کی یاد میرے دل میںتازہ ہو رہی ہے کہ نہ صرف وہ نظارے بلکہ ابتدائی حصّۂ سفر کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے، اُس وقت مجھ پر ایک ربودگی کی حالت طاری تھی، مجھے کراچی کے نظارے بھی یادآ رہے تھے، مجھے حیدرآباد کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے، مجھے آگرہ کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے اور دہلی کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے تھے یہ تمام نظارے ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا مَیں کہُرمیں کھڑا ہوں اور ہر چیز دُھند لی ہو کر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ غرض میر ے دل نے کہا کہ مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ نظاروں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے جب یہ سوال میرے دل میںپیدا ہؤا تو میرے دل نے جواب دیا کہ:-
۱۔ میں نے قلعے دیکھے ہیں جن کے دو اَثر میرے دل پر پڑے ہیں۔ ایک یہ کہ ان قلعوں کے ذریعہ کیسے کیسے حفاظت کے سامان مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پیدا کئے گئے تھے دوسرے یہ کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے اور ان کو دوبارہ بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا اب کوئی نہیں۔
۲ ۔ پھر مَیں نے کہا دوسری چیزجو مَیں نے دیکھی ہے مُردہ بادشاہوں کے مقابر ہیں ، اُن بادشاہوں کے جو فوت ہو چکے ہیں مگر اُن کے مقبرے اُن کی یاد دلا رہے ہیں اور اُن کی شوکت کوہماری آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں۔
۳۔ تیسرے مَیں نے مساجد دیکھی ہیں ، نہایت خوبصورت مساجد، چھوٹی بھی اور بڑی بھی جو ہزاروں آدمیوں کو خداتعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع کرنے کے لئے کہیں سُرخ اور کہیں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
۴۔ چوتھے میں نے ایک وسیع اور بلند مینار دیکھا ہے، آسمان سے باتیں کرتا ہؤا جس کی بلندی کو دیکھ کر انسانی نظر مرعوب ہو جاتی ہے۔
۵۔ پانچویں مَیں نے نوبت خانے دیکھے ہیں جہاںموسیقی سے لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا، جہاں طبل او رنفیریاں بجتیں اور سپاہیوں کے دل اُچھلنے لگتے اور وہ جنگ کو جنگ نہیں بلکہ بچوں کا کھیل سمجھتے، اُن کے گھوڑے ہنہنانے لگتے اور اُن کا خون گرم ہو کرجسم میںدَوڑنے لگتا اور جہاں سے بادشاہ کے اعلان کو گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح نوبتوں کے ذریعہ دنیا کو سُنایا جاتا تھا۔
۶۔ چَھٹے مَیں نے باغات دیکھے ہیں جو کسی وقت اپنی سرسبزی وشادابی کی وجہ سے جنت نگاہ تھے اورآنکھوں کو سرور اور دلوں کولذّت بخشا کرتے تھے۔
۷۔ ساتویںمَیں نے کہا۔ مَیں نے دیوانِ عام دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے انصاف اورعدل سے اپنی رعایا کی تکلیفوں کو دُور کیا کرتے تھے اور آتے ہی اعلان کر دیاکرتے تھے کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہؤا ہو وہ ہمارے پاس فوراً شکایت کر ے جس پر امیر وغریب حتّٰی کہ بھنگی اور چمار بھی آتا اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتا۔
۸۔ آٹھویں مَیںنے دیوانِ خاص دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے خاص درباریوں سے راز ونیاز کی باتیں کیا کرتے تھے۔
۹۔ نویںمیں نے نہریں دیکھی ہیں جو اِدھر سے اُدھر پانی پہنچایا کرتی تھیں اور پیاسے درختوں کونئی زندگی بخشتی تھیں اور جن سے سیراب ہو کر درخت لہرا لہرا کر اپنی بہار دکھایا کرتے تھے۔
۱۰۔ دسویں مَیں نے لنگرخانے دیکھے ہیںجن سے بادشاہوں کے ہم مذہبوں اور اُس کے مذہبی مخالفوں کو بھی الگ الگ کھانے تقسیم ہؤا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے الگ لنگرخانے ہؤا کرتے تھے اور غیر مذاہب والوں کے الگ۔مسلمانوں کے لنگرخانوں میںمسلمان تقسیم کرنے والے ہوتے اورغیر مذاہب کے لنگرخانوں میں غیرمُسلم تقسیم کرنے پر مقرر ہوتے۔
۱۱۔گیارہویں میں نے دفتر دیکھے ہیںجہاں تمام ریکارڈ رکھے جاتے تھے اورہر ضروری امر کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔
۱۲۔ بارھویں مَیں نے کُتب خانے دیکھے ہیںجہاں پُرانی کتب کے تراجم ہوتے تھے اور پرانے علوم کو محفوظ کیاجاتا تھا۔
۱۳۔ تیرھویں مَیں نے بازار دیکھے ہیں جہاں ہر چیز جس کی انسان کو ضرورت ہو فروخت ہوتی تھی۔
۱۴۔ چودھویں مَیں نے جنتر منتر دیکھا ہے جو ستاروں کی گردشیں معلوم کرتا تھا اور حسابِ سنین کو بتاتا تھا یا آئندہ کے تغیّرپرروشنی ڈالتا تھا۔
۱۵۔ پندرھویں مَیں نے ایک وسیع سمندر بھی دیکھا ہے جس کاکنارہ تو ہے مگر اُس کا اندازہ لگانا انسانی فطرت کی طاقت سے بالا ہے اور جہاز میںبیٹھنے والا اُسے بے کِنار ہی سمجھتا ہے جس کے راز دریافت کرنے اور اُس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہزاروں بڑے بڑے جہاز جوبعض دفعہ ایک ایک گائوں کے برابر ہوتے ہیں اور دودو ہزار آدمی اس میںبیک وقت بیٹھ جاتے ہیں ہر وقت اُس میںچلتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وسیع شہر میں ایک چیونٹی پھر رہی ہے۔
۱۶۔ سولھویں مَیں نے آثارِ قدیمہ کے محکموں کے وہ کمرے دیکھے ہیں جہاں قدیم چیزیں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں،کہیں زمین کھود کرانہوں نے سِکّے نکالے ، کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے کاغذات دستیاب کئے اور کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے برتن نکالے اور اس طرح پُرانے زمانہ کے تمدّن اور تہذیب کا نقشہ انہوں نے ان چیزوں کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا، یہ تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھی تھیں۔ پس مَیں نے آثارِ قدیمہ کی ان محنتوں کو بھی دیکھا اور پُرانے آثار کو نکال کردنیا کے سامنے پیش کرنے پرمیرے دل نے ان کے کام پرآفرین کہی۔
ایک نئی دنیا جو میری آنکھوں کے سامنے آئی
یہ امور تفصیلاً یااجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر
میر ے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے، کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں، کیا ان سے بڑھ کر مفیدکام تو نے نہیںدیکھے اور کیا ان سے بڑھ کر عبرت کے نظارے تو نے نہیں دیکھے؟ اور اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ گزرنے لگ گئی۔ مَیں اس نئی دنیا کے آثارِ قدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہؤا تو مَیں نے ایسے ایسے عظیم الشان آثارِ قدیمہ دیکھے جو اِن آثارِ قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا بلکہ ایک فوق العادت کارنامہ آثارِ قدیمہ کی دریافت کا میرے سامنے آ گیا، ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے بالا ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہؤا، بڑے بڑے غیرمعمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں ،بے کِنار سمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگرخانے ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، بازار،لنگرخانے،کتب خانے، دفتر، بے انتہاء بلند مینار اور غیرمحدود وُسعت والی مسجد، دلوں کو دہلادینے والے مقبرے اور مِسمار شُدہ یادگاریں ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہو ئیں اور مَیں نے کہا اُف مَیں کہاں آ گیا۔ یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں، تمام دنیا کے پاس موجود ہیں،لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیںدیکھتی اور بچوں کی طرح کھلونوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔ میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پرکہ مَیں یہ چیزیں دنیاکو دکھانے سے قاصر ہوں، میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے توجّہی پر، مگر میرا دل مسرور بھی تھا اُس خزانے کے پانے پر، اُن امکانات پر کہ ایک دن مَیں یا خدا کاکوئی اور بندہ یہ مخفی خزانے دنیاکو دکھانے میںکامیاب ہو جائے گا اورمَیں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو بے اختیار یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا۔ ہا ںہاںیہ یقینی بات ہے کہ تغلق کے قلعہ میں مَیں نے ایک اَور دنیا کو پالیا، ایک بالا دنیا ، ایک بالاطاقت کے نشانات اور مَیں پہلے اس دنیا میں کھویا گیا، پھر مَیں نے ایک اور دنیا کو جو اس سے کہیں زیادہ شاندار ،کہیں زیادہ وسیع،کہیں زیادہ پائیدار اور پھر ایک لحاظ سے بوسیدہ کھنڈر اور تباہ حال تھی، اُسے دیکھااُسے پایا۔ اس خستہ حالی پر میرا دل رویا اس کی شان اور پائیداری سے میر ا دل مسرور ہؤا۔ اب آئو مَیں اس کے کچھ حصّہ کی آپ کوسیر کراتا ہوں۔
۱۔آثار ِ قدیمہ
پہلے مَیں آثارِ قدیمہ کو لیتا ہوں ، مگر چونکہ ہماری جماعت کے بہت سے زمیندار اصحاب آثارِقدیمہ کا مفہوم نہیں سمجھتے ہوں گے اس لئے اُن کی واقفیت کے لئے مَیںیہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ اثر کے معنے نشان کے ہوتے ہیں، اُردو میںبھی کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، آثار اس کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیںبہت سے نشانات ،قدیمہ کے معنی پُرانے کے ہیں۔ پس آثارِ قدیمہ کے معنی ہوئے پُرانی چیزوں کے نشانات ، وہ عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں یاپُرانے سکوّں ،پُرانے کپڑوں ، پُرانے برتنوں اور پُرانے کاغذوں کومہیا کرنے کے لئے یہ محکمہ گورنمنٹ نے بنایا ہؤا ہے اور اس کاکام ہے کہ خواہ اسے زمین میں دبی ہوئی عمارتیں مل جائیں یا کاغذات مل جائیں یا سکّے مل جائیں انہیں محفوظ کر دے۔ پس یہ محکمہ پُرانی یادگاروں کو تلاش کر کے ان سے پُرانے تمدّن ،پُرانے حالات اور پُرانی ترقیات پرروشنی ڈالتا ہے اور ان کو دنیا میں قائم اور زندہ رکھتا ہے۔ایسے آثارِ قدیمہ کے کمروں میں بعض بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاںزمانہ کے ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگ کس قسم کے کپڑے بُنا کرتے تھے،صنّاعی کیسی تھی، یاکچھ پُرانے سکّے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ہتھیار رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے کاغذات رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ٹُوٹے ہوئے گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ ٹُوٹی ہوئی چپلیاں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کپڑا دو ہزار سال پہلے کا ہے، یہ سکہّ آج سے تین ہزار سال پہلے استعمال ہوتا تھا ۔غرض ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے ایک عجائب خانہ بنا دیتے ہیں۔امریکہ تک سے لوگ آتے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور جس کسی نے کوئی پُرانا چیتھڑا یا کوئی دونی اٹھنّی تلاش کر کے دی ہوتی ہے اس کی بڑی تعریف ہوتی ہے۔ کہتے ہیں فلاں تو علّامہ ہیں ان کا کیا کہنا ہے، انہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے کی استعمال ہونے والی اٹھنّی بڑی تلاش سے دستیاب کی ہے اور فلاں عجائب خانہ میںپڑی ہے۔ غرض چند ٹوٹی ہوئی عمارتیں جو زمین میںدب کر نظروں سے غائب ہو گئی تھیں ، چند ٹوٹے ہوئے کتبے، کچھ بوسیدہ کپڑے، کچھ گھِسے ہوئے سکّے،مٹّی اور پتھر کے برتن، پھَٹے ہوئے بوسیدہ کاغذات اور دستاویزات محکمہ آثارِ قدیمہ کی کُل کائنات ہوتے ہیں،جن کو جوڑ جاڑکر زمانۂ سلف کے حالات کو یہ محکمہ اخذ کرتا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور عالِم وجاہل اس کی محنت کی داد دیتے اور اس کے کارناموںکو عزّت سے بیان کرتے ہیں۔مَیں بھی ان سے متأثر ہؤا، مگر تغلق کے قلعہ میںجو آثارِ قدیمہ مَیں نے دیکھے انہوں نے ان آثارِقدیمہ کو میری نگاہ میں بالکل بے حقیقت بنا دیاکیونکہ وہ ان سے بہت پُرانے، بہت وسیع، بہت متنوّع اور بہت ہی مفید تھے۔
اب میںاس آثارِ قدیمہ کے دفتر میں آپ کو بھی لے جاتا ہوں اور اس کی ایک دریافت اور تحقیق کو کسی قدر بسط سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور بعض کو اختصار سے پیش کرتا ہوں۔
یہ امر ظاہر ہے کہ انسانی آثار میں سے سب سے پُرانے آثار وہی ہیں جو انسان کی ابتدائی پیدائش اور اس کے ابتدائی کاموں سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی آثار ہوں خواہ وہ ہزاروں سال کے ہوں بہرحال بعد ہی کے ہوں گے اور آثارِ قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے گھٹیا قسم کے۔پس میںاس محکمہ کی ایسی ہی تحقیقات کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اس محکمہ آثارِ قدیمہ کا نام ہے قرآن اور ا س کے انچارج کانام ہے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ اس محکمہ میں جو آثارِ قدیمہ مَیں نے سب سے پہلے زمانے کے دیکھے اور جن کی گرد کو بھی موجودہ آثارِ قدیمہ نہیں پہنچتے، ان کی ایک مثال ذیل میں مَیں پیش کرتا ہوں۔
دُنیا کس طرح پیدا ہوئی؟
لوگ حیران ہیںکہ دُنیا کس طرح پیداہوئی؟ پہلا انسان کون تھا؟ وہ کس تمدّن پر عمل پیرا تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا
میں پیدا ہؤا؟ اور اس نے کس طرح اس دنیا کو چلایا؟ مَیں نے قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہمیشہ دیکھا ہے ، مشکل سے مشکل آیت کا مَیں مفہوم بیان کر رہا ہوتا ہوں تو لوگ بڑے مزے سے اُسے سُنتے رہتے ہیں، مگر جہاں آدم اورشیطان کا قصّہ آیا سوالات کی مجھ پریوں بھرمار شروع ہو جاتی ہے کہ میںخیال کرتا ہوں آدم کے بچے مجھے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد انہیں ان کے اباجان کی گود میں بٹھاآئوں تولوگوں کے دلوں میں آدم والے واقعہ کے متعلق بے انتہاء جستجو پائی جاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کیا کھاتے تھے، کیا پہنتے تھے کہاں رہتے تھے؟ اور یہ صرف مسلمانوں میںہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں میںجستجو پائی جاتی ہے۔
ہندوئوں کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہندوئوں کی تو ساری میتھالوجی اور ان کی ساری بحثیں ہی دنیا کی پیدائش پر
ہیں کہیںلکھا ہے کہ برہما جی نہانے گئے تو اُن کی جٹا میں سے جو قطرے گِرے اُس سے گنگابہہ نکلی، کہیں دنیا کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو اِس رنگ میں کہ فلاں دیوتا کی فلاں سے لڑائی ہوئی، دوسرا دیوتا جب مارا گیا تو اُس کی ٹانگوں سے زمین اور اُس کے ہاتھوں سے چاند وغیرہ بن گئے، گویا ہر شخص کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ معلوم کرے یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کو ن تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا میںپیدا ہؤا ؟ اور کس طرح اس نے اس دنیا کو چلایا؟
تورات کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
تورات نے اس بارے میں جو نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، مَیں سب سے
پہلے وہی آپ لوگوں کوسناتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تورات دنیا کی پیدائش کس طرح بتاتی ہے۔
تورات میں لکھا ہے:-
’’زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہرائو کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جُنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اُجالا ہو اور اُجالا ہو گیا اور خدا نے اُجالے کو دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کیا اور خدا نے اُجالے کو دن کہا اور اندھیرے کو رات کہا، سو شام اور صبح پہلا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہووے اور پانیوں کو پانیوں سے جُدا کرے۔ تب خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانیوں کو فضا کے اوپر کے پانیوں سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے فضا کوآسمان کہا سوشام اور صبح دوسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہوویں کہ خشکی نظر آوے اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جمع ہوئے پانیوں کو سمندر کہا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور نباتات کو جو بیج رکھتیں اور میوہ دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلتے جو زمین پر آپ میںبیج رکھتے ہیں اُگاوے اور ایسا ہی ہو گیا۔ تب زمین نے گھاس اور نباتات کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق بیج رکھتیں اور درختوں کو جو پھل لاتے ہیں جن کے بیج اُن کی جنس کے موافق اُن میں ہیں اُگایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح تیسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کی فضا میں نیّر ہوں کہ دن اور رات میںفرق کریں اور وے نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے باعث ہوں اور وے آسمان کی فضا میں انوار کے لئے ہوویں کہ زمین پرروشنی بخشیں اور ایسا ہی ہو گیا، سو خدا نے دو بڑے نور بنائے، ایک نیّرِ اعظم جو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّرِاصغر جو رات پرحکومت کرے اور ستاروں کو بھی بنایا اور خدا نے ان کوآسمان کی فضا میں رکھا کہ زمین پرروشنی بخشیں اور دن پر اور رات پر حکومت کریںاور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریںاور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سو شام اور صبح چوتھا دن ہو ا‘‘۔ ۲؎ (گویا تورات کے بیان کے مطابق رات دن پہلے بنے ہیں مگر سورج چاند بعد میںبنے ہیں، اسی طرح گھاس نباتات اور درخت پہلے اُگے ہیں مگر سورج وغیرہ جن کی شُعاعوں کی مدد سے یہ چیزیں اُگتی ہیں بعد میں بنائے گئے ہیں، کیونکہ لکھا ہے کہ جب گھاس اُگ چُکا، میوہ دار درخت تیار ہو چکے ، نباتات ظاہر ہو گئی رات دن بن گئے تو اس کے بعد خدا نے دو بڑے نور بنائے۔ ایک نیّرِاعظم جو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّرِاصغر جو رات پر حکومت کرے)
تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں کہ وے سمندر کی مچھلیوں پراور آسمان کے پرندوں پراور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سرداری کریںاور خدا نے انسان کو اپنی صورت پرپیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیداکیا،نر وناری ان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو برکت دی اور خدا نے انہیںکہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پرجو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو ۳؎
اور خداوند خدا نے عدن میںپورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۴؎
اور خداوندخدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر، لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بنائوں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا۔ پرآدم کو اس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میںسے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اُس پسلی سے جو اُ س نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میںسے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلاوے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ‘‘۔ ۵؎
یہ تورات کا نظریہ ہے جو اس نے پیدائش عالم کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ڈارون۶؎ کی تھیوری انسانی پیدائش کے متعلق
اُنیسویں صدی عیسوی میںجب اِس مسئلہ پرزیادہ غور کیاگیا اور علومِ جدیدہ
کے ذریعہ نئی نئی تحقیقاتیں ہوئیں تو سب سے پہلے ایک انگریز نے جس کا نام ڈارون تھا انسانی پیدائش کے متعلق ایک نئی تھیوری پیش کی، اُس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ:-
(۱) انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائیبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میںایک شخص کو بنا کر کھڑا کر دیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میںانسان تیار ہؤا ہے۔
(۲) دوسرے اُس نے یہ مسئلہ نکالا کہ انسان نے جو ترقی کی ہے یہ جانوروں سے کی ہے پہلے دنیا میںچھوٹے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے، پھر اس سے بڑے جانور بنے اور پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا،مگر جس جانور سے ترقی کر کے انسان بنا ہے وہ اب نہیں ملتا کیونکہ یہ کڑی غائب ہے ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اسی جانور کی ایک اعلیٰ قسم بندر ہے۔ گویا ڈارون نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ انسان گواِر تقائی قانون کے مطابق بنا ہے مگر اس کایہ ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہؤا ہے جس کی آخری کڑی اب مفقود ہے جس میں سے بعض خاص قسم کے بندر اورانسان نکلے ۔
پہلے امر کی دلیل کہ انسان یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں میںتیار ہؤا ہے وہ یہ دیتا ہے کہ مختلف زمانوں کے انسانوں کی جو کھوپڑیاں اور جسم وغیرہ ملے ہیں ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کھوپڑیوں اور جسموں کا آپس میں بہت بڑا فرق ہے پس یہ خیال کرنا کہ آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان اسی طرح تھا جس طرح آج ہے غلط ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو جسموں، ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ میں کوئی فرق نہ ہوتا، مگر انسانی جسم کی جو بہت پُرانی ہڈیاں نکلی ہیں ان ہڈیوں کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اور موجودہ انسانی جسم کی ہڈیوں میںبہت بڑا فرق ہے۔ اسی طرح موجودہ انسانی دماغ اور پُرانے انسانی دماغ میںبھی بہت بڑا فرق نظر آتا ہے پس مختلف زمانوں کے انسانوں کی کھوپڑیوں اور جسم کی ہڈیوں کا اختلاف اس امر کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے ماتحت بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا۔ دوسری دلیل اس فلسفہ کے معتقد اس ارتقاء کی یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میںجب جنین کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس جنینکو اپنی ابتدائی حالتوں میںمختلف قسم کے جانوروں سے مشابہت ہوتی ہے۔ کبھی وہ جنین خرگوش سے مشابہ ہوتا ہے ۔کبھی مچھلی سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور جانور سے۔ یہ رحمِ مادر میں بچے کی پیدائش کی مختلف کیفیات دراصل ابتدائے خَلق کی ہی کیفیات ہیں۔یعنی پچھلے زمانہ میں جن جن جانوروں کی شکل میں سے انسان گزرا ہے، ان ساری شکلوں میں سے ایک بچے کو رحمِ مادر میں سے گزرنا پڑتا ہے۔تیسری دلیل اس ارتقاء کی یہ دی جاتی ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میںایسی کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں جو اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور انسان کو جسم اپنی منفردانہ حیثیت میںنہیں ملا بلکہ جانوروں کے جسم سے ترقی کر کے اُسے ایک اور جسم حاصل ہؤا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس امر کے ثبوت کے لئے گوریلا وغیرہ قسم کے بندروں کو دیکھ لیا جائے اُن کی انسان سے اتنی شدید مشابہت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ الگ بنے ہیں اور یہ الگ ،گویا ارتقاء کی تیسری دلیل وہ مشابہتیں دیتے ہیں جو انسان کو بعض دوسرے جانوروں سے اور دوسرے جانوروں کو آپس میں یا اپنے سے نیچے کے جانوروں سے ہیں۔
دوسرا دعویٰ ڈارون نے یہ کیا تھا کہ انسان اور بندر کا ارتقاء ایک جانور سے ہؤا ہے جو اب مفقود ہے۔ اس کے ثبوت میںوہ یہ امر پیش کرتا ہے کہ بندروں کی بعض اقسام کو انسان سے انتہائی مشابہت ہے مگر وہ کہتا ہے کہ درمیان میں ایک کڑی غائب ہو گئی ہے اور اس مفقود کڑی کا ثبوت وہ فاصلہ ہے جو طبعی طور پر بندروں کی موجودہ قسم اور انسان میں،اور بندروں اور ان سے ادنیٰ قسم کے جانوروں میں نہ پایا جانا چاہئے تھا مگر چونکہ ہمیں ایک طرف بندروں اور انسان میںانتہائی مشابہت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بندروں اور ان سے نچلے درجہ کے جانوروں میںایک فاصلہ نظر آتا ہے جو طبعی طور پر نہیں پایا جانا چاہئیے تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو گئی ہے جس سے انسان اور بندر نے ترقی کر کے اپنی موجودہ شکل کو اختیار کیا، تبھی یہ زنجیر مکمل نہیں بنتی۔
ہیکل کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہیکل۷؎ ایک اور مفکّر ہے وہ ڈارون کے اِس فلسفہ پرغور کرنے کے بعد اِس نتیجہ پر پہنچا
ہے کہ وہ جانور جو ہمیں نہیں ملتا اُس کانام لیپوٹائیلو (LIPOTYLU) ہے۔ یہ جانور درمیان میں سے غائب ہو گیا ہے اگر یہ مل جائے تو وہ کڑی جو درمیان سے ٹوٹتی ہے مکمل ہو جائے اور انسانی ارتقاء کے مسئلہ میںکوئی بات مُبہم نہ رہے۔ اس قسم کے اکثر مفکّر گوریلا اور چِمپنزی (CHIMPANZEE) قسم کے بندروں کے آباء کو انسانی نسل کے آباء قرار دیتے ہیں۔
جب ڈارون نے انسانی پیدائش کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا تو انگریزوں میں سے ہی بعض نے اس فلسفہ پراعتراض کیا اور کہا کہ انسان اور گوریلا میںاس قدر اختلاف ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی صورت میںبھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گوریلا وغیرہ اقسام کے بندروں کے آباء ہی انسانی نسل کے آباء تھے اس پر ہکسلے۸؎ نے انہی اختلافات کو جو انسان اور گوریلا میںہیں اور جو پہلے ارتقاء کے خلاف پیش کئے جاتے تھے ارتقاء کے ثبوت میںپیش کر دیا اس طرح کہ اس نے کہا کہ جو اختلاف انسان اور گوریلا میں ہے اس سے بہت زیادہ اختلاف گوریلا اور بعض دوسری قسم کے بندروں میںہے، اب بتائو کہ اس اختلاف کے باوجود تم ان سب کو بندر مانتے ہو یا نہیں؟ جب مانتے ہو تو اگر ارتقاء میںبعض بندر بعض دوسرے بندروں سے اس قدر دُور جا سکتے ہیں توکیوں انسان گوریلا سے دُور نہیں جا سکتا۔ پس یہ اختلاف ارتقاء کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک ثبوت ہے۔
موجودہ زمانہ کی تحقیق
موجودہ تحقیق جو قریب زمانہ میں ہوئی ہے اور جس کے مؤیّد ایک تو پروفیسر جونز ہیں اور ایک ڈاکٹر آسبرن ۔ وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ
گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا اور اُس وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا تھا۔ گویا انسان کی جانوروں سے جُدائی اُس بندر سے نہیں ہوئی جس بندر سے جُدائی ڈارون پیش کرتا ہے بلکہ اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی مگر بہرحال انسانی ترقی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی۔
انسانی تہذیب کے تین بڑے دَور
اس کے ساتھ ہی آثارِ قدیمہ والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسانی تہذیب پرتین دَور آئے ہیں۔
(۱) ایک دَور تو پتھروں کے استعمال کرنے کا تھا یعنی ابتداء میںجب انسان نے تہذیب وتمدّن کے دَور میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے تو اُس وقت چونکہ یہ جانوروں سے ہی ترقی کر کے انسان بنا تھا اور اس کے پنجے نہیں تھے جن سے دوسرے جانور کام لے لیا کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس کے تیز دانت تھے اس لئے اس نے اپنی حفاظت کیلئے پتھروں کا استعمال شروع کر دیا۔ پس پہلا دَور انسانی تہذیب پر پتھروں کے استعمال کا آیا ہے ۔
(۲) پھر پیتل کے استعمال کا دَور آیا ۔یعنی جب انسان نے اور زیادہ ترقی کی تو اس نے اپنی حفاظت کے لئے ڈھالیں وغیرہ بنالیں۔
(۳) اور تیسرا دَور لوہے کے استعمال کرنے کا تھا جب کہ انسان نے اپنی حفاظت کے لئے نیزے اور تلواریں وغیرہ ایجاد کیں۔
آثارِ قدیمہ والوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پُرانی عمارتوں کے کھودنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدیم زمانہ سے کسی نہ کسی تہذیب کا حامل ضرور رہا ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ
اب مَیں اُن آثارِ قدیمہ کوپیش کرتا ہوں جنہیںقرآن کریم نے انسان کی پیدائش اور
اس کی تہذیب کے بارہ میں پیش کیا۔
پہلا حوالہ اس بارہ میں سورۃ نوح کا ہے جہاں آثار ِ قدیمہ کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ مَالَکُمْ لَاتَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًاوَقَدْخَلَقَکُمْ اَطْوَارً۔اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَفِیْھِنَّ نُوْرًاوَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتاً ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیھْاَ وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا۹؎
موجودہ زمانہ میںجو تحقیق انسانی پیدائش کے متعلق کی گئی ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی جو تحقیق ہے اس کا کچھ ذکر ان آیات میں ہے جو ابھی مَیں نے پڑھی ہیں، ان آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ اے انسانو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بے حکمت کام نہیں کیا کرتا اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے تم اپنے متعلق تو یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص تمہیں یہ کہے کہ تم نے فلاں کام بیوقوفی کا کیا اور اگر کوئی کہے تو اِس پر بُرا مناتے ہو مگر تم خدا کے متعلق یہ کہتے رہتے ہو کہ اُس نے انسان کو بغیر کسی غرض کے پیدا کر دیا۔ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ وَقَدْخَلَقََکُمْ اَطْوَارًا اُس نے تمہیں یکدم پید ا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دَوروں میں سے گزارتے ہوئے بنایا ہے۔ اَلَمْ تَرَوْاکَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا o
کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کی مطابقت میںرہنے والا بنایا ہے اسی طرح اُس نے چاندبنایا اُس نے سورج بنایا۔ـ
وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا
اور انہیں دَوروں میںسے جن میں خداتعالیٰ نے تمہیں گزارا، ایک دَور یہ بھی تھا کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا اورآہستہ آہستہ تمہیںاپنے موجودہ کمال تک پہنچایا۔
پیدائشِ انسانی کے مختلف دَور
یہ ابتدائی پیدائش کا نقشہ ہے جوقرآن کریم نے کھینچا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ ارتقاء کا وہ مسئلہ جسے یورپ والے
آج پیش کر رہے ہیں قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ظاہر کر دیاتھا اور بتا دیا تھا کہ یہ صحیح نہیں کہ انسان یکدم پیدا ہو گیا یا خُدا نے یوں کیا ہوکہ مٹّی گوندھی اور اُس سے ایک انسانی بُت بنا کر اُس میں پھونک ماردی اور وہ چلتا پھرتا انسان بن گیا بلکہ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا اُس نے کئی دَوروں میںسے گزارتے ہوئے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ۔ اوریہ جو درجہ بدرجہ ترقی ہوئی ہے اس میں انسان کی پیدائش دراصل زمین سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہم اسے بڑھاتے بڑھاتے کہیں کا کہیں لے گئے ہیں۔ گویا اسلام نے صاف طور پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتادیا تھا کہ انسان یکدم نہیں بنابلکہ وہ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا کے مطابق کئی دَوروں میںتیار ہؤا ہے اور وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا کے مطابق سب سے پہلے وہ زمین سے تیار ہؤا ہے مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ دو باتیں پیش کی تھیں کہ انسان آہستہ آہستہ تیارہؤا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ زمین میں سے پیدا ہؤا ہے مگر مسلمانوں نے اِن دونوں باتوں کو ردّ کر دیا اور ایک طرف تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یکدم بنادیا تھا اور دوسری طرف اس امر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے انسان کو زمین میں سے تیارکیا ہے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے جنتِ سماوی میںپید ا کیا پھر زمین پر پھینک دیا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک روحوں کی تھیلی ہے وہ جس شخص کو زمین پر بھیجنا چاہتا ہے اُس کی روح چھوڑ دیتا ہے گویا جس طرح بٹیرے پکڑنے والے اپنی تھیلیوں میںسے ایک ایک بٹیرہ نکالتے جاتے ہیں، اسی طرح خدا پہلے ایک رُوح چھوڑتا ہے پھر دوسری پھر تیسری گویا اِس زمانہ کے علماء نے یہ ٹھیکہ لے لیا ہے کہ قرآن کریم میں جو بات لکھی ہو گی اس کے وہ ضرور خلاف کریں گے۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تسلیم کیا ہے کہ انسانی پیدائش آہستگی سے ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ اِس میں حکمت تھی۔ اگر پیدائش اِس رنگ میںنہ ہوتی تو بہت سے نقائص رہ جاتے مگر آجکل کے علماء اس بارہ میں جو کچھ عقیدہ رکھتے ہیں اس کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے ایک اُستاد نے لڑکوں کو بتایا کہ دنیا میںجو ہمیں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے ، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت اور کوئی درمیانی صورت رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پید اکرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ آئو مَیں انسان بنانے کا کسی کوٹھیکہ دے دُوں۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو ٹھیکہ دے دیا اور اُن سے کہا کہ مَیں شام تک تم سے اتنے آدمی لے لُوں گا ۔خیر پہلے تو وہ شوق اور محنت سے کام کرتے رہے اور انہوں نے بڑی محنت سے مٹّی گوندھی پھر نہایت احتیاط سے لوگوں کے ناک، کان، آنکھ، منہ اور دوسرے اعضاء بنائے اور اِس طرح دوپہر تک بڑی سرگرمی سے مشغول رہے، اِس دَوران میںجو آدمی ان کے ذریعہ تیار ہو گئے وہ نہایت حسین اور خوبصورت بنے مگر جب دوپہر ہو گئی اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی کام بہت رہتا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو انہوں نے جلدی جلدی کام شروع کر دیا اور کچھ زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام نہ لیا اور اس طرح عصر تک کام کرتے رہے اس دَوران میں جو لوگ تیار ہوئے وہ درمیانی شکلوں کے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ عصر ہو گئی ہے اور اب سورج غروب ہی ہونے والا ہے اور ٹھیکہ کے مطابق تعداد تیارنہیں ہوئی تو انہوں نے یوں کرنا شروع کردیا کہ مٹّی کا گولہ اُٹھائیںاور اُسے دو تھپکیاں دے کر بُت بنا کر مُنہ کی جگہ ایک اُنگلی مار دیں اور آنکھوں کی جگہ دو اُنگلیاں اور اس طرح جلدی جلدی آدمی بناتے جائیں یہ آدمی بدصورت بنے جو بدصورت قوموں کے آباء ہو گئے۔
اب یہ ہے تو دین سے تمسخر او ر استہزاء مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں میں پیدائشِ انسانی کے متعلق ایسے ہی خیالات رائج ہو چکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی طرح بنایا ہے کہ مٹّی کو گوندھا اور انسانی بُت بنا کر اس کے سوراخ بنا دئیے اور پھر ایک پھونک ماری اور وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا ، مگر اسلام یہ نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو کئی دَوروں سے گزارا ہے اور خاص حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بنایا ہے یہ نہیں کہ تمہیںیکدم بنا دیا ہو ۔
انسانی پیدائش کا دَورِ اوّل عدم سے شروع ہؤا
دوسری بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانی پیدائش کا
دَورِ اوّل عدم تھا۔ یہ اختلاف دنیا میںہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ دنیا کی ابتداء کس طرح ہوئی؟ آریہ کہتے ہیں کہ مادہ جس سے تمام دنیا کی تخلیق ہوئی یہ ازلی ہے۔ خدا نے صرف اتنا کیا ہے کہ مادہ اور رُوح کو جوڑ جاڑ دیا اور اس طرح انسان بن گیا، مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے مادہ ازلی نہیں بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور یہ کہ پہلے کچھ نہ تھا پھر خدا نے انسان کو پیدا کیا۔چنانچہ فرماتا ہے۔ اَوَلَایَذْکُرُالْاِنْسَانُ اَنَّاخَلَقْنٰـہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْئًا۱۰؎ کہ کیا انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم نے جب اُسے پیدا کیا تو وہ اُس وقت کوئی شئے بھی نہیں تھا۔ آجکل کی پیدائش اور قسم کی ہے آجکل نُطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس آیت میں جس خَلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ دَور سے بہت پہلے کی ہے۔ گویا ابتدائی حالت انسان کی عدم تھی۔ پھر خدا اسے عالمِ وجود میں لایا مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے وجود پیداہؤا بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر وجود ہؤا ۔ یہ دھوکا زیادہ تر ’’سے‘‘ کے لفظ سے لگتا ہے کیونکہ ’’سے ‘‘ کا لفظ اُردو زبان میں مادہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں لکڑی سے کھلونا بنایا یا لوہے سے زنجیر بنائی ۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے لکڑی اور لوہاموجود تھا جس سے اَور چیزیں بنائی گئیں۔ اس لئے جب مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو عدم سے بنایا تو غیرمذاہب والے اعتراض کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس سے خدا نے انسان کو بنایا کس طرح؟ پس یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے انسان بنا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر اس کا وجود ہؤا۔ پس خدا نے عدم سے انسان کو نہیں بنایا بلکہ اپنے حُکم کے ماتحت بنایا ہے مگر یہ کہ اُسے کس طرح بنایا ہے اس کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے سمجھنے کی انسان میں قابلیت نہیں۔ اگر انسان اس کو سمجھ سکتا تو وہ بھی انسا ن بنانے پر قادر ہوتا۔
وجودِ انسانی کے دَورِ ثانی کی کیفیت
انسان کا دَورِ ثانی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں انسانی وجود تو تھا مگر بِلادماغ کے۔
گویا انسانی وجود تو تھا مگر انسان نہ تھا اور نہ اس کی حالت کو سوچنے والا کوئی دماغ تھا، گویا دماغی ارتقاء سے پہلے کی حالت میںتھا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میںتھا یا نباتی رنگ میں۔مگر بہرحال خواہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں ہو خواہ نباتی رنگ میں، حیوانی رنگ میں نہیں تھا اور اس کا پتہ بھی قرآن کریم سے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِلَمْ یَکُنْ شَیْئًامَّذْکُوْرًا ۱۱؎ کہ کیا انسان کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ انسان پریقینا ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جب کہ وجودِ اِنسانی تو موجود تھا مگر مذکور نہیں تھا وہ یاد نہیں کیا جاتا تھا۔گویا حِسِّ شناخت جو انسان میںموجود ہے وہ اُس وقت نہیں تھی ۔ایک وجود موجود تھا مگر بغیر عقل اور بغیر شعور کے،ایک دوسرے کے متعلق اسے کوئی واقفیت نہ تھی۔ اسے کوئی علم نہ تھا کیونکہ یہ باتیں دماغ سے تعلق رکھتی ہیں اور دماغ دَورِ ثانی میںنہیںتھا۔
انسانی پیدائش کا تیسرادَور
تیسرا دَور قرآن کریم سے انسانی پیدائش کے متعلق وہ معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ ایسی شکل میں آیا کہ اس کی پیدائش نُطفہ
سے ہونے لگی یعنی مرد وعورت کے تعلق سے اور اُس وقت سے اس کے مزاج میںتنوّع پیدا ہؤا۔ حیوانوں میں سے بھی بعض حیوان نرو مادہ نہیں ہوتے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر انسان پر وہ دَور آیا جب کہ اُسے نر ومادہ میں تقسیم کر دیا گیایعنی حیوان بنا اور حیوان سے ترقی کر کے اُس حالت کو پہنچا کہ جب تناسل نُطفہ سے شروع ہو جاتی ہے جو بات کہ اعلیٰ درجہ کے حیوانوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے وہ ایسا حیوان بنا جو نُطفۂ اَمشاج سے بنتا ہے یعنی اس کے اندر مختلف قویٰ پیدا کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امر کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّاخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ ۱۲؎ کہ ہم نے انسان کو نُطفہ سے پیدا کیا جو مرکّب تھا اور جس کے اندر بہت سے اجزاء مِلائے گئے تھے کیونکہ ہم نے اس سے مرکّب قسم کا کام لینا تھا۔ پس چونکہ ہم نے اس سے مرکّب کا م لینا تھا اس لئے ہم نے نُطفہ میںبھی مرکّب طاقتیں رکھ دیںیہ تیسرا دَور ہے جو انسانی پیدائش پر آیا۔
انسانی پیدائش کا چوتھا دَور
چوتھا دَور انسانی پیدائش پر وہ آیا جب کہ انسانی دماغ کامل ہو گیا اور اس میںسمجھ اور ترقی کا مادہ پیدا ہو گیا گویا اب
دماغی ارتقاء اور دماغی قوتوں کے ظہور کا زمانہ آ گیا اور وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع اور بصیروجود بنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۱۳؎ اس دَور میںجب کہ انسانی پیدائش نُطفہ سے ہونے لگ گئی تھی اور وہ ذَکر واُنْثٰی بن گئے تھے ابھی ان میںانسانیت نہیں آئی تھی بلکہ حیوانیت ہی تھی کیونکہ گو نر ومادہ کی تمیز پیدا ہو گئی تھی مگر یہ تمیز حیوانوں میںبھی پائی جاتی ہے اس طرح گواُس دَور میں انسان باصر اور سامع تھا جیسا کہ حیوان بھی باصر اور سامع ہوتا ہے حیوان بھی دوسروں کو دیکھتا اور حیوان بھی آہٹ کو سُن لیتا ہے پس اس دَور میںوہ ایک حیوان تھا مگر اس کے بعد دَورِ رابع اس پروہ آیا جب کہ دماغی اور ذہنی ارتقاء کی وجہ سے تحقیق اور تجسُّسکا مادہ اس میںپیدا ہو گیا اور وہ بصیر اور سمیع بن گیا۔دیکھتا تو ایک جانور بھی ہے مگر وہ باصر ہوتا ہے بصیر نہیں ہوتا ۔ بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے اور کُرید، تحقیق اور ایجاد کامادہ اس میںموجود ہو اور یہ انسانی صفات ہی ہیں حیوانی نہیں۔ پس چوتھا دَور انسان پر وہ آیا جب کہ وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع وبصیر بنا یعنی کُرید، تحقیق ایجاد اور ترقی کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ حیوانی حالت سے ترقی کر کے حیوانِ ناطق بن گیا۔
یہ سب دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں، درمیانی زمانوں کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں وہ ضروری باتوں کا ذکر کر دیتا او رباقی امور کی دریافت کو انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے پس اِن چار دَوروں کا یہ مطلب نہیں کہ انسان پر یہی چار دَور آئے بلکہ یہ چار دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیںان کے درمیان اور بھی بہت سی کڑیاں ہیں چنانچہ بعض درمیانی کڑیوں کا حال بھی قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے مثلاً فرماتا ہے۔ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا ۱۴؎ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ وَاللّٰہُ اَنْبَتـَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا ہے اور یہاںیہ فرمایا ہے کہ خدا نے تمہیں خشک مٹی میںسے پیدا کیا ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ پھر نُطفہ سے پیدا کیا یہاں پھر درمیانی دَوروں اور درمیانی دَوروں کی مختلف کڑیوں کاذکر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ مَیں آگے چل کر ثابت کرونگا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واقعہ میں بعض دَور چھوڑ دیئے ہیں۔غرض فرماتا ہے پھر ہم نے نُطفہ بنایا اور تم نرو مادہ سے پیدا ہونے لگ گئے۔ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا پھر ہم نے تم کو انسانِ کامل بنایا ، ایک ایساانسان جو تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ نظام میںمُنسلک ہو گیا۔
لفظِ ازواج کی تشریح
یہاں ازواج کے معنے مردعورت کے نہیںکیونکہ پہلے نُطفے کاذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا اس نے تم کو
ازواج بنایا اگر ازواج کے معنے مرد عورت کے ہی ہوں تو ان الفاظ کے الگ لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ نُطفہ کے ذکر میں ہی یہ بات آ سکتی تھی کیونکہ نطفہ سے اسی وقت پیدائش ہوتی ہے جب مردعورت دونوںموجود ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے نطفہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ازواج سے مراد مردو عورت نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں اَزْوَاجاً سے مراد اقسام ہیں نہ کہ مرد وعورت ، ورنہ نطفہ تو ہوتا ہی زوج کے وقت سے ہے اور اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ زوج کے معنے عربی زبان میں صنف کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ مراد ہیں ، پس اَزْوَاجًاسے مراد اَصْنَافًا ہیں نہ کہ مرد وعورت اور مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری دماغی ترقی ہوئی تو تم میںمختلف قسم کے گروہ پیدا ہو گئے اور پارٹیاں بننی شروع ہو گئیں غرض اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان تُرابی حالت میں تھا یعنی جمادی حالت میں پھر اس پر ایک زمانہ آیا (درمیانی زمانہ کاذکراس جگہ چھوڑ دیا ہے) کہ وہ حیوانی صورت اختیار کر گیا اور مردوعورت سے اس کی پیدائش ہونے لگی(پھر درمیانی زمانہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے) پھر وہ زمانہ آیا کہ وہ ترقی کر کے تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ ایک نظام میں منسلک ہو گیا۔
اسی طرح درمیانی کڑیوں میںسے ایک کڑی طینی حالت بھی ہے جب کہ تُراب سے پانی ملا، چنانچہ حیاتِ انسانی کا مادہ پانی ہونے کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَيٍّ اَفَلایُؤْمِنُوْنَ۱۵؎ کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے اگر پانی نہ ہوتا تو حیاتِ انسانی کا مادہ بھی پیدا نہ ہوتا، پھر یہ کڑی کہ پانی مٹی سے ملا اور اس سے پیدائش ہوئی اس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَأَخَلْقَ الْاِ نْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۱۶؎ کہ خد ا نے انسان کو طین سے پیدا کیا۔ گویا پانی اور مٹی باہم ملائے گئے اور ان دونوں کے ملانے سے جو حالت پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں زندگی کا ذرّہ پیدا ہؤا اور ترقی کرتے کرتے انسان اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گیا۔
اس بات کا ثبوت کہ کڑیاں درمیان سے حذف بھی کر دی جاتی ہیں اس بات سے ملتا ہے کہ اوپر کی آیت میںبتایا ہے کہ انسان کی پیدائش اوّل طین سے ہوئی اس کے بعد فرماتا ہے۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّائٍ مَّھِیْن۱۷؎ کہ پیدائشِ ثانی طین سے نہیں بلکہ مَائٍ مَّھِیْنٍ یعنی نُطفہ سے ہوئی ہے اور ہم نے بجائے مٹی اور پانی کے نسلِ انسانی کے لئے نُطفہ کا سلسلہ جاری کر دیا ۔ جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّائٍ مَّھِیْنٍ۔ فَجَعَلْنٰـہٗ فِیْ فَرَارٍ مَّکِیْنٍ اِلٰی قَدَرٍمَّعْلُوْمٍ ۱۸؎ یعنی کیا ہم نے تم کو ایک کمزور او رحقیر پانی کی بوند سے پیدا نہیں کیا اور پھر اس کمزور اور حقیر بوند کو ایک قراروثبات کی جگہ میں ایک زمانہ تک رکھ کر پیدا نہیں کیا؟ پس صاف معلوم ہو گیا کہ مٹی کی حالت ایک وقت کی تھی پھر وہ وقت آیا جب کہ مٹی اور پانی ملایا گیا ، مگر نسلِ انسانی جو پیدا ہوئی ہے یہ مٹی سے نہیں بلکہ نُطفہ سے ہوئی ہے پس مٹی والا زمانہ اَور ہے پانی والا زمانہ اَور ہے اَور نُطفے والا زمانہ اَور ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق عام قرآنی اُصول
پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی۔
وَاَنَّہٗ ھُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی۔ وَاَنَّہٗ ھُوَاَمَاتَ وَاَحْیٰی۔ وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُ نْثٰی۔ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی۔ وَ اُنَّ عَلَیْہِ النَّشْاَ ۃَالْاُخْرٰی۱۹؎ کہ دیکھو تمہاری ابتداء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان وتر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دیدیا جائے تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جائو اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اِس تمام خَلق کے پیچھے نظر آئے گا۔ اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خداتعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی خداتعالیٰ پر ہے اور باریک در باریک ہوتے ہوئے آخر خداتعالیٰ پر سببِ اُولیٰ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ اوپر کی آیات جو مَیں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:-
(۱) انسان مادہَ ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کے ہاتھوں سے پیداکیا گیا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہؤا کہ وہ یکدم پیدا ہو گیا۔
(۳) تیسرے یہ کہ انسان، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے۔
(۴) چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دَور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی۔
(۵) پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میںآیا جب کہ اس میںزندگی پیدا ہو گئی تھی ، لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا۔
(۶) اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوانِ ناطق ہو گیا مگر ابھی چونکہ اس میںکچھ کسر باقی تھی اس لئے پھر
(۷) اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدّن انسان ہو گیا جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا۲۰؎ میں کیا ہے یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سِسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائے اس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سؤر اور کُتّے وغیرہ کرتے ہیں ۔ انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور نظام اور قانون کی ترقی شروع ہوئی۔
یہ چار بڑے بڑے دَور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی:-
(۱) جمادی دَور (۲) حیوانی دَور (۳) عقل کا دَور اور (۴) متمدّن انسان کا دَور ۔
ان کے درمیان اور بھی کڑیاں ہیں لیکن وہ حذف کر دی گئی ہیں۔
اس تمہید کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دَور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کی۔ جب تک اسے عقل حاصل نہیںتھی وہ ایک حیوان تھا گو خدا کے مدّنظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدّن انسان بنائے مگر بہرحال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیںکہلا سکتا تھا اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میںبچہّ ہوتا ہے۔ اب ماں کے پیٹ میںجب بچہّ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہّ ہی ہوتا ہے کُتاّ نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسانیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کئے تھے اور نہ ابھی تک ان میںعقل پیدا ہوئی تھی۔انسان کہلانے کا وہ اُسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی، لیکن اس دَور کو بھی حقیقی معنوں میں دَور ِ انسانیت نہیں کہاجا سکتاکیونکہ انسان کی کامل خصوصیّت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میںاصطلاحاً عقل والے دَور کوبشری دَورِ اوّل کہوںگا اور نظام والے دَور کو انسانی دَور کہوں گا۔یعنی پہلے دَور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دَور میں بشروانسان دونوں اُس کے نام تھے۔
آدمؑ سب سے پہلا کامل انسان تھا
اِس وقت تک جو مضمون بیان ہؤا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عقلی دَور دو حصوں میں
منقسم تھا ایک حصّہ تو وہ تھا کہ اس میںعقل تو تھی مگر انفرادی حیثیت رکھتی تھی تمدّنی ّ حِس نے ترقی نہ کی تھی اور وہ اکیلے اکیلے یا جوڑوں کی صورت میںزندگی بسر کرتا تھا ۔د وسرا دَور وہ آیا جبکہ تمدّنی حِس ترقی کر گئی تھی اور وہ ایک قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا یعنی وہ اس بات کے لئے تیار ہو گیا کہ ایک قانون کے ماتحت رہے جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ کسی پرحملہ نہیںکرنا تو ہر ایک کا فرض ہوکہ کسی پر حملہ نہ کرے، جب قانون یہ فیصلہ کردے کہ فلاں کو یہ سزا ملنی چاہئے تو اس کا فرض ہو کہ وہ اس سزا کوبخوشی برداشت کرے، جب یہ ّحِس اس میں ترقی کر گئی اور وہ قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا تو اُس وقت انسانِ کامل بنا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب انسانوں کے اندر یہ مادہ پیدا ہو گیا کہ وہ نظام اور قانون کی پابندی کریںاور انسانی دماغ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو اُس وقت سب سے پہلا شخص جس کا دماغ نہایت اعلیٰ طور پر مکمل ہؤا اُس کانام آدم ؑ تھا۔ گویا آدم جو خلیفۃ اللہ بنا وہ نہیں جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اسے مٹی سے گوندھا اور پھر اس میں پھونک مار کر اُسے یکدم چلتا پھرتا انسان بنا دیا بلکہ جب انسانوں میں تمدّنی روح پیدا ہو گئی تو اُس وقت جو شخص سب سے پہلے اس مقام کو پہنچا اور جس کے دماغی قوٰی کی تکمیل سب سے اعلیٰ اور اَرفع طور پر ہوئی اُس کا نام خدا تعالیٰ نے آدمؔ رکھا، مگر جب دیر سے ایک طریق چلا آ رہا ہو اُ س میںتبدیلی لوگ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے اسی لئے جب کامل انسانیت کی ابتداء ہوئی ناقص انسانوں کا بقیہ اس کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر تھاکیونکہ گو اُن میں عقل تھی مگر مادۂ تعاون وتمدّن ان میں مکمل نہ تھا۔ پس یقینا اُس وقت بہت بڑا فساد ہؤا ہو گا جیسے اگر ایک سِدھا ہؤا گھوڑا بے سدھے گھوڑے کے ساتھ جوت دیا جائے تو دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے۔ بے سِدھا گھوڑا لاتیں مارے گا، اُچھلے گا،کُودے گا اور وہ کوشش کر ے گا کہ نکل کر بھاگ جائے اسی طرح اُس وقت بعض لوگ متمدّن ہو چکے تھے اور بعض کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اکٹھے رہیںاور قانون کی پابندی کریں۔
لفظِ آدم میں حکمت
قرآن کریم نے جوپہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے ،
ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیںاور دوسرا مادہ اُدمَہْ ہے اور اُدْمَہْ کے معنے گندمی رنگ کے ہیں۔ پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہَوا اور زمین پررہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آدم کے ذریعہ خداتعالیٰ نے تمدّن کی بنیاد رکھی تو اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ فیصلہ کیاکہ بجائے زمین کی غاروں میں رہنے کے ہمیںسطح زمین کے اوپر رہنا چاہئے اور پندرہ پندرہ بیس بیس گھروں کاایک گائوں بنا کر اس میںآباد ہو جانا چاہئے اس سے پہلے تمام انسان غاروں میں رہتے تھے اور چونکہ سطح زمین پر اکیلے اکیلے رہنے میں خطرہ ہو سکتا تھا کہ کوئی شیر یا چیتا حملہ کر ے اور انسانوں کو پھاڑ دے اس لئے وہ آسانی کے ساتھ سطح زمین پر رہنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تبھی سطح زمین پر رہنا برداشت کر سکتے تھے جب کہ بہت سے آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں اور وہ متحدہ طاقت سے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی تھی جب انسانوں میںاکٹھا رہنے کی عادت ہو اور وہ ایک قانون اور نظام کے پابند ہوں ۔ جب تک وہ ایک نظام کے عادی نہ ہوں، اُس وقت تک اکٹھے کس طرح رہ سکتے تھے۔ پس اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ غاروں میں نہیں رہیں گے بلکہ کھلے مکانوں میں رہیں گے اور چونکہ انہوں نے باہر سطح زمین پر رہنے کا فیصلہ کیا اِس لئے ان کا نام آدم ہؤا یعنے سطح زمین پررہنے والے۔ اور کھلی ہَوا میں رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہؤا کہ ان کا رنگ گندمی ہو گیا۔
پس آدم اس کا نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ کھلی زمین میں مکان بنا کر رہنے لگا اور کھلی زمین پر رہنے کے سبب سے اس کا جسم گندمی رنگ کا ہو گیا جیساکہ سورج کی شُعاعیں پڑنے سے ہو جاتا ہے اور ادیم اور اُدْمَہْ جو لفظِ آدم کے مادے ہیں ان دونوں کا مفہوم بھی ایک ہی ہے یعنی کھلی ہؤا اور زمین پررہنے کی وجہ سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
زمانہ آدم کی تمدّنی حالت
اس آدم کے زمانہ میںلازماً بشری دَور اوّل کے زمانہ کے بھی کچھ لوگ تھے جو تمدنی قوانین کی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور
لازماً وہ سطحِ زمین پر سہولت سے نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ جوطاقت مجموعی طاقت سے مل سکتی ہے اور جو انسان کو کھلے میدانوں میں رہنے میں مدد دیتی ہے وہ انہیں حاصل نہ تھی پس وہ غاروں میںرہتے تھے جیسا کہ جانور وغیرہ رہتے ہیں اور چونکہ ان میںتمدّن نہ تھا ان کے لئے کوئی قانون بھی نہ تھا ،حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگ سطح زمین پر رہیں اور غاروں میں رہنا چھوڑ دیں ، تو وہ لوگ جو سطح زمین پر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے آپ کی مخالفت کی جیسے افریقہ کے حبشی پہلے ننگے رہا کرتے تھے۔ شروع شروع میں جب انگریز آئے ہیں تو انہوں نے کوشش کی کہ حبشیوں کو کپڑے پہنائے جائیں ۔چنانچہ انہوںنے شہر کے دروازوں پرآدمی مقرر کر دئیے اور انہیں کپڑے دے کر حُکم دیدیا کہ جب کوئی حبشی شہر کے اندر داخل ہو نا چاہے تو اُسے کہاجائے کہ وہ ننگا شہر میںداخل نہ ہو بلکہ تہہ بند باندھ کر اندر جائے، چونکہ وہ ہمیشہ ننگے رہتے چلے آئے تھے اور کپڑے پہننے کی انہیںعادت نہ تھی اس لئے وہ بڑے لڑتے اور کہتے کہ ہم سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی۔کہ ہم کپڑے پہن کر شہر میںداخل ہوں ، ہمارے بھائی بنداور دوست ہمیں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔مگر انہیںکہا جاتا کہ ننگے جانے کی اجازت نہیں،کپڑے پہن لو اور چلے جائو، چنانچہ مجبوراً وہ کپڑے پہنتے مگر جب شہر میں سے گزرتے تو اِدھر اُدھر کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں ان کا کوئی دوست انہیں اِس بے حیائی کی حالت میں دیکھ تو نہیں رہا، چنانچہ بڑی مشکل سے وہ شہر میں کچھ وقت گزار تے اور جب شہر سے باہر نکلنے لگتے توا بھی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہی ہوتے تو تہہ بند اُتار کر زور سے پھینک دیتے اور ننگے بھاگتے ہوئے چلے جاتے۔ تو جس چیز کی انسان کو عادت نہیں ہوتی اُس سے وہ گھبراتا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے سطح زمین پررہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستور غاروں میں رہتے رہے۔ جنس ایک ہی تھی، لیکن اس کا ایک حصہ تو سطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہؤا کہ جس طرح انسانِ کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسانِ ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے ’’جن‘‘ نام پانے کا مستحق ہؤا کیونکہ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے کے ہیں۔ پس اُس وقت نسلِ انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جوآدم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جنؔ کہلاتے تھے۔آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے اُنہوں نے میدان میںجھونپڑیاں بنائیں، مکانات بنائے اور مِل جُل کر رہنے لگ گئے۔ پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کھلی ہَوا میں رہنے سے گندم گُوںہو جانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے، اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے اور متمدّن اور مہذّب انسانوں کی طرح زمین پر مِل جُل کر رہتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے۔ اس کے مقابلہ میںدوسرے لوگ جو گو اسی جنس میںسے تھے مگر چونکہ وہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور غاروں میںچھپ کر رہے اس لئے وہ جن کہلاتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں بعد میںبھی بڑے آدمی جو اندر چُھپ کر رہتے ہیں انہیں جن کہا جانے لگا کیونکہ ان کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اندر نہیں جا سکتا۔ اسی طرح غیر اقوام کے افراد کو بھی ’’جن‘‘ کہا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میںصاف الفاظ میں غیر قوموں کے افراد کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ تفصیل کاوقت نہیں ہے اس لئے میں وہ آیات بیان نہیں کر سکتا، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے قرآن کریم سے ایسے قطعی اور یقینی ثبوت نکال لئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جن کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال ہؤا ہے۔مَیں نے اُن آدمیوں کا بھی پتہ لے لیا ہے جنہیں قرآن کریم میں ’’جن‘‘ کہا گیا۔اُن شہروں کابھی پتہ لے لیا ہے جن میں وہ جن رہتے تھے اور تاریخی گواہیاں بھی ا س امر کے ثبوت کے لئے مہیا کرلی ہیں کہ وہ ’’جن‘‘ انسان ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق نہ تھی۔
اب میں آیاتِ قرآنیہ سے اُن مسائل کے دلائل بیان کرتاہوں جن کا اِس وقت مَیں نے ذکر کیا ہے۔
آدم پہلا بشر نہیں
میرا پہلا دعویٰ یہ تھا کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو او رپھر اس
سے نسلِ انسانی کا آغاز ہؤا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ۲۱؎ میں زمین میںایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ا گر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہناچاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اَور لوگ پہلے سے زمین میںموجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے او ریہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰـئِکَۃِ اسْجُدُوْالِاٰدَمَ۲۲؎ یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اورفرشتوں کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتاہے کہ اے نسلِ انسانی! مَیں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیںکیا بلکہ صَوَّرْنٰـکُمْ میں نے تمہیں ترقی دی ،تمہارے دماغی قوٰی کوپایۂ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہو گئی تو مَیں نے ایک آدمی کھڑا کر دیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھیکیونکہ خَلَقْنٰـکُمْ اور صَوَّرْنٰـکُمْ پہلے ہؤا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہؤا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حُکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میںسے آدم کے متعلق ملائکہ کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے۔
آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے تھے
میرا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اور ابلیس درحقیقت نسلِ انسانی میں
سے ہی تھے اس بات کا ثبوت بھی قران کریم سے ملتا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میںجہاں اس نے آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے۔ فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَامِمَّا کَاناَ فِیْہِ وَقُلْنَااھْبِطُوْابَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّوَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ۲۳؎ کہ آدم اور اُس کی بیوی دونوں کوشیطان نے ورغلادیا اور دھوکا دیا، نتیجہ یہ ہؤا کہ ہماری ناراضگی ہوئی اور ہم نے کہا کہ اِھْبِطُوْا تم اے شیطان کے لوگو اور اے آدم کے ساتھیو! سارے کے سارے یہاں سے چلے جائو۔ جمع کا صیغہ ہے جو خداتعالیٰ نے استعمال کیا۔ اگر اس سے مراد صرف آدم اور حوا ہوتے تو وہ تو دو ہی تھے ان کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا۔انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا کہ تم دونوں چلے جائو مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے ساری کی ساری جماعت یہاں سے چلی جائے۔ آدم حوا اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور ابلیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور سب سے کہتا ہے کہ اس علاقہ سے چلے جائو کیونکہ اب تمہاری آپس میں عداوت ہو چکی ہے ۔ یہ آیت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے ہی تھے۔
ایک شُبہ کا ازالہ
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم میںایک اور مقام پر اِھْبِطُوْا کی بجائے اِھْبِطَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں بھی قرآن کریم نے اس
مشکل کو آپ ہی حل کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ طٰہٰ میں فرماتا ہے۔ قَالَ اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۲۴؎ کہ ہم نے کہا دونوں یہاں سے چلے جائو تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر دونوں سے مرادآدم اور حوا لئے جائیں تو اس آیت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیں گے حالانکہ یہ معنے بالبداہت غلط ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ دونوں سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اِھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًاکہہ کر یہ حکم دیا ہے کہ اے آدم کے گروہ اور اے شیطان کے گروہ! تم دونوں اِس جگہ سے چلے جائو ۔ اب تم دونوں گروہ آپس میں ہمیشہ دشمن رہو گے ،پھر اس بات کا ایک اور ثبوت کہ ان دو سے مراد دو گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا یہ بھی ہے کہ اِھْبِطَا کے ساتھ جَمِیْعًا کا لفظ بھی آتا ہے ، حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میں جَمِیْعًا کبھی نہیں آ سکتا ۔ پس چونکہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئی ساتھی تھے اس لئے دونوں کے لئے اِھْبِطَامِنْھا جَمِیْعًا کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ا سی طرح جہاں دشمنی کا ذکر ہے وہاں بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ کے الفاظ ہیں اور کُمْ کے لفظ نے بھی جو تین یا تین سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے بتادیا ہے کہ جن کو نکلنے کا حُکم دیا ہے وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دو شخص۔
پھر اس آیت سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آدم کی نسل اور شیطان کی نسل دونوں نے ایک جگہ اکٹھا رہنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ۔ کہ اے شیطان کے ساتھیو اور اے آدم کے ساتھیو! تم دونوں نے دنیا میں اکٹھا رہنا ہے پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کی دشمنی سے بچتے رہنا اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ان آیات سے نکلتی ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ جنس نہیں تھے بلکہ ایک ہی جنس میں سے تھے چنانچہ سورۃ بقرہ میںہی اللہ تعالیٰ شیطان کے ساتھیوں اور آدم کے ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ـ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۲۵؎ کہ اے آدم کے ساتھیو! اور اے ابلیس کے ساتھیو تم سب یہاں سے چلے جائو، مگر یاد رکھوکہ کبھی کبھی تمہارے پا س میرے نبی بھی آیا کریں گے جولوگ ان انبیاء کو مان لیں گے وہ ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ رہیں گے مگر وہ لوگ جو ان کو نہیں مانیں گے وہ میری ناراضگی کے مورد ہونگے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہؤا کہ آدم کی اولاد کبھی شیطان کی ساتھی بن جایا کریگی اور کبھی شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جایا کر یگی کیونکہ اس آیت سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور جب کہ نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ کبھی آدم کی اولاد کسی نبی کا انکار کر دے تو صاف معلوم ہؤا کہ یہ دونوں نسلیںآپس میںتبادلہ کرتی رہیں گی۔ کبھی شیطان کی نسل آدم کی نسل ہو جائے گی اور کبھی آدم کی نسل شیطان کی نسل ہو جائے گی کیونکہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے اس آیت سے ایمان لانا ممکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا ایمان لانا ممکن ہی نہ ہوتا تو ان کی طرف ہدایت کے آنے کے کوئی معنے نہ تھے۔
پھر سورہ اعراف میںاس مضمون کے بعد یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ اے آدم کی نسل اور اے ابلیس کی نسل! فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَاتَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَاتُخْرَجُوْنَ ۲۶؎ تم دونوں اسی زمین کے اندر زندہ رہوگے، یہیںمروگے اور اسی زمین سے تمہارا حشر ہو گا یعنی بنوآدم کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھی نہ صرف رہیں گے بلکہ بنوآدم کی طرح زمین پرزندگی بسر کریں گے، انہی کی طرح مریں گے اور زمین میں دفن ہونگے اور پھر انہی کی طرح ان کا قبور سے حشر ہو گا پس معلوم ہؤا کہ یہ جن کسی اور جنس کے لوگ نہیں بلکہ نسلاً یہ لوگ وہی ہیں جو بنو آدم ہیں کیونکہ ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ صاف بتا دیا ہے کہ جس طرح آدم کی نسل زمین میںزندہ رہے گی اسی طرح ابلیس اور اس کی نسل زمین میں زندہ رہے گی، جس طرح آدم کی نسل کھائے پئے گی اسی طرح ابلیس کی نسل کھائے پئے گی۔ جس طرح آدم کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہوگی اسی طرح ابلیس کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہو گی۔ اور پھر یہ بھی بتادیا کہ جب ہمارے انبیاء آئیں گے تو وہ اِن دونوں کو مخاطب کرینگے ،پھر جو لوگ انہیں مان لیںگے وہ آدم کی حقیقی اولاد کہلائیں گے اور جو لوگ نہیں مانیں گے وہ ابلیس بن جائیںگے پس معلوم ہؤا کہ آدم کے مقابلہ میں جو لوگ تھے خواہ انہیں ابلیس اور نسلِ ابلیس کہہ لو اور خواہ جن کہہ لو بہرحال جنس کے لحاظ سے وہ بشر ہی تھے۔فرق صرف اخلاق، تمدّن، اور شریعت کا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں میں آپس میں امتیاز کر دیا گیا۔
آدم اور جن کی بجائے انہیں مؤمن او رکافر کیوں نہ کہا گیا
اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے ان ناموں سے انہیں یادکیوں کیا؟ کیوں سیدھے سادھے الفاظ میںانہیں کافر اور مؤمن نہیں کہہ دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ کافر اور مؤمن ہے اور ان کے لئے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا اِنس اور جن تھا۔ آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک در باریک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدّن اور رہائشِ انسانی کے ساتھ تھا اور اس وقت کے لوگوں کے لئے باریک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے۔ پس کافر ومؤمن کی جگہ اِنس اور جن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیاجائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے۔ آج چونکہ انسانی دماغ بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے جب کسی کو مؤمن یاکافر کہا جاتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے مگر اُس زمانہ میںاگر انہیں کافر کہا جاتا اور بتایا جاتا کہ تم اس لئے کافر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کافر کس طرح ہو گئے ۔ پس اُس وقت ان لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کو مانا اور تمدّن کی زندگی کو قبول کر لیا اِنس رکھا گیا اور اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کی بات کو نہ مانا او رغاروں میں ہی چُھپے رہنے کا فیصلہ کرلیا جن رکھا گیا اور یہ ایسی بات تھی جسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ واقعہ میں ان میںسے کچھ لوگ زمین پر رہتے ہیں اور کچھ زمین کے اندر غاروں میں رہتے ہیں۔ پس جب انہیں جن کہا جاتا تو وہ کہتے ٹھیک ہے ہم واقعہ میں غاروں سے نہیں نکلنا چاہتے اور جب دوسروں کو جو سطح زمین پر رہتے ہیں اِنس کہا جاتا تو یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آ جاتی اور وہ کہتے کہ واقعہ میںوہ سطح زمین پر رہتے ہیںاور اس وجہ سے جن نہیں کہلا سکتے ۔پس جس طرح موجودہ زمانہ میں کافر اور مؤمن دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا ہے اسی طرح اُس زمانہ میں اِنس اور جن دوناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانہ میں اختلاف کی بنیاد تمدّن تھی۔ پس مؤمن وکافر کی جگہ اِنس وجن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کردیا جائے اور بتایا جائے کہ اِنس وہ تھے جنہوں نے الٰہی حُکم کے مطابق باہمی اُنس اختیار کر کے متمدّن زندگی کی بنیاد رکھی اور جن وہ تھے جنہوں نے اس سے انکار کر کے اطاعت سے باہر رہنے اور تمدّنی زندگی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پس وہ جنہوں نے تمدّنی زندگی اختیار کرلی اور سطح زمین پر رہنے لگ گئے وہ اِنس کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پررہنے اور تمدّنی زندگی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ غاروں میں ہی رہیں گے وہ جن کہلائے۔
آج یورپ کے ماہرینِ آثارِقدیمہ اس بات سے پُھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں ہزار تحقیق وتجسّس کے بعد یہ راز دریافت کرلیا ہے کہ ابتداء میں انسان غاروں میںرہا کرتے تھے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ایسے لوگوں کا نام جن رکھ کر بتا دیا کہ وہ غاروں میں رہا کرتے تھے۔
آثارِ قدیمہ سے قرآنی نظریہ کی تصدیق
آج پُرانے سے پُرانے آثارِ قدیمہ کو زمینوں میں سے کھود کھو د کر اس بات کا
اعلان کیا جا رہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا۔ پھر بعد میں وہ سطح زمین پر رہنے لگا، مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسان پہلے جنّ بنا اور بعد میں انسان بنا۔ پہلے وہ غاروں میںرہا مگر بعد میں سطح زمین پر آ کر بسا۔ جب تک وہ غاروں میں رہا وہ جنّ نام کا مستحق تھا مگر جب وہ سطح زمین پر آکر بسا تو وہ آدم اور انسان کہلانے لگ گیا۔
لوگ سر دُھنتے ہیں اُن کتابوں کو پڑھ کر جوآج سے صرف سَو سال پہلے لکھی گئی ہیں اور وہ نہیں دیکھتے اُس کتاب کو جو آج سے تیرہ سَو سال پہلے سے یہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سَو سال پہلے سے اس ’’کیومین‘‘ (Cave Man) کی خبر دیتا ہے جسے یورپ نے بارہ سَو سال بعد دریافت کیا ہے۔ ہمارے قرآن نے اس ’’کیومین‘‘ کا ذکر ’’جن‘‘ کے نام سے جس کے قریباً لفظی معنے ’’کیومین‘‘ کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کردیا تھا۔ پس وہ جس کا نام لوگوں نے ’’کیومین‘‘ رکھا ہے اُس کا نام قرآن نے ’’جن‘‘ رکھا ہے یعنی غاروں کے اندر چُھپ کر رہنے والا۔ جب اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا تو اس کا نام آدم ہؤا اور آدم کے لفظی معنے یہی ہیں کہ سطح زمین پر رہنے والا۔
اگر کہاجائے کہ ابلیس تو کہتا ہے کہ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ۲۷؎ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے ، تو جب ان کی پیدائش مختلف اشیاء سے ہے تو وہ ایک کس طرح ہو گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک جگہ رہیں گے، ایک ہی جگہ مریں گے ، ایک ہی زمین میںدفن ہو نگے اوردونوں کی طرف خداتعالیٰ کے انبیاء آئیں گے جن کو قبول کر کے بعض دفعہ شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جائے گی اور انکار کر کے آدم کی اولاد شیطان کی اولاد بن جائے گی تو پھر وہی معنے اس آیت کے درست ہونگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ ان معنوں کو ترک کر تے ہوئے جو عام لوگ اس آیت کے سمجھتے ہیں ایک اور معنے بھی بن سکتے ہیں جن سے یہ آیت باقی تمام آیات کے مطابق ہو جاتی ہے او رقرآن کریم کی کسی آیت میں اختلاف نہیںرہتا۔
عربی زبان کا ایک محاورہ
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جوقرآن کریم میں بھی استعمال ہؤا ہے کہ خُلِقَ مِنْہُ اِس سے یہ مراد نہیںہوتاکہ فلاں شخص فلاں مادہ
سے بنا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ امر اُس کی طبیعت میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میںیہ محاورہ سورہ انبیاء میںاستعمال ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰـتِیْ فَلا تَستَعْجِلُوْنِ۲۸؎ کہ انسان جلدی سے پیداکیا گیا۔ اب جلدی کوئی مادہ نہیںہے جسے کُوٹ کُوٹ کراللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا ہو، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جواستعمال ہؤا اور اس کامطلب یہ ہے کہ انسان بہت جلد باز ہے اور اس کی فطرت میںجلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے۔جب پیشگوئیاں ہوتی ہیں تو کئی لوگ اس گھبراہٹ میں کہ نہ معلوم یہ پیشگوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں، مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی امر کا اس جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰـتِیْ فَلا تَسْتَعْجِلُوْنِ تم ہمارے انبیاء کی پیشگوئیاں سنتے ہی اُسے جھوٹا جھوٹا کیوںکہنے لگ جاتے ہو؟ تم جلدی مت کرو ہماری پیشگوئیاںبہرحال پوری ہو کر رہیںگی۔ اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِقُوَّۃٍ ضُعْفًاوَّشَیْبَۃً ۲۹؎ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیداکیا۔ اب بتائو کہ کیا ضُعف کوئی مادہ ہے؟ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے فطری طور پر سخت کمزور ہوتا ہے ۔پھر ہم بچے کو جوان بناکر اس کے قویٰ کومضبوط کرتے ہیں ، پھر اور بڑھا کر اُسے بُڈھا کر دیتے ہیں پس یہاں خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ سے مرادبچے کے قویٰ کی کمزوری اور اس کی دماغی طاقتوں کا ضعف ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے نہ یہ کہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے۔ان دونوں آیتوں سے خُلِقَ مِنْہُ کے معنے بالکل واضح ہوجاتے ہیںاور انہی معنوں میںابلیس اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔۳۰؎ اے اللہ! تو نے میری طبیعت میں تو آگ کا مادہ رکھا ہے اور اُس میں طین کا۔ یعنی تونے میری طبیعت تو ناری بنائی ہے اور آدم کی طینی، یہ تو غلام فطرت ہے اور یہ تو ممکن ہے دوسرے کی بات مان لے لیکن مَیں جو ناری طبیعت رکھتا ہوں دوسرے کی غلامی کس طرح کر سکتا ہوں۔ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کا مطلب یہ ہے میں تو حُر ہوںدوسرے کی غلامی نہیں کر سکتا یہیاَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کا دعویٰ ہے جو آجکل انارکسٹ وغیرہ کرتے رہتے اور کہتے ہیں ہم سے دوسرے کی غلامی برداشت نہیںہو سکتی ہم تو بغاوت کریںگے اور دوسرے کی غلامی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لو آج بھی تمام دنیا میں اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے ناری طبیعت بنایا ہے اور آدم کی طبیعت طینی ہے۔ مجھے تو کوئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے۔میں توآدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی مان نہیں سکتا۔
اُردو میںبھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے۔اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی دِیا جل رہا ہوتا ہے یاآگ کے شُعلے اس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں؟ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان نہیں سکتا۔ اسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے۔انگریزی میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ’’فائربرینڈ‘‘ (FIREBRAND) ہے مطلب یہ کہ وہ شرارتی آدمی ہے حالانکہ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ جو چیز جل رہی ہو۔ مگر مفہوم یہ ہے کہ فلاں شخص ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتا ہے۔ یہی معنے اس آیت کے بھی ہیں اور ابلیس کہتا ہے کہ خدایا میری طبیعت اطاعت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بھی روزانہ ایسے واقعات دیکھنے میںآتے ہیں ۔ایک شخص کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو بعض لوگ چاہتے ہیں ان کی آپس میں صلح ہو جائے ۔ اب ایک شخص تو صلح کے لئے تیار ہوتا ہے مگر دوسرے کو جب صلح کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس سے صلح کرنا کسی صورت میںبرداشت نہیںکر سکتا۔ میں تو ایک لفظ بھی سننا نہیںچاہتا ۔وہ ناری طبیعت ہوتا ہے اور اسی طبیعت کے اقتضاء کے ماتحت اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پرلاتا ہے لیکن دوسراجس کی طینی طبیعت ہوتی ہے وہ کہتاہے کہ میں تو ہر وقت صلح کے لئے تیار ہوں ۔ گویا جس طرح گِیلی مٹی کو جس سانچے میںچاہو ڈھال لو اسی طرح اس سے جوکا م چاہو لے سکتے ہو تو خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ کے یہ معنے ہیں کہ میں کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی نسل ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پرپہنچی کہ اس میں مادۂ تعاون وتمدّن پیداہو گیا اور اس میں یہ طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ دوسرے کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر اُٹھائے تو خداتعالیٰ نے ان میںسے ایک بہترین آدمی کا انتخاب کر کے اس پر اپنا الہام نازل کیا اور اُسے کہا کہ اب نظام اور تمدّن کی ترقی ہونی چاہئے اور انسانوں کو غاروں میں سے نکل کر سطح زمین پر مِل جُل کر رہنا چاہئے۔
آدم کی مخالفت
جس وقت آدم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیاہو گا کہ غاروں کو چھوڑو اورباہر نکلو تو ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُس وقت کس قدر عظیم الشان شور برپا
ہؤا ہو گا۔ لو گ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے، سٹھیاگیا ہے، اس کی عقل جاتی رہی ہے یہ ہمیں غاروں سے نکال کر سطح زمین پربسانا چاہتاہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں شیرکھا جائیں ، چیتے پھاڑ جائیںاور ہم اپنی زندگی کو تباہ کرلیں اور اپنے جیسے دوسرے آدمیوں کے غلام بن کر رہیں۔مگر بہرحال کچھ لوگ آدم کے ساتھ ہو گئے اور کچھ مخالف رہے۔ جوآدم کے ساتھ ہو گئے وہ طینی طبیعت کے تھے ا ور جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے۔طین کے معنے ہیںجو دوسری شَے کے نقش کو قبول کر لے۔ پس آدم کی طبیعت طین والی ہوگئی تھی یعنی وہ نظام کے ماتحت دوسرے کی بات مان سکتا تھا جوفریق اس اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیار نہ تھا اس نے اس کی فرمانبرداری سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اعلیٰ ہیں ہم ایسی غلطی نہیں کر سکتے، یہ تو غلامی کی ایک راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی جھگڑا ہے جو آج تک چلا آ رہا ہے۔
موجودہ زمانہ کے ناری طبیعت انسان
آج دنیا متمدّن ہے، آج دنیا مہذّب ہے، آج دنیا مِل جُل کر رہتی ہے مگر آج بھی
ناری طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دوسرے کی کیوں اطاعت کریں ۔یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جو حضرت خلیفہ اوّل کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے اور یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم ایک بچہ کی بیعت نہیں کر سکتے۔ کل کا بچہ ہو اور ہم پرحکومت کرے یہ ہم سے کبھی برداشت نہیںہو سکتا ۔وہ جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے مگرآپ لوگ طینی طبیعت کے تھے۔آپ نے کہا ہم آدم کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت دوسروں کی اطاعت کرتے چلے آ ئے ہیں اب خلیفۂ وقت کی اطاعت سے کیوں منہ موڑیں۔ مصری صاحب نے بھی اسی ناری طبیعت کی وجہ سے میری مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ میں موجودہ خلیفہ کی اطاعت نہیں کر سکتا اسے معزول کر دینا چاہئے تو آج تک یہ دونوں فطرتیں چل رہی ہیں۔ناری مزاج والے ہمیشہ نظام سے بغاوت کرتے ہیںاور اپنے آپ کو حُر کہتے ہیںمگر طینی مزاج والے نظام کے ماتحت چلتے اور اپنے آپ کو کامل انسان کہتے ہیں دونوں اصولوں کاجھگڑا آج تک چلا جا رہا ہے،حالانکہ دونوں اسی زمین میں رہتے، اسی میںمرتے اور اسی میںدفن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی طرف نبی آتے اور ان سے خطاب کرتے ہیں مگر قاعدہ ہے کہ پہلے تو انبیاء کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ تعلیم دنیا کی اور تعلیموں پرغالب آجاتی ہے تو مُنکر بھی اسے قبول کرلیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب ایک خدا کی تعلیم دینی شروع کی تو عیسائی اس تعلیم پر بڑا ہنستے اور کہتے کہ ایک خدا کس طرح ہو گیا؟ زرتشی بھی ہنستے ،مشرکینِ مکہ بھی ہنستے، مگر آہستہ آہستہ جب اس تعلیم نے دلوں پرقبضہ جمانا شروع کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی قوم بھی نہیں جو خداتعالیٰ کی وحدانیت کی قائل نہ ہو۔ حتّٰی کہ عیسائی بھی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس بات کے قائل ہیںکہ خدا ایک ہی ہے تو طینی اور ناری مزاج والوںکا جھگڑا آج تک چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی تعلیم آتی ہے تو کچھ لوگ فرمانبرداری کرتے ہیںاور کچھ غصّہ سے آگ بگولا ہو جاتے ہیںاور وہ مخالفت کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ آگ کامحاورہ بھی استعمال ہؤا ہے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک چچا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۳۱؎ کہ آگ کے شُعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا۔ اب خدا نے اس کانام ہی آگ کے شعلوں کا باپ رکھ دیا مگر اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اس سے آگ نکلتی تھی،بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ شیطانی قسم کے لوگوں کاسردار تھا (بعض مُفسّر اس نام کو ُکنیت بھی قرار دیتے ہیں اور بعض سفید رنگ کی طرف اشارہ مرادلیتے ہیں) پس خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ یا مَارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۳۲؎ وغیرہ الفاظ سے اشارہ انسان کی اس حالت کی طرف ہے جب کہ وہ ابھی متمدّن نہیں ہؤا تھا اور شریعت کا حامل نہیں ہو سکتا تھا۔
حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف
ایک اور زبردست انکشاف قرآن کریم آدمِ انسانیت
کی نسبت یہ کرتا ہے کہ جنت میں لائے جانے سے پہلے ہی اُس کے پاس اُ س کی بیوی تھی، چنانچہ قرآن کریم میںآدم کی بیوی کی پیدائش کاکوئی ذکر ہی نہیں،بلکہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی عام طریق پر اس کے ساتھ تھی جیسے مردوعورت ہوتے ہیں۔ چنانچہ:-
(۱) سورہ بقرہ میںجہاں آدم اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں آدم کی بیوی پیدا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ محض یہ حکم ہے یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۳۳؎ ا ے آدم !جا تو اور تیری بیوی تم دونوںجنت میںرہو۔ یہ نہیں کہا کہ آدم اکیلا تھا اور اُس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا بلکہ آیت کا جو اسلوبِ بیان ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی پہلے سے موجود تھے۔ اُنہیں صرف یہ حُکم دیدیا گیا کہ تم فلاں جگہ رہو۔
(۲) سورہ اعراف میں بھی صرف یہ ذکر ہے کہ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۳۴؎
(۳) تیسری جگہ جہاں آدم کی بیوی کاذکر ہے وہ سورۃ ٰطہٰ ہے مگر اس میںبھی صرف یہ ذکر ہے کہ یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَاعَدُوٌّلَّکَ وَلِزَوْجِکَ ۳۵؎ یہ ذکر نہیں کہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی کو بھی پیدا کیا ہو۔
ان تینوں جگہوں میںجہاںآدم کی پیدائش کاذکر کیا گیا ہے اس کی بیوی کا ذکر محض ایک عام بات کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ اگر آدم اکیلا ہوتا اور حوا کو اُس کی پسلی سے پیداکیا گیا ہوتا تو اس کی بیوی کا ذکرخاص اہمیت رکھتا تھا اور یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ آدم کی ایک پسلی نکال کر اسے عورت بنادیا گیا بیشک ایک حدیث میں ایسا ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگراس کا مطلب میرے کسی مضمون میں آگے چل کر بیان ہو گا ہاں سورۃ نساء رکوع۱، سورۃ اعراف رکوع۲۴، سورۃ الزمر رکوع۱ میں ایک بیوی کی پیدائش کا ذکر ہے ایک جگہ لکھا ہے وَخَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَا اور دوجگہ لکھا ہے وَجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَا اور ان الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر ان تینوں جگہ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ آتے ہیں آدم کا نام نہیں ہے کہ یہ شبہ کیا جا سکے کہ اِن آیات میںآدم اور حوا کی پیدائش کا ذکر ہے چنانچہ ان میں سے ایک حوالہ سورہ نساء کا ہے اس میںاللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے کہ۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا ۳۶؎ کہ اے انسانو! اپنے اس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیااور اس سے اس کی بیوی کو بنایا ان الفاظ میںآدم اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر ہی نہیں صرف خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ آتے ہیں مگر ان کامفہوم بھی جیسا کہ مَیںآگے چل کر بتائوں گا اور ہے ، بہرحال آدم اور حوا کایہاں کوئی ذکر نہیں۔ یہی حال سورہ اعراف اور سورہ زمر کی آیات کاہے ان میں بھیخَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ ہیں۔آدم کے الفاظ نہیں، مگر ان تینوںآیات میںسے جو ہم معنی ہیں سورۃ اعراف کا حوالہ اس بات کو وضاحت سے ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نہ کہ آدم ،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَالِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہٖ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَالَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِْینَ۔فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحاً جَعَلالَہٗ شُرَکَائَ فِیْمَا اٰتٰھُمَا فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّایُشْرِکُوْنَ۳۷؎ فرماتا ہے۔ و ہ خدا ہی ہے جس نے تمہیںایک جان سے پیداکیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ اُس سے تعلق رکھ کر وہ اطمینان اور سکون حاصل کر ے، جب اُس نفسِ واحد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اُسے ہلکاسا حمل ہو گیا مگر جب اس کا پیٹ بھاری ہو گیا اور دونوں کو معلوم ہو گیا کہ حمل قرار پکڑ گیا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کی الٰہی! اگر تونے ہمیں تندرست اور خوبصورت بچہ عطا کیا تو ہم تیرے ہمیشہ شکر گزار رہیںگے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا اور تندرست بچہ دیدیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھُول گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بعض اور لوگوں کوشریک بنالیا اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُور تر چلے گئے۔
اب بتائو کیا ان الفاظ میں آدم اور حوا کا ذکر ہے یا عام انسانوں کا۔ کیاآدم اور حوا نے پہلے یہ دعا کی تھی کہ ہمیں ایک صالح لڑکا عطا فرمانا اور جب وہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے مشرکانہ خیالات کا اظہار کیا اور وہ بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے لگ گئے؟ انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا اور آدم جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ایسا کرہی نہیں سکتے تھے۔ پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاںآدم کاذکر نہیں بلکہ آدمی کا ذکر ہے اور انسانوں کے متعلق ایک قاعدہ کا ذکر ہے کسی خاص آدمی کا بھی ذکر نہیں اور چونکہ سب آیات کے الفاظ ایک سے ہیں اس لئے معلوم ہؤا کہ سب جگہ ایک ہی معنے ہیں۔
نفسِ واحدۃ سے پیدائش کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک ایک انسان سے
قبائل وخاندان چلتے ہیںاور بیوی اسی میں سے ہونے کے معنے اسی کی جنس میں سے ہونے کے ہیںاور بتایا ہے کہ ایک ایک آدمی سے بعض دفعہ خاندان کے خاندان چلتے ہیں اگر ماں باپ مُشرک ہوں تو قبیلے کے قبیلے گندے ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نیک ہوں تو نسلاً بعد نسلٍ ان کے خاندان میںنیکی چلی جاتی ہے۔ پس ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَا اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد و! جب تم شادی کرو تو احتیاط سے کام کیا کرو ، اور جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اُس وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیا کریں، اگر وہ خود مُشرک اور بدکار ہونگے تو نسلوں کی نسلیں شرک اور بدکاری میں گرفتار ہو جائیں گی اور اگر وہ خود موحّد اور نیکی وتقویٰ میںزندگی بسر کرنے والے ہونگے تو نسلوں کی نسلیں نیک اور پارسا بن جائیں گی۔
اِن معنوں کے بعد اگر آدم پر بھی ان آیات کو چسپاں کیا جائے تو بھی یہی معنے ہونگے کہ آدم کی بیوی اسی کی جنس میںسے تھی۔یعنی طینی طبیعت کی تھی ناری طبیعت کی نہ تھی اور ممکن ہے اس صورت میںادھر بھی اشارہ ہو کہ آدم کو حکم تھا کہ صرف مؤمنوں سے شادی کریں غیروں سے نہیں۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ آدم کے وقت میںاَور مرد وعورت بھی تھے اور آدم کی بیوی انہی میں سے تھی یعنی وہ آدم کی ہم مذہب تھی تو وہ سوال کہ آدم کی اولادشادیاں کس طرح کرتی ہو گی آپ ہی آپ دُور ہو گیا۔ جب مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں توشادیوں کی دِقّت نہیں ہو سکتی تھی، ہاں اگر اس سے پہلے کا سوال ہو توآدم سے پہلے بشر تو شریعت کے تابع ہی نہ تھے، نہ وہ شادی کے پابند تھے نہ کسی اور امر کے۔کیونکہ وہ تو نظام سے آزاد تھے اور جب وہ نظام سے آزاد تھے تو ان کے متعلق کوئی بحث کرنی فضول ہے۔بحث تو صرف اس شخص کے متعلق ہو سکتی ہے جو شریعت کا حامل ہو اور عقلِ مدنی اس میں پیدا ہو چکی ہو اور ایسا پہلا وجو د ابوالبشر آدم کا تھا اور ان کے بعد ان کے اَتباع کا وجود تھا ان کے لئے اخلاق وشریعت کی پابندی لازمی تھی۔ ان سے پہلے انسان نیم حیوان تھا اور ہر اعتراض سے بالا اور ہر شریعت سے آزاد ۔
عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم
اب میں اُس حدیث کو لیتا ہوں جس میںیہ ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا
کی گئی ہے۔حدیث کے اصل الفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہیں یہ ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۸؎ یہ الفاظ نہیں ہیں کہ خُلِقَتْ حَوّاء مِنْ ضِلْعٍ جس طرح قرآن کریم کی اُن آیات میں جن میں خَلَقَ مِنْھَازَوجَھاَ کے الفاظ آتے ہیں ہر عورت کا ذکر ہے حوا کا ذکر نہیں ۔ اسی طرح حدیث میں بھی حوا کا کہیں نام نہیں بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍٍ اگر یہ الفاظ ہوتے کہ خُلِقَتْ زوجۃ اٰدم مِنْ ضِلَعٍ تب تو یہ کہا جا سکتا کہ حوا جو آدم کی بیوی تھیںوہ پسلی سے پیدا ہوئیں مگر جب کسی حدیث میںبھی ا س قسم کے الفاظ نہیں آتے بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئیں تو محض حوا کوپسلی سے پیدا شدہ قرار دینا اور باقی عورتوں کے متعلق تاویل سے کام لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیں کہ اَلنِّسَائُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۹؎ کہ ساری عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔ پس جس طرح قرآنی آیات میں تمام عورتوں کاذکر ہے۔اسی طرح احادیث میں بھی تمام عورتوں کاذکر ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ، اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پسلی سے پیدا ہونے کے کیا معنے ہیں؟کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی عورت پسلی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں پیدا ہوتی ہیں پس جب کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں، تو سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی محاورہ کے مطابق ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور اس محاورہ سے صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍٍ سے صرف یہ مراد ہے کہ عورت کو کسی قدر مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعاً خواہشمند ہوتی ہے، چنانچہ علمائے احادیث نے بھی یہ معنے کئے ہیں اور مجمع البحار جلد دوم میںجو لغتِ حدیث کی نہایت مشہور کتاب ہے ضِلْعٍٍکے نیچے لکھا ہے۔ خُلِقنَ مِنَ الضِّلْعِ اِسْتِعَارَۃٌ لِلْمُعوجِ اَیْ خُلِقْنَ خَلْقاً فِیْھاَ ا لْاِعْوِجَاجُ… خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۴۰؎ ایک محاورہ ہے جو کجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میںایک قسم کی کجی ہوتی ہے یہ مطلب نہیںکہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر ضروررقابت ہوتی ہے۔مرد کہے یوںکرنا چاہئے تو وہ کہے گی یوں نہیںاسی طرح ہونا چاہئے اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کرکے اور یہ اس کی ایک ناز کی حالت ہوتی ہے اور اس میںوہ اپنی حکومت کا راز مسطور پاتی ہے۔
تمدّنی ترقی کاایک عظیم الشان گُر
غرض خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ کے یہی معنے ہیںکہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی، ان
میںمحبت بھی ہو گی، پیار بھی ہو گا ، تعاون بھی ہو گا،قربانی کی روح بھی ہو گی ، مگر روزمرہ کی زندگی میںان میںآپس میں نوک جھوک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی،یعنی اگر تم چاہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائیگا، اُسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میںیہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میںسے نکل جائے گا۔ یہ تمدّن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمایا۔آپؐ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا، چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے اور آپؐ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی۔ حضرت عمرؓ کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی۔ حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس ایک گائوںتھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے، اُنہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہؤا تھا اور آپس میںانہوں نے یہ طے کیا ہؤا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سُن کر حضرت عمرؓ کو جا کر سُناد یتا اور کبھی حضرت عمرؓ مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیںبتا دیتے، غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتاتا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ الہام ہؤا ہے۔ آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی۔ ایک دن وہ انصاری مدینہ میںآیا ہؤا تھا اور حضرت عمرؓ پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیااور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں، میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میںنے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ اُن دنوں یہ افواہ زوروں پرتھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے، حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے سمجھا اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہؤا باہرنکلا اور میںنے اُس سے پوچھا کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیںگھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچا ا ور آپؐ سے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! آپؐ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں۔ مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! لوگ کہتے ہیںآپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں میں نے کسی کو طلاق نہیںدی۔ مَیں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ پھر مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! آپؐ کو میں ایک بات سنائوں؟ آپ نے فرمایا ہاں سنائو، مَیں نے کہا، یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو بات نہیں کرنے دیتے تھے، لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میںآئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر کبھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں تُجھے سیدھا کر دونگا تو وہ مجھے کہنے لگی، تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے مَیں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویاں آپ کومشورہ دے لیتی ہیں، پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیںدیتا اور ڈانٹتا ہے۔مَیں نے کہا ہیں! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقعہ میںایسا ہوتا ہے ۔ میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں۔ یہ بات سُن کر مَیںاپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی۔ اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن تُجھے طلاق دیدیں گے۔حضرت عائشہ پاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر کے معاملات میںدخل دینے والا، چلویہاں سے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بات سُن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا ۴۱؎ اورحضرت عمرؓ کی بھی اس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے۔
تو بعض قوموں میںیہ رواج ہے کہ وہ سمجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیںکہ وہ مرد کے مقابلہ میںبولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی۔ اسے کوئی بات کہو وہ اس میںاپنا مشورہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے، پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچا ہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے۔
عورتوں کے حقوق
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کُچلنے کی کوشش نہ کیا کرو۔ اس کے اندر یہ ایک
فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہؤا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چُپ کرادوگے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔
پہلے دَورِ انسانی کا نظامِ قانون
قرآنی آثارِ قدیمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام والی ابتدائی حکومت کا قانون کیا تھااور معلوم ہوتا
ہے کہ پہلا دَورِ انسانی صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا۔ا س طرح کہ:-
(۱)۔ لوگوں میں خداتعالیٰ کا اجمالی ایمان پیداہو گیا تھا اور انسان کو الہام ہونا شروع ہو گیا تھا جیسا کہ قُلْنَا یٰٓاٰدَمُ وغیرہ الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۲)۔ انسانوںمیں عائلی زندگی پیدا کرنے کا حُکم دیا گیا تھا وہ زندگی جو قبیلوں والی زندگی ہوتی ہے اور انہیں کہا گیا تھا کہ ایک مقام پررہو اور اکٹھے رہو چنانچہ یہ امر اُسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ اْلْجَنَّۃَکے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۳)۔آدم پر اور لوگ بھی ایمان لائے اور ایک جماعت تیار ہو گئی تھی جو نظام کے مطابق رہنے کے لئے تیار تھی۔اِس کا ثبوت سورۃ ٰطہٰ کی آیت قَالَا اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعاً بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ہے جَمِیْعاً کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور اس کی بیوی اور بَعْضُکُمْ کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ ایک جماعت تھی۔
(۴)۔اَلْجَنَّۃَ اور کُلاَ مِنْھَارَغَدًا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک سبزیوں، ترکاریوں کے اُگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہؤا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جُھنڈ پیداکر دئیے اور انہیں حُکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہو۔ شاید بعض لوگ کہیں کہ اتنے بڑے جُھنڈ کہاں ہو سکتے ہیں جس پرسینکڑوں لوگ گزارہ کر سکیں؟ سو ایسے لوگ اگر جنوبی ہند کے بعض علاقے دیکھیں تو اُن پر الْجَنَّۃَ کے لفظ کی حقیقت واضح ہو جائے ۔وہاں بعض بیس بیس مِیل تک شریفے کے درخت چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ جن دنوں شریفہ پکتا ہے روٹی کھانی بِالکل چھوڑ دیتے ہیںاور صبح شام شریفے ہی کھاتے رہتے ہیں۔ اب تو گورنمنٹ انہیں نیلام کر دیتی ہے پہلے حکومت بھی ان کو نیلام نہ کیا کرتی تھی اور لوگ مُفت پھل کھاتے تھے۔اِسی طرح افریقہ میں آموں کے جنگل کے جنگل پائے جاتے ہیں، کیلے بھی بڑی کثرت سے ہوتے ہیں، اِسی طرح ناریل وغیرہ بھی بہت پایا جاتا ہے، اسی طرح بعض علاقوں میںسیب، خوبانی وغیرہ خودرَوکثرت سے پائے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے ہی مقام کو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں حُکم دے دیا کہ وہاں جا کر ڈیرے لگا دو اور خوب کھائو پیو۔ خلاصہ یہ کہ اَلْجَنَّۃ َ وغیرہ الفاظ سے جو قرآن کریم میںاستعمال ہوئے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عام طور پر لوگوں کی غذا پھل تھے۔
(۵)۔ پانچویںبات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس وقت ابھی کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اِس پر آیت طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِماَ مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۴۲؎ شاہد ہے وہ چٹائیوں کی طرح بھوج پترّ وغیرہ لپیٹ لیتے تھے اور رہائش کے لئے انہی کے خیمے بنا لیتے تھے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی شکار کرنے کے طریق بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور کھالوں کا استعمال بھی شروع نہ ہؤا تھا بلکہ چٹائیاں بطور لباس اور شاید بطورمکان کے استعمال ہوتی تھیں، اگر شکار کرنے کے طریق ایجاد ہو چکے ہوتے تو وہ کھالوں کا لباس پہنتے۔
(۶)۔ اُن میںتمدّنی حکومت قائم کی گئی تھی اور تمدّنی حکومت کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ایک دوسرے کی (۱) کھانے کے معاملہ میں مدد کریں(۲) پینے کے معاملہ میں مدد کریں(۳) عُریانی کو دُور کرنے کے معاملہ میں مدد کریںاور(۴) رہائش کے معاملہ میں مدد کریں۔ چنانچہ فرمایا۔ اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَاتَعْرٰی۔ وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیْھَا وَلَاتَضْحٰی۴۳؎ کہ تمہارے لئے ا س بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم جنت میںرہنے کی وجہ سے بھُوکے نہیں رہوگے،پیاسے نہیںرہو گے، ننگے نہیںرہو گے اور دُھوپ میں نہیں پھرو گے گویا کھانا، پانی ، کپڑا اور مکان یہ چار چیزیں تمہیں اس تعاونی حکومت میںحاصل ہونگی ان الفاظ سے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں یہ مراد نہیں کہ انہیں بھوک ہی نہیںلگتی تھی کیونکہ اگر انہیں بھوک نہیں لگتی تھی تو وَکُلاَ مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُماَ۴۴؎کے کیا معنے ہوئے، جب خدا نے اُن کی بھوک ہی بند کر لی تھی تو اس کے بعد انہیں یہ کہنا کہ اب خوب کھائو پیو بالکل بے معنی تھا۔ پس کُلاَ کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھوک لگتی تھی مگر ساتھ ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ انہیں کہا گیاتھا کہ باغ ساری کمیونٹی کی ملکیت ہے مگر دیکھو قاعدہ کے مطابق کھائو پیو۔ اگر کسی کو زیادہ ضرورت ہے تووہ زیادہ لے لے اور اگر کسی کو کم ضرورت ہے تو وہ کم لے لے۔ پس اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْھاَ وَلَا تَعْرٰی اُس نئے نظام کی تفصیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ا گر اِس نئے نظام کے ماتحت رہو گے تو تمہیں یہ یہ سہولتیں حاصل ہونگی۔
(۷)۔ قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ُاس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دئیے گئے تھے چنانچہ آیت وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھاَ۴۵؎ اس پر دال ہے مگر یہاں کل کے معنے ضرورت کے مطابق ہیں، جیسا ہُد ہُد ملکہ سبا کے متعلق کہتا ہے اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَيْ ئٍ۴۶؎ کہ ملکہ سبا کے پاس سب کچھ موجود ہے حالانکہ جب اُ س نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا کہ میرے پاس تو اِس سے بھی بڑھ کر چیزیں ہیں مَیں ان تحفوں سے کیونکر متأثر ہوسکتا ہوں۔پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے پاس ملکہ سبا سے بڑھ کر مال ودولت اور سامان موجود ہے ا ور اس کے باوجود ہُد ہُد کہتا ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَي ئٍ ملکہ سبا کو ہر چیز میسّر تھی تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَي ئٍ سے یہ مراد نہیں تھی کہ ملکہ سبا کو ہر نعمت میسّر تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ اس کی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہوسکتی تھی وہ تمام چیزیں اُ سے حاصل تھیں اسی طرح عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھاَ سے یہ مراد ہے کہ اُس وقت جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ تمام آدم کو سکھادئیے گئے مثلاً یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے، یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے کھا لے تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اسی طرح طاقت کی بعض دوائیں الہامی طور پر بتا دی گئی ہوں۔اسی طرح بعض اخلاقی احکام بھی حضرت آدم علیہ السلام کو الہاماً بتائے گئے ہوں۔
(۸)۔ آٹھویں انہیں ایک واجب الاطاعت امیر ماننے کا بھی حکم تھا، جیسا کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۴۷؎ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۹)۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میںبعض ایسے احکام بھی نازل ہوئے تھے جن میں یہ ذکر تھا کہ تمہیںبعض جرائم کی سزا بھی دینی چاہئے جیسے قتل وغیرہ ہیں۔ اس امر کا استنباط اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّ مَائَ۴۸؎ کے الفاظ سے ہوتا ہے۔یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اب دنیا میںایک عجیب سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ بعض آدمیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کو مارڈالیں، جیسے ہر گورنمنٹ آجکل قاتلوںکو پھانسی دیتی ہے مگر گورنمنٹ کے پھانسی دینے کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی اور قتل کر دیتا ہے تو اُسے سخت مُجرم سمجھا جاتا ہے۔فرشتوں کے لئے یہی بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے کہا، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیںآئی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب آدم جب کسی کو قتل کی سزا میں قتل کر دے گا تو اس کایہ فعل اچھا سمجھا جائے گا۔کوئی اور گھر سے نکال دے تو وہ مُجرم سمجھا جاتا ہے ، لیکن اگر آدم کسی کو جلا وطنی کی سزا دے گا تو یہ جائز سمجھا جائے گا۔ا ِس زمانہ میںروزانہ ایسا ہی ہوتا ہے گورنمنٹ مجرموں کو پھانسی پر لٹکاتی ہے مگر کوئی اُسے ظالم نہیں کہتا، وہ لوگوں کو جلاوطنی کی سز ا دیتی ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ گورنمنٹ نے بُرا کیا لیکن اُس زمانہ میں یہ ایک نیا قانون تھا اور فرشتوں کے لئے قابلِ حیرت۔ پس فرشتے بطور سوال اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک جائز صورت بھی پیدا کرلی گئی ہے یا پہلے تو دوسروں کو اپنے گھروں سے نکالنا جُرم سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اس کی ایک جائز صورت بھی نکل آئی ہے اور آدم جب یہی فعل کرے گا تو اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اگلی آیت میںاُ ن کے اسی سوال کا جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ، دنیا میںنظام کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سزائیں دی جائیں اگر ان کو سزائیں نہ دی جائیں تو کارخانۂ عالَم بالکل درہم برہم ہو جائے تو اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُفِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جرائم کی سزا بھی مقرر ہو چکی تھی۔
(۱۰)۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت شادی کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے کیونکہ آدم کی بیوی کا ذکر کیا گیا ہے، گویا مرد وعورت کے تعلقات کو ایک قانون کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی آثارِ قدیمہ کا خلاصہ
خلاصہ یہ کہ قرآنی آثارِ قدیمہ نے ابتدائے خلق کاذکر یوں
کیا ہے کہ مخلوق خالق کے حُکم سے بنی ہے۔ پہلے باریک ذرّات تیار ہوئے، پھر پانی نے الگ شکل اختیار کی پھر وہ خشک ذرّات سے مرکّب ہؤا، اور ایک قوتِ نامیہ پیدا ہوئی۔ اس سے مختلف تغیّرات کے بعد حیوان پیدا ہؤا، حیوان آخر نُطفہ سے پیدا ہونے والا وجود بنا یعنی نر ،مادہ کا امتیاز پیدا ہؤا، ا س کے بعد ایک خاص حیوان نے ترقی کی اور عقلی حیوان بنا۔مگر عقل تھی مگر تھاناری، تمدّن کے قبول کرنے کی طاقت اس میںنہ تھی ،غاروں میں رہتا تھا۔ اس کے بعد ایساانسان بنا جو تمدّن کا اہل تھا اسے الہام ہونا شروع ہؤا اور وہ پہلا تمدّن صرف اتنا تھا کہ (۱) نکاح کرو (۲) قتل نہ کرو(۳) فساد نہ کرو(۴) ننگے نہ رہو(۵) ایک دوسرے کی کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے معاملہ میں مدد کرو (۶) اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو (۷) ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کر لو اور اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اگر تم اس کے کسی حکم کو توڑو تو تم سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہو۔
یہ اُس وقت کی گورنمنٹ تھی اور یہی اس گورنمنٹ کا قانون تھا اور یہ علم جو میں نے قرآن کریم سے اَخذ کر کے بیان کیا ہے ایسا واضح ہے کہ موجودہ تحقیق اِس سے بڑھ کر کوئی بات بیان نہیں کر سکتی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کے متعلق کوئی تاریخ ایسا علم مہیا نہیں کر تی جیسا علم کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔ڈارون تھیوری پر اہل یورپ کو بہت کچھ ناز ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈارون تھیوری بھی ا س کے مقابلہ میںنہیں ٹھہر سکتی۔ وہ نہایت ہی بیوقوفی کی تھیوری ہے جو اہلِ مغرب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، میں ہمیشہ اس تھیوری کے پیش کرنے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ اچھا جس چیز سے انسان پہلے بنا تھا اُس چیز سے اب کیوں نہیں بن سکتا؟ میںنے دیکھا ہے جب بھی میں یہ سوال کروں وہ عجیب انداز میںسرہلا کر گویا کہ میں اس تھیوری سے بالکل ناواقف ہوں کہہ دیتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ تغیّر لاکھوں بلکہ کروڑوں سال میں ہؤا ہے، میں انہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میںجو جانور موجود ہیں ان پر بھی لاکھوں کروڑوں سال گزر چکے ہیں پھر وہ تغیّر کیوںبند ہو گیا ہے اس میںشک نہیں کہ آدم سے لے کر اِس وقت تک لاکھوں کروڑوں نہیںہزاروں سال گزرے ہیں، لیکن حیوانات آدم کے زمانہ سے تو شروع نہیں ہوئے وہ تو لاکھوں کروڑوں سال ہی سے موجود ہیں اور آدم کے بعد کے زمانہ نے اس میں کسی قدر زیادتی ہی کی ہے، پس لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جو تغیّر ہونا ضروری تھا وہ آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ ہزاروں سال پہلے ہؤا تھا،کیونکہ زمانہ اس کے بعد ممتد ہو رہا ہے ُسکڑ نہیں رہا۔بلکہ حق یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کے بعد جو تغیّر حیوانات میںہؤا تھا وہ پہلی دفعہ کے بعد جاری ہی رہنا چاہئے تھا کیونکہ لاکھوں کروڑوں سالوں بعد جن تغیّراتسے بشر کا مورثِ اعلیٰ جانور پیدا ہؤا تھا اگلی صدی میںاور اس سے اگلی صدی میںاور بعد کی بیسیوں اور صدیوں میں بقیہ جانوروں پر اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس قدر کہ پہلے تغیّر کے وقت گزرا تھا ۔پس اگر اس قسم کا تغیر ہؤ ا تھا جس کا ذکر ڈارون کے فلسفہ کے قائل کرتے ہیںتو بعد میں وہ تغیر بند نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ جاری رہنا چاہئے تھا سوائے اس صورت کے کہ سابق کے تغیّراتایک بِالا رادہ ہستی نے ایک خاص غرض اور مقصد کے ماتحت پیدا کئے ہوں اور ان اغراض ومقاصد کے پورا ہونے پر اسی سلسلہ کو بند کر دیا ہو اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔
شجرہ ٔآدم کیا چیز ہے؟
اب میںاس سوال کو لیتا ہوں کہ شجرۂ آدم کیا چیز ہے میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ وہ شجرہ کیا چیز تھی
جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا ، مگر میں کہتا ہوں اس بارے میںسب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے چُھپا یا ہے اُس کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی غلطی ہوئی مگر خدا نے نہ چاہا کہ اپنے ایک پیارے بندے کی غلطی دنیا پر ظاہر کرے اور اس نے اُس غلطی کو چُھپا دیا۔اب جبکہ خدا نے خود اسے چُھپا دیا ہے تو اور کون ہے جو اس راز کو معلوم کر سکے، جسے خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سورہ تحریم میںفرماتا ہے۔ وَاِذْاَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِہٖ وَ اَظْھَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَأَ کَ ھٰذَا قَالَ نَبَّاَ نِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ۴۹؎
یعنی اُس وقت کو یا دکرو جب ہمارے نبی نے مخفی طور پر ایک بات اپنی ایک بیوی سے کہی جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور سے کہہ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خبر دیدی کہ تمہاری بیوی نے وہ بات فلاں شخص سے کہہ دی ہے اِس پر ہمارے نبی نے اپنی بیوی کوکچھ بات بتا دی اور کچھ نہ بتائی جب ہمارے نبی نے وہ بات اپنی بیوی سے کہی تو اُس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے کہہ دی؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اُسی نے بتائی ہے جو زمین وآسمان کا خدا ہے اور جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اب یہاں اِس بات کا ذکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہی تھی محض ضمیروں میں کیا گیا ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ایک بات تھی جو ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی کو بتائی ، وہ بات اُس بیوی نے کسی اَور کو بتا دی ۔ اِس پر خدا نے الہام نازل کیا اور اپنے رسول کو بتایا کہ وہ بات جو تو نے اپنی بیوی سے کہی تھی وہ اُس نے کسی اور سے کہہ دی ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کر دیا بیوی کہنے لگی یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم اور خبیر خدا نے یہ بات بتائی ہے۔یہ ساری ضمیریں ہیں جن میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر بات کا کہیں ذکر نہیں، لیکن ہمارے مفسّرین ہیں کہ وہ اپنی تفسیروں میںیہ بحث لے بیٹھے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیوی سے کیا بات کہی تھی۔ پھر کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے اور کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے حالانکہ اِس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب خدا نے ایک بات کو چھپایا ہے اور یہ پسند نہیں کیا کہ اُسے ظاہرکرے تو کسی مفسّر کاکیا حق ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر وہ کوئی بات بیان بھی کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات درست ہوگی، یقینا جس بات کو خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر نہیں کر سکتا اور اگر کوئی قیاس دَوڑائے گا بھی تو وہ کوئی پختہ اور یقینی بات نہیں ہوگی محض ایک ظن ہو گا یہی حال شجرہ آدم کا ہے جب خدا نے یہ ظاہر نہیںکیا کہ وہ شجرہ کیا تھا تو ہم کون ہیں جو اس شجرہ کو معلوم کر سکیں۔ تم کسی چیز کا نام شجرہ رکھ لو، مختصر طور پر اتنا سمجھ لو کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اُس کے قریب نہ جانا مگر حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور وہ اُس کے قریب چلے گئے جس پر انہیں بعد میںبہت کچھ تکلیف اُٹھانی پڑی بہرحال بہتریہی ہے کہ جس بات کو خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو نہ کی جائے اور بِلاوجہ یہ نہ کہا جائے کہ شجرہ سے فلاں چیز مراد ہے ، لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہیں ہوتی تو پھر وہ یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ دیکھنا شیطان کے پاس نہ جانا وہ تمہارا سخت دشمن ہے اگر اس کی باتوں میں آگئے تو وہ ضرور کسی وقت تمہیں دھوکا دے دیگا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا مگر شیطان نے جب دیکھا کہ یہ میرے دائو میںنہیں آتے تو اُس نے کہا کہ صُلح سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ ہم اور تم آپس میں صُلح کر لیں اور اِن روز روز کے جھگڑوں کو نپٹا دیں جیساکہ یورپ والے بھی آجکل بظاہر ’’پِیس پِیس‘‘ (PEACE-PEACE) کا شور مچا رہے ہوتے ہیں اور اندر بڑے زور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔اٹلی کی جب ٹرکی سے لڑائی ہوئی تو اِس لڑائی سے تین دن پہلے اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ تُرکوں سے ہماری اتنی صلح ہے اور اس قدر اس سے مضبوط اور اچھے تعلقات ہیںکہ پچھلی صدی میںاس کی کہیں نظیر نہیں مل سکتی ، مگر اس اعلان پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اٹلی نے ٹرکی پر حملہ کر دیا۔یہی حال باقی یوروپین اقوام کاہے وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ صلح بڑی اچھی چیز ہے، امن سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی شَے نہیں ،مگر اندر ہی اندر سامان جنگ تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا وہ صلح صلح اور امن امن کے نعرے اس لئے نہیں لگاتے کہ انہیں صلح اور امن سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے نعرے لگاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی پوری طرح جنگ کی تیاری نہیںکی ہوتی اور وہ چاہتے ہیں کہ صلح اور امن کا شور مچا کر دوسروں کوجس حد تک غافل رکھا جا سکے اُس حد تک غافل رکھا جائے اور پھر یکدم حملہ کر دیا جائے۔یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میںبھی ہؤا۔خداتعالیٰ نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ ٔشیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا کیونکہ شیطان کے ساتھ جب بھی صلح ہو گی اس میں مؤمنوں کی شکست اور شیطان کی فتح ہو گی اور اس صلح کے نتیجہ میںتمہارے لئے بہت زیادہ مشکلات بڑھ جائینگی۔حضرت آدم علیہ السلام نے اِس حُکم کے نتیجہ میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی۔ جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیںبنے گا تو اس نے صلح صلح کاشور مچادیا او رکہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے امن تو صلح سے ہو سکتا ہے پس بہتر ہے کہ ہم آپس میں صلح کر لیں ۔حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کر لی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میںفتنہ وفساد پیدا کر دیا اور وہ مقصد جس کوباہر رہ کر وہ حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اُس نے اندر آ کر حاصل کر لیا اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا ۔تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائو اور زمین میں پھیل جائو ۔پس اگر اس کے کوئی معنے ہو سکتے ہیں تو یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ خاندانِ ابلیس سے دُور رہو، ابلیس نے صلح کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے بڑی ترقی ہو گی، حضرت آدم اس دھوکا میں آگئے اور شیطان سے صلح کر کے انہوں نے بہت کچھ تکلیف اُٹھائی نتیجہ یہ ہؤا کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ تم یہاں سے چلے جائو اور زمین میںپھیل جائو او ریاد رکھو کہ تم دونوں گروہوں میں ہمیشہ جنگ رہے گی یہ معنے بھی ہیں جو اِن آیات کے ہو سکتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ جسے خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو میںہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس سبق کے سکھانے کے لئے اس واقعہ کو بیان کیاگیا ہے وہ سبق حاصل کر لیں۔
پیدائشِ انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت
پیدائش انسانی میںارتقاء کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
الہام میںبھی ارتقاء رکھا ہے۔ کامل اور مکمل شریعت پہلے ہی روز نہیں آ گئی بلکہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ الہام میں ترقی ہوئی ہے۔ چنانچہ جب بھی غیر مذاہب والوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرقرآن میں کامل شریعت تھی تو ابتدائے عالَم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں نازل نہ کر دیا، تو اِس کا جواب ہماری طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ اگر اُس وقت قرآن نازل کر دیا جاتا تو کسی انسان کی سمجھ میں نہ آسکتاکیونکہ ابھی عقلی ترقی اِس حد تک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قرآنی شریعت کے اسرار اور غوامض سمجھ سکے تو الہامِ الٰہی کا فلسفہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس سے صریح طور پریہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی ترقی بھی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے۔دیکھ لو پہلے حضرت آدمؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے، پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے، پھر حضرت عیسیٰ ؑ آئے، مگر باوجود یکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک ہزاروں برس گزر چکے تھے آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:-
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا‘‘ ۵۰؎
اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ابھی لوگوں کی حالت ایسی نہیں ہوئی تھی کہ وہ کامل شریعت کو سمجھ سکتے اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اُن کے لئے نسبتاً نامکمل انکشاف ہو۔ یہ ارتقاء جو الہام اور شریعت میںہؤا ہے اس بات کایقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی ارتقائی تھی اگر یکدم ترقی کر کے انسان کامل بن گیا ہوتا تو پہلے ہی دن اس کے لئے کامل شریعت کانزول ہو جاتا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ آجکل آرین خیالات کے لوگ اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام ارتقاء کا قائل نہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے مسئلہ ارتقاء کا ردّ کیا ہے حالانکہ اسلام ہی ہے جو جسمانی اور رُوحانی دونوں قسم کے ارتقاء کا قائل ہے اس کے مقابلہ میں آرین خیالات الہام کے متعلق قطعاً غیر ارتقائی ہیں۔ چنانچہ آریہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے عالَم میں ہی ایک مکمل الہامی کتاب بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل فرما دی۔ یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ آریہ مذہب نہ صرف رُوحانی ارتقاء کا قائل نہیں بلکہ جسمانی ارتقاء کا بھی قائل نہیںکیونکہ اگر ابتداء میں انسان عقلی لحاظ سے کمزور تھا تو کامل الہامی کتاب کا نزول اس کے لئے بے فائدہ تھا اور اگر پہلے روز وہ اُسی طرح کامل انسان تھا جس طرح آج ہے تو معلوم ہؤا کہ آرین عقائد کے رُو سے انسان کی پیدائش جسمانی ارتقاء کے ماتحت نہیںہوئی۔ غرض آرین خیالات اس بارہ میں قطعاً غیر ارتقائی ہیں اور وہ اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اس کے مقابلہ میں سمیٹک(SEMITIC) یعنی سامی نسلیں رُوحانی ارتقاء کی قائل ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ پہلے حضرت آدم ؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے جنہوں نے کئی روحانی انکشافات کئے پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے اور ان سب نے کئی روحانی انکشاف کئے ۔ پس سامی نسلیں ہی ہیں جو ارتقاء کو تسلیم کرتی چلی آئی ہیں ، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامی نسلوں پرہی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کی قائل نہیں اور جو اعتراض کرنیوالے ہیںان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ارتقاء کا انکار کرتے چلے آئے ہیں۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فرانسیسی درسی کتب میں قصہ لکھتے ہیںکہ ایک فرانسیسی لڑکا اپنے کسی دوست سے ملنے گیا۔ اس کے پاس ایک لٹّو تھا اُ س نے شوق سے اپنے دوست کو وہ لٹّو دیکھنے کو دیا جس نے لٹّو دیکھ کر اپنی جیب میںڈال لیا اور سلام کہہ کرچل پڑا۔ جب لٹّو والے لڑکے نے لٹّو واپس مانگا تو اُ س نے کہا کہ لٹّو تو میرا ہے۔ یہی ان کا حال ہے ہماری چیز لے کر اس پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور پھر بڑ ے زور سے قہقہہ لگا کرکہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کچھ پتہ ہی نہیں۔
ا ِس جگہ اس امر کا ذکر کرد ینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گو سمیٹک نسلیں ارتقائی ترقی کی قائل ہیں لیکن قرآن کریم کے سِوا دوسری سمیٹک تعلیم بھی اس بارہ میں ایک دھوکا کھا گئی ہے اور وہ یہ کہ اس نے جسمانی ارتقاء کا انکار کر دیا ہے حالانکہ روحانی ارتقاء بذاتِ خود اس بات پر دال ہے کہ جسمانی ارتقاء بھی ہؤا ۔بہرحال صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور یہ اس کی برتری اورفوقیت کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ جب آخر میں ایک جگہ آ کر شریعت کو تم نے بھی بند تسلیم کر لیا ہے تو پھر شروع میں ہی ایسا کیوں نہ کیا گیا اور کیوں شروع میں تو ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ ارتقائی سلسلہ بند ہو گیا۔
شریعت میںارتقاء ختم ہو جانے کی وجہ
ا ِس کا جواب یہ ہے کہ اس میںبھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہ ہے اور شریعت میں ارتقاء
آج اُسی طرح ختم ہو چکا ہے جس طرح انسانی جسم میںارتقاء ختم ہو چکا ہے۔آخر انسانی جسم کے جس قدر حصے ہیں اب ان میں کونسا بنیادی فرق ہوتا ہے جس طرح آج ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اسی طرح آج سے ہزار سا ل پہلے پیدا ہؤا تھا اور جس طرح آج اس کے ہاتھ، پائوں، ناک، کان اور منہ ہوتے ہیں اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے ا س کے اعضاء ہوتے تھے پس جس طرح جِسم انسانی میںبنیادی ارتقاء ختم ہو چکا ہے اسی طرح شریعت میںبھی پہلے جو ارتقاء کا سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ہاں ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ اب گو جسمانی ترقی بند ہو چکی ہے مگر دماغی ترقی بدستور جاری ہے اور اب وہ ارتقاء جو پہلے جسم میںہؤا کرتا تھا دماغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور انسان کی دماغی قابلیتوں میںہر روز نیا سے نیا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گو اب شریعت کا نزول بند ہو چکا ہے مگر اب وہی ارتقاء اس شریعت کے معارف کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور نئے سے نئے قرآنی اسرار دنیا پرمُنکشف ہوتے جارہے ہیں۔ پس اس ارتقاء میں بھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہ ہے۔وہاں بھی پہلے جسمانی بناوٹ میں ارتقاء ہؤا پھر خالص دماغی ارتقاء رہ گیا۔اسی طرح شریعت میںبھی پہلے ظاہری وباطنی احکام میںارتقاء ہؤا لیکن آخر میں ظاہری شریعت حدِکمال کو پہنچ گئی اور اب صرف باطنی ارتقاء باقی ہے جس کا دروازہ قیامت تککھلا ہے۔پس ہم دونوں طرف سے ارتقاء کے قائل ہیںجسمانی طرف سے بھی اور روحانی طرف سے بھی۔ اور ہم گو یہ ایمان رکھتے ہیںکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی مگر ہم اِس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر غیر محدود معارف وحقائق کے خزانے ہیں اور قرآن کریم کے معارف کا یہ باطنی ارتقاء بند نہیں ہؤا بلکہ قیامت تک جاری ہے چنانچہ ہم اس کا نمونہ اپنی ذات میںدیکھ رہے ہیں کہ جو معارفِ قرآنیہ ہم پر کھلے ہیں وہ پہلے مفسّروں پر نہیںکھلے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے آدم ؑکے آثارِ قدیمہ اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ ان کی مثال کسی اَور جگہ نہیں پائی جاتی۔اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارہ میں زبردست انکشاف اس نے کئے ہیں ، مگر سرِدست مَیں اس مضمون کو چھوڑ کر بعض دیگر انکشافات کو لیتا ہوں جو مختلف انبیاء کے بارہ میںقرآن کریم نے کئے ہیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق قرآنی انکشاف
میںقرآنی آثارِ قدیمہ کے اُس کمرہ کو دیکھنے کے
بعد عالمِ تخیّل میںالٰہی آثارِ قدیمہ کے ایک اور کمرہ میںچلا گیا اور وہاں مَیںنے ایک اور عجیب نشان دیکھا۔مجھے دکھائی دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہے اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کہ وہ خود بھی نبی تھے اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ یٰـقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ۵۱؎ اے میری قوم! تم ایک ابتلاء میںڈالے گئے ہو تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میںکہتا ہوں اُس کی اطاعت کرو۔مَیں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ ہے جو اُس زمانہ میں پیدا ہؤا ۔ پھر مَیں نے اپنے دل میںکہاآئو مَیںمعلوم تو کروں اُ س وقت کیا فتنہ اُٹھا تھا۔مگرمیں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں اُس کتاب کو دیکھوں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور اُسے پڑھ کر معلوم کروں کہ اُ س میں کیا لکھا ہے۔چنانچہ مَیںنے تورات اُٹھائی اور اُسے پڑھنا شروع کیا تو اس میںلکھا تھا:-
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑسے اُترنے میںدیری کرتا ہے تو وے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اُسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بناکہ ہمارے آگے چلیں۔ کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اُسے کیا ہؤا، ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جوتمہاری جوروئوں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میںہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو ، چنانچہ سب لوگ سونے کے زیور جو اُن کے کانوں میںتھے توڑ توڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اُس نے اُ ن کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اُس کی صورت حکّاکی کے ہتھیار سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیںمصر کے ملک سے نکال لایا‘‘ ۵۲؎
گویا تورات یہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پرجانے کے بعد جب فتنہ پیدا ہؤا تو لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام پر زور دینا شروع کیا کہ ہمیں ایک بُت بنا دو جس کی ہم پرستش کریں۔ حضرت ہارو ن علیہ السلام نے کہا اپنے اپنے گھر سے زیور لے آئو۔ چنانچہ وہ زیور لائے اور انہوں نے اُن زیورات کو ڈھال کر ایک بُت بنا دیا اور کہا کہ یہی وہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کی زمین سے نکال لایا۔یہودی کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا الہام ہے مگر محقّقین کہتے ہیں کہ یہ الہام نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو تین سَو سال کے بعد اُس وقت کے حالات ہیں جو مؤرّخین نے لکھے۔بہرحال کم سے کم یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہماالسلام کے قریب زمانہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے لیکن حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے انیس سَوسال کا فاصلہ ہے اور یہ کتاب جس میں حضرت ہارون علیہ السلام پر بُت گری کا الزام لگایا گیا قریباً سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے پس وہ کتاب جو قرآن مجید سے سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے لکھی گئی ، اس میںتو یہ لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے زیورات کو ڈھال کر خود ایک بچھڑا بنایا اور لوگوں سے کہا کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا، مگر جب ہم قرآنی آثارِ قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ ٰیقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ ٰیقَوْمِ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ۵۳؎ کہ موسیٰ کے جانے کے بعد جب لوگوں نے ایک بچھڑا ڈھال کر اُسے اپنا معبود بنا لیا تو ہارون نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! بدمعاشوں نے تمہیں دھوکا میںڈال دیا ہے اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ تمہارا رب تو وہ ہے جو رحمن ہے جو زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا ہے فَاتَّبِعُوْنِیْ پس تم میری اتباع کرو اُن بدمعاشوں کی اِتّباع نہ کرو جنہوں نے تم کو غلط راستہ پرڈال دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مجھے قرآنی آثارِ قدیمہ میں سے ملی ۔ اس کے بعد مَیں نے بائیبل کو بھی دیکھا کہ اس کی چوری کہیں سے پکڑی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ مشرکانہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو نبوت تو کیا انہیں ایمان سے بھی چھٹی مل جاتی اور کوئی شخص انہیںمؤمن سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا کُجا یہ کہ اُنہیں نبی مانتا۔مگر جب ہم بائیبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے واپس آکر جب دیکھا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ہے تو انہوں نے لوگوں کو سخت ڈانٹا۔بچھڑے کو آگ سے جلا دیا اور قریباً تین ہزار آدمیوں کو قتل کی سزا دی۔۵۴؎ اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پر گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے خداتعالیٰ کا یہ حکم لائے کہ:-
’’ہارون کو مقدس لباس پہنا اور اس کو چُپڑ۔ اور اُسے مقدس کر تا کہ کاہن کا کام میری خدمت میںکرے اور اُ س کے بیٹوں کو نزدیک لا اور اُ ن کو کُرتے پہنا اور اُن کو چُپڑ۔ جیسے اُ ن کے باپ کو چُپڑاہے تا کہ وہ کاہن کا کام میری خدمت میں کریں اور یہ مساحت اُ ن کے لئے اور اُن کے قرنوں کیلئے ہمیشہ کی کہانت کا باعث ہو گی اور موسیٰ نے ایسا کیا سب جو خداوند نے اس کو حکم کیا تھا عمل میںلایا‘‘۔۵۵؎
گویا اس مشرکانہ فعل کے بعد جو بروئے بائیبل حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہؤا تھا خداتعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے فیصلہ یہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایا جائے اور نہ صرف اس کی عزّت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کرنا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے اور عبادت گاہوں اور مساجد کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے۔ کیا ایک مشرکانہ فعل کایہی نتیجہ ہؤا کرتا ہے؟اور کیا اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیا جاتا؟ بائیبل کی یہ اندرونی گواہی صاف طورپر بتا رہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کی تائید نہیںکی تھی بلکہ شرک کی مخالفت کی تھی اور چونکہ انہوںنے خداتعالیٰ کی توحید کی تائید کی اس لئے خدا بھی اُن پر خوش ہؤا اور اُس نے کہا کہ چونکہ ہارون نے میری عبادت دنیامیں قائم کی ہے اس لئے آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کی اولاد کے سپرد کیا جائے۔ پس بائیبل کی یہ اندرونی گواہی اس الزام کی تردید کر رہی ہے جو اُس نے اسی کتاب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگایا ہے اور قرآن کریم کے بیان کی جو اس کے نزول کے ساڑھے اُنیس سَوسال بعد یا اس کی تحریر کے سترہ اٹھارہ سَو برس بعد نازل ہؤا ہے تصدیق کرتی ہے۔
ہر قوم کی طرف خدا تعالیٰ نے رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے
ـپھرمَیں نے آثارِ قدیمہ کا تیسر اکمرہ دیکھا تو مجھے نظرآیا
کہ تمام قوموں میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ اُن کے سَواصداقت سے کوئی آشنا نہیں۔ ہر قوم دوسری قوم کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ اُس میں جھوٹ، فریب اور دغابازی کے سوا اور کچھ نہیں۔میں نے ہندوئوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خداتعالیٰ نے سب معرفت اور ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیاکو دیدی ہے، اب اس کے بعد کسی اور الہام کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی اور قوم میں کوئی رِشی آتا ۔ مَیں نے زرتشتیوں کی طرف دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے سنُا کہ زرتشتیوں کے سوا اور کوئی مذہب سچا نہیں۔ مَیں نے یہودیوں کو دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے پایا کہ قریباً تمام انبیاء خدا نے بنی اسرائیل میں ہی بھیجے ہیں، دوسری اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے محروم ہی رکھا ہے اور مَیں نے مسیحیوں کی طرف نگاہ کی تو اُن کا عقیدہ بھی مجھے ایساہی نظر آیا۔غرض ہر قوم کو مَیں نے یہ کہتے سنا کہ روحانی تہذیب کا نشان اس کے سوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا، مگر جب مَیںنے قرآنی آثارِقدیمہ کے محکمہ کو دیکھا تو مَیں نے اس کے ایک کمرہ میں یہ لکھا ہؤا پایاکہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَانَذِیْرٌٌ۵۶؎ کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میںخداتعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں، نہ ہندو بغیرنبی کے رہے نہ ایرانی بغیر نبی کے رہے، نہ یہود بغیر نبی کے رہے اور نہ یورپین لوگ بغیر نبی کے رہے، غرض قرآن کے آثارِ قدیمہ کے محکمہ نے بتایا کہ خدا نے ہر جگہ روشنی کے مینار کھڑے کئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیا مگر بہرحال خدا کی طرف سے انہیں ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا ۔ان میں جو خرابیاں پید اہوئی ہیں وہ بعد میں ہوئی ہیں جن کی ذمہ داری خود اُن پر ہے ورنہ خدا نے سب سے یکساں سلوک کیا ہے او رہر ایک کی طرف اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ مَیں نے جب یہ دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، مگر مَیں نے کہا آئو اب میںان عظیم الشان ہسیتوں کے کچھ نشانات بھی دیکھ لوں۔بیشک اُنہوںنے عظیم الشان کام کیا اور دنیامیں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا مگر مَیں دیکھوں تو سہی کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے۔مَیں اس جستجو اور تلاش میںسابقہ کتب کے محکمہ آثارِ قدیمہ میں داخل ہو گیا مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان عظیم الشان ہسیتوں کے کپڑوں پر جو اُن کے اتباع کے پاس موجود تھے نہایت گندے اور گھنائونے داغ تھے کسی کے جُبہّ پر چور لکھا تھا اور کسی کے جُبہّ پر بٹمار اور کسی کے جُبہّ پر ظالم اور دوسروں کا مال کھانے والا اور کسی کے جُبہّ پر فاسق وفاجر۔کسی کے جُبہّ پر جھوٹا اور کسی کے جُبہّ پر غاصب ،یہاں تک کہ بعض کے جُبّوں پر مشرک کے الفاظ تحریر تھے اور یہ سب اُن کے اتباع کے ہاتھوں میںتھے غیروں کے دست بُرد کا اس میں دخل نہ تھا۔ مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اتنے گندے لباس ان عظیم الشان ہستیوں کے ہوں جن کے احسانات کے بارِگراں کے نیچے دنیا دبی ہوئی ہے۔ میں نے اُن کے اس لباس کودیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور مَیں نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ اُن کے لباس نہیں ہو سکتے اسی حیرت اور استعجاب کے عالَم میں قرآنی آثارِ قدیمہ کے ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور وہاں جو مَیں نے اُن کا لباس دیکھا، اُس کی چمک اور خوبصورتی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں،چنانچہ مَیں نے انعام رکوع ۱۰ میں قرآنی آثارِ قدیمہ کا ایک کمرہ دیکھا جس میںلکھا تھا۔ وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰـھَآاِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ- نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ - وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاوَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھَارُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْيٰ وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ- وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰـھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْاَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ- اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَا ھٰٓؤُ لائِ فَقَدْ وَکَّلْنَابِھَا قَوْماً لَّیْسُوْابِھَا بِکٰفِرِیْنَ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِنْ ھُوَاِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ۵۷؎ کہ یہ ہمارے دلائل اور نشانات تھے جو ہم نے ابراہیم کو اُ س کی قوم کے خلاف بخشے اور ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں۔تیرا رب بڑی حکمت سے کام کرنے والا اور تمام باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب دیئے اور اُن کو ہدایت دی اسی طرح اس سے قبل نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی۔ پھر ابراہیم کی ذرّیت میں سے دائود،سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون ہوئے اور ہم اسی طرح نیک لوگوں کو جزاء دیا کرتے ہیں، اسی طرح زکریاؑ،یحییٰ ؑ، عیسیٰ ؑ اور الیاسؑ یہ سارے نیک لوگ تھے اور اسمعٰیلؑ ،الیسعؑ،یونسؑ اور لوط ؑان سب کو ہم نے دنیا پر عزت اور بزرگی بخشی اور اُن کے باپ دادوں میں سے اُن کی ذرّیت اور اُن کے بھائیوں میں سے بھی ہم نے کئی لوگوں کو چُنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا۔ یہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ مشرک ہوتے یا خراب ہوتے تو یقینا یہ اپنے مقصد میںناکام رہتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی اور حُکم بخشااو رنبوت عطا فرمائی۔ اگر ان لوگوں کے بعض منکر ہیںتو یقینا ہم نے ایسے لوگ بھی بنادئیے ہیں جوان کی قدر وعظمت کو سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔ پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں تو بیشک وہی کام کر۔ کیونکہ انہوں نے کوئی کام ہدایت کے خلاف نہیں کیا اور لوگوں سے کہدے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو دنیا کے لئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ا گر لوگ ان باتوں کومان لیں گے تو اس میں اُ ن کا اپنا فائدہ ہے اور اگر انکار کریں گے تو اس کانقصان بھی اُنہیں ہی برداشت کرنا پڑیگا۔
اب قرآن تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب لوگ نیک اور راستباز تھے، مگر جب مَیں نے غیر مذاہب کی تعلیموں کو دیکھا تو مجھے ان میں نظر آیا کہ کوئی کہہ رہا ہے ابراہیم نے جھوٹ بولامَیں نے ایک نظر اس الزام پر ڈال کر جب قرآن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اس کی تردید کر رہا ہے، اسی طرح پُرانے آثار میںاسحاق ؑاور یعقوب ؑکے متعلق عجیب عجیب قصّے پائے جاتے ہیں، اسحاقؑ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا اور یعقوب ؑکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے فریب سے نبوّت حاصل کی، مگر یہاں آ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤاکہ اسحاق ؑاور یعقوب ؑمیںکوئی نقص نہ تھا۔ اسی طرح نوح ؑکے متعلق جب مَیں نے بائیبل کے مطابق اس کے آثار کو دیکھا تو وہاںمجھے یہ نظر آیا کہ نوح ؑ شراب پِیا کرتا تھا ، دائود ؑکے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ قاتل اور خونریز تھا، مگر قرآنی آثارِ قدیمہ میں مجھے ان میںسے کوئی بات دکھائی نہ دی، بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا ہؤا پایا کہ یہ لوگ معصوم تھے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اسی طرح سلیمان کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انہوںنے کفر کیا، ایوب ؑ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے صبری دکھائی، یوسف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چور تھا۔ اسی طرح موسیٰ ؑکے متعلق کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور ہارون ؑ کے متعلق تو کھلے طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے بچھڑا بنا کر رکھ دیا اور انہیں کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے یہی حال زکریاؑ، یحییٰ ؑ،عیسیٰ ؑ،الیاس ؑ، اسمعٰیل ؑ، الیسعؑ،یونس ؑ او ر لوطؑ وغیرہ کا ہے اور کرشن، رامچندر اور زردشت کے اپنے قومی آثارِ قدیمہ بھی اُن کے متعلق ایسی ہی روشنی ڈالتے ہیں جو اُن کو اچھی شکل میںپیش نہیں کرتے اور مَیں نے دیکھا کہ ان کے لباس جو لوگ بتاتے ہیں وہ نہایت پَھٹے پُرانے اور میل و ُکچیل سے بھرے ہوئے تھے مگر جب قرآن کریم کے آثارِ قدیمہ کے کمروں کو مَیں نے دیکھا تو ان میں ہر نبی کا لباس نہایت صاف سُتھرا اور پاکیزہ دکھائی دیا ۔ پھر مَیں نے اپنی نظر اُوپر اُٹھائی توا س کمرہ کے دروازہ پر ایک بورڈ لگا ہؤا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ یہ لوگ بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے۔اُنہوں نے کوئی بات ہمارے حکم کے خلاف نہیں کی۔ پس جس بات کے متعلق بھی تمہیں یقینی طور پر پتہ لگ جائے کہ وہ ان انبیاء میں سے کسی نے کی ہے اُس پر بغیر کسی خدشہ کے فوراً عمل کرلیاکرو کیونکہ وہ ضرور اچھی ہو گی۔
(۲) جنتر منتر
دوسری سَیر مَیںنے جنتر منتر کی کی۔ جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے جہاں اجرامِ فلکی کے نقشے بنے ہوئے ہیں۔اسی طرح بعض بلند جگہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ستاروں اور اُن کی گردشوں کااچھی طرح معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ رصد گاہیں تین کام دیتی تھیں۔
اوّلؔ: علمِ ہیئت اور حسابِ اوقات کی صحیح معلومات حاصل کرنا۔ـ
دومؔ: اپنے خیال کے مطابق علمِ غیب دریافت کرنا۔
سومؔ: ستاروں کے بد اثرات سے بچنے کی کوشش کرنا۔
یہ نہایت خوشنما جگہ ہے اور لوگ اسے ایک پُرانے زمانہ کی یادگار سمجھ کر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے وقت میںمہاراجہ جے پور نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ مَیں نے کہا اس چھوٹے سے نقشہ کی تو لوگ قدر کرتے ہیں اور اس کے بنانے والے کو عزّت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن کبھی بھی وہ اُس حقیقی جنتر منتر کی طرف نگاہ نہیں اُٹھاتے جس کا یہ نقشہ ہے اور نہ اس کے بنانے والے کی صنعت کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں۔مٹی اور پتھر کی اگر کوئی دو اینٹیں لگا دے تو کہہ اُٹھتے ہیںواہ واہ! اُس نے کسقدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کتنی عظیم الشان طاقتوں کا مالک خدا ہے جس نے اس جنتر منتر سے کروڑوں درجے بڑا ایک اورجنتر منتر بنایا اور نہ صرف اس نے اتنا بڑا نقشہ بنایا بلکہ اس نقشہ کا دیکھنا بھی ممکن کر دیا کیونکہ قرآن کریم میں اصل نقشہ کی سیر کا بھی امکان پیداکیاگیا ہے مَیں نے اس غرض کے لئے سورہ انعام کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤاپایا۔وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ۵۸؎
کہ اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کے اسرار کھول کر دکھائے تا کہ وہ علم میںترقی کرے اور ہماری قدرتوں پریقین لائے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ امر کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مَیں نے ابراہیم کو اصل جنتر منتر کی سیر کرا دی اور زمین وآسمان کا نقشہ اسے دکھادیا۔ پھر یہیں پر بس نہیںبلکہ قرآن کریم کی امداد کے ذریعہ ان جنتروں منتروں پر انسان کُلّیۃًحاوی ہو جاتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطۂ اقتدار سے باہر نہیں رہتی چنانچہ فرماتا ہے دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۵۹؎ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھایا اور سورج چاند ستاروں سب کی سیر کراتا ہؤا آپؐ کو اتنا قریب لے گیا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں رہا ہی نہ۔ پس مَیں نے دیکھا کہ وہ باتیں جن کی تلاش میںلوگ سالوں سرگردان رہتے ہیں اور پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی اتباع میںایسی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں کہ نہ صرف اپنی خواہشات کو انسان پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے بلکہ اور بھی ہزاروں قسم کے علوم اُسے حاصل ہو جاتے ہیں مگر آہ! لوگ معمولی اینٹوں کے بنائے ہوئے جنتر منتر کی تو قدر کرتے ہیں مگر وہ اس جنترمنتر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جو ان کو ہزاروں فوائد سے متمتع کر سکتا ہے۔
قرآنی رصدگاہ میںستاروں کے بداثرات سے بچنے کا علاج
پھر مَیں نے کہا لوگ رصدگاہیں
اس لئے بناتے ہیں کہ وہ ستاروں کے بداثرات کا علم حاصل کر کے ان سے بچ سکیں مگر قرآنی رصدگاہ میں بھی ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا کوئی علاج ہے یا نہیں۔ مَیں نے جب دیکھا تو قرآن میںمجھے اس کا بھی علاج نظر آ گیا، آخر لوگ ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اسی لئے کہ کہیں ان پر کوئی تباہی نہ آ جائے۔ اب آئو ہم دیکھیں کہ کیا تباہیوں سے بچنے کا قرآن کریم نے بھی کوئی علاج بتایا ہے یا نہیں؟ اس مقصد کیلئے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ گُر بھی قرآن کریم میں بیان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَ َلآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ- اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ - لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۶۰؎
مَیں نے دہلی میںدیکھا کہ بالکل لغو اور فضول جنتر منتر ہیں جن کا مصائب کے دور کرنے پر کوئی اثر نہیںہو سکتا مگر اس کے مقابلہ میںقرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ دُکھوں او رتکلیفوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے دوست بن جائو پھر جس ستارے کا بھی بدا ثر تم پرہو سکتا ہو اس کو خدا خود دور کردیگا، تمہیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تمام جنتر منتر اُس کے قبضہ میںہے اگر وہ دیکھے گا کہ سورج کے کسی اثر کی وجہ سے تمہیںنقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اس کے بداثر سے تمہیں بچالے گا، اگر دیکھے گا کہ چاند کی کسی گردش سے تم پر تباہی آنیوالی ہے تو وہ خود اس تباہی سے تمہیںمحفوظ رکھے گا، تم ماش اور جَو پر پڑ ھ پڑھ کر کیا پھونکتے ہو؟ تم اللہ تعالیٰ سے دوستی لگائو جب تمہاری اس سے دوستی ہو جائے گی تو مجال ہے کہ اُ س کے کُتیّ تمہیں کچھ کہہ سکیں۔ پس مَیں نے جب قرآنی رصدگاہ میںسے اس علاج کو دیکھا تو میرے دل نے کہا واقعہ میں وہ بالکل فضول طریق ہیں جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں کیوں نہ اِس رصدگاہ کا جو اصل مالک ہے اور جو زندہ اور طاقتور خدا ہے اس سے دوستی لگائی جائے اگر مریخ کی کسی چال کا ہمیںنقصان پہنچ سکتا ہو گا تو خدا خود اس کا علاج کرے گا۔ہم میں ذاتی طور پر یہ کہاں طاقت ہے کہ ہم تمام ستاروں کے بداثرات سے بچ سکیں۔ اگر بِالفرض ایک ستارے کے بداثر سے ہم نکل بھی گئے تو ہمیں کیا پتہ کہ کوئی اور ستارہ ہمیں اپنی گردش میں لے آئے۔پس یہ بالکل غلط طریق ہے کہ انسان ایک ایک ستارہ کے بداثر سے بچنے کی کوشش کرے اصل طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایا کہ انسان ان ستاروں کے مالک اور خالق سے دوستی لگالے پھر کسی ستارے کی مجال نہیں کہ وہ انسان پر بداثر ڈال سکے۔
ایک بزرگ کا قصہّ
قصّہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالبعلم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا، کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن
واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے میاں ایک بات بتاتے جائو۔ وہ کہنے لگا دریافت کیجئے میں بتانے کے لئے تیار ہوں۔ وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتائو کہ تمہارے ہاںشیطان بھی ہوتا ہے ؟ وہ کہنے لگا حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا اچھا جب تم نے خداتعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلادیا تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میںشیطان کا مقابلہ کروں گا۔ کہنے لگے فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصُول کے لئے جدوجہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا مَیں پھر مقابلہ کرونگا۔ وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اُسے بھگا دیا لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قُرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں۔ وہ کہنے لگے اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے۔ وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا، اس پر اس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ توبتائو اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو اور اُس نے ایک کُتّا بطور پہرہ دار رکھا ہؤا ہو، اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کُتّے کو مارونگا اور کیا کرونگا۔ وہ کہنے لگے فرض کرو تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا، لیکن اگر دوبارہ تم نے اس دوست سے ملنے کیلئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اس نے تمہیں آپکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میںپھر ڈنڈا اٹھائونگا اور اُسے ماروں گا انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو مَیں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ ذرا باہر نکلنایہ تمہارا کُتّا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھال لو۔ وہ کہنے لگے بس یہی گُر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے کُتّے کو روکے اور تمہیں اپنے قُرب میںبڑھنے دے یہی نسخہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ فرماتا ہے۔ اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔
اے بڑی بڑی رصدگاہیں اور جنتر منتر بنانے والو! تم ستاروں کی گردش سے ڈر کر جنتر منتر کی پناہ کیوں ڈھونڈتے ہو، تم اس کاہاتھ کیوں نہیںپکڑ لیتے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں۔ اگر تم اس سے دوستی لگا لو تو تمہیںان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو۔ یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ رصدگاہوں اور جنتر منتر کا علاج تو بالکل ظنّی ہے مگر یہ وہ علاج ہے جو قطعی اور یقینی ہے۔
قرآنی رصدگاہ سے علِم غیب کی دریافت
دوسری بات جس کی وجہ سے لوگ ستاروں کی طرف توجہ کرتے ہیں علمِ غیب
کی دریافت ہے سو یہ بات بھی حقیقی طور پر قرآنی رصدگاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے باقی سب ڈھکونسلے ہیں، چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس رصدگاہ کے قوانین میںلکھا ہؤا تھا۔ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰ خِرَۃِ بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْھَا بَلْ ھُمْ مِّنْھَا عَمُوْنَ ۶۱؎
فرماتا ہے زمین وآسمان میںسوائے خدا کے اور کوئی غیب نہیںجانتا۔یعنی مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کو ہے اور یہ لوگ جو ستاروں کے پرستار ہیںاور انہیں دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کے دعویدار ہیں یہ تو اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے اوراتنی بات بھی نہیںجانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کریگی۔ یہ برابر تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان کی تباہی کب دُور ہو گی۔ اس کے مقابلہ میںمحمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو پہلے اکیلا تھا آج بہتوں کا سردار بنا ہؤا ہے اگر انہیں ستاروں سے علِم غیب حاصل ہو سکتا ہے تو کیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتا سکتے اور کیوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ترقی کوجو ستاروں سے علمِ غیب حاصل کرنے کا قائل نہیں روک نہیں دیتے؟ جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیںبتا سکتے تو انہوں نے اور کونسی غیب کی خبر بتانی ہے۔پھر فرمایا یہ تو دنیا کی بات ہے بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ۔بعد الموت کی حالت کے متعلق یہ علم سے بالکل خالی ہیںاور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جو کبھی غلطی کرتا اور کبھی ٹھیک راستہ پر چلتا ہے ۔ جس طرح اندھے کے ہاتھ کبھی لکڑی آجاتی ہے اور کبھی سانپ، اسی طرح ان کو بھی کبھی کوئی ایک آدھ بات درست معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی حق سے دُور باتوں کو سچ سمجھ کر یہ پکڑ لیتے ہیں۔
جب مجھے یہ آیت معلو م ہوئی تو مَیں نے کہا کہ اگر مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کے پاس ہی ہے تو ہمیںاس کاکیا فائدہ ہؤا، اٹکل پچو والے کو تو پھر بھی کبھی لکڑی مل جاتی ہے مگر ہم تو اس طرح اٹکل پچو والے فائدہ سے بھی محروم ہو گئے۔ اس پر مَیں نے دیکھا کہ قرآن نے میرے اس شُبہ کا بھی جواب دے دیا اور اس نے فرمایا۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّامَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۶۲؎ کہ ہم نے یہ علمِ غیب صرف اپنے پاس ہی نہیں رکھا بلکہ ہم کبھی اپنے بندوں کو اس غیب سے مطلع بھی کر دیا کرتے ہیں مگر انہی کوجن کو ہم چُن لیتے ہیں ، ہر کس وناکس کوغیب کی خبریں نہیں بتاتے۔
پھر مَیں نے کہا کہ غلبۂ غیب کا بیشک نبیوںکو ہی حاصل ہو مگر عام انسانوں کوبھی توکبھی علمِ غیب کی ضرورت ہوتی ہے کیا ان کے لئے بھی کوئی راہ ہے؟ اس پرمجھے جواب ملا کہ ہاں۔ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ- نَحْنُ اَولِیٰـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوَفِی ا لْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَ- نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۶۳؎
وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوںنے لوگوں کی مخالفت کی پروانہ کی بلکہ استقامت سے سچے مذہب پر قائم رہے اُن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کہ ڈرو نہیں اور نہ غم کرو۔ہم فرشتے تمہاری حفاظت ِکیا کریں گے ، تمہاری پچھلی خطائیں معاف ہو چکیں اورآئندہ کے لئے تمہارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں جنت میں داخل کریگا، ہم تمہارے دوست ہیں اس دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔ وہاں جس چیز کے متعلق بھی تمہارا جی چاہے گا وہ تمہیں مل جائیگی اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیںدیا جائے گا،یہ تمہاری مہمان نوازی ہے جو بخشنے والے مہربان رب کی طرف سے ہے۔اس نے تمہارا ماضی بھی درست کر دیااور اس نے تمہارے مستقبل کو بھی ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر دیا۔ـ
منجّموںکی خبروں اور الہام الٰہی میںفرق
اس میںیہ جواب بھی آ گیا کہ ستاروں کی خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں اور یہ تقدیر
ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو ستاروں کی گردشیں دیکھ کر دوسروں کو خبریں بتایا کرتے ہیں وہ صرف خبر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص مرجائے گا۔اب یہ صرف ایک خبر ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ کسی طریق پر عمل کر کے موت سے بچ بھی سکتا ہے لیکن الہا مِ الٰہی میںجہاں انذار ہوتا ہے وہاں تبشیر بھی ہوتی ہے ۔ اگر ایک طرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ تمہیں ترقی ملے گی تو دوسری طرف یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن ہلاک کئے جائیںگے اور پھر اُن دشمنوں کو بھی بتا یاجاتا ہے کہ اگر ہمارے نبی پر ایمان لے آئو تو تم ان آنے والی مصیبتوں سے بچ جائو گے لیکن اگر مخالفت اور دشمنی پر مُصِرّ رہے تو پھر تمہاری ہلاکت یقینی ہے۔ گویا ایک تقدیر اور قدرت ہے جو الہامِ الٰہی میںپائی جاتی ہے مگر کسی رصدگاہ سے جو لوگ کوئی خبر معلوم کرتے ہیں اس میں کوئی قدرت اور جلال کاپہلو نہیں ہوتا۔بسا اوقات رصدگاہ والا خود اپنے متعلق جب کوئی بات معلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ تیرا بیٹا مر جائے گا اب وہ ہزار کوشش کرے کہ کسی طرح مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ مَیں کس طرح اس مصیبت سے بچ سکتا ہوں تو اسے کسی طرح یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جب توجہ کی جائے تو اس قسم کے تمام عُقدے حل ہو جاتے ہیں پس وہ خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں، لیکن الہامِ الٰہی میںقدرت اور جلال کا پہلو پایا جاتا ہے۔
ستاروں سے حاصل کردہ خبروں کی حقیقت
پھر مَیں نے پُوچھا کہ ستاروںسے جو خبریں ملتی ہیں اُن کی حقیقت کیا
ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں مجھے ایک نہایت ہی لطیف بات سورۃ الصّٰفّٰتسے معلوم ہوئی۔اللہ تعالیٰ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْمَ اِذْجَائَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ اِذْقَالَ ِلاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ اَئِفْکًا اٰلِھَۃً دُوْنَ اللّٰہِ تُرِیْدُوْنَ فَمَاظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ فَتَوَلَّوْاعَنْہُ مُدْبِرِیْنَ فَرَاغَ اِلٰٓی اٰلِھَتِھِمْ فَقَالَ اَ َلا تَأْکُلُوْنَ مَالَکُمْ َلا تَنْطِقُوْنَ فَرَاغَ عَلَیْھِمْ ضَرْباً بِالْیَمِیْنِ فَاَقْبَلُوْا اِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۶۴؎
حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ستارہ پرست تھی چنانچہ قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر ذکرآتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مخالفوں کو چڑانے اور انہیں سمجھانے کے لئے طنزاً کہا کہ فلاں ستارہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ یہ خدا کیسا ہے جو ڈوب گیا۔ مَیں تو ایسے خدا کا قائل نہیںہو سکتا۔ اس کے بعد اُنہوں نے طنزاً چاند کے متعلق کہا کہ وہ میرا رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے مَیں تو سخت غلطی میں مبتلاء ہو جاتا اگر میرا خدا میری رہبری نہ کرتا، بھلا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے جو ڈوب جائے۔ پھر سورج کے متعلق انہوںنے کہا کہ وہ میرا رب ہے مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں ان سب مشرکانہ باتوں سے بیزار ہوں۔میرا خدا تو ایک ہی خدا ہے جو زمین وآسمان کا مالک ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میںسے تھے وہ ستارہ پرست تھی اور چونکہ ستاروں کی پرستش نہیںہو سکتی اس لئے اُنہوں نے مختلف ستاروں کے قائمقام کے طور پر بہت سے بُت بنائے ہوئے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر ان بُتوں کی عبادت کی جائے تو جس ستارہ کے یہ قائم مقام ہیں اس کی مدد ہمیںحاصل ہو جائے گی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میںسے تھے وہ بھی پروہتوں کا خاندان تھا چنانچہ ان کے باپ نے ایک بُتوں کی دکان کھولی ہوئی تھی جس پر وہ کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بٹھا دیتا اور کبھی ان کے دوسرے بھائیوں کو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر بچپن سے ہی سعادت کا مادہ رکھا ہؤا تھا، چنانچہ یہودی روایات(طالمود) میں آتا ہے کہ ایک دن ان کابھائی انہیں دکان پر بٹھا گیا اور بُتوں کی قیمت وغیرہ بتا کر کہہ گیا کہ اگر کوئی گاہک آئے تواُسے بُت دیدینا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک بڈھا شخص اس دکان پر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بُت اٹھایااور گاہک کے ہاتھ میں دیدیا۔ وہ اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اچھا ہے اس کی قیمت بتائو۔ انہوں نے کہا کہ تم پہلے یہ بتائو کہ تم اس بُت کو کیا کرو گے۔ اُس نے کہا اِسے گھر میںلے جائوںگا اور اپنے سامنے رکھ کر اس کے آگے سجدہ کیا کرونگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سن کر بڑے زور سے ایک قہقہہ لگایااور کہا تجھے اس کے آگے جھکتے ہوئے شرم نہیںآئے گی۔ تو ستّر اسّی سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور یہ بُت وہ ہے جو کَل ہی میرے چچا نے بنوایا ہے بھلا اس بُت نے جسے کل سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے اور کیا تجھے شرم نہیں آئے گی کہ تو اتنا بڑا آدمی ہو کر اس کے آگے جُھک جائے۔ اب وہ گو بُت پرست ہی تھا مگر یہ فقرہ سُن کر اس کے اندر بُت کو گھر لے جانے کی ہمّت نہ رہی اور وہ وہیں اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ان کے بھائیوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کر دی کہ ابراہیم کو دکان پر نہ بٹھایا جائے ورنہ یہ تمام گاہکوں کو خراب کر دیگا۔ تو ان لوگوں میںستاروں کا علم خاص طو رپر پایا جاتا تھا اور علمِ رمل اور علمِ نجوم آئندہ نسلوں کو سکھایا جاتا تھا ۔جس طرح ہندوئوں میں پنڈت اس کام میں مشّاق ہوتے ہیں اوروہ زائچہ نکالتے اور جنم پتری دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو بھی زائچہ نکالنا اور جنم پتری دیکھنا سکھایا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ ایسے ہی خاندان میںسے تھے اس لئے لازماً انہوں نے بھی یہ علم سیکھا، مگر جب بڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دینی شروع کر دی تو قوم سے ان کی بحثیں شروع ہو گئیں۔
حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درسِ توحید
ایک دن وہ اپنے رشتہ داروں اور قوم کے دوسرے لوگوں سے
کہنے لگے کہ تم یہ تو سوچو کہ آخر تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو۔ تم جھوٹ اور فریب کے ساتھ خداتعالیٰ کوچھوڑ کر اور معبود بناتے ہو اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے ان بُتوں کو بنایا ہے ان کے پیچھے چل پڑتے ہو اور انہیں خدا کاشریک قرار دیتے ہو۔ تم جو ستاروں کے پیچھے چل رہے ہو ہمیشہ تم کہتے ہو کہ مریخ نے یہ کر دیا، زحل نے وہ کر دیا۔مشتری نے یہ کیا اور عطارد نے وہ کیا ۔ تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ربّ العٰلمین کیا کر رہا ہے کس قدر ایک وسیع نظام ہے جوہر چیز میںنظر آتا ہے۔کیا یہ تمام نظام ایک بالا قانون کے بغیر ہی ہے ساری چیزیں اس کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور ان ستاروں میں بھی جس قدر طاقتیں ہیں وہ خداتعالیٰ کی ہی عطا کردہ ہیں۔ پس عبادت کا اصل مستحق خدا ہے نہ کہ کوئی اور چیز۔ یہ تقریر آپ کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لطیف نکتہ سمجھا دیا فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِآپ نے ستاروں میں دیکھا فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ اور کہا کہ مَیں بیمار ہوں آپ کایہ کہنا تھا کہ لوگ چلے گئے اور مجلس منتشر ہو گئی۔یہاں مفسّرین کو بڑی مشکل پیش آئی ہے اور وہ حیران ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ کے کیا معنی کریں بعض کہتے ہیں کہ اس روز آپ واقعہ میں بیمار تھے جب بحث زیادہ ہو گئی تو انہوں نے کہا اب مجھے آرام کرنے دو مَیں بحث کر کے تھک گیا ہوں۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ آپ اس روز بیمار تھے ہی نہیں۔آپ نے اِنِّیْ سَقِیْمٌ جو کہا تو محض ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا ،چونکہ وہ بحث کرتے ہی چلے جاتے تھے اور بس کرنے میںنہیںآتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بول کر کہدیا کہ مَیں بیمار ہوں چنانچہ وہ چلے گئے۔بعض کہتے ہیں کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولا تھوڑے بہت آپ ضرور بیمار تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اُس دن نزلہ کی شکایت تھی۔آپ نے ا نہیں کہہ دیا کہ بھائی اب معاف کرو مَیں بیمار ہوں۔غرض مفسّرین اس موقع پر عجیب طرح گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن سے کوئی تاویل بن نہیںپڑتی، کبھی کوئی بات کہتے ہیں اور کبھی کوئی ، مگر سوال یہ ہے کہ اِنِّیْ سَقِیْمٌ سے پہلے یہ الفاظ ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ۔ انہوں نے ستاروں کو دیکھا۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی خبر کا ستاروں سے کیا تعلق ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ستاروں کو دیکھ کریہ معلوم کیا تھاکہ اب بحث کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر ہوجانے کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔آپ ہی انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب فلاں کام کرتے کرتے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ ستاروں کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہا کرتا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے پھر سوال یہ ہے کہ اگر ستاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ دیر ہو گئی ہے تو انہیں کہہ دینا چاہئے تھا اب بہت دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مَیں بیمار ہوں۔ اس پر بعض مفسّرین لُغت کی پناہ ڈھونڈنے لگے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سَقِیْمٌ کے ایک معنے بیزار کے بھی ہیں انہوں نے بحث کرتے کرتے ستاروںکی طرف دیکھا اور کہا کہ مَیں ان ستاروں سے سخت بیزار ہوں۔ اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ قول بھی صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان مشرکین سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں تم سے بیزار ہوں۔ ستاروں کے متعلق یہ کہنے کا کیافائدہ تھا کہ میں ان سے بیزار ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معنوں میں سے کوئی معنے بھی صحیح نہیں۔ اصل معنے فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ کے یہ ہیں کہ جب آپ ان لوگوں سے بحث کر رہے تھے تو بحث کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان زبانی باتوں سے تو ان کا اطمینان نہیںہو گا تم یوں کرو کہ اسی وقت اپنا زائچہ نکالو چنانچہ جب وہ تقریر کر رہے تھے کہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچائیں، سب طاقتیںاور قدرتیں خداتعالیٰ کو ہی ہیں۔ تومعاً آپ نے اپنی تقریر کا رُخ بدلا اور کہا دیکھو تم جو ستاروں کی گردشوں اور اُن کی چالوں کے بہت قائل ہو، مَیں تم پر اتمامِ حُجّت کرنے کے لئے تمہارے سامنے اپنا زائچہ نکالتا ہوں چنانچہ انہوں نے جو زائچہ دیکھا تو اس سے مہورت ۶۵؎ یہ نکلی کہ ابراہیم کی خیر نہیں وہ ابھی بیمار ہو جائے گا۔ اس امر کو معلوم کرنے کے لئے چاہے انہوں نے اوپردیکھا ہو اور ممکن ہے کہ اوپر ہی دیکھا ہو کیونکہ فِیْ کا لفظ آیت میںاستعمال ہؤا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے نقشہ دیکھا ہو، بہرحال جب انہوں نے ستاروں کی چال کو دیکھا اور مقررہ نقشہ سے اپنا زائچہ نکالا، تو اُس میںلکھا تھا کہ فلاں ستارہ کی گردش سے ابراہیم اسی گھڑی بیمار ہو جائے گا (گویا اِنِّیْ سَقِیْمٌ کے یہ معنی نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ یہ ہیں کہ مَیں بیمار ہونے والا ہوں) جب یہ زائچہ نکل آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب میری اور تمہاری بحث ختم۔ اگرمَیں بیمار ہو گیا تو مَیں مان لونگا کہ تم سچ کہتے ہو اور اگر مَیں بیمار نہ ہؤا تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ستاروں کی گردشوں اور چالوں پر یقین رکھنا اور یہ خیال کرنا کہ ستاروں کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے بیہودہ بات ہے۔ چنانچہ اسی پر بات ختم ہو گئی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے فارغ ہوتے ہی بُت خانہ میں گئے اور انہوں نے بُت توڑنے شروع کر دئیے۔ جب ان کے بُت ٹوٹے اور لوگوں کو یہ خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوںنے کہا دکھائی نہیںدیتا کیا کر رہا ہوں، تمہار ے بُتوں کو توڑ رہا ہوں تا کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ میںبیمار نہیں ہوں اور تمہارے زائچہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ غلط ہے انہوں نے جب دیکھا کہ ہمیں دُہری ذلّت پہنچی ہے یعنی ایک تو یہ ذلّت کہ ستارے کا اثر جو زائچہ سے نکلا تھا وہ غلط ثابت ہؤا اور دوسری یہ ذلّت کہ ہمارے بُت اُسی گھڑی توڑے گئے ہیں جس گھڑی ابراہیم نے بیمار ہونا تھا تو وہ سخت طیش میںآ گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اُسی وقت آگ میںڈال کر جلا دیا جائے تاکہ ہم لوگوںسے یہ کہہ سکیںکہ زائچہ میںجو یہ لکھا تھا کہ ابراہیم پر ایک آفت آئے گی وہ یہی آفت تھی کہ ابراہیم آگ میں جل کر مر گیا۔مگر جب انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابراہیم ؑکو اس میںڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بارش ہو گئی اور آگ بُجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میںسے سلامت نکل آئے اور اس طرح جو تدبیر انہوں نے زائچہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اختیار کی تھی وہ بھی ناکام گئی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد دوسرے یا تیسرے دن انہوں نے دوبارہ آگ میں نہیںڈالا کیونکہ اگر دوسرے تیسرے دن پھر آگ میںڈالتے تو ان کی سچائی ثابت نہ ہو سکتی ۔ ان کے زائچہ کی سچائی اُسی وقت ثابت ہو سکتی تھی جب کہ اُسی گھڑی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں جل جاتے جس گھڑی آپ پر کسی آفت کا اُترنا زائچہ بتلاتا تھا مگر جب وہ وقت گزر گیا تو چونکہ اس کے بعد اگر آپ کو وہ دوبارہ بھی آگ میںڈالتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تکذیب نہیںہو سکتی تھی اس لئے پھر انہوں نے آپ کو آگ میں نہ ڈالا حالانکہ اگر انہوں نے آپ کو توحید کی وجہ سے ہی آگ میںڈالا تھا تو چاہئے تھا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تھے تو دوسری دفعہ پھر آپ کو جلانے کی کوشش کرتے مگر انہوںنے بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو تی ہے کہ انہوں نے آپ کو آگ میں اسی لئے ڈالا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وہ خبر درست نکلے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق زائچہ سے نکلی تھی۔
اب دیکھو یہ کس طرح ایک مکمل دلیل ستارہ پرستوں کے خلاف بن گئی۔ زائچہ دیکھا گیا اور اس سے سب کے سامنے یہ نتیجہ نکلا کہ ابراہیم پراسی وقت کوئی شدید آفت آنیوالی ہے جو اسے تباہ کر دیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بس اسی پرمیری اور تمہاری بحث ختم۔ اگر میںتباہ ہو گیا تو تم سچے اور اگر نہ ہؤا تو مَیںسچا۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تکذیب واضح کرنے کے لئے بُتوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو اُس دن بُتوں کو خاص طور پر توڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیںہو سکتا۔آپ نے اُس دن خاص طور پر اسی لئے بُت توڑے کہ جس وقت آپ بُت توڑ رہے تھے وہی وقت زائچہ کے مطابق آپ کی بیماری کا تھا۔ پس آپ نے اپنے عمل سے انہیں زبردست شکست دی اور بتایا کہ تم توکہتے تھے مَیں فلاں وقت بیمار ہو جائوںگا مگر میں نے اسی وقت تمہارے بُتوں کے ناک کاٹ ڈالے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ جب ان کی قوم کو یہ خطرناک زِک پہنچی تو اس کے بعد آپ نے سمجھا کہ اب اس عملی زِک کے نتیجہ میںلوگوں کے دلوں میںایسا بُغض بیٹھ گیا ہے کہ میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں چنانچہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔
پھر مَیں نے کہا کہ اچھا جو حصہ حساب وتاریخ کا رہ گیا ہے اس کے متعلق مجھے اس رصدگاہ سے کیا اطلاع ملتی ہے جب میرے دل میں یہ سوال پیداہؤا تو مجھے اس کے متعلق یہ اطلاعات ملیں۔
سورج، چاند اور ستارے سب انسان
اوّل: سورج اور چاند اور ستارے سب اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ سب ایک اعلیٰ ہستی
کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں
کے کام اور فائدہ کے لئے بنائے گئے ہیںاور وہ اعلیٰ ہستی انسان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نحل
میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۶۶؎
کہ اے بیوقوف انسان! تو خواہ مخواہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرف دَوڑ رہا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ رات دن سورج ،چانداور ستارے سب تیری خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جسے ہم نے خاد م قرار دیا تھا اس کو تم اپنا مخدوم قر ار دے رہے ہو اور جسے ہم نے مخدوم بنا کر بھیجا تھا وہ خادم بن رہا ہے تم ان سے ڈرتے اور گھبراتے کیوں ہو۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ تا پھرتا ہو، یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو اور گر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیںآتی کہ وَسَخَّرَ لَکُمْ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بناکر دنیا میںپید ا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں۔ بیشک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے ۔ اس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اُلٹا انہیں کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو ۔قرآ ن کریم نے جوشرک کی اس بیہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے ۔ مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مُشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ وہ قصّہ یہ ہے کہ فرانس میںدو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں۔ انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک عورت نکلی، انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں ، صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ،ہم صبح چلے جائیں گے۔ اس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں ،ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاںبیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیںبھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکالیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا،دوسری طرف ہم رات گذار لیں گے۔ چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آگئے۔ اتفاق یہ ہے اُن کے پاس کچھ روپے بھی تھے، اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیںیہ گھر والے ہماری نقدی نہ چُرالیں۔ اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ ہم لُوٹے جائیں۔ا دھر میاں جوپیشہ میںقصّاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیںکرنے لگا ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں لُوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے۔ اُن دونوں میاں بیوی نے دو سؤر پال رکھے تھے جو سؤر خانے میںتھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میںسے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایک سؤر موٹا تھا اور ایک دُبلا تھا۔ا سی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دُبلا۔جب پادریوں نے کان لگا کر سُننا شروع کیا تو اُس وقت میاں بیوی آپس میںیہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے ،خاوند کہنے لگا کہ میری بھی یہی صلاح ہے کہ ایک کوذبح کر دیا جائے۔ پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیںیہ ضرور چھُرا لے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سُن لیں ۔ پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوںنے سُنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کوذبح کریں؟ میاںنے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اُسے چند دن ِکھلا ِپلا کر پھر ذبح کردینگے۔ یہ بات انہوںنے جو نہی سُنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوںنے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں۔ دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جوماری تو دیکھاکہ ایک کھڑکی کھلی ہے بس انہوںنے جلدی سے اُٹھ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گِرا اور جو دُبلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپرآ پڑا۔دُبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی، مگر موٹا جو پہلے گِرا تھا اس کے پائوں میںسخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے ناقابل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر دُبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہؤا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ مَیں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مددکے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور اِدھر اُدھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچائو۔ اُدھر موٹے پادری کو یہ فکر ہؤا کہ کہیں گھر والے چھُری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں۔چنانچہ اُس نے آہستہ آہستہ گھسٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اُس سؤر خانہ کے پاس جاپہنچا جس میںمیزبان کے سؤر بند تھے مگراسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سؤر ہیں یاکیا ہے، اُس نے خیال کیا کہ مَیں یہاں چُھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں ۔ جب اُ س نے سؤر خانہ کا دروازہ کھولا تو سؤر ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قصاب چُھری لے کے موٹے سؤر کو ذبح کرنے کے لئے وہاں پہنچ گیا۔پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مارڈالے گا۔چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میںچھپ گیا قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہانکل نکل ، مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہؤا کہ سؤر نکلتا کیوں نہیں مگر خیرا س نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیر ا اور آواز دے کر سؤر کو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کانہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں مَیں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔ خدا کے لئے معاف کرو۔ ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سؤر کی بجائے اندر سے ایک آدمی نِکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہؤا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو۔ اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑ ے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اوردوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پررحم کرو۔تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اس کی مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں یہ دیکھ کر اُن کی عقل کچھ ٹھکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاںبیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دینگے او ر دُبلے کو کچھ دن ِکھلا ِپلا کر۔ اس لئے ہم کھڑکی سے کُود کر بھاگے اور میرا چونکہ پائوں چوٹ کھا گیا تھا مَیں اِس سؤرخانہ میں چُھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے۔ا س پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیااور بتایا کہ ان کے دو سؤر ہیں ایک موٹا اور ایک دُبلا۔ وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے او رآہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو۔اتنے میں سرکاری سوار بھی آ گئے او ر اس حقیقت کو معلو م کر کے سب ہنستے ہنستے لَوٹ گئے۔یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے۔ اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیاہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔گویا ستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ ان کا غلام بن رہا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں بیان کی ہے کہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ یہ سب انسانوں کے خدمتگذار تو ہیں مگر انہی کے لئے جو ان امور کو دیکھیں اور عقل اور سمجھ سے کام لیں ایسے لوگ کبھی بھی ان کو خدائی صفات والا قرار نہیں دے سکتے ۔ہاں اگر کوئی اس فرانسسکن (FRANCISCAN) پادری کی طرف بِلاوجہ ڈر کرہاتھ جوڑنے لگ جائے تو اور بات ہے۔
سب اجرامِ فلکی ایک عالمگیر قانون کے تابع ہیں!
(۲) دوسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج چاند اور
ستارے سب ایک عالمگیر قانون کے ماتحت چل رہے ہیںاور اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایک زبردست ہستی ان سب پر حاکم ہے، چنانچہ مَیں نے قرآن کریم کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤا تھاکہ اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَ الدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ۔ وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَایَشَائُ ۶۷؎
یعنی اے بیوقوفو! کیا تمہیں معلوم نہیںآسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اور سورج، چاند، ستارے،پہاڑ، درخت،چوپائے اور انسانوں میںسے بھی بہت سے لوگ سب خداتعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے لئے عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جسے خدا ذلیل کرے اُسے کوئی عزّت نہیں دے سکتا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔غرض بتایا کہ دنیا میں جس قدر چیزیں ہیںوہ سب ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہیں، سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت حرکت کرتے ہیں اور ہر ایک کے منہ میں لگام پڑی ہوئی ہے پھر تم ان چیزوں کو جن کو خود لگامیں پڑی ہوئی ہیں خدا کس طرح قرار دیتے ہو۔ یہ چیزیں تو خود تمہارے آگے آگے بطور خدمت گار چل رہی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ تم انہی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو اور یہ اس امر کی سزا ہے کہ تم نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ دیا۔ پس اُس نے تم کوتمہارے ہی غلاموں کا غلام بنا دیا وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہ‘ مِنْ مُّکْرِمٍ اور جسے خدا ذلیل کرد ے اسے کوئی عزت نہیںدے سکتا۔ـ
سورج کو ضیاء اور چاند کو نُور بنایا گیا ہے۔
(۳)تیسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج اپنی ذات میںروشن ہے اور چاند
دوسرے سے روشنی اخذ کرتا ہے چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہؤا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَنُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّابِالْحَقِّ۔ یُفَصِّلُ ا لْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۶۸؎
کہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا اور چاندکو نور ۔ضیاء کے معنے ہیں اپنی ذات میں جلنے والی اور روشن چیز۔ ا ور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے کے اثرکے ماتحت روشن ہو۔ پس خداتعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ سورج تو اپنی ذات میں روشن ہے مگر چاند سورج سے اکتسابِ نور کرتا ہے۔
پھر اسی مضمون کو مَیں نے ایک اور لطیف طرز میںبھی قرآن کریم میںموجود پایا چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ قرآن مجید میںلکھا ہے۔اَلَمْ تَرََوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَا قاً وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ۶۹؎
کہ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو کس طرح تہہ بہ تہہ بنایا ہے اور چاند کو اُ س نے نور اور سورج کو اس نے سراج بنایا ہے، سراج اُس دئیے کو کہتے ہیں جس میں بتی روشن ہو۔ پس سراج کا لفظ استعمال کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سورج کے اندر خود ایک آگ ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی تمام جہان پر پھیلتی ہے۔موجودہ تحقیق نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ سورج میں ریڈیم کے اجزاء کی وجہ سے ایک جلتی ہوئی آگ ہے اور اسی وجہ سے وہ روشن ہے۔ اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف سراج کے لفظ میں ہی آج سے تیرہ سَو سال پہلے وہ نکتہ بتا دیا تھاجسے تیرھویں صدی ہجری میںیورپین محققین نے دریافت کیا اور بتادیا تھا کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے اور چاند کی طفیلی جس طرح دئیے کی بتّی جلتی ہے اسی طرح سورج میںایک ایسی آگ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روشن رہتا ہے مگر چاند میںایسی کوئی روشنی نہیںوہ جو کچھ حاصل کرتا ہے سورج سے حاصل کرتا ہے اسی لئے سورج کو تو سراج کہا مگر چاند کو نور قرا ردیا۔
(۴) چوتھی بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند کی بناوٹ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آخر یہ بھی فنا ہو جائیںگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۔ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ۷۰؎
کہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا۔ پھر وہ عرش پر جاگزیں ہو گیا اور اس نے سورج اور چاند کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقر رکردیا، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں حرکت کر رہا ہے مگر یہ تمام حرکات لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ایک وقت مقررہ تک ہیں، جب مقررہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے بعد ان پر تباہی آجائے گی، آجکل اہل یورپ کی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہؤا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن تباہ ہو جائیں گی، پہلے یورپین لوگ قیامت کے منکر ہؤا کرتے تھے اور وہ اسلام کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کسی دن تمام کارخانۂ عالَم درہم برہم ہو جائے گا اور سورج ، چاند اور ستارے سب فنا ہو جائیںگے مگر موجودہ تحقیق سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ستاروں، چاند اور سورج کی گردش ایک دن یقینا ٹوٹ جائے گی اور دنیا پر قیامت آ جائے گی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںیہی فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے ّمسخر تو کیا ہے مگر ان تمام کی رفتار یں ایک دن ختم ہونے والی ہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی دائمی چیز ہیں۔
سورج اور چاند کا حساب اور تاریخ سے تعلق
(۵) پھر مَیں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ ان رصدگاہوں سے جو
حساب وغیرہ نکالتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے اور کیا قرآنی رصدگاہ میںاس کو تسلیم کیا گیا ہے،مَیں نے جب غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ سورج اور چاند یہ دونوں حساب اور تاریخ بتانے کے لئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ۔
کہ ہم نے سورج کو ضیاء اور قمر کو نور بنایا ہے اسی طرح سورج اور چاند کی ہم نے منازل مقرر کردی ہیں تا کہ تمہیں سالوںکی گِنتی اور حساب معلوم ہؤا کرے گویا سورج اور چاند دونوں سالوں کی گِنتی اور حساب کا ایک ذریعہ ہیں، اسی طرح فرمایا۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَناً وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً۔ ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ۔۷۱؎
کہ خدا صبح کو نکالنے والا ہے۔اسی نے رات کو سکون کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے پھر فرمایا اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُبِحُسْبَانٍ۷۲؎
سورج اور چاند دونوں ہم نے حساب کے کام پر لگائے ہوئے ہیں۔
مَیں نے جب قرآن کریم میںان آیات کو دیکھا اور ان پرغور وتدبّر کیا تو مَیںاس نتیجہ پر پہنچا کہ واقع میں تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا بہت بڑا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کی وسعت ستاروں کی رفتار سے ہوئی ہے اور جس قدر باریک حساب ہیں وہ علمِ ہیئت کی وجہ سے ہی ہیں۔ اگر علمِ ہیئت نہ ہوتا اور ستاروں کی گردشیں اور ان کی رفتاریں مقرر نہ ہوتیں تو اربوں کھربوں کے جس قدر حسابات ہیں وہ کبھی صحیح طور پر نہ ہو سکتے۔ اسی طرح سورج اور چاند اگر نہ ہوتے تو دِنوں اور سالوں کا اندازہ نہ ہو سکتا اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلو م کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے پٹواری جب حساب لگاتے ہیںتوکہتے ہیں کہ فلاں زمین فلاں کنویں سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے پس کسی مستقل چیزکے بغیر فاصلے کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے سالوں اور دنوں کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا اگر سورج اور چاند نہ ہوتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے اور یونہی روشنی ہو جاتی یا تاریکی ہو جاتی تو اس طرح بھی دن رات ہو سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اگر یونہی روشنی ہو جاتی تو اس کامستقل کنارہ کونسا ہوتا اور کیونکر معلوم ہوتاکہ فلاں مستقل کنارے سے فلاںسال شروع ہؤا ہے اور فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال۔
تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت
بہرحال چاند اور سورج دونوں کا سالوں مہینوں اور دنوں کے حساب سے
تعلق ہے، لیکن مجھے خیال آیا کہ چاند سے تو ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ہجری قمری ہم میں جاری ہے جس سے لوگ بہت کچھ فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر سورج سے تو ہم بالکل فائدہ نہیں اُٹھا رہے حالانکہ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں اور دوسری طرف عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میںفوائد نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وقت اور زمانہ کی تعیین کے لحاظ سے سورج مفید ہے اور عبادتوں کوشرعی طریق پر چلانے کے لئے چاند مفید ہے اس لئے کہ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے۔مثلاً رمضان ہیَ اب اس کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے اس لئے ۳۶ سال میں ایک دَور ختم ہو جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہی رمضان کے ایام آجاتے ہیں، کبھی جنوری میں آجاتا ہے، کبھی فروری میں آ جاتا ہے، کبھی مارچ میں آجاتا ہے، کبھی اپریل میں آجاتا ہے غرض وہ کبھی کسی مہینہ میںآ جاتا ہے اور کبھی کسی مہینہ میں اور اس طرح سال کے تین سو ساٹھ دنوںمیں ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میںانسان نے روز ہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پھر ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی ۔پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق یہ کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میںگزارا ہے، عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے،لیکن وقت کی تعیینِ صحیح کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے۔ بہرحال مجھے خیال آیا کہ ہم مسلمانوں نے قمری تاریخوں سے تو فائدہ اُٹھایا ہے لیکن شمسی تاریخوں سے فائدہ نہیں اٹھایا ، حالانکہ قمری شمسی دونوں میںفوائد ہیں اور چونکہ ہر انسان شمسی حساب پر مجبور ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی مجبوراً عیسوی سن استعمال کرناشروع کر دیا حالانکہ اگر ہم ہجری قمری کے ساتھ ہجری شمسی بھی بناتے اور ہجری قمری تاریخوں کے بِالمقابل ہجری شمسی تاریخیں بھی ہوتیں توقطعاً کوئی جھگڑا نہ ہوتا۔
اب اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ ۶۲۲ ہجری کب تھا اوراُس وقت شمسی کے لحاظ سے کونسا سال تھا تو وہ فوراً معلوم نہیں کر سکتا اور محض۶۲۲ہجری کہنے سے اس کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ سال کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج ہی سے تسلی پاتا ہے، اسی وجہ سے لوگ ہجری قمری سالوں کے عیسوی سن معلوم کرتے ہیں اور اس طرح خواہ مخواہ مسلمان بھی عیسوی سن کو اپنے اندر رائج کئے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک ضروری تھا کہ جس طرح ہجری قمری بنائی گئی تھی اسی طرح ہجری شمسی بھی بنائی جاتی اور ان دونوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا، مگر مجھے یہ بات جنتر منتر کودیکھ کر سُوجھی اور مَیں نے اسی وقت سے تہیہ کرلیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے گا۔ جب میں واپس آیا تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اس بارہ میں اپنی لائبریری سے ایک کتاب بھی مل گئی۔ میر ے ساتھ خداتعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی شدید ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ میرے سامنے آجاتی ہے بعض دفعہ مجھے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت کوئی حافظ پاس ہوتا نہیں تو مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے وقت میںبسا اوقات جب قرآن کھولتا ہوں تو وہی آیت سامنے آ جاتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ سال مَیں نے جلسہ سالانہ پرجو تقریر کی، اُس کے نوٹ لکھنے کی مجھے فُرصت نہیں ملتی تھی۔ ایک دن میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تووہ ہنس کر کہنے لگے کہ میں نے تو دیکھا ہے جب بھی آپ کو فُرصت نہ ملے اُس وقت خداتعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے چنانچہ واقعہ میںایسا ہی ہؤا جب مَیںنوٹ لکھنے کے لئے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے حتیٰ کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالجات کی مجھے ضرورت پیش آئی مگر میراذہن اُس طرف نہ جاتا تھا کہ وہ حوالجات کس کتاب میںسے ملیں گے۔ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بُلا کر اُن کے سپرد حوالجات نکالنے کا کام کردُوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے مَیں نے کتابوں کی الماری جو کھولی تو مَیں نے دیکھا کہ اس میں چندکتابیں بے ترتیب طو ر پر گِری ہوئی ہیں مَیں نے انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے مجھے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میںہونے کا مجھے علم نہیں تھا، مَیں نے اُسے کھولا تو اس میںاکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے اُس وقت ضرورت تھی۔
اسی طرح مَیں بعض اور کتابوں کی تلاش کر رہا تھا کہ اتفاقاً ایک کتاب نکل آئی جس کا نام ہے ’’تقویمنا الشمسی‘‘ اس میں مصنف نے بحث کرتے ہوئے تاریخی طور پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں میں دیر سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے وہ کہتا ہے کہ خلفاء عباسیہ نے بھی ہجری شمسی تقویم بنانے کی کوشش کی مگر اس میں فلاں فلاں روک پیدا ہو گئی اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ بعد میں دولتِ عثمانیہ نے بھی ہجری شمسی بنائی مگر رائج نہ ہو سکی، غرض اس نے تاریخی طو ر پر اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میںیہ خیال کب پیدا ہؤا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا کوششیں ہوئیں اور کیا کیا نقائص ہوتے رہے۔ بہرحال یہ خیال مسلمانوں میںدیر سے پایا جاتا ہے بلکہ اس حد تک یہ خیال مضبوطی سے گڑا ہؤا معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف کتاب کا نام محض تقویم شمسی نہیں رکھتا بلکہ ’’تقویمنا الشمسی‘‘ رکھتا ہے یعنی ہماری اپنی شمسی ہجری تقویم۔
میرا رادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کیا جائے اور عیسوی سن کے استعمال کو ترک کر دیا جائے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینہ تک اس بارہ میں پوری تحقیق کر کے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے، خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طَوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے (یہ تحقیق میری مقررہ کر دہ ایک کمیٹی نے مکمل کر کے تقویم شمسی ہجری تیار کر دی ہے اور دو سال سے اس کا کیلنڈر شائع ہو رہاہے)
نظام شمسیکا تمدّنی ترقی سے تعلق
(۶) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ نظام شمسی ایک خاص قانون کے ماتحت ہے اور اس کا قانون
انسانی کاموں کے لئے بطور ایک نمونہ کے مقرر کیا گیا ہے اور اس سے انسان کی تمدّنی ترقی کے لئے ایک ہدایت اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے فرماتا ہے۔ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسجُدَانِ وَالسَّمائَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ۔وَاَقِیْمُواالْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَاتُخْسِرُواالْمِیْزَانَ۔۷۳؎
سورج اور چاند دونوںایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں ۔یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیںہیں بلکہ ایک معیّن اور مقررہ قانون کے مطابق ہیں اور اسی مقررہ قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کی روئیدگی اور سبزہ اس قانون کے ماتحت چلتا ہے اور اس سے متأثر ہوتا ہے، سجد ہ کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہوتے اور یَسْجُدَانِ کے اس جگہ یہی معنے ہیں اور نجم کے معنے جڑی بوٹی کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے اس جگہ مراد ہیں کیونکہ شجر کے ساتھ جس کے معنے درخت کے ہیں اس کا عطف ہے اور آیت کامطلب یہ ہے کہ بغیر تنے والی سبزیاں ہوںیا تنے والے درخت ہوں سب اپنے اُگنے، نشوونما پانے اور پھل لانے میںسورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متأثر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا کے حصہ شمالی اور حصہ جنوبی میں موسم کا فرق ہوتا ہے جب شمال میںسردی ہوتی ہے جنوب میں گرمی ہوتی ہے اور جب شمالی حصہ میں گرمی ہوتی ہے جنوبی حصہ میں سردی ہوتی ہے اور اس تغیّر کی وجہ سے دونوں حصوں کی فصلوں کے موسموں میں بھی فرق پڑجاتا ہے اور اسی کی طرف وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُیَسْجُدَانِمیں اشارہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند جس قانون کے تابع ہیںاسی کے تابع سبزیاں، ترکاریاں، جڑی بوٹیاں اور بڑے درخت ہیں اور وہ ان سے متأثر ہوتے ہیں۔ پس اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کے اندر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ نظام شمسی کا ایک حصہ ہیںاور ان سے متأثر ہوتے ہیں آزاد نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے وَالسَّمَائَ رَفَعَھَاوَوَضَعَ الْمِیْزَانَ یعنی اس سورج چاند کے نظام کے اوپر ایک اور نظام ہے یعنی نظامِ شمسی نظامِ عالَم کے ماتحت ہے جس طرح کہ نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے ماتحت ہے اور نظامِ عالَم بھی ایک معیّن اور مقررہ قانون کے تابع ہے اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں۔ اس آیت میںکیسی زبردست سچائی بیان کی گئی ہے جو قرآن کریم کے وقت میں کسی کو معلوم نہ تھی، بلکہ صرف حال ہی کے زمانہ میںاس کا علم لوگوں کو ہؤا ہے اور وہ یہ ہے کہ نظامِ شمسی ہی ایک نظام نہیں بلکہ وہ نظام ایک اور بالا اور وسیع تر نظام کا حصہ ہے جو سَمَاء یعنی عالَمِ محتوی کہلاتا ہے اور رَفَعَھَا کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ نظام ماقبل کے بیان کردہ نظاموں سے یعنی نظامِ ارضی اور نظامِ شمسی سے بلند مرتبہ اور وسیع تر ہے اور وَضَعَ الْمِیْزَانَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ بالا اور بلند نظام بھی میزان کے تابع رکھا گیا ہے اور ایک قانون کا پابند کر دیا گیا ہے آزاد نہیں ہے۔
اس مضمون میں مندرجہ ذیل علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:-
(۱) نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے تابع ہے نہ کہ اس پر حاکم یہ وہ نکتہ ہے جسے مشہور مہندس گلیلیو (GALILEO) نے جب دریافت کیا اور اس امر کا اعلان کیا کہ زمین سورج کے گِرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، جیسا کہ اُس وقت عام خیال تھا تو اُس پر عیسائی دنیا نے کُفر کا فتویٰ لگادیا اور کہا کہ اگر اس امر کو تسلیم کرلیا جائے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پھر سورج کو زمین سے افضل ماننا پڑیگا اور اس کے نتیجہ میںانسان کی افضلیت مشتبہ ہو جائے گی اور مذہب باطل ہو جائے گا اور اس دلیل کی بناء پر گلیلیو پر سخت ظلم کئے گئے اُسے قید کیا گیا، پِیٹا گیا یہاں تک کہ سالہاسال کے ظلموں کوبرداشت نہ کر کے اس غریب کو یہ کہہ کر توبہ کرنی پڑی کہ جو عیسائیت کہتی ہے وہ ٹھیک ہے شیطان نے مجھے دھوکا دیکر یہ دکھادیا کہ زمین سورج کے گِرد چکر لگاتی ہے تب جا کر اُس کی تکلیف کسی قدر دُور ہوئی،لیکن قرآ ن کریم کو دیکھو وہ کس طرح شروع سے ہی فرما رہا ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ ہم نے سورج اور چاند کو خاص قانون کے ماتحت بنایا ہے اور وہ اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور زمین کی روئیدگیاںآگے ان کے قانون کے تابع چل رہی ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ سورج کے گِرد تو زمین چل رہی ہے ،لیکن چاند تو زمین کے گِرد چکر لگا رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک کُرّہ جس کے تابع زمین ہے اس کو لے لیا گیا ہے اور ایک وہ جو زمین کے تابع ہے اُسے لے لیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین دونوں سے متأثر ہو رہی ہے۔ ا س سے بھی جس کے گِرد وہ گھومتی ہے اور اس سے بھی جو اس کے گِردگھومتا ہے اور ا س سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادنیٰ بھی اعلیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ماتحت بھی حاکم پراپنا اثر چھوڑتا ہے اس لئے طاقتور کو غرور سے کام نہیںلینا چاہئے اور کمزور سے آنکھیںنہیں بند کرلینی چاہئیں کیونکہ یہ ا س سے بھی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ اس کے اثر کو بھی قبول کرے پس اگر اس کی اصلاح نہ کرے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اگر اسے نہ اُٹھائے گا تو خود بھی گِرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے کہ ہر شَے اپنے سے اعلیٰ اور اپنے سے ادنیٰ دونوں سے اثر قبول کرتی ہے اور حاکم اور محکوم دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
نظامِ ارضی نظامِِ شمسی کا ایک حصّہ ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر کی آیات میںیہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ نظامِ ارضی ایک وسیع نظام
یعنی نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہے اور یہ نہیں کہ سورج اس زمین کے گِرد چکر کھاتا ہے اور اس کے تابع ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کا عام خیال تھا ۔دوسری بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کے زمانہ تک دنیا کے کسی فلسفی یا مذہبی شخص نے بیان نہیں کیا تھا بلکہ وہ سب کے سب نظامِ شمسی ہی کو اہم ترین اورآخری نظام سمجھتے تھے مگر قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتا دیا تھا کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے۔
فلک کی تشریح
اگر کہا جائے کہ پہلے فلاسفروں نے بھی افلاک کے وجود کو تسلیم کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی فلک کا وجود تسلیم کیا ہے مگر وہ شَے سماء
سے جُدا ہے فلک درحقیقت نظامِ شمسی کے پھیلائو کا نام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُونَ۷۴؎
یہی مضمون سورہ یٰسرکوع ۳ میں بھی آیا ہے ۔ پس فلک یا افلاک کو تسلیم کر کے یونانی فلاسفر اس نظامِ سماوی کے قائل نہیں کہلا سکتے جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ وہ افلاک کے علاوہ اَور شَے ہے اور نظامِ شمسی کے اوپر کے نظاموں پر دلالت کرتا ہے اور صرف ایک محیط پر دلالت نہیں کرتا جس میںنظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔
تیسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نظام ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ ۔ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ وَاَقِیْمُواالْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُواالْمِیْزَانَ۔
تم میزان میں تعدّی سے کام نہ لو اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور وزن میں کوئی کمی نہ کر و۔یا یہ کہ ہم نے تم کو بیان العلوم اس لئے سکھایا ہے کہ تا میزان میں تعدّی سے کام نہ لو وغیرہ وغیرہ۔اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ ا نسان اُسی وقت ظلم اور زیادتی سے کام لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو قانونِ عالَم سے آزاد سمجھتا ہو لیکن اگر وہ اپنے آپ کو عالَم کی مشین کا ایک پُرزہ سمجھتا ہو تو کبھی اپنے مقام کو نہیں بھول سکتا۔ کیونکہ مشین کا جوپُرزہ اپنی جگہ سے ہِل جائے تو وہ ٹوٹنے اور کمزور ہو جانے کے خطرہ میںپڑ جاتا ہے یا خود اُس مشین کو توڑ ڈالتا ہے جس کا وہ پُرزہ ہوتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ نظامِ شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے اور اس کی تأثیرات کو دیکھ کر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں آزاد نہیں بلکہ ایک نظام کا فرد یا ایک مشین کا پُرزہ ہوں۔ پس اگر مَیں نے دوسرے کَل پُرزوں کے کام میںدخل دیا اور اُن کے حق کو چھیننا چاہا یا اپنے کام میں سُستی کی یا دوسروں کے حق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو اس کا نقصان مجھے ہی پہنچے گا اور جب میں بظاہر دوسرے پر ظلم کر رہا ہوں گا تو درحقیقت مَیں اپنی ہی جان پر ظلم کر رہا ہو نگا اور جب مَیں کسی کا حق کسی اور کو دے رہا ہوں گا تو درحقیقت اپنے ہی حق کو ضائع کر رہا ہونگا۔
چوتھی بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ عالَم انسان کے تمدّن میںترقی کے لئے ایک بہت بڑی ہدایت ہے اگر انسان نظامِ عالَم کو اپنا رہنما بنا کر اس کے مطابق نظامِ انسانی کو ڈھال لے تو وہ ہر قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے اور نقصانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس نظام میں ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو بجا لا رہا ہے اور دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتا نہ ظلم کے ساتھ نہ تخسیر کے ساتھ یعنی نہ اس سے زیادہ کام لیتا ہے نہ اس کا حق کم کرتا ہے اور نہ دوسرے کے کام میں دخل دیتا ہے۔یہی اطاعت ذمّہ داری کی ادائیگی کا احساس اوردوسرے کے امور میں دخل اندازی سے اجتناب ہی ایسے قوانین ہیںجن کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان اپنے تمدّن کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں۔
نظامِ عالم کی کامیابی کے تین اصل
اس جگہ نظامِ عالَم کے کامل ہونے کے تین اصل بیان فرمائے ہیں۔
(۱) ۔کوئی فرد اپنے مفوّضہ کام سے زیادہ نہیں کر رہا ۔
(۲)۔ ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو پوری طرح ادا کر رہا ہے۔
(۳)۔ کوئی فرد دوسرے فرد کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روک نہیں رہا ، یا اس کے اد ا کرنے کی قابلیت سے اسے محروم نہیں کر رہا۔
غور کر کے دیکھ لو نظامِ عالَم کی کامیابی کا انحصار انہی تین باتوں پر ہے اور انسانی نظام کی خرابی یا بے ثباتی کا سبب بھی ا ن تینوں یاان میں سے کسی کا فُقدان ہوتا ہے اور انہیں سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن کریم نے نظامِ عالَم کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کے لئے اس جگہ اشارہ فرمایا ہے۔ یہ آیات سورہ الرحمن کے شروع میں ہیںجہاں کہ قرآن کریم کی آمد کی غرض بیان کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ خالی ترازو کے تول اور بٹّوں کے درست رکھنے کا مضمون نہ تو قرآن کریم کے نزول کے اغراض سے خاص تعلق رکھتا ہے اور نہ نظامِ عالَم سے ۔ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ گیہوں اور چاولوں کے ماپ اور تول کا ذکر نہیں بلکہ انسانی اعمال کے ماپ اور تول کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سوسائٹی کے بنیادی اصول نظامِ عالَم کے مطابق رکھنے چاہئیں اور جو قیود اور حدبندیاں اس پر الٰہی قانون نے لگائی ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہئے اور نہ تو یہ کرنا چاہئے کہ کام کا اس قدر جوش ہو کہ دوسروں کے مفوّضہ کاموںمیں دخل دینے لگ جائے اور نہ یہ غفلت کرے کہ اپنے فرض کو بھی ادا نہ کرے اور نہ یہ ظلم کر ے کہ دوسروں کو بھی ان کے کام سے روکے خواہ بِالواسطہ یا بِلاواسطہ۔
قومی تباہی کے اسباب
اب دیکھ لو کہ نظام انسانی کی تباہی ان تین امور سے ہی وابستہ ہے جب کوئی قوم ہلاک یا تباہ ہوتی ہے تو اس کایا تو یہ سبب ہوتا ہیکہ
بعض ذہین اور طبّاع لوگ اپنے جوشِ عمل سے گمراہ ہو کر دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی شروع کر دیتے ہیں یا توغیر قوموں کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میںلینے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا پراحسان کر رہے ہیں یا خود اپنے ملکی یا قومی نظام میںا س قدر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا ان سے ناممکن ہوتا ہے اور اس طرح ملکی یا ملّی کام تبا ہ ہو جاتے ہیں اور قوم یا ملک بجائے ترقی کرنے کے تنزّلکی طرف چلا جاتا ہے۔بڑے بڑے فاتحین جو شہاب کی طرح چمکے شہاب کی طرح ہی غائب ہو گئے ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ انہوں نے خود تو کچھ شُہرت اور عزّت حاصل کرلی لیکن قومی نظام کو ایک دھکّا لگا گئے اور نظامِ ارضی کی مشین میںان کی قوم کے پُرزہ کی جو جگہ تھی اس سے ہِلا کر دوسری جگہ کر گئے جس سے قوم کو بھی صدمہ پہنچا اور دنیا کو بھی ۔اسی طرح وہ جو شیلے قومی کارکن جو ہر مجلس پر چھا جانا چاہتے ہیں اور جوشِ عمل کی وجہ سے سب عُہدے اپنے ہی ہاتھوں میںرکھنا چاہتے ہیں قوم کی تباہی کاموجب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک تو وہ سب کام اچھی طرح کر ہی نہیں سکتے اور دوسرے اس وجہ سے قوم میںاچھے دماغ پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ باقی دماغ نکمیّ رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں۔حال ہی میںایک وسیع ہندوستانی ادارہ کے بارہ میں ایک معزّز ہندوستانی نے مجھ سے کہا کہ مَیںبارہا اس ادارہ کے کرتا دھرتا کو کہہ چکا ہوں کہ تم اس ادارہ کو منظم کرو، سیکرٹریٹ بنائو، انسپکٹر مقرر کرو، تا کہ کام وسیع ہو اور کام کرنے والوں کی جماعت تیار ہو مگر وہ سنتا ہی نہیں۔ یہ شکایت ان کی بجا تھی اور مَیں نے دیکھا ہے کہ اس کانتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اس ادارہ میںکام کرنے والی کوئی نئی پود تیار نہیںہورہی۔ ڈکٹیڑوں پر ڈیماکریسیز کو اسی وجہ سے فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اس میں کام کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ ُکھلا رہتا ہے پس جو قوم یا ملک اچھا نظام اور پائیدار نظام قائم کرنا چاہے اسے نظامِ عالَم سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ ہر فرد اپناکام ہی کرے دوسروں کے کام سمیٹنے کی کوشش نہ کرے ، ورنہ وہ سب کام نہ کر سکے گا اور دوسروں کے دماغ معطل ہوجائینگے۔ قومی زندگی پائیدار بنانے کے لئے متواتر لائق افراد کاپیداہوناضروری ہے اور لائق افراد بغیر تجربہ اور عملی کام کے پیدا نہیں ہو سکتے۔پس زیادہ ذہین اور قابل اشخاص کا فرض ہے کہ وہ کام کو اچھا بنانے کے شوق میںدوسروں کے لئے راستہ بند نہ کریں بلکہ دوسروں کو جو خواہ ان سے کم لائق ہوں کام کرنے کا موقع دیں ، تا کہ وہ بھی تجربہ حاصل کر کے اس خلاء کو پُر کرنے کے قابل ہوں جوبڑوں کے مرنے کے بعد ضرورہو کر رہیگا۔
دوسری خرابی جو نظامِ ملکی یا سیاسی کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہے یہ ہے کہ ہر فرد اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہیںکر رہا ہوتا جس طرح زیادہ کام اپنے ہاتھ میںلے لینا نقصان کاموجب ہوتا ہے اسی طرح اپنے مفوّضہ کام کو پورا نہ کرنا بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے۔پس سوسائٹی یا ملک یا قوم اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کے تمام افرا د میںذمہ داری کا علم اور اُس کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ اوّل تمام قوم کے اندر علم پیداکیاجائے اور پھر اس علم کو عمل کی صورت میں بدلنے کی کوشش کی جائے تا کہ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اد اکرے جس طرح کہ نظامِ عالَم کا ہر فرد اپنے فرض کوادا کر رہا ہے۔
تیسری خرابی قومی نظام کو تباہ کرنے والی یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو بِالواسطہ یابِلاواسطہ کام سے روکنے لگتے ہیںیعنی یا تو ظلماً ایک فرقۂ قوم کوکام سے الگ کر دیتے ہیں اور صرف ایک حصۂ قوم کوکام کے قابل قرار دیتے ہیں جیسے آرین نسلیں ہیں کہ قومی برتری کے خیال سے وہ صرف اپنی ہی نسل کے لوگوں کو ملک وقوم کا بوجھ اُٹھانے والا قرار دیکر دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو کام سے بے دخل کر دیتی ہیںاور اس طرح قومی تنزّلکے سامان پیدا کردیتی ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ادنیٰ اقوام کی خرابی بھی اُلٹ کر اعلیٰ قوم پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور اسے خراب کر دیتی ہے۔ اور یہ عقیدہ کہ صرف اعلیٰ ادنیٰ پراثر انداز ہوتا ہے غلط ہے، چنانچہ نظامِ عالَم میں سورج جو بڑ ا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے اور چاند جو چھوٹا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔پس چھوٹوں کو نظر انداز کرنا بالکل خلافِ عقل ہے اور جو افراد یا اقوام بعض افراد یا اقوام کو چھوٹا اور ادنیٰ قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں اور قومی مشین کے پُرزوں سے ان کو خارج کر دیتی ہیںوہ آخر تباہ ہو جاتی ہیں اور ادنیٰ افراد یا اقوام ان کو بھی قعرِمذلّت میںگِرا دیتے ہیں۔
اسی طرح بِالواسطہ طور پر کسی کے حق میں کمی کرنا بھی قوم کے حق میں نقصان دہ ہوتا ہے یعنی کمزور اور غریب اور مزدور اقوام کی تعلیم یاتربیت سے غفلت یا اولاد کی تربیت سے اِعراض یہ سب بِالواسطہ اِخْسَارفِی الْمِیْزَان ہے۔یعنی گو عقیدۃً انہیںادنیٰ نہیں سمجھا جاتا، لیکن عملاً ان سے سلوک وہی ہوتا ہے جو غیر ضروری حصّہ سے ہو سکتا ہے،لیکن چونکہ وہ افراد بھی قانونِ قدرت کے مطابق قوم کا ضروری حصّہ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری مشین خراب ہوجاتی ہے اور نظامِ ملکی یا قومی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
دیکھو کس خوبی سے اوّل ـ نظامِ عالَم کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر نظامِ انسانی کو اس پر چسپاں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے بابلیوںؔ نے اور ان کے بعد یونانیوں نے نظامِ شمسی پرنظامِ تمدّن کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر جس خوبی، جس اختصار اور جس ہمہ گیری کے ساتھ قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں ان دونوں نظاموں کی حقیقت اور مماثلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ان اقوامِ عالَم کے فلاسفروں کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔
اور مسائل بھی علمِ ہیئت کے قرآن کریم میںبیان ہوئے ہیں مگر اجمالاً انہیں امور پر کفایت کی جاتی ہے۔
(۳) ایک وسیع اور عظیم الشّان سمندر
تیسری چیز جو مَیںنے دیکھی تھی سمندر تھا،مَیں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ ایک اور سمندر قرآن نے پیش کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے بھول گئے ہیں وہ اس کی طرف سے ہنس کرگزر جاتے بلکہ اُسے حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمندر خود ہماری کتاب قرآن کریم ہے۔ سمندر کیا ہوتا ہے؟ سمندر کے معنے ایک ایسی وسیع چیز کے ہیں جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور جس میںموتی، مونگا اور اسی قسم کی اور بیسیوں قیمتی چیزیں ہوتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ اسی قسم کی ایک چیز ہمارے پاس بھی ہے مگر افسوس کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ہم موتی نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،ہم مونگا نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیوں کا تیل نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم سیپیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم کوڑیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،مگر ہم نہیں قدر کرتے تو اُس شخص کی جوقرآن کریم کے سمندر میںسے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے پیش کرے، حالانکہ یہ وہ سمندر ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَنَزَّلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ۔۷۵؎
یعنی اے رسول! ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ ہے جس میں ہر چیزکا بیان موجود ہے اور جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔ اس میں موتی بھی ہیں، اس میں مونگے بھی ہیں، اس میں ہیرے بھی ہیں، اس میںجواہرات بھی ہیں، غرض خشکی اور تری کی تمام نعمتیں اس میںجمع ہیں جب بھی تمہیںکسی چیز کی ضرورت ہو تم اس سمندر میںغوطہ لگائو وہ چیزتمہارے ہاتھ میں آجائے گی۔پھر سمندر میںتو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان غرق ہو جائے بعض دفعہ سمندروں میںطوفان آتے اور بڑے بڑ ے جہاز تباہ ہو جاتے ہیں مگر فرمایا یہ وہ سمندر ہے کہ ھُدًی وَّرَحْمَۃً اس سمندر میں جو غوطہ لگائے وہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا اور سمندروں میںبڑے بڑے کپتان بھی بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیںمگر یہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی انسان رستہ بُھولنے لگتا ہے وہ کہتا ہے کہ غلط راستے پر نہ جائو۔ صحیح راستہ یہ ہے اِدھر آئو۔ پھر یہ صرف ھُدًی نہیں بلکہ رَحْمَۃً بھی ہے۔ ان سمندروں میںتو لوگ ڈوبتے اور عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے جو انسان کو زندگی بخشتا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔پھر اسی حد تک بس نہیں بلکہ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ اس سمندر میںتیرنے والا ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے اور کبھی کسی خطرہ سے اسے دوچار ہونا نہیں پڑتا۔ اس کے آگے بھی رحمتیں ہوتی ہیں اس کے پیچھے بھی رحمتیں ہوتی ہیں۔ جب ایک نعمت اسے مل جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ اسی نعمت پر بس نہیں آئو تمہیں دوسری نعمت بھی دیں۔ اور جب دوسری نعمت مل جاتی ہے تو تیسری نعمت اس کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے وہ ایک مقام پر اپنا قدم روکتا ہے تو اُسے آواز آتی ہے کہ صاحب ٹھہرتے کیوں ہیں، اگلی منزل پراس سے بھی زیادہ اچھی نعمتیں ہیں اور جب وہ دوسری منزل پرپہنچتا ہے تو آواز آتی ہے کہ صاحب آگے بڑھیئے ہماری نعمتیں تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں سمندر میں تو جب انسان دو چار سو میل آگے جاتا ہے تو جہاز خطرے میںگھر جاتا ہے مگر یہاں ہر قدم پر یہ آواز آتی ہے کہ گھبرائیے نہیں،آپ تو امن اور سلامتی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
قرآنی سمندر کی وسعت
پھر سورۃ لقمان رکوع ۳ میںاس سمندر کی وسعت بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَوْاَنَّ مَافِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلامٌ
وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّانَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۷۶؎
یعنی زمین میںجس قدر درخت ہیں اگر اُن تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنا دی جائیں اور جنگلوں اور باغات کا ایک درخت بھی نہ رہنے دیاجائے سب کی قلمیں تیا ر کرلی جائیں وَالْبَحْرُیَمُدُّہٗ اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر اور سات سمندروں کاپانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور اس سیاہی سے کلام اللہ کے معنے لکھے جائیں تو مَانَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ قلمیں ٹوٹ جائینگی،سات سمندروںکی سیاہی خشک ہو جائے گی، مگرقرآن کا سمندر پھر بھی بھرا ہؤا ہو گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَزَیْزٌ حَکِیْمٌ کیونکہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔غالب ہونے کی وجہ سے اس نے وہ وسعت قرآنی معارف کو بخشی ہے کہ اگر تمام درخت قلمیںبن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے اس کے معارف لکھے جائیں، پھر بھی وہ ختم ہونے میںنہ آئیں۔مگر وسعت بعض دفعہ لغو بھی ہو جاتی ہے، بڑے بڑے شاعر جس قدر گزرے ہیں ان کے اشعار میں کسی نہ کسی حد تک لغویت ضرور آ گئی ہے۔ اسی طرح جتنے بڑے نثار گزرے ہیں ان تمام کی نثر کے بعض حصوں میںفضولیات پائی جاتی ہیں۔مگر فرمایا یہاں ایسا نہیں، باوجود قرآنی مطالب اس قدر وسیع ہونے کے اس میںکوئی بات لغو اور بے فائدہ نہیں کیونکہ ایک حکیم ہستی کایہ نازل کردہ کلام ہے اور جو حکیم خدا کی طرف سے نازل شدہ کلام ہو اس میں لغو بات کس طرح ہو سکتی ہے ۔پس ایک طرف تو قرآنی معارف میںاس قدر وسعت ہے کہ سات سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے مگر اس کے معارف ختم نہ ہوں اور دوسری طرف اس میں ایک بات بھی خلافِ حکمت نہیں بلکہ ایک ایک بات کو دیکھ کر انسان قربان ہو جاتا ہے۔
پھر سورہ دخان رکوع ایک میں فرماتا ہے۔ حٰم۔وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّااَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ اِنَّاکُنَّامُنْذِرِیْنَ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَااِنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ ۔۷۷؎
کہ حمید مجید خدا کی طرف سے ایک کتاب آئی ہے جو کھول کھول کر تمام سچائیوں کو بیان کرنے والی ہے اور میں اسی کتاب کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ تمہار اخدا بڑا بزرگی والا خدا ہے ہم نے یہ قرآن ایک ایسے تاریک زمانہ میںاُتارا ہے جو رات سے مشابہت رکھتا تھا اور جس میںقسم قسم کی تباہیاں اور قسم قسم کے گند اور فساد تھے مگر باوجود ان فسادوں کے وہ زمانہ ایک لحاظ سے مبارک بھی تھا کیونکہ اِنَّاکُنَّامُنْذِرِیْنَ ۔ اس میں خداکی طرف سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ہوشیار ہوجائو۔ گو تمہارے گھر ڈاکوئوں کا شکار ہو رہے ہیں مگر اب خدا خود تمہاری حفاظت کے لئے آ رہا ہے۔ پس ہم نے خود ا س کتاب کے ذریعہ اپنے بندوں کو ہوشیار اور بیدار کیا۔
مُنذرکے عام طورپر نہایت غلط معنے کئے جاتے ہیں ،یعنی اُردو میںاس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ڈرانے والے ہیں، حالانکہ عربی زبان میںاِنذار کے معنے ڈرانا نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار کرنا ہیں۔ تو فرمایا گویہ رات تھی اور تاریک رات تھی، چاروں طرف ڈاکے پڑر ہے تھے اور دین وایمان کہیں نظر نہیںآتا تھا مگر پھر بھی یہ مبارک رات تھی کیونکہ اس میںخدا خود چوکیدار بن کرآیا اور اس نے خود پہرہ دیا او رآوازیں دیں کہ میرے بندو! ہوشیار ہو جائو، بھلا اس سے زیادہ مبارک رات اور کونسی ہو سکتی ہے۔ فِیْھَایُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ یہ مبارک رات کیوں نہ ہو، راتوں کے وقت چوروں کی طرف سے مال اٹھایا جاتا ہے مگر اس رات میں لوگوں کو خود ہماری طرف سے مالا مال کیا جا رہا ہے اور انہیں بُلا بُلا کر کہا جا رہا ہے کہ آئو اور اپنے گھروں کو برکتوں سے بھر لو۔اَمْرًامِّنْ عِنْدِنَا یہ سب کچھ ہمارے حکم کے ماتحت ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم اس بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو نعماء سے مالا مال کر دیں۔ پس اس سے زیادہ مبارک رات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ بغیر مانگے اور سوال کئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں۔ اَمْرٍ حَکِیْمٍ سے مراد وہی معارف اور علوم ہیں جو بغیر کسی انسانی کوششوں کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھولتا ہے۔ اگر کوئی شخص روٹی کھا رہا ہو اور کوئی دوسراآ کر اُسے کہے کہ تو روٹی کھا رہا ہے تو وہ حکیم نہیں کہلاسکتا، حکیم وہی کہلائے گا جو ایسی بات بتائے جس کا دوسرے کو علم نہ ہو۔ پس قرآن صرف کلام ہی نہیں بلکہ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ایسے حقائق اور معارف کا حامل ہے کہ بندے لاکھ سرپٹکتے رہتے وہ ان علوم اور معارف کو اپنی ذاتی جدوجہد سے کبھی حاصل نہ کر سکتے۔
اسی طرح سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔ مَاکَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰـکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَيْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۷۸؎
کہ یہ بات جھوٹی نہیں۔ یہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر رہی ہے اور ہر چیز اس میں بیان کر دی گئی ہے اور یہ مؤمنوں کی ہدایت اور رحمت کا موجب ہے۔
(۵) سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے۔ اَوَلَمْ یَکِْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَ لْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۷۹؎
ارے! اب بھی ان کو کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے جب کہ ہم نے انہیں اتنی بڑی چیز دیدی ہے جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔یعنی ہم نے ایک کتاب اُتار دی ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ سمندر کے پاس تو لوگ جاتے ہیں مگر یہ سمندر ایسا ہے کہ آپ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے۔پھر دنیا میں تو لو گ استادوں کے پاس جاتے اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے فلاں بات کس طرح ہے مگر یہاں وہ استاد بھیجا گیا کہ جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۸۰؎ تم خود لوگوں کے پاس جائو اور اُنہیں یہ تمام باتیں پہنچائو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان میںسے ایک بات بھی نہ پہنچائی تو ہم کہیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیںپہنچایا گویا ہمارا اُستاد اور ہمارا آقا خود ہمارے گھروں پر چل کر آ گیا ہے ، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً اگر تم سوچو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے اپنے رسول کو جو یہ حکم دیا ہے یہ تم پر ہمارا اتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حد نہیں گویا پنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آ رہی ہے کہ ’’چوپڑیاں تے دو دو‘‘یعنی روٹیاں چپڑی ہوئی بھی ہوں اور پھر ملیں بھی دو دو تو اور کیا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک تو چپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اور پھر دو دو دے رہے ہیں ایک تو ہم نے وہ کتاب دی جو ہر طرح کامل ومکمل ہے اور جس کی نظیر کسی اور الہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھر اپنے رسول کو یہ حکم دیدیا ہے کہ جائو اور ہماری یہ کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کر انہیں سنائو اور اس کی تعلیموں سے انہیں آ گاہ کرو۔
وَذِکْرٰی۔ایک نعمت تو یہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی اور دوسری نعمت یہ ہے کہ جو اس کتاب کو مان لیںگے ، دنیا میںان کی عزت قائم کر دی جائے گی،بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں۔یہ معنے بھی درست ہیں مگر ا س کے یہ معنے بھی ہیں کہ جو لوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے، ان کا ذکرِ نیک دنیامیں جاری رہے گا اور کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ خدمت کی اور فلاں نے وہ خدمت کی گویا یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ اس پر صدقِ دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے۔
پھر فرمایا۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَ بٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا ۸۰؎
کہ ہم نے قرآن میںہر قسم کی باتیں بیا ن کر دی ہیں ، مگر افسوس انسان پر کہ وہ ہر بات کو سُنکر کہتا ہے کہ ابھی اور چاہئے اور جوبات اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اس کا انکار کر دیتا ہے، اگر اس کے اندر ایک ذرہ بھی شرافت کا مادہ ہوتا تو یہ ان باتوں کو قبول کرتا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور اگر دل میںاُن کے بعد بھی پیاس رہتی تو کسی اور چیز کی طلب کرتا ، مگر یہ عمل تو کرتا نہیں اور اَور چیزیں مانگے جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہدایت سے کوئی غرض نہیں، محض ایک پاگل اور احمق انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے کہے جاتا ہے کہ اَور دو، اَور دو۔ اوریہ نہیں دیکھتا کہ جو اسے دیا گیا ہے اسے اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے اسی طرح فرمایا۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُراٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَيْئٍ جَدَ ًلا ۸۲؎
ہم نے قرآن میں انسان کے نفع کے لئے ہر چیز رکھدی ہے مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اس پاک کتاب کاانکار کئے جاتا ہے۔یہی مضمون سورہ روم ع۶ اور سورہ زمر ع۳ میں بھی بیان ہؤا ہے۔
قرآنی سمندر کی گہرائیوں کاپتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں
یہ وہ سمندر ہے جو مَیں نے دیکھا
اور یہ وہ بحرِزخّار ہے جس کا مَیں نے مشاہدہ کیا، اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں، اس سمندر کی کوئی انتہا نہیں۔اس سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں اور اس کی وسعتِ بے پایاں کو کوئی انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا۔مجھے حیرت ہوتی ہے، مجھے تعجب آتا ہے، مجھے رونا آتا ہے کہ معمولی معمولی خلیجوں کے کنارے ہمارا ایک سیاح یا شاعر کھڑا ہوتا اور فرطِ مسرت میں جھومتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں یہ بے کنار خلیج یا بے کنار دریا ہے حالانکہ ایک دن کی منزل یا دو دن کی منزل پر اس کا کنارہ موجود ہوتا ہے ۔بڑے بڑے سمندروں کا بھی دس پندرہ دن کے سفر کے بعد کنارہ آجاتا ہے، مگر وہ اس کنارے والے سمندر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ بے کنار ہے پس مجھے حیرت ہوئی اور میرا دل اس غم سے خون ہو گیا کہ وہ عظیم الشان سمندر جسے خدا نے بے کنار کہا، جس کی وسعت کو اس نے خود غیر محدود قرار دیا اور جس کے کنارہ کو کوئی انسانی عقل تلاش نہیں کر سکتی اس کے متعلق مولویوں کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی کہ اس کی آیات کی طبری اور بیضاوی نے جو تفسیر لکھ دی ہے اب اس کے بعد کچھ اور کہنا تفسیر بِالرائے ہے۔ یقینا وہ جھوٹے ہیں ،کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اگر ساری دُنیا کے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کی سیاہی بنالی جائے اور ان قلموں او ر سیاہیوں سے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے معارف لکھے جائیں تب بھی قلمیں ٹوٹ جائیں گی، سیاہیاں خشک ہو جائینگی، مگر اس کتاب کے معارف ختم نہیں ہوں گے لیکن یہ دو چار سَو صفحوں کی چند جلدیں لکھنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ اب ان باتوں سے زیادہ کوئی اور بات بیان کرنی حرام ہے۔ مَیں کہتا ہوں اور مَیں کیا خدا کا کلام کہہ رہا ہے کہ جس دن تم سارے درختوں کی قلمیںبنا کر اور سارے سمندروں کی سیاہی بنا کر ان سے قرآن کے معارف لکھ لو گے تو اس کے بعد تم بیشک میر ے پاس آ جانا اور کہنا کہ اب قرآن کی اور تفسیر مت کرولیکن دنیا نے ابھی تو قرآن کی تفسیرلکھنے میں ایک جنگل کی لکڑی بھی ختم نہیں کی اور سمندر چھوڑ ایک کنویں کے پانی جتنی سیاہی بھی اس پر خرچ نہیںکی۔ پس ابھی ہمیں اس حق سے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ حق ہمارا اُس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک سمندروں میںپانی کا ایک قطرہ بھی موجود ہے ۔یا درخت کی ایک شاخ بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ہاںتمہارا بے شک یہ حق ہے کہ تم ثابت کروکہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسلام کے خلاف ہے، اس بات سے تمہیں کوئی نہیں روکتا مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم قرآن کے نئے معانی کیوں کرتے ہو میں ان سے کہتا ہوں کہ اے نالائقو ! اور اے احمقو! تم تو خشکی میں تڑپ رہے ہو اور ہم خداتعالیٰ کے ایک وسیع سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ تم ریت کے تودوں پر لَوٹتے ہو اور طعنے ان لوگوں کو دے رہے ہو جو سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے والے ہیں۔ پس خدا سے ڈرو اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے بحرِ زخّار کو پتوں کی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش نہ کرو اور کود کر اس کو چھلانگ جانے کے دعووں سے اپنی نادانی ظاہر نہ کرو ۔
مَیں نے جب ان باتوں کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا ء نہ رہی اور مَیں نے کہا، افسوس خزانے موجود ہیں، قلعے موجود ہیں ، رصدگاہیں موجود ہیں، سمندر موجود ہے مگر ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں، آثارِ قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے کنجیاں دی تھیں اُنہوں نے اُن آثارِ قدیمہ کو خراب کر دیا، تباہ کر دیا اور اس قدر ان کی حالت کو مشتبہ کر دیا کہ ان پرکوئی شخص اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا۔ یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا۔ اس قرآن کے آثارِ قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم ؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل وکچیل سے مبرّا داغوں اور دھبوں سے صاف چھینٹوں اور غلاظت سے پاک ہر چیز اصل اور حقیقی رنگ میںہمارے پاس ہے۔پُرانے سے پُرانے آثار اس میںپائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تو قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ، چند ٹوٹی ہوئی چُھریاں ، چند پُرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اس کی تعریف کے شور سے آسمان سرپراُٹھالیتے ہیں اورکہتے ہیں۔ واہ واہ! اس نے کس قدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ خزانہ جو خدا نے اُن کو دیا تھا اس کو وہ بھول گئے ،وہ سمندر جو خدا نے ان کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا، وہ تمام رصدگاہیں جوقرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لاپرواہ ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اس عظیم الشان راز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ اور جب میں نے کہا۔ ’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ تو اس کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں۔مَیں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھونگا اور اُسے مجبور کروں گا کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے۔ـ
قرآن کریم کا بلند ترین مقام
پس اے دوستو! مَیں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں۔ دنیا کے علوم اس کے
مقابلہ میںہیچ ہیں۔ دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میںاتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میںایک کرمِ شب تابِ حقیقت رکھتا ہے۔ دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میںکوئی چیز نہیں، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف وحقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے ُ کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے ُکھلا ہے، یہ ابوبکرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عمرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عثمانؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا، یہ علیؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی ُکھلا تھا او رآج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی ُکھلا ہے بلکہ جس طرح دُنیوی علو م میںآجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے، مگر جب مقابلہ آ پڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میںترقی کر جانے کے گھمنڈ میںقرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں! ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا۔اسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میںہیچ ہو کر رہ جائیں گے۔پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا او رپھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو اس کے مقابل پر زِک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا ۔یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو اد ا بھی کر رہے ہیں۔ دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی خوبیاں لوگوںکے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ،اسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑکی اور جب اس نے دیکھا کہ تم اس کی کتاب کو صندوقوں او رغلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حُکم دیا کہ جائو اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو۔ یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں۔ دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں، وہ دشمنی کرتی ہے تو سَو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیںکہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جائو اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا۔
دوستوں کو نصیحت
آخر میں مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمار ے سُپرد ایک عظیم الشان کام ہے ہم نے اسلام کی عظمت اور اس کی برتری دنیا کے تمام مذاہب پرثابت کرنی
ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ اسلام کوسیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ دشمن کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے وہ تو عداوت اور دشمنی کے جوش میں بیہودہ اعتراضات کرتا ہی رہے گا، ہاں اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے، اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم اس کے دین کے حقیقی خدمت گزار ہوں تو بشریت کی وجہ سے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہونگی اللہ تعالیٰ انہیں یقینا معاف کر دیگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی نگاہ میںکبھی ذلیل نہیں کر سکتا۔ بشری کمیاں انبیاء میں بھی ہوتی ہیں ۔ پس اگر ایسی غلطیاں خدمتِ دین کے ساتھ ہوں تو خدا ان پر گرفت نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک حبشی کو اپنا وہ بچہ کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ہوتے ہیں، آنکھوں میںغلاظت بھری ہوتی ہے اور شکل نہایت بھیانک اور ڈراؤنی ہوتی ہے۔ پھر اگرایک حبشی اپنے مَیلے کُچیلے اور بدصورت بچہ کی تحقیر نہیں کر سکتا،بلکہ اسے اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتا ہے تو کس قدر نادان ہے وہ شخص جو خیال کرتا ہے کہ گو ہم خداتعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جائیںاور اللہ تعالیٰ کے روحانی فرزند بن جائیں وہ پھر بھی ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ہمیں دھتکاردیگا۔ وہ ہمیںدھتکارے گا نہیں بلکہ اپنے سینہ سے لگائے گا اور ہماری کمزوریوں اور خطائوں سے چشم پوشی کریگا، ہاں اپنے طور پر ہر انسان کو یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آ ئے اگر وہ اپنی طرف سے ان خطائوں اورکمزوریوں پر غالب آنے کے لئے پوری جدوجہد اور سعی کرتا ہے تو وہ اُس بچے کی طرح ہے جو زمین پر گِرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح ایسے بچہ کو باپ نہایت پیار کے ساتھ اپنے گلے لگا لیتا ہے۔اسی طرح خدا بھی اپنے اس بندے کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا اور خود اسے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتا ہے پس کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارے دلوں میںقرآن کی محبت پیدا کرے،اپنے دین کی محبت پیدا کرے، اپنے رسول کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلاسکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آئیںاور اپنی خطائوں کو دُور کرسکیں لیکن اگر باوجود ہماری کوشش کے پھر بھی ہم میں کوئی عیب یا گُناہ رہ جائے تو وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے اور ہمارے دشمن کو ہم پرغالب آنے کاموقع نہ دے وہ اپنے فضل کی چادر میں ہم سب کو لپیٹ لے اور اپنے محبوبین اور مقربین میںہمیںشامل فرمائے تاہم کہہ سکیں کہ ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت خدا تعالیٰ کے دین کے اِحیاء کے لئے ہے اور ہمارا خالق اور مالک خدا بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔
۱؎ تذکرہ صفحہ ۴۱۳ ۔ ایڈیشن چہارم۔
۲؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲ تا ۱۹ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۳؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ تا ۲۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۴؎ پیدائش باب ۲ آیت ۸نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۵؎ پیدائش باب ۲آیت ۱۶تا ۲۳ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۶؎ ڈارون (ERASMUS DARWIN) 1731ء تا 1802ئ۔ انگریز سائنسدان۔ اگرچہ طبیب مگر اس نے ایک لمبی نظم ’’نباتیاتی باغ‘‘ (THE BOTANIC GARDEN) بھی لکھی۔ ایک نظم ’’زونومیا‘‘ (ZOONOMIA) میں ارتقائی نظریات کی پیشگوئی ملتی ہے۔ جہاز بیگل پر ماہرِ موجودات کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اس نے طبّ اور مذہب کا مطالعہ کیا۔ اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہؤا جو ڈارونیت (DARWINISM) بھی کہلاتا ہے۔ اس نظریہ پر اس نے اپنی کتاب ’’آغازِ انواع‘‘ (ORIGION OF SPECIES) میں بحث کی ہے۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۷؎ ہیکل(HAECKEL ERNST HEINRICH) 1834ء تا 1919ئ۔جرمن حیاتیات دان اور فلسفی پاٹسڈم (POTSDAM) برلن اور ویانا میں طب اور حیوانیات کا مطالعہ کیا اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۸۶۵ء میں JENA یونیورسٹی میں حیوانات کا پروفیسر ہوگیا اور ۵۰ سال تک نظریۂ ارتقاء کی اشاعت کرتا رہا۔ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے حیوانی زندگی کا شجرۂ نسب مرتب کیا۔ (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۸؎ ہکسلے(HUXLEY T(HOMAS) H(ENRY)انگریز حیاتیات دان۔ جب وہ جہاز رٹیل سینک پر نائب سرجن تھا تو اس نے بحر الکاہل کے رقبوں میں سمندری زندگی کے نمونے اکٹھے کئے۔ ڈارون کا حامی تھا اور اس نے ارتقاء ، تشریح، عضویات اور سائنس کے دوسرے موضوعات پر لکھا۔
(اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۹؎ نوح : ۱۴ تا ۱۹
۱۰؎ مریم : ۶۸
۱۱؎ الدھر : ۲
۱۲،۱۳؎ الدھر : ۳
۱۴؎ فاطر : ۱۲
۱۵؎ الانبیاء : ۳۱
۱۶؎ السجدۃ : ۸
۱۷؎ السجدۃ : ۹
۱۸؎ المرسلٰت : ۲۱ تا ۲۳
۱۹؎ النّجم : ۴۳ تا ۴۸
۲۰؎ فاطر : ۱۲
۲۱؎ البقرۃ : ۳۱
۲۲؎ الاعراف : ۱۲
۲۳؎ البقرۃ : ۳۷
۲۴؎ طٰہٰ : ۱۲۴
۲۵؎ البقرۃ : ۳۹
۲۶؎ الاعراف : ۲۶
۲۷؎ ص ٓ : ۷۷
۲۸؎ الانبیاء : ۳۸
۲۹؎ الرّوم : ۵۵
۳۰؎ الاعراف: ۱۳
۳۱؎ اللّھب : ۲
۳۲؎ الرحمٰن : ۱۶
۳۳؎ البقرۃ : ۳۶
۳۴؎ الاعراف : ۲۰
۳۵؎ طٰہٰ : ۱۱۸
۳۶؎ النساء : ۲
۳۷؎ الاعراف : ۱۹۰،۱۹۱

۳۸؎ بخاری کتاب النکاح باب الوصاۃ بالنّساء
۳۹؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۷ المکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۸ء
۴۰؎ مجمع البحار جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ مطبع نولکشور ۱۳۱۴ھ
۴۱؎ بخاری کتاب التفسیر باب یٰٓاَیُھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَیّرمُ مَااَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ۔
۴۲؎ طٰہٰ : ۱۲۲
۴۳؎ طٰہٰ : ۱۱۹ ، ۱۲۰
۴۴؎ البقرۃ : ۳۶
۴۵؎ البقرۃ : ۳۲
۴۶؎ النمل : ۲۴
۴۷،۴۸؎ البقرۃ : ۳۱
۴۹؎ التحریم : ۴
۵۰؎ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ، ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۱؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۲؎ خروج باب ۳۲۔ آیت ۱ تا ۴ نارتھ انڈیا بائیل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۵۳؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۴؎ خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ( مفہوماً)
۵۵؎ خروج باب ۳۲ آیت ۱۹ تا ۲۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء (مفہوماً)
۵۶؎ فاطر : ۲۵
۵۷؎ الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۵۸؎ الانعام : ۷۶
۵۹؎ النجم : ۹ ، ۱۰
۶۰؎ یونس : ۶۳ تا ۶۵
۶۱؎ النمل : ۶۶ ، ۶۷
۶۲؎ الجنّ : ۲۷ ، ۲۸
۶۳؎ حٰمٓ السجدۃ: ۳۱ تا ۳۳
۶۴؎ الصّٰفّٰت : ۸۴ تا ۱۰۰
۶۵؎ مہورت: کسی کام کیلئے
ستاروںکی چال کے مطابق
مبارک وقت معلوم کرنا
۶۶؎ النحل : ۱۳
۶۷؎ الحج : ۱۹
۶۸؎ یونس : ۶
۶۹؎ نوح : ۱۶ ، ۱۷
۷۰؎ الرعد : ۳
۷۱؎ الانعام : ۹۷
۷۲؎ الرحمٰن : ۶
۷۳؎ الرحمٰن : ۶ تا ۱۰
۷۴؎ الانبیاء : ۳۴
۷۵؎ النحل : ۹۰
۷۶؎ لقمان : ۲۸
۷۷؎ الدخان : ۲ تا ۶
۷۸؎ یوسف : ۱۱۲
۷۹؎ العنکبوت : ۵۲
۸۰؎ المائدۃ : ۶۸
۸۱؎ بنی اسرائیل: ۹۰
۸۲؎ الکہف : ۵۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۲)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّدتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:-
(۴) مساجد
میں نے اس سفر میں جو چیزیں دیکھی تھیں ان میں سے کچھ مساجد بھی تھیں جو بڑی خوبصورت اور مختلف امتیازات والی تھیں کسی میں کالے پتھر لگے ہوئے تھے، کسی میں سفید اور کسی میں سُرخ اور بعض میں اگر سادگی تھی تو وہ سادگی اپنی ذات میں اتنی خوبصورت تھی کہ دل کو لبھا لیتی تھی۔ اسی طرح بعض مساجد اتنی وسیع تھیں کہ ایک ایک لاکھ آدمی ان میں بَیَکوقت عبادت کر سکتا تھا اور بعض اتنی بلند تھیں کہ انسان اگر اُن کی چھت کو دیکھنے لگے تو اس کی ٹوپی گِر جائے غرض اپنے اپنے رنگ میں ہم میں سے ہر ایک نے اُن مساجد کو دیکھ کر لُطف اٹھایا اور جہاں موقع مل سکا وہاں ہم نے نفل بھی پڑھے۔
مساجد کی تعمیر میں نیّتوں کا تفاوت
میں نے جب ان مساجد کو دیکھا تو اپنے دل میں کہا کہ ان خدا کے بندوں نے کیسی کیسی
عظیم الشان مساجد بنا کر خداتعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کو دنیا میں قائم کرنے کا اہتمام کیا تھا مگر ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ مساجد گو بڑی شاندار ہیں اور ان کے بنانے والوں نے ان کے بنانے پر بہت سا وقت اور روپیہ خرچ کیا ہے اور بہت بڑی قربانی سے کام لیا ہے تاہم نہ معلوم انہوں نے ان مسجدوں کو کس کس نیت سے بنایا۔ کسی نے ان کو اچھی نیت سے بنایا ہوگا اور کسی نے بُری نیت سے، کسی نے تو اس خیال سے مسجد تعمیر کی ہوگی کہ لوگ کہیں گے یہ مسجد فلاں بادشاہ نے بنائی تھی۔ اس رِیاکاری کی وجہ سے ممکن ہے وہ اِس وقت جہنم میں جل رہا ہو اور لوگ مسجد دیکھ کر کہہ رہے ہوں کہ واہ واہ! فلاں مسلمان نے کتنی بڑی نیکی کا کام کیا حالانکہ اُس نے چونکہ رِیاء کی وجہ سے مسجد بنائی تھی اس لئے وہ جہنم میں اپنے اس فعل کی سزا پا رہا ہوگا۔ پھر کسی نے ایسی نیک نیتی سے مسجد تیار کی ہوگی کہ گو وہ مر گیا اور اُس کی بنائی ہوئی مسجد بھی ویران ہو گئی مگر اُس کو خداتعالیٰ کے فرشتے ہر روز جنت میں آکر سلام دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ تو نے دنیا میں چونکہ خدا کا گھر بنایا تھا اس لئے اب آخرت میں ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہیں۔بیشک اُس کی مسجد میں اب لوگ نہیں آتے اور نہ وہاں آکر سلام کہتے ہیں مگر جنت میں اُسے فرشتے روزانہ اَلْسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہوں گے۔ غرض جب میں اس قلعہ کی چھت پر کھڑا تھا تو اُس وقت میرے خیالات یہ تھے کہ یہ دُنیوی چیزیں تھیں جن کو میں نے دیکھا اور جن سے اپنی معلومات میں اضافہ کیا، مگر ان دُنیوی چیزوں کے مقابلہ میں بعض روحانی چیزیں بھی اسی قسم کی ہیں لیکن دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ وہ اپنی شان میں ان دُنیوی چیزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں، وہ اپنی بلندی میں ان سے کہیں اونچی ہیں اور وہ اپنی خوبیوں میں ان سے کہیں اعلیٰ ہیں، غرض وہ ایسی نادر روزگار چیزیں ہیں کہ دنیا کو اگر سینکڑوں نہیں ہزاروں صدیوں کا سفر کرکے بھی ان کی تلاش میں جانا پڑے تب بھی وہ سفر بیکار نہیں کہلا سکتا ، مگر باوجود اس کے لوگ ان کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتے اور نہ ان کے بنانے والوں کی کوئی قدر کرتے ہیں، لیکن ان دُنیوی چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ یہ خیالات تھے جو اُس وقت میرے دل اور دماغ پر مسلّط تھے۔
عالَمِ روحانی کی شاندار مساجد
میں بتا چکا ہوں کہ میں نے اِس سفر میں بعض پُرانی اور شاندار مساجد دیکھیں، ایسی وسیع اور شاندار مساجد جن
میں ہزاروں آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تب میں نے غور کیا کہ یہ تو دُنیوی مساجد ہیں، کیا ان سے بھی بڑھ کر روحانی دنیا میں کوئی مسجدیں ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہیں تو دنیا ان سے کیا سلوک کر رہی ہے جب میں نے اس امر پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ ان مساجد سے بہت زیادہ شاندار مساجد روحانی دنیا میں موجود ہیں۔ مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی نہیں، چونے اور پتھروں سے بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ مسجدیں ایمان کی اینٹوں سے تیار ہوئی ہیں اور ان کی شان کو کوئی اور مسجد کبھی نہیں پہنچ سکتی۔
مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ دو چیزو ں میں مشابہت کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مشابہت شکل میں ہوتی ہے اور
کبھی کام میں مثلاً ایک انسان کی تھوتھنی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ُ ّکتا ہے، کوئی گردن اکڑا کر رکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سؤر ہے، ایک انسان بڑا بہادر اور دلیر ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ شیر ہے۔ اب کسی کو شیر یا ُکتّا یا سؤر اس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ اُس کے بھی شیر کی طرح پنجے ہوتے ہیں، یا وہ بھی کُتّے اور سؤر کی طرح ہوتا ہے بلکہ کبھی روحانی اور اخلاقی مشابہتوں کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام دیدیا جاتا ہے اور کبھی ظاہری مشابہت کی بناء پر ایک کو دوسرے کا نام دیا جافتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ مسجد کے مشابہ دنیا میں کونسی چیز ہے؟ میں نے اس کے لئے سب سے پہلے اس امر پر غور کیا کہ مسجد کا کام کیا ہوتا ہے اور وہ کس غرض کے لئے بنائی جاتی ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے آل عمران رکوع 10 میں یہ آیت نظر آئی کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo ۱؎ یہ آیت بیت اللہ کے متعلق ہے جو درحقیقت اوّل المساجد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے پہلی مسجد اور سب سے اوّل اور مقدّم مسجد وہ ہے جو مکہ میں بنی اور جس کی نقل میں دوسری مساجد تیار ہوتی ہیں۔ یہاں بیت سے مراد درحقیقت بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہی کہلاتی ہیں، آگے بیان فرماتا ہے کہ اس بیت اللہ کا کام کیا ہے اور اسے دوسرے مقامات پر کیا فوقیت حاصل ہے فرماتا ہے بیت اللہ کے بنانے میں ہماری تین اغراض ہیں۔
بیت اللہ کی تین اہم اغراض
اوّل وُضِعَ لِلنَّاسِ۔ یہ مسجد تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے کسی خاص فرد کے لئے نہیں۔ وہ زید
کے لئے نہیں، بکر کے لئے نہیں ، خالد کے لئے نہیں بلکہ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے۔ پھر مُبَارَکاً وہ برکت والی ہے۔ تیسرے ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ سب انسانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔ پس دنیا میں سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی اس کی تین اغراض تھیں۔
(۱) مساوات کا قیام
اوّل وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی، مطلب یہ کہ مسجد ایسا گھر ہوتا ہے کہ مساوات پیدا کرتا ہے اس میں غریب اور امیر
اور مشرقی اور مغربی کا امتیاز بالکل مِٹا دیا جاتا ہے۔ مسجد کے دروازہ کے باہر بیشک ایک بادشاہ بادشاہ ہے اور غلام غلام ، ایک شخص حاکم ہے اور دوسرا محکوم، ایک افسر ہے اور دوسرا ماتحت مگر اِدھر مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر امیر اور غریب، حاکم اور محکوم سب برابر ہو گئے۔ کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو مسجد میں ایک غلام سے بھی یہ کہہ سکے کہ یہاں مت کھڑے ہو تم وہاں جاکر کھڑے ہو بلکہ اسلام میں یہ مساوات اس حد تک تسلیم کی جا چکی ہے کہ بنواُمیّہ کے زمانہ میں جب بادشاہوں نے ظلم کرنے شروع کر دیئے تو پہلے تو مسجد میں جب بادشاہ آتا تو تعظیم کے طور پر لوگ اس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے مگر بعد میں وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے اور جب نوکر کہتے کہ جگہ چھوڑ دو تو وہ کہتے کہ تم ہمیں مسجد سے اُٹھانے والے کون ہو مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں۔ آجکل کا زمانہ ہوتا تو بادشاہ نوکروں سے لوگوں کو پٹوانا شروع کر دیتے مگر اُس وقت اسلام کا اس قدر رُعب تھا کہ بنوامیہ نے مسجد کے باہر حُجرے بنائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دیا مگر یہ جرأت نہ ہوئی کہ مسجد میں آکر لوگوں کو اُٹھا سکیں۔ تو مسجد وُضِعَ لِلنَّاسِ ہوتی ہے اور اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ کالے اور گورے کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی، چھوٹے اور بڑے کا اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک کا مسجد میں مساوی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ غرض مسجد کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں مساوات پیدا کرتی ہے۔
(۲) تقدّس اور ذکرِ الٰہی کا مرکز
دوسری غرض مسجد کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے مُبَارَکاً وہ مقامِ مبارک ہوتا ہے۔ میں مسجد
کے مقامِ مبارک ہونے کی اور مثالیں دیدیتا ہوں۔
(الف) مسجد اس لئے مقامِ مبارک ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں، باقی گھروں میں تو اور کئی قسم کے دُنیوی کام بھی کر لئے جاتے ہیں مگر وہاں دُنیوی کاموں کی اجازت نہیں ہوتی۔ یا اگر کئے بھی جائیں تو وہ اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جیسے مسجد میں اگر کوئی غریب شخص رہتا ہو تواُسے اجازت ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھا لے مگر بہرحال زیادہ تر کام مساجد میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے۔ اور درود پڑھا جاتا ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں اور اس طر ح اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
(ب) پھر مساجد اس لحاظ سے بھی مقامِ مبارک ہوتی ہیں کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں اور یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں گند پھینکا جائے، مثلاً پاخانہ پیشاب کرنے، ُتھوکنے یا بلغم پھینکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح حکم ہے کہ گندگی اور بَدبُودار چیزیں کھا کر مسجد میں مت آئو۔ جُنبی کا مسجد میں آنا بھی منع ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ مساجد کو صاف سُتھرا رکھو اور اس میں خوشبوئیں جلاتے رہو۲؎ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِس ہدایت کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے اور ان کی مسجدیں اتنی گندی ہوتی ہیں کہ وہاں نماز پڑھنے تک کو جی نہیں چاہتا۔
(۳) بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ
تیسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ یعنی مسجدیں
لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہاں دین کی تعلیم اورتبلیغ کا انتظام مثلاً خطبہ ہوتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، دینی اور اخلاقی باتیں بتائی جاتی ہیں اور لوگوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تذکیر و تحمید سے کام لیا جاتا ہے، دینی و دُنیوی اصلاحات کے متعلق مشورے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی بہتری اور ان کی ترقی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی طرح مسجدوں میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، حدیث کا درس ہوتا ہے، پھر نمازوں میں سے تین نمازیں بِالخصوص ایسی ہیں جن میں تلاوت بِالجہر کی جاتی ہے اور تلاوت بِالجہر ایک قسم کا وعظ ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے اور جب بلند آواز سے اُس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو لوگوں کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ غرض مسجدیں ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ کا کام دیتی ہیں وہاں لوگوں کی دینی تربیت ہوتی ہے، انہیں اعلیٰ روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں پس مسجد کی یہ تین اغراض اس آیت سے مستنبط ہوتی ہیں۔
مساجد کی بعض اور اغراض
اس کے بعد میں نے او ر غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی نظر آئی جس میں مساجد کے بعض اور
مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور وہ آیت یہ ہے۔ وَاِذْجَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۳؎
فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مَثَابَہ بنایا، یعنی تمام دنیا کے لئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور ملک اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر ایک انسان کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں مَثَابَۃً کے لُغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ مجتمع الناس وَ مَاحَوْلَ الْبِئْرِ مِنَ الْحِجَارَۃِ۴؎ یعنی مَثَابَۃ کے معنے ہیں جمع ہونے کی جگہ اسی طرح مَثَابَۃ اُس منڈیر کو کہتے ہیں جو کنویں کے اِردگِرد بنائی جاتی ہے اور جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر اُڑ کر اندر نہ چلا جائے، یا کوئی اور گندی چیز کنویں کے پانی کو خراب نہ کر دے ، اسی طرح منڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنویں میں نہ گر جائے، غرض منڈیر کا مقصد کنویں کو بُری چیزوں اور لوگوں کو گِرنے سے بچانا ہوتا ہے۔
مساجد دینی تربیت کا مرکز، بُرائیوں سے محفوظ
رکھنے کا ذریعہ اورقیامِامن کا موجب ہوتی ہیں
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے اِس مسجد کو ایک تو اس غرض کے لئے بنایا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس جگہ آئیں اور یہاں آکر
دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق حاصل کریں۔ دوسرے ہم نے مسجد کو اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ دنیا کے لئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی بُرائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے۔ تیسری غرض یہ بیان فرمائی کہ مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی ہم نے اس مسجد کو اس لئے بھی قائم کیا ہے تاکہ لوگ مقامِ ابراہیم پر بیٹھیں اور اسے مصلّٰی بنائیں۔ اور ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو بڑے زور سے یہ نصیحت کی تھی اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ کہ تم میرے اس گھر کو پاک رکھو (ان الفاظ میں بعض اور اغراض بھی بیان کر دی گئی ہیں) لِلطَّائِفِیْنَ مسافروں کے لئے وَالْعٰکِفِیْنَ اور مقیموں کے لئے وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس مسجد میں ذکرِ الٰہی کرنے کے لئے آبیٹھے ہیں۔
اس آیت سے مسجد کی یہ مزید اغراض معلوم ہوتی ہیں۔ (۴) مساجد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۵) مساجد شر سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۶) مساجد امن کے قیام کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۷) امامت کو ان کے ذریعہ زندہ رکھا جاتا ہے۔
مسئلہ امامت کا دائمی احیاء
چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو مدینہ میں ہوتے تھے مگر مسلمان جہاں کہیں ہوتے ایک شخص کو امام بنا کر اُس کی
اقتداء میں نمازیں ادا کرنے لگ جاتے اور اب بھی ہر مسجد میں ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء میں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ امام درحقیقت قائمقام ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اور مقتدی قائمقام ہوتے ہیں صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے۔ جس طرح صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح آج ہر مسجد میں مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ گویا سابق نیکی کے لیڈروں کو زندہ رکھا جاتا اور مساجد کے ذریعہ امامت کو ہر وقت قوم کی آنکھوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور مساجد لوگوں کو یہ مسئلہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تم میں ایک امام ہونا چاہئے اور اس امام کی اقتداء میں تمہیں ہر کام کرنا چاہئے۔
مسافر اور مقیم کے فوائدمساجد سے ہی وابستہ ہیں
(۸) مساجد مسافروں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔
مثلاً مسافر وہاں ٹھہر سکتا ہے اور چند روزہ قیام کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو جاسکتا ہے۔
(۹) الْعٰکِفِیْنَ مساجد شہر میں بسنے والوں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ مثلاً
(الف) گھروں میں تو شوروشغب ہوتا ہے اور انسان سکون کے ساتھ ذکرِ الٰہی نہیں کر سکتا مگر وہاں ہر قسم کے شوروشر سے محفوظ ہو کر آرام سے لوگ ذکرِ الٰہی کر سکتے ہیں۔
(ب) وہ وہاں اجتماعی عبادت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اگر مساجد نہ ہوں تو ایک نظام کے ماتحت عبادت نہ ہوسکے۔ مثلاً جب جمعہ کا دن آتا ہے تو سب مسلمان اپنے اپنے محلوں کی مساجد کی بجائے جامع مسجد میں اکٹھے ہو جاتے اور اجتماعی عبادت بجا لاتے ہیں، اس طرح مساجد انہیں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی عادت ڈالتی ہیں۔
(۱۰) وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اُن میں وہ لوگ رہتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں۔
واقفینِ زندگی اور مساجد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ اپنے آپ کوخدمتِ دین کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے وہ مسجد
میں ہی رہتے تھے اور انہیں اَصْحَابُ الصُّفَّہ کہا جاتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی باتیں سُنا کرتے اور بعد میں لوگوں تک پہنچا دیتے۔ غرض مسجدیں واقفینِ زندگی کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ گائوں والے بعض دفعہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ الگ کسی جگہ مدرسہ نہیں کھول سکتے ایسی حالت میں وہ مسجد سے مدرسہ کا کام بھی لے سکتے ہیں، کیونکہ ہمارا مدرسہ بھی مسجد ہے اور واقفینِ زندگی کی جگہ بھی مسجد میں ہے۔
مساجد کے مشابہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں
اب میں بتاتا ہوں کہ یہ اغراض اور مقاصد آیا کسی اور
چیز کے بھی ہیں یا نہیں اور مسجد کے مشابہ عالَم روحانی میں بھی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ اس کے لئے پہلے میں علمِ تعبیر الرؤیا کو لیتا ہوں کیونکہ رؤیا میں تمثیلی زبان استعمال کی جاتی ہے اور خوابوں کی تعبیر سے انسان معلوم کر سکتا ہے کہ ظاہری چیزوں کی مشابہت کن روحانی چیزوں سے ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جب ہم علمِ تعبیر الرؤیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد انبیاء کی جماعت کو کہتے ہیں۔ پس مساجد کے مشابہ عالَمِ روحانی میں اگر کوئی چیزیں ہیںتو انبیاء کی جماعتیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا انبیاء کی جماعتوں میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو مساجد کی اغراض ہیں۔ اگر پائی جاتی ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعہ میں روحانی دنیا میں بھی مساجد ہیں اور وہ ظاہری مساجد سے بہت زیادہ شاندار ہیں۔ آج تک دنیا میں خداتعالیٰ کے بہت سے انبیاء ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہوئے ہیں اور ہرنبی نے کوئی نہ کوئی جماعت قائم کی ہے۔ پس اگر ہم غور کریں تو ہر نبی کی جماعت میں ہمیں یہ مشابہتیں نظرآجائیں گی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے پورا کرنے کے لئے مختلف روحانی مساجد بنائی گئی تھیں مگر میں تفصیلاً ان کے حالات اس جگہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ (۱) ایک تو مضمون لمبا ہو جاتا ہے (۲) دوسرے سب مساجد کے تفصیلی حالات محفوظ نہیں۔ اس لئے میں صرف آخری مسجد کو لے لیتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تیار ہوئی اور جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیںکہ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ ۵؎
صحابہ ؓ کے متعلق ایک اُصولی نکتہ
اب میں ایک ایک کرکے مساجد کی اغراض کی نسبت ثابت کرتا ہوں کہ وہ تمام کی تمام اس روحانی مسجد
سے پوری ہوئی ہیں۔ مگر ایک بات میں کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض واقعات اِس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق تاریخی طور پر بحث کی جائے تو وہ بہت لمبی ہو جاتی ہے اس لئے اصولی طور پر ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ ۶؎ آپ کے اخلاق و عادات اگر معلوم کرنا چاہو تو قرآن پڑھ لو جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات جس موقع پر بیان فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں بعض لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سُنائے جائیں۔ آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُمجھ سے حالات کیا پوچھتے ہو، قرآن پڑھ کر دیکھ لوجتنی نیک اور پاک باتیں اس میں لکھی ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھیں، مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں تاریخ یا حدیث سے مدد نہ لی جائے بلکہ صرف قرآن کریم سے استنباط کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے ( کاش! کوئی شخص اسی اصل کے مطابق ایک مدلّل کتا ب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرے)
غرض جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے یہ فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کا پتہ لگانے کے لئے تاریخی کتب کی ورق گردانی اور زید بکر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ قرآن اُٹھائو اور اسے پڑھ لو، جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں۔ اسی طرح صحابہ ؓ کے متعلق بھی ہمیں ایک اصولی نکتہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ۷؎
فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جماعت! تم وہ ہو کہ تمہارے دلوں میں خدا نے ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور تمہاری حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے تم اس پر فوری طور پر عمل کرنے لگ جاتے ہو اور اس نے ایمان کو تمہاری نظروں میں اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ تمہیں اس کے بغیر چین ہی نہیں آتا جس طرح خوبصورت چیز کی طرف جھکتے ہو اور اُسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ اور اُس نے کُفر، فسق اور نافرمانی سے تمہیں اتنا متنفر کر دیا ہے کہ تم اس کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور صحابہ ؓ دو مترادف الفاظ ہیں اگر اسلام میں کوئی حُکم پایا جاتا ہے تو صحابہ ؓ نے اس پر یقینا عمل کیا ہے اور اگر صحابہؓ نے کسی بات پر عمل کیا ہے تو اسلام میں وہ ضرور پائی جاتی ہے جس طرح حضرت عائشہ ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ اسی طرح صحابہ ؓ جس بات پر عمل کریںاُس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پائی جاتی ہے اور اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں اُن کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر صحابہ ؓ نے ضرور عمل کیا ہے۔ اس تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مسجد کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے کس طرح پوری کیں۔
صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت
اوّل ۔ غرض مسجد کی یہ ہے کہ لِلنَّاس ہوتی ہے
یعنی اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۸؎
یعنی اے مسلمانو! تم سب اُمتوں سے بہتر ہو۔ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کسی ایک قوم کے فائدہ کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تم کالوں کے لئے بھی ہو اور گوروں کے لئے بھی ہو، مشرقیوں کے لئے بھی ہو اور مغربیوں کے لئے بھی ہو، تمہارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم سب کو آواز دو اور کہو کہ آجائو مشرق والو، آجائو مغرب والو، آجائو شمال والو، آجائو جنوب و الو، آجائو غریبو، آجائو امیرو، آجائو طاقت ورو، آجائو کمزورو۔ غرض تم سب کو آواز دو کیونکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ قوم ہو جو ساری دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ جس طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر ہے جو لِلنَّاسِ بنا، اسی طرح انبیاء کی جماعتیں بھی جب کھڑی کی جاتی ہیں تو لِلنَّاسِ کھڑی کی جاتی ہیں۔ موسیٰ ؑکے زمانہ میں اُمتِ موسوی کا دروازہ گو صرف بنی اسرائیل کے لئے کھلا تھا مگر اپنے دائرہ میں وہاں بھی کامل مساوات تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس دائرہ کو ایسا وسیع کر دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس کے اندر شامل کر لیا گیا۔ پس فرماتا ہے اے مسلمانو! تم لوگوں کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہو۔ اس کے بعد اس کا ذکر فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے لوگوں کو فائدہ کس طرح پہنچے گا فرماتا ہے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو تمام بنی نوع انسان کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں نیک اخلاق سکھاتے ہو، کہتے ہو کہ فلاں فلاں بات پر عمل کرو تاکہ تمہیں خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہو وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور تم بدیوں سے لوگوں کو روکتے ہو، وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اور تم نڈر ہو کر یہ کام کرتے ہو۔ یہاں ایمان سے صرف مان لینا مراد نہیں، کیونکہ اَمْر بِالْمَعْرُوفِ اور نَہِی عَنِ الْمُنْکَرِ خداتعالیٰ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتا اور جب ایمان پہلے ہی حاصل تھا تو آخر میں تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر اس ایمان سے مراد محض خدا پر ایمان لانا ہوتا تو آیت یوں ہوتی کہ تُؤْمِنُوْنَ وَ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِمگر آیت اس کے اُلٹ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے صرف مان لینے کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔ اور وہ معنے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ ہیں کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ خدا سے ہی ڈرتے ہو اور ان کاموں میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ نڈر ہو کر کام کرتے ہو جیسے فرماتا ہے۔
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ۹؎
امر بالمعروف اور نہی عَنِ المنکر
غرض اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح مادی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے
ہوتی ہے، اسی طرح یہ روحانی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور وہ اس پر عمل مندرجہ ذیل طریق سے کرتی ہے۔
(الف) تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ سب انسانوں کو حُسنِ سلوک کی تعلیم دیتی اور اس طرح لوگوں کے حقوق کو محفوظ کرتی ہے۔ تَاْمُرُوْنَ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان صرف وعظ ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے نیک باتیں منواتے ہیں۔ اگر صرف تَعِظُوْنَ النَّاسَ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں مگر خدا نے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں یہ بتایا ہے وہ لوگوں کو صرف وعظ و نصیحت کی بات کہدینا کافی نہیں سمجھتے بلکہ لوگوں سے عمل بھی کراتے ہیں۔ اگر تعلیم سے عمل ہو تو تعلیم دیتے ہیں، تربیت سے عمل ہو تو تربیت کرتے ہیں، منّت سماجت سے کوئی عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کی منّت سماجت کرتے ہیں اور اگر کوئی نگرانی کا محتاج ہو جیسے نابالغ بچے ہیں تو اسے حُکم دیتے ہیں (یعنی ان امور میں اور ان لوگوں کو جن میں اور جن کو حُکم دینے کی اجازت ہے حُکم دیتے ہیں ورنہ بالغ اور عاقل سے جبراً کوئی امر منوانا جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہو اسلام میں جائز نہیں) غرض وہ صرف اپنی زبان سے بات نکال کر خوش نہیں ہو جاتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے لوگوں سے عمل کرانے کی جِدّوجُہد کرتے ہیں اور جب تک لوگوں کی عملی حالت درست نہ ہو جائے خوش نہیں ہوتے۔
(ب) تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ تمام بنی نوع انسان کو ظلم اور تعدّی اور شرارت سے روکتے ہیں۔ یہاں بھی نہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وعظ کا نہیں۔
توکّل علی اللہ
(ج) وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اس جگہ تُؤْمِنُوْنَ کو آخر میں رکھنا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں عام ایمان مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کاموں میں کسی نقصان
سے نہیں ڈرتے اور نڈر ہو کر کام کرتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسجد نے اس غرض کو کس طرح پور اکیااور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اُس نے مساوات کو قائم کیا۔
مساوات کے قیام کے لئے غلامی کو مِٹا دیا گیا!
