• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ پر عیسائیوں کے اعتراضات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

پر عیسائیوں کے اعتراضات

پہلا ا عتراض:۔ مسیح ناصری نے آسمان سے آنا تھا۔مرزا صاحب مسیح کیسے ہو سکتے ہیں؟

الجواب نمبر ۱:۔ یہ کہنا کہ مسیح ناصری خود آئے گا غلط ہے۔خود مسیح نے کہہ دیا ہے کہ میں اب واپس دنیا میں نہیں آؤں گا بلکہ جو کوئی آئے گا ’’میرے نام پر ‘‘ آئے گا۔ دیکھویوحنا ۱۶/۱۰۔ ’’میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھوگے۔‘‘ متی ۲۳/۳۹ میں ہے۔ ’’اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک وہ جو خداوند کے نام پر آتاہے۔‘‘ (متی ۲۳/۳۹)

جواب نمبر۲:۔ جس طرح یوحنا ایلیاہ ہو سکتا ہے ۔حضرت مرزا صاحبؑ بھی مسیح ہو سکتے ہیں۔

توریت میں ہے :۔ ’’ایلیاہ رتھ سمیت آسمان پر چڑھ گیا۔‘‘(۲۔سلاطین ۲/۱۱) پھر لکھا ہے:۔ ’’ایلیاہ دوبارہ دنیا میں آئے گا۔‘‘ (ملاکی ۴/۵)

مگر وہ آسمان سے نازل نہ ہوا۔یسوع نے یوحنا کو جو پیدا ہوا تھا ’’ایلیاہ‘‘ قرار دیا۔(متی ۱۱/۱۴) اسی طرح آج تم کہتے ہو کہ مسیح آسمان سیآئے گا۔

جواب نمبر۳:۔ انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح موعود پیدا ہوگا۔چنانچہ لکھا ہے کہ جب ابنِ آدم (یسوع) نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ (متی ۱۹/۲۸)

دوسرا اعتراض:۔ مسیح تو جلال کے ساتھ آسمان سے اترے گا اور سب لوگ اس پر ایمان لے آویں گے۔

الجواب:۔ غلط ہے۔ (الف) یسوع نے تو صاف کہا ہے:۔ ’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا۔ انہوں نے اس کو نہ پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا۔‘‘(متی ۱۷/۱۲) گویا جس طرح انہوں نے ایلیاہ کو جو آنے والا تھا’’یوحنا‘‘ کی شکل میں نہ پہنچا اور اس کی تکذیب کی۔اسی طرح مسیح موعود کی بھی تکذیب کریں گے اور وہی پرانا اعتراض پیش کریں گے کہ اس نے آسمان سے نازل ہونا تھا۔

(ب)پھر یسوع کہتا ہے:۔ کہ خدا کی بادشاہت ظاہری طور پر نہ آئے گی۔ (لوقا ۱۷/۲۰) لہٰذا آسمان سے جلال کے ساتھ نازل ہونا چہ معنی دارد۔

(ج) مسیح کی آمد چور کی طرح ہوگی۔ (۲۔پطرس ۳/۱۰ و ۱۔ تھسلینکیوں۵/۲ و لوقا۱۲/۳۹ و متی۲۴/۴۳) چور رات کو چھپ کر اور لباس بدل کر آتا ہے یا جلال کے ساتھ اپنی اصلی شکل میں۔ اسی طرح مسیح نے بھی بھیس بدل کر اپنے مثیل کے رنگ میں آنا تھامگر تم نے اس کے کلام کو نہ سمجھا۔

تیسرا اعتراض:۔ مسیح نے کہا :۔ بہت سے جھوٹے مسیح آئیں گے تم ان پر ایمان نہ لانا۔ مرزا صاحب بھی انہیں میں سے ہیں۔خواہ کتنے نشان دکھائیں ہم نہیں مانیں گے ۔

الجواب :۔ یسوع نے جن جھوٹے مدعیان مسیحیت و نبوت کا ذکر کیا ہے وہ وہی ہیں جو یسوع کو ’’خداوند‘‘ کہتے ہیں اور اس کے نام سے بد روحوں کونکالنے کے اور اس کے فیض اور اسی کی برکت سے مسیحیت کے مدعی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:۔

