• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

فقہ المسیح ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصول فقہ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
فقہ المسیح ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصول فقہ



فِقہ المسیح

بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اوررحم کے ساتھ
’’ھوالناصر‘‘
فِقہ المسیح
اصولِ شریعت اور فقہی مسائل سے متعلق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عرض حال
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت و اجازت سے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتاویٰ جو مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے گئے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات میں مندرج ہیں ان کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔
مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں اور تمام دنیا کے لئے حکم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا۔
حضرت امام الزماں فرماتے ہیں:۔
اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود، حکم، عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔ وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے۔ وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔ وہ حکم عدل ہوگا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کب ہوگی۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کی الگ کتابی صورت میں اشاعت سے غرض یہ ہے کہ تا احباب کو دینی اور فقہی مسائل کے بارہ میں یکجائی طور پر ارشادات پڑھنے اور جاننے میں آسانی ہو اور بوقت ضرورت اس کی تلاش کی سہولت میسر ہو۔ یہ ایک قیمتی اور گرانقدر سرمایہ ہے جو مشعل راہ ہے۔ اگر اس سے کما حقہ استفادہ کیاجائے تو کتاب اللہ کے احکامات اور اسوہ رسول کی پیروی و اطاعت اور مامور زمانہ کی تعلیمات کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات کو دلنشیں کرنے اور حرز جان بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی سعادت بخشے۔ آمین
اس کتاب کی ترتیب و تحقیق اور تدوین کا جملہ کام محترم انتصار احمد نذر صاحب استاذ الجامعہ نے سر انجام دیا۔ انہوں نے بڑے شوق اور محنت اور احتیاط سے اس کی تکمیل کی۔ آپ جامعہ احمدیہ میں فقہ کے استاد ہیں اس لحاظ سے مواد کے اخذ و اختیار میں بڑی احتیاط اور توجہ دی ہے۔ یہ مسودّہ محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں کو دکھایا گیا آپ نے محترم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کے بنظر غائر مطالعہ اور ان کی آراء کو ملاحظہ فرما کر بڑے مفید مشوروں سے نوازا۔ مؤلف نے ان سے فائدہ اٹھایا، ان کو ملحوظ رکھ کر نظر ثانی کی ۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء

خالد مسعود
ناظر اشاعت
حرفِ آغاز۔حَکَم عَدل کا فقہی اسلوب
کچھ فقہ المسیح کے بارے میں
{فقہ احمدیہ کے مآخذ}
1
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
5
ہر قسم کی احادیث کے لئے قرآن مِحَک ہے
6
احادیث صرف مفید ظن ہیں
7
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
7
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر
8
ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
9
بخاری اور مسلم محدثین کا اجتہاد ہے
10
بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہونے کی دلیل
11
بخاری، مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
12
کیا بخاری مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے
13
سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
13
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام
14
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب
14
احکام صوم و صلوٰۃ کو ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے؟
15
احادیث کے دو حصے
16
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں
17
تعامل حجت قوی ہے!
17
تعا مل کے درجے
17
بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع نہیں
18
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
19
حدیث سے کیا مراد ہے؟
19
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابل قبول
19
اجماع کی تعریف از فقہاء
20
اجماع کی تعریف از حضرت مسیح موعود ؑ
22
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
23
قرآن مجید کے خلاف اجماع نا قابلِ قبول
23
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر
23
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
24
اجماع کے معنوں میں اختلاف
24
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
24
ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں
25
شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ؓہے
25
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
25
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
25
مخالف قرآن احاد احادیث ناقابل قبول
26
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
26
جماعت کے لئے لائحہ عمل
27
ہماری مسلمہ کتابیں
28
بخاری اور مسلم کا مقام
28
{علم فقہ اور فقہاء }
31
تَفَقُّہ فِی الدِّین کی ضرورت
31
اَئمہ اربعہ اسلام کے لئے چاردیواری
31
اَئمہ اربعہ برکت کا نشان تھے
32
حضرت امام ابو حنیفہ کا عالی مقام
32
فخرالأئمہ ،امام اعظم ابو حنیفہؓ
34
حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت
34
مسیح موعود ؑکے حنفی مذہب پر ہونے سے مراد
34
مجددین ضرورت وقت کے مطابق آتے ہیں
35
غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو
35
خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے مُصلّے
35
تقلید کی بھی کسی قدر ضرورت ہے
36
اختلافِ فقہاء
37
جائز قیاس، جو قرآن و سنت سے مستنبط ہو
38
سنّت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق
38
قیاس کی حجت
39
مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات
40
عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
40
وہابیوں کی ظاہرپرستی
41
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
43
احناف کا احوال
44
شافعی فرقے کے طوراطوار
45
جزئی مسائل میں مباحثے پر ناپسندیدگی
45
فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر نہ کہو
46
حضرت مولوی نورالدینؓ کا حنفی ہونے کا اعلان
47
اہل حدیث طریق کی ناپسندیدگی
48
کتبِ فقہ پرنظرثانی کی ضرورت
49
{ نمازکی حکمتیں }
50
اوقاتِ نماز کی فلاسفی
50
باجماعت نماز کی حکمت
51
ارکان نماز پُر حکمت ہیں
52
شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں
53
{ اذان }
54
اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق
54
اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں
54
بچے کے کان میں اذان
55
کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے
55
{ وضو}
56
ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر
56
وضو کی حقیقت اور فلاسفی
56
وضو کے طبّی فوائد
57
وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے
58
مضرِ صحت پانی کو استعمال نہ کریں
58
گندے جوہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں
59
کنوئیں کو پاک کرنے کا مسئلہ
59
حضرت مسیح موعود ؑ کے وضو کا طریق
60
مَوزوں پر مَسح
61
پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا
61
بیمار کا مسلسل اخراج ِ ریح ناقضِ وضو نہیں
61
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
62
کپڑے صاف نہ ہونے کاشک
62
سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہوجاتی ہے
63
{ ارکانِ نماز }
64
ارکانِ نماز کی حقیقت
64
تکبیر تحریمہ
65
بسم اللہ جھرًا یا سِرًّا دونوں طرح جائزہے
65
رفع یدین
66
رفع یدین پر عمل چھڑوادیا
67
فاتحہ خلف الامام
68
فاتحہ خلف الامام پڑھنا افضل ہے
68
مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری
69
رکوع میں مِلنے والے کی رکعت ہوجاتی ہے
73
تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا
74
تشہّد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت
75
رکوع و سجود میں قرآنی دُعا کرنا
75
سینے پر ہاتھ باندھنا
76
نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا
76
رکوع و سجود میں قرآنی دعاؤں کی ممانعت
77
{ نماز با جماعت }
78
امام کہاں کھڑا ہو؟
78
امام مقتدیوں کا خیال رکھے
78
بیماری کے باوجود حکیم فضل دین ؓ کو امام بنانا
79
غسّال کے پیچھے نماز
79
امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا
80
اجرت پر امام الصلوٰۃ مقرر کرنا
80
دوسری جماعت
81
بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت
81
بلا وجہ جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو
82
امام الصلوٰۃ کے لئے ہدایت
82
مکفّرین ومکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام
83
غیر احمدی امام کا اقتداء ناجائز
83
غیر احمدی کے پیچھے نماز
83
غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ الگ پڑھو!
84
غیروں کے پیچھے نماز
84
امام بطور وکیل کے ہوتا ہے
85
غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حِکمت
85
غیروں کی مساجد میں نماز
85
تنہا احمدیوں کے لئے ہدایت
86
پیشہ ورامام کے پیچھے نماز درست نہیں
86
غیروں کے پیچھے نماز
86
مصدّق کے پیچھے نماز
87
{ متفرق مسائل نماز }
88
نمازوں کی ترتیب ضروری ہے
88
نماز باجماعت کھڑ ی ہونے پر سنتیں پوری کرنا؟
89
سنتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا معمول
91
مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز
92
طلوعِ فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں
92
امام کے سلام پھیرنے سے قبل سلام پھیرنا
92
بآواز بلند اپنی زبان میں دعا
93
جھرًا دعائیں پڑھنا
94
سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھنامنع کیوں ؟
95
الہامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا
96
.6الہامی دعائیں واحد کی بجائے جمع کے صیغہ میں پڑھنا
96
حالات کے مطابق دعا کے الفا ظ میں تبدیلی
97
قرآنی دعاؤں میںتبدیلی مناسب نہیں
97
دعا میں رقت آمیز الفاظ کا استعمال
98
وتر کیسے پڑھے جائیں
98
بہتر ہے اول وقت وتر پڑھ لیں
98
حضرت مسیح موعود ؑ کا وتر پڑھنے کا طریق
99
وتر اور دعائے قنوت
99
تہجد کی نماز کا طریق
100
تہجد کا اوّ ل وقت
101
ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا
101
نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں
101
تعداد رکعات
102
نماز کے بعد تسبیح
103
غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز
104
نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف
105
نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا مناسب نہیں
107
امامِ وقت کے بلانے پر نماز توڑنا
107
ضرورتًا نماز توڑنا
108
سخت مجبوری میں نماز توڑناجائز ہے
108
جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے
109
پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا
109
عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے
109
نماز میں عورتوں کی الگ صف
110
نماز میں مجبورًاعورت کو ساتھ کھڑا کرنا
110
امام کاجھرًا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا
111
نمازوں میں قنوت کی دعائیں
111
مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا
112
نمازکے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا
113
نماز میںاپنی زبان میں دعاکرنا جائز ہے
114
نماز میں اپنی زبان میںبھی دعا کرو
115
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرواناچھوڑ دیا
116
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکردعا کرنا بدعت ہے
118
کسی اور زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں
122
{ نمازیں جمع کر نا }
123
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
123
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
123
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
124
مسیح موعودؑ کیلئے نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
126
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا
127
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
127
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط سے بچنا چاہئے
128
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
129
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
130
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں
130
{ نماز استخارہ }
132
استخارہ کی اہمیت
132
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
132
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
133
نماز عصر میں استخارہ
134
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
134
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
135
استخارہ کا ایک آسان طریق
136
کھلے نشانات دیکھ استخارہ کرنا جائز نہیں
137
{ نماز استسقاء }
138
{ نماز کسوف }
139
{ قصر نماز }
140
سفر کی تعریف
140
سفر کی حد کیا ہے؟
140
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
141
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
142
ملازمت پیشہ دوران سفر قصر نہ کرے
144
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
145
مقیم پوری نماز ادا کرے
145
سفر میں قصر کی حد
146
قصرنماز کا تعلق خوف اور ہر سفر کے ساتھ ہے
147
{ حضرت مسیح موعود ؑکا طریق نماز}
148
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
152
{ نماز جمعہ اور عید }
157
جمعہ کا اہتمام
157
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
157
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
158
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
159
اپنا جمعہ الگ پڑھو
159
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
159
جمعہ دو جگہوں پر
161
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
162
سفر میں نمازِ جمعہ
163
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
164
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
164
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
167
قضاء عمری
167
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
168
قادیان میں عیدالفطر
168
عیدین کی تکبیرات
169
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
169
{مساجد }
170
مساجد کیسی ہوں
170
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
171
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
171
{ نمازجنازہ اور تدفین }
172
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
172
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
172
غسل میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
173
سب کا جنازہ پڑھ دیا
173
حضرت مسیح ناصریؑ کا جنازہ
174
خاندانی قبرستان میں دعا
174
چہلم کی حکمت
175
مزاروں کی زیارت
175
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
176
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
177
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
177
صبح کے وقت زیارت قبورسنت ہے
178
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
179
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائزہے
180
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
181
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
182
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
182
میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور قرآن پڑھنا؟
183
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
184
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
185
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
185
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
186
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
187
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
187
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
190
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام
191
مُردوں سے استفاضہ
192
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
192
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
192
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
193
{ روزہ اور رمضان }
194
رؤیت ہلال
194
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
195
چاند دیکھنے کی گواہی
195
چاند دیکھنے کی گواہی
196
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
198
سفر میں روزہ ۔حکم ہے اختیار نہیں
198
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
199
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
202
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
202
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
202
سفر میں روزہ کھول دینا
203
سفر میں رخصت ۔ ملامت کی پرواہ نہ کی
204
مسافر کا حالت قیام میں روزہ رکھنا
205
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
208
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
208
بیماری میں روزہ کے متعلق حضور ؑ کا معمول
209
مسافر اور مریض فدیہ دیں
210
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
210
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
211
فدیہ کسے دیں؟
212
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
212
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
212
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
214
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
215
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
216
روزہ کی حالت میںسر یا داڑھی کو تیل لگانا
216
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
216
روزہ دارکاخوشبو لگانا
216
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
217
نمازِ تراویح
217
تراویح کی رکعات
217
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
218
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
218
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
219
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
219
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
219
اعتکاف
219
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
220
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
220
اعتکاف میں مقدمہ کی پیشی پر جانا؟
220
{ زکوٰۃ }
221
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
221
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
221
صدقہ کی حقیقت
221
زیور پر زکوٰۃ
222
قرض پر زکوٰۃ
222
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
222
سیّد کے لئے زکوٰۃ؟
222
زکوٰۃ کی رقم سے حضور ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
223
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
223
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
224
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
224
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
224
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
225
حضورؑ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ لینا جائز قرار نہ دیا
225
{ حج }
226
حج کی تاکید
226
ارکان حج کی حکمتیں
226
حج کی شرائط
228
حضورؑ کے حج نہ کرنے کی وجوہات
229
حج کی مشکلات سے نہ گھبراؤ
231
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
233
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
233
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے حج بدل
234
{ قربانی کے مسائل }
235
قربانی کی حکمت
235
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
235
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
235
قربانی صرف صاحب استطاعت پر واجب
236
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
236
بکرے کی عمر کتنی ہو؟
237
ناقص جانور قربانی کے لئے ذبح نہ کیا جائے
237
عیدالاضحی کاروزہ
237
عقیقہ کس دِن کرنا چاہئے
238
حضورؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
238
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
239
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
239
{ نکاح }
240
نکاح کی اغراض
240
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
241
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
242
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
242
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
243
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
243
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
243
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
244
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
245
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
245
کم عمری کی شادی جائز ہے
246
حضرت عائشہؓ کی شادی پر اعتراض کا جواب
248
تعدّد ازدواج میں عدل کے تقاضے
249
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
251
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
251
تعدد ازدواج ۔حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
256
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
257
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
258
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
260
پہلی بیوی کی موجودگی میں رشتہ کرنا
261
مہر کی مقدار
261
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
262
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
262
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
263
اعلانِ نکاح ضروری ہے
263
ولیمہ
265
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
265
نکاح پر باجا اور آتش بازی
266
مہرنامہ رجسٹری کروانا
267
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
268
حضورؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
268
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
269
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
270
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کاکم عمری میں نکاح
271
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
271
حلالہ حرام ہے
272
نکاح خواں کو تحفہ دینا
274
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
275
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز
275
نکاح متعہ کی ممانعت
276
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
276
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
278
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
279
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
282
{ طلاق }
284
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
284
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
284
عورت نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
285
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
286
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
286
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
287
طلاق کی ضرورت
287
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
289
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
289
طلاق میں جلدی نہ کرو
291
شرطی طلاق
292
طلاق اور حلالہ
293
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
294
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
295
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
296
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
297
{ خلع }
298
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
298
حاکمِ وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ
299
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
299
{ وراثت }
301
فاسقہ کا حقِ وراثت
301
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
301
یتیم پوتے کا مسئلہ
302
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
303
{ پردہ }
304
پردہ کی فلاسفی
304
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
305
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
306
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
306
پردہ کی حدود
307
امہات المومنین کا پردہ
308
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
308
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
309
اضطرار میں پردہ کی رعایت
209
{ خریدوفروخت ؍ کاروباری امور }
311
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
311
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
311
.6بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
312
تجارتی روپیہ پر منافع
312
نیک نیتی میں برکت ہے
313
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز
313
رہن میں وقت مقرر کرنا
314
رہن باقبضہ ہواور تحریر لینا بھی ضروری ہے
315
تیس سال کے لئے باغ رہن رکھوانا
315
زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا
317
مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں
318
آبکاری کی تحصیلداری
318
نوٹوں پر کمیشن
319
{ سود ، انشورنس ، بینکنگ }
320
سود
320
سود در سود
320
پراویڈنٹ فنڈ
320
تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت
321
.6بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا
323
انشورنس یا بیمہ
327
لائف انشورنس
327
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود
328
کسی قیمت پرسودی قرضہ نہ لے
329
سودکی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا
330
بیمہ زندگی
331
اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد زیادہ
332
{ حکومت کی اطاعت }
333
حضرت مسیح موعود ؑ کے پانچ اصول
333
حکام برادری سے حسن سلوک
333
انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ
334
اُولوالامرکون ہے
336
اولو الامر کی اطاعت
337
دو انگریزوں کے قتل ناحق پر اظہار ناراضگی
338
حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی
340
کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟
341
ہر قسم کی بغاوت سے بچو
344
طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت
348
ہڑتال میں شمولیت پرسخت تنبیہ
349
حکام اورسب مذاہب والوں سے نیکی کرو
351
رشوت کی تعریف
352
گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں
352
قومی اور حکومتی زبان سیکھو
353
پٹواریوں کیلئے زمینداروں کے نذرانے
353
شہر کے والی ؍ حاکم کے لئے دعائیہ نوافل
353
گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو
355
حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت
355
{ حلّت وحرمت }
356
پاک چیزیں حلال ہیں
356
دریائی جانوروں کی حلت کا اصول
356
اصل میں اشیاء حلال ہیں
356
خرگوش حلال ہے
357
شراب اور جوئے کی حرمت
357
دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے
357
شراب کی حرمت
358
شر اب کی مضر اثرات
358
حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات
359
تورات و انجیل میں سؤر کی حرمت
360
حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو
361
رضاعت سے حرمت
362
رشوت کی تعریف
363
زنا تضییع نسل کا موجب ہے
363
تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا
364
جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے
364
نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے
365
علاج کے طورپر ممنوع چیزوں کا استعمال
365
نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں
366
تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت
366
نشہ آور اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے
367
افیون کے مضراثرات
367
نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ
367
تمباکو نوشی کے مضراثرات
368
حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار
369
حقہ آہستہ آہستہ چھوڑدو
370
تمباکو ؍ زردہ کا استعمال
371
مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز
372
طیبات کا استعمال
373
تصویر کی حرمت کا مسئلہ
374
{ بدعات اور بد رسومات }
377
سماع
377
مزامیر
377
نظربٹّو
379
صوفیاء کے طریقوں کوحسن ظنی سے دیکھنا
379
عورتوں کو خصوصی نصائح
381
محرم میں رسومات سے بچو
386
فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا
387
نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکارکے طریق
387
.6بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار کرنا.6
389
بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں
389
فاتحہ خوانی اور اسقاط
390
میّت کے لئے اسقاط
390
قل خوانی
391
میت کے لئے فاتحہ خوانی
391
ختم اور فا تحہ خوانی
391
چہلم کی رسم ناجائز ہے
392
مسجدکی امامت اور ختم پر اجرت لینا
392
طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے زیارتیں لیکر نکلنا
393
یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا کیسا ہے
394
مولودخوانی
395
گدی نشینوں کی بدعات
397
سر ودکی رسم
398
فقراء کے نت نئے طور طریقے
399
بہترین ریاضت
401
آج کل کے پیر
401
جھنڈ یا بودی رکھنا
402
میّت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا
402
محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا
403
دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم
403
ذکر اَرَّہ کرنا کیسا ہے؟
403
تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟
404
سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت
405
تعویذ گنڈوں کے فوائدتصوراتی ہیں
407
دلائل الخیرات کا ورد
408
بابا بُلّھے شاہ کی کافیاں
408
بسم اللہ کی رسم
409
کلام پڑھ کر پھونکنا
410
کشف قبورکا دعویٰ بے ہودہ بات ہے
410
خودساختہ وظائف واذکار
410
تصورِ شیخ
413
قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ
414
حبس دم
417
نصف شعبان کی رسوم
417
برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا
417
{ نئی ایجادات،فوٹو گرافی ،ٹیکہ،ریل}
418
اسباب سے استفادہ جائز ہے
418
خادمِ شریعت فن جائز ہے
418
فوٹو گرافی
419
تصویر مفسد نمازنہیں
420
حضرت مسیح موعود ؑ کی تصویرکارڈپرچھپوانا
422
فوٹوبنوانے کی غرض
424
فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت
425
ضرورت کیلئے تصویر کا جواز
426
حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ
426
کفارکی مصنوعات کا استعمال جائز ہے
427
ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے
427
{ امورِ معاشرت، رہن سہن، باہمی تعاون }
428
وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک
428
مخا لفوں کو سلام کہنا
431
غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ برتاؤ
431
شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا
432
بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا
432
ایک ہندومہمان کے ساتھ خوش خلقی
433
ہندوئوں سے ہمدردی
434
اہلِ کتاب کا کھانا
434
وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا
437
خواب کو پورا کرنا
437
طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی
437
طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟
438
طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کیلئے حکم
438
نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز
440
مجالس مشاعرہ
441
نسل افزائی کیلئے سانڈرکھنا
441
بدامنی کی جگہ پر احمدی کا کردار
442
تشبّہ بالکفار
442
کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال
443
اپریل فول ایک گندی رسم ہے
444
عیسائیوں کے کنویں کا پانی نہ لیا
445
دینی غیرت کا اظہار ؍ مٹھائی نہیں کھائی
445
بدگومخالفین سے معانقہ ناجائز
446
ناول لکھنا اور پڑھنا
447
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا
447
عیسائیوں کا کھانا جائز ہے
447
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
448
ہندو رئیسہ کی دعوت اور نذرقبول کرنا
448
ہندوساہوکار کی دعوت میں شرکت
449
ہندوؤں کے ساتھ لین دین ؍ معاشرت
450
مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا
450
اشعار اور نظم پڑھنا
451
شعر کہنا
451
آتش بازی
452
آتش بازی ؍ باجا
453
سکھوں اور ہندوئوں کا اذان دلوانا
454
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
454
رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جا ئیداد
455
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
455
بھاجی قبول نہ کرنا
456
بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا
456
بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنا
457
بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو
458
گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی
458
ٹنڈ کروانے کی ناپسندیدگی
459
حضرت مسیح موعود ؑ کے مصافحہ کاطریق
461
لباس میں سادگی
461
لباس۔ سبز پگڑی پہننا
463
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض عاداتِ مبارکہ
463
حضرت مسیح موعود ؑ کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا
465
{ متفرق }
466
قرآن شریف کی جامعیت
466
قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں
466
قرآن کریم اورسائنس
467
قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی نہیں
467
نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری
467
تکلف سے قرآن پڑھنے کی ناپسندیدگی
468
کلام پڑھ کر پھونکنا
468
قرآن شریف پڑھ کر بخشنا ثابت نہیں
468
قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی
469
تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہوجائے
469
ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں
469
قرآن شریف کے اوراق کا ادب
470
آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت
470
تعظیمِ قبلہ
471
سورۃ فاتحہ کا دَم
471
تعویذاوردَم
472
شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا درست ہے
473
چندہ دینے کی نیت سے نذر ماننا
474
قسم توڑنا
476
ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والاوظیفہ
477
دین اسلام کے پانچ مجاہدات
478
سخت مجاہدات کرنے پر ناپسندیدگی
479
اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز
479
مسمریزم/ عمل الترب
480
متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے
482
متعدی بیماری سے بچاؤکی تدبیر
482
طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ
482
زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہوجانا
483
برتھ کنٹرول
483
لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟
484
زنا کی گواہی
486
مہندی لگانا سُنت ہے
486
والدین کی فرمانبرداری کس حد تک ؟
487
داروغہ نہ بنو
490
بڑی عمر میں ختنہ کرواناضروری نہیں
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض خصوصیات
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد کیلئے صدقہ ناجائز
492
رسول اللہ ﷺ کے لئے سلامتی کی دعا
492
ہر نو مسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں
493
حضرت مسیح موعود ؑ کا تبرک دینا
494
حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کا تبرک
495
داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے
495
داڑھی تراشنے کا جواز
495
داڑھی کیسی ہو؟
496
حرام مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا
497
حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ
498
کھانے کے لئے خاص طریق اختیار کرنا
499
ایک پیر کے بعددوسرے کی بیعت کرنا
500
خدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم
500
بیعت کا طریق
500
ارواح سے کلام
501
خدا کے حکم سے مجاہدات بجا لانا
502
اپنی تجویزسے شدید ریاضتیں نہ کرو
503
سینہ پر دَم کردیا
504
اگر حیلہ خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے
505
ریڈیو کے ذریعے گانا سننا
505
زندوں کا توسل جائز ہے
506
تعبیر کرنے والے کی رائے کااثر؟
506
کسی نام سے فال لینا
506
کسی کتاب سے فال لینا
507
کسی نام سے بُری فال لینا جائز نہیں
507
ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے
508
سجدئہ تعظیمی کی ممانعت
508
غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے
509
توریہ کا جواز اور اس کی حقیقت
509
مذہبی آزادی ضروری ہے
513
{ جہادکی حقیقت }
514
جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتوی
514
لفظ جہد کی تحقیق
514
کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں
516
خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت
517
جہاد کا موجودہ غلط تصور
518
اب جہاد کیوں حرام ہوگیا؟
520
صحابہؓ کے صدق اور صبر کے نمونے
522
موجودہ تصور جہاد نفسانی اغراض پر مبنی
523
اپنی جماعت کو نصیحت
526
اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے
527
حکمران علماء کے ذریعہ عوام کو سمجھائیں
530
محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش
532
حضرت اقدس کا التوائے جہادکافیصلہ
537
{ جلسہ سالانہ کا انعقاد }
541
جلسہ سالانہ کاانعقاد بدعت نہیں
541
اس زمانہ کے علماء کی حالت
541
جلسہ سالانہ کے انعقاد کاپس منظر
542
لاہور کی ایک مسجد کے امام کاعجیب استفتاء
542
طلبِ علمِ دین کے لئے سفر کی فضیلت
543
مختلف اغراض کے لئے سفر
544
قرآن و حدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب
545
جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی؟
547
تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیں
548
ہر زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے
552
حضرت عمرؓ کے محدثات
553

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ آغاز
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لئے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا جب امتِ مسلمہ باہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اوروہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی پستی کا فائدہ اُٹھاکر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کررہے تھے۔
وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتّر فرقوں میں بٹ چکی تھی اورعجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے۔
خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسّی کی شکل میں موجود تو تھامگر باہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا۔ فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدّت آچکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سوسال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کواپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔ اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں بیان فرمایا ہے:۔
’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَیِِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ الْاَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ مُتَحَصِّنِیْنَ فَاَرْسَلَنِیَ اللّٰہُ لِأَٔسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560)
ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔
ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیںبہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اورانتشار اورگمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے۔ چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اورمہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے۔
بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث دراصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ حَتَّی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا ‘‘
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر3448)
ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حَکَم عدل بن کر تم میں نازل ہوں، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کردیں گے اورمال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتَّی کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوجائے گا۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَکَمًا مُقسِطًا اوراِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم )
پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ
’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اورحَکَم ہوکر آیاہوں۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلّد غیر مقلّدوںکی غلطیاں نکالتے اوروہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اوراس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اورنجس بتاتے تھے۔ اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہوچکی تھیں اورلوگ حقیقت کی راہ سے دور جاپڑے تھے۔ ایسے اختلاف کے وقت ضرورتھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اورایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔‘‘
(الحکم 30ستمبر1904ء صفحہ2،3)
امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حَکَم غیر جانبدار ہو ۔ اگرحَکَم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلّد کہتا ہو تو پھراس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا۔ فرمایا
’’ ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں کیا حَکَم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے ۔بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے۔حَکَم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قراردے گااوربعض کوصحیح۔ ‘‘
(الحکم 10فروری 1905ء صفحہ۴)
ایک اور جگہ فرمایا
’’آنے والے مسیح کا نام حَکَم رکھا گیا ہے۔ یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اورمختلف الرائے۔۔۔۔لوگ موجود ہوں گے۔پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا۔اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حَکَم ہی کیوں رکھا گیا؟
(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
آپؑ نے بتایاکہ حَکَم دراصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کرامن دینا ہے ۔فرمایا
اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَمہے جو (خدا کی طرف سے) آیا ہے۔ ۔۔۔۔ اے لوگو!تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اوراللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کردیا۔ پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لواوراپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تواب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہوجبکہ تمہارے پاس حَکَم موجود ہے٭۔
٭ حاشیہ: متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور حَکَم اس امن والے حرم کے مشابہہہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی … اس حَکَم کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے۔وہ حَکَم جو معصوم ہے اور خدائے عزّوجل کی طرف سے حَرَم کی جگہ پر ہے۔ اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اوراُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیزوصول کی جائے۔
(الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَن ْ یَرٰی ۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ338،339۔عربی سے ترجمہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اوراعمال میں بگاڑ پیدا ہوچکاتھا ان کی اصلاح فرمائی۔آپ ؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اورجماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدّت آچکی تھی اوربرصغیر پاک و ہند میں حنفی اورغیرحنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کرچکی تھی۔ حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو ازخود بند کرچکے تھے اوراپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ، حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے۔ اہلحدیث موحّد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اوردرجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اوربخاری اورمسلم کو عملًا قرآن کے برابر قراردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہردوگروہوں کی اصلاح فرمائی اورانہیں صحیح راستہ دکھایا۔ فرمایا
’’جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں(بخاری و مسلم۔ناقل) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ20،21)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا۔آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خدّوخال ،آپ کی تحریرات اورملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں۔ آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرمائی اورمیزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اورصراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا ۔ آپ ؑ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔قرآن کریم ہی اصل میزان، معیار اورمِحَک ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دورکرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان، معیار اورمِحَک ہے۔ فرمایا:
’’ کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ11،12)
2۔ سنّت اور تعامل کی حجیّت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار قراردیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہواجو ’’الحق مباحثہ لدھیانہ ‘‘ کے نام سے روحانی خزائن جلد4میں موجود ہے۔ آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے۔ سنت الگ چیز ہے اورحدیث الگ چیز۔ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے بارہ میں یہ معیار قرارنہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے۔ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہم حدیث اورسنت کو ایک چیز قرارنہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدّثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنت الگ چیز ہے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل۔ ‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19صفحہ209،210)
نیزفرمایا
’’ ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپؐ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ توجب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اورحدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے۔‘‘ (الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
حضرت مسیح موعود ؑ نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:۔
’’ یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کرلیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اوردرحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ توطبعی طورپر ہرایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ26)
آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کرکے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنادیاہے۔فرمایا
’’احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصّہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ35)
3۔ انسانی اجتہاد پر حدیث فضیلت رکھتی ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کو پرکھنے کے لئے معیار قراردیا اور سنت اورتعامل کو حدیث پر اہمیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا ۔دوسری طرف محدّثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قراردی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو بھی خصوصی نصیحت فرمائی۔
فرمایا
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ ‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)
4۔ شریعت کی اصل روح کا احیاء
حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا :
’’ یُحْيِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ‘‘
ترجمہ: وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ79)
اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ ؑ کے ذریعے دین کااحیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قراردے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی۔فرمایا
’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اورسب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھراُدھر بالکل نہ جاوے ۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔۔۔۔
ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اورطریق سنت کے سِوا نہیں۔
(البدر 13مارچ1903ء صفحہ59)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا
’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اوروظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذتِ روح کے لئے نہیںہے بلکہ لذتِ نفس کے لئے ہے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے قل خوانی، فاتحہ خوانی، چہلم، مولودخوانی، تصورِ شیخ، اسقاط، ختم، دسویں محرّم کی رسوم سمیت سب بدرسوم سے اپنی جماعت کوبچنے کی نصیحت فرمائی اور خدااور رسولؐ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اورصرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو ناپسندفرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے ۔مجھے خدا نے مجدّد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔فرمایا
’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیاکرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔ ‘‘ (الحکم 19مئی 1899ء صفحہ4)
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا
’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے۔ تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے۔ اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جوعقائد حقّہ میں فتور آگیاہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجدّدًا تاکیدًا بالاصل بیان کیا جائے۔ ‘‘
(الحکم 24جون1900ء صفحہ3)
5۔ قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نیحَکَم عَدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اورجن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ ؑ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا۔ اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کوبھی بڑی اہمیت دی۔خاص طور پرایسے مسائل کو جومُطَہَّر بزرگان امت کے اجتہاد پر مبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پرصدیوں سے عمل کر رہی ہے۔ فرمایا
’’ میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حُکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتاہوں۔ ‘‘ (الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
6۔بزرگان سلف کا احترام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حَکَم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اوراپناوزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں آپؑ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا۔مثلًا
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟فرمایا
’’ اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ، حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ ‘‘ (البدر17نومبر1905ء صفحہ6)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔ اس پر اس نے کہا کہ اگر یہ امورخلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اورمشاہیر جن میں حضرت احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدّد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا
’’اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اورسامانِ تعیّش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کردینا مناسب ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)
بزرگانِ سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اوراُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طورپر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کوحاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویاشریعت میں دخل دیا ہے۔
الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ101)
حضرت امام ابو حنیفہؓ کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں آپ کے فتاویٰ قرآن و حدیث کے منافی نہیں تھے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ385)
7۔ احکام شریعت پُرحکمت ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دورکردیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اوراسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے۔ آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کردیا ۔ آپؑ کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے۔
’’اَلْبَرَاہِیْنُ الْاَحْمَدِیَّۃُ عَلٰی حَقِیَّۃِ کِتَابِ اللّٰہِ الْقُرَْآنِ وَالنَّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ ‘‘
یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اوربراہین۔
اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے سچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اورانسانی فطرت اورزندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں۔آپ نے فرمایا
’’ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔جس کے اصول نجات کے ،بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبّہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیّت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دِلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے ۔‘ ‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد1صفحہ81،82)
اپنے موقف کے حق میں آپ نے زورداردلائل بیان فرمائے۔تعدّد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دئیے۔ متعہ کا اعتراض ہو یا متبنّی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہوہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا۔
آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبّی فوائد بھی بیان فرمائے۔ اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اورثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اورحالات کے مطابق ہیں۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز باجماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اورحج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا۔
آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میںمنقولی اور معقولی ہردو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دئیے۔اورایسے معترضین کو جومنقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا
’’ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سرگشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلّی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ ہرچہارحصص روحانی خزائن جلد1صفحہ67)
پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قراردیتے ہوئے آپؑ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی ۔فرمایا
’’جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکراسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا۔ ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اورمرد ہوجائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے۔ ‘‘
(نسیم دعوت ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434)
8۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قراردیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑدیا تھا۔ مثلًا نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیشِ نظر جائز رکھا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اورموسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کوسمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ فرمایا
’’ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تواصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اورالہام کے بِدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواَب پوری ہورہی ہے۔‘‘
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ1)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ (الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
9۔ شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور احکام کی غرض وغایت پر زوردیا۔خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رخصتیں اوررعایتیں بھی دی ہیں۔لیکن لوگ عمومًا تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیںبھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیںاوراُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اوراس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھاہوگا۔ اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اوراللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘ (الحکم 31جنوری 1907، صفحہ14)
خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کر نے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اورتنگی نہیں رکھی۔ فرمایا
’’شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔ ‘‘
(الحکم10اگست 1903ء صفحہ20)
10۔ شعائراللہ کا احترام اور دینی غیرت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیںیہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ شکرگزاری کا جذبہ ہمیشہ پیشِ نظر رہتا تھا۔ اسی وجہ سیبعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پرشکرگزاری کے اظہار کے طورپر پر تکلف دعوت بھی کی۔
حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓصاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پرتکلف دعوت دی اوراس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی
حمدوثناء اسی کو جو ذات جاودانی
یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اورباہر مرد اوربچے پڑھتے تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد1صفحہ611، 612)
اس کے بعد دسمبر1901ء میں حضور ؑنے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ ، صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اورصاحبزادی نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ کی تقریبِ آمین منعقد کی۔ اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں تحریرکیا کہ
’’حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے۔ ان کے ایسے مواقع پر جواظہارِ خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور ؑ بروزِ محمد ؐ ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘
اس پرحضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ
’’ الاعمال بالنیات ایک مسلّمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔ اگر کوئی ریاء سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے توایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ۔ مگر اگر کوئی تشکّر اور اللہ کی رضاجوئی کی نیّت سے خرچ کرتا ہے بلا ریاومعاوضہ تواس میں حرج نہیں۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551۔ سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔نیا ایڈیشن )
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا
’’میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اورانعام ہیں ۔ ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میںجب کوئی کام کرتاہوں تو میری غرض اورنیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہارہوتی ہے۔ ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے۔ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیںاس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدرکرنی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘ (الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ2)
اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دینی غیرت اورحمیّت کے جذبہ کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیشِ نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا۔ جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری او رتقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دئیے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ
’’ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں)کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے لہٰذا اِن کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ198 )
عام طورپرعیسائیوں،ہندوؤںاور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کونہ بدل لیں۔ ایک ایسے ہی موقعہ پرحضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اورمعانقہ کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا:
’’ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورہم اُن سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اورپھر یہ لوگ خنزیرخور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ (الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ10)
11۔ خشک مسائل سے اجتناب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔ عام طورپر لوگ جزوی ، فروعی اورخشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جاپڑتے تھے۔ حضورؑ نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیںپڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہوگیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہربن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پرہی زور دیتے رہتے تھے ۔خاص طورپرحنفیوں میں یہ کمزوری تھی اوراپنے اس طرزِ عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلّد کہتے تھے ۔ اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا۔مثلًا
آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیںمیں مرجائیں تو اتنے دَلوْ (ڈول) پانی نکالنا چاہئے۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا
’’ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جوحساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اوراتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے ۔‘‘
عرض کیا گیا کہ حضور ؑ نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پرعمل کرلو۔ فرمایا
’’فقہ کی معتبر کتابوں میںبھی کب ایسا تعیُّن ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔
سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے
کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَالْرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۶) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ مُلّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔‘‘ (بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ
میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکّی بناؤں یا نہ بناؤں ؟اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اگر نمود اوردکھلاؤ کے واسطے پکّی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیّت پر موقوف ہیں۔‘‘ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ253)
12۔ اشدّ ضرورتوں میں حُکم بدل جاتے ہیں
شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہراہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اورمعذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے۔افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اورباہر سے اس کا افسر آجائے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اورٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ
’’ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ۔ ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے ۔ اِ س لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ایسے ہی اگرلڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لِکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسدِ نماز نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘ (البدر24نومبر،یکم دسمبر1904ء صفحہ4)
سونے چاندی اور ریشم کا ضرورتًا استعمال تو معروف مسئلہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ اس پر آپ نے فرمایا
’’ تین ، چارماشہ تک توحرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔ (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔ ‘‘
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
13۔ عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے
احکام شریعت میں موقع و محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اوربہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مدّ نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلًا شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اورسفر کی حدود کاذکر نہیں کیا۔ اسی طرح سفر میں نماز قصرکرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حدّ بیان نہیں فرمائی ۔اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عُرف کے اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرمادیا ۔
ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔میں کس کوسفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا
’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بِنا دِقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عُرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔‘‘ (الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
اسی طرح خریدوفروخت کے معاملات میں بھی عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کررہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عُرف پر بھی عمل کرنا چاہئے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
’’ جن معاملات بیع وشراء میں مقدمات نہ ہوں، فساد نہ ہوں تراضی فریقین ہو اورسرکار نے بھی جُرم نہ رکھا ہو عُرف میں جائز ہو وہ جائز ہے۔ ‘‘
(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ19)
14۔ حکومتِ وقت کی اطاعت کی تعلیم
مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی، مذہبی ، ہرلحاظ سے پسماندہ ہوچکے تھے ۔ اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یادکرتے ہوئے محکومی اورکمزوری ان کے لئے بھاری ہورہی تھی۔ جس دور میں خلافت بنو امیہ،بنوعباس اورعثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حقدار بادشاہ وقت کو قراردیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اورذلّت بھی دیکھنی پڑی۔ چونکہ ماضی میں دارالاسلام اوردارالحرب جیسی اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اورخصوصًا 1857ء کے غدر کی بنیادمیں بھی یہ ایک غلط تصوّر تھا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت ، فساد، اورنافرمانی سے بچنے اورسچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی۔ آپ نے یہ مسئلہ باربار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اورامن بھی حاصل ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اورفساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں۔ان اصولوں میںسے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ
’’یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرِ سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اورخلوصِ دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ ‘‘ (کتاب البریۃ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ348)
اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا
’’ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی،10اگست 1904ء صفحہ13)
قرآن کریم نے اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے!
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر’’مِنْکُمْ‘‘ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلافِ شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ فرمایا
’’اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ ’’مِنْکُمْ‘‘میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے۔ وہ مِنْکُمْمیں داخل ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طورپر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئیاوراس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔‘‘
(رسالہ الانذارصفحہ 15۔تقریر حضرت اقدس ؑ فرمودہ 2مئی 1898ء ۔ ملفوظات جلد1صفحہ171)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اورتقریری ہر طرح سے زوردار کوششیں کیں ۔خاص طورپر آپؑ نے ایک رسالہ لکھا
’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جوروحانی خزائن کی جلد17میں موجود ہے۔اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اورانگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اوران کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا۔فرماتے ہیں:۔؎
اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے
15۔ نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا۔ تار، ریل، چھاپہ خانے، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا۔ حضورؑ نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اورجسمانی ہردوبرکات کی بارش ہورہی ہے۔نئی ایجادات نے دنیا کو قریب ترکردیا۔پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں۔ اس ایجاد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اورانہیں سارے ہندوستان میں پھیلادیا۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کواپنا تختہ مشق بنایا اورکثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتابیں لکھیںلیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا کہ مدافعت تو درکنار ایسی ایجادات کو بھی خلافِ اسلام قراردینے پر تُل گئے۔ خاص طورپر فوٹوگرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اورجب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فوٹو اتروائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے۔
آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایاکہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کاموجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں۔ فوٹو توایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے۔ فرمایا
’’ یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ366)
اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اوراسے اپنے لئے نشان قراردیا۔ فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعریہ تھا
آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے
ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے
ہر نئی ایجاد اورفن کو حضور نے اس شرط پر درست اورجائز قراردیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟
فرمایاکہ
’’یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کاذکر نہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے۔ اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘ (بدر24، 31دسمبر1908ء صفحہ5)
16۔ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے
جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپاہورہے تھے۔ رہن سہن اورتمدّن کی صورتیں بدل رہی تھیں۔ حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا۔ ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اورغیراقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ خریدوفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیداہوچکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں۔اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا ۔ سُود جسے اسلام نے قطعی حرام قراردیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کرگیا اورمختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارالین دین ہی سود کی بنیادپر ہورہاتھا۔ ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اورانہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا۔
بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طورپر سود لیا اوردیا جاتاتھا اوربعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہوتوشک ضرورپایاجاتا تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیاتو آپ نے فرمایا
’’ اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اورفقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیّرات ہوچکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں احمدی علماء اپنے خداداداجتہاد سے کام لیں ۔ فرمایا
’’ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)

