غیر احمدی اعتراضات
پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات
۱۔ پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیرہپیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات
اعتراض ۔ محمدی بیگم، مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی
خدا تعالیٰ کی سنتِ قدیمہ:۔ جب کوئی قوم اپنی بد اعمالیوں کی و جہ سے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس قوم کو عذاب نازل کرنے سے قبل آخری اتمام حجت کے طور پر ایک حکم دیا کرتا ہے کبھی وہ حکم اپنی ذات میں نہایت معمولی ہوتا ہے مگر اس کی خلاف ورزی ’’اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسی قانون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے (بنی اسرائیل:۱۷)
کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو ایک حکم دیتے ہیں جس کی وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ پس ان پر فردِ جرم لگ جاتا ہے اور ہم ان کو بالکل تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
چنانچہ اسی قسم کی اتمامِ حجت کی ایک مثال سورۃ الشمس میں بیان فرمائی ہے۔ (الشمس:۱۴،۱۵) پس قوم ہود سے اﷲ تعالیٰ کے نبی (صالحؑ) نے فرمایا کہ خدا کی اس اونٹنی کا خیال رکھو، اور اس کا پانی بند نہ کرو۔ پس انہوں نے اس کا انکار کیا اور انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیئے۔ پس ان کو خداتعالیٰ نے ان کے گناہ اور نافرمانی کے باعث ہلاک کر دیا۔
پس یہی سنت الٰہیہ تھی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ معاملہ کیا۔ وہ لوگ (جیسا کہ تفصیل آگے آئیگی) خدا تعالیٰ کے منکر، آنحضرتؐ اور قرآن کے دشمن تھے، ہندو تہذیب اور ہندؤانہ رسوم کا ان پرگہرا اثر تھا، جس طرح ہندوؤں کے ہاں اپنی گوت اور خاندان میں نکاح ناجائز سمجھا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ (مرزا احمد بیگ وغیرہ) بھی یہ خیال کرتے تھے کہ اسلام نے جو چچا، ماموں اور خالہ کی لڑکی کے سا تھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ نہایت قابل اعتراض ہے وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ مندرجہ بالا رشتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا حقیقی ہمشیرہ کے ساتھ نکاح کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آنحضرتؐ نے جو اپنی پھوپھی کی لڑکی (حضرت ز ینبؓ) سے نکاح کیا وہ بھی ناجائز تھا۔ سو خدا تعالیٰ نے ان کی بد کرداریوں اور نافرمانیوں کے باعث (جن کی تفصیل آگے آئے گی) ان کو قوم صالحؑ کی طرح ایک آخری حکم دیا کہ وہ (احمد بیگ) اپنی لڑکی کا نکاح حضرت مسیح موعود ؑ سے کر دیں گے تو یہ نکاح قرآن مجید کی آیت (التوبۃ:۱۱۹) کے مطابق (کہ صادقین کے ساتھ تعلق پیدا کرو) موجب رحمت اور برکت ہو گا۔
۲۔ چونکہ حضرت اقدس کا رشتہ ان لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا جس میں ہندوؤانہ رسوم کے ماتحت باہمی نکاح کو وہ برا سمجھتے تھے، اس لئے خدا تعالیٰ نے خصو صیت سے اسی امر کو چنا۔ جس طرح آنحضرتؐ کے ز ینبؓ (مطلقۂ زیدؓ) کے ساتھ نکاح کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (الاحزاب:۳۸) کہ ہم نے یہ نکاح کیا تا کہ مومن اپنے متبنّوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کو برا نہ سمجھیں۔
گویا اس بد رسم کو مٹانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کا حضرت ز ینبؓ سے نکاح کیا۔ بعینہٖ اس جگہ بھی اسی امر کو چنا، تا ان کی اصلاح ہو اور یہ خیالات فاسدہ ان کے دماغ سے نکل جائیں۔
۲۔ تیسری حکمت اس میں یہ تھی کہ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو ان کی اصلاح مقصود تھی اور تاریخ اسلامی سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کے ساتھ جسمانی رشتہ لڑکی کے خاندان کی اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے جیسا کہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان اور سودہؓ بنت زمعہؓ کے آنحضرتؐ کے نکاح میں آ جانے کی وجہ سے ان کے خاندان حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے یہی آخری حکم مرزا احمد بیگ وغیرہ کو دیا۔
مخالفین ا نبیاء کا شیوہ تکذیب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شروط کے ساتھ لفظًا لفظًا پوری ہو گئی، جیسا کہ خو د حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرما تے ہیں۔