مساوات کے قیام کے لئے اس جماعت نے سب سے پہلے غلامی کو
مِٹایا اور جس طرح مسجد میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا اسی طرح مسلمان ہو کر کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا۔ غلامی کے متعلق اسلام نے ایک مفصّل تعلیم دی ہے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ نے سارا زور اس امر پر صرف کر دیا کہ دنیا سے غلامی کو مِٹا دیا جائے۔ چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اصل بیان کیا ہے اور میں اپنی جماعت کے لیکچراروں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اسے بیان کیا کریں۔ وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُوَ اِمَّا فِدَائً ۱۰؎ کہ جب کوئی غلام پکڑا جائے تو اس کے متعلق شریعت میں صرف دو۲ ہی حُکم ہیںیا تو احسان کرکے چھوڑ دو یا جُرم کا جُرمانہ وصول کرکے چھوڑ دو، قید کا حُکم کہیں نہیں۔ پس دو ہی حُکم ہیں یا تو یہ کہ غلام پر احسان کرو اور اُسے آزاد کرو اور یا یہ حُکم ہے کہ کچھ ٹیکس اور جُرمانہ وصول کرو اور اُسے چھوڑدو۔ پھر اس جُرمانہ کے متعلق بھی یہ شرط ہے کہ اگر غلام مکاتبت چاہے تو مکاتبت بھی کر سکتا ہے اور یہ مکاتبت کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے کہ فرض کرو ایک شخص کے پاس روپیہ تو نہیں مگر وہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ کرے تو کیا کرے۔ اگر نقد روپیہ دیکر غلام آزاد ہو سکتا تو جس کے پاس روپیہ نہ ہوتا وہ اعتراض کرسکتا تھا کہ میری رہائی کی کوئی صورت اسلام نے نہیں رکھی۔ مگر اسلام چونکہ کا مل مذہب ہے اس لئے اس نے اس روک کو بھی دُور کر دیا اور یہ اصول مقرر کردیا کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ کرے تو اُسے مکاتبت دے دینی چاہئے۔ مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کہہ دے میں آزاد ہونا چاہتا ہوں تم میرا جُرمانہ مقرر کر دو۔ میںمحنت اور مزدوری کرکے اپنی کمائی میں سے ماہوار قسط تمہیں دیتا چلا جائوں گا۔ جب کوئی غلام یہ مطالبہ کرے تو اسلامی شریعت کے ماتحت قاضی کے پاس مقدمہ جائیگا اور وہ اس کی لیاقت اور قابلیت کو دیکھ کر اور یہ اندازہ لگا کر کہ وہ ماہوار کتنا کما سکتا ہے اس کے ذمّہ ایک رقم مقرر کر دیگا اور پھر اس کے ماہوار گزارے کو منہا کرکے مطالبہ کرے گا کہ اتنی رقم ماہوار تم تاوان کے طور پر ادا کرتے چلے جائو۔ اس طرح وہ اقساط کے ذریعہ تاوان ادا کرتا رہے گا مگر جزوی آزاد وہ اسی دن سے ہو جائے گا جس دن وہ قاضی کے سامنے یہ اقرار کریگا۔ اگر ادائیگئ رقم سے پہلے وہ شخص فوت ہو جائے تو اس کا بقیہ مال اور ترکہ آقا کو مل جائے گا اور اگر وہ زندہ رہے گا تو اس فیصلہ کے ماتحت وہ اپنی رقم ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔ غرض اسلامی جنگوں کے ماتحت جب بھی غلام گرفتار ہوکر آئیں گے انہیں یا تو ہمیں خود چھوڑ دینا ہوگا یا ہمیں حُکم ہوگا کہ ہم تاو ان وصول کریں۔اگر اس کے بھائی بند اور رشتہ دار اس وقت آزادی کی قیمت ادا کریں تو وہ اس وقت آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے رشتہ دار غریب ہوں یا وہ فدیہ ادا کرنا پسند نہ کریں تو وہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا اور مسلمان قاضی کا فرض ہوگا کہ وہ اُس کی حیثیت کے مطابق اس پر فدیہ عائد کرے اور پھر اس کا گزارہ مقرر کرکے مناسب رقم ماہوار بطور فدیہ آزادی ادا کرنے کا اُسے حُکم دے۔ جب یہ عہدوپیمان تحریری طور پر ہو جائے گا تو اس دن سے ہی وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے آزاد ہو جائے گا۔
اب دیکھو اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی اپنی مرضی کے خلاف غلام رہ سکتا ہے؟ جب بھی کوئی غلام آئے گا ہم اس بات کے پابند ہونگے کہ یا تو اُسے خود آزاد کر دیں یا وہ فدیہ ادا کرکے آزاد ہو جائے اور اگر اس کی طاقت میں یہ بات نہ ہو تو اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار فدیہ ادا کر دیں اور اگر وہ بھی ادا نہ کر سکتے ہوں تو قاضی کے پاس جاکر فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرے اورقاضی ادائیگی کی جو صورت تجویز کرے اُس پر عمل کرے، ان تمام صورتوں میں وہ آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص ان شرائط میں سے کسی شرط سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھتا ہے اور عُرفِ عام کی رو سے آزاد ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا۔
حضرت زیدؓ کا اپنی آزادی پر محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دینا
ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر کو اپنے گھر سے بہتر قرار دے اور کسی شرط پر بھی آزاد ہونا پسند نہ کرے سو اس کے
لئے میں ایک مثال دیدیتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ کوئی شخص غلامی کو اپنے گھر کی آزادی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہو جائے وہ مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قدر غلام تھے اُن تمام کو حضرت خدیجہ ؓ سے شادی ہوتے ہی آپ نے آزاد کر دیاتھا۔ اس کے بعد تاریخ سے ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے پاس کوئی غلام رکھا ہو ہاں غلام کو آزاد کرکے اسے خادم کے طور پر رکھا ہو تو یہ اور بات ہے۔ لیکن ایک غلام جن کا نام زید تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور انہوں نے آزاد ہونا پسند نہ کیا۔ یہ ایک مالدار خاندان میں سے تھے۔ کسی جنگ میں انہیں یونانی لوگ پکڑکر لے گئے تھے، پھر فروخت ہوتے ہوتے یہ مکہ پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید لیا۔ جب حضرت خدیجہ ؓ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنا تمام مال اور غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہبہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس ہبہ کے بعد میں پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے سب کو آزاد کر دیا۔ ادھر حضرت زیدؓ کے باپ اور چچا، زید کو تلاش کرتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے مکہ آنکلے۔ وہاں انہیں معلوم ہؤا کہ زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔ وہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بچہ آپ کے پاس غلام ہے آپ ہم سے روپیہ لے لیں اور اسے آزاد کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اسے آزاد کر چکا ہوں۔ انہیں خیال آیا کہ شاید یہ بات انہوں نے یونہی ہمیں خوش کرنے کے لئے کہہ دی ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے بغیر روپیہ لئے اسے آزاد کر دیا ہو۔ چنانچہ وہ پھر منت سماجت کرنے لگے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آواز دی اورجب وہ آئے تو آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ اور چچا ہیں اور تمہیں لینے کے لئے آئے ہیںـ، میرے ساتھ مسجد میں چلو تاکہ میں اعلان کر دوں کہ تم غلام نہیں بلکہ آزاد ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں لے گئے اور اعلان کر دیا کہ زید غلام نہیں وہ آزاد ہے اور جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تو ان کے باپ اور چچا دونوں بہت خوش ہوئے اور زید سے کہا کہ اب ہمارے ساتھ چلو، مگر حضرت زید اُسی وقت مسجد میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اے لوگو! تم اس بات کے گواہ رہو کہ گو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزادکر دیا ہے مگر میں اُن سے آزاد نہیں ہونا چاہتا اور انہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ باپ اور چچا نے شورمچا دیا کہ تم عجیب بے وقوف ہو کہ اپنے گھر اور اپنے والدین پر اس شخص کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہو۔ انہوں نے کہا مجھے باپ سے بھی محبت ہے اور ماں سے بھی، اسی طرح باقی سب رشتہ داروں سے مجھے اُلفت ہے مگر بخدا! یہ شخص مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس سے جُدا ہونا پسند نہیں کرسکتا۔ یہی وہ موقع ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ زید اب میرابیٹاہے۔۱۱؎ گویا پہلے تو آپ نے زید کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اب دیکھو زید ایک غلام تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا مگر اس نے اپنے گھر کی آزادی اور دولت کو پسند نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صُحبت میں رہنا اُسے زیادہ پیارا معلوم ہؤا۔
جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکام
اسی طرح جب بھی اسلامی جنگوں کے نتیجہ
میں غلام گرفتار ہو کر آئیں اُن کے متعلق شریعت کا یہی حُکم ہے کہ مسلمان یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں یا فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں یا مکاتبت کے ذریعہ سے چھوڑ دیں اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص آزاد نہیں ہوتا تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر اس کے پاس روپیہ نہیں تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا کر درخواست دے سکتا ہے کہ میرے پاس روپیہ نہیں میری حیثیت کے مطابق مجھ پر جُرمانہ لگا دیا جائے، میں روپیہ کما کر ماہوار اتنی رقم ادا کرتا چلا جائوں گا۔ لیکن اگر اس کے باوجود وہ آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ مسلمان کا گھر اُسے ایسا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر کی آزادی کو پائے اِستحقار سے ُٹھکرانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ پس جس طرح مسجد مساوات کو قائم کرتی ہے اسی طرح اسلام نے غلامی کو مٹا کر دُنیا میں مساوات قائم کی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ یہ دکھایا کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اسی زید
سے جوآزاد شُدہ غلام تھا بیاہ دیا، حالانکہ عرب لوگ اسے بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اسی طرح اسامہ جو زید کے بیٹے تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے لشکر کا سردار مقرر کر دیا جس میں دس ہزار مسلمان تھے اور جس میں ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تک شامل تھے حالانکہ عربوں میں غلاموں کے بیٹے بھی غلام ہی سمجھے جاتے تھے۔ اب بتاؤ دنیا کی اور کونسی قوم ہے جس نے لوگوں کو اس قسم کی آزادی عطا کی اور مساوات کا یہ حیرت انگیز ثبوت پیش کیا ہو کہ آزاد شُدہ غلام کے بیٹے کو ایک لشکرِ جرار کا اس نے سردار مقرر کیا اور اس لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہوں۔ پھر یہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے اسامہ کے ماتحت جنگ کرنے میں کوئی ہتک محسوس کی ہو بلکہ وہ بڑی بشاشت اور خوشی کے ساتھ ان کی ماتحتی میں جنگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے، بلکہ اس لشکر کو تو تاریخِ اسلام میں ایسی عظمت حاصل ہوئی کہ اور کسی لشکر کو ایسی عظمت حاصل ہی نہیں اور وہ اس طرح کہ یہ لشکر ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ نہیں فرمایا تھا کہ آپؐ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے۔ آپ مجبوراً خلافت کی وجہ سے جنگ پر نہیں جا سکتے تھے، مگر آپ ازخود اس لشکر سے علیحدہ نہیں ہوئے بلکہ اسامہ کو لکھا کہ چونکہ مسلمانوں نے مجھے خلیفہ مقرر کیا ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں مدینہ میں ہی رہوں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے لکھ بھیجا کہ حضرت عمرؓ کا بعض ضروری معاملات میں مشورہ دینے کے لئے مدینہ میں رہنا ضروری ہے اس لئے اجازت دیجئے کہ عمرؓ بھی یہیں رہیں چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی مدینہ میںرہنے کی اجازت دے دی۔۱۲؎ پس حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے ایام میں ایک غلام بچہ کو اتنی عظمت دی کہ اس کی سیادت اور حکومت کا حق اپنی خلافت کے وقت میں بھی تسلیم کیا اور ایک آدمی بھی بغیر اجازت لشکر سے پیچھے نہیں رہا۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا اہم حکم
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا حکم جس پر تمام
صحابہ اور تمام مسلمان بھی شدت سے عمل کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ اسلام نے جُرم کی سزا میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رکھا۔ اسلام کے نزدیک مُجرم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا بہرحال وہ تعزیر کا مستحق ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو روا نہیں رکھا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کی اور معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، ساتھ ہی بعض لوگوں نے سفارش کر دی اور کہا کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ معمولی تنبیہہ کر دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ظاہر ہوئے اور آپؐ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ پھر آپ نے فرمایا ، دیکھو پہلی قومیں یعنی یہود اور نصاریٰ اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی جُرم کرتا تو اُسے سزا نہ دیتے، جب کوئی چھوٹا آدمی جُرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ مگر اسلام میں اس قسم کا کوئی امتیاز نہیں اورہر شخص جو جُرم کرے گا اسے سزا دی جائیگی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔۱۳؎
تمدنی معاملات میں مساوات کی اہمیت
پھر اسلام نے مساوات کو تمدنی پہلو میں اتنی عظمت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاس دودھ بطور تحفہ لایا۔ آپؐ نے کچھ دودھ پیا اور پھر خیال آیا کہ کچھ دودھ حضرت ابوبکرؓ کو دیدوں کیونکہ وہ بھی اُس وقت مجلس میں موجود تھے اور پھر آپ کے رشتہ دار بھی تھے۔ مگرآپ نے دیکھا کہ وہ دائیں طرف نہیں بیٹھے بلکہ بائیں طرف بیٹھے ہیں اور دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے۔ اسلام نے چونکہ دائیں طرف والے کا حق مقدم رکھا ہے اس لئے آپ نے اُس لڑکے سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دیدوں اس لڑکے نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! یہ میرا حق ہے یا آپ یونہی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ بات یہ ہے کہ دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے اس دودھ پر تمہارا حق ہی ہے مگر میں تم سے اجازت چاہتا ہوں کہ اگر کہو تو ابوبکرؓ کو دودھ دے دُوں۔ اس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!جب یہ میرا حق ہے تو پھر آپؐ کے تبرّک کو کوئی کس طرح چھوڑ سکتا ہے اور یہ کہہ کر اس نے دودھ کا پیالہ آپ سے لیکر پینا شروع کر دیا۔۱۴؎
مرض الموت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک واقعہ بتاتاہے کہ کس طرح
اسلام میں مساوات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جب آپؐ کی وفات کا وقت قریب آیا تو صحابہؓ کو آپ نے باربار خداتعالیٰ کی وحی سے خبر دی اور بتایا کہ اب میرا زمانۂ وفات نزدیک ہے ۔ اُس وقت ان پر ایک عجیب رقّت طاری تھی اور دلوں میں سوز و گداز پیدا تھا۔ ایک دن آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے صحابہ کو نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! اسلامی قانون کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھ سے بدلہ لے لو۔ اور فرمایا کہ اس معاملہ میں اگر دنیا میں مجھے سزا مل جائے تو میں اسے زیادہ پسند کروںگا بہ نسبت اس کے کہ اس غلطی کے بارہ میں خداتعالیٰ مجھ سے جواب طلبی کرے۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! میرا ایک حق آپ کے ذمہ ہے آپ نے فرمایا کیا؟ اس نے کہا فلاں موقع پر جبکہ آپ لڑائی میں مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، اگلی صف میں کچھ خرابی تھی آپ صف میں راستہ بنا کر آگے گزرے تو آپ کی کُہنی مجھے لگ گئی۔ آپ نے فرمایا کہاں لگی تھی؟ اُس نے پیٹھ پر ایک جگہ دکھائی اورکہا اس جگہ لگی تھی، آپ اُس وقت بیٹھ گئے اور فرمایا میرے بھی اسی جگہ کُہنی مار لو۔ اس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!اُس وقت میرے تن پر کُرتا نہیں تھا، ننگا جسم تھا اورننگے جسم پر آپ کی ُکہنی لگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اور یہ کہہ کر آپ نے پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا اور فرمایا اب تم کُہنی مار لو۔ صحابہؓ کی حالت کا تم اُس وقت اندازہ لگا سکتے ہو، ایک طرف ان کے دلوں میں یہ جذبات موجزن تھے کہ خدا کا رسول عنقریب ہم سے جُدا ہونے والا ہے اور اس وجہ سے اُن کے دل سوزوگداز سے بھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس صحابی کا یہ مطالبہ ان کے سامنے تھا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ یقینا اس صحابی کی تِکّہ بوٹی کر دیتے مگر اسلامی شریعت انہیں روک رہی تھی اس لئے وہ خون کے گھونٹ پی پی کر صبر کر گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُرتا اُٹھایا اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا کہ مجھ سے اب بدلہ لینے لگے ہو اور قیامت پر اُٹھا نہیں رکھا۔ تو وہ صحابی جنھوں نے مطالبہ کیا تھا پُرنم آنکھوں کے ساتھ آپ پر جُھکے اور آپؐ کی پیٹھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!بیشک مجھے آپ کی کُہنی لگی تھی مگر میں نے یہ سارا بہانہ اِس وقت صرف اس لئے بنایا تھا تاکہ میں اِس وقت کہ آپ اپنی جُدائی کا ذکر کر رہے ہیں آخری دفعہ آپ کے جسم کو بوسہ دے لوں۔۱۵؎ یہ کس قدر زبردست مساوات ہے جو اسلام نے قائم کی۔ کیا دنیا اس مساوات کی کوئی بھی نظیر پیش کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مسجد میں امیر اور غریب کا امتیاز اُٹھ جاتاہے، بادشاہ اور رعایا کا فرق جاتا رہتاہے، اسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد تمام مساوات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رہتی۔
حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کا ایک زرّین واقعہ
پھر یہ عمل آپؐ تک ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آپ کی وفات کے بعد
بھی برابر جاری رہا، حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجہ میں گو آپ کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلۃ ابن ایہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کئے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے چل پڑا۔ حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا،اتفاقاً کسی مسلمان کا پائوں اس کے پائوں پر پڑگیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کا پائوں اُس کے جُبّہ کے دامن پر پڑگیا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں، بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی۔ بہرحال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصہ میں آکر زور سے اسے تھپڑ مار دیا اور کہا تو میری ہتک کرتا ہے تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں، تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہئے تھاتو نے گستاخانہ طور پر میرے پائوں پر اپنا پائوں رکھدیا۔ وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اورمسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میںتو داخل ہؤا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ بِالخصوص اس گھر میں امیر اور غریب میںکوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اُس نے کہا میں اس کی پروا نہیں کرتا۔ اس مسلمان نے کہا کہ عمرؓ کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے۔ جبلۃ ابن ایہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلۃ ابن ایہم کے منہ پر تھپڑ مارے۔ اس نے کہا کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمرؓ تو ایسے ہی ہیں یہ سنکراُس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں۔ وہ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں میرامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ پھر آپ نے کہا جبلۃ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے؟ اِس پر اُس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا، میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے۔ مگر وہ اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتدہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہؤا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پرواہ نہ کی۔۱۶؎
یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے۔ جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام میں زکوۃ کا حُکم
پھر مساوات قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ اسلام نے
اختیار کیا اور جس پر صحابہ بڑی شدّت سے عمل کرتے تھے زکوٰۃ کا مسئلہ ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر کی ہے تاکہ لوگوں میں مساوات قائم رہے یہ نہ ہو کہ بعض لوگ بہت امیر ہو جائیں اور بعض لوگ غریب ہو جائیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں۔تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَ تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ ۱۷؎ کہ وہ امیروں سے لی جائے گی اور غریبوں کو دی جائے گی، کیونکہ ان کے اموال میں اس قدر حصہ دراصل غرباء کا ہے اوراُن کا حق ہے کہ اُن کا حصّہ ان کو واپس دیا جائے۔ یہ زکوٰۃ سرمایہ پر اڑھائی فیصدی کے حساب سے وصول کی جاتی ہے اگر سرمایہ پر چھ فیصدی نفع کا اندازہ لگایا جائے تواَڑھائی فیصدی زکوٰۃ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ منافع کا چالیس فیصدی اللہ تعالیٰ غرباء کو دینے کا ارشاد فرماتا ہے گویا شریعت نے ایک بڑا بھاری ٹیکس مسلمانوں پر لگا دیا ہے تاکہ اس روپیہ کو غرباء کی ضروریات پرخرچ کیا جائے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا کئے جائیں۔
فتوحات میں حاصل ہونے والے
اموال کی تقسیم کے متعلق قرآنی ہدایات
اسی طرح فئ یعنی وہ اموال جو فتوحات میں حاصل ہوں ان کے متعلق شریعت کا حُکم ہے کہ انہیں علاوہ اور قومی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے غرباء میں بھی تقسیم کیا جائے تاکہ
امیر اور غریب کا فرق مِٹ جائے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ مَآاَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُری فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ ۱۸؎
کہ وہ اموال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو بغیر کسی محنت کے مل جایا کریں ، ان کے متعلق ہماری یہ ہدایت ہے کہ وہ اموال اللہ تعالیٰ کا حق ہیں شریعت کو جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے کیا مراد ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد یہ ہے کہ وہ مال غرباء اور ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ قومی پر خرچ کیا جائے۔ ضروریاتِ دینی و ضروریاتِ قومی تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اللہ کے لفظ میں شامل ہیں، غرباء کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے لفظ میں کس طرح شامل ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَامِنْ دَا بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا ۱۹؎ یعنی ہر چلنے والی چیز جو زمین پر رینگتی یا چلتی ہے اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے کہ اسے رزق پُہنچائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہر جاندار کا رزق ہے تو جاندار ایسے ہیں کہ ان کے لئے رزق کمانے کا طریق خداتعالیٰ نے جاری کیا ہے اگر وہ رزق نہ کما سکیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ سے انہیںرزق دینا ہوگا اور سب سے مقدّم خزانہ اللہ تعالیٰ کا وہی مال ہے جسے خدا کا مال شریعت نے قرار دیا ہو۔
حدیث میں بھی اس آیت کی تشریح دوسرے الفاظ میں آتی ہے لکھا ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو فرمائے گا کہ تم جنت میں جائو کیونکہ میں بُھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ تب مؤمن حیران ہو کر کہیں گے کہ اے خدا! تو ہم سے ہنسی کرتا ہے، آپ ننگے کب ہو سکتے تھے، آپ بھوکے اور پیاسے کب ہو سکتے تھے کہ ہم آپ کو کپڑے پہناتے، ہم آپ کو کھانا کھلاتے اور ہم آپ کو پانی پلاتے۔ تب خداتعالیٰ فرمائیگا کہ تم میری بات کو نہیں سمجھے، جب دُنیا میں کوئی غریب بندہ ُبھوکاہوتا تھا اور تم اسے کھانا کھلاتے تھے تو تم اسے کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ مجھے کھانا کھلاتے تھے اور جب دُنیا میں کوئی غریب آدمی پیاسا ہوتا تھا اور تم اسے پانی پلاتے تھے تو تم اسے پانی نہیں پلاتے تھے بلکہ مجھے پانی پلاتے تھے اورجب دنیا میں کوئی غریب آدمی ننگا ہوتا تھا اور تم اسے کپڑے پہناتے تھے تو تم اسے کپڑے نہیں پہناتے تھے بلکہ مجھے کپڑے پہناتے تھے۔۲۰؎
اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ غریبوں کو دینا اللہ تعالیٰ کو دینا ہے کیونکہ ان کا رزق اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریوں میں سے ہے پھر فرماتا ہے۔ وَلِلرَّسُوْلِ ان اموال میں ہمارے رسول کا بھی حصہ ہے اور رسول کے حصہ سے مراد بھی غرباء میں اموال تقسیم کرنا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ اس قسم کے اموال اپنے پاس نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خداتعالیٰ کی ہیں وہی ظلّی طور پر رسول کی ہیں اس لئے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر جو رقم خرچ ہوگی وہ رسول کو دینا ہی قرار دی جائیگی۔ پھر فرماتا ہے وَلِذِی الْقُرْبٰی۔ذِی الْقُربیٰ کابھی اس میں حق ہے شیعہ لوگ اسکے عام طور پر یہ معنے کرتے ہیں کہ اموالِ فئے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے حالانکہ اس قسم کے اموال میں ان کا کبھی بھی حصہ نہیں سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذِی الْقُرْبٰی سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ کہہ کر ایک آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی قُربِ الٰہی حاصل کرنے والے لوگ اور وہ درویش جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور ان کے گزارہ کی کوئی معیّن صورت نہیں ہوتی۔ گو اسی جماعت میں شامل ہو کر اہلِ بیت ان اموال کے اوّل حقدار قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے وَالْیَتٰمٰی ان اموال میں یتامیٰ کا بھی حق ہے اور یتامیٰ بھی غریب ہی ہوتے ہیں وَالْمَسَاکِیْنِ اسی طرح مسکینوں کا حق ہے وَابْنِ السَّبِیْلِ اور مسافروں کا بھی حق ہے اور مسافر بعض حالات میں عارضی طور پر ناداروں کی طرح ہو جاتا ہے۔ آگے فرماتا ہے ہم نے یہ تقسیم اس لئے کی ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ تاکہ مال امیروں کے ہاتھوں میں ہی چکر نہ لگاتا رہے بلکہ غریبوں کے پاس بھی جائے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں پس ہم حُکم دیتے ہیں کہ یہ اموال غرباء میں تقسیم کئے جائیں تاکہ امراء کے ہاتھوں میں مال چکر نہ کاٹتا رہے۔
ایک زمیندار دوست کا واقعہ
زمیندار بعض دفعہ بات کرتے ہیں توبڑے پتہ کی کرتے ہیں۔ ایک زمیندار دوست نے سنایا کہ میں
ایک دفعہ گورنر صاحب سے مِلا اور میں نے اُن سے کہا کہ حضور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ سرکار بعض دفعہ رعایا پر خوش ہوتی ہے اور سرکار ڈپٹی کمشنر کو لکھتی ہے کہ ڈیڑھ دو سَو مربع غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ کے ڈپٹی کمشنر غرباء کو تلاش کرتے ہیں تو انہیں کوئی غریب دکھائی ہی نہیں دیتا، جس گائوں کو دیکھتے ہیں اُنہیں امیر ہی امیر نظر آتے ہیں۔ آخر بڑی مشکل سے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب کو اتنے مربعے دیدیئے جائیں اور فلاں چوہدری صاحب کو اتنے مربعے دیئے جائیں کیونکہ وہ بھوکے مر رہے ہیں۔ ملک صاحب کے پاس تو صرف تیس ہزار ایکڑ زمین ہے اور چوہدری صاحب کے پاس بیس ہزار ایکڑ ، اسی طرح کسی کے پاس۱۵ ہزار ایکڑ زمین ہے اور کسی کے پاس دس ہزار، اگر ان کو مربعے نہ دیئے گئے تو بیچارے بھوکے مر جائیںگے، چنانچہ سب زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے کے بدلے گورنمنٹ کچھ انعامات تقسیم کرنا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ اب یہ انعامات اعلیٰ خاندانوں یں تقسیم کئے جائیں، اس پر پھر ڈپٹی کمشنر صاحب جب اعلیٰ خاندانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہی لوگ جو پہلی دفعہ انہیں غریب دکھائی دیئے تھے اب انہیں امیر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور انہی میں پھر انعامات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ سرکار یہ دیکھ کر ہمیں تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ہم بڑے ہیں کہ چھوٹے ہیں۔
پس آجکل اموال کی تقسیم کا طریق یہ ہے کہ بڑے بڑے امراء اور متمول لوگوں کو چُن کر ان میں اموال تقسیم کر دیئے جاتے ہیں، مگر اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم غرباء میں اموال تقسیم کرو۔ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ تاکہ مالدار وں کے ہاتھوں میں ہی روپیہ جمع نہ رہے بلکہ غرباء کے ہاتھوں میں بھی آتا رہے۔ اسی لئے اسلام نے کہیں وراثت کا مسئلہ رکھ کر، کہیں زکوٰۃ کی تعلیم دے کر اور کہیں سُود سے روک کر امراء کی دولت کو توڑ کر رکھدیا ہے اور اس طرح امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔
قیام مساوات کے لئے دنیا کے تمام
مذاہب کے متعلق ایک پُرحکمت اصول
پھر ایک مساوات یہ ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان انصاف قائم کیا جائے، اسلام اس مساوات کا بھی حکم دیتاہے، چنانچہ فرماتاہے۔ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّ مَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً ۲۱؎
کہ اگر دنیا میں ہم مسلمانوں کو کھڑا نہ کرتے اور اس طرح اسلام کے ذریعہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہودیوں کی عبادت گاہیں، عیسائیوں کے گرجے، ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں امن کا ذریعہ نہ ہوتیں بلکہ فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ ہوتیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ایسا ہے جس نے اپنی مساجد میں ہر قوم کو عبادت کا حق دیا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر قوم کو عبادت کا مساوی حق حاصل ہو۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آزادی سے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی اس کی مثال کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو اس کام کے لئے کھڑا نہ کرتے اور مسلمان اپنا خون بہا کر اس حق کو قائم نہ کرتے تو دنیا میں ہمیشہ فتنہ و فساد رہتا اورکبھی بھی صحیح معنوں میں امن قائم نہ ہو سکتا۔
مساجد کی دوسری غرض کا صحابہ کرام کے ذریعہ ظہور
(۲) مسجد کی دوسری غرض ایک مقامِ مبارک کا قیام ہے
اور وہ دو طرح ہوتا ہے (الف) اس طرح کہ وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ اس جماعت کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ۲۲؎
یعنی خدا کی رحمتیں اور برکتیں اُن گھروں پر نازل ہونگی اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ جن کے متعلق خدا نے یہ حُکم دے دیا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ اور اُن میں خدا کا نام لیا جائے گویا وہ ذکرِ الٰہی کے لحاظ سے بالکل مسجدوں کی طرح ہو جائیں گے اور اس کاموجب ان گھروں میں رہنے والے ہونگے یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ صبح شام ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کو ہر قسم کی تجارت ملکی ہو یا درآمد برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو اسی طرح زمیندارہ، صنعت و حرفت کے کارخانے ذکرِ الٰہی سے غافل نہیں کرتے (اس آیت میں دو لفظ ہیں تجارت اور بیع اورکوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی۔ پس مراد یہ ہے کہ بعض کاموں میں دونوں جہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کماتا ہے وہ تجارت ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ کام کرنے والا خریدتا نہیں صرف فروخت کرتاہے جیسے زمیندار یا صنّاع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اس کی پیداوار ہے پس اس کا کام درحقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں اسے تجارت سے الگ بیان کرکے تجارتی کاروبار کی سب قسمیں بیان کر دی ہیں) گویا کوئی بات بھی انہیں نہ تو نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے اور نہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان کی توجہ پھراتی ہے۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ وہ فقط اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہونگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دَوڑ رہے ہونگے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور یہی مسجد کا خاص کام ہے پس وہ ایک چلتی پھرتی مسجد بن جاتا ہے۔
عبادت اور ذکرِ الٰہی میں ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنیکی خواہش
صحابہ ؓ ذکرِ الٰہی میں ترقی کرنے
کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی یہ جدوجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیاکہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر یَارَسُوْلَاللّٰہ!ہم زکوٰۃ اورصدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا، میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سَو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نمازکے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیاکرو، وہ وہاں سے بڑی خوشی سے اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہؤا ہے۔ آپ نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جو بات اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ہم اب کیا کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرنیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں روک کس طرح سکتا ہوں؟ ۲۳؎ یہ وہ فضیلت تھی جس نے صحابہؓ کو جیتی جاگتی مسجد بنا دیا تھا۔
صحابہ ؓکی پاکیزگی اورطہارت پر الٰہی شہادت
(ب) دوسری صورت مقامِ مبارک کی یہ ہے کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتا
ہے اسی طرح انبیاء کی جماعت کو پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اسکے متعلق قرآن کریم میں شہادت موجود ہے کہ صحابہ ؓ پاک کئے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ۲۴؎
کہ یہ رسول صحابہؓ کے سامنے ہمارے نشانات بیان کرتا ہے وَ یُزَکِّیْھِمْ اوران کو پاک کرتا ہے وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گویا خدا خود صحابہؓ کی پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔ دوسری جگہ ان کی پاکیزگی کی شہادت ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۲۵؎ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ تیسری جگہ یہ شہادت اس طرح دی گئی ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۲۶؎ یعنی یہ خدا کے اتنے نیک بندے ہیں کہ ان میں سے بعض تو اُس عہد کو جو انہوں نے خدا سے کیا تھا پورا کرچکے ہیں اور بعض گو دل سے پوراکر چکے ہیں مگر ابھی عملی رنگ میں انہیںعہد کو پورا کرکے دکھانے کا موقع نہیںملا اور وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انہیں بھی خدا کی طرف سے یہ موقع عطا ہو، حدیثوں میں صحابہؓ کی اس قربانی کے متعلق ایک مثال بھی بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کو کس طرح پورا کیا۔
ایک صحابی ؓ کی عظیم الشان قربانی
جب جنگِ بدر کا موقع آیا تو صحابہ ؓ کو یہ احساس نہیں تھا کہ کوئی لڑائی ہونے والی ہے بلکہ خیال یہ تھا
کہ ایک قافلہ کی شرارتوں کے سدّباب کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہیں، اسی لئے کئی صحابہ مدینہ میں بیٹھے رہے تھے اور ساتھ نہیں گئے مگر جب اسی لشکر کے باہر نکلنے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ کفار کے لشکر سے بغیر امید کے جنگ ہو گئی اور کئی صحابہ نے قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا تو جو لوگ اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کے دلوں میں رشک پیدا ہؤا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت انس کے چچا تھے، جب کسی مجلس میں جنگ بدرکے کارناموں کا ذکر ہوتا اورشامل ہونے والے صحابہ کہتے کہ ہم نے یہ کِیا وہ کِیا توپہلے تو وہ خاموشی سے سُنتے رہتے مگر آخر وہ بول ہی پڑتے اورکہتے ، تم نے کیا کِیا۔ اگر میں ہوتا تو تم کو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ صحابہؓ اِس بات کو سنتے اور ہنس پڑتے مگر آخر خداتعالیٰ نے اُن کی دعائیں سن لیں اور اُحد کا دن آگیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی غفلت سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسلامی لشکر تتّربتّر ہو گیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف گیارہ صحابی رہ گئے۔ مسلمانوں کے مقابلہ میںکفار تین ہزار تھے۔ جب دشمن نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف چند آدمی رہ گئے ہیں تو اُس نے یکدم حملہ کر دیا اور کفار کے لشکر کا ایسا ریلا آیا کہ اُن گیارہ آدمیوں کے بھی پائوں اُکھڑ گئے۔ حملہ چونکہ سخت تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے اور آپؐ کے خَود کا ایک کیل آپؐ کے سر میں ُگھس گیا اور دندان مبارک بھی ٹوٹ کر گر گئے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر آپؐ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے۔۲۷؎ اس کے بعد آپ کے جسمِ اطہر پر بعض اور صحابہ شہیدہو کر گر گئے اور اس طرح آپؐ کا جسم لوگوں کی نگاہ سے چُھپ گیا۔ مسلمانوں نے آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر چونکہ آپ نظر نہ آئے اس لئے یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں بعد میں جب صحابہ کی لاشیں نکالی گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی نظر آگئے آپؐ اُس وقت صرف بیہوش تھے مگر بہرحال اِس افواہ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوںکے حواس جاتے رہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہؤاکہ آپ زندہ ہیں تو ان کی تکلیف جاتی رہی اور وہ بہت خوش ہوگئے۔ اس جنگ میںچونکہ ابتداء میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی اس لئے بعض مسلمان اطمینان سے اِدھراُدھر چلے گئے اُنہی میں حضرت انس کے چچا بھی تھے۔ وہ ایک طرف آرام سے کھجوریں کھاتے پھرتے تھے کہ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اورکہا کہ عمرؓ کیا یہ رونے کا وقت ہے یا خوشی منانے کا وقت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رو رہے ہو۔ انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہؤا۔ وہ کہنے لگے مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا فتح کے بعد دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ وہ انصاری کھجوریں کھا رہے تھے اور اُس وقت اُن کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی، انہوں نے اُس کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت کے درمیان اِس کھجور کے سِوا اور ہے ہی کیا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کھجور کو پھینک دیا اورپھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے واہ عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور تم رو رہے ہو، ارے بھائی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گئے ہیں وہی جگہ ہماری بھی ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ایک ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو لاتوں سے انہوں نے دشمن کو مارنا شروع کر دیا اور جب لاتیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، غرض آخری سانس تک وہ دشمن سے لڑائی کرتے رہے۔ بعد میں جب ان کی تلاش کی گئی تو معلوم ہؤاکہ دشمن نے ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے کر دیئے تھے اور وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے، حدیثوں میں آتاہے کہ یہ صحابی انہی لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ یہ وہ برکت والے گھر تھے جس کی وجہ سے خدا نے ان کے متعلق یہ فرمایا کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے یہی معنے ہیں کہ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کر لی۔
صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض ایمان افروز واقعات
پھر ان کی ظاہری برکات کے بھی کئی
نمونے موجود ہیں ایک دفعہ صحابہ ؓ کسی جگہ گئے تو وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک کو سانپ نے کاٹ لیا، پُرانے دستور کے مطابق وہ دم کرنے اور کچھ پڑھ کر پُھونک مارنے والے کو بلایا کرتے تھے انہوں نے صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا مَیں ہوں۔ وہ اُسے ساتھ لے گئے اور انہوں نے سؤرۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا اور وہ شخص بِالکل اچھاہو گیا۔ اس خوشی میں گھر والوں نے انہیں کچھ بکریاں تحفہ کے طور پر دیں جو انہوں نے لے لیں، باقی صحابہؓ نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور جب مدینہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کا ذکر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے دل کو خوش کرنے کے لئے فرمایا کہ اس تحفہ میں سے میرا حصہ بھی تو لائویعنی یہ تحفہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے تھا۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے جنتر منتر تو اسلام میں نہیں، لیکن ان لوگوں کو ایمان دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو برکت بخشی اور ایک نشان دکھایا۔ پس جو تحفہ ملا وہ بابرکت شَے ہے اس برکت میں سے مجھے بھی حصہ دو۔ تو دیکھو صحابہؓ کو خداتعالیٰ کی طرف سے کیسی برکت ملی کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پُھونک ماری اور مارگزیدہ اچھا ہو گیا۔ بعض لوگ اس کی نقل میں آجکل بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے دم میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی غیر مومن سَو دفعہ بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مارے تو کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سورۃ فاتحہ اس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی بابرکت ہو سکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو۔
پھر ایک اور واقعہ اسی قسم کامولانا روم نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کو جب شکست ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد قیصر روم کو سر درد کا دورہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ آخر اسے کسی نے کہا کہ تم مسلمانوں کے خلیفہ کو لکھو وہ اپنی کوئی برکت والی چیز تمہیں بھیج دیں جس سے ممکن ہے تمہیں آرام آجائے۔ قیصرنے حضرت عمرؓ کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ مجھے اپنی کوئی برکت والی چیز بھیجیں میرے سر درد کو آرام نہیں آتا، ممکن ہے اس سے آرام آجائے۔ عرب کے لوگ اپنے بالوں میں خوب تیل لگانے کے عادی تھے، حضرت عمرؓ نے اپنی ایک پُرانی ٹوپی جسے تیل لگا ہؤا تھا اورجس پر بالشت بالشت بھرمیل جمی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ بھیج دی اور پیغام دیا کہ اسے اپنے سر پر رکھاکر و۔ قیصر جو سر پر تاج رکھنے کا عادی تھا اُس نے جو گاڑھے کی میلی کچیلی ٹوپی دیکھی تو وہ سخت گھبرایا مگر ایک روز جب اُسے درد کا شدید دورہ ہؤا تو اس نے مجبوراً ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی اور خداتعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا، ادھر اس نے اپنے سر پر ٹوپی رکھی اور اُدھر اُسے آرام آگیا۔ پھر تو اُس کا دستور ہی یہی ہو گیا کہ جب وہ دربار میں بیٹھتا تو حضرت عمرؓ کی میلی کچیلی اور پھٹی پُرانی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو برکتیں دیتاہے اُن کی چیزوں میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سِل کا مادہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایکسرے کرایا تو بھی یہی نتیجہ نکلا، آخر وہ کہتے ہیں میں قادیان آگیا کہ اگر مرناہے تو قادیان چل کر مَروں اورمیں نے تمام علاج چھوڑ کر آپ سے دعا کرائی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے آرام آنا شروع ہو گیا اور آخر بِالکل صحت ہو گئی۔ میں پھر لاہور گیا اور ایکسرے کرایا تو انہیں ڈاکٹروں نے جنھوں نے پہلے میراایکسرے کیا تھا، ایک بار ایکسرے کیا پھر دوسری بار ایکسرے کیا اورجب کہیں بھی انہیں سِل کا مادہ نظر نہ آیا تو وہ کہنے لگے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہڈی ہی بدل گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو برکت دیتا ہے اُن کی باتوں میں، ان کے کپڑوں میں، اُن کی دعائوں میں اور اُن کی تمام چیزوں میں برکت رکھ دیتا ہے۔ غرض جس طرح مسجد ایک برکت والی چیز ہے اسی طرح صحابہ کا گروہ برکت والا تھا اور دنیا نے اس گروہ کی جسمانی اور روحانی برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
صحابہ کرام تمام دنیا کے لئے ہدایت کا موجب تھے
مسجد کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ
ہوتی ہے یہ بات بھی صحابہؓ میں پائی جاتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے۔ وَ مِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ ۲۸؎
اِس رکوع میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہود کی بُرائیاں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے نالائق ہیں اس کے بعد فرماتا ہے کہ سارے ہی ایسے نالائق نہیں بلکہ اِس رسول کے ذریعہ ہم نے جن لوگوں کو کھڑاکیا تھا وہ ایسے ہیں جو سچائی کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انصاف سے کام لیتے ہیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہؓ کی ہدایت کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ۲۹؎ کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس طرح تم کسی ستارے کونشان قرار دیکر چل پڑو تو منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہو، اسی طرح تم میرے کسی صحابی کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں خدا کے دروازہ پر پہنچا دیگا۔ چنانچہ سب صحابہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ کا ایک عملی نمونہ تھے اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دینے میں سب سے آگے رہتے تھے۔ مکی زندگی کا یہی ایک واقعہ صحابہؓ کے اس طریق عمل پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ ایک صحابی جن کا نام عثمان بن مظعونؓ تھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے، اُن کا باپ عرب میں بہت وجاہت رکھتا تھا۔ جب یہ مسلمان ہو گئے تو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس نے جو اُن کے باپ کا دوست تھا انہیں اپنے پاس بُلایا اور کہا آجکل مسلمانوں کی سخت مخالفت ہے، میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں تمہیں کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔ انہوں نے اس کی بات مان لی اور اُس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمانؓ میرے بھائی کا بیٹا ہے اسے کوئی شخص دُکھ نہ دے۔ عربوں میں یہ طریق تھا کہ جب ان میں سے کوئی رئیس کسی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دے تو پھر اسے کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا اگر ایسا کرتا تو اسی رئیس اور اُس کے قبیلہ سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی۔ ایک دن حضرت عثمانؓ کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان غلام کو کفار بڑی بیدردی سے مارپیٹ رہے ہیں۔ ان کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ بہت بُری بات ہے کہ میں تو مکہ میں امن سے رہوں اور میرے بھائی تکلیف اُٹھاتے رہیں چنانچہ وہ سیدھے اُس رئیس کے پاس پہنچے اور اُسے کہا کہ آپ نے جو مجھے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا میں اس ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کرتا ہوں اور آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا۔ اس نے کہا تم جانتے نہیں کہ مکہ مسلمانوں کے لئے کیسی خطرناک جگہ ہے اگر میں نے اپنی پناہ واپس لے لی تو لوگ فوراً تم کو ایذاء دینے لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ میں تو آرام سے رہوں اور میرے بھائی تکلیفیں اُٹھاتے رہیں۔ چنانچہ ان کے اصرار پر اُس نے خانۂ کعبہ میں جاکر اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعونؓ اب میری پناہ میں نہیںرہا۔ اس اعلان پر ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عرب کا ایک مشہور شاعر جس کا قصیدہ سبعہ معلقہ میں شامل ہے مکہ میں آگیا۔ اہل عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مشہور شاعر آتا تو بہت بڑی مجلس منعقد کی جاتی اور اس کے کلام سے لوگ محظوظ ہوتے۔ اس کے آنے پر بھی ایک بہت بڑی مجلس منعقد کی گئی اور تمام مکہ والے اس میں شامل ہوئے۔ حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کا کلام سُننے کے لئے وہاں جاپہنچے اُس نے شعر پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ یہ پڑھا کہ :-
؎
اَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بِاطِلٌ
۳۰؎
سنو سنو! خدا کے سِوا دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے
حضرت عثمانؓ اِس مصرعہ پر بہت خوش ہی ہوئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ شاعر نے جس کا نام لبید تھا شور مچا دیا کہ اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کسی شریف آدمی کی قدر نہیں رہی، میں عرب کا باپ ہوں اور یہ کَل کا چھوکرا مجھے داد دے رہا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا، ٹھیک کہا۔ یہ میری عزت نہیں بلکہ ہتک ہے اور میں اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لبید کے اس اعتراض پر لوگوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور وہ عثمانؓ کو مارنے کیلئے اُٹھے لیکن بعض نے کہا نادان بچہ ہے ایک دفعہ تو اس نے ایسی حرکت کر دی ہے اب آئندہ نہیں کریگا۔ چنانچہ لوگ خاموش ہو گئے اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا
؎
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
۳۱؎
ہر نعمت آخر زائل اور تباہ ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ پھر بول اُٹھے کہ بالکل غلط ہے، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی۔ اب تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ جو شخص ان کی تعریف سے ناراض ہؤا تھا وہ ان کی تردید پر کس قدر جوش سے بھر گیا ہوگا۔ چنانچہ جب انہوں نے سرِمجلس کہہ دیا کہ یہ بات غلط ہے تو اُس نے نظم پڑھنی چھوڑ دی اور کہا کہ میری ہتک کی گئی ہے۔ اس پر بعض نوجوان غصہ سے اُٹھے اور انہوں نے مارنا شروع کر دیا، ایک نے اِس زور سے آپ کی آنکھ پر گھونسہ مارا کہ انگوٹھا اندر دھنس گیا اور آنکھ کا ڈیلا پھٹ گیا۔ وہ رئیس جس نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا تھا اُس وقت وہیں موجود تھا اور چونکہ ان کا باپ اس کا دوست تھا اس لئے عثمانؓ کی تکلیف کو دیکھ کر اُس کے دل میں محبت کا جوش پیدا ہؤا۔ لیکن سارے مکہ کے جوش کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر کمزوروں کی طرح عثمان بن مظعونؓ پر ہی غصہ نکال کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنا چاہا، چنانچہ غصہ سے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھاکہ تم میری پناہ میں رہو، آخر تمہاری ایک آنکھ لوگوں نے نکال دی۔ حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی آنکھ کا خون پونچھتے ہوئے فرمایا، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سچ کے بدلے میری ایک آنکھ نکل گئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اِسی قسم کے سلوک کا انتظار کر رہی ہے۔۳۲؎ اب دیکھو صحابہ کس طرح ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ثابت ہوئے وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حق کے خلاف کوئی بات سُنیں اور اس کی تردید نہ کریں۔
ایک صحابی سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آجکل بنوامیہ کی حکومت ہے تم کوئی بات نہ کرو، اگر وہ اس حکومت کے ارکان تک پہنچ گئی تو تمہیں نقصان ہوگا۔ وہ فرمانے لگے مجھے اس کی پروا نہیں، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سُنا ہؤا ہے کہ اگر کسی کو کوئی سچی بات معلوم ہو اور اُس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہو تو اسے چاہئے کہ تلوار چلنے سے پہلے جلدی سے حق بات اپنے منہ سے نکال دے۔ تو ہدایت کے پہنچانے میں صحابہ نے ایساکمال دکھایا تھا کہ اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کا اذانیں دینا، خطبے پڑھانا سب اس کے ماتحت ہے کیونکہ ان ذرائع سے بھی حق کی بات دوسروں تک پہنچتی اور اُن کو ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
پھر صحابہؓ دوسروں کو ہدایت دینے میں جس سرگرمی اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر دین سکھانے میں لگا دی۔ اور اتنی حدیثیں جمع کر دیں کہ آج اگر ان کو جمع کیا جائے تو پشتاروں کے پشتارے۳۳؎ لگ جائیں۔
آجکل تحریر کا زمانہ ہے اور روایات بڑی آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات جمع کرنے میں وہ کوشش نہیں کی جو صحابۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے جمع کرنے میں کی تھی۔ کئی صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی واقعات معلوم ہیں مگر ابھی تک وہ ان کے سینوں میں ہی ہیں اور انہوں نے ظاہر نہیں کئے، اسی طرح کئی تابعین ہیں جنہوں نے کئی صحابہ سے روایات سنی ہوئی ہیں، ان کا بھی فرض تھا کہ وہ ایسی تمام روایات کو ضبطِ تحریر میں لے آتے مگر مجھے افسوس ہے کہ، اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی حالانکہ چاہئے تھا کہ وہ رات دن ایسی باتیں سُناتے رہتے تاکہ وہ دنیا میں محفوظ رہتیں۔ صحابۂ رسولِ اکرمؐ نے یہ کام کیا اور ایسی عمدگی سے کیا کہ آج حدیثوں کی سَو دو سَو جلدیں پائی جاتی ہیں، یہ ان کی ہدایتِ عام کی سند اور ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔
انصار اور مہاجرین کی باہمی مؤاخات
(۴) مساجد کا چوتھا کام یہ ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں،
یہ کام بھی انبیاء کی جماعتیں کیا کرتی ہیں۔ جس طرح مسجد کہتی ہے کہ آجائو عبادت کی طرف، یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اور وہ سب لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہیں اورکہتی ہیں کہ ہماری طرف آجائو۔ چنانچہ قرآن کریم میںصحابہؓ کے ایک حصہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَ لَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ۳۴؎
یعنی انصار اتنے وسیع الحوصلہ ہیں کہ ان کے دلوں میں دُنیوی اموال اور نعمتوں کی کوئی خواہش ہی نہیں اُن کا یہی جی چاہتا ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں خواہ خود انہیں تنگی ہو یا تکلیف وہ دوسروں کو آرام پہنچانے کا فکر رکھتے ہیں۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کُھلے ہوتے ہیں اسی طرح انصار نے اپنی جائد ادیں بانٹ دیں اور مکان دیدیئے۔ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں، آئو میں تم دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دوں۔ چنانچہ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی بھائی بنا دیا۔ ہمارے ہاں بعض لوگ بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں مگر وہ کسی کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے، لیکن انصار کا یہ حال تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ان کا بھائی بنا دیا تو ان میں سے بعض نے اُس وقت گھر جا کر اپنی جائدادیں تقسیم کر دیں اور مہاجرین سے کہا کہ آدھی جائداد ہماری ہے اور آدھی تمہاری۔ بعض جو تاجر تھے انہوں نے مہاجرین کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا۔ مہاجرین نے بیشک انکار کر دیا اور کہا کہ تم ہمیں اُجرت دیدینا ہم تمہاری خدمت کریں گے مگر اُنہوں نے اپنی طرف سے احسان کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ بلکہ ایک صحابی نے تو اس حد تک غُلوّ کیا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے اُن کی دو بیویاں تھیں اور پردہ کا حُکم ابھی نازل نہیں ہؤا تھا، انہوں نے اپنی دونوں بیویاں اُن کے سامنے کر دیں اور کہا کہ ان میںسے جس کو تم پسند کرو میں اُسے طلاق دیدیتا ہوں تم اس سے شادی کر لو۔ یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو انصار نے کی۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لئے کھول دیئے۔ یہ اتنی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے کہ تاریخ میں اس قسم کے وُسعتِ حوصلہ کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی۔
انتخابِ خلافت کے وقت انصارکا
عدیم النظیرایثار اور وُسعتِ حوصلہ
پھر سب سے بڑی حو صلہ کی مثال انصار نے اُس وقت قائم کی جب خلافت کے انتخاب کا وقت آیا۔ مسائلِ خلافت نبی کے زمانہ میں ہمیشہ مخفی رہتے ہیں، اگر نبی کے زمانہ میں ہی یہ باتیں بیان
کر دی جائیں تو ماننے والوں کی جانیں نکل جائیں کیونکہ ان کو نبی سے ایسی شدید محبت ہوتی ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے وہ تو زندہ رہیں اور نبی فوت ہو جائے اس لئے نبی کے زمانہ میں خلافت کی طرف صرف اشارے کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کا تھا، وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے۔مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو انصار نے خلافت کے متعلق الگ مشورہ شروع کر دیا اورمہاجرین نے الگ۔ انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہر والے ہیں اور مہاجرین باہر کے رہنے والے ہیں، اس لئے باہر سے آنے والوں کا کوئی حق خلافت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمارا ہی حق ہے اور لیڈر ہم میں سے ہی ہونا چاہئے۔ مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی تو ان میں سے بھی بعض وہیں آگئے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ عنہمااور حضرت ابوعبیدہ ان میں شامل تھے۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اپنے ذاتی مفاد کے لئے وہاں گئے تھے بلکہ وہ اسلام میں تفرقہ پیدا ہونے کے خوف سے وہاں گئے اور انہوں نے چاہا کہ انصار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مسلمانوں کے لئے مُضِرّ ہو۔ غرض جب یہ وہاں پہنچے تو میٹنگ ہو رہی تھی۔ مہاجرین نے کہا کہ پہلے ہماری بات سُن لو اور وہ یہ ہے کہ عرب لوگ آپ کی اطاعت کے عادی نہیں، اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہؤا تو مسلمانوں کو بہت سی مشکلات پیش آنے کا ڈر ہے اس لئے مکہ کے لوگوں میں سے آپ جس کو چاہیں اپنا امیر بنا لیں مگر انصار میں سے کسی کو نہ بنائیں۔ اس پر ایک انصاری نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو پھر مِنَّااَمِیْرٌ وَ مِنْکُمْ اَمِیْرٌ چلو ایک خلیفہ ہمارا ہو جائے اور ایک آپ کا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کے نقائص بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ اگر انصار میںسے کوئی خلیفہ ہؤا تو عرب کے لوگ اسے نہیں مانیں گے۔ اس پر بعض انصار جوش میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ انصار ہمیشہ غلامی ہی کرتے رہیں؟ وہ اس وقت بھی مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مان لیں اور بعد میں بھی مہاجرین میں خلیفہ بنتے رہیں، انصار میں سے کوئی خلیفہ نہ بنے اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے غلام اور ماتحت رہیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ سُنکر انصار کو بہت سی نصیحتیں کیں اور فرمایا ہم آپ لوگوں کا احسان مانتے ہیں، مگر آپ کو اس وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ کس بات میں ہے؟ یہ سنکر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک تقریر کی جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
انہوں نے انصار کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے لوگو! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں خدا کی رضا کے لئے بُلایا تھا یا خلافت کے حصول کے لئے؟ اور اگر تم نے اسلام میں داخل ہو کر بڑی بڑی قربانیاں کیں تو اس لئے کی تھیں کہ خدا راضی ہو جائے یا اس لئے کی تھیں کہ خلافت ملے؟ اگر تمام قربانیاں تم نے خداکی رضا کے حصول کے لئے کی تھیں تو خدارا! اب اپنی قربانیوں کو خلافت کی بحث میں برباد نہ کرو۔ مہاجرین جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مناسب یہی ہے کہ تم اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو اور اپنی تجاویز کو جانے دو۔ اُس صحابی کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ساری قوم نے شور مچا دیا، بالکل درست ہے بالکل درست ہے۔ چنانچہ مہاجرین میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اور انصار نے خوشی سے اس کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کر لیا۔۳۵؎ یہ عجیب بات ہے کہ آج تک بھی انصار میں سے کسی کو بادشاہت نہیں ملی، گو تصوّف والے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اب تمہیں دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا جو کچھ لینا ہے حوضِ کوثر پر آکر لے لینا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن کسی کو اجر ملنا کوئی کم برکت والی چیز ہے، حقیقت یہ ہے کہ بیشک دُنیوی انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر اصل انعام وہی ہیں جو انسان کو عالَمِ آخرت میں ملیں۔ پس اگر انہیں قیامت کے دن انعامات مل گئے تو پھر تو اُنہیں سب کچھ مل گیا۔ لیکن بہرحال انصار نے دنیا میں کبھی حکومت نہیں کی اور یہ ایسی شاندار قربانی ہے جو بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح اپنے دل اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھول رکھے تھے۔
صحابہ کرامؓ لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھے!
پانچویں خصوصیت مساجد کی یہ ہے کہ وہ شر اور بدی سے
روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ۳۶؎ کہ نماز انسان کو بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے اس بارہ میں بھی صحابہ نے بے نظیر مثال قائم کی ہے چنانچہ شر سے بچانے کا بہترین ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کا ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں کس طرح انصاف قائم کیا۔ جب اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دیتے دیتے شام تک چلا گیا تو ایک وقت ایسا آیا جبکہ رومی بادشاہ اپنا سارا لشکر جمع کرکے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو گیا، اُس وقت اسلامی جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر اُن علاقوں کے لوگوں سے چونکہ انہوں نے ٹیکس اورجزیے وصول کئے ہوئے تھے اور اس ٹیکس اورجزیہ کے حصول کرنے کی غرض یہ ہؤا کرتی ہے کہ اسی روپیہ کو خرچ کرکے لوگوں کی جان و اموال کی حفاظت کی جائے۔ اس لئے جبکہ وہ ان علاقوں سے واپس جا رہے تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے ان کے ٹیکس انہیں واپس نہ کئے تو یہ ظلم ہوگا، چنانچہ انہوں نے تمام شہر والوں کو ان کا جزیہ واپس دیدیا اور کہا کہ اب ہم واپس جا رہے ہیں اور چونکہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہارا ٹیکس تمہیں واپس دیتے ہیں۔ اس واقعہ کا یروشلم کے عیسائیوں پر ایسا اثر ہؤا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائی بادشاہ تھا اور باوجود اس کے کہ وہ اُسے لاکھوں روپیہ بطور نذرانہ دیاکرتے تھے جس وقت صحابہؓ کا لشکر یروشلم کو چھوڑنے لگا تو عورتیں اورمردچیخیں مار مار کر روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو پھر اس جگہ واپس لائے۔ دنیا کی کسی تاریخ میں اس قسم کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی قوم اُس وقت جبکہ وہ کسی علاقہ کو خالی کر رہی ہو لوگوں کو اُن کے وصول شُدہ ٹیکس واپس دے دے بلکہ آجکل تو ایسی حالت میں لوگوں کو اور زیادہ لُوٹ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شر سے روکنے کی مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر میں وہ مثالیں دینا چاہتاہوں جن کو سب دنیا مانتی ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔
شراب اور ُجوئے کی ممانعت
چنانچہ ایک مثال میں جوئے کی پیش کرتا ہوں اس سے اسلام نے روکا ہے۔ اسی طرح شراب سے اسلام نے
بڑی سختی سے روکا ہے کیونکہ شراب بھی بڑی خرابیوں کا موجب ہوتی اور اس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے شر اور فساد کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَائَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ۳۷؎
فرمایا ہم نے شراب اور جوئے سے تمہیں روکا ہے مگر جانتے ہو ہم نے کیوں روکاہے؟ اس لئے کہ ان کے ذریعہ فساد پیدا ہوتاہے اور یہ چیزیں ذکرِ الٰہی اور عبادت کی بجاآوری میں روک بنتی ہیں اس طرح آپس میں عداوت اور ُبغض پیدا ہوتا ہے۔ آج تمام یورپ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور یوروپین مدبّر چاہتے ہیں کہ شراب نوشی روک دیں مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے شراب کے خلاف بڑا زور مارا مگر اڑھائی پرسنٹ (PER CENT ) شراب کی اس نے بھی اجازت دیدی۔ گویا اس معاملہ میں امریکہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک کشمیری کہیں بیٹھا ہؤا تھا اور اُس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی چادر لپیٹی ہوئی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بچہ بھی ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی نہیں۔ اس نے کہا نہیں سچ سچ بتائو ایک یا دو تو ہوں گے، کہنے لگا سچ کہتاہوں میرا تو ایک بچہ بھی نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کشمیری اُٹھا تو چادر کے نیچے سے چار بچے نکل آئے، یہ دیکھ کر وہی شخص اُسے کہنے لگا کہ تم تو کہتے تھے کہ میرا ایک بچہ بھی نہیں اور یہ تو چار بچے تمہارے ساتھ ہیں۔ اس پر وہ کشمیری کہنے لگا، حضرت چار پُتّربھی کوئی پُتّرہوندی ہے یعنی چار بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں ( یہ مثال لوگوں نے اسی امر کے اظہار کے لئے بنائی کہ مَاشَائَ اللّٰہُ کشمیریوں کے اولاد بہت ہوتی ہے) اسی طرح امریکہ والوں نے کہہ دیا کہ ۲۱۲ پرسنٹ شراب کوئی شراب نہیں۔ مگر اس قدر اجازت دینے کے باوجود جب اس نے قانوناً شراب کی ممانعت کر دی تو ملک میں خطرناک فساد برپا ہو گیا۔ ہزارہا آدمی سالانہ محض اس کی وجہ سے مارا جاتا تھا کیونکہ جنہیں شراب پینے کی عادت تھی وہ شراب کے لئے دوسروں کو روپیہ دیتے اور وہ چوری چُھپے لے آتے۔ آخر لفنگوں اور بدمعاشوں کی کمیٹیاں بن گئیں جو لوگوں سے روپیہ وصول کرتیں اور اُنہیں کسی نہ کسی طرح شراب مہیا کر دیتیں اور چونکہ اس طرح مختلف کمیٹیوں والوں کی آپس میں رقابت ہو گئی اس لئے وہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کے آدمیوں کو مروا دیتیں۔ پھر پولیس کو مقدمات چلانے پڑتے اور درجنوں کو گورنمنٹ پھانسی کی سزا دیتی۔ غرض ہزاروں مقدمات چلے، لاکھوں آدمی مارے گئے اور لاکھوں اس طرح مرے کہ جب انہیں شراب نہ ملتی تو وہ میتھی لیٹڈ سپرٹ METHYLATED SPIRIT) (پی لیتے جو سخت زہریلی چیز ہے اور اس طرح کئی مرجاتے اور کئی اندھے ہو جاتے۔ غرض امریکہ اڑھائی فیصدی شراب کی اجازت دے کر بھی اپنے ملک کو شراب پینے سے نہ روک سکا اور لاکھوں قتل ہوئے، لاکھوں مقدمات ہوئے اور لاکھوں اندھے اور بیکار ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخر میں حکومت کو اپنا سر جُھکانا پڑا اور اس نے کہدیا کہ ہم ہارے اور شراب پینے والے جیتے چنانچہ اس نے ممانعتِ شراب کا قانون منسوخ کر دیا۔
محمدؐ رسول اللہ کے اعلان پر صحابہؓ نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے
مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھو جب یہ آیت اُتری کہ شراب حرام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مدینہ کی گلیوں میں اِس کا اعلان کرنے کے لئے مقرر کیا تو احادیث میں آتا ہے ایک جگہ شادی کی مجلس لگی ہوئی تھی اور گانا گایا جا رہا تھا۔ اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے، لکھا ہے جس وقت یہ اعلان ہؤا اُس وقت وہ لوگ شراب کا ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے ابھی رہتے تھے۔ نشہ کی حالت ان پر طاری تھی اور وہ شراب کی ترنگ میں گا بجا رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی ہے۔ یہ سنتے ہی ایک شخص نشہ کی حالت میں بولا کہ کوئی شخص آوازیں دیتا ہے اورکہتا ہے شراب حرام ہو گئی ہے۔ دروازہ کھول کر پتہ تو لو کہ بات کیا ہے؟ اوّل تو کوئی شرابی نشہ کی حالت میں اس قسم کے الفاظ نہیں کہہ سکتا مگر ان کا دینی جذبہ اس قدر زبردست تھا کہ انہوں نے معاً آواز پر اپنا کان دھرا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ دروازہ کھول کر دریافت کرو کہ بات کیا ہے؟ دوسراشخص جس کو اس نے مخاطب کیا تھا وہ دروازہ کے پاس بیٹھا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا پکڑا ہؤا تھا اس نے جواب دیا کہ پہلے میں ڈنڈے سے مٹکوں کو توڑوں گا اور پھر دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے؟ جب ہمارے کان میں یہ آواز آگئی ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے تو اب اس کے بعد ایک لمحہ کا توقّف بھی جائز نہیں اس لئے میں پہلے مٹکے توڑوں گا اور پھر دروازہ کھول کر اس سے دریافت کرونگا۔ چنانچہ اس نے پہلے مٹکے توڑے اور پھر منادی والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے۔ اس نے کہا الْحَمْدُ لِلّٰہِ ہم پہلے ہی مٹکوں کو توڑ چکے ہیں۔۳۸؎ اب بتائو کہ کونسی مسجد ہے جو اس طرح بدیوں کو مٹا سکتی ہے۔
قتلِ اولاد کی ممانعت
دیکھو قتلِ اولاد ایک مانی ہوئی بدی ہے۔ ساری قومیں اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ قتلِ اولاد بہت بڑا جُرم ہے مگر کسی قوم نے اس
کے متعلق شرعی حکم نہیں دیا۔ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کو رکھا اور بتایا کہ اولاد کا مارنا حرام ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بہت بڑے شر سے بچایا۔
عورتوں کے حقوق کی حفاظت
اسی طرح عورتوں پر ظلم ہوتے تھے آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں،
عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیئے ہیں۔ حالانکہ ان کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم اُس کے پاسنگ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت وسیع حقوق دیئے ہیں۔ عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی مائوں کو بھی تقسیم کر لیتے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا، بیوی کو خاوند کا، بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی۔ پھر فرمایا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ۳۹؎ کہ انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ کَل ہی مَیں نے عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیئے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُنہیں یکساں شریک قرار دیا ہے اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعام عورتوں کو بھی ملیں گے۔ بلکہ کَل تو مجھے ایک عجیب استدلال سُوجھا۔ میں نے کہا کہ قرآن اور حدیث نے تمہارا صرف ایک ہی مذہبی حق چِھینا ہے اور وہ یہ کہ نبی مرد ہو سکتاہے، عورت نہیں ہو سکتی۔ صرف یہ ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق عورت کہہ سکتی ہے کہ مجھے کم انعام دیا گیا ہے اورمرد کو زیادہ مگر میں نے انہیں بتایا کہ نبوت صرف ایک عہدہ ہے اور اس عہدہ کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، پس اس لئے خدا نے اسے نبی نہیں بنایا۔ مگر انعامات کے لحاظ سے جو انعام عالَمِ آخرت میں نبی کو ملے گا وہی اس کی بیوی کو بھی ملے گا، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَ اَزْوَاجِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ الْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۴۰؎
کہ جو لوگ جنت میں داخل ہونگے ان کے ساتھ ان کے والدین، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو بھی رکھا جائے گا۔ اگر ایک شخص خود تو جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا مگر اس کی بیوی کسی ادنیٰ مقام پر ہوگی تو اللہ تعالیٰ بیوی کو اسی جگہ رکھے گا جہاں اس کا خاوند ہوگا اور یہ پسند نہیںکرے گا کہ میاں بیوی جُداجُدا ہوں۔ پس موسیٰ ؑ کی بیوی موسیٰ ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی دائود ؑ کی بیوی دائود ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی، سلیمان ؑ کی بیوی سلیمان کے ساتھ رکھی جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی جائیں گی۔ بیشک موسیٰ ؑ کی بیوی نبی نہیںمگر نبوت کے انعام میں وہ بھی شریک ہو جائے گی۔ بیشک دائود ؑ کی بیوی نبی نہیں مگر دائود ؑ کے انعامِ نبوت میں ان کی بیوی بھی شریک ہوجائے گی۔ اسی طرح حضرت سلیمان ؑ کی بیویاں گو نبی نہیں مگر خدا انہیں وہی انعامات دے گا جو وہ سلیمان ؑ کو دیگا۔ پھرمیں نے انہیں کہا کہ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں اور تین بیٹیاں تھیں، گویا ایک مرد کے ساتھ چودہ عورتیں انعام میں شریک ہوگئیں یہ کس قدر وسیع فیضان ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اورکس طرح اس نے اپنی رحمت میں عورتوں کو ڈھانپ لیا ہے کہ نہ اِس دنیا میں ان کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے، حالانکہ عورتوں کی قوم اتنی مظلوم تھی کہ عرب لوگ روپوں کے بدلے اپنی مائوں اور بیویوں تک کو بیچ دیا کرتے تھے۔ پس یہ مسجد کنویں کی منڈیر کا کام کرتی ہے یعنی وہ رسوم یا عادات یا اعمال جن سے لوگ تباہ ہوں اُن سے بچاتی اور گندگی کو اندر گرنے سے روکتی ہے۔
قیامِ امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
(۶) چھٹے مسجد امن کا موجب ہوتی ہے اوریہ مسجد ایسی ہے کہ جب اس کا نام
ہی اسلام ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مُسلم اور مُسلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جو دوسروں کو امن دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ یَدِہٖ وَ لِسَانِہٖ ۴۱؎
کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورجس کی زبان کے شر سے ہر وہ شخص محفوظ ہوتا ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
اب میں تفصیل بتاتا ہوں کہ امن کن چیزوں سے برباد ہوتا ہے سو یاد رکھنا چاہئے امن چار چیزوں سے برباد ہوتا ہے۔
۱۔ امن برباد ہوتاہے بدظنی سے۔
۲۔ امن برباد ہوتا ہے ظلم سے۔
۳۔ امن برباد ہوتا ہے غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دینے سے۔
۴۔ امن برباد ہوتاہے لالچ سے۔
غرض دنیا میں جس قدر فسادات ہوتے ہیں وہ انہی چار وجوہ سے ہوتے ہیں یعنی یا تو بدظنی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا ظلم کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا غصے کو غالب آنے دینے سے فساد ہوتا ہے یا لالچ کی وجہ سے فساد ہوتا ہے ۔
اِس کے مقا بلہ میں امن بھی چار چیزوں سے قائم ہوتا ہے۔
۱۔ امن قائم ہوتا ہے خیر خواہی سے۔
۲۔ امن قائم ہوتا ہے مغفرت سے۔ مثلاً اگر کوئی گالی دے اور دوسرا معاف کر دے تو لڑائی کس طرح ہو سکتی ہے، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھ سے بچتی ہے جب فریقین میں سے ایک مغفرت سے کام لے اور عفو و درگزر کا سلوک کرے تو لڑائی بڑھ ہی نہیں سکتی۔
۳۔ اسی طرح احسان سے امن قائم ہوتاہے۔
۴۔ پھر امن دین کو دُنیا پر مقدم رکھ کر بھی ہوتاہے کیونکہ جب کوئی انسان اُخروی حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اُس کو دنیا کی زندگی پر ہر لحاظ سے ترجیح دیتا ہو تو وہ امن کے قیام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کر سکتا ہے۔
اب یہ آٹھوں باتیں جو نفی اور مثبت سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں دیکھناچاہئے کہ صحابہؓ میں پائی جاتی تھیں یا نہیں؟
اسلام میں بدظنی کی ممانعت
اوّل بدظنی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یٰٓـاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا
کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا۴۲؎
کہ اے مومنو! تم اکثر گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض ظنّ ایسے ہیں جن سے گناہ پیدا ہوتاہے۔ وَلَا تَجَسَّسُوْا اور تم دوسروں کے عیوب تلاش نہ کیا کرو۔ اب اگر کوئی شخص دوسرے پر حُسنِ ظنی کرے تو وہ اس کے عیب کو تلاش ہی نہیں کر سکتا۔عیب اُسی وقت انسان تلاش کرتا ہے جب دل میں بدظنی کا مادہ موجود ہو۔ اب ہم صحابہؓ کے طریقِ عمل کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں حُسنِ ظنی کس حد تک پائی جاتی تھی۔
تاریخِ اسلام میں جب صحابہؓ کے واقعات دیکھے جاتے ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اُن میں کس قدر خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ ان میں نیک ظنی تھی تو کمال درجہ کی اور دیانت و امانت تھی تو اُس حد تک کہ اس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی نیک ظنی کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے حضرت عمرؓ کے عہد میںایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور قضاء نے اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کے قتل کئے جانے کا حُکم دیدیا۔ جب اسے قتل کرنے کے لئے لوگ لے گئے تو اُس نے کہا کہ میرے گھر میں کئی یتیموں کی امانتیں پڑی ہوئی ہیں، مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر میں جا کر وہ امانتیں اُن کو واپس دے آئوں، پھر میں اس جگہ اتنے دنوں میں حاضر ہو جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی ضامن لائو۔ اُس نے اِدھراُدھر دیکھا آخر اس کی نظر ابوذرصحابیؓ پر جا پڑی اور اس نے کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ خیر انہوں نے ضمانت دی اور وہ گھر چلا گیا۔ جب عین وہ دن آیا جو اُس کی حاضری کے لئے مقرر تھا تو صحابہؓ اِدھراُدھر گھبراہٹ سے پھرنے لگے کیونکہ وہ شخص ابھی تک آیا نہیں تھا جب بہت دیر ہو گئی اور وہ نہ آیا تو صحابہؓ نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا کہ کچھ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کون شخص تھا؟ انہوں نے کہا مجھے تو علم نہیں۔ صحابہ کہنے لگے اُس کا جُرم قتل تھا اور آپ نے بغیر کسی واقفیت کے اس کی ضمانت دے دی، یہ آپ نے کیا کِیا؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی۔ انہوں نے کہا، بیشک میں اسے جانتا نہیں تھا مگر جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا نام لیا تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا اورکس طرح یہ بدظنی کر سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ حاضر ہی نہ ہو۔ اب دیکھو اُن میں حُسنِ ظنی کاکس قدر مادہ پایا جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی انہیں کچھ بھی واقفیت نہیں اُس کی اُنہوں نے ضمانت دیدی محض اس وجہ سے کہ وہ بدظنی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ جب وقت بالکل ختم ہونے لگا تو صحابہ کو دُور سے گرد اُڑتی دکھائی دی اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سوار بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتاہؤا آرہا ہے۔ سب کی نظریں اُس سوارکی طرف لگ گئیں جب وہ قریب پہنچا تو وہ وہی شخص تھا جس کی حضرت ابوذرؓ نے ضمانت دی ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے سے اُترا اورچونکہ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتا چلا آیا تھا اس لئے اس کے اُترتے ہی گھوڑا گِر کر مر گیا۔ اس نے پاس آکر کہا کہ مجھے معاف کرنا، یتامٰی کی امانتیں تقسیم کرتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں جلدی نہ آسکا اور اب میں گھوڑے کو دوڑاتا ہی آرہا تھاتاکہ وقت کے اندر پہنچ جائوں سو خدا کا شکر ہے کہ میں پہنچ گیا، اب آپ اپنا کام کریں۔ اس کی اس وفاداری کا اس قدر اثر ہؤا کہ جن لوگوں کا جُرم تھا انہوں نے فوراً قاضی سے کہدیا کہ ہم نے اپنا جُرم اس شخص کو معاف کر دیا۔۴۳؎
یہ وہ نیک ظن لوگ تھے جو دوسروں پر بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر خدا بھی ان کے نیک ظنوں کو پورا کر دیتا تھا۔
اسلام میں ہر قسم کے ظلم کی ممانعت
پھر فساد ظلم سے پیدا ہوتا ہے اور ظلم کی کئی قسمیں ہیں مگر اسلام نے اُن سب کو مٹا دیا ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً۴۴؎ کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہوتا ہے اور دوسرے کی عزت پر اس سے حملہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز مال ہے جس کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِل۴۵؎ کہ جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو۔
پھر جان ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ۴۶؎ کہ اپنے آپ کو قتل مت کرو۔
اسی طرح تجارت میں بعض دفعہ ظلم کا ارتکاب کر لیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی روکا اور فرمایا وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ- اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ- وَ اِذَا کَالُوْ ھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ۴۷؎
کہ *** ہے اُن پر، ہلاکت ہے اُن پر جو لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور جب چیزیں لیتے ہیں تو تول میں پوری لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں گویا اسلام نے ظلم کی تمام شِقوں سے روک دیا اور اس طرح اُس نے جان کو بھی محفوظ کر دیا، عزّت کو بھی محفوظ کر دیا اور صحابہؓ نے اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ جس طرح حرم میں داخل ہو کر انسان امن میں آجاتا ہے اس طرح وہ لوگوں کی عزّتوں اور ان کے مالوں اور ان کی جانوں کے محافظ تھے اور امانتیں تو ان کے پاس اس طرح محفوظ رہتی تھیں کہ آجکل کے بنکوں میں بھی ویسی محفوظ نہیں رہتیں۔ ایک صحابی ایک دفعہ ایک گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے اور انہوں نے اس کی دو سَو دینار قیمت بتائی۔ ایک اور صحابی نے کہا کہ میں یہ گھوڑا لینا چاہتا ہوں مگر تم غلط کہتے ہو کہ اس کی دو سَو دینار قیمت ہے اس کی تو پانچ سَو دینارقیمت ہے وہ کہنے لگے میں صدقہ خور نہیں کہ زیادہ قیمت لے لوں اس کی اصل قیمت دو سَو دینار ہی ہے۔ اب وہ دونوں جھگڑنے لگ گئے۔ بیچنے والا کہتا تھا کہ میں دو سَو دینار لوں گا اور خریدنے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سَو دینار دونگا۔ اب بتائو جہاں اِس قسم کے لوگ ہوں وہاں امن کس شان کا ہوگا مگر اب تو جتنا کوئی مالدار ہو اُتنا ہی دوسروں کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی میں ایک دُکان پر کپڑا لینے کے لئے گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں مگر وہاں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور دُکاندار ایک اور شخص سے جھگڑنے میں مصروف رہا۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ بات کیا ہے او اتنی دیر سے جھگڑ کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا کیا بتائوں آج تو میں مصیبت میں پھنس گیا تھا یہ شخص بمبئی کا سب سے بڑا مشینوں کا مالک ہے۔ اس نے مجھ سے بیس پچیس کپڑے لئے اور میں نے ان کا بِل ایک سَو آٹھ روپیہ کا بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر یہ جھگڑنے لگا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میری رعایت کیا تم نہ کرو گے میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری دُکان پر ایک قیمت ہوتی ہے اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد اس کے سیکرٹری نے سَو کا نوٹ رکھ دیا اور کہا کہ اب بس کرو باقی رقم کا مطالبہ نہ کرو اور میری یہ حالت کہ میں اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا، لیکن دوسری طرف اگر قیمت کم لیتا ہوں تو میری دُکان کا اصول ٹوٹتا ہے اب یہ زور سے کم قیمت دے کر چلا گیا ہے۔
غرض مسلمان اپنے غلبہ کے وقت میں اتنا سیرچشم تھا کہ اگر کوئی غلطی سے کم قیمت مانگتا تھا تو وہ اصرار کرتا تھا کہ میں اس کی قیمت زیادہ دونگا، مگر آج کے کروڑ پتی بھی سودے میں کچھ معاف کروانے کے لئے خواہ جائز ہو یا نہ ہو گھنٹوں صَرف کر دیتے ہیں، دوسری طرف دکاندار اور کارخانہ دار قیمت زیادہ وصول کرنے پر مُصِرّ ہوتے ہیں۔
تکبّر کی بُرائی
اسی طرح دنیا میں خیالات کی خرابی کی وجہ سے بھی ظلم ہوتا ہے ایک انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح وہ تکبر میں آکر
دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو بھی توڑا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ۴۸؎
اے انسان! تو زمین میں متکبرانہ طور پر نہ چلا کر کیونکہ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ اْلاَرْضَ تو زمین میں سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا۔ یہی تیرے غریب بھائی جو تیرے اِرد گِرد ہیں ان سے تجھے دن رات کام رہتا ہے اورتو نے ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ خرق کے معنے پھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سے گزرنے کے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ تو نے اس زمین میںسے کہیں نکل نہیں جانا بلکہ اس دنیا میں رہنا ہے اور دنیا میں انسان کو آرام اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مِل جُل کر نہ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو تکبر نہ کرو کیونکہ اگر تم تکبر کروگے اور اپنے اِردگِرد کے لوگوں کو ذلیل اور حقیر سمجھو گے تو تم اکیلے پھرتے رہو گے اور لوگ تمہیں غیر جنس خیال کرنے لگ جائیں گے اور اس وجہ سے تمہیں امن میسر نہیں آسکے گا۔ بھلا کبھی گھوڑوں اور گدھوں میں رہ کر بھی انسان کو امن حاصل ہو سکتا ہے۔ امن تو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی جنس کے ساتھ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میاں دیکھو تم نے کسی اور جگہ نہیں جانا بلکہ تمہارے ان غریب بھائیوں نے ہی رات دن تمہارے کام آنا ہے اگر تم اپنے آپ کو کوئی غیر جنس سمجھو گے تو دُنیا میں اس طرح رہو گے جس طرح چڑیا گھر میں انسان رہتاہے۔ پھر فرماتاہے وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً اگر تم نے یہ طریق جاری رکھا تو یاد رکھو تم اس صورت میں کبھی بھی قوم کے سرداروں میں شامل نہیں ہو سکو گے۔ اس لئے کہ جب تم قوم کو ذلیل سمجھو گے تو قوم تمہیں اپنا سردار کس طرح بنائے گی وہ تو تمہاری دشمن ہوگی اور تمہیں اپنی قوم کی نگاہوں میں عزّت نہیں بلکہ ذلّت حاصل ہوگی۔
قومی اخلاق کو بگاڑنے کی ممانعت
پھر قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان
کو اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلَمَ۴۹؎ کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتا کہ کوئی بُری بات اونچی آواز سے کہی جائے۔ لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بیشک اجازت ہے کہ وہ برسرِعام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اس کی اجازت نہیں۔ مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریق سے روکتا اور فرماتا ہے کہ تو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ تو سمجھنا چاہئے کہ تو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہاہے جیسے اگر کوئی ماں بہن کی گندی گالیاں دینا شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں تو ہر شریف آدمی اسے روکتا اور کہتا ہے کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اسی طرح خدا فرماتا ہے تو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہؤا ہے مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ تو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے۔
بَیْنَ الْاَقوامیمناقشات کا سدِّباب
پھر ایک اور ظلم حکومتوںپر ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی کئی ہدایات دی ہیں اس کے
متعلق تفصیلی بحث میری کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘‘ میں موجود ہے۔ میں اس جگہ مختصراً چند باتیں بیان کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَا ئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰٓی اَمْرِاللّٰہِ فَاِنْ فَائَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۵۰؎
اگر دو مومن حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی تمام حکومتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ان سے کہیں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اگر ان میں سے کوئی صلح کی تجویز کو مان کر باغی ہو جائے یا صلح کی تجویز کو قبول ہی نہ کرے اور لڑائی پر آمادہ رہے تو وہ حکومت جس نے بغاوت سے کام لیا ہو اس کے ساتھ سب مل کر لڑو اور مظلوم کو اکیلا نہ رہنے دو حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِاللّٰہِ یہاں تک کہ ابتداء کرنے والی حکومت یا قوم خداتعالیٰ کے فیصلے کو مان لے فَاِنْ فَائَ ت اگر وہ ظلم سے باز آجائے اور اقرار کر لے کہ ا س سے غلطی ہوئی تو پھر اس سے انتقام نہ لو اور اپنے آپ کو فریقِ مخالف قرار دے کر اس سے بیجا مطالبات نہ کرو، بلکہ ابتدائی مخاصمین کے درمیان صلح کرادو۔ وَاَقْسِطُوْا اور انصاف سے کام لو ایسا نہ ہو کہ تم غصہ سے کسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کردو جو عدل و انصاف کے منافی ہو اور کہو کہ چونکہ اس نے پہلے ہماری بات کو نہیںمانا تھا اس لئے اب اس پر سختی کرنی چاہئے۔ تمہیں جنبہ داری اور کینے کے تمام پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ میں اِس وقت تفصیلاً اس مسئلہ کو بیان نہیں کر سکتا۔ تین چار سال ہوئے جب ایبے سینیا پر اٹلی نے حملہ کیا تھا تو اُس وقت جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ امن کے قیام کے لئے ایسی ہی لیگ آف نیشنز کام دے سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی اصول پر ہو۔ اگر اسلامی اصول پر لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) کی بنیاد نہ رکھی جائے تو وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتی۔ اس وقت یہ دستور ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہو جاتی ہے تو اسے ہر ممکن طریق سے ذلیل اور رُسوا کرنیکی کی کوشش کی جاتی ہے جیسے گزشتہ جنگ کے اختتام پر جرمنی کو ’’معاہدہ وارسائی‘‘۵۱؎ کے ذریعہ کُچلنے کی پوری کوشش کی گئی اور انصاف کی حدود کو نظر انداز کر دیا گیا، حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کوئی قوم ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد جو بھی معاہدہ کیا جائے اس کی بنیاد انصاف پر ہونی چاہئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اور ہار چکا ہے اس لئے اس کے خلاف سخت فیصلہ کرکے اسے ذلیل کیا جائے یا اس سے بدلہ لیا جائے۔ گویا صلح کرانے والوں کو اپنے آپ کو فریقِ مخالف نہیں بنا لینا چاہئے بلکہ جنگ کے باوجود اپنے آپ کو ثالثوں کی صف میں رکھنا چاہئے۔ دوسرے آجکل کی لیگ کے قوانین میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ اگر کسی فریق نے مقابلہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے گی بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم منوانے کی کوشش کریں گے۔ اب جسے پتہ ہو کہ میرا کام صرف منوانے کی کوشش کرنا ہے وہ لڑائی کے لئے تیاری کیوں کرے گا اور بد اندیشے رکھنے والے لوگ اس لیگ سے ڈریں گے کیوں؟ تیسرے اسلام نے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر دو متحارب فریقوں میں سے ایک لڑائی پر آمادہ ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں اور چونکہ ایک قوم سب اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اس لئے لازماً وہ ہتھیار ڈال دے گی اور صلح پر آمادہ ہو جائے گی مگر لیگ آف نیشنز میں ایسا کوئی قانون نہیں اس لئے اس کے فیصلہ سے کوئی قوم مرعوب نہیں ہوتی اور چونکہ ان نقائص کی وجہ سے بارہا لیگ آف نیشنز امن کے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب بڑے بڑے مدبّر بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے پیچھے کوئی فوج ہونی چاہئے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کے پاس صرف فوج ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کے علاوہ اس میں وہ باتیں بھی ہونی چاہئیں جو اسلام نے بتائی ہیں ورنہ امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت
یہ تو ہوتا ہے غیر پر ظلم مگر ایک ظلم نفس پر بھی ہوتا ہے جیسے انسان شادی کرنا چھوڑ دے۔ اب یہ تو
ممکن ہے کہ کوئی شخص شادی نہ کرے مگر جو خواہشات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پیدا کی گئی ہیں اُن کو وہ کس طرح دبا سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر بھوک کی خواہش کو نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ خدا نے پیدا کی ہے۔ اور کسی انسان کا اپنی جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا بھی ایک ظلم ہے جو کسی غیر پر نہیں بلکہ اپنے نفس پر ہے اور اسلام اس ظلم سے بھی روکتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا رَھْبَانِیَۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ۵۲؎ اسلام میں رہبانیت نہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رہبانیت جو بعض مذاہب نے شروع کر رکھی ہے اس کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کی اپنی ایجاد ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۵۳؎
کہ اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ ہم نے بیشک تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تبلیغ کرو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تعلیم دو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم دوسروں کی تربیت کرو، لیکن اگر کبھی کوئی ایسا موقع آجائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بیشک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔
دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اُس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے۔ سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہؤا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہؤا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متأثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں۔ ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے اُنہیں کہاکہ سردار صاحب! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کاربند نہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سَو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے، پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سَو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے، ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے تو آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سے بات بھی نہیں مان سکتے۔ اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، صرف آج شراب پی لیں۔ اُس نے سَو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اُٹھا کر پی لیا۔ سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہؤا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی۔ یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اگر روٹی کا سوال ہو تو بیشک خود بھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلائو، لیکن جہاں ہدایت کا سوال آجائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دُور ہو جائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہئے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
شرک کی ممانعت
تیسرا ظلم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اسکے بارہ میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیئًا ۵۴؎ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ غرض اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے توحید کو دنیا میں قائم کیا اور اس طرح اس ظلم کا خاتمہ کر دیا جس کا خدا سے تعلق ہے اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کیا اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی اپنے نفس پر بھی ظلم نہیں کیا اور اس طرح اس نے امن کے برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ کر دیا۔
بے جا غضب کی ممانعت
(۳) امن کو برباد کرنے والا تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے۔ قرآن کریم
نے اس بدی کی بھی بیخ کنی کی ہے اور اصولی طور پر ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ۵۵؎ کہ ہم نے تمہیں اُمَّۃً وَّسَطًا بنایا ہے یعنی ایسی امت جوہر کام میں اعتدال کو مدّنظررکھتی ہے پس تمہارا فرض ہے کہ تم نہ تو غصہ میں بہہ جائو اور نہ محبت میں بہہ جائو بلکہ اگر محبت کرو تو ایک حد تک اور اگر غصہ کرو تو ایک حد تک۔ پھر فرماتا ہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۵۶؎ کہ مؤمن لوگ اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں۔
حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اُس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے۔ میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو ایک پانی لیکر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا۔
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ الشَّدِْیدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ۵۷؎ کہ بہادر اُس کو نہیں کہتے جو کُشتی میں دوسرے کو گِرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اُسے روک لے۔ پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں، بڑا بہادر ککر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اُس کو روک لے۔ اس بارہ میں حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اُسے گِرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر ُتھوک دیا۔ اِس پر حضرت علیؓ اُسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہؤا کہ انہوں نے یہ کیا کِیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا۔ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر ُتھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کرونگا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا، خدا کے لئے نہیں ہوگا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تاکہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تاکہ اُن کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔
لالچ اور حسد کی ممانعت
(۴) امن کے برباد کرنے کا چوتھا سبب لالچ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ
عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۵۸؎
کہ یہودی قوم بھی کوئی قوم ہے کہ خدا تو لوگوں پر فضل کرتا ہے اور یہ حسد سے مری جاتی ہے دوسری جگہ فرماتاہے وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ۵۹؎
خدانے دنیا میں مختلف قوموں پر جو فضل کئے ہیں ان کی وجہ سے ان قوموں سے حسد نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔
قیامِ امن کے ذرائع

اب اسکے مقابل پر مَیں امن کے ذرائع کو لیتا ہوں۔
خیر خواہی
(۱) پہلا ذریعہ قیامِ امن کا خیر خواہی ہے ہمارے ملک میں یہ جذبہ اتنا کم ہے کہ جب بھی کوئی افسر بدلتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا افسر آتاہے تو وہ پہلے افسر کے کام
کے ضرور نقائص نکالتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر آتا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر کا نقص نکالتا ہے، کمشنر آتا ہے تو وہ پہلے کمشنر کے کام کی خرابیاں بتاتا ہے اور اگر جرنیل آتا ہے تو پہلے جرنیل کی سکیموں میں نقص نکالتاہے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے وہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۶۰؎
سچا مسلمان وہ ہوتا ہے کہ جب خدا اسے کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو پہلے لوگ جو فوت ہو چکے ہوں اُنکے متعلق یہ نہیں کہتا کہ فلاں سے یہ غلطی ہوئی اور فلاں سے وہ غلطی ہوئی بلکہ وہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اوراگربعض سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ان کے متعلق دُعائیں کرتا رہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے بھی بخش اور میرے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو مجھ سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں مؤمنوں کا کوئی کینہ نہ رہنے دیجیئو۔ اے رب! تو بڑا مہربان ہے تو ان پر بھی رأفت اور رحم کر اور ہمارے دل میں ان کے متعلق محبت کے جذبات پیدا فرما تاکہ ہم اپنے پیشروئوں کے نقص نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے عادی ہوں۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا یُؤْمِنُ اَحَدَُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ۶۱؎ کہ کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کی نسبت وہ تمام باتیں نہ چاہے جو وہ اپنی نسبت چاہتا ہے۔ غور کرو کتنی وسیع خیر خواہی ہے جس کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے۔
مغفرت
(۲) امن کے قیام کا دوسرا ذریعہ مغفرت ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے متقی وہ ہوتے ہیں وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس
جو غصّے کو دباتے ہیں اور لوگوں کے گناہوں کومعاف کرتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے خُذِالْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ۶۲؎ کہ عفو کو اپنی عادت بنالو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم کبھی کبھار کسی کو معاف کردو بلکہ دوسروں کو معاف کرنا تمہاری عادت میں داخل ہونا چاہئے اور جو نیک اور پسندیدہ باتیں ہیں ان کا لوگوں کو حُکم دو اور اگر کوئی تمہیں غصہ دلائے تو اس کے فریب میں نہ آنا بلکہ ایسے جاہلوں سے اعراض کرنا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا یَارَسُوْلَاللّٰہ! انسان دن میں کتنی دفعہ مغفرت کرے؟ آپؐ نے فرمایا: ستّر مرتبہ اب ستر سے مرا ستّرہی نہیں کیونکہ انسان دن بھر میں دو یا چار قصور کرے گا۔ ستّر قصور نہیں کر سکتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ستر دفعہ معاف کرو۔ دراصل اس ستّرسے مراد کثرت ہے کیونکہ ستّر یا سات کے معنے عربی زبان میں کثرت کے ہوتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۶۳؎
مؤمنوں کو چاہئے وہ عفو کریں، درگزر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتعالیٰ تمہارے گناہ بخشے، جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مؤمنو! تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو، اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا۔
احسان
(۳) امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اسکے متعلق بھی قرآن کریم میں حُکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ـ
کہ مؤمن وہ ہیں جو غصّے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں، اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی۶۴؎
کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتائے ذی الْقُرْبیٰ کا حکم دیتا ہے ان تینوں کی مثال میں مَیں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوںجو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں مَیں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا۔ اتفاقاً وہ برتن اُس نے بے احتیاطی سے اُٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا، وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا۔ اس پر اُس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کا حُکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں۔ حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کَظَمْتُ الْغَیْظَ کہ میں نے اپنے غصہ کو دبا لیا اس پر اُس نے آیت کا اگلہ حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس کہ مؤمنوں کو صرف یہی حُکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں بلکہ یہ بھی حُکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں۔ حضرت امام حسنؓ فرمانے لگے عَفَوْتُ عَنْکَ جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا اس پر وہ کہنے لگا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اس سے آگے یہ بھی حُکم ہے کہ مؤمن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے اس پرحضرت امام حسنؓ نے فرمایا جائو میں نے تمہیں آزاد کر دیا۔ گویا پہلے انہوں نے اپنے غصہ کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزادکر دیا۔
دین کو دنیا پرمُقدّم رکھنا
(۴) چوتھی بات جس کا امن کے قیام کے ساتھ تعلق ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان
کو یہ یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی نہیں کر سکتا، کیونکہ کچھ قربانیاں تو ایسی ہیں جن کا دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے مگر بیسیوں قربانیاں ایسی ہیں جن کا دنیا میں کوئی بدلہ نہیں ملتا۔ پس حقیقی قربانی بغیر اُخروی زندگی پر یقین رکھنے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی قربانی کو ضائع سمجھتا ہے اور چونکہ حقیقی قربانی کے بغیر امن نہیں ہو سکتا اس لئے جب تک اُخروی زندگی پر ایمان نہ ہو اُس وقت تک حقیقی امن دنیا کو نصیب نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۶۵؎
کہ مؤمن تو دین کو دنیا پر مقدم کرتاہے مگر تم وہ ہو جو دنیا کو دین پر مقدم کر رہے ہو۔ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی۶۶؎ پہلے نبیوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو مگر ان کے اتباع نے اس تعلیم کو بھلا دیا او دنیا کا امن برباد ہو گیا غرض یہ آٹھوں باتیں جو امن کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، وہ محسن تھے، وہ مغفرت سے کام لیتے تھے، وہ خیر خواہ تھے، وہ بدظنی سے بچتے تھے، وہ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے تھے، وہ لالچ سے محفوظ رہتے تھے اور وہ غصے کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتے تھے۔
امامت کے وجود کا ظہور
(۷) ساتویں بات یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ قیامِ امامت کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ یہ سبق بھولے نہیں اور
امامِ حقیقی کے وقت کام آئے، دوسرے سابقون کی نیکیاں قوم میں زندہ رکھنے کا خیال رہے۔ درحقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد کو تازہ رکھتاہے۔ اب دیکھ لو اس امرکو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہؓ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا۔
پہلے حضرت ابوبکرؓ ، پھر حضرت عمرؓ ، پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ مقامِ ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا بِالکل مسجد کا نمونہ تھا جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنا لیا۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمدیہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائیگا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے۔ دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اس مولوی کو بھی جا کر سنا دی۔ وہ کہنے لگا مولوی نور الدین دین سے واقف تھا وہ چالاکی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیداہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اُس نے سمجھاکہ اب تو جماعت ضرور ٹھوکر کھا جائے گی۔ چنانچہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یاد رکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مُطاع تسلیم کر لینا ہے مگر معاً یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی۔ یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو۔
خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو جس طرح مسجد بنائی ہی اسی لئے جاتی ہے تاکہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے ۔ پس جس طرح مسجد خانۂ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۔ ایک خانۂ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو۔
مقامِ ابراہیمی کو مصلّٰی بنانے کا مفہوم
مقامِ ابراہیم کو مصلّٰی بنانے کے یہ معنے نہیں کہ ہر شخص ان کے مصلّٰی پر جاکر کھڑا ہو یہ تو
قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقامِ ابراہیم پرنماز پڑھو تو اوّل تویہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نمازپڑھی تھی یا وہاں اور اگر بِالفرض یہ پتہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوںنے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں، اگرحنفیوں کی طرح نماز میں مُرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دو منٹ صرف ہونگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تیس اور چوبیس گھنٹے میں سات سَو بیس آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتائو کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا کریںگے اور باقی مُسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی ۔ پس اگر اس حُکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنے نہیں بلکہ جیساکہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تاکہ اس طرح سنتِ ابراہیمی پوری ہوتی رہے، درحقیقت آیت اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ- وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۶۷؎
میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر مَیں مر گیا تو کام کس طرح چلے گا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے۔ ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ سنّتِ ابراہیمی کو قائم رکھیں جو لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائینگے۔ اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے، ایک امامتِ نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامتِ خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتاہے اور جس کی طرف وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کے لئے کوشش کرتے رہو۔ غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامتِ نبوت نہ ہو تو امامت خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو اِس حُکم پر کوئی عمل نہیںکر سکتا۔
اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور
(۸) آٹھویں بات یہ ہے کہ مساجد مسافروں کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ خوبی بھی
اسلام اور مسلمانوں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی میں مسافروں کی مہمان نوازی کاشدید حُکم ہے خود قرآن کریم نے اِبْنُ السَّبِیْل کی خدمت کو خاص احکام میں شامل کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کومہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اس حُکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آکر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اِس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آگیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میںکچھ کھانے کے لئے موجود ہے؟ اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آگیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھپکا کر مَیں سُلا دیتی ہوں۔ صحابی نے کہا یہ توہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے ۔ بیوی نے پوچھا وہ کیا؟ خاوند کہنے لگا جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھرہم کیا کریں گے؟ (اُس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہؤا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اُس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کردو۔ اورمیں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اُٹھوںگی اور چراغ کو بُجھا دونگی تاکہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دستر خوان بِچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو۔ بیوی اُٹھی اور اُس نے چراغ کو بُجھا دیا ۔ جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سُلگائو اور چراغ روشن کرو۔ بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں، اُس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اِس وقت ہمسائے کو کون جاکر تکلیف دے بہتر ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے۔ مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اورمہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا، خاوند اوربیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہؤا تھا اس لئے مہمان توکھاتا رہااور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ خیر کھانا ختم ہؤا اور مہمان چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئے کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دیدی۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو! کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہؤا؟ صحابہ ؓ نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپؐ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا، پھر آپؐ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں نہ ہنسے۔۶۸؎ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔ اسی طرح ایک واقعہ ہم نے بچپن میں اپنے کورس میں پڑھا تھا بعدمیں اس کا پڑھنا کسی بڑی کتاب میں یادنہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا جو بڑا ہی خبیث الفطرت تھا۔ رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سونے کے لئے بستردیا، تو اُس نے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس بستر میں پاخانہ پھر دیا اور علی الصبح اُٹھ کر چلا گیا مگر جاتے ہوئے وہ اپنی کوئی چیز بھول گیا۔ جب صبح ہوئی تو کسی خادمہ نے دیکھ لیا اور وہ غصہ میں آکر اُس یہودی کو گالیاں دینے لگ گئی۔ اتفاقاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اُس کی آواز کو سن لیا اور جب دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ یہودی بستر میںپاخانہ پِھر کر چلا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی لائو میں خود دھو دیتا ہوں چنانچہ وہ پانی لائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر کو صاف کرناشروع کر دیا۔ اسی دوران میں یہودی اپنی بُھولی ہوئی چیز لینے کے لئے آگیا۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بسترکو دھو رہے ہیں اور اُس خادمہ سے کہہ رہے ہیں کہ چُپ چُپ گالیاں مت دو۔ اگر یہ بات پھیل گئی تو وہ شخص شرمندہ ہوگا۔ اس بات کا اس یہودی کے دل پر اتنا اثر ہؤاکہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا۔ تو ضیافت میں مسلمانوں نے کمال کر دکھایا تھا اورمسلمانوں کے گھر مسجدیں بن گئے تھے جس طرح مسجد میں مہمان آگر ٹھہرتے ہیں اسی طرح ان کے دروازے ہر وقت مسلمانوں کیلئے کھلے رہتے ۔ اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت فرض ہے اور اگر کسی گائوں کے رہنے والے اس فرض کو ادا نہ کریں تو اُن سے تین دن تک زبردستی دعوت لینے کی اجازت ہے۶۹؎ بلکہ اس حکم کا مسلمانوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک صوفی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کماتے نہیں تھے ایک دفعہ کسی دوسرے بزرگ نے انہیں نصیحت کی کہ یہ عادت ٹھیک نہیں۔ ساری دنیا کماتی ہے آپ کو بھی رزق کے لئے کچھ نہ کچھ جدوجہد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ مہمان اگر اپنی روٹی خود پکائے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے۔ میں خدا کا مہمان ہوں اگر خود کمانے کی کوشش کروں تو اس سے خدا ناراض ہوگا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ خدا کے مہمان ہوں گے مگر آپ کو معلوم ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے وہ کہنے لگے یہ تو مجھے معلوم ہے مگر میرے خدا کا ایک دن ہزار سال کے برابرہوتاہے جس دن تین ہزار سال ختم ہوجائیں گے اُس دن میں بھی اس کی مہمانی چھوڑ دونگا۔
ذکرِالٰہی اور دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا ّجتھا
(۹) نویں بات یہ ہے کہ مساجد کا ایک فائدہ شہریوں
کے لئے ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وَالْعٰکِفِیْنَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسری جگہ قَائِمِیْنَ کا لفظ آتا ہے اور ان ہر دو کے مفہوم میں شہری ہی داخل ہیں اورشہریوں کو مسجد سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہر قسم کے شور و شغب سے محفوظ ہو کر ذکرِالٰہی کرتے اور عبادتِ الٰہی بجالاتے ہیں اور یہی کام سب انبیاء کی جماعتیں کرتی ہیں ایک ّجتھا ذکرِ الٰہی کے لئے بن جاتا ہے اور وہ عبادت کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے جو اکیلے اکیلے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں بھی یہی طریق رائج تھا بعض بعض کو پڑھاتے تھے اور بعض دوسروں کو لوگوں کے ظلموں سے بچاتے تھے جیسے حضرت ابوبکرؓ نے بہت سے غلام آزاد کئے اگر وہ لوگ متفرق ہوتے تو یہ فائدہ نہ ہو سکتا ۔
قومی ترقی کیلئے اجتماعی کاموں کی تلقین
(ب) مساجد کا شہریوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی عبادت کا کام دیتی
ہیں۔ یہ کام بھی انبیاء کی جماعت کا ہوتاہے اورمسلمانوں نے کِیا۔ مثلاً وہ چندے جمع کرکے غرباء کی خدمت کرتے، اکٹھے ہو کر جہاد کرتے، اسی طرح قوم کی ترقی کے لئے اقتصادی اور علمی کام سر انجام دیتے۔
امر باِلمعروف اور نہی عَنِ الْمُنکرکا فریضہ سر انجام دینے والا گروہ
(۱۰) دسواں کام مساجد کا یہ بتایا کہ
وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ یعنی مساجد میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں مسلمانوں نے یہ نمونہ بھی دکھایا چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۷۰؎
کہ تم میں ایک ایسی امت ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور انہیں بُری باتوں سے روکے، یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس حکم کے مطابق مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی تھی جن کا دن رات یہی کام تھا مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت انسؓ بن مالک وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کر دی تھیں اور ان لوگوں کا کام صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علمِ دین سیکھنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا تھا۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو گو کچھ دُنیوی کام بھی کرتے تھے مگر اکثر وقت اسی کام میں لگے رہتے تھے ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ رضوان اللہ علیہم شامل تھے۔ ان لوگوں نے ایسے کٹھن اور صبر آزما حالات میں یہ کام کیا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات پڑھ کر رونا آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی دین کیلئے فاقہ کشی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
کے آخری چھ سالوں میں داخلِ اسلام ہؤا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گزر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوںگا تاکہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میںفوراً سن لوں اور اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں۔ چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے۔ ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدتِ بھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میںاُن دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں۔ غرض میں تو بھوک کے مارے بیہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑاتڑ جوتے مارتے چلے جاتے۔ کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں مانگ میں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک ُلقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ آخر مَیں مسجد کے دروازہ پرکھڑاہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گزرے اورمیری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آجائے اور وہ کھانا بھجوا دے۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ چلے آرہے ہیں۔ میں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکرآتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے اُس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہاکہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں۔ خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آگئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اورکہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ انہوں نے بھی اُس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے۔ مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمرؓ مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اس لئے معنے پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنے کرکے آگے چل دیئے۔ جب حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہؤا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابوہریرہؓ کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، پھر آپ نے فرمایا، ادھر آئو ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو، اگر کوئی اور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اسے بھی اپنے ساتھ لے آئو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ آج شامت آئی۔ دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کیلئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم تھا میں ان کو اپنے ہمراہ لیکر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں دیدیا۔ میں نے کہا بس اب خیر نہیں، اس نے دودھ چھوڑنا نہیں اور میں بھوکا رہ جائوں گا۔ خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو۔ جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تومیں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائیگا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دیدیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں، اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اس کے پینے کے بعد بھی دودھ بچ رہا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دیدیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیدیا۔ اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابوہریرہ اب تم دودھ پیو۔
(میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و صلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تاکہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تاکہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے) غرض حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیو میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیو۔ میں نے اس پر پھر دودھ پینا شروع کر دیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہؤا کہ دودھ کی تراوت میرے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے، آخر میں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! اب تو بالکل نہیں پیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے پیالہ لے کر بقیہ دودھ خود پی لیا۔ ۷۱؎
غرض صحابہؓ کی قربانی کا یہ حال تھا کہ وہ بعض دفعہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے تاکہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں اور وہ اسے سننے اور لوگوں تک پہنچانے سے محروم رہ جائیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اُنہیں ہمیشہ فاقے آتے تھے کیونکہ مسلمان انہیں کھلاتے بھی رہتے تھے اور بعض صحابہ کے گھروں سے تو انہیں باری باری کھانا آتا تھا البتہ کبھی کبھی انہیں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ہر جمعرات یا جمعہ کو انہیں چقندر پکا کر بھیجتی تھی اس طرح کسی دن کوئی صحابی کھانا بھجوا دیتا اور کسی دن کوئی۔ جب وہ عورت فوت ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہ ہؤا۔ چند دن کے بعد آپؐ نے دریافت فرمایا کہ فلاں عورت گئی دنوں سے دیکھی نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلَاللّٰہ !وہ تو فوت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ وہ تو اصحاب الصفہ کو چقندر کھلایا کرتی تھی اگر تم مجھے بتاتے تو میں خود اس کا جنازہ پڑھاتا۔۷۲؎
غرض صحابہؓ نے وہ سب کام کرکے دکھائے جو مسجد سے مقصود ہوتے ہیں وہ عبادت کے محافظ تھے، وہ عابدوں کے جمع کرنے والے تھے، وہ شر سے بچانے والے تھے، وہ امن کو قائم کرنے والے تھے، وہ امامت کو زندہ رکھنے والے تھے وہ مسافروں کے لئے ملجائ، وہ متوطنوں کے لئے مأوٰی، وہ واقفینِ زندگی کے لئے جائے پناہ تھے۔ ان کے مقابل پر یہ شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر ِالٰہی کا نمونہ دکھایا وہ ان مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہؤا۔ مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں، لیکن قرآن، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اُس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمد ؐنامی تھا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جس مسجد کی بناء سرخ و سفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی۔ یہی وہ مسجد ہے جس کو دیکھ کر ہر عقلمند اور شریف انسان جس کے اندر جذباتِ شکر اور احسان مندی پائے جاتے ہوں بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(۵) مادی قلعے کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ
ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ میں نے اس سفر میں کئی قلعے دیکھے چنانچہ گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھا، اسی طرح دہلی کے کئی قلعے دیکھے اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ:-
(۱) ان قلعوں کے ذریعہ سے کیسے کیسے حفاظت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں۔
(۲)اور پھر ساتھ ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے ہیں اور ان کو بنانے والا اب کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، بلکہ اب تو بہت سے قلعوں میں جانور آزادانہ پھرتے ہیں اور گوبر سے ان کے صحن اٹے ہوئے ہیں۔ بہت سے قلعوں میں گوجروں نے گھر بنا رکھے ہیں کیونکہ انہیں شہر کے باہر مکان چاہئیںاور یہ قلعے ان کے کام خوب آتے ہیں۔ کئی قلعے جو کسی حد تک محفوظ ہیں اب ان حکومتوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے وہ قلعے بنائے تھے۔ ان بادشاہوں کی اولاد کو تو ان قلعوں میں جانے کی اجازت نہیں، لیکن ان کے دشمن ان میں اکڑتے پھرتے ہیں اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں ان کی گردنیں لقّا کبوتروں کی طرح اینٹھی ہوئی ہیں۔ دلّی کاقلعہ جس میں داخل ہوتے ہوئے ہندو راجے بھی سات سات دفعہ جُھک کر سلام کرتے تھے اب بقّالوں اور بنیوں کے قبضہ میں ہے اس سے پہلے سمندر پار کے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اور اس کے بنانے والے مغل بادشاہوں کے کئی شاہزادے اس کے سامنے مشکیزوں سے پانی پلا کر پیسے کماتے ہیں اور بے چھنے آٹے کی روٹی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ان میں اکڑ کر چلنے والے بادشاہوں کی روحیں آج اپنی اولادوں کی اس بیکسی کو دیکھ کر کس طرح بے تاب ہو رہی ہونگی۔
ان قلعوں کو بنانے والوں نے تو یہ قلعے اس لئے بنائے تھے کہ یہ ہماری حفاظت کریں گے مگر یہ قلعے بھی مٹ گئے اور ان کو بنانے والے بھی کوئی نہ رہے پس میں نے سوچا کہ ان قلعوں کو ان بادشاہوں نے کیوں بنایا تھا؟ اور پھر خود ہی میرے دل نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ ا س لئے کہ دشمن اُن کے ملک پر حملہ نہ کر سکے اور ان کی رعایا دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہے مگر میں نے دیکھا کہ باوجود ان قلعوں کے دشمن غالب آتا رہا اور ان قلعوں کی دیواروں کو توڑ کر اندر داخل ہوتا رہا۔ گولکنڈہ کا قلعہ بڑی اعلیٰ جگہ پر ہے آخر اورنگ زیب نے اسے فتح کر ہی لیا۔ اسی طرح دہلی اور آگرہ کے قلعے مغلوں نے بنائے اور انگریزوں نے ان کو توڑ دیا اور اب وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں۔ پس میںنے سوچا کہ کیا کوئی ایسا قلعہ بھی ہے جسے عالَمِ روحانی میں قلعہ کا مقام دیا گیا ہو اور جو اِن شاندار قلعوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار ہونے کا مدعی ہو۔
قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں؟
مگر میں نے اس تلاش سے پہلے یہ غور کرنا ضروری سمجھا کہ قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں اور میں اس نتیجہ
پر پہنچاکہ تین باتوں کے لئے۔
اوّل ۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ ملک کے لئے وہ نقطۂ مرکزی ہو جائیں اور فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اور اطمینان سے ملکی ضرورتوں کے متعلق غور کر سکے۔
دوم۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اور جس کو روکنا چاہیں اس قلعہ کی فصیلیں روک دیں اور اندر امن رہے۔
سوم۔ قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھیں چنانچہ قلعوں پر توپیں لگا دی جاتی ہیں یا پُرانے زمانہ میں منجنیقیں لگا دی جاتی تھیں اور ان سے صرف قلعہ ہی کی نہیں بلکہ اردگرد کے علاقہ کی بھی حفاظت ہوتی تھی مگر یہ سب تدبیریں یا تو ناقص ثابت ہوتیں یا پھر ایک وقت تک کام دیتی تھیں۔ اس کے بعد یہ قلعے صرف اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کرکے زائرین کے لئے لاچار آنسو بہانے کا موجب ہوتے تھے۔ ان قلعوں کو دیکھ کر کہ آیا ان عبرت پیدا کرنے والے قلعوں کے مقابلہ میں کوئی خدائی قلعہ بھی ہے جو ان اغراض کو بھی پورا کرتا ہو جن کے لئے یہ قلعے بنائے جاتے تھے اور پھر امتدادِ زمانہ سے پیدا ہونے والی بلائوں سے بھی محفوظ ہو؟ غور کرنے پر مجھے معلوم ہؤا کہ ایک روحانی قلعہ کا ذکر قرآن میں ہے جسے خداتعالیٰ نے انہی اغراض کے لئے بنایا جن کے لئے قلعے بنائے جاتے تھے اور اسے ایسا مضبوط بنایا کہ کوئی غنیم اسے فتح نہیں کر سکتا اور جو سب دوسرے قلعوں پر غالب آجاتا ہے اور قیامت تک اسی طرح کھڑا رہے گا جس طرح کہ وہ ابتداء میں تھا اور کبھی بھی کسی دشمن کے ہاتھ میں اس طرح نہیں آئے گا کہ اپنے بنانے والے کی غرض کو پورانہ کر سکے۔
بیت اللہ کی اہم اغراض
قرآن کریم میں اس قلعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْناً وَ اتَّخِذُوْا
مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ oوَاِذْقَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o۷۳؎
اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو مَثَابَہ بنایا۔ مَثَابَہ کے معنے ہیںمجتمع الناس۷۴؎ یعنی لوگوں کے لئے جمع ہونے کا مقام۔ اسی طرح مَثَابَہ کے ایک معنی لغت میں کنویں کی منڈیر کے بھی آتے ہیں۔۷۵؎ گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا نے بیت اللہ کو لوگوںکے جمع ہونے کا مقام بنایا۔ اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ناپسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اسی طرح بیت اللہ کو خدا نے منڈیر بنایا تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دُور رہیں۔ پھر قلعہ کی تیسری غرض اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھنا ہوتی ہے یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اَمْنًا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اسے قیامِ امن کے لئے بنایا گیا ہے گویا بیت اللہ نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے غیر پسندیدہ عناصر کے دُور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے۔
پھر میں نے اورغور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک یہ آیت نظر آئی کہ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ۷۶؎
کہ ہم نے کعبہ کو جو خداتعالیٰ کا بنایا ہؤا محفوظ گھر ہے قِیَامًا لِّلنَّاسِ بنایا ہے۔ قیام کے معنی نظام یا ستون کے ہوتے ہیں۷۷؎ اور ان تمام چیزوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی اصل حالت پر رہے اور قیام کے معنے خبرگیر اورنگران اور انتظام کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۷۸؎ پس قِیَامًا لِّلنَّاسِ کے معنے ہوئے کہ کعبہ انسانوںکے نظام کو درست رکھنے کے لئے اور ان کی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کی حالت کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لئے اور ان کی خبرگیری اورنگرانی کے لئے بنایا گیا ہے۔ جب میں نے یہ آیت پڑھی تومیں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو قلعہ کے مشابہ ہے کیونکہ اس کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ:-
(۱) لوگ اس میں جمع ہوں اور تمدنِ انسانی ترقی کرے ۔
(۲) وہ بنی نوع انسان کو بیرونی ناجائز دخل اندازی سے محفوظ رکھے۔
(۳) دنیا کے امن کا ذریعہ ہو اور اس کی توپوں سے اردگرد کے علاقوں کی بھی حفاظت کی جائے۔
(۴) اس کے ذریعہ سے انسانی تمدن کی چھت کو گرنے سے بچایا جائے۔
(۵) اس کے ذریعہ سے انسانی صحیح نظام کو درست رکھا جائے۔
(۶) اس کے ذریعہ سے انسان کی خبرگیری کی جائے اور مصیبتوں سے اسے بچایا جائے۔
اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات
پیشتراس کے کہ میں یہ دیکھتا کہ آیا یہ کام اس قلعہ کے پورے ہوئے ہیں یا نہیں
میں نے کہا آئو مَیں مقابلہ کروں کہ لوگ قلعے کِن جگہوں پر بناتے ہیں اورکِن امور کو اُن کے بنانے میں مدنظر رکھتے ہیں تاکہ میں فیصلہ کر سکوں کہ آیا یہ قلعہ ان امور کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے قلعہ کی اغراض کو پورا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب میں نے سوچا اور دنیا کے مشہور قلعوں کی تاریخ پر غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اچھے قلعوں کی تعمیر میں مندرجۂ ذیل امور کا خیال رکھا جاتا ہے۔
(۱) قلعے ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کا بافراغت انتظام ہو تاکہ اگر کبھی محاصرہ ہو جائے تو لوگ پیاسے نہ مر جائیں۔
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ جہاں نہر، دریا یا سمندر ہو وہیں قلعے بنائے جاتے ہیں چنانچہ فتح پور سیکری کا قلعہ موسٰی ندی کے پاس ہے۔ اسی طرح دلّی کا قلعہ جمنا کے کنارے واقعہ ہے پس قلعے بِالعموم یا تو سمندر کے کنارے بنائے جاتے ہیں یا دریائوں اور نہروں کے پاس بنائے جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو نہانے دھونے کی ضرورت باآسانی پوری ہوسکتی ہے۔ دوسرے جانوروں کے لئے بھی بافراغت پانی میسّر آسکتاہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں محاصرہ مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشتیوں کے ذریعہ انسان باہر نکل سکتا ہے اسی طرح رسد وغیرہ قلعہ والوں کو دریا کے رستے پہنچ سکتی ہے۔ پھر اس ذریعہ سے آگ بُجھائی جاسکتی ہے۔ خندقیں پُر کی جاسکتی ہیں اور ذرائع رُسل و رسائل کھلے رہ سکتے ہیں۔
(۳) تیسری بات میں نے یہ دیکھی کہ لوگ قلعہ بناتے وقت اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ علاقہ ایسا ہو کہ اُس میں خوراک کے ذخائر کافی ہوں اور کافی مقدار میں غلّہ پیدا ہو سکے تامحصور ہونے کی صورت میں فوج خوراک کے ذخائر جمع کر سکے۔
(۴) چوتھے قلعہ بِالعموم ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جس کے اردگرد یا جس کے پاس جنگل ہوں جہاں سے ایندھن کافی جمع ہو سکے اور دشمن پر حملہ کرنے میں سہولت ہو چنانچہ گوریلہ وار یا جنگِ چپاول جنگلوں میں بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے اسی لئے عام طور پر قلعے جنگلوں کے قریب بنائے جاتے ہیں تاکہ تھوڑی فوج بھی بڑے غنیموں کو دِق کر سکے۔
(۵) پانچویں اگر پہاڑی علاقہ ہو تو قلعہ ہمیشہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے تاکہ سب طرف نگاہ پڑ سکے اور دشمن تو حملہ نہ کر سکے مگر خود آسانی سے حملہ کیا جاسکے۔
(۶) چھٹے قلعہ کی تعمیر نہایت اعلیٰ درجہ کے چونہ اور پتھروں سے کی جاتی ہے تاکہ اگر دشمن اس پر گولے برسائے یا کسی اور طرح حملہ کرے تو اس کی دیواروں کو ضُعف نہ پہنچے۔
(۷) ساتویں قلعہ کی تعمیر اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ شہر کی حفاظت کر سکے اور اس کی فصیلیں شہر کے گِرد پھیلتی جائیں۔
(۸) آٹھویں اس کی طرف آنے والے راستے ایسے رکھے جاتے ہیں جن کو ضرورت پر آسانی سے بند کیا جاسکتا ہو مثلاً تنگ وادیوں میں سے راستے گزریں تاکہ چند آدمی ہی دشمن کو قلعہ سے دُور رکھ سکیں۔
(۹) نویں قلعوں میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے گِرداگِرد کو خوب مضبوط کیا جائے او ر جنگی چوکیوں کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی جائے۔
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو بہادر اورجنگجو بنایا جاتا ہے تاکہ وہ دشمن سے خوب لڑ سکیں۔
(۱۱) گیارھویں اس میں حملہ کرنے ، توپوں سے بم پھینکنے یا منجنیقوں سے پتھرائو کرنے کے لئے باہر کی طرف سوراخ ہوتے ہیں اور ا س میں باہر کی طرف توپیں یا منجنیقیںرکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ وہ گیارہ خصوصیتیں ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں بڑے بڑے انجینئرمدنظر رکھا کرتے ہیں۔
یہ روحانی قلعہ ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں پانی کم یاب تھا
اب میں نے کہا آئو!یہ قلعہ جو قرآن نے پیش کیا
ہے اس پر غور کرکے دیکھیں کہ یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور میں نے ایک ایک کرکے ان امور کی اس روحانی اصول پر تیار شُدہ قلعہ کے متعلق پڑتال کی اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ :-
(۱) اس قلعہ کے لئے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا صرف ایک چشمہ اس کے قریب تھا اور وہ بھی کھاری اور پھر اس کا پانی بھی اتنا کم تھا کہ لوگوں کی ضروریات کے لئے کسی صورت میں کافی نہیں تھا۔ ملکہ زبیدہ نے بعد میں وہاں ایک نہر بنوا دی تھی جسے نہرِ زبیدہ کہتے ہیں مگر وہ نہر ایسی ہی ہے جیسے کوئی نالا ہوتا ہے۔ غرباء عام طور پر زمزم کا پانی استعمال کرتے ہیں اور باقی لوگ بارش ہوتی ہے تو تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ غرض وہاں پانی کی اتنی کمی ہے کہ دنیا کا کوئی سمجھ دار انجینئر وہاں قلعہ نہیں بنا سکتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ دریا اور سمندر سے دُور بنایا گیا
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ آیا وہ کسی نہر یا دریایا سمندر کے
کنارے واقع ہے تومجھے معلوم ہؤا کہ نہ وہاں کوئی دریا ہے نہ سمندر، گویا اس بارہ میں بھی خانہ خالی تھا اور نہر یا دریا کا نام و نشان منزلوں تک نہ تھا۔ وہ جسے لوگ نہر زبیدہ کہتے ہیں وہ صرف نالی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ رہی بندرگاہ سو وہ سَو ڈیڑھ سَو میل دور تھی اور اب نئی بندرگاہ جدّہ بھی پچاس میل کے قریب دُور ہے گویا سمندر بھی دُور ہے اور اندر بھی کوئی نہر نہیں کہ لوگ کثرت سے فوجی ضروریات کے لئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ رکھ سکیں بندرگاہ بے شک موجود تھی مگر اول تو وہ اتنی دور تھی کہ اس سے کوئی فائدہ اُٹھایا نہیں جاسکتا تھا۔ دوسرے اگر ممکن بھی ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا سمندر کے نام سے دَم نکلتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ ایک بنجر علاقہ میں بنایا گیا
(۳) تیسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ علاقہ زرخیز ہو تاکہ خور و نوش کا سامان
پیدا کیا جاسکے اور بوقتِ ضرورت جمع کیا جاسکے۔ مگر میں نے دیکھا کہ اِس قلعہ کو جو بنانے والا ہے وہ خود کہتا ہے کہ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ ۷۹؎ یہ وادی غَیْرِذِیْ زَرْعٍ ہے اور اس میں ایک دانہ تک پیدا نہیں ہوتا نہ گیہوں، نہ باجرا، نہ گندم، نہ چنا۔ بلکہ ایک شخص نے وہاں باغ لگانا چاہا تو اس کے لئے وہ دوسرے ملکوں سے مٹی منگواتا رہا اور آخر بڑی مشکل سے اس نے چند درخت لگائے اور وہی چند درخت اب باغ کہلاتے ہیں۔ میں نے خود اس قلعہ کو جاکر دیکھا ہے قریب سے قریب سبزی طائف میںہے اور طائف وہاں سے تین منزل کے فاصلہ پر ہے۔ باقی چاروں طرف بے آب و گیاہ جنگل کے سِوا کچھ نہیں، نہ غلّہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے جمع کرنے کے کوئی سامان ہیں۔
اس قلعہ کے اِردگِرد کوئی جنگل نہیںتھا
(۴) چوتھے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ گِرد وپیش جنگل ہو تاکہ ایندھن مل سکے اور دشمن
پر حملہ میں آسانی ہو مگر میں نے اس قلعہ کو دیکھا کہ ِمیلوں ِمیل تک اس کے پاس جنگل چھوڑ درخت تک بھی کوئی نہیں۔
یہ روحانی قلعہ اونچے مقام کی بجائے نشیب مقام میںبنایا گیا
(۵) پانچویں اگر پہاڑی پاس ہو تو
قلعہ اونچی جگہ پر بنایا جاتاہے مگر یہ قلعہ ایسا ہے کہ اس کے پاس ’’حِرائ‘‘ اور ’’ثَور‘‘ دو پہاڑیاں ہیں، لیکن یہ قلعہ نشیب میں بنایا گیا ہے اور اس طرح دشمن پہاڑوں پر قبضہ کرکے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس قلعہ کی تعمیرمیں معمولی گارا اور پتھر استعمال کئے گئے
(۶) چھٹے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر
عمدہ مصالحہ سے ہو مگر اس قلعہ کی تعمیر نہایت معمولی مصالحہ اور گارے وغیرہ سے ہے۔
اس قلعہ کے اِردگرد کوئی فصیل نہیں
(۷) ساتویں یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر اس طرح ہو کہ شہر کی حفاظت ہو سکے اور
فصیلیں دُور تک پھیلی ہوئی ہوں مگر یہ عجیب قلعہ ہے کہ شہر اِردگِرد ہے اور قلعہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اور فصیل کا نام و نشان نہیں جس کی وجہ سے شہر کی حفاظت میں وہ کوئی مدد نہیں دے سکتا۔
اس قلعہ کے چاروں طرف کُھلے راستے پائے جاتے ہیں
(۸) آٹھویں بات یہ مدنظر رکھی جاتی ہے کہ
اس کی طرف آنیوالے راستے ایسے ہوں کہ حسبِ ضرورت بند کئے جاسکیں مثلاً تنگ وادیوں میں سے گزریں مگر اس قلعہ کے راستے نہایت کھلے اور بے روک ہیں۔ قرآن کریم خود فرماتاہے عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۸۰؎
کہ اس قلعہ کی طرف لوگ دوڑے چلے آتے ہیں اور انہیں آنے میں کسی قسم کی روک نہیں۔ کھلے راستے اور وہ بھی ناہموار اس کے چاروں طرف موجود ہیں۔
اس قلعہ کے گِرد کوئی جنگی چوکیاں نہیں
(۹) نویں بات یہ ہے کہ قلعہ کے گِرد ا گِرد کو جنگی چوکیوں سے محفوظ کیا جاتا ہے
تاکہ قلعہ سے دور دشمن کے حملہ کو روکا جا سکے مگر یہ قلعہ عجیب ہے کہ اس کے گِرد کئی کئی میل کے دائرہ میں اسلحہ لیکر پھرنے سے روکدیا گیا ہے اور حُکم دیدیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کے اِردگِرد چار چار پانچ پانچ میل تک کوئی ہتھیار لیکر نہ چلے۔
اس قلعہ میں رہنے والوں کو شکار تک کی ممانعت
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو جنگجو بنایا جاتا ہے مگر اس
کے اندر رہنے والوں کو حُکم ہے کہ کوئی شکار نہ ماریں سوائے سانپ، بچھو، چیل اور چوہے کے جن کا مارنا ضرورتاً ہوتا ہے نہ کہ جنگجوئی پیدا کرنے کے لئے۔
دشمن کے حملہ کو روکنے کیلئے توپوں اورمنجنیقوںکی
بجائے نمازوں اور دعائوں سے کام لینے کا ارشاد
(۱۱) گیارھویں بات میں نے یہ بتائی تھی کہ قلعہ کے اندر حملہ کو روکنے کے لئے باہرکی طرف منہ کرکے منجنیقیں
یا توپیں رکھی ہوتی ہیں مگر اس قلعہ میں مَثَابَہ اور امن کا ذریعہ یہ بتایا ہے کہ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی یعنی جب دشمن حملہ کرے تو مَثَابَہ اور امن کے قیام کے لئے دشمن کی طرف پیٹھ کرکے اورکعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو۔ غرض قلعوں کو مضبوط بنانے یا دیر تک محاصروں کی برداشت کرسکنے کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف یہ کہ اس میں پائے نہیں جاتے بلکہ اکثر امور میں ان کے برعکس حالات پائے جاتے ہیں جو قلعوں کو اُجاڑنے کا موجب ہوتے ہیں مثلاً بے پانی، بے غذا، نہروں سے دُور، جنگلوں سے پَرے، فصیلوں اور چوکیوں کے بغیر کوئی قلعہ قلعہ نہیں کہلا سکتا مگر یہ قلعہ ایسا تھا کہ اس میں مجھے ان سامانوں میں سے کوئی سامان بھی دکھائی نہ دیا۔ حتّٰی کہ اس قلعہ کے اِردگِرد اسلحہ لے کر پھرنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
یہ قلعہ کب بنایا گیا؟
اب میں نے سوچا کہ یہ قلعہ ہے کب کا؟ تومجھے معلوم ہؤا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے کیونکہ خود حضرت کو
الہام ہؤا کہ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۸۱؎ اس پُرانے گھر کا لوگ آکر طواف کیا کریں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے اسی طرح آتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیَاتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۸۲؎
سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ اور ان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام جہانوں کے لوگوں کے لئے اس میں ہدایت کے سامان اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ بڑے بڑے اور روزِروشن کی طرح واضح نشان وابستہ کر دیئے گئے ہیں وہ آخری دَور میں ابراہیم کا مقام بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جو اِس میں داخل ہو اُسے امن دیا جائے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہؓ اور اسماعیلؓ کو مکہ کے مقام پر چھوڑ کر واپس لَوٹے تو حضرت ہاجرہ کو شک گزرا کہ ہمیں چھوڑ چلے ہیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس بارہ میں ان سے سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے اور رقّت کے غلبہ کی وجہ سے اُن کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا یَااِبْرَاھِیْمُ! اَیْنَ تَذْھَبُ وَ تَتْرُکُنَا فِیْ ھٰذَا الْوَادِی الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ اَنِیْسٌ وَلَاشَیٌ۔ اے ابراہیم! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہم کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ رہے ہیں جس میں نہ آدمی ہے اور نہ کھانے کی کوئی چیز۔ فَقَاَلَتْ لَہٗ ذٰلِکَ مِرَارًا وَّ جَعَلَ لَا یَلْتَفِتُ اِلَیْھَا حضرت ہاجرہ نے یہ بات بار بار دُہرائی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صدمہ کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیتے تھے۔ جب حضرت ہاجرہ نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بولتے ہی نہیں تو انہوں نے کہا اَاَللّٰہُ اَمَرَکَ بِھٰذَا؟ اچھا اتنا تو بتا دو کہ کیا خدا نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے؟ قَالَ نَعَمْ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب حضرت ہاجرہؓ نے سُنا تو باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہاں پانی نہیں، یہاں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں اور یہاں کوئی آدمی نہیں جو ضرورت کے وقت مدد دے سکے، انہوں نے نہایت دلیری سے کہا اِذًا لَّایُضَیِّّعُنَا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ بے شک جائیے ثُمَّ رَجَعَتْ اس کے بعد حضرت ہاجرہ واپس لَوٹ آئیں فَانْطَلَقَ اِبْرَاہِیْمُ اور حضرت ابراہیم واپس چلے گئے حَتّٰی اِذَا کَانَ عِنْدَ الثَّنِیَّۃِ حَیْثُ لَا یَرَوْنَہٗ اِسْتَقْبَلَ بِوَجْہِ الْبَیْتِ یہاں تک کہ جب موڑ پر پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور بچہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو ان کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا اور ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا کی: رَبَّنَا اِنّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ۸۳؎ اے میرے رب! میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں کوئی کھیتی نہیں جس میں کوئی چشمہ نہیں، محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں۔ پس تو ہی ان کی حفاظت فرما اور ان کو شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ اس سے معلوم ہؤا کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔
سرولیم میور کی شہادت
تاریخ بھی اس کے نہایت قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے چنانچہ سرولیم میور لائف آف محمدؐ میں لکھتے ہیں کہ مکہ کے مذہب
کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیروڈوٹس۸۴؎ نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلالات کا ذکر کرتا ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ مکہ کا یہ بڑا بُت اس قدیم زمانہ میں بھی پوجا جاتا تھا۸۵؎ یہ ہیروڈوٹس ایک یونانی مؤرخ تھا جو ۴۸۴ قبل مسیح سے ۴۲۵ قبل مسیح تک ہؤا، گویا حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ سے مدتوں پہلے لاتؔ کی شُہرت وغیرہ دُور تک پھیلی ہوئی تھی پھر لکھا ہے کہ ڈایوڈورس سکولس مؤرخ جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحرۂ احمر کے کنارے پر ہے اس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں۸۶؎ پھر لکھتا ہے قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتاکہ یہ بنا کب ہے یعنی ایسے قدیم زمانہ کا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا۔
پھرلکھتاہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا اور کچھ عرصہ تک ان کے پاس رہا اورتورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہوئے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے ہیں اور وہ اس کے بانی نہ تھے یہ گھر ان سے بھی پہلے کا ہے انہوں نے اس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا خروج باب ۱۲ آیت۸،۱۶ اور گنتی باب۲۴ آیت۲۰ سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تباہ کیا تھا۔ پس ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے کیونکہ عمالقہ نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں اڑھائی سَو سال سے چار سَو سال کا فاصلہ ہے۔ اگر عمالقہ کی سَو ڈیڑھ سَو سال کی حکومت بھی فرض کر لی جائے تو بھی اُن کا اسے دوبارہ تعمیر کرنا کئی سَو سال پہلے کے عرصہ پر دلالت کرتا ہے اور اس وقت بھی اس کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرمت ثابت ہوتی ہے۔
اب میں نے سوچا کہ اس قدر قدیم قلعہ جس کی سارا مُلکِ عرب عزت کرتا تھا اگر اس طرح تمام معلومہ اصول کے خلاف تیار ہؤا تھا تو اسے یقینا تباہ ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ تباہ نہیں ہؤا تو پھر یقینا وہ ایسی عجیب قسم کا قلعہ ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ بغیر ظاہری سامانوں کے وہ قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔
قدیم اقوام کے متواتر حملوں میںاس روحانی قلعہ کی سلامتی
تب میں نے غور کیا کہ کیا انعلاقوں
کی طرف جہاں یہ قلعہ تھا قدیم زبردست اقوام نے حملے کئے تھے؟ اور میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے نینوا والوں نے ایشیائے کوچک سے نکل کر اِدھر حملہ کیا اور شام اور فلسطین کو پامال کرتے ہوئے مصر کی طرف نکل گئے۔ وہ نینوا سے چلتے ہیں اور جنوب مغرب کی طرف آتے ہیں مگر جس وقت اس قلعہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں توآگے بڑھنے کی جرأت نہیں کرتے اُس وقت میںنے سمجھا کہ اس قلعہ کے لئے ضرور کوئی ایسے مخفی سامانِ حفاظت تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ادھررُخ نہ کر سکے اور وہ مرعوب ہو گئے۔
بابلیوں کی چڑھائی
تب میں نے سوچا کہ کیا اس کے بعد بھی کوئی دشمن اُٹھا ہے یا نہیں اور میں نے دیکھا کہ ان کے بعد بابلیوں نے انہی علاقوں پر چڑھائی کی۔
وہ عراق کی طرف سے بڑھے اور انہوں نے شام فتح ،کیا مصر فتح کیا، مگر وہ بھی اسی راہ پر نکل گئے اور اس قلعہ کی طرف انہوں نے رُخ نہ کیا۔
کیانیوں کی فتوحات
پھر میں نے دیکھا کہ کیانیوں نے ایران سے نکل کر عراق فتح کیا ، ایشیائے کوچک فتح کیا، شام فتح کیا، فلسطین، مصر، یونان، رومانیہ
اور اوکرین کو مغرب کی طرف فتح کیا اور بلخ، بخارا، سمرقند، افغانستان، بلوچستان اور پنجاب کو مشرق میں فتح کیا، لیکن اس قلعہ کو درمیان سے وہ بھی چھوڑ گئے۔
سکندر رومی کی یلغار
پھرمَیں نے سکندر رومی کو بڑھتے ہوئے دیکھا وہ بجلی کی طرح کوندا اور یورپ سے نکل کر ایشیائے کوچک وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرتے
ہوئے ہندوستان تک بڑھ آیا، لیکن اس قلعہ کو وہ بھی درمیان میں چھوڑ گیا۔
رومی حکومت کا مشرق پر اقتدار
پھر میں نے رومی حکومت کو مشرق کی طرف آتے ہوئے دیکھا اُس نے مصر فتح کیا، طرابلس فتح کیا،
ایبے سینیا جو مکہ کے مقابل پر ہے اسے فتح کیا، شام اور فلسطین کو فتح کیا، شمالی عرب سے بعض علاقوں کو فتح کیا اور آخر عراق تک فتح کرتے ہوئے نکل گئے، لیکن درمیان میں اس قلعہ کی طرف انہوں نے بھی رُخ نہ کیا۔
ابرہہ کا بیت اللہ پر حملہ
جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا یہ قلعہ واقعہ میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہے کہ مشرق سے آندھی اُٹھتی ہے تو وہ اسے
چھوڑ جاتی ہے اورمغرب سے طوفان اٹھتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی ایک سوال حل طلب ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس قلعہ کے جائے وقوع کے لحاظ سے فاتحین کو خیال بھی نہ آیا ہو کہ وہ اسے فتح کریں کیونکہ وہ اس میں کوئی فائدہ نہ دیکھتے تھے۔ اس خیال کے آنے پر میں نے تاریخ پر نگاہ ڈالی اورمیںنے دیکھا کہ چھٹی صدی مسیحی میں ایبے سینیا کی حکومت بہت طاقتور ہو گئی تھی اور اُس نے عرب کے بعض علاقوں کو فتح کر لیا تھا اُس کی طرف سے ابرہہ نامی ایک شخص یمن میں گورنر مقرر ہؤا اور اس نے عرب میں مسیحیت کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کی اوریمن کے دارالحکومت صنعاء میں اس نے ایک بہت بڑا گِرجا بنایا اور خوف اور لالچ سے لوگوں کو اس گِرجا کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا، مگر جب کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد اُس نے اپنے ارادہ میں ناکامی دیکھی اور اسے محسوس ہؤا کہ عرب اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو اس نے اپنے درباریوں کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا کہ کیوں میری کوششیں کامیاب نہیںہوتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ میں ایک گھر ہے، عرب کے لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ جب تک وہ گھر موجود ہے صنعاء کا گِرجا آباد نہیں ہوگا۔ پس اگر صنعاء کو آباد کرنا چاہتے ہو تو اُسے جاکر گرا دو۔ چنانچہ ابرہہ نے ۵۶۹ء میں ایک بہت بڑی فوج اور ہاتھی ساتھ لے کر مکہ کا رُخ کیا عرب قبائل نے مقابلہ کیا مگر ایک کے بعد دوسرا شکست کھاتا چلا گیا اور وہ مکہ سے تین دن کے فاصلہ پر مشرق کی طرف طائف تک جا پہنچا اور طائف کے لوگوں سے کہا کہ مکہ تک پہنچنے میں میری مدد کرو۔ طائف والے جو مکہ پر اس لئے حسد کرتے تھے کہ ان کے بُت کی خانہ کعبہ کے آگے کچھ نہ چلتی تھی انہوں نے انعامات کے لالچ اور مکہ والوں کے بُغض کی وجہ سے ایک راہنما دیا مگر وہ رستہ میں ہی مر گیا۔ آخر ابرہہ کا لشکر مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر جا ٹھہرا اور ابرہہ نے ایک وفد بھجوایا اور مکہ والوں کو کہلا بھیجا کہ ہم عیسائی ہیں اور فطرتاً رحمدل ہیں اس لئے میں تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا اور نہ تم سے مجھے کوئی گِلہ ہے۔ میں صرف کعبہ کے پتھرگِرا کر واپس چلا جائوں گا یا خود ہی کعبہ کو گِرا دو تو میں آگے نہیں بڑھوں گا اور واپس چلا جائونگا۔ مکہ اور حجاز کے لوگوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تمہاری حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنی آمد کا ایک ثُلث ہر سال دیتے رہیں مگر خدا کے لئے کعبہ کو نہ گرائو۔ لیکن وہ نہ مانا۔ آخر سفیروں نے اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابرہہ کے پاس وفد لے کر جائیں اور اُسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔ چنانچہ عبدالمطلب اور بعض دوسرے عمائدینِ مکہ ابرہہ کے پاس گئے۔ ابرہہ، عبدالمطلب کی وجاہت سے بہت متاثر ہؤا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ مجھ سے آپ جو بھی خواہش کریں میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں۔ اس سے پہلے ابرہہ کے سپاہیوں نے چھاپہ مار کر عبدالمطلب کے دو سَو اونٹ پکڑ لئے تھے۔ جب ابرہہ نے کچھ مانگنے کو کہا تو انہوں نے اپنے دو سَو اونٹ جو اس کے سپاہیوں نے پکڑ لئے تھے طلب کئے اور کہا کہ وہ مجھے واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر ابرہہ نے کہا کہ میں تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ کے اس جواب نے میرے دل پر سے ان اثرات کو بالکل دھو دیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے کس خیال سے ایسا معمولی مطالبہ کیا۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے اور آپ مجھ سے بجائے یہ خواہش کرنے کے کہ میں کعبہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دوں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے دو سَو اونٹ آپ کو واپس دِلوادوں۔ اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو اونٹوں کی تو فکر ہے مگر کعبہ کی کوئی فکر نہیں۔ عبدالمطلب کہنے لگے، بات یہ ہے کہ وہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے، لیکن کعبہ خدا کا گھرہے اس لئے اس کی فکر خدا کو ہوگی مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کر واپس آگئے۔ ابرہہ نے نوٹس دیدیا کہ فلاں دن حملہ ہوگا۔ انہوں نے واپس آکر مکہ والوں کو اطلاع دیدی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ فضول ہے۔ اس قدیم قلعہ کو خالی کرکے پہاڑوں پر چڑھ جائو پاس ہی جبلِ حراء اور جبلِ ثور ہے، انہوں نے مکہ کو خالی کر دیا اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے۔
حضرت عبدالمطلب کی عاجزانہ دُعا
جب وہ اس قدیم قلعہ کو چھوڑ رہے تھے تو اُس وقت عبدالمطلب نے اُس حُکم کو یاد کیا کہ جو
فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبرٰھِیْمَ مُصَلًّی میں دیا گیا ہے کہ جب کبھی مصیبت کا وقت آئے تم اِس توپ خانہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کے دروازہ پر آئے اور اُس کی زنجیر کو پکڑ کر کہا اے خدا! ہم میں طاقت نہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں یہ تیرا گھر ہے تو اپنے اس گھر کی آپ حفاظت کر اور صلیب کو کعبہ پر فتح نہ پانے دے۔ یہ کہا اور سب لوگوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر پہاڑوں کو چل دیئے۔
انسانی آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے سپاہیوں کی گولہ باری
اب یہ قلعہ خالی تھا اور اس کی
بظاہر کمزور دیواریں ابرہہ کو چیلنج کر رہی تھیں کہ دیکھو میں اب انسانوں سے خالی ہوں آ اور مقابلہ کر۔ پھر کہا کہ سُن تو تو یہاں آکر حملہ کرے گا میں یہیں سے تُجھ پر گولہ باری کرتاہوں۔ چنانچہ کعبہ کی دیواروں سے نہ نظر آنے والے سپاہیوں نے گولہ باری شروع کر دی ابرہہ کے ہاتھی چِھد گئے، اس کے اونٹ چِھد گئے، اُس کے گھوڑے چِھد گئے اس کے سپاہی ان گولیوں کی بے پناہ بوچھاڑ سے زخمی ہو کر گرنے لگ گئے، لشکر کا نظام ٹوٹ گیا اور اُس میں بھاگڑ پڑ گئی اور سر پر پائوں رکھ کر لشکر واپس لوٹا۔ ابرہہ بھی یمن پہنچنے سے پہلے پہلے ان گولیوں سے مارا گیا اور سب لشکر تباہ و برباد ہو گیا اورمسیحی حکومت یمن میں ایسی کمزور ہو گئی کہ اس علاقہ پر ایرانی حکومت نے قبضہ کر لیا۔ یہ کعبہ سے چلنے والی گولیاں جب وہاں تک پہنچتی تھیں تو چیچک کی صورت میں اُس کے لشکر کو چِمٹ جاتیں جس سے دانوں کو ُکھجلا ُکھجلا کر سپاہی مر جاتے اور پرندے اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اُن کو پتھروں پر مار مار کر کھاتے۔ اور جس طرح وہ کعبہ کے پتھر توڑنے آیا تھا اسی طرح کعبہ کے گرد کے پتھروں نے ان کی بوٹیوں کو توڑا۔ یہ سپاہی جو گولیاں چلا رہے تھے خداتعالیٰ کے فرشتے تھے اور وہ جو ان گولیوں کے نشانہ بنے وہ ابرہہ اور اُس کے ساتھی تھے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے وہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ- اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ- وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ oلا تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ oلا فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ ۸۷؎
فرماتا ہے دیکھو ایک شخص تھا جو مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں کعبہ کے پتھروں کو توڑ دونگا۔ ہم نے اس کی سزا کے لئے پرندوں کو بھیجا اور وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے کے لئے آئے تھے انہی کی بوٹیاں اُن پتھروں پر مار مار کر توڑیں یہ بتانے کے لئے کہ کیا تم نے کعبہ کے پتھروں کو توڑ لیا؟ عربی زبان میں ب کے معنے علٰی کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی قلبِ نسبت بھی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں ’’پرنالہ چلتا ہے‘‘ تو تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ کے معنے یہی ہیں کہ وہ ان کی بوٹیاں پتھروں پر مار مار کر کھاتے تھے اور یہی چِیلوں وغیرہ کا طریق ہے۔ وہ بوٹی کو پتھر پر مارتی اورپھرکھاتی ہیں۔ تو وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے چلا تھا اس کی بوٹیاں جانوروں نے پتھرپر مار مار کر کھائیں۔
مسیحی اس روحانی قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے
جب میں نے یہ نظارہ دیکھا تو میں نے کہا کون کہہ سکتا ہے کہ اس قلعہ
پر حملہ نہیں ہؤا۔ حملہ ہؤا اور اس میں یہ قلعہ مضبوطی سے قائم رہا۔ اس کے بعد اور زمانہ گزرا۔ ایک دفعہ مسیحیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ باوجود اس غصہ کے کہ مسلمانوں نے اُن کے معابد پر قبضہ کیا ہے اس قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔
ہلاکو خاں بھی اس قلعہ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا
اور ایک دفعہ ہلاکو خاں نے بغداد اور اسلامی ممالک کو تباہ کیا مگر اس قلعہ کو
وہ بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔ پھر جنگِ عظیم کا وقت آیا اور تُرک جن کے قبضہ میں یہ قلعہ تھا وہ فاتح اقوام کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ میں نے کہا اب اس قلعہ کے لئے خطرہ ہے مگر تب بھی یہ محفوظ رہا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص سامان پیداکر دیئے پھر یہ نئی جنگ شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اب کے پھر دونوں فریق اس کی حفاظت کا اعلان کر رہے تھے۔
غرض ہزاروں سال کی تاریخ میں اس عجیب و غریب قلعہ کو دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اور ہمیشہ مجھے یہ محفوظ و مصئون ہی نظر آیا۔ یہ نہیں کہ اس کے کبھی مغلوب ہونے کی خبر ہو۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت یہ مغلوب ہوگا اورکعبہ گِرایا جائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بات قیامت کی علامت ہوگی۔۸۸؎ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عارضی طورپر دشمن اس پر قبضہ کرے گا مگر اس پر قیامت آجائے گی اور وہ فتنہ اورخونریزی ہوگی کہ اَلْاَمَان اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ حقیقی قیامت کے وقت جب اس کی ضرورت نہ رہے گی، اس قلعہ کامالک اسے گِرنے دے گا۔
اس عظیم الشان قلعہ کی حفاظت کیلئے ایک اورچھوٹے قلعہ کی تعمیر
اب اس زمانہ میں کہ اس قلعہ
کے گرد یاجوج وماجوج چکر لگا رہے ہیں جیسا کہ قلعوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ جب قلعہ پر حملہ ہو تو لشکر باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بنا کر مدافعت کرتا ہے تاکہ دشمن وہیں حملہ کرتا رہے اور قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے ایک اور قلعہ بنا دیا ہے اور اس کے سپرد اس بڑے قلعہ کی حفاظت کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ قلعہ بھی دین کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے اس لئے اسے بھی ارضِ حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے چنانچہ اس قلعہ کی تعمیر میں جس نے حصہ لیا وہ خود کہتا ہے :-
خدا کا ہم پہ بس لطف و کرم ہے
وہ نعمت کونسی باقی جو کم ہے
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے
ظہورِ عون و نصرت دمبدم ہے
حسد سے دشمنوں کی ُپشت خم ہے
سنو! اب وقت توحیدِ اتم ہے
سِتم اب مائلِ ملکِ عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
۸۹؎
ساکنینِ ارضِ حرم کے فرائض
یہ قلعہ خدا نے خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے قائم کیا ہے ، یہ قلعہ اس لئے قائم ہؤا ہے تاکہ دشمن کے حملوں
کو وہ اپنے اوپر لے اور اُسے خانہ کعبہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھنے نہ دے اور چونکہ یہ قلعہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کر رہا ہے اس لئے لازماً یہ بھی ارضِ حرم کا جزو ہے اور جو لوگ اس قلعہ کے سپاہیوں میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں وہ یقینا ارضِ حرم کے ساکن ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی گولیاں اپنے سینوں پرکھائیں اور اسے کعبہ کی طرف بڑھنے نہ دیں۔ پس اے قادیان کے رہنے والو! اور اے دوسرے احمدی مراکز کے رہنے والو! آج خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے تم ان لوگوں میں سے ہو جو بڑے قلعوں کی حفاظت کے لئے باہر کی طرف بٹھا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ دشمن کی مدافعت کریں اور گولیوں کو اپنے اوپر لیں۔ پس تم بہادری کے ساتھ اپنے سینوں کو آگے کرو اور دشمن کے ہر حملہ کا پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کرو۔
طاعون کے طوفانی حملہ میں اس قلعہ کی حفاظت
میں تمہیں اس قلعہ کی حفاظت کا بھی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں کچھ عرصہ ہؤا
دنیا پر ایک غنیم نے حملہ کیا وہ قلعہ پر قلعہ توڑتا چلا آیا۔ آبادیوں پر آبادیاں اُس نے ہلاک کر دیں اور گائوں کے بعد گائوں اُس نے ویران کر دیئے۔ اُس وقت اِس قلعہ کی تعمیر کرنے والا ابھی زندہ تھا اُس نے دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ اِس حملہ سے میرا قلعہ محفوظ رہے گا۔ گولہ باری سے تھوڑا صدمہ پہنچے تو پہنچے مگر اِس قلعہ کو اس حملہ آور کا حملہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا یہ حملہ آور بڑھا اور قادیان پر حملہ آور ہؤا کئی سال تک اس نے متواتر حملہ پر حملہ کیا مگر ناکام رہا یہ قلعہ محفوظ رہا اور دشمن سے دشمن نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کا اقرار کیا۔ یہ حملہ آور مرضِ طاعون تھا جس کے حملوں سے حفاظت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے سے خبر دیدی۔
احمدی نوجوانوں سے خطاب
اب مَیں احمدی نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اس قلعۂ عظیمہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد ہؤا ہے انہیں یہ امر اچھی
طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محض ایک جماعت کے فرد نہیں بلکہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے اس کے اِردگِرد جو قلعے بنائے گئے ہیں اس کے وہ سپاہی ہیں۔ پس اے عزیزو! جس طرح قلعہ پر جب دشمن حملہ آور ہو تو فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حملوں کی مدافعت کرے اور اس کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائے اسی طرح اے احمدی نوجوانو! تم آگے بڑھو اور دجّالی سنگینوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہوئے کعبہ کے دشمنوں پر حملہ آور ہو۔ یاد رکھو! خدائے قہار تمہارا کمانڈر ہے اور شیطانی فوجیں حملہ آور ہیں۔ پس اس قدیم صداقت کے دشمن کو ُکچلتے اور اپنے پائوں تلے مَسلتے ہوئے آگے بڑھو اور اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دو تاکہ پھر کعبہ کے قلعہ کی طرف کوئی بُری نگاہ سے نہ دیکھ سکے اور یہ گڑھی جو اِس قلعہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اپنے وجود کی ضرورت کو دنیا سے منوا لے اور لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ فیِ الواقع یہ زمین ارضِ حرم کا ہی حصہ ہے کیونکہ وہ جس نے حرم کی حفاظت کی وہ حرم ہی کا حصہ ہے وہ جس کی رگوں میں ماں کا خون دَوڑ رہا ہوتا ہے وہی ماں کی حفاظت کرتا ہے اور جو ماں پر حملہ ہوتے ہوئے خاموش رہتا ہے وہ ہرگز حلال کا بچہ نہیں ہوتا اور نہ اُس کا لڑکا کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پس دنیا کے اعتراضوں کی پروا مت کرو۔ تمہارے سپرد خداتعالیٰ نے خانۂ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کیا ہے، پس تم دلیری دکھائو اور جرأت سے کام لو۔ خدا تمہارے آگے چل رہا ہے اور اُس کی فوجیں تمہارے دائیں اور بائیں ہیں جس دن تم ہمت کرکے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو گے اُس دن خدا تمہارے لئے وہی نشان دکھائی گا جو اُس نے ابرہہ کے لشکر کے لئے دکھایا۔
خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزہ
لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیا ہوتا ہے مگر یہ کیا معمولی معجزہ ہے۔ تاریخی شہادت موجود ہے
کہ ایسے حالات میں جبکہ اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا ایک لشکرکعبہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بڑھا مگر پیشتر اسکے کہ وہ کعبہ تک پہنچتا خدا نے اُس کو تباہ و بربادکر دیا۔ غرض جب دُنیوی طور پر کعبہ پر حملہ ہؤا تو اس نے چیچک بھیج دی اور جب دینی طور پر اس پر حملہ ہونے لگا تو اس کے مقابلہ کیلئے اُس نے مسیح موعود ؑکو بھیج دیا۔
پس احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض خانۂ کعبہ کی حفاظت ہے یعنی جن اغراض کے لئے خانۂ کعبہ کو قائم کیا گیا ہے وہی اغراض ہماری جماعت کے قیام کی ہیں۔ پس ہماری جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے تاکہ تمام دنیا میں امن قائم کیاجائے۔ خدائے واحد کی عبادت کو رائج کیا جائے، شرک اور بدعت کو مٹایا دیا جائے۔ مسافر اور مقیم دونوں کی ترقی کی تدابیر سوچی جائیں اور نظام کو ایسا مکمل کیا جائے کہ لوگوں کا ایک حصہ رات دن بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے کاموں میںمصروف رہے جب تک ہم اس کام کو نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری کو پوری طرح اداکرنے والے قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ پس صرف چندے دینا کافی نہیں، صرف جلسہ سالانہ پر مرکز میں آجانا کافی نہیں، صرف نمازیں ہی پڑھنا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اِس دجّالی فتنہ کو روکے جو خانہ کعبہ کے خلاف برپا ہے۔ اس کے لئے ایسے نوجوانوںکی ضرورت ہے جو ساری دنیا پر چھاجائیں اور اس لئے واقفینِ زندگی کی تحریک شروع کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔
شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو
یاد رکھو! خدا نے قادیان کو بھی ایک چھوٹا قلعہ بنایا
ہے اور قلعہ اسی لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس میں سے آسانی سے حملہ کیا جا سکے جو جرنیل یہ سمجھتاہے کہ اس کے لئے صرف مدافعت کرنا کافی ہے وہ کبھی فتح نہیں پاسکتا۔ یاد رکھو! تم مدافعت سے نہیں بلکہ حملہ سے جیتو گے۔ اگر تم قادیان میں بیٹھے رہے تو دشمن شکست نہیں کھائے گا بلکہ دشمن اُس وقت شکست کھائے گا جب تم جاپان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، چین میں جاکر دشمن سے لڑو گے، افریقہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے، انگلستان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، امریکہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے اور شیطان کو اُس کی غاروں سے کان سے پکڑ کر نکال دو گے۔ اگر تم ایساکرو گے تو تم یقینا کامیاب ہو گے اور یقینا تمہارا دشمن ناکامی کی موت مرے گا۔
خلاصہ یہ کہ میں نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ایک ایساقلعہ دیکھا جو تمام قلعوں کے اصول کے خلاف تعمیر ہؤا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی اس قلعہ کو کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کی مضبوطی بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ وہ ساری دنیا کا مرجع ہو گیا اور میں نے کہا انسان، بے وقوف انسان قطب شاہیوں کے گولکنڈہ کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر تعجب کرتا ہے اور فتح پورسیکری کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر حیران ہوتا ہے اور دہلی کے تغلقوں کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر واہ واہ کہتاہے حالانکہ یہ قلعے سَو دو سَو سال بھی نہ گزار سکے اور اب ان کی مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں اور لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان قلعوں کو فتح کیا مگر وہ اس حیرت انگیز قلعہ کے دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیںکرتا اور اس کی تعمیر کی داد نہیں دیتا جو انجینئرنگ کے تمام معلومہ اصول کے خلاف پایا گیا۔ فنِ حرب کے تمام اصول کے خلاف اس کے لئے مقام چنا گیا۔ قیادت کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، پھر بھی وہ کھڑا رہا، کھڑا ہے کھڑا رہے گا۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
۱؎ اٰل عمران : ۹۷
۲؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب اتخاذ المساجد فِی الدُّوَرَ
۳؎ البقرۃ : ۱۲۶
۴؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵؎ مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰۃِ بمسجدی مَکَّۃَ و المدیْنَۃ
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۹۱ مطبوعہ ۱۳۱۳ھ مطبع میمنۃ مصر
۷؎ الحجرٰت : ۸
۸؎ اٰل عمران : ۱۱۱
۹؎ المائدۃ : ۵۵
۱۰؎ محمد : ۵
۱۱؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۲ صفحہ ۲۲۵۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ
۱۲؎ تاریخ الامم و الملوک لابی جعفرمحمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحہ ۴۶
دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۱۳؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب ذکر اُسامۃ بن زید
۱۴؎ بخاری کتاب الاشربۃ باب اَلْاَیْمَنُ فِی الشُّرْبِ۔
۱۵؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۶؎
۱۷؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب وجوب الزکٰوۃ۔
۱۸؎ الحشر : ۸ ۱۹؎ ھود : ۷
۲۰؎ مسلم کتاب البر والصلۃ و الادب باب فضل عیادۃ المریض
۲۱؎ الحج : ۴۱ ۲۲؎ النور : ۳۷ ، ۳۸
۲۳؎ مسلم کتاب الصلٰوۃ باب استحباب الذکر بعد الصلٰوۃ
۲۴؎ الجمعۃ : ۳
۲۵ ؎ التوبۃ : ۱۰۰
۲۶؎ الاحزاب : ۲۴
۲۷؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ۸۴ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۸؎ الاعراف : ۱۸۲
۲۹؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۳۰؎ ،۳۱؎، ۳۲؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۳ صفحہ ۳۸۵،۳۸۶مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳۳؎ پُشْتارہ :ڈھیر، انبار
۳۴؎ الحشر : ۱۰
۳۵؎ تاریخ طبری اُردو حصہ دوم صفحہ ۳۱،۳۲ مطبوعہ کراچی۔
۳۶؎ العنکبوت : ۴۶ ۳۷؎ المائدۃ : ۹۲
۳۸؎ بخاری کتاب التفسیر ۔ تفسیر سورۃ المائدۃ باب لیس علی الذین اٰمَنُوا
و عملوا الصٰلحٰت (۔۔۔۔)
۳۹؎ البقرۃ : ۲۲۹ ۴۰؎ الرعد : ۲۴،۲۵
۴۱؎ بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہٖ۔
۴۲؎ الحجرات: ۱۳
۴۳؎ تاریخ اہل عرب مصنفہ سائمن اوکلے
۴۴؎ الحجرات : ۱۳
۴۵؎ البقرۃ : ۱۸۹
۴۶؎ النساء : ۳۰
۴۷؎ المطفّفین : ۲ تا ۴
۴۸؎ بنی اسرآء یل : ۳۸
۴۹؎ النساء : ۱۴۹
۵۰؎ الحجرات : ۱۰
۵۱؎ معاہدہ وارسا: مغربی ممالک کے حملوں کی روک تھام کے لئے ۱۴ مئی ۱۹۵۵ء کو ایک معاہدہ ہؤا۔ مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی، ھنگری، رومانیہ، پولینڈ اور روس کے درمیان اس معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ رکن ممالک کے درمیان بیس سال کے عرصہ کے لئے باہمی مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں طے پایا تھا۔ اس کا صدر دفتر ماسکو میں ہے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۸۱ ، ۱۷۸۲ مطبوعہ لاہور۱۹۸۸ئ)
۵۲؎ النھایۃ لابن الاثیر جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ مطبع الخیریہ مصر ۱۳۰۶ھ
۵۳؎ المائدۃ : ۱۰۶
۵۴؎ النساء : ۳۷
۵۵؎ البقرۃ : ۱۴۴
۵۶؎ اٰل عمران : ۱۳۵
۵۷؎ بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب
۵۸؎ النساء : ۵۵
۵۹؎ النساء : ۳۳
۶۰؎ الحشر : ۱۱
۶۱؎ بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لفنسہٖ
۶۲؎ الاعراف : ۲۰۰
۶۳؎ النور : ۲۳
۶۴؎ النحل: ۹۱
۶۵؎ الاعلٰی : ۱۷،۱۸
۶۶؎ الاعلٰی : ۱۹، ۲۰
۶۷؎ البقرۃ : ۱۲۵، ۱۲۶
۶۸؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّٰہ عَزَّوَ جَلَّ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ ۔۔۔
۶۹؎ بخاری کتابُ الْاَدَب بابُ اِکْرام الضیف وخدمتہٖ
۷۰؎ اٰل عمران : ۱۰۵
۷۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
۷۲؎
۷۳؎ البقرۃ : ۱۲۶،۱۲۷
۷۴؎ ،۷۵؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۶؎ المائدۃ : ۹۸
۷۷؎ ، ۷۸؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۰۵۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۹؎ ابراھیم : ۳۸ ۸۰؎ الحج : ۲۸ ۸۱؎ الحج : ۳۰
۸۲؎ اٰل عمران : ۹۷ ، ۹۸
۸۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّوْن
۸۴؎ ھیروڈوٹس (HERODOTUS) یونانی مو ء رخ اور نثرنگار۔ اس نے عالَمِ شباب میں یونان، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سفر کئے اور اس دوران مختلف اقوام کی عادات اور مذاہب کا مطالعہ کیا۔ چار سال میں ایتھنز میں رہنے کے بعد ۴۴۳ ق م میں جنوبی اٹلی میں تھوری(THURII)کے مقام پر رہائش اختیار کی اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی تاریخ یونانی اور اہلِ فارس کی جِدّوجُہد کی وضاحت کے لئے کافی مواد پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس نے تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ وہ تاریخ عالَم کا پہلا مو ء رخ ہے جس نے تنقیدی احساس کے ساتھ تاریخ کو قلمبند کیا ہے۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
‏۸۵؎ ، ۸۶؎ LIFE OF MAHOMET- BY SIR WILLIAM MUIR - ا
LONDON 1877 PAGE XIV
۸۷؎ الفیل : ۲ تا آخر
۸۸؎ بخاری کتاب الحج باب ھَدْم الْکَعْبَۃ
۸۹؎ درثمین اُردو صفحہ ۵۶، ۵۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۳)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
(۶) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے
چھٹی بات جومَیں نے مذکورہ بالا سفر میںدیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جوبادشاہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے، امیروں کے بھی تھے ا ور فقیروں کے بھی تھے، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتی کے کتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلو فن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیںہوتا تھا۔یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیںاور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسندیدہ نظر آتا ہے، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کامقبرہ شاہدرہ لاہور میں سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیںتو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میںفن کو مدّنظر نہیں رکھا۔
جسمانی مقابر میںتاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فُقدان
چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ
اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیں ان بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کانشان ان مقبروں میںکچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میںکوئی باہمی توازن دکھائی دیتا ہے۔مثلاً بعض ادنی درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنی مقبروں میںتھے۔ اسی طرح جو دُنیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنی سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظرآیا کہ ان دُنیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشاہوں کے اور سردار تھے وزیروں کے ان کے مقبرے نہایت ادنی ہیں پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنی ہیں بلکہ جس صورت میںبھی ہیں وہ اس شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزّت حاصل کی۔ چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پرفرش ہے اور بعض کے اِرد گِرد سنگِ مرمر کے کٹھیرے ہیںاور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنی لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنی۔اور پھر روحانی لوگوں کے جومقبرے ہیں اوّل تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنی ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے۔ گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنی تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حُکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میںکوئی بھی جوڑا ور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پس مَیں نے اپنے دل میںکہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں۔ ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میںکوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کومضبوط کیا، جس نے ہندوستان کوفتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہؤا اُس کامقبرہ تو بہت ادنی ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُ س کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے ۔پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اورنگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ پھر ان کے مقابلہ میںخواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہؒ ، خواجہ میر درد ؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ او رمرزا مظہر جان جاناں ؒ کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہؤا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا۔
کتوںکے مقبرے
پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیامیں نظر آتے ہیں کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ واعلیٰ میںکوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ
دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے۔ پھر جب مَیں نے بعض جگہ کُتّوں کے مقبرے بھی دیکھے تو مَیںاور زیادہ حیران ہؤا کیونکہ کُتّوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبر وں سے بھی بہت اعلیٰ تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہو تا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے، اس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیںہوتی اور بجائے اس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میںمبتلاء کرتے ہیں۔
مقبروں کی عمارات سے صرف چار امور کا عِلم
پس مَیں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں: -
اوّل: اِس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا صر ف یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں۔
دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا بُرا، عالِم تھا یا جاہل، البتہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے یا ا س کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا۔
سوم: مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیرمقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رُجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پس ماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کامقبرہ بناناجائز تھا یا نہیں۔
چہارم: ان مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے لُوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے ۔چنانچہ کئی مقبرے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سنگِ مرمر بعد میں لوگ لوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں۔ پس چوتھی بات ان مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزّل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں۔ غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس مَیں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کاپتہ چلے اور اس کانشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا۔ ان سے تو شاہجہان اکبر اور اورنگ زیب سے بڑا ، شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عمادالدولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ
مَیں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثارِ قدیمہ سے تاریخ مرتب
کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوںلکھیںگے کہ ہندوستان کاسب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اُتر کر اکبر بادشاہ تھا۔ اکبر بادشاہ سے اُتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا) پھر ہمایوں بادشاہ ہؤا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے اس کے بعد بعض کُتّے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے ان کے علاوہ ہندوستان کے اندربعض ادنی درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے۔جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب۔ پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی بِاللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، مرزا مظہر جان جاناںصاحب اور خواجہ میر درد صاحب۔ اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اوّل درجہ کی جھوٹی اور مُفتریات سے پُرکتاب ہو گی۔ وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عقلمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میںقائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ فریدالدین صاحب شکر گنج ؒ، حضرت شاہ محمد غوث صاحبؒ، حضرت سید علی ہجویری صاحب ؒ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیائؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ، حضرت مرزا جان جاناں صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب ؒاور حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒکے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے ا کبر، ہمایوں، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، مُغلوں اورسُوریوں کے ہوتے اور کتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میںہونے کے مَیلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں۔ ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر مَیں نے سُنا ہے کہ لکھنؤ میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں۔کسی نواب کابٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہناشروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اس بٹیرے کاکیاکہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکرِ الٰہی میںمشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا، آخر اُس کا مقبرہ بنا دیا جاتا ۔
اُن لوگوں کا تصور جن کی قبریں اُکھیڑ دی گئیں
یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں!
پھر مَیںنے سوچا یہ تو مقبرہ والوںسے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں ان کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر
ان کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہوناچاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ پھر جب مَیں نے دِلّی میںپُرانی آبادیوں کو کُھدتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو مَیں نے خیا ل کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں۔ ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھو د کر وہاں سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پس مَیں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیںکھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا۔ پھر مَیں نے خیال کیاکہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سَو سال تو انہیں قبروں میں سونے کاموقع مل گیا، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دئیے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چِیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیںیا کُتّوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس! انہیں تو قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ پھر مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے۔ مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کرمر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں۔ چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ پھر مجھے ان لوگوںکا خیال آیا جو کھڈّوں میں گِر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں۔
دنیا میں عجیب اندھیر
پھر میری توجہ ان لوگوںکی طرف پھری جن کو جنگلوں میںشیر اور بھیڑئیے کھا جاتے ہیں اور مَیں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ:-
اوّل: مقبرے بے انصافی سے بنے۔
دوم: قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
سوم: بعض کو خود ان کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیایا پرندوں کو ِکھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میںپہنچا دیا۔ پس مَیں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کانشان قائم رکھاجائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دار امیر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے او رباقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے۔ پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جوقبروں میںمدفون ہوئے تھے اُن کے مقبر ے اور ان کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریںمحفوظ رہیں۔ پس مَیں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے او ر مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اسے واقعہ میں نہایت اچھا خیال سُو جھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کرتسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کاموجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو۔
ایک اور مقبرہ
مَیں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیںپائی جاتی ہیں جو مقبرہ میںہونی چاہئیں، چنانچہ
اس میں لکھاتھا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ۱؎
فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَہٗ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشوونما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قوتیں پیدا کر دیں، اسے دماغ دیا، دماغ کے اندر سیلز بنائے ا ور ہر سیل کے اندر بات کومحفوظ رکھنے کی طاقت پیدا کی۔ اسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے۔ کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے، کچھ جرأت اور دلیری کے لئے مخصوص کئے، پھر ہاتھوں اورپیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں۔معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے۔ ہڈیوں کو طاقت دی، قوی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قو ی کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اس کے مناسبِ حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معیّن حلقہ میں کام کرتی ہے جس معیّن حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایاجیسے پتھروغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے ۔ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قوتیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے۔آخر جب خدا نے ہر انسان میںسوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اُٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قُرب حاصل ہو سکے۔ پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دیدی ہے تو اس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا۔ چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں۔ پھرکام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیںاور کچھ بُرے ہوتے ہیں ۔ پھر آپس کے مقابلوں میںسے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیںاور انسا ن اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری ۔
اسلام کی مطابقِ فطرت تعلیم
پس چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ
اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابقِ فطرت تعلیم دی ہے۔ ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طر ف پھیر دے۔ اب یہ تعلیم بظاہربڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیںکر سکتا۔
مصر کاایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا۔ایک پُرانی طرز کا مسلمان وہا ں سے جب بھی گزرتا دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا۔ مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اس کی علمی حالت ایسی نہیںتھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میںجوش پیداکردیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ دے مارا۔ پادری نے سمجھا کہ اگر مَیں نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اَور زیادہ دلیرہو جائے گا چنانچہ اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا۔ مصری کہنے لگا میںنے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھادو۔تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے۔ مَیں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابلِ عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو۔ پادری اس وقت جوش کی حالت میں تھا اس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اِس وقت تو میںتمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا۔ انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے۔ تو ہماری شریعت میںکوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اس کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اس کے اند رنیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اس سے انتقام بھی لے سکتے ہو۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ ا نسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے، لیکن دوسری شریعتوں کایہ حال نہیں۔ انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پرتھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ و ہ عیسائی ہیں، فرانسیسی اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میںسے کوئی بھی اس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پھر ہماری غرض چونکہ اس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اس پر عمل کریںاور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہریں اس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اسے قبر میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میںمادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے۔ اس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے، گڑھا کھودنے، میّت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میںڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہؤا ہے۔
اس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہؤا کہ اس میںسب انسانوں سے یکساںسلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی، اکبر کے بچہ کی کھلائی کابھی، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے چوہڑے کا بھی کیونکہ انہوںنے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کامقبرہ موجود ہے ۔نیز مَیں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جَلا دیتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جن کوشیرکھا جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جو سمندر میںڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے،جومکانوں میںجل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، جن کی قبروں کو لوگوں نے اُکھیڑ دیا ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اس مقبرہ کو تو چُھو بھی نہیں سکے۔ غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا گیا ہو، چِیلوں اور کُتّوں نے اسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میںچلا گیاہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے ُلقمہ بنا لیا ہو، کھڈّوں میں گر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے کھا گئے ہوں، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالِم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا۔ مَیں نے جب اس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادثِ زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں۔
ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں
بلکہ عالَمِ برزخ کی قبر میںملتا ہے
جیساکہ مَیں نے بتایا ہے اس آیت میں قبر کا لفظ جوآتا ہے اس سے مراد وہ مقام ہے جس میں مرنے کے بعدا رواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی رُوح ہو یا کافر کی۔ سب کی روحیں اس مقام
پر رکھی جاتی ہیں ا ور درحقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے۔ وہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں ۔کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میںاُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی ُکھلی ہے یا نہیں؟ مگر جب انہوں نے قبرکو کھولا تو انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دئیے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میںثواب وعذاب ہو تو وہ پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو کھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جَلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں ان کو تو قبر کاعذاب یا ثواب ملے ہی نہ۔ کیونکہ ان کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے۔ مگر یہ بات غلط ہے اور حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے بیس بیس مُردوں کو دفن کرد یا جاتا ہے اور ہر شہر میںیہ نظارہ نظر آتا ہے ۔ایک قبر بنائی جاتی ہے۔ مگر پندرہ بیس سال کے بعد اس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اس جگہ اور قبر بن جاتی ہے۔لاہور کا قبرستان پانچ سَو سال سے چلا آ رہا ہے، اس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس بیس آدمی دفن ہو چکے ہونگے۔ ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہو گا اور کوئی ادنیٰ قسم کا دوزخی ہو گا۔ کوئی اعلیٰ جنتی ہو گا اور کوئی ادنیٰ جنتی ہو گا۔ اگر دوزخ اور جنت کی کھڑکی اسی قبر میں کُھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اس میںدفن ہو جائے۔ایسی صورت میںلازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب وعذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیا رکر لیں گے ۔ پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب یاعذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبرہی ہے۔ وہ قبر وہ ہے جس میں خداتعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کامزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌوَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۲؎
فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِِ ۔ اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کردیگا۔ اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے۔ہند و جو اپنے مُردے کو جلادیتے ہیں، پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو کھلا دیتے ہیں او رعیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مرُدوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سِواا ور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میںنہیں پائی جاتی۔ اس صورت میں مسلمان او ریہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چُھوٹ جائیں گے۔پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اس کی بنائی ہوئی ہیں سب مرُدوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میںدفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیںاور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں۔ پس اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ ا س سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے۔ اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں خواہ انہیں پرندے کھا جائیں خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبر اصل میںوہ مقام ہے جس میںاللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے۔
ایک اعتراض اور اُس کا جواب
ا س مقام پرکوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تواسے
درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوْذُبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِکے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ استعمال کر دئیے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقفی پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میںڈوبنے والا بھی کسی قبر میںجاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کوجلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ، مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے ۔پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے۔پھر اس کو بھی جانے دو کیا مکہ میںکبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا مکہ کے اردگرد جو کچھ فاصلہ پرجنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑئیے مشہور نہیں تھے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے؟ یا نہیں اورآپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میںدفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑئیے کھاجائیں؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جو سمندر میں ڈوب مریں ؟پھر اس کو بھی جانے دو عرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چِیلوں اور کُتّوں کو کھلا دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپؐ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میںسے بعض مسلمان بھی ہوئے آپؐ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قومیں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں۔ پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے، آپ نے ان کی اچھی باتیںاپنی کتاب میںدرج کر لیں حتیٰ کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپؐ نے فلاںفلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیںکہ آپ کو یہ علم تک نہیں تھا کہ بعض لو گ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے جو بقول معترضین کے ژند آوستا، توراۃ، انجیل اور ویدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اس امر سے ناواقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو کھلا دیتے ہیں۔
الٰہی مغفرت کا ایک ایمان افر وز واقعہ
پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا
ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کاذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلا حَضَرَہُ الْمٰوْتُ فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الْحَیٰوۃِ اَوْصٰی اَھْلَہٗ اِذَا اَنَامِتُّ فَاجْمَعُوْالِیْ حَطَبًا کَثِیْرًا وَاَوْقِدُوْا فِیْہِ نَارًا حَتّٰی اِذَا اُکِلَتْ لَحْمِیْ وَخَلصَتْ اِلٰی عِظَامِیْ فَامتحشت فَخذوھا فاطحنوھا ثُمِّ انْظُرُوْا َیوْمًا رَاحًا فاذروہ فی الْیَمِّ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ فَقَالَ لَہٗ لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَالَ مِنْ خَشْیَتِکَ فَغَفَرَاللّٰہُ لَہٗ۳؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جائوں تو لکڑیاں جمع کر کے اُ ن کو آگ لگانا ا ور پھر اس آگ میں مجھے ڈال دینایہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں گل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں ان کو خوب پیسنا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری ان پِسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہادینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیااور اس سے پوچھا کہ تُونے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ خدایا! میںسخت گنہگار تھا اور میںڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تُو مجھے ضرور سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا جب تُو مجھ سے اس قدر ڈرتا تھا تو جا مَیںنے تجھے معاف کر دیا۔
اب دیکھو اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میںجلایاگیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیااور اسے زندہ کر کے اس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔پس درحقیقت وہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ میں ہی شامل تھا اور گو وہ جَلا کر ہَوا میں اُڑادیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میںاسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے۔
غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیںہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں۔ پس باوجود لوگوں کے ڈوبنے، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مرادو ہی مقام ہے جس میں سب ارواح رکھی جاتی ہیں نہ کہ مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں۔
غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں وہ اُس کی ہڈیاں پِیس دیں وہ اُسے چِیلوں اور کتوں کے آگے ڈال دیں اور اس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اسے چِیلوں اور گِدھوں کو کھلا دیتے ہیں،مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی ارواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے۔
ہر شخص کا روحانی مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایک کا
مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کامقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو۔ دنیامیں بڑے بڑے فریبی اور دغاباز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دغا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پرہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں۔
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہااور کسی کو یہ احساس تک نہ ہؤا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے۔ اسی طرح برٹنؔ ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا۔اب فرض کرو وہ شخص اسی جگہ مر جاتا تو لوگ اس کا مقبرہ بنادیتے اور اُ س پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہوگئے حالانکہ وہ منافق تھا۔اسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے ہیںجو دو سرے مذہب میںشامل ہو جاتے ہیں مگر درحقیقت وہ شامل نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے۔ اوپر سے تو ظاہر کر ے مگر دل میں اس کے کچھ اور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کرردّ کیا ہے کہ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۴؎۔ وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کانام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جاتا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپؐ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حذیفہؓ ایک صحابی تھے انہیں اس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریںکہ ہم میں منافق کون کون ہیں چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دئیے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حدیفہؓ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہؓ نہیںجاتے تھے اس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہو گا تبھی حذیفہؓ اس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے۔
صحابہؓ میںبھی بعض منافق لوگ تھے
اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خداتعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنا
مشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں۔ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دُنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گامگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کاسردار تھا اسے تو خداتعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اس امر سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اس پر شاہد ہے ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میںان کانام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورَد ہوں۔آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایاکہ کون کون منافق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں۔ بڑے لوگوں میںسے نہیں بلکہ ادنیٰ درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیںآتے ممکن ہے کہ ان میںسے بعض منافق ہوں۔ اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ مقربانِ بارگاہِ صمدی ، مگر واقعہ یہ ہو کہ وہ راندئہ درگاہ ہوںنہ کہ خدا کے مقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے۔ اس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوںمخلصوں الْسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو منافق کہنے پر اعتراض ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی جماعت کو مخلص اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۵؎ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ الْسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ابتدائی زمانہ اسلام میں ثُلَّۃٌ تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور نامراد قرارد یتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوتِ قدسیہ کوکامیاب وبامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں۔ وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
کاموں کی اہمیت کاصحیح اندازہ لگانے میں مشکلات
دوسری مشکل ہمیںیہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت
کے کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیامیں نہیں لگایا جا سکتا۔بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پید اہوتے ہیں۔بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگران کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میںکئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق وعادات پرنہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس مَیں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہرشخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی۔
روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر
چھوٹیبڑے عملکومحفوظ رکھا جاتا ہے
جب مَیں نے اس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے دکھائی دیاکہ قرآن کریم نے اس مشکل کاحل کیا ہؤا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میںہر شخص کا
چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّافِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّااَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَاعَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۶؎
یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ اْلِکتٰبُ اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اورجب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آ گئے ہیں تو تُومجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیںگے اوہو! جواعمال ہم نے چُھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت! تو کیسی میٹھی چیز ہے تو کیسی اچھی چیز ہے تو آ تاکہ ہم مرجائیں اور اِس ذلّت اور رُسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں۔ پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے، خواہ دوستوں میں کیاجائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوںنے کیا ہو گا، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہو گی۔ ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہو گی اوردوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پائوں سے جوکیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی، اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے ہاتھوںاور پائوں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حُجّت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنامہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی۔ـ
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوںیا بڑے اس مقبرہ میںمحفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو۔
ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیاجائے گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا
ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیںمگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کامقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیںاس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اس کا یہ جواب ملتا ہے وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعـْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۷؎
کسی شخص کو بھی اس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیگا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔
بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پرہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے اور اس طرح وہ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا ا نہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَّا ہر گز نہیں ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے۔ لَمَّا کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہؤا۔ اس آیت میں لَمَّا کا فعل حذف ہے جو یُوَفَّوْا اَعْمَالَھُمْ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کواگر توبہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوںگے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا۔
اسی طرح سورۃ نَبَا میں فرماتا ہے کہ جَزَائً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَائً حِسَابًا ۸؎ قیامت کے دن جو بدلہ ملے گاوہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہو گا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سَودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہو گا اور جو شخص جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اوّل کو دوم اور دوم کو اوّل کر دیا جائے گا۔
عَطَائًحِسَاباً اور یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا
بِغَیْرِ حِسَابٍمیں کوئی اختلاف نہیں
اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میںاس بارہ میںدو قسم کی آیات آتی ہیں ایک قسم کی تو وہ آیات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیںمگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میںیہ
مضمون بیان ہؤا ہے کہ مؤمنوں کو بغیرحساب رزق دیا جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِحِسَابٍ ۹؎
وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیںگے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔ اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَائً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَائً مَّوْفُوْرًا۱۰؎
کافروں کو مَوْفُوْر یعنی کثرت والاعذاب ملے گا۔ اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیںحساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میںیہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا۔ اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گابلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مدِّنظر رکھ کر سزا دے گا مگر اس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہو گا، مگر درحقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مَوْفُوْر کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہؤا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَاؤُکُمْ جَزَائً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کرلیتا ہے مگرا س کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔دوسرے مَوْفُوْر کے معنے پور ے کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔
یہ تو مَوْفُوْر کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کوزائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے۔لیکن جب خداتعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میںبغیر حساب زیادہ ملے گا۔ اور ان کے محدود اعمال کو مدّنظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہو گا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اوّل سے نہ بڑھ جائے اور جب ہرایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر ۲ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر۔ اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبرکے مقابل پر۔ یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اوّل والا دوم نہیں ہو گا اور دوم اوّل نہیں ہو گا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا، اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہودوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہو اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دیدیا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقعہ نہیں ہوگا درجہ اوّل والا پھر بھی درجہ اوّل میں ہی شمار ہو گا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اورسوم درجوں میں ہی شمار ہو ں گے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاںیہ فرمایا کہ بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزائیں بہت زیادہ ہونگی۔ پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہو گا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کامقبرہ دوسرے درجہ پر، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کواور اونچا کرو تاکہ تفاوتِ مراتب قائم رہے۔
غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہو گی اور عَطَائً حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر توڑ کرنچلے درجہ والے کو اوپر نہیں لے جایاجائے گا۔
مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے
خلاصہ یہ کہ اس انتظام میں ہر ایک کا مقبرہ
ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے ا س میں صرف نام یاشُہرتِ ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں۔
دنیامیں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلائو زردہ پکتا ہے۔ ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر ُگھسنے نہیں دیتے اوردوسرے کے پاس اپنا سرچھپانے کے لئے جھونپٹری بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے۔ اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہو اس کی عمارت زیادہ شاندار ہو جو اس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعما ل کیسے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ کھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آجائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہو ئی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں
کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام
پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کُتّے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیںہوتا۔ انگریزوں نے آثارِ قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پُرانے آثار کو کسی قدر
محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صَرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُتّے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاںہر شخص قابلِ عزت ہوتا ہے اس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ۱۱؎ جو نیک لوگ ہونگے انہیں جنت میںجگہ دی جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاسکے گا۔ کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو گرا نہیں سکے گا۔
ناپاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کر سکیں گے
اس کے مقابلہ میں جو کافر ہیں
ان کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآاَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَاُولٰئِکَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارَ۱۲؎ جو کافر ہیں ان کے اموال خدتعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے۔
دنیاکے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے۔ ایک انسان گندہ ہوتا ہے فریبی اور مکّار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا باپ خبیث تھا اس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالو ں کو لُوٹا مگر محض اس وجہ سے کہ روپیہ ان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے بِالکل غلط ہوتی ہے۔ چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دئیے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں۔ دنیا میںتو غیر مستحق لوگوں کی اولاد یا مالی وُسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میںاس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کامقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آسکتی وَاُولٰئِکَ ھُمْ وَقُوْدُالنَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
نوح ؑکا مقبرہ
پھر مَیں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اِس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا
اندازہ لگا سکیں۔یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پرایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ مَیں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰ خِرِیْنَ- سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۱۳؎
فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزّت سے رکھا ہؤا ہے۔ اور چونکہ جنت کے مقبرے میںسلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرو نوح عَلَیْہَ السَّلامُ اور اس کے مقام کویا د رکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اس کا نام لو اس کے ساتھ ’’عَلَیْہَ السَّلامُ‘‘ کا اضافہ کر لیاکرو۔ فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی توڑ نہیں سکے گا۔ لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص توڑ نہیں سکتا چنانچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود ان کو بھول چکے ہیں، عیسائی ان کو بھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیںعَلَیْہَ السَّلامُ۔
الیاس ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت الیاس ؑ کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۱۴؎
حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میںسے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اِس جہان میں بھی۔تا کہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں۔ پھر فرماتا ہے سَلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہؤا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاسعَلَیْہَ السَّلامُ۔اس جگہ اِلْیَاسِیْنَ کے بارے میں لوگوں کو تردّد ہؤا ہے، لیکن یہ تردّد نہیں بلکہ ایک زبردست پیشگوئی ہے اور و ہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ مقدر تھا۔ پہلا خود الیاس کے وجود میں دوسرا یحییٰ کے ذریعہ سے اور تیسرا پھرایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے۔ اس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میںہو گا کیونکہ اگر پہلے ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو یحییٰ کے رنگ میںظاہر ہو چکاتھا پھر آسمان پرسے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا مسیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اِسی دنیا سے پیدا ہو گا تبھی اس کے لئے ایک اور الیاس پیداکیا جائے گا۔ تا کہ اس کے راستہ کو صاف کر ے۔ اس تیسرے الیاس کا سلام گو ابھی دنیا میںقائم نہیں ہؤا مگر خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہو گا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعما ل کیا جا سکتا ہے ۔غیرنبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ کے نام کے ساتھ عَلَیْہَ السَّلامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَیْہَ السَّلامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کایہی فیصلہ ہے کہ پہلے دو الیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَیْہَ السَّلامُ کہا جائے گا۔
مریم ؑ اور مسیحؑ کا مقبرہ
وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۱۵؎
پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایا وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھاَ مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا
اُس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قویٰ کو خدا کے لئے وقف کر دیا
ہم نے اس میں اپنی رُوح پھُونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔ یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خداتعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰعَلَیْہَ السَّلام اور حضرت مریم صدیقہ عَلَیْہَاالسَّلَامُ ہی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہَ السَّلامُ کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰـہُ اَجْرَہٗ
فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۱۶؎
ابراہیم بھی ہمار ے مخصوص لوگوںمیںسے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہؤا۔ ایک اس طرح کہ جب بھی ابراہیم ؑ کانام لیا جائے گا لوگ عَلَیْہَ السَّلامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذرّیت جسمانی ہو خواہ روحانی۔ اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے۔
مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے
پھر فرماتا ہے وَتِلْکَ جُحَّتُنَآ اٰ تَیْنٰـھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ
اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ- وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاج وَنُوْحاً ھَدَیْناَمِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوَنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطاً وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ- وَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ- ذٰلِکَ ھُدًی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَآ ھٰٓؤُلَائِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْماً لَّیْسُوْا بِھَابِکٰفِرِیْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۱۷؎
یہا ں خداتعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دئیے ہیں جن کی یاد کو اس نے قائم کیا ہے فرماتا ہیں یہ وہ حُجّتہے جو ہم نے ابراہیم ؑ کو اس کی قوم کے مقابلہ میںعطا کی ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔یقینا تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے اور ہم نے اسے اسحاقؑ اور یعقوب ؑدئیے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوحؑ کو بھی ہدایت دی۔اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود ؑ اور سلیمان ؑ اور ایوبؑ اور یوسف ؑ او رموسیٰ ؑ اور ہارون ؑ سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزا ء دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ سب نیک لوگوں میںسے تھے۔اور اسماعیل ؑ اور الیسعؑ اور یونس ؑ اور لوط ؑسب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی۔ اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذرّیت اور ان کے بھائیوں میںسے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیںجن کو ہم نے کتاب دی حکمت دی اور نبوت دی۔ اگرمشرک لو گ آج کل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیںتو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم تو اِن کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ تو کہہ دے کہ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو موسیٰ ؑکو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسٰی ؑ کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو ابراہیم ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو داود ؑ اور سلیمان ؑ اورایوب ؑ اور یوسف ؑ اور زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ اور اسماعیل ؑ اور الیسع ؑ اور دوسرے نبیوں کو ملی(عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کُلِّہِمْ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا۔
سردارِ انبیاء حضرت محمّد مصطفی صَلَّی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے
اب سب سے آخر سردارِ انبیاء
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کا مقبرہ کس طرح بنا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسِْلیْمًا۱۸؎
فرماتا ہے لوگوں کے دومقبرے ہوتے ہیں۔ایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ، مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیں۔ایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اس دنیا میں چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ عرش پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اس پر ہماری رحمتیںنازل کرو ہماری رحمتیں نازل کرو اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا۔ اے مؤمنو ! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
انبیائے سابقین کے متّبعین اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے
اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے اتباع میں سے بھی بعض بڑے نیک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کاذکر کیا وہاں
یہ بھی فرمایا وَمِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَاِنھِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذرّیت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِیْنَ جَاؤُا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّناَ اغْفِرْلَنَا لِاِخْوَانِنَا الَّذِْینَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْْعَلْ فِیْ قُلُوْبِناَ غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیُمٌ ۱۹؎
فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رُتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میںآئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے۔
پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاحِ حالات کے بھی ہوتے ہیں۲۰؎ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بناتا جا اور اسی طرح ان لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے۔ گویا نہ صرف خداتعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میںزیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاحِ حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہو تا جاتا ہے۔
شیعوں کا صحابہؓ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے
پھر فرماتا ہے یہ بھی دعا کیاکرو کہ
ہمارے دل میںان کے متعلق کوئی بغض پیدا نہ ہو، اس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہؓ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے لئے دعائیںکرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بُغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بُغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب تھوڑے دنوں تک محرّم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرّا کیا جاتا اور ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بُغض نہ ہو اور نہ صر ف بُغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنّی بزرگ گئے اور اس سے امداد کے طالب ہوئے۔ وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیںخیال آیا کہ مَیں بادشاہ کے پاس جائوں اور اس سے کچھ مانگ لائوں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجو دتھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سنّی۔ جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہؤا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنّی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ سنّی بزرگ وہیں کھڑے رہے۔آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کردو۔ وزیر نے کہا مَیں دے تو دُوں مگر یہ شخص شکل سے سنّی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا۔ تمہیں کس طرح معلوم ہؤا وہ کہنے لگا بس شکل سے مَیں نے پہچان لیا ہے۔ بادشاہ نے کہااچھا تو اس کا امتحان کر لو۔چنانچہ وزیر نے حضرت علی ؓ کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی، وہ سنّی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور! حضرت علی ؓ کی شان میںکیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خداتعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی۔ آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے، وزیر کہنے لگا ابھی نہیں مَیں بعض اور باتیں بھی دریافت کر لوں۔ چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے بادشاہ نے کہا۔ بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنّی نہیں بلکہ شیعہ ہے۔ وزیرکہنے لگا ابھی نہیں۔ تبرّا دیکر دیکھیں اگر یہ تبرّے میںشامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہؤا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنّی ہے۔چنانچہ بادشاہ نے کہا برہرسہ ***۔ یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ پر *** ۔وزیر نے بھی کہا برہرسہ ***۔ وہ بزرگ سنّی بھی بول اُٹھے کہ برہرسہ ***۔ بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر نے کہا حضور! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو۔ وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں مَیں تو سنّی ہوں۔ وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ برہرسہ *** تو آپ نے بھی برہرسہ *** کہا، اس کی وجہ میری سمجھ میںنہیںآئی۔ وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا برہرسہ ***، توآپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابوبکرؓ ، عمرؓاور عثمانؓ پر *** ہو مگر جب مَیں نے برہرسہ *** کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی *** اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں۔ غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں ناپسندیدہ اورمذکورہ بالاآیتِ قرآنی کے خلاف ہے حضرت علیؓ کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ کے جو پاک بندے گزرچکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دُعائوں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میںان کے متعلق بُغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بُغض پیدا ہؤا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعائوں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا مقبرہ بنا دیا۔
روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھا رکھنے کا انتظام
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مقابر والوں نے
تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میںدفن ہوں۔ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایساانتظام ہے تو مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کودفن کیا گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہؤا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ باہمی بُغض و عداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جا سکتے ہیں۔ جیسے شاہجہان کو نورجہاں سے بُغض تھا اس وجہ سے اس نے جہانگیر کے پاس اسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے نے ادنیٰ مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اس وجہ سے بھی بڑا اس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابرؔ، ہمایوںؔ ، اکبرؔ اور جہانگیرؔ کو لا کر دفن نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں ہؤا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا۔ پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اورنگ زیب حیدرآباد میںفوت ہؤا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا۔ حیدرآباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میںدقّت تھی اس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دفعہ بُغض وعناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اِس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں۔ پس مَیں نے سوچا کہ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار اکٹھے رہیں جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے۔بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ- سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبیَ الدَّارِ۲۱؎
فرمایا وہ جو اگلے جہان کامقبرہ ہے اس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خداتعالیٰ کا انعام پائے گا، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں۔ اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے الْسَّلامُ عَلَیْکُمْ۔
ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی ّعزت کرنے کا حُکم
امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تووہ
اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا ۔ایک دن وہ امراء ورئوساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا کُرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُ س کا باپ ملنے کے لئے آ گیا۔ اس نے ایک میلی کُچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جو ای، اے، سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دیگا، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے ٹہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔ اس پر باپ کو سخت غصّہ آیا اور وہ کہنے لگا مَیں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں۔ اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں ۔ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کے دیکھو سَلامٌ عَلَیْکَ نہ کہنا بلکہ سَلامٌ عَلَیْکُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَلامٌ عَلَیْکُمْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا۔
جماعت کو نصیحت
یہ وہ مقبرے ہیں جو مَیں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمودونمائش پر اپنا روپیہ برباد نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود عَلَیْہَ السَّلامُ کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں کی قبروںمیں سادگی مدّنظر رکھنی چاہئے اور بِلاضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد ان قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعد میںآنے والے ان قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کاکسی کونشان تک بھی نہ ملے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہاںجو مقبرہ بنتا ہے اسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اپنی قبریں اُسی جگہ بنائو جہاں خداتعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمّہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دئیے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کرہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گِر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہو سکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خداتمہیں ضائع کردے گا۔ جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو گا کہ کب اس کی رُوح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لُوں ۔ا سی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہو گا کہ وہ جل کرفنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہو گا اور خدا کے فرشتے اس کی عزّت کر رہے ہو نگے۔
پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میںبنائو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح ؑ بھی ہیں، جہاں ابراہیم ؑ بھی ہیں، جہاںموسیٰ ؑ بھی ہیں، جہاںعیسیٰ ؑ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں۔پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُ س کے رسولوں کا قرب حاصل ہو۔
(۷)۔ مِینا بازار
ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متأثر ہؤا وہ مینا بازار تھے۔ چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ بازار شاہانہ کرّوفر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود اِ ن بازاروں میں آکر چیزیں خریدا کرتے تھے۔ آج کل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لاہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے۔ لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلےؔ کی نمائش ہوئی تھی۔ اسی موقع پر ایک مذہبی کانفرنس بھی ہوئی جس میں مَیں نے مضمون پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھندلانقش میرے دماغ پررہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متأثر نہ ہؤا تھا۔ پُرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگایا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہؤا کرتی تھیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزراء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں بِکتی ہوں گی۔
مینابازار میں فروخت ہونیوالی اشیاء
پھر مَیں نے اپنے ذہن میںسوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی؟ اور اس
سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ :-
اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہونگے۔
دوم: وہاں عمدہ سے عمدہ سواریاں بِکتی ہوں گی۔
سوم: میں نے اپنے دل میںسوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی۔ کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بیدمشک کا شربت فروخت کرتا ہو گا، کوئی تازہ دُودھ فروخت کرتا ہوگا، کوئی شہد فروخت کرتا ہو گا، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہو گا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہو گا۔
چہارم: پھر کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور، کیلے، انار اور سنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
پنجم: کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے۔
ششم:کہیں زینت کے سامان آئینے، کنگھیاں، رِبن او رپائوڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
ہفتم: کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہو گا۔
ہشتم: بعض ایسی دُکانیں ہوںگی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو۔
نہم: کسی دُکان پرنہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے۔
دھم: کسی دُکان پرجنگ کے سامان یعنی تلواریں اور طپنچے۲۲؎ وغیر ہ فروخت ہوتے ہونگے۔
یازدھم: کسی دُکان پر گھروں کا سامان قالین، تکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے۔
ایک اَور روحانی بازار
میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی۔ مگر
جب میں اس قلعہ پر تھا تو مَیں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں؟ تو مَیں نے دیکھا ایک اور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں۔ مگر مَیں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میںتو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دکاندار ہوتے ہیں۔ کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور تکیے وغیر ہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پرلباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خریدلیتا ہے۔ مگر اس بازار کا مَیں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ ان دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دیدے دیتا تھا ۔مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اَور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دکانیں ہوں تو سَو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں بِکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گاہک تھا کہ فروخت کرنیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو، چنانچہ اس بازار کا یہ نقشہ مَیں نے قرآن کریم میں دیکھا۔ـاِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّافِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ۲۳؎
فرماتا ہے مینابازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ وپیراستہ ہو گیا تم سب آ جائو مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آجائو، بادشاہ خود خریداربن کرآیا ہے اور اُس نے تمہارے مال یعنی اموالِ مادی اور جانیں دونوں تم سے خریدلیں۔ وہ مال ادنیٰ تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر، تھوڑا تھا یا بہت سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوںکے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی۔ گویا سارا مینا بازار اُن کوبخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالامال کر دیا۔ا تنی بڑی قیمت ہم اس لئے اد ا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں۔ پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے ُبخل نہیں برتتے، ہم بڑے مالدار ہو کرکیوں ُبخلسے کام لیں۔ پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پُرانا ہے۔ یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پس اے لوگو! آج جو سودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جائو اور یقینا ایسا ہی سَودا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروںمیں ہؤا کرتی تھیں ا ور اس طرح ایک ہی سَودے میں سب سَودے ہو جاتے ہیں۔
دُنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق
پھر مَیں نے جب اس بازار کو دیکھا تو مَیں نے کہا ایک اور
فرق بھی اس مینا بازار اور دُنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے۔
اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ ایک سَو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سَو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خریدنے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی، یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت بیس ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزارروپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سَو روپیہ میں دے دی۔بدردین آگیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی ، شمس الدین پہنچا تو اُسے ایک پیسے میں دیدی اور علائوالدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی۔ یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں میں نظر نہیں آتا، مگر اس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے، اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائو اپنی جان اور ایک کروڑ روپیہ اور لے لو جنت۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے، اُ س سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائواپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت۔ اُسی وقت ایک تیسر ا شخص آجاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سَو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سَو روپیہ لائو اور جنت لے لو۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سَو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے صرف مُٹّھی جَو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے۔ اُسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سَودا منظور لائو جان اور مُٹّھی بھر دانے اور لے لو جنت ۔۲۴؎ بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشمِ حیرت کُھلی کی کُھلی رہ گئی۔ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے، آپؐ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کردو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی ۔آپؐ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دو، کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہؤا ، غریبوں کو کہاں سے کھلائوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ لائو دو ٹوکرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جائو اور غریبوں کو کھلا دو، وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جائو اور تم ہی یہ کھجوریں کھالو،۲۵؎ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو۔ جس کے پاس کروڑروپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہو تا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اس مال سے تم سَودا کر لو تم کوجنت مل جائیگی۔
رُوحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالا سلوک
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں
میںتو یہ ہوتا ہے کہ گاہک آئے انہوں نے چیزیںخریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے۔مگر اس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ا ور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا گویا وہی یوسفؑ والا معاملہ ہے کہ غلّہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دئیے۔ اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور اُدھر چُپ کر کے کھسک جاتا ہے، دکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ بھول گیا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں، مگر وہ کہہ کر چلاجاتاہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتًا رکھو اور مناسب طور پر اس میںسے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا۔ گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہو گا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے ۔ وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۲۶؎ وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں، مگر میںساری جان اور سارا مال اُ ن سے عملاً نہیں لیتا، بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ ا س میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی اپنے پاس رکھو اور اپنے کام میںلائو اور اس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُ س میں کمی ہو گی وہ تم کوپوری ملے گی۔
جان اور مال کا مطالبہ
اب مَیں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سَودا ہے ، لیکن آخر اس میں عجیب سَودے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے، یعنی اپنے آپ
کو غلام بنا دینے کا ۔بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں ملتی ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے۔ دنیا میں کون شخض ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہو پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سَودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس مَیں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں۔
غلامی کیوں بُری سمجھی جاتی ہے ؟
جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اس غلامی کو قبول کرنااس بازار
کے سامان کے مقابلہ میں گراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ:-
اوّلؔ: اس میں انسان کی آزادی چِھن جاتی ہے۔
دومؔ: انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے۔
سومؔ: اس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں۔
چہارمؔ: اس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے۔بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے۔
مَیں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جائوں اور کس طرح اس دھوکا اورفریب میں آ جائوں۔
قیدوبند میںمبتلا انسان اپنی حماقت
سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے
میں انہی خیالات میں تھا کہ یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ( اور مَیں سے مراد اس وقت انسان ہے نہ کہ میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، درحقیقت قید وبند میں پڑا ہؤ ا تھا۔ مَیں نے دیکھا
کہ میری گردن میں طَوق تھا، میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مگر مَیں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پائوں کی بیٹریاں مجھے چلنے دیتی تھیں، نہ گردن کا طَوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بدعادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیڑیاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب اور غلط قومی رواجوں نے میر ے پائوں میںڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں۔ تب میں حیران ہؤا کہ انسان اپنے آپ کوکیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہؤا ہے نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیں، نہ پائوں کی بیٹریاں اُسے ہلنے دیتی ہیںاور نہ گردن کا طَوق اُسے سر اُٹھانے دیتا ہے۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اس کی گردن میںہوتا ہے۔ مختلف گناہ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاںوہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اس کے اردگرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہؤا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بدعادات کی ہوتی ہیں۔ درحقیقت بدعادات اور بدعمل میںفرق ہے۔بدعمل ایک انفرادی شَے ہے کبھی ہؤا کبھی نہ ہؤا، مگر بدعادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیںکرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطرنج یا جوا یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو اب باوجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطرنج یاتاش کھیلنے چلا جائیگا۔ اسی طرح بیڑیاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پائوں میں پڑ ی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ تب مَیں حیران ہؤا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہے۔ اس کے پائوں میں بیٹریاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں طَوق ہیں۔ پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اُسے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے۔ پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اسے کچھ نہیں دیتا تو اس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے۔
داروغہء جنت نے تمام بیٹریاں کاٹ دیں!
تب مَیں نے اُ س داروغہ کی طرف دیکھا جس کے سپر دمجھے کیا گیا تھا اور
مَیں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیٹریاں اور زنجیریں اور طَوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بننے کو تیار ہوں، مگر مَیں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں، بیٹریاں اور طَوق ہوں اُس کے ہاتھ میںایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بننے کو تیار ہوں، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں او رپائوں میں نئی ہتھکڑیاں، نئی بیٹریاں اور نئے طَوق ڈالتا اُس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیٹریاں اور سب طَوق کاٹ دئیے اور مَیں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی مَیں اس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ،بیٹریاں اور طَوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیٹریاں اور نئے طَوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہؤا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًاعِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰـئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۲۷؎
وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اُس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور اُمّی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیںاجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مُضِرّ ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں ان کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طَوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے۔ پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن لاتے ہیں آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اُ ن کے ہاتھوں اور پائوں میں کبھی ہتھکڑیاں او ربیٹریاں نہیںرہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طَوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔
مَیں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیٹریاں اور گردن میں طَوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت کا علم ہؤا تو میںاس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میںپہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اس نے بجائے طَوق اور بیٹریاں پہنانے کے پہلے طَوق اور بیٹریوں کو کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا۔
داروغہء غلاماں کا مسرّت افزا پیغام
میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہؤا اور میںیہ سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہء غلاماں کے
ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیٹریاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں ، لیکن آخر انسان غلام تو ہؤا ۔ غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا۔ چنانچہ میں اب اس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لائو اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لائو اپنی سب چیزیں میرے حوالے کرو اُ س نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میر ے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَھُوَیَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۲۸؎ اگر اچھی طرح غلامی کر وگے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پور ا کرے گا، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے۔ دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کاکام کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں۔ مگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں۔
ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے اور توکّل پر گزارہ کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے۔ ایک دفعہ اُنہیں ایک اَور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام کرنا چاہئے اس طرح لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے، اس لئے مَیں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں۲۹؎ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں۔ انہوں نے کہا حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ یَوْماً عِنْدَرَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّاتَعُدُّوْنَ۔۳۰؎ تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں۔ جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ متکفل ہو جاتا ہے۔
تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری
پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہو گی کہ مجھے اپنی
خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے۔ اس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۳۱؎
اے میرے بندے!چونکہ اب تُوہمار ا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہو گا وہیں غلام رہے گا تو جا اور ہماری جنت میں رہ ۔مگر اس جنت میں آ کر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کامال میں کس طرح استعمال کروں گا۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَامَاتَدَّعُوْنَ۳۲؎ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیداہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی ادھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہو گی اور جو مانگو گے ملے گا۔
اَعزّہ و اقرباء کی دائمی رفاقت
پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیزواقرباء چھوڑنے پڑیں گے۔
کیونکہ جب غلام ہؤا تو اُن کے ساتھ رہنے پرمیرا کیا اختیار لیکن اس بارہ میں بھی داروغۂ غلامان نے مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَاَزْوَاجِھمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ
یعنی بجائے اس کے رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھاجائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنیٰ عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جُدا جُدا نہیں رکھے گا۔
روحانی مینابازار میں ملنے والی نعماء
تب مَیں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اس غلامی کو قبول کر کے قید وبند سے نجات ہوئی،
ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میںوہ وسعت پید ا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے۔ تب مَیں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجماعی انعام ہؤا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی۔
بے عیب غلام
مَیں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور مَیں گو ایک لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہرحال غلام ہوںاس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے۔
یہ کمی تو ضرور رہے گی، مگر مَیں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْراً ۳۳؎
اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوںگے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوںگے۔
میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دُنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تویہی کیا جاتا ہے کہ قیمت کتنی ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان باوجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھاکہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مر جاتا، اگر وہ نہ مرتا تو خریدنے والا مر سکتا تھا۔غرض کوئی نہ کوئی نقص کا پہلو اس میں ضرور تھا، مگر مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جونہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُوْن ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
پھر دُنیوی مینا بازاروں میںتو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوںگے۔ پھر دُنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے ہیں، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کی طرح ہونگے، دیکھو کیا لطیف تشبیہہ بیان کی گئی ہے۔ دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں۔ پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کا مفہوم یہ ہؤا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ، فریب، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا، مگر موتی میںایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چُرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چُھپا چُھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فرمایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں کُھلے طور پرپھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا۔ دنیامیں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چُھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہؤا ہو گا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تردّد نہیں ہو گا۔
اعلیٰ درجہ کی سواریاں
پھرمیں نے سوچا کہ اُ س مینا بازار میں بڑی عمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاںبھی کوئی سواری ملے گی۔ تو مَیں نے دیکھا کہ اس جگہ
بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا اُولٰئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰئِکَ ھُمُ اْلمُفْلِحُوْنَ۳۴؎ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہوکروہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے، مَیں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو ہگنے ، مُوتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں ہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی۔ مَیں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑا ملتا تو وہ لِید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اس کا لانا میرے ذمہ ہوتا، پھر شایدکبھی مُنہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے گِرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ ہگتا ہے نہ ُموتتا ہے، نہ مُنہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گِراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔
پھر اس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزّت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس سَو پچاس روپے ہوں، گھوڑا خرید سکتا ہے، مگر یہ گھوڑا خلعت کا گھوڑا ہو گا جو زمین وآسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا۔ پس معمولی ٹٹّو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے۔
ٹھنڈے شربت
(۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے مَیں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟
تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ توبعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہو گا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے۔ مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میںملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا۳۵؎ ا س جنت کے مینا بازار میںمؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیںگے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی، وہ کافوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی۔ یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اورسکون پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کافوری پیالے اُ ن کواس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خداتعالیٰ کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کافوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا ۳۶؎
وہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دُور کرنے کے لئے ا ن کو کافوری پیالے پلائے۔
گرم چائے
پھر مَیں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے۔
ایسے وقت میںتو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے۔ پس اگر یہ کافوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت وہ کفایت نہ کریں گے، ایسے وقت میںتو گرم چائے کی ضرورت ہوگی۔ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینابازار میں چائے کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا ہے وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَأْسًا کَانَ مِزَاجُھَازَ نْجَبِیْلاً ۳۷؎
چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندر سونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہو گی۔
تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خداتعالیٰ نے پورا کر دیا، گرمی دُور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جوکافوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دُور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کافوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کافوری پیالوں کی تو اس لئے ضرورت ہو گی کہ مؤمن خداتعالیٰ کا خوف اپنے دل میںرکھتے تھے اور اُن کے دل ودماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے اگلے جہاں میںانہیں تسکین کے لئے کافوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہو گی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دئیے جائیںگے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکمّا بنا کر نہیں بٹھادیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذّت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تا کہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو۔ پس یہ خیال غلط ہے جوبعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا، اگر ایسا ہی ہوتو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے۔ ـ
اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ ھٰذَ اکَانَ لَکُمْ جَزَائً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۳۹؎ چونکہ تم نے دنیا میںبڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کاموں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی، تقویٰ اور قوتِ عمل اَور بھی بڑھے اور تاتم پہلے سے بھی زیادہ ذکرِ الٰہی کرو پس جنت نکمّوں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے۔
شیریں چشمے
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پِیا اور ختم۔ بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ
شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے۔ بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کاپانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَأْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۴۰؎ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے پلائے جائیں گے جو اُن چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا۔
دُودھ کی نہریں
پھرمَیں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میںدودھ بھی بکتا ہے کیا وہاں دُودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے ۔ تومَیں نے دیکھا کہ ان
بازاروں میںتو دُودھ بوتلوں اور پائونڈوںاور سیروں کے حساب سے بکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے۔مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَآ اَنْھٰـرٌ مِّنْ مَّائٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۴۱؎
مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اُن کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کامزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا۔ دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دُودھ نہیںدیا جو لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ کامصداق ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا پھریہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہو گی اور نہر بھی ایسی ہو گی کہ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں ہی استعمال کر لیا جائے دوپہر تک خراب ہو جائے گا، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
اس آیت سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پرکوئی روک تو نہیں ہوگی؟ اس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ۴۲؎
تو مؤمنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہریں اُن باغوں کے متعلق ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں ۔ یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی۔
مصفّٰی شہد
پھر مَیں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اُس مینا بازار میں بھی شہد ملتا ہے یا نہیں؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً میں نے یہ لکھا ہؤا
دیکھا کہ اَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی۴۳؎ وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی دنیا میں عام طور پر اوّل تو خالص شہد ملتا ہی نہیں۔ لو گ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑا سا اس میں شہد ملاکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بناکر پِیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈِبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈِبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ چنبے کا شہد ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہدہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہونگی اور تمہارا اختیار ہو گا کہ جتنا شہد چاہو لے لو۔
پُر لذّت شراب
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی بِکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں،
مگر قرآن کریم یہ تومانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَناَفِعُ لِلنَّاسِ۴۴؎
لوگ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں۔ پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہرحال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جوشراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میںملوّث ہو جاتا تھا، مگر بہرحال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے۔ اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں توکیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَاَنْھَارٌمِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۴۵؎ وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذّت کا موجب ہوں گی۔
ایک اعلیٰ درجہ کی سربمہر شراب
میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروںکی صورت میں ہوگی
اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر ا س کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میںبند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میںزیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، مَیں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے ، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی دو قسم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گویا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میںبند ہو گی چنانچہ فرماتا ہے یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۴۶؎ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اَور شراب بھی وہاں ہو گی جو بوتلوں میںبند ہو گی جس پر مُہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہو گی کہ اُس کی تلچھٹ۴۷؎ بھی مُشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہو گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میںفرق ہو گا، ایک تو عا م شراب ہو گی جیسے بیئر(BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہو گی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہو گی اور اس کی دُرد۴۸؎ مُشک کی ہوگی۔
روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیّت
تب میں نے سوچا کہ دُنیوی شراب تو عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے صحت برباد
کر دیتی ہے انسان کو خمار ہو جاتا ہے وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا اورکیا ایسا تو نہیںہو گا کہ اس شراب کوپی کر مَیںاپنی عبودیت کو بھُول جائوں؟ اس پرمَیں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے لَافِیْھَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ ۴۹؎
غَوْلٌکے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں۔۵۰؎ پس لَافِیْھَا غَوْلٌکے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہو گا۔ یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اُتر تا ہے تو اُس وقت بھی اُنہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میںدرد ہوتا ہے، لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں اِن نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا۔
اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَھَبَ عَقْلُہَّ اَوْسُکِّرَ۵۱؎ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آسکتی ہے۔ خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا، اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلا س میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اس زمانہ میں مَیں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا، مگر اتفاق ایسا ہؤا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بِھیڑ تھی مَیں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہؤا تھاکہ بظاہر اس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال جب میں اس کمرہ میں گُھساتو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیںشرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بنائو تا کہ یہ بیٹھیں۔ مَیں نے سمجھا کہ گومَیں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوںگے۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی۔ جب میں بیٹھ گیا تو وُہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوںگا۔ کہنے لگے نہیں پِھر بھی کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں۔ اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھافرمائیے کیا کھائیں گے؟ مَیںنے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھائوں گا۔ کہنے لگے اچھاتو پھر فرمائیے ناکہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہے۔ اس سے پہلے مَیں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اس پر وہ پھر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے ، تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اس کے لئے بھی جگہ نکال دی۔ جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب کچھ کھائیںگے؟ مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہوگیا۔ اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ آخر مَیں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر مَیں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاںسے کھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیںکی۔
توشراب انسانی عقل پربالکل پردہ ڈال دیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے۔
پاکیزہ مذاق
اسی طرح فرماتا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأسًالَّالَغْوٌ فِیْھَاوَلَاتَأْثِیْمٌ ۵۲؎ مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیارسے رہیںگے اور جس
ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز چھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے چھین چھین کر کھائیں گے۔ یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیںہوگا جس کی وجہ سے انہیں چھیننا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیارے کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے چھین چھین کر پئیں گے۔ مگر دنیا میں تو اِس چھیننے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو مگر فرمایا لَالَغْوٌفِیْھَا وَلَا تَأْثِیْمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کے بھائی نے اس سے پیالہ چھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کر ے گی اور وہ اور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ نہ صرف وہ شراب پاک ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دُنیوی شراب کی بُرائیاں اُ س میں نہیں ہوں گی۔
تزکیۂ نفس پیدا کرنے والی شراب
مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی۔ تو اس کا
جواب مَیں نے یہ پایا کہ وَ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا۵۳؎ طَھُوْر کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طَاھرِ کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک ہو پس سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی ، معلوم ہؤا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے پھر طَھُوْر کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی شَے کے ہوتے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سڑاکر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گی۔
ا سی طرح ایک اور لطیف اشارہ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہووہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فرمایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہو گی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کر ے گی، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہوگی۔ وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو گی او رنہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کر ے گی۔
’’تسِنیم واٹر‘‘
پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ۵۴؎ اس شراب میں ایک پانی ملا یا جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو
اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اس کانام ہو گا تسنیم واٹر۔ اور تسنیم کے معنے بلندی،شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہو ں گی۔ کیونکہ یہ معمولی پانی نہیںہو گا بلکہ بلندی، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہو گا اور عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ۵۵؎ یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے، گویا دو گروہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیںاس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دیدیا جائے گا، مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہو گاجنہیں معمولی مقدار میں تسنیم کا پانی نہیں دیا جائے گا، بلکہ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد رُوحانی چیزیں ہیں ورنہ دُنیا میں کیا کبھی شرف، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہؤا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہؤا کرتی ہے جو سٹرے نہیں؟ اور پھر وہ شراب ہی کیاہے جس میں نشہ نہ ہو،بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اُسی قدر ہمارے شاعر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ذوقؔ کہتا ہے
؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے
مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اس میں نہ نشہ ہو گا نہ وہ سڑی ہوئی ہو گی اور نہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی۔
اسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کاپانی ملایاجائے گا جس کان سَلْسَبِیْلا۵۶؎ ہو گا سَبِیْل کے معنے راستہ کے ہیں اور سَلْ٭ کے معنے اگر اس کے سَالَ یَسِیْلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر ۔ یا دَوڑ پڑ۔ یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دَوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہو گئی چل اپنے راستہ پر۔
یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ شراب مادی نہیں، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دَوڑ نہیں سکتا۔
مادی شراب کے نشہ کی کیفیت
مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میںجہاں آج کل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی
ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن مَیں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہؤا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی۔ ان میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا۔ جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیںہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھائو گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سُندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑپر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ آخر گھوڑے کے قدموںکی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گزر گیا مگر مَیں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہؤا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!ـ پکوڑے کھائیں گا؟ حالانکہ سُندر سنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہؤا پُھلکے کھا رہا ہو گا۔ دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہؤا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہؤا وہ سُندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا۔
تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیںگے ۔ سَلْ سَبِیْلا ۔ اب تمہاری سب کمزوری رفع ہو گئی ہے تو اَپنے راستہ پر دَوڑ پڑو۔
دوسرے معنے اس کے سَأَلَ یَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں، یعنی سوال کر، پوچھ، دریافت کر۔ اس کا امر بھی سَلْ ہی بنتا ہے۔یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے تو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ۔ گویا اُس شراب سے ایک طرف قوتِ عملیہ بڑ ھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائی گی اور وُہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا مجھے اور رُوحانی علوم دئیے جائیں اور اس کے بدن میںایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خداتعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا۔
پھل اور گوشت
(۴) چوتھی بات جو دُنیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں، مَیں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان
موجو دتھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَا کِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ- وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۶؎
کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جوبھی وہ پسند کریں گے،یہاں ہم بعض دفعہ بعض پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں۔ ہمار ا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کو ملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیںتو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے۔ سنگترے کو جی چاہے تو دُکاندار کہہ دیگا، آج کل تو سنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلاؔ موجود ہے یہ لے لیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیںہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یاکیلے کا موسم نہیں یا سردے کا موسم نہیں ، وہاںجو بھی پھل انسان چاہے گا، اُسے فوراً مل جائے گا ۔ اسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیںدیا جائے گا، پھر فرماتا ہے وَاَمْدَدْنٰـھُمْ بِفَا کِھَۃٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۷؎
کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیںگے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے، یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دُنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا۔
جنّتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات
اسی طرح فرماتا ہے ۔ وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلاَ لُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْ فُھَا تَذْلِیْلا۵۸؎ کہ
جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جُھکے ہوئے ہوں گے ا ور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑ لیںگے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے، مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا۔ وہاں پھل اس قدر جُھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ وَفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ لَّامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۵۹؎ کہ انہیں وہاںکھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوںگے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے، صرف شہتوت ملیں گے۔ وَلَامَمْنُوْعَۃٍ اور نہ وہ ممنوع ہوں گے۔یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیںہو گا کہ وہ انسان کو بیما ر کر دیں۔ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کاپانی پی سکتے ہو اَور کوئی پھل نہیں کھا سکتے، مگر جنت میںجو پھل ملیںگے انہیںکوئی بُرا کہنے والا نہیں ہو گاکیونکہ وہ بیماریاں پیداکرنے والے نہیںہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوْعَۃٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بدہضمی ہو خواہ وہ کسی قدر کھا لئے جائیں انسان کوکوئی تکلیف نہیںہوگی ۔ دنیا میںانسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاںایسا نہیں ہو گا۔لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میںتھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنانچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میںسے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیں۔کیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیںاور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں، مگر اس تمام عرصہ میںتیس چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ساری پیالیاں پی جاتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا۔ وہ پہلے سال جلسہ میںشریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیس چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی۔ تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو اس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا: وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میںختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میںانسان اُن کو کھا سکے گا۔ دنیا کی غذائوں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر رُوحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم ا ور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلاجائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیںہو گی۔ یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں۔اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جب کہ وہ رزق مادی ہو گا ہی نہیں بلکہ رُوحانی ہو گا۔
نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دَور
جب مَیںیہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اُف! کھانے اورپینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوںگی،
وہاں تو دن اور رات میںکھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے۔ پس میرے دل میں خوف پیدا ہؤا کہ کہیں میں ان کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تومول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایاتھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو۔
جب میرے دل میںیہ ڈر پیدا ہؤا تو مَیں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیامعاملہ ہونے والا ہے اور مَیں نے وہاں یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّائٍ غَیْرِاٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ وَاَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَھُمْ فِیْھَامِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ۶۱؎
اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بدبودار ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہو گا جو بِالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہو گی اور جب کھیتوں کوپانی دیا جائے گا تب بھی بدبو پیدا نہیں ہوگی۔اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا۔ اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق تو کھا ئو پیُو بن گیا۔چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ میرے اس بندے کوبخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا۔ میر ے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا۔ میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا۔ اور میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا۔ گویا ہر کھانے اور ہرپینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہو گی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی۔ تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ رُوحانی غذائیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے نہیں دوسری طرف مَیں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود کھلاتا اور پلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میںشامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھائو اور پِیُو کہا گیا۔
سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے ایک ارشاد کی حقیقت!