کچھ’’ فِقہ المسیح ‘‘کے بارے میں
سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حَکَم عدل اور مامور زمانہ بناکر بھیجا اور آپؑ کے سپرد عظیم دینی مہمّات کی گئیں ۔ آپؑ کا مقام ایک عام مفتی کامقام نہیں تھابلکہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔مرورِ زمانہ سے اور فقہی مسالک کی کثرت اور باہمی تنازعات کی وجہ سے مسلمان جہاں جہاں راہِ سداد سے ہٹ چکے تھے حضور ؑ نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر اُن کو دوبارہ اُنہی اصولوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جو شریعتِ حقہ کا مقصود ہے۔آپ ؑ نے قرآن شریف ، سنت اور تعامل نیز حدیث کا حقیقی مرتبہ واضح کرتے ہوئے تمام معاملات کا اصل مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایااورفروعی معاملات میں اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دینے کی تلقین فرمائی۔بعض مسائل میں آپؑ نے ایک طریق کو اوّلیت دی مگر دوسرے رائج طریقوں کوبھی ردّ نہ فرمایا کیونکہ آپؑ کے فقہی انداز میں وسعت تھی اسی لئے آپؑ نے امتِ مسلمہ کے تعامل کو بہت اہمیت دی ۔
حضور علیہ السلام کی زندگی میں یہ دستور تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان آپؑ کی مجالس میں سوالات کرتے اور آپؑ ان کے جواب دیتے۔ اسی طرح سیر کے دوران بھی گفتگو اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا اورخطوط سے آمدہ سوالات کے جوابات بھی آپؑ لکھواتے تھے۔
عام طور پر فقہی مسائل سے متعلق سوالات کے آپؑ خود بھی جواب دیتے تھے اور کبھی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ اور حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی صاحبؓ کو بھی جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے۔ چنانچہ الحکم اور بدر میں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے فتاویٰ چھپتے وہاں بعض دفعہ ان ہر دو بزگان کے فتاویٰ بھی چھپتے تھے۔بعض دفعہ حضور ؑ کی مجلس میں سوال پوچھا جاتا اور آپؑ ان بزرگان میں سے کسی کی طرف اشارہ کرتے اور وہ جواب دے دیتے اورپھر آپ ؑ اس کی توثیق فرمادیتے۔
اس کتاب کی تیاری میں یہ بات مدّ نظر رکھی گئی ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کے فقہی مسائل کے بارہ میں جملہ ارشادات کوجمع کیا جائے بلکہ اصولِ فقہ اور شریعت کی حکمتوں پر مشتمل آپ ؑ کے ارشادات بھی اس میں شامل کئے جائیں کیونکہ حضور ؑ نے جہاں اسلام کی تعلیم کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں پیش فرمایا ہے وہاں شریعت کے احکام کا پُر حکمت ہونا اور عین فطرت کے مطابق ہونا قراردیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی جملہ کتب، مکتوبات ، اشتہارات اورملفوظات جو ساتھ ساتھ الحکم اور بدر میں چھپتے تھے ۔ اسی طرح کتب سیرت اور’’اصحاب احمد‘‘ اور صحابہ کی روایات سے مواد جمع کیا گیاہے تاکہ حضور علیہ السلام کے اصل کام کو نمایاں کیا جاسکے۔ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرکے کوشش کی گئی ہے کہ کوئی اہم حوالہ رہ نہ جائے تاہم اضافوں کی گنجائش موجود ہے۔
اس کتاب میں تمام حوالہ جات کو اصل مآخذ سے لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ملفوظات کی بجائے الحکم اور بدر سے براہِ راست حوالہ جات اخذ کئے گئے ہیں۔ الحکم یا بدر میں بعض جگہوں پر ایسی لفظی غلطیاں ملتی ہیں جن کی تصحیح ملفوظات میں کردی گئی ہے ایسی صورت میں ملفوظات کی تصحیح کے مطابق الفاظ درج کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان سے دو اخبار نکلتے تھے۔ الحکم 1897ء میں چھپنا شروع ہوا اورالبدر1902ء میں۔ ان دونوں اخباروں میں حضور علیہ السلام کے ملفوظات چھپتے تھے۔ اخبار بدر 13؍اپریل 1905ء تک البدر کے نام سے چھپتا رہا جبکہ 20؍اپریل 1905ء سے یہ بدر کے نام سے چھپنا شروع ہوا۔ حوالہ جات میں اسی کے مطابق کہیں البدر اور کہیں بدر لکھا گیا ہے۔
اس کتاب کی تدوین میں خاکسار کو بہت سے احباب کا خصوصی تعاون میسّر رہا جن کا ذکر کرنا شکرگزاری کے اظہار کے طورپر ضروری سمجھتا ہوں۔
(1) سب سے پہلے خاکسار مکرم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کا خصوصی طورپرشکر گزار ہے کہ انہوں نے ’’فقہ المسیح ‘‘ کے مسودے کو دو مرتبہ بالاستیعاب پڑھا اور انتہائی مفید مشورے دئیے۔ اہم امور پر وہ مکرم مولانا مبشراحمد صاحب کاہلوں مفتی سلسلہ سے مشورہ بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض ضروری حوالہ جات بھی مہیافرمائے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔
(2) مکرم وحیداحمد رفیق صاحب مربی سلسلہ استاد فقہ جامعہ احمدیہ کا تعاون بھی خاکسار کو مہیا رہا۔ اسی طرح جامعہ احمدیہ میں زیرِ تعلیم طلباء عزیزان حافظ فہیم احمد قریشی، محمد دانیال اورسجیل احمد شفیق نے پروف ریڈنگ کے کام میں خصوصی معاونت کی۔نیز سید عامر پرویز شاہ صاحب کارکن لائبریری جامعہ نے بھی گاہے گاہے خصوصی تعاون کیا۔
(3) اس کتاب کی کمپوز نگ اور ابتدائی سیٹنگ مکرم محمد آصف عدیم صاحب مربی سلسلہ نے پرخلوص محنت اور دلی شوق کے ساتھ کی اور آخری سیٹنگ مکرم کلیم احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ نے بڑی محبت اور لگن سے کی ۔ ہر دو مربیان سلسلہ خاکسار کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب معاونین کو اجر عظیم عطا کرے اور اس خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین
بعض بزرگان کی حوصلہ افزائی اور اس کتاب کی تدوین میں خصوصی دلچسپی پر خاکسار جذبات تشکر سے معمور ہے۔ اس فہرست میں مکرم ملک خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت، مکرم نصیر احمد صاحب چوہدری نائب ناظم دارالقضاء ربوہ ، مکرم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ، مکرم نصیر احمد صاحب قمر ایڈیشنل وکیل اشاعت لندن اور مکرم شبیر احمد صاحب ثاقب صدر شعبہ حدیث جامعہ احمدیہ ربوہ شامل ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
خاکسار
انتصاراحمدنذر مربی سلسلہ احمدیہ
صدر شعبہ فقہ جامعہ احمدیہ ربوہ
15؍ اپریل 2015ء
نمازیں جمع کرنا
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
فرمایا:۔
ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر(ستر دنوں میں تفسیر سورۃ فاتحہ لکھنے کے موقع پر۔ ناقل) ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت ـصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ497)
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
نوٹ از ایڈیٹر تشحیذ:۔ چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہو جاتی ہے۔ اس لئے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں۔ باہر تشریف نہیں لا سکتے۔ ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا جو سننے کے قابل ہے۔
فرمایا:۔
کوئی یہ نہ دل میں گمان کر لے کہ یہ روز گھر میں جمع کرکے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر نہیں جاتے ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا۔ سو چھ مہینہ تک تو باہر جمع کرواتارہاہوں ۔ اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہئے چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا ناجائز ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کر دیا۔ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرے ۔ کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہئے اور خدا تعالیٰ خود بھی سامان مہیا کر دیتاہے جیسا کہ مجھ کو بیمار کر دیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کر دے ۔ جیسا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کسریٰ کا ملک فتح ہوا۔ تو حضرت عمرؓ نے اس کو سونے کے کڑے جو لُوٹ میں آئے تھے پہنائے ۔ حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اورچیز سونے کی مردوں کے لئے ایسی ہی حرام ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں ۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لئے پوری کی گئی ۔ اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ (بدر 7جون1906ء صفحہ5)
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
سب صاحبوں کو معلوم ہو ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے ۔ میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا ۔اگرچہ خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِی اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا ا ہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔ خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خداتعالیٰ کے القاء اوراشارہ سے کرتاہوں ۔ یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود ؑاور مہدی کی ایک علامت ہے ۔ یعنی وہ ایسی دینی خدمات اورکاموں میں مصروف ہوگاکہ اس کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی ہے اورایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے نہ کہ استہزاء اورانکار کے رنگ میں۔
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ2-1)
مسیح موعودؑ کی خاطر نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
جیساکہ خداکے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ۔ ویسا ہی اُس کی رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ فرض بھی خداکی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے۔
دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔
(الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے
فرمایا:
یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علیگڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطاکی ہیں اوراُن سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے ان سب امور کی رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہیئے تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اُس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دو نمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے مگرحضرات مؤحدین توکبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیںاور بِلَا سَفَرٍ وَمَطَرٍ پر عمل درآمد رہتا ہے۔ میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اِن چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکلّی التزام نہیں کیا مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد3صفحہ25 حاشیہ)
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نورالدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) مولوی انوارحسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا۔ تو میں نے حضرت صاحب سے جاکر عرض کردی۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولًا مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ119)
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط دونوں سے بچنا چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے استفسار کیاکہ خاکسار نقش بند یہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں،میں بھی شامل رہا ہے۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے۔
حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف و موافق ہر دو فریق نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے ۔ یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔ اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں۔ فرمایا! یہ بہت بُری بات ہے۔ نماز جیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پردال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگراہلِ حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریںگے۔ فرمایا کہ کوئی ان لوگوںسے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طورپر جمع کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر اس کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ87)
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرما کر قادیان کو تشریف لے گئے۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں۔ اگر کوئی اوربھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں۔ کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہروعصر کی نماز جمع کی۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیں اور قصر کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصرکی۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ34،35)
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا ایک افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بجبیں ہوا کرتا تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے ضرورتوں کے وقت جمع صلوٰتین رکھا ہے ظہراورعصرکی نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں۔ (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ82)
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں؟
مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے۔ اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کرسکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار (نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں۔ چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشائ۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔
(نورالقرآن ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ389،390)


نماز استخارہ
استخارہ کی اہمیت
فرمایا:
آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا۔ چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں درنہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدر سومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے ۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھا ئیں۔ اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت؟
(بدر 13جون 1907ء صفحہ3)
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
حضرت اقدس ؑ نے ایک مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
آپ استخارہ کر لیویں۔استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز نفل پڑھے۔اول رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ۔ التحیات میں یہ دعا کرے۔
یا الٰہی !میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے حق میںبہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے، تو تُو اسے میرے لئے مقدر کر دے اوراسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ۔
اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خد اتعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی۔ دل بھی عجیب شے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔اس پہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا۔یہ ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔
(البدر 2جنوری 1903ء صفحہ78)
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ روایت کرتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا۔ کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا۔ استخارہ کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پید اکردیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہوجاتا ہے۔ بغیر دقتوں کے حاصل ہوجاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے ۔
عمومًا استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشا ء کیا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورًا سو رہنا چاہئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا لیکن حسبِ ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ509-508)
نماز عصر میں استخارہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دورانِ ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابو سعید نامی کو جو ابو سعید عرب کے نام سے مشہور تھے۔ لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کرلیں۔ اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اور بیت مبارک میں احباب جمع تھے۔ وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرارپائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابو سعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر لاہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے بھیجے گئے۔ اس میں کامیاب ہو کرواپس آئے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 509)
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو اِستخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ پڑھیں۔دوسری رکعت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اور اَلتَّحْیَات میں اپنے مطلب کے واسطے دعا کریں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ231 )
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام مکتوب میں حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر کیاکہ
امید کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے، اس طرف کا قصد فرماویں۔بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیّھَا الْکَافِرُوْنَپڑھیں۔ یعنی الحمدتمام پڑھنے کے بعد ملالیں۔ جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ملا لیں اور پھر التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی! میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے، اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو عواقب الامور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں۔ سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے، میری دنیا کیلئے، میرے دین کیلئے اور میرے انجام امر کیلئے اور اس میں کوئی شر نہیں۔ تو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا۔ اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دِہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے۔ اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین۔ یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے۔ تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے۔ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جاوے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا احتمال ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہو جاتا ہے اوراس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ349۔350)
استخارہ کا ایک آسان طریق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مرزا دین محمدصاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہوگئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اوربخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو اور پڑھتے پڑھتے سوجایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آکر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اورمَیں سب کو جاکر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں ساراخاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ628،629)
کھلے نشانات کو دیکھ کر استخارہ کرنا جائز نہیں
ایک شخص کا خط آیا کہ میں آپ کے متعلق استخارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں؟ فرمایا:
ایک وقت تھا کہ ہم نے خود اپنی کتاب میں استخارہ لکھا تھا کہ لوگ اس طرح سے کریں۔ تو خدا تعالیٰ ان پر حق کو کھول دے گا۔ مگراب استخاروں کی کیا ضرورت ہے جب کہ نشانات الٰہی بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہزاروں کرامات اور معجزات ظاہر ہوچکے ہیں۔ کیا ایسے وقت میں استخاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟کھلے نشانات کو دیکھ کر پھر استخارہ کرنا خدا تعالیٰ کے حضور میں گستاخی ہے ۔ کیا اب جائز ہے کہ کوئی شخص استخارہ کرے کہ اسلام کا مذہب سچا ہے یا جھوٹا اور استخارہ کرے کہ آنحضرت ﷺ خداکی طرف سے سچے نبی تھے یا نہیں تھے۔ اس قدر نشانات کے بعد استخاروں کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں۔
(بدر 2مئی1907ء صفحہ2)

نماز استسقاء
سخت گرمی پڑنے اور برسات کے نہ ہونے کا ذکر تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا:
ایسے موقع پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے۔ میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جاکر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں۔ خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعا مانگنے کا جو لطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے۔
(بدر 10 اگست 1905ء صفحہ 2)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مکرمی مفتی محمدصادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے۔ لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہوگئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ393)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب اس موقع کے بارہ میں ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی۔ یہ نماز اس بڑ کے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں گزشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑ کے نیچے اوراس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عیدبھی ہوئی تھی اور جنازے بھی اکثریہیں ہوا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ622،623)

نماز کسوف
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب اپنے بھائی کے ساتھ رمضان میں چاند گرہن لگنے کے بعد اس شوق میں قادیان آئے کہ سورج گرہن کا عظیم نشان حضرت اقدس ؑ کے ساتھ دیکھیںاورنمازِ کسوف ادا کریں۔اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں کہ
صبح حضرت اقدسؑ کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی اور قریبًا تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی۔ کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کوکسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے ۔ آپؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔حضور نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایاکہ گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گااوراس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا۔ حضور نے کئی بار اس کا ذکر کیا تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتّٰی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔ تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے ۔ سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا۔ (اصحابِ احمد جلد 1صفحہ93،94۔نیا ایڈیشن )

قصر نماز
سفر کی تعریف
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہو اکہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھراُدھر جانا پڑتا ہے۔ مَیں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا:۔
میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔
(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
سفر کی حد کیا ہے؟
سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟
فرمایا:۔
ہاں، دیکھو اپنی نیّت کو خوب دیکھ لو۔ ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ہرروز معمولی کاروبار یا سفر کے لئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیّت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عُرف میں وہ سفر کہلاتا ہو۔ دیکھو۔ یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو مِیل نِکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں۔ ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے۔ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ (اپنے دل سے فتویٰ لو۔ ) پر عمل چاہئے۔ ہزار فتویٰ ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے۔
عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں۔ بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے۔ بعض کے لئے تین چار کوس بھی سفر ہے۔ فرمایا:۔
شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا۔ صحابۂ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے۔
عرض کیا گیا۔حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصرفرماتے ہیں:۔فرمایا:۔
ہاں کیونکہ وہ سفر ہے۔ ہم تویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کرکے اسے سفر نہیں کہہ سکتا۔(بدر 23جنوری 1908ء صفحہ2)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ نماز قصر کتنی دور کے لئے کرنی چاہئے۔ فرمایا
ایک تو سفر ہوتا ہے اور ایک سیر ہوتی ہے سفر کی نیت سے اگر تین کوس جانا ہو جیسے لودھیانہ سے پھلور تو نماز قصر کرنی چاہئے ۔ یہی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا اوربعض ضعیف پیرفرتوت اور حاملہ عورتیں ہیں۔ ان کے لئے تو کوس بھر ہی سفر ہوجاتا ہے۔ ہاں سیر کے لئے تو چاہے آٹھ کوس چلا جائے تو نماز قصر نہیں ہے۔
(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 116،117)
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ؟ فرمایا:۔
جو شخص تین دن کے واسطے یہا ں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائزہے۔یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے۔ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی۔ حکام کادورہ سفر نہیں ہو سکتا ۔وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے با غ کی سیر کرتا ہے۔خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کو ئی وجودنہیں ۔اگر دوروں کی وجہ سے انسا ن قصر کر نے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہما رے پا س نہیں ہے حکا م کہاں مسافر کہلاسکتے ہیں۔سعدیؒ نے بھی کہاہے
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ ز د و خوابگاہ ساخت
(الحکم 24اپریل 1903ء صفحہ10)
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
سوال: ۔ نماز کس وقت تک قصر کی جاوے؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
جب تک سفر ہو قصر کر سکتے ہیں اوراگر کہیں ٹھہرناہواورپندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو تو بھی قصر کریں اور اگر زیادہ ٹھہرنا ہو تو پوری پڑھیں۔ (الفضل 18مارچ1916ء صفحہ15 )
ایک سفر کے موقعہ پر نماز قصر کرتے ہوئے آپ ؓنے فرمایا:۔
میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا اورگو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہوگئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہوگا۔ اس لئے میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا۔
(الفضل 25مئی1944ء صفحہ4)
چودہ دن تک قیام کے ارادہ کی صورت میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل فتویٰ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک فیصلے کا ذکر ملتا ہے ۔
(یہ فتویٰ محترم ناظر صاحب تعلیم و تربیت قادیان نے2دسمبر1937ء کو حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ سے پوچھا تھا۔)
سوال:۔سفر کے متعلق جناب حافظ صاحب مرحوم نے(حضرت حافظ روشن علیؓ صاحب مراد ہیں۔ ناقل )14 دن قیام تک قصر کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔اور حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلیفہ اولؓ سے مروی ہے کہ صرف تین دِن کے واسطے قصرہے۔ چار دن کے قصد سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے ۔ حافظ صاحب ہمارے مفتی تھے ان کے قول کا ردّہم نے نہیں پڑھا۔ ہم کس پر عمل کریں ۔ بعض کا قول ہے مفتی کا قول توڑا نہیں جاسکتا، یہ تو فتویٰ ہے۔ فرمان تو فتویٰ کے مطابق ہی ہوگا مگر نبی اور خلیفہ سے اختلاف کرتے ہوئے کیا حجت رکھتے ہیں۔ ہم بہرحال نظام کے پابند ہیں۔ مگر اس اختلاف کا کیا ازالہ ہے۔ اگر ہم سے کوئی پوچھے ہم تو مجبور ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیا۔
جواب:۔ جس طرح خلیفہ کے فیصلہ اور مفتی کے فتویٰ میں اختلاف ہو جائے تو خلیفہ کے فیصلہ پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ در حقیقت اصل مفتی خلیفہ وقت ہی ہوتا ہے اور مفتی اس کا مقرر کردہ مفتی اور افتاء میں اس کا نائب ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ اور بانی سلسلہ میں اگر لاعلمی کی وجہ سے اختلاف ہو جائے تو ترجیح بانی سلسلہ کے قول کو دی جاتی ہے۔ کیونکہ اصل وہی ہے اورخلیفہ اس کا نائب اور نائب اصل کا تابع نہ متبوع اورنہ مساوی۔ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ احمدیت سے پہلے اہلحدیث گروہوں میں شامل تھے اوراہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ تین دن کے ارادہ اقامت سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ کا احمدی ہونے کے بعد بھی یہی فتویٰ تھا لیکن جن دنوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کا لیکچر لاہورمیں ہوا تھا۔ان دنوں میں حضور کرم دین والے مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور میں رہتے تھے اور محض تبدیلی آب و ہوا کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور مسافر ہونے کی وجہ سے عمومًا نمازیں جمع کی جاتی تھیں اور قصر کی جاتی تھیں۔ غالبًا تیسرے دن لاہور کی جماعت نے حضور سے لیکچر کی درخواست کی اور
حضورؑنے منظور فرمائی ۔ بعد ازاں جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈپٹی کمشنر کے پاس اجازت لینے کے لئے اور دعوتِ شرکت دینے کے لئے گئے تو صاحب بہادر نے اجازت تو دے دی مگر کہا کہ فلاں وجہ سے میں اس اتوار کو شامل نہیں ہوسکتا اور اگر آئندہ اتوار کو ہوتا تو میں خود بھی اورسپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ضرور شامل ہوتے۔ تو خواجہ صاحب نے حضور کی خدمت میں صاحب بہادر کے جواب اور خواہش شرکت کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا تاریخِ مقدمہ دور ہے، لہٰذا ہم ٹھہر سکتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے حضور کو دس دن قیام کرنا پڑا۔ جس وقت حضور نے ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اس وقت حضور کی طبیعت علیل تھی اندرہی سے اس فیصلہ کی اطلاع دے دی تھی اور باہر تشریف نہیں لائے۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوئی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ نمازمیں نہیں آسکتا، نماز پڑھ لو۔ چنانچہ اقامت ہوئی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی اقتداء میں دو رکعتوں کے بعد کے قعدہ میں عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ تک پڑھ چکے تو صف میں سے کسی نے سبحان اللہ کہا یعنی پوری نماز پڑھو اورایک اور سلام پھیرنے کے بعد حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو کہا میاں جاکر اپنے ابا جی سے دریافت کریں کہ یہاں پر اگلے اتوار تک ٹھہرنے کے فیصلہ کے بعد ہمیں نماز پوری پڑھنی چاہئے یا کہ دو گانہ؟ چنانچہ گئے اور واپس آکر فرمایا ابا جی کہتے ہیں کہ دو رکعت ہی پڑھیں، ہم نے کوئی پندرہ دن ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا۔ چنانچہ اسی وقت عصر کی نماز جمع کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھی گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس فیصلہ کے بعد سلسلہ احمدیہ میں یہی فتویٰ قائم ہوگیا کہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کے ارادہ سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے اور اس سے کم ارادہ کے قیام سے مسافر ہی رہتا ہے۔
(دستخط حضرت سیدمحمد سرور شا ہ صاحب مفتی سلسلہ فتویٰ نمبر 55/2-12-1937منقول از رجسٹر فتاویٰ دارالافتاء ربوہ)
ملازمت پیشہ دورانِ سفر قصر نہ کرے
ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں ؟
فرمایا: جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے وہ اسی بات کا ملازم ہے۔ وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلاسکتا۔ اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
ایک صاحب محمد سعیدالدین کا ایک سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفرکرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز قصر کیا کریں۔ فرمایا:۔
سفر تو وہ ہے جو ضرورتًا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے۔ یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گذار دے۔
(بدر28مارچ 1907ء صفحہ4)
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
آج ظہر اور عصر کی نمازجمع کرکے حضرت اقدس گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ صاحبزادہ میاں بشیرالدین محمودبھی تھے۔ سٹیشن کے قریب جو سرائے تھی۔ اس میں حضور علیہ السلام نے نزول فرمایا۔ مغرب اورعشاء کی نمازیں یہاں جمع کر کے پڑھی گئیں۔ (البدر 28اگست 1903ء صفحہ250)
مقیم پوری نماز ادا کرے
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کرکے ادا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔ جماعت دو رکعت ادا کرتی، لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکعت بعد از جماعت ادا کرلیتے۔ ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کرکہ ڈاکٹر صاحب نے ابھی دورکعت ادا کرنی ہے۔ فرمایاکہ:۔
’’ ٹھہر جاؤ۔ ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کرلیویں۔‘‘
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ ایسی حالتِ جمع میں سنّت اور نوافل نہیں اداکئے جاتے۔ (البدر یکم اگست 1904ء صفحہ4)
سفر میں قصر کی حدّ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا۔ حضور نے فرمایا۔ جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو۔ بس اس میں قصر ہونا چاہئے ۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شر ط ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں۔ کیا اس وقت نماز قصر کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں۔ بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے ننگل جائے تو وہ بھی قصر کرسکتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیکھواں قادیان سے غالبًا چار میل کے فاصلہ پر ہے اور ننگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے۔ ننگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے ۔ اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی ننگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز ہوجائے گا۔ یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف ننگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہوجاتا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ننگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قراردیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے۔ واللہ اعلم ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ551،552)
قصرنماز کا تعلق صرف خوف کے ساتھ نہیں بلکہ ہر سفر کے ساتھ ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ مَیں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میں قصر نماز عام حالات میں جائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائز ہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپور میں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا۔ حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اورمولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے۔ مگر ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں۔ میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گا۔ بلکہ پوری پڑھوں گاتا اس مسئلہ کا کچھ فیصلہ ہو۔ قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کرکے ہاتھ اُٹھائے کہ قصر نہیں کروں گا۔ حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے۔ آپ نے فورًا قدم آگے بڑھاکر میرے کان کے پاس منہ کرکے فرمایا قاضی صاحب دو ہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا۔ بس اس وقت سے ہمارا مسئلہ حل ہوگیا اور میں نے اپنا خیال ترک کردیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ24،25)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاطریقِ نماز
حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب تحریر کرتے ہیں:۔
شروع میں جب قادیان میں نماز کے وقت تین چار آدمی سے زیادہ نہ ہُوا کرتے تھے۔ مسجد مبارک میں حافظ معین الدین صاحب مرحوم اور مسجد اقصیٰ میں میاں جان محمد صاحب کشمیری نماز کے پیش امام ہوا کرتے تھے۔ سنا گیا ہے کہ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی نماز میں پیش امام ہوتے تھے مگر یہ میرے یہاں آجانے سے قبل ہوا۔ زِندگی کے آخری سالوں میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عمومًا باہر تشریف نہ لاسکتے تھے۔ اس وقت اندر عورتوں میں نماز مغرب اورعشاء جمع کرکے پڑھایا کرتے تھے۔ حضورؑ امامت کے وقت بسم اللہ بالجہر نہ پڑھا کرتے تھے اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے۔ مگر ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے۔ اور تشہد میں سبابہ کی انگلی اُٹھاتے تھے۔ باقی نماز ظاہری طریق میں حنفیوں کے طرز پر ہوتی تھی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم ہمیشہ نماز میں بسم اللہ بالجہر پڑھتے تھے اور آخری رکعت میں بعد رکوع کھڑے ہوکر بآواز بلند دعائیں (قنوت) کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اوردیگر بزرگانِ دین نے سالہا سال حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بعض اصحاب جیسا کہ صُوفی غلام محمد ؐ صاحب واعظ ماریشس ابتک یہی رویّہ رکھتے ہیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ24)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کردیا اورجب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اورلمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا حجرہ تھا۔ جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا۔ امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے۔ بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوار اڑا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کردیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ270، 271)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔ مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ الّا ماشاء اللہ اورجنازوں کی نماز عمومًا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود پڑھاتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ440)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عمومًا گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عمومًا خفیف پڑھتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ4،5)

حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں
ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقعہ ملا۔ جمعہ کی نماز غالبًا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے پڑھائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر کے قریب بیٹھ گئے۔ میں بھی موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اس طرح سینہ پر ہاتھ باندھے کہ انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں۔ آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی۔ جب آپ قعدے میں ہوتے تو دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند رکھتے اور جب کلمۂ شہادت پڑھتے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرتے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔آپ آمین بالجہر کرتے تھے۔
اسی دن دوسری بات یہ پیش آئی کہ جب نماز جمعہ پڑھ چکے غالبًا موسم اچھا نہیں تھا۔ یا اور کوئی بات تھی ۔ تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے دریافت فرمایا۔آپ نے کیا جواب دیا۔ وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز جمع کرکے پڑھ لو۔ چنانچہ وہ دونوں نمازیں جمع کرکے ادا کی گئیں۔
(روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی ؓ اصحاب احمد جلد3صفحہ192،193)
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز باجماعت کے علاوہ سنن و نوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے۔ پہلی سنتیں عمومًا گھر سے پڑھ کرتشریف لاتے اورپچھلی سنتیں گھر میں تشریف لے جاکر ادا فرماتے تھے۔ البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشاء کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے۔ حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے۔ دوسنت ادافرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوارکر پڑھی جاتی تھیں۔ کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی۔ بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی۔
ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نماز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی۔ چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لئے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں۔
حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔اورنہ ہی آمین بالجہر کرتے سنا۔ تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیا کرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو اکڑا یا یا پھرایا ہو۔ صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عمومًا ایک ہی مرتبہ اوربعض اوقات دومرتبہ بھی ہوتا تھا۔ جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے۔
حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے۔ زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نے کبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔
حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہوا تھا۔ نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ عمومًا مولوی صاحب موصوف ہی پڑھایا کرتے تھے اور شاذونادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے اورکبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی پڑھاتے تھے۔ ایک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی۔ مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اورمسجد مبارک میں بھی۔ مگر دونوں جگہ امام الصلوٰۃ حضور نہ ہوتے تھے ۔ عیدین کی نماز بھی سوائے شاذ کے حضو ر خود نہ پڑھاتے تھے۔ نماز جنازہ عمومًا حضورخود پڑھاتے تھے۔ اور حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں۔
(روایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اصحاب احمد جلد9صفحہ155، 156نیا ایڈیشن )
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
حضرت سید محمدسرورشاہ صاحبؓ نے ایک روایت میں حضرت مسیح موعودؑ کی نماز کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں :۔
یہاں پر میں اس قدر بیان کروں گا کہ خدا کا برگزیدہ اس عبادت کو اس طریق پر ادا کرتا ہے تاکہ یہ طریق عقل مندوں کے نزدیک اثبات کے لئے کافی اور رفع نزاع کے لئے وافی ہو اوربجائے اس کے کہ میں ہر ایک مسئلہ کے ساتھ یہ لکھوں کہ حضرت اقدس ؑکا یہی معمول بِھا ہے۔ ابتداء ہی میں مَیں یہ بتا دیتا ہوں کہ صلوٰۃ کی جو کیفیت میں یہاں پر لکھوں گا وہ حضرت اقدس ؑ کے عمل کے مطابق ہوگی۔
اور وہ یہ ہے کہ جب صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رُخ کرکے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہوجاتی ہیں اورپھردونوں کو نیچے لاکر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اورعمومًا ایسا ہوتا ہے کہ داہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اورکنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف اوپر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹاکر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
ہاتھ باندھ کر سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ۔۔۔۔یا اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّیْ الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ۔۔۔۔۔ (اس کے بعد اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (تا) وَلَا الضَّآلِّیْنَ ۔ آمین پڑھنے کا ذکر کرکے لکھتے ہیں۔ مؤلف ) اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جو اِھْدِنَا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اوربعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے۔ غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعائیں بڑی عاجزی و زاری اورتوجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اوردونوں بازوؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اورپیٹھ اورسرکو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ۔۔۔۔ یا سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔۔ تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ۔۔۔۔۔کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اورکھڑے کھڑے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًامُبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی یا اس کے سوا اورکوئی ماثور کلمات کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹنے اورپھر ہاتھ اورپھر ناک اورپیشانی یا پہلے ہاتھ اورپھر گھٹنے اورپھر ناک اورپھر پیشانی اورپھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔۔۔۔ یا سُبحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاوَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے ۔ لہٰذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کرکے اوردونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں۔ ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سراُٹھاکر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طور پر کہ داہناں پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اورا پنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْفَعْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْزُقْنِیْ ۔۔۔۔ یا اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ تین دفعہ پڑھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں وہی کچھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبْحَانَکَ اللّٰہُ اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے بعینہٖ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں اوردونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں ۔ ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طورپر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں ۔ دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اوردرمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اوران دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اورپھراَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اُٹھاکر اشارہ کرتے ہیں اورپھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی) وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔۔۔۔
پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اورپھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اورپھر ان کو ختم کرکے اخیر میں پھر اسی طریق سے یاداہنے پاؤں کو کھڑا کرکے اوربائیں پاؤں کو داہنے کی طرف نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی اَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں اَلتَّحِیَّاتمذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔۔۔اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اورضرورمانگتے ہیں اس کے بعد داہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔۔۔۔ اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیںاَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔
پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اوراَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ پرختم ہوجاتی ہے یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اوررات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ اوران کے مذکورہ بالاخدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہئے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے۔ (یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اُٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اُٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اُٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اُٹھاتے ہیں ) اوراختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اُٹھاتے اورحضرت مسیح موعود ؑاور ان کے مذکورہ بالاخدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے۔ ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔
امام ہمام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کا عمل درآمد(جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لئے حجّت قاطعہ ہے اور حجّت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقل مند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اورنہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود اپنی جماعت کو سخت تاکید فرماتے ہیں کہ وہ کسی غیر احمدی کے پیچھے صلوٰۃ ادا نہ کریں۔۔۔۔۔۔ (اصحاب احمد جلد5صفحہ542تا545نیا ایڈیشن )