’’ہم نے سلطان محمد کے بارے میں اس کی موت کی وجہ تاخیر علیحدہ اشتہار میں ایسے طور سے ثابت کر دی ہے جس کے قبول کرنے سے کسی ایماندار کو عذر نہیں ہوگا۔ اور بے ایمان جو ؔچاہے سو کہے یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ پوری ہوئی جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا۔ ‘‘
(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۱)
نوٹ:۔ بعض ان لوگوں کو جن کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابو ں کا علم نہیں خاکسار پر طعن کیا ہے کہ گویا یہ دعویٰ کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی خاکسار کی ایجاد ہے جیسا کہ مولوی ثناء اﷲ جس نے اس پاکٹ بک کی نقل کر کے ایک اشتہاری پاکٹ بک ’’ثنائی پاکٹ بک‘‘ کے نام سے شائع کی ہے اس کے صفحہ۶۷ پر یہی اعتراض لکھا ہے حالانکہ یہ محض اس کی لاعملی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے۔ (خادم)
اہل بصیرت نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت و حقانیت کی ایک دلیل سمجھا۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں آدمی حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے مگر ’’عُلَمَآءُ ھُمْ‘‘ اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے با ز نہ آئے۔ ‘‘
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرتؐ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ (الاحزاب:۳۸) کہ جب زید ؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی تو ہم نے آپ کے ساتھ آسمان پر نکاح پڑھ دیا۔
یہی الفاظ کا حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے محمدی بیگم کے متعلق فرمایا۔ وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت ز ینبؓ کا نکاح ہو گیا مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں شرائط کے عدم تحقق کے باعث محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو اس پر بھی مخالفین اعتراضات کرنے میں پیش پیش ہیں۔ غرضیکہ نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعث اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث در حقیقت وہ فطری بغض ہے جو روزِ ازل سے معاندین و مکذبین کے شامل رہا ہے۔
چنانچہ ہم محمدی بیگم کے ساتھ متعلقہ پیشگوئی کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ درج ذیل کر کے اہل بصیرت حضرات سے اپیل کرتے ہیں، اگر وہ خدا کے لئے انصاف و خدا ترسی کے ساتھ اس پیشگوئی پر نظر ڈالیں گے تو ان پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ اس پیشگوئی پر مخالفین کی طرف سے جس قدر اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں بلکہ یہ بھی کہ یہ پیشگوئی بعینہٖ اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو بیان فرمایا تھا، پوری ہوئی۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔
مخالف علماء کی غلط بیانیاں
مخالف علماء اس پیشگوئی پر اعتراض کرنے کے لئے ہمیشہ صداقت و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم کے ساتھ میرا نکاح ہو جائیگا، اگر میرا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوا تو میں جھوٹا ہو جاؤں گا اور ’’بد سے بدتر ٹھہروں گا۔‘‘ چونکہ مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے نہیں ہوا لہٰذا مرزا صاحب جھوٹے ہیں۔ (نعوذ باﷲ)
یہ وہ طریق ہے کہ جس سے وہ اس پیشگوئی کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ حالانکہ خدا شاہد ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ افتراء اور دھوکا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اسی طرح پیشگوئی فرمائی ہوتی تو غیر احمدی علماء کا اعتراض درست ہوتا مگر واقعہ یہ ہے کہ مخالف علماء ہمیشہ اصل واقعات کو حذف کر کے بے حد تحریف کے ساتھ پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
پیشگوئی کی غرض و غایت
اس پیشگوئی کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی اصل غرض و غایت کو بیان کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ خود تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اِنَّ اللّٰہَ رَأَی ابْنَاءَ عَمِّیْ، وَ غَیْرَھُمْ مِنْ شُعُوْبِ أَبِیْ وَ أُمِّی الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ، وَالْمُسْتَغْرِقِیْنَ فِی السِّیِّئَاتِ مِنَ الرُّسُوْمِ الْقَبِیْحَۃِ وَالْعَقَائِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ الْبِدْعَاتِ۔ وَ رَآھُمْ مِنْقَادِیْنَ لِجَذَبَاتِ النَّفْسِ وَاِسْتِیْفَاءِ الشَّھَوَاتِ، وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۶)
