• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

غیر احمدی اعتراضات ۔ پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی اعتراضات
پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات

۱۔ پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیرہ

اعتراض ۔ محمدی بیگم، مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی



خدا تعالیٰ کی سنتِ قدیمہ:۔ جب کوئی قوم اپنی بد اعمالیوں کی و جہ سے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس قوم کو عذاب نازل کرنے سے قبل آخری اتمام حجت کے طور پر ایک حکم دیا کرتا ہے کبھی وہ حکم اپنی ذات میں نہایت معمولی ہوتا ہے مگر اس کی خلاف ورزی ’’اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسی قانون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے (بنی اسرائیل:۱۷)

کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو ایک حکم دیتے ہیں جس کی وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ پس ان پر فردِ جرم لگ جاتا ہے اور ہم ان کو بالکل تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔

چنانچہ اسی قسم کی اتمامِ حجت کی ایک مثال سورۃ الشمس میں بیان فرمائی ہے۔ (الشمس:۱۴،۱۵) پس قوم ہود سے اﷲ تعالیٰ کے نبی (صالحؑ) نے فرمایا کہ خدا کی اس اونٹنی کا خیال رکھو، اور اس کا پانی بند نہ کرو۔ پس انہوں نے اس کا انکار کیا اور انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیئے۔ پس ان کو خداتعالیٰ نے ان کے گناہ اور نافرمانی کے باعث ہلاک کر دیا۔

پس یہی سنت الٰہیہ تھی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ معاملہ کیا۔ وہ لوگ (جیسا کہ تفصیل آگے آئیگی) خدا تعالیٰ کے منکر، آنحضرتؐ اور قرآن کے دشمن تھے، ہندو تہذیب اور ہندؤانہ رسوم کا ان پرگہرا اثر تھا، جس طرح ہندوؤں کے ہاں اپنی گوت اور خاندان میں نکاح ناجائز سمجھا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ (مرزا احمد بیگ وغیرہ) بھی یہ خیال کرتے تھے کہ اسلام نے جو چچا، ماموں اور خالہ کی لڑکی کے سا تھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ نہایت قابل اعتراض ہے وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ مندرجہ بالا رشتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا حقیقی ہمشیرہ کے ساتھ نکاح کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آنحضرتؐ نے جو اپنی پھوپھی کی لڑکی (حضرت ز ینبؓ) سے نکاح کیا وہ بھی ناجائز تھا۔ سو خدا تعالیٰ نے ان کی بد کرداریوں اور نافرمانیوں کے باعث (جن کی تفصیل آگے آئے گی) ان کو قوم صالحؑ کی طرح ایک آخری حکم دیا کہ وہ (احمد بیگ) اپنی لڑکی کا نکاح حضرت مسیح موعود ؑ سے کر دیں گے تو یہ نکاح قرآن مجید کی آیت (التوبۃ:۱۱۹) کے مطابق (کہ صادقین کے ساتھ تعلق پیدا کرو) موجب رحمت اور برکت ہو گا۔

۲۔ چونکہ حضرت اقدس کا رشتہ ان لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا جس میں ہندوؤانہ رسوم کے ماتحت باہمی نکاح کو وہ برا سمجھتے تھے، اس لئے خدا تعالیٰ نے خصو صیت سے اسی امر کو چنا۔ جس طرح آنحضرتؐ کے ز ینبؓ (مطلقۂ زیدؓ) کے ساتھ نکاح کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (الاحزاب:۳۸) کہ ہم نے یہ نکاح کیا تا کہ مومن اپنے متبنّوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کو برا نہ سمجھیں۔

گویا اس بد رسم کو مٹانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کا حضرت ز ینبؓ سے نکاح کیا۔ بعینہٖ اس جگہ بھی اسی امر کو چنا، تا ان کی اصلاح ہو اور یہ خیالات فاسدہ ان کے دماغ سے نکل جائیں۔

۲۔ تیسری حکمت اس میں یہ تھی کہ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو ان کی اصلاح مقصود تھی اور تاریخ اسلامی سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کے ساتھ جسمانی رشتہ لڑکی کے خاندان کی اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے جیسا کہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان اور سودہؓ بنت زمعہؓ کے آنحضرتؐ کے نکاح میں آ جانے کی وجہ سے ان کے خاندان حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے یہی آخری حکم مرزا احمد بیگ وغیرہ کو دیا۔

مخالفین ا نبیاء کا شیوہ تکذیب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شروط کے ساتھ لفظًا لفظًا پوری ہو گئی، جیسا کہ خو د حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرما تے ہیں۔

’’ہم نے سلطان محمد کے بارے میں اس کی موت کی وجہ تاخیر علیحدہ اشتہار میں ایسے طور سے ثابت کر دی ہے جس کے قبول کرنے سے کسی ایماندار کو عذر نہیں ہوگا۔ اور بے ایمان جو ؔچاہے سو کہے یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ پوری ہوئی جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا۔ ‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۱)

نوٹ:۔ بعض ان لوگوں کو جن کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابو ں کا علم نہیں خاکسار پر طعن کیا ہے کہ گویا یہ دعویٰ کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی خاکسار کی ایجاد ہے جیسا کہ مولوی ثناء اﷲ جس نے اس پاکٹ بک کی نقل کر کے ایک اشتہاری پاکٹ بک ’’ثنائی پاکٹ بک‘‘ کے نام سے شائع کی ہے اس کے صفحہ۶۷ پر یہی اعتراض لکھا ہے حالانکہ یہ محض اس کی لاعملی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے۔ (خادم)

اہل بصیرت نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت و حقانیت کی ایک دلیل سمجھا۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں آدمی حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے مگر ’’عُلَمَآءُ ھُمْ‘‘ اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے با ز نہ آئے۔ ‘‘

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرتؐ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ (الاحزاب:۳۸) کہ جب زید ؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی تو ہم نے آپ کے ساتھ آسمان پر نکاح پڑھ دیا۔

یہی الفاظ کا حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے محمدی بیگم کے متعلق فرمایا۔ وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت ز ینبؓ کا نکاح ہو گیا مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں شرائط کے عدم تحقق کے باعث محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو اس پر بھی مخالفین اعتراضات کرنے میں پیش پیش ہیں۔ غرضیکہ نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعث اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث در حقیقت وہ فطری بغض ہے جو روزِ ازل سے معاندین و مکذبین کے شامل رہا ہے۔

چنانچہ ہم محمدی بیگم کے ساتھ متعلقہ پیشگوئی کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ درج ذیل کر کے اہل بصیرت حضرات سے اپیل کرتے ہیں، اگر وہ خدا کے لئے انصاف و خدا ترسی کے ساتھ اس پیشگوئی پر نظر ڈالیں گے تو ان پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ اس پیشگوئی پر مخالفین کی طرف سے جس قدر اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں بلکہ یہ بھی کہ یہ پیشگوئی بعینہٖ اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو بیان فرمایا تھا، پوری ہوئی۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔

مخالف علماء کی غلط بیانیاں

مخالف علماء اس پیشگوئی پر اعتراض کرنے کے لئے ہمیشہ صداقت و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم کے ساتھ میرا نکاح ہو جائیگا، اگر میرا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوا تو میں جھوٹا ہو جاؤں گا اور ’’بد سے بدتر ٹھہروں گا۔‘‘ چونکہ مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے نہیں ہوا لہٰذا مرزا صاحب جھوٹے ہیں۔ (نعوذ باﷲ)

یہ وہ طریق ہے کہ جس سے وہ اس پیشگوئی کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ حالانکہ خدا شاہد ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ افتراء اور دھوکا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اسی طرح پیشگوئی فرمائی ہوتی تو غیر احمدی علماء کا اعتراض درست ہوتا مگر واقعہ یہ ہے کہ مخالف علماء ہمیشہ اصل واقعات کو حذف کر کے بے حد تحریف کے ساتھ پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔

پیشگوئی کی غرض و غایت

اس پیشگوئی کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی اصل غرض و غایت کو بیان کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اِنَّ اللّٰہَ رَأَی ابْنَاءَ عَمِّیْ، وَ غَیْرَھُمْ مِنْ شُعُوْبِ أَبِیْ وَ أُمِّی الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ، وَالْمُسْتَغْرِقِیْنَ فِی السِّیِّئَاتِ مِنَ الرُّسُوْمِ الْقَبِیْحَۃِ وَالْعَقَائِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ الْبِدْعَاتِ۔ وَ رَآھُمْ مِنْقَادِیْنَ لِجَذَبَاتِ النَّفْسِ وَاِسْتِیْفَاءِ الشَّھَوَاتِ، وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۶)

کہ خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں …… (احمد بیگ وغیرہ) کو مہلک خیالات و اعمال میں مبتلاء اور رسوم قبیحہ، عقایدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا، اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے لحاظ سے پیروانِ جذبات و شہوات نفسانیہ ہیں۔ اور نیز یہ کہ وہ وجود خداوندی کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘

اس کے آگے یہاں تک فرمایا۔ وَ کَانُوْا أَشَدُّ کُفْرًا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَالْمُنْکِرِیْنَ لِقَضَاءِ اللّٰہِ وَ قَدْرِہٖ وَ مِنَ الدَّھْرِیِّیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷) کہ وہ لوگ خدا اور رسولؐ کے پکے منکر اور قضا و قدر کے نہ ماننے والے بلکہ دہریہ تھے۔

ان کی بے دینی اور دہریت کا پوری طرح علم مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعودؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرمایا ہے:۔

’’فَاتَّفَقَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا فِیْ بَیْتِیْ اِذْ جَاءَ نِیْ رَجُلٌ بَاکِیًا فَفَزِعْتُ مِنْ بُکَائِہٖ فَقُلْتُ اَجَاءَ کَ نَعْیُ مَوْتٍ؟ قَالَ بَلْ أَعْظَمُ مِنْہُ۔ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ھٰؤُلَاءِ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ فَسَبَّ اَحَدُھُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبًّا شَدِیْدًا غَلِیْظًا مَا سَمِعْتُ قَبْلَہٗ مِنْ فَمِ کَافِرٍ، وَ رَأَیْتُھُمْ أَنَّھُمْ یَجْعَلُوْنَ الْقُرْآنَ تَحْتَ أَقْدَامِھِمْ وَ یَتَکَلَّمُوْنَ بِکَلِمَاتٍ یَرْتَعِدُّ اللِّسَانُ مِنْ نَقْلِھَا، وَ یَقُوْلُوْنَ اَنَّ وُجُوْدَ الْبَارِیْ لَیْسَ بِشَیْءٍ وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ فِی الْعَالَمِ، إِنْ ھُوَ اِلَّا کِذْبُ الْمُفْتَرِیْنَ۔ قُلْتُ اَوَلَمْ حَذَّرْتُکَ مِنْ مَجَالِسَتِھِمْ فَاتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تَقْعَدْ مَعَھُمْ وَ کُنْ مِنَ التَّائِبِیْنَ۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸)

یعنی ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا، میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ! میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے، پس ان میں سے ایک نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہایت گندی گالی دی، ایسی گالی کہ اس سے پہلے میں نے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہیں اور ایسے کلمات بولتے ہیں کہ زبان بھی ان کو نقل کرنے سے گندی ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا کا وجود کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیا میں کوئی معبود نہیں، یہ صرف ایک جھوٹ ہے جو مفتریوں نے بولا۔ میں نے اسے کہا کہ کیا میں نے تمہیں ان کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پس خدا سے ڈرو اور آئندہ ان کے پاس کبھی نہ بیٹھا کرو اور توبہ کرو۔

’’وَ کَانُوْا یَسْتَھْزِءُ وْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ) اَنَّ الْقُرْآنَ مِنْ مُفْتَرِیَاتِ مُحَمَّدٍ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَ کَانُوْا مِنَ الْمُرْتَدِّیْنَ۔ ‘‘ (آئینہ کمالا ت اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ وہ خدا اور رسولؐ پر تمسخر کرتے اور کہتے تھے کہ قرآن نعوذ باﷲ آنحضرتؐ کا افتراء ہے اور وہ مرتد تھے۔

غرضیکہ ان لوگوں کی یہ کیفیت تھی جب کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور من اﷲ ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ ایسے لوگوں کے لئے جو خدا کی ہستی ہی کے سرے سے منکر تھے۔ ایسا دعویٰ اور زیادہ استہزاء اور تمسخر کا محرک ہوا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہایت بے باکی اور شرارت کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا اور کہا۔ فَلْیَاْتِنَا بِآیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ اگر (مرزا صاحبؑ) سچا ہے تو کوئی نشان ہمیں دکھائے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ سَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ إِنْکَارُ وُجُوْدِ الْبَارِی عَزَّ اِسْمُہٗ، وَ مَعَ ذٰلِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ آیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ آیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ أَرْسَلُوْا کِتَابَھُمْ فِی الْآفَاقِ وَالْأَقْطَارِ وَ أَعَانُوْا بِھَا کَفَرَۃِ الْھِنْدِ وَ عَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸)

انہوں نے ایک خط لکھا جس میں آنحضرتؐ اور قرآن مجید کو گالیاں دی ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے لئے نشان طلب کیا ہوا تھا اور انہوں نے اپنا یہ خط آفاق و اقطار میں شائع کیا اور ہندوستان کے دوسرے غیر مسلموں (عیسائیوں) نے اس میں ان کی بہت مدد کی اور انہوں نے انتہائی سرکشی کی۔

یہ خط اخبار چشمۂ نور اگست ۱۸۸۵؁ء میں شائع ہوا تھا۔

ان کی اس انتہائی شوخی اور مطالبہ نشان پر حضرت مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ سے دعا فرمائی، جس کا ذکر حضور نے آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۹ پر بدیں الفاظ شروع فرمایا:۔

وَ قُلْتُ یَا رَبِّ یَا رَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَ اخْذُلْ اَعْدَاءَ کَ۔الخ کہ میں نے کہا اے میرے خدا! اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر۔

اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضور ؑ کو الہامًا وہ نشان دیا گیا جس کے لئے وہ لوگ اس قدر بے تاب ہو رہے تھے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:۔

’’اِنِّیْ رَأَیْتُ عِصْیَانَھُمْ وَطُغْیَانَھُمْ فَسَوْفَ أَضْرِبُھُمْ بِأَنْوَاعِ الْآفَاتِ أُبِیْدُھُمْ مِنْ تَحْتِ السَّمَاوَاتِ وَ سَتَنْظُرْ مَا أَفْعَلُ بِھِمْ وَ کُنَّا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَادِرِیْنَ۔ إِنِّیْ أَجْعَلُ نِسَاءَ ھُمْ أَرَامِلَ وَ أَبْنَاءَ ھُمْ یَتَامٰی وَ بُیُوْتَھُمْ خَرِبَۃً لِیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَ مَا کَسَبُوْا وَلٰکِنْ لَّا اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَاحِدَۃً بَلْ قِلِیْـلًا قَلِیْـلًا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ وَ یَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ إِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃً عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِھِمْ وَ عَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَائِھِمْ وَ رِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ أَبْوَابَھُمْ۔ وَ کُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۹)

کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سر کشی دیکھی پس میں عنقریب ان کو مختلف قسم کی آفات سے ماروں گا اور ان کو زیر آسمان ہلاک کروں گا۔ اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ اور ہم ہر ایک چیز پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتو ں کو بیوائیں، انکے بچوں کو یتیم اور ان کے گھروں کو ویران کر دونگا تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں ان کو یکدم ہلاک نہیں کرونگا بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری *** ان پر اور ان کے گھر کی چار دیواری پر اور ان کے بڑوں اور ان کے چھوٹوں پر اور ان کی عورتوں اور ان کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہوں گے۔

پیشگوئی کی مزید تفصیل

مندرجہ بالاعبارت میں صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ خدا ان کی عورتوں کو بیوائیں اور ان کے بچوں کو یتیم کر دے گا مگر اس کے ساتھ ہی توبہ اور رجوع کی شرط بھی مذکور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو یکدم ہلاک نہیں کرے گا تاکہ اگر وہ توبہ کر لیں توبچ جائیں۔

ان عورتوں کو بیوائیں اور بچوں کے یتیم بننے کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اگر مرزا احمد بیگ اپنی دختر کلاں (محمدی بیگم) کا رشتہ حضرت مسیح موعود سے کر دے تو وہ اور اس کا خاندان اسی طرح روحانی برکات سے حصہ پائے گا جس طرح امِ حبیبہؓ بنت ابو سفیان اور سودہؓ بنت زمعہؓ نے خدا کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر اپنے قبیلہ اور خاندان کو پہنچایا۔ (کہ ان کے خاندان اور قبیلے ان کے نکاحوں کے باعث اسلام میں داخل ہو گئے۔)

الہام الٰہی نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ اپنی اندرونی حالت (جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے) کے باعث ہر گز یہ رشتہ نہیں کرے گا اور اس صورت میں جس دن وہ کسی اور شخص سے اس کا نکاح کر دے گا اس کے بعد تین سال کے عرصہ میں اور جس شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہو گا وہ اڑھائی (2 ½) سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا اور لڑکی بیوہ ہونے کے بعد نکاح میں آئے گی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الفاظ حسب ذیل ہیں:۔

’’اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کیلئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۸؁ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶)

الہام الٰہی نے ساتھ ہی ایک اور بات بتا دی کہ اوّل مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح ضرور کسی دوسری جگہ کر دے گا۔ چنانچہ اس کے لئے الہامات یہ ہیں:۔

کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا وَ کَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُ ْونَ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶)

یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تمسخر واستہزاء کیا۔ خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائیگا۔

یہ دونوں الہامات بتار ہے ہیں کہ لڑکی کا رشتہ ضرور کسی دوسری جگہ ہو جائیگا۔ وہ لوگ اس منشاء الٰہی کی تکذیب کرینگے اور لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر دیں گے۔ دوسرا الہام تو صریح طور پر بتا رہا ہے کہ نکاح ضرور دوسری جگہ ہو گا۔ ’’واپس لانا‘‘ یَرُدُّھَا کا لفظ اس پر صریح نص ہے۔ اس کے ساتھ دوسری بات یہ بھی بتا دی گئی کہ احمد بیگ اور اس کے داماد وغیرہ کی ہلاکت توبہ اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں ہو گی۔

لاَ أُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَاحِدَۃً بَلْ قَلِیْـلًا قَلِیْـلًا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ وَ یَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۹) کہ میں ان کو یکدم ہلاک نہ کروں گا، بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کر لیں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔

۲۔ ’’اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۸)

دونوں عبارتیں بالکل واضح ہیں اور کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ صاف طور پر ان میں توبہ کی شرط مذکور ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں پر (جن کی ہلاکت کی پیشگوئی تھی) اگر وہ توبہ نہ کریں اور رجوع نہ لائیں گے تو عذاب نازل ہو گا، لیکن اگر وہ رجو ع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ ان پر رجوع کرے گا۔

۳۔ تیسرا ثبوت اس امر کا کہ پیشگوئی میں توبہ کی شرط مذکور تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ ذیل الہامات ہیں جو حضور نے اس پیشگوئی کے متعلق شائع فرمائے۔

رَاَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْءَ ۃَوَاَثْرُالْبُکَاءِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْءَ ُۃ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کَلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۰ حاشیہ اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء) کہ میں نے اس عورت (محمدی بیگم کی نانی) کو (کشفی حالت میں) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت توبہ کر! توبہ کر! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے ایک مرد مر جائے گا اوراس کی طرف کتے باقی رہ جائیں گے۔

ان الہامات میں تُوْبِیْ تُوْبِیْ کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ وہ مصیبت جو اس خاندان پر آنے والی تھی وہ توبہ سے ٹل سکتی تھی اور تُوْبِیْ تُوْبِیْ میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کرنے سے خدا تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ اس انذاری پیشگوئی میں ’’توبہ‘‘ کا دروازہ بہت وسیع ہے۔ کبیرہ گناہوں کو چھوڑ کر جو دوسرے صغیرہ گناہ ہوتے ہیں، ان کیلئے ایک آدمی کی دعا سے دوسرے کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ التحیات میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش۔

اسی طرح سے اپنی ذریت کے لئے بھی دعا سکھلائی گئی۔ کہ اے اﷲ! مجھے اور میری ذریت (اولاد) کو بھی نماز کا قائم کرنیوالا بنا۔

غرضیکہ تُوْبِیْ تُوْبِیْ میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کر کے بتایا گیا ہے کہ اس پیشگوئی میں جو توبہ کی شرط لگائی گئی ہے تو اس کے لئے دروازہ بہت کھلا ہے یہانتک کہ ’’نانی‘‘ کی دعا اور استغفار سے نواسی کی مصیبت ٹل سکتی ہے چہ جائیکہ وہ خود توبہ اور استغفار کریں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اصل پیشگوئی یہ نہ تھی کہ ’’محمدی بیگم میرے نکاح میں آ جائیگی‘‘ بلکہ پیشگوئی یہ تھی کہ احمد بیگ اور سلطان محمد اگر توبہ نہ کرینگے۔ (دیکھو مندجہ بالا اقتباس نمبر ۲ از اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ) تو تین اور اڑھائی سال کے عرصہ میں ہلاک ہوجائیں گے اور انکی ہلاکت کے بعد محمدی بیگم ’’بیوہ ہو کر‘‘ حضرتؑ کے نکاح میں آئے گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے خود اسی اشتہار 20 فروری1886ء میں صاف طور پر تحریر فرما دیا ہے:۔

’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائیگا اور وہ جو اس سے نکاح کرے گا روزِ نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا اور آخر وہ عورت میرے نکاح میں آئے گی۔ ‘‘

۲۔ اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمدی بیگم کا حضرتؑ کے نکاح میں آنا، احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت پر موقوف تھا، یہ ہے:۔

یَمُوْتُ بَعْلُھَا وَاَبُوْھَا اِلٰی ثَلَاثِ سَنَۃٍ مِنْ یَوْمِ النِّکَاحِ ثُمَّ نَرُدُّھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِھِمَا (کرامات الصادقین آخری ٹائٹل پیج) کہ اس کا خاوند اور باپ یومِ نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مرجائیں گے اور ان دونوں کی موت کے بعد ہم اس عورت کو تیری طرف واپس لائیں گے۔

۳۔ اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نکاح کی پیشگوئی اصل پیشگوئی نہ تھی، بلکہ اصل پیشگوئی احمد بیگ اور سلطان محمد کی ہلاکت تھی، یہ ہے:۔

کَانَ أَصْلُ الْمَقْصُوْدِ الْإِہْلَاکِ، وَتَعْلَمُ أَنَّہٗ ہُوَ الْمِلَاکُ، وَأَمَّا تَزَوِّیْجُہَا إِیَّّایَ بَعْدَ إِہْلَاکِ الْہَالِکِیْنَ وَالْہَالِکَاتِ،فَہُوَ لِإِعْظَامِ الْآیَۃِ فِیْ عَیْنِ الْمَخْلُوْقَاتِ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۷-۲۱۶) کہ میری پیشگوئی کا اصل مقصد تو (ان دونوں) کا ہلاک کرنا تھا اور اس عورت کا میرے نکاح میں آنا ان کی موت کے بعد ہے، اور وہ بھی محض نشان کی عظمت کو لوگوں کی نظر میں بڑھانے کے لئے نہ کہ اصل مقصود۔

غرضیکہ یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ مرزا سلطان محمد اور احمد بیگ ’’اگر تو بہ نہ کریں گے‘‘ تو تین سال کے عرصہ میں فوت ہوجائیں گے اور ’’ان کی وفات کے بعد‘‘ محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آئے گی۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہاں پر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ بتایا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد اگر توبہ نہ کریں گے تو تین برس کے عرصہ میں ہلاک ہوں گے، جب خدا نے توبہ کی شرط لگا دی ہے تو ا ب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس شرط سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں؟ اور اگر اٹھائیں گے تو کس حد تک؟ کیونکہ خد تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اس کو تو معلوم تھا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں؟

تو اس سوال کا جواب تُوْبِیْ تُوْبِیْ والے الہام کے ساتھ ہی اگلے الفاظ میں دیا ہے۔ فرمایا:۔

’’تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکَ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کَلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۲۰ حاشیہ۔ اشتہار ۱۵؍جولائی ۱۸۸۸ء)

یعنی اے عورت! توبہ کر، توبہ کر، تجھ پر اور تیری لڑکی کی لڑکی پر عذاب نازل ہونے والا ہے (ان دونوں مردوں میں سے احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے) ایک مرد ہی مرے گا۔ (یعنی وہ توبہ نہیں کرے گا لیکن دوسرا توبہ کر کے شرط سے فائدہ اٹھا لے گا اور نہیں مرے گا اور اس طرح سے عورت بیوہ نہ ہو گی نہ ہی نکاح ہو گا) اور کتے بھونکتے رہ جائیں گے ‘‘کہ کیوں نکاح نہیں ہوا۔ یعنی بے وجہ اعتراض کرتے رہیں گے۔

اس الہام میں صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے ایک شخص توبہ کی شرط سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اس کی موت ہو گی اور دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھا کر بچ جائے گا۔

’’یَمُوْتُ‘‘ واحد مضارع مذکر کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ایک مرد مرے گا۔‘‘ خادمؔ