نماز جمعہ اور عید
جمعہ کا اہتمام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ61)
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے۔ عام طورپر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سُنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ258)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدْ ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ804)
جمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنے کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں: ۔
بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر جمعہ کی نماز سے قبل دو رکعت پڑھیں لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے گو بخاری و مسلم نے چار سنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ظہر کی جماعت سے پہلے ہمیشہ چار سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ میں بھی چار ہی پڑھتا ہوں کیونکہ اللہ نے طاقت دی ہے تو کیوں نہ پڑھیں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو میں نے سینکڑوں دفعہ دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے ۔آپ ظہر سے پہلے ہمیشہ دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے۔دراصل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ دو رکعت ہماری ہزاروں رکعتوں کے برابر تھیں۔گویاحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حدیث سے جو اقل سنتیں ثابت ہیں وہی پڑھی ہیں تاکہ باقی وقت آپ تبلیغِ اسلام میں صرف کریں۔
(الفضل 10دسمبر1929ء صفحہ7)
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟
مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایاتو انہوں نے عرض کیا کہ دوسے جماعت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے فرمایا
ہاں پڑھ لیا کریں۔ فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کرکے تعداد پوری کر سکتا ہے۔ (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کرکے نماز جمعہ ادا کی جائے۔
حضرت نے فرمایا ’’ جائز ہے۔ ‘‘ (بدر 5ستمبر1907ء صفحہ3)
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھاکہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
جمعہ کے لئے جماعت کاہونا ضروری ہے ۔ اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں۔ وَاِلَّا نہ(سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں۔ ) (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ83 )
اپنا جمعہ الگ پڑھو
سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرا لینے کا اختیار قانونًایا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو جُمعے جائز نہیں ہوسکتے۔
فرمایا:۔
جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہرحال تمہاری اذان اورتمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہوچکے ہیں۔ اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے۔ تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپناجمعہ پڑھو۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
ایک شخص کاسوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا:۔
قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نماز سب مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اب اپنے کاروبار کرو۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا پھر کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں۔ اس واسطے ظُہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے۔ ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں ۔ ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی۔ نہ یہ حاصل ہوا اور نہ وہ ۔ اصل بات یہ ہے کہ نما ز جمعہ پڑھو اوراحتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بدر 6جون1907ء صفحہ8)
اہلِ اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعداس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو۔ ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہے۔ اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیّت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ مَیں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیّت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی؟
(البدر مؤرخہ 11ستمبر1903ء صفحہ366)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’ احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے۔ جُمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں۔ احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں۔ ‘‘
فرمایا:’’ لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکّے موحّد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی ۔ مَیں نے ناراض ہوکر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم تو بڑے پکّے موحّد تھے۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے جُمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی، بلکہ مَیں نے مار کھانے کی احتیاطی پڑھی ہے۔‘‘ (الحکم 10؍اگست 1901ء صفحہ7 )
حضرت مفتی محمدصادق ؓصاحب روایت کرتے ہیں کہ شروع زمانہ میں جبکہ احمدیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ۱۸۹۳ء یا اِس کے قریب کا واقعہ ہے ایک غریب احمدی کسی گاؤں کی مسجد میں بطورِ درویش کے رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی قادیان آتا تھا۔ اُس نے عرض کی کہ جمعہ کے دِن لوگ دو رکعت نماز جمعہ پڑھتے ہیں اوراس کے علاوہ چار رکعت نماز ظہر بھی پڑھتے ہیں۔ اس کا نام اِحتیاطی رکھتے ہیں۔ اِس کا کیا حُکم ہے۔ فرمایا
نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ جو لوگ شُبہ میں ہیں اُن کا جمعہ اور ظہر اور ہر دوشبہ میں گئے، نہ یہ ہوا نہ وہ ہوا۔ احتیاطی ایک فضول بات ہے مگر تم غریب اورکمزور آدمی ہو تم اِس نیّت کی احتیاطی پڑھ لیا کرو کہ کوئی شخص ناحق ناراض ہوکر تمہیں مارنے نہ لگ جائے۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ40،41)
جمعہ دو جگہوں پر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اورخود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروادیا۔ چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے۔ حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عمومًا لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اورمولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے۔ بعد میں جب حضرت کی طبیعت عمومًا ناساز رہتی تھی۔ مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا ۔ عید کی نماز میں عمومًا مولوی عبدالکریم صاحب اوران کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعو د ؑ جب آپ شریک نمازہوں خود پڑھایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ148)
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ۔ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام صلوٰۃ مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی سیّد سرورشاہ صاحب ہوتے تھے اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اولؓ امام ہوتے تھے ۔ دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عمومًا مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا۔ واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے ۔ جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی۔ ان ایام میں مسجد مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ588،589)
حضرت مصلح موعودؓ اسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
بعض حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک ہی وقت میں مسجد مبارک میں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جاتی تھی اورمسجد اقصیٰ میں بھی اور یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے۔ (روزنامہ الفضل 18ستمبر1930ء صفحہ5)
سفر میں نمازِ جمعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقعہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں۔
ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓیوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے۔ ان صاحب نے خیال کیا کہ شائدجمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں۔ اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں آتا ہوگا مگر ہم تو سفر پر ہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہوجائے ۔ تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوسفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اورچھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھاکر تاہوں اورمیری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طورپر ہیں۔ (الفضل 24؍جنوری1942 صفحہ1)
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
۹۶،۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی تھی کہ سرکاری دفاتر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کے ادا کرنے کے واسطے جمعہ کے دن دو گھنٹہ کے لئے رُخصت ہوا کرے۔ اِس کے لئے حضرت صاحبؑ نے ایک میموریل لکھا۔ جس پر مسلمانوں کے دستخط ہونے شروع ہوئے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ یہ کام تو اچھّا ہے۔ لیکن مرزا صاحب ؑ کو یہ کام نہیں کرناچاہئے۔ ہم خود اِس کام کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بذریعہ اعلان مشتہر کردیا کہ ہماری غرض نام سے نہیں بلکہ کام سے ہے۔ اگر مولوی صاحب اس کام کو سرانجام دیتے ہیں تو ہم اس کے متعلق اپنی کارروائی کو بند کردیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ نے اپنی کارروائی بند کردی مگر افسوس ہے مولوی محمد حسین صاحب یا کسی دوسرے مسلمان عالم نے اِس کے متعلق کچھ کارروائی نہ کی اور یہ کام اسی طرح درمیان میں رہ گیا۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 42،43)
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کے لئے متعدد کوششیں کیں۔اس غرض کے لئے آپ نے وائسرائے ہندلارڈ کرزن کی خدمت میں میموریل بھی بھیجااور اُن کی سلطنت کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے تحریرفرمایاکہ
یہ سلطنت اسلام کے لئے درحقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈکرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانااورنیزاپنی طرف سے لاہور کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لالٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا۔ ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکرگزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مُرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنابھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہوگی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کو تعطیل کا دِن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعۃ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کاہر ایک کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہوجاؤ اورنماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہواور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔ اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اوراس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اوراس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو، عیسائی، مسلمان۔ہندوؤں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیںجس کی تعطیل عام طورپر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں۔برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں توپھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ ،یہ امر بھی انہی ہاتھوں سے انجام پذیر ہوگا۔ مسجد تو مثل دسترخوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے۔ تمام مساجدکی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیاہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دسترخوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں۔ ایسی دعوت تو ناقص ہے اورامید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اوراگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرماوے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کرسکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پاسکیں۔ یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گااور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طورپر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسااحسان ہوگا کہ جوآبِ زر سے لکھنے کے لائق ہوگا۔۔۔۔۔ اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہوسکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہوتو اس کی کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے ۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اوریہی مسلمانوں کو توقع ہے۔
(الحکم 24جنوری 1903ء صفحہ6-5)
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے۔میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا ۔ حضور ؑنے فرمایا: کوئی رکوع پڑھ کر اوربیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ ، عبدالحق اکاؤنٹنٹ اورحافظ محمد یوسف سب اوور سیئر تینوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مرید تھے۔ یہ بہت آیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا موقعہ ہوا ہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ29)
قضاء عمری
ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شے ہے جو کہ لوگ (عیدالاضحی ) کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ فرمایا:۔
میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں۔ ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کودیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ مَیں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔ أَرَأَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق :10-11) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔نماز جو رہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے۔
اورجوشخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا عمری والے دن اداکرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جوشخص نادم ہوکر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تواس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں۔ (البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114 )
ایک شخص نے سوال کیاکہ میں چھ ماہ تک تارکِ صلوٰۃ تھا۔اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا
نماز کی قضا ء نہیں ہوتی۔اب اس کا علاج توبہ ہی کافی ہے ۔
(بدر 24تا31دسمبر1908ء صفحہ5)
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنّت اورحدیث سے ثابت ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کرسکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کردیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (البدر 11ستمبر1903ء صفحہ366)
قادیان میں عیدالفطر
اخبار البدر قادیان نے عیدالفطر کی تقریبِ سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لنگرخانہ میں نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے تناول فرمائے۔مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک دو ماسٹروں نے مدرسہ کے مکین اور یتیم طلباء کے واسطے صدقہ فطر جمع کیا جو کہ عید کی نماز سے پیشتر ہی ہر ایک مومن کو ادا کردینا چاہئے۔ گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِسادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑدوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی اورعید کی مبارک باد دی۔ اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نمازعید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستوراپنے ہاتھ اُٹھائے۔
(البدر 9جنوری 1903ء صفحہ85 )
عیدین کی تکبیرات
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمد کی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ۔
مجھے خوب یاد ہے نماز عیدین تو حضرت خلیفہ اولؓ ہی پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بڑ کے درخت کے نیچے جاکر فرمایاکہ ہمیشہ تو مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے ہیں۔ آج سید محمد احسن صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نما ز پڑھادیں اور خطبہ بھی یہی پڑھادیں۔ میں نے یہ بات خلیفہ اولؓ سے کہہ دی، انہوں نے فرمایا کہ بہتر ہے۔ پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (امروہی) آج تم نماز پڑھاؤ۔ پس مولوی صاحب نے نماز پڑھائی۔ نماز سے پہلے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بخاری میں اول رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری میں پانچ تکبیریں بھی آئی ہیں ۔ ارشاد ہو تو کروں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے، بے شک اب ایسا ہی کرو۔ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح سے عید کی نماز پڑھی جاتی تھی جیسے کہ حنفی تین تکبیریں کہتے ہیں۔ مگر اس سال سے سات اور پانچ تکبیریں عام رائج ہوگئیں۔ ( الحکم مورخہ 14تا21مئی 1919صفحہ6)
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسبِ معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس ؑ نے دیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ367)
مساجد
مساجد کیسی ہوں
فرمایا:۔
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض لِلّٰہِ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی شرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خدابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اورپکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھااپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے ور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
(البدر 24؍اگست 1904ء صفحہ8 )
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حِصّہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا
’’ ہاں، ملا لیا جاوے۔ ‘‘ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ11 )
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکًا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوںمیں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں۔ یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصٰی ہے وہ سب سے مقدم ہے۔ اب لوگوں کو چاہئے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں۔ ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے۔
حضرت امام ابو حنیفہؓ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں۔ آپ بھی اِس میں کچھ چندہ دیں۔ انہوں نے عذر کیا کہ مَیں اس میں کچھ نہیں دے سکتا۔ حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبرکًا کچھ دے دیجئے۔ آخر انہوں نے ایک دَوَنی کے قریب سکہ دیا۔ شام کے وقت وہ شخص دَوَنی لے کر واپس آیا اورکہنے لگا کہ حضرت! یہ تو کھوٹی نِکلی ہے۔ وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا۔ دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ مَیں کچھ دوں ۔ مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے۔ (الحکم 24مئی 1901ء صفحہ9)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقہ احمدیہ کے مآخذ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔
(1) سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے۔۔۔۔۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ26)
قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ209)
(عربی سے ترجمہ)خدا کا کلام لفظًا لفظًا تواتر سے ثابت ہے ۔ وہ وحی متلوقطعی اور یقینی ہے اوراس کی قطعیت میں شک کرنے والا ہمارے نزدیک کافر مردود اور فاسق ہے اور یہ صرف قرآن کریم کی ہی صفت ہے اوراس کا مرتبہ ہر کتاب اورہر وحی سے بلند ہے۔
(تحفۂ بغداد۔ روحانی خزائن جلد7صفحہ31)
(2) دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے ۔یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سَو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے۔ خدا اور رسول کی ذمہ واری کا فرض صرف دو امرپر تھے اوروہ یہ کہ خدا تعالیٰ قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کے کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے۔
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210)
سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہرہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اورسُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طورپر اس قول کی تفسیر کردیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210-209)
(3) تیسراذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اِسلام کے تاریخی اوراخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سُنّت کی خادم ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
سُنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سُنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اورجس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔۔۔۔۔پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210،211)
(مندرجہ بالا تین رہنما محکم اصولوں کے بعد جن پر تمام شریعتِ حقّہ کی بنیاد ہے اگر کوئی مسئلہ حل طلب رہ جائے یا اس کے حل میں مزید روشنی اورراہنمائی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجائے تو ان مسائل کے حل کے لئے جماعت کے مجتہدین اور راسخین فی العلم کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حسبِ ذیل ہدایت ہے۔)
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالفِ قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو، اس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کوترجیح دیں اوراگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیَاتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ (الجاثیہ:7) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لائو گے۔ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ(الاعراف:186) ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں۔ سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرطی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ11،12)
قولی، فعلی اور تقریری احادیث کے لئے بھی مِحَک قرآن کریم ہے
جو امر قول یا فعل یا تقریر کے طور پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے اور دیکھیں گے کہ حسب آیہ شریفہفَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں۔ اگر مخالف نہیں ہوگی تو ہم بسر و چشم اس کو قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری پوری کوشش کے اس امر تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہوگی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کردیں گے۔ کیونکہ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے پایہ اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ12)
احادیث صرف مفید ظن ہیں
حدیثیں غایت کار ظنی ہیں اور جب کہ وہ مفید ظن ہیں تو ہم کیونکر روایت کی رو سے بھی ان کو وہ مرتبہ دے سکتے ہیں جو قرآن کریم کا مرتبہ ہے۔ جس طور سے حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس طریق پر ہی نظر ڈالنے سے ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ ہم اس یقین کے ساتھ انکی صحت روایت پر ایمان لاویں کہ جو قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں مثلاً اگر کوئی حدیث بخاری یامسلم کی ہے لیکن قرآن کریم کے کھلے کھلے منشاء سے برخلاف ہے تو کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہم اسکی مخالفت کی حالت میں قرآن کریم کو اپنے ثبوت میں مقدم قرار دیں؟ پس آپ کا یہ کہنا کہ احادیث اصول روایت کی رو سے ماننے کے لائق ہیں، یہ ایک دھوکا دینے والا قول ہے کیونکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حدیث کے ماننے میں جو مرتبہ یقین کا ہمیں حاصل ہے وہ مرتبہ قرآن کریم کے ثبوت سے ہموزن ہے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مرتبہ ثبوت کا قرآن کریم کے مرتبہ ثبوت سے ہم وزن ہے تو بلاشبہ ہمیں اسی پایہ پر حدیث کو مان لینا چاہئے مگر یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے کہ اکثر احادیث مفید ظن ہیں۔ وَالظَّنُّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ14)
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
آپ خود مانتے ہیں (مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں)کہ حدیثیں اپنے روایتی ثبوت کی رو سے اعلیٰ مرتبہ ثبوت سے گری ہوئی ہیں اور غایت کار مفید ظن ہیں تو آپ اس بات پر کیوں زور دیتے ہیں کہ اسی مرتبہ یقین پر انہیں مان لینا چاہئے جس مرتبہ پر قرآن کریم مانا جاتا ہے۔ پس صحیح اور سچا طریق تو یہی ہے کہ جیسے حدیثیں صرف ظن کے مرتبہ تک ہیں بجز چند حدیثوں کے۔ تو اسی طرح ہمیں ان کی نسبت ظن کی حد تک ہی ایمان رکھنا چاہئے ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
آپ خود اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ چکے ہیں کہ احادیث کی نسبت بعض اکابر کا یہ مذہب ہوا ہے۔ ’’کہ ایک ملہم شخص ایک صحیح حدیث کو بالہام الٰہی موضوع ٹھہرا سکتا ہے اور ایک موضوع حدیث کو بالہام الٰہی صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔‘‘ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب کہ یہ حال ہے کہ کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی بذریعہ کشف کے موضوع ٹھہر سکتی ہے تو پھر کیونکر ہم ایسی حدیثوں کو ہم پایہ قرآن کریم مان لیں گے ؟ ہاں یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ ظنی طور پر بخاری اور مسلم کی حدیثیں بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہیں اور غالباً اکثر ان میں صحیح ہوں گی۔ لیکن کیونکر ہم اس بات پر حلف اٹھا سکتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ساری حدیثیں صحیح ہیں جب کہ وہ صرف ظنی طور پر صحیح ہیں نہ یقینی طور پر تو پھر یقینی طور پر ان کا صحیح ہونا کیونکر مان سکتے ہیں!
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر ہی ہے
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی بلکہ جس طریق سے انہوں نے حدیثوں کو جمع کیا ہے اس طریق پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ طریق ظنی ہے اور ان کی نسبت یقین کا ادّعا کرنا ادّعائے باطل ہے۔ دنیا میں جو اس قدر مخالف فرقے اہل اسلام میں ہیں خاص کر مذاہب اربعہ ان چاروں مذہبوںکے اماموں نے اپنے عملی طریق سے خود گواہی دے دی ہے کہ یہ احادیث ظنی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اکثر حدیثیں ان کو ملی ہوں گی مگر ان کی رائے میں وہ حدیثیں صحیح نہیں تھیں۔ بھلا آپ فرماویں کہ اگر کوئی شخص بخاری کی کسی حدیث سے انکار کرے کہ یہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ اکثر مقلدین انکار کرتے ہیں تو کیا وہ شخص آپ کے نزدیک کافر ہوجائے گا؟ پھر جس حالت میں وہ کافر نہیں ہوسکتا تو آپ کیونکر ان حدیثوں کو روایتی ثبوت کے رو سے یقینی ٹھہرا سکتے ہیں؟ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ16-15)
پہلے ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
جس کو خداتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الٰہی سے وہ مشرف ہوجاوے اور اس پر ظاہر کردیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے۔ اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہوسکے تو بدرجہ ناچاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں۔ لیکن یہ سراسر الحاد اور کفر ہوگا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا ان میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّاسمہٗ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ اُن کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آ ہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کردیتا ہے اَب میں اِس خداداد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں! (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21)
بخاری اور مسلم محدّثین کا اجتہاد ہے
آپ کا سوال(مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ناقل) جو اس تحریر اور پہلی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ احادیث کتب حدیث خصوصاً صحیح بخاری و صحیح مسلم صحیح و واجب العمل ہیں یا غیر صحیح و ناقابل عمل اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے منہ سے یہ کہلانا چاہتے ہیں کہ میں اس بات کا اقرار کروں کہ یہ سب کتابیں صحیح اور واجب العمل ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو غالباً آپ خوش ہوجائیں گے اور فرمائیں گے کہ اب میرے سوال کا جواب پورا پورا آگیا۔ لیکن میں سوچ میں ہوں کہ میں کِس شرعی قاعدہ کے رو سے ان تمام حدیثوں کو بغیر تحقیق و تفتیش کے واجب العمل یا صحیح قرار دے سکتا ہوں ؟ طریق تقویٰ یہ ہے کہ جب تک فراست کاملہ اور بصیرت صحیحہ حاصل نہ ہو تب تک کسی چیز کے ثبوت یا عدم ثبوت کی نسبت حکم نافذ نہ کیا جاوے اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 37)سو اگر میں دلیری کر کے اس معاملہ میں دخل دوں اور یہ کہوں کہ میرے نزدیک جو کچھ محدثین خصوصاً امامین بخاری اور مسلم نے تنقید احادیث میں تحقیق کی ہے اور جس قدر احادیث وہ اپنی صحیحوںمیں لائے ہیں وہ بلاشبہ بغیر حاجت کسی آزمائش کے صحیح ہیں تو میرا ایسا کہنا کن شرعی وجوہات و دلائل پر مبنی ہوگا؟ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام ائمہ حدیثوں کے جمع کرنے میں ایک قسم کا اجتہاد کام میں لائے ہیں اور مجتہد کبھی مصیب اور کبھی مخطیبھی ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے بھائی مسلمان موحدین نے کس قانون قطعی اور یقینی کی رو سے ان تمام احادیث کو واجب العمل ٹھہرایا ہے؟ تو میرے اندر سے نور قلب یہی شہادت دیتا ہے کہ صرف یہی اک وجہ ان کے واجب العمل ہونے کی پائی جاتی ہے کہ یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ علاوہ اس خاص تحقیق کے جو تنقید احادیث میں ائمہ حدیث نے کی ہے۔ وہ حدیثیں قرآن کریم کی کسی آیہ محکمہ اور بیّنہ سے منافی اور متغائر نہیں ہیں اور نیز اکثر احادیث جو احکام شرعی کے متعلق ہیں تعامل کے سلسلہ سے قطعیت اور یقین تام کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔ورنہ اگر ان دونوں وجوہ سے قطع نظر کی جائے تو پھر کوئی وجہ ان کے یقینی الثبوت ہونے کی معلوم نہیں ہوتی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ18،19)
کیا بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہوجانے کی دلیل قابلِ قبول ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کے یقینی الثبوت ہونے کی ایک یہ وجہ پیش کی جائے گی کہ اس پر اجماع ہو گیا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا’’ آپ ہی ریویو براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۳۰ میں اجماع کی نسبت لکھ چکے ہیں کہ اجماع اتفاقی دلیل نہیں ہے‘‘ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
اجماع میں اولاً یہ اختلاف ہے کہ یہ ممکن یعنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بعضے اس کے امکان کو ہی نہیں مانتے۔ پھر ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا علم ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک جماعت امکان علم کے بھی منکر ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے کتاب محصول میں یہ اختلاف بیان کر کے فرمایا ہیکہ انصاف یہی ہے کہ بجز اجماع زمانہ صحابہ جب کہ مومنین اہل اجماع بہت تھوڑے تھے اور ان سب کی معرفت تفصیلی ممکن تھی اور زمانہ کے اجماعوں کے حصول علم کی کوئی سبیل نہیں۔
اسی کے مطابق کتاب حصول المامول میں ہے جو کتاب ارشاد الفحول شوکانی سے ملخص ہے اس میں کہا۔ ’’جو یہ دعویٰ کرے کہ ناقل اجماع ان سب علماء دنیا کی جو اجماع میں معتبر ہیں معرفت پر قادر ہے وہ اس دعویٰ میں حد سے نکل گیا اور جو کچھ اس نے کہا اٹکل سے کہا۔‘‘ خدا امام احمد حنبل پر رحم کرے کہ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ جو دعویٰ اجماع کا مدعی ہے وہ جھوٹا ہے۔ فقط۔
اب میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی نسبت جو اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دعویٰ کیونکر راستی کے رنگ سے رنگین سمجھ سکیں؟ حالانکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ کے بعد کوئی اجماع حجت نہیں ہوسکتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ19،20)
بخاری اور مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
بہت سے فرقے مسلمانوں کے بخاری اور مسلم کی اکثر حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر جب کہ ان حدیثوں کا یہ حال ہے تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بغیر کسی شرط کے وہ تمام حدیثیں واجب العمل اور قطعی الصحت ہیں ؟ ایسا خیال کرنے میں دلیل شرعی کونسی ہے؟ کیا کوئی قرآن کریم میں ایسی آیت پائی جاتی ہے کہ تم نے بخاری اور مسلم کو قطعی الثبوت سمجھنا؟ اور اس کی کسی حدیث کی نسبت اعتراض نہ کرنا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی کوئی وصیت تحریری موجود ہے جس میں ان کتابوں کو بلالحاظ کسی شرط اور بغیر توسط محک کلام الٰہی کے واجب العمل ٹھہرایا گیا ہو؟ جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ20،21)
کیا بخاری اور مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے؟
یہ بات جو آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) مجھ سے دریافت فرمائی ہے کہ اب تک کسی حدیث بخاری یا مسلم کو میں نے موضوع قرار دیا ہے یا نہیں۔ سو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب میں کسی حدیث بخاری یا مسلم کو ابھی تک موضوع قرار نہیں دیا۔ بلکہ اگر کسی حدیث کو میں نے قرآن کریم سے مخالف پایا ہے تو خداتعالیٰ نے تاویل کا باب میرے پر کھول دیا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21،22)
صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
اور آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) یہ سوال جو مجھ سے کیا ہے کہ صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین سے آپ کاکون امام ہے۔ میری اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ اس بات کا بار ثبوت میرے ذمہ نہیں۔ بلکہ میں تو ہر ایک ایسے شخص کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے خواہ وہ گذر چکا ہے یا موجود ہے اسی اعتقاد کا پابند جانتا ہوں کہ وہ احادیث کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم کو میزان اور معیار اور محک سمجھتا ہوگا کیونکہ جس حالت میں قرآن کریم خود یہ منصب اپنے لئے تجویز فرماتا ہے اور کہتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ (الاعراف:186) اور فرماتا ہے قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْھُدٰی (البقرہ:121) اور فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا (آل عمران:104) اور فرماتا ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ:186)اور فرماتا ہے اَنْزَلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ (الشوریٰ:118) اور فرماتا ہے۔اِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق:14) لَا رَیبَ فِیْہِ (البقرہ:3) تو پھر اس کے بعد کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حَکَم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حَکَم ہے اور قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کیلئے فرقان ہے اور میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہوگی کہ ہم خداتعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لائیں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوٰۃ وحی سے نور حاصل کرنیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ22)
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام ہے
(مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ) صاف تسلیم کر آئے ہیں کہ الہام ملہم کیلئے حجت شرعی کے قائم مقام ہوتا ہے علاوہ اس کے آپ تو صاف طور پر مان چکے ہیں بلکہ بحو الہ حدیث بخاری بہ تصریح بیان کرچکے ہیں کہ الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے میں اس بات کیلئے آپ کو مجبورنہیں کرتا کہ آپ الہام کو حجت سمجھ لیں مگر یہ تو آپ اپنے ریویو میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملہم کیلئے وہ الہام حجت ہوجاتا ہے۔ سو میرا دعویٰ اسی قدر سے ثابت ہے۔ میں بھی آپ کو مجبور کرنا نہیںچاہتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ24)
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ من کلّ الوجوہ
مرتبہ کمال تک پہنچ گئی ہے
ائمہ حدیث جس طور سے صحیح اور غیرصحیح حدیثوں میں فرق کرتے ہیں اور جو قاعدہ تنقید احادیث انہوں نے بنایا ہوا ہے وہ تو ہر ایک پر ظاہر ہے کہ وہ راویوں کے حالات پر نظر ڈال کر باعتبار اُن کے صدق یاکذب اور سلامت فہم یا عدم سلامت اور باعتبار اُن کے قوت حافظہ یاعدم حافظہ وغیرہ امور کے جن کا ذکر اس جگہ موجب تطویل ہے کسی حدیث کے صحیح یاغیر صحیح ہونے کی نسبت حکم دیتے ہیں مگر ان کا کسی حدیث کی نسبت یہ کہنا کہ یہ صحیح ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ حدیث من کل الوجوہ مرتبہ ثبوت کامل تک پہنچ گئی ہے جس میں امکان غلطی کا نہیں بلکہ ان کا مطلب صحیح کہنے سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بخیال ان کے ان آفات اور عیوب سے مبرّا ہے جو غیر صحیح حدیثوں میں پائی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک حدیث باوجود صحیح ہونے کے پھر بھی واقعی اور حقیقی طور پر صحیح نہ ہو ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ25،26)
اگر احادیث کا مرتبہ ظنی ہے تو احکام صوم و صلوٰۃ کو بھی ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے
علم حدیث ایک ظنّی علم ہے جو مفید ظن ہے۔ اگر کوئی اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اگر احادیث صرف مرتبہ ظن تک محدود ہیں تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ وغیرہ اعمال جو محض حدیثوں کے ذریعہ سے مفصل طور پر دریافت کئے گئے ہیں وہ سب ظنی ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بڑے دھوکے کی بات ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ یہ تمام اعمال محض روایتی طور پر دریافت کئے گئے ہیں و بس۔ بلکہ ان کے یقینی ہونے کا یہ موجب ہے کہ سلسلہ تعامل ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اگر فرض کر لیں کہ یہ فن حدیث دنیا میں پیدا نہ ہوتا پھر بھی یہ سب اعمال و فرائض دین سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتے۔خیال کرنا چاہئے کہ جس زمانہ تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں کیا اس وقت لوگ حج نہیں کرتے تھے؟ یا نماز نہیں پڑھتے تھے؟ یا زکوٰۃ نہیں دیتے تھے؟ ہاں اگر یہ صورت پیش آتی کہ لوگ ان تمام احکام و اعمال کو یک دفعہ چھوڑ بیٹھتے اور صرف روایتوں کے ذریعہ سے وہ باتیں جمع کی جاتیں تو بے شک یہ درجہ یقینی و ثبوت تام جو اب ان میں پایا جاتا ہے ہرگز نہ ہوتا سو یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اور درحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ تو طبعی طور پر ہر ایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ26)
احادیث کے دو حصے
احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے۔ وجہ یہ کہ ان حدیثوں کا فی الواقع صحیح اور راست ہونا تمام راویوں کی صداقت اور نیک چلنی اور سلامت فہم اور سلامت حافظہ اور تقویٰ و طہارت وغیرہ شرائط پر موقوف ہے۔ اور ان تمام امور کا کماحقہ اطمینان کے موافق فیصلہ ہونا اور کامل درجہ کے ثبوت پر جو حکم رویت کا رکھتا ہے پہنچنا حکم محال کا رکھتا ہے اور کسی کو طاقت نہیں کہ ایسی حدیثوں کی نسبت ایسا ثبوت کامل پیش کرسکے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35)
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں
جس قدر حدیثیں تعامل کے سلسلہ سے فیض یاب ہیں وہ حسب استفاضہ اور بقدر اپنی فیضیابی کے یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں لیکن باقی حدیثیں ظن کے مرتبہ سے زیادہ نہیں۔غایت کار بعض حدیثیں ظن غالب کے مرتبہ تک ہیں۔ اس لئے میرا مذہب بخاری اور مسلم وغیرہ کتب حدیث کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کردیا ہے یعنی مراتب صحت میں یہ تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں۔ بعض بوجہ تعلق سلسلہ تعامل یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور بعض بباعث محروم رہنے کے اس تعلق سے ظن کی حالت میں ہیں۔ لیکن اس حالت میں مَیں حدیث کو جب تک قرآن کے صریح مخالف نہ ہو موضوع قرار نہیں دے سکتا۔ اور میں سچے دل سے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ حدیثوں کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35،36)
تعامل حجت قوی ہے!
میری غرض تو صرف اس قدر ہے کہ حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے ، ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کر سکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ42)
تعا مل کے درجے
تعامل کے متعلق جو احکام ہیں وہ سب ثبوت کے لحاظ سے ایک درجہ پر نہیں جن امور کی مواظبت اور مداومت بلافتور و اختلاف چلی آئی ہے وہ اول درجہ پر ہیں اور جس قدر احکام اپنے ساتھ اختلاف لے کر تعامل کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں وہ بحسب اختلاف اس پہلے نمبر سے کم درجہ پر ہیں مثلاً رفع یدین یا عدم رفع یدین جود و طور کا تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اول سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہوگا اور باایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہوگا کہ باوجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہفت قراء ت کی طرح طُرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دیدی ہوگی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کردیا ہوگا تا امت پر حرج نہ ہو۔غرض اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ سلسلۂ تعامل سے احادیثِ نبویہ کو قوت پہنچتی ہے اور سنتِ متوارثہ متعاملہ کا اُن کو لقب ملتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ87)
سنن متوارثہ متعاملہ
سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سنن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیرنظر چلی آئی ہیں اور علیٰ قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرناً بعد قرنٍ وعصراً بعد عصرٍ داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہوتو اس سے مجھے انکار نہیں۔ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ80،81)
کیا بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے!
آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے! اب ان کو بہرحال آنکھیں بند کر کے صحیح مان لینا چاہئے! لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ اجماع کن لوگوں نے کیا ہے اور کس وجہ سے واجب العمل ہوگیا ہے؟ دنیا میں حنفی لوگ پندرہ کروڑ کے قریب ہیں وہ اس اجماع سے منکر ہیں۔ ماسوا اس کے آپ صاحبان ہی فرمایا کرتے ہیں کہ حدیث کو بشرط صحت ماننا چاہئے اور قرآن کریم پر بغیر کسی شرط کے ایمان لانا فرض ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ41)
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
میرا مذہب امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے مذہب کی نسبت حدیث کی بہت رعایت رکھنے والا ہے کیونکہ میں صحیحین کی خبر واحد کو بھی جو تعامل کے سلسلہ سے مؤکّد ہے اور احکام اور حدود اور فرائض میں سے ہو نہ حصہ دوم میں سے اس لائق قرار دیتا ہوں کہ قرآن پر اس سے زیادتی کی جائے اور یہ مذہب ائمہ ثلاثہ کا نہیں۔ مگر یاد رہے کہ میں واقعی زیادتی کا قائل نہیں بلکہ میرا ایمان اِنَّا اَنْزَلْنَا الْکِتَابَ تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْئٍ پر ہے جیسا کہ میں ظاہر کرچکا ہوں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ100)
حدیث سے مراد۔واقعاتِ ماضیہ واخبار گزشتہ وآئندہ
ایسی احاد حدیثیں جو سنن متوارثہ متعاملہ میں سے نہیں ہیں اور سلسلۂ تعامل سے کوئی معتدبہ تعلق نہیں رکھتیں وہ اس درجہ صحت سے گری ہوئی ہیں۔ اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حدیثیں صرف اخبار گزشتہ و قصص ماضیہ یا آئندہ ہیں ۔۔۔۔اور ظاہر ہے کہ سنن متوارثہ متعاملہ اور احکام متداولہ کے نکالنے کے بعد جو احادیث بکلی فرضیت تعامل سے باہر رہ جاتے ہیں وہ یہی واقعات و اخبارو قصص ہیں جو تعامل کے تاکیدی سلسلہ سے باہر ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ82)
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابلِ قبول ہے
اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظنّ کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا مذہب ہے اور ظنّ وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے۔ پھر ایمان کی بنیاد محض ظنّ پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پسِ پُشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردّی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔
(اعجاز احمدی ۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ138)
اجماع کی تعریف(کتب اصولِ فقہ کی روشنی میں)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتبِ اصولِ فقہ میں مندرج اجماع کی مختلف تعریفوں کاذکر کرتے ہوئے تحریرفرمایا:۔
اَلْْاِجْمَاعُ اِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ صَالِحِیْنَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ مُصْطَفٰٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ وَالْاَوْلٰی اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ کُلِّ عَصْرٍ عَلٰی اَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍّ ۔۔۔۔۔
یعنی اجماع اس اتفاق کا نام ہے جو امت محمدیہ کے مجتہدین صالحین میں زمانہ واحد میں پیدا ہو اور بہتر تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پایا جائے اور جس امر پر اتفاق ہو برابر ہے کہ وہ امر قولی ہویافعلی۔
٭ اور اجماع کی دو نوع ہیں ایک وہ ہے جس کو عزیمت کہتے ہیں اور عزیمت اس بات کانام ہے کہ اجماع کرنیوالے صریح تکلم سے اپنے اجماع کا اقرار کریں کہ ہم اس قول یافعل پر متفق ہوگئے۔ لیکن فعل میں شرط ہے کہ اس فعل کا کرنا بھی وہ شروع کردیں۔
٭ دوسری نوع اجماع کی وہ ہے جس کو رخصت کہتے ہیں اور وہ اس بات کانام ہے کہ اگر اجماع کسی قول پر ہے تو بعض اپنے اتفاق کو زبان سے ظاہر کریں اور بعض چپ رہیں اور اگر اجماع کسی فعل پر ہے تو بعض اسی فعل کا کرنا شروع کردیں اور بعض فعلی مخالفت سے دستکش رہیں۔ گو اس فعل کو بھی نہ کریں اور تین دن تک اپنی مخالفت قول یا فعل سے ظاہر نہ کریں یا اس مدت تک مخالفت ظاہر نہ کریں جو عادتاً اس بات کے سمجھنے کیلئے دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی اس جگہ مخالف ہوتا تو ضرور اپنا خلاف ظاہر کرتا اور اس اجماع کا نام اجماع سکوتی ہے اور اس میں یہ ضروری ہے کہ کل کا اتفاق ہے۔
٭ مگر بعض سب کے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھتے تا مَنْ شَذَّ شُذَّ کی حدیث کا مورد باقی رہے اور حدیث باطل نہ ہوجائے۔
٭ اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ مجتہدین کاہونا ضروری شرط نہیں بلکہ انعقاد اجماع کیلئے عوام کا قول کافی ہے جیسا کہ باقلانی کا یہی مذہب ہے ۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اجماع صحابہ کا ہو نہ کسی اور کا۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع وہی ہے جو عترت یعنی اہل قرابت رسول اللہؐ کا اجماع ہو۔
٭ اور بعض کے نزدیک یہ لازم شرط ہے کہ اجماع کرنے والے خاص مدینہ کے رہنے والے ہوں۔
٭ اور بعض کے نزدیک تحقیق اجماع کیلئے یہ شرط ہے کہ اجماع کا زمانہ گذر جائے۔ چنانچہ شافعی کے نزدیک یہ شرط ضروری ہے وہ کہتا ہے کہ اجماع تب متحقق ہوگا کہ اجماع کے زمانہ کی صف لپیٹی جائے اور وہ تمام لوگ مر جائیں جنہوں نے اجماع کیا تھا اور جب تک وہ سب نہ مریں تب تک اجماع صحیح نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے قول سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ کسی نے اپنے قول سے رجوع تو نہیں کیا اور نقل اجماع پر بھی اجماع چاہئے۔ یعنی جو لوگ کسی امر کے بارہ میں اجماع کے قائل ہیں ان میں بھی اجماع ہو۔
٭ اور اجماع لاحق مع اختلاف سابق جائز ہے یعنی اگر ایک امر پہلے لوگوں نے اجماع نہ کیا اور پھر کسی دوسرے زمانہ میں اجماع ہوگیا ہو تو وہ اجماع بھی معتبر ہے اور بہتر اجماع میں یہ ہے کہ ہر زمانہ اس کا سلسلہ چلا جائے ۔
٭ اور بعض معتزلہ کا قول ہے کہ اتفاق اکثر سے بھی اجماع ہوسکتا ہے بدلیل مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ
٭ اور بعض نے کہا ہے کہ اجماع کوئی چیز نہیں اور اپنی جمیع شرائط کے ساتھ متحقق نہیں ہوسکتا۔ دیکھو کتب اصول فقہ ائمہ اربعہ۔
اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ علماء کا اس تعریف اجماع پر بھی اجماع نہیں اور انکار اور تسلیم کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ116تا118)
حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک اجماع کی تعریف
میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسی صحابی نے جو امیر المومنین تھے ابن صیاد کے دجال معہود ہونے کی نسبت قسم کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو اپنی رائے ظاہر کی اور آنحضرت نے اس سے انکار نہیں کیا اور نہ کسی صحابی نے اور پھر اسی امر کے بارے میں ابن عمر نے بھی قسم کھائی اور جابر نے بھی اور کئی صحابیوں نے یہی رائے ظاہر کی تو ظاہر ہے کہ یہ امر باقی صحابہ سے پوشیدہ نہیں رہا ہوگا، سو میرے نزدیک یہی اجماع ہے۔ اور کون سی اجماع کی تعریف مجھ سے آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ اجماع نہیں تو اور جس قدر ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ نے قسمیں کھا کر اس کا دجال معہود ہونا بیان کیا ہے یا بغیر قسم کے اس بارے میں شہادت دی ہے دونوں قسم کی شہادتیں بالمقابل پیش کریں اور اگر آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ پر حجت من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ضرور اجماع ہوگیا ہوگا کیونکہ اگر انکار پر قسمیں کھائی جاتیں تو ضرور وہ بھی نقل کی جاتیں آنحضرت صلعم کا قسم کو سن کر چپ رہنا ہزار اجماع سے افضل ہے اور تمام صحابہ کی شہادت سے کامل تر شہادت ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ43)
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا پھر فیج اعوج کا زمانہ شروع ہوگیا اور لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ رحمان خدا کی طرف سے ایک حَکَم مبعوث ہو۔ (لجۃ النور۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ416-415 ترجمہ از عربی عبارت)
قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابلِ قبول نہیں
وَلَا نَقْبَلُ اِجْمَاعًا یُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَلَا نَسْمَعُ قَوْلَ الْآخَرِیْنَ
ترجمہ: اورہم کسی ایسے اجماع کو قبول نہیں کریں گے جو قرآن کریم کے مخالف ہو اورہمارے لئے تو اللہ کی کتاب کافی ہے اورہم (اس کے مقابلے میں) دوسروں کے اقوال نہیں سُنیں گے۔
(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد11صفحہ133 ترجمہ از عربی عبارت)
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر ہوا
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔روحانی خزائن جلد21 صفحہ286-285حاشیہ)
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
اگر یہ سوال ہو کہ اس امر پر اجماع ہوا ہے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے خلاف عمل نہ کیا جائے تو ہم اجماع کی حقیقت خوب کھول چکے ہیں۔۔۔ امام احمد بن حنبل جو خدا سے ڈرتے تھے اور اس کی اطاعت کرتے تھے اُن کے اس قول کو یاد کرو کہ جو اجماع کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ بہت سے اختلافات جزئیہ ائمہ اربعہ میں موجود ہیں اورائمہ کے اجماع سے خارج ہیںاور اگر تم سمجھتے ہو کہ حیاتِ عیسیٰ ؑپر سندِ صحیح سے اور واضح بیان سے اجماع ہوچکا ہے تو یہ تمہارا اورتم جیسے دوسرے لوگوں کا افتراء ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ280 ترجمہ از عربی عبارت)
اجماع کے معنوں میں اختلاف
خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے ۔ بعض صحابہؓ تک ہی محدود رکھتے ہیں بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اورائمہ کا حال تو معلوم ہوچکا اوراجماع کے توڑنے کے لئے ایک فردکا باہررہنا بھی کافی ہوتا ہے۔چہ جائیکہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسیٰ کی وفات کا صریح قائل ہواورپھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ295 )
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
ہماری جماعت میں وہی داخل ہوگا جو دینِ اسلام میں داخل ہو اور کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ کا متبع ہو اور اللہ اور اس کے رسول اورحشرونشر اورجنت و دوزخ پر ایمان رکھے اور یہ وعدہ اور اقرارکرے کہ وہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں چاہتا اور وہ اس دین پر مرے جو دینِ فطرت ہے اوراللہ کی کتاب کو پکڑے رکھے اورسنت اور قرآن اوراجماعِ صحابہؓ سے جو ثابت ہو، اس پر عمل کرے اورجس نے ان تین چیزوں کو چھوڑاتو اس نے گویا اپنے نفس کو آگ میں چھوڑا۔
(مواہب الرحمان۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ315ترجمہ از عربی عبارت )
ایک صحابی کی رائے شرعی حجّت نہیں
یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہؓ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
شرعی حجّت صرف اجماع صحابہ ؓہے
صاحب تفسیر (تفسیر ثنائی ۔ ناقل) لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔ ‘‘ ……
کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہؓ ان کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے ۔ یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔کا اجتہادسب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصحّ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ169)
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
حنفیوں کا ہرگز یہ مذہب نہیں کہ مخالفت قرآن کی حالت میں خبر واحد واجب العمل ہے اور نہ شافعی کا یہ مذہب ہے بلکہ فقہ حنفیہ کا تو یہ اصول ہے کہ جب تک اکثر قرنوں میں تواتر حدیث کا ثابت نہ ہو گو پہلے قرن میں نہیں مگر جب تک بعد میں اخیر تک تواتر نہ ہو تب تک ایسی حدیث کے ساتھ قرآن پر زیادت جائز نہیں اور شافعی کا یہ مذہب ہے کہ اگر حدیث آیت کے مخالف ہو تو باوجود تواتر کے بھی کالعدم ہے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ94)
احاد احادیث مخالف قرآن ہوں تو قابلِ قبول نہیں
علماء حنفیہ خبر واحد سے گو وہ بخاری ہو یا مسلم قرآن کریم کے کسی حکم کو ترک نہیں کرتے اور نہ اس پر زیادت کرتے ہیں اور امام شافعی حدیث متواتر کو بھی بمقابلہ آیت کالعدم سمجھتا ہے اور امام مالک کے نزدیک خبر واحد سے بشرط نہ ملنے آیت کے قیاس مقدم ہے۔ دیکھو صفحہ ۱۵۰ کتاب نورالانوار اصول فقہ۔
اس صورت میں جو کچھ ان اماموں کی نظر میں درصورت قرآن کے مخالف ہونے کے احادیث کی عزت ہوسکتی ہے عیاں ہے خواہ اس قسم کی حدیثیں اب بخاری میں ہوں یامسلم میں۔ یہ ظاہر ہے کہ بخاری اور مسلم اکثر مجموعہ احاد کا ہے اور جب احاد کی نسبت امام مالک اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کی یہی رائے ہے کہ وہ قرآن کے مخالف ہونے کی حالت میں ہرگز قبول کے لائق نہیں تو اب فرمائیے کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک وہ حدیثیں بہرحال واجب العمل ہیں؟ اول حنفیوں اور مالکیوں وغیرہ سے ان سب پر عمل کرائے اور پھر یہ بات منہ پر لائے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ99)
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں۔ صرف بعض اخبار گزشتہ و مستقبلہ کی نسبت الہام الٰہی کی وجہ سے جس کو میں نے قرآن سے بکلّی مطابق پایا ہے بعض اخبار حدیثیہ کے میں اس طرح پر معنی نہیں کرتا جو حال کے علماء کرتے ہیں کیونکہ ایسے معنے کرنے سے وہ احادیث نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ٹھہرتی ہیں بلکہ دوسری احادیث کی بھی جو صحت میں ان کے برابر ہیں مغائر و مبائن قرار پاتی ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
جماعت کے لئے لائحہ عمل
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدِل متنفّر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ برباد شدہ فرقہ ہے اور چاہئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اِس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلّی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے اُن حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلّی ضائع ہو جائیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ212،213)
ہماری مسلمہ کتابیں
ہماری کتبِ مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیلِ ذیل ہیں۔
اوّل، قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں۔کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اورنیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسّر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسّر ہو۔ غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں۔ پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔
دوم، دوسری کتابیں جو ہماری مسلّم کتابیں ہیں اُن میں اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جوقرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو۔ اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ ، مؤطا، نسائی ، ابوداؤد ، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔ یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 86،87)
بخاری اور مسلم کا مقام
آپؑ بخاری کا مقام بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:۔
مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اورمفید کتاب ہے ۔۔۔۔۔ایسا ہی مسلم اوردوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ65)
مزید فرمایا
بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نور ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہؐ کے منہ سے نکلی ہیں۔ (الحکم 17 اگست1902ء صفحہ11)
آپ ؑنے صحیح مسلم کے بارہ میں فرمایا
صحیح مسلم اس شرط سے وثوق کے لائق ہے کہ جب قرآن یا بخاری سے مخالف نہ ہو اور بخاری میں صرف ایک شرط ہے کہ قرآن کے احکام اور نصوص صریحہ بینہ سے مخالف نہ ہو اور دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ60حاشیہ)
حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے مقابل پر صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں فرمایا
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ15)
مزید فرمایا:۔
امام بخاری اور مسلم کی عظمت ِ شان اور ان کی کتابوں کا امت میں قبول کیا جانا اگر مان بھی لیا جاوے تب بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کتابیں قطعی اور یقینی ہیں۔ کیونکہ امت نے ان کے مرتبہ قطع اور یقین پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ98)
بخاری کتاب الطب باب السحرمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں نعوذ باللہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی۔ حضرت مسیح موعود کے سامنے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حضورؑ نے فرمایا:۔
آنکھ بند کرکے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے۔ یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو،ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذاللہ )آنحضرتؐ کا حافظہ جاتا رہا یہ ہوگیا اور وہ ہوگیاکسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملادی ہیں۔ گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کودیکھتے ہیں ، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں ۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گوانہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا۔ مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا۔ لیکن اب نظر اور غور کرنے کاوقت ہے۔ آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے۔اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے۔
(الحکم 10نومبر1907ء صفحہ 8)
قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبرخدا سے ثابت ہیں۔ اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو، ہم واجب العمل سمجھتے ہیں۔ اوربخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب مانتے ہیں۔
(البدر8ستمبر1904ء صفحہ 8)