کہ خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں …… (احمد بیگ وغیرہ) کو مہلک خیالات و اعمال میں مبتلاء اور رسوم قبیحہ، عقایدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا، اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے لحاظ سے پیروانِ جذبات و شہوات نفسانیہ ہیں۔ اور نیز یہ کہ وہ وجود خداوندی کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘
اس کے آگے یہاں تک فرمایا۔ وَ کَانُوْا أَشَدُّ کُفْرًا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَالْمُنْکِرِیْنَ لِقَضَاءِ اللّٰہِ وَ قَدْرِہٖ وَ مِنَ الدَّھْرِیِّیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷) کہ وہ لوگ خدا اور رسولؐ کے پکے منکر اور قضا و قدر کے نہ ماننے والے بلکہ دہریہ تھے۔
ان کی بے دینی اور دہریت کا پوری طرح علم مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعودؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرمایا ہے:۔
’’فَاتَّفَقَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا فِیْ بَیْتِیْ اِذْ جَاءَ نِیْ رَجُلٌ بَاکِیًا فَفَزِعْتُ مِنْ بُکَائِہٖ فَقُلْتُ اَجَاءَ کَ نَعْیُ مَوْتٍ؟ قَالَ بَلْ أَعْظَمُ مِنْہُ۔ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ھٰؤُلَاءِ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ فَسَبَّ اَحَدُھُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبًّا شَدِیْدًا غَلِیْظًا مَا سَمِعْتُ قَبْلَہٗ مِنْ فَمِ کَافِرٍ، وَ رَأَیْتُھُمْ أَنَّھُمْ یَجْعَلُوْنَ الْقُرْآنَ تَحْتَ أَقْدَامِھِمْ وَ یَتَکَلَّمُوْنَ بِکَلِمَاتٍ یَرْتَعِدُّ اللِّسَانُ مِنْ نَقْلِھَا، وَ یَقُوْلُوْنَ اَنَّ وُجُوْدَ الْبَارِیْ لَیْسَ بِشَیْءٍ وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ فِی الْعَالَمِ، إِنْ ھُوَ اِلَّا کِذْبُ الْمُفْتَرِیْنَ۔ قُلْتُ اَوَلَمْ حَذَّرْتُکَ مِنْ مَجَالِسَتِھِمْ فَاتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تَقْعَدْ مَعَھُمْ وَ کُنْ مِنَ التَّائِبِیْنَ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸)
یعنی ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا، میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ! میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے، پس ان میں سے ایک نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہایت گندی گالی دی، ایسی گالی کہ اس سے پہلے میں نے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہیں اور ایسے کلمات بولتے ہیں کہ زبان بھی ان کو نقل کرنے سے گندی ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا کا وجود کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیا میں کوئی معبود نہیں، یہ صرف ایک جھوٹ ہے جو مفتریوں نے بولا۔ میں نے اسے کہا کہ کیا میں نے تمہیں ان کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پس خدا سے ڈرو اور آئندہ ان کے پاس کبھی نہ بیٹھا کرو اور توبہ کرو۔
’’وَ کَانُوْا یَسْتَھْزِءُ وْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ) اَنَّ الْقُرْآنَ مِنْ مُفْتَرِیَاتِ مُحَمَّدٍ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَ کَانُوْا مِنَ الْمُرْتَدِّیْنَ۔ ‘‘ (آئینہ کمالا ت اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ وہ خدا اور رسولؐ پر تمسخر کرتے اور کہتے تھے کہ قرآن نعوذ باﷲ آنحضرتؐ کا افتراء ہے اور وہ مرتد تھے۔
غرضیکہ ان لوگوں کی یہ کیفیت تھی جب کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور من اﷲ ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ ایسے لوگوں کے لئے جو خدا کی ہستی ہی کے سرے سے منکر تھے۔ ایسا دعویٰ اور زیادہ استہزاء اور تمسخر کا محرک ہوا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہایت بے باکی اور شرارت کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا اور کہا۔ فَلْیَاْتِنَا بِآیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ اگر (مرزا صاحبؑ) سچا ہے تو کوئی نشان ہمیں دکھائے۔
Last edited: