• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد3

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد3

نکاح
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ تعلیم دی ہے کہ پرہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کیلئے دعا کرو۔ جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے۔ محصنین غیر مسافحین (الجزء نمبر۵) یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو اور محصنین۱؎ کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا۔ وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔
اغراض و فوائد نکاح
امام علیہ السلام: قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں۔ ایک عفت اور پرہیز گاری۔ دوسرا حفظ صحت۔ تیسرا حفظ نسل اور پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ وَلَیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْہُ نِکَاحًا حَتَّی یُغْنِیْھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (سورۃ النور) یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پرہیزگار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو ان کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں۔ چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے پرہیزگار رہنے کے لئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے یَامَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاہ فَلْیَتَزَوَّجَ فَاِنَّہٗ غَضَّ الْبَصَرِ وَاَحْصَنَ لِلْفَرَجِ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہٗ لَہٗ وَجَاء۔( صحیح مسلم و بخاری)۔ یعنی اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوںکو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے۔ ورنہ روزہ رکھو کہ وہ رخصتی کر دیتا ہے۔
اب ان آیات اور حدیث اور بہت سی اور آیات سے ثابت ہے کہ نکاح شہوت رانی کی غرض سے نہیں بلکہ بدخیالات اور بدنظری اور بدکاری سے اپنے تئیں بچانا اور نیز حفظِ صحت بھی غرض ہے اور پھر نکاح سے ایک اور بھی غرض ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے ۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ یعنی مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رو ہیں۔
تعدد ازدواج
ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیں مبتلا ہیں۔ وہ نکاح کے مسئلہ کو نہایت بُری نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ گویا اس پر ایمان نہیں رکھتیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔ پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورت میں کہ جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آ جاتی ہیں۔ اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا۔ مثلاً اگر عورت دیوانہ ہو جاوے۔ یا مجذوم ہو جاوے یا ہمیشہ کے لئے کسی ایسی بیماری میں گرفتار ہو جاوے جو بیکار کر دیتی ہے یا اور کوئی ایسی صورت پیش آ جائے کہ عورت قابل رحم ہو مگر بیکار ہو جائے اور مرد بھی قابل رحم کہ وہ تجرد پر صبر نہ کر سکے تو ایسی صورت میں مرد کے قویٰ پر یہ ظلم ہے کہ اس کو نکاح ثانی کی اجازت نہ دی جائے۔ درحقیقت خدا کی شریعت نے انہی امور پر نظر کر کے مردوں کے لئے یہ راہ کھلی رکھی ہے اور مجبوریوں کے وقت عورتوں کے لئے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے خلع کرالیں۔ جو طلاق کے قائمقام ہے۔ خدا کی شریعت دوا فروش کی دکان کی مانند ہے۔ پس اگر دکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے تو وہ دکان چل نہیں سکتی۔ پس غور کرو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بعض مشکلات ایسے پیش آ جاتے ہیں جن میں وہ نکاح ثانی کے لئے مضطر ہوتے ہیں۔ وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو۔ دیکھو انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کر دیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا۔ اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کر سکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔ سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی اور اے عورتو فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔
اگر عورت مرد کے تعدد ازواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع۱؎ کرا سکتی ہے۔ خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں۔ اپنی شریعت میں ان کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی۔ سو تم اے عورتو۔ اپنے خاوندوں کے ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلا سے محفوظ رکھے۔ بے شک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے جو دو جوروئیں کر کے انصاف نہیں کرتا۔ مگر تم خود خدا کی نافرمانی کر کے موردِ قہر الٰہی مت بنو۔ ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا۔ اگر تم خدا کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جائے گا۔ اگرچہ شریعت کے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے لیکن قضاء و قدر کا قانون تمہارے لئے کھلا ہے۔ اگر شریعت کا قانون تمہارے لئے قابل برداشت نہیں تو بذریعہ دعا قضاء و قدر کے قانون سے فائدہ اُٹھاؤ کیونکہ قضاء و قدر کا قانون شریعت کے قانون پر بھی غالب آ جاتا ہے۔ تقویٰ اختیار کرو دنیا سے اور اس کی زینت سے دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو تاتم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو جاؤ۔ عورتوں میں یہ ایک بدعادت ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لئے دوسرا نکاح کر نا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندۂ خدا کو ناحق ستاتے ہیں۔ ایسی عورتیں اور ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جلشانہٗ نے اپنی حکمت کاملہ سے جس میں صدہا مصالحہ ہیں۔ مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں۔ پھر جو شخص خدا اور رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے۔ ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ نہایت مردود اور شیطان کے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے۔
بیوہ عورت کا نکاح
مسیح موعود علیہ السلام: اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو۔ دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام ہے اور پاکدامن ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔ عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بڑے ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود شیطان کی چیلیاں اور لعنی ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے۔
نکاح بالغہ کا بالغ سے
استغتاء: ایک بالغہ عورت کا جس کے والدین مر چکے ہیں ایک نابالغ لڑکے کے ساتھ نکاح ہوگیا۔ بروقت نکاح عورت نے کوئی عذر یا انکار … یا … نہیں کیا۔ چند ماہ کے بعد وہ عورت اپنے نابالغ خاوند کے بڑے بھائی سے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں۔ خواہ اس میں اس کے والدین کی رضا شامل ہو۔ جو اب مطابق حکم کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے ہو۔
جواب حکیم الامۃ و فاضل امروہی: نابالغ کی منکوحہ بھی کسی دوسرے سے بد دن قطع تعلق خاوند کے ہرگز نکاح نہیں کر سکتی۔ صرف ملک یمین مستثنیٰ ہے۔ قرآن کریم وَالمْحُصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ کو حرام قرار دیتا ہے۔ الجواب موافق لکتاب اللّٰہ والسنۃ (محمد احسن عفی عنہ)
اپنے شوہر کی نافرمان عورتیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: عورتوں میں ایک خراب عادت یہ بھی ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں۔ ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک *** ہیں۔ ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پسِ پشت یعنی اس کے لئے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں۔ ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر بغیر خدا کے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بدزبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اسے دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر بھی باز نہیں آتی تو وہ *** ہے۔ خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں۔ عورتیں کو چاہئے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچائیں۔
اور یاد رکھنا چاہئے کہ بجز خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے۔ عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بدوضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گند کی بات ہے کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو۔
اسلامی پردہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جائے ۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے۔ وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔
احمدی جماعت کے ناطوں و رشتوں کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اور اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب کئی لاکھ تک اس کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہوگئے ہیں۔ جب تک وہ توبہ کر کے اس جماعت میں داخل نہ ہوں۔ اور اب یہ جماعت کسی بات میںان کی محتاج نہیں۔ مال میں، دولت میں، علم میں، فضیلت میں، خاندان میں، پرہیزگاری میں، خداترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میںبکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہمارا نام دجال رکھتے ہیں یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خواں اور تابع ہیں۔
یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ نہیں ہوگا تب تک وہ ہم میں سے نہیں۔ سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راستباز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے اس لئے میں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز ان کے اطمینان کے موافق لائق ہو۔ ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ وہ اس میں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے سچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے اورحتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں۔ اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں یا اگر نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عزت عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں۔
یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی۔ جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء بقید عمر و قومیت بھیج دیں تا کہ وہ کتاب میں درج ہو جائے۔ مندرجہ ذیل نمونہ کا لحاظ رہے۔
نام دختر یا پسر، نام والد، نام شہر بقیہ محلہ و ضلع، عمر دختر یا پسر (فتاویٰ احمدیہ جلد دوم صفحہ۷)
غیر اقوام سے ناطہ
امام علیہ السلام: ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل برخلاف ہے۔ بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔ رشتہ ناطہ میں یہ بات دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ان اکرمکمعنداللّٰہ اتقاکم یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے۔
پہلی بیوی والے کو لڑکی نہ دینی
امام علیہ السلام:بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں۔ پس اگر پہلی بیوی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں۔ سو ان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ (فتاویٰ احمدیہ جلد دوم صفحہ۹۰۸)
شادیوں میں بیجا خرچ اور بھاجی تقسیم کرنا
حضرت امام علیہ السلام: ہماری قوم میںایک یہ بھی بدرسم ہے کہ شادیوں میں صدہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونو باتیں عندالشرع حرام ہیں اور آتشبازی جلانا اور رنڈی، بھڑوؤں، ڈوم دہاڑیوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے۔ ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے۔
تنبول
عرض کیا گیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا ارشاد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ انما الاعمال بالنیات۔ اپنے بھائی کو ایک طرح کی امداد ہے۔ عرض کیا گیا جو تنبول ڈالتے ہیں وہ تو اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھ روپے ملیں اور پھر اس روپیہ کو کنجروں پر خرچ کرتے ہیں۔
فرمایا۔ ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفسِ رسم پر کوئی اعتراض نہیں۔ باقی رہی نیت۔ سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیونکر آگاہ ہو سکتے ہیں۔ یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا حساب کریں۔ ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہ تعمیل حکم تعاون و تعلقات محبت تنبول ڈالتے ہیں اور بعض تو واپس لینا بھی نہیں چاہتے بلکہ کسی غریب کی امداد کرتے ہیں غرض سب کا جواب ہے انما الاعمال بالنیات۔
نابالغ کے نکاح کا فسخ
سوال پیش ہوا کہ اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کر دے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے یا نہیں؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دے سکتا ہے‘‘۔
خدا اور رسول کی حلال کردہ چیزوں میں سب سے بُری چیز
جائز چیزوں میں سے سب سے زیادہ بُرا خدا اور اس کے رسول نے طلاق کو قرار دیا ہے اور یہ صرف ایسے موقعوں کے لئے رکھی گئی ہے جب کہ اشد ضرورت ہو۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جو رب ہے کہ سانپوںاور بچھوؤں کے لئے خوراک مہیا کی ہے۔ ویسا ہی ایسے انسانوں کے لئے جن کی حالتیں بہت گری ہوئی ہیں اور جو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے۔ طلاق کا مسئلہ بنا دیا ہے کہ وہ اس طرح ان آفات اور مصیبتوں سے بچ جاویں۔ جو طلاق کے نہ ہونے کی صورت میں پیش آئیں۔ یا بعض اوقات دوسرے لوگوں کو بھی ایسی صورتیں پیش آ جاتی ہیں اور ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ سوائے طلاق کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ پس اسلام نے جو کہ تمام مسائل پر حاوی ہے یہ مسئلہ طلاق کا بھی دکھلایا ہے اور ساتھ ہی اس کو مکروہ بھی قرار دیا ہے۔
افریقہ کی برہنہ عورتوں سے نکاح
سوال ہوا کہ کیا افریقہ کی برہنہ عورتوں سے نکاح جائز ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اس ملک میں اور ان علاقوں میں بحالت اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن صورت نکاح میں ان کو کپڑے پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ولیمہ
حضرت امام علیہ السلام: شرع شریف میں صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ ۱؎ کرے۔ یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے۔
عقیقہ
سوال: عقیقہ فرض ہے یا کیا۔ اور کتنی مدت یا عمر تک دینا چاہئے۔
جواب حکیم الامۃ: عقیقہ ایک مسنون امر ہے۔ ساتویں دن ہونا چاہئے اور اگر ممکن ہو یا میسر ہو جب چاہے کرے۔
عورات کی بدعات و شرک
حضرت مسیح موعود: بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں۔ بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا، بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں۔ بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں۔ کوئی مرد نہ کھائے یا کوئی حقہ نوش نہ کھائے۔ بعض جمعرات کو چوکی بھرتی ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں۔
لڑکی دینے والے کی خدمت
حکیم الامۃ: لڑکی دینے والا اگر خدمت کرا دے تو داماد کو کرنی چاہئے اور اگر اس امر کے بدلہ میں لڑکی کا ولی کچھ مانگے تو حرام ۱؎ نہیں۔
مہر کی تعداد
سوال: مہر کی تعداد کیا ہونی چاہئے؟
جواب حضرت مسیح موعود: مہر تراضی فریقین سے جو ہو۔ اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں ہے کہ احادیث یا نصوص قرآنیہ نے اس کی کوئی حد مقرر کر دی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ محض نمود کیلئے اور اس غرض کے واسطے کہ مرد ڈرتا رہے اور قابو میں رہے لاکھ لاکھ کا مہر مقرر کر دیتے ہیں۔ نیت نہ عورت والوں کی لینے کی ہوتی ہے اور نہ مرد کی دینے کی۔ محض نمائش کے لئے ایسا ہوتا ہے اور آخر اس سے بُرے بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
میرا مذہب یہ ہے کہ ایسے تنازعوں میں نیت کو دیکھ لیا جائے اور جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ رضاؤ و رغبت سے وہ اس قدر مہر پر آمادہ تھا تب تک مقررہ شدہ نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور عام رواج کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔
سوال: میری بیوی فوت ہوگئی ہے میں نے مہر نہ اس کو دیا نہ بخشوایا۔ اب کیا کروں؟
جواب حضرت مسیح موعود: مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے۔ آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ اس کو شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے۔
سوال: ایک عورت تنگ کرتی ہے کہ سودی روپیہ لے کر زیور بنا دو اور اس کا خاوند غریب ہے؟
جواب حضرت مسیح موعود: وہ عورت بڑی نالائق ہے جو خاوند کو زیور کے لئے تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سودی روپیہ لے کر زیور بنا دے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا اور آپ کی ازواج نے آپ سے بعض دنیوی خواہشات کی تکمیل کا اظہار کیا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کو فقیرانہ زندگی منظور نہیں ہے تو ان کو کہہ دے کہ آؤ تم کو الگ کر دوں۔ انہوں نے فقیرانہ زندگی اختیار کی آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہی بادشاہ ہوگئیں۔ وہ صرف خدا کی آزمائش تھی۔
سوال: ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی۔
جواب حضرت مسیح موعود: یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہئے۔ اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے۔ ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے۔ پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر خاوند کو اپنا مہر بخش دیتی ہیں یہ صرف رواج ہے۔
سوال: اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟
جواب حضرت مسیح موعود: لَایُکَلِفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا۔ اس بات کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہئے۔ خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ کا مہر کیسے ادا کرے گا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں۔ یہ لَایُکَلِفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَامیں داخل ہے۔
سوال: ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مر گئی ہے خاوند کیا کرے؟
جواب حضرت مسیح موعود: اسے چاہئے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے۔ شرعی حصہ لے سکتی ہے اور اعلیٰ ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتاہے۔
فاسقہ کو حق وراثت
ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لاولد فوت ہو گیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کی حین حیات میں بیاہی گئی تھی۔ بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مر گیا۔ زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو حصہ شرعی ملنا چاہئے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا۔ شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے۔ اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کر سکتاہے۔
ایک ناطہ کے متعلق فتویٰ
سوال: ایک لڑکی کے دو بھائی تھے اور ایک والدہ۔ ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لئے راضی تھے۔ مگر ایک بھائی مخالف تھا۔ وہ اور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اور لڑکی بھی بالغ تھی۔ اس لڑکی کا نکاح کہاں کیا جاوے؟
جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام: وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے۔ جواب دیا گیا کہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے۔ فرمایا۔ پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں۔
برات کے ساتھ باجا
سوال: برات کے ساتھ باجا بجانے کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب حضرت امام الزمان سلمہ الرحمن: فقہا نے اعلان۱؎ بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے ہم کو مقصود بالذات لینا چاہئے۔ اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلی کا اظہار مقصودہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوتے ہیں یعنی جب مقدمات ہوتے ہیں تو اس قسم کے سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ غرض ان خرابیوں کے روکنے کے لئے اور شہادت کے لئے اعلان بالدف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں دراصل یہ بھی اس غرض کے لئے ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بہت سی باتیں اور پیدا ہوگئی ہیں۔ پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جائے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لئے ضروری امور ہیں۔ یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے۔ شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے۔ باجا بجانا اس صورت میں جائز ہے جب کہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جائے اور نسبت محفوظ رہے کیونکہ اگر نسبت محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جس پر خدا نے بہت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کاحکم دیا ہے۔ اس لئے اعلان کا انتظام ضروری ہے البتہ ریاکاری فسق و فجور کے لئے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے۔
شریعت کا مدار نرمی پر ہے۔ سختی پر نہیں ہے۔لَایُکَلِفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا باجہ کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح و تقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے لئے ہے پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدف رکھا ہے اور اصل اشیاء میں حلت ہے اس لئے شادی میں اعلان کے لئے جائز ہے۔
شادی میں آتش بازی و تماشا و باجا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: آتش بازی اور تماشا بالکل منع ہے۔ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے۔ البتہ آتش بازی میں ایک جزو گندھک کا بھی ہوتا ہے اور گندھک وبائی ہوا کو صاف کرتی ہے۔ چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میںمثلاً انار بہت جلد ہوا کو صاف کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص صحیح نیت اصلاح ہوا کے واسطے ایسی آتشبازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلاوے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں مگر یہ شرط اصلاح نیت کے ساتھ ہو کیونکہ تمام نتائج نیت پر مترتب ہوتے ہیں۔
ہمارے دین میں دین کی بنا یسر پر ہے۔ عسر پر نہیں۔ اور پھر انما الاعمال بالنیات ضروری چیز ہے۔ باجوں کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھا۔ اعلاج نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں ضروری ہے کیونکہ کئی دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو۔ رنڈی کا تماشا، آتشبازی فسق و فجور اور اسراف ہے۔یہ جائز نہیں۔
