• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات ۔ الہام پر اعتراضات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات

(الہامات پر اعتراضات )

۱۔اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔

اعتراض ۔ انت منی و انا منک الہام اللہ کی توہین ہے ۔


جواب:۔الف۔حضرت مسیح موعودؑنے اس کو ’’استعارہ‘‘ قرار دیا ہے ۔(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۹حاشیہ) ’’تَفْسِیْرُ الْقَوْلِ بِمَا لَا یَرْضٰی بِہٖ قَائِلُہٗ ‘‘ درست نہیں ہوتی ۔

ب۔عربی زبان میں یہ محاورہ اتحاد ومحبت کے معنوں میں مستعمل ہے ۔قرآن میں ہے (البقرۃ:۲۵۰)یعنی جو اس نہر میں سے پانی پئے گا وہ مجھ سے نہیں اور (ابراہیم :۳۷)یعنی جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا ۔

ج۔حدیث شریف میں بھی ہے ۔(۱)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب المناقب والفضائل باب مناقب علی الفصل الاول صفحہ۴۲۸ وبخاری کتاب الصلح باب کَیْفَ یُکْتَبُ ھٰذَا)

(۲)اشعری قبیلہ کو فرمایا ھُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ (بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعریین قصہ عمان والبحرین۔ وترمذی ابواب المناقب باب فی ثقیف و بنی حنیفۃو بخاری کتاب المظالم باب شرکت فی الطعام)یعنی وہ مجھ سے ہیں او ر میں ان سے ۔

(۳)حدیث میں ہے:۔ اَنَا مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنِّیْ فَمَنْ اَذٰی مُؤْمِنًا فَقَدْ اَذَانِیْ وَمَنْ اَذَانِیْ فَقَدْ اَذَی اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ

(فردوس الاخبا ر دیلمی صفحہ۱۱باب الف راوی حضرت عبداﷲ بن جرا د ؓ )

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدائے عزّو جلّ سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں۔ پس جو شخص کسی مومن کو ایذا دیتا ہے وہ مجھ کو ایذا دیتا ہے اور جو مجھ کو ایذا دیتا ہے اس نے گویا خدا کو ایذا پہنچائی ۔

(۴)مندرجہ ذیل حدیث اس سے بھی واضح ہے۔ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اَلسَّخِیُّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ۲۹۱سطر ۴ باب الیاء راوی انسؓ بن مالک )آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ سخی مجھ سے ہے اور میں سخی سے ہوں۔‘‘ اس حوالہ میں اﷲ تعالیٰ نے ’’مِنْ‘‘ کا محاورہ انسانوں کے متعلق استعمال فرمایا ہے ۔

(۵)ایک اور حدیث میں ہے۔ ’’اَلْعَبْدُ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَمِنْہُ۔ ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان بحوالہ جامع الصغیر لامام سیوطیؒ باب العین جلد ۲ صفحہ۶۸مصری حدیث نمبر۵۶۶۷)یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام یا بندہ خدا میں سے ہے۔ اور خدا بندے سے ۔

(۶)ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اَبُوْ بَکْرٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطیؒ باب الالف جلد ۱ صفحہ۲۸ حدیث نمبر۷۲)

(۷)ایک اور حدیث ہے:۔’’اِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔ ‘‘

(مسند امام احمد بن حنبلؒ جلد اوّل صفحہ ۴۹۴ مسند عبداﷲ بن عباس بحوالہ کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق مصنفہ امام عبد الرؤف المنادی باب الالف بر حاشیہ جامع الصغیر جلد ۱ صفحہ۶۵مصری )

(۸)ایک حدیث میں ہے:۔’’ بَنُوْ نَاجِیَۃٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ۔ ‘‘

(کنوز الحقائق باب الباء برحاشیہ جامع الصغیر جلد ۱ صفحہ۸۸)

د۔دیگر حوالے :۔

(۱)تفسیر بیضاوی میں آیت (البقرۃ:۲۵۰)کی شرح میں لکھا ہے:۔ ’’اَیْ لَیْسَ بِمُتَّحِدٍ بِ یْ‘‘(بیضاوی زیر آیت بالا )یعنی جو پانی پئے گا اس کا مجھ سے اتحادنہ ہوگا ۔

(۲)تفسیر ابی السعود میں آیت بالا البقرۃ:۲۴۹کے ماتحت لکھا ہے:۔

’لَیْسَ بِمُتَّصِلٍ بِیْ وَمُتَّحِدٍ مَعِیْ مِنْ قَوْلِھِمْ فَلَانٌ مِنِّیْ کَاَنَّہٗ بَعْضُہٗ لِکَمَالِ اخْتِلَاطِھَمَا۔ ‘‘ (برحاشیہ تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ البقرۃ:۲۴۹)

(۳)حدیث کی شرح میں لکھا ہے:۔ قَوْلُہٗ ھُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ۔ یُرَادُ بِہِ الْاِتِّصَالُ اَعْنِیْ ھُمْ مُتَّصِلُوْنَ بِیْ (حاشیہ بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعریین واھل الیمن )کہ اس سے مراد اتصال ہے یعنی وہ میرے قریب ہیں ۔

(۴)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے علم، حسن خلق اور پرہیز گاری کے متعلق فرمایا:۔ ’’ثَلَاثٌ مَنْ لَمْ تَکُنْ فِیْہِ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَا مِنَ اللّٰہِ۔ (معجم الصغیر الطبرانی جلد۱ زیر من اسمہ عبدالوہاب)

(۵) وفیات الاعیان لابن خلکان میں ہے:۔ بَلْ ھٰذَا کَمَا یُقَالُ مَا اَنَا مِنْ فُلَانٍ وَلَافَلَانٌ مِنِّیْ یُرِیْدُوْنَ بِہٖ الْبُعْدُ مِنْہُ وَالْاَنِفَۃُ وَمِنْ ھٰذَا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَدُ الزِّنَا لَیْسَ مِنَّا وَعَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہَُ (وفیات الاعیان ۔ذکر ابو تمام الطائی )کہ ابو تمام کا قول لَسْتُ مِنْ سَعُوْدٍ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے نہیں ہوں ۔اور نہ وہ مجھ سے ہے۔ اہل زبان کی مراد اس سے اس شخص سے بُعد اور نفر ت کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے کہ ولد الزّنا ہم میں سے نہیں اور یہ کہ علیؓ مجھ سے ہے اور میں علیؓ سے ہوں ۔

(۶)عرب شاعر عمرو بن شاش اپنی بیوی سے کہتا ہے ۔ ؂

فَاِنْ کُنْتِ مِنِّیْ اَوْ تُرِیْدِیْنِ صُحْبَتِیْ (دیوان الحماسہ صفحہ۴۳ مکتبہ اشرفیہ۔ قول عمرو بن شاس)

کہ اگر تو مجھ سے ہے اور میری مصاحبت چاہتی ہے ۔

پس اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ کا مطلب یہ ہے کہ تجھے مجھ سے محبت ہے اور مجھے تجھ سے۔ تیرا وہی مقصد ہے جو میرا ہے ۔

(۷)مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسر ی آیت (البقرۃ:۲۵۰)کا ترجمہ اپنی تفسیر ثنائی میں یوں کرتے ہیں :۔ ’’جو شخص اس (نہر) سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہو گا ۔‘‘

(تفسیر ثنائی جلد ۱ تفسیر زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ البقرۃ:۲۴۹)

۲۔ الف۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ
ب۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ

اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ ولدی ۔ تم مجھے سے بیٹوں کی مانند ہو ۔ توحید کا انکار اور اللہ کی توہین ہے۔


جواب:۔۱۔حضرت مرزا صاحبؑ فرماتے ہیں :۔

’’خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۹ حاشیہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’یادرہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کابیٹا ہوں۔ لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیلِ مجاز اور استعارہ میں سے ہے ۔خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے۔ اور فرمایا (الفتح :۱۱)ایسا ہی بجائے قُلْ یٰعِبَادَ اللّٰ ہِ(یعنی کہہ دے اے اﷲ کے بندو! خادمؔ) کے (الزمر:۵۴) (یعنی اے نبی! ان سے کہہ۔ اے میرے بندو!)اور یہ بھی فرمایا (البقرۃ :۲۰۱)پس اس خدا کے کلام کو ہشیاری اور احتیاط سے پڑھو او راز قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ۔ اور یقین رکھو کہ خدا اتخاذ ولد سے پاک ہے اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ (اربعین نمبر ۲ صفحہ۸ بحوالہ براہین احمدیہ صفحہ۴۱۱) (یعنی کہہ دے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس پر وحی ہوتی ہے بیشک تمہارا ایک ہی خدا ہے اور سب خیر وخوبی قرآن میں ہے ۔) (دافع البلاء روحانی خزائن جلد۱۸ حاشیہ صفحہ۶ تذکرہ صفحہ۳۹۷مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

۲۔قرآن مجید میں ہے۔ کہ خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ گویا خدا ہمارا باپ نہیں ہے مگر بمنزلۂ باپ ہے۔ جس طرح ایک بیٹا اپنا ایک ہی باپ مانتا ہے او راس رنگ میں اس کی توحید کا قائل ہوتا ہے۔اسی طرح خدا بھی چاہتا ہے کہ اس کو ’’وحدہٗ لاشریک‘‘ یقین کیا جائے اور جو اس رنگ میں خد ا تعالیٰ کی توحید کا قائل اور اس کے لئے غیرت رکھنے والا ہووہ خداتعالیٰ کو بمنزلہ اولاد ہوگا ۔

۳۔ الہام میں اَنْتَ وَلَدِیْ نہیں بلکہ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ ہے جو صریح طور پر خدا کے بیٹے کی نفی کرتا ہے ۔

۴۔ حدیث میں ہے۔ (الف) ’’اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عَیَالِہٖ ‘‘(مشکوٰۃ کتاب الآداب باب الشفعہ الفصل الثالث )کہ تمام لوگ اﷲ کا کنبہ ہیں۔ پس بہترین انسان وہ ہے جو خدا کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرے ۔

(ب)’’اَنَّ الْفُقَرَآءَ عَیَالُ اللّٰہِ ‘‘ (تفسیر کبیر امام رازی زیرآیت اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ (التوبۃ:۶۰)کہ غرباء خدا کے بال بچے یا کنبہ ہیں۔ (نیز دیکھو جامع الصغیر امام السیوطیؒ مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ۱۲)

۵۔شاہ ولی اﷲ صاحب محدّث دہلوی لفظ ’’ابن اﷲ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:۔ ’’اگر لفظ ابنا بجائے محبوبان ذکر شدہ باشدچہ عجب‘‘ (الفوز الکبیرصفحہ۸)نیز دیکھو الحجۃ البالغۃ باب ۳۶ جلد۱۔ اردو ترجمہ موسومہ بہ شموس اﷲ البازغہ مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہو رجلد ۱صفحہ۱۰۹فرماتے ہیں:۔فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ لَمْ یَفْطَنُوْا الْوَجْہَ التَّسْمِیَّۃَ وَکَادُوْا یَجْعَلُوْنَ الْبُنُوَّۃَ حَقِیْقِیَّۃً۔‘ ‘ یعنی ابتدائی نصاریٰ کے بعد ان کے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے مسیح علیہ السلام کے ابن اﷲ ہونے کی و جہ تسمیہ کو نہ سمجھااور وہ بیٹے کے لفظ سے حقیقی معنوں میں بیٹا سمجھے ۔‘‘

۶۔جناب مولوی رحمت اﷲ صاحب مہاجر مکی اپنی کتاب ’’ازالۃ الاوہام‘‘میں فرماتے ہیں:۔

’’فرزند عبارت از عیسیٰ علیہ السلام است کہ نصارٰی آنجناب را حقیقۃ ابن اﷲ میدانند واہلِ اسلام ہمہ آنجناب را ابن اﷲ بمعنی عزیز وبرگزیدۂ خدامی شمارند ۔‘‘ (ازالۃ الاوہام صفحہ۵۲۰)
کہ فرزند سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو عیسائی خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں مگر تمام اہلِ اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’ابن اﷲ‘‘ بمعنی خدا کا پیارا وبرگزیدہ مانتے ہیں۔ گویا ’’ابن اﷲ‘‘ کے معنی خدا کا پیارا اور برگزیدہ ہوئے۔ اور ان معنون میں مسلمان بھی مسیح کو ابن اﷲ مانتے ہیں ۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۔


اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے ۔



جواب (۱)’’توحید‘‘ اور ’’تفرید‘‘ مصدر ہیں۔ جن کا ترجمہ ہوگا ’’واحد جاننا‘‘ اور ’’یکتا جاننا‘‘۔ پس الہام کا مطلب یہ ہے کہ تُو خدا کو واحد اور یکتا جاننے کے مقام پر ہے۔ یعنی اپنے زمانہ میں سب سے بڑا موحد ہے۔ فلااعتراض؟

(۲)حضرت مرزا صاحب نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں :۔

’’ تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو۔‘‘

(اربعین نمبر ۳۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۱۳)

(۳)حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے :۔

’’تاجِ کرامت میرے سر پر رکھ کر توحید کادروازہ مجھ پر کھول دیا۔ جب مجھ کو میری صفات کے اس کی صفات میں مل جانے کی اطلاع ہوئی تو اپنی خودی سے مشرف فرما کر اپنی بارگاہ سے میرا نام رکھا۔ دُوئی اٹھ گئی اور یکتائی ظاہر ہوگئی۔ پھر فرمایا کہ جو تیری رضا وہی میری رضا ہے ۔……حالت یہاں تک پہنچی کہ ظاہر وباطن سرائے بشریت کو خالی پایا۔ سینۂ ظلمانی میں ایک سوراخ کھول دیا ۔مجھ کو تجرید اور توحید کی زبان دی ۔تو اب ضرور میری زبان لُطفِ صمدی سے اور میرا دل نُورِ ربّانی سے اور آنکھ صنعت یزدانی سے ہے ۔اسی کی مدد سے کہتا ہوں اور اسی کی قوت سے پھرتا ہوں ۔جب اس کے ساتھ زندہ ہوں تو ہرگز نہ مروں گا ۔جب اس مقام پر پہنچ گیا ۔تو میرا اشارہ ازلی ہے اور عبادت ابدی۔ میری زبان، زبانِ توحیدہے اور روح، روحِ تجرید ۔اپنے آپ سے نہیں کہتا کہ بات کرنے والا ہوں اور نہ آپ کہتا ہوں کہ ذکر کرنے والا ہوں۔ زبان کو وہ حرکت دیتا ہے ۔میں درمیان میں ترجمان ہوں۔ حقیقت میں وہ ہے نہ میں۔‘‘

(ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء ۔چودھواں باب۔ ذکر معراج شیخ بایزید بسطامی ؒ مطبوعہ مطبع اسلامیہ لاہور ’’بارسوم‘‘ صفحہ ۱۶۵،۱۵۷۔وتذکر ۃ الاولیاء اردوشائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سننر مطبوعہ مطبع علمی لاہور صفحہ ۱۳۰)

نوٹ :حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کی عظیم شخصیت کے متعلق نوٹ دوسری جگہ زیرِعنوان ’’حجر اسود منم‘‘ صفحہ ۶۶۲و۶۴۶پر ملاحظہ فرمائیں ۔

۴۔اَنْتَ مِنْ مَّآءِ نَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ

اعتراض ۔ انت من ماءنا و ھم من فشل ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے ۔



جواب۱:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کایہ مفہوم بتایا ہے :۔

’’ اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللّٰہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے۔‘‘

(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۵۶ حاشیہ)

۲۔قرآن مجید میں ہے (الانبیاء :۳۸)اس کی تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ:۔

اَنَّہٗ لِکَثْرَۃِ عَجَلِہٖ فِیْ اَحْوَالِہٖ کَاَنَّہٗ خُلِقَ مِنْہُ۔ (جلالین مع کمالین زیرآیت خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ۔ الانبیاء:۳۷)

کہ انسان اپنی مختلف حالتوں میں بڑی جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ گویا کہ اسی سے پیدا ہوا۔ یہ نہیں کہ انسان جلدی کا بیٹا ہے ۔

۳۔خدا کا پانی الہام الٰہی اور محبت الٰہی کو بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے ؂

ایک عالَم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر
پھیر دے اب میرے مولیٰ ا س طرف دریا کی دھار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۲۹)

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔


فَإِنْ شِئْتَ مَاءَ اللّٰہِ فَاقْصِدْ مَنَاہَلِیْ
فَیُعْطِکَ مِنْ عَیْنٍ وَعَیْنُ تُنَوَّرُ


(کرامات الصادقین۔روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۸۱)

اگر تو خدا کا پانی چاہتا ہے تو میرے چشمے کی طرف آ۔پس تجھ کو چشمہ دیا جائے گا ۔نیز وہ آنکھ بھی ملے گی جو نورانی ہوگی۔ (نیز دیکھو درثمین عربی صفحہ۳۳)اس جگہ بھی ’’خدا کے پانی‘‘ سے مراد رضائے الٰہی ہے۔ پس الہام مندرجہ عنوان میں بھی یہی مراد ہے ۔

۵۔رَبُّنَا عَاجٌّ

اعتراض ۔ ربنا عاج ۔ اس الہام میں اللہ تعا لیٰ کی توہین ہے ۔



جواب:۔ یہ لفظ ’’عاج‘‘ (ہاتھی دانت)نہیں بلکہ ’’عاجّ‘‘ بہ تشدید ج ہے جس کا ترجمہ ’’پکارنے والا۔ آواز دینے والا‘‘ ہے۔ یہ لفظ عجسے مشتق ہے۔ دیکھئے لغت میں ’’عَجَّ۔ عَجًّا وَعَجِیْجًا ‘‘ آواز کرد۔ بانگ کرد۔وَمِنْہُ الْحَدِیْثُ اَفْضَلُ الْحَجِّ اَلْعَجُّ وَالثَّجُّ یعنی برداشتن آواز بہ تلبیہ وقربان کردن ہدیہ را (منتہی العرب والفرائد الدرّیہ )کہ عَجَّ۔ عَجًّا وَعَجِیْجًا کے معنے آواز دینے اور پکارنے کے ہیں ۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حج میں افضل ترین آواز دینا (تلبیہ اور لبیک کہنا)اور قربانی دینا ہے۔ الہام کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خدا دنیا کو اپنی طرف بلاتا ہے ۔

۶۔اِسْمَعْ وَلَدِیْ

اعتراض۔ اسمع ولدی ۔ اے میرے بیٹے سن! (البشریٰ جلد ۱صفحہ۴۹) اس میں اللہ کی توہین ہے اور توحید کے خلاف ہے ۔



جواب۔ الف۔یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا کوئی الہام اِسْمَعْ وَلَدِیْ ہے۔ حضرتؑ کی کسی کتاب سے دکھاؤاور انعام لو۔

ب۔حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام تو اَسْمَعُ وَاَرٰی ہے کہ میں اﷲ سنتا بھی ہوں اور دیکھتا بھی ہوں (مکتوبات احمدیہ جلد ۱ صفحہ۲۳۔ نیز انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۵۴)(قرآن مجید کی آیت ہے طٰہٰ :۴۷)

ج۔معترض نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تالیف یا تصنیف نہیں بلکہ بابو منظور الٰہی کی مرتّبہ ہے۔ اس میں انہوں نے جلد ۱ صفحہ۴۹پر حوالہ دیاہے کہ حضرت مرزا صاحب کے مکتوبات جلد ۱ صفحہ۲۳ سے یہ الہام نقل کیا گیا ہے مگر اصل کتاب مکتوبات میں ’’اِسْمَعْ وَلَدِیْ ‘‘ نہیں بلکہ ’’اَسْمَعُ وَاَرٰی ‘‘ ہے ۔بابو منظور الٰہی صاحب کی مرتّبہ کتاب البشرٰی میں کاتب کی غلطی سے وَاَرٰی کی بجائے وَلَدِیْ بن گیا۔ حضرت اقدسؑ کی کسی کتاب میں ’’وَلَدِیْ‘‘ نہیں ہے۔ بابو منظور الٰہی صاحب نے ’’الفضل‘‘ جلد ۹ صفحہ۹۶ میں اس غلطی کا اعتراف کیا ہے کہ البشریٰ جلد ۱ صفحہ۴۹ سطر ۱۰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاالہام غلطی سے اَسْمَعُ وَاَرٰیکی بجائے اِسْمَعْ وَلَدِیْ چھپا ہے اور ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے ۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۷۔اَنْتَ اِسْمِیَ الْاَعْلٰی

اعتراض ۔ انت اسمی الاعلیٰ ۔ یعنی تو میرا سب سے بڑا نام یعنی خدا ہے ۔ یہ اللہ کی توہین ہے ۔



جواب۱ :۔ ترجمہ غلط ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس کا ترجمہ کر دیا ہے۔ ’’ تو میرے اسم اعلیٰ کا مظہر ہے یعنی ہمیشہ تجھ کو غلبہ ہوگا۔‘‘(تریاق القلوب ۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۳۱۵)

۲۔گویا اس الہام میں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ اﷲ اورا س کے رسول ہی غالب رہیں گے ۔
۳۔حضرت غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو مندرجہ ذیل الہام الٰہی ہوا :۔

’’فَجَآءَ الْخِطَابُ مِنَ الرَّبِّ الْقَدِیْرِ اُطْلُبْ مَاتَطْلُبُ فَقَدْ اَعْطَیْنٰکَ عِوَضًا عَنْ اِنْکِسَارِ قَلْبِکَ……فَجَآءَ ہُ الْخِطَابُ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْقَدِیْرِ جَعَلْتُ اَسْمَآءَ کَ مِثْلَ اَسْمَآئِیْ فِی الثَّوَابِ وَالتَّاثِیْرِ وَمَنْ قَرَأَ اِسْمًا مِنْ اَسْمَآءِ کَ فَھُوَ کَمَنْ قَرَأَ اِسْمًا مِنْ اَسْمَآئِیْ ‘‘(رسالہ حقیقۃ الحقائق بحوالہ کتاب مناقب تاج الاولیاء و برہان الاصفیاء القطب الربّانی والغوث الصمدانی عبدالقادر الکیلانی۔مصنفہ علامہ عبدا لقادر بن محی الدین الاربلی مطبوعہ مطبع عیسیٰ البانی الحلبی مصر صفحہ۱۷)اﷲ تعالیٰ نے حضرت سید عبدا لقادر رحمۃ اﷲ علیہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ :۔

’’تیرے دل کے انکسار کے باعث میں تجھے یہ کہتا ہوں کہ جو تو چاہتا ہے مانگ وہ میں تجھے دوں گا……پھر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ (اے عبدا لقادر!) میں نے ثواب اور تاثیر میں تیرے ناموں کو اپنے ناموں کی طرح بنا دیا ہے پس جو شخص تیرے ناموں میں سے کوئی نام لے گا گویا اس نے میرا نام لیا ۔‘‘

۴۔حضرت محی الدین ابن عربی ؒ اپنی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’حضرت امیر المومنین اما م المتقین علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ…… خطبہ لوگوں کو سنا رہے تھے کہ میں ہی اسم اﷲ سے لفظ دیا گیا ہوں اور میں ہی اس اﷲ کا پہلو ہوں جس میں تم نے افراط وتفریط کی ہے۔ اور میں ہی قلم ہوں اور میں ہی لوحِ محفوظ ہوں۔ اور میں ہی عرش ہوں۔ اور میں ہی کرسی ہوں۔ او رمیں ہی ساتوں آسمان ہوں۔ اور میں ہی ساتوں زمین ہوں۔ ‘‘
(فصوص الحکم مترجم اردو شائع کردہ شیخ جلا ل الدین سراج دین تاجران کتب لاہور ۱۳۲۱ھ مطبوعہ مطبع مجتبائی صفحہ۶۰ و۶۱ مقدمہ فصل ششم ’’عالم انسانی کی حقیقت ‘‘)

۵۔’’اسم‘‘ کے معنے اس الہام میں ’’صفت‘‘ کے ہیں ۔جیسا کہ اس حدیث میں ’’اِنَّ لِیْ اَسْمَآءً……اَنَاالْمَاحِیُ ‘‘کہ میرے کئی نام ہیں……میں مآحی ہوں جس سے کفر کو مٹایا جائے گا۔ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفت ہے۔پس اس الہام میں اس صفت کی طرف اشارہ ہے جو ’’اَعْلٰی‘‘ یعنی سب پر غالب آنے والی ہے ۔چونکہ ہر نبی خدا کی اس صفت کا مظہر ہوتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس صفت کا مظہر قرار دیا ہے ۔

۸۔اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ

اعتراض ۔ اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک ۔ یعنی جو مرضی کرتا رہ تیرے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں۔