’’جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔جو تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے……جو مجھ سے اے خداوند! اے خداوند! کہتے ہیں اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند، اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی؟ اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا۔اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔‘‘ (متی۱۵تا۷/۲۲)

گویا وہ جھوٹے نبی (۱) بُرے پھلوں والے (۲) یسوع کو خداوند کہنے والے (۳) اسی کی برکت سے سب کچھ کرنے والے ہوں گے۔

مرزا صاحب میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ آپ تو یسوع کی الوہیت کے سب سے بڑے دشمن تھے۔آپ نے تحفہ قیصریہ میں مسیح کے نام سے آنے والا اپنے آپ کو کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں۔اصل مسیح چونکہفوت ہو گیا ہے اس لیے آنے والا مثیل مسیح حضور علیہ السلام ہی کا وجود با جود ہے۔ ورنہ آپ نے یسوع کے فیض سے نبوت پانے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ہاں یسوع کی عبارت مندرجہ متی۷/۱۸ میں ڈوئی جیسے عیسائی مدعیانِ مسیحیت و نبوت شامل ہیں جو الوہیتِ مسیح کے قائل اور اسی کے نام سے سب کچھ کرنے کے مدعی ہیں۔ (مثلاً تھیوداس اور یہوداہ گلیلی دیکھو اعمال ۳۶،۵/۳۷)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرنا سراسر ظلم ہے۔آپ کی اولاد اور جماعت کو دیکھو۔

چوتھا اعتراض:۔ مَری پڑنا۔لڑائیوں کا ہونا۔بھونچال آنا۔چاند سورج کا تاریک ہونا وغیرہ۔یہ نشان تو مسیح کی آمد ثانی کے پہلے ہونے ہیں نہ کہ اس کی آمد کے بعد۔

الجواب:۔ یہ عقلاً غلط ہے۔سزا ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد ہوتی ہے نہ کہ اس سے قبل؟ دنیا میں عالمگیر عذاب ہمیشہ نبی کی بعثت اور اس کی تکذیب کے بعد ہی آیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے (بنی اسرائیل:۱۶)

مَّنِ ٱهۡتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَہۡتَدِى لِنَفۡسِهِۦ‌ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡہَا‌ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ۬ وِزۡرَ أُخۡرَىٰ‌ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولاً۬ (١٥) (بنی اسرائیل:۱۶)

اور یہی بات آپ کی توریت میں بھی لکھی ہے۔ ’’اور یہ ہوگا کہ جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امت میں سے نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘ (استثنا ۱۸/۱۹ و اعمال ۳/۲۳)

لہٰذا آپ کی انجیل کے کاتب نے اتنی غلطی کی ہے کہ پیچھے واقع ہونے والی بات کو پہلے لکھ دیا۔ پس کاتب کا قلم باطل ہے۔ (یرمیاہ:۸/۸)

اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کی آمد اچانک ہو گی اور اس کا اس سے قبل کسی کو علم نہ ہو گا۔ پس اس سے پہلے بیماریاں پڑنا غلط ثابت ہوا۔ ( متی۳۲تا۴۳؍۲۴ مرقس۳۲تا۳۷؍۱۳)

پانچواں اعتراض:۔ مرزا صاحب کو ان کے گھر میں قبولیت نہ ہوئی۔قادیان میں بھی سب لوگ احمدی نہیں ہوئے۔پنجاب اور ہندوستان نے ان کو قبول نہیں کیا۔

الجواب :۔ یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ کذب کی۔خود یسوع کہتا ہے:۔

(الف) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا۔ (لوقا۴/۲۴)

(ب) نبی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا کہیں بے عزت نہیں ہوتا۔ (متی۱۳/۵۷)

(ج) یہی تو مسیح ناصری کی پیشگوئی تھی کہ مسیح کی آمد ثانی کے وقت اس کی تکذیب ہوگی اور لوگ اسے نہیں مانیں گے۔

۱۔ ’’لیکن پہلے ضرور ہے کہ بہت دُکھ اٹھائے اور اس زمانہ کے لوگ اسے رد کریں……ابنِ آدم کے ظاہر ہونے کے دن بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘ (لوقا ۱۷/۲۵)