نمازجنازہ اور تدفین
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا کہ بشیر اوّل کی پیدائش کے وقت مَیں قادیان میں تھا۔ قریبًا آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردِ زِہ کی بہت تکلیف ہے۔ آپ یہاں یٰسین پڑھیں اور میں اندر جاکر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ یٰسین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے ۔ چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو اوریٰسین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اورمیں یٰسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یٰسین ختم نہیں کی تھی۔ آپ مسکراتے ہوئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکاپیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اورمیں خوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ66)
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
فرمایا:
جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا ۔ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ کئی دہریہ بھی اس دن مرتے ہیں ۔ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق وسل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں ۔ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریضوں کو کلمہ پڑھایا گیا اوریٰسین بھی سنائی ۔بعدا زاں وہ بچ گیا اور پھر وہی برے کام شروع کر دئیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا ۔ اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں۔یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں۔ (بدر16جنوری1908ء صفحہ3)
غسلِ میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔ جب آپ فوت ہوئے تو مَیں اور ایک اوراحمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتے لینے گئے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتے لانے کے لئے کہا تھا۔ مَیں روتا جارہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیںوہاں سے پتے توڑ کر لایا تھا۔ گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ749)
سب کا جنازہ پڑھ دیا
قاضی سیّد امیرحسین صاحب کا ایک چھوٹا بچّہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا۔ عمومًا جنازے کی نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر موجود ہوتے ، تو خود ہی امامت کرتے۔ اس وقت نماز جنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے۔ بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضورؑ میرے لئے بھی دعا کریں۔ فرمایا: میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیاہے۔ مراد یہ تھی کہ جتنے لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے،اُن سب کے لئے نماز جنازہ کے اندر حضرت صاحبؑ نے دُعائیں کردی تھیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 161۔162)
حضرت مسیح ناصری ؑکا جنازہ
ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں؟ میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب واستمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا۔ فرمایا:۔
’ ’ جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں۔ وہ پڑھ لیں۔ ‘‘
(الحکم 10نومبر1902ء صفحہ7)
خاندانی قبرستان میں دعا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طورپر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عیدگاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہوکر دیر تک دعا فرمائی۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اورمیں نے اس وقت دل میں یہ سمجھاتھا کہ چونکہ اس قبرستان میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی۔ مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کے لئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے۔ کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ203،204)
چہلم کی حکمت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مُردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اوردن کھلادیا جائے۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربامیں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے۔پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مُردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میںکھانا دیاجاتا ہے تااسے اس کا ثواب پہنچے۔ گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طورپر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ167،168)
مزاروں کی زیارت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمحترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔ اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا۔ میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اورحضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا ’’ شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔ گاڑی لائیں۔‘‘ میر صاحب نے کہا حضور گاڑی کیا کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا’’قطب صاحب جانا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے ۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپ ؑ نے فرمایا’’ دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا۔ ‘‘ میرصاحب کی اپنی فٹن بھی تھی، دو گاڑیاں اورآگئیں۔ ہم سب حضرت صاحب ؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھرکر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اوربہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے ۔ آپ ؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔ پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑ سے پوچھا۔ آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا : ’’ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں۔‘‘ پھر آپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی۔ پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اورمقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں تو عورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ ان لوگوں نے حضور ؑکو کھانے کے لئے کہا۔ حضور ؑ نے فرمایا’’ ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں ۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا۔ پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔ مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔ ( سیر ت المہدی جلد2صفحہ199،200)
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
فرمایا:۔
مُردوںسے مددمانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیابلکہ زندوں ہی کا ذکرفرمایا۔خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا ۔اگر اسلام کو مُردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیاآفت آتی۔مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں’’گردو گرما گداو گورستان‘‘ اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار ملتان گیا۔جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔پاک پٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے؟اجمیر میں جا کر دیکھو بد عات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے۔غرض مُردوں کو دیکھو گے تواس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہدمیں سوا بد عات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے،مُردوںکی راہ نہیں۔پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حیّ وقیوم خدا کوملے،تو وہ زندوں کو تلاش کرے،کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مُردہ،جن کا خدا مردہ ہے ، جن کی کتاب مُردہ،وہ مُردوں سے برکت چاہیںتو کیا تعجب ہے۔ لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا،جس کا نبی زندہ نبی،جس کی کتاب زندہ کتا ب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو۔وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوںاور قبروںکی تلاش میں سر گرداںہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!!!
(الحکم 24جولائی1902ء صفحہ10، 11)
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
سوال:۔ قبرستان میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب :۔نذر ونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جاکر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جاکر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے ۔
(الحکم 31مئی 1903ء صفحہ9حاشیہ)
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
فرمایا :
جو خدا نخواستہ اس بیماری(یعنی طاعون۔ناقل) سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتاہے اس واسطے سب لوگ اس کے اردگرد جمع نہ ہوں۔ حسبِ ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اُٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہوکر مثلاً ایک سو گزکے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے ۔
(بدر4اپریل1907ء صفحہ6)
صبح کے وقت زیارتِ قبورسنت ہے
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
صبح حضرت مسیح موعود ؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے۔ دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ فرمایا لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اﷲ کی قبریں ہیں۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔ فرمایا :۔
ایسے بزرگوں کی فہرست بنائو تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے۔
حاضرین نے یہ نام لکھائے۔ (ا) شاہ ولی اﷲ صاحب (۲)خواجہ نظام الدین صاحب
(۳) جناب قطب الدین صاحب (۴)خواجہ باقی باﷲ صاحب (۵) خواجہ میر درد صاحب
(۶)جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔
چنانچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمع خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اوّل حضرت خواجہ باقی باﷲ کے مزار پر پہنچے۔ راستہ میں حضرت نے زیارتِ قبور کے متعلق فرمایا :
قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّااِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلََاحِقُوْنَ ۔
(بدر 31 ؍ اکتوبر 1905ء صفحہ1)
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
خواجہ باقی باﷲ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پائوں نہ پڑے۔ قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا۔ بعد دعا میں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا کہ
صاحبِ قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے۔
قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے۔ بعد دعا آپ نے وہ نظم پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کرلو۔
(بدر31؍اکتوبر1905ء صفحہ1)
ایک اور موقع پراخبار بدر کے ڈائری نویس لکھتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع خدام سیر کرنے کے واسطے صبح باہر نکلے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ۔ بعد دعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جواس کالم میں درج کرنے کے لائق ہیں۔
سوال۔ قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟
جواب۔ میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اُس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہئے ۔
سوال۔ دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟
جواب۔ یہ تکلفات ہیں۔ تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہواور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتاہے۔ میت کے واسطے دعا کرو۔
(بدر19 جنوری 1906ء صفحہ6)
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائز ہے
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکی بناؤں یا نہ بناؤں۔ فرمایا:
اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے۔ ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے ، بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں۔ مُردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے۔ اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے۔ اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے ۔ ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے ،کفن دینے، خوشبو لگانے کی کیاضرورت ہے۔ مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو۔ مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا، حفاظت ضروری ہے ۔ جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا۔ دیکھو مصلحت الٰہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبرکے پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلًا نظام الدین ، فریدالدین ، قطب الدین ، معین الدین رحمۃ اللہ علیہم۔ یہ سب صلحاء تھے۔
(الحکم 17مئی 1901ء صفحہ12)
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض قبروں کی درستگی کے لئے ایک خط لکھا جس میں آپ نے لکھا
مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے۔ پانی جو آیا کرتا ہے اس کی سطح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں۔ اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریں دَب جاتی ہیں۔ پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا۔ اب پھر یہ قبریں دب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے۔ پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رَو آ گیا تو کیاحالت ہوگی۔
اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے۔
اس کے جواب میں حضور ؑ نے تحریرفرمایا:۔
’’ میرے نزدیک اندیشہ کی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلددوم صفحہ310)
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
سوال پیش ہو ا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا :
ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرام ؓ و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں، ناجائز ہے۔ جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔
(بدر9مئی1907ء صفحہ5)
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہواکہ محرم کے دنوں، اِمَا مَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کوپہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شِرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا ناجائز ہے۔
(الحکم 17مئی1901ء صفحہ12)
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکاکر کھلادے تو کیا یہ جائز ہے؟
حضرت نے فرمایا :
طعام کا ثواب مُردوں کو پہنچتاہے ۔ گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لیے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے۔ پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اُسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو ہر ج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقررکرے ۔ غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے۔ (بدر8؍اگست 1907ء صفحہ5)
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا اور قرآن شریف کا پڑھنا
سوال ۔ کیا میّت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے ؟
جواب ۔ میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دُعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دُعا کاکرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتاہے ۔‘‘
(بدر19جنوری 1906ء صفحہ6)
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمدکی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیںکہ
ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں حسبِ دستور حضرت اقدس علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ حضرت یہ لوگ جو قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں، اس کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا
پہلے علماء میں اختلاف ہے۔۔۔۔ کلام اور کلام اللہ کا ثواب ہمارے نزدیک مُردوں کو نہیں پہنچتا۔ قرآن شریف عمل کرنے کے واسطے آیا ہے نہ کہ طوطے کی طرح پڑھنا۔۔۔۔ثواب پہنچانے کے واسطے اگر یہ ہوتا بھی تو قرآن شریف میں ذکر ہوتا۔
دیکھو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ قرآن شریف نازل ہوا ہے وہ اس کے اَوَّلُ الْمُسْتَحِقِّیْن تھے۔ آپ کی نسبت اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن تو آگیا ہے اور دیکھو قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57) یعنی اللہ اوراس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ درود کے معنی دعا ہی کے ہیں اور سلام کے معنی دعا ہی کے ہیں۔ دعا ہی آئی ہے۔ یہ نہیں آیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر قرآن پڑھ پڑھ کر ثواب پہنچاتے ہیں اے ایمان والو تم بھی قرآن پڑھ پڑھ کر نبی کی روح کو سلام پہنچایا کرو۔۔۔۔قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا ، دعا کرنی چاہئے اور دعا ہی حدیثوں میں آئی ہے۔ چنانچہ اَلسَّلََامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ الخ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود شریف اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ یہ عمل کرنے کے واسطے ہے تاکہ اس پر عمل کرکے خدا تک انسان پہنچ جاوے۔ اور خدا سے پختہ پیوند و تعلق ہوجاوے اورمنازل سلوک طے ہوجاویں وغیرہ وغیرہ۔ ہاں صدقات و خیرات کا ثواب پہنچتا ہے۔ (الحکم مورخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ8)
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کارِ قضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیارکریں۔فرمایا
نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے۔
(بدر11جولائی 1907ء صفحہ3)
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
فرمایا:۔
مخالفین کا یہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مرتے ہیں بالکل ناجائز ہے ۔ ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والا کوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتار نہ ہوگا۔ ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اول طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتار ہو کر نہیں مرتے ۔ کوئی نبی ، صدیق ، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی۔ مگر کیا حضرت عمرؓ پر بھی اس کاکوئی اثر ہوا تھا؟ عظیم الشان صحابہؓ میں سے کوئی طاعون میں گرفتار نہیں ہوا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرے ہیں ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے مرا ہے ؟ ہاں اس میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنیٰ طبقہ کے مومنین (طاعون۔ناقل) میں گرفتار ہوتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئے۔ اگرچہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفار جہنم میں گرائے جائیں گے ۔ تا ہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی شہیدنہیں ہوا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہو جائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دے گا۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ3 )
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
ذکر تھاکہ بعض جگہ چھوٹے گائوں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مرجائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے ۔ حضرت نے فرمایا کہ :۔
ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے ۔ جنازہ تو دُعا ہے ۔ جو شخص خود ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک مَغْضُوْب عَلَیْھِم میں ہے۔ اس کی دُعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے ۔ ایسے لوگوں کی ہرگز پروانہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو۔
(بدر16مئی1907ء صفحہ3)
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
فرمایا:۔
اگر مُتوفّٰی بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علّام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے۔
فرمایا۔ جو لوگ ہمارے مکفّر ہیں اور ہم کو صریحًا گالیاں دیتے ہیں۔ اُن سے السلام علیکم مت لو اور نہ اُن سے مِل کر کھانا کھاؤ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں۔
جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ مَیں نہ اُدھر کا ہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذّب ہے اور جو ہمارا مصدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ مَیں ان کو اچھا جانتا ہوں۔ وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ اصول ہوتا ہے کہ
بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام
ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلّق نہیں ہوتا۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانانہیں چاہتے ۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دُکھے گا۔
(البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ105)
ایک اور موقعہ پر آپؑ نے فرمایا
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کُرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو، مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہئے ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر ازجماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبۃ : ۱۰۴)
اس میں صلوٰۃ سے مراد جنازہ کی نماز ہے اور سَکَنٌ لَّھُمْ دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی تھی۔
(البدر14 نومبر1902ء صفحہ19 )
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذّب مرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا:۔
یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہوجاتا ہے ۔ مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے ۔ دوسرے وہ مخالف ہے خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اور اگر وہ چاہے گا تو اُن کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہوجاویں گے۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلایا ہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤ گے۔ (البدر 15مئی 1903ء صفحہ130)
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:۔
ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اورایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طورپر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اورفرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اورشدت مرض میں مجھے غش آگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔۔۔۔۔۔
قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طورپر اس کے دل کا کفر معلوم ہوگیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں۔ پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ (انوار خلافت ۔انوارالعلوم جلد 3 صفحہ149-148)
ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :۔
کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پڑھایا تھا ۔ ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو لیکن کوئی خدا کی قسم کھاکر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے ۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا۔ اس طرح ہوا ہوگا۔ میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ میں نے پڑھ دیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی۔ وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ احمدی ہوجائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا۔ اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔ ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں اورپھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے۔ کیا کوئی ایسے شاہد ہیں۔
پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قراردیا ہے اورہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کردیا۔ پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیںپڑھا۔ کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہرگز نہیں۔ ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے۔ جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا:۔
’’متوفّٰی کی خبر وفات سن کر خاموش رہے۔ ہماری لاہور جماعت نیمتفقًازورشور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہرشہر میں اسی تقلید پر جنازہ پڑھا جائے اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح کُل فرقہ ہے۔ اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پرتو ضرور غضبِ الٰہی نازل ہو۔ اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں۔بغیر اس کی تحریک کے کچھ نہیں کرسکتے نہ ہم کوئی کلمہ بد اس کے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں۔ تفویض الی اللہ کرتے ہیں ۔ فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں ۔ اگر ساری دنیا خوش ہوجائے اورایک خدا خوش نہ ہوتو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘
(الفضل 28؍مارچ1915ء صفحہ8 )
پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں۔
(تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1916ء ۔انوارالعلوم جلد3صفحہ423-422)
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو، اوراگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تواس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہوورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز کا امام حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ فرمایا
پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگرکوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔
اگر کوئی ایسا آدمی مر جائے جو تم میں سے نہیں اوراس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو تر ک کرو۔اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ۔
(الحکم 30اپریل 1902ء صفحہ 7)
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فتویٰ کی روشنی میں سفارش پیش کی جسے حضور ؓ نے منظور فرمایا )
مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ باقاعدہ طورپر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذّب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہوایسے شخص کے جنازہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہرًا کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اگرچہ انقطاع کو بہتر قراردیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے۔ یعنی انقطاع کو بہرحال بہتر خیال کیا گیا ہے۔مناسب حالات میں پہلے حصے پر بھی عمل کرنے میں کچھ حرج نہیں (جس کی اجازت لی جاسکتی ہے) بشرطیکہ امام احمدیوں میں سے ہو۔ اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہوسکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مؤرخہ ۲۳ ؍ فروری ۱۹۰۲ء
’’جو شخص صریح گالیاں دینے والا، کافر کہنے والا اورسخت مکذّب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویامنافقوں کے رنگ میں ہے۔ اُس کے لئے کچھ ظاہرًا حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہرحال بہتر ہے۔ ‘‘
(فیصلہ مجلس افتاء جسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے منظور فرمایابحوالہ فرمودات مصلح موعودؓ صفحہ119)
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام ہوسکتا ہے
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑفرمایا کرتے تھے:۔
ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم اپنے ذاتی تجربہ سے کہتے ہیں کہ مُردوں سے کلام ہو سکتاہے۔ مگر اس کے لئے کشفی قوت اورحس کی ضرورت ہے ۔ ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں ۔ روح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اوررُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے ۔ جہاں اُسے ایک مقام ملتاہے۔ (ذکرِ حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ187)
مُردوں سے استفاضہ
ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو۔ کیا وہ بھی اس سے فیض پا لیتا ہے؟فرمایا :۔
صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اس کے سب قائل ہیں چنانچہ یہاں تک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علومِ عربیہ سے ناواقف ہوں گے، کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علومِ عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بھی پڑھیں گے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں۔اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت ﷺکی قبر میں بیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفا ضہ کریں گے۔ مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طو رپر دیکھا جاتا ہے۔ (الحکم 10دسمبر1905ء صفحہ2تا4)
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ :۔
مرزا ایوب بیگ صاحب ایک ہی ایسے خوش نصیب آدمی ہیں جن کی وفات مقبرہ بہشتی کے قیام سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت دی کہ ان کی ہڈیاں فاضلکا ضلع فیروز پور سے صندوق میں لاکر مقبرہ بہشتی میں دفن کی جائیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند درجات نصیب کرے۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ7 حاشیہ)
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں کسی نے سوال کیا کہ میری والدہ کی وفات پر تقریبًا چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے۔ وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟
جواب:۔ فرمایا۔ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کو دیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی مگر لاش کی حالت کے متعلق ڈاکٹر بتا سکتا ہے، مفتی نہیں بتا سکتا۔ اگر لاش کی حالت خراب ہو تو اس سے بُرا اثر پڑتا ہے۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ131)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش کو جب قبرستان میں سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیاتو اس وقت بھی بعض لوگوں نے چہرہ دیکھنے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ تحریرکرتے ہیں کہ :۔
جس دن مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کا جنازہ نکالا اور مقبرہ بہشتی میں لے جانے کا ارادہ کیا تو بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ جنازہ صندوق کے اندر سے دیکھ لیں۔ ۔۔۔ مگر آپؑ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا۔ جب انہوں نے بہت ہی اصرار کیا تو آپؑ نے کراہت سے اجازت دی مگر مجھے یہ بات نہیں معلوم کہ انہوں نے دیکھا یا نہ دیکھا کیونکہ میں بھی اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ ایک لغوامر ہے جس کے پیچھے یہ پڑے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی نافرمانی بھی تھی۔ ( الحکم مؤرخہ 14تا21مئی 1919صفحہ7)
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش جس دن قبرستان سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی تو اس دن آپ ؑ نے جنازہ نکالنے سے قبل ہاتھ اُٹھاکر قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعا کی اور دفن کرنے کے بعد بھی ہاتھ اُٹھاکر دعا کی۔ (الحکم 14 تا21 مئی 1919ء صفحہ7)

روزہ اور رمضان
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
رؤیت ہلال
خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
(سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
چاند دیکھنے کی گواہی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ265)
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296)
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520)
سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔
(الحکم31جنوری 1899ء صفحہ7)
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔
بابا چٹو۔ شکر ہے۔
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔
حکیم محمد حسین :۔ بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
حضرت اقدس:۔ (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔ نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔
حضرت اقدس:۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔
بابا چٹو:۔ نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ ) (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125)
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
(روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن )
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ303)
سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ147)
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
(الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203)
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ637)
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
(اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب )
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا:
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷ (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)
(الفضل 12جون1922ء صفحہ7)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ59)
مسافر اور مریض فدیہ دیں
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
(البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
حضرت مصلح موعودؓ تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389)
فدیہ کسے دیں؟
سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا:۔
ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:۔
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7)
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
(الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 )
حضرت مصلح موعود ؓ تحریرفرماتے ہیں ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔ (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385)
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔ (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228)
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ14)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔
(الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دارکاخوشبو لگانا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
فرمایا:
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘
(بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4)
تراویح کی رکعات
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔
(بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7)
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا :
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
(بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔
فرمایا : جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔
(الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 )
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ فرمایا :
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14)
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔
(بدر 21فروری 1907ء صفحہ5)
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔ (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 )
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
زکوٰۃ
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
فرمایا:
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
فرمایا:
زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کرخدا سے جو اپنی ذات میںپاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ203، 204)
صدقہ کی حقیقت
فرمایا:
صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ354)
زیور پر زکوٰۃ
ایک شخص نے عرض کیا کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟فرمایا
جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلًا کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دے دیا جاوے۔ وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔ (الحکم 30؍اپریل 1902ء صفحہ7 )
قرض پر زکوٰۃ
سوال پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوٰۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا:
’’نہیں۔‘‘ ( بدر21فروری 1907ء صفحہ5)
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتاہے اور اُگراہی میں پڑا ہوتاہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
جو مال معلّق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہیے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے۔ آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتاہے۔ تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلّق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوٰۃ دے کر خد اتعالیٰ کو خوش کرتا رہے۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے ۔ (بدر 11جولائی1907ء صفحہ5)
سید کے لئے زکوٰۃ؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سیدکے لئے زکوٰۃ جائزہے فرمایا:
اصل میں منع ہے اگر اضطراری حالت ہو فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہئے ۔ اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوٰۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اوربات ہے ۔ (الحکم 24؍اگست 1907ء صفحہ5)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چہ صدقہ اورزکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے ۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گذارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ تو اس حالت میں اگر کوئی سیّد بھوکا مرتا ہواورکوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوٰۃ یا صدقہ میں سے دے دیا جائے۔ ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ718)
زکوٰۃ کے روپے سے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
فرمایا:
اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر بوجہ املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوٰۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوٰۃ کافر ہوجائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوٰۃ دی جاوے۔ زکوٰۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں۔ (نشانِ آسمانی۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ409)
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوٰۃ یا صدقہ سادات کے لئے منع ہے ویسا ہی صاحب توفیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صورت نہ ہو۔ ایک سیّد بھی زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ566)
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
’’چاہئیے کہ زکوٰۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوٰۃ بھیجے۔ ‘‘
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ83)
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپے کا حصہ ہے اس حصہ میں مجھ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جواہرات ومکانات پر کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ13)
اخبار بدر میں اسی سوال کا جواب کسی قدر تفصیل سے درج ہے ۔چنانچہ اخبار نے لکھا کہ ایک شخص کے سوال کے جواب میںفرمایا:
مکان خواہ کتنے ہزار روپے کا ہو، اس پر زکوٰۃ نہیں۔اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوٰۃ ہے۔ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوٰۃ نہیں۔حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوٰۃ لگائی جاتی تھی۔
(بدر14فروری 1907ء صفحہ8)
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگرخانہ میں بھیجا جاوے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔ ‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ191)
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مُرغیاں رکھتا ہوں اوران کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کے نام پر دیتا ہوں اورگھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اوروہ آٹاخود ہی خریدکر لوںاوراس کی قیمت مدِّمتعلقہ میں بھیج دوں؟ فرمایا:
’’ایسا کرنا جائز ہے ۔ ‘‘
نوٹ: لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کرے گا کہ چونکہ خریدوفروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے ۔ تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا۔
(بدر24؍اکتوبر1907ء صفحہ3)
حضرت مسیح موعود ؑ کااپنی اولاد کے لئے صدقہ ناجائز قراردینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ619)

حج
حج کی تاکید
فرمایا:
’’ اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ ‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
ارکان حج کی حکمتیں
اسلام کے احکام کے بارہ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
مضمون پڑھنے والے نے اس اعتراض کے ساتھ یہ اعتراض بھی جڑ دیا ہے کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں حجراسود ایک ایسا پتھر ہے جو آسمان سے گرا تھا معلوم نہیں کہ اس اعتراض سے اُس کو کیا فائدہ ہے۔ استعارہ کے رنگ میں بعض یہ روایتیں ہیں کہ وہ بہشتی پتھر ہے مگر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہشت میں کوئی پتھر نہیں ہے بہشت ایسا مقام ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور اس دنیا کی کوئی چیز بھی بہشت میں نہیں ہے بلکہ بہشتی نعمتیں ایسی نعمتیں ہیں کہ جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ دل میں گذریں اور خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے٭۔(٭حاشیہ ۔ خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔ منہ ) اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا اور نہ اس میں حجر اسود رکھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی اُمور کے مقابل پر جسمانی اُمور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تا وہ روحانی اُمور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے۔ (۱) ایک تذلّل اور انکسار (۲) دوسری محبت اور ایثار۔ تذلل اور انکسار کے لئے اُس نماز کا حکم ہوا جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کو خشوع اورخضوع کی حالت میں ڈالتی ہے یہاں تک کہ دِلی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ رکھا گیا تا جسم اور رُوح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بیکار اور لغو نہیں اوّل تو یہ امر مسلّم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اوردونوں پر اُس کا حق خالقیت ہے ماسوا اس کے جسم اور رُوح ایک دوسرے کی تاثیر قبول کرتے ہیں بعض وقت جسم کا سجدہ رُوح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ جسم اور رُوح دونوں باہم مرایا متقابلہ کی طرح ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں ہنسنے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات وہ سچی ہنسی بھی آجاتی ہے کہ جو رُوح کے انبساط سے متعلق ہے ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں ایک رونے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا ہی آجاتا ہے جو رُوح کی درد اوررقت سے متعلق ہے۔ پس جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ عبادت کی اس قسم میں جو تذلل اور انکسار ہے جسمانی افعال کا رُوح پراثر پڑتا ہے اورروحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے۔ پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اوررُوح میں عوض معاوضہ ہے۔ محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے۔ ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجرِ اسود میرے آستانہ کا پتھرہے ( حاشیہ :۔ خدا کا آستانہ مصدر فیوض ہے یعنی اسی کے آستانہ سے ہریک فیض ملتا ہے پس اسی کے لئے معبّرینلکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود سے مراد منبعِ علم و فیض ہے ۔ منہ)اور ایسا حکم اِس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھر کے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بناکر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں۔زینت دُور کردیتے ہیں سر منڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بناکراس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کرکے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ رُوحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے رُوحانی آستانہ کو چومتی ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پاکر بھی اُس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسودسے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قراردادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے وبس۔ جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگروہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ مگر اُس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ99تا101)
حج کی شرائط
اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دئیے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ اُن کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے ،مثلًا حج۔یہ اُس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو،پھر راستہ میں امن ہو ،پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہواوراس قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کرسکتا ہے۔ (الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ6)
حضرت مسیح موعود ؑکے حج نہ کرنے کی وجوہات
مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ حضرت مرزا صاحب کیوں حج نہیں کرتے ۔ فر ما یا :
کیا وہ یہ چا ہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے۔ یہ یادرکھنا چا ہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہو تی وہ خدا کی ہدا یت اور رہنما ئی سے ہرایک امر کو بجا لا تے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہرایک حکم کی تقدیم وتاخیر ، الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں۔اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گو یا اس خدا کے حکم کی مخالفت کر نیوالے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمران :۹۸) کے بارے میں کتا ب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہو نے کا اندیشہ ہو تو حج سا قط ہے حالا نکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہو تی ہیں۔ مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہو تا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے آپؐ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا ۔
(البدر 8مئی1903ء صفحہ122 )
ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟
فرمایا: یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں رہے ۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے ۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے ؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟اچھا یہ تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کرکے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے ۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے ۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتاہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔
(بدر8؍اگست 1907ء صفحہ8)
مخالفین کے اس ا عتراض پر کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا
اس اعتراض سے آپ کی شریعت دانی معلوم ہو گئی۔ گویا آپ کے نزدیک مانع حج صرف ایک ہی امر ہے کہ زَادِ راہ نہ ہو۔ آپ کو بوجہ اس کے کہ دنیا کی کشمکش میں عمر کو ضائع کیا اس قدر سہل اور آسان مسئلہ بھی جو قرآن اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے معلوم نہ ہوا کہ حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اﷲ حج نہ کرنے کے لئے عذرِ صحیح ہیں۔چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز اُن میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکّہ میں امن کی صورت نہ ہو۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (آلِ عمران:98)عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش علماء مکّہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جائو اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکّہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اُس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو۔ یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا۔ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِہِمْ۔ ذرہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑ گئی۔ کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکّہ کو جائیں اور پھر چند اشرار الناس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شورِ قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہیے۔ سو بروقت ورود حکم الٰہی اِن احتیاطوں کی پروا نہیں کی جائے گی مگر قبل اس کے شریعت کی پابندی لازم ہے اور مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنّتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ مکہ میں عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان مکفرین کے ہم مذہب ہیں۔ جب یہ لوگ ہمیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں تو کیا وہ لوگ ایذاسے کچھ فرق کریں گے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ: 196) پس ہم گناہ گار ہوںگے اگر دیدہ ودانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے۔ اور خدا کے حکم کے بر خلاف قدم اٹھانا معصیت ہے حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔اب خود سوچ لوکہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ415،416)
حج کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ گھبراؤ
اخبار الحکم کے ایڈیٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ فضل کریم صاحب جنہوں نے اسی سال حج کعبۃ اللہ کا شرف حاصل کیا ہے چند روز سے دارالامان میں تشریف رکھتے ہیں ۔قبل ظہر حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے اس سال کے ناقابل برداشت تکالیف کا جو حجاج کو برداشت کرنی پڑیں ساراحال بیان کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ انگلش حدود سے نکل کر ٹرکش حدود میں داخل ہوتے ہی ایسی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جن کی وجہ سے یقینا کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکلات ایسی ہیں جن سے حج کے بالکل بند ہوجانے کا اندیشہ ہے خصوصاً اہل ہند کے واسطے ۔انہوں نے بیان کیا کہ ٹرکی حدود میں کورنٹائن کی ناقابل برداشت سختیاں وہاں کے ڈاکٹروں اورحاکموں کا سخت درجہ کا حریص اورطامع ہونا اور اپنے فائدے کے لئے ہزاروں جانوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرنا ‘لوگوں کا سامان خوراک پوشاک وغیرہ بھپارہ میں ضائع کردینا یا نقدی کا ضائع جانا اورپھر جو چیز ایک مصری حاجی دس روپے میں حاصل کرسکتا ہے وہ ہندیوں کو تیس روپے تک بھی بمشکل دینا۔ راستوں میں باوجود یکہ سلطان المعظم نے ہر دومیل پر کنواں تیارکروارکھا ہے عمال اورکارکنوں کا بغیر دوچارآنے کے لئے پانی کا گلاس تک نہ دینا اور پھر راستہ میں باوجود چوکی پہروں کے انتظام کے جو کہ سلطان المعظم کی طرف سے کیا گیا ہے پر لے درجہ کی بدامنی کا ہونا یہانتک کہ انسان اگر راستے سے دوچارگز بھی ادھر ادھر ہو جاوے تو پھر وہ زندہ نہیں بچ سکتا اور پھر ہندیوں سے خصوصاً سخت برتائو ہونا،بات بات پرپٹ جانا اور کوئی داد فریا د نہیں۔ بات بات پر کذّاب،بطال اورالفاظ حقارت سے مخاطب کیا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے سامان ہیں کہ بہت ہی مصیبت کا سامنا نظر آتا ہے۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت اقدس نے فرمایا :
ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں ۔ ایسا ہوکہ ان تمام امور تکالیف سے آ پ کی قوت ایمانی میں کسی قسم کا فرق اورتزلزل نہ آوے ۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ہے ۔اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے ۔ ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گذرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوںنے اسے بت خانہ بنارکھا تھا۔ بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئندہ زمانے اورزندگی کے درجات ہیں ۔ دیکھو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت کتنی خطر ناک ہوگئی تھی اور کفروشرک اورفساد اور ناپاکی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا ۔ اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کردے گا اور خداتعالیٰ کوئی سامان اصلاح پیداکردیگا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اوربھی ایسا ہی خطرناک اورنازک وقت گذر چکا تھا جس کی طرف آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی ۔اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ (الفیل:۲)غرض یہ اب تیسرا واقعہ ہے۔ ا س کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اورخداکا توجہ کرنا تو پھر قہری رنگ میں ہی ہوگا۔ (الحکم 22؍اپریل 1908ء صفحہ1)
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے متعلق فرمایا :
چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے۔ اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا اوربموجب نص اَطِیْعُوااللّٰہَ وَ اَطِیعُوْا الرَّسُوْلَ (النسائ:60) حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے توبموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا۔ ہاں باجازت اس کے کسی دوسرے وقت میں جا سکتا ہے۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20صفحہ49)
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بعض استفسارات کے جواب میں حضورؑ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
اگر آپ چالیس روز تک رُو بحق ہو کر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربّانی۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ351،352 )
حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے حج بدل
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیاکہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروادیا۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمداللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا)۔ اورحافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہوچکے ہیں۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ45)
ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ احمداللہ خان صاحب حج بدل سے پہلے خود بھی حج کرچکے تھے۔ (سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم از شیخ محموداحمدصاحب عرفانی صفحہ 249 )
حضرت مسیح موعود ؑ سے حج بدل کے بارہ میں ایک سوال بھی پوچھا گیا تھا ۔چنانچہ خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے؟ فرمایا:
جائز ہے ۔ اس سے متوفّی کو ثواب حج کا حاصل ہوجائے گا۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)

قربانی کے مسائل
قربانی کی حکمت
فرمایا:
خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج :38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو ۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ99 حاشیہ)
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
(الحج:38)یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے گوشت اور خون سچی قربانی نہیں جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ424)
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
عیدالاضحیہ کا خطبہ دیتے ہوئے(جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف ہے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
(عربی عبارت سے ترجمہ)میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں۔ اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیاکرتے تھے اورقربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جائیں اور دریا بہہ نکلیںاور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے ۔ اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں ۔
(خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ32۔33)
قربانی صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے
ایک شخص کا خط حضور ؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی ، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردیاہے۔کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہوجائے گی؟ فرمایا:
قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکراقربانی کرو۔ اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیںتو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں۔ (بدر 14فروری 1907ء صفحہ8)
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہم غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلًا گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:
ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کرسکتے ہواوراگر اتنی بھی توفیق نہیں تو تم پر قربانی فرض ہی نہیں۔ وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو۔ خدا پر توکل کرو۔ (بدر14فروری1907ء صفحہ8)
بکرے کی عمر کتنی ہو ؟
سوال پیش ہوا ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لئے جائز ہے ؟
فرمایا: مولوی صاحب سے پوچھ لو۔ اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے۔
نوٹ ایڈیٹر صاحب بدر: مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکراقربانی کے لئے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں۔ (بدرمورخہ23جنوری 1908ء صفحہ2)
کیا ناقص جانور بھی قربانی کے لئے ذبح کیا جاسکتا ہے؟
ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ درحدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کرسکتے ہیں؟
فرمایا: مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے ۔ انسان تلاش کرسکتا ہے اوردن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں۔
(بدر23جنوری 1908ء صفحہ2)
عیدالاضحی کاروزہ
عیدالاضحیہ کے دن قربانی کرکے اُس کا گوشت کھانے تک جوروزہ رکھا جاتا ہے اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھاجاتا ہے وہ سنت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کرکے کھاتے تھے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہوجائے یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اورمستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلّف نہیں اورنہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقاپوری صاحب نے لکھا ہے مَیں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے پھر مسلمانوں میںیہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اسے گناہ نہیں۔
(روزنامہ الفضل 17 جنوری 1941ء صفحہ4)
عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟
عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟
فرمایا:۔ ساتویں دن۔ اگر نہ ہوسکے تو پھر جب خدا توفیق دے۔ ایک روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا۔ ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہیے جب تک قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں۔
(بدر 13فروری 1908ء صفحہ10)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریبًا ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبداللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اورمیں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی۔ حضور نے فرمایا ۔ اس غرض کے لئے جانالازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اورگھر خط لکھ دیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اورفرمایا گھر خط لکھ دو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ38)
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عقیقہ پر صرف ایک بکرا ہی ذبح کرے؟
فرمایا: عقیقہ میں لڑکے کے واسطے دو بکرے ہی ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحبِ مقدرت ہے ۔ اگر کوئی شخص دو بکروں کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے واسطے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے اوراگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی قربانی نہیں کرسکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے۔ مسکین کو معاف ہے۔
(بدر 26دسمبر1907ء صفحہ2)
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:
’’ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘
میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا ۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا: ’’اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے۔‘‘ ایک بکرا کے جواز کا فتویٰ نہ دیا۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کرکے بھی عقیقہ کرسکیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ155)