جواب:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ لَعَلَّّ اللّٰہَ اِطَّلَعَ عَلٰی ٰاَھْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ (بخاری کتا ب المغازی باب فَضْلِ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا۔ومسلم کتاب الفضائل باب فضائل اہل بدر ومشکوٰۃ مجتبائی صفحہ۵۷۷)کہ اﷲ تعالیٰ اہل بدر پر واقف ہوا۔ اور کہا کہ جو چاہو کرو۔ اب تم پر جنت واجب ہوگئی یا یہ فرمایا کہ میں نے تم کو بخش دیا۔

ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے مقبولوں پر ایک وہ حالت آتی ہے جب بدی اور گناہ سے ان کو انتہائی بُعد ہوجاتا ہے اور اس پر انتہائی کراہت ان کی فطرت میں داخل کردی جاتی ہے ۔فلا اعتراض

۲۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کی تفسیر فرمادی ہے ۔

’’اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیات شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئے ہیں اور اعمال صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم ۔روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۶۶۹بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ نیز الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۴)

۹۔کُنْ فَیَکُوْنُ

اعتراض۔ کن فیکون ۔ یہ الہام تو خدائی کا دعویٰ ہے



یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تو ہے مگر اس کے پہلے ’’قُلْ‘‘ محذوف ہے۔ جس طرح سورۃ الفاتحہ کے پہلے ’’قُلْ‘‘ محذوف ہے۔ یعنی یہ خداتعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا ہے۔ یہ اعتراض تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی آریہ کہہ دے کہ دیکھو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا بھی میری عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ خدا اس کو کہتا ہے۔ ۔ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۲۳،۱۲۴)

۲۔اگر مندرجہ بالا جواب تسلیم نہ کرو تو حضرت ’’پیرانِ پیر‘‘ جناب سید عبدا لقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ارشاد پڑھ لو :۔

الف۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ بَعْضِ کُتُبِہٖ یَا ابْنَ اٰدَمَ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا اَقُوْلُ لِلشَّیْءِ کُنْ فَیَکُوْنُ وَ اَطِعْنِیْ اَجْعَلُکَ تَقُوْلُ لِلشَّیْءِ کُنْ فَیَکُوْنُ وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ بِکَثِیْرٍ مِّنْ اَنْبِیَآئِہٖ وَ اَوْلِیَاءِ ہٖ وَخَوَاصِہٖ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ۔‘‘
(فتوح الغیب مقالہ نمبر ۱۶ وبرحاشیہ قلائد الجواہر فی مناقب الشیخ عبد القادر مطبوعہ مصر صفحہ۳۱)

ب۔ثُمَّ یَرُدُّ عَلَیْکَ التَّکْوِیْنُ فَتَکُوْنُ بِالْاِذْنِ الصَّرِیْحِ الَّذِیْ لَاغَبَارَعَلَیْہِ۔ (ایضاً)

ہر دو عربی عبارٹوں کا ترجمہ ندائے غیب ترجمہ اردو فتوح الغیب مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور کے صفحہ۲۴ پر یہ درج ہے :۔

’’اﷲ تعالیٰ نے بعض کتابوں میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے بنی آدم میں اﷲ ہوں اور نہیں میرے سوا کوئی دوسرا معبود۔ میں جس چیز کو کہتا ہوں کہ ہو جا ۔وہ ہوجاتی ہے۔ تُو میری فرمانبرداری کر تجھے بھی ایسا ہی کردوں گا کہ جس چیز کو توکہے گا ہوجا۔ وہ ہوجائے گی۔ اور اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم سے کئی نبیوں اور ولیوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے ۔
غرضیکہ اس کے بعد تجھ کو درجہ تکوین (یعنی کُنْ فَیَکُوْنُ کرنے کا۔ خادم ؔ) عطا ہوگا۔ اور تو اپنے ہی حکم اور اذنِ صریح سے پیدا کر سکے گا ۔‘‘ (ندائے غیب صفحہ۲۴ مترجم صفحہ ۳۲از سید عبدالقادر جیلانی ؒ)

۳۔جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۰۔لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ

اعتراض ۔ لو لاک لما خلقت الافلاک ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہے ۔


جواب :۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح فرماتے ہیں :۔

۱۔’’ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگا یا جاتا ہے اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۲ حاشیہ)
۲۔حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم سیّد عبدا لقادر جیلانی رحمۃاﷲ علیہ اولیاء اﷲ اور واصل باﷲ لوگوں کی تعریف میں فرماتے ہیں جو فتوح الغیب میں درج ہے۔ ’’بِھِمْ ثَبَاتُ الْاَرْضِ وَالسَّمَآءِ وَقَرَارُ الْمَوْتٰی وَالْاَحْیَآءَ اِذْ جَعَلَھُمْ مَلِیْکَھُمْ اَوْتَادًا لِلْاَرْضِ الَّتِیْ دَحَی فَکُلٌّ کَالْجَبَلِ الَّذِیْ رَسَا ۔ ‘‘ (فتوح الغیب مقالہ ۱۴ آخری سطور نیز قلائد الجواہر حاشیہ صفحہ۲۸)

ترجمہ :۔ انہیں ہی کی وجہ سے زمین وآسمان اور زندوں اور مردوں کا قیام ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو گستردۂ زمین کے لئے بطور میخ کے بنایا ہے اور ان میں سے ہر ایک کوہِ وقار ہے ۔
(ندائے غیب ترجمہ از اردو فتوح الغیب صفحہ۲۲مترجم ۲۹از سید عبدالقادر جیلانی ؒ)

۳۔حضرت سیّد عبدا لقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں :۔

’’بِھِمْ تَمْطُرُ السَّمَآءُ وَتُنْبِتُ الْاَرْضُ وَھُمْ شَمِنُ الْبَدْوِ وَالْعِبَادِ بِھِمْ یُدْفَعُ الْبَلَاءُ عَنِ الْخَلْقِ ‘‘ (رسالہ الفتح الربانی والفیض الرحمانی کلام الشیخ عبد القادر جیلانی مطبوعہ میمینہ مصر جلد ۱۲،۱۴)یعنی انہی اولیاء اﷲ ہی کی وجہ سے آسمان بارش برساتا اور زمین نباتات اگاتی ہے اور وہ ملکوں اور انسانوں کے محافظ ہیں اور انہی کی وجہ سے مخلوقات پر سے بلا ٹلتی ہے ۔

۴۔حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’ایشاں امانِ اہل ارض اند وغنیمتِ روزگار اند۔ بِھِمْ یُمْطَرُوْنَ وَبِھِمْ یُرْزَقُوْنَ درشانِ شاں است ۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی جلد ۲ مکتوب نمبر ۹۲)

۵۔ڈاکٹر سر محمد اقبال فرماتے ہیں :۔
عالَم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو ’’صاحب ِلولاک‘‘ نہیں ہے

(بالِ جبریل صفحہ نمبر۱۰)

پھر فرماتے ہیں ؂

جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی
مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک

(بالِ جبریل صفحہ نمبر۴۶)

۱۱۔ رَأَیْتُنِیْ فِی الْمَنَامِ عَیْنَ اللّٰہِ۔

اعتراض۔ رایتنی فی المنام عین اللہ ۔ (آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۴)
’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔‘‘ (کتاب البریہ۔رحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۰۳)



جواب :۔یہ خواب ہے اور خواب کوظاہر پر محمول کرنا ظلم ہے (حضر ت یوسفؑ کا خواب )اگر کہو کہ خواب میں بھی ایسا کام نبی نہیں کر سکتا جو بیداری میں ناجائز ہوتو اس کے لئے مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث پڑھو۔
الف۔’’رَأَیْتُ فِیْ یَدَیَّ سَوَارَیْنِ مِنْ ذَھَبٍ ‘‘ (مسلم کتاب الرؤیا باب رؤیا النبیؐ)
ب۔’’اِنَّ رَسُوْلَ اللَّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَیْنَنَا اَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ فِیْ یَدَیَّ سَوَارَیْنِ مِنْ ذَھَبٍ۔ ‘‘(بخاری کتاب الرؤیا باب النفخ فی المنام)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے ہیں۔ بیداری میں سونا مرد کے لئے پہننا ناجائز ہے ۔
ج۔حضرت امام اعظم یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے بارہ میں حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

(۱)’’ایک رات خواب میں دیکھا کہ آپ( امام ابو حنیفہؒ) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی استخوان مبارک (یعنی ہڈیاں ۔خادم ؔ) لحد میں سے جمع کر رہے ہیں۔ان میں سے بعض کو پسند کرتے تھے اور بعض کو ناپسند ۔چنانچہ خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہوئے اور ابن سیرین کے ایک رفیق سے خواب کوبیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ خواب نہایت مبارک ہے تم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے علم اور حفظِ سنت میں اس حد تک پہنچ جاؤگے کہ صحیح کو غیر صحیح سے علیحدہ کر وگے ۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء اٹھارواں باب صفحہ۱۴۵ و۱۴۶ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز مطبوعہ علمی پریس لاہور وظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ۱۸۳ شائع کردہ حاجی چراغ دین سراج دین مطبوعہ جلال پرنٹنگ پریس لاہور )

(۲)اسی سلسلہ میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’پھر ایک رات انہوں(حضرت امام اعظم ؒ)نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہڈیاں مبارک آپ کی لحد سے جمع کرتے تھے اور ان میں سے بعض کو اختیار کرتے تھے ۔ہیبت کے سبب خواب سے بیدار ہوئے ۔ایک اصحاب محمد ابن سیرین نام سے تعبیر پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے علم اور جناب ؐ کی سنت کی حفاظت میں تُو بہت بڑے درجہ تک پہنچے گا۔ یہاں تک کہ اس میں تیرا تصرف ہوجائے گا کہ صحیح اور غلط میں فرق کرے گا ۔‘‘

(کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش محمد جلال الدین تاجران کتب کشمیری بازار لاہور ۱۳۲۲ھ صفحہ۱۰۶)

۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے آگے ہی تعبیر بھی لکھی ہے اس کو کیوں حذف کرتے ہو۔’’وَ لَا نَعْنِیْ بِھٰذِہِ الْوَاقِعَۃِ کَمَا یُعْنٰی فِیْ کُتُبِ أَصْحَابِ وَحْدَۃِ الْوَجُوْدِ وَ مَا نَعْنِیْ بِذَالِکَ مَا ھُوَ مَذْھَبُ الْحُلُوْلِیِّیْنَ، بَلْ ھٰذِہِ الْوَاقِعَۃُ تَوَافِقُ حَدِیْثَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْنِیْ بِذَالِکَ حَدِیْثِ الْبُخَارِیِّ فِیْ بِیَانِ مَرْتَبَۃِ قُرْبِ النَّوَافِلِ لِعِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًًؓغ‘‘(آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۶نیز دیکھو تذکرہ صفحہ ۱۹۱تا ۱۹۶)کہ میں اس خواب سے وحدت الوجود یوں کی طرح یہ معنی نہیں لیتا کہ گویا میں خود خدا ہوں۔ اور نہ حلولیوں کی طرح یہ کہتا ہوں کہ خدا مجھ میں حلول کر آیابلکہ میرے خواب کا وہی مطلب ہے جو بخاری کی قربِ نوافل والی حدیث کا مطلب ہے کہ جب میرا بندہ نوافل میں میرے آگے گرتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے ۔پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔‘‘

(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)

۳۔نیز تعطیر الانام فی تعبیر المنام مؤلفہ علامہ سیّد عبد الغنی النابلسی مطبوعہ مصر میں جو تعبیر خواب کی بہترین کتاب ہے، لکھا ہے: ۔

مَنْ رَأَی فِی الْمَنَامِ کَاَنَّہٗ صَارَ الْحَقَّ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی اِھْتَدٰی اِلٰی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ صفحہ۹۔ کہ جو شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ خدابن گیاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب خدا تعالیٰ اس کو ہدایت کی منزل مقصود تک پہنچائے گا ۔

(یہ حوالہ تعطیر الانام کے نسخہ مطبوعہ مطبع حجازی قاہرہ کے صفحہ۹۰ پر ہے )
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۲۔زمین اور آسمان کو بنایا

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے کہا کہ زمین و آسمان کو بنایا ۔



جواب نمبر۱:۔یہ بھی مندرجہ بالاکشف ہی کا حصہ ہے اور حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی خواب کے ضمن میں لکھا ہے کہ میں نے خواب ہی میں زمین وآسمان بنایا اور اس کی تعبیر بھی حضور ؑ نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ۵۶۶ پر اس خواب کو نقل فرما کر یہ تحریر کی ہے ۔

’’اِنَّ ھٰذَا الْخَلْقَ الَّذِیْ رَأَیْتُہُ إِشَارَۃً اِلٰی تَائِیْدَاتِ سَمَاوِیَّۃٍ وَ أَرْضِیَّۃٍ ‘‘کہ یہ زمین وآسمان جو میں نے خواب میں دیکھے ہیں ۔یہ تو اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ آسمانی اور زمینی تائیدات میرے ساتھ ہوں گی ۔

نمبر۲:۔پھر آپ اپنی کتاب چشمہ مسیحی صفحہ۳۵ حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں :۔
’’ایک دفعہ کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا۔ اور پھر مَیں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے۔ اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے۔‘‘

(چشمہ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۷۵،۳۷۶حاشیہ)

نمبر۳: پھر فرمایا :۔’’ خدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے۔ وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا۔ اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اِذن سے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۷)

’’ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۲)

(۴)انہی معنوں میں یہ محاورہ کتب سابقہ انجیل میں بھی مستعمل ہوا ہے ۔

’’اس وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی ۔ ‘‘ (۲۔پطرس باب۳ آیت۱۳)

جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم فرماتے ہیں ؂

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر

اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

(ضربِ کلیم نظم بہ عنوان ’’عالم نو‘‘)

۱۳ ۔ابن مریم بننے کی حقیقت

اعتراض ۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے فرمایاکہ مجھے حیض ہوا ، حمل ہوا اور درد زہ ہوئی اور میں مریم سے عیسیٰ علیہ السلام بن گیا۔



حیض ،حمل اور در د زِہ کی تشریح

بخاری میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث ہے :۔

’’مَامِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ اِلَّا وَالشَّیْطَانُ یَمَسُّہٗ حِیْنَ یُوْلَدُ فَیَسْتَھِلُّ صَارِخًا مِنْ مَّسِّ الشَّیْطَانِ اِیَّاٗہ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَھَا (بخاری کتاب التفسیر باب و انی اعیذھا بک…… کتاب بدء الخلق باب قول اللّٰہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم )کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو بوقتِ ولادت شیطان مس کرتا ہے اور بچہ جب اسے مسِّ شیطان ہوتا ہے تو وہ چیختا ہے، چلاتا ہے۔ مگر مریم اور ابن مریم کو مسِّ شیطان نہیں ہوتا ۔

اس پر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صرف ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ ہی مسِّ شیطان سے پاک ہیں تو پھر کیا باقی انبیاء کو عموماً اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خصوصاً مسِّ شیطان ہوا تھا ؟ اس کا جواب علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں یہ دیا ہے:۔ ’’مَعْنَاہُ اِنَّ کُلَّ مَوْلُوْدٍ یَطْمَعُ الشَّیْطَانُ فِیْ اَغْوَائِہٖ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَھَا فَاِنَّھُمَا کَانَا مَعْصُوْمَیْنِ وَکَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ کَانَ فِیْ صِفَتِھِمَا۔ ‘‘(تفسیر کشاف زیر آیت واذکر فی الکتاب مریم)کہ اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ شیطا ن ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سوائے مریم اور ابن مریم کے۔ کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اور اسی طرح ہر وہ بچہ (بھی اس میں شامل ہے) جو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہے ۔

گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث میں مریمؔ اور ابن مریم سے صرف دو انسان ہی مراد نہیں ۔بلکہ دو قسم کے انسان مرا د ہیں۔ گویا جو مریمی صفت میں اور ابن مریمی صفت میں مومن اور انبیاء ہوں وہ سب ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ کے نام سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یاد کئے گئے ہیں ۔ان صفات کی مزید تشریح قرآن مجید میں ہے :۔

(التحریم: ۱۲،۱۳) کہ اﷲ تعالیٰ نے مومن مردوں کی مثال فرعون کی بیوی (آسیہ) کے ساتھ دی ہے۔ جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے ربّ! میرے لیے جنت میں گھر بنا اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور ان ظالموں کی قوم سے مجھ کو رہائی بخش ۔نیز (خدا نے مثال دی ہے مومن مردوں کی) مریم بنت عمران کے ساتھ جس نے اپنی شرمگاہ کی پوری حفاظت کی۔ پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور وہ خدا کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہوئی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی ۔

ان آیات سے ماقبل کی ملحقہ آیا ت میں کافر مردوں کو دو عورتوں نوحؑ اور لوط علیہما السلام کی بیویوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔کیونکہ ان کے خاوند مومن تھے مگر وہ دونوں کافرہ تھیں۔ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ مومن دو قسم کے ہوتے ہیں (۱)آسیہ( زو جہ فرعون )صفت(۲)مریمی صفت پہلے وہ مومن جو کفر کے غلبہ کے نیچے دب چکے ہوں اور وہ اس سے نجات پانے کے لیے دست بدعا ہوں۔ اور دوسرے وہ مومن جن پر روزِ ازل سے ہی بدی غلبہ نہ پاسکی۔ (الانبیاء :۹۲) یہ دوسری قسم کا مومن قرآنی اصطلاح میں ’’مریم‘‘ کہلاتا ہے۔ پھر وہ مریمی حالت سے ترقی کرکے ( ۔الانبیاء:۹۲)کے مطابق ’’ابن مریم‘‘ کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ مقام مریمی صدیقیت ہے اور مقامِ ابن مریم مقامِ نبوت۔ گویا ہر نبی پر دو زمانے آتے ہیں۔ پہلے وہ مقامِ مریمی میں ہوتا ہے او ر اسی حالت کے متعلق قرآنِ مجید نے (یونس:۱۷)میں اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس مریمی حالت سے ترقی کرکے نبوت کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں وہ مسِّ شیطان سے پاک ہوتا ہے۔ یہی معنی ہیں بخاری کی مندرجہ عنوان حدیث کے۔

سورۃ تحریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح حضرت مریم صدیقہؑ اپنی پاکیزگی کے انتہائی مقام پر پہنچ کر حاملہ ہوئیں اوراس حمل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو خدا کے نبی تھے پیدا ہوئے۔ اسی طرح ایک مومن مرد بھی پہلے مریمی حالت میں ہوتا ہے اور پھر ایک روحانی اور مجازی حمل سے گذرتا ہوا مجازی ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ مومن مرد مجاز اور استعارہ کے رنگ میں ’’مریم‘‘ ہوتا ہے اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں حمل سے گزرتا ہے۔ او رمجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے ۔خد اتعالیٰ نے تمام کافروں اور مومنوں کو چار عورتوں ہی سے تشبیہدی ہے۔ مرد عورتیں تو نہیں ہاں استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ان کو عورتیں قرار دیا گیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ حضرت شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عباسیہ طوسی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

’’قیامت کے دن جب آواز آئے گی کہ اے مردو! تو مردوں کی صف میں سے سب سے پہلے حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کا قدم پڑے گا۔ ‘‘
(تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت رابعہ بصری نواں باب صفحہ۵۱شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہور وظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ۵۵)

اسی نکتۂ معرفت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں اشارہ فرمایا ہے ؂

مدّتے بودم برنگِ مریمی دست نادادہ بہ پیرانِ زِمی
بعد ازان آن قادر و ربّ مجید رُوح عیسیٰ اندران مریم دمید
پس بہ نفخش رنگ دیگر شد عیان زاد زان مریم مسیح این زمان

(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۵۲)

پھر فرمایا ’’یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۴۸)

اس موقعہ پر ’’کشتی نوح‘‘ کی اصل عبارت سیاق وسباق کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔

۱۴۔روحانی حمل

روحانی حمل اور معنوی حمل کے لئے مندرجہ ذیل حوالے یاد رکھنے چاہئیں :۔

۱۔ ’’اَلْخَوْفُ ذَکَرٌوَالرِّجَاءُ اُنْثٰی مِنْھُمَا یَتَوَلَّدُحَقَائِقُ الْاِیْمَانِ۔ ‘‘

(التعرف لمذھب اھل التصوف قولھم فی التقویٰ صفحہ ۹۸)

مشہور صوفی حضرت سہل رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ خوف مذکر اور امید مونث ہے اور ان دونوں کے ملنے سے حقائقِ ایمان پیدا ہوتے ہیں۔

۲۔اسی طرح سے امام الطائفہ الشیخ سہروردی فرماتے ہیں:۔

’’یَسِیْرُ الْمُرِیْدُ جُزْءَ الشَّیْخِ کَمَا اَنَّ الْوَلَدَ جُزْءُ الْوَالِدِ فِی الْوَلَادَۃِ الطَّبْعِیَّۃِ وَتَصِیْرُ ھٰذِہِ الْوَلاَدَۃُ اٰنِفًا وَّلَادَۃً مَعْنَوِیَّۃً۔ ‘‘ (عوارف المعارف جلدا صفحہ ۴۵)

۳۔قرآن مجید میں ’’حمل‘‘ کا لفظ خداتعالیٰ کے متعلق بھی ہے۔ فرمایا :۔ (مریم: ۵۹) پھر مومنوں کے متعلق بھی آیا ہے۔ (البقرۃ: ۲۸۷) یہاں ’’حمل‘‘ اٹھانے کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ پس محض لفظ ’’حمل‘‘ پر مذاق اڑانا جائز نہیں ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے صاف طور پر لکھ دیا ہے :۔

’’استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا ۔‘‘ (کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۵۰)

اور ’’حمل‘‘ کے لفظ سے حقیقی اور عام معنے مراد نہیں لئے گئے بلکہ ’’حاملِ صفتِ عیسوی‘‘ مراد لیا ہے فرمایا:۔

’’مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۴۸)

توپھر اس پر بے وجہ مذاق اڑانا شرافت سے بعید ہے ۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۵۔حیض

مندرجہ ذیل حوالے پڑھو۔

۱۔’’کَمَا اَنَّ لِلنِّسَآءِ مَحِیْضًًا فِی الظَّاھِرِ وَھُوَ سَبِبُ نُقْصَانِ اِیْمَانِھِنَّ لِمَنْعِھِنَّ عَنِ الصَّلٰوۃِ وَالصَّوْمِ فَکَذٰلِکَ لِلرِّجَالِ مَحِیْضٌ فِی الْبَاطِنِ ھُوَ سَبَبُ نُقَصَانِ اِیْمَانِھِمْ لِمَنْعِھِمْ عَنْ حَقِیْقَۃِالصَّلٰوۃِ۔ ‘‘(روح البیان زیرآیت وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ وَاتَّقُوااللّٰہَ ……الخ البقرۃ:۲۲۳) کہ جس طرح عورتوں کو ظاہر میں حیض آتا ہے جو ان کے ایمان میں نقص کا موجب ہوتا ہے ان کو نماز اور روزہ سے روک کر۔ اسی طرح مردوں کو بھی باطن میں حیض آتا ہے اور وہ ان کے ایمان میں نقص پیدا کرتا ہے ان کو نماز کی حقیقت سے ناواقف کرنے کے سبب۔ گویا وہ شخص جو حقیقتِ نماز سے بے بہرہ ہو صوفیا کی اصطلاح میں کہیں گے کہ اسے حیض ہے ۔

۲۔ ’’جیسے عورتوں کو حیض آتا ہے ایسا ہی ارادت کے رستہ میں مریدوں کو حیض آتا ہے اور مریدوں کے رستہ میں جو حیض آتا ہے تو وہ گفتار کے رستہ سے آتا ہے اور کوئی مرید ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس حیض میں ٹھرا رہتا ہے اور کبھی اس سے پاک نہیں ہوتا ۔‘‘
(انوار الازکیا ء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مصنفّہ شیخ فریدالدین عطارؒ مطبع مجیدی کانپور صفحہ ۴۵۰ درذکر ابو بکر واسطیؒ)

نوٹ:۔ غیر احمدیو ں نے اب جو نیا ترجمہ تذکرۃالاولیاء کا شائع کیا ہے اس میں سے یہ عبارت نکال دی ہے۔ مگر ۱۹۲۸ ء سے پہلے چھپے ہوئے ترجموں میں یہ عبارت موجود ہے۔ گویا کی مماثلت کو پورا کیا ہے۔ خادمؔ

۳۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریرفرماتے ہیں:۔

’’ایک دفعہ آپ(حضرت بایزید بسطامیؒ)مسجد کے دروازہ پر پہنچ کر کھڑے ہوگئے اور رونے لگے۔لوگوں نے و جہ پوچھی تو فرمایا کہ میں اپنے آپ کو حیض والی عورت کی مانند پاتا ہوں جو مسجد میں جانے سے بو جہ اپنی ناپاکی کے ڈرتی ہے۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء چودھواں باب ذکر خوا جہ با یزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنزصفحہ ۱۰۸ و ظہیر ا لاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ دین سراج دین صفحہ ۱۰۸)