اب ہم مندرجہ بالا بحث میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ درحقیقت حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی یہ تھی۔

۱۔ احمد بیگ ضرور اپنی لڑکی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دے گا۔ (یَرُدُّھَا اِلَیْ کَ)

۲۔ نکاح کرنے کے بعد ’’اگر توبہ نہ کریں گے‘‘ تو تین سال کے عرصہ میں احمد بیگ اور اس کا داماد مرجائیں گے اور اندریں صورت لڑکی بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی۔‘‘ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و ضمیمہ ریاض ہند امرتسر مارچ ۱۸۸۶ء)

۳۔ توبہ کی شرط سے دونوں میں سے ایک فائدہ نہیں اٹھائے گا اور مر جائے گا۔ (یَمُوْتُ)

۴۔ دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھائے گا اور توبہ کر کے بچ جائے گا۔ (یَمُوْتُ) کیونکہ دونوں میں سے ایک نے مرنا ہے۔

۵۔ لڑکی بیوہ نہ ہو گی۔ (نتیجہ شق چہارم)

۶۔ اس وجہ سے نکاح نہ ہو گاکیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہی ہونا تھا۔

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۶)

۷۔ اور وہ لوگ جو ہر حالت میں زبان نکالنے کے عادی ہیں (جن کو قرآن کریم نے اعراف ع ۲۲ میں کے لفظ سے یاد کیا ہے) وہ اس پر اعتراض کرتے رہیں گے۔ (یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ )

پیشگوئی پوری ہوگئی

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مندرجہ بالا امور پر مشتمل تھی۔ آؤ اب ذرا واقعات پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا خدا کے مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ باتیں پوری ہوئیں یا نہ؟ واقعات نے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس طرح پیشگوئی کی تھی، حرف بحرف اسی طرح پوری ہوئی:۔

۱۔ احمد بیگ نے محمدی بیگم کا نکاح ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد سے کر دیا۔

۲۔ احمد بیگ نے توبہ کی شرط سے فائدہ نہ اٹھایا اور روز نکاح سے پانچ مہینے اور ۲۴ دن بعد یعنی ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہو گیا۔ اور یَمُوْتُ والے الہام کا ایک پہلو پور ا ہو گیا۔

۳۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی شرط سے پیشگوئی کے مطابق فائدہ اٹھایا اور توبہ کر کے بچ گیا (یَمُوْتُ دوسرا پہلو بھی پورا ہو گیا۔)

۴۔ چونکہ سلطان محمد توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھا کر بچ گیا اس لئے محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی۔

۵۔ چونکہ بیوہ نہ ہوئی اس لئے نکاح بھی نہ ہوا (کیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہونا تھا)

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۶)

۶۔ معترضین آج تک اعتراض کرتے اور اپنی مخصوص ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے اور خود بخود یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ والے الہام کو پورا کرتے ہیں۔

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طریق سے پیشگوئی فرمائی تھی، بعینہٖ اسی طرح پوری ہوئی ہم بیان کر چکے ہیں کہ پیشگوئی میں ’’توبہ‘‘ کی شرط تھی۔ محمدی بیگم کا حضرت کے نکاح میں آنا تین سال میں سلطان محمد اور احمد بیگ کی موت پر موقوف تھا اور ان دونوں کا تین سال میں مرنا ان کے توبہ نہ کرنے پر موقوف تھا۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی، وہ تین سال میں نہ مرا۔ محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی۔ لہٰذا نکاح نہ ہوا۔ اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ۔

ہمارے تمام بیان کا انحصار صرف دو باتوں پر ہے۔

۱۔ پیشگوئی میں توبہ کی شرط موجود تھی۔

۲۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی شرط سے فائدہ اٹھایا۔

اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہوں تو پھر کسی منصف مزاج اور حق پسند انسان کو اس پیشگوئی پر کوئی معمولی سے معمولی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود ؑ سے صرف اس صورت میں ہونا تھا کہ سلطان محمد توبہ نہ کرے اور تین سال میں مر جائے اور پھر یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ سلطان محمد نے فی الواقعہ توبہ کی اور اس وجہ سے تین سال میں مرنے سے بچ گیا تو بات بالکل صاف ہوتی ہے۔ سو اس بات کا ثبوت کہ اصل پیشگوئی میں توبہ کی شرط موجود تھی ہم پچھلے صفحات میں تفصیلاً آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۶۹ و اشتہار ۲۰؍ فروری۱۸۸۶ء و الہام تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ درج کر کے دے آئے ہیں۔ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ کی دو اور تحریریں درج کرتے ہیں:۔

۱۔ ما کان إلہام فی ہذہِ المقدمۃ إلَّا کان معہ شرط (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۲۲۔۲۲۳) کہ اس پیشگوئی کے متعلق مجھے ایک بھی ایسا الہام نہیں ہوا کہ جس میں شرط مذکور نہ ہو۔

۲۔’’اور بعض نادان کہتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پیشگوئی بھی عبداﷲ آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کی طرح شرطی تھی اور اس میں خدا تعالیٰ کی وحی اُس کی منکوحہ کی نانی کو مخاطب کر کے یہ تھی توبی توبی فانّ البلاء علٰی عقبک یعنی اے عورت توبہ توبہ کر کہ تیری لڑکی کی لڑکی پر بلا آنے والی ہے۔ ‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۹)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سلطان محمد کی توبہ کا ثبوت

اب صرف اس امر کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ باقی رہا کہ مرزا سلطان محمدؐ نے توبہ کی اور فی الواقعہ پیشگوئی کی اس شرط سے فائدہ اٹھایا؟ سو یاد رہے کہ اس کی توبہ کے پانچ ثبوت ہیں:۔

۱۔ سب سے پہلا ثبوت اس امر کا کہ سلطان محمد نے توبہ کی فطرتِ انسانی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جب دو انسانوں کے متعلق ایک ہی حالت میں سے گزرنے کی پیشگوئی ہو اور ان دونوں میں سے ایک پر بعینہٖ پیشگوئی کے مطابق حالت طاری ہو جائے تو دوسرے کو بھی یقین ہو جائے گا کہ میری بھی یہی کیفیت ہونے والی ہے۔ زید اگر عمر اور بکر سے یہ کہے کہ تم دونوں دو گھنٹہ کے اندر کوئیں میں گر کر مر جاؤ گے۔ اب اگر ایک ہی گھنٹہ بعد عمر واقعی کوئیں میں گر کر مر جائے تو طبعاً وفطرتاً بکر کو اپنی موت کا یقین ہو جائے گا۔

پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت کی پیشگوئی کی تھی، اور احمد بیگ عین میعاد مقررہ کے اندر حسب پیشگوئی مر گیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہونا اور اس کا توبہ واستغفار کی طرف رجوع کرنا یقینی اور لازمی امر تھا۔ چنانچہ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

(الف) ’’سو ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ احمد بیگ کے مرنے کے بعد جس کی موت پیشگوئی کی ایک جزو تھی دوسری جزو والے کا کیا حال ہوا ہو گا؟ گویا وہ جیتا ہی مر گیا ہوگا۔ چنانچہ اس کے بزرگوں کی طرف سے دو خط ہمیں بھی پہنچے جو ایک حکیم صاحب باشندہ لاہو رکے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے، جن میں انہوں نے اپنی توبہ اور استغفار کا حال لکھا ہے سو ان تمام قرائن کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ تاریخ وفات سلطان محمد قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘ (اشتہار ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۴۲)

(ب) ’’اور جب احمد بیگ فوت ہوگیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پس ماندوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ وہ دعا اور تضرع کی طرف بہ دل متوجہ ہوگئے۔ جیسا کہ سنا گیا ہے کہ اب تک احمد بیگ کے داماد کی والدہ کا کلیجہ اپنے حال پر نہیں آیا۔ سو خدا دیکھتا ہے کہ وہ شوخیوں میں کب آگے قدم رکھتے ہیں۔ پس اس وقت وعدہ اس کا پورا ہوگا۔‘‘ (حجۃ اﷲ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۹)

۲۔ سلطان محمد کی توبہ کا دوسرا ثبوت اس کا مندرجہ ذیل تحریری اور دستخطی بیان ہے۔

انبالہ چھاؤنی۔ ۱۳؍۳۔۲

برادرم سلمہٗ!

نوازشنامہ آپ کا پہنچا۔ یاد آوری کا مشکور ہوں میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک بزرگ، اسلام کا خدمت گذار، شریف النفس خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کررہا ہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔

نیاز مند سلطان محمد از انبالہ

رسالہ نمبر ۹‘‘

(ان کا اصل خط عکسی اگلے صفحہ پر دیکھیں)

مندرجہ بالا الفاظ اگر کسی عام آدمی نے لکھے ہوں، تو کوئی اہم بات نہ ہو مگر سلطان محمد جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ نے موت اور اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب واشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا، اس کو تو حضرت مسیح موعود ؑ سے طبعا ً انتہائی دشمنی اور عناد ہونا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں حضرت اقدس ؑ بار بار تحریر فرما رہے تھے کہ سلطان محمد نے توبہ کی ہے اور وہ خود تو اس امر کو جانتا تھا کہ اس نے توبہ کی ہے یا نہیں؟ اگر فی الواقعہ اس نے توبہ نہ کی تھی تو وہ جانتا تھا کہ حضر ت صاحب نعوذ باﷲ سچ نہیں فرما رہے تو ایسے شخص کے قلم سے یہ نکلنا کہ ’’میں جناب مرزا جی مرحوم کو نیک بزرگ‘‘ وغیرہ سمجھتا ہوں، اگر معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟

۳۔تیسرا ثبوت سلطان محمد کی توبہ کرنے کا اس کا اپنا بیان ہے۔

’’میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئیہیں مگر خدا تعالیٰ غفورٌ رَّحیم بھی ہے، اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے …… میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی……۔ باقی رہی بیعت کی بات، میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزاصاحبؑ پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کرچکے ہیں اتنا نہیں ہو گا …… باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحبؑ پر نالش کروں۔ اگر وہ روپیہ میں لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔‘‘ (الفضل 9/13جون 1921ء)

۴۔چوتھا ثبوت سلطان محمد صاحب کی توبہ کا وہ تحریری بیان ہے جو ان کے صاحبزادہ برادرم محمد اسحٰق بیگ صاحب نے اخبار الفضل میں شائع کرایا:۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!

پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤکے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؐ اپنے ہر دعویٰ میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں۔ اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام یپشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔

اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کے حالات سے ظاہر ہے۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؐ کی قوم او ررشتہ داروں نے گستاخی کی، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے، اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا۔

میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔

میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی درست فرمایا ہے۔ ؂

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا

پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار

خاکسار مرزا محمد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور۔ حال وارد چک نمبر ۱۶۵۔ ۲ بی ‘‘

(منقول از الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۹)

۵۔ پانچواں ثبوت مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کا وہ چیلنج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معترض علماء کو دیا۔ فرمایا:۔

’’فیصلہ تو آسان ہے سو اگر جلدی کرنا ہے تو احمد بیگ کے داماد سلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے۔پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘

اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کردے۔سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اور مکذب بناؤاوراس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲ حاشیہ)

اس اعلان کو شائع ہوئے پچاس سال گزر گئے اور حضرت مسیح موعود ؑ اس اعلان کے بعد بارہ سال تک زندہ رہے۔ مگر کوئی مخالف مولوی مرزا سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہار نہ دلا سکا۔

پس مندرجہ بالا پانچ دلائل سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مرزا سلطان محمد نے پیشگوئی کے مطابق توبہ کی اور اس وجہ سے تین سالہ میعاد کے اندر فوت نہ ہوئے، محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی اورا س لئے نکاح نہ ہوا۔‘‘ (اذا فات الشرط فات المشروط )

اور ان سب امور کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’کلاب متعددہ‘‘ نے مختلف مواقع پر اپنی بدگوئی کی عادت کے مطابق حضرت اقدس ؑ کی اس پیشگوئی پر تمسخر اور استہزاء کیا اور حضورؐ کی یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بے شک ازالہ اوہام اور اپنی دوسری کتابوں میں زور دیا ہے کہ میرا نکاح محمدی بیگم سے ہو جائے گا اور بڑی متحدیانہ عبارتیں تحریر فرمائی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ نکاح کب ہو گا؟ظاہر ہے کہ جب سلطان محمد کی موت پر وہ بیوہ ہو جائے گی۔ سلطان محمد کی توبہ کب ہو گی؟ اگر وہ توبہ کرے گا۔‘‘

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہرعبارت جو مخالف مولوی پیش کرتے ہیں درست ہے اور ہمیں مسلم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پیشگوئی کے بعد اگر سلطان محمد توبہ نہ کرتا اور پھر بھی زندہ رہتا اور نکاح نہ ہوتا، تو حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی پر اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر یہاں تو نکاح سلطان محمد کی عدم توبہ کے ساتھ مشروط تھا۔ اس لئے جس قدر عبارات نکاح کے متعلق ہیں وہ بھی سلطان محمد کے توبہ نہ کرنے کے ساتھ مشروط ہیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بیعت کیوں نہ کی ؟

بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ سلطان محمد نے توبہ کر لی تو کیا ہوا۔ بات تو جب تھی کہ وہ بیعت کر لیتا۔ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء سے لیکر ۱۸۸۸ء تک مکمل ہوئی اور توبہ کی شرط بھی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء اور ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا دعویٰ نہ تو نبی ہونے کا تھا، نہ مسیح موعود اور مہدی ہونے کا، نہ ہی آپ اس وقت بیعت لیتے تھے بلکہ جو شخص بیعت کرنے آتا حضور ’’لَسْتُ بِمَأْمُوْرٍ‘‘ (کہ میں مامور نہیں ہوں) کہہ کر انکار کر دیتے تھے (بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی) نہ اس زمانہ میں احمدی غیر احمدی کا سوال تھا۔ کیونکہ حضور ؑ نے اپنی جماعت کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدیہ ۱۹۰۰ء میں رکھا۔ پس توبہ کی شرط سے مراد ہرگز ہرگز ’’بیعت‘‘ یا نبوت، مسیحیت و مہدویت کا اقرار یا احمدی ہونا نہ تھا۔ اس زمانے میں حضرت کا دعویٰ صرف اس قدر تھا کہ میں اسلام کا خدمت گذار ہوں ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷) اور اسی بات کا احمد بیگ و سلطان محمد کو انکار تھا۔ اب سلطان محمد کے خط کو دیکھ لو، اس میں اس نے حضرت کو ’’اسلام کا خدمت گذار‘‘ تسلیم کیا ہے۔ نیز ’’خدا یاد‘‘ کہہ کر خدا کی ہستی کا بھی اقرار کر لیا ہے اور ’’شریف النفس‘‘ کہہ کر تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ پیشگوئی ہرگز ہرگز نفسانیت کے جوش کے ماتحت نہ تھی بلکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان تھا جس کی تکمیل میں حضرت نے اس کو شائع کیا۔ پس اگر سلطان محمد کو اس پیشگوئی کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود ؑ کو ’’اسلام کا خدمت گذار‘‘ اور ’’شریف النفس‘‘ اور خدا یاد نہ کہتا۔ پس جس جس چیز کا پیشگوئی کی اشاعت کے وقت ان لوگوں کو انکار تھا، بعینہٖ انہی امور کا اقرار اس خط میں موجود ہے۔ پس سلطان محمد نے مکمل توبہ کی ہے۔ بیعت وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تقدیر مبرم

حضرت مسیح موعودؑ نے انجام آتھم میں نکاح کو ’’تقدیر مبرم‘‘ قرار دیا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر بعض حالات اور شرائط کے ساتھ مشروط ہونے کی صورت میں تقدیر مبرم بنتی ہے اور جب تک وہ شرط یا شرائط پوری نہ ہوں اس وقت تک اس تقدیر کے ’’قطعی مبرم‘‘ ہونے کا تحقّق نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ آتھم کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔

۱۔’’اب آتھم صاحب قسم کھالیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے ‘‘ (ضیا ء الحق، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۶)

گویا آتھم کی موت تقدیر مبرم اس صورت میں ہو گی جبکہ وہ قسم کھالے گا۔ قسم نہ کھانے کی صورت میں تقدیر مبرم نہ ہو گی پس جس طرح اس ’’تقدیر مبرم‘‘ کے ساتھ ’’قسم کھانے‘‘ کی شرط ہے اسی طرح محمدی بیگم کے نکاح میں سلطان محمد کی عدم توبہ کی شرط ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے اوپر ثابت کیا جا چکا ہے۔

۲۔ تقدیر مبرم کا دعا اور صدقہ سے ٹل جانا احادیث نبویہؐ سے بھی ثابت ہے چنانچہ حدیث میں ہے اَکْثَرُ مِنَ الدُّعَآءِ فَاِنَّ الدُّعَآءَ یَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَمَ (کنز العمال کتاب الذکار من قسم الاقوال الباب الثامن فی الدعا۔ الفضل الاول نیز دیکھو جامع الصغیر للسیوطی مصری جلد۱ صفحہ ۵۴ باب الالف) کہ کثرت سے دعا کرو، کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو بھی ٹال دیتی ہے۔

۳۔ رُوِیَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الصَّدْقَۃَ لَتُدْفَعُ الْبَلَاءَ الْمُبْرَمَ النَّازِلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ (روض الریاحین۔ برحاشیہ قصص الانبیاء صفحہ ۳۶۴)

کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ صدقہ بلاء مبرم کو بھی جو آسمان سے نازل ہونے والی ہو روک دیتا ہے۔

۴۔ اَلدُّعَاءُ جُنْدٌ مِنْ اَجْنَادِ اللّٰہِ مُجَنَّدَۃٌ یَرُدُّ الْقَضَآءَ بَعْدَ اَنْ یَبْرُمَ۔

(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۰۷ آخری سطر، و جامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۱۷ باب الاوّل)

دعا خدا تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر جرار ہے جو قضاء کو اس کے مبرم ہونے کے بعد بھی ٹلا دیتی ہے۔

۵۔ روح البیان جلد ۱ صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ مصر پر بھی قضاء مبرم کے ٹلنے کا ذکر ہے۔

۶۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہی مذہب تھا کہ قضاء مبرم دعا اور صدقہ سے ٹل سکتی ہے اور جہاں حضورؑ نے یہ لکھا ہے کہ ’’یہ تقدیر مبرم جو ٹل نہیں سکتی‘‘ تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ توبہ اور دعا کے بغیر ٹل نہیں سکتی۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

(النساء:۴۹)

کہ اﷲ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا اس گناہ کو کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس گناہ کے سوا باقی جس کو چاہے بخشدے۔

مگر دوسری جگہ فرمایا۔ (الزمر:۵۴) کہدے اے میرے بندو! جنہوں نے گناہ کیا، تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو، اﷲ تعالیٰ سب گناہوں کو بخش دے گا، او ر وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت میں جملہ گناہوں کے معاف کرنے کا ذکر ہے۔ پس تطبیق کی صورت یہی ہے کہ شرک کے گناہ کی معافی کو توبہ کی شرط سے مشروط کیا جائے۔ یعنی سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ شرک کو بغیر توبہ کے نہیں بخشے گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے جہاں تقدیر مبرم کے نہ ٹلنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں بھی مراد بصورت عدم دعا اور توبہ ہی ہے نہ کہ مطلقاً۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ:۔

جب میں نے عبد الرحیم خلف حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ مگر جب زیادہ تضرع اور ابتہال سے دعا کی تو اﷲ تعالیٰ نے اس تقدیر کو ٹلا دیا اور عبد الرحیم اچھا ہو گا۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک مبرم قسم کی تقدیر بھی دعا اور توجہ سے ٹل سکتی ہے۔

ثناء اﷲ (امرتسری) کا خط

مولوی ثناء اﷲ امرتسری نے ہزاروں جتن کر کے اہل حدیث مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۲۴ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے سولہ سال بعد ایک غیر مصدقہ تحریر مرزا سلطان محمد کی طرف منسوب کر کے شائع کی۔ ہماری طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ یا تو اصل تحریر ہمیں دکھائی جائے یا اس کا عکس شائع کیا جائے (جس طرح ہم نے کیا ہے) تا کہ پبلک پر اصل حقیقت واضح ہو، مگر اپنی موت تک مولوی صاحب ہمارے اس مطالبہ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے۔ نیز اگر ایسی کوئی تحریر ہو بھی تو وہ قابل اعتناء نہیں اور ’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید‘‘ کی مصداق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے چیلنج کے الفاظ یہ ہیں۔’’پھر اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘

(انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲ حاشیہ)

پس اس عبارت کے پیش نظر سلطان محمد کی کسی ایسی تحریر کا حضرت اقدسؑ کی زندگی میں شائع ہونا ضروری تھا۔

مقدمہ ’’دیوار‘‘ میں حضرت کا بیان

بعض غیر احمدی مولوی، حضرت مسیح موعودؑ کے بیان مقدمہ گورداسپور متعلقہ دیوار سے یہ الفاظ پیش کر کے عوام کو مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا۔ ’’میرے ساتھ اس کا نکاح ہو گا‘‘ امید کیا مجھے یقین ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ یہود یا نہ تحریف سے حضرتؑ کے درمیانی الفاظ حذف کر دیا کرتے ہیں۔ اصل الفاظ یہ ہیں:۔

’’میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیسا کہ پیشگوئی میں درج ہے وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی جیسا کہ پیشگوئی میں تھا …… ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا…… پیشگوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی پیشگوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جاوے گی اس لڑکی کے باپ کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیشگوئی شرطی تھی اور شرط توبہ اور رجوع الی اﷲ کی تھی۔ لڑکی کے باپ نے توبہ نہ کی، اس لئے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مر گیا اور پیشگوئی کی دوسری جز پوری ہو گئی، اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا خصوصاً شوہر پر پڑااور جو پیشگوئی کا ایک جز تھا۔ انہوں نے توبہ کی۔ چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے اس لیے خداتعالیٰ نے اس کو مہلت دی۔ عورت اب تک زندہ ہے۔‘‘

(الحکم ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ و ۱۵ )


نکاح فسخ یا تاخیر میں؟

حضرت مسیح موعود ؑ نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۰)

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلطان محمد اپنی توبہ پر قائم رہے اور بیباکی کر کے تکذیب کا اشتہار نہ دے تو اس صورت میں وہ حضرت کی زندگی میں نہیں مرے گا اور محمدی بیگم کا نکاح حضرت سے نہیں ہو گا (فسخ ہو گیا) لیکن اگر انجام آتھم والے چیلنج کے جواب میں اس نے حضرت کی زندگی میں تکذیب کا اشتہار دے دیا تو پھر خدا کی مقرر کردہ میعاد کے اندر اندر مر جائے گا اور محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آ جائے گا۔ اندریں صورت نکاح ’’تاخیر‘‘ میں پڑا متصور ہو گا۔ یہی معنی ہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارت بَلِ الْاَمْرُ قَائِمٌ عَلٰی حَالِہٖ کے کہ سلطان محمد کی توبہ سے کلی طور پر معاملہ ختم نہیں ہو گیا اور وعیدی موت اس سے ہمیشہ کے لئے نہیں ٹل گئی بلکہ اب بھی اس کے سر پر ’’تھمی‘‘ ہوئی کھڑی ہے جس وقت وہ تکذیب کرے گا اسی وقت خدا تعالیٰ کی مقررہ میعاد کے اندر پکڑا جائے گا۔ غرضیکہ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اس پیشگوئی کے متعلق بالکل صاف اور واضح ہیں۔

زَوَّجْنٰکَھَا

یہ الہام درحقیقت قرآن مجید کی ایک آیت ہے (الاحزاب:۳۸) کہ ہم نے آنحضرت ؐ کا نکاح زینبؓ کے ساتھ اس کے مطلقہ ہونے کے بعد کر دیا۔

حضرت کو یہی الہام محمدی بیگم کے متعلق ہوا۔ پس اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سلطان محمد کی بیوہ ہونے کے بعد ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اس الہام کو انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۰ پر درج کر کے اس کے مندرجہ ذیل ترجمہ فرمایا ہے:۔

’’بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا۔ ‘‘

یعنی سلطان محمدؐ کی موت پر یَرُدُّھَا اِلَیْکَ کا دوسرا مفہوم جب پورا ہو گا، تو اس وقت خدا تعالیٰ نے نکاح پڑھ دیا ہے۔

۲۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو اور واضح فرمایا ہے:۔

’’اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اُسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُھَاالْمَرْأَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۰) اس فسخ یا تاخیر کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا:۔

اَخْرَجَ الطَّبْرَانِیُّ وَابْنُ عَسَاکِرٍ عَنْ اَبِیْ اَمَامَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِخَدِیْجَۃَ اَمَا شَعُرْتِ اَنَّ اللّٰہَ زَوَّجَنِیْ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ وَکُلْثُوْمَ اُخْتَ مُوْسٰی وَامْرَءَ ۃَ فِرْعَوْنَ قَالَتْ ھَنِیْئًا لَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (فتح البیان زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ و فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۵۱) کہ طبرانی اور ابن عساکرؓ نے ابوامامہؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ اے خدیجہؓ!کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا نے میرا نکاح پڑھ دیا ہے عیسیٰؑ کی ماں مریمؑ، موسیٰؑ کی بہن کلثوم ؓ اور فرعون کی بیوی آسیہؓ کے ساتھ! حضرت خدیجہؓ نے فرمایا! یا رسول اﷲ آپ کو مبارک ہو!۔