نکاح
نکاح کی اغراض
فرمایا:
اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میںرکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پرہیزگاری حاصل ہوکر ناجائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچا رہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایاکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ:224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیںاس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تا لوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو و لعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کرلیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ(النسائ:45) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پرہیزگاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بچ جائو۔ یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی روایت ہے اور اعادہ کی حاجت نہیں ہم اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیںقرآن کریم تو اسی غرض سے نازل ہوا کہ تا ان کو جو بندہ شہوت تھے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع دلا وے اور ہریک بے اعتدالی کو دور کرے۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ44)
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
فرمایا:۔
قرآن شریف میں۔۔۔ یہ آیت ہے۔ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَ نّٰی شِئْتُمْ (البقرۃ:224)یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آئو۔ صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو۔ بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے۔ اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کانام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت درحقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طر ح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔ ہاں اگرعورت بیمار ہو اور یقین ہوکہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحتِ نیّت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔
غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تااس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں۔ دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے۔ تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تا باہم اُنس ہوکر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں۔ یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزئن جلد23صفحہ292، 293 )
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
سوال:۔ ہمارے ملک کا رواج ہے کہ جب باقاعدہ منگنی ہو جائے اور لڑکی کو زیور اورکپڑے پہنا دئیے جائیں تو وہ نکاح کا قائم مقام سمجھی جاتی ہے اس واسطے اس لڑکی کا کسی اور جگہ نکاح نہیں ہوسکتا؟
جواب:۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:۔
’’ یہ کوئی دعویٰ نہیں۔ نہ منگنی کوئی شرعی بات ہے جب والدین راضی اور لڑکی راضی ہے تو کسی تیسرے شخص کو بولنے کا حق نہیں۔ ‘‘ (رجسٹر ہدایات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی۔۔۔۔۔ ۵۴۔۶۔۲۶)
(فیصلہ بلوغ کی صورت میں) اگر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا نکاح توڑ دیا جاوے تو۔۔۔۔۔ اس قدر جھگڑے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ ابھی دونوں آپس میں ملے نہ تھے۔ اس وقت اگر باہمی تنازع پیدا ہو گیا تھا تو ان کو خوشی سے اس نکاح کو توڑ دینا چاہئے تھا کیونکہ ایسا نکاح درحقیقت ایک رنگ منگنی کا رکھتا ہے اور یہی فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھے زبانی پہنچا ہے۔
(فرمودات ِمصلح موعوددربارہ فقہی مسائل صفحہ191،192)
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
ایک لڑکی کے دوبھائی تھے اور ایک والدہ ۔ ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لئے راضی تھے مگر ایک بھائی مخالف تھا۔ وہ اَور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اورلڑکی بھی بالغ تھی۔ اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہا ں کیا جاوے۔ حضرت اقد س علیہ السلام نے دریافت کیا کہ وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟ جواب دیا گیاکہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے۔ فرمایا :
پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں۔
(الحکم 10جولائی 1903ء صفحہ1)
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیراحمدی ہیں۔والدین اس کی غیراحمدی کے ساتھ شادی کرناچاہتے تھے اورلڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی ۔ والدین نے اصرار کیا، عمر اس کی اسی اختلاف میںبائیس سال تک پہنچ گئی۔ لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کرلیا ۔ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ فرمایا :
’’ نکاح جائز ہوگیا۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
فرمایا :
غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ۔ کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائزہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہیے۔ اگر ملے تو لے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اوردینے میں گناہ ہے۔
(الحکم 14؍اپریل 1908ء صفحہ2)
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبدالغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پاکر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اورکہا کہ حضور ؑ میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اورکہا کہ ’’ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور! یہ لوگ مخالف ہیں اورسخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں۔ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دینی نہیں چاہیے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ170،171)
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفراحمدصاحب کپورتھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور اُن کو دوسری کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں ۔ ان کو میں لاتا ہوں، آپ اُن کو دیکھ لیں۔ پھر اُن میں سے جو آپ کوپسند ہو اس سے آپ کی شادی کردی جاوے۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دو لڑکیوں کو بُلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا۔ اورپھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں۔ آپ چِک کے اندر سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میاں ظفراحمدصاحب نے اُن کو دیکھ لیا اورپھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کردیا اور اس کے بعد میاں ظفراحمدصاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے۔ وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا۔ پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے۔ پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عمومًا بد نما ہوجاتا ہے مگر گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفراحمدصاحب اورمیرے سوا اورکوئی شخص وہاں نہ تھا۔ اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے۔ اورپھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کردیا تھا، جس سے ان کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفراحمد صاحب کا رشتہ نہیں ہوا۔ یہ مدت کی بات ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ 240،241)
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے۔اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
اگر حسبِ مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنابہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے لیکن یہ امر ایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو۔ ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے۔اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے ،جائز نہیں ہے۔
(بدر11اپریل 1907ء صفحہ3)
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا۔ اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں۔ اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں۔ یہ اعتراض کیسا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولّیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حُسنِ معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی۔
اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حُسنِ معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے۔ اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا۔ مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی۔ مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے۔ اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا، ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میںکتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں دَیُّوثیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودۂ طلاق پاس کرانا، یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدّس مطہّر، مزکّی، نبیٔ اُمّیصلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں، یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفّن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص، نالائق کتاب، پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو۔ (نورالقرآن روحانی خزائن جلد 9صفحہ392، 393)
کم عمری کی شادی جائز ہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرکے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کیکمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں۔ کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نوبرس ہی تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نوبرس تک بھی لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہیں۔ بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھآٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں۔ آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بِنا پر تیار ہوتے ہیں۔ ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گذار ہیں اور اس کے خیرہ خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تاہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے۔ گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ (۱۸) برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ ان میں امکان غلطی نہیں۔ تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے۔ غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو۹ برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو ۹برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا۔ ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی۔
(نورالقرآن۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ377تا379)
حضرت عائشہؓ کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ شادی پر اعتراض کا جواب
ہندوؤں کے اس اعتراض ،کہ حضرت رسول خدا محمدؐ صاحب کا اپنی بیوی حضرت عائشہ نو سالہ سے ہم بستر ہونا کیا اولاد پیدا کرنے کی نیت سے تھا، کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
یہ اعتراض محض جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ کاش اگر نادان معترض پہلے کسی محقق ڈاکٹر یا طبیب سے پوچھ لیتا تو اس اعتراض کرنے کے وقت بجز اس کے کسی اور نتیجہ کی توقع نہ رکھتا کہ ہریک حقیقت شناس کی نظر میں نادان اور احمق ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر مون صاحب جو علوم طبعی اور طبابت کے ماہر اور انگریزوں میں بہت مشہور محقق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گرم ملکوں میں عورتیں آٹھ یا نو برس کی عمر میں شادی کے لائق ہو جاتی ہیں۔ کتاب موجود ہے تم بھی اسی جگہ ہو اگر طلب حق ہے تو آکر دیکھ لو۔ اور حال میں ایک ڈاکٹر صاحب جنہوںنے کتاب معدن الحکمت تالیف کی ہے۔ وہ اپنی کتاب تدبیر بقاء نسل میں بعینہ یہی قول لکھتے ہیں جو اوپر نقل ہو چکا اور صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ نو یا آٹھ یا پانچ یا چھ برس کی لڑکیوں کو حیض آیا۔ یہ کتاب بھی میرے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے۔ ان کتابوں میں کئی اور ڈاکٹروں کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور چونکہ یہ تحقیقاتیں بہت مشہور ہیں اور کسی دانا پر مخفی نہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اور حضرت عائشہ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں لیکن ڈاکٹر واہ صاحب کا ایک چشم دید قصہ لینسٹ نمبر ۱۵ مطبوعہ اپریل ۱۸۸۱ء میں اس طرح لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی عورت کو جنایا جس کو ایک برس کی عمر سے حیض آنے لگا تھا اور آٹھویں برس حاملہ ہوئی اور آٹھ۸ برس دس۱۰ مہینہ کی عمر میں لڑکا پیدا ہوا۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ63،64)
تعدّدِازدواج میں عدل کے تقاضے
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ (النساء : 35) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں؟حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک ،معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔۔۔۔
خدا کے قانون کو اس کی منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سِپربن جاوے ۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہوبلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کوسِپر بناکرشہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ زناکانام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طورپر دِل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے ،تاکہ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّالْیَبْکُوْا کَثِیْرًا (توبہ :82) یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت، کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہوگا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جاپڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کردی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًاوَّقِیَامًا (الفرقان:65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی نوبیویاں تھیں اورباوجود اُن کے پھر بھی آپ ؐ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓکے پاس تھی ، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپ ؐ موجود نہیں، اُسے شبہ ہوا کہ شاید آپ ؐ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ اُس نے اُٹھ کر ہرایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپؐ نہ ملے ۔آخر دیکھا کہ آپؐ قبرستان میں ہیں اورسجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویاں حظّ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہوسکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یادرکھوکہ خدا کااصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقوٰی کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کرلو۔
(البدر 8جولائی 1904ء صفحہ2)
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
کثرتِ ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اورہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدّد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ۔بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو ردّ کردیا ہے۔ (حجۃ الاسلام۔روحانی خزائن جلد6صفحہ47)
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
آریہ سماج والے تعدّد ازدواج کونظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلا شبہ وہ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جس کے لئے اکثر انسان تعدد ازدواج کے لئے مجبور ہوتا ہے ۔ اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رہنے کے لئے کوئی احسن طریق اختیار کرے اور لاولد رہنے سے اپنے تئیں بچاوے اور یہ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی اور یاہوتی ہے اور بباعث لاحق ہونے کسی بیماری کے مر مرجاتی ہے اور یا لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیںاورایسی صورت میں مرد کو دوسری بیوی کی نکاح کے لئے ضرورت پیش آتی ہے۔خاص کر ایسے مرد جن کی نسل کا مفقود ہونا قابلِ افسوس ہوتا ہے اوراُن کی ملکیت اورریاست کو بہت حرج اور نقصان پہنچتا ہے ۔ ایسا ہی اور بہت سے وجوہ تعدد نکاح کے لئے پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔۔قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعددازدواج کو روا رکھا ہے اور من جملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تابعض صورتوں میں تعددازدواج نسل قائم رہنے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی قومیں بنتی ہیں اوراس میں کچھ شک نہیں کثرتِ نسل کے لئے نہایت عمدہ طریق تعدّد ازدواج ہے۔پس وہ برکت جس کا دوسرے لفظوں میں نام کثرتِ نسل ہے اس کا بڑا بھاری ذریعہ تعدد ازدواج ہی ہے ۔ ۔۔۔۔ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے ان کا تعدّد ازدواج بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ کرشن جی کی ہزاروںبیویاں بیان کی جاتی ہیںاور اگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تو اس میں شک نہیں کہ دس بیس تو ضرور ہوں گی۔راجہ رام چندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدد ازدواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھا۔ایساہی باوانانک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کئے گئے ہیں ان کی بھی دو بیویاں تھیں۔
اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازدواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہومگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خوانخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے۔مگر جبر کسی پر نہیںاورہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تویہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اوراگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جُرم نقضِ عہد کا مرتکب ہوگا۔لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اورحکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بے جا ہوگااوراس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ہرایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدّد ازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے ۔خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے۔پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رُو سے ہے اوراس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تواس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اوراگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تواس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے۔کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں اس صورت میں کسی آریہ کو خوانخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیاحق ہے۔۔۔۔۔یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں۔ اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا ۔پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اوراگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکمِ وقت وہ خلع کراسکتی ہے۔ اوراگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔ پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خوانخواہ کا دخل ہے اوربایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں۔
اور یہ کہنا کہ تعدد ازدواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اورمتعصبانہ خیال ہے ۔ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدّد ازدواج کی مبارک رسم کے پابند ہوجائیں تب تو وہ فسق و فجور اورزناکاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں اور یہ طریق ان کو متقی اور پرہیزگار بنادیتا ہے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ244تا247)
عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا (النسائ:4)یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو۔ پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتائو ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہرگز ناممکن ہے جیسی بعض صورتیںخروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں اوریا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگا دی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الٰہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا۔ (آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10صفحہ44،45)
کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ دقت آ پڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی۔ تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کردیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا زبردست ممدومعین ہے۔ خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق بابرکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کرسکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے۔ ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہوجائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کاروائی کا ہے بے کار اور معطل ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کاروائی کی َکل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے۔ اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کرسکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے۔ کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہوسکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے۔ جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ281،282)
تعدد ازدواج ،حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اسلا م میں جو چا ر بیو یا ںرکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور سا ری بد اخلا قیو ں کا سر چشمہ ہے ۔ فر ما یا :
چا ر بیو یا ں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجا زت دی ہے کہ چا ر تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لا زم نہیں آتا کہ چا ر ہی کو گلے کا ڈھو ل بنا لے۔ قر آن کا منشا ء تو یہ ہے کہ چو نکہ انسا نی ضروریات مختلف ہو تی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چا ر تک اجا زت دی ہے ایسے لو گ جو ایک اعتر اض کو اپنی طر ف سے پیش کر تے ہیں اور پھر وہ خو د اسلا م کا دعو یٰ بھی کر تے ہیں میں نہیں جا نتا کہ ان کا ایما ن کیسے قائم رہ جا تا ہے ۔وہ تو اسلا م کے معتر ض ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانو ن بنا نے کے وقت کن کن با تو ں کا لحا ظ ہو تا ہے ۔ بھلا اگرکسی شخص کی ایک بیو ی ہے اسے جذا م ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اند ھی ہو گئی ہے یا اس قا بل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حا صل ہو سکے وغیر ہ وغیر ہ عوارض میں مبتلا ہوجا وے تو اس حا لت میں اب اس خاوند کو کیا کر نا چا ہیئے کیا اسی بیو ی پر قنا عت کر ے ؟ایسی مشکلا ت کے وقت کیا تد بیر پیش کرتے ہیں ۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معا شی زنا وغیر ہ میں مبتلا ہو گئی تو کیا اب اس خا وند کی غیر ت تقا ضا کر ے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیو ی کا خطا ب دے رکھے ؟ خدا جا نے یہ اسلا م پر ا عتر اض کر تے وقت اندھے کیو ں ہو جا تے ہیں ۔ یہ با ت ہما ر ی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسا نی ضروریا ت کو ہی پو را نہیں کر سکتا ۔ اب ان مذکو رہ حالتوں میںعیسویت کیا تدبیر بتا تی ہے ؟ قرآن شریف کی عظمت ثا بت ہو تی ہے کہ انسا نی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قا نو ن نہ بنا دیا ہو ۔ اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثر ت از دواج اور طلا ق شروع ہو تا جا تا ہے ۔ ابھی ایک لا رڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسر ی بیو ی کر لی آخر اسے سزا بھی ہو ئی مگر وہ امریکہ میںجا رہا۔
غو ر سے دیکھو کہ انسا ن کے واسطے ایسی ضر ور تیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے جب ایسی ضرور تیں ہو ں اور انکا علا ج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پو را کر نے کو قرآن شر یف جیسی اتم اکمل کتا ب بھیجی ہے ۔
(الحکم 28فروری 1903ء صفحہ15)
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دودو ،تین تین،چار چار کر کے ہی آرہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے۔اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزورہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے۔ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ:۱۹۱)۔۔۔۔غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیویوں ہی کا بندہ ہو جائے ،تو بھی غلطی کرتا ہے۔ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا۔اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جائو اوروہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کار وائیوں میں نہ ڈالو۔
انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے،تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔دیکھو تورایت میں کاہنوں کے فرقے کے ساتھ مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیںاور ہندوؤں کے برہمنوں کے لئے خاص رعائتیں ہیں۔پس یہ نادانی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے۔ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں۔
(الحکم 6مارچ1898ء صفحہ2 )
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
فرمایا :
ہم اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواج کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کثرتِ ازدواج سے اولاد بڑھاؤ تاکہ اُمت زیادہ ہو۔ نیز بعض اشخاص کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بدکاری اوربد نظری سے بچنے کے واسطے ایک سے زیادہ شادی کریں یا کوئی اور شرعی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ کثرتِ ازدواج کی اجازت بطور علاج اور دوا کے ہے۔ یہ اجازت عیش وعشرت کی غرض سے نہیں ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ انسان کے ہر امر کا مدار اُس کی نیت پر ہے۔ اگر کسی کی نیت لذات کی نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اس طرح خدامِ دین پیدا ہوںتو کوئی حرج نہیں۔ محبت کو قطع نظر کرکے اور بالائے طاق رکھ کر یہ اختیاری امر نہیں، باقی امور میں سب بیویوں کوبرابر رکھنا چاہیے مثلًا پارچات، خرچ، خوراک، مکان،معاشرت حتّٰی کہ مباشرت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان حقوق کو پورے طورپر ادا نہیں کرسکتا تواس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کثرتِ ازدواج کرے۔ بلکہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا تاکیدی فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ان کو ادا نہیں کرسکتا تواس کے واسطے بہتر ہے کہ وہ مجرد ہی رہے۔ ایسے لذات میں پڑنے کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پررہے یہ بہتر ہے کہ اِنسان تلخ زندگی بسر کرے اور معصیت میں پڑنے سے بچا رہے۔ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوت کی طرف دیکھے کہ اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہے تو اس معصیت سے بچنے کے واسطے بھی جائز ہے کہ انسان دوسری شادی کرلے۔ لیکن اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق کو ہرگز تلف نہ کرے بلکہ چاہیے کہ پہلی بیوی کی دلداری پہلے سے زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ انسان نے اس کے ساتھ گذاراہوا ہوتا ہے ۔ اورایک گہرا تعلق اس کے ساتھ قائم ہوچکا ہوا ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اوردلداری یہاں تک ضروری ہے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دُوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اورحد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے ۔ تو اگر وہ صبر کرسکے اورمعصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اورکسی شرعی ضرورت کا اس سے خون نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر انسان اپنی ضرورتوں کی قربانی اپنی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کردے اورایک ہی بیوی پر اکتفاء کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ اس صورت میں دوسری شادی نہ کرے۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو تقویٰ پر قائم رکھے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اورخویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔ اورانہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چارعورتوں تک نکاح کرلو۔ لیکن اگر اُن میں عدل نہ کرسکو تو پھر یہ فسق ہوگا اوربجائے ثواب کے عذاب حاصِل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اورلڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اوردوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا اُمیدیں اُن کے دِلوں میں ہوتی ہیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 205،206)
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
(مخالفینِ اسلام)اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے کہ ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو۔ ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے۔مثلاً عورت اندھی ہو گئی ہے یا اور کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں نکاح ثانی کی اجازت نہ ہوتو بتلاؤ کہ کیا اس سے بدکاری اور بد اخلاقی کو ترقی نہ ہو گی؟پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بد کاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بد کاری کو دور کرنا چاہتا ہے، اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں،پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا۔عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے،تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہو گا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے ۔علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا۔لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں۔پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے۔
(الحکم 10جنوری 1899ء صفحہ8 )
پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے رشتہ کرنے کو معیوب سمجھنا ٹھیک نہیں
سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذرکرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے۔ فرمایا :
’’ پھر وہ اس سے تو مَثْنٰی وثُلََاثَ وَ رُبَاعَ کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ4)
مہر کی مقدار
مہر کے متعلق ایک شخص نے پو چھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہو نی چا ہیے ؟فر ما یا
تر اضی طرفین سے جو ہو اس پر کو ئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقر ر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لو گوں کے مر وجہ مہر سے ہوا کر تی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہو تی ہے اور محض نمود کے لیے لا کھ لا کھ رو پے کا مہر ہو تا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جا یا کرتاہے کہ مردقابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہو تی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی ۔
میر امذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنا زعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقر ر شدہ ہے تب تک مقررشدہ نہ دلا یا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیو نکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کر تی ہے اور نہ قانون ۔
(بدر8مئی1903ء صفحہ123)
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
سوال:۔ ایک عورت اپنا مہرنہیں بخشتی ۔
جواب:۔ یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چا ہیے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر نا چاہیے،پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں۔یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے۔
سوال:۔ اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے ؟
جواب:۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
اس کا خیال مہر میں ضرور ہو نا چاہیئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیئے اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کر یگا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا میںداخل ہے ۔
(البدر 16؍مارچ1904ء صفحہ6)
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تُو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دُوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مرگئی ہے خاوند کیا کرے؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ :۔
اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں میں شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ہٰذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے ۔
(البدر 5مارچ1905ء صفحہ2)
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
عورت کو مہر ادا کئے جانے سے پہلے معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔وہ مال اس کا حق ہے اس کو پہلے وہ مال ملنا چاہئے۔ پھر اگر وہ چاہے تو واپس کردے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے۔ آپ نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے بیان کرنے پر کہ ان کی بیویوں نے مہر معاف کردیا ہے۔ فرمایا کہ پہلے ان کو مہر دے دو۔ پھر وہ واپس دے دیں تو سمجھو کہ معاف کردیا ہے۔ جب انہوں نے روپیہ دیا تو بیویوں نے لے لیا اورکہا کہ اب تو ہم معاف نہیں کرتیں۔
بعض فقہاء کا قول ہے کہ مہر دے کر فورًا بھی واپس ہوجائے تو جائز نہیں کچھ مدت تک عورت کے پاس رہے ۔ تب واپس کرے توجائز سمجھا جائے گا۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ209)
ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے تحریرفرمایا:۔
میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مہرسالم پانچ سو روپیہ مدعیہ کو دلایا جائے کیونکہ شریعت کی رو سے عورت کا حق ہے اور بسا اوقات اس کی معافی بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ اس کی ایک رنگ میں ماتحت حالت اس کی معافی کی وقعت کو اصول شرعیہ کے رو سے بہت کچھ گرادیتی ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے۔ پس قبل از ادائیگی مہر معافی کوئی حقیقت نہیں رکھتی خصوصًا جبکہ ہمارے ملک میں عورتوں میں یہ عام خیال ہو کہ مہر صرف نام کا ہوتا ہے بلکہ بعض اس کی وصولی کو ہتک خیال کرتی ہیں۔ ( فرمودات مصلح موعود ؓ دربارہ فقہی مسائل۔ صفحہ212)
اعلانِ نکاح ضروری ہے
میاں اﷲ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں۔اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں۔فرمایا :
فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ہم کو مقصودبالذات لینا چاہئے ۔اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلّی کااظہار مقصود ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں۔یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں۔غرض ان خرابیوں کو روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدّف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے،بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں۔دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔مگراب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں۔پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں۔یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتاہے،شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی۔کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
آتشبازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں،کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے۔اور باجابجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے،جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے،کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے۔جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے۔یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے؛البتہ ریاکاری،فسق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے۔شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرہ:۲۸۷)باجا کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح وتقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے لیے ہے،پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدّف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلّت ہے،اس لیے شادی میں اعلان کے لیے جائز ہے۔ (الحکم17؍اکتوبر1902ء صفحہ7،8 )
ولیمہ
تعریفِ ولیمہ پوچھی گئی تو فرمایا :
ولیمہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا نکاح کے بعد اپنے احباب کو کھانا کھلائے۔
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ11)
اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:
نکاح میں کوئی خرچ نہیں، طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہوگیا۔ بعدازاں ولیمہ سنت ہے۔ سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔
(بدر 6فروری 1908ء صفحہ6)
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں۔وہ کیسا ہے؟ فرمایا :
اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے۔اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں،تو کوئی حرج نہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں۔تو آپؐ نے منع نہیں کیابلکہ آپؐ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپؐ نے اس کے لیے ’’رحمت اﷲ‘‘ فرمایا اور جس کو آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا۔غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوںتو منع نہیں۔مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ
یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے،مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے وہ منع ہے۔اور پھر جو اسراف کرتا ہے،وہ سخت گناہ کرتا ہے۔اگر ریاکاری کرتا ہے،تو گناہ ہے۔غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریا،فسق،ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف ہو وہ منع نہیں،گناہ نہیں۔ کیونکہ اصل اشیاء کی حلّت ہے۔ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ8)
نکاح پر باجا اور آتش بازی
نکاح پرباجا بجانے اورآتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا فر ما یا کہ :۔
ہما رے دین کی بنایُسر پر ہے عسرپرنہیں اور پھر اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ضروری چیزہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺکے زما نہ میں نہ تھا۔اعلان نکاح جس میں فسق وفجورنہ ہو۔جائزہے بلکہ بعض صورتوں میںضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پراثر پڑتا ہے ۔اس لیے اعلان کر نا ضروری ہے مگر اس میںکو ئی ایسا امرنہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو۔رنڈی کا تما شا یاآتش با زی فسق وفجوراور اسراف ہے یہ جائزنہیں ۔
با جے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھرسے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد ؟فر ما یا :۔ایسے سوالات اورجزو دَر جزو نکالنابے فائدہ ہے۔اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان وشوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جا بجتا جاوے توکچھ حرج نہیںہے۔ اسلامی جنگوں میں بھی توباجابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہو تا ہے ۔(الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
مہرنامہ رجسٹری کروانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اور حضرت صاحب نے مہرنامہ کوباقاعدہ رجسٹری کرواکر اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اورجب حضرت صاحب کی وفات کے بعد ہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمد عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو مہر(۱۵۰۰۰) مقرر کیا گیا اوریہ مہرنامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا۔ لیکن ہم تینوں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھیں کسی کا مہرنامہ تحریرہوکر رجسٹر ی نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا۔ دراصل مہرکی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اورکسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی تھی اورمہرنامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔ چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اوراس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہوسکتا تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے مہرنامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہرنامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہوتو کم از کم باقاعدہ طورپر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہوجاویں۔ کیونکہ دراصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے۔ پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبطِ تحریر میں آجاوے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ338،339)
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمیاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک خادمہ تھی۔ اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیرمحمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا۔ حضرت صاحب نے فقیرمحمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی۔ جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا۔ کہ میں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور ۔/۵۰۰ روپیہ مہر ہوگا اور اس کے اخراجات کا مَیں ذِمہ دار ہوں گا اور اس کی رضامندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا کہ اس کی حیات تک) دوسرا نکاح نہ کروں گا۔ یہ کاغذ آپ نے مجھے اشٹام پر نقل کرنے کے لئے دیا۔ چنانچہ مَیں نے وہیں نقل کردیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے ۔۔۔۔کہ نکاحِ ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہوسکتی ہے کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا۔ کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ590)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میر ے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب و قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن اس طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم و مغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کانتیجہ تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125،126)
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
عورتوں کو خصوصی نصائح کرتے ہوئے فرمایا:۔
اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو۔ دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کرلینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود *** اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے، اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ ( الحکم 10جولائی 1902ء صفحہ7)
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے ۔اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب ، نان ونفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یاکہ نہیں؟یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا:۔
ُُبیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکا ح کا حکم ہے ۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے ۔اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکا ح کیا جائے ۔ نکاح تو اسی کا ہو گا جو نکاح کے لائق ہے ۔ اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے ۔بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہو تی ہیں۔بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یاایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے ۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑکر خاوند کرایا جاوے ۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(بدر 10؍اکتوبر 1907ء صفحہ11)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چارعورتیں آئی تھیں دو اُن میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جوان عورتوں کو نکاح کرلینا چاہیے‘‘میں نے کہا جن کا دِل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟آپ نے فرمایااگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اورتقویٰ سے گذارسکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ231)
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سُندرسنگھ صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا۔ ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی ۔ سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ، اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے، اسلام میں جائز ہے ۔ ‘‘ کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی۔ آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولاد ہوئی۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ257)
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کاکم عمری میں نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم و مغفور(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگر ہ سے آئی ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد نکاح ہوا۔ مَیں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھاکر حضور ؑ کے پاس لائی۔ حضور علیہ السلام اس وقت اُمّ ناصراحمدصاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرماتھے۔ حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سرپر ہاتھ پھیرا اورمسکرائے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ244،245)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اوررات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں رجعی اور بائن کے الفاظ اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے۔ یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
حلالہ حرام ہے
اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں پر *** بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں۔ اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جورو بنا لے اور اگر دل میں یہ خیال ہوکہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جورو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے۔ غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور اَئمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ۔ عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور سعید بن مسیب اور امام مالک، لیث، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مدنظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ( البقرۃ:231 ) اس کے یہی معنے ہیں کہ جیسے دنیا میںنیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ( نوٹ۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں۔ تو پھر ایسی عورت خاوند سے بالکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا اس کو طلاق دیدے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہریک شخض طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آگئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہوگیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اس کا غصہ اتر جائے۔ منہ) ۔ سو آیت کا یہ منشاء نہیں ہے کہ جورو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنادے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مدنظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عندالشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ66،67)
نکاح خواں کو تحفہ دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کومعلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہوگی ۔ چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اورمیرصاحب بھی اہلِ حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے ۔ اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا۔ آپ نے میر صاحب کو لکھا۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوتِ عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہوگئے اورپھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا۔ یہ ۲۷؍محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے ۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذردیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایاصاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اورمجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کروادِیا تھا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ51)
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
سوال : مسلمان حیض کے دنوں میں بھی عورت سے جدا نہیں ہوتے۔
الجواب۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان بہتان طراز لوگوں کا یہ کیسا اعتراض ہے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے وقت کیوںخدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ( البقرۃ :۲۲۳) یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جائو یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہولیں۔ اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے۔ اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں۔ بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا، گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اٹھا نہ سکتا اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبا نہ سکتا اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہوگئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور سچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ48،49 )
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اسلام نے اس قسم کی شادی کو ناپسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کو لڑکی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
(الفضل 15جنوری 1918ء صفحہ 4)
نکاح متعہ کی ممانعت
خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں اور کوئی ہدایت نہیں دی ،ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے کہ وہ موقّت طورپر نکاح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں۔ مگرخدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں بہرحال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔
(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19صفحہ442،443)
ایسا نکاح بھی جس کا وقت طلاق ٹھیرایا جائے ہمارے مذہب میں منع ہے ۔ قرآن شریف صاف اس کی ممانعت فرماتا ہے۔ عرب کے لوگوں میں اسلام سے پہلے ایک وقت تک ایسے نکاح ہوتے تھے قرآن شریف نے منع کردیا اور قرآن شریف کے اترنے سے وہ حرام ہوگئے۔ صرف بعض شیعوں کے فرقے اس کے پابندہیں مگر وہ جاہلیت کی رسم میں گرفتار ہیں اور کسی دانشمند کے لئے جائز نہیں کہ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لئے کسی دوسرے کی غلطی کا حوالہ دیں۔
(سناتن دھرم۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ470)
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جبکہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کے لئے مردارکھانا نہایت بے قراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر
متعہ ایسا حرام ہوگیا جیسے سؤر کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی۔ قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اورمتعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں۔۔۔۔۔ قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بعض احاد حدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورئوں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کے لئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہوگیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر و شراب وغیرہ حرام ہیں اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصودنہیں شریعت میں داخل نہیں ہوتے اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور حدیث میں درج نہیں ہوئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کی رسوم کی تبدیلی کی ہے سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی کیونکہ قرآن میں ابھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں
اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو متعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرتؐ نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح مؤقّت ہے۔ کوئی حرام کاری اس میں نہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہم بستر ہو جاوے بلکہ درحقیقت بیوہ یا باکرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں۔ اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دیدی لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صدہا عرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اٹھا دیا جاوے سو خدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا۔ ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے۔ کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے۔ لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ سو خود سوچ لو کہ متعہ کو نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت۔
(آریہ دھرم ۔روحانی خزائن جلد10صفحہ67تا70)
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے۔ ان کو مؤقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیرملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی۔ پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا۔مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہوگیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الٰہی نے آخر اس کو حرام کر دیا۔
(نورالقرآن نمبر2 ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ450)
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
آریوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا:
اب ہم ان آریوں کے اس پر افترا اعتراض کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے زینب کے نکاح کی نسبت تراشا ہے۔ ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بنا دو باتیں ٹھہرائی ہیں (ا) یہ کہ متبنّٰی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبنّٰی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں۔
امر اوّل کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ متبنّٰیکرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ قانون قدرت اس بیہودہ دعویٰ کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اسی کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قویٰ کے مشابہ اس کے قویٰ ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفیدرنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آتشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے۔ غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اسی کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعویٰ سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو طباشیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا جس حالت میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنا دیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دو باپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متبنٰی بنانے والا حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے۔
غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں۔۔۔۔ اب چونکہ عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ متبنیٰ درحقیقت اپنا ہی لڑکا ہو جاتا ہے اس لئے ایسے اعتراض کرنے والے پر واجب ہے کہ اعتراض سے پہلے اس دعوے کو ثابت کرے اور درحقیقت اعتراض تو ہمارا حق ہے کہ کیونکر غیر کا نطفہ جو غیر کے خواص اپنے اندر رکھتا ہے اپنا نطفہ بن سکتا ہے پہلے اس اعتراض کا جواب دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ بھی یاد رہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑ گئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکارتا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ وہم پر اس کی بنا تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں لیکن اس خیال سے اگر مثلاً کوئی ہندو ادب کی راہ سے قوم کے کسی مُسِنّ آدمی کو باپ کہہ دے یا کسی ہم عمر کو بھائی کہہ دے تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ قول ایک سند متصور ہو کر اس ہندو کی لڑکی اس پر حرام ہوجائے گی یا اس کی بہن سے شادی نہیں ہو سکے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ اتنی بات میں وہ حقیقی ہمشیرہ بن گئیں اور اس کے مال کی وارث ہوگئیں یا یہ ان کے مال کا وارث ہوگیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک شریر آدمی ایک لاولد اور مالدار کو اپنے منہ سے باپ کہہ کر اس کے تمام مال کا وارث بن جاتا کیونکہ اگر صرف منہ سے کہنے کے ساتھ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے سے باپ نہ بن جائے پس اگر یہی سچ ہے تو مفلسوں ناداروں کے لئے نقب زنی یا ڈاکہ مارنے سے بھی یہ عمدہ تر نسخہ ہو جائے گا یعنی ایسے لوگ کسی آدمی کو دیکھ کر جو کئی لاکھ یا کئی کروڑ کی جائیداد رکھتا ہو اور لاولد ہو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تجھ کو باپ بنایا پس اگر وہ حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو ایسے مذہب کی رو سے لازم آئے گا کہ اس لاولد کے مرنے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے اور اگر وہ باپ نہیں بن سکا تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ہی جھوٹا ہے اور نیز ایسا ہی ایک شخص کسی کو بیٹا کہہ کر ایسا ہی فریب کر سکتا ہے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 55تا58 )
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں۔ جیسا کہ یہ آیت ہے۔
(النسائ:24)یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جورؤان حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں۔ پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا۔ تو اب ہریک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا۔ قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنّٰی کی جورو حرام نہیں ہوسکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لائو۔
اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْْنِ فِیْ جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّا ئِیْ تُظَاہِرُوْنَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَآئَ کُمْ أَبْنَائَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ اُدْعُوہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰہِ (الاحزاب:5 ، 6) یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے۔ تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کا نمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت ناسازش ہوگئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی۔ پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیوند نکاح کردیا۔ اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنی نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبرًا خلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ سچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبرًا نکاح کردے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے۔ مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آکر یا کسی دھوکہ سے اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑ ہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں تو پھر جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیونکر بن سکتا ہے اور کیونکر قبول کیا جاتا ہے کہ درحقیقت بیٹا ہوگیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہوگئی۔ خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا پس بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹابھی نہیں بن سکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ58تا60 )

طلاق
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہئے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہوگا۔ میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے ناموافقت سے عورت کو رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے۔ طلاق ایک مصیبت ہے جو ایک بدتر مصیبت کے عوض اختیار کی جاتی ہے۔ تمام معاہدے بدعہدی سے ٹوٹ جاتے ہیں پھر اس پر کون سی معقول دلیل ہے کہ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ نہیں سکتا۔اور کیا وجہ کہ نکاح کی نوعیت تمام معاہدوں سے مختلف ہے۔ عیسیٰ نے زنا کی شرط سے طلاق کی اجازت دی مگر آخر اجازت تو دیدی۔ نکاح ملاپ کے لئے ہے اس لئے نہیں کہ ہم دائمی تردد اور نزاع کے باعث سے پریشان خاطر رہیں۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ54-53حاشیہ)
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
(معترض نے۔ ناقل) ایک یہ اعتراض قرآن شریف پر پیش کیا کہ خاوند کی مرضی پر طلاق رکھی ہے، اس سے شاید اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی رُو سے مرد اور عورت درجہ میں برابر ہیں تو پھر اس صورت میں طلاق کا اختیار محض مرد کے ہاتھ میں رکھنا بلاشبہ قابل اعتراض ہوگا۔ پس اس اعتراض کا یہی جواب ہے کہ مرد اورعورت درجہ میں ہرگز برابر نہیں۔ دنیا کے قدیم تجربہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ مرد اپنی جسمانی اور علمی طاقتوں میں عورتوں سے بڑھ کر ہیں اور شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے پس جب مرد کا درجہ باعتبار اپنے ظاہری اور باطنی قوتوں کے عورت سے بڑھ کر ہے تو پھر یہی قرین انصاف ہے کہ مرد اور عورت کے علیحدہ ہونے کی حالت میں عنانِ اختیار مرد کے ہاتھ میں ہی رکھی جائے ۔۔۔۔
تمام دنیا میں انسانی فطرت نے یہی پسند کیا ہے کہ ضرورتوں کے وقت میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اورمرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ(البقرہ : 234) یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جوعورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن او رذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قویٰ زبردست دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر باعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے وہ عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگرمرد اپنی عورت کو مروّت اور احسان کی رُو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النسائ:20) یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروّت سے پیش آتے ہو۔
(چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد23صفحہ286تا288)
عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے۔ مگر قرآن شریف اس بات کی مصلحت دیکھتاہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگرمرد اورعورت میں باہم دشمنی پیدا ہوجاوے اور موافقت نہ رہے یا مثلاً اندیشہء جان ہو یا اگرچہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اُس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو اِن تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے۔ مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے کہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم انسانی حاجات کے مطابق ہے اور اُن کے ترک کرنے سے کبھی نہ کبھی کوئی خرابی ضرور پیش آئے گی۔اسی وجہ سے بعض یورپ کی گورنمنٹوں کوجواز طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ413،414)
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون: 4)اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے۔ ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہرحال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا۔ اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ40)
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کردیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا۔ اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کرسکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔سو اب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی۔اوراے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔ اگر عورت مرد کے تعدّد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کراسکتی ہے۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ80،81 )
طلاق کی ضرورت
قدرتی طور پر ایسی آفات ہریک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہور ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں۔ مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زناکاری کی حالت میں مشغول رہے۔ ایسا ہی اگر کسی کی جورو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے۔ بلکہ ایک غیرت مند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو تاہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ عورت کا جوڑاا پنے خاوند سے پاکدامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین۳ باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آجاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے۔ انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے۔ پس اگر کوئی عضو سڑ گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے۔ اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کاٹپا جاتا ہے۔(٭ حاشیہ۔ خدا تعالیٰ نے جو ضرورتوں کے وقت میں مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی اور کھول کر یہ نہ کہا کہ عورت کی زناکاری سے یا کسی اور بدمعاشی کے وقت اس کو طلاق دی جاوے اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستّاری نے چاہا کہ عورت کی تشہیر نہ ہو۔ اگر طلاق کے لئے زنا وغیرہ جرائم کا اعلان کیا جاتا تو لوگ سمجھتے کہ اس عورت پر کسی بدکاری کا شبہ ہے یا فلاں فلاں بدکاری کی قسموں میں سے ضرور اس نے کوئی بدکاری کی ہوگی مگر اب یہ راز خاوند تک محدود رہتا ہے۔) پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہاہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں۔ اُسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کاربند ہوکر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ درحقیقت جوڑ نہیں ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ65،66)
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خد مت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے مرد کے بیانوں سے یہ بات پا ئی گئی کہ اگر اسے کو ئی ہی سزا دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکا یت کی تھی ان کا منشا ء تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہو تا ہے اس پر دوسرے کو کا مل اطلاع نہیں ہو تی بعض وقت ایسا بھی ہو تا ہے کہ کو ئی فحش عیب عورتوں میں نہیں ہو تا مگرتا ہم مزاجوں کی نا موافقت ہو تی ہے جو کہ با ہمی معاشرت کی مخل ہو تی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے۔بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو۔۔۔۔ اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چو نکہ اس کی طرف سے کراہت ہو تی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہو نا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لیے ہم اب اس میںدخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا ۔مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے ۔
(البدریکم مئی 1903ء صفحہ117)
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہوگئے تھے۔ سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب
میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو۔ کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو۔ چنانچہ نیل الاوطار کے ص۱۴۰ میں یہ حدیث ہے: اِنَّ ا لسَّوْدَۃَ بِنْت زَمعۃ حِیْنَ اَسَنَّتْ وَ خَافَتْ اَنْ یُفَارِقَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَبْتُ یَوْمِیْ لِعَائِشَۃَ فَقَبِلَ ذٰلِکَ مِنْہَا۔۔۔ و رواہ ایضًا سعد و سعید ابن منصور والترمذی و عبد الرزاق قال الحافظ فی الفتح فتواردت ھذہ الروایات علٰی انھا خشیت الطلاق۔ یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائوں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی۔ آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرما لی۔ ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہواتھا۔ اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کرکے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرتؐ نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پاکر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میںبھی کوئی برائی نہیں۔ اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں۔ اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہوسکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں۔
(نورالقرآن ۔روحانی خزائن جلد9صفحہ380تا382)
طلاق میں جلدی نہ کرو
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
روحانی اور جسمانی طورپر اپنی بیویوں سے نیکی کرو ان کے لئے دعا کرتے رہو اورطلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ75)
ایڈیٹرصاحب بدر تحریرکرتے ہیں کہ
بار ہا دیکھا گیا اور تجر بہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کر نا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ملال کا موجب ہو تا ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی ۔
سُنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فر مایا تھا کہ :۔
جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے ۔
ایساہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اوّل بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے ۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہو ا اور فر مایا :
مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میَں اسے بر داشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے ۔چنانچہ دوسرے دن پھر حضورعلیہ السلام نے یہ فیصلہ صادر فر مایا کہ وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اوّل کا دستِ نگر کر کے نہ رکھا جاوے ۔
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصولِ اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اوّل کو جو صد مہ ہوا ۔اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی ۔اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فر مائی ۔چنانچہ اس خاوندنے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے۔ (البدر 26جون1903ء صفحہ178)
شرطی طلاق
فرمایا :۔
اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے ۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ (البدر12جون1903ء صفحہ162)
حضرت پیر سراج الحق ؓ صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ مباحثے کے دوران ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلامِ الٰہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلامِ الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اورکہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے ۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلا ق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔ (تذکرۃ المہدی صفحہ161)
طلاق اور حلالہ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلا ق لکھ دیتے ہیںان کی وہ طلا ق جائزہو تی ہے یا نہیں ؟اس کے جو اب میں فرما یا :
قرآن شریف کے فر مو دہ کی رُو سے تین طلاق دی گئی ہوںاور ان میںسے ہر ایک کے درمیان اتناہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوںکی عدّت کے گذرنے کے بعداس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہا ں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھراتفاقًا وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائزہے کہ اس بیوی سے نکاح کرلے مگر اگر دوسرا خاوند ،خاوندِاوّل کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے ۔ لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میںدی گئی ہو ں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائزطلاق تھااور اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا۔
دراصل قرآن شریف میںغور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پُرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑکر الگ الگ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں۔ وقفہ کے بعدتین طلاق کا دینااور ان کا ایک ہی جگہ رہناوغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دورہو کرآپس میںصلح ہو جاوے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میںحکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں توآخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا ۔اصل غر ض ان کی صرف یہی ہو تی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور ان کے یہ جو ش فروہوںگے تو پھر ان کی مخالفت با قی نہ رہے گی ۔اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرداور عورت کے الگ ہو نے کے واسطے ایک کا فی موقعہ رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلا ئی برائی کے سوچنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے: اَلطَّلََاقُ مَرَّتَانَ (البقرۃ:۲۳۰) یعنی دودفعہ کی طلا ق ہو نے کے بعدیا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جا وے یا احسا ن سے جداکردیا جا وے۔ اگر اتنے لمبے عرصہ میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلا ح پذیرہوں۔
(الحکم 10؍اپریل 1903ء صفحہ14)
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور طلاق کے متعلق درج ذیل آیات درج فرماکر ان کی تفسیر بیان فرمائی:۔
وَالْمَطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍ( البقرۃ:230،233) اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔(الطلاق:2 تا 6) ۔۔۔۔اور چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں دو دفعہ طلاق ہوگی یعنی ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے دیدے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کرلے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہوسکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ53-52)
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
ایک شخص کے سوال پر فرمایا :
طلا ق ایک وقت میں کا مل نہیں ہو سکتی ۔طلاق میں تین طہرہو نے ضروری ہیں۔فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائزرکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدّت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کرسکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے ۔
قرآن کریم کی روسے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلاخاوند اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکا ح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بِلاعمداُسے طلاق دیدے ۔اگر وہ عمدًا اسی لیے طلاق دیگا کہ اپنے پہلے خاوند سے و ہ پھر نکاح کرلیوے تویہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کانا م حلالہ ہے جوکہ حرام ہے ۔فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدّت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّل اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی۔
قرآن شریف سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کو طلاق بہت ناگوارہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خا نہ بربادی ہو جا تی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقررکی ہے کہ اس عرصہ میںدونوںاپنا نیک وبدسمجھ کراگر صلح چاہیں توکرلیں۔
(البدر 24؍اپریل1903ء صفحہ105)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود ؑ کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے ازحد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی، دلی منشاء نہ تھا۔اب ہر دو پریشان اوراپنے تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتے۔ حضرت نے جواب میں تحریرفرمایا :
فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جِلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہوسکتا ہے۔صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اوراسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے ۔
(بدر31جنوری 1907ء صفحہ4)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
(سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
سوال : اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کردے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے؟
جواب : فرمایا:
’’دے سکتا ہے۔ ‘‘
(بدر 25 جولائی 1907ء صفحہ 11)
خلع
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
فرمایا:۔
شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیاردے دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابلِ برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے۔
اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ288،289)
تعدد ازدواج پر ہونے والے اعتراض کے ضمن میں عورت کے حق خلع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
جو شخص دو بیویاں کرتاہے اس میں خدا تعالیٰ کاحرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کاجو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا۔ پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کراسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ247)
حاکم وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ ؟
فرمایا:۔
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی۔ اس کے نکاح کا ذکر ہوا تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کردیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دے دی اورنکاح ہوگیا۔ دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکارکردیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں۔ ابھی صبر کرے ۔ پھر اگر کسی طرح گذارہ نہ ہو تو خلع ہوسکتاہے اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کرکے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے۔ (یعنی قوتِ رجولیت بالکل معدوم ہے) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دے دی ۔ مگر احتیاطًا ایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی۔ بالآخر خلع ہوگیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ740،741)
وراثت
فاسقہ کا حقِ وراثت
ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہوگیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کے حین ِ حیات میں بیاہی گئی تھی۔ بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مرگیا ۔ زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے ۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟
حضرت نے فرمایا کہ:۔
اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہوسکتا۔ شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے۔ اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کرسکتاہے۔ اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
کسی کا ذکر تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کردیا تھا۔
فرمایا:۔ یہ فعل شرعًا حرام ہے ۔
شریعتِ اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بناناقطعًا حرام ہے ۔
(بدر 17؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
یتیم پوتے کا مسئلہ
رنگون سے تشریف لائے ہوئے دوست مکرم ابو سعید عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔اگرایک شخص کا پوتا یتیم ہے توجب وہ مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کیاجاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُوْا الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوہُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(النسائ:۹)
(یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو انکو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔
(البدر2جنوری 1903ء صفحہ76 )
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
قرآن کریم کا حکم ہے کہ تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو۔ اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
یہ اس لئے ہے کہ لڑکی سسرال میں جاکر ایک حصہ لیتی ہے۔ پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سُسرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہوجاتا ہے۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ212حاشیہ)