اسی طرح اس آیت سے میرے
لئے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیاکہ مَیں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیںکہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم توُ ضرور کھا اور مَیں نہیںپیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تُو ضرور پی۔ا ور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تُو ضرور پہن۔ یہاںبھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مؤمن سے کہے گا کہ کھائو مَیں تمہارے گناہ بخشوں گا،میری شراب پیو کہ مَیں تم سے حسن سلوک کروں گااور میرے پھل کھائو کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا۔یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مؤمن بندے کے ساتھ خداتعالیٰ کرے گا۔
اعلیٰ درجہ کے لباس
(۵) پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی بازاروں میںتو لباس فروخت ہؤا کرتے ہیں۔آیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں ۔
مَیں نے غور کیا تو اس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ۔ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ۶۲؎
یعنی اس کے اندر مؤمنوںکو ایسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۔ اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیںاور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاںایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے۔اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مُڑتی بلکہ اُسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہو گا کہ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِادھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکڑ اکڑ کر مال روڈ پر چلتے ہیں۔ عورتیں ان کو دیکھتی ہیںاور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہو گا کہ اسے پہن کر مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف دَوڑنے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی۔
پھرا س لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ۶۳؎ قویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میںملتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میںیہ لکھا ہؤا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰـھُمْ تَقْوٰھُم ۶۴؎
کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میںاور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقویٰ عطا کر دیتا ہے ۔مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میںترقی کی ہو گی اُسی قدر اس کالباس زیادہ اعلیٰ ہو گا۔
زیب وزینت کے سامان
(۶) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میںزینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور رِبن اور پائوڈر وغیرہ فروخت
ہوتے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ تو پُرانے زمانے کے مینابازاروں کی بات ہے، آج کل تو انار کلی اور ڈبی بازار میں پوڈروںاو رلپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پُرانے مینا بازار ان کے آگے ماند پڑ جاتے ہیںاور عورتوں کو ان کے بغیر چَین ہی نہیں آتا، گو آج کل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور ریوڈی کلون اور پوڈر وغیرہ چھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیںتو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں، پھر اس پر پوڈر چِھڑکیں، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چکنائیاں ملتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی، کچھ چِکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے۔ پس میں نے کہا آئو میں دیکھو ں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیںیا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیںوہاں نہ ہوئیں تو اوّل تو آج کل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اَڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتائو جنت میںسرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی، پوڈر اور کریمیں وغیرہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں۔
زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر مل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ سے زیادہ پوڈر مَلنے کو وہ حُسن کی ضمانت سمجھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر ملا ہؤا ہوتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے۔ انگریزوں کا رنگ چونکہ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بدزیب معلوم نہیں ہوتا ، مگر ہمارے ملک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اس لئے اندھا دُھند انگریزوں کی اتباع میں پوڈر کے ڈِبے صرف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور کئی تو بے چارے اس غلط فہمی میںمبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹِکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب مل مل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے۔
سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ
ایک دفعہ ایک اینگلوانڈین اُستانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ
مَیں اس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں۔ مَیں نے کہا۔ غور کروں گا۔ اس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہرنا پڑا۔وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقعہ یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے۔ میں اُن دنوں تبدیلئ آب وہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب (مرحوم جو میرے سالے تھے) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمِّ طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جا رہی تھیں۔ اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہو گی اسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اُسے بھی ساتھ لے لیا۔وہاں پہنچ کر ہم نے دو کشتیاں لیں۔ ایک میں مَیں، اُمِّ طاہر اور میری سالی (زوجہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم) تھی اور دوسری میں وہ اُستانی،میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب او رڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں۔ اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھیں کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گوراکرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتائیں جس سے میرا رنگ سفید ہوجائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُ س نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتوں سے بڑا لُطف آ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا، سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے دوست ہؤا کرتے تھے اور بعد میں بھی میر ے اُن سے گہرے تعلقات رہے۔ انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسبِ عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے۔ میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے۔ اس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میںتمہیں بتاتا ہوں قرآن کریم میںلکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا۔ پس اِس دنیا میںتو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ، تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا۔زینت کے یہ سامان بھی جو مَیں بتانے لگا ہوں اسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
سفید رنگ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ۶۵؎ دُنیا میںاگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہو سکتا، اندھا ہے تو سوجا کھا نہیں
ہو سکتا، نکٹا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص ہزار کوشش کرے صابن کی ٹِکیوں سے اپنے مُنہ کو صبح وشام مل مل کر دھوئے۔ اگر اس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہو گا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی۔کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں ملتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُ ن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئرز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خریدتے ہو۔ کہیں پام اوئل(PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہو مگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا۔ آئو ہم تمہیں بتاتے ہیں یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے مُنہ سفید براق ہو جائیں گے، پھر دنیا میںتو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں۔بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمایا وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْ ھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۶۶؎
ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منُہ سفیدہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہو گا۔
بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوںمیں نہیںلینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میںہی آتا ہے ۔ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا۶۷؎ کہ جب کسی کو لڑکی پیداہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کامنہ کالا ہو جاتا ہے۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقعہ میںکالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اُسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے۔ اسی طرح اُن کے نزدیک یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزّت کی وجہ سے اُن کے چہروںپر نور برستا معلوم ہو گا اور خداتعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور ان کا انکار نہیں ہو سکتا۔
کریمیں، پوڈر اور سُرخی
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو:-
اوّل:- وہ ایسی کریمیںمَلتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے، مسام ُکھل جائیں، مساموں سے زہر اور مَیل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے۔
دوم:- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر چُست ہو جائیں، اُن کے مسام سُکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پررونق پیدا ہو جائے ، گویاپہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام ُکھل جائیں اور َمیل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا اِسترخاء جاتا رہے۔ اسی طرح پوڈر لگاتے ہیںتا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُرخیاں لگاتے ہیںتا کہ دوسروںکو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں۔
اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے ۔ وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاضِرَۃٌ ۶۸؎ یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے نَاضِرَہ کے معنے عربی میں حُسن اور رونق کے ہیںاور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ حُسن کے معنے تناسبِ اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جوچہرے اور قویٰ سے ظاہرہوتے ہیں۔ا گر ایک شخص کاناک پچکا ہؤا ہو، مگر اس کے کلّے اور ہونٹ سُرخ ہوںاور اُس کا رنگ سفید ہو تو اس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیںیا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یاماتھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں۔یا کلّے اتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوںمعلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کودیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، بعض کُتّے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، بعض سؤر کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔بعض بلّی اور بعض چوہے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی ان جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرایہ مضمون نہیں اس لئے میں اس نقص کو دورکرنے کے طریق نہیں بتا سکتاصرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مَل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کرلیں یا روج لگا لیں، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کریموں اور غازوں اور لپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈرکی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش ونگار درست کر کے انہیںوہاں لے جایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کانا ہو گا تو اُس کا کانا پن جاتا رہے گا، لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا،آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کردیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دئیے جائیں گے۔آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقینا اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دُور کر کے انہیںجنت میں داخل کر یگا۔ـ
ایک لطیفہ
حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی، یَارَسُوْلَاللّٰہ!یہ باتیں چھوڑیںاور مجھے
یہ بتائیں کہ میں جنت میںجائوںگی یا نہیں؟اب اُس کایہ سوال بے وقوفی کا تھامگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دِق کیاکرتی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت مذاق سُوجھا اور آپؐ نے فرمایا، مائی! جہاں تک میرا علم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ یہ سُنتے ہی رونے پیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جائونگی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَیں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جائو گی۔ اُس نے کہا کہ آپؐ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ آپؐ نے فرمایا روئو نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میںچونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیںہوتی۔ جیسے خواب میںتمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے۔اسی طرح بظاہر جنت میںجو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میںشراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہو گی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میںترقی کرے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ جو چیز دنیا میں تم درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرَہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیں ۔یعنی رنگ نِکھرا ہؤا ہو۔صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو۔ دنیامیں توکئی لوگ چہروں پرکریم ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہؤا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش ونگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پیدائشِ جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پُھوٹ پُھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہوگی۔
چمکتے ہوئے چہرے
اسی طرح فرماتا ہے۔ وُجُوْ ہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ۔ ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ ۷۰؎ اُس دن جنت میںجانے والوں کے چہر ے چمک
رہے ہوں گے۔ دنیا میںلوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے۔ کہتے ہیں فلاںفلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح چمک ہوتی ہے فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جَھلک پیداہو گی جیسے موتیوں کی جَھلک ہوتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ۔ ضَاحِکَۃٌ دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں، ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میںنے بعض کتابوں میںپڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں، تا ایسا نہ ہو کہ شِکن پڑ کر پوڈر گر جائے، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شِگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا۔مَیں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہؤا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُتر ے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہؤا ہو گا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہو گا۔
شگفتہ پیکر
اسی طرح فرماتا ہے مُسْتَبْشِرَۃ ان کی بڑی خوشیاںہونگی، یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈرلگا تی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ
کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاںاس قسم کاکوئی خطرہ نہیں ہو گا اور ہرشخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہو گا۔
نرم ونازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے
اسی طرح فرماتا ہے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۷۱؎ دنیا میںکریمیں اس لئے
لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں ، مگر فرمایا وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاعِمَۃٌ ہمارے ہاں اس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیںہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی کھردراپن نہیںہوگا بلکہ وہ نرم اورملائم ہوں گے نَاعِمَہ کے معنے عربی زبان میں لین الملمس ۷۲؎ کے ہیں، یعنی اُن کے جسم نرم ہوںگے یہ نہیںہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میںکھردرا پن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے توڈِھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا نرم، سفید حسین، پُر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر،لپ سٹک اور رُوج کسی کی ضرورت نہیںہوگی۔یہ چیزیں آپ ہی آپ خداتعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی۔
اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں
(۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیں۔آیا اس مینا بازار میں بھی خوشبوئیںہوں
گی یا نہیں؟ جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میںیہ لکھا ہؤا دیکھا کہ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۷۳؎
فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سَودا کرنے والا مقرب ہو گا، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی،یہاںبھی خداتعالیٰ نے دُنیوی اور اُخروی نعماء میںایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح یہاں صر ف کریمیں ملتی ہیں، پوڈر ملتے ہیں۔ لپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یاہونٹ یا دانت یا منہ مل جائے تو نہیں مل سکتا۔ اسی طرح دنیا میں اسّی روپے تولہ کا عطر مل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی حِس ہی نہ ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیںدے سکتی۔اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بدبو میںاپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفہ اوّل نے جب ہمیں طِبّ پڑھائی، تو آپ نے فرمایا ۔ایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی حِس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بدبو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایاآنکھیں بند کر کے اگر اس کے سامنے پاخانے کا ٹِھیکرا اور اعلیٰ درجے کاکیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی، ایک دن انہوں نے اُسے کہاکہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا وہ کہنے لگی۔بی بی! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے۔ جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہؤا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی حِس ہی نہیں۔ تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر سے خوبصورت معلوم ہوتاہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لُطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میںبھی لے جائو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم کیا دیتے ہیں۔ فَرَوْحٌ ہم سب سے پہلے خوشبو سونگھنے اور اس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میںپیدا کرتے ہیں رَوْحٌکے معنے ہیں وِجْدَانُ الرَّا ئِحَۃِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا۔ دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں، مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوئوں کو محسوس کرے (رَوْحٌ) میرے اپنے ناک کی حِس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔ اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بدبو دار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گُھٹنے لگتا ہے، مَیں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتاہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایاکرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اوّل کو اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی۔ میںآپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میںآپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ مَیںنے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں۔ فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیابخاری میںکوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میںہی مشغول رہتے تھے۔ یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طر ف چل پڑتے۔ آپ تھے تو میر ے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اس لئے مَیں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا، ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے، ہم تو اور کاموں میںبُھول ہی جاتے ہیں۔
مَیں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا، اگر میںخلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی حِس بھی تیز تھی اور اس امر میںبھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے۔ تو ناک کی حِس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ حِس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیںگے ا ور پھر عِطر (رَیْحَانٌ) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ ۔مثل مشہور ہے کہ ناک نہ ہؤا تو نتھ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی حِس تیز کر دیںگے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں اور اس کے بعد ریحان دیں گے رَیْحَانٌ کے معنے ہیں کل نباتٍ طیّبالرِّیْحِ۷۴؎ یعنی ہر خوشبودار چیز اُن کو ملے گی ۔ وَجَنَّتُ نَعِیْمٍ اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی۔ یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھر ی ہوئی ہوگی۔
جسمانی طاقت کی دوائیں
(۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں۔ کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت
کے لئے ہے،کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دوائوں کو کھائو پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھائو۔ پس میںنے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں؟ اس خیال کے آنے پرمجھے معلوم ہؤا کہ ایک رنگ میں اس بات کا بھی انتظام ہو گا، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَاخٰلِدِیْنَ ۷۵؎
فرمایا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاںنہیں دیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کی دوائیں وہاںدی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہووہاں طاقت کی دوائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اس لئے اسے طاقت کی دوائوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریںگے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرمایا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی۔ طِبْتُمْ اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیگی ، گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے۔ یا تو بیماری جر مز(GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہو تا اور اسے بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔مثلا معدہ میںتیزابیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کردیںگے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ہیضہ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جَرم(GERM) تمہارے جسم میںداخل نہیں ہو گا، پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا اس لئے فرمایا طِبْتُمْتمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے۔ پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے۔ اس لئے فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھْاَ یہ حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیںہو گی۔
نفیس برتن
(۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے، مَیں نے سوچا کہ کیا اس بازار میں بھی ا س قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر
میری نظر فوراً اس آیت پر پڑی کہ وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا ۷۶؎
کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سودا کریں گے وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میںخداتعالیٰ کے مقررکردہ خادم چیزیں لائیں گے وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا اور ُکوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے۔ قَوَارِیْرَxا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میںشراب ڈالی جائے۔ پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہو گی جو شیشہ کے برتنوں میںہوتی ہے گویا ان برتنوں میںایک طرف تو اتنی صفائی ہو گی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میںپڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی۔ درحقیقت مؤمن کا جنت میںایک دوسرے سے اسی قسم کا معاملہ ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میںسے شربت نظر آ جاتا ہے۔ یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیںہو گی اورایسی چیزیں جو بظاہر شفاف نہیںہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی۔
فِضَّۃ کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں، پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا، ہر شخص جانتا ہو گا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے شُبہ کا سوال ہی پیدا نہیںہو گا۔
چار پائیاں اور گائو تکیے
(۱۰) پھر میں نے مینا بازار میںگھر کے اسباب فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں
آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دَوڑائی تو وہاں لکھا تھا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۷۷؎
مَوْضُوْنَۃٍ کے معنے بُنی ہوئی چارپائی کے ہوتے ہیں ۔ پس عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوَنَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بُنی ہوئی ہونگی۔ عربوں میںدوطرح کا رواج تھا۔ اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چارپائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اس میں کوئی چارپائی نہیںتھی، بلکہ اس میںسونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے، لوگ وہاں گدّے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ ان پر سونے کی عادت نہیںتھی اس لئے میں نے اپنے لئے ایک ہوٹل سے چارپائی منگوائی تب جا کر سویالیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ وہاں جنت میں بُنی ہوئی چارپائیاں ہوں گی(جو لچکدار ہوتی ہیں)مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چارپائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میںسونے کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ کہیں قرآن میںیہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی ۔درحقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہو گی اس لئے وہاںسونے کی بھی ضرورت نہیںہوگی۔ اس سے بھی ان لوگوں کا ردّ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاشی کا مقام کہتے ہیں۔ عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے ۔
؎
ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کُجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو۔ اسی طرح عیاشی میںلوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میںکہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چارپائیوں پر سو رہے ہوں گے بلکہ فرمایا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ اس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پرنہیں، ہم کتابیں پڑھتے ہیں، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیںتو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اس سے شُبہ پڑ سکتا تھاکہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ ایک دوسرے کی طر ف مُنہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف منُہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا۔ ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چارپائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے مگر سونے کے لئے نہیں، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خداتعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے۔
شاہانہ اعزاز واکرام
اسی طرح فرماتا ہے فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَۃٌ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۷۸؎
پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُوُنَۃٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌمَّرْفُوَعَۃٌ ہونگے سَرِیْر کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کے معنے تختِ بادشاہی کے ہوتے ہیں چارپائی کے معنے تب ہوتے ہیںجب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چارپائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ جیسے سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے الفاظ تھے ، لیکن اگر خالی سُرُرٌ کا لفظ آئے تو اس کے معنے تختِ شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُرُرٌ کے ساتھ تشریح کے لئے ضرورکوئی لفظ ہو گا۔ یہاں چونکہ خالی سُرُرٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تختِ شاہی ہی ہے اور پھر تختِ شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوْعَۃٌکہہ دیا، کیونکہ تختِ شاہی اونچارکھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے۔ دنیا میںتو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کرلی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو! چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا۔
خداتعالیٰ کی سچی غلامی اختیار کرنے
والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے
دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خداتعالیٰ کی غلامی اختیار کر لی تو خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا
تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیںاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال کے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اس اختلاف کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلا ع ہوئی تو وہ فوراً اس مجلس میں گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابوبکرؓ خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریرکی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آ گئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اَور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ابوبکرؓ مکہ کے رئوساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میںسے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کر لے بالکل اور بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابوبکرؓ ؟ وہ کہنے لگا وہی ابوبکر جو تمہارا بیٹا ہے۔ کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنابادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں، ابوقحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سُنی تو بے اختیار کہہ اُٹھے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ محمد رسول اللہ ضرور سچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابوبکرؓ بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کرلیا۔
تو دُنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا۔
شاہِ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے
مسلمانوں نے پائے استحقار سے ُٹھکرادیا
ایران میں جب مسلمان گئے تو کسریٰ کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھاجائیں، ان
کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے ۔کسرٰی نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لائو، میں اُن سے خود باتیں کروں گا ۔ جب مسلمان اس کے دربار میں پہنچے تو کسرٰی اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گوہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو۔ تمہیں یہ کیاخیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہوگئے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ ا س سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہمار ی کایاپلٹ دی، اب ہر قسم کی عزت خداتعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے۔ کسرٰی کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا مَیں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جائو۔ چنانچہ اس نے تجویز کیا کہ فی افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے۔گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو تیس تیس روپے دیکر خریدا جا سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اورحقارت کے ساتھ اُسے ُٹھکرا دیا۔تب کسریٰ کو غصّہ آ گیا اور اس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لائو۔ تھوڑی دیر میں مٹی کابورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے۔نوکر نے ایسا ہی کیا ۔ جب بورا اس صحابی ؓ کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیںمانی تھی اس لئے جائو اس مٹی کے بورے کے سِوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے، وہ صحابی ؓ فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے۔ انہوں نے اِس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسرٰی نے اپنا ملک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرایسا فضل کیا تھا کہ اُن میںسے ہر شخص بادشاہ بن گیاتھا۔
ایک مسلمان غلام کا کُفّار سے معاہدہ
یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںایک دفعہ
مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی۔رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ کُھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے۔مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اس صلح کا کوئی علم نہیں ۔ انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اس صلح نامہ پر موجود ہیں۔کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھُسلا کر دستخط کروالئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے۔غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی؟ اس نے کہا، مَیں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اس میںکیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا تو پھر لائو انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میںدستخط کا طریق تھا) اور اس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا مَیں حضرت عمرؓ سے اس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا میںکوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات ردّ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اس کے مقرر کر دہ نمائندہ کا مصدّقہ تسلیم ہو گا۔ اب گووہ ایک غلام تھا مگر اس وقت اس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے۔
سامانِ جنگ
گیارہویں بات مَیں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامانِ جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں، ڈھالیںہوتی ہیں اسی طرح کا
اور سامانِ جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا میںدیکھوں ۔آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میںملتی ہیںیا نہیں؟
روحانی ڈھال
جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اس مینا بازار میںڈھالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے لَھُمْ دَارُالسَّلامِ عِنْدَرَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ
بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ۷۹؎
جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پرکوئی حملہ نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کوجنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مؤمنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں۔ اب تم کسی مصیبت میں نہیںڈالے جائو گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیںآئے گی۔دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دِہ ہے۔
خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ
دنیا میں بھی اس بات کی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خداتعالیٰ کی حفاظت میںرہتے ہیں
اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام ونامراد رہتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ باقی لشکر بھی اِدھر اُدھر متفرق ہوگیا۔ ا تنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میںمارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگا۔
وہ وہاں آپہنچا۔درخت سے آپؐ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جگا کر کہا بولو! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہؓ اُ س وقت اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا، مگرایسی حالت میں بھی آپؐ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ بلکہ آپؐ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہؤا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہؤا۔ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا۔ یہ سُننا تھا کہ اس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپؐ بڑے شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کم بخت! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا۔
تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
ایک رؤیا
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام پرجب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو مَیں نے گھبرا کر دعاکی۔ رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں سکول سےآرہا
ہوں اور اس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کر تاہوں۔ وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے۔ جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہؤا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا۔ ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترتی تھیں۔بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے۔ جب میںگھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہؤا ہے اورآپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہؤا ہے۔ صرف آپ کی گردن مجھے نظر آرہی ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مَیں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو مَیں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑلیا۔ کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور مَیں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں اِسی دَوران میںاچانک میری نظر اوپر اُٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ :-
’’جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُ ن کو کون جلا سکتا ہے‘‘
تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دئیے۔
امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیّت
سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی
ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ اس کا جُرم یہ تھا کہ اس نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب مقدمہ ہؤا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے
بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہؤا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں۔عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندومذہب کے وہ دشمن ہیں، سکّھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور مَیں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا۔ میں اس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ پھیروچیچی گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میںوہاں چلا گیا۔پستول مَیں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کردوں گا، چنانچہ پھیروچیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا(یہ دراصل یحییٰ خاںصاحب مرحوم تھے) اور مَیں نے سمجھا کہ اِس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا۔ پھر میںدوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہوآئوں۔ جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کردیا۔ پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اور کو قتل کرنے کا تھا۔
اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خداتعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بناتا رہا ۔پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر مَیںقادیان میںنہیںبلکہ پھیروچیچی ہوں، وہ پھیروچیچیپہنچتا ہے تو وہاں بھی مَیں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میںاتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اِس وقت حملہ کرنا درست نہیں ۔ پھر وہ وہاںسے چلا جاتا ہے اور اِدھر اُدھر پھرکر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے۔
فتنہء احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادہ قتل سے قادیان آنا
اسی طرح احرار کے فتنہ کے ایام
میں ایک دفعہ ایک پٹھا ن لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے۔ میاں عبدالاحدخاں صاحب افغان اس سے باتیں کرنے لگے۔ باتیںکر تے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہلائی اور پٹھان اس طرز پراُسی وقت اپنی ٹانگ ہلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے چھُرا چھپایا ہؤا ہو۔ میاں عبدالاحدخاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اِس لئے جونہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چُھری پکڑ لی۔ بعد میں اس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا۔ اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا ورنہ اگر کوئی غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے۔
زہر آلود بالائی کھلانے کی کوشش
اسی طرح مَیںایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی
کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کردیا۔ رستہ میںکسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو ، چنانچہ اُس نے چکھنے کے لئے ذرا سی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آ رہی تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی۔ تو اس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کاپتہ چلتا ہے، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے ان سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہرحال اس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیرمحدود اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ
پھر مَیں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں
میںحفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میسّر آ سکتے ہیں کیا اس مینا بازار سے بھی ہمیںکوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں سو اس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میںلکھا تھا اِنَّ اللّٰہَ یُدفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یٌّ عَزِیْزٌ ۸۰؎
فرماتا ہے ۔یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میںرکھیں گے۔ اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہو گی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھا لا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگو ا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اُٹھائی ہے۔ پھر فرما تا ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو۔ یا د رکھو! اِس دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کامقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر ناواجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پریقینا قادر ہے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میںعبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں، عیسائیوں کے گرجے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خداتعالیٰ کانام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں۔
فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ سچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اس لئے اس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کر تا ہے اور خدا بڑاہی قوی اور عزیز ہے ۔جس طرف خدا ہو جائے گا اس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا۔
دشمنوں پرغالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار
یہ تو دفاعی جنگ ہے۔ مَیں نے سوچا
کہ اس سامانِ جنگ سے تو میںدشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہؤا اِ س میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آئوں گا؟ کیا اس مینا بازار میںکوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوارکی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَھُمْ لِیَذَّکَّرُوْا فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا- وَلَوْشِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیْرًا- فَلا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا- وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۸۱؎
ان آیات میںپہلے پانی کا ذکر ہے جوکلامِ الٰہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیاہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتار تا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میںپھیلادیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے، مگر اکثر لوگ کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں، مگر کلامِ الٰہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے ردّ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پرجان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا ۔ جو اس طرح ہؤا کہ کسی جوہری کے ساٹھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گِر گئے، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہوگئے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے؟ تو اس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چند لڑکے ان ہیروں سے گولیاںکھیل رہے تھے، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ اس جوہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پُڑیہ میںتھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں، حالانکہ وہ پچاس ہزار روپے کا مال تھا۔یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جو سٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے او رجو نہ صرف ا س زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کایاپلٹ دیتا ہے اُس کو ردّ کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے تو فرماتا ہے اکثر لوگ کُفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجتے ۔یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حُجّتتمام کرنا چاہتے تو بجائے اس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی،ہربستی میںایک ایک نذیر بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم کُفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیںہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمام حُجّتہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے۔ پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمامِ حُجّتکے بعد عذاب آجاتا ہے۔ اگر ہر بستی اور ہر گائوں میںاللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گائوں پر وہ عذاب نازل ہوتا جو اب براہ راست ایک حصۂ زمین کے مخالفوں پر نازل ہو تا ہے۔ پس تو اُن کافروں کی باتیں مت مان، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد۔ جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے (وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے۔مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو! بڑھو اور لڑو۔ اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ علمائ! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہو اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طر ف بھاگتے ہیں) پس دنیا کے مینا بازار میںتو لوہے کی تلواریںملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ کیلئے لڑائی میںکام نہیں آ سکتی تھیں ،بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ٹوٹ جاتی تھیں، مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی، تیرہ سَو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی۔
جہاد بِالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے
یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیاکوفتح
کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اورجہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے۔ یہ وہ تلوار ہے کہ جوشخص اس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو گا۔ اگر تیرہ سَو سال میںبھی ساری دنیامیںاسلام نہیں پھیلا تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کُند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا۔ آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہوسکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں، ہوش سنبھالنے سے لیکر بُڈّھے ہونے تک وہ نحو اور صَرف پڑھتے رہتے ہیںاور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیامیں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اِس کتاب میںموجود نہ ہو۔ اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پا سکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میںنہ پائی جاتی ہو۔ پھر فرماتا ہے وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دُنیا میں ملا دئیے ہیں مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دنیا میںملاد ئیے ہیں ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے۔ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے۔ اور آگ کی طرح گرم وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا مگر باجود اس کے کہ دونوں سمندر ملا دئیے گئے ہیں اِس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے۔
دنیا میںقاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، مَیں ایسی چائے کو ’’منافق چائے‘‘ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بُلایا، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفا ق ایسا ہؤا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کوکیا کہتے ہیں ، مَیں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اِس وقت پئے ہی جائیں۔ وہ دوست کچھ دلیر سے واقعہ ہوئے ہیں،مَیں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو،مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا۔
تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہرجب د و چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بد ل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہو گا کہ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔اے ملنے والو! تمہارے ملنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میںجذب ہو جائو بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو۔ دیکھ لویہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمٰن میںبھی ان الفاظ میںذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۸۲؎ کہ خدا نے دو سمندر اس زمانہ میں بنائے ہونگے، ایک میٹھے پانی کا ہو گا اور ایک کڑوے پانی کا، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ وہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہو گی کہ میٹھا پانی کڑوے میںجذب نہیں ہو گا اور کڑوا پانی میٹھے میںجذب نہیں ہو گا۔
مغر ّبیت کی کبھی نقل نہ کرو
یہ پیشگوئی درحقیقت مغربیت اور دجّالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف
اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے ھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ۔ اور اُجَاج سے یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذْبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُوْرًا میں بتا دیا کہ تمہیں ان قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا۔ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اَور ہو اور ہم اَور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے مَیںتحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے۔اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں، انہیں مغربیّت کی نقل نہیںکرنی چاہئے، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے۔مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ درحقیقت مِلْحٌ اُجَاجٌ ہیں، عَذُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے۔ـ
جماعت احمدیہ کے قیام میںایک بہت بڑی حکمت
ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے سوا ل کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کوکیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں۔ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھر اہؤا ہو اور اس میں کھٹی لسّی کے تین چار قطرے بھی ڈال دئیے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے۔ تو لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے۔آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے۔ اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مل جُل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہوجائیں گے اور ہم بھی جہادِ قرآنی سے غافل ہو جائیں گے۔ پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغِ اسلام کے ہے بُھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسّر آئیں وہ بھی سُست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے۔ پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ ان دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا، کاش! دوسرے مسلمانوں میںبھی یہ حِس پیدا ہو۔
طبعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان
جب مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں
کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اِس وقت علم نہیں، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پید ا ہو جائے۔ پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے۔ جب میرے دل میں یہ خیال آیا، تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔
(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں بُھوک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے۔ انسانی دماغ سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود بُھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیںبلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور وفکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح بعض چیزیں انکار سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا ازالہ ہو۔ یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے ۔ گویا تقاضے دو قسم کے ہیں، ایک طبعی اور ایک عقلی۔ طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی، لیکن نیویارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیویارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیویارک دیکھوں۔ تو نیویارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے او ر روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی۔ نیویارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے ۔ تو ان دونوں تقاضوں میںفرق ہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پور ے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کرمر جائوں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اس صورت میں بھی میر ا دماغ کمزور ہو جائے گا۔ پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہو اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو۔
قرآنی بشارت
مَیں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ معاً میرے کان میں آواز آئی وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَ نْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۸۳؎
کہ جو جو چیزیںہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُ ن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں جیسے اشتہاء کہ وہ اندر سے پید ا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ حس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے۔ گویا قرآن کریم نے ان خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیںاور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے۔ یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریںتو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک حصہ کی خواہش انسانی قلب میںپائی جاتی ہے۔
حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش
عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی حِس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو
جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایامِ حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے۔ درحقیقت انسان کو خداتعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے، اس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہؤا ہو، یا چِکنی مٹی ہو اور سَو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں بھوک لگتی ہے اس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہو تی ہے اور یہ خواہش اتنی سخت ہو تی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل گر جاتا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طبّ ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے یا مٹی میںکون سے ایسے اجزاء ہیںجن کا حاملہ عورتوں کو دِیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل گر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سردرد کا دورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سردرد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دورہ ہو جاتا ہے۔
تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ دنیا میںتو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا۔ عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے، مگر فرمایا وہاںجو بھی طبعی خواہش پیدا ہو گی اس کو پورا کر دیا جائے گا۔
دماغی خواہشات کی تکمیل
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا
بھی سامان ہو۔پس مَیں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہو گی، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہو گی یا نہیں؟ اس پر میں نے دیکھا تو اس کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا تھا لَھُمْ فِیْھَا مَایَشَائُ وْنَ۸۴؎ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ مشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، مگر اشتہاء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہو گی اور انسان کی مشیّت بھی پوری ہو گی۔ گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی ان کی اس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا۔
ہمارے خدا کا عجیب وغریب مینا بازار
میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو
ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی ہیں تو ضروری نہیںہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں۔ اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اٹھا سکوں۔ مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میںبیمار ہو جاتا ہوں تو اس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں، تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جائوں گا۔ مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینابازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لائو اپنا مال اور لائو اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کردوں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لائوں۔ اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو مَیں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو۔
غالب تھا تو شرابی مگرا س کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:-
؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ
خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اس کا ہے باوجود اس کے کہ نہ مال اس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سَودا کرنے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سَودا کر لو۔ مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو۔ پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو۔ اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تویکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے طوق ، ساری زنجیریں، ساری بیٹریاں اور ساری ہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے۔ اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا بلکہ سارا مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہو گی تو وہ بھی پوری کی جائے گی۔اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے۔ اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلّی رکھنا، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا۔
جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الٰہی اسرار کا علم ہؤا تو مَیں اپنے ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا، سخت شرمندہ ہؤا۔ اور میں حیران ہوگیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا۔ جس چیز کو مَیں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطرناک غلامی تھی اور جس چیزکو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حُریّت تھی۔ میں شرمندہ ہؤا اپنے علم پر، میں حیران ہؤا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کرپائوں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عُریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بے اختیار میں نے کہا اے میر ے آقا! یہ غلامی جو تُو پیش کر رہا ہے، اس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں۔ اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب عزیزوں اور دوستوں کو بھی۔بلکہ اے خدا! تُو ساری دنیا کو ہی اپناغلام بنا لے تا کہ ہم سب اس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں۔ پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ - ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً - فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادیْ - وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ- اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان! آ آ اپنے رب کی طرف آ۔ تو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے۔ آ اور میرے بندوں میںداخل ہو جا اور آ میری جنت میں داخل ہو جا۔
اپنی جانیں اور اپنے اموال خداتعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو !
یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جو تمہارا خدا تمہیں
دینے کے لئے تیار ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔وہ اِس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو۔ وہ تم سے سَودا کرنا چاہتا ہے مگر سَودا کرنے کے لئے اُس نے خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے۔ پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا۔ مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کامطالبہ کر رہا ہے۔ تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جائو اور کہو کہ اے ہمارے آقا! آپ ہم سے اپنی ہی چیز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر نثار کر نے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لُٹانے کے لئے حاضر ہیں۔ جب تم اس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائو گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چِھینا نہیں جاتا۔ مگر اس ارادۂ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہار ا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس ابدی جنت میں داخل کر ے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیںاور جس کے مقابلہ میںدُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے۔ وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا۔ وہ تمہارے سلاسل اور آہنی طوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا۔ تم پھر دنیا میں سربلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے۔ پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا، پس آئو ہم اُس کے حضور جھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمار ے آقا ! تو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے ، تو اپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میںسُلگا ، تو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قُرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حُریّت وہی ہے جو تیری غلامی میںحاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تُجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس آئو اس جُھوٹی حُریّت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کاموجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی میسّر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے۔
۱؎ عبس: ۲۰ تا ۲۲ ۲؎ الحج : ۷،۸
۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسراء یل
۴؎
البقرۃ : ۹
۵؎
التوبۃ : ۱۰۰
۶؎
الکھف : ۵۰
۷؎
ھود : ۱۱۲
۷؎
النباء : ۳۷
۹؎
المؤمن : ۴۱
۱۰؎
بنی اسراء یل : ۶۴
۱۱؎
المعارج:۳۶
۱۲؎
اٰل عمرٰن : ۱۱
۱۳؎
الصّٰفّٰت : ۷۹ تا ۸۱
۱۴؎
الصّٰفّٰت :۱۳۰تا۱۳۲
۱۵؎
الانبیاء : ۹۲
۱۶؎
العنکبوت: ۲۸
۱۷؎
الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۱۸؎
الاحزاب : ۵۷
۱۹؎
الحشر : ۱۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۰؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۸۷۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ الرّعد : ۲۴ ،۲۵
۲۲؎ طمنچے: طمنچہ کی جمع۔ پستول۔ چھوٹی بندوق
۲۳؎ التوبۃ : ۱۱۱
۲۴؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ
۲۵؎ بخاری کتاب الصوم باب المجامع فی رمضان
۲۶؎
البقرۃ: ۴
۲۷؎
الاعراف: ۱۵۸
۲۸؎
الاعراف: ۱۹۷
۲۹؎ بخاری کتاب الادب باب اِکْرَام الضیف (الخ)
۳۰؎
الحج : ۴۸
۳۱؎
الفجر : ۲۸
۳۲؎
حٰمٓ السجدۃ : ۳۲
۳۳؎
الدھر : ۲۰
۳۴؎
البقرۃ : ۶
۳۵؎
الدھر : ۶
۳۶؎
الدھر : ۱۲
۳۷؎
الدھر : ۱۸
۳۹؎
الدھر : ۲۳
۴۰؎
الصّٰفّٰت : ۴۶
۴۱؎
محمّد : ۱۶
۴۲؎
البقرۃ : ۲۶
۴۳؎
محمّد : ۱۶
۴۴؎
البقرۃ : ۲۲۰
۴۵؎
محمّد : ۱۶
۴۶؎ المطفّفین : ۲۶ ، ۲۷
۴۷؎ تلچھٹ ۔ وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے۔
۴۸؎ دُرد ۔ تلچھٹ
۴۹؎ الصّٰفّٰت : ۴۸
۵۰؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۲۹۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۱؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۸۹۳۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۲؎
الطّور : ۲۴
۵۳؎
الدّھر : ۲۲
۵۴؎
المطفّفین : ۲۸
۵۵؎
المطفّفین : ۲۹
۵۶؎
الدھر : ۱۹
۵۷؎
الواقعۃ : ۲۱، ۲۲
۵۸؎
الطّور : ۲۳
۵۹
الدھر : ۱۵
۶۰؎
الواقعۃ : ۳۳ ، ۳۴
۶۱؎
محمد : ۱۶
۶۲؎
الحج : ۲۴ ، ۲۵
۶۳؎
الاعراف : ۲۷
۶۴؎
محمد : ۱۸
۶۵؎
اٰل عمران : ۱۰۷
۶۶؎
اٰل عمران : ۱۰۸
۶۷؎
النّحل : ۵۹
۶۸؎
القیامۃ : ۲۳

۶۹؎ لسان العرب المجلد الرّابع صفحہ۱۷۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء
۷۰؎ عبس : ۳۹ ، ۴۰ ۷۱؎ الغاشیۃ : ۹
۷۲؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۱۳۲۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۳؎ الواقعۃ : ۸۹ ، ۹۰
۷۴؎ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۷۵؎ الزمر : ۷۴ ۷۶؎ الدھر : ۱۶
۷۷؎ الواقعۃ : ۱۶ ، ۱۷ ۷۸؎ الغاشیۃ : ۱۴ تا ۱۷ ۷۹؎ الانعام : ۱۲۸
۸۰؎ الحج : ۳۹ تا ۴۱ ۸۱؎ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۸۲؎ الرحمٰن : ۲۰ ، ۲۱
۸۳؎ الزخرف : ۷۲ ۸۴؎ النّحل : ۳۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
دیباچہ
برادران! السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتَہٗ
سیرِر وحانی جومیرے کچھ لیکچروں کا مجموعہ ہے جس کی غرض وغایت کتاب میںمذکور ہے جس کی جلد اول کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۵۴ء میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں ۱۹۳۸ئ، ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کے لیکچر اکٹھے کر دئیے گئے ہیں اب اِس کی دوسری جلد شائع کی جا رہی ہے اور اس میں ۱۹۴۸ئ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے لیکچر شامل کر دئیے گئے ہیں اگلے لیکچروں کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ دو جلدوں میں شائع ہوں گے یا ایک جلد میں، اگر ۱۹۵۶ء کے جلسہ میں یہ مضمون مکمل ہو گیا تو اُس وقت معلوم ہو گا کہ آیا کتاب کے دو حصے کرنے ضروری ہیں یا ایک حصہ کافی ہے، حصہ دوم بھی اور اس کے اگلے حصے بھی ایسے مضامین پر مشتمل ہیں جو قرآن کریم کی خوبیوں کا شاندار نقشہ کھینچتے ہیںاور اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو ان کا مطالعہ کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ جلد ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
میںاس کتاب کو مریم صدیقہ کے نام معنون کرتا ہوں ، کیونکہ انہی کو حیدرآباد دکھانے کے لئے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا جس میںیہ مضمون خداتعالیٰ کے فضل سے کھلا ہے گو اس سفر میں میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم بھی ساتھ تھیں اور میری لڑکی عزیزہ امتہ القیوم بیگم بھی ساتھ تھی، مگر اصل میںیہ سفر مریم صدِیقہ کو ہی حیدر آباد دکھانے کے لئے اختیار کیا گیا تھا جہاں ان کے بہت سے رشتہ دار ہیں ۔ چونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کا ثواب ہمیشہ ان کو پہنچتا رہے زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مرنے والے تک صدقہ اور دُعا ہی پہنچتے ہیں اس لئے اس کتاب کا سارا خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے دونگا تا کہ جو لوگ اس کتاب کو پڑھ کر فائدہ اُٹھائیں وہ ان کے لئے دعا کریں اورجتنی جِلدیں مُفت شائع کی جائیں ان کے صدقہ کا ثواب ان کوتا ابد پہنچے۔
پس میں شرکتِ اسلامیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ چونکہ اس کی طباعت کا سب خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے دُونگا، تمام کتب میں سے دو سَو کتابیں غریب مستحقین کو ۸/۱ قیمت پر دیں اور ایسے لوگوں کو دی جائیں جو اس دیباچہ کے پڑھنے اور پڑھوانے کا اور دُعا کا وعدہ کریں اور پانچ سَو کتاب نصف قیمت پر مستحقین کوتقسیم کریںاور باقی کتابوں کی جو قیمت آئے اور جو سب کتابوں کا نفع آئے، اُس کا نام مریم صدیقہ فنڈ رکھ کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلا می لٹریچر شائع کرتے جائیں اور اس صدقہ جاریہ کو عملاً جاری رکھا جائے۔

مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
۱۷؍اپریل ۱۹۵۶ء







بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۴)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ مارچ ۱۹۴۸ء بمقام لاہور)
عالَمِ روحانی کا بلند ترین مینار
یا
مقامِ محمدیت
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
میری آج کی تقریر کاموضوع ’’سیرِروحانی‘‘ ہے یہ میری اِس مضمون کی تقریروں کا چوتھا نمبر ہے۔ ان تقریروں کا محرک میراایک سفر ہؤا تھا جو مَیں نے ۱۹۳۸ء میںکیا میںاس سال پہلے سندھ گیا وہاں سے کراچی، کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد کاسفر کیا۔ہر جگہ کے دوستوں نے مجھے وہاں کی اہم اور قابلِ دید جگہیں دکھانے پراصرارکیا اور چونکہ میری ایک بیوی، بیٹی اور ہمشیرہ بھی ساتھ تھیں، اس لئے مَیں نے ضروری سمجھا کہ یہ قدیم آثار خود بھی دیکھوں اور ان کو بھی دکھائوں، خصوصاً حیدرآباد، آگرہ اور دلّی کے پُرانے آثار دیکھنے کا ہمیں موقع ملا۔ جب ہم دلّی پہنچے تو ہم غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھنے کے لئے گئے یہ قلعہ ایک اونچی جگہ پر واقع ہے اور ٹوٹا ہؤا ہے ، لیکن سیڑھیاں قائم ہیں میری ایک بیوی اور لڑکی اس قلعہ کے اوپر چڑھ گئیں۔ میںاُس وقت نیچے ہی تھا اوپر چڑھ کر انہوں نے مجھے کہا کہ یہاں بڑا اچھا نظارہ ہے، ساری دلّی اس قلعہ پر سے نظر آ رہی ہے آپ بھی آئیں اور اس نظارہ سے لُطف اندوز ہوں۔ میرا سر چونکہ اونچائی پر چڑھنے سے چکرانے لگتا ہے اس لئے پہلے تو مَیں نے انکار کیا، لیکن پھر ان کے اصرار پر مَیں بھی اوپر چڑھ گیا اور مَیں نے دیکھا کہ واقعہ میںوہ ایک عجیب نظارہ تھا ۔ ساری دلّی نظر آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک فلم آنکھوں کے سامنے پِھر رہی ہو، نہ صرف نئی اور پُرانی دلّی بلکہ اس کے قلعے، مزار ، لاٹیںاور مسجدیں سب آنکھوں کے سامنے تھیں اور ایک ہی وقت دلّی کے یہ پُرانے آثار تاریخی شواہد کومیرے سامنے پیش کر رہے تھے۔
مَیں نے ان آثار کو دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے جس کی کسی نہ کسی خاندان سے یا کسی نہ کسی قوم یامذہب سے نسبت ہے۔یہ آثار اِن قوموں کے لئے فخر کا موجب تھے، لیکن آج وہ قومیں مٹ چکی ہیںاور ان آثار کو بنانے والوں کانام ونشان بھی نہیںپایا جاتا، بلکہ بعض جگہوں پر تو اُن کا دشمن قابض ہے اور وہ قومیں جنہوں نے یہ یادگاریں قائم کی تھیں محکومیت اور ذلّت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔یہ ایک عبرت کی بات تھی جو میرے دل میںپیدا ہوئی اور مَیںسوچتے سوچتے انہی خیالات کی رَو میں کھو یا گیا اور میری توجہ ان یادگاروں پر مرکوز ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے پیچھے سے آواز آئی کہ اب آجائیں بہت دیر ہو گئی ہے، لیکن میرے خیالات کی رَو میرے قابو سے باہر تھی۔ مَیں نے اُس وقت سوچا اور غور کیا کہ یہ مادی آثار جو دنیا میں اپنی یادگاریں قائم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، کیا ان کے مقابلہ میں ہمارے خدا نے بھی کچھ آثار بنائے ہیں؟ اور اگر بنائے ہیں تو ان خدائی آثار اور یادگاروں کی کیاکیفیت ہے اور یہ مادی آثار ان کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ مَیں نے سوچنا شروع کیا کہ جن لوگوں نے یہ قلعے بنائے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کیا ، کیا اس کے مقابلہ میںہمارے خدا نے بھی کوئی قلعہ بنایا ہے ۔یا جن لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے مینار بنائے ہیں کیا ان کے مقابلہ میں خداتعالیٰ نے بھی کوئی مینار قائم کیا ہے۔ اسی طرح دنیوی مینابازاروں کے مقابلہ میں کیا خداتعالیٰ نے بھی کوئی مینا بازار بنایا ہے یا دُنیوی دیوانِ عام اور دُنیوی دیوانِ خاص جو بادشاہوں نے بنائے، کیا ان کے مقابلہ میں روحانی عالَم میں بھی کوئی دیوانِ عام اور دیوانِ خاص پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ دریا اور سمندر جو قدرتی طو ر پر دنیا میں بہہ رہے ہیں ، کیا ان کے مقابلہ میںاسلام میںبھی کوئی ایسی یادگاریں پائی جاتی ہیں؟ آخر سوچنے اور غور کرنے کے نتیجہ میں میرے دل میںقرآن کریم کی کئی آیات آتی چلی گئیں اور مجھے معلوم ہؤا کہ یہ دنیا کی یادگاریں انہی یادگاروں کاصرف ایک ظاہری نشان ہیں اور یہ آثار ان روحانی آثار کی طرف توجہ دلانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ ورنہ اصل یادگاریں وہی ہیں جو خداتعالیٰ نے بنائی ہیں اور جو دنیا کی دست بُرد سے پاک ہیں۔ جب میںیہاں تک پہنچا تو بے اختیار میرے مُنہ سے یہ فقرہ نکلا، ’’مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا‘‘ میری لڑکی امتہ القیوم بیگم جو میرے پیچھے ہی کھڑی تھی، اس نے کہا اباجان آپ نے کیا پا لیا؟ میں نے کہا میں نے بہت کچھ پالیا ہے لیکن میں اب تمہیں نہیں بتا سکتا، میں جلسہ سالانہ پر تقریر کرونگا تو تم بھی سُن لینا کہ مَیں نے کیا پایا ہے۔
سیرِروحانی پر پہلی تقریر
چنانچہ مَیں نے پہلی تقریر ۱۹۳۸ء میںکی جس میں مَیں نے تین مضامین بیان کئے تھے۔
اوّلؔ وہ آثار قدیمہ جوقرآن کریم نے پیش کئے ہیں۔
دومؔ قرآن کریم ایک وسیع سمندر کو پیش کرتا ہے ۔
سومؔ قرآن کریم ایک وسیع جنتر منتر کوپیش کرتا ہے۔
دوسری تقریر
۱۹۴۰ء میں مَیں نے دوسری تقریر کی جس میں مَیں نے یہ ذکر کیا کہ قرآن کریم بھی ایک قلعہ پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میںدُنیوی قلعے کوئی حقیقت نہیں
رکھتے اور قرآن کریم بھی ایک وسیع مسجد پیش کرتا ہے ایسی مسجد جس کے مقابلہ میںمٹی اور اینٹوں کی بنائی ہوئی مسجدیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔
تیسری تقریر
۱۹۴۱ء میں مَیں نے یہ بیان کیا کہ دنیا کے مقابر کے مقابلہ میں اسلام نے کونسے مقابر پیش کئے ہیں اور دُنیوی مینا بازاروں کے مقابلہ میں اسلام نے
کونسا مینا بازار پیش کیا ہے۔ نو(۹) مضمون ابھی باقی ہیں جن میں مَیں نے اپنے خیالات کا ابھی تک اظہار نہیں کیا۔ میںچاہتا ہوں کہ ان نو(۹) مضامین میںسے آج صر ف ایک مضمون کو بیان کردوں۔
فضائل القرآن پر لیکچر
۱۹۴۱ء کے بعد اس وقت تک مجھے اس مضمون پر بولنے کاموقع نہیں ملا ، کیونکہ درمیان میں بعض اور ضروری مضامین آ گئے تھے جن
کے متعلق تقریرکرنا ضروری تھا، اسی طرح ایک اور مضمون بھی نامکمل چلا آ رہا ہے جو فضائل القرآن کا مضمون ہے۔
پانچ لیکچر مَیں اس مضمون پر دے چکا ہوں، لیکن ابھی بہت سے لیکچر باقی ہیں۔ درمیانی عرصہ میں مختلف حالات کی وجہ سے جومضامین آجاتے رہے ہیں ان کی وجہ سے یہ دونوں مضمون ابھی نامکمل ہیں، لیکن بہرحال مَیں آج سیرروحانی کے ایک پہلو کو بیان کر دیناضروری سمجھتا ہوں۔
مادی میناروں کے مقابلہ میں اسلام کاپیش کردہ مینار
میں نے بیان کیا تھا کہ میں نے اپنے سفر میں
بڑے بڑے بلند مینار دیکھے، ایسے مینار جو آسمان سے باتیں کر رہے تھے، جیسے قطب صاحب کی لاٹ ہے یا تغلق شاہ کی لاٹ ہے۔ میں نے ان بلند وبالا میناروں کے دیکھنے کے بعد غور کیا کہ کیا قرآن کریم میں بھی کسی بلند تر روحانی مینار کا ذکر پایا جاتا ہے اوریہ کہ اس مینار کے مقابلہ میں دُنیوی مینار کیا حقیقت رکھتے ہیں۔
مینار کیوں بنائے جاتے ہیں؟
جب میں نے یہ سوچا تو پہلا سوال میرے دل میںیہ پیدا ہؤا کہ مینار کیو ں بنائے جاتے ہیں؟ اور کیا وہی
اغراض قرآن کریم کی کسی پیش کردہ چیز سے پوری ہوتی ہیں یا نہیں؟
عالَمِ بالا کے اسرار معلوم کرنے کی جستجو
اس نقطہ نگاہ سے جب میں نے میناروں کی تاریخ پر غور کیا، تو مجھے معلوم ہؤا کہ مینار
بنانے کا پہلا موجب یہ تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ آسمان کسی محدود فاصلہ پر واقع ہے اور وہ کسی اونچی جگہ پرجا کریا تو آسمان پر چڑھ جائیں گے اور یا اس قابل ہو جائیں گے کہ فرشتوں اور ارواح کے ساتھ باتیں کر سکیں اور آسمانی نظاروں کو دیکھ سکیں۔ گویا میناروں کی تعمیر کاایک محرک بنی نوع انسان کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ اوپر چڑھ کر آسمان کے قریب ہو جائیں گے اور عالم بالا کے اسرار کو آسمانی ارواح سے معلوم کر سکیں گے۔ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰـھَامٰـنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ۔ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰیٓ اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْئُ عَمَلِہٖ وَصُدَّعَنِ السَّبِیْلِ وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلاَّ فِیْ تَبَابٍ۔ ۱؎
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سن کر کہا کہ اس کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے، یہ کہتا ہے کہ مجھ سے خدا اور اس کے فرشتے باتیںکرتے ہیں ، یہ جھوٹ بولتا ہے، میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اے ہامان! تم میرے لئے ایک اونچا سامینار تیار کرو، میںبھی اس پرچڑھ کر دیکھو ں کہ آسمان پر کیا ہوتا ہے اور آسمانی اسباب اور ذرائع سے پتہ لوں کہ کیا موسیٰ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔
پُرانے زمانے میںسب سے اونچے مینار مصر میں ہی بنا کرتے تھے اور یہ اونچے مینا ر اسی خیال کے تحت بنائے جاتے تھے کہ مصری سمجھتے تھے کہ ارواحِ سماویہ آسمان سے اُترتی ہیں تو بلندی پررہنے کی وجہ سے وہ بلند جگہوں کو پسند کرتی ہیں اسی لئے و ہ اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کی قبریںبلند میناروں کی شکل میں بنایا کرتے تھے مگر چونکہ اُس وقت تک حساب کا علم ابھی مکمل نہیں ہؤا تھا اس لئے وہ سیدھا اور گول مینار بنانے کی بجائے اس شکل کی عمارات بنایا کرتے تھے r یعنی ان کی چوٹی تو صرف چند مربع گز کی ہوتی تھی ، لیکن بنیادہزاروں مربع گز میںہوتی تھی، بعد میں جب حساب مکمل ہؤا اور بنیادوں اور سدھائی کا علم ہؤا تو سیدھے گول میناروں کا رواج ہو گیا۔ میں جب مصر میں گیا تھا تو مَیں نے بھی ان میناروں کودیکھا تھا یہ اتنے بلندمینار ہیں کہ اچھا قوی اور مضبوط آدمی بھی ان پر چڑھتے چڑھتے تھک جاتا ہے ۔ آج بھی انجینئر جب ان میناروں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ اُس زمانہ میں ناقص انجینئرنگ کے باوجود انہوں نے کتنی بلند وبالا عمارتیں کھڑی کر دیں۔
درحقیقت یہ مینار نہیں بلکہ قبریں ہیں جو بادشاہوں کے لئے بنائی جاتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان میناروں کے ذریعہ سے آسمانی ارواح ان کے بزرگوں کے نزدیک ہو جاتی ہیں۔
حضرت مسیح کے مینار پر اُترنے کا
عقیدہ مسلمانوں میں کس طرح آیا
غرض مصری لوگ یہ مینار آسمانی روحوں کے ساتھ ملنے کے لئے بنایا کرتے تھے، مسلمانوں میں حضرت مسیح ؑکے مینار پر سے اُترنے کا عقیدہ بھی اسی بناء پر پیدا ہؤا ہے۔ احادیث میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح ؑ عِنْدَالْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ نازل ہو گا۲؎ یعنی وہ سفید مینار کے قریب اُترے گا۔
اس حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان اس عقیدہ میں مبتلا ہو گئے کہ مسیحؑ مینار پر اُترے گا حالانکہ حدیثوں میں عَلَیالْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِکے الفاظ نہیں بلکہعِنْدَالْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ کے الفاظ ہیں جو ان کے اس خیال کی تردید کر رہے ہیں کہ مسیح مینار پر اُترے گا بہرحال مسلمانوں میںاس خیال کا پیدا ہوجانا کہ مسیح مینار پر اُترے گا بتاتا ہے کہ انہوںنے پُرانی روایات اور احادیث کو محفوظ کر دیا۔ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ حدیث میں عِنْدَ کا لفظ ہے عَلٰی کا لفظ نہیں اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ جب اسلام مصر میںپھیلا تو کئی مصری عقائد مسلمانوں میں بھی آ گئے جن میںسے ایک یہ بھی عقیدہ تھا کہ ارواح مینا ر پر اُترتی ہیں۔ پہلے انہوں نے سمجھا کہ مسیح آسمان سے اُترے گا پھر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب روحیں مینا ر پر اُترا کرتی ہیں تو یہاں عِنْدَ کے معنے درحقیقت عَلٰیکے ہیں۔ اِسی قسم کے بعض اور بھی عقائد ہیں جو مصریوں سے مسلمانوں نے لئے۔مثلاً مصری لوگ تناسخ کے قائل تھے اور یہ عقیدہ بھی مصریوں سے مسلمانوں میںآیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریبا ًنو(۹) سال بعد ہی مصر میں ایک شخص عبداللہ بن سبا۳؎ نامی پیدا ہو گیا تھا اور اُس نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح دوبارہ دنیا میں آئے گی اور وہ قرآن کریم کی کئی آیتوں سے بھی استدلال کیا کرتا تھا ۔ یہ وہی شخص تھا جس نے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور بعد میں اس نے اور اس کے ساتھیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی ۔ دراصل یہ مصری فلسفہ سے متأثر تھا اور مصری فلسفہ یہ تھا کہ روحیں مینار پر اُترتی ہیں۔ شاید ان کے دلوں میںیہ خیال ہو کہ بزرگوں کی روحوں کے متعلق اگر یہ عقیدہ نہ رکھا گیا تو اس سے ان کی ہتک ہو گی اس لئے انہوں نے چاہا کہ کچھ ہم اپنے آپ کو اونچا کریں اور کچھ وہ نیچے اُتریں تا کہ اُن کا زمین پرنزول ان کے لئے ہتک کا موجب نہ ہو۔بہرحال کسی نہ کسی خیال کے ماتحت مصریوں میںیہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ارواح بلند جگہوں پراُترا کرتی ہیں اور اسی غرض کے لئے وہ مینا ر تعمیر کیا کرتے تھے۔
روشنی کا انتظام
(۲) پھر مینار اس لئے بھی بنائے جاتے تھے کہ ان پر روشنی کی جائے اور دُور دُور سے لوگوں کو اس سے راہنمائی حاصل ہو چنانچہ چھائونیوں میں
عموماً مینار بنائے جاتے ہیں اور ان میں روشنی کا باقاعدہ انتظام رکھا جاتا ہے اس روشنی کو دیکھ کر دُور سے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ فلاں جگہ ہے یا فلاں جہت پرسفر کرنا زیادہ مفید ہے ۔چونکہ پُرانے زمانے میںرات کو قافلے چلا کرتے تھے اس لئے میناروں کی روشنی سے انہیں بہت کچھ سہولت حاصل ہو جاتی تھی۔مینار کے معنوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے چنانچہ عربی زبان میں مینار کے معنے مقامِ نور کے ہیں۴؎ یعنی جہاں نور کا سامان موجو د ہو۔ پس مینار اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ان پر روشنی کی جا سکے اور اسی وجہ سے ان کا نام مینار ہؤا۔
ستاروں کی گردشیں معلوم کرنے کی خواہش
(۳) تیسرے مینار اس لئے بنائے جاتے تھے کہ اُن کے ذریعہ سے
آسمانی گردشوں کا پوری طرح علم ہو اور غیب کی خبریں معلوم کی جا سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ زمین پر ہیئت کے سامان اتنی صفائی کے ساتھ ان گردشوں کو نہیں دیکھ سکتے جتنی صفائی کے ساتھ اونچی جگہ سے دیکھ سکتے ہیںاسی لئے دُوربینیں ہمیشہ اونچی جگہ پر لگائی جاتی ہیں ۔ پس مینار بنانے کی تیسری وجہ یہ ہؤا کرتی تھی کہ لوگ ان پرآلاتِ ہیئت رکھ کر ستاروں کی گردشوں کا علم حاصل کرتے تھے تا کہ انہیں غیب کی خبریں معلوم ہو سکیں او رآئندہ کے اسرار اُن پر ُکھلیں۔
ابھی پچھلے دنوں لاہور میں ایک رات ہزاروں ہزارلوگ کمروں سے نکل کر باہر میدانوں اور صحنوں میں سوئے کیونکہ کسی منجم نے یہ خبر اُڑادی کہ اس رات ایک شدید زلزلہ آئے گا۔ لوگ ڈر گئے اور وہ اپنے مکان چھوڑ کر باہر میدانوں اور باغوں میں نکل گئے حالانکہ یہ سب باتیں اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَا وَ کَذَا فَذٰلِکَ فَھُوَکَافِرٌ بِیْ وَ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ۵؎
جو شخص یہ کہے کہ فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی ہے یا فلاںستارہ کا یہ اثر ہے ، وہ اسلام سے خارج ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے قانون کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ خیال کہ ستاروں کی گردش سے انسان آئندہ کے حالات معلوم کر سکتا ہے ، قطعی طو ر پر غلط ہے اور لاہور والوں نے اس کا اندازہ بھی لگالیا، مگر مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ جو دین سے پوری واقفیت نہیں رکھتے اس قسم کی غلط فہمیوں میں عموماً مبتلاء رہتے ہیں اور منجم بھی بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ مینار کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ستاروں کی گردش معلوم کرنے میںغلطی لگ گئی ہے۔یہی حال رمّالوں،جوتشیوں او رپامسٹوں کا ہوتا ہے۔
ایک احمدی نجومی کا واقعہ
میرے پاس ایک دفعہ ایک احمدی نجومی آیا اور اس نے کہا، میں آپ کو کچھ کرتب دکھانا چاہتا ہوں۔مَیں نے کہا، میں اس کو سمجھتا
تو لغو ہی ہوں ، مگر تمہاری خواہش ہے تو دکھادو۔ اس نے کہا مَیں نے یہ بات آپ سے اس لئے کہی ہے کہ مَیں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے یہ فخر حاصل ہو جائے کہ مَیں نے آپ کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا، آپ اپنے دل میں کوئی فارسی شعر رکھیں۔ مَیں نے فارسی نہیں پڑھی کیونکہ ہمارے اُستاد یہ سمجھتے تھے کہ فارسی کی تعلیم سے عربی کو نقصان پہنچتا ہے۔ گو مثنوی رومی وغیرہ تو میں نے پڑھی ہیں مگر فارسی کی باقاعدہ تعلیم مَیں نے حاصل نہیں کی اور ایسے آدمی کو عموماًمعروف شعر ہی یاد ہوتے ہیں، بہرحال میں نے اپنے دل میں سوچا کہ:-
؎
کریما بہ بخشائے برحالِ ما
کہ ہستم اسیر کمندِ ہَوا
اُس نے ایک کاغذ میرے سامنے رکھ دیا جس پر یہی شعر لکھا ہؤا تھا، اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ ایک سے دس تک کوئی ہندسہ اپنے دل میںسوچیں ، میں نے سات کا ہندسہ سوچا اور اس نے ایک کاغذ اُٹھا کر مجھے دکھایا جس پرلکھا تھا کہ آپ سات کا ہندسہ سوچیں گے۔ پھر کہنے لگا کہ آپ اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھائیں آپ کے دائیں طرف ایک مسّہ ہے میں نے ُکرتا اُٹھایا تو وہاں مسّہ بھی موجود تھا۔مَیں نے کہا تمہاری پہلی دو چالاکیاں تو مجھے معلوم ہو گئیں، تم یہ بتائو کہ تم نے یہ کس طرح پتہ لگالیا کہ میرے جسم کے دائیں طرف ایک مسّہ ہے۔ اس نے کہا ہماری راول قوم اِس فن میں بہت مشہور ہے اور اُس نے بڑی کثرت سے انسانی جسموں کو دیکھا ہؤا ہے۔ایک لمبے مشاہدہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اسّی فی صدی لوگو ں کی کمر کے دائیںطرف کوئی نہ کوئی مسّہ ضرور ہوتا ہے، اگر تین چار آدمیوں کو یہ بات بتائی جائے اور تین آدمیوں کے مسّے نکل آئیں اور چوتھے کے نہ نکلیں تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی حسابی غلطی ہو گئی ہو گی، وہ ہمارے علم پر شُبہ نہیں کرتے۔
ان دنوں قادیان میںایک اہلِ حدیث لیڈر آئے ہوئے تھے وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو اتفاقاً ان سے بھی اس بات کا ذکر آ گیا ۔ کہنے لگے ان لوگوں کو کوئی علم نہیںآتا۔محض اَرڑپوپو۶؎ ہوتے ہیں لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اس شخص کو دیکھوں، وہ اب کی دفعہ آئے تو اسے میرے پاس ضرور بھجوادیں۔ وہ قادیا ن کے قریب ہی ایک گائوں کا رہنے والا تھا، اتفاق سے دوسرے تیسرے دن پھر آ گیا اور مَیں نے اسے انہی اہلِ حدیث مولوی صاحب کے پاس بھجوادیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ میرے پاس دَوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے یہ تو معجزہ ہے معجزہ ۔ اُس نے جتنی باتیں بتائیں وہ ساری کی ساری صحیح تھیں۔ معلوم ہوتا ہے اسے غیب کا علم آتا ہے آپ اسے کہیں کہ کسی طرح یہ علم مجھے بھی سکھا دے۔ میں نے ہنس کر کہا تم تو اہلِ حدیث ہو اور جانتے ہو کہ خداتعالیٰ کے سِوا کسی کو علم غیب نہیں، پھر یہ کیسی باتیں کرتے ہو۔ پھر مَیں نے انہیں کہا کہ ایک دفعہ تو اس نے باتیں دریافت کرلیں، اب اسے کہو کہ وہ مجھ سے پھر وہ دو باتیں دریافت کر کے دیکھے مَیں نے خود بھی اسے کہا، مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہؤا۔ جس چیز کا مجھ پر اثر تھا وہ صرف یہ تھی کہ اسے مسّے کا کس طرح پتہ لگ گیا؟اس کے متعلق اس نے بتایا کہ ہماری قوم کے لوگ ساری جگہ پھرتے رہتے ہیں اور وہ انڈونیشیا اور جاپان تک بھی جاتے ہیں ،انہوں نے انسانی جسموں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے کے بعد بعض نتائج قائم کئے ہوئے ہیں جو عموماً ستّر، اسّی فی صدی صحیح نکلتے ہیں۔ جیسے انشورنس والوں نے اندازے لگائے ہوئے ہیں کہ اتنے آدمی بیمہ کرائیں تو ان میں سے اتنے مرتے ہیں اور اتنے زندہ رہتے ہیں۔ چونکہ ستّر فی صدی لوگوں کا مسّہ نکل آتا ہے اس لئے تیس فی صدی لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جانتے تو سب کچھ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ حساب میںان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔
میناروں کے ذریعہ اپنے نام کو زندہ رکھنے کی خواہش
(۴) مینار بنانے والوںکی ایک غرض یہ بھی ہؤا کرتی
تھی کہ ان میناروں کے ذریعہ سے بنانے والوں کا نام روشن رہے۔ بنانے والے بنا جاتے ہیں ا ور لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا تعمیرکردہ مینار ہے۔
حصولِ مقاصد میں ناکامی
مگرمَیں نے دیکھا کہ ان میناروں سے یہ چاروں اغراض پوری طرح حاصل نہیں ہوئیں۔ اوّل تو آسمانی روحوں کے
اترنے کا کوئی ثبوت نہیں، مصریوں نے مینار بناد ئیے، کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ کر دیا، مُردوں کے ساتھ زیورات اور سامان بھی دفن کر دئیے مگر اب یورپین قومیںوہی سامان اُٹھا کر اپنے ملکوں کو لے گئیں۔اور وہ مُردے جو انہوں نے وہاں دفن کئے تھے اُن کو بھی انہوں نے اپنے عجائب گھروں میںرکھا ہؤا ہے۔ کوئی لاش امریکہ کے عجائب گھر میں پڑی ہے اور کوئی فرانس کے عجائب گھر میں، گویا قیمتی سامان بھی ضائع ہؤا اور مُردوں کی بھی ہتک ہوئی۔ کسی فرعون کی لاش امریکہ کو دیدی گئی، کسی کی فرانس کو دے دی گئی اور کسی کی برطانیہ کو دے دی گئی اور اس طرح ان مُردوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔ دوم قرآ ن کریم کی ابھی میں نے ایک آیت پڑھی ہے جس میں فرعون نے ہامان سے یہ کہا کہ تم ایک اونچا اور بلند مینار بنائو تاکہ میں دیکھوں کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے؟ تورات سے پتہ لگتا ہے کہ رعمسیس وہ فرعون تھا جس نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو پالا اور منفتاح وہ فرعون تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میںتھا اور جو آپ کے مقابلہ میںآ کر تباہ ہؤا۔ وہ بنی اسرائیل سے اینٹیں پتھوایا کرتا تھا اور اسی طرح ان پر اور بھی بہت سے مظالم کیا کرتا تھا۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب اس نے ہامان سے یہ کہاکہ میرے لئے ایک اونچا سا مینار بنائو تاکہ میں یہ دیکھوں کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے تو خداتعالیٰ نے اس کی اس خواہش کو رائیگاں نہیں جانے دیا، اس نے اپنا وجود تو اسے دکھا دیا مگرمینار کی چوٹی پر نہیں بلکہ سمندر کی تہہ میں۔
قرآن کریم کہتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصرچھوڑ کر بھاگے اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا اور آخر وہ سمندر کی موجوں میں گھر گیا تو جب وہ غرق ہونے لگا اُس وقت اس نے یہ الفاظ کہے کہ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَائِ یْلَ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۷؎
گویا اُسے خدا تو نظر آ گیا مگر وہ فرعون جس نے آسمان پر خدا کو دیکھنا چاہا تھا اسے خدا پاتال میںنظر آیا۔ پس مینار پرچڑھ کر خدا دیکھنے کاایک غلط خیال اس کے دل میںموجود تھا جو پورا نہ ہو سکا۔
روشنی کا فُقدان
باقی رہا یہ امرکہ مینار روشنی دیتے ہیں یہ بھی ہمیں ان میناروں سے پورا ہوتا نظر نہیں آتا، دنیا میں سینکڑوں مینار کھڑے ہیں مگر ان پر روشنی کا کوئی
سامان نہیں، درحقیقت مینار بنانا اور بات ہے اور اس پر روشنی کرنا اور بات ۔ جن لوگوں نے وہ مینار بنائے تھے جب ان کی اپنی نسلیں باقی نہ رہیں تو روشنی کون کرتا؟ یوں کہلانے کو سب ہی مینار کہلاتے ہیں، لیکن روشنی کہیں بھی نہیں ہوتی یا کچھ عرصہ کے بعد مٹ جاتی ہے۔قطب صاحب کے مینار کو ہی لے لو آج اس پر کہاں روشنی ہوتی ہے بیشک وہ کچھ عرصہ تک روشنی دیتے رہے مگر پھر تاریک ہو گئے اور اب نہ وہ دن میں کام آتے ہیں اور نہ رات کو کام آتے ہیں، بنانے والوں کی نسلیںتک باقی نہ رہیں تو روشنی کرنے والے کہاں سے آتے؟
مینار بنانے والے خود زمانہ کی گردش کا شکار ہو گئے
تیسری غرض یہ سمجھی جاتی ہے کہ میناروں کے ذریعہ
غیبی علوم حاصل ہؤا کرتے ہیں، لیکن یہ غرض بھی ہمیں کہیں پوری ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ مینار بنانے والوں نے آسمانی گردشوں سے غیب کیا معلوم کرنا تھا وہ خود اپنے آپ کو گردشوں سے نہ بچا سکے اور ختم ہو گئے۔
انبیاء ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں
اس جگہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ لوگ جن کو روحانی مینار کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ بھی تو ختم ہو گئے۔ اگر
اشو کا ختم ہؤا تو آدمؑ بھی ختم ہو گیا۔ اگر دارا ختم ہؤا تو نوحؑ بھی ختم ہو گیا۔ پھر ان میںاور اُن میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جہاں تک ظاہر میںختم ہونے کا سوال ہے ہمیں دونوں ہی ختم دکھائی دیتے ہیں لیکن جہاں تک سلسلہ مذہبیہ کا سوال ہے وہ ختم نہیں ہوئے اور کبھی ختم نہیں ہو سکتے چنانچہ دیکھ لو اشوکاؔ کا نام لیوا آج دنیا میں کوئی باقی نہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور گوشوں میںپِھر کر دیکھ لو، داراؔ اور اشوکاؔ کوکوئی اگرگالیاں بھی دے تو دنیاکی کوئی قوم اسے مطعون نہیں کر سکتی۔ کوئی مذہبی یا سیاسی اقتدار ان لوگوں کو حاصل نہیں مگر آج بھی آدمؑ اور موسیٰ ؑپر ایمان لانے والے یہودی اور عیسائی دنیامیں موجود ہیں۔ بے شک جہاں تک قابلِ عمل شریعت کا سوال ہے ان انبیاء کی تعلیم ختم ہو چکی ہے،لیکن جہاں تک اُن کی عزّت اور ان کے مقام کا سوال ہے وہ اب بھی قائم ہے اور اب بھی ان کا نام دنیا میںروشن ہے۔اب بھی ہر شخص مجبور ہے کہ ان کا نام عزّت اور احترام کے ساتھ لے، پس وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہو سکتے۔
مینار بنانے والوں کے نام تک محفوظ نہیں
پھر میناروں کے ذریعہ نام روشن ہونے کی غرض بھی پوری نہ ہوئی بلکہ کسی کا نام روشن
ہونا توالگ رہا ہمیں یہ بھی معلوم نہیںہوتا کہ وہ مینار بنائے کس نے تھے؟ ہر مینار کے متعلق یہ بحث ہے کہ اسے کس نے بنایا تھا۔ قطب صاحب کی لاٹ بھی زیر بحث ہے اور تغلقی کی لوہے کی لاٹ بھی زیر بحث ہے اور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ ہے اصل میں کس کی؟ اشوکا کی کہ تغلق کی؟ کسی ہندوبادشاہ کی یا ایبک کی؟ قطب صاحب کی لاٹ کے متعلق ہی مسلمان کہتے ہیں کہ قطب الدین ایبک نے اسے بنایا تھا اور ہندو کہتا ہے کہ یہ فلاں راجہ کی بنائی ہوئی ہے۔فیروز تغلق کی لاٹ کے پاس کھڑے ہو کر ایک مسلمان کہتا ہے یہ فیروز تغلق کی لاٹ ہے اور ایک ہندو کہتا ہے کہ یہ اشوکا کی لاٹ ہے مگر جن روحانی میناروں کا ہم ذکر کرتے ہیں اُن کے ناموں کے متعلق کسی قسم کا اشتباہ نہیںپایا جاتا۔
غرض دُنیوی مینار جن اغراض کے لئے تعمیر کئے جاتے ہیں وہ اغراض ان کے ذریعہ کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ اس طرح جو فوائد ان کے بتائے جاتے ہیں وہ بھی بنی نوع انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوئے۔
قرآن کریم سے ایک عظیم الشان روحانی مینار کی خبر
لیکن اس کے مقابل پر قرآن کریم نے ایک
ایسے مینار کی خبر دی ہے جو روحانی طور پر تعمیر ہؤا ، جس پرچڑھ کر آسمان کی سب سے بڑی ہستی کا بھی پتہ چلا اور وہ زمین پر بھی اُتری۔
مصریوں کا تو محض خیال تھا کہ روحیں مینار کے ذریعہ نیچے اُترتی ہیں اس کا کوئی عملی ثبوت ہمیں نہیں ملتا لیکن جس مینار کا میں ذکر کرنے والا ہوں اُس پر آسمان کی سب سے بڑی ہستی کے اُترنے کا زندہ ثبوت نظر آتا ہے۔پھر اس مینار پر روشنی بھی ہوتی تھی اور ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اس پر چڑھ کر آسمانی گردشوں کا بھی علم ہؤا اور غیب کی خبریں معلوم ہوئیں، اس کے بنانے والے کا نام اس سے اب تک روشن ہے او رہمیشہ روشن رہے گا اس کے بنانے کا کوئی اور مدعی کبھی پیدا نہیں ہؤا اور نہ اس کے بنانے والے کے متعلق کبھی شک ہؤا کہ شاید اس کو کسی اَور نے بنایا ہو۔
مقامِ محمدیت
غرض قرآن کریم ایک ایسے مینار کی خبر دیتا ہے جس پرانسان چڑھا جس پرچڑھ کر اُسے آسمان کی سب سے بڑی ہستی کا پتہ چلا اور وہ عظیم الشان ہستی زمین پر بھی اُتری ، جس مینار سے دنیا میں روشنی پھیلی اور پھیلتی چلی جائے گی، جس مینار سے غیب کی خبریں ملیںاور ملتی چلی جائیں گی وہ مینار کیا ہے؟ وہ مینار مقامِ محمدؐیت ہے سورۃ نجم میں اللہ تعالیٰ اس مینا رکا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی- مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی- وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی- اِنْ ھُوَاِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰی- عَلَّمَہٗ شَدِیدُ الْقُوٰی- ذُوْمِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی- وَھُوَ بِا لْاُ فُقِ الْاَعْلٰی- ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی- فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی- فَاَوْحٰیٓ اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی- مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَارَاٰی- اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَایَرٰی- وَلَقَدرَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی- عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی- عِنْدَھَاجَنَّۃُ الْمَاْوٰی- اِذْیَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی- مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَا طَغٰی- لَقَدْرَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی ۸؎
فرماتا ہے ہم شہادت کے طور پر ایک ستارہ کو پیش کرتے ہیں خصوصاً ثریا کو اِذَاھَوٰی جب وہ نیچے اُترا ۔ کس بات کے ثبوت کے طور پر اُسے پیش کرتے ہیںاس بات کے ثبوت کے طور پر کہ مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی تمہارا ساتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ گمراہ ہؤا ہے اور نہ غلطی میں پڑا ہے وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اور نہ وہ ہَوا وہوس میں مبتلاء ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اِنْ ھُوَاِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی بلکہ وہ جو کچھ پیش کر رہا ہے اس وحی کا نتیجہ ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے۔
کلام چار طریق پرسُنا جاتا ہے
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان چار طرح کلام سن سکتا ہے۔
اوّلؔ اس کے افکار پراگندہ ہو جائیں ۔
دومؔ اس کا دل پراگندہ ہو کر شیطان سے اُس کا تعلق قائم ہو جائے۔
سومؔ اس کی ہَوا وحرص تیز ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں اُ س کے دل کے خیالات غالب آ جائیں۔
چہارمؔ کلام الٰہی نازل ہو۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے یہ نہ تو ضلالت کا نتیجہ ہے نہ غوائت کا نتیجہ ہے اور نہ ہَوا وہوس کا نتیجہ ہے بلکہ اس وحی کا نتیجہ ہے جو اس پر نازل کی گئی ہے اور جسے وہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
نجم سے کیا مراد ہے
یہ نجم کیا ہے جسے خداتعالیٰ اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضلالت میں مبتلاء نہیں ہوئے،
افکار کی غلطی میں مبتلاء نہیں ہوئے، کسی فلسفیانہ غلطی میں مبتلاء نہیںہوئے وَمَاغَوٰی اور نہ کسی شیطان کے قبضہ میں آ ئے وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اور نہ ہوا وہوس اور لالچ کی وجہ سے ان کے اندر ایسے خیالات پید اہوئے کہ وہ ایسی تعلیم پیش کرتے جو دنیا کے لئے گمراہی کا موجب ہوتی۔ ان دعوئوں کا ثبوت کیا ہے؟ فرماتا ہے ہمارے ان دعوئوںکا ثبوت ایک ستارہ ہے جو اوپر سے نیچے گِرا، یہ اوپر سے نیچے گِرنے والا ستارہ کیا ہے؟ اور ستارہ بھی ایسا جو تین زاویوں سے نیچے جُھکااور اس نے تین خیالات کا قلع قمع کیا۔ دنیا میںبعض فلسفی لو گ تھے جو یہ خیال کرتے تھے کہ فلسفیانہ باتیںپڑھ پڑھ کر اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، بعض لوگ یہ فقرہ چُست کر کے تسلّی پا لیتے تھے کہ کیسا بُرا آدمی ہے شیطان نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور اب یہ شیطانی باتیں لوگوں کو سناتا چلا جاتا ہے، کچھ اور لوگ تھے جو یہ کہہ کرمطمئن ہو جاتے تھے کہ اس کے نفس میںہواوہوس پیدا ہو گئی اور اس نے چاہا کہ مَیں بھی بڑا آدمی بن جائوں اس لئے یہ ایسی باتیں کہہ رہا ہے۔ ان تین خیالات کا ایک ہی ردّ ان آیات میں کیا گیا ہے فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضلالت پر نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غوائت پر نہ ہو نیکا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہواوہوس میں مبتلاء نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا۔ وہ کون سا ستارہ ہے جو اوپر سے نیچے آیا، اور وہ کونسا ستارہ ہے جس کے نیچے آنے کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضال نہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غاوی نہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَاطِق عَنِ الْہَوٰی نہیں جب تک ہم وہ ستارہ پیش نہ کریں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم از کم اس اعتراض سے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے بچا نہیںسکتے۔
احادیثِ نبویہ میں آخری زمانہ کی خرابیوں کا ذکر
ا س نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم احادیث کو دیکھتے ہیں توہمیں
وہاں سے اس امر کے متعلق بعض معلومات میسر آتی ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میری اُمّت پر ایسا آنے والا ہے جب اسلام مٹ جائے گا اور اس کی ایسی حالت ہوجائیگی کہ لَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلامِ اِلَّااسْمُہٗ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا وَلَایَبْقٰٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّارَسْمُہٗ ۹؎ اور قرآن کریم کی صرف تحریر باقی رہ جائیگی ۔
اس کا مضمون لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے گا۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تو صحابہ کرام گھبرائے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! اس کا علاج کیا ہے اُس وقت سلمان فارسی آپؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپؐ نے ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلائِ۱۰؎
کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تب بھی ان فارسی الاصل لوگوں میںسے ایک شخص ایسا پیدا ہو گا جو پھر آسمان سے ایمان اور قرآن کو واپس لے آئے گا۔
آسمانِ روحانی کے ایک ستارہ کی خبر
اس پیشگوئی میں آسمانِ روحانی کے ایک ستارہ کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا
ہے اور بتایا ہے کہ اس سے مراد وہ انسان ہے جو ثریّا سے ایمان کو واپس لائے گا۔ قرآن کریم نے تو صرف اتنا بتا یا تھا کہ آسمان سے ستارہ آئے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا کہ جب دنیا ظلمت اور تاریکی میں مبتلاء ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک ایسے انسان کو مبعوث فرمائے گا جوثریا سے ایمان کو واپس لے آئے گا، گویا ان معنوں کی رو سے اِذَاھَوٰی تقلیبِ نسبت کا رنگ رکھے گا جیسے ہماری زبان میں عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ پرنالہ چلتا ہے، لیکن کیا کبھی پرنالہ چلتے کسی نے دیکھا ہے، پرنالہ نہیں چلتا پانی چلتا ہے۔ یا لوگ کہتے ہیں ناک بہتا ہے آنکھیں بہتی ہیں؟ کان بہتا ہے تو کیا واقعہ میں کان بہا کرتا ہے یا ناک بہتا ہے یا آنکھیں بہتی ہیں، آنکھوں میںسے پانی بہتا ہے، ناک میںسے پانی بہتا ہے، کان میں سے پانی بہتا ہے مگر کہا یہ جاتا ہے کہ آنکھ بہتی ہے یا ناک بہتا ہے یا کان بہتا ہے ۔ یہ تقلیبِ نسبت ہوتی ہے یعنی ایک چیز کی جگہ بعض دفعہ دوسری چیز کا نام لے لیتے ہیں یا کہتے ہیں یہ چیز خدا نے میرے قریب کر دی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اُس چیز کے قریب ہو گیا۔ اس نقطہ نگاہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس انسان کا ذکر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلائِ
کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو وہ شخص اسے واپس لے آئے گا، قرآن کریم نے تقلیبِ نسبت کے طو پر اُس کا ان الفاظ میں ذکر کر دیا ہے کہ ایک ستارہ اوپرسے نیچے آئے گا جیسے کان میںسوزش ہوتی ہے اور اُس کی وجہ سے رطوبت بہتی ہے تو ہم کہتے ہیں ہمارے کان بہتے ہیں حالانکہ کان نہیںبہہ رہے ہوتے،کانوںسے رطوبت بہہ رہی ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم نے تو یہ فرمایا کہ وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی آسمان سے ایک ستارہ آئے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرستادہ آئے گا جو ایمان کو ثریّا سے واپس لے آئے گا اور پھر قلوب کو نورِایمان سے بھر دیگا۔
ایک شُبہ کا ازالہ
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم قرآن کریم کے لفظوں کو کیوں نہ ترجیح دیں اور کیوں نہ یہ سمجھیں کہ کوئی ستارہ ہی آسمان سے گرے گا کسی خاص آدمی
کی تخصیص کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تشریح کر دی تو ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کریم کے ان الفاظ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ روشنی میںدیکھیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک ایسا انسان آئے گا جو ثریا سے ایمان واپس لائے گا اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَالنَّجْمِ اذاھَوٰی پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معیّن رنگ میں ایک تشریح فرما دی تو اب ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم اس تشریح کو نظر انداز کر دیں، ایسا کرنا ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا۔مگر اس حدیث کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن کریم تو نجم کی نسبت ھَوٰی کا لفظ استعمال فرماتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ مسیحؑ ثریا کو زمین پر کھینچ لائے گا جو دشمنوں کے لئے ہلاکت اور دوستوں کے لئے ایمان لانے کا موجب ہو گا۔
شیاطین پر ہمیشہ شہابِ مبین گرا کرتا ہے
قرآن کریم میںیہ مضمون مختلف مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔سورۃ حجر
میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ وَحَفِظْنٰـھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِ رَّجِیْمٍ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُّبِیْنٌ ۱۱؎
یعنی ہم نے اس دنیا میںایک دینی نظام بھی قائم کیا ہؤا ہے جس طرح مادی آسمان میںتمہیں مختلف ستارے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح اس دینی نظام میں بھی ہم نے ستارے بنائے ہیں اور اسے ہر قسم کے شیطانوں کی دست بُردسے بچایا ہے اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُّبِیْنٌ مگرجب کبھی بے دین کی کوئی روح غالب آنے لگے توآسمان سے ایک حقیقت ظاہر کرنے والا روشن ستارہ گرتا ہے جو جھوٹ کا پول کھول دیتا ہے (اِسْتَرَقَ السَّمْعَ کے معنے عام طور پر یہ کئے جاتے ہیں کہ جوآسمان کی باتیں سنتا ہے حالانکہ آسمان کی باتیں سننے کا تو حکم ہے اور پھر وہ ہوتی ہی سنانے کے لئے ہیں، اس لئے اس کے یہ معنے نہیںہو سکتے)۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی دنیا میںخداتعالیٰ کی باتوں کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور دنیا میں فساد واقعہ ہو جاتا ہے اُس وقت آسمان سے ایک ستارہ گِرا کرتا ہے جو پھر صداقت کو دنیامیں قائم کر دیتا ہے اوربِگڑی ہوئی مخلوق کو درست کر دیتا ہے۔
مجددین کی بعثت کی خبر
اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسا ستارہ ہے جو اس موقع پر گر ا کرتا ہے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا تشریح کی ہے؟
اس غرض کے لئے جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اُن میں یہ ارشاد نظر آتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یَّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۱۲؎
یعنی میری امت کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک ایسا شخص مبعوث فرمایا کرے گا جو امت کی خرابیوں کو دور کرے گا اور دین کا از سرِ نو احیاء کر ے گا گویا جس چیز کوقرآن کریم نے شہاب مُبین قرار دیا ہے، اُس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روحانی انسان قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کبھی دنیا میںخرابی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بگاڑ کرپیش کیا جاتا ہے اُس وقت آسمان سے ایک ستارہ گِرا کرتا ہے جو مبین ہوتا ہے، یعنی چاروں طرف اس کے ظہور سے روشنی ہوجاتی ہے اور لوگوں پر دین کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ ایک ایسا آدمی میری امت میں مبعوث کیا کرے گا جو یُجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا دین کی خرابیوں کو دُور کرے گا اور اسلام کی تجدید کرے گا گویا وہی چیز جس کا نام قرآن کریم نے شہاب مبین رکھاتھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا نام مجدّد رکھا ۔
ہر نبی ایک شہاب ہے مگر محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم شہاب مبین ہیں
اس تشریح کے ماتحت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’شہابِ مبین‘‘ سے مراد ہمیشہ وقت کا نبی اور مجدّد ہوتا ہے جو شیطان کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اور دین کو ہر قسم کی رخنہ اندازیوںسے پاک کر دیتا ہے، لیکن
اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا ہر نبی ایک شہاب ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شہاب مبین بھی ہے کیونکہ وہ لوگ جو دین میںرخنہ اندازی کرتے ہیں ان کی ہلاکت اور بربادی کا وہ اس وقت موجب نہیں ہیں، یہ کام صرف وقت کا نبی یا مجدّد کر سکتا ہے اور یا پھر وہ نبی کر سکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک زندہ ہو اور جس کی شریعت ہر زمانہ میں قابل عمل ہو۔ اس لحاظ سے گوہر مجدّد اور ہر نبی ایک شہاب ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہاب مبین ہیں، کیونکہ آپ صرف نبی ہی نہیں بلکہ خاتم النّبیّٖن بھی ہیں اور آپ کی نبوت قیامت تک زندہ ہے۔ اب جو شخص بھی دین کے احیاء کے لئے مبعوث ہو گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو گا، آپ سے الگ ہو کر اور آپ کی غلامی سے انکار کرتے ہوئے کوئی شخص اس منصب پرفائز نہیں ہو سکتا۔
آسمانی باتیں سننے کے معنے
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب کوئی میری باتیں سنتا ہے یا آسمان کی
باتیں سنتا ہے تو اس پرایک شہاب گِرتا ہے جو اُسے تباہ کر دیتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے ہی آسمانی باتوں کے سننے کا ہم کو حکم دیا ہے پھر یہ کہنا کہ جو آسمانی باتیں سنتا ہے اس پر ستارہ گِرتا ہے ایک بے معنی سی بات ہو جاتی ہے۔ اس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں خالی آسمان کی باتیں سننے کاذکر نہیں بلکہ اِسْتَرَقَ السَّمْعَ کا ذکر ہے اِسْتَرَقَ ، سَرَقَ سے نکلا ہے جس کے معنے چوری کے ہوتے ہیں اور اِسْتَرَقَ السَّمْعَ کے معنے چوری چُھپے سننے کے ہیں۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص جو الٰہی جماعت میں داخل ہو کر اس کے کلام کو کھلے بندوں سنتا ہے ،جماعتِ حقہ میں اپنے آپ کو شامل کر لیتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کی اشاعت کرے اور بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پرلائے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے حصہ لیتا ہے لیکن وہ لوگ جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو سننے کے بعد انہیں بگاڑ کرپیش کریں اور لوگوں کو دھوکا اور فریب میںمبتلاء کریں یا وہ منافق جو اس لئے کسی سلسلہ میںداخل ہوتے ہیں کہ اُس مشن کو نقصان پہنچائیں اور آسمانی کلام کے اُلٹ پُلٹ معنے کرکے لوگوں میں بے ایمانی پیدا کریں، ان کے لئے آسمان سے ہمیشہ ایک شہاب گِرا کرتا ہے، ایسے لوگ جب بھی کسی فتنہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا فتنہ ایسا رنگ اختیار کر لیتا ہے جو دین کے لئے ــضُعف کاموجب ہو تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کسی مأمور یا مصلح یامجدّدِ وقت کو ان کی بیخ کنی کے لئے کھڑا کر دیتا ہے جو شہاب بن کر ان پرگرتا ہے اور منافقت ــ‘کفر وارتداد کے خیالات کا قلع قمع کر دیتا ہے۔
شرارتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے آسمانی تدبیر
اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ جن میں بھی بیان فرمایا
ہے وہ فرماتا ہے۔ وَاَنَّا کُنَّانَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَلِلسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْلَہٗ شِھَا بًارَّ َصَدًا ۱۳؎
یعنی اس سے پہلے تو ہم آسمان سے سننے کی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے مگر اب تو جوشخص بھی آسمان کی باتیں سننے کے لئے جاتا ہے اس پر آسمان سے ایک ستارہ گرتا ہے۔
یہاں بھی وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلی آیات میں بیان کیا جا چکا ہے یعنی جب شرارت کرنے والے دین کی باتیں بگاڑ کرپیش کرتے ہیں اور لوگوں کو غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شرارتوں کے انسداد کے لئے آسمان سے ایک نور نازل کرتا ہے مسلمانوں نے غلطی سے ان آیات کا یہ مفہوم سمجھ لیا ہے کہ شیطان آسمان پرجاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سُن لیتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات میںاس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ شیطان آسمان کی باتیں سُن نہیں سکتا اس نے یہاں تک کہاہے کہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۱۴؎
شیطان آسمانی کلام کے سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتے کیونکہ خداتعالیٰ نے انہیں ان باتوں کے سننے سے محروم کیا ہؤا ہے، اسی طرح قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمْ لَھُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیہِ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُھُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۱۵؎
کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ سے وہ آسمان پر جا کر خداتعالیٰ کی باتیں سُن سکتے ہیں ، اگر ان میں کوئی اس امر کا مدعی ہے کہ وہ آسمان پر گیا اور اس نے خداتعالیٰ کی باتیں سنیں تو وہ اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرے۔
کُفّار اور منافقین کی عادت
ان آیات سے ظاہر ہے کہ آسمان پر جا کر باتیں سننا تو الگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی اہلیت بھی قرآن کریم
نے تسلیم نہیں کی۔ پس درحقیقت اس جگہ آسمانی باتیں سننے کے معنے یہ ہیں کہ کُفّار اور منافقین کی عادت یہ ہے کہ وہ سچے دین کی باتوں کو اس نقطہ نگاہ سے سنتے ہیں اور اس لئے ان کو سیکھتے ہیں کہ وہ ان سے نئے نئے اعتراض پیدا کریں گے اور ان میں اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کو بَرانگیختہ کریں گے۔یہ معنے نہیں کہ وہ عرش پر جا کر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سُن لیتے ہیں ، خداتو خدا ہے اس دنیا کے معمولی معمولی بادشاہوں کے پاس پھٹکنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہیں ہوتی اور وہ ان کے قُرب میںجانے سے گھبراتے اور لرزتے ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیطان آسمان پرجاتا ہے اور وہ مَلَائِ اعلٰیاور جبرائیل او رعرش کی باتوں کو سُن کر زمین پر آ جاتا ہے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ شیطان کی طاقت ہی کہاں ہے کہ وہ آسمان کی کوئی بات سُن سکے، ہاں وہ لوگ جو شیطان کے مثیل ہوتے ہیں جنہوں نے ابلیسی جامہ زیبِ تَن کیا ہؤا ہوتا ہے وہ بے شک آسمان کی باتیں سنتے ہیں اور انہیں ایسے رنگ میں بگاڑ کر پیش کر تے ہیں کہ دنیا میں ایک فتنہ برپا ہو جاتا ہے۔چنانچہ دیکھ لو اس زمانہ کا پادری وہیری قرآن کریم پڑھتا ہے وہ ایک مولوی کو ملازم رکھتا ہے، اس سے قرآنی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر لدھیانہ میں بیس سال تک کام کرتا ہے اور اس عرصہ میںقرآن کریم کی ایک تفسیر شائع کرتا ہے ، وہ اس کا نام تفسیرِ قرآن رکھتا ہے مگر اُسے پڑھا جائے تو وہ اسلام کے خلاف ہرقسم کے اعتراضات سے بھری ہوئی ہے۔ قرآن کریم ایک آسمانی کتاب ہے زمینی نہیں، قرآن کریم سننے کے لئے انسان کو آسمان کی طرف کان رکھنا پڑتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے آسمان کی طرف کان رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور اُس پر عمل کریں۔ اور شیطان اس لئے کان رکھتے ہیں کہ آسمانی باتوں کو سنیں اورا ن پر اعتراض کریں۔ فرماتا ہے جب بھی ایسے لوگ دنیا میںپیدا ہو جائیں گے جو دین پراعتراض کرنے والے ہوں اور ان کی وجہ سے مذہب میں کئی خرابیاں واقع ہو جائیں اور دلوں میںگندے خیالات ڈیر ا جمالیں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک ستارہ بھیجے گا جو ظلمت کو دور کر دے گا اور پھر لوگوں کے دلوں میںایمان اور اخلاص پیدا کرے گا۔
عالَمِ روحانی کے کواکب
اسی طرح سورہ صّٰفّٰتمیں ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّازَیَّنَّا السَّمَائَ الدُّنْیَا بِزِْینَۃِ انِالْکَوَاکِبِ وَحِفْظاً مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ-
لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ- دُحُوْرًا وََّلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ - اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَ تْبَعَہٗ شِھَابٌ ثَاقِبٌٌ ۱۶؎
فرماتا ہے ہم نے دُنیوی آسمان کو ستاروں سے مزین کیا ہے تا کہ ہر شیطان جس کو اللہ تعالیٰ روکنا چاہتا ہے ، اس کے حملہ سے محفوظ رکھے وہ ملائِ اعلیٰ کی بات نہیں سن سکتے، ان پر ہر طرف سے پتھرائو ہوتا ہے اور اس کے علاوہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم رہنے والا عذاب ملے گا۔ اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان کی کوئی بات سُن تو نہیں سکتے لیکن اگر کوئی بات اُچک کر لے جائیں تو ان کے پیچھے ایک چمکتا ہؤا شہاب جاتا ہے اور انہیں تباہ کر دیتا ہے۔
مادی اور روحانی نظام میں شدیدمشابہت
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ کواکب سے ظاہری ستارے اور سورج وغیرہ مراد
نہیں بلکہ عالَمِ رُوحانی کے کواکب مراد ہیں جن سے دینی نظام کو مزّین کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں دو نظام پائے جاتے ہیں ایک روحانی نظام ہے اور ایک مادی۔ اور ان دونوں نظاموں میںایک شدید مشابہت پائی جاتی ہے جس طرح زمین کے رہنے والوں کو اپنے سروں پرایک آسمان نظر آتا ہے اور اس میں ستاروں کاایک نظام موجو د ہے جو اپنے اپنے دائرہ میںکام کر رہے ہیں اور اس نظام کو بدلنے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا اسی طرح روحانی نظام بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم کیا ہؤا ہے اور جسمانی نظام کی طرح وہ بھی کئی طبقوں میں منقسم ہے اوپر کے طبقے تو محفوظ ہی ہیں السَّمَائَ الدُّنْیَا جس میں شرارت کا امکان ہو سکتا تھا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے بھی ہم نے ستاروں سے مزین کیا ہے اور اس کے ذریعہ اس آسمان کی حفاظت کی ہے۔ستارے اور چاند جو اس مادی دنیا میں ہمیںدکھائی دیتے ہیں یہ نہ تو گرتے ہیںاور نہ ان کے ذریعہ ایسی کوئی تباہی آتی ہے جو شیاطین کے لئے ہلاکت کا موجب ہوتی ہو۔ اس جگہ جن ستاروں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے خدا تعالیٰ کے نبی،مجدّد اور نیک بندے مراد ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے روحانی آسمان کی زینت ہے۔ یہ لوگ اس لئے کھڑے کئے جاتے ہیں کہ جب شیاطین اس روحانی نظام میں رخنہ ڈالیں تو وہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں اور انہیں اپنی کوششوں میں ناکام کر دیں۔ آدمؑ سے لے کر اب تک کبھی بھی ظلمت کاکوئی دَور ایسانہیں آیا جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے رُشد اور ہدایت کے لئے کوئی مأمور نہ آیا ہو۔
ایک معزز وکیل سے گفتگو
ابھی گزشتہ دنوں مَیں سندھ میںتھا کہ وہاں ایک وکیل مجھ سے ملنے کے لئے آئے، وہ پُرانے شاہی خاندان میںسے
تھے۔ باتوں باتوں میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوںنے کہا کہ مَیں نوے فیصدی خاکسار ہوں۔ مَیں نے کہا نوے فیصدی کس طرح؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ خاکساروں کی باتیں تو میںٹھیک سمجھتا ہوں لیکن لیڈر پر مجھے بدظنی ہے اس لئے دس فیصدی کی گنجائش میں نے رکھ لی ہے۔ پھر مَیں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آدمؑ سے لے کر اب تک دنیا میں جب کبھی خرابی پیدا ہوتی رہی ہے کیا اس کا ازالہ کبھی کسی دُنیوی لیڈر نے کیا ہے؟ مَیں نے کہا آج ہر جگہ مسلمانوں کی حالت خراب ہے آپ ایک مثال ہی مجھے بتا دیں کہ دنیا میںکبھی ایسی خرابی پیدا ہوئی ہو اور اس کے دُور کرنے کے لئے کوئی انجمن قائم کی گئی ہو اور وہ کامیاب رہی ہو یا کسی خود ساختہ لیڈر نے اس کو دُور کرد یا ہو۔آخر ہزاروں سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، آپ بتائیں کہ مثلاً نوحؑ کے زمانہ میں خرابی پیدا ہوئی اور اُس وقت فلاںمجلس کی طرف سے فلاں لیڈر کھڑا کیا گیا اور اس نے اس خرابی کو دُور کر دیا، موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں خرابی پیدا ہوئی اوراسے فلاں فلاں دُنیوی لیڈر نے مٹا دیا۔ قرآن کریم جہاں بھی مثال دیتا ہے مأمور کی دیتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے ایک مأمور بھیجا اور اُس نے دنیا کی اصلاح کی۔ اگر اس کے خلاف کوئی مثال ہو تو آپ پیش کریں۔ کہنے لگے مثال توکوئی نہیں، مَیں نے کہا لوگ خواہ کتنی ٹکریں ماریں جب بھی عالمگیر خرابی پیدا ہوگی اس کا مداوا خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ہوگا۔ دنیا کی تدبیروں سے دنیا ٹھیک ہو سکتی ہے،حکومتیں بن سکتی ہیں، تعلیمی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن مذہب کی طرف منسوب کئے ہوئے غلط خیالات تبھی دُورہو سکتے ہیں جب خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی مأمور مبعوث ہو۔ علماء یہ کام نہیں کر سکتے وہ لوگوں کے مقابلہ سے ڈرتے ہیں ان میں یہ جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایک مسئلہ ہی کو منوا سکیں، کجا یہ کہ سر سے لے کرپیر تک خرابی واقع ہو چکی اور پھر یہ خیال کیا جائے کہ کوئی عالم یا صوفی یا گدّی نشین اس خرابی کو دُور کر دے گا۔ اب تک خداتعالیٰ کا یہی طریق نظر آتا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی طرف سے کسی کو مبعوث کیا اور وہ دنیا کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب بنا۔ یہ تو ہو نہیںسکتا کہ ایسی عالمگیر خرابی کے زمانہ میں خدا ہرشخص کے کان میں آ کر کہے کہ تیرے اندر یہ یہ نقص پایا جاتا ہے۔ اس کا طریق یہی ہے کہ وہ ایک مأمور مبعوث فرماتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگو ں تک پہنچاتا ہے۔ کچھ لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور پھر ان کی تبلیغ کے ذریعہ سے آہستہ آہستہ اور آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمارت کا کوئی ایک حصہ خراب ہو تو اس کی مرمت کی جا سکتی ہے، لیکن جب چھت میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے دیواروں میںبھی نقص پیدا کر دیا جائے، فرش میںبھی نقص پیدا کر دیا جائے، الماریوں میںبھی نقص پیدا کر دیا جائے، دروازوں میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے تو اُس وقت اس کی اصلاح کسی ایسے شخص کے ذریعہ ہی کی جا سکتی ہے جو پوراا نجینئر ہو۔
عالمگیر خرابی واقع ہونے پر خدائی سنّت
غرض قرآن کریم بار بار اس مضمون کو بیان فرماتا ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی
واقع ہوتی ہے آسمان سے ایک ستارہ گرتا ہے فرماتا ہے وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی
ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میںایک ستارہ کو پیش کرتے ہیں جب وہ ستارہ گرے گا دنیا پر ثابت ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ضالّ ہیں نہ غَاوِی اور نہ نَاطِقْ عَنِ الْہَوٰی ہیں بلکہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہے ہیں۔
پیشگوئیوں میںاستعارات کا استعمال
قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے اور الہامی زبان میں نازل ہوئی ہے مگر مسلمانوں
کویہ ایک عجیب غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ الہامی باتوں کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کرتے ہیں حالانکہ وہ باتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں یا موسیٰ علیہ السلام کہیں یا عیسیٰ علیہ السلام کہیں بہر حال جب بھی وہ آئندہ کے متعلق کوئی بات کہیں گے پیشگوئی ہی ہو گی او رپیشگوئی تمثیلی رنگ میں ہؤا کرتی ہے دکھایا اَور شکل میں جاتا ہے اور ظاہر اَور شکل میں ہوتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا میںانگوروںؔ کا ایک خوشہ دیا گیااور کہا گیا کہ یہ ابوجہل کے لئے ہے۔ آپ نے یہ رؤیا دیکھی تو گھبرا کر آپ کی آنکھ ُکھل گئی کہ ابوجہل کے لئے جنت سے انگوروں کا خوشہ آنے کے کیا معنے ہیں؟مگر بعد میں جب اس کا بیٹا عکرمہؓ مسلمان ہو گیا تب اس خواب کی حقیقت آپ پر ظاہر ہوئی اور آپ نے فرمایا ابوجہل کے لئے جنت کے انگوروں کا خوشہ بھجوانے کی تعبیر یہ تھی کہ اس کا بیٹا مسلمان ہو جائے گا۔ آپ کو دکھایا گیا کہ آپ ایک مقام کی طرف ہجرت کر یں گے جہاں کثرت سے کھجوروں کے درخت ہوں گے آپ کاذہن نخلہ مقام کی طرف گیا کہ غالباً وہاں ہجرت مقدر ہے اسی لئے آپ طائف بھی تشریف لے گئے تھے مگر وہاں کے لوگوںنے آپ کی شدید مخالفت کی پتھروں سے آپ زخمی ہوئے اور کوئی شخص آپ کے دعوی پرغور کرنے کے لئے تیار نہ ہؤا۔ یا مثلاً ایک صحابیؓ کے ہاتھ میں آپ نے کسریٰ شاہِ ایران کے کنگن دیکھے جس کی تعبیر یہ تھی کہ کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے والی ہے مگر دکھایا یہ گیا کہ کسریٰ کے کنگن ایک شخص نے پہنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح آپ نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں خزائنُ الْاَرْض کی چابیاں دی گئی ہیں، مگر یہ چابیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میںآئیں۔
پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں میںسے سب سے پہلے لمبے ہاتھوں والی بیوی فوت ہوگی۔ آپ کی بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے فوراً اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دئیے کہ دیکھیں سب سے لمبے ہاتھ کس کے ہیں؟ انہیں معلوم ہؤا کہ سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہیں مگر جب وفات ہوئی تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ہوئی تب معلوم ہؤا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ظاہری ہاتھوں کی لمبائی نہیں تھی بلکہ یہ سخاوت کی طرف اشارہ تھا۔ عربی محاورہ کے مطابق جب کسی کو لمبے ہاتھ والا کہا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بڑا سخی ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ تمام بیویوں میں سے سب سے زیادہ سخی تھیں اس لئے پیشگوئی کے مطابق سب سے پہلے انہی کا انتقال ہؤا۔
علم تعبیر الرئویا کے رو سے ثریّاکا مفہوم
اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا
لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ ھٰؤُلَائِ
توایمان کسی تھیلی کانام نہیں تھا جو ثریّاسے لٹکی ہوئی ہو یاثریاکوئی بنک کی والٹ (VAULT) نہیں تھا جس میں ایمان کو محفوظ رکھا جانا تھا۔بہرحال یہ ایک تمثیلی کلام تھا اور اس لفظ کا استعمال استعارہ کے رنگ میں ہؤا تھا پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر خواب میں کوئی ثریّا دیکھے تو اس کی کیا تعبیر ہؤا کرتی ہے۔ اس غرض کے لئے جب ہم تعطیر الانام کو دیکھتے ہیں جو الشیخ عبدالغنی النابلسی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے اور علم تعبیر الرئویا کی نہایت معتبر اسلامی کتاب ہے تو اس میں ہمیں یہ لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ ھِیَ فِی الْمَنَامِ رَجُلٌ حَازِمٌ فِی الْاُمُوْرِ۱۷؎ یعنی ثریا سے مراد ایسا آدمی ہوتا ہے جو اپنے تمام کام نہایت خوش اسلوبی اورکامیابی کے ساتھ سرانجام دینے والا ہو۔اسی طرح ابن سیرین جو مشہور تابعی گزرے ہیں اپنی کتاب ’’منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ھُوَرَجُلٌ حَازِمُ الرَّأْیِ یَرَی الْاُمُوْرَ فِی الْمُسْتَقْبلِ ۱۸؎
یعنی ثریّاسے مراد ایسا انسان ہوتا ہے جو نہایت پختہ اور صحیح رائے رکھنے والا ہو، اور آئندہ زمانہ میںرونما ہونے والے واقعات کو بھی اپنی روحانی بصیرت سے دیکھ لیتا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی
افاضہ کے نتیجہ میں مسیح موعودؑ کا ظہور
ان معنوں کے لحاظ سے ثریّا سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیںجنہوں نے اُن تمام فرائض کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سُپرد کئے گئے تھے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ
سرانجام دیا اور ہمیشہ کامیابیوں اور کامرانیوں نے آپ کے قدم چومے۔لیکن چونکہ آپ نے ہمیشہ زندہ نہیںرہنا تھا اور زمانۂ نبوت سے بُعد کی وجہ سے لوگوں نے کئی قسم کی خرابیوں میں مبتلاء ہو جانا تھا جن کو دُور کرنے کے لئے کسی آسمانی راہنما کی ضرورت تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اگر کسی وقت ایما ن سمٹ کر ثریّاتک بھی چلا گیا یعنی دنیا میں گمراہی پھیل گئی اور ایمان صرف آپؐ کی ذات تک محدود رہ گیا تو اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ آپ کے روحانی افاضہ کے نتیجہ میں ایک ایسا انسان مبعوث فرمائے گا جو آپ سے فیض اور برکت پا کر ایمان دنیامیں قائم کر دے گا اور کفر کی تاریکیوں کو پھاڑ دے گا یہی وجہ ہے کہ مسیح موعود کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل شاگرد ہونے کی وجہ سے ثریّا قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس نے بھی ظلمت کو دُور کرنا تھا اور اسلام کا نور دنیامیں پھیلانا تھا چنانچہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو النّجم کہا ہے جس کے معنے ثریّا کے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ اصحابی کالنّجوم ۱۹؎ میرے سب صحابہ نجوم کی مانند ہیں، پس اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا کہ مسیح موعود بھی صحابہ میںسے ہو گا اور وہ بھی آپ کے شاگردوں اور غلاموں میںشامل ہوگا۔
تمام اہم امور کا فیصلہ آسمان پرہوتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق تمام بڑے اور اہم کام آسمان سے
ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی بڑا تغیر رونما ہونے والا ہوتا ہے تو اس کے متعلق پہلافیصلہ آسمان پر ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے۔ حدیثوں میں صاف طور پرآتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کوئی بڑا کام کرنا ہوتا ہے تو پہلے وہ اپنے مقرب فرشتوں کو بتاتا ہے کہ میرا یہ ارادہ ہے۔ وہ فرشتے اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں وہ اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے اُس کا دنیا میں ظہور شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کے متعلق چاہتا ہے اُس کی مقبولیت کو دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔۲۰؎ غرض جتنے بڑے کام ہوتے ہیں سب آسمان پرہوتے ہیں زمین پر نہیں ہوتے۔ صرف زمین پر تغیرات ہونے کا عقیدہ ان لوگوں کا ہے جو دہریہ ہیںورنہ خداتعالیٰ کے ماننے والے تو جانتے ہیں کہ ہر بات کا فیصلہ پہلے آسمان پر ہوتا ہے اور پھر اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے گویا اگر ہم تمثیلی زبان اختیار کریںاور دنیا کو ایک تھیٹر کا ہال سمجھ لیں تو ڈرامہ آسمان پرلکھا جاتا ہے اور کھیل دنیا کے پردہ پر کھیلا جاتا ہے جب تک آسمان پر کوئی ڈرامہ نہیں لکھا جاتا زمین پر وہ کھیل نہیں کھیلی جاتی۔
محمدؐ رسول اللہ اور مسیح موعودؑ بھی آسمان سے ہی نازل ہوئے ہیں
میں سمجھتا ہوں اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ
سے مسلمانوں کو غلطی لگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آنے والا مسیح آسمان سے اُترے گا۲۱؎ اورقرآن کریم نے فرمایا تھا کہ وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی ایک ستارہ آسمان سے اُترے گا او رظلمت کا قلع قمع کر دے گا۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے ہم بھی اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراِس زمانہ میں جو اعتراضات ہوئے اُن کو دُور کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے آسمان سے مسیح موعودؑ کو بھیجا، کیونکہ وہ شخص جو دنیا میں اپنے ماں باپ کے گھر پیدا ہؤا وہ مرزا غلام احمد قادیانی تھا مسیح موعود نہیںتھا جب وہ چالیس سال کی عمر کوپہنچا تو خداتعالیٰ نے اسے مسیح موعود بنا دیا اور تب وہ گویا آسمان سے نازل ہؤا ۔ اسی طرح عرب کی سرزمین میںآمنہ کے گھر میںپیدا ہونے والا محمدؐ تھا لیکن محمدرسول اللہ آسمان سے ہی آیا چنانچہ قرآن کریم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۲۲؎
یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتی اور آپ کے آسمان سے نازل ہونے کو ظاہرکرتی ہے اگر مسیح پیدا ہوتا تو ضروری تھا کہ اس کے ماں باپ بھی اپنے اندر مسیحی صفات رکھتے۔اور اگر آمنہ کے گھر میں خاتم النّبیّٖن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوتا تو ضروری تھا کہ منصب رسالت سے تعلق رکھنے والے علوم آمنہ میں بھی پائے جاتے، انہوںنے اپنے بیٹے کا نام محمدؐ رکھا اور خداتعالیٰ نے چالیس سال کے بعد اسی محمدؐ کو ایک دوسرا روحانی جُبّہ پہنا کر رسول اللہ اور خاتم النّبیّٖن بنا دیا اور اس طرح گویا اُن کو آسمان سے نازل فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ مرزاغلام احمد جو قادیان کے رہنے والے تھے اُن کی یہ حیثیت ہی نہیں تھی کہ وہ دنیامیں کوئی روحانی انقلاب پیدا کر سکتے۔ نہ مکہ یا ازہر کا کوئی عالم اتنے بڑے بگاڑ کے وقت یہ کام کر سکتا تھایہ کام محض آسمان سے اُترنے والے کیاکرتے ہیں اور مسیح موعودؑ زمین پر نہیں بنا بلکہ آسمان سے اُترا ۔ ماںباپ نے آپ کا نام غلام احمد رکھالیکن خداتعالیٰ نے آپ کا نام مسیح اورمہدی رکھا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے مسیح موعود نازل ہؤا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے مہدی معہود اُترا۔
الطَّارِقاورالنَّجْمُ الثَّاقِب میں مسیح موعود کی پیشگوئی
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ بھی بیان
فرمایا ہے وہ فرماتا ہے وَالسَّمَائِ وَالطَّارِقِ۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَاالطَّارِقُ۔ النَّجْمُ الثَّاقِبُ ۲۳؎
یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںرات کے آنے والے کو اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ رات کوآنیوالا کون ہے؟ وہ ایک چمکنے والا ستارہ ہے نجم کے معنے عام ستارہ کے بھی ہیں اور ثریا کے بھی ہیں پس اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک ظلمت اور تاریکی کا زمانہ اسلام پر آنے والا ہے۔ اُس وقت ایک رات کو آنے والا آئے گا اور لوگوں کے دروازہ پر دستک دے گا کہ میں تمہیں بچانے کے لئے آ گیاہوں۔ اب دیکھو یہ دستک دینے والا کوئی آدمی ہی ہو گا ورنہ آسمانی ستارہ کو ہم طارق نہیں کہہ سکتے۔
پس اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ میں مہدی معہود کی خبر دی گئی ہے جس کانور مؤمنوں کے لئے برکت اور زندگی کا موجب ہو گا اور اس کی چوٹ دشمنوں کے لئے مُہلک ہو گی۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ نجم ثاقب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہو گا گویا یہ الزام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا جاتا ہے کہ آپ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ضَالّ ہیں،غَاوِیَ ہیں نَاطِق عَنِ الْھَوٰی ہیں اس کو دُور کرنے کے لئے ایک ستارہ اُترے گا اور اس کا اُترنا ثبوت ہو گا اس بات کا کہ آپ ضالّ نہیں غَاوِیْ نہیں، نَاطِق عَنِ الْھَوٰی نہیں۔
صداقت معلوم کرنے کا ایک اہم اصول
یہ ثبوت کیونکر ہو گا، اس کے لئے ایک موٹی بات جو ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہ ہے
کہ کوئی جھوٹا آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو تعلیم مَیںپیش کر رہا ہوں اس میں جب کبھی رخنہ واقع ہو گااُس وقت کوئی اور آدمی پیدا ہو جائے گا جومیرے کام کو سنبھال لے گا۔ یہ اتنی نمایاںبات ہے کہ عیسائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی سختی سے اعتراضات کرنے کے عادی ہیں وہ بھی اس بات پر قائم ہیں کہ کسی نبی کی صداقت کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کی کسی اور نبی نے خبر دی ہو اور اس نے اپنے بعد کسی اور نبی کے ظہور کی پیشگوئی کی ہو۔
عیسائیوں کی دوغلطیاں
اب جہاں تک اس اصول کا تعلق ہے ان کی یہ بات تو سچی ہے مگر وہ اس بات کو پیش کرتے وقت دو غلطیاں کرتے ہیں۔
اوّل تو یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی آسمانی وجود کی خبر نہیں دی اور اس طرح یہ بات ان کی صداقت کو ردّ کر دیتی ہے حالانکہ قرآن کریم نے متواتر اس مضمون کو بیان کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہی یہ ہے کہ جب بھی ان کے دین پر حملہ ہو گا آسمان سے ایک ستارہ گرے گا جو حملہ آور کو مٹا کر یہ ثابت کردیگا کہ محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضَالّ،غَاوِی اور نَاطِقْ عَنِ الْہَوٰی نہیں۔
دوسرے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پہلی کتب میں کوئی پیشگوئی نہیںپائی جاتی وہ نادان یہ نہیںسمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو مسیح علیہ السلام سے دس گنا پیشگوئیاںپائی جاتی ہیں لیکن میںکہتا ہوں اگر انہی کی بات مان لی جائے کہ وہی شخص سچا ہوتا ہے جس کے ظہور کی پہلے کسی نے خبر دی ہو توہم ان سے پوچھتے ہیں کہ بتائو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ ملاکی نبی نے اس کے متعلق پیشگوئی کی۔ ہم کہیں گے ملاکی کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ مثلاً حضرت دائود علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی ہے۔ ہم کہیں گے دائود علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہوں؟ وہ کہیںگے اس لئے کہ حضرت موسیٰ ؑنے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ ہم کہیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تم کیوں سچے سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ ہم کہیں گے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ہم کہیں گے کہ نوح علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ آدم علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ ہم کہیں گے کہ آدمؑ کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ آدمؑ کی تو کسی نے پیشگوئی نہیں کی اور جب اس اصول کے مطابق آدمؑ جھوٹا ہو گیا تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نوح بھی جھوٹا ہو گیا، ابراہیم بھی جھوٹا ہو گیا، موسیٰ بھی جھوٹا ہو گیا، دائود بھی جھوٹا ہو گیا، ملاکی بھی جھوٹا ہو گیااور عیسیٰ ؑبھی جھوٹا ہو گیا۔غرض اوپر چلو تب بھی عیسائیوں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور نیچے اُترو تب بھی عیسائیوں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک مسیح آخری منجیتھا جس نے اپنے بعد کسی اور کے ظہور کی خبر نہیں دی۔
غرض غلطی سے انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی مجددِ دین او ر مأمور کی خبر نہیں دی۔ لیکن اس میں کوئی شُبہ نہیںکہ ان کی بات درست ہے سوائے اس کے کہ جس سے سلسلہ نبوت کاآغاز ہو اس کی کوئی خبر دے ہی نہیں سکتااور جو قیامت کے قریب آئے گا وہ کسی بعد میںآنے والے کی خبر نہیں دے سکتا۔ لیکن بہرحال جب بھی کوئی مأمور آئے گا یہ یقینی بات ہے کہ وہ اپنے زمانہ کی خرابی کو دُور کرے گا اس کے بعد اگر کسی اور زمانہ میںنئی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو پھر دنیا کو ایک نئے مأمور کی ضرورت محسوس ہو گی اور یہ سلسلہ آدمؑ سے لے کر اِس وقت تک جاری رہا۔
تاریکی کے ہر دَور میں اسلام کے احیاء کی خبر
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے آپ کو یہ خبر دی کہ جب بھی اسلام پرتاریکی کا کوئی دَور آئے گا اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا آدمی کھڑا کیا جائے گاجو دوبارہ اسلام کو اپنی بنیادوں پر قائم کرے گا اور یہ ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضالّ نہیں کیونکہ کوئی ضالّ ہزار بارہ سَو سال کے بعد اپنے لئے ہمدرد پیدا نہیں کر سکتا اور کوئی شخص یہ طاقت نہیںرکھتا کہ وہ کہہ سکے کہ جب بھی میرے مشن کو نقصان پہنچے گا خواہ کسی زمانہ میں پہنچے اور خواہ دنیا کے کسی علاقہ میں پہنچے اُس وقت آسمان سے ایک ایسا آدمی بھیجا جائے گا جو اس فتنہ کو دُور کر دیگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہؤا ہے کہ :-
’’موت کے بعد مَیں پھر تجھے حیات بخشوںگا‘‘ ۲۴؎
یعنی جب کبھی آپ کے مشن کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہو گا خداتعالیٰ اُس کی زندگی کے پھر سامان پیدا کر دے گا۔
آئندہ زمانوں میں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا فائدہ
بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ پیشگوئی اتنے
عرصے کے بعد پوری بھی ہوئی تو اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ملا؟ میں ایسے نادانوںسے کہتا ہوں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مکہ کے لئے تھے؟ کیا اس زمانہ کے لوگ آپ کی امت میںشامل نہیں تھے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیںاور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہیں اس لئے ضروری تھا کہ آپ کی پیشگوئیاں ہر زمانہ میںپوری ہوتیں تا کہ ہر زمانہ کے لوگ اپنے ایمانوں کو تازہ کر سکتے اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک زندہ اور تازہ ایمان میسّر آتا۔ پس یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے کیا ملا۔ محض نادانی ہے اس پیشگوئی نے پورا ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو روشن کر دیااب اگر کوئی یہودی اور عیسائی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو ہم ان پیشگوئیوں کو اس کے سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو! یہ وہ پیشگوئیاںتھیں جن کے مطابق اِس زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہؤا اور اُس نے کہا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کے لئے مبعوث ہؤا ہوں اب اگر کوئی اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص کا عین وقت پر اسلام کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کے لئے آجانا اس بات کا ثبوت نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے، یقینا کوئی جھوٹا آدمی اس قسم کادعویٰ نہیں کر سکتا۔
سابق الہامی کتب کی پیشگوئیاں محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہیں
قرآن کریم نے بھی اس دلیل کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا تو موسیٰ کے وقت میںتھا کہ تو نے
جھوٹے طور پر اپنے متعلق تورات میںبشارت لکھوا دی۔ یا تو عیسیٰ ؑکے وقت میں تھا کہ تو نے ان سے کہہ کر اپنے متعلق انجیل میں پیشگوئیاں درج کروالیں۔ ان پیشگوئیوں کا پہلی الہامی کتب میں پایا جانا اور پھر ان پیشگوئیوں کے عین مطابق ایک شخص کا دنیا میں ظاہر ہونا بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں اور ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ، عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام انبیاء آپ کے مُصَدِّقتھے کیونکہ انہوں نے اپنی کتب میں آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں۔
شدیدُ القویٰ ہستی کی طرف سے قرآن کریم کا نزول
دوسری بات جو اس آیت میںبیا ن کی گئی ہے اور
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک واضح اور روشن دلیل ہے وہ یہ ہے کہعَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قرآن ملا ہے وہ ایک زبردست طاقتوں والے خدا کی طرف سے ملا ہے یہ سیدھی بات ہے کہ پیغام کی اہمیت کا تعلق پیغام بھجوانے والے کے ساتھ ہوتا ہے اگر پیغام بھجوانے والا کمزور ہو تو وہ اپنے پیغامبر کی حفاظت نہیں کر سکے گا اور اگر پیغام بھجوانے والا طاقتور ہو تو اس کے پیغامبر کو کوئی شخص چھیڑنے کی طاقت نہیں رکھے گا۔ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی میںاس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ہستی نے قرآن کریم دے کر بھیجا ہے وہ ایک طاقتور ہستی ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔
ایک روسی بادشاہ کا واقعہ
ٹالسٹائے روس کا ایک مشہور مصنّف گزرا ہے جو لینن اور مارکس وغیرہ کے بعد ان چوٹی کے لوگوں میںسے تھا جنہوں
نے بالشویزم کی اشاعت میںسب سے بڑا حصہ لیا ہے۔ اب بھی دنیا کی اکثر زبانوں میںاس کی تصانیف کے تراجم پائے جاتے ہیں اس شخص کا ایک دادا سات آٹھ پُشت پہلے پیٹر بادشاہ کے زمانہ میں اس کا دربان ہؤا کرتا تھا ایک دن بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا اور وہ اپنی قوم کی بہتری کے لئے کوئی سکیم سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹالسٹائے کو حکم دیا کہ آج کسی شخص کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اندر آئے گا تو میرا دماغ مشوش۲۵؎ ہو جائے گا اور میں سکیم کو پوری طرح تیار نہیں کر سکوں گا۔ وہ ٹالسٹائے کو تاکید کر کے اپنے کمرہ میں آگیا مگر بدقسمتی سے اُسی وقت ایک شہزادہ آیا اور اس نے اندر داخل ہونا چاہا۔ ٹالسٹائے نے اپنے ہاتھ اس کے دروازہ کے آگے پھیلا دئیے اور کہا آپ اندر نہیں جا سکتے بادشاہ کا حکم ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ اُ س وقت تک روس کاقانون ابھی منظم نہیں ہؤا تھا اور لارڈوں ، نوابوں اور شاہی خاندان والوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے اس دستور کے مطابق شہزادہ کو قلعہ کے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا بلکہ اُن سے اُتر کر بعض اور لوگوں کے لئے بھی یہی دستور تھا۔ جب دربان نے شہزادہ کو روکا تو وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ مَیں کون ہوں؟ اس نے کہا میں خوب جانتا ہوں آپ فلاں گرینڈڈیوک ہیں۔ اس نے کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ مجھ کو ہر وقت اندر جانے کی اجازت ہے؟ دربان نے جواب دیا میںخوب جانتا ہوں۔ یہ سن کر وہ پھر آگے بڑھا اور اندر داخل ہونے لگا۔ دربان نے پھر اُسے روکا اور کہا حضور بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ آج کسی شخص کو اندرنہ آنے دیا جائے۔ اُسے سخت غصّہ آیا اس نے کوڑا اُٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کیا کچھ دیر مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب اسے ہوش آگیا ہو گا وہ پھر اندر داخل ہونے لگا مگر ٹالسٹائے پھر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہو۔ شہزادہ نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا وہ سرجُھکاکر مار کھاتا رہا مگر جب تیسری دفعہ شہزادہ اندر داخل ہونے لگا تو پھر اس نے ہاتھ پھیلادئیے اور کہا اندر جانے کی اجازت نہیں بادشاہ نے منع کیا ہؤا ہے۔ شہزادہ نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا اتفاق کی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ شہزادہ نے دربان کو مارا تو شور کی آواز بادشاہ کے کان تک پہنچ گئی اور اُس نے بالاخانہ کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھنا شروع کر دیا ۔ جب تیسری دفعہ شہزادہ اُسے مار رہا تھا تو بادشاہ نے اُسے آواز دی کہ ٹالسٹائے اِدھر آئو ۔ ٹالسٹائے اندر گیا اور اُس کے ساتھ شہزادہ بھی بڑے غصّے کی حالت میں بادشاہ کے پاس پہنچا اور اُس نے کہا آج دربان نے میری سخت ہتک کی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کیا ہؤا؟ شہزادہ نے کہا میںاند رآنا چاہتا تھا مگر ٹالسٹائے مجھے اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ بادشاہ نے ایسی شکل بنا کر کہ گویا اس واقعہ کا اسے کوئی علم نہیں کہا ٹالسٹائے تم نے شہزادے کو اندر داخل ہونے سے کیوں روکا؟ اس نے کہا حضور آپ کا حکم تھا کہ آج کسی شخص کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے ۔ بادشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور کہا کیا اس نے تم کو بتایا تھا کہ مَیں نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے؟ اس نے کہا بتایا توتھا مگر شہزادہ کوکوئی دربان روک نہیں سکتا۔ بادشاہ نے کہا مَیں جانتا ہوں کہ شہزادہ کو کوئی روک نہیں سکتا مگر بادشاہ روک سکتا ہے۔ تم نے شہزادہ ہو کر قانون کی بے حُرمتی کی ہے اور اس نے دربان ہو کر قانون کی عظمت کو سمجھا ہے۔ اور پھر باوجود اس کے کہ اس نے تمہیں بتا دیا تھا کہ یہ میرا حکم ہے پھر بھی تم نے اسے مارا اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم اس دربان کے ہاتھوں اسی طرح مار کھائو جس طرح تم نے اسے مارا ہے۔ اس کے بعد اُس نے ٹالسٹائے کو کہا ٹالسٹائے اُٹھو اور اِس شہزادے کو مارو۔ روسی قانون کے مطابق کسی فوجی کو کوئی غیر فوجی نہیں مار سکتا۔ شہزادہ نے کہا میں فوجی ہوں اور یہ ٹالسٹائے سویلین ہے یہ مجھے مار نہیں سکتا۔ بادشاہ نے کہا کیپٹن ٹالسٹائے مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ تم شہزادہ کو مارو۔ اُس نے مارنے کے لئے کوڑا اُٹھایا تو شہزادہ نے کہا مَیں زارِ روس کا جرنیل ہوں اور جرنیل کو کوئی غیر جرنیل نہیں مار سکتا۔ بادشاہ نے کہا جنرل ٹالسٹائے! مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم شہزادہ کو مارو۔ اس پر شہزادہ نے پھر روسی کانسٹی ٹیوشن کاحوالہ دے کر کہا کہ کسی نواب کو کوئی غیر نواب نہیں مار سکتا۔ بادشاہ نے کہا اچھا کائونٹ ٹالسٹائے! اُٹھو اور شہزادہ کو مارو۔ گویا دربان سے اُسی وقت اُس نے اُس کو کائونٹ بنا دیااور شہزادہ کو اس کے ہاتھوں سے سزا دلوائی۔
کفار کو انتباہ
اسی طرح فرماتا ہے عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زبردست طاقتیں رکھنے والے خدا نے مبعوث فرمایا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ ایک
غریب انسان ہے ، تم سمجھتے ہو کہ یہ ایک بیوہ کا بیٹا ہے، اگر تم نے اس کے پیغام پرکان نہ دھرا تو کیا ہوگا۔ جس کا خط لے کر یہ تمہاری طرف آیا ہے، جس کے پیغام کا حامل بنا کر یہ تمہاری طرف مبعوث کیا گیا ہے وہ شَدِیْدُ الْقُوٰی ہے تم نے اسے ہاتھ لگایا تو تم شدید سزا پائوگے چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے والوں کو کیسا عذاب ملا اور وہ کتنی عبرت ناک حالت کو پہنچے۔
کسریٰ شاہِ ایران کا عبرت ناک انجام
یہودی مسلمانوں کے ہمیشہ ہی ممنونِ احسان رہے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے ممنونِ احسان
بھی رہے اور پھر دشمنی بھی کرتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑے بڑے احسانات کئے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ آپ کی مخالفت کی اور بیرونی حکومتوں کو آپ کے خلاف اُکسانے میںکوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ جب ان کے تاجرایران جاتے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ کسریٰ کے کان بھرتے۔ اسی طرح خطوں میں بھی اسے لکھتے رہتے کہ عرب میں ایک ایسا ایسا آدمی طاقت پکڑتا جاتا ہے اگر اس کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ ایران پر حملہ کر دے گا۔بادشاہ کم عقل تھا وہ یہودیوں کے اس فریب میں آگیا اور اس نے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب میںجو نیا مدعی نبوت پیدا ہؤا ہے تم اُسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو۔یمن کے گورنر نے دو آدمی بھجوائے۔ اُس وقت ایران کی طاقت ویسی ہی تھی جیسے اس وقت امریکہ او ر روس کی ہے اور عرب والوں کی حالت ایسی تھی جیسے سرحدی قبائل کی ہے۔ گورنر یمن نے اپنے سپاہیوں کو بھیجتے ہوئے ان کے ذریعہ آپ کویہ پیغام بھجوایا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا قصور کیا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ چلے آئیں میں آپ کی سفارش کر کے شاہِ ایران کے پاس بھجوادونگا کہ اگر اس شخص کاکوئی قصور بھی ہے تو اسے معاف کر دیا جائے۔ وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں گورنر یمن نے آپ کو اپنے ساتھ لانے کے لئے بھیجا ہے اور یہ یہ پیغام بھی دیا ہے۔ اگر آپ نے انکار کیا تو بادشاہ کی فوجیں عرب پر دھاوا بول دیںگی اور تمام ملک ایک مصیبت میںمبتلاء ہوجائے گا اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں ، گورنر یمن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی سفارش کر دیں گے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میںاس کا جواب تمہیں پھر دونگا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنی شروع کی کہ وہ اس معاملہ میںآپ کی مدد فرمائے دوسرے دن جب وہ ملے تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن اور ٹھہرجائو۔ جب تیسر ا دن ہؤا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آج ہمیں آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں آپ ساتھ چلئے ایسا نہ ہو کہ یہ معاملہ بِگڑ جائے اور تمام عرب پر مصیبت آ جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! اپنے گورنر سے جا کر کہدو کہ میرے خدا نے آج رات تمہارے خدا وند کو مار دیا ہے۔ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خداوند کہا کرتے تھے انہوں نے کہا آپ یہ کیا فرماتے ہیں؟ اپنے آپ پر اور اپنی قوم پر رحم کیجئے اور ہمارے ساتھ چلئے۔ آپ نے فرمایا مَیں نے تمہیں جواب تو دے دیا ہے جائو اور گورنرِ یمن کو یہی بات کہہ دو۔وہ واپس آ گئے اور انہوں نے یمن کے گورنر سے یہ بات کہہ دی۔ اُس نے سن کر کہا کہ یا تو یہ شخص پاگل ہے او ریا واقعہ میں خداتعالیٰ کا نبی ہے ہم چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیااِس کی بات سچی ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان
تھوڑے دنوں کے بعد یمن کی بندرگاہ پر ایران کا ایک جہاز لنگر انداز ہؤا اور اس میں سے ایک سفیر اُترا جو یمن
کے گورنر کے نام ایک شاہی خط لایا۔یمن کے گورنر نے اسے دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشاہ کی مُہر تھی اُس نے خط اپنے ہاتھ میں لیتے ہی درباریوں سے کہا وہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے جو اس عرب نے کہی تھی۔ اس نے خط کھولا تو وہ کسریٰ کے بیٹے کا تھا اورا س میں یہ لکھا تھا کہ ہمارا باپ نہایت ظالم اور سفّاک انسان تھا اور اس نے تمام ملک میںایک تباہی مچا رکھی تھی ہم نے فلاںرات اسے مار دیا ہے اور اب ہم خود اس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں اب تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے لوگوں سے ہماری اطاعت کا اقرار لو، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہؤا کہ انہی سفّاکیوں میںسے جو ہمارے باپ نے کیں ایک یہ بھی سفّاکی تھی کہ اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھجوا دیا جائے ہم اِس حکم کو منسوخ کرتے ہیں۔
یہی حقیقت عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیمیں بیان کی گئی ہے کہ ایک طاقتور ہستی اس کی نگران ہو گی اور اس کو چھیڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے ہیں جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کو چھیڑنا خداتعالیٰ کو چھیڑنا تھا۔
اصلاحِ خلق کے لئے ایک کامل انسان کی پیدائش
پھر فرماتا ہے ذُومِرَّۃٍ وہ طاقتور ہی نہیں بلکہ مِرَّۃ والا ہے ذُومِرَّۃٍ
کے اصل معنے پیدائش کی طاقت بلکہ بہت بڑی طاقت رکھنے والے کے ہیںجس کا مفہوم یہ ہے کہ بار بار پیدائش کی طاقت کا ظہور اس سے ہوتا رہتا ہے گویا بتا یا کہ وہ شَدِیْدُ الْقُوٰی ہی نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ درجہ کی کامل پیدائش کی طاقت بھی موجود ہے فَاسْتَوٰی پھر اس طاقتور خدا اور اعلیٰ سے اعلیٰ مخلوق پیدا کرنے والے خدا نے ارادہ کیا کہ مَیں دنیا میںاپنی مخلوق پر ظاہر ہوں وَھُوَ بِالْاُ فُقِ اٰ لْاَعْلٰی اور وہ خدابہت اونچا تھاا ور بنی نوع انسان زمین پررینگ رہے تھے اور ہر قسم کی کمزوریاں اور گناہ ان میں پائے جاتے تھے بائیبل میںبھی لکھا ہے۔
’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں تب خداوند زمین پر انسان کو پیدا کرنے سے ملول ہؤ ا اور دل میںغم کیا اور خداوند نے کہا کہ میںانسان کو جسے مَیں نے پیدا کیا روئے زمین پر سے مٹا ڈالوں گا انسان سے لے کر حیوان اور رینگنے والے جاندار اور ہوا کے پرندوں تک کیونکہ مَیں ان کے بنانے سے ملول ہوں‘‘۔ ۲۶؎
غرض خدا آسمان پر بیٹھا ہؤا تھا اس نے جب بنی نوع انسان کی خرابی دیکھی تو چاہا کہ میں ایک نئی مخلوق پیداکروں کیونکہ وہ ذُومِرّۃ تھا وہ چاہتا تھا کہ ایک کامل اور اکمل انسان کو پیدا کرے جو لوگوں کو گمراہی سے بچا کر نور و ہدایت کی طرف لائے یہاں آکر خداتعالیٰ نے درمیان میںسے اس مضمون کو حذف کر دیا ہے کہ اس ارادہ کے مطابق اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چُنا اور چن کر کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو اس قابل ہے کہ میںاسے برکت دوں اور اسے دنیا کے لئے ایک نمونہ بنائوں۔
محمد رسول اللہ کا خداتعالیٰ کی طرف صعود
اس کے بعد فرماتا ہے دَنَا جب خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا اور
انہیں آواز دی کہ اے محمد رسول اللہ! تو میرے پاس آ کہ مَیں نے تجھے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے چن لیا ہے تو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچا ہونا شروع کیا۔ یہاں مینار کا لفظ استعمال نہیں ہؤا مگر تمثیلی زبان میں ایک مینار کا ہی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ وَھُوَبِالْاُ فُقِ الْاَعْلٰی خدا تعالیٰ اوپر بیٹھا ہؤا ہے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتا ہے اور انہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ اس پرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ کی طرف صعود شروع کیا دَنٰی کے معنی یہی ہیں کہ وہ قریب ہوتے گئے یعنی خدا سے ملنے کے لئے اوپر ہوتے گئے گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ محمدیؐ سے اوپر چڑھنے شروع ہوئے اور آخر آپ عرش تک جا پہنچے (چنانچہ معراج میںایسا ہی ہؤا)۔
خداتعالیٰ کا بنی نوع انسان کی نجات کے لئے آسمان سے نزول
مگرسوال یہ ہے کہ ان میں تو طاقت
تھی کہ وہ خداتعالیٰ تک پہنچ جائیں ہر شخص تو اتنا اونچا نہیں جا سکتا۔بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاص اور محبت اور فدائیت کے لحاظ سے اپنے اندر یہ استعداد رکھتے تھے کہ خداتعالیٰ کے قُرب کو حاصل کر سکیں لیکن وہ لوگ جن کی اصلاح کے لئے آپ مقرر ہوئے تھے ان میںسے ہر شخص میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اتنا اونچا جا سکتاان لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ خداتعالیٰ نیچے کی طرف نزول کرتا۔ چنانچہ فرماتا ہے فَتَدَلّٰی۔تَدَلّٰی کے معنے ہیں اوپر کی چیز نیچے آ گئی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اوپر چڑھنا شرو ع کیا یہاں تک کہ چڑھتے چڑھتے آپ نے اپنے مقصود کو پالیا مگر جب آپ نے اوپر چڑھنا شروع کیا تو خداتعالیٰ نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آگئے باقی لوگ نہیں آ سکتے تب خداتعالیٰ کچھ نیچے آیا تاکہ کمزور مخلوق کی نجات کی بھی صورت بنے اور اُس نے ایک زاویہ بنا دیا جہاں ہر انسان بشرطیکہ وہ اپنی استعدادوں سے کام لے پہنچ سکتا اور خداتعالیٰ کے قُرب کو حاصل کر سکتا ہے۔
مغفرت اور قُرب الٰہی کے ذرائع
یہ مضمون ایک لمبی تشریح کا حامل ہے مگر اِس وقت میں صرف ایک دو باتیں اور بیان کر دیتا
ہوں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس طرح بنی نوع انسان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ جو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَہے ان سے ملنے کے لئے نیچے آیا اور اُس نے اپنے قُرب کے دروازے ان کے لئے کھول دئیے۔ واقعہ معراج کے متعلق جو احادیث پائی جاتی ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں بنی نوع انسان کے لئے مقرر فرمائی تھیں لیکن پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے ان کو کم کرتے کرتے اُمّتِ محمدیہ کے لئے صرف پانچ نمازیں مقرر فرمائیں مگر ساتھ ہی فرمایا کہ گو نمازیںپانچ ہی ہونگی مگر ان کو شمار پچاس کیا جائے گایعنی ایک شخص پڑھے گا تو پانچ نمازیں مگر خداتعالیٰ کے دربار میںاس کی پچاس نمازیں لکھی جائیں گی۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کے بدلہ میں انسان کو دس گناہ اجر دیا جاتا ہے اور بدی یا تو معاف کر دی جاتی ہے اور یا اس کے اعمال نامہ میں صرف ایک بدی ہی لکھی جاتی ہے۔ یہ طریق ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے اوپر چڑھنے کے لئے مقرر فرمایا ہے بندہ ایک نیکی کرتا ہے اور خداتعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھتا ہے اور پھر قیامت کے دن اُن دسوں کو ایک ایک سمجھ کر پھر دس دس بنا دیتا ہے اور بندہ ایک بدی کرتا ہے اور خداتعالیٰ صرف ایک ہی بدی لکھتا ہے اور بعض دفعہ تو ایک بھی نہیں لکھتا توبہ پر اُس کو معاف فرما دیتا ہے۔
روحانی ارتقاء کے غیر معمولی سامان
غرض دَنَا فَتَدَلّٰی میں وہ طریق بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعہ انسانی ارواح نے ارتقاء
کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ُقرب کو حاصل کرنا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بغیر اس گُر کے بھی خداتعالیٰ کا قُرب حاصل کر سکتے تھے بغیر اس کے کہ آپ کی ایک نیکی کو دس گنا شمار کیا جاتا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میںیہ قابلیت موجود تھی کہ آپ خداتعالیٰ تک پہنچ جاتے اور اس کے قُرب کو حاصل کر لیتے مگر تمام لوگوںمیں یہ قابلیت موجود نہیںتھی ان کے لئے خداتعالیٰ نے عرش سے نیچے اُترنا گوارا کیا اور اس نے ان کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بڑھانا شروع کیا تاکہ اس ذریعہ سے ان کی کمی پوری ہو جائے اور وہ روحانی دَوڑ میںپیچھے نہ رہ جائیں اور یہ فضیلت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے جس میں روحانی ارتقاء کے لئے ہر قسم کی سہولتیں رکھی گئی ہیں اور ترقیات کا دروازہ تمام بنی نوع انسان کے لئے یکساں کھولا گیا ہے۔
خدائی کمان کا محمد رسول اللہ کی کمان سے اتصال
فرماتا ہے فَکَانَ قاَبَ قَوسَیْنِ اَوْاَدْنٰی جب یہ حالت ہوئی اور
خداتعالیٰ نیچے آیا تو نتیجہ یہ ہؤا کہ دو قوسیں آپس میںمتوازی ہوگئیں اور اونچائی نیچائی کے لحاظ سے بھی اور نشانہ کی سیدھ کے لحاظ سے بھی کہ جِدھر ایک تِیر چلتا تھا اُسی طرف دوسرا تِیر پڑتا تھا۔ یا یوں سمجھ لو کہ ایک کمان زمین سے اوپر جانی شروع ہوئی اور ایک کمان اوپر سے نیچے آنی شروع ہوئی۔ خداتعالیٰ کی کمان اوپر سے نیچے اُتری اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان نیچے سے اوپر گئی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیامیں جو انقلاب پیدا کیا جانا مقدر تھا وہ ایسا تھا جس میں شیطان کا شکست کھانا یقینی تھا اس لئے لازمی تھا کہ آپ کے ظہور پر شیطان کالشکر اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اسی حملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اپنی کمان لے کر اوپر آئو ہم اپنی کمان لے کر نیچے اُترتے ہیں۔ یہ ایک روحانی استعارہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیںاُوپر چڑھنی شروع ہوئیں اور خداتعالیٰ کی قبولیت نیچے اُترنی شروع ہوئی فَکَانَ قَاَبَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی اور ایسی بن گئیں جیسے دو کمانوں کو ساتھ ساتھ ملا دیا جائے یا دو کمانیں آپس میں جوڑ دی جائیں توجو کیفیت ان کی ہوتی ہے وہی کیفیت اس اتحاد کی تھی اَوْاَدْنٰیبلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دو کمانیں رہی ہی نہیں ایک بن گئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کما ن کا خداتعالیٰ کی کمان کے ساتھ ایسا اتحاد ہؤا کہ خداتعالیٰ کی کمان کوئی الگ نہیں رہی وہ وہی تھی جو خداتعالیٰ کی تھی گویا آسمان اور زمین کا مقصد ایک ہو گیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اتباع نے ارادے چھوڑ کر خدا کے ارادے قبول کرلئے اور خدا نے اپنے ارادے چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اتباع کے ارادے قبول کرلئے۔
تمہارے ارادے خداتعالیٰ کے
ارادوں کے تابع ہونے چاہئیں
اِسی نکتہ کو اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ یوں بیان فرماتا ہے کہ وَمَاتَشَائُ وْنَ اِلَّآاَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْمًا ۲۷؎
یعنی اے مسلمانو! آج سے تم یہ عہد کر لو کہ تمہارے
دل میںکوئی خواہش پیدا نہ ہو جب تک کہ تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ خداتعالیٰ کی بھی وہی خواہش ہے۔ گویا تمہارا ارادہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے اور تمہاری خواہش خداتعالیٰ کی خواہش سے مل جائے اور کسی امر میں بھی تمہاری نفسانیت کا کوئی دخل نہ رہے۔ چنانچہ دیکھ لو ہجرت کے موقع پر صحابہؓ نے بڑا زور لگایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ سے مدینہ تشریف لے چلیں مگر باوجود اُس کے کہ اس وقت سب سے زیادہ خطرناک مقام مکہ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی ہجرت کا حکم نہیں ہؤا گویا جو کچھ خداتعالیٰ کی مشیّت تھی اُس پرمحمد ؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلے گئے۔ پس جو کچھفَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی میںمضمون بیان کیا گیا ہے وہی مضمون وَمَاتَشَائُ وْنَ اِلَّااَن یَّشَائَ اللّٰہُ میں بیان کیا گیا ہے خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے دیا کہ تم اپنی کمان پھینک دو اورمیری کمان لے لو مَیں بھی اپنی کمان پھینکتا ہوں اور تمہاری کمان اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہوں۔
محمد رسول اللہ کے دشمن آسمانی تیروں کی زد میں
ایک اور جگہ بھی قرآن کریم میںیہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۲۸؎
اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب تُو نے اپنی کمان سے تیر چھوڑا تو ہم سچ کہتے ہیں کہ وہ تِیر تیری کمان نے نہیں چھوڑا بلکہ وہ تِیر ہماری کمان نے چھوڑا مَارَمَیْتَ تو نے تِیر نہیںچلایا اِذْرَمَیْتَ جب تو نے تِیرچلایا وَلٰـکِنَّاللّٰہَ رَمٰی بلکہ وہ تِیر خدا تعالیٰ نے چلایاگویا اگر ہم غور کریں تو نقشہ یوں بن گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خداتعالیٰ نے اپنی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کر دی اور فرمایا اب جو بھی تیرے سامنے آئے گا اس پر زمینی تِیر ہی نہیں چلے گا بلکہ آسمانی تِیر بھی چلے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اور بے لوث حیات
عملی طور پر بھی دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی تیئیس سالہ زندگی میں آپ کے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں دشمن تھے حکومتیں آپ کے خلاف تھیں، عرب کے آزاد قبائل آپ سے برسرِ پیکار تھے، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں بھی آپ سے نبرد آزما تھیں یہودی الگ فتنہ برپاکئے ہوئے تھے اور منافقین اسلام کو مٹانے کے لئے علیحدہ سازش میںمصروف تھے مگر اتنی شدید مخالفتوںکے باوجود ایک مثال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںایسی نہیں ملتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص پر تِیر چلایا ہو جس پر خدا تعالیٰ نے تِیر نہ چلایا ہو۔ اسی طرح آپ کی زندگی کا گہرا مطالعہ اس حقیقت کو روشن کرتا ہے کہ آپ نے کبھی کسی ایسے شخص پر تِیر نہیں چلایا جو مُجرم نہ ہو۔ حکومتیں کئی بے قصوروں کو مار ڈالتی ہیں، کئی ایسے لوگوں کو بھی ان کے ہاتھوں نقصان پہنچ جاتا ہے جوبے گناہ ہوتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جو ایک کھلی کتاب کے طور پر تھی اس میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ آپ کا تِیرایسے طور پر چلاہو کہ کوئی بے گناہ اس کا شکار ہؤا ہو۔ صحابہ کرامؓ سے بعض دفعہ ایسی غلطیاں ہوئی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اس کا علم ہؤا آپ نے ان پر شدیدناراضگی کا اظہار فرمایا۔
حضرت اسامہ ؓ پر ناراضگی
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کو نہایت عزیز تھے ان کے باپ کو آپ نے اپنا بیٹا بنایا ہؤا تھا ایک غزوہ میں حضرت اسامہؓ
شریک تھے کہ ایک مخالف کے تعاقب میں انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا جب اُس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اس نے کہا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر حضرت اسامہ ؓ نے اُس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اُسے قتل کر دیابعد میں کسی شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی، آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تونے کیوںمارا جب کہ وہ اسلام کا اقرار کر چکا تھا۔ حضرت اسامہ ؓ نے کہا وہ جھوٹا اور دھوکے باز تھا وہ دل سے ایمان نہیںلایا صرف ڈر کے مارے اُس نے اسلام کا اقرار کیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچے دل سے اسلام کا اظہار نہیں کر رہا تھا یعنی جب وہ کہہ رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم یہ کہتے کہ تم مسلمان نہیں۔ اسامہ بن زیدؓ نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا اور کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! وہ تو یونہی باتیں بنا رہاتھا ورنہ اسلام اس کے دل میںکہاں داخل ہؤا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسامہؓ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اس کا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گااور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیںہو گا۔ اسامہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناراضگی کو دیکھ کر اس دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں اس سے پہلے کافر ہی ہوتا اور آج مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملتی تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے فعل کی وجہ سے اتنا دُکھ نہ پہنچتا ۔ ۲۹؎
حضرت خالد بن ولید کے ایک فعل سے اظہارِ براء ت
اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ
کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بنو جذیمہ کی طر ف بھیجا اس زمانہ میں کفار عام طور پر مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے جیسے آجکل ہمیں مرزائی یا قادیانی کہا جاتا ہے یہ دراصل جہلاء کی ایک غلطی ہے جس میں بعض لکھے پڑھے بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا نام اس کے ماں باپ نے عبدالرحمن رکھا ہے تواسے عبدالشیطان کہنے سے نہ وہ عبدالشیطان بن جائے گا اور نہ عبدالشیطان کہنا کوئی شرافت ہو گی۔ اسی طرح صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے تو اُسے حنفی کہو، شیعہ کہتا ہے تو شیعہ کہو، سنّی کہتا ہے تو سنّی کہو،مگر جس طرح لوگ ہمیں مرزائی یا قادیانی کہتے ہیں یا مشرقی پنجاب میں سِکھ ہماری جماعت کے ہر شخص کو مولوی کہتے تھے گو وہ ایک لفظ بھی عربی کا نہ جانتا ہو اسی طرح اُس زمانہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو صابی کہا جاتا تھا اور چونکہ عوام الناس میں یہی نام رائج تھا اس لئے جب خالد بن ولید نے انہیںدعوت اسلام دی تو انہوں نے بجائے یہ کہنے کے کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں کہہ دیا کہ صبانا، صبانا ہم صابی ہوتے ہیں ہم صابی ہوتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید نے ان الفاظ کی کوئی پرواہ نہ کی اور اُن میںسے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے اور فرمایا : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَبْرَئُ اِلَیْکَ مِمَّاصَنَعَ خَالِدٌ اے خدا مَیں اُس فعل سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جس کا ارتکاب خالد نے کیا ہے اور آپ نے یہ فقرہ دو دفعہ دُہرایا۔ ۳۰؎
آسمانی اور زمینی تیر ایک نشانہ پر
ان مثالوں سے پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی غیر مُجرم پر تِیر نہیں چلایا جہاں خداتعالیٰ کا
تِیر چلا وہیں آپ کا بھی تِیر چلا اور جہاں آپ کا تِیر چلا وہیں خداتعالیٰ نے بھی تِیر چلایا، اسی طرح آپ کی زندگی میںکوئی ایک بھی مثال ایسی نظر نہیںآتی، جہاں آپ نے تِیر چلانا مناسب سمجھا ہو اور خداتعالیٰ نے تِیر نہ چلایا ہو،جہاں آپ کی ساری زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں پائی جاتی کہ خداتعالیٰ نے تِیر نہ چلایا ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا دیا ہو، وہاں ایسی بھی کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تِیر چلانا مناسب سمجھا ہو اور خداتعالیٰ نے نہ چلایا ہو۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے فَکَانَ قَابَ قَوسَیْنِ اَوْ اَدنٰی میں بیان فرمایا ہے کہ دونوں کی کمانیں ایک ہو گئیں اور دونوں کے تِیر ایک ہی نشانہ پر پڑنے لگے غرض مَاتَشَائُ وْنَ اِلَّااَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ اور مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی کے ماتحت دونوں ایک مینارپر جمع ہو گئے انسانیت بھی بلند مینارپر جا کھڑی ہوئی اور اُلوہیت بھی انسان کی ملاقات کے لئے بے تاب ہو کر آسمان سے اُتر آئی۔
صعودونزول کا پُرکیف نظارہ
بے شک فرعون نے بھی ایک مینار بنایاتھا مگر اسے اس مینار پر خداتعالیٰ نظر نہ آیا کیونکہ وہ جھوٹا تھا اُسے نظر آیا
توسمندر کی پاتال میں۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور راستباز انسان تھے آپ کے دل میں اپنے خدا کا سچا عشق تھا اور خدا تعالیٰ کے دل میں مقامِ محمدیت کی بے انتہاء محبت تھی پس وہ دونوں بے قرار ہو کر ایک دوسرے کی طرف دوڑے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے :-
؎
وصل کا مزہ تب ہے کہ دونوں ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا نے ملنے کے لئے اوپر کی طرف صعود کیا اور خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے نیچے کی طرف نزول کیا اور اس کے نتیجہ میں دونوں کی قوسیں ایک بن گئیں اور دونوں کے تِیر ایک نشانہ پر پڑنے لگے۔
تین خوبیوں والا کلام
فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی مَاکَذَبَ الفُؤَادُ مَارَاٰیتب
اللہ تعالیٰ کا کلام اس مینار پرنازل ہؤا جس میں یہ تین خوبیاں تھیں۔
اوّلؔ اُس نے الفاظ میں کلام کیا
دومؔ آنکھوں سے نظارہ دیکھا
سومؔ دل سے اُسے قبول کیا اور اس پر ایمان لایا۔
مخالفینِ اسلام کے شکوک کا ازالہ
پھر فرماتا ہے اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَایَرٰی وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَسِدْرَۃٍ الْمُنتَھٰی
کیا تم نے اس کی بات پر شک کرتے ہو کہ:-
(۱) شاید فلسفیانہ خیالات کی رو میں بہہ گیا ہے۔
(۲) شاید شیطان نے اس پر کلام نازل کیا ہے۔
(۳) شاید ہوا وحرص کے جذبات چھیچھڑے بن کر اسے نظر آ رہے ہیں۔
مگر تم اِس کاکیا جواب دو گے کہ اُس نے یہ مینار پرنزول ایک دفعہ نہیں دیکھا بلکہ دو دفعہ دیکھا ہے اور پھر اس نزول کو سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے نزدیک دیکھا ہے یعنی پیشگوئیوں کے مطابق دیکھا ہے ان کے بغیر نہیں ۔کیا کسی جھوٹے کے لئے یہ ممکن ہے کہ جب جب اس کی قوم مصیبت میں مبتلاء ہو ایک آسمانی وحی کا مدّعی اس کی تائید کے لئے کھڑا ہو جائے اور وہ کھڑا بھی اِس جھوٹے کے دعویٰ کے مطابق ہو اور پھر دنیا میں کامیاب بھی ہو جائے۔
اُفُقِ مُبین میں ظاہر ہونے والا ستارہ
یہ پیشگوئیاں کیا تھیں، جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔سو یاد رکھناچاہئے کہ یہ
پیشگوئیاں یہ تھیں۔
اوّلؔ وہ النجم ہو گا، یعنی دشمنانِ محمدؐ کو تباہ کریگا۔
دومؔ وَلَقَدْرَاٰہُ بِا لْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ۳۱؎ وہ مشرق سے ظاہر ہوگا، حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ وہ شَرْقِیَّ دِمَشْق ۳۲؎ نازل ہو گا۔
سومؔ وہ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ نازل ہو گا۔۳۳؎
الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ سے کیا مرا د ہے؟
اس جگہ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے اور
عِنْدَکے معنے قریب کے ہیں پس عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ کے معنے یہ ہیں کہ وہ مقامِ محمدؐیت سے غایت درجہ کا قُرب رکھنے والا ہو گا۔
غرض وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی میںمسیح موعودؑ کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیاہے کہ آخری زمانہ میںجب ظلمت کا دور دورہ ہو گا،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص مبعوث ہو گا جو عِنْدَالْمَنَاَرَۃِ الْبَیْضَائَ نازل ہو گا، یعنی وہ مقامِِ محمدیت سے انتہائی قرب رکھنے والا ہو گا۔
عِنْدِیّت کے مقام سے معیّت کے مقام تک
اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود ؑ کی ابتداء کو عِنْدَالْمَنَاَرَۃِ
الْبَیْضَائَ سے تعبیر کیا ہے لیکن آپ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی انتہاء اس سے بھی زیادہ مبارک ہو گی اور وہ میری قبر میں میرے ساتھ دفن ہوگا چنانچہ آپ فرماتے ہیں یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ ۳۴؎
وہ میر ے ساتھ میری قبرمیں دفن ہو گا، جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے نزول کا ایک استعارہ کے رنگ میں ذکر فرمایا ہے اسی طرح اس کی وفات کے لئے بھی آپ نے استعارہ استعمال کیا ہے اور بتایا ہے کہ آنے والے مسیح کا میری ذات کے ساتھ ایسا اتحاد ہو گا کہ یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ مسیح کسی اور قبر میں دفن ہؤا ہے بلکہ وہ میری قبر میں میرے ساتھ دفن کیا جائے گا گویا عِنْدِیّت کے مقام سے وہ ارتقاء شروع کرے گا اور معیت کے مقام کو جا پہنچے گا۔ غرض الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جن سے غایتِ قُرب رکھنے والے ایک عظیم الشان مصلح کی قرآن کریم نے وَالْنَّجْمِ اِذَاھَوٰی میں خبر دی ہے۔
قادیان کا مینار کیوں بنایا گیا ؟
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے قادیان میں ایک منارہ بیضاء بنایاجو درحقیقت
تصویری زبان میں یہ معنے رکھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے اپنے گھروں سے نکال دیا ہے مگر ہم ان کو لا کر اپنی مسجد یعنی جماعت کے اندر رکھتے ہیں یہی اس منارۂ بیضاء کی اصل غرض تھی ورنہ اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ مینار اس لئے بنایا گیا تھا کہ آنے والے مسیح نے اس کے پاس اُترنا تھا تو یہ ایک پاگل پن کی بات بن جاتی ہے کیونکہ مرزا صاحب تو خود اس بات کے مدعی تھے کہ میں مسیح موعود ہوںپھر کسی نئے اُترنے والے کے ذکر کے کیا معنے تھے؟ پس اس منار کے بنانے کے صرف یہی معنی ہو سکتے تھے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولا کر اپنے گھروں میں جگہ دی ہے اور یہی اس مینار کی اصل غرض ہے۔ اس مینار کے بنانے کی یہ غرض نہیںتھی کہ اس مسجد میں جس میں یہ مینار کھڑا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا مسیح موعود نے اُترنا تھا بلکہ جیسے اَلْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ کے الفاظ استعارۃً استعمال کئے گئے تھے اسی طرح یہ بھی ایک تصویری نشان ہے جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اَلْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائَ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور منارۃ المسیح تصویری زبان میں لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احمدیہ جماعت اپنے گھر لے آئی ہے پس تم اپنی مسجد میں منارہ بیضاء بنا کر اس امر کا اقرار کرتے ہو کہ آج سے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں پنا ہ دے رہے ہیں آج سے ہم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم ان کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے لئے تیا ر رہیں گے۔
جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اسلام
کے جھنڈے کو کبھی نیچا نہ ہونے دے
مسجد اقصیٰ کا مینار ظاہرمیں اینٹوں اور چونا سے بنی ہوئی ایک عمارت ہے لیکن تصویری زبان میں اس مینار کے ذریعہ ہم میںسے ہر شخص نے یہ اقرارکیا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
اپنے گھر میں لائے ہیںدنیا خواہ آپ کوچھوڑ دے مگر ہم آپ کو نہیںچھوڑیں گے اور ہم آپ کے دین کی اشاعت کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کر یں گے یہ وہ عہد ہے جو اس منارۂ بیضاء کے ذریعہ ہم میںسے ہر شخص نے کیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم مرتے دم تک اِس عہد کو اپنے سامنے رکھیں اور اسلام کا جھنڈا کبھی نیچا نہ ہونے دیں۔
مسجد اقصیٰ کا قرآن کریم میںذکر
حقیقت یہ ہے کہ مسجد ِ اقصیٰ میںمنارہ بیضاء بنانے کی خبر بھی قرآن کریم میںموجود تھی اللہ تعالیٰ
قرآن کریم میں فرماتا ہے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ۳۵؎
یعنی پاک ہے وہ خدا جو راتوں رات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ماحول کو بھی ہم نے برکت دیدی۔اقصیٰ کے معنی دُورکی مسجد کے ہیںاور رات کی تاریکی سے زمانہ کی ظلمت مراد ہے جو فیج اعوج میںپھیلی اور جس نے مسلمانوں کی بنیادوں کو ہلا دیا۔اسی پیشگوئی کو ظاہر میںپورا کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ میں ایک مینار بنایا گیا وہ مینا رظاہر میں مٹی اور چونے کی ایک عمارت ہے مگر درحقیقت وہ اس اقرار کا ایک نشان ہے جو اس زمانہ میں ہر احمدی نے اپنی زبانِ حال سے کیا ہے۔ اس مینار کے ذریعہ ہر احمدی نے اقرار کیا ہے کہ مَیں اس تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میںپناہ دے رہا ہوں، آج سے میں اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں اور ایک لمحہ بھی میری زندگی پر ایسا نہیں آئے گا جب میں اس فرض کو نظر انداز کر دوں ۔
پس منارۃ المسیح محمدیت کے ساتھ تعلق کی علامت ہے جس طرح قرآن نے کہا تھا کہ رات کے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ چلے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہام ہؤا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں‘‘ ۳۶؎
اور پناہ ہمیشہ ظلمات کے وقت یعنی رات کو ہی لی جاتی ہے پس جس طرح سورہ نجم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مینار ہونا ثابت ہوتا ہے مسجد اقصیٰ میں منار ہ بنانے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے پھر دوسری دفعہ مدینہ کے انصارؓ کی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اندر پناہ دی ہے اور ہر احمدی نے آپ کی حفاظت کا اور آپ کے اردگرد اپنی جانیں لڑا دینے کا اقرار کیا ہے جس اقرار کو پورا کرنا آج ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے۔
پابندئ عہد کی ایک شاندار مثال
عرب لوگ تو اپنے اقرار کے اتنے پابند تھے کہ تاریخوں میںلکھا ہے سپین کا ایک رئیس تھا جس کا
ایک ہی بیٹا تھا۔ ایک دن اُس کے پاس ایک شخص دَوڑتا ہؤا آیا اور اس نے کہا کہ پولیس میرے تعاقب میں آ رہی ہے مجھے خدا کے لئے پناہ دو۔ اُس نے اپنے مکان میںاُسے چُھپا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس ایک نوجوان کی لاش اٹھا کر لائی۔ یہ اس کے بیٹے کی لاش تھی۔ پولیس والوں نے اُسے کہا ہمیںافسوس ہے کہ کسی بدبخت نے آج آپ کے بیٹے کو مار ڈالا ہے قاتل بھاگ کر اِسی طرف آیا تھا کیا آپ نے اُسے دیکھا نہیں؟ اُس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔ یہ سن کر پولیس والے چلے گئے۔ اُس نے اپنے بیٹے کی لاش کو کمرے میں بند کیا اور قاتل کی طرف گیا اور اسے اشارہ سے اپنے پاس بُلاکر کہا کہ یہ شخص جس کو تم نے قتل کیا ہے میرا بیٹا تھا لیکن چونکہ میں تمہیں پناہ دے چکا ہوں اس لئے مَیں اب تمہیں کچھ نہیںکہتا اس کے بعد اُس نے اسے اپنی جیب میں سے کچھ روپے نکال کر دئیے اور کہا یہ روپے لو اور کسی اور جگہ چلے جائو اگر تم سپین میں ہی رہے تو ممکن ہے میرا نفس کبھی مجھے اشتعال دلائے کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے اور میںتجھے مار ڈالوں اس لئے روپے لو اور سپین سے کہیں باہر چلے جائو۔ چنانچہ اس نے روپے دئیے اور اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو اپنے مکان کے پچھواڑے سے باہر نکال دیا۔ اب دیکھو یہ ایک سچے مسلمان کی حالت تھی کہ نہ صرف وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کی جان بچاتا ہے بلکہ اُسے بھاگنے کے لئے روپے بھی دیتا ہے اس لئے کہ اس نے اُسے پناہ دی تھی پھر کتنی بڑی ذمہ داری ہے اُس مسلمان پر جو اپنے بیٹے کے قاتل کو نہیں بلکہ اپنی جان بچانے والے کو، اپنے بیٹوں کی جان بچانے والے کو، اپنی بیوی اور بچوں کی جان بچانے والے کو اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے اور پھر اس سے غدّاری کرتا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جماعت احمدیہ کا ایک نیا عہد
ہم نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
ایک نیا عہد کیا ہے ہم نے یہ اقرار کیا ہے کہ دنیا کا ہر انسان خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے ہم آپ کو مرتے دم تک نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے اِس عہدکے نشان کے طور پر اپنے گھروں میں مینار کھڑا کیا اور ہم نے اقرار کیا کہ ہم صرف مُنہ سے محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کااظہار نہیں کرتے بلکہ ہم اس فتنۂ عظیمہ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میںسچے طور پر پناہ دیںگے اور اپنی ہر چیز آپ کے لئے قربان کر دیں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انصار کا معاہدہ
صحابہ کرامؓ نے بھی آج سے تیرہ سَو سال پہلے آپ کو اپنے
گھروں میں پناہ دی تھی۔ دعوئ نبوّت کے تیرھویں سال حج کے موقع پر جب اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ آئے تو ان میں سے ستّر لوگ ایسے بھی شامل تھے جو یا تو مسلمان تھے اور یا مسلمان ہونا چاہتے تھے ۔ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک گھاٹی میں ان کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور جو آپ سے صرف ایک سال بڑے تھے وہ بھی آ پ کے ساتھ تھے آدھی رات کے قریب مکہ کی ایک وادی میں جب دشمن اسلام کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کر رہا تھا یہ ستر آدمی جمع ہوئے اور آپس میں بحث شروع ہوئی کہ اگر مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام سے نہیں رہنے دیتے تو مدینہ کے لوگ اس خدمت کے لئے اپنے آ پ کو پیش کرتے ہیں۔ حضرت عباسؓ نے کہا وعدے کرنے بڑے آسان ہوتے ہیں لیکن انہیں پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم جو کچھ وعدہ کر رہے ہیں سو چ سمجھ کر کر رہے ہیں اور ہم اس اقرار پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میرا یہ بھتیجا مدینہ چلا گیا تو تمام عرب قبائل تمہارے خلاف ہوجائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مدینہ پر بھی حملہ کر دیںا س لئے تم یہ اقرار کرو کہ اگر کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو تم اپنی جان، مال، عزّت اور آبرو کو قربان کر کے اس کی حفاظت کرو گے۔ انہو ں نے کہا ہاں ہم اس غرض کے لئے تیار ہیں اور جوش میں جیسے ہمارے ملک کے لوگ نعرے لگاتے ہیں انہوںنے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاموش رہو اِس وقت دشمن چاروں طرف پھیلا ہؤا ہے۔ اگر اسے ہمارے اس اجتماع کی خبر ہو گئی تو ممکن ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر ے مگر اب ان کے دلوںمیں ایمان کی چنگاری سُلگ اُٹھی تھی خدا کا نور اُن کے دلوں میںپیدا ہو چکا تھا انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! بے شک ہم بے وطن ہیں مگر ہم آپ کی وجہ سے چُپ ہیں ورنہ آپ اجازت دیں تو ہم ابھی مکہ والوں کو اُن کی شرارت کامزہ چکھا دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیںنہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت نہیںاس کے بعد انہوں نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو گا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچانے کے لئے ہم اپنی جان، مال اور عزت سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر لڑائی ہوئی تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوںگے۔ حضرت عباسؓ کا بھی یہی مشورہ تھا چنانچہ آخر یہی معاہدہ ہؤا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے چلے گئے۔
جنگ بد ر کے موقع پر انصار کا جوشِ اخلاص
جب بدر کے موقع پر مدینہ سے باہر جنگ ہونے لگی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے تمام صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیونکہ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ ہماری قافلہ سے مُڈبھیٹر نہیں ہو گی بلکہ مکہ کے لشکر سے ہمارا مقابلہ ہو گا۔ اِس پر یکے بعد دیگرے مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!آپ بے شک جنگ کیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر ہر دفعہ جب اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد کوئی مہاجر بیٹھ جاتا تو آپ فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ مہاجرین تو مشورہ دے ہی رہے ہیں اصل سوال انصار کا ہے اور انصار اس لئے چُپ تھے کہ لڑنے والے مکہ کے لوگ تھے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم مکہ والوں سے لڑنے کے لئے تیار ہیں تو شاید ہماری یہ بات مہاجرین کو بُری لگے اور وہ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہمارے بھائی بندوں کا گلا کاٹنے کے لئے آگے بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے ایک کے بعد دوسرا مہاجر اُٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے یَارَسُوْلَاللّٰہ! لڑئیے مگر آپ بار بار یہی فرما رہے ہیںکہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو اس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ آپؐ کی مراد غالباً ہم انصار سے ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ۔اس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہم تو اس لئے چُپ تھے کہ ہم ڈرتے تھے کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کا دل نہ دُکھے اگر ہم نے کہا ہم لڑنے کے لئے تیار ہیںتو ان کے دلوں میںیہ خیال پیدا ہو گا کہ یہ ہمارے بھائیوں اور رشتہ داروں کو مارنے کامشورہ دے رہے ہیں۔ پھر اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! شاید آپ کا اشارہ اس بیعتِ عقبہ کی طرف ہے جس میں ہم نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہؤا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کرلڑنا پڑا تو ہم پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! جس وقت ہم نے وہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپؐ کی کیا شان ہے یَارَسُوْلَاللّٰہ! اب تو آپ کی صداقت ہم پرکھل چکی ہے اور آپ کا مقام ہم پر واضح ہو گیا ہے اب کسی معاہد ہ کا کیا سوال ہے۔ سامنے سمندر ہے آپ حُکم دیجئے تو ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے۔۳۷؎
صحابہ کا نمونہ ہمارے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے
یہ وہ وفاداری تھی جو صحابہ کرامؓ نے دکھائی
یہ وہ اقرار تھا جس کو انہوں نے پور ا کیا۔ نمونہ سامنے نہ ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو صحابہؓ نے اقرار کیا اس کو پورا کرنے کانمونہ تمہارے سامنے موجود ہے۔ ایک قوم تھی جس نے یہ اقرار کیا اور تاریخ کے صفحات اس بات پر شاہد ہیںکہ انہوںنے اپنے اقرار کوپور ا کر دیا۔ پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ عہدکی کیا قیمت ہوتی ہے، ہمیںپتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے۔ ہم کو پتہ لگ چکا ہے اور انصارؓ اور صحابہ کرامؓ نے اپنے عمل اور اپنی قربانی اور اپنے ایثار سے اس کی ایک ایک ِشق کھول دی ہے ، ایک ایک شرط واضح کر دی ہے پس ہم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ جواب نہیں دے سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اس اقرار کی کیا قیمت ہے۔ اس جواب سے سوائے مُجرم بننے کے ہم کچھ اور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ہمیں یاتو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کے لئے اپنی جانیں دینی ہونگی اور یا ہمیں ذِلّت اور رُسوائی کے ساتھ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مُجرم کی حیثیت میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ بہرحال یہ مینار ہر وقت ہمارے فرض کی طرف ہمیںتوجہ دلاتا ہے جس طرح مدینہ کے لوگ خود بُلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گئے تھے ہم نے بھی یہ مینار اپنی مرضی سے بنایا ہے اور اس امر کا اقرار کیا ہے کہ آئندہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دین کی حفاظت کا ہم ذمہ لیتے ہیں۔مینار کی چوٹی بھی اپنا وعدہ یا د دلاتی رہتی ہے اور اس کی روشنی بھی ہمیں بیدار رہنے کی تعلیم دیتی ہے پس جو کچھ انصار نے کیا ہمیں ان سے بڑھ کر نمونہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراجِ منیر ہیں
(۲) پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جومینارہ بیضاء کہا گیا ہے اس کی
مناسبت سے ایک دوسری جگہ قرآن کریم میںآپ کو سِرَاجًا مُّنِیْرًا۳۸؎ بھی کہا گیا ہے ان الفاظ میںاس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مینار بناتے ہیں تو اوّلؔ مینار خود تاریک ہوتا ہے۔ دومؔ انہیں محنت کر کے اس پر روشنی کرنی پڑتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراج کی طرح تھے یعنی ان کی روشنی ذاتی تھی اور پھر وہ روشنی مستقل اور دائمی تھی۔ چاند کی روشنی سورج سے حاصل کر دہ ہوتی ہے لیکن سورج میں ذاتی روشنی ہوتی ہے پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مینار نہیں جس پر کوئی اور روشنی رکھے تو وہ روشن ہو۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں ایک چمکنے والے مینار ہیں لوگوں کو دُنیوی میناروں کے لئے بہت کچھ محنت اور تگ ودَو کرنی پڑتی ہے۔ ان کے لئے بجلی کے قمقموں یا تیل بتی اور دِیا سلائی وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ پھر دوسرے مینار دن کے وقت کام نہیں آتے صرف رات کے وقت ان کی روشنی سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا مُّنِیْرًا رکھا ہے جس میںاس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ وہ روشن چراغ ہے جو دن کو بھی روشنی دیتا ہے اور رات کو بھی روشنی دیتا ہے ۔پھر اس کے لئے نہ تیل کی ضرورت ہے نہ بتی کی ضرورت ہے ا ور نہ کسی جلانے والے کی ضرورت ہے آپ ہی آپ سورج کی طرح ہر وقت روشن اور ضیا پاش رہتا ہے۔ـ
محمد رسول اللہ کی غلامی میں الٰہی انوار وبرکات کا نزول
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جو لوگ مینار
بناتے تھے وہ اس لئے بناتے تھے کہ ان کے ذریعہ وہ خداتعالیٰ تک پہنچ جائیں مگر وہ ہمیشہ اس سے محروم رہتے تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی خدا سے ملے اور جنہوں نے آپ کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کو ملنا چاہا وہ بھی خدا سے ملے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۳۹؎
یعنی اے لوگو! اگر تم خدتعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو اور اس سے ملنے کے خواہشمند ہو تو اس کا ذریعہ یہ ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں مل جائے گا۔
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے مینار ہیں جن کے ذریعہ انسان خداتعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ہزاروں ہزارمثالیں اُمتِ محمّدیَہ میں ایسی پائی جاتی ہیں کہ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور آپؐ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کیا اور اس کے کلام سے مشرف ہوئے اور اس کے نشانات ان کے لئے ظاہر ہوئے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگردوسری تمام قوموں کے فاسقوں اور فاجروں کو نکال دیا جائے اور صرف ان کے نیک اور پاک بندوں کا شمار کیا جائے تب بھی ان میں خدارسیدہ لوگوں کی اتنی مثالیںنہیں مل سکتیں جتنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں ہر زمانہ میں نظر آتی ہیں۔ ہزار وں ہزار لوگ ہر زمانہ میں سے ایسے نظر آتے ہیں جنہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خداتعالیٰ کا قُرب حاصل کیا اور ان کی برکات سے دوسرے لوگ بھی متمتع ہوئے۔
حضرت عمرؓ سے قیصر کی درخواست
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہؤا اور باوجود ہر قسم
کے علاجوں کے اُسے آرام نہ آیا۔ کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمرؓ کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دو اور ان سے تبرک کے طور پرکوئی چیز منگوائو وہ تمہارے لئے دُعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوادیںگے ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفا حاصل ہو جائے گی۔ اُس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا سفیر بھیجا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں میرے پاس اس نے کہاں آنا تھا اب یہ دُکھ میں مبتلاء ہؤا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے اگر مَیں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہئے جو تبرک کا بھی کا م دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے۔ چنانچہ انہو ں نے اپنی ایک پُرانی ٹوپی جس پرجگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی اُسے تبرک کے طور پر بھجوا دی۔ اُس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اُسے بہت بُرا لگا تو اُس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسے اتنا شدید درد ِ سر ہؤا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہی ٹوپی لائو جو عمرؓ نے بھجوائی تھی تا کہ میں اُسے اپنے سر پررکھوں چنانچہ اُس نے ٹوپی پہنی اور اُس کا درد جاتا رہا۔ چونکہ اُس کو ہر آٹھویں دسویں دن سردرد ہوجایا کرتا تھا، اس لئے پھر تو اس کا یہ معمول ہو گیاکہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے سر پر رکھی ہوئی ہوتی۔
ایک صحابی کی قیصر کے مظام سے نجات
یہ نشان جو خداتعالیٰ نے اسے دکھایا اس میں ایک اور بات بھی مخفی تھی۔ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ قیصر کے پاس قید تھے اور اُس نے حکم دے دیا تھا کہ انہیں سؤر کا گوشت کھلایا جائے وہ فاقے برداشت کرتے تھے مگر سؤر کے قریب نہیں جاتے تھے اور گو اسلام نے یہ کہا ہے کہ اضطرار کی حالت میںسؤر کا گوشت کھا لینا جائز ہے مگر وہ کہتے تھے کہ میں صحابی ہوں میں ایسا نہیں کر سکتا۔ جب کئی کئی دن کے فاقوں کے بعد وہ مرنے لگتے تو قیصر انہیں روٹی دے دیتا جب پھر انہیں کچھ طاقت آجاتی تو وہ پھر کہتا کہ انہیںسؤر کھلایا جائے اس طرح نہ وہ انہیں مرنے دیتا نہ جینے ۔ کسی نے اُسے کہا کہ تجھے یہ سر درد اس لئے ہے کہ تو نے اِس مسلمان کو قید رکھا ہؤا ہے اور اب اس کا علاج یہی ہے کہ تم عمرؓ سے اپنے لئے دُعا کرائو اور ان سے کوئی تبرک منگوائو۔ جب حضرت عمر رضی اللہ نے اُسے ٹوپی بھیجی اور اُس کے درد میں افاقہ ہوگیا تو وہ اس سے اتنا متأثر ہؤا کہ اُس نے اِس صحابی کو بھی چھوڑ دیا ۔ اب دیکھو کہاں قیصر ایک صحابی کو تکلیف دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا کے طور اس کے سرمیں درد پیدا کر دیتا ہے۔کوئی اور شخص اسے مشورہ دیتا ہے کہ عمرؓ سے تبرک منگوائو اور ان سے دُعا کرائو وہ تبرّک بھیجتے ہیںاور قیصر کا درد جاتا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس صحابیؓ کی نجات کے بھی سامان پیدا کر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس پر ظاہر کر دیتا ہے۔
علومِ غیبیہ کا دروازہ کھل گیا
(۳) مینار بنانے کی تیسری غرض اجرامِ فلکی سے علومِ غیبیہ کا معلوم کرنا ہوتی ہے لیکن یہ غرض بھی ان میناروں سے کبھی
پوری نہیں ہوئی۔ لوگ مینار بناتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ اَرواحِ سماویہ سے غیبی علوم ان کو حاصل ہو جائیں مگر کسی مینار سے بھی ان کو غیب کا علم حاصل نہیں ہوتا، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علومِ غیبیہ عطا ہوئے کہ جن کی مثال دنیا کے کسی نبی میں نظر نہیں آسکتی بلکہ آپ تو الگ رہے آپ کے اتباع میں بھی ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبریں دی ہیں اور ان پرا پنے آسمانی اسرار کھولے ہیں۔ مَیں نے خود اللہ تعالیٰ کے فضل سے محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے فیوض کی وجہ سے علومِ غیبیہ سے جو حصہ پایا ہے اس کی مثال موجودہ زمانہ میںاور کہیں نظر نہیںآتی۔ سینکڑوں غیب کی خبریں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر فرمائیں اور ان میں سے کئی ایسی ہیں جو دنیا میں ایک تہلکہ مچانے کا موجب ہوئیں۔
لیبر پارٹی کی کامیابی کے متعلق رؤیا
مثلاً لیبر پارٹی کی کامیابی کے متعلق جو مَیں نے رؤیا دیکھا وہ خداتعالیٰ کے علمِ غیب کا ایک زبردست ثبوت
ہے۔ مسٹر ایٹلی(ATTLEE) جو لیبر پارٹی کے لیڈر اور برطانیہ کے وزیر اعظم تھے خود انہیں اس امر کی کوئی امید نہیںتھی کہ وہ انتخابات میںاکثریت بھی حاصل کر لیں گے یا نہیں۔ پچیس جولائی ۱۹۴۵ء کی شام تک انگلستان کے اخبارات یہی لکھتے رہے کہ کنزرویٹو پارٹی میدان جیت جائے گی۔ مسٹر چرچل اپنی کامیابی کے متعلق انتہائی پُر اُمید تھے وہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کے دلوںپر میری جنگی خدمات کا اثر ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آ سکے مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد جو نتائج برآمد ہوئے انہوں نے تمام اخبارات اور کنزرویٹو پارٹی کی امیدوںپر پانی پھیردیا اور دُنیا دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لیبر پارٹی کامیا ب ہو گئی ہے۔ مَیں نے قبل از وقت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو یہ رئویا سنا دیا تھا اور انہوں نے انگلستان جا کر تمام بڑے بڑے لیڈروں کو یہ بات بتا دی تھی او رآخر وہی ہؤا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا۔
لیبیا کے محاذ پرانگریزی اور اطالوی فوجوں کی جنگ
اسی طرح جنگِ عظیم کے متعلق بہت سے واقعات
ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی اور جو اپنے وقت پر حیرت انگیز رنگ میںپورے ہوئے۔ دنیا کاکوئی شخص ان واقعات کا جو مجھے بتائے گئے قبل از وقت قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا۔مثلاً ۱۹۴۰ء میں مجھے بتایا گیا کہ لیبیا کے محاذ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان شدید جنگ ہو گی مگر پھر وہ آگے بڑھیں گے اور فتح حاصل کر یں گے۔اس کے بعد پھر انگریزوں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور دشمن کا دبائو بڑھ جائے گا لیکن دوبارہ پھر انگریز انہیں دھکیل کر پیچھے لے جائیں گے غرض اسی طرح دو تین بار ہو گا مگر آخر انگریزی فوج اپنے دشمن کو دباتی ہوئی اسے شکست دے دیگی۔ جن دنوں مَیں نے یہ رئویا دیکھا میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے مکان پر شملہ میںٹھہرا ہؤا تھا مَیں نے چوہدری صاحب سے اِس خواب کا ذکر کیا۔ وہ اُس وقت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کے لئے جا رہے تھے جب واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے اس رئویا کا اور لوگوں کے علاوہ ہزایکسی لینسی وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری سرلیتھویٹ سے بھی ذکر کیا تھا اور انہوں نے اس رئویا کو بہت تعجب سے سنا۔ دوسرے دن وہ چوہدری صاحب کے ہاں چائے پر آئے تو انہوں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں خو د آپ کی زبان سے یہ رئویا سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے انہیں دوبارہ رئویا سُنایا۔ اس رئویا کے بعد بعینہٖ اسی طرح واقعات رونما ہوئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھائے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ ۴۰ء کے آخر میں پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں۔ ۱۹۴۱ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہؤا مصر کی سرحد پر لے آیا۔ ۱۹۴۱ء کے آخر میںانگریز پھر آگے بڑھے اور دشمن کی فوجوں کوشکست دیتے ہوئے اسے کئی سَو میل تک لے گئے۔ جون ۱۹۴۲ء میں پھردشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور ۱۹۴۲ء کے آخر میں پھر انگریزوں نے بڑھنا شروع کر دیا اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رئویا مجھے دکھایا گیا تھا وہ متواتر پورا ہؤا اور لفظاً لفظاً پور اہؤا۔
۲۸ سَو ہوائی جہاز بھجوائے جانے کے متعلق رئویا
اسی طرح جن دنوں فرانس، جرمنی کے مقابلہ میں شکست کھا چکا تھا اور
انگریزسخت خطرہ میں گھرے ہوئے تھے مَیں نے رئویا میں دیکھا کہ مَیں انگلستان گیا ہوں اور انگریزوں نے انگلستان کی حفاظت کا کام میرے سُپرد کیا ہے۔ مَیں نے کہا مَیں پہلے فوجی مقامات کو دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ یہ اندازہ لگائوں کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں اور اگر ہے تو اسے کس طرح پور اکیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے تمام فوجی ہیڈکوارٹرزاور سرکاری دفاتر دیکھے اور مَیں نے وزارت کو رپورٹ کی کہ انگلستان کے پاس صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں، تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام بخوبی کر سکتا ہوں۔ اتنے میںرئویا میں ہی ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے مجھے ایک تار دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ :-
The British Representative from America Wires, that the American Government has delivered 2800 Aeroplanes to the British Government.
یعنی برطانوی نمائندہ امریکہ سے تار دیتا ہے کہ دو ہزار آٹھ سَو ہوائی جہاز امریکن گورنمنٹ نے برطانوی گورنمنٹ کو دئیے ہیں۔ مَیں نے تار پڑھ کر کہا کہ اب کام ہو گیا ہے اب ہمارے پاس کسی چیزکی کمی نہیں رہی۔مَیں نے یہ رئویاانہی دِنوں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو سُنادیا اور انہوں نے کئی برطانوی نمائندوں اور گورنمنٹ کے دوسرے ہندوستانی معزز افسروں میںاس کا ذکر کر دیا۔
یہ رئویا جون ۱۹۴۰ء میںمَیں نے دیکھا تھا۔ جولائی کے مہینہ میںمَیں ایک دن مسجد مبارک میں بیٹھا ہؤا تھا کہ ایک شخص دَوڑتا ہؤا آیا اور اُس نے کہا کہ آپ کے نام ایک ضروری فون آیا ہے۔ مَیں گیا تو مجھے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی آواز آئی مگر مَیں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز کانپ رہی ہے۔ وہ اچھے حوصلے والے آدمی ہیں مگر اس وقت ان کی آواز میں ارتعاش تھا انہوں نے کہا کہ آپ نے آج کی تازہ خبریںپڑھ لی ہیں؟ مَیں نے کہا پڑھ تو لی ہیں مگر مجھے تو ان میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ انہوں نے کہا مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہوگئی ابھی تار آئی ہے جس میں لکھا ہے :-
The British Representative from America Wires, that the American Government has delivered 2800 Aeroplanes to the British Government.
گویا وہی الفاظ جو رئویا میں مجھے دکھائے گئے تھے ایک مہینہ کے اندر اندر پور ے ہوگئے اور برطانوی نمائندے نے امریکہ سے حکومتِ انگلستان کواطلاع دی ہے کہ امریکی گورنمنٹ، گورنمنٹِ برطانیہ کو ۲۸۰۰ ہوائی جہاز دے رہی ہے۔
سرکلوؔپر اتمامِ حُجّت
پھر انہوں نے کہا جن لوگوں کو مَیں نے یہ خبر سنائی تھی ان میںسے ایک سر کلوؔ بھی تھے (جو اُس وقت ریلوے بورڈ کے ممبر تھے اور بعد میں
آسام کے گورنر مقرر ہوئے) چونکہ خداتعالیٰ نے اِس رئویا کی صداقت کو ان پر ظاہر کرنا تھا اس لئے انہوں نے تار ایسی طرز پر پڑھی کہ ان کا خیال اس طرف چلا گیا کہ جو بات رئویا میں بتائی گئی تھی وہ صحیح طو رپر پوری نہیں ہوئی۔ چنانچہ چوہدری صاحب نے بتایا کہ مَیں نے سرکلوؔ کو فون کیا کہ سرکلوؔ تم کو یاد ہے مَیں نے تمہیں امام جماعت احمدیہ کی ایک رئویا سنائی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ امریکن گورنمنٹ برطانوی گورنمنٹ کو ۲۸۰۰ ہوائی جہاز دے گی اور آج یہ رئویا پوری ہو گئی ہے کیونکہ ابھی تار آئی ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دے دئیے ہیں انہوں نے کہا بات تو ٹھیک ہے کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی خواب سنائی تھی مگر وہ ساری پوری نہیں ہوئی آپ نے تو مجھے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز بتائے تھے اور تار میںیہ لکھا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ۲۵۰۰(پچیس سَو) ہوائی جہاز دئیے ہیں۔ مَیں نے کہا سرکلوؔ تار کو دوبارہ پڑھو۔ اُس نے دوبارہ پڑھا تو کہنے لگا اوہو! یہ تو وہی الفاظ نکل آئے جو آپ نے مجھے بتائے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس خبر کو ایسے رنگ میں پورا کیا کہ سرکلو پر بھی حُجّت تمام ہو گئی اور انہوں نے اقرار کیا کہ واقعہ میں جو بات بتائی گئی تھی وہ پوری ہو گئی ہے۔
قادیان سے ہجرت کی خبر
اس طرح ۱۹۴۱ء میں مجھے قادیان سے نکلنے کی خبر دی گئی اور مجھے دکھایا گیا کہ لڑائی ہو رہی ہے گولیاں چل رہی ہیں اور ہم
ایک نئے مرکز کی تلاش میں کسی دوسری جگہ گئے ہیں حالانکہ ۱۹۴۱ء میں کسی کے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی اور ایک نیا مرکز ہمیں بنانا پڑے گا۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزار ہا غیبی خبریںملیں اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پیدا کر کے خود مسلمانوں کے لئے بھی علومِ غیبیہ کا منبع کھل گیا ۔
چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق ایک رئویا !
ابھی مجھے ایک تازہ رئویا ہؤا ہے ۔میں گزشتہ دنوں
ناصر آباد سندھ میںتھا کہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ مَیں اپنے مکان کے برآمدہ میں ایک پیڑھی پر بیٹھا ہوں کہ اتنے میں اخبار آیا اور مَیں نے اُسے کھولا تو اُس میںیہ خبر درج تھی کہ رات نیویارک ریڈیو سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب شہیدکر دئیے گئے ہیں۔ اِس خواب کے اچھے معنے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ شہادت ایک بڑا رُتبہ ہے پس اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو گی لیکن ظاہری تعبیر کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ خواب منذر بھی ہو سکتی ہے اور اس کے یہ معنے بھی کئے جا سکتے ہیں کہ ان کے کام میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور دشمن انہیں ناکام کرنے کی کوشش کریگا۔ چنانچہ اس رئویا کے بعد جب میںکراچی پہنچاتو تیرہ مارچ (۱۹۴۸ئ) کو مَیں نے انہیںتار دیا کہ مَیں نے ایسا رئویا دیکھا ہے اور مَیں نے لکھا کہ گو خواب میں قتل سے مراد کوئی بڑی کامیابی بھی ہو سکتی ہے لیکن ظاہری تعبیر کے لحاظ سے چونکہ یہ رئویا منذر ہے اس لئے انہیں احتیاط رکھنی چاہئے۔ اس کے جواب میں مجھے ان کی طرف سے تار بھی ملا اور پھر تفصیلی خط بھی آ گیا جس میں ذکر تھا کہ بعض حکومتیں اپنی ذاتی اغراض کے لئے مخالفت کر رہی ہیںاور کام میں مشکلات پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ چوہدری صاحب کی بیوی مجھ سے ملنے کے لئے آئیں تو مَیں نے ان سے بھی اس رئویا کا ذکر کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ مَیں نے بھی چوہدری صاحب کے متعلق ایک منذر رئویا دیکھا ہے جس میں کسی حملہ کی طرف اشارہ ہے اور آپ کی خواب بھی یہی بتا رہی ہے۔ مَیں نے کہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واقعہ میں کوئی دشمن غصہ میں آ کر ان پر حملہ کر دے مگر اصل تعبیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس میں دشمن انہیں ناکام کرنے کی کوشش کر ے گا۔
محمدی مینار تا اَبَدْ آپؐ کے نام کو قائم رکھنے والا ہے
(۴) پھر مینار بنانے کی چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ
لوگ چاہتے ہیں ان میناروں کے ذریعہ ان کانام دنیامیں قائم رہے اور لوگ انہیں عزت کے ساتھ یا د کریں مگر ہمیں دکھائی یہ دیتا ہے کہ خود بنانے والوں کے ناموں میں ہی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک کہتا ہے یہ قطب الدین ایبک کی لاٹ ہے اور دوسرا کہتا ہے یہ فلاں راجہ کی لاٹ ہے ایک کہتا ہے یہ فلاں بادشاہ کا مینار ہے اور دوسرا کہتا ہے یہ فلاں راجہ کا مینار ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامینار تا اَبَدْ آپؐ کے نام کو قائم کرنے والا ہے اور پھر اس کے بنانے والے کے متعلق کسی کوشبہ نہیں۔ ہر شخص دوست اور دشمن مانتا ہے کہ یہ منارہ محمدؐ ی ہے دنیامیں اس کا کبھی کوئی اور مدعی ہو ہی نہیں سکتا اور یہ جامہ کسی اور کے بدن پر زیب ہی نہیں دے سکتا۔
محمدی مینار دنیا کے ہر مقام پر کھڑاکیا جا سکتا ہے
ـپھر دُنیوی میناروں اور اس مینار میں ایک اورفرق یہ ہے
کہ ان میناروں کو خواہ کتنی ضرورت ہو اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا۔ دلّی سے مسلمان چلے گئے مگر فیروز شاہ کی لاٹ وہیں کھڑی رہی۔ دلّی سے مسلمان چلے گئے مگر قطب الدین کی لاٹ وہ اپنے ساتھ نہیں لے گئے لیکن دنیا کے کسی خطہ میںتم چلے جائو اور جہاں بھی چاہو رہو تم اس مقام پرمحمدی مینار کھڑا کر سکتے ہو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کر سکتے ہو۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو آجکل یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے اب ہندوستان میں محمدی مینار کھڑا کرنا ان کے ذمہ ہے خصوصاً احمدی جماعت کے، اِن کو تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور ہندوئوں اور سکھوں میں تبلیغ جاری رکھنی چاہئے مایوس ہونے والی بات نہیں جس خدا نے اسلام کو دنیا میں اتنا پھیلا یا ہے وہ پھر بھی اُن کی زبانوں میںتاثیر پیدا کر سکتا ہے اور لوگوں کے دلوںکو صاف کر سکتا ہے۔
بہرحال یہ محمدی مینار اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ تم جہاں چاہو اِس کو کھڑا کر سکتے ہو اور جس جگہ بھی تم اِس مینار کو کھڑا کرو گے وہیں خدا تعالیٰ کے انوار اُترنے لگ جائیں گے اور ہر جگہ تم اِس مینار سے روشنی حاصل کر سکو گے۔قطب الدین کی لاٹ پر اگر بڑے سے بڑا روشن چراغ بھی جلائو تو وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس میل تک روشنی پہنچا سکتا ہے۔ سمندر کی تاریکیوں میں جب کہ بڑی بڑی چٹانوں سے جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہو رہے ہوتے ہیں ان میناروں کی روشنی سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا اور ہزار دو ہزارمیل تک تو دنیا کا کوئی مینار بھی روشنی نہیں پہنچا سکتا لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہو تو خواہ انسان طوفانوں میںگھر جائے، حوادث اور مصائب کے بادل اس پر اُمڈ آئیں، اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر خداتعالیٰ سے دعا کریگا تو وہیں مینارِ محمدی کھڑا ہو جائے گا اس کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں، اس کے لئے کوئی وقت معیّن نہیں، سمندروں پر یہ مینار کھڑا کیا جا سکتا ہے، پہاڑوں پر یہ مینار کھڑا کیا جا سکتا ہے، غاروں میں یہ مینار لے جایا سکتا ہے، غرض ہر مقام اور ہر جگہ پر اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو دنیا کے کسی اور مینار میں نہیںپائی جاتی۔
محمد ی مینار ہر انسان کو اس کے درجہ کے مطابق روشنی دیتاہے
پھر اس مینار میں ایک اور خوبی یہ
ہے کہ اس سے ہر شخص اپنے درجہ کے مطابق روشنی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر قطب الدین کی لاٹ پر دس ہزار وولٹ کی روشنی ہے اور تمہیں اس سے کم روشنی کی ضرورت ہے تو وہ اتنی ہی روشنی دے گا یا زیادہ روشنی کی ضرورت ہو تب بھی وہ دس ہزار وولٹ سے زیادہ روشنی نہیں دے گا اور اگر اس پر پندرہ ہزار وولٹ کی روشنی ہے تو وہ پندرہ ہزاروولٹ کی روشنی ہی ہر شخص کو دے گا لیکن مینار ہ محمدؐی میںیہ خوبی ہے کہ انسان خواہ کتنی ترقی کر جائے یہ مینار اس کے درجہ کے مطابق اسے روشنی دیتا چلا جاتا ہے۔ اگر تمہیں دس ہزار وولٹ کی روشنی چاہئے تو وہ تمہیں دس ہزار وولٹ روشنی مہیا کرے گا، اگر تمہیں پچاس ہزار وولٹ کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں پچاس ہزار وولٹ روشنی دے گا، اگر تمہیںایک لاکھ وولٹ کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں ایک لاکھ وولٹ روشنی مہیا کرے گا۔ غرض روحانی ارتقاء کے راستہ میں کوئی مقام ایسا نہیں آ سکتا جہاںیہ کہا جاسکے کہ اب مینارہ محمدی سے روشنی حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کے وراء الورٰی مقامات پر بھی اگر انسان پہنچ جائے تب بھی وہ محمدؐی مینار کی روشنی کا محتاج ہے۔
یہی وہ نکتہ تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ:-
؎
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلامِ احمدؐ ہے
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی عظمت
تھوڑے ہی دن ہوئے، ایک مسلمان اخبار میں مَیں
نے پڑھا کہ مرزا صاحب نے حضرت مسیح ناصری کی کتنی بڑی ہتک کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :-
؎
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلامِ احمدؐ ہے
حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جب تک وہ لوگ جو اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج روحانیہ کے حامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کے بلند ترین مقامات کو طے کر چکے ہیں یہ نہ کہیں کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میںحاصل کیا ہے ا ور یہ کہ اس قدر ترقی کرنے کے باوجود ہم اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور آپ کے خاکِ پا ہیں اس وقت تک مقامِ محمدؐی کی فضیلت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ختمِ نبوت کی حقیقت روشن ہو سکتی ہے۔ کوئی عیسیٰ کا مُرید اگر اس پر بُرا مناتا ہے تو بیشک بُرا منائے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سچّا غلام بڑے سے بڑامقام حاصل کر سکتا ہے اور جتنا بھی وہ بڑھتا چلاجائے گا محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے ہی استفادہ کریگا اور ہمیشہ آپ کے غلاموں اور چاکروں میں ہی اس کا شمار ہو گا۔ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس دعوی کے نتیجہ میں ہم مارے جائیں یا قتل کئے جائیںیا اپنے وطنوں سے نکال دئیے جائیں ہم فخر سمجھیں گے کہ ہم نے ماریںکھا کر اور گالیاں سن کر اور وطنوں سے بے وطن ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اور آپ کی عظمت کو دنیامیں روشن کیا۔
نسخہ کیمیا
پھر اس مینار کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ہر شخص کو اس کی استعداد روحانیہ کے مطابق روشنی دیتا ہے اور دوسری طرف اس پُرانی مثل
کے مطابق جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب کوئی شخص ’’سم سم کھل جا‘‘ کہتا تھا تو خزانے کا دروازہ خودبخود کھل جاتا تھا یہاں بھی ایک ایسا ہی سم سم کا نسخہ موجود ہے جس کو استعمال کرنے سے منارہ محمدؐی کی روشنی فوراً زیادہ ہو جاتی ہے گو اس وقت اس کا ساتھی کم روشنی حاصل کر رہا ہویہ روشنی بڑھانے والا نسخہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
یہ ایک کنجی ہے جو اس مینار سے روشنی حاصل کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے تم خداتعالیٰ سے یہ کہتے ہو کہ اے خدا تو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بڑھا جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ او رآل ابرہیم ؑکا نور بڑھایا جب کوئی بندہ اس نسخہ کو استعمال کرتا ہے تو خداتعالیٰ کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بڑھانے کا وعدہ تو مَیں نے کیا ہؤا ہی ہے اس بندہ نے جو مجھے وعدہ یاد دلایاہے تو میںا س کے بدلہ میں اس بندے کا بھی نور بڑھائوں گا اور اسے بھی ایک چھوٹا محمد بنائوں گا۔
پس اِس نسخہ کو استعمال کر کے اس مینارِ محمد ی کی نقل میں اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے مینار تیار ہونے لگ جاتے ہیں۔
یہ مینار ہمیشہ تیار ہوتے رہے اور ہوتے چلے جائیں گے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمت میںایسے لوگ پیدا نہیںہو سکتے جو خدا کے مقرب ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہوں وہ جھوٹا ہے۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے وہ آپ کے فیضان کو بند کرتا ہے ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت بھی زندہ تھے جب آپ جسدِ عنصری کے ساتھ اِس دنیا میں موجود تھے اور اِس وقت بھی زندہ ہیں جب آپ دنیا سے جا چکے ہیں۔ دنیا پیدا ہو گی اور فنا ہوگی لوگ آئیں گے اور مریں گے انسانی نسل دنیا میں پید اہوگی اور مٹے گی مگر میرا رسول ہمیشہ کے لئے زندہ ہے جو شخص اس کے خلاف کہتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اگر اِس پر کوئی مجھے پھانسی بھی دینا چاہے تو مَیں پھانسی کے تختہ پر بھی چڑھنے کے لئے تیار ہوں۔
مینارہ محمدی کی نقل میںبعض اور چھوٹے چھوٹے مینار
پھر اس منارۂ محمدی کی نقل میں بعض اور چھوٹے چھوٹے
منارے بھی تیار ہوئے ہیں جس طرح کہ ایک بڑا مینارہ تیار ہؤا ہے جس کے متعلق خود الْمَنَارَۃ الْبَیْضَاء نے خبر دی تھی اور قرآن کریم نے بھی کہا تھا کہ وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰیاورا ن مناروں کی خبر قرآن کریم میںیوں دی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُوقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکادُ زَیتُھَا یُضِيئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَائُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْمٌ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکرِْ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیتَائِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُوَالْاَبْصَارِ لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْاوَیَزِیْدَھُم مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَائُ بِغَیْرِحِسَابٍ ۴۰؎
یعنی اللہ آسمانوں اور زمینوں کانور ہے مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَامِصْبَاحٌ اس کے نور کی کیفیت یہ ہے کہ جیسے ایک طاقچہ ہو اور اُس طاقچہ میںایک چراغ ہو۔ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اُس طاقچے کے پیچھے ایک REFLECTER لگاہؤا ہو اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَاکَوْکَبٌ دُرِّیٌّ اور وہ REFLECTER اتنا صاف اور عمدہ ہو جیسے ایک چمکتا ہؤا ستارہ ہوتا ہے یُوْقَدُمِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ اور وہ چراغ ایک مبارک درخت سے جو زیتون کی قسم میںسے ہے جلایا جاتا ہو لَاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَاغَرْبِیَّۃٍ نہ وہ شرقی ہے نہ غربی یَکَادُزَیْتُھَایُضِیْئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ قریب ہے کہ ا س کاتیل آپ ہی آپ جل اُٹھے خواہ اسے آگ نہ دکھائی جائے مگر چونکہ اسے آگ بھی دکھائی گئی ہے اس لئے نُورٌعَلٰی نُوْرٍ نور پر نور نازل ہونا شروع ہو گیا ہے یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مِّنْ یَشَائُ اِس نور کے لئے جس کو چاہتا ہے وہ ہدایت دیتا ہے وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے اپنے دین کی تفاصیل بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس مضمون کو بیان فرماتا ہے کہ خدا کا یہ نور کس مینار پر رکھا جاتا ہے فرماتا ہے فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَن تُرْفَعَ یہ نور اُن گھروں میں رکھا جائے گا جن کے متعلق خداتعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ وہ دنیا میں میناروں کی طرح بلند کئے جائیں۔ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّوَالْاٰصَالِ رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ اور جن میںرات اور دن خدا کا ذکر کیا جاتا ہے اور صبح وشام اس کی تسبیح کی جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور خریدوفروخت خدا کے ذکراور نمازوں کے قیام کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی۔ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَ بْصَارُ اور وہ اُس دن سے ڈرتے ہیں جس دن انسانوں کے دل دھڑکنے لگ جائیں گے اور ان کی آنکھیں جھک جائیںگی۔ لِیَجْزِ یَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْاوَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے اعلیٰ حصے کا اُن کو بدلہ دے اور اپنے فضل سے ان کے انعامات میں اور بھی زیادتی کرے۔ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَائُ بِغَیْرِ حِسَابٍ اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔
روحانی عظمت اور بلندی کے مستحق افراد کی تعیین !