اس حدیث کے الفاظ میں بھی زَوَّجَنِیْ اسی طرح ماضی ہے جس طرح میں ہے۔ غیر احمدی علماء کے نزدیک آنحضرت ؐ کو یہ الہام ہونے کے بعد بھی کہ حضرت زینب ؓ آپ کی بیوی ہیں پھر بھی آپ حضرت زیدؓسے فرماتے رہے کہ زینبؓ کو بیوی بنا کر رکھو اور اسے طلاق نہ دو۔ جلالین میں آتا ہے:۔

اَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَرَادَ اَنْ یُّزَوِّجَھَا زَیْدًا فَکَرِھَتْ ذٰلِکَ ثُمَّ اِنَّھَا رَضِیَتْ بِہٖ فَتَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ ثُمَّ اَعْلَمَ اللّٰہُ نَبِیَّہٗ بَعْدُ اَنَّھَا مِنْ اَزْوَاجِہٖ فَکَانَ یَسْتَحْیْ اَنْ یَّاْمُرَہٗ بِطَلَاقِھَا وَ کَانَ لَا یَزَالُ بَیْنَ زَیْدٍ وَ زَیْنَبَ مَا یَکُوْنُ بَیْنَ النَّاسِ فَاَمَرَہٗ اَنْ یُمْسِکَ عَلَیْہِ زَوْجَتَہٗ وَ کَانَ یَخْشَی النَّاسَ اَنْ یَعِیْبُوْا عَلَیْہِ۔

(جلالین مع کمالین زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ )

یعنی آنحضرت ؐ نے ارادہ فرمایا کہ زینبؓ کا نکاح زیدؓ کے ساتھ کر دیں، لیکن پہلے حضرت زینبؓ نے کراہت کی، پھر بعد میں راضی ہو گئیں۔ پس ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ؐ کو بتا دیا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں سے ہے۔ پس آنحضرت ؐ شرماتے تھے اس بات سے کہ زیدؓ کو حکم دیں کہ وہ زینبؓ کو طلاق دے دے اور اس عرصہ میں زینبؓ اور زیدؓ میں میاں بیوی کے تعلقات قائم رہے پس آنحضرتؐ نے زیدؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے اور آپؐ ڈرتے تھے کہ لوگ آپ پر الزام نہ لگائیں۔

اس حوالہ سے تمسخر اور استہزاء کا بھی جو بعض بد زبان مخالف کیا کرتے ہیں جواب ہو گیا کہ خدا کی طرف سے آنحضرت ؐ کو علم ہو چکنے کے باوجود کہ زینب ؓ آپؐ کی بیوی ہے پھر بھی وہ ایک عرصہ تک زیدؓ کے پاس رہیں۔

پیشگوئی کے نتائج

اس پیشگوئی کے بعد مندرجہ ذیل اصحاب اسی خاندان میں سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے:۔

۱۔ اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب (والدہ محمدی بیگم) یہ موصیہ تھیں۔

۲۔ ہمشیرہ محمدی بیگم۔

۳۔ مرزا محمد احسن بیگ جومرزا احمد بیگ کے داماد ہیں، اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں۔

۴۔ عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم۔

۵۔ مرزا محمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب

۶۔ مرزا محمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب

۷۔ دختر مرزا نظام دین اور ان کے گھر کے سب افراد احمدی ہیں۔

۸۔ مرزا گل محمد پسر مرزا نظام دین صاحب

۹۔ اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب (موصیہ تھیں)

۱۰۔ محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم

۱۱۔ مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمد صاحب پٹی

یہ وہ افراد ہیں جو خاص طور پر اس خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور یہ سب کے سب اس نکاح والی پیشگوئی کے بعد ہی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے ہیں۔ پیشگوئی میں اگر کوئی امر قابل اعتراض ہوتا تو پہلے ان لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ مگر وہ لوگ جو اس کے متعلق سب سے بڑھ کر مقام غیرت پر ہو سکتے تھے ایمان لاتے ہیں اور خود مرزا سلطان محمد صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے شک و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔‘‘

ان حالات میں ان مخالف مولویوں کا اس پر اعتراض کرنا صاف طور پر یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ کے الہام کو پورا کرنا ہے اور اس کے سوا ان لوگوں کا اور کوئی مقصد نہیں۔

پیشگوئی کی غرض

باقی رہا استہزاء اور مذاق، اور یہ کہنا کہ نعوذ باﷲ یہ پیشگوئی کسی نفسانی خواہش کے ماتحت کی گئی تھی۔ ایسے امورہیں کہ جن کا جواب کوئی مہذب انسان دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔

پیشگوئی کی غرض و غایت ہم ابتداء میں نہایت واضح طور پر بیان کر آئے ہیں کہ ان لوگوں کی مذہبی اور عملی حالت اس نشان کا باعث بنی۔ چنانچہ مولوی محمد یعقوب مصنف عشرہ کاملہ جیسا دشمن اپنی کتاب تحقیق لاثانی میں لکھتا ہے۔

(۱) مرزا صاحبؑ کی اس پیشگوئی کی بنیاد بھی تکذیب ہی ہے۔ جیسا کہ نکاح آسمانی کے متعلق ان کا پہلا الہام ہے کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُ وُنَ (تحقیق لاثانی صفحہ ۱۱۱)

لیکن اگر مولوی لوگ ان روشن واقعات کے باوجود بھی یہی کہتے جائیں کہ یہ پیشگوئی نفسانی تھی تو ان پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ خدا کے اس برگزیدہ نبی پر جس کو یہ نہیں مانتے اس قسم کے حملے کریں تو معذور ہیں، خصوصاً جبکہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے وہ مقدس انبیاء علیہم السلام بھی جن کو یہ لوگ بھی نبی مانتے ہیں اور ان کی عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، نہیں بچ سکے۔ اور تو اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی امت میں سے ہونے اور جن کا کلمہ پڑھنے کے یہ لوگ مدعی ہیں، ان کے متعلق علماء نے یہ لکھا ہے:۔

اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ زَیْنَبَ وَذٰلِکَ اَنَّہٗ رَاٰھَا بَعْدَ مَا اَنْکَحَھَا زَیْدًا فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِہٖ وَقَالَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ۔ (بیضاوی زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ اور کمالین برحاشیہ جلالین زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷) کہ نعوذ باﷲ آنحضرت ؐ نے زینبؓ کو دیکھا اس وقت کہ اس کا زیدؓ کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا۔ پس آپ کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گئی اور فرمایا۔ پاک ہے وہ اﷲ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے۔

(۲) حضرت یوسف جن کی بریت کے لئے ایک سورۃ قرآن مجید میں نازل ہوئی ان کے متعلق لکھتے ہیں:۔

وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ قَصَدَتْ مُخَالِطَتَہٗ وَھَمَّ مَخَالِطَتَھَا لِمَیْلِ الشَّھَوٰتِ الْغَیْرِ الْاِخْتِیَارِی۔ (جامع البیان صفحہ ۲۰۳ نیز جلالین مجتبائی صفحہ ۱۹۰)

کہ نعوذ باﷲ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی زلیخا سے زنا کا ارادہ کیا۔

(۳) حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ان مفسرین نے لکھا ہے۔

طَلَبَ امْرَءَ ۃَ شَخْصٍ لَیْسَ لَہٗ غَیْرُھَا وَتَزَوَّجَھَا وَدَخَلَ بِھَا (جلالین مجتبائی صفحہ ۳۷۸ حاشیہ) کہ حضرت داؤدؑ نے ایک شخص (اوریاہ نامی) کی بیوی لے لی۔ اور اپنی سو بیویاں کیں۔ (نعوذ باﷲ من شرورھم )

(۴) اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق اسی جلالین کے صفحہ ۳۸۰ پر لکھا ہے کہ آپ ایک عورت پر عاشق ہو گئے اور پھر اس سے نکا ح کر لیا (معاذ اﷲ)

غرضیکہ پہلے انبیاء کے متعلق بھی یہی بے ہودہ گوئی رہی ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معاندین وہی شیوہ اختیار کریں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے۔

بہو کو طلاق دلوانا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک احمد بیگ وغیرہ کو لکھا تھا کہ اگر تم یہ رشتہ نہ دو گے تو میں اپنے بیٹے فضل احمد سے کہہ کر تمہاری لڑکی کو طلاق دلوا دوں گا، مگر اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی کے متعلق خسر کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بیٹے کو حکم دیکر طلاق دلوا سکتا ہے، خواہ بیٹا رضا مند ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے:۔

(ا) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَأَۃٌ اُحِبُّھَا وَکَانَ اَبِیْ یَکْرَھُھَا فَاَمَرَنِیْ اَنْ اُطَلِّقَھَا فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ طَلِّقْ اِمْرَأَتَکَ (ترمذی کتاب الطلاق باب ما جاء فی الرجل یسالہ ابوہ ان یطلق امراتہو مشکوۃ مجتبائی صفحہ ۴۲۱ باب الشفعۃ) حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے محبت تھی۔ لیکن میرے باپ (حضرت عمرؓ) اس سے نفرت کرتے تھے، پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ مگر میں نے انکار کیا۔ پھر میں نے آنحضرت ؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا۔ اے عبد اﷲ بن عمرؓ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔

(ب) اَلطَّلَاقُ لِرَضَاءِ الْوَالِدَیْنِ فَھُوَ جَائِزٌ۔ (مشکوٰۃ صفحہ ۴۲۱ مطبع حیدری)

کہ اپنے والدین کی خواہش کی تعمیل میں طلاق دینا جائز ہے۔

(ج) بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں حضرت اسمٰعیلؑ کو چھوڑ آئے اور ان کے وہاں پر جوان ہوجانے کے بعد مکہ گئے تو حضرت اسمٰعیلؑ گھر پر نہ تھے، ان کی بیوی گھر پر تھی۔ آپ اس سے باتیں کرتے رہے اور جاتی دفعہ ان کی بیوی سے کہہ گئے کہ جب اسمٰعیل گھر آئیں تو انہیں میرا السلام علیکم کہہ دینا اور کہنا کہ غَیِّرْعُتْبَۃَ بَابِکَ کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو بدل دو۔ جب حضرت اسمٰعیلؑ گھر آئے تو ان کی بیوی نے حضرت ابراہیم ؑ کا پیغام دیا تو حضرت اسمٰعیلؑ نے فرمایا ذَاکَ اَبِیْ وَقَدْ اَمَرَنِیْ اَنْ اُفَارِقَکِ اَلْحِقِیْ بِاَھْلِکِ فَطَلَّقَھَا وَتَزَوَّجَ مِنْھُمْ اُخْرٰی (بخاری کتاب بدء الخلق باب یزفون النساء فی الشیء، تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ فیروز اینڈ سننر مطبوعہ ۱۲۴۱ھ لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳۷ و ۱۳۸) کہ وہ میرے والد (ابراہیمؑ) تھے اور وہ مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھے طلاق دے دوں۔ پس تو اپنے والدین کے پاس چلی جا۔ پس آپ نے اسے طلاق دے دی اور بنوجرہم کی اور ایک عورت سے شادی کر لی۔

۲۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے (ھود:۱۱۴) کہ ظالم لوگوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھو ورنہ تم کو بھی عذاب پہنچ جائے گا۔

پس حضرت مسیح موعود ؑ نے اگر اپنے بیٹے کو انبیاء گزشتہ کی سنت پر عمل کرکے ان لوگوں سے قطع تعلق کرنے کی ہدایت کی جو خدا اور اس کے رسولؐ کے دشمن اور دہریہ تھے تو اپنے فرض کو ادا کیا۔

۳۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو خصوصاً اس معاملہ میں یہ الہام ہوا تھا کہ ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ قَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِنْھُمْ وَ بَعُدُوْا مِنْ مَجَالِسِھِمْ فَاُولٰئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۷۰-۵۶۹) کہ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے اور ان سے قطع تعلق کیا اور ان کی مجالس سے دور رہے۔ پس ان پر رحم کیا جائے گا (باقی ان سب پر عذاب نازل ہو گا۔)پس حضرت مسیح موعود ؑ کو وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِنْھُمْ پر عمل کرنا چاہتے تھے۔

کوشش کیوں کی گئی ؟
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ اگر وعدہ خدا کی طرف سے تھا تو پھر اس کو پورا کرنے کیلئے کوشش کیوں کی گئی اور دوسرے فریق کے بعض لوگوں کو خطوط کیوں لکھے گئے؟

جواب:۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ جن لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے ان کی مدد اسی صورت میں فرمایا کرتا ہے۔ جب وہ خود بھی جہاں تک ممکن ہو سکے اس وعدۂ الٰہی کے پورا کرنے میں کوشش کریں مثلاً آنحضرت ؐ کے ساتھ فتح کا وعدہ تھا، مگر کیا حضور ؐ نے جنگ کے لئے تیاری نہیں فرمائی، کیا لشکر تیار نہیں کیا؟ حضرت یوسف ؑ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ان کو کامیاب و کامران کرے گا۔ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا۔ پھر بھی حضرت یوسف ؑ نے جیل خانہ میں سے ایک مشرک شخص سے سفارش کروائی اور اسے کہا کہ (یوسف:۴۳) کہ بادشاہ کے سامنے میرا ذکر کرنا۔

آنحضرت ؐ سے وعدہ تھا کہ تمام عرب مسلمان ہو گا پھر کیا حضور ؐ نے تبلیغ کا کام بند کر دیا تھا؟

پس رعایت اسباب ضروری ہے، نیز اتمام حجت کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود ؑ کا ان لوگوں کو خطوط لکھنا ضروری تھا۔ کیونکہ اگر بصورت عدم توبہ ان پر عذاب آتا، تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں ا س پیشگوئی کا علم ہی نہ تھا، اس لئے ہم بے قصور ہیں خود حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی۔نہیں سمجھتے کہ وہ کوشش اِسی غرض سے تھی کہ وہ تقدیر اس طور سے ملتوی ہو جائے اور وہ عذاب ٹل جائے۔یہی کوشش عبداﷲ آتھم اور لیکھرام سے بھی کی گئی تھی۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کسی پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کوئی جائز کوشش کرنا حرام ہے۔ ذرہ غور سے اور حیا سے سوچو کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں یہ وعدہ نہیں دیا گیا تھا کہ عرب کی بُت پرستی نابود ہو گی اور بجائے بُت پرستی کے اسلام قائم ہو گا۔ اور وہ دن آئے گا کہ خانہ کعبہ کی کنجیاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوں گی۔ جس کو چاہیں گے دیں گے۔ اور خدا یہ سب کچھ آپ کرے گا مگر پھربھی اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی کوشش ہوئی جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۷۰)

’’بستر عیش ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہرگز محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے:۔

۱۔ یہ الہام حضرت مسیح موعود ؑ ہی کے متعلق نہیں بلکہ آپ کی مقدس جماعت بھی اس الہام میں مخاطب ہے:۔

۲۔ یہ الہام اس دنیوی زندگی کے متعلق نہیں بلکہ آخرت کے متعلق ہے۔ چنانچہ یہ الہام مکمل طور پر یوں ہے۔

’’۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء۔ بَلَاءٌ وَاَنْوَارٌ ۔ بستر عیش۔ خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود۔ فَبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (پس مومنوں کے لیے بشارت ہے)‘‘ (البدر جلد ۳ صفحہ ۶ کالم ۳ والبشریٰ جلد ۲ صفحہ ۸۸)

فارسی الہام صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ ’’عاقبت‘‘ کے متعلق ہے۔ عربی الہام بتا رہا ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ بھی مخاطب ہے۔

۳۔ لفظ ’’عیش‘‘ بھی ہمارا مؤید ہے۔ جیسا کہ حدیث لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ کہ حقیقی زندگی (عیش) آخرت ہی کی ہے۔

۴۔ قرآن مجید میں اہل جنت کے متعلق ہے (الرحمن:۵۵) کہ تکیہ لگائے ہوں گے بستروں پر جن کے استر گاڑھے ریشم کے ہوں گے۔

۵۔ اَلْفَرَاشُ مَا یُفْرَشُ وَیُنَامُ عَلَیْ ہِ (المنجد زیر لفظ فرش) وہ جو بچھایا جائے اور اس پر سویا جائے گویا جنت کی عیش (زندگی) میں ہر مومن کا ’’بستر‘‘ ہو گا۔ پس الہام ’’بستر عیش‘‘ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

بِکْرٌ وَثَیِّبٌ

(یعنی کنواری اور بیوہ)

جواب:۔ یہ الہام جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر فرمایا ہے حضرت ام المومنین ؓ کے نکاح کے متعلق تھا (دیکھو نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ حاشیہ صفحہ ۱۴۶) جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ حضرت ؑ کے گھر میں کنواری ہوں گی جب آئیں گی۔ مگر بیوہ رہ جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (بتایا یہ گیا تھا کہ حضرت کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں گی اور حضور ؑ کی زندگی میں فوت نہ ہوں گی) محمد ی بیگم کی یہ پیشگوئی چونکہ عدم توبہ اور اس کے نتیجہ میں ہلاکت سلطان محمد سے مشروط تھی، اس لئے اس کے عدم تحقق کے باعث یہ الہام بجائے اس رنگ میں پورا ہونے کے دوسرے رنگ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا پورا ہو گیا۔

وعید کا ٹلنا

ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی میں توبہ کی شرط تھی، اور سلطان محمد نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا، لیکن اگر پیشگوئی میں توبہ کی شرط نہ بھی ہوتی تو بھی یہ وعیدی پیشگوئی تھی اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق سلطان محمد کا توبہ و استغفار سے تین سال کے عرصہ میں بچ جانا کوئی غیر ممکن امر نہ تھا۔ چنانچہ:۔

۱۔ خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔(الانفال:۳۴) کہ خدا تعالیٰ استغفار کرنے والوں پر عذاب نازل نہیں کرتا۔

۲۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا اِنَّ اَجَلَکُمْ اَرْبَعُوْنَ لَیْلَۃً کہ تمہاری زندگی بس ۴۰ راتیں ہیں۔ اس میں کوئی شرط توبہ وغیرہ کی مذکور نہیں تھی۔ مگر وہ لوگ بہت ڈرے۔ توبہ و استغفار کی فَتَضَرَّعُوْا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی فَرَحِمَھُمْ وَکَشَفَ عَنْھُمْ (تفسیر کبیر از امام رازی زیر آیت َ۔الانفال:۳۳ و فتح البیان زیر آیت ۔ الانفال:۳۳ و تفسیر ابن جریر زیر آیت ۔ الانفال:۳۳) کہ وہ لوگ خدا کے سامنے گڑگڑائے۔ پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور ان پر سے عذاب کو ٹلا دیا۔

۳۔ روح المعانی میں خلفِ وعید کے متعلق لکھا ہے:۔

اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ یَجُوْزُ اَنْ یُّخْلِفَ الْوَعِیْدَ وَاَنِ امْتَنَعَ اَنْ یُّخْلِفَ الْوَعْدَ وَبِھٰذَا وَرَدَتِ السُّنَّۃُ۔ فَفِیْ حَدِیْثِ اَنْسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ وَعَدَہُ اللّٰہُ عَلٰی عَمَلِہٖ ثَوَابًا فَھُوَ مُنْجِزٌ لَہٗ وَمَنْ اَوْعَدَہٗ عَلٰی عَمَلِہٖ عَقَابًا فَھُوَ بِالْخَیَارِ وَمِنْ اَدْعِیَۃِ الْاَئِمَّۃِ الصَّادِقِیْنَ یَا مَنْ اِذَا وَعَدَ وَفٰی وَ اِذَ تَوَعَّدَ عَفٰی۔

(روح المعانی از علامہ ابن حجر الہیثمی زیر آیت ۔ الانفال:۳۳)

کہ خدا تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید (عذاب کی پیشگوئی میں ) تخلف کرے، اگرچہ وعدہ میں تخلف ممتنع ہے اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ کسی سے انعام (ثواب) کا وعدہ کرے تو اسے ضرور پورا کرتا ہے۔ ہاں عذاب (وعید) کی صورت میں وہ مختار ہے، کبھی سزا دیتا ہے کبھی نہیں۔ اور ائمہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اے وہ اﷲ جب تو وعدہ کرے تو پورا کرے اور جب ڈرائے (وعید کرے) تو معاف فرمائے۔

۴۔ اَنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ الْمَشْھُوْرَ فِی الْجَوَابِ اَنَّ اٰیَاتِ الْوَعْدِ مُطْلَقَۃٌ وَ اٰیَاتِ الْوَعِیْدِ وَاِنْ وَرَدَتْ مُطْلَقَۃً حُذِفَ قَیْدُھَا لِیَزِیْدَ التَّخْوِیْفَ (روح المعانی از علامہ ابن حجر الہیثمی زیر آیت ۔ الانفال:۳۳) کہ وعدہ ہمیشہ مطلق (اور غیر مشروط) ہوتا ہے اور (وعید) خواہ وہ بظاہر غیر مشروط ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں کوئی نہ کوئی شرط حذف کر دی گئی ہوتی ہے تا کہ خوف زیادہ بڑھ جائے۔

۵۔ حضرت علامہ فخر الدین رازی ؒ فرماتے ہیں۔ وَعِنْدِیْ جَمِیْعُ الْوَعِیْدَاتِ مَشْرُوْطَۃٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ فَلَا یَلْزِمُ مِنْ تَرْکِہٖ دَخُوْلُ الْکِذْبِ فِیْ کَلَامِ اللّٰہِ (تفسیر کبیر رازی زیر آیت ۔الانفال:۳۳) کہ میرے نزدیک تما م وعید ی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تب پوری ہو گی۔ پس اگر وعید نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

۶۔ تفسیر بیضاوی میں ہے بِاَنَّ وَعِیْدَ الْفُسَّاقِ مَشْرُوْطٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ (بیضاوی تفسیر آل عمران زیر آیت ) کہ خدا تعالیٰ کافروں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کرتا ہے۔ تو ہمیشہ اس میں مخفی طور پر یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کردیا تو عذاب آئے گا۔

۷۔ مسلم الثبوت صفحہ ۲۸۔ اِنَّ الْاِیْعَادَ فِیْ کَلَامِہٖ تَعَالٰی مُقَیَّدٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید میں عدم عفو کی شرط ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی

بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ آنحضرت ؐ کی پیشگوئی یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ نکاح محمدی بیگم کے متعلق ہے۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ:۔

۱۔ نکاح محمدی بیگم حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق سلطان محمد کی موت بصورت عدم توبہ کے ساتھ مشروط تھا، لہٰذا آنحضرت ؐ کی پیشگوئی کو بھی شرائط بالا کے ساتھ مشروط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پس بوجہ عدم تحقق شرائط آنحضرتؐ کی یہ پیشگوئی محمدی بیگم کے نکاح کے ساتھ پوری ہونے کے بجائے دوسرے رنگ میں پوری ہو گئی۔ یعنی وہ ’’موعود‘‘ اولاد حضرت اقدس ؑ کو اس دوسرے نکاح سے عطا کی گئی جو حضرت ام المؤمنینؓ کے ساتھ ہوا۔

۲۔ چنانچہ یہ ہمارا اپنا خیال نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’کئی برس پہلے خبر دی گئی تھی یعنی مجھے بشارت دی گئی تھی کہ تمہاری شادی خاندان سادات میں ہوگی اور اس میں سے اولاد ہوگی تا پیشگوئی حدیث یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ پوری ہو جائے۔ یہ حدیث اشارت کر رہی ہے کہ مسیح موعود کو خاندان سیادت سے تعلق دامادی ہوگا کیونکہ مسیح موعود کا تعلق جس سے وعدہ یُوْلَدُلَہٗ کے موافق صالح اور طیب اولاد پیدا ہو۔ اعلیٰ اور طیّب خاندان سے چاہئے۔ اور وہ خاندان سادات ہے۔‘‘

(اربعین نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۸۵ حاشیہ)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ایک سوال

ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کی موت کی تین سال کی میعاد اور سلطا ن محمد کے لئے سال کی میعاد مقرر فرمائی تھی جس سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سلطان محمد کو مرنا چاہیے تھا۔

۱۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا سلطان محمد کے لئے اڑھائی سال اور مرزا احمد بیگ کے لئے تین سال کی میعا د مقرر فرمانا ہر اہل بصیرت انسان کے لئے حضر ت مسیح موعود ؑ کی صداقت اور راستبازی کی ایک دلیل ہے۔ کیونکہ احمد بیگ عمر کے لحاظ سے بڑا تھا اور اس کا داماد جوان۔ طبعی طور پر احمد بیگ کی موت کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ سلطان محمد سے پہلے مرے گا۔ اور اگر حضرت مسیح موعود اپنی طرف سے اندازہ لگا کر پیشگوئی کرتے تو احمد بیگ کی وفات کے لئے سلطان محمد سے کم میعاد مقرر فرماتے۔ لیکن الہام میں ایسا نہیں۔ بلکہ احمد بیگ کے لئے تین سال اور سلطان محمد کے لئے اڑھائی سال کا وعدہ کیا گیا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی انسانی دماغ کا اختراع نہ تھا۔

دوسرا امر جو اس میعاد کے تعین سے معلو م ہوتا ہے، وہ یہ کہ یہ پیشگوئی جذباتِ انسانی کے نتیجہ میں نہیں کی گئی تھی کیونکہ زیادہ قصور احمد بیگ کا تھا اور وہ مستہزئین اور مکفرین کے گروہ میں شامل تھا۔ نیز رشتہ کے لئے اسی کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیا گیا تھا، اور یہ سب کچھ اسی کے انکار کا نتیجہ تھا۔ اور اگر جذباتِ انسانیہ کا کوئی اثر ہو سکتا تھا تو یہی کہ حضرت مسیح موعود طبعاً احمد بیگ کی میعاد کم مقرر فرماتے مگر واقعہ اس کے خلاف ہوا جس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی جذبات کا نتیجہ نہ تھی بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو اطلاع دی اسی طرح سے شائع فرما دیا۔

۳۔ پیشگوئی میں زیادہ سے زیاد ہ مدت بتائی گئی تھی۔ پس اگر احمد بیگ اور سلطان محمد اپنی اسی حالت پر بدستور قائم رہتے۔ جس حالت میں کہ وہ پیشگوئی بیان کرنے کے وقت تھے تو ان کی موت کی میعاد علی الترتیب تین و اڑھائی سال ہوتی۔ مگر احمد بیگ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا اور لڑکی کا نکاح کر دینے کے بعد اور زیادہ شوخ ہو گیا، اس لئے وہ میعاد مقررہ کے اندر بہت ہی جلد پکڑا گیا۔ بخلاف سلطان محمد کے کہ اس نے اصلاح کی اور توبہ و استغفار کی طرف رجوع کیا۔ کَمَا مَرَّ۔

یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے احمد بیگ کی میعاد تین سال مقرر کر کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ مہلت ہے جو احمد بیگ کو دی جاتی ہے۔ اگر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا تو تین سال سے بہت پہلے جلد ہی مر جائے گا۔ چنانچہ حضر ت مسیح موعودؑ نے احمد بیگ کو جو خط ۱۳۰۴ھ میں لکھا تھا۔ اس میں حضور نے تحریر فرمایا تھا۔

’’وَ آخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَ النِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ، بَلْ مَوْتُکَ قَرِیْبٌ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۳) کہ تیرے خاندان پر جو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہو گی تو روز نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مرجائے گا بلکہ تیری موت اس سے بھی قریب ہے۔

ب۔ حضرت مسیح موعود اپنے اشتہار ۲۰؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’خدا نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ ہے اگر وہ اپنی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا‘‘ (حاشیہ اشتہار ۲۰؍ اپریل ۱۸۸۶ء ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مارچ ۱۸۸۶ء مشمولہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۴۸)۔

مندرجہ بالا دونوں حوالہ جات میں حضرت اقدسؑ نے صراحت فرما دی ہے کہ احمد بیگ کو اگر وہ زیادہ شوخی نہ کرے تو زیادہ سے زیادہ تین سال مہلت مل سکتی ہے، لیکن وہ شوخی کر کے جلدی فوت ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ایک قابل غور امر!