۲۔ ’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا۔‘‘ (متی۱۷/۱۲)

(د) نئے عہد نامے میں صاف لفظوں میں موجود ہے کہ تکذ یب ہونا اور دکھ پہنچنا سچے نبیوں کی علامت ہے۔ملاحظہ ہو۔یعقوب ۵/۱۰۔ ’’جن نبیوں نے خداوند کے نام سے کلام کیا ان کو دُکھ اٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو……تم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے۔‘‘

چھٹا اعتراض:۔ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔محمدی بیگم وغیرہ۔

الجواب:۔ محمدی بیگم وغیرہ پیشگوئیاں تفصیل سے دوسری جگہ درج ہیں۔یہ سب پیشگوئیاں انذاری تھیں اور پوری ہوئیں، لیکن تمہاری بائیبل سے ثابت ہے کہ انذاری پیشگوئیاں ٹل جایا کرتی ہیں۔ یونس نبی کی چالیس یومی پیشگوئی دیکھو یوناہ باب ۳ آیت ۴ ۔ اسی طرح اپنے پولوس رسول کی پیشگوئی دیکھو اعمال۱۰تا۲/۲۵

پہلے کہا:۔ ’’اس سفر میں بہت تکلیف اور نقصان ہو گا۔نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔‘‘ (اعمال ۲۷/۱۰)لیکن بعد میں کہا۔خاطر جمع رکھو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہوگامگر جہاز کا……ان سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی کی۔ (اعمال ۲۲تا۲۷/۲۴)

یسوع کی پیشگوئیوں کا حال مضمون’’قرآنی مسیح و انجیلی یسوع‘‘میں مذکور ہے۔دیکھوصفحہ۱۲۸۔

تم یسوع کی ایک پیشگوئی انجیل سے سچی ثابت کردو ہم اسکے مقابلہ میں حضرت مرزا صاحبؑ کی دو پیش کریں گے۔آؤ میدان میں نکل کر مقابلہ کرو۔دیدہ باید

جیسا کہ خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عیسائیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا مگر کسی عیسائی کو مقابلہ پر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔حضرت علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ثابت ہیں۔اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قوی تر دکھلاسکے تو میں اسکو ایک ہزار روپیہ نقد دونگا‘‘ ( اشتہار مشمولہ رسالہ انجام آتھم و تبلیغ رسالت جلد۶۔ ص۱۷)

ساتواں اعتراض :۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد ان کی جماعت میں اختلاف پھیل گیا۔

الجواب:۔ ذرا انجیل پڑھو۔یسوع کی وفات کے تھوڑا ہی عرصہ بعد پولوس کرنتھیوں کو یوں مخاطب کرتا ہے:۔ ’’اے بھائیو! ……تم میں جھگڑے ہو رہے ہیں۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں۱/۱۱)

’’تم میں بڑا نقص یہ ہے کہ آپس میں مقدمہ بازی کرتے ہو۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں۶/۷)

آٹھواں اعتراض:۔ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو مریم قرار دیا۔وہ عورت کس طرح بن گئے؟

الجواب :۔ انجیل پڑھو۔پولوس عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے :۔

۱۔’’ میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ پاکدامن کنواری کی مانند تم کو مسیح کے پاس حاضر کروں۔‘‘ (۲کرنتھیوں۱۱/۲)

گویا عیسائی یسوع کی بیویاں ہیں۔

۲۔’’میں تجھے دلہن کے برّے کی بیوی دکھاؤں۔‘‘(مکاشفہ۲۱/۹) اس میں یسوع کے بارہ شاگردوں کو یسوع کی بیویاں قرار دیا گیا ہے۔

۳۔یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ہے۔یہ ہے میری ماں۔ (لوقا۸/۲۱)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نواں اعتراض:۔ مرزا صاحب نے اپنے متعلق حمل،حیض،دردِزہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مردوں کے لیے جائز نہیں۔

الجواب:۔ یہ سب استعارات ہیں (ان کی تشریح غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات میں دیکھو)یہاں پر مختصر طور پر ذرا انجیل کے مندرجہ ذیل مقامات پڑھ لو :۔