نکاح میں باجا کس وقت بجایا جاوے
سوال: جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اس وقت سے باجا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد۔
جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام: ایسے سوالات اور جزئی در جزی نکالنا بے فائدہ ہے اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی باجا بجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسلامی جنگوں میں بھی تو باجا بجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ۱؎ہی ہوتا ہے۔
شادی میں لڑکیوں کا گانا
سوال: لڑکی یا لڑکے والوں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں وہ کیسا ہے؟
جواب حضرت مسیح موعود: اگر گیت گندے اور ناپاک ۲؎نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔ اس وقت لڑکیوں نے جو پہلا گیت گایا اس کا مطلع یہ تھا۔ طلع البدر علینا من ثنیات الوداع یعنی طلوع ہوا چاند بدر ہم پر ثنیات الوداع سے (ایک وادی کا نام ہے جس میں سے نبی علیہ السلام مکہ سے آتے ہوئے گزر کر مدینہ میں داخل ہوئے تھے)
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا۔ بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو اس کے لئے رحمۃ اللہ فرمایا اور جس کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جاتا تھا۔
غرض اس طرح پر اگر وہ فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں۔ مگر مردوں کو نہیں چاہئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔ یہ یاد رکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
بز ہدورع کوشش صدق و صفا
ولیکن میفزائے بر مصطفی
یہ ایسی باتیں ہیں کہ ان میں خود انسان فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے۔ مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ منع ہے او رپھر جو اسراف کرتا ہے۔ وہ سخت گناہ کرتاہے اگر ریا کاری کرتا ہے تو گناہ کرتا ہے۔ غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریاء، فسق، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو ان امور سے صاف ہے وہ منع نہیں۔ گناہ نہیں کیونکہ اصل اشیا کی حلت ہے۔
تعدد ازواج اور عورتوں میں عدل
سوال: تعدد ازواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت الرِّجَالٌ قَوَّا مُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ۱؎ کے خود ایک حاکم عادل کی طرف جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے۔ ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں۔
جواب حضرت مسیح موعود: محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوںکو برابر رکھنا چاہئے۔ مثلاً پارچات، خرچ خوراک، معاشرے، حتیّٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے۔ یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے۔ خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شہد زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آواری کا دم بھر سکتا ہے۔ ایسی لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔
تعدد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لئے دوسری شادی کرلے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔ تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اس نے اس کے ساتھ گزار ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت دکھ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دلشکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔ اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ البدر اور الحکم اخباروں میں تعدد ازواج کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ تقریر تاکید ازدواج پر مندرجہ ذیل ہے۔
میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اورکثرت اولاد سے جماعت کو بڑھائیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ دوسری بیوی پہلی بیوی کو اس لئے ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غور پرداخت اور حقوق میں کمی کی جائے گی۔ مگر میری جماعت کو اس طرح نہ کرنا چاہئے۔ اگر عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور پرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا جاوے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو۔ عیسائیوں کو بھی اس امر کی ضرورت پیش آئی ہے۔
ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آواری سے ثواب حاصل ہو اور انہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔ دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کااندازہ انسان عَاشِرُوْھُنَّ بالْمَعْرُوْف کے حکم سے ہی کر سکتا ہے۔ اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورت شرعی پیدا ہو جائے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے رو رو کر دعائیں کرتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بیویوں کی ناراضگی کا بڑا باعث خاوند کی نفانسیت ہوا کرتی ہے اور اگر ان کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔ فساد کی بناء تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے۔
خدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے صرف نفسانی جذبات کی ایک سیر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔ اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جائیں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہم کم ہونا چاہئے تا کہ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلاً وَّلْیَبْکُوْا کثیرًا یعنی ہنسو تھوڑا اور رؤو بہت کا مصداق نہ بنو لیکن جس شخص کے دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے اصل منشاسے دور جا پڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔ خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ۱؎ کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔ اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والے کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نوبیویاں تھیں اور باوجود ان کے پھر بھی آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔ ایک رات آپ کی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی کچھ حصہ رات کا گذر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپ موجود نہیں۔ اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ اس نے اُٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چاہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کے قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپ کی بیویاں حظِ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہو سکتی ہیں۔ غرض کہ خوب یاد رکھو کہ خدا کا اصل منشا یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقّہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے گئے۔ ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے۔ یہ وہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو دیکھ کر رو پڑے۔ آپ نے پوچھا۔ اے عمر تجھ کو کس چیز نے رلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خدا کے رسول اور دو جہاں کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عمر مجھے دنیا سے کیا غرض میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے جس قدر نبی اور رسول ہوئے سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مدنظر رکھا ہوا تھا۔
پس جاننا چاہے کہ جو شخص شہوات کی اتباغ سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دور رہتا ہے۔ ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرتا اور روتا کم بلکہ بالکل ہی نہیں روتا اور ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔ استیفائے لذات اگر حلال طور پر ہو تو حرج نہیں۔ جیسے ایک شخص ٹٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اسے نہاری وغیرہ اس لئے دیتا ہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اسے پہنچا دے۔ جہاں خدا تعالیٰ نے سب حقوق رکھے ہیں۔ وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادت بجا لاسکے۔ لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ ہی گناہ ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ استیفائے لذات میں مشغول ہونا بھی گناہ ہے۔ اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں صرف کرتا ہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے یعنی نماز پڑھ لیتا ہے تو وہ نمرودی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو اس محنت میں مر جائے گا۔ حالانکہ ہم نے تیرے لئے بیویاں بھی حلا کی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے ہی فرمایا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کو پڑھنے یا دوسرے کامیں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہو کر پھر دینی خدمت میں مصروف ہوں۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں۔ نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی میلان کس طرح تھا اور رات دن آپ کس فکر میں رہتے تھے۔ بہت سے مُلّا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں اگر ان کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کیا ہم حرام کرتے ہیں۔ شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں ان کو امبات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسِ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ۱؎ سے ظاہرہے کہ انسان صرف عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے جس قدر اسے درکار ہے۔ اگر اس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔ جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے۔ وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے۔ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگانی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھا جائے۔ یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے۔ اس سے یہ غرض ہرگز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے۔ صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت ان سے فائدہ اُٹھایا جاوے۔
اس مقام پر سائل بولا کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعدد ازواج بطور دوا کے ہے نہ بطور غذا کے۔ حضور نے فرمایا ہاں۔ اس پر سائل نے عرض کی کہ ان اخبار والوں نے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کے لئے زیادہ بیویاں کرو۔ حضور نے فرمایاکہ ایک حدیث میں یہ ہے کہ کثرت ازواج سے اولاد بڑھاؤ کہ اُمت زیادہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ اِنَّمَا الاْعْمَالُ بِالنِّیَاتِ۲؎۔ انسان کے ہر عمل کا مدار اس کی نیت پر ہے۔ کسی کے دل کو چیر کر ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے۔ لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے۔ مثلاً ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے۔ مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیںکہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جائے حالانکہ ہمارا یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔ قرآن شریف میں متفرق طو رپر تقویٰ کا ذکر آیا ہے لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے۔ وہاں ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ ادائیگی حقوق ایک بڑی ضروری شے ہے۔ اس لئے عدل کی تاکید ہے۔ اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قویٰ کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہئے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ ڈالے۔ تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو۔ اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ خاوند اور نکاح کرے۔ آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کے لئے سپرد نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اسے کر لیا۔ کل اور نظر آئی تو اسے کر لیا۔ یہ تو گویا خدا کی گدی پر عورتوں کو بٹھانا اور اسے بھلا دینا ہوا۔
دین تو چاہتا ہے کہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے۔ ورنہ سلبِ ایمان کا خطرہ ہے۔ اگر صحابہ کرام عورتیںکرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے۔ حالانکہ ان کا یہ حال تھاکہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اسے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ایک انگلی ہے ہے۔ اگر کٹ گئی تو کیا ہوا۔ مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغفرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم ہو جاتا۔ صحابہ نے عرض کی کہ خدا نے آپ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں۔ پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے۔ فرمایا کیا مَیں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ کسی شخص کا اعتراض ہے کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے۔ یہ ساری بداخلاقیوں کا سرچشمہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ چار بیویاں رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنا لے۔ قرآن کا منشا تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک کی اجازت دے دی ہے۔
خواہش اولاد و ترکِ اولاد
اگرچہ اس دارالابتلاء میں خدا تعالیٰ نے اولاد کو بھی فتنہ میں ہی داخل رکھا ہے۔ جیسا کہ اموال کو۔ لیکن اگر کوئی شخص صحت نیت کی بنا پر محض اس غرض سے اور سراسر وحد اور فکر سے طالب اولاد ہو کہ تا اس کے بعد اس کی ذریت میں سے کوئی خادم دین پیدا ہو۔ جس کے وجود سے اس کے باپ کو بھی دوبارہ ثواب آخرت کا حصہ ملے تو خاص اس نیت اور اس جوش سے اولاد کا خواہشمند ہونا نہ صرف جائز بلکہ اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہے۔ جیسا کہ اس خواہش کی تحریک اس آیت کریمہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ وَاجْعَلنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ۱؎ لیکن سچ مچ اور واقعی اور حقیقی طور پر بھی جوش پیدا ہونا اور اس للّٰہی جوش کی بنا پر اولاد کا خواہشمند ہونا ان ابرار اخیار اور اتقیا کا کام ہے جو اپنے اعمال خیر کے آثار باقیہ دنیا میں چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔
ابنائے روزگار کی رسم اور عادت کے طور پر خواہشمند اولاد ہونا اور یہ خیال رکھنا کہ ہماری موت فوت کے بعد ہمارے اقارب دنیا کی ہماری اولاد وارث بنے اور شرکاء ہماری جائیداد کے قابض نہ ہونے پائیں بلکہ ہمارے بیٹے ہمارے ترکہ پر قبضہ کریں اور شریکوں سے لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہمارے مرنے کے بعد دنیا میں ہماری یادگار رہ جاوے یہ خیال سراسر شرک اور فساد اور سخت معصیت سے بھرا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ جب تک یہ خیال دل میں سے دور نہ ہو کوئی شخص سچا موحد اور سچا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ہرروز خدا تعالیٰ کی طرف سے قدم بڑھانا چاہئے اور جن امور کو وہ فتنہ قرار دیوے بغیر تحقیق صحت نیت کے ان کو اپنی درخواست سے اپنے اوپر نازل نہیں کرانا چاہئے جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے وہ اس کے اندرونی پاک جوشوں اور مظہر جذبات کو خوب جانتا ہے بلکہ درحقیقت پاک دل انسان کے اندرونی جوش اس کی طرف سے ہوتے ہیں اور پھر وہ انہی کو پورا بھی کر دیتا ہے۔ جس وقت وہ دیکھتا ہے کہ ایک للّٰہی ہی حالت کا آدمی اس کے دین کی خدمت کے لئے اپنا کوئی وارث چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور کوئی وارث عنایت کرتا ہے اس کی دعائیں پہلے ہی سے قبول شدہ کے حکم میں ہوتی ہیں۔
عورتوں کے حقوق و معاشرت
حضرت امام علیہ السلام: عورتوں کے حقوق کی حفاظت جیسی اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ وَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیھِنَّ۔ ہر ایک قسم کے حقوق بیان فرما دیئے۔ یعنی جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر بھی ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے یہں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ حقارت کی نظر سے دیکھتے اور پردہ کے طریق کو ایسے ناجائز طریق سے کام میں لاتے ہیں کہ گویا وہ زندہ درگور ہوتی ہیں۔ چاہئے کہ اپنی عورتوں سے انسان کا دوستانہ طریق اور تعلق ہو۔ اصل انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان سے اس کے تعلقات اچھے نہیں تو پھر خدا سے کس طرح ممکن ہے کہ صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ خیرکم خیرلاھلہٖ۔ یعنی اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے والا ہی تم میں سے بہترین ہے۔
درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہمی ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ وعاشروھن بالمعروف یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور حدیث میں ہے خیر کم خیر کم باھلہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بدخدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔
حیض
حضرت امام الزمان: فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلَا تَفْرِبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْن۔ یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جاؤ۔ یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہو لیں۔ ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے۔ یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کی ضروریات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسے زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے۔ اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں۔ بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی نہ دیکھ سکتا۔ گرتیں کو کوئی ہاتھ سے اُٹھا نہ سکتا۔ اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی جا نہ سکتا۔ اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا۔ کیونکہ ایسی پلید ہوگئیں کہ ہاتھ لگانا حرام ہے۔ سو یہ نافہموں کی جہالتیں ہیں اور سچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے۔ (فتاویٰ احمدیہ جلد دوم صفحہ۲۵)
طلاق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسنِ معاشرت شرط ہے اورعورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فتخ ہو جاتا ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑ سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمئی اختیار اس کی فطرتی شتابکاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے۔ لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے۔ سو یہ قانون فطرتی قانون سے مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے پر قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے۔ جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دونوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کے رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اس محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے۔ لہٰذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بداثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے۔ تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے۔ تو اب حقیقت میں وہ دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اس میں ہے کہ اس کو اکھیڑ دیا جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے۔ یہ سب کارروائی قانون قدرت کے موافق ہے۔ عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ سے اپنے پیر کا۔ لیکن تا ہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کسی ایسی دقّت میں مبتلا ہو جاوے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اس پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کے کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو۔ پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بدچلنی اور کسی مہاپاپ سے تیرے پر وبال لاوے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑگیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے۔ اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے ہلاک کرے۔ پھر اگر اس کاٹے ہوئے اور زہریلے جسم کو کوئی پرند یا درند کھا لے تو تجھے اس سے کیا کام۔ وہ جسم تو اس وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جب کہ تو نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا۔
اعتراض اہل ہنوذ کا جواب جو طلاق کو نیوگ سے مناسبت دیتے ہیں
حضرت امام علیہ السلام: اب جب کہ طلاق کو ایسی صورت ہے کہ اس میں خاوند خاوند نہیں رہتا اور نہ عورت اس کی عورت رہتی ہے اور عورت ایسی جدا ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک خراب شدہ عضو کاٹ کر پھینک دیا جات ہے تو ذرا سوچنا چاہئے کہ طلاق کو نیوگ سے کیا مناسبت ہے۔ طلاق تو اس حالت کا نام ہے کہ جب عورت سے بیزار ہو کر بکلّی قطع تعلق اس سے کیا جائے۔ مگر نیوگ میں تو خاوند بدستور خاوند رہتا ہے اور نکاح بھی بدستور نکاح ہی کہلاتا ہے اور جو شخص اس غیر عورت سے ہمبستر ہوتا ہے اس کا نکاح اس عورت سے نہیں ہوتا اور اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے کہ قرآن میں ہے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِمُعْرِضُوْنَ۔ اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں بہت ڈرایا ہے۔ ماسوا تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سال مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعض کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہرحال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں۔ اس واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا۔ بھلا کون ایسا پاگل ہے کہ بے وجہ اس قدر تباہی کا بوجھ اپنے سر پر ڈالے۔ بہرحال جب مرد اور عورت کے تعلقات نکاح باہم باقی نہ رہے تو پھر نیوگ کو اس سے کیا نسبت ہے۔ جس میں عین نکاح کی حالت میں ایک شخص کی عورت دوسرے شخص سے ہمبستر ہو سکتی ہے۔ پھر طلاق مسلمانوں سے کچھ خاص بھی نہیں بلکہ ہر قوم میں بشرطیکہ دیوث نہ ہوں۔ نکاح کا معاہدہ صرف عورت کی نیک چلنی تک ہی محدود ہوتا ہے اور اگر عورت بدچلن ہو جائے تو ہر ایک قوم کے غیرتمند کو خواہ ہندو ہو خواہ عیسائی ہو بدچلن عورت سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً ایک آریہ کی عورت نے ایک چوہڑے سے ناجائز تعلق پیدا کر لیا ہے۔ چنانچہ بارہا اس ناپاک کام میں پکڑے بھی گئے۔ اب آپ ہی فتویٰ دو کہ اس آریہ کو کیا کرنا چاہئے۔ کیا نکاح کا معاہدہ ٹوٹ گیا یا اب تک باقی ہے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح اس عورت کو طلاق دے دے یا یہ کہ ایک دیوث بن کر اس آشنا پر راضی رہے۔ غرض یہ مثال نہایت درست ہے کہ گندی عورت گندے عضو کی طرح ہے اور اس کا کاٹ کر پھینکنا اسی قانون کی رو سے ضروری پڑا ہوا ہے جس قانون کی رو سے ایسے ایسے عضو کاٹے جاتے ہیں اور چونکہ ایسی عورتوں کو اپنے پاس سے دفع کرنا واقعی طور پر ایک پسندیدہ بات اور انسانی غیرت کے مطابق ہے۔ اس لئے کوئی مسلمان اس کارروائی کو چھپے ہرگز نہیں کرتا۔ مگر نیوگ چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ بُرا کام ہے۔ پس طلاق میں اور نیوگ میں فرق ہے کہ نیوگ میں تو ایک بے غیرت انسان اپنی پاکدامن اور بے لوث منکوحہ عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا کر دیوث کہلاتا ہے اور طلاق کی ضرورت کے وقت ایک باغیرت مرد ایک ناپاک طبع عورت سے قطع تعلق کر کے دیوثی کے الزام سے اپنے تئیں بری کر لیتا ہے۔
آریہ جب اُس اعتراض کے وقت جو نیوگ پر وارد ہوتا ہے بالکل لاجواب اور عاجز ہو جاتے ہیں تو پھر انصاف اور خدا تسری کی قوت سے کام نہیں لیتے بلکہ اسلام کے مقابل پر رہنا نہایت مکروہ اور بیجا افتراؤں پر آ جاتے ہیں۔ چنانچہ بعض تو مسئلہ طلاق کو ہی پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ قدرتی طور پر ایسی آفات ہر ایک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہور ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں۔ مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زنا کاری کی حالت میں مشغول رہے۔ ایسا ہی اگر کسی کی جورو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے بلکہ ایک غیرتمند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت سے اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ کام کراتی ہے۔ گو تحقیق کی رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو تا ہم کوئی غیرت مند ایسے ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ اگر آریہ کہیں کہ کیا حرج ہے۔ کچھ مضائقہ نہیں تو ہم ان سے بحث کرنا نہیں چاہتے۔ ہمارے مخاطب صرف وہ شریف ہیں جن کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے غیرت اور حیا کا مادہ رکھا ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ عورت کا جوڑا اپنے خاوند سے پاکدامنی اور فرمانبرداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آ جائے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے۔ انسان کی بیوی اس کے اعضا کی طرح ہے۔ پس اگر کوئی عضو سڑگل جاوے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جاوے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے۔ اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی مصیبت پڑتی ہے تب کاٹا جاتا ہے۔ پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویر کیا ہے اور چاہا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں اسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اس طرح کاربند ہو کر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچا لیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ درحقیقت جوڑ نہیں ہے۔
حلالہ و نیوگ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: بعض آریہ عذر معقول سے عاجز آ کر یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں حلالہ کی رسم نیوگ سے مشابہ ہے۔ یعنی جو مسلمان اپنی جورو کو طلاق دے وہ اپنی جورو کو اپنے پر حلال کرنے کیلئے دوسرے سے ایک رات ہمبستر کراتا ہے تب آپ اس کو اپنے نکاح میں لے آتا ہے۔ سو ہم اس افترا کا جواب بجز لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین کے اور کیا دے سکتے ہیں۔ناظرین پر واضح ہو کہ اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر *** بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں۔ چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں۔ اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جورو بنا لے اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جورو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جاوے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے۔ وہ اس سے زنا کرواتا ہے۔ غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور ائمہ اور علمائے سلف جیسے حضرت قتادہ، عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور مسعہ ابن مسیب اور امام مالک، لیث، ثوری، امام احمد حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعی اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مدنظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے۔ حَتّٰی تُنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہٗ اس کے یہی معنی ہیں کہ جیسے دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ سو آیت کا یہ منشا نہیں ہے کہ جورو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بناوے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادے سے اپنے صحیح اغراض کو مدنظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عند الشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے۔
متعہ و نیوگ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: بعض آریہ نیوگ کے مقابلہ پر اسلام پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں متعہ یعنی نکاح اس وقت جائز رکھا گیا ہے جس میں ایک مدت تک نکاح کی میعاد ہوتی ہے اور پھر عورت کو طلاق دی جاتی ہے لیکن ایسے معترضوں کو اس بات سے شرم کرنی چاہئے تھی کہ نیوگ کے مقابل پر متعہ کا ذکر کریں۔ اوّل تو متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو۔ پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کے لئے مردار کھانا نہایت بیقراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر متعہ ایسا حرام ہو گیا جیسے سؤر کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی۔ قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اورعورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اور متعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط و تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں۔ مثلاً نیوک جو ہندوؤں میں ایک امر واجب العمل ہے تو ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ لیکن قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں۔ نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بعض احادیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورؤں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کے لئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہو گیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر و شراب وغیرہ حرام ہے اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصود نہیں۔ شریعت میں داخل نہیں ہوتے۔ اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور احادیث میں درج نہیں ہوئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کے رسوم کی تبدیلی کی ہے۔ جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی کیونکہ قرآن میں بھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی۔ پھر ساتھی ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں۔ اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو متعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح موقت ہے کوئی حرامکاری اس میں نہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسے خاوند والی عورت دوسرے سے ہمبستر ہو جاوے بلکہ درحقیقت ایک بیوہ یا باکرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نہیں اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دے دی۔ لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صدہاعرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایساہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اُٹھا دیا جائے۔ سو خدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا۔ ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے۔ نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہمبستر کرائی جاتی ہے لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ سو خود سوچ لو کہ متعہ کو نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت۔
پھر ماسوا اس کے ہم یہ کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ اسلام ہی میں خوبی ہے کہ اس میں ایک موقت نکاح بھی حرام کر دیا گیا ہے۔ ورنہ دوسری قوموں پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ادنیٰ ادنیٰ ضرورتوں کے لئے بھی زناکاری کو جائز رکھا ہے۔ بھلا ایک دانشمند نیوگ کے مسئلہ پر ہی غور کرے کہ صرف اولاد کے لالچ کی وجہ سے اپنی پاکدامن عورت کو نامحرم کے بستر پرلٹا دیا جاتا ہے حالانکہ نہ اس عورت کو طلاق دی گئی نہ خاوند کے تعلقات اس سے ٹوٹے ہیں بلکہ وہ خاوند کی سچی خیرخواہ بن کر اس کے لئے اولاد پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسا ہی عیسائیوں میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو ایک نوجوان عورت کو دوسرے اجنبی نوجوان مرد سے ہم بغل ہونے سے روکے اور مرد کو اس عورت کا بوسہ لینے سے منع کرے۔ بلکہ یورپ میں یہ تمام مکروہ باتیں نہایت بے تکلفی سے رائج ہیں اور پردہ پوشی کے لئے ان کاموں کا نام پاک محبت رکھا جاتا ہے۔ سو یہ ناقص تعلیم کے بدنتائج ہیں۔ اسلام میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی ایسے سفر میں جاتا جس میں کئی سال کی توقف ہوتی تو وہ عورت کو ساتھ لے جاتا یا اگر عورت ساتھ جانا نہ چاہتی تو وہ ایک دوسرا نکاح اس ملک میں کر لیتا۔ لیکن عیسائی مذہب میں چونکہ اشد ضرورتوں کے وقت میں بھی دوسرا نکاح ناجائز ہے اس لئے بڑے بڑے مدبر عیسائی قوم کے جب ان مشکلات میں آ پڑتے ہیں تو نکاح کی طرف ان کو ہرگز توجہ نہیں ہوتی اور بڑے شوق سے حرامکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن لوگوں نے ایکٹ چھاوینہائے نمبر۱۳۔ ۱۸۸۹ء پڑھا ہوگا وہ اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ عیسائی مذہب کی پابندی کی وجہ سے ہماری مدبر گورنمنٹ کو بھی یہی مشکلات پیش آگئیں۔ ناظرین جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کس قدر دانا اور دور اندیش اور اپنے تمام کاموں میں باحتیاط ہے اور کیسی کیسی عمدہ تدابیر رفاہ عام کے لئے اس کے ہاتھ سے نکلتی ہیں اور کیسے کیسے حکماء اور فلاسفر یورپ میں اس کے زیر سایہ رہتے ہیں۔ مگر تا ہم یہ دانا گورنمنٹ مذہبی روکوں کی وجہ سے اس کام میں احسن تدابیر پیدا کرنے سے ناکام رہی ہے۔ یوں تو اس گورنمنٹ نے اپنی تدابیر اور حکمت اور ایجادات سے یونانیوں کے علوم کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ مگر جس انتظام میں مذہب کی روک واقع ہوئی اس کے درست کرنے اور ناقابل اعتراض بنانے میں گورنمنٹ قادر نہ ہو سکی۔ اس بات کے سمجھنے کے لئے وہی نمونہ ایکٹ نمبر ۱۳ ،۱۸۸۹ء کافی ہے کہ جب گوروں کو اس ملک میں نکاح کی ضرورت ہوئی تو مذہبی روکوں کی وجہ سے نکاح کا انتظام نہ ہوگا اور نہ گورنمنٹ اس فطرتی قانون کو تبدیل کر سکی جو جذبات شہوت کے متعلق ہے۔ آخر یہ قبول کیا گیا ہے کہ گوروں کا بازاری عورتوں سے ناجائز تعلق ہو۔ کاش! اگر اس کی جگہ پر متعہ بھی ہوتا تو لاکھوں بندگان خدا زنا سے بچ جاتے۔
ایک وقت میں تین طلاق
سوال: ایک وقت میں طلاق ہو سکتی ہے یا نہیں اور تین طلاق کے بعد پہلا خاوند نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب حضرت مسیح موعود: ایک ہی وقت میں طلاق کامل نہیں ہو سکتی اور اصل تین ماہ میں ہونی چاہئے۔ فقہا نے ایک مرتبہ تین طلاق دینے کو جائز رکھا ہے لیکن اس میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہئے تو وہ عورت اس خاوند سے نکاح اور دوسرے خاوند سے بھی کر سکتی ہے۔
حلالہ
سوال: جب تین طلاق ہو جاویں تو کیا پہلا خاوند پھر بھی نکاح کر سکتا ہے؟
جواب: جب تین طلاق واقع ہو جائیں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کسی دوسرے سے وہ نکاح نہ کر لے اور پھر وہ خاوند اس کو طلاق دے دیوے۔ مگر عمداً اس لئے نہ دے کہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرے۔ اس کا نام حلالہ ہے اور یہ حرام ہے۔ ہاں اگر ایسے اسباب پیش آ جاویں کہ وہ دوسرا شخص اس عورت کو طلاق دے دیوے تو وہ پہلے شخص سے شادی کر سکتی ہے لیکن اگر ایک ہی مرتبہ تین طلاق دی جاویں تو پھر عدت گزرنے کے بعد وہی خاوند نکا ح کرنا چاہے تو وہ نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اس کی یہ طلاق شرعی طریق پر نہیں دی گئی۔ جس میں تین ماہ کی عدت مقرر ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہر ایک اپنے نفع و نقصان کو سمجھ لے۔ دو طلاقیں دے کر اگر تیسری نہیں دی اور عدت گزر گئی ہے تب بھی رجوع ہو سکتا ہے۔
حمل دار کی عدت
قاَلَ اللّٰہ تعالیٰ وَاُدْلاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمَلُھُنَّ (جزو نمبر۲۸) یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جاوے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسبت ضائع ہوگی اور یہ پتہ نہیں ملے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔
غیر حائضہ عورت کی عدت
قال اللہ تعالیٰ وَالّٰتِیْ تَئِسْنَ مِنَ الْحَیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلَاثَۃَاَشْھُرٌ وَّ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَہٗ اِلَیْکُمْ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہِ یُکَفِر عَنْہُ سَیئِاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗ اَجْرًا یعنی اور جو عورتیں حیض سے نومیدہوگئی ہیں ان کی مہلت طلاق بجائے تین حیض کے تین مہینہ ہیں اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا خدا اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔ یہ خدا کا حکم ہے جو تمہاری طرف اُتارا گیا اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اورحتی الوسع طلاق سے دست بردار رہے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا اور اس کو بہت بڑا اجر دے گا۔
ایلاء یعنی اپنی بیوی سے جدا ہونے کیلئے قسم کھانا
قال اللہ تعالیٰ لِلّٰذِیْنَ یُؤلُوْنَ مِنْ نِّسَائِھِمْ تَرَبُّضُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرِ فَاِنْ فَاوُ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ فَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہونے کے لئے قسم کھا لیتے ہیں وہ طلاق دینے میں جلدی نہ کریںبلکہ چار مہینے انتظار کریں سو اگر وہ اس عرصہ میں اپنے ارادے سے باز آجاویں۔ پس خدا کو غفور و رحیم پائیں گے اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں۔ سو یاد رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بددعا سن لے گا۔
(فتاویٰ احمدیہ جلد دوم صفحہ۲۵)
طلاق ایک جلسہ میں بحالت غصہ
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے از حد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی۔ ولی منشا نہ تھا۔ اب ہر دو پریشان اوراپنے تعلقات جو توڑنا نہیں چاہتے۔
حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا۔ فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے۔ اس لئے رجوع ہو سکتا ہے۔ صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اور اسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے۔ والسلام
ہدایت برائے مطلقات و طالق و ترتیب طلاق
قال اللہ تعالیٰ۔ وَالْمُطَلَّقَّاُ یَتَّرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلَاثَۃَ قُرْوْئٍ۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ وَّلَا یُحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاخُذُوْا مِمَّا اَتَیْتُمُوْ ھُنَّ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی۔ وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں۔ دو دفعہ طلاق ہوگی۔ یعنی ہر ایک حیض کے بعد خاوند اپنی عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند ہشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے یا تیسری طلاق سے رک جاوے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے۔ دے دے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک دوسرا خاوند نہ کرے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہو سکتا۔
انقضائے عدت و طلاق ثلاثہ دینے کے بعد عورت کو نکاح کرنے سے روکنا و اثنائے عدت میں عورت کو گھر سے نکالنا طلاق رجعی کی حد
حضرت مسیح موعود: قال اللہ تعالیٰ۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُّ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا یَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجُھُنَّ وتقوا اللّٰہُ رَبَّکُمْ لَاتُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُؤتِّھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یَّتِھُنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبْیِّنَۃٍ فَاِذَا یَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْفَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَمَنْ یَّتَقِ اللّٰہُ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُفْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ مدت مقررہ تک پہنچ جائیں اور عدت کی میعاد گزر جائے تو ان کو نکاح کرنے سے مت روکو۔ یعنی جب تین حیض کے بعد تین طلاقیں ہو چکیں۔ عدت بھی گذر گئی تو اب وہ عورتیں تمہاری عورتیں نہیں۔ ان کو نکاح کرنے سے مت روکو اور خدا سے ڈرو اور ان کو عدت کے دنوں میں گھر سے مت نکالو۔ مگر یہ کہ کوئی کھلی کھلی بدکاری ان سے ظاہر ہو اور جب تین حیض کی مدت گذر جائے اور تم نے ابھی تیسری طلاق نہ دی ہو تو پھر بعد اس کے احسان کے ساتھ ان کو رخصت کرو۔ اگر کوئی تم میں سے خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور کسی بے ثبوت شبہ پر بگڑ نہیں جائے گا تو خدا اس کو تمام مشکلات سے رہائی دے گا اور ان کو ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ اسے علم نہیں ہوگا کہ مجھے کہاں سے رزق آتا ہے۔
وہ ہدایتیں جن کی پابندی کے بعد پھر ایک شخص طلاق دینے کا مجاز ہو سکتا ہے
حضرت مسیح موعود: قال اللہ تعالیٰ وَالَّتِیْ تُخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُ وْھُنَّ فِیْ الْمَعْنَاجِعِ وَاْضِربُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیًّا کَبِیْرًا فَاِنْ خِفْتُمْ شْقَاقٌ بَیْنِھِمَا فَبْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اَنْ یُرِیْدَا اِصْلَاحاً یُّوَفِّقِ اللّٰہَ بَیْنِھِمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا
یعنی جن عورتوں کی طرف سے ناموافقت کے آثار ظاہر ہو جائیں۔ پس تم ان کو نصیحت کرو اور خوابگاہوں میں ان سے جدا رہو اور مارو (یعنی جیسی حیسی صورت اور مصلحت پیش آوے) پس اگر وہ تمہاری تابعدار ہو جائیں تو تم بھی طلاق وغیرہ کا نام نہ لو اور تکبر نہ کرو کہ کبریائی خدا کے لئے مسلم ہے۔ یعنی دل میں یہ نہ کہو کہ اس کی مجھے کیا حاجت ہے۔ میں دوسری بیوی کر سکتا ہوں بلکہ تواضع سے پیش آؤ کہ تواضع خدا کو پیاری ہے اور پھر فرماتا ہے کہ اگر میاں بیوی کی مخالفت کا اندیشہ ہو تو ایک منصف خاوند کی طرف سے مقرر کرو اور ایک منصف بیوی کی طرف سے مقرر کرو۔ اگر منصف صلح کرانے کے کے لئے کوشش کریں گے تو خدا توفیق دے دے گا۔
ظہار یعنی اپنی عورت کو ماں کہنا
حضرت مسیح موعود: قال اللہ تعالیٰ اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ مِنْ نِّسَائھِمْ مَاھُنَّ اُمھَّاَتُھُمْ اِنْ اُمَّھَاتُھُمْ اِلاَّ الّٰیی وَلَمْ نَھُمْ وَاِنَّھُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرَا مِنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوًّا غُفُوْرًا وَالَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَائِھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِنْ قَلبْلِ اَنْ یَّتَمَا تَاذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُسَّتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَماتَا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا(الجز و ۲۸ سورہ مجادلہ) یعنی جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی۔ ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے سو ان کی بات نامعول اور سراسر جھوٹ ہے اور خدا انصاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھیں اپنی عورتوں کو اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کریں۔ یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے۔ اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینے کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلائیں۔
اپنی بیوی سے حسن معاشرت
حضرت مسیح موعود: چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ احباب کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے۔ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسی معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ خَیْرُکُمْ خَیْرُکَمْ بِاھْلِہٖ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو اپنی بیویوں سے نیکی سے پیش آوے۔ انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کر دیا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر ایک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے نرمی برتنی چاہئے اور ہر ایک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجا لاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے۔ مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے۔ خوانخوار انسان نہیں بننا چاہئے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے۔ درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرّہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک عورت کو خدا نے صدہا کوس سے لا کر میرے حوالہ کیا ہے۔ شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دے اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
مقاصد نکاح
سوال: اسلام میں نکاح کے مقاصد کیا کیا ہیں۔ غالباً صرف اولاد پیدا کرنا تو نہیں۔ انسان کی فطرت کا بھی لحاظ رکھا ہے۔
جواب حکیم الامۃ: خدا تعالیٰ نے قرآن کریم پارہ نمبر۲۱ میں فرمایا ہے۔ خلق لکم من انفسکم ارواجا …… الیھا وجعل بینکم مودہ ورحمہ اور پارہ ۲۵ میں فرمایا ہے۔ اتاتون الی جال شہرۃ… دون النساء بل اھتم قوم تجھلون۔ اور فرمایا ہے نساء کم حرت لکم اور فرمایا ہے…… بی بی آرام اور سکون کے لئے بنائی گئی ہے۔ غمگسار ہزاروں افکار میں آرام کا موجب ہے۔
انسان میں طبعی طور پر دوستی اور محبت کرنا ایک فطرتی امر ہے اور دوستی اور محبت کے لئے بی بی عجیب فریب چیز ہے۔ صورت نازک البدن اور ضعیف الخلقت ہے اور بچوں کو جننے اور گہر کے انتظام رکھنے میں ذمہ دار اور ایک عظیم الشان بازو ہے۔ پس اس کے متعلق رحم سے کام لو۔ خدا نے اس کو رحم کے لئے بنایا ہے اس کی غفلتوں اور فطرتی کمزوریوں پر چشم پوشی کرو اور آدمیوں میں قدرتی طور پر شہوت کا مادہ ہے۔ اس کا قدرت نے محل بی بی اور عورت ہی کو بنایا ہے۔ یہ چوتھی بات ہے۔ بعد اس کے فرمایا ہے کہ عورت کہتی ہے اور بیچ بونے کے قابل ہے جس طرح کمیت کا علاج اور معالجہ ضرور ہوا کرتا ہے اور اس میں خاص غرض ہوا کرتی ہے۔ بنابرین عورت میں بھی خاص خاص اغراض ہیں جس نے ہمیں متمتع ہونا چاہئے۔ یہ پانچویں بات ہے۔ پھر عورت ننگ و ناموس اور مال اور اولاد کی محافظ اور مہتمم ہے۔ یہ چھٹی بات ہے۔
سیّدزادی سے نکاح
ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ غیر سیّد کو سیّدانی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کئے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے۔ علاوہ ازیں نکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہئے اور اس لحاظ سے سید زادی کا ہونا بشرطیکہ تقویٰ و طہارت کے لوازمات اس میں ہوں افضل ہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ سید کا لفظ اولاد حسین کے واسطے ہمارے ملک میں ہی خاص ہے۔ ورنہ عرب میں بزرگوں کو سید کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عہ سب سید ہی تھے اور حضرت علیؓ کی ایک لڑکی حضرت عمرؓ کے گھر میں تھی اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لڑکی حضرت عثمانؓ سے بیاہی گئی تھی اور اس کی وفات کے بعد پھر دوسری لڑکی بھی حضرت عثمانؓ سے بیاہی گئی تھی۔ پس اس عمل سے یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے۔ جاہلوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ اُمتی سیّدانی کے ساتھ نکاح نہ کرے حالانکہ اُمت میں تو ہر ایک مومن شامل ہے خواہ وہ سیّد ہو یا غیر سیّد۔
مفقود الخبر
سوال: مفقود الخبر کی زوجہ کتنی مدت تک انتظار کرے۔
جواب حضرت مولوی نورالدین حکیم الامۃ: چار سال تک اگر کوئی خبر نہ ملے اور کچھ پتہ نہ لگے تو اس مردہ کی مانند سمجھنا چاہئے اور اس کے بعد عدت کے ایام گزرنے چاہئے اگر بعد میں وہ شخص آ جائے تو اس کا کوئی حق نہیں۔
یک دفعہ تین طلاقیں دینا
سوال: یک دفعہ تین طلاق دینے سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے یا تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
جواب حکیم الامۃ: نسائی کی کتاب الطلاق میں یہ ایک واقع لکھا ہے باب الثلاث لمجموعہ ومافیہ۔ اخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمیعا من التغلیظ فقا غضبان ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین انھر کم حتی قام رجل و قال یا رسول الا اقتلہ۔
پھر قرآن شریف میں الطلاق مرقان ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ طلاق ایک دفعہ نہیں دینی چاہئے۔ احادیث اور آثار جو اس باب میں ہیں اس کے پڑھنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اور نسائی باب طلاق الثلاث للتفرد قبل الدخول میں لکھا ہے ان الثلاث کانت صلی علی … رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ابی بکر و صدرمن عمر تردالی الواحد۔
بیوہ کا نکاح کن صورتوں میں ضروری ہے
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوی عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے۔ نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہئے یا کہ نہیں۔ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جاوے۔
فرمایا۔ بیوہ کے نکاح کا حکم اس طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتی ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلیہوئی ہے اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
رہن و بیمہ
سوال: مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۳ء کو سوال ہوا کہ رہن کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب حضرت مسیح موعود: ہمارے نزدیک رہن جب کہ نفع و نقصان کا ذمہ وار ہو جاتا ہے اس سے فائدہ اُٹھنا منع نہیں ہے۔
سوال: بعض لوگ جو عمارتوں کے بیمے کسی بیمہ کمپنی سے آتشزدگی وغیرہ کے متعلق کراتے ہیں اس کی بابت حضور کیا فرماتے ہیں؟
جواب حضرت مسیح موعود: سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے۔ قماربازی میں ذمہ واری نہیں ہوتی۔ دنیا کے کاروبار میں ذمہ واری کی ضرورت ہے۔ پس ان معاملات میں دیکھ لو کہ سود یا قمار کی کوئی جزو تو نہیں۔ اگر صرف اقرارت ہوں ان کو شریعت نے جائز رکھا ہے کہ جن میں ذمہ واری ہوتی ہے ۔
چونکہ اس قسم کے سوالوں کے متعلق ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اس لئے حجۃ اللہ نے فرمایا۔ لَاتَسْئَلُوْاعَنْ اَشْیَاء۔ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں۔ مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جائے تو اب اس خیال میں لگ جائے کہ کسی وقتحرام کا پیسہ ان کے آیا ہوگا۔ پھر اس طرح تو آخر کار عورتوں کا کھانا ہی بند ہو جائے گا۔ خدا کا نام ستار بھی ہے۔ ورنہ دنیا میں عام طور پر راستباز کم ہوتے ہیں۔ مستور الحال بہت ہوتے ہیں۔ یہ بھی قرآن میں لکھا ہے۔ وَلاَتَجسَّوُا یعنی تجسس مت کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں پڑو گے۔
زمین کا رہن
مورخہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۳ء کو رہن کے متعلق سوال ہوا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں۔ گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہوگئی تو حکام زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جاتا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں۔ پس چونکہ حکام وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اس طرح یہ رہن بھی جائز رہا۔ کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی۔ تو دونوں صورتوں میں مرتہن نفع و نقصان کا ذمہ وار ہے۔ پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے۔ جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن باقبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مرتہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہوگیا۔
رہن زیور و زکوٰۃ زیور
مورخہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۳ء کو زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ زیور ہو کچھ ہو جب کہ انتفاع جائز ہے۔ تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بنائے جائیں۔ اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس کی زکوٰۃ بھی اس کے ذمہ ہے۔ زیور کی زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے۔ پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے۔ اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔
کسی شخص کو جو تجارتی روپیہ دیا جاوے اس کا منافع لینا
مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو ظہر کے وقت ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم الامۃ نے ایک مسئلہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں۔ جن کے پاس بیس بائیس ہزار روپیہ کے قریب موجود ہے۔ ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرناچاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لئے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔ اس طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے۔ وہ امانت رہے سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع دے دیا کرے گا۔ یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو ان کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کر لی جائے۔
اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا چونکہ انہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے۔ اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے۔ دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو ان کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔ سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلامحنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔ اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔ اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔
جواز و عدم جواز رہن پر سوال
سوال: پیر صاحب گولڑوی کا مرید اعتراض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المؤمنین علیہا السلام کے پاس جائیداد رہن رکھ دی ہے۔ رہن ناجائز ہے۔
جواب حکیم الامۃ: صدم جواز رہن کا فتویٰ میں امید نہیں کرتا کہ پیر صاحب گولڑوی نے اپنے کسی مرید کو دیا ہو کیونہ پیر صاحب گولڑوی دیدہ دانستہ قرآن شریف کی مخالفت کیونکر کر سکتا ہے۔ حالانکہ اس میں تو صاف موجود ہے۔ وان لم تجدوا کاتبا فرھان مقبوضۃ۔ اور نہ مجھے یہ وہم ہو سکتا ہے کہ پیر صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ناواقف ہوں۔ ان کے مرید نے از خود یہ تجویز کر لیا ہوگا کہ رہن ناجائز ہے اگر وہ پیر صاحب سے ہی فیصلہ پوچھ لیتا تو شاید اعتراض نہ کرتا۔ کیونکہ پیر صاحب اُسے بتا دیتے کہ رہن اور … کا قبضہ ایسی چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے پر آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گرو تھی ہمیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ معترض نے یہ اعتراض ہی کیوں کیا۔ اس کا ایسا اعتراض رھان مقبوضۃ کے لحاظ سے قرآن کریم کا مخالف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملدرآمد کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا مخالف ہے۔ پھر فقہ حنفی میں کتاب الرہن موجود ہے اس کا بھی مخالف۔ پھر میں یقین کرتا ہوں کہ صاحبزادگان تونسہ شریف کے پاس بھی زمینیں رہن ہیں وہ ان سے ہی پوچھ لیتا۔
ریلی برادرس کی بیع و شراء
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرس وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر اسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپے کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ جن معاملات بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں۔ فساد نہ ہوں۔ تراضی فریقین ہو اور سرکار نے بھی حرام نہ رکھا ہو۔ عرف میں جائز ہو۔ وہ جائز ہے۔
سود اور ایمان
مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۳ء کو ایک شخص نے سوال کیا کہ ضرورت پر سودی روپیہ لے کر تجارت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ حرام ہے۔ اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اسے زیادہ دینے کا نہ ہو۔ نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو۔ پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دے دے تو وہ سود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ھَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَان ہے۔ اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہو اور سوائے سود کے کام نہ چل سکے تو پھر ؟
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے سود لیا نہ دیا۔ آخر ان کے حوائج بھی پورے ہوتے ہی رہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود نہ لو نہ سود دو۔ جو ایساکرتا ہے گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے۔ ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے۔ ایمان بڑی بابرکت شے ہے۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیٌ قَدِیْرٌ اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے تو کیا خدا کا حکم بھی بیکا رہے۔ اس کی قدرت بہت بڑی ہے۔ سود تو کوئی شے ہی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا۔ اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو۔ جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتی ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا۔ جب تک خدا نہ چھڑوائے۔ ورنہ انسان توہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے۔ اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا۔ دکانداروں، عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سالہا سال تک بیچتے ہیں۔ دھوکا دیتے ہیں۔ ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گزارہ نہیں چلتا۔ حالانکہ مومن کے لئے خدا خود سہولت کر دیتا ہے۔ یہ تمام راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے۔ لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے۔ جیسے ان کو حرام کے دروازے پر بھروسہ ہے۔ ویسا خدا پر نہیں۔ خدا پر ایمان، یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو، تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخے مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جائے۔ (البدر ۲۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۷۵)
فتویٰ در باب سود بینک
مورخہ ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء کو شیخ نور احمد صاحب نے بینک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بینک والے ضرور سود دیتے ہیں۔ پھر اسے کیا کیا جاوے۔ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے۔ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لئے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے واسطے۔ پس سود اپنے نفس کیلئے، بیوی، بچوں، احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں کیلئے بالکل حرام ہے لیکن اگر یہ روپیہ خالصۃً اشاعت دین کے لئے خرچ کیا جائے تو حرج نہیں ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوٰۃ بھی نہیں دیتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں اس وقت دو مصیبتیں واقع ہو رہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زکوٰۃ جس کے دینے کا حکم تھا۔ وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں۔ یعنی جو خدا کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا وہ لیا گیا۔ جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعفمیں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتی ہیں یکمشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں۔ میں نے جو فتویٰ دیا ہے وہ عام نہیں ہے۔ ورنہ سود کا لینا دینا دونوں حرام ہیں۔ مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جب کہ مالی ترقی کے ذرائع پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے۔ ایسا روپیہ اسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے۔قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے اگر خرچ ہو تو حرام ہے۔ یہ بھی یاد رکھو جیسے سود اپنے لئے درست نہیں کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں۔ ہاں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال دینا درست ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہو رہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو۔ اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارود مال حرام ہے۔ ٹھیک نہیں بلکہ مناسب یہی ہوگا کہ اس کو خرچ کیا جاوے۔ اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے۔ اب جہاد قلم کا باقی ہے۔ اس لئے اشاعت دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں۔
ایک دوست نے عرض کی کہ میرے ایک رشتہ دار کا بہت سا روپیہ بینک میں کئی سالوں کے واسطے جمع تھا۔ جہاں سے ماہواری سود ملتا ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث لیتے ہیں۔ ایسے سود کے متعلق کیا حکم ہے۔ بینک والے وہ رقم ضرور دیتے ہیں اور بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر روپیہ جمع کرنے والا سود سے فائدہ نہ اُٹھائے تو بینک والوں سے ایسا روپیہ مشنری عیسائی اشاعت دین عیسوی کے واسطے لے لیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ سود کا روپیہ بالکل حرام ہے کہ کوئی شخص اسے اپنے نفس پر خرچ کرے اور کسی قسم کے بھی ذاتی مصارف میں خرچ کرے یا اپنے بال بچے کو دے یا کسی فقیر مسکین کو دے، کسی ہمسایہ کو دے یامسافر کو دے،سب حرام ہے۔سود کے روپیہ کا لینا اور خرچ کرنا سب گناہ ہے لیکن ایک بات جس پر خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو قائم کر دیاہے اور وہ صحیح ہے۔ یہ ہے کہ کہ یہ ایام اسلام کے واسطے بڑے مالی مشکلات کے ہیں۔ اوّل تو مسلمان اکثر غریب ہیں۔ پھر جو امیر ہیں وہ اپنے ذاتی مصارف میں مال اور عیال کے فکر میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔ سود کا روپیہ لے لیتے ہیں اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ دونوں طرف سے گنہگاری میں پڑے ہوئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ غریب ہو یا امیر ہو کسی کو بھی دین اور اسلام کی اشاعت کا فکر نہیں۔ جو زکوٰۃ دیتے ہیں وہ بھی رسمی طور پر دنیاوی عزت کے موقع پر اپنا روپیہ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ اپنا جو حق نہ تھا وہ لیتے ہیں اور خدا کا جو حق تھا وہ بھی نہیں دیتے اور اس طرح اپنے اندر دوگناہ ایک ہی وقت میں جمع کرتے ہیں۔ غرض اس قدر اسلامی مصیبت کے وقت میں اگر اس قسم کا روپیہ اشاعت اسلام کے واسطے تالیف کتب میں صرف کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ سود کا روپیہ تصرف ذاتی کے واسطے ناجائز ہے۔ لیکن خدا کے واسطے کوئی شے حرام نہیں۔ خدا کے کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ حرام نہیں ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ گولی بارود کا چلانا کیسا ہی ناجائز اور گناہ ہو لیکن جو شخص اسے ایک جانی دشمن کے مقابلہ پر نہیں چلاتا وہ قریب ہے کہ خود ہلاک ہو جائے۔ لیکن کیا خدا نے نہیں فرمایا کہ تین دن کے بھوکے کے واسطے سؤر بھی حرام نہیں بلکہ حلال ہے۔ پس سود کا مال اگر تم، ہم کوئی خدا کے لئے لگائیں تو پھر کیونکر گناہ ہو سکتا ہے۔ اس میں مخلوق کاحصہ نہیں لیکن اعلائے کلمۂ اسلام میں اور اسلام کی جان بچانے کے لئے اس کا خرچ کرنا ہم اطمینان اور ثلج قلب سے کہتے ہیں کہ یہ بھی فلا اثم علیہ میں داخل ہے۔ یہ ایک استثناء ہے اشاعت اسلام کے واسطے ہزاروں حاجتیں ایسی پڑتی ہیں جن میں مال کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کل یہ معلوم ہوا ہے کہ جاپانی لوگ اسلام کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس واسطے بہت ضروری ہے کہ اسلامی خوبیوں کی ایک جامع کتاب تالیف کی جائے۔ جس میں سے سر سے لے کر پاؤں تک اسلام کا پورا نقشہ کھینچا جائے کہ اسلام کیا ہے۔ صرف بعض مضامین لکھنا ایسا ہے جیسا کہ کسی کو سارا بدن نہ دکھایا جائے اور صرف ایک انگلی دکھا دی جائے۔ یہ مفید نہیں ہو سکتا۔ پوری طرح دکھانا چاہئے کہ اسلام میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور پھر ساتھ ہی دیگر مذاہب کا حال بھی لکھ دینا چاہئے۔ وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شے ہے۔ اس کے واسطے ایک مستقل کتاب لکھنی چاہئے جس کو پڑھ کر وہ لوگ دوسری کتاب کے محتاج نہ رہیں۔ آج کل اس کام میں روپیہ خرچ کرنے کی اس قدر ضرورت ہے کہ ہمارے نزدیک جو آدمی حج کے واسطے روپیہ جمع کرتا ہے اس کو بھی چاہئے کہ اپنا روپیہ اسی کام میں صرف کر دے کیونکہ یہ جہاد کا موقع ہے۔ اب تلوار کا جہاد باقی نہیں رہا۔ لیکن قلم کا جہاد باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس طرح کی تیاری کفار تمہارے مقابلہ میں کرتے ہیں۔ اسی طرح کی تیاری تم بھی ان کے مقابلہ میں کرو۔ اب قوموں کے درمیان تلوار کا مذہبی جنگ باقی نہیں رہا لیکن قلم کا جنگ ہے۔ پادری لوگ طرح طرح کے مکروفریب کے ساتھ اسلام کے برخلاف کتابیں شائع کرتے ہیں اور غلط باتیں افترا پردازی سے کہتے ہیں جب تک ان خبیث باتوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ہونا ثابت نہ کیا جائے۔ اسلام کو اشاعت کس طرح ہو سکتی ہے۔ پس ہم اس بات سے شرم نہیں کرتے۔ کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔ میرا مذہب جس پر خدا نے مجھے قائم کیا ہے اور جو قرآن شریف کا مفہوم ہے۔ وہ یہ ہے کہ اپنے نفس، عیال اطفال، دوست عزیز کے واسطے اس سود کو مباح نہیں کر سکتے بلکہ یہ پلید ہے اور کا گناہ حرام ہے لیکن اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جب کہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے۔ اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہئے جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے۔ ایسے موقعہ پر سود کا روپیہ لگانا جائز ہے کیونکہ ہر ایک مال خدا کا ہے اور اس طرح پر وہ خدا کے ہاتھ میںجائے گا۔ مگر بایں ہمہ اضطراری کی حالت میں ایسا ہوگا اور بغیر اضطرار یہ بھی جائز نہیں۔
اسلامی تائید کیلئے اجازت سود مختص المقام و مختص الزمان ہے
ایک دوست نے عرض کی کہ اگر اس طرح سے ایک خاص امر کے واسطے سود کے روپے کمانے کی اجازت دی گئی ہو تو لوگوں میں اس کا رواج ہو کر عام قباحتیں پیدا ہو جائیں گی۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ بے جا عذر تراشنے کے واسطے تو بڑے حیلے ہیں۔ بعض شریر لاتقربوا الصلوٰۃ کے یہ معنی کردیتے ہیں کہ نماز نہ پڑھو۔ ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ اضطراری حالت میں جب خنزیر کھانے کی اجازت نفسانی ضرورتوں کے واسطے جائز ہے تو اسلام کی ہمدردی کے واسطے اگر انسان دین کو ہلاکت سے بچانے کے واسطے سود کے روپیہ کر خرچ کرے تو کیا قباحت ہے۔ یہ اجازت مختص المقام اور مختص الزمان ہے۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ کے واسطے اس پر عمل کیا جائے۔ جب اسلام کی نازک حالت نہ رہے تو پھر اس ضرورت کے واسطے بھی سود لینا ویسا ہی حرام ہے کیونکہ سود کا عام حکم حرمت ہی ہے۔
نوٹوں پر کمیشن
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لئے یا دیئے جاتے ہیں کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے۔
فرمایا جو نوٹ لے کر روپیہ دیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے۔ کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے۔
بونس وغیرہ کا روپیہ جو گورنمنٹ دیتی ہے
ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ان کی تنخواہ میں سے ایک آنہ فی روپیہ کاٹ کر رکھا جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائد روپیہ بھی وہ دیتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے۔ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلائے گا۔ لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں۔ اگر بادشاہ کچھ روپیہ دیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے۔ تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے۔ وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ دیا ہو۔ یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو۔ خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے۔ ایک صاحب نے بیان کیا کہ سید احمد خاں صاحب نے لکھا ہے کہ اضعافاً مضاعفًا کی ممانعت ہے۔ فرمایا کہ یہ بات غلط ہے کہ سود در سود کی ممانعت کی گئی ہے اور سود جائز رکھا ہے۔ شریعت کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے۔ یہ فقرہ اس قسم کا ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ۔ اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرتے جاؤ۔ اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سود ہوگا جب کہ لینے والا اس خواہش سے روپیہ دیتا رہے کہ مجھ کو سود ملے۔ ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احساناً دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے۔
رشوت وغیرہ حرام مال سے جو عمارت وغیرہ ہو
ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تائب ہو تو اس کے پاس جو اوّل جائداد رشوت وغیرہ سے عمارت بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا۔ شریعت کا حکم ہے کہ توبہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسی کو پہنچایا جاوے۔
رشوت و ہدیہ میں فرق
رشوت اور ہدیہ میں ہمیشہ تمیز چاہئے۔ رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا لیا جاوے۔ ورنہ اگر کسی نے ہمارا ایک کام محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہوئی تو اس کو جو دیا جائے گا وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے۔
ریلوے بونس
سوال: ریلوے کے محکمہ میں ملازموں کی تنخواہ میں سے ماہوار کچھ حصہ وضع ہوتا ہے اور وہ گورنمنٹ کے پاس جمع رہتا ہے پھر اُس پر کچھ بونس دیا جاتا ہے کیا وہ سود میں داخل ہے۔
جواب: بات اصل یہ ہے کہ سود کی تعریف یہ ہے کہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے روپیہ قرض دیا جاوے یہ تعریف جہاں صادق آتی ہے وہ سود ہے لیکن جب کہ محکمہ ریلوے کے ملازم خود وہ روپیہ سود کے لالچ سے نہیں دیتے بلکہ جبراً وضع کیا جاتا ہے تو یہ سود کی تعریف میں داخل نہیں ہے۔ اور خود جو کچھ وہ روپیہ زائد دے دیتے ہیں وہ داخل سود نہیں ہے۔ غرض یہ خود دیکھ سکتے ہو کہ آیا یہ روپیہ سود لینے کے لئے تم خود دیتے ہو یا وہ خود وضع کرتے ہیں اور بلا طلب اپنے طور پر دیتے ہیں۔
رشوت کیا چیز ہے
رشوت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔ یہ سخت گناہ ہے۔ مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کئے جاویں۔ میں اس سے سخت ۱؎ منع کرتا ہوں۔ لیکن ایسے طور پر کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے۔ جس سے کسی حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔ کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لاتلقوا بایدیکم الی التھئکۃ فرمایا ہے۔
حکام اور برادری سے تعلق
سوال: حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہئے۔
جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام: ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔ حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔ جان اور مال ان کے ذریعہ امن میں ہے اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں۔ البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے تا ہم ان سے نیک سلوک کرنا ضروری چاہئے۔ ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخر میں کیا جارے لگا۔ اس لئے سب کے لئے نیک اندیش ہونا چاہئے۔ ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو۔ غرض سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔ اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
طعام اہل کتب و اہل ہنود پر فیصلہ کن تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مورخہ ۳۰؍ جون ۱۹۰۴ء کو امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس میں یہ بھی ذکر آ گیا کہ دودھ اور شوربا وغیرہ جو ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔ دودھ تک بھی بذریعہ مشین کے دوہا جاتا ہے۔
اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ چونکہ نصاریٰ اس وقت ایسی قوم ہوگئی ہے جس نے دین کے حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا کوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے۔ بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لئے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں وغیرہ کے بنے ہوئے ہوں ان میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو۔ اس لئے ہمارے نزدیک ولایتی اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔ جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیاء خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو۔
اس پر ابوسعید المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔ وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا۔ جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتا ل کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کارخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔ دریافت پر کارخانے والوں نے بتلایا کہ ہم اسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے۔چونکہ اس موقع پر ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز مصارو بلاد میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے اس لئے ان کو بھی مدنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا اور نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کُتّے چاٹ جاتے ہیں۔
اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ۔ ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو۔ ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے۔ اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حلال و حرام کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ استعمال نہیں کرنے دیتے۔ بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔ عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہی کی دکانہیں موجود ہوتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کی دکانہیں ہوں اور سب شے وہاں سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔ علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے مراد غالباً یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہی کو ہے اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔ انجیل کوئی کتاب نہیں۔
چھری کانٹے سے کھانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: چھری کانٹے سے کھانے کے متعلق فرمایا کہ اسلام نے منع تو نہیں فرمایا ہاں تکلف سے ایک بات یا ایک فعل پر زور دینے سے منع کیا ہے۔ اس خیال سے کہ اس قوم میں مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا اور یہ فعل اس لئے کیا کہ امت کو تکلیف نہ ہو۔ جائز صورتوں پر کھانا جائز ہے۔ مگر بالکل اس کا پابند ہونا تکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو ناجائز سمجھنا منع ہے کیونکہ آہستہ آہستہ انسان یہاں تک تتبع کرتا ہے کہ ان کی طرح طہارت بھی چھوڑ دیتا ہے۔ من تشبہ بقوم فھومنھم سے یہی مراد ہے کہ التزامًا ان باتوں کو نہ کرے۔ ورنہ بعض وقت جائز صورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے۔ میں خود بعض وقت میز پر کھانا رکھ لیتا ہوں۔ جب کام کی کثرت ہوتی ہے اور میں لکھتا ہوں ایسا ہی کبھی چٹائی پر کبھی چارپائی پر بھی کھاتا ہوں۔ تشبہ کے یہی معنی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لیا جائے۔ ورنہ ہمارے دین کی سادگی پر غیر اقوام نے بھی رشک کھایا ہے اور انگریزوں نے بھی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختیار کئے تھے۔ مگراب رسم پرستی کے طور پر مجبور ہیںکہ ترک نہیںکر سکتے۔
لباس
عرب صاحب نے انگریزی قطع وضع کے متعلق ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا۔
انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہئے ویسے ہی ظاہر میں بھی، ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے جو انگریزی لباس کو یہاں تک اختیار کرتے ہیں کہ عورتوں کو بھی اس لباس اور وضع میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر دوسرے اوضاع و اطوار حتیّٰ کہ مذہب کو بھی پسند کرنے لگتا ہے۔ اسلام نے سادی کو پسند فرمایا ہے۔ تکلفات سے منع کیا ہے۔
ڈاڑھی یعنی ریش کا رکھنا
عرب صاحب نے ڈاڑھی کے متعلق پوچھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ہر ایک انسان کے دل کا خیال ہے۔ بعض ڈاڑھی مونچھ منڈوانے کو خوبصورتی سمجھتے ہیں۔ مگر ہمیں اس میں ایسی سخت کراہت ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ ڈاڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے۔ البتہ اگر بہت لمبی ہو تو ایک مشت رکھ کر کٹوا دینی چاہئے۔ خدا نے یہ امتیاز عورت اور مرد کے درمیان رکھ دیا ہے۔
حکیم الامۃ: داڑھی رکھوانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور صحابہ کرام کا عملدرآمد تمام آئمہ دین۱؎ اور اولیائے کرام کی سترہ عادت۔ امام علیہ السلام اور اُن کے منظور نظر لوگوں کا فعل ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ داڑھی کے کٹوانے یا منڈوانے والے لوگ اخلاق فاضلہ سے محروم ہوتے ہیں الاماشاء اللہ۔ حکم واعفوا للحی ڈاڑھی رکھوانے کو چاہتا ہے۔ جو لوگ ڈاڑھی کے منڈوانے میں بے باک ہیں میں اُن کی نسبت عمدہ رائے نہیں رکھتا۔
ہندوؤں والی دھوتی باندھنی اور بودی رکھنی و لباس نبویؐ
ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوؤں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں؟
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ تشبہ بالکفار تو کسی ہی رنگ میں جائز نہیں۔ اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکا سا لگاتے ہیں۔ کوئی وہ بھی لگا لے یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں۔ مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندو رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں۔ مسلمانوں کو اپنے ہر ایک حال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہئے۔ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سراویل بھی آپ کا خریدنا ثابت ہے۔ جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں۔ ان میں سے جو چاہے پہنے۔ علاوہ ازیں ٹوپی کرتہ چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی۔ جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں۔ ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت درپیش آوے تو اسے چاہئے کہ ان میں ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو۔ جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے ہے اور وہ کونسی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم و عادت کی۔ اب اسے ڈر چاہئے تو خدا کا۔ اور اتباع چاہئے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہئے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھائیں۔ سیالکوٹ سے ایک دو بار انگریزی جوتا آیا ہمیں اس کا پہننا ہی مشکل ہوتا تھا۔ کبھی اِدھر کا اُدھر اور دائیں کا بائیں۔ آخر تنگ آکر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے۔ مگر اس طرح بھی کام نہ چلا۔ آخر میں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں۔
ایک زرگر کا سوال و زیور میں ملاوٹ
ایک زرگر کی طرف سے سوال ہوا کہ پہلے ہم زیورں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملا دیتے تھے اب ملاوٹ چھوڑ دی ہے اور مزدوری زیادہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دیں گے جو پہلے دیتے تھے۔ تم ملاوٹ ملا لو۔ ایسا کام ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ کہوٹ والا کام ہرگز نہیں کرنا چاہئے اور لوگوں کو کہہ دیا کرو کہ اب ہم نے توبہ کر لی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملا دو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں۔ پس ایسا کام ان کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو۔ برکت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور برکت دیتا ہے۔
مخالف کے گھر کا کھانا اور ہندؤں کی مٹھائیاں
سوال ہوا کہ کیا مخالف کے گھر کی چیز کھا لیویں یا نہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نصاریٰ کی پاک چیزیں بھی کھا لی جاتی ہیں۔ ہندؤں کی مٹھائیاں وغیرہ بھی ہم کھا لیتے ہیں۔ پھر ان کی چیز کھا لینا کیوں منع ہے۔ ہاں میں تو نماز سے منع کرتا ہوں کہ ان کے پیچھے نہ پڑھو اس کے سوائے دنیاوی معاملات میں بے شک شریک ہو احسان کرو، مروت کرو اور ان کو قرض دو اور اُن سے قرض لو۔ اگر ضرورت پڑے اور صبر سے کام لو شاید کہ اس سے سمجھ بھی جاویں۔
سوال: کیا جماعت احمدیہ کو اہل ہنود کے ہاتھ کی مٹھائی وغیرہ اشیاء کھانی جائز ہیں۔
جواب حکیم الامۃ: قادیان میں حضرت امام علیہ السلام کا عملدرآمد یہ رہا ہے اور ہے کہ اہل ہنود کے ہاتھ کی مٹھائی وغیرہ برابر آپ لے کر استعمال کرتے ہیں۔ شربت اور چار اور دیگر ضرورتوں کے لئے مصری ہندو حلوائیوں کے ہاں سے مل جاتی ہے اور دوسری اشیاء بھی۔ اہل ہنود اہل کتاب میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ وہ آسمانی کتاب کے مدعی ہیں اور اُن کا وجود قبل از بعثت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم چلا آ رہا ہے۔ بعض ہنود آریہ سناتن دھرم جو وید کو کلام الٰہی مانتے ہیں وہ اہل کتاب معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ پارسی بھی اہل کتاب ہیں۔ ہاں سکھ نہیں ہو سکتے۔ جین، بدھ اکثر کتاب کے قائل ہیں۔
ہر سود کے عدم جواز پر فتویٰ
سوال: سود کے جواز یا عدم جواز پر جو آج کل بحثیں ہو رہی ہیں جناب مرزا صاحب کا اس بارہ میں کیا ارشاد ہے۔
جواب حکیم الامۃ: حضرت امام علیہ السلام کے حضور متعدد مرتبہ سود کے متعلق مختلف پیرایوں میں پوچھا گیا ہے۔ آنحضرت جب کہ قرآن شریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات اور تعامل اسلام سے پایا جاتا ہے ہر قسم کے سود کو حرام بتاتے ہیں اور کسی صورت میں اس کے جواز کے قائل نہیں۔ اور ہوں بھی کس طرح جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بحق اللّٰہ ربو۔ اللہ تعالیٰ نے ربوکو محق کرنے کا ارادہ کیا ہے اور دوسری جگہ فرمایا الذین یاکلون الربو لایقومون الاکما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس یعنی وہ لوگ جو سود لیتے ہیں نہیں اُٹھیں گے قیامت کے دن مگر اس طرح جیسے شیطان نے مس کر کے اُنہیں دیوانہ بنا دیا ہو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن اکل الربو و موکلہ وکاتبہ و شاہد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے اس کے گواہوں اور وثیہ لکھنے والوں پر *** کی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور تہدید کیا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سود کوخرب من اللہ ٹھراتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ اس کو حرام ٹھہراتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم *** بھیجتے ہیں۔ تعامل اسلام میں کوئی اس کا مجوز نہیں۔ پھر اس کے جواز کی کونسی دلیل شرعی ہو سکتی ہے یہاں مشاہدہ صحیحہ میں بھی اس کے خلاف ہے۔ بڑے بڑے بنکوں کے دیوالے نکلتے آپ نے دیکھے نہیں تو اخبارات میں ضرور پڑھے ہونگے۔ یہ آفت اسی سود کی وجہ سے آتی ہے اور ایسے باریک در باریک اسباب کے ذریعہ سے آتی ہے کہ دوسرے اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
جن لوگوں نے سلطنت لکھنؤ کے زوال کے اسباب پر غور کی ہے وہ منجملہ اسباب کے ایک وجہ سود بھی ٹھہراتے ہیں جو پرامیسری نوٹوں کے رنگ میں لکھنؤ کے اعیان سلطنت میں مروج ہوا تھا۔ اور آخر ان کو اپنے روپیہ کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے وہ رنگ اختیار کرنا پڑا جو سلطنت کی تباہی کا موجب ہوا۔ غرض سود ہرحال میں قطعاً منع ہے۔
تمباکو و حقہ
تمباکو کی نسبت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق و فجور کی طرف رغبت ہو مگر تا ہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پرہیز کرے۔ منہ میں اس سے بدبو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھؤاں اپنے اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ صلعم کے وقت ۱؎یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے۔ ایک لغو اور بیہودہ حرکت ہے۔ ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کر سکتے۔ اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے۔ ورنہ یونہی مال کو بے جا صرف کرنا ہے۔ عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا۔ انگریز چاہتے ہیں کہ اسے دور کر دیں۔
مورخہ ۲۹؍ مئی ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا ملخص یہ ہے۔ میں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سنی تھی کہ وہ پنج وقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیزگاری کے پاک اصول پر قائم نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے بلاتوقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کو ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں۔ حقہ کاترک اچھا ہے۔ منہ سے بو آتی ہے۔ ہمارے والد صاحب مرحوم نے اس کے متعلق ایک شعر بنایا ہواپڑھا کرتے تھے۔ جس سے اس کی بُرائی ظاہر ہوتی ہے۔
بھنگ، چرس، افیون و عادات بد کا چھوڑنا و عہدبیعت پر ثابت قدم رہنا
حضرت مسیح موعود: بہت لوگ بیعت کی حقیقت نہیں سمجھتے۔ اس لئے یاد رکھو کہ تم نے آج اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کر کے آئندہ کے لئے توبہ کی تھی کہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ نہیں کریں گے۔ یہ وہ عہد اور اقرار ہے جو تم نے میرے ہاتھ پر خدا تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ اپنے اس اقرار اور عہد کے موافق جہاں تک تمہاری سمجھ اور طاقت ہے گناہوں سے بچتے رہو۔ کیونکہ اس اقرار کی دو تاثیریں ہوتی ہیں یا تو آئندہ زندگی میں یہ فضل کا وارث بنا دیتا ہے جب کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے گا۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس پر رحمت نازل کرے گا اور جب اس عہد اور اقرار کو توڑے گا تو پھر عذاب کا مستحق ہوگا کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو توڑتا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ کی توہین کرتا ہے۔ دنیا میں دیکھ لو کہ جب ایک آدمی کسی سے کوئی اقرار کر کے اسے توڑتا ہے تو وہ جرم عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ جو عہد کر کے توڑتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہرایا جاتا ہے اور اسے سزا ملتی ہے۔ پس آج کے جمعہ کے روز کا اقرار کہ ہم گناہوں سے بچتے رہیں گے۔ بڑی بھاری بات ہے کیونکہ یا تو آج سے تمہارے لئے رحمت کی بنیاد پڑتی ہے یا عذاب کی۔ اگر کوئی شخص محض خدا کے لئے ان ساری باتوں کو چھوڑتا ہے جو اس کی عادت میں ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نارضامندی کا موجب ہیں تو وہ بڑی رحمت کا مستحق ہوتا ہے۔ عادت کا سنوارنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ جیسے افیونی، شرابی، جھوٹ بولنے والے وغیرہ کو اپنی عادت کا چھوڑنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو یہ سہل کام نہیں ہے۔ اسی طرح پر جب کوئی آدمی گناہ کرتا رہتا ہے اورایک حصہ اس کی عمر کا اس گناہ میں گزر جاتا ہے تو جیسے ان نشہ بازوں کو جو افیونی، چرسی، بھنگی وغیرہ ہوتے ہیں اپنی عادت کے خلاف چھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔ گہنگار کو بھی اپنی عادت سے باز آنا بہت ہی مشکل معلوم ہوتا ہے اور بدون دکھ اُٹھائے وہ اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ لیکن اگر وہ دکھ اُٹھا کر بھی اس بدعادت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے تو پھر وہ آرام بھی پاتا ہے۔ ماسوا اس کے ایک اور مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ افیونی یا شرابی یا اور قسم کا نشہ کھانے والے کو تو اس کے گھر والے بھی پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ وہ ان نشوں کو چھوڑ دے کیونکہ جس قدر وہ نشے میں غرق رہے گا۔ اسی قدر معاش میں سست اور غافل ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ بیوی بچے والدین سب اس سے ناراض ہونگے اور کوشش کرتے رہیں گے کہ کسی طرح وہ ان نشوں سے باز آوے۔ مگر بعض عادتیں اور گناہ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ گھر والے اور کنبہ والے ان کے حامی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً رشوت لینے والا اگر توبہ کرے اور رشوت سے باز آوے تو بیوی ناراض ہوگی۔ والدین ناراض ہوں گے کیونکہ بظاہر ان کے مفاد اور آمدنی میں فرق آئے گا اور وہ کب گوارا کریں گے کہ ایسا ہو۔ اس قسم کی صورتوں میں تو وہ اس کے گناہ کی عادتوں کے حامی اور معاون ہوں گے۔ ایسا ہی ایک زمیندار اپنے کاروبار کو چھوڑ کر جب نماز پڑھنے لگے توگھر والے کب پسند کریں گے کہ وہ ہل چھوڑ دے اور نماز میں لگا رہے۔ وہ تو اسے ملامت کریں گے یا کب وہ چاہیں گے کہ یہ روزہ رکھ کر سست ہو اور کام نہ کرے۔ اسی طرح پر چوری یا قماربازی کی عادت رکھنے والے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے گھر والے ان کی حمایت کرتے ہیں اور پھر ان کو ان عادتوں سے باز آنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک تو ان کا نفس ہے جو عادت کا خوکردہ ہوتا ہے۔ ان بدیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ پھر گھر والے بھی حامی ہوتے ہیں۔ اس لئے توبہ کرنا بہت ہی مشکل ہے لیکن جو سچی توبہ اختیار کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔ یہ مت سمجھو کہ فریب یا دغا سے کوئی رزق کما سکتا ہے۔ رزق دینے والا اللہ ہی ہے۔ قرآن شریف میں وعدہ ہے کہ جو شخص توکل کرے گا اور متقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو خود رزق دے گا۔ جیسے فرمایا مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا و یرزقہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبْ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑ دے گا تو میں ہر ایک تنگی سے اسے نجات دوں گا اور اس کے لئے رزق کی ایسی راہ پیدا ہوگی اور ایسے طور سے اس کو رزق ملے گا کہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کہاں سے رزق آتا ہے۔ ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا ہے۔ ھُوَیَتَوَلَّی الصّالِحْیِنَ۔ جیسے ماں شیر خوار بچہ کی پرورش کرتی ہے۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرتا ہے۔ پھر ایک جگہ فرمایا۔ رزقکم فِی السَّماء وَمَا تُوْعدون۔ تمہارا رزق اور جو کچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے۔ آسمان میں ہے۔ پھر اس کو تاکید کے ساتھ ثابت کیا کہ فررب السماء والارض انہ لحق درحقیقت خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اس سے ڈر کر گناہوں سے نجات ملتی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کا بھروسہ چھوڑتا ہے وہ درحقیقت اس کو مانتا ہی نہیں ہے۔ گناہوں سے بچنے کی اصلی جڑ یہی ہے کہ جب گناہ چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر چھوڑتا ہے۔ جو لوگ بیعت کرتے ہیں ان کو مناسب ہے کہ وہ سچی توبہ کریں۔ اس کے بغیر فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کوئی بازار سے شربت بنفشہ لے اور دراصل وہ نہ ہو تو اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح پر جو نرے سڑے ہوئے لفظ ہی ہیں وہ زبان تک ہی آتے ہیں اوپر نہیں جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس صورت میں بیعت کرانے والے کو تو ثواب ہو جاتا ہے مگر کرنے والے کو نہیں ہوتا۔