مندرجہ بالا عربی عبارت از آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۳میں سے فقرہ اٰخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ ( کہ تیرے خاندان پرجو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہو گی) خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں بھی ایک زبردست پیشگوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ کو بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یوں مقد ر فرمایا ہے کہ اس کی موت کو اس کے خاندان کے لئے ’’آخری مصیبت‘‘ بنائے، اور اس کے بعد پھر کوئی مصیبت اس خاندان پر اس پیشگوئی کے ماتحت نہ آئے۔ اس لئے احمد بیگ کی موت جب ۱۸۹۲ء میں ہو گئی، تو ’’اٰخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ ‘‘ کے مطابق ضروری تھا کہ سلطان محمد اس کے بعد فوت نہ ہو۔

غرضیکہ احمد بیگ کی موت کا واقعہ ہو جانا اور پیشگوئی کے مطابق واقع ہو جانا اس پیشگوئی کے عظیم الشان نتائج کی خوشخبری دیتا تھا جو اس خاندان کے اکثر افراد کے حلقہ بگوشِ احمدیت ہونے کی صورت میں نمودار ہوئے۔ او ر اس طرح سے یہ پیشگوئی اس خاندان کے اس مطالبہ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ (اگر یہ سچا ہے تو نشان دکھائے) کے جواب میں ایک زبردست نشان ثابت ہوئی، جس نے ان لوگوں کی جو دہریت اور ارتداد کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، کایا پلٹ دی اور ان کو خدا کے پیارے مسیح موعود ؑ کی شناخت اور قبولیت کی روشنی سے منور کر دیا۔ دہریت کی جگہ اسلام نے اور ارتداد کی جگہ تعلق و محبت رسول ؐ نے لے لی۔ اور یہی وہ عظیم الشان تغیر ہے جسے دنیا میں پیدا کرنے کے لئے خداتعالیٰ کے تمام انبیاء تشریف لائے اور جس کی جھلک خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ داروں میں اس پیشگوئی کے ذریعہ دکھائی۔ حضور ؐ فرماتے ہیں:۔

۱۔’’کس قدر میرے دعویٰ کی تائید میں مجھ سے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور جو کچھ کہا جاتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ یہ محض افتراہے بلکہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور میری کسی پیشگوئی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جو پہلے نبیوں کی پیشگوئیوں پر جاہل اور بے ایمان لوگ نہیں کر چکے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۹۶)

۲۔’’اے نادان! اوّل تعصّب کا پردہ اپنی آنکھ پر سے اُٹھا۔ تب تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ خدا تعالیٰ کی نصرت ایک تُند اور تیز دریا کی طرح مخالفوں پر حملہ کر رہی ہے پر افسوس کہ ان لوگوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ زمین نے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی۔ اور دوستوں میں بھی نشان ظاہر ہوئے ہیں اور دشمنوں میں بھی۔ مگر اندھے لوگوں کے نزدیک ابھی کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ لیکن خدا اس کام کو ناتمام نہیں چھوڑے گا جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۵)

۳۔ ’’ایک یہ بھی اُن کا اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔ اس اعتراض کے جواب میں تو صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ اگر وہ میری کتابوں کو غور سے دیکھتے یا میری جماعت کے اہلِ علم اور واقفیت سے دریافت کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کئی ہزار پیشگوئی اب تک پوری ہو چکی ہے اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے صرف ایک دو گواہ نہیں بلکہ ہزار ہا انسان گواہ ہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۹-۳۶۸)

۴۔ ’’ ایک دو اور پیشگوئیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مگریہ سراسر ان کا افترا ہے اور سچ اور واقعی یہی بات ہے کہ میری کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جو پوری نہیں ہوگئی۔ اگرکسی کے دل میں شک ہوتوسیدھی نیت سے ہمارے پاس آجائے اور بالمواجہ کوئی اعتراض کرکے اگر شافی کافی جواب نہ سنے تو ہم ہر ایک تاوان کے سزا وار ٹھہر سکتے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ المہدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۱-۴۴۰)

۲۔ڈاکٹر عبد الحکیم مُرتد والی پیشگوئی


اعتراض۔ عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کی وفات ہوئی۔


اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات

جواب :۔

۱۔ دسمبر ۱۹۰۵ء میں اپنی وفات سے اڑھائی سال قبل حضرت اقدسؑ نے ’’الوصیت‘‘ شائع فرمائی اس کے صفحہ ۲ پر یہ الہامات درج ہیں۔ ’’قَرُبَ اَجْلُکَ الْمُقَدَّرُ‘ ‘ تیری وفات کا وقت مقررہ آگیا ہے ’’قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ‘‘ (تیرے رب کی طرف سے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔) ’’بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔‘‘

۲۔ ریویو دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴۸۰ میں ہے۔ رؤیا (خواب) ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے، لیکن بہت مصفّٰی اور مقطر پانی ہے۔ اس کے ساتھ الہام تھا ’’آب زندگی ‘‘

اس میں ’’دو تین گھونٹ‘‘ زندگی کا پانی اس میں باقی رہنا مذکور ہے اور اس کے پورے اڑھائی سال بعد حضورؑ فوت ہوئے۔ گویا کل میعاد تین سال بتائی گئی۔ جس کو بعد میں عبدالحکیم نے چرا کر اپنے نام سے شائع کیا۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔

۳۔ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۷ ’’لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی‘‘ اور انتقال ذہن لاہور کی طرف ہوا ہے (ماہ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ الہامات حضرت مسیح موعود ؑ) ’’ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں‘‘۔ (بدر جلد ۶ نمبر ۱۱۔ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ و الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹۔ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱)۔ (ریویو آف ریلیجنز جلد ۶ نمبر ۳)

۴۔ ۲؍ دسمبر ۱۹۰۷ء:۔ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید، ’’۲۷ کو ایک واقعہ‘‘ (ہمارے متعلق) اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘ (یعنی اﷲ ہی سب سے بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔)

حضور ؑ کی وفات کی یہ ’’افسوسناک خبر‘‘ لاہور کی طرف سے آئی اور حضور ؑ ۲۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کو کفن میں لپیٹ کر قادیان لائے گئے۔

۵۔ ۷؍مارچ ۱۹۰۸ء ’’ماتم کدہ‘‘ اس کے بعد غنودگی میں دیکھا کہ ’’ایک جنازہ آتا ہے۔ ‘‘


عبد الحکیم مرتد کی پیشگوئی:۔

حضرت مسیح موعودؑ نے جب ’’الوصیت‘‘ شائع فرما دی اور اپنا وہ رویا بھی شائع فرما دیا جس میں حضورؑ کی عمر ’’دو تین سال‘‘ بتائی گئی تھی تو اس کے پورے سات مہینے بعد عبد الحکیم مرتد نے ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو لکھا:۔

سہ سالہ پیشگوئی:۔

’’مرزا مسرف، کذاب اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔‘‘

(کانا دجال صفحہ ۵۰ و اعلان الحق اتمام الحجہ و تکملہ صفحہ ۴۳ طبع ثانی مطبع ہلالی سٹیم پریس ساڈھورہ ریاست پٹیالہ)

حضرت مسیح موعود ؑکا جواب

اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۶؍ اگست ۱۹۰۶ء کو اشتہار مشمولہ حقیقۃالوحی صفحہ ۴۰۹ صفحہ ۴۱۱ ’’خدا سچے کا حامی ہو۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۰۹ روحانی خزائن جلد ۲۲) شائع فرمایا، اور اس میں خدا کا یہ الہام درج کیا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں۔‘‘ اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔‘‘ ان پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔‘‘ فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۔ پر تو نے وقت کو نہ پہچانا۔ نہ دیکھا نہ جانا۔‘‘ رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَ کَاذِبٍ۔ اَنْتَ تَرٰی کُلَّ مُصْلِحٍ وَ صَادِقٍ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۱۱) (یعنی اے رب سچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھلا دے۔ اور تو ہر مصلح اور سچے کو جانتا ہے)

پہلی پیشگوئی منسوخ اور ۱۴ ماہیہ نئی پیشگوئی:

عبد الحکیم مرتد ’’شجرۂ خبیثہ‘‘ تھا جو مَا لَھَا مِنْ قَرَارٍ کے مطابق اپنی بات پر قائم نہ رہا اور اپنی سہ سالہ پیشگوئی کو بدیں الفاظ منسوخ کرتے ہوئے لکھا:۔ ’’اﷲ تعالیٰ نے اس کی شوخیوں اور نافرمانیوں کی سزا میں سہ سالہ میعاد میں سے جو ۱۱؍ جولائی ۱۹۰۹ء کو پوری ہونی تھی دس مہینے اور گیارہ دن کم کر دیئے اور مجھے یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو الہاماً فرمایا ’’مرزا آج سے چودہ ماہ تک بہ سزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا۔‘‘ (رسالہ اعلان الحق اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ ۶طبع ثانی مطبع ہلالی سٹیم پریس ساڈھورہ ریاست پٹیالہ مؤلّفہ عبد الحکیم مرتد)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب

اس کے جواب میں حضورؑ نے ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو ’’تبصرہ‘‘ نامی اشتہار شائع فرمایا ’’اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا اور ……میں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا۔ یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء سے ۱۴ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں۔ ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھا دوں گا۔ تا معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۹۱ اشتہار مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء و بدر نمبر ۴۶ جلد ۶ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶)

نوٹ:۔ اس الہام میں لفظ ’’جھوٹا کروں گا‘‘ اور ’’عمر کو بڑھاؤں گا‘‘ خاص طور پر قابل غور ہیں کیونکہ ’’بڑھاؤں گا‘‘ کا لفظ بتاتا ہے کہ حضورؑ کی تاریخ وفات تو حضرت کے اپنے الہامات کے مطابق یکم ستمبر ۱۹۰۸ء سے پہلے ہی تھی مگر محض دشمن کو ’’جھوٹا‘‘ کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ اس کو ’’بڑھانے‘‘ کی پیشگوئی کرتا ہے۔گویا عمر بڑھانا محض دشمن کو ’’جھوٹا‘‘ کرنے کی غرض سے ہے اور بس۔

چودہ(۱۴) ماہیہ پیشگوئی بھی منسوخ:

چودہ ماہ والی پیشگوئی کے مطابق میعاد پیشگوئی یکم ستمبر ۱۹۰۸ء نکلتی تھی مگر تبصرہ کے شائع ہونے کے بعد مرتد ڈاکٹر نے اس میں اور تبدیلی کر دی اور لکھا:۔

۱۔ ’’الہام ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء۔ مرزا ۲۱؍ ساون۱۹۶۵ء (مطابق ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء) تک ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ (اعلان الحق اتمام الحجۃ و تکملہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۳۲)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب

جب عبدالحکیم مرتد نے ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کو ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء تک والی پیشگوئی شائع کی تو اس وقت حضرت اقد س ؑ چشمہ معرفت لکھ رہے تھے۔ حضور نے اس کی یہ پیشگوئی چشمہ معرفت میں نقل فرمائی اور تحریر فرمایا: ’’میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔‘‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۳۳۷)

۴؍ اگست والی پیشگوئی بھی منسوخ :۔

مگر عبد الحکیم مرتد اس پر بھی قائم نہ رہا اور لکھاکہ:۔

’’مگر کسی طرح اس (حضرت مسیح موعودؑ) کی بیباکی اور سرکشی میں کمی نہ ہوئی، مرزائیوں کا ارتداد اور کفر بے حد بڑھتا گیا۔ جس کی تفصیل ’’کانا دجال‘‘ کے مطالعہ سے ظاہر ہو گی۔ ایک موقعہ پر بے اختیار میر ی زبان سے یہ بد دعا نکلی، اے خدا اس ظالم کو جلد غارت کر۔ اے خدا اس بدمعاش (خاکش بدہن، خادم) کو جلد غارت کر اے خدا اس بدمعاش کو جلد غارت کر۔‘‘ اس لئے ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء مطا بق ۲۱؍ ساون سمت۱۹۶۵ء تک کی میعاد بھی منسوخ کی گئی۔‘‘ (اعلان الحق و اتمام الحجہ و تکملہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۹)

۲۔ پھر اپنے ۸؍ مئی ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتا ہے:۔

’’مرزا قادیانی کے متعلق میرے جدید الہامات شائع کر کے ممنون فرما دیں:۔

(۱) مرزا ۲۱؍ ساون سمت ۱۹۶۵ء (۴؍ اگست ۱۹۰۸ء) کو مرض مہلک میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔
(۲) مرزا کے کنبہ میں ایک بڑی معرکۃ الآراء عورت مر جائے گی۔
(پیسہ اخبار ۱۹۰۸ء ۱۵؍ مئی و اہلحدیث ۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء)

گویا اب اس نے ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء کی تعیین کر دی۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر بڑھانے کی ضرورت نہ رہی۔ آپ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہوئے اور اس کے ’’شر سے محفوظ‘‘ رہے وہ ’’جھوٹا‘‘ ہو گیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی اپنی پیشگوئیوں کے مطابق ۲۷کو حضور ؑ کا جنازہ لاہور سے قادیان کی طرف لایا گیا اور حضور دارالامان میں مدفون ہوئے۔

’’کو‘‘ کی صحت کا ثبوت

۱۔ ’’۴؍ اگست تک‘‘ والا ’’الہام‘‘ ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کا ہے۔ (اعلان الحق و تکملہ و اتمام الحجۃ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۸) مگر ۴؍ اگست ’’کو‘‘ والا ’’الہام‘‘ مئی کے پہلے ہفتہ کا ہے۔ (دیکھو اعلان الحق و اتما م الحجۃ و تکملہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۳۲سطر ۱۸)

۲۔ ’’تک‘‘ والا ’’الہام‘‘ ’’جدید‘‘ نہیں بلکہ تین مہینے کا پرانا ’’الہام‘‘ تھا۔ ۸؍ مئی کو اس نے ’’کو‘‘ والا ’’الہام‘‘ لکھا ہے اور اس کو ’’جدید‘‘ قرار دیا ہے اور خود اقرار کیا ہے کہ مئی ۱۹۰۸ء میں مجھے ’’کو‘‘ والا الہام ہوا تھا۔ (دیکھو اعلان الحق وغیرہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۳۲)

۳۔ دوسرا الہام جو ’’معرکۃ الآراء عورت‘‘ کی موت کے متعلق ہے وہ ۸؍ مئی ۱۹۰۸ء کا ہے، یعنی اس دن کا جس دن اس نے یہ ’’الہام‘‘ بغرضِ اشاعت اخبارات میں بھی بھیجا ہے۔ (اعلان الحق از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۸ آخری سطر) مگر ’’تک‘‘ والے الہام کے ساتھ ’’معرکۃ الآراء عورت‘‘ کی موت کا ذکر نہیں۔

۴۔ عبد الحکیم مرتد نے خود اقرار کیا ہے جیسا کہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ ’’۴؍ اگست ۱۹۰۸ء مطابق ۲۱ ساون سمت ۱۹۶۵ء تک کی میعاد بھی منسوخ کی گئی۔‘‘ (اعلان الحق وغیرہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۹)

عبدالحکیم مُرتد جھوٹاہو گیا

مولوی ثناء اﷲ امر تسری کی شہادت

’’ہم خدا لگتی کہنے سے رُک نہیں رک سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی ۱۴ ماہیہ پیشگوئی کر کے مرزا کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا۔ چنانچہ ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کے اہلحدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ ۲۱؍ ساون یعنی ۴؍ اگست کو مرز ا مرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جو معزز ایڈیٹر پیسہ اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پرچبھتا ہوا کیا ہے کہ ’’۲۱؍ ساون کو‘‘ کی بجائے ’’۲۱؍ ساون تک‘‘ ہوتا تو خوب ہوتا۔‘‘ (اہلحدیث ۱۲؍ جون ۱۹۰۸ء)

ضروری نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک ’’تبصرہ‘‘ میں لکھاہے کہ میرا دشمن میری آنکھوں کے سامنے ہی اصحاب فیل کی طرح نیست و نابود ہو جائے گا۔ مگر (اول) یہ حضرت اقدس کا اپنا اجتہاد ہے، الہام تو جو حضور ؑ کو ہوا وہ وہیں درج ہے۔ ’’(سورۃ الفیل:۲)حضرت نے ’’‘‘ کے لفظ سے یہ استعمال فرمایا ہے کہ گویا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہی ہلاک ہو جائے گا۔ حالانکہ یہ آیت قرآن مجید میں جہاں آتی ہے وہاں آنحضرتؐ کو اصحاب فیل کی تباہی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مخاطب کرتی ہے اور ’’‘‘کے الفاظ اس موقعہ پر مستعمل ہوتے ہیں۔ جب کہ اصحابِ فیل کی تباہی کا واقعہ آنحضرتؐ نے اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا بلکہ وہ آپ کی ولادت سے بھی قبل ہو چکا تھا۔ اسی طرح اس الہام میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا تھا کہ عبد الحکیم پر جو عذاب آئے گا آپ اپنی زندگی میں ا س کو نہیں دیکھ سکیں گے، جس طرح اصحاب فیل کی تباہی کو آنحضرتؐ نے نہ دیکھا تھا۔ اور نبی کے اجتہاد سے یہ ممکن ہے جیسا کہ نبراس شرح الشرح عقاید نسفی صفحہ ۳۹۲ میں ہے۔ کَان النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَھِدُ وَ یَکُوْنُ خَطْئًا کَمَا ذَکَرَہُ الْاُصُوْلِیُِّوْنَ …… وَ فِیْ حَدِیْثِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَھُوَ حَقٌّ وَمَا اَقُوْلُ فِیْہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِیْ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ اُخْطِئُی وَ اُصِیْبُ ‘‘ کہ آنحضرتؐ بعض اوقات اجتہاد کرتے تھے تو وہ غلط بھی ہوتا تھا، جیسا کہ اصولیوں نے لکھا ہے اور حدیث میں ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جو بات تو میں کہوں کہ خدا نے کہی ہے تو وہ بالکل درست اور حق ہو گی۔ مگر جو بات اس کی تشریح کرتے ہوئے میں اپنی طرف سے کہوں ضروری نہیں کہ درست ہی ہو۔ کیونکہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں، کبھی درست بات بتاتا ہوں اور کبھی مجھ سے بھی خطا ہو جاتی ہے۔ (مفصل دیکھو صفحہ ۷۴۹ پاکٹ بک ھذا)

(دوم) حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ سب تحریرات عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئیوں کے بالمقابل ہیں۔ جب اس نے اپنی طرف سے شرائط کو تبدیل کر دیا تو حضرت کے جوابا ت بھی بحا ل نہ رہے۔ تم الزام تو اس صورت میں دیتے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہتا اور پھر حضرت پر اسے اعتراض کرنے کا موقعہ ملتا۔ حضرت کی غرض تو ’’رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَ کَاذِبٍ ‘‘ کی تھی۔ کیا سچے جھوٹے میں فرق نہیں ہوا؟ کیا حضرت ’’اس کے شر سے محفوظ‘‘ نہیں رہے؟ اور اس کو اﷲ تعالیٰ نے جھوٹا نہیں کیا؟ اور پھر کیا وہ ۱۹۱۹ء میں پھیپھڑے کی مرض (سل) سے ہلاک نہیں ہوا؟ اور وہ فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار سے مسلول نہیں کیا گیا؟ اگر یہ سب واقعات سچے ہیں اوریقینا سچے ہیں تو حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت میں کون سے شک و شبہ کی گنجائش ہے؟

۳۔مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی موت کی پیشگوئی کی اور جھوٹے کے لیے بددعاکی لیکن پہلے خود ہی فوت ہو گئے


سوال:۔ مرزا صاحب نے مولوی ثناء اﷲ کی موت کی پیشگوئی کی؟

جواب:۔ یہ افتراء ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز ثناء اﷲ کی موت کی پیشگوئی نہیں کی۔ چنانچہ آپ اشتہار ’’آخری فیصلہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۷۹ اشتہار مورخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ ؁ء) کوئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضور نے ثناء اﷲ کے متعلق حضور کی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی کی تھی۔ ہاں اس کو دعوت مباہلہ دی تھی جس کی تفصیل درج ذیل ہے :۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں تمام علماء گدی نشینوں اور پیروں کو ’’آخری فیصلہ‘‘ (مباہلہ) کی دعوت دی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔ وَآخِرُ الْعَلَاجِ خُرُوْجُکُمْ إِلٰی بَرَازِ الْمُبَاہَلَۃِ ………… ہٰذَا آخِرُ حِیَلٍ أَرَدْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۶۵) کہ آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے …… اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے۔

اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ ’’فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ ’’فریقین میں سے جو فریق جھوٹا ہے، اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر۔ کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۶)

اور اس کے بعد لکھا:۔

’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی *** اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔ ‘‘ (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اﷲ کا نمبر ۱۱ تھا۔ مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا، اور اپنی مہر خاموشی سے اس جری اﷲ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی، لیکن جب ہر طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس بدقسمت جانور کی طرح جو شیر کو دیکھ کر انتہائی بدحواسی سے خود ہی اس پر حملہ کر بیٹھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی۔ جس کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے لکھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کا جواب

’’مولوی ثناء اﷲ امرتسری کی دستخطی تحریر مَیں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ مَیں اِس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی مَیں اور وہ یہ دُعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مَر جائے ‘‘(اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

’’اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

ؓثنائی حیلہ جوئی

’’چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اﷲ یا الہامی ہے، اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا …… میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرأت نہیں۔‘‘

(الہامات مرزا صفحہ ۸۵ طبع دوم و صفحہ ۱ ۱ طبع ششم)

لیکن جب پھر ہر طرف سے لعن طعن ہوئی تو لکھا:۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ثناء اﷲ کی دوبارہ آمادگی

’’البتہ آیت ثانیہ …… …… (آل عمران: ۶۲) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں۔ میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے۔‘‘ (اہل حدیث ۲۲ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۴)

’’مرزائیو! سچے ہو تو آؤ اور اپنے گورو کو ساتھ لاؤ۔ وہی میدان عیدگاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم پہلے صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو (جھوٹ ہے وہاں ہرگز کوئی ایسا مباہلہ نہیں ہوا۔ جس میں فریقین نے ایک دوسرے کے حق میں بددعا کی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بددعا نہیں کی تھی، خادم) اورا نہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے کیونکہ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو، سب امت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (اہل حدیث ۲۹؍ مارچ صفحہ ۱۰۔ ۱۹۰۷ء)

مولوی ثناء اﷲ صاحب کی یہ تحریر ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃالوحی میں (جو اس وقت زیر تصنیف تھی) یہ تحریر فرما چکے تھے کہ ’’میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ (ثناء اﷲ) مجھ سے درخواست مباہلہ کریں۔ ( حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱)

’’مباہلہ کی درخواست کرے۔‘‘ (ایضا صفحہ ۳۳) و (ایضا ۴۶۵)

حضرت اقدسؑ کی یہ تحریر ۲۵؍ فروری ۱۹۰۷ء کی ہے جیسا کہ تتمہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۶ سطر ۱۰ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس تحریر سے ظاہر ہے کہ حضرت کا ارادہ یہ تھا کہ اب اگر مولوی ثناء اﷲ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کرے تو اسے بھاگنے نہ دیا جائے۔ چنانچہ جب اس نے ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ کو دعوت مباہلہ دی (جو اوپر درج ہو چکی ہے) تو حضرت کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب بدر ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ میں دیا گیا، لیکن مولوی ثناء اﷲ پھر فرار کی راہ اختیار کرنے لگا، جیسا کہ اس کے جواب میں مندرجہ اہل حدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ سے ظاہر ہے۔ تو اس کے جواب کے اشاعت سے قبل ہی اﷲ تعالی نے حضرت اقدسؑ کو اس کے ارادہ سے مطلع فرما دیا اور حضور نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کا اشتہار آخری فیصلہ شائع فرما دیا تا کہ ثناء اﷲ کے لئے گول مول کر کے ٹالنے کی گنجائش ہی نہ رہے اور وہ مجبور ہو کر تصرف الہٰی کے ماتحت موت کو اپنے سر پر سوار دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ ’’تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں، اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے۔‘‘ (اخبا ر اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ ء) چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے:۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب

’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے۔ وہ بیشک (آپ) قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص (حضرت مسیح موعودؑ) اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور بیشک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹاہوں تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ……۔ مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پر ہے اس میں تو صرف آیا ہے۔‘‘ (اخبار بدر ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۴)

ثنا ئی فرار

’’میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا، میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں۔ حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں۔ میں نے حلف اٹھانا کہا ہے۔ مباہلہ نہیں کہا۔ قسم اور ہے مباہلہ اور ہے۔‘‘ (اہل حدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)

ابھی یہ ثنائی فرار معرضِ ظہور میں نہیں آیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو علیم و خبیر ہے اپنے مسیح موعودؑ کو اس کی اطلاع دے کر اپنے شکار کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کے لئے ایک طریق کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ اس کے مطابق حضور نے آخری اتمامِ حجت کے طور پر ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو اپنی طرف سے ’’دعاء مباہلہ‘‘ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے ساتھ ’’آخری فیصلہ‘‘ کے عنوان سے شائع فرما دی۔ جس میں اپنی طرف سے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ سچے کی زندگی میں جھوـٹے کو ہلاک کر دے اور بالآخر لکھا کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب اس اشتہار کو اہل حدیث میں شائع فرما کر ’’جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں، اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

مولوی ثناء اﷲ نے اس اشتہار کو اہلحدیث ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۷ء میں شائع کیا اور اس کے نیچے یہ لکھا:۔

’’اول۔ اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی، ا ور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔‘‘

(اخبار اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

’’تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں بھی فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ایضاً)

’’میرا مقابلہ تو آپ سے ہے۔ اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے۔‘‘

’’خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

’’خداتعالی جھوٹے، دغا باز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں۔‘‘

نوٹ:۔ یہ آخری عبارت نائب ایڈیٹر کی طرف سے لکھی گئی ہے مگر مولوی ثناء اﷲ نے اس کی تصدیق کی اور لکھا کہ ’’میں اس کو صحیح جانتا ہوں۔‘‘ (اہل حدیث ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء)

’’مختصر یہ کہ …… یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔‘‘

(اقتباسات از اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵،۶)

مولوی ثناء اﷲ پھر لکھتا ہے:۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرما گئے، اور مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا۔‘‘ (مرقع قادیانی اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)

’’کوئی ایسی نشانی دکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں، مر گئے تو کیا دیکھیں گے اور کیا ہدایت پائیں گے۔‘‘ (اخبار وطن امرتسر ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱)

پس چونلہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے اپنی پرانی عادت کے مطابق نجران کے عیسائیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مباہلہ سے فرار اختیار کیا، اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور ثناء اﷲ کو خداتعالیٰ نے اس کے تسلیم کردہ اصول کے رو سے ’’جھوٹے، دغا باز، مفسد اور نافرمان‘‘ لوگوں کی طرح لمبی عمر دی اور اسے حضرت مسیح موعودؑ کے پیچھے زندہ رکھ کر ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ثابت کر دیا۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار ’’مسودہ مباہلہ‘‘ ہے جس طرح قرآن مجید کی آیت مباہلہ میں (سورۃ اٰل عمران:۶۲) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ’’مسودہ مباہلہ‘‘ تھی۔ وہاں چونکہ عیسائی بھاگ گئے تھے اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور وہ نہ مرے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی کُلِّھِمْ حَتّٰی یَھْلِکُوْا (تفسیر کبیر لفخر الرازی جلد ۸ صفحہ ۸۵ مصری مطبوعہ ۱۹۳۸ء پہلا ایڈیشن زیر آیت ۔آل عمران:۶۲) اگر عیسائی مباہلہ کر لیتے اور آنحضرتؐ کی طرح کہہ دیتے تو ان میں سے ہر ایک ایک سال کے اندر ہلاک ہو جاتا۔ اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے مقابلہ میں میدانِ مباہلہ سے بھاگ نہ جاتا۔ اور حضرت کی خواہش کے مطابق وہی بددعا کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:۔

’’اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے۔‘‘ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

پس جس طرح وہاں پر نجران کے عیسائیوں کا فرار ’’خدائی فیصلہ بروئے مباہلہ‘‘ کے رستہ میں روک ثابت ہوا۔ یہاں بھی ثناء اﷲ کا مندرجہ بالا فرار اس کو ہلاکت سے بچا گیا۔ نہ حضرت مسیح موعودؑ آنحضرتؐ سے بڑے ہیں اور نہ مولوی ثناء اﷲ نجرا ن کے عیسائیوں سے بڑا ہے۔

اشتہار آخری فیصلہ ’’مسودہ مُباہلہ‘‘ تھا

۱۔ خود مولوی ثناء اﷲ لکھتا ہے:۔ ’’کرشن قادیانی نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا۔‘‘ (مرقع قادیان جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸)

۲۔ ’’آج تک مرزا صاحب نے کسی مخالف سے ایسا کھلا مباہلہ نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ گول مول رکھا کرتے تھے۔‘‘ (اشتہار مرزا قادیانی کا انتقال اور اس کا نتیجہ شائع کردہ ثناء اﷲ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اشتہار کا عنوان ہے۔ مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۷۹ اشتہار مرقومہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء) اور مولوی ثناء اﷲ کے نزدیک ’’آخری فیصلہ‘‘ مباہلہ ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔

’’ ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں، کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض ’’بدرا بدر بائید رسانید‘‘ کہہ دے کہ آ ؤ ایک آخری فیصلہ بھی سنو، ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں، اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بند نزدیکی بلائیں۔ پھر عاجزی سے جھوٹوں پر خدا کی *** کریں۔ خدا خود فیصلہ دنیا میں ہی کر دے گا۔ ‘‘ (تفسیر ثنائی زیر آیت آل عمران:۶۱)

۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی یہ دعائے مباہلہ ہی تھی جیسا کہ حضور فرماتے ہیں:۔

’’مباہلہ ایک آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی نصاریٰ کو مباہلہ کے واسطے طلب کیا تھا مگر ان میں سے کسی کو جرأت نہ ہوئی‘‘ (بدر ۱۷؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۳)

۵۔ حضرت اقدسؑ نے بعینہٖ ’’آخری فیصلہ‘‘ والی دعا کے مطابق ایک اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے متعلق شائع فرمایا تھا۔ اس کے متعلق حضور فرماتے ہیں:۔

’’۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہمارا اشتہار جو مباہلہ کے رنگ میں شیخ محمد حسین اور اس کے دو ہم راز رفیقوں کے مقابل پر نکلا ہے وہ صرف ایک دعاہے۔‘‘ (رازِ حقیقت صفحہ ب اشتہار ۳۰؍ نومبر۸ ۱۸۹ء)

’’اب یہ اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء ایک آخری فیصلہ ہے چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے۔‘‘ (راز حقیقت صفحہ ۱۴)

گویا حضرتؑ نے اشتہار کو جو ’’مباہلہ‘‘ کے رنگ میں ایک ’’دعا‘‘ پر مشتمل تھا ’’آخری فیصلہ‘‘ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ حضور کے نزدیک آخری فیصلہ سے مراد مباہلہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۸)

حضور تحریر فرماتے ہیں۔ کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۵۲ نیز مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۸ اشتہار مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۸۹۸ء)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک صرف اور صرف مُباہلہ کی صورت میں جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے، جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ ’’یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے۔ ہم نے تواپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا،…… ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ کیا آنحضرتؐ کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہی ہلاک ہو گئے تھے بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے۔ ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے۔…… ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہو تے ہیں۔ دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں۔ کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اعداء مر گئے ہوں، بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے، ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں،…… ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے۔‘‘

(الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۹)

۷۔ ثناء اﷲ اگر اس کو اشتہار مباہلہ نہ سمجھتا تھا تو اس کے جواب میں یہ کیوں لکھا تھا کہ ’’اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی، اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔‘‘ (اخبار اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) کیونکہ ظاہر ہے کہ یکطرفہ بددعا کے لئے دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ منظوری یا عدم منظوری کا سوال صرف اور صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ ہو۔

۸۔ عنوان اشتہار ہے ’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۸اشتہار مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء) ’’ساتھ‘‘ کا لفظ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ یکطرفہ دعا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی رضامندی کا سوال ہے۔ اگر یک طرفہ دعا ہوتی تو ’’مولو ی ثناء اﷲ صاحب کے متعلق آخری فیصلہ‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ مجسٹریٹ جب فیصلہ کر تا ہے تو ’’زید یا بکر کے متعلق‘‘ فیصلہ کرتا ہے، لیکن جب یہ کہا جائے کہ ’’زید نے بکر کے ساتھ فیصلہ کیا‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زید اور بکر دونوں کی رضامندی سے یہ فیصلہ ہوا۔ اگر ایک فریق بھی نا رضا مند ہو تو اندریں صورت وہ فیصلہ قائم نہ رہے گا۔ پس چونکہ مولوی ثناء اﷲ اس فیصلہ پر رضامند نہ ہوا اور لکھا کہ

’’یہ تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔‘‘ (اخبار اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) تو وہ دعا ’’فیصلہ‘‘ نہ رہی۔ اسی وجہ سے ثناء اﷲ نے بھی لکھا تھا کہ:۔

’’یہ دعا فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

۹۔ حضرت اقدس کا لکھنا کہ ’’جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔‘‘ (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹، اشتہار مرقومہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘) صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت اس مسودہ مباہلہ کو مکمل اسی صورت میں سمجھتے تھے جب ثناء اﷲ بھی اس کے نیچے اپنی منظوری لکھدے۔ ورنہ اگر یکطرفہ دعا ہوتی تو اس کے نیچے ثناء اﷲ کے لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

۱۰۔ حضرت اقدس ؑ کا لکھنا کہ ’’اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۹ مرقومہ ۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء) صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت کا منشاء یہی تھا کہ ثناء اﷲ کے ہاتھ سے حضور کی دعا اور اپنی تصدیق دونوں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ تا مسودہ مباہلہ مکمل ہو کر ثناء اﷲ کا خاتمہ کر دے۔

۱۱۔ مولوی ثنا ء اﷲ خود لکھتا ہے:۔

’’مرز اجی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)

۱۲۔ ’’وہ (حضرت مسیح موعودؑ) اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہلحدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ جون ۱۹۰۸ء)

۱۳۔ حضور ؑ لکھتے ہیں:۔

’’میں جانتا ہوں کہ مفسداور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اورآخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہو جاتا ہے۔‘‘

اور ہم ابھی حضرت ؑ کے مفلوظات (از الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء) سے دکھا چکے ہیں کہ یہ اصل صرف اور صرف مباہلہ ہی کی صور ت میں ہوتا ہے۔

۱۴۔ حضرت اقدس ؑ نے اپنے اس اشتہامیں جو انجام جھوٹے کا تحریر فرمایا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو انجام آتھم میں حضرتؑ نے جھوٹا مباہلہ کرنیوالے کا تحریر فرمایا ہے۔ دیکھیں انجام آتھم صفحہ ۶۵ تا صفحہ ۷۲ نیز دیکھیں صفحہ ۱۶۵۔

۱۵۔ مولوی ثناء اﷲ لکھتا ہے۔ ’’مرزائیو! کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کے لئے بلایا ہے؟ بتلاؤ تو انعام لو۔‘‘ (اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

اگر حضور ؑ کا اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹) محض یک طرفہ بددعا تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے انبیاء میں نہ ملتی ہو اور جس کا ثناء اﷲ کو انکار ہو جیسا کہ وہ لکھتا ہے:۔

’’اس قسم کے واقعات بیشمار ملتے ہیں جن میں حضرا ت انبیاء علیہم السلام نے مخالفوں پر بددعائیں کیں۔‘‘ (رؤداد مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۶۷)

پس مولوی ثناء اﷲ کے مطالبہ کا مطلب صرف یہی ہے کہ انبیاء ؑجب مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں تو پہلے اپنے مخالفوں کی منظور ی لے لیتے ہیں۔ یہاں پر حضرت نے ثناء اﷲ کی بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔ پس ثناء اﷲ اس طریق کار کی مثال مانگتاتھا نہ کہ محض بددعا کی۔ کیونکہ اس کے لئے منظوری کی ضرورت نہیں۔

ثنائی عذرات

ثناء اﷲ کوعذر ہے کہ مباہلہ کے لئے شرط یہ تھی کہ حقیقۃ الوحی شائع ہونے اور ثناء اﷲ کو بذریعہ رجسٹری بھیجنے کے بعد مباہلہ ہو گا۔ اب حضرت اقدس ؑ نے حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہی اس کو کیوں شائع کرد یا؟

سو اس کا جواب یہ ہے کہ ثناء اﷲ نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء میں جب چیلنج مباہلہ دیا تو حضرتؑ نے اس کو مہلت دینا ہی پسند فرمایا کہ ’’باوجود اس قدر شوخیوں اور دلآزاریوں کے جو ثناء اﷲ سے ہمیشہ ظہور میں آتی ہیں حضرت اقدس نے پھر بھی رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جب کہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے۔ (بد ر ۴ ؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲) لیکن چونکہ ثناء اﷲ نے ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کے اہلحدیث میں پھر فرار اختیار کر لینا تھا (جس کا حوالہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صفحہ ۴۸۲) اور خدا تعالیٰ کو اس کا علم تھا اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۵؍ اپریل ہی کو اس کے فرار کے شائع ہونے سے پہلے ہی دعا مباہلہ لکھنے کی ہدایت فرما دی، چنانچہ حضرت فرماتے ہیں:۔

’’ ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ (بدر ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲)

حضرت اقدس ؑ کا ثناء اﷲ سے کوئی ’’معاہدہ‘‘ نہ تھا کہ حقیقۃ الوحی چھپنے تک مباہلہ نہ ہو گا۔ یہ صرف حضورؑ کا اپنا ارادہ تھا بوجہ رحم کے۔ ثنا ء اﷲ نے اس تجویز کی منظوری کا اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ ’’معاہدہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیتا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت کے ارادہ کو (بو جہ اس فرار کے جو ثناء اﷲ کرینوالا تھا) بد ل دیا۔ اس با ت کا ثناء اﷲ کے لئے کوئی فرق نہ تھا کہ مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ کیونکہ وہ تو ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰ کے اہل حدیث میں مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر چکا تھا۔ اب مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں یہ حضرتؑ کی مرضی پر موقوف تھا۔ حضورؑ کا ارادہ کتاب کے چھپنے کے بعد مباہلہ کرنے کا تھا، تا ثناء اﷲ کو ایک اور موقعہ دیا جائے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے ثناء اﷲ کی بدنیتی کو دیکھ کر فورًا حضرتؑ کے ارادہ کو بدل دیا پس ثناء اﷲ کا اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر

باقی رہا مولوی ثناء اﷲ کا یہ کہنا کہ بدر ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱ میں ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا ہے کہ مباہلہ قرار نہیں پایا، تو اس کا جواب یہ ہے۔ (ا) مولوی ثنا ء اﷲ خود مانتا ہے کہ یہ تحریر ایڈیٹر صاحب بدر کی اپنی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ ’’بے نور بد رکے ایڈیٹر نے کمال ایمانداری سے اپنا جواب تو شائع کر دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۲۲) ۔ (ب)۔ خود ایڈیٹر صاحب مفتی محمد صادق صاحب اخبار بدر کا بیان ہے کہ یہ تحریر ان کی اپنی طرف سے تھی، حضور (مسیح موعودؑ) کے حکم یا علم سے نہیں لکھی گئی، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔

’’اخبار بدر مورخہ ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبراوّل میں جو نوٹ بعنوان نقل ’’خط بنام مولوی ثناء اﷲ صاحب‘‘ شائع ہو اہے، یہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے مطالبہ حقیقۃ الوحی کا جواب ہے جو میں نے خود لکھا تھا اور یہ میرے ہی الفاظ ہیں۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ نے اس کے متعلق کوئی ہدایت نہ دی تھی، میں نے اپنی طر ف سے جواب لکھ دیا تھا۔ اس بیان کی اشاعت مناسب ہے تا کہ کوئی شخص اس نوٹ کو حضرتؑ کی طرف منسوب کر کے مغالطہ نہ دے سکے۔‘‘ (تجلیات رحمانیہ صفحہ ۱۷۴ بار اول ازقلم ابو العطاء اﷲ دتہ جالندھری مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۱ء)

جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں حضرت مسیح موعودؑ اس اشتہار کو دعائے مباہلہ سمجھتے ہیں اور خود مولوی ثناء اﷲ بھی اس کو دعائے مباہلہ ہی قرار دیتا تھا تو اس کے بالمقابل ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی، جیسا کہ خود اہلحدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی بلکہ حضرت علی ؓ کی تفسیر تک کو نہیں مانتے۔

(اہلحدیث ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۱ زیر عنوان ’’اقتداء اہلحدیث‘‘)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تحریر

مولوی ثناء اﷲ یہ کہا کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے موقعہ پر جو مضمون ’’محمود اور خدائی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ‘‘ بعنوان ’’صادقوں کی روشنی‘‘ شائع کیا اس میں لکھا ہے کہ ’’یہ دعا دعائے مباہلہ نہیں تھی۔ اب تم کیوں اس کو مباہلہ کی دعا قرار دیتے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صریحًا دھوکہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ اشتہار ’’آخری فیصلہ‘‘ دعائے مباہلہ نہ تھا۔ کیونکہ مباہلہ تو اس صور ت میں ہوتا کہ ثناء اﷲ بھی بالمقابل قسم کھاتا یا دعا کرتا۔ مگر چونکہ اس نے بالمقابل دعا نہیں کی اس لئے مبا ہلہ نہیں ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اسی مضمون میں صفائی اور صراحت کے ساتھ اس مجوزہ طریق کار کو ’’مباہلہ‘‘ قرار دیا ہے اور پھر ثناء اﷲ کے انکار کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ مباہلہ نہیں ہوا۔ چنانچہ چند اقتباسات اس مضمون سے یہاں درج کئے جاتے ہیں۔

(۱)۔ ’’یہ ایک فیصلہ کا طریق تھاجس سے جھوٹے اور سچے میں فرق ہو جائے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حق اور باطل میں کچھ ایسا امتیاز پیدا ہو جائے کہ ایک گروہ بنی نوع انسان کا اصل واقعات کی تہ تک پہنچ جائے اور شرافت اور نیکی کا مقتضا یہ تھا کہ مولوی ثناء اﷲ اس دعا کو پڑھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیتا کہ ہاں مجھ کو یہ فیصلہ منظور ہے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس کو سوائے ہوشیاری اور چالاکی کے اور کسی بات سے تعلق ہی نہیں۔ اور اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اﷲ اپنی تمام گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ ایک ذات پاک ایسی بھی ہے جو جھوٹوں اور سچوں میں فرق کر دکھلا تی ہے اور وہ جو بدی اور بدذاتی کرتا ہے اپنے کئے کی سزا کو پہنچتا ہے اور شریر اپنی شرارت کی و جہ سے پکڑ ا جاتا ہے۔ مگر جبکہ برخلاف اس کے اس نے اس فیصلہ سے بھی انکار کیا اور لکھ دیا کہ مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں تو آج جبکہ حضرت صاحبؑ فوت ہو گئے ہیں اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کی و جہ سے فوت ہوئے ہیں اور یہ میر ی سچائی کی دلیل ہے، کہاں تک انصاف پر مبنی ہے۔‘‘

(تشحیذ الاذہان صفحہ ۵۹ بابت ماہ جون، جولائی ۱۹۰۸ء )

(۲)۔ ’’یہ جان بوجھ کر حضرتؑ کی وفات کو اس دعا کی بناء پر قرار دیتا ہے کیونکہ باوجود اقرار کرنے کے کہ میں نے انکار کر دیا تھا پھر اپنی سچائی ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ اتنی بات سمجھنے سے بھی قاصرہے کہ اس مباہلہ یا دعا کی ضرورت تو سچے اور جھوٹے کے فیصلہ کے لئے تھی۔‘‘ (ایضا صفحہ ۶۳)

(۳)۔ ’’اس وقت تو سچائی کے رعب میں آکر اس نے حیلہ بازی سے اپنا سر عذابِ الٰہی کے نیچے سے نکا لنا چاہا مگر جب کہ اس کے انکارِ مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بد ل گیا تو اس نے اس منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دوہرانا شروع کر دیا۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۶۴)

مندرجہ بالا تینوں اقتباسات سے صاف طور پر عیاں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو مسودہ اور دعائے مباہلہ ہی قرار دیا ہے اور ثناء اﷲ کے انکار کو انکارِ مباہلہ کے لقب سے موسوم کیا ہے۔ پس ثناء اﷲ کا یہ کہنا کہ حضرت ؑ نے اس کو دعائے مباہلہ قرار نہیں دیا سر تا سر دھوکہ ہے۔

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حافظ محمد حسن مرحوم اہلحدیث لاہور کے مطالبہ کے جواب میں مندرجہ ذیل حلفی بیان دیا:۔

’’میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقا بلہ پر اس اعلان کے مطابق آتے جو آپ نے مولوی ثناء اﷲ صاحب کے خلاف ۱۹۰۷ء میں کیا تھا تو وہ ضرور ہلاک ہوتے، اور مجھے یہ یقین ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر جو میں نے مضمون لکھا تھا اس میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے متعلق جو کچھ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا تھا وہ دعاء مباہلہ تھی۔ پس چونکہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے اس کے مقابل پر دعا نہیں کی بلکہ اس کے مطابق فیصلہ چاہنے سے انکار کر دیا وہ مباہلہ کی صورت میں تبدیل نہ ہوئی اور مولوی صاحب عذاب سے ایک مدت کے لئے بچ گئے۔ میری اس تحریر کے شاہد میری کتاب ’’صاقوں کی روشنی‘‘ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی (ایڈیشن اول ۲؍ جولائی ۱۹۰۸ء شائع شدہ) کے یہ فقرات ہیں:۔

’’مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کر دیا‘‘۔ نیز ’’اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اﷲ اپنی گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا۔‘‘ (صادقوں کی روشنی صفحہ ۳۰) غرض میرا یہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا دعاء مباہلہ تھی لیکن بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا وہ دعاء مباہلہ نہیں تھی اور اﷲ تعالیٰ نے عذاب کے طریق کو بدل دیا۔‘‘

خاکسار

مرزا محمود احمد

جملہ خبرِیّہ

مولوی ثناء اﷲ صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹ از الشرکۃ الاسلامیۃ) کے اشتہار میں سب جملے خبریہ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اشتہار بطور پیشگوئی کے ہے۔ نیز حضرت کا الہام ہے اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (الہام مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء تذکرہ صفحہ ۶۴ مطبوعہ ۲۰۰۴ء، مطبوعہ بدر جلد ۶ نمبر ۱۶۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ والحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲)

۱۔ اس کا جواب یہ ہے جب حضرتؑ نے اس میں صاف طور پر لکھدیا ہے کہ’ ’یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں محض دعا کے طور پر میں نے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘ پھر اس کو کس طرح پیشگوئی قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور پھر ’’دعا‘‘ کو ’’جملہ خبریہ‘‘ قرار دینا بھی ثناء اﷲ جیسے ’’عالم‘‘ کے سوا اور کسی کا کام نہیں کیونکہ ’’دعا‘‘ کبھی جملہ خبریہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ہمیشہ ’’جملہ انشائیہ‘‘ ہوتا ہے۔

۲۔ حضرتؑ کا الہام اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ …… اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ اس دعا کے متعلق ہے تو پھر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ دعائے مباہلہ تھی جس کا نتیجہ اس صورت میں نکلنا تھا کہ فریقین اس پر متفق ہوجاتے اور اس کی منظوری کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ اگر فریق ثانی نے اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیا تو یقینا یقینا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ جیسا کہ آنحضرتؐ نے نجران کے مفرور عیسائیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی کُلِّھِمْ حَتّٰی یَھْلِکُوْا (تفسیر کبیررازی زیر آیت نمبر۶۲ سورۃ آل عمران ) گویا آنحضرتؐ کی طرف سے جو دعا (آل عمران:۶۲) قرآنِ مجید میں مذکور ہے اس کو اﷲ تعالی نے قبول فرما لیا۔ اور اگر عیسائی اس طریق فیصلہ کو منظور کرلیتے تو وہ یقینا یقینا ہلاک ہو جاتے۔

لطیفہ ثناء اﷲ:۔ آپ لوگ تو مجھ کو ابوجہل کہا کرتے ہیں۔ خدا نے مرزا صاحب کی دعا کے اثر کو ابوجہل کی خواہش کے مطابق کیوں بدل دیا؟ ابو جہل تو آنحضرتؐ سے پہلے مر گیا تھا۔

احمدی:۔ اگر محض یہ دعا ہوتی تو نہ ٹلتی۔ وہ دعائے مباہلہ تھی جس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سچے کے بالمقابل جھوٹے فریق کی منظوری بھی ضروری ہے (جس کی تفصیل اوپر مذکور ہے) لیکن ابو جہل اول نے تو بددعا کی تھی کہ اے اﷲ اگر آنحضرتؐ سچے ہیں تو مجھ کو ہلاک کر۔ اس سے وہ ہلاک ہوگیا تم بھی ذرا اسی قسم کی بددعا کرو، پھر اگر بچ جاؤ تو ہم تمہیں ’’ابوجہل‘‘ نہیں کہیں گے۔ تم ’’ابوجہل‘‘ کے لقب پر فخر کیا کرتے ہو، ذرا ابوجہل کی مماثلت کو پورا بھی کرو تو بات ہے۔ بددعا کر کے پھر بچ کر یہ ثابت کیوں نہیں کر دیتے کہ درحقیقت تم ابوجہل نہیں ہو؟

ایک اور ثبوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک مولوی ثناء اﷲ اشتہاراآخری فیصلہ کو ’’دعائے مباہلہ‘‘ اور ’’مسودہ مباہلہ‘‘ ہی سمجھتا رہا۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ۱۵؍ اپریل۱۹۰۷ء (تاریخ دعا) سے ایک سال کا عرصہ گذر گیا تو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں جو مرقع قادیانی میں پہلی جون کو چھپا لکھتا ہے:۔

’’مرزائی جماعت کے جوشیلے ممبرو! اب کس وقت کے منتظر ہو۔ تمہارے پیر مغاں کی مقرر کردہ مباہلہ کی میعاد کا زمانہ تو گذر گیا۔‘‘

(مرقع قادیانی یکم جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸)

گویا وہ اس اشتہار کو دعا مباہلہ ہی قرار دیتا ہے، مگر کہتا ہے کہ دیکھ لو میں ایک سال میں نہیں مرا اور نہ مرزا صاحب فوت ہوئے۔ لہٰذا وہ دعا بے اثر گئی لیکن جب بعد ازاں حضور ؑ فوت ہوگئے تو جھٹ کہنے لگ گیا کہ مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا صاحبؑ فوت ہوئے ہیں۔ اس پر جب اسے پکڑا گیا کہ مباہلہ تو اس صورت میں ہوتا کہ تم بھی اس کا اقرار کر کے بددعا کرتے، تو (اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے) جھٹ پینترا بدلا۔ اور اب یہ کہتا ہے کہ وہ مباہلہ کی دعا نہیں تھی، بلکہ یک طرفہ دعا تھی۔ سچ ہے جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں۔

بدگمانی نے تمہیں مجنون واندھا کردیا

ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱۔و۔ درثمین اردو صفحہ ۱۲۰)

۴۔ اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اپنی عمر 80 سال کے آگے پیچھے ہونے کی پیشگوئی کی جو پوری نہ ہوئی



حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا:۔ ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذٰلِکَ (الہام ۱۸۶۵ء۔ تذکرہ صفحہ۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) کہ تیری عمر اسی برس یا اس کے قریب ہو گی حضورؑ فرماتے ہیں۔ ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ توچوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱)

پھر حضور ؑ کو الہام ہوا:۔

’’اسی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰)

چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود ؑ ساڑھے پچھتر سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

طرزِ تحقیق

کسی کی عمر کا ٹھیک ٹھیک حساب لگانے کے لئے دو باتوں کا علم ضروری ہے:۔

(۱)تاریخ پیدائش۔ (۲) تاریخ وفات۔ حضرت اقدس ؑ کی تاریخ وفات ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء ہے۔ مگر حضور کی تاریخ پیدائش حضرت کی کسی کتاب میں درج نہیں۔ کیونکہ حضورؑ کی پیدائش جس زمانہ میں ہوئی اس میں پیدائش کی یاداشت رکھنے کا دستور نہ تھا اور نہ کوئی سرکاری رجسٹر تھے جن میں اس کا اندراج ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ محض اندازوں کے باعث حضرت صاحب ؑ کی عمر کے متعلق متعدد تحریرات میں مختلف اندازے لکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جو سن ہجری ۱۳۲۳ ؁ ہے میری عمر ستّر(۷۰) برس کے قریب ہے واللّٰہ اعلم‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۵)

پس معلوم ہوا کہ حضور کی تاریخ پیدائش محفوظ نہیں۔ بایں بعض ایسے قرائن اور تعیینیں حضرتؑ کے ملفوظات میں موجود ہیں جن سے صحیح اور پکا اور پختہ علم حضور کی تاریخ پیدائش کا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ از روئے حساب حضور کی تاریخ پیدائش ۱۴؍ شوال۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳؍ فروری۱۸۳۵ء بروز جمعہ ثابت ہوتی ہے جس کے لئے جو دلائل ہیں ان کو درج ذیل کیا جاتا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اندازہ عمر میں اختلاف

لیکن پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ عمر کے اندازہ میں اختلاف کوئی قابل اعتراض چیز نہیں۔ ایسا اختلاف ابتداء سے ہی چلا آتا ہے۔ چنانچہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر کے اندازے میں بھی اختلاف ہے۔ ملاحظہ ہو:۔

’’بعض ساٹھ برس کی اور بعض باسٹھ برس چھ مہینے کی اور بعض پینسٹھ برس کی کہتے ہیں مگر ارباب تحقیق تریسٹھ برس کی لکھتے ہیں۔‘‘

(تفریح الاذکیاء فی احوال الانبیاء باب تتمۃ در احوال جناب رسالتماب جلد۲صفحہ ۳۳۰،۳۳۱ مطبع نولکشور لکھنو)

اب دیکھ لو کہ باوجود اس کے کہ آنحضرتؐ کی پیدائش کے تمام حالات محفوظ ہیں پھر بھی حضور کی تاریخ ولادت کے متعلق اختلاف ہے اور یہ محض اندازہ کے باعث ہے۔ پس اسی قسم کا اختلاف حضرت اقدس ؑ کی عمر کے متعلق بھی ہے۔ اور مختلف مقامات پر محض اندازاً عمر لکھی گئی ہے جو حساب کر کے اور گن کر نہیں بتائی گئی، جیسے عام طریق ہے کہ عمر کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ فلاں کی عمر ۶۰۔ ۷۰ کی ہوگی۔ وہ ۷۰۔۸۰ کا ہے میری عمر ۴۰۔۴۵ سال کی ہے۔ اب خواہ ۵۔۱۰ سال کا اختلاف کتنا اہم ہو پھر بھی طریق کلام یہی ہے۔ پس محض اسی قسم کے اندازہ کو بطور دلیل پیش کرنا اور ’’تناقض‘‘ قرار دے کر اس پر اعتراض کرنا نادانی ہے۔

تاریخ پیدائش کی تعیین

ہم نے حضرت ؑ کی جو تاریخ ولادت لکھی ہے اس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑتحریر فرماتے ہیں:۔

(۱) ’’عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۰۰ حاشیہ طبع اول )

(۲) ’’میری پیدائش کا مہینہ پھاگن تھا۔ چاند کی چودھویں تاریخ تھی، جمعہ کا دن تھا اور پچھلی رات کا وقت تھا۔‘‘

(ذکرِ حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۲۳۸ وصفحہ ۲۳۹)

اب مندرجہ بالا قطعی اور یقینی تعیین سے کہ جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا از روئے حساب معلوم کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ پھاگن کے مہینہ میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ مندرجہ ذیل سالوں میں جمع ہوئیں:۔

(تفصیل اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو)

(دیکھو توفیقاتِ الہامیہ مصری و تقویم عمری ہندی)

اس نقشہ سے صاف طور معلوم ہوجاتا ہے کہ ماہ پھاگن میں جمعہ کو چاند کی چودھویں تاریخ صرف دو سالوں میں آئی۔ (۱) ۱۷؍ فروری ۱۸۳۲ء (۲) ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء مطابق ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ھ ہجری۔

اب حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری تحریرات کو دیکھیں تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہی تاریخ درست ہے۔

’’یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاؔطبہ پا چکا تھا۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۸)

گویا ٹھیک ۱۲۹۰ھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سلسلہ وحی و الہام شروع ہوا اس وقت حضورؑ کی عمر کتنی تھی؟ فرماتے ہیں:۔

’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا۔‘‘

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۸۳)

پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔

تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں

جبکہ میں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۵)

پس ثابت ہوا کہ ۱۲۹۰ھ میں حضورؑ کی عمر ۴۰ برس تھی۔ ۴۰-۱۲۹۰=۱۲۵۰۔ پس حضورؑ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ ثابت ہوا۔

غرضیکہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ حضرت اقدس ؑ کی تاریخ ولادت ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ ہے۔ حضرت کی وفات ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی۔ اب ۱۲۵۰-۱۳۲۶=۷۶ سال۔ گویا حضور ؑ کی عمر ۷۵ سال ۶ مہینے اور ۱۰ دن ہوئی۔ جو عین پیشگوئی کے مطابق ہے۔

ایک دھوکا

بعض مخالفین حضرت اقدس ؑ کی بعض ایسی تحریرات پیش کر کے دھوکا دیا کرتے ہیں جن میں حضور ؑ نے تحریر فرمایا ہے کہ میں چودھویں صدی کے سر پر آیا اور اس سے مراد ۱۳۰۰ھ لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط ہے ’’صدی کے سر‘‘ سے مراد صدی کے پہلے سال کے شروع ہونے سے دس سال پہلے یا ۱۰،۲۰ سال بعد تک کا زمانہ ہوتا ہے، یعنی جب پہلی صدی کے ۸۰،۹۰ سال گزر جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اگلی صدی کا سر ا آ پہنچا ہے۔ اور جب اگلی صدی میں سے ۱۰،۱۵ سال گزر جاتے ہیں تب بھی وہ اس صدی کا سر ہی کہلاتا ہے کیونکہ یہی طریق کلام ہے کہ جب حساب دہاکوں کا ہو تو کسور حذف ہو جاتی ہیں۔ یعنی ایک سے ۹ تک اور جب حساب صدیوں کا ہو تو اس کی کسور دہاکے ہوتے ہیں جو حذف کر دیئے جاتے ہیں اور ہزاروں کے حساب میں کسور صدیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو آنحضرتؐ نے فرمایا تھا۔ اَخْبَرَنِیْ اِنَّ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ عَاشَ عِشْرِیْنَ وَ مِائَۃَ سَنَۃٍ وَلَا اَرَانِیْ اِلَّا ذَاھِبًا عَلٰی رَأْسِ السِّتِّیْنَ (حجج الکرامۃ صفحہ ۴۲۸ از نواب محمد صدیق حسن خانصاحب مطبع شاہجہانی بھوپال) کہ میں ۶۰ سال کے سر پر پہنچوں گا۔ اب حضورؑ کی عمر پورے ۶۰ سال کی نہیں تھی بلکہ ۶۳،۶۵ سال تھی۔ جیسا کہ (تفریح الاذکیاء فی احوال الانبیاء جلد ۲ صفحہ ۳۳۰) کے حوالہ سے اوپر درج ہو چکا ہے اب ۶۳ یا ۶۵ کو بھی ۶۰ کا ’’سر‘‘ ہی کہیں گے کیونکہ اہل عرب میں کسور حذف کر دیئے جاتے ہیں۔

۲۔ اسی طرح سے نبراس شرح عقاید نسفی صفحہ ۵۸۷ پر ہے وَ جَاءَ فِیْ رَوَایَۃٍ اَنَّہٗ یَمْکُثُ خَمْسًا وَ اَرْبَعِیْنَ ………… فَلَا یُنَافِیْہِ حَدِیْثُ اَرْبَعِیْنَ لِاَنَّ النَّیْفَ کَثِیْرًا مَا یُحْذَفُ۔ ‘‘ کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ امام مہدی ۴۵ سال زندہ رہے گا۔ یہ دوسری حدیث کے جس میں ۴۰ برس آتا ہے خلاف نہیں کیونکہ عام طور پر کسور کو دہاکوں میں سے حذف کر دیا جاتا ہے۔

۳۔ نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں:۔

’’اولیت مائۃ تابست و پنج سال از آغاز ہر مائۃ محتمل ست بلکہ تا نصف مأتہ۔‘‘ (حجج الکرامۃ صفحہ ۱۳۴ مطبع شاہجہانی بھوپال) ’’کہ صدی کے سر سے مراد صدی کے شروع ہونے سے ۲۵ سال تک بلکہ ۵۰ سال تک ہو سکتی ہے۔‘‘ غرضیکہ حضرت اقدسؑ نے جس جس جگہ چودھویں صدی کے ’’سر‘‘ پر اپنا ظاہر ہونا یا آنا لکھا ہے، تو اس سے مراد ۱۲۹۰ھ ہی ہے نہ کہ ٹھیک ٹھیک ۱۳۰۰ھ۔ پس اس دھوکہ سے بچنا چاہیے۔

دیگر اندازے

جیسا کہ اوپر درج ہوا حضرت اقدس ؑ کی تاریخ پیدائش کی تعیین ہوجانے کے باعث حضرتؑ کی عمر ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئی کہ عین پیشگوئی کے مطابق تھی، لیکن چونکہ بعض تحریرات مخالفین اس قسم کی پیش کیا کرتے ہیں جن میں محض اندازہ کی بناء پر عمر بیان کی گئی ہے اور وہ بوجہ اندازے ہونے کے حجت اور دلیل نہیں بن سکتے۔ لیکن یہ بتانے کے لئے کہ محض اندازے کی بناء پر جو عمر بتائی جائے وہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتی خود حضرت اقدس ؑ کی بعض تحریرات پیش کی جاتی ہیں جن سے حضرت اقدس کی عمر حضور کی تاریخ وفات تک ۷۴ اور ۷۶کے درمیان ہی ثابت ہوتی ہے۔

۱۔’’میری طرف سے ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھاجس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں ستر ۷۰برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس(۵۰) برس کا جوان ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۵۰۶حاشیہ و مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ۵۶۴ حاشیہ اشتہار مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۲ء)

گویا ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء کو حضرت ؑ کی عمر ۷۰ کے قریب تھی اس کے ۵سال بعد ۱۹۰۸ء میں حضور ؑ فوت ہوئے، تو بوقت وفات آپ کی عمر ۷۵ سال کے قریب ثابت ہوئی اور قمری لحاظ سے ۷۷ برس۔

۲۔الف۔’’مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے۔ اس کی عمر تو میری عمرکے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے۔ اگر شک ہو تو اس کی پینشن کے کاغذات دفتر سرکاری میں دیکھ لو۔ ‘‘

(اعجاز احمدی۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۰۹)

ب۔’’ آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی۔‘‘ (انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۷ حاشیہ)

ج۔’’ مسٹر عبد اﷲ آتھم صاحب ۲۷ ؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہوگئے۔ ‘‘

(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۱)

گویا حضرت ؑ کی عمر بوقت وفات ۱۲+۶۴=۷۶ گویا قریباً سال ہوئی۔

نوٹ:۔بعض لوگ اخبار بدر ۸؍ گست ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم نمبر۳ کا حوالہ دے کریہ مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ گویا اس حوالہ میں ’’حضرت مرزا صا حب (مسیح موعود ؑ ) نے کتاب اعجاز احمدی کی تصنیف کے وقت جو آپ کی عمر تھی اس کا مقابلہ عبداﷲ آتھم کی عمر سے کیا ہے۔‘‘

حالانکہ خوب اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ حضرت اقدسؑ کی ایک دوسری تحریر اس بات کو بالکل واضح کردیتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ آتھم کی زندگی میں ہی آتھم کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ ’’اگر آپ چونسٹھ(۶۴) برس کے ہیں، تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ(۶۰) کے ہوچکی۔ ‘‘

(اشتہار ۵؍اکتوبر۱۸۹۴ء۔ منقول از تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ ۱۶۰ بار اوّل۔ مجموعہ اشتہارات جلد۸۹)

گویا اس حساب سے ۱۸۹۴ء میں حضرتؑ کی عمر قریباً ۶۰ تھی، اس کے ۱۴ سال بعد ۱۹۰۸ء میں آپ فوت ہوئے۔ ۱۴+۶۰=۷۴ اور قمری۷۶۔ گویا حضرت مسیح موعودؑ کی عمر عبداﷲ آتھم کی عمر کے مطابق حساب کی رو سے کم سے کم ۷۴ سال بنتی ہے جو عین پیشگوئی کے مطابق ہے اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں اعجاز احمدی کی تصنیف کے وقت آپ کی عمر قریباً ۶۸ سال تھی نہ کہ ۶۴ سال، جیسا کہ مخالفین بدر کی عبارت پیش کر کے دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔

۳۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب نصرۃ الحق ۱۹۰۵ء ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷ میں یہ تحریرفرما کر کہ خدا نے مجھے بتایا کہ میری عمر ۸۰ سے پانچ سال کم و بیش ہوگی۔ فرماتے ہیں:۔ ’’ اب میری عمر ستّر۷۰برس کے قریب ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۲۵۸) اس کے تین سال بعد آپ فوت ہوئے تو اس لحاظ سے آپکی عمر ۷۳ سال کے قریب اور قمری لحاظ سے ۷۵ سال کے قریب ثابت ہوئی۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مخالفین کی شہادت

۱۔ظفر علی خان آف زمیندارؔ کے والد مولوی سراج الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودؑکی وفات پر لکھا:۔

’’مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲،۲۳ سال کی ہوگی۔اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔‘‘

(اخبار زمیندار ۸جون ۱۹۰۸ء صفحہ۵ بحوالہ عسل مصفّٰی جلد۲ صفحہ ۶۳۴)

۲۔ مولوی ثناء اﷲ امرتسری :۔’’مرزا صاحب ……کہہ چکے ہیں کہ میری موت عنقریب ۸۰ سال سے کچھ نیچے اوپر ہے جس کے سب زینے غالباً آپ طے کرچکے ہیں۔‘‘

( اہلحدیث ۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ۳ کالم نمبر ۲)

اس تحریر کے پورا ایک سال بعد حضورؑ فوت ہوئے۔

۳۔’’چنانچہ خود مرزا صاحب کی عمر بقول اس کے ۵ ۷ سال کی ہوئی۔‘‘

(اہلحدیث ۲۱ جولائی۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم نمبر۲)

۴۔’’مرزا صاحب رسالہ اعجاز احمدی میں عبد اﷲ آتھم ……عیسائی کی بابت لکھتے ہیں۔ ’’اس کی عمر تو میری عمرکے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے۔ ‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ ۳) اس عبارت سے پایا جاتا ہے کہ عبد اﷲ آتھم کی موت کے وقت مرزا صاحب کی عمر ۶۴ سال کی تھی۔ آئیے اب ہم تحقیق کریں کہ آتھم کب مرا تھا؟ شکر ہے کہ اس کی موت کی تاریخ بھی مرزا صاحب کی تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ مرزا صاحب رسالہ انجام آتھم صفحہ ۱۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱ پر لکھتے ہیں۔’’ چونکہ مسٹر عبد اﷲ آتھم صاحب ۲۷ ؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہوگئے۔ ‘‘ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ۱۸۹۶ء میں مرزا صاحب کی عمر ۶۴ سال کے قریب تھی۔ بہت خوب! آئیے اب یہ معلوم کریں کہ آج ۱۹۰۸ء میں ۱۸۹۶ء کو گزرے ہوئے کتنے سال ہوئے۔ ہمارے حساب میں (اگر کوئی مرزائی غلطی نہ نکالے تو ) گیارہ سال ہوتے ہیں۔ بہت اچھا ۶۴ کے ساتھ ۱۱ کو ملانے سے ۷۵ سال ہوتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی عمر آج کل ۷۵ سال ہے۔‘‘ ( مرقع قادیانی فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۲)

گویا فروری ۱۹۰۸ء میں حضرت کی عمر بقول ثناء اﷲ ۷۵ سال تھی، اس کے تین مہینے بعد حضور فوت ہوئے تو حضرت کی عمر بہرحال مذکور ہ بالا عمر سے زیادہ ہی ہوگی کم تو نہیں ہوسکتی جیسا کہ اب ثناء اﷲ اور دوسرے دشمن کہتے ہیں۔

۵۔’’جو شخص ستر برس سے متجاوز ہو( جیسے خود بدولت بھی ہیں) (مرزا صاحب ؑ۔ خادم) ‘‘

(تفسیر ثنائی مطبوعہ ۱۸۹۹ء حاشیہ نمبر ۴ بر آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ (آل عمران : ۵۶) جلد دوم )

گویا ۱۸۹۹ء میں حضرت کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ تھی۔ ۱۹۰۸ء میں یعنی ۹ سال بعدآپ فوت ہوئے تو اس حساب سے حضور کی عمر ۷۹ سال سے زیادہ ثابت ہوئی۔

۶۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۵ نمبر۸صفحہ ۱۹۱۔ ۱۸۹۳ء میں حضرت کے متعلق سخت غصہ میں آکر لکھتا ہے:۔’’ ۶۳ برس کا تو وہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت اقدسؑ ۱۴ برس زندہ رہے۔ گویا ۶۳ +۱۴=۷۷ سال ہوئی اور یہ امر خاص طور پر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی عمر کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی کی یہ شہادت جو اس نے حضرت کی وفات سے قبل دی بمقابلہ مخالفین سب سے زیادہ قابل استناد ہے۔ کیونکہ وہ حضرت کا بچپن سے دوست اور ہم مکتب بھی تھا چنانچہ وہ خود لکھتا ہے:۔

’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے( جب ہم قطبی اور شرح ملا پڑھا کرتے تھے ) ہمارے ہم مکتب بھی ہیں۔‘‘

( اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر۶ تا۱۱۔ بابت سال ۱۸۸۴ء صفحہ ۱۶۹، ۱۷۰)

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض مخالفین نے اعتراض کیا ہے کہ جب حضرت اقدس ؑ کی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں تو پھر عمر کی پیشگوئی دلیل صداقت کیونکر ہوسکتی ہے کیونکہ اس کا صدق و کذب معلوم نہیں ہوسکتا۔

جواب:۔۱۔اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت اقدس ؑ ہی کے ملفوظات میں ایسے قرائن جمع کرادئیے تھے کہ جن سے تاریخ پیدائش معلوم ہوکر تم پر حجت ہوسکتی تھی۔ چنانچہ اب جبکہ تاریخ پیدائش تحقیق کے رو سے معین ہوگئی تو تمہارا اعتراض بھی ساتھ ہی اڑ گیا۔

۲۔اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ فرض کرو کہ تاریخ پیدائش معین نہ بھی ہوتی پھر بھی یہ پیشگوئی دلیل صداقت تھی۔ وہ اس طرح کہ:۔

(۱) مخالفینِ احمدیت مثلاً مولوی ثناء اﷲ امرتسری و مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کی شہادت غیر احمدیوں پر حجت ہے۔

(۲) یہ بات کہ حضورؑکی عمر چہتر(۷۶) اور چھیاسی(۸۶) کے درمیان ہوگی، الہام الٰہی کی بنا ء پر معلوم ہوئی ہے۔ اب حضرت اقدسؑ کی وفات کے متعلق بھی الہاماتِ الٰہی بکثرت موجود ہیں جن کے عین مطابق حضورؑ فوت ہوئے مثلاً

الف۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دسمبر ۱۹۰۵ء میں الوصیت شائع فرماتے ہیں اور اس لکھتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا ’’قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ……جَاءَ وَقْتُکَ‘

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۱)

یعنی تیرا وقتِ وفات قریب آگیا اور تیری عمر کی میعاد جو مقرر کی گئی تھی اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے صاف بتادیا کہ ۷۴ سال سے متجاوز عمر پانے کی جو پیشگوئی حضور نے کی تھی اس کے مطابق حضور کی عمر پوری ہوگئی۔ اب تم اس الہام کو مانو یا نہ مانو، بہرحال اتنا تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک تو آپ کی وفات عین پیشگوئی کے مطابق ۷۴ اور ۷۶ سال کے اندر اندر ہوئی۔