حضرت بایزید بسطامی ؒ کی عظیم شخصیت

یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ وہ عظیم الشان انسان ہیں کہ جن کی نسبت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیغور بن علی بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا، ا س کی شان بہت بڑی ہے۔اس حد تک کہ جنیدؔ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ یعنی ابو یزید ہمارے درمیان یسا ہے جیسا کہ جبریل ؑ فرشتوں میں…… اس کی روایتیں بہت بلند ہیں جن میں احادیث پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔اور تصوّف کے دس اماموں سے ایک یہ ہوئے ہیں۔اور اس سے پہلے علمِ تصوّف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا ۔اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ ہوا ہے‘‘۔

(کشف المحجوب باب ’’ذکر ان تابعین کا جو مشائخ طریقت کے امام ہوئے ہیں۔‘‘ ترجمہ اردو مطبوعہ ۱۳۲۲ھ صفحہ ۱۲۲)

۴۔بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ کیا کسی نبی نے بھی حیض کا لفظ مردوں کی طرف منسوب کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں مندرجہ ذیل حدیث یاد رکھنی چاہیے ۔حدیث میں ہے۔اَلْکَذِبُ حَیْضُ الرَّجُلِ وَالْاِسْتَغْفَارُ طَھَارَتُہٗ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۶۱ سطر۱۷ ۔راوی سلمانؓ)یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ مرد کا حیض اور استغفار اس کی طہارت ہے۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا مطلب صرف یہ ہے کہ دشمن تجھ کو جھوٹ یا کسی اور بدی میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے تجھ میں کوئی بدی اور گندگی نہیں۔

۵۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کہیں نہیں لکھا کہ مجھے’’ حیض ‘‘آیا۔بلکہ آپ نے تو اس بات کی نفی کی ہے۔
۶۔حضور ؑ نے لفظ ’’حیض‘‘ کی نفی کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کا مفہوم بھی بیان کیا ہے:۔

’’یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (اربعین نمبر۴۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۵۲ بقیہ حاشیہ)

گویا یہاں عورتوں والا حیض مراد نہیں بلکہ’’مردوں والا حیض ‘‘مراد ہے جیسا کہ حوالہ نمبر۱و۲و۳ وغیرہ میں صوفیاء کرام کی تحریرات اور حدیث شریف سے دکھایا جاچکا ہے۔

۱۶۔دردزہ

اسی طرح دردِزِہ کا محاورہ ہے جو ’’تکلیف ‘‘ اور ’’مصیبت‘‘ کے معنوں میں ہزار ہا سال سے مردوں کے متعلق بھی بولا جاتا رہا ہے۔

۱۔خود حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔’’مخاض‘‘ دردِزِہ سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔بامحاورہ ترجمہ یہ ہے۔’’ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۶۹ بقیہ حاشیہ نیز دیکھو کشتی نوحؑ حاشیہ صفحہ ۷۴)

۲۔انجیل میں ہے :۔’’کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی اور دردِزِہ میں پڑی تڑپتی ہے‘‘ (رومیوں۸/۲۲)
۳۔تورات میں ہے ۔خدا کہتا ہے :۔’’میں بہت مدت سے چپ رہا ۔میں خاموش ہو رہا اور اپنے کو روکتا رہا ۔مگر اب میں اس عورت کی طرح جس کو دردِزِہ ہو چلاؤں گا اور ہانپوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا‘‘ (یسعیاہ ۴۲/۲۴)
(تفصیل دیکھو صداقت مسیح موعود ؑ پر عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب صفحہ ۹۲)

موجودہ انجیل و تورات خدا کا کلا م ہوں یا نہ ہوں مگر محاورہ تو ماننا پڑے گا کہحضرت مرزاصاحب علیہ السلام نے ایجاد نہیں کیا بلکہ پہلی کتابوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ پھر اس پر اعتراض کیا ہے۔ خصوصاً جبکہ حضرت اقدس ؑ نے خود ہی تشریح فرمادی ہے۔

۱۷۔کشف سُرخی کے چھینٹے

جواب ۱۔خواب میں خدا تعالیٰ کو انسانی صورت میں دیکھنا جائز ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’رَأَیْتُ رَبِّیْ فِیْ صُوْرَۃِ شَابٍ اَمْرَدَ قِطَۃٌ لَہٗ وَفْرَۃٌ مِنْ شَعْرٍ وَ فِیْ رِجْلَیْہِ نَعْلَانِ مِنْ ذَھَبٍ۔ ‘‘(الیواقیت والجواہر از علامہ عبدالوہاب الشعرانیؓ جلد۱صفحہ ۷۱ طبرانی و موضوعات کبیر از ملّا علی قاری حرف الرّا مطبع اصح المطابع کراچی) کہ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان بے ریش لڑکے کی صورت میں دیکھا۔اس کے لمبے لمبے گھنے با ل ہیں ۔اور اس کے دونوں پاؤں میں سونے کی جوتیاں ہیں ۔

یہ حدیث صحیح ہے ۔ ملّا علی قاری ؒ جیسے جلیل القدر محدث نے اسے درج کر کے اس کی تائید میں یہ قول نقل کیا ہے۔’’حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا یُنْکِرُہٗ اِلاَّالْمُعْتَزَلِیُّ۔ ‘‘(موضوعات کبیر صفحہ ۴۶مطبع اصح المطابع کراچی) کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور اس سے سوائے معتزلی کے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا۔اس حدیث کے معنی ملاّ علی قاریؒ نے کئے ہیں۔’’اِنْ حُمِلَ عَلَی الْمَنَامِ فَلَا اَشْکَالَ فِی الْمَقَامِ۔ ‘‘ (موضوعات کبیر صفحہ ۴۶مطبع اصح المطابع کراچی)

(نوٹ:۔ موضوعات کے بعض ایڈیشنوں میں یہ حدیث اس کے متعلقہ حوالجات صفحہ ۳۹ پر ملتے ہیں) یعنی اگر اس واقعہ کو خواب پر محمول کیا جائے توپھر کوئی مشکل نہیں رہتی ۔بات صاف ہوجاتی ہے۔

۲۔حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی پیرانِ پیر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔

’’رَأَیْتُ رَبَّ الْعِزَّۃِ فِی الْمَنَامِ عَلٰی صُوْرَۃِ اُمِّیْ۔ ‘‘ (بحر المعانی صفحہ ۶۴)

یعنی میں نے خدا کو اپنی والدہ کی صورت میں دیکھا ۔

۳۔جناب مولوی محمد قاسم صاحب ؒ (نانوتوی بانی ٔ دیوبند ) نے ایامِ طفلی میں یہ خواب دیکھا کہ گویا میں اﷲ جلّ شانہٗ کی گود میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ان کے دادا نے یہ تعبیر فرمائی کہ تم کو اﷲ تعالیٰ علم عطا فرمائے گا اور بہت بڑے عالم ہوگے اور نہایت شہرت حاصل ہوگی۔

(سوانح عمری مولوی محمد قاسم صاحب ؒ مؤلّفہ مولوی محمد یعقوب نانوتوی صفحہ ۳۰)

۴:۔پھر لکھا ہے:۔ ’’اِنَّکَ تَرٰی فِی الْمَنَامِ وَاجِبُ الْوُجُوْدِ الَّذِیْ لَا یُقْبَلُ الصُّوَرَ فِیْ صُوْرَۃٍ یَقُوْلُ لَکَ مُعَبِّرُ الْمَنَامِ صَحِیْحٌ مَارَأَیْتَ وَلٰکِنْ تَاوِیْلُہٗ کَذَا وَکَذَا۔ ‘‘(الیواقیت والجواہر از عبدالوہاب الشعرانیؓ جلد۱ صفحہ ۱۱۵) تم (اگر ) خداتعالیٰ کو جو کسی صورت میں مقیّد نہیں ہوتا خواب میں دیکھو تو تعبیر بتانے والا تم سے کہے گا کہ جو کچھ تم نے دیکھا صحیح ہے لیکن اس کی تعبیر یہ یہ ہے۔

۵۔خواب میں واقعہ متمثل کس طرح ہوسکتا ہے۔اس کے لئے دیکھو مندرجہ ذیل عبارات :۔

تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۴۰ پر حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کے حالات میں ایک واقعہ درج ہے کہ ’’آپ کا ہمسایہ شمعون نامی آتش پرست تھا ۔حضرت حسن ؒنے سنا کہ وہ سخت بیمار ہے اور قریب المرگ ہے۔ آپ نے اسے تبلیغ کی۔ اور وہ اس شرط پر مسلمان ہوا کہ حضرت حسنؒ اسے جنت کا پروانہ لکھ دیں۔ اس پر اپنے اور اپنے بزرگانِ بصریٰ کے دستخط ثبت کر کے شمعون کی قبر میں (جب وہ مر جائے)اس کے ہاتھ میں دے دیں ۔تا کہ اگلے جہان میں گواہ رہے۔ چنانچہ حسنؒ نے ایسا ہی کیا۔ مگر بعد میں خیال آیا کہ میں نے یہ کیا کیا ؟اس کو جنت کا پروانہ کیونکر لکھ دیا ۔لکھا ہے کہ:۔اسی خیال میں سو گئے۔شمعون کو دیکھا کہ شمع کی طرح تاج سر پر اور مکلف لباس بدن میں پہنے ہوئے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے……اس نے حضرت حسن ؒ سے کہا ۔حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اپنے محل میں اتارا ہے اور اپنے کرم سے اپنا دیدار دکھایا……اب آپ کے ذمہ کچھ بوجھ نہیں رہا ۔اور آپ سبکدوش ہوگئے۔ لیجیئے یہ اپنا اقرار نامہ کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں ۔جب حضرت حسن ؒ خواب سے بیدار ہوئے تو خط آپ کے ہاتھ میں تھا۔‘‘ (انوارالازکیاء ترجمہ اردو تذکرۃالاولیا ء صفحہ ۴۰ ذکر الحسن بصریؒ)

۶۔قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ الْجَلَاءِ دَخَلْتُ مَدِیْنَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَبِیْ فَاقَۃٌ فَتَقَدَّمْتُ اِلٰی قَبْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ وَ عَلٰی صَاحِبَیْہِ ثُمَّ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بِیْ فَاقَۃٌ وَاَنَا ضَیْفُکَ ثُمَّ تَنَحَّیْتُ وَ نِمْتُ دُوْنَ الْقَبْرِ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَآءَ اِلَیَّ فَقُمْتُ فَدَفَعَ اِلَیَّ رَغِیْفًا فَاَکَلْتُ بَعْضَہٗ وَانْتَبَھْتُ وَفِیْ یَدِیْ بَعْضُ الرَّغِیْفِ۔ ‘‘ (منتخب الکلام فی تعبیر الاحلام مؤلفہ سیرین و قشیر یہ مصری صفحہ ۱۰۰)

اس عبارت کا ترجمہ شیخ فریدالدین عطار ؒ کے الفاظ میں یہ ہے:۔

’’حضرت عبداﷲ بن جلاء فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں گیا۔اور مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر پر میں گیا۔ اور حضور ؐ اور حضور ؐ کے دونوں ساتھیوں کو السلام علیکم کہا اور عرض کیا کہ حضرت میں بھوکا ہوں ۔اور آپ ہی کا مہمان ہوں۔ یہ کہہ کر میں قبر سے پرے ہٹ کر سو گیا ۔خواب میں کیا دیکھتا ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم میری طرف تشریف لائے ہیں ۔میں (بغرض تعظیم کھڑا ہوگیا) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے ایک نان دیا۔ میں نے اس میں سے آدھا کھا لیا جب بیدار ہوا تو نان کا باقی حصّہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء ذکر عبداﷲبن جلاء صفحہ ۴۹۸،مصنّفہ شیخ فریدالدین عطار ؒ)

۷۔ حضرت سیّد اسمٰعیل شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ میں لکھا ہے کہ :۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم درمنام دیدندوآنجناب سہ خرمابدستِ مبارک خود ایشاں را خورانیدند و در نفسِ خود ذائقہ ازاں رؤیائے حقہ ظاہر و باہر یا فتند ‘‘(صراط مستقیم مترجم صفحہ ۱۷۶از سید اسمٰعیل شہیدؒ)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ تین کھجوریں ایک ایک کر کے کھا رہے ہیں ……جب بیدار ہوئے تو واقعی منہ میں ذائقہ موجود تھا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۸۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک کشف ملاحظہ ہو۔

’’فَرَأَی بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ اِنَّ الْغَوْثَ قَدْ جَآءَ وَبِیَدِہٖ تَاجٌ اَحْمَرُ وَ عَمَامَۃٌ خَضْرَاءُ فَاسْتَقْبَلَ الشَّیْخُ اَحْمَدُ حَضْرَۃَ الْغَوْثِ فَدَنَا اِلَیْہِ فَوَضَعَ التَّاجَ الْاَحْمَرَعَلٰی رَأْسِہٖ وَلَفَّ عَلَیْہِ الْعَمَامَۃَ الْخَضْرَاءَ بِیَدِہِ الْمُبَارَکَۃِ فَقَالَ یَا وَلَدِیْ اَحْمَدُ اَنْتَ مِنْ رِّجْالِ اللّٰہِ وَغَابَ عَنْ نَظْرِہٖ فَاسْتَیْقَظَ الشَّیْخُ اَحْمَدُ فَوَجَدَ التَّاجَ وَالْعَمَامَۃَ عَلٰی رَأْسِہٖ فَشَکَرَاللّٰہَ تَعَالٰی۔ ‘‘
(مناقب تاج الاولیا ء وبرہان الاصفیا ء مطبوعہ مصر مصنفہ علامہ عبدالقادر الاربلی صفحہ ۴۱)

ترجمہ :۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دیکھا کہ حضرت غوث الا عظم سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ہاتھ میں سُرخ تاج اور سبزعمامہ پکڑے ہوئے تشریف لائے۔پس داتا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کمال ادب سے حضرت غوث الاعظمؒ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت غوث الا عظمؒنے داتا صاحب کو اپنے پاس بلایا۔تو داتا صاحبؒ حضرت غوث الا عظمؒ کے قریب گئے ۔پس حضرت غوث الا عظمؒ نے وہ سُرخ تاج حضرت داتا گنج بخش کے سر پر رکھ دیااوراس کے اوپر سبز عمامہ اپنے دستِ مبارک سے لپیٹ دیا۔اور فرمایا اے میرے بیٹے احمد! تو اﷲتعا لیٰ کے بندوں میں سے ہے۔یہ کہہ کر حضرت غوث الا عظمؒ غائب ہوگئے۔ پس داتا گنج بخش صاحب بیدار ہوگئے ۔تو تاج اورعمامہ اپنے سر پر پایااور اﷲ کا شکر ادا کیا ۔

غیراحمدی معترض جو کشف میں سرخ چھینٹوں پر اعتراض کیا کرتا ہے کہ وہ کا غذکس کارخانے کا بنا ہوا تھا۔سیاہی اور قلم کہا ں کے بنے ہوئے تھے؟ وہ ذرا یہ بھی بتا دے کہ وہ عمامہ کس کارخانے کے بُنے ہوئے کپڑے کا تھا اور تاج کی ساخت کیا تھی ؟

۹۔حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اولیاء کی وحی کے طریقے مختلف ہیں۔ کبھی وہ خیا ل میں پاتے ہیں اور کبھی وہ حس میں دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے دل میں پاتے ہیں اور کبھی لکھی ہوئی عبارت پاتے ہیں اور یہ اکسر اولیا کو واقع ہوتا ہے ۔اور ابو عبداﷲ قضیب البان اور تقی ابن مخلد شاگرد امام احمد رضی اﷲ عنہ کو کتابت کے ذریعہ سے مَلَک الالہام کی زبان سے وحی آتی تھی اور جب وہ خواب سے بیدار ہوتے تھے تو ایک کاغذپر کچھ لکھا ہوا پاتے تھے…… میں نے خود اس کتابت کو دیکھا ہے۔ وہ ایک فقیر پر مطاف میں اسی صفت پر اترا تھا۔ اس میں دوزخ سے اس کی نجات لکھی ہوئی تھی۔ جب عام لوگوں نے اسے دیکھا تو سبھوں نے یقین کیا کہ وہ مخلوق کی کتابت نہیں ہے…… یہی واقعہ ایک عورت فقیرہ پر ہوا جو میرے شاگردوں میں سے تھی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حق تعالیٰ نے اس کو ایک ورق دیا۔ جب وہ بیدار ہوئی تو اس کا ہاتھ بند ہوگیا اور اسے کوئی کھول نہ سکا۔مجھے الہام ہوا کہ میں اس کو یہ کہوں کہ جب تیرا ہاتھ کھلے تو فوراً اس کو نگل جائے۔پھر ا س نے یہ نیّت کر کے ہاتھ کو منہ کہ پاس لے گئی ۔پھر فوراً اس کا ہاتھ کھل گیا اور وہ فوراً نگل گئی۔لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے اسے کیونکر جانا میں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر الہام کیا کہ کوئی شخص اس کو نہ پڑھے۔‘‘ (فتوحات مکّیہ باب۲۸۵ بحوالہ ترجمہ اردو فصوص الحکم تذکرہ شیخ اکبر ابن عربی صفحہ ۲۲)

۱۰۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف سے مندرجہ ذیل باتیں مدّنظر تھیں۔اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت سے قلم کے ساتھ زیادہ سیاہی لگا کر اس کو چھڑکا:۔

(الف)خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے اور آریوں کا عقیدہ غلط ہے کہ خدا نیست سے ہست نہیں کر سکتا۔بلکہ مادہ ہیسے کوئی چیز بنا سکتا ہے۔
(ب)سرخی کے چھینٹے لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کے طور پر تھے۔
(ج)دستخط کرانے سے مراد یہ تھی کہ خداتعالیٰ نے لیکھرام کے قتل کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۱۱۔حدیث شریف میں ہے :۔’’خَلَقَ اللّٰہُ ثَلَاثَۃَ اَشْیَآءَ بِیَدِہٖ خَلَقَ اٰدَمَ بِیَدِہٖ وَکَتَبَ التَّوْرٰۃَ بِیَدِہٖ وَ غَرَسَ الْفِرْدَوْسَ بِیَدِہ۔ٖ ‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۰۰) کہ خدا تعالیٰ نے تین چیزیں خاص اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ حضرت آدم ؑ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔تو رات کو اپنے ہاتھ سے لکھا اور فردوس کو اپنے ہاتھ سے بویا۔

اب تم جس قدر اعتراض سرخی کے چھینٹوں والے کشف پر کرتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھا بھی کرتا ہے؟ وہ کاغذ کس کارخانے کا بنا ہوا تھا؟سیاہی کس کارخانے کی تھی؟قلم کیسا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔یہ سب اعتراضات کَتَبَ التَّوْرٰۃَ بِیَدِہٖ پر بھی پڑسکتے ہیں۔ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔

۱۲۔ حضرت عبداﷲ سنوری ؓ جو موقع کا گواہ تھا، نے حلفی بیان دیا کہ اس وقت کوئی ایسی صورت نہ تھی کہ سرخی کہیں سے آسکتی بلکہ میں نے خود سیاہی حضرت اقدسؑ کے کُرتے پر گرتی دیکھی۔

(مفہوم از الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۱۶ ء جلد ۴ صفحہ ۲۴)

۱۸۔کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ

اعتراض۔ کان اللہ نزل من السماء۔ جیسے اللہ آسمان سے نازل ہو گیا ہے ۔ یہ اللہ کی توہین ہے



جواب:۔ ۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے خداتعالیٰ کا جلال اور حق کا ظہور مراد لیا ہے۔ آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۷۸ پر ہے:۔

’’یَظْھَرُ بِظُھُوْرِہٖ جَلَالَ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘

نیز حقیقۃالوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۹۸،۹۹: ’’جس کے ساتھحق کا ظہور ہوگا۔‘‘

۲۔ حدیث شریف میں ہے :۔’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی سَمَاءٍ الدُّنْیَا۔ ‘‘(بخاری کتاب التہجد باب الدعا و الصلٰوۃ من آخر اللیل ومشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ باب التحریض علی قیام اللیل)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا ربّ ہر رات پہلے آسمان پر اترآتا ہے ۔کیا معنے؟لکھا ہے:۔

(الف)۔’’اَلنُّزُوْلُ وَالْھُبُوْطُ وَالصَّعُوْدُ وَالْحَرَکَاتُ مِنْ صِفَاتِ الْاَجْسَامِ وَاللّٰہُ تَعَالٰی مُتَعَالٍ عَنْہُ وَالْمُرَادُ نُزُوْلُ الرَّحْمَۃِ وَقُرْبُہُ تَعَالٰی۔‘‘ (حاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الصلوٰۃ باب التحریض علی قیام اللیل) کہ نازل ہونا ،اترنا ،چڑھنا اور حرکات یہ تو اجسام کی صفات ہیں ۔خدا تعالیٰ ان سے پاک ہے اﷲ تعالیٰ کے نازل ہونے سے مراد اس کی رحمت کا نازل ہونا اور اس کے قرب کا حاصل ہونا ہے۔

(ب)۔اسی حدیث کی شرح میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث د ہلوی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِلَی السَّمَآءِ الدُّنْیَا (الحدیث) قَالُوْا ھٰذَا کِنَایَۃٌ عَنْ تَھِیْؤِ النُّفُوْسِ لِاِ سْتِنْزَالِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ……وَ عِنْدِیْ اِنَّہٗ مَعَ ذَالِکَ کَنَا یَۃٌ عَنْ شَیْءٍ مُّتَجَدِّدٍ یَسْتَحِقُّ اَنْ یُّعَبَّرَ عَنْہُ بِالنُّزُلِ۔‘‘
(الحجۃ البا لغۃ جلد ۲ صفحہ۳۷ باب النوافل مترجم اردو مطبوعہ حمایت اسلام پریس )

ترجمہ از شموس اﷲ البازغۃ:۔

’’اور نبی صلعم نے فرمایا ہے یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَالخ یعنی جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہتا ہے تو ہمارا پروردگار آسمانِ دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے کہ مجھ سے کچھ طلب کرے تو میں اس کی مراد پوری کروں۔الخ علماء نے اس حدیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ نفس انسانیہ اس بات کے قابل ہوجائے کہ رحمت الٰہیہ کے نزول کو برداشت کرسکے اور میرے نزدیک اور معنیٰ بھی ہوسکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ دل کے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہوجائے کہ جس کو نزول کے ساتھ بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔‘‘(حاشیہ صفحہ ۳۷ جلد ۲)

۳۔ مؤطا امام مالک ؒ صفحہ۷۴ کے حاشیہ باب ماجاء فی ذکراللّٰہ میں لکھا ہے:۔

’’قَوْلُہٗ یَنْزِلُ رَبُّنَا اَیْ نُزُوْلُ رَحْمَۃٍ۔ ‘‘ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانا کہ خدا نازل ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

۴۔ تلخیص المفتاح مطبع مجتبائی کے صفحہ ۲۶ پر لکھا ہے:۔’’وَقَدْ یُطَلَقُ الْمَجَازُ……بِحَذْفِ لَفْظٍ اَوْ زِیَادَۃِ لَفْظٍ کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی وَ جَاءَ رَبُّکَ……اَیْ اَمْرُرَبِّکَ۔‘‘ یعنی بعض دفعہ مجاز میں کوئی لفظحذف کیا جاتا ہے یا زیادہ کیا جاتا ہے ۔جیسے خدا تعالیٰ کا فرمانا جَاءَ رَبُّکَ کہ تیرا ربّ آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کا حکم آیا۔

پس کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ کا مطلب بھی صاف ہے کہ خدا کی رحمت ۔خدا کے فضل۔ خدا کے جلال اور اس کے حکم کا نزول ہوتا ہے۔

۱۹۔یَتِمُّ اِسْمُکَ وَلاَ یَتِمُّ اِسْمِیْ

اعتراض۔ یتم اسمک و لایتم اسمی۔ تیرا نام پورا ہوجائے گا ۔مگر میرا (خدا کا) نام پورا نہ ہوگا۔



الجواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اس الہام کی تشریح فرمائی ہے:۔

۱۔براہین احمدیہ حصہ دوم۔روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۶۷حاشیہ در حاشیہ نمبر۱ میں الہام یَا اَحْمَدُ یَتِمُّ اِسْمُکَ وَلاَ یَتِمُّ اِسْمِیْ درج فرما کر اس کے آگے بین السطورتحریر فرماتے ہیں:۔ ’’ اَیْ اَنْتَ فَانٍ فَیَنْقَطِعُ تَحْمِیْدُکَ وَ لَا یَنْتَھِیْ مَحَامِدُ اللّٰہِ فَاِنَّھَا لَا تَعُدُّ وَ لَا تُحْصٰی۔ ‘‘یعنی اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ اے احمد ! تو فوت ہوجائے گا اور تیرے کمالات اور محامد ختم ہوجائیں گے۔مگر خدا کے محامد ختم نہیں ہوں گے کیونکہ وہ لاتعداد اور بے شمار ہیں۔