یہ بھی یاد رکھو کہ بیعت کے معنی بیچ دینے کے ہیں۔ اگر تم میں کوئی اپنا بیل بیچ دے تو وہ پھر اس پر کیا حق رکھ سکتا ہے۔ جس نے لیا ہے وہ اسے جس طرح چاہے کام میں لائے۔ اسی طرح تم نے اپنے آپ کوخدا تعالیٰ کی راہ میں بیچ دیا ہے۔ اب جس کی بیعت کی اس کی مرضی پر چلنا ضروری ہوگا۔ اگر کچھ اپنی مرضی کے موافق کرو اور کچھ اس کی باتیں مانو تو یہ بیعت کوئی فائدہ نہ دے گی بلکہ نقصان ہوگا۔ خدا تعالیٰ ملی جلی باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ وہ خلوص چاہتا ہے اس لئے اپنی طاقت کے موافق کوشش کرو کہ صالح بن جاؤ۔ اپنی عورتوں کو بھی نصیحت کرو کہ وہ نمازیں پڑھیں۔ معمولی ایام کے سوا جب کہ انہیں معاف ہوتی ہے کبھی نماز چھوڑنی نہیں چاہئے۔ اس طرح پر اپنے ہمسایوں کو بھی سکھاؤ اور غافل نہ رہو۔ یہ بھی چاہئے کہ اس بات کو کسی واقف کار سے معلوم کر لو کہ خدا تعالیٰ نے جو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ اس کی کیا غرض ہے۔ لوگوں نے خدا تعالیٰ کے دین کو بدل دیا ہے۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کو اصل حالت پر قائم کرے۔
عیسائیوں سے معانقت دکھانا
مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء قبل نماز ظہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا۔ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں۔ یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم ان سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع کرتا ہے۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہو اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالی دے تو کیا وہ روا رکھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے۔ پھر جب یہ بات نہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے۔
قیام فیما اقام اللہ
ایک شخص نے ملازمت چھوڑ کر تجارت کے متعلق مشورہ پوچھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ نوکری چھوڑنی نہیں چاہئے۔
فری میسن
امیر کابل کا ذکر ہوا کہ اس کے فری میسن ہونے کے سبب اس کی قوم اس پر ناراض ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اس کی قوم اس ناراضگی میں حق پر ہے۔ کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہو کتا۔ اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے۔
عدالت کا خرچہ
سوال:دیوانی مقدمات جو عدالت میں دائر کئے جاتے ہیں اکثر اوقات ان میں بوجہ خود ڈگری ہوتی ہے۔ کیا خرچہ لینا جائز ہے۔
جواب حکیم الامۃ: ہاں خرچہ لینا جائز ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دیوانی مقدمہ دیوار میں عدالت نے خرچہ دلوایا۔ گو آپ نے اپنی کریم النفس اور اخلاقی معجزہ کی بنا پر فریق ثانی کو اس کی درخواست پر معاف کر دیا یہ جدا امر ہے اس کے لینے میں کوئی امر ناجائز نہیں ہے۔
مدارات اور مداہنہ میں فرق
حضرت اقدس مسیح موعود: مدارات اسے کہتے ہیں کہ نرمی سے گفتگو کی جائے تا دوسرے کو ذہن نشین ہو اور حق کو اس طرح اظہار کرنا کہ ایک کلمہ بھی باقی نہ رہے اور سب ادا ہو جائے اور مداہنت اسے کہتے ہیں کہ ڈر کر حق کو چھپا لینا، کھا لینا، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نرمی سے گفتگو کر کے پھر گرمی پر آ جاتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ حق کو پورا پورا ادا کرنے کے واسطے ایک ہنر چاہئے۔ وہ شخص بہت بہادر ہے جو کہ ایسی خوبی سے حق کو بیان کرے کہ بڑے غصہ والے آدمی بھی اسے سن لیویں۔ خدا ایسی پر راضی ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حق گو سے لوگ راضی نہ ہوں۔ اگرچہ وہ نرمی بھی کرے۔ مگر تاہم درمیان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اچھا کہنے لگتے ہیں۔
لسٹر کی پگڑی
سوال: لسٹر کی پگڑی جائز ہے یا نہیں؟
جواب حکیم الامۃ: لسٹر ریشم نہیں ہوتا۔ لسٹر تو درخت کی چھال ہے وہ سن کی قسم ہے۔ ریشم جلانے سے اکٹھا ہو جاتا ہے۔
بلی کو مارنا
سوال: کیا بلی کو مارنا گناہ ہے۔ بعض دفعہ جنگلی بلیاں بہت دق کرتی ہیں۔
جواب حکیم الامۃ: بلی کیا کسی کو دکھ دینا جائز نہیں بلی کی خصوصیت نہیں۔
جنگ میں قتل کرنا
سوال: جو لوگ لڑائیوں میں جاتے ہیں اور وہاں قتل کرتے ہیں کیا وہ قتل ان کا گناہ ہے یا نہیں؟
جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام: عِلْمُھَا عِنْدَرَبِّیْ۔ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا بُرا کیا۔
بدخیالات ولی کا مواخذہ
سوال: اگر کوئی چوری یا زنا کے ارادے سے جاوے۔ مگر نہ کرے تو کیا گناہ ہوگا؟
جواب مسیح موعود: جو خیالات وسوسہ کے رنگ میں دل میں گزرتے ہیں اور پھر کوئی عزم یا ارادہ انسان نہیں کرتا۔ ان پر مواخذہ نہیں ہے لیکن جب کوئی خیال بد دل میں گزرے اور انسان اس پر مصمم ارادہ کرے تو اس پر مواخذہ ہوتا ہے اور وہ گناہ ہے جیسے ایک اچکا دل میں خیالکرے کہ فلاں بچہ کو قتل کر کے اس کا زیور اُتار لوں گا تو گو قانونی جرم نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ہے اور سزا پائے گا۔ یاد رکھو دل کا ایک فعل ہوتا ہے مگر جب تک اس پر مصمم ارادہ اور عزیمت نہ کرے اس کا کوئی اثر نہیں۔
حضرت مسیح موعود کے بعد مجدد کی ضرورت
سوال: کیا آپ کے بعد بھی مجدد آئے گا؟
جواب حضرت مسیح موعود: اس میں کیا حرج ہے کہ میرے بعد بھی کوئی مجدد آ جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ اللام کی نبوت ختم ہوچکی تھی اس لئے مسیح علیہ السلام پر آپ کے خلفاء کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ قیامت تک ہے۔ اس لئے اس میں قیامت تک ہی مجدددین آتے رہیں گے۔ اگر قیامت نے فنا کرنے سے چھوڑا۔ تو کچھ شبہ نہیں کہ کوئی اور بھی آ جائے گا۔ ہم ہرگز اس سے انکار نہیں کرتے کہ صالح اور ابرار لوگ آتے رہیں گے اور پھر بغتۃً قیامت آجائے گی۔
خود کشی گناہ ہے
ایک شخص نے اپنی مصائب اور تکالیف کو ناقابل برداشت بیان کرتے ہوئے ایک لمبا خط حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر یہ ظاہر کیا کہ میں بہ سبب ان مصائب کے ایسا تنگ ہوں کہ خود کشی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو جواب میں لکھا خود کشی کرنا گناہ ہے اور اس میں انسان کے واسطے کچھ فائدہ اور آرام نہیں ہے۔ کیونکہ مرنے سے انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ ایک نئی طرز زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر انسان اس دنیا میں تکالیف میں ہے تو خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں کو ساتھ لے کر دوسری طرف چلا جائے گا تو وہاں کے مصائب اور تلخیاں اس جگہ کی مرارت سے بڑھ کر ہیں۔ پس ایسی خود کسی اس کو کیا فائدہ دے گی۔ انسان کو چاہئے کہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا مانگنے میں مصروف رہے اور اپنی حالت کی اصلاح میں کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ جلد رحم کرکے تمام بلاؤں اور آفتوں سے اس کو نجات دے گا۔
ناولوں و غیر مذاہب کی کتب کی خرید و فروخت
سوال: ایک احمدی کتب فروش کے لئے کیا ان کتب کی خرید و فروخت جائز ہے جن کے مضامین کے حسن و قبیح کا کچھ علم نہیں۔ مثلاً بعض ناول اخلاقی یا سراغ رسانی کے کہلاتے ہیں اور نہیں معلوم کہ ان کو بیچ میں حسن و عشق یا فسق کا مخرب الاخلاق کا دکھڑا بھی مرقوم ہے یا نہیں یا عامیانہ قصے فسانے یا مذہبی رنگ کے رطب و یابس قصے وغیرہ یا کتب جفروعملیات۔
جواب حکیم الامۃ: صریح بری کتاب اور خلاف قانون کتاب کا بیچنا جائز نہیں۔ والا علی العموم جائز ہے۔
اگر دائن مر جائے اور اُس کا وارث نہ ملے تو قرضہ کا روپیہ کس کو دیا جاوے
سوال: ایک احمدی نے ایک ہندو دوکاندار کا کچھ دینا تھا اندازاً ہے۔ وہ دکاندار مر گیا اور اس کے ورثاء کا کچھ پتہ نہیں ملا تو اس قرض کے بوجھ سے کیسے سبکدوشی ہوسکتی ہے۔
جواب حکیم الامۃ: جس کا دینا ہو اور وہ مر جاوے یا اس کا وارث نہ ہو تو وہ مال صدقہ۱؎ کر دے۔
جھنڈ یا بودی کسی کے نام پر رکھنا
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ کسی بزرگ کے نام پر جو چھوٹے بچوں کے سر پر جھنڈ یعنی بودی رکھی جاتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ ناجائز ہے۔ ایسا نہیں چاہئے۔
محرم میں تابوت نکالنا
سوال پیش ہوا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ ہے۔
نشان کے پورا ہونے پر دعوت
خان صاحب عبدالحمید خاں نے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے شاندار نشان کے پورا ہونے پر دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا۔ حضرت اقدس نے اجازت دی اور فرمایا کہ تحدیث بالنعمت کے طو رپر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے۔
طاعونی مقامات میں جانے سے ممانعت
قادیان کے کسی شخص کا ذکر ہوا کہ فلاں جگہ طاعون ہے اور فلاں شخص وہاں باربار جاتا رہا۔ آخر وہ طاعون میں گرفتار ہو کر مر گیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا جب کہ ایک جگہ آگ برستی ہے تو اس جگہ جانے کی کیا ضرورت ہے۔
نظر کا اثر
سوال: کیا یہ خیال درست ہے کہ بعض گائے یا بھینس وغیرہ پر نظر کا اثر پڑتا ہے جیسے لوگ نظر آئی ہوئی کہتے ہیں۔ پھر کچھ وغیرہ پڑھ کر اُس کے چہرے پر مارتے ہیں وہ بھینس دودھ دینے لگ جاتی ہیں۔
جواب حکیم الامۃ: بعض نظر کا یقینا اثر پڑتا ہے اور اس کی تدبیر بھی مفید پڑتی ہے۔ احادیث صحیہ سے یہ بات ثابت ہے۔
گھوڑی کو گدھے سے ملانا
از حضرت مسیح موعود علیہ السلام: احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ گدھے سے گھوڑی کو ملانا ممنوع ہے۔
طاعونی مریض کا معالجہ و ہمدردی
سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ طبیب اور ڈاکٹر کو چاہئے کہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤ رکھے۔ بیمار کے بہت قریب جانا اور مسکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے۔ وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے۔ ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں۔
اسم اعظم
ایک شخص کا سوال ہوا کہ قرآن شریف میں اسم اعظم کون سا لفظ ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ ہے۔
تمباکو نوشی برائے علاج
ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمباکو پینا مانند سؤر اور شراب کے حرام ہے۔ ہاں ایک لغو امر ہے۔ اس سے مومن کو پرہیزچاہئے۔ البتہ جو لوگ کسی بیماری کے سبب مجبور ہیں وہ بطور دوا و علاج کے استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں۔
طاعونی مقامات و طاعونی مریضوں و شہیدوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد
آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے۔ مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا۔ دیکھو حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوع علیہ السلام کا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں۔ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ کافر جہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا۔ ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے۔ لیکن جماعت کے آدمیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا۔ جب تک ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے۔ سب سے اوّل حقوق اللہ کو ادا کرو اپنے نفس کو تمام جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق عباد کو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو۔ خدا تعالیٰ پر ہی ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن میں تم نے خدا کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو۔ اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو۔ جس مکان میں چوہے مرنے شروع ہوں اس کو خالی کر دو اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جاؤ اور کسی کھلے میدان میں جا کر ڈیرا لگاؤ۔ جو تم میں سے بتقدیر الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جائے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھو۔ لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ۔ بلکہ اس اثر سے بچو۔ اسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدانخواستہ اس بیماری سے مر جائے۔ وہ شہید ہے۔ اس کے لئے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اس کے اردگرد جمع نہ ہوں۔ حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اُٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر مثلاً ایک سو گز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میّت کو لاد کر لے جاویں اور میّت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جائے۔ خدا کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے۔ وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں۔ یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے۔ مکررًا یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہو اور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے۔ اس کو بلاتوقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتا ہے۔ گو کوئی چوہا بھی اس میں مرا نہ ہو اور حتی المقدور مکانوں کی چھتوں پر رہو۔ نیچے کے مکان سے پرہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو۔ نالیاں صاف کراتے رہو۔ سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا کے ساتھ پوری صلح کرو۔
مسمریزم کیا ہے
ایک شخص نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ مسمریزم کیا چیز ہے۔ حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔ مدت ہوئی ہے کہ میں نے مسمریزم کے لئے توجہ کی تھی کہ یہ کیا چیز ہے تو خدا کی طرف سے جواب ملا تھا۔ ھذا ھوالترب الذی لا یعلمون۔ یعنی یہ عمل ترب ہے جس کو لوگ نہیں مانتے۔
کشتۂ بندوق
ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ بندوق کی گولی سے جو حلال جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی مر جائے اس کا کھانا ناجائز ہے یا نہیں۔ فرمایا گولی چلانے سے پہلے تکبیر پڑھ لینی چاہئے۔ پھر اس کا کھانا ناجائز ۱؎ ہے۔
پان۔ حقّہ۔ افیون
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: حدیث میں آیا ہے ومن حسن الاسلام بترک مالایغنیہ۔ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔
اس طرح پر یہ پان حقہ زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ٭ ایسی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلاآ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہئے۔
جوہڑ کے پانی کا استعمال
قادیان کے اردگرد نشیب میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہو کر ایک جوہڑ سا بن جاتا ہے۔ جس کو یہاں ڈھاب کہتے ہیں۔ جن ایام میں یہ نشیب زمین (ساری یا اس کا کچھ حصہ) خشک ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ اس کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس میں بہت سی ناپاکی جمع ہو جاتی ہے جو سیلاب کے پانی کے ساتھ مل جاتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بمعہ خدام جب باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے تو اس ڈھاب کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا پانی گاؤں کی صحت کے واسطے مضر ہوتا ہے۔ پھر فرمایا۔ اس پانی میں بہت سا گند شامل ہو جاتا ہے اور اس کے استعمال سے کراہت آتی ہے اگرچہ فقہ کے مطابق اس سے وضو کر لینا جائز ہے کیونکہ فقہاء کے مقرر کردہ وہ وردہ سے زیادہ ہے تا ہم اگر کوئی شخص جس نے اس میں گندگی پڑتی دیکھو اگر اس کے استعمال سے کراہت کرے تو اس کے واسطے مجبوری نہیں کہ خواہ مخواہ اس سے یہ پانی استعمال کرایا جائے۔
جیسا کہ گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہے مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔
سعدیا حب وطن گرچہ حدیثے است درست
نتواں مرد بسختی کہ دریں جا زادم
آبکاری کی تحصیلداری جائز ہے یا ناجائز
ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار ہیں ان کا خط حضرت کی خدمت میں آیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام نے فرمایا کہ اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں۔ تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے، نہ بیچتا ہے، نہ پیتا ہے۔ صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے۔ ملک کی سلنطت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطرارًا یہ امر جائز ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے۔ گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو۔ خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
تمام اشیائے منشی سے پرہیز کی تاکید
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: اے عقلمندو! دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کر دو۔ انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیاجاتا ہے۔ وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو۔ جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں۔ یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔ مگر اے مسلمانو! تمہارے نبی علیہ السلام تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے جیسا کہ وہ فی الحقیقت معصوم ہیں۔ سو تم مسلمان کہلا کر کس کی پیروی کرتے ہو۔ قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا۔ پھر تم کس دستاویز سے شراب کو حلال ٹھہراتے ہو۔ کیا مرنا نہیں ہے۔
نرخ اشیاء
سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ۔ کیا یہ جائز ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگا لے اور مانگے۔ لیکن بوقت فروخت تراضی طرفین ہو۔ اور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکا نہ کرے۔ مثلاً ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویں اور کسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جائے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تو دھوکا دے کر قیمت زیادہ لے لے۔ جس کو اس ملک میں لگّا دا لگانا کہتے ہیں۔ یہ ناجائز ہے۔
طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکلنا
یکم مارچ ۱۹۰۷ء ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے۔ فرمایا کہ گاؤں سے فوراً باہر نکل جاؤ اور کھلی ہوا میں اپنا ڈیرہ لگاؤ۔ مت خیال کرو کہ طاعون زدہ جگہ سے باہر نکلنا انگریزوں کا خیال ہے اور اس واسطے اس کی طرف توجہ کرنا فرض نہیں۔ یہ بات نہیں بلکہ طاعون والی جگہ سے باہر نکلنا یہ فیصلہ شرعی ہے۔ گندی ہوا سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ جان بوجھ کر ہلاکت میں مت پڑو اور راتوں کو اُٹھ اٹھ کر دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشواؤ کہ وہ قادر خدا ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے باوجود ان احتیاطوں کے اگر تقدیر الٰہی آ جاوے تو صبر کرو۔
ہندوؤں سے ہمدردی
ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہ سبب پرانے تعلقات کے ایک ہندو ہمارے شہر کا ہمارے معاملات شادی اور غمی میں شامل ہوتا ہے اور کوئی مر جائے تو جنازہ میں بھی ساتھ جاتا ہے۔
فرمایا کہ ہندوؤں کی رسوم اور امور مخالف شریعت اسلام سے علیحدگی اور بیزاری رکھنے کے بعد دنیوی امور میں ہمدردی رکھنا اور ان کی امداد کرنا جائز ہے۔
گاؤں میں جب شدت طاعون ہو تو کیا حکم ہے
بموجب حدیث صحیح کے اگر طاعون کی ابتدائی حالت ہو تو شہر سے نکل جانا چاہئے۔ اور اگر طاعون زور پکڑ جائے تو نہیں جانا چاہئے۔ مگر مضائقہ نہیں کہ اسی گاؤں کی سرزمین میں باہر سکونت اختیار کریں۔ (دستخط مرزا غلام احمد)
مصیبت زدہ و ماتم والے کے ساتھ ہمدردی
جس کے ہاں ماتم ہو جائے اس کے ساتھ ہمدردی کے متعلق حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کسی بھائی کے گھر ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں۔ حضرت نے فرمایا۔ یہ امر نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کی راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جائے۔
سانڈ رکھنا
۹؍ جولائی ۱۹۰۷ء کو ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصۃً لوجہ اللہ نسل افزائی کی نیت پر اگر کوئی سانڈ چھوڑے تو کیا یہ جائز ہے۔ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔
اصل الاشیاء باحۃ۔ اشیاء کا اصل تو باحت ہی ہے۔ جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرمایا۔ وہ حرام ہیں باقی حلال۔ بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔ عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں اس کوحرام فرمایا گیا ہے۔
فرمایا۔ میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیا ہے۔ وہ تو دیوتوں کے نام پر دیتے تھے۔ یہاں خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے۔ نسل افزائی ایک ضروری بات ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں انعام مویشی وغیرہ کو اپنی نعمتوں سے فرمایا ہے۔ سو اس نعمت کا قدر کرنا چاہئے اور قدر میں نسل کا بڑھانا بھی ہے۔ پس اگر ایسا نہ ہو تو پھر چارپائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے۔ اس لئے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں۔ ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہے۔ ایک ہی کام جب کسی غیر اللہ کے نام پر ہو تو حرام ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو حلال ہے۔
کنوئیں کو پاک کرنا
سوال ہوا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلی یا مرغ یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مر جاویں تو اتنے دلو (ڈول) پانی نکالنے چاہئیں۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے۔ کیونکہ پہلے توہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ، بو، مزہ نہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے۔ یہ جو حساب ہے کہ اتنے ڈول نکالو اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے۔ یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے۔ عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتہ نہ ملے۔ وہاں فقہ حنفی پر عمل کر لو۔ فرمایا فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے۔ ہاں نجات المؤمنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے۔ سر ٹوئے وچ دے کر بیٹھ نماز کرے۔ کیا اس پر کوئی عمل کر سکتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جب کہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔والرجز فاھجر۔ پس جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کی ضرور پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلاً پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ باقی یہ کوئی مقرر نہیں جب تک رنگ، بُو، مزہ نجات سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔
اختلاف فقہا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام: آج کل علماء کے درمیان باہم مسائل کے معاملہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر ایک مسئلہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ لاہور میں ایک طبیب غلام دستگیر نام تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی اس ملک میں رسم ہے کہ وہ طبیب سے پوچھا کرتے ہیں کہ یہ دوا گرم ہے یا سرد۔ تو میں نے اس کے جواب میں ایک بات رکھی ہوئی ہے میں کہہ دیا کرتا ہوں کہ اختلاف ہے۔ اول تو اس اختلاف کے سبب کئی فرقے ہیں۔ پھر مثلاً ایک فرقہ حنفیوں کا ہے ان میں سے آپس میں اختلاف ہے۔
مرشد کو سجدہ کرنا ناجائز ہے
۱۷؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک شخص حضرت کی خدمت میں آیا۔ اس نے سر نیچے جھکا کر آپ کے پاؤں پر رکھنا چاہا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ہاتھ کے ساتھ اس کے سر کو ہٹایا اور فرمایا۔ یہ طریق جائز نہیں۔ السلام علیکم کہنا اور مصافحہ کرنا چاہئے۔ (بدر ۸؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲)
گذشتہ روحوں کو ثواب
مورخہ ۶؍ اگست کو ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادرؒ کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلا دے تو کیا یہ جائز ہے۔
اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے۔ گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جاوے تو جائز ہے۔ لیکن ہر ایک امر نیت پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بت ہے۔ اور ایسے کھانے کا دینا لینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے۔ پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو حرج نہیں۔ کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے۔ غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے۔
ادب اَوراقِ قرآن کریم
ایک شخص نے عرض کی کہ قرآن شریف کے بوسیدہ اوراق کو اگر بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلایا جاوے تو کیا جائز ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جائز ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی بہت سے اوراق جلائے تھے۔ نیت پر موقوف ہے۔
شہید کا جنازہ
ذکر تھا کہ بعض جگہ چھوٹے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کافر کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مر جائے گا تو ہم جنازہ بھی نہیں پڑھیں گے۔
جواب: حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے۔ جنازہ تو دعا ہے جو شخص خود ہی خدا کے نزدیک مغضوب علیہم میں ہے اس کی دعا کا کیا اثر ہے۔ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے۔ ایسے لوگوں کی ہرگز پروا نہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو۔
پندرہویں شعبان کی بدعات
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات کو جو لوگ رسوم حلوے وغیرہ کی کرتے ہیں یہ سب بدعات ہیں۔
حرمت ریشم
سوال : مردوں کے لئے سونا و ریشم کی حرمت کی دلیل قرآن کریم سے تحریر فرماویں۔
جواب از فاضل امروہی: احادیث صحیحہ میں پارچہ ریشی حریر وغیرہ کا پہننا مردوں کو ممنوع ہے اور سنت نبوی بیان کرنے والی قرآن مجید کی ہے۔ پس اگر قرآن مجید میں ہم کو کوئی مسئلہ بہ تصریح نہ ملے تو سنت صحیحہ سے معلوم کرنا چاہئے۔ قل انکنتم تحبون اللّٰہ فَاتِّبْعُونِیْ یُحْبِبکُم اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُم ذُنُوْبِکُمْ مَا اتکُمْ الرَّسُوْلَ مُحْمد وہ وَمَا نَفْسٰکُم عَنْہُ فَاقُھوا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃً۱؎۔ حرمت پارچہ حریر ریشم کی احادیث یہ ہیں۔ انما یلبس الحریر فی الدنیا من الاخلاق لہ فی الاخرۃ۲؎ یعنی ریشم حریر کے کپڑے وہ شخص پہنتا ہے جس کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ رواہ مسلم۔ اس حدیث سے بھی مردوں کے لئے حرام ہونا پارچہ ریشمی کے پہننے کا ثابت ہوتا ہے۔ دوسری حدیث مسلم میں یہ ہے لاتلبسوا الحریر فانہ من لبسہ فی الدنیا ینالم یلبسہ فی الاخرۃ یعنی مت پہنو تم کپڑے ریشمی حریر کے کیونکہ جو شخص دنیا میں اس کو پہنے گا تو آخرت میں اُس کو نہ پہن سکے گا۔
ناول نویسی و ناول خوانی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیسا ہے۔ فرمایا کہ ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے۔حسنہ حسن و قبیحہ قبیح۔ اس کا اچھا حصہ ہے اور قبیح قبیح ہے۔ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ مثنوی مولوی رومی میں جو قصے لکھے ہیں۔ وہ سب تمثیلیں ہیں اور اصل واقعات نہیں ہیں۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمثیلوں سے بہت کام لیتے تھے۔ یہ بھی ایک قسم کے ناول ہیں۔ جو ناول نیت صالح سے لکھے جاتے ہی۔ زبان عمدہ ہوتی ہے۔ نتیجہ نصیحت آمیز ہوتا ہے اور بہرحال مفید ہیں۔ ان کے حسب ضرورت و موقعہ لکھنے و پڑھنے میں گناہ نہیں۔
لڑکے کی بسم اللہ
ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جائے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دی جاتی ہے۔ اگرچہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے فرمایا۔ تختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں۔ ان سے پرہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قدر اسراف کرنا سخت گناہ ہے۔
دریائی جانور کی حلت و حرمت
سوال :پیش ہوا کہ دریائی جانور حلال ہے یا نہیں؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ دریائی جانور بے شمار ہیں۔ ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے۔ جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرما دیا ہے کہ جو ان میں سے کھانے میں طیب پاکیزہ اور مفید ہوں ان کو کھا لو دوسروں کو مت کھاؤ۔
ادائیگی قرض
ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ ایک دوسرے شخص کی امانت جو اس کے پاس جمع تھی لے کر کہیں چلا گیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ادائے قرض اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری امر ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرض ہوتا تھا۔ دیکھا جاتا ہے کہ جس التجاء اور خلوص کے ساتھ یہ لوگ قرض لیتے ہیں اس طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہو جاتی ہے۔ ایمان کی سچائی اس سے پہچانی جاتی ہے۔
تبرک لینا
ایک شخص نے دریافت کیا کہ پانی میں دم کرانا اور تبرک لینا جائز ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سنت سے ثابت ہے۔ مگر کسی صالح سے تبرک لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہو جیسا کہ مسلمہ کذاب کا تبرک ہوتا تھا۔ جہاں ہاتھ ڈالتا تھا وہ پانی بھی خشک ہو جاتا تھا۔
فتویٰ در باب تعظیم امام حسینؓ و اہانت یزیدپلید
واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) حسینؓ بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید پلید سے بیعت نہیں کی۔ باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔ مگر ساتھ اس کے میرے دل میں بھی خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے درد تبرہ اور لعن و طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو۔ جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفان کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کے رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے۔ وہ معنی اس میںموجود نہ تھے۔ مومن بنناکوئی سہل امر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے۔ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْ مِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا ۱؎۔ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے۔ خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں۔ یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لئے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے مامور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتدا کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی۔ تا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے کیونکہ اللہ جلشانہٗ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔ جو شخص مجھے بُرا کہتا ہے یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الٰہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے۔ ایسے موقع پر درگذرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے کہ میں کس کی طرف سے ہوں تو ہرگز بُرا نہ کہتے۔ وہ مجھے ایک دجال اور مفتری خیال کرتے ہیں۔ میں نے جو کچھ اپنے مرتبہ کی نسبت کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ خدا نے کہا۔ پس مجھے کیا ضرورت ہے کہ ان بحثوں کو طول دوں۔ اگر میں درحقیقت مفتری اور دجال ہوں اور اگر درحقیقت میں اپنے ان مراتب کے بیان کرنے میں جو میں خدا کی وحی کی طرف ان کو منسوب کرتا ہوں۔ کاذب اور مفتری ہوں تو میرے ساتھ اس دنیا اور آخرت میں خدا کا وہ معاملہ ہوگا جو کاذبوں اور مفتریوں سے ہوا کرتا ہے کیونکہ محبوب اور مردود یکساں نہیں ہوا کرتے۔ سو اے عزیزو! صبر کرو کہ آخر وہ امر جو مخفی ہے کھل جائے گا۔ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وقت پر آیا ہوں مگر وہ دل جو سخت ہوگئے اور وہ آنکھیں جو بند ہوگئیں میں ان کاکیا علاج کر سکتا ہوں۔ خدا میری نسبت اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا ااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ پس جب کہ خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا تو اس صورت میں کیا ضرورت ہے کہ کوئی شخص میری جماعت میںسے خدا کاکام اپنے گلے ڈال کر میرے مخالفوں پر ناجائز حملے شروع کرے۔ نرمی کرو اور دعا میں لگے رہو اور سچی توبہ کو اپنا شفیع ٹھہراؤ اور زمین پر آہستگی سے چلو۔ خدا کی قوم کا رشتہ دار نہیں ہے اگر تم نے اس کی جماعت کہلا کر تقویٰ اور طہارت کو اختیار نہ کیا اور تمہارے دلوں میں خوف اور خشیت پیدا نہ ہو تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہیں مخالفوں سے پہلے ہلاک کرے گا کیونکہ تمہاری آنکھ کھولی گئی اور پھر بھی تم سو گئے اور یہ مت خیال کرو کہ خدا کو تمہاری کچھ حاجت ہے۔ اگر تم اس کے حکموں پر نہیں چلو گے۔ اگر تم اس کی حدود کی عزت نہیں کرو گے تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا اور ایک اور قوم تمہارے عوض لائے گا جو اس کے حکموں پر چلے گی اور میرے آنے کی غرض صرف یہی نہیں کہ میں ظاہر کروں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں یہ تو مسلمانوں کے دلوں پر سے ایک روک کا اُٹھانا اور سچا واقعہ ان پر ظاہر کرنا ہے بلکہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ تا مسلمان خالص توحید پر قائم ہو جاویں اور ان کو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جاوے۔ اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذوق اور احسان سے ظاہر ہوں اور ان کے اندر سے ہر ایک قسم کا گند نکل جائے اور اگر مخالف سمجھتے تو عقائد کے بارے میں مجھ میں اور ان میں کچھ بڑا اختلاف نہ تھا۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے۔ سو میں بھی قائل ہوں کہ جیسا کہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ۱؎ کا منشا ہے۔ بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد وفات مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ جسم عنصری نہ تھا بلکہ ایک نورانی جسم تھا جو ان کو اس طرح خدا کی طرف سے ملا جیسا آدم اور ابراہیم اور موسیٰ اور داؤد اور یحی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو ملا تھا۔ ایسا ہی ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ضرور دنیا میں دوبارہ آنے والے تھے۔ جیسا کہ آگئے صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ قدیم سے سنت ہے۔ ان کا آنا صرف بروزی طور پر ہوا جیسا کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں بروزی طور پر آیا تھا۔ پس سوچنا چاہئے کہ اس قلیل اختلاف کی وجہ سے جو ضرور ہونا چاہئے تھا اس قدر شور مچانا کس قدر تقویٰ سے دور ہے۔ آخر جو شخص خدا تعالیٰ کی رف سے حَکم بن کر آیا۔ ضرور تھا کہ جیسا کہ لفظ حَکم کا مفہوم ہے۔ کچھ غلطیاں اس قوم کی ظاہر کرتا۔ جن کی طرف وہ بھیجا گیا ورنہ اس کا حَکم کہلانا باطل ہوگا۔ اب زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے مخالفوں کو صرف یہ کہہ کر اِعْمَلُوْا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ اس اعلان کو ختم کرتا ہوں والسلام علی مَنِ اتَّبَعَ الھدٰی ۲؎۔
دین میں سیفی جہاد کی ممانعت کا فتویٰ
مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آ گیا مسیح جو دین کا امام ہے
دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسمان سے نورِ خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو
جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکے ہیں سید کوملین مصطفی
عیسیٰ مسیح جنگوہ کا کر دے گا التواء
جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا
جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا
پئیں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند
کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و گراند
یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا
بھولیں گے لوگ مشغلہ تیرو تفنگ کا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا
ایک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشان
کر دے گا ختم آ کے وہ دین کی لڑائیاں
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی
وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی
وہ عزم مبتلا نہ وہ ہمت نہیں رہی
وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی
وہ نور اور وہ چاند سی طاقت نہیں رہی
وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی
خلق خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی
حالت تمہاری جاذب نفرت نہیں رہی
حمق آگیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی
کسل آ گیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی
وہ علم و معرفت و فراست نہیں رہی
وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی
دنیا و دین میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی
اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی
وہ اُنس و شوق وہ جد وہ طاعت نہیں رہی
ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی
ہر وقت جھوٹ، سچ کی تو عادت نہیں رہی
دین بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی
مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی
دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی
سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی
ایک پھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی
تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی
صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی
… اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی
اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے
کرتی نہیں ہے منع صلوۃ اور صوم سے
ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دین کی راہ کو
عادت میں اپنی کر لیا فسق و گناہ کو
اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے
اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں
روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں
کیونکہ ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں
شیطان کے ہیں پیارے خدا کے وہ دل نہیں
تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے
کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہوگئے
باقی جو تھے وہ ظالم و سفاک ہوگئے
اب تم تو خود ہی موردِ خشم خدا ہوئے
اُس یار سے بشامتِ عصیان جدا ہوئے
اب غیروں سے لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے
اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے
سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں
وہ صدق اور وہ دین وہ دیانت ہے اب کہاں
پھر جب کہ تم میں خود ہی وہ ایمان نہیں رہا
وہ نور مومنانہ وہ عرفان نہیں رہا
پھر اپنے گھر کی خبر اے قوم لیجئے
آیت عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُم یاد کیجئے
ایسا گمان کہ مہدی خونی بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دین کو بڑھائے گا
اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں
بہتان ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں
تارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
اب سال سترہ بھی صدی سے گذر گئے
تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں
کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں
پر تم نے کچھ بھی اُن سے اُٹھایا نہ فائدہ
منہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ
بخلوں سے یارو باز بھی آؤ گے یا نہیں
خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں
باطن سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں
حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں
اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتاؤ گے یا نہیں
مخفی جو دل میں ہے وہ سناؤ گے یا نہیں
آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے یا نہیں
اُس وقت اُس کو منہ بھی دکھاؤ گے یا نہیں
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے استوار
لوگوں کو یہ بتائیے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا
فتوی در ممانعت جہاد سیفی بزبان عربی مع ترجمہ اُردو
اعلمو ایھاللمسلمون یرحکم اللہ ان اللہ الذی تولی الاسلام وکفل امورہ العظام جعل دینہ ھذا و صلۃ الی حکم و علومہ و وضع المعارف فی ظاہرہ و مکتومہ من الحکم التی اودع ھذا الدین لیزید ھدی المھتدین ھو الجھاد الذی امریہ فی صدر زمن الاسلام ثم لفی عنہ فی ھدہ الایام والسرفیہ انہ تعالی اذن للذین یقاتلون فی اوّل زمان الملۃ دفعاً لصول الکفرۃ و حفظا للدین ونفوس الصحبۃ ثم انقلب امر الزمان عند عھد الدولۃ البرطانیۃ وحصل الامن للمسلمین لامثک انانعیش تحت ھذہ السلطنۃ البرطانیۃ بالحریۃ التامۃ و حفظت اموالنا ونفوسنا و ملتنا واعراضنا من ایدی الظالمین بعنایۃ ھذہ الدولۃ فوجب علینا شکر من غمرنا بنوالہ وسقانا کاس الراحۃ بماثر خصالہ و وجب ان نری اعداء ہ صقال العضب ونوقدلہ لاعلیہ …… السیوف والا سنۃ فعند ذالک اثم المخالفون المجاھدین وسلکو ھم مسلک الظالمین السفالین ولبس اللّٰہ علیھم سرالغزاۃ والغازین فنظروا الی محاریات الدین کلھا بنظر الزرایۃ ونسواکل من غزا الی الجبر والطغیان والغوایۃ فاقتضت مصالح اللہ ان یضع الحرب والجھاد ویرحم العباد وقد مضت سننہ ھذہ فی شیع الاوّلین فان بنی اسرائیل قد طعن فیھم لجھاد ھم من قبل فبعث اللہ المسیح فی اخر زمن موسی واری ان الزارین کانوا خاطئین۔ ثم بعثنی ربی… المصطفیﷺ وجعل مقدار ھذا الرمن لمقدار زمن کا… عیسیٰ وان فی ذالک لایۃ لقوم متفکرین والمقصودمن بعثنی … عیسیٰ واحد وھوا صلاح الاخلاق و منع الجھاد واراء ۃ الایات لتقویۃ ایمان العباد ولاشک ان وجوہ الجھاد معدومۃ فی ھذا الزمان وھذہ البلاد فالیوم حرام علی المسلمین ان یعاربوا للدین وان یقتلوا من کفر بالشرع المتین فان اللہ صرح حرمۃ الجھاد عند زمان الامن والعافیۃ ونددالرسول الکریم بانہ من المناھی عند نزول المسیح فی الامۃ ولایخفی ان الزمان قد بدل احوالہ تبدیلا صریحا و ترک طورا قبیحا ولایوجد فی ھذا الزمان ملک یظلم مسلما الاسلامہ ولاحاکم یجور لدینہ فی احکامہ فلاجل ذالک بدل حکمہ فی ھذا الاوان و منع ان یجارب للدین اوتقتل…… دیان وامر ان یتم المسلمون جججھم علی الکفار ویضعوا …… التبار ویتور دوا موارد البراھین البالغۃ ویعقلوا قنن البرھین العالیۃ حتی نظا اقدامھم کل اساس یقوم علیہ البر ان تولا یفوتھم حجۃ تسبق الیہ الاذھان ولاسلطان یرغب فیہ الزمان ولایبقی شبھۃ یولد ھاالشیطان وان یکونوا فی اتمام الححج مستشفین وارد ان یتصببد استوارد الطبائع المتنفرۃ من مسئلۃ الجھاد وینزل ماء اللانی علی القلوب المجذبۃ کالعھادو یغل و سخ الشبھات ودرن الوساوس وسوء الاعتقاد فقدر للاسلام وقتا کابان الربیع وھو وقت المسیح النازل من الرفیع لیجری فیہ ماء الایات کالینا بیع ویظھر صدق الاسلام و یبین ان المترزین کانوا کاذبین وکان ذالک واجبا فی علم اللّٰہ رب العالمین لیعلم الناس ان نضوع الاسلام و شیوعتہ کان من اللّٰہ لامن المحاربین وانی اناالمسیح النازل من السماء وان وقتی وقت ازالۃ الظنون واراء ۃ الاسلام کالشمس فی الضیاء ففکروا انکنتم عاقلین و ترون ان الاسلام قد وقعت حذتہ ادیات کاذبۃ یسعی لتصدیقطا واعین کلیلۃ یجاھد لتبریقھا وان اھلھا اخذوا طریق الرفق والحلم فی دعواتھم واروا التواضع والذل عند ملاقتھم وقالو ان الاسلام اولغ فی الابدان المدی لیبلغ القوۃ والعلی وان بدعواالخلق متواضعین۔ فری اللہ … من السماء وما اوید من البھتان والازدراء والافتراء فجلی مطلع ھذا لذین بنور البرہان واری الخلق انہ ھو القائم والشائع بنوریہ لابالسیف و السنان ومنع ان یقاتل فی ھذا الحین وھو حکیم یعلبنا ارتضاع کاس الحکمۃ والعرفان ولایفعل فعلا لیس من مصالح الوقت والاوہان ویرھم عبادۃ ویحفظا القلوب من الصداء والطبائع من الطغیان فانزل مسجد الموعود والمھدی المعھود لیعصم قلوب الناس من وساوس الشیطان وتجاوتھم من الخسران ولیجعل المسلمین کرجل ھیمن ما اصطفاہ واصاب ما اصباہ فثبت ان الاسلام لایستعمل السیف والسھام عند الدعوۃ ولایضرب الصورۃ ولکن ولکن یاتی بدلائل تحکی الصعدۃ فی اعدام الفریۃ وکانت الحاجۃ قد اشتدت فی زمننا لرفع الالتباس لیعلم الناس حقیقۃ الامرویعرفوا السر کلا کیاس والاسلام مشرب قداحتوی کل نوع حفاوۃ والقران کتاب جمع کل حلاوۃ وطلاہ ولکن الا عداء لایرون من الظلم والضیم وینسابون انسیاب الایم مع ان الاسلام دین حصہ اللہ بھذھ الاترہ وفیہ برکات لایبلغھا احد من الملۃ وکان الاسلام فی ھذا الزمان بحمثل معصوم اثم وظلم باتواع البھتان وطالت الالسنۃ علیہ وصالو علی حریمہ وقالوا مذہب کان قتل الناس خلاصۃ تعلیمہ فبعثت لیجدالناس مافقد وامن سعادۃ ومجد ولیخلصوا من الخصم الالد وانی ظھرت برث فی الارض وحنبل بارقۃ فی السماء فقیر فی الغبرا وسلطان فی الخھم فطوبی للذی عرفنی اوعرف مرعی فنی من الاصدقا وجئت اھل الدنیا ضعیفا نحیفا کنحافۃ الصب وغرض العارف والھم والسب ولکن کم قوی فی العالم الاعلی ولی عضب مذاب فی الافلاک و ملک لایبلی و حسام یضاھی البرق صقالہ ویمزق الکذب قتالہ ولی صورۃ فی السماء لایرھا الانسان ولا ندرکھا العینان ……… الزمان وانی طھرت و بدلت و بعدت من العصیان وکذالک یطھر ویبدل من …… وجاء بصدق اجنان وان الفاسر ھذہ تریاق … الحطیات وسدمانع من سوق الخطرات الی سوق الشبھات ولا یتمنع من الفسق عبد ابدا الاالذی احب حبیب الرحمن اوذھب منہ الاطیبان وعطف الشیب شطاطہ بعد…… کغصب البان ومن عرف اللہ اوعرف عبدہ فلایبقی فیہ شئی من الحد والسنان وینکسر جناحہ ولایبقی بطش فی الکف واللسان ومن خواص اھل النظر انھم یجعلون الحجر کالعقیان فانھم قوم لایشقی جلیسھم ولایرجع رفیقھم بالحرمان فالحمدللہ علی مننہ انہ ھوالمنان ذوالفضل والاحسان واعلموا انی انا المسیح و فی البرکات اسمع وکل یوم یزید البرکات ویز داد الایات والنوریبرق علی بابی ویاتی زمان یتبرک الملوک باثوابی و ذالک الزمان زمان قریب ولیس من القادر بعجبیب۔