۱۔پولوس عیسائیوں کو کہتا ہے:۔ ’’کاش تم میری تھوڑی سی بیوقوفی برداشت کر سکتے۔ہاں تم میری برداشت کرتے تو ہو۔مجھے تمہاری بابت خدا کی سی غیرت ہے کیونکہ میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ تم کو پاکدامن کنواری کی مانند مسیح کے پاس حاضر کروں۔‘‘ (۲کرنتھیوں ۱،۱۱/۲) گویا تمام عیسائی کنواری عورتیں تھیں اور پولوس نے ان کی شادی مسیح سے کر دی۔

نوٹ:۔ اس عبارت میں پولوس نے اپنی بیوقوفی کا ذکر کیا ہے اور رومیوں ۷/۲۴ میں اپنے آپ کو کمبخت آدمی بھی قرار دیا ہے۔

’’ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے۔‘‘ (یعقوب ۱/۱۵)

۲۔پطرس عیسائیوں سے کہتا ہے:۔ ’’تم فانی تخم سے نہیں بلکہ تم غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلے سے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو۔‘‘ (۱۔ پطرس۱/۲۳)

۳۔ ’’جس طرح کہ پیٹ والی عورت جس کے جننے کا وقت نزدیک ہو درد د کھاتی ہے اور اس پیڑ سے جو اسے لگی چیخیں مارتی ہے۔اے خداوند ہم تیری نگاہ میں ویسے ہی ہیں۔ہم حاملہ ہوئے۔ہمیں درد زہ لگا۔پر گویا ہوا جنے۔‘‘ (یسعیاہ۱۷،۲۶/۱۸) یہ ’’ہوا جنے‘‘کا محاورہ قابل غور ہے۔

۴۔’’یروشلم ان کے درمیان حائض عورت کی طرح ہے۔‘‘ (یرمیاہ کا نوحہ۷،۱/۱۷ پرانا عہد نامہ)

۵۔’’اری اے بانجھ تو جو نہیں جنتی خوشی سے للکار……کیونکہ تیرا خالق تیرا شوہر ہے۔‘‘ (یسعیاہ۱تا۵۴/۵)

۶۔بنی اسرائیل کو کہا ہے۔’’تمہارے پیٹ میں کوڑے کا حمل ہو گاتم گرگٹ جنو گے۔‘‘ (یسعیاہ ۳۳/۱۱)

۷۔ خدا کی ’’بیویوں‘‘ کے پستان وغیرہ:۔

’’خدا وند کا کلام مجھے پہنچا اور اس نے کہا کہ اے آدم زاد! دو عورتیں تھیں۔جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئیں۔انہوں نے مصر میں زنا کاری کی۔وہ اپنی جوانی میں یار باز ہوئیں۔وہاں ان کی چھاتیاں ملی گئیں اور وہاں ان کے بِکر کے پستان چھوئے گئے۔ان میں سے بڑی کا نام آہولہ اور اس کی بہن آہولیبہ۔اور وہ میری جو روئیں ہوئیں اور بیٹے بیٹیاں جنیں۔‘‘ (حزقی ایل ۱تا۲۳/۵)

۸۔مذکورہ بالا آہولیہ کا حال سنو:۔

’’تب اسکی زنا کاری عام ہوئی اور اس کی برہنگی بے ستر ہوئی۔تب جیسا میرا جی اس کی بہن سے ہٹ گیا تھا ویسا ہی میرا دل اس سے بھی ہٹا۔تِس پر بھی اس نے اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کر کے جب وہ مصر کی زمین میں چھنالہ کرتی تھی زنا کاری پر زناکاری کی ۔سو وہ اپنے ان یاروں پر مرنے لگی جن کا بدن گدھوں کا سا بدن اور جن کا انزال گھوڑوں کا سا انزال تھا۔‘‘ (حزقیل ۱۸تا۲۳/۲۰)

۹۔’’جس طرح جوان مرد ایک کنواری کو بیاہ لاتا ہے اسی طرح وہ جو تجھ (یروشلم)کو تعمیر کرتے تجھے بیاہ لے جائیں گے اور جس طرح دولہا دلہن پر ریجھتا ہے۔اسی طرح تیرا خدا تجھ پر ریجھے گا۔‘‘ (یسعیاہ ۶۲/۵)