پردہ
پردہ کی فلاسفی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضِ بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔
اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا ۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ343،344)
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں،جس پر اعتراض واردہو۔
قرآن مسلمان مردوں اور عورتوںکو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں۔جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں،تو محفوظ رہیں گے۔یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیںہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے،اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیںہے،وہ بیشک جائیں،لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میںمشابہت نہ کریں۔اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟کیا پردہ داری یاپردہ دری کا۔
(تقریرجلسہ سالانہ 28دسمبر1899ء ۔ملفوظات جلد1صفحہ297،298 )
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
فرمایا:۔
ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں۔پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیںہے۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مر گئی،تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہ رہا۔اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا۔مثل مشہور ہے۔مرتا کیا نہ کرتا۔مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔دین اسلام میں تنگی و حرج نہیں۔جو شخص خوا مخواہ تنگی وحرج کرتا ہے،وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے۔گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئے ہیں۔جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے۔کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے۔ (رسالہ الانذار،تقریرحضرت اقدس ؑ 2مئی1898ء بحوالہ ملفوظات جلداوّل صفحہ171)
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ، تشریف لاتے تھے۔ یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہّد سے ان اوقا ت کا انتظام اورانتظار کیا کرتا تھا۔ رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوادی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء ً مَیں پیچھے کو منہ کرکے الٹاکھڑا ہوا کرتا تھا۔ ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اوربیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی۔ اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ عمومًا سیدۃ النساء اورکوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کوچوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرما ہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا۔ مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلّف کرکے اُلٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غضِ بصر کرکے پردہ کی تاکید ہے۔ آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔
چنانچہ اس کے بعد پھرمیں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اُترتے وقت ان کے اُٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضورؑ نے روک دیا اورمیں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ384،385)
پردہ کی حدود
حضرت نواب محمد علی خان صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصّہ اور مُنہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھُلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے۔ اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ48)
امہات المومنین کا پردہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہوکربیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ امہات المومنین سے خاص تھا۔ دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے ۔ بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ766)
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی سفر میں تھے۔سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیرتھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اورپھر غیر لوگ ادھراُدھر پھرتے ہیں ۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں۔ بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے ۔ میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ56)
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے۔ وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے ۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے۔ آپ کو عذر کردینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ362،363)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتا دیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ایک یورپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی۔ رسول کریم ﷺ سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس میں عورتوں کی ہتک نہیں۔
(الفضل 14 ستمبر 1915ء صفحہ 5)
اضطرار میں پردہ کی رعایت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سؤر کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے اِن چیزوں کو حرام قراردیا ہے وہ بہرحال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ انسان غفور اوررحیم خدا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اوراُسے کہے کہ اے خدا!مَیں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اِس زہریلے کھانے کو کھا لیا ہے لیکن اب تُو ہی فضل فرمااوراُن مہلک اثرات سے میری رُوح اور جسم کو بچا جو اُس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اِسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللَّہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ کہا گیا ہے تاکہ انسان مطمئن نہ ہو جائے بلکہ بعد میں بھی وہ اُس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اِسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہوجائے کہ مرد ڈاکٹر کی مددکے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اوروہ ڈاکٹر کی مدد نہ لے اوراُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی ۔ اِسی طرح اگر انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سؤر یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔
(تفسیر کبیر جلد2صفحہ345،346)