ترجمہ: اے مسلمانو! خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے کہ خدا تعالیٰ جو اسلام کا کارساز اور اُس کے بڑے بڑے کاموں کا کفیل ہے اُس نے اپنا یہ دین اسلام لوگوں میں اپنی حکمتیں اور علوم پہنچانے کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اُس کے ظاہر اور اس کی باطن میں … رکھی ہیں پس اس کی حکمتوں میں سے جو اس نے اس دین میں ودیعت رکھی ہیں تا کہ ہدایت یافتہ لوگ زیادہ ہدایت پذیر ہوں وہ جہاد ہے جس کا ابتدائی زمانہ اسلام میں امر ہوا تھا۔ پھر اُس سے اِن ایام میں ممانعت ہوگئی ہے اور اُس میں بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اوّل زمانہ ملت میں اُن لوگوں کو جہاد کا اذن دیا تھا واسطے دفع کرنے حملے کافروں کے اور واسطے حفاظت کرنے دین اسلام اور صحابہ کی جانوں کے جس سے کفار لڑتے تھے پھر زمانہ جہاد حکومت برطانیہ کے وقت بدل گیا۔ اور مسلمانوں کو امن حاصل ہو گیا۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ہم اس حکومت برطانیہ کے ماتحت پوری آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمارے مال اور ہماری جانیں اور ہمارا … اور ہماری عزتیں ظالموں کے ہاتھوں سے اس حکومت کی عنایت سے محفوظ کی گئی ہیں۔ پس ہم پر واجب ہے کہ جس کی ہم پر نوازش ہو اس کا شکر کریں اور جو ہم کو اپنی اچھی خصلتوں سے دَور آرام پلائے اُس کا قدر کریں اور واجب ہے کہ ہم اُس کے دشمنوں کے لئے تلواروں کو صیقل کریں اور اس کی حمایت کریں۔ …… تلواروں اور نیزوں کی۔ پس اس تقریب پر مخالفوں نے مجاہدین کو گنہگار ٹھہرایا اور ان کو ظالم اور درندے سمجھا اور خدا تعالیٰ نے اُن پر …… اور غازیوں کا بھید پوشیدہ رکھا۔ پس انہوں نے دین کی سب جنگوں کو نظر حقارت سے دیکھا اور غزا کو جبر اور سرکشی اور گمراہی کی طرف نسبت کی۔ پس خدا تعالیٰ کی مصلحتوں نے چاہا کہ جنگ اور جہاد موقوف کر دے۔ اور بندوں پر رحم کرے اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت پہلے لوگوں میں ہو گزری ہے کیونکہ بنی اسرائیل پر قبل ازیں جہاد کے سبب طعنہ ہوچکا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے مسیح کو موسیٰ کے آخری زمانہ میں مبعوث کیا اور اس نے ظاہر کیا کہ ملامت کرنے والے خطا کار تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے آخر…… صلی اللہ علیہ وسلم میں مبعوث فرمایا اور اس زمانہ کا مقدر اُس زمانہ کے مقدر کے برابر ٹھہرایا جو…… درمیان تھا اور اس میں فکر مندوں کے لئے عبرت کا نشان ہے۔ اور میری بعثت اور عیسیٰ کی بعثت سے ایک ہی مقصود ہے اور وہ اخلاق کا سنوارنا اور جہاد کا منع کرنا اور لوگوں کے ایمان قویٰ کرنے کے لئے نشانات کا دکھانا ہے اور کچھ شک نہیں ہے کہ جہاد کی وجہیں اس زمانہ اور اس ملک میںمعدوم ہیں۔ پس آج مسلمانوں پر حرام ہے کہ دین کے لئے جنگ کریں اور حرام ہے کافر کو قتل کریں کیونکہ خدا تعالیٰ نے زمانہ امن وعافیت میں جہاد کو حرام فرما دیا ہے۔ اور رسول کریم صلی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتاکید بیان فرمایا ہے کہ جہاد نزول مسیح کے وقت منع ہے۔ اور مخفی نہیں ہے کہ زمانہ کا احوال صریحاً بدل گیا ہے اور قبیح طور پر زمانہ نے چھوڑ دیا ہے اور اس زمانہ میں کوئی بادشاہ نہیںپایا جاتا جو کسی مسلمان پر اس کے اسلام کے لئے ظلم کرے اور نہ کوئی حاکم ایسا پایا جاتا ہے جو کسی پر احکام دین میں ستم کرے اس لئے جہاد کا حکم اس زمانہ میں بدل گیا ہے اور منع کیا گیا ہے دین کے لئے جنگ کرنے اور اختلاف…… سے اور امر ہوا ہے کہ مسلمان اپنی حجتیں کافروں پر پوری کریں اور دلائل و براہین …… جگہ استعمال کریں اور بلند براہین کے مقامات پر وارد ہوں۔ اور عالی دلائل کی چوٹیوں پر چڑھ جائیں یہاں تک کہ مسلمانوں کے قدم ہر ایک ایسی بنیاد کو پامال کریں جس پر دلیل قائم ہو اور کوئی حجت فوت نہ ہو جس کی طرف ذہن سبقت کریں اور کوئی دلیل باقی نہ رہے جس میں اہل زمانہ راغب ہوں اور کوئی شبہ باقی نہ رہے جو شیطان پیدا کرے اور مسلمانوں کو امر ہے کہ اتمام حجت میں شافی … اور … ارادہ فرمایا ہے کہ مسئلہ جہاد سے … طبیعتوں کا انکار کرے اور … کون پر نشانات کا پانی اُتارے مانند برنسے والے بادل کی اور شبہات کی میل اور وسوسوں ک گندگی اور بداعتقادی کو دھو ڈالے۔ پس اسلام کے لئے موسم بہار کی بارش کی طرح ایک وقت مقرر کیا گیا ہے اور وہ آسمان سے نازل ہونے والے مسیح کا وقت ہے تا کہ وہ اس وقت میں نشانات کا پانی چشموں کی طرح جاری کرے اور اسلام کی سچائی ظاہر کرے اور ظاہر کرے کہ عیب چین جھوٹے ہیں اور یہ بات خدا تعالیٰ کے علم میں واجب ہے۔ تا کہ لوگ معلوم کریں کہ اسلام کی خوشبو اور اس کی اشاعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ لڑنے والوں سے اور مَیں ہوں مسیح موعود آسمان سے نازل ہونے والا اور میرا یہ وقت گمانوں کے دور کرنے اور اسلام کو آفتاب کی طرح روشنی میں ظاہر کرنے کا ہے۔ پس فکر کرو اگر تم دانا ہو اور تم دیکھتے ہو کہ اسلام کے مقابلہ میں بہت سے جھوٹے دین واقع ہوگئے اور ان کی سچائی کیلئے کوشش کی جاتی ہے اور اندھی آنکھیں ہیں جن کے روشن کرنے کیلئے کوشش کی جاتی ہے اور ان غیر مذاہب والوں نے اسلام کے مقابلہ میں نرمی و برداشت کا طریق اپنی دعوتوں میں اختیار کیا ہے اور بوقت ملاقات تواضع و انکسار ظاہر کرتے اور کہتے ہیں کہ اسلام کے بدنوں میں چھری چھبوئی تا کہ قوت اور بلندی کے پہنچنے اور کہتے ہیں کہ ہم لوگوں سے بتواضع پیش آتے اور دعوت کرتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی …… اور بہتان اور عیب … اور افتراء کے ارادہ کو آسمان سے دیکھا پس اس نور اسلام کا … نور برہان سے اس نے روشن کیا اور لوگوں کو دکھا دیا کہ دین اسلام خدا تعالیٰ کے نور سے قائم اور شائع ہوا ہے نہ تلوار اور تیرہ سے اور اس نے اس وقت لڑنے سے منع کر دیا ہے وہ حکیم مطلق ہے وہ سکھاتا ہے ہم کو پلانا پیالہ حکمت و معرفت کا اور وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو مصالح وقت سے نہ ہو اور وہ اپنے بندوں پر رحم کرتا اور دلوں کو اور طبیعتوں کو زنگ اور سرکشی سے بچاتا ہے۔ پس اُس نے اپنا مسیح موعود و مہدی معہود اُتارا تا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو شیطان کے وسوسوں اور ان کی سوداگری کو زیاں سے بچائے او رتا کہ مسلمانوں کو مثل مرد بے غم و صائب … کے کردے۔ پس ثابت ہوا کہ اسلام دعوت کے وقت تلوار اور تیر استعمال نہیں کرتا اور نہ نیزہ مارتا ہے لیکن وہ دلائل بیان کرتا ہے جو افترا کے نابود کرنے میں برچھی و نیزہ کا کام دیتے ہیں۔ اور اس امر کی حاجت ہمارے زمانہ میں شک رفع کرنے کیلئے بہت سخت تھی تا کہ لوگوں کو حقیقت امر کی اطلاع ہو اور وہ بھید کو داناؤں کی طرح … اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جس میں ہر نوع کی بھلائی جمع ہے اور قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر شیرینی و تازگی جمع کی گئی ہے لیکن دشمن ظلم سے نہیں دیکھتے اور نسبت کرتے ہیں مثل نسبت مرد بے زن وزن … مرد کے باوجود یہ کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جب کہ خدا نے اس اثر سے مخصوص کیا ہے اور اس میں وہ برکتیں ہیں جن کو کوئی مذہب نہیں پہنچتا۔ اور اسلام اس زمانہ میں مثل اُس معصوم کے ہے جس کو گنہگار ٹھہرایا گیا اور اس پر کئی قسم کے بہتانوں سے ظلم کیا گیا اور اس پر دشمنوں کی زبانیں لمبی ہوگئیں اور اُنہوں نے اسلام کے گھر پر حملہ کیا اور کہتے ہیں کہ اسلام وہ مذہب ہے کہ جس کی تعلیم کا خلاصہ لوگوں کو قتل کرنا ہے۔ پس مجھے بھیجا گیا تا کہ لوگوں نے جو سعادت دین کی کھو دی ہے اس کو پالیں اور جھگڑالو دشمن سے نجات پائیں اور میں… کپڑوں کے ساتھ زمین ظاہر ہوا ہوں اور آسمان میں میرا لباس درخشاں ہے میں زمین میں فقیر ہوں اور آسمان میں بادشاہ ہوں پس خوشخبری ہے اُس شخص کیلئے … مجھے پہنچانا… میرے دوستوں میں سے کس کو پہچانا اور میں اہل دنیا کے پاس کمزور ہوں اور ان کی بدگوئی اور گالیوں کا نشان ہو کر …لیکن میں عالم اعلیٰ میں ایک قومی بہادر ہوں اور آسمانوں میں میری ایک تیز تلوار ہے اور بادشاہی لازوال اور پرندہ شمشیر ہے جس کی چمک بجلی کی مانند ہے اور وہ جھوٹ کو کاٹتی ہے آسمان میں میری ایک صورت ہے جس کو نہ انسانوں نے دیکھا اور نہ اس کو آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔ میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہوں اور میں پاک کیا گیا اور بدلا گیا اور گناہوں سے دور کیا گیا ہوں اور ایسا ہی پاک ہوتا اور بدل جاتا ہے وہ شخص جو مجھے پیار کرے اور میرے پاس سچے دل سے آوے میرے یہ انفاس گناہوں کے زہر کیلئے تریاق ہیں اور ایک دیوار مانع ہے خطرات و شبہات کی طرف جانے سے اور کوئی بندہ ہرگز گناہوں سے باز نہیں رہ سکتا مگر وہی جو خدا کے دوست سے پیار کرے یا اُس کی … میں چلی جائیں وہ بڑھاپے نے اس کے … کو دوہرا کہہ دیا ہوشاخ بان کی مانند ہونے کے بعد اور جس نے خدا کو پہنچانا یا اُس کے بندہ کو پہچانا تو اس میں کوئی تیزی و شرارت نہیں رہتی اور اس کا پَر ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ہتھیلی اور زبان میں گناہ کی طرف جانے کی قوت نہیں رہتی اور اہل نظر کے خواص میں سے ایک یہ بات ہے کہ وہ پتھر کو سونا بنا دیتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جن کا ہم نشین بدبخت نہیں رہتا اور ان کا ساتھی محروم نہیں رہتا۔ پس خدا تعالیٰ کا شکر ہے اُس کے احسانوں پر کہ وہی محسن صاحب فضل و احسان ہے اور جان لو کہ مَیں ہی مسیح موعود ہوں اور … البرکات ہوں اور ہر دن برکتیں اور نشانات زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور میرے دروازہ پر نور چمکتا ہے اور ایک زمانہ چلا آتا ہے کہ اس میں بادشاہ میرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور زمانہ قریب ہے اور یہ بات خدا تعالیٰ قادرِ قدرت سے عجیب نہیں ہے۔
مجموعہ فتاوی احمدیہ کی جلد دوم ختم ہوئی
والحمدللّٰہ علی منہ وکرمہ

مژدہ
دوستو آپ کو بشارت ہو کہ حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور بزرگان ملت کے فتوی جو وقتاً فوقتاً کتب و اخبارات سلسلہ احمدیہ و مراسلات و مکتوبات میں از ابتدائے اجرا شائع ہوتے رہے یا مشافہۃً دریافت ہوئے وہ سب باحسن ترتیب بہئیت مجومعی تین جلدوہ میں چھاپ کر آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ تمام مسائل متعلقہ طہارت و نماز و زکوٰۃ و روزہ حج و دیگر معاملات ترتیب وار لکھے گئے ہیں۔ پہلی جلد عبادات اور دوسری معاملات و مسائل شتے و متفرقہ میں ہے۔ اس کتاب کے مسائل کی فہرست ملاحظہ کرنے سے معلوم کرو گے کہ کوئی شاذ و نادر مسئلہ متعلقہ عبادات و معاملات اس سے باہر رہا ہوگا اس کتاب کا تمام متن از انفاس قدسیہ حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود و بزرگان ملت ہے اور حواشی خاکسار مرتب نے کتب احادیث نبویہ و فقہ سے مسائل متعلقہ متن کے لئے بطور اسناد اضافہ کئے ہیں۔ مسائل مشکلہ و متنازعہ فیہا کے فیصلہ کے متعلق حواشی میں بھی زبردست دلائل پیش کئے گئے ہیں سند کیلئے ہر احمدی کے پاس اس کتاب کا ہونا ضروریات میں سے ہے۔
ماخذ کتاب فتاویٰ احمدیہ ہرسہ جلد بطور اختصار
جلد ہائے الحکم سنن ذیل ۱۸۹۸ء و ۱۸۹۹ء و ۱۹۰۰ء و ۱۹۰۱ء و ۱۹۰۲ء و ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء و ۱۹۰۵ء و ۱۹۰۶ء و ۱۹۰۷ء
جلد ہائے البدر سنین ذیل: ۱۹۰۲ء و ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء و ۱۹۰۵ء
جلد ہائے بدر سنین ذیل: ۱۹۰۵ء و ۱۹۰۶ء و ۱۹۰۷ء و تعلیم الاسلام و تشحیذالاذہان ۱۹۰۶ء و ۱۹۰۷ء و رسالہ آریہ دھرم۔ نور القرین۔ کشتی نوح و دیگر کتب مؤلفہ حضرت مسیح موعود و مکتوبات و مراسلات حضرت امام ہمام مسیح موعود بزرگان ملت علیہم الصلوٰۃ والسلام
المرتبہ
خاکسار
محمد افضل احمدی
متوطن چنگا تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3۔ حاشیہ

۱؎ واضح ہو کہ احصان کا لفظ حصن سے مشتق ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں۔ نکاح کرنے کا نام احصان اس واسطے رکھا گیا کہ اس کے ذریعہ سے انسان عفت کے قلعہ میں داخل ہو جاتا ہے اور بدکاری اور بدنظری سے بچ سکتا ہے اور نیز اولاد ہو کر خاندان بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور جسم بھی بے اعتدالی سے بچا رہتا ہے پس گویا نکاح ہر ایک پہلو سے قلعہ کاحکم رکھتا ہے۔ منہ

۱؎ خلع بضم خاء مصدر معنی نکالنا کسی چیز کا۔ اور اکثر اس کا استعمال بدن میں سے پہنی ہوئی چیز کپڑے اور موزے کے اُتارنے پر آتا ہے اور خلع شروع میں کہتے ہیں مال کے لینے کو عورت سے مقابلہ میں ملک نکاح کے ساتھ لفظ خلع کے اور مظہری نے لکھا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ اگر مرد کہے کہ خلع کیا میں نے تجھ سے عوض اتنے مال کے اور کہے بیوی قبول کیا میں اور حاصل ہووے فرقہ درمیان میاں بیوی کے تو آیا وہ طلاق ہے یا فسخ ہے۔ پس مذہب امام ابوحنیفہ اور مالک رحمہا اللہ تعالیٰ کا اور … قول شافعی کا یہ ہے کہ وہ طلاق بائیں ہے اور مذہب امام احمدیہ کا اور ایک قول شافعی کا یہ ہے کہ وہ فسخ ہے اور مکروہ ہی خاوند کو لینا کسی چیز کا یعنی بدلے خلع کے اگر زیادتی اس کی طرف سے ہو اور اگر نافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو مکروہ ہے خاوند کو لینا زیادہ اُس چیز سے کہ دی ہے اس کو یعنی اس کا مہر جو دیا ہے زیادہ اس سے نہ لے۔ اس کی سنہ میں حدیث ذیل کافی ہے۔
عن ابن عباس ان امرأۃ ثابت بن قلیس انت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ یَارَسُوْل اللّٰہِ ثابت بن قیس ما اَعتِبُ علیہ فی خُلْقِ ولادین ولا کنی اکرہُ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُتُرَدِّیْنَ علیہ حدیقتہ قالت نَعَمْ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَقبلِ الْحدِیقۃ وطلقھا۔ رواہ البخاری۔ ترجمہ روایت ہے ابن عباس سے یہ کہ عورت ثابت بن نفیس کی آئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا اے رسول خدا کے ثابت بن قیس پر نہیں غصہ ہوتی میں اور نہیں عیب لگاتی اُس کے خلق میں اور نہ دین میں۔ ولیکن میں ناخوش جانتی ہوں کفر کو اسلام میں۔ پس فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا پھیر دے گی تو اس پر باغ اُس کا یعنی وہ باغ کہ مہر میں دیا تھا تجھ کو۔ کہا اس نے کہ ہاں۔ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو کہ لے تم اپنا باغ اور طلاق دے اُس کو ایک طلاق۔ نقل کی یہ حدیث بخاری نے۔ محمد افضل عفی اللہ عنہ

۱؎ وعن انسؓ قال اَوْلَمَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین نَنٰی بزینب بنت حجش فاشبع الناس خبزاولحما۔ رواہ البخاری۔ ترجمہ۔ روایت ہے انسؓ سے کہا کہ ولیمہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت کہ آپ تصرف میں لائے زینب حجش کی بیٹی کو پس پیٹ بھر کر دیا لوگوں کو روٹی اور گوشت۔ نقل کی ہے یہ حدیث بخاری نے۔
۱؎ شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنی ایک لڑکی کا نکاح کر دیا۔ اور اُن سے آٹھ دس سال خدمت لی۔ چنانچہ خدا تعالیٰ اس امر کو حکایَۃً ان کی طرف سے قرآن کریم میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر فرماتا ہے۔ قال اِنّیْ اَرِیْدَ اَنْ اُتَخِلَکَ اِحْدٰی ابْنَتَیَّ ھَاتَیْنِ عَلیٰ اَنْ تَاجُرَنِیْ ثَمانِیْ … فَانِ اَتْمَمْتَ عَشْراً فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا اُرِیْدُ اَنْ اَشَقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ اِنْشَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّالِحِیْن۔ ترجمہ۔ شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا اے موسیٰ میں چاہتا ہوں کہ بیاہ دوں تجھ کو ایک اپنی بیٹی ان دونوں میں سے اس پر کہ تو میری نوکری کرے آٹھ برس پھر اگر تو پورے کرے دس برس تو تیری طرف سے احسان ہوگا۔ اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر تکلیف ڈالوں اور تو آگے پاوے گا مجھ کو اگر اللہ نے چاہا نیک بختوں سے۔ یعنی میں بھی تیرے ساتھ کچھ بھلائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور تیرے امور میں اصلاح کی کوشش کروں گا۔ اس سوال کا جواب کہ پہلی شرائع کے احکام منسوخ ہو چکے ہیں۔ یہ ہے کہ احکام منسوخہ کا نسخ قرآن و احادیث میں مبین و مفصل ہو چکا ہے لیکن اس … کا نسخ کہیں نہیں آیا کہ لڑکی کا والی اس کے شوہر سے کوئی خدمت نہ لے۔ شعیب و موسیٰ علیہما السلام کا یہ قصہ قرآن کریم میں اس لئے خدا تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ عندالضرورت اس پر امت محمدیہ میں عملدرآمد ہو۔ قرآن کریم میں جملہ امور حق و حکمت کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔ (محمد فضل چنگوی احمدی عفی اللہ عنہ)
۱؎ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعلنوا ھذا النکاح واجعلنی فی المساجد واضربوا علیہ بالدف۔ رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب۔ ترجمہ: حضرت عائشہ سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نکاح کو ظاہر کرو اور اس کو مسجدوں میں کیا کروں۔ اور دفوں کو اس پر بجایا کرو۔ روایت کیا ہے اس حدیث کو ترمذی نے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔
۱؎ فرائض نکاح۔ ایجاب و قبول بتراضی فریقین۔ مہر۔ دو عادل مسلمان گواہ۔ نکاح کا اعلان عام۔ (محمد فضل چنگوی)
۱؎ وعن خالد بن ذکوان عن الربیع بنت معوذ قالت دخل علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غداۃ بنی علی فجلس علی فراشی کمجلسک منی وجویریات یضربن بالدف یندبن مَن قتل من ابائی یوم بدرحتی قالت احدھن وفینا نبی یعلم مافی غذ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لاتقولی ھکذا وقولی کماکنت تقولین۔ رواہ الجماعۃ الامسلماوالنسائی۔ منتقی الاخبار صفحہ۲۳۰ ترجمہ۔خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ ربیع بنت معوذ سے روایت کرتا ہے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کی صبح کو کہ جس دن کہ میرے پر بنا کی گئی تھی (بنار۔ عورت کا پہلی رات خاوند کے پاس جانا) داخل ہوئے۔ پس میرے فرش پر اس طرح بیٹھے جیسا کہ تیرا بیٹھنا ہے اور کئی لڑکیاں دف بجا رہی تھیں جو میرے آباد سے بدر کے دن مارے گئے تھے ان کی صفتیں ذکر کرتی تھیں یہاں تک کہ ایک نے ان میں سے کہا کہ ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو کل کی باتیں جانتا ہے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کہو اور جیسا تو پہلے کہہ رہی تھی کہتی رہ۔ روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ اور احمد نے۔
وعن عائشہؓ قالت کانت عندی جاریۃ من الانصکم زوجتھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا عائشہ الاتفین فان ھذا الحی من الانصار یحبون الغناء۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ۔ ترجمہ۔ روایت ہے حضرت عائشہؓ سے کہ کہا میری اس انصاری سے ایک لڑکی تھی میں نے کسی سے اس کا نکاح کر دیا پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عائشہ تو … نہیں کہتی رہی کیونکہ یہ قوم انصار کی … دوست … نقل کی یہ ابن حبان نے بیچ کتاب صحیح اپنی کے۔
۱؎ مرد قوی ہیں عورتوں پر
۱؎ رات گزارتے ہیں اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام میں۔

۱؎ میں نے جن اور انسان اپنی عبادت کے لئے پیدا کئے ہیں۔
۲؎ یعنی عملوں کا بدلہ نیتوں پر ملتا ہے۔
۱؎ اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
۱؎ … بنائے کہ تم اُن سے آرام پکڑو اور تم …… دوستی و نرمی رکھ دی اور عورتوں کو چھوڑتے ہو تم نادان………
۴؎ تمہاری بیویاں تمہاری عدم موجودگی میں تمہارے مال و عزت و دین کی حفاظت کرنے والی ہیں۔
۱؎ عن عبداللہ ابن عمروقال لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش یعنی الذی یمشی بینھما رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ و احمد والبیھقی۔ ترجمہ۔ *** کی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے اور رشوت دلوانے والے پر۔
۱؎ قال اللّٰہ تعالیٰ یاابوم لاناء خذ…… ترجمہ کہا ہارون علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو کہ اسے میری ماں کے بیٹے نہ پکڑ میری ڈاڑھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی تھی اور اس سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی قبضہ سے کم نہ تھی اور یہ تابعان انبیاء صلحا پر ڈاڑھی کا رکھنا لازم ہے۔ (محمد افضل عفی اللہ عنہ)
۱؎ تمباکو کا منحوس رواج دنیا میں کوئی چار سو سال سے جاری ہے۔ اس سے پہلے کوئی نہ جانتا تھا کہ تمباکو کیا شے ہے۔

۱؎ قد ذکر فی کتاب الحج ان صیعد ہالبندق حلال وقد افتی تاج الدین ابن الفر کاح بحلہ وھوما ذکر النوری فی کتاب المنثورہات ویوا فقھم اقوال الرافعی۔ ترجمہ۔ کتاب المہج میں لکھا ہے کہ بندوق کا شکار حلال ہے۔ تاج الدین بن فرکاح نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور نودی نے بھی کتاب منشورات میں ایسا ہی لکھا ہے اور رافعی نے بھی ان یک قول کی موافقت کی ہے۔ (محمد فضل چنگوی احمدی)
٭ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی … شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ … اور تقویٰ میں عداوت کے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے ان کو ضائع کر دیتی ہے۔
۱؎ وعن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ قال لفی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان نشرب فی انیۃ الذہب والفضۃ بیان ناکل فیھا وعن لبس الحریر والد یباج وان فجلس علیہ رواہ البخاری۔ وعن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال اجل الذہب والحریر لاتاث امتی و حرم ملی ذکورھم رواہ احمد والنسائی والترمذی وصحیحہ۔ وعن انسؓ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رخص لعبد الرحمن بن عوف والزیرفی قمیص الحریر فی سفر من حکمۃ کانت بعما متفق علیہ کذافی بلوغ المرام۔ سفر السعادت صفحہ۱۴۷ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم خارش بدن و غلبہ قمل معالجہ بپوشیدن پیراہن بریشم فرمودے۔ انس بن مالک کنت عبدالرحمن بن عوف زر پیرہن العوام را خارش بدن پیدا آمدد ازان مشقت مے دید نہ … رخصت فرمود کہ پیراہن ابریشم پیوشند۔ … بعضے روایات صحیح آدہ کہ ایشان دربعضے قروات شکایت بحضرت رسالت ماب از کثرت قتل کردند۔ پس … رخصت ………………………………
۲؎ اے نبی کہہ دے اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو میری پیروی کرو خدا تم سے پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا جو احکام … پاس رسول لے آیا ان کی تعمیل کرو اور جن باتوں سے وہ منع کرے ان سے باز آجاؤ تحقیق تمہارے لئے اللہ کا ………
۱؎ گنوار لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ان کو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ مطیع ہوگئے ہیں۔

۱؎ اے مسیح میں تجھے وفات دینے والا اور اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔
۲؎ تم اپنی جگہ حسب طاقت خود میرے برخلاف کام کئے جاؤ۔ میں تمہارے برخلاف کرتا ہوں۔ پس عنقریب جان لو گے کہ کس کا کام اچھا نتیجہ لاتا ہے۔
 
Top