۲۔پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۴۱ پر تحریر فرماتے ہیں :۔’’اِذَا اَنَارَ النَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْ بَلَّغَ الْاَمْرَ بِقَدَرِ الْکِفَایَۃِ فَحِیْنَئِذٍ یَتِمُّ اسْمُہٗ وَیَدْعُوْہُ رَبُّہٗ وَیُرْفَعُ رُوْحُہٗ اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ۔‘‘ یعنی جب انسانِ کامل لباس خلافت زیب تن کر لیتا ہے اور اس کے بعد یہ بندہ زمین پر ایک مدت تک جو اس کے ربّ کے ارادہ میں ہے توقف کرتا ہے تاکہ مخلوق کو نورہدایت کے ساتھ منور کرے اور جب خلقت کو اپنے ربّ کے نور کے ساتھ روشن کر چکایا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے۔اور اس کا ربّ اس کو بلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطۂ نفسی کی طرف اٹھائی جاتیہے۔‘‘گویا وہ فوت ہوجاتا ہے۔

پس الہام یَتِمُّ اِسْمُکَ وَلاَ یَتِمُّ اِسْمِیْکا مطلب یہ ہے کہ تو فوت ہوجائے گا مگر میں (یعنی خدا )فوت نہیں ہوں گا۔ فلا اعتراض۔

۲۰ ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ

اعتراض۔ الارض والسماء معک کما ھو معی ۔ عربی غلط ہے ھُوَ کی بجائے ھُمَا چاہیے۔ کیونکہ زمین و آسمان دو ہیں نہ کہ ایک۔


جواب:۔ یہ جائز ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔(التوبۃ:۶۲) کہ اﷲ اور اس کا رسول سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو خوش کیا جائے۔آپ کے قاعدہ کے مطابق یہاں بھی یُرْضُوْہُ کی بجائے یُرْضُوْھُمَا چاہیے تھا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۱۔’’تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ‘‘

اعتراض۔ تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی توہین ہے



الجواب۱۔اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اس امت ہی کے تخت مراد ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اس میں شامل نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’غرض اس حصّہ کثیر وحی الہٰی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں یہ ایک فرد مخصوص ہوں اور جسقدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذرے ہیں ان کو یہ حصّہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا‘‘۔
’’یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیر۱۳۰۰ہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزا ئن جلد۲۲ صفحہ ۴۰۶)

۲۔چنانچہ اربعین نمبر ۱ و نمبر۲ (جو اکٹھے چھپے ہیں) اس کے صفحہ ۹پر اور پھر اربعین ۴ (جو علیحدہ چھپا ہے) کے صفحہ ۷ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ’’اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ‘‘ درج ہے۔ اس کا ترجمہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو ایڈیشنوں کے صفحہ ۱۷ پر کیا ہے۔
’’اور جس قدر لوگ تیرے زمانے میں ہیں سب پر میں نے تجھے فضیلت دی۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ آپ کاتخت جو سب سے اونچا بچھایا گیا تو اس سے مراد بھی امت محمدیہ ہی کے تخت ہیں۔

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا کے فضل سے نبی اﷲ ہیں اور آپ کا مقام مسیح ناصری علیہ السلام سے بھی بلند ہے۔ مگر حضرت ’’پیران پیر‘‘سیّد عبدالقادرجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔
’’اَنَا مِنْ وَّرَآءِ عُقُوْلِکُمْ فَلَا تَقِیْسُوْنِیْ عَلٰی اَحَدٍ وَلَا تَقِیْسُوْا اَحَدًا عَلَیَّ‘‘ (فتوح الغیب مترجم فارسی صفحہ ۲۲) یعنی میں تمہاری عقلوں سے بالا ہوں ۔مجھ کو کسی دوسرے پر قیاس نہ کرو اور نہ کسی دوسرے کو مجھ پر قیاس کرو۔

۲۲۔ءَ تَعْجَبِیْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ

اعتراض۔ ء تعجبین لامر اللہ ۔ عربی غلط ہے۔ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ چاہیے تھا ۔’’عجب ‘‘ کا صلہ لام نہیں آتا۔



جواب:۔’’عجب‘‘ کاصلہ لام آتا ہے ،ملاحظہ ہو مشہور عرب شاعر جعفر بن علبتہ الحارثی جبکہ وہ مکّہ میں قید تھا کہتا ہے :۔


عَجِبْتُ لِمَسْرَاھَا واَنِّٰی تَخَلَّصَتْ
اِنِّیْ وَبَابُ السِّجْنِ دُوْنِیْ مُغْلَقُ


(دیوان الحماسہ قول جعفر بن علی صفحہ ۱۲ مکتبہ اشرفیہ)

کہ میں نے اپنی معشوقہ کے چلے جانے پر تعجب کیا کہ ایسی حالت میں کہ قید خانے کا دروازہ مقفل ہے پھر وہ کس طرح میرے پاس پہنچ گئی۔

اس شعر میں عجب کا صلہ لام آیا ہے ۔پس تمہارا اعتراض باطل ہے۔

۲۳۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ

اعتراض۔ یحمد اللہ من عرشہ ۔ ’’حمد‘‘ کا لفظ سوائے خدا کے کسی اور پر بولا نہیں جاتا؟



جواب:۔ ’’حمد‘‘ کا لفظ غیر اﷲ پر بھی بولا جا سکتا ہے۔

۱۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام ہی محمدؐ تھا۔
۲ ۔ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے کسی شخص نے کچھ سوال کیا تو حضور ؐ نے تھوڑی دیر ٹھہر کر فرمایا۔ اَیْنَ السَّائِلُ۔ کہ وہ سائل کہا ہے ؟اس کے متعلق بخاری و مسلم میں لکھا ہے۔ کَاَنَّہٗ حَمِدَہٗ۔ گویا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شخص کی(حمد) تعریف کی۔
(بخاری کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ علی الیتامی مصری و مسلم کتاب الزکوٰۃ باب تخوف ماتخرج من زمرۃ الانبیاء )

۳۔’’اِفْعَلْ ھٰذَا الَّذِیْ اَمَرْتُکَ بِہٖ لِنُقِیْمُکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُقَامًا مَّحْمُوْدًا یَحْمَدُکَ فِیْہِ الْخَلَا ئِقُ کُلُّھُمْ وَخَالِقُھُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی‘‘ (تفسیر ابن کثیر زیرآیت عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔ اسراء:۷۹)کہ یَبْعَثُکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے۔ یہ جو میں نے تجھے حکم دیا اس کو بجالا۔ تاکہ میں تجھ کو قیامت کے دن مقا م محمود پر کھڑا کروں ۔تمام دنیا تیری حمد کرے گی اور خالق کون و مکان (خداتعالیٰ ) بھی تیری حمد کرے گا ۔

۴۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
’’فَیَحْمَدُنِیْ وَاَحْمَدُہٗ وَ یَعْبُدُنِیْ وَاَعْبُدُہٗ‘‘ کہ اﷲتعالیٰ میری حمد کرتا ہے اور میں اس کی حمد کرتا ہوں۔ اﷲتعالیٰ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔

حضرت امام شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ مندرجہ بالا ارشاد کی حسب ذیل تشریح فرماتے ہیں۔
’’اِنَّ مَعْنٰی یَحْمَدُنِیْ‘‘ اَنَّہٗ یَشْکُرُنِیْ اِذَا اَطَعْتُہٗ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ‘‘ وَاَمَّا فِیْ قَوْلِہٖ ’’فَیَعْبُدُنِیْ وَاَعْبُدُہٗ‘‘ اَیْ یُطِیْعُنِیْ بِاِجَابَتِہٖ دُعَائِیْ کَمَا قَالَ تَعَالٰی ’’لَا تَعْبُدُوْاالشَّیْطَانَ‘‘ اَیْ لَا تُطِیْعُوْہُ وَ اِلَّا فَلَیْسَ اَحَدٌ یَعْبُدُ الشَّیْطَانَ کَمَا یَعْبُدُ اللّٰہَ۔‘‘
(الیواقیت و الجواہر الفصل الثانی فی تاویل کلمات اظیفت الی الشیخ محی الدینؓ)

یعنی حضرت امام ابن عربی کا یہ فرمانا کہ اﷲ میری حمد کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ میری اطاعت و فرمانبرداری کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ تم مجھے یا د کرو میں تم کو یاد کروں گا اور شیخ رحمۃ اﷲ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ اﷲتعالیٰ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔تو اس جگہ اس سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ دعائیں قبول فرما کر میری بات مانتا (میری اطاعت کرتا) ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان کی عبادت نہ کرو ۔یعنی شیطان کا کہا نہ مانو ۔ورنہ دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جو شیطان کی اس رنگ میں عبادت کرتا ہو جس رنگ میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے ۔

پس عبارت بالا میں لفظ ’’حمد‘‘ بعینہٖ اسی طرح استعمال ہوا ہے جس طرح حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ کی مندرجہ بالا عبارت میں۔

۴۔قرآن مجید میں ہے:۔ (اٰل عمران: ۱۸۹)
کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بغیر کسی کام کرنے کے ہی تعریف کی جائے۔
علیٰ ہٰذا القیاس متعدد مثالیں ہیں جن کو بخوف تطویل درج نہیں کیا گیا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۴۔حجرِاَسود مَنَم

اعتراض۔ حجر اسود منم ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ خواب میں کسی شخص نے میرے پاؤں کو بوسہ دیا۔میں نے کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔



جواب:۔۱۔خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کی تشریح فرما دی ہے۔’’وَاِنِّیْ اَنَا الْحَجْرُالْاَسْوْدُ الَّذِیْ وُضِعَ لَہُ الْقُبُوْلُ فِی الْاَرْضِ وَالنَّاسُ یَمَسُّہُ یَتَبَرَّکُوْنَ ‘‘۔ اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’قَالَ الْمُعَبِّرُوْنَ اِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْحَجْرِ الْاَسْوَدِ فِیْ عِلْمِ الرُّوْیَااَلْمَرْءُ الْعَالِمُ الْفَقِیْہُ الْحَکِیْمُ‘‘ (الاستفتاء عربی صفحہ ۴۱)کہ میں وہ حجراسود ہوں جس کو خدا نے دنیا میں مقبولیت دی ہے اور جس کو لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے چھوتے ہیں۔

حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔ کہ استادانِ فن تعبیر نے لکھا ہے کہ علم الرؤیا میں حجراسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکمت والا انسان ہوتا ہے۔

گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس رؤیا کی تعبیر بھی فرمادی ہے۔
۲۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت علی ؓ کو فرماتے ہیں:۔’’یَا عَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَۃِ الْکَعْبَۃِ۔‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۱۴ باب الیاء)یعنی اے علی ؓ ! تو بمنزلہ کعبہ کے ہے۔
۳۔ حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:ـ۔
’’ حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن اب طالب کرم اﷲ وجہ…… خطبہ لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ میں اسم اﷲ سے لفظ دیا گیا ہوں ۔اور میں ہی اس اﷲ کا جَنْب (پہلو) ہوں جس میں تم نے افراط و تفریط کی ہے اور میں ہی قلم ہوں۔اور میں ہی لوح محفوظ ہوں اور میں ہی عرش ہوں اور میں ہی کرسی ہوں اور میں ہی ساتوں آسمان ہوں اور میں ہی ساتوں زمین ہوں۔‘‘
(مقدمۂ فصوص الحکم فصل ہشتم مترجم اردو صفح ۶۰ و۶۱)

۴۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’میں مدت تک کعبہ کا طواف کرتا رہا ،لیکن خدا جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء باب ۷۸ صفحہ ۲۹۷)

حضر ت با یزید بسطامیؒ کی عظمت شان

ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرے کہ بایزید بسطامیؒ کا قول حجت نہیں لیکن یاد رکھنا چاہییکہ حضرت بو یزید رحمۃ اﷲ علیہ کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اس کاا قرار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت داتا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیفور بن بن علی بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا اور اس کی شان بہت بڑی ہے اس حد تک کہ جنید رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ:۔اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یعنی ابو یزید ہمارے درمیان ایسا ہے جیسا کہ جبرائیل فرشتوں میں……اور تصوّف کے دس اماموں میں سے ایک یہ ہوئے ہیں اور اس سے پہلے علم تصوف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ تھا۔‘‘
(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۲۲ ذکر امام مشائخ تبع تابعین)

۵۔ حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں حضرت رابعہ بصریؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ایک دوسری مرتبہ آپ ( حضرت رابعہ بصریؒ) حج کو جارہی تھیں ۔جنگل میں کیا دیکھتی ہیں کہ کعبہ مکرمہ آپ کے استقبال کو آرہا ہے ۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے کہا ۔’’مجھ کو مکان کی ضرورت نہیں صاحب مکان درکار ہے ۔کعبہ کے جمال کو دیکھ کر کیا کروں گی۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء اردو نوا ں باب صفحہ ۵۴ مطبوعہ علمی پریس)

۶۔حضرت عطار رحمۃ اﷲ حضرت شبلی ؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دفعہ آگ لے کر کعبہ کی طرف چلے اور کہنے لگے ۔میں جاکر خانہ کعبہ کو جلاتا ہو تاکہ لوگ خداوندِکعبہ کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء چودھواں باب صفحہ ۱۲۲)

۷۔حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت لکھا ہے:۔
’’ایک دفعہ مکّہ میں لوگ طواف کر رہے تھے اور آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے۔آپ اسی وقت باہر جاکر لکڑیاں اور آگ لے آئے۔لوگوں نے پوچھا ۔یہ کیا حرکت ہے ؟ آگ اور لکڑیوں کا یہاں کیا کام؟ فرمایا کہ کعبہ کو جلا دوں گا تاکہ سب غافل لوگ خدا کی طرف رجوع کرلیں۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء ترجمہ اردو باب ۹۴ صفحہ ۳۱۸)

۲۵۔’’ٹیچی ٹیچی‘‘

اعتراض:۔ مرزا صاحب کا الہام ہے ’’ٹیچی ٹیچی‘‘



جواب :۔بالکل غلط ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ایسا الہام نہیں۔ایک خواب ضرور ہے جس میں حضورؑنے ایک آدمی دیکھا جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔ اور اس نے اپنا نام ’’ٹیچی‘‘بتایا۔ پنجابی زبان میں ٹیچی کے معنے ہیں ’’وقت مقررہ پر آنے والا۔‘‘ پس اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بروقت امداد فرمائے گا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جو مشکلات لنگر خانے کے اخراجا ت کی نسبت اس خواب کے بعد دیکھنے سے پہلے درپیش تھیں وہ اس خواب کے بعد جلد ہی دور ہوگئیں ۔پس یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ الہام ہوا محض شرارت ہے۔

اعتراض:۔کیا ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘بھی فرشتہ ہوتا ہے؟



جواب:۔اوّل تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے حضرت اقدسؑ نے کہیں بھی تحریر نہیں فرمایاکہ وہ ’’فرشتہ‘‘ تھا ۔بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے، لیکن تم ذرا یہ بتاؤ کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں؟ بخاری میں ہے:۔’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ اِلٰی مُوْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاءَ ہٗ صَکَّہٗ فَرَجَعَ اِلٰی رَبِّہٖ فَقَالَ اَرْسَلْتَنِیْ اِلٰی عَبْدٍ لَا یُرِیْدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْہِ عَیْنَہٗ وَقَالَ اِرْجِعْ فَقُلْ لَہٗ یَضَعْ یَدَہٗ عَلٰی مَتَنِ ثَوْرٍ فَلَہٗ بِکُلِّ مَاغَطَّتْ بِہٖ یَدُہٗ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ سَنَۃٌ قَالَ اَیْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْمَوْتُ۔‘‘
(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مَنْ اَحَبَّ الدَّفْنَ فِی الْاَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ نیز مشکوٰۃ کتاب احوال القیامۃ و بدء الخلق باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء )

اس کا ترجمہ تجرید بخا ری اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور سے نقل کیا جاتا ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسٰی ؑ کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسیٰ ؑ نے اسے ایک طمانچہ مارا ۔جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی ۔پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔اﷲ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں ۔پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ۔ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائے گی۔ حضرت موسٰی ؑ بولے اے پروردگار ! پھر کیا ہوگا اﷲ نے فرمایا پھر موت آئے گی۔جس پر موسٰی ؑ نے کہا تو پھر ابھی سہی۔‘‘ (تجرید البخاری اردو جلد اول صفحہ ۱۵۰)

بھلا ’’ٹیچی ‘‘تو محض نام ہے ۔ تم تو عملاً عزرائیل کو بھی کانا مانتے ہو۔

۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ ’’ فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘ (مکاشفات صفحہ ۳۸ ) نیز خواب میں جو اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف ’’ٹیچی‘‘ ہے۔ مگر تم محض شرارت سے ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘ کہتے ہو جو یہود کی مثل کا مصداق بننا ہے۔
(عزرائیل کو طمانچہ مار کر کانا کرنے کی حدیث بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسٰی وذکرہ بعدہ۔نیز مسلم کتاب الفضائل باب فضائل موسٰی۔ نیز مشکوٰۃ کتاب باب بدء الخلق باب ذکر الانبیاء فصل الاوّل میں بھی موجود ہے۔

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ بتایا ہے:۔
’’ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۶)

۴۔ اگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے ۔یہ تو ایک صفاتی نام ہے۔نبی کی اپنی زبان (پنجابی) میں ۔گویا خداتعالیٰ نے الہام کیا ہے اور تم اس پر ہنستے ہو اور مذاق اڑاتے ہو۔ اگر نبی کی اپنی زبان میں الہام نہیں ہوتا تو اس پر اعتراض کرتے ہو ۔کہ غیر زبان میں الہام کیوں ہوا۔ خداتعالیٰ نے تم کو اسی کشف کے ذریعہ سے ملزم اور ماخوذکیا ہے کہ تمہاری پنجابی زبان تو ایسی زبان ہے کہ غالباً اس کے اکثر حصہپر مذاق ہی مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔اسی لئے عام طور پر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو افصح الالسنہ (عربی) میں الہام کیا ۔کیونکہ ضرورت زمانہ اور ملہم کی فطرتی پاکیزگی مقتضی تھی کہ فصاحت اور بلاغت کا معجزہ اسے دیا جاتا مگر پنجابی زبان اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے آپ کو الہامات کا اکثر حصّہ عربی زبان میں ہوا۔

۵۔ باقی رہا تمہارا کہنا کہ اس نے جھوٹ بولا اور پہلے کہا میرا کوئی نام نہیں اور بعد میں دوبارہ پوچھنے پر اپنا نام بتایا۔

تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ ’’ٹیچی ‘‘ جیسا کہ بیان ہوا اس کا ذاتی نام (عَلَم) نہیں،بلکہ صفاتی نام ہے۔ گویا نفی ذاتی نام کی ہے اور اثبات صفاتی کا ۔جب اس نے کہا کہ میرا کوئی نام نہیں تو اس نے اپنے ذاتی نام (یعنی عَلَم) کی نفی کی۔اور جب اس سے کہا گیا کہ’’کچھ ‘‘تو بتاؤ۔تو اس نے اپنی ڈیوٹی (یعنی وقت پر پہنچ کر مدد کرنا) کو مدنظر رکھ کر اپنا صفاتی نام بتادیا۔اب اس کو جھوٹ کہنا انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو انبیاء کو بھی جھوٹ بولنے کا عادی قرار دیا کرتے ہیں۔ گویا ہر بات میں ان کو جھوٹ ہی نظر آیا کرتا ہے۔(اس کی تفصیل آگے آئے گی۔)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے :۔’’فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحْیَانًا یَاْتِیْنِیْ مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجرْسِ۔‘‘ (بخاری ۔کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی……) کہ اکثر دفعہ فرشتہ وحی لے کر ٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے۔

یہ اب ’’ٹلی ٹلی‘‘ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔اسی طرح یہاں بھی ’’ٹیچی ‘‘اس کی صفت ہے ۔

۷۔ہاں فرشتوں کے نام ’’صفاتی ‘‘بھی ہوتے ہیں جو ان کے ذاتی نام (عَلَم) کے سوا ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے :۔’’اِسْمُ جِبْرِیْلِ عَبْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ مِیْکَائِیْلِ عَبَیْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ اِسْرَافِیْلِ عَبْدُالرَّحْمٰنِ۔ ‘‘(دیلمی صفحہ ۵۵ باب الالف راوی ابو امامۃ ؓ )کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل کا نام عبداﷲ ہے اور حضرت میکائیل کا نام عبیداﷲ اور حضرت اسرافیل کا نام عبدالرحمن ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :۔

’’ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا۔ اس وقت مجھ کو معراج ہوئی…… جبرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمٰعیل نام ہے۔ اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں۔‘‘
(سیرت ابن حشام جلد اوّل باب الاسرا ء والمعراج مترجم اردو صفحہ ۱۴۰ )

اس سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے جو ان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں۔ اب حضرت جبرائیل ؑ کا نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے’’عبداﷲ ‘‘بتایا ہے۔ اگر کوئی ازراہِ تمسخر شرارت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق یہ کہے کہ ’’ میاں عبداﷲ‘‘۔’’میاں اسمٰعیل‘‘ یہ وحی لایا ہے ۔تو جو جواب تمہارا سو وہی ہمارا۔ سمجھ لو۔

۲۶۔’’کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا‘‘

اعتراض۔ کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا۔ (البشریٰ جلد ۲ صفحہ ۱۲۱) یہ مرزا صاحب کو اپنے متعلق الہام ہوا ۔



جواب:۔تم دھوکہ سے کام لیتے ہو۔’’البشریٰ‘‘جس میں یہ الہام درج ہے ۔اس کے آگے تشریح بھی موجود ہے :۔
’’کمترین کا بیڑہ غرق ہوگیا۔یعنی کسی کے قول کے طرف اشارہ ہے یا شاید کمترین سے مراد کوئی شریر مخالف ہے۔‘‘ (البشری جلد۲ صفحہ ۱۲۱)
تم لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ تو پڑھتے ہو۔مگر وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ہضم کر جاتے ہو۔
کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ

۲۷۔میں سوتے سوتے جہنم میں پڑگیا

اعتراض۔ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ الہام ہوا۔ میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا ۔



جواب:۔’’وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ‘‘ بھی پڑھو ۔لکھا ہے:۔

’’اس وحی کے بعد ایک ناپاک روح کی آواز آئی ۔میں سوتے سوتے جہنم میں پڑگیا۔‘‘

(البشریٰ جلد ۲ صفحہ ۹۵)

گویا تمہارے جیسی ناپاک روح کے متعلق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں خدا تعالیٰ کے عذاب سے بے خبر ہے اور اسی حالتِ نیند میں ہی اپنے لئے سامان جہنم بہم پہنچا رہی ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا۔

حضرت اقدس علیہ السلام کا اپنے متعلق الہام ہے:۔
’’خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود‘‘ (البشریٰ جلد ۲ صفحہ۸۵۹)

۲۔اس الہام کو حضرت اقدس علیہ السلام نے اس زلزلہ کے متعلق قرار دیا ہے جو ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کو کوئٹہ میں موسم بہار کے آخری دن (الوصیت صفحہ ۱۳ حاشیہ روحانی خزائن جلد۲۰)میں آیا ۔جبکہ رات کو لوگ غفلت کی نیند سوتے تھے۔ مگر بعض بدکاروں کی بد اعمالیوں کے باعث زلزلہ بھیج کر ان کو ہلاک کردیا اور ان میں سے ناپاک روحیں سوتے سوتے واصلِ جہنم ہوئیں (مرنے والوں میں سے کئی نیک بھی تھے جیسا کہ طوفان نوح میں غرق ہونے والوں میں شیرخواربچے ،عورتیں اور جانور بھی شامل تھے )چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے اشتہار ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء متعلقہ زلزلہ مذکور میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ جب خداتعالیٰ اس وحی کے الفاظ میرے دل پر نازل کرچکا تو ایک روح کی آواز میرے کان میں پڑی جو ایک ناپاک روح تھی اور میں نے اس کو کہتے سنا میں سوتے سوتے جہنم میں پڑگیا۔
(دیکھو اشتہار ۱۸ اپریل ۱۹۰۵ء بعنوان ’’الانذار‘‘ آخری صفحہ)

پس اس الہام میں یہ بتایا گیا کہ وہ زلزلہ رات کو آئے گاجبکہ بعض بدکار سوتے سوتے واصل جہنم ہوجائیں گے۔ (تذکرہ صفحہ ۴۵۲ایڈیشن نمبر۴)

۲۸۔’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘

اعتراض۔ الہام ہوا ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں لیکن مسیح و مہدی علیہ السلام تو لاہور میں فوت ہوئے ۔