۱۰۔’’خداوند یوں فرماتا ہے کہ تیری ماں کا طلاقنامہ جسے لکھ کر میں نے اسے چھوڑ دیا کہاں ہے؟……تمہاری خطاؤں کے باعث تمہاری ماں کو طلاق دی گئی۔‘‘ (یسعیاہ ۵۰/۱)

۱۱۔خداوند نے مجھ سے کہا کیا تو نے دیکھا ہے کہ برگشتہ اسرائیل نے کیا کیا ہے؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کے تلے گئی اور وہاں زناکاری کی اور جب وہ سب کچھ کر چکی تو میں نے کہا کہ میری طرف آ۔پر وہ نہ پھری۔اور اس کی بے وفا بہن یہوداہ نے یہ حال دیکھا۔پھر میں نے دیکھا کہ جب اسی باعث سے کہ اس نے زناکاری کی تھی۔میں نے برگشتہ اسرائیل کو نکالا اور اسے طلاقنامہ لکھدیا۔باوجود اس کے اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری۔بلکہ اس نے بھی جاکے چھنالہ کیا اور ایسا ہوا کہ اس نے اپنے چھنالے کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زناکاری کی۔‘‘ (یرمیاہ ۶تا۳/۹)

۱۲۔ زیادہ تفصیل سے یروشلم (خدا کی بیوی)کی زناکاری کا حال ملاحظہ ہو۔ (حزقی ایل باب ۱۶ آیت ۱ تا ۶۳)

۱۳۔اور خداوند فرماتا ہے کہ ازبسکہ صیہون کی بیٹیاں شوخ ہیں اور گردن کشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی ہیں اور اپنے پاؤں سے نِت ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صیہون کی بیٹیوں کی چاندیوں کو گنجی کرے گا اور خداوند ان کے اندام نہانی کو اکھاڑے گا۔‘‘ (یسعیاہ۱۶،۳/۱۷)

۱۴۔’’خداوند نے یہوداہ کی کنواری بیٹی کو کولھو میں لتاڑا۔‘‘ (یرمیاہ کا نوحہ باب پہلا آیت ۱۵)

۱۵۔ پولوس کہتا ہے۔’’کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔اور نہ فقط وہی بلکہ ہم بھی آپ اپنے باطن میں کراہ رہے ہیں۔‘‘ (رومیوں ۲۲۔۸/۲۳)

۱۶۔’’اے میرے بچو! تمہاری طرف سے مجھے پھر جننے کے سے درد لگے۔‘‘ (گلیتوں ۴/۱۹)

۱۷۔ خدا کو دردِزہ :۔ میں بہت مدت سے چپ رہا اور آپ کو دیکھتا رہا۔پر اب میں اس عورت کی طرح جس کو دردِ زہ ہوچلاؤں گا۔ ہانپوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا۔‘‘ (یسعیاہ۴۲/۱۴)

دسواں اعتراض:۔ مرزا صاحب نے بعض کتابوں کے حوالے غلط دیئے ہیں۔

الجواب:۔ ہم حضرت مرزا صاحب کی کتابوں کو سہوِ کتابت اور سبقت قلم سے پاک نہیں سمجھتے۔ خصوصاً جب کہ ہم آپ کونبی مانتے ہیں مگر ذرا اپنے خداوند یسوع کا بتایا ہوا حوالہ کہ داؤد نے ابیاتار سردار کاہن کے عہد میں اس کے گھر سے نذر کی روٹیاں کہیں بائیبل سے نکال دو ۔نیز متی میں جو یہ لکھا ہے ۔’’تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھاوہ پورا ہوا کہ وہ ناصری کہلائے گا۔‘‘ (متی۲/۲۳) اس کا حوالہ بائیبل سے نکال دو ۔

تمہارے انجیلی ملہم کی دیانتداری کا یہ حال ہے کہ یسعیاہ ۷/۱۴کی عبارت کنواری حاملہ ہوگی۔ بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی۔‘‘کو نقل کرتے ہوئے ’’کنواری حاملہ ہوگی اور بچہ جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے۔‘‘کر دیا ہے۔محض اس لیے کہ تمہارے خداوند کا نام اس کی والدہ نے عمانوایل نہیں بلکہ یسوع رکھا تھا۔ ع کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ

گیارہواں اعتراض:۔ مرزا صاحب کی عبد اﷲ آتھم والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی؟

الجواب :۔ اس میں شرط تھی ۔’’۱۵۔ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا……بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ (جنگ مقدس۔ روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۲۹۲)

اس کا ثبوت کہ وہ راجع الی الحق ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انعامی اشتہارات ہیں ۔آپ نے آتھم کو حلف مؤکد بعذاب اٹھانے کے لیے چار ہزار روپیہ تک انعامی چیلنج دیا مگر وہ میدان میں نہ آیا۔

عیسائی: اس کے لیے حلف اٹھانا ناجائز تھا (یعقوب ۵/۱۲ و متی ۵/۳۴) اس لئے مرزاصاحب کا مطالبہ حلف درست نہ تھا۔

جواب:۔ غلط ہے۔انجیل سے ثابت ہے کہ یسوع کے بعد اس کے شاگرد اور رسول قسمیں کھاتے رہے چنانچہ پولوس نے مسیح کی قسم بھی کھائی۔(۱۔تھسلنیکیوں ۲۷،۵/۲۸) (انجیلی اصطلاح میں خداوند سے مراد یسوع ہے)۔فخر کی قسم۔ (۱۔کرنتھیوں ۱۶/۲۱)

اس لیے آتھم کا بہانہ شائستہ اعتناء نہ ہونے کے و جہ سے صداقت حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر گواہ ہے۔

بارھواں اعتراض: مرزا صاحب کی آمد کی و جہ سے تمام مسلمان پاک نہیں ہو گئے مگر خداوند یسوع کے ’’کفارہ‘‘ پر ایمان لانے سے ہم پاک ہو گئے اور کفارہ نے گناہ کو جڑ سے کاٹ دیا۔

الجواب:۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے خدا تعالیٰ کی سنّتِ قدیمہ کے مطابق جماعت احمدیہ کا جو ایک پاکبازوں کی جماعت ہے قیام ہوا۔کیا مسیح کی آمد پر تمام یہودی پاک ہوگئے تھے؟ ہاں یسوع کی زندگی میں صرف بارہ آدمی ظاہری طور پر پاک ہوئے تھے جن کی حالت کا نقشہ انجیل نے خوب کھینچا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا کے فضل سے مسیح سے لاکھوں گُنا کامیابی ہوئی۔

باقی رہا کفارہ سے گناہ کا جڑسے کٹنا۔سو یہ بھی غلط ہے۔انجیل میں ہے کہ یسوع کے بعد خود عیسائیوں میں بدکاری موجود تھی۔چنانچہ پولوس رسول عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے :۔ ’’یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرام کاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرام کاری جو غیرقو موں میں بھی نہیں ہوتی۔چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تاکہ جس نے یہ کام کیا تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۵/۱)

غرضیکہ موجودہ عیسائیوں اور ان کی تبلیغ کی وہی کیفیت ہے جو مسیح نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:۔

’’اے ریاکارفقیہیو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ ایک کو مرید کرنے کے لئے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔‘‘ (متی ۲۳/۱۵)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تیرھواں اعتراض:۔ مرزا صاحب کہتے ہیں ؂

کرمِ خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

گویا اپنے آپ کو انسان بھی نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ مسیح ہوں۔

الجواب :۔ ذرا اپنی بائیبل کو پڑھو تا تمہیں معلوم ہو کہ تم جس قول کو بغرض تکذیب پیش کر رہے ہو وہی قول صداقتِ مسیح موعودعلیہ السلام کا مؤید ہے۔

(الف)۔داؤد کہتا ہے۔’’پر میں کیڑا ہوں نہ انسان۔آدمیوں کا ننگ ہوں اور قوم کی عار۔‘‘ (۲۲ زبور آیت ۶)

(ب) تمہارا مسیح کہتا ہے۔’’لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِ آدم کے لیے سردھرنے کی جگہ نہیں۔‘‘ (متی ۸/۲۰)