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ روحانی طورپر
بعض گھروں کو اونچا کر دیتا ہے یعنی دنیا میںانہیں ایک مینار کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے مگر فرماتا ہے کہ یہ کون سے گھر ہیں یہ وہی گھر ہیں یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰ صَالِ ـ رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیتَائِ الزَّکٰوۃِ یہ وہ گھر ہیں جن کے اندر صبح وشام خدا تعالیٰ کانام لیا جاتا ہے اور صرف منہ سے ہی نام نہیں لیا جاتابلکہ عملاً بھی وہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں وہ تجارتیں بھی کرتے ہیں وہ سَودا بھی بیچتے ہیں وہ روپیہ بھی کماتے ہیں لیکن باجود اس کے ان کا روپیہ انہیں خداتعالیٰ سے غافل نہیں کر دیتا۔ان کی تجارت انہیں حقوق اللہ سے اور حقوق العباد کی ادائیگی سے روک نہیں دیتی وہ بندوں کا حق ادا کرتے ہیں، وہ غریبوں کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کو بھی نہیں بھلاتے۔
ایک قابلِ غورنکتہ
جماعت احمدیہ ہمیشہ اِس نکتہ کو یاد رکھے کیونکہ اسی میں اس کی فلاح ہے۔ دین کے لئے روپیہ کمانا بھی اُس کا فرض ہے لیکن روپیہ کماتے وقت دین
کی محبت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دل میںرکھنا بھی اس کا فرض ہے بلکہ مَیںکہتا ہوں کہ اگر کوئی اور شخص بھی اِس نُکتہ پر عمل کرے گا تو خواہ وہ کسی فرقہ کا ہو وہ یقینا ہدایت پائے گا اور خداتعالیٰ کی نصرت حاصل کرے گا کیونکہ جو شخص نیکی کی طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور قدم اُٹھانے کی بھی توفیق مل جاتی ہے۔
اپنے دائرہ میں ہر مسلمان کو ایک
چھوٹا سا محمد بننے کی کوشش کرنی چاہئے
بہرحال یہ آیات بتاتی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ کی اُمت کے ہر فرد کے لئے دنیا کاروحانی مینا ربننے کا سامان مہیاکیا گیا ہے۔ وہ صرف دنیا کما کر کبھی اونچے نہیں ہو سکتے
انہیں اصل اونچائی اُس وقت حاصل ہوگی جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جزوبن جائیں گے، جب وہ خداتعالیٰ کا ذکر دنیا میں قائم کریں گے ‘جب وہ نمازوں پر التزام رکھیں گے، جب وہ زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں گے اور کسی قسم کے ظلم اور فتنہ میں حصہ نہیں لیں گے، یہ وہ نسخہ ہے جس کو استعمال کرکے دنیا کا ہر مسلمان روحانی دنیا کا ایک چھوٹا مینار بن سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج مسلمان اس نسخہ کوبُھول چکے ہیں وہ دنیا کی تمام بلندیوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ ترقی کرتے کرتے ایک چھوٹے شیکسپیئر بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹے ہیگل بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹے فلسفی بن جائیں ‘وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ اگر سائیکالوجی کا کوئی بہت بڑا ماہر گزرا ہے تو وہ اس کی نقل میںایک چھوٹے سائیکالوجسٹ بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹے جیمزیا ایک چھوٹے فرائڈ بن جائیں مگر آج مشرق سے لے کر مغرب تک کسی مسلمان کے دل میں یہ خواہش نہیں پائی جاتی کہ وہ ایک چھوٹا محمدؐ بن جائے حالانکہ ہمارے دل میں سِوائے اِ س کے اور کوئی خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ خواہ کچھ بھی ہو اور خواہ ہمیں ا ِس کے لئے کوئی بھی قربانی کرنی پڑے ہم ایک چھوٹے محمدؐ بن جائیں۔
اپنے روحانی باپ کی نقل کرو
بچوں کو دیکھ لو دنیا میں ہر بچہ اپنے ماں باپ کی محبت کی وجہ سے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جن کی مائیں
اپنے بچوں سے توتلی زبان میں باتیں کرنے کی عادی ہوتی ہیں ان کے بچے بھی اسی رنگ میں بات کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور جن کے باپ باتیں کرتے وقت ہکلاتے ہیں اُن کے بچے بھی رُک رُک کر باتیں کرتے ہیں بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ اگر باپ کی آنکھ یا ناک یا ہاتھ میںبات کرتے وقت کوئی معمولی سی حرکت بھی ہوتی ہے تو ویسی ہی حرکت بچے کی آنکھ یاناک یا ہاتھ میں بھی پائی جاتی ہے یا اگر ماں کو اپنی آنکھ کو ذرا جھپک کر بات کرنے کی عادت ہو تو اس کی بیٹی میں بھی آنکھ کی ویسی ہی جھپک آ جاتی ہے۔ غرض بچے اپنے اخلاق اور اپنی عادات اور اپنی زبان اور اپنے لب ولہجہ میںاپنے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جوماں باپ سے بچوں میں آجاتی ہیں مگر یہ کتنے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل باپ موجود ہے مگر مسلمان اس کی نقل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر دوسرے باپوں کے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں۔کوئی بچہ نادان سے نادان اور پاگل سے پاگل بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑ کردوسروں کے پیچھے بھاگا پھرے۔ انسان کے بچہ کو جانے دو کُتّے بھی ایسا نہیں کرتے۔ ایک کُتّے کو بھی اگر چند دن روٹی کھلائو تو وہ اپنے مالک کے گھر کا دروازہ نہیں چھوڑتا لیکن آج مسلمانوں کے دلوں میں اپنے عظیم الشان روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئے مگر یہ حکومت وہ دوسروں سے منوانا چاہتے ہیں خود اس حکومت کا جوا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں حالانکہ ہزاروں ہزار احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ہیں کہ نہ ان کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے نہ آئین کی ضرورت ہے نہ جتھے کی ضرورت ہے ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور نماز شروع کر دی۔ کیا اس کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے یا رمضان آیا اور روزے رکھنے شروع کر دئیے کیا اس کے لئے کسی آئین کی ضرورت ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے چپہ چپہ پر بغیر کسی قانون اور آئین کے قائم کی جا سکتی ہے مگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں۔ وہ نعرے لگانا جانتے ہیں وہ منہ کی پُھونکوں سے ُکفر مٹانا چاہتے ہیں لیکن عملی رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
افرادِ جماعت کو نصیحت
مَیں اپنی جماعت سے کہتا ہوں میں نے پہلے بھی کئی دفعہ نصیحت کی ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ تمہارا سب سے بڑا مقصد یہ
ہونا چاہئے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا سہی مگر بہرحال تم اپنے دائرہ میں چھوٹے محمد بن جائو۔ جس دن تم میںسے ہر شخص اپنے آپ کو ایک چھوٹا محمد بنانے کی کوشش کرے گا، جس دن تم اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بن جائو گے اور جس دن تمہاری زندگی میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی جھلک پیدا ہو جائے گی دنیا سمجھ لے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور تمہارے اعمال اورا خلاق اور کردار کو دیکھ کر اس کے دل میں تمہاری محبت بڑھتی چلی جائے گی۔ تم ایک زندہ اور مجسم نمونہ ہو گے ، تم چلتی پھرتی تبلیغ ہو گے، تم دنیا کے راہنما اور راہبر ہو گے، تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ کی طرف دنیا کو کھینچ کر لانے والے ہو گے اور وہ لوگ بھی آخر تمہارے نمونہ کودیکھ کر بے تاب ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ جب تک ہم سب سے بڑے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ لیں ہم صبر نہیں کر سکتے تب دنیامیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو جائے گی اور تمام بنی نوع انسان آپ کی غلامی میںشامل ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا
اب مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اور ہمارے بیوی بچوں کو بھی اور ہمارے دوستوں
کو بھی اور ہمارے ملنے والوں کو بھی اور ہمارے ہم قوموں کو بھی اور ہمارے ہم مذہبوں کو بھی اور ہمارے ساتھ نام میں اشتراک رکھنے والے مسلمانوں کو بھی بلکہ ہمارے ساتھ انسانیت میں اشتراک رکھنے والے تمام غیر مُسلموں کو بھی میرے آقا کی محبت بخش دے اور ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میںشامل ہو جائے۔پس آئو !ہم خداتعالیٰ سے التجا کریں کہ اے خدا! ہم کمزور ہیں ،ہم نحیف اور ناتواں ہیں، ہمارے دل تاریک ہیں ، ہماری زُبانیں زنگ آلود ہیں تو اپنے بندوں پر رحم فرما اور ہماری زاری کو قبول کرتے ہوئے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیامیں قائم کر دے، پھر قرآن کی حکومت دنیا میں قائم کر دے، پھر تیرا نور دنیا کوروشنی دینے والا بنے، پھر دنیا کی ساری ظلمتیں اور تاریکیاں مٹ جائیں اور دنیامیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی نور باقی رہے۔ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
۱؎ المؤمن : ۳۷ ، ۳۸ ۲؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال۔
۳؎ عبداللہ بن سبا: یہ صنعا کا یہودی اور سبائی تحریک کا بانی تھا۔ بعض روایات کے مطابق شیعہ مسلک کا بانی تھا۔ اس نے حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمانوں میں نفاق پھیلایا۔ بقول اس کے حضرت علی حضورؐ کے وصی ہیں نیز خدا کے اوتار تھے۔ حضرت علیؓ نے اسے سزائے موت دی۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۹۷۳۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۴؎ المنجد عربی اُردو صفحہ ۱۰۵۸۔ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ئ۔
۵؎ مسلم کتاب الاذان باب بیان کفر مَنْ قَال مطرنا بالنوئ۔
۶؎ ارڑپوپو: نجومی۔ ضدی۔ احمق (یہ پنجابی لفظ ہے)
۷؎ یونس : ۹۱ ۸؎ النّجم : ۲ تا ۱۹
۹؎ کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ئ۔
۱۰؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وَ اٰخریْنَ مِنْھُم (الخ)
۱۱؎ الحجر : ۱۷ تا ۱۹
۱۲؎ ابوداؤد کتاب الملاحم باب مَایُذکَرُ فی قرن المائۃ۔
۱۳؎ الجنّ : ۱۰ ۱۴؎ الشعراء : ۲۱۳ ۱۵؎ الطّور : ۳۹
۱۶؎ الصّٰفّٰت :۷تا ۱۱
۱۷؎ تعطیر الانام صفحہ ۱۰۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ئ۔
۱۸؎ منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام مؤلفہ ابن سیرین بر حاشیہ تعطیر الانام الجزء الاول
صفحہ ۱۵۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۰ھ
۱۹؎ مشکٰوۃ باب مناقب الصحابۃ
۲۰؎ بخاری کتاب الادب باب۔ اَلْمَقَۃُ مِنَ اللّٰہ تعالٰی
۲۱؎ بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عِیْسی ابْنِ مریم عَلَیْھَمَا السَّلام۔
۲۲؎ الطلاق : ۱۱، ۱۲ ۲۳؎ الطارق : ۲ تا ۴
۲۴؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۱ ۔ ایڈیشن چہارم۔
۲۵؎ مشوش: پریشان۔ مضطرب۔ حیران۔
۲۶؎ پیدائش باب ۶ آیت ۵ تا ۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء
۲۷؎ الدھر : ۳۱ ۲۸؎ الانفال : ۱۸
۲۹؎ بخاری کتاب الدیات باب مَنْ اَحْیَاھَا۔
۳۰؎ بخاری کتاب المغازی باب بعث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم خالد بن ولید الی بنی جذیمـۃ۔
۳۱؎ التکویر : ۲۴
۳۲،۳۳؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال۔
۳۴؎ مشکٰوۃ کتاب الفتن باب نُزُوْلِ عِیْسٰی عَلَیْہِ الصلٰوۃ والسلام۔
۳۵؎ بنی اسراء یل : ۲
۳۶؎ تذکرہ صفحہ ۴۸۵۔ ایڈیشن چہارم
۳۷؎ سیرت ابن ھشام الجزء الثانی صفحہ ۱۲، ۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۳۸؎ الاحزاب : ۴۷
۳۹؎ اٰل عمران : ۳۲ ۴۰؎ النور : ۳۶ تا ۳۹



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۵)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۵۰ء بر موقع جلسہ سالانہ )
عالَمِ رُوحانی کا دیوانِ عام
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
سیر روحانی کے مضمون کا محرّک
جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ۱۹۳۸ء میں مَیں اپنے بعض کاموں کے سلسلہ میں سندھ گیا اورپھر وہاں
سے کراچی چلا گیا میرا گلا ان دنوں بہت خراب تھا اور ڈاکٹر بتاتے تھے کہ گلے کی خرابی کے لئے سمندر کی ہوابہت مفید ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ جب سمندر کی سیر کا موقع ملا تو اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مجھے گلے کی تکلیف نہیں ہوئی اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت میںکراچی گیا اور ارادہ کیا کہ ہم جہاز میں سوار ہو کر بمبئی جائیں اور پھر حیدرآباد دکن کی جماعت سے بھی مل آئیں کیونکہ حیدرآباد کی جماعت دیر سے یہ اصرار کرتی چلی آرہی تھی کہ کبھی موقع ملے تو میں وہاں ضرور آئوں۔
چنانچہ میں کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدرآباد گیا۔ اس سفر میں مَیں نے بہت سی چیزیں دیکھیں۔ مُغلیہ زمانہ کی بھی اور اس سے پہلے پٹھانوں کے زمانہ کی بھی۔ اسی طرح گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، پھر آگرہ میں آئے تو ہم نے آگرہ کا تاج محل اور فتح پور سیکری وغیرہ دیکھا۔ اس کے بعد دلّی آئے اور وہاں کے تاریخی مقامات دیکھے۔ اسی تسلسل میں جب ہم دلّی پہنچے اور ہم نے وہاں غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو میرے اس مضمون کا محرّک ہؤا۔ میں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں بیان کیا ہے مَیں اُس جگہ پر پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرت ناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو دہلی پر بطور پہرہ دارکھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے۔ وہ کس قدر اولوالعزم، کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت و قوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی یادگاریں قائم کیں۔ وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اورکس شان کے ساتھ مرے مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے۔ کوئی ان میں سے بڑھئی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے کوئی موچی ہے اورکوئی میراثی ہے۔ میں انہی خیالات میں تھاکہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اورمَیں کہیں کا کہیں جا پہنچا۔ سب عجائباتِ سفر جو سفر میں مَیں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدرآباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کرکے سامنے سے گزرنے لگے آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کرکے خود غائب ہو گئے۔ میں اسی محویت کے عالَم میں کھڑا رہا اورکھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابّا جان دیر ہو گئی ہے۔ مَیں اِس آواز کو سنکر پھر واپس اِسی مادی دنیا میں آگیا مگر میرا دل اُس وقت رقّت انگیز جذبات سے پُر تھا۔ نہیں وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہؤا تھا۔ میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اورکہا کہ ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ جب مَیں نے کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘ تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیاؔ کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جبکہ وہ خداتعالیٰ کا قُرب اور اس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اوربیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بُدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا مگر محویت کی وجہ سے اس کو کچھ پتہ نہ چلا۔ یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا اصل بات یہ ہے کہ بُدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھااور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خداتعالیٰ نے یہ راز اُس پر کھول دیا تب گوتم بُدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم کھڑی تھی اُس نے کہا ابّا جان! آپ نے کیا پالیا مَیں نے کہا میں نے بہت کچھ پا لیا مگرمیں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا اگر اللہ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتائوں گا کہ میں نے کیا پایا اس وقت تم بھی سن لینا۔
سولہ ۶۱ عجائباتِ سفر
میں نے جو چیزیں وہاں دیکھیں اورجو اپنے لیکچر میں مَیں نے گِنی بھی ہیں وہ سولہ بڑی بڑی چیزیں تھیں۔
اوّل قلعے، دوم بادشاہوں کے مقابر، سوم مساجد، چوتھے ایک وسیع اوربلند تر مینار، پانچویں نوبت خانے، چھٹے باغات، ساتویں دیوانِ عام، آٹھویں دیوانِ خاص، نویں نہریں، دسویں لنگرخانے، گیارہویں دفاتر، بارہویں کتب خانے، تیرھویں مِینا بازار، چودھویں جنترمنتر، پندرھویں سمندر، سولہویں آثارِ قدیمہ۔
عبرت کا مقام
یہ سولہ چیزیں تھیں جن کا میری طبیعت پر خاص اثر ہؤا مَیں نے جب ان کے متعلق غور کیا تومیں نے دیکھا کہ سمندر کے علاوہ کہ وہ خداتعالیٰ کی
پیدا کردہ چیز ہے اور سب کی سب تباہ و برباد ہو گئیں۔ نہریں سوکھ گئیں، مینار ٹوٹ پھوٹ گئے اور مسجدیں بہت سی برباد اور بہت سی غیر آباد ہو گئیں، کتب خانوں کی خبرگیری کرنے والے کوئی نہ رہے، جنتر منتر تماشا بن کر رہ گئے غرض تمام یادگاریں جو اپنے زمانہ میں دنیا کو محو حیرت بنا دیتی تھیں آج ویران ہو چکی تھیں، برباد ہو چکی تھیں، تباہ وخستہ حال ہو چکی تھیں اور اپنے بنانے والوں کے انجام پر رو رہی تھیں۔ جب میں نے یہ دیکھا تو مَیں نے اپنے دل میں کہا یہ دنیا کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ انسان جتنا اونچا ہوتاہے اتنا ہی گِرتا ہے۔ ایک چُوڑھے کا بچہ آج سے ہزار سال پہلے بھی چوڑھا تھا اور اب بھی وہ چوڑھا ہے آج اُس کا چوڑھا ہونا اُس پر گراں نہیں گزرتا کیونکہ وہ جیسا پہلے تھا ویسا ہی آج بھی ہے۔ مگر یہاں یہ کیفیت ہے کہ آج سے پانچ یا چھ پُشت پہلے ایک شخص ہندوستان کا بادشاہ ہے اور آج وہ پانی بھرتا یا سڑکوں کی صفائی کرتا ہے۔ اگر وہ نسلاً بعد نسلٍ سقّے کا کام کر رہا ہوتا تو اس پر کوئی گراں نہ گزرتا مگر وہ ایک ایک قدم پر آہیں بھرتاہے، وہ ایک ایک سانس پر حسرت اور اندوہ کے جذبات میں بہہ جاتا ہے، وہ حیران ہوتا ہے اپنے ماضی پر اور افسوس کرتا ہے اپنے حال پر۔ میں نے خود اپنی آنکھ سے دِلّی میں بعض شاہی گھرانوں کے شہزادوں کو مشکیں اُٹھائے لوگوں کو پانی پلاتے دیکھا ہے۔ میں چھوٹا تھا کہ ایکدفعہ میں دلّی گیا میرا ایک عزیز مجھے کہنے لگا چلو تم کو ایک تماشا دکھائوں۔ وہ مجھے جامع مسجد کے پاس لے گیا وہاں سقّے مشکیں اُٹھائے آنے جانے والوں کو پانی پِلا رہے تھے۔ وہ مجھے ایک سقّے کے پاس لے گیا جوکٹورا ہاتھ میں لئے اسی طرح پانی تقسیم کر رہا تھا۔ میرے ساتھی نے اُس سے کہا کہ ہمیں پانی پلائو اُس نے کٹورا بھر کر دیا اورجب ہم پانی پی چکے تو وہ خاموشی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہو گیا اور تھوڑے توقّف کے بعد چلا گیا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ کیا تماشا ہوا؟ اُس نے کہا، باقی سقّوں کو دیکھو سقّے پانی پلانے کے بعد اپنا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں کہ لائو ہمیں کچھ معاوضہ دو اورپانی پینے والے انہیں پیسہ دو پیسے یا دھیلہ دے دیتے ہیں اور یہ کچھ نہیں کرتا، پانی پلاتا ہے اور پھر اکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اورکچھ دیر توقّف کے بعد منہ پھیر کر چلا جاتا ہے مانگتا کچھ نہیں کیونکہ یہ شہزادہ ہے اور گو یہ اب لوگوں کو پانی پلاتا ہے مگر اس کی آن اَب بھی قائم ہے اگر کوئی دیدے تو لے لیتا ہے اور نہ دے توچُپ کرکے واپس چلا جاتا ہے۔ چنانچہ بعدمیں ہم نے اسے کچھ دیا بھی مگر یہ نظارہ بتاتاہے کہ ان شہزادوں کی کیا سے کیا حالت ہو چکی ہے۔ یہ ساری کیفیت میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔
مسلمانوں کے شاندار عہدِ ماضی کی یاد
آخر سات سَو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی۔ راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوںتک
اور پشاور سے لیکر مشرقی پاکستان کے کناروںتک مسلمان حاکم تھا۔ مسلمان قوتِ فعّال تھا، مسلمان ہی کے پاس فوج تھی، مسلمان کے پاس تجارت تھی، مسلمان ہی کے پاس زراعت تھی، مسلمان ہی کے پاس علم تھا، مسلمان ہی کے پاس یونیورسٹیاں تھیں، مسلمان ہی کے پاس ہسپتال اور شفاخانے تھے اور مسلمان ہی کے پاس حکومت تھی مگر جس وقت مَیں تغلق کے قلعہ کی چوٹی پر کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا مَیں نے دیکھا کہ اب انگریز حاکم تھا، ہندو تمام محکموں پر قابض، تجارت پارسیوں اورمیواڑیوںکے ہاتھ میںتھی، یونیورسٹیاں ہندوئوں اورانگریزوں کے ہاتھ میں تھیں اورمسلمان ہر جگہ دستر خوان کے گِرے ہوئے ٹُکڑوںکا محتاج تھا۔ اگر کسی نے کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا ورنہ اُس کا کسی چیز میں حق نہیں تھا۔ گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی یہ گزشتہ تاریخ انسان کے دل کو کپکپا دیتی ہے مگر تغلق کے قلعہ پر جو ایسی جگہ بنا ہؤا تھا جہاں ساری دلّی پر نگاہ دَوڑائی جا سکتی تھی، یہ تاریخ تجسّمکا رنگ اختیار کرکے میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ میں نے سوچااور غور کیا کہ جہاں قدم قدم پراسلام کی شان بلند ہوتی تھی، جہاں قدم قدم پر نعرۂ ہائے تکبیر بلند کئے جاتے تھے، جہاں قدم قدم پر مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین روندی جاتی تھی اور بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکر کھانے سے گھبراتی تھیں آج مسلمان کس ذلّت میں ہے، کس مصیبت اورکسمپرسی کی حالت میں ہے؟ یہ زخم تھاجو تغلق کے قلعہ پر مجھے لگا اور میں نے سوچا کہ کیا کوئی مرہم ایسا بھی ہے جو میں اپنے دل پر لگا سکوں اورجس سے یہ دردناک تکلیف دور ہو سکے چنانچہ میں اس چیز میں کھویا گیا اور کھویا گیا اورکھویا گیا کہ ہماری کیا حالت تھی اور اب ہم کس حالت کو پہنچ گئے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا
اصل مقصد مسلمانوں نے فراموش کر دیا
تب معاًمیری توجہ اِس بات کی طرف پھری کہ اے بندۂ خدا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوجس عظیم الشان نعمت سے سرفراز کرکے بھیجا تھا اُس کو وہ بھول گئے
اور یہ چیزیںجو اُن کی شوکت کا محض عارضی نشان تھیں ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے قلعے بناتے۔ اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں کوئی بڑا قلعہ بھی ہوتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ نہریں بنائیں اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں نہریں بھی ہوتیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے مقبرے بنائیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توپکی قبر بنانے سے بھی منع فرمایا، اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بُھول بھلیاں بنانے کے لئے آئے تھے نہ مینا بازار بنانے کیلئے آئے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ آئو میں تمہیں خداتعالیٰ سے ملا دوں۔ بیشک باقی چیزیں بھی مسلمانوںکو ملیں مگر وہ تابع تھیں اصل مقصود اور مطلوب نہیں تھیں۔ بعض چیزیںایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں مقصود ہوتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو توابع کے طور پر ملتی ہیں اور تابع چیزوں کو اپنے مدنظر رکھنا اور اُن کو اپنا مقصود قرار دے لینا نہایت شرمناک ہوتا ہے۔ ہم اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں تو ہماری اصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست سے ملیں مگر ہمارا دوست ہمارے لئے پلائو بھی پکاتاہے، مرغ بھی پکاتا ہے، کوفتے بھی پکاتا ہے، چائے بھی رکھتا ہے اگر ہم اپنے دوست سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہاں ہمیں پلائو ملے گا، چائے ملے گی یا کوفتے ملیں گے تو ہم کتنے کمینے ہوں گے۔ اگر آپ لوگ اپنی ماں سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کی خاطر تواضع کرے گی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں۔ اگر آپ اپنے باپ سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کو اچھے اچھے کھانے کھلائے گا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں۔ اگر آپ اپنے دوست سے اس لئے ملنے جاتے ہیں کہ وہ آپ کو پلائو کھلائے گا یا مُرغ آپ کے لئے ذبح کریگا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں لیکن اگر آپ اپنی ماںسے ملنے کے لئے جائیں گے تو وہ آپ کے لئے چائے ضرور پکائے گی، آپ کے لئے پراٹھے ضرور تیار کرے گی۔ اگر آپ اپنے باپ کو ملنے جائیں گے تو وہ کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکائے گا۔ اگر آپ اپنے دوست کو ملنے جائیں گے تو وہ آپ کی کچھ نہ کچھ تواضع ضرور کریگا۔ تو دیکھو بات وہی بن جاتی ہے لیکن طریق مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک صورت میں پلائو بھی ملے گا اور کمینے بھی بن جائو گے۔ لیکن اگر تم اپنے دوست کے پاس محض اس سے ملنے کے لئے جائو تو پلائو پھر بھی ملے گا مگر تم نہایت شریف الطبع اور بااخلاق انسان کہلائو گے۔ تو اسلام وہ طریق بتاتاہے جس پر چلنے سے دُنیوی حکومتیں اور اُس کی نعمتیں خود بخودآجاتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع کرو تو یہ چیزیں تمہیں خود بخود مل جائیں گی مگر وہ ان چیزوں کو مقصود قرار نہیں دیتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو وہ نعمتیں ملیں کہ دنیا حیران رہ گئی۔
شہنشاہِ ایران کا رومال حضرت ابوہریرہ ؓ کے قبضہ میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو وہ آخری زمانہ
میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے۔ انہوں نے جب دیکھاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب بڑی عمر ہو چکی ہے اور آپ کی زندگی کے دن اب بظاہر تھوڑے رہ گئے ہیں تو انہوں نے قسم کھائی کہ اب میں آپ سے جُدا نہیں ہوں گا چنانچہ اسی کایہ نتیجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں صرف تین سال ملے سب سے زیادہ حدیثیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں۔ چونکہ یہ غریب آدمی تھے اور سارا دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اس لئے بعض دفعہ سات سات وقت کا انہیں فاقہ ہو جاتا تھا اور شدّتِ بھوک کی وجہ سے وہ بیہوش ہو کر گِر پڑتے تھے۔ جب اسلام کی فتوحات کا دور آیا اور قیصروکسریٰ کے خزانے اسلامی تصرف میں آئے تو کسریٰ شہنشاہِ ایران کا ایک خاص ریشمی رومال جو تخت پر بیٹھنے کے وقت وہ اپنے ہاتھ میں رکھاکرتا تھا مالِ غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آیا۔ ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نزلہ کی شکایت تھی کہ بیٹھے بیٹھے اُنہیں کھانسی آگئی اور انہوں نے شہنشاہِ ایران کے اس رومال میں تھوک دیا اور پھر کہا بخِ بخِ ابوہریرہ یعنی واہ واہ! تیری بھی کیا شان ہے کبھی تو سر میں جُوتیاں پڑا کرتی تھیں اور آج یہ حالت ہے کہ تو کسریٰ شہنشاہِ ایران کے رومال میں تُھوکتا ہے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ مَیں آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور میں نے قسم کھالی کہ اب میں رات اور دن آپ کے پاس رہوں گا اور آپ کی باتیں سنوں گا اور چونکہ میں ہر وقت وہیں بیٹھا رہتا تھا، اسلئے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور میں بیہوش ہو کر گر جاتا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دَورہ ہوتا تو اس کے سر پر جُوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے۔ انہوں نے کہا اِدھر میں فاقہ سے مر رہا ہوتا تھا اور اُدھر میرے سر پر جُوتیاں پڑنے لگ جاتیں حالانکہ اُس وقت مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ مَیں انہیں منع کر سکوں پس یا تو میرا وہ حال تھا اور یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبردای کا یہ نتیجہ ہے کہ اب مَیں اُس رومال میں جسے بادشاہ اپنی شان دکھانے کے لئے تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا تھوک رہا ہوں۔ تو یہ چیزیں ملتی ہیں اور اسلام بھی ہمیں وہ چیزیں دیتا ہے جو دنیا کے پیچھے چلنے سے حاصل ہوتی ہیں مگر اسلام زیادہ شاندار طور پر یہ چیزیں دیتا ہے اور وہ لوگ ذلّت کے طور پر ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنے باپ کے پاس جائو مگر اس لئے کہ تمہیں حلوہ کھانے کو مل جائے، ماں کے پاس جائو مگر اس لئے کہ تمہیں پراٹھے کھانے کو ملیں۔ جب ہم اِس نیت اور اس ارادہ سے جاتے ہیں تو گو یہ چیزیں ہمیں مل جاتی ہیں مگر ہم ذلیل اور کمینے بھی قرار پاتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے تم ماں کے پاس جائو مگر ماں کے پیار کے لئے، دوست کے پاس جائو مگر دوست کی محبت کے لئے حلوہ تمہیں پھر بھی ملے گا، پراٹھے تمہیں پھر بھی ملیں گے، پلائو پھر بھی تمہیں ملے گا مگر تم شریف اور بااخلاق کہلائو گے۔ یہ فرق ہے جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور دُنیوی طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے اور اسی کی طرف میرا آج کا مضمون اشارہ کرتا ہے۔
اسلامی نظامِ حکومت کا ایک اجمالی نقشہ
میرا یہ مضمون درحقیقت اسلامی طریقِ حکومت کی ایک تصویر ہے یا اسلام دنیا میں
جو اصلاح پیدا کرنا چاہتا ہے اُس کا ایک اجمالی نقشہ اِس مضمون میں کھینچا گیا ہے۔ آجکل پاکستان میں اس بات پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت قائم ہونا چاہئے مگر عملی طور پر وہ اس کو قائم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسلام جو کچھ بتاتاہے اُس پر عمل کرنے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں ہوتے۔ میں آج کے مضمون کے ذریعہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم کی اور یہ ہے وہ نظام جس کے متعلق قرآن کریم ہماری راہنمائی فرماتا ہے۔ اسلام نے نہریں بھی بنائی ہیں، قلعے بھی بنائے ہیں، مساجد بھی بنائی ہیں،مینار بھی بنائے ہیں، باغات بھی بنائے ہیں، بازار بھی بنائے ہیں۔ دیوانِ عام بھی بنائے ہیں اور دیوانِ خاص بھی بنائے ہیں مگر ان کے طریق اور رکھے ہیں۔ آج میں اِنہی میں سے ایک چیز کو اس موقع پر بیان کرنا چاہتاہوں۔
دیوانِ عام کے قیام کی اغراض
میں نے بتایا تھاکہ میں نے اپنے سفر میں دیوانِ عام بھی دیکھے جن میں بادشاہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے
اور عوام الناس آتے اور اپنی شکایات وغیرہ پیش کرتے۔ میں نے سوچا کہ یہ دیوانِ عام کیوں بنایا گیا تھا اور اس کی اغراض اورمقاصد کیا تھیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ:۔
۱۔ دیوانِ عام کے قیام کی پہلی غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ اس دیوان میں بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کیا جائے جب بادشاہوں نے اپنی رعایا کے سامنے بڑے بڑے اعلان کرنے ہوتے تھے تو ہمیشہ دیوانِ عام میں ہی کیا کرتے تھے پس دیوانِ عام کی پہلی غرض بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتی تھی۔
۲۔ اس کی دوسری غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ بادشاہ لوگوں کے سامنے آئے اور انہیں اپنا دیدار کرنے کا موقع دے اور ان کے متعلق انعام و اکرام کا اعلان کرے۔
۳۔ دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ عوام کو فریاد پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کے مظالم کا اِنسداد کیا جائے۔
۴۔ دیوانِ عام کی چوتھی غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ عوام کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور بادشاہ ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ طریق یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ دربارِ عام میں بیٹھتا تھا اور وزیراعظم اُس کے اعلان سناتا تھا۔
دُنیوی دیوانِ عام اغیار کے قبضہ میں
میں نے دیکھا کہ وہ دیوانِ عام جو بادشاہوں کابنایا ہؤا تھا وہ اب ویران اور برباد ہے اس کی
عمارت موجود تھی مگر انگریزوں کے قبضہ میں تھی۔ خود ان بادشاہوں کی اولاد موجود تھی مگر اسے ٹکٹ حاصل کئے بغیر دیوانِ عام کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی وہ مارے مارے پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا تک نہیں تھا۔ اب بھی بعض شہزادے ایسے ہیں جو نہایت تکلیف کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں حکومت موجود ہے مگر وہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی۔
قرآنی دیوانِ عام کی خصوصیت
پس میں نے سوچا کہ آیا اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے بھی کوئی دیوانِ عام پیش کیا ہے یا نہیںاور
اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ جب اس نقطہ نگاہ سے میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ ہمارے خدا نے بھی ایک دیوانِ عام بنایا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی دشمن اس پر قبضہ نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہے اور اسی کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ پہلے بادشاہوں کے دیوانِ عام ان کے ہاتھوں سے چھینے گئے، غیر قومیں آئیں اور ان پر قابض ہو گئیں پہلے یہ دیوان عام انگریزوں کے پاس گئے اور اب ہندو حکومت قائم ہوئی تو اس کے پاس چلے گئے۔ گویا جن مزدوروں نے یہ دیوانِ عام بنایا تھا وہ اب حاکم ہیں اور حاکم مزدور۔ لیکن قرآن کریم جس دیوانِ عام کو پیش کرتا ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مخالفانہ قبضہ کر سکتا ہے۔
محمد رسول اللہ کے تقرّرپر قرآنی دیوانِ عام سے اعلان
پھر میں نے دیکھا کہ مغل بادشاہ اور پٹھان بادشاہ
اور دوسرے بادشاہ جب دیوانِ عام میں بیٹھتے تو وہ مثلاً یہ اعلان کرتے کہ ہم فلاں کو وزیر مقررکرتے ہیں، فلاں کو گورنر مقرر کرتے ہیں، فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ وفاداری سے حکومت کی خدمت بجالائے گا اور ہماری حکومت کو مضبوط اورمستحکم کرنے کے لئے اپنا تمام زور صرف کر دیگا لیکن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم جس دیوان عام کو پیش کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی گورنر یا خلیفۃاللہ کے تقرر کا اعلان ہوتا ہے تو بجائے یہ کہنے کے کہ ہم امید کرتے ہیں تم ہماری حکومت کومستحکم کرو گے اور ہماری طاقت بڑھانے میں حصہ لو گے بادشاہ یہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں طاقت دیں گے، ہم تمہیں مستحکم کریں گے، ہم تمہارے رُعب کو قائم کریں گے۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ پُرانے زمانہ کے بادشاہوں کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی ایک دیوانِ عام لگایا گیا اور تمام پبلک کو مخاطب کرکے کہا گیا اِنَّـآاَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّ بِیْلًا o فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِالسَّمَائُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا o ۱؎
اعلان ہوتا ہے کہ ہم اِس دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کر رہے ہیں اور اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے کہ اِنَّآاَرْسَلْنَآاِلَیْکُمْ رَسُوْلًا ہم تمہاری طرف ایک رسول بناکر بھیج رہے ہیں شَاھِدًا عَلَیْکُمْ جو تم پر نگران رہے گا اور دیکھے گا کہ تم ہماری مرضی کے مطابق چلتے ہو یا نہیں کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًااور یاد رکھو کہ ہمارا اِس کو گورنر بنا کر بھیجنا کوئی نئی چیز نہیں بلکہ پہلے بھی ہم اپنے گورنر بھیجتے رہے ہیں اور لوگ غلطی سے ان کا انکار کرتے رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی وہی غلطی کرو اور اُس انجام کو دیکھو جو پہلے لوگوں نے دیکھا فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ اُس وقت کے حاکم اور بادشاہ فرعون نے تکبر کیا اورموسٰی ؑکے ماننے سے اُس نے انکار کیا۔ فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًاوَّبِیْلًا اِس پر ہم نے اُس کو پکڑ کر تباہ و برباد کر دیا پس جس طرح ہم نے فرعون کو تباہ کیا ہے اگر تم ہمارے گورنر جنرل کی مخالفت کروگے اور اس کے مقابلہ پر فرعون والا طریق اختیار کروگے تو تم بھی تباہ کر دیئے جائو گے۔ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِالسَّمَائُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ اگر تم نے بھی انکار کیا جس طرح فرعون نے موسیٰ کا انکار کیا تھا تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم ہمارے عذاب سے بچ جائو گے تم اُس دن سے ڈرو جو جوانوں کو بوڑھا کر دے گا۔ وہ دُنیوی بادشاہوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہم اپنے گورنر سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری بادشاہت کو مضبوط کرے گا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو خود قائم کریں گے اگر تم اس کی مخالفت کرو گے تو ہم تم پر عذاب نازل کریں گے کہ جس سے آسمان بھی پھٹنا شروع ہو جائے گا۔ کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا دُنیوی بادشاہ ڈرتے ہیں کہ اگرہماری مخالفت ہوئی تو ہم کیا کریں گے مگر یہاں فرماتا ہے کہ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بدل نہیں سکتی۔
زمین و آسمان کا فرق
کتنا زمین و آسمان کا فرق اُس دیوان عام اور اِس دیوان عام میں ہے وہاں بادشاہ یہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے
ہیں اس لئے کہ وہ ہماری حکومت کو مستحکم کرے، اس لئے کہ وہ ہماری طاقت کو مضبوط کرے، اس لئے کہ وہ ہماری جڑیں لگائے مگر یہاں دیوانِ عام میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اے لوگو سنو! ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر مقرر کرکے بھجواتے ہیں اگر تم اس کی فرمانبرداری نہیں کرو گے تو ہم خود اِس کو طاقت بخشیں گے اور خود اِس کو قوت بخشیں گے اور اگر اِس کا مقابلہ کرو گے تو ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے کہ زمین تو زمین آسمان کا کلیجہ بھی شَق ہو جائے گا (السَّمَائُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ) اور کوئی طاقت نہیں جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔
قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت
اس کے ساتھ ہی یہ اعلان ہوتاہے کہ یہ گورنر ہے کس جگہ کے لئے؟ دُنیوی گورنر مقرر ہوتے ہیں
تو ایک آدھ ملک کے لئے مگر فرماتا ہے کہ یہ گورنر سب دنیا کے لئے ہے گویا یہ گورنر نہیں بلکہ گورنر جنرلوں کے بھی اوپر گورنر جنرل ہے۔ چنانچہ دربار عام میں اعلان ہوتا ہے قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۲؎
اے یہودی مذہب کے ماننے والو سُنو! یہ شخص جس کو ہم نے بھجوایا ہے موسیٰ کی طرح صرف مصر کے لوگوں کے لئے نہیں۔ اے اسرائیلی انبیاء کے ماننے والو! یہ شخص صرف بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح کسی ایک قوم کی طرف نہیں۔ اے مسیح کے ماننے والوسُنو! مسیح کی طرح فلسطین کی طرف نہیں۔ اے کرشن اور رامچندر کے ماننے والو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح رامچندر اور کرشن ہندوستان کی طرف آئے تھے۔ اے زرتشت کے ماننے والو سنو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح زرتشت ایران کی طرف آیا تھا۔ اے تمام دوسری اقوام اور مملکتوں اور برِّاعظموں میں رہنے والو سنو! یہ اس طرح نہیں بھیجا گیا جس طرح انبیاء ایک ایک قوم اور ایک ایک بستی کی طرف بھیجے جاتے تھے بلکہ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اے تمام انسانو! خواہ تم روئے زمین کے کسی علاقہ میں رہتے ہو، اے برطانیہ کے رہنے والو! اے فرانس کے رہنے والو! اے جرمنی کے رہنے والو! اے امریکہ کے رہنے والو! اے یورپ کے رہنے والو! اے جزائر کے رہنے والو! اے افریقہ کے رہنے والو! اے دنیا کے کسی گوشے اور خطہ میں رہنے والو! اسے تم پر افسر بنا کر بھیجا گیا ہے یہ ہمارا گورنر جنرل ہے جس کی حکومت سے کوئی شخص باہر نہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان
(۲) پھر یہ تو اپنے زمانہ کی گورنری کے
متعلق اعلانِ عام تھا اور گو اس میں سارے ملکوں کو شامل کر لیا گیا تھا مگر یہ شُبہ باقی رہتا تھا کہ ممکن ہے یہ سب دنیا کے لئے تو ہو لیکن سب زمانوں کے لئے نہ ہو۔ دنیا میں گورنر اور وائسرائے مقرر ہوکر آتے ہیں تو پانچ سال کے بعد بدل جاتے ہیں اور پھر وہ انہی گلیوں میں عام لوگوں کی طرح پِھرتے نظر آتے ہیں جن گلیوں میں شاہانہ شوکت کے ساتھ پھرا کرتے تھے۔ پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا اس لئے پہلے اعلان کے ساتھ ہی خدائی دربارِ عام میں یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ یہ گورنر جنرل قیامت تک کے لئے ہے۔ یہ پانچ سال کے لئے یا دس سال کے لئے یا سَو سال کے لئے یا دو سَو سال کے لئے یا ہزار سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے جب تک انسان تباہ نہیں ہو جاتا، جب تک ایک انسان بھی اِس دنیا میں زندہ ہے اُس وقت تک یہی گورنر جنرل رہے گا فرماتا ہے وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْ خِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ۳؎
فرماتا ہے اے بنی نوع انسان! سن رکھو اس رسول کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ وہ صرف اس زمانہ کے لئے نہیں بلکہ انسان کی تعریف کے نیچے جتنے انسان آتے ہیں ان سب کو یہ جمع کرنیوالا ہے خواہ وہ اِس صدی کے ہوں یا اگلی صدیوں کے قیامت تک اس کا راج قائم ہے اور کوئی شخص اس کی حکومت سے باہر نہیں نکل سکتا بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا دنیا میں اصول یہ ہے کہ جب بادشاہت بدلتی ہے تو آنے والی حکومت کسی کو گِرا دیتی ہے اور کسی کو اونچا کر دیتی ہے بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو لوگ اس کے قانون کی پابندی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ بلند کریگا اور جو لوگ اس کے قانون کی نافرمانی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ گِرا دے گا۔ گویا فرمایا کہ اے ہمارے رسول! دونوں طاقتیں تجھ کو دی جاتی ہیں، تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو بلند کیا جائے گا اور تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو گرایا جائے گا، تیرے ہی ذریعہ سے ملزم سزا پائیں گے اور تیرے ہی ذریعہ سے متبعین انعام حاصل کریں گے۔ وَ لٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ لیکن اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا۔ کیونکہ اس سے پہلے جس قدر انبیاء گزرے ہیں ان میں سے کسی نبی کی نبوت سَو سال کے بعد ختم ہو گئی تھی اور کسی کی دو سَو سال کے بعد۔ ان کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ کوئی ایسا نبی بھی آسکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک چلتی چلی جائے اور کبھی ختم ہونے میں نہ آئے چنانچہ فرمایا وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نبی ہے اس کا ثبوت کیا ہے اس طرح تو ایک جھوٹا نبی بھی کہہ سکتا ہے کہ میری نبوت کبھی ختم نہیںہوگی بہرحال کوئی نہ کوئی ایسی دلیل ہونی چاہئے جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں کہ ہمارے سامنے جو دعویٰ پیش کیا جارہا ہے اس میں سچائی پائی جاتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ فرماتا ہے قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْ خِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّ لا تَسْتَقْدِمُوْنَ فرمایا اس کا پتہ تم کو ایک ہزار سال میں لگے گا۔ بڑی سے بڑی نبوت جو آج تک چلی ہے وہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی۔ آدم علیہ السلام کا زمانہ لے لو، نوح علیہ السلام کا زمانہ لے لو، موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ لے لو، کوئی زمانہ بھی ہزار سال سے زیادہ لمبا نہیں رہا۔ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بظاہر دو ہزار سال کا نظر آتا ہے لیکن وہاں تیرہ سَو سال کے بعد جو نبی آیا اُس نے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ اب موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہونے والی ہے اور وہ نبی دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے جس کے متعلق تمام انبیاء اپنے اپنے زمانہ میں پیشگویاں کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا مسیح علیہ السلام نے آمد کے ساتھ سلسلہ موسویہ کے امتداد کی خبر نہیں دی بلکہ ایک نئے دَور کے آغاز کی خبر دیدی اور بتایا کہ پہلا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔
مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ تنزّل کی قرآن کریم میں خبر
غرض ہزار سال وہ میعاد ہوتی ہے جس میںکسی
قوم کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب پُرانی نبوت ختم ہو گئی ہے اور نئی نبوت کا دَور شروع ہونے والا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے ۔یہاں دن سے مراد ہزار سالہ زمانہ ہے چنانچہ قرآن کریم خود اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے۔یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۴؎
فرمایا ہم اِس دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرینگے اور آسمان سے زمین پر اپنے انوار کی بارش برسائیں گے مگر پھر آہستہ آہستہ وہ نظام کمزور ہوتا چلا جائے گا اور دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت اب ختم ہو گئی ہے۔ دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اب ختم ہو گئی ہے اوریہ دَور ِتنزل تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔
بہائیوں کا ایک غلط استدلال
بہائی لوگ قرآن کریم کی اس آیت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کہتے ہیں کہ گویا ہزار سال کے بعد نَعُوْذُ بِاللّٰہ
شریعت اسلاممنسوخ ہو جائے گی حالانکہ شریعتِ اسلام تو تب منسوخ ہو سکتی تھی جب کہ یکدم قرآن خراب ہو جاتا اور وہ دنیا کے لئے ناقابل عمل ہو جاتا، لیکن اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یکدم قرآن خراب ہو جائے گا بلکہ اس میں یہ بتایا گیا کہ آہستہ آہستہ ایک ہزار سال میں ایمان اوپر چڑھ جائے گا۔ پس اس کے معنے سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ اسلام اور قرآن کا اثر آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے کم ہونا شروع ہو گا اور اِس پر ایک ہزار سال کا عرصہ صرف ہوگا۔ اگر کتاب نے منسوخ ہونا ہوتا تو کتاب کی منسوخی تو یکدم ہوتی ہے ہزار سال میں آہستہ آہستہ نہیں ہوتی۔ پس ہزار سال میں آہستہ آہستہ اسلام کے اُٹھ جانے کے یہی معنی تھے کہ اُس کا اثر لوگوں پر سے کم ہو جائے گا اور جب اثر کم ہو جائے تو اُس وقت کتاب منسوخ نہیں بلکہ ایک نیا معلّم بھیجا جاتا ہے جو اُس کتاب کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کر دیتا ہے۔ پس بہائیت اس آیت سے بالکل ناجائز فائدہ اُٹھاتی اور لوگوں کو دھوکا میں مبتلاء کرتی ہے۔
بہرحال اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال میں ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے تین سَو سال کو مبارک زمانہ قرار دیا ہے جس میں اسلام کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتا جائے گا اور دَورِ تنزل قرآن کریم نے ہزار سال بتایاہے اس لئے ہزار سال میں پہلے تین سو سال جمع کئے جائیں تو یہ تیرہ سَو سال کا عرصہ بن جاتا ہے پس قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْ خِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ تم اسلام کے دَورِ تنزل کو دیکھ کر اس واہمہ میں مبتلاء ہو سکتے ہو کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ختم ہو گئی، لیکن تیرہ سو سال کے بعد تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ قیامت تک کے لئے ہے۔
احیائے اسلام کے لئے مسیح موعود کی بعثت
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عین تیرہ سَو سال کے ختم ہونے پر اُمتِ محمدؐیہ میں سے ایک شخص
نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ مَیں مسیح موعود ہوں اور مجھے خداتعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے فرمائی تھیں۔ میں اس لئے نہیں آیا کہ کوئی نیا مذہب قائم کروں، مَیں اس لئے نہیں آیا کہ موسوی مذہب کو قائم کروں، میں اس لئے نہیں آیا کہ عیسوی مذہب کو قائم کروں بلکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں۔ گویا تیرہ سَو سال کے بعد جو تغیر ہؤا وہ یہی تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں دُنیا کی تمام تاریخیں بتاتی ہیں کہ تیرہ سَو سال کے بعد کوئی نبوت نہیں چلی موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سَو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے مگر انہوں نے یہ نہیںکہا کہ اب موسوی سلسلہ ہی قیامت تک قائم رہے گا بلکہ انہوں نے کہا تو یہ کہ:-
’’دیکھو تمارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔‘‘ ۵؎
لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال کے بعد جو شخص آیا اُس نے کہا مَیں اس لئے آیا ہوں تا قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر جنرل ہونے کا اعلان کروں۔
دُنیاوی حکومتوں کی ناپائیداری
دنیا میں بادشاہ اپنی حکومت کا اعلان کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ایک لمبے عرصہ تک قائم
رہے گی لیکن چند سال کے بعد ہی ایک نیا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور اُن کی جگہ کوئی اور حکومت ملک پر قابض ہو جاتی ہے۔ دیکھو ۱۹۱۱ء میں جارج پنجم نے دلّی میں ایک بہت بڑا دربار منعقد کیا اور اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیاگیا کہ اب انگریزی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہو گئی ہے لیکن اس اعلان پر ابھی چھتیس سال گزرے تھے کہ ۱۹۴۷ ء میں انگریز اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے گئے۔ یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو چند سال میں ہی رونما ہو گیا۔ لیکن یہاں تیرہ سَو سال پہلے اعلان ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی اور تیرہ سَو سال کے بعد کوئی سیّد نہیں، قریش نہیں بلکہ اُس قوم کا ایک فرد جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کافر تھی جو اسلام کو جانتی تک نہ تھی اور اُس نے بعد میں اسلام اور مسلمانوں کو مِٹانے کے لئے خون کی ندیاں تک بہا دیں اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اسلام کو دنیا کے تمام دوسرے اَدیان پر غالب کروں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جھنڈا دنیا میں گاڑ دوں۔ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آنے والے موعود کی خبر دیتے ہوئے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریّا پر بھی چلا گیا تو اس کی قوم میں سے ایک فارسی الاصل شخص اُٹھے گا جو ایمان کو پھر لوگوں کے قلوب میں زندہ کر دیگا۔۶؎
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسلام کے دوبارہ عروج کی یہ بشارت دی اُس وقت وہ قوم جس میں سے اِس عظیم الشان انسان نے کھڑا ہونا تھاکافر تھی، وہ بے دین اور لامذہب تھی وہ جانتی تک نہ تھی کہ اسلام کس چیز کا نام ہے مگر صدیوں بعد چین اور تبّت اور ترکستان کے پہاڑوں سے یہ قوم اُٹھتی ہے اور دیوانہ وار تمام پہاڑوں اور دریائوں اور صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیتی ہے۔ بغداد جو اسلام کا ایک عظیم الشان مرکز تھااسپر یہ قوم حملہ آور ہوتی ہے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیتی ہے۔ مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہی ہلاکو جس نے بغداد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اس کی نسل میں سے ایک مغل شہزادہ مسلمان ہو جاتاہے اور وہی قوم جس کی تلوار نے مسلمانوں کو مٹایا تھا خود اسلام کی تلوار کا شکار بن کر رہ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تیرہ سَو سال بعد ایک مغل اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرکے رہونگا۔ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے اور کتنے عظیم الشان طریق پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا جو اُس نے اپنے دربار میں کیا تھا کیا دنیا کا کوئی دیوانِ عام اس کی مثال پیش کر سکتا ہے۔
دربارِ عام کا ایک اور مقصد
دربارِ عام کا ایک مقصد جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ دلّی میں شاہی دربار
منعقد ہؤا تو اس کی غرض یہ تھی کہ بادشاہ بنگال کی تقسیم کی منسوخی کا اعلان کرے مگر یہ غرض کتنی چھوٹی اور کتنی حقیر تھی اور پھرکتنی عجیب بات ہے کہ وہی تقسیم جو ۱۹۱۱ء میں منسوخ کی گئی تھی چھتیس سال کے بعد دوبارہ ظہور میں آگئی۔ اگر اُس وقت جارج پنجم کو یہ پتہ لگ جاتا کہ چھتیس سال کے بعد بنگال کی پھر تقسیم ہو جائے گی اور اس وقت دو صوبے ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ حکومتیں بن جائیں گی تو شاید اُسے یہ اعلان کرتے ہوئے ہنسی آجاتی اور وہ سوچتا کہ میں کیا حماقت کر رہا ہوں۔
قرآنی آئین کا اعلان اور اس کی اہم خصوصیات
یہاں بھی ایک قانون کا اعلان ہوتا ہے مگر وہ قانون
کس قسم کا ہے فرماتا ہے اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِھًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَ قُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ ھَادٍ ۷؎
فرماتا ہے ہم ایک نیا آئین جاری کرتے ہیں (جیسے انگریز آئے تو انہوں نے تعزیراتِ ہند کا نِفاذ کیا) ہم ایک نیا گورنر جنرل قیامت تک کے لئے مقرر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دنیا کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لئے ایک قانون بھی نازل کرتے ہیں مگر تمہارے قانونوں اور اس قانون میں بہت بڑا فرق ہے۔ تمہارے قانون کی فرمانبرداری لوگ ڈر سے کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بغاوت کی تو پولیس انہیں گرفتار کر لے گی ورنہ ان قوانین کی تائید کرنے والے بھی بعض دفعہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین غلط ہیں اور جب انہیں اختیار ملتا ہے تو وہ ان کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارا قانون اپنی ذات میں ایسی خوبیاں رکھتاہے کہ جس سے کوئی سوچنے والا انسان انکار نہیں کر سکتا۔
اَحْسَنَ الحدیث
نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ہم ایک قانون جاری کر رہے ہیں مگر وہ کوئی جبری قانون نہیں وہ محض اپنی بادشاہت منوانے کے لئے نہیں بلکہ بہتر سے
بہتر بات جو کہی جاسکتی ہے خواہ دینی رنگ میں یا دُنیوی رنگ میں، خواہ عقل سے خواہ نقل سے، خواہ روایت سے خواہ درایت سے، خواہ چھوٹوں کے لئے خواہ بڑوں کے لئے، خواہ مَردوں کے لئے، خواہ عورتوں کے لئے، ان تمام بہترین باتوں کو اِس قانون میں جمع کر دیا گیا ہے اور اب قیامت تک یہ قانون منسوخ نہیں ہو سکتا۔ دُنیوی حکومتیں بعض دفعہ بڑی سوچ بچار کے بعد قانون بناتی ہیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں اپنا قانون اپنے ہاتھوں سے منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ نے بڑا زور لگایا کہ وہ کسی طرح شراب کے استعمال کو روک دے اور اُس نے اِس پر قانونی پابندیاں بھی لگائیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی امریکہ کو پھر شراب نوشی کی اجازت دینی پڑی اور شراب کی ممانعت کا قانون اسے منسوخ کرنا پڑا۔
مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم جس قانون کے نِفاذ کا اعلان کر رہے ہیں وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْث پر مشتمل ہے ہر بہتر سے بہتر بات اس میں موجود ہے اور وہ انتہائی طور پر پاک اور بے لوث قانون ہے جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ وہ ایسا قانون نہیں جو آج سے سَو یا ہزار سال کے بعد منسوخ ہو سکے یا جس میں ردّو بدل کی گنجائش نکل سکے۔
ایک مکمل قانون
اس کے بعد وہ اور زیادہ تشریح کرتا ہے اور بتاتاہے کہ وہ قانون کیا ہے؟ فرماتا ہے کِتَابًا وہ قانون ایک مکمل کتاب ہے۔ جب بادشاہ نے دلّی میں
اعلان کے لئے دربار منعقد کیا تو اس نے تعزیراتِ ہند کا اعلان نہیں کیا، اس نے اپنے تمام قوانین کو پیش نہیں کیا، بلکہ صرف تقسیم بنگال کے منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ٹکڑا پیش نہیں کرتے بلکہ کامل شریعت پیش کرتے ہیں۔ ایک ٹکڑا بعض دفعہ انسان بھی اچھے سے اچھا بنا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے۔ سوال سارے قانون کاہے کہ وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکتی ہو۔ یہ کمال کسی اور کلام کو حاصل نہیں۔ پس فرماتا ہے کہ ہم جس قانون کو پیش کرتے ہیں:-
اوّلؔ وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْثہے یعنی اس میں بہتر سے بہتر اور پختہ سے پختہ باتیں بیان کی گئی ہیں اور وہ ایک خوبصورت اور بے عیب قانون ہے۔
دومؔ وہ کوئی ایک ٹکڑا نہیں بلکہ تمام قسم کے قانونوں پر حاوی ہے۔
انگلستان میں چند بہائی عورتوں سے گفتگو
میں جب انگلستان گیا تو وہاں ایک دن کچھ بہائی عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں۔
بہائی لوگ بہاء اللہ کو خدا سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے بہائیوں کو تو اچھا سمجھتے ہیں اور ہمارے سلسلہ کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں۔ کراچی کے بعض اخبارات میں صفحوں کے صفحے بہاء اللہ کی تعریف میں شائع کئے جاتے ہیں حالانکہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اب نئی شریعت کی دنیا کو ضرورت ہے۔ بہرحال وہ عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں ان عورتوں میں سے ایک تو شنگھائی بنک کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی بیوی تھی دوسری امریکہ کی رہنے والے تھی اور تیسری ایک احمدی بیرسٹر کی بیوی تھی جو ایرانی اور بہائی تھی۔ ان کے ساتھ عبداللہ کوئلم تھے جو انگلستان کے سب سے پہلے نو مسلم تھے اور جنہیں ٹرکی نے شیخ الاسلام کا خطاب دیا تھا۔ ان عورتوں نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ آپ بہاء اللہ کو کیوں نہیں مانتے؟ میں نے کہا اس لئے نہیں مانتا کہ مَیں قرآن کریم کو مانتا ہوں ۔ وہ کہنے لگیں آپ قرآن کو کیوں مانتے ہیں کیا یہ کتاب منسوخ نہیں ہو سکتی؟ میں نے کہا یہ تو بحث ہی نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں کئی چیزیں ہو سکتی ہیں مگر ہوتی نہیں۔ میں نے کہا تم مر سکتی ہو یا نہیں؟ اگر مر سکتی ہو تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم مر چکی ہو تم نے یقینا ایک دن مرنا ہے مگر اس وقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تم مر چکی ہو۔ پس یہ سوال جانے دو کہ کوئی کتاب منسوخ ہو سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت قرآن کریم منسوخ ہے یا نہیں؟ تم مجھے کوئی ایک بات بتادو جو قابلِ عمل ہو مگر قرآن کریم میں نہ ہو یا بہاء اللہ کی کوئی ایک بات ہی مجھے بتادو جو سب سے اچھی ہو اور وہ قرآن کریم میں بیان نہ ہوئی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے علم سیکھنے کا حکم دیا ہے یہ کتنی اچھی بات ہے۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اِس حکم پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی تعلیم دلائے اور نیک تربیت کرے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اس پر وہ کہنے لگی بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا حرام قرار دیا ہے لیکن قرآن اس کی تعلیم دیتا ہے۔ امریکہ اور انگلستان اور یورپ اسلام کی اس تعلیم کو نہیں مان سکتا اور دنیا اِس ظلم کو کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دنیا اس ظلم کو برداشت کر سکتی ہے یا نہیں تم پہلے مجھے یقینی طور پر بتا دو کہ بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں منع کی ہیں؟ اُس نے کہا ہاں بالکل منع ہے وہ ایرانی عورت جو ان کے ساتھ تھی وہ عبدالبہاء کے پاس چھ ماہ رہ کر آئی تھی اور اُس نے ان سے خاص تعلیم پائی تھی۔ میں نے کہا اس سے پوچھو کہ آیا بہاء اللہ کی اپنی دو بیویاں تھیں یا نہیں تم تو کہتی ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں منع ہیں اور بہاء اللہ نے آپ دو شادیاں کی ہیں۔ کہنے لگی آپ بِالکل الزام لگا رہے ہیں بہاء اللہ نے ہرگز دو شادیاں نہیں کیں۔ میں نے کہا اِس ایرانی عورت سے پوچھو۔ اُس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی اجی مجھے اس جھگڑے میں کیوں گھسیٹتے ہیں آپ آپس میں بات کیجئے اور مجھے رہنے دیجئے۔ میں نے کہا اس میں گواہی کا سوال ہے آپ سچی گواہی کیوں چُھپاتی ہیں جو واقعہ ہو وہ آپ بتا دیں۔ کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ دو شادیاں دعویٰ سے پہلے کی تھیں۔ اس پر پہلی عورت نے شور مچا دیا کہ بس جواب ہو گیا یہ دعویٰ سے پہلے کی شادیاں تھیں۔ میں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ امام اپنی پیدائش کے وقت سے علمِ غیب رکھتا ہے جب اسے پتہ تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں ردّ کی جائیں گی تو پھر اُس نے خود کیوں ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ یا تو یہ کہو کہ وہ علمِ غیب نہیں رکھتا تھا اور یا یہ کہو کہ اس نے خداتعالیٰ کے حکم کے خلاف فعل کیا اور اگر وہ علمِ غیب نہیں رکھتا تھا تب بھی اس کی خدائی باطل ہے اور اگر خداتعالیٰ کے حکم کے خلاف اس نے فعل کیا تب بھی وہ قابلِ اعتراض ٹھہرتا ہے اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکم بعد میں نازل ہؤا تھا تو اس نے دوسری بیوی رکھی کیوں؟ اسے اس نے طلاق کیوں نہ دیدی۔ اِس پر وہ کہنے لگی کہ ایک کو اس نے اپنی بہن قرار دیدیا تھا۔ میں نے کہا کہ اس پر اوّل تو پھر وہی اعتراض ہے کہ جب وہ عالم الغیب تھا اور جانتا تھا کہ مجھے اسے بہن قرار دینا پڑے گا تو اس نے پہلے اسے بیوی کیوں بنایا؟ لیکن اِس کو بھی جانے دو سوال یہ ہے کہ آیا بہن سے شادی تمہارے نزدیک جائز ہے؟ وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دیتے ہیں۔ میں نے کہا اسی ایرانی بہن سے پوچھو اس نے پہلے تو بڑا زور لگایا کہ کسی طرح وہ اس بحث میں نہ پڑے اور بار بار کہے کہ میرا اِس سے کیا تعلق ہے میں تو یونہی آگئی تھی لیکن آخر میرے اصرار پر اسے ماننا ہی پڑا کہ واقعہ میں بہاء اللہ کے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے۔
قیامت تک قائم رہنے والا لائحہ عمل
غرض کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کس طرح مانیں کہ قرآن کریم منسوخ نہیں ہو سکتا جب
کہ پہلی کتابیںہمیشہ سے منسوخ ہوتی چلی آئی ہیں لیکن وہ کوئی ایسی بات بھی نہیں بتا سکتے جو دنیا کے لئے قابلِ عمل ہو اور قرآن کریم میں موجود نہ ہو یا قرآن کریم نے کوئی حُکم دیا ہو اور اس پر عمل نہ ہو سکتا ہو۔ تیرہ سَو سال ہو چکے دُنیا اس کے کسی حکم کو قابل تبدیل قرار نہیں دے سکی اور آئندہ کے متعلق بھی ہم اسی پر قیاس کر کے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک زندہ اور قائم رہنے والا لائحہ عمل ہے کیونکہ تیرہ سَو سال کے گزرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مأمور آیا اُس نے دنیا میں پھر یہ اعلان کر دیا کہ یہ کتاب قیامت تک قائم رہنے والی ہے اور اِس کا قانون ایک اٹل صداقت ہے دنیا ہزاروں تغیرات میں سے گزرتی چلی جائے اس کا کوئی قانون بدل نہیں سکتا، اس کی کوئی تعلیم تبدیل نہیں کی جاسکتی۔
فطرتِ انسانی سے مطابقت رکھنے والی تعلیم
پھر فرماتا ہے مُتَشَابِھًا اِس کامل کتاب کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ یہ متشابہ
ہے۔ متشابہ کے دومعنے ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ فطرت کے متشابہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو تمہارے ہاتھوں میں ہے یہ فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ ۸؎ ایک کتابِ مکنون میں ہے یعنی اس کا ایک ورق تو یہ لکھی ہوئی کتاب ہے اور اِس کا دوسرا ورق ہر انسان کی فطرت پر لکھا ہؤا ہے۔ گویا دو قرآن ہیں ایک قرآن فطرت انسانی میں ہے اور ایک قرآن اس کتاب میں ہے۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں پیش کر سکتا جو قرآن کریم میں تو ہو مگر اس کا فطرتِ صحیحہ انکار کرتی ہو اور کوئی بات فطرتِ صحیحہ میں ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کریم قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے کیونکہ جب یہ فطرت کے مطابق ہے تو جس طرح فطرت نہیں بدل سکتی اسی طرح قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا۔ وہ لوگ جو قرآن کریم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ہمارا ان سے یہ سوال ہے کہ کیا انسانی فطرت کبھی بدل سکتی ہے؟ اگر بدل نہیں سکتی تو پھر قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا۔ گویا صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اب تک نہیں بدلی بلکہ متشابہ کہہ کر اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ کتاب کبھی بدل ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے اور فطرت اس کے مطابق۔ جب تک انسان کی فطرت ِصحیحہ قائم رہے گی یہ قرآن بھی قائم رہے گا۔
سابق الہامی کتب کی تمام اعلیٰ
تعلیمیں قرآن کریم میں جمع ہیں
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ پہلی الہامی کتابوں کی اعلیٰ تعلیم کو پیش کرتا ہے گویا یہ متشابہ ہے موسیٰ کی کتاب سے اور یہ متشابہ ہے زرتشت کی کتاب سے اور یہ متشابہ ہے رام اور کرشن کی کتاب سے
اَحْسَنَ الْحَدِیْث میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن کریم میں اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں بیان کی گئی ہیں اور متشابہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جو الہامی کتب نازل ہو چکی ہیں ان تمام کتابوں کی اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں اس میں موجود ہیں، تورات کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں۔ وید کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں، ژند اَوِستا کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں۔ جب ساری اچھی باتیں اس میں موجود ہیں تو ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ہم دوسری کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
عیسائیوں کا ایک اعتراض
عیسائی اعتراض کیا کرتے ہیں اور انہوں نے ینابیع الاسلام وغیرہ بعض کتابیں بھی اِس موضوع پر لکھی ہیں کہ قرآن کریم
نے فلاں بات فلاں جگہ سے نقل کی ہے اور فلاں، فلاں جگہ سے۔ حالانکہ قرآن کریم تو آپ کہتا ہے کہ میں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے مگر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے ان کی ردّی باتیں چھوڑ دی ہیں۔اگر اس میں ساری اچھی باتیں نہیں آئیں تو پھر جو قرآن کریم نے اچھی باتیں چھوڑ دی ہیں تم ان کی نقل کر دو اور کہو کہ یہ باتیں قرآن کریم سے رہ گئی ہیں لیکن اگر باقی صرف پھوگ ہی رہ گیا ہے تو ہم نے اس پھوگ کو کیا کرنا ہے۔ گائے بھینس چارہ کھاتی ہے اور دودھ دیتی ہے تو اس دودھ کو دیکھ کر کہہ سکتے ہو کہ یہ وہی چارہ ہے جو ہم نے کھلایا تھا مگر پیتے دودھ ہی ہو چارہ نہیں کھاتے۔ قرآن کریم نے بھی بعض باتوں کی نقل ہی کی ہے مگر انہیں نقل کرکے اس نے دودھ بنا دیا ہے جسے ہم پی رہے ہیں۔ بائیبل صرف ایک گھاس کے مشابہ ہے، زرتشتی کتابیں صرف ایک گھاس کے مشابہ ہیں، وید صرف گھاس کے مشابہ ہے لیکن قرآن کریم انہی باتوں کو نقل کرکے جس طرح گائے اور بھینس گھاس کھا کر دودھ دیتی ہیں ان کو گھاس سے دودھ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
پس بیشک قرآن کریم میں بعض باتیں ایسی ہیں جو انجیل کے مطابق ہیں بعض باتیں ایسی ہیں جو تورات کے مطابق ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں جو دوسری کتب کے مطابق ہیں، مگر اس نے ان تعلیموں کو نہایت ادنیٰ حالت سے لیکر اعلیٰ حالت تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے مخالفوں کو گھاس کھانا ہی اچھا لگتا ہے تو وہ بے شک گھاس کھائیں ہم تو دودھ ہی پئیں گے۔
قرآن کریم کی افضلیت
پھر فرماتا ہے کہ یہ قرآن مَثَانِیْ ہے۔ مَثَانِیْ کے متعلق ہم عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ وہاں
مَثَانِیْ کے کئی معنے لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مابعد الاول من اوتارا لعود ۹؎ یعنی مزامیر اور سرنگی کی تاروں میں سے پہلی تار کے بعد جو دوسری تاریں آتی ہیں ان کو مَثَانِیْ کہتے ہیں۔ پس قرآن کریم کو مَثَانِیْ قرار دینے کے یہ معنے ہوئے کہ یہ پہلی تاروں کے بعد دوسری تار ہے۔ قرآن کریم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دنیا میں پہلی الہامی کتاب ہوں جیسے ویدوں کا دعویٰ ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ان کتابوں کے پیچھے آیا ہوں اور پھر اوپر کی چوٹی پر ہوں تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے کہ قرآن کریم پہلی کتابوںسے اُتر کر دوسرے درجہ کی کتاب ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ مَیں ہوں تو دوسری کتاب مگر پہلی کتابوں سے زیادہ شاندار ہوں۔ اگر ایک ڈاکٹر اپنے فن میں بڑا مشہور ہو اور اس کے بعد کوئی دوسرا ڈاکٹر آکر اپنے آپ کو اس سے بڑھا کر دکھاوے تو وہ چھوٹا سمجھا جاتا ہے یا بڑا سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک بیرسٹر بڑی کامیاب پریکٹس کرتا ہو اور ا س کے بعد ایک دوسرا بیرسٹر آجائے جو اپنے کام میں اتنا شُہرہ حاصل کر لے کہ تمام لوگ پہلے بیرسٹر کوچھوڑ دیں اور اُس کے پاس آجائیں تو کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دوسرا بیرسٹر ہے اس کو پہلے بیرسٹر پر کیا فضیلت حاصل ہے؟ پہلے کی موجودگی میں اپنے درجہ کو قائم کر لینا اور اپنی دھاک بٹھا لینا ایک فخر کی بات ہوتی ہے ورنہ جہاں عالِم نہیں ہوتے وہاں بعض دفعہ جاہل بھی آکر عالِم بن جاتے ہیں اور وہ جو کچھ اُوٹ پٹانگ کہہ دیں، لوگ سُبْحَانَ اللّٰہ سُبْحَانَ اللّٰہ کہنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے عالم ہیں۔
ایک لطیفہ
اِسی قسم کے مسخرے کا ایک لطیفہ ہے۔ لوگ اس سے مسئلے پوچھنے آتے تو کبھی وہ عقل کی بات کہہ دیتا اور کبھی بے وقوفی کی۔ ایک دفعہ عیسائی آئے اور انہوں
نے کہا بتائو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تھے تو کِس سیڑھی سے گئے تھے؟ اس نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان پر گئے تھے تو لوگ سیڑھی اُٹھانی بُھول گئے تھے اس پر چڑھ کر چلے گئے تھے۔ یہ تو معقول بات کہہ دی چاہے مذاق کی تھی، مگر اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ جب چاند نکلتا ہے تو پہلے وہ نہایت باریک ہوتا ہے اور پھر ذرا موٹا ہوتا ہے پھر اَور بڑاہوتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے پورا چاند بن جاتا ہے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی غائب ہو جاتا ہے وہ چاند جاتا کہاں ہے؟ کہنے لگا اس کو کاٹ کر ستارے بنا لئے جاتے ہیں چونکہ قوم میں کوئی اور عالم نہیں تھا اس لئے لوگ اُسی کو بڑا عالم سمجھتے تھے۔
قرآن کریم کا کمال
تو پہلے پہل اگر کوئی شخص آجائے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا ڈاکٹر یا مقِنّن یا انجینئر نہ ہو تو ایک معمولی آدمی بھی لوگوں پر
اپنی حکومت جما لیتا ہے لیکن پہلوںکے مقابل پر آکر کامیاب ہونا بہت بڑی ہمت چاہتا ہے۔ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم پہلوں کی موجودگی میں آکر کامیاب ہوئے ہیں۔ تم اپنی طرح یہ نہ سمجھ لو کہ ملک میں کوئی حکومت نہ تھی، کوئی قانون نہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آکر ایک تعلیم دی اور لوگوں نے اسے مان لیا، ایران میں کوئی قانون نہ تھا زرتشت آئے اور انہوں نے اپنا اقتدار قائم کر لیا، اکیلے اکیلے میدان مار لینا اور بات ہے اور مقابلہ میں آکر میدان جیتنا اور بات ہے۔ ہم بعد میں آئے اور پھران کی چھاتیوں پر مُونگ دَل رہے ہیں، عیسائیوں کی کتابیں موجود ہیں ، یہودیوں کی کتابیں موجود ہیں، زرتشتیوں کی کتابیں موجود ہیں، ہندوؤں کی کتابیں موجود ہیں مگر پھر ہم ان سب کے سامنے آکر میدان مار رہے ہیں۔
خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب
مَثَانِیْ کے دوسرے معنے معطف الوادی۱۰؎ کے ہیں چلتے چلتے جب وادی ایک طرف
مُڑتی ہے تو اُس کے موڑ کو بھی مَثَانِیْ کہتے ہیں۔ پس قرآن کریم کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کو موڑ کر ان کا رُخ ایک دوسری طرف پھیرنے والی کتاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان جب علوم میں ترقی کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نگاہ صرف دنیا کا حصول ہوتا ہے وہ جغرافیہ میں یا سائنس یا تاریخ میں جب دسترس پیدا کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نظر صرف مادی ہوتا ہے اور وہ اُسی مادی راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان راستوں سے بنی نوع انسان کو روکا نہیں۔ وہ حساب کی بھی تصدیق کرتا ہے جُغرافیہ کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ سائنس کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ تاریخ کی بھی تصدیق کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایک اور طرف بھی ہے جس طرف تمہیں توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے اور وہ موڑ وہ ہے جس کے پیچھے خداتعالیٰ بیٹھا ہے۔ بے شک سائنس بھی اپنی ذات میں ایک مفید چیز ہے، جغرافیہ، حساب اور تاریخ بھی اپنی ذات میں مفید علوم ہیں مگر ان علوم کی وادی چلتے چلتے ایک طرف خم کھاتی ہے اور اس کے موڑ کے پیچھے خداتعالیٰ کا وجود رونما ہوتا ہے۔ تم بے شک ان علوم میں ترقی کرو مگر یہ بھی دیکھو کہ اس مادی دنیا کے علاوہ خداتعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے جس کا حصول تمہارا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے پس قرآن کریم انسانی عقلوں کو موڑ کر انہیں خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب ہے اور یہی بات مثانی میں بیان کی گئی ہے۔
قرآنی تعلیم کے ذریعہ غیر معمولی طاقت کا حصول
مَثَانِیْ کے تیسرے معنے
قوۃ الشیٔ و طاقتہُ ۱۱؎ کے
ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی قوت اور اس کی طاقت۔ فرماتاہے قرآن کریم کی آیتیں اور قرآن کریم کی تعلیم تمہاری قوت اور طاقت کا موجب ہیں یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہمیشہ دُنیا پر غالب رہیں گے اور کسی جگہ نیچا نہیں دیکھیںگے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ سچ بولو۔ دنیا میں کبھی سچ بولنے والے ذلیل نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ علم سیکھو دنیا میں کبھی علم سیکھنے والا ذلیل نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم کہتا ہے کہ دھوکا مت دو۔ دھوکا اور فریب سے بچنے والا دُنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کہتاہے کہ تم علومِ طبیعیات پر غور کرو اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرو۔ علومِ طبیعیات پر غور کرنے والا اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا۔ غرض جو کچھ قرآن کریم کہتا ہے وہ انسان کی طاقت کا موجب ہوتا ہے اُس کی کمزوری کا موجب نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا قرآن کریم ایک اور جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۱۲؎؎
کہ کافر بھی بعض دفعہ کہہ اُٹھتا ہے کہ کاش! مجھے اسلام کا نام نہ ملتا تو اس کی تعلیم ہی مل جاتی۔
یہود کا اعترافِ عجز
ایک دفعہ بعض یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آپ کے قرآن میں ایک ایسی آیت موجود ہے کہ اگر وہ
ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس آیت کے نازل ہونے والے دن کو عید مناتے۔ آپ نے پوچھا وہ کونسی آیت ؟ہے انہوں نے کہا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۱۳؎
یہ آیت اگر ہماری بائیبل میں ہوتی تو ہم اس خوشی میں عید مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تم کیا جانو جس دن یہ آیت اُتری ہے اُس دن ہمارے لئے دو عیدیں جمع تھیں، یہ حج کے دن نازل ہوئی ہے اور حج کے دن پہلے سے عید چلی آرہی ہے اور پھر وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے۔ ۱۴؎
تعدّدِ ازواج پر بعض انگریزوں سے گفتگو
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جس پر چل کر انسان ذلیل
ہوسکے۔ وہ چیزیں جن پر دنیا اعتراض کرتی ہے وہ بھی ایسی ہیں کہ اگر ان کو لوگ صحیح طور پر سمجھ جائیں تو ان کے اعتراضات بند ہو جائیں۔ میں جب ولایت گیا تو ایک دفعہ بعض انگریز مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ چونکہ انگریزوں میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عورتوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ وہ تعدّد ازدواج کو بھی قرار دیتے ہیں اس لئے انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے جو بڑی خطرناک بات ہے اور کوئی فطرت اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا کیا یہ بہت بُری تعلیم ہے؟ انہوں نے کہا بہت بُری تعلیم ہے۔ میں نے کہا میری اِس وقت تین بیویاں ہیں (اُس وقت میری تین بیویاں تھیں) کہنے لگے آپ کی تین بیویاں ہیں؟ آپ تو بڑے روشن خیال آدمی ہیں آپ نے یہ کیا کیا؟ میں نے کہا جب آپ مجھے روشن خیال تسلیم کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ اسلام نے بے شک بعض حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے مگر اسلام نے اس کے ساتھ کئی قسم کی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی شخص محض عیاشی کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا۔ اسلام کہتا ہے اگر اگر تم ایک سے زیادہ شادیاں کرو تو ہر ایک کو برابر کی باری دو، اسلام کہتا ہے کہ جتنا خرچ تم ایک بیوی کو دو اتنا ہی خرچ دوسری بیوی کو دو، اسلام کہتا ہے کہ جس طرح تم ایک بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہو اسی طرح تم دوسری بیوی کی ضرورتوں کو بھی پورا کرو۔ ان احکام کی موجودگی میں اگر کوئی شخص دو شادیاں کرتا ہے یا چار کرتا ہے تو آخر وہ کیوں کرتا ہے؟ بڑی وجہ اس کی یہی سمجھی جا سکتی ہے کہ اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں تو کتنا جبر ہے جو شریعت اس پر کرتی ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے اپنی اس بیوی کے پاس گزارتا ہے جس سے اسے محبت ہے تو شریعت کہتی ہے اُٹھائو اپنا بستر اور جائو دوسری بیوی کے پاس اور اس کے پاس بھی اسی طرح چوبیس گھنٹے گزارو۔ وہ اپنی نئی بیوی کے لئے جس سے اسے محبت ہوتی ہے کوئی زیور یا کپڑا تیار کرکے لاتا ہے تو شریعت کہتی ہے اب جائو اور اِسی قسم کا کپڑا اور اسی قِسم کا زیور اپنی دوسری بیوی کو دے آئو۔ غرض قدم قدم پر شریعت اس کے جذبات پر ایسا جبر کرتی ہے کہ اس کے بعد یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری شادی کرنے والا عیاشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک بیوی جنہیں ہم بچپن میں مولویانی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ ہمارے ہاں آئیں۔ میں اُن دنوں شدید بیمار تھا اور مجھ سے اُٹھا بھی نہیں جاتا تھا، پھر بھی میں سہارا لے کر دوسری بیوی کے گھرگیا۔ وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں یہ کیسی قابلِ رحم حالت ہے کہ اُٹھا جاتا نہیں مگر دوسری بیوی کے گھر جا رہے ہیں۔ اب بتائو اِس میں عیاشی کی کونسی بات ہے، عیاشی تو تب ہو جب وہ صرف ایک بیوی سے تعلق رکھے اور دوسری کو نظر انداز کر دے۔ میری یہ بات سنکر وہ کہنے لگے کہ آپ کی اَور بات ہے۔ میں نے کہا اگر میرے جیسا بن جانے سے یہ بات قابلِ اعتراض نہیں رہتی تو آپ بھی اچھے آدمی بن جائیں بُرے کیوں بنے ہوئے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں میں حکمت
پھر میں نے انہیں کہا جب ہم ایک سے زیادہ شادیاں
کرتے ہیں تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی شادیاں کیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے سپرد تمام عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام تھا اور یہ اتنا بڑا کام تھا کہ آپ اکیلے اسے سنبھال نہیں سکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ زیادہ شادیاں کرتے تا زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسی عورتیں تیار ہو سکتیں جو اسلام میں داخل ہونے والی مستورات کی نگرانی کرتیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیتیں۔ میں بھی ایک قوم کا لیڈر ہوں میرے پاس سینکڑوں عورتیں آتی ہیں اور وہ اپنی مصیبتیں اور مشکلات بیان کرتی ہیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا اور ان کی تنظیم کو مکمل کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو کوئی غیر عورت نہیں کر سکتی۔ یہ کام اِسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیویوں کو تعلیم دوں اور وہ دوسری عورتوں کو تعلیم دیں اور ان کی تنظیم کا کام سرانجام دیں۔ اس پر انہیں خاموش ہونا پڑا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال نمونہ
غرض اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہر ضرورت
کے متعلق احکام نازل کئے ہیں اگر اسلام نے اس قسم کے احکام نہ دیئے ہوتے تو ہمیں دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا مگر اب ہمارا سر اونچا رہتا ہے اور دشمن کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب بیمار ہوئے تو باوجود سخت کمزوی کے ایک ہاتھ علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر اور دوسرا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھ کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں جاتے اور بعض دفعہ تو ایسی صورت ہوتی تھی کہ آپ کے پائوں شدتِ کمزوری کی وجہ سے زمین کے ساتھ گھسٹتے چلے جاتے تھے۔ بیویوں نے جب یہ حالت دیکھی تو اُن سب نے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گھر سے دوسرے گھر میں جانا مناسب نہیں۔ آپ کو کسی ایک ہی بیوی کے گھر میں ٹھہرنا چاہئے چنانچہ سب نے متفقہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب تک آپ اچھے نہیں ہو جاتے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹھہریں وہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت کر سکتی ہیں چنانچہ آپؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے اور وہیں آپ نے وفات پائی۔
مسلمانوں کے تحفّظ اور ان کی بقاء کا صحیح طریق
غرض اسلام کے احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم بغیر کسی حقیقی ضرورت کے ایک سے زیادہ شادیاں کرو۔ وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اس کی اجازت کو مشروط قرار دیتا ہے اور جب ضرورتِ حقہ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ جب بہار میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہؤا تو وہاں کے کچھ لوگ قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اب ہمارے بچائو کا کیا طریق ہے؟ میں نے کہا قرآن کریم نے دو علاج بتائے تھے مگر وہ دونوں تم نے چھوڑ دیئے ہیں۔ قرآن کریم نے کہا تھا کہ تبلیغ کرو مگر تم نے تبلیغ ترک کر دی اگر سارے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آج انہیں ایک ہندو بھی ہندوستان میں نظر نہ آتا۔ دوسرا علاج اسلام نے یہ بتایا تھا کہ تم چار چار شادیاں کرو تم ایک ہی نسل میں آٹھ گُنا ہو جائو گے دوسری نسل میں سولہ گُنا ہو جائو گے اور تیسری نسل میں بتیس گُنا ہو جائو گے۔ میں نے کہا اِس وقت کئی اچھوت اقوام موجود ہیں اگر تم ان کی بیٹیاں لینی شروع کر دو تو وہ شوق سے اپنی لڑکیاں تمہارے ساتھ بیاہ دیں گے اور ہر عورت کم سے کم چار بچے جنے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ پچاس سال کے بعد تم آٹھ سے بتیس کروڑ ہو جائو گے۔
غرض خداتعالیٰ نے علاج تو بتایا ہے لیکن اگر تم عمل نہ کرو تو کیا کیا جائے۔ گزشتہ جنگ کے بعد کئی یورپین قوموں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اگر وہ اپنی تعداد کو بڑھانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے۔
اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنیکا نسخہ
غرض ایک سے زیادہ شادیاں اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنے کا ایک
زبردست ذریعہ ہے۔
دو نسلیں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیں تو مسلمانوں کی تمام مشکلات دُور ہو سکتی ہیں اور وہ مغلوب ہونے کی بجائے ایک غالب قوم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد ہوئی تو وہ کھائے گی کہاں سے؟ حالانکہ یہی تو وہ حکمت ہے جس کو وہ نہیں سمجھتے، تم بچے پیدا کرو اور کرتے چلے جائو، وہ بے شک بھوکے رہیں گے، وہ بیشک پیاسے رہیں گے ، وہ بے شک ننگے رہیں گے، لیکن جس وقت بتیس کروڑ بھوکے اور پیاسے اور ننگے اُٹھے، وہ بم کی طرح پھٹیں گے اور سارے ملک پر قبضہ کر لیں گے۔ کھاتے پیتے لوگ تو عیاشیاں کیا کرتے ہیں یہ بھوکے مرنے والے لوگ ہی ہیں جو قوموں کو تخت و تاج کا وارث بنایا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے اندر حرکت اور بیداری پیدا کرنیکا ذریعہ
مَثَانِیْ کے چوتھے معنے مفاصل یا جوڑ کے ہیں ۱۵؎
جوڑسے حرکت پیدا ہوتی ہے، کمر کا جوڑ بند ہو جائے تو تم چل نہیں سکتے، گُھٹنے کا جوڑ بند ہو جائے تو تم حرکت نہیں کر سکتے ہاتھ کا جوڑ بند ہو جائے تو تم کسی چیز کو ایک جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ پر نہیں رکھ سکتے، گویا جوڑ حرکت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی آیتیں مسلمانوں کے لئے مفاصل ثابت ہو نگی ان کے اندرایک حرکت اور بیداری پیدا کر دیں گی اور انہیں آناً فاناً کہیں سے کہیں پہنچا دیں گی۔
آٹھ خوبیوں والا کلام
یہ آٹھ خوبیاں اُس قانون کی بتائی گئی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دربارِ عام میں اعلان
کیا۔ دُنیوی حکومتوں کی تعزیرات میں تو سزائیں ہی سزائیں ہوتی ہیں مگر یہ قانون بشارات پر بھی مشتمل ہے اور اِنذار پر بھی مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ایسی چیز پیش کر رہے ہیں جو آٹھ خوبیاں اپنے اندر رکھنے والی ہے وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْث ہے وہ کِتَاب ہے وہ مُتَشَابِہ ہے یعنی فطرت کے مطابق ہے اور نیز پہلی کتابوں کی تعلیم کے مقابلہ میں برتر تعلیم دیتی ہے اور پھر وہ مَثَانِیْ ہے اور مَثَانِیْ کے چار معنے بتائے جاچکے ہیں گویا یہ آٹھ خوبیوں والا قانون ہے جس کے نفاذ کا ہم اپنے دیوانِ عام میں اعلان کرتے ہیں۔
الٰہی عظمت اورمحبت کا پُرکیف نظارہ
پھر فرماتا ہے تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ و
قُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ۔ یہ ایسی عجیب تعلیم ہے کہ جس وقت انسان اسے پڑھتا ہے تو پہلے اس کے رَونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ کانپنے لگ جاتا ہے مگر پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کے پیار کا مشاہدہ کرتا ہے تو اُسے یُوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی سزائیں بھی محبت اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں ۔ وہ سزا دیتا ہے تب بھی پیار کے طور پر اور اگر ڈانٹتا ہے تب بھی پیار کے طور پر۔ جب مؤمن اس بات کو سوچتے ہیں تو تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ان کی جلدیں نرم ہو جاتی ہیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح کِھچے چلے جاتے ہیں کہ وہ سیدھے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! تیری مار بھی پیاری ہے اور تیرا پیار بھی پیارا ہے۔ یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام کے دیوانِ عام سے کیا گیا ہے کیا دنیا کی کوئی حکومت اس اعلان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
قانونِ الٰہی کی اتباع کرنے اور نہ کرنے والوں سے سلوک
پھر وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ ہمارے
اس قانون پر عمل کریں گے اُن سے ہمارا کیا سلوک ہوگا فرماتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رََّحِیْمٌ ۱۶؎
دُنیوی گورنمنٹیں دربارِ عام سے اعلان کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ دیکھو تم ہمارے قانون کی پابندی کرو گے تو جیل خانوں سے بچ جائو گے، تمہیں بڑے بڑے خطاب دیئے جائیںگے، تمہیں زمین اور مال ملے گا اور ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ مگر یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ خدائی دیوانِ عام میں بادشاہ یہ اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ اے لوگو اگر تم ہمارے قانون کی پابندی نہیں کرو گے تب بھی تم حکومت کے منافع سے محروم نہیں کئے جائو گے فرماتا ہے کُلًّا نُّمِدُّ ھٰـؤُلائِ وَ ھٰـؤُلائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّکَ وَ مَا کَانَ عَطَائُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا ۱۷؎
یعنی تم اگر کافر بھی ہو گئے تب بھی ہم تمہیں اپنے زرق سے محروم نہیں کریں گے اور تمہاری کوششوں کے نتائج پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو دُنیوی حکومتوں اور الٰہی حکومت میں نظر آتا ہے۔ دُنیوی حکومتیں اپنے قانون کے خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزائیں دیتی ہیں اور اُنہیں جیل خانوں میں بند کر دیتی ہیں مگر خدائی گورنمنٹ یہ اعلان کرتی ہے کہ اگر تم ہمارے قانون کے ماننے سے انکار بھی کرو گے تب بھی ہم تمہیں زرق دیتے چلے جائیں گے اور تمہیں ان فوائد سے محروم نہیں کریں گے جو ہماری حکومت سے سب لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اوراگر تم ہمارے قوانین کو تسلیم کروگے تو تم بادشاہ کے محبوب بن جائو گے فرماتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اے ہمارے رسول تو لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ میں تو اس قرآن پر عمل کرکے اور اس کے تعلیم کو مان کر خداتعالیٰ کا پیارا بن گیا ہوں اگر تم بھی چاہتے ہو کہ خداتعالیٰ کے محبوب بنو تو تم میرے نقشِ قدم پر چل پڑو خداتعالیٰ تم سے بھی محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہیں بھی اپنا محبوب بنا لے گا۔
دُنیوی بادشاہوں کا طریقِ عمل
دُنیوی بادشاہ جب کسی قانون کا اعلان کرتے ہیں تو اس قانون کی فرمانبرداری کرنے والوں کو کبھی کوئی
انعام نہیں ملتا کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص کو اس لئے انعام ملا ہو کہ اُس نے چوری نہیں کی، یا کسی شخص کو اِس بات پر انعام ملا ہو کہ وہ سڑک کے بائیں طرف اپنا موٹر چلایا کرتا تھا، ہاں یہ نظارہ دیکھنے میں ضرور آتا ہے کہ کسی کو ذیلدار بنا دیا گیا محض اس لئے کہ جب ڈپٹی صاحب دَورے پر آتے ہیں تو وہ لوگوں کی مُرغیاں چُرا چُرا کر انہیں کِھلاتا ہے۔ پھر جو خطاب ملتے ہیں اُن کا حقیقت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا خطاب ملتا ہے خان بہادر اور خان بہادر صاحب کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر چوہا بھی چِیں کرے تو اُن کی جان نکل جاتی ہے۔ گویا خطاب ملتے ہیں تو جھوٹے اور خطاب ملتے ہیں تو انصاف کے خلاف۔ نہ خطاب کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ انصاف کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ جتنے خطاب لینے والے ہوتے ہیں اگر ان کے حالات پر غور کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں خطاب محض اس وجہ سے دیئے گئے ہیں کہ وہ افسروں کو شکار کھلاتے رہے ہیں یا مُرغابیاں مار مار کر ان کے لئے لاتے رہے ہیں۔
ایک ذیلدار کا واقعہ
مجھے یاد ہے ہمارے ہاں ایک ڈپٹی کمشنر آیا وہ کچھ پاگل سا تھا مگر اُسے شکار کا بہت شوق تھا۔ ذیلدار صاحب اسے اپنے ساتھ شکار کے
لئے لے گئے۔ چلتے چلتے اسے دور سے کچھ بطخیں نظر آئیں جو تالاب میں پھر رہی تھیں اس نے سمجھا کہ مرغابیاں ہیں ذیلدار سے کہنے لگا کہ دیکھو! وہ کیسی اچھی مرغابیاں ہیں، ذیلدار کو معلوم تھا کہ یہ مرغابیاں نہیں بطخیں ہیں مگر ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر اُس نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ بڑی اچھی مُرغابیاں ہیں اُس نے فائر کیا جس سے ایک بطخ مر گئی۔ اب وہ شخص جس کی بطخ ماری گئی تھی وہ بھی ساتھ تھا مگر ڈر کے مارے وہ بھی اس کی تعریف کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ صاحب! ایسی مرغابی تو بہت کم آتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ خود بھی سمجھ گیا کہ یہ مُرغابی نہیں بطخ تھی اور اُس نے پانچ روپے نکال کر بطخ والے کو دیئے کہ یہ لے لو مگر وہ بار بار یہی کہتا چلا جاتا تھا کہ آپ پانچ روپے کیوں دیتے ہیں یہ مرغابی ہی تھی۔ یہ تو خطاب لینے والوں کا حال تھا کہ اوّل تو جو انہیں خطاب ملتے تھے وہ انصاف کے خلاف ہوتے تھے یعنی محض خوشامد یا افسروں کی تعریفیں کرنے پر انہیں خطاب مل جاتے تھے اور پھر خطاب جھوٹے ہوتے تھے ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہوتا تھا اسی طرح اگر زمین ملتی تھی تو وہ عارضی ہوتی تھی اور اگر مال ملتا تھا تو وہ کھویا جانے والا ہوتا تھا مگر یہاں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگر تم اس گورنر کی اطاعت کرو گے تو بادشاہ کے محبوب بن جائو گے فرماتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ
کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اور میری ’’اتباع‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ جس شخص کی اتباع کرنی ہے وہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۱۸؎ کا مصداق ہے۔ تمام عظیم الشان اخلاق اور تمام اعلیٰ قسم کی خوبیاں اور کیریکٹر اس میں موجود ہیں۔ پس فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ کے یہ معنے ہوئے کہ تم بھی تمام اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو، تب خداتعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔
بغاوت کرنے والوں کے متعلق اعلان
(۵) پھر دُنیوی بادشاہ یہ بھی اعلان کیا کرتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں گے اور حکومت
کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے اُن کو یہ یہ سزائیں دی جائیں گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اِس روحانی دربارِ عام میں بھی کوئی ایسا اعلان کیا گیا ہے یا نہیں؟ اِس نقطہ نگاہ سے جب ہم اس دربارِ عام پر نظر دَوڑاتے ہیں تو ہمیں باغیوں کے بارہ میں یہ اعلان سنائی دیتا ہے کہ لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِھَادُ ۱۹؎
فرماتا ہے ہمارے دشمن دُنیوی طور پر بڑی بڑی طاقتیں رکھتے ہیں اور ہم نے ان کی طاقتیں چِھینی بھی نہیں کیونکہ ہم نے کہدیا ہے کہ کُلًّا نُّمِدُّ ھٰـؤُلائِ وَ ھٰـؤُلائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّکَ وَ مَا کَانَ عَطَائُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔
یعنی ہمارا قانون یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں مؤمنوں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں اور کافروں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے ان بغاوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دینا ہے وہ ہماری مخالفت میں لوگوں کو بیشک اُکسائیں، بیشک ان کو اشتعال دلائیں، بیشک ان کے خیالات کو بگاڑنے کی کوشش کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ مخالفت کرنیوالے مٹ جائیں گے اور دُنیا پر ہماری تعلیم غالب ہو کر رہے گی۔
مخالف تدابیر کرنیوالے ہلاک کئے جائیںگے
اسی طرح فرماتا ہے وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَائَ ھُمْ
نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَھْدٰی مِنْ اِحدَی الْاُمَمِ فَلَمَّا جَائَ ھُمْ نَذِیْرٌ مَّازَادَ ھُمْ اِلَّا نُفُوْرًا۔
نِ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَکْرَ السَّیِّیئِ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلا۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا ۲۰؎
یہ بڑے بڑے دشمن جو ہماری حکومت کے مخالف ہیں قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خداتعالیٰ کا کوئی رسول آجائے تو وہ پہلی قوموں یعنی موسوی اور عیسوی سلسلہ سے بھی بہتر ہو جائیں گے فَلَمَّا جَائَ ھُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَھُمْ اِلَّا نُفُوْرًا مگر جب خداتعالیٰ کا ایک نذیران کے پاس آگیا تو اب یہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے اور اس کی حکومت کا جوا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے نمبرداریاں سنبھالی ہوئی تھیں اور اعلیٰ اور بلند اخلاق کے عادی نہیں تھے۔ وَلَایَحِیْقُ الْمَکْرُ السّیِّیِئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ مگر ہمیں اس بارہ میں کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں بدی خود اُس کے سر پر پڑا کرتی ہے جو اس میں مبتلاء ہوتاہے ہماری طاقت اس میں ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ باتیں بتائی ہیں جو نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں اور جنہیں ہر فطرتِ صحیحہ قبول کرتی ہے ان کے لئے نہ کسی فوج کی ضرورت ہے نہ دشمن سے لڑائی کی ضرورت ہے یہ لوگ آپ ہی تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
اسلام کی اشاعت اس کی اعلیٰ
درجہ کی تعلیم کی وجہ سے ہوئی ہے
چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ فتح پائی ہے جو دلوں میں اُتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ایک صحابی ؓ
کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ مَیں اس قوم میںمہمان ٹھہرا ہؤا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستّر قاری شہید کر دیئے تھے جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اورکچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے۔ چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان اِس لئے انہوں نے ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فہیرہ ؓ تھا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اورایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینہ میں مارا۔ نیزے کا لگنا تھا کہ اُن کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہؤا اور میں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دُور، اپنے بیوی بچوں سے دُور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلاء ہؤا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ ’’کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا‘‘ ۔ کیا یہ شخص پاگل تو نہیں۔ چنانچہ مَیں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں جب یہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔ میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہؤا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا۔ چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دُور ہے، اُس کاکوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ کے الفاظ پر پہنچتا تو اس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۲۱؎ تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں۔
مسلمانوں کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں
اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے
ہو کہ آسمان سے لشکر اُتریگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو کامیاب کریگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کو لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں مگر جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں ابتداء کُفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ کفار نے آپ حملہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے دفاع کے لئے میدانِ جنگ میں اُترنا پڑا۔ پس سوال یہ نہیں کہ مسلمانوں نے جنگیں کی ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے یہ کہا تھا کہ اگر کفار کی طرف سے حملہ ہؤا تب تم جیتو گے ورنہ نہیں اسلام نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود جیتوں گا اور وہ اسی طرح جیتا کہ جو لوگ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کرتے یا مسلمانوں کی قربانی کا نظارہ دیکھتے اُن کے دل مرعوب ہو جاتے اور وہ اسلامی تعلیم کے حُسن اور اس کی صداقت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ۔
کامیابی توپوں کے ساتھ نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ وابستہ ہے
افسوس کہ آج کے مسلمان توپ و تفنگ
کی طرف دیکھ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کریں، اخلاقِ فاضلہ پر زور دیں، دعا، نماز اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ کریں وہ یورپ کی طرف آنکھ اُٹھائے اَس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب یہ لوگ انہیں توپیں اور تلواریں دیتے ہیں جن کے زور سے وہ دنیا کو فتح کریں۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے وہ کافر کی تو پ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں حالانکہ کامیابی توپوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے۔
کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ
(۶) اب میں یہ بتاتاہوں کہ طاقتِ مخالفانہ کے بارہ
میں اس نے کیا حکم دیا ہے؟ طاقتِ مخالفانہ اور انفرادی مخالفت یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مخالفوں اور باغیوں کے متعلق اُس نے جو حکم دیا ہے اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اب کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا ہے اُس کا ذکر کیاجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۲۲؎
یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ قرآن آگیا اب کُفر ِاس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ کتنا عظیم الشان دعویٰ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی مثال پیش کر سکتی ہے؟ امریکہ اور انگلستان نے سائنس میں کتنی عظیم الشان ترقی کر لی ہے مگر کیا کوئی امریکن سائنسدان یا انگلستان کا مُقنِّن یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا مکمل اور جامع قانون تیار کر لیا ہے کہ ساری حکومتیں اس کی اتباع پر مجبور ہونگی۔ باوجود ایک بے مثال ترقی کر لینے کے امریکہ اور انگلستان ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے، لیکن قرآن کریم تمام دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ میرا قانون ایسا مکمل اور اتنا جامع ہے کہ قیامت تک یہ اپنی موجودہ شکل میں ہی قائم رہیگا۔یہ ایسا دعویٰ ہے کہ اِس کی مثال دنیا کی کسی حکومت میں نہیں مل سکتی قرآن کریم کہتاہے جَائَ الْحَقُّ حق آگیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ایسی حکومت بھیج دی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور حکومت ٹھہر ہی نہیں سکتی۔
ایک شُبہ کا ازالہ
لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس دعوٰی کو کیاکریں؟ قرآن کریم کے مقابلہ میں اور کئی حکومتیں ٹھہری ہوئی ہیں، ہندو موجود ہیں، عیسائی موجود ہیں، زرتشتی
موجود ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا دنیامیں آج اسلام پر عمل کیا جاتا ہے یا ہندو اور عیسائی اور زرتشتی مذہب پر عمل کیا جاتا ہے؟ کیا اسلام کے سِوا دنیا میں کوئی ایک مذہب بھی ایسا ہے جس کے پیرو اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہوں؟ وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم عیسائیت پر عمل کرتے ہیں یا ہندو مذہب پر عمل کرتے ہیں یا زرتشتی مذہب پر عمل کرتے ہیں لیکن شروع سے لے کر آخر تک وہ اسلامی تعلیم کو اپنا رہے ہیں۔ ان کا عمل انجیل پر نہیں ان کا عمل ژنداَوِستا پر نہیں، ان کا عمل وید پر نہیں ان کا عمل اسلام پر ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کی تعلیم کی رو سے شراب پینا جائز ہے خود حضرت مسیح ناصری نے بھی انجیل کے مطابق (گو ہم مسلمان اِس کے قائل نہیں) شراب کامعجزہ دکھایا مگر آج سارے یورپ میں ایسی سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو اِس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب پینی بند کر دی جائے اور سارے یورپ کے ڈاکٹر شور مچا رہے ہیں کہ شراب ایک زہر ہے جس کا پینا انسانی جسم کے لئے مُہلک ہے اِس تمام جدوجہد میں کس مذہب کی فتح ہے؟ عیسائیت کی یا اسلام کی؟ اسلام نے کہا جَائَ الْحَقُّ حق آگیا اب باطل اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا تھا اب دنیا مجبور ہو رہی ہے کہ شراب کو ناجائز قرار دے۔
قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح
پھر جب قرآن کریم آیا اُس وقت دنیا کے چپے چپے پر لوگوں نے بُت بٹھائے ہوئے تھے
مگر آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان بُت کے آگے سر جُھکانے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا کے چپے چپے پر سے بُت اُٹھ گئے اور وہی توحید دنیا میں قائم ہو گئی جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اِسی طرح اور ہزاروں امور میں تعلیمات اسلامیہ کے فائق ہونے کو پیش کیا جاسکتا ہے لوگوں نے ابھی ان حقائق کو نہیں مانا کیونکہ کَافَّۃً لِّلنَّاس کا اسلامی تعلیم پر برتری کو تسلیم کرنا مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا اور اب یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہو چکا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیںکر سکتا کہ اسلام نے ہر معاملہ میں جو تعلیم پیش کی ہے اس کا مقابلہ دنیاکا کوئی اورمذہب نہیں کر سکتا۔
قضاء کے بارہ میں اسلام کی شاندار تعلیم
انصاف اور قضاء کو ہی لے لو۔ بادشاہ قاضی مقرر کرتے ہیں تو ان قاضیوں سے یہ امید
رکھتے ہیں کہ ان کی خواہش اور منشاء کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ آج بھی پاکستان میں یہ بحث شروع ہے کہ گورنر جنرل کسی قانون کے ماتحت آسکتا ہے یا نہیں آسکتا؟ پاکستان کی دستور ساز کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اور جسے رائے عامہ کے لئے مُشتہر کیا گیا ہے اس میں ایک شِق یہ رکھی گئی ہے کہ:-
’’ جب تک صدر حکومت یا صدر صوبہ اپنے عُہدہ پر فائز رہیں، ان کے خلاف کسی قسم کی فوجداری نالش کسی عدالت میں دائر نہ ہونا چاہئے اور نہ جاری رہنا چاہئے۔‘‘
حالانکہ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی اور وہ عدالت میں پیش ہوئے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کو ہم معصوم سمجھتے ہیں بلکہ میرا یہ کہنا کہ ہم ان کو معصوم سمجھتے ہیں ایک بے وقوفی کا فقرہ ہے وہ معصوم تھا اور یقینا تھا میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسان جس کو خداتعالیٰ نے اپنا گورنر جنرل مقرر کرکے بھیجا، وہ انسان جسے اس نے اس دنیا میں خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجا اور ایسا خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجا ہے جس پر اُس نے وہ کامل قانون نازل کیا جس کے متعلق وہ خود کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس قانون کی مثال تیار کرنے پر قادر نہیں ہو سکتی اور ایسا آئین نازل کیا جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اتنے بلند ترین مقام کا انسان اپنی وفات کے قریب صحابہ ؓ سے کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا میں نے اِس دنیا میں اُس کی رضا اور خوشنودی کے لئے اُس کے احکام کو جاری کیا ہے لیکن ممکن ہے اِس جدوجہد میں مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے دوسرے کا حق مار لیا ہو اے میرے صحابہؓ! تمہاری وفاداری یہ ہوگی کہ اگر مَیں نے غلطی سے کسی کا حق مار لیا ہے تو وہ اپنا بدلہ آج مجھ سے لے لے تا قیامت کے دن خداتعالیٰ مجھ سے اس غلطی کا بدلہ نہ لے۔ کیا دنیا کا کوئی گورنر جنرل ایسا ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا یا آپ کے برابر ہی ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور اگر ایسا ہو گیا ہو تو مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو۔
دردناک منظر
تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ عُشّاق، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فریفتہ اور شیدائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں کی خاک بھی اپنے لئے اکسیر
سمجھتے تھے اُن کا اِس فقرہ کو سُنکر کیا حال ہؤا ہوگا اور اُن کے دل پر اُس وقت کیا گزری ہوگی۔ تم اپنی حیثیت پر قیاس کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہو کہ ان کے دل پھٹ گئے ہوں گے، ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ہوگا کہ ہمارا وہ آقا جو کُند تلوار سے بھی اگر ہماری گردنیں کاٹ ڈالے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ اس سے زیادہ ہم پر کوئی احسان نہیں وہ کہتا ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لو۔ مجمع پر خاموشی طاری تھی کہ ایک صحابیؓ اُٹھے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے فلاں لڑائی کے موقع پر جب آپ صفیں ٹھیک کر رہے تھے ایک صف کو چیر کر آپ آگے آئے تو اس وقت آپؐ کی کُہنی میری پیٹھ پر لگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم مجھے کُہنی مار کر اس کا بدلہ لے لو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ اُس وقت صحابہ کرام کا کیا حال ہؤا ہوگا۔ یقینا اُن کی تلواریں میانوں سے نکل رہی ہوں گی یقینا وہ اُس کی تکّہ بوٹی کر دینے کے لئے تیار ہوں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب انہیں کچھ کرنے نہیں دیتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئو اور مجھے کُہنی مار لو۔ اس نے کہا،یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ کی کُہنی مجھے لگی تھی تو اُس وقت میرے جسم پر پورا کپڑا نہیں تھا اورمیری پیٹھ ننگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو تاکہ میری ننگی پیٹھ پر یہ شخص کُہنی مار کر مجھ سے بدلہ لے لے۔ صحابہ کرام ؓ کا دل تو اُس وقت یہی چاہتا ہوگا کہ اس شخص کی زبان کاٹ ڈالیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نتیجہ میں وہ مجبور تھے۔ انہوں نے آپ کی پیٹھ ننگی کی اور اُسے کہا کہ وہ آئے اور کُہنی مار لے۔ وہ شخص آگے بڑھا اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اُس نے ادب کے ساتھ اپنا سر جُھکاتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کو چوم لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کس کم بخت کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ وہ آپکو کہنی مارے، یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ نے ذکر فرمایا کہ میری موت اب قریب ہے تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں اِس بہانے سے آپ کو پیار تو کر لوں۔۲۳؎
اسلامی کانسٹی ٹیوشن
یہ ہے اسلامی کانسٹی ٹیوشن۔ بے شک اسلامی قانون کے ماتحت خلیفہ یا امام پر اپنے قانون کے نِفاذ میں کوئی مقدمہ نہیں چلایاجا سکتا چنانچہ
تاریخ میں اس امر کی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس لئے کوئی مقدمہ دائر کیا گیا ہو کہ فلاں گورنر کیوں بنایا گیا؟ یا فلاں سکیم کیوں بنائی گئی؟ لیکن ذاتی معاملات میں امام یا خلیفہ پر نالش کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں کہیں انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح اسلام اِس امر پر بھی زور دیتا ہے کہ دلیل دے کر کسی شخص کو مُجرم بنایا جائے یہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی ہی خوبی ہے کہ وہ دوسرے کو دلیل کی بناء پر مُجرم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحْيٰ مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۲۴؎
یعنی ہم نے قرآن کریم نازل کر دیا ہے اب دنیامیں ہمارا قانون یہ ہوگا کہ وہی شخص زندہ رکھا جائیگا جس کو دلیل زندہ رکھے گی اور وہی شخص تباہ ہوگا جس کو دلیل تباہ کرے گی گویا غلبہ بھی دلیل کے ساتھ ہوگا اور شکست بھی دلیل کے ساتھ ہوگی۔
دلائل کے زور سے کُفر کی شکست
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَائَ الْحَقُّ وَ
زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ہم
تلوار کے وار سے نہیں بلکہ دلیل کے زور سے کفر کو مٹائیں گے اور کُفر اس لئے شکست کھائے گا کہ صداقت روشن ہو جائے گی اور جب صداقت روشن ہو جائے تو کُفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا جیسے دنیا میں جب سورج چڑھتا ہے تو ڈنڈے مار مار کرظلمت کو دُور نہیں کیا جاتا بلکہ سورج کی شُعاعیں ظلمت کو آپ ہی آپ دور کر دیتی ہیں۔
قیدیوں کی آزادی کے اعلانات
(۷) پھر دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے بعض دفعہ اعلانات کئے جاتے ہیں کہ بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا
ہؤا ہے اِس خوشیمیں اتنے قیدی رہا کئے جاتے ہیں یا فلاں شہزادہ کی شادی ہوئی ہے اس خوشی میں اتنے مُجرموں کو رہا کیا جاتا ہے یا فلاں جشن مسرت منایا جا رہا ہے ، اِس خوشی میں اتنے قیدی آزاد کئے جاتے ہیں۔
مَیں نے سوچا کہ کیا ہمارے دربار میں بھی کوئی قیدی آزاد کئے جاتے ہیں یانہیں؟ جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے تو صرف بعض قیدی چھوڑے جاتے ہیں لیکن اِس دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر جنرل مقرر کرتے ہیں اور اسے اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری طرف سے تمام گُنہگاروں اور قیدیوں کی آزادی کا اعلان کر دے وہ فرماتا ہے قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَاَنِیْبُوْآ اِلٰی رَبِّکُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ۲۵؎
یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تم کو اس دنیا کا گورنر جنرل مقرر فرمایا ہے تم جائو اور ہماری طرف سے یہ اعلان کر دو کہ اے میرے بندو! اَلَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ جنہوں نے گُناہوں کوکمال تک پہنچا دیایعنی کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے چھوڑ ا ہو لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ تمہارا بادشاہِ حقیقی جس نے مجھے گورنر جنرل مقرر کرکے بھیجا ہے اُس کی رحمت بہت وسیع ہے پس تمہارے لئے اُس کی رحمت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعاً گورنمنٹیں تو یہ اعلان کرتی ہیں کہ دو مہینے یا چھ مہینے یا سال تک کی جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے اُن کی قید معاف کی جاتی ہے یا وہ مُجرم جو اخلاقی ہیں اُن کو معاف کیاجاتا ہے یا بعض پولٹیکل مجرموں کو معاف کیا جاتا ہے مگرہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمہارا خدا تمام قسم کے گُناہوں کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے لیکر بڑے سے بڑے گناہ تک خواہ وہ اخلاقی ہوں، یا مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں سب کو معاف کر سکتا ہے پس تمہارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے کیا ہے۔
کیا توبہ سے گناہ بڑھتے ہیں یا کم ہوتے ہیں؟
عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام نے گناہ بڑھا دیا ہے کیونکہ اسلام
اِستعلیم کا حامل ہے کہ توبہ سے انسان کے گُناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ عیسائیت خود کہتی ہے کہ خدا محبت ہے اور عیسائیت خود کہتی ہے کہ محبت سے دل صاف ہوتے ہیں۔ جب محبت اور پیار سے دل صاف ہوتا ہے تو توبہ سے گناہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
احادیث میں آتا ہے قیامت کے دن خداتعالیٰ کے سامنے ایک مُجرم پیش ہوگا اُس سے کچھ سوالات کئے جائیں گے جن کا وہ جواب نہیں دے سکے گا مگر آخر اُس کے دل کی کسی مخفی نیکی کی وجہ سے خداتعالیٰ اسے معاف کر دیگا اور اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! میرے اس بندے نے فلاں گناہ کیا تھا اُس کے بدلہ میں اسے یہ انعام ملے۔ اس سے فلاں قصور سرزد ہؤا تھا، اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دیا جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر نہیں کرے گا صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! اس نے فلاں موقع پر پتھر مارا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دو۔ اس نے فلاں گالی دی تھی اس کے بدلہ میں یہ انعام دو۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد خاموش ہو جائیگا تو وہ شخص ادب کے ساتھ کہے گا کہ حضور میری ایک عرض ہے میرے سارے گناہ ابھی آپ نے بیان نہیں کئے صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بڑے بڑے گناہ تو ابھی رہتے ہیں۔۲۶؎ غور کرو ہمارا خدا کتنی محبت کرنے والا ہے اور اس کی درگاہ کتنی پیاری ہے وہ تو دل کی صفائی چاہتا ہے اُسے مارنے اور سزا دینے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم اپنے دل کو صاف کر لو تو تمہارے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریگا کہ وہ گُناہ کتنے ہیبت ناک تھے۔
مصیبت زدوں کی امداد کے اعلانات
پھر کئی مصیبت زدہ ہوتے ہیں ان کے لئے بھی دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم
تمہیں اِس اِس رنگ میں مدد دیں گے مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا کہ ہم زمینداروں کو بیج مہیا کرکے دیں گے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ کہہ دیا کہ یہ بطور تقاوی ہو گا اور اس پر تمہیں اتنا سُود دینا پڑے گا۔ غرض گورنمنٹیں ناگہانی مصائب اور آفات کے مواقع پر مصیبت زدوں کی ہمیشہ مدد کرتی ہیں مگر قسم قسم کی تدابیر سے بجائے کچھ دینے کے خود فائدہ اُٹھا لیتی ہیں۔ پھر اگر انہیں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں شخص جو امداد کے لئے آیا ہے وہ مثلاً باغی ہے یا باغی رہ چکا ہے تو وہ اُس کی امداد کے لئے اُس وقت تک تیار نہیں ہوتیں جب تک وہ اُن سے معافی نہ مانگے اور اِس بات کا اقرار نہ کرے کہ آئندہ وہ ہر قسم کی بغاوت سے مجتنب رہے گا۔ اخباروں والے ہی جب گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون لکھتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں تو پریس والوں کو یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ آئندہ وہ احتیاط سے کام لینگے۔ سیاسی مُجرم پکڑے جاتے ہیں تو وہ بھی جب تک گورنمنٹ کو یہ لکھ کر نہ دیں کہ ہم آئندہ محتاط رہیںگے اور گورنمنٹ کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اُس وقت تک انہیں رِہا نہیں کیا جاتا۔
الٰہی دربارِ عام سے ایک عجیب اعلان
لیکن اس دربارِ عام سے مَیں نے ایک عجیب اعلان ہوتے دیکھا ، مَیںنے سنا کہ اس
دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے قُلْ مََنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَۃً لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ۔قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ۔ ۲۷؎
فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو دنیا میں اعلان کر اور لوگوں سے کہہ کہ تمہارا خدا ہر مصیبت میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ فرماتا ہے کون ہے جو تمہیں سمندر کی مصیبتوں اور خشکی کی مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے؟ جب مصیبتیں آتی ہیں تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَۃً تم روتے ہوئے دعائیں کرتے ہو کہ وہ مصیبتیں تم سے ٹل جائیں مگر چونکہ تم اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتے اِس لئے تم دعائیں چوری چوری کرتے ہو اونچی آواز سے نہیں کرتے تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری قوم یہ سمجھ لے کہ اب تم بُتوں کو چھوڑنے لگے ہو اور تم بار بار یہ کہتے ہو کہ حضور! اب ہم کو چھوڑ دیجئے تو ہم توحید پر ایسا عمل کریں گے اور آپ کی ایسی فرمانبرداری اور اطاعت کریں گے کہ آپ بھی ہم پر لٹو ہو جاہیں گے۔فرماتاہے قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ تو کہہ دے کہ خداتعالیٰ تم کو اِس مصیبت سے بھی بچائے گا اور آئندہ آنے والی مصیبتوں سے بھی بچائے گا مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ آج تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم توحید پر ایمان رکھیں گے مگر کَل اِس مصیبت سے چُھٹکارا پانے کے بعد تم پھر شرک میں مبتلاء ہو جائو گے۔ لوگ بعض دفعہ سچے دل سے توبہ کرتے ہیں مگر پھر اپنے نفس کی کمزوری کی وجہ سے گُناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں مگر یہاں اُن کی اِس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم آج تو توبہ کرتے ہیں مگر کَل جھوٹ بولنا شروع کر دیں گے۔ آج تو ہم توبہ کر رہے ہیں مگر کل پھر شرک میں ملوث ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ بھی اُن کی اِس حالت کو جانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ منافقت سے کام لے رہے ہیں، مگر اُس کا رحم بے انتہاء وسیع ہے وہ کہتا ہے اگر کَل یہ شرک کریں گے تو دیکھاجائے گا اِس وقت تو یہ توبہ کر رہے ہیں چلو ان کو معاف کر دو۔ کیا دنیا کی کوئی ایسی حکومت ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے مُجرموں کو اس طرح معاف کر دے؟
نظام آسمانی میں دخل دینے والوں سے سلوک
(۸) پھر نظامِ سماوی میں دخل دینے والے لوگوں کے متعلق
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِالْکَوَاکِبِ وَ حِفْظاً مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ۔ لَایَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانبٍ دُحُوْرًا وَّ لَھُمْ عَذَابٌ وَّ اصِبٌ۔ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ ثَاقِبٌ ۲۸؎
فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں وہ قانون کو بگاڑ کر اس کی اصل شکل کو مسخ کر دیتے ہیں اور اس طرح قانون کی غرض کو ضائع کر دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس قانون کے خلاف بھی لوگ کوششیں کریں گے اور اِس کوبگاڑنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر سے کام لیں گے مگر ہم تمہیں پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ ہمارے قانون کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ ہم نے اپنے روحانی آسمان کو کواکب کے ساتھ مزیّن کیا ہے۔
اس جگہ روحانی آسمان سے مرادمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کواکب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایسے رنگ میں حفاظت کی کہ جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی۔
سمائِ روحانی کی کواکب سے حفاطت
اسی حقیقت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ
اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ۲۹؎
میرے سب صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جائو گے۔ پس ستارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمائَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سماء دنیا ہے اس کی حفاظت کے لئے ہم نے کواکب مقرر کر دیئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کے لائے ہوئے قانون کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو یہ ستارے اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس کے ہاتھوں کو شل کر دیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم کے خلاف دشمنانِ اسلام نے کس قدر منصوبے کئے اورکس طرح اسلام کو مٹانے کے لئے انہوں نے اپنی کوششیں صَرف کیں مگرپھر کس طرح صحابہ کرام ؓ نے اس دین کی حفاظت کی اور اپنی جانیں قربان کرکے دنیا میں اس کو قائم کیا۔ مگر فرماتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا جب مسلمانوں میں غفلت اور سُستی پیدا ہو جائے گی اور لوگ پھر اِس دین کو بگاڑنے کی کوشش کریں گے۔ جب دنیا میں وہ وقت آئے گا کہ مسلمان سو جائے گا، صحابہ کرام فوت ہو جائیں گے اور اسلام کو مٹانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ ثَاقِبٌ تو اُس وقت خداتعالیٰ ایک شہاب پیدا کریگا جو آسمان سے گرے گا اور ایسے لوگوںکو کُچل کر رکھ دے یعنی مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا ظہور ہو گا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
حکومتوں کی طرف سے تعلیم کا انتظام
(۹) پھر دنیا میں جو حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ اس بات کی کوشش کیا کرتی ہیں کہ مدرسے جاری
کریں، سکول اور کالج کھولیں اور رعایا کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کریں۔ اور تو اور معمولی معمولی ریاستوں میں بھی لوگوں کی تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کی طرف سے ایسا اعلان سننے میں آجاتا ہے کہ ہم اپنی رعایا کے بڑے خیر خواہ ہیںہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں ایک مڈل سکول جاری کیا جائے مگر اسلام جس حکومت کو قائم کرتا ہے اس کا رنگ بالکل اور ہے اور اس کی تعلیم کا دستور بالکل نرالا ہے۔ سکول میں آخر وہی جائے گا جو فیس دے سکتا ہے، جو کتابیں خرید سکتا ہے ، جو تعلیمی اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے، جو مضبوط قویٰ اور اچھا دماغ رکھتا ہے مگر اِس دربارِ عام سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم علومِ روحانیہ کی جو یونیورسٹی قائم کر رہے ہیں اس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تمہیں گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں، تمہیں چارپائی سے بھی اُٹھنے کی ضرورت نہیں، تمہیں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۳۰؎
اور وہ لوگ جو اپنے دل میں ہمارا عشق رکھیں گے، جو ہماری طرف محبت اور پیار کے ساتھ رجوع کریںگے ہم اپنے علم کے دروازے اُن پر کھول دیں گے، نہ اس میں کتابیں خریدنے کی ضرورت ہے نہ قلم اور دوات کی ضرورت ہے، نہ کاغذ کی ضرورت ہے، نہ مدرسوں کی ضرورت ہے، نہ محنت و خوشامد کی ضرورت ہے، نہ فیس دینے کی ضرورت ہے، نہ گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہے۔ ہر دل میں ایک یونیورسٹی بنا دی گئی ہے، ہر قلب میں علوم کے چشمے پھوڑ دیئے گئے ہیں۔ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ کہو کہ الٰہی! مجھے فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے اور ہم وہ چیزیں تمہیں دے دیں گے۔
ایک بزرگ کا واقعہ
ایک برزگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام
لگایا گیا ہے اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں۔ وہ یہ سنکر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے مگرچونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے۔ دس بیس میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی، اندھیرا چھا گیا، آسمان پر بادل اُمڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی، وہ اُس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ صرف چند جھونپڑیاں اُس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آجائوں۔ اندر سے آواز آئی کہ آجایئے۔ انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے۔ دیکھا تو ایک اپاہج شخص چارپائی پر پڑا ہے اُس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بِٹھا لیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے مَیں جا رہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ سمن کیوں آیاکیونکہ میں نے کبھی دُنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا۔ وہ یہ واقعہ سنکر کہنے لگاکہ آپ گھبرائیں نہیں، یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے۔ میں اپاہج ہوں، رات دن چارپائی پر پڑا رہتا ہوں، مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں لیکن مَیں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سنا اور آپ کی بزرگی کی شُہرت میرے کانوں تک پہنچی۔ مَیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ! قسمت والے تو وہاں چلے جاتے ہیں میں غریب مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے۔ ابھی وہ یہ باتیںہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی، بارش ہو رہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آجائوں۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا۔ یہ سرکاری پیادہ تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں بزرگ کے پاس جائوں اور اُن سے کہوں کہ آپ کو بُلانے میں غلطی ہو گئی ہے دراصل وہ کسی اور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہو گیا اِس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات سُنکر وہ اپاہج مُسکرایا اور اُس نے کہا دیکھا میںنے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہم میں ہو کر اور ہم سے مدد مانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں۔
رؤیا و کشوف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت
دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے
ہیں اور اب آپ ؐ کے اور ہمارے درمیان چودہ سو سال کا لمبا عرصہ حائل ہو چکا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپؐ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سُنا لیکن عشق ہمارے دلوں میں بھی گدگدیاں پیدا کرتا ہے۔ ہم زمانہ کے لحاظ سے پیچھے ہیں لیکن عشق کے لحاظ سے پیچھے نہیں چنانچہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر صدیاں گزر چکی ہیں پھر بھی خداتعالیٰ ہمیںخوابوں اور کشوف کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار تک پہنچا دیتا ہے اور ہم بھی اس کیف اورسرور سے اپنے عشق کے مطابق حصہ پا لیتے ہیں جس کیف اور سرور سے صحابہ کرام ؓ نے حصہ پایا۔ خود مَیں نے متعدد بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور کئی دفعہ تو آپ ایسی محبت سے آئے ہیں کہ اسے دیکھ کر تمام جسمانی کوفت دُور ہو جاتی رہی ہے۔
جن دنوں مصری فتنہ زوروں پر تھا میں ایک رات سخت بے قراری کی حالت میں اپنی چارپائی پر لَوٹتا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں اس کا کیا علاج کروں۔ مَیں اسی حالت میں تھا کہ یکدم جاگتے جاگتے مَیں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ بچوں کی طرح دَوڑتا ہؤا آیا اور وہ میرے کندھے ہلا کر کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں یہ سُنکر میرے دل میں عجیب کیفیت ہو گئی کہ میرے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی یہ حالت ہے کہ آپ میری تکلیف کا حال سُن کر برداشت نہیں کر سکے اور آپ خود میری دِلجوئی کے لئے تشریف لائے ہیں۔ تب میں نے کہا یہ فتنہ لغو ہے اور میں آرام سے سو گیا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے دروازے ہر شخص کے لئے کُھلے ہیں اور جو بھی چاہے وہ ان دروازوں سے گزر کر اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے۔
روحانی اور مادی علوم کے متلاشیوں کو خوشخبری
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو دیدارِ الٰہی کے رستوں کا ذکر ہے
ظاہری اور باطنی علوم کے عطا کئے جانے کا اللہ تعالیٰ نے کہاں وعدہ کیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف روحانی علوم کے متلاشیوں کو ہی سیر نہیں کیا بلکہ وہ علومِ جسمانی اور روحانی دونوں کے متلاشیوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ میرے دربار میں آئو اور اپنے دامن کو گوہرِ مقصود سے بھر لو وہ فرماتا ہے وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ ۳۱؎
ہم نے انسان کے لئے دونوں علوم کے راستے کھول دیئے ہیں۔ ہم نے خداتعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے اور ہم نے علومِ جسمانی میں کمال حاصل کرنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے۔
یہ الگ سوال ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس راستہ پر چل کر علوم حاصل کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راستہ کھول دیا ہے اور ہر انسان کے لئے ان علوم کے حاصل کرنے کا موقع موجود ہے اگر وہ حاصل نہیں کرتے تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سب لوگ کتابیں ایک جیسی پڑھتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ سکولوں اورکالجوں میں بعض لڑکوں کو اور کتابیں پڑھائی جاتی ہوں اور بعض کو اور مگر ایک تو سائنس میں ترقی کرتے کرتے انتہائی کمال حاصل کر لیتا ہے اور دوسرا ابھی سائنس کے دروازے پر ہی بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک اپنی زندگی میں سینکڑوں مُفید ایجادات کر لیتا ہے اور دنیا میں چاروں طرف شور مچ جاتا ہے کہ ایڈیسن بڑا موجد ہے مگر دوسرا کوئی ایک چیز بھی ایجاد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے ھَدَیْنٰـہُالنَّجْدَیْنِ میں جس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے قابلیتیں تمام انسانوں میں پیدا کر دی گئی ہیں اگر وہ ان قابلیتوں سے کام لیں تو وہ علومِ ظاہری اور باطنی دونوں میںکمال حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اپنی قابلیت سے کام نہ لے تو اس میںخداتعالیٰ کا قصور نہیں جیسے یونیورسٹی ہر طالب علم کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے لیکن یونیورسٹی کا ہر آدمی آئین سٹائین نہیں بنتا، یونیورسٹی کا ہر آدمی نیوٹن نہیں بنتا۔ آئین سٹائین اور نیوٹن وہی بنتا ہے جو اپنی دماغی قابلیتوں کو کام میں لاتا ہے۔ اسی طرح یہ روحانی یونیورسٹی سکھاتی تو ہر شخص کو ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو اپنی استعدادوں کو کام میں لاتا ہے اور ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔
تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ
(۱۰) پھر تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات کے متعلق اعلان فرماتا
ہے وَمَا مِنْ دَآ بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ۳۲؎
دنیا کی حکومتیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ (FOOD DEPARTMENT) قائم کرتی ہیں جس کے سپرد مُلک کی غذائی حالت کی نگرانی ہوتی ہے اسی طرح جب کسی دوسرے ملک میں قحط پڑتا ہے یا ناگہانی حوادث سے اُس کی غذائی حالت خراب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی ڈیپارٹمنٹ اس ضرورت کو پورا کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے مگر دُنیوی حکومتوں کے فوڈڈیپارٹمنٹ کیا کرتے ہیں وہ ایک طرف سے بہت ہی سستے داموں پر ایک چیز خریدتے ہیں اور دوسری طرف بہت بڑے نفع کے ساتھ اسے فروخت کر دیتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک میں ہی چھ روپے من گندم مل رہی ہے لیکن چھ روپے من گندم لے کر ہمارا فوڈ ڈیپارٹمنٹ سولہ روپے میں ہندوستان کو دے رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی زمانہ میں اڑھائی اڑھائی تین تین کروڑ روپیہ سالانہ حکومت اس ذریعہ سے کماتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی چلی جاتی تھی کہ ہم بنی نوع انسان کی کتنی خدمت کر رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسمانی حکومت کا بھی یہی طریق ہے یا اس میں کوئی اور طریق رائج ہے۔ اِس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت میں دُنیوی حکومتوں کے برعکس یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر جاندار کو کھانا کھلانا ہمارے ذمّہ ہے وہ فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَا بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا کوئی حرکت کرنے والی زندہ اور جاندار چیز ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خداتعالیٰ کی ذات پر نہ ہو اور کیوں نہ ہو، جب ہم نے ایک مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اس مخلوق کو کھانا کھلانا بھی ہمارا ہی فرض ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے اور کس طرح یہ مانا جا سکتا ہے کہ ہر جاندار کو خداتعالیٰ خود رزق دیتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بندے کا دینا اور طرح کا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا دینا اور طرح کا ہے۔ تم اپنے ہاتھ سے کپڑے بنتے ہو مگر روئی خداتعالیٰ پیدا کرتا ہے، روٹی تم اپنے ہاتھ سے پکاتے ہو مگر گندم خداتعالیٰ پیدا کرتا ہے، اسی طرح خداتعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رزق دینے کی جو تراکیب رکھی ہیں وہ اتنی عجیب ہیں کہ اُن کو دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہو رہا ہے۔ زمیندار جانتے ہیں کہ وہ گندم بوتے ہیں اور انہیں اس کے لئے بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ زمین میں ہل چلاتے ہیں، بیج ڈالتے ہیں، پانی دیتے ہیں اور مہینوں اس فصل کی دیکھ بھال اورنگرانی کرتے ہیں۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام انہیں اس غرض کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے وہ خود بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اوراپنے بیوی بچوں کوبھی اس قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ اتنی بڑی محنت کے بعد اگر گندم ہی گندم انہیں مل جاتی جس کے ساتھ بھوسے کا کوئی حصہ نہ ہوتا تو کیا وہ دیانتداری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی گندم میں سے بیل کو ایک دانہ دینے کے لئے بھی تیار ہوتے، وہ ساری کی ساری فصل اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے اور بیل بُھوکے مر جاتے مگر چونکہ بیلوں کا رزق خداتعالیٰ کے ذمہ ہے اس لئے وہ دانے تھوڑے پیداکرتا ہے اور بُھوسہ زیادہ پیدا کرتا ہے، دانے تم اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے ہو اور بُھوسہ اپنے جانوروں کے لئے رکھ لیتے ہو۔ یہ خدائی فعل ہے جو بتا رہا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنی مخلوق کے رزق کا انتظام کیا ہے۔ تم صرف دانے کھا سکتے ہو بُھوسہ نہیں کھا سکتے اس لئے تم مجبور ہو کہ تم بھوسہ جانوروں کو دو۔ اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو یا تو تمہارے جانور مر جاتے اور یا پھر تم انہیں دوسروں کی فصل میں چھوڑ دیتے۔
سندھی مزارعین کی کیفیت
میں ایک دفعہ سندھ گیا وہاں سلسلہ کی زمینیں ہیں اور کچھ میری بھی زمینیں ہیں۔ ہم نے ان زمینوں پر مینیجر وغیرہ مقرر
کئے ہوئے ہیں مگر مزارع اکثر سندھی ہیں۔ وہاں کے عملہ نے میرے پاس شکایت کی کہ سندھی مزارع کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ آپ انہیں نصیحت کیجئے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ چنانچہ میں نے ان کو بُلوایا اور انہیں نصیحت کی کہ یہ جتنی جائیداد ہے سب انجمن کی ہے اوراس میں سے جتنی بھی آمد ہوتی ہے اس میں ایک پیسہ بھی کسی کو نفع کے طور پر نہیں ملتا بلکہ سب کا سب خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا جاتا ہے اس لئے اگر آپ لوگ بھی دیانتداری سے کام لیں اور اپنے جانوروں کو فصلیں کھانے نہ دیں تو اِس ثواب میں برابر کے شریک ہو سکتے ہیں اور خداتعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل ہو سکتی ہے۔ میں نے اِس موضوع پر ان کے سامنے پندرہ بیس منٹ تقریر کی اور میں نے دیکھا کہ ان سندھیوں کا لیڈر جو چانڈیہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا سر ہِلاتا چلا جاتا تھا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ اس پر خوب اثر ہو رہا ہے مگر پندرہ بیس منٹ کے بعد جب میں تقریر ختم کر چکا تو ان سندھیوں کا سردار کہنے لگا سائیں! جے ڈھور ڈنگر نے کھیتی نہیں کھانی تے پھر بنی پوکھنی ہی کیوں ہے؟ یعنی اگر جانوروں نے فصل نہیں کھانی تو پھر ہمیں فصل بونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اگر ان کی روزی انسان پر چھوڑ دیتا تو انہوں نے تو مر جانا تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس نے دیکھا کہ جانور کی محنت زیادہ ہے اور تمہاری کم ہے، ان کا پیٹ بڑا ہے اور تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اس لئے اس نے تمہارے لئے تو دانے بنائے اور ان کے لئے بھوسہ بنا دیا۔ دانے اس نے کم بنائے اوربھوسہ اس نے زیادہ بنایا کیونکہ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا ان جانوروں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کے زرق کی فراوانی
پھر بنی نوع انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَائَ بِنَائً وَّ صَوَّرَ کُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰـتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَ ۳۳؎
یعنی تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو تمہارے لئے چھت کے طور پر بنایا ہے پھر اس نے تم کو کام کرنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ اور قابلیت بھی بہت اعلیٰ درجہ کی پیدا کی ہے۔ اس جگہ صورت کے معنی ناک، کان، مُنہ اور آنکھیں وغیرہ نہیں کیونکہ جب خداتعالیٰ نے انسان کو بنایا، تو تمام اعضاء اُس نے اُسی وقت بنا دیئے تھے۔ اِس جگہ صورت سے مراد وہ قوتیں اور قابلیتیں ہیں جو بنی نوع انسان میں رکھی گئیں اور جن سے وہ دنیا میں بہت بڑی ترقیات حاصل کرتا ہے۔ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ پھر اُس نے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں جو تمہارے جسم کے مناسبِ حال ہیں تمہارے لئے پیدا کیں۔مثلاً زبان خواہش رکھتی ہے کہ وہ میٹھا کھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میٹھا پیدا کر دیا یا زبان چاہتی ہے کہ اسے نمک مرچ اور کباب ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے نمک مرچ اور کباب پیدا کر دیئے۔ یا مثلاً زبان چاہتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے چاول ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چاول پیداکر دیئے۔ غرض جو بھی خواہشیں اور قوتیں انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا میں پیدا کر دی ہیں اور یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ اِس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان میں جو طاقتیں رکھی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں دنیا میں بنا دی گئی ہیں۔ ان چیزوں کی پیدائش کو ہم اتفاقی نہیں کہہ سکتے یہ اتفاقی معاملہ تب ہوتا جب بنی نوع انسان کی کوئی ایسی طاقت ہوتی جس کا جواب قانونِ قدرت میں نہ ہوتا مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر طاقت اور ہر قابلیت کا جواب خداتعالیٰ کے قانون میں موجود ہے۔ اگر تمہارا منہ نرم نرم اور پلپلی سی چیز کو چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چاول بنا دیئے ہیں۔ اگر تمہارے دانت سخت چیز کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو اس نے ہڈیاں اور دانے وغیرہ بنا دیئے ہیں۔ اگر تمہارا معدہ لذیذ اور شیریں چیزوں کا محتاج ہے تو اس نے تمہارے لئے شکر پیدا کر دی ہے۔ بچپن میں دانت نہیں ہوتے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کر دیتا ہے غرض تمام چیزیں جن کی عمر بھر کسی وقت بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان سب کا کائناتِ عالَم میں موجود ہونا دلالت کرتا ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے بِالارادہ اور حکمت کے ماتحت اس دنیا کو پیدا کیا ہے۔
بنی نوع انسان پر عظیم الشان احسان
پھر فرماتا ہے ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی یُسَبِّحُ لَہُ مَا
فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۳۴؎
فرماتا ہے وہ خدا ہی ہے جو (۱) پیدا کرتا ہے (۲) پھر وہ تراشتا ہے یعنی نقائص کو دُور کرتا ہے (۳) پھر وہ تصویر دیتا ہے یعنی کام کے مناسب حال قوتیں بخشتا ہے (۴) لَہُ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی اِس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے نیک تغیرات پیدا کرتا ہے۔ مثلاً طاقتوں کے مطابق باہر سامان پیدا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رَحْمٰن اشارہ کرتی ہے اور پھر کام کرنے پر اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے سامان مہیا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رَحِیْم اشارہ کرتی ہے۔ مثلاً ہر کام دنیا میں ایک اچھا یا بُرا اثر چھوڑتا ہے وہ وہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ تم ہاتھ ہلاتے ہو تو ہاتھ ہلانے سے تمہارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے دوسری دفعہ تمہارے اندر ہاتھ ہلانے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے یا مثلاً بچہ کو دیکھ لو وہ اپنے ہاتھ پائوں ہِلاتا ہے اور آخر کچھ عرصہ کے بعد اُس کے پائوں میں کھڑا ہونے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اُس کا اپنے پائوں پر کھڑا ہونا کسی ایک حرکت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی پہلی تمام حرکتوں کا ایک مجموعی نتیجہ ہوتا ہے۔
انسانی دماغ کی حیرت انگیز وُسعت
یہی حال حافظہ کی قوت کا ہے ہم ایک بچہ کو بتاتے ہیں کہ یہ چیز جو تم کھا رہے ہو اسے روٹی
کہتے ہیں۔ اب اگر دس سال کے بعد بھی اس سے پوچھو کہ اس چیز کا کیا نام ہے تو وہ فوراً کہہ دیگا کہ روٹی۔ یہ چیز اس کے دماغ میں کس نے محفوظ رکھی ہے صرف اللہ تعالیٰ نے اور پھر یہ دماغ کے اندر کتنی بڑی لائبریری ہے جس میں لاکھوں لاکھ الفاظ سالہا سال سے محفوظ چلے آتے ہیں اور جب بھی کسی لفظ کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، ہمارے دماغ کا لائبریرین فوراً اس لفظ کو نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ برٹش میوزیم (BRITISH MUSEUM)میں تین لاکھ کتابیں محفوظ ہیں اور وہ اس میوزیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف دیکھو کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اور جاہل سے جاہل انسان کے دماغ میں بھی اُس نے پچاس لاکھ سوراخ بنا رکھے ہیں جن میں ہر فقرہ اور ہر لفظ اور ہر زبر اورہر زیر کو محفوظ رکھنے کی الگ الگ الماری ہے اور جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے فوراً بِلا کسی توقّف اور تأخیر کے وہ چیز ہمارے سامنے لا کر پیش کر دیتا ہے۔ دنیا کی لائبریریوں میں تو ایک ایک الماری میں سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں مگر یہاں ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کے لئے ایک ایک سیل موجود ہے۔ وہ جب بھی کوئی لفظ سیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فوراً اُٹھا کر دماغ کی کوٹھڑی میں محفوظ کر دیتاہے۔ پھر باہر تو لائبریریوں میں جو کام کرنے والے رکھے جاتے ہیں ان کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگریہاں خداتعالیٰ کی طرف سے مقررکئے ہوئے نوکر موجود ہیں جو تم سے کوئی تنخواہ طلب نہیں کرتے۔ تمہارے سامنے روٹی آتی ہے تو جھٹ لائبریرین تمہارے دماغ کے سوراخ میں سے روٹی کا لفظ نکال کر تمہارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ پانی آتا ہے تو پانی کا لفظ تمہارے سامنے آجاتا ہے اسی طرح ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ جو تمہاری زبان پر جاری ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ فرشتے رات اور دن مسلسل کام کر رہے ہیں۔ گویا ساری حکومتِ امریکہ کا اتنا انتظام نہیں جتنا ایک جاہل سے جاہل آدمی کے دماغ میں خداتعالیٰ نے انتظام قائم کیا ہوا ہے۔
دُنیوی حکومتوں کی احسان فراموشی
پھر دُنیوی حکومتیں وقت پر خدمت لے لیتی ہیں لیکن بعد میں بھول جاتی ہیں اور انہیں خیال بھی نہیں
رہتا کہ فلاں شخص نے مصیبت اور تکلیف میں ہماری خدمت سرانجام دی تھی۔ ہمارے ایک دوست ہیں مجھے ہمیشہ ان پر ہنسی آیا کرتی ہے لیکن ان کے استقلال کو دیکھ کر تعجب بھی آتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ جنگ میں کچھ رنگروٹ دیئے تھے افسروں نے انہیں خوب شاباش دی اور انہیں یہ امید پیدا ہو گئی کہ جنگ کے خاتمہ پر میری اِس خدمت کے بدلہ مجھے انعام کے طور پر کوئی زمین دیدی جائے گی جب جنگ ختم ہو گئی اور وہ کسی افسر سے ملنے کے لئے جاتے تو بعض دفعہ پیغام آجاتا کہ ہمیں ملنے کی فُرصت نہیں اور بعض دفعہ یہ کہدیا جاتا کہ صاحب بہادر اندر نہیں ہیں۔ مگر آدمی ہمت والے تھے انہوں نے چِٹھیاں لکھتے لکھتے وائسرائے تک معاملہ پہنچا دیا۔ وائسرائے نے اُن کی درخواست پر لکھا ڈیفنس سیکرٹری فوراً کارروائی کرے۔ ڈیفنس سیکرٹری نے وہ درخواست گورنر کو بھجوا دی۔ گورنر نے کمشنر کے پاس بھجوا دی کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا دی۔ ڈپٹی کمشنر نے ریوینیو آفیسر کے پاس پہنچا دی اور معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہا۔ انہوں نے پھر اپنی درخواستیں نیچے سے اوپر پہنچانی شروع کیں اور افسروں نے پھر اسی طرح ان کی درخواستیں اوپر سے نیچے بھجوانی شروع کر دیں۔ غرض اسی تگ و دو میں ان کے کئی سال گزر گئے مگر انہیں مربع آج تک نہیں ملا بلکہ سیب کا مربّہ بھی نہیں ملا۔ مگر اس گورنمنٹ کو دیکھو کہ یہ بُھولتی نہیں بچپن میں ایک لفظ سیکھا جاتا ہے اور بڑے ہو کر برابر وہ سیکھا ہؤا یاد رہتا ہے یہ کبھی نہیں ہؤا کہ کوئی چیز سیکھی ہوئی ہو اور پھر وہ دماغ کے کسی گوشے میں محفوظ نہ رہے بلکہ اس حفاظت کا یہ حال ہے کہ فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دَورے پڑنے شروع ہوئے جب اُسے دَورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع کر دیتی۔ وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی۔ جب دَورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے شور مچا دیا کہ اب تو جِنّ ثابت ہو گئے۔ یہ لڑکی تو جرمن زبان نہیں جانتی یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جِنّ سوار ہے۔ آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا۔ جب اُس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہؤا کہ جب یہ لڑکی دو اڑھائی سال کی تھی تو اُس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی۔ جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تھا تو یہ لڑکی اُس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی۔ جب اُسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اسے معلوم ہؤا کہ وہ جرمن پادری اس وقت سپین میں ہے۔ سپین پہنچنے پر اسے معلوم ہؤا کہ وہ پادری ریٹائر ہو کر جرمن چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمن پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہؤا کہ وہ پادری مر گیا ہے۔ مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پُرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں۔ گھر والوں نے تلاش کرکے اسے بعض کاغذات دیئے اور جب اس نے ان کاغذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہؤا کہ وہ دعائیں جو بیہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی اس پادری کی سرمن تھی۔ اب دیکھو! دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں۔
بچہ کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کی حکمت
یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی
مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو تو فوراً اُس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہو۔ یورپ کے مدبّرین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پُرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سَو سال پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آگیا ہے اور اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے۔
دنیا کا ذرّہ ذرّہ خداتعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے
پھر فرماتا ہے یُسَبِّحُ لَہٗ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ دنیا کا ذرّہ ذرّہ گواہی دیتا ہے
کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابلِ اعتراض نظر آئیں گی لیکن جب بھی غور کیا جائے گا انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پُرحکمت ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی مُلّا دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا سا حلوہ کدّو لگا ہؤا ہے۔ وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کدّو لگا ہؤا ہو۔ اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا۔ سویا ہؤا تھا کہ اچانک ایک آم ٹوٹا اور زور سے اُس کے سر پر آلگا۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا! مجھے معاف فرما اب تیری حکمت میری سمجھ میں آگئی ہے اگر اتنی دُور سے حلوہ کدّو میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا۔ غرض اس عالَم کا ذرّہ ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔ دنیا میں ہزاروں نہیں لاکھوں قسم کے جراثیم پائے جاتے ہیں اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیڑوں کو بِلا وجہ پیدا کر دیا ہے مگر سائنس کی ترقی پر ثابت ہؤا ہے کہ دنیا کا ہر کیڑا کسی اور کیڑے کے زہر کو مارنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کوئی کیڑا بھی ایسا نہیں جو مفید کام نہ کر رہاہو۔ کئی لاکھ کیڑوں کے متعلق یہ تحقیق کی جاچکی ہے اور علمِ حیوانات والوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر کیڑا کوئی نہ کوئی مفید کا م کر رہا ہے اور کسی نہ کسی زہریلے مادے کو تباہ کر نے میں اس کا دخل ہے۔
پھر فرماتا ہے وَھُوَا لْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ وہ خدا غالب ہے اس کے فیصلہ کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔ دُنیوی بادشاہتیں بدل جاتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے فیصلے بھی بدل جاتے ہیں اور لوگوں کی گزشتہ خدمات پر پانی پھر جاتا ہے۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کے دَوران میں لوگوں کو مربعے دیئے تھے مگر اب ایجیٹیشن(AGITATION ) شروع ہے کہ بڑی بڑی زمینیں اور جاگیریں واپس لے لینی چاہئیں۔ اُس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ شاید قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا مگر حکومت بدلی تو ساتھ ہی اس کے فیصلے بھی بدل گئے وہاں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَاھُوَکَائِنٌ۳۵؎ کا قانون ہے کہ جو کچھ خداتعالیٰ نے کہہ دیا سو کہہ دیا وہ قیامت تک بدل نہیں سکتا۔ پھر وہ حکیم ہے اور اُس کے ہرحُکم میں کوئی نہ کوئی حکمت کام کر رہی ہے کوئی امر چٹّی کا موجب نہیں جیسا کہ دُنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے۔
آسمانی علوم تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں
پھر فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۳۶؎
دنیا میں تو کہا جاتا ہے کہ نوکری ملنے کے لئے بی۔اے ہونا ضروری ہے یا بی۔ایس۔سی ہونا ضروری ہے یا ایم۔اے ہو تب ہم اسے ملازم رکھ سکتے ہیں، یا ایم۔ایس۔سی کی ڈگری ضروری ہے مگر یہاں یہ بات نہیں، فرماتا ہے تم تقویٰ اختیار کرو ہم اُسی وقت تمہیں اپنے پاس سے علوم سکھانے شروع کر دیں گے۔ دنیا کے ملاز موں کو تو علم سیکھ کر نوکری ملتی ہے بی۔ایس۔سی کی ڈگری حاصل کرنا پہلے ضروری ہے اور اس کے بعد ملازمت ملتی ہے وہ بھی اپنے اندر محدود ترقی رکھتی ہے مگر یہ الٰہی گورنمنٹ ساتھ ہی ساتھ ہر ترقی پر مزید علم بخشتی ہے اور جب بھی کوئی شخص تقویٰ میں آگے قدم بڑھاتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی اُس پر پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں گویا اس علم کے لئے بی۔ایس۔سی ہونا ضروری نہیں صرف تقویٰ میں ترقی کرنا ضروری ہے۔ جُوں جُوں کوئی شخص تقویٰ میں ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اور اُسے پہلے سے زیادہ ڈگریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔
عالَمِ روحانی میں سب سے بڑی ڈگری
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی
چنانچہ دیکھ لو اِس عالَمِ روحانی میں سب سے بڑی ڈگری اس شخص کو ملی جس کے متعلق خود خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ اُمّی اور اَن پڑھ ہے۔۳۷؎ دُنیوی حکومتوں
میں ایک اُمّی کاکوئی مقام نہیں مگر خداتعالیٰ کا دربار دیکھو کہ اُس نے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ایک اُمّی کا ہی انتخاب کیا اور فرمایا کہ ہم اِس کو وہ علم سکھائیں گے کہ دنیا کے بڑے بڑے آدمی بھی اس کے سامنے اپنے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔
دیدارِ عام کی دعوت
دیوانِ عام کی دوسری غرض لوگوں کو بادشاہ کا دیدارِ عام دینا ہوتی ہے۔ بادشاہ دربار میں آکر بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے دیدار سے
لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو بادشاہ کے دیکھنے سے کیا مل جاتا ہے؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا وہ دیکھتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر اِس دربارِ عام میں جو دیدارِ عام کرایا جاتا ہے اِس میں یہ خوبی ہے کہ اِدھر انسان کو دیدار حاصل ہؤا اور اُدھر اس پر چودہ طبق کُھل گئے اور پھر یہ دیدار وہ ہے جس سے ہر شخص حصہ لے سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ۳۸؎
فرماتا ہے ہم یہ جانتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں ہمارے دیدار کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنی کوشش اور جدوجہد سے ہمارے دیدار سے فیضیاب ہو سکو اس لئے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خود تم پر جلوہ گر ہوتے ہیں تاکہ تم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو ہمارا دیدار نہ کر سکے۔
دُنیوی درباروں کے ناقص انتظامات
دنیا میں تو جب دیوانِ عام منعقد کیا جاتا ہے تو اوّل تو سب لوگوں کو اس دربار میں بیٹھنے
کے لئیجگہ ہی نہیں ملتی صرف چند سَو آدمی اندر بیٹھ سکتے ہیں مثلاً دہلی میں درِبار عام منعقد ہؤا تو دہلی کے رہنے والے لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر دربار کے اندر بیٹھنے والے چار پانچ سَو سے زیادہ نہ تھے۔
دوسرا طریق بادشاہوں نے یہ مقرر کیا ہؤا ہوتا ہے کہ وہ جھروکے میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ اردگردکے میدانوں میں جمع ہوکر ان کا دیدار کرتے ہیں مگر اس طرح بھی زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ہزار آدمی دیدار کر سکتے ہیں اور چالیس پچاس ہزار آدمی جو ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتا تھا وہ بھی ایسا ہوتا تھا جو اچھا تندرست اور مضبوط ہو ورنہ اس دیدارِ عام کے باوجود بیمار وہاں نہیں جاسکتا تھا۔ لولا، لنگڑا وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا پولیس والا جو کسی چوراہے پر آن ڈیوٹی ہوتا تھا وہ وہاں نہیں جا سکتا تھا اور پھر اگر شہر والے وہاں چلے بھی جاتے تو دو دو چار چار سَو میل کے علاقہ میں رہنے والے لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہاری اس خواہش کو دیکھا اور ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم تمہاری اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے چنانچہ گو تمہاری آنکھیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتیں مگر خدا خود چل کر تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے گا اور وہ کیوں ایسا کرے گا اس لئے کہ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ لطیف کے ایک معنی باریک اور پوشیدہ ہونے کے اور اَلْبَرُّ بِعِبَادِہٖ اَلْمُحْسِنُ اِلٰی فُلْقِہٖ۳۹؎کے بھی ہیں یعنی اپنے بندوں سے بہت نیکی کرنے والا اور ان کی ضرورتوں کے مطابق سامان مہیا کرنے والا۔ فرماتا ہے ہم کیوں تمہارے پاس چل کر آئیں گے؟ اس لئے آئیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بندوں کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں اور اس لئے ہماری صفت یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کے ساتھ حُسن سلوک کرتے ہیں اور ان پر اپنے احسانات کی بارش نازل کرتے ہیں اور پھر اس لئے ہم خود چل کر تمہارے پاس آئیں گے کہ ہم خَبِیْرٌ ہیں یعنی ہم اس بات سے واقف ہیں کہ تم خود اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ وہ دیدار ہے، جس کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے دیدار کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے۔
صفاتِ الٰہیہ پر بحث
پھر عملاً صفاتِ الٰہیہ کو جس طرح قرآن کریم نے ظاہر کیا ہے دنیا کی کسی اور کتاب نے ظاہر نہیں کیا، اس نے صفاتِ الٰہیہ پر ایسی تفصیل
کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ کو اس نے انسان کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ مسئلہ توحید کو ہی لے لو اس سبق کو اس نے اس طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے کہ آج ساری دنیا اس بات پر مجبور ہے کہ خواہ وہ عملاً شرک ہی کا ارتکاب کر رہی ہو پھر بھی زبان سے وہ یہی کہے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
خدا اور اُس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں
دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی فریاد
بادشاہ تک براہِ راست پہنچا سکیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے بھی جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دیوانِ عام کی اِس غرض کو پورا کیا ۔ تمام مذاہب کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے بندے میں کوئی نہ کوئی واسطہ ہونا چاہئے مگر اسلام کہتا ہے کہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔ نبی کتنی بڑی شان رکھنے والا وجود ہوتا ہے مگر خواہ کوئی بڑے سے بڑا نبی ہو پھر بھی وہ خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ نہیں بن سکتا۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ہے احسان یہ ہے تو نماز اس یقین اور وثوق کے ساتھ پڑھے کہ گویا تو خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام تمہیں حاصل نہیں تو تمہیں کم سے کم یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے ۴۰؎ اور جب کسی بندے کو خدا دیکھ رہا ہو تو اس کی فریاد کے پہنچنے میں کوئی روک ہی کیا ہو سکتی ہے۔ غرض تمام مذاہب ایک واسطہ کے قائل ہیں مگر اسلام اس چیز کا قائل نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو وہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر تعریف کرتا ہے کہ فرماتا ہے یہ قیامت تک کے لئے گورنر جنرل مقرر کئے گئے ہیں مگر دوسری طرف جہاں واسطے کا سوال آتا ہے وہاں فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۴۱؎
یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں توتمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میںاور تم میں کوئی فرق نہیں۔ پس اسلام کے نزدیک کسی کو خدا اور بندہ کے درمیان کھڑے ہونے کا حق حاصل نہیں۔
الٰہی دربار میں مظلوموں کی فریاد سننے کا طریق
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے فریاد سننے کا طریق کیا مقرر کیا
ہؤا ہے وہ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْئَ ۴۲؎
یعنی ان سے پوچھو کہ کیا کوئی ہمارے جیسا دربار منعقد کرنے والا دنیا میں کوئی بادشاہ ہے؟ حکومتیں دربارِ عام منعقد کرتی ہیں تو بادشاہ اعلان کرتے ہیں کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہؤا ہو وہ آئے اور ہمارے دربار میں فریاد کرے مگر دنیا میں لوگ اگر فریاد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے افسر اُن سے کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے خلاف شکایت کی تو ہم تمہاری زبان گدّی سے کھینچ لینگے۔ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے فریاد کی تو بعد میں وہی افسر مجھے اور رنگ میں مصیبتوں میں مبتلاء کر دیں گے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ رات کی تاریکی سایہ ڈالے ہوئے ہے، مصیبت زدہ بندہ اپنے لحاف میں پڑا آہیں بھر رہا ہے، دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے۔ کوئی افسر اسے دھمکا نہیں سکتا، کوئی افسر اسے فریاد سے روک نہیں سکتا وہ لحاف میں لیٹے لیٹے خداتعالیٰ کے دربار میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے تو میری طرف سے آپ اس کا بدلہ لے۔ ظالم نہیں جانتا کہ اس کے خلاف بادشاہ تک شکایت پہنچ چکی ہے، وہ نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا نہ اس کے دل پر کوئی خیال گزرتا ہے مگر مظلوم کی فریاد خداتعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہے۔ وہ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْئَ جب وہ اکیلے خداتعالیٰ کے حضور مضطر ہو کر فریاد کرتا ہے۔ جب کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا، اس وقت کون اس کی مدد کے لئے آتا ہے۔ دنیا غافل ہوتی ہے مگر خدا اپنے بندے کی مدد سے غافل نہیں ہوتا وہ خود آتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندے! میں تیری مدد کو آگیا ہوں اور پھر اس سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے کہ اُس کا ہر دکھ دُور ہو جاتا ہے۔
خداتعالیٰ کی عطا کا بیمثال نمونہ
دیوانِ عام کی چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں مگر ظاہر ہے کہ ہر شخص نہ
دربارِ عام میں پہنچ سکتا ہے اور نہ بادشاہ اتنا وقت دے سکتا ہے۔ دس بیس کروڑ رعایا ہو تو بادشاہ کے پاس اتنا وقت کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ ہر ایک کے مطالبہ کو سُنے اور اس کے بارہ میں ضروری کارروائی کرے۔ پھر اگر مطالبات پیش کرنے کا موقع بھی ملے تو جو کچھ دل میں ہوتاہے وہ سب کچھ انسان مانگ نہیں سکتا۔ اول تو وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں افسر خفا نہ ہو جائے اور پھر انہیں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے دل کی بات کہہ دی تو نہ معلوم بادشاہ اس کو مانے یا نہ مانے مگر اِس الٰہی دربار کی عجیب شان ہے اس دربارِ عام کے بارہ میں فرماتاہے یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ فَبِاَیِّ اٰلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ۴۳؎
فرماتا ہے آسمان کا رہنے والا ہو یا زمین کا رہنے والا، ہر ایک اپنی ضرورت خداتعالیٰ سے مانگتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا آدمی کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے؟ اس کے متعلق فرماتا ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ نہ صرف ہر مانگنے والے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ ہر روز وہ نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ پہلے بندہ کہتا ہے خدایا مجھے فلاں چیز چاہئے اور خداتعالیٰ اسے وہ چیز دے دیتا ہے۔ پھر وہ اور چیز مانگتا ہے اور خداتعالیٰ اسے وہ چیز بھی دے دیتا ہے اس طرح وہ مانگتا چلا جاتا ہے اور خداتعالیٰ اسے دیتا چلا جاتا ہے۔
خداتعالیٰ کی ہر روز ایک نئی شان سے جلوہ گری
آخر مانگتے مانگتے اسے خیال آتا ہے کہ اب میں کیا مانگوں؟میںنے
تو اس سے بہت کچھ مانگ لیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے آج تو ہم ایک نئی شان میں تمہارے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں پچھلی ضرورتوں کا خیال جانے دو اب ہم سے اور مانگو ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ پہلے تم نے اس شان کو دیکھا تھاجو گزر چکی اب تم ہماری اس نئی شان کا مشاہدہ کرو اور جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مجھے سے مانگو۔ غرض یہ دربارِ عام وہ ہے جس میں سب مانگتے ہیں ہر روز مانگتے ہیں اور ہر روز انہیں نئے انعام ملتے ہیں دُنیوی اور اُخروی ترقیات کا ایک تسلسل جاری ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔
علومِ قرآنیہ کے انکشاف کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا
کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم تو یہ کہتاہے
کہ خداتعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں دنیا کے سامنے آتا ہے اور ہر روز وہ نیا احسان دنیا پر کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر آج وہی مسلمان جن کی کتاب میں یہ تعلیم موجود تھی جو دنیا کی کسی اورکتاب میں موجود نہیں اِس قرآن کو ماننے والا مولوی یہ کہتاہے کہ رازیؒ کے بعد اب کوئی نئی تفسیر نہیں ہو سکتی، ابن حیان جو مضمون بیان کر چکا اس پر اب اور کوئی مضمون بڑھایا نہیں جاسکتا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان بزرگوں کی وفات کے بعد اب نَعُوْذُبِاللّٰہ خداتعالیٰ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے جو معارف اورعلوم وہ دے چکا سو دے چکا اب معرفت کی کوئی نئی بات بنی نوع انسان پر نہیں کُھل سکتی، روحانیت کا کوئی نیا راز بنی نوع انسان پر منکشف نہیں ہو سکتا۔ گویا وہ دروازہ جسے خداتعالیٰ نے کُھلا قرار دیا تھا اُسے اِن مولویوں نے بند سمجھ لیا اور وہ روحانی انعامات جن کے متواتر نزول کی اُس نے بشارت دی تھی ان کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ختم ہو چکے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہکُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ ہم توہر روز ایک نئے روپ میں آتے ہیں اور نئی شان کے ساتھ نئے انعامات بنی نوع پر نازل کرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس قرآن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے اسی قرآن کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی کوئی نئی تفسیر کرتا ہے وہ کُفر اور اِلحاد کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ یہ کُفر نہیں بلکہ یہ خداتعالیٰ کی کتاب کو ایک زندہ کتاب ثابت کرنے والی خوبی ہے، یہ اس دعویٰ کا ایک عملی ثبوت ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ ہم ہر روز ایک نئی شان میں دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
قرآن ایک زندہ کتاب ہے
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جبکہ دُنیوی انعامات بہت بڑھ چکے ہیں ضرورت تھی کہ اسی طرح روحانی انعامات
کی بھی بارش ہوتی تاکہ دنیا کی طرف راغب لوگ دین داروں کو شرمندہ نہ کرسکتے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں پھر ہمارے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور ہم دنیا میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے۔ ہماری کتاب ایک زندہ کتاب ہے اور وہ اب بھی اپنے روحانی انعامات جس کو چاہے دے سکتا ہے ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگ اُس سے مانگیں۔ دینے والا نہیں تھکا تو مانگنے والے اس سے کیوں مایوس ہوں۔
بارگاہِ رب العزّت میں پُکار
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ
وہ نور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم نے پایا ہے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھ کر اِس بات پر فخر کر سکیں کہ ہم نے شیطان کی حکومت مٹا کر دنیا میں خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم کر دی ہے۔ اِسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری جماعت کے بیسیوں مبلّغین اِس وقت غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی کامیابی کے لئے دُعائیں کی جائیں۔ نہ صرف اس لئے کہ وہ اسلام کی اشاعت کا فرض ادا کر رہے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی ملک کہلاتا ہے۔ ہم سے لوگ خواہ کتنے بھی اختلاف رکھتے ہوں وہ منہ سے یہی کہتے ہیں کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اورمنہ سے یہی کہتے ہیں کہ اسلامی احکام پر ہی عمل کرنا چاہئے۔لیکن اِن مبلّغین کے اِردگِرد وہ لوگ بستے ہیں جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے قائل نہیں، ساری طرف سے انہیں یہی آوازیں آتی ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ قرآن جھوٹا ہے ، اسلام جھوٹا ہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں پس ذہنی لحاظ سے جو اطمینان کی کیفیت آپ لوگوں کو میسّر ہے وہ ان مبلغوں کو میسّر نہیں۔ پس اُن کا حق ہے کہ آپ لوگ انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں میں ان کی غفلتوں کا انکار نہیں کرتا، لیکن اُن کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض دفعہ ان کے جانے کے بعد اُن کے گھروں میں بچے پیدا ہوئے ہیں اور وہ بڑے ہو کر اپنی مائوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ابّا کی شکل کیسی ہے؟ اتنی بڑی قربانی کے بعد آپ لوگ خود ہی غور کریں کہ اُنکا ہم پر کتنا بڑا حق ہے پس چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ ہر جگہ اسلام کی اشاعت کے راستے کھولے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے۔ اس طرح ہماری جماعت کے باقی افرادکے قلوب کو بھی اس کام کی اہمیت سمجھنے کیلئے کھول دے اور تبلیغ کے متعلق اُن کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا فرمائے۔ اب دنیا پر ایسا وقت آچکا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک ایک فرد کو بیدار ہو جانا چاہئے اور ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ لاکھوں لاکھ لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو تبلیغ کا ایسا جوش عطا فرمائے جو کبھی مِٹنے والا نہ ہو اور ایسا جنون بخشے جو کبھی دبنے والا نہ ہو اور جس کے نتیجہ میںفوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے شروع ہو جائیں۔
دُعائیں کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں اپنا قُرب نصیب کرے
اسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ
اپنے فضل سے ہمیں اپنا قُرب نصیب فرمائے کیونکہ یہی ایک غرض ہے جس کے لئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں اگر ہمیں ذاتی طور پر خداتعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں تو ہمیں اس سے کیا کہ اِس زمانہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خواہ کتنا بڑا مسیح اور مہدی ہمارے لئے بھیج دیا ہو، خواہ کتنے بڑے مدارج کے دروازے اُس نے ہمارے لئے کھول دیئے ہوں اگر ہم خود اِن دروازوں کے اندر داخل نہیں ہوئے تو ہماری کیا زندگی ہے۔ اگر واقعہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنی برکتیں نازل کر دی ہیں تو ہماری اِس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ دروازے تو کُھلے ہوں مگرہم اس کے قُرب سے محروم رہیں۔
پس دعائیں کرو کہ خداتعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق ہمارے دلوں میں اتنا پیدا ہو کہ دنیا کی کوئی چیز اسکو چُھپا نہ سکے۔ ہم خدا کے ہو جائیں اور خداہمارا ہو جائے۔ ہم خدا میں ہو جائیں اور خدا ہم میں ہو جائے۔ ہم خدا کو دیکھیں اور دنیا ہم میں خدا کو دیکھے۔ یہی چیزیں ہیں جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہؤا کرتی ہیں اگر یہ چیز نہیں تو پھر ہماری زندگی زندگی نہیں بلکہ ہم وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی۴۴؎ کے مصداق ہیں پس آئو ان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ، اپنی کمزوریوں کے دُورہونے کے لئے اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے اور دشمنوں کی ہدایت اور ان کی راہنمائی کے لئے اور یہ کہ اگر ہمارا اس کی راہ میں مرنا ہی ضروری ہے تو وہ اپنے فضل سے ہمارے د لوں کو وہ طاقت بخشے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں اور تکلیفیں خداتعالیٰ کے راستہ میں ہمیں ایسی ہی خوبصورت نظر آئیں جیسے گلاب کا پُھول، ہماری زندگیاں بدل جائیں ہم میں جوشِ عمل پیداہو جائے اورہمارا رسمی ایمان حقیقی ایمان کی شکل اختیار کر لے۔ خدا تعالیٰ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے اور ہمیں وہ قوتِ عمل عطا کرے جس سے دنیا کا نقشہ بدل جائے۔ وہ آپ آسمان سے اُتر آئے اورہمیں اپنی گود میں اُٹھا لے اور ہمیں اپنی رحمت اور شفقت کے دامن میں چھپا لے اور ہمیں اپنی رضا کا وارث کرے۔
دُعائیں کرو کہ تثلیث کا بُت ہمارے
ہاتھوں سے پاش پاش ہو جائے
اِسی طرح قادیان اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور ہمارا خدا اُن کا آپ حافظ و ناصر ہو اور اُن کو ایسی ترقی
عطا فرمائے کہ وہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ہو جائیں۔ گویا اِدھر ہم ترقی کر رہے ہوں اور اُدھر وہ ترقی کر رہے ہوں اور جیسے نوحؑ کے زمانہ میں ہؤاکہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی چشمے پُھوٹ پڑے اور پھر دونوں پانی آپس میں مل گئے اورکُفرو شیطنت کی دنیا ان پانیوں سے تباہ ہو گئی اس طرح خدا اِدھر ہمیں ترقی عطا فرمائے اور اُدھر اُن کو ترقی دیتا چلا جائے اور پھر یہ ترقیات ساری دنیا پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام اور احمدیت کو غلبہ میسّر آجائے۔ عیسائیت نے بہت لمبی عمر پائی ہے اب ہمیں خدا سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اس ضلالت کو ہمارے ہاتھوں سے تباہ کرے اور یہ بُت ہمارے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جس طرح سومنات کا بُت محمود غزنوی کے ہاتھ سے توڑا گیا تھا اِسی طرح خدا اب تثلیث کا بُت میرے ہاتھوں سے پاش پاش کرے اور وہ دنیا میں دوبارہ کبھی غلبہ اور عروج حاصل نہ کرے۔ اللّٰہُمَّ آمِیْنَ۔
۱؎ المزّمّل: ۱۶ تا ۱۹ ۲؎ الاعراف : ۱۵۹ ۳؎ سبا : ۲۹ تا ۳۱
۴؎ السّجدۃ : ۶
۵؎ لوقا باب۱۳ آیت۳۵
۶؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیرسورۃ الجمعۃ باب قولہٖ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ … الخ
۷؎ الزمر : ۲۴ ۸؎ الواقعۃ :۷۹
۹؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۰؎
۱۱؎
۱۲؎ الحجر : ۳ ۱۳؎ المائدہ : ۴
۱۴؎ بخا ری کتاب التفسیر تفسیرسورۃ المائدہ باب قولِہٖ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔
۱۵؎
۱۶؎ اٰل عمران : ۳۲ ۱۷؎ بنی اسرائیل : ۲۱ ۱۸؎ القلم :۵
۱۹؎ اٰل عمران : ۱۹۷،۱۹۸ ۲۰؎ فاطر : ۴۳،۴۴
۲۱؎ بخاری کتاب الجھاد والسیرباب مَنْ یَّنْکُبُ اَوْیُطْعَنُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، سیرت ابن ہشام
جلد۲ صفحہ۱۲۷ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۲۲؎ بنی اسرائیل : ۸۲
۲۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ۱۷مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۲۴؎ الانفال : ۴۳ ۲۵؎ الزمر : ۵۴،۵۵
۲۶؎ مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھلِ الْجَنَّۃِ منزلۃ فِیْھَا
۲۷؎ الانعام:۶۴،۶۵
۲۸؎ الصّٰفّٰت : ۷ تا ۱۱
۲۹؎ مشکوۃ کتاب الفتن باب مناقب الصحابۃ
۳۰؎ العنکبوت : ۷۰ ۳۱؎ البلد : ۱۱ ۳۲؎ ھود : ۷
۳۳؎ المؤمن : ۶۵ ۳۴؎ الحشر : ۲۵
۳۵؎ المعجم الکبیرجلد۱۱صفحہ۲۲۳ مطبوعہ بغداد ۱۹۸۰ء
۳۶؎ البقرہ : ۲۸۳ ۳۷؎ الاعراف:۱۵۸ ۳۸؎ الانعام:۱۰۴
۳۹؎ اقرب الموارد جلد۲ صفحہ۱۱۴۴ مطبوعہ بیروت۱۸۸۹ء
۴۰؎ بخاری کتاب الایمان باب سُؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
۴۱؎ الکھف : ۱۱۱ ۴۲؎ النمل : ۶۳ ۴۳؎ الرحمٰن : ۳۰،۳۱
۴۴؎ بنی اسرائیل : ۷۳



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۶)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ۲۸دسمبر ۱۹۵۱ء برموقع جلسہ سا لانہ ربوہ)
عالمِ روحانی کا دیوانِ خاص
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
مَیں نے گزشتہ سال اسلام کے دیوانِ عام کے متعلق تقریر کی تھی اور بتایا تھا کہ دلّی کی سیر میں ہم نے دیوانِ عام دیکھے جو آج اُجڑے ہوئے نظر آتے تھے۔ جہاں انگریزوں کے چپڑاسی تو بڑی شان سے پھرتے تھے اور مُغلوں کی نسلیں چُھپتی پِھرتی اور نظریں بچاتی پِھرتی تھیں اور مَیں نے بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں ایک دیوانِ عام کا ذکرآتا ہے جو کبھی غیر آباد نہیںہوتا،جو کبھی دشمن کے قبضہ میں نہیں جاتا اور جس کو دیکھ کر مؤمنوں کے دلوں میں کبھی بھی حسرت پیدا نہیں ہوتی۔ آج میں اس مضمون کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے دیوانِ عام ہی نہیں بلکہ ایک دیوانِ خاص بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے دیوانِ خاص کے مقابلہ میں ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے دیوانِ خاص اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے جتنی ایک زندہ ہاتھی کے مقابلہ میں اُن مٹی کے بنے ہوئے ہاتھیوں کی حیثیت ہوتی ہے جنہیںکھلونوں کے طور پر خانہ بدوش عورتیں بیچتی پھرتی ہیں۔
دیوانِ خاص کی اغراض
دیوانِ خاص کیا چیز تھی؟ دیوانِ خاص شاہی قلعوں میںایک نہایت اعلیٰ درجہ کی عمارت یا وسیع ہال ہؤا کرتا تھا
جوگویا خاص ملاقات کا کمر ہ ہوتا تھا اس میں بادشاہ بیٹھتے تھے، شہزادے بیٹھتے تھے اور وہ وزرائ، امراء جن سے امورِ مملکت کے متعلق مشورے لئے جاتے تھے بیٹھتے تھے عام لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح بادشاہ اگر کسی کو گورنر مقرر کرتے یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے یا اور کسی بڑے عہدہ پر مقرر کرتے تو ان کو وہاںبُلوایا جاتا تھا اور بادشاہ کی طرف سے وزراء اور امراء کے سامنے اعلان کیا جاتا تھا کہ ہم فلاں شخص کو گورنر مقرر کرتے ہیں یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے ہیں یا جرنیل مقرر کرتے ہیں یا فلاں بڑے عہدہ پر مقرر کرتے ہیں۔یا اگر کوئی خادمِ قوم یا خادمِ مُلک کوئی بڑی بھاری خدمت بجالاتا تو اس کو بلایا جاتا اور ان سب وزراء اورا مراء کے سامنے اس کا اعزاز واکرام کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کو یہ خلعت دی جاتی ہے یا اس کی عزت افزائی میں اسے یہ انعام دیا جاتا ہے ۔ یا اہم ملکی مسائل پیش ہوتے اور بادشاہ ضروری سمجھتا کہ وزراء سے مشورہ لینا چاہئے تو اس مجلس میں جو لوگ مقر رہ اوقات پر جمع ہوتے تھے اُن کے سامنے ان امور کو پیش کیا جاتا اور درباری اپنی اپنی رائے اور مشورہ دیتے یا جس جس سے پوچھا جاتا وہ رائے دیتا اور اس کے بعد بادشاہ کی طرف سے ایک فیصلہ صادر ہو جاتا ۔
گویا’’دیوانِ خاص کے قیام کی چار اہم اغراض ہؤا کرتی تھیں۔
اوّل بادشاہ کااپنے وزراء کو اپنے قُرب میںجگہ دینا اور ان کا اعزاز کرنا یا مختلف مناصب پر اُن کا تقرر کرنا یا انہیں برطرف کرنا۔
دوم بادشاہ کا ان سے خاص امور کے بارہ میں مشورہ لینا اور خاص امور کے بارہ میں مشورہ دینا جن سے وہ اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کر سکیں۔
سوم اپنی مشکلات میںان سے مدد لینا اور اُن کی مشکلات میں اُن کو مدد دینے کے وعدے کرنا۔
چہارم ان کے اچھے کاموں پر انعام واکرام دینا اور بُرے کامو ں پر سرزنش کرنا۔ یہ وہ چار اغراض ہیں جن کے ماتحت ’’دیوان خاص‘‘ قائم کئے جاتے ہیں۔
دُنیوی بادشاہوں میں حقیقی محبت کا فُقدان
مگر مَیں نے دیکھا کہ بادشاہ جب اپنے درباریوں کو کوئی اعزاز دیتے تھیتو ان کا
اعزاز محض قانونی ہوتا تھا۔ چنانچہ پہلی بات تو یہی ہے کہ بادشاہ اپنی محبت کا اور اپنے تعلقات کا اور اپنے اخلاص کا تو اظہار کرتا تھا لیکن بادشاہ کو ان لوگوں سے حقیقی محبت نہیںہوتی تھی اس کی اصل محبت اپنے بیوی بچوں سے ہوتی تھی۔ یہ کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی شخص نے بڑی قربانی کی ہو اور اس نے اپنا تخت اُس کے سپرد کر دیا ہو یا اپنے اختیارات جو نیابت کے ہیں اُس کے سُپرد کر دئیے ہوں۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں اپنی اولاد کی طاقت کو مضبوط کروں اور اُن کے لئے راستہ صاف کروں گویا یہ خدمت کرنے والے لوگ ایک قسم کے اجیر ہوتے تھے۔
نمائشی انعامات اور خطابات
(۲) پھر بسا اوقات جو انعام ملتے تھے محض نمائشی ہوتے تھے اور خدمت کے مقابلہ میں ان کی کوئی
حیثیت نہیں ہوتی تھی۔مثلاً اپنے زمانہ کو ہی لے لو۔ ابھی انگریزوں کی یاد تازہ ہے وہ کہتے تھے کہ فلاں کو خطاب دیا جاتا ہے اب وہ ’’خان صاحب ‘‘ ہو گئے ہیں اور فلاں ’’خان بہادر ‘‘ ہو گئے ہیں ا ور حقیقت یہ ہوتی تھی کہ بسا اوقات خان بہادر صاحب کی چارپائی کے نیچے چوہا بھی ہلے تو اُن کی جان نکل جاتی تھی لیکن وہ خان بھی تھے اور بہادر بھی تھے۔ گویا بادشاہ ان کو ’’خان بہادر‘‘ تو بنا دیتا تھا لیکن حقیقتاً نہ وہ خان بنتے تھے اور نہ بہادر ہوتے تھے۔ یا مثلاً آجکل پٹھان بھی خان کہلاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانہء حکومت میں انہوں نے بڑے بڑے کام کئے تھے جن سے دنیا میں اُن کا شُہرہ ہؤا اور اُنہیں خطابِ عزّت کے طورپر خان صاحب کا نام دے دیاگیا۔چنانچہ اُس زمانہ میں جو بادشاہ ہوتے تھے یا نواب اور امراء ہوتے تھے اُن کی عظمت کی وجہ سے انہیں خان ہی کہا جاتاتھا۔ مغل بھی اپنے ابتدائی زمانہ میںخان کہلاتے تھے بلکہ بچپن میں جب مَیں اپنے شجرئہ نسب کو سُنتا تو میں حیران ہوتا تھا کہ پہلے کہا جاتا ہے فلاں خان، فلاں خان، فلاںخان اور پھر شروع ہو جاتا ہے فلاں بیگ، فلاں بیگ، فلاں بیگ۔ مَیں حیران ہوتا تھا کہ یہ خان کہاں سے آ گیا۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ خان ایک اعزاز کا لفظ تھا مگر آہستہ آہستہ اتنی کثرت سے قوم میں بڑے لوگ پیدا ہو ئے کہ اُن کی کثرت کی وجہ سے ساری قوم ہی خان کہلانے لگ گئی اور اب تک کہلاتی ہے۔ہر پٹھان جب تمہیں نظر آئے گا تم کہو گے خان صاحب بیٹھئے، خان صاحب تشریف لائیے، خان صاحب آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ غرض وہ خان کہلاتا ہے مگر وہ تو محض ایک تسلسل کے طور پر خان بن گیا ہے درحقیقت خوداُس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا، نہ اُس نے ذاتی طور پر کوئی ایسی قابلیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اُسے کوئی خاص مقامِ عزّت حاصل ہوتا لیکن انگریز کا بنایا ہؤا’’خان صاحب‘‘ بسا اوقات کسی جولاہے کی بیٹی مانگتا تو وہ کہتا تھا نہیں، ہم کُذاتوں کو نہیں دے سکتے۔ انگریز اُسے خان صاحب کہتا تھا اور ہمارے ملک کا جولاہا اسے کُذات کہتا تھا۔ یا اگر کوئی خان صاحب سید یا مغل یا پٹھان ہوتے تو وہ خان صاحب یا خان بہادر سمجھ کر اسے عزت نہیں دیتا تھا بلکہ سیدیا مغل یا پٹھان ہونے کی وجہ سے عزت دیتا تھا۔ گویا لوگ اس نسل کی وجہ سے یا اس رشتہ داری کی وجہ سے توعزت کرتے تھے جو اسے اپنے باپ دادا کی وجہ سے حاصل ہوتی تھی لیکن اس عزت کی وجہ سے جو اسے گورنر جنرل کی طرف سے ملتی تھی اسے اپنے خاندان کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے۔
انگریزی خطابات حاصل کرنے والوں کی کیفیت
پھر بعض کو اُس زمانہ میں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا جاتا تھا
اب’’سر‘‘کے معنے جناب کے ہیں لیکن حقیقتاًبعض ’’سر‘‘ایسے ذلیل ہوتے تھے اور ایسی پاجیانہ حرکتیں کرتے تھے کہ لوگ انہیںگالیاں دیتے تھے۔ پھر انگریز کے زمانہ میں خطاب ہوتے تھے سٹار آف انڈیا (Star of India) یا گرینڈ کراس آف انڈین ایمپائر (Grand Cross of Indian Empire) یعنی بڑی صلیب دیدی گئی لیکن بڑی صلیب لینے والے جو لوگ تھے ان میں سے کئی صلیب کے شدید دشمن ہوتے تھے۔کئی مسلمان جن کے دلوں میں غیرت ہوتی تھی اُن کا جی چاہتا تھا کہ موقع ملے تو صلیب کو توڑ ڈالیں۔ کہلاتے تھے وہ بڑی صلیب کے حامل لیکن ان کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ ہم چھوٹی صلیب کے بھی حامل نہیں ۔ یہ خطاب کیا ہؤا کہ جس کو خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کو ذلیل سمجھتا ہے، وہ اس کو حقیر سمجھتا ہے، وہ اس کو ناقابلِ اعتناء سمجھتا ہے، وہ اس کو قابلِ ہلاکت سمجھتا ہے۔ مغلوں کے زمانہ میں اعتماد الدولہ اورنظام الملک کے خطاب ملتے تھے لیکن وہی اعتماد الدولہ اور نظام الملک دوسرے دن فوج لے کر بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے آ جاتے تھے نہ دولت کا ان پرکوئی اعتماد ہوتا تھا، نہ ملک کے نظام کے ساتھ ان کی کوئی وابستگی ہوتی تھی۔ دیکھ لو نظام حیدر آباد کو نظام الملک کا خطاب حاصل تھا لیکن اورنگ زیب کے بعد اس نے ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا اور بعد میں انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اب بھی موجودہ نظام نے شروع میں ہندوئوں سے لڑنے کے لئے اپنی قوم کو اُبھارا اور اُکسایا جب قوم لڑنے کے لئے کھڑی ہو گئی تو اُس نے حکومت کو چٹھی لکھ دی کہ بندہ تو حضور کا غلام ہے یہ لوگ باغی ہو کر لڑائی کر رہے ہیں جس طرح ارشاد ہو کیا جائے گا۔
شہزادوں کی غدّاری
اسی طرح ان بادشاہوں کی اولاد بسا اوقات خوداپنے باپ کی وفات کی متمنی ہوتی تھی۔ باپ صاحب بیٹھے ہوئے اپنے وزیروں
سے کہتے تھے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے خاندان کے وفادار ثابت ہوں گے اور ہماری اور ہماری نسل کی بہی خواہی کریں گے۔ اور بیٹا پاس بیٹھا ہؤا اِس امید میں ہوتا تھا کہ رات کو موقع ملے تو کسی کی معرفت یا خود اسے قتل کر کے تخت پر بیٹھ جائے۔
درباریوں کی سازشیں
پھر اسی دربار میں جہاں بادشاہ کی طرف سے اعزاز مل رہا ہوتا تھا بسا اوقات جس کو اعزاز مل رہا ہوتا تھا وہ کسی بیگم یا شہزادہ یا
شہزادی سے مل کر بادشاہ کے خلاف منصوبہ کر رہا ہوتا تھا۔اِدھر اعزاز مل رہا ہوتاتھا اور اُدھر ساز باز جاری ہوتی تھی کہ اس کو مٹا دیا جائے۔
ایک ہندو اخبار تھا اُس کایہ طریق تھا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کے راز معلوم کر کے پھر کہانی کے طور پران کو شائع کیا کرتا تھا اور اس سلسلہ کا نام اس نے ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ رکھا ہؤا تھا۔ یہ سلسلہ مضامین اخبارِ عام میں بھی چھپتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس یہ اخبار آیا کرتا تھا۔ اس میں ایک ریاست کا واقعہ لکھا تھا اُس وقت تو مجھے معلوم نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ یہ کپور تھلہ کی ریاست کا واقعہ تھا۔کپور تھلہ کا راجہ جو پارٹیشن کے وقت تک زندہ تھا اب سُنا ہے فوت ہو چکاہے کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ کی اولاد میں سے نہیں تھا بلکہ اُس کا باپ ایک جج تھا جس کو مَیں نے بھی دیکھا ہے (اصل راز کو اللہ بہتر جانتا ہے)۔
میںایک دفعہ کپور تھلہ گیا تو دوستوں نے مجھے دکھایا تھا وہ اُس وقت کسی کام کیلئے پیلس میںآیا ہؤا تھادوستوں نے بتایا کہ یہ شخص جو پھر رہا ہے راجہ کا باپ ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ باپ جب دربار میں آتا ہے تو راجہ کی کیا حالت ہوتی ہے؟کہنے لگے وہ ہمیشہ کتراتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آئے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا ہے اور ملنے میں شرم اور ذلّت محسوس کرتا ہے۔
بہرحال اِس اخبارمیں یہ واقعہ لکھا تھا کہ پہلے زمانہ میں کپور تھلہ کے راجہ کی دو رانیاں تھیں اور دونوں کے اولاد نہیںتھی۔ وہ دونوں ایک دوسری سے رقابت رکھتی تھیں کچھ درباری ایک طرف تھے اور کچھ دوسری طرف ۔ جس نے ایک کی غیبت کرنی ہو وہ دوسری کے پاس چلا جاتا اور جس نے دوسری کی غیبت کرنی ہو وہ اس کے پاس آ جاتا۔ یہ جھگڑے بڑھ گئے تو آخر ایک پارٹی کے لوگوں نے سوچا کہ کب تک راجہ اور کب تک رانیاں، یہ مرا تو خبر نہیں انگریز کس کو لا کر بٹھا دیں، اس لئے کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ مستقل طور پر ہمارا دبدبہ قائم رہے۔ یہ سوچ کر انہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسے سکھایا کہ وہ مشہور کر دے کہ مجھے حمل ہے۔ چنانچہ وہ اس بات پر راضی ہو گئی اور تجویز یہ ہوئی کہ نویں مہینہ مشہور کر دیا جائے گا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے ادھر دو تین جگہ سے جن کے ہاں انہی دنوں میں بچے پیدا ہونے والے تھے وعدے لے لئے گئے کہ جس کے ہاں لڑکا پیدا ہؤا وہ اپنا لڑکا دے دیگا۔ انہوں نے انتظام یہ کیا ہؤا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو رانی فوراًبیمار بن کر بیٹھ جائے گی اور اس کی گود میں بچہ ڈال کر سب کو دکھا دیاجائے گا کہ رانی کے ہاں بچہ پیدا ہؤا ہے۔اتفاقاً اُسی شخص کا جو اُس وقت سرِرشتہ دار تھا اور بعد میں ہائی کورٹ کا جج بن گیا بچہ پیدا ہؤ ا جو راجہ کا بیٹا قرار دیدیا گیا۔ انہوں نے یہ منصوبہ کر کے تمام شہرمیں مشہور کر دیا کہ رانی حاملہ ہے راجہ محسوس کرتا تھا کہ یہ بات غلط ہے اس کی بڑی عمر ہو چکی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ اس کے دل میںشُبہ پیدا ہؤا ا ور اُس نے ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا کہ یہ بڑی غیر معقول بات ہے یہ دھوکا اور فریب ہے جو مجھ سے کیا جا رہا ہے۔اس سے دوسری رانی کوموقع مل گیا اور اس نے کہا یہ دھوکا فلاںفلاں وزیر کر رہا ہے۔ راجہ نے ان کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور ادھر گورنمنٹ کو لکھ دیا کہ کہا جاتا ہے کہ رانی حاملہ ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے، رانی ہر گز حاملہ نہیں۔ مگر جہاں حکومت کا ایک بڑا حصہ سازش میںشریک ہو وہاں کسی لیڈی ڈاکٹر کا خریدلینا کونسی مشکل بات تھی۔ چنانچہ معائنہ کرایا گیا اور لیڈی ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ رانی حاملہ ہے۔ جب یہ جھگڑا بڑھا توگورنمنٹ کے پاس رپورٹ کی گئی۔ اُس وقت راجے وائسرائے کے ماتحت نہیںہوتے تھے بلکہ پنجاب کے، پنجاب کے گورنر کے ماتحت اور یو، پی کے یو،پی کے گورنر کے ماتحت ہوتے تھے اور پھر آگے ان کا براہِ راست تعلق کمشنر کے ساتھ ہوتا تھا۔ جب رپورٹ کی گئی تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے کمشنر کو لکھا کہ تحقیقات کر کے فیصلہ کروجھگڑا لمبا ہو رہا ہے۔ ادھر سے اُس پارٹی کے افراد نے رپورٹ کرنی شروع کر دی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے تا کہ راجہ کی باتوں کا ازالہ ہو آخر دونوں طرف کی رپورٹوں پر کمشنر ایک دن سِول سرجن کو ساتھ لے کر چلا۔ چونکہ دوسرے فریق نے خود اس بات کو مشہور کیا تھا اس لئے اسے بھی خیال تھا کہ کمشنر آ جائے گا۔ انہوںنے پہلے سے ایسا انتظام کیا ہؤا تھا کہ دفتر سے پتہ لگ جائے کہ کمشنر کب چلا ہے۔ چنانچہ انہیں پتہ لگ گیا کہ کمشنر فلاں دن آ رہا ہے انہوں نے آدمی مقرر کر دئیے کہ جب اس کی سواری قریب پہنچے تو اشارہ کر دیا جائے کہ کمشنر آ رہا ہے اور پھر اندر بھی انہوں نے انتظام کیا ہؤا تھا۔ راجہ تخت پر بیٹھا ہؤا اپنے دبدبہ اور شان کا اظہار کر رہا تھا کہ میں تم لوگوں کو سیدھا کر وں گا اورتمیں یوں سزادوں گا۔ اور اُدھر انہوں نے اُس چپڑاسی کو جو چوری ۱؎ جھل رہا تھا اپنے ساتھ ملایا ہؤ اتھا اور اس کو سکھایا ہؤا تھا کہ جونہی ہم اشارہ کریں تو کان میں جُھک کر راجہ کو ایک بڑی گندی گالی دے دینا۔ بس اِدھر انہوں نے اشارہ کیا کہ کمشنر صاحب آ رہے ہیں اور ادھر اُس چوری بردار نے جُھک کر ایک بڑی گندی گالی راجہ کے کان میں دے دی۔ تم سمجھ لو کہ ایک چپڑاسی چوری بردار ایسی حرکت کر ے تو راجہ کی کیا حالت ہو گی وہ واقعہ میں پاگل ہوجا ئے گا چنانچہ وہ بے تحاشا اُٹھا اور اُس نے ہاتھ اور پائوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔دوسرے لوگ توچاہتے تھے کہ اس نظارہ کو وسیع کریں چنانچہ دوسری پارٹی میںجو لوگ شامل تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے کہا حضور! اس کا کوئی قصور نہیں، حضور! اس پر ایسی سختی نہیںکرنی چاہئے۔اسے اور غصہ آیا اور اُس نے اُن کو بھی مارنا شروع کر دیا۔ اتنے میں کمشنر اور سِول سرجن اندر داخل ہوئے اور سارے درباری ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ حضور! رو ز ہمارے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے، چنانچہ رپورٹ ہو گئی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے اور اس کا بیٹا قبول کرلیا گیا جو بڑا ہو کر ریاست کا حکمران بنا غرض یہ یہ کارروائیاں دربارِ خاص میں ہوتی تھیں۔
بیگمات کے جوڑ توڑ
پھر دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص میںجوڑتوڑ کے جو نتائج پیدا ہوتے تھے وہ زیادہ تر شہزادوں اور بیگمات کی وجہ سے پیدا ہوتے
تھے کیونکہ اُس زمانہ کے لحاظ سے شہزادے اور بیگمات حکومت کے حق دار سمجھے جاتے تھے بلکہ بہت سے ملکوں میں تو بیگمات کو اب بھی حکومت میں حصہ دار سمجھا جاتا ہے۔ آج تک انگلستان میں ملکہ تخت نشینی کے وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھتی ہے اور اُس کو ملک کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے اور شہزادوں میںسے ہر شہزادہ خود بادشاہت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا تھا۔ ایک کہتا تھا کہ میرا بڑا بھائی جو اتفاقاً مجھ سے بارہ مہینے پہلے پیدا ہؤا ہے بادشاہ بن جائے گا۔ اگر بارہ مہینے پہلے میں پیدا ہو تا تو میں بادشاہ بن جاتا ، چنانچہ وہ کہتا ہے اس کومارو میں بادشاہ ہو جاتا ہوں۔ اگلا کہتا ہے اس کو مارو میں ہو جاتا ہوں۔ شاہجہان کے زمانہ میںاس کی زندگی میں ہی بیٹوں نے کہا کہ یہ تو نہ معلوم کب مرے پہلے اپنے لئے میدان تیار کرو۔ چنانچہ داراؔ اور مرادؔ اور شجاعؔ اور اورنگ زیبؔ نے لڑ لڑا کر اپنے باپ کی حکومت کو ختم کر دیا بادشاہ کی تخت نشینی کی جو ساری مدت بتائی جاتی ہے اس میںسے پچاس فی صدی زمانہ ایسا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت اتنا عرصہ قید رہے۔
قرآنی دربارِ خاص کی نرالی شان
ان دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے مقابلہ میں مَیں نے قرآنی دربارِ خاص کو دیکھا تو مجھے
اس کی شان ہی اور نظر آئی۔ مَیں نے دیکھا کہ یہ بادشاہ جوقرآنی دربارِ خاص کا مالک تھا اولاد اور بیویوں سے بالکل آزاد تھا اس لئے یہاں اس قسم کے جوڑتوڑ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ درباریوں کی محبت اور درباریوں کے اخلاص کو بانٹنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ وہ بیٹھا ہؤا مخاطب ہم سے ہے اور غرض یہ ہے کہ ہم سے کام لے کر اپنے بیٹے کی عزّت بڑھائے۔ اس دربار میں وہ جو بھی عزّت دیتا تھا وہ ہمارے لئے ہی ہوتی تھی کوئی اور اس کو نہیں چھین سکتا تھا، چنانچہ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْوَلَدًاوَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا ؎۲
خداتعالیٰ کی وحدانیت اور حمد کاگہرا تعلق
دیکھو شِرک ایک بڑی اہم چیز ہے اور تمام اسلام کی بنیاد اس کے ردّپر ہے،
تمام مذاہب کی بنیاد اس کے ردّپر ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ شرک کی تردید کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا کیا تعلق ہے؟ الْحَمَدُ لِلّٰہِ تو انسان اسی صورت میں کہہ سکتا ہے جب اس کا نتیجہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ اگر ایک خدا ہونے سے ہمیں کوئی خاص فائدہ پہنچتا ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ خدا ایک ہے ورنہ جہاں تک خدا کے ایک ہونے کا سوال ہے یہ ایک صداقت ہے جسے ماننا پڑتا ہے مثلاً سورج ایک ہے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ہے۔ سامنے پہاڑ ہو ماننا پڑے گا کہ پہاڑ ہے مگر یہ تو نہیں کہیں گے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ یہ پہاڑ ہے کیونکہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہیں لیکن اگر ہمیں گرمی لگ رہی ہو اور اُس وقت ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو ہم کہیں گے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم خالی ہوا کے چلنے پر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ رہے ہیں بلکہ ہم ہوا کے اُس اثر پر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہیں جو ہم پر پڑتا ہے اسی طرح یہاں فرماتا ہے۔ وَقُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْوَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ
شکر ہے کہ خدا کا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی، نہیں تو ہمارے دربارِ خاص کا بھی وہی حال ہوتا جو دُنیوی درباروں کا ہوتا ہے کہ قربانیاں ہم کرتے اور بادشاہ کہتا کہ بیٹے صاحب کو تخت دے دیا جائے یا بیوی صاحبہ کی خوشامد کرنی پڑتی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ؎
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
بادشاہوں کے لئے اپنی جانیں
قربان کرنیوالوں کا حسرتناک انجام
دربایوں کو ہر وقت یہی مصیبت رہتی تھی کہ اِدھر بیویوں کو خوش کرو اور اُدھر شہزادوں کو خوش کرو گویا قربانیاں کرنے والے اَور، مرنے والے اَور ، جہاد کرنے والے اَور، اپنے مال اور
جائدادیں لُٹانے والے اَور اور بادشاہت کرنے والے شہزادے اور بیگمات۔ تو فرماتا ہے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْوَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ جو بادشاہ ہوتے ہیں ان کی اولادیں اور ان کی بیویاں سارا حق لے جاتی ہیں اور قربانیاں کرنے والے ہمیشہ وفادار غلام کہلاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے میں اس بادشاہ کا غلام ہوں کہ لَمْ یَتَّخِذْوَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْک فِی الْمُلْکِ جس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے؟ اس لئے نہ تو اس کی محبت مجھ میں اور ان میں تقسیم ہے، نہ مجھے دو مالکوں کے خوش کرنے کی ضرورت ہے ایک ہی خدا ہے جس سے میرا واسطہ ہے اور اس کی محبت کسی اور کے ساتھ بٹی ہوئی نہیں خالص میرے لئے ہے۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ پھر درباریوں میںسے بعض لوگ بڑی بڑی عزتیں پاجاتے ہیں اور وہ دربار میں خاص عزّت پا جانے کی وجہ سے بادشاہ پر ایسے حاوی ہو جاتے ہیں کہ بادشاہ سمجھتا ہے کہ بغیر ان کی مدد کے میرا کام نہیں چل سکتا لیکن ہمارا بادشاہ اس قسم کانہیں اس کے دربار میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ ہمارا خدا اس بات کی احتیاج رکھتا ہو کہ وہ اس کی مدد کرے اسی لئے فرماتا ہے وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا اب تو نڈر ہو کر خدائے واحد کی تکبیر کر کیونکہ اور کوئی شریک نہیں جو تجھ سے مطالبہ کر ے کہ تھوڑی سی تکبیر میری بھی کرلیا کر۔ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی اور نہ کوئی شریک ہے۔ وہاں تو ڈرتے ہیں کہ بادشاہ کی تعریف کی تو ولیعہد ناراض ہو جائے گا ولیعہد کی تعریف کی تو چھوٹا شہزاد ہ ناراض ہو جائے گا یہ ایک ہی دربار ہے جو ان سارے جھگڑوں سے آزاد ہے۔
خوشامد، جھوٹ اور مداہنت کے اڈّے
حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص میں یہ تین لہریں ہی پسِ پردہ
چلتی ہیں، بیٹے اپنا رُسوخ چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بِلا استحقاق حکومت ان کی ہو اور قربانی دوسروں کی بیویاں علاوہ اپنے نفوذ کے اپنی اپنی اولاد کی تائیدمیں امراء کو کرنا چاہتی ہیں۔ ایک کہتی ہے امراء میرے بیٹے کی طرف ہوجائیں اور دوسری کہتی ہے کہ میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں۔ غدر کا سارا جھگڑا اِسی وجہ سے ہؤا کہ بعض بیگمات کہتی تھیں ہمارا بیٹا تخت نشین ہو جائے اور دوسری کہتی تھیں ہمارا ہو جائے۔ ظاہر میں بادشاہ کی خدمت کادعویٰ ہوتا تھا لیکن باطن میںکسی خاص شہزادہ یا ملکہ کی امداد کا دم بھر رہے ہوتے تھے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے تھے۔ قربانی اور اخلاص کی قدر نہیں ہوتی تھی خوشامد اور جھوٹ کی قدر ہوتی تھی یا بعض دفعہ کوئی جابر امیر بادشاہ پر حاوی ہو جاتا تھا اور درباریوں کو اسے خوش کرنے کی فکر رہتی لیکن قرآن کے دربارِ خاص میں یہ باتیں نہیں وہاں نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی، نہ کوئی جابر حاکم ہے بلکہ خالص خدا ہے جس کی نہ چغلی کی جا سکتی ہے نہ غیبت کی جا سکتی ہے نہ کسی اَور کو خوش کرنے کے لئے اس سے مداہنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا بادشاہ
پھر دُنیوی بادشاہوں کی اولاد ان کی موت کی متمنی ہو تی تھی اور چاہتی تھی کہ یہ مریں تو ہم بادشاہ ہو
جائیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بادشاہ ایک شخص کو کوئی عُہدہ دیتا تھا لیکن دوسرے دن بادشاہ فوت ہو جاتا۔ اس کے بعد ا س کا بیٹا تخت نشین ہوتا اور وہ اسے ذلیل کر دیتا، لیکن ہمارے دربار خاص میں بیٹھنے والا بادشاہ فرماتا ہے۔اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَا اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ۳؎
تمہارا بادشاہ وہ ہے جو زندہ ہے کبھی مرنے والا نہیں اس لئے تم کو ڈرنا نہیں چاہئے اس کی طرف سے جو رُتبہ تمہیں ملے گا اُسے کوئی چھینے گا نہیں۔
دُنیوی خطابات کا انجام
دیکھو انگریزوں نے لوگوں کو خطابات دیئے تھے مگر اب ہندوستان اور پاکستان میں روزانہ اعلان ہوتے ہیں کہ ہم
ان خطابات کو چھوڑتے ہیں۔ صرف چند ڈھیٹ ابھی تک ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے ہیں جو ان خطابوں سے چمٹے بیٹھے ہیں ورنہ باقی سب اپنی اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے ’’خان بہادر ‘‘ کا خطاب چھوڑا، مَیں نے فلاں خطاب چھوڑا،میں نے ’’جی۔سی۔آئی۔ای‘‘ کاخطاب چھوڑا مَیں نے فلاں خطاب چھوڑا یہ سب *** چیزیں ہیں۔پہلے انہی خطابوں کے لئے خوشامدیں کرتے پھرتے تھے اور اب *** چیزیں بن گئیں کیونکہ بادشاہت بدل گئی یا بادشاہ کی جگہ اس کا بیٹا آ گیا تو پھر بیٹے کی پارٹی برسرِ اقتدار آ جاتی ہے اور باپ کی پارٹی رہ جاتی ہے۔لیکن اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَا اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ کہنے والا فرماتا ہے تمہیں گھبراہٹ کیوںہو، تمہیں خطرہ کیوں گزرے ، تمہارا دل کیوں دھڑکے، تمہارا جس بادشاہ سے تعلق ہے وہ جو خطاب بھی تمہیں دے گا وہ چلتا چلا جائے گا اس کو کوئی دوسرا بادشاہ بدلنے والا نہیں کیونکہ کوئی نئی حکومت نہیں آئے گی۔
بادشاہوں کے خلاف دربارِ خاص میں منصوبے
پھر درباروں میںسازشوں کی وجہ سے یہ بھی ہوتا تھا کہ لوگ چوری چُھپے
باتیں کرتے رہتے تھے یعنی بادشاہ کے سامنے تو قصیدے پڑھے جا رہے ہوتے تھے اور گھروں میں یا مجلسوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ دیکھو! بادشاہ نے فلاں بات کی ہے اور ہمارے حقوق اس نے تلف کر دئیے ہیں اب اس اس طرح ہم کو فریب کرنا چاہئے، یہ یہ چالاکیاں کرنی چاہئیں یہ دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے نقائص ہؤا کرتے تھے اس دربارِ خاص کو میں نے دیکھا تو اس کے متعلق لکھا تھا لَایَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَآ فِی الْاَ رْضِ وَلَآاَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآاَکْبَرُاِلاَّفِیْ کِتٰب مُّبِیْنٍ ۴؎
فرماتا ہے اس قرآنی دربارِ خاص کابادشاہ عالم الغیب ہے اس کا دیا ہؤا انعام راستہ میںکہیں غائب نہیں ہو سکتا۔ یہاں تو یہ تھا کہ بادشاہ نے خلعت پہنایا اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے راستہ میں کسی نے خنجر ما ر دیا گویا انعام تو ملا مگر انعام سے وہ فائدہ نہ اُٹھا سکا مگر یہ وہ بادشاہ ہے کہ چونکہ یہ عالم الغیب ہے اس لئے جس شخص کو یہ انعام دیتا ہے اس کی نگرانی بھی کرتا ہے کہ انعام اس کو پہنچ جائے اور خواہ کوئی کتنا زور لگالے، کتنی ہی طاقت خرچ کر لے وہ اس خطاب سے محروم نہیں ہو سکتاوہ خدا کی دی ہوئی چیز ہے اس کو کون لے سکتا ہے مگر دُنیوی بادشاہوں کی دی ہوئی چیز تو بسا اوقات ضائع ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ وہ آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔
ایک مشہور تاریخی واقعہ
ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے شبلیؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے۔
وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دارالحکومت میںآئے۔ اُنہی دنوں ایک کمانڈر انچیف ایران کی طرف سے ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں اُس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت میں شامل کیا۔ جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا اور بادشاہ نے بھی ایک دربارِ خاص منعقد کیا تا کہ اُسے انعام دیا جائے اور اُس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اُس کے کارناموں کے بدلہ میں اسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفر سے آتے ہوئے اُسے نزلہ ہو گیا دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لانا بھول گیا ۔ جب اُس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اُس نے تقریر کرنی تھی کہ مَیں آپ کا بڑا ممنون ہوں آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولاد دراولاد اس چار گز کپڑے کے بدلے میں آپ کی غلام رہے گی۔ مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہو رہا تھا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا۔ بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا تو شاید قتل ہی کر دیا جاتا اُس نے گھبراہٹ میںاِدھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اسی جُبہّ سے اُس نے ناک پونچھ لی۔ بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اُتار لو اِس خبیث کا خلعت۔ یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دئیے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے۔ اس نے یہ کہا اور شبلیؒ نے اپنی کُرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا چونکہ دل میںنیکی تھی اور تقویٰ تھا، خد نے اُن کی ہدایت کے لئے ایک موقع رکھا ہؤا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو۔ وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اَپنا استعفاء پیش کرتا ہوں ۔ بادشاہ نے کہایہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہؤا تم کو اور کیو ں تم استعفاء پیش کرتے ہو؟ انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کا م نہیں کرسکتا اس نے کہا آخر ہؤا کیا؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مُہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیاتھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میںگیا اور اِس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں، یہ ہر روز مرتا تھا، ہر صبح مرتاتھا، اور ہر شام مرتا تھا ہر شام اِس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اُٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اُٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی، ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اُٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے،ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا اس کے بدلہ میںآپ نے اس کو چند گز کپڑادیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے۔ پھر میں کیا جواب دوں گا اُس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا، جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندہ کر رہا ہوں مَیں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دونگا؟ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کم بخت! کیا شیطانوں کی توبہ بھی کہیں قبول ہو سکتی ہے نکل جا یہاں سے۔
توبہ کی قبولیت
انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیامگر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی توبہ قبول کرے۔ آخر وہ جنید بغدادیؒ کے پاس پہنچے کہ اِس اِس طر ح مجھ
سے قصور ہوئے ہیںاور اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہو سکتی ہے مگر ایک شرط پر۔ پہلے اسے مانو۔ شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتائیں میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا اُس شہر میںجائو جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوںاور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو۔ انہوں نے کہا منظور ہے چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کر دی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ مَیں شبلی ہوں جو یہاں کا گورنر تھا مَیں قصور کرتا رہا ہوں، خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں اب میںاس کی معافی طلب کرتا ہوں۔ لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کر دیالیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس بیس گھروں سے گزرے تو سارے شہرمیں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جوکَل تک اتنا ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوںمیں روحانیت کا چشمہ پُھوٹا اور انہوں نے کہا ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور توبہ کی توفیق عطا فرمادیتا ہے۔ چنانچہ پھر تو یہ ہؤا کہ شبلیؒ جنیدؒ کے کہنے کے ماتحت ننگے پائوں ہر دروازہ پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کُھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ کُھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابلِ قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں۔ غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھر وہ جنیدؒ کے پاس آئے اور انہوں نے توبہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میںسے سمجھے جاتے ہیں۔
خداتعالیٰ کے عطیہ کی بے حُرمتی
تو دیکھو! شبلی کو کس بات سے ہدایت ملی؟ اس بات سے کہ خدا نے ہم کو کیا کچھ دیا ہے جس کو ہم گندہ اور
ناپاک کر رہے ہیں مگر بادشاہ اس دربارِ خاص میں چند گزریشم کاٹکڑا چند سنہری تاگے لگے ہوئے یا چند موتی اور ہیرے جڑے ہوئے دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ لوگ خود چاہیں تو اس سے بہتر خلعت بنا سکتے ہیں مگر اس لئے کہ ان کی ہتک ہو گئی وہ انہیں ذلیل کر دیتا ہے۔ غرض ان خدمات کے بدلہ میں جو کچھ ملتا تھا وہ اتنا حقیر ہوتا تھا کہ اس کا خیال کر کے بھی انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا بھی ذلیل ہو جاتا ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے دَوڑتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات ملتے ہیں ان میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں ہو سکتے اور جس کو انعام ملتا ہے اس کی طاقت نہیںہوتی کہ وہ اس کی ہتک کرے بلکہ وہ ہمیشہ اس کی عزت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے غیر متبدّل انعامات
دنیا میںکوئی ایک لاکھ بیس ہزار نبی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے گزرا ہے ۵؎ اور معلوم
نہیںکتنی دنیائیں ہیں اور کتنے اور نبی ہوں گے۔درجنوں پیغمبروں کے حالات تو ہمیں بھی معلوم ہیں مگر کیا تم نے کبھی سُنا کہ فلاں وقت میںفلاں پیغمبر صاحب کے مستعفی ہونے کا وقت آ گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ اب استعفاء دیدیں یا کبھی تم نے سُنا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پر خفا ہو کر کہاکہ اُتار لو اس کا خلعتِ پیغمبری اور اُس نے اسے چھوڑ دیا ہو۔ اس دربار میں سے جس کو ملتا ہے ہمیشہ کے لئے ملتا ہے اور جس کو ملتا ہے اس کے دل میںاپنے اس عُہدہ کو اتنی عظمت ہوتی ہے اور اتنی قدر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی قدر کرنے میں اس کی اس طرح مددکرتا ہے کہ وہ اس عُہدہ کو کبھی نہیں چھوڑتا اور نہ اس کی ہتک کرتا ہے۔
الٰہی دربار میں کسی چھوٹے سے چھوٹے
درباری کی ہتک بھی برداشت نہیں کی جا سکتی
پھر مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص میں جو امراء ہوتے ہیں ان میں باہم رقابتیں اوربُغض اور کینے پائے
جاتے ہیںاور وہ ایک دوسرے کوگِرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس الٰہی دربار میںاگر کوئی بڑا ہے تو بڑے نے چھوٹے پرکیا حسد کرنا ہے وہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کسی چھوٹے کی ہتک ہو جائے یا اس کی کسی رنگ میں تنقیص کی جائے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں ابراہیم ؑ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں نوحؑ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ان موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور نوحؑ سے کم درجہ رکھنے والوں اور موسیٰ کے ماتحت نبیوں میںسے ایک یونس ؑ نبی ہیں کوئی یہودی کسی جھگڑے میں کہہ دیتا ہے کہ یونس ؑ بڑا آدمی تھامسلمان آگے سے کہہ دیتا ہے محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں یونس کی کیاحقیقت ہے۔ اب بجائے اس کے کہ دربارِ خاص کا آدمی خوش ہو کہ میری عزت کی گئی ہے جب اس کو خبر پہنچتی ہے تو اس کا چہرہ سُرخ ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے۔لَاتُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ ابْنِ مَتّٰی ۶؎
یونس ابن متّٰی پرمجھے فضیلت نہ دیا کرو حالانکہ فضیلت ہے لیکن کسی درباری کی وہ ہتک برداشت نہیں کرتا وہ کہتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہی سہی پر تم نے کیوں اس کو چھوٹا کہا؟ تمہارا کام یہی ہے کہ اس کی عزّت کرو کیونکہ وہ خدا کے درباریوں میںسے ہے۔
ابو البشر آدم کی پیدائش پر دربارِ خاص کا انعقاد
اب میں ایک دربارِ خاص کا ذکر کرتا ہوںجو قرآن کریم نے
بیا ن کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَاثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِئُوْم نِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰٓؤُلَائِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّامَاعَلَّمْتَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ۔ قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَائِھِمْ ج فَلَمَّآ انبَاَ ھُمْ بِاَ سْمَائِھِمْ ا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاکُنتُمْ تَکْتُمُوْن۔۷؎
فرمایا دربارِ شاہی لگا اور ملائکہ جمع ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقام ایک شخص کو عطا کیا تھا جس کی توثیق کی جانی تھی اور جس کے متعلق اس دربار میں آخری اعلان کرنا تھا۔ وہ مقام ابوالبشر آدم کے لئے تجویز کیا گیا تھا جسے عالَم انسانی میںجلوئہ الٰہی کی ایک نئی تجلی کے ظاہر کرنے کے لئے مقررکیا گیا تھا۔ ملائکہ نے اس بات کی ابتدائی خبر سن کر کہا کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں اس کی ضرورت عملی طور پر دکھادینگے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام تجلیات جن کو وہ نئی شکل میں دکھانا چاہتا تھا آدم کے اندر ودیعت کر دیں اور پھر آدم کو ان کے سامنے بُلایا اور وہ تجلیات اس میںسے ظاہر ہوئیں جس طرح فلم چلتی اور اس میں سے تصویریں نکلتی ہیں اسی طرح آدم کے وجود سے ان تجلّیات کا ظہور شروع ہؤا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح تھا تو تم مجھے بتائو کہ کیا تم ان تجلّیات کی پوری کیفیت بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا اے خدا! تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی آتا ہے جتنا تو نے ہمارے اندر رکھا ہے تو سب کچھ جانتا ہے اور تیرے سارے کام حکمت پر مبنی ہیں جس کے سپرد تو کوئی کام کرتا ہے اُس کی طاقتیں بھی اس کے اندر ودیعت کر دیتا ہے۔ پھر فرمایا اے آدم! ہم نے جو علم تیرے اندر رکھے ہیں اور جو تجلیات تم سے ظاہر ہونے والی ہیں اُن کو ظاہر کرو۔ چنانچہ آدم نے ان تجلیاتِ مخفیہ کو اور ان صفاتِ انسانیہ کو جو اس کے لئے مخصوص تھیں ظاہر کیا پھر فرمایااَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ۔
میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ مجھے زمین وآسمان کی وہ باریک باتیں معلوم ہیں جو تم معلوم نہیں کر سکتے اور ایک ایسے نئے وجود کی ضرورت ہے جو میرے ان علوم کو ظاہر کر سکے جو تم پر ظاہر نہیں ہو سکتے۔
آدم کی اہلیت کا اعلان
یہ ایک دربار ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا اس دربار کی غرض آدم کو مقامِ انسانیت پرفائز کرنا یعنی اسے ابوالبشر بنانا تھا گویا یہ نہایت
ہی اعلیٰ درباروں میںسے ایک دربار ہے گورنر کا تقرر ہو رہا ہے، بادشاہ بیٹھا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس پریہ یہ ذمہ داریاں عائدکی گئی ہیں اور پھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل ہے۔ دنیا کے درباروں میں تو جب کوئی کمانڈر مقرر کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں تمہاری وفاداری سے امید ہے کہ تم ہماری خواہشوں کوپورا کروگے لیکن یہاں کہا جاتا ہے ہم نے اس کو مقر رکیا ہے اور ہم نے اس کا انتخاب غلط نہیں کیا جو کام ہم نے اس کے سپرد کیا ہے اس کا یہ اہل ہے اور یہ اسے کر کے دکھا دیگا۔
ظرفِ صحیح کے انتخاب کی اہمیّت
گویا خلاصہ اس دربا ر کا یہ تھا کہ ایک نیا گورنر مقرر ہو رہا تھا دوسرے درباری اس انتخاب کی وجہ
سمجھنا چاہتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سب علم ہماری طرف سے آتا ہے مگر اسے حاصل ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے اور اگر ایک چوکونہ برتن ہو گا تو اس کے اندر جو پانی ہو گا وہ چوکونہ ہو گا، اگر ایک گو ل برتن ہو گا تو اس کے اندر پڑا ہؤا پانی بھی گول ہو جائے گا، اگر ہم پانی کو چوکونہ شکل میں دیکھنا چاہتے ہیںتو گول شکلوں والے کتنے بھی برتن ہمارے پاس لائے جائیں ہم کہیں گے یہ اس قابل نہیں کیونکہ ہم نے اس کو چوکونہ شکل دینی ہے۔ یا اگر فرض کرو کسی ایسی شکل میںہم اس کو دیکھنا چاہتے ہیں جیسے تکون ہوتی ہے تو بے شک چار گوشیہ برتن لائے جائیں اور کہا جائے کہ ان میں پانی پڑ سکتا ہے ہم کہیں گے پڑ سکتا ہے مگر ہم نے اس کو دیکھنا سہ گوشہ ہے۔ یا اگر ہماری غرض یہ ہے کہ جیسے ایک سینگ ہوتا ہے اسی طرح سینگ کی شکل میں پانی کو دیکھیںتو ا س غرض کے لئے ہم اسی قسم کے برتن کو پسند کریں گے جو سینگ کی شکل کا ہو گایا اگر قُلفی جمانی ہو تو اب قُلفی کی شکل چاہے قُلفی کی ہو چاہے جوتی کی مزہ ایک جیسا ہی رہے گا مگر ہمارے ملک میںقُلفی کی شکل کا رواج ہے اب اگر قُلفی بنانی ہو اور کوئی کہے کہ ٹِفن کیرئیر میںقُلفی جما لوتو دوسرا شخص کبھی نہیں بنائے گا وہ کہے گا قلفی لائو۔ مَیں اس بحث میںنہیں پڑتا کہ اس کی کیا حکمت ہے؟ بہرحال جس نے کام کرنا ہو وہ جس شکل کو پسند کرتا ہے اس قسم کا ظَرف لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ یہاں سوال ظرف کا ہے ہم جن صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ ظرف فرشتوں کا نہیں بلکہ آدم کا ہے۔
پھر انسان چیز بھی اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرتا ہے اگر دو سیر والا ظرف ہو گا تو دو سیر چیز آئے گی، اگر چھ چھٹانک والا ظرف ہو گا تو چھ چھٹانک آئے گی، اگر ایک تولہ والا ظرف ہو گا تو ایک تولہ آئے گی۔ اِس نقطہ نگاہ سے بھی فرمایا کہ جس علم اور قانون کی اس وقت ضرورت ہے اس کا ظرفِ صحیح یہی آدم ہے چنانچہ دیکھو! اس شخص کو ہم نے سکھایا اور سیکھ گیا یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ شخص قابل تھا اور فرشتے اِس جواب کو سن کر فوراً سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اور سب کی تسلی ہو جاتی ہے۔ پھر انہیں حُکم دیا جاتا ہے کہ اب گورنر کے احکامات کو رائج کرو چنانچہ فَسَجَدُوْا ؎۸ سارے کے سارے تعمیلِ حکم میںلگ گئے اور سب نے اس حکم پر لَبَّیْکَ کہا اور فرمانبرداری اور امداد شروع کر دی۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگ فرشتوں کے ہمدرد بن کر اس آیت پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ خداتعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا
فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے اس میںفرشتوں کا قصور کیا ہؤا ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ تھا کہ خداتعالیٰ کی مختلف تجلّیات کے لئے مختلف آئینوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک تجلی کا آئینہ آدم ہے۔ فرشتے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ نئی تجلی کیا ہو گی جو کہ آدم کے ذریعہ ہی ظاہر ہوسکتی ہے؟ خداتعالیٰ نے وہ تجلی آدم پر ڈالی اور اس نے اسے صحیح طو ر پر اخذ کرلیا اور پھر اس کو اپنے جسم سے ظاہر کردیا فرشتے خاموش ہو گئے اور کہا کہ ہم سمجھ گئے ۔اصل مضمون نہیں بلکہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ اس تجلی کا حامل آدم ہی ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے۔
آدم کا کام اَور ہے اور فرشتوں کا کام اَور
اصل حقیقت تو وہ اب بھی نہیں سمجھے جس دن اصل حقیقت سمجھنے لگ جائیں گے
اس دن وہ آدمی بن جائینگے آج بھی فرشتہ اصل حقیقت کو نہیں سمجھا مگر فرشتہ اتنا سمجھ گیا ہے کہ آدم کا کام اَور ہے اور میرا کام اَور ۔اگر فرشتے اسے نئی تجلی نہ سمجھتے تھے اور اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا تو مَیں ان دانائوں سے جو فرشتوں کے وکیل بنتے ہیں پوچھتا ہوں کہ ا ن کی عقل کیوں ماری گئی۔اگر سوال یہی تھا کہ اس کو سکھایا وہ سیکھ گیا تو فرشتے کیوںنہ بولے وہ چُپ کیوں ہو گئے؟ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ اس کو سکھایا یہ سیکھ گیا ہمیں سکھاتے تو ہم سیکھ جاتے مگر ان کی تو تسلی ہو گئی اور اس معترض کی ابھی تک تسلی نہیںہوئی اور پچاس ساٹھ ہزار سال سے جوا سے شبہ پیدا ہؤا ہے وہ ابھی دُور نہیں ہؤا ۔
آدم سے مختلف تجلّیات کا ظہور
اصل سوال کرنے والوں کا بیان ہے کہ ان کے لئے یہ سوال حل ہو گیا کیونکہ وہ آگے سے نہیں بولے
اور اسی لئے نہیں بولے کہ درحقیقت وہ احمق ہے جو سمجھتا ہے کہ یہاں انسانیت کے سمجھنے کا سوال تھا۔ انسانیت کے سمجھنے کا سوال نہیںتھا بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ تجلّی جو آپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں آیا ہم اس کے حامل نہیں ہو سکتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ہم تمہیں عملاً تجلّی کر کے دکھادیتے ہیں اس تجلّی کے بعد تم خود فیصلہ کر لینا کہ تم اسے ظاہر کر سکتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ آدم سے مختلف تجلّیات کا ظہور ہؤا مثلاً ایک تجلی تو یہی ظاہر ہوئی کہ انسان دوزخ میںڈالا گیا فرشتہ دوزخ میں جا ہی نہیں سکتا۔آخر ابوجہل وغیرہ دوزخ میں گئے ہیں یا نہیں فرشتہ اس تجلی کو برداشت ہی نہیں کر سکتا یہ قہری تجلّی تھی جس کو برداشت کرنے کی صرف آدم میں طاقت رکھی گئی فرشتہ اس تجلی کا حامل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ملائکہ سے تعلق رکھنے والی تجلیات اور رنگ کی ہیں ان تجلیات کو ہم نہیں اُٹھا سکتے وہ فرشتوں کے لئے مخصوص ہیںاور ہمارے لئے انسان کی تجلیات مخصوص ہیں۔
پس فرشتوں کا یہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کونسی تجلّی ہے جس کے اظہار کے لئے آدم پیداکیا گیا ہے بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ ایسی کونسی تجلّی ہے جو آدم ہی اُٹھا سکتا ہے ہم نہیںاُٹھا سکتے؟ جب آدم نے مختلف قسم کے افعال کا ارتکاب شروع کیا کسی نے خدا کو گالیاں دینی شروع کیں، کسی نے اس سے کھیل اور تمسخر شروع کیا، کسی نے نماز کا انکار کیا، کسی نے روزہ کاانکار کیا،کسی نے حج کا انکار کیا، کسی نے زکوٰۃ کا انکار کیا، کسی نے چوری کی، کسی نے ڈاکہ ڈالا تو فرشتوں نے کانوں پرہاتھ رکھے اور کہا کہ اس کے لئے یہ آدم ہی موزوں ہے ہم اس کے اہل نہیں اسی لئے قرآن کریم میںانسان کے متعلق ہی ظَلُوْمًا جَھُوْلًا ۹؎کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، فرشتوں نے کہا ہم ظَلُوْمًا جَھُوْلًا نہیں بن سکتے یہ آدمی ہی کی ہمّت ہے وہ بیشک ظَلُوْمًا جَھُوْلًا بنتا پھرے۔
پس سوال یہ نہیںتھا کہ وہ نئی تجلی کیا ہے جس کا آدم کے ساتھ تعلق ہے بلکہ سوال یہ تھا کہ آیا انسان ہی اس تجلّی کا حامل ہو سکتا ہے؟ فرشتے نہیں ہو سکتے؟ خدا تعالیٰ نے عملاً تجلّی ظاہر کر کے دکھادی اور فرشتوں نے مان لیا کہ ہم میںاس کی اہلیت نہیں لیکن آج ہزاروں سال کے بعد ایک انسان اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فرشتے بیوقوف تھے اُن بیوقوفوں کو سوال کرنا آیا تھا جو اب سمجھنا نہیں آیا حالانکہ فرشتوں کا چُپ ہو جانابتاتا ہے کہ فرشتوں کایہ سوال تھا ہی نہیں کہ آپ ہمیں سکھاتے تو ہم بھی سیکھ جاتے بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ کونسی تجلّی ہے جس کا حامل انسان ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے۔ خدا کے بتانے یا نہ بتانے کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس تجلی کے قابل وجود کا ذکر تھا۔
روحانی دربارِ خاص کی بعض مخصوص کیفیات
اب میں اس دربار کی بعض مخصوص کیفیات کا ذکر کرتا ہوں۔
اوّل اس دربار میں بھی بادشاہ کے گِرد کچھ درباری یعنی ملائکہ نظر آتے ہیں۔
دوم وہ درباری کُلی طور پر بادشاہ کے کمالِ علم کے قائل ہیں دُنیوی دربارِ خاص میں تو بسا اوقات کمانڈر سمجھتا ہے کہ بادشاہ اگر چھوٹی سے چھوٹی لڑائی کے لئے بھی جائے گا تو ہار جائیگا مگر اس دربار میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بادشاہ جانتا ہے وہ میں نہیں جانتا۔
سوم وہ اس سے زیادتی علم کے لئے بھی سوال کرتے رہتے ہیں گویا وہ صرف یہی نہیں جانتے کہ یہ ہر بات جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے بلکہ ان کے دل میں تڑپ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتے جائیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے آپ کو مقامِ تکمیل تک پہنچائیں۔ فرشتہ اپنی ملکیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے اور انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے مگر ترقی بہرحال موجود ہے کیونکہ استاد موجود ہے جب تک استاد موجود رہے گا شاگرد اس سے نئی نئی چیزیںسیکھتا رہے گا۔
چہارم باد شاہ ڈنڈے سے ان کو سیدھا نہیں کرتا جیسے دنیا میںکیا جاتا ہے بلکہ ان پر حقیقت کو واضح کرتا ہے اور ان کے سینوں کو روشنی بخشتا ہے۔
پنجم جب کسی نئے کام پر کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو تمام سامان اسے مہیا کر کے دئیے جاتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ کی طرف سے کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اب فوج بھرتی کرو یا لڑائی کے لئے سامان مہیاکرو مگر وہاں ساری چیزیںوہ خود مہیا کرکے دیتا ہے۔
ششم اس دربار کے درباری ایسے ہیں کہ بجائے رقابت میں مبتلاء ہونے کے وہ افسر مقررہ کی پوری طرح اعانت کرتے ہیںاور اس سے مخلصانہ تعاون کرتے ہیں چنانچہ فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے کہ فَسَجَدْوْا جب انہیں تعاون کے لئے کہا گیا تو انہوں نے تعاون کرنا شروع کر دیا اور جس نے تعاون نہ کیا اُس کو خود بادشاہ نے سزادی اور اُس کی شرارت کو بے ضرر کر دیا۔
قرآن کریم میںایک اور دربارِ خاص کا ذکر
اب میں ایک اور روحانی دربارِ خاص کا ذکر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ
فرماتاہے:-قُلْ اِنَّمَآاَنَامُنْذِرٌوَّمَامِنْ اِلٰہٍ اِلاَّ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ۔رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَینَھُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ۔ قُلْ ھُوَ نَبَؤٌاعَظِیْمٌ۔ اَنْتُمْ عَنْہُ مُعْرِضُوْنَ۔ مَاکَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍم بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓی اِذْیَخْتَصِمُوْنَ۔ اِنْ یُّوْحٰٓی اِلَیَّ اِلآَّ اَنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ۔فَسَجَدَالْمَلٰٓئِکَۃُکُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ۔اِلَّآاِبْلِیْسَ اِسْتَکْبَرَوَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَامَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ اَسْتَکبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ۔ قَالَ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَِانَّکَ رَجِیْمٌ۔ وَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنَ۔ قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ۔اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ۔قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔ قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ۔ لَاَ مْلئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ قُلْ مَآاَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔ اِنْ ھُوَ اَلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ ۔ ۱۰؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
بعثتِ عظمیٰ کا دربارِ خاص میں اعلان
اس جگہ پھر ایک آدم کی پیدائش کا ذکرکیا گیا ہے مگر جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے یہ آیات قطعی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہاں وہ آدم مراد نہیں جس سے نسلِ بشر کا آغاز ہؤا بلکہ
اس جگہ آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے چنانچہ دیکھو ان آیات کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ قَلْ اِنَّمَااَنَامُنْذِ روَّمَامِنْ اِلٰہٍ اِلاَّ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ
تو ان سے کہہ دے کہ مَیں خدا کی طرف سے ایک تنبیہہ کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد اور قہّار ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان اور زمین کا ربّ ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی ربّ ہے اور وہ بڑا غالب اور بخشنے والا ہے۔ تو کہہ دے کہ یہ ایک عظیم الشان چیز ہے جس سے تم اِعراض کر رہے ہو اور مجھے کیا خبر ہے کہ فرشتے آسمان پر کس کے تقرر کے بارہ میں بحثیں کر رہے تھے ۔ مجھے آسمان سے وحی آ گئی اور پتہ لگ گیا کہ مَیں خدا کی طرف سے نذیر ہوں۔ دیکھو! جب خدا نے فرشتوں کو بُلایا اور ان سے کہاکہ میں ایک بہت بڑے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کر لوں اور وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور کلام الٰہی اس پر نازل ہو جائے تو تم فوراً اس کی مدد کرنے لگ جائو۔
اب دیکھو یہاں کسی پہلے آدم کا یا پیدائشِ عام کا ذکر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان کی بعثت کا ذکر ہے اور پھر جہاں یہ ذکر ختم ہوتا ہے وہاں بھی ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ
یعنی خدا نے کہا اور میں مقرر ہو گیا۔مَیں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں۔ اگر ابوالبشر آدم کا یہاں ذکر ہوتا تو آدم کو کہنا چاہئے تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے مگر بنایا آدم کو اور کہہ رہے ہیںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہؤا اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
قرآنی اصطلاح میںآدم سے مراد
درحقیقت قرآن کریم میںآدم کا جو لفظ استعمال ہؤا ہے وہ خالی ایک نام نہیں بلکہ آدم ایک عُہدہ ہے جو
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے۔ اس عُہدہ کے لحاظ سے جو آدمی بھی اس پر مقرر ہو جائے وہ آدم کہلاتا ہے اور قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عُہدہ اُس شخص کو دیا جاتا ہے جس سے کسی چیز کی ابتداء ہو۔ جب کوئی ایسا سلسلہ قائم کیا جائے کہ جس نے قیامت تک جاری رہنا ہو اور اس سے متواتر تنوع پیدا ہونا ہو اور نئی نسلیں پیدا ہونی ہوںتو اُس کا نام آدم رکھا جاتا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بھی ایک عظیم الشان آدم ہیں
آدم اوّل دورِ بشری کا آدم تھا جس سے نسلِ انسانی چلی اور کروڑوں کروڑ آدمی اس دنیا میںپھیل گئے۔ اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک آدمؑ تھے جن سے ایک روحانی نسل کا آغاز ہؤا۔
جس طرح آدمؑ کے پیدا ہونے کے بعد جنّ اور بُھوت وغیرہ سب غائب ہو گئے اور انسانی نسل چل پڑی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کے بعد پہلے سارے نبیوں کی نسلیں ختم ہو گئیں اور وہ بے اولاد ہو گئے گویا بعینہٖ اسی طرح ہؤا جس طرح وہاں ہؤا تھا۔ جس طرح وہاں صرف آدم کی نسل چلی اسی طرح یہاں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی نسل چلی اور باقی نسلیں منقطع ہو گئیں۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے آدمی تو دنیا میں کروڑوں کروڑ پھرتے ہیں ، ان کی نسلیں منقطع کس طرح ہوئیں؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ آدمی وہ ہوتے ہیں جو زندہ ہوں جن کے اندر روحانیت نہیں، جن کے اندر خدا کا خوف نہیں، جن کا خداتعالیٰ سے تعلق نہیں، جن کو خداتعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں حالانکہ یہی باتیں انسان کی پیدائش کامقصد ہیںوہ آدمی کہاں ہیں؟ اب آدمی وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے کیونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میںسے ہے، باقی صرف جانوروں کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا سے دُور ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو آدم قرار دینے میں حکمت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی جو آدم کانام دیا گیا ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے خَاتَمُ الخلفاء قرار دیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمتک
پہنچنا چاہے اس کے لئے آپ کی غلامی اختیارکرنا ضروری ہے۔ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص خدا تک پہنچنا چاہے تو وہ نہیںپہنچ سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے کیونکہ اب وہی نسل سمجھی جاتی ہے باقیوں کے متعلق سمجھاجاتا ہے کہ وہ ہیں ہی نہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد وہی محمد رسول اللہ کے سچے متبع سمجھے جائیں گے جو مسیح موعود کو مانتے ہیں اسی لئے آپ کا نام بھی آدم رکھا گیا۔
بہرحال ان آیات میںبِتایا گیا ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں اورمیرے ساتھ بہت بڑے واقعات وابستہ ہیں۔ مَیں عالَمِ روحانی کی مکمل سکیم کے ماتحت پیدا کیا گیا ہوں اور جب دربارِ خاص میں فرشتے بحث کر رہے تھے تو میں اُس وقت موجود نہ تھا۔ اس دربار میںمجھے چُنا گیا اور آسمانی بادشاہت کے دشمنوں کے خلاف مجھے نذیر یعنی کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا۔
مَلَأِاعلیٰ کے فرائض
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید روحوںکے اثرات آسمان پر جمع ہونے شروع ہوتے ہیں اور الٰہی احکام کے نازل ہونے سے پہلے
ملائکہ بھی فطرتاً ایک معیّن وجود کی طرف مائل ہونے شروع ہو جاتے ہیںاور خداتعالیٰ سے دعا کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے ہدایت کے کام کو آسان کرنے کے لئے اِس وجود کو مقرر فرما۔گویا ملائکہ کے جہاں اور کام ہیںوہاں جیسے فون میں تم نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی کو فون کیا جاتا ہے تو درمیان میں کنٹیکٹ (CONTACT) کرنے والے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ کنکشن کو فون کرنے والے کے ریسیور (RECEIVER) سے ملا دیتے ہیں جس سے دونوں کا آپس میں تعلق قائم ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن کریم کی ان آیتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک واسطہ ہے اور اس کنکشن بورڈ (CONNECTION BOARD) کانام مَلَأِاعلیٰ ہے۔ خداتعالیٰ جب کوئی بات بندوں تک پہنچانا چاہتا ہے تو بخاری میں آتا ہے کہ خداتعالیٰ پہلے وہ بات جبرئیل کو بتاتا ہے پھر وہ نچلے فرشتوں کو بتاتا ہے ، پھر وہ اس سے نچلے فرشتوں کو بتاتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمین تک پہنچ جاتی ہے گویا خدا جب کوئی بات دنیا میںپھیلانا چاہتا ہے تو پہلے وہ مَلَأِاعلیٰ کو بتاتا ہے۔ اسی طرح زمین سے آسمان پر جب کوئی بات جاتی ہے تو پہلے وہ مَلَأِ اعلیٰ میںجاتی ہے اور پھر وہ خدا کے سامنے پیش ہو کر آخری فیصلہ ہوتا ہے۔
خداتعالیٰ کا انتخاب ہمیشہ قابلیّت کی بناء پرہوتا ہے
اسی نُکتہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یونہی اندھا دُھند نبی بنا دیتا ہے یہ بات غلط ہے بعض لوگ کہتے ہی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذ باللّٰہ خدا عاشق ہو گیا تھا۔ پنجابی شعرپڑھو
تو ان میں یہی مضمون ہوتا ہے کہ ’’او کملی والیا تیرے تے رب عاشق ہو گیا‘‘ ۔حالانکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو فرشتے انسانی روحوں کے ساتھ چھونا شروع کرتے ہیں اور چُھو کر محسوس کرتے ہیں کہ کس روح میں کیا قابلیت ہے؟ پھر وہ مختلف اثرات لے کر ریکارڈروم میںجمع ہوتے ہیں اور اس میںان کی توجہ ایک روح کی طرف مرکوز ہو تی چلی جاتی ہے اور آخر تمام روحوں میں سے جو مکمل روح انہیں نظر آتی ہے اس کے چنے جانے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ایک وجود پر ان کا اتحاد ہو جاتا ہے کہ یہ روح ہے جس سے ہماری روحیں ملتی جلتی ہیں۔ جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خدمت کے لئے مقرر کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اسے ضرورت نہیں کہ وہ ایسا کرے لیکن چونکہ اُس نے فرشتوں سے خدمت لینی ہوتی ہے اس لئے ان کے اندر بشاشت پیدا کرنے اور محبت پیدا کرنے اور ہمدردی پیداکرنے کے لئے اُس نے یہ طریق رکھا ہے کہ وہ پہلے فرشتوں کو غور کرنے کا موقع دیتا ہے تا کہ و ہ سجھیں کہ ان کا بھی انتخاب میںحصہ ہے اس کے بعد حکم نازل ہوتا ہے اور وہ چونکہ ان کے منشاء کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے ان کی تسلی ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںثُمَّ یُوْضَعُ لہٗ الْقُبُوْلُ فِی اْلاَرْضِ ۱۱؎
پھر ایسے انسان کی قبولیت دنیامیں پھیلا دی جاتی ہے اور لوگ اس کو ماننے لگ جاتے ہیں۔
ا س سے پتہ لگ گیا کہ درحقیقت وہ قابلیت کی بناء پر ہی نبی ہوتا ہے اگر قابلیت کی بناء پر نہ ہوتا تومَلَأِاعلیٰ کے دنیا سے معلومات حاصل کرنے کے کیا معنے؟ پھر تو خدا آسمان پر بیٹھا ہؤا کہہ دیتا فلاں نبی بن جائے اور وہ بن جاتا ۔
بہرحال ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ پیدائشِ انسانی کے بعد کاتھا اور سلسلہء نبوت کے جاری ہونے کے بعد کا تھاکیونکہ اس آیت میںفرشتوں کا جوسوال تھا اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ جہاں آدم اوّل کی پیدائش کا ذکر ہے وہاں اس سوال کا بھی ذکر ہے کہ آپ کیوںپیدا کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں یہ وہ سوال نہیںکرتے کیونکہ وہ سوال ایک دفعہ ہو چکااورحل ہو چکااب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر کوئی وجہ نہیں تھی کہ پھر دوبارہ وہی سوال کیا جاتا کیونکہ ملائکہ کا رُجحان خود وجودِ محمدؐی کی طرف آپ کی بعثت سے پہلے ہو چکا تھا۔ اب خدا نے بتا دیا کہ ہم اِس شخص کو نبی بنانے لگے ہیںجب ہم نبی بنائیں اور یہ اُس عمر کوپہنچ جائے کہ خدا کی وحی اس پر نازل ہونے لگے تو فوراً اس کے کام میں مدد دینے کے لئے کھڑے ہوجانا اوروہ کہتے ہیں اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا۔
ملائکہ کا شیطانی عنصر سے اختصام
یہاںیہ سوال رہ جاتا ہے کہ فرشتوں کے متعلق یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ کیوں آتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے
کہ وہ کیا جھگڑا کرتے تھے؟ صوفیاء نے اس پر بحث کی ہے کہ اختصام کیا تھامگر وہ اس مضمون کو اس طرح بیان نہیں کرتے جس طرح میں نے بیان کیا ہے ورنہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اس مضمون کو لیا ہے اور پُرانے صوفیاء نے بھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرشتوں میںیہ سوال اُٹھتا ہے تو و ہ یہ بحثیںکرتے ہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں ؟ مگر میرے نزدیک یہ غلط ہے جھگڑا تب ہوتا جب اختلاف ہوتا یا ووٹنگ والا سسٹم ہوتا مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرشتے تأثرات کو قبول کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی توجہ ایک روح پر مرکوز ہو جاتی ہے اور چونکہ الٰہی منشاء بھی وہی ہوتا ہے اس لئے الٰہی حکم صادر ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میں نافذ ہو جاتا ہے مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ کیوں آیا ہے؟
سو یا د رکھنا چاہئے کہ میرے نزدیک یہاں یَخْتَصِمُوْنَ کا ذکر اس رسول کے متعلق نہیں یعنی یہ نہیں کہ فرشتے اس رسول کے متعلق جھگڑ رہے تھے کہ یہ رسول بنے یا وہ بنے بلکہ وہ اس شیطانی عنصر کے سا تھ جھگڑر ہے تھے جس نے اس رسول کی مخالفت کرنی تھی گویا فرشتوں نے جب وجودِ محمدؐ ی میں نورِا لٰہی دیکھنا شروع کیا تو فوراً شیطانی طاقتیں جو راستہ میں حائل ہونے کے لئے جمع ہو رہی تھیں ان سے انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا پس یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ رسالت کے متعلق نہیں بلکہ یہ اختصام شیطانوں کے متعلق ہے اور انہی کے ساتھ ان کا سارا جھگڑا ہے۔
پس یَخْتَصِمُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جُوں جُوں اُنہیں پتہ لگتا چلا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس عُہدہ کے قابل ہے شیطانی طاقتیں جو مقابل میں کھڑی ہوتی ہیں ان سے لڑائی شرو ع کر دیتی ہیں یہاں تک کہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت آخری جنگ میںشیطانی طاقتیں شکست کھا جاتی ہیںاور خداتعالیٰ کی حکومت دنیامیںقائم ہو جاتی ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا الٰہی دربار میں شاندار اعزاز
اب ہم اس دربارِ خاص کا ذکر کرتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہؤا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے انتہائی قُرب کے مقام کو ظاہر کیا اور بتایا کہ آپ کو
دوسرے درباریوں پرکیا فضیلت حاصل ہے۔ پہلے اُس دربار کا ذکر کیا گیا تھا جس میں آپ کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم آپ کو اس منصب پر مقرر کر رہے ہیںاب اسی دربار کے دوسرے حصہ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کتنا بڑا اعزاز کیا گیا۔
محبت اور اتحادکاکمال
اللہ تعالیٰ سورہ نجم میں فرماتا ہے وَھُوَ بِالْاُ فُقِ الْاَعْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَ لّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی ۱۲؎ یعنی بادشاہ
اپنے تخت پر بیٹھا اور پھر وہ درباری اس کے قریب ہؤا جس کے بعد بادشاہ اپنے عرش سے اُتر کر اُ س کے پاس آ گیا اور اتنا اُس کے قریب ہو گیا کہ یوں نظر آتا تھا جیسے دو قوسیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں۔
گویا دربار لگا بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور اُس نے اپنے اس درباری کو بلایا جس کے لئے دربارِ خاص منعقد کیا گیا تھا اور حکم بھیجا کہ ہمارے دربار میںحاضر ہو جائو ہم تمہارا اعزاز کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو باقی بادشاہوں سے بات ملتی ہے لیکن دنیا کے درباروں میںکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو کسی عُہدے پرمقرر کیا جاتا ہے وہ کھِسک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں اس کا اہل نہیں۔
لیکن اِس دربار کے متعلق فرماتا ہے کہ خدائی حکم کے ملتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے قریب ہو گئے اور دوسرے درباروں کے خلاف جن میں بادشاہ اپنی جگہ سے کھِسکتا نہیں خداتعالیٰ عرشِ عظیم سے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور اتنا قریب ہؤا کہ یوں نظر آتا تھا گویا دو قوسیں آپس میںملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں۔
دوسری جگہ عام انسانوں کے متعلق بھی خداتعالیٰ کا یہ فعل موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ۱۳؎
اَبصَار خدا تک نہیں پہنچتیںکیونکہ وہ ناکام رہ جاتی ہیں مگر خدا خود لوگوں کی آنکھوں تک پہنچ جاتا ہے۔
قَابَ قَوْسَیْنِِ کا نظارہ
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا اور آپؐ اس کی خدمت میںحاضر ہونے کے لئے چلے مگر جب چلے تو اللہ تعالیٰ
اپنی محبت کے جذبہ میںاپنی جگہ پر نہ ـٹھہرا بلکہ آپ نیچے اُتر آیا۔فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی
اور اُس نے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تجھے اپنا گورنر بنانا چاہتے ہیں مگر ہماری گورنری ایسی نہیں ہوتی جیسی دنیا کی گورنریاں ہوتی ہیں ہم تجھے گورنر بھی بنانا چاہتے ہیں اور اپنا دوست بھی بنانا چاہتے ہیں۔ اب ہم دونوں کی قَوسیں ایک ہو گئی ہیں۔ اے محمد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تیرے بھی دشمن ہوں گے اور کچھ میرے بھی دشمن ہونگے آخر ہرایک کے دشمن ہوتے ہیں کچھ میرے بھی دشمن ہیں یعنی توحید کے منکر اور کچھ تیرے بھی دشمن ہیں یعنی انسانیت اور اخلاق اورشرافت کے دشمن ۔ تجھے بھی ضرورت ہے ان پر تیر چلانے کی اور مجھے بھی ضرورت ہے اپنے دشمنوں پرتِیر چلانے کی۔ پس آ! ہم دوست بنتے ہیں اب ہم دونوں اپنی کمانیں جوڑ لیتے ہیں اور ان دونوں کمانوں کاایک ہی وتر ہوگا یعنی وہ تار جو کمان میں ہوتی ہے ایک ہو گی اور پھر تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی اکٹھا ایک ہی طرف چلے گا، یہ کتنی دوستی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا۔
مقامِ محمدؐیت کی بلندی
پھر فرماتا ہے ،فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۔ اَوْ عربی زبان میں یا کے معنے بھی دیتا ہے اور ترقی کے معنی بھی دیتا ہے گویا پہلے تو
تیرا تیر بھی اورمیرا تیر بھی ایک طرف چلتا تھا مگرپھر اس سے بھی ترقی ہوئی اور وہ ترقی یہ ہے کہ پہلے تو دوقوسیں تھیں اور دشمن بھی دو ہی تھے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادشمن اور خدا کا دشمن۔ بیشک تیراکٹھا چلتا تھا مگر دشمن دو تھے پھر وہ دونوں ایک ہو گئے یعنی قوسیں بھی ایک بن گئیں اور ہاتھ بھی ایک بن گیاتیر بھی ایک بن گیا اور دشمن بھی ایک بن گیا۔
اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میںاس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۱۴؎
یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اورتُو دونوں اس طرح اکٹھے ہو چکے ہیں کہ تُو نے جو بدر کی جنگ میںپتھر پھینکے تھے وہ تو نے نہیں پھینکے بلکہ ہمارا ہاتھ تھا جو ان کو پھینک رہا تھا۔ گو یا پہلا اتحاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے درمیان یہ ہؤا کہ دو قوسوں سے ایک تیرچلنا شروع ہؤا اور پھر آخری اتحاد قوسوں کا آپس میں مدغم ہو جانا اور پھر ہاتھوں کا بھی آپس میں مدغم ہو جانا تھا گویاہاتھ بھی ایک ہو گئے، قوس بھی ایک ہو گئی، دشمن بھی ایک ہو گیا اور تیر بھی ایک ہو گیا۔
عجیب دربار
یہ کیسا عجیب دربار ہے کہ ابھی کام شروع بھی نہیں کیا اور پہلے ہی دوستانہ تعلق اور پیار ہو گیاکیوں؟ اس لئے کہ دُنیوی بادشاہ جب کسی کو جرنیل مقرر
کرتے ہیںتو کہتے ہیں معلوم نہیں وہ شکست کھا کر آتا ہے یا فتح حاصل کر کے؟ پہلے پتہ تو کر لینے دو۔ مگر یہ دربار ایسا ہے جس میں بادشاہ کو پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ میرا جرنیل جیت کر آئے گا اس لئے اگر اسے پہلے سے ہی انعام دے دیں تو اس میںکوئی حرج نہیں، بہرحال اسی نے جیتنا ہے۔
بادشاہوں کے خلاف
درباریوں کی سرگوشیاں
پھر ہم دُنیوی بادشاہوں کے دربار میں جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بعض دفعہ عجیب تماشہ نظر آتا ہے۔بادشاہ بیٹھا ہؤا ہوتا ہے اور دُورکناروں پر لوگ آپس میں کُھسر پُھسر کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں جس کو بادشاہ نے مُنہ چڑھایا ہؤا ہے بڑا
خبیث آدمی ہے۔ دیکھنا کسی دن بادشاہسے دھوکا کر کے رہے گا۔ یہ فلاں شہزادہ کا دشمن ہے، فلاں بیوی پر اس کو بدظنی ہے خبر نہیں کیا کرے گا غرض اِدھر دربار لگا ہؤا ہوتا ہے اور اُدھر سرگوشیاں ہو رہی ہوتی ہیںاور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دربار لگا ہؤا ہے بادشاہ آیا اور اُس نے کسی کو خلعت دیا جب اسے خلعت دے کر رُخصت کیا تو کسی درباری نے کہا حضور! اگر یہ طاقت پکڑ گیا تو آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور آپ کونقصان پہنچائے گا۔ بادشاہ جواب دیتا ہے مَیں خوب جانتا ہوں لیکن موقع دیکھ رہا ہوں موقع پر گردن پکڑ لونگا۔
آسمانی دربار کی ایک سیر
ہم اس آسمانی دربار کو بھی جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا یہاں بھی وہی کچھ ہے کہ ادھر گورنری دی جا رہی ہے اور اُدھر
سازشیں اور شکائتیں ہو رہی ہیں اور گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں۔ سوقرآن کریم کی اجازت سے میں تم کو اس دربارِ خاص میں لے جاتا ہوں ورنہ اس دربار میں ہر ایک کو جانے کی اجازت نہیں۔ ہم اس دربار میںجاتے ہیںدروازہ کھولتے ہیں اور اندر سَر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، ان پر جرح وقدح ہو رہی ہے یا ان کے نقائص بیان کئے جا رہے ہیں یا تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ہم جب اندر سر ڈالتے ہیںاور دیکھتے ہیںکہ کیا ہو رہا ہے تو ہمارے سر ڈالتے ہی ہمارے کان میں ایک آواز آتی ہے کہ آ جائو بے شک آئو کوئی حرج نہیں ہم جو کام کر رہے ہیںوہ تم کو بھی بتاتے ہیں تم بھی وہی کام کرو۔اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِي یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۱۵؎
اس دربار میں بجائے گورنر کی شکائتیں ہونے کے، بجائے اس پر الزام قائم کرنے کے بجائے، اس کے متعلق شبہات پیدا کرنے کے ہم جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ بھی اُس پر برکات نازل کرنے میںلگا ہؤا ہے اور درباری بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ہم جو چوری چھُپے دیکھنے جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم بھی درود پڑھو اور سلام بھیجو۔
اخلاص اور محبت کے نظارے
کیا اخلاص اور کیسی سچی محبت اورکیسے سچے تعلق کا دربا ر ہے کہ جس پرہر شخص اعتبار کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے
کہ یہاں نہ میرے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے دوستوں کے ساتھ غداری کی جائے گی، نہ میرے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی جائے گی، اس دربار میں خالص سکّہ ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہے۔ دوسرا حصہ درباریوں کی برطرفی کا ہوتا ہے وہ مَیں بتا چکا ہوںکہ برطرفی اس دربار میں ہوتی ہی نہیں۔ درباری ختم بھی ہو گیا مر گیا نوحؑ کسی زمانہ میں پیدا ہؤ ا اور ختم ہو گیا، اس کی نسل کا بھی پتہ نہیں، اس کی حکومت کوئی نہیں ، مذہب کوئی نہیں، تعلیم کوئی نہیں لیکن مجال ہے جو نوحؑ کو کوئی گالی دے سکے، جھٹ خدا کے فرشتے اُس کی گردن پکڑ لیتے ہیں کہ خدا کے گورنر کو گالی دی جا رہی ہے۔
دربارِ خاص کی دوسری غرض
دوسری غرض دربارِ خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے وزراء اور امراء کو خاص امور کے بار ہ میں مشورہ دے
اور بتائے کہ انہوں نے اِن اِن ہدایتوں کے ماتحت کام کرنا ہے تا کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ چنانچہ اب اس دربار کاذکر کیا جاتا ہے جس میںعُہدئہ رسالت کی تفویض کے احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے گئے اور بتایا گیا کہ آپ نے دنیا میںکیا کرنا ہے اور کس طرح اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہے۔
دُنیوی بادشاہوں کے مشوروں کی حقیقت
ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی درباروں میںاوّل تو بادشاہ خود مشورہ کا محتاج
ہوتا ہے اور پھر جو وہ مشورے دیتا ہے بِالعموم غلط بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن مشوروں سے وزراء کو اتفاق نہیں ہوتا اور بعض دفعہ وہ اُن پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور سب کا م خراب ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا دربار ہے جس کا بادشاہ کسی کے مشورہ کا محتاج نہیں۔
کامیابی کے متعلق تذبذب کی کیفیت
پھر دُنیوی دربارِ خاص میں بادشاہ ایک افسر کو بلاتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہم
تمہاری وفاداری پر یقین کرکے تم کو فلاں عُہدہ پر مقرر کرتے ہیں امید ہے تم ہمارے اعتبار کے اہل ثابت ہو گے تم فلاں فلاں کام دیانتداری سے کرو اور اگر تم اس میںکامیاب ہو جائو گے تو ہم تم سے بہت خوش ہونگے۔ مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ خوشی کتنی حقیر ہوتی ہے مگر بہرحال یہی سہی لیکن ان کلمات میں بھی کتنی کمزوری پائی جاتی ہے۔ اوّل بادشاہ کہتا ہے ہم تم کو چُنتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تم کامیاب ہو گے گویا بادشاہ اس کو ایک تخمین(یعنی اندازہ) سے چنتا ہے اور پھر اس شک میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں وہ کامیاب بھی ہو گا یا نہیں۔ لیکن اس الٰہی دربار میں کوئی شک نہیں ہر شخص کو یقین کے ساتھ چنا جاتا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گا اور یقین کے ساتھ کہاجاتا ہے کہ وہ کیوں کامیاب نہیں ہو گا۔ جب کہ ہم اس کے ساتھ ہیں۔
بڑے بڑے جرنیلوں کی ناکامی
دنیا میں بسا اوقات بڑے بڑے جرنیل بڑے نکمّے ثابت ہوتے ہیں چنانچہ دیکھ لو پچھلی جنگِ عظیم میں
کس طرح جرنیل بدلے گئے۔ پہلی جنگ عظیم میںتین جرنیل یکے بعد دیگرے بدلے گئے تھے دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہؤا۔ ابھی تازہ واقعہ دیکھ لو میکارتھر نے کوریا کی جنگ میں کتنا بڑا شُہر ہ حاصل کیا تھا لیکن ٹرومین سے اس کا اختلاف ہو گیااور لوگوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دئیے کہ اگلی پریذیڈنٹی کے لئے یہ کھڑا ہو نا چاہتا ہے اور آپ کا مدِّمقابل بننا چاہتا ہے چنانچہ جھٹ فساد کی تاریں چھوٹنی شروع ہوئیں ا ور اسے نکال کر باہر پھینک دیا اب اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
دوسرے دنیا میںجب کسی جرنیل پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو وہ بھروسہ خیالی اور شکّی ہوتا ہے جو آگے چل کر غلط ہو جاتا ہے اور بعض جگہ وہ شکست کھا جاتا ہے یا بعض جگہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اتنا نتیجہ نہیںنکلتا جتنے نتیجہ کی امید کی جاتی ہے اور بعض دفعہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو خود بادشاہ کے خلاف لڑنا شرو ع کر دیتا ہے۔
دوسری قوموں کو جانے دو مسٹر چرچل کو ہی دیکھ لو۔ اس نے گزشتہ جنگ میںکتنی بڑی قربانی کی۔ مگر چندمہینوں کے اندر اندر اس کے ملک نے اسے ایسی خطرناک شکست دی کہ پارلیمنٹ میںاس کی اور اس کے ساتھیوں کی پارٹی نہایت ہی قلیل رہ گئی۔ پھر ہندوستان میں گاندھی جی نے کہا کہ مجھے اندر سے آواز آتی ہے اور لگے نبیوں کے سے دعوے کرنے آخر انہی کے ایک چیلے نے اُٹھ کر انہیں پستول مار دیا۔
قرآنی دربارِ خاص میں گورنر جنرل کی ہدایات
لیکن اب قرآنی دربار کی سُن لو یہاں ایک بڑے بھاری جرنیل کا تقرر ہو تا
ہے اسے دربارِ خاص میںبلایا جاتا ہے اور اعلان پڑھا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کو مقرر کیا اب ہم آپ کو ہدائتیں دیتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے کس طرح کرنا ہے اور کس کس طریق سے اس کام کو سرانجام دینا ہے چنانچہ فرماتا ہییٰٓاَیُّھَاالْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ۔ وَلَاتَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُوَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ۱۶؎
میلاد النبیؐ کے وعظ
یہ آیات تو قرآن کریم میںتیرہ سَوسال سے موجود ہیں اور علماء نے ان آیات کی تفسیریں بھی لکھی ہیں لیکن آج کل کے مولویوں
کے وعظ خصوصاً میلادالنبیؐ کے تم نے سنے ہی ہوں گے ، جب وہ ان آیات کی تفسیر شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔
؎ او کملی والیا! اے زُلفاں والیا !اے کملی والیا!