جواب :۔اس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود تشریح فرمائی :۔

’’یعنی خائب وخاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے اور یہ کلمہ کہ ہم مکّہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہوگی جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کیے جائیں گے۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہو گی۔خود بخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوجائیں گے ۔فقرہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْمکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ مدینہ کی طرف۔
(البشریٰ جلد ۲ صفحہ ۱۰۶ و تذکرہ صفحہ ۵۰۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء والحکم جلد ۱۰نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۳)

۲۹۔خاکسار پیپر منٹ

اعتراض۔ یہ کیسا الہام ہے خاکسار پیپر منٹ۔ کیا پیپر منٹ بھی بولتا ہے؟



الجواب:۔یہ حضرت اقدس علیہ السلام کا کشف ہے۔ آپ کو ایک شیشی دکھائی گئی جس کے لیبل پر لکھا تھا ’’خاکسار پیپر منٹ ‘‘جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بیماری کا جس میں آپ اس وقت مبتلا تھے علاج پیپر منٹ ہے ۔(تذکرہ صفحہ ۴۴۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) پیپر منٹ تو نہیں بولا مگرتم ذرا بخاری میں پڑھو جہاں لکھا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام ننگے نہا رہے تھے کہ پتھر جس پر آپ نے کپڑے رکھے ہوئے تھے آپ کے کپڑے لے کر بھا گ گیا اور آپ اس کے پیچھے دوڑے۔ اسے پکڑ کر سوٹیاں ماریں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم اب تک اس پتھر پر حضرت موسٰی ؑ کی سوٹیوں کے نشان موجود ہیں۔ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حِجِرٍفَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ اَثِرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیَ الْحَجَرُ ثَوْبِیَ الْحَجَرُ۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْیَانًا ۔ نیز مشکوٰۃ کتاب بدء الحق باب ذکر الانبیاء)کہ حضرت موسٰیؑ ایک دفعہ نہانے گئے اور اپنے کپڑے اتار کر آپ نے ایک پتھر پر رکھے۔ پس وہ پتھر بھاگ گیا اور موسٰیؑ اسکے پیچھے ننگے بھاگے۔ بھاگتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’اے پتھر! میرے کپڑے دے جا، او پتھر میرے کپڑے دے جا۔‘‘ تمہارے ہاں پتھر کپڑے اٹھاکر بھاگ سکتا ہے۔مسجد نبویؐ کا شہتیر اور یعفور گدھا باتیں کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارے ہاں عالم کشف میں کسی شیشی کے لیبل پر ’’خاکسارپیپر منٹ‘‘ لکھا ہوا مل جائے تو اس پر بھی اعتراض کر دیتے ہو۔حالانکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ۔یہ ایک کشفی نظارہ ہے جس میں علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی امر محل اعتراض نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ تمام علم طبّ اور علم تاثیر الادویہ الہامی ہے۔ملاحظہ ہو:۔

’’قَدْ ثَبَتَ اَنَّ عِلْمَ الطِّبِّ وَمَنَافِعَ الْاَدْوِیَّۃِ وَمَضَارَّھَا اِنَّمَا عُرِفَتْ بِالْوَحْیِ۔‘‘
(نبراس شرح الشرح لعقائد نفسی صفحہ ۴۲۷)

کہ یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ علم طبّ ۔ ادویہ ّ کے فوائد اور نقصانات محض وحی الٰہیسے معلوم ہوئے ہیں۔ فلا اعتراض

۳۰۔ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ

اعتراض۔ الہام افطر و اصوم ۔ کیا اللہ بھی روزے رکھتا اور کھولتا ہے ؟ یہ اللہ کی توہین ہے ۔


جواب۱۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح فرماتے ہیں:۔

’’ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہرنازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دُوں گا۔ اُس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے۔ اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا۔ مَیں بھوکا تھا۔ مَیں ننگا تھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۰۷)

۲۔پھر فرماتے ہیں :۔مَیں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو میں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصّہ برس کا مَیں روزہ رکھوں گا۔ یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی۔‘‘
(دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۲۷،۲۲۸نیز دیکھو تذکرہ صفحہ۳۴۶مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

۳۔وہ حدیث جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حوالہ دیا ہے مسلم میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ…… یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ…… یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تُسْقِنِیْ۔‘‘ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب عیادۃ المریض) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کو کہے گا۔ اے ابن آدم! میں بیمار تھا ۔تو نے میری تیمارداری نہ کی……اے ابن آدم!میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا……اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے نہ پلایا ۔الخ
(بحوالہ ریاض الصالحین کتاب عیادۃ المریض وتشییع المیت)

پس خدا بیمار ہوسکتا ہے ۔بھوکا پیاسا ہوسکتا ہے ۔مگر روزہ نہیں رکھ سکتا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۱۔ اُخْطِیُٔ وَ اُصِیْبُ

اعتراض۔ الہام ہوا اخطی و اصیب یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غلطی بھی کرتا ہوں اور اچھا کام بھی کرتا ہوں۔ یہ اللہ کی توہین ہے ۔



جواب:۔۱۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مندرجہ ذیل تشریح فرمائی ہے:۔

’’ اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دونگا اور کبھی ارادہ پورا کرونگا۔……جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں۔ حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے اِسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطاجاتا ہے اور کبھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۰۶ )

۲۔وہ حدیث جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے۔ بخاری میں ہے:۔
’’وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ۔‘‘ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع )

خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے کسی چیز کے متعلق کبھی اتنا تردد نہیں کیا جتنا ایک مومن کی روح قبض کرنے کے وقت مجھے ہوتا ہے۔

۳۲۔کرمہائے تو مارا کرد گستاخ

اعتراض۔ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ ۔ یہ حضرت مرزا صاحب کا الہام ہے مگر حضرت مرزا محمود احمد صاحب فرماتے ہیں:۔
’’نادان ہے وہ شخص جس نے کہا ’’کرمہائے تو مارا کرد گستاخ‘‘ کیونکہ خدا کے فضل انسان کو گستاخ نہیں بنایا کرتے اور سرکش نہیں کردیا کرتے بلکہ اور زیادہ شکر گذار اور فرمانبردار بناتے ہیں۔‘‘۔(الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۳ کالم ۳)



الجواب:۔یہ الہام تو ہے مگر حکایتاً عن الغیر خدا کا کلام ہے۔ جس طرح قرآن کریم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے۔نیز ۔ وغیرہ اب سوال یہ ہے کہ کیا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے۔’’کرمہائے تو مارا کرد گستاخ‘‘ (نعوذباﷲ )یا کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کو کہہ رہے ہیں ؟ظاہر ہے کہ دونوں صورتیں باطل ہیں لفظ ’’ما‘‘ ایک جماعت کو چاہتا ہے جس کا یہ قول حکایتاً نقل ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جماعت جماعت مومنین نہیں۔کیونکہ خدا کے فضل مومن کو گستاخ نہیں بناتے ۔پس یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت اقدسؑ کا ایک دوسرا الہام ہے کہ شَرُّالَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کہ شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا۔ پس یہ اہل پیغام ہیں جنہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی مہربانیوں اور لطف و کرم کا نتیجہ گستاخی اور استخفاف سے دیا اور حضرت ؑ اور حضرت کے اہلِ بیت کے دشمن ہوگئے بمطابق الہام سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا (کہ دشمن کہے گا تو رسول نہیں )

حضرت اقدس علیہ السلام کا ایک اور شعر بھی ہے ؂


وَمِنْ عَجَبٍ أُشَرِّفُکُمْ وَأَدْعُوْ
وَمِنْـکَ الْمَشْـرُفِیَّـۃُ وَالرِّمَاحُ


(تحفۂ بغداد۔روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۳۷)

کہ تعجب ہے کہ میں تمہاری عزت کرتا ہوں اور تمہیں بلاتا ہوں مگر تمہاری طرف سے نیزے اور تیر ہیں ۔

۳۳۔’’خیراتی‘‘

اعتراض۔ مرزاصاحب کے پاس ایک فرشتہ آیا جس کا نام’’ خیراتی رام ‘‘ تھا ۔



الجواب :۔لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر گز ’’خیراتی رام‘‘ نہیں لکھا۔ بلکہ ایک فرشتے کا بحالت رؤیا آنے کا ذکر فرمایا ہے۔ جس نے اپنا نام ’’خیراتی‘‘ بتایا ہے۔ آگے یہ تمہارا کا م ہے کہ تم والی آیت کے مطابق اپنے پاس سے الفاظ کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دو جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن ’’‘‘ کو ’’رَاعِیْنَا ‘‘ کر کے پکارتے تھے۔

باقی رہا فرشتے کا نام تو در حقیقت یہ لفظ ’’خیراتی‘‘ ہندی، پنجابی یا اردو کا نہیں بلکہ عربی زبان کا لفظ ہے جو خَیْرَاتِیٌّ ہے جو خیر سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’نیکیوں والا‘‘۔ یؔ نسبتی ہے ۔یہ اس فرشتے کا صفاتی نام ہے۔ چنانچہ ہمارے مندرجہ بالا معنوں کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر سے ہوتی ہے:۔

’’اِتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے۔ ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا وہ بھی اُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبد اﷲ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو۔ تب میں نے یہ دُعا کی کہ رَبِّ اذْھَبْ عَنِّی الرِّجْسَ وَطَھَّرْنِیْ تَطْھِیْرًا۔ اِس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور مولوی عبد اﷲ صاحب بھی آسمان کی طرف اُٹھ گئے ا و رمیری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہوسکتی۔‘‘
(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۳۵۱،۳۵۲)

حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ رؤیا ۱۸۷۴ء میں یعنی ماموریت سے پہلے کا ہے۔تم تو دو فرشتوں کے قائل ہو کہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ایک نیکیوں والا اور دوسرا بدیوں والا۔پھر اعتراض کیوں؟

۳۴۔’’جے سنگھ بہادر‘‘

اعتراض۔ الہام ۔ جے سنگھ بہادر یہ کیسا الہام ہے ۔


جواب:۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے طاقتور شیر کو فتح نصیب ہوگی اور’’ غلام احمد کی جے‘‘ کے نعرے بلند ہوں گے۔جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے ؂ لوائے ماپنہ ہر سعید خواہد بود ندائے فتح نمایاں بنا مِ ما باشد
اور دشمن کو بتایا گیا کہ وہ ناکام رہے گا۔ ع

ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار

باقی لفظ ’’جے سنگھ‘‘ پر مذاق اڑانا ایسی ہی جہالت ہے جیسے کوئی شخص خدا کے متعلق گاڈ یا پرمیشور کا لفظ سن کر اس کا مذاق اڑائے۔

۳۵۔گورنر جنرل

اعتراض۔ الہام ۔ گورنر جنرل ۔ یہ کیسا الہام ہے ۔


جواب :۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’مسیح جس کا دوسرانام مہدی ہے دنیا کی بادشاہت سے ہرگز حصہ نہیں پائے گا بلکہ اس کے لئے آسمانی بادشاہت ہوگی۔ اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح حکم ہوکر آئے گا اوروہ اسلام کے تمام فرقوں پر حاکم عام ہوگاجس کا ترجمہ انگریزی میں گورنرجنرل ہے سو یہ گورنری اُس کی زمین کی نہیں ہوگی بلکہ ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی طرح غربت اور خاکساری سے آوے ۔سو ایسا ہی وہ ظاہر ہوا۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۱۴۴)

۳۶۔آریوں کا بادشاہ

اعتراض۔ الہام ۔آریوں کا بادشاہ ۔ یہ کیسا الہام ہے ۔


جواب:۔کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’’سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ‘‘یعنی تمام انسانوں کا بادشاہ نہیں مانتے؟ کیا آریہ انسان نہیں؟ تو گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلمآریوں، دہریوں، عیسائیوں اور یہودیوں غرضیکہ سب کے بادشاہ ہیں۔

۲۔کیا کسی قوم کا بادشاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ کا بھی وہی مذہب ہے جو رعایا کا ہو؟ کیا جارج ششم آریوں کا بادشاہ نہیں تھا تو کیا وہ بھی آریا تھا۔اور نگزیب کیا ہندؤں کا بادشاہ نہ تھا ۔تو کیا وہ بھی ہندؤ تھا؟بادشاہ کی رعایا میں مومن بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی ۔شریف لوگ بھی ہوتے ہیں اور بدمعاش بھی۔وہ سب کا بادشاہ ہوتا ہے۔آخر انسانوں میں بد معاش بھی تو شامل ہیں۔پھر اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ جو آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں سب انسانوں کا سردار ہوں تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ خدا را اعتراض کرتے وقت کبھی خدا کا خوف بھی دل میں رکھا کرو۔

۳۷۔ اِنِّیْ بَایَعْتُکَ بَایَعْنِیْ رَبِّیْ

اعتراض۔ الہام ۔ انی بایعتک بایعنی ربی ۔ خدا نے مرزا صاحب کی بیعت کی (نعوذباﷲ)البشریٰ میں اس کا یہی ترجمہ لکھا ہے کہ ’’میں نے تیری بیعت کی۔‘‘



الجواب:۔ بابو منظور الٰہی صاحب کا ترجمہ مندرجہ البشریٰ بالکل غلط ہے اور نہ جماعت احمدیہ پر حجت ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کے ترجمہ کے بالمقابل کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۸ ۲۲پر اس الہام کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں:۔

’’مَیں نے تُجھ سے ایک خرید و فروخت کی ہے …… تُو بھی اس خرید و فروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خُدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی۔‘‘ (نیز دیکھو تذکرہ صفحہ۳۴۶مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

۲۔اس الہام میں خدا کے ساتھ اس خریدو فروخت کا ذکر ہے جو قرآن مجید کی اس آیت میں مذکور ہے۔(التوبۃ:۱۱۱)
کہ اﷲتعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ ایک سودا کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے مال اور جانیں خرید لی ہیں اور ان کے بدلہ میں ان کو جنت دی ہے۔

۳۸۔ ’’اَسْھَرُوَاَنَامُ‘‘

اعتراض۔ الہام ۔ اسھروا و انام ۔ یہ اللہ کی توہین ہے کیا اللہ بھی سوتا اور جاگتا ہے ۔


جواب:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ سونے سے پاک ہے۔ مطلب اس الہام سے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بعض گنہگاروں سے چشم پوشی کرتا ہے اوربعض دفعہ سزا بھی دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے متعلق بھوکا رہنے ،کھانے پینے ،کپڑا پہننے ،ننگا رہنے وغیرہ کے اگر استعارات استعمال ہوسکتے ہیں ۔(جیسا کہ ہم مسلم کی حدیث کے حوالہ سے ’’اُفْطِرُوَاَصُوْمُ‘‘ کے جواب میں بیان کر آئے ہیں۔تو سونے جاگنے کا استعارہ کیوں استعمال نہیں ہوسکتا؟
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۹۔ اِصْبِرْ سَنَفْرُغُ یَا مِرْزَا

اعتراض۔ اصبر سنفرغ یا مرزا (مکاشفات صفحہ ۲۸) کہ مرزا صاحب صبر کریں ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔


جواب:۔ہاں خداتعالیٰ کبھی یہ بھی فرمایا کرتا ہے کہ اے بندو! ابھی ہم فارغ ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:۔(الرحمٰن:۳۲) اے دو مخلوقو! (یعنی جنو ! اور انسانو !) ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہوں گے۔ فلا اعتراض

نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں لفظ ’’لک‘‘ نہیں ہے۔ اس لئے اس میں تہدید کا پہلو نہیں ہے۔نیز لفظ اِصْبِرْاس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام تسکین دہی کی غرض سے ہے پس مولوی محمد علی امیر پیغام کی کتا ب بیان القرآن کا حوالہ قابل اعتنا نہیں اور نہ ہم پر حجت ہے۔

۴۰۔قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں

اعتراض۔ قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کو اپنی منہ کی باتیں کہا ہے ۔


جواب نمبر۱:۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا الہام ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قرآنِ مجید میرے منہ کی باتیں ہیں ۔الہام میں صیغہ غائب سے صیغہ متکلم کی طرف تشریحاً تبدیلی ہوئی ہے ۔جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ملہم ہیں اس کی تشریح فرمادی ہے۔

’’سوال پیش ہوا کہ جو حضور کو الہام ہوا ہے (قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں اس الہام الٰہی میں میرے کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے؟یعنی کس کے منہ کی باتیں ؟فرمایا:۔’’خدا کے منہ کی باتیں‘‘ اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں (بدر جلد ۶نمبر۲۸۔ مورخہ ۱۱ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۶) چنانچہ بعینہٖ اسی طرح :۔

۱۔(الفاتحۃ: ۳ تا۵)میں پہلے سب غائب کے صیغے ہیں اور پھر یکدم صیغہ حاضر شروع ہوجاتا ہے۔ کیا خداتعا لیٰ(نعوذ باﷲ) آنحضرتؐ کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ ’’‘‘ہر گز نہیں۔فلا اعتراض
۲۔قرآن مجید میں ہے :’’ ‘‘ (فاطر:۱۰) اور اﷲ ہے جو بھیجتا ہے ہوائیں جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔ پس ہم اس کو ہانک لاتے ہیں مردہ بستی کی طرف۔ اس آیت میں پہلے تو اﷲتعالیٰ کا ذکر بصیغہ غائب کیا گیا ہے پھر اسی آیت میں آگے چل کر یکدم سُقْنَا صیغہ متکلم شروع ہوگیا ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بادل آلودہ ہواؤں کو اٹھاتا تو اﷲ تعالیٰ ہے مگر مردہ بستی کی طرف ہانک کر لانے والے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ (نعوذباﷲ)
۳۔ (الزخرف:۱۲) اور وہ جس نے اندازہ کے مطابق آسمان سے پانی اتار ا اور پھر ہم نے زندہ کیا اس سے مردہ بستی کو۔

۴۔ (الانعام:۱۰۰)

وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا ۔پھر ہم نے اس میں سے ہر چیز کی سبزی نکالی ۔

۵۔قرآن مجید میں ہے:۔(اٰل عمران:۱۸۰) کہ اﷲتعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر کہ تم اب ہو۔اس آیت میں مفعول بصورت صیغہ غائب ہے مگر’’‘‘میں انہی مومنین کو ضمیر مخاطب سے ذکر کیا ہے حالانکہ اگر معترض کا اسلوب بیان مدنظر ہوتا تو کی بجائے عَلٰی مَاھُمْ عَلَیْہِ چاہیے تھا مگر صیغہ غائب کو اﷲ تعالیٰ نے ایک ہی فقرہ میں صیغہ مخاطب میں تبدیل کرکے بتا دیا کہ اﷲتعالیٰ کے کلام میں ایسا ہوجایا کرتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔

قرآن مجید میں اس اسلوب بیان کی بیسوں مثالیں ہیں مگر انہیں پر اکتفا کی جاتی ہے۔

جواب نمبر۲۔ اگر مندرجہ بالا جواب کو قبول نہ کرو تو حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اﷲ علیہ کی زبان سے جواب سنو۔فرماتے ہیں :۔

۱۔’’عارف…… ذاتِ حق میں واصل ہوجاتا ہے ۔ان کی گردش اﷲتعالیٰ کی گردش اور ان کی باتیں اﷲتعالیٰ کی باتیں ہوتی ہیں اور ان کی نظر خدا کی نظر ہوتی ہے۔حضور پیغمبرعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں کسی بندہ کو اپنا دوست بناتا ہوں تو میں اس بندے کے کان آنکھیں اور زبان، ہاتھ پاؤں وغیرہ بن جاتا ہوں۔ تاکہ وہ مجھ سے سنے، دیکھے، بولے ، کام کرے اور چلے۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء اردو باب ۱۳ صفحہ ۱۰۱ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز ۔بار سوم مطبع علمی پرنٹنگ پریس لاہور ۔ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃالاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ دین سراجدین مطبوعہ جلال پرنٹنگ پریس صفحہ۱۱۷)

نوٹ:۔ یاد رہے کہ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اﷲ علیہ کی عظیم الشان شخصیت کا کسی مسلمان کو انکار نہیں۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۱۵ میں ان کی عظمت و بزرگی کا خاص طوپر ذکر فرمایا ہے۔

۲۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اور بندہ کی عزت اس میں ہوتی ہے کہ اپنے فعلوں اور امکانِ مجاہدہ بجمالِ حق میں آفتِ فعل سے بچا ہو۔ اور اپنے فعلوں کو خداتعالیٰ کے فضل میں مستغرق جانے اور مشاہدہ کو ہدایت کے پہلو میں منفی۔ پس اس کا قیام حق سے ہے۔ وہ تعالیٰ شانہٗ اس کے اوصاف کا وکیل ہو اور اس کے فعل کو سب اسی کی طرف نسبت ہوتا کہ اپنے کسب کی نسبت سے نکل گیا ہو۔چنانچہ پیغمبرصلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم کو جبرائیل سے خبر دی ہے اور جبرائیل نے خداتعالیٰ سے جیساکہ فرمایا:۔’’لَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوافِلِ حَتّٰی اُحِبُّہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَیَدًا وَبَصْرًا وَمُؤَیِّدًا وَلِسَانًا فِبِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبْصِرُ وَبِیْ یَبْطِشُ وَبِیْ یَنْطِقُ۔‘‘ یعنی بندہ مجاہدہ کے ساتھ ہم سے تقرب کرتا ہے۔ہم اس کواپنا دوست بناتے ہیں۔اس کی ہستی کو اس میں فنا کردیتے ہیں اور اس سے اس کے فعلوں کی نسبت ہٹاتے ہیں۔ تاکہ جو کچھ سنے ہم سے سنے جو کہے ہم سے کہے جو دیکھے ہم سے دیکھے اور جو کچھ پکڑے ہم سے پکڑے یعنی ہمارے ذکر میں مغلوب ہو اور اس کا کسب اس کے ذکر سے فنا ہو اور ہمارا ذکر اس کے ذکر پر غالب ہوجائے اور آدمیت کی نسبت اس کے ذکر سے قطع ہوجائے۔ تب اس کا ذکر ہمارا ذکر ہوگا۔ حتی کہ حالت غلبہ میں اس صفت پر ہوجائے جو کہ ابو یزیدؒ نے کہا ۔ سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَاْنِیْ اور جس نے ان کی کلام کی تاک پر کہا وہ کہنے والا ہو تا ہےَ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما یا اَلْحَقُّ یَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَی عنی حق عمر ؓ کی زبان سے گویا ہے۔اس کی اصلیت ایسی ہوتی ہے کہحق کا قہر آدمیت پر اپنا غلبہ ظاہر کرتا ہے ۔اس کو اس اس کی ہستی سے نکال دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے کلام استحالہ سے سب کلام حق ہوتی ہے۔‘‘ (کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ۲۸۷)

۴۱۔انگریزی الہامات کی زبان پر اعتراض

اعتراض۔ انگریز ی میں الہام کیوں ہوئے اس میں گرامر اور ہجوں کی غلطیاں ہیں۔


مکتوبات جلد ۱ صفحہ ۶۸ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بایں الفاظ میں شائع ہوا ہے۔

(۱)

اعتراض۔ "You have to go Amritsar" (یوہیو ٹو گو امرتسر)
یعنی تمہیں امرتسر جانا ہوگا۔اس پر اعتراض کیا گیاکہ لفظ (go)اور امرتسر کے درمیان لفظ ٹو(to) چاہیے تھا ۔یعنی عبارت اسی طرح ہونی چاہیے تھی۔ "You have to go to Amritsar"



اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ لفظ toکا اس الہام میں رہ جانا محض سہو کتابت کا نتیجہ ہے اصل الہام سے مفقود نہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اسی جگہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہوجاتا ہے۔ اس کو غور سے دیکھ لینا چاہیے۔‘‘ (مکتوبات جلد۱صفحہ ۶۸ و تذکرہ صفحہ۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۴ء)

پھر فرماتے ہیں :۔
’’چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے اور الہام الٰہی میں ایک سُرعت ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۱۷ حاشیہ)
اس امر کا ثبوت کہ لفظ "go"کے بعد "to"کا رہ جانا محض سہو کتابت سے ہے یہ ہے کہ اس الہام سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس الہام سے بالکل مشابہ ایک اور الہام ہوچکا ہے۔ جس میں لفظ to کوgo کے بعد استعمال کیا گیا ہے ۔وہ الہام براہین احمدیہ حصہ چہارم۔روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۵۵۹بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳وتذکرہ صفحہ ۹۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء پر ہے۔

Then will you go to Amritsar’’ دن ول یو گو ٹو امرت سر۔‘‘

یعنی تب تم امرتسر بھی جاؤگے ۔اس الہام میں فقرہ go to Amritsar استعمال ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ملہم (خداتعالیٰ)کوتو go to کا محاورہ معلوم تھا مگر اس کے لکھنیمیں سہو کتابت کے باعث لفظ to رہ گیا۔ اس قسم کا سہو اس قدر عام ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی لیکن ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک دوسرے الہام کو بطور دلیل پیش کرکے ثابت کر دیا ہے کہ معترضین کا اعتراض سراسر باطل ہے۔

لفظ ’’ضلع‘‘ کا استعمال انگریزی میں

مندرجہ بالا الہام سے اگلا الہام ہے:۔

(۲)

اعتراض۔ "He halts in the Zilla Peshawar" کہ وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۴ء) اس الہام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں لفظ ’’ضلع‘‘ استعمال نہیں ہوتا۔



جواب:۔غلط ہے ۔انگریزی میں لفظ ’’ضلع‘‘ کا استعمال ہوتا ہے۔

۱۔دی نیو آکسفورڈ ڈکشنری by the Judy Pearsall under word "Zilla" لکھا ہے:۔

ZILLAH:- ADMINISTRATIVE DISTRICT.