(ج) پولوس کہتا ہے :۔ ’’ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں۔‘‘ (رومیوں ۷/۲۴)

(د) کاش تم میری تھوڑی سی بیوقوفی کی برداشت کر سکتے۔‘‘ (۲۔کرنتھیوں باب ۱۱۔آیت ۱)

(ھ) اس قسم کے الفاظ خدا کے نیک بندے اپنی نسبت بطور انکسار استعمال فرمایا کرتے ہیں۔ ان کو حقیقت پر محمول کر کے ان پر ہنسی اڑانا شریف آدمیوں کا شیوہ نہیں۔حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔

’’میں نے حدیث شریف پڑھی ہے جس میں جناب رسالتماب صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ زمانہ آخر میں مخلوق کا نیک گمان اس شخص کے متعلق ہوگا جو سب سے بدتر ہوگا اور وعظ بیان کرے گا۔چنانچہ میں نے اپنے آپ کو سب سے بدترین دیکھا۔اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد سچا ہونے کی و جہ سے وعظ بیان کرتا ہوں۔‘‘

(تذکرہ اولیاء حضرت خواجہ فرید الدین عطارصفحہ ۲۳۱ اشاعت اوّل آست ۲۰۰۴ء ادارہ اسلامیات لاہور۔کراچی)

(و) حضرت داتا گنج اپنی کتاب’’کشف المحجوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’داؤد طائی رحمۃ اﷲ علیہ امام صاحب (امام جعفر صادق ؒ)کے پاس آئے اور کہا۔اے رسولؐ کے بیٹے! مجھے کوئی نصیحت فرماؤ کیونکہ میرا دل سیاہ ہو گیا ہے۔انہوں نے جواب دیا کہ اے ابا سلمان! آپ اپنے زمانہ کے زاہد ہیں۔آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے؟داؤد طائی ؒنے فرمایا کہ اے فرزند پیغمبرؐ !خداوند تعالیٰ نے آپ کو سب خلقت پر فضیلت دی ہے۔آپ کو سب کے لیے نصیحت کرنا واجب ہے۔امام صاحبؒ نے فرمایا۔اے ابا سلمان! میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کو میرا جَدّ بزرگوار ؐ مجھے گرفت کرے کہ تو نے حق مطابعت ادا نہیں کیا اور یہ کام نسب سے صحیح اور نسبت سے قوی نہیں ہوتا……داؤد طائی رونے لگے اور کہا اے خداوند عزّ و جلّ جس کا خمیر نبوت کے پانی سے ہے اور اس کی طبیعت کی ترکیب دلائل روشن سے ہے اور جس کا نانا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے اور ماں بتول یعنی فاطمۃ الزہرا ؓہے اس کے سامنے داؤد کون ہوتا ہے جو اپنے معاملہ پر غرہ ہو۔یہ بھی انہیں سے روایت ہے کہ ایک روز اپنے غلاموں میں بیٹھے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آؤہم بیعت کریں یعنی عہد کریں کہ قیامت کے دن جو شخص ہم میں سے نجات پائے وہ سب کی شفاعت کرے۔اوروں نے کہا کہ اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیٹے!آپ کو ہماری شفاعت کی کیا پروا ہے کیونکہ آپ کے جدِّ مبارک سب خلقت کے شفیع ہیں۔امامؒ نے (امام جعفر صادق ؒنے)کہا کہ میں اپنے فعلوں کے ساتھ شرم رکھتا ہوں کہ دادا بزرگوار کو کس طرح مونہہ دکھاؤں اور یہ سب اپنے نفس کی عیب گیری ہے۔اور یہ صفت کامل صفتوں سے ہے اور سب باریابِ جناب الٰہی کے انبیاء اور اولیاء اور رسول اسی صفت پر ہوئے ہیں۔‘‘

(کشف المحجوب صفحہ ۱۹۱۔۱۹۰ ناشر کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازار لاہور طبع اول جنوری ۱۹۷۹ء)

(ز) حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں یہ دعا سکھائی گئی ہے:۔