خریدوفروخت اور کاروباری امور
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اُسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں کیا ایسی تجارت جائز ہے؟
فرمایا:اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے۔ ایک آن کی بدنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے۔ ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو۔
امام اعظم رحمۃاﷲ علیہ کی بابت لکھاہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جواُن کے کپڑے پر تھی دھورہے تھے۔کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے توفتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آن فتویٰ است وایں تقویٰ۔پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے، سلامتی اسی میں ہے ۔اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروانہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔ تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔ (الحکم10نومبر1905ء صفحہ5)
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر ۸۰ روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے ۸۱ روپے کا ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:۔
جن معاملات میں بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں ۔ فساد نہ ہوں۔ تراضی فریقین ہو اور سرکارنے بھی جُرم نہ رکھا ہو۔ عُرف میں جائز ہو ۔ وہ جائز ہے۔ (الحکم 10؍اگست 1903ء صفحہ19)
بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ،کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اورمانگے ،لیکن وقتِ ضرورت تراضی طرفین ہواور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکہ نہ کرے۔ مثلًا ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویںیااورکسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تودھوکہ دے کر قیمت زیادہ لے لے اورجس کو اس ملک میں ’’لگادا‘‘ لگانا کہتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ10)
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ (البدر یکم و 8نومبر1904ء صفحہ8)
نیک نیتی میں برکت ہے
ایک زرگرکی طرف سے سوال ہو اکہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملادیتے تھے ۔اب ملاوٹ چھوڑدی ہے اور مزدوری زیا دہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دینگے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو۔ایسا کا م ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں ؟فر ما یا :۔
کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کر نا چاہئے اور لوگوں کو کہہ دیا کروکہ اب ہم نے تو بہ کرلی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملادو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں ۔پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو ۔بر کت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور بر کت دیتا ہے۔ (الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے
رہن کے متعلق سوال ہو ا۔ آپ ؑ نے فر مایا کہ :۔
موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکا م زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کر تے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جا تا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکامِ وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طر ح یہ رہن بھی جائز رہا کیو نکہ کبھی فصل ہو تی اور کبھی نہیں ہو تی تو دونوں صورتوں میں مر تہن نفع ونقصان کا ذمہ دار ہے ۔پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے ۔آجکل گور نمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہو تا ہے توایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے ۔
جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مر تہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا ۔
پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فر مایا :۔
زیور ہو کچھ ہو جب انتفا ع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں ۔اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھا تا ہے تو اس کی زکوٰۃبھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوٰۃ بھی فر ض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے۔پس اگر زیور استعمال کر تا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔ (الحکم24؍اپریل 1903ء صفحہ11)
رہن میں وقت مقرر کرنا
سوال:۔ ایک شخص دو ہزار روپے میں ایک مکان رہن لیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دو سال تک راہن سے روپیہ واپس نہ لے۔ کیا رہن کرتے وقت اس قسم کی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی جائز نہیں ۔ جب بھی راہن روپیہ دے وہ مکان مرتہن سے چھڑا سکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پابندی کو جائز قراردیا ہے۔ چنانچہ جب مرزا نظام الدین صاحب کی دوکانیں حضرت ام المومنین نے رہن لیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کیا وقت معین کیا جاسکتا ہے تو آپ ؑ نے اسے جائز قرار دیا۔ پس یہ شرط میرے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ رہن جائز ہو۔ اگر رہن ہی ناجائز ہے تو پھر سال دو سال وغیرہ کی مدت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ پہلے دن سے ہی ناجائز ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
(الفضل 26؍جون1946ء صفحہ3)
رہن باقبضہ ہواور تحریر لینا بھی ضروری ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اولؓ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنوئیں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا جس سے اس کو بد دیانتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اور کیوں اس سے باقاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ145-146)
تیس سال کے لئے باغ رہن رکھوانا
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے خاکسار سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو کسی دینی غرض کے لئے کچھ روپے کی ضرورت پیش آئی تو آپؑ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے تم اپنا زیور دے دو میں تم کو اپنا باغ رہن دے دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے سب رجسٹرار کو قادیان میں بلواکرباقاعدہ رہن نامہ میرے نام کروادیا اورپھر اندر آکر مجھ سے فرمایا کہ میں نے رہن کے لئے تیس سال کی میعاد لکھ دی ہے کہ اس عرصہ کے اندر یہ رہن فک نہیں کروایا جائے گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ رہن کے متعلق میعاد کو عمومًا فقہ والے جائز قرار نہیں دیتے۔ سو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کی اہل فقہ کے قول سے تطبیق کی ضرورت سمجھی جاوے تو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نے میعاد کو رہن کی شرائط میں نہیں رکھابلکہ اپنی طرف سے یہ بات زائد بطور احسان و مروت کے درج کرادی کیونکہ ہر شخص کو حق ہے کہ بطور احسان اپنی طرف سے جو چاہے دوسرے کو دے دے ۔ مثلاً یہ شریعت کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو کچھ قرض دے تو اصل سے زیادہ واپس نہ مانگے کیونکہ یہ سود ہوجاتا ہے ۔ لیکن بایںہمہ اس بات کو شریعت نے نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ قراردیا ہے کہ ہو سکے تو مقروض روپیہ واپس کرتے ہوئے اپنی خوشی سے قارض کو اصل رقم سے کچھ زیادہ دے دے۔ علاوہ ازیں خاکسار کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ گو شریعت نے رہن میں اصل مقصود ضمانت کے پہلو کو رکھا ہے اور اسی وجہ سے عمومًا فقہ والے رہن میں میعاد کو تسلیم نہیں کرتے لیکن شریعت کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک امر ایک خاص بات کو ملحوظ رکھ کر جاری کیا جاتا ہے ۔ مگر بعد اس کے جائز ہو جانے کے اس کے جواز میں دوسری جہات سے بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلًا سفر میں نماز کا قصر کرنا دراصل مبنی ہے اس بات پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں سفروں میں نکلتے تھے تو چونکہ دشمن کی طرف سے خطرہ ہوتا تھا۔ اس لئے نماز کو چھوٹا کردیا گیا ۔ لیکن جب سفر میں ایک جہت سے نماز قصر ہوئی تو پھر اللہ نے مومنوں کے لئے اس قصر کو عام کردیا اور خوف کی شرط درمیان سے اُٹھا لی گئی۔ پس گو رہن کی اصل بنیاد ضمانت کے اصول پر ہے لیکن جب اس کا دروازہ کھلا تو باری تعالیٰ نے اس کو عام کردیا مگر یہ فقہ کی باتیں ہیں جس میں رائے دینا خاکسار کا کام نہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ263،264)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے روسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے ۔ وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ 25 جون1898ء ہے۔ زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے۔ اس رہن میں حضرت صاحب کی طر ف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں۔
’’ اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا۔ بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہوں زر رہن دوں تب فک الرہن کرالوں۔ ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہونہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع الوفا ہو جائے گا اورمجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔ قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرادوں گا اور منافع مرہونہ بالاکی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سرکاری فصل خریف 1955(بکرمی) سے مرتہنہ دے گی اور پیداوار لے گی۔ ‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویز کردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ338)
زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے پیر افتخار احمدصاحب نے بیان کیاکہ ایک دفعہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوچہ بندی میں کھڑے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ڈیوڑھی سے نکلے اور آپ کے ہاتھ میں دو بند لفافے تھے۔ یہ لفافے آپ نے مرزا نظام الدین کے سامنے کردئیے کہ ان میں سے ایک اُٹھا لیں۔ انہوں نے ایک لفافہ اُٹھالیا اور دوسرے کو لے کر حضرت صاحب فورًا اندر واپس چلے گئے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے حضرت والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفافے باغ کی تقسیم کے متعلق تھے چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے باغ کا نصف حصہ لینا اور نصف مرزا سلطان احمد کو جانا تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے اس تقسیم کے لئے قرعہ کی صورت اختیار کی تھی اور مرزا نظام الدین مرزا سلطان احمد کی طرف سے مختارکار تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس تقسیم کے مطابق باغ کا جنوبی نصف حصہ حضرت صاحب کو آیا اور شمالی نصف مرزا سلطان احمد صاحب کے حصہ میں چلا گیا۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ263)
مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی(یعنی خاکسار و برادران میاں جمال الدین مرحوم و میاں امام الدین صاحب) مسائل فقہی کی بناء پر گاہے بگاہے بدیں طریق تجارت کرتے تھے کہ غلّہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کو کسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے۔ جب حضور علیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہو گیا تو اس وقت بھی ایک دفعہ غلّہ خرید کیا گیا کہ غرباء کو دستورسابق دیا جائے۔جب میں قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرلوں۔ چنانچہ حضور ؑ کی خدمت میں سوال مفصل طورپر پیش کردیا۔ حضور علیہ السلام نے جوابًا فرمایاکہ ’’ تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ جس لہجہ سے حضور ؑ نے جواب دیا وہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت ناپسند ہیں۔ پس واپس آکر ہم نے ارادہ ترک کر دیا اور بعد ازاں پھر کبھی یہ کام نہ کیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ249،250)
آبکاری کی تحصیلداری
ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار تھے ان کا خط حضرت کی خدمت میں آیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے؟ فرمایا :
اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں۔ تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے نہ بیچتا ہے نہ پیتاہے، صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے ۔ ملک کی سلطنت اور حالات موجود ہ کے لحاظ سے اضطراراً یہ امر جائز ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پید اکرے۔ گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
(بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
نوٹوں پر کمیشن
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یاپونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لیے یا دیئے جاتے ہیں کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے؟ فرمایا:
یہ جائز ہے اور سود میں داخل نہیں ۔ ایک شخص وقت ضرورت ہم کو نوٹ بہم پہنچا دیتاہے یا نوٹ لے کر روپیہ دے دیتاہے تو اس میں کچھ ہرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے۔ کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتاہے۔
(بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
علمِ فقہ اور فقہاء
تَفَقُّہْ فِی الدِّین کی ضرورت
فرمایا
ہماری جماعت کو علمِ دین میں تَفَقُّہْ پیدا کرنا چاہئے۔ مگر اس کے وہ معنے نہیں جو عام ملّاں لوگوں نے سمجھ رکھے ہیںکہ استنجاء وغیرہ کے چند مسائل آگئے وہ بھی تقلیدی رنگ میں فقیہ بن بیٹھے۔ بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیاتِ قرآنی واحادیث نبوی اورہمارے کلام میں تدبّر کریں۔قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں۔ (بدر25اپریل 1907ء صفحہ4)
اَئمہ اربعہ اسلام کے لئے چاردیواری
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جب وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیرہ ذالک۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لئے بطور ایک چاردیواری کے سمجھتا ہوںجس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے۔ پس اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نااہل آزادانہ طورپر اپنا طریق اختیار کرتا۔ اورامتِ محمدیہ میں ایک اختلاف عظیم کی صورت قائم ہوجاتی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چار اماموں نے جو اپنے علم و معرفت اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں کو پراگندہ ہوجانے سے محفوظ رکھا۔ پس یہ امام مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے اوران کی بزرگی اوراحسان کے معترف ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ (سیر ت المہدی جلد1صفحہ334)
ایک موقع پر فرمایا:۔
امام شافعی اورحنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہلِ حق اورناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چاردیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تواسلام ایسا مشتبہ مذہب ہوجاتا کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔
(بدر 3نومبر1905ء صفحہ 4)
اَئمہ اربعہ برکت کا نشان تھے
میری رائے میں اَئمہ اربعہ ایک برکت کا نشان تھے۔ اُن میں رُوحانیت تھی، کیونکہ رُوحانیت تقویٰ سے شروع ہوتی ہے اور وہ لوگ درحقیقت متقی تھے اور خدا سے ڈرتے تھے اوراُن کے دِل کلابُ الدنیا سے مناسبت نہ رکھتے تھے۔ (الحکم24ستمبر1901ء صفحہ2 )
حضرت امام ابو حنیفہ کا عالی مقام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام ابو حنیفہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا
بعض اَئمہ نے احادیث کی طرف توجہ کم کی ہے جیساکہ امام اعظم کوفی رضی اللہ عنہ جن کو اصحاب الرائے میں سے خیال کیاگیا ہے اور ان کے مجتہدات کو بواسطہ دقّتِ معانی احادیث صحیحہ کے برخلاف سمجھا گیا ہے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔
(ازالہ اوہا م ۔روحانی خزائن جلد3صفحہ385)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ 1891ء میں ایک مباحثہ ہوا جس کے دوران آپ نے محسوس کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بارہ میں استخفاف سے کام لے رہے ہیں اس پر آپؑ نے فرمایا:۔
اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ101)
فخر الأئمہ ،امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کاذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک اشتہار میں تحریرفرمایا کہ
’’ اُن کے 76صفحے کے مضمون میں بجز بے تعلق باتوں اور بدزبانی اورافتراء کے اورخاک بھی نہیں تھااوربدزبانی سے یہاں تک انہوں نے کام لیا کہ ناحق بے وجہ امام بزر گ حضرت فخرالأئمہ ،امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی شانِ بلند میں سخت تحقیر کے الفاظ استعمال کئے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ196)
حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت
فرمایا:۔
شریعت کے عملی حصہ میں سب سے اوّل قرآن مجید ہے۔ پھر احادیثِ صحیحہ جن کی سُنّت تائید کرتی ہے ۔ اوراگر کوئی مسئلہ اِن دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جائے کیونکہ اس کی کثرت اِس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے مگر ہم کثرت کو قرآن مجید واحادیث کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتے ہیں ۔ اس کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ قیاس صحیح کے بھی خلاف ہیں۔ ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہاد اولیٰ بالعمل ہے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ209)
مسیح موعود ؑکے حنفی مذہب پر ہونے سے کیامرادہے؟
مولوی بہاء الدین صاحب احمد آبادی نے پوچھا کہ مکتوبات امام ربانی میں مسیح موعود کی نسبت لکھا ہے کہ وہ حنفی مذہب پر ہو گا۔اس کا کیا مطلب ہے؟فرمایا:
اس سے یہ مراد ہے کہ جیسے حضرت امام اعظم قرآن شریف ہی سے استدلال کرتے تھے۔اور قرآن شریف ہی کو مقدم رکھتے تھے۔اسی طرح مسیح موعود بھی قرآن شریف ہی کے علوم اور حقائق کو لے کر آئے گا۔چنانچہ اپنے مکتوبات میں دوسری جگہ انہوں نے اس راز کو کھول بھی دیا ہے اور خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ مسیح موعود کو قرآنی حقائق کا علم دیا جائے گا۔
(الحکم 10؍اگست1901ء صفحہ 8)
مجددین ضرورتِ وقت کے مطابق آتے ہیں
فرمایا:
’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے آیا کرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔‘‘ (الحکم19مئی1899ء صفحہ4)
غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو
حضرت پیر سراج الحق ؓصاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں :
ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور یہ وہابی غیر مقلد ناپاک فرقہ (میں اس وقت سخت متعصب حنفی تھا) جو ہے اس کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ سُن کر اور ہنس کر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا۔ دوسرے روز پھر میں نے ذکر کیا ۔ فرمایا کہ یہ فرقہ بھی خدا کی طرف سے ہے بُرا نہیں ہے۔ جب لوگوں نے تقلید اور حنفیت پر یہاں تک زور دیا کہ ائمہ اربعہ کو منصبِ نبوت دے دیا تو خدا نے اپنی مصلحت سے اس فرقہ کو پیدا کیا تاکہ مقلد لوگ راہِ راست اور درمیانی صورت میں رہیں۔ صرف اتنی بات ان میں ضرور بُری ہے کہ ہر ایک شخص بجائے خود مجتہد اور امام بن بیٹھا اور ائمہ اربعہ کو بُرا کہنے لگا۔
( تذکرۃ المہدی صفحہ 213،214)
خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے الگ الگ مصلّے
یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کار انہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دُنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آج کل حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی باوجود اُن سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارضِ مقدّسہ بھی ان کو ایک مصلّے پر جمع نہیں کرسکی ایک دوسرے سے مخالطت اورملاقات رکھتے ہیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ498)
تقلید کی بھی کسی قدر ضرورت ہے
ایک دفعہ ایک واعظ ایسے طرز پر حضرت ؑ کے سامنے گفتگو کرتا تھا کہ گویااس کے نزدیک حضرت ؑ بھی فرقہ وہابیہ کے طرفدار ہیںاور اپنے تئیں بار بار حنفی اور وہابیوں کا دشمن ظاہر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ حق کا طالب ہوں۔ اس پر حضرت ؑ نے فرمایا: اگر کوئی محبت اور آہستگی سے ہماری باتیں سُنے تو ہم بڑی محبت کرنے والے ہیں اور قرآن اور حدیث کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی اس طرح فیصلہ کرنا چاہے کہ جو اَمر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو، اُسے قبول کرلے گا اورجو ان کے بر خلاف ہواُسے رَد کردے گا ۔ تو یہ امر عین سرور، عین مدعا ہے اور عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے۔ ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔ ذرا سا علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا۔ کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو جاوے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے۔ ہمارے ہاں جو آتا ہے۔ اُسے پہلے ایک حنیفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیںاور اسلام کے واسطے ایک چاردیوار۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کئے جو نہایت متقی اورصاحبِ تزکیہ تھے۔ آج کل کے لوگ جو بگڑتے ہیں اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دِی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں۔ اوّل وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے خود پاک کیااور علم دیا۔ دوم وہ جوان کی تابعداری کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں۔ کیونکہ ان کو تزکیہ نفس عطا ء کیا گیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے قریب کے ہیں مَیں نے خود سُنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں ۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ277،278)
ایک اور موقعہ پرحضور ؑ نے فرمایا
ایک عرب ہمارے ہاں آیااور وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اُتر آتا۔اس نے یہاں آکر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اوروہابیوں کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ ہم نے اس کی کچھ پروا نہ کرکے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے ۔ اس پر وہ خاموش ہوگیا اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں۔
(بدر 4جولائی 1907 ء صفحہ7 )
اختلافِ فقہاء
فرمایا:
آج کل علماء کے درمیان باہم مسائل میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر ایک مسئلہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اختلاف ہے ۔ جیسا کہ لاہور میں ایک طبیب غلام دستگیر نام تھا۔ وہ کہا کرتاتھا کہ مریضوں اور اس کے لواحقین کی اس ملک میں رسم ہے کہ وہ طبیب سے پوچھا کرتے ہیں کہ یہ دواگرم ہے یا سرد؟ تو میں نے اس کے جواب میں ایک بات رکھی ہوئی ہے ۔ میں کہہ دیا کرتا ہوں کہ اختلاف ہے۔ اوّل تو اس اختلاف کے سبب کئی فرقے ہیں۔ پھر مثلاً ایک فرقہ حنفیوں کا ہے ان میں آپس میں اختلاف ہے ۔ پھر خود امام ابو حنیفہ ؒ کے اقوال میں اختلاف ہے۔ (بدر یکم اگست 1907ء صفحہ3)
جائز قیاس وہ ہے جو قرآن و سنت سے مستنبط ہو
ایک شخص نے مسئلہ پوچھا ۔ مرغی کی گردن بلی اتار کر لے گئی ۔ مرغی پھڑک رہی ہے ذبح کر لی جائے ؟فرمایا:۔
ایسے مسائل میں اصول کے طور پر یادرکھو کہ دین میں صرف قیاس کرنا سخت منع ہے ۔ قیاس وہ جائز ہے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہو۔ ہمارا دین منقولی طور سے ہمارے پاس پہنچا ہے ۔ پس اگر آنحضرت ﷺ سے کوئی ایسی حدیث ثابت ہو جائے ورنہ کیا ضرورت ہے دو چار آنے کے لئے ایمان میں خلل ڈالنے کی ۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ أَ لْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلَالٌ وَّہٰـذَا حَرَامٌ (النحل :117) (بدر24مئی1908ء صفحہ4)
سُنّتِ صحیحہ معلوم کرنے کا طریق
جب اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے تو سُنّتِ صحیحہ کیسے معلوم ہو؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ :۔
’’قرآن شریف، احادیث اور ایک قوم کے تقویٰ اورطہارت اور سنت کو جب آپس میں ملایاجاوے تو پھر پتہ لگ جاتا ہے کہ اصل سُنّت کیا ہے۔ ‘‘ (البدریکم مئی 1903ء صفحہ 114)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
قیاس کی حجت
۔۔۔۔ ان ساری باتوں کے علاوہ میں اب قیاس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میرے ساتھ ہیں۔ اجماعِ صحابہؓ بھی میری تائید کرتا ہے۔نشانات اور تائیداتِ الٰہیہ میری مویّد ہیں۔ ضرورت وقت میرا صادق ہونا ظاہر کرتی ہے۔ لیکن قیاس کے ذریعہ سے بھی حجت پوری ہو سکتی ہے۔ اس لیے دیکھنا چاہیے کہ قیاس کیا کہتا ہے؟ انسان کبھی کسی ایسی چیز کے ماننے کو تیار نہیں ہو سکتا جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو۔ مثلاً اگر ایک شخص آکر کہے کہ تمہارے بچے کو ہوا اڑا کر آسمان پر لے گئی ہے یا بچہ کتّا بن کر بھاگ گیا ہے تو کیا تم اس کی بات کو بلا وجہ معقول اور بلاتحقیق مان لو گے؟ کبھی نہیں، اس لیے قرآن مجید نے فرمایا
فَاسْئَلُوْااَھْلَ الذِّکْرِاِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل:۴۴)
اب مسیح علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ پر اور اُن کے آسمان پر اڑ جانے کے متعلق غور کرو۔ قطع نظران دلائل کے جو ان کی وفات کے متعلق ہیں۔یہ پکی بات ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا۔اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جوہر طرح کامل اور افضل تھے ان کو چاہیے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی وحی سے جواب دیا۔
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل:۹۴)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہدو اﷲ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اس نے بشر کے لیے آسمان پر مع جسم جانا حرام کر دیا ہے اگر میں جائوں توجھوٹا ٹھہروں گا۔
اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے او ر کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو۔
پس ایسی باتوں کے ماننے سے کیا فائدہ جن کا کوئی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں۔ اس طرح پر تم اسلام کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ٹھہروگے۔ پھر پہلی کتابوں میں بھی توکوئی نظیر موجود نہیں اور ان کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ (الاحقاف:11)
اور پھر فرمایاکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ (الرعد : 44)
اور ایسا ہی فرمایا
یَعْرِفُوْنَہُ کَمَایَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ (البقرہ :147)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے لیے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہو گیا؟ (لیکچر لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد20صفحہ296،297 )
مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات
ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مُقَلِّد غیر مقلدوں کی غلطیاں نکالتے اور وہ ان کی غلطیاںظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے۔ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے۔اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی،تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے۔ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خد اتعالیٰ خود فیصلہ کرتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔اب بتائو کہ میں نے کیا زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش پیدا ہوا ہواہے۔ (الحکم 30ستمبر1904صفحہ3)
مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ مولوی محمد حسین صاحب کا ایک رسالہ آیا ہے جس میں چینیاں والی مسجد میں قیامت کے عنوان سے اس نے ایک مضمون لکھا ہے جو مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف ہے۔لکھتے لکھتے ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ہم اس کو پرافٹ آف قادیان کے ساتھ ملاتے ہیں۔یعنی کفر کا فتویٰ دیتے ہیںچنانچہ اس کے نیچے پھر کفر کا فتویٰ مرتب کیا ہے۔
اس پر حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ : وجوہ کفر کیا ہیں؟
مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے ، جیسے کہ کُتّے کوہڈی کا چسکا ہوسکتاہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ قرآن کے لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیساکہ ایک چپڑاسی یا مذکو ری کا درجہ پروانہ سرکاری لانے میں ہو تا ہے ۔
حضرت اقدس مسیح مو عو د ؑ نے فرمایا :۔
ایسا کہنا کفر ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بے ادبی کرتاہے ۔احادیث کو ایسی حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔کفّار تو اپنے بتوں کے جنتر منتر کو یاد رکھتے ہیں۔ تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسولؐ کی باتوںکو یاد نہ رکھا ۔ قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور اس پر آپؐ عمل کرتے تھے اور دوسروںکو عمل کراتے تھے ۔ یہی سنّت ہے اور اسی کو تعامل کہتے ہیں اور بعد میںائمہ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ اس سنّت کو الفاظ میں لکھااور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی ۔ پس وہ حدیث ہوئی دیکھوبخاری اور مسلم کو ، کیسی محنت کی ہے ۔آخر انہوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے ۔ بلکہ جہاں تک بس چلا صحت وصفائی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی سنّت کو جمع کیا ۔ (الحکم 17؍اگست1902ء صفحہ 11)
وہابیوں کی ظاہرپرستی
حضرت اقدس نے اِن وہابیوں کے اخلاق اور ادبِ رسول پر اپنا ایک ذکر سنایاکہ ایک دفعہ جب آپ امرتسر میں تھے توغزنوی گروہ کے چند مولویوں نے آپ کو چائے دی چونکہ حضرت اقدس کے دائیں ہاتھ میں بچپن میں ضرب آئی ہوئی ہے اور ہڈی کوصدمہ پہنچاہوا ہے ۔آپ نے بائیں ہاتھ سے پیالی لی تو اس پر غزنوی صاحبان نے فوراً بلاوجہ دریافت کئے کہناشروع کیا کہ یہ خلاف سنت ہے۔ آپ نے ان کوسمجھایاکہ آداب اور روحانیت بھی سنت ہیں پھر ان کو اصل وجہ بتلائی گئی اس کے بعد ان لوگوں نے آپ پر یہ اعتراض کیاکہ آپ نے اپنی تصنیفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعریف کی ہے اس قدر نہ چاہیے تھی ہم تو ان کو اسی قدر مانتے ہیں ۔ جس قدر حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ یونس بن متّٰی سے بھی زیادہ نہیں ہے ۔
جسمانی طور پر جس قدر ترقیات آج تک ہوئی ہیں کیاوہ پہلے زمانوں میں تھیں؟ اسی طرح روحانی ترقیات کاسلسلہ ہے کہ وہ ہوتے ہوتے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا ۔خاتم النبیین کے یہی معنے ہیں جب ان (وہابیوں)کی یہ حالت ہے توپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کونسی سچی محبت کر سکتے ہیں اور کیافائدہ اٹھاسکتے ہیں ؟
فرمایاکہ
میرادل ان لوگوں سے کبھی راضی نہیں ہوا اور مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوتی کہ مجھے وہابی کہاجاوے اورمیرانام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا ۔ میں ان کے مجلسوں میں بیٹھتا رہاہوں۔ ہمیشہ لفّاظی کی بو آتی رہی ہے یہی معلوم ہو اکہ ان میں نراچھلکا ہے مغز بالکل نہیں ہے ۔مولوی محمد حسین نے خود حدیث کی نسبت اپنی اشاعت السنّہ میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک صاحب الہام یااہل کشف صحیح حدیث کو ضعیف یا ضعیف کو صحیح قرار دے سکتاہے کیونکہ وہ کشفی حالت میں آنحضرت ﷺسے اس کی تصحیح کرالیتاہے مگر تاہم میں نے یہ التزام رکھا ہے کہ میں اپنے کشوف یاالہامات پرتحمل نہیں کرتا جب تک قرآن اور سنت اورصحیح حدیث اس کے ساتھ نہ ہو ۔ محمدحسین سے پوچھا جائے کہ جب عبداللہ غزنوی احادیث میں اس طرح دخل دے سکتے تھے تو پھر حَکَمْ نے کیاگناہ کیا کہ اسے ہرایک ر طب ویا بس ماننے پر مجبور کیاجاتا ہے۔
(البدر21نومبر1902ء صفحہ 30)
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
چکڑالوی کا ذکر آنے پر معلوم ہوا کہ اس نے نماز میں بھی کچھ ردوبدل کی ہے التحیَّات اور درود شریف کو نکال دیا ہے اور بھی بعض تبدیلیاں کی ہیں ۔حضرت اقدسؑ نے چکڑالوی کے فتنہ کو خطرناک قرار دیا اور آپ کی رحمت اور حمیّتِ اسلامی نے تقاضا کیا کہ اس کے متعلق ایک اشتہار بطور محاکمہ کے لکھا جاوے جس میں یہ دکھایا جائے کہ مولوی محمد حسین نے اور اس نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی ہے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو صراط مستقیم پر رکھا ہے۔
فرمایا :۔
نبی ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے ہیں۔کتاب اور سنت۔ایک خدا کا کلام ہوتا ہے اور دوسرے سنت۔یعنی اس پر عمل کرکے دکھادیتے ہیں۔ دنیا کے کام بھی بغیر اس کے نہیں چل سکتے دقیق مسائل جو استاد بتاتا ہے پھر اس کو حل کرکے بھی دکھادیتا ہے پس جیسے کلام اﷲ یقینی ہے سنت بھی یقینی ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر کھڑا کررکھا ہے وہابیوں نے افراط کی، قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے آگے مستغیث کی طرح کھڑا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی حدیث کا انکار کر دیا۔اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خد انے حَکَم ٹھہرایاہے اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے۔اول خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کی جاوے تو ایک لذّت آتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُوْمِنُوْنَ اور دوسری جگہ فرمایا
فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیَاتِہٖ یُوْمِنُوْنَ (الجاثیہ:7)
یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا
اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران : 32)
(البدر28نومبر۔5دسمبر1902ء صفحہ 46)
احناف کا احوال
۔۔۔۔رہے حنفی ، ان میں بدقسمتی سے اقوالِ مردودہ اور بدعات نے دخل پالیا ہے۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تواعلیٰ درجہ کے متقی تھے، مگر اُن کے پَیروئوں میں جب رُوحانیت نہ رہی تو انہوں نے اور بدعتوں کو داخل کرلیا اورتقلید میں انہوں نے یہاں تک غُلُوّ کیا کہ ان لوگوں کے اقوال کو جن کی عصمت کاقرآن دعویٰ نہیں کرتا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر بھی فضیلت دے دی اور اپنے اغراض اور مقاصد کو مدِ نظر رکھ کر امام صاحب کے اقوال کی جس طرح چاہا تاویل کرلی۔ لُدھیانہ میں مَیں ایک دفعہ تھا تو نوابوں کے خاندان میں سے ایک شخص میرے پا س آیا اور باتوں ہی باتوں میں انہوں نے کہا کہ مَیں پکا حنفی ہوں اور یہ بھی کہاکہ میرے چچا صاحب کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی حسنِ عقیدت تھی یہانتک کہ جب انہوں نے مالا بد منہ میں امام صاحب ؓ کا یہ قول دیکھا کہ صرف جو اور انگور اور دو اوریعنی چارقسم کی شراب حرام ہے، تو انہوں نے ولایت کی شرابیں منگواکر اسی ہزارروپیہ کی شراب پی تاکہ امام صاحب ؒ کی سچی پیروی ہوجاوے۔استغفراللّٰہ ثم استغفراللّٰہ
غرض اس قسم کی تاویلیںکرلیتے ہیں۔ عام طور پرشکایت کی جاتی ہے کہ جس قسم کا فتویٰ کوئی چاہے ان سے لے لے۔ حلالہ کا مسئلہ بھی انہوں نے ہی نکالا ہے کہ اگر کوئی عورت کو طلاق دے دے تو پھر جائز طو رپر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرے اوروہ پھر اس کو طلاق دے، حالانکہ قرآن شریف میں کہیں اس کا پتہ نہیں ملتا اور احادیث میں حلالہ کرنے والے پر *** آئی ہے۔ (الحکم 30ستمبر1901ء صفحہ3)
شافعی فرقے کے طوراطوار
ایک اور فرقہ شافعی مذہب والوں کا ہے۔ وہ تو وحشیوں کی سی زندگی بسرکرتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک مقولہ ہے۔ ’’شافعی سب کچھ معافی‘‘یعنی نہ حِلّت وحُرمت کی ضرورت ہے نہ کچھ اور۔
چنانچہ ہمارے ملک میں خانہ بدوش لوگ جو پھر اکرتے ہیں یہ اپنے آپ کوشافعی کہتے ہیں۔ ان کے اطوارا ورچال چلن کو دیکھ لو۔ امرتسر میں ایک مُؤحّد رنڈی کی مسجد میں نماز پڑھایاکرتاتھا۔ اس نے میرے پاس ذکر کیا کہ وہ ایک مرتبہ بمبئی چلا گیا اور اتفاق سے شافعیوں کی مسجد میں چلاگیا۔ صُبح کی نماز کا وقت تھا۔ اس سے جب دریافت کیا تو اس نے کہہ دیا کہ مَیں شافعی ہوں اور جب انہوں نے اس کو نماز کے لئے امام بنایا اوراس نے شافعی مذہب کے موافق صبح کی نمازمیں قنوت نہ پڑھی تو وہ لوگ بڑے ہی برافروختہ ہوئے آخربمشکل وہاں سے بچ کر نکلا۔ الغرض مذہب اسلام میں اندرونی طور پر ایسے ایسے بہت سے فساد اور فتنے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے اور بیرونی فسادوں کو آدمی دیکھے تو اور بھی حیران ہوجاتاہے۔ ایک پادریوں کے ہی فتنہ کو دیکھو تو گھبرا جائو۔ مختصر یہ کہ ان سارے فسادوں کا اجتماع بالبداہت بتارہا ہے کہ اس وقت ایک آسمانی سلسلہ کی ضرورت ہے اور اگر خدا اس وقت کوئی سلسلہ قائم نہ کرتاتو پھر خدا پر اعتراض ہوتا، مگر خدا کاشکر ہے کہ اس نے وقت پر ہماری دستگیری کی اور اس سلسلہ کو اپنی تائیدوں کے ساتھ قائم کیا۔فالحمدللہ علی ذلک۔
(الحکم30ستمبر1901ء صفحہ3)
جزئی مسائل میں مباحثے پر ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب نے تحریر کیا کہ مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک اشتہار دیا۔ جس میں رَفَع یَدَین آمین وغیرہ کے مسائل تھے اور جواب کے لئے فی مسئلہ دس روپیہ انعام مقرر کیا تھا۔ دس مسائل تھے۔ حضرت صاحب نے مجھے سنایااور فرمایا کہ دیکھو یہ کیسافضول اشتہار ہے۔ جب نماز ہر طرح ہوجاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجبِ فساد ہے۔ اس وقت ہمیں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے نہ کہ ان مسائل میں بحث کی۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ541)
فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر کہنا درست نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نورمحمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی روز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ہم بھی غیر مقلد تھے۔ مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اورجس قدر نمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدہ:۳۶) پیش کرتے تھے۔ میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں۔ اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا ۔ جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے۔ صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے۔ میرے والد صاحب نے قادیان جاکر حضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں۔ آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتویٰ لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جو لوگ آمین بالجہر، الحمدللہ، رفع یدین اورفاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے ، وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خود کافر ہے۔ مگر چند روز کے بعد عام لوگ خودبخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے۔ اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ تم جواب دیا کرو کہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اوران کی کتاب غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرو اور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیرانِ پیرؒ اور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ12،13)
حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کا حنفی ہونے کا اعلان
حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرماویں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتًا اہل حدیث تھے۔ حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا
بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
اور اس کے نیچے ’’ نورالدین حنفی‘‘ کے الفاظ لکھ دئیے۔ اس کے بعد جب مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب حنفی مذہب کا اصول کیا ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اصول یہ ہے کہ قرآن شریف سب سے مقد م ہے۔ اگر اس کے اندر کوئی مسئلہ نہ ملے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل و قول کو دیکھنا چاہیے۔ جس کا حدیث سے پتا لگتا ہے اوراس کے بعد اجماع اور قیاس سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر مولوی صاحب آپ کا کیا مذہب ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی مذہب ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے اپنی جیب سے مولوی صاحب کا وہ کارڈ نکالا اور ان کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ مولوی صاحب شرمندہ ہوکر خاموش ہوگئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ اگرچہ میں اپنی رائے میں تو اہلِ حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیرِ طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو۔ اس لئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپ کو حنفی کہتا ہوں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ احمدیت کے چرچے سے قبل ہندوستان میں اہلِ حدیث کا بڑا چرچا تھا اور حنفیوں اوراہل حدیث کے درمیان (جن کو عمومًا لوگ وہابی کہتے ہیں) بڑی مخالفت تھی اور آپس میں مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے گویا جانی دشمن ہورہے تھے اورا یک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی کا میدان گرم تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گو دراصل دعویٰ سے قبل بھی کسی گروہ سے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے جس سے تعصب یا جتھہ بندی کا رنگ ظاہر ہو لیکن اصولًا آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ عقائد و تعامل کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ کا طریق حنفیوں کی نسبت اہلِ حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ333،334)
اہل حدیث طریق کی ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والد میاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی ہونے سے قبل وہابی(اہلحدیث) تھا۔ میں نے اپنا پاؤں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں کے ساتھ ملانا چاہامگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سِرکا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آگیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابلِ قدر فرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزاد ہوکر اتباعِ سنت نبوی سے مستفیض ہوئے ہیں مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نامناسب زور دیا ہے اوراتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہوگئی ہیں۔ اب اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز میں دو نمازیوں کے درمیان یونہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہئے بلکہ نمازیوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اول تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے۔ دوسرے بے ترتیبی واقع نہ ہو۔ تیسرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہوسکیں۔ وغیرذالک۔ مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا ہے اوراس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی۔ اب گویا ایک اہلِ حدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخوا ہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ313،314)
کتبِ فقہ پرنظرثانی کی ضرورت
حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریرمجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورعلیہ السلام نے فرمایا
’’ کتبِ فقہ پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘ (سیرت المہدی جلد2صفحہ279)
سود ، انشورنس اور بینکنگ
سُود
سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحق حال ہو جاتی ہیں ۔ فرمایا:
اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے۔ یہ بہر حال ناجائزہے۔ ایک طرح کا سوداسلام میں جائز ہے یہ کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تومروّت کے طورپر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے ۔ آنحضرتؐ ایسا ہی کیاکرتے ۔ اگر دس روپیہ قرض لئے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے۔ سود حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اوّل ہی کرلی جاویں۔
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
سود در سود
ایک صاحب نے بیان کیا کہ سیداحمدخان صاحب نے لکھا ہے اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً (آل عمران : ۱۳۱) کی ممانعت ہے فر ما یا :
یہ با ت غلط ہے کہ سود در سود کی ممانعت کی گئی ہے اور سودجا ئزرکھا ہے شریعت کا ہر گز یہ منشاء نہیں ہے یہ فقرہ اسی قسم کا ہے جیسے کہا جا تا ہے کہ گنا ہ درگنا ہ مت کرتے جا ؤ ،اس سے یہ مطلب نہیں ہو تا کہ گنا ہ ضرور کر و۔
اس قسم کا روپیہ جو کہ گو رنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حا لت میں سود ہو گا جبکہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے ورنہ گو رنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانًا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے ۔
(البدر 27مارچ 1903ء صفحہ75)
پراویڈنٹ فنڈ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ۔ان کی تنخواہ میں سے ایک آنہ فی روپیہ کا ٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائدروپیہ بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا :
شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں ۔ اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے ۔پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی وقت اُسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ)دیدیا ہو ۔یہ خیال رہنا چاہیے کہ اپنی خواہش نہ ہو ۔ خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے ۔
(البدر 27مارچ 1903ء صفحہ75)
تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت
ایک صاحب نے سوال کیا کہ ضرور ت پر سودی روپیہ لے کر تجا رت وغیرہ کر نے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:
حرام ہے ۔ہا ں اگر کسی دوست اور تعا رف کی جگہ سے روپیہ لیا جا وے اور کو ئی وعدہ اس کو زیادہ دینے کا نہ ہو نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیا ل ہو ۔پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیا دہ دیدے تو وہ سود نہیں ہو تا بلکہ یہ تو ھَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمن :۶۱) ہے۔ اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہواور سوائے سود کے کا م نہ چل سکے تو پھر؟ اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا :
خدا تعا لیٰ نے اس کی حرمت مو منوں کے واسطے مقررکی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایما ن پر قائم ہو اللہ تعا لیٰ اس کا متو لی اور متکفل ہو تا ہے ۔اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گذرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پورے ہو تے رہے کہ نہ ؟ خدا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ نہ لو نہ دوجو ایسا کر تا ہے وہ گویا خدا کے سا تھ لڑائی کی تیا ری کر تا ہے ایما ن ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے ۔ایما ن بڑی با بر کت شے ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ (البقرہ : ۱۰۷) اگر اسے خیا ل ہو کہ پھر کیا کرے ؟ تو کیا خدا کا حکم بھی بیکا رہے ؟ اس کی قدرت بہت بڑی ہے۔ سود تو کو ئی شے ہی نہیں ہے ۔اگر اللہ تعا لیٰ کا حکم ہو تا کہ زمین کا پا نی نہ پیا کروتو وہ ہمیشہ با رش کا پانی آسما ن سے دیا کرتا اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو۔ جب تک ایما ن میں میل کچیل ہو تاہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے۔کو ئی گنا ہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے ورنہ انسا ن تو ہر ایک گنا ہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑیں تو گذارہ نہیں چلتا ۔ دکا نداروں عطا روں کو دیکھا جا وے کہ پر انا مال سا لہا سال تک بیچتے ہیں ۔دھوکا دیتے ہیں ۔ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذرکرتے ہیں کہ گذارہ نہیں چلتا۔ان سب کو اگر اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتا ب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گزارہ نہیں چلتا حالانکہ مو من کے لیے خدا خود سہولت کر دیتا ہے ۔یہ تما م راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے۔
لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے۔ جیسے بھروسہ اُن کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے۔ خدا پر ایمان، یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اورعجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے۔میں نے کئی دفعہ بیماریوں میں آزمایا ہے کہ پیشاب باربار آرہا ہے دست بھی لگے ہیں۔آخر خدا سے دعا کی ۔صبح کو الہام ہوا۔ دُعَائُ کَ مُسْتَجَابٌ اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی اور کمزوری کی جگہ طاقت آگئی ۔یہ خدا کی طاقت ہے ایسا خدا عجیب ہے کہ ان نسخوں سے بھی زیادہ قابلِ قدر ہے جو کیمیا وغیرہ کے ہوتے ہیں مجھے بھی ایک دفعہ خیال آیا کہ یہ تو چھپا نے کے قابل ہے پھر سوچا کہ یہ تو بخل ہے ایسی مفید شے کو دنیا پر اظہار کرنا چاہیے کہ مخلوق الٰہی کو فائدہ حاصل ہو۔یہی فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے خدا میں ہے۔انکا خدا بولتا نہیں۔خدا معلوم یہ بھی کیساایمان ہے ۔اسلام کا خدا جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب ہے۔نہ طاقت کم ہوئی نہ بوڑھا ہوا۔نہ کچھ اور نقص اس میں واقع ہوا۔ویسے خدا پر جس کا ایمان ہو وہ اگر آگ میں بھی پڑا ہو تو اُسے حوصلہ ہوتا ہے ۔ابراہیم ؑکو آخر آگ میں ڈالا ہی تھا ۔ ویسے ہی ہم بھی آگ میں ڈالے گئے۔ خون کا مقدمہ بنایا گیا ۔اگر اس میں پانچ یا دس سال کی قید ہو جاتی تو سب سلسلہ تباہ ہو جاتا ۔سب قوموں نے متفق ہو کر یہ آگ سلگائی تھی ۔کیا کم آگ تھی؟اس وقت سوائے خدا کے اورکون تھا ؟اور وہی الہام ہوئے جو کہ ابراہیم ؑ کو ہوئے تھے آخر میں الہام ہوا اِبراء اور تسلی دی کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے ۔
(البدر27مارچ1903ء صفحہ75)
بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا جائز ہے
شیخ نوراحمدصاحب نے بنک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بنک والے ضرورسود دیتے ہیں پھر اسے کیا کیا جاوے؟ فرمایا :
ہمارا یہی مذہب ہے اور اﷲ تعالیٰ نے بھی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے۔ اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں جوچیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لیے ہے نہ اﷲ تعالیٰ کے واسطے۔ پس سود اپنے نفس کے لیے، بیوی بچوں، احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے بالکل حرام ہے۔لیکن اگر یہ روپیہ خالصتاً اشاعت دین کے لیے خرچ ہو تو حرج نہیں ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھراس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوٰۃ بھی نہیں دیتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہو رہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں۔ اول یہ کہ زکوٰۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں۔ یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا اُسے لیا گیا۔جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتا ہے یک مشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں۔ میں نے جو فتویٰ دیا ہے وہ عام نہیں ہے ورنہ سود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ مالی ترقی کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے ایسا روپیہ اسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے۔
قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لیے اگر خرچ ہو تو حرام ہے۔ یہ بھی یاد رکھو جیسے سود اپنے لیے درست نہیں کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں۔ ہاں خد اتعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اوراس کایہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہو رہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو۔ اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارودمال حرام ہے ٹھیک نہیں۔ بلکہ مناسب یہی ہوگاکہ اس کو خرچ کیا جاوے۔ اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے۔ اب قلم کا جہاد باقی ہے۔ اس لیے اشاعتِ دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں۔
(الحکم 24ستمبر1905ء صفحہ9)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے جو پہلے راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے اور آج کل قادیان میں ہجرت کرآئے ہوئے ہیں۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط دیا جو حضورؑ نے سیٹھی صاحب کو اپریل ۱۸۹۸ء میں اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔ اس خط میں مسئلہ سود کے متعلق حضرت کا ایک اصولی فیصلہ درج ہے اور اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں۔
’’میں امیدرکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اورخوفِ الٰہی پراللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کردے گا۔ اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے اور سود کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدرسود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جائیں اور جب سوددینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں ۔ اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو۔ بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو۔میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جائے یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جائے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجزاس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضا مندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہو سکتا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے ردّ میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے ۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے ……
سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمدًا اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کا روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اُس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان(کیا ہے) خرچ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کابھی مستحق ہوگا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد1صفحہ402،403)
ایک صاحب کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ جب بینکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کے حالات کو مد نظر رکھ کر اضطرارکا اعتبار کیا جائے سو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی، قومی ، ملکی تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی پیدا ہو کر سودکا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ فرمایا :
اس طرح سے لوگ حرامخوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں ۔ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بسبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے ۔بلکہ اشاعت اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہو نا بتلایا گیا ہے ۔ وہ بھی اس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے روپیہ مل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں ۔ باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات ۔سو اُن کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے سود بالکل حرام ہے وہ جو از جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے ۔لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ بندوق کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے ۔
(بدر6فروری1908ء صفحہ7)
انشورنس یا بیمہ
انشورنس اوربیمہ پر سوال کیا گیا۔ فرمایا :
سود اور قمار بازی کو الگ کرکے دوسرے اقراروں اورذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے۔ قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے ۔
دوسر ے ان تمام سوالوں میں اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں۔ مثلًا اب کوئی دعوت کھانے جاوے تواب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر میں آیا ہوگا۔ پھر اس طرح تو آخر کار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے گا۔ خدا کا نام ستّار بھی ہے ورنہ دنیا میں عام طورپر راستباز کم ہوتے ہیں۔ مستورالحال بہت ہوتے ہیں۔ یہ بھی قرآن میں لکھا ہے وَلَا تَجَسَّسُوْا (سورۃ الحجرات:13) یعنی تجسس مت کیا کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں پڑو گے۔
(البدر 27مار چ 1903ء صفحہ76)
لائف انشورنس
ا یک دوست کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھاکہ
مارچ ۱۹۰۰ء میں، میں نے اپنی زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپے کے کرایا تھا ۔ شرائط یہ تھیں کہ اس تاریخ سے تا مرگ میں چھیالیس روپے سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا ۔ تب دوہزار روپیہ بعد مرگ کے میرے وارثان کو ملے گا اور زندگی میں یہ روپیہ لینے کا حقدار نہ ہوں گا ۔ اب تک میں نے تقریباً مبلغ چھ سو روپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی کو دے دیا ہے ۔اب اگر میں اس بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کے صرف تیسرے حصہ کا حقدار ہوں ۔ یعنی دو صد روپیہ ملے گا اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا ۔ مگر چونکہ میں نے آپ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ۔اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہوجانے کے میں ایسی حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے بر خلاف ہو اور آپ حَکَم اور عدل ہیں ،اس واسطے نہایت عجز سے ملتجی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صادر فرمایا جاوے تا کہ اس کی تعمیل کی جاوے اس کے جواب میں فرمایا :
زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سنا جا تا ہے اس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظاہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے ۔ اگرچہ وہ بہت سا روپیہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو یہ روپیہ اُن سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا ۔ اُن کو چاہیے کہ آئندہ زندگی، گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر دیویں اور جتنا روپیہ اب مل سکتا ہے وہ واپس لے لیں ۔
(بدر9؍اپریل1908ء صفحہ3)
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود کا حکم
ایک شخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنک کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوئوں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُن کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے۔ ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے۔ مثلاً اگر دنیا میں سؤر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔ تب ہم فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ (الانعام : ۱۴۶)کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے۔ ہم فی الحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں۔ ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے۔ ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم بڑے عالیشان دینی مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنیٰ کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں۔پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا۔ اس سائل کو لکھنا چاہیے کہ تم پہلے اپنے ایمان کا فکر کرو اور دو چار ماہ کے واسطے یہاں آکر ٹھہرو تاکہ تمہارے دل و دماغ میں روشنی پیدا ہو اور ایسے خیالات میں نہ پڑو۔
(الحکم10مئی1902ء صفحہ11)
کسی قیمت پر سُودی قرضہ نہ لے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا ۔ فرمایا کہ ’’ یہ جائز نہیں ہے‘‘۔میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلًا ایک کاشتکار ہے اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سپاہی سر پر کھڑا ہے۔ بجز سود خور، کوئی قرض نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اورسودی قرضہ نہ لیوے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ198-199)
وقت مقررہ پر قرضہ واپس نہ کرنے والے سے ہرجانہ وصول کرنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک فتویٰ کی مندرجہ ذیل تشریح کی ہے۔
سوال:۔ زید نے بکر کو اپنا مال مقررہ قیمت پر فروخت کرنے کے لئے دیا۔ زید نے مال فروخت کرنے کے بعد رقم بکر کو ادا نہ کی جس کوکم و بیش ایک سال گزر گیا۔ کیا زید اس رقم کے روکنے کی وجہ سے بکر سے ہرجانہ طلب کرسکتا ہے۔ اگر کر سکتا ہے تو کیا شریعت نے کوئی شرح مقرر کی ہے۔ آریہ دھرم صفحہ۱۰ حاشیہ درحاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ اس مدت تک وہ تجارت کے کام کا روپیہ جو اس کے انتظار پر بند رہے گا اس کا مناسب ہرجانہ اس کو دینا ہوگا۔ ‘‘
جواب:۔ میں نے (حضرت مولانا سید سرورشاہ صاحب ۔ ناقل) یہ حوالہ حضرت امیرالمومنین (رضی اللہ عنہ ) کے سامنے پیش کیا ہے اورحضور نے اس پر فرمایا ہے کہ تجارتی سود میں اوراس میں فرق باریک ہے۔ جو ہر ایک اس باریک فرق تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس واسطے جو قاعدہ ہم نے پہلے جاری کیاہوا ہے وہی ٹھیک ہے کہ قاضی اگر دیکھے کہ مدیون نے دائن کو تکلیف دی تو قاضی اس پر جرمانہ تو کردے لیکن جرمانہ کی رقم انجمن کو دے تاجر کو نہ دے۔
(فرمودات مصلح موعود دربارہ فقہی مسائل صفحہ303،304)
سودکی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا
سوال:۔ کیا سود لیناجائز ہے۔ ہندو ہم سے سود لیتے ہیں۔ اگر ہم نہ لیں تو ہمارا سارا مال ہندوؤں کے ہاں چلا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اس بارے میں ہمارا مسلک دوسرے لوگوں سے مختلف ہے اس وقت جو کچھ میں بیان کروں گا یہ احمدی عقیدہ ہوگا۔ یہ نہیں کہ دوسرے علماء کیا کہتے ہیں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔
ہمارے سلسلہ کے بانی نے یہ رکھا ہے کہ سود اپنی ذات میں بہرحال حرام ہے۔ ترکوں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنکوں کا سود سود نہیں۔ حنفی علماء کا فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں چونکہ انگریزوں کی حکومت ہے اوریہ حربی ملک ہے اس لئے غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ کوئی یہ مسئلہ پوچھتا ہی نہیں۔لوگ کثرت سے سود لیتے اوردیتے ہیں۔ہم کہتے ہیں چاہے بنک کا سود ہو چاہے دوسرا دونوں حرام ہیں۔ لیکن بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فیصلہ کیا ہے جو اسلام کے دوسرے مسائل سے مستنبط ہوتا ہے۔ ایک حالت انسان پر ایسی بھی آتی ہے جب وہ کسی بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اس سے بچنے کے لئے یہ کہنا کہ فلاں چیز جائز ہے اور فلاں ناجائز یہ فضول بات ہے۔ مثلًا ایک آدمی گند میں گرجائے جو کئی گزمیںپھیلا ہوا ور اسے کہا جائے کہ گند میں چلنا منع ہے تو وہ کس طرح اس گند سے نکل سکے گا۔ بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی اس لئے سود لے کہ سود کی بلا سے بچ جائے تو وہ لے سکتا ہے۔ مثلًا ایک جگہ وہ بیس فیصدی سود ادا کرتا ہے۔ اگر اسے پانچ فیصدی سود پر بنک سے روپیہ مل سکتا ہے تو وہ لے لے۔ اس طرح امیدہوسکتی ہے کہ وہ سود کی بلا سے بچ سکے۔
(الفضل 25جنوری 1929ء صفحہ6)
بیمہ زندگی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
بیمہ کی وہ ساری کی ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آچکی ہیں ناجائز ہیں۔ ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا توپھر بیمہ کرانا جائز ہوسکتا ہے … ہاں ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبورًا کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کردیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں۔ یہ چونکہ اپنے اختیار کی بات نہیں ہوتی اس لئے جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ موجود ہے۔ آپ نے فرمایا ہے پراویڈنٹ فنڈ جہاں مجبور کر کے جمع کرایا جاتا ہے وہاں اس رقم پر جو زائد ملے وہ لے لینا چاہئے۔
(الفضل 7جنوری 1930ء صفحہ4)
اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد زیادہ وصول کرنا
مورخہ 14فروری 1907ء کے اخبار بدر میں ایڈیٹرصاحب کی طرف سے یہ اعلان شائع ہوا کہ اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد قیمت زیادہ ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے لکھا
اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جائے تواخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے ۔جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض توصرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اوربعض کی قیمتوں کی وصولی کے لئے بار بار کی خط و کتابت میں اوران سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر دقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اورنیزاس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت ما بعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے۔ یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے۔ یہ معاملہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کا جواب حضرت صاحب نے مندرجہ ذیل لکھا۔
’’میرے نزدیک اس سے سودکو کچھ تعلق نہیں۔ مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے، خاص کر بعد کی وصولی میں حرج بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے ۔ یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے ۔ ‘‘
(بدر 14فروری 1907ء صفحہ4)
حکومت کی اطاعت
حضرت مسیح موعود ؑ کے پانچ اصول
فرمایا:
میں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں۔
اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا۔ دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا حضرت سیّدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین رکھنا۔ تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا۔ چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتّی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلانا۔ یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے۔ (کتاب البریہ ۔روحانی خزائن جلد13صفحہ347،348)
حکام برادری سے حسن سلوک
ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا :
ہر ایک سے نیک سلوک کرو ،حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے۔وہ ہماری حفاظت کرتے ہیںاور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوںکہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔
برادری کے حقوق ہیں۔ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے البتہ ان باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں، ان سے الگ رہنا چاہیے۔
ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔
(الحکم 31جولائی ، 10؍اگست 1904ء صفحہ13)
انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ
مسئلہ جہاد کا تذکرہ ہواجس میں ضمناً بعض ان گروہوں کا ذکر بھی آگیا جو کہ ہر ایک کافر کو بذریعہ تلوار قتل کر دینے کو غزا قرار دیتے ہیں اور انگریزوں کے ملکوں میں رہنا بدعت اور کفر خیال کرتے ہیں۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا :
اُن کا یہ خیال کہ ہم کفر کے اثر سے بچنے کے لیے الگ رہتے ہیں اور اگر انگریزوں کی رعیت ہو کر رہیں تو آنکھوں سے کفر اور شرک کے کام دیکھنے پڑیں اور مشرکانہ کلام کان سے سننے پڑیں۔میرے نزدیک درست نہیں ہیں کیونکہ اس گورنمنٹ نے مذہب کے بارے میں ہر ایک کو اب تک آزادی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو اختیا ر ہے کہ وہ امن اور سلامت روی سے اپنے اپنے مذہب کی اشاعت کرے۔مذہبی تعصب کو گورنمنٹ ہرگز دخل نہیں دیتی۔اس کی بہت سی زندہ نظیریں موجود ہیں۔ایک دفعہ خود عیسائی پادریوں نے ایک جھوٹا مقدمہ خون کا مجھ پر بنایا ۔ایک انگریز اور عیسائی حاکم کے پاس ہی وہ مقدمہ تھا اور اس وقت کا ایک لیفٹیننٹ گورنر بھی ایک پادری مزاج آدمی تھا مگر آخر اس نے فیصلہ میرے حق میں دیا اور بالکل بری کر دیا۔بلکہ یہاں تک کہا کہ میں پادریوں کی خاطر انصاف کو ترک نہیں کر سکتا۔اس کے بعد ابھی ایک مقدمہ(کا) فیصلہ ہوا ہے۔پہلے تو وہ ہندو مجسٹریٹوں کے پاس تھا۔نہیں معلوم کہ انہوں نے کس رعب میں آکر بہت ہی واضح اور بین وجوہات کو نظر انداز کر دیا اور مجھ پر جرمانہ کیا۔لیکن آخر جب اس کی اپیل ایک انگریز حاکم کے پاس ہوئی تو اس نے بری کر دیا اور مجسٹریٹ کی کارروائی پر افسوس کیا اور کہا کہ جو مقدمہ اپنے ابتدائی مرحلہ پر خارج ہونے کے قابل تھا اس پر اس قدر وقت ضائع کیا گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں ابھی تک عدل اور انصاف کا مادہ موجود ہے۔ اگر کسی قسم کا مذہبی تعصب یا بغض ہوتا تو کم از کم میرے ساتھ تو ضرور برتا جاتا۔ تین لاکھ کے قریب جماعت ہے۔پھر افغانستان کے لوگ بھی آ آکر بیعت کرتے رہتے ہیں اور ایک نیا فرقہ ہونے کی وجہ سے بھی گورنمنٹ کی نظر اور توجہ اس طرف ہونی چاہیے تھی مگر دیکھ لو کہ قریب آٹھ کے ہمارے مقدمات ہوئے ہیں جن میں سے سوائے ایک دو کے باقی کل مخالفین کی طرف سے ہم پر تھے مگر سب میں کامیابی ہم کو ہی حاصل ہوئی ہے اور انگریزوں نے ہی ہمارے حق میں فیصلے دیئے ہیں اگر چہ ہم ان سب کامیابیوں کو خدا کی طرف سے ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر وہ نہ چاہتا تو یہ لوگ کیا کرتے، مگر جن لوگوں کے ذریعہ اور ہاتھوں سے اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوئی وہ بھی قابل شکر کے ہیں۔ جہانتک میرا خیال بلکہ یقین ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک ان لوگوں میں تعصب نہیں ہے اور آئندہ کا حال خد اکو معلوم ہے اوراسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو خدمت دین ہی مطلوب ہے اور ان کی غرض خد اکو راضی کرنا ہے تو چھپ کر بیٹھ رہنے سے کیا فائدہ؟ ان کو چاہیے کہ خدمت دین کا ایک پہلو ہاتھ میں لیں۔گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی سختی ہرگز نہیں ہے۔لوگوں کو تبلیغ اور اتمام حجت کریں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ واعظ لوگوں کو گورنمنٹ گرفت کرتی ہے ہر گز نہیںہاں جو لوگ مفسد ہوتے ہیں وہ ضرور خود ہی گرفت کے قابل ہوتے ہیں۔گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور؟ اب تو عیسویت کا یہ حال ہے کہ اس پر خود بخود موت آ رہی ہے۔خود اُن کے بڑے بڑے عالم اور فاضل تثلیث کے پکے دشمن ہو گئے ہیں او ر نئی تعلیم نے اُن کے دلوں میں یہ بات کوٹ کر بھردی ہے کہ بناوٹی خد ااب کام نہیں آسکتا۔ پادریوں کی یہ حالت ہے کہ صرف ٹکڑے کی خاطر کام کر رہے ہیں۔ ایک دن تنخواہ کو دیر ہو جاوے تو کام چھوڑ دیتے ہیں اور خود عیسائی مذہب کے رد میں کتابیں لکھتے ہیں۔ (البدر18فروری1905ء صفحہ3)
اُولوالامرکون ہے
سوال :اولوالامرسے کیا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک مولوی اولوالامر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ کوئی نہیں۔
جواب: اصل بات یہ ہے کہ اسلام میں اس طرح پر چلا آیا ہے کہ اسلام کے بادشاہ جن کے ہاتھ میں عنان حکومت ہے ان کی اطاعت کرنی چاہیے وہ بھی ایک قسم کے اولوالامر ہوتے ہیں لیکن اصل اولوالامر وہی ہوتے ہیں جن کی زندگی پاک ہوتی ہے اور ایک بصیرت اور معرفت جن کو ملتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے امر پاتے ہیں یعنی مامور الٰہی۔
بادشاہوں کے پاس حکومت ہوتی ہے وہ انتظامی امور میں تو پورا دخل رکھتے ہیں لیکن دینی امور کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ سچے اولوالامر وہی ہیں جن کے اتباع سے معرفت کی آنکھ ملتی ہے اور انسان معصیت سے دور ہوتا ہے۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ اولوالامر میں رکھو۔ اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کی بغاوت کرے تو اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ فتنہ کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح پر مامور کی مخالفت کرے تو سلب ایمان ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی مخالفت سے لازم آتا ہے کہ مخالفت کرنے والا خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔
سوال: پھر اس وقت جو مولوی ہیں کیا اُن کو اولوالامر سمجھیں؟
جواب: اُو خویشتن گم اَست کرا ر ہبری کند۔
اصل بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھ کھلتی نہیں۔ ان لوگوں نے دین صرف چند رسوم کا نام سمجھ رکھاہے حالانکہ دین رسوم کا نام نہیں ہے۔ ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پر سمجھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اور مذاق تھا ۔وہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لیے جلد مستفیض ہوتے تھے۔ پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خداترسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا۔ پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے۔ (الحکم17؍اگست 1905ء صفحہ6)
اولی الامر سے مراد جسمانی طورپر بادشاہ اور روحانی طورپر امام الزمان ہے اورجسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اُس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہوسکے وہ ہم میں سے ہے اسی لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں کیونکہ وہ ہمارے دینی مقاصد کے حارج نہیں ہیں بلکہ ہم کو ان کے وجود سے بہت آرام ملا ہے۔
(ضرورت الامام روحانی خزائن جلد 13صفحہ 493،494 )
اولو الامر کی اطاعت
قرآن شریف میں حکم ہے اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النسائ:۶۰)یہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے اور اگر کوئی شخص کہے کہ منکم میں گورنمنٹ داخل نہیں،تو یہ اس امر کی صریح غلطی ہے۔گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے،وہ اسے منکم میں داخل کرتا ہے۔مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے ۔اشارۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں۔عام طور پر مسلمانوں کے لئے یہ لازم تھا کہ انسداد طاعون کے متعلق شکر گزاری کے میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجتے،مگر یہاں بجائے شکر گزاری کے نا شکر گزاری ہو رہی ہے اور کوئی معقول وجہ ناراضگی کی بجز اس کے معلوم نہیں ہوتی کہ عورتوں کی نبضیں مرد ڈاکٹر دیکھتے ہیں۔سو اس بارہ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اول تو اس نقص کے معلوم ہو جانے پر گورنمنٹ نے اس شکایت کو رفع کر دیا ہے اور دائیاں مقرر کر دی ہیں جو مستورات کا ملاحظہ کرتی ہیں۔مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا نہ بھی ہوتا، توبھی اعتراض کی گنجائش نہ تھی۔ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں۔پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیںہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مر گئی،تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہیں رہا۔اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا۔مثل مشہور ہے۔مرتا کیا نہ کرتا۔مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔دین اسلام میں تنگی اور حرج نہیں۔جو شخص خوا مخواہ تنگی وحرج کرتا ہے،وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے۔گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئیے ہیں۔جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے۔کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع ہے۔
(رسالہ الانذارصفحہ 16-15تقریر حضرت اقدس ؑ 2مئی1898ء بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ171)
دو انگریزوں کے قتلِ ناحق پر اظہارِ ناراضگی
علاقہ پشاور میں کسی سفاک پٹھان نے دو بے گناہ انگریزوں کو قتل کر دیا۔اس پر ایک مجمع میں حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
یہ جو دوانگریزوں کو مار دیا ہے۔ یہ کیا جہاد کیا ہے؟ایسے نابکار لوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر ان سے برتائو کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے۔مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو کچل ڈالے۔لکھا ہے کہ حضرت علیؓ ایک کافر سے لڑے۔حضرت علیؓ نے اُس کو نیچے گرا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اس نے حضرت علیؓ پر تھوکا۔حضرت علیؓ یہ دیکھ کر اس کے سینے پر سے اُتر آئے۔وہ کافر حیران ہوا اور پوچھا کہ اے علیؓ!یہ کیا بات ہے؟آپؓ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا،لیکن جب تو نے میرے منہ پر تھوکا،تومیرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا۔اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا۔حضرت علیؓ کے اس فعل کا اس پر بہت بڑا اثر ہوا۔
میں جب کبھی ان لوگوں کی بابت ایسی خبریں سنتا ہوں تو مجھے سخت رنج ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے بہت دور جا پڑے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ثواب کا موجب سمجھتے ہیں۔
بعض مولوی مجھے اس لیے دجال کہتے ہیںکہ میں انگریزوں کے ساتھ محاربہ جائز نہیں رکھتا مگر مجھے سخت افسوس ہے کہ یہ لوگ مولوی کہلاکر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ انگریزوں نے تمہارے ساتھ کیا برائی کی ہے۔ اور کیا دُکھ دیا ہے۔شرم کی بات ہے کہ وہ قوم جس کے آنے سے ہم کو ہر قسم کی راحت اور آرام ملا۔جس نے آکر ہم کو سکھوں کے خونخوار پنجہ سے نجات دی اور ہمارے مذہب کی اشاعت کے لیے ہر قسم کے مواقع اور سہولتیں دیں۔اُن کے احسان کا یہ شکر ہے کہ بے گناہ انگریزی افسروں کو قتل کر دیا جائے؟میں تو صاف طور پرکہتا ہوں کہ وہ لوگ جو خون ناحق سے نہیں ڈرتے اور محسن کے حقوق ادا نہیں کرتے۔وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت جوابدہ ہیں۔ان مولویوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع کریں اور نا واقف اور جاہل لوگوں کو فہمائش کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے زیرسایہ وہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہیں اور یہ مبارک سلطنت نیکی اور ہدایت پھیلانے میں کامل مددگار ہے۔پس اس کے خلاف محاربہ کے خیالات رکھنے سخت بغاوت ہے اور یہ قطعی حرام ہے۔وہ اپنے قلم اور زبان سے جاہلوں کو سمجھائیں اور اپنے دین کو بدنام کر کے دنیا کو ناحق کا ضرر نہ پہنچائیں۔ہم تو گورنمنٹ برطانیہ کو آسمانی برکت سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرنا اپنا فرض۔
افسوس ہے مولویوں نے خودتو اس کام کو کیا نہیں اورجب ہم نے ان جاہلانہ خیالات کو دلوں سے مٹانا چاہا تو ہم کو دجال کہا۔صرف اس واسطے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گزار ہیں۔مگر ان کی مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکتی تھی۔ہم نے بیسیوں رسالے اس مضمون کے عربی،فارسی، اردو، انگریزی میں شائع کیے۔اور ہزاروں اشتہار مختلف بلاد وامصار میں تقسیم کر دئیے ہیں۔اس لئے نہیں کہ ہم گورنمنٹ سے کوئی عزت چاہتے ہیں۔بلکہ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کام کو اپنا فرض سمجھتے ہیںاوراگر ہم کواس خدمت کے بجا لانے میں تکلیف بھی ہو تو ہم پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ احسان کی جزا احسان ہے۔پس پوری اطاعت اور وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کی مسلمانوں کا فرض ہے۔
(الحکم17؍اپریل1900ء صفحہ10، 11)
حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی کی قدر کرنی چاہئے
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے وہ میموریل پڑھ چکنے کے بعد جو حضرت مسیح موعود ؑ نے انجمن حمایت اسلام کے میموریل دربارہ ’’امہات المومنین‘‘کی اصلاح کی غرض سے لکھا تھا حضرت اقدس ؑنے بآواز بلند فرمایا:
چونکہ یہ میموریل اسلام اور اہل اسلام کی حمایت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی عزت اور قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے اور اسلام کی پاکیزہ اور اصفٰی شکل دکھانے کے لئے لکھا گیا ہے،اس لئے اس کو آپ صاحبان کے سامنے پڑھے جانے سے صرف یہ غرض ہے کہ تا آپ لوگوں سے بطور مشورہ دریافت کیا جائے کہ آیا مصلحت وقت یہ ہے کہ کتاب کا جواب لکھا جائے یا میموریل بھیج کر گورنمنٹ سے استدعا کی جائے کہ وہ ایسے مصنفین کی سرزنش کرے اور اشاعت بند کر دے۔پس آپ لوگوں میں سے جو کوئی اس پرنکتہ چینی کرنا چاہے،تو وہ نہایت آزادی اور شوق سے کر سکتا ہے۔
مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ اگر کتاب کی اشاعت بند نہ ہوئی ،ہمیشہ تک طبع ہوتی رہے گی۔اس پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
اگر ہم واقعی طور پر کتاب کی اشاعت بند نہ کریں جو اس کے رد کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے تو گورنمنٹ سے ایک بار نہیں ہزاردفعہ اس قسم کی مدد لے کر اس کی اشاعت بند کر دی جائے وہ رک نہیں سکتی۔اگر اس تھوڑے عرصے کے لئے وہ برائے نام بند بھی ہو جائے تو پھر بھی بہت سی کمزور طبیعت کے انسانوں اور بعض آنے والی نسلوں کے لئے یہ تجویز زہر قاتل ہو گی کیونکہ جب ان کو معلوم ہو گا کہ فلاں کتاب کا جواب جب مسلمانوں سے نہ ہو سکا تو اس کے لئے گورنمنٹ سے بند کرانے کی کوشش کی ۔اس سے ایک قسم کی بد ظنی ہمارے مذہب کی نسبت پیدا ہو گی۔پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ ایسی کتاب کا جواب دیا جائے اور گورنمنٹ کی ایک سچی امداد یعنی آزادی سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسا شافی جواب دیا جائے کہ خود ان کو اس کی اشاعت کرتے ہوئے ندامت محسوس ہو۔دیکھو جیسے ہمارے مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں ان کو جب معلوم ہو گیا کہ مقدمہ میں جان نہیں رہی اور مصنوعی جادو کا پتلا ٹوٹ گیا تو انہوں نے آتھم کی بیوی اور داماد جیسے گواہ بھی پیش نہ کیے۔پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کا دندان شکن جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دیا جائے۔ پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرأت نہ ہو گی۔
(رسالہ الانذاربحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ158ٗ 159)
کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟
فرمایا:
ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دارالحرب نہیںکہتے اور یہی ہمارا مذہب ہے۔اگرچہ اس مسئلہ میں علماء مخالفین نے ہم سے سخت اختلاف کیاہے اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ہم کو تکلیف دہی کا انھوںنے باقی نہیںرکھا،مگر ہم ان عارضی تکالیف اور آنی ضرررسانیوںکے خوف سے حق کو کیونکر چھوڑ سکتے ہیں۔ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز ہرگز دارالحرب نہیں ہے۔ہمارا مقدمہ ہی دیکھ لو۔ اگر یہی مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت میں ہوتا اور دوسری طرف ان کا کوئی گرویابرہمن ہوتا،تو بدوںکسی قسم کی تحقیق وتفتیش کے ہم کو پھانسی دے دینا کوئی بڑی بات نہ تھی،مگر انگریزوںکی سلطنت اور عہدحکومت ہی کی یہ خوبی ہے کہ مقابل میںایک ڈاکٹراورپھر مشہورپادری،لیکن تحقیقات اور عدالت کی کاروائی میں کوئی سختی کا برتائونہیں کیا جاتا۔کیپٹن ڈگلس نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کی کہ پادری صاحب کی ذاتی وجاہت یا ان کے اپنے عہدہ اوردرجہ کا لحاظ کیا جاوے چنانچہ انہوں نے لیمار چنڈ صاحب سے جو پولیس گوردا سپورکے اعلی افسر ہیں،یہی کہا کہ ہمارادل تسلّی نہیں پکڑتا۔ پھر عبدالحمید سے دریافت کیا جاوے ۔آخرکار انصاف کی رو سے ہم کو اس نے بری ٹھرایا۔پھریہ لوگ ہم کوار کان مذہب کی بجا آوری سے نہیں روکتے بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے جس کی وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کی اشاعت کا خاطرخواہ موقع ملااور اس قسم کا امن اور آرام نصیب ہواکہ پہلی حکومتوں میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔پھر یہ صریح ظلم اوراسلامی تعلیم اور اخلاق سے بعید ہے کہ ہم ان کے شکر گذارنہ ہوں۔ یادرکھو! انسان جو اپنے جیسے انسان کی نیکیوںکا شکر گذار نہیں ہوتا وہ خداتعالی کابھی شکر گذار نہیں ہوسکتاحالانکہ وہ اُسے دیکھتا ہے تو غیب الغیب ہستی کے انعامات کا شکر گذار کیونکر ہوگا جس کو وہ دیکھتا بھی نہیں، اس لیے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہیں کہتے۔
ہاں!ہمارے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہے بلحاظ قلم کے۔پادری لوگوں نے اسلام کے خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کی ہوئی ہے۔اس میدان جنگ میںوہ نیزہ ہائے قلم لے کر نکلے ہیںنہ سنان وتفنگ لے کر۔اس لیے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیارلے کر نکلنا چاہیے،وہ قلم اور صرف قلم ہے۔ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جاوے۔اللہ اوراس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آزار حملے کیے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے ۔کیا امہات المومنین یادربارمصطفائی کے اسرار جیسی گندی کتاب دیکھ کر ہم آرام کر سکتے ہیں،جس کا نام ہی اس طرز پررکھا گیاہے جیسے ناپاک ناولوں کے نام ہوتے ہیں ۔تعجبّ کی بات ہے کہ دربارلند ن کے اسرار جیسی کتابیں تو گورنمنٹ کے اپنے علم میں بھی اس قابل ہوں کہ ان کی اشاعت بندکی جائے مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کی دلآزاری کرنے والی کتاب کو نہ روکا جائے ۔ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کی درخوست کرنا ہرگز ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہی نامناسب خیال کرتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے اپنے میموریل کے ذریعہ سے واضح کر دیاتھالیکن یہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہی ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا خیال رکھے۔بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادی دے رکھی ہے کہ اگر عیسائی ایک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں تو مسلمانوں کوآزادی کے ساتھ اس کاجواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردیدمیں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے۔۔۔۔۔۔
ہماری جماعت یادرکھے کہ ہم ہندوستان کو بلحاظ حکومت ہرگزہرگزدارالحرب قرار نہیں دیتے بلکہ اس امن اور برکات کی وجہ سے جواس حکومت میںہم کو ملی ہیں اور اس آزادی کو جواپنے مذہب کے ارکان کی بجا آوری اور اس کی اشاعت کے لیے گورنمنٹ نے ہم کو دے رکھی ہے۔ہمارادل عطر کے شیشہ کی طرح وفاداری اور شکر گذاری کے جوش سے بھرا ہوا ہے لیکن پادریوں کی وجہ سے ہم اس کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔پادریوں نے چھ کروڑ کے قریب کتابیں اسلا م کے خلاف شائع کی ہیں۔میرے نزدیک وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں جو ان حملوں کودیکھیں اور سنیں اور اپنے ہی ہم وغم میں مبتلارہیں۔اس وقت جو کچھ کسی سے ممکن ہو،وہ اسلام کی تائید کے لیے کرے اور اس قلمی جنگ میں اپنی وفاداری دکھائے،جبکہ خود عادل گورنمنٹ نے ہم کو منع نہیں کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تائید اور غیر قوموں کے اعتراضوں کی تردید میں کتابیں شائع کریں بلکہ پریس،ڈاک خانے اور اشاعت کے دوسرے ذریعوں سے مدددی ہے تو ایسے وقت میںخاموش رہنا سخت گناہ ہے۔ہاں ضرورت ہے اس امرکی کہ جو بات پیش کی جاوے وہ معقول ہو، اس کی غرض دل آزاری نہ ہو۔جو اسلام کے لیے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا وہ یادرکھے کہ خداتعالی ایسے انسان کا ذمّہ دار نہیں ہوتا۔اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیںاور جتنی تدابیر اپنی دنیاوی اغراض کے لیے کرتا ہے۔اسی سوزش اور جلن اور درددل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہو رہے ہیں،میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟اور اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم پُر سوزدل کے ساتھ خداتعالی کے حضور دعا کروں؟ اگر اس قسم کی جلن اور درددل میں ہو تو ممکن نہیں کہ سچّی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے،تواس پر بھی رنج ہوتا ہے۔یہاںتک کہ ایک سو ئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے ۔پھر یہ کیسا ایمان اور اسلام ہے کہ اس خوفناک زمانہ میں کہ اسلام پرحملوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سو رہے ہیں۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہفتہ وار اور ماہواری اخباروں اور رسالوں کے علاوہ ہر روزوہ کس قدر دوورقہ اشتہاراور چھوٹے چھوٹے رسالے تقسیم کرتے ہیں جن کی تعدادپچاس پچاس ہزار اور بعض وقت لاکھوں تک ہوتی ہے؟اور کئی کئی مرتبہ ان کو شائع کرنے میں کروڑ ہاروپیہ پانی کی طرح بہادیا جاتاہے ۔
(الحکم31مئی 1901ء صفحہ2تا4 )
ہر قسم کی بغاوت سے بچو
’’اپنی جماعت کے لئے ضروری نصیحت‘‘کے عنوان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کروایا۔ فرمایا:
چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوئوں میں سے اورکچھ کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل ایسی ایسی حرکات ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بُوآتی ہے بلکہ مجھے شک ہوتاہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائیگا اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب ، ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک اُن کا شمار پہنچ گیاہے۔ نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً چھبیس برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ محسن گورنمنٹ ہے ۔ اس کے ظل حمایت میں ہمارا یہ فرقہ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں۔ خدائے تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اُس نے اس گورنمنٹ کو اس بات کے لیے چُن لیا کہ تایہ فرقہ احمدیہ اس کے زیر سایہ ہو کر ظالموں کے خونخوار حملوں سے اپنے تئیں بچاوے اور ترقی کرے ۔ کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم سلطان ِ روم کی عملداری میں رہ کر یا مکہ اور مدینہ میں ہی اپنا گھر بنا کر شریر لوگوں کے حملوں سے بچ سکتے ہو۔ نہیں ہر گز نہیں۔ بلکہ ایک ہفتہ میں ہی تم تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو گے ۔ تم سُن چکے ہو کہ کس طرح صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب جو ریاست کابل کے ایک معزز اور بزرگوار اور نامور رئیس تھے جن کے مرید پچاس ہزار کے قریب تھے جب وہ میری جماعت میں داخل ہوئے تو محض اس قصور کی وجہ سے کہ وہ میری تعلیم کے موافق جہاد کے مخالف ہوگئے تھے۔ امیر حبیب اللہ خاں نے نہایت بے رحمی سے ان کو سنگسار کرا دیا۔ پس کیا تمہیں ایسے لوگوں سے کچھ توقع ہے کہ تمہیں ایسے سلاطین کے ماتحت کوئی خوشحالی میسر آئے گی۔ بلکہ تم تمام اسلامی مخالف علماء کے فتووں کے رو سے واجب القتل ٹھہر چکے ہو۔ سو خدا تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس گورنمنٹ نے ایسا ہی تمہیں اپنے سایہ پناہ کے نیچے لے لیا جیسا کہ نجاشی بادشاہ نے جو عیسائی تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو پناہ دی تھی میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتاہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کی رو سے اپنا فرض دیکھتاہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گذاری کروں اور اپنی جماعت کو اطاعت کے لیے نصیحت کروں۔
سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابل پر کوئی باغیانہ خیال رکھے اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجہ سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکرگذار نہ ہوں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمن:۶۱)یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں یہی آیا ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا۔ یہ تو سوچو کہ اگرتم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جائو تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے آئے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ سو تم خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقینا سمجھ لو کہ خدائے تعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لیے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی یہ مسلمان لوگ جو اس فرقہ احمدیہ کے مخالف ہیں۔ تم ان کے علماء کے فتوے سن چکے ہو یعنی یہ کہ تم اُن کے نزدیک واجب القتل ہو اور ان کی آنکھ میں ایک کتّا بھی رحم کے لائق ہے مگر تم نہیں ہو۔ تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم واجب القتل ہو اور تمہیں قتل کرنا اور تمہارا مال لوٹ لینا اور تمہاری بیویوں پر جبر کرکے اپنے نکاح میں لے آنا اور تمہاری میت کی توہین کرنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دینا نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا کام ہے۔
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذراکسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتاہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سِپَرہے ۔ پس تم دل و جان سے اس سِپَر کی قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ تمہیں واجب القتل نہیں سمجھتے ۔ وہ تمہیں بے عزت کرنا نہیں چاہتے ۔ کچھ بہت دن نہیں گذرے کہ ایک پادری نے کپتان ڈگلس کی عدالت میں میرے پر اقدام قتل کا مقدمہ کیا تھا۔ اس دانشمند اور منصف مزاج ڈپٹی کمشنر نے معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ سراسر جھوٹا اور بناوٹی ہے اس لیے مجھے عزت کے ساتھ بری کیا بلکہ مجھے اجازت دی کہ اگر چاہو تو جھوٹا مقدمہ بنانے والوں پر سزا دلانے کے لیے نالش کرو۔ سو اس نمونہ سے ظاہر ہے کہ انگریز کس انصاف اور عدل کے ساتھ ہم سے پیش آتے ہیں۔
اور یادرکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا او رکوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جس دین کی تعلیم عمدہ ہے جس دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا نے معجزات دکھلائے ہیں اور دکھلا رہا ہے ایسے دین کو جہاد کی کیا ضرورت ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ظالم لوگ اسلام پر تلوار کے ساتھ حملے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے نابود کردیں۔ سو جنہوں نے تلواریں اُٹھائیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے۔ سو وہ جنگ صرف دفاعی جنگ تھی۔ اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلانا کہ کوئی مہدی خونی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کرے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل خراب اور سخت ہوگئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لیے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں ۔ یاد رکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ جس میں انسانی ہمدردی نہیں۔ خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جاوے۔
(بدر9مئی1907ء صفحہ6)
طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت
ایڈیٹر صاحب بدر تحریر کرتے ہیں : میڈیکل سکول کے جن طلباء نے اپنے اُستادوں سے ناراض ہو کر اتفاق کرکے مدرسہ جانا بند کر دیا ہے ۔ ان میں سے دو طالب علم ( عبدالحکیم صاحب اور ایک اور) قادیان میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ۲۱؍مئی کو حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ گذشتہ اور پرنسپل کا ۳۱؍مئی تک داخل ہوجانے کی اجازت دے دینے کا ذکر کیا۔ آپ ؑنے فرمایا :
آج کل اس قسم کی کارروائیاں گورنمنٹ کے ساتھ بغاوت کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ان سے بچنا چاہئے ۔ میرے نزدیک اب اس معاملہ کو ترقی نہیں دینا چاہیے اور پرنسپل صاحب کی اجازت سے فائدہ حاصل کرکے داخل ہو جانا چاہیے ۔ جن اُستادوں کے ساتھ تم نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ان کو اندر ہی اندر ضرور تنبیہ کی گئی ہوگی۔ اور امید نہیں کہ وہ آئندہ تمہارے ساتھ بُرا سلوک کریں۔ گورنمنٹ ایسے لوگوں کو بغیر باز پرس نہیں چھوڑتی گو عام اظہار ایسی بات کا نہ کیا جاوے۔
علاوہ اس کے تمہیں چاہیے کہ اگر انہوں نے بداخلاقی کی ہے تو تم ان سے اخلاق سیکھو اور اگر تمہیں کبھی ایسی افسری کا موقعہ ملے تو تم اخلاق کا برتائو اپنے شاگردوں اور ماتحتوں کے ساتھ کرو اور جو قسمیں تم نے ضِدپر کھائی ہیں وہ ناجائز ہیں۔ ناجائز قسم پر قائم رہنا گناہ ہے ۔ خد ا نے اسلامی شریعت میں یہی حکم دیا ہے کہ ناجائز قسموں اور ناجائز اقراروں کو توڑ دیا جاوے۔ وقت کو ضائع کرنا اچھا نہیں اپنے آپ کو پریشانی میں مت ڈالو اور اپنے مدرسہ میں داخل ہو جائو۔ (بدر24مئی1906ء صفحہ2)
ہڑتال میں شمولیت پرسخت تنبیہ
اخباربدر نے اپنی 14 ؍مارچ1907ء کی اشاعت میں اس عنوان سے لکھا
’’علی گڑھ کالج میں فساد ۔عزیزاحمد خارج از بیعت‘‘
علی گڑھ کالج کے طالب علم مولوی غلام محمد صاحب نے وہاں کے طلباء کی سٹرائیک اور اپنے استادوں کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس جماعت ( فرقہ احمدیہ) کا کوئی لڑکا اس سٹرائیک میں شامل نہیں ہوا۔ میاں محمد دین ۔ عبدالغفار خاں وغیرہ سب علیحدہ رہے لیکن عزیز احمد (مراد صاحبزادہ مرزا عزیز احمد ابن حضرت مرزا سلطان احمد۔ ناقل) ان طلباء کے ساتھ شریک رہا اور باوجود ہمارے سمجھانے کے باز نہ آیا اور چونکہ بعض اخباروں میں اس قسم کے مضمون نکلے تھے کہ مسیح موعود کا پوتا علی گڑھ کالج میں ہے اس وجہ سے عام طور پر عزیز احمد کا رشتہ حضور کے ساتھ سب کو معلوم ہونے کے سبب وہاں کے اراکین نے اس امر پر تعجب ظاہر کیا کہ عزیز احمد اس مفسدہ میں ایسا حصہ لیتا ہے ۔ اس پر حضرت اقدس ؑنے فرمایا :
عزیز احمد نے اپنے استادوں اور افسروں کی مخالفت میں مفسد طلباء کے ساتھ شمولیت کا جو طریق اختیار کیا ہے یہ ہماری تعلیم اور ہمارے مشورہ کے بالکل مخالف ہے لہٰذا وہ اس دن سے جس دن سے وہ اس بغاوت میں شریک ہے ہماری جماعت سے علیحدہ اور ہماری بیعت سے خارج کیا جاتاہے ہم ان لڑکوں پر خوش ہیں جنہوں نے اس موقعہ پر ہماری تعلیم پر عمل کیا۔ بہت سے لوگ بیعت میں آکر داخل ہوجاتے ہیں لیکن جب وہ شرائط بیعت پر عمل نہیں کرتے تو خود بخود اس سے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہی حال عزیز احمد کا تھا ۔ اس میں خصوصیت نہ تھی اور یہ امر کہ ہمارا وہ پوتا ہے اس وجہ سے وہ ہمارا رشتہ دار ہے سو واضح ہو کہ ہم ایسے رشتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہمارے رشتے سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہیں۔ عزیز احمد کا باپ خود ہم سے برگشتہ ہے …… تو پھر عزیز احمد کا پوتا ہونا کیسا؟ عزیز احمد کو چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں اول ہم سے مشورہ کرتا یا اس مثال کو دیکھتاجو پہلے میڈیکل کالج لاہور میں قائم ہو چکی تھی کہ جب طلباء نے لاہور میں اپنے پروفیسروں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا تھا تو جو لڑکے اس جماعت میں داخل تھے ان کو میں نے حکم دیا تھا کہ وہ اس مخالفت میں شامل نہ ہوں اور اپنے استادوں سے معافی مانگ کر فوراً کالج میں داخل ہو جاویں۔ چنانچہ انہوں نے میرے حکم کی فرمانبرداری کی اور اپنے کالج میں داخل ہو کر ایک ایسی نیک مثال قائم کی کہ دوسرے طلباء بھی فوراً داخل ہوگئے ۔ عزیز احمد کو اس واقعہ کی خبر ہوگئی کیونکہ اخبار میں چھپ چکا تھا۔ اور اگر خبر نہ ہوتی تو اس کے واسطے ضروری تھا کہ اول مجھ سے مشورہ کرتا یا اپنے ساتھیوں کے مشورہ پر چلتا۔ اس کا علی گڑھ میں جانا بھی اس کے باپ کے مشورہ اور حکم سے تھا نہ کہ ہمارا اس میں کوئی حکم تھا۔ ایسا ہی مخالفت استادان میں شمولیت ہمارے کسی تعلق کی وجہ سے نہیں اور اسی وجہ سے اس کو خارج از بیعت کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ اپنے فعل سے توبہ کرکے اپنے استادوں سے معافی نہ مانگے۔ ہاں دوسرے طلباء مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ نے علی گڑھ جانے سے پہلے ہم سے مشورہ لیا تھا اور ہم نے یہی مشورہ دیا تھا کہ وہاں کے لڑکوں کی صحبت سے بچتے رہیں اورکسی بدی میں شامل نہ ہوں تو ہرج نہیں کہ وہاں جائیں۔ انسان ضرورتاً پاخانہ میں بھی جاتاہے مگر اپنے آپ کو نجاست سے بچائے رکھتا ہے۔
عاجز(یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر۔ ناقل ) کو مخاطب کرکے حضور نے فرمایا: ’’ان باتوں کو عام اطلاع کے واسطے اخبار میں شائع کر دیں۔‘‘
(بدر14مارچ1907ء صفحہ5)
نوٹ : اس واقعہ کے بعد صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھ کر اپنی کوتاہی کی معافی مانگی جس پر آپؑ نے انہیں معاف فرمادیا۔
حکام اورسب مذاہب والوں کے ساتھ نیکی کرو
چوہدری عبد اﷲ خاں صاحب نمبردار بہلول پور نے سوال کیا کہ حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟ فرمایا:
ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔جان اور مال اُن کے ذریعہ امن میں ہے اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتائو کرنا چاہیے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیںالبتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے تا ہم اُن سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہیے۔ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا،وہ آخرت میں کیا اجرلے گا۔اس لیے سب کے لیے نیک اندیش ہونا چاہیے۔ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو غرض سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذارسانیوں سے بہ سبب بلاوجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔اُن کو جو سزا ملی مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔محض انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذارسانی نہ ہو ،تو وہ اس دنیا میں عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔
(الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ9)
رشوت کی تعریف
حضرت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ اُن کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دیں،اُن کا کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دیتے ہیں۔ فرمایا :
میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا نا جائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لیے کوئی مابہ الا حتظاظ کسی کو دیا جائے لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں،بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آجاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
(الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ8)
گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں
رشوت ہر گز نہیں دینی چاہیے۔یہ سخت گناہ ہے مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں۔میں اس سے سخت منع کرتا ہوںلیکن ایسے طور پر بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے جس سے کسی کے حقوق کا اتلاف مدنظر نہ ہوبلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں ہے اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ : ۱۹۶) فرمایا ہے۔
(الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ9)
قومی اور حکومتی زبان سیکھو
فرمایا:
یادرکھوکہ چونکہ استحکامِ گورنمنٹ نے ایک قومی گورنمنٹ کی صورت اختیارکرلی ہے اس لئے قومی گورنمنٹ کی زبان بھی ایک قومیت کا رنگ رکھتی ہے۔ پس ضروری ہوا کہ اپنے مطالب و اغراض کو حکام کے پورے طورپر ذہن نشین کرنے کے لئے انگریزی پڑھو تاکہ تم گورنمنٹ کو فائدہ اور مدد پہنچا سکو۔
(الحکم 12مئی1899ء صفحہ4)
پٹواریوں کے لئے زمینداروں کے نذرانے
ایک شخص نے جو اپنی جماعت میں داخل ہیں اور پٹواری ہیں بذریعہ خط حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ پٹواریوں کے واسطے کچھ رقوم گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہیں لیکن عام رسم ایسی پڑ گئی ہے کہ پٹواری بعض باتوں میں اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ بھی لیتے ہیں اور زمیندار بخوشی خاطر خود ہی بغیر مانگے کے دیے جاتے ہیں آیا اس کا لینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا :
اگر ایسے لینے کی خبر باضابطہ حکام تک بالفرض پہنچ جائے اوربموجب قانون اس پر فتنہ اٹھنے کا خوف ہوسکتا ہوتو یہ ناجائز ہے۔
(بدر24مئی1908ء صفحہ8)
شہر کے والی اور حاکم کے لئے دعائیہ نوافل
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر عنایت علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے۔ قریب آٹھ دس آدمی حضور کے ہمراہ تھے۔ اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی۔ میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا۔ حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیاتھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہل کاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرمائیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خان صاحب کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہوگیا تھا۔ حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تاکہ آپ باغ میں جاکر نواب صاحب کو دیکھیںمگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں۔ ہم پیدل ہی چلیں گے چنانچہ آپ پیدل ہی گئے۔ اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا۔ جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے۔ نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت سے سلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپامگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا۔ اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں۔ چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریبًا آدھا گھنٹہ اندر رہے۔ چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیاکیا باتیں ہوئیں۔اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے۔ مسجد میں پہنچ کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اورپھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعاکریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دعا کرتے ہیں۔ غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دعا کی اورپھر اس کے بعد فورًا ہی لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ312 , 311)
گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو
طاعون کے پھیلنے کے دنوں میں حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کے ضمن میں فرمایا:
اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو۔ اکثر مقامات میں سنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا۔ میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے جو خطرناک جرم ہے۔ (الحکم 24جولائی 1901ء صفحہ1)
حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت
ذکر تھا کہ سیالکوٹ کے تجارنے بہ سبب محصول چنگی میں زیادتی کے دوکانیں بند کر دی تھیں اور چند روز کا نقصان اُٹھا کر پھر خود بخود کھول دیں۔ فرمایا:
اس طرح کا طریق گورنمنٹ کی مخالفت میں برتنا ان کی بے وقوفی تھی۔ جس سے اُن کو خود ہی باز آنا پڑا۔ محصول تو دراصل پبلک پر پڑتا ہے۔ آسمانی اسباب کے سبب سے بھی جب کبھی قحط پڑ جاتا ہے تو تاجر لوگ نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ اس وقت کیوں دکانیں بند نہیں کر دیتے ؟
(بدر27دسمبر1906ء صفحہ3)