۲:۔ دی پبلک سروس انکوائریز ایکٹ کی دفعہ نمبر ۸ میں دو دفعہ یہ لفظ ’’ ضلع‘‘ انگریزی میں استعمال ہوا ہے ۔دیکھو دی پنجاب کورٹس ایکٹ مرتبہ و شائع کردہ شمیر چندبیرسٹر ایٹ لاء مطبوعہ ۱۹۳۳ء صفحہ ۸۳۔ علاوہ ازیں آکسفورڈ ڈکشنری زیر لفظ "Zilla"پر لفظ ’’ضلع‘‘ موجود ہے۔

۳۔ ’’بائی ‘‘ بمعنے ’’ساتھ‘‘

اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے:۔ GOD IS COMING BY HIS ARMY (گاڈ از کمنگ بائی ہز آرمی) (تذکرہ صفحہ۵۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) یعنی خدا اپنی فوج کے ساتھ آرہا ہے۔



اس الہام پر یہ اعترض کیا جاتا ہے اس میں لفظ ’’بائی‘‘ کا استعمال درست نہیں ۔ اس کی بجائے لفظ With (ساتھ) استعمال ہو نا چاہیے تھا۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض انگریزی زبان کے نہ جاننے کے باعث پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ انگریزی زبان میں لفظ byبائیwith کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو۔ انگلش ڈایالکٹ ڈکشنری مصنّفہ جوزف رائٹ صفحہ ۴۷۰۔ اس میں لکھا ہے:۔

"BY together with, in company with, I will go if you go by me, come along by me."

یعنی لفظ ’’بائی ‘‘ کے معنے ہیں ’’ساتھ‘‘ ۔’’ہمراہ‘‘۔جیسا کہ کہتے ہیں۔میں تب جاؤں گا اگر تم میرے ساتھ (بائی) جاؤ گے + تم میرے ’’ساتھ‘‘آؤ۔

محولہ بالا ڈکشنری وہ ڈکشنری ہے جس کے متعلق لکھا ہے:۔

Complete vocabulary of all english dialect

کہ یہ انگریزی زبان کے تمام محاورات کا خزینہ ہے۔

علاوہ ازیں انگریزی کی سب سے بڑی ڈکشنری مصنفہ ویبسٹر (WEBSTER)جس کا نام ہے۔ ’’انٹرنیشنل ڈکشنری آف انگلش لینگوئج ‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۷ء پر لفظ comeکے نیچیلکھا ہے:

(Come by:- To pass "by way of")

یعنی کم بائی (come by)کے معنے ہیں ۔بذریعہ ۔پس اس الہامی فقرہ کے معنے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ بذریعہ افواج آرہا ہے۔یعنی خدا کا آنا بذریعہ افواج قاہرہ ہوگا ۔

پس انگریزی زبان میں لفظby (بائی) with کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔لہٰذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام انگریزی زبان کے لحاظ سے بالکل با محاورہ اور درست ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ایکسچینج بمعنی چینج

اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے۔ ــ"Words of God cannot exchange" (ورڈز آف گاڈ کین ناٹ ایکسچینج )تذکرہ صفحہ ۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء یعنی خدا کے الفاظ تبدیل نہیں ہوسکتے۔



اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں لفظ exchange( ایکسچینج )لفظchange کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ بلحاظ قواعد و اسلوبِ اہل زبان یہ لفظ "change" کے معنے میں استعمال نہیں ہوسکتا۔ اگر الہام میں لفظ ایکسچینج کی بجائے چینج ہوتا تو درست ہوتا۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ بھی انگریزی زبان سے ناواقفیت کے باعث پیدا ہوا ہے۔ ورنہ انگریزی زبان میں exchange کا لفظ change کے معنے میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہانگریزی زبان کی مشہور اور مروج لغت آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ exchange کے معنے change لکھے ہیں۔

علاوہ ازیں Marrey's Dictionary میں لفظ exchange کے ماتحت لکھا ہے کہ یہ لفظ change کے معنے میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے استعمال کا ثبوت بطور مثال یہ فقرہ لکھا ہے۔

"I return again just to the time not with the time exchanged."

یعنی میں وقت مقررہ پر واپس آیا ہوں۔ تبدیل شدہ وقت پر نہیں۔پس انگریزی زبان میں ’’ایکسچینج‘‘ کا لفظ ’’چینج‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام میں ہوا۔ اور اس پر اعتراض کرنا انگریزی زبان سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔

ایک اور مفہوم

علاوہ ازیں ایکسچینج Exchange کا لفظ مسلمہ طور پر"Inter change"کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر اس لحاظ سے الہام کے الفاظ کو دیکھا جائے تو الہام کے معنے یہ ہوں گے کہ اﷲتعالیٰ کے الفاظ آپس میں بدل نہیں سکتے۔

مطلب یہ ہوگا کہ اﷲتعالیٰ کا کلام اس قدر افصح اور ابلغ ہوتا ہے کہ اس کا ہر لفظ اپنی جگہ پر نہایت موزوں ہوکر بیٹھتا ہے اور جو جہاں استعمال ہو۔وہ وہاں ہی صحیح معنے دیتا ہے۔ اور اگر کسی لفظ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا لفظ وہاں رکھا جائے تو عبارت کا مفہوم بگڑ جائے گا۔چنانچہ اعلیٰ کلام کی یہ خصوصیت مسلم ہے کہ اس کا ہر لفظ بامعنی اور بر محل ہوتا ہے۔خصوصاً قرآن مجید کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس میں بلاغت کا یہ کمال اس قدر نمایاں ہے کہ اگر اس کا ایک لفظ بھی بدل دیا جائے تو آیت کا مفہوم اس قدربگڑ جاتا ہے کہ سیاق و سباق عبارت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔

پس حضر ت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ا لہا م میں خواہ لفظ ’’ایکسچینج‘‘ کو ’’ چینج‘‘ کے معنے میں لیا جائے خواہ انٹرچینج (inter change) کے معنے میں، الہام کی زبان بالکل درست اور محاورۂ اہلِ زبان کے عین مطابق ہے اور اس پر اعتراض کرنے سے بجز اس کے کہ معترض کی اپنی علمی پردہ دری ہو اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔

۴۲۔قابل تشریح الہامات

۱۔قرآن مجید میں حروف مقطعات کھٰیٰعص ۔طٰس ۔طسم۔حٰم ۔ن۔ق۔یٰسوغیرہ وغیرہ کے متعلق بھی مخالفین تمہاری طرح گول مول الہام ہونے کا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔
۲۔ تمہارے ہی جیسے دشمنانِ حق نے حضرت شعیب ؑ سے بھی کہہ دیا تھا کہ تمہارے الہامات گول مول ہیں ۔جن کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی ۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے :۔
(ھود :۹۲) کہ اے شعیبؑ ! ہمیں اکثر باتوں کی جو تو کرتا ہے سمجھ نہیں آتی ۔
۳۔حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ’’الا قتصاد فی الا عتقاد ‘‘ میں لکھتے ہیں :۔
’’قرآن مجید کے سب معنی سمجھنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی……مقطعات قرآنی ایسے حروف یا الفاظ ہیں جو اہل عرب کی اصطلاح میں کسی معنے کے لئے موضوع نہیں ۔‘‘
(علم الکلام اردو ترجمہ الا قتصاد فی الا عتقاد صفحہ ۶۶)

۴۔حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’’ الفوز الکبیر‘‘ میں قرآن مجید کی ان آیات کے متعلق جن میں تخصیص نہ ہولکھتے ہیں:۔
’’اجتہاد را دریں قسم دخلے ہست و قصص متعددہ را آنجا گنجائش ہست۔‘‘ (الفوز الکبیر صفحہ ۴۰)
کہ اس قسم کے الہامات میں اجتہاد کا راستہ کھلا ہے اور کئی قصوں کی ان آیات کی تشریح میں شامل کئے جانے کی گنجائش ہے۔
۵۔امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:۔

فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی ’’‘‘ وَمَا یَجْرِیْ مَجْرَاہُ مِنَ الْفَوَاتِحِ قَوْلَانِ اَحَدُھُمَا اِنَّ ھٰذَا عِلْمٌ مَسْتُوْرٌ وَ سِرٌّ مَحْجُوْبٌ اِسْتَأْثَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی بِہٖ۔ وَ قَالَ اَبُوْ بَکْرِ الصِّدِّیْقُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ کُلِّ کِتٰبٍ سِرٌّ وَ سِرُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ اَوَائِلُ السُّوَرِ۔ (تفسیر کبیر رازی زیر آیت ۔ البقرۃ:۱قول المتکلمین فی و امثالھا۔ المسئلۃ الثانیۃ)

کہ وغیرہ مقطعات کی نسبت دو قول ہیں۔پہلا قول یہ ہے کہ یہ چھپا ہوا علم اور راز داروں پر پر دہ ہے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ۔اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہے کہ اﷲتعالیٰ کا کوئی نہ کوئی بھید ہر کتاب میں ہوتا ہے اور قرآن میں اس کا بھید قرآن مجید کی سورتوں کے ابتدائی مقطعات ہیں۔

۶۔’’لَا بُعْدَ فِیْ تَکَلُّمِ اللّٰہِ تَعَالٰی بِکَلَامٍ مُفِیْدٍ فِیْ نَفْسِہٖ لَا سَبِیْلَ لِاَحَدٍ اِلٰی مَعْرِفَتِہٖ اٰلَیْسَتْ فَوَاتِحُ السُّوَرِ مِنْ ھٰذَا الْقَبِیْلِ وَھَلْ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ اَنْ یَّقُوْلَ اِنَّھَا کَلَامٌ غَیْرُ مُفِیْدٍ وَھَلْ لِاَحَدٍ سَبِیْلٌ اِلٰی دَرْکِہٖ۔‘‘ (السرج الوہاج شرح مسلم جلد ۲ صفحہ ۷۷۴ مصنفہ نواب صدیق حسن خان)

یعنی یہ امر کوئی بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا الہام یا وحی نازل ہو جو اپنی ذات میں مفید تو ہو مگر اس کے معنے کوئی نہ سمجھ سکے۔ کیا قرآن مجید کے حرف مقطعات اس طرح کے نہیں ہیں۔ کیا کسی کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔پھر کیا کوئی ان کاعلم حاصل کرسکتا ہے؟(یعنی نہیں کرسکتا۔)

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وہ الہا مات جو خاص واقعات کے متعلق ہیں، ان کی تشریح خود حضرت اقدسؑ نے فرما دی اور جو بعض آئندہ زمانہ کی پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں وہ اپنے وقت پر پورے ہوں گے اور ان کے معنے واقعات کی روشنی میں کھل جائیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :۔(النمل:۹۴) کہ ہم تم کو اپنے نشان دکھائیں گے تو تم ان کو پہچان لوگے۔

اور بعض الہامات جو عام ہیں ان کی تشریح و تفسیر کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے جیسا کہ شاہ ولی اﷲصاحبؒ کے حوالہ سے اوپر درج کیا جاچکا ہے۔ بہر حال ان الہامات کو گول مول قرار دینا یا ان کو غیر مفید بتانا اپنی شقاوتِ قلبی اور کور باطنی پر مہرتصدیق ثبت کرنا ہے۔

اب ذیل میں چند الہامات مع تشریح درج کئے جاتے ہیں:۔

۱۔’’غُثُمْ غُثْمْ غُثُمْ ‘‘ بے معنی فقرہ ہے

اعتراض۔ غثم غثم غثم ۔ یہ الہام بے معنی ہے ۔


جواب الف:۔ تمہارے جیسے داناؤں نے حضرت شعیب ؑ کو کہا تھا کہ (ھود :۹۲) اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔

ب۔حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔
’’قرآن مجید کے سب معنے سمجھنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی……مقطعاتِ قرآنی ایسے حروف یا الفاظ ہیں جو اہل عرب کی اصطلاح میں کسی معنے کے لئے موضوع نہیں۔‘‘
(علم الکلام ترجمہ اردو الاقتصا د فی الاعتقاد صفحہ ۵۶ )

غُثُمْ غُثُمْ غُثُمْ حضرت اقدس علیہ السلام کا کوئی الہام نہیں ہے۔ بلکہ غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ ہے اور اس کے معنی ہیں اس کو مال یکد م دیا گیا ۔ الہام کے سا تھ ترجمہ بھی الہام ہوا ہے۔الہام کے یہ الفاظ ہیں غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً۔ (تذکرہ صفحہ۲۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) دیاگیا اس کو مال اس کا۔ لغت میں ہے:۔ غَثْمًا لَہٗ دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً جَیّدَۃً مِّنَ الْمَالِ ( منجد زیر لفظ غثم )کہ غثم کے معنے ہیں اس کو یکدم مال دیا گیا۔

پھر عربی انگریزی ڈکشنری ’’الفرائد الدریہ ‘‘ میں لکھا ہے :۔

غَثَمَ To give at once to any one.

یکدم کسی کو مال دینا ۔پس یہ الہا م بے معنے نہیں اور تمہارا اس کو غُثُم غُثُم پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بدزبان دشمنِ اسلام کو اُلُم اُلُم پڑھ کر اس پر تمسخر اڑائے ۔

نیز دیکھو ’’لسان العرب‘‘ میں لکھاہے:۔ غَثَمَ لَہٗ مِنَ الْمَالِ غَثْمَۃً۔اِذَا دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً گویا غَثَمَ لَہٗ کے معنے لفظاً لفظاً لغت میں وہی ہیں جو حضرت اقدسؑ کے الہام میں ہیں۔نیز دیکھو اقرب الموارد۔

۲۔

اعتراض ۔ ’’ایک ہفتہ تک کوئی باقی نہ رہے گا‘‘ بے معنی ہے



جواب:۔خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:ـ۔’’ (الحج:۴۸) ‘‘ کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک دن انسانوں کے ہزار سال کے برابر ہے اور انجیل میں بھی ہے ۔ ’’یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر۔خداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا۔‘‘ (پطرس ۳/۸)
۱۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے بتایا کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور سات ہزار سال کے بعد دنیا پر قیامت آجائے گی۔ چنانچہ حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ ۳۸ پر لکھا ہے:۔
’’در بعض روایات آمدہ کہ عمرِ دنیا ہفت ہزار سال است۔ پس بس۔ چنانچہ حکیم ترمذی در نوادرالاصول در حدیث طویل……باسناد خود تا ابو ہریرہ ؓ روایت کردہ کہ فرمود رسول خداصلعم ……مدت دنیا از روزیکہ مخلوق شدہ تاآں روز کہ فناشود بماند وآں ہفت ہزار سال است…… وانس بن مالک گفتہ کہ فرمود رسول خدا صلعم……عمر دنیا کہ ہفت ہزار سال است …… اَخْرَجَہٗ ابن عساکر فی تاریخہٖ ونیزوی مرفوعًا از انس روایت کردہ کہ عمر دنیا ہفت روز است……، لیکن بطریق صحیح از ابن عباسؓ آمدہ کہ دنیا ہفت روز است و ہر روز ہزار سال۔‘‘
(حج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ۳۸۔ ۳۹ فصل سوم در بیان عمر دنیا)

۲۔خود حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس الہام کی تشریح بہ تفصیل بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ اس الہام کے متعلق حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :۔
’’اور دنیا کی عمر بھی ایک ہفتہ بتلائی گئی ہے۔ اس جگہ ہفتہ سے مراد سات ہزار سال ہیں۔ ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ (الحج:۴۸) (بدر ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء)

۳۔ دنیا کی عمر سات ہزار سال کے متعلق تفصیلی بحث دیکھو تحفہ ٔ گولڑویہ و براہین احمدیہ حصّہ پنجم۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

۳۔

اعتراض۔ ’’پہلے بیہوشی پھر غشی پھر موت‘‘ بے معنی الہام ہے



جواب:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں :۔

’’ ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا۔ پہلے بیہوشی ،پھر غشی، پھر موت، ساتھ ہی اسکے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا۔ چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں درج ہو کر شائع کیا گیا پھر آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن ایک ناگہانی موت سے قصور میں گذر گئے۔ اوّل بے ہوش رہے پھر یک دفعہ غشی طاری ہو گئی۔ پھر اس ناپائدار دُنیا سے کوچ کیا اور اُن کی موت اور اس الہام میں صرف بیس۲۰ بائیس۲۲ دن کا فرق تھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۲۳،۲۲۴ و نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۰۹)

۴۔

اعتراض۔ الہام ’’موت ۱۳ ماہ حال کو ۔ایک دم میں دم رخصت ہوا پیٹ پھٹ گیا ‘‘ میں کس کا یپٹ پھٹ گیا ؟



جواب:۔یہ الہام ۵ شعبان ۱۳۲۴ ھ کو ہوا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔ ’’مجھ کو ۳۰؍جولائی ۱۹۰۶ء میں اور بعد اس کے اور کئی تاریخوں میں وحی الٰہی کے ذریعہ سے بتلایا گیا کہ ایک شخص اس جماعت میں سے ایک دم میں دُنیا سے رخصت ہو جائے گا اور پیٹ پھٹ جائے گااور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق شعبان ۱۳۲۴ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھایک دفعہ ایک دم میں پیٹ پھٹنے کے ساتھ مر گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۴۳۵)

۵۔

اعتراض۔ ’’ایلی اوس‘‘ الہام کا کیا مطلب ہے ؟



جواب:۔ ’’ایلی‘‘کا ترجمہ ہے ’’اے خدا !‘‘ اور ’’اوس‘‘ کا ترجمہ ہے انعام ۔عطیّہ ۔ المنجد میں ہے:۔

اٰسَ۔ اَوْسًا وَاِیَاسًا: اَعْطٰی۔عَوَّضَ۔ اَ لْاَوْسُ: اَلْعَطِیّۃُ(المنجد زیر لفظ اٰس)کہ اٰسَ۔ اَوْسًاکے معنے ہیں۔ اس نے انعام دیا۔ معاوضہ دیا۔ ’’اوس‘‘ کے معنے ہیں ’’عطیہ ‘‘اور یہی معنے ’’الفرائدالدریہ زیر لفظ اٰس‘‘ میں بھی مذکور ہیں۔ پس ’’ایلی اوس‘‘ کے معنے ہوں گے۔اے میرے خدا ! مجھ پر انعام کر ۔مجھے اجر دے۔

۶۔ ھُوَشَعْنَا نَعِسًا

اعتراض ۔ ھو شعنا نعسا الہام کا کیا مطلب ہے ؟


جواب:۔ الف:۔ ھُوَ شَعْنَا کے معنے ہیں ’’کرم کر کے نجات دے۔‘‘
’’اے خداوند میں منت کرتا ہوں کہ نجا ت بخشیئے۔‘‘ (دیکھو زبور ۱۱۸/۲۵)

ب ۔ انجیل مطبوعہ ۱۹۲۸ء میں ہے ۔’’ابن داؤد کو ھُوَ شَعْنَا ‘‘ اوراس آیت میں ھُوَ شَعْنَا پر حاشیہ میں لکھا ہے ۔ اس کے معنے ہیں کرم کر کے نجات دے۔‘‘ (متی ۲۱/۹)
ج۔ نَعِسًا کا ترجمہ عبرانی میں ہے granted(قبول ہوئی )گویا ھُوَ شَعْنَا میں جو دعا تھی نَعِسًا کے لفظ میں ساتھ ہی اس کی قبولیت بھی الہاماً بتا دی گئی ۔

۲۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس الہام کا ترجمہ تحریر فرما دیا ہے :۔

’’جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھو شعنا نَعْسا۔ ……ترجمہ ۔ اے خدا ! میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما ۔ ہم نے نجات دی ۔یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کاحاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بیکسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دُور کر دی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس۲۵ برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۰۴،۱۰۵)

۷۔

اعتراض۔ الہام ۔ آسمان مٹھی بھر رہ گیا ۔ کیا مطلب ؟



جواب:۔ اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب آسمان سے قہری نشان ظاہر ہوں گے۔
آسماں اے غافلواب آگ برسانے کو ہے (المسیح الموعود)

نیز حضرت اقدس علیہ السلام نے جنگ یورپ کی پیشگوئی کرتے ہوئے بھی فرمایا:۔

اک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربانی نشاں
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۲)

۸۔

اعتراض۔ الہام ۔ ایک دانہ کس کس نے کھانا ۔ کا کیا مطلب ہے ؟



جواب۔ (۱) یہ الہام ۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کا ہے۔ اس کے سباق میں جو الہامات ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

’’زمین کہتی ہے یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَۃَ اِسْمٰعِیْلَ فَاخْفِھَا حَتّٰی یَخْرُجَ۔ ایک دانہ کس کس نے کھانا۔‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم جلد ۱۰ نمبر ۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۱ و تذکرہ صفحہ۵۰۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) زمین کہتی ہے۔ اے نبی اﷲ! میں تجھے نہیں پہچانتی تھی۔ اس کا (مسیح موعود کا) ھم اور غَم اسماعیل کے درخت کو اگانے کا موجب ہو گا۔ پس اس کو پوشیدہ رکھ۔ یہاں تک کہ وہ ظاہر ہو جائے۔ ایک دانہ کس کس نے کھانا۔ ظاہر ہے کہ یہاں دانہ سے مراد دوحۃ اسمٰعیل یعنی اسماعیل کے درخت کا دانہ ہے۔ یعنی وہ غم اور قوم کا درد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھا وہ بطور بیج کے ہو کر ایک دن اسمٰعیل کا عظیم الشان درخت بن جائے گا۔ یعنی شوکت اسلام کے ظہور کا موجب ہو گا۔ اور تمام دنیا اس سے برکت پائے گی۔ غرضیکہ یہ غم جس کو آج اکیلا خدا کا مسیح کھا رہا ہے ایک دن رحمت و برکت کا موجب بن کر ثمر دار درخت بن جائے گا اور پھر سب دنیا اس پھل کو کھائے گی۔ یہ ہے وہ ’’دانہ‘‘ جسے کس کس نے کھانا۔ ‘‘

(۲) یہ دانہ قرآن مجید بھی ہو سکتا ہے کہ باوجود اس قدر مختصر ہونے کے پھر بھی تمام دنیا کے لئے روحانی غذا بن کر ان کی بھوک کو مٹاتا ہے کیونکہ اسمٰعیل کے درخت (یعنی شوکتِ سلسلہ محمدیہ) کا سب سے اونچا اور خوبصورت پھل یہی قرآن مجید ہے۔

۹۔

اعتراض ۔ الہام ۔ پچیس دن یا پچیس دن تک ۔ کا کیا مطلب ہے ؟



جواب:۔ یہ الہام ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء کا ہے (دیکھو بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ و الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۱بحوالہ تذکرہ صفحہ۵۹۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی دن اس کی تشریح میں فرمایا تھا:۔
’’کوئیہولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے۔‘‘ (بدر ۱۴؍ مارچ صفحہ ۳، ۱۹۰۷ء)

چنانچہ اس الہام سے پورے پچیسویں دن یعنی ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو (اس الہام کے شائع ہو چکنے کے کئی دن بعد) ایک پُر ہیبت آتشیں گولہ آسمان پر سے مختلف شہروں میں گرتا ہوا نظر آیا۔ چنانچہ لاہور کے مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے بھی اس پر لکھا:۔ کئی نامہ نگاروں نے ہمیں اس شہاب کے متعلق خطوط لکھے جو اتوار (۳۱؍ مارچ) کی شام کو پونے پانچ بجے کے قریب دیکھا گیا۔ تو اس کے پیچھے ایک بہت لمبی دوہری دو دھار ایسی تھی جیسے دھواں ہوتا ہے۔ (سول اینڈ ملٹری گزٹ ۳؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

نوٹ:۔ الہام ’’ایسوسی ایشن‘‘ میں جماعت احمدیہ کے قیام کی پیشگوئی ہے۔

۱۰۔

اعتراض۔ الہام ’’مضر صحت‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۲۱مورخہ ۱۷؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) کا کیا مطلب ہے ؟



میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محنت شاقہ و شب بیداری کا ذکر ہے اور الہام ’’آثار صحت‘‘ میں ایک آدمی کی بحالی صحت کی خبر دی گئی ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دن دعا فرمائی تھی۔ (’’آثار صحت‘‘ دیکھو بدر جلد ۲ نمبر۱۶مورخہ ۸؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۳)

۱۱۔

اعتراض۔ الہام ۔ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ کا کیا مطلب ہے ؟



جواب:۔ اس کے ساتھ ایک اور الہام بھی ہے فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا (دیکھو تذکرہ صفحہ۴۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ایڈیشن چہارم) جس کی تشریح میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی دعا کا ذکر کیا ہے۔ کہ اے خدا! اپنے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت اس الہام میں فرمائی۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں یہ الہام ہوا۔ طاعون کا دور دورہ ہوا اور لاکھوں دشمن ہلاک ہوئے۔ تعیین تو اس صورت میں کی جاتی اگر ایک دو دشمنوں نے ہلاک ہونا ہوتا۔

۱۲۔ شَرُّ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتََ عَلَیْھِمْ

اعتراض۔ الہام ۔ شر الذین انعمت علیھم ۔ کا کیا مطلب ہے ؟



الجواب:۔ یہ الہام بدر جلد ۱ نمبر ۸مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ صفحہ ۲۔ الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ صفحہ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء پر بھی ہے۔ اور ساتھ ہی درج ہے کہ شیخ رحمت اﷲ صاحب لاہوری (جو بعد میں پیغامی پارٹی کے رکن ہو گئے تھے) کے لئے حضرت اقدسؑ نے دعا فرمائی تو الہام ہوا۔ شَرُّ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا۔ اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہی لوگ جن پر حضرت اقدسؑ کی طرف سے بے شمار مہربانیاں ہوئی تھیں ایک وقت آئے گا کہ حضورؑ کی شان میں استخفاف کر کے حضورؑ کے مشن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ فتنہ غیر مبایعین اٹھا اور شیخ رحمت اﷲ صاحب ان کے رکن رکین بن گئے۔

۱۳۔

اعتراض۔ الہام ۔ لاہور میں ایک بے شرم ہے ۔ کا کیا مطلب ہے ؟



الجواب:۔ یہ الہام ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۷ء کا ہے اور بدر جلد ۶ نمبر ۱۱مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ و الحکم جلد ۱۱ نمبر ۹مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ و تذکرہ صفحہ۶۹۴ پر درج ہے۔ اس کی تشریح کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کے الہامات بھی درج کئے جائیں۔

’’لاہور میں ایک بے شرم ہے وَیْلٌ لَکَ وَ لِاِفْکِکَ اِنِّیْ نُعِیْتُ اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰدِقِیْنَ…… ایک امتحان ہے۔ بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے۔ ۔‘‘

ترجمہ:۔ لاہور میں ایک بے شرم ہے۔ اے بے شرم! تجھ پر اورتیرے جھوٹ پر ***۔ میں نے ایک شخص کی وفات کی خبر دی۔ بے شک میں ہی خدا ہوں۔ میرے سوا اور کوئی خدا نہیں۔ خدا سچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک امتحان ہے۔ بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے۔ اے اہل بیت! خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری پلیدی کو دور کرے اور تمہیں پاک کرے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہ سب الہامات ۱۳؍ مارچ کے ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے:۔

۱۔ کوئی شخص فوت ہوگا۔
۲۔ اس دن ایک بہت بڑا فتنہ ہو گا۔
۳۔ اس فتنہ میں دو فریق ہو جائیں گے (ایک فریق پکڑا جائے گا دوسرا چھوڑا جائے گا) اور دونوں اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے کوشش کریں گے۔
۴۔ وہ فریق جو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا سچا ہو گا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ۔
۵۔ اس فتنہ میں کوئی شخص جس کا تعلق لاہور سے ہو گا۔ انتہائی بے شرمی کا اظہار کرے گا اور ایسا طرز عمل اختیار کرے گا جس میں کذب بیانی اور دھوکا سے کام لیا گیا ہو گا۔
۶۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت یعنی حضورؑ کی بیوی اور بچوں کے خلاف بھی وہ فتنہ اٹھایا جائے گا لیکن خداتعالیٰ ان کو ان حملوں سے محفوظ رکھے گا۔
۷۔ وہ لاہو رکا ’’بے شرم‘‘ اپنی بہتان طرازی سے اپنی ’’بے شرمی‘‘ کا ثبوت کسی شخص کی وفات سے پہلے دے چکا ہو گا۔ یعنی وفات بعد میں ہو گی۔ مگر اس سے قبل وہ جھوٹ وغیرہ کا واقعہ ہو چکا ہو گا۔ کیونکہ لاہور میں ایک بے شرم اور اس کے جھوٹ کا ذکر الہام میں پہلے ہے اور اس کے بعد وفات کا ذکر ہے۔

اب دیکھ لو یہ سب پیشگوئیاں کس عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں۔ ۱۳؍ مارچ کے دن یہ الہام ہوا تھا اور عین ۱۳؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو یعنی الہام ہی کی تاریخ کو حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ کی وفات حسرت آیات ہوئی اور ’’اِنِّیْ نُعَیْتُ‘‘ کا الہام پورا ہوا ( کہ میں نے کسی کے فوت ہونے کی خبر دی) آپ کی وفات سے قبل خفیہ طور پر مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے لاہوری پارٹی کے امیر نے ایک ٹریکٹ لکھ کر اور طبع کرا کے اس انتظار میں رکھا ہوا تھا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ فوت ہو جائیں اس وقت اس کو تقسیم کیا جائے گا۔ اس ٹریکٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور وصیت کے متعلق انتہائی کذب آفرینی سے کام لیا گیا تھا۔ وہ ٹریکٹ ۱۳؍ مارچ کو حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کے دن تقسیم کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ ایک خطرناک ’’امتحان‘‘ میں پڑ گئی۔ دو فریق ہو گئے۔ مولوی محمد علی صاحب اور آپ کا لاہوری فریق آئندہ کے لئے خلافت کو مٹانا چاہتے تھے۔ اور اس کوشش میں تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کا کوئی جانشین منتخب نہ کیا جائے۔ مگر دوسری طرف ایک دوسرا فریق تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وصیت کے مطابق انتخاب خلافت کو ضروری قرار دیتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت بھی اسی دوسرے گروہ کے ہم خیال تھے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرا گروہ کامیاب ہو گیا اور ’’لاہوری‘‘ فریق ناکام ہوا۔

حضرت سیدنا مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ منتخب ہوئے۔ صادقین کو حمایت الٰہی حاصل ہوئی اور اہل بیت پر جو الزامات لگائے جاتے تھے ان کی تطہیر کا وعدہ پورا ہوا۔ غرضیکہ یہ سب پیشگوئیاں عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں جو صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زبردست گواہ ہیں۔ اس قدر تفصیل اور بسط کے باوجود بھی اگر کسی کو ’’لاہور میں ایک بے شرم ہے‘‘ کا مطلب سمجھ میں نہ آئے تو اس کا کیا علاج؟

۱۴۔

اعتراض۔ ’’ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے۔‘‘ ۔ اسکا مطلب کیا ہے ؟



اس کی تفصیل مندرجہ بالا اعتراض کے جواب میں دیکھیں۔

۱۵۔

اعتراض۔ الہام ۔ ’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے ۔



جواب:۔ یہ الہام ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۴ء کا ہے اور اس سے پہلا الہام ’’اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کر دی‘‘ ہے۔ یہ دونوں الہامات الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ صفحہ ۱ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء میں درج ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ یہ طاعون کے متعلق ہیں۔ پس ان کامطلب واضح ہے۔

۱۶۔

اعتراض۔ الہام۔ ’’لوگ آئے اوردعویٰ کر بیٹھے۔ شیر خدا نے ان کو پکڑا۔‘‘ اس کا کیا مطلب ہے ؟



جواب:۔ یہ الہام اپنے ساتھ کے سابقہ الہامات سے متعلق ہے جو درج ذیل ہے:۔

’’آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا۔ اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے۔ آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا …… خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں۔ اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے …… لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے۔ شیر خدا نے ان کو پکڑا۔ شیر خدا نے فتح پائی۔ ‘‘
(اربعین نمبر ۳ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۹-۴۲۸ و تذکرہ ۳۲۳،۳۲۴ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

ان الہامات میں انگریزو ں کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اچھے تعلقات کو لفظ ’’تھا‘‘ (صیغۂ ماضی) کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ ان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گی۔ اور موجودہ خوشگوار تعلقات ایک دن داستان ’’عہد گذشتہ‘‘ اور حکایات ماضی بن کر رہ جائیں گے۔ ایک نہایت اہم اور تعجب انگیز تغیر ہو گا۔ حکومت کی فوجیں اور احرار کے ادعائے باطل جماعت احمدیہ کو ’’غم‘‘ میں ڈالیں گے مگر خداتعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے جس طرح مسیح ناصری اور اس کی جماعت کو باوجود اس کے کہ حکومت وقت بھی ان کے خلاف ہو گئی تھی۔ یہودی بھی ان کے خلاف سازش کر کے متحد ہو گئے تھے۔ پھر بھی کامیاب و کامران کیا تھا۔ اسی طرح اب بھی وہ جماعت احمدیہ کی مدد کرے گا اور اپنی بے پناہ آسمانی فوجوں سے جماعت کو منصور و مظفر بنائے گا۔ اسی ضمن میں احرار اور دوسرے مخالفین احمدیت کی لاف و گزاف اور تعلّیوں کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے دعویٰ کر دیا کہ وہ احمدیت کو کچل کے رکھ دیں گے مگر خدا تعالیٰ کا شیر (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز) انتہائی دلیری او ر شجاعت اور اولو العزمی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرے گا اور ان کو شکست فاش دے گا۔

اب دیکھ لو یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں جو آج سے ۴۵ سال قبل کی گئیں۔ اور پھر یہ کس قدر خارق عادت طور پر پوری ہوئیں۔ اور احرار کو کس قدر شکست فاش نصیب ہوئی۔

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

۱۷۔ اُعْطِیْتُ صِفَتَ الْاِفْنَاءِ وَ الْاِحْیَاءِ

اعتراض۔ الہام ۔ اعطیت صفت الافتاء و الاحیاء ۔ کا کیا مطلب ہے ؟


الجواب:۔ ۱۔ حضرت اقدسؑ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا تھا۔ پہلے مسیح کی صفت ’’احیاء موتٰی‘‘ کو تو تم بھی مانتے ہو۔ مگر اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ہو۔ پھر مسیح محمدیؑ پر اعتراض کیوں؟کیا پہلے مسیح کا قول قرآن مجید میں درج نہیں کہ ’’‘‘کہ میں اﷲ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں اور حضرت اقدس ؑبھی فرماتے ہیں کہ:۔ ’’اُعْطِیْتُ صِفَتَ الْاِفْنَاءِ وَ الْاِحْیَاءِ مِنْ رَّبِّ الْفَعَّالِ۔‘‘ کہ مجھے رب قادر کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے پھر اس پر اعتراض کیوں؟

۲۔ ہاں اگر کہو کہ ’’مردے زندہ کرنا‘‘ تو بے شک شانِ مسیحیت ہے مگر مارنے کی صفت تو پہلے مسیحؑ میں نہ تھی؟ تو اس کا جواب یہ کہ مسیح محمدیؐ کو اﷲ تعالیٰ نے دونوں صفتوں سے متصف فرمایا ہے جیسا کہ مسیح موعود کی صفت ’’اہلاک‘‘ کا ذکر حدیثِ نبویؐ میں بھی ہے کہ مسیح موعود کے دم سے دشمن ہلاک ہوں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔ فَلَا یَحِلُّ لِکَافِرٍ یَجِدُ مِنْ رِّیْحِ نَفَسِہٖ اِلَّا مَاتَ۔ ‘‘
(مسلم و مرقاۃ (ملا علی قاریؒ) کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ و مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ)

کہ جس کافر تک مسیح کا دم پہنچے گا۔ وہ ہلاک ہو جائے گا۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سینکڑوں دشمن لیکھرام، آتھم، ڈوئی، سعداﷲ لدھیانوی وغیرہ آپ کے دم سے ہلاک ہوئے۔

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا تم نے حوالہ دیا ہے وہ خطبہ الہامیہ میں ہے اور اسی خطبہ الہامیہ میں اس سے ذرا آگے چل کر حضرت اقدس علیہ السلام نے خود ہی اس کی تشریح کر دی ہے کہ مارنے اور زندہ کرنے سے کیا مراد ہے۔ ملاحظہ ہو:۔

’’اِیْذَائِیْ سِنَانٌ مُذَرَّبٌ۔ وَدُعَائِیْ دَوَاءٌ مُجَرَّبٌ۔ اُرِیْ قَوْمًا جَلَالًا۔ وَقَوْمًا اٰخَرِیْنَ جَمَالًا۔ وَبِیَدِیْ حَرْبَۃٌ اُبِیْدُبِھَا عَادَاتِ الظُّلْمِ وَالذُّنُوْبِ۔ وَفِی الْاُخْرٰی شَرْبَۃٌ اُعِیْدُبِھَا حَیَاۃَ الْقُلُوْبِ۔ فَاسٌ لِلْاِفْنَاءِ۔ وَاَنْفَاسٌ لِلْاَحْیَاءِ۔‘‘
( خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۶۲-۶۱)

ترجمہ: ’’مجھے تکلیف دینا ایک تیز نیزہ ہے اور میری دعا ایک مجرب دعا ہے میں ایک قوم کو اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں اور میرے ایک ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس کے ساتھ میں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں۔ اور دوسرے ہاتھ میں ایک شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں۔ گویا ایک کلہاڑی فنا کرنے کے لئے ہے اور دم زندہ کرنے کے لئے۔‘‘

اب دیکھو حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی خطبہ الہامیہ میں زندہ کرنے اور مارنے کی صفت کی کس خوبی سے تشریح فرما دی ہے کہ مارنے سے مراد کفر۔ گناہ اور ظلم کو مارنا ہے اور زندہ کرنے سے مراد روحانیت عطا کر کے دلوں کو زندگی بخشنا ہے۔ جیسا کہ پہلا مسیح کرتا تھا۔ نہ پہلے مسیح نے حقیقی مردے زندہ کئے اور نہ دوسرے مسیح نے ایسا کیا اور نہ خدا کے سوا کئی جسمانی مردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔ ہاں روحانی طور پر انبیاء علیہم السلام میں یہ صفت پائی جاتی ہے اور اسی کا اظہار محولہ عبارت میں کیا گیا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

۴۳۔

اعتراض۔ مرزا صاحب کو شیطانی الہام ہوتے تھے



جواب:۔ ۱۔ قرآن مجید میں ہے:۔’’‘‘ (الشعراء: ۲۲۳) کہ شیطانی الہامات بدکار اور جھوٹے لوگوں کو ہوا کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حضورؑ نے تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۲ پر چیلنج دیا ہے کہ: تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے …… کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ ‘‘اور پھر حضرت اقدسؑ کی پاکیزہ زندگی کی مولوی محمد حسین بٹالوی جیسا دشمن بھی گواہی دے چکا ہے۔

۲۔’’اَکْثَرُھُمْ کَاذِبُوْنَ‘‘ کہ شیطانی الہامات اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر پیشگوئیاں پوری ہوئیں جن پر تم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے۔ بلکہ خاموشی سے ان کے صدق پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہو۔

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ کے صفحہ ۵۱ میں اپنے الہامات کے خدائی ہونے پر غیر احمدی علماء کو ’’مباہلہ‘‘ کا چیلنج دیا ہے۔ تم اس وقت کیوں مقابلہ پر نہ آئے۔

۴۔ تم تو ہر نبی پر القائے شیطانی ہو جانے کے قائل ہو۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی تمہارے مولویوں نے مانا ہے کہ آپ کو (نعوذباﷲ) شیطانی الہام ہوا۔ اس لئے اگر حضرت مرزا صاحبؑ پر بھی یہی بہتان باندھو۔ تو معذور ہو۔ ’’قَدْ قَرَءَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سُوْرَۃِ النَّجْمِ بِمَجْلِسٍ مِنْ قُرَیْشٍ بَعْدَ۔ ’’‘‘ (النجم: ۲۰،۲۱) بِاِلْقَاءِ الشَّیْطَانِ عَلٰی لِسَانِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَیْرِ عِلْمِہٖ بِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی‘‘۔ فَفَرِحُوْا بِذَالِکَ۔‘‘
(جلالین مع کمالین جلد ۱ زیر آیت وما ارسلنا(الحج:۵۳)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مشرکین قریش کی ایک مجلس میں سورۃ النجم کی آیات (النجم:۲۰) کے آگے القاء شیطانی کے باعث یہ پڑھ دیا۔ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی‘‘ کہ یہ بہت عظیم الشان بت ہیں اور قیامت کو ان کی شفاعت کی توقع رکھنی چاہیے۔ بتوں کی یہ تعریف سن کر مشرک بہت خوش ہوئے۔ اس کے آگے لکھا ہے کہ جبرائیل آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا کہ یہ الہام الہٰی نہیں بلکہ شیطانی القاء ہے۔

تمہارے اکثر مفسرین نے (الحج:۵۳) کا ترجمہ یہی کیا ہے کہ ہر نبی کو القاء شیطانی ہوتا رہا ہے اور سورۃ النجم کی تفسیر میں انہوں نے مندرجہ بالا فضول اور لچر قصہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے (استغفر اﷲ العیاذ باﷲ)

تفسیر حسینی جلد ۲ صفحہ ۸۴ مترجم اردو زیر آیت (الحج:۵۳) لکھا ہے: ۔
’’جیسے ہمارے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب تلاوت کرتے تھے تو اس شیطان نے جسے ابیض کہتے ہیں آپ کی آواز بنا کر یہ کلمات پڑھ دیئے۔ شعر

تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی

اس وقت جب حضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سورۂ نجم پڑھتے تھے اور یہاں تک پہنچے کہ ‘‘

پس تم لوگ جو تمام نبیوں کے سردار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی القائے شیطانی سے پاک نہیں سمجھتے بحالیکہ آپ کی محبت کا دم بھرتے ہو تو حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو اگر (نعوذباﷲ) شیطانی الہام پانے والا کہہ دو تو کیا گلہ ہو سکتا ہے؟

مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو
جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے

۴۴۔

اعتراض۔ غیر زبانوں میں الہامات (ابراہیم:۵) کیوں ہوئے ؟



جواب۔ (ا) ا س آیت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ نبی کو ’’الہام‘‘ اس کی قوم کی زبان میں ہوتاہے۔ مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں۔

’’اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ اَیْ مُتَکَلِّمًا بِلُغَۃِ مَنْ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ مِنَ الْاُمَمِ۔‘‘ (روح المعانی جلد ۵ صفحہ ۱۸۶ زیر آیت …… الخ ابراہیم:۵) کہ کا یہ مطلب ہے کہ وہ نبی اس قوم کی زبان بولا کرتا ہے جس کی طر ف وہ مبعوث ہوتا تھا۔

(ب)۔ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ اِلَّا مُتَکَلِّمًا بِلُغَتِھِمْ (تفسیر مدارج التنزیل زیر آیت الخ و بر حاشیہ خازن زیر آیت بالا) کہ نبی اپنی قوم کی زبان بو لا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پنجابی اور اردو ہی بولتے تھے۔

․۲۔ اس آیت میں گزشتہ انبیاء کا ذکر ہے جیسا کہ لفظ ’’‘‘ بصیغہ ماضی سے ثابت ہے۔ اور دوسرا قرینہ ان معنوں کی تائید میں ’’‘‘ کا لفظ ہے کیونکہ گزشتہ انبیاء علیھم السلام مخصو ص قوموں کی طرف مبعوث ہوتے تھے۔ مگر جونبی کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہ ہو بلکہ تمام قوموں کی طرف مبعوث ہو وہ اس آیت میں شامل نہیں ہو سکتا۔ اگر قوم سے نبی کی قومیت رکھنے والے لوگ مراد لو جیسا کہ آنحضرتؐ کے ساتھ قریش تھے۔ تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ آنحضرتؐ کا سارا قرآن کریم قریش کی زبان میں ہی الہام نہیں ہوا۔ جیسا کہ آیت (طٰہٰ:۶۴) قریش کی زبان میں اِنْ ھٰذَیْنِ چاہیے تھی۔

۳۔ اگر کہو کہ اس آیت میں نبی کا اس قوم کی زبان میں الہام ہونا ہی مراد ہے، خواہ لفظ الہام اس آیت میں موجو د ہو یا نہ ہو تو یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ قرآن حضرت سلیمان ؑ کے متعلق ہے (النمل:۱۷) کہ حضرت سلیمان ؑ کہتے ہیں کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے پرندہ کی بولی سکھائی۔ گویاان کو کوؤں،چیلوں، کبوتروں، بٹیروں، ہد ہدوں اور تمام دیگر جانوروں کی زبان میں الہام ہوا۔ آخر انگریزی، عربی، فارسی وغیرہ تو انسانوں ہی کی زبانیں ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا۔ مگر ’’کائیں کائیں‘‘ تو انسانوں کی زبان نہیں۔ اس میں بھی اگر کوئی نبی کو الہام ہو سکتا ہے تو یہاں کیا اعتراض ہے؟ آخر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی زبان سکھانے کے لئے اس کے قواعد اور اس کے الفاظ بھی بتائے ہوں گے۔ فلا اعتراض۔

نوٹ۔ یہ کہنا کہ کے لفظ میں طبعی فہم و تفہیم ہی داخل ہے۔ پلہ چھوڑانے کے لئے کافی نہیں، کیونکہ والی آیت زیر بحث میں بھی تو ’’الہام‘‘ کا لفظ نہیں۔ وہاں بھی طبعی فہم و تفہیم کیوں مراد نہ لی جائے؟ یعنی وہ الہام جو محض طبعی فہم و تفہیم کے لئے ہوں وہ تونبی کی اپنی زبان میں ہوں مگر جو دوسری قوموں کی ہدایت کے لئے ہوں وہ مختلف زبانوں میں ہو سکتے ہیں۔

۲۔ یہ کہنا کہ حضرت سلیمان ؑ کو پرندوں کی زبان والے الہام ہوتے تھے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے نہ تھے۔ محض دھوکہ دہی ہے، کیونکہ خواہ وہ کسی کی ہدایت کے لئے ہوتے تھے، سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ حضرت سلیمان ؑ کی اپنی زبان تھی یا نہیں؟ کیا وہ ان کی قوم کی زبان تھی؟ نہیں ہر گز نہیں۔ پس تمہاری تاویل سے ثابت ہو گیا کہ والی آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم بیان کرتے ہو۔ بلکہ یہ ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ تبلیغ و اشاعت کے لئے شاگرد تیار کر سکے۔ اس کے الہامات کی زبان کا وہاں ذکر ہی نہیں۔ نیز یہ کہ یہ آیت آنحضرتؐسے پہلے انبیاء کے متعلق ہے۔ فَافْھَمْ۔

۳۔ حضر ت مسیح موعود ؑ انگریزی زبان کا ایک لفظ بھی نہ جانتے تھے مگر پھر بھی آپ پر اس زبان میں الہام ہو نا ایک معجزہ ہے۔ خصو صًا اس حالت میں کہ قادیان میں بھی کوئی انگریزی زبان دان ا س وقت موجو د نہ تھا۔ یہ دلیل ان لوگوں کودی گئی ہے جو الہام کو ملہم کے دماغی خیالات قرار دیتے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ الہام میں نبی کے اپنے خیالات کادخل نہیں ہوتا بلکہ الہام ایسی زبان میں بھی ناز ل ہو سکتا ہے جن کو ملہم خود بھی نہ جانتا ہو۔ پھر اکثر اس الہام کے معنی خود خداتعالیٰ خود ہی ملہم کو بتا دیتا ہے۔ جلد یا بدیر۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہو ا۔

۴۔ او ر ہم نے یہ جو لکھا کہ میں آنحضرتؐ سے پہلے انبیاء کا ذکر ہے کیونکہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف رسول ہو کر آتے تھے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مشکوٰۃ فضائل نبویؐ کے ضمن میں ایک حدیث ہے:۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اِنَّ اللّٰہُ تَعَالٰی فَضَّلَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی اْلاَنْبِیَآءِ……قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ …… وَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَافَۃً لِّلنَّاسِ۔ فَاَرْسَلَہُ اللّٰہُ اِلَی الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۔ (مشکوۃ کتاب الفضائل باب فضائل سیدالمرسلین…… الفصل الثالث) کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کی نسبت فرمایا:۔ ’’ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ ان کے سامنے کھول کر بیان کر سکے۔‘‘ مگر ہمارے نبی کریمؐ کی نسبت فرمایا۔ ’’ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے۔‘‘ گویا آپ کو اﷲ تعالیٰ نے جن و انس کی طرف رسول کر کے بھیجا۔ ھٰذَا حَدِیْثُ صَحِیْحُ الْاَسْنَادِ۔ (مستدرک للحاکم کتاب التفسیر زیر تفسیر سورۃ ابراھیم ؑ) کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مضبوط ہے۔