ایک ہندو وکیل سے گفتگو
مَیں ایک دفعہ فیروز پور گیاوہاں ایک ہندو وکیل جو اچھا ہوشیار اور آریہ سماج کا سیکرٹری تھامجھ سے ملنے کے لئے
آیا اور کہنے لگا آپ کہتے ہیں ہندو مسلمان لڑتے رہتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی بتایا بھی کہ اسلام کیا چیز ہے؟ مَیں نے کہا تمہیں کیا بتائیں؟ کہنے لگے، میلاد النبیؐ کا جلسہ ہوتا ہے تو ہم بھی جاتے ہیں کہ وہاں چل کر پتہ لگائیں گے کہ اسلام کیا ہوتا ہے مگر وہاںہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ اے کملی والیا! اے زلفاں والیا! کہنے لگا ہم زُلفیں دیکھنا نہیںچاہتے ہم کملی دیکھنا نہیں چاہتے ہم تو تعلیم سُننا چاہتے ہیں مگر بجائے یہ بتانے کے کہ رسول اللہ کی تعلیم کیا تھی آپ کے کیا کام تھے اورآپ کی کیا خدمات تھیں ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ آپ کی زُلفیں ایسی تھیں اور آپ کی کملی ایسی تھی ہم عشق مجازی تو نہیں کرنا چاہتے کہ ہمیں یہ باتیں بتائی جاتی ہیں۔ شرمندگی تو بہت ہوئی مگر خیر میں نے کہا لوگ غلطی کرتے ہیں ہمارا نقطہ نگاہ بھی آپ کبھی سن لیں۔ کہنے لگا میں نے آپ کی ایک تقریر سُنی ہے اور اس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ کاطرز اور ہے مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے اس کے بعد یہ خواہش کرنا کہ ہم مسلمان ہو جائیں اور ہم سے اس کی امید رکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کیا کملی دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے یا زُلفیں دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے؟
دربارِ خاص کا نقشہ دوسرے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے
پس غیر احمدی بھی اس دربار کا نقشہ کھینچتے ہیںلیکن
ان کا نقشہ میںپہلے سُنا دیتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں دربارِ خاص لگاہؤا ہے ، بادشاہِ خلق وکون کی آمد آمد ہے، چھوٹے چھوٹے درباروں کے اہلکار تو ایسے موقع پر ہمہ تن مصروفِ عمل ہوتے ہیں،بھاگ دَوڑ ہو رہی ہوتی ہے، افسر قرینہ سے کھڑے ہوتے ہیںاورمنتظر ہوتے ہیں کہ بادشاہ آئے تو فوراً اس کا استقبال کریںاور اس کا اعزاز کریں اور اس کی تعریف کریں۔لیکن ہمارے بادشاہ کے دربار کا یہ حال بتایا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں تمام دربار میں خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور جس کی خاطر دربارِ خاص لگایا گیا تھا وہ ایک کمبل اوڑھ کر ایک گوشے میںسویا پڑا ہے اب بادشاہ اس کے پاس پہنچتا ہے ، اُس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گُھٹنے گُھٹنے تک اس کے جسم پر میل چڑھی ہوئی ہے، بادشاہ سلامت آ کر اُسے جگاتے ہیں کہ اُٹھ میاں! یہ سونے کا وقت ہے تجھے کام پر بھیجنا تھا تیری خاطر دربار خاص لگایا تھا اور تُو کمبل لے کر سو رہا ہے، اُٹھ! اُٹھ کے کمبل اُتار، کپڑے دھو، غسل کر ،شرک چھوڑ دے، سُود خوری نہ کر اور مصیبتیں برداشت کر۔ یہ دربار ہے جس کانقشہ ہمارے سامنے کھینچا جاتا ہے۔ بھلا جو معمولی معمولی ریاستیں ہیں مثلاً شملہ کی ریاستیں جو پانچ پانچ سات سات ہزار آبادی کی ہیں کیا تم نے کبھی وہاں بھی ایسا دربار دیکھا کہ راجہ نے کسی کو بُلایا ہو اور جس کے اعزاز میں دربار منعقد کیا گیا ہو اُس کی یہ حالت ہو کہ وہ کمبل میں سو رہا ہے اور اتنی میل چڑھی ہوئی ہے کہ حد نہیں۔ کپڑوں سے بدبُو آ رہی ہے، پاجامے سے بد بُو آ رہی ہے، راجہ آکر جگا تا ہے اور جگانے کے بعد کچھ ملامت کرتا ہے اور ملامت کر کے کہتا ہے تیرے سپرد فلاں کام کیا جاتا ہے مگر ایسے گند میں باہر جانا بھی ٹھیک نہیں پہلے کپڑے دھولے، غسل کر لے اور پھر جا کر یہ کام کر۔ یہ دربار ہے جو غیراحمدی پیش کرتے ہیں۔
حقیقی دربار کی جھلک
اب میں وہ دربار پیش کرتا ہوں جو حقیقتاً قرآن کا دربار ہے اور جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم سے ہمیں سمجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالْمُدَّثِّرُ دِثَار کے ایک معنی عربی زبان میں اس کپڑے کے ہوتے ہیں جو سوتے وقت اوپر لیا جاتا ہے۱۷؎ مثلاً کمبل ، لوئی یا لحاف وغیرہ اور لوگوں نے یہاں یہی معنے مراد لئے ہیں۔مگر جب مدّثّر کہا جائے گا تولغت کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہونگے کہ وہ کمبل یا لوئی اوڑھ کر بھی سو رہا ہے۔ کئی لوگ لوئیاں لے کر تو یہاں بھی بیٹھے ہیںمگر وہ جاگ رہے ہیں۔ مدّثّر تب کہا جائیگا جب کوئی لوئی لے کر سو رہا ہو۔ لیکن آجکل کے مولوی کی یہ حالت ہے کہ اِدھر تو ہمیںکفر کا فتویٰ دینے کے لئے ہروقت تیار رہتا ہے اور اُدھر قرآن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی لفظ استعمال ہو تو یہ ہمیشہ اس کے بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیتا ہے اور عیسیٰ ؑکی نسبت وہی لفظ آجائے تو خیر۔ معلوم نہیں عیسیٰ ؑاس کا کیا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے اچھے معنے کرتا ہے اور پھر بھی وہ مولوی کہلاتا ہے۔
مُدَّثِّرکے معنی
یہ درست ہے کہ مدثرؔ کے ایک معنی کمبل اوڑھ کر سونے والے کے بھی ہیں مگر مدّثّر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو اچھے ہیںاور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے متعلق وہ نہیں سوجھتے اور وہ معنے ہیں:-کپڑے پہن کر تیار ہو جانے والا اور گھوڑے کے پاس کھڑا ہونے والا کہ حکم ملتے ہی فوراً چھلانگ مار کر اس پر سوار ہو جائے۔۱۸؎ یہ بھی لغت میںلکھے ہوئے ہیں۔
چنانچہ دِثَار کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں الثوب الذی فوق الشعار ۱۹؎
یعنی دِثَار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کُرتا وغیرہ کے اوپر پہنا جائے۔
جب انسان نے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ خالی کُرتا نہیںپہنتا بلکہ کوٹ پہنتا ہے۔ یا فوج والے لڑنے کے لئے جاتے ہیں تو وردی پہن لیتے ہیں، پس اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ نے وردی پہنی ہوئی ہے۔
ان مفّسرین کو یہ تو نظر آتا ہے کہ مدّثّر کے معنے کمبل اوڑھ کر سونے والے کے ہیں مگر یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے انسان! اسی طرح اس کے دوسرے معنے گھوڑے پر چھلانگ لگا کر چڑھنے والے کے ہیں۲۰؎ گویا وہ اس بات کے انتظار میں کھڑا ہے کہ حکم ملے تو گھوڑے پر چھلانگ لگا کر سوار ہوجائوں اور کام کے لئے دوڑ پڑوں۔
اب ان معنوں کو دیکھو اور کمبل اوڑھ کر سو رہنے والے معنوں کو دیکھو کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ کیا وہ دربار معلوم ہوتا ہے اور دربار بھی وہ جو محمد رسول اللہ کے تقرر کے لئے منعقد ہؤ ا۔ پیچھے مایوسی ہو جائے تو اور بات ہے لیکن یہاں تو ابتداء میں ہی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ گالیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ:-
اوسونے والے! تیری کام کی طرف توجہ ہی نہیں، میل سے بھرا ہؤا ہے اُٹھ اور تیار ہو اور اپنے کام کی طرف جا اور ہر قسم کے سُستی اور شرک وغیرہ کو چھوڑ۔
قُمْ فَاَنْذِرْکی تشریح
آگے آتا ہے قُمْ فَاَنْذِرْ اِ س کے معنے وہ یہ کرتے ہیں کہ کھڑا ہو جا اور انذار کرحالانکہ جو کمبل لے کر سویا پڑا ہے اس کے سُپرد کوئی عقلمند
کام ہی کیوں کرے گا۔ وہ تو کہے گا کہ اگر وہ سویا ہؤا ہے تو سویا ہی رہے قُمْ فَاَنْذِرْ کے الفاظ تو بتا رہے ہیں کہ جس کے سُپرد کام کیا جاتا ہے وہ اپنے اندر کوئی شان رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی عزم رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ وہ قُمْ کا لفظ لے لیتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ اس کے معنے کھڑے ہو جانے کے ہیں حالانکہ جس طرح مدّثّر کے دو معنے ہیں اسی طرح عربی زبان میں قُمْ کے بھی دو ۲ معنے ہیں قُمْ کے معنے کھڑے ہونے کے بھی ہیں اور قُم ْکے معنے کسی بات پر ہمیشہ کے لئے قائم ہوجانے کے بھی ہیں۔ انہوں نے پہلے کمبل کے معنے کئے پھر کہا اوسونے والے! کھڑا ہو جا۔ ہم نے یہ معنے کئے ہیں کہ اے وہ شخص جو عُہدہ کے مطابق وردی پہنے تیار کھڑا ہے کہ حکم ملتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے کام پر چلا جائوں قُمْ ہمیشہ کے لئے اپنے کام پر لگ جا اور کبھی بھی اپنے کام میں سُستی مت دکھائیو اور کبھی بھی اپنے کام سے غفلت مت کیجیوفَاَنْذِرْ اب ہمیشہ ہمیش کے لئے انذار کا مقام اور نبوت کا کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے اب کوئی پنشن نہیں،کوئی چھٹی نہیں، ساری عمر کے لئے یہ کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے۔
رَبََّکَ فَکَبِّرْ کا پہلی آیات سے تعلق
تیسری آیت ہے وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ اور اپنے رب کی بڑائی کا دنیا میں ڈھنڈوراپیٹ۔ اب اس
آیت کو ذرا پہلی آیت سے ملائو کہ ارے سوئے ہوئے! ارے کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے ! ارے نیند کے ماتے اُٹھ! ڈھنڈوراپیٹ ۔ بھلا نیند والے نے کیا ڈھنڈوراپیٹنا ہے محض بے جوڑ معنے ہیں جن کا پہلی آیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مَیں نے جو معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اے حکم ملتے ہی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر دنیا میں دَوڑ جانیوالے! اب ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کا پیغام پہنچانا تیرے سپرد کیا گیا ہے تو دنیا کو بتا کہ اگر مانو گے تو بچو گے نہیں مانو گے تو تباہ ہو جائو گے۔
ثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ کی مضحکہ خیز تفسیر
چوتھی آیت ہے وَثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ۔مولوی اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے
پاک کر۔ وہ کہتے ہیں نماز جو پڑھنی تھی کپڑے پاک کرنا ضروری تھا گویا صرف نماز کے لئے کپڑے صاف کئے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے، امریکنوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے جب سے نما ز شروع ہوئی ہے اُس وقت سے کپڑے پاک رکھے جانے شروع ہوئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ان کے نزدیک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی نماز کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کپڑے صاف رکھو۔
پھر سوچو کہ ان آیات کا آپس میں جوڑ کیا ہؤا ؟ پہلے معنے کئے اوسونے والے اُٹھ! پھر کہا اُٹھ اور دنیا میں جا کر انذار کر۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا جااور کپڑے دھو۔ اب وہ کپڑے دھوئے کہ اِنذار کرے دونوں میں جوڑ کیا ہؤا؟ اب یہ مولوی فیصلہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ؟کپڑے دھونے لگتے تھے یا باہر جا کر تبلیغ کرتے تھے۔ غرض ایسی بے جوڑ باتیں کرتے ہیںاور اس قسم کی ہتک آمیز باتیں کرتے ہیں کہ درحقیقت اگر وہ غور کریںتو ان کو معلوم ہو کہ اسلام کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ایسی ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں کہ ہر بُری بات محمد رسول اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ بھلا کوئی سمجھائے کہ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کا اس جگہ جوڑ کیا بنتا ہے۔ اگر پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے کمبل لے کر سونے والے! تو یہ اگلے معنے نہیں لگتے کہ اُٹھ اور دنیا میں شور مچا دے۔ کمبل لے کر سونے والے نے شور کیا مچانا ہے وہ تو پھر سو جائے گا مگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا کہ اسے ہلایا پانی کے چھینٹے دئیے اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر جب وہ تبلیغ کرنے کے لئے نکلا تو ہم نے کہا ٹھہر جا ٹھہر جاکپڑے دھولے تیرے کپڑے بہت میلے ہیں۔لَاحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ
تبلیغ بھی رہ گئی گویا محمد رسول اللہ علیہ وسلم جیسا پاکیزہ نفس انسان جن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ کا وجود ایسا ہے کہ اگر اس پر خدائی نور نہ بھی گرتا تب بھی یہ روشن نظر آتا یعنی محمد رسول اللہ قرآن کے بغیر بھی پاکیزہ تھے اس مقدس انسان کے متعلق یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جیسے کوئی پہاڑی گڈریا ہوتا ہے کہ مہینوں اُس کو کپڑے دھونے کی توفیق نہیں ملتی۔ محمد رسول اللہ کی شکل بھی نَعُوْذُبِاللّٰہِ ویسی ہی تھی۔ پہلے تبلیغ کا حکم دیا پھر خیال آیا کہ بڑی شرمندگی ہو گی لوگوں کو خیال آئے گا کہ کیسے آدمی کو بھیج دیا اس لئے کہہ دیا کہ کپڑے دھولے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رشتہ داروں
اور دوستوں کو تبلیغ کرنے کا ارشاد
اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کے کیا معنے ہیں؟ لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ خالص میرے معنے نہیں بلکہ بعض پہلے صوفیاء نے بھی اس حصہ
کے یہ معنے لکھے ہیں پہلے نہیں لکھے لیکن یہ معنے لکھے ہیں ثِیَاب عربی زبان میں لُغۃً تو کپڑوں اور دل کو کہتے ہیں۔۲۱؎ لیکن محاورہ میں ثیاب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے اس کے عیب چھپتے ہیں اور وہ اس کے گرد لپٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کپڑا لپٹتا ہے ۔ پس استعارہ اور مجاز کے طور پر جیسے لوگ کہتے ہیں فلاں سکندر ہے، حاتم ہے مجازاً اور استعارۃً ثیاب کے معنے دوست رشتہ دار اور قریبی لوگوں کے ہوتے ہیں اور لُغتاً اس کے معنے کپڑے اور دل کے ہیں۔ دل کے معنے مَیں اس جگہ نہیں لگاتا لیکن مَیں کہتا ہوں کہ جو معنے بھی لگائو سیاق وسباق کو مدنظر رکھو،
میرے نزدیک سیاق وسباق کو مدّنظر رکھتے ہوئے اِس کے جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے محمد رسول اللہ! تو پہلے اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو سمجھا پھر اپنے قریبی دوستوں کو سمجھا پھر اپنی قوم والوں کو سمجھا اور ان کو دین اسلام کی تعلیم کی طرف لا ۔اب دیکھو یہ معنے یہاں چسپاں ہو جاتے ہیںاور آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے تقرر گورنری کی خبر سنتے ہی وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اور اس بات کی امید رکھنے والے کہ حکم ملتے ہی مَیں گھوڑے پر چڑھ جائوں تیار ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کام میں مشغول ہو جا جو ہم نے تیرے سپردکیا ہے اور سب سے پہلے یہ اِنذار اپنے گھر سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں سے شروع کر۔
اب دیکھ لو یہاں کپڑے دھونے اور اِنذار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ کپڑے دھونا انذار کی تشریح ہے اور ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ سے انذار ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے صابن کے کُھت کُھت کرنے سے تو اِنذار ختم ہوجاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کرنے سے اِنذار ہوتاہے ختم نہیں ہوتا۔ پس یہ تضاد نہیں بلکہ عین وہی چیز ہے۔
قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے عمل سے ثیاب کے معنوں کی تصدیق
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔تو اُٹھ اور جا کر اپنی قوم کو سمجھا اپنے رشتہ داروں کو سمجھا، اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سمجھا، چنانچہ ہم قرآن کریم میں اس
کی تصدیق دیکھتے ہیں مثلاً بیویوں کے متعلق قرآن کریم میںآتا ہے ۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ ۲۲؎
عورتیں تمہارا لباس ہیں۔ اب دیکھ لو ان کو ثِیَاب بتایا گیا ہے پھر اِسی آیت میں طَھِّرْ کا لفظ آتا ہے اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق یہی لفظ استعمال کرتا ہے، فرماتا ہے اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ہ ۲۳؎
ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت سے کہہ دیا تھا کہ جا اور اپنے خاندان کو پاک کر۔ اب ہم تجھ کو کہتے ہیں کہ وہ جو ہم نے حکم دیا تھا اس کا ہم بھی پکّا ارادہ کر چکے ہیںاور تیر ے اہل وعیال کو پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے گویا وہ خبر اس جگہ آ کر بیان ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہم نے کہا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا لیکن ہم اسے خود پورا کرینگے کیونکہ ہم نبی کو جو کچھ کہا کرتے ہیں اس کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے اسی طرح سورہ شعراء میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ ـ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۲۴؎
یعنی اے محمد رسول اللہ !تو اپنے قبیلہ میںسے قریبی رشتہ داروں کو جا کر ہوشیار کر۔
پس ثیاب سے مراد اس جگہ وہی لوگ ہیںجو کپڑوں کی طرح ساتھ لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور سورۃ شعراء میں اسی لفظ کو دوسرے رنگ میں ادا کر کے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے مجازاً ہونے کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ ہماری اس سے یہی مراد ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اِنذارِ قرآن پہنچا دے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر غور کرنے سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بخاری کو نکال لو دوسری حدیثوں کونکا ل لو، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلا الہام نازل ہؤا تو سب سے پہلے آپ اپنے گھر گئے اور حضرت خدیجہؓ کو خبر دی کیونکہ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کا حکم تھا کہ پہلے اسلام کی تعلیم اپنی بیوی اور رشتہ داروں کو دو پھر حضرت علی کو بتایا۔ چنانچہ تاریخ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی اور سب سے پہلے طہارت کوقبول کرنے والی عورتوں میں سے حضرت خدیجہؓ تھیں۔ نابالغ جوانوں میں سے حضرت علیؓ تھے اور بالغ جوانوں میں سے حضرت زیدؓ تھے وہ بھی لوگوں میں آپ کے بیٹے کے طور پر مشہور تھے اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں میں سے ابوبکرؓ تھے جو آپ کے جانی اور جوانی کی عمر کے دوست تھے گویا جس طرح ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کہا گیا تھا عملاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اُسی طرح کیا ۔لیکن کوئی حدیث نکال کر دکھا دو، ضعیف سے ضعیف نکال کر دکھا دو، منافقوں کی بیان کردہ حدیث نکال کر دکھا دو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس الہام کے بعد فوراً بازار گئے ہوں اور ریٹھے خریدنے شروع کر دئیے ہوں اور پھر کپڑوں کو ریٹھے اور صابن مَل مَل کر کوٹنے لگ گئے ہوں لیکن ہمارے پاس ثبوت موجود ہے، حدیث موجود ہے جو بتاتی ہے کہ آپ نے پہلے حضرت خدیجہؓ کو خداتعالیٰ کی بات بتائی ، پھر زیدؓ کو بتائی، پھر علیؓ کو بتائی، پھر ابوبکر ؓ کو بتائی غرض جس طرح آپ نے عمل کیا وہ حدیثوں میں موجود ہے۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریٹھے لے کر اور پھٹہ لے کر کپڑے کُوٹنے شروع کر دئیے تھے یا خدیجہؓ اور علیؓ اور زیدؓ اور ابوبکرؓ کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے؟ اور اگر آپ اپنے قریبیوں کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے تو یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کے یہی معنے ہیں کہ تُو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو قرآن کی تعلیم دے اور ان کو اسلام کی طرف لا۔
وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْکی غلط تفسیر
کپڑوں کی گندگی توخیر کچھ برداشت بھی ہو جاتی ہے آگے آتا ہے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ اس کے
مولوی یہ معنے کرتے ہیں کہ تو گندگیء جسمانی کو دُور کر۔ گویا کپڑے ہی غلیظ نہیں تھے بلکہ آپ خود بھی (نَعُوْذَبِاللّٰہِ) میلے تھے اب یہ اور بھی لمبا کام ہو گیا۔ انذار بیچارہ تو انتظار ہی کرتا رہے گا پہلے کپڑے دھوئے جائیں گے، حمام میں غسل کئے جائیں گے، میلیں اُتاری جائیں گی اور خبر نہیں کتنی دیر میں یہ کام پورا ہو اِنذار تو ختم ہو گیا لیکن ہم جو معنے کرتے ہیںاس کے لحاظ سے کوئی دقّت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ رُجْز کے ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں اور فَاھْجُرْ کے بھی ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں ہمیں سارے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ پچھلی آیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کونسے معنے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لحاظ سے تسلیم کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو گورنری پر مقرر کیا جا رہا ہے کوئی قیدی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں ہو رہا جس کو جھاڑ پلائی جا رہی ہو بلکہ اعلیٰ درجہ کے عہدہ اور خاتم النّبییّن کے منصب پر ایک شخص مقررہو رہا ہے اور بات اس طرح شروع کی جاتی ہے جس طرح کوئی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ مجرم کو جھاڑ رہا ہے۔
رُجْز اور ھجرْ کے متعدد معانی
بیشک رُجز کے معنے عربی زبان میں غلاظت اور میل کچیل کے بھی ہیں۲۵؎ لیکن اس کے ایک معنے
اَلْعَذَابُکے ہیں۲۶؎ اور ایک معنی عِبَادَۃُالْاَوْثَانِ۲۷؎ یعنی بُتوں کی پرستش کے ہیں۔ اسی طرح ھَجْرٌ کے بھی کئی معنی ہیں ھجر کے ایک معنی ہیں چھوڑ دینا اور اعراض کرنا۲۸؎، دوسرے معنی ہیں کسی چیز کو پوری طرح کاٹ دینا۲۹؎ اور تیسرے معنی ہیں اونٹ کے پیر میںرسّی باندھ کر وہی رسّی اس کی گردن سے باندھ دینا تا کہ پھندا پڑ جائے اور وہ نکلنا بھی چاہے تو نکل نہ سکے اور اس کی حرکت زیادہ سے زیادہ محدود رہ جائے۔۳۰؎ پس وہ تو یہ معنی کرتے ہیں کہ اپنے جسم کی گندگی دُور کر یعنی کپڑے بھی دھو اور جسم کی گندگی بھی دُو ر کر، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان معنوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کے متعلق یہ تسلیم شُدہ بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا ہے اور مراد امت
ہوتی۔ اس طرح ہم رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچائو کر سکتے ہیںاور کہہ سکتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت دُور کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آپ کی اُمت ہے لیکن اس جگہ یہ معنے نہیں ہو سکتے اس لئے کہ یہ تو گورنر کے تقرر کا اعلان ہے جب اس کی امت کوئی تھی ہی نہیں، جب امت تھی ہی نہیں اور آپ کو خاتم النّبییّن کے عہدہ پر قائم کیا جا رہا تھا تو اس وقت اس کاکیا ذکر تھا کہ تیرے مرید کپڑے بھی دھوئیں اور جسم کی غلاظت بھی دُور کریں اُس وقت بہرحال کلام مخصوص تھا محمد رسول اللہ سے۔ اُس وقت میںدوسرے لوگوں کی شرکت کا کوئی سوال نہیں تھا پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان معنوں کا سیاق وسباق سے بھی کوئی جوڑ نہیں۔ پہلے کہا جاتا ہے ساری دنیا کو تبلیغ کر۔ پھر کہتا ہے ٹھہر جا پہلے کپڑے دھولے۔ پھر کہتا ہے کپڑے بھی ابھی رہنے دے پہلے نہالے۔ غرض بالکل غیر متعلق باتیں ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ کے کلام میںان کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
اب میں بتاتا ہوں کہ اس آیت کے اصل معنے کیا ہیں اور ہر معنی کے لحاظ سے اس آیت سے کتنے بڑے معارف نکلتے ہیں۔ مَیں نے بتایا کہ رُجْزٌ کے تین معنے ہیں گندگی ، عذاب اور شرک۔ اور ھجر کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں کاٹنے کے بھی ہیں اور گلے اور پیر میں رسّہ باندھ کر حرکت کو محدود کرنے کے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں۔
دنیا میںغلاظت اور گندگی مٹادینے کا حکم
اوّلؔ ، اے رسول! گندگی کو مٹادے ، گندگی کو چھوڑ دے نہیں! چھوڑنے کے
یہ معنے ہیں کہ گندہ ہے اور مٹانے کے یہ معنے ہیں کہ لوگ گندے ہیںتو ان کی گندگی کو دُور کر ۔ اور ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے جب ھجر کے معنے کاٹ دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھجر کے معنے مٹا دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھجر کے معنے توڑ دینے کے بھی پائے جاتے ہیںتو تم محمد رسول اللہ کوغلاظت میںکیوں پھنسانا چاہتے ہو۔ حقیقت تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے عیبوںپر پردہ ڈالتے ہیں، لوگ کہتے ہیں یہ ہمارا دوست ہے یہ ہمارے عیبوں کو چھپاتا ہے مگر یہ مولوی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بنے پھرتے ہیں اور پھر جھوٹے عیب آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جب ھجر کے معنے کاٹ دینے کے بھی ہیںتو وہ کیوں ایسے معنے نہیں لیتے جو محمد رسول اللہ کی شان کے مطابق ہیں کہ اے محمد رسول اللہ! تو گندگی کو کاٹ ڈال یعنی دنیا سے اس کا نام ونشان مٹا دے اور یہ بالکل ٹھیک ہے ساری دنیا گندی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیاگیا کہ اس گندگی کو مٹا دے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کس طرح عمل کیا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے تاریخ میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ آپ نے حضرت خدیجہؓ سے یہ کہا ہو کہ صابن لایا جائے اور آپ نے صابن مَل مَل کر میل اُتارنی شروع کر دی ہو اور پھر حدیثوں میںاس کی تفصیل آتی ہو مگر جوکچھ میںکہتا ہوں وہ کتبِ اسلام میں لفظاً لفظاً موجود ہے۔
رِجْزٌ کے معنے ہوتے ہیں گندگی۔ لیکن گندگی سے مراد صرف میل نہیں بلکہ رِجْز کے معنے ہیں اشیاء ماحول کی گندگی، جسم کی گندگی ، دماغ کی گندگی، دل کی گندگی، خیالات کی گندگی، زبان کی گندگی ، یہ ساری باتیں رجز کے اندر شامل ہیں اب یہ کتنا شاندار کام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا ہے اگر محمد رسول اللہ کی نسبت یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے تو آپ کی کتنی شان بلند ہو جاتی ہے، کوئی نبی ہے ہی نہیں جس نے یہ کام کیا ہو، انجیل لائو، توریت لائو، صُحفِ انبیاء لائو، آپ کے مقابلہ میں کوئی نبی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
اسلام سے پہلے گندگی کو بزرگی کی علامت سمجھا جاتا تھا
اسلام سے پہلے دین کے یہ معنے سمجھے جاتے
تھے کہ گندے رہو۔ عیسائی تاریخوں کونکال کر دیکھ لو مَیں نے پڑھا ہے بعض پادری بڑے بزرگ سمجھے جاتے تھے اور ان کی بزرگی کی علامت یہ سمجھی جاتی تھی کہ چالیس سال سے انہوں نے غسل نہیں کیا اور ناخن اتنے بڑھے کہ کئی کئی انچ لمبے ناخن ہو گئے، گویا ان کے ہاں بزرگوں کا نشان یہی سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی، انہوں نے ایک زیارت گاہ بنائی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے چالیس سال تک انہوں نے سر نہیں اُٹھایا اور دیوار میں بیٹھے بیٹھے گڑھا پڑ گیا گویا پیشاب اور پاخانہ بھی پاجامہ میںہی کرتے رہے۔ اس میںعزّت کیا ہے، آخر سوچنا چاہئے کہ جو شخص بیٹھا رہا اور ہلا نہیں اور وہیں اس کے جسم کا نشان پڑ گیا اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے نہ نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ دین کا کوئی کام کیا، نہ کھانا کھایا، نہ نہایا، نہ پیشاب کیا، نہ پاخانہ کیا، مگر وہ تو ضروری ہے پھر یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ پیشاب ، پاخانہ پاجامہ میں ہی کر ڈالتے ہونگے اور ان کا نام انہوں نے زیارت گاہ رکھا ہؤا ہے۔
ہندوئوں میں دیکھ لو ان میں بھی بزرگی کے یہی معنے سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا بزرگ ہے کہ کوئی اس کو پرواہ ہی نہیں۔ جب سے پیدا ہؤا ہے نہایا نہیں، بُدھ جی کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ اتنے بزرگ تھے کہ انہوں نے دیوار کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنی شروع کی نیچے سے بانس کادرخت نکلا اور ان کے پیٹ میںسے ہوتے ہوئے سَر میں سے پار نکل گیا مگر وہ ہِلے ہی نہیں۔
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دنیامیں آئے جب کہ ساری دنیا غلاظت کا پوٹلا بنی ہوئی تھی جب کہ مذہب اور روحانیت کے معنے یہ سمجھے جاتے تھے کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو۔ اِس دنیامیںمحمد رسول اللہ کا وجود پیدا ہوتا ہے اور ایسے خلافِ ماحول میں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ! یہ جو تجھے اِردگرد نظر آتا ہے کہ گندگی کانام مذہب اور غلاظت کانام نیکی رکھا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے ان خیالات کو دنیا سے نیست ونابود کر دے۔
جسم کی صفائی کے متعلق رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جمعہ کو آئو تو غسل کر کے آئو ، مسجد میں آئو تو پیاز کھا کر یا لہسن کھا کر نہ آئو، تا کہ تمہارے مُنہ سے بدبو نہ آئے۔ عطر لگا کر
آئو۔ پھر انسان کے ساتھ شہوت لگی ہوئی ہے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے بعد غسل کیا جائے لوگ پوچھتے ہیں کہ غسلِ جنابت کا فائدہ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ غسلِ جنابت ہی ہے جو تمہیں پاکیزہ رکھتا ہے۔ اب تم مجبور ہو جاتے ہو کہ غسل کرو اور اگر غسلِ جنابت نہیں کرتے تو بے دین سمجھے جاتے ہو۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر دنیا کی کایاپلٹ دی، مذہب کا نام غلاظت سمجھا جاتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کا نام صفائی رکھ دیا۔ اسی طرح لباس کی صفائی کے متعلق آپ نے احکام دئیے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے یا دُھلے ہوئے کپڑے پہن کر آئو، عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہوئے ہوں، غرض جسمانی صفائی پرآپ نے اتنازور دیا کہ دنیا میںروحانیت کاجو نقشہ تھا اس کو بالکل بدل دیا۔پہلے گندے اور غلیظ آدمی کے متعلق کہتے تھے کہ یہ نیک ہے اب صاف اور پاکیزہ آدمی کونیک کہتے ہیں کتنا بڑا تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا۔
حضرت خلیفہ اوّل کا ایک واقعہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چونکہ سر میں چکر آنے کی مرض تھی آپ بادام روغن اور
مشک کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ ایک دفعہ مَیںدرس دے کر واپس آ رہا تھا کہ ایک ہندو جس کے مکانات میں بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے دفتر بن گئے(کیونکہ ہم نے وہ مکان خریدلیا تھا) اور جو ریٹائرڈ ڈپٹی تھا اپنے صحن میں بیٹھا ہؤا تھا مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیااور کہنے لگا حکیم صاحب! ایک بات پوچھنی ہے آپ خفا تو نہیں ہونگے؟ سنا ہے کہ مرزا صاحب پلائو اور بادام روغن کھا لیتے ہیں، مَیں نے کہا ٹھیک ہے کھا لیتے ہیں حیران ہو کر کہنے لگا کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ مَیں نے کہا ڈپٹی صاحب ہمارے مذہب میں پلائو اور بادام روغن جائز ہے۔ کہنے لگا کیا فقراء کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا ہاں ہمارے مذہب میں فقراء کو بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے۔ اس پر وہ ’’اچّھا‘‘!کہہ کر واپس چلا گیا گویا جو طیّب چیزیںکھائے وہ ان کی نگاہ میں بزرگ نہیں ہو سکتا تھا۔
یہ تو حضرت خلیفہ اوّل کا واقعہ ہے جو تہذیب سے بات کرتے تھے ہمارے ایک اور دوست تیز زبان تھے اور مذاقیہ طبیعت کے تھے امرتسر کے رہنے والے تھے ان کے جواب ہمیشہ اسی طرز کے ہؤا کرتے تھے۔ ان کو کوئی ہندو مجسٹریٹ مل گیا اور کہنے لگا کیا ہے تمہارا مرزا تم کہتے ہو وہ خدا کامأ مور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے ہم نے سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مُرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ مرزا صاحب کوچِڑانے کے لئے پاخانہ کھا یا کریں مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔غرض اس نے اپنے رنگ میں جیسے اس کا اپنا مذاق اور علم تھا جواب دیدیا تو بات یہ ہے کہ دنیا میں بزرگی کانقشہ یہی کچھ رہ گیا تھا کہ انسان غلیظ اورگندہ ہو۔
مکان کی صفائی کے متعلق ارشادات
اسی طرح مکان کی صفائی بھی کوئی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے مکان کی صفائی کا بھی حکم دیا۳۱؎ چنانچہ آپ نے مسجد کی صفائی کے متعلق کئی احکام دئیے (اصل مکان جو آپ کے قبضہ میںتھا وہ وہی تھا) آپ نے فرمایا مسجد کو صاف رکھو اس میں جھاڑو دیا کرو، اس میں خوشبو ئیںجلایا کرو تا کہ وہ صاف رہے۔۳۲؎
راستوں کی صفائی کا حکم
اسی طرح راستوں کی صفائی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا آپ نے فرمایا اس شخص کو ثواب ملتا ہے جو راستہ
میں سے پتھر وغیرہ اُٹھا دے۔۳۳؎ پاخانہ کے متعلق فرمایا کہ جو شخص راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی *** ہے،۳۴؎ جو شخص کھڑے پانی میںپیشاب کرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی *** ہے۔ جو شخص راستہ سے پتھر یاکانٹوں کو ہٹا دیتا ہے یا گندی چیزوں کو ہٹا دیتا ہے اسے ثواب ملتا ہے۔ اگر کوئی مسجد میں تھوک بیٹھے تو فرمایا وہ اسے وہاں سے اُٹھا کر مٹی میں دفن کر دے۔۳۵؎ غرض اتنے احکام ہیںصفائی کے کہ اس تہذیب یافتہ زمانہ میں بھی ہمارا ملک کم سے کم ان پر عمل نہیں کر رہا۔ یہ طہارت اور نظافت کے احکام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوئے۔
افکار کی صفائی کے متعلق ہدایات
پھر آپ نے کہا کہ افکار کی صفائی بھی ضروری ہے گویا آپ نے ہر ایک چیز کی صفائی کا حکم دیا
ہے صرف جسم کو مل مل کر دھونے کا حکم نہیں مثلاً فکر ہے اس کی صفائی کا بھی آپ نے حکم دیا فرمایا بدظنی نہیںکرنی،۳۶؎ بُغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا۳۷؎ گویا دماغ اور خیالات کی پاکیزگی بھی آپ نے قائم کی اور حکم دیا کہ کسی قسم کے بدخیالات اور بدارادے تم نے نہیں رکھنے۔
قلب کی صفائی کا حکم
پھرقلب کی صفائی کو مدّنظر رکھتے ہوئے آپ نے محبت خالص کا حکم دیا، نفاق سے روکا، سچے تعلقات اور وفاداری پر زور دیا۔۳۸؎
زبان کی صفائی کا حکم
پھر زبان کی صفائی کا حکم دیا فرمایا گالی گلوچ نہیں کرنی ، سخت الفاظ نہیں بولنے، دوسرے سے محبت کے ساتھ پیش آنا ہے۔۳۹؎
مُنہ کی صفائی کا حکم
پھر مُنہ کی صفائی ہے مُنہ کی صفائی کے لئے مسواک کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ فرشتے نے مُنہ کی صفائی کے متعلق اتنازور دیا کہ میں
نے سمجھا شاید فرض ہو جائے۔ پھر فرمایا میں ہر نماز کے لئے مسواک اس لئے ضروری قرار نہیں دیتا کہ کہیں میرے حکم کے بعد خدا اس کو فرض قرار نہ دیدے۔۴۰؎
عظیم الشان تغیر
یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہؤا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دنیا دیکھو، پہلی تاریخیں پڑھو،
ہندوئوں کی تاریخیں پڑھو، عیسائیوں کی تاریخیں پڑھو، یہودیوں کی تاریخیں پڑھووہ غلاظت کا ٹوکرا معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو دیکھو یہاں بڑا بزرگ تو الگ رہا جو چھوٹے سے چھوٹا بزرگ تھا وہ بھی پاکیزہ اور صاف سُتھرا اور نہایا دھویا ہؤا نظر آتا ہے۔
گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا
اب ان معنوں کے لحاظ سے وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ
کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اے ہمارے گورنر! جو یہ پتہ لگتے ہی کہ ہم اس کو ایک اہم کام سپرد کرنے لگے ہیں وردی پہن کر گھوڑے کے پاس تیار کھڑا ہو گیا ہے کہ چھلانگ لگا کر سوار ہو جائوں دائمی طور پر اپنے کام میں لگ جا اور دنیا کو ہوشیار کر اور پہلے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی اصلاح کر ، پھر باقی دنیا کی اصلاح کا فرض سرا نجام دے اور ہر قسم کی صفائی دنیامیںقائم کر اور لوگوں کو بتا کہ گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا بلکہ انسان کا ذہن کُند ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے۔
رُجْز کے دو سرے معنوں کے لحاظ سے آیت کی تشریح
اب ہم اس آیت کو دوسرے معنوں کے لحاظ
سے لیتے ہیں۔ دوسرے معنے رِجْز کے عذاب کے تھے اس کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے بن جائیں گے کہ تو عذاب کو دنیا سے مٹا دے ان معنوں کے رو سے مندرجہ ذیل مطالب اس آیت کے نکلتے ہیں۔
تعذیبِ نفس کی ممانعت
اوّل اسلام سے پہلے مختلف ادیان میںتعذیبِ نفس کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا مثلاً کہتے تھے کہ بیٹے کی
قربانی خدا کے قریب کر دیتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ شادی نہ کرنا، رہبانیت اختیار کرنا اور اپنے نفس کا بیکار کر دینا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو ہیجڑا بنالینا یہ بڑی نیکی ہے۔ اپنے آپ کو اُلٹا لٹکائے رکھنا یعنی سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر لینا، یہ بڑی نیکی ہے۔ ٹھنڈے موسم میںدریا میں بیٹھے رہنا یہ بڑی نیکی ہے، گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھ رہنا یہ بڑی نیکی ہے ، جسم پر کوڑے لگانا یہ بڑی نیکی ہے۔ اچھی اور پاکیزہ چیزیں نہ کھانا یہ بڑی نیکی ہے۔
پس فرماتا ہے ہم نے ان تمام باتوں کی تیرے ذریعہ سے اصلاح کر دی ہے اور ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ وہ تمام احکام جن کو دین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن میں انسان کے دل کو یا جسم کو یا دماغ کو عذاب دیا جاتا تھا وہ ساری کی ساری چیزیں منسوخ کی جاتی ہیں۔ خدا سے ملنے کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیںکہ کسی کا ناک کاٹا جائے یا کسی کو اُلٹا لٹکایا جائے۔ خدا کے ملنے کے لئے روحانی ذرائع ہیں یہ غلط طریق تھے جو دنیا نے جاری کئے ہوئے تھے۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جا اور ان کو منسوخ کر اور دنیا کو بتا دے کہ یہ غلط طریق تھے جو اس نے اختیار کرلئے تھے۔
عورتوں کو مُعَلَّقہ چھوڑنے اور
آگ کا عذاب دینے کی ممانعت
اسی طرح عورتوں کو مُعَلَّقہ چھوڑا جاتا تھا یہ بھی تہذیب تھی، آگ کا عذاب دیا جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کسی کو آگ کاعذاب دینے کی اجازت نہیں یہ
خدا کا حق ہے کہ وہ جہنّم میں ڈالتا ہے تمہیں حق نہیںکہ ایسا کرو۔
غلامی کی ممانعت
اسی طرح دنیا میںغلامی کا رواج تھا انسان کی آزادی کو چھین لیا جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ عذاب
بند کیا جاتا ہے اب کوئی غلامی نہیں۔۴۱؎
جانوروں کو دُکھ دینے کی ممانعت
جانوروں کے مُنہ پر لوگ ٹھپّے لگاتے تھے اور اس طرح جانوروں کی مختلف قسمیں بناتے تھے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جانور کو تکلیف ہوتی ہے اگر تم نے نشان ہی لگانا ہو تو جانوروں کی پیٹھ پر لگائو تا کہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔۴۲؎ جانوروں کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ وہ حقیر اور ذلیل چیز ہیںاور ان کے احساسات کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو محض اس لئے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلّی کو باندھ رکھا اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ مر گئی پس اسے دوزخ میں داخل کیا گیا۔۴۳؎ اور فرمایا ایک عورت کو اس لئے جنت میں داخل کیا گیا کہ اس نے ایک کتّے کو جو پیاسا تھا وہ اپنا جوتا لے کے کنویں میںاُتری اور اس میں پانی بھر کر اُسے پلایا اس وجہ سے خدا نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ ۴۴؎
ہر حصّہء زندگی سے تعذیب کا اخراج
یہ تعلیم بتا رہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا سے کس طرح عذاب کو
مٹایا گیااور عذاب دینے کو بُرا اور ناپسند قرار دیا گیا حالانکہ اس سے پہلے یہ باتیں ضروری سمجھی جاتی تھیں۔وہاں روحانیت کی ترقی کے لئے لوگ اپنے جسم پر کوڑے مارتے تھے اور یہاں ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے توآپ نے دیکھا کہ ایک رسّی لٹکی ہوئی ہے آپ نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ رسّی کس لئے لٹکائی ہے؟ اس نے کہا یَا رَسُوْ لُ اللہ! جب میں عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہوں تو رسّی پکڑ لیتی ہوں تا کہ مجھے نیند نہ آئے۔ آپ نے فرمایا خدا کو تمہارے نفس کوتکلیف میںڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں جب تک تمہارا نفس برداشت کر سکتا ہو عباد ت کرو اور جب نہ کرے نہ کرو۴۵؎ تو دیکھو تعذیب کو کس طرح ہر حصّہ زندگی سے مٹا دیا گیا ہے۔ پس فرماتا ہے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!دنیا میںروحانیت کی ترقی کے لئے غلط معیار قائم ہو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں روحانیت کی ترقی اور نفوس کی اصلاح کے لئے ہیجڑے بن جائو، پلائو کے اندر مٹی ملائو یا اس میںتیل ملائو یا سردیوں میں اُلٹے لٹک جائو، گرمیوں میں آگ کے سامنے بیٹھو یہ سب لغو باتیں ہیں ہم ان کو منسوخ کرتے ہیں خدا کو ان غلاظتوں اور تکلیفوں سے کوئی تعلق نہیں خدا تو تم کو آرام پہنچانا چاہتا ہے۔ خدا تم کو عذاب میںنہیںڈالنا چاہتا خدا نے اپنے تک پہنچنے کے راستے اور قسم کے بنائے ہیں جن سے بغیر نفس کی ذلّت کے ، بغیر کسی نفس کو توڑ دینے کے ، بغیر جذبات کو مار دینے کے خدا تک انسان پہنچ سکتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان باتوں کو رائج کر ے۔
رُجْزکے تیسرے معنے
تیسرے معنے اَلْرُّجْز کے شرک کے ہیں۴۶؎ اس لحاظ سے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو شرک مٹا دے
دیکھو شرک کو چھوڑ دے اور شرک کو مٹا دے میں فرق ہے۔مولویوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تُوشرک چھوڑ دے حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک پہلے ہی چھوڑا ہؤا تھا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ مَیں نے کبھی شرک نہیںکیا۔۴۷؎ پس یہ معنے کرنا کہ ’’شرک چھوڑ دے‘‘ محمد رسول اللہ کی ہتک ہے اور یہ معنے کرنا کہ’’شرک کو مٹا دے‘‘ یہ رسول اللہ کا اصل کام ہے۔ خدا فرماتا ہے تو شرک کو توڑ دے کیونکہ ھَجْر کے معنے تو ڑ دینے اور مٹا دینے کے بھی ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اتنی اعلیٰ تعلیم دی کہ شرک کی جڑاُکھیڑ کر رکھ دی۔
انسانیت کی تذلیل کا ایک بھیانک نظارہ
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے بھلا سو چو تو
سہی کہ اُس وقت کیسا بھیانک نظارہ نظر آتا تھا کہ ابوجہل جیسا انسان جو باتیں کرتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے عقلمندوں میںسے ہے۔ ابوسفیان جس کا اسلام لانے کے بعد بھی عرب پر سکّہ جما ہؤا تھا اور لوگ اُس کی عزّت کرتے تھے اُن کی یہ حالت تھی کہ اپنے سامنے مٹی کا بنا ہؤا بُت رکھتے ہیںاور اُس کے آگے گِر جاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی ذلّت تک انسانی دماغ پہنچا ہؤا تھا۔
بتوں کی بے بسی
ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دینی شروع کی تو میری سمجھ میںیہ بات نہیں آتی تھی کیونکہ
ماںباپ سے سُناہؤا تھا کہ بُتوں میںطاقت ہوتی ہے ہماری عادت تھی کہ جب ہم باہر کسی کام کے لئے جاتے تو ایک چھوٹا سا پتھر کا بنا ہؤا بُت اپنے ساتھ لے جاتے تا کہ اس کی برکت سے ہم مصیبتوں سے بچے رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیںسفر پر گیا اور بُت کو اپنے ساتھ لے لیا ایک جگہ پہنچ کر مجھے ایک ضروری کام پیش آیا مَیں نے اسباب رکھا اور بُت کو پاس بٹھا کر کہا حضور والا! آپ ذرا میرے اسباب کا خیا ل رکھئیے مَیں ایک ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں یہ کہہ کر مَیں چلا گیا۔ وہ کہنے لگے کام کر کے جب میں واپس آ رہا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ گیدڑ نے اس کے سر پر پیر رکھا ہؤا ہے اور پیشاب کر رہا ہے۔ گیدڑ اور کُتّے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ٹانگ اُٹھا کر اور کوئی سہارا ہو تو اُس پر رکھ کر پیشاب کرتا ہے میں نے آتے ہی اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا اور مَیں نے کہا اپنے آپ کو تو پیشاب سے بچا نہیں سکتا میرے سامان کو تُو نے کیابچانا ہے اور میں آ کر مسلمان ہو گیا۴۸؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم شرک کے خلاف پیش کی وہ ایسی نفسوں میں گڑ گئی کہ جو بھی سنتا تھا وہ اس پر فریفتہ ہو جاتا تھا اس سے باہر نکلنے کی اس
میں جرأت ہی نہیںتھی۔
ہندہ کا اعترافِ توحید
ہندہ کا واقعہ مشہور ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مسلمانوں کو جولوگ دُکھ دینے والے تھے، جنہوں نے
مسلمانوں پر بعض دفعہ انسانیت سوز مظالم کئے تھے یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے تھے ان میں ہندہ بھی تھی۔ ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ ان کو معافی نہیںہو گی بلکہ ان کو پکڑ کر سزا دی جائے گی ہندہ کے متعلق بھی یہی احکام تھے مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی چُھپ گئی اُسے تلاش کیا گیا مگر نہ ملی مسلمانوں نے سمجھا کہ کہیں بھاگ گئی ہے۔ درمیانی طرز کے لوگ جو غور کر رہے تھے اور اس لڑائی کا انجام دیکھنا چاہتے تھے جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے سمجھا کہ اسلام سچا ہے ان کے لئے آپ نے بیعت کا اعلان کر دیا۔ عورتوں کے لئے بھی اعلان ہؤا چنانچہ سینکڑوں عورتیں بیعت کے لئے آئیں اور ان میں ہندہ بھی چُھپ کر آ گئی۔ بیعت کے وقت جو الفاظ دُہرائے جاتے تھے ان میںیہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی، باقی الفاظ تو وہ دُہراتی چلی گئی جب آپ ان الفاظ پر پہنچے کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی فوراً مجلس میں بول اُٹھی کہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ تم اکیلے تھے اور ہم سارے تم کو مارنے کے لئے اکٹھے ہوئے، تم کمزور تھے اور ہم طاقتور تھے، ہم نے ساری قوم کا زور صرف کیا مگر تمہارا خدا جیتا اور ہم ہارے کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہندہ ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لئے تو سزا تجویز ہے، اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب آپ کو مجھ پر کوئی اختیار نہیں ، اب مَیں مسلمان ہو چکی ہوں۔۴۹؎ تو دیکھو یہ توحید کی تعلیم تھی جس نے دلوں کو اس طرح صاف کر دیا کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ سب لغو اور عبث باتیں ہیں بھلا شرک کوئی مان سکتا ہے۔
مشرکانہ عقائد کے پیرو بھی آج توحید کو ہی درست سمجھتے ہیں
پھر جوں جوں تعلیم پھیلی شرک مِٹتا گیا۔
یورپ میںاب بھی ایسے گرجے موجود ہیں جن میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی تصویر لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور جن کے آگے وہ سجدے کیا کرتے تھے، ہندوئوں میںبھی لاکھوں دیوتا تسلیم کئے جاتے تھے مگر اب دیکھو ہندوئوں میں جتنے نئے فرقے نکلے ہیں سب توحید پیش کرتے ہیں آخر ہزاروں لاکھوں بُت جو ایجاد ہوئے ہیں تو ہر زمانہ میںایجاد ہوتے رہے ہیں مگر اب کوئی نئی موومنٹ بتا دو جس میں کوئی نیا بُت ایجاد کیا گیا ہو۔ اب آریہ سماجی نکلے، بنگال کی برہموسماج نکلی،اسی طرح بنگال کی دیویکانند۵۰؎ کی سوسائٹی ہے۔ ٹیگور۵۱؎ تھا، غرض جتنے نکلے سب نے توحید پیش کی اور کہا کہ ہمارے مذہب میں بُت ہیں ہی نہیں۔ یہ سب باتیں ہیں یہ نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کا۔ ادھر عیسائیت جو مسیح اور مریم کی خدائی کو پیش کیا کرتی تھی اب جس عیسائی سے پوچھو وہ کہتا ہے یہ تو ظہور ہیں۔ ایک ظہور کا نام باپ رکھ دیا، ایک ظہور کا نام بیٹا رکھ دیا، ایک ظہور کا نام روح القدس رکھ دیا، ورنہ خدا تو ایک ہی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے فرمایا کہ جا اور شرک کو دنیا سے اُکھیڑ کر پھینک دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کر دکھایا۔ کہاں ہیں ہُبل اور لات اور عُزّیٰ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھوڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ دلوں سے شرک کو نکال پھینکا اور وَالرُّجْزَ فَاھْجُر ْکے حکم کو ایسے طور پر پورا کیا کہ آج کسی شریف آدمی کو مجلس میںیہ کہنے کی جرأت نہیں کہ خدا کے سِوا کوئی اور بھی اُس کاشریک ہے۔
یہ کتنا عظیم الشان تغیرہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا اور جس کی مثال دنیا کے کسی نبی کی زندگی میں بھی نہیں ملتی۔ پس مبارک ہے وہ جس نے اپنے گورنر جنرل کے لئے یہ پروگرام تجویز کیا اور مبارک ہے خداتعالیٰ کا یہ گورنر جنرل جس نے اس پروگرام کواس طرح پورا کیا کہ جس طرح اسے پورا کرنے کا حق تھا۔
شرک کو باندھ رکھنے کا حکم
چوتھے معنے اس کے یہ بنتے ہیں کہ تو شرک کو باندھ دے یعنی باوجود اس کے کہ تُو توحید کی تعلیم د ے گا لوگ مسلمان
ہونگے اور شرک چھوڑتیچلے جائیں گے پھر بھی شرک دنیامیں قائم رہے گاکیونکہ شرک نفس کو عیاشی پرقائم رکھنے کی درمیانی سٹیج ہے۔ جب تک انسانی نفس کے اندر کمزوری رہے گی وہ جھوٹے یا سچے طور پر شرک کا قائل رہے گا۔
نفس گنہگار کی تسلّی کے لئے شرک ایک ضروری چیز ہے
مسلمان یُوں تو اللہ اللہ کرتے ہیں لیکن جب ان
کا دل چاہتا ہے کہ اسلامی احکام کو توڑ دیں تو توڑ دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اُن کا دل پھر یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جنت میں بھی جائیں اس لئے کہتے ہیں فلاں بزرگ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا دیا تو جنت میںچلے گئے، فلاں کی بیعت کر لی تو چلو جنت مل گئی۔ پس شرک نفسِ گنہگار کو تسلّی دینے کاایک ذریعہ لوگوں نے بنایا ہؤا ہے جب تک نفسِ گنہگار باقی رہے گا شرک کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گا حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھیںجو کسی پِیر صاحب کی مرید تھیں ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئیں تو مَیں نے کہا بہن! تم احمدی نہیں ہوتیں اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگیں ہم نے پیر پکڑ لیا ہے اور پِیر صاحب کی بیعت کر لی ہے اب ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے کہا پیر صاحب کی بیعت نے تمہیں فائدہ کیا دیا ہے کہنے لگی فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اب تم نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے اب تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں جو تمہاری مرضی ہو کرو تمہارے گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں اور اب تمہارے سب گناہوں کے ہم جوابدہ ہیں۔ مَیں نے کہا اچھا بہن اب جائو گی تو اُن سے پوچھنا کہ ایک ایک گنا ہ کے بدلہ میں جو لوگوں کو اتنی جوتیاں قیامت کے دن پڑنی ہیں جن کی حد نہیں تو جب آپ نے ہم سب کے گناہ اُٹھا لئے ہیں تو آپ کو کتنی جُوتیاں پڑیں گی؟ چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس آئی تو مَیں نے کہا پوچھا تھا؟ کہنے لگی ہاں پوچھا تھامگر وہ سوال تو پِیر صاحب نے حل کر دیا۔ میں نے کہا کس طرح؟ کہنے لگی پیرصاحب نے کہا دیکھو جب تم پُل صراط پر جائو گی اور فرشتے پوچھیں گے کہ تمہارے یہ یہ گناہ ہیں تو تم کہہ دینا ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ پِیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھو۔ جیسے ریلوے سفر میںایک ایک کے پاس ٹکٹ ہوتے ہیں اور ریل والے پوچھتے ہیں کہ ٹکٹ کہاں ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سے لے لو اسی طرح وہاں ہوگا۔ کہنے لگی اچھا پیر صاحب! جب وہ آپ سے پوچھیں گے تو آپ کیا کہیں گے؟کہنے لگے جب فرشتوں نے ہم سے پوچھا تو ہم آنکھیں سرخ کر کے کہیں گے شرم نہیں آتی کربلا میں ہمارے دادا نے جو قربانی دی تھی کیا اس کے بعد ہم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت رہ گئی ہے اور فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہو جائیں گے اور ہم دگڑ دگڑ کر کے جنت میں پہلے جائیں گے۔
تودرحقیقت شرک جہاں ایک گندی چیز ہے، شرک جہاں ایک ناپاک چیز ہے وہاں وہ نفسِ گنہگار کے لئے ایک ضروری چیز بھی ہے جس کے بغیر اس کا گزارہ ہیں ہو سکتا۔ جس طرح مسلمان گنہگار کا شفاعت کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، اسی طرح غیر مسلمان کا شرک کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، مسلمان بھی یہی کہتا ہے ۔
؎ مستحق شفاعت گنہگار انم
چلو چُّھٹی ہو گئی۔ شفاعت کے ہوتے ہوئے اب کسی عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ پس اس قسم کی شفاعت اور اس قسم کا کفارہ دنیا سے مٹے گا نہیں، تھوڑا بہت قیامت تک ضرور رہے گاورنہ گنہگار کا ہارٹ نہ فیل ہو جائے ۔ اس کے دل کو تسلّی دلانے اور اُس کی زندگی کوقائم رکھنے کے لئے یہ لازمی چیز ہے کہ کوئی نہ کوئی سہارا ہو۔ جس طرح انسان بیہوش ہونے لگے تو پتھر پر سہارا لے لیتا ہے اسی طرح مسلمان شفاعت کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر سہارالے لیتا ہے اور عیسائی کفارہ کے پتھر پر سہارا لے لیتا ہے۔
شرک کی مضرّتوں سے دنیا کو محفوظ رکھنے کا حکم
پس چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے توشرک کو
مٹائے گا اور وہ بہت کچھ مٹے گا لیکن پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں قائم رہے گا کیونکہ شرک ایک لازمی چیز ہے پھر اس کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے فرماتا ہے تو شرک کو باندھ دے یعنی جب ایک ضررنے موجود رہنا ہے اور خداتعالیٰ نے دنیا کوایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ گنہگار کے ساتھ شرک نے قائم رہنا ہے تو پھر مؤمنوں کو اُس کے ضرر سے کس طرح بچایا جائے۔ اس کا طریق یہی ہے کہ جس چیز نے قائم رہنا ہو اس کے ضررکوکم کر دیا جاتا ہے مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں انہوں نے ہٹنا نہیں۔ ایسی بیماریوں کا علاج یہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی دوا سے دبا دیا جاتا ہے مثلاً کھانسی آتی ہے تو اوپیم دے دی بلغم دبا رہا۔ شرک کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک بیشک مٹے گا مگر جو باقی رہے گا اسے اس طرح باندھ دو کہ وہ دُوڑ کُود کر دنیا میں پھیل نہ سکے اور اس کی مضرّت باقی نہ رہے۔
ایک داعی الی الخیر جماعت
اس کا طریق یہ بتایا کہ مؤمنوں کی جماعت اسلام میںقائم رہے جو شرک کے خلاف لوگوں کو کہتی رہے اور
دلائل دیتی رہے تاکہ لوگجب شرک کی طرف مائل ہونے لگیں تو اِنذار وتخویف اور حقیقت کے بیان کے ساتھ اور وعظ اور نصیحت کے ساتھ نیک طبیعتیں رُک جائیں جس طرح جانور کے پَیر کو گردن سے باندھتے ہیں تو وہ دَوڑ نہیں سکتا اسی طرح شرک دَوڑنے کے قابل نہ رہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۵۲؎
یعنی چاہئے کہ تم میںسے ایک جماعت ایسی ہو جو نیکی اور تقویٰ اور اسلام کی طرف لوگوں کو بلائے اور انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور بُری باتوں سے روکے وَاُولِٰئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ اور جس قوم میں یہ بات پائی جاتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے کیونکہ وہ شرارت کو دبائے رکھتی ہے بڑھنے نہیں دیتی۔ جیسے جنگل میں کہیںگندہ بیج پڑ جائے تو وہ مٹتا نہیںبلکہ پھیل جاتا ہے لیکن اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی کھیتی ہو تو زمیندار جانتا ہے کہ ا س میںبھی بعض دفعہ دب گھاس نکل آئے گی، بعض دفعہ تھوہریں نکل آئیں گی، بعض دفعہ بکولیاں پیدا ہو جائیں گی، بعض دفعہ آک نکل آئے گا اُس وقت ضرر سے بچنے کا کیا طریق ہوتا ہے یہی ہوتا ہے کہ زمیندار ہل چلاتے ہیں بیشک وہ پھر بھی نکلتی ہیں لیکن کمزور ہو جاتی ہیںاور کھیت کو نقصان نہیںپہنچا سکتیں۔
پس تم ایسے مبلّغ مقرر کرتے رہو اور مسلمانوں میںسے ایک ایسی جماعت کو مخصوص کرو جو دین کی خدمت میںلگی رہے جس کی وجہ سے اس قسم کے شرر آمیز اور نقصان دہ مادوں کا ہَل کے ساتھ قلع قمع ہوتا رہے بیشک شرّکا بیج پھر بھی موجود رہے گا، لیکن وہ کمزور ہو جائے گا اور اصل فصل کونقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
مسلمانوں کا تبلیغِ اسلام سے تغافل
مسلمانوں نے اس پر ایک زمانہ میں عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ بعد میں مسلمان اپنے اس
فرض کو بُھول گئے اب صرف احمدی جماعت ہی ہے جو ہَل چلا چلا کر دب، گھاسوں اور جڑی بوٹیوں کو دُور کر رہی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے فائدہ کے لئے یہ کام ہو رہا ہے وہ اسی کا نام انکارِ جہاد رکھتے ہیں، اصل جہاد احمدی کر رہے ہیں اور مولوی کہتا ہے کہ چھوڑ دو یہ ہَل چلانے ، آک نکلنے دو، تھوہریں نکلنے دو، بکولیاں پیدا ہونے دو، کھیتوں کو برباد ہونے دو، مسلمانوں کو بھوکا مرنے دو، تم تو بے ایمان ہو گئے ہو جو مسلمانوں کے لئے روٹی مہیّا کر رہے ہو۔
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ کی تشریح
آگے فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ غیر احمدی مولوی اس کے یہ معنے کرتا ہے کہ لوگوں پراس نیت
سے احسان نہ کر کہ تجھے اس کے بدلہ میں کچھ زیادہ ملے اسی کا ترجمہ میں نے پہلے یہ کر دیا تھا کہ سُود خوری نہ کر۔ لوگوں کو اس لئے پیسے نہ دیا کر کہ اس کے بدلے میںتجھے زیادہ ملے لیکن دوسری شکل ہمارے ملک میںایک اور بھی ہوتی ہے جسے ڈھویادینا کہتے ہیں اور اُردو میںڈالی دینا کہتے ہیں بعض باغبان گلدستے بنا لیتے ہیں کچھ پھول لے لئے،کچھ تریں لے لیں، کچھ ترکاری لے لی اور کسی امیر آدمی کے گھر لے گئے کہ مَیں ڈالی لایا ہوں آگے اس کی طرف سے جو بدلہ ملتا تھا وہ قیمت میںنہیںہوتا تھا۔ مثلاً یہ نہیں ہوتا تھا کہ دوآنے کی چیز ہوئی تو اس نے دو آنے ہی دے دئیے بلکہ کبھی دس کبھی بیس کبھی پچاس اور کبھی سَو روپے دے دیتا تھا۔
بنو اُمیّہ کے ایک بادشاہ کا لطیفہ
عربوں میں اس کا بڑا رواج تھا خصوصاً بنو امیّہ کے خلفاء کے پاس بڑے بڑے تحفے آتے تھے۔ لطیفہ
مشہور ہے کہ بنو امیّہ کا ایک بادشاہ ایک دفعہ شکار کے لئے گیا اور جنگل میںاکیلا رہ گیا اُسے ایک شخص ملا جو گدھا ہانک رہا تھا اور اُس پر اُس نے کھیرے رکھے ہوئے تھے۔بادشاہ نے کہا میاں! کہا ں جا رہے ہو؟ اس نے کہا دمشق جا رہا ہوں کہنے لگا کہ کس لئے اس نے اِسی بادشاہ کا نام لیا کہ اس کے حضور میں پیش کرنے کے لئے یہ لے چلا ہوں کہنے لگا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ وہ مجھے انعام دیگا۔ اس نے کہا ان چیزوں کا بھلا کیا انعام ہو سکتا ہے یہ تو بہت معمولی چیزیں ہیں اچھا تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا میں تو امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے تین سَو اشرفی انعام دیگا۔ اُس نے کہا تین سو اشرفی! یہ تو ایک اشرفی کی بھی چیز نہیں تمہیں تین سَو اشرفی کون دیگا؟ کہنے لگا تین سَو نہ سہی اڑھائی سو لے لونگا۔ اُس نے کہا اڑھائی سَو بھی بہت زیادہ ہے، کہنے لگا تو پھر دو سَو سہی۔ اس نے کہا دو سَو بھی بہت زیادہ ہے۔ کہنے لگا نہ مانے گا تو ڈیڑھ سَو سہی اس نے ڈیڑھ سَو کو زیادہ بتایا تو کہنے لگا سَو سہی۔اُس نے کہا کون بے وقوف ہے جو تمہیں سَو اشرفی دے دیگا۔ وہ بیچارا مایوس ہو کر اسی طرح قیمت گراتا چلا گیا اور آخر کہنے لگا کہ میں دس اشرفی تو ضرور لوں گا۔ اُس نے کہا یہ تو دس اشرفی کی بھی چیز نہیں کہنے لگا اگر اس نے دس سے بھی کم دیںتو میں گدھا اس کی ڈیوڑھی میں باندھ دونگا اور آپ چلا آئونگا اُس نے کہا اچھا!
اِس گفتگو کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس آ گیا اور اُس نے سپاہیوں کو حکم دیدیا کہ اگر اس اس طرح کا کوئی آدمی آئے تو خیال رکھنا اور اسے میرے پاس بھیج دینا۔ اس نے پتہ نہ لگنے دیا کہ مَیں بادشاہ ہوں۔جب وہ آیا تو سپاہیوں نے اسے اندر بھیجوادیا۔ وہاں بادشاہی جلال تھا اور تمام درباری ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی شکل پہچانی نہیںجاتی تھی کیونکہ جنگل میں وہ سادہ لباس میں گھوڑے پراکیلا سوار تھا اُس جنگلی کو دیکھ کربادشاہ کہنے لگا کس طرح آنا ہؤا؟ اُس نے کہا حضور! آپ کے لئے ایک نیا تحفہ لایا ہوں کہنے لگا کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تریں اور کھیرے ہیں کہنے لگا کیا بے قیمت چیز ہے، اس نے کہا حضور نئی چیز ہے کسی نے اب تک کھائی نہیں اس نے پوچھا اچھا تو پھر تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ کہنے لگا تین سَو اشرفی۔ اس نے کہا کیا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو کہ ان کھیروں اور تروں کے بدلہ میں تمہیں تین سَو اشرفی دیددں گا۔ اس نے کہا تین سَو نہیں تواڑھائی سَو دے دیجئے۔ کہنے لگا اڑھائی سَو بھی کون دے سکتا ہے اس نے کہا اڑھائی سَو نہیں تو دوسَو دے دیجئے ۔ کہنے لگا د وسَو بھی زیادہ ہے۔ اس نے کہا تو پھر سَو اشرفی لایئے وہ کہنے لگا سَو بھی بہت زیادہ ہے غرض اسی طرح وہ قیمت گھٹاتا چلا گیا جب دس پر پہنچا تو بادشاہ نے کہا دس اشرفی بھی بہت زیادہ ہے۔ اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا وہ کم بخت منحوس جو مجھے راستہ میں ملا تھا جس طرح اُس نے کہا تھا ویسا ہی ہؤا ہے اور یہ کہہ کر وہ لَوٹا بادشاہ ہنس پڑا اور اس نے اسے واپس بُلایا اور کہا گھبرائو نہیںاور پھر اس نے حکم دیا کہ جتنی رقمیں ہوئی ہیں وہ سب جمع کر کے اسے دیدی جائیں یعنی ۳۰۰+۲۵۰+۲۰۰+۱۵۰+۱۰۰+۹۰ اس طرح کئی سَو روپے بن گئے جو اسے دے کر اس نے رخصت کیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک
یہ ڈھوئے اور ڈالی کا طریق ہؤا کرتا تھا چونکہ یہ سُود خوری سے کم ہے اس لئے وہ اس
کے معنے یہ کرتے ہیں کہ اے محمد رَسُوْل اللہ! تو ڈھوئے لے کر لوگوں کے پاس نہ جایا کر اے محمد رَسُوْل اللہ! تو ڈالیاں لے لیکر ڈپٹی کمشنر کے پاس نہ جایا کرلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔
خدا کا گورنر جنرل اور اُس کا جرنیل آیا ہے اس کو ڈھوئے اور ڈالیوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خدا تو اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم تجھے اپنے پاس سے رزق دینگے اور بے حساب دینگے خدا تو اسے یہ کہتا ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَ فْلَاکَ ۵۳؎
اے محمد رسول اللہ! اگر تو دنیامیں نہ آیا ہوتا تو یہ سونے اورچاندیاں اور لوہے او رپیتل اور زمرّد اور ہیرے اور دریا اور پہاڑ غرض کچھ بھی نہ ہوتا یہ سب کچھ تیری خاطر پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ شخص جس کی جُوتیوں کی خاک ہیںیہ چیزیں بلکہ جس کی جُوتیوں کی خاک سے ادنیٰ ہیں اس کے متعلق مولوی یہ کہتے ہیں کہ وہ زیادہ لینے کے لئے لوگوں کوڈھوئے دیتا پھرتا تھا کہ میں دس روپے کی چیز دیتا ہوں وہ مجھے پندرہ دے دے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ یہ بھی اسی طرح ان کی غلطی ہے جس طرح کہ پہلی غلطیاں تھیں اور یہاں بھی وہی نادانی کام کر رہی ہے کہ ہر بُرے معنے محمد رسول اللہ کی طرف اور ہر اچھے معنے اپنے عیسٰی ؑ کی طرف منسوب کئے جائیں۔
لُغت کے لحاظ سے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ کے صحیح معنے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیت کے صحیح معنے کیاہیں؟اس غرض
کے لئے ہم پھر لغت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مَنّ کبھی صلہ کے ساتھ آتا ہے اور کبھی بغیر صلہ کے۔ جب یہ صلہ کے ساتھ آئے تو اس کا صلہ علیٰ ہوتا ہے چنانچہ مَنَّ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیںاس پر احسان کیا یا اس پر احسان جتایا ۵۴؎ ا ور بغیر صلہ کے مَنّ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کسی کو روکنا یا کاٹنا۵۵؎ اور اِسْتَکْثَرَ کے معنے ہوتے ہیں زیادہ لینا۔۵۶؎ اس میں روپیہ کی شرط نہیں جو چیز بھی ہم زیادہ لیںاس کے معنے اِسْتِکْثَار کے ہو جائیں گے۔
پہلے دو معنوں کے متعلق مَیں بتا چکا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں او رآپ کی شان کے بِالکل خلاف ہیں اور پھر سیاق وسباق کے ساتھ بھی ان کا کوئی جوڑ نہیں۔ذکر ہو رہا ہے اِنذار کا اور کہا جا رہا ہے کپڑے دھو، ریٹھے لا، صابن خرید، حمام میں جا اور پھر سو د خوری نہ کر۔ ان گندے معنوں کے ساتھ بھی اس کاکوئی جوڑ نہیں بنتا لیکن ہم جو معنے بتاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان آیتوں پرچسپاں ہو جاتے ہیں۔
مشرکوں کو قتل کرنے یا ان کی آزادی
پر پابندیاں عائد کرنے کی ممانعت
اب ہمارے نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے بن جائیں گے کہ اے محمد رسول اللہ! ہم نے تجھے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے پہلے حکم آچکا ہے کہ وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ شرک کو مٹادے
پس ہم نے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے لیکن اس سے ایک غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے ہم اس غلط فہمی کی تشریح کر دیتے ہیں کہ کہیں تم یا تمہارے مُرید اس حکم کے یہ معنے نہ کرلو کہ مشرکوں کو مارو اور ان کی آزادی پر پابندی عائد کرو اور اس طرح اسلام کو ترقی دو۔ کیونکہ مٹانے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان ہیںان کو خوب مارو، ان پر خوب سختی کرو، انہیںخوب ذلیل کرو اسی طرح جو لوگ تم سے اختلاف عقیدہ رکھتے ہیں تم بھی ان سے یہی سلوک کرنے لگ جائو۔ خداتعالیٰ نے سمجھایا کہ مسلمانوں کے دماغ بھی کبھی خراب ہو سکتے ہیں اور ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی غیر مسلموں پر سختی کرنے لگ جائیں اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ شرک کو مٹا دے تو ہمارا یہ مطلب نہیںکہ تم مشرکوں پر پابندیاں عائد کرو یا مشرکوں کو قتل کرو یہ اسلام میںمنع ہے پس اس جگہ مَنّ کے معنے روکنے اور کاٹنے کے ہیں فَلاَتَمْنُنْ پس مت کاٹ وہ شرک جس کے متعلق ہم نے کہا ہے کہ اسے مٹادے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو مشرکوں کو مارنے لگ جائے اور اس طرح تَسْتَکْثِرُ مسلمانوں کی جمعیت اور ان کی شوکت کو بڑھادے۔ پس اس جگہ آدمی بڑھانے کا ذکر ہے روپیہ بڑھانے کا ذکر نہیں یعنی مشرکوں کو مت کاٹ، مشرکوں پر قیود مت لگا اس طرح سے کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھے اور مسلمان زیادہ ہو جائیں۔ ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ تبلیغ رکھی ہے، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ روحانی تعلیمات رکھی ہیں، ہم نے اسلام کی ترقی کاذریعہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھے ہیں ان ذرائع سے اسلام کو بڑھا ئو، مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا ان کو مار کر یا ان پر قیدیں لگا لگا کر اسلام بڑھانے کا حکم نہیں دیا۔ اب دیکھو یہ معنے کتنے اعلیٰ اور اسلام کی خوبی ثابت کرنے والے ہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ صبر کی عظمت
پھر فرما تا ہے َولِرَبِّک فَاصْبِرْ یعنی اگر مشکلا ت آئیں تو ان
پر صبرکیجئیو مگر وَلِرَبِّکَ۔ صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک ہوتاہے صبرِ مجبوری۔ ،بڑے آدمی کا بیٹا ہو تا ہے وہ کسی کو مارتا ہے تو لو گ کہتے ہیں کہ کیا کریں بو ل نہیں سکتے ۔ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے بڑا آدمی ظلم کر رہا ہو تو غریب آدمی کی ماں اُلٹا اپنے بچے کو ما رتی ہے۔ یا اگر اس نے کسی عورت کے خا وند کو ما را ہو تو وہ الگ بیٹھ کر روتے ہیں سامنے روبھی نہیں سکتے۔ یہ بیچارگی کا صبر ہے مگر فرما تا ہے اے محمد رسول اللہ! ہم تیرے جیسے بزرگ شان والے انسان سے یہ امید نہیں کر تے کہ تو بزدلی والا صبر کر یگا بلکہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ تو وہا ں صبر کرجہا ں تجھے نظر آتا ہو کہ میرا یہاں صبر کرنا خدا تعالیٰ کی خو شنودی کا موجب ہو گایہ نہیں کہ اس لئے صبر کرو کہ اگر میَں نے صبر نہ کیا تو ظا لم ظلم میں بڑھ جا ئے گا یا میَں اس کا مقا بلہ کس طرح کر سکتا ہوںوہ طاقتور ہے اور میں کمزور ہوں تو صبر کر یگا ہماری خوشنودی کے لئے اور ہمیں راضی کر نے کے لئے۔
دوسرے معنے صبر کے ایک کام پرلگ جا نے کے ہیں۵۷؎ پس اس کے معنے یہ ہو نگے کہ آج سے دوسرے سب کام چھوڑ کر توصرف اپنے رب کی خدمت میں لگ جا۔
اب دیکھو یہ دربار کیسا شاندار ہے گورنر جنرل کے تقرر پر دربارِ خاص لگتا ہے، گورنر جنرل پیش ہو تا ہے اور اسے کہا جا تا ہے کہ سب سے پہلے ہم خوشی کا اظہا ر کرتے ہیںکہ تقررِعُہدہ کے وقت سے (جو سورئہ اقراء میں ہے) تم وردی پہن کر اور گھوڑالے کر کھڑے ہو کہ حکم ملتے ہی تم کام کے لئے نکل کھڑے ہو گے۔اب ہم ہمیشہ کے لئے یہ عُہدہ تمہا رے سُپرد کر تے ہیں ، کوئی ماں کابچہ ایسا نہیں جو تم کو اِس عُہدہ سے الگ کر سکے، ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عُہدہ تمہارے سُپرد کیا جا تا ہے۔ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا تمہارا فرض ہو گا۔ کمزور کو بیدا ر کرنا تمہارے ذمہ ہو گا اور اپنے رب کی سچّی شان کو قائم کرنا تمہارا کام ہو گا اور سب سے پہلے یہ کام اپنے اہل وعیا ل اور اپنے دوستوں اور اپنی قوم کے لو گوں سے شروع کر۔ پھر دائرہ وسیع کرتا چلا جا اور لباس اور جسم اور دماغ اور دل اور مکا ن اور ملک کی صفائی کو قائم کر اور ہر قسم کے گند کو مٹا دے اور آئندہ کے لئے تعذیبِ نفس اور تعذیبِ انسان اور تعذیبِ افکار کو دنیا سے ختم کر دے کہ خدا تعالیٰ کو اپنا قُرب دینے کے لئے ان طریقوں کی ضرورت نہیں اور شرک کا قلع قمع کردے اور ایسے سامان کر کہ مشرک شرک کو دنیا میں پھیلا نہ سکیں، موحّدین دنیا میں غالب ہوجائیں مگر یہ غلبہ مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا انہیں قتل کر کے حاصل نہ کیا جا ئے بلکہ تبلیغ اور قربانی اور ایثار سے ایسا کیا جائے اور آفات و مصائب میں برداشت کے ذریعہ سے یہ بات حاصل کی جائے مگر بُزدلانہ صبر نہیں بلکہ دلیر انہ صبر کہ جس میں باوجود طاقت کے برداشت اور عفو سے کام لیا جائے اور صرف خدا کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا جائے اوراپنے اعلان کے آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ کام تیرے سپرد چند دن کے لئے نہیں کیا جا تا، چند سال کے لئے نہیں کیا جا تااب تو ہی ہمارا ہو کر رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اس عُہدہ پر قائم رکھا جائے گا۔
دیوانِ خاص کی تیسری غرض
(۳) دیو انِ خاص کی تیسری غرض یہ ہو تی ہے کہ با دشاہ اپنے درباریوں کے کام میں سہولت پیدا کرنے کے
لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیا ر کرتا اور اُن کی مشکلات کے بارہ میں علاج تجویز کرتا ہے اور پھر انہیں مدد دینے کے وعدے کرتا ہے جس سے ان کے اندر کا م کرنے کی ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے۔
دُنیوی بادشاہوں کاطریقِ کار
میں نے دیکھا کہ دُنیوی بادشاہ ایسا کرتے ہیں مگر اوّل تو وہ ہمیشہ ہی صحیح علاج بتانے میں کا میا ب نہیں
ہو تے۔ دوسرے کئی دفعہ بادشاہ علاج بتانے کی جگہ خود اپنے درباریوں سے علاج پو چھتے ہیں اور اُن کی مشکلا ت میں مدد دینا تو الگ رہا خود اپنی مشکلات میں اُن سے مدد لینے کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر جو وعدے کرتے ہیں ان کو بھی بسا اوقات وہ پورا نہیں کرتے۔
قرآنی دیوانِ خاص کا نرالا طریق
مگر اس ’’دیوانِ خاص ‘‘میں میَں نے اس بارہ میں بھی نرالا طریق دیکھا۔ میَں نے دیکھا کہ بادشاہ
خود ہی سب علاج بتاتا ہے اور خود ہی سب کچھ مہیّا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر وعدہ کووہ پورا بھی کرتا ہے۔ چنانچہ میَں نے قرآنی دربارِخاص کا مطا لعہ کیا تو مجھے عجیب حُسن نظر آیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خاص کا وعدہ
میَں نے دیکھا کہ بادشاہ جب وزراء اور افسر مقرر
کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی حفاظت کرینگے مگر میں نے اس دربارِ خاص کا یہ طریق دیکھا کہ جب اس دربار میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا تو ساتھ ہی کہدیا گیا کہیٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّ بِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo۵۸؎
یعنی اے ہما رے رسول! ہم نے تیری طرف جو کچھ نا زل کیا ہے تو اسے لو گوں تک پہنچا دے اور اگر توُ ایسا نہیں کریگا تو تیری رسالت کا کا م نا تمام رہے گا بیشک اس کا م میں تجھے مشکلات پیش آئیں گی، اپنے اور بیگا نے تیری مخالفت میں کھڑے ہو جا ئینگے اور وہ کوشش کرینگے کہ تجھے کُچل کر رکھ دیں اور تیرے نام کو صفحہء ہستی سے معدوم کر دیں مگر خدا اُن کو ناکام کریگا اور وہ تجھے لوگوں کے تمام حملوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ کیسا ’’دیوانِ خاص ‘‘ ہے کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات الگ بھی کی جا تی ہے اور پھر دیوانِ عام میں سُنانے کا حکم دیا جا تا ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے تو ہم ذمہ دار ہیں۔
دشمنوں کی عبرت ناک نا کا می کا مرقّع
دنیا نے اس اعلان کو سُنا تو وہ حقارت کے ساتھ ہنسی اوراُس نے سمجھا کہ وہ اپنی کوششوں
سے اس گورنر جنر ل کے غلبہ اور اقتدار کو روک سکے گی اور اسے تباہ وبرباد کر دیگی مگر واقعات بتاتے ہیں کہ دشمنوں کی ہر تدبیر نا کام ہو ئی اور خدا تعالیٰ کی حفاظت ہمیشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہی۔
حضرت عمر ؓ کاارادئہ قتل
چنانچہ دیکھ لو جب مکہ میں اسلا م نے ترقی کرنی شروع کی اور کفار کی تمام تدابیر کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں زیا دتی ہوتی
چلی گئی تو حضرت عمرؓ جو ابھی اسلا م نہیں لا ئے تھے انہوں نے جوش میں آکر ایک دن تلوار ہاتھ میں لی او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جا تے ہوئے کہہ گئے کہ اچھامیَں خود ہی اِس روز روز کے جھگڑے کو ختم کئے دیتا ہوں ۔ابھی وہ گھر سے تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ انہیں راستہ میں اپنا ایک دوست ملا اُس نے پو چھا عمر اتنے جو ش میں تلوار ننگی لٹکا ئے کہا ں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا آج میَں نے ارادہ کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سرلے کر ہی واپس لو ٹوں گا تاکہ یہ روز روز کے جھگڑے ختم ہو جا ئیں ۔اُس دوست نے کہا عمر! تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جا رہے ہو پہلے اپنے گھر کی توخبر لو۔ عمر نے کہا میرے گھر میں کیا ہؤا ہے؟ دوست نے کہا تمہاری بہن اور تمہارابہنوئی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے بڑے غصّہ میں اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا جب گھر کے قریب پہنچے تو انہیں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سُنائی دی۔ قرآن کریم پڑھنے کی آواز سُن کر انہیں اور بھی جو ش آیا اور جھٹ دروازہ کے اندر داخل ہو گئے۔ ان کی آہٹ پاکر حضرت خبابؓ جو ایک حبشی غلام تھے اور وہی اس وقت عمر ؓ کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھا رہے تھے کہیں چُھپ گئے اور اُن کی بہن نے قرآن کریم کے اوراق اِدھر اُدھر چُھپا دئیے۔
بہنوئی پر حملہ
حضرت عمر ؓ نے اندر آتے ہی نہا یت جو ش اور غصّہ کے ساتھ کہا میَں نے سُنا ہے تم دونوںاپنے دین سے پھر گئے ہو اور تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
کی پیروی اختیار کر لی ہے۔ یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اورانہیں مارنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر اُن کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی مگر حضرت عمر ؓ کاہا تھ جو اُٹھ چکا تھا اُسے روکنا مشکل تھا چنانچہ ایک مُکّہ ان کی بہن کو بھی جا لگا اور اُن کے جسم میں سے خون بہنے لگا۔
بہن کو زخمی دیکھ کر حضرت عمر ؓ کی ندامت وشرمندگی
یوں تو عرب لو گ اپنی بیویوں کو مارنا کو ئی عیب
نہ سمجھتے تھے مگر کسی دوسری عورت پر ہاتھ اُ ٹھا نا وہ اپنی مردانگی کے خلا ف خیا ل کرتے تھے حضرت عمرؓ کااپنی بہن کو زخمی کرنا بِالارادہ نہ تھا چونکہ وہ اپنا ہا تھا اُٹھا چکے تھے اس لئے اب اُس کا رُکنا مشکل ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی بہن کو زخمی اور خون میں تر بتر دیکھا تواُن کے دل میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور انہیں گھبراہٹ کے عالَم میں اور کچھ نہ سُوجھا اپنی بہن سے کہنے لگے اچھا ان باتوں کو جانے دو یہ بتائو کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ یہ سُن کر بہن کو بھی سخت غصّہ آیا، کہنے لگی میں تمہیں ہر گز وہ اوراق نہیں دکھائونگی کیو نکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم اُن کو ضائع کر دوگے۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا نہیں کرونگا بلکہ دیکھ کر تمہیں واپس دیدونگا۔ بہن نے کہا تم جب تک غسل نہ کر لو تم ان اَوراق کو ہا تھ نہیں لگا سکتے چنانچہ حضرت عمرؓ غسل کرنے کے لئے چلے گئے جب غسل سے فارغ ہوئے تو بہن نے قرآن کریم کے وہ اَوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔
حضرت عمرؓ پر قرآن کریم کا معجزانہ اثر
حضرت عمرؓ کے دل میں بہن کے زخمی کرنے سے اتنی ندامت پیدا ہو چکی تھی کہ ضد اور
تعصّب اور عداوت کا وہ پردہ جس کی وجہ سے وہ قرآن کریم کو سُننا تک گوارانہ کرسکتے تھے اب ہٹ چکا تھا۔ جب بہن نے قرآن کریم کے اَوراق ان کے سامنے رکھے تو انہوں نے انہیں پڑھنا شروع کیا وہ آیا ت سورہ طٰہٰ کی تھیں جُو ںجُو ں وہ ان آیا ت کو پڑھتے جا تے ایک ایک لفظ ان کے سینے میں نقش ہو تا چلا جا تا۔ پڑھتے پڑھتے حضرت عمرؓ کی حا لت بِالکل بد ل گئی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور قرآن کریم کی آیا ت نے اُن کی فطری سعادت کو بیدار کر دیا قرآن کریم کا ایک ایک لفظ ان کے سینے کی گہرائیوں میں جا گزیں ہو گیا۔ اب عمر ؓ وہ عمر نہیں رہا تھا جو مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے دُکھ دیا کرتا تھا، اب عمرؓ وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنی لونڈی کو اسلام لا نے کی وجہ سے ہمیشہ زدوکوب کیا کرتا تھا، اب عمرؓوہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ عہد کر کے نکلا تھا کہ آج مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے ہی واپس لَو ٹو نگا، اب عمرؓ اپنی اس اصل حالت پر آچکا تھا جو اُس کے لئے ازل سے مقدر تھی، اب عمرؓاس رنگ میں رنگین ہو چکا تھا جس میں خدا تعالیٰ اُسے رنگنا چاہتا تھا، اب عمرؓ کی سنگدلی کی جگہ ایمانِ کا مل نے لے لی تھی حضرت عمرؓ نے جب یہ آیت پڑھی۔اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْ نِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِ کْرِیْ۔ اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعٰی ۵۹؎
تو وہ بے اختیا ر ہو کر بولے یہ کیسا عجیب اور پا ک کلام ہے۔ یہ سُنکر حضرت خباب ؓ جو ان سے ڈر کر چُھپے بیٹھے تھے باہر نکل آئے۔
حضرت عمر ؓ کی دارِارقم کو روانگی
حضرت عمرؓ نے جنہیں اب ایمان نے بیقرار کر دیا تھا بیتابی کے ساتھ خبابؓ سے پو چھا مجھے جلد
بتائو محمّد(صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں ؟میں اُن سے ملنا چا ہتا ہوں۔ خباب ؓ نے بتا دیا کہ محمدؐ رسول اللہ فلاں جگہ ہیں مگر چونکہ حضرت عمرؓ نے ابھی تک اپنی تلوار اسی طرح کھینچ رکھی تھی جس سے یہ خطرہ محسوس ہو تا تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں اس لئے ان کی بہن اس خیا ل سے کہ خدانخواستہ ان کی نیت خراب ہی نہ ہو آگے بڑھی اور ان کے گلے میں ہا تھ ڈال کر کہنے لگی خدا کی قسم! میں تمہیں ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھ سے اقرار نہ کر و کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دُکھ نہیں پہنچائو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں نہیں بہن! ایسا نہیں ہو سکتا مجھ پر اسلا م کا گہرااثر ہو چکا ہے۔ یہ سنکر بہن نے انہیں چھوڑدیا اور حضرت عمرؓ دارِارقم کی طرف روانہ ہو گئے جہا ں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مقیم تھے۔
حضرت عمرؓ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلا می میں داخل ہو نا
حضرت عمر ؓ نے دروازے پر پہنچ
کر دستک دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت صحابہؓ کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے تھے۔ صحابہ ؓ نے جب دروازے کی دراڑ میں سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لئے دروازے میںکھڑے ہیں تو انہوں نے سمجھا آج عمر کے ارادے نیک نہیں ہیں اس لئے انہوں نے درواز ہ کھولنے میں تأمّل کیا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھول دو۔ حضرت حمزہؓ جو ابھی نئے ایمان لائے تھے جو ش کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے دروازہ کھو ل دواگر تو عمرکسی نیک ارادہ کے ساتھ آیا ہے تو بہتر ورنہ کیا عمرؓ کو تلوار چلا نی آتی ہے ہمیں تلوار چلانی نہیں آتی۔ صحابہ ؓ نے دروازہ کھولا اور حضرت عمرؓ اسی طرح ننگی تلوار لئے اندر داخل ہو ئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا عمر!تم کس ارادے سے آئے ہو؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں تو آپ کے خادموں میں داخل ہونے کے لئے حاضر ہؤاہوں۔
نعرہ ہا ئے تکبیر
یہ سُنکر آپؐ نے خوشی کے جوش میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے بڑے زور کے ساتھ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ لگایا یہاں تک کہ مکّہ کی پہاڑیاں
بھی گونج اُٹھیں۔۶۰؎
خدا ئی حفاظت کا غیر معمولی نشان
اب دیکھو عمر تو اس ارادہ کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ آج میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)
کو ما ر کر ہی واپس لو ٹوں گا اُس وقت جبکہ عمر اپنی تلوار سونت کر گھر سے نکلے ہو نگے مکہ والے کتنے خوش ہو نگے کہ آج عمر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کئے بغیر واپس نہ آئیگا، مکہ کے لو گ بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہو نگے کہ کب انہیں خوشخبری ملتی ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے، وہ لوگ ایڑیا ں اُٹھا اُٹھا کر حضرت عمر کی راہ تک رہے ہو نگے کہ کب وہ پہنچ کر اپنی کامیابی کی اطلاع دیتے ہیں، وہ لوگ خوش ہونگے کہ آج عمر اِس جھگڑے کو ختم کر کے ہی واپس آئے گا، عمر اپنی جگہ خوش تھے او رگھر سے تلوار سَونت کر نکلتے وقت کہہ رہے ہو نگے کہ میرے جیسا بہا در بھلا فیصلہ کئے بغیر لَوٹ سکتا ہے؟غرض حضرت عمر ؓ اپنی جگہ خوش تھے اور مکّہ والے اپنی جگہ پر خوش تھے اِس بات پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ضرور قتل ہو جائینگے مگر خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہؤا اُن کی نادانی پر ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہم نے تجھ سے یہ نہیں کہا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۶۱؎ خداتعالیٰ تجھے خودلو گو ں کے حملہ سے بچائے گا چنا نچہ اُس نے حضرت عمر ؓ کواِس طرح پکڑا کہ کوئی انسان اس طرح پکڑ نہیں سکتا۔ انسان کی گرفت زیا دہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ کوئی مسلمان حضرت عمرؓ کے مقابلہ میں کھڑا ہوجا تا اور اُن کو ما ر دیتا، انسان کی گرفت زیا دہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت عمر ؓ کی بہن یا ان کا بہنوئی اور ان کا حبشی غلام انہیں راستہ میں پکڑ لیتے اور انہیں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ جا نے دیتے، انسان کی گرفت یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت حمزہؓ یا کوئی اور صحابی حضرت عمر ؓ کے مقابلہ پر کھڑے ہو جا تے اور انہیں قتل کر دیتے مگرخداتعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو اِس طرح پکڑا کہ وہی عمر جو آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا آپ کے پاس پہنچ کر خود قتل ہو گیا۔ جسم کی موت بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے اصل موت تو وہ ہو تی ہے جب کوئی شخص کسی کی غلامی میں داخل ہو جا تا ہے۔ حضرت عمرؓ گئے تو اِس نیت کے ساتھ تھے کہ وہ آپؐ کو ما ردینگے لیکن اسی عمر ؓکو خدا نے ایسا مارا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلوار لے کر کھڑ ا ہو گیا اور اُس نے کہا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں تو میَں اس کی گردن کاٹ دونگا۔۶۲؎
واقعہ ء ہجرت
پھر واقعہء ہجرت پر غور کر و اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی۔ مکّہ کے صنا د ید آپس میں مشورہ
کرکے فیصلہکرتے ہیں کہ مختلف قبائل کے مسلّح نوجوان رات کو آپؐ کے مکان کے اِردگِرد گھیرا ڈال لیں او ر جب آپ باہر تشریف لائیں تو سب مل کر آپؐ کو قتل کریں تا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنو ہا شم انتقام لینے کی جرأت نہ کر سکیں۔ اِدھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اُدھراُ سی خدا نے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہؤا تھا محمد رسول اللہ علیہ وسلم کو کفار کے اس بد ارادہ کی اطلاع د ے دی اور آپؐ کو مکہ سے ہجرت کا حکم دے دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے گھر سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں جب قریش کے مسلّح نوجوان آپ کے قتل کے ارادہ سے آپ کے مکان کے اِرد گِرد گھیراڈالے ہوئے ہیں مگر آپ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پید انہیں، آپ کے بدن میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہو تا، آپ کے جسم پر کپکپی طاری نہیں ہو تی، آپ کے حواس پراگندہ نہیں ہوتے، آپ بڑے اطمینان کے ساتھ اُن سفّاک اور خونخوار بھیڑیوں کے درمیان سے خراماں خراماں نکل جا تے ہیں اور کو ئی آنکھ آپ کو بد اِرادہ سے نہیں دیکھ سکتی، کوئی ہا تھ آپؐ پر وار کرنے کے لئے نہیں اُٹھ سکتا، کوئی تلوار اپنی میان سے باہر نہیں آسکتی، زمین وآسمان کے خدا نے اُن کی آنکھوں کو اندھا کردیا، اُن کے ہا تھوں کو شل کر دیا او رمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفا ظت وہا ں سے نکا ل لیا کیونکہ خدا نے یہ فرمایا تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔
غارِ ثور تک پہنچ کر بھی دشمن رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی گرفتاری میں کامیا ب نہ ہو سکا
جب دشمن نے دیکھا کہ اس کا یہ تیر بھی خالی چلا گیا تو اپنی ندامت اور شرمندگی مٹانے کے لئے اُس نے مکّہ کے ہو شیا ر او ر فنکا ر کھوجیوں
کی مدد سے آپؐ کے پا ئوں کے نشانات دیکھتے ہوئے غارِ ثور تک آپ کا تعاقب کیا اور دشمن اس قدر قریب پہنچ گیا کہ حضرت ابوبکر ؓ جو اس ہجرت میں آپ کے ساتھ شامل تھے گھبرا اُٹھے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! دشمن اِس قدر قریب پہنچ چکا ہے کہ اگر وہ ذرا آگے بڑھ کر غار کے اندر جھا نکے تو ہمیں پکڑ نے میں کامیا ب ہو سکتا ہے۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ اے ابوبکر! گھبراتے کیوں ہو خدا ہما رے ساتھ ہے۔۶۳؎ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں پکڑ نے میں کا میاب ہو سکیں۔ چنا نچہ مکہ کے صنا د ید جس طرح رات کی تاریکی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے میں نا کام ونا مراد رہے ہیں اسی طرح وہ دن کی روشنی میں بھی آپ کی گرفتاری میں کامیا ب نہ ہو سکے اور خدا نے بتا دیا کہ میَں رات اور دن اس انسان کے ساتھ ہوں۔ ممکن ہے اُن مکّہ کے نوجوانوں میں بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ چونکہ رات تھی اس لئے محمد رسول اللہ نکلنے میں کا میا ب ہو گئے، خدا اُن کو دن کے وقت غارِثور کے منہ پر لا یا اور پھر اُن کی آنکھوں میں نا بینائی پیدا کر کے بتادیا کہ اس کا اصل باعث یہ نہیں کہ محمد رسول اللہ رات کی تاریکی میں نکل آئے تھے بلکہ اس کا اصل باعث یہ ہے کہ میَں اس کا محا فظ ہو ں ورنہ دن کی روشنی میں اپنے کھو جیوں کی نشان دہی کے باوجود تم اسے پکڑ نے میں کیو ں کا میا ب نہ ہو سکے۔
سراقہ کا تعاقب
پھر جب آپ مدینہ جا رہے تھے ایک دشمن آپ کے سر پر پہنچ گیا مگر الٰہی تصرف کے ماتحت اُ س کے گھوڑے نے ٹھوکر کھا ئی او روہ گُھٹنوں تک
زمین میں دھنس گیا۔ وہ پھر آگے بڑھا تو دوبارہ اس کے گھو ڑے نے ٹھو کر کھا ئی او روہ پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ اس پر وہ گھبرا اُٹھا اور اُس نے سمجھا کہ یہ بِلا وجہ نہیں ہو سکتا چنا نچہ یا تو وہ آپ کی گرفتاری کے ارادہ سے باہر نکلا تھا یا عجز اور انکسار کے ساتھ وہ آپ سے معافی کا طالب ہؤا اور اُس نے کہا کہ آپ خداتعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آ پ ایک دن ضرور غالب آکر رہیں گے۔ ۶۴؎
اس واقعہ پر غور کر و اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے آپ کی معجزانہ رنگ میں حفا ظت فرمائی اور دشمن کو اپنے نا پاک عزائم میں ناکام رکھا۔
الٰہی تصرّف کے ما تحت دشمن کے ہا تھ سے تلوار گر جا نا
اسی طرح غزوہ غطفان سے واپسی کے موقع پر
جبکہ آپ ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے ایک دشمن آپؐ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے پاس جا پہنچااو راُس نے آپ کی ہی تلوار سونت کر آپ کو جگا یا اور پوچھا کہ اب آپ کو کو ن بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ اَللّٰہُ۔ان الفا ظ کا اس پر ایسا ہیبت ناک اثر ہؤا کہ اس کے ہاتھ کا نپ گئے اور تلوار اس کے ہا تھ سے گر گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہ تلوار اپنے ہا تھ میں پکڑی اور اُس سے پو چھا کہ بتااب تجھے مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی رحم کریںتو کریں ورنہ میری نجا ت کا اور کو ئی ذریعہ نہیں۔۶۳؎
جنگِ اُحد میں ـخدائی تصرّف
پھر جنگ اُحد میں ایک وقت ایسا آیا جب بعض صحابہؓ کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیااو ر آپؐ کے اِرد گِرد
صرف چند صحابہؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ آپ اکیلے نرغہء اعداء میں گھر گئے۔ ایسے خطر نا ک مو قع پر اگر خدا کی حفا ظت آپ کے شامل ِحال نہ ہو تی تو دشمن کے لئے آپؐ کو جا نی نقصان پہنچانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہزاروں مسلّح سپاہیوں کے سامنے کسی ایک شخص کی کیا حیثیت ہو تی ہے مگر ان نا زک گھڑیوں میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے سامنے میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی وہا ں سے ہٹ جا نے یا خود حفا ظتی کے لئے کسی پتھر کے پیچھے چُھپ جا نے کا خیا ل بھی آ پ کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ دشمن آگے بڑھا اور اُس نے آپ پر شدید حملہ کر دیا یہاں تک کہ آپؐ کے دندانِ مبارک بھی شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گِر گئے۔ دشمن نے سمجھا کہ وہ آپ کو مارنے میں کامیاب ہو گیا ہے مگر جب جنگ کے بادل پھٹے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سورج کی طرح دمکتے دیکھا اور یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گِری کہ آج بھی وہ ہزاروں کا لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کا میا ب نہیں ہو سکا۶۶؎ اور کیوں ایسا نہ ہو تا جبکہ اِس گورنر جنر ل کے متعلق دربارِ خاص میں یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خداتجھے لو گوں کے حملوں سے بچائے گا۔
جنگ حنین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا نا
اسی طرح حنین کی جنگ میں جب صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ گئے تھے او ر دشمن کے چار ہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسا رہے تھے
بعض صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اس وقت آگے بڑھنا ہلاکت کے منہ میں جا نا ہے مگر آپ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑدومَیں پیچھے نہیں ہٹ سکتااور خوددشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے آپ نے بڑھنا شروع کردیاکہ:۔
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۶۷؎
میں خداتعالیٰ کا سچا نبی ہوں اس کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کررہا لیکن میری اس وقت کی کیفیت کو دیکھ کر تم یہ خیا ل نہ کر لینا کہ میرے اندر کو ئی خدائی طاقت پا ئی جا تی ہے میں ایک انسان ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ غرض اُن نازک گھڑیوں میں بھی جب اسلام کے جا نباز سپاہی جو سارے عرب کوشکست دے چکے تھے بارہ ہزار کی تعداد میں ہو تے ہوئے ایک غیر متوقع حملہ کی تاب نہ لا کر اپنے پائے ثبات میںجُنبش محسوس کررہے تھے اور اُن کی سواریاں میدانِ جنگ سے بھا گ رہی تھیں،جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرد گِرد صرف چند آدمی رہ گئے تھے جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے، آپ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے کیونکہ آپؐ کو یقین تھا میرا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے خود دشمن کے حملہ سے بچائے گا۔
ایک حیرت انگیز واقعہ
پھر اِسی جنگ کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ مکّہ کا ایک شخص جس کا نام شیبہ تھا اِس جنگ میںصرف اس نیت اور ارادہ کے
ساتھ شامل ہؤا کہ مو قع ملنے پر مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دونگا۔ جب لڑا ئی تیز ہوئی تو وہ خود کہتا ہے کہ میں نے تلو ار سونت لی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے میَں نے آپؐ کے قریب ہو نا شروع کیا۔ اُس وقت مجھے یو ں معلوم ہؤا کہ میرے اور آپؐ کے درمیان آگ کا ایک شُعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے جلا کر بھسم کر دے مگر پھر بھی میں آگے بڑھتا چلا گیا اُس وقت اچانک مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے پاس آئو جب میں آ پ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے میرے سینہ پر اپنا ہا تھ پھیرا اور فرما یا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیا لات سے نجا ت دے۔ شیبہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھاکہ یکدم میری تمام دشمنی دُور ہو گئی اور میرا دل آپ کی محبت اور پیا ر کے جذبات سے اِس قدر لبریز ہو گیا کہ اُس وقت میرے دل میں سوائے اِس کے اور کوئی خواہش نہ رہی کہ میَں اپنی جان آپ کے لئے قربان کردوں۔۶۸؎
شاہِ ایران کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم دینا
پھر کسریٰ شاہِ ایران جو
آدھی دنیا کا ما لک تھا اُس نے یہود کے اشتعال دلانے پر اپنے گورنرِ یمن کو لکھا کہ عرب کے اس مدعی نبوت کو گرفتار کر کے میرے پا س بھجوا دیا جا ئے یہ شخص اپنے دعووں میں بہت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گورنر یمن نے اس حکم کے ملتے ہی ایک فوجی افسر کو اس ڈیو ٹی پر مقرر کیا اور وہ ایک سپا ہی کو اپنے ساتھ لیکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے مدینہ منورہ میں پہنچا اور اُس نے آپ سے کہا کہ کسریٰ نے گورنرِ یمن کو حکم بھجوایا ہے کہ آ پ کو گرفتار کرکے اُس کی خدمت میں حا ضر کیا جا ئے اور ہم اس غرض کے لئے یہاں آئے ہیں آپ ہما رے ساتھ چلیں ورنہ کسریٰ کو زیادہ غصّہ آیا تو وہ آپ کو بھی ہلا ک کر دیگا اور آپ کی قوم اور ملک کو بھی برباد کر دے گا۔
شاہ ِ ایران کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آج رات ٹھہرو کل میں تمہیں اس کا
جواب دونگا۔ رات کو آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کی تو خداتعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو بتایا گیا کہ کسریٰ کی اِس گستاخی کی سزا میں آج رات ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلّط کر دیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ جب صبح ہو ئی اور گورنرِ یمن کے ایلچی دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو ئے تو آپ نے فرمایا جا ئو اور اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہا رے خداوندکو ما ر دیا ہے ۔
گورنرِ یمن کا استعجا ب
جب گورنرِ یمن کو یہ اطلا ع پہنچی تو اس نے کہا اگر یہ شخص واقعہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہؤا ہو گا لیکن اگر یہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو پھر کسریٰ اسے بھی تباہ کر دیگا اور اس کے ملک کو بھی برباد کر دے گا بہر حال اُس نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس خبر کو سُنا اور اُس نے ایران سے آنے والی اطلا عات کا انتظار کرنا شروع کیا ۔
گورنرِیمن کا اقرار کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا
تھو ڑے ہی دن گزرے تھے کہ یمن کی بند رگاہ پر ایران
کا ایک جہا ز لنگر انداز ہؤا اور اس میں ایک شاہی ایلچی نے گورنرِ یمن کو بادشاہ کا ایک خط دیا اس پر چونکہ ایک نئے بادشاہ کی مُہر تھی اس لئے خط کو دیکھتے ہی گورنر یمن کہہ اُٹھا کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہاتھا۔ پھر اس نے خط کھو لا تو اس میں کسریٰ کے بیٹے (شیرویہ) نے لکھا ہؤا تھا کہ میَں نے اپنے باپ کو اس کے مظالم کی وجہ سے قتل کر دیا ہے اور اب میَں اُس کی جگہ تخت حکومت پر متمکن ہوں تم تما م افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور یہ بھی یا د رکھو کہ میرے باپ نے عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا جو حکم بھیجا تھا اُس کو مَیں منسوخ کرتا ہوں کیو نکہ وہ نہایت ظالمانہ حکم تھا۔ گورنر یمن اس خط کو پڑھ کر اس قدر متأثر ہؤا کہ وہ اس کے کئی ساتھی اُسی وقت اسلام میں داخل ہو گئے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام میں داخل ہونے کی اطلاع بھجوادی۔۶۹؎
اس واقعہ پر غو ر کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیداو ر اُس کی نصرت آپؐ کے شاملِ حال رہی۔ دشمن نے آپ کو قتل کرنے کے لئے کئی منصوبے کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دفعہ اس کو اپنے منصوبوں میں نا کام رکھا ۔
یہود کی متواتر نا کامی
مدینہ منو رہ میں اسلام اور مسلمانو ں کے سب سے بڑے دشمن یہو د تھے جو مخالفت کا کوئی موقع اپنے ہا تھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
ایک دفعہانہی کے ایک قبیلہ بنو نضیر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض امور پر گفتگو کرنے کے لئے بُلوایا۔ لیکن در پردہ سازش کی کہ ایک شخص چُپکے سے چھت پر چڑھ کر ایک بڑا وزنی پتھر آپ پر گِرادے جس سے آپ ہلا ک ہو جائیں او ر بعد میں یہ مشہو ر کر دیا جائے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گیا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اِس کی خبر دیدی اور آپ وہا ں سے اُٹھ کر واپس آگئے۔۷۰؎ اسی طرح غزوئہ خیبر میں ایک یہودی عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا لُقمہ ہی اُٹھا یا تھا کہ آپ کو اس کا علم ہو گیا کہ کھا نے میں زہر ملایا گیا ہے او ر آپ اسے چھو ڑ کر کھڑے ہو گئے۔۷۱؎
غرض اس دربار میں خدائی گورنر جنرل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا تاریخی واقعات اِس بات پر گواہ ہیں کہ وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پوار ہؤا۔
اچھے ہتھیا روںاور اچھے معاونوں کی ضرروت
پھر ایک افسر تبھی کا میا ب ہو تاہے جب اسے اچھے ہتھیا ر اور اچھے معاون
ملیں۔دُنیوی بادشاہ افسر مقرر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اب وہ اچھے ہتھیا ر اور اچھے معاون خود تلاش کریں مگراس دربار میں میَں نے یہ عجیب بات معلوم کی کہ گورنر جنر ل کے مقرر ہوتے ہی یہ اعلان کیا جا تا ہے کہ اسے بہترین ہتھیا ر اور بہترین معاون ہم خود دینگے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی چنا نچہ اس خدائی گورنر جنر ل کے متعلق یہ اعلان کیا گیا کہ کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَائَ ذَکَرَہٗ۔فِيْ صُحُفٍ مُّکَرَّ مَۃٍ۔ مَّرفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ۔ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَ رَۃٍ۷۲؎
قرآنی اسلحہ
اے لو گو سنو!ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا روحانی حاکم مقرر فرما دیا ہے اور اسے ایک ایسے ہتھیا ر کے ساتھ مسلّح کیا ہے جس کی بڑی خوبی یہ ہے
کہ وہ جسموں کو نہیں بلکہ دلوں اور دماغوں کو فتح کرتا ہے پھر یہ ہتھیا ر ایسا نہیں جس کی چوٹ کھا کر لو گ زخموں سے تڑپنے اور تلملانے لگ جا ئیں بلکہ فَمَنْ شَائَ ذَکَرَہٗ لو گ اس ہتھیا ر کی چوٹ کھانے او ر اس کا شکا ر ہو نے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں۔ یہ روحانی ہتھیار صُحُفٍ مُّکَرَّ مَۃٍ میں ہے یعنی پہلی الہا می کتب کی تما م اعلیٰ درجہ کی اخلا قی اور روحانی تعلیموں کو اس میں جمع کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے سروں پر اُٹھا ئے پھریں گے اور کو ئی نقص اس میں نہیں پائیں گے۔
حاملینِ قرآن کی عظمت
یہ ہتھیا ر بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ ہو گا یعنی ایسے سپاہیوں کے ہا تھوں میں دیا جا ئیگا جو مسافر بھی ہونگے اور لکھنے والے بھی ہونگے یعنی ایک
طرف وہ اپنے زمانہ کے لو گوں کے دلوں کو فتح کر نے کے لئے دُور دُور کا سفر کرینگے جیسے صحابہؓ قرآن کریم کو اپنے ہا تھ میں لے کر ہندوستانؔ، ایر انؔ، عراقؔ، مصرؔ ، بربرؔاور رومؔ وغیر ہ تک چلے گئے اور دوسری طرف آئندہ زمانہ کے لوگوں کے دل فتح کرنے کے لئے وہ اِس کتاب کو لکھ لکھ کر پھیلا دینگے تاکہ ہر زمانہ کے لو گ اِس سے فا ئدہ اُٹھا ئیں۔ وہ دنیا کو اِس ہتھیا ر سے فتح کرنے کی وجہ سے کِرَام ہو جا ئیں گے لیکن معزّز ہو نے کی وجہ سے وہ مغرور نہ ہو نگے بلکہ بَرَرَۃ ہوں گے یعنی دوسروں پر احسان کرنے والے اور اُن کے غمخوار اور اپنی ترقی کو ذاتی بڑائی کا موجب نہیں بنا ئیںگے بلکہ اُسے محتاجوں کی تکلیفیں اور غرباء کی مشکلات دُور کرنے کا موجب بنائیںگے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی غرباء پر وری
چنا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور
آپ کے صحابہ کی زندگی کے حا لات پر نگا ہ ڈالی جا ئے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونا پڑیگاکہ ان میں یہ خوبی نہا یت نمایاں طور پر پائی جا تی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بڑی شان عطا فرمائی مگر ہر قسم کی طاقت اور شوکت رکھنے کے باوجود انہوں نے غرباء اور مساکین کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھا اور اُنکی تکا لیف کو دُور کرنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔
حلف الفضول میں شمولیت
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہو ئے تھے کہ مکّہ کے بعض شرفاء نے ایک سوسائٹی بنا ئی جس کا کام
یہ تھا کہ جو لو گ مظلوم ہوں اُن کی امداد کی جا ئے اس سوسائٹی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوئے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتاتھا اس لئے اِس کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔ اِس واقعہ پر سالہا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ کیسی سوسائٹی تھی جس میں آپ بھی شریک ہو ئے تھے؟ غا لباً صحابہ کا منشاء یہ تھا کہ آپ تو نبی ہو نے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیا ری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس کی طرف بُلائے تومیں اس میں شامل ہونے کے لئے تیا رہوں۔۷۳؎ گویا غرباء کی امداد کے لئے آپکو دوسروں کی ماتحتی میں بھی کوئی عار نہیں تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مظلوم
شخص کے متعلق ابو جہل سے مطالبہ
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ثبوت بھی انہی دنوں بہم پہنچا دیا۔ مکّہ کے قریب کا ایک شخص تھا جس کا ابوجہل کے ذمہ کچھ قرض تھا اُس نے ابوجہل سے اپنے روپے کا
مطالبہ شروع کردیا مگر ابوجہل اس کی ادائیگی میں لیت ولعل کرتا رہا۔ آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابوجہل نے میرا اتنا روپیہ مارا ہؤا ہے آپ مجھے میرا حق دلادیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابو جہل آپ کے قتل کا فتویٰ دے چکا تھا اور مکّہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا۔ جب آپ باہر نکلتے تو لوگ آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے، بیہودہ آوازے کستے اور ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پر وا ہ نہ کی اور فوراً اُس آدمی کو ساتھ لے کر ابوجہل کے مکا ن پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ ابوجہل نے دروازہ کھو لا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شحص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں آج میرے مکان پر چل کر آگیا ہے۔ اُس نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دے دو۔ ابوجہل خاموشی سے اندر گیا اور روپیہ لا کر اس کے حوالے کردیا ۔۷۴؎
قدرت کا ایک عجیب نشان
جب یہ خبر مکّہ میں مشہور ہو ئی تو لو گوں نے ابوجہل کا مذاق اُڑانا شروع کردیا کہ تم تو کہتے تھے کہ محمد (صلے اللہ علیہ وسلم )
کو جتنا دُکھ دیا جا ئے اتنا ہی اچھا ہے او ر خود اُن سے اتنا ڈر گئے کہ اُن کے کہتے ہی چُپ کر کے روپیہ لا کر دیدیا۔ ابو جہل کہنے لگا تم نہیں جا نتے جب میں نے دروازہ کھو لا تو مجھے ایسا معلوم ہؤاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں اور اگر مَیں نے ذرا بھی انکار کیا تووہ مجھے نوچ کر کھا جا ئینگے۔۷۵؎ غرض ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے بتا دیا کہ انسان کے اندر غرباء کی امداد کا کس قدر احساس ہو نا چاہئے۔
صدقہ کا ایک دینا ر تقسیم نہ ہو نے پر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ
اسی طرح ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا تو اُن کو تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی کونے میں گِر گیا اور آپ کو اُٹھا نے کا خیال نہ رہا۔ نماز پڑھا نے کے بعد آپ کو یاد آیا
تو لوگوں کے اوپر سے پھا ندتے ہوئے آپ جلدی سے اندر تشریف لے گئے۔ صحابہؓ حیران ہوئے کہ آج کیا بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ میں گھر تشریف لے گئے ہیں۔ جب آپ واپس آئے تو آپ نے فرمایا صدقہ کا ایک دینا ر گھر میں رہ گیا تھا میں نے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اِسے غرباء میں تقسیم کردوں۔۷۶؎
حضرت عائشہ ؓ کی سخاوت
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو خود نہیں کما تی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے
تعلق کی وجہ سے صحابہ آپ کی خدمت میںاکثر ھدایا بھجواتے رہتے تھے لیکن وہ بھی اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزار ہا روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ اِس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنے تو رکھ لیتیں آپ نے فرمایا تم نے پہلے کیو ں نہ یا د دلایا۔۷۷؎
حضرت عائشہ کی اپنے بھا نجے سے نا راضگی
ان کی عادت کو دیکھ کر ایک دفعہ ان کے بھا نجے نے جس نے اُن کے
مال کا وارث ہو نا تھاکہیں کہہ دیا کہ حضرت عائشہ تو اپنا سارا مال لُٹا دیتی ہیں۔ یہ خبر جب حضرت عائشہ کو پہنچی تو آپ نے اپنے گھر میں اُس کا آنا جا نا بند کر دیا اور قسم کھا ئی کہ اگر میَں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجا زت دی تو مَیں اس کا کفارہ اداکروںگی۔کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپ اس کا قصور معاف فرمادیں۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر حضرت عائشہ نے اسے معاف کر دیا مگر فرمایا کہ چونکہ مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگرمیں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروںگی اس لئے میں اس کا کفارہ یہ قرار دیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ مَیں سب کی سب غرباء اور یتامیٰ ومساکین کی بہبودی کے لئے تقسیم کردیا کر ونگی۔۷۸؎
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی
کثرتِ ما ل کے باوجود انتہا ئی سادہ زندگی
اسی طرح صحابہ میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف لا کھو ں روپیہ کی جا ئداد کے مالک تھے چنا نچہ جب آپ فوت ہوئے تو اڑھا ئی لا کھ دینا ر اُن کے گھر سے نکلا۷۹؎ مگر اتنی
دولت رکھنے کے باوجود تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ نہا یت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے اموال کا اکثر حصّہ غرباء کی ترقی کے لئے خرچ دیاکرتے تھے۔۸۰؎ غرض صحابہ نے مال و دولت کو کبھی ذاتی بڑائی کے حصول کاذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ اُسے بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے خرچ کیا ہے۔
ایک صحابی کا اپنے تما م قرض معاف کر دینا
یہ خوبی صحابہ میںاس قدر نمایا ں پائی جا تی تھی کہ اسلامی تاریخ میں ایک
مشہور صحابی حضرت قیس کے متعلق جنہیں فتح مکّہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا کمانڈر مقرر فرمایا تھاروایت آتی ہے کہ جب وہ مرض الموت میں مبتلاء ہوئے تو ایک دن انہوں نے اپنے بعض دوستوں سے پو چھا کہ میری بیماری کی خبر تو سب لو گو ں میں مشہور ہو چکی ہے مگر میری عیا دت کو بہت کم لوگ آئے ہیں اِس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیںآپ نے سینکڑوں لو گو ں کو قرض دیا ہؤا ہے اب وہ آ پ کے پاس آتے ہوئے شرماتے ہیں کہ مبادا آپ روپیہ کا تقاضانہ کردیں۔ آپ نے فرمایا! اوہو میرے دوستوں کو بڑی تکلیف ہوئی جا ئو اور سارے شہر میں منا دی کردو کہ ہر شخص جس کے ذمہ قیس کا کو ئی قرض ہے وہ اُسے معاف کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس اعلان پراس قدر لوگ ان کی عیا دت کے لئے آئے کہ ان کی سیڑھیا ں ٹُوٹ گئیں۔۸۱؎ یہ وہ بَرَرَۃ تھے جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صُحبت سے تیا ر ہوئے جنہوں نے اپنی جا نوں اور اپنے اموال کو ایک حقیر چیز کی طرح محض اس لئے لٹا دیا کہ بنی نوع انسان کو ترقی حا صل ہو۔
تمام مشکلات کو دُور کرنے کا وعدہ
پھر دنیا میں حکومتوں پر جب مشکلا ت کے اوقات آتے ہیں تو بادشاہ اُن کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ ہم
امید کرتے ہیں کہ تم ثابت قدم رہو گے اور ہماری حکومت کے ہوا خواہ ثابت ہو گے او ر ہمارے درجہ کی بلندی کا موجب ثابت ہو گے مگر اس دربار میں میَں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ تمام مشکلا ت کے حل کرنے کا بادشاہ خود وعدہ کرتے ہے۔
ترکِ وطن کے صدمہ پر مکّہ میں واپسی کی بشارت
مثلاً سب سے بڑا صدمہ اس روحانی گورنر جنرل کو اپنے
آبائی وطن کے چھو ڑنے کا پیش آنے والا تھا سو اِس کی اُس نے پہلے خبر دے دی کہ عارضی طور پر ہماری مصلحت کے ما تحت تمہارے دشمن تم پر غالب آئیں گے اور تم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑیگا لیکن ہم تجھے پھر اپنے وطن میں واپس لائیں گے چنا نچہ فرماتا ہے۔اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ۸۲؎
ہم جس نے تجھ پر قرآن کی حکومت قائم کی ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب دشمن تجھے تیرے وطن سے نکا ل دیگا جس کی طرف دنیا حج او ر عمرہ کے لئے باربار آتی ہے تو ہم پھر تجھے واپس تیرے وطن میں لے آئیں گے۔
غور کر و اور دیکھو کہ کتنی بڑی تشفی ہے۔
اوّلؔ مصیبت کے آنے کی خبر دی،
دومؔ اس مصیبت کے وقت میں پیشگوئی پورا ہو نے کی خوشی پہنچائی،
سومؔ واپس آنے کی خوشخبری دی اور ،
چہارمؔ عملاً واپس لا کر دل کو تیسری خوشی پہنچائی، کیا دنیا کاکوئی دربارِ خاص اس روحانی دربار کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
دربار خاص میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان
پھر سب حکومتیں ایک عرصہ کے بعد کمزور ہو کر مٹ جا تی ہیں کوئی حکومت دائمی نہیں ہوتی۔ انگریزوں ہی کو دیکھ لو اُن کی حکومت اب ہندوستان میں کہا ں ہے؟ سیلون میں کہا ں
ہے؟ برما میں کہا ں ہے؟ پرانی زبردست حکومتیں کہا ں ہیں؟ نہ بادشاہ باقی رہے نہ اُن کے اُمراء اور وزراء باقی رہے، نہ مشکلات میں مشورے دینے والے کا م آئے، نہ دوسروں کی مشکلات میں مدد دینے کا وعدہ کرنیوالے اپنے وعدوں کا ایفاء کرسکے مگر میَں نے اس دربارِخاص میں دیکھا کہ گورنر جنرل کو یہ بتایا جا رہاتھاکہ تم کو ہمیشہ کی حکومت دنیا پر دی جا تی ہے چنا نچہ فرمایا۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا ۸۳؎
اے ہمارے رسول! ہم نے تجھے کسی ایک قوم یا ایک ملک کی طرف نہیں بھیجا، کسی ایک صدی یا ایک زمانہ کے لوگوںکی طرف مبعوث نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک آنے والا ہر زمانہ تیرا مخاطب ہے اور ہر فرد کے لئے تیری غلا می لا زمی ہے گویا تیری حکومت دُنیوی بادشاہوں کی طرح عارضی اور فانی نہیں بلکہ دائمی حکومت تجھے عطاکی جا تی ہے اور ہمیشہ کی سرفرازی تجھ کو بخشی جا تی ہے اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں جَن سکتی جو تیرے مقابل میں کھڑاہو سکے۔ یہ کیسا شاندارمقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور کیسا عظیم الشان دربار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہؤا۔
دیوانِ خاص کی چوتھی غرض
(۴)چوتھی غرض دیوانِ خاص کی یہ ہو تی ہے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو اُن کے اچھے کاموں پر خطاب دیتا اور
انعام بخشتا ہے مگر دنیا کے درباروں میں میَں نے دیکھا کہ خطاب ہے تو بے معنی او ر انعام ہے تو فانی، حکومتیں خان بہا در اور خان صاحب کا خطاب دیتی ہیں مگر حقیقتاً نہ وہ خان ہو تے ہیں نہ بہادر۔ پھر انعام دیتی ہیں تو بسا اوقات وہ انعام عارضی ثابت ہوتے ہیں اور دوسری حکومت چھین لیتی ہے۔ کبھی انعام ملنے سے پہلے ہی وہ صاحب ختم ہو جا تے اور کبھی اُن سے فا ئدہ اُٹھانے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ کھا نا ملتا ہے تو معدہ خراب ہو جا تا ہے، کپڑا ملتا ہے تو جسم پر خارش یا کوڑھ ہو جا تا ہے اور انسان نہ اس کھانے سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے نہ کپڑے سے۔ کبھی انعام لینے والے خود حکومت کے دشمن ہو جا تے ہیں جیسے بعض انگریز کے خوشامدی او ر اس سے انعام واکرام لینے والے آج ہم سے اِس لئے نا خوش ہیں کہ یہ انگریز کی اطاعت کرتے تھے اُس وقت ان کی تعریف سے ان کے لب خشک ہو تے تھے اور بڑی بڑی کوششوں اور اِلتجا ئوں کے بعد انعام لیتے تھے اور اب ہم پر جنھوں نے کبھی کچھ نہیں لیا آنکھیں نکالتے ہیں کہ تم نے اُن کے اچھے کاموںکی تعریف کیوں کی۔ غرض دُنیوی درباروں کا نہ خطاب حقیقت کے مطابق ہوتا ہے نہ انعام مستقل اورپائدار ہو تا ہے اور نہ انعام لینے والے حکومت کے سچے وفادار ہوتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کو رَضِیَ ا للّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ کا خطاب
مگر میَں نے دیکھا کہ اِس دربار کا خطاب بالکل
سچا او رانعام ہمیشہ کے لئے رہنے والا ہے چنا نچہ دیکھ لو صحابہ ؓ کواللہ تعالیٰ خطاب دیتے ہوئے فرما تا ہے کہ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ من الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْ اعَنْہُ ۸۴؎
یعنی مہا جرین اورانصار میںسے وہ لوگ جو سابق بِالایمان ہیں اور اسی طرح وہ لوگ جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں ان کے نمونہ کی اتباع کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اُس سے راضی ہو گئے یہ وہ عظیم الشان خطاب ہے جو صحابہ کرام ؓ کو ملا اور عَلٰی رؤُوْسِ الْاَشْہَادِ اس کا اعلان کیا گیا۔ دنیا میں ہزاروں انقلابات آئے، حکومتیں بدلیں، حوادث رونما ہوئے مگر اس الٰہی دربار سے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ کا جو خطاب صحابہ کرام ؓ کو ملا تھا وہ بدل نہ سکا آج بھی جب صحابہ ؓ کا کو ئی ذکر کرتا ہے تو ایک مخلص کا دِل محبت اور پیا ر کے جذبات سے لبریز ہوجا تا ہے اور وہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ کہے بغیر نہیں رہتااور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں دنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر اُن قربانیوں کے بعد جو بدلہ انہیں ملتا ہے وہ نہا یت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کا ہو تا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعاما ت اتنے اہم ہو تے ہیں اور اُن کا دائرہ اتنا وسیع ہو تا ہے کہ اُن کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں مثلاً یہی بات دیکھ لو تیرہ سَو سال کا زما نہ گزر نے کے باوجود آج بھی صحابہؓ کا ذکرآئے تو ہم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اب یہ بھی ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ایسا ہی جیسے خاںؔصاحب یا خاںؔ بہا در یا سرؔیا ڈیوکؔ یاما رکوئس ؔیا ارلؔ وغیر ہ ہیں مگر سوچو تو سہی کتنے خان بہا دؔر یا سر ؔیا ڈیوک ؔ یا مارکوئس ؔیا ارلؔ ہیں جن کا نام دنیا جا نتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دنیا خطاب سمیت لیتی ہے؟ بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں گزرے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہا یت بے پر وائی سے لیتے ہیں ۔
سکندر،دارا،اورتیمور کا انجام
سکندر کتنا بڑابادشاہ تھا یو نان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی بڑی زبر دست حکومتوں
کو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی سکندر کا نام نہا یت بے پروائی سے لیتا ہے۔ بچے بھی سکندر سکندر کہتے پھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ داراؔ بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گو اسے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بھی زبردست سلطنت کا مالک تھا اور چین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لو گ اسے دارا دارا کہتے پھر تے ہیں بادشاہ کا لفظ بھی اُس کے متعلق استعمال نہیں کرتے۔
تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیا مت بن گیا تھا آج اسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے حا لانکہ اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو کشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لو گوں کوما ر مار کر ان کی لا شوں کو جمع کرتا اور مینا ر کھڑا کر دیتا۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اُس نے کئی لا کھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے ’’لنگڑا تیمور‘‘ حا لانکہ اُس کے زمانہ میںکسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اسے لنگڑا تیمور کہے وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اس کے خوف سے کا نپتے تھے۔
صحابہ ؓ کی بے مثال عظمت
غرض وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سُنکر ہزاروں میل پر لوگ کا نپ اُٹھتے اُن کا نا م آج
انتہا ئی لا پر وائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کا نام بھی آج کوئی نہیںجا نتا مگر وہ غریب بکریا ں اور اونٹ چَروانے والے صحابہؓ جنہوں نے غربت میں اپنی عمر یں گزاردیںآج ان کا نام آتا ہے تو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہکہے بغیر ایک مسلما ن کا دل مطمئن ہی نہیں ہوتا۔
حضرت ابوہریرہؓ کی فاقہ کشی
حضرت ابو ہریرہ ؓ کو ہی دیکھ لو وہ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جا تا تھا اور جب
میں شدتِ ضُعف سے بیہوش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جوتے مارتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے پھر حضرت ابوہریرہؓ کسی اعلیٰ خاندان میںسے نہ تھے کوئی نا مور لیڈر یا مشہور ادیب نہ تھے، کو ئی فوجی ما ہر یا سیا سی نفوذ رکھنے والے انسان نہ تھے مگر آج بھی ہماری یہ کیفیت ہے کہ ابوہریرہ کا نام آتا ہے تو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہے بغیر دل کو چَین ہی نہیں آتا۔
حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا بلند مقام
اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جو حالت تھی وہ خود ان کے باپ کی شہادت
سے ظاہر ہیحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا جب حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکہ میں تھے کسی شخص نے وہا ں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر ؓ عرب کا بادشاہ ہو گیا ہے۔ ابو قحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کو نسا ابوبکر؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر قریشی۔ کہنے لگے کونسا قریشی؟ اُس نے کہا وہی جو تمہا را بیٹا ہے اور کون۔ وہ کہنے لگے واہ! ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہو سکتا ہے توُ بھی عجیب باتیں کرتا ہے۔ غرض ابوقحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیں سکتے تھے کہ سارا عرب انہیں بادشاہ تسلیم کرلے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حا صل ہے وہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر ؓ کو حا صل ہے بلکہ حضرت ابوبکر ؓ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو اتنی عظمت حا صل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک ابو بکر ؓ کے نو کروں کو حاصل ہے اس لئے کہ اُس نے ہما رے ربّ کے دروازہ پر سجدہ کیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر کا غلام ہو گیا اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اِس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے اور اُس خطاب کو چھین سکے جو اس نے اپنے دربار میں صحابہ کرام ؓ کو دیا۔ آج صحابہ کے زمانہ پر تیرہ سَوسال سے زیا دہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی وہ خطاب جو خدا نے اُن کو دیا تھا قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہیگا۔
رقابت اور عناد سے پاک دربار
پھر دُنیوی بادشاہوں کے ’’دیوانِ خاص‘‘ میں بار یا ب ہونے والوں کو خطا بات ملتے ہیں تو باہم
رقابت اور دشمنی اور لڑا ئی شروع ہو جا تی ہے لیکن اس دیوانِ خاص میںشریک ہونے والوں کے دلوں میں کو ئی رقابت کو ئی دشمنی اور کو ئی لڑائی نہیں ہو تی بلکہ ان کے دل ایک دوسرے کی محبت اور پیا ر کے جذبات سے لبریز ہو تے ہیں فرما تا ہے۔وَالَّذِیْنِ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِھُمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَااغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْ بِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآاِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۸۵؎
یعنی بعد میں آنے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ئیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو ہمیں بھی بخش اور ہمارے اُن بھا ئیوں کو بھی بخش جو ہم سے ایمان لا نے میں سبقت اختیا ر کرچکے ہیں اور ہما رے دلوں کو اُن کے متعلق ہر قسم کے کینہ اور بُغض سے صاف کر دے۔ اے ہما رے ربّ! تو بڑا مہر بان اور بڑا رحم کرنیوالا ہے۔
تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ
دنیا میں تعلقات کی تمام تر خرابی حسدؔ، رقابتؔاور آئندہ کے خطرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ حسد پہلوں
سے ہو تا ہے رقابت ہمعصروں سے ہو تی ہے اور خطرہ بعد میں آنے والوں سے ہو تا ہے لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہہ کر ایک سچا مؤمن اِن تینوں نقائص سے اپنا دل صاف رکھنے کی خواہش کر تا ہے گویا اس کا دل ایسا پا کیزہ ہو تاہے کہ اس میں نہ پہلوں کا حسد ہو تاہے نہ ہمعصروں کی رقابت ہو تی ہے اور نہ بعد میں آنے والوں کے متعلق کو ئی بد ظنی ہو تی ہے۔
ہر قسم کے بغض اور کینہ سے مبرا وجود
اسی طرح اللہ تعالیٰ اس ’’دیوانِ خاص‘‘ والے دربایوں کی نسبت فرما تا ہے کہ
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ اُدْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَاناً عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۔۸۶؎
یعنی متقی لو گ با غا ت اور چشموں والے مقاما ت میں ہو نگے اور انہیں کہا جا ئیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جا ئو اور ان کے سینوں کو ہر قسم کے بُغض اور کینہ اور حسد سے پاک کر دیا جا ئیگا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے۔
الٰہی خطابات کو چھیننے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
غرض اس دربار میں خطابات تقسیم ہوتے ہیں تو باہم چپقلش اور
رقابت شروع نہیں ہو جا تی او ر پھر خطابات ملتے ہیں تو وہ نہ صرف حقیقت کے مطابق ہو تے ہیں بلکہ دنیا لا کھ کو شش کرے وہ اُن کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس دربار سے اگر کسی کو نبی کا خطاب دیا گیا تو وہ نبی فوت ہو چکا اور ہزار ہا برس اس کی وفات پرگزر گئے مگر نبی کا خطاب موجود ہے او راگر اس سے کوئی منکر ہو تا ہے تو فوراً باغیوں میں شریک ہو جا تا ہے حکومت بدل گئی،گورنر کے بعد گورنرتبدیل ہوئے مگرمجال ہے کہ پُرانے گورنر کی کوئی ہتک کر سکے اور اُس کے درجہ کو کم کر سکے!
غرض یہ وہ دربار ہے جس میں درباری کو جو خطاب دیا جا تا ہے اُس کے چھیننے کی کسی میں طاقت نہیں ہو تی اور پھر جو خطاب دیا جا تا ہے وہ بالکل سچّا اور حقیقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بہا در کہتا ہے تو وہ بہا در ہی ہوتا ہے یہ نہیں ہو تا کہ حکومت اسے ’’خان بہا در‘‘ کہے اور وہ ایک چُوہے سے بھی ڈرتا رہے۔
محمّد رسو ل اللہ اور صحابہ کرام ؓ کو ایک اور عظیم الشّان خطاب
پھر ہم نے دیکھا کہ اسی قسم کا ایک اور
اعلان بھی اس دربار سے ہو رہا تھا اور دربارِخاص کا مالک اپنے گورنر جنرل کے متعلق کہہ رہا تھا کہ
مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ ۸۷؎
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور وہ لوگ جو اُن پر ایمان لا کر ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں کفار کے لئے بڑے سخت واقع ہو ئے ہیں مگر ان کا آپس میں سلوک انتہا ئی رحم اور شفقت پر مبنی ہے توُ انہیں دیکھے گا کہ وہ رات اور دن خدا تعالیٰ کے حضور رکوع وسجود میں بسر کرتے اور اس کا فضل تلا ش کر تے ہیں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اُنکی اس پا کیزہ زندگی کا نشان خود ان کے چہروں سے عیا ں ہو گیا ہے۔
قوتِ مؤثرہ اور قوتِ متأثرہ کے کرشمے
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنا یا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے
گِردوپیش کے اثرات کو قبول کرنے کے لئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تووہ ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکا ر کردے۔ گویا ایک طرف تو وہ ایک مضبوط چٹان ہے کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکراکر واپس لَو ٹ جاتی ہیں اور اُس پر ذرا بھی نشان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو تیں اور دوسری طرف وہ ایک اسفنج کے ٹکڑے کی طرح یا نرم موم کی طرح ہے کہ اُس پر ہا تھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس میں طاقتِ مقابلہ ہے ہی نہیں اور یہی دونوں چیزیں انسان کے تمام اعما ل کی جڑ ہیں یعنی کسی جگہ پر اثر قبول کرنا اور کسی جگہ پر اُس کو ردّ کر دینا ۔
اچھے اثرات کو قبول کرنے اور بُرے اثرات کو ردّ کرنے کی خوبی
اس جگہ محمّد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے متعلق یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ وہ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ اور رُحُمَا ئُ بَیْنَھُمْ ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہیں کیو نکہ اگر ایسا ہو تا تو وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول نہ کریں کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی ردّ کردیتے بلکہ اُن کے اندر یہ دونوں باتیں پائی جا تی ہیں۔ان میں یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ کتنے ہی تکلیف دہ نتائج ہوں پھر بھی وہ کسی غلط اثر کو قبول نہیں کرتے اور یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ حالات کتنے مخالف ہو ں وہ اچھی چیز کے اثر کو ردّ نہیں کرتے۔ جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب اور دین کے خلاف ہو تو وہ ایک ایسے پہاڑ کی مانند بن جاتے ہیں جس پر کو ئی چیز اثر نہیں کر سکتی لیکن جہا ں تقویٰ اور باہمی اخوت اور برادرانہ تعلّقات کا سوال ہو وہا ں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ تصویر لینے کا ایک شیشہ ہیں اور فوراً اس کے عکس کو قبول کر لیتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کا نمونہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی میں یہ دونوں باتیں نہا یت نمایا ں طور پر پائی جا تی تھیں یعنی ایک طرف تو غیرت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ دین کے خلا ف کو ئی بات سننا تک برداشت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف وہ محبت میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ اپنے بھا ئیوں کا کوئی قصور انہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دشمنوں نے کئی مواقع پر چاہا کہ آپ ان کے بارہ میں نرمی سے کام لیں اور اُن کے بتوں کی تنقیص نہ کریں مگر آپ نے کسی مرحلہ پر بھی اُن کے آگے سر نہیںجُھکا یا حالانکہ آپ جا نتے تھے کہ اس انکار کے نتیجہ میں ان لو گوں کی آتشِ غضب اور بھی بھڑک اُٹھے گی اور یہ پہلے سے زیا دہ جوش اور انتقامی قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو جائینگے مگر آپ نے اپنی یا اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کی مشکلا ت کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ خدا نے جس پیغام کے پہنچانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے میں اس کے پہنچانے میں اپنے آخری سانس تک کوشش کرتا چلا جائوں گااور کبھی اس میں غفلت اور کوتاہی سے کام نہ لو نگا۔
عمائدِ قریش کے آنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا کو جواب
جب مکّہ میں اسلام نے پھیلنا شروع کیا اور قریش کو نظر آنے لگا کہ ان کی کو ششیں ناکامی کا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفد ابو طالب کے پاس
بھیجا جس میں ابوجہل، ابوسفیان اور عتبہ وغیر ہ قریش کے بڑے بڑے رئوساء شامل تھے۔ انہوں نے ابوطالب کے پا س آکر کہا کہ آپ ہما ری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس کی حمایت سے دست بردار ہو جا ئیں ہم خود اس سے نپٹ لینگے۔ او ر اگر آپ اپنے بھتیجے کو بھی نہ سمجھائیں اور اس کی حمایت سے بھی دست بردا ر نہ ہوں تو ہم آپ کا بھی مقابلہ کرینگے اور آپ کو اپنی لیڈری سے الگ کردینگے۔ ابوطالب کے لئے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا یا اور کہا اے میرے بھتیجے! آج تیری قوم کے معزّزین کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا وہ تیری باتوں سے سخت مشتعل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھا ئیں اور مجھے بھی تکلیف پہنچائیں۔ میں محض تیری خیر خواہی کے لئے کہتا ہوں کہ ان باتوں کو چھوڑ دے ورنہ میں اکیلا ساری قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔میں سمجھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے آپ کو پالا تھا اور جس کے پائوں میں کا نٹا چُبھنابھی آپ گوارہ نہ کر سکتے تھے اُسے ساری قوم دُکھ دینے اورنقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہا رتھا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا۔ اے میرے چچا! آپ بیشک میر ا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھا مل جائیں۔ خدا کی قسم! اَگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کے اعلان سے نہیں رُک سکتا۸۸؎ کیو نکہ یہی وہ کا م ہے جس کے لئے میں اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔ آپ کا انتہا ئی مشکلا ت اور مصائب کے اوقات میں جبکہ ابوطالب کے قدم بھی لڑکھڑاگئے تھے یہ دلیرانہ جواب اس لئے تھا کہ آپ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کی صفت کے حامل تھے اور دین کے لئے اتنی غیرت رکھتے تھے کہ کفر کی ہر طاقت کے مقابلہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے اور کسی بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
مسیلمہ کذّاب کی ناکام واپسی
اسی طرح ایک دفعہ مسیلمہ کذّاب آپ کے پا س آیا اور اُس نے کہا اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ
مقرر کر دیں تو میری ساری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیا ر ہے اُس وقت اس کی قوم کا ایک لا کھ سپاہی اس کی پُشت پر تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا چاہتا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد اسے حکومت دیدی جا ئے مگر محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں خدانے اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کی صفت کا حامل بنایا تھا انہوں نے جب اس بات کو سُنا تو آپ نے کھجور کی شاخ کے ایک تنکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اُس وقت آپؐ کے ہاتھ میں تھی فرمایاتم تو خلا فت کہتے ہو میں تو تمہیں یہ تنکہ بھی دینے کے لئے تیا ر نہیں۔ یہ جواب ایساتھا جس پر وہ غصہ اور نا راضگی کی حالت میں واپس چلا گیا۸۹؎ اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تووہ اپنے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہؤا او ر اُس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی مثال کسی پہلے حملہ میں نہیں ملتی مگر باوجو د اس کے کہ مسیلمہ اوراس کی قوم کی طرف سے حقیقی خطرہ کا امکا ن تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبہ کو ردّ کر دیا اور اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں کیا مشکلات آسکتی ہیں۔
ایک صحابی کی درخواست پر رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا اسے اپنی چادر دے دینا
مگر جہا ں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلہ میں ایک ایسے پہاڑ کی حیثیت رکھتے تھے جس سے ٹکڑا کر انسان کا سر پاش پاش ہو جا تا ہے
مگر پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہِل سکتا وہاں اپنے ماننے والوں کے متعلق آپ کے دل میں اِس قدر محبت اور پیا ر کے جذبات پائے جاتے تھے کہ احادیث میں لکھا ہے ایک دفعہ ایک مخلص عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خو بصورت چادر پیش کی جو اس نے اپنے ہا تھ سے بُنی تھی او ر اس خواہش کا اظہا ر کیا کہ آپؐ اسے اپنی ذات کے لئے استعمال فرمائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ چادر پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص آگے بڑھا اور ا س نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ چادر مجھے دے دیجئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس چادر کی خود ضرورت تھی مگر آپ نے اس کے سوال کو ردّ کرنا منا سب نہ سمجھا اور فوراً واپس آکر اُسے چادر بھجوادی۔ لو گوں نے اسے ملامت کی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر کیوں مانگ لی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کی خود ضرورت تھی۔ اُس نے کہا میَں نے یہ چادر اپنے کفن کے لئے لی ہے چنا نچہ راوی کہتا ہے کہ بعد میں وہی چادر اس کا کفن بنی۔۹۰؎
غرباء کی دلداری
اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میںتشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر
بدصورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اُٹھا رہے ہیں اور اُن کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے اَٹا ہؤا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چُھپے دوسرے کی آنکھو ں پر ہا تھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اُس کی آنکھوں پر ہا تھ رکھاہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اُس کی آنکھوں پر ہا تھ رکھ دیئے۔ اُس نے آپ کے ملا ئم ہاتھوں کو ٹٹول کر سمجھ لیاکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اس نے اپنا پسینہ سے بھر ا ہؤا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ مَلنا شروع کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا میرے پا س ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میر ا ٰخریدار دنیا میں کون ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو خدا کے حضور تمہا ری بڑی قیمت ہے۔۹۱؎
عورتوں کی تکلیف کا احساس
ایک دفعہ آپ نے فرمایا جب میں نماز پڑھاتاہوں تو بعض دفعہ میرا جی چاہتا ہے کہ میَں نماز کو لمبا کروں مگر
اچانک میرے کا نو ں میں کسی بچہ کے رونے کی آواز آجا تی ہے اس پر میَں جلدی جلدی نماز پڑھا دیتا ہوں تاکہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔۹۲؎ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں دونوں قسم کے نظارے نظر آتے ہیں وہ نظارے بھی جن میں آپ دشمن کے سامنے ایک ننگی تلوار کی طرح کھڑے ہوگئے اور نہ اس کی دھمکیوں سے مرعوب ہوئے نہ اس کی خوشامد سے متأ ثر ہوئے۔ اور وہ نظارے بھی جن میںآپ نے اپنے ماننے والوں سے ایسی شفقت اور محبت کا سلوک کیا کہ کوئی ماں بھی اپنے بچوں سے اس شفقت کا اظہا ر نہیں کرتی۔
جنگ بدرمیں صحابہؓ کا دشمن کیلئے
پیغامِ موت بن کر ظاہر ہونا
پھرہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے متبعین میں بھی یہ دونوں اوصاف پیدا فرما دیئے تھے اور وہ بھی اگر ایک طرف اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کی صفت کے حامل تھے تودوسری طرف ماننے والوں
کے لئے مجسمہء رحم واُلفت تھے۔ چنا نچہ تاریخ سے معلوم ہو تاہے کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو اس جنگ میں صرف تین سَو تیرہ آدمی مسلمانوں کی طرف سے شریک ہوئے اور وہ بھی بالکل بے سروسامان اور نا تجربہ کا ر تھے لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور پھر وہ سارے کا سارا تجربہ کا ر آدمیوں پر مشتمل تھا اور اسلحہ کی بھی بڑی بھا ری مقدار اُن کے پاس موجود تھی ابھی جنگ شروع نہیں ہو ئی تھی کہ ابو جہل نے ایک عرب سردار سے کہا کہ تم جا ئو او ر یہ اندازہ کرکے آئو کہ مسلمانوںکی کتنی تعداد ہے؟ جب وہ اسلامی لشکر کا جا ئزہ لینے کے بعد واپس گیا تو اُس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سَواو رسَواتین سَو کے درمیان ہیں۔ ابو جہل اس پر بہت خوش ہؤااور کہنے لگا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہم نے میدان مار لیا۔ اس نے کہااے میری! قوم بیشک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرامشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو۔ انہوںنے کہا توُ بڑابزدل ہے آج ہی یہ لو گ قابو آئے ہیں اور آج ہی تو ہمیں ایسا بزدلانہ مشورہ دے رہا ہے۔ اُس نے کہا یہ درست ہے مگر پھر بھی میں تمہیں یہی مشورہ دُونگا کہ جنگ نہ کروکیونکہ اے میری قوم! میَں نے اُونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں۹۳؎ یعنی میَں نے جس شخص کو بھی دیکھااُس کا چہرہ بتارہا تھا کہ وہ اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں آیا ہے کہ آج مر جاناہے یا مار دینا ہے اس کے سِوا اور کوئی جذبہ اُن کے دلوں میں نہیں پایا جا تا تھا۔ یہ فدائیت کا بے مثال جذبہ مسلمانوںمیں اسی لئے پیدا ہؤا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اَشِدَّا ئُ عَلَی الْکُفَّارِکی صفت کا حامل بنایا تھا اور وہ تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی بڑے بھاری تجربہ کا ر اور مسلّح لشکر کے مقابلہ میں پیغام موت بن کر نمودار ہوتے تھے۔
اہلِ عرب کے ارتداد پر حضرت ابوبکرؓ کی حیرت انگیز جرأت
اس طرح جب
رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہا در انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبراگئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علا قہ پر حملہ کرنے کے لئے تیا ر کیا تھا اور حضرت اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہوگیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد او ر بچے اور عورتیں رہ جا ئیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں جا ئے اوراُن سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات سُنی تو انہوں نے نہایت غصّہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کا م یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اُسے روک لے؟ پھر آپ نے فرمایا خداکی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میںگھس آئیں او رکُتّے مسلمان عورتوں کی لا شیں گھسیٹتے پھریں تب بھی میَں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا۹۴؎ یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکرؓ میں اسی وجہ سے پیدا ہو ئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ۔
جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جا ئے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپؐ کے ماننے والے بھی اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کے مصداق بن گئے۔
حضرت ابو بکر ؓ کی اسلام کیلئے غیرت اور جذ بہء فدائیت
اسی طرح ایک دفعہ باتو ں باتوں میں حضرت ابوبکر ؓ
کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہو ئے تھے کہا اباجان! فلاں جنگ میں جب آپ بدر مقام سے گزرے تھے تو اُس وقت میَں ایک پتھر کے پیچھے چُھپا ہؤا تھا میَں اگر چاہتا تو آپ کو قتل کر سکتا تھا مگر میَں نے کہا باپ کو مارنا درست نہیں۔حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تُو بچ گیا ورنہ خداکی قسم! اگر میَں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا۔۹۵؎
عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بیٹے کا اخلاص
ایک جنگ کے مواقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا پیدا ہو گیا۔ اُس
وقتعبداللہ بن اُبی بن سلول جو ایک دیر ینہ منافق تھا اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑکا نے کا اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار! یہ تمہاری غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم نے مہا جرین کو سر چڑھا لیا اب مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی نَعُوْذُبِاللّٰہِ وہ خود مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نَعُوْذبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووہاں سے نکال دیگا۔ عبداللہ کا بیٹا ایک سچا مسلمان تھا جب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سُنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا او ر اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرے باپ نے جو با ت کہی ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اسے یہی سزا دینگے لیکن اگر آپ نے کسی اور مسلمان کو کہا اور اس نے میرے باپ کوقتل کردیا تو ممکن ہے اُس کو دیکھ کر میرے دل میں کبھی خیا ل آجائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میَں جوش میںآکر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اس لئے یَا رَسُوْ لَ اللّٰہ! آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہا تھوں سے قتل کروں تاکہ کسی مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو۔۹۶؎ یہ واقعہ کس طرح ان دونوں اوصاف کو ظاہر کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہء کرام میں ودیعت کردئیے تھے یعنی ایک طرف وہ کفر کے لئے ایک ننگی تلوار تھے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کے جذبات کا انہیں اتنا احساس تھا کہ عبداللہ کے بیٹے نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر درخواست کی کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر آپ میرے باپ کے متعلّق قتل کا حکم صادر فرمائیں تو پھر یہ کام میرے سُپرد کیا جا ئے تاکہ کسی اور مسلمان کا بُغض میرے دل میں پیدا نہ ہو۔
ایک معمولی شکر رنجی کے موقع پر
حضرت ابوبکر ؓ کے پا کیزہ جذبات
اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓ میں کسی بات پر شکر رنجی ہو گئی۔ غلطی حضرت عمرؓ کی تھی مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر ؓ پر نا راض ہونے لگے تو حضرت ابوبکر ؓ
آگے بڑھے اور کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میر اقصور تھا عمرؓ کا کوئی قصور نہیں تھا۔۹۷ ؎ گویا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق اُستاد سے شکا یت کرتی ہے لیکن جب وہ ڈانتا ہے تو سب سے زیا دہ دُکھ بھی ماں کو ہی ہو تا ہے یہی حال صحابہ کا تھا اُن کے دلوں میں اپنے بھا ئیوں کی اتنی محبت پائی جا تی تھی کہ وہ ان کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
حضرت عمرؓ کا ایک بدوی عورت کے بچوں کے فاقہ پر تلملا اُٹھنا
حضرت عمرؓ کو دیکھ لو اُن کے رُعب اور
دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشا ہ کا نپتے تھے، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اُٹھا او روہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لا دکر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھلا لیا او روہ اطمینان سے سو نہ گئے۔۹۸؎
عبادتِ الٰہی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق
عبادت الٰہی میں رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا استغراق صرف اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ اور رُحُمَا ئُ بَیْنَھُمْ ہی نہیں بلکہ رُکَّعاً سُجَّدًا کے بھی مصداق ہیں چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی بھی اُن میں نمایا ں طور پر پا ئی جا تی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث سے ثابت ہے کہ آپ رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی اتنی دیر عبادت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپؐ کے پائوں سُو ج جاتے۔۹۹؎
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ اس قدر عبادت کیوںکرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہؤا ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۱۰۰؎
میدانِ جنگ میں بھی نمازوں کی بالالتزام ادائیگی
اسی طرح صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ میدانِ جنگ میں بھی
وہ نمازوں کی ادائیگی کا التزام رکھتے تھے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود رہتے اور دعائوں اور ذکرالٰہی میں اپنا وقت گزارتے۔
غرض دُنیوی درباروں میں بادشاہوں کی طرف سے جو خطابات دیئے جا تے ہیں وہ بسااوقات حقیقت کے بر عکس ہوتے ہیں مگر یہ عجیب دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے جو خطاب دیا جا تا ہے وہ حقیقت کے عین مطابق ہو تا ہے اور پھر وہ خطاب چلتا چلا جاتا ہے دنیا لاکھ کوشش کرے، زمانہ میں ہزاروں انقلاب آئیں اس خطاب کو کوئی طاقت بدل نہیں سکتی ۔
دربارِ خاص میں انعامات کا اعلان
اب میں اُ ن بعض انعامات کا ذکر کرتا ہوں جو اس الٰہی دربار میں خدا تعالیٰ نے اپنے گورنر جنرل
کو عطا کئے اور جن کی نظیر دنیا کے درباروں میں اور کہیں نظر نہیں آسکتی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’دربارِ خاص‘‘ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلایا اور اُن کے لئے اپنے خاص انعامات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۱۰۱؎
یعنی اے ہمارے گورنر جنرل! ہم نے تجھے کوثر عطاکیا ہے پس تُو اِس نعمتِ عظیمہ کی شکر گزاری کے طور پر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا اور قربانیوں پر زور دے یقینا تیرا دشمن ہی ابتر رہے گا۔
کوثر کے معنے
کوثر کے معنے عربی زبان میں ہر قسم کی خیر اور برکت اور بھلا ئی کی کثرت کے ہوتے ہیں۱۰۲؎ گویا کوئی خیر نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل
نہیں ہوئی اور کوئی برکت نہیں جو آپ کو نہیں ملے گی اور پھر وہ خیر اور برکت اتنی کثرت کے ساتھ ملے گی کہ اس کثرت میں بھی دنیا کا کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
سورئہ کوثر کے نزول کے وقت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کی حالت
جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس انعام کا اعلان کیا گیا آپؐ کی اور آپ کے ساتھیوں کی یہ حالت تھی کہ باہر نکل
کر نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے اور آپ کے پیغام کو ماننے والے صرف چند افراد تھے جو اُنگلیوں پر گِنے جا سکتے تھے۔ تاریخوں سے معلوم ہو تا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت تک مکہ کے کُل بیاسی آدمی آپ پر ایمان لائے تھے۱۰۳؎ مگر یہ تو آخری دنوں کی بات ہے اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ صرف چند آدمی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیا دہ نہیں تھی آپ پر ایمان لائے۔ مکہ کی آبادی اُس وقت آٹھ دس ہزار کی تھی اور آٹھ دس ہزار کی آبادی میںسے ایک دودرجن کے قریب آدمیوں کا ساتھ ہونا اور سارے شہر کے لو گوں کا مخالف ہونا اور ایسا مخالف ہو نا کہ ہر وقت ان کا مسلمانوں کی جان لینے کی فکر میں رہنا بتاتاہے کہ مسلمانوںکی اُس وقت کیسی نازک حالت تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گلاگھونٹنے کی کوشش
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ گو آپ
کو خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھنے کی اجا زت نہیں تھی مگر کبھی کبھی آپ محبت الٰہی کے جوش میںوہاں چلے جا تے اور نماز ادافرماتے۔ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ شہر کے غُنڈے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ کو پیٹنا شروع کر دیا اور پھر آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے گھونٹنے لگے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اِس کی اطلا ع ملی تو آپ دوڑے دوڑے وہاں آئے اور انہیں ہٹانا شروع کیا اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پُو نچھتے جا تے تھے اور یہ کہتے جا تے تھے کہ اے میری قوم! تم کو کیا ہو گیا کہ تم ایک ایسے شخص کو مارتے ہو جس کا قصور سوائے اِس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔۱۰۴؎ اسی طرح آپ پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے دُکھ دیئے جا تے۔
حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا واقعہ
حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک بہت بڑے رئیس کی اولاد میں سے تھے۔ ہجرتِ اولیٰ کے
وقت وہ ایبے سینیا کی طرف چلے گئے تھے مگر بعد میں کفار نے یہ خبر اُڑادی کہ مکہ کے تما م لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس پر بعض لوگ حبشہ سے واپس آگئے جن میں حضرت عثما ن بن مظعونؓ بھی شامل تھے۔جب انہیں معلوم ہؤا کہ یہ خبر جھوٹی تھی تو انہوں نے دوبارہ ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا اس پر مکہ کا ایک رئیس جو اُن کے باپ کا گہرا دوست تھا اُن سے ملا اور اُس نے کہا تم واپس نہ جا ئو میں تمہیں اپنی پنا ہ میں لے لیتا ہوں۔ چنا نچہ مروّجہ دستور کے مطابق وہ انہیں خانہ کعبہ میں لے گیا اور وہاں اُس نے اعلان کر دیاکہ عثمان بن مظعون ؓ میری حفاظت میں ہے اب کوئی شخص اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ اس اعلان کے نتیجہ میں عثمان بن مظعونؓ کُھلے بندوں مکہ میں پھر نے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لو گ دوسرے مسلمانوں کو مارتے پیٹتے ہیں تو اُن کی غیرت جوش میں آئی اور وہ اُس رئیس کے پاس آکر کہنے لگے کہ میں آپ کی پنا ہ میں نہیں رہنا چاہتا کیو نکہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میں توآرام سے پھروں اور دوسرے مسلمان تکلیفیں اُٹھا ئیں۔ اُس نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور آخر اُس نے اپنی پناہ کے واپس لینے کا اعلان کر دیا ایک دن عرب کے مشہور شاعر لبیدؔ جو بعد میں اسلام بھی لے آئے تھے مکہ میں آئے اور انہوں نے رئوساء کی محفل میں اپنے اشعار سنانے شروع کردیئے۔ سناتے سناتے انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا کہ:
اَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
اے لو گو سنو کہ خد اکے سوا ہر چیز فنا ہو نے والی ہے۔ حضرت عثمان بن مظعون ؓ یہ مصرعہ سنتے ہی بول اُٹھے کہ خوب کہا تم نے بڑی سچّی بات کہی ہے۔ اب گوانہوں نے لبید کے مصرعہ کی داددی تھی مگر لبید ایک نوجوان کی تعریف بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اسے تعریض سمجھتے ہوئے شعر پڑھنے بند کر دیئے اور کہا اے مکہ والو! کیا تم میں اب کوئی شریف آدمی نہیں رہا کہ یہ کل کا بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ اس پر لو گو ں نے معذرت کی اور حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا کہ خاموش رہو اس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا جو یہ تھا کہ:
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامُحَالَۃَزَائِلٗ
یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہونے والی ہے۔ حضرت عثمان ؓ پھر بول اُٹھے کہ یہ بِالکل غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہو نگی۔ ان کا یہ کہناتھا کہ لبید غصّہ میں آگیا او رانہوں نے کہامیری ہتک کی گئی ہے ا ب میں اپنا کلا م نہیں سنائو نگا۔ یہ دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور اُس نے اس زور سے اُن کی آنکھ پر مُکّہ ما ر اکہ ان کا ایک ڈیلا باہر نکل آیا۔ یہ دیکھ کر مکّہ کا وہی رئیس جس نے انہیں پناہ دی تھی حسرت کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا کیا میَں نہیں کہتا تھا کہ میری پنا ہ نہ چھوڑ؟ وہ کہنے لگے تم تو یہ کہتے ہو خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیا ر ہے۔۱۰۵؎
نرینہ اولاد نہ ہونے پر دشمن کی طعنہ زنی
غرض یہ و ہ حالت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر گزر رہی
تھی اور چونکہ آپ کے ہا ں کوئی نرینہ اولاد بھی نہیں تھی اِس لئے دشمن اپنی نا بینائی کی وجہ سے کہتا کہ یہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ ’’ اونترانکھترا‘‘(پنجا بی ) یعنی بے نسل ہے نہ روحانی لحاظ سے اس کی کوئی جمعیت ہے اور نہ جسمانی لحاظ سے اس کی کو ئی نرینہ اولاد ہے۔ ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اُس نے کہا اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم تجھے خیر کثیر عطا کرنے والے ہیں اور تیرے ان مخالفوں کو جو آج تجھے مٹانے پر کمر بستہ ہیں ابتر بنانے والے ہیں ۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
زیادہ سے زیادہ خیرِ کثیر ملتی چلی گئی
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کلام پر جو ں جو ں دن گزرتے چلے گئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیا دہ خیر اور برکت ملتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کے حصہ میں زیادہ سے
زیادہ ناکامی اور نا مرادی آتی گئی اور آخر و ہ دن آیا کہ وہی شخص جسے اندھیری رات میں مکّہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا، جس کے قتل کے منصوبے کئے گئے تھے، جس کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا تھا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہؤا اور اُس نے تمام مکّہ کے لو گو ں کو ایک میدان میںجمع کرکے پوچھا کہ بتائو اب تمہا رے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا جا ئو میَں نے تم سب کو معاف کردیا۔۱۰۶؎
ابو سفیان کا اقرار کہ محمدؐ رسول اللہ دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے
مکّہ کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اکیلا شخص کب تک اپنے مشن کو قائم رکھ سکتا ہے یہ آج نہیں تو کل تباہ ہو جا ئیگا مگر خدا اسے کو ثر دینے کا وعدہ فرما چکا تھا۔ اُس نے آپؐ کے ماننے والوں میں اتنی کثرت پیدا
کی کہ ابو سفیان نے جب فتح مکہ کے مو قع پر اسلا می لشکر کو دیکھا تو بے اختیار وہ حضرت عباسؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا عباس! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔۱۰۷؎
کفار کے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی غلا می میں آگئے
پھر ان لو گو ں کو اپنے بیٹوں پر بڑا نا ز تھا، مگر خدائی نشان دیکھ کر وہی عاص بن وائل جو بڑے تکبّر سے اپنا تہ بند لٹکا ئے پھر تا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتا تھااُس کا اپنا بیٹا
مسلمان ہو گیا، وہی ولید جو رات اور دن اسلام کے مٹانے پر کمر بستہ رہتا تھا اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گیا، وہی ابوجہل جو تما م کفا ر کا لیڈر تھا اور جس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کی مخالفت میں گزری اس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شامل ہو گیا۔ یہ ایک خطرناک قسم کی آگ تھی جو خدا نے اُن کے دلوں میںپیدا کردی اور جس کے شُعلے انہیں ہر وقت جلا کر خا کستر بنا تے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس آگ کے بجھا نے کا کیا انتظام کریں۔ وہ خود اسلام کے دشمن تھے مگر اُن کی اولا دوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا شروع کر دیا اور وہ اپنے باپوں اور بھا ئیوں کے خلاف تلواریں چلا نے لگ گئے۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا جس میں وہ رات اور دن مبتلاء رہتے تھے کہ جس مذہب کو مِٹانے کے لئے انہوں نے اپنی عمریں صَرف کر دیں وہی مذہب اُ ن کے گھروں میں داخل ہو گیا اور اس نے انہی کے بیٹوں کو اُس کا شکا ر بنا لیا۔
کون ابتر ثابت ہؤا
جب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکّہ میں فا تحانہ طور پر داخل ہو ئے تو اُس وقت گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی زبان انہیں کچھ نہیںکہہ رہی تھی مگر مکّہ کی گلیوں کی وہ زمین جس پر اُن قدوسیوں کے قدم پڑرہے تھے اُن دشمنوں کو مخا طب کر کے کہہ رہی تھی کہ اے ابو جہل! عتبہ، شیبہ اور ولید کہا ں ہے؟ وہ تمہا ری اولا د جس پر تم فخر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتے تھے۔ وہ ابتر ہے یا آج تم ابتر ثابت ہو رہے ہو؟ تمہا ری اولا د وں نے جن پر تمہیں ناز تھا تمہیں چھو ڑدیا اور وہ تمہاری آنکھو ں کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلا می میں چلی گئیں۔
محمدؐ رسول اللہ کی آج بھی دنیا میں روحانی اولا د موجو د ہے
اسی طرح آج تیرہ سَو برس گزر گئے مگر دنیامیں
کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کا بیٹا ہو ں یا عتبہ اور شیبہ کا بیٹا ہو ں مگر آج لا کھو ں مسلمان یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں کیو نکہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اے محمدؐ رسول اللہ! ہم تجھے کو ثر عطاکریں گے او ر تیر ے دشمن کو ابتر رکھیں گے۔
تمام الہا می کتب سے افضل
الہامی کتا ب محمدؐ رسول اللہ کو دی گئی
پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میںبھی کو ثر عطا کیا کہ آپ کو وہ کتا ب ملی جس کی خیر اور برکت کا مقابلہ دنیا کی کوئی کتا ب نہیں کرسکتی وہ تمام الہامی کتابوں میں سے ایک زندہ
الہامی کتاب ہے وہ علوم اور معارف میں ایک نا پیدا کِنا ر سمندر ہے، وہ دنیا کی تمام اخلا قی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کر نے والی کتا ب ہے، دنیا کے علوم خواہ کتنے بھی ترقی کر جا ئیں، زمانہ خواہ کتنی کروٹیں بدل لے، یہ کتا ب قیا مت تک اُن کے لئے ایک کا مل راہنما کا کام دیتی چلی جا ئے گی۔
محمدؐ رسو ل اللہ کا مقامِ خاتم النّبیّین اور آپ کی عالمگیر بعثت
پھر آپ کو درجہ ملا تو خاتم النّبییّن کا جس میں
کوئی نبی بھی آپ کا شریک نہیں۔ پھر سب انبیاء ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہو تے رہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ بنا کر بھیجا گیا اور آپ کی برکا ت کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دنیا کی کو ئی قوم آپ کی غلامی سے باہر نہ رہی۔ کرشن اور رام چندر کی تعلیم صرف ہندوستان کے لئے تھی، زرتشت کی تعلیم صرف ایران کے لئے تھی، حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت مسیحؑ تک تمام انبیا ء کی تعلیم بنی اسرائیل کے لئے تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعا لیٰ نے ہر أَسْوَد وأَحْمَر کی طرف مبعوث فرمایا اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَآفَّۃً الْاَحْمَرَ وَالْاَسْوَدَ۔۱۰۸؎ وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَا فَّۃً لِّلنَّاسِ۔
یعنی خداتعالیٰ نے مجھے تمام عالَمِ انسانی کی طرف مبعوث فرمایا اور ہر أَسْوَد وأَحْمَر میرا مخاطب ہے۔ اب خواہ ایشیا کے رہنے والے ہوں یا افریقہ کے، یورپ کے رہنے والے ہوں یا جزائر کے، پہا ڑوں میں رہنے والے ہوں یا میدانوں میں، گائوںمیں رہنے والے ہوں یا شہروں میں، سب پر آپ کی اطاعت فرض ہے اور کوئی شخص بھی آپ کی غلامی کا جوا اُٹھائے بغیر روحانی عما رت کی اینٹ نہیں بن سکتا۔
ہر قسم کے خدّام کا عطا کیا جا نا
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لحاظ سے بھی خیرِ کثیر عطا کیا کہ اس نے ہر قسم کے انسان آپ کو عطا کئے۔ اگر
جرنیلوں کی ضرورت تھی تو اس نے آپ کو ایسے جرنیل عطا کئے جن کے تدبّر کا آج یورپ تک معترف ہے، اگر مبلّغوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مبلّغ عطا فرمائے جو قرآن ہا تھ میں لے کر ساری دنیا میں نکل گئے اور انہوں نے ہز اروں لو گوں کو اسلام میں داخل کیا، اگر جا ں نثار اور فدا کا ر غلا موں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مخلص جاں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے سر کٹا دیئے، اگر کسی جگہ عورتوں کی فدائیت کی ضرورت پیش آئی تو عورتیں آگے آگئیں، اگر کسی جگہ نو جو انوں کا خون قوم کو درکار تھا تو نوجو ان آگے نکل آئے، اگر قوم کی ترقی کے لئے عابد و زاہد لو گو ں کی ضرورت تھی تواللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے بڑے شب بیدار اور عابد وزاہد نفوس عطافرمائے غرض کونسی ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری نہ کی۔
اخلاص اور فدائیت میں صحابہؓ کی امتیا زی شان
پھر اخلاص اور فدائیت کولو تو اِس میں بھی جو برکت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو ملی وہ کسی اور نبی کے متبعین کو نہیں ملی۔ موسیٰ کے ساتھیوں نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر یہ کہہ دیا کہ فَاذْ ھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۱۰۹؎ اے موسیٰ تو اورتیرا رب جاکر لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جا ں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بڑی دلیری سے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہما ری لا شوں کو رَوندتا ہؤا نہ گزرے۔۱۱۰؎
غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کوہر خیر اور برکت کی کثرت عطاکی۔ اُس نے روحانی لحاظ سے ایک طرف سے آپ کو وہ شریعت عطافرمائی جو قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتی او ر دوسری طرف آپ کو وہ بلند مقام بخشا کہ اب قیامت تک کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل نہ ہو اور جسمانی لحاظ سے اُس نے آپ کو خدام کی اتنی کثرت بخشی کہ سارا مکہ آپ کی زندگی میں آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا۔
مال ودولت اور رُعب ودبدبہ
اسی طرح مال ودولت کے لحاظ سے اس قدر کثرت بخشی کہ قیصر وکسریٰ کے خزائن مسلمانوں میں تقسیم ہوئے،
رُعب او ر دبدبہ اِس قدر عطافرمایا کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سُنکر گھر بیٹھے دشمن کا دل لرز جا تا اور اُس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ غرض ہر خیر اور برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اِس کثرت کے ساتھ دی گئی کہ اس کی مثال نہ موسٰی ؑ کی زندگی میںمل سکتی ہے نہ عیسیٰ کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ دائود ؑ اور سلیمان ؑ کی زندگی میں مل سکتی ہے اور نہ کسی اور نبی کی زندگی میں مل سکتی ہے۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چار اغراض
پھر تفصیلی طور پر دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی بعثت کی چار اغراض بتلائی گئی تھیں تلا وت ِآیا ت، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت اور تزکیہء نفوس چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہیلَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَث فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ۱۱۱؎
یعنی اللہ تعالیٰ نے مؤمنو ں پر یہ بڑا بھا ری احسان کیا کہ اُس نے اُن میں ایک ایسا رسو ل مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی آیا ت سے انہیں روشنا س کرتا ہے اُن کا تزکیہء نفس کرتا ہے اور انہیں کتا ب اور حکمت سکھاتا ہے او ر یقینا وہ اس سے پہلے ایک کُھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
ہر کما ل میں محمدؐ رسو ل اللہ کا منفردہونا
اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار کا م بتلائے گئے ہیں اور درحقیقت ہر نبی
انہی چاروں امور کی سر انجا م دہی کے لئے آیا کرتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حا صل ہے کہ آپ نے دنیا کے ہر نبی سے تلاوتِ آیا ت بھی زیا دہ کی، تعلیمِ کتاب بھی زیا دہ دی، تعلیمِ حکمت بھی زیا دہ پیش کی اور تزکیہء نفوس بھی زیا دہ کیا۔ گویا ہر کمال میں آپ کو کو ثر عطاکیا گیا اور ہر خوبی میںآپ کو منفرد رکھا گیا ۔
امورِغیبیہ کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی
عربی زبان میں اٰیَۃ کے جہا ں
اور بہت سے معنی ہیں وہاں اس کے ایک معنی اس چیز کے بھی ہو تے ہیں جو کسی دوسری چیز کی طرف راہنمائی کرے چنا نچہ قرآن کریم میں نازل شُدہ فقرات کو بھی اسی لئے آیا ت کہا جا تا ہے کہ اس کا ہر فقرہ دوسرے فقرہ کے معانی کے لئے بطور دلیل ہو تا ہے جس کو مدِّ نظر رکھنے کے بغیر اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیںہو تا ۔
پس یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ میںیہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی ایسے امور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنی عقل کے زو ر سے معلوم کرنے سے قاصر تھے اور چونکہ امورِ غیبیہ ہی ایک ایسی چیز ہیں جن کو کوئی انسان اپنی عقل اور فکر کے ساتھ معلوم نہیں کر سکتا اس لئے تلا وتِ آیا ت کا کا م اسی صورت میںمکمل ہو سکتا تھا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو ایسی باتیں بتاتے جو اُن کے لئے امورِغیبیہ پر ایمان لانے کی محرک ہوتیں اور انہیں آپ کی راہنمائی میں وہ روحانی دولت ملتی جو اس سے پہلے ان کے پاس نہیں تھی۔
ہستی باری تعالیٰ
اس نقطئہ نگاہ سے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ امو رِ غیبیہ میں سب سے پہلی اوراہم خیر خدا تعالیٰ کا وجود ہے کیونکہ وراء الورٰی ہستی ہے
اور کوئی انسان اپنے علم اور اِدراک کے زور سے اُس تک نہیں پہنچ سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ اس وراء الورٰی ہستی کی عظمت اور اس کی جبروت کا تصوّر بھی قائم رہا اور بنی نو ع انسان کے قلوب میں یہ یقین بھی پیدا ہو گیا کہ ہمارا خدا اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات پر پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے اور وہ انہیں ہر وقت اپنے قُرب میں جگہ دینے کے لئے تیا ر ہے۔
اس غرض کے لئے سب سے پہلی اور اہم خبر صفاتِ الٰہیہ ہیں کیو نکہ غیر محدود ہو نے کی وجہ سے و ہ صرف اپنی صفات کے ذریعہ ہی پہچانا جا سکتا ہے، بیشک صفاتِ الٰہیہ پر اور مذاہب نے بھی روشنی ڈالی ہے مگر اوّل تو جس تفصیل کے ساتھ اسلام نے ان صفات کو بیا ن کیا ہے اس تفصیل کے ساتھ دنیا کے اور کسی مذہب نے صفاتِ الٰہیہ پر روشنی نہیں ڈالی یہاں تک کہ یہودیت بھی جو اسلام سے پہلے آنے والے مذاہب میں سے ایک بہت بڑا مذہب تھا اور جسے تورات جیسی کتا ب دی گئی تھی اُس میں بھی بہت کم صفاتِ الٰہیہ کا بیا ن ہؤا ہے۔
بائیبل میں خدا تعالیٰ کی صفات کی تنقیص
اور پھر ان مذاہب نے خدا تعالیٰ کی طرف کئی ایسے نقائص اور عیوب بھی
منسوب کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے اُس کی صفا ت کی تنقیص ہو تی ہے مثلاً بائیبل میں ہی لکھا ہے کہ:۔
’’چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا او ر تازہ دم ہؤا۔‘‘۱۱۲؎
گویا خدا تعالیٰ چھ دن کام کرنے کی وجہ سے نَعُوْذُبِاللّٰہِ تھک گیا اور اُسے ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ آرام کر ے اور تازہ دم ہوجا ئے، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ خداتعالیٰ کے متعلق یہ تصور بالکل غلط ہے اس لئے کہ وہ کوئی مادی وجود نہیں جو کام کا بوجھ برداشت نہ کرسکے او ر تھکا ن او رکوفت محسوس کرے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۔۱۱۳؎ یعنی زمین وآسمان کی پیدائش سے ہمیں کوئی تھکا ن محسوس نہیں ہوئی ۔پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ زمین وآسمان کی پیدائش سے تھک گیااور ساتویں دن اُس نے آرام کی احتیاج محسوس کی۔
اسی طرح مسیحیت نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ کیا اور مسیحؑ اور روح القدس کو بھی اُس کی الوہیت میں شریک قرار دے دیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہو روں سے پاک قرار دیا اور پھر آپ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ انسان اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پید اکرنے کی کوشش کرے تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حا صل کر سکتا اوراس کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے۔ چنا نچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میَں نے جنّ واِنس کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیداکریں۔۱۱۴؎
اسی طرح وہ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ۔اے انسانو!اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تم کو اس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑاکیا ہے اگر تم میں سے کوئی شخص اس مقام کا انکا ر کرے گا تو اُس کا نتیجہ اُس کو ُ بھگتنا پڑے گا۱۱۵؎ یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر وہ خود ہی نقصان اُٹھائے گا خداتعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
اسی طرح ایک اور جگہ اس نے فرمایا ہے۔کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یقینا انہیں اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستے بتادیتے ہیں۔۱۱۶؎
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جا ہ وجلا ل کو بھی قائم کیا اور بنی نوع انسان کو بھی اس امر کا یقین دلایا کہ وہ خداتعالیٰ کے مقرب بن سکتے ہیں ۔
ملائکۃ اللہ
اسی طرح ملائکہ بھی ایک مخفی وجود ہیں جن کی حقیقت کا علم بغیر کسی ایسے انسان کی راہنمائی کے حاصل نہیں ہو سکتا جسے خدا خود اپنے غیب سے حصّہ
د ے او ربتائے کہ ملا ئکہ کی کیا حقیقت ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد چونکہ اللہ تعالیٰ نے تلا وتِ آیا ت کا کا م کیا تھا اس لئے آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ان کے متعلق بھی بنی نوع انسان کی صحیح راہنمائی فرمائی اور بتایا کہ ملا ئکہ نظامِ عالَم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ کی اُسی طرح ایک اہم کڑی ہیں جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب مادی دنیا میں مختلف کاموں کی کڑیا ں ہیں۔ وہ صرف خدائی دربار کی رونق کا سامان نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے تکوینی احکام کی پہلی کڑی ہیں اور ان کے بغیر اس کا ئنات کا وجودادھورا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔کہ کچھ تو وہ ملائکہ ہیں جو عرش کو اُٹھا ئے ہو ئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عرش کے اِردگِرد رہتے ہیں۱۱۷؎ یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور جن کے ذریعہ دنیا میں احکامِ الٰہیہ کا اجراء ہو تا ہے اور ایک وہ ہیں جو اُن احکام کو نچلے طبقہ تک لے جا نے والے ہیں، پس ملا ئکہ کا وجود اس عالَم کا ایک اہم ضروری حصّہ ہے۔
رسالت اور کلامِ الٰہی کی ضرورت
آپؐ نے رسالت اور کلا مِ الٰہی کی ضرورت کو بھی واضح کیا اور بتا یا کہ جس طرح مادی دنیا میں
خدا تعا لیٰ نے صرف آنکھ پیدا نہیں کی بلکہ لا کھو ں میل کے فاصلہ پر ایک سورج بھی پیداکر دیا ہے تاکہ آنکھ اس کی روشنی سے فائدہ اُٹھا ئے اسی طرح روحانی عالَم میں بھی خدا تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستارے بنا ئے ہیں۔ جو شخص روحانی دنیا کے سورج یا روحانی دنیا کے چاند یا روحانی دنیا کے ستاروں کی ضرورت کا انکا ر کرتا ہے وہ قانونِ قدرت سے اپنی آنکھیں بند کرتا اور حقائق سے رُوگردانی اختیا ر کر تا ہے چنا نچہ اسلام نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلا تے ہوئے فرمایا ہے۔کہ ہم تمہا رے سامنے اس آسمان کو شہا دت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مختلف بروج والا ہے۱۱۸؎ یعنی جس طرح تمہیں اس مادی دنیا کے آسمان میں سورج اور چاند اور ستارے دکھا ئی دیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی عالَم میں بھی ظلمتوں کو دُور کرنے کے لئے سورج اور چاند اور ستارے بنا ئے ہیں جو لوگوں کو اپنے نو ر سے منور کرتے رہتے ہیں۔
بعث بعد الموت
آپ نے اسی سلسلہ میں بعث بعد الموت پر بھی روشنی ڈالی کیو نکہ اس کے متعلق بھی کوئی انسان اپنی ذاتی کدّوکا وش سے معلومات حاصل نہیں
کرسکتا تھاآپ نے ایک طرف تو جزاء وسزا کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ اس جزاء کا مخفی رکھا جانا بھی ضروری ہے ورنہ انسانی اعمال غیر اختیا ری ہو جا ئیں اور جزاء ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جائے چنا نچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہیکہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جا نتا کہ اُس کے لئے عالم آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کاکیا کیا سامان مخفی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ انعام تمہا رے اعمال کی جزاء میں ملنے والا ہے۱۱۹؎ اگر اس کو ظاہر کر دیا جائے تو حقیقت کے منکشف ہونے پر ایمان لا نا کوئی خوبی نہ رہے اور انسان کسی جزاء کا مستحق نہ ہو ۔
آپؐ نے اس امر کی تصریح فرمائی کہ عالَمِ آخرت درحقیقت اِسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں اپنے اپنے اعمال کے مطابق مادیت کے بوجھ سے آزاد ہو کر انسا نی روح اس راستہ پر گامزن ہو جا تی ہے جو اس نے خود اپنی دُنیوی زندگی میںاختیا ر کیا ہو تا ہے چنا نچہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔کہ جو شخص اِس دنیا میں روحانی لحاظ سے نا بینا ئی رکھتا ہو گا وہ عالَمِ آخرت میں بھی اس نابینائی کو لے کر اُٹھے گا او ر خدا ئی قُرب کے دروازے اُس پر نہیں کھلیں گے۔۱۲۰؎
غرض ہر وہ مخفی مسئلہ جس پر مذہب اور روحانیت کی بنیا د تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھول کر بیا ن کیا کہ انسانی عقول تسلّی پا گئیں اور ان کا رسمی ایمان مشاہدہ اور بصیرت کا رنگ اختیا ر کر گیا ۔
شریعت *** نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری فضل ہے
آپؐ کا دوسرا اہم کا م تعلیم کتا ب تھا اس کا م کو
بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیاکہ اس کی مثال اور کسی وجود میں نہیں ملتی، آپؐ کی بعثت سے پہلے دنیا میں بعض ایسے مذاہب تھے جو اپنی نا دانی سے شریعت کو *** قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی کمر کو توڑ دینے والا ہے آپؐ نے بتایا کہ یہ نظر یہ صحیح نہیں، شریعت اللہ تعالیٰ کا ایک بڑابھاری فضل ہے کیونکہ انسان جب اس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے تووہ اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی مرضی کو کس طرح معلوم کر سکتا ہے۔ یہ مرحلہ تو اسی صورت میں طے ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ خود بتائے کہ میری رضا کس امر میں ہے اور شریعت اس چیز کا نام ہے کہ خداتعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کو خدا تعالیٰ کی زبان سے ہی معلوم کیا جا ئے۔ پس شریعت خدا تعالیٰ کی ایک بڑی بھاری رحمت ہے اس وجہ سے قرآن کریم کو مختلف مقامات میں رحمت قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن بنی نوع انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ آسانیاںپیداکرنے کے لئے آیا ہے۔۱۲۱؎
شریعت کا فائدہ
پھر آپ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمائی کہ شریعت اس لئے نا زل نہیں ہوتی کہ اُس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے
بلکہ اس لئے نا زل کی جا تی ہیکہ بنی نوع انسان اُس کے احکام پر عمل کرکے ترقی کریں کیونکہ اس کا ہر حکم انفرادی او ر قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، خدا تعالیٰ کواُن احکام پر عمل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ چنا نچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلا تے ہو ئے فرماتا ہے کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا وہ اپنے نفس کے لئے کریگا اور جو شخص بدی کا ارتکا ب کرے گا اُس کا وبا ل بھی اس کی جان پر پڑے گا، خداتعالیٰ اپنے بندوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔۱۲۲؎
قرآن کریم کی کامل تعلیم
پھر تعلیم کتا ب کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم پیش کی جو اپنے ہر پہلو کے لحاظ سے کامل ہے آپ
نے بتایا کہ انسان پر اُس کے ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ بھائی بہنوں کے کیا حقوق ہیں؟ بیوی کے خاوند پر اور خاوند کے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟ ہمسائیوں کے کیا حقوق ہیں؟ یتامیٰ ومساکین کے کیا حقوق ہیں ؟بیوائوں کے کیا حقوق ہیں؟ دوستوں کے کیا حقوق ہیں؟ اسی طرح آپ نے سیا ست ملکی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سرحدوں کی حفاظت کیا کرو، لڑائیوں کے متعلق متعدد احکام دیئے، معاہدات کی پابندی کی تلقین کی، اقوامِ عالَم کے جھگڑوں کے تصفیہ کے قواعد بیا ن کئے غرض انفرادی مسائل یا قومی زندگی میں جن مشکلا ت کا سامنا ہو سکتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر روشنی ڈالی اور ان کاکامیاب حل بتایا۔ پھر اس کیساتھ ہی آپ نے اس امر کی صراحت فرمادی کہ گو اس کتا ب میں وہ تمام ضروری امور بیان کردیئے گئے ہیں جن کا مذہبی یا روحانی یا اخلاقی ترقی کیساتھ تعلق ہے مگر انسانی دماغ کی ترقی کے لئے اجتہا د او ر غور اور فکر کا بھی سلسلہ جا ری رکھا گیا ہے تاکہ انسانی دماغ کُند ہو کر نہ رہ جائے او ر وہ اندھی تقلید کا شکا ر نہ ہو جائے۔
تعلیم حکمت
محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا عظیم الشان کام تعلیمِ حکمت تھا اس لحاظ سے آپ نے ایک بے مثا ل معلّم کے فرائض سر انجام دیئے۔ پہلی تمام کتب
کو دیکھ لو وہ صرف اتنا کہتی ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا یا کہ ایسا کیو ں کرو اور کیو ں نہ کرو۔ وہ شراب اور جوئے سے روکتا ہے تو اس کی حکمت بھی بتاتا ہے اور کہتا ہیکہ ان چیزوں کے نقصا نا ت ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۱۲۳؎ وہ نماز اور روزے کا حکم دیتا ہے تو ان کے فوائد بھی بیا ن کرتا ہے او ربتاتا ہیکہ نماز تما م فحش او ر نا پسند یدہ کا موں سے انسان کو بچاتی ہے۱۲۴؎ اور روزوں کا حکم اس لئے دیا گیا ہے۔ کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔۱۲۵؎
غرض اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں بھی بیان کر تا ہے او ر یہ اسلام کی اتنی بڑی فضیلت ہے جس کا مقابلہ دنیا کا اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا، آپؐ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم بغیر کسی حکمت کے نہیں دیتا پس خدائی تعلیم کے یہ معنے نہیں کہ اُس کے احکام حکمتوں سے خالی ہو ں اور محض جبر کے طور پر کچھ باتیں منوانے کی کو شش کی گئی ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہو نا تقاضا کر تا ہے کہ وہ بات لا زمی طور پر مختلف قسم کی حکمتوں سے پُر ہو، تاکہ انسانی دل انقباض محسوس نہ کر ے بلکہ وہ خوش ہو کہ جس حکم پر میں عمل کر رہا ہوں اُس میں میر ا بھی فائدہ ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کا بھی فائدہ ہے۔
تزکیہ ٔ نفوس
چوتھا اور اہم کام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا وہ تزکیۂ نفوس ہے یعنی لو گوں کے دلوں میں ایسی پا کیزگی پیدا کرنا کہ
وہ خداتعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور اُس کی قدرتوں کا جلوہ گاہ بن جائیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو بھی ایسے احسن طریق سے پورا کیا ہے کہ دوست ہی نہیں دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں کہ آپ نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا ۔
آپؐ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اس زمانہ میں مذہب ہی نہیں انسانیت بھی مرچکی تھی اور شرافت دنیا سے مفقود ہو چکی تھی۔ ہر قسم کا فسق وفجور لو گوں میں پا یا جا تا تھا اورہر قسم کی نیکی عنقاتھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی لو گوں کے قلوب سے مٹ چکا تھا اور وہ ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی بجا ئے بدیوں کے ارتکاب پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ایسے خطرناک زمانہ میں آپ نے تزکیۂ نفوس کاکا م شروع کیا اور ہر قسم کی روکوں اور انتہائی مظالم کے باوجود اس کام کو جا ری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ صدیوں کے مُردوں نے اپنے اندر زندگی کی روح محسوس کی، قبروں میں دبے پڑے لوگ باہر نکل آئے، اندھوں نے بینائی حاصل کی، لولے اور لنگڑے چلنے لگے، کمزوروں نے اپنے اندر طاقت کی ایک لہردَوڑتی ہوئی پائی، بیماروں نے صحت کے آثار محسوس کئے اور جہا لت کی جگہ علم نے، جمود کی جگہ سعی عمل نے، شیطنت کی جگہ روحا نیت نے اور بدی کی جگہ نیکی نے لے لی۔ برسوں کے مسخ شدہ انسان آپ کے فیضِ صُحبت سے ایسے پاک ہوئے کہ اُن کی کایا پلٹ گئی، وہ خدا ئے واحد کے آستانہ کی طرف کھینچے گئے اور دنیا کی ہدایت کے لئے ایک ایسا مینار بن گئے کہ آج بھی اُن کی روشنی نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے اور انہیں چاق و چوبند بنانے کے کام آرہی ہے۔
غرض اس روحانی گورنر جنر ل کوخدائے واحد کی طرف سے جس انعام کا وعدہ دیاگیا تھا وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہؤا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے کَوْثَرْ عطا کیا اور ہر رنگ میں اتنی برکا ت اور انعامات کے ساتھ نوازا کہ انسان کے لئے اُن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
ایک کثیر الخیر روحانی فرزند کے پیدا ہونے کی پیشگوئی
پھر کَوْثَرْ کے ایک معنیاَلرَّجَلُ
الْکَثِیْرُالْعَطَائِ وَالْخَیْرِ۱۲۶؎ کے بھی ہیں یعنی ایساانسان جو بڑا سخی ہو اور دنیا میں کثرت سے نیکی پھیلانے والا ہو۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ اے محمدؐ رسول اللہ! ہم اب بھی تجھے ہر قسم کی نعمتوں کی کثرت دینگے اور آئندہ زمانہ میںبھی تجھے ایک بہت بڑا روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثیرالخیر ہو گا اور کثرت سے قرآن کریم کے علوم اور اس کے معارف دنیا میں پھیلائے گا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ یُفِیْضُ الْمَالَ۔۱۲۷؎یعنی آنے والا مسیح کثرت کے ساتھ لوگوںمیں روحانی دولت تقسیم کریگا مگر اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ میں اس طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ آنے والا مسیح اُمتِ محمدیہ کا ایک فرد ہو گا کیو نکہ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جا ئے گا اور اس کا وجود ثابت کر دیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں، پس وہ آپؐ کا ہی روحانی بیٹا ہو گا، باہر کا کوئی آدمی نہیں ہو گا۔
تمام مخالف اقوام ابتر ہو کر رہ گئیں
اس جگہ پہلے معنوں کے لحا ظ سے دشمنوں سے مراد ابو جہل، عتبہ او رشیبہ وغیرہ ہیں، مگر دوسرے
معنوں کے لحاظ سے شَا نِئَکَ سے وہ تمام قومیں مراد ہیں جو آج اسلام پر حملہ کر رہی ہیں چنانچہ دیکھ لو جب اسلام ضعیف ہو گیا، مسلمانوںکی طاقتیں کمزور ہوگئیں اور عیسائی مصنّفوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اب اسلام ترقی نہیں کر سکتا اور خود مسلمان مصنّفین نے بھی دشمن کے مقابلہ میں معذرتیں شروع کردیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپؐ نے دنیا کو چیلنج کیا کہ مَیں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ہوں اور مَیں اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہوں کہ آج محمدی چشمہ کے سِوا باقی تمام چشمے سُوکھ گئے ہیں اور میَں اس چشمہ کا پانی پی کرزندہ ہؤا ہوں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ تم بھی کسی زندہ مذہب کے پیرو ہو تو تم میرے سامنے وہ زندہ شخص پیش کرو جس پر خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُترتا ہو۔ مگر واقعات بتارہے ہیں کہ اس چیلنج کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قومیں ابتر ہوکر رہ گئیں او روہ اسلام کے پہلوان کے مقابلہ میں اپنا کوئی پہلوان پیش نہ کرسکیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے مگر نہ ہندو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ عیسائی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ یہودی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ بدھ یا کنفیوشس مذہب کے پیرو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ یو رپ کا فلسفہ کوئی بیٹا پیش کرسکا ہے۔ ساٹھ سال سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹے کا چیلنج موجو د ہے کہ اگر تمہارے اندر کو ئی نور اور صداقت ہے توتم میرے مقابلہ میں وہ شخص پیش کر و جس نے تمہارے مذہب پر چل کر خدا تعالیٰ کے مکالمات کا شرف حاصل کیا ہواور اس کی تازہ وحی اور نشانات کا مورد ہؤا ہو مگر کوئی مذہب اپنا روحانی بیٹا پیش نہیں کرسکا۔
پس جس طرح آج سے تیرہ سَوسال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس انعام کو پورا کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی نعماء سے حصّہ عطافرمایا اسی طرح اُس نے تیرہ سَوسال کے بعد ایک بار پھر دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحبِ اولاد ہیں اور آپؐکے دشمن ہی ابتر ہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود کی بشارت
پھر اسی دربار خاص میں ایک اور عظیم الشان انعام
بھی اس خدائی گورنر جنر ل کو عطا کیاگیااو ر کہا گیا کہ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۱۲۸؎یعنی اے محمد رسول اللہ! عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ ہر دوست اور دشمن تیری تعریف میں رطب الّلسان ہو گا اور ہر مقام پر تیرے بلند اخلاق اور اعلیٰ درجہ کے کردار کا چرچا ہو گا۔ اس انعام کا اعلان بھی ایسی حالت میں کیا گیا جب دنیا اپنی نابینا ئی کی وجہ سے اس خدائی گورنر جنرل کا حُسن دیکھنے سے عاری تھی اور وہ اپنی مخالفت کے جو ش میں اسے محمد کہنے کی بجائے مذمّم کہہ کر پُکا را کر تی تھی مگر ابھی ایسی مخالفت پر کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پایا تھا کہ اُس کا روحانی حُسن ظاہر ہو نا شروع ہؤا اور لو گوں کو محسوس ہؤا کہ انہوں نے سونے کو پیتل اور ہیرے کو کوئلہ قرار دیکر ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی کا ارتکا ب کیا ہے۔
ہر وصف میں یکتا اور بے نظیر نبی
انہوں نے تعصّب کی پٹی اپنی آنکھو ں سے اُتا ر کر اس کے اخلاق فاضلہ کو دیکھا تو انہیں بے مثال پایا
اور اس کے زندگی بخش کلام کو سُنا تو اُسے تمام کلاموں سے افضل پایا، اس کے علم کو دیکھا تو دنیا کے بڑے بڑے عالموں کو ا س کے سامنے جا ہل پایا، اس کی معرفت کو دیکھا تو بڑے بڑے عارفین کو اُس کے آگے زانوئے تلمّذتہہ کرتے دیکھا، اس کی محبت اور تعلق باللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا ویسا عاشق اور سچاعبادت گزار انہیں ساری دنیا میں نظر نہ آیا، انہوں نے اس کے دلائل وبیّنات کا جا ئزہ لیا تو اُنکا ردّ کرنے کی دُنیا کے کسی مذہب میں طاقت نہ پائی، اس کی دعائوں کی قبولیت کو دیکھا تو انہیں بے نظیر پایا، اس کے فیوض وبرکات اور اس کی تعلیمات کامشاہد ہ کیا تو دنیا میں اُن کاکوئی ثانی نہ دیکھا، اس کی پیشگوئیوں پر انہوں نے نظر دَوڑائی تو انہیں آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک بڑا نشان دیکھا۔ غرض جس پہلو سے بھی انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اُسے مجسمہء حُسن واحسان پایا اور وہ آپ کے ایسے والہ وشیدا ہو ئے کہ تمام دنیوی علائق کو توڑ کر وہ آپ سے ایسے وابستہ ہو گئے اور اس عہدِوفا کو انہوں نے مرتے دم تک اس خوبی سے نباہا کہ پہلی امتیں اس کی مثا ل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
زبانوں پر حمد کے ترانے
یہی وہ چیزتھی جس کی خد ا تعالیٰ کی طرف سے ان الفاظ میں خبر دی گئی تھی کہ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَا مًا مَّحْمُوْدًا۔
یعنی اے محمدؐ رسو ل اللہ! آج لو گ تیرا حُسن دیکھنے سے قاصر ہیں وہ تجھے ایسی گٹھلی سمجھتے ہیں جو پا ئوں تلے روندی جا ئیگی، ایک ایسا بیج خیا ل کرتے ہیں جسے پرندے اُچک کر لے جا ئیں گے مگر ہم نے تیرے اندر ایسی خوبیا ں ودیعت کردی ہیں کہ جوں جوں اُن خوبیوں کا ظہور ہو تا جائے گا تیری حمد کے ترانے لو گو ں کی زبا نوں پر جا ری ہوتے جائیں گئے اورمذمم کہنے والے تجھ پر درود اور سلام بھیجیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اسلام کے وہ تمام مسائل جن پر یو رپ کے مد بّر ین اور بڑے بڑے فلا سفر بھی اعتراض کیا کرتے تھے آج دنیا اُن کی معقولیت کی قائل ہو رہی ہے اوروہ تسلیم کرتی ہے کہ دنیا کی مشکلا ت کا صحیح حل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کر دہ تعلیم میں ہی ہے۔
اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف
ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب توحید کے اعلان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے
ساتھیوں کو انتہا ئی مصائب کا نشانہ بنایا گیا مگر آج ساری دنیا خدائے واحد کے آستانہ پر سر جُھکائے ہوئے ہے بلکہ وہ لوگ جو مذہباً تثلیث کے قائل ہیں یا مذہباً سینکڑوںدیو تائوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے باقی سب اُس کے ظہو ر ہیں۔ پھر شراب کو اچھا سمجھا جا تا تھا، اسلام کے مسئلہ طلاق پر اعتراض کیاجا تا تھا، تعدد ازدواج کو عورتوں کے لئے شدید ظلم قرار دیا جا تا تھا، سودکو تجارت کا ایک لا زمی جزو سمجھتے ہوئے بڑا مفید خیا ل کیا جا تا تھا، پردہ کو بُرا قرار دیاجا تا تھا، ورثہ کے مسائل کو درست نہیں سمجھاجا تا تھا مگر آج دنیا ٹھو کریں کھاکر اس تعلیم کی طرف آرہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی کیونکہ خدا نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ آپ کو مقامِ محمود عطا کریگا اور دنیا آپؐ کے اخلاق اور آپ کی تعلیم کی برتری کی وجہ سے اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی تعریف کریگی۔
دشمنوں کے منہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف
حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام فضائلِ حَسنہ سے اس طرح متّصف کر کے مبعوث فرمایا ہے کہ کو ئی خوبی نہیں جو آپؐ میں نہ پائی جا تی ہو اور کوئی کما ل نہیں جو آپ کے اندر نہ دکھائی دیتا ہو اور پھر ہر کما ل اپنے اپنے دائرہ میں ایسی امتیازی شان کے ساتھ آپؐکے اندر پا یا جا تا ہے کہ دوست تو الگ رہے، دشمن بھی آپؐ کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور وہ آپؐ کے اخلا ق کی بلندی اور آپؐ کے کردار کی پا کیزگی کے معترف ہیں۔
سرولیم میور کا اقرار کہ محمدؐ رسول اللہ نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے
سر ولیم میور اسلام کا ایک شدید ترین
دشمن ہے مگر اس نے بھی جب اُس انقلاب پر نگاہ دَوڑائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی سرزمین میں پیدا کیاتو وہ بھی یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ:۔
’’یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لا زمی نتیجہ تھی ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے باریک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالیشان کپڑا تیا ر ہو گیا ہے یایہکہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں سے ایک شاندار جہا ز تیا ر ہو گیا ہے یا پھر یہ کہنا کہ کُھردری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیا ر ہو گیا ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جا تے اور اپنے متبعین کو ان دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کا ربند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جا تا جو عرب کے گرجا کی بنیاد رکھنے والا قرار پاتا، لیکن جہا ں تک انسانی عقل کا م دیتی ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلا طم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کو ئی معقول حصّہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا، لیکن باوجودان تمام باتوں کے آپؐ نے اپنے انتہا ئی کما ل کے ساتھ ایک ایسی کَل ایجا د کی کہ جسکی موقع کے منا سب ڈھل جا نیوالی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پر اگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میںبدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ایک عیسائی کو وہ عیسائی نظر آتے تھے، ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے، ایک مکّہ کے بُت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یا فتہ عبادت گزار تھے اور اس طرح ایک لاثانی ہنراور ایک بے مثال دماغی قابلیّت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کو ئی بت پر ست تھا، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبورکر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے۔ یہ فعل اُس صنّاع کا ہو تا ہے جو اپنا مصالح آپ تیا ر کر تا ہے او ر یہاں اس مصالح کی مثا ل چسپاں نہیں ہو تی جوکہ آپ ہی آپ بن جا تا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں جو اپنے صنّاع کو خود تیا ر کرتا ہے یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلا می روح تھی جس نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنا یا ۔‘‘۱۲۹؎
سر ولیم میو ر چونکہ اسلام کا شدید مخالف تھا اس لئے گو اُس نے یہ کہا کہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیا ر کر دہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس صداقت کا بھی اُس نے کھلے بندوں اقرار کیا کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اور یہ کا م یقینا خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خد ا تعالیٰ نے وہ مقامِ محمود عطاکیا کہ آپؐ کا حُسن کبھی دشمن کی آنکھوں میں بھی عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی آپ کی ستائش کرنے پر مجبور ہو جا تاہے۔
اخلاقِ فاضلہ کے لحاظ سے محمدؐ رسول اللہ کا بلند مقام
پھر اخلاقِ فاضلہ کو لو تو کوئی خُلق نہیں جس میں
آپ نے دنیا کے لئے ایک بے مثال نمونہ نہ چھوڑا ہو اور ہر شخص آپ کے اُن اخلا ق کو دیکھ کر آپ کی تعریف کرنے پر مجبور نہ ہو مثال کے طور پر بہا دری کو لے لو، استقلال کو لے لو، سخاوت کو لے لو، حیا کو لے لو، انصاف کو لے لو، رحم کو لے لو، دوستوں اور دشمنوں سے آپؐ کے معاملات کو دیکھ لو، جنگ میں آپ کی ہوشیا ری کو دیکھ لو، عورتوں اور بچوں سے معاملات کو لے لو، آپؐ کے تنظیمی کا رناموں پر نظر ڈالو، آپ کی جرنیلی شان کو ملا حظہ کر و، تمہیں دکھا ئی دیگاکہ ہر پہلو کے لحاظ سے آپ کو مقامِ محمود حاصل ہے اور ہر معاملہ میں دنیا آپؐ کی اقتداء کرنے پر مجبور ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری
آپ کی بہا دری کی یہ کیفیت تھی کہ مدینہ میںایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی
آواز آئی، ان دنو ں یہ خبریں مشہور ہو رہی تھیں کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کرنیوالی ہے، اس شور کی آواز پر تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی اور وہ اس ارادہ کے ساتھ مسجد میںجمع ہوئے کہ مشورہ کے بعد کچھ لوگوں کو باہر بھجوا دیا جائے جو دیکھیں کہ یہ کیسا شور ہے مگر ابھی وہ جمع ہی ہو رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے باہر سے تشریف لا رہے ہیں، آپ نے آتے ہی فرمایا میَں شور کی آواز سنکر فوراً باہر چلا گیا تھا اور میَں نے چکر لگا کر دیکھ لیا ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں، اطمینا ن سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو۔۱۳۰؎
صبر واستقلال
صبرواستقلال آپ کے اندر اس قدر پا یا جا تا تھا کہ مکّی زندگی میںکفار کی طرف سے آپ کو سخت سے سخت تکا لیف دی گئیں، آپ کو بُرا بھلا کہاگیا،
آپؐ کو شعبِ ابی طالب میں ایک لمبے عرصہ تک محصور رکھا گیا،آپؐ کا مقاطعہ کیا گیا، آپؐکے گلے میں پٹکا ڈال کر اسقدر گھونٹا گیا کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں، آپ پر پتھروں کی اسقدر بوچھاڑ کی گئی کہ طائف سے آتے وقت آپؐ سر سے پاؤں تک لہو لہا ن ہو گئے۱۳۱؎ مگر ان تمام تکالیف کے باوجود آپؐ جس پیغام کو لیکر کھڑے ہوئے تھے اُسے اُٹھتے بیٹھتے، سوتے اورجا گتے آپؐ نے لو گوں تک پہنچایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپؐ کے پائے ثبات میں جنبش نہیں آئی۔
سخاوت
سخاوت آپؐ کے اندر اس قدر پائی جا تی تھی کہ اگر آپؐسے کو ئی چیز مانگی جا تی اور وہ آپ ؐ کے پاس موجود ہو تی تو آپؐاس کے دینے میں کبھی دریغ نہ فرماتے اور
یہ سخاوت عمر بھر آپؐ کا معمول رہی مگر صحابہؓ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ایام آتے تو اُن دنوں آپؐ کی سخاوت کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسعت اختیار کرلیتا،۱۳۲؎ اِسی سخاوت کا یہ نتیجہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپؐ کے گھر میں کوئی درہم اور دینار موجود نہیں تھا حالانکہ آپؐ اُس وقت عرب کے بادشاہ بن چکے تھے۔
رحم دلی
حیا آپؐ کے اندر اسقدر پایا جا تا تھاکہ صحابہؓ کہتے ہیں آپؐ ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔۱۳۳؎ رحم آپؐ کے اندر اس قدر پایا جاتا تھا کہ آپؐ اکثر
فرمایاکرتے تھے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُس پر رحم نہیں کیا جا تا۱۳۴؎ آپؐ کا ایک نواسہ ایک دفعہ بیمار ہؤا اور اُس کی حالت نازک ہو گئی۔ آپؐ کی بیٹی نے آپؐ کی طرف پیغام بھیجا، آپؐ تشریف لا ئے اور بچے کو دیکھا توآپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، ایک صحابی کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپؐ بھی روتے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت دل نہیںبنایا۔۱۳۵؎
عدل وانصاف
انصاف آپؐ کے اندر اس قدر پا یا جا تا تھا کہ ایک دفعہ کسی بڑے خاندان کی عورت نے چوری کی او روہ پکڑی گئی اس پر بعض لوگوں نے چاہا کہ
اسکے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںدرخواست کی جائے کہ اسے کوئی سزا نہ دی جائے کیونکہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس غرض کے لئے انہوں نے حضرت اسامہؓ کو تیا ر کیا۔ اسامہؓ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق سفارش کی توآپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فا طمہ بھی اس قسم کا جرم کرے تو میں اُسکے بھی ہا تھ کا ٹ دوں۔ ۱۳۶؎
بدر کی جنگ میںجن کفارکو مسلمانوںنے قید کرلیاتھااُن میں حضرت عباس بھی شامل تھے اور چونکہ وہ نازونعمت میں پلے ہو ئے تھے اس لئے جب انہیں رسیوں سے جکڑا گیا تو انہوں نے شدّتِ تکلیف کی وجہ سے کراہنا شروع کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں ان کے کراہنے کی آواز پہنچتی تو آپ بے چینی میں باربارکروٹیںبدلتے مگرزبان سے کچھ نہیں فرماتے تھے۔ صحابہؓ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اس کی وجہ حضرت عباس کا کراہنا ہے وہ چُپکے سے اُٹھے اور انہوں نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور اُن کے کراہنے کی آوازبندہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کے کا نوں میں حضرت عباس کے کراہنے کی آواز نہ آئی توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا عباس کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آرہی؟ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! ہم نے آپؐ کی تکلیف کے خیال سے اُن کی رسیاں ڈھیلی کردی ہیں آپؐ نے فرمایا یہ انصاف کے خلاف ہے کہ باقی قیدیوں کو سختی سے جکڑا جا ئے او رعباس کی رسیاں ڈھیلی کردی جا ئیں۔ جائو اور یا تو عباس کی رسیاں بھی کَس دواور یا پھرباقی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردو۔ ۱۳۷؎
قیصرِ روما کے دربار میں ابوسفیان کا اقرار
غرض جس پہلوکے لحاظ سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جا ئے
آپ ؐ تعریف ہی تعریف کے قابل دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قیصرِ روما نے ابو سفیان سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختلف سوالات کئے تو ہر سوال کے جواب میں اُسے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبی اور آپ کے کما ل کا اعتراف کرنا پڑا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس شخص کا خاندان کیسا ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ وہ ایک نہا یت معزز خاندان میں سے ہے، جب اُس نے پوچھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اسے کسی بُرائی میں مبتلاء دیکھا تواُس نے کہا ہر گز نہیں، جب اُس نے پوچھا کہ اس کی عقل اور اصابتِ رائے کاکیا حال ہے تو ابوسفیان کو یہی کہنا پڑا کہ ہم نے اُس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا، جب اُس نے پوچھا کہ کیا اُس نے کبھی بدعہدی بھی کی ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ اس نے آج تک کوئی بدعہدی نہیںکی، جب اُس نے پوچھاکہ وہ تمہیںکِن باتوں کی تعلیم دیتا ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ ہمیں یہی کہتا ہے کہ ہم سچ بولا کریں، خدائے واحد کی عبادت کیاکریں، وفائے عہد سے کام لیں، امانت او ردیانت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں اور ہر قسم کے ناپاک او ر گندے کاموں سے بچیں۔۱۳۸؎ غرض باوجود مخالفت کے اُسے ہر سوال کے جواب میں آپؐ کی طہا رت اورپاگیزگی کا اقرار کرنا پڑااور قیصرروما کے بھرے دربار میں اُسے آپؐ کے مناقب کا ترانہ گانا پڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ ہم تجھے مقامِ محمود عطاکرنے والے ہیں۔ آج مکہ والے تجھے بیشک مذمّم کہہ لیں، بیشک ہر قسم کا جھوٹ بول کر تجھے بُرا بھلا کہتے پھریں مگر ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیںکہ تیری تعریف قائم کی جا ئے اور زبانوں اور دلوں پر تیری حمد جاری کی جا ئے چنا نچہ خداتعالیٰ کی تقدیر ابوسفیان کو قیصر روماکے دربار میں کھینچ کر لے گئی اور شاہی دربار میں اُسے اقرار کرنا پڑ اکہ مکہ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیںمحمدرسول اللہ حقیقتاً تعریف کے قابل ہیں اور کوئی عیب اُن میں نہیں پایا جا تا۔
موجودہ زمانہ میں مقامِ محمود کی تجلّیات
پھر اللہ تعالیٰ نے اسی مقامِ محمود کی تجلّیا ت کو اور زیادہ روشن اور نمایا ں کرنے کے لئے
اس زمانہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور ہم سے اُس نے آپ کے حُسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کررہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لو گ پیدا ہو رہے ہیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیںمگر یہ تغیر کیوں ہؤا؟ اسی لئے کہ اس روحانی دربارِخاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلاجا تا ہے او ر کوئی انسان اس کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جب اُس نے اپنے دربار میں یہ اعلان کیا کہ اے ہمارے گورنرجنرل! ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کر نے پر مجبور ہو گی تو کون شخص تھا جو خداتعالیٰ کے اس پر وگرام میں حائل ہو سکتا۔ اس نے محمدی انوار کی تجلّیا ت کو روشن کرنا شروع کیا او ر اُس کے حُسن کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تما م خوبصورتیاں اس حسین چہرہ کے سامنے ماند پڑگئیں او ردوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہو کر پکار اُٹھے کہ محمّدؐ حقیقتاً محمدؐ اور قابلِ تعریف ہے صلّی اللہ علیہ وسلم۔
عظیم الشان دربار
غرض یہ کیسا عظیم دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو انعام دیاگیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود قائم
رہا، قائم ہے اور قائم رہے گا۔ حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میںکھڑی ہوئیںتو وہ مٹادی گئیں، سلطنتوں نے اس کو تِرچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہہ وبالا کردی گئیں، بڑے بڑے جا بر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مَسل دیئے گئے کیونکہ اس دربارِخاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اُس کے مقررکردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جُبّہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑاغیور ہے اورسب سے بڑھ کر وہ اِس درباری کے لئے غیرت مندہے جس کا مبارک نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے خداتعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں۔ اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
۱؎ چوری:کٹی ہوئی چیز
۲؎ بنی اسرائیل:۱۱۲ ۳؎ البقرۃ:۲۵۶
۴؎ سبا:۴
۵؎ مسند احمدبن حنبل جلد۵ صفحہ۲۶۶۔المکتب الاسلامی بیروت
۶؎ الشفا۔القاضی ابی الفضل عیاض الجزء الاول صفحہ۷۷ مطبوعہ ملتان
۷؎ البقرۃ:۳۲ تا۳۴ ۸؎ الاعراف:۱۲ ۹؎ الاحزاب:۷۳
۱۰؎ ص:۶۶تا۷۹
۱۱؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب اذااحب اللہ عبدا احبہٗ لعبادہ
۱۲؎ النجم:۸تا۱۰ ۱۳؎ الانعام:۱۰۴ ۱۴؎ الانفال:۱۸
۱۵؎ الاحزاب:۵۷ ۱۶؎ المدثر:۲تا۸
۱۷؎ المنجدعربی اُردو صفحہ۱۱ ۳مطبوعہ کراچی۱۹۷۵ء
۱۸تا۲۰ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ تاج العروس الجزء الاول صفحہ۱۸۲ مطبوعہ مصر۱۲۸۵ھ
۲۲؎ البقرۃ:۱۸۸ ۲۳؎ الاحزاب:۳۴ ۲۴؎ الشعرائ:۲۱۵
۲۵تا۲۷ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۱۴۶مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۲۸تا۳۰ لسان العرب جلد۱۵۔ صفحہ۳۱تا۳۳ مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۳۱؎ ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی النّظّافَۃ
۳۲؎ ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب اتّخاذالمساجد فی الدُّوَّرِ
۳۳؎ بخاری کتاب الطھارۃ باب فَضْلِ التَّھْجِیْراِلٰی الظُّھْرِ
۳۴؎ مسلم کتاب الطھارۃ باب النھی عنِ التخلی فی الطریق
۳۵؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب کفَّارَۃ البراق فی المسجد
۳۶،۳۷ بخاری کتاب الادب باب مَایُنھٰی عَنِ التَّحَاسُد
۳۸ ؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس و البھائم
۳۹؎ بخاری کتاب الادب باب لایسبّ الرجُّلُ وَالدَیْہِ بخاری کتاب الادب
باب ماینھی من السباب واللعن
۴۰؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب السّوَاک یومَ الجمعۃ
۴۱؎ بخاری کتاب العتق باب فی العتقِ وفضلہٖ
۴۲؎
۴۳؎ بخاری کتاب المساقاۃ۔ باب فضل سقی المائ
۴۴؎ بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار
۴۵؎ بخاری کتاب الایمان باب اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلٰی اللّٰہ اَدْوَمہٗ
۴۶؎ لسان العرب جلد۵ صفحہ۱۴۶۔ مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۴۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۱۴۶۔۱۴۷۔ مطبوعہ مطبع ازھریہ مصر ۱۹۳۲ء
۴۸؎
۴۹؎
۵۰؎ ویویکانند: ویویکانند اوائل عمر میں برہمو سماج کا رکن بنا۔ وہ ہمالیہ میںکئی برس تک ریاضت کرنے کے بعد جدید دنیا میں پہلا ہندو مبلّغ بننے کے لئے روانہ ہؤا۔ ویویکانند نے طویل سفر کئے اورویدانت ہندومت کے فضائل پر لیکچر دئیے۔ اس نے ۱۸۹۳ء میں بمقام شکاگو ۔ ’’مذاہب کی پارلیمنٹ‘‘ میں ہندومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک زبردست تاثر قائم کیا۔ خدا کی وحدانیت کا یہ ترجمان جہاں بھی گیا سامعین کے ذہن پر چھا گیا اور اپنے پیروکار بنائے۔(مذاہب عالَم کا انسا ئیکلوپیڈیا صفحہ۱۹۹ لیوس مور مطبوعہ لاہور ۲۰۰۲ئ)
۵۱؎ ٹیگور: اس کا پورا نام دیوندر ناتھ ٹیگور تھا۔ ٹیگور نے ۱۸۴۲ء میں برہمو سماج میں شامل ہو کرہندو ازم کی تجدید کی اور جماعت کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے اس تحریک کی خدمت کے لئے ایک مطبع اور رسالہ جاری کیا اس کی پرورش فرقہ وارانہ ماحول میں نہیں ہوئی اس لئے یہ تنگ نظر نہیں تھا۔(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ مؤلفہ غلام رسول مہر صفحہ ۲۱۴۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۷۶ئ)
۵۲؎ اٰل عمران:۱۰۵
۵۳؎ موضوعات ملاعلی قاری صفحہ۵۹ مطبع مجتبائی دھلی۱۳۴۶ھ
۵۴۔۵۵؎ لسان العرب جلد۱۳صفحہ۱۹۷۔بیروت۱۹۸۸ء
۵۶؎
۵۷؎
۵۸؎ المائدۃ:۶۸ ۵۹؎ طٰہٰ:۱۵،۱۶
۶۰؎ السیرۃ الحلبیۃ۔الجزء الاول صفحہ۳۶۸۔مطبوعہ مصر۱۹۳۲ء
۶۱؎ المائدۃ:۶۸
۶۲؎
۶۳؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النّبیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب
المھاجرین و فضلھم
۶۴؎
۶۵؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع ،شرح مواھب اللّدنیہ جلد۲
صفحہ۵۳۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت۱۹۹۶ء
۶۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۸۴ مطبوعہ ۱۲۹۵ ھ مصر
۶۷؎ مسلم کتاب الجھاد و السیرباب غزوۃ حنین
۶۸؎
۶۹؎ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ۲۴۷تا۲۴۹۔ دارالفکربیروت۱۹۸۷ء
۷۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲۸،۱۲۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ۱۸۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۲؎ عبس:۱۲تا۱۷
۷۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱صفحہ۴۶۔ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۴،۷۵؎ سیرت ابن ہشام۔ الجزء الاول صفحہ۱۳۵،۱۳۶۔مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۶؎ بخاری کتاب الزّکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ من یومھا
۷۷؎
۷۸؎ بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش
۷۹۔۸۰؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۳۱۳تا۳۱۷۔مطبوعہ ریاض۱۲۸۶ھ
۸۱؎
۸۲؎ القصص:۸۶ ۸۳؎ سبا:۲۹ ۸۴؎ التوبۃ:۱۰۰
۸۵؎ الحشر:۱۱ ۸۶؎ الحجر:۴۶تا۴۸ ۸۷؎ الفتح:۳۰
۸۸؎ سیرت ابن ہشام الجزء الاول صفحہ۲۸۴ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۸۹؎ بخاری کتاب المغازی باب قصّہ الاسود العنسی
۹۰؎ بخاری کتاب الجنائز باب من استعد الکفن فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۹۱؎ شمائل الترمذی باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۹۲؎ بخاری کتاب الاذان باب انتظار الناس۔ قیام الامام العالم
۹۳؎ سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ۱۶ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۹۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱۔مطبوعہ لاہور۱۸۹۲ء
۹۵؎
۹۶؎ سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ ۱۶۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۹۷؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی
صلی اللہ علیہ وسلم لَوْکُنت مُتَّخِذًا خَلِیْلًا
۹۸؎
۹۹،۱۰۰؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الفتح باب قولہٖ لِیَغْفِرَلَکَ
اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ
۱۰۱؎ الکوثر:۲تا۴
۱۰۲؎ لسان العرب جلد۱۲ صفحہ۳۷۔مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۱۰۳؎
۱۰۴؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول
النبی صلی اللہ علیہ وسلّم لوکنت متخذًا خلیلًا
۱۰۵؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد۳ صفحہ۳۸۵،۳۸۶مطبوعہ بیروت۱۲۸۶ھ
۱۰۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ ۲۱۹مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۱۰۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۱۵ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۱۰۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۳۰۴ بیروت۱۹۲۸ء
۱۰۹؎ المائدۃ:۲۵
۱۱۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
۱۱۱؎ اٰل عمران:۱۶۵
۱۱۲؎ خروج باب۳۱ آیت۱۷
۱۱۳؎ قٓ:۳۹
۱۱۴؎ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَاْلِانْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت:۵۷)
۱۱۵؎ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ(فاطر:۴۰)
۱۱۶؎ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَالَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰)
۱۱۷؎ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ(المؤمن:۸)
۱۱۸؎ وَالسَّمَائِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ (البروج:۲)
۱۱۹؎ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(السجدۃ:۱۸)
۱۲۰؎ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلا (بنی اسرائیل:۷۳)
۱۲۱؎ مَآاَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی۔اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی(طٰہٰ:۳،۴)
۱۲۲؎ مَنْ عَمِلَ صَالِحًافَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْھَا وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(حٰم السجدۃ:۴۷)
۱۲۳؎ اِثْمُھُمَآاَکْبَرُمِنْ نَّفْعِھِمَا(البقرۃ:۲۲۰)
۱۲۴؎ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت:۴۶)
۱۲۵؎ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:۱۸۴)
۱۲۶؎ لسان العرب جلد۱۲صفحہ۳۷ مطبوعہ بیروت۱۹۲۸ء
۱۲۷؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیْسٰی ابْنِ مریم
۱۲۸؎ بنی اسرائیل:۸۰
۱۲۹؎
۱۳۰؎ بخاری کتاب الجہاد باب السرعۃ والرکض فی الفزع
۱۳۱؎
۱۳۲؎ بخاری کتاب الصوم باب۔ اَجْوَدُمَاکان النَّبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَکُوْنَ فِی رمضان
۱۳۳؎ بخاری کتاب الادب باب الحیائ
۱۳۴؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولدو تقبیلہٖ ومعانقتہٖ
۱۳۵؎ بخاری کتاب الجنائز باب قول النَّبی صلی اللہ علیہ وسلم یُعَذّبُ
المیت ببعض بکاء اھلہٖ
۱۳۶؎ بخاری کتاب الحدود باب کراہیۃ الشفاعۃ فی الحد
۱۳۷؎
۱۳۸؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی اِلٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمّٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۷)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ۲۸دسمبر ۱۹۵۳ء برموقع جلسہ سا لانہ ربوہ)
عا لَمِ رُوحانی کا نو بت خانہ
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ ایسے الفاظ میں اُتاری ہے کہ عُسر ہو یا یُسر ہو مؤمن کے لئے یہ سورۃ ہمیشہ ہی ایک مستقل صداقت ،ایک نہ مٹنے والی حقیقت اور ایک محبت کا گہرا راز بنی رہتی ہے۔انسانوں پر توکّل کرنے والے اور ظاہر ی طاقت وشان کو دیکھنے والے لوگ کبھی کبھی باوجود بڑی بڑی تیاریوں کے ،باوجود بڑے بڑے ارادوں کے ،باوجود بڑی بڑی امدادوں کے ،باوجود بڑے بڑے سامانوں کے نا کا می اور نامرادی کا مُنہ دیکھ لیتے ہیں ۔ ہٹلر ؔاپنی تمام شان کے باوجودمشرقی جرمنی کی جنگ میں ہار جاتاہے۔نپولین ؔاپنے عظیم الشان تجربہ اور عزم کے باوجود واٹر ؔلو میں شکست کھا جاتاہے۔ لیکن خدا کے بندے اور خدا کے پر ستاراور خدا کے موعود صبح بھی اور شام بھی اور رات بھی اور دن بھی سچے دل سے بغیر منافقت کے، بغیر جھوٹ کے خدا کے حضور یہ کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ؎۱ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔اُن کی نا کامیاں عارضی ہوتی ہیں ،اُن کی تکلیفیں محض چند لمحات کی اور اُن کی مشکلات با لکل بے حقیقت ہوتی ہیں جن کے ساتھ خدا کھڑا ہوتا ہے اُن کو کسی دوسری چیز کا ڈر ہی کیا ہو سکتاہے۔
چند تمہید ی امور
مَیں نے ذکر کیا تھا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ میں حسب طریقِ سابق ایک علمی مضمون کے متعلق کچھ خیا لات ظاہر کرونگا۔اِس دفعہ مَیں نے اِس
مضمون کے لئے پھر ’’سیر روحانی‘‘ کو چُنا ہے’’سیر روحانی‘‘ کی تقریر ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئی تھی او ر اب۱۹۵۳ء آگیا ہے اور ابھی تک وہ سارا مضمون ختم نہیں ہؤا ۔سولہ چیزیں تھیں جو مَیں نے منتخب کی تھیں اور جن کے متعلق مَیں متشابہہ قرآنی دعوے اور قرآنی تعلیم پیش کرنا چا ہتا تھا ان میں سے اِس وقت تک دس کے متعلق تقریریں ہو چکی ہیں۔ ۱۹۳۸ء میں جنتر منتر ،وسیع سمندر اور آثارِقدیمہ کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔۱۹۴۰ء میں مساجد اور قلعوں کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔ ۱۹۴۱ء میں مُردہ بادشاہوں کے مقابر اور مینا بازار کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔پھر اس کے بعد ۱۹۴۲ئ، ۱۹۴۳ئ، ۱۹۴۵ئ، ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں اِس مو ضوع پر کو ئی تقریر نہیں ہوئی۔ ۱۹۴۸ء میںایک وسیع اور بلند مینا ر کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔پھر ۱۹۵۰ء کے جلسہ میںدیوانِ عام کے متعلق تقریر ہوئی تھی اور ۱۹۵۱ء کے جلسہ میں دیوانِ خاص کے متعلق تقریر ہوئی ۔ اس طرح گویا دس۰۱ مضامین اِن میں سے ہو گئے چو نکہ اِس مضمون کے بیا ن ہونے میں لمبا فا صلہ ہو گیا ہے اِس لئے میرا منشاء تھا کہ مَیں مختصر کر کے باقی چھ مضامین اکٹھے بیان کردوں اور کتاب مکمل ہوجائے لیکن جیسا کہ مَیںکَل بتا چکا ہوں چند مہینوں سے جو مجھے گلے کی تکلیف شروع ہوئی تو اِس کی وجہ سے مَیں نے محسوس کیا کہ میں لمبا مضمون بیان نہیں کر سکوں گا اور چھ مضا مین بیان کرنے کے لئے غا لباً پانچ چھ گھنٹے لگ جائیں گے اس لئے او ر کچھ اس وجہ سے بھی کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مَیں رات کے وقت لیمپ سے کام نہیں کر سکتا اور بجلی ابھی یہاں آئی نہیں محکمہ دو سال سے ہم سے وعدے کررہا ہے مگر اب تک اُسے ایفا ئے عہد کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ جب وہ آجائے تو مجھے امید ہے کہ بیماری میں بھی کچھ نہ کچھ کا م مَیں رات کو کر سکوں گا لیکن روشنی اگر کافی نہ ہو تو اب میری نظر رات کو زیادہ کا م نہیں کر سکتی۔ دوسرے تیل کی بُو کی وجہ سے مجھے نزلہ بھی جلدی ہوجاتا ہے اور تیل کے لیمپ سے کام کرنا میرے لئے مشکل ہوجاتا ہے اس لئے مَیں زیادہ وقت نوٹ لکھنے پر بھی نہیں لگا سکتا تھااو رکچھ میری بیماری کی وجہ سے لاہور کے ڈا کٹروں نے جو نُسخے تجویز کئے وہ ایسے مُضْعِفْ ۲؎ تھے کہ درحقیقت یہ پچھلا سا را مہینہ ایسا گزرا ہے کہ اکثر حصّہ مجھے چارپائی پر لیٹ کر گزارنا پڑتا تھا اور بیٹھنا بھی میرے لئے مشکل ہوتا تھا اور دوائی بھی ایسی تھی جو کہ خواب آور تھی اسلئے اکثر وقت مجھے اونگھ ہی آتی رہتی تھی او رمَیں کام نہیں کر سکتا تھا۔پس اِن مجبو ریوں کی وجہ سے مَیں نے صرف ایک مضمون پر ہی اِکتفاء کیا اور آج اُسی مضمون کے متعلق مَیں کچھ باتیں کہو ںگا۔ بعض دفعہ الٰہی تصرّ ف ایسا ہوتاہے کہ چھو ٹی سی باتوں کو اللہ تعالیٰ لمبا کر دیتا ہے ۔اور بعض دفعہ طبیعت پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ لمبی لمبی باتیں بھی مختصر ہو جاتی ہیںاِس لئے میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ نوٹ جو درحقیقت ایک ہی مضمون کے متعلق ہیں اور اپنے خیال میں مَیں نے انہیں مختصر کیا ہے آیا تقریر کے وقت بھی وہ لمبے ہو جا تے ہیں یا چھو ٹے ہو جا تے ہیں۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے فعل پر منحصر ہے مجھے بھی نہیں معلوم اور آپ کو بھی نہیں معلوم ۔
نئے لوگوں کی واقفیت کیلئے بعض پُرانی باتیں
بعض لوگ جو نئے آئے ہیں اُن کی اِطلاع کے لئے مَیں یہ بتاتا ہوں
کہ ۱۹۳۸ء میں مَیں نے ایک سفر کیا تھا ۔ اُس سفر میں مختلف جگہوں پر جب مَیں نے مختلف چیزیں پُرانے آثار کی یا نیچر کی دیکھیں تو اُن کا میری طبیعت پر ایک گہرا اثر پڑا ۔انسانی مصنوعات اور انسانی شان وشوکت کو دیکھ کر اور اسلام کے نشانوں کو مٹا ہؤا دیکھ کر اور اُس کی جگہ کفر اور ضلالت کو غالب دیکھ کر میر ی طبیعت سخت غمزدہ ہوئی اور مجھے بہت رنج پہنچا۔
اِس سفر میں ہم پہلے بمبئی گئے تھے ،بمبئی سے حیدر آباد گئے، حیدر آباد سے پھر آگرہ آئے، آگرے سے دِلّی آئے اور دلّی میں ایک دن سیر کرتے ہوئے ہم غیاث الدین تغلق کے قلعہ پر چڑھے وہاں سے ہمیں دلّی کے تمام مناظر نظر آرہے تھے۔ دلّی کا پُرانا شہر بھی نظر آتا تھا،نیا شہر بھی نظر آتا تھا، قطب صاحب کی لاٹ بھی نظر آتی تھی، نظام الدینؓ صاحب اولیاء کا مقبرہ بھی نظر آتا تھا،لو ہے کی لا ٹ بھی نظر آتی تھی اور لو دھیوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ،سُوریوں کے قلعے بھی نظر آرہے تھے ،مغلوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ،باغات بھی نظر آتے تھے ،غرض عجیب قسم کا وہ نظارہ تھا جو نظر آرہاتھا۔ایک طرف وہ شان وشوکت ایک ایک کرکے سامنے آرہی تھی کہ کِس طرح مسلمان یہاں آئے ،کس طرح اُنکو غلبہ حا صل ہؤا ،کتنی کتنی بڑی انہوں نے عمارتیں بنا ئیں اور اس کے بعد وہ خاندان تباہ ہؤا،پھر دوسرا آیا تو وہ تباہ ہؤا،پھر تیسرا آیا اور وہ تباہ ہؤا اور اب آخر میں یہ نشانا ت انگریزوں کی سیر گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ اِس نظارہ کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایک غیر معمولی اثر پیدا ہؤا اورمَیں نے کہا کیا ہے یہ دنیا جس میں اتنی شاندار ترقی کے بعد بھی انسان اتنا گِر جاتا اور تباہ ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں یعنی ہمشیروں میں سے بڑی ورنہ یوں وہ مجھ سے چھوٹی ہیں۔ اِسی طرح میر ی لڑکی امتہ القیوم بیگم بھی تھی اور میری بیوی اُمِ متین بھی تھیں، مَیں وہاں کھڑا ہو گیا اور مَیں اس نظارہ میں محو ہو گیا ۔ ایک ایک چیز کو مَیں دیکھتا تھا اورمیرے دل میں خنجر چبھتا تھا کہ کسِی وقت اسلام کی یہ شان تھی مگر آج مسلمان انگریز کا ٹکٹ لئے بغیر اِن عمارتوں کے اندر جا بھی نہیں سکتے ۔ یہ عمارتیں جو مسلمانوں نے بنا ئی تھیں آج یہاں سر کاری دفتر بنے ہوئے ہیں اور اس کو سیر گاہ بنا دیا گیا ہے۔جن خاندانوں کے یہ مکان تھے اُن کی نسلیں چپڑاسی بنی ہوئی ہیں،کلرک بنی ہوئی ہیں،ادنیٰ ادنیٰ کام کر رہی ہیں اوریوروپین لوگوں کے ٹُھڈّے کھا رہی ہیں۔ غرض میں اِس بات سے اتنا متاثر ہؤا کہ مَیں کھڑے ہوئے انہی خیالات میںمحو ہو گیا اور انہوں نے مجھے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔مگر مَیں چوٹی پر کھڑا اِس کو سوچ رہا تھا اور دنیا وَمَافِیْہَاسے غافل تھا۔ سوچتے سوچتے یکدم اللہ تعالیٰ نے میرے دل پر القاء کیا کہ ہم نے جو اسلام کو قائم کیا تھا تو قرآن کریم کے لئے قائم کیا تھااِن عمارتوں کے لئے قائم نہیں کیا تھا۔ہم نے جو تم سے وعدے کئے تھے وہ قرآن کریم میںبیان ہیں، وہ یہ وعدے نہیں تھے جو تُغلقوں اور سُوریوں نے سمجھے تھے بلکہ وہ وعدے وہ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے تھے اور یہ چیزیں جوتم دیکھ رہے ہو اُن کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں اوراِن سے بہت زیادہ اعلیٰ اور شاندار ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گی تم اِن کو دیکھ کرکیا غم کرتے ہو جبکہ اِن سے زیادہ شاندار چیزیں تمہارے پاس موجود ہیں۔ جس وقت تم چاہو قرآن اُٹھا ئواُس میں سے تمہیں یہ ساری چیزیں نظر آ جائیں گی۔
غرض بجلی کی طرح یہ مضمون میر ے نفس میں کُو ندا اَور مَیں نے وہاں سے حرکت کی اور نیچے کی طرف اُترنا شروع کیا اور مَیں نے کہا۔
’’مَیں نے پا لیا ۔مَیں نے پا لیا‘‘
جس طرح بُدھؔ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خدا کے متعلق غور کر رہا تھا کہ سا لہا سال غور کرنے کے بعد یہ انکشاف اُس پر ہؤا اور بے اختیا رہو کر اُس نے اپنی آنکھیں کھو لیں اور کہا:
’’مَیں نے پالیا۔مَیں نے پالیا‘‘
اِس طرح اُس وقت بے اختیا ر میری زبان پر بھی یہ الفاظ جا ری ہو گئے کہ:
’’مَیں نے پا لیا۔مَیں نے پا لیا‘‘
میری بیٹی امتہ القیوم بیگم نے مجھ سے کہا ۔’’ ابّا جا ن!آپ نے کیا پا لیا؟‘‘ مَیں اُس وقت اِس دنیا میں واپس آچکا تھا ۔مَیں نے اُسے کہا ۔بیٹی!مَیں نے پا تو لیا ہے لیکن اب مَیں وہ تم کو نہیںبتا سکتا بلکہ ساری جماعت کو اکٹھا بتائوں گا۔ چنانچہ اِس پر مَیں نے تقریر شروع کی جو ابھی تک جا ری ہے اور جس کا ایک حصّہ مَیں آج بیان کر نے والا ہوں ۔
نوبت خانوں کی پہلی غرض
جو چیزیں مَیں نے وہاں دیکھی تھیں اور جنہوں نے میرے قلب پر خا ص اثر کیا تھااُن میں سے ایک چیز یہ
تھی کہ مَیں نے وہا ں نوبت خانے دیکھے ۔یعنی ایسی عمارتیں دیکھیں جن میں وہ جگہیں بنی ہوئی تھیں جن میں بڑی بڑی نو بتیں رکھی جاتی تھیں اور وہ خاص خاص مواقع پر بجا ئی جاتی تھیں۔ مَیں نے تحقیقات کی کہ یہ نوبت خانے کیوں بنوائے گئے تھے اور اِن کی کیا غرض تھی؟اِس پر مجھے معلوم ہؤا کہ کچھ نوبتیں تو اس طرح رکھی گئی تھیں کہ وہ سرحدوں سے چلتی تھیں اور دلّی تک آتی تھیں ۔مثلاً جنوبی ہندوستان میں چند حکومتیں ایسی تھیں جو شروع زمانہ میں مغلوں کے ماتحت نہیں آئیں وہ ہمیشہ مغل بادشاہوں سے لڑتی رہتی تھیں اور جب بھی موقع پا تیں مُغلیہ چھائونیوں پر حملہ کر دیتی تھیں ۔اِس غرض کے لئے انہوں نے تین تین چارچار میل پر جہا ں سے وہ سمجھتے تھے کہ اُن کی آواز جا سکتی ہے نوبت خانے بنائے ہوئے تھے جو چلتے ہوئے دلّی تک آتے تھے۔ جس وقت سرحدات پر حملہ ہو تا تھا تو نوبت خانہ پر جو افسر مقرر ہوتے تھے وہ زور سے نوبت بجاتے تھے اُن کی آواز سُن کر اگلا نوبت خانہ نوبت بجانا شروع کر دیتا تھا،اُس کی آواز تیسرے نوبت خانہ تک پہنچتی تو وہ نو بت بجا نا شروع کر دیتا اِس طرح دکّن سے دلّی تک چند گھنٹوں میں خبر پہنچ جاتی تھی۔گویا یہ ایک تا ر کا طریق نکا لا گیا تھا اور اِس سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ملک پر حملہ ہو گیا ہے تو جس جہت سے نوبت خانوں کی آواز آتی تھی اُس جہت کا بھی پتہ لگ جاتا تھا۔ بادشاہ فوراًلام بندی ۳؎ کا حُکم دے دیتا تھا اور کسی جرنیل کو مقابلہ کے لئے مقرر کر دیتا تھا اورگھوڑ سوار فوراًچلے جا تے تھے جو جا کر خبر دیتے تھے کہ تم مقابلہ کرو۔ اگر بھاگنا پڑے تو فلاںجگہ تک آجائوپھر ہماری اَور فوج آجائے گی۔چنانچہ پھر فوج پہنچ جاتی تھی اور دشمن کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا۔یہ نوبت خانے اِدھر بنگال سے چلتے تھے اور دلّی تک جاتے تھے اور اُدھر پشاور سے چلتے تھے اور دلّی تک آتے تھے۔جب کوئی حملہ آور ایران کی طرف سے آتا تھا تو پشاور کے پاس سے نوبت خانے بجنے شروع ہو جا تے تھے اور چند گھنٹوں میں دلّی میں خبر پہنچ جاتی تھی کہ اِدھر سے حملہ ہو گیا ہے۔اُن دنوں ملتان میں بڑی چھائونی تھی، پھر لاہورؔ میں بڑی چھا ئونی تھی اور دلّی تو خود مرکزِ حکومت تھا۔اِن بڑی بڑی فوجی چھا ئونیوں کو حکم پہنچ جاتا تھا کہ اپنی فوجیں پشاور کی طرف بڑھانی شروع کردو اور پھر دلّی سے دوسرے جرنیل بھی پہنچ جاتے تھے۔
غرض نو بت خانوں کی غرض ایک تو یہ ہؤا کرتی تھی کہ مرکز میں یہ خبر پہنچ جائے کہ دشمن حملہ آور ہؤا ہے۔یہ ظاہر ہے کہ جس زمانہ میںا بھی تار نہیں نکلی تھی یہ طریق بڑا مفید تھا جو حکومت کی ہوشیاری اور اپنے فرض کے ادا کرنے پر تیا ر ہو نے کی ایک علامت تھی ۔کُجا حیدر آباد دکّن کا علاقہ جوہزار میل یااُ س سے بھی زیادہ فاصلہ پر ہے اور کُجا یہ کہ چند گھنٹوںمیں خبریں پہنچ جاتی تھیں۔ اِسی طرح پشاور سے دلّی تک خبریں پہنچ جاتی تھیں اور بنگال سے دلّی تک خبریں پہنچ جاتیں۔
نوبت خا نو ں کی دوسری غرض
نوبت خانوں کی دوسریؔ غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ جب بادشاہ کسی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے اپنے لشکرکو
لیکر مرکز سے روانہ ہوتو اُس جہت میں رہنے والی تمام رعایا کو علم ہوجا ئے کہ شاہی لشکرآرہا ہے اور وہ بھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے۔چنانچہ جب بادشاہ کسی طرف حملہ کرتا تھا تو اُس طرف اُلٹی نوبت بجنی شروع ہو جاتی تھی۔مثلاً دِلّی سے بادشاہی لشکر نے روانہ ہونا ہے اور فرض کرو کہ حملہ اتنی وسیع جگہ پر ہو گیا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ بادشاہی فوجوں کا وہاں فوری طور پر پہنچناضروری ہے تو دِلّی میں نوبت پڑتی تھی اور پھر جس طرف آگے جانا ہوتا تھا اُس طرف کے نوبت خانے بجنے شروع ہوجاتے تھے ۔ غرض جس لائن پر نوبت خانے بجتے چلے جاتے تھے لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اِس لائن پر لشکر نے جانا ہے۔اگر حیدر آباد کی طرف بادشاہ کا لشکر جا رہا ہے تو پہلے ایک پڑائو پر نو بت بجے گی ، پھر دوسرے پر بجے گی، پھر تیسرے پر بجے گی اور پھر بجتی چلی جائے گی اور جہا ں تک نوبت بجے گی لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ بادشاہ نے کہاں تک آنا ہے۔اگر بنگال کی طرف شاہی لشکر نے جا نا ہے تو پہلے مرکز میں نوبت پڑے گی او رپھر آگے نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی، پھر پڑتے پڑتے بنگال والوں کو اِطلاع ہو جائے گی کہ دِلّی سے بادشاہ کا لشکر چل پڑا ہے۔پشاور کی طرف حملہ ہؤا ہو تو اُدھر خبر پہنچ جائے گی کہ دِلّی سے بادشاہ فوج لے کر چل پڑا ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ جیسے تاریں آجاتی ہیں کہ ہوائی جہازوں پر ایک دستہ آرہا ہے اِتنی فوج چل پڑی ہے اور فلاں جرنیل مقرر کیا گیا ہے تو اِس سے فوج کے حو صلے بڑھ جا تے ہیں اور اگر ایک فوج اپنے آپ کوکمزور بھی سمجھتی ہے اور وہ خیال کرتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتی توجب اُسے یہ خبر پہنچ جائے کہ دو تین دن تک ہماری تازہ دم فوج اُس کی مدد کے لئے پہنچ جائے گی تو اُس کے حو صلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ لڑکر مرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم نے یہاں سے ہِلنا نہیں۔ دوتین دن میں ہماری اور فوج آپہنچے گی ڈرنے کی کوئی بات نہیں لیکن اگر یہ پتہ نہ ہو کہ ہماری فوجیں کب آئیں گی تو وہ کہتی ہیں یونہی جان کیوں ضائع کرنی ہے چلو لوٹ جائیںاِس طرح اِن نوبت خانوں کی وجہ سے فوج بڑی مضبوط رہتی ہے۔
نوبت خانوں کی تیسری غرض
تیسریؔ غرض نوبت خانوں کی یہ ہؤا کرتی تھی کہ بادشاہ کبھی کبھی لوگوں کو اپنا چہرہ دکھانے کے لئے اور
اپنی باتیں سُنانے کے لئے جھروکوں میں بیٹھتے تھے اور اعلان کر دیا جاتا تھا کہ بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں جس نے آنا ہے آجا ئے یہ دربارِ عام ہوتاتھا ۔اُس وقت بھی نوبت بجائی جاتی تھی اور نوبت کے بجنے سے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ آج بادشاہ نے باہر آنا ہے۔جو قریب ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بات کرنے کا موقع مِل جائے گا، جو اُن سے بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں دیکھنے کا موقع مِل جائے گا،جو اُن سے بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک جھلک دیکھنے کا موقع مِل جائے۔ گا اور جو اَور بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہم کوشش توکر یںگے نظر آگیا تو آگیا ورنہ ہجوم ہی دیکھ لیںگے اِس طرح ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے تھے۔دِلّی کے بادشاہوں نے اپنے عہدِحکومت میں ایسا طریق رکھا ہؤا تھا کہ علاوہ جھروکوں کے وہ بعض دفعہ ایسی جگہ بیٹھتے تھے کہ دریا پار کے لوگ بھی جمع ہو جاتے تھے۔ بیچ میں جمنا ؔآتی تھی اور جمناؔ کے کنا رے پر لوگ آکر جمع ہو جا تے تھے اور سمجھتے تھے کہ اِتنی دُور سے بھی اگر ہم نے بادشاہ کو دیکھ لیا تو یہ بھی ہماری عزّت افزائی ہے۔
۱۹۱۱ء میں جب جا رج پنجم دِلّی میں آئے اور دربار لگا تو مِیلوں مِیل تک لوگ کھڑے ہوتے تھے اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ کھڑے کیوں ہیں ۔بعض دفعہ آدھ آدھ مِیل پر بادشاہ کی سواری گزرتی تھی مگر لوگ کھڑے ہوتے تھے صرف اِتنا دیکھنے کے لئے کہ تالیاں پٹی ہیں اور بادشاہ وہاں سے گزرا ہے ۔بس اِتنی اطلاع آئی تو خوش خوش وہاں سے آگئے کہ ہم بادشاہ کا جلوس دیکھنے کیلئے گئے تھے۔ غرض یہ تین اغراض اِن نوبت خانوں کی ہؤا کرتی تھیں۔
اوّل سرحدات کی طرف سے مرکز کو اطلاع دینا کہ دشمن حملہ آور ہے۔
دومؔ مرکز کی طرف سے علاقہ کو اطلاع پہنچانا کہ بادشاہ یا اس کا ولیعہد بہ نفسِ نفیس اپنی فوج کے ساتھ کنا روں کی فوجوں کی مدد کے لئے چل پڑا ہے۔
تیسرؔے یہ اطلاع دینا کہ بادشاہ سلامت آج دربارِ عام منعقد کررہے ہیں اور عام اجازت ہے کہ لوگ آئیں اور بادشاہ کی زیارت کرلیں اور اگر قریب پہنچ جائیں تو اپنی عرضیاں بھی پیش کرلیں بلکہ بعض جگہوں پر انہوں نے بکس لگائے ہوئے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور بعض جگہ چھینکے ۴؎ لٹکا دیتے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور پھر بادشاہ انہیں پڑھ لیتا تھا۔