ب۔ پھر حضور فرماتے ہیں:۔

رؤیا:۔’’ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے۔ پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفّٰی اور مقطر پانی ہے اس کے ساتھ الہام تھا۔ آب زندگی۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد ۴ نمبر ۱۱ ص ۴۸۰ ماہ دسمبر ۱۹۰۵ء و تذکرہ صفحہ ۵۷۳ ایڈیشن سوم مطبوعہ ۱۹۶۹ء الشرکۃ الاسلامیۃ ربوہ)

اس میں ’’دو تین گھونٹ‘‘ زندگی کا پانی باقی رہنا بتایاگیا ہے سو اس کے مطابق پورے اڑھائی سال بعد حضرت اقدسؑ فوت ہوئے۔ غرضیکہ جس ملہم نے یہ بتایا کہ آپ کی عمر ۷۴- ۷۶ کے درمیان ہوگی اسی ملہم نے وفات کے قریب بتادیا کہ وہ میعاد اب قریب الاختتام ہے اور اب اس میں دو تین سال رہ گئے ہیں۔ سو اس کے مطابق عین سال کی عمر میں حضورؑ کی وفات ہوئی۔

ایک شُبہ کا ازالہ

بعض مخالفین یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ الہام جو ’’یا۔ یا‘‘ کا لفظ آتا ہے کہ’’ اسی سال‘‘ یا اس سے چار پانچ سال کم یا چار پانچ سال زیادہ۔ یہ متکلم کے دل میں شک اور شبہ پر دلالت کرتا ہے۔ کیا اﷲ تعالیٰ کو صحیح علم نہ تھا ؟

الجواب۱:۔اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو تو صحیح صحیح معلوم تھا، لیکن عمر کی تعیین کرکے اس کو معین طور پر ظاہر کرنا مناسب نہ تھا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ عبد الحکیم مرتد اور ثناء اﷲ جیسے دشمنوں کے ساتھ حضرت اقدسؑ کا مقابلہ ہوگا اور حضور ؑ کی وفات کے متعلق من گھڑت پیشگوئیاں شائع کر دیں گے۔ اور اس طرح سے حق مشتبہ ہوجائے گا۔ چنانچہ عبد الحکیم مرتد نے اسی ’’دو تین گھونٹ پانی‘‘ والے رؤیا کے شائع ہونے پر جھٹ تین سال کی میعاد لگا کر پیشگوئی کردی۔ سو اﷲ تعالیٰ کی حکمت نے بجائے کوئی سال وفات کے لئے معین کرنے کے آپ کی عمر کی پہلی اور آخری حد بتادی تاکہ مخالفین کو جھوٹا کرنے کی گنجائش رہے۔ اسی طرح مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ ’’آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹ از الشرکۃ الاسلامیۃ) بھی حضور ؑ نے تحریر فرمایا۔ اب مولوی ثناء اﷲ صاحب اگر مباہلہ پر آمادہ ہوتے تو یقینا اﷲ تعالیٰ حضرت اقدس کو اور عمر دیتا اور مولوی ثناء اﷲ کو حضور ؑ کی زندگی ہی میں موت دیتا۔ پس ’’یا۔ یا‘‘ کے الفاظ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ملہم کو شبہ ہے بلکہ اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملہم کو حضرت ؑ کی وفات سے ۳۰ سال قبل ہی آپ ؑ کی وفات کے قریب کے حالات کا علم تھا کہ دشمن کس طرح آپ کے الہامات سے پیشگوئیاں اڑا کر حضور علیہ السلام کی وفات کو اپنی پیشگوئی کا نتیجہ قرار دے کر حق کو مشتبہ کرنے کی ناپاک کوشش کریں گے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے نَزِیْدُ عُمُرَکَ(بدر جلد۲ نمبر۴۳ مورخہ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) کے الہام کے لئے بھی گنجائش رکھ لی۔

۲۔ ’’یا‘‘۔’’یا‘‘ کا لفظ کئی دفعہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی آجایا کرتا ہے۔ اور اس میں کوئی حکمت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔(یونس: ۴۷) کہ اے نبی! یا تو ہم آپ کو آپ کی بعض پیشگوئیاں پوری ہوتی دکھادیں گے یا آپ کو وفات دے دیں گے۔

۳۔ قرآن مجید میں ہے:۔’’‘‘(التوبۃ:۱۰۶)

کہ کچھ اور بھی ہیں (یعنی وہ تین صحابہؓ کعب بن مالک۔ ہلال بن امیہؓ اور مرارۃ بن الربیع ؓ) جو جنگِ تبوک میں جانے سے پیچھے رہ گئے تھے۔خدا تعالیٰ کے حکم کی انتظار میں۔ جن کا معاملہ تاخیر میں ڈالا گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان کو عذاب دے گایا معاف فرما دے گا۔ اﷲ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

اس آیت میں بھی ’’یا۔یا‘‘ آیا ہے۔ اس کے متعلق تفسیر حسینی میں لکھا ہے:۔’’یا عذاب کرے گا اﷲ ان پر اگر وہ اس گناہ پر اڑے رہیں گے…… اور یا توبہ دے گا انہیں اگر نادم ہوں گے اس کام سے۔ یہ تردید یعنی ’’یہ یا یہ‘‘ کہنا بندوں کے واسطے ہے۔ ورنہ اﷲ کے نزدیک تردید نہیں۔‘‘

(تفسیر قادری زیر آیت وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْھِمْ۔ (التوبۃ:۱۰۶) تفسیر حسینی فارسی زیر آیت وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ …… التوبۃ:۱۰۶)

یعنی اﷲ تعالیٰ کو نتیجہ کا علم تھا۔ مگر اﷲ تعالیٰ چونکہ لوگوں کو تردّد میں رکھنا چاہتا تھا اس لئے ’’یا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔

یہی حال یہاں ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ عبد الحکیم اور الٰہی بخش وغیرہ دشمنوں سے حضرت مسیح موعود کے وقتِ وفات کو مصلحتاً مخفی رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ کوئی جھوٹی پیشگوئی بنا کر حق کو مشتبہ نہ کرسکیں۔ اس لئے ’’اَوْ‘‘ کا لفظ رکھا گیا۔ پس محض لفظ ’’یا‘‘ کی بنا پر اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کرنا نادانی ہے۔

نوٹ:۔ یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الحکم صفحہ۱۵ کالم نمبر۱ مورخہ ۱۷۔۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء میں یہ فرمایا ہے کہ میں نے کسی بزرگ سے دعا کرواکے ۱۵ سال عمر بڑھوالی ہے اور اب میری عمر ۹۵ سال ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً عمر کا ۹۵ سال ہونا نہیں فرمایا۔ بلکہ ایک ’’خواب‘‘ کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور خواب تعبیر طلب ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا سونے کے کنگن پہننے کا خواب۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب۔

(۲) مردان علی صاحب حیدر آبادی نے ۵ سال اپنی عمر کے کاٹ کر حضرت ؑ کے پیش کئے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حضرت ؑ نے اسے قبول فرما لیا تھا۔ کوئی شخص اپنی عمر کاٹ کر دوسرے کو نہیں دے سکتا ورنہ صحابہؓ اپنی زندگیاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دے دیتے۔ مردان علی صاحب نے اپنے اخلاص کا اظہار اس طریق سے کیا۔ وہ حوالہ دکھاؤ جس میں حضرت ؑ نے یہ فرمایا ہو کہ میں نے مردان علی صاحب کی پیشکش کو منظور کر لیا۔

(۳) مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت اقدسؑ کا خواب میں اصرار سے اپنی اس قدر عمر پانے کے لیے جو حضور کیجماعت کو مستحکم کرنے کے لیے کافی ہو، دعاکرانا۔ مگر حضرت مولوی صاحب مرحوم کا دعانہ کرنا اور بجائے دعا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اکیس اکیس کہتے جانا( دیکھو تذکرۃ ایڈیشن اوّل صفحہ۵۲۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل ہے اور وہ اس طرح سے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی زبان سے بتادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جماعت کے استحکام کے لئے کل ۲۱ سال ملیں گے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت ۱۳۰۶ھ کے اوائل میں لی ہے اور وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی۔ گویا آپ بیعت کے بعد ۲۱ سال تک اپنے سلسلہ کو مستحکم فرما کر تشریف لے گئے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
عمرِ دنیا اور حضر ت مسیح موعودؑ کی بعثت

اعتراض۔ دنیا کی عمر 6000 سال اور مسیح و مہدی علیہ السلام کا چھٹے ہزار سال میں مبعوث ہونا ثابت نہیں۔



مرزا صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب ہزار ہفتم سے گیارہ سال قبل پیدا ہوئے اور گیا رہ برس کے اندر ہی آپ فوت ہوئے کیونکہ آپ کی وفات کے قریب کی کتابوں میں یہی لکھاہے کہ ابھی ہزار ششم ختم نہیں ہوا۔ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲حاشیہ)

الجواب:اس کے جواب کے لئے مندرجہ ذیل حوالہ جات یاد رکھنے چاہئیں۔

۱۔حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۴۷بقیہ حاشیہ پر یہ لکھا ہے:۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کے رُو سے ۴۷۳۹ برس بعد میں مبعوث ہوئے۔…………آدم صفی اﷲ کی پیدائش کو آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کے وقت تک یہی مدت گذری تھی یعنی ۴۷۳۹ برس بحساب قمری۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۴۷بقیہ حاشیہ)

ان دونوں حوالوں میں ’’بعثت‘‘۔’’ وقت‘‘ اور’’ زمانہ‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش یا چالیس برس کی عمر نہیں، بلکہ ’’وفات نبویؐ ‘‘ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام محولہ بالا عبارتوں کے آگے چل کر فرماتے ہیں:۔

’’حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے……۴۷۳۹ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۱،۲۵۲)

’’اس حساب کے رُو سے میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے ۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲حاشیہ)

۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تحریر فرمایا ہے کہ مسیح موعود ؑ کی ’’بعثت‘‘ ہزار ششم کے آخر میں ہوئی۔ (تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۸۶)

اس عبارت میں مسیح موعود کی ’’بعثت‘‘ سے مراد ماموریت نہیں بلکہ ’’پیدائش‘‘ ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔

’’پیدائش مسیح موعود ہزار ششم کے آخر میں ہے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۸۶)

(نیز دیکھو لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۷ ایڈیشن اوّل نومبر۱۹۰۲ء، حقیقۃا لوحی صفحہ۲۱۰ سطر۳و ازالہ اوہام صفحہ ۶۸۱ایڈیشن اوّل)

۳۔تحفہ گولڑویہ سے ہی ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہزار ششم ختم ہوگیا۔ بلکہ ہفتم میں سے بھی نصف صدی سے زائد آپ کی زندگی میں گزر چکی تھی۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔

’’مدت ہوئی کہ ہزار ششم گذر گیا اوراب قریباً پچاسواں سال اس پر زیادہ جا رہا ہے۔ اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۲ حاشیہ)

۴۔چشمہ مسیحی۔روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۳۶ میں جو حضور ؑ نے چھٹے ہزار کو جاری ماناہے تو اس کا باعث یہ ہے کہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲ پر جو حضرت مسیح موعود ؑ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات تک ۴۷۳۹ برس تحریر فرمائے ہیں تو یہ قرآنی حساب یعنی سورۃ والعصر کے حروف ابجد کی بناء پر ہے۔ورنہ عام مروجہ اور مشہور تاریخیں جو عیسائیوں کے حساب کے مطابق ہیں۔ ان کی رو سے آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات تک ۴۶۳۶ برس بنتے ہیں۔

تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲ ’’عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائیبل کا رکھا گیا ہے ۴۶۳۶ برس ہیں۔ یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک ۴۶۳۶ برس‘‘ اس حساب سے ۱۹۰۶ء (۱۳۲۴ھ)میں ۹۶۰ برس بنتے ہیں۔ یعنی ابھی چھٹا ہزار ہی جاری ثابت ہوتا ہے۔ پس چشمۂ مسیحی میں حضرت اقدس ؑ نے عیسائیوں کا یہی مروجہ حساب مراد لیا ہے۔ سورۃ العصر کے حروف ابجد والا حساب مراد نہیں۔(نیز دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۱ایڈیشن اوّل)

اسی طرح حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخل مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ سات ہزار سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے۔ مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۱ بقیہ حاشیہ)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہل عرب کے جس قاعدہ کا ذکر کیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے:۔

وَ جَآءَ فِیْ رَوَایَۃٍ اِنَّہٗ یَمْکُثُ خَمْسًا وَّ اَرْبَعِیْنَ……فَلَا یُنَا فِیْہِ حَدِیْثُ اَرْبَعِیْنَ لِاَنَّ النَّیْفَ کَثِیْرًا مَا یُحْذَفُ عَنِ الْعَشْرَاتِ۔

(نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی از علامہ محمد عبد العزیز الفرھاروی صفحہ ۵۸۷)

کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ مسیح موعود دنیا میں ۴۵ سال رہے گا (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسٰیؑ فصل نمبر۳)……پس یہ روایت اس حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں آتا ہے کہ وہ چالیس سال تک رہے گا۔ (درّ منثور زیر آیت۔ ان من اھل الکتاب نمبر۱۶۰ سورۃ النساء )

کیونکہ عام طور پر کسردہا کوں سے حذف کردی جاتی ہے۔

پس اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عبارت پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔

۵۔منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا

اعتراض:حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ میاں منظور صاحب کے گھر بیٹا ہوگا جس کا نام بشیر الدولہ اورعالم کباب وغیرہ ہوگا۔ (تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ۵۹۸ و صفحہ ۶۲۶)



جواب: حضرت اقدس ؑ کے اصل الفاظ درج کئے جاتے ہیں:۔

’’۱۹فروری ۱۹۰۶ء کو رؤیا دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے او ر دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا۔ ’’بشیر الدولہ‘‘ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘

(بدر جلد۲نمبر ۸مورخہ ۲۳فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و مکاشفات صفحہ۴۹ از حضرت مسیح موعودؑ و تذکرہ صفحہ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

پس حضرت اقدس ؑ نے صاف فرمادیا ہے کہ منظور محمد کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ الہاماً یہ تعیین کی گئی۔ اور حضرت اقدس ؑ نے ضروری قرار نہیں دیا کہ منظور محمد سے مراد میاں منظور محمد صاحب ہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ خواب ہے اور خواب میں نام صفات کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں۔ پس منظور محمد سے وہ شخص مراد ہے جو محمد عربی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا سب سے زیادہ منظور نظر اور محبوب ہے۔ ہاں ہاں جس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’اِسْمُہٗ اِسْمِیْ‘‘(اقتراب الساعۃ صفحہ ۶۱ مطبوعہ نول کشور مطبع مفید عام الکائنہ فی الرواۃ) کا ارشاد فرمایا۔وہی جس کو آپ نے اپنا سلام دیا۔ پس وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے خادم حضرت مسیح موعود ؑ ہی ہیں جنہوں نے فرمایا وَمَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی، فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی ۔(خطبہ الہامیہ۔روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۵۹)

پس اﷲ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعے یہ خبر دی تھی کہ وہ ’’کلمۃ اﷲ‘‘ اور سلسلہ احمدیہ کی اقبال مندی کا نشان عنقریب اپنی عظیم الشان صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی وہ موعودہ صفات جو ۱۹۰۶ء تک دنیا کی نظر سے مخفی تھیں اب ان کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز اپنے سنِّ بلوغ کو پہنچے۔ اور آپ نے رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جاری فرمایا۔ جس کی خوبیوں کا اعتراف مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو بھی کرنا پڑا۔ ۱۹۱۴ء میں ۲۵سال کی عمر میں آپ خلیفۃ المسیح ہوئے۔ اور اسی سال زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جنگ عظیم کی صورت میں پوری ہوئی۔(تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ ۵۹۹)

ایک اور ثبوت

پھر حضرت اقدس ؑ کے اس صریح ارشاد کے علاوہ کہ ’’معلوم نہیں منظور محمد کے لفظ سے کس طرف اشارہ ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) بعض اور بھی قرائن ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’عالم کباب‘‘ (ایضاً صفحہ۵۳۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) لڑکے سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز ہی ہیں نہ کوئی اور۔

۱۔’’عالم کباب‘‘ لڑکے کے مندرجہ ذیل نام اور صفات بیان کی گئی ہیں:۔

۱۔ کلمۃ اﷲ۔ کلمۃ العزیز
۲۔ بشیر الدولہ
۳۔ ناصر الدین۔ فاتح الدین۔ شادی خاں
۴۔ ھٰذَا یَوْم ٌ مُبَارَکٌ (تذکرہ ۵۳۷مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کی تشریح بھی فرمائی ہے:۔

(۱)’’بشیر الدولہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لییبشارت دینے والا ہوگا۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد (یا اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد ) ’’زلزلہ عظیمہ‘‘ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی۔‘‘ (تذکرہصفحہ ۵۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

(۲)’’عالم کباب‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے۔ دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی……اس و جہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۳۴ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

غرضیکہ ’’عالم کباب‘‘ کی صفت بشیر الدولہ اور ناصر الدین او رکلمۃؔاﷲ اور فاتح الدینؔ سے سلسلہ کی ترقی کی بشارت ہے۔ اب دیکھئے بعینہٖ یہی صفات اور نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ مصلح موعود کے ہیں۔ملاحظہ ہو :۔

۱۔ وہ ’’کلمۃ اﷲ‘‘ ہے۔ (اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء و تذکرہ صفحہ ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۲۔ ’’بشیر الدین‘‘
۳۔ ’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا……وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کا رستگاری کا موجب ہوگااو ر زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۱۱۰،۱۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۴۔ ’’فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

اب دیکھ لیجئے کہ بشیر الدولہ کے بالمقابل ’’بشیر الدین‘‘’’ کلمۃ اﷲ‘‘ اور’’ کلمۃ العزیز‘‘ کے بالمقابل ’’کلمۃ اﷲ‘‘ مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی کے نام ہیں، جماعت کی ترقی کے متعلق بعینہٖ ایک ہی قسم کے الفاظ دونوں کے متعلق ہیں۔ ’’عالم کباب‘‘ کا نام ’’فاتح الدین‘‘ ہے تو مصلح موعود کو ’’فتح‘‘ کی کلید قرار دیا گیا ہے۔ اگر ’’عالم کباب‘‘ کی آمد کو ’’ہٰذَا یَوْمٌ مُبَارَکٌ ‘‘ کہا ہے تو مصلح موعود کی بشارت میں دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘ (تذکرہ صفحہ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) فرمایا ہے اور اگر ’’عالم کباب‘‘ کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ وہ مخالفین و معاندین کے لیے عذاب الٰہی کا موجب ہوگا نیز فرمایا کہ وہ لڑکا نیکوں کے لیے اور اس سلسلہ کے لیے ایک سعد ستارہ کی طرح مگر بدوں کے لیے اس کے برخلاف ہوگا۔

(الحکم ۱۰؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ۱۔ البدر ۱۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲)

تو بعینہٖ اسی طرح مصلح موعود کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجاوے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے…… اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے……جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔‘‘

(اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء۔ و تذکرہ صفحہ۱۰۹ تا۱۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء )

غرضیکہ دونوں کے نام اور صفات ایک ہی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ٰٓایک اعتراض

بعض لوگ ریویوؔ اور بدرؔ کے حوالہ سے ایک ڈائری پیش کیا کرتے ہیں کہ گویا حضرت اقدس علیہ السلام نے الہاماً منظور محمد کی تعیین فرمادی ہے اور اپنے قلم سے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ وہ لڑکا میاں منظور محمد صاحب کے ہاں ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیداہوگا۔

جواب:۔محمدیہ پاکٹ کے بک مصنف کا یہ لکھنا کہ ڈائری محولہ از ریویوؔ جون ۱۹۰۶ء حضرت اقدس ؑ کے قلم سے لکھی گئی۔ (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ۳۲تا۳۷) محض جہالت ہے۔ وہ حضرت صاحب ؑ کی تحریر نہیں۔بلکہ ڈائری نویس نے محض اپنی یادداشت کی بناء پر تحریر کرکے طبع کرائی ہے۔وہ ڈائری کی مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر قابل قبول نہیں۔

۱۔وہ ڈائری حضرت اقدس ؑ کی تصریح مندرجہ بدر جلد۲نمبر۸ و مکاشفات از محمد منظور الٰہی جنجوعہ احمدی جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۹ و ریویو مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲۲ و الحکم جلد ۱۰ نمبر ۷۔ ۲۴فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۱کالم نمبر ۴ کے خلا ف ہے۔جس کا حوالہ اوپر درج ہوچکا ہے کہ ’’معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
۲۔حضرت اقدس ؑ کی دوسری ڈائریوں سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مخالفین کی محولہ ڈائری (ریویو جلد ۵ نمبر۶ صفحہ ۲۴۳، ۲۴۴ جون ۱۹۰۶ نیز بدر جلد ۲نمبر ۲۴۔۱۴جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲) محض ڈائری نویس کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
’’بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا ہے کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمد ی بیگم کا ایک لڑکا ہوگا۔‘‘
حالانکہ الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۰پرچہ ۱۰جون۱۹۰۶ء صفحہ ۱کالم نمبر ۲میں جو حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ لکھے ہیں وہ یہ ہیں:۔
’’یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے۔‘‘
اسی طرح الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۲۔ ۲۴جون ۱۹۰۶ء صفحہ۱ کالم نمبرا۔ و بدر جلد ۲ نمبر ۲۵۔۲۱ جون ۱۹۰۶ ء صفحہ ۳ پر لکھا ہے:۔
’’میاں منظور محمد کے اس بیٹے کے نام جو بطور نشان ہوگا بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ دراصل الہام الٰہی سے صرف اس لڑکے کے نام ہی معلوم ہوئے تھے ،یہ امر کہ وہ لڑکا منظور محمد کے گھر ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیدا ہوگا،یہ تعیین الہامی نہیں ہے (ڈائری نویس نے اس فرق کو نہ سمجھنے کے باعث بجائے یہ لکھنے کے کہ ’’میاں منظور محمد صاحب کے گھر جو لڑکا پیدا ہوگا بذریعہ الہام معلوم ہوا کہ اس کے دو نام ہوں گے۔‘‘ لفظ’’الہام الٰہی‘‘کو فقرہ کے شروع میں رکھ دیا ہے جس سے مضمون بگڑ کر وہ مفہوم بن گیا ہے جو حضرت اقدس کے دوسرے ملفوظات اور واقعات کے صریحاً خلاف ہے۔ پس دوسری ڈائریوں سے ریویو والی ڈائری (جس کا مخالف نے حوالہ دیا ہے)مردود ثابت ہوئی۔اس سے جماعت احمدیہ کے خلاف حجت نہیں پکڑی جاسکتی کیونکہ وہ حضرت اقدس کی تحریر نہیں بلکہ حاضرین مجلس میں سے کسی کی اپنی یادداشت کی بناء پر لکھی ہوئی تحریر ہے جس میں غلط فہمی یا الفاظ کا ادھر ادھر ہوجانا کوئی مشکل امر نہیں۔

حقیقۃ الوحی کا حوالہ

حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ اس لڑکے کا پیدا ہونا معرض التواء میں پڑگیا۔ کیونکہ حضورؑ نے دعا فرمائی تھی کہ ’’رَبِّ اَخِّرْوَقْتَ ھٰذَا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳)اے اﷲ ! زلزلہ میں تاخیر ڈال دے اور اﷲ تعالیٰ نے حضور ؑ کو بتادیا کہ ’’ اخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمّٰی۔‘‘(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳)کہ اﷲ تعالیٰ نے زلزلہ کو کسی اور وقت پر ٹال دیا۔

حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳ کے حوالہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ اسی وقت ظاہر ہوگا جبکہ ’’عالم کباب‘ ‘ظاہر ہوجائے گا۔

۱۔باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ ’’منظور محمد‘ ‘اور ’’محمدی بیگم‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ پھر ان سے کوئی دوسرا کیونکر مراد ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال علم دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تمام دنیا کے خزانوں کی کنجیاں وُضِعَتْ فِیْ یَدَیَّ (بخاری کتاب الرؤیا وا لتعبیر باب المفاتیح فی الید)

کہ وہ چابیاں میرے ہاتھ میں رکھی گئیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں حاصل نہیں ہوئیں۔ بلکہ حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں یہ ملک فتح ہوئے۔ پس اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مراد حضرت عمر ؓ ہوسکتے ہیں تو منظور محمد سے مراد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کیوں نہیں ہوسکتے؟ جو حقیقی اور اصلی منظورِ محمد ؐ ہیں۔

۲۔پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب میں اگر چاند سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ اور سورج سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام اور ستاروں سے مراد بھائی ہوسکتے ہیں حالانکہ صریح لفظچاند سورج اور ستاروں کا موجود ہے تو پھر اس خواب میں منظور محمد کی تعبیر کیوں نہیں ہوسکتی؟

۳۔اسی طرح لکھا ہے:۔ قَالَ السُّھَیْلِیُّ قَالَ اَھْلُ التَّعْبِیْرِ رَأَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ اُسَیْدَ بْنَ اَبِی الْعَیْصِ وَالِیًا عَلٰی مَکَّۃَ مُسْلِمًا فَمَاتَ عَلَی الْکُفْرِ وَ کَانَتِ الرُّؤْیَا لِوَلَدِہٖ عَتَّابٍ حِیْنَ اَسْلَمَ فَوَلَّاہٗ۔