۱۔ قُلِِ اللّٰھُمَّ اِنِّیْ ضَعِیْفٌ فَقَوِّنِیْ وَ اِنِّیْ ذَلِیْلٌ فَاَعَزِّنِیْ وَ اِنِّیْ فَقِیْرٌ فَارْزُقْنِیْ (مستدرک امام حاکم ؒ بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی جلد ۱باب القاف مطبع مصطفےٰ مصر صفحہ ۸۷) یعنی یہ دعا کر کہ اے خدا ! میں کمزور ہوں تو مجھے طاقت دے۔میں ’’ذلیل‘‘ ہوں مجھے عزت اور غلبہ دے۔ میں فقیر ہوں تو مجھے رزق عطا فرما۔

۲۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَ تَرٰی مَکَانِیْ وَ تَعْلَمُ سرِّیْ وَ عَلَانِیَِتِیْ۔لَا یَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْءٌ مِّنْ اَمْرِیْ وَ اَنَا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ……وَابْتَھَلُ اِلَیْکَ ابْتِھَالَ الْمُذْنِبِِِ الذَّلِیْلِ وَ اَدْعُوْکَ دُعَآءَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقْبَتُہٗ وَ فَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَ ذَلَّ لَکَ جِِِِِسْمُہٗ وَ رَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ۔

(طبرانی بحوالہ الجامع الصغیر للسیوطی جلد۱ باب الالف صفحہ۵۷ مصری)

یعنی اے اﷲ!تو میرے کلام کو سنتا اور میرے مکان کو دیکھتا ہے۔تو میرے مخفی اور ظاہر کا علم رکھتا ہے۔ میرے کام میں سے کوئی چیزتجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور میں مفلس اور محتاج ہوں ……اور میں تیرے سامنے ایک گنہگار ذلیل کی طرح گڑ گڑاتا ہوں اور ایک ایسے خوفزدہ نابینا کی سی دعا کرتا ہوں جس کی گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور اس کا جسم تیرے آگے سجدہ ریز ہے اور تیرے سامنے اس کی ناک ذلیل اور شرمندہ ہے۔

اب یہ سب چونکہ خالق کے آگے مخلوق کی مناجات ہے اس لیے اس میں جتنا بھی زیادہ ابتہال اور انکسار اور تذلّل ہوگا اتنا ہی اس کا مقام بالا از اعتراض ہوگا۔یہی صورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی ہے۔حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ شعر جس پر اعتراض کیا گیا ہے یہ بھی اﷲ تعالیٰ کے سامنے عجز و انکسار اور دعا کا حامل ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا (بحوالہ زبور) اوپر درج ہوچکی ہے۔بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ مناجات لفظاً لفظاً حضرت داؤدؑ کی دعا کا ترجمہ ہے۔پس جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے یا اس پر تمسخر اڑاتا ہے وہ حد درجہ کا شقی اور مُتَفَنِّی انسان ہے اور اپنی بدفطرتی کے مظاہرہ کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔

(ح)حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ قول محمول بہ انکسار ہے جیسا کہ خود حضورؑ فرماتے ہیں:۔

إنَّ الْمُـہَیْمِنَ لَا یُحِبُّ تَـکَبُّرًا

مِنْ خَلْقِہِ الضُّعَـفَاءِ دُوْدِ فَنَاءِ

(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۷۱)

کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق سے جو کہ ضعیف اور کیڑے ہیں تکبر پسند نہیں کرتا۔اس میں حضورؑ نے تمام مخلوق کو کیڑے قرار دیا ہے اور تکبر سے اظہار نفرت فرمایا ہے۔پھر فرماتے ہیں:۔

وَ مَا نَحْنُ اِلَّا کَالْفَتِیْلِ مَذَلَّۃٌ

بِاَعْیُنِھِمْ بَلْ مِنْہُ اَدْنٰی وَ اَحْقَرٗ

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۳۳۴)

کہ ہم اپنے مخالفوں کی نظرمیں ایک ریشۂ خرما کی طرح ہیں بلکہ اس سے زیادہ حقیر اور ذلیل۔پھر تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اس آیت میں ان نادان مؤحدوں کا ردّ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور……کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متیّٰ سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ ……وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سیّد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباد اﷲ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص درحقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اﷲ ہے کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۱۶۳)
 
Top