مندرجہ بالا عبارت سے چار باتیں ثابت ہوئیں:۔

۱۔والی آیت گزشتہ انبیاء کے متعلق ہے۔
۲۔ آنحضرت صلعم اس آیت میں شامل نہیں صرف حضورؐسے پہلے رسول شامل ہیں۔
۳۔ قوم سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی ہدایت کے لئے وہ نبی آئے۔
۴۔ آنحضرتؐ کی قوم تمام دنیا ہے کیونکہ آپ تمام دنیا کی طرف بھیجے گئے۔

پس ا س آیت میں حضرت مسیح موعود ؑ بھی شامل نہیں کیونکہ آپ بھی کسی خاص قوم کی طرف نہیں بلکہ ساری دنیا کی طرف آئے تھے۔

اعتراض۔ غیر احمدی۔ حضر ت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحہ ۲۰۹ میں لکھا ہے۔ ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبا ن میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف ما لا یطاق ہے۔‘‘



جواب:۔ خدا کے لئے دھوکہ نہ دو، وہاں چشمۂ معرفت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ’’ملہم‘‘ جس زبان کو نہ سمجھتا ہو اس میں اس کو الہام نہیں ہو سکتا۔ وہاں تو ذکر یہ ہے کہ آریہ کہتے ہیں کہ الہامی کتاب اس زبا ن میں نازل ہونی چاہیے جو کسی انسان کی زبان نہ ہو تا کہ ایشور جی مہاراج نا انصاف نہ ٹھہریں۔ یہی وجہ ہے کہ وید سنسکرت میں نازل ہوئے جو کہیں بولی نہیں جاتی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان (نہ کہ ملہم کی) زبان تو کوئی او ر ہو اور الہام اس کو کسی اور زبا ن میں ہو جس کو کوئی (انسان) سمجھتا ہی نہ ہو کیونکہ یہ تکلیف ’’ما لا یُطاق‘‘ ہے کیونکہ اس کو ملہم کسی دوسرے سے بھی سمجھ نہیں سکتا، لیکن اگر کسی ایسی زبان میں الہام ہو جو انسانی زبان ہو وہ ’’تکلیف ما لا یطاق‘‘ نہیں کیونکہ اگر ملہم خود اس زبان کو نہیں جانتا تو دوسروں سے معلوم کر سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے صفحہ۲۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ مجھے مختلف زبانوں میں الہام ہو تے ہیں۔

نوٹ:۔ اس سوال کے جواب کے لئے چشمہ معرفت صفحہ ۲۰۸ تا صفحہ ۲۱۰ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس دھوکہ کا علم اصل عبارت کو پڑھنے سے ہی ہو سکتا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

۴۵۔

اعتراض۔ ’’بعض الہامات مرزا صاحبؑ سمجھ نہ سکے اور بعض کے غلط معنی سمجھے‘‘



جواب:۔ حضرت مسیح موعودؑتحریر فرماتے ہیں:۔

۱۔ ’’انبیاء اورملہمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام ۔‘‘
(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۱۵)

’’اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اُس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اُٹھتے ہیں اور اس قدر تو اتر سے جمع ہوتے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے۔ اور پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہاد کی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی جیسا کہ جو چیزیں انسان کے نزدیک لائی جائیں اور آنکھوں کے قریب کی جائیں تو انسان کی آنکھ اُن کے پہچاننے میں غلطی نہیں کھاتی۔ اور قطعاً حکم دیتی ہے کہ یہ فلاں چیز ہے اور اس مقدار کی ہے اور وہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز قریب نہ لائی جائے اور مثلاً نصف میل یاپاؤمیل سے کسی انسان کو پوچھا جائے کہ وہ سفید شے کیا چیز ہے تو ممکن ہے کہ ایک سفید کپڑے والے انسان کو ایک سفید گھوڑا خیال کرے یا ایک سفید گھوڑے کو انسان سمجھ لے۔ پس ایسا ہی نبیوں اور رسولوں کو اُن کے دعویٰ کے متعلق اور اُن کی تعلیموں کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے، جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔ لیکن بعض جُزوی امور جو اہم مقاصد میں سے نہیں ہوتے اُن کونظر کشفی دُور سے دیکھتی ہے اور اُن میں کچھ تواتر نہیں ہوتا۔ اِس لئے کبھی اُن کی تشخیص میں دھوکا بھی کھا لیتی ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۳۵)

۲۔ حدیث میں ہے۔ قَالَ اَبُوْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ اِنِّیْ اُھَاجِرُ مِنْ مَّکَّۃَ اِلٰی اَرْضٍ بِھَا نَخْلٌ فَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰٰی اَنَّھَا الْیَمَامَۃُ اَوْ ھَجَرٌ فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَۃُ یَثْرِبُ۔
(بخاری کتاب التعبیر باب ھجرۃ النبیؐ و اصحابہ الی المدینۃ و کتاب الحیل باب اذا رای بقرا تنحر )

ترجمہ:۔ حضرت ابو موسیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کہ بہت کھجوریں ہیں۔ پس میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ ہے۔ یا ہجر، مگر دراصل وہ تھا مدینہ (یثرب)۔ حالانکہ رُؤْیَا النَّبِیِّ وَحْیٌ۔ (بخاری کتاب الوضو باب تخفیف فی الوضوء) نبی کی رویاء وحی ہوتی ہے۔ چنانچہ بخاری میں رؤیائے نبوی کو وحی میں شامل کیا گیا ہے۔ اَوَّلُ مَا بُدِیَٔ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرُّءْ یَاءِ الصَّالِحَۃ۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ) کہ آنحضرتؐ کو وحی میں سب پہلے رؤیا صادقہ شروع ہوئیں۔

۳۔ آنحضرتؐ نے اپنی ازواج سے فرمایا۔ اَسْرَعُکُنَّ لَحُوْقاً بِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا یعنی تم میں سب سے پہلے میری وفات کے بعد جو آکر مجھ سے اگلے جہاں میں ملے گی وہ وہ ہے جس کے ہاتھ تم سب سے زیادہ لمبے ہیں۔ بیویوں نے حضورؐ کے سامنے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تو ہاتھ لمبے حضرت سودہ ؓ کے تھے، مگر وفات سب سے پہلے حضرت زینبؓ نے پائی۔ جس سے معلوم ہو اکہ لمبے ہاتھ سے مراد ظاہری ہاتھوں کا لمبا ہونا نہ تھا بلکہ سخاوت کرنے والی مرد تھی۔‘‘
(بخاری کتاب الزکاۃ حدیث نمبر۱۴۲۰باب اینا اسرع بک لحوقا و مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل زینب بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکاۃ الفصل الثالث)

۴۔ قرآ ن کریم میں بھی حضرت نوح ؑ کا واقعہ مذکور ہے۔ (ھود:۳۸) کہ خداتعالیٰ نے حضر ت نوح ؑ کو وحی کی اور حکم دیا کہ تو ہمارے حکم سے ایک کشتی بنا، تو ظالموں کے متعلق ہم سے کوئی بات نہ کرنا کیونکہ وہ ضرور غرق ہو جائیں گے۔

پھرفرمایا۔(ھود:۴۱) کہ ہم نے کہا اے نوحؑ! اس کشتی میں سوا ر کر ہر ایک جو ڑے میں سے دو دو اور اپنے ’’اہل‘‘ کو بھی بجز اس کے جس کے متعلق پہلے ہم کہہ چکے ہیں اور مومنوں کو بھی۔ پس جب طوفا ن تلاطم خیزآیا اور حضر ت نوح ؑ کا بیٹا (جو ظالم تھا اور جس کے متعلق حکم تھا (ھود:۴۱) کہ اس کو کشتی میں نہ بٹھانا) جب وہ ڈوبنے لگا تو (ھود:۴۳) حضرت نوحؑ نے اس کو آواز دی اور کہا کہ اے بیٹا! آ ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا، مگر وہ نہ آیا او ر ڈوب گیا۔ اس پر حضر ت نوح ؑ خدا تعالیٰ کو کہتے ہیں۔ (ھود:۴۷-۴۶) اور پکارا نوحؑ نے اپنے رب کو اور کہا اے اﷲ! میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے تھا اور تیرا وعدہ بھی سچا (ہوتا) ہے اور تو (تو) احکم الحاکمین ہے (یعنی سب سے زیادہ سچا فیصلہ کرنے والا ہے۔) خدا تعالیٰ نے فرمایاکہ اے نوحؑ! وہ تیرے ’’اہل‘‘ میں سے نہیں تھا کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے۔ پس تو مجھ سے ایسی بات کے متعلق گفتگو نہ کر جس کا تجھ کو علم نہیں۔ میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے نہ بن۔

ان آیات سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ نبی ایک وقت تک وحی سمجھنے میں غلطی کرسکتا ہے ہاں خدا تعالیٰ اس کو غلطی پر قائم نہیں رکھتا جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا ہے۔

اگر سوال ہو کہ حضرت نوحؑ کتنا عرصہ تک اس اجتہادی غلطی میں مبتلا رہے تو اس کے لئے تفسیر حسینی کا ملاحظہ کرنا چاہیے۔ لکھا ہے:۔

’’حضرت نوح علیہ السلام کو جب یہ الہام ہوا تو اس کے بعد انہوں نے وہ درخت بویا جس کی لکڑی سے کشتی بنائی گئی۔ وہ درخت بیس سال میں مکمل ہوا۔ اسے کاٹ کر حضرت نوحؑ دو سال تک وہ کشتی بناتے رہے۔ چالیس دن رات طوفان نے جوش مارا اور کشتی طوفان میں چھ ماہ تک رہی۔ گویا اصل ’’اہل‘‘ والے الہام کے نازل ہونے سے لیکر کشتی سے اترنے تک کم از کم 22 ½سال ہوتے ہیں۔‘‘
(تلخیص از تفسیر حسینی موسومہ بہ تفسیرقادری مترجم اردو زیر آیت واصنع الفلک باعیننا (ھود:۳۸)

۵۔ پھر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کی مشہور و معروف کتاب نبراس شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ ۳۹۲میں لکھا ہے:۔

اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ یَجْتَھِدُ فَیَکُوْنُ خَطَأً کَمَا ذَکَرَہُ الْاُصُوْلِیُّوْنَ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشَاوِرُ الصَّحَابَۃَ فِیْمَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ وَ ھُمْ یُرَاجِعُوْنَہٗ فِیْ ذٰلِکَ وَ فِی الْحَدِیْثِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُکُمْ عَنِ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ فَھُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِیْہِ مِنْ قَبَلِ نَفْسِیْ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِیءُ وَاُصِیْبُکہ آنحضرتؐ کبھی کبھی اجتہاد بھی کرتے تھے اور کبھی وہ غلط بھی ہو جاتا تھا جیسا کہ اصولیوں نے لکھا ہے اور ان امور میں جن کے متعلق آپ پر وحی نازل نہ ہوئی ہوتی آپ اپنے صحابہ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو بات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) ہاں جو بات میں اس وحی الٰہی کی تشریح میں اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں، اجتہاد میں غلطی کرتا ہوں اور درست اجتہاد بھی۔

۴۶۔نبی کا الہام بھول جانا

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحبؑ اپنے بعض الہامات بھول گئے۔



جواب:۔ـ وحی دو قسم کی ہوتی ہے۔ (۱) جو لوگوں کے لئے بطور نشان اور بغرضِ ہدایت نازل ہوتی ہے۔ (۲) نبی کی اپنی ذات کے متعلق ہوتی ہے اور اس کا لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اوّل الذکر قسم کی وحی نبی کو بھول نہیں سکتی، ہاں دوسری قسم کی وحی بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی خاص حکمت کے ماتحت نبی کے لوحِ دل سے محو فرما دیتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ (الاعلیٰ:۷۔۸) کہ اے نبی ہم تیرے سامنے قرآن مجید پڑھیں گے اس کو مت بھولنا سوائے اس کے جس کو خدا تعالیٰ خود بھلانا چاہتا ہے۔

۲۔ (الرعد:۴۰) کہ خداتعالیٰ جس وحی کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مضبوط کر کے دل میں ثبت کر دیتا ہے۔

۳۔ بخاری میں ہے عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَقْرَءُ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ لَقَدْ اَذْکَرَنِیْ کَذَا آیَۃً اَسْقَطْتُھُنَّ مِنْ سُوْرَۃٍ کَذَا وَکَذَا۔ (بخاری کتاب الشھادات باب شھادۃ الاعمٰی……)

کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ خدا نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے سنا، توآپؐ نے فرمایا۔ اﷲ اس پر رحمت کرے، اس نے فلاں فلاں سورۃ کی فلاں فلاں آیت جو میں بھول چکا تھا مجھے یاد دلا دی۔

۴۔ یہ ضروری نہیں کہ جو وحی نبی پر نازل ہو وہ سب لوگوں تک پہنچائی جائے۔ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کئی ایسے الہامات آنحضرتؐ کو ہوئے جو قرآن مجید میں من و عن مذکور نہیں جیسے (الانفال:۸) وہ اصل وعدہ قرآن میں کہاں ہے؟ نیز آیت (التحریم:۴) (الحشر:۶)

۵۔ بخاری میں ہے۔ فَقَالَ اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ فَخَرَجَ صُبْحَۃَ عِشْرِیْنَ فَخَطَبَنَا فَقَالَ اِنِّیْ اُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِثُمَّ اُنْسِیْتُھَا اَوْ نَسِیْتُھَا فَلْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ اْلاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ

(بخاری کتاب باب الصلاۃ و التراویح۔ باب التماس لیلۃ القدر فی السبع الاواخر)

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرتؐ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر آپ بیسیویں کی تاریخ کی صبح کو باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی مگر پھر مجھ سے بھلا دی گئی۔ یا یہ فرمایا کہ ’’میں بھول گیا‘‘۔ پس اب تم اس کو (رمضان کے) آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

۶۔ بخاری میں اس سے بھی زیادہ واضح حدیث اس باب میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے کہ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَنَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَلَاحٰی فُلَانٌ وَ فُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرًا لَّکُمْ ( بخاری کتاب التراویح باب رفع معرفۃ لیلۃ القدر) کہ آنحضرتؐ ایک دن ہمیں لیلۃ القدر کا پتہ بتانے کے لئے باہر تشریف لائے تو (آپؐ نے دیکھا کہ) مسلمانوں میں سے دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے آپؐ نے فرمایا کہ میں باہر آیا تھا کہ تم کو لیلۃ القدر بتاؤں کہ فلاں فلاں دو آدمی آپس میں جھگڑے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں باہر آیا تھا کہ تم کو لیلۃ القدر بتاؤں کہ فلاں فلاں دو آدمی آپس میں جھگڑے ، اس لیے (لیلۃ القدر) مجھے بھلادی گئی اور قریب تھا کہ اس کا علم تمہارے لئے مفید ہوتا۔ یا یہ کہ اس کا بھول جانا تمہارے لئے مفید ہو۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
1. اعتراض ۔ انت منی و انا منک الہام اللہ کی توہین ہے ۔
2. اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ ولدی ۔ تم مجھے سے بیٹوں کی مانند ہو ۔ توحید کا انکار اور اللہ کی توہین ہے۔
3.اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے ۔
4. اعتراض ۔ انت من ماءنا و ھم من فشل ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے ۔
5. اعتراض ۔ ربنا عاج ۔ اس الہام میں اللہ تعا لیٰ کی توہین ہے ۔
6. اعتراض۔ اسمع ولدی ۔ اے میرے بیٹے سن! (البشریٰ جلد ۱صفحہ۴۹) اس میں اللہ کی توہین ہے اور توحید کے خلاف ہے ۔
اعتراض ۔ انت اسمی الاعلیٰ ۔ یعنی تو میرا سب سے بڑا نام یعنی خدا ہے ۔ یہ اللہ کی توہین ہے ۔
8. اعتراض ۔ اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک ۔ یعنی جو مرضی کرتا رہ تیرے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں۔
9. اعتراض۔ کن فیکون ۔ یہ الہام تو خدائی کا دعویٰ ہے
10.اعتراض ۔ لو لاک لما خلقت الافلاک ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہے ۔
11. اعتراض۔ رایتنی فی المنام عین اللہ ۔ (آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۴) ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔‘‘ (کتاب البریہ۔رحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۰۳)
12. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے کہا کہ زمین و آسمان کو بنایا ۔
13. اعتراض ۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے فرمایاکہ مجھے حیض ہوا ، حمل ہوا اور درد زہ ہوئی اور میں مریم سے عیسیٰ علیہ السلام بن گیا۔
14.اعتراض۔ کان اللہ نزل من السماء۔ جیسے اللہ آسمان سے نازل ہو گیا ہے ۔ یہ اللہ کی توہین ہے
15. اعتراض۔ یتم اسمک و لایتم اسمی۔ تیرا نام پورا ہوجائے گا ۔مگر میرا (خدا کا) نام پورا نہ ہوگا۔
16. اعتراض۔ الارض والسماء معک کما ھو معی ۔ عربی غلط ہے ھُوَ کی بجائے ھُمَا چاہیے۔ کیونکہ زمین و آسمان دو ہیں نہ کہ ایک۔
17۔ اعتراض۔ تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی توہین ہے
18. اعتراض۔ ء تعجبین لامر اللہ ۔ عربی غلط ہے۔ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ چاہیے تھا ۔’’عجب ‘‘ کا صلہ لام نہیں آتا۔
19. اعتراض۔ یحمد اللہ من عرشہ ۔ ’’حمد‘‘ کا لفظ سوائے خدا کے کسی اور پر بولا نہیں جاتا؟
20.اعتراض۔ حجر اسود منم ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ خواب میں کسی شخص نے میرے پاؤں کو بوسہ دیا۔میں نے کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔
21۔ اعتراض:۔کیا ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘بھی فرشتہ ہوتا ہے؟
22. اعتراض۔ کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا۔ (البشریٰ جلد ۲ صفحہ ۱۲۱) یہ مرزا صاحب کو اپنے متعلق الہام ہوا ۔
23. اعتراض۔ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ الہام ہوا۔ میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا ۔
24. اعتراض۔ الہام ہوا ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں لیکن مسیح و مہدی علیہ السلام تو لاہور میں فوت ہوئے ۔
25. اعتراض۔ یہ کیسا الہام ہے خاکسار پیپر منٹ۔ کیا پیپر منٹ بھی بولتا ہے؟
26. اعتراض۔ الہام افطر و اصوم ۔ کیا اللہ بھی روزے رکھتا اور کھولتا ہے ؟ یہ اللہ کی توہین ہے ۔
27.اعتراض۔ الہام ہوا اخطی و اصیب یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غلطی بھی کرتا ہوں اور اچھا کام بھی کرتا ہوں۔ یہ اللہ کی توہین ہے ۔
28. اعتراض۔ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ ۔ یہ حضرت مرزا صاحب کا الہام ہے مگر حضرت مرزا محمود احمد صاحب فرماتے ہیں:۔ ’’نادان ہے وہ شخص جس نے کہا ’’کرمہائے تو مارا کرد گستاخ‘‘ کیونکہ خدا کے فضل انسان کو گستاخ نہیں بنایا کرتے اور سرکش نہیں کردیا کرتے بلکہ اور زیادہ شکر گذار اور فرمانبردار بناتے ہیں۔‘‘۔(الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۳ کالم ۳)
29. اعتراض۔ مرزاصاحب کے پاس ایک فرشتہ آیا جس کا نام’’ خیراتی رام ‘‘ تھا ۔
30. اعتراض۔ الہام ۔ جے سنگھ بہادر یہ کیسا الہام ہے ۔
31. اعتراض۔ الہام ۔ گورنر جنرل ۔ یہ کیسا الہام ہے ۔
32. اعتراض۔ الہام ۔آریوں کا بادشاہ ۔ یہ کیسا الہام ہے ۔
33. اعتراض۔ الہام ۔ انی بایعتک بایعنی ربی ۔ خدا نے مرزا صاحب کی بیعت کی (نعوذباﷲ)البشریٰ میں اس کا یہی ترجمہ لکھا ہے کہ ’’میں نے تیری بیعت کی۔
34. اعتراض۔ الہام ۔ اسھروا و انام ۔ یہ اللہ کی توہین ہے کیا اللہ بھی سوتا اور جاگتا ہے ۔
35۔اعتراض۔ اصبر سنفرغ یا مرزا (مکاشفات صفحہ ۲۸) کہ مرزا صاحب صبر کریں ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔
36. اعتراض۔ قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کو اپنی منہ کی باتیں کہا ہے ۔
37. اعتراض۔ انگریز ی میں الہام کیوں ہوئے اس میں گرامر اور ہجوں کی غلطیاں ہیں۔
38۔ اعتراض۔ "You have to go Amritsar" (یوہیو ٹو گو امرتسر) یعنی تمہیں امرتسر جانا ہوگا۔اس پر اعتراض کیا گیاکہ لفظ (go)اور امرتسر کے درمیان لفظ ٹو(to) چاہیے تھا ۔یعنی عبارت اسی طرح ہونی چاہیے تھی۔ "You have to go to Amritsar"
39. اعتراض۔ "He halts in the Zilla Peshawar" کہ وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۴ء) اس الہام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں لفظ ’’ضلع‘‘ استعمال نہیں ہوتا۔
40. اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے:۔ GOD IS COMING BY HIS ARMY (گاڈ از کمنگ بائی ہز آرمی) (تذکرہ صفحہ۵۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) یعنی خدا اپنی فوج کے ساتھ آرہا ہے۔
41.اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے۔ ــ"Words of God cannot exchange" (ورڈز آف گاڈ کین ناٹ ایکسچینج )تذکرہ صفحہ ۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء یعنی خدا کے الفاظ تبدیل نہیں ہوسکتے۔
42. اعتراض۔ غثم غثم غثم ۔ یہ الہام بے معنی ہے ۔
43. اعتراض ۔ ’’ایک ہفتہ تک کوئی باقی نہ رہے گا‘‘ بے معنی ہے
44. اعتراض۔ ’’پہلے بیہوشی پھر غشی پھر موت‘‘ بے معنی الہام ہے
45. اعتراض۔ الہام ’’موت ۱۳ ماہ حال کو ۔ایک دم میں دم رخصت ہوا پیٹ پھٹ گیا ‘‘ میں کس کا یپٹ پھٹ گیا ؟
46. اعتراض۔ ’’ایلی اوس‘‘ الہام کا کیا مطلب ہے ؟
47. اعتراض ۔ ھو شعنا نعسا الہام کا کیا مطلب ہے ؟
48. اعتراض۔ الہام ۔ آسمان مٹھی بھر رہ گیا ۔ کیا مطلب ؟
49. اعتراض۔ الہام ۔ ایک دانہ کس کس نے کھانا ۔ کا کیا مطلب ہے ؟
50. اعتراض ۔ الہام ۔ پچیس دن یا پچیس دن تک ۔ کا کیا مطلب ہے ؟
51. اعتراض۔ الہام ’’مضر صحت‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۲۱مورخہ ۱۷؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) کا کیا مطلب ہے ؟
52. اعتراض۔ الہام ۔ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ کا کیا مطلب ہے ؟
53. اعتراض۔ الہام ۔ شر الذین انعمت علیھم ۔ کا کیا مطلب ہے ؟
54. اعتراض۔ الہام ۔ لاہور میں ایک بے شرم ہے ۔ کا کیا مطلب ہے ؟
55. اعتراض۔ ’’ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے۔‘‘ ۔ اسکا مطلب کیا ہے ؟
56. اعتراض۔ الہام ۔ ’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے ۔
57. اعتراض۔ الہام۔ ’’لوگ آئے اوردعویٰ کر بیٹھے۔ شیر خدا نے ان کو پکڑا۔‘‘ اس کا کیا مطلب ہے ؟
58. اعتراض۔ الہام ۔ اعطیت صفت الافتاء و الاحیاء ۔ کا کیا مطلب ہے ؟
59.اعتراض۔ مرزا صاحب کو شیطانی الہام ہوتے تھے
60. اعتراض۔ غیر زبانوں میں الہامات (ابراہیم:۵) کیوں ہوئے ؟
61. اعتراض۔ غیر احمدی۔ حضر ت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحہ ۲۰۹ میں لکھا ہے۔ ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبا ن میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف ما لا یطاق ہے۔‘‘
62. اعتراض۔ ’’بعض الہامات مرزا صاحبؑ سمجھ نہ سکے اور بعض کے غلط معنی سمجھے‘‘
63. اعتراض۔ حضرت مرزا صاحبؑ اپنے بعض الہامات بھول گئے۔
64.
 
Last edited:
Top