گویا یہ تین باتیں تھیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے نوبت خانے بنائے جا تے تھے ۔اور واقعہ میں اِس نظارہ کا خیا ل کر کے خصو صاً انگریزوں کی کارونیشن(CORONATION) دیکھ کر دیکھنے والوں کو خیا ل آتا تھا کہ کسِ طرح ہمارے مسلمان بادشاہ نکلتے ہونگے اور جس طرح ہمارے ہندوستانی دُور دُور دھکّے کھا تے پھر تے ہیں اِسی طرح اُس وقت انگریز سیّاح آتے ہونگے تو دو دومِیل پر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہونگے اورکہتے ہونگے ہم نے بھی بادشاہ کودیکھنا ہے۔مگر آج یہ حالت ہے کہ انگریز تخت پر بیٹھتا ہے اور اُن پٹھا ن یا مغل بادشاہوں کی اولادیں دُور دُور تک دھکّے کھا تی پِھر تی ہیں بلکہ ہم نے دہلی میں دیکھاہے کہ شہزادے پانی پلاتے پھر تے تھے اِس طرح دل کو ایک شدیدصدمہ ہو تا تھا۔
قرآنی نوبت خانہ کا کمال
لیکن جب خدا تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی کہ اِن چیزوں کو تم کیا دیکھ رہے ہو ہم تم کو اِس سے بھی ایک بڑا نوبت خانہ
دکھاتے ہیں جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اِس سے زیادہ شاندار ہے ۔تب مَیں نے سوچا کہ یہ جو نو بت خانہ بجا کرتا تھا اور جس سے وہ کنا روں کواطلاع دیا کرتے تھے کہ دشمن داخل ہو گیا ہے اِس کے مقابلہ میں قرآن کا نوبت خانہ کیا کہتا ہے۔ اِس پر مَیں نے اِن نوبت خانوں کے متعلق تو یہ دیکھا کہ جب دشمن کی فوجیں ملکی سرحدوں میں گھُس آتی تھیں یا کم سے کم سرحدات تک آپہنچتی تھیں تو اُس وقت نوبتیوں کو پتہ لگتا تھااب دشمن آرہا ہے او روہ نو بتیں بجانی شروع کر دیتے تھے۔مگراِس کانتیجہ یہ ہوتا تھا کہ دشمن احتیاط سے اور اپنی فوجو ں کو چُھپا کر لا تا تو بعض دفعہ وہ سَوسَومِیل اندر گھُس آتا تھاپھر کہیں پتہ لگتا تھا کہ حملہ آور دشمن اندر گھُس آیا ہے او رپھر اطلاع ہونی شروع ہوتی تھی۔اِس طرح عام طور پر حملہ آور کچھ نہ کچھ حصّے پر قابض ہو جاتا تھا اور پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کس وقت آیا ہے ۔داخل ہونے کے بعد معلوم ہو تا تھا کہ دشمن اندر گھُس آیا ہے مگراِس نوبت خانہ کومَیں نے دیکھا کہ اسلامی حکومت کا ایک نا ئب اور خدا کا خلیفہ مکّہ مکرّمہ میں پھر رہا ہے معمولی سادہ لباس ہے ،اُس کے ساتھی نہایت غریب اور بے کس لوگ ہیں، حکومت کا کوئی واہمہ بھی اُن کے ذہن میں نہیں ہے، ماریں کھا تے ہیں ،پِٹتے ہیں،بائیکاٹ ہو تا ہے،فاقے رہتے ہیںجا ئیدادیں او رمکان چھینے جا رہے ہیں ،غلاموں کو پکڑکر زمین پر لِٹایا جاتا ہے اور اُن کے سینوں پر لوگ چڑھتے ہیں، کیلوں والے بُوٹ پہن کر اُن کی چھا تی پرکُودتے ہیں او ر نہ مکّہ والوں کے ذہن میں خیا ل آتا ہے کہ یہ کبھی بادشاہ ہو جائیںگے ،نہ اُن کے ذہن میں کبھی خیا ل آتا ہے کہ ہم کبھی بادشاہ ہو جائیں گے۔ غرض ابھی بادشاہت کے قیا م کا کوئی واہمہ بھی نہیں لیکن بادشاہت کے بننے سے بھی پہلے دشمن کے آنے کی خبر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے تمہارے ملک پر حملہ ہونے والا ہے۔فرماتا ہے وَلَقَدْجَائَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ۔کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا کُلِّھَافَاَخَذْنٰھُمْ اَخْذَعَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ۔اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰئِکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَائَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّا عَۃُ مَوْعِدُ ھُمْ وَالسَّا عَۃُ اَدْ ھٰی وَاَمَرُّ۵؎
ہم نے مُوسٰی ؑ کے ذریعہ سے فرعون کو جو کہ مصر کا بادشاہ تھا اوربنی اسرائیل پر ظلم کیا کرتا تھا ڈرایا کہ دیکھو تم ہمارے بندے کے رُوحانی لشکر سے مقابلہ مت کرو ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا لیکن اُس نے رسول کی پرواہ نہ کی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس کی بے اعتنائی اور اُسکے انکا ر اور تکذیب کی وجہ سے ہم نے اُس کو پکڑ لیا اور معمولی طور پر نہیں پکڑا بلکہ ایک غالب اور قادر کی حیثیت سے اُسکو پکڑا یعنی بعض گرفتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان بہانے بنا کر اُس سے نکل جاتا ہے مگر ہماری گرفت ایسی تھی کہ ایکؔ تو اُس گرفت سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا دوسرےؔ سزاا یسی تھی کہ اُس سے وہ بچ نہیں سکتا تھا ۔ گورنمنٹیں بھی سزائیں دیتی ہیں لیکن بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ وہ پھانسی کی سزا ئیں دیتی ہیں تو لوگ جیل والوں سے مِل جاتے ہیںاِدھر رشتہ داروں کے ساتھ سمجھو تہ کر لیتے ہیں اور وقت سے پہلے پہلے وہ زہر کھا کر مر جا تے ہیں اور گورنمنٹ کے ججوں نے جو پھانسی کا حکم دیا ہوتا ہے وہ یو نہی رہ جاتا ہے ۔گزشتہ جنگِ عظیم میں جو جر من لیڈر پکڑے گئے تھے اُن میںسے گو ئرنگ کے لئے امریکنوں نے بڑی تیا ریاں کیں کہ اُس کو پھانسی پر لٹکا ئیں گے جس کا لوگوں پر بڑا اثر ہو گا کہ دیکھو گوئرنگ جیسے آدمیوں کو امریکنوں نے سزادی ہے اور جرمن بڑے ذلیل ہوتے ہیںلیکن جس وقت پھا نسی دینے کیلئے و ہ اُ س کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ مر ا پڑا تھا ۔معلوم ہؤا کہ کسی نہ کسی طرح جرمنوں نے اندر زہر پہنچا دیا اور وہ کھا کر مرگیا۔اب انہوں نے پکڑا تو سہی لیکن جو سزا دینے کا ارادہ تھا اس میں وہ کامیاب نہ ہوئے۔گویا اَخْذَ عَزِیْزٍ تو تھا مگر اَخْذَعَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ نہیں تھا یعنی پکڑ تو لیا وہ نکلا نہیں مگر جو چاہتے تھے کہ سزا دیں اُس میں وہ کا میا ب نہ ہوئے ۔
پھر بسا اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ مجرم ان کی سزا سے بھی پہلے نکل جاتا ہے جیسے کئی مجرم جیل خانوں سے بھاگ جاتے ہیں ،کئی مقدموں سے پہلے بھاگ جاتے ہیں ،کئی پولیس کی ہتھکڑیوں سے نکل جاتے ہیں، بعض دفعہ اطلاع ملنے سے پہلے ہی بھا گ جا تے ہیں اور پھر ساری عمر نہیں پکڑے جا تے ہیں ،بعض دفعہ پولیس اُن کے پیچھے تیس تیس سال تک ماری ماری پھرتی ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دُنیوی حکومتوں میں تو یہ دو باتیں ہؤا کر تی ہیں یعنی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ مجرم بھا گ جاتا ہے لیکن ہم ایسا پکڑیں گے کہ وہ بھاگ نہیں سکے گا۔ پھر کبھی کبھی ایسابھی ہو تا ہے کہ حکومت پکڑ تو لیتی ہے مگر جو سزا اُس کے لئے تجویز کرتی ہے وہ اُس کو نہیں دے سکتی۔ پھا نسی دینا چاہتی ہے تو اتفاقیہ طور پرمُجرم مر جاتا ہے ،ہارٹ فیل ہو کر مر جاتا ہے ،زہر کھا کر مر جاتا ہے، کسی نہ کسی طرح اُن کے قبضہ سے نکل جاتا ہے مگر ہم اَخْذَعَزِیْزٍمُّقْتَدِرٍ کی طرح انہیں پکڑ یں گے ہم اس طرح پکڑیں گے کہ وہ بھاگ بھی نہیں سکیں گے اورپھر جو سزا تجویز کریںگے وہی اُن کو ملے گی۔
پھر فرماتاہے اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌمِّنْ اُولٰئِکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَائَ ۃٌ فِی الزُّ بُرٍ
اے مکّہ والو!تم بتائو تو سہی کہ وہ جو موسٰی ؑ کے منکر تھے کیا تم اُن سے بہتر ہو۔ اگر موسٰی ؑ کے منکروں کو یہ سزا ئیں ملی تھیں تو تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ آیا یہ کہ تمہیں وہ سزائیں نہیں مِل سکتیں یا نہیں دی جا سکتیں جو موسٰی ؑ کی قوم کو دی گئیں یا خدا تعا لیٰ کی کتا بوں میں تمہا رے لئے کوئی ضمانت آئی ہو ئی ہے کہ ہم نے مکّہ والوں کو کچھ نہیں کہنا ۔مکّہ والے کہتے تھے کہ خانہ کعبہ ہماری حفاظت کا سامان ہے۔ فرماتاہے وہ تو خانہ کعبہ کی حفاظت کا وعدہ تھا تمھارے لئے تو کوئی وعدہ نہ تھا۔ خدا نے یہ تو وعدہ کیا کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کرے گا مگر یہ تو وعدہ نہیں کہ تم کو بھی سزا نہیں دے گا۔اَمْ یَقُوْ لُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔ کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑا جتھہ رکھتے ہیں اور ہم اِن مسلمانوں سے سخت بدلہ لینے والے ہیں ہم اِنکو تباہ کر کے چھو ڑیں گے۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْ نَ الدُّبُرَ۔فرمایا ٹھیک ہے یہ حملے کریںگے اور قوموںکی قومیں اکٹھی ہو جائیں گی ،سارا ملک جمع ہو جائے گااور جمع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملک پر حملہ کریں گے لیکن سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّّبُرَ۔اُن کے لشکر جو اکٹھے ہو نگے اُنکو شکست دے دی جا ئے گی اور وہ پیٹھ دکھا تے ہوئے بھاگ جائیں گے۔
دشمن کے حملہ کی بارہ سال پہلے خبر
گویا ابھی کوئی حملہ نہیں ہؤا،کوئی حکومت نہیں بنی، کوئی فوج نہیں آئی اور بارہ سال پہلے سے
خبر دے دی جاتی ہے کہ یہ لوگ حملہ کے لئے آئیں گے لیکن جب اِدھر سے یہ جمع ہو رہے ہونگے اُدھر سے خدا اپنے گورنر کی مدد کے لئے دَوڑا چلا آرہا ہو گا اور اُسے دیکھ کر دشمن کی فوج حواس باختہ ہو جا ئے گی اور اُسے بھاگنا پڑے گا۔ یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے ضرورت اِس بات کی ہو تی ہے کہ انسان خدا کا بن جائے ۔جب وہ خدا کا بن جاتا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ وہ کسی جگہ پر ہو اور خدا وہا ں نہ ہو ۔ جب بھی دنیا میں لوگ ایسے شخص کے پاس پہنچیں گے اُسے اکیلا نہیں پائیں گے بلکہ خداکو اُس کے پاس کھڑا پائیں گے اور انسان کا لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں خدا کا نہیں کر سکتے ۔بَلِ السَّا عَۃُ اَدْھٰی وَاَمرُّ۔ فرماتا ہے وہ جو گھڑی ہو گی وہ فرعون کی گھڑی سے بھی زیادہ خطر نا ک ہو گی۔ بظاہر یہ نظر آتاہے کہ فرعون کی گھڑی زیادہ سخت تھی اس لئے کہ وہ ڈوب کر مر گیا اور اُس کی فوج تباہ ہو گئی لیکن واقعہ میں دیکھیں تو کفار کو جو سزا ملی وہ فرعون کی سزا سے زیادہ سخت تھی۔ فرعون کا لشکر تباہ ہؤا لیکن موسٰی ؑ کو مصر کا قبضہ نہیں مِلا ۔موسٰی ؑ آگے چلے گئے اور کنعان پر جا کر قابض ہو ئے لیکن محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں جو دشمن آیا اُس کو صرف شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کے ملک پر بھی قبضہ ہوگیا ۔ یہ بَلِ السَّا عَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرُّ ہی تھا کہ موسٰی ؑ کے دشمن فرعون کو جو سزا ملی اُس سے ان کی سزا زیادہ سخت تھی کیو نکہ یہ قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ما تحت آگئے۔
مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت
اَب جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ خبر ایسے وقت میں دی گئی تھی جبکہ اسلامی حکومت ابھی بنی بھی
نہیں تھی ۔اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے نکلنا پڑا ۔پہلے تو یہ ہؤا کہ مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔کسِی کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ مدینہ کے لوگوں میں اسلام پھیل جائے گا۔ وہ تین چار سَو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جن کے مکّہ والوں کے ساتھ کو ئی ایسے تعلّقات بھی نہیں تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ چونکہ مدینہ والوں کی نواسی تھیں اس لئے صرف اتنا تعلق تھا اِس سے زیادہ نہیں تھا لیکن حج کے مو قع پر مدینہ سے کچھ لوگ آئے تو وہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے بھی آگئے۔آپؐ نے فرمایا ۔اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو مَیں آپ لوگوں کو کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں ۔ مکّہ کے لوگ آگے سے مارنے پیٹنے اور گالیا ں دینے لگ جاتے تھے اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ پیچھے نہیں پڑ تے تھے بلکہ پہلے آپ ان لوگوں سے اجازت مانگتے تھے اِسی طریق کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں کو معلوم تھا کہ آپؐ ہمارے نواسے ہیں اِس لئے انہوں نے کہا تم تو ہمارے نواسے ہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو مگر تمہاری قوم کے لوگ تو کہتے ہیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو۔ آپؐ نے فرمایا تم میری باتیں سُن لو اور پھر بیٹھ کر انہیں اسلام کی تعلیم دی ۔ انہوں نے کہا یہ باتیں تو بڑی معقول ہیں مگر تمہا ری قوم کے لوگ تو یہی کہتے تھے کہ تم پا گل ہو لیکن بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں بڑی جتھہ بندی ہو تی ہے اِس لئے اگر آپؐ اجا زت دیں تو ہم اِس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں ہم واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو یہ باتیں سُنائیں گے اگر قوم کو توجہ پیدا ہوئی تو ہم پھر دوبارہ آئیں گے چنانچہ وہ واپس گئے او رانہوں نے مدینہ میں اسلام کی تعلیم پھیلانی شروع کی۔ لوگوں نے سُنا تو اُن میں سے درجنوں آدمی آپؐ کو قبول کرنے کے لئے تیا ر ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ باتیں سچّی ہیں۔۶؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
اسرائیلی انبیاء واولیاء کی پیشگوئیاں
ایک بڑا ذریعہ اُن کے لئے یہ بن گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ سے پہلے یہودی لوگ اپنے بزرگوں کی پیشگوئیاں سُنا یا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہؤا
ہے کہ عربؔ میں ایک نبیؔ پیدا ہو گا اور ہمیں یقین ہے کہ چونکہ نبی ہم میں سے ہی ہو سکتا ہے اس لئے وہ ہماری قوم میں سے ہو گا بلکہ مدینہ کے جو یہودی تھے وہ اِسی لئے ہجرت کرکے وہاں آبسے تھے کہ کسی نے کتابوں میں سے اُن کو یہ پیشگوئیاں سُنا ئیں تو انہوں نے کہا وہ نبی ہم میں سے آجائے اِس لئے ہم عرب میںچلے جا تے ہیں ۔غرض اُن میں یہ پیشگوئیاں تھیں کہ آنے والا نبی عرب میں ظاہر ہو گا اِس لئے انہوں نے خیا ل کیا کہ وہ نبی ان یہودیوں میں سے ہو گا جو مدینہ جاکر رہیں گے اِسی وجہ سے وہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ انہوں نے جب یہ بات سُنی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ وہ جو یہودی کہا کرتے تھے کہ نبیؔ ہم میں سے آئے گا وہ تو جھوٹی بات ہے۔ نبی ہم میں سے آنا تھا جو آگیا اِس لئے بہتر ہے کہ ہم پہلے اس کو قبول کر لیں ۔ وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہودی پہلے اس کو قبول کر لیں ۔یہ تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہودی اس کی مخالفت کریں گے ۔چنا نچہ انہوں نے ایک بڑا وفد بنایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رات کو آپؐ سے ملے اور آپؐ کی باتیں سُنیں اور کہا ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت
پھر انہوں نے کہا یَارَسُولَ اللّٰہ! ہم
تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپؐ ہجرت کرکے ہمارے پاس آجائیں کیو نکہ آپؐکے شہر کے لوگ آپؐ سے اچّھا سلوک نہیںکرتے۔ حضرت عباسؓ آپؐ کے ساتھ تھے، انہوں نے یہ باتیں سُنیں تو اُن سے ایک عہد لیا ۔ انہوں نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے لئے کچھ شرطیں ہوں گی ۔ اُن میں سے ایک شرط یہ بھی ہو گی کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ کرے تو تم لوگ اپنی جا ن اور مال کو قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کروگے ہاں اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑائی کرنی پڑے تو پھر مدینہ والوں کی ذمہ واری نہیں ہوگی۷؎ چنا نچہ یہ عہد ہو گیا ۔اِس کے کچھ عرصہ بعد حکم بھی ہو گیا کہ ہجرت کرجائو اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔مدینہ پہنچتے ہی کو ئی ایسی رَو چلی کہ وہا ں عرب کے جو قبائل تھے وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے اور وہاں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔
قبائلِ عرب کی بَر افروختگی
جب یہ خبرمشہور ہوئی تو عربوں نے یہ دیکھ کر کہ اَب تو اِن کے پائو ں جمنے لگے ہیں اُن قبائل پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور دوستی رکھنا چاہتے تھے مکّہ سے حملے کرنے شروع کر دیئے ۔اور وہ مسلمان جو اِکّا دُکّا سفر کررہے ہوتے تھے اُن کو لُوٹنا اور ما رنا شروع کر دیا ۔اِس کے بعد پھر بدرؔ کے مو قع پر ایک باقاعدہ حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی مگر اس واقعہ کی ہجرت سے چار سال قبل آپؐ کو خبر دی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ تمہیں حکومت ملے گی، تمہارے شہر میں لشکر داخل ہو گا اور سارے عرب کی فوجیں اکٹھی ہو کر آئیں گی مگر باوجود اس کے کہ وہ اکٹھے ہو نگے تمہا را مقابلہ اُن سے ہو گا اور وہ شکست کھائیں گے۔ اَب دیکھو احزاب کی جنگ تو کہیں نَو دس سال بعد ہوئی مگر نَو دس سال پہلے بلکہ حکومت بننے سے بھی چار سال پہلے خبر دی گئی کہ اِسطرح دشمن داخل ہو گا ۔ اَب کُجا یہ نوبت خانہ اور کُجا وہ نوبت خانہ کہ دشمن اندر داخل ہو جا ئے تو بادشاہ کو خبر ہو تی تھی اور اِتنی دیر میں وہ سَو دو سَو میل تک ملک پر قابض بھی ہو جاتا تھا۔کتنا بڑا زمین وآسمان کا فرق ہے جو اِن دونوں نوبت خانوں میں پا یا جاتا ہے ۔چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ احزاب کے مو قع پر جب سارا عرب اکٹھا ہو گیا اور اُس نے مدینہ پر حملہ کیا تو بجا ئے اِس کے کہ مسلمانوں کے دلوں میں تکلیف اور گھبراہٹ پیدا ہو تی یا ڈر پیدا ہوتا اُن کے ایمان بڑھنے شروع ہو ئے کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ خبر پہلے سے دی ہوئی تھی ۔ جب خدا نے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے تو اِن کے داخل ہونے سے ہمیں کیا ڈر ہے۔خدا نے کہا تھا کہ لوگ اکٹھے ہو کر حملہ کے لئے آئیں گے اور ہمیں اُمید بھی تھی کہ آئیں گے اور جب وہ بات پوری ہو گئی تو اگلی کیو ں نہ پوری ہو گی یہ ایک بڑا بھاری نشان ہو تا ہے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں مسلمانوں کی تباہی اور اُن کی خرابیوں کے متعلق خبریں دیں اور پھر بتایا کہ اِس کے بعد خداتعالیٰ ایک ایسا زمانہ پیدا کرے گا کہ مسلمانوں کی تباہی دُور ہو جا ئے گی اور مسلمان پھر ترقی کرنا شروع کر دیں گے۔
ایک دوست کی بیعت کا دلچسپ واقعہ
چنا نچہ مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنا یا ہے کہ مَیں دِلّی میں تھا ، اِس سفر میں نہیں بلکہ
اِس سے پہلے ایک سفر میں ہم قلعہ میں گئے تو وہا ں جو شاہی مسجد ہے اُس کو دیکھنے کے لئے چلے گئے میرے ساتھ سارہ بیگم مرحومہ اور میر ی لڑکی نا صرہ بیگم تھیں۔مَیں نے کہا اس مسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھتا چلو نماز پڑھ چلیں کبھی نہ کبھی کو ئی نماز پڑھنے والا یہاں بھی آجا نا چاہئے ۔چنانچہ مَیں نے اُنکو ساتھ لیا اور وہا ں نماز پڑھنی شروع کی۔چنا نچہ ہما ری نماز اور غیر احمدیوں کی نماز میں فرق ہو تا ہے وہ تو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے جس طرح مُر غا دانے چُنتا ہے اسی طرح وہ کرتے ہیں او رہمیں یہ حکم ہے کہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھو۔ غرض ہم جو نماز پڑھنے لگے تو ہم نے نصف یا پون گھنٹہ نمازوں میں لگا دیا ۔مَیں ابھی نماز سے فارغ نہیں ہؤا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ جیسے کو ئی جلدی جلدی جاتا ہے اِس طرح میری بیوی اور میر ی بچّی دونوں جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے پیچھے ہٹ گئیں۔مَیں نے نماز سے سلام پھیرا اور باہر آیا تو سارہ بیگم مرحومہ سے مَیں نے کہا کہ تم کیوں آگئی تھیں ؟انہوں نے کہا یہاں کو ئی اور مسافر عورتیں آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہمیں اشارہ کر کے بُلایا تھا جِس پر ہم چلی گئیں۔پھر انہوں نے بتایا کہ ایک انجینئر ہیں ،وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر ولایت جا رہے ہیں اوریہ جو بیٹی ہے یہ ایک احمدی سے بیاہی جانے والی ہے۔منگنی اِس کی ہو چکی ہے اور لڑکا احمدی ہے ماں نے کہا کہ میر ی یہ بیٹی احمدیوں میں بیا ہی جا نے والی ہے اور ان کے امام یہاں آئے ہوئے ہیں اگر اِن سے میرا خاوند مِل لے تو ذراتعلّق پیدا ہو جائے گاکیو نکہ آئندہ احمدیوں کے گھروں میں ہم نے جانا ہے اِس لئے انہوں نے بلا یا تھا کہ اگر آپ اجا زت دیں تو وہ آپ سے بات کرلیں ۔مَیں نے کہا آجائیں اِس کے بعد ہم ذرا آگے کوئی جگہ دیکھنے کے لئے چل پڑے تو پھر چلتے چلتے یکدم مَیں نے دیکھا کہ میر ی بیوی اوربیٹی دونوں غائب ہیں ۔مَیں نے مُڑکر جو دیکھا تو معلوم ہؤ ا کہ پھر وہ عورتیں انہیں اشارہ کر کے لے گئی ہیں اور دومرد کچھ قدم آگے آگئے ۔مَیں نے سمجھا کہ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے مِلنا ہے۔پاس پہنچے تو انہوں نے اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکُمْ کہا ۔مَیں نے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہا ۔اورپو چھا کہ فرمایئے کیا بات ہے ؟اُن میں سے ایک نے کہا کہ اِس اِس طرح میری بیوی کو پتہ لگا تو اُس نے ہمیں اطلاع دی۔ میری لڑکی میرے بھا ئی کے بیٹے سے بیا ہی جانے والی ہے اور میرا بھا ئی احمدی ہے تو چونکہ لڑکی احمدیوں میں جانی ہے اور میر ا بھائی بھی احمدی ہے اِس لئے مَیں نے خواہش کی کہ مَیں آپ سے مِل لوں ۔مَیں نے کہا بڑی اچھی بات ہے۔ پھر مَیں نے کہا آپ کا کونسا بھائی احمدی ہے۔انہوں نے نام بتایا مَیں نے کہا وہ تو ہماری جماعت کے وہا ں امیر ہیں ۔کہنے لگا جی ہا ں ۔ایک میرا وہ بھائی ہے وہ تو بیچارے بعد میں فوت ہو گئے لیکن دوسرے بھائی موجود ہیں غلام سرور اُن کا نام ہے اور چار سدّہ کے رہنے والے ہیں تو کہنے لگے غلام سرور جو میرابھائی ہے وہ احمدی ہے اور مَیں اور میر ا یہ بھا ئی دونوں غیر احمدی ہیں ۔مَیں نے کہا آپ یوں نہیں احمدی ہوئے کیا آپ نے ہما را لٹریچر نہیں پڑھا؟کہنے لگے نہیں مَیں نے نہیں پڑھا پھر کہنے لگے دیکھیئے ہم نے تو انصاف کر دیا ہے آپ کا اور ان کا جھگڑا ہے۔ہم نے دو بھائی آپ کو دے دئیے ہیں اور دو بھا ئی ان کو دے دئیے ہیں اِس طرح ان کو تقسیم کر دیا ہے گویا اٹھنّی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنّی اُن کو دے دی ہے۔انہوں نے مذاق کے رنگ میں یہ بات کہی۔مَیں نے بھی آگے مذاق کے رنگ میںکہا کہ آپ کوہما را پتہ نہیں ہم اِس معاملہ میں بڑے حریص ہیں اور ہم سارا روپیہ لے کر راضی ہؤا کرتے ہیںاٹھنّی لے کر راضی نہیں ہؤا کرتے۔کہنے لگے لے لیجئیے۔مَیں نے کہا دیکھیںگے۔پھر مَیں نے کہا آپ نے کبھی لٹریچر نہیں پڑھا ۔کہنے لگے مَیں نے کبھی نہیں پڑھا اورنہ مجھے فُرصت ہے۔اَب جو مَیں ولایت جانے کے لئے چلنے لگا تو میرے بھا ئی نے جن سے مجھے بہت محبت ہے اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں جب مَیں کپڑے وغیرہ بھر رہا تھا تو میری بیوی کو مجبور کر کے کچھ کتابیں لا کے ٹرنک میںڈال دیں اور کہنے لگے یہ پڑھنا ۔مَیں نے کہا بھائی! پڑھنے کی کس کوفُرصت ہے۔کہنے لگے ۔جہاز پر اُن کو فُرصت کے موقع پر پڑھتے رہنا۔مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے آپ کا لحاظ ہے اس لئے رکھ دیں ورنہ مَیں نے کہا ں پڑھنی ہیں۔ تو بس اتنی بات ہے ورنہ مَیں نے پڑھا پڑھا یا کچھ نہیں ۔مَیں نے کہا اچھا اٹھنّی پر تو ہم راضی نہیں ہؤا کرتے ہم تو پورا روپیہ ہی لیاکرتے ہیں ۔ اِس کے بعد وہ چلے گئے ۔تین چار مہینے ہوئے مجھے لنڈن سے ایک خط مِلا۔ اس خط کا مضمون ان الفاظ سے شروع ہو تا تھا کہ مَیں وہ شخص ہوں جو دہلی کے قلعہ میں آپ سے ملا تھا اور مَیں نے آپ سے مذاقاً کہا تھاکہ ہم نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پورا انصاف کر دیا ہے۔اٹھنّی ہم نے آپ کو دیدی ہے اور اٹھنّی ہم نے اِنکو دے دی ہے اور آپ نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنّی پر راضی نہیں ہؤا کرتے ہم تو پورا روپیہ لے کر راضی ہؤا کرتے ہیں ۔آپ حیران ہو نگے کہ مَیں لنڈن سے ایک چونّی آپ کو بھیج رہا ہوں ،ایک چونّی باقی رہ گئی ہے اورمیری بیعت کا یہ خط ہے۔آگے انہوں نے تفصیل لکھی اور اُس میں انہوں نے لکھا کہ مَیں جس وقت یہاں آیا تو آپ جا نتے ہیں ہم پٹھان لوگ ہیں اور ہمیشہ نعروں پر ہماری زندگی ہوتی ہے۔کہ انگریز ہم کویوں قتل کریںگے انگریز ہم کویوں ماریں گے، یہ ہوتے کون ہیں ہم پستول یا رائفل سے ڈز کریںگے اور وہ بھا گ نکلیں گے ۔یہ تو کبھی سو چا نہیں تھا کہ ہمارے پاس کیا سامان ہیں اور اِن کے پا س کیا سامان ہیں ۔صرف اتنا ہم جا نتے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے اور اِن کو ما ر ڈالیں گے۔یہی خیا لات میرے بھی تھے اورمیر ا خیال تھا کہ اِن کی دُنیوی ترقی اور کالج وغیرہ دیکھو نگا۔مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ اِن کے سامانِ جنگ ایسے ہیں کہ ہم اِن کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔جب مَیں یورپ میں آیاتو مَیں اٹلی میں گیا، فرانس میں گیا ،جرمنی میں گیا ،انگلینڈ میں آیا اور مَیں نے اِن کی فوجیں دیکھیں ۔توپ خانے دیکھے ،ہوا ئی جہاز دیکھے ،اِن کے گولہ بارود کے کا رخانے دیکھے تو مَیں نے کہا یہ تو ایسی بات ہے جیسے چڑیا کہے کہ مَیں باز کو مارلو نگی ہمارے اندر اس کے لئے کو ئی طاقت ہی نہیں اوراِس کو دیکھ کر میں بالکل مایوس ہو گیا ۔پہلے توہم خیا ل کرتے تھے کہ ہم اتفاقاًانگریز کے ماتحت آگئے ہیں جس دن پٹھان نے رائفل سنبھالی سارے یورپ کو ختم کر دے گا مگر اب تو یہاں آکر معلوم ہؤا کہ یوروپین لوگوں کو ختم کر نیکا کو ئی سوال ہی نہیں یہ تو قیامت تک باقی رہیں گے ہم انہیں دُنیا سے نہیں مٹا سکتے۔ پھر میرے دل میں اسلام کے متعلق شُبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ جب اسلام کا یہ انجام ہونا تھا اور عیسائیت نے اسے کُچل کر رکھ دینا تھا تو پھر عیسائیت ٹھیک ہے۔ درمیان میں بے شک اسلام آیا اور اُس کو کچھ غلبہ مِلا مگر اب پھر عیسائیت غالب آگئی ہے۔ غرض اسقدر میرے دل میں مایوسی اور شُبہات پیدا ہونے شروع ہوئے کہ آج شام کو مَیں نے کہا میرے بھائی نے ٹرنک میں کچھ کتابیں رکھی تھیں انہیں میں سے کوئی کتاب لائو تاکہ مَیں اُسے پڑھوں۔ شاید اُس میں کوئی بات بتائی گئی ہو۔کہنے لگے مَیں نے آپ کی کتاب ’’دَعْوَۃُ الْاَمِیْر‘‘ نکالی اُس کتاب میں یہی مضمون ہے کہ اسلام کی تباہی کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ خبریں دی ہیں اور بتایا ہے کہ مسلمان اس طرح ذلیل ہو جائیں گے،تجا رتیں جاتی رہیں گی او ر سب قسم کی ترقیاں مٹ جائیں گی۔بھلا آج سے تیرہ سَو سال پہلے کون کہہ سکتا تھاکہ مسلمان کی یہ حالت ہو گی اُس وقت تو یہ حالت تھی کہ سات سَو مسلمان ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مردم شُماری کرو ۔ مسلمانوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ؐ! آپؐ نے مردم شماری کرائی ہے اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں ۔کیا آپؐ ڈرتے ہیں کہ اب ہم تباہ ہو جائیں گے؟ اب ہمیں کون مار سکتا ہے۔اب یا تو اُن کی یہ شان تھی اور یا یہ کہ چالیس کروڑ یا ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں اور اُن کی جانیں لرز رہی ہیں ۔تو یہ حالت آج سے تیرہ سَوسال پہلے کون شخص بتا سکتا تھا نا ممکن تھا کہ کوئی شخص کہے کہ مسلمان ایسا کمزور ہو جائے گالیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا وہ بات پوری ہو گئی ۔پس اے مسلمانو!جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناممکن خبر پوری ہو گئی ہے تو تم کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ دوسری خبر جو اَب مَیں بتا تا ہوں وہ پوری ہو گی۔پھر مَیں نے وہ پیشگوئیاں لکھی ہیں جو اسلام کی ترقی کے متعلق تھیں ۔ اور مَیں نے کہا اِن کو دیکھ لو او ر سمجھ لو کہ اسلام پھر ترقی کرے گا ۔کہنے لگے ۔جب مَیں نے یہ پڑھا تومیرے دل کو تسلّی ہو گئی کہ واقع میں مَیں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ وہی تھا جو آپ نے بتایا تھاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور جب یہ بات پوری ہو گئی جس کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ پوری ہو گی تو آپ کی یہ دوسری بات بھی ضرور پوری ہو گی اور مَیں نے سمجھا کہ جس شخص نے دنیا میں آکر ہماری یہ راہنمائی کی ہے اُس سے علیحدہ رہنا بالکل غلط ہے چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہو گئے۔
مسلمانوں کی کمزوری پر منافقین کی طعنہ زنی
غرض جب یہ باتیں پوری ہو ئیں تو منافقوں کیلئے یہ بڑی تباہ کن چیز تھی۔
انہوںنے خیا ل کیا اب تومارے گئے۔ اِدھر سے یہودی چلے آرہے ہیں اُدھر سے عرب قبائل چلے آرہے ہیں ،اُدھر مکّہ کے لشکر چلے آرہے ہیں ۔غرض دس بارہ ہزار کا لشکر آرہا ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے مقابلہ میں اتنا سپاہی تو کُجا ،اِن کے پاس اِس سے نصف بھی سپاہی نہیں ۔وہ مقابلہ کہا ں کریںگے اور یہ حالت پہنچ گئی کہ وَاِذْ قَا لَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَامُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا۸؎
منافق جو ڈر کے مارے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اُن کو بھی اِتنی دلیری پیدا ہو گئی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیاکہ ارے میاں!اب بھی یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی اب تو سارا عرب اکٹھا ہوکر تمہارے خلاف جمع ہو گیا ہے اسلئے اب چھوڑو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو یہ آپ بُھگتتا پھر ے گا اور جا ئو اپنے گھر وں میں اب اِس لڑائی میں مقابلہ کا کوئی فائدہ نہیں۔
مخالف لشکروںکو دیکھ کر صحابہؓ کے ایمان اَور بھی بڑھ گئے
لیکن مسلمانوں نے اُسوقت وہی دیکھا
جو خان فقیر محمد صاحب چار سدّہ والوں نے دیکھا تھا کہ خدا کی یہ بات پوری ہو گئی ہے اور وہ بات بھی پوری ہو گی ۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اِس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے وَلَمَّا رَأَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَا زَادَھُمْ الَّا اِیْمَاناً وَّ تَسْلِیْماً ۹؎
یعنی جب مؤمنو ں نے دیکھا کہ ادھر سے شمالی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیںاِدھر سے جنوبی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ،اُدھر سے مشرقی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیںاِدھر سے مغربی عرب کے لشکرچلے آرہے ہیں،اُدھر سے مکّہ کا لشکر چلا آرہا ہے اِدھر سے یہودی قبائل اِردگِردسے جمع ہو کر چلے آرہے ہیں ،اُدھر سے اندر کے یہودی مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے ہیںاور اِدھر منافقوں کی بات بھی سُنی کہ اب تو تمہارا کچھ نہیں بن سکتاچھوڑو اِس دین کو تو مسلمانوں نے کہا تم تو کہتے ہو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں ۔ارے مکّہ میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لشکر جمع ہونگے ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا طاقت تھی کہ اس کیلئے دس آدمی بھی جمع ہوتے ۔ایک ابوجہل کا فی تھا جو کہتا تھا مَیں اِسے مار دونگا یہ اتنے بڑے لشکر اکٹھے ہوکر اس لئے آگئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اب اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ سارا عرب ان کو مِل کر ہی مار سکتا ہے اور یہ خبر جو دس سال پہلے دی گئی تھی کہ مسلمان اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ سارا عرب جمع ہو کر اُن کے مقابلہ کے لئے آئے گایہ بڑا بھا ری نشان ہے یا نہیں؟تو ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ۔دیکھو یہ وعدہ قرآن میں پہلے سے موجود تھا کہ عرب اکٹھے ہوکر آئیں گے۔ہمارے توایمان تازہ ہوگئے کہ جس وقت یہ خبر دی گئی تھی کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے اُس وقت کوئی امکان ہی نہیں تھا ،خیا ل بھی نہیں آسکتا تھا،وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا مگر آج آگئے تو سُبْحَانَ اللّٰہ !یہ تو وہی بات ہوئی جو خدا تعالیٰ نے کہی تھی اور خدا اور اس کا رسول سچے ثابت ہوگئے۔پس ہمیں کیا ڈر ہے اب تو ہم ان کے ساتھ چمٹیں گے۔وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا ٓاِیْمَاناً وَّ تَسْلِیْماً۔اور اِس آواز کے آنے سے اُن کے ایمان اَور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی پیشگوئی تھی جو پوری ہوگئی ۔انہوں نے توکہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دو وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا ٓاِیْمَاناً وَّ تَسْلِیْماً۔مگر مسلمانوں نے کہا کہ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی ہمیں اپنی نجات نظر آتی ہے۔جس شخص کی یہ خبر سچی ہو گئی ہے اُس کے ساتھ مِل کرہم نے کام نہیں کرنا تو اَورکِس کے ساتھ کرنا ہے۔پس وہ اپنے عمل او رقربانی میں اَور بھی زیادہ ترقی کر گئے۔
غرض یہ وہ جنگ تھی جو کہ پانچویں سال ہجرت میں ہوئی لیکن چارسال کے قریب ہجرت سے بھی پہلے مکّہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا تھا کہ اِس طرح تمام لشکر اکٹھے ہو کر آئیں گے اور حملہ کریںگے تم اُن کا مقابلہ کرو گے اور اُن کو شکست ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ تمہاری مدد کیلئے آئے گا۔
قرآنی نوبت خانہ کی ایک اَور خبر جو بڑی شان سے پوری ہوئی
اِسی طرح دوسری خبر
جو اِس نوبت خانہ سے دی گئی وہ یہ ہے کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپؐ مکّہ گئے ہیں اور وہاں عمرہ کر رہے ہیں۔ آپؐ نے صحابہؓ کو دیکھا کہ کسی نے سرمُنڈایا ہؤا ہے اور کسی نے بال تراشے ہوئے ہیں اور عمرہ ہو رہا ہے۔آپؐ نے صحابہؓ سے کہا کہ چونکہ خواب آئی ہے،چلو ہم عمرہ کر آئیں ۔جب آپؐحدیبیہ مقام پر پہنچے تو مکّہ والوں کو پتہ لگ گیا وہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی کِس نے اجازت دی ہے؟انہوں نے کہا ہم لڑنے کیلئے تو نہیں آئے صرف اِس لئے آئے ہیں کہ عمرہ کر لیں یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے او رہمارے نزدیک بھی ۔ہم اس کی زیارت کے لئے آئے ہیں لڑائی کے لئے نہیں آئے۔انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں۔ ہماری تمہاری لڑائی ہے اگر تم مکّہ آئے اور طواف کر گئے توتمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے ۔ہم ساری دُنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد بھیجے ،رئوسائے عرب کی طرف توجہ کی،اُن کو سمجھایا مگر وہ سارے متفق ہو گئے کہ ہم عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے آخر یہ فیصلہ ہؤا کہ صلح نامہ لکھاجائے۔
صلح نامہ حدیبیہ کی بعض شرائط
اِس معاہدہ میں انہوں نے کہا کہ اَب کے تم واپس چلے جا ئو تا سارے عرب کو پتہ لگ جائے کہ تم پُوچھے بغیر
آئے تھے اِس لئے ہم نے تم کو طواف نہیں کرنے دیا ۔پھر اگلے سال آجانا تو ہم تمہیں تین دن کے لئے طواف کرنے کی اجا زت دے دیں گے ۔معاہدہ کرتے وقت جو بڑے بڑے سرداراِن لڑائیوں کو نا پسند کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ پھر آپس میں کچھ صلح کی شرطیں بھی ہو جائیں۔تا کہ لڑائیاں ختم ہو جائیں آپؐ نے منظور فرما لیا ۔چنا نچہ شرطیں یہ طے ہوئیں کہ اگلے سال مسلمان آکر طواف کر جائیں اور یہ معاہدہ ہو جا ئے کہ آئندہ دس سال کے لئے لڑائی بند کر دی جا ئے اِس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کو ئی نشان ظاہر کردے تو وہ جس کی تائید کرے گا اُس کو فائدہ پہنچ جا ئے گا ورنہ ملک میں امن پیدا ہو جا ئے گا۔ پھر ایک شرط یہ بھی کی گئی کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرلے اور جو چاہے مکّہ والوں سے معاہدہ کرلے۔ اردگرد کے جو قبائل تھے اُن کو یہ آفر(OFFER)کیا گیا کہ تم جس سے چاہو معاہدہ کرلو چنا نچہ بنو خزاعہ نے کہا ہم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کریںگے اُن کی مکّہ والوں سے لڑائیاں تھیں اورر بنو بکر جو ایک بڑا قبیلہ تھا اور مکّہ والوںکا دوست تھا اُس نے کہا کہ ہم مکّہ والوں سے معاہدہ کریں گے۔غرض قبائلِ عرب بھی تقسیم ہو گئے ۔اُن میں سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے حق میں ہو گئے اور بنو بکر مکّہ والوں کے حق میں ہو گئے اور فیصلہ یہ ہؤا کہ آپس میں لڑنا نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی معاہدہ توڑے ۔اگر کوئی معاہدہ تو ڑ کر اپنے مدّ مقابل سے یا اُس کے حلیف سے مقابلہ کرے تو پھر اُس سے لڑائی کی اجازت ہو گی اِسی طرح کچھ اور شرطیں طے ہوئیں۔۱۰؎
دشمن کی معاہدہ شکنی کی خبر
جب یہ شرطیں طے ہو گئیں تو اب گویا آئندہ دس سال کیلئے جنگ بند ہو گئی ۔اب جنگ کی صرف ایک ہی صورت باقی تھی
اور وہ یہ کہ مکّہ والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کے حلیفوں پر حملہ کردیں کیونکہ مسلمان کو تو حکم ہے بہر حال تم نے اپنا عہد پورا کرنا ہے۔اِس معاہد ہ کے بعد نا ممکن تھا کہ مسلمان لڑائی کر سکیں ۔صرف ایک ہی صور ت باقی تھی کہ مکّہ والے محمد رسول اللہؐ پرحملہ کر دیں یا آپؐ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں اِسکے بغیر لڑائی نہیں ہو سکتی تھی۔گویا اب لڑائی کا اختیا ر دشمن کے ہا تھ میں چلا گیا مؤمنوںکے ہا تھ میں نہ رہا ۔ایسی صورت میں جب لڑائی کا اختیا ر دشمن کے ہا تھ میں تھا جب یہ پتہ لگنے کی کو ئی صورت ہی نہیں تھی کہ دشمن کی فوجیں اسلامی نظام کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گی کیو نکہ فیصلہ تو اُس نے کرنا تھا مسلمانوں نے نہیں کر نا تھا اُس وقت جب صلح حدیبیہ کر کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم واپس آرہے تھے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آپؐ کو خبر دی گئی کہ دشمن معاہدہ توڑے گااور ہم تم کو اُن پر قبضہ دیں گے۔گویا پھر قریباً ڈیڑھ سال پہلے خبر مل گئی کہ دشمن کی فوجیں تمہا رے ملک میں داخل ہو جا ئینگی چنا نچہ آپؐ کو الہام ہؤا ! اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْناً۔ لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاوَّ یَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا ۱۱؎
یعنی اے محمدؐ رسول اللہ!ہم تجھ کو ایک عظیم الشان فتح کی خبر دے رہے ہیں ۔وہ ایک ایسی فتح ہوگی جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہ ہو گی کہ تُو سچّا ہے اور پھر وہ فتح مبین ہو گی ۔ بعض نشانات تو ہوتے ہیں مگر اُن سے نتیجہ نکالنا اور استنباط کرنا پڑتاہے لیکن وہ فتح ایسی ہو گی کہ استنباط کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ خود اپنی ذات میں تیری صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہوگی۔ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ اور یہ فتح ہم تجھے اِس لئے دیں گے تاکہ تیری جنگ جو عربوں سے چلی آرہی ہے اُس میں بعض باتیں کرنے والی تھیں جو تونے نہیں کیں اور بعض غلطیاں تم سے ایسی ہوئیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں اور تم نے کر لیں ۔مثلاً بعض جگہ عفو نہیں کرنا چاہئے تھا مگر عفو کر دیا۔ بعض جگہ معاف کرنا چا ہئے تھا مگر صحابہؓ کو خیا ل نہیں آیا اور انہوں نے معاف نہیں کیا مثلاً محرم الحرام میں جا کر مسلمان لڑ پڑے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے کہ اِس مہینہ میں تو لڑنا جائز ہی نہیں ۔وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِ یَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا اور وہ تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے اور تجھے وہ راستہ دکھا ئے جس کے ذریعہ سے تجھے کامیابی نصیب ہوجائے۔ وَیَنْصُرَ کَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا اور مدد بھی معمولی نہیںبلکہ بڑی غالب مدد ۔اِس میں اِس طرف اشارہ کیا گیا کہ چونکہ مسلمان حملہ نہیں کر سکتے اِس لئے تیرے ہاتھ سے تو لڑائی نکل گئی اب ہم ایسا طریق اختیا ر کریںگے جس سے لڑائی جا ئز ہو جائے اور وہ طریق یہی ہو سکتا تھا کہ کفّا ر حملہ کر دیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم خود ایسے سامان کریںگے کہ کفّا ر تجھ پر حملہ کر دیں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں وہ تباہ ہو جائیں گے۔یُتِمَّ نِعْمَتَہٗ سے بھی یہی مراد ہے کہ عرب شکست کھا جائیں گے اوراسلامی حکومت قائم ہو جائے گی۔ کیو نکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاِذْ قَا لَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا۱۲؎
یعنی موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یا د کر و کہ اس نے تم میں اپنے انبیا ء مبعوث فرمائے اور اُس نے تمہیں دُنیوی بادشاہت کی نعمت سے بھی نوازا۔اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نعمت کی تعریف بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ نعمتِ الٰہی اوراس کا اتمام الٰہی جماعتوں سے دو طرح ہو تاہے ۔اگر ان کا سیاسی مقابلہ ہو تو حصو لِ ملوکیت سے اور اگر خالص مذہبی ہو تو تکمیلِ نبوت سے۔یعنی دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتاہے تو اگر اس سے صرف سیاسی لڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے بادشاہ بنا دیتا ہے او ر اگر مذہبی لڑائی ہو تو اس کے دین کو غالب کر دیتا ہے اور اگر سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا مقابلہ ہو تو دونوں قسم کے انعام عطا کئے جا تے ہیں ۔یعنی نبوت بھی قائم کی جاتی ہے اور بادشاہت بھی عطا کی جاتی ہے پس یہاں ہم یُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ سے یہی مراد لیں گے کہ اس حملہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عرب کی حکومت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کی حکومت قائم کردی جائے گی اور یَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْماً میں بتایا کہ تم کو غدّاری نہیں کرنی پڑے گی۔اللہ تعالیٰ خود ایسا راستہ نکالے گا جس کے نتیجہ میں لڑائی کرنا تمہارے لئے جا ئز ہو جا ئے گا اور ہر شخص تمہا رے حملہ کو جائز اور معقول قرار دے گا۔
فَتْحًا مُّبِیْنًا سے مُراد صلح حدیبیہ نہیں بلکہ فتح مکّہ ہے
اِس آیت کے متعلق مفسّرین میں اختلاف پایا جاتا ہے
بعض کہتے ہیں کہ فتح سے مُراد صلح حدیبیہ ہے لیکن کچھ اَور مفسّرین اور صحابہؓ کہتے ہیں کہ اِس سے مراد فتح مکّہ ہے اور اُن کے اِس خیا ل کی تائید اِس سے ہو تی ہے کہ ابنِ مردویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں مَیں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْناً میں جس فتح کا ذکر ہے اُس سے مراد فتح مکّہ ہے۔۱۳؎ گویا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ ہے کہ اس جگہ فتح سے مراد فتح مکّہ ہے لیکن اگر صلح حدیبیہ لو تب بھی فتح مکّہ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ہی ہو ئی اگر صلح حدیبیہ نہ ہو تی تو فتح مکّہ بھی نہ ہوتی۔
خدائی نوبت خانہ کی ایک اَور خبر
اب یہ جو اطلاع مِلی تھی کہ دشمن آئے گا اور حملہ کرے گا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی اِس کے واقعات کو ہم
دیکھتے ہیں کہ وہ کسِ طرح ہوئے تو ہمیں معلوم ہو تاہے کہ پہلے تو قریباً ڈیڑھ سال پہلے نوبت خانہ نے اطلاع دی کہ دشمن آئے گا، اس کے بعد جب یہ وقت قریب آگیا تو خدائی نوبت خانہ نے پھر دشمن کے حملہ کی خبر دی ۔چنانچہ جب دشمن کے آنے کا وقت قریب آگیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میری باری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہا ں سو رہے تھے۔ جب آپ تہجّد کے لئے اُٹھے تو آپؐ وضو فرماتے ہوئے بولے اور مجھے آواز آئی کہ آپؐ فرما رہے ہیں۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔ اِس کے بعد آپؐ نے فرمایا۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔وہ کہتی ہیں ۔جب آپؐ باہر تشریف لائے تو مَیں نے کہا ۔یَارَسُوْلَ اللّٰہ!کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپؐ اس سے باتیں کررہے تھے ؟آپؐ نے فرمایا ۔ہا ں !میرے سامنے کشفی طورپر خزاعہ کا ایک وفد پیش ہؤا اور وہ شور مچاتے چلے آرہے تھے کہ ہم محمدؐ کو اس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اورہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جبکہ ہم میں سے کو ئی سجدہ میںتھا او ر کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اَب ہم تیری مدد حا صل کرنے کیلئے آئے ہیں ۔غرض مَیں نے دیکھا کہ خزاعہ کا آدمی کھڑا ہے۔ جب کشفی طور پر وہ آدمی مجھے نظر آیا تو مَیں نے کہا ۔ لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں مَیں تمہاری مددکے لئے حاضر ہوں، مَیںتمہاری مددکیلئے حاضرہوں، پھر مَیں نے کہا۔ نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔ ۱۴؎ تجھے مدد دی جائے گی ،تجھے مدد دی جا ئے گی ،تجھے مدد دی جائے گی۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُسی دن صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میر ے گھر تشریف لائے اور آپؐ نے فرمایا ۔خزاعہ کے ساتھ ایک خطر ناک واقعہ پیش آیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے سمجھ لیا کہ خزاعہ کے ساتھ خطرناک واقعہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مکّہ کی سرحد پر ہیں اور مکّہ والے جن کا خزاعہکے ساتھ معاہدہ ہے وہ خزاعہ پر حملہ کردیں۔مَیں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ! کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قسموں کے بعد قریش معاہدہ توڑ دیں اور وہ خزاعہپر حملہ کر دیں؟آپؐ نے فرمایا ہاںاللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کے ماتحت وہ اس معاہدہ کو توڑ رہے ہیں اور وہ حکمت یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کی اجا زت نہیں تھی ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں مَیں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ! کیا اِس کانتیجہ اچھا نکلے گا؟آپؐ نے فرمایا ہاں !نتیجہ اچھا ہی نکلے گا۔۱۵؎ غرض اُس دن پھر نوبت خانہ بجتاہے ۔ اور اُدھر وہ واقعہ ہو تاہے جومَیں ابھی بیان کرونگا اور اِدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اطلاع مل جاتی ہے۔
بنوخزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی
اب واقعہ یُوں ہؤا کہ خزاعہؔ اور بنو بکرـؔمیں آپس میں لڑائی تھی اور بنو بکر ہمیشہ مکّہ والوں کی مدد کر تے تھے۔ خزاعہ نے عملی طور
پر مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے اُن کے معاہدے تھے،اُن کی مدد کیا کرتے تھے ۔یو ں مسلمانوں کو یہ ہمدردی تھی کہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے تعلقات تھے ۔ جب یہ معاہدہ ہؤا تو یوں تو وہ لڑائی کے لئے ہر وقت تیا ر رہتے تھے لیکن معاہدہ کے بعد بنو بکر نے سمجھا کہ اب تو یہ غافل رہیں گے اب موقع ہے ان کو مارنے کا ۔چنانچہ وہ مکّہ کے لوگوں کے پاس گئے او راُن سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے معاہدہ ہو گیا ہے،اِن کوتو خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کو ماریں گے اگر اِس وقت آپ ہماری مدد کریں تو ہم اِن کو تباہ کر سکتے ہیں ۔مکّہ والوں نے کہا بڑی اچھی بات ہے تم ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہے ہو ہم تمہاری مدد کریں گے چنانچہ باہمی مشورہ کے بعد ایک اندھیری رات انہوں نے تجویز کی اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت حملہ کریں گے۔مکّہ کے لشکر ہمارے ساتھ آجائیں کسی نے کیا پہچاننا ہے کہ مکّہ والے بیچ میں موجود ہیں یہی کہیں گے کہ بنوبکر کے لوگ ہیں اور پھر چوری چوری اُن کو ما ر کر آجائیں گے اُن کو وہم بھی نہیں ہو گا ۔چنا نچہ رات جو مقرر تھی اِس رات وقتِ مقررہ پر بنو بکر کا لشکر اور قریش کا لشکر مِل کر وہاں گیا اور انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا ۔اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم سجدے کررہے تھے اور رکوع میں گئے ہوئے تھے حالانکہ وہ سب مسلمان نہیں تھے صرف کچھ لوگ مسلمان تھے انہوں نے مبالغہ سے کہا کہ ہم کو سجدے او ر رکوع کرتے ہوئے مار دیا ہے۔وہ تواس امید میں بیٹھے تھے کہ آپس میں دس سال کا معاہدہ ہو چکا ہے اب ہمیں حملہ کا کوئی خطرہ نہیں کوئی کسی کو نہیں چھیڑ ے گا مگر اچانک قریش اور بنو بکر مِل کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے خزاعہ کو مارنا شروع کر دیا جو بھاگ سکے بھاگ گئے اور باقی جو اپنے ڈیروں پر رہے وہ مارے گئے لیکن رات کے وقت کسی کی آواز تو نکل جاتی ہے بعض لوگوں کے منہ سے آوازیں نکلیں تو بنو خزاعہ کو پتہ لگ گیا کہ قریش اُن کے ساتھ شامل ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے صبح شور مچادیا کہ قریش نے بنوبکر سے مل کر ہم پر حملہ کیا ہے۔صرف بنوبکرنے نہیں کیا اور اِردگِرد کے لوگوں کو بھی یقین ہو گیا کہ بنوبکر کبھی جرأت نہیں کر سکتے تھے جب تک قریش کی مدد ان کو حا صل نہ ہو تی اِس لئے ضرور قریش حملہ میں شامل ہیں ۔اِس طرح سارے علاقہ میں باتیں شروع ہو گئیں کہ قریش نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ چنانچہ مکّہ کے رئو سا ء اکٹھے ہو ئے او رانہوں نے کہا یہ تو بڑے فکر کی بات ہے معاہدہ ٹوٹ گیا ہے اب محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مو قع مِل گیا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کر دیں اِس کو کسی طرح سنبھالنا چاہئے۔
بنوخزاعہ کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں
اِدھر بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمیوں
کا ایک وفد تیا ر کیا انہیں اونٹوں پر سوار کیا اور انہیں کہا کہ رات دن منزلیں طے کرتے ہوئے جائو اور مدینہ جا کر خبر دو ۔چنانچہ وہ تین دن میں مارامار کرکے مدینہ پہنچے اورجس طرح آپ کو الہا ماً بتایا گیا تھا اُسی طرح فریاد کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ ہم رسول اللہؐ کو اُس کے خدا کی قسم دلاتے ہیں اور اُسی کا واسطہ دے کر کہتے ہیںکہ ہم نے تمہا رے ساتھ اور تمہا رے باپ دادوں کے ساتھ ہمیشہ معاہدے کئے اور تمہارے ساتھ وفاداری کی لیکن قریش نے تمہاری دوستی کی وجہ سے رات کو حملہ کرکے ہمارے آدمیوں کو مارا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسوقت مسجد میں بیٹھے تھے اور تین دن پہلے الہا می طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو اس کی خبر بھی مِل چکی تھی۔ جب آپؐ نے سُناتو عمروبن ؔسالم جو اُن کا لیڈر تھا ، آپؐ نے اُسے فرمایا گھبرائو نہیں تمہاری مدد کی جا ئے گی۔ پھر آپؐ نے فرمایا :’’اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری کبھی مدد نہ کرے۔‘‘
پھر آپؐ نے فرمایا :-
’’جس طرح مَیں اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی جانو ں کی حفاظت کرتاہوں ۔اسی طرح تمہاری جانوںاور تمہارے بیوی بچوں کی جانوں کی بھی حفاظت کرونگا۔‘‘۱۶؎
پھر آپؐنے انہیں تسلّی دی اَور کہا کہ مکّہ والوں کو پتہ لگے گا اور وہ تمہا ری تلاش میں ہونگے تم جا ئو لیکن چالیس آدمیوں کا قافلہ چونکہ آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اِس لئے تم واپس جاتے وقت دودوتین آدمی مِل کر جائو۔قافلہ کی صورت میں اکٹھے نہ جا ئو تا پتہ نہ لگے کہ تم میرے پاس پہنچے ہو۔ چنانچہ انہوں نے قافلہ کو دودو،تین تین، چارچار کی پارٹیوں میں تقسیم کر دیا اور واپس چلے گئے۔ ۱۷؎
ابو سفیان کا معاہدہ کی تجدید کیلئے مدینہ پہنچنا
اِدھر مکّہ والوں کو جب فکر ہوئی کہ ہم نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور اب
مسلمانوں کے لئے راستہ کھل گیا ہے ہم الزام نہیں لگا سکتے اوروہ حملہ کر سکتے ہیں اور اِدھر دیکھا کہ مکّہ میں جو معاہدہ کیاجائے لوگ اُس کی بڑی عزّت کرتے تھے حَرم میں کئے ہوئے معاہدہ کی وجہ سے سارے لوگ کہیں گے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں اور وہ ہم سے نفرت کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے مقدس مقام کی ہتک کی ہے اِدھر اِنہوں نے معاہدہ کیا اور اُدھر اُسے توڑ ڈالا۔پس جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سے غلطی بھی ہوئی ہے اور ارد گرد کے قبائل میںبھی ہماری بد نا می ہو تی ہے اور اب اِس کے نتیجہ میں بالکل ممکن ہے کہ مسلمان ہم پر حملہ کردیں تو انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اِس لڑائی کو ٹلا دیا جا ئے ۔جس وقت حدیبیہؔ کی صلح ہوئی ہے اُس وقت ابو سفیان جو اُن کا لیڈر تھا مکّہ میں موجو د نہیں تھا وہ باہر تھا مگر اس واقعہ کے وقت ابو سفیان موجو د تھا ۔مکّہ کے رئو سا ء آخر پر یشان ہوکر ابو سفیان کے پاس آئے اور اُس سے کہا کہ اِس اِس طرح واقعہ ہو گیا ہے۔وہ کہنے لگا واقعہ کیا ہے؟ مَیں نے تو سُنا ہے کہ تم خود وہاں گئے تھے اور خزاعہپر تم نے حملہ کیا ۔وہ کہنے لگے جو ہو گیا سو ہوگیا تم لیڈر ہو تمہا ر اکا م ہے کہ اِس کو سنبھالو۔تم مدینہ جائو اور وہا ں جا کر دوبارہ معاہدہ کرو اور یہ بہانہ بنالو کہ دس سال تھوڑی مدت ہے ہم پندرہ سال تک معاہدہ کرنا چاہتے ہیںاُن کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کیوں کررہے ہیں ۔نیا معاہد ہ ہو جا ئے گا اور ہم کہیں گے کہ اَب پچھلی غلطی پر کو ئی لڑائی نہیں ہو سکتی۔ ابوسفیان نے کہا بہت اچھّاچنا نچہ وہ چل پڑا۔
ابو سفیان کی بہانہ سازی
جب وہ مدینہ پہنچا تو اُس نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا آپؐ جا نتے ہیں مَیں مکّہ کا سردار ہوں۔
فرمایاٹھیک ہے ۔ اُس نے کہا آپؐ کو معلوم ہے جب صلح حد یبیہؔ ہو ئی تھی مَیں مکّہ میں مو جو د نہیں تھا اُسوقت معاہد ہ ہو گیا ۔آپ میر ی پنا ہ دیئے بغیر کسی کو کیو ں پنا ہ دے سکتے ہیں۔مَیں معاہدہ کر وں تو معاہد ہ مکّہ کی طرف سے ہو سکتا ہے میں نہ کروں تو کیسے ہو سکتا ہے؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی بات سُن کر خاموش رہے۔پھر اُس نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ معا ہدہ نئے سِرے سے کیا جائے اور مَیں اُس پر دستخط کروں اور دوسرے دس سال تھو ڑے ہیں قوم لڑتے لڑتے تھک گئی ہے میراخیا ل ہے اِس مدّت کو پندرہ یا بیس سال کر دیا جا ئے۔ اِس طرح اُس نے بہا نہ بنا یا کہ گویا ایک معقول وجہ بھی موجود ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ابو سفیان کیا کوئی معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ وہ کہنے لگا مَعَاذَاللّٰہِ مَعَاذَاللّٰہِ یہ کسِ طرح ہو سکتاہے معاہدہ ہم نے خدا سے کیا ہے اُسے کو ئی توڑ سکتا ہے۔ہم اپنے معا ہدہ پر قائم ہیںہم اُسے نہیں توڑ سکتے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم معا ہدہ توڑنے والے نہیں تو ہم بھی توڑنے والے نہیں کسی نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے۔اب گھبراگیا کیو نکہ بات تو بنی نہیں تھی ۔وہ کہنے لگا زیادہ منا سب یہی ہے کہ مَیں بڑا آدمی ہوںمعاہدہ پر میرے دستخط نہیں اگر میرے دستخط ہو جائیں تو معاہدہ محفوظ ہو جائیگا اِس سے زیادہ کو ئی بات نہیں ۔آپؐ نے فرمایا کوئی ضرورت نہیں۔ اَب ابو سفیان کو فکر پڑی تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور جا کر کہنے لگا ابو بکر ؓ !تم جا نتے ہو میری کتنی بڑی پوزیشن ہے میرے دستخط معاہدہ پر نہ ہوں تو مکّہ والوں پر وہ کیسے حجت ہو سکتاہے میرے دستخط ہونے چاہئیںاور مَیں پھر کہتا ہوں کہ مدت بھی بڑھادی جائے۔تم محمد رسول اللہ سے کہو وہ تمہاری بات بڑی مانتے ہیں تم اُن سے کہو کہ معاہدہ پھر سے ہو جائے اور اُس پر میرے دستخط بھی ہو جائیں۔آپ نے فرمایا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا؟ اُس نے کہا۔ ہا ں مَیں نے کہا تو تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو پھر نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ۔ابو سفیان !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں میری پنا ہ بھی شامل ہے اِس لئے کسی نئی پناہ کی ضرورت نہیں ۔ اِس کے بعد وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مِلا اور اُن سے بھی یہی کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نیا معاہدہ کریں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا ۔مَیں تو تمہا را سر پھو ڑنے کے لئے بیٹھا ہوںکسی نئے معاہدہ کا سوال ہی کیا ہے۔پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اورانہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میاں کیا بیو قوفی کی باتیں کرتے ہو تمہارے ہو نگے دو دو آدمی ہمارا تو ایک ہی آدمی ہے جسے اُس نے پناہ دی اُسے ہم نے بھی پنا ہ دی اور جس سے وہ لڑپڑے اُس سے ہم بھی لڑپڑے ہمارا بیچ میں کیا دخل ہے۔ پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔پھر وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پا س گیا اور جا کر کہا مرد تو سمجھتے نہیں یہ لڑاکے ہوتے ہیں ان کو شکار کا شوق ہوتا ہے، عورتیں بڑی رقیق القلب ہو تی ہیں مَیں تمہارے پاس اِس لئے آیا ہوں کہ قوم کے خون ہو جائیں گے، فساد ہو جائے گا اور اس کا کوئی فائدہ نہیںہو گا ۔تم جا نتی ہو ۔مَیں سردا رہوں جب میرے دستخط نہیں ہوئے تودوسرے اس کو کیسے مان لیں گے؟ مَیں تکلیف اُٹھا کے آیا ہوں کہ کسی طرح معاہدہ ہو جا ئے اور میرے دستخط ہو جائیں۔ تم ذراپنے ابّا سے چل کے کہو کہ مَیں نے انہیں پنا ہ دے دی ہے۔تمہارے ساتھ ان کو پیا ر ہے بات ہو جائے گی حضرت فاطمہ ؓ کہنے لگیںہمارے ہاں عورتیں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیا کرتیں میرا اس معا ملہ سے کیا تعلق ہے مردوں سے جا کر کہو۔کہنے لگا اچھّا! عورتیں دخل نہیں دیتیں تو حسنؓ اور حسینؓ کو بھیجدو اِنکو سِکھا دو کہ وہ جا کر یہ بات کہہ دیں کہ نانا! ہم نے پنا ہ دے دی ہے۔حضرت فاطمہ ؓ نے کہا ہمارے ہاں دنیا کے تمام کاموںمیں بلوغت کی شرط ہوتی ہے۔ یہ بچے ہیں اِن کو کیا پتہ کہ پناہ کیا ہو تی ہے۔پھر وہ مہاجرین ؔکے پاس گیا انصار کے پا س گیا اور اِس میں اس کے دو تین دن لگ گئے آخر اُسے گھبراہٹ پیدا ہو نی شروع ہو گئی کہ ہو گا کیا؟
ابو سفیان کا مسجد ِنبوی میں اعلان
آخر وہ سو چ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دوبار ہ گیااور حضرت علی ؓ کو جا کر کہنے لگامَیں ساری
جگہوں پر گیا ہوں مگر میری کوئی نہیں سُنتا ۔محمد رسول اللہؐ سے بات کی وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔ اب تم مجھے بتائو کوئی ترکیب نکل سکتی ہے یا نہیں ؟ قوم کا درد تمہارے اندر بھی ہونا چاہئے۔ حضرت علیؓ کہنے لگے یہی تجویز میری سمجھ میں آتی ہے کہ تم مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کردو کہ مَیں چونکہ اپنی قوم کا سردار ہوں اور مَیں نے دستخط نہیں کئے ہوئے اسلئے مَیں اپنی طرف سے اُسے اِس رنگ میں پختہ کرنے آیا ہوں کہ آج نئے سرے سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کی اتنی مدّت بھی بڑھا تاہوں ۔اُس نے کہا ۔ اِس کا کو ئی فائدہ ہو گا؟ حضرت علیؓ نے کہا۔ بظاہر تو نظر نہیں آتا مگر آخر تم کہتے ہو کہ مجھے کو ئی تجویز بتائو مَیں نے تمہیں بتائی ہے تم کرکے دیکھ لو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ابو سفیان وہاں پہنچا اور کھڑے ہو کر کہنے لگاکہ اے مدینہ کے لوگو!سنو!معاہدہ تم نے ان لوگوں سے کر لیا جن کی ذمہ داری نہیں ہے ذمہ داری میری ہے اورر مَیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہتا ہوں ۔جو کچھ مَیں نے سُنا ہے وہ اچھی بات ہے مگر مَیں چاہتا ہوں معاہدہ کی مدّت بھی بڑھ جا ئے اور میرے دستخط بھی ہو جائیں ۔مَیں اعلان کرتاہوں کہ معاہدہ آج سے شروع ہوتا ہے او رمیری اِس پر تصدیق ہے اور اتنے سال بڑھا دیئے گئے ہیں۔یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ سارے صحابہؓ سُن کر ہنس پڑے اور اُس کو سخت ذلّت محسوس ہوئی کہ اِتنے لوگوں میں مَیں اُلّو بن گیا ہوں کیو نکہ معاہدہ دونوں فریق سے ہو تا ہے ایک فریق سے کیا ہوتاہے۔بڑے غصّہ سے کہنے لگا اے ابنائے ہا شم !تم لوگ ہمیشہ ہمارے دشمن رہے۔ پھر حضرت علی ؓ کو مخا طب کر کے کہنے لگا تم نے مجھے جان کے ذلیل کروایا ہے تم ہمیشہ ہماری دشمنی کرتے ہواور یہ کہہ کر غصّہ میں واپس آگیا ۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی ایمانی غیرت
اِسی دوران میں اُس کو ایک اَور بھی زک اللہ تعالیٰ نے پہنچائی۔اُس کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی بیوی تھیں یعنی اُم المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا ۔جب وہ مدینہ آیا تو اُس نے کہا مَیں بیٹی کو مِل آئوں ۔جب بیٹی کے پاس گیا تو اُن کے پاس ایک فراش۱۸؎ پڑا ہؤاتھا انہوں نے جلدی سے اس کو لپیٹ کر رکھ لیا۔ اُس کی یہ حر کت اس کو عجیب معلوم ہوئی کہنے لگا بیٹی! یہ فراش تم نے کس لئے تہہ کیا ہے؟ کیا اِس لئے کیا ہے کہ یہ فراش میرے لائق نہیںحضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے باپ! بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ فراش ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے ہیں اور تو مشرک نجس اور ناپاک ہے۔ مَیں کسِ طرح برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے فراش کو توہا تھ لگائے اِس لئے مَیں نے اس کو تہہ کیا ہے۔ اُس کو حیرت ہوئی کہ میری بیٹی نے یہ کیا کہا ہے۔ کہنے لگا۔ بیٹی!معلوم ہو تا ہے جب سے تو مجھ سے جُدا ہوئی ہے تیری طبیعت میں کچھ فرق پڑ گیا ہے۔ میرا ادب تیرے اندر اِس قدر کم تونہیں ہؤا کرتا تھا۔ اُس نے کہا ۔ باپ یہ فرق پڑگیا ہے کہ جب مَیں تجھ سے جُدا ہوئی تھی مَیں کافر تھی اب مجھے خدا نے اسلام دیا ہے، اب مجھے پتہ ہے کہ رسول اللہؐ کی کیا حیثیت ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تُو عرب کا سردار بنا پھر تا ہے اور پتھروں کے آگے ناک رگڑتا پھر تا ہے تیری کیا حیثیت ہے اور اُس شخص کی کیا حیثیت ہے جو خدا کا رسول ہے۔ غرض وہ مایوس ہو کر وہاں سے آیا ۔
ابو سفیان کی ناکام واپسی
جب مسجد میں بھی اُس کو ذلّت پہنچی تو وہ قافلہ کو لے کے واپس چلا آیا۔ اُس کو راستہ میں خزاعہ کے بھی دو تین آدمی
جاتے ہوئے مل گئے تھے۔ اُس نے سمجھا اِدھر سے آئے ہیں توضرور یہ رسول اللہ ؐ سے مِل کے آئے ہیں۔ کہنے لگا سُنا ئو مدینہ کا کیا حال ہے؟یہ نہ پوچھا کہ تم خبر دینے گئے تھے بلکہ پوچھا سنائو مدینہ کا کیا حال ہے؟ وہ مسلمان تو تھے ہی نہیں نہ انکو دینِ اسلام سے کوئی واقفیت تھی اُنکو جھوٹ بولنے سے کیا پرہیز تھا۔ کہنے لگے مدینہ کیسا۔ ہم کیا جانتے ہیں مدینہ کو۔ہماری تو قوم کے بعض آدمیوں میں یہاں لڑائی ہو گئی تھی ہم صلح کرانے آئے تھے۔ لیکن ابو سفیان بڑا ہو شیا ر تھا۔ اُس نے سمجھا کہ یہ میرے ساتھ چا لاکی کر رہے ہیں اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا جس وقت یہ آگے جائیں ذرا اونٹوں کی لید دیکھو۔ مدینہ میں اونٹوں کو کھجور کی گٹھلیاں کھِلا یا کرتے ہیں اگر لید میں گٹھلیاں نکلیں تو جھو ٹ بول رہے ہیں یہ مدینہ سے آئے ہیں۔ اگر لید سے گٹھلیاں نہ نکلیں تو یہ کہیں اَور سے آرہے ہیں۔ جب وہ قافلہ گیا او ر انہوں نے لید دیکھی تو گٹھلیاں نکلیں۔کہنے لگے یہ وہا ں ہو آئے ہیں۔ خیراب یہ وہاں سے واپس مکّہ پہنچے۔ مکّہ پہنچنے پر سارے مکّہ والے آئے اور پوچھا۔ سُنائو کچھ کر آئے ہو؟ کہنے لگا صرف اتنا کیا ہے کہ مَیں نے مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا تھاکہ میرے بغیر معاہدہ نہیں ہو سکتا۔اب مَیں نیا معاہدہ کرتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتاہوں اور اس کی مدت بھی بڑھا تا ہوں۔کہنے لگے تم ہمارے سردار ہو پھر تم نے ایسی احمقانہ بات کیوں کی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نہ مانیں اور تم اعلان کردو۔پھر معاہدہ کیسے ہؤا! کہنے لگا۔ کہتے تو وہ بھی یہی تھے۔ کہنے لگے پھر تم نے کیا کِیا کہنے لگا پھر اَور مَیں کیا کرتا۔ تم ہی کوئی ترکیب بتائو۔ مَیں نے رسول اللہ ؐ کو باربار کہا، صحابہؓ کے آگے ناک رگڑے کسی نے میری نہیں سُنی پھر مَیں اَور کیا کر سکتا تھا۔ کہنے لگے بھلا اِس کا کو ئی فا ئدہ بھی تھا ذلیل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اُس نے کہا۔ مَیں تو بس یہی کرکے آیا ہوں۔ خیر ساری طرف سے اُس کی ملامت شروع ہوئی۔۱۹؎
مکّہ والوں کی طرف سے ابو سفیان پر غداری کا الزام
لوگوں نے اُس کے متعلق کہا کہ یہ مسلمانوں سے مِل گیا
ہے۔ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کسی پر ایسا الزام لگے تو جا کر خانہ کعبہ کے سامنے قربانی کرتا تھا اور اُس قربانی کا خون اپنے ماتھے پر ملتا تھا اور پھر قوم کے آگے اعلان کرتا تھا کہ مَیں نے کوئی غداری نہیں کی۔ وہ اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اب یہ جھو ٹ نہیں بول سکتا اور وہ اس کو بڑا عذاب سمجھتے تھے۔ اِسی دستور کے مطابق اس نے بھی خانہ کعبہ کے آگے قربانی کی اُس کا خون لے کر اپنے ماتھے کو ملا اور پھر قوم کے آگے جا کر کہا کہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ ہو سکا کیا ہے۔ مَیں نے اُن کے ساتھ اور کوئی معاہدہ نہیں کیا۔۲۰؎ چنا نچہ اِسپر لوگوں کو تسلّی ہو گئی۔مگر اب اُن میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے حملہ ہو جائے تو کیا بنے گا؟
رئوسائے مکّہ میں گھبراہٹ
کچھ دنوں تک مدینہ سے خبریں نہ پہنچیں۔ جب کو ئی خبر نہ پہنچی تو اُن کی گھبراہٹ اَور بھی زیادہ بڑھتی چلی گئی کہ
اگر خزاعہ والے وہاں گئے ہیں تو محمدؐرسول اللہ نے کچھ نہ کچھ تو ضرور کہا ہو گا۔یا تو یہ کہا ہو گا کہ ہم نہیں کر سکتے یا یہ کہا ہو گا ہم کرتے ہیں۔ کچھ تو پتہ لگتا یہ خاموشی کیسی ہے؟تین چار روز کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے کہا کہ تم روز جا یا کرو او رجاکے چکر لگا کر دیکھا کروکہ مسلمانوں کا کوئی لشکر تو نہیں آرہا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکّہ کیلئے تیاری
بہر حال اِدھر ابو سفیا ن مکّہ کی طرف روانہ ہؤا اُدھر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میر ا سامانِ سفر باندھنا شروع کرو۔ انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔ میرے لئے ستّو وغیر ہ یا دانے وغیرہ بھُون کر تیا ر کرو۔اِسی قسم کی غذائیں اُن دنوں میں ہو تی تھیں۔ چنا نچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکا لنی شروع کی۔ حضرت ابو بکر ؓ گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہؓ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا رسول اللہ ؐ کے کسی سفر کی تیاری ہے؟کہنے لگیںسفر کی تیا ری ہی معلوم ہو تی ہے آپؐ نے سفر کی تیا ری کیلئے کہا ہے۔ کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے۔انہوں نے کہا۔ کچھ پتہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میر ا سامانِ سفر تیا ر کرواور ہم ایسا کر رہے ہیں۔ دوتین دن کے بعد آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو بلا یا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہؤا ہے اور مجھے خدا نے اِس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غدّاری کی ہے اور ہم نے اُن سے معاہدہ کیا ہؤا ہے اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیںاور مکّہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر اُن کے مقابلہ کے لئے تیا ر نہ ہو جائیں۔ تو ہم نے وہا ں جا نا ہے تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ ؐ! آپؐنے تو اُن سے معا ہدہ کیا ہؤا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کیا آپؐ اپنی قوم کو ما ریں گے ؟فرمایا۔ ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے معاہدہ شکنوں کو ما ریں گے پھر حضرت عمرؓ سے پو چھا۔ توانہوں نے کہا۔ بِسْمِ اللّٰہ ! مَیں تو روز دُعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسو ل اللہ ؐ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکرؓ بڑا نرم طبیعت کاہے مگر قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جا ری ہوتا ہے۔ فرمایا کرو تیا ری۔۲۱؎ پھر آپؐنے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایاکہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتاہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جا ئے۔ چنا نچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیا ر ہو گیا اور آپؐ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے۔
خدائی نو بت خانہ اور کفا ر کے نو بت خانہ میں ایک بہت بڑا فرق
اب دیکھو یہ نوبت خانہ کتنا
زبردست ہے کہ اُسوقت جب معا ہدہ یہ ہو تا ہے کہ لڑائی نہیں ہو گی، جب قسم کھا کھا کے کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے دل سے یہ عہد کرتے ہیں اور خداکی لعنتیں ہم پر ہوں اگرہم اس عہد کو توڑیں۔ وہا ں ابھی ایک رات ہی گزرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ لڑائی ہو گی۔ گویا نو بت خانہ بج جاتا ہے اور خبر آتی ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے۔ اُدھر کفار کے نو بت خانہ کا یہ حال ہے کہ ابو سفیان تین دن مدینہ میں رہ کر آتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں لگتا کہ لڑائی ہو گی۔ واپس جا کر قوم کو کہتا ہے کہ مَیں یہ کر آیا ہوں۔ انہوں نے کہا لڑائی تو نہیں ہوگی؟اُس نے کہا لڑائی نہیں ہو گی۔مگر اِدھروہ مکّہ میں پہنچتاہے اور اُدھر دس ہزار کا لشکر تیار ہو تا ہے۔احزابؔکی تاریخ کے سِوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیا ر نہیں ہؤا۔ احزاب ؔمیں دس بارہ ہزار آدمی تھا۔ گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی۔ لیکن مدینہ سے اتنا بڑا لشکر نکلتاہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اورپھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر یہ دکھاتا ہے کہ مَیں اس نوبت خانہ کو بجاتا ہوںجو میر ا ہے اور اُس نوبت خانہ کو توڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے۔چنا نچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپؐ نے فرمایا۔ اے میرے خدا!مَیں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تُو مکّہ والوں کے کانوں کو بہرہ کردے اور اُن کے جاسوسوں کو اندھا کردے۔ نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کا نو ں تک ہماری کو ئی بات پہنچے۔۲۲؎ چنا نچہ آپؐ نکلے۔ مدینہ میں سینکڑوں منا فق موجود تھا لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتاہے اور کوئی اِطلاع مکّہ میں نہیں پہنچتی۔
ایک صحابیؓ کا کفّار ِ مکّہ کی طرف خط اور اُس کا پکڑا جانا
صرف ایک کمزور صحابیؓ نے مکّہ والوںکو خط لکھ دیا
کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں آپؐ کہاں جارہے ہیں لیکن مَیں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ مکّہ کی طرف آرہے ہیں۔ میرے مکّہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں اُن کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے۔یہ خط ابھی مکّہ نہیںپہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علیؓ کو بُلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جا ئو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اُس کے پاس ایک خط ہو گا جووہ مکّہ والوں کی طرف لے جا رہی ہے تم وہ خط اُس عورت سے لے لینا اور فوراً میرے پاس آجا نا۔ جب وہ جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ دیکھنا وہ عورت ہے اُس پر سختی نہ کرنا، اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سما جتیں بھی کا م نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اُسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جا نے دینا۔۲۳؎ چنانچہ حضرت علیؓ وہا ں پہنچ گئے۔ عورت موجود تھی وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھا نے لگ گئی کہ کیا مَیں غدّار ہوں ، دھو کے باز ہوں، آخر کیا ہے تم تلاشی لے لو چنا نچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اُس کی جیبیں ٹٹو لیں، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا۔صحابہ ؓ کہنے لگے معلوم ہو تا ہے خط اِس کے پاس نہیں۔ حضرت علیؓ کو جوش آگیا آپ نے کہا تم چُپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم! رسول کبھی جھو ٹ نہیں بول سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اُس عورت سے کہا کہ محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! مَیں جھو ٹ نہیں بول رہا۔ پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا۔ یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دیدے ورنہ یاد رکھ اگر تجھے ننگا کر کے بھی تلا شی لینی پڑی تو مَیں تجھے ننگا کرونگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اورتُو جھوٹ بول رہی ہے۔ چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اُسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اُ س نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھو لیں اُن مینڈھیوں میں اُس نے خط رکھّا ہؤا تھا جو اُس نے نکال کر دے دیا۔ یہ ایک صحابی ؓ حاطبؔ کاخط تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آرہے ہیں پتہ نہیںچلتا کہ کِدھر جا رہے ہیں لیکن اتنا بڑا لشکر مکّہ کے سِوا اَور کہیں جاتا معلوم نہیں ہو تا اِس لئے مَیں تم کو خبر دے رہا ہوں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خط پہنچا تو آپؐ نے حاطبؔؓ کو بُلوایا اور فرمایا۔ یہ خط تمہا را ہے ؟ انہوں نے کہا۔ ہاں میرا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔تم نے یہ خط کیوں لکھا تھا۔ انہوں نے کہا۔ یا رسول اللّٰہ! بات اصل میں یہ ہے کہ سارے مہا جر جو آپؐکے ساتھ ہیں، یہ مکّہ کے رہنے والے ہیں۔ مَیں مکّہ میں باہر سے آکے بسا ہو ں۔ میرا کوئی رشتہ دار نہیں، میر ابیٹا وہا ں ہے، میری بیوی وہاں ہے،جس وقت اُن پر حملہ ہؤا انہوں نے ہمارے جتنے رشتہ دار ہیں اُن کو ما ر ڈالنا ہے۔ سوائے اُن کے جن کے بچانے والے مو جو د ہونگے۔پس چونکہ میرے بیوی بچّوں کو کوئی بچانے والا نہیں اِس لئے مَیں نے یہ خط لکھدیا۔ مَیں جا نتا ہوں کہ خدا نے آپؐ کی مدد کرنی ہے۔ جب انہوں نے تباہ ہو جا نا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ہو جا نا ہے تو وہ تباہ ہی ہو جائیں گے چاہے مَیں اُنکو ہزار خط لکھوں مگر اِس طرح میرے بیوی بچّے بچ جاتے تھے اور آپؐ کو کوئی نقصان نہیں ہو تا تھاورنہ مَیںبے ایمان نہیں۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے تلوار نکال لی کہ کمبخت! رات دن ہم چھپاتے چلے آرہے ہیں کہ بات کسی طرح نکلے نہیں اور تو اُن کو خط لکھتا ہے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ!مجھے اجازت دیجئیے کہ مَیں اس کی گردن اُڑا دوں۔ آپؐ نے فرما یا کہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے یہ مؤمن ہے اِس نے صرف ڈر کے مارے یہ بات کی ہے۔۲۴؎ بہر حال یہ رپورٹ کسی کو نہیں پہنچتی۔نوبت خانہ بجتا بھی ہے تو اُس کی آواز وہیںروک دی جاتی ہے۔ اِدھر سے نوبت خانہ ڈیڑھ سال پہلے بجتا ہے کہ دشمن آگیا دشمن آگیا۔
ابو سفیان کی سرا سیمگی
اب جس وقت وہاں مسلمان پہنچے تو جب تک مسلمان حرم میں نہیں پہنچ گئے مکّہ والوں کو خبر نہیں پہنچی۔ جب وہاں پہنچے تو ابوسفیان اور
اُس کے ساتھیوں کا مکّہ والوں کی طرف سے پہرہ مقرر تھا۔ گویا اب یہ صورت ہو گئی کہ جب وہاں پہنچے تو اُن کو خبر ہو گئی کہ اسلامی لشکر آگیا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ اِس کا بھی علاج کر لیتا ہے۔آپؐ نے وہا ں جا کر فرمایا کہ اَب ہمیں ان پر ظاہرکر دینا چاہئے کہ ہم آگئے ہیں۔چنا نچہ آپؐ نے حکم دیا کہ ہر سپاہی روٹی کے لئے علیحدہ آگ جلائے تاکہ دس ہزار روشنی ہو جائے۔چنانچہ سب خیموں کے آگے دس ہزار روشنی دکھائی دینے لگی۔ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں نے آگ کو روشن دیکھا تو وہ گھبرا گئے۔ اِتنا بڑالشکر اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ اِسی گھبراہٹ میں ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ کس کا لشکر ہے؟ پہلے تو اُن کا خزاعہؔ کی طرف خیال گیا اور انہوں نے کہا کہ شاید خزاعہؔ والے ہونگے جو اپنا بدلہ لینے آئے ہیں۔ ابوسفیا ن نے کہا خُدا کا خوف کرو خزاعہؔتو اِس کا دسواں حصّہ بھی نہیں یہ اتنی بڑی روشنی ہے اور اتنا بڑا لشکر ہے کہ خزاعہؔکی اِس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ عام طور پر فی خیمہ ایک روشنی ہؤاکرتی ہے۔ اس لحاظ سے دس ہزار خیمہ بن گیا مگر خزاعہؔکی ساری تعداد دوچار سَو ہے۔ پس وہ کِس طرح ہو سکتاہے اُنکی تعداد تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کہا فلاں قبیلہ ہو گا کہنے لگا آخر وہ کیو ں آئے اور پھر یہ کہ اُن کی تعداد بھی اتنی نہیں۔ غرض اِسی طرح پانچ سات قبائل کے نام لیتے گئے کہ فلاں ہو گا ،فلاں ہوگااور ہر بار ابوسفیان نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ آخر انہوں نے کہا۔ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کا لشکر ہو گا اور کِس کا ہو گا۔ کہنے لگا بالکل جھوٹ۔ مَیں تو انہیں مدینہ میںسوتا چھوڑ کر آیا ہوں اُن کو پتہ بھی نہیں وہ بڑے آرام سے بیٹھے تھے۔
ابو سفیان اور اُس کے ساتھی اسلامی پہرہ داروں کے نرغہ میں
یہ باتیں ابھی ہو ہی رہی تھیں کہ
اسلامی لشکر کے چند سپاہی جو پہرہ پر متعیّن تھے وہ پہرہ دیتے ہوئے قریب پہنچ گئے اور ابو سفیان کی آواز انہوں نے سُنی اُن میں حضرت عباسؓ بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور ابو سفیان کے بڑے گہرے دوست تھے۔اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سوار تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سفر میں خچر دی تھی کہ وہ اس کو استعمال کریں۔ انہوں نے آواز سُنی تو کہنے لگے۔ ابوسفیان! ابوسفیان نے کہا۔ عباسؓ !تم کہا ں؟حضرت عباس ؓ نے کہا او کمبخت !تیرا بیڑا غرق ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آگئے ہیں۔ اب شہر کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ اَب تُو چل اور چڑھ جا میرے پیچھے اور خدا کے نام پر اُن کی منّتیں کر اور اپنی قوم کی معافی کے لئے درخواست کر ورنہ تباہی آجائے گی۔ چڑھ جا میرے پیچھے۔ انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور خچر کے پیچھے بٹھا لیا اور دوڑائی خچر۔اب لشکر میں جگہ جگہ پہرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھی یہ پہنچے پہریدار فوراً آگے آکر روکنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ؐ کی خچر ہے اور آگے حضرت عباس ؓ بیٹھے ہیں تو کہنے لگے چلو چھوڑو۔خیر وہ پہروں میں سے نکل کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے خیمہ کے پاس پہنچے۔
حضرت عباسؓ کی ابوسفیان کو بچانے کی کوشش
حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو تلوار نکال کر بھا گے اور کہنے لگے خدا کا کتناشُکر
ہے کہ بغیر عہد شکنی کئے مجھے آج اِس کی جان نکالنے کی تو فیق مِلی اور آپ ہی آپ خدا نے دشمن میرے ہاتھ میں دے دیا ہے۔حضرت عباسؓنے دیکھا تو وہ آگے بھا گے۔ حضرت عمرؓ پیچھے پیچھے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو دھکا دیکر نیچے پھینکا اور کہا۔ اُتر۔ پھر آپ کو دے اور کود کر اُس کا ہاتھ پکڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں پہنچے اور کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ!ابوسفیان مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے۔اب ابوسفیان حیران کہ یہ کیا بن گیا۔ یا تو مَیں پہرہ دے رہا تھااور یا اب مجھے مسلمان ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے کیو نکہ اس کی شکل سے پتہ لگتا تھا کہ یہ مسلمان ہونے نہیں آیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی داخل ہوئے او رکہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ !یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اِس خبیث اور بے ایمان دشمنِ خدا اور رسولؐ کو اُس نے بغیر اس کے کہ مَیںعہد شکنی کروں اور معاہدہ توڑوں آپ میرے حوالے کردیا ہے۔آپؐ مجھے اجا زت دیجیئے کہ مَیں اِس کی گردن اُڑا دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے لیکن حضرت عباسؓ کو غصّہ آگیا کیو نکہ وہ ان کا بہت دوست تھا۔ انہوں نے عمرؓ سے کہا۔ عمرؓ !دیکھو یہ میرے خاندان کا آدمی ہے اِس لئے تم اس کو مارنا چاہتے ہو۔ اگر تمہا رے خاندان کا آدمی ہو تا توتم کبھی اس کے مارنے کی خواہش نہ کرتے۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگے۔ عباسؓ! تم نے مجھ پر بڑی زیا دتی کی ہے۔خدا کی قسم! جب تم مسلمان ہوئے تھے تو مجھے اِتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میرا باپ بھی مسلمان ہوتا تو مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہو تی۔ اور اِس کی صرف یہ وجہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ تمہا رے مسلمان ہونے سے رسول اللہ ؐکو جو خوشی پہنچ سکتی ہے وہ میرے باپ کے اسلام لانے سے نہیں پہنچ سکتی تھی۔ یعنی ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو بھی چھوڑ دیا اب رشتہ دار ی کا کیا سوال ہے۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا۔ عباسؓ! ابوسفیان کو اپنے خیمہ میں لے جا ئو اور رات کو اپنے پاس رکھو۔ صبح اسے میرے سامنے پیش کرو۔حضرت عباسؓ لے گئے اور رات اپنے پاس رکھا۔
مسلمانوںکی اجتماعی عبادت کا ابوسفیان پر گہرا اثر
اب دیکھو ابو سفیان پہرہ دے رہے تھے اور انہوں نے واپس
جا کر خبر دینی تھی لیکن وہ خود پکڑے گئے۔اُدھر باقی مسلمان سپاہی دوسرے آدمیوں کو بھی پکڑ لائے۔یہ چار پانچ رئیس تھے۔پکڑے ہوئے وہا ں پہنچے اور رات وہاں رہے۔ صبح نماز کے وقت حضرت عباسؓ ابوسفیان کو پکڑ کر لے گئے۔ جب اذان ہوئی اور نماز کے لئے لوگ کھڑے ہوئے تو اُسے ایک عجیب نظارہ نظر آیا۔ یہیں جلسہ سالانہ پر دیکھ لو کہ جب ہمارے تیس چالیس ہزار آدمی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کیا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔وہاں بھی صفوں پر صفیں بننی شروع ہو گئیں اور ہر ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ ہما رے ہا ں تو پھر کچھ آدمی نماز کے وقت پکوڑے کھا رہے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ پکّے نمازی تھے۔ بہر حال ابوسفیان نے جو ان کو دیکھا تو لرز گیا۔ابوسفیان بادشاہوں کے دربار میں آیا جا یا کرتا تھا اور اُس کو پتہ تھا کہ جب بڑے آدمیوں کو مروا نا ہو تا تھا تو فوجیں کھڑی کی جاتی تھیں اور اُن کے سامنے اُس کی گردن کا ٹی جاتی اِس خیال کے ما تحت اُس نے پو چھا کہ عباسؓ! کیا رات کو میرے متعلّق کو ئی نیا حکم جا ری ہؤا ہے؟ حضرت عباسؓ نے کہا۔ تمہا رے متعلق توکوئی نیا حکم جاری نہیں ہؤا۔ وہ کہنے لگا پھر یہ اتنے آدمی کھڑے کیوں ہیں؟حضرت عباسؓ نے کہا یہ عبادت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارے ہا ں عبادت کا یہی طریق ہے۔تھو ڑی دیر کے بعد وہ رکوع میں گئے۔ کہنے لگا۔ یہ جھکے کیوں ہیں؟ عباسؓ نے کہا۔ یہ عبادت ہے۔ پھر سجدہ میں گئے تو کہنے لگا اب یہ کیا ہؤا کہ سارے کے سارے زمین پر گِر گئے ہیں؟ انہوں نے کہا دیکھتے نہیں محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کررہے ہیں۔ بس جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان کرتے ہیں۔ کہنے لگا عجیب طریق ہے محمد رسول اللہ ؐ جھکتے ہیں تو وہ جُھک جا تے ہیں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ کہنے لگے مسلمان اِسی طرح کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت کی نقل کیا کرتے ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا مَیں تو قیصر کے پاس بھی گیا اور اَور بادشاہوں کے پاس بھی گیا ہوں اُن کو تو مَیں نے اس طرح عبادت کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا قیصر کیا چیز ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ روٹی کو ہا تھ نہیں لگا نا ،پانی کو ہا تھ نہیں لگانا تو وہ بھو کے مر جائیں گے، پیا سے مرجائیں گے مگر روٹی نہیں کھا ئیں گے اور پانی نہیں پیئیں گے۔
ابو سفیان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست
جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ
ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کو دیکھا اور فرمایا۔تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے۔ ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا۔ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہماری مدد نہ کرتا؟آپؐ نے فرمایا۔ تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمدؐ اللہ کا رسول ہے۔ کہنے لگا۔ ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہؤا۔ حضرت عباسؓ نے کہا۔کمبخت! کر لو بیعت۔ اِس وقت تیری اور تیری قوم کی جا ن بچتی ہے۔ کہنے لگا اچھا! کر لیتا ہوں۔ وہاں تو اُس نے یو نہی بیعت کرلی لیکن بعد میں جاکر سچّا مسلمان ہو گیا۔ خیر بیعت کر لی تو عباسؓ کہنے لگے اب مانگ اپنی قوم کے لئے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کیلئے تباہ ہو جائے گی۔ مہا جرین کا دل اُس وقت ڈر رہا تھا۔ وہ تومکّہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکّہ کی عزّت ختم ہوئی تو پھر مکّہ کی عزّت باقی نہیں رہے گی۔ وہ باوجود اِس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم بر داشت کئے تھے پھر بھی وہ دُعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ لیکن انصار اُن کے مقابلہ میں بڑے جوش میں تھے۔ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ مانگو۔ کہنے لگا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ!کیا آپؐ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے۔ آپؐ تو بڑے رحیم کریم ہیں اور پھر مَیں آپکا رشتہ دار ہوں، بھائی ہوں، میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہئے مَیں مسلمان ہؤا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ اچھا جائو او ر مکّہ میںاعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھُسے گا اُسے پناہ دی جائیگی۔کہنے لگا یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ!میراگھر ہے کتنا اور اُس میں کتنے آدمی آسکتے ہیں۔اتنابڑا شہر ہے اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔آپؐ نے فرمایا۔اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گااُسے امان دی جائے گی۔ ابوسفیان نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ!پھر بھی لوگ بچ رہیںگے آپؐ نے فرمایا۔اچھا جو ہتھیا رپھینک دے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جا ئے گا۔ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہؐ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اچھّا جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے گا۔ اُسے بھی پنا ہ دی جا ئے گی۔ اُس نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہؐ !گلیوں والے تو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا۔ بہت اچھا لائو ایک جھنڈا بلالؓ کا تیار کرو۔ ابی رویحہؓ ایک صحابی ؓ تھے۔ آپؐ نے جب مدینہ میں مہا جرین اور انصار کو آپس میں بھا ئی بھا ئی بنایا تھا تو ابیؔ رویحہ ؓ کو بلا ل ؓ کا بھائی بنا یا تھا۔ شاید اُس وقت بلالؓ تھے نہیں یاکوئی اَور مصلحت تھی بہر حال آپؐ نے بلالؓ کا جھنڈا بنا یا اور ابی رویحہؓ کو دیا اور فرمایا۔ یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے یہ اسے لیکر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اُس کو نجا ت دی جائے گی۔ ابو سفیان کہنے لگا۔ بس اب کافی ہو گیا اَب مکّہ بچ جائے گا۔ کہنے لگا اَب مجھے اجازت دیجیئے کہ مَیں جا ئوں۔ آپؐ نے فرمایا جا۔۲۵؎
ابوسفیان کا مکّہ میں اعلان
اب تو سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا۔ خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ گھبرایا ہؤا مکّہ میں داخل ہؤا اور یہ
کہتاجاتا تھا لوگو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلو۔ لوگو! اپنے اپنے ہتھیار پھینک دو۔ لوگو! خانہ کعبہ میں چلے جائو۔بلال ؓ کا جھنڈا کھڑا ہؤا ہے اُس کے نیچے کھڑے ہو جا نا۔ اِتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے اور بعض نے خانہ کعبہ میں گھُسنا شروع کیا۔ لوگوں نے ہتھیا ر باہر لالا کر پھینکنے شروع کئے۔ اِتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہؤا اور لوگ بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔۲۶؎
حضرت بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرنے میں حکمت
اِس واقعہ میںجو سب سے زیا دہ عظیم الشان بات ہے وہ بلالؓ کا
جھنڈا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بنا تے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو پنا ہ دی جا ئے گی حالانکہ سردار تو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکر ؓتھے مگر ابوبکرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا،اُ ن کے بعد مسلمان ہو نے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا،اُن کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمان ؓکا بھی کو ئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھا ئی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگر علیؓ کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، پھر عبدالرحمن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبد الرحمن ؓ کا کو ئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا، پھر عباسؓ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا، پھر سارے رئو ساء اور چوٹی کے آدمی موجو د تھے، خالد بن ولید ؓجو ایک سردار کا بیٹا خود بڑا نامور انسان تھا موجود تھا، عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا اِسی طرح اور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میںسے کسی ایک کا بھی جھنڈا نہیں بنا یا جاتا۔ جھنڈا بنا یا جاتاہے تو بلال ؓ کا بنا یا جاتا ہے کیو ں؟ اِسکی کیا وجہ تھی؟ اِس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا ابو بکر ؓ دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اُس کے بھائی بند ہیں اور اُس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ؐ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے۔ وہ ظلموں کو بُھو ل چکا تھا اور جا نتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ عمرؓ بھی کہتے تو یہی تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!اِن کافروں کو ماریئے مگر پھر بھی جب آپؐ اُن کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہو نگے کہ اچھّا ہؤا ہمارے بھا ئی بخشے گئے، عثمانؓ اور علی ؓ بھی کہتے ہونگے کہ ہمارے بھا ئی بخشے گئے اِنہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہؤا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہو نگے کہ اُن میں میرے چچا بھی تھے بھائی بھی تھے ،اِن میں میرے داماد ،عزیز او رشتہ دار بھی تھے اگر مَیں نے اِن کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہؤا میرے اپنے رشتہ دار بچ گئے۔ صرف ایک شخص تھا جس کی مکّہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی، جس کی مکّہ میں کوئی طاقت نہ تھی، جس کا مکّہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اُس کی بیکسی کی حالت میں اُس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکر ؓ پرہؤا،نہ علیؓ پر ہؤا، نہ عثمانؓ پر ہؤا، نہ عمرؓ پر ہؤا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی نہیں ہؤا۔ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلال ؓننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو !ننگے پائو ں بھی مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اُس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا، پھر کیلوں والے جو تے پہن کر نوجوان اُس کے سینے پر نا چتے تھے اور کہتے تھے کہو خد اکے سِوا اور معبود ہیں، کہو محمدؐرسول اللہ جھو ٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبا ن میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو مَیں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو۲ کس طرح کہہ دوں۔اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللّٰہ خدا کے سچّے رسول ہیں تو مَیں انہیں جھو ٹا کِس طرح کہہ دوں۔ اِس پر وہ اور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ مہینوں گرمیوں کے موسم میں اُس کے ساتھ یہی حال ہو تا تھا۔ اِسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ اُن کے پیَروں میںرسّی ڈال کر انہیں مکّہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ چمڑا اُن کا زخمی ہو جاتا تھا۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کہو خدا کے سِوا اَور معبود ہیں۔ تو وہ کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اب جب کہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کیلئے آیا۔ بلالؓ کے دل میں خیا ل آیا ہو گا کہ آج اُن بو ٹو ں کا بدلہ لیا جائے گا۔ آج اُن ماروں کا معاوضہ مجھے مِلے گا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف، جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے وہ معاف، جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لئے وہ معاف تو بلالؓ کے دل میں خیا ل آتا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں او راچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو مَیں معاف کر رہا ہوں وہ اُس کے بھائی نہیں۔ جو اُس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اَو رکسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا مَیں اس کا بدلہ لونگااور اِس طرح لو نگا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو او راُن مکّہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اُس کے سینہ پر ناچا کرتے تھے، جو اُس کے پائوں میں رسّی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے، جو اُسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہدو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچّوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آجا ئو۔ مَیں سمجھتا ہوں جب سے دُنیا پید ا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیا ر ہؤا ہے اور اُس کو طاقت ملی ہے اِس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلال ؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑ ا گیا ہو گا، جب عرب کے وہ رئو ساء جو اُسکو پیروں سے مَسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہؐ جھو ٹا ہے جب وہ دَوڑ دَوڑ کر اور اپنے بیوی بچوں کے ہا تھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کے بلا لؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہو نگے کہ ہماری جان بچ جائے تو اُس وقت بلالؓ کا دل او راُس کی جان کسِ طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔وہ کہتا ہو گا مَیں نے تو خبر نہیں اِن کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جو تیاں میرے سینہ پر پڑتی تھیں اُس کے سَر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔
حضرت یوسف ؑ کے بدلہ سے زیادہ شاندار بدلہ
یہ وہ بدلہ تھا جو یُو سف ؑ کے بدلہ سے بھی زیا دہ شاندار تھا
اِس لئے کہ یو سف ؑنے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھا ئیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیاوہ اُس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اُسکے بھائی تھے او ر محمدؐ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھا ئیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یو سف ؑ کا بدلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔
غرض یہ دوسری خبر تھی نوبت خانہ کی اور پھر کیسی عظیم الشان خبر دی کہ دو سال پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ یہ یہ حالات پید ا ہونے والے ہیں۔ کفا ر کی طرف سے معا ہدہ شکنی ہو گی ۔تم حملہ کیلئے جا ئو گے اور انہیں تباہ کر کے اسلامی حکو مت کو قائم کر دو گے۔
قرآنی نوبت خانہ کی تیسری خبر
اب تیسری خبر مَیں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ عرب کا ملک ایسا ویران تھا اور ایسا بنجر اور ناقص تھا
کہ اُس کی طرف کوئی نظر اُ ٹھا کے نہیں دیکھتا تھا۔ مؤرخین نے بحث کی ہے کہ سکندرؔ نے ساری دنیا فتح کی لیکن عرب فتح نہیں کیا اِس کی کیا وجہ تھی ؟وہ کہتے ہیں اُس نے اِسکو اِس لئے نہیں چھوڑا کہ عرب کوئی طاقتور ملک تھا بلکہ اِس لئے چھوڑا تھا کہ یہ ہڈی کتّے کے قابل تھی سکندر کے قابل نہیں تھی۔ اِس میں کوئی چیزہی نہیں تھی پھر سکندر نے وہاں کیوں جا نا تھا، یہ ہڈی اُس کے کھانے کے قابل ہی نہیں تھی۔ پھر قیصر وکسریٰ اِدھر بھی لڑتے تھے اُدھر بھی لڑتے تھے مگر عرب کو چھو ڑدیتے تھے۔ یمن ؔکو لے لیتے تھے کیو نکہ وہ ذرا آباد ملک تھا مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے ہم نے اس صحراء کو لے کر کیا کرنا ہے۔ غرض ہزاروں سال سے عرب کے قبائل آزاد چلے آتے تھے اِس لئے نہیں کہ اُن میں دم خم تھا بلکہ اس لئے آزاد چلے آتے تھے کہ عرب کے اندر کچھ رکھا ہی نہیں تھا کہ کو ئی وہا ں جا ئے اور اُسے فتح کرے۔ ایسے زمانہ میں جبکہ عرب دنیا میں نہا یت ذلیل ترین سمجھا جا رہا تھا ،الٰہی نوبت خانہ میں نو بت بجتی ہے اور وہاں سے آواز آتی ہے قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْ عَوْ نَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَا تِلُوْ نَھُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ۲۷؎ وَّ اُخْرٰی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِھَا۔۲۸؎
قیصرو کسرٰی کی لڑائیوں میں غلبہ اور
کا میا بی حا صل کرنے کی پیشگوئی
اُس وقت جبکہ مسلمان ناکام ہو کر آتے ہیں، جب مکّہ والے عمرہ کی بھی اجا زت نہیں دیتے اُسوقت جبکہ وہ ایسا معاہدہ کرکے آتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری نا ک کٹ گئی
اور کہتے ہیں یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہم تو کہیں منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہے اُسوقت اللہ تعالیٰ ایک تو یہ خبر دیتا ہے کہ یہ معا ہدہ تو ڑیں گے اور تم انہیں فتح کرو گے۔ پھر یہ خبر دیتا ہے کہ دیکھو! کچھ لوگ آج ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے اُن کو بتا دو کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی،یہ ملک تو ہم نے فتح کر لیا مگر اس کے بعد باہر سے اَور قومیں آئینگی جو اِن سے بھی زیا دہ لڑنے والی ہیں اُن سے تمہا ر امقابلہ ہو گا اوراُن کے مقابلہ میں بھی یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب تم لڑو گے تو اُس وقت تک تمہا ری لڑائی جا ری رہے گی جب تک کہ وہ ہتھیا ر پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ یہ قیصر اور کسریٰ کی جنگوں کی خبر دی گئی ہے اور تمام صحابہؓ اور مسلمان مفسرین اِس پر متفق ہیں کہ یہ خبر اِس بات کے متعلق تھی کہ آئندہ ان سے لڑائی ہونے والی ہے۔اب اِن ملکوں کو اُسوقت تک عرب کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا وہ تو سمجھتے تھے کہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم اس کو فتح کریں۔ اِردگرد کے تمام سر سبز وشادا ب علاقے پہلے سے اُن کے قبضہ میں تھے اور بیچ کا صحراء اُن کے لئے کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا مگر فرماتا ہے ہم تم سے اُن کی جنگ کروائیں گے اور وہ ہتھیا ر ڈالنے پر مجبور ہونگے۔ اِسی طرح اس میں یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ عرب مالی طور پر اتنا ترقی کر جا ئے گا کہ جو قومیں پہلے اُسے ذلیل سمجھتی تھیں وہ اُس کی اہمیت کو محسوس کرنے لگ جائیں گی۔
اب یہ عجیب خبر دیکھ لو کہ آٹھ سالہ جنگوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں قیصر نے حملہ کرنا شروع کیا اور حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں کسریٰ نے حملہ کرنا شروع کیا اِس کے بعد جنگیں اِتنی بڑھیں کہ قیصر بھی تباہ ہو گیا اور کسریٰ بھی تباہ ہو گیا اور وہ خبر پوری ہو گئی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے آگے بیا ن فرمائی تھی کہ قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِھَا یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کرنے کی پہلے سے خبردے رکھی ہے۔
اِسلامی نوبت خانہ کی ایک امتیازی خصو صیّت
یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی نو بت خانہ کا کمال اتنا بڑھا ہؤا تھا
کہ آٹھ سالہ جنگوںمیںچھ سات جنگوں میںکفار نے مکّہ سے حملہ کیا اور بڑی بڑی احتیاطوں کے ساتھ حملہ کیا لیکن ایک بھی ایسا حملہ ثابت نہیں جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ مِل چکی تھی اور بیس تیس حملے محمدؐرسول اللہ نے اُن کے علاقہ پر کئے اور اُن میں سے ایک بھی حملہ ایسا نہیں جسکی خبر انہیں پہلے سے ملِی ہو۔ یہ کتنا بڑا شاندار نشان ہے۔ اِن کا نوبت خانہ کتنا شاندارہے کہ فورًا خبر پہنچا دیتا ہے اور اُن کا نوبت خانہ کس طرح تباہ کر دیا جاتا ہے اور کمزورکر دیا جاتا ہے کہ ایک لڑائی کی خبر بھی تو مکّہ والوں کو پہلے نہیں مِلتی کہ حملہ ہو جائے گا۔ بلکہ اسلامی لشکر اُن کے سروں پر جا پہنچتا تھا اور بعض دفعہ وہ گھروں میں اِدھر اُدھر پھر رہے ہوتے تھے کہ پتہ لگتا اسلامی لشکر پہنچ گیا ہے پہلے پتہ ہی نہیں لگتا تھا۔
نوبت خانوں کی دوسری غرض
دوسراؔکا م نو بت خانہ سے یہ لیا جاتا تھا کہ خبر دی جاتی تھی کہ شاہی فوج آرہی ہے۔ نوبت خانے اس لئے
بجا ئے جا تے تھے کہ والنٹیر اکٹھے ہو جائیں اور دوسرے ؔ نوبت خانے اسلئے بجائے جا تے تھے کہ دھم دھم کی آواز جوش پیدا کرتی ہے اور گھوڑے بھی ہنہنا نے لگ جاتے ہیں۔ جیسے انگریز ی فوجوں میں نو بت خانوں کی بجا ئے بینڈ بجایا جاتا ہے اور اُس کی غرض یہ ہو تی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ قربانی کے لئے تیا ر ہو جائیں۔ بعض جگہ باجے بھی ہوتے ہیں یا نفیریاں۲۹؎ بھی ہو تی ہیں اور پُرانے زمانہ میں تو ڈھول استعمال ہوتے تھے یا نفیریا ں استعمال ہو تی تھیں اور اب بینڈ استعمال ہو تا ہے۔
مَیں نے دیکھا کہ واقعہ میں یہ ایک بڑی شاندار کیفیت ہو تی ہو گی جب دِلّی کا لشکر حیدر آباد کی طرف چلتا ہو گا تو جب وہ بڑی بڑی دَفیں بجتی ہو نگی اور آواز پہنچتی ہو گی تو تمام ملک میں ایک شور مچ جاتا ہو گا اور ہر شخص دیکھتا ہو گا کہ اُن کے گھوڑے پَیر مارتے ہوئے اور آگ نکالتے ہوئے سڑکو ں پر سے چلے آرہے ہیںاور انتظار کرتا ہو گا کہ اکبرؔیا شاہ جہا ن یا چنگیز کی فوجیں روانہ ہوتی ہوں گی اور پھر ہزاروں ہزار کا ریلا چلتاہو گا۔
ظالمانہ خو نریزی
لیکن جب مَیں نے غور کرکے دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ نوبت خانوں کی یہ بات بڑی مصنوعی چیز تھی۔ ایک تو مَیں نے دیکھا کہ لڑائی میں
انسانوں کا خون بہنا معمولی چیز نہیں اِس کے لئے انسا ن کوئی حکمت بتاتا ہے ،غرض بتاتا ہے، اِس کے فوائد بتاتا ہے،اِسکے جواز کی دلیلیں بتاتا ہے لیکن یہاں محض ڈھول پِیٹ کر خونریزی کو جا ئز قرار دیا جاتا تھا حالانکہ محض ڈھول پیٹنے سے اور دھم دھم دھم سے کیا بنتا ہے۔
غلط پروپیگنڈہ
پھر مَیں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بڑے بینڈ بجتے تھے اور فوجیں بازاروں میں پریڈ کرتی تھیں اور لوگ نعرے لگاتے تھے کہ سپاہیو !شاباش !ملک کی حفاظت
کے لئے مر جائو۔ اور یہ سارا دھوکا ہوتا تھا کیو نکہ جس کو مارنے کیلئے وہ جا رہے ہوتے تھے وہ ایک معمولی سی حکومت ہو تی تھی اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ ہماری فوج نکلے گی اور قتلِ عام کرتی چلی جائے گی اور اُسے فتح کرے گی اور یوں اپنی بہا دری اور دلیری کا سکّہ بٹھا دے گی۔ مثلا ً جرمنیؔ میں اعلان ہو رہا ہے کہ اے جرمن والو!تم نے اپنے ملک کی حفاظت کرنی ہے اور لڑنے چلے ہیں پولینڈ سے جو ایک تھپڑ کی مار ہے۔انگلستانؔ میں اعلان ہو رہاہے کہ آجا ئو انگلستان والو!تم بڑے بہا در ہو، تمہا ری روایتیں بڑی مشہو ر ہیں اور جارہے ہیں شیر شاہ سے لڑنے کے لئے اور کہا جا رہا ہے کہ شاباش انگریزو!تم اتنے بہا در ہو حالانکہ مقابل میںچند ہزار آدمی ہیں اور جا رہا ہے اتنے بڑے ملک کا لشکر۔ پھر اُس کے پاس ایک گولی ہو تی تھی تو اِن کے پاس سَو گولی ہو تی تھی لیکن ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہماری قوم او ر ملک خطرہ میں ہیں پس اے بہا در و! اپنے ملک کی عزّت کو بچائو حالانکہ عزّت بچانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ جائیں گے تو یو نہی ختم کر دیں گے۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے انگریزوں نے ٹرانسوالؔ پر حملہ کیا یا جرمنوں نے زیکو سلواؔ کیا اور پولینڈ پر حملہ کیا اور ظاہر یہ کیا کہ ہماری عزّت خطرہ میں ہے ہماری عزّت برباد ہو گئی ہے حکومتیں ہمارے خلاف بڑے منصوبے کر رہی ہیں۔ یا روسؔ نے فن لینڈؔ پر حملہ کیا نقشہ پر بھی دیکھو تو یو ں معلوم ہو تاہے جیسے باز کے منہ میں پدّی۔ مگر فن لینڈؔ پر حملہ کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ فلاں جرنیل کو مارشل بنا یا جاتا ہے او ر وہ فن لینڈ کی لڑائی کے لئے جا رہا ہے۔ فلاں جرنیل کو بھیجا جا رہا ہے اور وہ اِتنا مشہور ہے۔ لا کھوں کی فوج بھجوائی جا رہی ہے حالانکہ فن لینڈ بیچارے کے سارے سپاہی دس ہزار سے زیادہ نہیں اور دس لا کھ کا لشکر بھجوایا جا رہا ہے اور سارے ملک میں اعلان ہو رہا ہے کہ اُٹھو! اُٹھو! مارو! مارو! وہ ہمیں مار چلا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ اُس کا مقابلہ کریں۔غرض اس قسم کے اعلانات میں کوئی عقل نظر نہیں آتی تھی۔
پس یہ نوبت خانہ کیاہے یہ لوگوں سے ایک تمسخر ہے اور محض ایک کھیل بنائی گئی ہے یا ایک دھوکا ہے جو دیا جا رہا ہے۔
نا جا ئز حملے
اور بعض دفعہ مَیں نے دیکھا کہ ظالمانہ حملے ہوتے تھے۔ لوگوں کا کوئی قصور ہی نہیں ہو تا تھا یو نہی حملہ کر دیا جاتا تھا لیکن کہا یہ جاتا تھا کہ ہم مظلوم ہیں اور ہوتا
تھا دوسرا مظلوم۔ مثلاً انگریزوں نے ٹیپو سلطان ؔپر حملہ کر دیا حالانکہ ٹیپو ؔنے اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا انہوں نے میسورؔ کو ہضم کرنا چاہا۔ گویا اُن کی بھیڑیا اور بکری والی مثال تھی۔ کہتے ہیں ایک نہر سے بکر ی اور بھڑیا پانی پی رہے تھے بکر ی نیچے کی طرف پی رہی تھی اور بھڑیا اوپر کی طرف پی رہا تھا۔ اُس کا جو بکری کھانے کو دل چاہا تو بکری سے کہنے لگا دیکھو! میرا پانی گدلا کرتی ہو شرم نہیں آتی اِس قدر گستاخی کرتی ہو۔ بکری نے کہا جناب! میں پانی گدلا کیسے کر سکتی ہوں آپ اوپر پانی پی رہے ہیں اور مَیں نیچے پی رہی ہوں آپ کا پِیا ہؤا میری طرف آرہا ہے میرا پِیا ہؤا آپ کی طرف نہیں جا رہا۔ اِس پر جھٹ اُسے پنجہ ما ر کر کہنے لگا گستاخ! بے ادب! آگے سے جواب دیتی ہے اور پھا ڑ کر کھا لیا۔ وہی حالت یہاں تھی۔ انگریزوں نے بھی بہانہ بنا کر ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا۔ یا بنگال ؔکا بادشاہ سراج الدولہؔ تھااُس کا کوئی قصور نہیںتھا۔ انگریزی تاریخیں خود بھی مانتی ہیں کہ ایک ہندو سے جھوٹے خط لکھوائے گئے اور اُن خطوں کی بناء پر سراج الدولہؔ پر حملہ کردیاگیا۔ نہ بیچارے کے پاس کوئی طاقت تھی نہ حکومت تھی۔ انگریزوں کے پاس ہر قسم کے سامان تھے توپیں بھی تھیں ،گولہ بارود بھی تھا ،منظم فوج بھی تھی یونہی بہا نہ بنا کے لے لیا۔پھر غدرؔکی لڑائی کو دیکھ لو۔ مسلمان بادشاہ کی تو قلعہ سے باہر حکومت ہی نہیںاور یہ سارے ہندوستان کے بادشاہ اُس پر چڑھ کر گئے۔ بھلا اُس کے پاس کونسی حکومت تھی لیکن غدرؔکا حال پڑھو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان روس کی لڑائی ہو رہی ہے اور اِس کو اتنا شاندار دکھایا جاتا ہے کہ وہ مصائب انگریزوں پرپڑے اور ایسی ایسی مشکلات پیش آئیں اور انگریزوں نے وہ وہ قربانیاں کیں حالانکہ وہ بیچارہ ایک شطرنج کا بادشاہ تھا ،دوچار دن اُس کا محاصرہ رکھا اور پھر اُسے پکڑ کرلے گئے اور اس کے بچّوں کو پھا نسیاں دے دیں۔ تومَیں نے دیکھا کہ بہت کچھ اِس میں مبالغہ آرائی کی جاتی تھی۔
خلافِ امید شکست
پھر مَیں نے دیکھا کہ باوجود اِس کے کہ مدِّ مقابل چھوٹا ہوتا تھا مظلوم ہو تا تھا پھر بھی بعض دفعہ نتائج اُن کے خلاف نکل آتے تھے۔
جیسے پو لینڈ پر جرمن نے حملہ کیا اور اُن کی مدد کے لئے انگریزاور فرانس آگئے ،آخر جرمن تباہ ہو گیا۔ فن لینڈ پر رُوس نے حملہ کیا اور انگلستان اور فرانس نے اس کو مدد دینی شروع کردی چنانچہ باوجود اس کے کہ فوج اُس کے پاس تھوڑی تھی اُس کو اِتنا سامانِ جنگ مِل گیا کہ رُوس نے اُس سے صلح کرلی۔ تو کئی دفعہ مَیں نے دیکھا کہ نوبت خانوں کے نتائج کچھ او ر نکلتے ہیں۔ ظاہر تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم یُوں کر دیں گے اور وُوں کر دیںگے لیکن جب جا تے ہیں تو درمیان میں کوئی روک پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں با وجود اِس کے پِدّی ہو نے کے وہ بھی اُس کے ہا تھ سے نکل جاتی ہے۔غرض اِن حملوں میں
(۱) بسا اوقات ظلم کا پہلو ہو تا تھا۔
(۲) بعض اوقات محض نمائش ہو تی تھی ،بالمقابل کوئی طاقت ہو تی ہی نہیں تھی۔ ایک کمزور سی ہستی کو چُن کر دنیا پر رعب ڈالنے کے لئے ظاہر کیا جاتا تھا کہ گویا ایک بہت بڑے دشمن کی سر کو بی کے لئے تیا ر ی کی گئی ہے۔
(۳) لیکن پھر بھی نتیجہ قطعی نہ ہو تا تھا۔ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دوسرا فریق چھوٹا اور کمزور ہو تاتھا اِس وجہ سے کہ وہ مظلوم ہو تا تھا دوسری زبردست طاقتیں کمزورکی مدد کو آجاتیں او ر ساری نمائش دھری کی دھری رہ جاتی۔
نوبت خانوں کی بعض اور خامیاں
(۴)چوتھی بات مَیں نے یہ دیکھی کہ یہ نوبت خانے صرف دُنیوی کشمکس کیلئے بجا ئے جاتے تھے اخلاقی
اور رُوحانی قدروں کے بچانے کی اُس میں کوئی صورت نہیں ہو تی تھی۔ لڑائیاں محض دُنیوی فوائد اور دُنیوی اغراض کے لئے ہو تی تھیں۔
(۵)مَیں نے دیکھا کہ یہ نوبت خانے جو بجتے تھے ذاتی اغراض کے لئے بجا ئے جاتے تھے۔ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے حقوق کا بالکل لحاظ نہ ہو تا تھااور نفسانیت کے علاوہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اِس سے کوئی تعلق نہ ہو تا تھا۔
(۶)مَیں نے دیکھا کہ اگر واقعہ میں کو ئی خرابی بھی اِن حملوں کا باعث ہو تی تھی یعنی واقعہ میں اُس قوم نے کوئی ظلم کیا ہو تا تھا تو فتح کے بعد اس ظلم کی اصلاح نہیں ہو تی تھی صرف اُس کا رنگ بدل جاتا تھا۔ فرض کرو ہند وستان کی کسی ریاست نے انگریزوں پر ظلم بھی کیا ہوتا تھا اور اس جنگ کے بعد یہ نہیں ہوتا تھا کہ ظلم مٹ گیا بلکہ یہ ہو تا تھا کہ پہلے انگریزوں پر ظلم ہو تا تھا پھر ہندوستانیوں پر ظلم شروع ہو جاتا تھا۔ ظلم بہر حال قائم رہتا تھا۔
(۷)اِن نو بت خانوں سے بعض دفعہ اپنے لوگوں کو ہمّت دلا نے کیلئے یہ بھی اعلان کئے جا تے تھے کہ مثلاً فرانس لڑائی کا اعلا ن کر تا تو کہتا انگریز بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے فلاں ملک بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے۔ ایرانؔاعلان کرتا تو کہتا چین کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ ہندوستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ افغانستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ غرض دُنیوی مدد او ر تائید پر بڑا بھروسہ ظاہر کیا جاتا گویا اقرار کیا جاتا تھا کہ بغیر اِ ن دُنیا کی تائیدوں کے ہم فتح نہیں پا سکتے۔
دُنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ
میں اسلام کا شاندار نوبت خانہ
اب مَیں نے دیکھا کہ کیا اسلام نے بھی اِسکے مقابلہ میں کوئی نوبت خانہ بجا یا ہے جس نے بتایا ہو کہ اَب اسلامی لشکر آگے بڑھتا ہے اپنے آدمیوں کو کہو کہ تیا ر ہو جا ئو۔ تو مَیں نے دیکھا کہ قرآ ن میں یہ نوبت خانہ
بج رہاہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ الَّذِیْنَ اُخْرِ جُوْا مِنْ دِیَا رِھِمْ بِغَیْرِحَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَا اللّٰہُطوَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدٍّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاطوَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗطاِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌoاَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِیالْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرط وَلِلّٰہِ عَا قِبَۃُ الْاُمُوْرِo۳۰؎
یہ نوبت خانہ ڈھم ڈھم ڈھم سے نہیں بجا یا جاتایہ ایسے الفاظ کے ساتھ بجا یا گیا ہے جن میں حقائق بیان کئے گئے ہیں۔
اِسلام کا اعلانِ جنگ اور اُس کی اہم اغراض
اِس میں بتایا گیا ہے کہ:-
اول ؔیہ اعلانِ جنگ جو کیا جا رہا
ہے جا رحانہ نہیں ہے بلکہ مدافعانہ ہے۔ہم کسی قوم پر خود حملہ کرنا جا ئز نہیں سمجھتے ہمیں جب مجبور کیا جا ئے اور ہم پر حملہ کیا جائے تو ہم اپنی جان اورمال اور عزّت اور دین کے بچانے کے لئے اُس سے لڑنا جا ئز سمجھتے ہیں اس لئے وہ لوگ جن پر حملہ کیا گیا، جن کو دُکھ دیئے گئے ،اُن کو اجا زت دی جاتی ہے کہ وہ نکلیں او ردشمن کا مقابلہ کریں۔
دومؔ اِس میںیہ ثابت کیا گیا تھا کہ دشمن زبر دست ہے اُس نے ان لوگوں کو جن کے لئے طبلِ جنگ بجا یا گیا ہے گھروں سے نکال کر ملک بدر کر دیا تھا اور یہ لوگ اُن کے خلاف ایک انگلی تک نہیں ہلا سکتے تھے چنانچہ ان کی کمزوری کی مثال دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکّہ میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو آپؐ نے صحابہؓ کو بلایا او رفرمایا تم لوگ یہ تکلیفیں برداشت نہیں کرسکتے مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں تم ہجرت کر جائو۔ صحابہؓ نے کہا۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہمیں کون ملک پنا ہ دے گا؟ آپؐ نے فرمایا سمندر پار حبشہ کا ایک ملک ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بادشاہ مقرر کیا ہے جو انصاف پسند ہے اُس میں چلے جائو۔ چنا نچہ بعض صحابہ ؓ نے فیصلہ کر لیا کہ اس ملک میں ہجرت کر کے چلے جائیں۔ اُن میں ایک صحابیؓ اور اُن کی بیوی بھی تھیں۔ وہ جا نتے تھے کہ انہوں نے ہمیں ہجرت بھی نہیں کرنے دینی جیسے پارٹیشن کے موقع پر ہؤا تھا کہ جو لوگ ہجرت کر کے آنا چاہتے تھے اُن کو بھی ہندو اور سِکھ نہیں آنے دیتے تھے۔ اِسی طرح وہ لوگ جا نتے تھے کہ مکّہ والوں نے ہمیں ہجرت کرکے نہیں جانے دینا اِس لئے رات کے وقت وہاں سے بھا گتے تھے تاکہ کسی طرح بچ کے نکل جائیں۔ ایک دن ایک مسلمان اور ان کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ہجرت کر جائیں اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت ہم دونوں اونٹ پر سوار ہو کر چلے جائیں گے۔ حضرت عمرؓ اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ وہ چونکہ حفا ظتِ مکّہ پر مقرر تھے وہ رات کو مکّہ کا پہرہ دیا کرتے تھے کہ دیکھیں کیا حالت ہے شہر میں کو ئی مخالفانہ رویہّ تو نہیں۔ وہ گشت لگاتے لگاتے پہنچے تویہ لوگ اونٹ پر اسباب لاد رہے تھے حضرت عمرؓ اُس وقت تک اسلام کے سخت مخالف تھے انہیں شبہ ہؤا کہ یہ بھا گنا چاہتے ہیں۔ چنا نچہ اُس عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگے کیو ں بی بی! کیا نیّتیں ہیں اور کدھر کے ارادے ہیں ؟ خاوند نے ٹلا کر کچھ اَور بات کہنی چاہی مگر عورت کے دل کو زیادہ چوٹ لگی۔ وہ آگے سے غصہ سے کہنے لگی عمرؓ!یہ بھی کو ئی انصاف ہے کہ ہم تمہارے شہر میں تمہا را کچھ بگاڑتے نہیں، کو ئی شرارت نہیں کرتے، تمہا رے ساتھ لڑائی نہیں کرتے، دنگا نہیں کرتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تم وہ بھی نہیں کرنے دیتے اور ہم یہاں سے جا نا چاہتے ہیں تو تم ہمیں جانے بھی نہیں دیتے، ظلم کی بھی کو ئی حد ہوتی ہے۔آدھی رات کو ایک عورت کو اونٹ پر سامان لادتے دیکھ کر حضرت عمرؓکے دِل کو چوٹ لگی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور منہ پھیر لیا۔ پھر پیٹھ پھیر کر اُن کا نام لیا اور کہنے لگے بی بی! اللہ تمہارے ساتھ ہو جائو۔۳۱؎ گویا یہ حالت تھی اُن لوگوں کی کہ اُن کو نکلنے بھی نہیں دیا جاتا تھا او راُن کے لئے ملک چھوڑنے کے لئے بھی کوئی آزادی نہیں تھی اور جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں چلے گئے تووہاں بھی حملہ کیا۔ حبشہ گئے تووہا ں اُن کو لینے کے لئے آدمی پہنچے۔ مدینہ گئے تو وہاں حملہ شروع کردیا۔
سومؔ اِن لوگو ں کو جو گھر سے نکا لا گیا تھا تو اُن کے کسی جُرم کی وجہ سے نہیں بلکہ بِلاسبب مگر پھر بھی یہ لوگ اُف نہیں کر سکے اور پھر اُن کو نکال کربس نہیں کی گئی بلکہ جس غیر ملک میں انہوں نے پنا ہ لی وہاں بھی جا کر حملہ کر دیا گیا۔
چہارمؔ یہ اعلان کیا گیا کہ ان پر جو ظلم کئے جا رہے ہیں یہ کسِی سیاسی وجہ سے نہیں کئے جا رہے کسی ملک یا علاقہ کا یہ لوگ مطالبہ نہیں کررہے بلکہ صرف اس لئے ان پر ظلم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم او رحکومت کو کہہ دیا ہے کہ ہم سیا سی آدمی نہیں ہیں۔ آپ جو کچھ ہمیں حکم دیں گے ہم آپ کی مانیں گے مگر جن امور کا تعلق مَا بَعْدَ الْمَوْت سے ہے اُنکی تیا ری کے لئے ہم کو آزاد چھوڑ دیا جا ئے کیو نکہ جسموں کی بادشاہت حکومت کے پاس ہے مگر رُوح کی حکومت خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہے اِس لئے حکومت ہمارے جسموں پر تو حکومت کر ے مگر ہماری رُوحوں کو آزاد چھوڑ دے کہ ہم اپنے اللہ سے صلح کر لیں۔ مگرحکومت نے کہا نہیں ہم تمہارے جسموں پر بھی حکومت کریںگے اور تمہا رے عقیدہ اور مذہب پر بھی حکومت کریںگے۔
پنجم ؔاِس اعلانِ جنگ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگ ہم صرف ضمیر کی آزادی کیلئے نہیں کر رہے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان کلمہ پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان نماز پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کررہے کہ مسلمان روزے رکھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان حج کر سکے، صرف اِس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان زکوٰۃ دے سکے بلکہ ہم اس لئے کر رہے ہیںکہ عیسائی ،یہودی او ر مجوسی سب کو ان کے مذہب کی آزادی حا صل ہو جا ئے کیو نکہ حُریّتِ ضمیر سب کا حق ہے صرف مسلمانوں کا حق نہیں۔ کسی قوم کا حق نہیں کہ ضمیر کو وہ اپنے لئے مخصوص کرلے اور باقیوں کو حُریّت دینے سے انکا ر کردے۔
ششم ؔاس اعلانِ جنگ میں یہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ گودشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور ہیں لیکن فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہو گی اور دشمن کو شکست ہو گی۔
مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی
اِس سِلسلہ میںاَور اعلان بھی کئے گئے اور کہا گیا کہ اَلَااِنَّ حِزْ بَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۳۲؎ چلو تم
لوگ خدا کی خاطر مرنے کیلئے تیا ر ہو گئے ہو اور خدا تعالیٰ اپنی خاطر مرنے والوں کو خالی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ اُن کو مدد دے گا اور کا میا ب کرے گا۔ پھر فرمایا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰـلِبُوْنَ۳۳؎ یقینا خدا کاگروہ جو خدا کی خاطر لڑنے والا ہے وہی غالب آئے گا۔ مگر چونکہ اِس طرح آپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم کمزور ہیں۔ آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی طاقت نہیں اور آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان کوملکوں سے نکال دیاگیا ہے پھر بھی یہ نہیں بول سکے گویا ان کی ہمّت گرا دی گئی تھی کہ تم ہو تو بالکل ہی گھٹیا طرز کے غریب اور بے سامان لیکن ہم تم کو لڑائی کا حکم دیتے ہیں اسلئے اُ ن کے دلوں میں ایک مایوسی سی پیدا ہو سکتی تھی ہم تھوڑے بھی ہیں اور سامان بھی نہیں توکیا بنے گا اس لئے فرمایا کہ بے شک جو باتیں ہم نے بتائی ہیں وہ تمہارے ظاہری حالات ہیں لیکن کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ۳۴؎ یاد رکھو! بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔مگرکَب؟جب اللہ تعالیٰ کا اُن کو حکم ہو تا ہے۔ گویا اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ تم یہ سمجھو کہ تم اپنی طرف سے لڑنے نہیں جا رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لڑنے جا رہے ہو اور جب خدا کسی لڑائی کا حکم دیتا ہے تو چھوٹی جماعت ہمیشہ بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ اَب مَیں اِس آیت کے ٹکڑے ٹکڑے لے کربتاتا ہوں کہ اِس میں کیا مضمون بتایا گیا ہے۔پہلے بتایا گیا ہے کہااُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا۔وہ لوگ جن سے لوگ بِلا وجہ لڑائی کرتے ہیں اُن کو حکم دیا جاتا ہے کہ چونکہ اُن پر حملہ کیا گیا ہے اِس لئے وہ لڑائی کے لئے نکلیں۔ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ اور ہم اُن کو بتا دیتے ہیں کہ باوجود اِس کے کہ اُن میں لڑائی کی طاقت نہیں ہے مگر خدا میں طاقت ہے اور وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے۔ اَلَّذِ یْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِ ھِمْ بِغَیْرحَقٍ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بغیرکسی قصور کے نکالے گئے اِلَّا اَنْ یَّقُوْ لُوْا رَ بُّنَا اللّٰہُ۔ ہاں ان کا ایک ہی قصور تھاکہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا ربّ ہے وہ اپنے زمانہ کے مَامور کی بات کو مانتے تھے اور خدا کی بات کہتے تھے۔ صرف اِس بات پر لوگ کہتے تھے اِن کو مارو۔ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَ امِعُ اور اس لئے اُن کو اجا زت دی جاتی ہے کہ یہ صرف اپنے خدا کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور اس زمانہ کی حکومت اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو راضی نہیں کرنے دیں گے تم ہم کو راضی کرو۔ دوسرے اِس لئے کہ اگر یہ طریقِ ظُلم جا ری ہو جا ئے تو پھر قوموں میںہمیشہ ہی لڑائی رہے گی۔عیسائی یہو دی پر حملہ کرے گا اور کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا اور یہودی عیسائی کو کہے گا مَیں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا مسلمان کا فر کو کہے گا مَیں نہیں تم کوتیری عبادت کرنے دیتاکافر مسلمان کو کہے گا مَیں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا پھر خدا کا نام دنیا میں کوئی بھی نہ لے گا اور خدا کا خانہ خالی ہوجائے گا۔ آخر خدا کا نام مختلف قوموں نے لینا ہے مسلمان نے اپنے طورپر لینا ہے،یہودی نے اپنے طور پر لینا ہے ،مجو سی نے اپنے طور پر لینا ہے ،ہندو نے اپنے طور پر لینا ہے اور اگر دوسرے کو خدا کا نام نہیں لینے دیں گے تو بات ختم ہو ئی، کو ئی بھی اُسکا نام نہیں لے گا۔ تو فرماتا ہے اگر ہم یہ طریق اختیا ر نہ کریں کہ ایسے موقع پر لڑائی کی اجا زت دے د یں تو لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ۔ صَوَامِعُ اُن جگہوں کو کہتے ہیں جہا ں لوگ عبادت کے لئے بیٹھتے ہیں جیسے ہمارے ہاں تکیے ہوتے ہیں۔ بِیَعٌ۔بیعؔ نصاریٰ کی عبادت گاہوں کو کہتے ہیں۔ وَصَلَوٰتٌ۔ صلوٰۃ یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ عبرانی میں اُسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کی مسا جد جن میں خدا کا نام لیا جاتا ہے یہ سب توڑی جاتیں۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ او ر جو لوگ خدا کا نام لینے والے ہیں وہ گویا خدا کے نام کو دنیا میں زندہ رکھ رہے ہیں او ر جو خدا کے نام کو زندہ رکھے گا اُس کی خدا بھی مدد کریگا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌعَزِیْزٌاور یقینا خدا بڑا زبردست اور غالب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو دنیا میں حکومت دی جا ئے تو یہ نمازیں قائم کریںگے اور زکوٰتیں دیں گے اور امر باِلمعروف کریںگے اور بُری باتوں سے لوگوں کو روکیں گے۔ وَلِلّٰہِ عَا قِبَۃُ الْاُمُوْرِ اور چونکہ یہ دنیا میں پھر خدا کی حکومت قائم کریںگے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اِن کو لڑائی کی اجازت دے دی جائے۔
اسلام آزادئ ضمیر کو کُچلنے کی اجا زت نہیں دیتا
یہ قرآن کریم نے ہمیں آئندہ کے لئے سبق دیا ہے صرف اُس زمانہ
کی بات نہیں بلکہ قرآن شریف نے پیشگوئی بیان کی ہے اور اِس میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمان سچّے طور پر مسلمان بنیں اور اِس تعلیم پر عمل کریں جو خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے اگر لوگوں کے ظلم برداشت کریں اور آپ ظالم نہ بنیں، حُریّتِ ضمیر دیں حُریّتِ ضمیر چھینیں نہیں، مسجدوں کو گِرائیں نہیں، معبدوں کو بند نہ کریں بلکہ ہر ایک کو مذہب کی آزادی دیں دُنیا میں انصاف اور امن کو قائم رکھیں اور ہر ایک کو اس کا حق دیں تو کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ایسی قوم کو اللہ تعالیٰ تھوڑے ہو نے اور بے سامان ہونے کے باوجود زیادہ تعداد والوں اور سامان والوں پر غلبہ دے دیا کرتا ہے۔ گویا اگر پاکستانی اِس قسم کے مسلمان بن جائیں تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ ج وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ۳۵؎ یعنی اگر تم میںسے بیس صابرہوں تو وہ دو سَو آدمی پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک سَو ایسا ہو تو وہ ایک ہزار پر غا لب آجائے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں تم سمجھتے ہو (مَیں آگے چل کر بتائو نگا کہ سمجھنے او رنہ سمجھنے کا مطلب کیا ہے) اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بتادیا ہے۔ کہ دس گُنا طاقت پر مسلمان غالب آسکتے ہیں۔ اب پاکستان کی آبادی کہتے ہیں سات کروڑ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر پا کستانی ایسے مسلمان بن جائیں تو ۷۰ کروڑ کے ملک پر یہ غالب آسکتے ہیں اور دنیا میں ۷۰ کروڑ کا کو ئی ملک نہیں۔ بڑے سے بڑاملک چین ؔ ہے اُسکی بھی پچاس کروڑ کی آبادی ہے۔ دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے اُس کی تیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن قرآن کریم کے حکم کے ماتحت اگر پا کستان کے مسلمان اس قسم کے مسلمان بن جائیں جیسے قرآن کہتا ہے کہ بن جائو یعنی نہ وہ لوگوں پر ظلم کریں ،نہ حریّتِ ضمیر میں دخل دیں، نہ وہ غیر مذاہب کو اپنے مذہب پر جبراً لانے کی کو شش کریں اور نہ کسی کا حق ماریں بلکہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں، بُری باتوں سے روکیں اور لوگوں پر اس طرح روپیہ خرچ کریں کہ ملک ترقی کرے۔زکوٰۃ کے معنے ترقی کے بھی ہوتے ہیں پس زکوٰۃ دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنے آپکو بنا دیں تو فرماتاہے تمہا رے دس سَو پر غالب آسکتے ہیں گویا سات کروڑ پاکستانی مسلمان ۷۰ کروڑ پر غالب آسکتے ہیں اور۷۰ کروڑ کی حکومت دنیا میں کوئی نہیں۔ بڑی سے بڑی حکومت پچاس کروڑ کی ہے تو گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر صرف پا کستان کے مسلمان ہی ایسے بن جائیں تو وہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت کو شکست دے دسکتے ہیں اور ساری دنیا کے مسلمان عیسائی کہتے ہیں کہ چالیس کروڑ ہیں اور مسلمان کہتے ہیں ساٹھ کروڑ ہیں۔ اس حساب سے اگر چالیس کروڑ بھی تسلیم کریں تو چار ارب پر یہ مسلمان غالب آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اُ س قسم کے مسلمان بن جائیں جس قسم کے مسلمان بننے کے لئے قرآن کہتا ہے۔ اور اگر وہ ساٹھ کروڑ ہوں جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں تو اِس صورت میں چھ ارب پر غالب آسکتے ہیں لیکن دنیا کی ساری آبادی سَوا دو ارب ہے۔ گویا اگرمسلمان ساری دنیا سے بھی لڑیں تو قرآنی وعدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اگر دُگنی بھی ہو جائے تب بھی وہ اُن پر غالب آسکتے ہیں۔ یہ کتنی عظیم الشان بات ہے لیکن اِس کے باوجود مسلمان کیوں کمزور ہیں ؟ اِس لئے کہ وہ اُن شرطوں کو پورا نہیں کرتے۔ اِن شرطوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری مدد تمہیں تب حاصل ہو گی جبکہ تم میرے لئے لوگوں کی دشمنی سہیڑو، میرے نام کو روکنے کے لئے لوگوں کی دشمنی نہ کرو بلکہ میری خا طر لوگوں کی دشمنی سہیڑو۔لوگوں کے ظلم سہو اور دنیا میں جو لوگ میرا نام لینے والے ہیں چاہے وہ عیسائی ہو کے میرا نام لیں، چاہے وہ یہودی ہو کے میرا نام لیں یا مجوسی ہو کر میرانام لیں جب بھی کوئی میرا نام لے تو کہو ہاں یہ تو ہمارے خدا کا نام لے رہا ہے۔گویا نمایا ں چیز بتادی ہے کہ کونسے اخلاق کے بعد خداکی مدد آتی ہے اور فرماتا ہے تم اس لئے غالب آئو گے کہ وہ نہیں سمجھتے یعنی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے اس کے خلاف وہ غیراسلامی تعلیم پر عامل ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر ظلم نہ کرو لیکن غیر اسلام کہتا ہے کہ سب پر ظلم کرو اِس میں تمہا رافائدہ ہے، اسلام کہتا ہے کہ تم کسی کی حُریّتِ ضمیر میں دخل نہ دو اور غیر مذاہب یہ کہتے ہیں کہ بے شک حُریّتِ ضمیر میں دخل دو،اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے تو چاہے وہ ہندوہو ،عیسائی ہو ،یہودی ہوکسی قوم کا ہو اُسکو موقع دو اور کہو کہ تُو بے شک نام لے لیکن غیر اسلامی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے گرجے میں خدا کا نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے، اگر ہما رے صلوٰۃ میں نام لیتاہے تو ٹھیک ہے،اگرہمارے مندر میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم نہیں لینے دیں گے۔ آج مسلمان بھی یہی کہتا ہے چنانچہ دیکھ لو کیا اِن میں سے کوئی بات بھی ہے جو مسلمان نہیں کررہا؟کیا آج کا مسلمان یہ نہیں کہہ رہا کہ یا تو ہماری طرح کی نماز پڑھو ورنہ ہم نہیں پڑھنے دیں گے، یا تو ہماری طرح فتوے دو ورنہ تمہیں فتویٰ نہیں دینے دیں گے، یا تو ہماری طرح کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزادیں گے۔ کیا آج ہماری فقہ میں نہیں لکھا ہؤا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو نئے معبد بنانے کی اجا زت نہیں دی جائے گی یا گرجے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن یہ کہتا ہے کہ ہم اس لئے لڑتے ہیں تاکہ گِرجوں کو بچائیں۔ قرآن کہتا ہے کہ محمدؐرسول اللہ کو لڑنے کی اجازت اِس لئے دی گئی ہے کہ یہودیوں کے عبادت خانوں کو گِرنے سے بچایا جائے، قرآن کہتا ہے کہ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنے کی اِس لئے اجازت دی گئی ہے کہ مانک(MONK) یا راہب وغیرہ جو بیٹھے عبادت کر رہے ہیں اُ ن کو نقصان نہ پہنچے لیکن اب ہر ایک بات کے خلاف کرنے کے لئے مسلمان یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے معبد توڑنے جا ئز ہیں، لوگو ں سے لڑائی بھی جا ئز ہے، لوگوں کے مذاہب میں دخل دینا بھی جا ئز ہے، لوگوں سے جبراً اپنی مرضی منوانا بھی جا ئز ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ تمہیں اس طر ح فتح نصیب نہیں ہو گی۔ تمہیں فتح تب نصیب ہو گی جبکہ تم لوگوں کو آزادی دوگے، جبکہ تم لوگوں کو حُریّتِ ضمیر دوگے، جبکہ تم لوگوں کے مذہب میں دخل نہیں دو گے اور کہو گے کہ بیشک یہ مذہب رکھویہ خدا کا معاملہ ہے۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے ہی آخرجیت کا موجب بنتی ہے۔ہٹلر نے لڑائی کی اور بڑی منظّم لڑائی لڑا مگر آخر وہ ہا را اِسلئے کہ دنیا کی جو آزاد رائے تھی وہ ساری کی ساری امریکہ اور انگلستان کے ساتھ تھی۔ روس اور جا پان لڑے، روس کتنی بڑی طاقت ہے مگر وہ ہا را اِس لئے کہ دنیا کی ساری کی ساری آزاد رائے جاپان کی ہمدردتھی اس ہمدردی کی وجہ سے جہاں بھی کسی کا بس چلتا تھا وہ جا پان کی تائید میں تھوڑ ا بہت کام کرتا تھا نتیجہ یہ ہؤا کہ روس ہارگیا۔ تو جب کوئی قوم ایسا طریق اختیا ر کرتی ہے کہ ہر مذہب و ملّت کے لئے وہ انصاف کرنے کے لئے تیا ر ہوتی ہے توخود دوسروں کے گھروں میں اُن کے جا سوس پیدا ہو جا تے ہیں اور ہر جگہ اُسے مدد ملنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ جیتنے شروع ہو جاتے ہیں۔
یروشلم کے عیسائیوں پر اسلامی حکومت کا غیر معمولی اثر
جب یر وشلمؔ پر مسلمان گئے توعیسائی لشکر حملہ آور ہؤا
اُس وقت مسلمانو ں نے فیصلہ کیا کہ ہم مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ہم پیچھے ہٹیں گے۔جب پیچھے ہٹنے لگے تو یر وشلم کے لوگ بلکہ پادری بھی روتے ہو ئے آتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو ہمارے ملک میں پھر لائے کیو نکہ ہم نے امن تمہا رے ذریعہ سے ہی دیکھا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی عیسائی حکومت تھی اور قیصر کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ گویا پوپ کا قائم مقام ہے اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ مذہبی طور پر بھی لیڈر ہے مگر وہ اُس کی حکومت کو توڑنے والی حکومت کے لئے باہر نکلے تھے۔ اگر مسلمان مذہبی معاملات میں دخل دیتے، اگر وہ اُن کے گِر جوں میں دخل دیتے اور اگر وہ اُن پر سختیا ں کرتے جو ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیںتو اُن کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ روتے ہوئے نکلتے کہ تم ہمارے گھروں میںآئو، ہمارے گِرجے گرائو اور ہما رے مذہب میں دخل دو وہ لازماً اُنکی مخالفت کرتے اور رومن ایمپائر کی مدد کرتے لیکن حالت یہ تھی کہ وہ روتے تھے۔ پس جب مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو وہ جانتے تھے کہ یروشلم سے اسلامی لشکر کو تو نکال لائے ہیں لیکن یروشلم میں بیس ہزار جا سوس چھوڑ آئے ہیںجو ہمیں رومیوں کی خبر یں دیں گے اور اُن کے ذریعہ ہم پھر واپس آجائیں گے۔ تو یروشلم کا ہر عیسا ئی مسلمانوں کا جا سوس بن گیا تھا اور اُن کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیا ر ہو چکا تھا۔ اگر یہی سلوک مسلمان قومیں دوسروں کے ساتھ کرنا شروع کردیں تو دیکھو فوراً یہ صورت شروع ہو جائے گی کہ غیر ملکوں میں ہمارے ہمدرد پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور وہ ہماری مدد کرنی شروع کردیں گے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے کامیا بی کے لئے صابر ہونے کی شرط لگائی ہے اور صابر کے معنے (۱)مصیبت کو برداشت کرنے(۲)استقلال سے نیک کاموں میں لگے رہنے اور اختلافات کو نظرانداز کردینے کے ہوتے ہیں۔ پس اگر مسلمان باہمی اختلاف چھوڑ کر موت یا نقصانِ مال اور نقصانِ آرام کا ڈر دُور کردیں۔ حصولِ مدعا کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے لئے استقلال کے ساتھ بغیر وقفہ او ر سُستی اور تزلزل کے لگ جائیں تو دنیا کی ہر طاقت پر وہ غالب آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ مظلوم ہو ں ،کسی کے حق پر دست اندازی نہ کریں اور حُریّتِ ضمیر کو قائم کرنے کے ذمہ دار ہوں نہ کہ ڈنڈے سے اپنا مذہب منوانے پر تُل جائیں جس سے منافقت بڑھتی ہے اور صفوں میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ اُن ممالک میں پیدا ہو جا تے ہیں۔
ہفتم۔ ؔدوسری حکومتوں کے نوبت خانوں سے تویہ اعلان کئے جا تے ہیں کہ فلاں حکومت کی فوجیں ہمارے ساتھ ہیں لیکن اِس نوبت خانہ سے تو یہ اطلاع دی جاتی تھی کہ سب دنیا کی حکومتیں ہمارے خلاف ہیں اور کسی کی حمایت ہم کو حا صل نہیں۔ چنانچہ فرمایا الَّذِ یْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَا خْشَوْ ھُمْ۔۳۶؎ مسلمانوں کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ اَب تو ساری دنیا تمہا رے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ گو ساری دنیا تمہارے خلاف ہو گی مگر چونکہ تم مظلومیت میں ہو اور مظلو میّت کی وجہ سے تم اپنے دفاع کے لئے جنگ کرتے ہو اور چونکہ تم اخلاق اور حُریّتِ ضمیر کے لئے جنگ کرنے لگے ہو اس لئے گو تمام زمینی حکومتوں نے تمہا رے خلاف اجتماع کر لیا ہے لیکن آسمانی حکومت نے تمہا ری تائید کا فیصلہ کردیا ہے۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اور خدا اُس کی تائید کرے گا جو اُس کی مدد کرے گا۔ جو لوگ اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں انسان جبر نہ کریں بلکہ دین کامعاملہ صرف خدا اور بندے پر چھوڑ دیا جا ئے وہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں۔اِس لئے اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو کر جنگ کرے گا۔ پھر فرمایا اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰـثَۃِ اٰلاَفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَo بَلٰٓی اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَ یَاْ تُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلاَفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ ۳۷؎
مؤمنو ں کو کہدو کہ تم تھوڑے بھی ہو دشمن کے پاس سامان بھی زیا دہ ہے لیکن کیا تمہارے لئے یہ کا فی نہیں کہ خد ا تمہا ری مدد کے لئے تین ہزار فرشتے اُتار دے۔ بلکہ اگرتم صبر کرو اور تقویٰ سے کام لو اور دشمن تم پر فوری حملہ بھی کردے تو خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ پانچ ہز ار فرشتے بھیجے گا جو مُسَوِّمْ ہونگے۔ یعنی نڈر ہو کر اپنے گھوڑے دشمن کی صفوں میںپھینک دیں گے اور اُسے غارت کردیں گے۔ اِس فقرہ میں تو دراصل الٰہی مددکا ذکر تھا مگر کچھ لوگ رسمی مؤمن ہوتے ہیں وہ ہر چیز کے لئے جسمانی نسخہ تلاش کرتے ہیں پس ڈر ہو سکتا تھا کہ کچھ بیوقوف ایسے بھی ہوں کہ جو سچ مچ فرشتوں کو لائیں اور سچ مچ اُن کو دَوڑائیں اور لڑائیاں کروائیں اِس لئے فرمایا وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ ط وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَکِیْمِ۳۸؎ یعنی ہم نے جو کہا ہے کہ فرشتے اُتارنے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے آدمی بن کر آئیں گے اور تلواریں لے کر لڑیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ خو شخبری دی گئی ہے کہ وہ تمہا رے دلوں کو مضبوط کریں گئے اور دشمنوں کے دلوں میں تمہا را رُعب پیدا کردیں گے اور اصل مدد خدا کی طرف سے آتی ہے فرشتے انسانی جسم میں نہیں آیا کرتے۔
دنیا میں خدائی حکومت قائم کئے جا نے کا اعلان
ہشتم۔ ؔ دوسری حکومتیں جب حملہ کرتی ہیں تو بڑے زور سے
سے اعلان کرتی ہیں کہ ہم آزادی دینے کے لئے آئے ہیں جیسے انگریزوں نے عربوں سے کیا۔ پچھلی جنگ میں انہوں نے عربوں سے کہا کہ ہم تمہیں آزاد کرنے آئے ہیں اور کِیا کیا ؟ کِیا یہ کہ شام ؔ اور لبنانؔ فرانس کو دیدیا عراقؔ پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا ،اِسی طرح اُردنؔ بھی لے لیا، فلسطینؔ پر بھی آپ قبضہ کر لیا او ر اِس طرح ملک کو بانٹ لیا۔ لیکن لڑائی ہو ئی تو کہا۔ اُٹھو!اُٹھو!!شاباش!ہم تمہاری آزادی کے لئے آئے ہیں۔ یا جرمنیؔ نے ہا لینڈؔاوربیلجیئمؔ میں اپنی فوج داخل کردی بغیر اس کے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوتے اور اعلان کر دیا کہ چونکہ ہا لینڈ اوربیلجیئم کی آزادی انگریزوں اور فرانسیسیوں کی وجہ سے خطرہ میں ہے اور وہ اِن ملکوں پر قبضہ کرلیں گے اس لئے ہم انہیں بچانے کے لئے آرہے ہیں۔ اِسی طرح ڈنمارکؔ پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ ہم ڈنمارک کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ اب پیچھے ہندوستان نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ پولیس ایکشن ہے اِن لوگوں میں امن قائم کرنے کے لئے ہماری فوجیں داخل ہوئی ہیں۔ یا روس ؔ نے لیتھونیا اور استھو نیاؔ اور لٹویا ؔ پر حملہ کر دیا اورکہا ہم اِن تینوں ملکوں کر آزاد کروانے کے لئے آئے ہیں۔ اِس آزادی کے بعد یہ تینوں ممالک ضلع بن کررہ گئے اور روسؔ کے اند ر شامل ہیں۔ صرف فرق یہ ہو تا تھاکہ فساد کا دھارا بدل جاتا تھا یعنی پہلے فساد اِس طرف ہوتا تھا پھر اس کا رُخ اُس طرف ہو جاتا تھا لیکن اسلامی نوبت خانہ میں جو وعدہ کِیا گیا ہے وہا ں یہ فرماتا ہے کہ ہم نے اِنکو فتح ہی اِس شرط سے دینی ہے کہ الَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُ الزَّکوٰۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِیہ نہیں ہے کہ وہ کہتے ہیںکہ ہم ایسا کر یں گے بلکہ فرماتا ہے جب ہم ان کو حکومت بخشیں گے تو:-
(۱) وہ عبادتِ الٰہی کریں گے اور عبادتِ الٰہی کی آزادی دیں گے۔
(۲) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تووہ غرباء کی مدد کریںگے اورگِرے ہوئوں کو اُٹھائیں گے۔
(۳)جب ہم ان کوحکومت دیں گے تو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو حُسنِ سلوک اور اخلاق اور انصاف کی نصیحت کریںگے۔
(۴)یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو تمام نا پسند یدہ امور سے خواہ دُنیوی ہو ں یا دینی، اخلاقی ہوں یا معاشی یا اقتصادی یا علمی روکیں گے۔
(۵) اور اُن کا رویہّ ایسا منصفانہ ہو گا کہ یہ معلوم نہیں ہو گا کہ انسان حکومت کر رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہوگاکہ خداتعالیٰ زمین پر اُترآیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرٍ۔ اُس وقت یوں معلوم ہو گا کہ خدا آسمان سے اُتراہے۔
اَب دیکھو جن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ تھا وہ ایسے ہی ثابت ہوئے کیو نکہ ان کے ساتھ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ ہم تمہیں اس لئے حکومت دے رہے ہیں کہ تم نے یہ یہ کا م کرنا ہے۔
مساواتِ اسلامی کی ایک شاندار مثال
چنا نچہ دیکھ لو۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ ہے آپ مکّہ مکرّمہ میں حج کے
لئے گئے۔ اُن دِنوں عرب کا ایک عیسائی بادشاہ بھی مسلمان ہو چکا تھا و ہ بھی مکّہ میںحج کے لئے آیا تو کسی مجلس میں بیٹھا ہؤا باتیں کر رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جو بے چارہ کو ئی مزدور تھا پاس سے گزرا اور اتفاقاً اُس کا پیَر اُس کے کپڑے پر پڑ گیا۔ وہ تو اپنے آپ کو بادشا ہ سمجھتا تھا اور بادشاہ بھی وہ کہ کب برداشت کر سکتا تھاکہ کوئی شخص اتنی بے احتیاطی سے چلے کہ پائوں اُس کے کو ٹ پر پڑجائے۔اُس نے زور سے اُسے تھپڑ مارا او رکہا بے شرم! تیری کیا حیثیت ہے کہ تُو اِس طرح بے احتیاطی سے چلے کہ تیرا پیَر میرے کو ٹ پر پڑ جا ئے وہ بیچارہ صبر کر کے چلا گیا۔ اُسی مجلس میں کوئی صحابی ؓ بیٹھا تھا اُس نے کہا تم نے بڑی غلطی کی ہے۔ اُس نے کہا کیوں؟ مَیں بادشاہ نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگا اِسلام میں بادشاہت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی تم کو تھپڑ مارنے کا کیا حق تھا۔اگر اُس نے کو ئی قصور کیا تھا تو تم قضاء میں جاتے اور اُس پر دعویٰ کرتے، تمہا رااُس کو مارنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ کہنے لگا تو کیا اسلام میں بادشاہ او ر غیر بادشاہ کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا؟ انہوں نے کہا کو ئی فرق نہیں کیا جاتا۔ وہ کہنے لگا اچھّا مَیں عمرؓ کے پاس جاتا ہوں۔ اُٹھ کے عمرؓ کے پاس گیا دربارلگا ہؤا تھا سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جا کر حضرت عمرؓ سے کہنے لگا کہ کیو ں جی!کیا اسلام میں بد تہذیبی ہوتی ہے کہ اگر کو ئی شخص کسی بادشاہ یا بڑے آدمی کی ہتک کربیٹھے تو وہ اُس کو مار نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ نے اُس کی طرف دیکھا او ر کہا۔ (جبلہؔاُس کا نام تھا) جبلہؔ! تم کسی مسلمان کو ما ر بیٹھے ہو؟ خدا کی قسم! اگر مجھے پتہ لگا تو مَیں تمہیں اُسی طرح مرواؤں گا۔۳۹؎ اُس نے اُس وقت تو بہا نہ بنا یا او ر کہا۔ نہیں نہیں! مَیں نے تو کچھ نہیں کیا۔ مگر یہ کہہ کر واپس گیا اور اُسی وقت گھوڑے پر سوارہؤا اور اپنے ملک کو واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مرتد ہو گیا۔ غور کرو! کتنی بڑی طاقت تھی ایک مزدور کے لئے۔ ایک بادشاہ جاتا ہے اور کہتا ہے اِس نے میری ہتک کی ہے تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ تم نے اِسے مارا ہے تو مَیں ضرور سزا دونگا۔
خلافتِ راشدہ کے عہد میں راشن سسِٹم کا اجراء
یہ وہ چیز تھی جو مسلمانوں نے اپنی حکومت میں کی۔ راشن
اور کپڑے کا سسٹم جا ری ہؤا، امیر اور غریب سب کے لئے حکم ہؤا کہ اُن کو کپڑے مِلا کریںگے اور کھا نا مِلا کرے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا حکم دیا کہ جو راشن اورکپڑا مِلا کرے گا اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہ کیا جا ئے ہر مذہب وملّت کے آدمی کو اُس کا راشن دیا جا ئے۔ ایک بادشاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہؤا تو اُس نے کہلا بھیجا کہ میرے پاس ایسے لوگ ہیں جو غیر مذاہب کے ہیں مَیں اُن کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا اُن کے ساتھ انصاف کا سلوک کروپیا ر کا سلوک کرو اور اگر تمہارے پاس ایسے لوگ ہو ں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہ اُن کے پاس کا فی زمین وغیرہ نہ ہو اور کافی غلّہ نہ پیدا کر سکتے ہوں تو پھر سرکاری خزانہ سے انہیں غلّہ مہیّا کرو۔۴۰؎
ایک غلام کے معاہدہ کا احترام
اِسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںایک دشمن فوج گھِر گئی اور اُس نے سمجھ لیا کہ اَب ہماری نجات
نہیں ہے اِسلامی کمانڈر دباؤسے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے اگر اُس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا۔ ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا۔ مفتو ح کے لئے تو عام اسلامی قانون جاری ہوتا تھا اور صلح میں جو بھی وہ لوگ شرط کرلیںیا جتنے زائد حقوق لے لیں لے سکتے تھے۔انہوں نے سوچا کہ کوئی ایساطریق اختیا ر کرنا چاہئے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جا ئے۔ چنا نچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھااُس کے پاس جا کر انہوں نے کہا کیوں بھئی ! اگر صلح ہوجائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں ؟ اُس نے کہا ہا ں! اچھی ہے۔ وہ حبشی غیر تعلیم یا فتہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اِس شرط پر صلح ہوجائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جا ئے ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور تمہا رے مال تمہا رے پا س رہیں۔ وہ کہنے لگا با لکل ٹھیک ہے۔ انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ اب اسلامی لشکر آیا تو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہد ہ ہو گیا ہے۔ وہ کہنے لگے معاہدہ کہاں ہؤا ہے اور کِس افسر نے کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جا نتے ہمیں کیا پتہ ہے کہ تمہارے کو ن افسر ہیں اور کون نہیں۔ ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اُس سے ہم نے یہ بات کی اور اُس نے ہمیں یہ کہہ دیا تھا۔ مسلمانوں نے کہادیکھو ایک غلام نکلا تھا اُس سے پو چھو کیا ہؤا؟ اُس نے کہا ہاں! مجھ سے یہ بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا وہ تو غلام تھا اُسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا انہوں نے کہا ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ تمہا را افسر ہے یا نہیں۔ ہم اجنبی لوگ ہیں، ہم نے سمجھا یہی تمہا را جرنیل ہے۔اُس افسر نے کہا مَیں تُو نہیں مان سکتا لیکن مَیں یہ واقعہ حضرت عمرؓ کو لکھتاہو ں۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ خط مِلا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے لئے یہ اعلان کردو کہ کمانڈر اِنچیف کے بغیر کوئی معا ہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو مَیں اُس کو جھو ٹا کردوں اب وہ حبشی جو معاہدہ کرچکاہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ ہاں آئندہ کے لئے اعلان کردو کہ سوائے کمانڈر اِنچیف کے اَور کوئی کسی قوم سے معا ہدہ نہیں کر سکتا۔۴۱؎
غیر مسلموں کے جذبات کا پاس
پھر غیر مذاہب کے جذبات کا لحاظ اِس حد تک کیا کہ رسو ل کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی
نے آکر شکا یت کی کہ مجھے ابو بکر ؓ نے مارا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ کو بلایا اَو رفرمایا تم نے اِس کو ما را ہے ؟کہنے لگے ہاں! یَارَسُوْلَاللّٰہ ؐ! اِس نے بڑی گستاخی کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کیا گستاخی کی تھی؟ انہوں نے کہا اِس نے کہا تھا مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے موسٰی ؑ کو سارے رسولوں سے افضل بنا یا ہے۔ تو اِس نے آپؐ کی ہتک کی او ر حضرت موسٰی ؑ کو سب رسولوں سے افضل قرار دیا۔ مجھے غصّہ آگیا اورر مَیں نے تھپّڑ مارا۔ آپؐ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا۔ لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی۔۴۲؎ تمہارا کیا حق ہے کہ لوگوں کے جذبات کو مجروح کرو۔ تم مجھے یہودیوں کے سامنے موسٰی ؑ پر فضیلت نہ دیا کرو۔کتنا انصاف ہے۔ کیا دُنیا کا کوئی اَور انسان ہے جس نے باوجود اِس کے کہ وہ خود دعویدار ہو کہ مَیں بڑا ہوں کہا ہو کہ دوسروں کے سامنے تم نے مجھ کو موسٰی ؑ پر کیوں فضیلت دی اِس کا یہی حق ہے کہ وہ کہے موسٰی ؑ مجھ سے بڑا ہے۔پھر فرمایا۔ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْ عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ۴۳؎ دیکھو جن بُتوں کی لوگ پوجا کر تے ہیں یا جن انسانو ں کی لوگ پوجا کرتے ہیں، اُن کے متعلق کبھی کوئی بُر ا لفظ نہیں بولنا ورنہ پھر اُن کا بھی حق ہو جائے گا کہ وہ مقابل میں تمہارے خدا کو بھی گالیا ں دیںاِس طرح تم اپنے خدا کو گالیا ں دینے کا موجب بنو گے۔ گویا قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی جذبات کے لحاظ سے برابر ہیں، سچے مذہب والا اور جھو ٹے مذہب والا دونوں برابر ہیں اگر اِس کو حق ہے کہ اُسکے جذبات کو تلف کرے تو اُس کا بھی حق ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اگر یہ چاہتا ہے کہ اسکے جذبات کی ہتک نہ کی جائے تو پھر اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے جذبات کی بھی ہتک نہ کرے۔
جوشِ انتقام میں بھی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنے کی تاکید
پھر جو ش اور غضب میں انتقام کی طرف منتقل نہ
نہ ہونے کے لئے فرمایا یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْ ا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنِ۴۴؎
یعنی اے مؤمنو!تم اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ یعنی صرف خداکی خاطر ہر کا م کرو اور خداتعالیٰ کے لئے تم گواہی دو کہ وہ منصف ہے۔ یعنی اپنے عمل سے ثابت کرو کہ اگر تم منصف ہو تو پتہ لگ جا ئے کہ خدا نے تم کو انصاف کی تعلیم دی ہے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم کسی سے بے انصافی کر بیٹھو۔ دشمن بھی ہو تو پھر بھی انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیا ر کرو کیو نکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جا نتا ہے۔تقویٰ اختیا ر نہ کرو گے تو سزا ملے گی گویا اِس میں یہ نصیحت کی کہ :-
اوّل ؔہرکام اللہ تعالیٰ کے لئے کرو کسی اَور غرض کے لئے نہیں کہ اُس غرض کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر راستہ بدل ہو۔
دومؔ خدا تعالیٰ نے جو معیا رِانصاف مقرر کیا ہے اُس کا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرو اگر وہ نمونہ پیش نہ کرو گے تو لوگ کہیں گے اِن کو خدا کی یہ تعلیم نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں بلکہ اَور تعلیم ہے۔
ایک ہندو سے حسنِ سلوک کا شاندار نمونہ
سومؔ اگر کوئی ظلم بھی کرے تو جوش میں آکر ظلم نہیں کرنا بلکہ عدل کو کسی صورت
میں بھی نہیںچھوڑنا۔ مجھے اِس پر اپنا ایک واقعہ یا د آگیا۔ رتن باغ (لاہور) میں ہم رہتے تھے اُس کا مالک چونکہ ایک بارسوخ شخص تھا اور اُس کا بھا ئی ڈپٹی کمشنر تھا وہ گورنمنٹ کی چٹھی لکھوا کے لا یا کہ اُن کا سامان اُن کو دے دیا جا ئے۔ یہاں کے افسر اُسوقت بہت زیادہ لحاظ کرتے تھے انہوں نے فورًا لکھدیا کہ ان کو یہ سامان دے دو۔ ہم جب گئے ہیں تو اُس وقت تک وہ لوٹا جاچکا تھا دروازے توڑے ہوئے تھے اور بہت سا سامان غا ئب تھا او ر پو لیس اُس زمانہ میں ایک لِسٹ بنا لیا کرتی تھی کہ یہ یہ اِس مکا ن میں پا یا گیا ہے اور چونکہ اُن دنوں ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے تھے وہ بہت رعایت کرتے تھے۔ لِسٹیں عام طو رپر نا قص بنا تے تھے مثلاً اگر پچاس چیزیں ہو ئیں تو چالیس لکھ لیں اور دس رہنے دیں اور کہہ دیا تم لے لو یہ طریق یہاں عام تھا۔ جب ہم وہاں گئے تو مَیں نے حُکم دیاکہ جتنی چیزیں لِسٹ سے زائد ہیں وہ جمع کر کے ایک طرف رکھ دو۔ چنانچہ وہ سب چیزیں رکھ دی گئیں۔جب وہ حکم لا یا تو وہ چیزیں جو لکھی ہوئی تھیں وہ دے دی گئیں۔ پاس سرکاری افسر بھی تھے اور پولیس بھی تھی۔ اِس کے بعد مَیں نے اپنے لڑکوں کو بُلا کر کہا کہ جو چیزیں میں نے الگ رکھوائی تھیں وہ بھی اس کو دیدو۔وہ مسلمان تھا نیدار جو اُن کے ساتھ آیا تھا وہ یہ دیکھ کر میرے ایک لڑکے سے لڑ پڑا اور کہنے لگا آپ لوگ یہ کیا غضب کر رہے ہیں اِن لوگوں نے ہم پر کیا کیا ظلم کئے ہیں اور آپ اِن کی ایک ایک چیز ان کو واپس کر رہے ہیں یہ تو بہت بُری بات ہے مگر اس کے روکنے کے باوجود ہم نے تمام چیزیں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں۔ اُنہی چیزوں میں کچھ زیورات بھی تھے وہ مَیں نے رومال میں باندھ کر ایک الماری میں رکھ چھوڑے جب مَیں نے دیکھا کہ یہ لوگ اُسے چیزیں دینے میں روک بنتے ہیں تو مَیں نے سمجھا کہ زیورات اِن لوگو ں کے سامنے دینا درست نہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اُس سے زیور چھین لیں۔ یہ لِسٹوں میںتو ہیں نہیں چنا نچہ مَیں نے وہ رومال رکھ لیا او ر اُسے کہلا بھیجا کہ جاتی دفعہ مجھ سے ملاقات کرتا جا ئے۔ میری غرض یہ تھی کہ جب وہ آئے گا تو مَیں علیحدگی میں اُس کے زیورات اُس کے حوالے کر دونگا۔ چنا نچہ جب وہ آیا تو مَیں نے رومال نکالا اور کہا یہ تمہا رے زیورات تھے جو اِس مکان سے ہمیں ملے اَب مَیں یہ زیورات تم کو واپس دیتا ہوں اور مَیں نے بلا یا ہی اِسی غرض کیلئے تھا کیو نکہ مَیں سمجھتا تھا کہ اگرمَیں نے لوگوں کے سامنے زیورات واپس کئے تو ممکن ہے سپاہی او رتھانیدار وغیرہ تم سے زیور چھین لیں۔ وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ جو ہماری اپنی لِسٹیں ہیں اُن میں بھی ان زیوروں کا کہیں ذکر نہیں۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے نہیں ہو گا مگر یہ زیور ہمیں تمہارے مکان سے ہی ملے ہیں اِس لئے خواہ لِسٹوں میں اِن کا ذکر نہ ہو بہر حال یہ تمہا رے ہی ہیں۔ اُس پر اِس کا اتنا اثر ہؤا کہ اُس نے وہاں جا کر اخباروں میں اعلان کرایا کہ ہماری لِسٹوں سے بھی زائد سامان ہمیں دیا گیا ہے۔ حکومت کی جو لِسٹیں تھیں اس سے ہی زائد سامان نہیں دیا گیا بلکہ جو ہماری لِسٹیں تھیں اُن سے بھی زائد سامان دیا گیا۔ دوسرے دن وہی تھا نیدار جو علاقہ کا تھا پھر آیا اور کہنے لگا مَیں نے ملنا ہے۔ مَیں نے اُسے بلوا لیا او ر پوچھا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا مجھے تو رات نیند نہیں آئی، میرا خون کھولتا رہا ہے۔ مَیں نے کہا۔ کیوں ؟کہنے لگا آپ کے آدمیوں نے بڑا بھا ری ظلم کیا ہے۔اِن کم بختوںنے ہمیں لوٹ کر تباہ کر دیا ہے او رآپ ان سے یہ سلوک کر رہے ہیں۔ کہنے لگا مَیں بھی گورداسپور کاہی ہوں۔ہمارے گھر انہوں نے لُوٹ لئے، تباہ کر دیئے وہ تو خیر سرکاری ظلم تھا کہ اس کو لِسٹوں کے مطابق مال د ے رہے تھے آخر ساروں کو کب مِل رہا ہے۔ مگر ان لوگوں نے تو جو مال لِسٹوں میں نہیں لکھا وہ بھی انہیںلا کر دیا گیا ہے۔مَیں نے کہا مَیں آپ کو ایک نئی بات بتائوں اِن لوگوں کا کچھ زیورمیرے پاس پڑا تھا وہ بھی مَیں نے ان کو دیدیا ہے وہ اُن کی لسٹ میں بھی نہیں تھا۔ کہنے لگا یہ تو بڑا ظلم ہے۔ اتنے ظلم کے بعد آپ کا اِن سے یہ معاملہ میری عقل میںنہیں آتا۔ مَیں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے آخر مَیں نے اِن کا مال کیوں رکھ لینا تھا؟ کہنے لگا انہوں نے ہمارا مال وہاں رکھا ہے۔ مَیں نے کہا اگر تم ثابت کر دوکہ میری کو ٹھی کا مال اِس نے رکھا ہے تو مجھے بڑا افسوس ہو گا کہ مَیں نے اُس کو اُس کا مال واپس دے دیا ہے۔لیکن اگراُس نے نہیں رکھا کسی اَور نے رکھا ہے تو یہ تو بتائو کہ کرے کوئی اَور بھرے کوئی ،مارے کوئی اور سزا کسی کو دی جا ئے۔ مَیں نے کہا تم عدالت میں یہی کیا کرتے ہو۔ وہ کہنے لگا ہم اس طرح تو نہیں کیا کرتے لیکن یہ تو بُری بات ہے کہ یہ اپنا مال لے جائیں۔ مَیں نے کہا لے جائیں۔ یہ تو خدائی مصیبتیں ہیں جو آتی رہتی ہیں۔ انسان گِر کے بھی مر جاتا ہے اور زلزلے آتے ہیں تو بھی تباہ ہو جا تے ہیں کسی انسان پر الزام نہیں آتا۔ بہر حال اِس نے میر ا مال نہیں لیا۔ جس نے لیا ہے اُس کا ما ل میرے پاس لا ئو پھر مَیں سوچوں گا کہ رکھ لینا چاہئے یا نہیں چونکہ اِس نے ہما را مال نہیں رکھا اِسلئے ہم نے بھی اس کا مال نہیں رکھا۔
ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کیلئے آیا۔ اُس نے کہا میرے دل میں سخت جلن تھی او ر مجھے مسلمانوں کے افعال دیکھ کر سخت تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ مگرمَیں نے لاہو ر میں آکر آپ کی تقریر سُنی آپ نے یہ بات بتائی تھی کہ ان لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے انہوں نے کیا قصور کیا ہے۔اُس دن سے میرے دل کو تسلّی ہو گئی۔ مَیں نے کہا۔ خیر کوئی معقول او رشرعی آدمی بھی میرے اس خیا ل کی تصدیق کر رہا ہے۔
غرض اسلام جو ہمیں تعلیم دیتا ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ سے دشمن سے دشمن انسان کی گردن بھی شرم سے جُھک جاتی ہے لیکن ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم اس تعلیم پر عمل کرو کہ جس سے دوست بھی دوست کو ذلیل سمجھنے لگ جا ئے۔ ہا ں اسلا م میں یہ بات جا ئز ہے کہ اگر کوئی جُرم قبیلہ یا علاقہ میں ایسا ہو رہا ہو کہ ثابت ہو جائے کہ علاقہ کے لوگ اُس پر پر دہ ڈال رہے ہیں تو سارے علاقہ پر جُرمانہ کر دیا جائے۔
ظلم انسان کو اُخروی سزا کا بھی مستحق بناتا ہے
چہارمؔ۔ یہ حکم گو دُینوی اور سیاسی معلوم ہو تا ہے مگر فرماتا ہے یاد رکھو
کہ تمام اعمال اخلاقی پہلو سے رُوح پر اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر غلطی کرو گے تو تقویٰ کو اور دین کو نقصان پہنچے گا۔ پس دشمن کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دین کے بچانے کے لئے احتیا ط برتو اور کسی پر ظلم نہ کرو۔ اور چونکہ یہ امر تقویٰ پر بھی اثر انداز ہو تا ہے اس لئے فرمایا کہ اِس غلطی کی سزا سیاسی نہیں بلکہ دینی بھی ملے گی اور خدا تعالیٰ اُخروی زندگی میں اِن غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ تم اگر کسی ہندو پر ظلم کرتے ہو یا کسی عیسائی پر ظلم کرتے ہو یا کسی اپنے عقیدہ سے اختلاف کرنے والے پر ظلم کرتے ہو توتم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں نے اِس دنیا میں ظلم کیا ہے مجھے اِسی جگہ کوئی سزامِل جائے گی قیامت کے دن خدا نہیں کہے گا کہ تم ظلم کرنے والے مسلمان ہو اور جس پر ظلم کیا جاتا ہے وہ تمہا رے نزدیک مسلمان نہیں وہ ہندو کہلاتا ہے یا عیسائی کہلا تا ہے بلکہ خدا کہے گا کہ چونکہ تم نے ضمیر کی حُریّت کو کچلا اِس لئے مَیں تمہیں سزادونگا۔
ہر اخلاقی کمزوری مذہب اور روحانیت پر اثر انداز ہو تی ہے
مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے
اعمال کو اکثر اخلاق سے جُدا کر کے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ایک اچھا نمازی تجا رت میں دھو کا کر لیتا ہے۔ بڑا نمازی ہو تا ہے خوب وظیفے کرتا ہے لیکن تجا رت میں آکر پھٹا ہؤاتھان اَور تھانوں میںملا کر دے دے گا کپڑا نا پے گا تو چند گِرہ کم دے گا او ر اُسکا ضمیر اُسے بالکل ملامت نہیں کرے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ڈپٹی صاحب تھے جو تہجد بڑی باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کر تے تھے اور رشوت کے لئے انہوں نے نو کروں کو کہا ہؤا تھاکہ اگرکوئی رشوت لایا کرے تو تہجد کے وقت اُس کو لانے کے لئے کہا کرو دن کو لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے۔غرض انہوں نے تہجد باقاعدہ پڑھنی او ر نو کر نے بھی اُس کو باقاعدہ لا کر بٹھا دینا۔ جب انہوں نے سلام پھیرنا تو اُس نے کہنا جناب میر ا فلاں مقدمہ ہے۔ وہ بڑ ے غصّے سے کہتے او خبیث بے ایمان! تو میرا ایمان خراب کرتا ہے۔ تجھے پتہ نہیں کہ یہ رشوت ہے جو حرام ہے اور اسلام میں منع ہے۔ وہ کہتا حضور! آپ ہی میرے ماں باپ ہیں اگر میرے بچّوں کو اور بھا ئی کو نہیں بچائیں گے تو اَور کون بچائے گا۔ اِس پر وہ کہتے تُو بڑا بے ایمان ہے تو لوگوں کے ایمان خراب کرتا ہے۔وہ کہتا جی مَیں آپ کے سِو ا کس کے پاس گیا ہوں۔ وہ کہتے او خبیث! رکھ مصلّٰی کے نیچے اور جا دُور ہو جا میرے آگے سے۔ پس مصلّٰی کے نیچے رشوت رکھ لینی او ر سمجھ لینا کہ اب مصلّٰی کی برکت سے یہ مال پاک ہو گیا ہے اور پھر اُٹھا کے رکھ لینا۔ تو اکثر لوگ اخلاق اور مذہب کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اخلاقی کمزوریا ں ہو ں تو اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر نماز ہم نے پڑھ لی تو اس کے بعد اگر کسی کو تھپّڑ ما ر لیا یا کسی کا روپیہ لو ٹ لیا یا کسی سے رشوت لے لی یا کسی پر ظلم کر لیا، کسی پر سختی کر لی تو کیا ہے ہم نے نما ز تو پڑھ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کا فی رشوت دے دی ہے اللہ میاں اور ہم سے کیا چاہتا ہے۔ مگر اسلام اِس پر زور دیتا ہے کہ خواہ سیاسی امور ہوں خواہ اقتصادی اپنے محر کا ت کے لحاظ سے سب کے سب دین کا ہی حصّہ ہوتے ہیں اور دین کو بڑھا تے یا کم کرتے ہیں عبادت کو اچھا یا خراب بناتے ہیںاور قومی کام بھی اِسی طرح اخلاق کی حکومت کے نیچے ہیں جس طرح انفرادی احکام۔
اخلاق کا دائرہ صرف افراد تک محدود نہیں
بلکہ قومیں اور حکومتیں بھی اِس میںشامل ہیں!
یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اصل ہے جس میں اِسلام دوسری قوموں سے بالکل ممتاز ہے اور اسی امر پر عمل کر نے سے دُنیا میں صلح اور امان پیدا ہو تی ہے۔ باوجود
اِس کے کہ یورپ انفرادی لحاظ سے انصاف اور آزادی میں ہمارے ملکوں سے بہت بڑھا ہؤا ہے۔ انگلستان میںجو سلوک ایک چور سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک بدمعاش سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک ڈاکو سے کیا جاتاہے، ہم ایک راستباز اور نیک آدمی سے بھی حکومت میں نہیں کرتے۔ غرض انفرادی طورپر وہ لوگ امن اور چَین دینے میں بہت بڑھے ہوئے ہیں لیکن جب حکومت کا معاملہ آتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو ڈپلو میسی تھی اِس سے جھو ٹ کا کیا تعلّق ہے یہ تو اپنے ملک کی خاطر ایسا کیا گیا ہے۔ اُنکی تاریخوں میں صفحے کے صفحے ایسے نکلیں گے جن میں یہ ذکر ہو گا کہ مَیں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا ،مَیں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا اور اس پر فخر کریںگے۔ غرض وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاق صرف افراد کیلئے ہیں حکومت کیلئے نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ قوموں کے لئے بھی اخلاق ہیں، حکومت کیلئے بھی اخلاق ہیں اور افراد کیلئے بھی اخلاق ہیں۔ اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُنکے اخلاق درست رہیں، اگر قوم چاہتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو تو اُسے قومی اور سیا سی طور پر بھی سچ بولنا پڑے گا۔ اُسے قومی اور سیا سی طور پر بھی انصاف کرنا پڑے گا، اُسے قومی او ر سیا سی طور پر بھی قوموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا پڑے گا۔ اور اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک محفوظ رہیں اور اُن کی عزّت قائم رہے تو انہیں انفرادی حقوق کے علاوہ قومی طور پر بھی حقوق اداکرنے پڑیں گے۔ تو یہ نمایا ں فرق ہے اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں۔ دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں ۔ ابھی حال میں ایک سیاسی لیڈر نے کسی جگہ پر بیان دیا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ سیا سی لیڈروں کو جھوٹ بولنے کا حق ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے تو علماء کو بھی یہ حق کیو ںنہیں دیا جاتا۔
اسلام کے لڑائیوں کے بارہ میں تفصیلی احکام
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ
اُن احکام سے ظاہر ہے جو آپؐ اُسوقت دیتے تھے جب آپؐ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کوجنگ پر بھیجتے تھے تو آپؐ اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ تقویٰ اللہ اختیا ر کر و اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور فرماتے تھے اُغْزُوْا بِاسْمِ اللّٰہ وفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۴۵؎ اللہ کا نام لیکر اللہ کی خاطر جنگ کیلئے جا ئو قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ۴۶؎ جو شخص اللہ کا کفر کرتا ہے اُس سے لڑو۔ اِس کے یہ معنے نہیں جس طرح بعض علماء غلط طور پر لیتے ہیں کہ تم کا فروں سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے تم سے لڑائی کی ہے اگر وہ مسلمان ہو جا ئے تو اُس سے لڑائی جا ئز نہیں۔ لڑائی کیلئے تو حکم ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ یعنی جنگ کے لئے نکلنے کی تب اجازت دی گئی ہے جب تم سے پہلے لڑائی کی جا ئے۔ اس لئے کَفَرَ بِاللّٰہِ اس کے بعد جا کر کرلے گا۔ اگر کسی شخص نے لڑائی شروع کردی مگر جب تمہا را لشکر پہنچا تو اُس نے اسلام کا اعلان کر دیا تو وہ ظلم ختم ہو گیا اب تم کو اُس سے لڑنے کی اجا زت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ کا فر ہے اور اُس نے لڑائی نہیں کی تو اُس سے جا کر لڑپڑو۔
وَلَا تَغُلُّوْا۴۷؎ اور قطعی طور پر مالِ غنیمت میں خیا نت یا سرقہ سے کام نہ لو۔
ولاتغدروا۴۸؎ اور بد عہدی نہ کرو ،کسی کو دھو کا مت دو۔
اوّل تو مال غنیمت میں کسی قسم کی ناجائز دست اندازی نہ کرو اور پھر جو سزا دو یا اُن سے وعدے کرو اُن کو کسی بہا نے سے توڑنا نہیں۔ انگریزی حکومت سب جگہ اِسی طرح پھیلی ہے۔ پہلے چھوٹا سا معاہدہ کر لینا کہ چھاؤنی رہے گی اور ایک افسر رہے گا۔ پھر کہا کہ ہمارے فلاں سپاہی کو تمہا رے آدمیوں نے چھیڑا ہے اِس لئے اِرد گِرد بھی سات آٹھ گائوں پر ہم اپنا قبضہ رکھیں گے تاتمہا رے لوگ ہمارے آدمیوں کو کچھ کہیں نہیں۔ پھر اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہمارے آدمی جو اِرد گِرد رکھے گئے تھے اُنکے ساتھ تمہا رے آدمی لڑ پڑے ہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ دارالخلافہ پر اپنا قبضہ رکھیں تا فساد نہ ہو۔ پھر کہہ دیا تم نے فلاں حُکم دیدیا ہے اِس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت کا ہم پر بھی بُرااثر پڑتا ہے اِس لئے آئندہ جو حُکم دیا کریں ہم سے پوچھ کر دیا کریں۔
ولا تمثلوا۴۹؎ او ر مُثلہ کے معنے ہوتے ہیں مرے ہوئے کے ناک کان کاٹ ڈالنا۔ فرماتا ہے کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کا ٹ دیں تو تم اُنکے مُردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کرو۔
ولا تقتلوا ولیداً۔۵۰؎ اور کسی نا بالغ بچّے کو مت مارا کرو۔ یعنی صرف جنگی اور سیا سی سپاہی کو مارو جو لڑنے کے قابل نہیں ابھی نابالغ ہے اُسے نہیں مارنا کیو نکہ وہ بِالبداہت جنگ میں شامل نہیں ہؤا اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اُسی کے ساتھ لڑائی کی جا سکتی ہے جو لڑائی میں شامل ہؤا ہو۔
اب اِس کے مقابل پر جو کچھ پا رٹیشن میں ہؤا وہ کیا ہؤا کسِ طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچہ مارا گیا۔ یہ ایک انتہاء درجہ کا ظلم تھا جو۔ کیا گیا۔ اِس طرف کم اور اُدھر زیادہ مگر ہؤا دونوں طرف۔مجھے یا د ہے لاہور میں ایک رات کو آوازیں آئیں مَیں نے اپنے دفتر کا ایک آدمی بُلوایا اَور کہا جائو پتہ کرو معلوم ہو تا ہے کسی پر ظلم ہو رہا ہے۔ وہ دَوڑ کر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا کہنے لگا ایک ہندو تھا جسے مسلمانوں نے گھیر لیا تھا اور اُس کو مارنے لگے تھے۔ مَیں نے کہا پھرتم نے اُس کو بچایا کیوں نہیں؟ اُس نے کہا میں آپ کو خبر دینے آیا ہوں میں نے کہا وہ تو اب تک اُسے ما ر چکے ہونگے جا ئو جلدی۔ چنانچہ جب وہ واپس گیا تو اُس نے کہا کہ وہ سڑک پر مَرا ہؤ ا پڑا تھا مگر اُس طرف اِس سے کئی گُنا زیادہ ظلم ہؤا ہے۔ہم جس زمانہ میں اُدھر تھے اور یہ لڑائیاں ہو رہی تھیں تو ہمیں پتہ لگتا رہتا تھا کہ کس طرح سے مسلمان مارے جا رہے ہیں، لڑکے مارے جا تے تھے، عورتیں ماری جاتی تھیں اورقسم قسم کے مظالم کئے جا تے تھے۔
پنڈت نہروسے ملاقات کا واقعہ
چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو مَیں جو پہلے اِس طرف آیا ہو ں تو اِسی غرض سے آیا تھا کہ پنڈت نہرو صاحب
یہاں آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے سمجھا کہ اُس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہو رہاہے۔ سردار شوکت حیا ت صاحب کے ہاں وہ ٹھہر ے تھے مَیں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا۔مَیں نے اُن سے کہا ہم قادیان میں ہیں گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان یہ سمجھو تا ہؤا ہے کہ جو ہندو اِدھر رہے گا وہ پا کستانی ہے اور جو مسلمان اُدھر رہ جا ئے وہ ہندوستانی ہے اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے اور وہ لوگ حکومت کے وفادار رہیں۔ قائد اعظم اور گاندھی جی کے اِس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آرہے ہیں اِس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیا ر ہیں بشرطیکہ آپ ہمیں ہندوستانی بنائیں اوررکھیں۔ وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ آپ کیا رکھ رہے ہیں فسادات ہو رہے ہیں، لوگ ماررہے ہیں قادیان کے اِرد گِرد جمع ہورہے ہیں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ کہنے لگے آ پ نہیں دیکھتے اِدھر کیا ہو رہا ہے؟ مَیں نے کہا اِدھر جو ہو رہا ہے وہ تو مَیں نہیں دیکھ رہا مَیں تو اُدھر سے آیا ہوں۔ لیکن فرض کیجیئے اِدھر جو کچھ ہو رہا ہے ویسا ہی ہو رہا ہے تب بھی مَیں آپ سے پو چھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اُس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہئے ہم ہیںہند وستانی، آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہئے اِس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہا ں کے مسلمانوں پر سختی کریںگے؟ کہنے لگے آپ جا نتے نہیں لوگوں میں کتنا جوش پھیلا ہؤا ہے۔ مَیں نے کہا آپ کا کام ہے کہ آپ اِس جوش کو دبائیں۔ بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اُنکی حفاظت کرنی پڑیگی۔ وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو جوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیا ر ہیں آپ انہیں کہیں کہ جو ہتھیار ناجائز ہیں وہ چھوڑدیں۔ مَیں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے مَیں اُن کا لیڈر ہو ں اور مَیں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ جُرم نہ کرو، شرارتیں نہ کرو، فساد نہ کرو، اگرکسی نے ناجائز ہتھیار رکھا ہؤا ہے توکیا وہ مجھے بتا کر رکھے گا۔ مَیں تو انہیں کہتا ہوں جُرم نہ کرو پس وہ تو مجھ سے چھپائے گا او رجب اُس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہؤا ہے تو مَیںاُسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے۔ کہنے لگے آپ اعلان کردیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے۔ مَیں نے کہا اگر مَیں ایسا کہو ں تو میری جماعت تو مجھے لیڈر اِسی لئے مانتی ہے کہ مَیں معقول آدمی ہوں۔ وہ مجھے کہیں گے صاحب! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کے اپنا لیڈر بنایا تھا یہ کیا بیوقوفی کررہے ہیں کہ چاروں طرف سے ہندواور سکھ حملہ کر رہے ہیں اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچائیں گے؟ کہنے لگے۔ کہئیے ہم بچائیں گے،حکومت بچائے گی۔ جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو مَیں نے کہا بہت اچھّا۔ مَیں اُسوقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ لے کر گیا تھا۔ مَیں نے کہا قادیان کے گِرد ۸۰ گائوں پر حملہ ہو چکا ہے جو ہندئووں اور سکھوں نے جلا دیئے ہیں اور لوگ ماردئیے ہیں۔ مَیں یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب مَیں اُن سے کہوں گا کہ دیکھو! اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیو نکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گائوں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہؤا توکیا گورنمنٹ نے اُسے بچایا۔ مَیں کہوںگا ارے گورنمنٹ خدا تھو ڑی ہی ہے۔اُسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کرو دوچار دن میںگورنمنٹ آجائے گی۔ پھروہ اگلے گائوں پر ہا تھ رکھیں گے تین دن ہوئے یہ گائوں جلا تھا کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی؟ مَیں کہوںگا خیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گائوں پر ہاتھ رکھیں گے اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے مگر اس گائوں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا۔ مَیں نے کہا یہ ۸۰ گائوں ہیں۔ ۸۰ گائوں پر پہنچ کر وہ مجھے فاترالعقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں کہ جتنے گائو ں ہم پیش کر رہے ہیں اُن میں سے کسی پر بھی حملہ ہؤا تو حکومت نہیں آئی۔ شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم رکھوں گا۔ مَیں نے کہا کتنی دیر میں؟ کہنے لگے پندرہ دن میں۔ پندرہ دن میں ریلیں بھی چلا دیں گے تار یں بھی کھل جائیں گی، ڈاکخانے بھی کھل جائیں گے اور ٹیلیفون بھی جا ری ہو جائے گا۔ آپ چند دن صبر کریں۔ مَیں نے کہا۔ بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے توآخری حملہ قادیان پر ہؤا۔ جس میںسب لوگوں کو نکال دیا گیا۔ پھر ان حملوں میں بچّے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچّوں کے پیٹوں میںنیزے مار ما ر کے انہیں قتل کیاگیا۔ ہم نے اُسوقت تصویریں لی تھیں جن سے ظاہر ہو تا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں کا ن چِرے ہوئے ہیں پِیٹ چِرا ہؤا ہے انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچّے چھ چھ مہینہ کے او ر سال سال کے تھے جن پر یہ ظلم کیا گیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا تقتلوا ولیدًا اِ ن لوگوں نے تمہا رے بچوں کو ما را ہے اِن لوگوں نے تمہا ری عورتوں کو ما را ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک مسلمان عورت کا ایک پیَر ایک اونٹ سے باندھ دیا اور دوسرا پائوں دوسرے سے باندھ دیا اور پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف چلا دیا تھا اور پھر چِیر کے ما ر ڈالا تھا،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمان عورتوں کی شرمگا ہوں میںنیزے مار مار کر اُن کو مارا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی پر جب کہ وہ مدینہ جانے لگیں اور وہ حاملہ تھی حملہ کیا اور اونٹ کی رسّی کاٹ دی جس سے وہ زمین پر گِر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا اور پھر وہ مدینہ میں فوت ہو گئیں، یہ وہ لوگ تھے جن سے بدلہ لینے کے لئے مسلمان نکلے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک انہوں نے بچّوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا، انہوں نے غیر لڑنے والوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا۔
سیرۃحلبیہؔمیں اِس کے علاوہ یہ نصیحت بھی درج ہے کہ آپ نے فرمایا۔ لا تقتلوا امراۃ۵۱؎ عورت کو بھی نہیں مارنا۔ پھر فرما یا ولا کبیرا فانـیًا۵۲؎ کسی بڈھے کو نہیں ما رنا۔ پھر فرمایا ولا معتزلاً بصومعۃٍ۵۳؎ کو ئی عبادت گذار ہو مسجد وں یا تکیوں میں بیٹھا ہؤا ہو اُس کو بھی نہیں مارنا۔ اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو نہ ما رنے کا حکم دیا ہے مگر یہاں گیا نی چُن چُن کر مارے گئے اور وہاں مولوی چُن چُن کر مارے گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کو نہیں چھیڑنا یہ تو خدا کا نام لے رہے ہیں۔ کیا تم خدا کا نام مٹانا چاہتے ہو؟ چاہے کسی طرح لیتے ہیں لیکن لیتے تو خدا کا نام ہیں اسلئے اِن کو نہیں چھیڑنا۔
پھر فرماتے ہیں۔ ولا تقربو ا نخلاً۔۵۴؎ کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جا ئو۔ یعنی اُنکو نہ کا ٹ دینا کہ کسِی طرح دشمن کو تباہ کریں کیو نکہ تم اُن کو تباہ کرنے نہیں جا رہے صرف اُن کے ضرر کو دُور کرنے کے لئے جا رہے ہو تمہا را یہ کا م نہیں کہ اُن کی روزی بند کردو۔ پھر فرمایا ولاتقطعوا شجرًا۵۵؎ بلکہ کوئی درخت بھی نہ کا ٹو۔ کیو نکہ مسافر بیچارہ اس کے نیچے پناہ لیتاہے، غریب بے چارے اُس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں اور تم لوگ لڑنے والوں سے لڑنے کے لئے جارہے ہو۔ اِس لئے نہیں جارہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے اِس لئے اُن کو نہیں کا ٹنا۔ پھر فرمایا۔ ولا تھدموابنائًا ۵۶؎ کوئی عمارت نہ گراناکیو نکہ ان کے گرانے سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ان کو تکلیف ہو گی۔
اب دیکھو پچھلے فسادات میں کتنے مکان جلائے گئے۔ لاہو ر میں ہزاروں مکان جلا ئے گئے، امرتسر میں ہزاروں مکان مسلمانوں کے جلائے گئے، بلکہ کوئی شہر بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے مکانات دس بیس یا تیس فیصدی نہ جلائے گئے ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لا تھد موا بنائًا۔ایک مکان بھی تم کو گِرانے کی اجازت نہیں کیو نکہ تم اس لئے نہیں جا رہے کہ لوگو ں کو بے گھر کردو بلکہ اسلئے جا رہے ہو کہ ظلم کا ازالہ کرو اس سے آگے تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھا نا۔
اِسی طرح آپؐ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میںڈر اور خوف پیدا نہ کرنا۔ فوجیں جاتی ہیں تو اُن کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہ اتنا ڈرائیں کہ اُن کی جان نکل جائے۔
جنر ل ڈائر کے ہندوستانیوں پر مظالم
چنانچہ ۲۰-۱۹۱۹ء میں امرتسر میں ایک جگہ پر کسی عیسائی عورت کو کسی ہندوستانی نے
ذرا سا مذاق کردیا۔ اُس وقت انگریزی حکومت نے جنرل ڈائرؔ کو مقرر کیا اور اُس نے حکم دیا کہ ہر شریف سے شریف اور بڑے سے بڑا آدمی یہا ں سے گزرے تو گھسٹتا ہؤا جا ئے۔ بڑے بڑے لیڈروں کو سپاہی پکڑ کر گِرا دیتے تھے اور اُسے کہتے تھے کہ یہاں سے گھسٹتا ہؤا چل۔ پھر مُجرم پیش ہوتے تھے تو انہیں بغیر کسی تحقیق کے بڑی بڑی سزائیں دی جاتیں تالوگوں میں خوف پیدا ہو۔
ایک انگریز مجسٹریٹ کا واقعہ
ہما رے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا۔ ایک شخص نے انگریز آفیسر سے لڑائی کی تھی۔ مسٹر ما نٹیگوجو پہلے وزیرِ ہند
تھے انہوں نے خود ذکر کیا کہ یہاں ایک انگریز افسر تھا وہ کسی سے ذرا تُرش کلامی سے بولا تھا تو ہم نے اُ سے پہلی سزادی تھی۔اِس سے پہلے کسی افسر کو سزا نہیں دی تھی۔ وہی اُن دنو ں بدل کے وزیر آباد میں لگا تھا۔ حا فظ غلام رسول ؔصاحب وزیر آبادی شہر میں اچھا رسوخ رکھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا حُسنِ سلوک تھا۔ مسلمانو ں میں سے اکثر اُن کے شا گرد تھے اور ہندو بھی اُن کا بڑا ادب کرتے تھے۔ وہ گلی میں سے گزر رہے تھے اور اُس دن رولٹ ایکٹ کے خلاف جلسہ ہو رہا تھا۔ ہندو مسلمان اکٹھے ہو کر کہہ رہے تھے کہ بائیکاٹ کرو، ہڑ تالیں کرو، یہ کرو وہ کرو۔پاس سے یہ گزرے تو لوگوں نے کہا۔ آئیے آئیے مولوی صاحب !آپ نے نہیں تقریر کرنی۔ انہوں نے کہا مَیں نے تو تمہا رے خلاف تقریر کرنی ہے اگر تم نے وہ تقریر سُن لینی ہے تو چلو۔انہوں نے کہا۔ ہمیں یہ بھی منظور ہے آپ خدا کے لئے ضرور تشریف لے چلیں۔ وہاں کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا۔ تم ہڑتال کا وعظ کر رہے ہو لیکن تم نے سال سال کا غلّہ گھر میں رکھا ہؤا ہے، ہڑتال کر کے تمہا را کیا نقصان ؟روٹی تمہارے گھر میں موجو د ہے، ایندھن تمہارے گھر میں موجود ہے ،بھینسیں تمہا رے گھروں میں ہیں، گھی تمہا رے گھر میں موجود ہے، مصالحہ تمہارے گھروں میںہے، دالیں تمہا رے پا س موجود ہیں تین دن بھی ہڑتال ہو ئی تو تمہیں پتہ نہیں لگے گا۔ لیکن وہ بیوہ عورت جو چکّی پِیس کر شام کو کھانا کھاتی ہے اُس کا کیا بنے گا تمہا ری اس ہڑتال سے وہ مرے گی تمہا را تو نقصان نہیں۔ یہ کہہ کے بیٹھ گئے۔ انہوں نے اِس کو برداشت کر لیا اور کہا اچھی بات ہے ہم ہڑتال نہیں کریں گے۔ جب رولٹ ایکٹ کے بعد ہر جگہ مجسٹریٹ مقرر کئے گئے اور مُجرم پکڑے گئے تو اُن کا نام بھی پولیس نے ڈائریوں میں بھیجا کہ انہوں نے تقریر کی تھی لیکن آگے لکھا کہ انہوں نے تقریر یہ کی کہ ہڑتال نہیں کرنی چاہئے اِس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ حافظ صاحب بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ اُس نے کہا۔ آپ نے تقریر کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو حکومت کی تائید میں ہیں حافظ صاحب نے کہا۔ مَیں نے تقریر کی تھی مگر.......اُس نے کہا ہم مگر وگر نہیں جانتے چھ مہینے قید۔ انہوں نے کہا۔ مَیں تو............کہنے لگا۔ مَیں مَیں کو ئی نہیں۔ تم نے تقریر کی چھ مہینے قید۔ مجھے پتہ لگا تو مَیں نے گورنر کے پاس اپنا آدمی بھجوایا اور مَیں نے کہا۔ ایسے احمق تم لوگ ہو کہ وہ تو یہ تقریر کرتے ہیں کہ ہڑتال نہ کرو اور لوگوں کو سمجھاتا ہے اور تم اُس کو بجائے انعام دینے کے سزادیتے ہو۔ خیر یہ ایسی حیرت انگیز بات تھی کہ آدمی نے مجھے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے اُسی وقت تار کے ذریعہ پولیس کی ڈائری منگوائی۔مسل میں دیکھا تو لکھا تھا کہ تقریر یہ کی کہ تمام کیو ں ہڑتالیں کرتے ہو اِس سے بیوائیں اور غریب مارے جاتے ہیں۔ اِس پر اُس نے تار کے ذریعہ احکا م دیئے کہ مو لوی صاحب کو چھوڑ دیا جا ئے اور سمتھؔ کو اُس نے ڈسمس کردیا کہ تم انگلینڈ واپس چلے جا ئو۔ تو یہ حال تھا کہ یہ پوچھنا بھی پسند نہ کیا تقریر کی کیا؟ بس تقریر کرنا کافی ہے چھ مہینے قید۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ ڈرانا نہیں۔
ایامِ غدر میں انگریز افسروں کی بربریّت
غدر کے واقعات دیکھ لو وہا ں بھی تخویف ہی نظر آتی ہے۔ ہما ری نانی اماں سنایا
کرتی تھیں کہ غدر کے وقت مَیں چھوٹی تھی۔ میرے والد بیمار ہو گئے فوج میں ملازم تھے لیکن اُن دنوں بیمار تھے اور ڈیڑھ ما ہ سے چارپائی سے نہیں اُٹھے تھے میری پانچ چھ سال کی عمر تھی، ہلدی کی طرح اُن کی شکل ہو گئی تھی چارپائی پر پڑے تھے۔ جب انگریز فوج آئی یکدم سپاہی اور انگریز افسر اندر آئے او روہ اسی طرح گھروں میں گھستے تھے ساتھ کچھ ہندوستانی جاسوس لئے ہوئے تھے افسر نے کہا یہاں کو ئی ہے؟ انہوں نے میرے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھائی کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا مَیں تو بیمار پڑا ہوں کہیں گیا ہی نہیں اِس پر افسر نے پستول نکالا اور اُسی وقت انہیں گولی مار کر ہلا ک کردیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحابیؓ پر شدید نا راضگی
لیکن وہاں یہ حکم ہے کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عزیز اور آپؐ کا ایک مقرّب صحابیؓ ایک جنگ پر جاتا ہے اور جب وہ ایک شخص کو مارنے لگتا ہے تو وہ کہتا ہے صَبَوْتُ مَیں صابی ہو گیا ہوں۔ وہ لوگ اسلام کا نام نہیں جا نتے تھے اور مسلمانوں کو صابی کہتے تھے۔ صَبَوْتُ کا یہ مطلب تھا کہ مَیں مسلمان ہو تا ہوں۔ غرض وہ اسلام سے اتنا ناواقف تھا کہ نام بھی نہیں جا نتا تھا۔ کہنے لگا صَبَوْتُ۔ مگر انہوں نے اُس کو ما ر ڈالا۔ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا۔ تم نے اُسے کیوں مارا۔ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ ؐ!اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسلام کیا ہو تا ہے۔ اُس نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ صَبَوْتُ۔ آپؐ نے فرمایا تم نے اس کا دل چِیر کر دیکھا تھا اسکو نہیں پتہ تھا کہ اسلام کا نام کیا ہے لیکن اس کا مطلب تو یہی تھا کہ مَیں اسلام میں داخل ہوتا ہوں۔ تم نے اس کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ ؐ! مَیں نے مارا اِس لئے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا۔ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا تُو قیامت کے دن کیا کرے گاجب خدا تجھ سے کہے گا کہ اِس شخص نے یہ کہا اور پھر بھی تُو نے اُسے قتل کردیا۔ اسامہؓ آپ کے نہا یت ہی محبوب تھے۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس نا راضگی کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا۔اے کا ش!مَیں اس سے پہلے کا فر ہوتا او رآج مَیں نے اسلام قبول کیا ہو تا تاکہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا راضگی کا مورِد نہ بنتا۔۵۷؎ اب کُجا یہ احتیا ط کا حکم اور کُجا یہ کہ یونہی مارے چلے جا تے ہیں تاکہ سارے ملک میں خوف اور ڈر پیدا کردیا جائے۔
اسلام کی طرف سے مفتوحہ ممالک کیلئے سہولتیں مہیّاکرنے کاحُکم
اِسی طرح فرماتے ہیں
کہ جب مفتوحہ ممالک میں جا ئو تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اِس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رُکے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اِس طرح نکلا کہ لوگوں کے لئے گھروں سے نکلنا اورراستہ پر چلنا مشکل ہو گیا۔ اِس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا یا راستہ کو روکا اُس کا جہا د جہاد ہی نہیں ہؤا۔ ۵۸؎
دُنیوی نوبت خانوں کے ذریعہ سپاہیوں
میں جنونِ جنگ پیداکرنے کی کو شش
دنیا کے نوبت خانے جنونِ جنگ پیدا کرنے کیلئے اور سپا ہ میں جوش پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اِس لئے کبھی دشمن کے مظالم سُنائے جا تے ہیں کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ گویا اس سے ملک کو
سخت خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔کہیں اپنی سپاہ کی تعریف کے پُل باندھے جاتے ہیں کہ وہ یوں ملک کے ملک تسخیر کرے گی۔ کبھی فتح کے وقت سپاہیوں کو لو ٹ مار کی تلقین کی جاتی ہے تا کہ اُن کے حوصلے بڑھیں۔ کبھی اُن کے ظلم پر پر دہ ڈالا جاتا ہے غرض ایک دیو انگی پیدا کی جاتی ہے۔
اِسلام جُنون اور وحشت کو دُور کرتاہے
مگر اسلامی نو بت خانہ جیسا کہ مَیں نے بتایاہے وہ ایسے اعلا ن کرتا ہے کہ جس سے
جُنون کم ہو اور وحشت دُور ہو۔ مگر باوجود اس کے وہ ایسے اخلاقی معیا روں پر انہیں لے جاتا ہے کہ اُن کے حوصلے شیروں اور بازوں سے بڑھ جاتے تھے۔چنانچہ اسلام کہتا ہے تم کو مکا ن روکنے کی اجازت نہیں، تم کو سڑکیںروکنے کی اجازت نہیں، تم کو سختی کی اجازت نہیں، تم کو عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بڈّھوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو عام شہریوں کو مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بد عہدی کرنے کی اجازت نہیں، تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کومارنے کی اجازت نہیں ،تم کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ گویا اُس کو ہیجڑا بنا کے رکھ دیتا ہے اور پھر اُمید رکھتا ہے کہ جا اور دشمن کو فتح کر اور پھر اُسکا نقشہ کھینچتا ہے کہ چونکہ ہم نے اُس کو جن باتوں سے روکا ہے وہ سب غیر اخلا قی ہیں اور اُس کی ذہنیت ہم نے اخلاقی بنا دی ہے اس لئے باوجود اسے غیر اخلاقی باتوں سے روکنے کے اُسکی بہادری میں فرق نہیں پڑا۔چنانچہ فرماتا ہے۔ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۵۹؎ اُن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے شہید ہو کر اپنے گوہرِ مقصود کو پا لیا اور وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی اِس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب انہیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونے کی سعادت حاصل ہو تی ہے۔ دیکھو !تم کہتے ہو کہ شرابیں ہم اس لئے پلاتے ہیں تا ہمارا سپاہی پاگل ہو جائے۔ تم کہتے ہو ہم اُسے لوٹنے کی اس لئے اجازت دیتے ہیں کہ اُس کے اندر جوشِ جنون پیدا ہو اور رغبت پیدا ہو ہم اس لئے جھوٹی خبریں مشہور کرتے ہیں تا دشمن بدنام ہو۔
جنگِ عظیم میں جرمنوں کے خلاف
انگریزوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ
مثلاًانگلستان میں مشہور کیاگیاکہ جرمن میںجو صابن استعمال ہو تا ہے وہ سب انگریزمردوںکی چربی سے تیا ر کیا گیا ہے۔بعد میں مَیں نے انگریزوں کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں لکھا تھا کہ یہ جھوٹ ہم نے اِس لئے
بولا کہ تا لوگوں میں جوش پیدا ہو۔ اِسی طرح کہا گیا کہ جرمن والے جو جہاز ڈبوتے ہیں اُن میں ڈوبنے والے سپاہیوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں اور انہیں مارتے ہیں اور اس خبر کو بھی خوب پھیلا یا گیا۔ جب جنگ ختم ہوگئی تو انگریزی نیوی نے ایک ڈھال تحفہ کے طور پر جرمن آبدوز کشتیوں کے افسر کو بھجوائی اور لکھا کہ ہم اس یا دگار میں یہ تحفہ تم کو بھجواتے ہیں کہ جنگ کے دِنوں میں تم نے ہم سے نہا یت شریفانہ سلوک کیا۔ تو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے بعدمیں انہوں نے خود مانا کہ ہم نے یہ جھوٹ اس لئے بولا تھا کہ قوم میں جرمنی کے خلاف غم و غصّہ پیدا ہو۔ مگر اسلام سچائی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِ لُوْا اِعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ کوئی قوم کتنی ہی دشمنی کرے تم نے اُس پر جھوٹ نہیں بولنا ،تم نے اُس پر افتراء نہیں کرنا ، تم نے اُس پر الزام نہیں لگا نا بلکہ سچ بولنا ہے۔ہا ں زیادہ سے زیادہ تم اتنا کر سکتے ہو کہ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کر لو ،اِس سے زیا دہ نہیں لیکن اس صورت میں بھی اگر وہ مثلاً تمہا رے ناک کان کاٹتے ہیں ،تمہا ری عزّت پر حرف لاتے ہیں توتم مارنے کے توجنگ میں مجاز ہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں کہ مُردہ ناک کان کاٹو کیو نکہ مُردہ کی زندگی اب ختم ہو چکی ہے۔تم زندہ سے اپنا بدلہ لے سکتے ہو مُردہ سے بدلہ لینے کی تم کو اجازت نہیں۔
حضرت مالکؓ کی غیر معمولی شجاعت اور اُن کا واقعہ شہا دت
پھر فرماتا ہے چونکہ ہم نے
اخلا قی بنیا دوں پر مسلمانوں کو قائم کردیا ہے اسلئے مسلمان سپاہی ایسا ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُکوئی تو ایسا ہے کہ اُس نے اپنے وعدے پورے کر دیئے ہیںاورکوئی ابھی انتظار میں ہے کہ جب بھی موقع ملے گامَیںاپنا سب کچھ قربان کرکے پھینک دونگا۔ چنا نچہ مشہور واقعہ ہے کہ بدرؔکی جنگ کے بعد جب صحابہؓ نے آکر بیان کیا کہ لڑائی ہوئی تو ہم یُوں لڑے او ر ہم نے یوں بہادری دکھا ئی تو ایک صحابی ؓ جن کا نام مالکؓ تھا وہ اتفاقاً لڑائی میں نہیں گئے تھے کیو نکہ بدرؔ کی جنگ میں جا نے کا سب کو حکم نہیں تھا۔ جب وہ یہ باتیں سنتے تھے تو انہیں غصّہ آجاتا تھا اور وہ مجلس میں ٹہلنے لگ جا تے تھے اور کہتے تھے کیا ہے یہ لڑائی جس پر تم فخر کرتے پھرتے ہو موقع مِلا تو ہم دکھائیں گے کہ کسِطرح لڑا جاتا ہے۔ اَب بظاہر غرور کرنے والا آدمی بُز دل ہؤا کرتا ہے مگر وہ اخلاص سے کہتے تھے۔ جب اُحد ؔکا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی لڑنے کا موقع دے دیا جب فتح ہو گئی تو چونکہ وہ بھوکے تھے کھا نا انہوں نے نہیں کھا یا تھا چند کھجوریں اُن کے پاس تھیں جنگ کے میدان سے پیچھے آکر انہوں نے ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھا نی شروع کیں۔ اتنے میں پیچھے سے خالدؔ نے آکر حملہ کیا اور اسلامی لشکر اس اچانک حملہ سے تِتّر بتّر ہو گیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر مشہو ر ہو گئی کہ آپؐ شہید ہو گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ پیچھے آکے ایک پتّھر پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔مالک ٹہلتے ٹہلتے جو وہاں پہنچے تو کہنے لگے عمرؓ!تمہا ری عقل ماری گئی ہے خدا نے اسلام کو فتح دی ،دشمنوں کو شکست دی اور آپ ابھی رو رہے ہیں۔ عمرؓ کہنے لگے مالکؓ !تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہؤا؟ انہوں نے کہا کیا ہؤا؟ کہنے لگے پہاڑ کے پیچھے سے یکدم دشمن نے حملہ کیا، مسلمان بِالکل غافل تھے حملہ میں لشکر بالکل تِتّر بتّر ہو گیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ چند کھجوریں جو اُن کے پاس تھیں اُن میں سے ایک اُن کے ہا تھ میں باقی تھی وہ کھجور انہوں نے اُٹھائی اور اُٹھا کر زمین پر ماری اور مار کے کہنے لگے۔ میرے اور جنّت کے درمیا ن اِس کھجو ر کے سوا اَور کیا روک ہے۔ غرض وہ کھجو ر انہوں نے پھینک دی اورپھر کہنے لگے عمرؓ!اگر یہ بات ہے تو پھر بھی اِس میں رونے کی کونسی بات ہے جدھر ہمارا محبوب گیا اُدھر ہی ہم بھی جائیں گے۔ یہ کہا اور تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کر دیا اور اس بے جِگری سے لڑے جب ایک ہا تھ کاٹا گیا تو دوسرے ہا تھ سے تلوار پکڑ لی، دوسرا ہاتھ کاٹا گیا تو منُہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرنی شروع کی۔جب انہوںنے مُنہ بھی زخمی کر کے خود وغیرہ کاٹ دی تو لاتیں ہی مارنی شروع کردیں، آخر انہوں نے ٹا نگیں بھی کاٹ دیں۔ جنگ کے بعد رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی بہن سے پتہ لگا کہ وہ رہ گئے ہیںتو آپؐ نے فرما یا اُن کی تلا ش کرو۔ صحابہؓ تلا ش کرنے گئے تو انہوں نے کہا ہم نے کہیں اُن کی لاش نہیں دیکھی۔ بہن نے کہا وہ وہاں گئے ہیں اور اِس نیت سے گئے ہیں کہ مَیں وہاں شہادت حاصل کرونگا اَور کہیں وہ نہیں دیکھے گئے ضرور وہیں ہو نگے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ضرور ہونگے تم جا ئو اور تلا ش کرو۔ چنا نچہ وہ پھر گئے او ر سب جگہ تلاش کرتے رہے کہنے لگے۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ ؐ! اور تو کہیں پتہ نہیں لگتا ایک لا ش کے ستّر ٹکڑے ہم کو ملے ہیں وہ اگر ہو تو ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بہن کو کہا کہ جا ئو اور دیکھو۔ اُن کی ایک اُنگلی پر نشان تھا۔ بہن نے اُسے پہچان کر کہا ہاں! یہ میرے بھائی کی لا ش ہے۔۶۰؎ یہ کتنا عظیم الشان بہادری کا مقام ہے اور کتنی بڑی قربانی ہے۔ کیا دنیا کی کوئی تاریخ اس قسم کی مثال پیش کر سکتی ہے۔ لشکر شکست کھاتے ہیں تو بھا گتے ہوئے سانس بھی نہیں لیتے پھر ہار تے ہیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے مگر عمرؓ جیسا بہادر روتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ کیا بیہودہ بات ہے۔ کیا تم اِس لئے روتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیا لینا ہے۔
سورۃ العٰدیٰت کی لطیف تفسیر
پھر نوبت بجا کر سوار تو سوار گھوڑوںمیں بھی جوش پیداکیا جاتا تھا۔ اِسی طرح اِس نوبت خانہ سے بھی کام لیا گیا ہے۔
فرماتا ہے وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًاoلا فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْ حًا oلا فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًاoلا فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًاoلا فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا۶۱؎
اِن آیا ت میں اللہ تعالیٰ اسلامی لشکر کے متعلق یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کسِ شکل اور شان سے مخالفین کے مقابل پر نکلے گا۔فرماتا ہے۔ وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا۔عادیؔکے معنے ہوتے ہیں دَوڑنے والا اور ضَبْحٌ گھوڑے کی دَوڑوں میںسے ایک خاص دَوڑ کانام ہے جس میں گھوڑا سرپٹ دَوڑ پڑتا ہیپس وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دَوڑتے وقت ضبح چال اختیار کرتے ہیں۔ یعنی شدّتِ جوش سے سر پٹ دَوڑپڑتے ہیں اور یہ طریق ہمیشہ فخر اور اظہارِ بہادری کے لئے اختیا ر کیا جاتا ہے۔ ضَبْحٌ کے دوسرے معنے گھوڑے کا اگلے پائوں لمبے کرکے ما رنا ہو تا ہے جس سے اُس کے بازوئوں اور بغلوں میں فا صلہ ہو جا ئے۔ پس دوسرے معنے اس کے یہ ہو نگے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہا دت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اگلے پائوں لمبے کر کے مارتے او ر اُچھل کر دَوڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں اُن کی بغلوں اور بازوئوں میں لمبا فاصلہ ہو جاتا ہے۔ یہ چیز شدّتِ شوق پر دلا لت کر تی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ گھوڑے کے اندر تو کوئی شدّتِ شوق نہیں ہوتی گھوڑے میں شدّتِ شوق اپنے سوار کی وجہ سے پیدا ہو تی ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میرے سوار کے اند ر جوش پایا جاتا ہے تو گھو ڑا بھی اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے دَوڑتے وقت گھوڑے کے سینہ سے آواز نکلنے کے ہیں جو عزمِ مُقبلانہ پر دلالت کر تی ہے۔ جب نہ سوار کو موت سے دریغ ہو تا ہے نہ گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کرتاہے۔ گو بظاہر اس جگہ گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مُراد سواروں کی حالت کا بتانا ہے کیونکہ گھوڑا اپنے سوار کی قلبی حالت سے متأ ثر ہوتا ہے اور یہ اُسی وقت ہو تا ہے جبکہ سوار کی دِلی حالت اُس کے تمام جوارح سے ظاہر ہونے لگے۔ مثلاً دَوڑتے ہوئے سوار شوق کی شدّت کی وجہ سے ایک ہی وقت میںایڑیا ں مارنے لگے مُنْہ سے سیٹی بجا نے لگے یا اُسے شاباش کہنے لگے۔ اِسی طرح باگ کو کھینچ کھینچ کر چھو ڑے آگے کو جُھک جا ئے تو گھو ڑا سمجھ جاتا ہے کہ میرے سوار کی حالت والہانہ ہو رہی ہے او ر مجھے بھی ویسا ہی بننا چاہئے تب وہ خود بھی اُس کے دل کی کیفیت کے مطابق دَوڑنا شروع کردیتا ہے۔ پس اِس آیت میں مسلمان سواروں کے دل کی کیفیت کی شدت گھوڑوں کی حالت سے بتائی ہے کہ ان کے جذبات اِس قدر بھڑک رہے ہو نگے کہ اُس کا اثر خود گھوڑوں پر بھی جا پڑے گا اور وہ اپنے سوار کی قلبی کیفیت کے مطابق قابو سے باہرہو جائیں گے او ر کودیں گے او رلڑائی میںجاتے ہوئے گلے سے اُن کی آوازیں نکلیں گی او ر لمبے لمبے ڈگ۶۲؎ بھرتے ہوئے لڑائی کے میدان میں اِس طرح جائیں گے کہ گویا کسی بڑی شادی میں شامل ہونے کے لئے جا رہے ہیں۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان مجا ہد کثیر التعداد دشمن سے ڈرے گا نہیں بلکہ جنگ کو ایک نعمت غیر متر قبہ سمجھے گا او ر یقین رکھے گا کہ اگر مَیں ما را گیا تو جنت میں جائونگا او ر اگر زندہ رہا تو فتح حاصل کرونگا کیونکہ اِن دو کے سِوااَور کوئی تیسری صورت مسلمان کے لئے نہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار سے کہو کہ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیََیْنِ ۶۳؎ یعنی تم جو ہم سے دشمنی کرتے ہو اور ہم پر حملے کرتے ہو تو یہ بتائو کہ تمہیں ہمارے متعلق کیا امید ہے؟ دو ہی چیزیں ہماری ہیں تیسری تو ہو نہیں سکتی۔ یا تو یہ کہ ہم زندہ رہیں تو جیت جائیں اور یا ہم ما رے جائیں اور جنت میں چلے جائیں۔ اِن دونوں میں سے کونسی چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ آیا ہمارا جیت جا نا ہمارے لئے نقصان دہ ہے یا ہمارا جنت میں چلے جا نا دونوں ہمارے لئے برابر ہیں۔ ہم زندہ رہے تو فتح حاصل کریںگے اور اگر مَر گئے تو جنت میں جائیں گے۔ پس تم تو جو بھی ہمارے متعلق خواہش رکھتے ہو وہ ہمارے لئے اچھی ہے۔ تم کہتے ہو مر جا ئو حالانکہ اگر ہم مر گئے تو ہم جنّت میں چلے جائیں گے۔
ایک صحابیؓ کا بیان کہ اُسے اِسلام
قبول کرنے کی کیسے تحریک ہوئی؟
چنانچہ ایک صحابیؓ کے متعلق آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں آخر میں مسلمان ہؤا تھا اور میرے مسلمان ہونے کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک جگہ ایک قبیلہ میں مہمان تھا۔ انہوں نے کہا ہم نے کچھ مسلمان گھیرے
ہیں چلو تم بھی لڑائی میں شامل ہو جائو۔ مجھے اُس وقت مسلمانوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ مَیں اپنے دوستوں کی خاطر چلا گیا۔ وہاں انہوں نے ایک صحابیؓ کو نیچے اُتارا اوراُس کے سینہ میں نیزہ مارا۔ جب نیزہ مارا گیا تو اُس نے کہا فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ۔۶۴؎ مجھے کعبہ کے ربّ کی قسم مَیں کامیاب ہو گیا۔ کہنے لگا مَیںسخت حیران ہؤا۔ مجھے مسلمانوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ کوئی پاگل تھا کہ تم نے اس کو نیزہ مارا اور یہ گھر سے دُور بے وطنی میں اوراپنے رشتہ داروں سے الگ بجا ئے اِس کے کہ روتا چِلّاتا یہ کہتا ہے کہ مَیں کا میا ب ہو گیا۔ کامیابی اِس نے کونسی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہامسلمان پاگل ہی ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ موت میںبڑی خوبی ہے۔ جب انہیں ما را جا ئے تو کہتے ہیں ہم کا میا ب ہو گئے۔ وہ کہتا ہے میرے دل میں یہ خیا ل پید اہؤا کہ ایسی قوم کو تو دیکھنا چاہئے چنانچہ مَیں چوری چوری نکلا اور مدینہ گیا۔ وہاں دوتین دن رہنے کے بعد اسلام کی صداقت ثابت ہو گئی اور مَیں مسلمان ہو گیا۔ پھر انہوں نے کرتہ اُٹھا یا اور کہنے لگا دیکھو! میرے بال کھڑے ہیںمَیں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو بال کھڑے ہو جا تے ہیں کیونکہ وہ ایسا نظّارہ تھا کہ جنگل میں ایک شخص اپنے وطن سے دُور فریب اور دھو کا بازی سے مارا گیا مگر بجائے اس کے کہ وہ غم کرتا روتا اور اپنے بیوی بچوں کو یاد کرتا وطن کو یا د کرتا وہ کہتا ہے فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ۔ کعبہ کے ربّ کی قسم! مَیں کا میا ب ہو گیا۔
اِس کے مقابلہ میں کا فر کو کیا اُمید ہو سکتی ہے اُس کے لئے بھا گنا تو جُرم ہے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ بھا گو گے تو جہنم میں جائو گے اِس لئے مسلمان تو بھا گ سکتا ہی نہیں وہ آخر وقت تک کھڑا رہے گا۔ اس کے لئے صرف دو ہی صورتیں ہیں تیسری کوئی صورت نہیں۔ یا تو وہ مر جائے گا او ر یا جیت جائے گا اور دونوں اُس کے لئے اچھی باتیں ہیں۔ جیتے گا تو جیت گیا اور مرے گا تو جنت میں جا ئے گا۔ اور کافر یا تو مر گیا اور دوزخ جائے گا اور یا بھا گے گا اور شکست کھائے گا۔ اور جسے ایک طرف اپنی شکست کا خطرہ ہو اور دوسری طرف موت کا اُ س سے بہادری کب ظاہر ہو سکتی ہے۔
کوئٹہ میں ایک فوجی افسر سے ملاقات
تین چار سال کی بات ہے مَیں کو ئٹہ گیا تو وہاں مجھے کچھ فوجی افسر ملنے آئے۔ اِدھر اُدھر کی
باتیں ہوتی رہیں اِسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا مَیں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے ورنہ اس کے بغیر پا کستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے دن میرے پر ائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صا حب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے الگ بات کرنی ہے۔ مَیں نے اُن کو لکھا کہ آپ کو کو ئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو کَل مجھے مِل کر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک پر ائیویٹ بات کرنی ہے۔ مَیں نے کہا لے آئو چنا نچہ وہ آگئے۔ مَیں نے کہا فرمائیے آپ نے کو ئی الگ بات کرنی تھی۔ کہنے لگے جی ہاں۔ مَیں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے او ر اِس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے یہ بات آ پ نے کِس بنا ء پر کہی تھی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے؟ مَیں نے کہا مَیں خوب جا نتا ہوں کہ اُس کے پاس فوج زیادہ ہے۔ کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جا نتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی اُن کے پاس ہیں؟ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔ کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیا ر کر کے دے دیتی ہے؟ مَیں نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پا س اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود جو ہمارا حصّہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے ہا ں ہوائی جہاز وں کے چھ سکوارڈن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے۔مَیں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔کہنے لگے جن کا لجوں میں وہ پڑھے ہیں اُنہی کالجو ں میں ہم بھی پڑھے ہیں ہمیں اُن پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں۔ مَیں نے کہایہ بھی ٹھیک ہے۔ کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور اُنکی زیادہ ہے، گولہ بارود اُن کے پاس زیادہ ہے، توپیں اُن کے پاس زیادہ ہیں، ہو ائی جہا ز اُن کے پاس زیادہ ہیں، آمد اُن کی زیادہ ہے اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے ہیں، ہمارے اند ر کوئی خاص لیا قت نہیں تو پھر آپ نے کس بنا ء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے؟ میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِکہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجا یا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اِسی لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہو کر ڈرا نہ کرو۔ خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اسلئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھیئے۔ بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کوطاقت دیگا۔ پھر مَیں نے کہا۔ مَیں تم کو ایک موٹی بات بتاتا ہوں۔تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے گئے تو جنت میںجا ئو گئے۔ کہنے لگا۔ جی ہاں! مَیں نے کہا اب دو ہی صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہوگے تو جیت جائو گے اور اگر مارے جائو گے تو جنت میں چلے جا ئو گے اب بتائو کیا تمہا رے اند ر مرنے کا کوئی ڈر ہو سکتا ہے؟ کیو نکہ تم سمجھتے ہو کہ اگرمَیں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور لڑتا رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جیت جا ئوں گا یا جنت میں چلا جا ئونگا۔ پس تمہا ری بہادری کا ہندو کسِ طرح مقابلہ کر سکتا ہے وہ تویہ جا نتا ہے کہ اگر مَیں مر گیا تو بندربن جائونگا یا سؤر بن جا ئونگا یا کُتّا بن جائونگا۔ یہ اُس کا تناسخ ہے۔ تم تو یہ جانتے ہو کہ مر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مرکے کُتّا بن جائونگا ،سؤر بن جائونگا، بندر بن جائونگا۔ تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اُسے تو کُتّا یا سؤر بننے کا ڈر لگا ہؤا ہے اور تم میں جنت جا نے کا شوق ہے تمہا را اور اُس کا مقابلہ کیسے ہو سکتاہے۔تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کیلئے دلیری کے اتنے مواقع پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ اُسکو کو ئی گزند آہی نہیں سکتی۔
اِس کے بعد فرما تا ہے۔فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا۔ مُوْرِیْ کے معنے آگ نکالنے کے ہوتے ہیں اور قَدْحًا کے معنے ہوتے ہیں ما رکر۔پس فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاکے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایک چیز کو دوسری سے ما ر کر آگ جلا تے ہیں۔ جیسا کہ پہلے زمانہ میں لوگ چقماق سے آگ جلایا کرتے تھے۔ اِس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ گھوڑوں کے سُموں سے تیز دَوڑنے کی وجہ سے جو آگ پیدا ہو۔ لیکن اس جگہ پر سُموں کے معنے اس لئے نہیں کئے جا سکتے کہ وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا میں اِس کا ذکر آچکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ گھوڑے دَوڑتے ہیں اور انہیں سانس چڑھ جاتا ہے اورجس کو سانس چڑھے گا اُس کے سُموں سے آپ ہی آگ نکلے گی۔ پس یہاں آگ جلانے کا ذکر ہے اور حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اُترتے ہیں اور کھا نے وغیر ہ پکا تے ہیں اور آگ جلاتے ہیں۔ اِس میں سواروں کی بہا دری اور اطمینا ن کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دشمنوں سے ڈریں گے نہیں، کھلے کیمپ لگائیں گے اور آگ روشن کریںگے۔ دشمن سے ڈر کر روشنیاں بُجھائیں گے نہیں۔ جیسے فتح مکّہ کے وقت ابو سفیا ن کا روشنیوں سے پریشان ہو جا نا اسکی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب لشکر اپنے دشمن سے ڈرتا ہے تو شبخون سے بچنے کے لئے اپنے پڑائو کا نشان نہیں دیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان خوب روشنی کرکے پڑائو کریںگے اور دشمن سے ڈریں گے نہیں کیو نکہ کہیں گے کہ اُس نے ہمیں مارنا ہی ہے نا تو مر کر جنت میں چلے جائیں گے ہمیں ڈر کس بات کاہو۔
حضرت ضرارؓ کا واقعہ
تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی جرنیل نے بہت سے سپاہی مار دیئے اسلامی کمانڈر انچیف نے ضرار بن اَزورؓ کوبلایا
او رکہا۔ تم جائو تم بڑے بہادر آدمی ہو اور اُس سے جاکر لڑو۔ بہت سے مسلمان مارے گئے ہیں اور بد دلی پھیل رہی ہے۔ وہ لڑنے کے لئے گئے جب اُس کے سامنے کھڑے ہوئے تو یکدم واپس بھا گے۔ مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہوئی اور انہوںنے بہت تعجب کیا کہ ایک صحابیؓ ہے اور وہ اِس طرح بھا گا ہے۔ کمانڈر نے ایک شخص سے کہا تم اس کے پیچھے پیچھے جائو اور دیکھو کیا بات ہے؟ جب وہ پہنچا تو ضرارؓ اپنے خیمہ سے نکل رہے تھے۔ انہوں نے کہا ضرارؓ!آج تم نے بڑی بد نامی کرائی ہے۔ تمہا رے دوست افسوس کررہے ہیں کہ تم نے اِس طرح اسلام کو ذلیل کیا، تم کیوں بھا گے تھے؟ انہوں نے کہا مَیں بھا گا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مَیں نے صبح اتفاقاً زِرہ پہنی تھی جب مَیں اس کے سامنے گیا تو میرے دل میں خیا ل آیا کہ اتنا بڑا بہادر ہے کہ اِس نے کئی آدمی مارے ہیں مَیں نے زِرہ پہنی ہو ئی ہے۔فرض کرو اگر اُس نے مجھے ما ر لیا تو اللہ مجھ سے پو چھے گا کہ ضرار کیا تم میرے ملنے سے اتنا گھبراتے تھے کہ زِرہیں پہن پہن کر جاتے تھے۔ تو مَیں نے خیا ل کیا کہ اگر مَیں مر گیا تو ایمان پر نہیں مروں گا۔ چنانچہ میں بھا گا ہؤا اندر گیا اور مَیں نے وہ زِرہ اُتار دی۔ چنانچہ دیکھ لو اب مَیں صرف کُرتہ پہن کر اس کے مقابلہ کیلئے جا رہا ہوں۔ تو اِسقدر اُن کے اندر مرنے کا شوق ہو تا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا ایک بہت بڑی سعادت اور نعمت ہے۔
پھر فرماتا ہے فَا لْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا۔یہ سپاہی باوجود دیوانگی سے کلّی طورپر روکے جانے کے اور شراب کے حرام ہونے کے اور لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکے جانے کے اتنے دلیر ہونگے کہ دشمن کے پاس پہنچ کر ڈیرے ڈال دیں گے اور رات کو حملہ نہیں کریںگے بلکہ صبح ہونے پر حملہ کریںگے تا کہ بے خبر اور سوتے ہوئے دشمن پر حملہ نہ ہو اور اُسے لڑنے کا موقع ملے۔گویا چونکہ شہا دت کے دِلدادہ ہو نگے ،دشمن کو مقابلہ کا موقع دیں گے۔ دوسرےؔ براء ت اور توبہ کا موقع دیں گے کہ اگر وہ چاہے تو اسلام کا اظہا ر کرے۔ تیسرےؔ غلط فہمی سے بچیں گے کہ غلطی سے کسی اَور پر حملہ نہ ہو جا ئے۔
فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا۔ اِس میں یہ بتایا ہے کہ رات کو ڈیرے اس لئے نہیں ڈالیں گے کہ دشمن کے قریب آکر جوش ٹھنڈا ہو گیا ہے بلکہ مَردانگی اور بہا دری کے اظہا ر کے لئے ایسا کریںگے ورنہ صبح ہونے پر جب دشمن ہو شیا ر ہو جائے گا اُن کی روشنیوں کو رات کو دیکھے گا صبح اُنکی اذانیں سُنے گا اور لڑنے کے لئے آمادہ ہو جائے گا اور پھر یہ والہا نہ طور پر اُس کی طرف گھوڑے دَوڑائیں گے حتّٰی کہ صبح کے وقت جب شبنم کی وجہ سے غبار دباہؤا ہو تا ہے اُن کے تیز دَوڑنے کی وجہ سے اُس صبح کے وقت بھی زمین سے گرد وغبار اُٹھے گا۔
پھر فرماتا ہے فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا۔جس وقت وہ دَوڑتے ہوئے اور گرد اُڑاتے ہوئے پہنچیں گے بغیر تھمے دشمن کی صفوں میں ُگھس جائیں گے۔ بِہٖمیں صبح کی طرف بھی ضمیر پھیری جا سکتی ہے۔اگر صبح کی طرف ضمیر پھیر یں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ بہادر رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ صبح کی روشنی میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے اس کی صفوں میں گُھس جائیں گے۔اور اِس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دشمن کے پراگندہ ہو نے کی حالت میں خوا ہ دن ہو یا رات حملہ نہیں کریںگے بلکہ جب وہ صف آرا ہو جا ئے تب اس پر حملہ کریںگے۔
اِس آیت میںاُن کی بہا دری کی طرف دو اشارے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سامنے کھڑے ہو کر پہلو بچاتے ہوئے حملہ نہیں کریںگے بلکہ جوش کی فراوانی میں دشمن کی صفوں کے اندر گُھس جائیں گے حالانکہ جب خطرہ بڑھ جاتا ہے دشمن نرغہ میں لینے کے قابل ہو جاتا ہے۔
دوسرا اشارہ یہ ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو چِیر دیں گے۔یعنی اُن کا حملہ اتنا شدید ہو گا کہ سورج نکلنے کے بعد حملہ کرنے کے باوجود دھوپ نہیں آنے پائے گی کہ دوپہر سے پہلے پہلے وہ دشمن کو کا ٹ کر رکھ دیں گے اور اُس کے اوپر غالب آجائیں گے۔
دشمن کی صفوں کو چِیرتے ہوئے دو
نوجوان لڑکوں کا ابو جہل کو مار گرانا
فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًاکے نظارے صحابہؓ میں نہایت شاندار ملتے ہیں۔ بدرؔ کی جنگ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ مَیں کھڑا تھا اور ابو جہل ہم سے تین گُنا لشکر لے کر کھڑا تھا، پھر اُن
کے پاس زِرہیں اور سامانِ جنگ بھی زیادہ تھا اور وہ خود پہنے ہوئے تھے۔دل میں خیا ل پیدا ہؤا کہ آج میں اچھی طرح لڑوں گامگر پھر مَیں نے اپنے اِدھر اُدھر جو دیکھا تو میں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو انصار ی لڑکے کھڑے ہیں جن کی پندرہ پندرہ سال کی عمر تھی۔ دل میں خیا ل آیا کہ آج تو بڑی برُی ہوئی آج تو لڑنے کا موقع تھا اور اِردگِرد لڑکے کھڑے ہیں انہوں نے کیا کرنا ہے؟ دل میں یہ خیا ل آرہا تھا کہ ایک لڑ کے نے مجھے کہُنی ماری۔ مَیں نے اُس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا۔ چچا نیچے ہو کر میری بات سنو۔ مَیں نے اپنا کا ن اس کی طرف کیا تو اُس نے کہاچچا! مَیں نے سُنا ہے کہ ابو جہل خبیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیفیں دیا کرتا ہے میرے دل میں اُس کے متعلق غصّہ ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ اُسے ما ر وں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں مَیں حیرت زدہ ہو گیا کیو نکہ باوجود اتنا تجربہ کا ر جرنیل ہونے کے میرے اندر بھی یہ خیا ل نہیں آتا تھا کہ مَیں ابو جہل کو مار سکتا ہوں کیو نکہ سامنے دشمن کی ساری صفیں کھڑی تھیں،دوتجربہ کا ر جرنیل اُس کے سامنے پہرہ دے رہے تھے اور وہ بیچ میں گھرا ہؤا تھا۔ لیکن میری حیرت ابھی دُور نہیں ہوئی تھی کہ دوسری طرف سے مجھے کہنی لگی۔ مَیں اُس طرف متوجہ ہؤا تو دوسرا نوجوان مجھے کہنے لگا چچا! ذراکان نیچے کر کے میری بات سُنیں تا دوسرا نہ سُنے کیونکہ رقابت تھی۔ کہنے لگے مَیں نے کان نیچے کیا تو اُس نے بھی یہی کہا کہ چچا! مَیں نے سُنا ہے ابوجہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دُکھ دیا کرتا ہے ،میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اُس کو ماروں مجھے بتائو وہ کو ن ہے؟وہ کہتے ہیں تب تو میری حیرت کی کو ئی انتہاء نہ رہی۔ مَیں نے سمجھا بچّے ہیں جوش میں کہہ رہے ہیں۔ مَیں نے اُنگلی اُٹھا ئی اور کہا یہ دیکھو دشمن کی صفیں کھڑی ہیں اِن کے پیچھے وہ شخص جس کے آگے دو آدمی ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے۔ وہ کہتے ہیں میری اُنگلی ابھی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ وہ لڑکے باز کی طرح کودے اور صفوں کو چِیرتے ہوئے اُس تک جا پہنچے۔جا تے ہی ایک پر ابو جہل کے بیٹے عکرمہؔ نے وار کیا اور اُس کا ہا تھ کا ٹ دیا لیکن اُس کا دوسرا ساتھی پہنچ گیا۔ جس کا ہاتھ کاٹاگیا تھا اُس نے جلدی سے اپنے کٹے ہوئے ہا تھ پر پا ئوں رکھا اور زور سے جھٹک کر اُسے جسم سے الگ کر دیا اور پھر دوسرے کے ساتھ شریک ہو کر ابوجہل پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گِرادیا۔ غرض لڑائی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے ابوجہل کو جا کر ختم کر دیا۔ یہ تھا مسلمانوں کا جوش کہ چھوٹے بچّے بھی جا نتے تھے اور وہ اپنے سے تین گُنا لشکر کی صفوں میں گھس جا تے تھے او راپنی جا نو ں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور منٹوں میں لڑائی ختم ہو جاتی تھی۔یہ عجیب بات ہے کہ صحابہؓ نے جتنی جنگیں کی ہیں وہ صرف چند گھنٹوں میں ہی ختم ہو گئیں۔ بدر ؔچند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ،اُحدؔچند گھنٹوں میں ختم ہوگئی اور حُنینؔچند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ،مکّہ کی لڑا ئی چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی۔ غرض ایک دو گھنٹہ کے اندر دشمن بھاگ جاتا تھا۔ سوائے تین لڑائیوں کے اور وہ تینوں قلعہ بند لڑائیاں تھیں۔ مثلاً احزابؔکی لڑائی تھی اس میں صرف دفاع کا حُکم تھا اور بیچ میں خندق بنا ئی ہو ئی تھی اس میں دیر لگی یا بنو قریظہ کا محاصرہ ہؤا تو قلعہ میں تھے او رقلعہ توڑنے میں دیر لگی یا خیبر پر جب حملہ ہؤا تو اُس میں دیر لگی۔ کیو نکہ خیبر میں بھی وہ قلعہ میں تھے لیکن اِن کے علاوہ جب بھی کوئی لڑائی ہوئی چند گھنٹوں کے اندر ختم ہو گئی او رچند گھنٹوں میں دشمن تباہ ہو گیا۔
غرض اِن آیا ت میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں جوش دلانے کے لئے جو تدابیر اختیا ر کی جاتی ہیں کبھی شراب پلا ئی جاتی ہے، کبھی لو ٹ مار کی اجا زت دی جاتی ہے، کبھی شبخون مارنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اِن سب کو منع کرنے کے باوجود اسلامی جنگ کے لئے جب نوبت بجے گی تو اسلام کے سپاہی دیوانہ وار آگے بڑھیں گے اور گھنٹوں میں دشمن کی صفوں کو توڑ دیں گے اور قطعی طور پر اُن کو موت کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔
دُنیوی نوبت خانوں کی تیسری غرض
تیسریؔ غرض نوبت خانہ کی یہ ہؤا کرتی ہے کہ خوشی کی تقریبات کے موقع پر مثلا ً بادشاہ دربار
کرے یا اُس کا جلوس نکلے تو نوبتیں بجا کر تی تھیںاور اِسی طرح بادشاہ کی آمد یا کسی بڑی تقریب کی خبر لوگوں کو دی جاتی اور بادشاہی اعلان سے لوگوں کو واقف کیا جاتا تھا۔
اِسلامی نوبت خانہ رات دن میں پانچ دفعہ بجتا ہے
مَیں نے دیکھا کہ اسلام نے یہ بھی نوبت خانہ پیش کیا ہے
اور اس کیلئے بھی ایک اسلامی نوبت مقرر کی ہے مگر اسلامی نوبت خا نہ اور دُنیوی نو بت خانوں میں ایک عظیم الشان فرق ہے۔ دوسری حکومتیں اور بادشاہ جہا ں نو بتیں بجا تے تھے اُن کی نوبت کبھی ساتویں دن بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہو تا تھا، کسی کی مہینہ میں بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہو تا تھا، کوئی اپنی تخت نشینی کے دِنو ں میں دو تین دن دربار لگا یا کرتاتھا اور پھر جب اُن کی نوبت بجتی تھی تو لوگوں کو اپنے گھروں سے نکل کر بادشاہی قلعوں میں جا نا پڑتا تھا یا بہت دُور دُور سینکڑوں میل سے چل کر وہاں جا نا پڑتا تھا۔ لیکن اسلامی نو بت خانہ جو ہما رے بادشاہ کا دیدار کرانے کے لئے بجتا ہے وہ ہر شہر اور ہر گائوں میں دن رات میں پا نچ وقت بجتا ہے۔ پانچ دفعہ نوبت بجتی ہے کہ آئو اور اپنے بادشاہ کی زیا رت کرلو ،آئو اور خدا کا دیدا ر کرو۔ ابھی ملکہ الزؔبتھ کی تاجپوشی ہوئی ہے پا کستان تک سے لوگ وہا ں دیکھنے کے لئے گئے حالانکہ ملکہ الز ؔؔبتھ کیا انگلستان آج ایک سیکنڈ گریڈ پا ور بنا ہؤا ہے۔ لیکن ملکہ الزبتھؔ کے دیکھنے کے لئے ہندوستان سے آدمی گئے، امریکہ سے گئے ،جر من ؔسے گئے، انڈونیشیا سے گئے ،چینؔ سے گئے اور ہما رے بادشاہ کی زیارت کے لئے کہ جس کے سامنے آنکھ اُٹھا نے کی بھی ملکہ الز بتھؔ کو طاقت نہیں روزانہ پا نچ وقت بُلایا جاتا ہے کہ آئو کر لو زیارت مگر لوگ ہیں کہ نہیں آتے۔ دو گھر کا گائوں ہو تو وہا ں بھی وہ بادشاہ پا نچ وقت آتا ہے، پا نچ گھرکا گائوں ہوتو وہا ں بھی بادشاہ لوگو ں کو اپنی زیا رت کرانے کے لئے پانچ وقت آتا ہے، اگر سَو گھر کا گائوں ہو تو وہا ں بھی وہ زیارت کرانے کے لئے آتا ہے، اگر لاکھ گھر کا شہر ہو تو ہر محلہ میں وہ آجاتا ہے کہ آئو اور زیارت کر لو اور اگر دس لا کھ گھر کا شہر ہو تو اُس میں وہ دس ہزار جگہوں میں آجاتا ہے اور پانچ وقت آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو اور میر ی زیارت کرلو۔ یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے دُنیوی نوبت خانوں اور اسلامی نوبت خانہ میں کہ پانچ وقت زیارت ہو تی ہے اور جہا ں بیٹھیں وہیں ہو جاتی ہے اور بادشاہ آپ ہمارے گھروںمیں آجاتا ہے۔
اسلامی نوبت خانہ کا پُر ہیبت اِعلان
اَب ذرا اِس نو بت خانہ کا اِعلان بھی سُن لو۔ وہا ں تو یہ ہو تا ہے کہ دَھم دَھم دَھم دَھم ہو رہا
ہے یا پِیں پِیں ہو رہا ہے اور جب پُوچھا جاتا ہے کہ یہ دَھم دَھم دَھم اور پِیں پِیں پِیں کیا ہے؟ توکہتے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ آرہا ہے حالانکہ دَھم دَھم دَھم اور پِیں پِیںپِیں سے بادشاہ کا کیا تعلق ہے۔تم بندر کا تما شہ کرو تو اُس کے لئے بھی پِیں پِیں کر سکتے ہو۔کُتّے کا کھیل کھیلو تو اُس کے لئے بھی پِیںپِیں کر سکتے ہو ،بادشاہ اور دَھم دَھم اور پِیں پِیں کا کیا جوڑ ہے۔مگر یہاں جو نوبت خانہ بجتا ہے اُس میں با دشاہ کے دیدار کی بشارت دیتے ہوئے اُس کی حیثیت بھی پیش کی جاتی ہے اور ایک عجیب شاندار پیغام دُنیا کو پہنچایا جاتا ہے۔ مؤمنوں کو الگ اور مُنکروں کو الگ۔پھر اس نو بت خانہ کی چوٹ مُردہ چمڑہ پر نہیں پڑتی زندہ گوشت کے پرَدوں پر پڑتی ہے۔ اور پانچ وقت اِس نو بت خانہ میں نوبت بجتی ہے کہ آجا ئو اپنے بادشاہ یعنی خدا کی زیارت کے لئے او راعلان کرنے والا کھڑا ہو تا ہے اور کہتا ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اے لوگو!اپنے بادشاہ کی زیا رت کے لئے آجا ئو۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دُنیا میںلوگ اپنے بادشاہوں اور حا کموں کی زیا رت کے لئے جا تے ہیں مگر اُن میں سے کو ئی پچاس گائو ں کا مالک ہو تا ہے، کو ئی سَو گائوں کا مالک ہو تا ہے،کو ئی ہزار گائو ں کا مالک ہو تا ہے،کو ئی ایک صوبہ کا مالک ہو تا ہے، کو ئی ایک ملک کا مالک ہو تا ہے، کو ئی پانچ ملک کا مالک ہو تا ہے، کو ئی دس ملک کا مالک ہو تا ہے، پھر اُن میں سے کوئی ایسا ہو تا ہے کہ بڑے ملک کا ما لک ہو تا ہے لیکن چھوٹے ملک کے بادشاہ اُس پر فا تح ہو جا تے ہیں۔ جیسے سکندرؔ یو نا ن کا ما لک تھا مگرکسرٰی کو آکے اُس نے شکست دیدی۔ نادر شاہ ایک معمولی قبیلے کا بادشاہ تھا مگراُس نے ہندوستان کی بادشاہت کو شکست دیدی۔تواوّل تو اُس کی حکومتیں بہت چھوٹی ہو تی ہیں اور پھر حکومتوں کے مطابق اس کی طاقت بھی نہیں ہو تی۔ اُن کی زیا رت عمر میں کبھی ایک دفعہ نصیب ہو تی ہے مثلاً تاجپوشی ہو تی ہے اور وہ باہر نکلتے ہیں تو لوگ اُن کی زیا رت کرتے ہیں۔ مگر ہم تمہیں جس بادشاہ کی زیارت کے لئے بُلاتے ہیں وہ سب سے بڑا ہے اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے مقابل میں بِالکل ہیچ ہو جاتا ہے کسی کی طاقت نہیں کہ اُ س کے آگے بول سکے۔
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
گرفتاری کیلئے کسرٰی کا ظالمانہ حُکم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ میںدنیا کی حکومت دو حصوں میں تقسیم تھی آدھی حکومت قیصرؔ کے پا س تھی اور آدھی حکومت کسرٰی کے پاس تھی۔مغرب پر قیصر ؔحاکم تھا اور
مشرق پر کسرٰی حاکم تھا۔ یہودیوں نے ایک دفعہ کسرٰی کے پاس رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی کہ عرب میںایک نبی پیدا ہؤا ہے اور وہ طاقت پکڑ رہا ہے کسی وقت وہ تمہا رے خلا ف جنگ کرے گا۔ وہ کچھ پا گل ساتھا۔یمن ؔاُس وقت کسرٰی کے ما تحت تھا اُس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح عرب میںایک مدعی پیدا ہؤا ہے تم اُسے گرفتار کرکے میرے پاس بھجو ا دو۔چونکہ یمن کا گورنر عرب کے لوگوںسے واقف تھا اُس نے خیا ل کیا کہ اِن لوگوں نے کیا بغاوت کرنی ہے بادشاہ کو دھو کا لگا ہے۔اُس نے بادشاہ کے دو سفیروں کو بھیجا اور ساتھ وصیّت کی کہ تم کوئی سختی نہ کرنا۔ بادشاہ کو کوئی دھو کا لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ انہوں نے کسرٰی کا مقابلہ کرنا ہے۔تم جانا اور سمجھانا اور میری طرف سے پیغام دینا کہ آپ مقابلہ نہ کریں آجائیں۔ مَیں سفارش کرونگا تو کسرٰی انہیں کچھ نہیں کہے گا۔چنا نچہ یہ لوگ مدینہ پہنچے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپؐ نے فرمایا کس طرح آنا ہؤا؟ انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے بھجوایا ہے۔ اُس کے پاس کچھ شکا ئیتیںآئی ہیں جن کی بنا ء پر اُس نے کہا ہے کہ آپؐ کو اُس کے سامنے پیش کیا جائے اور ہم یمن کی طرف سے آئے ہیں کیونکہ وہ یہاں کے حالات کا واقف ہے۔اُس نے ہم کو نصیحت کی تھی کہ ہم آپؐ کو تسلّی دلائیں کہ کسی نے بادشاہ کے پاس غلط رپورٹ کی ہے ورنہ ہمیں تسلّی ہے کہ آپؐ نے کوئی شرارت نہیں کی۔ مَیں بادشاہ کی طرف ساتھ چِٹھی لکھدونگا کہ یہ غلط رپورٹ ہے اس کوکچھ نہ کہا جا ئے اور واپس کردیا جائے اِس لئے آپ ہمارے ساتھ چلیںوہاں سے آپ کو گورنر یمن کی سفارش مِل جا ئیگی اور اُمید ہے کہ وہ درگزر سے کام لے گا۔ آپؐ نے فرمایا اچھا دوتین دن ٹھہرو پھر مَیں جواب دونگا۔ انہوں نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے۔گورنر نے کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ غلط فہمی میں رہیں اور جواب نہ دیں جس سے بادشاہ چڑجائے اگر ایسا ہؤا تو عرب کی خیر نہیں ، وہ اِس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا آپ چلے چلیے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں تم دو تین دن ٹھہرو۔ پھر وہ دوسرے دن آئے۔ تیسرے دن آئے۔ لیکن آپؐ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہرو۔ ابھی ٹھہرو۔تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب ہماری میعاد ختم ہو رہی ہے، بادشاہ ہم سے بھی خفا ہو گاآپؐ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپؐ نے فرمایا سُنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو ما ر ڈالا ہے جائو یہاں سے چلے جا ئو اور گورنرکو اطلا ع دے دو۔ اُن کو تو خدائی کلام کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ گپ ماری ہے۔ انہوں نے سمجھا نا شروع کیا کہ یہ نہ کریں۔ دیکھیں آپ گورنر کی سفارش سے چُھوٹ کر آجائیں گے ورنہ عرب تباہ ہو جائے گا آپ ایسا کیو ں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔مَیں نے تمہیں بتادیا ہے جا ئو اور اُسکو جواب دیدو۔ خیر وہ یمن میں آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں ایسا جواب دیا ہے۔ یمن کا گورنر سمجھدار تھا۔ اُس نے کہا اگر اس شخص نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہو گی۔اسلئے تم انتظار کرو چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے۔
کسرٰی قتل کردیا گیا
دس بارہ دن گزرے تھے کہ ایک جہا ز وہا ں پہنچا۔ اُس نے آدمی مقرر کئے ہو ئے تھے کہ اگر کوئی خبر آئے تو جلدی اطلاع دو۔انہوں
نے اطلاع دی کہ ایک جہا ز آیا ہے اور اُ س پر جو جھنڈا ہے وہ نئے بادشاہ کا ہے۔اُس نے کہا جلدی اُن سفیروں کو لے کر آئو۔ جب وہ گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے ایک خط آپ کو پہنچانے کے لئے دیا ہے۔ اُس نے خط دیکھا تو اس پر مہُر ایک اور بادشاہ کی تھی۔ اُسنے اپنے دستور کے مطابق خط کو سر پر رکھا، آنکھو ں پر رکھا اور اُسے چوما اور پھر اُسکو کھولا تو وہ بادشاہ کی چِٹھی تھی جس میں لکھا تھا کہ پہلے بادشاہ کے ظلم اور سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اِس لئے فلاں رات ہم نے اُس کو قتل کر دیا ہے اور ہم اُس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں۔ اور یہ وہی رات تھی جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہا رے خدا کو ما ر دیا ہے۔ اِس کے بعد اس نے لکھا کہ تم ہماری اطاعت کا سب سے وعدہ لو۔ اور یہ بھی یا د رکھو کہ اُس نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے جو حکم بھیجا تھا تم اُس کو منسوخ کر دو۔۶۵؎ یہ وہ چیز تھی کہ جس کو دیکھ کر یمن کا گورنر اُس دن سے دل سے مسلمان ہو گیا اور بعد میں دوسرے لوگ بھی اسلام میںداخل ہو گئے۔
غرض اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔میں اِسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم کس کے پیچھے چل رہے ہو۔ جن کو تم بڑے سے بڑا سمجھتے ہو حکومتِ امریکہ کو سمجھ لو، حکومتِ روس کو سمجھ لو خدا کے مقابلہ میں اُن کی کیا حیثیت ہے۔جو خدا کا بندہ ہو تا ہے وہ کہتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کچھ کرلو خدا میرا محافظ ہے تم کیا کر لوگے۔حکومتیں کچھ نہیں کرسکتیں ،بادشاہتیں کچھ نہیں کر سکتیں، وہ اپنے رُعب جتائیں، ڈرائیں جو کچھ مرضی ہے کر لیں، وہ خدا ہی کا بندہ ہے اور وہی جیتے گا۔آخر جو سب سے بڑا بادشاہ ہے اُس کے ساتھ جو لگے گا اُس کو بڑائی ہی ملے گی چھوٹا ئی نہیں ملے گی۔
خدا کے شیرپر کو ن ہا تھ ڈال سکتاہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایک دفعہ شرارتاً مقدمہ کر دیا گیا۔ مقدمہ کے
دَوران میں خواجہ کمال الدین صاحب کو اطلاع ملی کہ آریوں نے مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ اِنکو ضرور سزا دے دو۔گو مہینہ قید کرو مگر ایک دفعہ ذلیل کر دو تاکہ انہیں پتہ لگ جا ئے۔ مجسٹریٹ نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا۔ خواجہ صاحب کو پتہ لگا تو گھبرائے ہوئے آئے مولوی محمد علی صاحب کو ساتھ لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے۔ کہنے لگے حضور!بڑی برُی خبر لائے ہیں۔ اِس اِس طرح مجھے یقینی طورپر پتہ لگا ہے کہ آریہ سماج کا اجلاس ہؤا ہے اور چونکہ وہ مجسٹریٹ آریہ ہے اُس سے انہوں نے وعدہ لیا ہے کہ وہ تھوڑی بہت سزا ضرور دے دے ،پیچھے دیکھا جائے گا انہوں نے کہا ہے کہ اوّل تو چھوٹی بڑی سزا پر کوئی پکڑتا کیا ہے اور پھرا گرگرفت ہو گی بھی تو کیا ہے تم نے قوم کی خاطر یہ کام کرنا ہے اسلئے کوئی تدبیر اِسکی ہونی چاہئے اور پھر کہا کہ آپ کسی طرح قادیان چلے جائیں اور ایسی تجویز کی جا ئے کہ مجسٹریٹ کا تبادلہ ہو جائے۔ حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ یہ سُنتے ہی اُٹھے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیا باتیں کرتے ہیں۔ کیا خدا کے شیر پر بھی کوئی ہا تھ ڈال سکتا ہے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ کہنا بڑا بھاری دعویٰ ہے۔ آج امریکہ کی کتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی روس سے ڈر رہی ہے۔ روس کتنا طاقتور ہے پھر بھی امریکہ سے ڈر رہا ہے۔یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ اِس نوبت خانہ میں پانچ وقت ہر گائوں، ہر شہر، ہر قصبہ، ہر پہاڑی اور ہر میدان سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا ہے۔گویا اِس پیغام میںکافروں کو بھی اور مؤمنوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ کفّا ر کو کہا گیا ہے کہ تمہا رے سرداروں، تمہا رے بادشاہوں اور تمہارے افسروں کی کیا حیثیت ہے سب سے بڑھ کر اسلام کے خدا کا وجود ہے۔ تم اپنے غرور اور اپنے جتھے کے فخر میں یہ سمجھتے ہو کہ ہم حق کی آواز کو دبا دیں گے مگر ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارے نام لیوا غریب اور بے کس ہیں مگر ہم اُن کے ساتھ ہیں اور ہم سب سے بڑے ہیں۔
پھر وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوتا ہے اور فرماتا ہے اے مؤمنو!انتظام کے لئے ہم نے تمہا رے لئے بادشاہ مقرر کئے ہیں۔ حاکم مقرر کئے ہیں مگر تمہا را اصل بادشاہ اللہ ہے۔ تم نے کسی انسان کے آگے گردن نہیں جُھکانی۔ تمہارے دلوں پر رُعب اور حکومت صرف خدا کی ہونی چاہئے۔۶۶؎
اِسلامی نوبت خانہ کی دوسری آواز
پھر اِس نوبت خانہ سے دوسری آواز اُٹھتی ہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔
مَیں منادی کرنے والا اعلان کرتا ہوں اور کسی سے چُھپا تا نہیںکہ مَیں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اُس کے سوا کسی کے آگے سر جُھکا نے کے لئے تیا ر نہیں خواہ وہ دُنیا کا بادشاہ ہو یا دُنیا کا بڑا حاکم ہو،خواہ دنیا کا بڑا پِیر ہو خواہ دنیا کا کوئی بڑا عالِم ہو میرے لئے وہ سارے کے سارے خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور اُن کی کوئی ہستی میرے نزدیک نہیں ہے۔ مَیں تو صرف ایک ہی ہے جس کے آگے سر جُھکانا جا ئز سمجھتا ہوں اور وہ خدا کی ذات ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی زبان ہیں
پھر کہتا ہے اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا
رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اور سُنو! کہ مَیں یہ بھی عَلَی اْلِاعْلان کہتا ہوں کہ محمد کے سوا آج خدا تعالیٰ کے احکام دُنیا کو کوئی نہیں سُنا سکتا۔ وہ خدا کی زبان ہے،وہ خدا کی نفیری ہے۔مَیں اُس کی زبان پر کان دھرتاہوں۔ مَیں اُس کی نفیری کی آواز پر رقص کرتا ہوں۔ تم خواہ کسی کے پیچھے چلو مَیں اللہ کے سوا کسی کے پیچھے نہیں چل سکتا اور اُس کے پیچھے چلنے کا رستہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا سکتے ہیں۔
خدائی دیدار کی دعوتِ عام
پھر کہتا ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔آئو !آئو !
خدا کے سامنے جھکنے میںمیرے شریک بنو۔آئو ہم سب مِل
کر خدا ئے واحد کی عبادت کریں اور اپنے جسم کے ہر ذرّہ کو اس کی اطاعت میں لگا دیں۔
دُنیا کے لوگ نوبت خانے بجا تے ہیں اور بجا کے کہتے ہیں آئو اور بادشاہ کی زیا رت کر کے چلے جا ئو۔ جو انعام پانے والے ہوتے ہیں وہ تو چند ہی ہوتے ہیں۔ باقی تو صرف مٹی اور غُبار کھا کے چلے جا تے ہیں۔ یہاں جو بادشاہ کی تاجپوشی ہوئی تھی یا لنڈن میں تاجپوشی کی رسم ہوئی ہے تو بادشاہ کے پاس جانیوالے یا اُس سے کوئی بات کرنے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سَو یا ہزار ہونگے۔ حالانکہ یہ بھی کوئی خاص انعام نہیں ہے مگر جمع وہاں تیس لاکھ ہوئے تھے۔باقی تیس لاکھ صرف گَرد ہی کھا کے آگئے اَو ر کیا ہؤا۔ پھر کچھ ایسے تھے جن کو سواری بھی نظر نہیں آئی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے سواری دیکھی اور شکل نہیں پہچانی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے تیز گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا۔ مگر یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔دَوڑ کے آئو۔ دیکھو خدا کے سامنے تمہا ری حاضری کرائی جائے گی۔ یہ دربار وہ نہیں کہ جہا ں سے دُور دُور سے جھانک کرجا نا پڑے گا۔ یہ دربار وہ نہیں جہا ں تم آئو گے تو بعض دفعہ تم کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ یہاں تم کو سپاہی دھتکاریں گے نہیں۔ یہاں تم مسجد کے قریب آئو گے تو فرشتے تم کو پکڑ کے خدا کے سامنے پیش کریںگے اور خدا کو تم زندہ دیکھ لو گے۔ اس سے زیادہ اچھا موقع تمہیں اور کہاں مِل سکتا ہے۔
فلاح اور کامیا بی کی بشارت
پھر فرماتاہے حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ آئو ! آئو!
کامیا بی کی طرف آئو!دوڑ کر کا میا بی کی طرف آئو کہ کامیابی
تمہیں ملنے کے لئے تیا ر بیٹھی ہے۔دیر نہ کرو و ہ تڑپ رہی ہے تمہاری جیبوں میں پڑنے کے لئے۔
دنیا کے بادشاہوں کے حضور میں لوگ نذرانے گزارنے جاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے سَواشرفیاں پیش کی گئی ہیں۔ بیشک پُرانے زمانہ میں بادشاہ کہہ دیتے تھے کہ ان کو بھی دو لیکن بادشاہ کوبہر حال دینا پڑتا تھا۔ نظام حیدر آباد تو اس کو لے کے جیب میں ڈال لیتے تھے۔ انگلستان وغیرہ کے بادشاہوں کے سامنے بھی نذرانے پیش کئے جا تے ہیں اور جن کے ہاں نذرانوں کا رواج نہیں اُن کے ہا ں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں مثلاً پریذیڈنٹ کہیں جائے گا تو بڑی دعوت کی جائے گی بڑے بڑے آدمیوں کو بُلایا جائے گا اور لاکھوں روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ مگر یہاں وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو!تمہیں صرف زیارت ہی نہیں ہو گی بلکہ تم میں سے ہر فردِواحد امیر ہو یا غریب، کنگال ہو یا حیثیت والا سب کے سب کی گودیاں بھر دی جائیں گی اور یہاں سے تمہیں انعام دے کر واپس کیا جائے گا۔
حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ
غرض اِس دربار میں جانے والا چاہے وہ کتنا ذلیل اور کنگال ہو کہ اُس کی شکل دیکھ کر لوگوں کو گھِن آتی ہو جب اُس دربار میں چلا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے آگے سر جھکا نے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ایک کریہہ المنظر صحابیؓ سے پیار
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ تھے بہت بدصورت، نہایت کریہہ اور جسم پر بڑے بڑے بال جیسے بکری کے ہوتے ہیں اور آنکھیں بھی خراب۔ غرض اُن کے جسم کی حالت ایسی تھی جسے دیکھ کر گھِن آتی تھی اور لوگ
انہیں مزدوری پر لگانے سے بھی گھِن کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزر ے اور اُسکو دیکھا۔ کسی نے اُن کو گندم کے ڈھیر کے پاس کھڑا کر دیا تھا کہ تم ذرا حساب کرو۔اسے بیچنا ہے اور وہ کھڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کسی نے گندم لینی ہو تو لے لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو دیکھا۔ اُسوقت اُن کی حالت ایسی تھی کہ پسینہ اُن کو آرہا تھا ،دھوپ میں کھڑے تھے، مزدوری بھی شاید اُن کو بہت تھوڑی ملنی تھی، غرض تکلیف کی بہت سی علامات تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دیکھ کر احساس ہؤا کہ دیکھواِن کو سخت تکلیف ہو رہی ہے۔ آپؐ پیچھے پیچھے آہستہ قدم چلتے گئے اور اُن کی آنکھوں پر جیسے بچّے کھیلتے ہیں ہا تھ رکھ دیئے۔اُس نے اِدھر اُدھر ہا تھ ما ر کر دیکھا اور خیا ل کیا کہ میرے جیسے آدمی سے پیار کون کر سکتا ہے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ،گھِن کھا تے ہیں لیکن یہ کون میرا دوست اور خیر خواہ آگیا جو مجھے پیا ر کرنے لگا ہے۔اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے شروع کئے، آخر اُن کے ہا تھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی پر پڑے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں یہ خوبی تھی کہ آپؐ کے بال بہت کم تھے اور مشہور تھاکہ آپؐ کا جسم بہت ملائم ہے۔ اُس نے ہا تھ ملے تو سمجھ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پیار کر رہے ہیں تو مَیں بھی نخرے کروں۔ اُس کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی، پسینہ آیا ہؤا تھا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب میل مَلنی شروع کردی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ پہچان گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا لوگو! مَیں ایک غلام بیچتا ہوں کسی نے خریدنا ہے؟جب آپؐ نے یہ فرمایا تو اس کو اپنی حالت پھر یا د آگئی اور اُس نے بڑی ہی افسردگی سے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ!میراخریدار دنیا میں کو ن ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کہو تمہارا خریدار تو خود خدا ہے۔۶۷؎
تو دیکھو !وہ شخص جس کو دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار بھی گھِن کھا تے تھے۔اُس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ یہ خدا کا پیا را ہے۔یہی بات حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ میں بیان کی گئی ہے کہ دنیا کی ساری کا میا بی تمہیں یہاں آنے سے ہی حاصل ہوگی۔تم سب جگہ دھتکارے جا سکتے ہو، تم سب جگہ حقیر سمجھے جا سکتے ہو مگر میرے رب کی عبادت اورغلامی ہر مقصد ومدّعا میں انسان کو کا میاب بنا دیتی ہے۔جو اُس کے ہو جاتے ہیں اُن پر کوئی ہا تھ نہیں ڈا ل سکتا۔ جو اُس کے غلاموں پر ہا تھ ڈالے خواہ ساری دُنیا کا بادشاہ کیوں نہ ہو اُس کے ہاتھ شل کردیئے جا تے ہیں، اُس کی رگِ جا ن کا ٹ دی جاتی ہے، اُسے ذلیل اوررُ سوا کردیا جاتا ہے کیو نکہ خدا کے غلام دنیا کے بادشاہوں سے زیادہ معزز ہیں اور اُن کے محافظ فرشتے ہوتے ہیں جو دُنیوی سپا ہیوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اُسکی وحدانیت کا ایک بار پھر اقرار
یہاں پہنچ کر وہ نوبتی ایک بار پھر کہتا ہے
اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ یعنی اب تک جو کچھ میں نے کہا تھا وہ صرف میرے عقیدہ کا اظہا ر تھا مگر اب جب کہ میری گودی بھر گئی ہے اور مجھے وہ چیزیں ملی ہیں جو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہیں اورمیر ا خیا ل حقیقت اور میر ا عقیدہ واقعہ بن چکا ہے میں دوبارہ اس امر کا اظہا ر کرتاہوں کہ اللہ واقعہ میں سب سے بڑا ہے کیو نکہ مَیں نے بیکس اور بے بس ہونے کے باوجود فلاح پا لی ،میرا عقیدہ ٹھیک نکلا اور میرا ایمان حقیقت بن گیا اِس لئے اب مَیں یقین اور تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ،اللہ سب سے بڑاہے۔پھر وہ آخر میں کہتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ خدا کی بڑائی کے اظہار سے تو صرف یہ ثابت ہوتا تھا کہ کئی طاقتوں میں سے خدا کی طاقت سب سے بڑی ہے مگر اُسکے نشان دیکھ کر اب تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں خدا کی حکومت کے سِوا کسی کی حکومت ہی باقی نہیں رہے گی صرف وہی پوجا جائے گا اور اس کا حکم دنیا میں چلے گا۔
مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر تمام دنیا کو فتح کرنے کے عزائم
دیکھو !مسلمانوں نے سچے دل سے یہ نو بت
بجا ئی تھی پھر کس طرح وہ مدینہ سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئے۔دُنیا میں اُس وقت دو ہی حقیقی حکومتیں تھیں ایک قیصر کی حکومت تھی جو مغرب پر حاکم تھی اور ایک کسرٰی کی حکومت تھی جو مشرق کی مالک تھی۔ مگر اس نوبت خانہ میں جو بظاہر اتنا حقیر تھا کہ کھجور کی ٹہنیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی، پا نی برستا تھا تو زمین گیلی ہو جاتی تھی اور اُس کے نوبت بجا نے والے جب اُس میں جا کر اپنے آقا کے سامنے جُھکتے تھے تو اُن کے گُھٹنے کیچڑ سے بھر جا تے تھے اور اُن کے ماتھے مٹی سے بھر جا تے تھے۔ یہ لوگ تھے جو قیصر اور کسریٰ کی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے آئے تھے۔ یو رپ کا ایک مصنف اپنے انصاف اور قلبی عدل کی وجہ سے لکھتا ہے کہ مَیں اسلام کو نہیں مانتا،مَیں عیسائی پا دریوں کی باتوں سے سمجھتا ہو ں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں اسلام جھوٹا ہی ہو گا لیکن مَیںجب تاریخ پڑھتا ہوں تو تیرہ سَوسال کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ مَیںدیکھتا ہوں کہ ایک کچّامکان ہے، اُس کے اوپر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے، بارش ہو تی ہے تو اُس میں پانی آجاتا ہے (حدیثوں میں یہ واقعات آئے ہیں کہ بار ش ہوتی تو پانی ٹپکنے لگ جاتا) اور جب وہ نمازوں کے لئے کھڑے ہوتے تو گھٹنو ں تک کیچڑلگا ہو تا تھا اور کوئی خشک جگہ اُن کو بیٹھنے کے لئے نہیں مِلتی، جب عبادت کر کے پھر وہ اکٹھے ہو کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو مَیں عالَمِ خیال میں قریب سے اُن کی باتیں سُنتا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اُن کے پھٹے ہوئے کپڑے ہیں، کسی کے پا س کُرتہ ہے تو تہ بند نہیں ہے، کسی کے پا س تہہ بند ہے تو کُرتہ نہیں ہے، کسی کے سر پر ٹوپی ہے تو جو تی نہیں ہے، کسی کے پاس پھٹی ہوئی جوتی ہے تو ٹوپی نہیں اور وہ سر گوشیا ں کررہے ہیں اور مَیں قریب ہو کر اُن کی باتیں سُنتا ہوں کہ وہ کیاکہہ رہے تھے۔ جب مَیں قریب پہنچتا ہوں تو وہ یہ کہتے سُنا ئی دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی بادشاہت عطا کر دی ہے۔ ہم مشرق پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم مغرب پر بھی قابض ہو جائیں گے، ہم شمال پر بھی قابض ہو جائیں گے اورہم جنوب پر بھی قابض ہو جائیں گے۔ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ اَب بتائو کہ مَیں اسلام کو کس طرح جھوٹا کہوں؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ایسی تھی کہ بعض غریب گائوں کے لوگ جب میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے مسجد بنانی ہے تو مَیں کہتا ہوں کہ ایسی ہی بنا لو۔ وہ کہتے ہیں نہیں جی !کچھ تو اچھی ہو۔ تو کسی گائوں کے پا نچ آدمی بھی اس مسجد کی طرح مسجد بنانے کو تیار نہیں ہوتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی لیکن ان مسجدوں میں جو نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ہمسائیوں سے ڈر رہے ہوتے ہیں مگر اُس کھجور کی ٹہنیوں کی چھت والی مسجد جس میں پانی ٹپکتا رہتا تھا نماز پڑھنے والے یُوں بیٹھے ہوتے تھے کہ گویا اُنہوں نے دُنیا کو فتح کرنا ہے اور وہ واقعہ میں دنیا کو فتح کر لیتے ہیں۔ ایک ایک گوشہ اُن کے قدموں کے نیچے آتا ہے اور اُن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے بڑے بڑے بادشاہوں کی کھوپڑیاں تڑپتی جاتی ہیں۔
اِسلام کے ذریعہ دُنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا
غرض اِس نوبت خانہ میں اس اعلان کی دیر
تھی کہ لَآ اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ دنیا میں اَب خدا کی بادشاہت کے سِوا ہم کسی کو نہیں چھو ڑیں گے کہ ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا۔ خدا کی بادشاہت آسمان سے زمین پر آگئی اور ظلم اور جَور کی دُنیا عدل اور انصاف سے بھر گئی۔ اِس سے چھ سَو سال پہلے ایک اَور شخص جو برگزیدہ تھا، ایک اور شخص جس کو خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے، ایک اور شخص جس کی اطاعت کا آج دُنیا کی اکثریت اقرار کر رہی ہے ،ایک اَور شخص جس کی حکومت میں انگلستان کی حکومت، فرانس کی حکومت، سپین کی حکومت، جرمن کی حکومت، پولینڈ کی حکومت، فلپائن کی حکومت، امریکہ کی ساری حکومتیں اور ریاستیں اُس کی خدائی کی اقراری ہیں اور اُس کے آگے سر جُھکاتی ہیں۔ وہ بھی کہتا ہے کہ : -
’’اے خدا!جس طرح آسمان پر تیری بادشاہت ہے اُسی طرح زمین پر بھی ہو۔‘‘۶۸؎
مگر آج اُنیس سَو سال گزر گئے اُس کے ذریعہ سے خداکی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر قائم نہیں ہو ئی لیکن یہ شخص جو ایک ایسے کچّے مکان میں رہ کے اور اِس نوبت خانہ میںآکے خدا تعالیٰ کا پیغام سُنا تا ہے ،وہ ابھی مرنے نہیں پاتا کہ خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوجاتی ہے۔ اور اُس کی وفات کے نو سال کے اندر اندر سارے عرب پر بادشاہت قائم ہوجاتی ہے۔وہ کھڑا ہو تا ہے اور ایسے وقت میں جب دشمن کی فوجیں اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے کھڑی ہیں ،مدینہ سے باہر نکل کر پا خانہ کوئی پھر نہیں سکتا ،خندق کھو دی جاتی ہے تا دشمن کے حملہ سے بچائے۔ ایک پتھر نہیں ٹو ٹتا۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں یَارَسُوْلَاللّٰہ! پتھر نہیں ٹوٹتا۔ فرماتے ہیں لائو ہتھوڑا مجھے دو مَیں توڑتا ہوں۔ آخر پتّھر پر ہتھو ڑا مارتے ہیں۔ وہ پتّھر بڑا سخت ہے۔ اُس پر ہتھو ڑا مارتے ہیں تو اُس میں سے شُعلہ نکلتا ہے۔ پھر مارتے ہیں پھر شُعلہ نکلتا ہے۔ آپؐ ہر دفعہ کہتے ہیںاَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر تیسری دفعہ مارتے ہیں۔ جب شُعلہ نکلتا ہے پھراَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہیں۔صحابہؓ بھی اَللّٰہُ اَکْبَرُکہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایاتم نے کیوں اَللّٰہُ اَکْبَرُکہا؟ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!آپ ؐ نے کیو ں کہا ؟آپؐ نے فرمایا۔ مَیں نے پہلی دفعہ پتّھر پر ہتھوڑا مارا تو اُس میں سے شُعلہ نکلا اور اُس شُعلہ میںسے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا کہ قیصر کی حکومت توڑ دی گئی۔ اور مَیں نے کہا اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔ جب مَیں نے دوسرا ہتھوڑا مارا تو پھر اُس میں دوسرا شُعلہ نکلا اور مجھے یہ نظارہ دیکھا یا گیا کہ کسرٰی کی حکومت توڑ دی گئی پھر مَیں نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا۔ جب مَیں نے تیسر ا ہتھو ڑا مارا ،مجھے دکھایا گیا کہ حمیرؔ کی حکومت توڑ دی گئی۔ اِس پر پھر مَیں نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ ما را۔صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہمارے بھی نعرے اِسی طرح سمجھ لیجیئے۔۶۹؎
قیصر وکسرٰی کی حکومتوں کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کردی گئی
پھر آپؐ نے فرمایا
اِذَا ھَلَکَ کِسْرٰی فَلاَ کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔۷۰؎ خدا قیصر کو میرے سپا ہیوں کے مقابلہ میں شکست دے گااور ایسی شکست دے گا کہ اِس کے بعد دنیا میں کوئی قیصر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ میرے آدمیوں کے ذریعہ سے کسرٰی کو شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ دنیا میں اس کے بعد کوئی کسرٰی نہیں کہلائے گا۔
جس وقت اِس نو بت خانہ سے نو بت بجی اُس وقت کہا گیا کہ دُنیا میں خدا کی حکومت قائم کی جائے گی۔ دیکھ لینا کہ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔ دنیا میںایک طرف مغرب میں قیصر حاکم ہے لیکن قیصر ہلا ک کیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں کھڑا ہو گا بس خداکی حکومت وہاں ہو گی۔ دوسری طرف مشرق میں کسرٰی کی حکومت ہے کسرٰی کو تباہ کیا جائے گا اور اُس کے بعد کوئی کسرٰی نہیں کھڑا ہو گا اُس کی جگہ بھی خُدا کی بادشاہت قائم ہوگی۔ اور مشرق ومغرب میں میرے ما ننے والوں ،میرے مریدوں اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت زمین پر آکر قائم ہو گی۔
غرض اِس نو بت خانہ سے جو یہ نو بت بجی ،یہ کیا شاندار نو بت ہے۔ پھر کیسی معقول نوبت ہے۔ وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں۔ ٹوں ،ٹوں ،ٹوں۔ ٹیں،ٹیں،ٹیں۔ اوریہ کہتاہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَشْھَدُ اَنْ لَّٓااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰو ۃِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔کیا معقول باتیں ہیں۔ کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں۔ بچّہ بھی سُنے تو وجد کرنے لگ جا ئے اور اِن کے متعلق کو ئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جا ئے بھَلا یہ کیا بات ہو ئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں۔ مگرافسوس!کہ اِس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا۔ یہ نو بت خانہ حکومت کی آوا ز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اِس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہؤا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور اُن میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جا تے ہیں۔ تب اِس نو بت خانہ کی آواز کا رُعب جاتا رہا، اسلام کا سایہ کھنچنے لگ گیا، خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دُنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی۔
اَب خداکی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو !ہاں تم کو!ہاں تم کو! خداتعالیٰ نے پھر اِس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اِس زور سے بجائو کہ دُنیا کے کا ن پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لَرز جائیں اور فرشتے بھی کا نپ اُٹھیں تاکہ تمہا ری دردناک آواز یں اور تمہارے نعرہائے تکبیر اور نعرہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجا ئے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اِس زمین پر قائم ہو جا ئے۔ اِسی غرض کیلئے مَیں نے تحریک جدید کو جا ری کیا ہے اور اِسی غرض کیلئے مَیں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آئو اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جا ئو۔ محمدؐ رسول اللہ کا تخت آج مسیحؑ نے چھینا ہؤا ہے۔تم نے مسیحؑ سے چھین کرپھر وہ تخت محمدؐ رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسو ل اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو نی ہے۔ پس میری سُنو اورمیری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔میری آواز نہیںہے، مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو!خدا تمہا رے ساتھ ہو، خدا تمہا رے ساتھ ہو، خدا تمہا رے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عزّت پا ئو او ر آخرت میں بھی عزت پائو۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا کہ دنیا میں خدا اور
اُس کے رسول ؐ کی بادشاہت قائم ہو
اِس کے بعد مَیں جلسہ کو دُعا کے بعد ختم کرتاہوں اور پھر آپ کو یا د دلاتا ہوں کہ مبلّغین کی جو با ہر سے تاریں آئی ہیں اُن کیلئے بھی دُعا کرو، اپنے لئے بھی دُعا کرو،اپنے گھر والوں کیلئے بھی دُعا کرو
جو احمدی پیچھے رہ گئے ہیںاُن کے لئے بھی اللہ سے دُعا کرو اور سب سے زیادہ تو یہ دُعا مانگو کہ ہم میںسے ہر ایک کو خدا تعالیٰ سچّا عبد اور اپنے دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ہم سے کوئی ایسی کمزوری ظاہر نہ ہو جس کی وجہ سے اسلام کو، قرآن کو، رسولؐ اللہ کے دین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو دین کی خدمت کی ایسی توفیق دے کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام پھر طاقت پکڑ ے اور قوّت پکڑے او ر ہم اپنی آنکھو ں سے خدا اور اُس کے رسولؐ کی بادشاہت اِس دُنیا میں دیکھ لیں۔ اور جس طرح ہماری پیدائشیں ایک افسردہ دنیا میں ہوتی ہیں ہماری موتیں خوش دنیا میں ہوں۔ اور ہم اپنے پیچھے اُس دنیا کو چھوڑ کر جائیں جس پر ہمارے خدا ئے واحد کا قبضہ ہو اور شیطان اُس میں سے نکال دیا گیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دے دی ورنہ جس قسم کی بیماریوں میں سے مَیں گزرا تھا اور اب تک بھی مَیں کمزوری محسوس کرتا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اب کی دفعہ مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہؤا تھا کہ شاید آپ لوگوں میں یہ میر ا آخری جلسہ ہو گا۔ کیونکہ اب میراجسم میری طاقت کو زیا دہ دیر برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے اُمید بھی نہیں تھی کہ خداتعالیٰ مجھے اِتنی دیر بولنے کی توفیق دے دے گا مگر اُس نے توفیق دے دی ہے۔ خدا تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں۔ جہا ں اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دی ہے وہاں وہ ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق دے دے اور ہمیں اسلام کو اُس کی اصلی شان وشوکت میں لانے کی توفیق بخشے۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
۱؎ الفاتحۃ : ۲ ۲؎ مُضْعِفْ : کمزور کرنے والا۔
۳؎ لام بندی : لام باندھنا۔ چاروں طرف سے لشکر جمع کرنا۔
۴؎ چھینکے : وہ جالی یا لٹکن جو کھانا وغیرہ رکھنے کیلئے چھت میں لٹکا دیتے ہیں۔
۵؎ القمر : ۴۲ تا ۴۷
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ۱۴۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۷؎ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۵۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۸؎ الاحزاب : ۱۴ ۹؎ الاحزاب:۲۳
۱۰؎ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۸۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۱؎ الفتح : ۲ تا ۴ ۱۲؎ المائدۃ : ۲۱
۱۳؎ تفسیر درمنثور للسیوطی جلد ۶ صفحہ ۶۹ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۴ھ
۱۴؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۵؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۸۳ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۱۶؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۸۳ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۱۷؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۸۴ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۱۸؎ فراش : بچھونا
۱۹؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲صفحہ ۲۱۱ تا ۲۱۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۰؎
۲۱؎
۲۲؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲صفحہ ۲۱۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۳؎ ، ۲۴؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲صفحہ۲۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۵؎ ،۲۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳صفحہ۹۳،۹۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۷؎ الفتح:۱۷ ۲۸؎ الفتح : ۲۲ ۲۹؎ نفیریاں : شہنائیاں
۳۰؎ الحج : ۴۰ تا ۴۲ ۳۱؎
۳۲؎ المجادلۃ : ۲۳ ۳۳؎ المائدۃ : ۵۷ ۳۴؎ البقرۃ : ۲۵۰
۳۵؎ الانفال : ۶۶ ۳۶؎ اٰل عمران : ۱۷۴ ۳۷؎ اٰل عمران : ۱۲۵،۱۲۶
۳۸؎ اٰل عمران : ۱۲۷
۳۹؎ فتوح البلدان صفحہ ۱۴۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۹ھ
۴۰؎
۴۱؎
۴۲؎ مسلم کتاب الفضائل باب من فَضَائِل مُوْسٰی
۴۳؎ الانعام : ۱۰۹ ۴۴؎ المائدۃ : ۹
۴۵؎ تا ۵۰؎ ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی دُعَائِ الْمُشْرِکِیْن۔ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵۱؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵۲؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵۳؎
۵۴؎ موطاء امام مالک کتاب الجھاد۔ باب النَّھْیُ عن قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزْوِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکرؓ کی طرف منسوب ہیں۔
۵۵؎ موطاء امام مالک کتاب الجھاد۔ باب النَّھْیُ عن قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزْوِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکرؓ کی طرف منسوب ہیں۔
۵۶؎ موطاء امام مالک کتاب الجھاد۔ باب النَّھْیُ عن قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزْوِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکرؓ کی طرف منسوب ہیں۔
۵۷؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۰۷
۵۸؎
۵۹؎ الاحزاب : ۲۴
۶۰؎ سیرت ابن ھشام جلد ۱ صفحہ ۸۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۶۱؎ العٰدیٰت : ۲ تا ۶ ۶۲؎ ڈگ بھرنا : لمبے قدم اُٹھانا ۔ تیز چلنا
۶۳؎ التوبۃ : ۵۲
۶۴؎ بخاری کتاب الجھاد والسیر باب مَنْ یَنْکُبُ اَوْ یُطْعن فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ۔
۶۵؎ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ ۲۴۷ تا ۲۴۹ بیروت ۱۹۸۷ء
۶۶؎ الانعام : ۵۷، ۵۸
۶۷؎ شمائل الترمذی باب مَاجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۶۸؎ متی باب ۶ آیت ۹ ، ۱۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۶۹؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثانی صفحہ ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۷۰؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النّبوَّۃِ فی الاسلام

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۸)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۵۴ء بر موقع جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
عالمِ روحانی کے دفاتر
ّتشہد تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
۱۹۳۸ء کے سفرِ حیدر آباد اور دہلی میں مَیں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتربھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں۔
دُنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض و غایت
اِن دفاتر پر ایک سیکرٹری اور وزیر مقررہوتا تھا۔ باہر کے تمام
صوبیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھاکر اپنے احکام جاری کرتا تھا۔ مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شٖخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہورمُفسد ہے، فلاں شخص بڑاخائن ہے، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو اُن ڈائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں۔
اِسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچائو یا اُس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو حُکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے تھے اور ان میں یہ درج کیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حُکم نافذ کیا گیا ہے۔
رعایا کی سزائوں اور ترقیات کے احکام کا اندراج
غرض ان دفاتر میں لوگوں کے اعمالنامے ہوتے تھے
اِن اعمالناموں پر جو بادشاہ کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے۔ اِسی طرح جو سزائوں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں۔ پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو بیس ایکڑ زمین دے دو، اس کو ایک گائوں دے دو، اس کو دس گائوں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے۔
اِسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اِس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے۔
غرض مُجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اورجب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پیداہوتا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنامے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے۔ بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سرزد ہو جاتا ہے جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے۔
دُنیوی حکومتوں میںمجرموں کے لئے گریز کی متعدد راہیں
مگر مَیں نے دیکھا کہ یہ دفاتر جو
بادشاہوں نے بنائے تھے اِن میں گریز کی بھی بڑی بڑی راہیں تھیں۔ اوّل تو یہ لوگ چوری چُھپے کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا۔ اب جو ڈائری نویس تھا اُس کو اِس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اخفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ اِسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے اور پھر وہی رپورٹ اوپر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں اور بعض لوگوں کو مَیں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے اِس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شُہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے۔
عالَمِ روحانی کے ڈائری نویس اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام
اس کے مقابل پر مَیں نے قرآنی دفتر
دیکھا تو اس میں مَیں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اِسی شکل میں منظم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی مَیں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میںلکھا ہؤا تھا وَ اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ o کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۱؎ یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظؔ ہیں۔ یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی سپرد کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں۔ اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ کِرَامًا اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں، جھوٹ سے بالا ہیں، کَاتِبِیْنَ اور بڑے محتاط ہیں۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اِس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو وہ جانتے بھی ہیں۔
دُنیوی اور رُوحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز
غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے سلسلہء روحانیہ میں بھی ڈائری نویس ہیں
لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کو موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بڑے دیانتدار ہیں، بڑے سچّے ہیں، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں۔
دنیا میں ڈائریاںلکھنے کا غلط طریق
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی ڈائری نویس کئی قسم کی غلطیاں کر جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں
رہتے۔ مثلاً تمام گورنمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گورنمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے۔ اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد دیکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اَور کام مقرر ہوگا۔ مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریزو رکھا ہؤا ہوگا کوئی جھگڑا یا فساد ہؤا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دو تین کروڑ آبادی ہو دو تین سَو ہی نکلیں گے۔ اب اگر دو تین کروڑ آبادی میں ایک کروڑ پر سَو آدمی ہے یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہؤا اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامۂ اعمال نہیں لکھ سکتا نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے چُھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے۔ کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سُنی سُنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے۔ اعتبار ہوگا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہوگی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں۔
مختلف حکومتوں کا طریقِ کار
دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی، انگلینڈ میں بھی، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی غرض سارے ملکوں میں دیکھا
جاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گائوں میں گئے اور پُوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبردار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کونسا بُرا ہے اور اُس کی کیا شُہرت ہے۔ اب ممکن ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو۔ ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں۔ غرض اس طرح کی باتیں سُن کر لازماً وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے۔ اسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں۔ ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کر لیتے ہیں۔ اس میں بہت سی باتیں سچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں۔
روحانی ڈائری نویس یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ کا مصداق ہوتے ہیں!
لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے یَعْلَمُوْنَ
مَا تَفْعَلُوْنَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر کئے ہیں یہ کسی سے پُوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH) حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے پس وہ اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکرجُھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے۔
ایک عرائض نویس کا لطیفہ
ہم نے دیکھا ہے دُنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے گورداسپور میں
ایک صاحب عرائض نویس ہؤا کرتے تھے مَیں بھی اُن سے ملا ہوں۔ اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور الْسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے الْسَّلامُ عَلَیْکُمْکہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اللّٰہُ اَکْبَرُ، اللّٰہُ اَکْبَرُ، اللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا شروع کر دیتے، یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے۔ ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہؤا کہ ایک دفعہ اتفاقاً ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں۔ کوئی صاحبِ غرض ہوگا یا کوئی شرارتی ہوگا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہوگا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گورنمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اللّٰہُ اَکْبَرُ، اللّٰہُ اَکْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً وہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کاغذات میں ہے کیا، سیدھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے۔ اب جو اُس نے مسلیں اٹھائیں تو ایک کے اوپر لکھا تھا ’’نمک کی مسل‘‘ ایک کے اوپر لکھا ہؤا تھا ’’مرچ کی مسل‘‘ ایک پر لکھا ہؤا تھا ’’ ہلدی کی مسل‘‘۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ’’آٹے کی مسل‘‘۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ’’شکر کی مسل‘‘۔ اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے ؟آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہؤا ہے اور کہتا ہے:- اہلمند! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی۔ اس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ یا میں ای۔اے۔سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو حُکم دیا کہ آئندہ مَیں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بنائو اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو۔ اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے اور وہ کہتے ہیں؟ نہیں، پہلے مسل پیش کرو اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا۔ چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمدہ! نمک کی مسل پیش کرو۔ اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے۔ اس کے بعد ’’حضور والا مدار! اَور منظوری دیں۔‘‘ اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اَور منظوری دی جاتی ہے۔ غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھاتہ تھا جو درحقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا۔ اب بات کیا ہوئی ؟بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے کنسوئیاں۲؎ لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے۔ وہ سارے شہر میں جوپھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مِسل مِسل کی آواز آیا کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا۔ پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی، پھر تیسرے نے دی۔ غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مِسل مِسل، پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں۔ چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمکؔ اور مرچؔ اور ہلدیؔ کی مسلیں نکل آئیںتو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے تدبیر اور کوشش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہوتا لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ وہ اِردگِرد کنسوئیاں لے کر پتہ نہیں لگاتے بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے۔
ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط
اِسی طرح میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
جب میں ۱۹۲۴ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چِٹھی کی نقل مجھے بھیجی۔ وہ چِٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے۔ وہ چِٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہوگی اِسے آپ بھی بڑھ لیں۔ اُس چِٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا۔ اُس چِٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چِٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہوتا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقینا اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں۔ وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں۔ ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہوگی اور ان کو پتہ نہیں تھا۔ ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور ا س لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ چِٹھی گورنر بمبئی کو بھیجی۔شاید اَوروں کو بھی بھیجی ہوگی بہرحال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ چونکہ اس سے آپ کی بریّت ہوتی ہے مَیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں۔
سفرِ انگلستان سے واپسی پر جہاز کے چیف انجینئر سے ملاقات
اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو
مجھے یاد آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آرہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ مَیں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دِکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ (بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں۔ یہ پیغام جو مجھے ملا جہازکے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) مَیں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ مَیں تو ایک مذہبی آدمی ہوں، میرا اِن باتوں سے کیا واسطہ ہے؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھائیگا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا بعد میں اس کو مایوسی ہوگی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں۔ چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں۔ چنانچہ میں گیا اُس نے بڑا انتظام کیا ہؤا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے ایک ایک پُرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے۔ اِس اِس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اِس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا۔ خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا۔ میرے ساتھ بعض اور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں۔ مَیں نے پھر انکارکیا اور کہا اِن کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہوگا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی۔
چیف انجینئر کی غلط فہمی
چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے ۔میں نے کہا فرمایئے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی کام ہی تھا۔ کہنے لگا
میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا مَیں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہوئیں لوگوں سے کرنیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتایئے۔ میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے۔ تم بھی لوگ ہو اور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے۔ کہنے لگا نہیں نہیں۔ آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتاتا۔ میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتانا کیا ہے؟ اس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں۔ اس کے مقابل پر جب پھر مَیں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اِس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ مَیں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ اِن ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ مَیں کس طرح آپ کو یقین دلائوں کہ میں کون آدمی ہوں۔
میکسیمیلینسے اپنے رشتہ داری تعلقات کا اظہار
پھر کہنے لگا، آپ نے میکسیمیلین (MAXIMILLION)
کا نام سُنا ہؤا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہؤا ہے وہ آسٹریلیا کا ایک شہزادہ تھا۔ میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اِس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نیمیکسیمیلینکے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ یہ جاکر انتظام کر لے گا۔ اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا۔ اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چُنا اور کہا کہ یہ میرا نائب ہوگا اور میری مدد کرے گا۔ غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دبائو ڈالنے سے وہاں اس کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہو گئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اِس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل پر اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ جب وہ وہاں سے بھاگا تو سارے اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب جِھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ کہنے لگاآپ نے اُس کا حال پڑھا ہے؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑا وفادار تھا۔ کہنے لگا میں اُس کا پوتا ہوں۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہو کرالو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں۔
چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش
کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا ہوں اوروہ یہ ہے
کہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصوبہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئیگی کہ آپ اپنے مبلّغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسرہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے مَیں آپ کو یہ تجویز بتاتا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلّغ کو بھیجنی ہوں تو میرا جہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے۔ میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آکر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے اسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا۔ پھر کہنے لگا آپ کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور مَیں اُس کو کس طرح دوں اِس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتاتاہوں۔ چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا۔ یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یوروپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ اِس پر اُس شخص کا نام لکھا ہؤا ہوتا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے۔ غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔ جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کارڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے کوئی ۱۰۰۰ ۱ انچ اِدھر سے پھٹتا ہے کوئی ۱۰۰۰ ۱ انچ اُدھر سے پھٹتا ہے۔ کوئی ذرا اِدھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کارڈاسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا۔ غرض اس کارڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا۔ میں آپ کو اطلاع دونگا کہ میںفلاں تاریخ کو بمبئی پہنچ جائوں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوںگا ہاں میں ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آکر مجھے کہے گا۔ آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے۔ میں کہوں گا۔ میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں۔ وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں۔ چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہوگا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا۔ یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملائونگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوںگا۔ ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا۔ اِدھر آپ ایک دوسرا کارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجدیں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیجدیں گے۔ جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا۔ اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہوگی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا۔ وہ وہاں آئیگا اور آکر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے۔ اس کے بعد میں جائونگا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں۔ وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں۔ میں کہوں گا۔ میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں۔ تم میرے پاس کیوں آئے ہو۔ وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمدیہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا۔ میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گاکہ یہ کارڈ لیں۔ میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملائونگا۔ اگر وہ مل گئے تو میںکہوں گا۔ ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے۔ اس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی۔ میں نے کہا میں آپ کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اس خیر خواہی کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھائوں۔ کہنے لگا پھر سوچ لیجیئے۔ جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔
پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں
اس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین کا نمائندہ ہو اور انہوں نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت
بھی اس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ بہرحال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی۔ اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویس اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں۔ یہ لکھنے والے بددیانت نہیںتھے جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ بھلا انگلستان کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ اِن کے تعلقات قائم ہیں۔
اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیساکہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں۔
ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی
پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) ہوتے ہیں یعنی
اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں۔ مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل ناتجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں۔ ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گورنمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے۔ اب ایک ناواقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سُنا ہؤا تھا تو اُس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے۔ اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محرّک وہ آپ بنا تھا۔ ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں۔ یعنی دوسروں کو اکسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیںنکلوا دیتے ہیں جو قابل گرفت ہوتی ہیں۔ جب مِیرٹھ کیس ہؤا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی، فلاں کانگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقاً جب ساری ِمسل بالکل تیار ہو گئی تو کسی اور جُرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا۔ اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی۔ تب جاکر یہ حقیقت ُکھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی۔
سفرِ حج کا ایک واقعہ
میں جب ۱۹۱۲ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایساہی واقعہ پیش آیا۔ میرے ساتھ پانچ آدمی اور بھی ہم سفر تھے۔
ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہندو تھا جو اَب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے۔ یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے۔ غرض خوب بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کیلئے چلے گئے۔ میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دو لڑکے بھی تھے جن میںسے ایک اِس وقت ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا۔ بہرحال ہم سارے وہاں گئے جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا۔ اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں۔ چنانچہ آتے ہی کہنے لگا ’’آگئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے‘‘ اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ مجھے بڑے بدتہذیبی معلوم ہوئی کہ اِس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ خیر اُس وقت تو میں چُپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے۔کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اس میں حرج کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس مین تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے۔ اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا۔ بہرحال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔
دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی ڈائری کی تصدیق میں مشکلات
پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ
ان بادشاہوں کے دربار میں سچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں۔ آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں ہوتے ۔ بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ دنیا کی ہر قوم میں جھوٹے اورسچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ میںنے فلاں جگہ پرکان رکھ کے سنا تو اندر سے فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے۔ یا مَیں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں کر رہے تھے۔ اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اس نے سچ لکھا ہے۔چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو۔ عام طور پر ڈائری نویس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے۔ آفیشل ورشن غلط نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ دھینگامُشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے۔ جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے توملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے۔ بیچارہ پولیس والا وضو کرکے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھربھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا شروع ہو جاتاہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ َکل کو یہی
آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی۔ مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے ڈائری نویس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہوتا۔
مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا
سیدھی بات ہے کہ ڈائری عام طور پر مُجرموںکی لکھی
جاتی ہے اور مُجرم جو جُرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں، چوری چُھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقاً ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گائوں دیکھے گا۔ اب فرض کرو اتفاقاً کوئی پولیس مین وہاں آگیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہؤا ہے تو اب لازماً جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اِس لئے میرے ساتھ اِس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں۔ اب اس کے لئے سوائے اس کے کہ کوئی اور ایسے گواہ پیش کر دیئے جائیں یا بنا لئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اَور کوئی صورت ہی نہیں۔ چنانچہ دنیا میں یہی ہوتاہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تاکہ اس واقعہ کو ثابت کیا جائے۔ اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی سچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہرحال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی سچے مگر الٰہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے جو ڈائری نویس ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی۔
عالَمِ روحانی میں مُجرم کیلئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی
یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے
سامنے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا ہے تو مُجرم لازماً یہ کہے گاکہ صاحب! یہ غلط ہے۔ جیسے اِس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مُجرم کہتا ہے حضور یہ بالکل غلط ہے، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں۔ اس کے نتیجہ میں جج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس سچی ہے یا یہ سچا ہے اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یونہی آدمی کو دھر گھسیٹا ہے، نہ اس نے جُرم کیا نہ کچھ کیا یونہی اس کو دھر لیا گیا ہے۔ فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے یَوْمَ نَحْشُرُ ھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَاؤُ کُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ o ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ۳؎ جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے۔ تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مُجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ۔ اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟ تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ مُجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے، آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یونہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس سچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں۔ اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کرکے سچے سچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا اور ملزم یہ سمجھ لے گاکہ بس میرے اِس حربہ کے ساتھ شکار ہو گیا۔ یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کر لے گااور اگر سزا دیگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مُجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے۔
مجرموں کے خلاف ان کے کانوں آنکھوں اور جلد کی شہادت
ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ
حَتّٰی اِذَا مَاجَآئُ وْ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَ اَبْصَارُھُمْ وَ جُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۴؎ دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے۔
موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد
اب اس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی (GEOLOGY) والوں کے بیان کے مطابق
کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہؤا ہے جس کو ریکارڈر کہتے ہیں۔ طریق یہ ہے کہ اس کو کمرے میں چُھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نمائندہ یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اِس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو۔ میں بھی غریب آدمی ہوں میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلائو۔ اِس پر وہ فخر کرنا شروع کر تاہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ آئو تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جائو بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں۔ اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا۔ اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں اس کے بعد انہوں نے جاکر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے۔ جب عدالت میں پہنچے تو اُس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے اس کے ساتھ میری دشمنی ہے۔ یہ مجھ سے دس پونڈ رشوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی۔ مجسٹریٹ نے کہا لائو ثبوت۔ اُس نے کہا یہ ریکارڈر ہے۔ چنانچہ ریکارڈر پیش کیا گیا اس میں مُجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتاہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی، اب فلاں جگہ چوری کرونگا۔ غرض جو اس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے۔
ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دِقّتیں
لیکن یہ ریکارڈر بہت شاذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش
کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چُھپانا پڑتا ہے۔ پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے۔ جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم توہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکارڈر رکھانہیں جا سکتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈوائس(MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اِس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکارڈ ہی نہ ہو۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہؤا۔ اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کر کھسک جاتے ہیں کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آگیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے۔
خدائی ڈکٹوفون
پس اوّل تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارا
ڈکٹوفون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہوگا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹوفون موجود ہے۔ چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے وہ کہے گا۔ حضور! بالکل جھوٹ۔ یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے ۔نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا، حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی، شرک کے قریب نہیں گئے، میں تو *** ڈالتاہوں سارے بتوں پر، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں۔
کفار پر اتمامِ حُجّت
اللہ تعالیٰ کہے گا اچھا لائو ریکارڈر۔ ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی رکھا ہؤا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے حَتّٰی اِذَا مَا جَائُ وْھَا شَھِدَ
عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ۔ فرمائے گا، ٹھہرو! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمامِ حُجّت کر دیں۔ اے کانو! بتائو تم کیا گواہی دیتے ہو؟ اس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سُنی تھی، تم کیا کہتے ہو۔
کانوں کی گواہی
اس پر یکدم وہ الٰہی روحانی سُوئی کان کے پَردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی اِس نے غیبت کی تھی
اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے، جھوٹا ہے، فریبی ہے۔ فلاں وقت فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آکر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سُنی۔ اِسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سُنیں، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا۔ نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی۔ غرض جتنا ریکارڈ روزانہ کا تھا وہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے۔
آنکھوں کی گواہی
پھر فرمایا، وَاَبْصَارُھُمْ ۔ پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دیںگے اور کہیں گے۔ بولو۔ وہ کہیں گی حضور! فلاں دن فلاں عورت
جا رہی تھی اِس نے اُس کو تاکا، فلاں دن فلاں شخص کو اِس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اِس کو مار کے چھوڑوں گا۔ فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا۔ غرض تمام کا تمام آنکھوں کا ریکارڈ پیش ہونا شروع ہو جائے گا۔
جلد کی گواہی
پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذّت کے ذرائع ہیں۔ وَجُلُوْدُھُمْ ذرا اس کے چمڑے سے گواہی مانگو۔ چنانچہ چمڑے پر ریکارڈر رکھا گیا۔ اب چمڑہ بولا کہ
فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اِس نے اُس کو چُھؤا۔ فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اِس نے اُسے چُھؤا اور کہا مَیں یہ چُرائونگا۔ غرض چُھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اِس اِس طرح اِس نے کیا ہے۔
عمر بھر کا کچا چٹھا۵؎ سامنے آجائے گا
غرض وہ سارے نظارے جو ناجائز تھے تصویروں کی صورت میں سامنے آنے لگ گئے۔ وہ ساری باتیں
جو ناجائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سُنی تھیں اور وہ لذتِ لمس جس کا حاصل کرنا اِس کے لئے ناجائز تھا وہ بھی اِس کے سامنے بیان کر دیا گیا۔ غرض عمر بھر کا کچّاچِٹھا سامنے آگیا۔
اِسی طرح فرماتا ہے یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۶؎ اُس دن ہم کچھ اور بھی گواہیاں لیں گے۔
زبانوں کی گواہی
یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ ۔ اُس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی زبان پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا شروع
کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی۔ فلاں دن بیوی کو گالی دی، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی۔ فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی۔
ہاتھوں کی گواہی
وَ اَیْدِیْھِمْ ۔ پھر ہاتھوں پر سُوئی رکھی جائیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا۔ فلاں دن اُن کا یوں
مال اُٹھایا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے۔
پائوں کی گواہی
وَاَرْجُلُھُمْ۔ پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال اُٹھانے کے لئے
یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا۔
غرض کانوں آنکھوں اورچمڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پائوں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکارڈ سنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
کہتے ہیں ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے پَیر گواہی
دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نویس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے جُھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براء ت ہو گئی کہ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا۔
دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اِس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں۔ قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ اللّٰہِ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
یہاں کوئی شخص کہہ سکتاہے کہ دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت
سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پائوں وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پائوں کو موقع نہیں ملتا۔ تو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گِنی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔۷؎ پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پَیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پائوں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل میں بُرا خیال بھی آیا لیکن پھر بھی اِس نے اُس پر عمل نہیں کیا تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میںبیان نہیں کیا جائے گاکیونکہ ایک طرف خداکا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعثِ فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے۔ اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گااور جب نیکی تصور ہوگی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ پس معلوم ہؤا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مُجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی۔
ریکارڈ کی غرض محض مُجرموں پر اتمامِ حُجّت
ہوگی ورنہ عالِمُ الْغیب خدا سب کچھ جانتاہے
یہ دفتر کتنا مکمل اور کتنا شاندار ہے مگر اسی پر بس نہیں۔ اس طرح تمام قسم کی حُجّت پوری کرنے کے بعد فرمایا کہ دیکھو میاںیہ خیال نہ
کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مُجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیںمُجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عَالِمُ الْغیب ہیں پھر ہم کو عَالِمُ الْغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے۔ اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر حُجّت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کرنیکی ضرورت نہیں تھی، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیںتھی۔ ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بِلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حُجّت قائم کرکے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے۔ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَ مَا یَخْفٰی۸؎ اللہ تعالیٰ تمام باتیں جو ظاہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پائوں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں۔
پھر فرماتا ہے اَلا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ اَ لَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ ۹؎ اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں۔ یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑنا استعمال ہؤا ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چُھپ جائے۔ لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے رازظاہر نہ ہو جائیں۔ اَ لَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ۔ سنو!جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشٰی ثَوْبَہٗ یا اِسْتَغْشٰی بِثَوْبِہٖ دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے۔ یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ پس یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ کے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔
مفسّروں کی ایک غلط فہمی
اس محاورہ کی وجہ سے مفسّرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس آیت کے ماتحت بعض ایسی روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں
پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسّرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے۔ کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چُھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہ محاورہ ہے اور ’’کپڑے اوڑھتے ہیں‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے۔
مُجرم اپنے اعمال بُھول جائیں گے مگر
خداتعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہوگا
بہرحال فرماتا ہے کہ ہمیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں، کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم تو آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا۔ فرماتا ہے
یَوْمَ یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا اَحْصٰہُ اللّٰہُ وَ نَسُوْہُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَھِیْدٌ ۱۰؎ جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے یُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا، لو اب سُن لو ہم تمہیں سُناتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنامے انہیں سنانے شروع کر دیگا۔ اَحْصٰہُ اللّٰہُ وَ نَسُوْہُ اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گاکہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بُھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں۔ گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں۔ جب خدا نے سُنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَھِیْدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیزکا نگران اور گواہ ہے۔ فرشتوں کی اس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حُجّت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے۔
ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ
اِس جگہ اس سوال کا جواب بھی آگیا جو بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب
خدا عَالِمُ الْغَیبہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتاہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اس کے لئے ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ رازکھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بُھول گئے تھے اب اس بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہونگی۔
خداتعالیٰ کے علمِ ازلی کی شہادت
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اُن ڈائریوں کے علاوہ جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ
ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کیسا علم ہے۔ اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارا علمِ ازلی بتا رہا تھا کہ تم نے کَل کو یہ فعل کرنا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰـوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّا اَحْصٰھَا ج وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۱۱؎
اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گاکہ دیکھو! تم تو اب پیدا ہوئے اور تم سے اب عمل سرزد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو ازلی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا۔ اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہؤا تھا کہ فلاں پیدا ہوگا، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہوگا۔ یہ علمِ ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گاکہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں۔ فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں یہ اربوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے۔ اُس وقت مُجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے یٰـوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ ۔ ارے !ہم تومر گئے۔ یٰـوَیْلَتَنَا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔ میری ماں مرے۔ ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے یٰـوَیْلَتَنَا ۔ ارے ہلاکت میرے اوپر آکر پڑ گئی مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّا اَحْصٰھَا ۔ یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے۔ ساری کی ساری اس میں موجود ہیں۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔ اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے۔ وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہؤا موجود ہے۔ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے جُرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا۔
عالَمِ روحانی میں ہر جُرم کے لئے دس گواہ پیش کئے جائیں گے
گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہوگئیں۔
ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی۔ ایک ہاتھ،ؔ پائوںؔ، آنکھؔ، کان،ؔ زبانؔ اور جلدؔ کا ریکارڈ پیش ہؤا۔ تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیںتھی۔ چوتھے پُرانا ازل کا چِٹھا پیش ہؤا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علمِ الٰہی میں موجود تھاچنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہؤا ہے۔
ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں۔ باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہوجاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے۔ مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گاکہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے۔ اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہونگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں،پھر ریکارڈ آگیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھؔ ، کانؔ، زبانؔ، جلدؔ، ہاتھؔ اور پائوںؔ یہ چھ گواہ ہونگے جن کی گواہی ہوگی۔ گویا آٹھ گواہ ہو گئے۔ پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علمِ ازلی۔ غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے جُرم کی سزا دی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔
دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ
ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب جو بعد
میں احمدی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا۔ چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ اُن دِنوں نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں صوبے اکٹھے ہوتے تھے۔ اور وہ کیمبل پور یا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای۔اے۔سی تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا۔ مَیں نے اُس کی دَورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جاکے آئی۔ چونکہ وہ میرا بے تکلّف دوست تھا میرے پاس آیا اورکہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم مَیں آپ سے یہ تو امید کرتاتھاکہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے۔ اب آپ نے پچاس مِیل پر جاکے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جائونگا۔ میرا خرچ الگ ہوگا اور پھرممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم توبڑے بیوقوف نکلے۔ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان۔ تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے۔ پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ کہنے لگے جب ہم وہاںپہنچے تو پچاس مِیل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اورنہ اِس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہؤا تھا اور انہوں نے آکر کہا۔ خداکی قسم! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہؤا ہے۔ کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھاکہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہرحال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں! اس میں تجھ کو گھبراہٹ کس بات کی تھی۔ آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدانہیں ہوتا۔
مسئلۂ تقدیر اور قسمت
شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتابِ ازلی کا ذکرکیا ہے تو اس سے معلوم ہؤا کہ تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُسی شکل میں
ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تواس کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً اگرمرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر تُرشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گااور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گاتو پیٹ میں درد ہو جائے گایہ تقدیر اور قسمت ہے۔ یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اورپیٹ میں درد ہو جائے گا یہ جھوٹ ہے۔ خدا ایسا نہیں کرتا۔ قرآن اِس سے بھراپڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں۔ پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہؤا ہوتا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خداکے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے۔ اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھاہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیااور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتاہے اورجو اس بندے نے کام کرنا ہوتاہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے۔ تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا ا س کے جبرکے ماتحت وہی بات لکھتاہے جو اُس نے کرنی ہے اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے۔ یہ تم نہیں کہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کرکے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں۔
عالَمِ روحانی میں مُجرموں کے فیصلہ کی نقول
پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ ریکارڈ کی کاپی مانگتے ہیں۔ انہیں خیال
ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھائیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہؤا ہے کہ وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں۔ جب کوئی نقل لینے آتاہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کرائو مثلاً پندرہ روپے یا بیس روپے یا پچیس روپے۔ نقل نویسوں نے حرف گِنے اورکہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا۔ پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گُنا فیس دو۔ میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟اور آیا اُن کی تسلی ہوگی کہ گھر جاکر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟جب میں نے غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ o وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ یٰـلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ ۱۲؎
یعنی یہاں تو کچھ دِنوں کے بعدنقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تووہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گُنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں اِدھر فیصلہ ہوگا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اُس کے بائیں ہاتھ میںمُفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گاکہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مُفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔
فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا زائد فائدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا فائدہ یہ
ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کانشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میرا جُرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑ ھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جُرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں اُس وقت وہ کہے گا۔ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰـبِیَہْ۔کاش !یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مُجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے ۔ وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے۔ حساب بنتا ہے دو سَو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سَو پچاس کی۔ میری کانشنس(CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے جُرم بھی کئے، غداریاں بھی کیں، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی۔ مجھے پتہ نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی۔
نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی
اِسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے والے ہیں اُن کو بھی
ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَیَقُوْلُ ھَاؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰبِیَہْo اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ ۱۳؎
یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میںکاپی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خوبصورت کرکے دکھایا ہوگا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہوگا کہ کہیں گے ھَاؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰبِیَہْ۔ ارے بھائی! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہؤا ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس ھَاؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰبِیَہْ میں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کرکے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گاآئو میاں! آئو! ذرا دیکھو میرے اعمال کیا ہیں۔ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ ۔مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا۔ میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا۔
دُنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص
دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض نظام دنیا کی
مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہوتا۔ دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں۔ چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سَو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہؤا ہے لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سَو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے، ڈائری نویس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سزا ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں اوّل تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتاہے۔ پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ تیسرے مجسٹریٹ بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کاقاضی القضاۃ بننے سے انکار
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ
نے قاضی القضاۃ مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں قاضی القضاۃ نہیں بنتا۔ بادشاہ خفاہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے۔ مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور دُور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضی القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں۔ لیکن جب شہر میں پہنچے تو پتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے۔ بہرحال وہ آپ کے پاس آئے اورکہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے۔ وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں۔ انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہونگے ایک کہے گا اِس نے میرا سَو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گامیں نے کوئی نہیں دینا۔ اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے، یہ کہے گادینا ہے وہ کہے گانہیں دینا اورمیں بیچ میں بیٹھا ہونگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ وہ جو کہتا ہے اِس نے سَو روپیہ دینا ہے۔ اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا اور میں جو جج بن کر بیٹھاہونگا مجھے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ پس سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت تو میری ہوگی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھاہوں جس کے سپرد سب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ تومیں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتاہوں۔ تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا زبردست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں اور اپنے ہاتھ پائوں کا ریکارڈ لائیں گے تاکہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں انہیں بتائیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔
حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں
مگر اتنے بڑے زبردست نظام کو
دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں۔ حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے۔ تیرہ سَو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظام حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سَو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سَو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اِس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سَو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں۔ اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو سچے ڈائری نویس نہیں ملتے۔ اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتاہے تو پہلے تو ان کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھربھی جج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اورکوئی ایسا جج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے۔ وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ جج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہؤا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔ ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ بعض جج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ بیس سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مُجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے۔ لیکن قرآن کا جج دیکھو اُس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتاہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے۔
مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کو ایک خدشہ
ایک اور بات بھی یہاں قابلِ غور ہے
اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکرسُن کر (جیسے تم میں سے بھی جو ہوشیار آدمی ہونگے اُن کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا) مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ گُھن بھی پِسنے لگا ہے۔ مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن مَیں جو توبہ کرنے والا ہوں یا مَیں جس نے ساری عمر کوشش کرکے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق مَیں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو۔ اگر یہی ذلّت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا۔ ابوجہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہؓ کے اعمال جو چُھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا قریب ترین جو شاگرد تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہوتا تھا۔ اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہؤا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی، فلاں جگہ ڈاکہ مارا تو ذلّت تو ہوگی۔ اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے بہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جا سکے۔ اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈروں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہونگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہز ار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی۔ پھر اس کا مزہ کیا آئیگا، تائب کہے گاکہ توبہ تو منظور ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ مگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا۔
ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ
مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے
مگر اس دفترریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے لئے کیا سامان موجود ہے؟ تو معلوم ہؤا کہ اُس نے اِس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم
نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِ ھِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَّھُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۱۴؎
جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو! تم تو ہمارا حصہ تھے۔ اے کان تو میرا تھا، اے آنکھ تو میری تھی، اے زبان تو میری تھی، اے جلد تو میری تھی، اے ہاتھ تم میرے تھے، اے پائوں تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں۔
صِرف جلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ
ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے
اِس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک نمائندہ یعنی جلدؔ کو لے لیا ہے کیونکہ جلد ان سب چیزوں کو ڈھانپتی ہے۔ جلد کان پر بھی ہوتی ہے، جلد زبان پر بھی ہوتی ہے، جلد آنکھوں پر بھی ہوتی
ہے، جلد پیروں پر بھی ہوتی ہے، جلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے۔ پس چونکہ جلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جلد کا لفظ رکھا گیا ہے۔ بہرحال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیگا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سُوئی رکھتا ہے اور اس کو بجانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں۔ اُس نے جب سُوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا۔
عالَمِ روحانی کا ایک اور خوشکن قانون
اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی ہو گئی کہ ریکارڈر نے آپ ہی نہیں بجنا،
بجانے والا بجوائے گا تو بجے گا۔ اب دیکھیئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں۔ سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ وَ مَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰ تِہٖ وَ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۱۵؎
جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا(تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گااِس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گااُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہوگی۔ پھر کیا ہوگا۔ وَ مَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا جو ایمان لانیوالا ہوگا اور عملِ نیک کرنے والا ہوگا اُس نے کچھ بدیاں تو کی ہونگی، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰ تِہٖ ہم کہیں گے اُس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چیپیاں لگا دو تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے۔ لغت میں لکھا ہے کہ التکفیر سترہ و تغطیہ حتّٰی یصیر بمنزلۃ مالم یعمل۱۶؎ کہ تکفیر کے معنے ہوتے ہیں دھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا ناممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا تو یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰ تِہٖ اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگا دی جائیں تاکہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ اِس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہوگا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اِس نے کوئی گناہ کیا ہے۔
اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتا
تو وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا
اگر چیپیاں نہ لگی ہوتیں تو مؤمن کیوں کہتا کہ ھَاؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰـبِیَہْ آئو ذرا میرا اعمالنامہ پڑھو۔ اگر پڑھاتا تو ساتھ بدیاں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں
بھی لکھی ہوئی ہوتیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے۔ اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں! میں پھر دکھائونگا ۔ کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی۔ مگر چونکہ بدیوں پر چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا ھَاؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰبِیَہْ ارے میاں! آئو اورمیری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔
اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں بھی
نیکیوں میں بدل دی جائیں گی
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو چھپا دیا جائے گا۔ وہاں کچھ ایسے بھی اعلیٰ درجہ کے لوگ ہونگے کہ اُن کی محبت اور قربانی اور توبہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی
بدیوں کو چُھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا۔ چنانچہ فرماتا ہے یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ۱۷؎
کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر، اُن کی توبہ کو دیکھ کر، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گایہ میرا بندہ ہے ہم نے اِس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کرکے اس کے قُرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو۔ چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاںلگی ہوئی ہونگی اور اُس کے گناہ کو چھپایا ہؤا ہوگا اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کاکوئی کارنامہ لکھا ہؤا ہوگا۔ مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہوگا۔ گویا اس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہوگا۔ اِس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیاجائے گا لیکن یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا۔
حضرت معاویہؓ کی ایک نماز ضائع ہونے کا واقعہ
آثار میں پُرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہکوئی
بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا جائے تو سارے شہر میں دُھوم پڑ جاتی ہے کہ آج فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پُرانے زمانہ میں اس کے اُلٹ ہوتا تھا۔ پُرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دُنیوی خلفاء آئے وہ بھی خودنماز پڑھاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہؓ مسجد میں جاکر نماز پڑھاتے تھے۔ ایک دن ایسا ہؤا کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نمازکے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے (یہ پرانی سنّت ہے کہ امام کو گھر پر جاکے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جا رہا ہے نماز پڑھا دی۔ جب اُن کی آنکھ ُکھلی تومعلوم ہؤا کہ نماز ہوچکی ہے۔ اِس پر اُن کو اتنا صدمہ ہؤا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز باجماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کرا سکا۔ دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آکر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں! اُٹھ نماز پڑھ، میاں! اُٹھ نماز پڑھ۔ وہ پہلے تو گھبرائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آگیا ہے کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں۔ انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگا رہے ہو؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں۔ کَل مَیں نے تمہاری نماز ضائع کرا دی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اِس پر تم اتنا روئے اور تم نے اتنی توبہ کی کہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو حُکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے۔ میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اِسے جگا دو کہ نو(۹) نیکیاں تو بچیںیہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا۔ یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور توبہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے۔
بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اور مثال
اِسی طرح ایک دوسری مثال حدیث میں آتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے
کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ کریگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا۔ اُس کے بڑے جُرم ہونگے مگر اس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہوگی کہ جس کی وجہ سے خداتعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے۔ چنانچہ وہ خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا وہ ڈر رہا ہوگا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہوگا کہ اِس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشنا ہے مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبتِ رسولؐ بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں مَیں نے اس کو بخش دینا ہے۔ تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں !تم نے فلاں بدی کی۔ وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا۔ فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میںاس کے دس ثواب لکھ دو۔ پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی۔ فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دوتو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خداتعالیٰ اُس کے گناہ گِنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جائو لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گِنائے گا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سَو سَو ملنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کریگا لیکن جب وہ خاموش ہوگا تو بندہ کہے گاحضور! آپ بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا۔ اِسی طرح فلاں ڈاکہ آپ نے بیان نہیں کِیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میرا بندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے ۱۸؎ تو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ اس کے معنے اِسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اُس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہی اس کے معنے ہیں اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ توبہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوںکو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے۔
روحانی انعامات کو کوئی شخص چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا
پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن
لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے انہیں کوئی چِھین نہیں سکتا تھا۔ برخلاف دُنیوی انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسرا چِھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چِھین لیتا ہے۔
ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی ؒ
کا رونا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا
تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے شاگرد تھے پہلے وہ بڑے ظالم ہوتے تھے امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنرتھے انہوں نے اپنی گورنری
کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میںکوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے۔ آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چُنا جو بہت دلیرتھا اور اُس کو کہا کہ تم جائو اور جاکر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہوگا۔ وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھائیں، تکلیفیں جِھیلیں اور آخر ہمت کرکے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا۔ واپس آیا تو بادشاہ نے ایک بڑا دربار اس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیاجائے۔ چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ پُرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اِسی طرح دربار لگایا گیا۔ اتفاقاً شبلی ؒ بھی اُن دنوں اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے۔ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہؤا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اُس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے۔ چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں لے گئے اور اس کو خلعت پہنایا گیا۔ بدقسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہؤا لگی یا کچھ اور ہؤا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لانا بھول گیا۔ جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چِھینک آئی اور چِھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی۔ اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہو تا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رومال نہیں۔ اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلو لیا اور ناک پونچھ لیا۔ بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا۔ ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا۔ تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پُونچھتے ہو۔ فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے۔ خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلیؒ نے دربار میں چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے مَیں مر گیا۔ بادشاہ حیران ہؤا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچا رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہؤا ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! مَیں نہیں روؤنگا تو کون روئے گا اس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اِس نے اپنے بچوںکو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضاء حاصل ہو جائے اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اِس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے۔ تو حضور یہ کان،ؔ ناک،ؔ آنکھؔ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے مَیں روز آپ کی خاطر اسے گندہ اور ناپاک کرتا ہوں۔ مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گاکہ کمبخت! تو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا۔ پس مَیں نہ روئوں تو اور کون روئے؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفٰے پیش کیا اور چلے گئے ۱۹؎
بیعت کے لئے حضرت جنید ؒکی شرط
پھرانہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور کہا کہ میرے لئے دُعا کریں کہ مجھے توبہ نصیب ہو۔
اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ تمہاری توبہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنکی کوئی حد ہی نہیں۔ وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا۔ آخر کسی نے کہا کہ جنیدؒ بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحمدل ہیں اُن کے پاس جائو تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ مَیں شبلی ہوں۔ میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر سب نے انکار کیا۔ اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں۔ حضرت جنیدؒ نے کہا کہ ہاں خداتعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی توبہ کے آثار دکھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ جو حُکم دینا چاہیں دیں۔ فرمایا جائو اُس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے، کوڑے لگوایا کرتے تھے، نالشیں کیا کرتے تھے، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے، اُس شہر میں جائو اور ہر گھرپر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بُلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔ ایک ایک گھر میں جائو اور معافی لو جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھرمیرے پاس آنا مَیں تمہاری بیعت لے لونگا۔ شبلی نے کہا مجھے منظور ہے۔
شبلیؒ کا گھر گھر جا کر لوگوں سے معافی حاصل کرنا
چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سِرے سے لے کر دستک دینی
شروع کی۔ لوگوں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہامَیں شبلی ہوں۔ پہلے تو وہ سمجھیں کہ کوئی فقیر ہوگا یونہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ گورنر صاحب کھڑے ہیں۔ انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں؟ وہ کہتے حضور حضورکچھ نہیں مَیں معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو۔ پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں۔ وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بڑے اصرار کے بعد آخر لوگوں کو یقین آجانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ لیکن انسانی دل کو خداتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہو گئی کہ گورنر آج اس طرح پھر رہا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ شبلی جا کے دستک دیتے اِدھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اورکہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی۔ شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد واپس گئے حضرت جنیدؒ نے اُن کی بیعت لی اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خودبھی ایک بڑے بزرگ بن گئے۔ ۲۰؎
دُنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی ناپائیداری
تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دُنیوی بادشاہوں کے خلعت کبھی
آپ ہی چِھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چِھن جاتے ہیں۔ مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چِھین لیں۔ مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چِھین لیں۔ پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چِھین رہے ہیں۔ تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چِھن جاتی ہے۔ مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کوکہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی۔ گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کرو گے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چِھین لی جائے گی۔
روحانی جاگیرداروں کے متعلق عالَمِ روحانی کا قانون
چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں
جاگیرداروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ o ۲۱؎ ہم جو جاگیر دینگے اگرتو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہوگی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جاگیر اَبَدالآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اُس سے چِھینی نہیں جائیگی۔
مسلمانوں کو خداتعالیٰ کی عطا کردہ ایک مقدس جاگیر
یہ تو اُخروی انعام ہے۔ اِس دنیا کے انعام میں
بھی میں نے یہی قانون دیکھا۔ اُخروی انعام کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ میاں! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہاں کس نے دیکھا ہے۔ تم یہ بتائو اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتائو جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ o فِیْہِ اٰیٰتٌ م بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبرٰھِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِیْنَ ۲۲؎
اِس جاگیر کے ساتھ تعلق رکھنے والی سات اور جاگیریں
فرماتا ہے ایک جاگیر ہم نے دنیا کیکچھ
لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر ایک گھر بنائو اس کے ساتھ ہم تم کو جاگیر دینگے۔ تو سب سے پہلے جو گھر خداتعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا۔ مُبَارَکًا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی وَ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا۔ یہ دو جاگیریں ہو گئیں فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ مَقَامُ اِبرٰھِیْمَ چھوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی درجے پاتے رہیں گے۔ وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا اور پانچویں جاگیر یہ ہوگی کہ اس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مِل جائیگا۔ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی زیارت کرتے رہیں۔ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ اور ساتویں جاگیر یہ ہوگی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے۔
دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ
(۱) اُس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے۔
(۲) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہوگا۔
(۳) اس مقام سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔
(۴) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی درجے حاصل کر یںگے۔
(۵) جو شخص اس کے اندر داخل ہوگا اُسے امن حاصل ہو جائے گا۔
(۶) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو دُور دُور سے کھینچ کر لایا جائے گاتاکہ وہ اس کی زیارت کریں۔
(۷) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑ لے گا۔ یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوگا۔
ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی
اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا
ہوتا رہا۔ دنیا کی جاگیروں کے لینے والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر بھی وہ ناکام رہے اوران کی جاگیریں ضبط ہو گئیںلیکن یہاں کوئی پُوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی کوئی طاقت نہیں ،کوئی قوت نہیں ،کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جاگیر محفوظ رہی۔
یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سَو سال پہلے یمن مَیں ایک گورنر تھا۔اُس نے ایک گِرجا بنایا
اور کہا کہ مَیں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بنائوں گا مگر وہ آباد نہ ہؤا۔ آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گِرجا آباد کیوں نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پُرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیںکرنی پہلے اُس کو توڑ لو پھر کوئی تجویز ہوگی۔ اُس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا۔ چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے۔ وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ میں طائف کاجو بڑا بُت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے۔ اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچائو وہ تیار ہو گئے جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پُرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تم پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اِسی طرح کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے۔ جب یہ حُکم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا بیس یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سَو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں ۔پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے، اسی طرح مَنْجَنِیقیں وغیرہ تھیں۔ انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں۔ بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا مَیں نہیں مانتا، تم اپنا کوئی وفد بھیجو۔ مَیں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اِس گھر کو گِرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اِس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اِس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی۔ پس مَیں تمہارے لئے کوئی جائداد مقررکر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اِس گھرکو نہ گرائوںیہ گھر تو مَیں نے گِرا کر رہنا ہے۔ چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پرمُصِّر ہے کہ اس گھر کو میں ضرور گِرائوںگا اب کوئی وفد بھیجا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبدالمطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چُنا گیا۔ لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھربچ جائے۔
حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کی ملاقات
یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے اُن کو بُلایا اور ان سے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں۔
ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں، قومیت کے متعلق باتیں کیں۔ حضرت عبدالمطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متأثر ہؤا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ خوش ہو کے اُس نے کہا کہ مَیں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہؤا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی مَوجود ہیں آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں مَیں دینے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا میرے دو سَو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں۔ بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس نے کہا دو سَو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذہبی مکان گِرانے کے لئے آیاہوں مَیں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذہبی مقدس مقام ہے اِس کو چھوڑ دو مگر بجائے اِس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دو سو اونٹوں کو یاد رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو۔ باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی مَیں نے آپ کو بتایا ہے کہ دو سَو اونٹ میرے ہیں بھلا کیا حیثیت ہے دو سَو اونٹ کی مگر مجھے ان کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں۔ تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اِس کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی مجھے دو سَو اونٹ کی ہے؟اِس جواب سے وہ ایسا متأثر ہؤا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیت اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا۔ خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جائو اور مکہ کو خالی کر دو۔ لوگوں نے کہا۔ مکہ ہمارا مقدس مقام ہے۔ کیا اس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں؟ انہوں نے کہا میاں !تمہارا مکان نہیں خدا کا مکان ہے۔ تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اِس کا درد کیوں نہیں ہوگا جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا۔ تم چھوڑو اِس کو اور باہر چلواللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا۔ اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے۔ اب یہ خدا کی ہی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ ۲۳؎
ابرہہ کے لشکر کی تباہی
مگر وہاں ایک دن انتظار کیا،دو دن انتظار کیا ،تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر میں حملہ کرونگا
وہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا۔ پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے۔ آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوںمیں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا۔ پتہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی۔ وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے۔ دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے گئے غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی۔
اِس مقدس جاگیر کو چھیننے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی
اور جائداد پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ حکومتیں بدل گئیں جن کے سپرد جائداد کی گئی تھی، ابراہیم ؑ چلاگیا، اسمٰعیل ؑ چلا گیا، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں۔ یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہوکے آگیا لیکن اِس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اس کو چھیڑا تو ہم فوراً سیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا۔ چنانچہ اِسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ ۲۴؎
پتہ ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کِیا؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے پر میں نے اُن کے ارادوں کوکُچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا میں خدا اس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اِس کو چھین نہیں سکتا۔
گزشتہ جنگِ عظیم میں اٹلی کا ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی
پھر اس کے بعد اسلام کی حکومت
رہی۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بد ارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کونہ لیا جائے۔ چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر انگریزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اِس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خداتعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا۔
بیت اللہ کی تقدیس اور اُس کی عظمت کا زمانۂ قدیم سے اعتراف
یہ جاگیر اتنی پُرانی
ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح ؑکی پیدائش سے پہلے لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے یہ مقام عرب میں مقدس چلا آرہا ہے اور لوگ اس کی زیارت کو جاتے ہیں۔ تاریخ کہیں نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اتنی پُرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اِس کا سواں حصہ بھی پُرانی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو۔ ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں، تباہ ہو گئیں مگر یہ جاگیر اُسی طرح کھڑی ہے۔
ایک اور روحانی جاگیر جو خداتعالیٰ کے نیک بندوں کو دی گئی
پھر اسی دفتر سے ایک جاگیر جاری
ہوئی۔ فرماتا ہے وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۲۵؎
ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے۔ یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اورکس شان سے پورا ہؤا۔ اِس وعدے کی تفصیل یہ ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا جَائَ وَعْدُ اُوْلٰھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًاo ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ وَ اَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا ۔۲۶؎
پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہے فَاِذَا جَائَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْئٗا وُجُوْھَکُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًاo عَسٰی رَبُکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًاo ۲۶؎
ارضِ مقدس کے متعلق بعض شرائط اور قیود کا ذکر
فرمایا ہم نے ایک اور بھی جاگیر دی تھی اور اُس کے
ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا۔ چونکہ پہلے یہود کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ:ــ-
۱۔ کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جاگیر تم سے چِھین لیں گے۔ فَاِذَا جَائَ وَعْدُ اُوْلٰـھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِوہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائیگی اور تمہاری حکومت توڑ دیگی۔ گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چِھین لیں گے پس یہ شرطی بات ہے۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ مگر کچھ مدت کے بعدہم پھر یہ جاگیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَ اَمْدَدْنٰـکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰـکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا اور ہم تم کو مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آجائے گی۔ فَاِذَا جَائَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْئٗ ا وُجُوْھَکُمْ وَ لِیَدْخُلُو ا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چِھین لیں گے۔ جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی وعدالآخرۃ آئے گا لِیَسُوْئٗ ا وُجُوْھَکُمْ تاکہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جاگیر تم سے چھینی تھی تو اُس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اِس دفعہ بھی یہ دشمن گُھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا۔ وَ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا اور جس جس علاقہ میں جائے گااُسے تباہ کرتا چلا جائے گاگویا دوبارہ ہم پھر یہ جاگیر لے لیں گے۔ عَسٰی رَبُکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُم مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کر دیگا، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چِھین لینگے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آئو گے۔ اب دیکھو اس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں۔
بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ
اوّل یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے گی۔ چنانچہ بابلی فوجیں
آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سَو سال حکومت کی۔ اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے۔
رومیوں کا فلسطین پر قبضہ
پھر مسیح ؑکے بعد رومی لوگوں نے پھر اِس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ اور برباد کیا۔ اِسی طرح مسجد کو تباہ کیا اور اُس کے
اندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی۔ چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، دائود ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، اِسی طرح باقی انبیاء جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیاتھا وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی تورات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تورات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی
مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد اِنْ عَدْتُمْ عُدْنَا اگر تم لوگ پِھربِگڑے تو ہم تمہارے
ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گایعنی تم ہمیشہ کُڑھتے ہی رہنا غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :-
(۱)۔ یہ جاگیر چھین کر ایک اور قوم کو دے دی جائیگی
(۲)۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جاگیر تم کو واپس مل جائیگی۔
(۳)۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی۔
(۴)۔ پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آجائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی۔ موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوںکے ہاتھ میں آجائیگی۔
(۵)۔ مگر تم پھرشرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو۔
مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام
مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے۔
دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جاکر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی۔
یوروپین مؤرخین کی تعصّب آلود ذہنیت
یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے
ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یوروپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُرا نہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اِس مسجد میںخنزیر کی قربانیاں کیں۔ عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ مثلاً گبنؔ نے ’’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر (The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے روادارانہ سلوک کا ایک ایمان افروز نمونہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح
ہؤا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آکے دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہامَیں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اِس لئے نماز نہیںپڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں،کَل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچِھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے۔ اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے۲۸؎ پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ ان کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیاکہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکرگزار اور بے حیا قوم ہے۔
یہودیوں کی بجائے مسلمانوں کو فلسطین کیوں دیا گیا ؟
اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعد
سوال ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ رہا، یہ کیا معمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آجاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں۔ یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا جاگیر دینے والا تھا۔ خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہؤا کہ موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسیٰ ؑ اور دائود ؑ کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ ؑ اور دائود ؑ کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔ جاگیر قائم ہے مگر جو اس کے وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی۔
یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی
پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَاِذَا جَائَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا o ۲۹؎
پھراس کے بعد ایک اوروقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا، وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں۔ لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوںنے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوںکے ہاتھ میں رہے گی۔ میں نے کہا کہاں وعدہ تھا؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سُننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَاِذَا جَائَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا ۔ جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کرکے اس جگہ پر لے آئیں گے۔
بہائیوں کا لغو اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا۔ گویا اُن کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت
ہے کیونکہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ جب مسلمان وہاں سے نکا ل دیئے گئے تو معلوم ہؤا کہ مسلمان عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نہیں رہے۔ یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجودہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سَو سال رکھا تو اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہؤا۔ ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکرسَو دو سَو سال تک بلکہ تین سَو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا۔ وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے۔
یہودیت اور عیسائیت کو بہائی کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے؟
اگر واقعہ میں کسی غیر قوم کے اندر
آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سَو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے۔ تین سَو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے ،اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اِس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو۔ جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھا یا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لوجی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جاگیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہؤا تو اس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے۔
بہائیوں کی اپنی لامرکزیّت
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے
کہ نہ آگا نہ پیچھا۔ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں، ’’چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سَو سوراخ‘‘۔ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو۔ تمہارے پاس تو ایک چپّہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو اسلام کا تو مکہ بھی موجود ہے اور مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد جاگیر تھی، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں ۱۸۷۰ء سے بہائیت کا آغاز ہؤا اور اب ۱۹۵۴ء ہو گیا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گائوں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں، ہم نے تو چند سال میں ربوہؔ بنا لیا۔ پہلے قادیان بنا ہؤا تھا اب ربوہؔ بنا ہؤا ہے۔ یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے۔ یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بُغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہؤا ہے اورکہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے، پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔
فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے
غرض بابلیوںؔ کے آنے اور
رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آجانے سے جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سَو سال اور دوسری دفعہ قریباً تین سَو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ ؑ اور دائود ؑ کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گااور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟
یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے
سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے اور عارضی طور پر اب بھی
نکلا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں ’’عارضی طور پر‘‘ تو لازماً اسکے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے۔ لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ پِھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یُو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ پر لا کرمسلمانوں کو بسائیں۔
احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی
دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ
میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چُھپ جائیں گے۔ اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھرکے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھرکہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چُھپا ہؤا ہے اس کو مار۔۳۰؎ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھرخدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چُن چُن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔
فلسطین مستقل طور پر خداتعالیٰ کے
صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا
پس عارضی میں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَکا حکم موجود ہے۔ مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْن کے ہاتھ میں رہنی ہے۔ سو خداتعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنْ
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ ایچ بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔
وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا ہے اوروہ اعتراض
یہ ہے کہ یہاں وَعْدُالْاٰخِرَۃِ فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُالْاٰخِرَۃ سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُالْاٰخِرَۃِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیاہے اور اس صورت میں وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گااور اِس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُالْاٰخِرَۃِ اور ہے اور وہ وَعْدُالْاٰخِرَۃِ اور ہے۔ وہاں وَعْدُالْاٰخِرَۃِسے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اور یہاں وَعْدُالْاٰخِرَۃِ سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ’’تمہاری موت آئیگی‘‘ اور دوسری دفعہ کہے ’’تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہوگا‘‘ تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ ’’تمہاری موت آئیگی‘‘ کے یہی معنے ہیں کہ ’’بیٹا پیدا ہوگا‘‘ تو یہ حماقت کی بات ہوگی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے۔
۱؎ الانفطار: ۱۱ تا ۱۳ ۲؎ کنسوئیاں : چھپ کر کسی کی باتیں سننا
۳؎ الانعام : ۲۳،۲۴ ۴؎ حٰم السجدۃ : ۲۱ ۵؎ کچا چٹھا : صحیح صحیح حال
۶؎ النور : ۲۵
۷؎ بخاری کتاب الرّقاق باب مَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ اَوْ بِسَیِّـئَۃٍ
۸؎ الاعلٰی : ۸ ۹؎ ھود : ۶ ۱۰؎ المجادلۃ : ۷
۱۱؎ الکھف : ۵۰ ۱۲؎ الحاقّۃ : ۲۶ تا ۲۸ ۱۳؎ الحاقّۃ : ۲۰ ، ۲۱
۱۴؎ حٰم السجدۃ : ۲۲ ۱۵؎ التغابن : ۱۰
۱۶؎ مسلم کتاب الایمان باب ادنٰی اھل الجنۃ منزلۃً فِیْھَا
۱۷؎ الفرقان : ۷۱
۱۸؎ مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھل الجنۃ منزلۃً فِیْھا
۱۹،۲۰؎ تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۳۴۳ تا ۳۴۵۔ از فرید الدین عطار۔ مطبوعہ ۱۹۹۰ء لاہور
۲۱؎ حٰم السجدۃ : ۹ ۲۲؎ اٰل عمران : ۹۷،۹۸
۲۳؎ سیرت ابن ھشام جلد ۱ صفحہ ۸۱ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ء
۲۴؎ الفیل : ۲،۳ ۲۵؎ الانبیاء : ۱۰۶ ۲۶؎ بنی اسراء یل : ۶،۷
۲۷؎ بنی اسراء یل : ۸،۹
۲۸؎
۲۹؎ بنی اسراء یل : ۱۰۵
۳۰؎ مسلم کتاب الفتن باب لَا تقوم السّاعَۃُ حَتّٰی یمر الرجل بقَبْرِ الرَّجل (الخ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۹)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۵ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ)
عالَمِ روحانی کی نہریں
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
آج میںدوستوں کے سامنے اُسی مضمون کی ایک کڑی بیان کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۳۸ء سے جاری ہے اور جس کا تعلق میر ے حید ر آباد او ر دہلی کے سفر کے سا تھ ہے۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ اِس سفر میں مَیں نے سو لہ چیزیں دیکھی تھیں جن کا میری طبیعت پر گہر ا اثر ہؤا ۔ آج میَں انہی میں سے ایک اَور چیز کا ذکر کرنا چا ہتا ہوں ۔
میَں نے اِس سفر میں جو نظا رے دیکھے او ر جن عجا ئبات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اُن میں بڑے بڑے با دشا ہوں کے تیا ر کردہ قلعوںؔ اور مسجدوؔں اور میناروؔں وغیرہ کے علا وہ کچھ نہریں بھی تھیں جوایک علا قہ سے دوسرے علاقہ میں پا نی پہنچاتی تھیں اور جو پیا سی فصلوں اوردرختوں کے لئے ایک نئی زند گی کا مو جب ہو تی تھیں۔
پیاسی دُنیا کی سیرابی کاانتظام
میَں نے ان نہروں کو دیکھا اور غور کیاکہ کیا اِن دُنیوی نہروں کے مقا بلہ میں اللہ تعالیٰ نے عالَمِ روحانی میں بھی پیا سی دنیا
کی سیرابی کے لئے کو ئی نہریں بنا ئی ہیں یا نہیں اور اگر بنا ئی ہیں تو وہ دنیا کو کِس طرح سیراب کر رہی ہیں۔
دُنیوی نہروں کے فو ائد
اِس نقطہ نگا ہ کے مطا بق جب میَں نے سو چا تو میر ے دل میں سوال پید اہؤا کہ نہروں کا کیاکا م ہو تا ہے؟ او ر پھر میر ے دل
نے خود ہی اس سوال کا یہ جواب دیا کہ نہروں کا کام لو گوں کے لئے پا نی مہیّا کرنا ہو تا ہے جس سے کھیتوں کو بھی پا نی ملتا ہے پینے کے لئے بھی پانی مہیّا ہو تا ہے اورپھر پا نی کا ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے اور یہی فوائد روحانی دنیا میں دینی علوم اور معارف سے حا صل ہو تے ہیں اِسی وجہ سے قرآن کریم میں دینی علوم او رمعارف کانام بھی نہریں رکھا گیا ہے۔ چنا نچہ اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ میں فرما تا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْ بُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَا رَ ۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُ ۱؎
یعنی مخا لفینِ اسلام کے دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں کیو نکہ پتھروں میں سے تو بعض ایسے بھی ہو تے ہیں کہ اُن کے نیچے سے پانی بھی نکل آتا ہے لیکن اِن کے دلوں میں سے کو ئی ایمان کاقطرہ نہیں نکلتا ۔ اِس آیت کے یہ معنے نہیں کہ پانی ان پتھروں میں سے نکلتا ہے بلکہ ا س میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کے پیچھے پانی ہوتاہے جو اُن پتھروں کو پھا ڑ دیتا ہے اور پھر اُن میں سے نہر بہنے لگ جا تی ہے مگر یہ کُفّار ایسے سخت دل ہیںکہ اِن کے دلوں کے پیچھے جو روحانی پانی ہے وہ اُن میں سے بہنے کا کو ئی راستہ نہیں پا تا۔
جسمانی اور روحانی علوم بھی نہروں سے مشا بہت رکھتے ہیں
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ
دلو ں کے پیچھے بھی پانی ہو تا ہے اور سخت دل انسان بھی بعض دفعہ اُس کا مقابلہ نہ کر کے اُس کے آگے جُھک جا تے ہیں اور اُن میں سے پانی نکلنے لگ جاتاہے۔پس پانی کے معنے گویا روحانی اور جسمانی علوم کے ہیں ۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت کا اِن الفاظ میں ذکر فرماتاہے کہـ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیاَ کَمَائٍ اَنْزَلْنٰـہُ مِنَ السَّمَائِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَأْ کُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُط حَتّٰی اِذَٓا اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَھْلُھَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْھَآ اَتٰھَآ اَمْرُنَا لَیْلا اَوْ نَھَارًا فَجَعَلْنٰـھَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِط کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْ مٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ۲؎
یعنی دنیا کی زندگی کی مثال ایک پانی کی طرح ہے کہ ہم آسمان سے اُتارتے ہیںپھر اُس سے زمین کا سبزہ مِل جَا تا ہے جس کو لو گ بھی کھاتے ہیں اور جا نور بھی کھا تے ہیں او ر زمین بڑ ی سر سبز ہو جا تی ہے او ر لوگ سمجھتے ہیں کہ اَب وہ اُس کھیتی پر قبضہ کر لیں گے مگر اچانک دن کو یا رات کو خدا تعالیٰ کا کو ئی عذاب نا زل ہو جا تاہے اور وہ اِس طرح تباہ ہو جا تی ہے کہ گویا کَل یہاں کچھ تھا ہی نہیںاور جو لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہیںاُن کے لئے ہم اِسی طرح اپنی آیات کھو ل کر بیان کر تے ہیں۔
اس سے معلو م ہؤا کہ دینی یا دُنیوی علوم تو پانی کی طرح صاف ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے وہ بَدخیالات جو زمین کی نباتات کی طرح ہو تے ہیں اور جو ان کے دماغوں میں اُٹھتے رہتے ہیں جو دین یادُنیا کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہ علوم بجائے فائدہ بخش ہونے کے لو گوں کے لئے حسرت کا موجب ہو جا تے ہیں ۔ اِسی طرح فر ماتا ہے ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرْ شُہٗ عَلَی الْمَائِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً۔۳؎
وہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا عرش یعنی اُس کی حکو مت اس سے پہلے پانی پر تھی ۔ اگر اس آیت کے دُنیوی معنے لو تو اس کے معنے وہی ہیں جو وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ۴؎ میں بیان کئے گئے ہیں ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ خالقیت پانی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے اور اگر دینی معنے لو تو مائؔ کے معنے وحی الٰہی کے ہیں اور اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان پر حکومت اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہرکی ہے لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً تاکہ وہ تمہا ری آزما ئش کرے اور یہ ظا ہر کر دے کہ تم میں سے کون زیا دہ اچھے کام کر تا ہے۔پس پانی سے مراد علوم ہوتے ہیں دینی اور دُنیوی بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زبر دست بارش سے مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے
متعلق فرماتے ہیں کہ مثل ما بعثنی اللّٰہ بہ من الھدٰی والعلم کمثل الغیث الکثیر اَصاب ارضاً فکان منھا نقیّۃ قبلت الماء فا نبتت الکلاء والعشب الکثیر و کانت منھا اجادب امسکت الماء فنفع اللّٰہ بھا النا س فشر بوا وسقوا۔۵؎
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مجھے ہدایت اورعلم دیکر بھیجا ہے اُس کی مثا ل ایک بادل کی طرح ہے جس سے بڑی بارش ہو تی ہے مگر جب وہ کسی ز مین پر پڑتی ہے تو کچھ تو اچھی زمین ہوتی ہے وہ پا نی کو قبول کر لیتی ہے اور بڑا سبزہ نکا لتی ہے اور کچھ ایسی زمینیں ہو تی ہیں کہ وہ پانی تو لے لیتی ہیں لیکن ان کا کام صرف اتنا ہو تا ہے کہ وہ اس پانی کو جمع رکھتی ہیں۔ چنا نچہ لو گ اس ذخیرہ سے پانی پیتے اور آگے کھیتوں کو بھی پانی دیتے ہیں۔
انجیل میں روحانی خوراک اور روحانی پانی کے محاورہ کا استعمال
پھر یہ محاورہ صرف قرآن کریم میں ہی
نہیں بلکہ انجیل میں بھی بیان ہؤا ہے ۔ انجیل میں لکھا ہے کہ
’’سبھوںنے ایک ہی روحانی خوراک کھا ئی اور سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پا نی پیا اور وہ چٹان مسیح تھی۔‘‘ ۶؎
ان آیاتِ قرآنیہ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور انجیل کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ روحانی کتا بوں میں پانی سے مراد علمِ روحانی ہو تاہے اور اس کی مشا بہت میں کبھی دُنیوی علوم بھی مراد ہوتے ہیں۔مگر دیکھو کہ قرآن کریم کے عِلم اور مسیح کے حواریوں کے علم میں کِتنا عظیم الشان فرق ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ چٹان کے پیچھے پانی ہو تا ہے جو چٹان کو پھا ڑ کر نکل آتا ہے اور مسیحؑ کے حواری کہتے ہیں کہ:-
’’سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا۔‘‘
یہ ایک خیا لی مثا ل ہے جس کی کو ئی تصدیق نہیں ملتی لیکن چٹانوں کے پیچھے سے پانی کے چشمے نکلنے کی تو ہر پہاڑ پر مثا لیں مو جو د ہیں پس یہ ایک سچی اور طبعی مثال ہے مگر انجیل کی مثال نہایت مضحکہ خیز ہے۔ انجیل کہتی ہے کہ
’’انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا۔‘‘
اب بتائو وہ کو نسی چٹان ہے جو سا تھ ساتھ چلتی ہے اور لوگ اُس سے پانی پیتے ہیں کوئی بھی نہیں لیکن جن چٹانوں کا قرآن کریم ذکر کر تا ہے ایسی ہزاروں چٹانیں موجو د ہیں اور ہر شخص جا نتا ہے کہ وہ چٹانیں پھٹتی ہیں تو اُن کے پیچھے سے پانی نکل پڑتا ہے۔
پھر مسیحیوں نے بڑا زور مارا تو کہا کہ ’’وہ چٹان مسیح تھی۔‘‘جو اُن کے ساتھ ساتھ چلی اور جس کے پیچھے سے انہوں نے پانی پیا۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر مؤمن خواہ وہ چھو ٹا ہویا بڑا ایک چٹان ہوتا ہے جس کے پیچھے پانی ہوتا ہے اور جس سے لوگ فا ئدہ حا صل کرتے ہیں۔ گویا قرآن کریم اس پانی کو ہر انسان کے دل تک پہنچاتا ہے اور انجیل والے اس کو صرف مسیح پر پہنچ کر ختم کر دیتے ہیں۔
قرآن کریم کے ذریعہ ہزار ہا علمی نہروں کا اجراء
مگر جیسا کہ میں نے بتایا یہ نہریں کبھی خالص روحانی ہوتی
ہیں اور کبھی دُنیوی علوم پر مشتمل ہوتی ہیں۔ چنا نچہ جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ دینی علوم بخشنے کے قرآن کریم نے سابق علوم کو بھی زندہ رکھنے کا سامان کیاہے اور وہ علمی نہریں چلا دی ہیں جو پہلے کسی زمانہ میں چلتی تھیں یا کبھی بھی نہیں چلتی تھیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخا طب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے وہ کچھ سکھا یا ہے جو پہلوں کو نہیں ملا تھا۔ پس قرآن کریم کے ذریعہ جو عظیم الشان نہریں جاری ہوئی ہیں اُن کی مثال سا بق مذا ہب میں بھی نہیں دکھا ئی دیتی۔
علمِ کا ئنات کی نہر
چنانچہ پہلی دنیوی نہر جو اُس نے چلا ئی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی اوراس سے ایک علم کی نہر بہہ نکلی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰـوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَا فِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لاولِی الْاَلْبَابِ۔۷؎
یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت بڑے نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ پیدائشِ سماوی اور ارضی پر غور کریں تو انہیں اس سے ایک بہت بڑا علم میسّر آسکتا ہے ۔وَاخْتِلافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِاسی طرح رات دن کے باقاعدہ آگے پیچھے آنے میں بھی انہیں کئی نشان ملیں گے کیو نکہ اگر کو ئی قانون نہیں تو کیا وجہ ہے کہ روزانہ سورج ایک وقت میں چڑھتا ہے اور ایک وقت میں ڈو بتا ہے اور ہر مو سم کے مطابق اُسکے طلوع وغروب کا وقت بدلتا چلا جا تا ہے یہ چیز بتا تی ہے کہ کو ئی قانونِ قدرت مو جود ہے جس کے ما تحت یہ سلسلہ جا ری ہے۔
پھر فر ماتا ہے وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَا رَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنَّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ م بِاَ مْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔۸؎
یعنی اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو تمہا رے فا ئدے کے لئے لگایا ہؤا ہے اور سورج اور چاند کو بھی اُس نے تمہاری خدمت پر مقرر کیا ہؤاہے۔ اگر تم اِن امور پر غور کرو تو تم اس سے بڑا علم حا صل کر سکتے ہو ۔
غر ض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دُنیوی علوم بھی پھیلا ئے ہیں۔ یعنی بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فلا ں فلا ں علم ہے اس کو حا صل کرنے کی کوشش کرو۔ مثلاًپہلے تو اُس نے قانونِ قدرت کی طرف توجّہ دلائی۔ اس ایک علم کی طرف توجہ دلانے سے ہی اُس نے تمام جادئووں اور ٹو نے ٹو ٹکوں کو باطل کر کے رکھ دیاکیو نکہ اگر اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِوالی آیت ٹھیک ہے تو جتنے جا دو، ٹو نے اور ٹو ٹکے ہیں یہ سب باطل ہو جا تے ہیں۔ کیونکہ جا دو اور ٹونے ٹو ٹکے کے معنے یہ ہیں کہ قانون کو ئی نہیں چُھومنتر کیا اور بات ہو گئی حالانکہ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ ایک قانون ہے تم اس کی تلا ش کر و اور اس سے فائدہ اُٹھا ئو۔
عِلمِ جغر ا فیہ کی نہر
اِسی طرح قرآن کریم نے جن علوم کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اُن میں سے ایک عِلمِ جغرا فیہ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ قومِ لوط کی ہلاکت کا ذکر
کرتے ہوئے فرماتاہے۔اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَ سِّمِیْنَoوَ اِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍج اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۹؎
کہ ان بستیوں میں سمجھداروں اور عقلمندوں کیلئے بڑے نشا نات ہیں ۔ پھر فرما تا ہے کہ یہ بستیاں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں عرب میں سے گزرنے والے ایک ایسے راستہ پر ہیں جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چنا نچہ تاریخ سے ثا بت ہے کہ اگر انطاکیہ کی طرف قافلے جا ئیں تو قومِ لوط کی بستیاں اُن کے راستہ پر آتی ہیں اور پھر وہ راستہ ایسا ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے ۔ بعض رستے ایسے ہوتے ہیں جو کچھ وقتوں میں متروک ہو جا تے ہیں لیکن وہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے۔ گو یا اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جغر افیہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تمام شہروں اور وادیوں پر نشان لگائو اور پتہ لگائو کہ وہ کہاں کہاں واقع ہیں۔اسی طرح فرماتاہے وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاx وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰـکِنِھِمْ۔۱۰؎
یعنی عاد اور ثمود میں بھی بڑے بھا ری نشا نات ہیں۔انہوں نے جو شہر بسائے تھے ان کا تمہیں علم ہے لیکن ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ وَکَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْ یَۃٍم بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَاج فَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْم بَعْدِھِمْ اِلَّاقَلِیْلاً وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ ۱۱؎
یعنی کتنی ہی بستیاںہیںجو اپنی معیشت پر اِترا رہی تھیں مگر ہم نے انکو ہلاک کر دیا سو یہ اُن کے ویران مکا نات پڑے ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے اوراُن کے بعد ہم ہی اُن کے وارث ہوئے۔
گویا دونوں قسم کے نشانات مو جود ہیں۔کچھ بستیاں اور قلعے ایسے ہیں جو شہری آبادیوں کے درمیان ہیں تم ان کو تلاش کرو لیکن کچھ ایسی بھی بستیاں نکلیں گی جو با لکل ویران جگہوں پر ہیں۔
عاد اور ثمود کے متعلق قرآنی معلومات کا ایک عیسائی محقق کو اعتراف
یہ عجیب بات ہے
کہ عاد اور ثمود کے متعلق قرآن کریم میں جو ذکر آتا ہے اُس کے متعلق بعض متعصب عیسائی تک تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے زیا دہ ہمیں اُنکی کو ئی حقیقت معلوم نہیں۔چنا نچہ جُر جیؔ زیدان جیسے سخت متعصب عیسائی نے جغر افیۂ عرب پر ایک کتا ب۱۲؎ لکھی ہے اُس میں وہ لکھتا ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق یو نا نیوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور رومیوں نے بھی ان کا بعض جگہ پر ذکر کیا ہے اسی طرح جغرافیہ کے دوسرے ماہرین کا کچھ لٹر یچر بھی موجود ہے مگر سا رے لٹر یچر پڑھنے کے بعد مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عاد اور ثمود کے متعلق جو کچھ قرآن کریم میں لکھا ہے اُس سے ایک لفظ بھی زیادہ ہمیں معلوم نہیں باقی جو کچھ لکھا گیا ہے سب جھو ٹ ہے۔عادؔ اور ثمودؔ کی صحیح تاریخ صرف قرآن کریم سے ملتی ہے۔
اِن آیات میں صراحتاً جغرافیہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عاد کی بستیاں بعض ایسی جگہوں پر پائی جا تی ہیں جو ویران ہو چکی ہیں اور بعض ایسی جگہوں پرپائی جاتی ہیں جہاں ابھی ویرانی نہیں آئی۔
عِلمِ جہازرانی کی نہر
پھر عِلمِ جہا ز رانی کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔سَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَ مْرِہٖ
وَ سَخَّرَلَکُمُ الْاَنْھٰرَ۔۱۳؎
یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کِشتیاں مسخر کی ہیں تاکہ وہ خدا کے حکم سے سمندروں میں چلیںاِسی طرح اُس نے نہریں مسخر کی ہیں یعنی یہ بھی ایک علم ہے جو تمہارے لئے فائدہ بخش ہے۔ تم نہروں کے متعلق دیکھو کہ وہ کِس طرح چکّر کھا تے ہو ئے گزرتی ہیں اور پھر کو ئی نہر کسی ایسے سمند ر میں جا کر گرتی ہے جہا ں سے منزل مقصود بہت دُور ہوجا تی ہے اور کوئی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جو منزل کے قریب ہو تی ہے۔مثلاً یورپ میں بعض نہریں ایسی ہیں جو بحیرئہ روم میں آکر گِر جا تی ہیں او ر بعض بحر شمالی میں جاگرِتی ہیں۔اگر کو ئی بے وقوفی کرے تو اُس نے جہاں جانا ہے اُ س سے ہزاروں مِیل پرے چلا جا ئیگا۔پس فرماتا ہے اُس کی رفتار اور رُخ وغیرہ کو یاد رکھنا چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ نہر جا تی کد ھر ہے کیو نکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ نہر تمہیں کہیں کا کہیں پہنچادے ۔اسی طرح سمندروں کو دیکھو کہ سمندر تمہارے کام آنے والی چیز ہیں لیکن اُن پر بھی ایک قانون حاوی ہے او ر خاص ہو ائیں چلتی رہتی ہیں۔اگر ان ہؤائوں کو مدِّ نظر نہ رکھو گے تو وہی سمندر تمہارے لئے تباہی کا مو جب ہو جا ئیں گے یا مثلاً اس کے اندر چٹانیں بھی ہیں اگر ان چٹانوں کو مد نظر نہ رکھو گے تو تمہا رے جہا ز تباہ ہو جا ئیں گے چنا نچہ فرماتا ہے۔وَ مِنْ اٰیٰـتِہِ الْجَوَارِ فِی الْبَحْرِکَا لْاَ عْلَامِ۔ اِنْ یَّشَاْ یُسْکِنِ الرِّیْحَ فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلیٰ ظَھْرِہٖط اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰت لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ۱۴؎
یعنی سمندر میں ہم ہو ائیں چلاتے ہیں اگر وہ چلتی رہیں تو جہا ز چلتے رہیں گے لیکن اگر ہوائیں ٹھہر جائیں تو پھر جہا زنہیں چل سکتے۔تم کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر تم نے سمندر وں میں کامیاب ہونا ہے تو تمہیں ہمیشہ یہ معلومات حا صل کر تے رہنا چا ہئے کہ ہو ائیں کِس کِس وقت چلتی ہیں اور کِس کِس رُخ چلتی ہیں ۔اگر تم یہ علم ایجا د کر لو گے تو تمہارے جہا ز ٹھیک چلیں گے اور اگر اس علم سے واقفیت پید ا نہیں کرو گے تو تمہا رے جہا ز یا تو تم کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچائیں گے یادیر سے پہنچائیں گے۔
عِلمِ طِبّ کی نہر
چوتھا عِلمِ طِبّ ہے جس کی طرف قرآن کریم میں توجہ دلا ئی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَخْرُجُ مِنْم بُطُوْنِھَا شَرَابٌمُخْتَلِفٌ اَلْوَا نُہٗ فِیْہِ
شِفَائٌ لِّلنَّاسِط اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۱۵؎
یعنی شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں سے مختلف قسم کے شہد نکلتے ہیں اور اُن کے کئی رنگ ہوتے ہیں اور ہر قسم کا شہد کسی خا ص بیماری کے لئے مفید ہو تا ہے۔مگر فر ما یا اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ یہ نہیں فرمایا کہ جو ہما ری اس بات کو مان کرکسی کو شہد پِلا دے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے بلکہ فرمایا کہ ہم نے صرف ایک اشارہ کیا ہے آگے تمہیں خود غور کرنا پڑے گا۔ چنا نچہ اب اس کی تحقیقات ہوئی ہے اور پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جس قسم کے درختوں سے شہد لیتی ہے اُسی قسم کا فائدہ اس شہد سے پہنچتا ہے۔مثلاً بعض جگہ شہد کی مکھی ایسے درختوں سے شہد لیتی ہے جن میں جلاب کامادہ ہو تا ہے وہ شہد کھا ئو تو جلاب لگ جا تے ہیں۔ بعض ایسی بوٹیوں سے لیتی ہیں جو ملیریا کو دُور کرنے والی ہوتی ہیں وہ شہد کھا ئو تو ملیریا کوفا ئد ہ پہنچتا ہے۔ غرض مختلف قسم کے شہد مختلف قسم کی بیماریوں کا علاج ہیں ۔ اِسی لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ شہد میں فائدہ ہے بلکہ فرمایا ہے اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یَۃً لِّقَوْ مٍ یَّتَفَکَّرُوْن۔ہم نے تو اشارہ کر دیا ہے اب یہ تمہارا کا م ہے کہ تم تحقیقات میں لگو۔ اگرتم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ مختلف رنگ کے شہد مختلف امراض کا علا ج ہیں ۔ چنا نچہ جب مَیں علاج کے سِلسلہ میں لنڈن گیا تو ایک بڑے خا ند ان کی ایک اُستانی تھیں لارڈاِرؔون جو ہندوستان کے وائسرائے رہ چکے ہیں اُن کی ماں سے اُس کی ماں کی بڑی دوستی تھی۔کہتی تھی کہ اُس کے کئی خط میر ے پاس اب تک پڑے ہیں۔ ایک دن وہ شہد لے کر آئی جو خا ص بو ٹیو ں میں سے نکلا ہؤا تھا اور کہنے لگی یہ شہد آپ استعمال کریں یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے۔مَیں نے کہا ۔مجھے تو شہد مو افق نہیں ۔ کہنے لگی آسڑیلین شہد تو معلوم نہیں کِس کِس چیز کا ہو تا ہے مگریہ تو ہمارے ہا ں بعض لو گ خا ص طور پر اُن بو ٹیوں سے بنا تے ہیں جو امراض کے علاج میں خا ص طور پر مفید ہیں۔
اِسی طرح ہمارے پُرانے اطباء لکھتے ہیں کہ آم اور پھر خا ص قسم کے آموں کا شہد لیا جائے تو وہ دل کی تقویت کا مو جب ہو تا ہے اِسی طرح بعض اور امراض میں بھی مفید ہو تا ہے۔ تو شہد بے شک مفید ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ شہد کے فوائد کا صرف اُسی کو پتہ لگے گا جو تفکّر کر نیوالا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مختلف شہد مختلف بیما ریوں کو فا ئد ہ پہنچاتے ہیں ۔یہ عِلمِ طِبّ کا کتنا عظیم الشان باب ہے جو قرآن کریم کی ایک چھو ٹی سی آیت کے ذریعہ کھو ل دیا گیا ہے۔
عِلمِ ہندسہ کی نہر
پھر عِلمِ ہندسہؔ کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنا نچہ فرماتاہے ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْراً وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ
لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ۔۱۶؎
یعنی خدا تعالیٰ نے سورج کو ذاتی روشنی والا اور قمر کو نو ر والا بنایا ہے اور اُن کی کئی منازل مقرر کی ہیں ۔ وہ اپنے اپنے منازل میں چلتے ہیں تا کہ تم کو سا لو ں اور حساب کا علم ہو ۔ گویا اس ذریعہ سے اللہ تعا لیٰ نے عِلمِ حساب کی طرف بھی توجہ دلا ئی ہے پھر فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ۔۱۷؎
یعنی سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ اور قانون اور حساب کے ما تحت چل رہے ہیں اور جڑی بو ٹیاں اور درخت بھی خدا تعالیٰ کے آگے سرنِگوں ہیں۔
عِلمِ ادب کی نہر
اسی طرح عِلمِ ادبؔ کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ فرماتاہے وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌط لِسَانُ الََّذِیْ
یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ۱۸؎
یعنی ہم خوب جا نتے ہیں کہ یہ کُفّار کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انسان ہے جسے کسی اَور شخص نے سکھایا ہے قرآ ن اِس کا اپنا نہیں ۔ فر ما تا ہے جس شخص کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے وَ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن او ر یہ کلا م عربی زبان میں ہے اور اس میں جو بات بھی کہی گئی ہے اس کی دلیل دی گئی ہے ۔ اگر یہ جھو ٹ ہے تو جھو ٹ کی تائید میں تو دلیل نہیں ہؤا کر تی۔اور اگر کہو کہ عجمی نے سکھا یا ہے تو محمد ؐ رسول اللہ تو عربی کے سِوا کچھ جا نتا نہیں۔ اور اگر کہو کہ عربی نے سکھایا ہے تو قرآن کریم کی صرف عربی معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عَرَبِیٌّمُّبِیْنٌ ہونے میں معجزہ ہے یعنی اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اند ر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ہم کیو ں حکم دیتے ہیں ، خدا کو کیوں منواتے ہیں، فر شتوں کو کیوں منواتے ہیں، رسولو ں کو کیو ں منواتے ہیں، جھو ٹ سے کیو ں منع کرتے ہیں، سچ کی کیو ں تائید کرتے ہیں، ظلم سے کیوں روکتے ہیں، انصاف کی کیو ں تائید کرتے ہیں، غرض یہ عَرَبِیٌّمُّبِیْنٌ میں ہے اور اپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتا ہے جھو ٹا آدمی دلیلیں کہاں سے لے آئے گا ۔پس تمہاری دونو ں باتیں غلط ہیں ۔ تم یہ بھی نہیںکہہ سکتے کہ اسے کسی عجمی نے سکھا یا ہے کیو نکہ محمد ؐرسول اللہ تو عجمی نہیں یہ تو عربی ہے اِس کو تو کِسی اَور زبان کا پتہ ہی نہیں اور تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عربی نے سکھا یا ہو کیو نکہ اگر کسی عربی نے سکھا یا ہو تو بہر حال قرآن جھو ٹ تو ہؤا اور اگر قرآن جھوٹا ہو گا تو اس میں دلیلیں کہاں سے آجائیں گی حا لانکہ تم جا نتے ہو کہ یہ کلام مُبین ہے۔ مُبِیْنٌ کے معنے ہوتے ہیں ظا ہر کر نے والی یعنی جو بات بھی کہتی ہے اُسکوکھو ل کر رکھ دیتی ہے اور اُس کی معقولیت کے دلا ئل دیتی ہے۔
عِلمِ معانی کی نہر
پھرعِلمِ معانی کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے۔معانی کے معنے ہوتے ہیں مو قع کے مطابق کلام بیان کرنا۔ جو کتاب موقع کے مطابق
ہر بات بیان کرے اور کسی مر حلہ پر بھی کسی بے مو قع بات کا اُس میں ذکر نہ ہو اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عِلمِ معانی کے مطا بق ہے۔قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ اس کتاب میں عِلمِ معانی موجود ہے چنانچہ فرماتاہے کہ وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّ لْنَا عَلٰی عَبْدِنَا۔۱۹؎ اگر تم کو ہماری اِس تعلیم پر جو ہم نے قرآن میں نازل کی ہے کچھ شبہ ہے تو فَاْئتُوْا بَسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۲۰؎ تم اس قسم کی کوئی اور سورۃ پیش کرو۔ وَادْعُوْا شُھَدَائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَََ۔۲۱؎
او ر اپنے غیر اللہ مدد گا روں کو بھی اپنی مدد کے لئے بُلا لو اگر تم سچے ہو ۔مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے اسلئے کہ وہ جو بات بھی کریں گے چو نکہ جھو ٹ کی تائید میں ہو گی اس لئے کبھی موقع کے مطابق نہیں ہو گی محض اوٹ پٹا نگ بات کریں گے مگر قرآن جو بات بھی کرے گامو قع کے مطابق ہو گی۔
عِلمِ بیان کی نہر
اِسی طرح قرآن نے عِلمِ بیان کا بھی ذکر کیا ہے فرماتا ہے۔ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْ ئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔۲۲؎
یعنی ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتا ب نازل کی ہے جس میں تمام ضروری مطالب اور مضامین بیان کردیئے گئے ہیں۔بیان کے معنے ہو تے ہیں ایک مطلب کو مختلف رنگوں میں بیان کرنا اور قرآن کریم یہی فرماتاہے کہ وَکُلَّ شَیْ ئٍ فَصَّلْنٰـہُ تَفْصِیْلاً۔۲۳؎
یعنی ہم نے اس کتاب میں تمام با توں کو اِس طرح کھو ل کھو ل کر اور مختلف پیر ایوں میںبیان کیاہے کہ ہر بات دل میں گڑ جا تی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ جو دلیل چا ہئے تھی وہ ٹھیک طور پر بیان کر دی گئی ہے۔
عِلم النفس کی نہر
پھر قرآن کریم میں عِلم النفس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرما تاہے۔ اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۔۲۴؎ کہ اگر تم
اپنے دلی جذبات کو سمجھو تو تمہیں معلوم ہوکہ ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔علم النفس کے معنے ہو تے ہیں دلی جذبات کو سمجھنا اور شعور بھی اسی جذبہ کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتاہے۔ گویا قرآ ن کریم یہ بتا تا ہے کہ اگر انسان اپنے دلی جذبات کو سمجھے تو پِھر اُسے قرآن کا علم سمجھ میں آتا ہے اور اس طرح بنی نوع انسان کو نصیحت کی ہے کہ اگر تم نے قرآنی باتوں کو سمجھنا ہو تو تمہیں اپنے دل کے جذبات پر غور کرنا چاہئے تمہیں سمجھ آجا ئے گی کہ قرآ ن کریم کی تمام باتیں سچی ہیں۔ ورنہ اگرتم اپنے نفس پر غور نہیں کر و گے تو قرآ ن بھی سمجھ نہیں آئے گا۔
عِلمِ کیمیاکی نہر
پھرقرآن کریم میں عِلمِ کیمیا کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے فرماتاہے مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَ منْبَتَتْ سَبْعَ
سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّا ئَۃُ حَبَّۃٍط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَائُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۲۵؎
یعنی جو لوگ اپنے ما لوں کواللہ تعا لیٰ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سے سات بالیں نکلیں اور ہربالی میںسَو سَو دانہ ہو اور خدا چاہے تو وہ اس سے بھی بڑھا دے ۔اِس آیت میں اُن کیمیا وی تغیر ات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جودانے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ زمیندار تو اتنا ہی سمجھتا ہے کہ میَں نے دانہ بویا تھا جو اُگ آیامگر سا ئنس دان سمجھتا ہے کہ خالی دانہ نہیں اُگا بلکہ دانہ کے اُ گانے کے لئے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہیں جن سے دانہ اُگتا ہے تب تو وہ اُگے گا ورنہ نہیں ۔آخر وجہ کیا ہے کہ کسی زمین میںتِل اُگتا ہے اور کسی میں نہیں اُگتا، کسی میں گنّا اُگتا ہے اور کسی میں نہیں اُگتا، کِسی میں کپاس اچھی اُگتی ہے اور کِسی میں نہیں اُگتی، کسی میں گندم اچھی اُگتی ہے اور کِسی میں نہیںاُگتی، اس کی وجہ یہی ہے کہ گندم بعض خا ص کیمیاوی چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی چیزیں زمین میں موجو د ہو ں تب تو گندم اُگے گی ورنہ نہیں ۔ اِسی طرح کپاس بعض خا ص چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہو نگے تب تو اچھی کپا س نکلے گی ورنہ نہیں ۔تو اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے کہ ایک دانہ سے سات سَو دانہ تک پیدا ہو سکتا ہے۔
پنجا ب یو نیو رسٹی کے ایک پروفیسر سے ملاقات
پنجاب یو نیو رسٹی کا ایک پروفیسر تھا جس کا نام مسٹر پُوری تھا وہ
ایک دفعہ قادیان آیا۔ وہ گو رنمنٹ کی طرف سے اِسی تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا کہ اپنے ملک کے زمینی اجزاء دیکھ کر معلوم کرے کہ اُن میں کیمیاوی اجزاء کتنے ہیں اور وہ کس حد تک گندم یادوسری چیزیں پیدا کر سکتے ہیں ۔ وہ مجھے مِلااور کہنے لگا کہ میر ا علم اسبارہ میں بڑا وسیع ہے اور آپ کو مجھ جیسا کوئی اور آدمی نہیں مِلاہو گا۔ مجھے گورنمنٹ نے خاص طور پراس کام کے لئے مقرر کیا ہے اور میری تحقیقات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اڑھا ئی سَومن تک فی ایکڑ گندم پیدا ہو سکتی ہے او ر مجھے اپنی اس تحقیق پر بڑاناز ہے۔اُس نے لاہور کے پاس ایک بہت بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنا ئی تھی وہی جگہ بعد میں ہمیں بھی الاٹ ہو ئی تھی اور کچھ عرصہ تک ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی وہیں رہی۔ جب اُس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا اڑھا ئی سَومن؟ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ سات سَو من تک پیداوار ہوسکتی ہے وہ یہ سُن کر بالکل گھبرا گیااور کہنے لگا قرآن کریم میں یہ لکھا ہے؟ میَں نے کہا ہاں!قرآن میں ذکر ہے۔کہنے لگا پھر مجھے وہ آیت لکھوا دیں ۔چنانچہ میَں نے اپنے سیکرٹری کوبُلا کر کہا کہ یہ آیت اسے لکھ کر دیدیں۔ وہ کہنے لگا مجھے اس کا بالکل علم نہیں تھا یہ تو بالکل نیا علم ہے اور ابھی ہندوستان میں شروع بھی نہیں ہؤا مَیں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کی تحقیقات شروع کی ہے اور یورپ کی سٹڈی(STUDY) کر کے مجھے اِس کا م پر مقرر کیا گیا ہے۔ میَں نے کہا۔سات سَو من ہی نہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَائُ اللہ تعا لیٰ چاہے تو سات سَوسے بھی بڑھا دے ۔کہنے لگا میری تحقیقات اِسوقت تک صرف اتنی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنے کیمیا وی اجزاء موجود ہیں کہ فی ایکڑ اڑہائی سَو من تک گندم پیدا ہو سکتی ہے مگر جو باہر کی کتابیںمیَں نے پڑھی ہیں اُن سے چار سَومن تک پتہ چلتا ہے۔میں نے کہا۔پھر ان کتا بوں سے بھی بڑھ کرقرآن کریم میں علم موجود ہے قرآن کہتاہے کہ فی ایکڑ سات سَو من تک گندم ہو سکتی ہے ۔
اب دیکھو اس میں عِلمِ کیمیا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم زمین کو دیکھیں کہ وہ اجزاء جن سے گندم پیدا ہو تی ہے یا کپاس پیدا ہوتی ہے زمین میںکسقدر موجود ہیں اور گندم کا دانہ یا کپاس کابیج اُن اجزاء سے آگے کتنے زیادہ بیج پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اِسی طرح فرمایا وَقَالُوٓا ئَاِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ئَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًاo قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْحَدِیْدًاo اَوْ خَلْقاً مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْج فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۔۲۶؎
یعنی کفار کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیا ں ہو جا ئینگے اورچُورا ہو جا ئینگے تو کیا پھر ہم کو ایک نئی پیدائش میں اُٹھا یا جا ئے گا ۔ تُو اُن کو کہہ دے کہ ہڈیا ں اور چُورا ہونا تو الگ بات ہے ا گر پتھر بھی بن جا ؤ یا لوہا بھی بن جاؤ تب بھی خدا تعالیٰ تمہیں پیداکرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
مرورِزمانہ سے انسانی جسم کا پتھر بَن جانا
اب بظاہر یُوں معلوم ہو تاہے کہ یہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایک ڈھکوسلا ہے کہ پتھر بن
جاؤ یا لو ہا بن جاؤ پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں زندہ کر ے گا ۔ ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ آدمی نے پتھر کس طرح بننا ہے یُو نہی قرآن نے ایک ڈھکوسلہ مار دیا ہے۔ لیکن ابھی کو ئی دو ہفتے ہو ئے روس کی ایک خبر اخبارات میں چَھپی ہے کہ روس میں آدمیوں کے بعض پُرانے ڈھا نچے ملے ہیںجو کہتے ہیںکہ کئی لاکھ سال کے ہیں اور اُن کی ہڈیا ں پتّھر بن چکی ہیں ۔اِس سے معلوم ہؤا کہ انسان کے لئے مرورِ زمانہ سے پتّھر بننا ممکن تھا۔ یوں تو پہلے کہتے تھے کہ پتّھر کا کوئلہ بھی درحقیقت درختوں سے ہی بنا ہے مگر انسانوں کے متعلق اِس وقت تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ تازہ علم نکلاہے کہ انسانوں کے بعض پُرانے ڈھا نچے ملے ہیں جن کی ہڈیا ں پتّھر بن چکی ہیں اور یہ بھی قرآ ن کہتا ہے کہ ارے میاں! اِس میں تعجب کی کیا بات ہے ہڈیا ں تو الگ رہیں وہ تواسی انسانی جسم کا حصّہ ہیں تم پتّھر بھی بن جا ؤ تب بھی خدا تمہیں پیدا کر سکتا ہے۔
عِلمِ فلسفہ کی نہر
پھر عِلمِ فلسفہ ہے۔فلسفہ کے معنے ہوتے ہیںکسی چیز کی حکمت بیان کرنا۔ اللہ تعا لیٰ عِلمِ فلسفہ کی طرف بھی توجہ دلا تاہے اور فرماتا ہے وَاَنْزَلَ اللّٰہُ
عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْماً ۲۷؎
اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتا ب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ کچھ علم سکھایا ہے جو پہلے تو نہیں جانتا تھا ۔اِس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی حکمت ہؤا کر تی ہے وہ حکمت سیکھنے کی کو شش کرو۔ اِسی حکمت کو فلسفہ کہتے ہیں جو قرآ ن کریم میں بیان ہے۔مثلاً تاریخ تو یہ ہے کہ اورنگ زیبؔ کوئی بادشاہ تھا، اکبرؔ کوئی بادشاہ تھا اوریہ بحث کہ اکبر تُرک تھا یا مغل؟ وہ ہندوستان میںکیو ں آیا اس کے ملک میں کیا حالات پیدا ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنا ملک چھو ڑکر ہندوستان آیا اور کونسے حالات پیدا ہوئے کہ جن کی وجہ سے اُس نے تھو ڑی سی فوج سے جو صرف چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی چا لیس کروڑ کے ملک کو فتح کر لیا (گو اُسوقت توچالیس کروڑ نہیں تھے صرف دو کروڑ کی آبادی تھی)یہ چیز ہے جو فلسفہ کہلاتی ہے۔اِسی طرح یہ مواد کہ اُن کے ملک میں اچھی غذاء نہیں ہوتی تھی، اچھی زمینیں نہیں تھیں اور اِدھر ہندوستان میں لڑائیاں تھیں، فساد تھے، جھگڑے تھے جنکی وجہ سے اُس کی فوج تھوڑی دیر میں ہی غا لب آگئی یہ فلسفہ ہے۔غرض فلسفۂ تاریخ اور چیز ہے اور تاریخ اور چیز ہے۔ دیباچہ ابن خلدون جو ایک مشہور کتاب ہے اُس میں فلسفۂ تاریخ پر ہی بحث ہے۔ایک انگریز پروفیسر ایک دفعہ مجھے قادیان میں ملنے آیا تو میَں نے اُس سے کہا کہ فلسفۂ تاریخ پر اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب تم کو معلوم ہے تو بتاؤ ۔وہ کہنے لگا کہ دیباچہ ابن خلدون سے بڑھ کر یو رپ اور امریکی میں کوئی کتاب نہیں ۔جو کچھ فلسفہ اس نے بیان کیا ہے اس سے بڑھ کر ہم بیان نہیںکرسکتے وہ سب سے اعلیٰ کتاب ہے۔ مگر ابن خلدون نے فلسفۂ تاریخ کوکیوں بیان کیا؟ اسی لئے کہ قرآن کریم میں اس نے پڑھا تھا کہ ہر چیز کا فلسفہ معلوم کروجب تم معلوم کرو گے تو تمہیں اصل راز کا پتہ لگ جا ئے گا۔اُس نے سو چا کہ اسلامی حکومتیں کیوں تباہ ہوئیں دوسرے ملک کیوں تباہ ہوئے اور اس نے فلسفئہ سیا ست پر غور کیا تو یہ دیباچہ لکھا مگر اُسے اس علم کا قرآن کریم سے ہی پتہ لگا کیو نکہ قرآن کریم نے ہی اس علم کی طرف توجہ دلائی ہے۔
عِلمِ منطق کی نہر
پھر عِلمِ منطق کو لو وہ بھی قرآن کریم بیان کرتاہے۔ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَا لُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیہِ
اٰبَا ئَنَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَاؤُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًاوَّ لَا یَھْتَدُوْنَ۲۴؎
یعنی جب اُن سے کہا جا تا ہے کہ جو کچھ اللہ تعا لیٰ نے نازل کیا ہے اُس کی فرما ں برداری کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی فرمابرداری کرینگے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے تھے۔ فرماتا ہے تمہارے باپ دادا چاہے بیوقوف ہی ہوں تب بھی اُن کے پیچھے چلو گے؟ یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ دادا عقلمند تھے اس لئے ہم اُن کی بات ما نیں گے مگر یہ کہنا کہ چاہے وہ بیوقوف تھے یا عقلمند ہم نے چلنا اُن کے پیچھے ہے یہ عقل کے خلاف بات ہے اور منطق اسی کوکہتے ہیںکہ دلیل کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ کو نسی بات زیا دہ معقول ہے اور کونسی غیر معقول ۔یہاں منطقی دلیل سے قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ جو بات معقول ہو اُس کوما ننا چاہئے او ر جو غیر معقول بات ہو اس کو نہیںما ننا چاہئے۔
علمِ موازنہء مذاہب کی نہر
اِسی طرح عِلمِ موازنہء مذاہب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔فرماتاہے یٰٓـاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَاجُّوْنَ
فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰۃُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْم بَعْدِہٖط اَفَلا تَعْقِلُوْنَ۲۹؎
یعنی بعض لوگ اپنے آباء کی عزّت کرنے کے لئے یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہوئے کب ہیں محض جوش میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے مذہب پر تھے۔ مثلاًکہہ دیتے ہیں کہ ابراہیمؑ بھی یہودی تھا یا ابراہیم ؑ بھی عیسائی تھا ۔ فرماتا ہے تم اتنا نہیں سو چتے کہ تورات اور انجیل تو بعد میں آئی ہیں پھر وہ یہودی یا عیسائی کِس طرح ہو گیا۔
ایک عیسائی پادری سے گفتگو
میں بچہ تھا کہ ایک دفعہ ایک عیسائی پادری سے میر ی بحث ہوئی ۔میَں نے کہا تم جو کہتے ہو کہ مسیحؑ کے کفارہ پر
ایمان لائے بغیر کسی کی نجا ت نہیں تو ابراہیم ؑ کی نجا ت کِس طرح ہوئی۔ کہنے لگا ابراہیمؑ بھی کفارہ پر ایمان رکھتا تھا۔میَں نے کہامسیحی کفا رہ تو اس کے دو ہزار سال بعد ہؤا وہ پہلے کس طرح ایمان لے آیا تھا مگر اس کا وہ کوئی جواب نہ د ے سکا۔بس ایک گپ ہانک دی کہ ابراہیم ؑ کفا رہ پر ایمان رکھتا تھا۔
ایک مخلص نو جوان کا لطیفہ
ایک مخلص نو جوان جو سیّد تھا اورعلی گڑھ میں پڑھا کرتاتھا بچپن میں میر ا دوست تھا۔ اب تو وہ فوت ہو چکاہے۔ بہت
سیدھا سادہ آدمی تھا۔ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے ایک شبہ ہے جو میرے دل میں پیدا ہؤا ہے۔میَں نے کہا کیا؟ کہنے لگا شیعہ سُنّی کا بڑا جھگڑا ہے یہ تو فرمائیے حضرت ابو بکر ؓ اور عمرؓ شیعہ تھے کہ سُنّی ۔میَں نے کہا اُن کے شیعہ سُنّی ہو نے کا کیا سوال ہے شیعیّت او ر سُنّیت تو بعد میں پیدا ہوئی ہیں ۔ اصل بحث تو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ خلیفہ تھے یا نہیں؟ کیو نکہ اِسی کی وجہ سے شیعیّت اور سُنّیت پیدا ہوئی ہیں۔کہنے لگا اچھا! مجھے یہ خیال نہیںآیا تھا تو وہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کوبھی جو پہلے گزر چکے تھے شیعہ سُنّی بنانا چاہتا تھا۔
علمِ نباتات کی نہر
پھرعِلمِ نباتات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔فرماتا ہے وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔۳۰؎
یعنی زمین میں جسقدر نباتات ہیں اُن میں جو ڑا جوڑا ہوتا ہے۔ کچھ نر ہو تے ہیں اور کچھ مادہ ہوتے ہیں۔جب نر اور مادہ کو ٹھیک طرح ملایا جائے تو فصل بڑی اعلیٰ ہو تی ہے اسی لئے ماہرین زراعت نے کہا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیا ں رکھنی چاہیئں وہ نر درخت پر بیٹھ کر اور اُس نر درخت کا نُطفہ لے کر ما دہ درخت پر رکھ دیتی ہیں تو پھل زیا دہ لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زند گی کاایک واقعہ
عرب لو گ ہمیشہ نر اور مادہ درختوں کو آپس میں ملایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزررہے تھے کہ آپؐ نے دیکھاکہ کچھ لوگ کھجوروں کے نروں کو کھجور کے مادہ سے ملا رہے ہیں۔آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نبا تات کو جو ڑا جوڑا بنایا ہے۔یہ بھی قرآن کریم کی سچائی کا ایک ثبوت ہے۔ اگر آپ کے علم میں یہ بات ہو تی تو مخالف کہتے کہ قرآن کریم میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خود یہ بات لکھ دی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا کو ئی علم نہیں تھا ۔جب آپؐ نے انہیں نر او ر ما دہ کو آپس میں ملاتے دیکھا تو فرمایا کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا یَارَسُولَاللّٰہ! ہم نر کو مادہ پر ڈا لتے ہیں تا کہ فصل اچھی رہے۔ آپؐ نے فرمایا یہ لغو بات ہے جو پھل پیدا ہونا ہے اُس نے تو پیدا ہی ہو نا ہے اِس سے کیا بنتا ہے؟ انہوںنے چھوڑ دیا ۔ اگلے سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یَارَسُولَاللّٰہ! ہماری تو فصل ماری گئی ہے اب کے کھجور اچھی نہیں ہوئی۔آپؐنے فرمایا کیوں ؟ انہوں نے کہا آپؐ نے جومنع فرمایا تھا کہ نرکا مادہ مادینہ کھجور پر نہ ڈالو۔آپؐ نے فرمایا مَیں توتمہاری طرح کاایک انسان ہوںیہ علم تم جانتے ہو میَں نہیں جا نتا تمہیں میری بات نہیں ماننی چاہئے تھی۳۱؎ تو دیکھو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں کوئی ذاتی علم نہیں تھامگر قرآن کریم فرماتا ہے۔وَمِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْن۔
یعنی نر مادہ صرف انسانوں میںہی نہیں بلکہ ہرچیز میں ہیں۔ نباتات میں بھی ہیں بلکہ جمادات میں بھی ہیں۔ کچھ مدت ہوئی مَیں نے پڑھا کہ ٹین ۳۲؎کے متعلق تحقیقات ہوئی ہے کہ ٹین کی بعض قسمیں نر ہیں اور بعض مادہ ہیں ۔غرض عِلمِ نباتات کی طرف بھی قرآن نے توجہ دلائی ہے۔
علمِ توافق بینَ المخلوقات کی نہر
اِسی طرح عِلمِ توافق بینَ المخلوقات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ یعنی مختلف مخلو قات کی
مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں فرماتاہے وَالْاَرْضَ مَدَدْ نٰـھَا وَاَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَمنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْ زُوْنٍ۳۳؎
یعنی ہم نے زمین کو پھیلا یا ہے اور اُس میں پہاڑ بنا ئے ہیں اور اس میں مختلف چیزیں اُگائی ہیں جو ضرورت کے مطابق ہیں۔ یعنی انسان کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جا تی ہے اور جانوروں کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جا تی ہے۔کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے کہ بے غر ض پیدا ہو گئی ہیں ۔اگر کو ئی خدا ہوتا تو بے ضرورت چیزیں کیوں پیدا کرتا لیکن اب تحقیقات سے معلوم ہؤا ہے کہ بعض قسم کے کیڑے جوبعض وبائی کیڑوں کو مارتے ہیں وہ ان غذائوں کو کھا تے ہیں۔ تو کُلِّ شَیْ ئٍ مَّوْزُوْنٍمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اُس نے ہر ایسی چیز پیدا کر دی ہے جس کی کسی انسان یا جانور کو ضرورت ہے۔ اُن میں سے بعض کی ایسے خوردبینی کیڑوں کو ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتے۔ اگر وہ چیز نہ ہو تی جس کو ہم لغو سمجھتے ہیں تو وہ کیڑے بھی پید ا نہ ہوتے اور اگر وہ کیڑے نہ پیدا ہو تے تو وہ وبائیں بھی نہ جا تیں جو اُن کیڑوں کی وجہ سے دُور ہوتی ہیں۔
علمِ حیوانات کی نہر
پھر عِلمِ حیوانات کی طرف بھی اس نے توجہ دلائی ہے۔فرماتا ہے۔ وَفِیْ خَلْقِکُمْ وَماَ یَبُثُّ مِنْ دَا بَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۳۴؎
یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور خدا تعالیٰ نے جو اَور جانور زمین میں پھیلائے ہیں اُن میں بھی ایک یقین رکھنے والی قوم کے لئے بڑے نشان ہیں۔
پھر فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طئِرٍ یَّطِیْرُبِجَنَا حَیْہِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ۔۳۵؎
یعنی یہ جو زمین میں چلتے پھرتے جانور تمہیں نظر آتے ہیںاور ہوائوں میں اُڑتے ہوئے پرندے دکھائی دیتے ہیںیہ بھی تمہاری طرح کے گروہ ہیں۔ اُمَمٌسے یہ مراد نہیں کہ نبیوں کی اُمّت ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اُن کے اندر بھی کوئی قانون جاری ہے۔ چنانچہ ایسے ایسے قانون اُن کے اندر جاری ہیں کہ حیرت آجاتی ہے۔دیکھو! مگھ اور مر غا بی وغیر ہ ایک خاص مو سم میں ایک خاص ملک سے جو کئی ہزار مِیل پر ہے اُڑتی ہے اور یہاں آکر بیٹھ جاتی ہے ۔اورپھر ایک خاص وقت میں جبکہ ابھی موسمیات کے ما ہروں کو بھی پتہ نہیں لگتا مرغابی اُڑنے لگ جا تی ہے اور اُس سے پتہ لگ جا تا ہے کہ اَب فلا ں قسم کی ہو ائیں چلیں گی یا بارشیں ہو نگی۔ تو فرماتا ہے تمہا ری طرح اِن میں بھی کچھ قوانین چل رہے ہیں تم سمجھتے ہوکہ یہ بے عقل پرندے ہیں حالانکہ اگر تم ان پرندوں پر غور کرو تو اس سے بھی بڑے بڑے علوم نکل آئیں گے اور تم کو پتہ لگے گا کہ خدا تعالیٰ نے اِن کے اند ر کتنی حکمتیں رکھی ہیں۔
چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں نظام
مثلاً میَں نے چیو نٹیوں اور مکھیوں کے متعلق کتابیں پڑھی ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ
شہد کی مکھیوں او ر چیو نٹیوں میں اتنا نظام ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ امر یکہ کے ایک رسالہ میں میَں نے پڑھاکہ اودبلائو۳۶؎ جو ایک جا نور ہے اور پانی میں رہتا ہے اور دریا کے کنارے پر مٹی کے گھر بنا تا ہے،اِتفاقاً ایک جگہ پر اس کے کچھ بچے بہہ کر آگئے۔ اُ ن کو چو نکہ گھر بنا نے کاعلم نہیں تھا اس لئے وہاں سے ایک بچہ بہہ کر اس جگہ گیا جہا ں پُرانے اودبلائو رہتے تھے اور وہاں سے اُس نے ایک بڈھے اودبلائو کو بلایا اور اُس اودبلا ئو نے آکر ان کومکان بنانے سکھا ئے اور پھر وہ واپس چلا گیا ۔
اِسی طرح یہ ثابت ہؤا کہ بعض جا نو ر ایسے ہیں جن کے گھو نسلے پہلے اور شکل کے ہوتے تھے مگر اب اور شکلیں بننے لگ گئی ہیں ۔ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی طرح وہ بھی ترقی کررہے ہیں۔
ایک عجیب تجربہ
میر ا اپنا ایک عجیب تجربہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس سفر میں لاہور میں فوت ہوئے ہیں، اس سفر میں میر ے پاس ایک ہوائی بندوق تھی۔
میَں نے اس سے ایک فاختہ ماری جب میَں نے اسے ذبح کرنے کے لئے اُٹھا یا تو میَں نے دیکھا کہ اس کے پیٹ کے پاس درخت کی ایک شاخ سے گِرہ بندھی ہوئی تھی۔میَں نے وہ گِرہ کھو لی تو معلوم ہؤا کہ اُس کو کبھی زخم لگا تھا جسے اُس نے ڈاکٹر کی طرح سِیا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی چونچ سے یا کسی دوسری فاختہ کی چونچ سے وہ زخم سِلوایا ۔ جب میَں نے اس کا شکا ر کیا تو وہ زخم بالکل مُندمل ہو چکا تھا ۔چنانچہ جب میَں نے گِرہ کھولی تو میں نے دیکھا کہ وہ زخم بالکل ٹھیک ہو چکا تھا اور نیچے سے خشک چمڑا نکل آیا تھا۔
اِسی طرح عِلمِ حیوانات کے متعلق فرماتاہے اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَھُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَاماً فَھُمْ لَھَا مَالِکُوْنَج وَذَ لَّلْنٰھَا لَھُمْ فَمِنْھَا رَکُوْ بُھُمْ وَمِنْھَا یَاْکُلُوْنَoوَلَھُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُطاَفَلا یَشْکُرُوْنَ۳۷؎
یعنی کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ کئی قسم کی ہیں ۔ بعض پروہ سواریاں کرتے ہیں، بعض کو وہ کھا تے ہیں اور بعض سے وہ اَور فوائد حا صل کرتے ہیں ۔مثلاً ان کے چمڑے وغیرہ کئی کام آتے ہیں اور بعض جا نو روں کے دودھ پیتے ہیں ۔ کیا وہ ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے؟ یعنی جانور کوبھی صرف دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ غور کرنا چا ہئے کہ اس کے گوشت میں کوئی زہرتو نہیں ہے۔
بچپن کا ایک واقعہ
مجھے یاد ہے بچپن میں مجھے ہو ائی بندوق کے شکا ر کا شوق ہؤا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھی شکار پسند تھا کیو نکہ یہ
طاقت قائم رکھتا ہے۔میَں آپ کے لئے فاختائیں مار کر لا یاکرتاتھا۔ ایک دفعہ فا ختہ نہ ملی تو طوطا ما ر کرلے آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے رکھ تو لیا مگر تھو ڑی دیر کے بعد مجھے آواز دی کہ محمود! اِدھر آئو ۔میَں گیا تو آپ نے طوطا اُٹھا یا اور فرمایا دیکھو محمود! اللہ تعالیٰ نے سارے جانور کھا نے کے لئے نہیں بنائے،کچھ دیکھنے کے لئے بھی بنا ئے ہیں۔ طوطا ایک خو بصورت جانورہے یہ خدا نے دیکھنے کے لئے بنا یا ہے۔تم نے سمجھا کہ ہر ایک جا نور کھا نے کے لئے ہے۔یہی قرآن کریم فرماتا ہے کہ جا نوروں پر بھی غور کرو ۔ اُن کی خاصیتیں الگ الگ ہیں۔ کچھ کھا نے کے لئے اچھے ہیں، کچھ دیکھنے کے لئے اچھے ہیں، کچھ بولنے کے لحاظ سے اچھے ہیں جیسے مینا اور طوطا بولتے ہیں یا بیئے۳۸؎ ہیں وہ بھی بولتے ہیں تو مختلف قسم کے فا ئدے ہیں جو اُن سے پہنچتے ہیں۔اسی طرح کوئی سواری کے کام آتا ہے، کسی کا چمڑا اچھا ہو تا ہے، کوئی کھانے کے کام آتا ہے، کسی سے پوستینیں ،جوتے اور بوٹ بنتے ہیں۔
علمِ معیشت کی نہر
پھر علمِ معیشت کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ چنا نچہ اللہ تعا لیٰ حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ
اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ۔۳۹؎
یعنی تمہارے لئے یہ کوئی گنا ہ کی بات نہیں کہ تم حج کے ایّام میں تجا رت کے ذریعہ اپنے ربّ سے اس کا کوئی اَور فضل بھی مانگ لو ۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَا نْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ۔ ۴۰؎
جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا سارا وقت حج اور نماز کے لئے نہیں ہو تا بلکہ تمہیں عِلم معیشت بھی سیکھنا چاہئے اور اپنے اوقات کو اِس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ وقت نمازوں میں لگائواور کچھ دنیا کے کاموں میں لگائو تاکہ تمہارے خاندان اور تمہارے ملک کی حا لت اچھی ہو جا ئے۔
علم الا قتصاد کی نہر
پھر علم الاقتصاد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ
فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُوْرًا۴۱؎
کہ تُواپنے ہا تھ کو بالکل روک نہ لے اورگردن کے ساتھ نہ باندھ لے اورنہ اتنا پھیلا کہ سارا مال ضا ئع ہو جا ئے۔ گو یا نہ تو بُخل سے کام لے اور نہ اسراف سے کام لے۔کیو نکہ کئی مواقع انسان پر ایسے بھی آتے ہیں جب اس کو پھر مال کی ضرورت پیش آجاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص جوانی میں کمائی کر تا او ر اُسے عیا شی میں اُڑا دیتا ہے تو بعد میں اگر وہ خود بیمار ہو تا ہے یا اس کے بیوی بچے بیمار ہوتے ہیں تو اُسے علاج کے لئے کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ پس فرمایا کہ اپنے اموال کو ہمیشہ اِس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ بچائو او ر کچھ خرچ کرو۔
اِسی طرح فرماتا ہے یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ۔۴۲؎
لوگ تجھ سے پو چھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ حا لانکہ خود حکم دیتا ہے کہ خرچ کرو۔مگر فرماتا ہے تم وہ خرچ کرو جو ضرورت سے زیادہ ہو ۔جس کی تمہیں کَل کو ضرورت پیش آنی ہے اُسے خرچ نہ کرو۔
حدیثوں میں آتاہے کہ ایک دفعہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ نے وصیت کرنی چاہی او ر کہا کہ مَیں اپنا سارا مال غر یبوں کو دیتا ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں کیو نکہ خدا تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تیرے بچے تیرے بعد لو گوں کے آگے ہا تھ پھیلاتے پھریں کچھ ان کے لئے بھی رکھو اور کچھ اپنے وارثوں کے لئے بھی رکھو تاکہ وہ بھی عزت سے گزارہ کریں۔۴۳؎
علمِ شہریت کی نہر
پھر علمِ شہریت کی طرف بھی قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا قُرًی
ظَا ہِرَۃً وَّ قَدَّرْ نَا فِیْھَا السَّیْرَ۔۴۴؎
یعنی ہم نے قومِ سبا کی بستیوں اور بنی اسر ائیل کی بستیوں کے درمیان بڑے بڑے شہر بسائے تھے جس کی وجہ سے لوگ تھو ڑے تھو ڑے فاصلہ پر آبا دیوں میں چلے جا تے تھے اور انہیں کھانا پینا مل جا تاتھا ۔ گویا بتا یا کہ مد نیت یعنی شہر بسا نا ملک کی ترقی کا مو جب ہو تا ہے کیونکہ اس سے ملک کے لو گوں کے با ہمی تعلقات بڑے آسان ہو جا تے ہیں ۔ اگر کسی ملک میں صرف گا ئوں ہو ں تو ان کے تعلّقات وسیع نہیں ہوتے اور انکی تعلیم اور تجا رت وغیر ہ بھی کمزور ہو جا تی ہے۔
عِلمِ تاریخ کی نہر
پھر عِلمِ تاریخ کی طرف بھی قرآن کریم توجہ دلا تا ہے۔ فرماتاہے ذٰلِکَ مِنْ اَمنْبَائِ الْقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیْکَ مِنْھَا قَا ئِمٌ وَّ حَصِیْدٌ۴۵؎
یعنی ہم نے اِس قرآن میں تیرے پاس پچھلی قوموں کے جو حا لات بیان کئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات اب تک موجود ہیں اور بعض کے نشانات بالکل مٹ چکے ہیں۔
علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ تاریخیں دو قسم کی ہیں ۔ ایک تاریخ ہسٹارک (HISTORIC) کہلاتی ہے اور ایک پر ی ہسٹارک (PRE-HISTORIC) یعنی زمانۂ تاریخ سے قبل کے حالات۔ یہی بات قرآن کریم نے اس آیت میںبیان فرمائی ہے کہ پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں۔ اُن میں سے بعض کے نشانات تو اب تک مو جود ہیں۔ یعنی وہ ہسٹارک ہیں اور بعض پری ہسٹارک ہیں ۔ اُن کے نشانات مٹ چکے ہیں اور کوئی تاریخ اُن پر روشنی نہیں ڈالتی۔
علمِ بدئِ عا لَم کی نہر
پھر علمِ بدئِ عالَم بھی قرآن کریم بیان فرماتا ہے۔ جسے اصطلاحاً ایتھنالوجی (ETHNOLOGY)کہتے ہیں ۔ یعنی زمینؔ کس طرح بنی
ہے آسمانؔ کس طرح بنے ہیں۔ اور پید ائشِ عالَم کس طرح ہوئی ہے فرماتا ہے۔قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ۔۴۶؎ یعنی تم زمین میں ذرا پھر کر تو دیکھو۔ پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ پیدائشِ عالَم کِس طرح ہوئی تھی۔ اسی کو ایتھنا لو جی کہتے ہیں یعنی مختلف قومو ں کے جو آثا ر ہیں اُن سے نتیجہ نکا ل کر تا ریخ کا پتہ لگانا ۔ فرما تا ہے اگر تم نے دنیا کی تاریخ کا پتہ لگا نا ہے تو یہ تمہیں کسی ایک ملک سے نہیں لگے گا، مختلف ملکوں میں مختلف تہذیبیں مختلف قوموں نے اختیا ر کی ہیں ۔ پس اگر تم پچھلی قومو ں کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہو تو ساری دنیا میں پِھر و ۔کسی ایک ملک سے تمہیں دنیا کی تاریخ کاپتہ نہیں لگے گا۔ بلکہ مختلف ملکوں میں جا کر تمہیں پتہ لگے گا کہ کسی صدی میں ہند وستان میں تہذیب پھیلی ،کسی صدی میں ایران میں پھیلی، کسی صدی میں رُومؔ میں پھیلی، کسی صدی میں عرب میںپھیلی ،کسی صدی میں شام میں پھیلی، کسی صدی میں مصر میں پھیلی ،کسی صدی میں کسی اور ملک میں پھیلی۔ توایتھنالوجی کے علم کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرو۔
اِسی طرح بدئِ عالَم یعنی ساری دنیا کی پیدائش کے متعلق فرما تا ہے۔ اَوَلَمْ یَرَالَّذِِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَاط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَيٍّط اَفَلا یُوْء مِنُوْنَ۔۴۷؎
یعنی کیاکافر یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین پہلے ایک گُچھّا سا بنے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے ان کو کھولا ۔ مو لوی نذیر احمد صاحب دہلوی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ :-
’’کیا جو لوگ منکر ہیں انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ آسمان اورزمین دونوں کا ایک بھِنڈا سا تھا تو ہم نے (اُسکو توڑ کر ) زمین وآسمان کو الگ الگ کیا۔‘‘۴۸؎
یعنی جیسے ایک گول سا ڈھیر یا خشک ڈلا ہوتا ہے اسی طرح وہ بنے ہوئے تھے پھر ہم نے اس کو کھولا۔ چنا نچہ عِلمِ ہیئت سے یہی پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں پہلے ذرّات پیدا ہوتے ہیں پھر وہ ذرّات سمٹنے شروع ہوتے ہیں اور مرکز میں ذرّات کا ایک ہجوم جمع ہو جا تا ہے۔پھر وہ چکر کھانے لگتا ہے اور اس چکّر سے جو اِردگِرد کے ذرّات ہو تے ہیں اُن کو دھکّا لگتاہے اور وہ دُور جا پڑتے ہیں اور ہو ا میں دُور جانے کی وجہ سے اُن میں گرمی پید ا ہوتی ہے اور ابخرے پیدا ہوتے ہیں۔ پھر بارش آتی ہے جو اُن کو ٹھنڈا کرتی ہے اور اس طرح ایک کرّہ بن جاتا ہے۔ وہی نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اگر تم نے بدئِ عالَم کا پتہ لگانا ہے تو اس بات پر غور کرو جو ہم تمہارے سامنے بیان کر رہے ہیں۔
علمِ مو سمیات کی نہر
پھر علمِ مو سمیات کو دیکھو تو وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ وَالسَّمَائِ ذَاتِ الرَّجْعِoلا وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدعِ oلا
اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌoلا وَّمَا ھُوَ بِا لْھَزْلِ۴۹؎
یعنی تم بادل کو دیکھو جو بار بار برستا ہے او ر زمین کو دیکھو جو پھٹتی ہے تو اس میں سے پھل وغیر ہ نکلتا ہے اگر تم ان باتوں پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ہر چیز کے لئے خدا نے ایک موسم مقرر کیا ہے۔کسی میں پانی اُترتا ہے کسی میں کو ئی خا ص تر کا ری اُگتی ہے اگر تم اس طرح غور کرو گے تو تمہیں اس سے بھی بڑے بڑے علوم حا صل ہو جا ئیں گے۔غر ض قرآن کریم نے ان تمام علوم کی طرف جو دنیا میں جا ری ہیں اشارہ کیا ہے او ر اُن کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اُن کا منبع بتایا ہے کہ فلا ں فلاں جگہ سے تم ان علوم کو نکال سکتے ہو ۔پس جس قدر دُنیوی علوم ہیں اُن کا مأخذ قرآن کریم ہے اور ان کی طرف اس نے بار بار توجہ دلائی ہے۔
علومِ دینیہ کی نہر
مگر اس کے علاوہ اُس نے دینی علوم کی نہریں بھی جا ری کی ہیں اور درحقیقت یہی نہریں روحانی نقطہء نگاہ سے زیا دہ اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ
قرآن کریم کا زیادہ تر دین سے ہی تعلق ہے۔
عا لَمِ روحانی کے سب سے بڑے سمندر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر اُن سے آگے دنیا میں کئی قسم کی روحانی نہریں جا ری ہوئیں۔ چنانچہ دیکھ لو ایک نہر شریعت کی چلی۔ پھر اُسی نہر میں سے ایک حنفی نہر نکلی ، ایک شافعی نہر نکلی ،ایک ما لکی نہر نکلی،ایک حنبلی نہر نکلی۔یہ مختلف قسم کی نہریں ہیں جو شریعت کی نہر میں سے جا ری ہوئیں۔پھر ایک شیعوں کی نہر جاری ہوئی،ایک سُنّیوں کی نہر جاری ہوئی،ایک خارجیوں کی نہر جاری ہوئی او ران کے ذریعہ سے شریعت کے مختلف پہلو زیرِ بحث آتے رہے۔پھر ایک تصوّف کی نہر چلی، ایک فلسفہء شریعت کی نہر چلی جس کے بہت بڑے بانی ہمارے شاہ ولی اللہ صاحبـؒ اورامام ابن تیمیہؒ تھے۔ اور آخر میں سب سے زیادہ اہم کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا۔ پھر سیا ست کی ایک نہر چلی جو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓاور حضرت علیؓ سے شروع ہوئی اور پھر وہ آگے نکلتی چلی گئی۔ اور اس طرح یہ روحانی سِلسلہ جو سیا ست ِ مذہبی اور فلسفہء مذہبی اوراحکامِ شریعت کی حکمتوں اور ان کی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا دُنیا میں وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا ۔پھر اخلاقِ فا ضلہ کی ایک نہر جا ری ہوئی جسے امام غزالیؒ نے اور بھی لمبا کیا اور اس سے زمین کو سیراب کیا۔اِسی طرح تصوّف میں جنید ؒ۔شبلیؒ۔حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ۔بہائوالدین صاحب نقشبندیؒ۔ شہاب الدین صا حب سہر وردیؒ وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں آکر مد غم ہو گئیں اور پھر ایک نئی نہر دُنیا میں چل پڑی اور آپ کے ذریعہ سے پُرانی روحانی نہریں بھی جاری رہیں۔پُرانے زمانہ کے بادشاہوں نے جتنی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر اب تک چلی جا رہی ہے۔
دُنیوی اورروحانی نہروں میں بعض نمایا ں فرق
اب دیکھو دنیا کی نہریں تو خشک ہو جا تی ہیں مگر یہ نہریں وہ ہیں جو
خشک نہیں ہوتیں۔دُنیوی نہروں سے جسمانی غلّہ پکتا ہے مگر ان سے تقویٰ کا دانہ پکتا ہے۔ دُنیوی نہروں کا تیار کردہ غلّہ ایک وقت کام آتا ہے اور پھر سڑ جاتا ہے مگر یہ وہ نہرہے جس کا غلّہ ابدالآباد تک کام آتا ہے۔فرماتا ہے اَلْمَا لُ وَالْبَنُوْنَ زِ یْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الْدُّنْیَاج وَالْبَقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَرَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًاo۵۰؎
یعنی دنیا کی نہروں کے مال اوراس سے پیدا کئے ہوئے غلّے اور نسلِ انسانی کے افراد صرف دنیا میں کام آتے ہیں آخرت میں کام نہیں آتے۔مگر جو قرآنی نہر سے پکا ہؤا غلّہ ہے وہ قیامت تک کام آتا چلا جا ئیگا۔ حضرت مسیحؑ ناصری نے بھی کہا ہے کہ اِس دنیا کے خزانہ کو کیڑا کھا جا تا ہے مگر آسمان کا خزانہ محفوظ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اورجہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیںبلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کروجہا ں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔‘‘۵۱؎
غرض وہ مال جو اس پانی سے پیدا ہو تا ہے اور وہ بیٹے جو اس مال کو کھا کر بڑھتے ہیں اِسی دُنیا میں ختم ہوجا تے ہیں لیکن وہ چیزیں (البا قیات الصا لحات) جو قرآنی نہر سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چلائی ہو ئی نہر سے پلتے ہیں وہ قیا مت تک زندہ رہتے ہیں اور ابدی زندگی پاتے ہیں۔ کیو نکہ مؤمن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پھل ہے اور مؤمن کو ابدی زندگی کا وعدہ ہے۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پیدا کیا ہؤا پھل قیامت تک چلے گا اور وہ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
دیکھو ابو جہل کے مال نے جو مادی پانی سے حا صل ہؤا تھاجو کچھ پیدا کیا وہ ختم ہو گیا مگر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے پانی سے پید ا ہؤا وہ ابدی زندگی پا گیا۔
عمر ؔؓ کا واقعہ دیکھو ۔کیسی سنگلاخ زمین تھی مگر پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تا ثیر سے اُس میں سے کیسی نہر چلی بلکہ اُس سے پہلے ابو بکری نہر چلی،پھر عمرؓکی نہر چلی،پھر عثمانی نہر چلی، پھر علوی نہر چلی۔پھر اُس سے آگے قادری ،چشتی ،نقشبندی اور سہروردی نہریں جا ری ہوئیں۔ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانیؒ ،مولانا رومؒ ،ابراہیم ادھمؒ،امام غزالیؒ،حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ،حضرت بختیار کاکیؒ،حضرت فریدالدین صاحب شکرگنج ؒ، حضرت نظام الدین صا حب اولیائؒ ، حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ،حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ، حضرت خواجہ میر درد صاحبؒ، حضرت سید احمد صاحب بریلویؒ اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰو ۃ والسلام کی نہربھی اسی نہر میں سے نکلی ہوئی نہریںتھیں۔ بتا ئو وہ اَور کو نسی نہر ہے جو اتنے زمانہ تک اور ا تنے ملکوں میں پھیلی ہو۔ کوئی نہر دوسَومیل چلتی ہے، کوئی چار سَو، کوئی سَو سال چلتی ہے، کو ئی ڈیرھ سَو سال مگر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نہر عربؔ سے نکلی اور شمال میں بڑھتے ہوئے قسطنطنیہؔ سے ہوتے ہوئے پولینڈ تک چلی گئی۔ دوسری طرف یورپ میں سے ہو تے ہوئے سِسلیؔتک جا پہنچی ۔مغرب میں مصرؔ سے ہوتے ہوئے ٹیونس،ؔمراکش،ؔ الجیریاؔ اور سپینؔ تک چلی گئی ۔ پھر سیرالیونؔ ،گولڈ کوسٹؔ اور نائیجیریاؔ تک چلی گئی۔ مشرق میں ایرانؔ ،بخاراؔ،چینؔ، ہندوستانؔ اور برماؔ تک چلی گئی ۔ جنو ب میں انڈونیشیاؔ اور فلپائنؔ تک چلی گئی ۔دوسری نہریں خشکی تک چلتی ہیں اور آگے بند ہو جا تی ہیں سمندر آیا اورنہر ختم۔ مگر محمدؐ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی نہرسمندر بھی پار کر گئی اور پھر اگلی خشکی میں جا ری ہوگئی۔ یہ نہر عرب سے آئی مگر عرب پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ بحیرہ عرب کو بھی کود کر گزر گئی اور ہندوستان میں آگئی، ہندوستان سے چلی اور ہما لیہ پہاڑ پر جا کر ختم نہیں ہو گئی جیسا کہ دُنیوی نہریںپہاڑ سے نکلتی ہیں اور خشکی میں جا کر ختم ہو جا تی ہیں ۔مگر یہ نہر آئی اور ہما لیہ پہاڑ کو بھی پھاند کر پرے چلی گئی اور اوپر جا کر سنکیانگ وغیر ہ کے علاقوں تک میں اسلام کو پھیلا دیا۔
ایک سوال کا جواب
یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا مسیحیت نہیں پھیلی ؟ اِسکا جواب یہ ہے کہ نہیں،کیو نکہ نہر سے سبزی پیدا ہو تی ہے او ر مسیحیت سے سبزی
پیدا نہیں ہوئی بلکہ اُجاڑ پیدا ہؤا او ر مسیحیت نے سارے ملکوں کو تباہ کر دیا۔
مادی اور روحانی نہروں میں بعض اَور فرق
پھر مادی نہروں میں کشتیا ں ڈوبتی ہیں مگر یہ نہر کشتیا ں تیراتی ہے۔ مادی نہریں
سڑنے والی مچھلیاں کھلا تی ہیں مگر یہ نہر کبدِ حوت کے جنتی کباب کھلا تی ہے۔ چنا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ اَوَّلَ طَعَامٍ یَاْ کُلُہٗ اَھْلُ الْجَنَّۃِ زیادۃ کبد حُوْتٍ۔۵۲؎ یعنی پہلا کھا نا جو جنتیوں کو مِلے گا وہ مچھلی کے جگر کا زائد حصّہ ہو گا جو نہایت اعلیٰ حصّہ ہوتاہے۔
روحانی نہریں کبھی کا فوری اور کبھی زنجبیلی
کبھی دودھ اور کبھی شہد کی شکل میں
پھر دوسری نہریں اس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں مگر یہ نہر سمندر پارہی نہیں جا تی بلکہ موت پاربھی جا تی ہے اور کبھی کا فوری شکل میںظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔
یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَا نَ مِزَا جُھَا کَا فُوْرًا۵۳؎
خدا تعالیٰ کے نیک بندے ایسے پیا لے پئیں گے جن میں کا فو ر کی ملونی ہو گی۔ اور کبھی زنجبیلی شکل میں ظا ہر ہو تی ہے جیسا کہ فرمایا وَیُسْقَوْ نَ فِیْھَا کَاْ ساً کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً ۵۴؎
مؤمنو ں کو جنتوں میں ایسے گلا سوں سے پانی پلا یا جائے گا جن میں زنجبیل ملی ہو ئی ہوگی۔ پھر کبھی دودھ کی شکل میں یہ نہر چل پڑتی ہے جیسا کہ فر ماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَط فِیْھَا اَنْھٰرٌ مِّنْ مَّآ ئٍ غَیْرِ اٰسِنٍجوَ اَنْھٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗج ۵۵؎
یعنی یہ جو قرآنی تعلیم کی نہر ہے یہ ایک دن جنت میں نہروں کی شکل میں ظاہر ہو گی۔مگر وہاں کئی نہریں ہونگی کسی میں پانی ہو گا مگر وہ پانی سڑنے والا نہیںہو گااور کچھ نہروں میں دودھ ہو گامگر دودھ کا مزہ تو بِگڑ جا تا ہے اُن کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا۔ پھر کبھی یہ نہر شہد کی شکل میں چل پڑتی ہے ۔جیسے فرمایا۔وَاَنْھٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی۔۵۶؎ یعنی وہا ں خا لص اور مصفّٰی شہد کی بھی نہریں ہونگی۔
محمدی نہر کو ثر کی شکل میں
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی محمدؐی نہر قیا مت میں کو ثر کی شکل میں ظاہر ہو جا تی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ
الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْoاِنَّ شَاَ نِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۵۷؎
اے محمد ؐرسول اللہ! یقینا ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا ہے سو توُ اس کے شکریہ میں اپنے ربّ کی کثرت کے ساتھ عبادت کر اور اُسی کی خا طر قربانیاں کر اور یقین رکھ کہ تیرا مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہو گا۔
حدیث میں بھی آتا ہے۔ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْکَوْثَرِ فَقَالَ ھُوَ نَھرٌ اَعْطَا نیہ اللّٰہُ فِی الْجَنَّۃِ۔۵۸؎
یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ثر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا ۔وہ ایک نہر ہے جو خدا نے مجھے جنت میں بخشی ہے۔
غرض دیکھو یہ نہر کیا کیا شکلیں بد لتی چلی جا تی ہے۔ کبھی یہ کا فوری نہر کہلا تی ہے، کبھی زنجبیلی نہر کہلا تی ہے ،کبھی دودھ کی نہر ہوتی ہے ،کبھی شہد کی نہر ہوتی ہے ، کبھی کو ثرکی نہر ہوتی ہے،پھر کبھی وہ اس دنیا میں چلتی ہے ، کبھی اگلے جہا ن میں چلتی ہے، کبھی عرب میں چلتی ہے ، کبھی سمندر ُکو د کے ہندوستان میں آجا تی ہے، پھر ہندوستان کے پہاڑ ُکودتی ہے اور چین وغیر ہ ملکوں میں چلی جا تی ہے اِسی طرح پہاڑی علاقوں میں چلی جا تی ہے۔ غرض دنیا کی ہر خشکی اور ہر تَری پر سے ُکودتی پھا ندتی چلی جا تی ہے اِس دنیا کو ُکودتی ہے موت کو ُکودتی ہے ، کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔اب بتائو !اس نہر اور دنیا کی نہروں کا کیا مقابلہ ہے۔ پس کہا ں دُنیوی بادشاہوں کی بنا ئی ہوئی نہریں اور کہا ں قرآن کی نہر۔
اسلام اور کفر کی نہریں متوازی چلتی چلی جائینگی
یہ نہر یں جو ش میں آکر ایک دوسرے کو کا ٹ دیتی ہیں اور اگرایک کا پانی
گندہ ہو تو وہ دوسرے کے پانی کو بھی گندہ کر دیتی ہے۔ مگر قرآنی نہر کا یہ حال ہے کہ اس پر ایک زمانہ تو وہ آتا ہے کہ دوسری نہریں خواہ کتنا زور لگائیں اُس کے ساتھ نہیں مل سکتیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۔۵۹؎
ہم نے دوسری نہروں اور اس نہر کے درمیان ایک روک بنا دی ہے۔ وہ اس کے اندر داخل ہوکر اس کے پانی کو گندہ نہیں کر سکتی ۔ یعنی دوسرے مذاہب کو شش کرینگے کہ اسلام کو خراب کریں مگر آخر اسلام ہی جیتے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے مجدّد مبعوث فرما ئے گاجو اسلا م کی تعلیم کو پاک کر کے پھر اسلام کے پانی کو صاف کردینگے ۔اور باقی دنیا کے مذاہب سارا زور لگانے کے باوجود اسلام کو خراب نہیں کر سکیں گے۔
کفر اور ایما ن کی آخری ٹکّر میں آخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئیگا
غرض اِدھر اسلام کی نہرہوگی اوراُدھر
کفر کی نہر اور دونوں ایک وقت تک متوازی چلتی چلی جا ئیں گی۔ اور ایک دوسرے میں داخل نہیں ہونگی مگر آخر ایک وقت آئے گا کہ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔۶۰؎
یہ دونوں سمندر یعنی اسلامی سمندر اور کفر کا سمندر آپس میں مل جا ئیں گے یعنی یہ دونوں آپس میں گُتھم گتّھا ہو جا ئیں گے اور اسلام اور کفر کی آخری ٹکّر ہو جا ئیگی۔ لیکن اِس آخری ٹکر میں بھی کفر کی نہر اسلام کی نہر کو گندہ نہ کر سکے گی بلکہ آخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ فَبِاَ یِّ اٰلائِ رَبِّکُمَا تُکِذِّبٰنِ۔۶۱؎ یعنی آخر اسلام کی نہر ہی جیتے گی۔ پس اے مسلمانو! بتائو یہ ہما را کتنا بڑا احسان ہے کہ آخری فتح تمہاری ہو گی۔ آخری فتح عیسائیت کی نہیں ہو گی بلکہ آخری فتح اسلام کی ہو گی۔پس اے کا لی او ر گوری نسلوںکے لوگو!اسلام کی نہر آخر غا لب آجا ئے گی اور کفر کی نہر اُس میں مد غم ہو کر اپنا نام کھو بیٹھے گی۔ اب بولو کہ تم خدا تعالیٰ کی کِس کِس نعمت کا انکا ر کرو گے۔فَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ وَ سُبْحَا نَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
۱؎ البقرہ :۷۵ ۲؎ یونس :۲۵ ۳؎ ھود : ۸
۴؎ الانبیاء : ۳۱
۵؎ بخاری کتا ب العلم باب فَضْل مَنْ عَلِمَ وَ عَلَّمَ
۶؎ کرنتھیوں باب ۱۰ آیت ۳،۴ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۷؎ اٰل عمران:۱۹۱ ۸؎ النحل:۱۳ ۹؎ الحجر:۷۶تا۷۸
۱۰؎ العنکبوت:۳۹ ۱۱؎ القصص:۵۹
۱۲؎ العرب قبل الاسلام مؤلفہ جرجی زیدان
۱۳؎ ابراھیم:۳۳ ۱۴؎ الشوریٰ:۳۳،۳۴ ۱۵؎ النحل:۷۰
۱۶؎ یونس:۵۶ ۱۷؎ الرحمن:۶،۷ ۱۸؎ النحل:۱۰۴ ۱۹ تا ۲۱؎ البقرہ:۲۴ ۲۲؎ النحل:۹۰ ۲۳؎ بنی اسرائیل:۱۳ ۲۴؎ الشعرائ:۱۱۴ ۲۵؎ البقرہ:۲۶۲ ۲۶؎ بنی اسرائیل:۵۰تا۵۲
۲۷؎ النسائ:۱۱۴ ۲۸؎ البقرہ:۱۷۱ ۲۹؎ اٰل عمران:۶۶ ۳۰؎ الذٰریٰت:۵۰
۳۱؎ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ شرعًا
۳۲؎
۳۳؎ الحجر:۲۰ ۳۴؎ الجاثیہ:۵ ۳۵؎ الانعام:۳۹
۳۶؎ اودبلائو: پانی کا ایک جانور جو مچھلیاں کھاتا ہے (علمی اردو لغت) یہ نیولے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ سوائے آسٹریلیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ ۱۵۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء
۳۷؎ یٰس:۷۲تا۷۴
۳۸؎ : بیے
۳۹؎ البقرہ:۱۹۹ ۴۰؎ الجمعہ:۱۱ ۴۱؎ بنی اسرائیل:۳۰ ۴۲؎ البقرہ:۲۲۰
۴۳؎ بخاری کتاب الفرائض باب میراث البنات
۴۴؎ سبا:۱۹ ۴۵؎ ھود:۱۰۱ ۴۶؎ العنکبوت : ۲۱ ۴۷؎ الانبیائ:۳۱
۴۸؎
۴۹؎ الطارق: ۱۲ تا ۱۵ ۵۰؎ الکھف:۴۷
۵۱؎ متی باب۶آیت۱۹،۲۰ پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ ۱۹۹۴ء لاہور۔
۵۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنّۃ و النّار
۵۳؎ الدھر:۶ ۵۴؎ الدھر:۱۸ ۵۵ ، ۵۶؎ محمد:۱۶
۵۷؎ الکوثر:۲تا۴
۵۸؎
۵۹؎ الرحمٰن:۲۱ ۶۰؎ الرحمٰن:۲۰ ۶۱؎ الرحمٰن:۲۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۱۰)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۶ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ)
قرآنی باغات
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
پیشتر اِس کے کہ میَں اس مو ضوع پر اپنے خیا لات کا اظہا ر کروں اور اُن با غات کے مقا بلہ میں جو میَں نے اپنے سفرِ حیدر آباد میں دیکھے تھے اُن روحانی باغات کا ذکر کروں جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں میَں تمہیدی طور پر بعض امو ر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلّق ہے۔
اِسلام کی توحیدخالص پر بنیاد
یہ امر یاد رکھنا چا ہئے کہ اسلامؔ کی بنیا د توحیدِ خا لص پر ہے اور سورئہ اخلاص اِس توحید کا معیا رؔ ہے۔قرآن کریم
اس بات پر زور دیتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے سب چیزیں جو ڑا جوڑا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ خالقؔ ہے اور باقی چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ احد ؔوہی ہو سکتا ہے جو جوڑا نہ ہو۔ جو جوڑا ہو اس کا مخلوق ہونا ضروری ہے۔ چنا نچہ سورئہ ذاریات میں آتاہے۔ وَ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَ کَّرُوْنَ ۱؎
یعنی جتنی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں اِن سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو۔ یعنی دُنیوی چیزوں کو جوڑا جوڑا پیدا کرنے سے یہ غرض ہے کہ تم سو چو کہ جب ہر چیز جوڑا ہے تو معلوم ہؤا کہ ہر چیز مخلوق ہے اور اس کا کوئی خالق ہے۔ اور جب خدا جوڑا نہیں تو معلوم ہؤا کہ اللہ احد ہے،اللہ صمد ہے۔وہ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ۲؎ ہے۔جو شخص کسی کا بیٹا ہوتا ہے وہ جو ڑا ہو تا ہے او راس کا ایک باپ اور ایک ماںہو تی ہے۔اور جس کے ہاں کو ئی بیٹا ہو اُس کی ایک بیوی بھی ہوتی ہے غرض جو بیٹا جنے یا کسی کا بیٹا ہو وہ احد نہیں ہو سکتا۔ عیسائیت جو حضرت مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے پر نا ز کرتی ہے درحقیقت وہ دوسرے لفظوں میں مسیحؑ کو ابن اللہ ہونے سے جواب دیتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ابن اللہ ہے تو وہ جوڑا ہے خا لق نہیں۔ وہ منفرد نہیں ،وہ محتاج ہے ایک باپ کاجو اس کو وجود میں لایا ہے۔ وہ محتاج ہے ایک ماں کا جو اس کو وجود میں لائی ہے۔اور جب وہ مخلوق ہؤا تو وہ محتاج ہے بیوی کا بھی تا کہ وہ اولاد پیدا کرے اور اگر وہ بیوی کا محتا ج نہیں تو مخنّث ہے جو ذلیل ہؤا کرتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حا صل کرو۔ ایک نصیحت تو یہ حا صل کرو کہ جب ساری مخلوق کو دیکھو کہ وہ جوڑا جوڑا ہے تو سمجھ جائو کہ وہ مخلوق ہے اور خدا نے پید ا کی ہے۔ دوسرے تم سمجھ لو کہ جو جوڑا نہیں وہ خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے اور وہی سچا اَحَد ہے اَور کوئی اَحَد نہیں ہو سکتا اس لئے وہ مخلوق بھی نہیں ہو سکتا اور اِس طرح توحیدِ کا مل پر قائم ہو جائو۔
ہر چِیزکے جو ڑا ہونے کے بارہ میں قرآن کریم کا بے مثال علمی نکتہ
مخلوق کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ
نے فرمایا ہے کہ ہم نے سب کو جوڑا جوڑا بنایا ہے۔ یہ علم بھی قرآن کریم سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا۔ سارا ویدؔ پڑھ جائو، ساری بائیبلؔ پڑھ جائو، ساری انجیلؔ پڑھ جائو،ساری ژنداوستاؔ پڑھ جائو،یو نانؔ کے فلا سفروں کی کتا بیں پڑھ جائو، ہندوستانؔ کے فلا سفروںکی کتابیںپڑھ جائو، چینؔ کے کنفیو شسؔ نبی کی کتا بیں پڑھ جائو ، شنٹواِزمؔ جو جاپانؔ کا مذہب ہے اُس کی کتا بیں پڑھ جائو غرض بدھوںؔ کی کتا بیں پڑھو، یہودیوںؔ کی پڑھو، عیسائیوںؔ کی پڑھو، ہندوئوںؔ کی پڑھو، یونانیوںؔ کی پڑھو، کسی مذہب کی کتاب پڑھو، یہ نکتہ تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ہر چیز کا جوڑا ہے۔ صرف قرآن کریم ایک کتاب ہے جو کہتی ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جو ڑا پیدا کیا ہے۔اور یہ جو ڑے اِس لئے پیدا کئے ہیںتا کہ اِن کی حکمت سے تمہیں خداکی توحید کی طرف توجہ ہو۔ یہ علم جو قرآن کریم سے پہلے کسی کو نہیں تھا حتّٰی کہ الہامی کتابوں میں بھی نہیں تھا۔ نہ ویدوںؔ میں تھا،نہ بدھؔ کی پُستکوں۳؎ میں تھا، نہ یو نا نیوںؔ کی کتابوں میں تھا،نہ ایرانیوںؔ کی کتابوں میں تھا،نہ یہودیوںؔ کی کتابوں میں تھا،نہ عیسائیوںؔ کی کتابوں میں تھا۔اِسبارہ میں بہت ہی محدود علم عربوں کو حا صل تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محدود علم بھی حا صل نہیں تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خداکی کتاب ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بعض درختوںکے بھی جو ڑے ہیں۔ اگر قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہؤا ہوتاتو اس میں تو جو ڑے کا ذکر ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اور اگر ہو تا تو یہ ہوتا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کوئی چیز جو ڑا جوڑا نہیں۔ مگر قرآن میں لکھا ہؤا ہے کہ ہر چیز کو خدا تعالیٰ نے جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کہ مَیں آگے ثابت کرونگا اس کا کوئی علم نہیں تھا۔اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ ہر چیز کا جوڑا جو ڑا ہے تو پھر آیت کِس نے لکھ دی۔ صاف ثابت ہے کہ یہ عالِمُ الغیب خدا نے لکھی ہے جس سے محمدؐرسول اللہ بھی سیکھتے تھے اور ہم بھی سیکھتے ہیں۔اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہوئی ہوتی تو اُنکو بھی علم ہوتا۔ اور اگر اُنکو علم ہو تا تو وہ بات نہ ہو تی جو میَں آگے بیان کرنے لگا ہوں۔
رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کو ہر چیز
کے جوڑا ہو نیکا کوئی علم نہیں تھا۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک کھجوروں کے باغ کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ باغ والے نَر کھجور سے کچھ چیز لے کر مادہ کھجور سے ملا رہے ہیں۔آپ
نے فرمایا ایسا کیوں کرتے ہو۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!اس کے بغیر پھل اچھا نہیں آتا۔ یعنی کھجور میں بھی نر اور مادہ ہے اور اگر ان کو آپس میں نہ ملایا جائے تو جیسے نَر مادہ سے نہ ملے تو بچّہ پیدا نہیں ہوتااسی طرح اگر نر کھجور کو مادہ کھجو ر سے نہ ملایا جائے تو اس کا پھل بھی پیدا نہیں ہوتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات سُنکر یہ نہیں فرمایا کہ ٹھیک ہے قرآن میں بھی یہی آتا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھل تو خدا تعالیٰ پیداکرتا ہے اُس نے جو پیدا کرنا ہے وہ تو کرے گا ہی جو نہیں پیدا کرے گا وہ کِس طرح ہو جائے گا۔ چو نکہ وہ بڑے اطاعت گزار لوگ تھے انہوں نے آپ کی بات سُنکر یہ کام کرنا چھوڑ دیا۔جب پھل کا موسم آیا تو کھجوروں کو پھل نہ لگا یا بہت کم لگا اُن لوگوں نے رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یَارَسُوْلَاللّٰہ! آپ کی نصیحت پر عمل کر کے ہم تو مارے گئے۔آپؐ نے تلقیح سے یعنی نر درخت کو مادہ درخت سے ملانے سے منع کیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پھل بہت ہی کم آیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اِس فن کے تم ماہر ہو میَں ماہر نہیں ہوں،مجھے اس حقیقت کا کیاعلم تھا، تم کو چا ہئے تھا کہ میری بات نہ ما نتے۔۴؎
اِس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس با ت کو جو قرآن کریم میں قاعدہ کے طور پر بیان کی گئی تھی اپنے کسبی علم کے ذریعہ سے نہیں جانتے تھے یہ محض الہا می علم تھا۔ پس اِس واقعہ سے ہر عقلمند خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی مذہب کا ما ننے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنا یا ہؤا نہیں تھا۔ ورنہ وہ با ت جو وہ جانتے نہیں تھے اس میں لکھتے کِس طرح؟قرآن کریم عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃ خدا کا اُتارا ہؤا تھااس لئے اُس میں علاوہ روحانیؔ علوم کے مادی علومؔ بھی ایسے بیان کئے گئے جن کو محمدؐ رسول اللہ تو بالکل نہیں جانتے تھے مگر دنیا بھی نہا یت محدود رنگ میں اُن سے واقف تھی۔ جیسے عربوں میں یہ علم تھا کہ کھجور میں نَر ومادہ ہوتا ہے مگر باوجود اس کے گزشتہ تیرہ سَو سال میں مسلمانوں نے دُنیوی علوم میں بڑی ترقی کی ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود تھی انہوں نے اس مسئلہ میں کوئی ترقی نہیں کی کیو نکہ خدا تعالیٰ یہ ثا بت کرنا چاہتا تھا کہ تیرہ سَو سال بعد سائنس نے جو دریافت کی ہے وہ قرآن کریم میں پہلے موجود تھی۔
موجودہ سائنسدانوں کی تحقیق
اب سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف کھجو ر میں ہی نر ومادہ نہیں بلکہ او ر درختوں میں بھی ہیں۔ مثلاً پپیتا میں بھی ہیں۔
پپیتا کے درخت میں بھی ایک نر پپیتا ہو تا ہے اور ایک ما دہ پپیتا۔ میرے سندھ کے باغ میں بہت سے پپیتے لگے ہوئے ہیں۔ کیو نکہ وہاں پپیتے بہت ہوتے ہیں اور ہم بھی لگواتے ہیں۔ ایک دفعہ میَں نے دیکھا تو درختوں پر پھل نہیں تھا۔ میَں نے کہا پھل کیوں نہیں؟وہ کہنے لگے غلطی سے سب مادہ درخت لگ گئے ہیں نر کوئی نہیں لگا اِس لئے ہَوا نر درخت میں سے نُطفہ لاکر مادہ پر نہیں گراتی او راسوجہ سے پھل نہیں لگتا۔ اب ہم نر درخت لگائیں گے تو پھر پھل لگے گا۔ غرض اَب سائنٹیفک تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پپیتا میں بھی نر ومادہ ہے بلکہ بہت سی سبزیوں اور ترکا ریوں میں بھی وہ نرو مادہ کے قائل ہو گئے ہیں بلکہ بعض سا ئنسدان تو تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھا توں میں بھی نر و مادہ کے قائل ہو گئے ہیں۔ ایک سائنسدان کی کتاب میں نے پڑھی ،اُس میں لکھا تھا کہ ٹین۵؎ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ٹین نَر ہوتا ہے اور ایک مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے اثر کو قبول کر کے ایک نئی شکل بدل لیتے ہیں۔ مگر سائنسدان تو یہ کہتے ہیں کہ نباتات میں نر ومادہ ہوتا ہے اور دھا توں میں بھی نرومادہ ہوتاہے مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم نے ہر چیز میں جوڑابنایا ہے اور ہر چیز کے لفظ کے نیچے سب نباتات بھی آجا تی ہے، جمادات بھی آجاتی ہے،حیوانات بھی آجا تے ہیں۔بلکہ اِس سے بڑھ کر ذرّاتِ عالَم اور مجموعہء ذرّاتِ عالَم بھی آجا تے ہیں۔
دنیا کی زند گی بھی ایک جو ڑا ہے
چنانچہ دیکھ لو! جہاں بہت سے مذاہب اور فلسفیوں نے صرف اِس دنیا کی زندگی کو ایک حقیقت قرار دیا
ہے اسلام نے مذکورہ بالا اصل کے مطابق دوجہان قرار دئیے ہیں یعنی جہانوں میں بھی جو ڑا بتایا ہے۔ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہا ن ہے، یہ بھی جوڑا ہے۔ساری بائیبل پڑھ کے دیکھ جائو صرف کہیں کہیں اشارے نظر آئیں گے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے لیکن واضح طور پر حیات بَعْدَ الْمَوْت کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں۔حضرت مسیحؑ نے بھی ایک مُردہ سااشارہ بائیبل سے نکالا کہ اس میں مرنے کے بعد کی زندگی کا ذکر ہے۔ مگر قرآن کو پڑھ جائو ہر جگہ اگلے جہان کا ذکر نظر آئے گا۔ میَں نے کئی یوروپین لوگوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ قرآن پڑھ کر تسلی ہونے لگ جاتی ہے، ہر جگہ اگلے جہان کا ہی ذکرہے۔ حا لانکہ اگلے جہان کا ذکر قرآن اس لئے کرتا ہے کہ قرآن دعویدار ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے۔اگر قرآن اگلے جہان پر زور نہ دیتا تو لوگ کہتے یہ جہان تو ایک ہو گیا۔ آپ جو کہتے ہیں کہ ہر چیز کا جوڑا ہے تو پھر اس کا جوڑا کو نسا ہے؟قرآن نے پیش کردیا کہ اس کا جوڑا اگلا جہان ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر آتا ہے کہ وَلِمَنْ خَاف مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰـنِ ۶؎
جو شخص اپنے ربّ کی شان سے ڈرتا ہے اُس کو د و جنتیں ملیں گی۔ ایک اِس دنیا میں ایک اگلے جہان میں۔سو دو زندگیوں کا اِس آیت میں بھی ذکر آگیا۔ یوں دونوں زند گیوں کا الگ بھی ذکر آتا ہے مگر اس آیت سے بھی نکلتا ہے کہ دو زندگیاں ہیں۔
جنّت اور دوزخ بھی جو ڑا ہیں
اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مؤ منو ںکو دُعا سکھا ئی ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً
وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۷؎
اے خدا! ہم ہر چیز کے جوڑے کے قائل ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے۔تُو ہم کو اس دنیا میں بھی آرام بخشیو اور سُکھ دیجیئو اور اگلے جہان میں بھی سکھ دیجیئو۔ اور اگلے جہان میں ہم کو پتہ ہے کہ پھر جو ڑا ہے،ایک دوزخ ہے اور ایک جنّت ہے۔گویا جوڑا وہاں بھی ختم نہیں ہوتا تو ہم کو اس جوڑے میں سے جودوزخ والا حصّہ ہے اُس سے بچائیو اور اس جوڑے میںسے جو جنّت والا حصّہ ہے وہ عطا کیجیئو۔بلکہ پھر آگے چل کر اِس دنیا کو بھی جو ڑا بتایا ہے اور اگلے جہان کو بھی جو ڑا بتایا ہے۔اِس دُنیا کے متعلق فرماتا ہے کہ ایک عُسرؔ کی دُنیا ہے اور ایک یُسرؔ کی دُنیا ہے۔ایک نُور کی دنیا ہے ایک ظلمت کی دُنیا ہے۔ یعنی ایک زند گی اس دُنیا میں ایسی ہے جو تکلیف اور دُکھ کی زندگی ہے اور ایک زندگی راحت کی زندگی ہے۔ اِسی طرح ایک زند گی نور کی ہے اور ایک تاریکی کی۔ یہ دونوں اس دنیا کی زندگی کے جوڑے ہیںچنانچہ فرماتاہے۔فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِیُسْرًا ۸؎
یعنی یاد رکھ تنگی کے ساتھ ایک بڑی کا میا بی مقدر ہے۔ہا ں یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے۔اِسی طرح فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ۹؎
یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ایک ظُلماتی دنیا پیدا کی ہے اور ایک نوری دُنیا پیدا کی ہے۔ ظُلماتی دنیا ظاہر ی لحاظ سے رات ہوتی ہے کیو نکہ رات کا کام بھی نرالا ہے اور دن کا کام بھی نرالا ہے۔ اورنورانی دنیا دن ہو تا ہے او ر رُوحانی طورپر ظُلماتی دنیا کفر کی دنیا ہو تی ہے اور نورانی دنیا ایمان اور اسلام کی دنیا ہوتی ہے۔
پھر اگلے جہان کے متعلق بھی ایک نارؔ اور ایک جنّت کی زند گی بتا تا ہے۔ فرماتا ہے۔ بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ فَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۱۰؎
یعنی وہ لوگ جو برائیوں میں ملوّث ہو نگے اور اُن کے گنا ہ اُن کا چاروں طرف سے احا طہ کرلیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے منا سب حال اعمال کئے وہ جنّت میں جائیں گے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔
پھلوں میں بھی جوڑے ہیں
غرض قرآن کریم نے خدائی مخلوق میں ہر جگہ جو ڑا جوڑا تسلیم کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ صرف درختوں میں
ہی جو ڑا نہیں بلکہ پھلوں میں بھی جو ڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَھُوَالَّذِیْ مَدَّالْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْھٰرًاط وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ۱۱؎
یعنی خدا ہی ہے جس نے زمین کو پھیلا یا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور نہریں بنائی ہیں اور ہر قسم کے میوے لگائے ہیں مگر وہ تمام قسم کے میوے بھی جو ڑا جوڑا ہیں۔ گو یا صرف کھجو ر کا درخت ہی جوڑا نہیں بلکہ کھجو ر کو جو پھل لگتا ہے وہ بھی جو ڑا جوڑا ہے اور اس میں بھی نر اور مادہ ہو تا ہے۔ آجکل کے سا ئنس دانوں کے مقابلہ میں یہ زراعت کا کتنا وسیع علم ہے جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے آج کے سا ئنس دان اس کے ہزارویں حصّہ کو بھی نہیں پہنچے۔
پھر فرماتا ہے:۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ دیکھو ہم نے دن اور رات کا بھی جوڑا بنا یا ہے رات دن پر اور دن رات پر سوار ہو تا چلا جاتا ہے۔
زمین اور آسمان کا جوڑا
یہ بھی یا د رکھنا چاہئے اس آیت میں زمین کا تو ذکر کیا گیا ہے مگر آسمان کا نہیں۔ یہ تو کہا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا یا ہے
مگر آسما ن جو زمین کا جو ڑا ہے اُس کا ذکر چھو ڑ دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ دو متقابل چیزوں میں سے ایک کا ذکر کر دیا جائے تو دوسری کو چھو ڑ دیا جاتا ہے کیو نکہ ہر عقل اس کا آپ ہی قیا س کر لیتی ہے۔عرب کہتے ہیں کہ اگر دومتقابل چیزیں ہوں اور ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری کو چھوڑ دیا جائے تو عقلِ انسانی اُسکو آپ ہی نکال لیتی ہے۔ یہ قاعدہ میَں اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہا بلکہ لُغت کے امامؔ ثعالبی نے اپنی کتاب فقہ اللغۃ میں اِسے بیان کیا ہے۔ ثعاؔلبی وہ شخص ہیں جو ابنِؔ جنّی کے شاگرد تھے اور ابن جنّی امام اللغۃ سمجھے جاتے تھے۔ وہ زبان کے بہت بڑے ماہر تھے۔اُن کی کتاب ایسی بے نظیر ہے کہ جس کی مثا ل اور کہیں نہیں مِلتی۔ اس کتاب میں انہوں نے اشتقاق وغیرہ پر بحث کی ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مِنن الرؔحمن لکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُمّ الْاَلْسِنَہ ہے۔ گو انہوں نے اس کا اپنی کتاب میں ایک نا قص نقشہ کھینچا ہے مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نقشہ تو کھینچا ہے۔ پس اس جگہ پر زمین و آسمان کو جو ڑا بتایا گیا ہے اور پھلوں کو بھی جو ڑا جوڑا بتایا گیا ہے۔ پھلوں کے جو ڑے میں صرف دنیاوی جوڑوں کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اِس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی سِلسلوں میں جو پھل پید ا ہوتے ہیں یعنی نبی کی روحانی اولاد چلتی ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہوتی ہے۔
قرآنی باغات بھی سب جو ڑا جوڑا ہیں
اب میَں اپنے اصل مضمون یعنی باغات کو لیتا ہوں۔جتنے باغات میَں نے اپنے سفرِ حیدر آباد
میں دیکھے تھے وہ سب ایک ایک تھے مگر قرآنِ کریم نے جن باغات کو پیش کیا ہے وہ جوڑا ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں جنت کا ایک نام نہیں بلکہ چار نام آئے ہیں۔جنّٰتِعَدْنٍ۱۲؎، جنّٰتِ مأوٰی ۱۳؎، جنّٰتِ نَعِیْم۱۴؎ اور جنّٰتِ فردوس۱۵؎۔گویا جنتوں کو صرف جو ڑا ہی نہیں بتایا بلکہ دو جوڑے (یعنی چار) بتایا ہے۔ اور اِس طرح اُس چیز کو جس کو غیرفانی قرار دیا گیا تھا توحیدؔ کے راستہ سے ہٹا کر توحید کی دلیل بنا دیا ہے۔کیو نکہ جنت کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ عدنؔ ہے اور خُلدؔ ہے یعنی دائمی طور پر رہنے والی ہے۔ اور چونکہ غیر فانی چیزمیں خدا ئی پائی جاتی ہے اِس لئے شُبہ ہو سکتا تھا کہ شاید جنت میں بھی خدائی پائی جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بتایا کہ نہیں وہ بھی جوڑ ا ہے اور چونکہ وہ جوڑا ہے اس لئے اُسے بھی خدا تعالیٰ کے مقابل میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اند ر کو ئی خدائی نہیں پائی جاتی۔ اِسی طرح وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی احدیت میں شُبہ پیدا کر سکتی تھی اُس کو بھی جوڑا بناکر خدا تعالیٰ کی احدیت کو پھر قائم کر دیااور وہی چیز جو تو حید میں شبہ ڈال سکتی تھی اُس کو توحید کی دلیل بنا دیا ہے۔ پھر اگلی دنیا میں جن جنتوں کا ذکر کیا ہے اُن میں سے ہر ایک جنت کو پھر جوڑا قرار دیا گیا ہے گویا اس طرح چار جنتوں کو آٹھ جنّتیں بنا دیا ہے۔چنا نچہ سورئہ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَجَنَاالْجَنَّتَیْنِ دَانٍ۔۱۶؎ یعنی اگلے جہان کی ہر جنت جنّٰتِ نَعِیْم ہو یا جنّٰتِ مأوٰی ،جنّٰتِفردوس ہو یاجنّٰتِعَدْنٍ اس کے بھی دو دو حصّے ہونگے اور اس کے ہر حصّہ کا پھل جھکا ہؤا ہو گا۔ اوّلؔ تو جنتِ نعیم اکیلی نہیں۔ جنّٰتِ نَعِیْمکے ساتھ جنّٰتِعَدْنٍ بھی ہے۔ او ر پھر جنّٰتِ مأوٰی بھی ہے او ر جنتِ فردوس بھی ہے گویا چار جنتیں ہیں۔ مگر وہ چاروں جنتیں آگے پھر دو دو جنتیں ہیں اور ان کے ہر حصّہ کا پھل جھکا ہؤا ہو گا اور مؤمن کو آسانی سے مِل جائے گا۔
قوم عاد کے دو باغات کا ذکر
پھر اس دنیا کی جنتوں کا جہا ں ذکر فرماتا ہے وہا ں بھی اُس کو جو ڑا کی شکل میں ظاہر کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم
میں جہا ں ایک قوم کے باغوں کا ذکر آتا ہے وہا ں بھی اُسکو دو باغ قرار دیا ہے فرماتاہے وَبَدَّلْنٰھُمْ بِجَنَّتَیْھِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَّ اَ ثْلٍ وَّشَیْئٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ۔۱۷؎ یعنی عاد کی قوم کے پاس بھی دو جنتیں تھیں۔ ہم نے ان جنتوں کو تباہ کر دیا او راُس کی جگہ نہایت بُرے پھل والے درخت لگا دئیے جو بد مزہ تھے،کڑوے تھے او ر کھٹے تھے۔ خمطٍ کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کھٹی اور کڑوی ہو۔ یعنی وہ ایسے پھل دینے لگے جو کڑوے بھی تھے اور کھٹے بھی۔یہاں بھی درحقیقت روحانی پھل مراد ہیں کیو نکہ عاد اور ثمود کی تباہی کے بعد جن کے پھل سخت کڑوے اور بد مزہ ہو چکے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے۔اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اِن لوگوں کی جنتوں کو تباہ کر دیا اور اس کی جگہ نہا یت بُرے پھل والے دو باغ ان کو دئیے یعنی اچھے پھل والے باغ ابراہیم ؑکو مِل گئے اور بُرے پھل والے باغ عاد کو مل گئے۔
موسوی قوم کے دو باغات کا ذکر
سورئہ کہف میں اللہ تعالیٰ موسوی قوم کے متعلق بھی فرماتاہے۔وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلاً رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا
لِاَحَدِھِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰـھُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَھُمَا زَرْعاً۔ کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُکُلَھَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْئًالا وَّ فَجَّرْنَا خِلَا لَھُمَا نَھَرًا۱۸؎
یعنی تو اُنکے سامنے اُن دو شخصوں کی حالت بیان کر جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دئیے تھے اور انہیں ہم نے کھجو ر کے درختوں سے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور ہم نے ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی۔ ان دونوں باغوں نے اپنا اپنا پھل خوب دیا اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کیا اور اُن کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کی ہوئی تھی۔ اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو دو جنتیں عطا فرمائیں اوران دونوں جنتوں میں فاصلہ رکھا اورچونکہ یہ باغ کنارہ کی طرف جاتے جاتے کمزور پڑگئے۔اس لئے ایک باغ اور دوسرے باغ کے درمیان کھیتیاں بنا دی گئیں۔چنانچہ موسویؔ باغ اور عیسویؔ باغ کے درمیان دائوؔدؑ کے اتباع کا زمانہ آیا۔اِسی کی طرف اِس میں اشارہ ہے کہ موسیٰؑ کا باغ چلے گا اور جاتے جاتے دائودؔ ؑ کے زمانہ کے بعد اس میں تنزّل شروع ہو جائے گا اور وہ کھیتیاں بن جائے گا۔چنانچہ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمَا زَرْعًا۔ ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پید ا کی تھی۔یعنی ایک طرف عیسوی باغ تھا اور ایک طرف موسوی باغ اور ان کے درمیا ن ہم نے کھتیپیدا کردی۔ یعنی دائود ؑ کی نسل پر وہ زمانہ آیا جب کہ بختؔ نصر نے یہودیوں کو تباہ کردیا۔اُن کے معبد گِرا دئیے اور انہیں قید کر کے لے گیا۔ پس اُن اتباع کا جو زمانہ تھا یا حزقی ایلؔ او ر دانی ایلؔ کا زمانہ تھا وہ کھیتیوں کا زمانہ تھا یعنی اُنکی مثال ایک کھیتی کی سی تھی نہ کہ باغ کی جو کہ غنم القوم کے چر جانے کے خطرہ میں ہو تی ہے۔ یعنی جب قوم کمزور پڑ جاتی ہے تو دشمن قومیں اس کو لوٹ سکتی ہیں۔ اِسی کو قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ۔۱۹؎
پاس کی ہمسا یہ قوموں کے جو جانور تھے اور بھیڑیں وغیرہ تھیں وہ اس کھیتی میں چرگئیں۔ یعنی اِردگِرد جو بخت نصر کا علاقہ یا رومیؔ علاقہ تھا انہوں نے آکر موسوی کھیتی کو اپنے آگے رکھ لیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ درمیان میں نہر ہو گی۔ یعنی آخری زمانہ اور مو سوی زمانہ کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوپیدا کیا جائے گا۔ چنانچہ موسوی قوم کی دو ترقیوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور انہوں نے موسوی باغ کے لئے نہر کا کام دیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
بھی دو باغ عطا کئے جانے کا وعدہ
یہی سلسلہ دُہرانے کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وعدہ فرمایا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم
میں فرماتا ہے اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلاً شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔۲۰؎
اے مکّہ والو! ہم نے تمہاری طرف بھی ایک رسول تمہارا نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف موسٰی ؑ کو رسو ل بنا کر بھیجا تھا۔ یعنی محمدؐ رسول اللہ مثیلِ موسٰی ؑ ہیں اور موسٰی ؑ کی قوم کے حا لات ایک رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیش آئیںگے۔ یعنی ان کو بھی دو باغ ملیں گے اور موسٰی ؑ کی طرح اُنکے زمانہء نبوت میں بھی ایک باغ تو وہ ہو گا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بغیر کسی او ر مأ مور کی مدد کے چلے گی۔ لیکن آخر میں اسلام کے تنزّل کا دَور آجائے گا اور وہ کھیتیوں کی طرح رہ جائے گا۔ تب اللہ تعالیٰ موسوی سِلسلہ کی طرح ایک مسیحِ محمدؐی بھیجے گاجس کی امت دوسرے باغ کی حیثیت رکھے گی لیکن ہو گی وہ بھی محمدؐرسول اللہ کی امت اور اس کا باغ بھی محمد ؐرسول اللہ کا باغ ہی کہلائے گالیکن اس فرق سے کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسٰی ؑ سے ا فضل ہیںموسوی سِلسلہ کے دوسرے حصّہ کی بنیاد جس مسیح سے پڑی تھی وہ مستقل نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے باغ کی بنیاد جس مسیح سے پڑے گی وہ امتی نبی ہوگا۔ یعنی وہ خود بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں ہو گا اور اُس کے ماننے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی ہونگے۔ پس اس کی کو ئی جُدا امت نہیں ہو گی بلکہ اس کے ماننے والے اُس کے مرید کہلا ئیں گے۔ جیسا کہ جماعتِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مرید کہلاتی ہے لیکن امت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہلاتی ہے۔
اُمتِ محمدؐیہ کا بلند مقام
چنا نچہ اس کا ثبوت کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے اُمّتی نبی آتے رہیں گے سورۃ نساء رکوع۹آیت ۷۰سے ملتا
ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنِ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا۲۱؎
یعنی اے لوگو!یاد رکھو ہمارے محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا درجہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی اطاعت کرے وَالرَّسُوْلَ او ر اس رسول یعنی محمد ؐرسول اللہ کی اطاعت کرے،فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا۔وہ کون لوگ ہیں۔النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَائِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وہ نبی ؔاور صدیقؔ او ر شہدائؔ اور صالحینؔ ہیں۔ یعنی آپؐ کی اُمت میں داخل ہو نے والے آپؐکے فیض سے مستفیض ہو کر اور آپؐ کے نور سے منور ہو کر اور آپؐکی روشنی کو حا صل کرکے او ر آپؐکے درس سے سبق سیکھ کر نبیوںؔ او ر صدیقوں ؔاور شہدائؔ اور صالحین ؔکے مقام کو پہنچیں گے۔لیکن فرماتا ہے یہ درجے صرف محمد ؐرسول اللہ کی اُمت میں مل سکتے ہیں کسی غیر کو حا صل نہیں ہو سکتے کیونکہ َالرَّسُوْلَ کی اطاعت یعنی محمدؐ رسول اللہ کی اطاعت سے ہی نبیؔ اور صدیق ؔوغیرہ بن سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے نبیوں کی اطاعت کرکے انسان صدیقؔ۔شہیدؔاور صا ؔلح بن سکتا ہے مگر نبی نہیں بن سکتا۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرکے نبی ؔ۔صدیقؔ۔شہیدؔاور صاؔلح سب درجے حا صل کر سکتا ہے۔
فلسطین اور کشمیر کے متعلق خدائی وعدہ
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مِل گئے۔ ایک باغ مسیح موعود ؑ کے ظہور سے
پہلے زمانہ میں اور ایک باغ مسیح موعود ؑ کے ظہو ر کے بعد کے زمانہ میں۔ چنانچہ پہلے زمانہ میں دُنیوی لحاظ سے وہی باغ آپ کو ملا جو مو سٰی ؑ کی اُمت کو دُنیوی لحا ظ سے مِلا تھایعنی فلسطین اور کشمیر کا علاقہ۔ فلسطین میں بھی بڑے باغات ہیں۔ میَں نے ۱۹۲۴ء میں جب سفر کیا تو فلسطین بھی گیا تھا۔مَیں ریل میں دمشق ؔسے بیروتؔ آیا جب بیروتؔ کے قریب پہنچے تو میَں نے دیکھا کہ ریل شہر کے اندر داخل ہو رہی ہے اور ہر گھر میں باغیچے لگے ہوئے ہیں۔ اور دمشقؔ میں مَیں نے دیکھا کہ گھر گھر میں نہریں جاری تھیں او ر ہر گھر میں باغ لگا ہؤا تھا۔ اِسی طرح کشمیر کا حال ہے کہ وہاں چپے چپے پر باغ ہے کچھ خود رَو اور کچھ مغل بادشاہوں کے لگائے ہوئے۔پس قرآن کہتا ہے کہ دُنیوی لحاظ سے محمد ؐ رسول اللہ کو وہی باغ ملے گا جو مو سٰی ؑ کی اُمت کو ملا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کا اپنے نیک بندوں کو وارث بنائے گا یعنی مسلمانوں کو۔ پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو فلسطین سے نکال کر کشمیر میں لایا او ر اُس نے کشمیر کے لوگوں کو مسلمان بنا یا چنانچہ شیخ ہمدان ایران سے آئے اور اُن کے ذریعہ سے سارا کشمیر مسلمان ہو گیا۔
محمد ؐرسول اللہ کو موسوی باغ ملنے کی انجیل میں پیشگوئی
یہ خبر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موسوی باغ مل
جائے گا اِس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیحؑ نے بھی کیا ہے۔ انجیل میں آتا ہے:۔
’’پھر وہ انہی تمثیلوں میں کہنے لگا کہ ایک شخص نے انگور کا باغ لگا یا۔ اور اُس کی چاروں طرف کھیرا اور کولھو کی جگہ کھودی اور ایک بُرج بنا یا اور اسے با غبانوں کو سپرد کرکے پردیس گیا۔ پھر موسم میںاُس نے ایک نوکر کو باغبا نو ں کے پاس بھیجاتا کہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے۔ انہوں نے اُسے پکڑ کے مارا اور خالی ہا تھ بھیجا (چونکہ یہ مثال ایک روحانی سِلسلہ کی ہے اس لئے باغ کے مالک سے مراد خدا تعالیٰ ہے) اُس نے دوبارہ ایک او ر نوکر کو اُن کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اُس پر پتھر پھینکے اُس کا سر پھو ڑا او ر بے حُرمت کر کے پھیر بھیجا۔ پھر اُس نے ایک اَور کو بھیجا۔ انہوں نے اُسے قتل کیا۔ پھر اور بہتیروں کو۔ اُن میں سے بعض کو پیٹا اور بعض کو ما ر ڈالا۔ اب اُس کا ایک ہی بیٹا تھا (یعنی خود مسیح)جو اُس کا پیارا تھا آخر کو اُس نے اُسے بھی اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے۔ لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا۔ یہ وارث ہے آئو ہم اِسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی۔ اور انہوں نے اسے پکڑکے قتل کیا (اِس میں مسیح کے صلیب پر لٹکا ئے جانے کی پیشگوئی تھی)اورانگور کے باغ کے پَرے پھینک دیا(یعنی فلسطین سے نکالا اور نصیبینؔ بھیج دیا جہا ں سے وہ کشمیر چلا گیا) پس باغ کا مالک کیا کہے گا۔وہ آوے گا او راُن باغبانوں کو ہلا ک کرکے انگوروں کا باغ اَوروں کو دے گا (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور اُن باغبانوں کو یعنی یہودیوں کو وہا ں سے نکال دینگے اور اپنی اُمت کو دے دینگے) ‘‘ ۲۲؎
اِس جگہ خود مسیح ؑ نے محمدؐ رسول اللہ کے رُوحانی بادشاہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا مظہر اور موسٰی ؑ کو محض ایک کا رندہ ثابت کیا ہے۔ اِس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ فلسطین اور امتِ موسویہ کا باغ محمدؐ رسول اللہ کے حوالے کر دے گا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مِل جائیں گے۔دومادی اور دو روحانی۔ مادی فلسطین اور کشمیر اور روحانی مسیحِ موسوی کی اُمت او ر مسیحِ محمدؐی کے متبع۔
کشمیر اور فلسطین میں جماعتِ احمدیہ کی اسلامی خدمات
اب دونوں مادی باغوں کو دیکھ لو۔ کشمیر میںبھی
خدا کے فضل سے جو لوگ اس عزم کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم نے سارا ملک ہی مسلمان بنانا ہے وہ احمدی ہیں اور فلسطین میں بھی ایک ہی جماعت بیٹھی ہے اور وہ احمدی ہیں۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ یہ پیشگوئی جو محمدؐ رسول اللہ کے ہاتھ میں فلسطین اور کشمیر لانے والی ہے احمدیوں کے ہاتھ سے ہی پوری ہو گی۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر میرے زمانہ میں دس یہودی بھی مسلمان ہوجا ئیں تو سارے یہودی مسلمان ہو جائیں گے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف ایک یہودی عالِم مسلمان ہؤا دو بھی نہیں ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مبلّغ جو یہودی فلسطین کو اسلامی فلسطین بنانے کے لئے وہاں موجود ہیں ان کے ذریعہ سے اِسوقت تک تین یہودی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک بڑا مستشرق پروفیسر ہے، ایک ڈاکٹر ہے او رایک تاجر پیشہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ یہودی قوم کو پھر مسلمان بنائے گا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو جائیں گے اور بجا ئے اس کے کہ مسلمانوں کو توپیں اور بندوقیں لیکر فلسطین پر حملہ کرنا پڑے یہودی آگے بڑھ کر اپنے دروازے کھو لیں گے اور کہیں گے کہ اے مسلمانو!ہم بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں آجائو۔
غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کام لے کر تم لوگ جو کہ نہایت غریب سمجھے جاتے ہو اور جن کے کپڑوں کو دیکھ کر بعض شہری امراء تو حقارت کی نگاہ سے اپنے منہ پرے پھیر لیتے ہیں تمہا رے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر ہے کہ مسیح موعود ؑ کے ذریعہ سے تم موسوی باغ پر قبضہ کرو اور اُسے محمدؐرسول اللہ کے حوالے کرو۔ محمدؐرسول اللہ کا مادی باغ کشمیر اسوقت ہندوئوں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین یہودیوں کے قبضہ میں ہے مگر خدا تعا لیٰ احمدیوں کے ذریعہ سے یہ دونوں باغ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس دلائے گا۔ اِسی طرح دونوں روحانی باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کو مل جائیں گے یعنی مسیحِ موسوی کی اُمت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پَیروئو ں کے ذریعہ سے دوبارہ فتح کی جائے گی اور اسلام لائے گی اور پھر محمد ؐرسول اللہ کا باغ بن جائے گی اور مسیحِ محمدیؐ کے متبع جو ہیں وہ تو ہیں ہی شروع سے محمدؐ رسول اللہ کے۔کہتے ہیں۔ ’’کس دی گولی تے کِس دے گہنے۔‘‘ہم تو ہیں ہی محمدؐ رسول اللہ کے غلام اور آپ کے باغ کے بو ٹے۔ ہم تو ہر وقت آپؐ ہی کی ملکیت ہیں۔ کبھی آپؐ کے حلقہء اطاعت سے باہر گئے ہی نہیں۔ موسوی سِلسلہ کے لوگ یعنی یہودی وغیرہ بے شک نکلے اور باہر گئے مگر اُنکو بھی ہم محمدؐ رسو ل اللہ کے دروازہ پر لائیں گے اور ہم تو ہیں ہی آپ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے۔ اس دروازہ کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا نہ چھو ڑ یں گے اِنْ شَاء اللّٰہُ تعالٰی بلکہ مسیحِ ناصریؑ کی اُمت جو عیسائی ہے اور حضرت مو سٰی ؑ کی براہ ِراست اُمت جو یہودی ہے ان دونوں کے باغوں میں سے بھی روحانی پودے نکال نکال کر ہم محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگاتے رہیں گے یہاں تک کہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ آباد ہو جائے گا اور موسٰی ؑ کا باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں شامل ہو جائے گا۔
محمدؐرسول اللہ کا باغ دُنیا کے چپّہ چپّہ پر پھیل جائے گا
محاورئہ زبان میں بھی جسمانی یا رُوحانی اولاد
درخت کہلا تی ہے۔ چنا نچہ پنجابی والے تو خوب جانتے ہیں کہ جب کسی عورت کا بچہ مر جا تا ہے اور وہ بَیْن ڈالتی ہے تو کہتی ہے ’’ہائے میرا باغ اُجڑ گیا ،ہائے میرا بوٹا کس نے پُٹ لیا۔‘‘ تو ہمارے ملک میں بچّے اور اولاد کو بھی بوٹا اورباغ ہی کہتے ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ لوگ باغ لگاتے رہے اور باغ محمدؐ رسول اللہ کومِل گئے۔ موسٰی علیہ السلام نے کو شش کر کے یہودی بنائے اور اُن کو فلسطین میں قائم کیا۔ خدا نے محمدؐ رسول اللہ کو بنا بنایا فلسطین دے دیا۔ موسٰی کی قوم ہجرت کرکے کشمیر آئی اور کشمیر بنا بنایا خدا نے محمد رسول اللہ کو دے دیا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہؤا باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کو ہی مِل گیا۔ دنیا کے کناروں تک احمدی مبلّغ تبلیغ کرتے ہیں اور لَااِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمََََّد رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھو ا کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یعنی جو درخت بھی اُن کو مِلتا ہے وہ لا کر محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگا دیتے ہیں۔ موسٰی ؑ کے باغ میں تو صرف ایک بڑا درخت پیدا ہؤا تھا جس کا نا م دائود ؑ تھا۔مگر محمدؐ رسو ل اللہ کے چمن کا ایک درخت یعنی مسیحِ موعود دعویٰ کرتاہے کہ میَں ہی محمدؐ رسو ل اللہ کے چمن کا دائود نامی درخت نہیں بلکہ مجھ سے اور بیج بھی نکلنے والے ہیں جن سے بہت سے دائود پیدا ہونگے اور محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں ہزاروں دائودی شجر پیدا ہو جائیں گے چنا نچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’اِک شجر ہو ں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے۔‘‘
یعنی میں محمد ؐ رسو ل اللہ کے باغ کا ایک درخت ہوں جو خودہی دائود نہیں بلکہ میرے اندر جو پھل لگ رہے ہیں وہ بھی دائود ہیں۔ یعنی مَیں ہی دائود نہیں بلکہ میرے ماننے والے مریدوں میں سے بھی ہزاروں دائود پید ا ہو نگے اور پھر فرماتے ہیں :-
؎
میَں کبھی آدم کبھی موسٰی کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میر ی بے شمار
۲۳؎
اگر مو سٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو بنی اسرائیل کی تعدا د پر فخر ہے تو میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار نسلیں دے گا۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ دنیا میں چپّہ چپّہ پر پھیل جائے گا۔ زمین کا کوئی گوشہ نہیں ہو گا جس میں محمدؐرسول اللہ کا باغ نہ لگا ہؤا ہو اور دنیا کا کو ئی انسان نہیں ہو گا جس کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کلی نہ کھلی ہوئی ہو۔
ابو جہل کے با غ کا درخت عکرمہؓ
محمدؐرسول اللہ کے باغ میں لگایا گیا
محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی نمونہ اللہ تعالیٰ نے دکھا یا اور لوگوں کے لگائے ہوئے درخت آپؐ کے چمن میں لا کر لگادئیے۔ چنانچہ ابو جہل کے باغ کا انگور کا درخت عکرمہؓ
وہاں سے اُکھیڑ کر آپؐ کے باغ میں لا کر لگادیا گیا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِسی خیال کا اظہار فرماتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میَں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ جنت سے انگور کا ایک خوشہ لایا۔ جب میَں نے اُس سے پوچھا کہ یہ خوشہ کس کے لئے ہے؟ تو اس نے کہا ابوجہل کے لئے۔ اِس پر میَں گھبرا گیا کہ کیا خدا کا رسول اور اُسکا دشمن دونوں جنت میں ہونگے؟ عکرمہؓ ابوجہل کا بیٹا مسلمان ہؤا تو میَں نے سمجھا کہ یہ اِس خواب کی تعبیر ہے۔۲۴؎ اِس سے معلوم ہو تا ہے کہ جنت کے انگور کاخوشہ تو ابو جہل کے گھر میں آنا تھامگر اُسوقت آنا تھا جب اُس کے باغ میں سے عکرمہؓ کے انگور کا درخت اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگایا جانا تھا۔
خا لدؓ بھی ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر
محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگایا گیا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے مشہور دشمن ولید اور عاص بن وائل تھے۔ ولید کا بیٹا خالدؓ تھا۔ وہ ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگا دیا گیا اور آج عالمِ اسلام
خا لدؓبن ولید جیسے بہا در جرنیل کے کارناموں پر فخر کرتا ہے۔وہ بوٹا تھا محمدؐرسول اللہ کے ایک شدید دشمن کا لیکن اُس نے پھل تب دینے شروع کئے جب اُسے محمد ؐرسول اللہ کے باغ میں آکر لگایا گیااِس سے پہلے وہ مکّہ کے ایک نمبر دار کا بیٹا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں لگنے کے بعد روم اور کسرٰی کے بادشاہ اُس کے سائے میں بیٹھنے لگ گئے۔ اِسی طرح اَور بھی بہت سی مثا لیں اُس زمانہ کے لوگوں کی ملتی ہیں۔
وہ درخت جو براہِ راست محمدؐ رسول اللہ نے لگائے
اِس کے علاوہ آپؐ کے باغ کے کچھ درخت وہ تھے جو
براہِ راست آپؐ نے لگائے تھے جیسے ابوبکرؓ۔عمرؓ۔عثمانؓاور علیؓ۔ابوبکر ؓکے خاندان کی ایسی ادنیٰ حالت تھی کہ اُن کے خلیفہ ہونے پر کوئی شخص دَوڑا دَوڑا گیا اور جاکر اُس نے آپ کے باپ کو اطلاع دی۔ ابو قحافہؓ اُن کا نام تھا ،وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کو کہنے لگارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیںلوگ بڑے گھبرائے اور انہوں نے کہا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا بنے گا؟ وہ کہنے لگااُن کے بعد ایک خلیفہ مقرر ہو گیا ہے۔ لوگوں نے کہا کون خلیفہ ہؤا ہے ؟اُس نے کہا ابوبکرؓ!ابو بکرؓ کا باپ اپنے آپکو اِتنا ادنیٰ سمجھتا تھا کہ ابو قحافہؓ کہنے لگا کون ابو بکرؓ!اُس نے کہا۔ ابوبکرؓ تمہارا بیٹا۔ وہ کہنے لگاہیں!میرے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے؟کیا مکّہ کے قریش اور بنو ہاشم اور بنو عبدشمس نے میرے بیٹے کی بیعت کرلی ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ابھی تک اُس کا ایمان کمزور تھا۔ اُس نے کہا سب نے کر لی ہے۔ہر اک نے آگے آگے بڑھ کر بیعت کی۔ عمر خطابؓ نے بھی کی ،عثمان ؓ نے بھی کی اور باقی صحابہؓ نے بھی کی اور مہاجرین نے بھی کی اور انصار نے بھی کی۔ جب اُس نے یہ سُنا تو اُس پر اتنا اثر ہؤا کہ اُس کے دل کی جو کمزوریٔ ایمان تھی وہ دُور ہوگئی۔اور کہنے لگا۔لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔اگر محمد ؐ رسول اللہ کے بعد لوگو ں نے میرے بیٹے کی بیعت کرلی ہے اور محمدؐ رسول اللہ کا اتنا اثر ہے اور اتنی برکت ہے تو پھر اُن کے خدا کا رسول ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔۲۵؎
حضرت ابو بکرؓ کا قیصر وکسریٰ پر رُعب
لیکن اِدھر تو یہ حالت تھی کہ باپ اس بات کو ما ننے کے لئے تیا ر نہیں تھا کہ میرا بیٹا خلیفہ
ہوسکتاہے اور اُدھر یہ حالت تھی کہ ابو بکرؓ آرام سے ایک کچّی کو ٹھڑی میں مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن قیصر اپنے محل میں اُن کے نام سے کا نپ رہا تھا اور کسریٰ اپنے محل میں ایران میں بیٹھا ہؤا ہزار میل پرکانپ رہا تھا۔ ابو بکرؓ ابو قحافہؓ کا بیٹا جس کو مکّہ میں بھی کوئی عظمت حاصل نہیں تھی وہ مدینہ کی کچی کو ٹھڑی میں بیٹھا تھا لیکن قیصر قسطنطنیہ میں ایک بڑے پکّے محل میں بیٹھا ہؤا تھا اور کسریٰ ایران میں ایک بڑے پکّے محل میں بیٹھا ہؤا تھا لیکن ابو بکرؓ کا نام آتا تھا تو کا نپ جاتے تھے۔ یہی حا ل عمرؓ کا تھا، یہی حال عثمان رضی اللہ عنہ کا تھا،یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تھا۔
شاہِ روم کا حضرت عمرؓ سے تبرّک منگوانا
حضرت عمرؓ کا سایہ تو اِتنا بڑھا کہ لکھا ہے ایک دفعہ رُوم کے بادشاہ کے سَر
میں سخت دَرد ہوئی کسی علاج سے فائدہ نہ ہو تا تھا۔ رومی بادشاہ کو کسی نے کہا کہ آپ نے علاج تو بہت کر دیکھے اب ذرا عمرؓ سے کچھ تبرّک منگوائیے۔سُنا ہے اُس کی چیزوں میں بڑی بر کت ہے۔ شاید اس تبرّک کی برکت سے آپ کی درد ہٹ جائے۔ وہ تھا تو مخالف اور اُس کی فوجیں عمرؓ کی فوجوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں مگر مرتا کیا نہ کرتا۔سر درد کی برداشت نہ ہوئی آخر حضرت عمرؓ کے پاس سفیر بھیجا کہ اپنا کوئی تبرّک بھیجیں۔ حضرت عمرؓ نے بھی سمجھا کہ میر ا کیا تبرّک ہے یہ تو محمد ؐ رسول اللہ کا تبرّک ہے اور خدا اس کو محمد رسول اللہ کی قوم سے لڑنے کی وجہ سے ذلیل کرنا چاہتاہے۔ انہوں نے اپنی پُرانی ٹوپی جس پر دو دو اُنگل میل چڑھی ہوئی تھی وہ دے دی کہ جائو اور یہ ٹو پی اُس کو دے دو۔جو تبرّک لینے آیا تھا وہ سفیر اُسکو لے گیا۔ بادشاہ کو بڑی بُری لگی اور اُس نے اُسے حقیر سمجھا۔وہ ریشمی ٹو پیاں اور سونے کے تاج پہنے والا بادشاہ بھلا حضرت عمرؓ کی دودو اُنگل والی چکنی چپٹی ٹو پی سر پر رکھنے سے کتنا گھبراتا ہوگا۔ اُس نے کہا پھینکو اس کو میَں نہیں پہن سکتا۔ مگر تھوڑی دیر بعد جو درد کا دورہ ہؤاتو کہنے لگا لے آنا ٹوپی۔ وہ ٹوپی رکھی تو سر کا درد دُور ہو گیا اور خدا نے فضل کر دیا۔ جب درد کو ایک دن آرام رہا تو پھر دل میں کچھ خیا ل آیا کہ میرے جیسا بادشاہ ایسی غلیظ ٹوپی پہنے۔کہنے لگا پھینکو پَرے اس کمبخت کو۔ انہوں نے پھر پھینک دی مگر پھر درد ہو گئی۔پھر اپنے درباریوں سے منّتیں کرنے لگا کہ خدا کے واسطے وہ ٹوپی لانا میں مرا جا رہا ہوں۔ پھر سر پر ٹوپی رکھی تو آرام آگیا۔ بہرحال وہ ٹوپی لینے پر مجبور ہؤا اور اس کو سر پر رکھتا رہا۔۲۶؎
اب دیکھو حضرت عمرؓ کا درخت جو محمد ؐرسول اللہ نے لگایا تھا اُس کا کیسا لمبا سایہ تھا۔ عمرؓ مدینہ میں بیٹھا ہؤا تھا اور رُوم کے بادشاہ پر اُس کا سایہ تھا۔ چنا نچہ بادشاہِ روم کو بھی اُسکے نیچے بیٹھنے سے آرام آیا۔ عمرؓ کیا تھے!محمدؐرسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہی تھے۔اور روم کا بادشاہ کیا تھا؟مسیحؑ اور موسٰیؑ کے باغ کا ایک درخت تھا۔ عام درختوں کے اندر تو یہ بات پائی جاتی ہے کہ بڑے درختوں کے نیچے اگر اُن کو لگا یا جائے تو وہ سُوکھنے لگ جاتے ہیں مگر محمد ؐ رسول اللہ کے باغ کا درخت عمرؓ ایسا بابرکت تھاکہ مسیحؑ اورموسٰی ؑ کے باغ کا درخت جب اس کے نیچے لگا یا گیا یعنی روم کے بادشاہ کے سر پر اُس کی ٹوپی رکھی گئی تو بجائے سُوکھنے کے سرسبزوشاداب ہونے لگ گیا۔ وہ بر کتوں والا زمانہ تو گزر گیا مگر پھر بھی محمدؐی باغ میں ایسے ایسے درخت لگے کہ دنیا کی آنکھیں خِیرہ ہو گئیں۔
معاویہ بن یزیدؒ کا ایک ایمان افروز واقعہ
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں ایک گندہ پودہ پیدا ہؤا جس کا
نام یزید ہے۔ یزید یزیدہی تھا مگر محمدؐ رسول اللہ کے باغ کا پودہ کہلاتا تھا۔اُس کے گھر میں ایک بیٹا پید ا ہؤا تو اُس نے اُس کا نام بھی اپنے باپ کے نام پر معاویہ رکھا۔ مگر ایسے گندے باپ کا بیٹا محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے اور اُن کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ایسا پھلا پھولا کہ اس کے واقعہ کو پڑھ کر لُطف محسوس ہو تا ہے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کی موت کا وقت آیا تو اُس نے اپنے بیٹے معاویہ کو خلیفہ مقرر کیا۔ لوگوں سے بیعت لینے کے بعد اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑ ے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میَں نے تم سے بیعت تو لے لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ مَیں اپنے آپ کو تم سے بیعت کا زیادہ اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ مَیں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اُس وقت سے لیکر اب تک میَں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگو ں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میَں یہ امارت اُس کے سپرد کردوں اور خود بری الذمہ ہو جائوں۔ مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میَں اِس منصب کے اہل نہیں ہوں او ر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوںکہ میرا باپ اور میرادادا بھی اس منصب کے قابل نہیں تھے۔میرا باپ یزید حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اُس کا باپ یعنی معاویہ حسنؓ حسین ؓ کے باپ یعنی حضرت علی ؓ سے کم درجے والا تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میر ے دادا اورباپ کے حسنؓ اور حسین ؓ خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے مَیں اِس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کرلو۔ اُس کی ماں اُسوقت پردہ کے پیچھے اُس کی تقریر سُن رہی تھی۔ جب اُس نے بیٹے کے یہ الفاظ سُنے تو کہا کمبخت! تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اُس کی تمام عزّت خاک میں ملا دی ہے۔وہ سُنکر کہنے لگا کہ جو سچی بات تھی وہ میَں نے کہہ دی ہے۔ اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھو ڑے دن گزر نے کے بعد وفات پا گیا۔ ۲۷؎
تعجب ہے کہ یہ تاریخ شیعوں کی لکھی ہوئی ہے مگر باوجود اس کے افسوس ہے کہ شیعہ اصحاب نے اُس مُردار جھا ڑی یعنی یزید کو تو یاد رکھا جو یزید بن معاویہ کہلاتی ہے مگر محمد ؐرسول اللہ کے اُس خو شنما پودے کو یا د نہ رکھا جو معا ویہ ؒ ابن یزید کہلاتاہے۔ حالانکہ لوگ اپنے باپ کے باغ کی تعریفیں کیا کرتے ہیں مگر اس میں جو اتفاقاً ایک بُرا پودا یزید کا نکل آیا تھا اُس کو تو شیعہ یاد رکھتے ہیں مگر یزید کے گھر میں جو بیٹا معاویہؒ پیدا ہؤا اور جس نے اتنے فخر سے اور عَلَی الْاِعْلان کہا کہ حسنؓ وحسین ؓ میرے باپ سے اچّھے تھے اور میرے دادا سے بھی اچھے تھے اور علیؓ میرے دادا سے اچھّے تھے اور وہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے اُس بیچارے کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔حالانکہ چاہئے تھا کہ محرّم کے مو قع پر بجا ئے یزید کے معاویہؒ کا ذکر کیاجاتا کیو نکہ یزید کے ذریعہ سے تو صرف اتنا ہی پتہ لگتا ہے کہ ایک گندی جھاڑی محمد ؐ رسول اللہ کے باغ میں تھی مگرمعاویہ بن یزید کے ذریعہ سے یہ پتہ لگتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں ایک گندی جھاڑی نکلی تھی مگر اس کے بیجوں سے پھر خدا نے ایک شاندا ر درخت پیدا کر دیا۔
محمدی باغات کے نمونے
بے شک ایسی مثالیں شاذ ونادر ہوتی ہیں مگر پھر بھی محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی ایک ایسا ہی پودا آپؐ کے باغ میں پیدا ہؤا اور پھر مادی باغوں سے علیٰحدہ ہو کر رُوحانی باغوں نے اپنی نشوونما شروع کر دی۔ محمدی باغوں میں ایک پودا حسن بصریؒ کا لگا،ایک جنید بغدادیؒ کا لگا، ایک سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کا لگا، ایک شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک ابراہیم ادھم رحمۃاللہ علیہ کالگا، ایک محی الدین صاحب ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک شہاب الدین سہر وردی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک بہائوالدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک معین الدین صاحب چشتی رحمۃ اللہ کالگا، ایک سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک قطب الدین صاحب بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک فرید الدین صاحب شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک نظام الدین صاحب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک حضرت باقی بِاللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک مجدد صاحب سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر ناصر رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگااور سب سے آخر میں باغِ محمدؐی کی حفا ظت کرنے والے درخت مسیح موعود ؑ کا پودا لگا جس کو خود مسلمانوں نے بد قسمتی سے کاٹ کر چاہا کہ محمدؐی باغ میں لوگ گھس جائیں، بکریاں اور بھیڑیں گھس جائیں اور محمدؐی باغ کو تباہ کردیں۔مگر وہ پودا اِس شان کا تھا کہ اُس نے کہا:-
؎
اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر

از با غبان بترس کہ من شاخِ مثمرم
او شخص! جو کہ سَو کلہاڑے لیکر میر ے کا ٹنے کے لئے دوڑا آرہا ہے میر ے باغبان خدا سے یا محمدؐ رسول اللہ سے ڈر کہ میَں وہ شاخ ہو ں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں اگر تُو مجھے کا ٹے گا تو محمدؐ رسول اللہ کا پھل کٹ جائے گا او ر نتیجہ یہ ہو گا کہ محمدؐرسول اللہ کا باغ بے ثمر رہ جائے گا۔ پس توُ مجھے نہیں کا ٹ رہا تو محمدؐرسول اللہ کے باغ کو اُجا ڑ رہا ہے اور خدا کبھی برداشت نہیںکرے گا کہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ اُجڑے وہ ضرور اُس کی حفا ظت کرے گا۔
محمدؐرسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کی تجلّیات
چنانچہ آسمان سے اللہ تعالیٰ
مسیح موعود ؑ کی حفا ظت کے لئے اُترا اور با وجود مولوی عبدالجبار،مولوی عبدالحق، مولوی احمد بن عبداللہ غزنوی،مولوی عبدالواحدبن عبداللہ غزنوی، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری او ر اَورسینکڑوں ہزاروں مولویوں اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے فتووں اور دیوبندیوں کے جوش کے اور جمعیتہ العلماء کی تمام طاقتوں کے اور ۱۹۵۳ء کا فساد پیدا کرنے والے علماء کی کو ششوں کے، باوجود اس کے کہ سب نے اکٹھا ہوکر حملہ کیا اللہ تعالیٰ سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو گیا کہ میَں محمدؐرسول اللہ کے باغ کو نہیں اُجڑنے دونگا۔یہ تو باڑ ہے محمدؐ رسول اللہ کے باغ کی۔ مسیح موعود ؑکو تم ایک انسان سمجھتے ہو مگر فرمایا میَں جانتا ہوں کہ یہ محمدؐ رسو ل اللہ کے باغ کی باڑ ہے اس کے کٹنے سے محمدؐرسول اللہ کا باغ اُجڑتاہے اور محمدؐ رسول اللہ میرا محبوب ہے۔میَں اپنے محبوب کی وفات کے بعد اُس کے باغ کو دشمنوں کو اُجا ڑنے نہیں دونگا۔ تم مولوی ہو یا عالِم ہو یا لیڈر ہو میَں تمہاری کیا پرواہ کرتاہوں۔ میَں محمدؐ رسو ل اللہ کی جو تیوں کے برابر بھی تم کو نہیں سمجھتا۔ محمد ؐرسول اللہ کے باغ یعنی اُس کی امّت کی حفاظت کے لئے میَں اسکو زندہ رکھو نگا او ر یہ ایک اَور جماعت کھڑی کرے گاجس طرح کیلے کے ساتھ اَور کیلے پیدا ہو جاتے ہیں اِسی طرح تم تو کہتے ہو کہ اِس کے جو مرید ہیں وہ شیطان ہیں اور ابلیس کے فرزند ہیںمگر میَں بتائوں گا کہ یہ ملائکہ ہیں جو محمدؐرسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے آئے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل او ر اُس کی تدبیر سے مسیح موعود ؑ اور پھر اُن کی جماعت کے ذریعہ سے محمدؐ رسول اللہ کے باغ کی باڑ کاٹے جانے سے بچ گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ اس اُمت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے جس کے اوّل مَیں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ؑ۔۲۸؎ یعنی میرے باغ کے ایک طرف باڑ مَیں ہوںاور ایک طرف مسیح موعود ؑ۔ نہ خدا مجھے کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے ،نہ خدا مسیح موعود ؑکو کٹنے دے گا کہ میر ا باغ اُجڑ ے۔ ہم دونوں کے کا ٹے جانے سے باغ محمدؐی اُجڑتا ہے اور یہ باغ خدا کا لگایا ہؤا ہے خدا اپنے لگائے ہوئے باغ کو اُجڑنے نہیں دے گا۔ میَں بھی باڑ ہوں اس باغِ محمدؐی کی اورمسیح موعود ؑ بھی باڑ ہے اِس باغِ محمدؐی کی نہ وہ مجھے کٹنے دے گا اور نہ وہ مسیح موعود ؑ کو کٹنے دے گا وہ باغِ محمدؐی کو آباد رکھنے کے لئے اُس کی باڑ کو سلامت رکھے گا اور قیامت تک وہ باغ چلے گا اور اس کو کوئی نہیں کاٹ سکے گا۔
باغِ محمدی کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے بے حقیقت باغات
اَب دیکھو ایک طرف
دُنیوی بادشاہوں کے باغ ہیں،وہ کتنے چھوٹے ہیں او رکتنی کم عمر کے ہیںدوسری طرف قرآنی محمدؐی باغ ہیں۔پھر ایک باغ دو باغ ہیں اور اِن کی عمر اِتنی لمبی ہے کہ محمدؐ رسول اللہ سے لے کر قیا مت تک ممتد ہے۔ پس کجا وہ دُنیوی با دشاہوں کے باغ جو مَیںنے ۱۹۳۸ء میں دیکھے تھے اور کجا یہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ جس کا ذکر میَں آج ۱۹۵۶ء میں کررہا ہوں۔ اِن دونوں کا مقابلہ کرکے بے اختیا ر مُنہ سے نکلتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَّجِیْدٌ۔
بڑی برکت والا ہے ہمارا خداجس نے محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھیجا جس نے قیامت تک کے لئے دنیا کی ہدایت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ پھر بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے مسیح موعود ؑ جیسا غلام محمدؐرسول اللہ کو دیا جس نے محمدؐ رسول اللہ کا باغ جب اُجڑ کے کھیتی بننے لگا تھا پھر اس کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ او راُس کے پودوں کو دنیاکے کناروں تک پھیلا دیا تاکہ وہ ہر ملک میں جائیں ،ہر قوم میں جائیں،ہر جگہ پر جا کے وہاں کے عیسٰی ؑ کے باغ کے پودوں کو نکال نکال کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگائیںاور موسٰی ؑ کے باغ کے پودوں کو اُکھیڑ اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگائیں،یہاں تک کہ دنیا کے چپے چپے میں محمدؐ رسول اللہ کا باغ لگ جائے اورنہ عیسٰی ؑ کا باغ رہے نہ موسٰی ؑ کا باغ رہے ،وہ ساری اُجاڑ بستیاں بن جائیں۔ آباد بستی اور ہر ا باغ صرف محمدؐ رسول اللہ کا ہو جو قیامت تک چلتا چلا جائے۔
۱ ؎ الذاریٰت :۵۰ ۲؎ الاخلاص
۳؎ پُستکوں :- پُستک۔ کتاب۔ صحیفہ
۴؎ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَاقَالَہُ شرعًا
۵؎ ٹین
۶؎ الرحمٰن:۴۷ ۷؎ البقرہ:۲۰۲
۸؎ الم نشرح :۶،۷ ۹؎ الانعام :۲ ۱۰؎ البقرہ :۸۲،۸۳
۱۱؎ الرعد :۴ ۱۲؎ التوبہ : ۷۲ ۱۳؎ الحج : ۲۰
۱۴؎ یونس : ۱۰ ۱۵؎ الکھف : ۱۰۸ ۱۶؎ الرحمٰن :۵۵
۱۷؎ سبا :۱۷ ۱۸؎ الکھف :۳۳،۳۴ ۱۹؎ الانبیاء :۷۹
۲۰؎ المزّمّل:۱۶ ۲۱؎ النساء :۷۰
۲۲؎ مرقس باب ۱۲ ۔ آیت ۱ تا ۹۔ نارتھ انڈیا بائیبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۲۳؎ درثمین اُردو صفحہ ۱۲۳۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
۲۴؎ السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۵؎
۲۶؎
۲۷؎ تاریخ الخمیس جلد۲ صفحہ۳۳۵
۲۸؎ کنزالعمال جلد ۱۴ صفحہ ۲۶۹۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۱۱)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ)
عَالَمِ روحانی کے لنگر خانے
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:-
دُنیوی لنگر خانوں کے نقائص
پندرھویں چیز جو ۱۹۳۸ء کے سفر دکن میں مَیں نے دیکھی اور جس نے میرے دل کو متأثر کیاوہ شاہی لنگر خانے تھے
جو غرباء کیلئے جا ری کئے گئے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ بادشاہوں کے محلّات کے ساتھ ہی غریبوں کے لئے لنگر بنائے گئے تھے تاکہ وہ بھو کے نہ رہیں اور صبح وشام وہاںسے کھا نا حاصل کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ میرے لئے یہ بات بڑی خوشی کا موجب ہوئی اور مجھے اُن کے انتظام کی تعریف کرنی پڑی لیکن جب مَیں نے سوچا اور غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ بادشاہوں نے یہ لنگر تو جا ری کردیئے تھے لیکن غریب اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ اکثر امراء یا اوسط درجہ کے لوگ اُن کو دھکّے دیکرپیچھے ہٹا دیتے تھے اور خوراک خود استعمال کر لیتے تھے۔ دوسرے مَیں نے دیکھا کہ ان لنگر خانوں میں جو لانگری مقرر ہوتے تھے بعض دفعہ وہ جِنس خود اُڑالیتے تھے اور بادشاہ کی لنگر جاری کرنے کی خواہش خاک میںمِل جاتی تھی۔
قرآنی لنگر کی خوبی اور اُس میں انواع واقسام کے کھانے
لیکن اس کے مقابلہ میں مَیں نے دیکھا کہ
قرآنی لنگر ان تمام نقائص سے پاک تھااور پھر قرآنی لنگر میں اتنی انواع کے کھانے تھے کہ شاہی لنگر اُس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ نظر آتے تھے مگر ظاہر ہے کہ قرآنی لنگر میں روٹیاں نہیں ملتیںبلکہ قرآن کے ذریعہ رُوحانی تعلیم دنیا کو بانٹی جا تی ہے۔ پس قرآن کریم کے رُوحانی لنگر کے اندر انواع واقسام کے کھا نوں کی موجودگی کے صرف اتنے ہی معنے ہیں کہ قرآن کریم نے ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی رُوحانی لنگر پیش نہیں کیا جا سکتا اور یہ دعویٰ ایسا ہے جو خود قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے رُوحانی لنگر کے اندر انواع واقسام کے کھانوں کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وَکُلَّ شَیْئٍ فَصَّلْنٰـہُ تَفْصِیْلًا ۱؎ یعنی ہم نے قرآن کریم میں ہر روحانی امر کو جس کی دنیا کو ضرورت تھی اچھی طرح کھو ل کر بیان کر دیا ہے گویا قرآن کے روحانی لنگر میں انواع واقسام کے کھانے بٹ رہے ہیں جن کی مثال بادشاہوں کے لنگر خانوں میں تو کیا پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی نہیں پائی جا تی۔
اِسی طرح قرآن میں مختلف انواع واقسام کی روحانی تعلیم کے پائے جانے کا ذکر دوسری جگہ اِس طرح کیا گیا ہے کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ۲؎ یعنی اس قرآن کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھا یا گیا ہے جو پہلی کتبِ سماویہ میں نہیں سکھایا گیا تھا۔ گویا قرآن شریف کو نہ صرف دُنیوی لنگروں پر فضیلت ہے بلکہ سب آسمانی لنگروں پر بھی فضیلت ہے چنانچہ اس کی مثال کے طور پر مَیں فرعونؔ کے واقعہ کو پیش کرتاہوں۔
فرعونِ موسٰی ؑ کے متعلق قرآنی انکشاف
قرآن کریم میںجو موسٰیؑ اور فرعون کے قریباً بائیس سَو سال بعد آیا ہے اُس میں
یہ لکھا ہے کہ فرعون کا جسم فرعونیوں کے سمندر میںغرق ہونے کے وقت بچالیا گیا تھا صرف اُس کی رُوح لے لی گئی تھی تا کہ وہ آئندہ عذاب اُٹھائے مگر بائیبل جس کے متعلق کہا جا تاہے کہ وہ اُس زمانہ میں اُتری تھی جس زمانہ میں فرعون ڈوبا تھا اُس میں یہ سچائی کہیں بیان نہیں کی گئی۔ اب غور کر و کہ بائیس سَوسال کے بعد محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک اُمّی اور اَنْ پڑھ تھے وہ تو اِس مضمون کو بیان کرتے ہیں کہ آج سے بائیس سوسال پہلے جب موسٰی ؑ مصر سے بھاگے تھے اور فرعو ن نے اُن کا تعاقب کیا تھا تو خدا نے فرعون کو سمندر میں تو غرق کردیاتھا لیکن اُس کی لاش کو محفوظ رکھاگیا تھا تاکہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اورنصیحت کا موجب بنے مگر بائیبل اِس بات کو بیان نہیں کرتی حالانکہ وہ اسی زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون غرق ہؤا۔ اب تاریخ کو دیکھو تو وہ اسی بات کی تائید کرتی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ چنانچہ جو پُرانی ممیاں نکلی ہیں اُن میں فرعونِ موسٰی ؑ کی ممی بھی نکلی ہے۔ مصریوں کو ایسی دوائیں معلوم تھیں کہ جب وہ میّت کے اندر وہ دوائیں ٹیکہ کے ذریعہ پہنچا دیتے تولاشیں کئی کئی سَوسال تک محفوظ رہتی تھیں۔ اب انگریزوں نے بھی ایسی دوائیں نکال لی ہیں لیکن تجربہ سے یہ معلوم ہؤا ہے کہ یورپ نے جو دوائیں ایجاد کی ہیں اُن کی وجہ سے لاشیں صرف تیس چالیس سال تک محفوظ رہتی ہیں اس کے بعد خراب ہونا شروع ہوجا تی ہیں مگر مصریوں کی کئی کئی ہزارسال کی ممیاں مِل گئی ہیں۔ اُن کو کئی ایسے نُسخے معلوم تھے کہ جن کی وجہ سے کئی کئی ہزار سال تک لاشیں محفوظ رہتی تھیں۔ فرعونِ موسٰی ؑ کی ممی پرہی ۳۵سَو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ ممیاں جو فرعونِ موسٰی ؑ سے بھی کئی کئی ہزار سال پہلے کی مِلی ہیں ان کو لے لیا جائے تو پھر پانچ چھ ہزار سال سے وہ لاشیں محفوظ چلی آرہی ہیں مگر یوروپین لوگوں نے ابھی تک صرف تیس چالیس سال تک کے لئے لاش کو محفوظ رکھنے کا علاج نکالا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ بہر حال ہمیں تو صرف اُس فرعون کی ممی سے غرض ہے جو فرعونِ موسٰی ؑ کہلاتا ہے اور اُس کے متعلق موسٰی ؑ کے بائیس سَو سال بعد قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کو محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اُس کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے موسٰی ؑ سچا ہی تھا اور مَیں اس کی مخالفت کر کے غلطی کرتا رہا۔ چنانچہ اُس نے ڈوبتے وقت کہا کہ مَیں ایمان لاتا ہوں کہ سوائے اُس خدا کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اَور کوئی خدا نہیں۔ اُسوقت اللہ تعالیٰ نے فرعون سے کہا کہ اب ایمان لاتے ہو جب کہ تم مرنے لگے ہو۔ اب تو صرف یہی ہے کہ نُنَجِّیْکَ بِبَدَ نِکَ ۳؎ ہم تیرے جسم کو نجات دیں گے تاکہ تو آنے والے لوگوں کے لئے نشان ہو۔ چنانچہ اُس کی لاش محفوظ رہی مگر وہ لاش تو اِس زمانہ میں مِلی ہے جبکہ قرآن کے نزول پر بھی چودہ سَوسال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن قرآن کریم نے آج سے چودہ سَوسال پہلے خبر دے دی تھی کہ فرعونِ موسٰی ؑ کی لاش محفوظ ہے اور اگر اس میں بائیس سَوسال کا پہلا عرصہ بھی شامل کر لیا جائے تو ۳۵ سَوسال سے یہ پیشگوئی پوری ہوتی چلی آرہی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیںکہ اِس ممّی کے نام کے متعلق اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسٰی ؑ علیہ السلام پیدا ہوئے اُس کا نام رعمسیسؔ تھا او ر جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسٰی ؑ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے اُس کا نام منفتاحؔ تھا مگر لاشیں دونوں کی مِل گئی ہیں۔ ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ رعمسیس کی لاش ہے اور ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منفتاح کی لاش ہے۔ اب خواہ رعمسیں کی لاش کو فرعونِ موسٰی ؑ کی لاش سمجھ لو یا منفتاح کی لاش کو زمانہء موسٰی ؑ کے فرعون کی لاش کہو بات تو وہی رہی جو قرآن نے کہی تھی اور پتہ لگ گیا کہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ سچ تھا۔ فرعونِ موسٰی ؑ کی لاش محفوظ رہی اور وہ اب تک محفوظ چلی آرہی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام پر بائیبل کے الزامات
دوسری مثال کے طور پر مَیں حضرت سلیمان علیہ السلام کا
واقعہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کے کا فر بھی اُن کو کافر کہتے تھے۔ جیسا کہ قرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا ۴؎ یعنی سلیمان ؑ نے ہرگز کفر نہیں کیا بلکہ اس کے دشمن جو خدا سے دُور تھے وہ سلیمانؑ کو کافر کہہ کے خود کا فر ہو گئے تھے۔ اس آیت میں تمہا رے لئے بھی ایک بڑا بھا ری نکتہ ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف شریعت والے نبی کا انکا ر کفر ہو تا ہے دوسرے نبیوں کا انکا ر کفر نہیں ہوتا مگر حضرت سلیمانؑ کو نہ یہودی صاحبِ شریعت مانتے ہیں اور نہ مسلمان صاحبِ شریعت مانتے ہیں،سب کہتے ہیں کہ وہ غیر شرعی نبی تھے مگر خداتعالیٰ کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا جو لوگ اُس کے دشمن تھے اور کہتے تھے کہ اِس نے کفر کیا ہے وہ خود کافر تھے۔ اِس سے معلوم ہؤا کہ غیرشرعی انبیاء کا انکا ر بھی کفر ہی ہوتا ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منکر ین بھی اگر کہیں کہ مرزا صاحب تو شریعت لانے والے نبی نہیں تھے پھر اُن کے منکر کافر کس طر ح ہو گئے تو وہ اِس بہانہ سے بچ نہیں سکتے۔ مولوی محمدعلی صاحب ہمیشہ زوردیاکرتے تھے کہ شریعت والے نبی کا انکار ہی کفر ہوتاہے مگر خدا تعالیٰ اس آیت میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْاسلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ اس کے دشمنوں نے اُس کو کا فر کہہ کے خود کفر کیا۔ پس جو شخص کسی سچے فرستادہ یا اُس کے ماننے والوں کوکا فر کہتا ہے وہ قرآن کریم کی رُو سے خود کافر ہوجا تا ہے بلکہ اگر اِن الفاظ پر زیادہ وسیع نظر سے غور کیاجائے تو درحقیقت اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ کوئی کافر کہے یا نہ کہے پھر بھی صرف انکار سے وہ کا فر ہو جا تاہے۔
اب مَیں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہے کہ سلیمان ؑ نبی تھا کا فر نہیں تھا مگر بائیبل جو سلیمان ؑ کے وقت کی لکھی ہوئی ہے وہ کیا کہتی ہے؟ بائیبل کی کتاب ’’سلاطین‘‘ میں لکھا ہے:-
’’جب سلیمان بڈھا ہو گیا تواُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خداکے ساتھ کامل نہ رہا۔‘‘۵؎
گویا قرآن کریم تو بائیس سَو سال بعد میںآنے کے باوجود کہتا ہے کہ سلیمان ؑ نے کوئی کفر نہیں کیا لیکن بائیبل اُس زمانہ کی کتاب ہو کر کہتی ہے کہ سلیمان ؑ بڈھا ہوگیا تو اس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا اپنے خدا سے کامل تعلق نہ رہا۔ اِس سے اندزہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کا رُوحانی کھانا کتنا مزیدار ہے اور بائیبل کا کھانا کتنا خراب اور بد مزہ ہے۔ وہ اپنے زمانہ کے متعلق لوگوں کو ایک خبر دیتی ہے اور جیسا کہ مَیں آگے چل کر ثابت کرونگا حضرت سلیمان ؑ پر یہ جھوٹا اتہام لگاتی ہے کہ اُس کی مشرک بیویوں نے اس کا دل خداتعالیٰ کی طرف سے پھیر دیا اور وہ غیر معبودوں کی عبادت کرنے لگا۔ پھر لکھاہے:-
’’خداوندسلیمان سے ناراض ہؤا ۔۶؎‘‘
گویا سیلمان ؑ نے صرف کفر ہی نہیں کیا بلکہ اِس حد تک کفر کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کامخالف ہو گیا اور وہ سلیمان ؑ سے ناراض ہؤا۔
’’ کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا۔۷؎‘‘
اور باوجود اس عظیم الشان نشان کے پھر گیا تھا کہ اُس نے
’’دوبارہ دکھائی دے کر اس کو اِسبات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا ۔۸؎‘‘
قرآن تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہؤا ہے۔ عام مسلمان جس پر قرآن نازل نہیں ہؤا وہ بھی اگر قرآن کی تعمیل نہ کرے تو کا فر ہوجا تاہے۔ مگر سلیمان ؑ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰالِک اتنا کج راہ اور اتنا خطرناک کافر تھا کہ دودفعہ خدا اس پر ظاہر ہؤا اور دو دفعہ خدا نے ظاہر ہو کر اُسے کہا کہ غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حُسن اور اُن کی زیبائش کو دیکھ کر خداتعالیٰ سے اتنا پِھرا کہ غیر معبودوں کے لئے اُس نے مسجدیں بنائیں اور اُن کے آگے سجدہ کرنے لگ گیا۔
تاریخی شہادت سے قرآنی بیان کی تصدیق
مگر تاریخی شہادتوں سے پتہ لگتا ہے کہ جو قرآن نے بات کہی تھی وہی ٹھیک ہے
اور جو بائیبل نے کہی تھی وہ غلط ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود عیسائی محققین نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ بائیبل میں حضرت سلیمان ؑ پر جھو ٹا الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے غیر معبودوں کی پرستش کی اور خدائے واحد کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا ببلیکا جو بڑے بڑے پادریوں اور یہودی علماء نے لکھی ہے اور جس میںنہ صرف پُرانی تاریخی کتب کا نچوڑ آگیا ہے بلکہ نئی علمی تحقیقات بھی اُس میں شامل ہیں اُس میں لکھا ہے کہ:-
’’یہ بات تو صحیح ہے کہ حضر ت سلیمان ؑ کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی لیکن نہ تو انہوں نے اُن سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتائوں کی عبادت کوکبھی خداتعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایا تھا۔ آپ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے انکا ر کا کبھی تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘‘۹؎
گویا تاریخ نے خود تسلیم کر لیا کہ بیشک حضرت سلیمان ؑ کی کئی بیویاں تھیں کچھ یہودی اور کچھغیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے سب کے لئے بُت خانے بنا ئے اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بُت کو سجدہ کیا ہو۔ اب دیکھو بائیبل تو یہ کہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتاہے کہ نہیں کئے۔ اور آج کا محقّق یہودی اور آج کا محقّق عیسائی کہتا ہے کہ بائیبل جھوٹ کہتی ہے۔ ہمارے ملک کی ایک مثل ہے۔ کہتے ہیں۔’’ جادووہ جو سر چڑھ کربولے۔‘‘ اگر صرف قرآن یہ بات کہتا ہے تو عیسائی اور یہودی کہتے کہ ہم کو جھٹلانے کے لئے ایسا کہا گیا ہے مگر خدا نے خود عیسائی اور یہودی علماء کی زبان سے یہ بات کہلوادی۔ پس اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محقّق تو تمہارے اپنے بزرگ ہیں۔ اگر اِن بزرگوں نے اپنے بزرگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے تو تم اس کے ذمہ دار ہو ہم ذمہ دار نہیں۔ نہ اِن یہودی پادریوں کو ہم نے پڑھایا تھا اور نہ عیسائی پادریوںکوہم نے پڑھا یا، تمہارے اپنے باپ دادوں نے اِن کو پڑھایا تھا۔ پس اگر جھوٹے ہیں تو تمہارے اپنے باپ داد جھوٹے ہیں، تمہاری کلیسیا جھوٹی ہے یا یہودیوں کی مذہبی انجمن جھوٹی ہے۔ ہمارا قرآن تمہارے علماء کے اقرار کے ساتھ سچّا ثابت ہو گیا اور ظاہر ہو گیا کہ سلیمان ؑ نے کبھی غیر معبودوں کی پرستش نہیںکی تھی۔
پھر اُسی’’ سلاطین‘‘میں جس میں حضرت سلیمان ؑ پر کفر کا الزام لگا یا گیا ہے لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کو الہاماً کہا کہ
’’مَیں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھ کو بخشا۔‘‘۱۰؎
اب کیا عاقل او ر سمجھنے والادل شرک کیا کرتا ہے؟پھر لکھا ہے کہ:-
’’ ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہؤا اور نہ کوئی تیرے بعد تجھ سا بر پا ہو گا۔‘‘۱۱؎
گویا بائیبل حضرت سلیمان ؑ کو اتنی عظمت دیتی اور اُسے ایسا بے نظیر آدمی قرار دیتی ہے کہ نہ تو ہزاروں سال پہلے اس جیسا کوئی آدمی ہؤا اور نہ ہزاروں سال بعد اُس جیسا کوئی اَور پیدا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی اس کتاب میںیہ بھی لکھا ہے کہ وہ کافر تھا۔ کیا ایسی کتاب کو ہم مذہبی کتاب کہہ سکتے ہیں؟ اس کتا ب کے مصنّفوں کو تو پاگل خانہ میں داخل کرنا چاہئے تھا جنہوں نے ایسی متضاد باتیں لکھ دیں۔
اسی طرح لکھا ہے:-
’’سلیمانؔ خداوند سے محبت رکھتا اور اپنے باپ داؤد کے آئین پر چلتا تھا۔‘‘۱۲؎
اگر سلیمان ؔخداتعالیٰ سے محبت رکھتا تھا او ر اپنے باپ داؤد کے طریق پر چلتا تھا تو پھر اُس کو مُشرک کہنا اور بُتوں کی فرمانبرداری کرنے والا قرار دینا کونسی معقول بات ہے۔ کتاب وہی ہے اور اُس میںیہ باتیں لکھی ہیں۔ اِن حوالجات سے یہ امر واضح ہوجا تا ہے کہ بائیبل کا الزام جھوٹا ہے اور سچ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کی رو سے حضرت سلیمان ؑ شروع سے لیکر آخر تک نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤمن اور نبی قرار پاتے ہیں۔
غرض قرآن کریم نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جن سے پہلی کتب کُلّیۃً خالی ہیں اور یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ قرآن کریم ایسی سچائیوں سے پُر ہے جن میں کوئی الہامی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور قرآن کریم کے ذریعہ جو انواع و اقسام کی رُوحانی غذائیں دی گئی ہیں وہ اتنی اعلیٰ ہیں کہ اُن کی نظیر دنیا کی کسی الہامی کتاب سے پیش نہیں کی جا سکتی۔
روحانی کھا نو ں کے مقابلہ میں دُنیوی کھانے ایک بے حقیقت چیز ہیں
حقیقت
یہ ہے کہ
دُنیوی کھانے خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ کے ہوں اور دُنیوی نعماء خواہ و ہ کتنی ہی بلند پایہ ہوں رُوحانی کھا نوں اور روحانی نعمتوں کے مقابلہ میں ایک بالکل ادنیٰ اور بے حقیقت چیز ہوتی ہیں اور دنیا کے سمجھدار اور نیک فطرت لو گوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ جسمانی کھا نا ایک ادنیٰ چیز ہے اصل چیز روحانی کھا نا ہی ہے یعنی دین کی باتیں سُننا اور اُس پر عمل پیرا ہونا۔
مَیں اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتاہوں۔۱۹۰۸ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لاہو ر میںٹھہرے ہوئے تھے لاہور کے بڑے بڑے احمدیوں نے وہاں کے بااثر لوگوں کی ایک دعوت کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی شامل ہوئے اور آپ نے اُن معززین کے سامنے ایک تقریر فرمائی لیکن اتفاقاً تقریر کچھ ایسی لمبی ہوگئی۔ خلیفہ رجبؔ دین صاحب مرحوم جو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے خسرتھے اور دعوتوں کا انتظام کرنے میں بڑی مشق رکھتے تھے انہوں نے پیچھے سے آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہنا شروع کیا کہ حضور بڑی دیر ہو گئی ہے کھا نا ٹھنڈا ہورہا ہے اور بڑے بڑے معززین آئے ہوئے ہیں۔ اِس پر میاں فضل حسینؔ صاحب مرحوم کہ وہ بھی مدعووین میں سے تھے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے کہا کہ حضور! دنیاوی کھانے توہم روز ہی کھا تے ہیں ہم تو یہاں آپ کے ہاتھ سے رُوحانی کھا نا کھا نے آئے ہیں سو آپ تقریر جاری رکھیں اور ہمیں اس سے محروم نہ کریں۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقریر جاری رکھی اور تمام غیر احمدی احباب بیٹھے سنتے رہے۔
میاں فضل حسین صاحب بڑے عقلمند اور سمجھدار آدمی تھے مسلمانوں کے لیڈر تھے اور ابھی اُن کی جوانی کا وقت تھا جس میں بُھوک زیادہ لگتی ہے مگر مجھے یاد ہے وہ کھڑے ہوگئے اورانہوں نے بڑے جوش سے کہا کہ آپ تقریر جاری رکھیں یہ روحانی کھانا ہمیں کب نصیب ہوتا ہے۔ جسمانی کھانا تو ہم اپنے گھروں میںکھا ہی لیتے ہیں ہم جو آپ کے پاس آئے تھے تو روحانی کھا نا کھانے آئے تھے اِس سے معلوم ہؤا کہ دین کی باتیں عقلمندوں کے نزدیک رُوحانی کھانا ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ دل کو ایمانی تقویت حا صل ہوتی ہے۔ حضرت مسیح ناصری ؑ بھی فرماتے ہیں کہ:-
’’انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ خدا کے کلام سے جیتا ہے۔‘‘۱۳؎
پس یہ بات کہ رُوحانی غذاء ہی اصل غذا ہوتی ہے اور جسمانی غذاء اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی اِس کی حضرت مسیحؑ کے کلام سے بھی تصدیق ہوگئی اور میا ں فضل حسین صاحب کے واقعہ سے بھی تصدیق ہوگئی۔ میاں فضل حسین ایک دُنیوی لیڈر تھے اور حضرت مسیحؑ دینی لیڈر تھے دونوں نے بتا دیا کہ رُوحانی کھا نا ہی اصل کھانا ہوتاہے۔
قرآنی لنگر کی کوئی چیز چُرائی نہیں جاسکتی
اِس نقطئہ نگاہ سے جب مَیں نے قرآنی لنگر کا بادشاہی لنگروں سے مقابلہ کیا تو
مَیں نے دیکھا کہ قرآنی لنگر کا کھا نا نہ تو لوگ ناجائزا ستعمال کر سکتے تھے اور نہ لانگری اُس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا تھا۔ جبکہ بادشاہی لنگر وں کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جاری تو غرباء کے لئے کئے جا تے تھے مگر کھانا آسودہ حال لوگ آکے کھاجاتے تھے اور کچھ لانگری کھاجاتا تھا اور غریب بھوکے مرتے تھے۔ چنانچہ مجھے نظر آیاکہ قرآنی لنگر کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ارشاد فرمایا ہے جس میں کھلے طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ قرآنی لنگر میں کوئی چوری نہیں ہو سکتی۔ اور اگر کوئی چوری کرنے کی کوشش کرے تو وہ فوراً پکڑا جاتاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۔۱۴؎
یعنی وہ آنکھ کے اشارے کو بھی سمجھتا ہے اور دلوں کے مخفی خیا لا ت کو بھی سمجھتا ہے۔ پس جو لوگ قرآنی لنگر سے چوری کرنا چاہتے ہیں وہ کا میا ب نہیں ہوتے بلکہ پکڑے جا تے ہیں۔ عام طور پر قاعدہ ہے کہ چور یہ دیکھ کر کہ کوئی دیکھتا نہیں ایک دوسرے کو آنکھ مار تے ہیں کہ چیز اُٹھا لو، کوئی خطرے کی بات نہیں لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہمارے لنگر میں اگر کوئی کسی کو آنکھ مارے تو اُسے وہیں پکڑ لیتے ہیں اور اُسے وہ چیز اُٹھانے نہیں دیتے بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دل کی مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ یعنی اگرکوئی شخص اپنے دل میں یہ خیا ل مخفی رکھ کرآئے کہ میں قرآنی لنگر سے کوئی چیز چُرائونگا تو وہ بھی پکڑاجائیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس کے دل کی حالت کو جانتا ہے اور مالک اپنے خزانہ کو کبھی چور کے ہاتھ میں نہیں جانے دیتا۔ خداتعالیٰ نے اپنے لنگر خانہ کو جن لوگوں کے لئے مخصوص کیا ہے وہی اس سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں دوسرا قریب بھی نہیں جاسکتا۔ پس جیسے بادشاہی لنگر کو لانگری کھا جاتے ہیں ویسا قرآنی لنگر میں نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی قرآنی لنگر میں چوری کرنے لگے توفوراً خداتعالیٰ کے فرشتے اُس کو روکنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں اور اُسے پکڑ لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں اِسی مضمون کے متعلق ایک اور آیت بھی ہے جس میں عجیب پیرایہ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَ فُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍoق دُحُوْرًا وَّلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌoلا اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ ثَاقِبٌo۱۵؎
یعنی قرآنی لنگر جورُوحانی باتوں پر مشتمل ہے اُس کے متعلق بعض دفعہ دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ اُس کی کچھ باتیں پہلے سے سُن لیں اور پھر اُن کو بگاڑکرمسلمانوں کو شرمندہ کریں مگر فرماتا ہے لَایَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلاِ الْاَ عْلٰی ایسے شیطان جو دشمنانِ اسلام ہیںاوروہ چاہتے ہیں کہ کوئی بات اُن کو معلوم ہوجائے چاہے نجوم کے ذریعہ سے یا قرآن کریم پر غور کرکے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ جب بھی وہ ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ فوراً خدائی فرشتے آجاتے ہیں اور چاروں طرف سے انکو مار پڑتی ہے۔ دُحُوْرًا اور پھر ما ر بھی ایسی پڑتی ہے کہ وہ مار کھا کر وہاں کھڑے نہیں رہ سکتے بلکہ دُور چلے جاتے ہیں گویا مار اُن کو دُور لے جانے کے لئے پڑتی ہے اور اسلئے پڑتی ہے کہ انہیں بھگا کر زمین کے کناروں تک لے جایا جائے کیونکہ اگروہ پاس ہوں تو پھر بھی امکان ہوتا ہے کہ شاید کچھ بھنبھناہٹ سُن لیں اور یہ پھر لو گوں کو جا کر دھوکا دیں۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ اور پھر اُن کو پَرے ہی نہیں کیا جا تا بلکہ طرح طرح کے عذاب اُن پر نازل کئے جاتے ہیں جو ہمیشہ اُن کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ یعنی اتنے خطرناک عذاب نازل ہوتے ہیں کہ دشمن سے دشمن بھی اور اُن کاگہرادوست بھی مان لیتا ہے کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو رہاہے۔ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ ہاں یہ ہو سکتاہے کہ کوئی شخص بندر کی طرح جھپٹا مار کر کوئی حقیر سی غذا اُٹھا کرلے جائے۔ پس اگر بندر کی طرح وہ ایک آدھ لُقمہ اُٹھا کر لے جائے تویہ ہو سکتا ہے مگر خداتعالیٰ اُس کا بھی ازالہ کردیتا ہے اور اُس سے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ ایک چھوٹا سا لُقمہ جس سے پیٹ بھی نہ بھرتا ہو اُس سے کسی قوم نے کیا فائدہ اُٹھا نا ہے۔ پس اگر وہ قرآنی تعلیم میں سے کوئی بات اُڑا بھی لیں تو وہ بہت ہی حقیر ہو گی ایسی حقیر کہ قرآن کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گی اور بہر حال قرآن ہی اس پرغالب آئے گا۔
قرآنی لنگر کے ہمیشہ جاری رہنے کی پیشگوئی
جسمانی اور رُوحانی لنگر کا مقابلہ کرتے ہوئے مَیں نے یہ بھی دیکھا
کہ جسمانی لنگر تو کب کے خاموش ہوچکے ہیںلیکن قرآنی لنگر کے ہمیشہ زندہ رہنے کی پیشگوئی قرآن کریم میں مذکور ہے۔ چنانچہ اُس نے فرمایا اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکُوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُo۱۶؎
اَے محمدؐرسول اللہ!ہم تجھے ایک ایسے روحانی بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جو بڑا ہی سخی ہوگا۔ پس چاہئے کہ تُو اُس کے پید ا ہونے کی خوشی میںاپنے ربّ کے فضل کی وجہ سے اُ س آنے والے روحانی بچہّ کے لئے بہت دُعائیں کرتا رہ اور کثرت سے اُس کی پیدائش کی خوشی میں قربانیاں کر تاکہ ایک وسیع لنگر جاری ہوجائے اور لاکھو ں کروڑوں آدمی اُس سے فائدہ اُٹھائیں اور یقین رکھ کہ تیرادشمن ہمیشہ نرینہ اولاد سے محروم رہے گا۔
عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچہ کی پیدائش پر بہت قربانیاں کرتے تھے۔ لڑکی کو تو وہ زندہ دفن کردیتے تھے اُ س پر قربانیاں کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا، صرف نرینہ اولاد پر وہ قربانیاں کیا کرتے تھے۔ پس فرمایا کہ تیرے ہاں ایک زمانہ میں ایک ایسا بیٹا پیداہو گا جو امتّی نبی ہوگا اور نَرہو گاکیونکہ عورت نبی نہیں ہوتی۔ اس کی خوشی میںتُوقربانیاں کر یعنی دُنیوی لنگر بھی جاری کر او راُسکی تسبیح وتحمید بھی کر۔ یعنی روحانی لنگر بھی جاری کر اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہمیشہ اس دنیا میں بے اولاد رہے گا۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کویہ فضیلت ہے کہ مردوں میں سے توکامل مومن ہو سکتے ہیں جو دوسروں پر حکومت کرنے کے اہل ہوں لیکن عورتوں میں سے کوئی ایسی عورت نہیں ہو سکتی جو تمام مردوں پر حکومت کرنے کی قابلیت رکھتی ہو۔ آجکل مساوات پر بڑازور دیاجا تا ہے لیکن یہ دعویٰ کبھی کسی عیسائی پادری نے نہیں کیا کہ عورت تمام مردوں پر حکومت کر سکتی ہے۔ مثلاً ملکہ کو ہی لے لو، اُس کو گھر میں خاوند کے ماتحت چلنا پڑتاہے اور چاہے اُسے تخت پر ہی لا کر بٹھا ئیں گھر میں وہ خاوند کے ماتحت ہوتی ہے۔ بے شک بعض عورتیں ایسی بھی ہوئی ہیں جنہوں نے شادی نہیں کی لیکن شادی نہ کرنے سے اُن کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ مرد آگیا تو ہم پرحکومت کریگا مثلاً رضیہ سلطانہ نے جو غلام خاندان میں سے تھی ابتداء میں شادی نہیں کی مگر آخر وہ بے شادی کے نہ رہ سکی۔ اِسی طرح یورپ میں بعض حکومتیں ہیں جن کی شہزادیوں نے شادی نہیں کی مگر اُن کا شادی نہ کرنا صاف بتاتا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ اگر شادی کی تو مرد کے تابع رہنا پڑیگا۔ ملکہ وکٹوریہ کی شادی البرٹ وکٹرسے ہوئی تھی۔ اور مَیں نے ملکہ کی ہسٹری میں پڑھا کہ وہ روٹھ جاتا تھا تو وہ دروازے بند کر لیتا تھا اور ملکہ معظمہ ساری دنیا کی بادشاہ ہوکراُسکی منّتیں کیا کرتی تھی کہ دروازہ کھول دو تم جو کچھ کہو مَیں وہی کرونگی۔
اِنَّ شَا نِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُکی پیشگوئی کا ظہور
غرض یہ جو پیشگوئی تھی کہ محمدؐ رسول اللہ کا دشمن ہمیشہ ابتر
یعنی بے اولاد رہے گا اِس کے پورا ہونے کا ثبوت اِس سے مِلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل تھا اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہؓ تھا۔ ابو جہل کمبخت وہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو ایک دفعہ آپ صفاؔ پربیٹھے ہوئے تھے کہ اُس نے زور سے آپ کے منہ پرتھپڑ مارا۔ امیر حمزہؓ جو آپؐ کے چچا تھے اُس وقت باہر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے جب وہ شکار سے واپس آئے تو اُن کے گھر کی ایک لونڈی جس نے پردہ کے پیچھے سے یہ تمام نظارہ دیکھا تھا بڑے غصّہ سے اُن کو دیکھ کر کہنے لگی، تجھ کو شرم نہیں آتی کہ تُو تیر کمان لٹکا ئے فوجی بنا پھر تا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ بڑا بہادر ہے، مَیں نے دیکھا کہ آج تیرے بھتیجا کے منہ پر ابوجہل نے بڑے زور سے تھپڑ مارا اور وہ سرڈالے بیٹھا تھا۔ خدا کی قسم! اُس نے ابوجہل کو کوئی لفظ نہیں کہا تھا اور اُس کا کوئی قصور نہیں تھا وہ سرجُھکائے چُپ کر کے بیٹھا تھا اور اپنے خیالات میں مگن تھا کہ وہ آیا اور اُس نے تھپڑ مارا اور پھر بعد میں بھی محمدؐ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ دایہ تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کو جانتی تھی اُس نے کہا کہ محمدؐ نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے چلاگیا اگر تم میں غیرت اور شرم ہے توجائو اور جا کر بدلہ لو۔ حضرت حمزہؓ یہ سُنتے ہی سیدھے خانہ کعبہ میں گئے کیونکہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ شام کے وقت سارے رئوساء وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے انہوں نے دیکھا کہ ابوجہل جو سردارانِ مکّہ میں سے سمجھا جا تا تھا وہ مسند پر بیٹھا ہؤا ہے اور اُس کے اِردگِرد مکّہ کے تمام رئوساء بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت حمزہؓ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کمان اُٹھا کر زور سے اُس کے منہ پر ماری اور کہا کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ تُو نے آج محمدؐکے مُنہ پر تھپّڑ مارا ہے اور اُس نے نہ پہلے کچھ کہا تھا اور نہ بعد میں کچھ کہا اب اگر تم میں کچھ ہمّت ہے اورکوئی بہادری تم میں پائی جا تی ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ کر دکھا پھر تجھے پتہ لگے گا۔ محمدؐجو کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتاتیری ساری بہادری اُسی پر چلتی ہے جو مقابلہ کرنے والے اور سپاہی لوگ ہیں اُن سے تُو لڑ کے دکھا پھر ہم مانیں گے کہ تُو بہادر ہے۔ اِس پر سارے رئوساء کھڑے ہوگئے اور انہوں نے حضرت حمزہؓ کو پکڑ لیا اور مارنے لگے کہ اُس نے ہمارے لیڈر کو مار ا ہے مگر اُس وقت خداتعالیٰ نے ابوجہل کے دل پر ایسا رُعب ڈالا کہ وہ اُن سے کہنے لگا۔ نہیں نہیں! اِسے کچھ نہ کہواصل میںآج مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہو گئی تھی اور غلطی میری ہی تھی۔ مَیں نے محمدؐ پر بِلا وجہ ظلم کردیا، اُس نے مجھے کچھ نہیں کہا تھا نہ پہلے نہ بعد میںاس لئے حمزہؓ اپنے بھتیجے کی تائید میں جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اِسے مت مارو۔۱۷؎ چنانچہ وہ لوگ رُک گئے۔ تو ابوجہل اپنی قوم کا سردار تھا اور ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ محمدؐ رسول اللہ اگر کوئی بات کہا کریں تو کبھی نہ مانا کرو۔
محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک
مظلوم اور ستم رسیدہ انسان سے حُسنِ سلوک
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت سے پہلے ایک دفعہ حِلف الفضول میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ ایک مجلس تھی جو فضل نامی تین چار آدمیوں نے قائم کی اور انہوں نے ایک دوسرے سے
قسمیں لی تھیں کہ جب کوئی مظلوم مکّہ میں آئے اور وہ ہم سے مدد مانگے تو ہم اُس کی ضرور مدد کرینگے۔ جب یہ مجلس قائم ہوئی تو انہوں نے آپؐ کو بھی اُس میں شامل ہونے کی دعوت دی، آپ بڑے شوق سے شامل ہوگئے۔ اس کے بعد دعویٰ نبوت کے زمانہ میں ایک شخص باہر سے آیا اور کہنے لگا ابوجہل نے مجھ سے مدت ہوئی قرض لیا تھامگر اب وہ دیتا نہیں۔ آپ حلف الفضول میںشامل رہ چکے ہیں آپؐ مجھ کو میرا قرض واپس دلائیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا مَیں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ چنانچہ آپؐ گئے، ابو جہل کا دروازہ بند تھا، آپ نے دستک دی۔ ابوجہل آیا اور اُس نے دروازہ کھولا اورآپؐ کو دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹ گیا اِس خیال سے کہ مَیں اِس کا اتنا بڑا دشمن ہوں اِسکو میرے دروازہ پرآنے کی جرأت کِس طرح ہوئی؟ آپؐ نے فرمایا تم نے اِس کا کچھ قرض دینا ہے؟ وہ انکار نہ کرسکا اور کہنے لگا ہاں مَیں نے اِس سے قرض لیا ہؤا ہے مگر اب تک مجھے اُس کے ادا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ آپؐنے فرمایا کہ موقع کا سوال نہیں تم مالدار آدمی ہو فوراً اس کاقرض اداکردو۔ وہ اندر گیا اور جتنا روپیہ قرضہ تھا اُتنا ہی روپیہ اُسے لاکردے دیا۔۱۸؎
ابوجہل کیلئے ایک خدائی نشان
جب وہ اپنے معمول کے مطابق کعبہ میں آیا تو سب مکّہ کے لوگوں نے اُسے کہا کہ تم بڑے ذلیل آدمی ہو۔
ہمیں تو یہ کہا کرتے تھے کہ اِسکی بات نہ مانو اور آج کسی غیر جگہ نہیں بلکہ اپنے گھر پر جب اُس نے تم کوکہا کہ اس کا قرض ادا کردو تو تم نے فوراً اس کا قرض اداکردیا اورڈر گئے اِس سے پتہ لگتا ہے کہ تم ہم کو غلط راستہ پر چلا تے ہو ورنہ خود تم میں کوئی ہمت نہیں۔ اُس نے کہا۔ خدا کی قسم! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی اسی طرح قرضہ ادا کردیتے۔ انہوں نے پوچھا کیا ہؤاتھا؟ وہ کہنے لگا جب مَیں نے دروازہ کھولا اور مجھے پتہ لگاکہ محمدؐ(رسول اللہ) ہیں تو مَیں نے دیکھا کہ ایک وحشی اونٹ آپؐ کے دائیں بازو پر کھڑا ہے اور ایک وحشی اونٹ آپؐ کے بائیں بازو پر کھڑا ہے اور دونوں نے اپنے سر آگے کئے ہوئے ہیں اور وہ مجھے کا ٹنا چاہتے ہیں۔ مَیں اُن وحشی اونٹوں کو دیکھ کر اتنا ڈر ا کہ اُسی وقت روپیہ لا کر اُس کے حوالے کردیا۔۱۹؎ اب یہ ایک خدائی معجزہ تھا مگر اِس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ابو جہل کتنا خبیث دشمن تھا۔ ایسے دشمن کے گھر میں عکرمہ پیدا ہؤا مگر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باوجود یہ کہنے کے کہ تُو ابتر نہیںتیرا دشمن اَبتر ہے اُس زمانہ تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہؤا بعد میں ایک لڑکا پیدا ہؤا جو فوت بھی ہو گیا مگر جب یہ بات ہورہی تھی آپؐ کے ہاں بیٹا نہیں تھا۔
فتح مکّہ پر عکرمہ ؓ کا فرار
جب عکرمہؓ بڑا ہؤا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ فتح کیا تو عکرمہؓ بھا گ کے سمندر کے اُس کنارہ کی طرف چلاگیا جہاں سے
کِشتیاں حبشہ کو جا تی تھیں۔ اُس کی بیوی تین چار مہینے انتظا ر کرتی رہی کہ وہ آجائے تو مَیں کوشش کرکے اِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے دوں کیونکہ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں پر سخت ظلم کیا کرتے تھے اور اُن کو کو مروایا کرتے تھے او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگ خواہ بیت اللہ میںبھی پنا ہ لیں اِن کو نہ بخشا جائے۔ عکرمہؓ بھی ڈر کے بھاگ گیا تھا کہ شاید مجھے بھی قتل کیا جائے گا۔
عکرمہ ؓ کیبیوی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی حاصل کرنا
جب تین چار مہینے
ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو اُس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آخر خاوند کی محبت ہوتی ہے اور آکر عرض کیا کہ یَارَسُوْلَاللّٰہ! کیا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی آپ کے ماتحت آ پ کے اپنے ملک میں زندگی گزارے یا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی بھاگ کر کسی غیر ملک میں چلا جائے اور غیر ملکیوں کی پنا ہ میں اپنی عمر گزارے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں اگر ہمارا بھائی ہے تو پھر ہماری پناہ میں وہ اپنی عمر گزارے تو یہ زیادہ اچھا ہے۔ وہ کہنے لگی۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیںکہ مَیں جا کر اُسے لے آئوں۔ آپؐ نے فرمایا جائو۔ وہ کہنے لگی مَیں جاتی تو ہوں مگر آپ جانتے ہیں عکرمہؓ بڑا غیرت مند ہے اگر اُسے یہ پتہ لگا کہ آپ اُس کا دین بدلوائیں گے تو پھر اُس نے نہیں آنا۔ یہ بھی وعدہ کیجئیے کہ وہ بُت پر ست رہ کر آپ کے پاس آئیگا اور یہاں مکّہ میں رہے گا اور پھر اُسے مارنا نہیں اور دوسرے اُسے مجبور نہیںکرنا کہ وہ بُت پرستی چھوڑدے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ چنانچہ وہ عکرمہؓ کو واپس بُلانے کے لئے چلی گئی۔ عکرمہؓ اپنی بیوی کو دیکھ کر کہنے لگا تم کہاں؟ وہ کہنے لگی تُو جو آگیا تھا مَیں کیا کرتی۔ وہ کہنے لگا تُو جانتی نہیں مَیں آنے پر مجبور تھا اگرمَیں وہاں رہتا تو محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مروا دیناتھا۔ عربوں میںرواج تھا کہ عورتیں اپنے خاوند کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں۔ اِس دستور کے مطابق اُس نے کہا۔ اے میرے چچا کے بیٹے! تجھے محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے محمدؐ رسول اللہ بڑی شان کا آدمی ہے تیرے بھا گنے کے بعد مَیں اُنکے پاس گئی تھی اور مَیں نے اُن سے پوچھا تھا کہ عکرمہؓ اگر واپس آجا ئے اور آپ اُسے چھوڑدیں تو یہ زیادہ اچھا ہے یا یہ اچھا ہے کہ وہ کسی غیر ملک میں جا کر دوسروں کی پناہ میںرہے۔ اِس پر محمدؐ رسول اللہ نے مجھے کہا کہ نہیں اگر وہ میرے پاس آکر رہے تو زیادہ اچھا ہے مَیں اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کرونگا۔ عکرمہؓ کہنے لگا خداکی قسم! اپنے باپ دادا کے مذہب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اُس نے کہامَیں یہ بات بھی پُوچھ چکی ہوں۔ مَیں نے خود کہا تھا کہ وہ بڑاغیرت مند ہے اپنے باپ دادا کے مذہب کو کبھی نہیں چھوڑے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ وہ بے شک بُت پرستی پر قائم رہے مَیں اُسے کچھ نہیں کہوںگا۔ کہنے لگا۔ یہ اِتنی بڑی بات ہے کہ مجھے اِس پر یقین نہیں آسکتا۔ مَیں تیرے کہنے پر مکّہ میں تو واپس چلا جاتا ہوں مگر مَیںخود اس بارہ میں محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھوںگا اگر انہوں نے تصدیق کی تو پھر مَیں کہوںگا کہ بات ٹھیک ہے۔
عکرمہؓ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں
چنانچہ وہ مکّہ میں واپس آیا اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے اُسے بُلالیا جب وہ پہنچا تو کہنے لگا اے محمدؐ!(صلی اللہ علیہ وسلم) مَیں نے اپنی بیوی سے سُنا ہے کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر عکرمہ واپس آجائے تو اُسے کو ئی سزا نہیںدی جا ئیگی۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ کہنے لگا جناب مَیں نے اپنی بیوی سے یہ بھی سُنا ہے کہ اگر مَیں اپنے دین پر قائم رہنا چاہتا ہوں اور آپ کو نہ مانوں تو پھر بھی مجھے کچھ نہیں کہا جا ئے گا۔ آپؐ نے فرمایا اُس نے ٹھیک کہا ہے یہ بھی مَیں نے کہا تھا۔ یہ بات سُنتے ہی اُسکی آنکھیں ُکھل گئیں اور کہنے لگا۔اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ ہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عکرمہ! تُو نے تو میرے بڑے بڑے معجزات دیکھے تھے مگر پھر بھی تُو ایمان نہ لایا آج تُو نے کیا دیکھا ہے جس کی وجہ سے تُو نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہے اور کفر چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اتنی بڑی مہربانی جو آپ نے مجھ پر کی ہے یہ نبی کے سِوا اَور کوئی کر ہی نہیں کر سکتا پس اِس مہر بانی اور امن کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مَیں آپ کو جھوٹا کہتا اور اپنے باپ دادا کے دین پر قائم رہتا اس لئے مَیں آپ پر ایمان لے آیا ہوں۔۲۰؎
اب دیکھو عکرمہؓ ابوجہل کا بیٹا تھا اور اُس کی نر ینہ اولاد تھی بلکہ کہتے ہیں کہ اُس کی پیدائش پر کئی سَو اونٹ ذبح کئے گئے تھے اور وہ اپنے وجود سے ظاہر کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیںاور میرا باپ سچاہے کیو نکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور ابوجہل کے تھی لیکن آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا اور جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تو قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکُوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ
یعنی اے محمدؐ رسول اللہ! ہم نے تجھے خیرِ کثیر بخشی ہے یعنی بڑی اُمت بھی بخشی ہے جو ہمیشہ تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار رہے گی اور تیری روحانی اولاد میںسے ایک ایسا انسان بھی کھڑا کیا جا ئیگا جو اپنے اندر خیر کثیر رکھتا ہوگا۔
الکوثر میں مسیح موعود کے علاوہ اُمتِ محمدؐیہ
کے تمام مخلص افراد بھی شامل ہیں
دراصل کو ثر کے معنے خیرِ کثیر کے ہیں اور جہا ں اِس میں مسیح موعود کی پیشگوئی کی گئی ہے وہاں تمام امتِ مُسلمہ کو بھی آپؐ کے بیٹوں میں شمار کیا گیا ہے۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہ بھی فرمایا ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ۲۱؎ کہ سلمانؓ بھی میرے اہل بیت میں سے ہیں اور سلمانؓ آپؐ کے اہل بیت میںشامل ہو سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ جو شخص آج خاص طور پر نیکی کرے وہ آپؐکی اولاد میںشامل نہ سمجھا جائے۔ وہ بھی شامل ہے۔ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ ایک خاص فضیلت حاصل ہے کہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ موعود بیٹے ہیں جنکی پیشگوئی پہلے نبیوں نے بھی کی ہوئی ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جتنے مسلمان ہیں اگر وہ اخلاص کے ساتھ کا م کریں تو وہ بھی آپؐ کے بیٹے ہیں۔
غرض عکرمہؓ کے بیعت کرلینے کی وجہ سے محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صاحبِ اولادِ نرینہ ہوگئے مگر ابو جہل بے اولاد رہ گیا۔
حضرت عمرو بن العاص ؓ کی اسلامی خدمات
اِسی قسم کی اَور بھی بہت سی مثالیں محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی میںپائی جاتی ہیں۔ مثلاً عمروبن العاصؓ بن وائل نے آپ کے ہا تھ پر بیعت کی حالانکہ عاص بھی بڑا دشمن تھا اور وائل بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا دشمن تھا مگر باوجود اس کے کہ باپ اور دادا دونوں مخالف تھے عمر وؓبن العاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرلی او ر پھر اتنے دشمن گھرانے میں سے ہوتے ہوئے عمروؓ نے اسلام کے لئے مصر فتح کیا اور پھر مصر پر ہی اکتفا ء نہ کیا بلکہ اسلامی حکومت کو مدینہ سے نکال کر افریقہ تک پہنچا دیا۔ عمرو بن العاصؓ کی زندگی میں ہی اسلامی مبلغ سپین کی سرحدوں تک پہنچ گئے تھے۔ گویا انہوں نے اسلام کو مدینہ سے نکالا اور یورپ کی سرحدوں تک جا پہنچایا۔ آج ہم فخر کرتے ہیں کہ ہمارے مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں لیکن ہمارے مبلغ اس زمانہ میں گئے ہیں جب ہوائی جہا ز چل رہے ہیں اور عمروبن العاصؓ نے اُس زمانہ میںاسلام کو مدینہ سے ہسپانیہ تک پہنچادیا تھا جبکہ اونٹوں کا سفر ہوتا تھا اور راستہ میںپانی بھی نہیں ملتا تھا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کی فدائیت
تیسری مثال خالد بن ولیدؓ کی ہے۔ اِن کے باپ دادا بھی اسلام کے سخت مخالف تھے۔ لیکن انہوں نے اسلام
قبول کیا اور سارے عرب اور ایران وفلسطین اور شام میں اسلام کو پھیلا یا اور اس طرح اپنے وجود سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ اولاد ِ نرینہ بنادیا۔ لیکن اپنے باپ دادوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اولادِ نرینہ سے محروم کردیاکیونکہ وہ اُنکے مسلک سے باہر ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلک کے تابع ہو گئے۔
غرض ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جن کے ذریعہ سے محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رُوحانی اولاد چلتی جا تی ہے اور معنوی طور پر اُ ن کے عقیقے ہوتے رہتے ہیں یعنی اسلام خوشیاں مناتا ہے اور قرآنی لنگر سے دنیا فائدہ اٹھا تی رہتی ہے۔
رئوسائے مکّہ کے بیٹوں پر حضرت عمرؓ کا غلا م صحابہ ؓ کو ترجیح دینا
اِس کی ایک اور شاندار مثال
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک حج کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہو گئے اور آپ حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کو حج کی مبارکباد دینے کیلئے بعد میں کچھ لوگ آئے جن میں مکّہ کے رئوساء کے لڑکے بھی شامل تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کا مناسب اعزاز کیا اور ان کو اپنے خیمہ میں جگہ دی اور اپنے قُرب میں بٹھایا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ایک غلام صحابیؓ آپ کی ملاقات کے لئے آگیا۔ آپ نے اُن رئوساء کے لڑکوں سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہوجا ئو اور غلام صحابیؓ سے کہا کہ آگے آکر بیٹھ جائو۔ اِس کے بعد دوسرا غلام صحابیؓ آگیا تو آپ نے اُن سے پھر کہا کہ اَور پَرے ہٹ جائو اور اس غلام کو آگے بٹھا لیا۔ پھرایک اَور غلام آگیا تو پھر آپ نے اُن سے کہا کہ پیچھے ہٹ جائو اور اُس غلام کو کہا کہ آگے آجائو۔ انہوں نے یہ نظا رہ دیکھا تو وہ وہاں سے اُٹھے اور باہر چلے گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا تم نے آج عمرؓ نے ہماری کیسی ذلّت کی ہے۔ اُن میں سے ایک بڑا سنجیدہ اور سمجھدارنوجوان تھا اُس نے کہا عمرؓ نے ہماری ہتک نہیں کی، ہمارے باپ دادوں نے ہماری ہتک کی ہے۔ جس وقت ہمارے باپ داداتلواریں لے کر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہانے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے اُس وقت اِن غلاموں نے اپنے سینے اُن تلواروں کے آگے کردیئے اور اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچالیا۔ آج عمرؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہے اگر وہ اِس طرح نہ کرتا تو پھر وہ اس کا خلیفہ بھی نہ رہتا۔ پس جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ عین وفاشعاری اور وفاداری کا طریق تھا۔۲۲؎ پس دیکھ لو کہ خداتعالیٰ نے کِس طرح قرآنی لنگر کو روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ظاہر کیا۔ آخر انہوں نے کہا کہ اِس ذلّت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں اُس نے کہا کہ اس کا علاج عمرؓ ہی بتا سکتے ہیں، چلو عمرؓ کے پاس چلیں اور اُن سے پوچھیں کہ جو ہوگیا سوہو گیا۔ ہمارے باپ دادوں نے شرارتیں کیں اور وہ ختم ہو گئیں، ا ب ہم ان کو بدل نہیں سکتے مگرآپ ہمیں بتائیں کہ ہم سے اِس ذلّت کا داغ کِس طرح دُور ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ واپس گئے حضرت عمرؓ اُن کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے بچّو! مَیں تمہارے باپ دادا کو جا نتا ہو ں وہ مکّہ کے رئیس تھے اور مکّہ اُن کے قدموں کے پیچھے چلتا تھا۔ مجھے پتہ ہے کہ جو کچھ آج مَیں نے تمہا رے ساتھ سلوک کیاہے اِس سے تمہارے دلوں کو زخم پہنچا ہو گا مگر مَیں مجبور تھا میراآقا بھی ان غلا موں کو دوسروں پر فضیلت دیا کرتا تھا اور ان کو آگے بٹھاتا تھا اِس لئے مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلا م ہو کر اس کی خلا ف ورزی کس طرح کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب باتیں درست ہیں ہم تو صرف یہ دریافت کرنے آئے ہیں کہ آخر اس ذلّت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ ان کا سوال سُنکر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میںآنسو آگئے اورآپ نے شام کی طرف ہا تھ اُٹھا دیا جس میں اِس طرف اشارہ تھاکہ شام چلے جائو او ر اُس جہاد میں شامل ہوجا ئو جو روم کے بادشاہ کے خلاف مسلمان کررہے ہیں۔ اِس پر وہ لڑکے فوراًاُٹھ کر باہر آگئے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب اسلام کی تائید میں لڑتے ہوئے وہیں مارے گئے اور اُن میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا۔۲۳؎ اب دیکھو قرآن کریم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے دشمنوں کے بیٹے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور آپ کا لنگر جاری کردیا۔ جس وقت یہ لوگ عیسائیوں کو مارتے ہونگے تو ہر عیسائی کے مرنے پر جہا ں اُنکو فتح نصیب ہوتی تھی وہاں محمدؐ رسول اللہ کا لنگر بھی جا ری ہوتا تھا اور آپ کی برکا ت ساری دنیا پر پھیلتی جا تی تھیں۔
قرآنی لنگر کا ایک اَور شاندار منظر
پھر قرآنی لنگر کی ایک اَور مثال سورئہ ذاریات سے ملتی ہے اللہ تعالیٰ اُس میں کامل مومنوں یعنی
اتباعِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔۲۴؎
یعنی اِن کے مالوں میں ایسے لوگوں کا بھی حق ہے جو مانگ سکتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جونہیں مانگ سکتے۔ یعنی یا تو وہ گونگے ہیں یا ان کو مانگتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہمارا اس سے غریب ہو نا ظاہر ہو تا ہے اور یا جانور ہیں کہ وہ مانگنے اور بولنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔گویا محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر اتنا وسیع ہے کہ سائل اور غیر سائل سب اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ بادشاہوں کے لنگر تو ایسے تھے کہ لوگ اُن لنگروں میں جا کر روٹی مانگتے تھے تو پھر انہیں روٹی مِلتی تھی اور اگر کو ئی پَرے کھڑا ہو جا تا تو اس کو کوئی پُوچھتا بھی نہیں تھا۔ مگر یہاں محمدؐ رسول اللہ کے لنگر کے متعلق فرماتا ہے کہ آپؐ کے متبعین کے ذریعہ سے جو لنگر جا ری کیا گیا ہے اُس میں اُن لوگو ں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو کہ بول سکتے ہیں اور ان لوگوں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو بول نہیں سکتے۔ یعنی بولنے سے بالکل محروم ہیں یا شرم کے مارے نہیں بولتے کہ ہماری کمزوری اور غربت لو گوں پر ظاہر ہو گی۔ اور جا نوروں کابھی حق رکھا گیا ہے۔ اب دیکھو محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر کتنا وسیع ہے اوربادشاہوں کا لنگر کتنا محدود ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ اور آپ کے تمام اتباع کے اموال میں خدا تعالیٰ نے سائل اور محروم سب کا حق رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان آجکل اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے اس آیت پر عمل نہ کریں مگر قرآن نے اس کی ہدایت دیدی ہے اور جو سچا مسلمان ہوگا وہ ضرور اسپر عمل کریگا۔ جھوٹے کاتوسوال ہی نہیں، جھوٹا تو خود ہی اپنی عاقبت خراب کرتاہے۔
منشی اروڑے خاں صاحب کے اخلاص کی ایک درد انگیز مثال
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات کے بعد ایک دن میاں اروڑے خان صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت ہی مقرب صحابیؓ تھے اور نائب تحصیلدار تھے قادیان آئے۔ اُس زمانہ میںآپ کپور تھلہ میںتھے اور تنخواہیں بہت کم ملا کرتی تھیں۔ شروع میں نائب تحصیلدار کی پندرہ روپے تنخواہ ہوتی تھی مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ ہر اتوار کو قادیان آتے اور روپیہ دوروپے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نذرانہ دیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب وہ آئے تو اُسوقت وہ تحصیلدار ہو چکے تھے اور تنخواہیں بھی زیادہ ہوگئی تھیں۔ مَیں نے دیکھا کہ تین یا چار اشرفیاں انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے وہ اشرفیاں میرے ہاتھ پر رکھیں اور پھر چیخیں مار کر رونے لگ گئے۔ مَیں حیران ہؤا کہ یہ روتے کیوں ہیں۔ مگر جب روتے روتے ذرا ہو ش آئی تو کہنے لگے کہ
’’ساری عمر خواہش رہی کہ مَیں اونہاں دے ہتھ وچ سوناں رکھاں پرکدی توفیق نہ ملی۔ جدوں کچھ پیسے جمع ہوندے سن۔ مَیں پیدل چل کے کپور تھلہ تواونہاں نوں دیکھن آجا نداساں یا ںریل وچہ آنداساں تاں کرایہ لگداسی۔ پر جدوں سونا مِلیاہے تے اوہ ہُن نہیں...۔‘‘
اُن کا یہ فقرہ ایسا دردناک تھا کہ مجھ پر بھی رقّت آگئی۔ مَیں نے اُنکو چُپ کرانے کیلئے انہیں تسلّی دینے کی کوشش کی مگر اُن کی جو مذبوح حرکت تھی اُس کو دیکھتے ہوئے درحقیقت میری کوشش بالکل بے کا ر اور بے سُود تھی۔ یہ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ کاایک نظارہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُ ن لوگوں میں سے تھے جو لوگوں سے مانگتے نہیں تھے اور ایسے لوگ بھی محروم ہی ہوتے ہیں۔ مگر انہیں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ پیش کریں اور خواہش بھی یہ تھی کہ سونا دیں مگر کہنے لگے۔
’’جدوں جیندے سَن تے سونا نہیں ہتھ آیا۔ سونا ہتھ آیا تے اوہ ہن نہیں۔ ہُن مَیں کِی کراں۔‘‘
یعنی جب آپ ؑ زندہ تھے تو مجھے سونا میسّر نہ آیا اور جب سونا مِلا تو آپ ؑ فوت ہو چکے ہیں۔ اب مَیں کروں تو کیا کروں۔
اِسلام میں جا نوروں کے حقوق کا تحفّظ
پھر مَیں نے بتایا ہے کہ یہ لنگر انسانوںسے لے کر جانوروں تک کے کام آتا ہے۔
بادشاہی لنگر تو بمشکل انسانوں کو کھا نا دے سکتے ہیں۔ مگر یہ لنگر انسانوں اور پرندوں سب کو نفع پہنچارہاہے اور قیامت تک نفع پہنچائے گا۔ قیامت تک نفع پہنچانے کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دیکھا کہ کسی صحابیؓ نے فاختہ کا ایک بچّہ پکڑ لیا ہے او ر وہ فاختہ بیقراری سے اِدھر اُدھر اُڑ رہی ہے۔ آپؐ نے اُسے فرمایایادرکھو ! کبھی کسی جا نور کو اُس کے بچّہ کے ذریعہ سے دُکھ نہ دو۔ جس طرح انسان کی ماں کو دُکھ پہنچتا ہے اُسی طرح جا نور کی ماں کو بھی دُکھ پہنچتا ہے۔پس کسی جا نور کو اُس کے بچے کی وجہ سے دُکھ نہ دو۔۲۵؎ تودیکھووہ جو حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ فرمایا تھا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصدیق کردی اور قیامت تک کے لئے حکم دے دیا کہ جا نوروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ اب جو اس کی خلاف ورزی کریگا وہ محمدؐ رسول اللہ کا مخالف ہو کر کریگا۔ ورنہ محمدؐ رسول اللہ کا کامل متبع کبھی ایسا نہیں کریگاکہ کسی فاختہ یا کبوتر کا انڈہ لے کر چلا جائے اور وہ پرندہ تڑپتا پھرے کیونکہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بچّے کے ذریعہ سے اُسکی ماں کو دُکھ نہ پہنچائو،اب یہ قیامت تک کیلئے احسان ہے۔ کیونکہ محمدؐرسول اللہ کی اُمت کے متعلق خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہے گی اور جب وہ قیامت تک زندہ رہے گی تو جانوروں پر احسان یا شرم وحیا کی وجہ سے سوال نہ کرنے والوں پر جو احسان کرنے کا حکم ہے یہ بھی قیامت تک چلے گا۔ غرض دنیا کے بادشاہوں کے لنگر تو ختم ہوگئے کوئی دوسَوسال تک رہا، کوئی سَوسال رہا، کوئی پچاس سال رہا، کوئی بیس سال رہا مگر محمدؐ رسول اللہ کا لنگر ساڑھے تیرہ سَوسال سے چل رہا ہے او ر قرآن کہتا ہے کہ قیامت تک چلے گا پس اس لنگر کی مثال دُنیا میں اورکہیں نہیں مل سکتی۔
جماعت احمدیہ کا لنگر بھی ہمیشہ جاری رہے گا
اِسی طرح سورئہ کوثر میں جس لنگرکی خبردی گئی تھی اُس میںکوثر سے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع مسیح موعود مراد تھا۔ چنانچہ اس کا لنگر دیکھ لو آج تک جاری ہے۔ اِس جلسہ پر آنے والے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیںاور ساراسال بھی لنگر جاری رہتاہے۔ پس مبارک ہو کہ آپ سب لوگوں کو اس موعودلنگر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملاہے۔ مجھے یا د ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں جب پُرانے صحابی ؓ آیا کرتے تھے تو لنگر سے روٹیاں لے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ اِن میں بڑی برکت ہے ہم تو سارا سال کوئی بیماری ہو اپنے بچو ں اور بیویوں کویہی روٹیاں پانی میں گھول کر پلا دیتے ہیں او روہ بیماریاں دُور ہو جاتی ہیں۔ اگراحمدی اپنے ایمان پر قائم رہے تو یہ لنگر بھی ہمیشہ قائم رہے گا اور کبھی نہیں مٹے گا کیونکہ اس کی بنیاد خدا کے مسیح موعود نے قائم کی ہے جس کو خداتعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ تین سَوسال کے اندر تیری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائیگی اور تین سَوسال میں یہ لنگر ربوہ میں نہیں رہے گا بلکہ تین سَوسال کے بعد ایک لنگر امریکہ میں بھی ہو گا، ایک انڈیا میں بھی ہو گا، ایک جرمنی میں بھی ہوگا، ایک روس میںبھی ہوگا،ایک چین میں بھی ہوگا، ایک انڈونیشیا میں بھی ہوگا، ایک سیلون میں بھی ہو گا، ایک برما بھی ہو گا، ایک شام میں بھی ہوگا، ایک لبنان میں بھی ہو گا، ایک ہالینڈ میں بھی ہو گا، غرض دنیا کے ہربڑے ملک میں یہ لنگرہوگا۔
محمدؐ رسول اللہ کی برکت سے عربوں اور سیدوں کا اعزاز
قرآنی لنگر کی ایک اَور مثال پاکستانیوں اور ہندوستانیوں
کے سامنے ہر سال آتی رہتی ہے اوروہ اِس طرح کہ عرب جو محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن تھا وہاں سے سینکڑوں لوگ پاکستان یاہندوستان آئے ہیں اور مسلمان صرف اُنکے عرب ہونے کی وجہ سے اُن کی خوب خاطریں کرتے اور کھانے کِھلاتے ہیں۔ یہ بھی محمدؐ ی لنگر ہے جو آج تک آپؐ کی قوم کے لئے جاری چلا آرہا ہے اور سارا سال کُھلارہتا ہے۔ بیشک یہ لنگر لوگوں کے گھروں میں ُکھلتا ہے مگر کھلتا محمدؐ رسول اللہ کی وجہ سے ہے۔آخر عربوں کو جو لوگ عزت دیتے ہیں کیو ں دیتے ہیں؟ ہمیں تو یاد ہے کہ پُرانے زمانہ میں عرب اور سیّد یہ دونوں اپنے عرب او رسیّد ہونے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دن حضرت اماں جان چارپائی پر بیٹھی تھیں کہ ایک سیّدانی مانگنے کو آگئی کہنے لگی مَیں سیّدانی ہوں میری مدد کرو۔ پھر کہنے لگی مجھے پیاس لگی ہے کسی کو کہو کہ مجھے پانی پلادے۔ آپ نے کسی خادمہ کو کہا کہ اِسے پانی پلادو اُس نے کٹورہ لیا اور کھنگال کے پانی بھر کے دے دیا۔ وہ بڑے غصّہ سے کٹورہ پھینک کر کہنے لگی۔’’تینوں نہیں پتہ مَیں سیّدانی ہوں۔ سیّدانی نوں امتی دے کٹورے وچہ پانی پلانی ایں۔‘‘خیر اُس نوکرانی نے ہنس کر کہاکہ۔ ’’ایہہ امتی نہیں ایہہ بھی سیّدانی ہیں۔‘‘ اب یہ سیّد کی عزّت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہی تھی ورنہ انہیں کون پوچھتا تھا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالنگر تھا کہ جس نے آپؐ سے تعلق قائم کیا وہ معزز ہوگیا۔ دیکھ لو۔ حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے۔ حضرت امام حسینؓ کو فہ کے پاس جنگ میں مارے گئے تو زیادؔ نے حکم دیاکہ اِن کا سر کاٹ کر یزیدؔ کے پاس بھیجا جائے اُس نے سمجھا کہ مجھے انعام مِلے گا۔ جب یزیدؔ کے دربار میںاُن کا سر گیا تو یزیدؔ کے دل میں جیسا کہ اُس کی بعض باتوںسے پتہ لگتا ہے اہلِ بیت کا کچھ نہ کچھ ادب تھا مگر اُسوقت اپنی فاتحانہ شان کو دیکھ کر کہ میری فوجیں فاتح ہوئی ہیں، اُس نے سوٹی لمبی کی اور اُن کے دانتوں پر دوتین دفعہ ماری۔ مرنے کے بعد عام طور پر انسان کے ہونٹ کھنچ جاتے ہیں۔ اُس وقت ایک صحابیؓ بھی اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہ غصّہ سے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے۔’’اوبے شرم !ہٹالے اپنی سوٹی۔ مَیں نے محمدؐرسول اللہ کو اِن ہونٹوں پر بوسہ دیتے دیکھا ہے اور جن ہونٹوں کومحمد ؐرسول اللہؐ نے بوسہ دیا تھا تیرے جیسے خبیث کی کیا حیثیت ہے کہ اس کو سوٹی مارے۔۲۶؎ ‘‘ پھر دیکھ لو خدا تعالیٰ نے اِسکا کِسطرح انتقام لیا۔
معاویہ بن یزید کی خلافت سے دست برداری
یزید کے مرنے کے بعد اُس کا بیٹا معاویہ بن یزید تخت پر بیٹھا۔
جسے اُس نے نامزد کردیاتھاکہ میرے بعد یہ خلیفہ ہو۔ جب وہ تخت پر بٹھا دیا گیا تو وہ گھر گیا اور دروازے بند کر کے بیٹھ گیا اس کے بعد اُس نے باہر کہلا بھیجا کہ یہ خلافت مسلمانوں کی امانت ہے میرے باپ کا کوئی حق نہیںتھا کہ وہ خلیفہ بناتا۔ یہ تمہاری امانت ہے تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو۔ پھر اُس نے سب مسلمانوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی اور کہا کہ خلافت پر میر ا کوئی حق نہیں۔ تم کہتے ہو کہ مَیں خلیفہ ہوں کیو نکہ میرے باپ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے حالانکہ میرے باپ سے وہ شخص بہتر تھا جس کو میرے باپ نے مارا اور میرے دادا سے وہ شخص بہتر تھاجس سے اُس نے جنگ کی اور مجھ سے بیسییوں اَور لوگ تم میں بہتر موجود ہیں ان لو گوں کے ہوتے ہوئے مَیں کیسے خلیفہ بن سکتا ہوں؟ تمہیں اختیا ر ہے جس کو چاہو خلیفہ بنا لو۔ جب وہ تقریر کے بعد واپس آیا تو اُس کی ماں اُسے کہنے لگی کہ اے معا ویہ! تو نے اپنے خاندان کو بٹہ لگا دیا ہے۔ معاویہ نے کہا۔ اماںؔ! مَیں نے بٹہ نہیں لگا یا۔ مَیں نے اپنے خاندان کی عزّت کوقائم کر دیاہے۔۲۷؎ اب دیکھو وہ اس صحابیؓ کا نمونہ تھا اور یہ خود یزید کے خاندان کا نمونہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمک خواری کا اُن پر کتنا اثر تھا۔ یزید کے اپنے بیٹے نے باپ کی ذلّت کی اور اُس کی خلافت پر *** ڈالی اور کہا کہ یہ خلافت خاندانِ نبویؐ کا حق ہے مَیں اِسے نہیں لے سکتا۔
قرآنی لنگر کی ایک اَور مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں
قرآنی لنگر کی ایک
مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی پائی جاتی ہے۔ گو آپ چھ گائوں کے مالک تھے مگر طبیعت میں فروتنی تھی اور آ پ نے اپنی ساری جائداد اپنے بڑے بھائی کی بیوہ کے سپرد کی ہوئی تھی تا کہ اُس کے دل سے بیوگی کا صدمہ کم ہو جائے۔ وہ اگرچہ بعد میں احمدی ہو گئیں مگر شروع میں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑا بُغض تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں کر رہا بلکہ مسجد کا ملّاں بن گیا ہے اور ایک رئیس خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے اُن کو یہ بُرا لگتا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ مسجد کے مُلّاں نہیں بنے تھے بلکہ آپ قرآنی لنگر سے استفادہ کرنے کے لئے دنیاسے علیحدہ ہوگئے تھے۔ مگر ظاہر ی حالت یہ تھی کہ اپنی بڑی بھاوج کے بُغض کی وجہ سے جب کبھی کوئی مہمان دین سیکھنے کے لئے آپ کے پاس آتا تو بھاوج کا خسّت ۲۸؎ سے بھیجا ہؤا تھوڑا سا کھا نا بھی آپ مہمان کو کھِلادیتے تھے اورخود ایک پیسہ کے چنے بھنوا کر کھا لیتے تھے۔
حضرت تائی صاحبہ کی کیفیت
مجھے یاد ہے اُس وقت ہماری سیڑھیا ں اُن کے گھرکے پاس سے گزرا کرتی تھیں۔ ایک دن مَیں اُن سیڑھیوں پر
چڑھ رہاتھاکہ انہوں نے مجھے آواز دی کہ محمود! ٹھہر جا۔ مَیں اُن کی آواز سُنکر بھاگا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہماری دشمن ہیںاور بھاگ کر کوٹھے پر چڑھ گیا۔ اس پر وہ کہنے لگیں۔’’جیہو جیہا کا ں اوہو جیہی کوکو۔‘‘ یعنی جیسا اِن کا باپ خراب ہے ویسا ہی بیٹا خراب ہے۔ اِتنا بُغض تھا ان کے دل میں۔ مگر پھر اُن کی یہ حالت ہوئی کہ یا تو وہ کہا کرتی تھیں۔’’جیہو جیہا کا ں اوہو جیہی کوکو۔‘‘اور یا پھر عین اُن کی موت کے وقت مَیں اُن کی خبر لینے کیلئے گھر پہنچا۔ کہنے لگیں اُن کو بُلادو۔میری جان نہیں نکلے گی جب تک وہ آنہ جائیں۔ مَیں گیا تو چارپائی پر انہیں لِٹایا ہؤا تھا۔ مَیں زمین پر ہی بیٹھ گیا میرے زمین پر بیٹھنے پر جھٹ اپنے پَیر انہوں نے نیچے کرنے شروع کردیئے اور کہا کہ زمین پر نہ بیٹھومَیں چارپائی پر نہیں لیٹ سکتی۔ اب یا تو وہ وقت تھا کہ’’ جیہو جیہا کا ں اوہو جیہی کوکو۔‘‘ کہتی تھیں اور یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تواُن کے ظلم سہتے ہوئے گزر گئے اور ’’کوکو‘‘ کا ادب شروع ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئے تھے اور اسہال کی آپ کوشکایت تھی۔ آپ کی وفات کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے متواتر چنے کھانے کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہوگئی ہو۔ اب تو وہ زمانہ گزرگیالیکن اگرہم اُس زمانہ میں ہوتے تواپنی جانیںقربان کرکے بھی آپ کے لئے کھا نا مہیّا کرتے اور چنے نہ کھا نے دیتے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میںماش کی دال کھا رہا تھا کہ مجھے دال کھا تے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل نے دیکھ لیا اور فرمانے لگے۔ میاں! دال بھی کوئی کھانے کی چیز ہوتی ہے۔ خبردار! پھر کبھی دال نہ کھانا۔ مگر اُدھر خداکا مسیح (علیہ الصلوٰ ۃ والسلام) ایسا تھا کہ اٹھائیس تیس سال اس کی زندگی کے ایسے گزرے ہیں جن میں وہ روزانہ پیسے کے چنے بھنواکر کھا لیتا تھا اور اپنا کھا نا لوگوں کو کھِلا دیتا جو دین سیکھنے کے لئے آتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدائی انعامات
جب بعد میں اللہ تعالیٰ کے فضل آپ پر نازل ہونے شروع ہوئے
او رقرآنی لنگر نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھو ل دیئے تو آپ نے فرمایا۔
لُفَاظَا تُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَ ھَالِیْ۲۹؎
کہ اے لوگو! میری حالت پر غور کرو۔ کبھی توایسا تھا کہ میری بھاوج گھر کے بچے ہو ئے ٹکڑے مجھے بھیجا کرتی تھیں لیکن قرآنی لنگر کی برکتوں کی وجہ سے آج بہت سے خاندان میرے ذریعہ سے پَل رہے ہیں۔ اِس میں اشارہ ہے اُن مہاجرین کی طرف جو اپنا وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تھے۔ یا جو آج اپنا وطن چھوڑ کر سینکڑوں مہا جروں کی صورت میں یہاں بس رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر اُن کو پال رہا ہے۔ غرض آج بھی وہی قرآنی لنگر جا ری ہے اور آپ لوگ ساراسال بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی اس قرآنی لنگر سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری ہؤا تھا فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ وہ مسیح موعود ؑ جو ہزاروں ایکڑ زمین او ر چھ گائوں کا واحد مالک ہو نے کے باوجود آپ لو گوں کی خاطر غریب بن گیا تھا تاکہ قرآنی لنگر کی کوئی روٹی آپ کے لئے بھی لے آوے آپ کے لئے بڑا بھا ری نمونہ ہے۔ اگر آپ اس زندگی پر غور کریں تو یقینا آپ نہایت آسانی کے ساتھ ولی اللہ بن سکتے ہیں۔
کُفّار کو بھی اپنا لنگر جاری کرنیکی ہدایت
پھر قرآن کریم نے اس لنگر کو اتنا وسیع کردیا ہے کہ کفارکو بھی دعوت دی ہے کہ اس لنگرکو جاری
رکھیں ورنہ انہیں سزاسے ڈرایا ہے۔ چنانچہ سورئہ ماعون میں آتاہے اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ oط فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُ عُّ الْیَتِیْمَ oلا وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَا مِ الْمِسْکِیْنِ oطفَوَ یْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ oلا الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلا تِھِمْ سَاھُوْنَoلا الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَائُ وْنَoلاوَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo ۳۰؎
یعنی کیا تجھے اس شخص کا حال معلوم نہیں جو دین اسلام کے احکام کو جھٹلاتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکّے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتا ہے۔ یعنی ڈرتاہے کہ کہیں یتیم کو کھا نے میں سے کچھ حصہ نہ دینا پڑے اور اُسے لنگر سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور نہ صرف آپ یتیموں کو کھانے سے محروم رکھتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی غریب کو کھانا کھلانے کی تحریص نہیں دلاتا۔ پس یاد رکھ کہ ایسا آدمی کبھی سچی عبادت نہیں کرسکتا بلکہ اُس کی عبادت دکھا وے کی ہوتی ہے اور ایسا شخص یہی نہیں کہ عالیشان دعوتوں سے غریبوں کو محروم رکھتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزیں اُدھار دینے سے بھی روکتا رہتا ہے اور اِس طرح خدائی لنگر کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا چاہتا ہے سو اس کے لئے ایک بہت بڑاعذاب مقدّر ہے۔
غرباء ومساکین کو کھانا کھلانے اور
اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا حُکم
ایک مثا ل قرآن کے لنگر کی اِس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ
وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰ تَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّا ئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ o۳۲؎
اِسجگہبِرّ کا لفظ آیا ہے جس کے معنے بہت بڑی نیکی کے ہوتے ہیں مگر چونکہ یہ مصدر ہے اور عربی زبان میں مصدر بمعنی فاعل بھی آجاتاہے اور بمعنی مفعول بھی اس لئے اِس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ بڑا نیکی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف مشرق اور مغرب کی طرف مُنہ پھیر کر ظاہر ی نماز پڑھ لیتا ہے بلکہ بڑا نیکی کرنے والا یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور کُتبِ سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو باوجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کرتا رہتاہے یعنی قرآنی لنگر کی یاد میں دُنیاوی لنگر کو قائم رکھتا ہے۔ پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے اُسے اس لنگر کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے ورنہ یا د رکھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے قیامت کے دن اُسے سخت عذاب دیا جائیگا۔ لوگ یوں تو دُعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ! عذابِ قبر سے بچائیو۔ یااللہ! دوزخ کے عذاب سے بچائیو لیکن کام وہ کرتے ہیں جو دوزخ کے عذاب کو لانے والے ہوتے ہیں۔ یعنی غریبوں کو کھا نا نہیں کھلاتے اور لوگوں کو یہ نہیںکہتے کہ جب کبھی غرباء کو کوئی ضرورت ہو تو اُن کی ضرورت کو پورا کر دیا کرو ۔ اِسی طرح گھر میں سے کبھی ہنڈیا، کبھی کڑچھا، کبھی چمٹا، کبھی پُھکنی ایسی ہی عام استعمال میں آنے والی چیزیں انہیں دیتے رہا کرو تا کہ غریبوں کو سہارا ہو۔
امراء کو چاہئے کہ شادی بیاہ کے موقع پر وہ
عارضی طورپر غرباء کو اپنے زیورات دے دیا کریں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام حضرت اماں جان سے یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو زیور ہیں و ہ غریبوں کو بھی پہننے کے لئے دیتی
رہا کرو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جو زیور استعمال ہوتا رہے اس پر زکوٰۃ نہیں۔۳۳؎ یعنی زکوٰۃ کی اصل غرض تو یہ ہے کہ صدقہ ہو۔ جب وہ پہننے کی وجہ سے گھسے گا اور غریبوں کو فائدہ پہنچے گا تو اصل غرض پوری ہو جا ئیگی پس ہمیشہ آپ یہ تحریک فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی غریب گھرانے میں شادی ہو تو اپنے زیور اُن کو دے دیا کرو تاکہ وہ اپنی بہو یا بیٹی کو پہنا دیں اور اِس ذریعہ سے کچھ مدت تک وہ اپنی عزت اور شُہرت کو قائم رکھ سکیں۔ اب یہ ایک نہایت ہی آسان راستہ ہے کیونکہ زیور کا کچھ دِنوں کے لئے کسی کو دے دینا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ ایسی چھوٹی بات ہے کہ آسانی سے ہرعورت اِس پر عمل کرسکتی ہے۔ مگر عمل کرنا مشکل ہے عام طور پر عورتیں اتنا کام بھی نہیں کرسکتیں اگر وہ اتنا کام ہی کرلیا کریں تواُن کے ہاتھ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندے کی تحریک کی اور فرمایا عورتو! تم بھی چندے دو۔ ایک عورت نے اپنا ایک کنگن اُتار کر پھینک دیا او ر کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! یہ میری طرف سے چندہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اے عورت! تیرا دوسراہاتھ کہتا ہے کہ مجھے بھی دوزخ سے بچا۔ اُس نے فوراً اپنا دوسرا کنگن بھی اُتار کر آپ کی طرف پھینک دیا او رکہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! یہ بھی لے لیں۳۴؎ غرض ان لوگوں میں اس حد تک اخلاص پایا جا تا تھا۔
احمدی خواتین کا ایک شاندار نمونہ
ہماری عورتوں نے ایک موقع پر جب برلن مسجد بنی تھی ایک مہینے کے اندر اندر ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ
جمع کردیاتھا۔پھر بعد میں اُس کو بیچا گیا کیونکہ حکومت کی طرف سے ایسی شرطیں لگا دی گئی تھیں کہ جن کو ہم پورا نہیںکرسکتے تھے۔ مثلاً کہا گیا کہ جو مسجد بنے وہ تین منزلہ بنے اور اتنا روپیہ اس پر خرچ ہو۔ مولوی مبارک علی صاحب جو اُسوقت ہمارے وہاں مبلّغ تھے انہوں نے لکھا کہ یہ شرائط ہم پوری نہیں کرسکتے۔ مَیں نے کہا اچھا زمین بیچ دو چنانچہ جو روپیہ آیا اُس سے ہم نے لندن میں مسجد بنائی۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا
اَ ب مَیں دُعا کردیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ وناصر ہو اور خیریت سے آپ لوگ جائیں او راللہ تعالیٰ کی برکات آپ کے ساتھ ہوں
اور کسی قسم کے شر کی خبر آپ گھر جاکر نہ سُنیں بلکہ برکت او ر رحمت کی خبریں سنیں۔ اور نہ وہاں جا کر آپ کو کوئی تکلیف ہو اور ہر قسم کی راحت اورامن آپ کو حاصل ہو۔ او ر ہر قسم کا رحم اور فضل آپ لوگوں پر نازل ہوتا رہے اور اللہ تعالیٰ آپکو اگلے سال پھر خوشی اور خُرَّمِیْ۳۵؎ کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آنے کی توقیق عطا فرمائے۔
اِس دفعہ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زمینداروں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس وجہ سے اُن کے یہاں آنے میں بہت سی مشکلات حائل تھیں۔ اللہ تعالیٰ آئندہ اُنکو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اِس سال سے بہت بڑھ چڑھ کر آئیں اور اُن پر بہت بڑی برکتیں نازل ہوں اور دشمن کا منہ کا لا ہو اور اُسے پتہ لگے کہ احمدیہ جماعت ہر سال آگے سے ترقی کررہی ہے۔
پھر باہر کے مبلّغین کے لئے بھی اور جنہوں نے دعائوں کے لئے تاریں دی ہیں اُن کے لئے بھی او رباہر کے ملکوں میں جو ہماری جماعتیں قائم ہیں اُن کے لئے بھی دُعا ئیںکرو اِسی طرح عورتوں کیلئے بھی اور مردوں کیلئے اور نئی اولاد کے لئے بھی دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو مؤمن بنائے اور مؤمن بناکر اپنی رحمت کے سایہ میں اُن کو رکھے اور خود ان کامُعلّم بنے ہماری تعلیم پر ان کو نہ چھوڑے بلکہ وہ آ پ ان کو تعلیم دے کر اس قابل بنائے کہ وہ احمدیت کی خدمت کریں اور ہمیشہ اسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں۔
۱؎ بنی اسرائیل :۱۳ ۲؎ العلق :۶ ۳؎ یونس :۹۳
۴؎ البقرہ :۱۰۳
۵؎ سلاطین۱ باب ۱۱ آیت ۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۶؎ سلاطین۱ باب ۱۱ آیت۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۷؎ سلاطین۱ باب ۱۱ آیت ۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۸؎ سلاطین۱ باب ۱۱ آیت ۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۹؎ انسائیکلوپیڈیا ببلیکا
۱۰؎ سلاطین۱ باب ۳ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۱۱؎ سلاطین۱ باب ۳ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۱۲؎ سلاطین۱ باب ۳ آیت ۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۱۳؎ متی باب ۶ آیت ۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۱۴؎ المؤمن:۲۰ ۱۵؎ الصّٰفّٰت:۹تا۱۱ ۱۶؎ الکوثر:۲تا۴
۱۷؎ سیرت ابن ھشام الجزء الاول صفحہ ۹۸،۹۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۸؎ سیرت ابن ھشام جلد۱ صفحہ ۱۳۵،۱۳۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۹؎ سیرت ابن ھشام جلد۱ صفحہ ۱۳۵،۱۳۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۰؎ سیرت الحلبیہ الجزء الثالث صفحہ ۱۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۱؎ کنزالعمال جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۶ کتاب الفضائل باب ذکر الصحابۃ حدیث ۳۳۳۳۶
مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۲۲؎ اسد الغابۃ الجزء الثانی صفحہ ۳۷۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۲۳؎
۲۴؎ الذّٰریٰت :۲۰
۲۵؎ ابوداؤد کتاب الجھاد باب کراھیۃ حرق العدوِّبِالنَّارِ
۲۶؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۸۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۷؎
۲۸؎ خست : بخل، کنجوسی، کمینگی۔
۲۹؎ آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۶
۳۰؎
۳۱؎ الماعون : ۲ تا آخر ۳۲؎ البقرۃ:۱۷۸
۳۳؎
۳۴؎ ۳۵؎ خُرَّمِیْ : خوشی، شادمانی، فرحت۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۱۲)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸دسمبر۱۹۵۸ء برموقع جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
روحانی عالم کے کُتب خانے
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
۱۹۳۸ء سے مَیں نے سیر رُوحانی کے موضوع پر اپنی تقاریر کا سِلسلہ شروع کیا ہؤا ہے اور اِس کا آخری حصّہ باقی ہے اِس تقریر کے ۱۶ اہم عنوانات تھے جن کے متعلق مَیں نے اپنے خیا لا ت کے اظہا ر کا وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ پندرہ عنوانات پر مَیں اپنے خیا لات کا اظہار کر چکا ہوں اور آج اس کے آخری حصّہ کے متعلق اپنے خیا لا ت کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔
حیدر آباد دکن کا اسلام کے عروج اور اسکے زوال میں حصّہ
اِس تقریر کی تحریک مجھے اِسی
ملک سے شروع ہوئی ہے جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کا وقار بڑھا تھااور جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کا وقار کم ہؤا یعنی حید ر آباددکن۔ جب تک اورنگ زیب نے حیدر آباد دکن فتح نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان میں مغلوں کی حکومت صرف الہٰ ؔآباد تک تھی اور باقی ہندوستان مغلیہ سلطنت سے باہر تھا مگر اورنگ زیب نے بڑی جا نفشانی کے ساتھ اور لمبا عرصہ دارالخلافہ سے باہر رہ کر اس ملک کو اسلام کے لئے فتح کیا اور اس طرح اسلام کی بنیاد جنوبی ہندوستان میں رکھی اور سارا ہندوستان اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہوگیا مگر افسوس ہے کہ پھر یہیں سے تباہی آئی کیونکہ مرہٹے بھی اِسی علاقہ کے قریب سے نکلے ہیں۔ پھر وہی حیدر آباد جس کے فتح کرنے کے بعد اسلام کو ایک بہت بڑی طاقت حاصل ہوئی تھی اِسی ملک نے انگریزوں سے مِل کر میسورؔ کے مسلم بادشاہ سلطان حیدر علی ٹیپو پر حملہ کیا اور ان کو شکست دلائی۔ اُن کی شہادت کے بعد اسلام کی طاقت بالکل کمزور ہوگئی۔ وہ حقیقت میں اسلام کا آخری تاجدار تھا اور اپنے دل میں اسلام کی ایسی سچی محبت رکھتا تھا کہ جس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ اُس زمانہ میںجب دنیا کی خبر یں پہنچنی مشکل تھیں اُس کو پتہ لگا کہ نپولینؔ بہت طاقتور ہو گیا ہے۔ اِس پر اُس نے نپولینؔ کو لکھا کہ آپ ہندوستان آئیں تو مَیں اپنی فوجیں لے کر آپ کی مدد کیلئے نکلوں گا تاکہ ہم یہاں پھر اسلام کو قائم کریں مگر نپولین ترکوں کے علاقہ سے گزر سکتا تھا اور تُرکوں نے اُسے راستہ دینے سے انکار کردیا اِس لئے وہ یہاں آنے سے رہ گیااور انگریزوں نے اُس پر فتح حاصل کرلی۔ اِس طرح فرانسیسی جو اُس کے ساتھ تھے ہا رگئے۔ وہ شخص ایسا بہادر تھا کہ جب انگریز قلعہ کی دیواروں کے اندر داخل ہوگئے تو اُس کا ایک وزیر دَوڑتا ہؤا اُس کے پاس آیا اور اُس نے کہا فلاں دروازہ سے آپ باہر نکل جائیے، دشمن قلعے کے اندر داخل ہوگیا ہے لیکن بجائے اِس کے کہ وہ اپنی جگہ چھوڑتا اوراپنی جان بچانے کی کوشش کرتا اُس نے کہا۔ مَیں اُن لوگوں میں سے نہیں جو بھاگ کر اپنی جان بچاناچاہتے ہیں۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ’’گیدڑ کی ایک سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی زیادہ اچھی ہے۔‘‘ مَیںگیدڑ کی طرح بھاگنا نہیں چاہتا بلکہ مَیں شیر کی طرح مقابلہ کرونگا۔ چنانچہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ گویا مسلمانوں کو آخری شکست بھی وہیں ہوئی جس کی وجہ سے اسلام کا نام ہندوستان سے مٹ گیا۔ اُس کے مرنے کے بعد مرہٹے بہت طاقت پکڑ گئے اور انہوں نے سارے ملک کو تاخت وتاراج ۱ ؎ کردیا۔ بعد میں احمد ؔشاہ ابدالی نے ایک دفعہ پھر انہیں شکست دی اور اِس طرح اسلام کا بجھتا ہؤا چراغ ایک دفعہ پھر ٹمٹما اُٹھا۔
مسلمانوں کی تباہ حالی کا شدید صدمہ
جیسا کہ مَیں کئی دفعہ بتاچکا ہوں مَیں نے اِس ملک کا سفر کیا تھا، میرے ساتھ میری
ایک بیٹی امتہ القیوم تھیں، ایک میری بیوی مریم صدیقہ تھیں اور ایک میر ی بہن مبارکہ بیگم تھیں۔ ہم کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدرآباد گئے اور وہاں ہم نے بہت سے آثارِ قدیمہ دیکھے۔ قلعے بھی دیکھے، لائبریریاں بھی دیکھیں، مقابر بھی دیکھے، دیوانِ خاص اور دیوانِ عام بھی دیکھے، غرض بہت سے آثارِ قدیمہ ہمارے دیکھنے میں آئے۔ جب ہم واپس آئے تو دہلی میںہم نے باقی آثار دیکھے۔ وہاں لال قلعہ بھی دیکھا، قطب صاحب کا مینار بھی دیکھا، شیرشاہ کی لاٹ بھی دیکھی، جنتر منتر بھی دیکھا۔ اِن چیزوں کو دیکھ کر میری طبیعت پر بڑا اثر ہؤا کہ مسلمان کسی وقت کتنے طاقتور تھے اور اِسوقت وہ کتنے کمزور اور ناتواں ہیں۔ یہ ۱۹۳۸ء کی بات ہے جبکہ ابھی انگریز حاکم تھے، بھارت کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی، مگر انگریزوں نے غدر کے واقعات سے دھوکا کھا کر مسلمانوں کو ذلیل کرنا شروع کردیا تھا اور عملی طور پر ہندوستان کے بادشاہ ہندو تھے۔ میرے دل پر اس کا بڑا اثر تھا مَیں ایک دن سیر کرنے کے لئے نکلا تو غیاث ؔالدین تغلق کے مقبرہ کے سامنے ایک ٹیلہ تھا، مَیں اپنی بیوی، بہن اور لڑکی کولے کر اُس ٹیلہ پر چڑھ گیا۔ وہاں سے لال قلعہ بھی نظر آتا تھا، فیروزشاہ کی لاٹ بھی نظر آتی تھی، قطب صاحب کا مینا ر بھی سامنے تھا اور پیچھے تغلق بادشاہوں کی قبریں تھیں جو کسی وقت ہندوستان پر حکمران رہ چکے تھے ان کو دیکھ کر میرے دل پر یہ اثر ہؤا کہ کُجا وہ حالت تھی کہ مسلمانوں کی شان وشوکت حیدر آباد تک پھیلتی چلی گئی تھی اور مَیں سارے علاقہ میں اُن کی شوکت کے آثار دیکھتا چلا آرہا ہوں اور کُجا یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو کوئی پُوچھتا بھی نہیں۔
لاہو ر کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کا واقعہ
بیشک اِس میں مسلمانوں کا اپنا بھی قصور تھا مگر پھر بھی یہ ایک نہایت دردناک حالت
تھی چنانچہ ۱۹۲۷ء میں لاہور کا ایک انگریز ڈپٹی کمشنر جو کسی زمانہ میں گورداسپور بھی رہ آیا تھا اور ہماری جماعت کی بہت تعریف کیا کرتاتھا اُس کے پاس ایک فساد کے موقع پر جبکہ سکھوں نے لاہور کے کچھ مسلمانوں کو جو مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے تھے مار دیا تھا، مَیں نے خانصاحب ذوالفقارعلی خانصاحب کو بھیجا اور کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے بڑے خیر خواہ تھے لیکن اس فساد میں ہندوئوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے اور آپ نے اُلٹا مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے۔ وہ کہنے لگامَیں آپ کو کیا بتائوں کہ مسلمان کتنے بیوقوف ہیں۔ مَیں واقع میں مسلمانوں کا خیر خواہ تھا مگر جو کچھ میرے ساتھ گزرا وہ آپ کو معلوم نہیں۔ مَیں گورداسپور سے ملتان جا کر لگا، وہاں مَیں نے مسلمان لیڈروں کوبُلوایا اور کہا کہ مَیں نے جو پُرانے فائل دیکھے ہیں، اُن سے پتہ لگتاہے کہ ہندوئوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کئے ہیں مگر مَیں بحیثیت ڈپٹی کمشنر گورنمنٹ کا ملازم ہوں اور کسی کو یہ پتہ نہیں لگنا چاہئے کہ مَیں نے یہ بات تمہیں بتائی ہے اگر تم کسی کو نہ بتائو تو مَیں تمہیں بتاتاہوں کہ تم اِس اِس قسم کے میمورنڈم (MEMORANDUM) بھجوائو مَیں وہ میمورنڈم گورنمنٹ کے پاس بھجوا دونگااور اُنہیں لکھونگا کہ مسلمانوں پراِس اِس قسم کے ظلم ہورہے ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اُس ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ وہ لیڈر بڑا پختہ وعدہ کرکے گئے لیکن شام ہوئی تو انہوں نے ہندوئوں کو بتادیاکہ ہمیں ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ یہ باتیں بتائی ہیں۔ چنانچہ دوسرے دن ہندوئوں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اُس نے شکا یت کی کہ صاحب! ہم تو آپ کو اپنا مائی باپ کہتے ہیں آپ مائی باپ ہوکر مسلمانوں کو ہمارے خلاف کرنے لگے ہیں۔ اِسپر مَیں اتنا شرمندہ ہؤا کہ اس کی حد نہیںاِس کے بعد جب مَیں لاہو ر آیا تو یہاں یہ حالت تھی کہ اس فساد کی وجہ سے ایک بڑے لیڈر کو مسلمانوں نے میرے پاس بھجوایاکہ تم جا کر ڈپٹی کمشنر کوبتائو کہ مسلمانوں پر سختی ہو رہی ہے مجھے پتہ لگ گیا کہ مسلمان فلاں شخص کومیرے پاس بھیج رہے ہیں لیکن جب وہ میرے پا س آئے تو کہنے لگا۔ مَیں نے فلاںرشتہ دار کی سفارش آپ کے پاس کی تھی وہ کا م ابھی ہؤا ہے یا نہیںہؤا اور اُدھر میلارام کے بیٹے رام سرن داس نے اپنی مِل کے متعلق مجھ سے وقت لیا ہؤا تھا وہ ملنے آیا تو مَیں نے کہا۔ سُنائیے رائے صاحب آپ کی مِل کاکیا حال ہے؟ تو اُس نے پگڑی اُتار کر میرے پائوں پر رکھ دی اور رونے لگ گیااور کہنے لگا۔ میری قوم تباہ ہورہی ہے اور آپ میری مِل کا حال پُوچھ رہے ہیں۔اَب دیکھو!مسلمانوں نے اس فساد کے سِلسلہ میں اپنے لیڈر کو میرے پاس بھیجا تو بجائے اپنا اصل مقصد بیان کرنے کے وہ مجھ سے کہنے لگا مَیں نے ایک شخص کی آپ کے پاس سفارش کی تھی اُس کاکیابنا؟ اور اِدھر وہ ہندو جس نے فساد سے پہلے کا وقت مقرر کیا ہؤا تھا وہ آیا اور مَیں نے دریافت کیاکہ رائے صاحب! آپکی مِل کا کیا حال ہے تو اُس نے پگڑی اُتار کر میرے پائوں پر رکھدی اور رو کر کہنے لگا کہ میری قوم تباہ ہورہی ہے اور آپ میری مِل کا حال پُوچھ رہے ہیں۔ مِل کیا چیز ہے اِسپر قوم مقدم ہے۔ تو اُس ڈپٹی کمشنر نے خانصاحب ذوالفقار علی خان صاحب سے کہا کہ جب یہ حال ہے تو مَیں کیا کروں۔ مَیں نے مجبوراً ہندوئوں کی مدد کی ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارابچائو ہو۔ وہ ڈپٹی کمشنر ہم سے بعد میں بھی تعلق رکھتا رہا چنانچہ ۱۹۳۴ء میں احرار کے فتنہ کے وقت جب مجھے نوٹس دیا گیا کہ تم نے باہر سے احمدیوں کو نہیں بُلواناتو چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے مجھے سُنایا کہ وہ اپنی کوٹھی سے آرہا تھا کہ اُس نے مجھے دیکھ کر ٹھہرا لیا اور کہنے لگا سُنائو قادیان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا۔ ہمیں سخت افسوس ہے ہم نے اگر کچھ کیا ہوتا اور پھر ہمارے امام کو گورنمنٹ نوٹس دیتی تو کوئی بات تھی لیکن ہم نے توکچھ بھی نہیں کیا، ہمارے امام کو کیوں نوٹس دیا گیاہے؟ اِس پر وہ غصّہ میں آگیا اور کہنے لگا مَیں نہیں جانتا جس جماعت نے چالیس سال گورنمنٹ کی خدمت کی ہے اُس نے اگر کچھ کیا بھی ہو تا تب بھی یہ نوٹس نہیں دینا چاہئے تھا، یہ گورنمنٹ کی غلطی ہے۔ بعد میں وہ وائسرائے کے ملٹری سیکرٹری ہو کر چلے گئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔
غرض اُس زمانہ میں عملی طور پر ہندوئوں کی ہی حکومت تھی۔ جب کشمیر میں فسادات ہوئے تو اُسوقت لارڈولنگڈن وائسرائے تھے۔ مَیں کشمیر کمیٹی بنانے کے بعد اُن سے مِلا تو مَیں نے اُن سے کہا آپ کشمیر میں دخل کیوں نہیں دیتے؟ وہ کہنے لگے دخل کیوں دیں آپ نہیں جانتے اگر ہم نے دخل دیا تو کشمیر کا راجہ کتنا ناراض ہو گا۔ اُس وقت حیدر آباد میں انگریز افسر مقرر تھے مَیں نے کہا اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوئوں کے خیر خواہ ہیں۔ حیدر آباد میںجہا ں ایک مسلمان حکمران ہے آپ نے انگریز افسر بھجوائے ہوئے ہیں مگر کشمیر میں جہا ں ایک ہندو راجہ ہے آپ نے کوئی انگریز افسر نہیں بھجوایا۔اس پر وہ اَور باتیں کرنے لگ گئے۔ بہر حال گو بھارت کی حکومت حال ہی میں قائم ہوئی ہے لیکن انگریزوں کے زمانہ میں بھی اصل حاکم بھارت ہی تھا اور وہ ہر جگہ قابض تھا۔
خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نورانی کر ن کا ظہور
غرض اس سفر میں ایک طرف تو مسلمانوں کی گزشتہ شان وشوکت
کے تمام آثار میری آنکھوں کے سامنے تھے اور دوسری طرف مجھے مسلمانوں کی موجودہ بے کسی اور انتہائی بے بسی دکھائی دے رہی تھی۔ مَیں اِن حالات پر خاموشی سے غور کرنے لگا اور سوچتا رہا اور کافی دیر خاموش کھڑا رہا۔ میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم نے مجھے آواز بھی دی کہ اب دھوپ تیز ہوگئی ہے واپس آجائیں مگر مَیں اپنے خیا لا ت میں ہی محو رہا۔ آخر مَیں نے کہا۔
’’مَیں نے پا لیا ۔ مَیں نے پالیا۔‘‘
میر ی لڑکی امتہ القیوم بیگم کہنے لگیں ۔ اباجان! آپ نے کیا پا لیا؟ مَیں نے کہا۔ مَیں نے جو پانا تھا وہ پا لیا ۔ اُس وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ تمام آثار قرآن کریم میں زیادہ شان کے ساتھ موجود ہیں۔ تمہیں ان آثارِ قدیمہ پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں قرآن کریم میں جو آثار قدیمہ پائے جا تے ہیں اُن کے سامنے اِن آثارِ قدیمہ کی کچھ بھی وقعت نہیں۔ میری لڑکی نے کہا۔ آپ مجھے بھی بتائیں کہ آپ نے کیا پا لیا مگر مَیں نے کہا۔ مَیں اِسوقت تمہیں نہیں بتائوں گا جلسہ سالانہ کے موقع پر میں ساری جماعت کو بتائوں گا وہاں تم بھی سُن لینا۔ چنانچہ ۱۹۳۸ء کے جلسہ پر مَیں نے’’ سیر روحانی‘‘کے موضوع پر پہلا لیکچر دیا تھا اور اب یہ اِس سلسلہ کی آخری تقریر ہے۔ جب مَیں نے اِس سلسلہء تقاریر کو شروع کیا تو اُس وقت مَیں جوان تھا اور میری صحت مضبوط تھی۔ مگر اب مَیں کمزور ہوں اور زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا مگر بہرحال خداتعالیٰ نے مجھے جس قدر توفیق دی مَیں اِس مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کرونگا۔
آج کی تقریر میں مَیںاُن کتب خانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں کیونکہ اس سفر میں مَیں نے بادشاہوں کے کتب خانے بھی دیکھے تھے اور مَیں ان سے بہت متأثر ہؤا تھا۔
قرآن کریم کا دعویٰ کہ اُس کے اندر ہر قسم کے کتب خانے موجود ہیں
سب سے پہلے مَیں اس بات
کو بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرے اندر ہرقسم کے کتب خانے موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ البیّنہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ۔رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً۔فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ۲؎
یعنی اہلِ کتاب اور مکّہ کے مشرک کبھی بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آسکتے تھے جب تک اِن کے پاس کوئی بڑی دلیل آتی ہے لیکن دلیل کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ایک دلیل وہ ہوتی ہے جو خارجی ہوتی ہے اور ایک دلیل اندرونی ہوتی ہے۔ یہ لوگ باہر کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کرسکتے تھے اس لئے اُن کے اندر ایک رسول آنا چاہئے تھا اور رسول بھی ایسا آنا چاہئے تھا جو ریفارمر(REFORMER)ہی نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ شریعت بھی ہو۔ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً اور اُ ن کو وہ تمام کُتب پڑھ کر سُنا ئے جو اُن کے باپ دادوں کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں مگر اُن میں جو حشو وزوائد پائے جاتے تھے وہ اُن میں سے نکال دے۔فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ۔ اور ایسی کتاب پڑھ کر سُنائے جس میں تمام سابقہ کُتب کی قائم رہنے والی تعلیمیں موجود ہوں اور پہلی کتابوں میں سے جو باتیں منسوخ ہو گئی ہوں وہ اس میں موجود نہ ہوں تب جاکر اُن کی اصلاح ہوتی سکتی ہے۔
غرض قرآن کریم وہ کتا ب ہے جس میںوہ تمام تعلیمیں موجود ہیں جو منسوخ نہیں ہوئیں۔ کوئی قائم رہنے والی چیز چاہے وہ ویدؔ میںہو، ژندؔاوستا میں ہو، توراتؔ میں ہو ایسی نہیں کہ وہ قرآن کریم میں موجود نہ ہو۔ اور کوئی سچی یا قائم رہنے والی تعلیم ایسی نہیں جو وید، ژنداوستا، تورات یا اناجیل میںموجود ہو اور اس میں حشو۳؎ مِل گیا ہو اور اُس کا ازالہ قرآن کریم نے نہ کیاہو۔
یہاں یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم حجم کے لحاظ سے بہت چھوٹی سی کتاب ہے جو وید اور تورات سے ہی چھوٹی نہیں بلکہ اناجیل سے بھی چھوٹی ہے۔ ایسی کتاب کا دعویٰ کرنا کہ میرے اندر تمام پہلی کتب موجود ہیںاور اُن کے حشو وزوائد کو مَیں نے دُور کردیا ہے بتاتا ہے کہ اِس کے اندر تمام پہلی کتب بالتفصیل موجود نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر تمام اصولوں کو بیان کردیا گیا ہے کیونکہ اگر ساری سابقہ کُتبِ سماوی اور تمام علوم اس کتاب میں بالتفصیل بیان ہوتے تو قرآن اتنی بڑی کتاب ہوجا تی کہ آسمان کی فضا کو بھی بھر دیتی مگریہ تو جیب میں آجاتی ہے بلکہ آج ایک دوست نے مجھے تحفہ بھیجا ہے وہ ایک ٹھپّہ ہے جس پر کسی کا ریگر نے ایک ہی طرف سارا قرآن کریم لکھ دیا ہے۔ لیکن اگر بڑے حجم والے قرآن کریم بھی دیکھے جائیں تو وہ چھ سات سَو صفحات میں ختم ہوجاتے ہیں لیکن بائیبل اور اناجیل اس سے بہت بڑی ہیں۔ بہر حال قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے کہ اس میںتمام سماوی اور الہا می کُتب موجود ہیں دین کو قائم رکھنے والی تمام تعلیمیں موجود ہیں، اِسی طرح تمام ضروری علوم موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام کُتب اور علوم اپنی پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہیںبلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اُن تمام سچائیوں کے اصول بیان کردیئے گئے ہیں اور اُن میں جو غلطیاں اور زوائد تھے اُن کی اصلاح کردی گئی ہے۔
زمین وآسمان کی پیدائش چھ د نوں میں نہیں بلکہ چھ یوم میں ہوئی ہے
مثال کے طور پر مَیں اس بات کو
لیتا ہوں کہ بائیبل میںلکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے زمین وآسمان کو چھ دنوں میں پیداکیا ہے اور ساتویں دن آرام کیا حالانکہ تمام سائنسدان اِس بات پر متفق ہیں کہ زمین وآسمان چھ دنوں میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اس عرصہ کو چھ یوم سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے’’یوم‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی ز بان میں’’یوم‘‘ کے معنے’’دن‘‘ کے نہیں ہو تے بلکہ وقت کے ہوتے ہیں۔ پس قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ زمین وآسمان چھ وقتوں یا چھ درجوں میں پیدا کئے گئے ہیں گویا قرآن کریم میں زمین وآسمان کی پیدائش کے دن بیان نہیں کئے گئے بلکہ چھ درجے بیان کئے گئے ہیں۔ دنوں کے لحاظ سے بعض لوگوں نے اُن کو شمار جمعہ سے کیاہے اور بعض لوگوں نے ہفتہ سے اُن کا شمار کیا ہے اور بعض نے اس کے بعد اتوار سے شمار کیا ہے۔ یہودی لوگ ہفتہ کو’’سبت‘‘ مانتے ہیں اور مسلمان جمعہ کو ’’سبت‘‘ شمارکرتے ہیںجو آرام کا دن ہے اور عیسائی اور ہندوئوں میں’’ سبت‘‘اتوار کا دن ہے۔ ’’سبت‘‘ درحقیقت ہفتہ کا ہی دن تھا مگر جب رومی بادشاہ عیسائیت میں داخل ہؤا تو اُس نے پادریوں کی ایک کونسل بٹھائی او راُس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ رومی لوگ نہ تو ایک خدا کو مانیں گے کیونکہ وہ تثلیث کے قائل ہیں اورنہ وہ ’’سبت‘‘ہفتہ کو مانیں گے اس لئے یہاں عیسائیت کا پھیلنا مشکل ہے۔ اس پر پادریوں نے کہا کہ ہمیں تو عیسائیت کی اشاعت سے غرض ہے ہم تین خدا مان لیتے ہیں۔ مسیح، رُوح القدس اور خدا اور آپ بے شک ہفتہ کی بجائے اتوار کی تعطیل کا اعلان کردیں۔ چنانچہ عیسائیوں میں اتوار کی تعطیل ہونے لگ گئی۔ مسلمانوں میں جمعہ کی تعطیل ہوتی رہی کیونکہ قرآن کریم میں جمعہ کے دن کوترجیح دی گئی ہے اور یہودیوں میں ہفتہ کے دن کو آرام کادن قرار دیاگیاہے اور تورات میں ا س کا وضاحت سے ذکر ہے۔ چنانچہ اُس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو چھ دن میں پیداکیا اور ساتویں دن اُس نے آرام کیا۔۴ ؎بعض اردو کے نسخوں میںمترجموں نے لو گوں کے اعتراض کے ڈر سے آرام کیا کی جگہ ’’فراغت پائی‘‘یا’’فارغ ہؤا‘‘ کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن دوسرے نسخوں میں’’آرام کیا‘‘ کے الفاظ ہی موجود ہیں۔ اور اِسی بناء پر ہفتہ کے دن کو یہود میں مقدس قرار دیاگیا ہے۔۵؎
بائیبل کی اصلاح
لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زمین وآسمان کو چھ وقتوں یا درجوں میں پیدا کیا گیا ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ ساتویں دن
خدا تعالیٰ کو آرام کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ خداتعالیٰ ’’سورۃ ق ‘‘میں فرماتاہے کہ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۔۶؎
یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے۔ اور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی۔ یعنی بائیبل کا یہ بیان تو درست ہے کہ زمین وآسمان کو چھ وقتوں میں پیدا کیا گیا لیکن یہ بات درست نہیں کہ اس کے بعد ہم تھک گئے ہم نہ تھکے او رنہ ہمیں آرام کی ضرورت پیش آئی۔ کیونکہ ہمای پیدائش کا طریق ایسا ہے کہ ہم تھک ہی نہیں سکتے ایک دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔لَاتَاْ خُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَانَوْمٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَائَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَلَایَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۷؎
فرماتا ہے ۔ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا پرستش کا اور کوئی مستحق نہیں۔ وہ اپنی ذات میں کامل حیا ت والا ہے اور دوسروں کو حیا ت عطا کرنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم اور ہرایک چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ وہ نیند کا محتاج ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرے۔ جو کچھ اُن کے سامنے ہے یعنی ان کا مستقبل اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہے یعنی ان کی نظروں سے غائب ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی مرضی کے سِوا اس کے علم کے کسی حصّہ کو بھی نہیں پا سکتے۔ اُس کا علم تمام زمیں وآسمان پر حاوی ہے۔ اور زمین وآسمان کی حفاظت اُس پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ ان دونوں کا انتظام چلا رہا ہے۔ اور وہ بڑی بلند شان رکھنے والا اور بڑی عظمت اور جبروت کا مالک ہے۔ اب جس ہستی نے’’کُن‘‘کہہ کر ساری دنیا کو پیدا کیا ہو اور اُس پر نہ اونگھ آئے نہ نیند، نہ زمین وآسمان کی حفاظت کا کا م اُس کیلئے بوجھ ہو اُس کے لئے کسی تھکان کا سوال ہی کیا پید اہو سکتاہے۔
پیدائشِ عَالَم کے متعلق قرآنی نظریہ
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ پیدائشِ عالَم کے متعلق فرماتاہے اِنَّمَآ اَمْرُُہٗٓ اِذَٓا اَرَادَ شَیْئًا
اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ۸؎
یعنی اللہ تعالیٰ کا پیدائشِ عالَم کے معاملہ میں یہ طریق ہے کہ جب وہ کِسی چیز کے متعلق چاہتا ہے کہ ہو جائے تو وہ صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہوجاتی ہے اور ہو تی چلی جا تی ہے۔ یہاں یَکُوْنُ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے اندر اِستمرار کے معنے رکھتا ہے۔ پس اِس کے یہ معنے نہیںکہ وہ ’’کُنْ‘‘ کہتا ہے اور چیز تیا ر ہو جا تی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہو تی چلی جا تی ہے۔ یعنی انسان کا طریق یہ ہے کہ جس چیز کو پیدا کرتا ہے محنت سے کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت نہیں ہو تی کہ وہ جس چیز کو چاہے پیدا کر دے بلکہ یا تو وہ نمونہ دیکھ کر اُس جیسی چیز بناتا ہے اور یا بڑی محنت سے کوئی چیز ایجاد کرتاہے۔ پھر وہ جس چیز کو بناتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتی ہے۔ اُس میں تنا سل کا سِلسلہ نہیں ہو تا۔ لیکن خداتعالیٰ بغیر نمونہ کے پیدا کرتا ہے اور پھر پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً موٹر انسان کی پیدا کی ہوئی ہے مگر ابھی تک کسی نے نہیں سُنا کہ موٹر نے کبھی بچہ دیاہو۔ اِسی طرح ریل ہے یہ انسان کی ایجاد ہے مگر کِسی نے نہیں سُنا ہو گا کہ ریل نے بچّہ دیا ہے اور اب ایک کی بجائے دس ریلیں بن گئی ہیں مگر خداتعالیٰ کی پیدائش دیکھ لو وہ ہوتی چلی جا تی ہے۔ اُس نے صرف ایک آدم پیدا کیا تھا مگر اب اربوں آدمی موجود ہیں گویا اُس کی نسل پیدا ہوتی چلی جا تی ہے۔ اِسی طرح ایک مسیح اس نے پیداکیا مگر اب اور مسیح پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قیامت تک ہو تے چلے جائیں گے۔ اِسی طرح ایک ابراہیم اس نے پیدا کیا تھا مگر اس کے بعد ابراہیم پر ابراہیم پیدا ہوتے چلے گئے اِسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام’’فَاطِر‘‘ بھی آتا ہے۔
فاطر کے معنے
فاطرکے معنے ہیں بغیر نمونہ کے پیدا کرنے والا۔ چنانچہ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ کنت لا ادری ما فاطر السمٰوٰت والارض
حتّٰی اتانی اعرابیان یختصمان فی بئر فقال احدھما انافطر تھا ای ابتدأتھا ۹؎ یعنی مَیں قرآن کریم میں فاطر کا لفظ پڑھا کرتا تھالیکن مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ فاطر کیا ہوتا ہے یعنی جب خالقؔ کہہ دیا تو پھر فاطرؔ کیا ہؤا۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے پاس دو اعرابی آئے جو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا میر ا کنواں ہے اور دوسرا کہہ رہا تھا یہ میرا کنواں ہے۔ اُن میں سے ایک نے کہا مَیں نے اِسے فطر کیا تھا۔ اور اس سے مراد یہ تھی کہ مَیں نے اِسے پہلے کھودا تھا بعد میں اِس نے قبضہ کر لیا ۔ اُس دن مجھے فاطر کے حقیقی معنوں کا علم ہؤا۔ اور مَیں سمجھ گیا کہ فاطر اس کو کہتے ہیں جو نئے سرے سے ایجاد کرے اور بغیر نمونہ کے ایجاد کرے۔ اور اعرابی کا یہ کہنا کہ ’’اَنَا فَطَرْتُھَا‘‘ اِس کے معنے یہ تھے کہ پہلے اس علاقہ میں کوئی کنواں نہیں تھا۔ پہلے پہل مَیں نے ہی کنواں کھودا تھا۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس اعرابی کے استعمال کی وجہ سے مجھے ’’فاطر ‘‘ کے معنے سمجھ آئے اور مجھے معلوم ہؤا کہ اس کے معنے ابتداء کرنے کے ہیں پس’’کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو پید ا کرتا ہے اُن میں تناسل کا سِلسلہ شروع ہو جاتاہے اور اِس قسم کی اَور چیزیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیںاور وہ ختم نہیں ہو جاتیں۔ مثلاً اُس نے سورج اور چاند پیدا کئے ہیں اوراب نئے نئے سورج اور چاند پید ا ہورہے ہیں جیسا کہ علمِ ہیئت سے ثابت ہے۔ اُس نے صرف ایک پہاڑ اور صرف ایک دریا ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اُس کے بنائے ہوئے پہاڑوں او ر دریائوں سے نئے نئے پہاڑ اور دریا نکلتے جا رہے ہیں۔ اُس نے صرف ایک انسان پیدا نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی نسل سے کروڑوں اور اربوں انسان پیداہوگئے ہیں۔ اُس نے ایک ابراہیم ؑ ہی پیدا نہیںکیا بلکہ پہلے ابراہیم کی مثال میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہورہے ہیں۔ اُس نے ایک نوحؑ ہی پیدا نہیںکیا بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال میں ہزاروں اور نوحؑ پیدا ہورہے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کا نمونہ تھے۔ اور اُن کے وجود میں سارے انبیاء زندہ ہو گئے تھے بلکہ آپؐ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مہدی آخر الزمان کے زمانہ میں سارے انبیاء زندہ ہو جا ئیں گے۔
مہدی آخرالزمان کے متعلق حضرت امام باقر ؒکے ارشادات
چنانچہ شیعوں کے امام باقر ؒ
’’بحارالانوار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی کہے گا اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم ؑاوراسماعیل ؑ کو دیکھنا چاہتا ہے تووہ سُن لے کہ مَیں ہی ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ ہوں۱۰؎ آجکل تو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا ہے ؎
مَیں کبھی آدم ؑ کبھی موسٰی ؑ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ؑ ہوں نسلیں ہیںمیری بے شمار
لیکن امام باقر ؒفرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میںمہدی کہے گا کہ اے لوگو! تم میں سے جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو دیکھنا چاہتا ہو وہ سُن لے کہ مَیں ہی ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑہوں۔
اور اگر تم میں سے کوئی حضرت موسٰی ؑاورحضرت یوشعؑ کو دیکھنا چاہتاہے تو وہ سُن لے کہ مَیں ہی موسٰی ؑ اور یوشعؑ ہوں اور اگرتم میں سے کوئی عیسٰی ؑ اور شمعون ؑ کو دیکھنا چاہتا ہے تو سُن لے کہ مَیںہی عیسٰی ؑاور شمعون ہوں اور اگر تم میں سے کوئی حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کو دیکھنا چاہتا ہے تو سُن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ مَیں ہی ہوں۔۱۱؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء
کے مثیل اور اُن سے افضل تھے
قرآن کریم میںبھی اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وضاحت سے فرماتا ہے کہ آپؐ حضرت موسٰی ؑ کے مظہر ہیں فرمایا اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا
اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلاo۱۲؎
یعنی اے لوگو!ہم نے تمہاری طرف اسی طرح ایک رسول تمہا را نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسو ل بھیجا تھا۔ اِسی طرح سورۃ یوسف کے آخرمیں بھی یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف ؑ کے مثیل ہیں۔ چنانچہ جب آپ ؐ نے مکّہ فتح کیا اور آپ کے سامنے وہ تما م مُجرم پیش ہوئے جنہوں نے آپؐ کو مکّہ سے نکال دیا تھا اور وہ تیرہ سال تک آپؐ پراور آپؐکے صحابہؓ پر بے انتہاء ظلم کرتے رہے تھے تو آپؐ نے اُن سے پوچھا کہ بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جا ئے؟ تو وہ لوگ گو آپؐ کے منکر تھے لیکن قرآن کریم سُن سُن کر اُن کو اتنا پتہ لگ گیا تھا کہ آپؐ مثیلِ یوسف ؑ بھی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔ آپؐ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا اور چونکہ آپ مثیلِ یوسف تھے اس لئے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا کہ جائو میںتم سب کو معاف کرتا ہوں، اسی طرح آپؐ نے بھی مشرکین مکّہ سے فرمایا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۱۳؎ آج تم پر کسی قسم کی گرفت نہیں۔ گویا آپؐ نے عملاً وہی مثال پیش کی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے معاملہ میں پیش کی تھی۔ حالانکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی تو اُن کے باپ کی نسل میں سے تھے لیکن مکّہ والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی نسل میںسے نہیںتھے اور نہ ہی اُن سے آپؐ کا دودھ کا کوئی تعلق تھا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صرف حضرت یوسف علیہ السلام کے مثیل ہی نہیں تھے بلکہ اُن سے بھی بڑھ کرتھے۔ صرف مثال کے طور پر چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ورنہ حقیقتاً آپؐ سب انبیا ء کے مثیل تھے۔ آپؐ مثیلِ آدم ؑ بھی تھے کیونکہ آپؐ کے ذریعہ ایک نئی نسل چلی۔ حضرت آدم علیہ السلام کو صرف اتنی فضیلت حاصل ہے کہ اُن کے ذریعہ سے اور بشر پیدا ہوئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آدم ہوئے کہ آپؐ کے ذریعہ سے ایک ایسی نسل چلی جو تمام انسانوں سے ممتاز تھی جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد تمام جا نوروں سے ممتاز تھی۔ کیو نکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س وہ دین تھا جو دینِ فطرت تھا اور آپؐ کو ایسی تعلیم مِلی تھی جس میں ساری دنیا کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم تھا۔ اِسی طرح آپؐ مثیلِ نوح ؑ بھی تھے کیونکہ آپ کی قوم پر بھی ایسا طوفان آیا جیسے نوح علیہ السلام کی قوم پر آیا تھا اور اس سے وہی بچے جو آپؑ کی کشتی میں بیٹھے تھے۔
تاریخی نقطئہ نگاہ سے قرآنی ُکتب خانہ پر نظر
اَب میں کُتب خانوں کی مناسبت سے سب سے پہلے تاریخ کو لیتا ہوں
اور بتا تا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ دنیا میں بہت سی تاریخ کی کتابیں موجود ہیںپھر بھی قرآن کریم نے جو تاریخ پیش کی ہے اس کی مثال دنیا کی کوئی تاریخی کتاب پیش نہیں کرسکتی۔
تاریخِ وحی ورسالت
اِس بارہ میں مَیں سب سے پہلے تاریخِ وحی ورسالت کو لیتا ہوں۔ قرآنِ کریم نے اصولی طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ
اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ۔۱۴؎ یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیںگزری جس میں خد تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا نہ آیا ہو۔ اِسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ۔۱۵؎ ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی ہادی گزرا ہے۔ نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں۱۶؎ مگر نذیر کے لغوی معنے ڈرانے و الے کے ہوتے ہیں۔ یعنی جب قوم سوئی ہوتی ہے تو وہ انہیں آکر ہو شیا ر کرتا ہے۔ اِس کے معنے زیادہ ترریفارمر(REFORMER) کے بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔ مگر ہادی کے معنوں میں نبوت زیادہ واضح ہے اور یوں قرآنی محاورہ کے مطابق بھی اور لُغت کے لحاظ سے بھی نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں۔ غرض قرآن کریم نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر قوم میںکوئی نہ کوئی نبی یا کم ازکم کوئی ریفارمر ضرور آیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں حضرت کرشنؑ اور رام چندرجی کو نبیوں کی شکل میں پیش کیا جا تاہے اور ان کا نام اوتار رکھا جاتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ کَانَ فِی الْھِنْدِنَبِیًّا اَسْوَدُ اللَّوْنِ اِسْمُہٗ کَا ھِناً ۱۷؎ یعنی ہندوستان میں ایک سیاہ فام نبی گزرے ہیں جن کا نام کنہیا یعنی کرشنؔ تھا۔ اب دیکھو کہ ہندو کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے دشمن ہیں لیکن قرآن کہتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ہندوستان میں بھی ہمارے بعض بزرگ بندے گزرے ہیں۔ اور جب ہندوستان میں بھی محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھائی گزرا ہے تو اُس کی اولاد کے ہم دشمن کیسے ہوسکتے ہیں۔ مسلمان ہر گز ہندوئوں کے دشمن نہیں کیونکہ ہندو حضرت کرشن ؑ اور رام چندر جی ؑ کی اولاد ہیں۔ یا کم سے کم اُن کی اُمت ہیں او راُن کے ماننے والے ہیں اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء آپس میں بھائی بھائی ہو تے ہیں۔۱۸؎ پس کرشن ؑ اور رام چندر جی ؑ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجوں کے ہم دشمن کیسے ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ ہمارے آقا کے بھتیجے ہونگے نہ ہمارا آقا اُن کا دشمن ہو گا اور نہ ہم اُن کے دشمن ہونگے۔ یہ محض غلط فہمی اور ضِدّ ہے ورنہ مسلمان جو قرآن کریم سمجھتا ہے وہ نہ کسی ہندو کا دشمن ہو سکتا ہے اور نہ اس کی عداوت اس کے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔
دِلّی کے ایک بزرگ کا کشف
پُرانے زمانہ میں دِلّی کے ایک بزرگ گزرے ہیں اُن کے ایک مُرید نے ایک دفعہ کہا کہ ہمارا یہ خیا ل غلط ہے کہ
کرشن جی اور رام چندرجی ہندوستان کے نبی تھے او راِس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اور کرشن جی تو اُس کے اندر جل رہے ہیں اور رام چندرجی اُس کے کنارے کھڑے ہیں وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اِس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے۔ آگ کے معنے محبتِ الٰہی کی آگ کے ہیںاور اِس خواب میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ حضرت کرشنؑ خداتعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور رام چندرجی اُن سے کم درجہ رکھتے تھے۔ اب دیکھو پُرانے زمانہ کے اولیا ء بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں حضرت کرشن ؑ اور حضرت رام چندر خداتعالیٰ کے نبی گزرے ہیں اور محبتِ الٰہی کی آگ نے اُن کا احاطہ کیا ہؤا تھا۔
اِسی طرح چین میں کنفیوشسؔ کو پیش کیا جا تاہے گو چینی زبان میں آپ کا نام نبی کی بجائے کچھ اَو ر رکھا گیا ہے اور آپ کو زیادہ تر اُستاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اسی کو عربی زبان میں’’نذیر‘‘اور ’’ہادی‘‘کہتے ہیں۔ اِسی طرح برما اور سیلون میں حضرت بدھ علیہ السلام کو پیش کیا جا تا ہے کہ وہ خدا رسیدہ انسان تھے اور خدا کا کلام اُن پر نازل ہوتا تھا۔ گوبدھ علیہ السلام بہار میں پیدا ہوئے ہیں مگر بہر حال جن قوموں نے انہیںمانا وہ اُن کے لئے ہا دی ہی تھے۔ ہندوستان نے بھی ایک دفعہ اُنکو مان لیا تھا لیکن بعد میں آپ کے ماننے والوں کو اُس نے ملک سے نکال دیا۔ چنانچہ اُن میںسے بعض تبت چلے گئے، بعض برما چلے گئے، کچھ سیلون یا جاپان چلے گئے۔
غرض قرآن کریم نے اس ایک آیت میںہی تمام مذہبی تاریخِ عالَم بیان کردی اور سب تاریخوں پر روشنی ڈال دی۔ اب اگر ایک عیسائی یا ہندو چین جا تا ہے اور وہاں کنفیوشس کا ذکر سُنتا ہے تو وہ اپنی کتاب کے بچائو کی فکر میں پڑجا تا ہے کیونکہ اس نے انجیل اور وید میں پڑھا ہو تا ہے کہ خدا صرف عیسائیوں اور ہندوئوں کا خدا ہے باقی قوموں کا خدا نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان غیر قوموں میں جا تا ہے اور وہاں اُن کے ہادیوں کا ذکر سُنتا ہے تو بجائے کوئی فکر کرنے کے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری کتاب کی سچائی ظاہر ہوگئی۔ مجھے تاریخِ عالَممیںتلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی خود اِن قوموں نے میرے سامنے اپنے ہادی پیش کردیئے اور میری کتاب کی سچائی ظاہر کردی۔ چین والے کنفیوشس کو پیش کرتے ہیں، برما اور سیلون والے بدھ علیہ السلام کو پیش کرتے ہیں تو ہندوکو فکر پڑجاتی ہے، عیسائی کو فکر پڑجا تی ہے، یہودی کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ کیاہؤا ہمیں تو بڑی مشکل پیش آگئی۔ لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں جا تا ہے اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اُس کے سامنے کنفیوشس کا نام پیش کیا جا تاہے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ اُس کے سامنے زرتشت کانام پیش کیا جا تا ہے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ کرشنؑ کا نام آتا ہے تو کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ رام چندرجی کا نام آتاہے تو کہتاہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۔ بدھؑ کانام آتا ہے تو کہتاہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ کیو نکہ وہ سمجھتاہے میری کتاب میں یہی لکھا ہے کہ ہر قوم میںہادی آئے ہیں مجھے کوئی تلاش نہیں کرنی پڑی۔ ہندوئوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر کرشنؑ اور رامچندرجی وغیرہ آئے ہیں، بُدھوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر بدھ گزر ے ہیں،عیسائیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں، یہودیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر موسٰی علیہ السلام گزرے ہیں، یونانیوں نے آپ ہی پیش کردیا ہے کہ ہمارے اندر سقراط گزراہے۔
سقراطؑ بھی خداتعالیٰ کا ایک نبی تھا
عام طور پر یہ خیا ل کیا جاتاہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گویہ ہمارا کام نہیں کہ ہم
وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ اُس وقت کی حکومت نے جو بُت پر ست تھی اُس کے قتل کی تاریخ مقررکردی اُس کے ایک شاگرد نے یہ پیشکش کی کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیںتو سقراط نے جواب دیا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا ہے کہ تیری موت اِس طرح واقع ہوگی۔ مَیں اِس موت سے کِس طرح بھاگ سکتاہوں۔۱۹؎
مذہبی تاریخ کے سِلسلہ میںقرآن کریم کا ایک عظیم الشان انکشاف
پھر مذہبی تاریخ کے
ضمن میں قرآن کریم نے یہ عظیم الشان انکشاف کیا کہ سمندر میں ڈوبتے وقت فرعون نے توبہ کرلی تھی اور وہ حضرت موسٰی اور حضرت ہارون علیہما السلام کے ربّ پر ایمان لے آیا تھا اور یہ کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ کہا تھاکہ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَ نِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً۔۲۰؎
یعنی تُو بہت آخری وقت میں ایمان لایا ہے اگر تُو پہلے ایمان لا تا تو ہم تیرے جسم اور روح دونوں کو بچالیتے مگر تُو چونکہ ڈوبتے وقت ایمان لایا ہے اسلئے ہم اس وقت تجھ پر یہ احسان تو نہیں کرسکتے کہ ہم تیری رُوح کو بچائیں کیونکہ موت کے وقت تیرا ایمان لانا کافی نہیں اب ہم تجھ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے جسم کو بچالیا جائے گا تا تیرا نشان قائم رہے اور خداتعالیٰ کی قدرت کو ظاہر کرتارہے۔ چنانچہ اب انیسویں صدی میں آثارِ قدیمہ کی تحقیق کرنے والوں کو فرعون کی لاش مِل گئی ہے اور اُسے مصر کے عجائب گھر میں مَیں نے خود دیکھا ہے۔ بعد میں اِس لاش کو لنڈن لے جایا گیا تھا لیکن اب سُنا ہے کہ پھر مصر آگئی ہے۔ پس یہ زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ قرآن کریم میں جو تاریخِ عالَم پائی جاتی ہے دنیا کی کوئی تاریخ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بائیبل کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے وقت کی تاریخ بیان کرتی ہے لیکن وہ فرعون کے جسم کے بچائے جانے کے متعلق بالکل خاموش ہے مگر قرآن کریم جو موسیٰ علیہ السلام کے دوہزار سال بعد آیا ان واقعات کو بیان کرتاہے جو بائیبل میں مذکور نہیں اور تاریخ ان واقعات کی تصدیق کرتی ہے یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والا وہ خدا ہے جس سے زمین وآسمان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں۔
قرآن کریم میں بعض قدیم اقوام کی تاریخ کا ذکر
پھر قرآن کریم میں انبیاء کی تاریخ کے علاوہ قوموںکی تاریخ
بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ عادؔ قوم کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍج اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ۔۲۱؎
کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے ربّ نے عاد سے کیا معاملہ کیا تھا یعنی عادِارمؔ سے جو بڑی بڑی عمارتوں والے تھے اور جن کی مانند کوئی قوم ان ملکوں میںپیدا ہی نہیں کی گئی تھی۔
اِس آیت میں قومِ عاد کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ بڑے بڑے محلّات بناتی تھی جن کو ستونوں پر کھڑا کیاجاتا تھا۔ چنانچہ ’’بعل‘‘انہی لوگوں کا دیوتا تھا اور ’’بعلبک‘‘انہی لوگوں کا بسایا ہؤا شہر تھا جو لبنان کی سرحد پر واقع ہے۔ میں۱۹۵۵ء میں جب بیمار ہؤا اور لنڈن گیا تو چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے ساتھ بعلبکؔ بھی گیاتھا۔ جرجی زیدان جو بڑا سخت عیسائی مؤرخ ہے وہ بھی اپنی کتاب ’’العرب قبل الا سلام‘‘ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ عاد قوم کے متعلق تاریخ کی سینکڑوں صفحات کی کتابیں اِس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کرسکیں جتنے معلومات قرآن کریم نے چند الفاظ میں بیان کر دئیے ہیں۔ مَیں نے خود عادؔ قوم کا بعلبکؔ میں محل دیکھا جو ایک سَو پچاس ستونوں پر بنا ہؤا ہے او راُن ستونوں پر کئی بڑ ے بڑے کمرے اور برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ اور قرآن کریم نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ ستونوں پر اپنی عمارتیں کھڑا کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے اُن دنوں فنِ تعمیر اپنے عروج پر تھا۔ گویا قرآن کریم میں علمِ تاریخ کے علا وہ علمِ تعمیر بھی آگیا۔ اِسی طرح قومِ ثمود کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَنّہٗٓ اَھْلَکَ عَادَا نِِ الْاُ وْلٰیج وَثَمُوْدَاx فَمَآ اَبْقٰی۲۲؎
یعنی اُس خدا نے پہلی عاد قوم کو ہلا ک کیا تھا اور پھر ان کے بعد ثمود کو بھی اُس نے ہلاک کیا اور عذاب نے ان کا کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ثمود، عاد قوم میںسے نکلے تھے۔ چنانچہ نئے آثار جو اَب اردنؔ میں پائے گئے ہیں وہ ثمود کے ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ آثار کسی متمدن قوم کے ہی ہیں۔ پس تاریخِ عالَم کو بھی قرآن کریم نے اپنے اندر خلاصۃً بیان کردیاہے۔
نیچرل ہسٹری پر قرآن کریم کی روشنی
اِسی طرح دنیا میں ایک علم نیچرل ہسٹری (NATURAL HISTORY) کاپایا جاتا
ہے۔ جس کے ماتحت شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں وغیرہ کے متعلق بڑی وسیع تحقیق کی گئی ہے۔ اس علم پر قرآن کریم نے بھی روشنی ڈالی ہے۔ اور شہد کی مکھی کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم نے خود اس کے ظرف کے مطابق اس کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں یا درختوں یا عرشوں پر اپنا گھر بنا اور پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے تھوڑا تھوڑا لے کر کھا اور لوگوں کے لئے شہد تیا ر کراِسی طرح اللہ تعالیٰ نے بتا یا کہ شہد کی مکّھیاں بھی مختلف قسم کی ہیں۔ اُن میں سے بعض پہاڑوں میں چھتّے بناتی ہیں، بعض درختوں پر چھتّے بناتی ہیں اور بعض عرشوں پر جو انگوروں وغیرہ کے لئے تیار کئے جا تے ہیں چھتّے بناتی ہیں۔۲۳؎ اور پھر مکھی اُس استعدادِ باطنی سے کام لے کر جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں وغیرہ سے غذاء حاصل کرتی اور شہد تیا ر کرتی ہے جو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کا ہو تاہے مگر باوجود مختلف اقسام ہونے کے ان سب میں یہ بات مشترک طورپائی جاتی ہے کہ شہد لو گوں کے لئے شفاء کا موجب ہوتاہے اور مختلف قسم کے امراض کو دُور کرنے کے کام آتا ہے۔۲۴؎
علمِ نباتات کے متعلق قرآن کریم کا ایک اہم انکشاف
اِسی طرح علمِ نباتات بھی ایک علم ہے جس پر
ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ قرآن کریم نے اِس علم کے متعلق سب سے پہلے یہ انکشاف فرمایا کہ تمام نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ مبَھِیْجٍ۔۲۵؎ ہم نے زمین میں ہر قسم کے خوبصورت جوڑے اُگائے ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ہے تو عربوں میں صرف اتنا علم پایا جاتا تھا کہ کھجور میں نر ومادہ ہوتا ہے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہؤا انہیں اتنا علم بھی نہیں تھا۔ چنا نچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے گزرے تو آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتوں میں کا م کر رہے ہیں اور وہ ایک جگہ سے کوئی چیز لا تے ہیں او ردوسری پر لگا دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا،یَارَسُوْلَاللّٰہ ! ہم نر کھجور کا مادہ کھجور سے پیوند کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اِس کا کیا فائدہ جو پھل لگنا ہے وہ توآپ ہی لگ جا ئے گا۔ انہوں نے یہ بات سُن کر نر اور مادہ درختوں کو آپس میں ملا نا ترک کردیا۔ دوسرے سال وہ لوگ آپؐ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا ۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہماری فصل تو بہت کم ہوئی ہے کیو نکہ ہم آپؐ کے کہنے پر پیوند لگانے سے رُک گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا تم کیوں رُک گئے تھے؟ مَیں تو ایک انسان ہوں اور مجھے علمِ غیب حاصل نہیں۔ اگر تمہارے تجربہ سے یہ بات ثابت تھی توتم نے میری بات نہیں ماننی تھی۔۲۶؎
پھر قرآن کریم نے صرف نباتات کے نرومادہ ہونے کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا۔ وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔۲۷؎
ہم نے ہر چیز کے نر ومادہ بنائے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اب انسان کے نرومادہ کا تو سب کو علم ہے، جا نوروں کے نرومادہ کا بھی علم ہے، زراعت کے متعلق بھی اب بہت حد تک پتہ لگ گیا ہے کہ درختوں اور نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر یہ قانون بتایا جاتاہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیاں پالنی چاہیئں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی نر کا پُھول لے کر مادہ کے پُھول سے ملادیتی ہے۔ او راس کے نتیجہ میں پھل زیادہ ہوتاہے۔ ہمارے علاقہ میں تو اس کا رواج کم ہے لیکن پشاور کی طرف چلے جائو تو بڑے بڑے خاندانوں نے اپنے باغات میں شہد کی مکھیاںپالی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں باغ زیادہ لگائے جاتے ہیں اور اُن میں پھل زیادہ آتا ہے بلکہ تازہ سائنٹیفک تحقیقات سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ جمادات میں بھی بعض قسمیں ایسی ہیں جن میں نر ومادہ کاوجود پایا جا تاہے۔ چنانچہ بعض سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ ٹین۲۸؎ میں بھی نرومادہ پایا جا تاہے۔
مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ
پھر نیچرل ہسٹری والے بیان کرتے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے۔ چنانچہ ڈارون نے اِس تھیوری
کو پیش کیا کہ پہلے دنیامیں چھوٹے جانور بنے۔ پھر اُس سے بڑے جانور بنے اور پھر اُن جانوروں میں سے کسی جا نو ر سے ترقی کر کے انسان بنا مگروہ جانور جس سے انسان بنا اب ملتا نہیں، ہاں اتنا پتہ چلتاہے کہ اس جانور کی اعلیٰ قسم بندر ہے۔ گویا اس کے نزدیک انسانی ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہؤا ہے مگر بعض دوسرے محقّقین کہتے ہیں کہ گو انسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا او راُسی وقت سے آزادانہ ترقی کر رہاہے۔ چونکہ دنیا اس بارہ میں صحیح علم کی سخت محتاج تھی اِس لئے قرآنی کتب خانہ نے اس اہم موضوع کے متعلق بھی روشنی ڈالی اور فرمایاکہمَالَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًاoوَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا ۲۹؎
یعنی اے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا کہ تم خداتعالیٰ کے متعلق وقار کا خیا ل نہیں رکھتے۔ وقار کے معنے عام طور پر سنجیدگی کے سمجھے جا تے ہیں حالانکہ وقار کے معنے ہوتے ہیں حکمت کے ساتھ کام کرنا پس مَا لَکُمْ لَاتَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًاکے یہ معنے ہیں کہ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خداتعالیٰ کے متعلق یہ خیا ل کرتے ہوکہ وہ یو نہی بغیر حکمت کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ ہر کام حکمت کے ساتھ کرتا ہے وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے تم کو درجہ بدرجہ مختلف تبدیلیوں میںسے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری پیدائش میں کوئی نقص نہ رہے اگر وہ بغیر کسی حکمت کے کام کرتا تو مختلف دَوروں میں سے وہ انسان کو کیوں گزارتا۔ وہ اُسے یکدم پیدا کردیتا مگر اُس نے انسان کو یکدم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دَوروں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیاہے۔ کبھی اُس پر عدم کا دَور تھا، کبھی وہ ایک وجود توتھا مگر بغیر دماغ کے، کبھی نُطفہ سے اُس کی پیدائش ہونے لگی اور پھر آخر میں اُس پر وہ دَور آیا جبکہ اُس کا دماغ کامل ہو گیا اور وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے لگ گیا۔
قرآنی کتب خانہ میں زمین وآسمان کی پیدائش کا ذکر
پھر قرآن کریم زمین وآسمان کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے
اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰـھُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمِائِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ۔۳۰؎
یعنی کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اب جو سورج چاند اورزمین الگ الگ ہے پہلے ایک وجود کی شکل میں الگ الگ جُڑے ہوئے تھے، پھر علیٰحدہ علیٰحدہ کردئیے گئے اور سورج چاند اور زمین بن گئے اور یہی حقیقت آجکل کے سائنسدان پیش کرتے ہیں۔
قرآنی کتب خانہ میں نظام ہا ئے شمسی کا ذکر
اِسی طرح پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف ایک نظامِ شمسیکام کر
رہاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ۔ ۳۱؎
یعنی اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں اور زمینیں بھی آسمانوں کے عدد کے مطابق پیداکی ہیں۔ عربی میں سَبْعََ کا لفظ مبالغہ کے لئے استعمال ہو تا ہے۔ پس اِس لفظ کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ بہت سے آسمان اور زمینیں پیدا کی گئیں ضروری نہیں کہ وہ سات ہی ہوں۔
تاریخِ انبیاء اور قرآن کریم
اَب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں تاریخِ انبیاء بھی بیان کی گئی ہے اور تمام انبیاء کو ان الزامات سے
پاک قراردیاگیا ہے جو مختلف قوموں نے اُن پر عائد کئے۔
حضرت لُوط علیہ السلام پر بائیبل کا گنداالزام
مثلاً بائیبل میں حضرت لُوط علیہ السلام کے متعلق آتا ہے:-
’’اور لوط ضُغر سے اپنی دونوں بیٹیوں سمیت نکل کر پہاڑ پر جا رہا کیونکہ ضُغر میں رہنے سے اُسے دہشت ہوئی۔ اور وہ اور اُس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگیں۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہاکہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پرکوئی مرد نہیں جو تمام جہاں کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آئے۔آئو ہم اپنے باپ کو مَے پلائیں اور اُس سے ہم بستر ہوں تا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سوانہوں نے اُسی رات اپنے باپ کومَے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی۔ پر اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا۔ اور دوسرے روز ایساہؤا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات کو مَیںاپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آئو آج رات بھی اُسکو مَے پلائیں اور تُو بھی جا کے اُس سے ہم بستر ہو کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اُس رات کو بھی انہوں نے اپنے باپ کو مَے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اس سے ہم بستر ہوئی او راُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا۔ سو لُوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی ایک بیٹا جنی اور اُس کا نام موآبؔ رکھّا وہ موابیوں کا جو اب تک ہیں باپ ہوا اور چھوٹی بھی ایک بیٹا جنی اور اس کانام بنیؔ عمی رکھا۔‘‘۳۲؎
قرآن کریم کا اعلانِ بریت
یہ وہ گندی تاریخ ہے جو دُنیا کے کُتب خانوں نے پیش کی اور جسے پڑھ کر شریف انسان کا دل لرزنے لگ جاتا ہے مگر
جب قرآنی کتب خانہ کو دیکھا جائے تو ہمیں اس میں یہ لکھا ہؤا نظر آتا ہے وَلُوْطاً اٰتیْنٰـہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰـہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰـئِثَ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْئٍ فٰسِقِیْنَo وَاَدْخَلْنٰـہُ فِیْ رَحْمَتِنَاط اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔۳۳؎
یعنی ہم نے لُوطؑ کو حکم دیااور علم بھی اور ہم نے اُس کو ایسی بستی سے نجات دی جو نہایت ہی گندے کام کرتی تھی گویا بائیبل تو کہتی ہے کہ اپنی بستی سے نکل کر خود لُوط علیہ السلام نے ہی گندے کام کرنے شروع کردیئے تھے او ر قرآن کریم کہتا ہے کہ لُوطؑکی قوم فسق وفجور میں مبتلاء تھی لُوطؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا تھا اور وہ ہمارے نیک بندوں میں سے تھا۔ اِس طرح قرآن کریم نے تاریخِ انبیا ء بھی بیان کردی اور بائیبل میں جو جھوٹی باتیں داخل ہوگئی تھیں اُن کا بھی ردّکردیا۔ ہاں قرآن کریم نے حضرت لُوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عذاب کا شکار ہو گئی تھی چنانچہ فرماتا ہے فَنَجَّیْنٰـہُ وَاَھْلَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ ۳۴؎
یعنی ہم نے لُوطؑ کو اور اُس کے تمام اہل کو بچا لیا تھا سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو غابرین سے تھی۔ غبر کے معنی عربی زبان میںحقد یعنی کینہ کے ہوتے ہیں۔۳۵؎ پس یہ لفظ استعمال کرکے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی میں بڑھیا ہونے کے باوجود ناجائز شر باقی تھا اور وہ آپ کے متعلق کینہ اور بُغض رکھتی تھی۔ اس کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو حضرت لوط علیہ السلام کے مخالف تھے اِس لئے وہ عذاب سے نہ بچائی گئی۔ اب دیکھو! حضرت لوط علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں لیکن قرآن کریم اُن کی براء ت کرتا ہے۔ گویا داداتو وہ کسی اَور قوم کا ہے لیکن اُس کی طرف سے لڑائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کررہے ہیں۔ حضرت لُوطؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور عرب اپنے آپ کو حضرت اسماعیل ؑ کی نسل قرار دیتے تھے۔حضرت لُوطؑ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہودی قوم کا حضرت لوط علیہ السلام سے قریبی رشتہ ہے مگر انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام پر الزام لگادیا اور کہا وہ بد کا ر تھا لیکن قرآن کریم نے کہا کہ حضرت لوط علیہ السلام ایک بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے اور اُن پر یہ محض جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
حضرت دائود علیہ السلام کی عزّت کی حفاظت
پھر قرآن کریم نے حضرت دائود علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت
کی تھی۔آپ پر بھی بائیبل یہ نہایت گندہ الزام لگا تی ہے کہ آپ نے(نَعُوْذبِاللّٰہ)اوریاہؔ کی بیوی کے ساتھ زنا کیا اور اوریاہؔ کو جنگ میں بھجوا کر مروادیا اور پھر اس سے شادی کرلی چنانچہ اس میں لکھا ہے:-
’’ایک دن شام کو ایسا ہؤا کہ دائود اپنے بچھونے پر سے اُٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگااور وہاں سے اُس نے ایک عورت کو دیکھاجو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہا یت خوبصورت تھی تب دائود نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے۔ انہوں نے کہا۔کیاوہ العام کی بیٹی بنت سبع حتی اُوریاہ کی جورونہیں؟ اور دائود نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بُلا لیا چنانچہ وہ اس کے پاس آئی او روہ اُس سے ہم بستر ہؤا۔‘‘۳۶؎
لیکن قرآن کریم نے بائیبل کے اِس الزام کی تردید کی ہے اور حضرت دائود علیہ السلام کو نیک اور خدا تعالیٰ کا پاک بندہ قرار دیا ہے چنا نچہ فرماتاہے وَاذْکُرْعَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَاالْاَیْدِ ج اِنَّـہٗٓ اَوَّابٌ۳۷؎ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ۳۸؎
یعنی ہمارے بندے دائود ؑ کو یاد کرو۔ جو بڑی طاقت کا مالک تھا۔ اور خداتعالیٰ کی طرف باربار جھکتا تھا۔ وہ ہمارا مقرب تھا اور اُسے ہمارے پاس بڑا اچھا ٹھکانہ ملے گا۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیا را بندہ ایسے ظالمانہ افعال کا مرتکب نہیں ہو سکتا جو بائیبل بیان کرتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بائیبل جس طرح یہودیوں کے ہا تھ میں ہے اسی طرح عیسائیوں کے ہا تھ میں ہے اور انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام حضرت عیسیٰ ؑ کے دادا تھے گویا جس کو وہ خدا مانتے ہیں اُس کے دادا کو وہ زانی کہتے ہیں لیکن قرآن کریم جو حضرت مسیح علیہٰ السلام کی خدائی کا منکر ہے اور جس کے متعلق عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا دشمن ہے وہ کہتا ہے کہ داودؑ کے متعلق ایسے الزامات مت لگائو وہ تو خدا تعالیٰ کا ایک نیک اور مقرب بندہ تھا۔
حضرت سلیما ن علیہ السلام پر بائیبل کے الزامات
اِسی طرح بائیبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ:-
’’جب سلیمان بوڑھا ہؤا تو اُس کی جورئوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا جیسا اس کے باپ دائود کادل تھا۔‘‘ ۳۹؎
پھر لکھا ہے کہ:-
’’اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے جو اُسے دوبار دکھائی دیا برگشتہ ہؤا۔ اسلئے خداوند سلیمان پر غضبناک ہؤاکہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے خداوند کے حُکم کو یا د نہ رکھا۔‘‘۴۰؎
گویا بائیبل حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اپنے خدا سے برگشتہ ہوگئے تھے اور ا س طرح انہوں نے کفر کیا تھا۔
قرآن کریم کی تردید
لیکن قرآن کریم فرماتاہے کہ جب ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بُلانے پراُن کے پاس آئی تو حضرت سلیمانؑ نے اُسے
غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا۴۱؎ گویا قرآن تویہ کہتا ہے کہ ملکہ سباجو اُن کی آخری بیوی تھی اُسے بھی انہوں نے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا لیکن بائیبل کہتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے کہنے پر خدا وند تعالیٰ سے برگشتہ ہو گئے تھے یہ کتنا بڑا فرق ہے جو بائیبل اور قرآن میں پایا جا تاہے۔
اِسی طرح قرآن کریم حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرماتاہے وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنَّ الشَّیٰـطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ۔۴۲؎
یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بُت پرستی کی تھی اور وہ کافر ہوگئے تھے وہ غلط کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ایسا الزام لگا نے والے خود کا فر ہیں کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے نبی پر اتنا بڑا اتہام لگا تے ہیں۔ پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی صحیح تاریخ بیان کردی ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادانہیںتھے بلکہ حضرت دائود ؑ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے دادا تھے۔ یا بائیبل میں اُنکا صحیفہ شامل ہونے کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے بزرگ تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے لیکن قرآن کریم اُن کی عزّت کی حفاظت کرتا ہے اور خود اُن کے اپنے پوتے پڑپوتے انہیں خداتعالیٰ سے برگشتہ اور بُت پرست قرار دیتے ہیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام پر بائیبل کے الزامات
پھر قرآن کریم نے حضرت ہارون علیہ السلام کی عزّت
کی بھی حفاظت کی۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام طُور پہاڑ پر تشریف لے گئے اور اُن کے بعد اُن کی قوم نے بچھڑا بنا لیا تو حضرت ہا رون علیہ السلام بھی اُن کے اِس فعل میں اُن کے ساتھ شریک ہوگئے تھے چنانچہ لکھا ہے:-
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اُس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لئے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مردِ موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لا یا کیا ہوگیا ۔ ہارون نے اُن سے کہا۔ تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں اُن کو اُتار کر میرے پاس لے آئو۔ چنا نچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتاراُتارکر اُن کو ہارون کے پاس لے آئے اور اُس نے اُن کو ان کے ہا تھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہؤا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے۔ اے اسرائیل! یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو مُلکِ مصر سے نکال کر لایا ۔‘‘۴۳؎
غرض بائیبل کہتی ہے کہ جب حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ سے آنے میں دیر ہو گئی تو اُنکی قوم حضرت ہارون ؑ کے پاس گئی اور کہا کہ موسٰی ؑ ہمیں خدا کی باتیں سُنایا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں وہ کہا ں چلا گیا ہے اب ہم خدا کے بغیر رہ گئے ہیں۔ تو اُٹھ اور ہمارے لئے خدا بنا جو ہمارے آگے آگے چلے۔
یہودیوں کی ایک قدیم رسم
ہندوئوں کی طرح اُن میں بھی ایک رواج تھاکہ جب وہ کہیں جاتے تو بُت سامنے رکھ لیتے۔ مَیں نے خود دیکھا ہے
میرے ماموں میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کی شادی تھی اُنکے ُخسر سکندر رائو میں رہتے تھے، مَیں بھی شادی میں اُن کے ساتھ گیا تھا۔ وہاں ہندوئوں کا کوئی جلوس نکل رہا تھا مَیں نے دیکھا کہ ہندوئوں نے ایک رتھ میں بُت رکھا ہؤا ہے اور سب لوگ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ یہودی بھی چُونکہ بُت پرست قوم سے نکل کر آئے تھے اس لئے اُن میں بھی غالباً یہی دستور تھا کہ وہ بُت کو چلتے وقت آگے آگے رکھتے تھے اور اِس طرح خیال کرتے تھے کہ اُن پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیر ہوئی تو بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل حضرت ہا رون علیہ السلام کے پاس گئے اور انہوں نے سونے کا ایک بچھٹر ا ڈھا ل کر بنایا اور کہا۔ اے بنی اسرائیل! یہی تمہا را خدا ہے جو تمہیںمصر سے نکال کرلا یا تھا۔ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ حالانکہ حضرت ہا رون علیہ السلام خداتعالیٰ کے نبی تھے اور وہ اتنا بڑا شرک کر ہی نہیں سکتے تھے۔ پھر وہ اِس بات کو بھی جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تھے تو آپ نے فرعون سے بحث کی تھی کہ مَیں اپنی قوم کو بتوں کی پر ستش سے ہٹا کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف لانا چاہتا ہوں۔ اتنے بڑے واقعہ کی موجودگی میں وہ یہ کہہ بھی کِس طرح سکتے تھے کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں ملک مصر سے نکال کر لا یا تھا۔
بچھڑ ے کیلئے قربان گاہ بنانا
پھر لکھا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور انہیں کہا کہ یہ بچھڑاہی
تمہا را خدا ہے۔ بائیبل کے الفاظ اِس بارہ میں یہ ہیں:-
’’یہ دیکھ کر ہا رون نے اُس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ کَل خداوند کے لئے عید ہوگی۔ اور دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرانیں پھر اُن لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھ کر کھیل ُکود میں لگ گئے۔‘‘ ۴۴؎
قرآن کریم کا اعلان کہ بچھڑا سامری نے بنایا تھا
گویا انہوں نے خداتعالیٰ کے دوبارہ مل جانے پر بڑی
خوشی منائی لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ بات بالکل غلط ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑا بنایا تھا۔ وہ ہارون ؑ نے نہیں بلکہ سامریؔ نے بنایا تھا ورنہ ہارون علیہ السلام نے تو بڑے زور سے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا اور توحید پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی۔ چنا نچہ قرآن کریم میں آتاہے۔ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰـقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ ج وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَا تَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْآ اَمْرِیْ۴۵؎
یعنی حضرت ہارون ؑنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے قبل اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! بچھڑے کے ذریعہ تمہیں آزمائش میں ڈالا گیاہے۔ اگر حضرت ہارون علیہ السلام نے خود بچھڑا بنایا ہوتا تو ایسا کیو ں کہتے؟ انہوں نے کہا اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْآ اَمْرِیْ
تمہا ر ا ربّ رحمن ہے۔ اِس بچھڑے نے تمہا ری کیا مدد کرنی ہے وہ تو پیدائش سے پہلے بھی تمہاری مدد کرتا رہا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو انسان بعد میں پیدا ہؤاہے اور پانی پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ اِسی طرح اور ہزاروں اشیاء ہیں جو پیدائش سے پہلے صفتِ رحمانیت کے ماتحت پیدا ہوچکی تھیں پس تم میری اتباع کرو میرے حکم کے پیچھے چلو، شرک مت کرو۔
انسا ئیکلو پیڈیا برٹینیکاکا اعترافِ حقیقت
قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جس کو انگلستان
کے بڑے بڑے عالموں نے مِل کر لکھا ہے اُس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے شرک کرنے کا واقعہ غلط ہے اور اِس سے مضمون نگا ر استدلال کرتا ہے کہ بائیبل میں دوسرے لوگوں نے اَور بھی کئی باتیں ملادی ہیں اور کئی واقعات اُن کی طرف سے بڑھا دیئے گئے ہیں۔۴۶؎
اَب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم ایک تاریخ بیان کرتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے باپ کو بَری قرار دیتا ہے حالانکہ وہ عیسائی اور یہودی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) کذّاب کہتے ہیں۔ غرض قرآن کریم ایک گالی دینے والے کے باپ کی براء ت کرتا ہے اور کہتاہے کہ وہ مشرک نہیں تھا مشرک ایک اَور شخص تھا جس کا نام سامری تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ
پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ بھی قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ انجیل میں تو صرف اتنا آتا ہے کہ:-
’’مسیح اُن کے دیکھتے ہوئے اوپر اُٹھا یا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چُھپا لیا۔‘‘۴۷؎
مگر کیابدلی کے پیچھے چلے جانے سے مراد آسمان پر چلے جانا ہوتا ہے؟ ہزاروں آدمی روزانہ پہاڑوں پر بدلی کے پیچھے جا تے اور پھر واپس آجاتے ہیں اور کوئی شخص اُن کے متعلق نہیں کہتا کہ وہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ غرض یہ ایک نہایت ہی غیر معقول بات ہے جو انجیل نے بیان کی ہے مگر قرآن کریم اِس سارے واقعہ کو ایک علمی اور تاریخی رنگ دیتا ہے اور اُن کے بدلی میں نظروں سے غائب ہونے کے بعد کی تاریخ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ فرماتاہے وَاٰوَیْنٰـھُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍوَّ مَعِیْنٍ۴۸؎
یعنی واقعۂ صلیب کے بعد ہم نے حضرت مسیحؑاور اُس کی ماں کو ایک اونچی جگہ یعنی پلیٹیو(PLATEAU)پر پنا ہ دی۔ ربوہ سے مراد پہاڑی نہیں بلکہ اونچی جگہ ہے۔ ہم نے ربوہ ؔ کا نام بھی جو احمدیت کا موجودہ مرکز اور ضلع جھنگ میں واقع ہے اِسی لئے ربوہ رکھا ہے کہ یہ اونچی جگہ ہے۔ غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ ہم نے مسیحؑ اور اُس کی ماں کو ایک ایسی جگہ پناہ دی جو اونچی تھی اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی اور ٹھہر نے کے قابل تھی یعنی وہ جگہ سطح زمین سے بلند تھی اور وہاں چشمے بھی بہتے تھے۔ چنانچہ قدیم ہندوئوں اور بدھوں کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ یوز آسف جو خدا تعالیٰ کانبی تھا مغرب سے آیا اور کشمیر کی پہاڑیوں میں رہا اوراُس کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا یا گیا تو آپ کے ہاتھوں اور پائوں پرمیخیںلگانے کی وجہ سے زخم ہوگئے تھے جن کو مُندمل کرنے کے لئے ایک مرہم ایجاد کی گئی۔ جس کا بام طب کی مختلف کتابوں میں مرہمِ رُسُل یا مرہمِ حواریین بیان کیا گیاہے۔ پھر کہیں جا کر وہ زخم درست ہوئے اِس کے بعد آپ کشمیر کی طرف آگئے۔ چنانچہ افغانستان کے بارڈر پر جو قبائل بستے ہیںوہ اب تک یہی کہتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں گویا مسیح کے حواری۔ متی نے انجیل میں ایک نامکمل بات بیان کردی۔ لیکن قرآن کریم نے اُن حالات کو مکمل کردیااور بتادیا کہ صرف اِتنی بات نہیں کہ وہ واقعۂ صلیب کے بعد بدلیوں میں چُھپ کرغائب ہوگئے تھے بلکہ صلیب سے بچنے کے بعد وہ کشمیر میں آگئے تھے اور اسرائیلی قبائل کو ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کرتے رہے۔
تاریخِ مِلَلِ قدیمہ
پھر دنیا میں تاریخِ مِللِ قدیمہ پر بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بہت کچھ رطب ویابس بھر ا پڑا ہے مگر قرآن کریم اس تاریخ کو
بھی صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی مثال کے طور پر و ہ یہ بیان کرتا ہے کہ فرعونؔ نے ایک دفعہ ہامانؔ سے کہا کہ فَاَوْقِدْلِیْ یٰھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ۴۹؎
یعنی اے ہارون! تُو اپنے پتھیروں کولگا دے تاکہ وہ اینٹیں تیا ر کریں، پھر اُن اینٹوں کو پکوا کر اونچا محل تیا رکرو شاید مَیں اُس محل پر کھڑے ہو کر موسٰی ؑ کے خدا کو دیکھ سکوں اور مَیں تو اُسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں۔
اِس آیت میں مصریوں کے ایک قومی عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ یہ خیا ل کرتے تھے کہ مرنے کے بعد رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور پھر اونچی جگہ پر اُترتی ہیں۔ اِس اثر کے ماتحت فرعون نے خیال کیا کہ خدا تو ہے ہی نہیں۔ موسٰی ؑ جو کہتا ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روحوں سے باتیں کرتا ہے۔ مَیں بھی ایک اونچا محل تیا ر کر کے اُن رُوحوں تک جائوں تا حقیقت کا پتہ لگ سکے۔ چنانچہ اُس نے ہا مان کو حکم دیا کہ وہ ایک اونچا محل تیا ر کرائے تا کہ وہ اُس کی چوٹی پر چڑھ کر موسٰی ؑ کے خدا کی حقیقت معلوم کرسکے۔ غرض اس آیت میں مصریوں کے ایک قدیم عقیدہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کو بڑی مشکل سے اب کہیں آثارِ قدیمہ والوں نے معلوم کیاہے۔ مصری اپنی اِن روایات کی وجہ سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے جیسے اہرامِ مصر ہیں اور جن میںسے ایک ابوالہول شیر کی شکل کاہے۔ آخر ان بلند عمارتوں کے بنانے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ وہ وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مُردوں کی رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور بعد میں اونچی جگہوں پر اُترتی ہیں اور چونکہ نیچی جگہوں میں اُترنے میں دیر لگتی ہے اس لئے وہ لو گ اپنی عمارتوں کو اونچا رکھتے تھے اور اس طرح چاہتے تھے کہ اُن کے اَسلاف کی روحیں دُنیا میں اُن کے پاس آتی رہیں۔ پھر وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ رُوحیں کھاتی پیتی ہیں۔ چنانچہ جب وہ مُردوں کو دفن کرتے تھے تو اُ ن کی قبروں کے پاس کھا نے پینے کا سامان بھی رکھتے تھے اور خیا ل کرتے تھے کہ جب روحیں زمین پر آتی ہیں تو انہیں یہاں آرام بھی کرنا چاہئے او رسونا بھی چاہئے اور یہ روایت اب تک اُن میں چلی آتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کا ایک ایمبیسیڈر(AMBASSADOR) وہاں گیا تھا۔ اُس نے ہمارے ایک دوست سے بیان کیا کہ مصر میں ہماری ایمبیسی (EMBASSY)کا ایک آدمی مرگیا۔ ہم نے مصری حکومت کو لکھا کہ ہمیں ایک قبر کی جگہ دیدیں تو مصری حکومت نے کہا ہم ذرا انتظام کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک بڑا کمرہ بنایا اُس میں کھانے پینے کا سامان رکھا اور ایک ریڈیو رکھا اور پھر کہا اَب آپ اپنے آدمی کی نعش کو دفن کرنے کے لئے آئیں۔ وہ ایمبیسیڈر ہنس کر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے ابھی تک مصریوں پر رُوحوں کا قبضہ ہے۔
قرآن کریم میں تربیت کے اصول
پھر تربیت کا مضمون ایسا ہے جس پر بڑے بڑے علماء اور فلاسفروں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں
کیونکہ تربیت کے بغیر دنیا میں نہ اولاد ترقی کر سکتی ہے اور نہ قوم ترقی کر سکتی ہے۔ قرآن کریم نے بھی تربیت کے اصول نہایت عمدگی سے بیان کئے ہیں۔ چنا نچہ سب سے پہلے اولادکی تربیت کا سوال آتا ہے اولاد کی تربیت کے متعلق قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ آتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ اِس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو حکم نہیں دیا کہ مَیں نے خواب میں یوں دیکھا ہے اِس لئے تم ذبح ہونے کے لئے تیار ہو جا ئو بلکہ آپ نے اپنے بیٹے کو بُلایا اور کہا اے میرے بیٹے! مَیں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۵۰؎ اَب تُو سوچ کر مجھے اپنی رائے دے۔یہ نہیں کہا کہ مجھے خواب آئی ہے تُو لیٹ جا تاکہ مَیں تجھے ذبح کروںبلکہ فرمایا کہ تو مجھے اپنی رائے دے۔ اِس سے معلوم ہو تا ہے کہ اولاد کے اندر خود داری کی رُوح پید ا کرنا قرآنی اصول ہے۔ جو لوگ اپنی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح پیدا نہیں کرتے وہ اپنی اولاد کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ترقی سے روک دیتے ہیں کیونکہ قوم کی آئندہ ترقی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح قائم رکھنے پر منحصر ہے۔ ڈسپلن (DISCIPLINE)پید اکرنا اور چیز ہے لیکن خودداری کی رُوح بالکل اَور چیز ہے۔ خودداری کے نہ ہونے کے یہ معنے ہیں کہ فطرت کو ماردیا گیا ہے۔ اور ڈسپلن کے معنی یہ ہیں کہ خودداری کو منظم کیا جائے۔ اور اسلام ڈسپلن کے خلاف نہیں وہ یہ چاہتاہے کہ ڈسپلن قائم کیا جائے مگر و ہ اِس بات کے خلاف ہے کہ خودداری کی رُوح کو ُکچل دیا جائے۔ اگر خودداری کی رُوح کو کُچل دیا جائے تو قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس مضمون پر(قادیان میں)مَیں نے ایک لیکچر دیا تھا۔ بعض لوگ باتوں کو بڑی عمدگی سے یاد رکھتے ہیں۔ اگلا جلسہ آیا تو ایک شخص اپنا بیٹا ساتھ لایا اوراُس کے متعلق کہنے لگاکہ آپ نے یہ بات پیش کی ہے۔ مَیں نے کہا۔ آپ اِس بچے کو ’’آپ ‘‘کہہ رہے ہیں۔ اُس نے کہا آپ نے ہی تو ایسا کرنے کی تلقین کی تھی۔ آپ نے کہا تھا کہ بچّوں کے ساتھ ادب سے بات کرنی چاہئے کیونکہ بچے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے انگریزوں کی مثال بھی دی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مدر(MOTHER)کہتے ہیں تا کہ بچہ بھی مدر کہنے لگ جا ئے۔ اُن کا نقطئہ نگاہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو وائف (WIFE) کہیں گے تو چونکہ بچّہ ماں باپ کی نقل کرتا ہے اس لئے وہ بھی اپنی ماں کو وائف کہے گا۔ پس وہ اپنی بیوی کو مدر(MOTHER)کہتے ہیں تا کہ بچے کے دل میں بھی اپنے ماں باپ کے متعلق ادب کا جذبہ پید اہو۔
قرآن کریم میں جمہوریت کے اصول
پھر جمہوریت ایک ایساعلم ہے جس پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں کیونکہ اس
زمانہ میں جب بادشاہت ختم ہونے لگی تو جمہوریت پر زور دینا شروع کردیا گیا۔ قرآن کریم نے بھی اس کاذکر فرمایاہے۔ جمہوریت کا بڑا اصل مشورہ ؔ ہے۔ دیکھو ہر نبی اپنی امت کا افسر ہوتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ اگر موسٰی ؑاور عیسیٰ ؑ بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو اُن کو بھی میری اتباع کرنی پڑتی۔۵۱؎ اب دیکھو جس نبی کی اتباع کی ضرورت دوسرے انبیا ء کو بھی ہے اُس کو مشورہ کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ مگر خداتعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔۵۲؎
یعنی اہم معاملات میں اپنی جماعت سے مشورہ کرلیاکر اِسی طرح مؤمنوں کی ایک صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ۔۵۳؎
وہ جب کبھی کوئی کام کرتے ہیں تو مشورہ سے کرتے ہیں۔ لیکن بعض لو گوں نے فتنہ پیدا کرنے کے لئے اِس سے بھی ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے۔ چنانچہ خارجیوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کی تو انہوں نے اِس آیت کو ایک چیلنج کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا ہمیں کِسی خلیفہ کی ضرورت نہیں۔ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَ مْرُ شُوْرٰی بَیْنَنَا۔۵۴؎ حکم تو خداتعالیٰ کا چلے گا اور ہم آپس میں مشورہ کرکے حکومت کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا تو آپ نے فرمایا۔ کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِھَا بَاطِلٌ۔۵۵؎ یعنی بات تو بڑی سچّی ہے لیکن اسے برُی نیّت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ غرض مؤمنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ہر اہم معاملہ کو باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ سے کام نہیں لیتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہؓ سے مشورہ لینا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا طریقِ عمل یہ تھا کہآپؐ
ہر اہم معاملہ میں صحابہؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ جنگِ بدر کے موقع پر آپؐ نے مشورہ لیا تو صحابہ ؓ میں سے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہمیں موسٰی ؑ کی جماعت کی طرح نہ سمجھیں۔ جنہوں نے یہ کہہ دیاتھا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّاھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔۵۶؎ جا تُو اور تیرا ربّ دونوں لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے بلکہ یَارَسُوْلَاللّٰہ ! اگر جنگ ہوئی تو ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے۔ اور آگے بھی لڑیں گے او رپیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہیں آآپؐ تک نہیں پہنچ سکے گا۔۵۷؎ پھر عرب پانی سے بہت ڈرتے تھے مگر حضرت مقداد ؓ نے کہا اگر آپ ہماری قوم کو حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہم فورًا اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے اور اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرینگے کہ ہم بچتے ہیں یا نہیں بچتے۔۵۸؎
پھر جنگِ اُحد کے موقع پر بھی آپؐ نے صحابہ ؓ کو اکٹھا کیا اور اپنی خواب کا ذکر کیا کہ آپؐ نے گائیں ذبح ہوتی دیکھی ہیںجس کی تعبیر یہ ہے کہ کوئی ابتلاء پیش آئے گا۔ مگر باوجود اس خواب کے آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا۔ آپؐ کا خیا ل تھا کہ اگر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی گئی تو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن صحابہؓ کے مشورہ پر آپؐ مدینہ سے باہر نکل پڑے اور لڑائی ہوئی اور نقصان بھی ہؤا اور اِس طرح آپؐ کی خواب پوری ہو گئی۔۵۹؎
ملکہ سباکا ذکر
اِسی طرح قرآن کریم میں ملکہ سبا کا ذکر آتا ہے۔ ملکہ سبا گومشرکہ تھی لیکن اُس کے واقعہ کا ذکر کرکے مسلمانو ں کو توجہ دلای گئی ہے کہ وہ کوئی کا م نہیں
کرتی تھی جب تک کہ ملک کے سرداروں کے ساتھ مشورہ نہیں کرلیتی تھی چنانچہ جب اُس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پہنچا تو اُس نے کہا۔ یٰٓـاَ یُّھَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْ اَمْرِیْ ج مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰی تَشْھَدُوْنِ۔۶۰؎
یعنی اے میری قوم کے سردارو! میری اِس پیش آمدہ مصیبت میں مشورہ دو کیونکہ مَیں کوئی کام نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر ہو کر مشورہ نہ دو۔ اِن آیا ت میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جب ایک کافر عورت بھی حکومتی معاملا ت میں احتیا ط سے کام لیتی تھی تو تم تومسلمان ہو اور تمہارے لئے قرآن کریم میں حکم بھی ہے کہ مشورہ کیا کرو۔ پس تمہیںبھی ہر معاملہ میں باہم مشورہ کرنا چاہئے۔
فرعون کا عمائد ِ قوم سے مشورہ طلب کرنا
اِسی طرح قرآن کریم فرعون کا ذکر کر تا ہے کہ باوجود اِس کے کہ وہ ایک جابر بادشاہ تھا
مگر اُس کی حکومت میں بھی کوئی نہ کوئی رنگ جمہوریت کا پایا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے اُس نے اپنے سرداروں کو جمع کیا اور انہیں کہا فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ۶۱؎ تم موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کے بارہ میںکیا مشورہ دیتے ہو؟ یعنی ایک جابر بادشاہ جو تلوار لے کر لوگوں کی گردنیں اُڑادیتا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے مشورہ دوکہ مَیں موسٰی ؑ کے ساتھ کیا معاملہ کروں۔ چنانچہ درباریوں نے کہا۔ اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَابْعَثْ فِیْ الْمَدَائِنِ حٰشِرِیْنَ۶۲؎
موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کو کچھ مدت تک ڈھیل دو۔ اور اِس مدّت میں شہروں کی طرف آدمی بھجوائو جو قابل آدمیوں کو مقابلہ کے لئے جمع کریں۔ غرض قرآن کریم نے فرعون جیسے جابر بادشاہ کا ذکر کرکے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حکومت بغیر مشورہ کے نہیں ہونی چاہئے۔ جب کا فر حکومتیں بھی اپنے معاملات میں مشورہ لیتی ہیں تو مسلمانوں کو تو بدرجہء اولیٰ اِس کا پابند ہونا چاہئے۔ جب وہ لوگ جنہیں مشورہ کا حکم نہیں دیا گیا مشورہ لیتے ہیں تو جن لوگوں کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے وہ مشورہ کیوں نہ لیں۔
قرآن کریم میں سیاست کے اصول
پھر سیاست کے متعلق بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیںاور قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر کیاہے۔
سیاست یہی ہوتی ہے کہ مناسب موقع پر مناسب کام کیا جائے اور موقع کے مطابق لوگوں سے سلوک کیا جائے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگِ حُنین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ والوں میں انعامات تقسیم کئے تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ ’’ھٰذہ القسمۃ ماعدل فیھا وما ارید بھاوجہ اللّٰہ‘‘۶۳؎ یعنی یہ ایسی تقسیم ہوئی ہے کہ اِس میں انصاف سے کام نہیںلیا گیا اور نہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضاء کو مدّ نظر رکھا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے غیّور تھے۔ وہ یہ اعتراض سُنکر فورًا تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور عرض کیا۔ یَارَسُوْلَاللّٰہ! مجھے اجازت دیجیئے کہ مَیں اِس منافق کی گردن اُڑادوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ معاذاللّٰہ ان یتحدث الناس ان اقتل اصحابی ۔۶۴؎
یعنی مَیں اس بات سے خداتعالیٰ کی پناہ چاہتاہوں کہ لوگ میرے متعلق آپس میں یہ باتیں کرتے پھر یں کہ یہ اپنے ساتھیوں کو مارتا پھرتاہے۔ یعنی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے غیر قوموں میں یہ چرچا شروع ہو جائے کہ یہ لوگ ظلم کررہے ہیں۔ صحابہؓ تو حقیقت جا نتے تھے لیکن مصر اور قسطنطنیہ کے لوگوں کو اس کاکیا علم تھا، وہ تو یہ باتیں کر سکتے تھے کہ یہ لوگ ظلم کررہے ہیں اس لئے آپؐ نے فرمایا کہ کوئی ایسی بات نہیںکرنی چاہئے جس سے غلط قسم کا چرچا شروع ہو جائے۔ بیشک مسلمان اس کے متعلق کوئی بات نہ کریں لیکن اگر رومی یا ایرانی ایسی باتیں کریں تو وہ بھی بُری بات ہے۔ اِس سے انسان کی بدنامی ہوجا تی ہے۔ پس آپؐ نے اُس شخص سے درگزر کیااور اُسے معاف فرمادیا۔
قرآنِ کریم میں تمدّن کے اصول
پھر قرآن کریم میں تمدّن کے اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ تمدّن کے بڑے اصولوں میںسے
ایک اصل یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس ہو رہی ہو تو کو ئی انسان اس سے بِلا اجازت نہ جائے۔قرآن کریم اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْھَبُوْا حَتّٰی یَسْتَأْذِنُوْہُ۔۶۵؎
یعنی وہی لوگ مؤمن کہلا سکتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی قومی کا م کے لئے رسولؐ کے پاس بیٹھے ہوں تو وہ نہیں جاتے جب تک اُس سے اجازت نہ لے لیں اِس لئے مَیں نے حکم دیا ہؤا ہے کہ مجلس مشاورت کے اجلاس سے کوئی نمائندہ حوائجِ ضروریہ وغیرہ کے لئے جا نا چاہے تو وہ اجازت لیکر جائے۔ انگریزوں کا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ سے جائے تووہ ایک اَور آدمی کو ساتھ لے کر جائے مگر یہ غلط طریق ہے۔ صحیح طریق یہی ہے کہ اگر کوئی باہر جانا چاہے تو سپیکر سے اجازت لے لے۔ یا اگر وہ دیکھے کہ میری غیر حاضری کی وجہ سے میری پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو وہ باہر ہی نہ جائے۔
قرآن کریم میں تاریخِ تمدّن کا ذکر
اِسی طرح کتا بوں کا ایک اورسلسلہ بھی ہے اور وہ تاریخِ تمدّن کا سلسلہ ہے۔ قرآن کریم میں
اِس تاریخ کا بھی ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمدّن کِن دَوروں میں سے گزرا ہے۔ اور کِس طرح اس کا ارتقاء عمل میں آیا ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَحَمَلْنٰـہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍ۶۶؎
یعنی ہم نے نوحؑ کو تختوں اور کیلوں سے بنی ہوئی کشتی پر سوار کیا۔ اِس آیت میں قرآن کریم نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ کشتیوں کی تاریخ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں لوگ کشتیاں بنانا نہیں جانتے تھے وہ ایک بڑا سا درخت لیکر اُس کو درمیان سے کھودلیتے تھے اور اس گڑھے میں بیٹھ کر درخت کو پانی میں ڈال دیتے تھے۔ اب تک بغداد میں ایسی کشتیاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ پاکستان بننے سے قبل ایک ہندوستانی وہاں گیا تھا اُس نے اُس کشتی پر بہت مذاق اُڑایا اور کہا کہ چونکہ وہ کشتی نیچے سے گول ہوتی ہے اِس لئے جب میں اُس پر بیٹھاتوایک طرف حرکت کرنے سے دوسری طرف سے کشتی اُٹھ جاتی تھی اور چکّر کھا نے لگتی تھی اس پر مَیں نے اُس آدمی سے جو میرے ساتھ تھاکہا۔ اے شیخ! میری کشتی تو چکر کھارہی ہے۔ اُس نے سمجھا کہ یہ کہتا ہے اور چکر دو۔ چنانچہ اُس نے کشتی کو اَور چکر دینا شروع کردیا او رجب کشتی کنارہ پر لگی تو مَیں بیہوش ہو کر گِر پڑا۔ ہو ش آنے پر مَیں نے کہا تُو نے تو بڑی حماقت کی ہے۔ اُس نے کہاآپ نے تو خود ہی کہاتھاکہ کشتی کو اَور چکر دو اِس میں میر ا کیا قصور ہے تو وہ کشتیاں اب بھی پائی جا تی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ جو ترقی ہوئی تو تختوں والی کشتیاں بن گئیں۔ اُس وقت سریش وغیرہ کے ساتھ تختوں کو جوڑا جاتاتھا۔ لیکن وہ تختے بعض دفعہ ُکھل بھی جا تے تھے۔پھر کیل نکلے تو اُن کے ساتھ کشتیاں جوڑی جانے لگیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک تمدن اِتنا ترقی کر چکاتھا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ایسی کشتی میں سوار کیا جو ’’ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍ‘‘تھی۔ کھُدا ہؤا درخت نہیں تھا بلکہ وہ کشتی باقاعدہ بنی ہوئی تھی اور اُس میں میخیں بھی لگی ہوئی تھیں۔ غرض اِس آیت میںقرآن کریم نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں کیلوں والی کشتیاں بننے لگی تھیں۔ بیچ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیاکہ گیلیوں۶۷؎ کو باندھ کر چلایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اِس قسم کی کشتیاں دریائے بیاس میں بھی چلا کرتی تھیں مگر اُن میں یہ نقص ہوتا تھا کہ چھوٹی جگہوں میں آکر وہ پھنس جاتی تھیں۔
قیدیوں کیلئے خوراک کا انتظام
اِسی طرح اِس کی ایک اور مثال سورۃ یو سف سے بھی ملتی ہے۔ حضرت یو سف علیہ السلام جب قید میں تھے تو
آپ کے دوساتھی آپ سے خوابوں کی تعبیر دریافت کرنے کے لئے آئے۔ آپ نے انکو وعظ کرتے ہوئے فرمایا لَا یَاْتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰـنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْ تُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّاتِیَکُمَا۔۶۸؎
یعنی اِس وقت کا کھا نا ابھی نہیں آئے گا کہ مَیں تمہیں اِس کے آنے سے پہلے اِس خواب کی حقیقت بتا دونگا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ فراعنۂ مصر کے زمانہ میں خصوصیت سے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قیدیوں کو قیدخانہ میں کھا نا دیا جا تا تھا۔ جو لوگ پھانسی کے مستحق ہوتے تھے انہیں بھی کھا نا دیا جا تا تھا۔ اسلامی خلفاء کے زمانہ میں بھی یہی طریق رائج رہا۔ لیکن افسوس کہ درمیانی عرصہ میں مسلمان اسے بھُول گئے اور اسلامی ممالک میں یہ رواج ہوگیا کہ قیدیوں کو جیل خانہ سے باہر بھیک مانگنے کے لئے بھیجدیا جا تا تھا۔ مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ وہ ایسے ہی ملک میں قید ہوگئے تھے کہ ظہر کے بعد ہمیں قید خانہ سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور کہا جاتا کہ بھیک مانگ لائو۔ جب ہم بھیک مانگ لا تے تو اچھا اچھا کھا نا جیلر نکال لیتا اور خراب کھانا ہمیں دے دیتا۔ بہر حال تمدّن کے لحاظ سے ضروری ہے کہ قیدیوں کو بھی کھانا دیاجائے بلکہ اب تو لوگوں کی یہ رائے ہو گئی ہے کہ اگر زمیندار چاہیں کہ قیدی اُن کے کھیت میں کام کریں تو انہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ قید خانہ میں بند رہنے کی وجہ سے رشتہ داروں کی محبت کم ہو جاتی ہے اور اخلاق کمزور ہو جاتے ہیں۔ لوگ اسلام پر غلامی کا اعتراض کرتے ہیں لیکن اسلام کا یہ قانون ہے کہ جنگی قیدی کو کسی کے سپرد کردو کہ وہ اُس سے کام لے او ر باہر رہنے کی وجہ سے اُس قید ی کے رشتہ دار اُسے ملتے رہیں اور اُسے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دنیا سے بالکل الگ ہو گیاہے۔
قرآنِ کریم میں دہریت کا ردّ
اَب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میںدہریت کا ردّ بھی موجو د ہے۔ دہریت کے متعلق قریب زمانہ میں
امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قرآن کریم نے اِس کا ردّ فرمایا ہے۔ او ربتایا ہے کہ خیا ل کرنا کہ اِس دُنیا کا کوئی خالق نہیں بالکل غلط بات ہے چنانچہ فرمایا تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُoلا ا نِلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلا ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُoلا اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ج ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍo ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّ تَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیْرٌ۶۹؎
یعنی بہت برکت والا ہے وہ خد اجس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے اُس نے موت اور زندگی کو پید اکیا ہے تا کہ دیکھے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔ اُس نے ساتوں آسمان بھی پید اکئے ہیں اور اُن میں موافقت اور مطابقت بھی پیدا کی ہے۔ اے مخا طب! تُو کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا۔ پس تُو اپنی آنکھ کو لَوٹا، کیا تجھے کوئی رخنہ یا کمی نظر آتی ہے۔ پھر دوبارہ اپنی نظر کو لَوٹا کر دیکھ تیری نظر تھکی ہوئی اور ماندہ ہو کر لَوٹے گی اور خدا تعالیٰ کی پیدائش میں تجھے نقص نظر نہیں آئے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات اتفاقاً پید اہوگئی ہے او ر اتفاقی طور پر مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا ہے اور پھر وہ سائنس سے یہ ثا بت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ دنیا آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اس کی کَل چلانے والا کوئی نہیں ۔ اِنکا جواب اللہ تعالیٰ نے اِن آیا ت میں دیا ہے کہ اتفاقی طور پر جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور نظام نہیں ہوگا بلکہ بے جوڑ پن ہوتا ہے۔ مختلف رنگوں سے تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کا غذ پر پھینک دیں تو اُس سے تصویر بن جا ئیگی؟ اینٹوں سے مکا ن بنتا ہے لیکن کیا اینٹیں ایک دوسری پر پھینک دی جائیں تو مکا ن بن جائیگا؟ بفرضِ محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بعض کام اتفاقاً ہو جاتے ہیںتو بھی نظامِ عالَم کو دیکھ کر کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہو گیا ہے۔ مانا کہ خود مادہ پیدا ہوگیا اور مانا کہ مادہ سے خود بخود زمین پیدا ہو گئی۔ مانا کہ انسان بھی خود بخود پیدا ہو گیا لیکن انسان کی پیدائش پر غور توکرو کہ کیا ایسی کامل پیدائش خود بخود ہو سکتی ہے؟ دنیا میں عام طور پر کسی صنعت کی خوبی سے اس کے صنّا ع کا پتہ لگتاہے۔ ایک عمدہ تصویر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کسی اچھے مصوّر نے یہ تصویر بنائی ہے۔ ایک عمدہ تحریر دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ یہ تحریر کِسی اچھے کا تب نے لکھی ہے۔ اور جس قدر ربط بڑھتا جائے بنانے والے کی خوبی ظاہر ہوتی ہے پھر کِس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ ایسی منظم دنیا خودبخود پید ا ہوگئی ہے؟
قرآن کریم میں زرتشتی مذہب کے اصول کا ذکر اور اُن کا ردّ!
قرآن کریم میں زرتشتی مذہب کے
اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ زرتشتیوں کے نزدیک ایک نُور کا خدا ہو تا ہے اور ایک تاریکی کا خدا ہو تا ہے اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاریکی کا خدا نور پیدا نہیں کرسکتا اور نُور کا خدا تاریکی پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر نُور کا خدا تاریکی پیدا کر ے اور تاریکی کا خدا نُور پیدا کردے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا تباہ ہوجائے۔ اِن کے مقابلہ میں عیسائی تین خدائوں کو مانتے ہیںاور ہندوہزاروں دیوتائوں کو مانتے ہیں۔ قرآن کریم نے زرتشتی مذہب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اس کے غلط اصولوں کی تردید کی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ۷۰؎
یعنی سب تعریفوں کا مستحق خداتعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے اور پھر اُس نے اندھیروں اور نور کو پید اکیا ہے لیکن اس کے باوجود کافر لوگ اُس کے ساتھ شریک بناتے ہیں او رکہتے ہیں کہ نُور کا خدا اَور ہے اور تاریکی کا خدا اَور ہے۔ چنانچہ زرتشتیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اہرمن ظلمت کا خدا ہے اور یزدان نور کا خدا ہے۔۷۱؎ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عقیدہ اس لئے غلط ہے کہ دنیا میں بعض چیزیں نور کے ماتحت پائی جاتی ہیں او ر بعض چیزیں ظلمت کے ما تحت پائی جاتی ہیں۔ نور اور ظلمت علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیا ں ہیں اور دونوں چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ خدا ایک ہے۔ اگر ظلمت یہ ثابت کرتی کہ خداتعالیٰ میںکوئی نقص ہے تو بے شک ایک اَور خدا یزدانؔ کی ضرورت ہوتی لیکن یہاں یہ صورت نہیں۔ یہاں تو ظلمت بھی خدا تعالیٰ کی تعریف کرتی ہے اورنُور بھی خداتعالیٰ کی تعریف کرتا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ آتاہے قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْ تِیْکُمْ بِضِیَائٍ ط اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ oقُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰـہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ ط اَفَلا تُبْصِرُوْنَ۷۲؎
فرماتا ہے ۔ ظلمت اور نُور دونوں کا وجود انسان کے لئے ضروری ہے۔ نہ نُور کے بغیر وہ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ظلمت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔ انسان دن کو کا م کرکے تھک جا تا ہے اور رات کو نیند کے ذریعہ آرام حاصل کرکے پھر تروتازہ ہو جا تا ہے۔ اِس لئے اگر خدا تعالیٰ رات کو لمبا کر دیتا تو کوئی انسان کام نہ کر سکتا۔ اِسی طرح اگر وہ دن کو لمبا کردیتا تو کوئی شخص آرام نہ کر سکتا۔ پس نور اور ظلمت دونوں چیزیں انسانی بقا کے لئے ضروری ہیں اور اُن کو دو خدائوں کی پیدائش کہنا غلط ہے۔
قرآن کریممیںعِلْمُ الْاَخْلاق کا ذکر
پھر علم الاخلاق بھی ایک اہم علم ہے اور اِس پر کئی کتا بیں لکھی گئی ہیں قرآن کریم نے اِس علم
کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِعِلْمٍ۷۳؎
یعنی تم اُن معبودوں کو جن کو کفار خداتعالیٰ کے سِوا پکا ر تے ہیں گالیاں نہ دو ورنہ وہ جہا لت کی وجہ سے خداتعالیٰ کو گالیاں دینے لگے جائیں گئے۔ اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ کسی قوم کے قابلِ عزت بزرگوں کے حق میں کوئی بُر ی بات نہیں کہنی چاہئے ورنہ اُن کے دل دُکھیں گے اور چونکہ وہ اخلاق سے عاری ہیں اس لئے وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کو گالیا ں دینے لگ جائیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انّ من اکبر الکبائر ان یلعن الرجل وَالِدَیْہِ قیل یا رسول اللّٰہ و کیف یلعن الرجل وَالِدَیْہ قال یسب الرجل اباالرجل فیسبّ اَبَاہُ وَیَسُبُّ اُمَّہٗ۔۷۴؎
یعنی کسی شخص کو نہیں چاہیئے کہ وہ اپنے ماں باپ کو گالیا ں دے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! اپنے ماں باپ کو کون گالیاں دیتا ہے۔آپؐ نے فرمایا جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے۔ وہ گویا اپنے ماں باپ کوگالیاں دیتا ہے کیونکہ دوسرا شخص جوش میں آکر اس کے ماں باپ کو گالیاں دینے لگ جائیگا۔
غرض اللہ تعالیٰ نیعِلْمُ الْاَخْلَاق کا بھی ذکر فرمادیاہے۔ عیسائی بڑا ناز کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم دوسرے کیلئے بھی وہی بات پسند کرو جو تم اپنے لئے پسندکرتے ہو۔ حالانکہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ دوسروں کے بتوں وغیرہ کو گالیاں نہ دو۔ ورنہ اگر تم اُ نکے معبودوں کو گالیا ں دو گے تو وہ جواباً تمہارے خدا کو گالیا ں دیں گے اورپھر تمہیں اِس پر چڑنے یا بُرا منا نے کا کوئی حق نہیں ہو گا کیونکہ ابتداء تمہا ری طرف سے ہوئی ہوگی۔ لیکن اگر ابتداء دوسروں کی طرف سے ہو ئی ہو اور وہ تمہارے معبود کو گالیا ں دیں تو پھر بیشک وہ ظالم ہونگے لیکن اگر پہل تمہاری طرف سے ہواور تم کسی کے معبود کو گالیاں دو اور وہ جواباً تمہارے خدا کو بھی گالیاں دینے لگ جائے تو تمہیں اس پر چِڑنے کا کوئی حق نہیں ہو گا کیونکہ اسے جواب دینے والا سمجھا جائے گا ظلم کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے ایک یہودی کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے طور پر ذکر کیا کہ آپؐ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت ثابت ہوتی تھی۔ اِس سے بہرحال اس یہودی کو تکلیف ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کاعلم ہؤا توآپ ؐ نے فرمایا لَا تُخَیِّرُوْنِی علٰی موسٰی۔۷۵؎ مجھے حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر اس طرح فضیلت نہ دیا کرو کہ اس سے کوئی جھگڑا پیدا ہوجائے۔
قرآن کریم میںعِلْمُ الْاِنْسَان کا ذکر
عِلْمُ الْاِنْسَان بھی ایک نہایت ضروری علم ہے جس کو انگریزی میںANTHROPOLOGY
کہتے ہیں اور لوگوں نے اس علم پر بہت سی کتابیںلکھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی اس پر بحث کی ہے اور اس نے ابوالبشر کا نام آدم رکھا ہے۔ یعنی وہ پہلا انسان تھا جس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آدمؔ سے پہلے جو لوگ تھے وہ غاروں میں چُھپ کر رہتے تھے تاکہ کہیں شیر اور بھیڑیے اُسے کھا نہ جائیں۔ پھر جب تمدّن نے ترقی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ لوگوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنی شروع کردی تو لوگ غاروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے سطح زمین پر رہنا شروع کردیا۔ اور سب سے پہلا انسان آدم تھا جس نے زمین کی سطح پر رہنا شروع کیا۔ گویا پہلاکیومیَن(CAVEMAN) جو زمین پر رہنا شروع ہؤا آدم تھا بلکہ قرآن کریم نے اس کا نام آدم ؔ رکھ کر ہی یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ CAVEیعنی غار کو چھوڑ کر باہر نکل آیا تھا اور اُس نے سطح زمین پر مِل جُل کر رہنا شروع کردیاتھا۔ چنانچہ اَدِیْمُ الْاَرْض کے معنے عربی زبان میں سطح زمین کے ہوتے ہیں۔۷۶؎ گویا آدم کے معنے ہوئے غاروں سے نکل کر سطح زمین پر رہنے والا شخص۔ اِسی طرح اَدِیْم کے معنے اوّلیت کے بھی ہیں۔۷۷؎ گویا آدم کے لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ موجودہ نسل کا پہلا انسان آدم ؔ تھا۔ اِسی طرح اَدَمَ کے معنے ہوتے ہیں صَارَلَھُمْ اُسْوَۃٌ۔۷۸؎ وہ اُن کے لئے نمونہ ہو گیا۔ یعنی آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے ایک نمونہ تھے اور انہوں نے آپ کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کردیا تھا۔ عیسائیوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے گُناہ کیا تھا اِس لئے انسان کی فطرت میں گُناہ کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی گنا ہ کیا تھا۔ اُن سے صرف ایک اجتہادی لغزش ہوئی تھی اور پھر اس لغزش پر بھی انہوں نے توبہ کی۔ اگر عیسائیوں کا کلیہ صحیح تسلیم کر لیاجا ئے تو انسان کی فطرت میں توبہ کامادہ ہوناچاہئے تھا نہ کہ گنا ہ کا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے نمونہ تھے اور وہ اُنہیں کے نقشِ قدم پر چلتے تھے۔ گناہ تو حوا نے کیا تھا اور حوا نے ہی بائیبل کی رُو سے حضرت آدم ؑ کو پھُسلایا تھا۔ پھر آدم ؑ سے سلسلۂ گُناہ کس طرح چل پڑا جبکہ آدم ؑنے ایک اجتہادی غلطی پر توبہ بھی کی تھی۔
اِسی طرح اَدَمَ کے ایک معنے اَلَّفَ وَوَفَّقَ کے ہیں۔۷۹؎ یعنی اُس نے فساد دُور کیا او ر باہم موافقت پیداکی۔ اِن معنوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہی تہذیب وتمدّن کی بنیاد رکھّی تھی اور انہوں نے ہی تمدّن کو صحیح معنوں میں دنیا میں قائم کیا تھا۔ اِس میں فرشتوں کے اِس سوال کا جواب بھی آجاتاہے جو انہوں نے کیا تھاکہ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ۔۸۰؎
یعنی کیا تُو اس میں ایسا شخص پیدا کریگا جو اُس میں فساد کرے گا او ر لوگوں کا خون بہائیگا؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ہم نے تو آدم ؑ کو پیدا ہی اِس لئے کیا ہے کہ وہ دنیا سے فساد دُور کرے خلیفہ ہونا تو الگ چیز ہے اِس کی پیدائش ہی فساد کو دُور کرنے والی تھی۔
دوسری مثال اِس کی حضرت نوح علیہ السلام کی ہے۔ بائیبل سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے باپ بڑے نیک آدمی تھے انہوں نے الہامِ الٰہی سے نوحؑ کا نام رکھا تھا جس کے معنے ہیں نوحہ کرنے والا۔ اِس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا میں اُن کے زمانہ میں ایک عا لمگیر عذاب آئے گا جس سے وہ خود تو بچ جائیں گے مگر اُن کی قوم تباہ ہوجائے گی او روہ اپنی قوم کے تباہ ہونے پر نوحہ کریں گے۔ قرآن کریم نے بھی اِس کی تصدیق کی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے نام کا ذکر کر کے اِس توجیہہ کی طرف اشارہ کیاہے۔
قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ
قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم
میںفرماتا ہے قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَھُمْ اَوْیُسْلِمُوْنَ۸۱؎
دوسری کتابیں تو صرف ِپچھلا حال بیان کرتی ہیں لیکن قرآن کریم ایسی کتا ب ہے جو آئندہ زمانہ کا حال بھی بیان کرتی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اے مسلمانو! آئندہ زمانہ میں رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ تمہاری جنگیں ہونگی اور وہ عرب جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سُستی دکھائی تھی وہ اپنے دھبّے دھوسکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا یا تو وہ وقت تھاکہ رومی اور ایرانی مسلمانوںکو بڑا حقیر سمجھتے تھے اور قابلِ التفات ہی نہیں سمجھتے تھے او ریا پھر وہ زمانہ آیا کہ ایران اور روم دونوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور اس بات سے خائف ہوگئے کہ مسلمان اُن کے ملک میں نہ گھس آئیں لیکن اِس آیت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں پر فتح حاصل کی اور وہ عرب جو پہلے کمزوریاں دکھا رہے تھے انہوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ان دونوںملکوں کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا اور اس طرح قرآن کریم میں جو آئندہ زمانہ کی تاریخ بیان کی گئی تھی وہ حقیقت بن کر ظاہر ہو گئی۔
یاجوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی
اِس کی مثال میں ایک اور پیشگوئی بھی بیان کی جا سکتی ہے اور وہ یاجوج ماجوج کے متعلق ہے۔ قرآن کریم
میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج غالب آجائینگے او ر ساری دنیا پر چھاجائیں گے۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے اُس وقت یورپ بالکل وحشی تھا اوراس کے باشندے کھا لیں پہنا کرتے تھے لیکن آج دیکھو ان کی حکومت کِس قدر بڑھ گئی ہے اور وہ کِس طرح ساری دنیا پر غالب آگئے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰـھَآ اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَطحَتّٰی اِذَافُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۸۲؎
یعنی ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اُس کے لئے فیصلہ کردیا گیا ہے کہ اُس کے بسنے والے لَوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جا ئیگااو روہ ہر پہاڑی او ر ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو اُس وقت مُردہ قوموں میں بھی بیداری پیدا ہوجائے گی اور اُن میں بھی زندگی کی حرکت پیدا ہونے لگ جائے گی۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں یاجوج او رماجوج جس سے مراد روس اور انگلستان ہیں، ساری دنیاپر چھا جائیں گے اور یہ دونوں قومیں سمندر کی لہروں پر سے ہوتے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے پھاندتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گی۔ قرآن کریم نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے او رعربی زبان میں حدبکے معنے اونچے ٹیلوں کے بھی ہیں او رموج کے بھی ہیں۔۸۳؎ گویا اِس آیت میںیہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قومیں سمندر میں سے ہوتے ہوئے بھی ساری دنیامیں پھیل جائیں گی اور پہاڑوں سے بھی آئیں گی اور دنیا میں پھیل جائیںگی۔ چنانچہ روس پہاڑوں پر سے ہوکر چین پر قابض ہوگیا اور انگریز او رامریکہ سمندر سے آرہے ہیں او ر اس تاریخ کو جو قرآن کریم نے آئندہ زمانہ کی بیان کی تھی پورا کررہے ہیں۔
فلسطین پر یہود کے قبضہ کی پیشگوئی
اِسی طرح قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے متعلق واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ
تورات میں اِن کے متعلق پیشگوئی تھی کہ ان پر دو دفعہ تباہی آئے گی اور وہ بیت المقدس سے نکالے جائینگے چنانچہ اُن کی پہلی تباہی نبو کدنضر بادشاہ کے حملہ سے ہوئی اوردوسری تباہی ٹائیٹس ؔرومی کے ذریعہ سے ہوئی جو مسیحؑ کے صلیب کے واقعہ کے ستر سال بعد یہودیوں پر حملہ آور ہؤا تھا اِن واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَقُلْنَا مِنْم بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَائِ یْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَائَ وَعْدُ الْاَخِرَۃِ جِئْنَابِکُمْ لَفِیْفًا۸۴؎
یعنی فرعون کے سمندر میں ڈوب مرنے کے بعد ہم نے بنی سرائیل کو کہہ دیا تھا کہ تم فلسطین میں جاکر آباد ہوجائو لیکن ایک وقت کے بعد تم کو فلسطین سے نکلنا پڑے گا اور پھر خدا تعالیٰ تم کو واپس لائے گا۔ پھرتم نافرمانی کرو گے اور تم پر دوسری دفعہ عذاب آئے گا۔ پھر تم جلا وطن رہو گے یہاں تک کہ تمہا ری مثیل قوم یعنی مسلمانوں کی تباہی کے متعلق جو دوسری خبر ہے اُس کا وقت آجائے گا اُس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے جمع کر کے ارضِ مقدس میں اکٹھا کر دیا جا ئے گا۔ پس اس آیت میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کی پیشگوئی تھی جو اب پوری ہوچکی ہے۔ مَیں نے جب پہلی تفسیر کبیر جو سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل ہے لکھی تھی تو مَیں نے اُس میں استدلال کیا تھا کہ اِن آیات میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے ۔ ایک دفعہ مَیں شملہ گیا اور چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ اُنکے ہاں اُسوقت خان علی قلی خاں بھی بطور مہمان ٹھہر ے ہوئے تھے(جو لفٹینٹ جنرل حبیب اللہ خاں صاحب کے والد تھے)انہوں نے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب سے تفسیر کبیر مطالعہ کے لئے مانگی۔ پارٹیشن کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ جب مَیں نے آپ کی تفسیر میں یہ پڑھا کہ بنی اسرائیل ایک وقت میں پھر فلسطین پر قابض ہوجائیں گے تو مجھے بوجہ پٹھان ہونے کے سخت غصّہ آیا کیونکہ ہم تو بنی اسرائیل کے دشمن ہیں اور آپ نے لکھا تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین پرقابض ہوجائیں گے لیکن جب امریکہ اور انگریزوں کی مدد سے بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہو گئے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ قرآن کریم سچّا ثابت ہوگیا کیونکہ یہ واقعہ قرآن کریم کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے۔
قرآن کریم میں ُجغرافیہ کا ذکر
پھرقرآن کریم میں جغرافیہ کا علم بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قومِ سباکا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے
کہ اُن کا ملک بہت بڑا تھا اور اُن کے ملک سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جا تی تھیں لیکن اس ملک کے رہنے والوں نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور انہوں نے کہا رَبَّنَا بٰـعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ فَجَعَلْنٰـھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّ قْنٰـھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔۸۵؎
یعنی اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کو لمبا کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پس ہم نے اُن کا نام مٹا دیا اور اُن کو قدیم زمانہ کے افسانے بنادیااور انہیں تباہ کرکے ذرّہ ذرّہ کردیا۔ گویا سبا قوم کی ناشکری کے باعث اُن پر تباہی آگئی اور اُن کا سارا ملک تباہ ہو کر ویران ہوگیا۔ قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک بہت بڑے لشکر کو لے کر یمن آئے او روہ بآسانی وہاں پہنچ گئے اور اُن کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ابرہہ نے یمن کے لشکر کے ساتھ مکّہ پر حملہ کیا تو واپسی پر اس کا لشکر راستہ کھوجانے کی وجہ سے بالکل تبا ہ ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُسوقت تک وہ سب بستیاں تباہ ہو چکی تھیں۔ اِن دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں قومِ سباکا جو جغرافیہ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے علاقہ سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جاتی تھیں وہ بالکل درست ہے۔ اِس طرح اُس نے سبا کی تباہی کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔
غرض قرآن کریم کے اندر جو عظیم الشان کتب خانے موجود ہیں اُن کی مثال دنیا کے کسی کتب خانہ میں نہیں پائی جاتی۔ پھر دُنیوی کتب خانے تباہ بھی ہوجاتے ہیں لیکن قرآنی کتب خانہ وہ ہے جسکی دائمی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہؤا ہے۔ پس کُجا دُنیوی بادشاہوں کے کتب خانے اور کُجا یہ روحانی کتب خانہ جو زمانہ کی ہر دست بُردسے کلّی طور پر محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ چلاجائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا
اَب مَیں دُعا کردیتا ہوں کہ ہمارے دوست جو یہاں آئے ہیں خیر و عافیت سے واپس جائیں۔ اُن کے گھروں میںبھی امن قائم رہے اور یہاں بھی
امن رہے اور راستہ میں بھی کوئی تکلیف نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ عمر میں، اُن کے مالوں او راولادمیں برکت ڈالے اور اُن کو ترقیات عطافرمائے اور اسلام کا خادم بنائے او راُن کے ذریعہ سے ساری دُنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگ جائے۔
اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کے خاندانوں کا قیا مت تک حافظ وناصر ہو اور اسلام آپ کے ذریعہ سے اور آپ کی اولادوں کے ذریعہ سے قیامت تک بڑھتا رہے اور دُنیا سے شرک اور بدعت مٹ جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت پھر دنیا میں قائم ہوجائے اور ایسی مضبوطی سے قائم ہو کہ اُسے کوئی مٹانے کی جرأت نہ کرسکے۔
۱؎ تاخت و تاراج کرنا: برباد کرنا ۔ تباہ کرنا
۲؎ البینۃ :۲تا ۴
۳؎ حشو : زائد کلام۔ فضولیات۔ کوڑا کرکٹ
۴،۵؎ خروج باب۲۰آیت۱۱ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۶؎ ق:۳۹ ۷؎ البقرہ:۲۵۶ ۸؎ یٰس :۸۳
۹؎
۱۰۔۱۱؎ بحارالانوار جلد ۵۳صفحہ۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۳ء
۱۲؎ المزمل:۱۶
۱۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۲۱۹
مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۴؎ فاطر :۲۵ ۱۵؎ الرعد:۸
۱۶؎ اقرب الموارد جلد ۲ صفحہ ۱۲۸۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۷؎
۱۸؎ بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَاذْکُرْ فی الکتاب مریم (الخ)
۱۹؎ دائرۃ المعارف
۲۰؎ یونس:۹۳ ۲۱؎ الفجر :۷ تا۹
۲۲؎ النجم:۵۱،۵۲ ۲۳،۲۴؎ وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ۔ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلا ط یَخْرُجُ مِنْم بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیْہِ شِفَائٌ لِّلنَّاسِط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ۔ (النحل:۶۹،۷۰)
۲۵؎ قٓ:۸
۲۶؎ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَاقالہ شرعًا (الخ)
۲۷؎ الذٰاریٰت:۵۰ ۲۸؎ ٹین :
۲۹؎ نوح:۱۴،۱۵ ۳۰؎ الانبیائ:۳۱ ۳۱؎ الطلاق:۱۳
۳۲؎ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰ تا ۳۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۳؎ الانبیائ:۷۵،۷۶ ۳۴؎ الشعرائ:۱۷۱،۱۷۲
۳۵؎ اقرب الموارد جلد ۲ صفحہ ۸۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۳۶؎ ۳ سموئیل باب۱۱آیت۲تا۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۷؎ ص:۱۸ ۳۸؎ ص: ۲۶
۳۹؎ سلاطینٰ باب۱۱ آیت ۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۰؎ سلاطینٰ باب۱۱ آیت ۹،۱۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۱؎ وَصَدَّھَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط اِنَّھَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ۔ (النمل : ۴۴)
۴۲؎ البقرہ:۱۰۳
۴۳؎ خروج باب۳۲آیت۱تا۴، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۴۴؎ خروج باب۳۲آیت۵،۶، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۴۵؎ طٰہٰ:۹۱
۴۶؎ انسائیکلو پیڈیا جلد۴زیر لفظ گولڈن و جلد ۵زیر لفظ موسٰی
۴۷؎ اعمال باب ۱ آیت ۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۸؎ المؤمنون :۵۱ ۴۹؎ القصص:۳۹ ۵۰؎ الصّٰفّٰت:۱۰۳
۵۱؎ الیواقیت الجواھر جلد ۲ صفحہ ۲۲
۵۲؎ اٰل عمران:۱۶۰ ۵۳؎ الشورٰی:۳۹
۵۴؎
۵۵؎ تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۳ صفحہ ۳۳۴،۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۵۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۲،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵۷؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۲،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵۸؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۲،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵۹؎ السیرۃ الحلبیہ جلد۲صفحہ۲۳۹
۶۰؎ النمل:۳۳ ۶۱؎ الشعرائ:۳۶ ۶۲؎ الشعرائ:۳۷
۶۳؎ ،۶۴؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۱۳۹،۱۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۹ء
۶۵؎ النور:۶۳ ۶۶؎ القمر:۱۴
۶۷؎ گیلیوں : گیلی۔ درخت کا دھڑ۔ تنا۔ شہتیر
۶۸؎ یوسف:۳۸
۶۹؎ الملک:۲تا۵ ۷۰؎ الانعام:۲
۷۱؎ دبستانِ مذاہب صفحہ۱۲۶
۷۲؎ القصص:۷۲،۷۳ ۷۳؎ الانعام:۱۰۹
۷۴؎ بخاری کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ
۷۵؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب وفاۃ موسٰی (الخ)
۷۶؎ لسان العرب جلد ۱ صفحہ ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۷۷؎ اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۸؎ اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۹؎ اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۸۰؎ البقرۃ:۳۱ ۸۱؎ الفتح:۱۷ ۸۲؎ الانبیائ:۹۶،۹۷
۸۳؎ اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۱۶۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۸۴؎ بنی اسرائیل:۱۰۵ ۸۵؎ سبا:۲۰
 
Top