(تاریخ الخمیس مصنفہ علامہ شیخ حسین بن محمد ابن الحسن الدیار بکری جلد ۲صفحہ ۱۱۱پہلا ایڈیشن مطبوعہ ۱۳۰۲ھ)

یعنی سہیلی کہتے ہیں کہ اہل تعبیر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص اسید بن ابی العیص کو خواب میں دیکھا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور مکہ شریف کا گورنر بناہوا ہے، لیکن اسیدؔ مذکور بغیر مسلمان ہوئے مرگیا لیکن یہ خواب اس کے بیٹے عتابؔ کے حق میں نکلی۔ پس اگر اسیدؔ کافر سے مراد عتابؔ مسلمان بھی ہوسکتا ہے تو ایک مومن کی جگہ دوسرا اس سے اعلیٰ مومن کیوں نہیں ہوسکتا؟

انبیاء کی ذمہ واری

قرآن مجید اور احادیث نبویؐ اور اقوال آئمہ سلف سے یہ بات پایۂ ثبو ت کو پہنچتی ہے۔ اور انبیاء اور خدا تعالیٰ کے مامورین صرف اور صرف اس چیز کی صحت کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں کہ جو ان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔ وہ اپنے اجتہاد کے ذمہ وار نہیں ہوتے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:۔

’’مَا حَدَّثْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ فَھُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِیْہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِیْ۔ ‘‘ (ترمذی۔ ابواب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی وصف الصلوٰۃ) فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِیُٔ وَ اُصِیْبُ (نبراس شرح الشرح العقائد النسفی صفحہ۲۹۲) یعنی جو بات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کہوں وہ حق ہے۔ مگر جو اس کی تشریح میں اپنی طرف سے کروں اس کے متعلق یاد رکھو کہ میں انسان ہوں کبھی میرا خیال درست ہوگا اور کبھی نادرست۔

اسی طرح لکھا ہے :۔ ’’اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ یَجْتَھِدُ فَیَکُوْنُ خَطَاءً (نبراس شرح الشرح عقائد النسفی صفحہ ۲۹۲) کہ آنحضرت صلعم کئی دفعہ اپنی وحی کی تعبیر یا تشریح اپنی طرف سے فرماتے تھے تو بعض دفعہ غلط بھی ہوتی تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ انبیاء اورملہمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام۔‘‘

(اعجاز احمدی۔روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۱۵)

پس جبکہ واقعات اور حضرت اقدس ؑ کے دوسرے اقوال سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز ہیں اور حضور کی سوا کسی شخص کے لیے یہ پیشگوئی نہ تھی۔ تو پھر بھی ایک ڈائری کو (جس کی صحت اور محفوظیت مسلّم نہیں) پیش کرکے اعتراض کرتے جانا طریق انصاف نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ہو اور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر جو اس پیشگوئی کا خارق عادت ہونا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے۔ اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا۔ اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۲۵۰)

ولادت معنوی

بعض مخالف کہا کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں جب یہ پیشگوئی حضرت صاحب نے کی اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پیدا ہوچکے تھے۔

الجواب:۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ الہام میں ’’ولادت‘‘ سے ولادتِ جسمانی مراد نہیں بلکہ ولادتِ معنوی مراد ہے۔ جیسا کہ امام الشیخ سہروردی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔

یَصِیْرُ الْمُرِیْدُ جُزْءَ الشَّیْخِ کَمَا اَنَّ الْوَلَدَ جُزْءُ الْوَالِدِ فِی الْوَلَادَۃِ الطَّبْعِیَّۃِ وَ تَصِیْرُ ھٰذِہِ الْوَلَادَۃُ اَنِفًا وَلَادَۃً مَعْنَوِیَّۃً کَمَا وَرَدَ عَنْ عِیْسٰی صَلٰوۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ’’لَنْ یَّلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمَآءِ مَنْ لَّمْ یُوْلَدْ مَرَّتَیْنِ فَبِالْوَلَادَۃِ الْاُوْلٰی یَصِیْرُلَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِعَالَمِ الْمَلَکِ وَ بِھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ یَصِیْرُ لَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِالْمَلَکُوْتِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ کَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ‘‘ وَ صَرْفُ الْیَقِیْنِ الْکَمَالِ یَحْصِلُ فِیْ ھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ۔ وَبِھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ یَسْتَحِقُّ مِیْرَاثُ الْاَنْبِیَآءِ مَا وُلِدَ۔‘‘

(عوارف المعارف جلد ۱ صفحہ ۴۵ مطبوعہ الوہبیۃ البہیہ قاہرہ مصر شعبان ۱۲۹۲ھ)

یعنی مرید اپنے پیر کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے جس طرح بیٹا اپنے باپ کا ولادتِ طبعی میں۔ مرید کا یہ پیدا ہونا حقیقی پیدا ہونا نہیں بلکہ معنوی او ر استعاری طور پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کوئی شخص خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وہ دو دفعہ پیدا نہ ہو۔ ولادتِ طبعی (حقیقی) میں انسان کا تعلق دنیا سے ہوتا ہے۔ مگر ولادتِ معنوی میں اس کا تعلق آسمان (ملکوت اعلیٰ ) سے ہوتا ہے۔ یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم نے اسی طرح ابراہیم کو ملکوت سماوی و ارضی دکھائیں تاکہ وہ یقین کرے۔ دراصل حقیقی اور کامل یقین اسی ولادتِ معنوی سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اسی ولادت کے باعث انسان وراثتِ انبیاء کا مستحق ہوجاتا ہے اور جس شخص کو وراثت انبیاء نہ ملی وہ پیدا نہ ہوا۔‘‘

پس اس پیشگوئی میں بھی ’’ولادت‘‘ سے مرادطبعی ولادت نہیں ، بلکہ ولادتِ معنوی ہے۔ جو انسان کو انبیاء کا وارث بناتی ہے۔ سو یہ عجیب بات ہے کہ۱۹۰۶ء میں ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے اس لڑکے کی پیدائش معنوی کی پیشگوئی فرمائی۔ ۱۹۰۶ء ہیمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے رسالہ تشحیذ الاذہان جاری فرمایا جس سے حضور کے کمالاتِ دینیہ و روحانیہ کا اظہار شروع ہوا اور ’’سلطان القلم‘‘ کی وراثت حقیقی کا تمغہ آپ کو ملا۔

پھر۱۹۱۴ء میں حضور ایدہ اﷲ اپنے معنوی بلوغ کو پہنچ کر اور سریر آرائے خلافت ہوکر کامل اورمکمل طور پر ’’عالم کبا ب‘‘ کا مصداق ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔قادیان میں طاعون

اعتراض:مرزا صاحب نے کہا تھا کہ قادیان میں طاعون ہرگز نہیں آئے گی۔یہ پیشگوئی غلط نکلی۔



الجواب:۔یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے قادیان میں طاعون کا آنا ممنوع قرار دیا ہے۔ بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ قادیان میں طاعون آئے گی توسہی مگر طاعون جارف یعنی جھاڑو دینے والی طاعون نہیں آئے گی۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام دافع البلاء میں فرماتے ہیں:۔

۱۔’’ہم دعوے سے لکھتے ہیں کہ قادیاں میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے ۔‘‘ (دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)

۲۔پھر فرماتے ہیں:۔
’’ میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصًا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۳۷)
۳۔’’ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذو نادر طور پر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذو نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)

۴۔’’ انّہٗ اوی القریۃ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۴۳)

’’اٰویٰ کالفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلاکے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے۔ اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (الضحیٰ:۷)اسی طرح تمام قرآن شریف میں ’’اٰویٰ‘‘ کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکلیف کے بعد پھر آرام دیا گیا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۹)

پس ان پیشگوئیوں کے مطابق قادیان کو ایک دفعہ ’’کسی قدر‘‘ عذاب کے بعد اپنی امان میں لے لیا گیااو ر اسی کو حضرت اقدس علیہ السلام نے صرف قادیان ہی کی نسبت سے ’’طاعون زور پر تھا۔‘‘ قرار دیا ہے (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۷ حاشیہ)چنانچہ خود دوسری جگہ حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۴۴ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔

’’ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔‘‘
ع وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءُ

پس قادیان میں کبھی بھی طاعونِ جارف نہیں آئی جو بربادی افگن ہوتیہے۔ ہاں حضرت اقدس علیہ السلام نے اعلان فرمایا تھا ’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ……اُحَافِظُکَ خَاصَّۃ۔ً‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۵۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)کہ تیرے گھر کی چار دیواری میں رہنے والے طاعون سے محفوظ رہیں گے اور تیری تو خاص حفاظت کی جائے گی (خواہ چار دیواری کے اندر ہوں یا باہر)چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ببانگ دہل اعلان فرمایا:۔

’’میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی۔‘‘
(دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۸)

چنانچہ چراغ دین جمونی ہلاک ہوا، تفصیل دیکھو ’’حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۸۶‘‘میں۔ پھر اس چیلنج کو کوئی اور منظور نہ کرسکا۔ لہٰذا حضرت ؑکی صداقت ثابت ہوئی۔‘‘

۷۔محمد حسین بٹالوی کا ایمان

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ محمد حسین بٹالوی ایمان لائے گا مگر وہ ایمان نہ لایا؟


(اعجاز احمدی۔روحانی خزائن جلد۱۹)

الجواب نمبر ۱:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمد حسین بٹالوی کو فرعون قرار دیا ہے۔ دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۶۴،۶۵،۶۶

پھر فرماتے ہیں:۔’’فرعون سے مراد محمد حسین ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بالآخر ایمان لائے گا۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون کی طرح صرف اس قدر ہو گا کہ آمَنْتُ بِالَّذِیْ آمَنْتُ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ یا پرہیز گار لوگوں کی طرح۔ واللّٰہ اعلم۔‘‘

(استفتاء۔روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۱۳۰ حاشیہ)

فرعون کے ایمان لانے کا واقعہ جس کی طرف حضرت اقدس ؑ نے محولہ بالہ عبارت میں اشارہ فرمایاہے۔ قرآن مجید سورۃ یونس آیت ۹۱ میں ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا۔ تو اس نے آوا ز دی کہ:
(یونس:۹۱)

کہ میں ایمان لایا کہ وہی ایک خدا ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں۔ اب فرعون کے ایمان لانے کا بجز خدا تعالیٰ کی شہادت کے اور کون انسان گواہ ہے۔ بعینہٖ اسی طرح محمد حسین کے ایمان کا بھی خدا کا الہام گواہ ہے۔اب کوئی آریہ یا عیسائی تم سے فرعون کے ایمان لانے کا ثبوت پوچھے تو جو جواب تم اس کو دو گے وہی جواب ہماری طر ف سے سمجھ لو۔

جواب نمبر ۲ـ:حضرت اقدس علیہ السلام کی پیشگوئی میں تھا اَنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یُؤْمِنُ بِاِیْمَانِیْ(تذکرہ صفحہ ۱۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) کہ مولوی محمد حسین بٹالوی میرا مومن ہونا مان لے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ۔ کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی اوّل المکفرین نے ۱۹۱۲ء میں لالہ دیو کی نندن صاحب مجسٹریٹ درجہ اوّل وزیر آباد کی عدالت میں مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ میں حلفاً بیان کیا کہ ’’میں احمدی جماعت کو مسلمان سمجھتا ہوں۔‘‘

اب بتاؤ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں کسی کو یہ وہم بھی ہوسکتا تھا کہ کسی وقت یہی مولوی محمد حسین جو سب سے پہلے فتویٰ کفر دینے والا ہے، خود حضرت اقدس ؑ اور آپ کی جماعت کو مسلمان سمجھنے لگ جائے گا۔

۸۔ عبد اﷲ آتھم

اعتراض۔ عبد اللہ آتھم کے بارے میں موت کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی ۔


یہ ثابت کرنے کے لیے کہ حقیقی اور سچا مذہب خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے او ریہ کہ موجودہ عیسائیت کسی صورت میں بھی اس مذہب کی قائمقام نہیں ہوسکتی جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاک ہاتھوں سے قائم ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو عیسائیت پر کھلا کھلا غلبہ عطا کیا۔

عیسائیوں نے اپنے نمائندہ ڈپٹی عبداﷲ آتھم کو جون ۱۸۹۳ء میں خدا کے مسیح موعودؑ کے بالمقابل کھڑا کیا۔ جب اس پر دلائل بیّنہ اور براہین قاطعہ کی رو سے کامل طور پر حجت ہوچکی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدائے بزرگ و برتر سے اطلاع پاکر اعلان فرمایا کہ ڈپٹی عبد اﷲ آتھم نے ہمارے آقا و سردار حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو نعوذ باﷲ ’’دجال‘‘ (اندرونۂ بائبل از پادری عبد اﷲ آتھم ڈپٹی۱۸۹۳ء)کہا ہے۔اس لئے اس جرم کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا ہے کہ ’’اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ تو پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس یہ ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بے انتہا غیرت ہے او ر یہ کہ اس کے نزدیک سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ خدا کے پیارے مسیح موعود ؑ کی یہ ہیبت ناک پیشگوئی شائع کردی گئی اور اس میں آتھم کو ہلاکت سے بچنے کا طریق بھی بتلادیا گیا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کرے گا تو اس ہلاکت سے بچ جائے گا۔

پیشگوئی کا شائع ہونا تھا کہ ڈپٹی آتھم کے لیے جس ہاویہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ وہ توبہ اور استغفار، دعا اور رجوع میں لگ گیا۔ وہ اس گستاخی کے لیے جو اس نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں کی تھی روتا اور گڑگڑاتا رہا۔ وہ برابر پندرہ ماہ تک انتہائی پریشانی سراسیمگی اور بد حواسی کے ساتھ دربدر پھرتا رہا۔ وہی عیسائیت جس کی اشاعت اور تبلیغ (اس پیشگوئی سے قبل) اس کی غذا تھی اب اس کو موت کا پیالہ نظر آتی تھی۔ وہی اسلام اور بانی ٔ اسلام جن کی تردید کرنا اور جن کو گالیاں دینا وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا تھا اب اس کی نظر میں اس قدر قابلِ اعتراض و تردید نظر نہ آتے تھے۔

وہی عبد اﷲ آتھم جس کے لیے ایک دن بھی عیسائیت کی تبلیغ او ر اسلام کی تردید کے بغیر گزارنا غیر ممکن تھا متواتر پندرہ مہینے ایک غیر منقطع سکوت اور لا متناہی خاموشی کے ساتھ شہر بہ شہر پھرتا رہا اور ایک حرف بھی اپنی زبان سے اسلام یا بانی ٔ اسلام کے خلاف نہیں نکالا۔

یہ معنی خیز خاموشی، حیرت انگیز سکوت او ر عبرت ناک سراسیمگی اسلام اور خدا کے مسیح موعود ؑ کی صداقت پر زبردست دلیل تھی اور اس طرح سے عبد اﷲ آتھم کا پندرہ ماہ کا عرصہ گزارنا سعید الفطرت انسانوں کے لیے یقینا یقینا خدا کے زبردست مگر رحمدل ہاتھ کی کرشمہ نمائی کا زبر دست ثبوت تھا۔ مگر نور کے دشمنوں نے اس سے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنی شرمندگی کو مٹانے کے لیے یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ عبداﷲ آتھم نے درحقیقت رجوع نہیں کیا تھا اور یہ کہ خدا کے مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی نعوذ باﷲ جھوٹی نکلی۔ خدا کا مسیح موعود ؑ ایک دفعہ پھر خدا کی طرف سے حجت باہرہ اور دلائل بینہ کی تلوار ہاتھ میں لے کر میدا ن میں نکلا اور عبد اﷲ آتھم ہی کے ذریعہ ایک دوسرے نشان سے صاف اور واضح طور پر اس بات پر مہر ثبت کردی کہ سچا اور حقیقی دین خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پے درپے اشتہارات شائع کئے کہ اگر تم لوگ اس دعویٰ میں سچے ہو کہ عبد اﷲ آتھم نے رجوع نہیں کیا تو تم اسے کہو کہ وہ حلف اٹھا کر کہہ دے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اگر اس حلف کے بعد وہ ایک سال تک زندہ رہ جائے تو میں جھوٹا ہوں۔ آپ نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ چارہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ عبد اﷲ آتھم ہرگز قسم نہیں کھائے گا۔ کیونکہ اس سے زیادہ اس بات کوکوئی نہیں جانتا کہ اس نے فی الحقیقت حق کی طرف رجوع کیا، لیکن اگر اب آتھم عیسائیوں کے اس قول کی تردید نہ کرے اور نہ قسم کھائے تو بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔

’’ اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ نہیں۔‘‘

(انوار الاسلام۔روحانی خزائن جلد۹ صفحہ۱۶،۱۷)

’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا…… اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ ۱۰۶۔ اشتہار مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ء)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ساتویں اشتہار مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۵ء میں ’’مسٹر آتھم اور پادری فتح مسیح‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار دیا جس میں آتھم کے متعلق تحریر کیا کہ ’’اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لیے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔‘‘ چنانچہ آتھم کے قسم نہ کھانے اور سات اشتہارات پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار کو ابھی سات مہینے نہیں گزرے تھے کہ آتھم ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور راہی ملک عدم ہوا۔‘‘

خدا تعالیٰ نے آتھم کے ذریعہ سے اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر زندگی اور موت کے دو نشان ظاہر فرمائے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف رجوع کرنے سے آتھم نے پندرہ ماہ کے عرصہ میں ’’زندگی‘‘ پائی اور اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے نشان کو چھپانے کے نتیجہ میں اسے ’’موت‘‘ حاصل ہوئی۔ اور اس نشان میں اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعتِ حقیقی زندگی بخشتی ہے۔ او ر آپ کی مخالفت ایک موت کا پیالہ ہے جس کا پینے والا روحانی موت سے بچ نہیں سکتا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۹۔محمد حسین کی ذلت

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ محمد حسین بٹالوی ذلیل ہوگا۔ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔



الجواب:۔محمد حسین پر کئی ذلتیں آئیں۔ تفصیل کے لیے دیکھو کتاب ’’بطالوی کا انجام‘‘ مصنفہ جناب میر قاسم علی صاحب۔ اجمالاً یہاں کچھ لکھا جاتا ہے۔

۱۔محمد حسین نے حضرت اقدس علیہ السلام پر اس وجہ سے فتویٰ کفر لگایا کہ آپ گویا مہدی خونی کے قائل نہیں۔ مگر بعد میں اس نے خود گورنمنٹ سے زمین حاصل کرنے کی غرض سے بطور خوشامد یہ لکھا کہ کوئی ایسا جنگ اور جہاد کرنے والا مہدی نہیں آئے گا اور یہ کہ اس مہدی کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں سب موضو ع اور ضعیف ہیں ۔ چنانچہ اس نے ۱۴۔ اکتوبر ۱۸۹۴ء کو ایک انگریزی فہرست شائع کی۔ جس میں مہدی کی آمد کا انکار کیا۔ اس پر غیر احمدی علماء ہی سے حضرت اقدس ؑ نے خونی مہدی کے منکر کے متعلق فتویٰ کفر حاصل کرلیا۔پس محمد حسین اپنے مسلمات کی رو سے ذلیل ہوا۔

(تفصیل دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار ۷جنوری۱۸۹۹ء)

۲۔محمد حسین نے حضرت اقدس ؑ کے الہام ’’ءَ تَعْجَبُ لِاَمْرِیْ‘‘ (تذکرہ صفحہ۲۷۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) پر نحوی اعتراض کیا تھا کہ عجب کا صلہ لام نہیں آتا۔ اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے احادیث کتبِ لغت اور شعراء عرب کے کلام سے عجب کے صلہ لام کی مثالیں شائع کیں تو محمد حسین نے خود اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اپنی خفت کو یہ کہہ کر مٹانا چاہا کہ میں نے کہا تھا کہ قرآ ن میں ’’عجب‘‘ کا ’’مِنْ‘‘ صلہ آیا ہے۔ (الہامات مرزا مصنفہ ثناء اﷲ امرتسری صفحہ ۸۳ دفعہ ششم)

۳۔محمد حسین نے خونی مہدی کا انکار کرکے گورنمنٹ سے زمین حاصل کی۔ اور بخاری میں ہے کہ جس گھر میں ہل داخل ہوجاتا ہے وہ ذلیل ہوجاتا ہے۔ ’’عَنْ اَبِیْ اُمَاَمَۃَ الْبَاھِلِیِّ قَالَ وَ رَأَی سِکَّۃً وَّ شَیْئًا مِنْ آلَۃِ الْحَرْثِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَدْخُلُ ھٰذَا بَیْتَ قَوْمٍ اِلَّا اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الذُّلَ ‘‘ (بخاری کتاب الحرث والمزاعۃ باب مَا یُحْذَرُ مِنْ عَوَاقِبِ و مشکوٰۃ کتاب البیوع الفصل الاول ) حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ہل کا ایک پھل اور کھیتی کرانے کا ایک آلہ دیکھا تو فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ جس قوم کے گھر میں داخل ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ اس قوم میں ذلت آجاتی ہے۔ محمد حسین بٹالوی کا عالم اورغیر زمیندار ہوکر ’’اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ ‘‘ کا مصداق بننا یقیناً حدیث کے الفاظ میں اس کے لیے ذلیل ہونا تھا، لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر میں ’’ہل‘ ‘کو داخل نہیں کیا۔ بلکہ حضور ؑ تو پیدا ہی زمیندار خاندان میں ہوئے تھے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی مندرجہ ابو داؤد ’’حَارِثٌ حَرَّاثٌ‘‘(ابو داؤد کتاب المہدی بحوالہ مشکوٰۃ باب شرائط الساعۃ)والی پوری ہوئی۔ اس لیے آپ کے لیے یہ موجب ذلت نہیں۔
نوٹ:۔یاد رہے کہ یہاں حدیث میں صرف ان لوگوں کا ذکر ہے جو تجارت یا دوسرے پیشے چھوڑ کر اور غیر زمیندا ر ہوکر زمیندا ر بننے کی کوشش کرتے ہیں نیز اس زمینداری کا ذکر ہے جو انسان کو دنیاداری میں مشغول کردے اور اپنے مذہبی عقائد سے منحرف کرائے۔ جیسا کہ محمد حسین کے ساتھ ہوا ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے امام مہدی کو بھی زمیندار قرار دے کر بتا دیا کہ زمینداری برا پیشہ نہیں۔

۱۰۔نَافِلَۃً لَّکَ

اعتراض۔ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ ایک اور بیٹا مبار ک احمد کے بعد پیدا ہوگا۔ مگر وہ پیدا نہ ہوا۔



الجواب:۔حضرت اقدس ؑ نے خود اس الہا م کی تشریح فرمادی ہے:۔’’چند روز ہوئے الہام ہوا تھا ’’اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَافِلَۃً لَّکَ ‘‘ ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ ’’نافلۃ‘‘ پوتے کو بھی کہتے ہیں۔یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو۔‘‘

(الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۳۔ ۱۰ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱۔و تذکرۃ صفحہ ۵۱۹ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:۔

’’انّا نُبَشِّرُکَ بغلامٍ نافلۃً لَّکَ۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۹۹ )

پس وہ نَافِلَۃٌ جس کی بشارت دی گئی تھی صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مولوی فاضل فرزند اکبر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز ہیں۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضور کے بھائیوں کے کئی ایک اور صاحبزادے ہیں۔ گویا دشمنوں کے ابتر ہونے کے مقابلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کو پوتوں تک کی بشارت دی گئی۔

نوٹ:۔بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’پسر خامس‘‘ کی بھی پیشگوئی فرمائی تھی تو اس کا جو اب یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے الہام بَشَّرَنِیْ بِخَامِسٍ (یعنی پسر خامس ) سے مراد پوتا لیا ہے۔ (دیکھو حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۲۷)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
1. اعتراض ۔ محمدی بیگم، مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی
2. اعتراض۔ عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کی وفات ہوئی۔
3. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی موت کی پیشگوئی کی اور جھوٹے کے لیے بددعاکی لیکن پہلے خود ہی فوت ہو گئے
4. اعتراض۔ دنیا کی عمر 6000 سال اور مسیح و مہدی علیہ السلام کا چھٹے ہزار سال میں مبعوث ہونا ثابت نہیں۔
5. اعتراض:حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ میاں منظور صاحب کے گھر بیٹا ہوگا جس کا نام بشیر الدولہ اورعالم کباب وغیرہ ہوگا۔ (تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ۵۹۸ و صفحہ ۶۲۶)
6. اعتراض:مرزا صاحب نے کہا تھا کہ قادیان میں طاعون ہرگز نہیں آئے گی۔یہ پیشگوئی غلط نکلی
7. اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ محمد حسین بٹالوی ایمان لائے گا مگر وہ ایمان نہ لایا؟
8. اعتراض۔ عبد اللہ آتھم کے بارے میں موت کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی ۔
9. اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ محمد حسین بٹالوی ذلیل ہوگا۔ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔
10. اعتراض۔ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ ایک اور بیٹا مبار ک احمد کے بعد پیدا ہوگا۔ مگر وہ پیدا نہ ہوا۔
11. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اپنی عمر 80 سال کے آگے پیچھے ہونے کی پیشگوئی کی جو پوری نہ ہوئی
 
Last edited:
Top