حلّت وحرمت
پاک چیزیں حلال ہیں
فرمایا :
جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال۔ خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتابلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے۔ ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں۔ اب شادی کو دَفْ کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا۔ اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں۔
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ8 )
دریائی جانوروں کی حلت کا اصول
سوال پیش ہوا کہ دریائی جانور حلال ہیں یا نہیں؟ فرمایا:
دریائی جانور بے شمار ہیں۔ ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے ۔ جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمادیا ہے کہ جو ان میں سے کھانے میں طیّب پاکیزہ اورمفید ہوں ان کو کھالواور دوسروں کو مت کھاؤ۔ (بدر5ستمبر1907ء صفحہ3)
اصل میں اشیاء حلال ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان مسائل میں جن میں حلّت و حرمت کا سوال درپیش ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے اصل اشیاء کی حلّت رکھی ہے۔ سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو۔ باقی اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ پر منحصر ہے ۔ نیت درست ہو تو عمل مقبول ہوجاتا ہے درست نہ ہو تو ناجائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو، اکثر صورتوں میں آپ الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات پر بنیاد رکھتے تھے اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دہرا دیتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ511)
خرگوش حلال ہے
کسی نے خرگوش کے حلال ہونے پر حضرت اقدس سے پوچھا توآپ نے فرمایا کہ
اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی۔
(البدر14؍نومبر1902ء صفحہ19)
شراب اور جوئے کی حُرمت
قرآن شریف نے شراب کو جو اُم الخبائث ہے قطعًا حرام کردیا ہے اوریہ فخر خاص قرآن شریف کو ہی حاصل ہے کہ ایسی خبیث چیز جس کی خباثت پر آج کل تمام یورپ کے لوگ فریاد کر اُٹھے ہیں وہ قرآن شریف نے ہی قطعًا حرام کردی اور ایسا ہی قمار بازی کو قطعًا حرام کیا۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ267)
دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے
مذہب اسلام میں جیسا کہ اپنی قوم سے سُود لینا حرام ہے ایسا ہی دوسری قوموں سے بھی سُود لینا حرام ہے بلکہ خدا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ نہ صرف سُود حرام ہے بلکہ اگر تمہارا قرض دار مفلس ہو تو اس کو قرض بخش دو یا کم سے کم یہ کہ اس وقت تک انتظار کرو کہ وہ قرض ادا کرنے کے لائق ہو جائے اور جیسا کہ قرآن شریف میں اپنی قوم کے لئے گناہ معاف کرنے کا حکم ہے ایسا ہی دوسری قوموں کے لئے بھی یہی حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔
(النور:23) یعنی لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اوروہ تو غفور و رحیم ہے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزئن جلد23صفحہ387)
شراب کی حُرمت
ان دونوں کتابوں(تورات اور انجیل۔ناقل) کے پیروؤں میں شراب اور قماربازی کی کوئی حد نہیں رہی تھی کیونکہ ان کتابوں میں یہ نقص تھا کہ ان خبیث چیزوں کو حرام نہیں ٹھہرایا اور عیاش لوگوں کو اُن کے استعمال سے منع نہیں کیا تھا اسی وجہ سے یہ دونوں قومیں اس قدر شراب پیتی تھیں کہ جیسے پانی اور قماربازی بھی حد سے زیادہ ہوگئی تھی مگر قرآن شریف نے شراب کو جو اُمُّ الخبائث ہے قطعاً حرام کردیا اور یہ فخر خاص قرآن شریف کو ہی حاصل ہے کہ ایسی خبیث چیز جس کی خباثت پرآج کل تمام یورپ کے لوگ فریاد کراٹھے ہیں وہ قرآن شریف نے ہی قطعاً حرام کردی ایسا ہی قمار بازی کو قطعاً حرام کیا۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ267)
شر اب کی مضرّ اثرات
شر اب کا ذکر شر وع ہو گیا ۔ کسی نے کہا کہ اب تو حضو ر شر اب کے بسکٹ بھی ایجا د ہو ئے ہیں فر ما یا :۔
شراب تو انسانی شر م،حیا ،عفت، عصمت کی جا نی دشمن ہے۔ انسا نی شر افت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتے، بلے ، گد ھے ہو تے ہیں ۔ اس کو پی کر با لکل انہی کے مشابہ ہو جا تا ہے۔ اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں نا کر دہ گنا ہ بھی ان میں شا مل ہو جا یا کر یں گے ۔ پہلے تو بعض کو شر م وحیا ہی روک دیتی تھی۔ اب بسکٹ لیے اور جیب میں ڈال لیے ۔ با ت یہ ہے کہ دجال نے اپنی کو ششو ں میں تو کمی نہیں رکھی کہ دنیا کو فسق وفجو ر سے بھرد ے مگر آگے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کر ے ۔اسلا م کی کیسی عظمت معلو م ہو تی ہے ایک حد یث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلا م پر کو ئی اعتر اض کیا ۔ اس سے شر اب کی بد بو آئی ۔ اس کو حد ما ر نے کا حکم دیا گیا کہ شر اب پی کر اسلا م پر اعتراض کیا ۔ مگر اب تو کچھ حد وحسا ب نہیں ۔ شراب پیتے ہیں۔ زنا کرتے ہیں ۔ غر ض کو ئی بد ی نہیں جو نہ کر تے ہو ں مگر با یں ہمہ پھر اسلا م پر اعتر اض کر نے کو تیار ہیں۔ (الحکم 28 ـــفروری1903ء صفحہ15)
حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات
فرمایا:۔
خنزیر جو حرام کیا گیا ہے۔ خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور ار سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنزکے معنے بہت فاسد اور ار کے معنے دیکھتا ہوں۔ پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں۔ یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوںاور اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سوء کا لفظ عربی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنی کتاب منن الرحمٰن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں۔ سو سوء عربی لفظ ہے۔ اسی لئے ہندی میں سوء کا ترجمہ بد ہے۔ پس اس جانور کو بد بھی کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی شک معلوم نہیںہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تمام دنیا کی زبان عربی تھی۔ اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یادگار باقی رہ گیا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو۔ مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے۔ جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں۔ یعنی بہت فاسد۔ اس کی تشریح کی حاجت نہیں۔ اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذائوں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیاشک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا۔ یہ تمام جانور درحقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں۔ کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں۔ مر کر ایک زہر ناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ338،339)
تورات و انجیل میں سؤر کی حرمت
(پولوس نے۔ناقل) ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ اُن کے لئے سؤر کھانا حلال کر دیا۔ حالانکہ حضرت مسیحؑ انجیل میں سؤر کو ناپاک قرار دیتے ہیں۔ تبھی توانجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ پس جب کہ پاک تعلیم کا نام حضرت مسیحؑ نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سؤر رکھا ہے اصل بات یہ ہے کہ یونانی سؤر کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل تمام یورپ کے لوگ سؤر کھاتے ہیں۔ اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سؤربھی اپنی جماعت کے لئے حلال کر دیا۔حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چُھونا بھی ناجائز ہے۔ (چشمۂ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ375)
حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو
ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بکرا وغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہو تے ہیں کیا ان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں ؟فر مایا :۔
شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں اصل بات یہ ہے کہ اُھِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ (البقرۃ :۱۷۴) سے یہ مراد ہے کہ جوان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیںہے لیکن جو جانور بیع وشراء میں آجاتے ہیں اس کی حلّت ہی سمجھی جاتی ہے زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہو تی ہے ۔ دیکھو حلوائی وغیر ہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی بنی ہو ئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ شیرینیاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیںاور جب کھانڈتیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے مَلتے ہیں چوڑھے چمار گڑوغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جوٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشدّد ہو تو سب حرام ہو جاویں اسلام نے مالا یطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے ۔
اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اَور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے فرمایا:۔ اللہ تعالیٰ نے لَا تَسْئَلُوْاعَنْ اَشْیَائَ (ا لمائدۃ:102) بھی فرمایا ہے بہت کھودنا اچھا نہیںہوتا۔ (الحکم10؍اگست 1903ء صفحہ20 )
رضاعت سے حرمت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے بڑے لڑکے میاں عبدالحي مرحوم کا نکاح بہت چھوٹی عمر میں حضرت صاحب نے پیر منظور محمدصاحب کی چھوٹی لڑکی (حامدہ بیگم) کے ساتھ کرادیا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں رضائی بھائی بہن ہیں۔ اس پر علماء جماعت کی معرفت اس مسئلہ کی چھان بین ہوئی کہ رضاعت کس قدر دودھ پینا مراد ہے اورکیا موجودہ صورت میں رضاعت ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ آخرتحقیقات کرکے اور مسئلہ پر غور کرکے یہ فیصلہ ہوا کہ واقعی یہ ہر دو رضائی بہن بھائی ہیں اورنکاح فسخ ہوگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاںتک مجھے یاد ہے اس وقت حضرت صاحب اس طرف مائل تھے کہ اگر معمولی طورپر کسی وقت تھوڑا سا دودھ پی لیا ہے تو یہ ایسی رضاعت نہیںجو باعثِ حرمت ہو اور حضور کا میلان تھا کہ نکاح قائم رہ جائے مگر حضرت خلیفہ اولؓ کو فقہی احتیاط کی بناء پر انقباض تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے فسخ کی اجازت دے دی۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ562،563)
اسی واقعہ کے بارہ میںحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ خاتون کا نکاح حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ کے لڑکے میاں عبدالحي صاحب مرحوم سے کردیا۔ نکاح کے بعد میاں عبدالحيصاحب کی والدہ کو یاد آگیا اورانہوں نے کہا کہ ’’لڑکی نے میرا دودھ پیا ہوا ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے ’’ خَمْسُ رَضْعَاتٍ‘‘ کی شرط ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ بچے نے پانچ دفعہ دودھ پیا ہو، یہ نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں اس نے پانچ گھونٹ دودھ پیا ہو بلکہ الگ الگ وقتوں میں پانچ دفعہ دودھ پینا ضروری ہے مگر حضرت خلیفۂ اولؓ فقہاء کے قول کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک دفعہ بھی بچہ پانچ گھونٹ دودھ پی لیتا ہے تو اس پر اس مسئلہ کا اطلاق ہو جاتا ہے۔ غرض ’’خَمْس رَضْعَاتٍ‘‘ کے ایک معنی وہ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیتے تھے اور ایک معنی وہ تھے جو حضرت خلیفۂ اولؓ سمجھتے تھے اور چونکہ یہ شادی کا معاملہ تھا اور حضرت خلیفہ اولؓ فقہاء کی تشریح کو زیادہ قابل قبول سمجھتے تھے۔اس لئے آپ کو اس کاایسا صدمہ ہوا کہ آپ کو اسہال شروع ہوگئے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح توڑدیا جائے۔ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس میں ضروری نہیں کہ میری تشریح کو ہی درست سمجھا جائے۔
(الفضل3؍ستمبر1960ء صفحہ4)
رشوت کی تعریف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ رشوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رشوت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کا حق غصب کرنے کے لئے کسی کو کچھ دے ۔لیکن اگر کسی بد نیت افسر کو اپنے حقوق محفوظ کرانے کے لئے کچھ دے دے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کتے کو جو کاٹتا ہو۔ کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا جائے۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ 307)
زنا تضییع نسل کا موجب ہے
زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہواتِ نفس سے اندھا ہو کر ایسا ناپاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سِلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضییع نسل کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اِسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حدِ شرعی مقرر ہے۔ پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پرہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا۔ پس اِس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں ۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد 21صفحہ209)
تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ غلیل سے جو پرندے مارے جاتے ہیں ان کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تکبیر پڑھ کر مار لیا کرو اور فرماتے تھے کہ غلیل اور بندوق کا حکم بھی تیر کی طرح ہے۔ یعنی اگر جانور ذبح سے پہلے ہی مر جائے تو وہ حلال ہے۔یہ ذکر اس بات پر چلاتھا کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اکثر پرندے غلیل سے مارکر لایا کرتے تھے۔ مَیں نے عرض کیا کہ کئی پرندے وہیں ذبح سے پہلے مر جاتے ہیں۔توبھائی جی ان کو حرام سمجھ کر چھوڑ آتے ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تکبیر پڑھ کر مارلیاکریں۔ پھر اگر ذبح سے پہلے مر بھی جائیں تو جائز ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی جانور ذبح کرنے سے پہلے مرجاوے یعنی اس کے ذبح کرنے کا موقع نہ ملے تو تکبیر پڑھنے کی صورت میں وہ جائز ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ ذبح کا موقعہ ہو مگر پھر بھی ذبح نہ کیا جائے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ599،600)
ایک سوال کے جواب میں فرمایا
تکبیر پڑھ کر بندوق مارے ، شکار مر جاوے تو حلال ہے۔ (الحکم 10فروری 1907ء صفحہ4)
جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا جو دم گھونٹ کر مارا گیا ہو کھانا جائز نہیں۔ قرآن کریم منع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا۔ پس اسے استعمال نہ کریں۔ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں وہ بہرحال جائز ہے خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں ۔ آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھا لیں۔
(الفضل 14 ستمبر 1915ء صفحہ 4)
نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے
فرمایا:
ایک نجاست خور گائے ہوتی ہے جس کو جلالہ کہتے ہیں۔ اس کا گوشت حرام لکھا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے جانور مثل بھیڑ، مرغی کی پرورش میں حفاظت کرنی چاہئے اور ان کو نجاست خوری سے بچانا چاہئے ۔ (بدر29ستمبر1905ء صفحہ3)
علاج کے طورپر ممنوع چیزوں کا استعمال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سل دق کے مریض کے لئے ایک گولی بنائی تھی۔ اس میں کونین اور کافور کے علاوہ افیون، بھنگ اور دھتورہ وغیرہ زہریلی ادویہ بھی داخل کی تھیں اور فرمایا کرتے تھے کہ دوا کے طورپر علاج کے لئے اور جان بچانے کے لئے ممنوع چیز بھی جائز ہوجاتی ہے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شراب کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ تھا کہ ڈاکٹر یاطبیب اگر دوائی کے طورپر دے توجائز ہے۔مگر باوجود اس کے آپ نے اپنے پڑدادا مرزا گل محمدصاحب کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں ان کی مرض الموت میں کسی طبیب نے شراب بتائی مگر انہوں نے انکار کیا اور حضر ت صاحب نے اس موقعہ پر ان کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے موت کو شراب پر ترجیح دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ 615)
نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں
فرمایا:
حدیث میں آیا ہے وَمِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ تَرْکٌ مَالَا یَعْنِیْہِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔اسی طرح پر یہ پان، حقہ، زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان اُن کا بفرض محال نہ ہو، تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جاوے گی یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بے ہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مُضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔
یہ سچی بات ہے کہ نشوں اورتقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے۔
(الحکم 10جولائی1902ء صفحہ3 )
تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت
فرمایا:
ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ71،70)
نشہ آور اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے
فرمایا:
کیا ہی عمدہ قر آنی تعلیم ہے کہ انسا ن کی عمر کو خبیث اور مضر اشیا ء کے ضر ر سے بچا لیا۔ یہ مُنَشِّی شر اب وغیرہ انسا ن کی عمر کو بہت گھٹا د یتی ہیں ۔اس کی قو ت کو بر با د کر د یتی ہیں اور بڑھا پے سے پہلے بو ڑھا کرد یتی ہیں ۔ یہ قر آنی تعلیم کا احسا ن ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گنا ہ کے ا مر اض سے بچ گئی جو ان نشہ کی چیزوں سے پیدا ہو تی ہیں ۔ (الحکم10مارچ1903ء صفحہ9)
افیون کے مضرّاثرات
فرمایا:
جو لوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئی ہے ، وہ موافق نہیں آتی۔ دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قویٰ کو نابود کردیتی ہے۔
(الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ12 )
نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ
فرمایا :
ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے مَیں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر مَیں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کرلوں تو مَیں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔
پس اس طرح جب مَیں نے خدا پر توکّل کی تو خدا نے مجھے ان خبیث چیزوں کا محتاج نہیں کیا اور بارہا جب مجھے غلبہ مرض کا ہوا تو خدا نے فرمایا کہ دیکھ مَیں نے تجھے شفا دیدی۔
( نسیمِ دعوت۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434،435)
تمباکو نوشی کے مضراثرات
ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا۔ اس کو آپ نے سنا فرمایا :
اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نوعمر لڑکے نوجوان، تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوںکو سن کر اس مضر چیزکے نقصانات سے بچیں۔
فرمایا: اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اوراس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے۔
(الحکم 28فروری 1903ء صفحہ16)
سوال:۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ (بنی اسرائیل :۲۸) اور تمباکو نوشی بھی تو فضول خرچی ہی ہے، اس کو حرام قراردینا چاہئے؟
اس سوا ل کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
آپ بے شک حرام قراردے دیں۔ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکروہ اورناپسندیدہ قراردیا ہے ۔ اس لئے ہم بھی اس فتویٰ کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ چلتی ہوئی ریل کو یکدم روکا نہیں جاسکتا۔آہستہ آہستہ ہی اسے روکا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ سگریٹ کی ریل جس میں سے دھواں نکلتا ہے آہستہ آہستہ ہی رکے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سخت مضر صحت چیز ہے اور اعصاب پراس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے لیکن اس وقت ایک رَواس کی تائید میں چل رہی ہے ۔ اس لئے لوگ اس رو میں بہہ کر اس کا استعمال کرتے جارہے ہیں۔ جب اس کے خلاف رَو زیادہ طاقتور ہوجائے گی تو لوگ خودبخود اس سے نفرت کرنے لگ جائیں گے۔ (الفضل5؍نومبر1960ء صفحہ4)
حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار
حقہ نوشی کے متعلق ذکر آیا، فرمایا:
اس کا ترک اچھا ہے۔ایک بدعت ہے،منہ سے بو آتی ہے۔ہمارے والد مرحوم صاحب اس کے متعلق ایک شعر اپنا بنایا ہو ا پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی برائی ظاہر ہوتی ہے۔
(الحکم۔10ستمبر1901ء صفحہ9)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میں شروع میں حقہ بہت پیا کرتا تھا۔ شیخ حامد علی بھی پیتا تھا۔ کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کردیا کہ یہ حقہ بہت پیتا ہے۔ اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پاؤں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حقہ اچھی طرح تازہ کرکے لاؤ۔ جب شیخ حامد علی حقہ لایا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پیو۔میں شرمایا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے۔ پیو کوئی حرج نہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا۔ پھر حضور نے فرمایا میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے۔ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کردیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی۔ پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقہ پیتا تھا تو یہ درد ہٹ جاتا تھا۔ حضور نے جواب دیا کہ ’’ بیماری کے لئے حقہ پینا معذوری میں داخل ہے اورجائز ہے جب تک معذوری باقی ہے۔‘ ‘ چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کرکے پھر چھوڑدیا۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کے گھر میں حقہ استعمال ہوتا تھا۔ ایک دفعہ حضور نے مجھے گھر میں ایک توڑا ہوا حقہ کیلی پر لٹکاہوا دکھایا اور مسکرا کر فرمایا ہم نے اسے توڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ گھر میں کوئی عورت شاید حقہ استعمال کرتی ہوگی۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ91)
معمر مہمان کو حقہ پینے کی اجازت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حُقّہ سے بہت کراہت کرتے تھے بلکہ بعض اوقات اس کے متعلق بعض لوگوں پر ناراضگی کااظہاربھی فرمایا۔ مگر سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی جب تشریف لاتے تھے۔تو ان کے لئے کہدیا تھا کہ وہ بے شک حُقہ پی لیا کریں۔ کیونکہ سیٹھ صاحب معمر آدمی تھے اور پُرانی عادت تھی۔ یہ ڈر تھا کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔ نیز سیٹھ صاحب بیمار بھی رہا کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کو ذیابیطس بھی تھا اورکاربنکل بھی ہواتھا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ664)
حقہ آہستہ آہستہ چھوڑدو
حضرت پیر سراج الحق ؓصاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں:
جن دنوں میں حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی طرف سے خطوط کے جواب لکھا کرتا تھا تو من جملہ اور مسائل کے حقہ کی نسبت بھی ہماری جماعت کے احباب دریافت کرتے تھے کہ ہمیں حقہ پینے کی عادت ہے اس کی نسبت حضور کا کیا فتویٰ ہے حکم ہو تو ترک کردیں۔ پس حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے یہ حکم دیاتھا کہ ہمارے پاس مختلف مضمون کے خط آتے ہیں بعض دعا کے لئے آتے تھے سو اس میں ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کسی کا خط دعا کے لئے آتا ہے تو ہم اسی وقت دعا کردیتے ہیں۔ اور جب وہ یاد آتا ہے تب بھی دعا کیا کرتے ہیں سو ایسے خطوط کا جواب یہ لکھ دیا کرو کہ ہم نے دعا کی ہے اورکرتے رہیں گے اورچاہئے کہ دعا کے لئے یاد دلاتے رہو ۔اوربعض خطوط مسائل دریافت کرنے کے بارہ میں ہوتے ہیں۔پس جو مسئلہ ایک دفعہ تم کو کسی کے دریافت کرنے پر بتلا یا جاوے تو ہمیشہ بے پوچھے لکھ دیا کرو اورجو نیا مسئلہ ہو وہ دریافت کر لیاکرو ۔ بعض خیریت دریافت کیا کرتے ہیں ان کو خیریت کی اطلاع دے دیا کرواوربعض جواب نہیں چاہتے۔ وہ صرف اپنی یاددہانی کے لئے خط لکھتے ہیں ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے تاوقتیکہ وہ جواب طلب نہ کریں اور بعض خطوط ہمارے متعلق ہوتے ہیں۔ ہم پڑھ کر خود ہی جواب دیں گے ۔ اس بناء پر آپ نے فرمایا کہ حقہ کی نسبت ہمارا کوئی نیا فتویٰ نہیں ہے ۔بہتر ہے کہ آہستہ آہستہ چھوڑ دو کہ جس میں تکلیف نہ ہو۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ8-7)
تمباکو اور زردہ کا استعمال
حضرت پیر سراج الحق ؓصاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں ایک روز کا ذکر ہے کہ دارالامان میں کسی شخص نے ذکر کیا کہ حضرت اقدس امام الائمہ مسیح موعود علیہ السلام نے آج تمباکو کے کھانے اور پینے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے چونکہ میں تمباکو یعنی زردہ پان میں بوجہ دانتوں کے درد کے کھاتا تھا۔ حرمت کا فتویٰ سُن کر متفکر ہوا اورسوچا کہ اگر حضرت اقدس نے درحقیقت حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ تو چھوڑ دینا چاہئے ۔ اسی وقت میں سب کام چھوڑ کر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو آپ نے میری آواز سُن کر دروازہ کھول دیا اور فرمایا صاحبزادہ صاحب کیسے آئے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تمباکو کی نسبت حرمت کا فتویٰ دیا ہے ۔ فرمایا نہیں۔ تم سے کس نے کہا ۔ میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص نے ابھی کہا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کو بلوایا اور دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی عورت سے سُنا ہے۔ تب حضرت اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ سمجھنے میں غلطی رہی ہم نے تو کل یہ بیان کیا تھا کہ تمباکو پینے اور کھانے کی نسبت بہت آدمی دریافت کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے یا مکروہ یا جائز سو ہماری جماعت کے لوگوں کو معلوم رہے کہ ہر ایک لغو چیز سے حتیٰ الامکان بچنا اور پرہیز کرنا لازم ہے ہم کوئی نئی شریعت نکالنا نہیں چاہتے۔ جو کسی چیز کی حلت و حرمت کا فتویٰ بغیر دلائل اپنی طرف سے دیں۔ یہ تو ان دابۃ الارض مولویوں کا کام ہے کہ اپنی طرف سے نئی شریعت ایجاد کرتے ہیں اورالٹا ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم مدعی نبوت ہیں۔وہ ذرا سوچیں تو معلوم ہو کہ مدعی نبوت و رسالت کون ہے ہم یا وہ۔ جس چیز کی حلت و حرمت کا ذکر شریعت میں نہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات ثابت نہ ہو تو ہم خواہ مخواہ گھسیٹ گھساٹ کر شریعت میں لاڈالیں سوائے اس کے کہ ہم کچھ نہیں کہتے کہ لغو کام ہے۔ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ ہی پیش ازیں نسبت اس کے لغو ہونے کا ہی حکم دیتے اورکچھ نہیں۔ پھرفرمایا کہ تم کھاتے ہو؟ میں نے کہا حضور قدر قلیل ایک یا دو رتی پان میں کھاتا ہوں فرمایا کہ کتنی مدت سے؟ عرض کیا پانچ چھ سال سے ۔فرمایا کیوں کھاتے ہو؟ عرض کیا دانتوں کے درد کے سبب سے چونکہ کاپی لکھنے کے وقت منہ نیچے رہتا ہے تو نزلہ اور زکام کا زور ہوجاتا ہے ۔ یہ منہ میں رہتا ہے تو درد موقوف رہتا ہے۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ چھوٹ نہیں سکتا؟ میں نے عرض کیا کہ چھوٹ تو سکتا ہے لیکن دانتوں میں درد ہوجاتا ہے ۔ فرمایا چند روز بیش کھاؤ(جس کو میٹھا تیلیا بھی کہتے ہیں) یہ بھی ایک زہر ہے جب ہر دوزہر مل جاویںگے تو پھر یہ ہر دو خبیث مل کر چھوٹ جائیں گے میں نے پھر عرض کیا کہ چھوڑنے میں تو کوئی دقت نہیں صرف دانتوں کے درد کا خیال ہے۔ حضور نے تو دیکھا ہے کہ رمضان شریف کے میں نے گیارہ روزے رکھے ۔ صرف دن کو زردہ نہیں کھایارات کو کھایاجاتا تھا۔ کس قدر درد زوروشور سے ہوا۔ آپ نے فرمایاہاں بے شک ہوا تھا۔ (تذکرۃ المہدی صفحہ8تا10)
مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز اور درست ہے
فرمایا:۔
منشی الٰہی بخش اور اُس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں۔تعجب ہے کہ حلال او رطیب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداﷲ غزنوی کی حالت پر نظر رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کو شرم آجاتی۔ مولوی عبد اﷲ کو بیویوں کا استغراق تھا، اس لیے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے۔ یہانتک کہ ا خیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کب پڑتی ہے۔ میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میںاختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشنج ہوتا ہے۔ خدائے وحدہٗ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔ بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکد فعہ ہی دورہ ہوتا ہے۔ بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں۔
مگر مولوی عبداﷲ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ، انگور،انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا۔انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کا استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فداتھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی گھبراتے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی ران پر ہاتھ مار کر کہتے کہ اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو سارا جہان دشمن تھا۔ پھر اگر اُن کے لیے کوئی راحت کا سامان نہ ہو، تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کا فور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جائے۔ (الحکم 10جولائی1902ء صفحہ3)
طیبات کا استعمال
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کھانے پینے کی عادات کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
آپ نے کھانے کا اہتمام و التزام اس نیت سے کبھی نہ کرایا کہ وہ حظ نفس کا کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے بلکہ مقصد خورونوش سے مقصدِ حیات تھااور متعدد واقعات اس کو بتاتے ہیں کہ آپ نے بعض چیزوں کو ایسے طورپر استعمال کیا جس سے زبان کوئی لطف ذائقہ نہیں اُٹھاسکتی تھی اور یہ دلیل تھی اس امر کی کہ آپ کسی چیز کو ضرور تًا قیام زندگی کا ایک موجب سمجھ کر استعمال کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس بہت سے سیب آئے اورجہاں تک مجھے یاد ہے یہ ڈالی میاں حاجی عمر ڈار مرحوم نے بھجوائی تھی۔ آپ بجائے اس کے کہ سیب کو تراش کر کھاتے چند دانے لے کر ان کا پانی نکلوایا اورپی لیا اور فرمایا کہ ’’ میں اس لئے پیتا ہوں کہ قلب کے لئے مفید ہے۔ ‘‘ آپ کی زندگی میں اس قسم کے واقعات بہت ملیں گے۔
آپ ادویات کا استعمال بھی فرماتے تھے اور پوری مقدار کھایا کرتے تھے۔صبرکی گولیاں جن کو آپ ’’ پیٹ کی جھاڑو‘‘ فرمایا کرتے تھے ہر وقت رومال میں بندھی رہتی تھیں ایسا ہی مشک بھی اس لئے کہ دورانِ سر کا دورہ بعض اوقات اچانک ہوجاتا تھا۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ64)
تصویر کی حرمت کا مسئلہ
(مولوی سید عبدالواحد صاحب کے بعض شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے آپ ؑ نے تحریرفرمایا )
سوال۔ احادیث میں کسی جاندار کی تصویر کھینچنے میں سخت وعید آئی ہے مگر حضور کی عکسی تصویریں جو شائع کی گئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اس کو جائز رکھتے ہیں۔
جواب۔ مَیں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ مَیں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا۔ لیکن مَیںنے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیںکیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیںسکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پس اس غرض سے اور اس حد تک مَیں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔ وانّما الاعمال بالنّیات۔ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جِنّ حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔ اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویریں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں۔ اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈیوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔ جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔ پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکّہ کے روپیہ اور دونّیاں اور چونّیاں اور اٹھنّیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے۔ کیا اُن سکّوں پر تصویریں نہیں ،افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے مؤید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھہرتے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں۔ لیکن باایں ہمہ مَیں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنا لیں۔ کیونکہ اِسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دستکش رہیں۔بعض صاحبوں کے مَیں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پُشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ مَیں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور مَیں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جا بجا در و دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اور بات ہے ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیںجیسا کہ ہندوؤں اور نصاریٰ میں پیدا ہو گئیں اورمیں اُمید رکھتا ہوں کہ جو شخص میرے نصائح کو عظمت اور عزّت کی نظر سے دیکھتا ہے اور میرا سچا پَیرو ہے وہ اِس حُکم کے بعد ایسے کاموں سے دستکش رہے گا ورنہ وہ میری ہدایتوں کے برخلاف اپنے تئیں چلاتا ہے اور شریعت کی راہ میں گستاخی سے قدم رکھتا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ365تا367)
بدعات اور بد رسومات
سماع
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں۔ آیا یہ جائز ہے؟ فرمایا :
اس طرح بزرگان دین پر بدظنی کرنا اچھا نہیں۔حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے۔ لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا۔حضرت عمرؓ نے اس کو منع کیا۔ اس نے جواب دیا۔میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا تو کون ہے جو مجھے روک سکے؟ یہ سن کر حضرت امیرالمومنین ؓبالکل خاموش ہو گئے۔
قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے بلکہ ا س قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے۔ عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جس شے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ حضرت دائود کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت دائود خدا کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے۔ (بدر 17نومبر1905ء صفحہ6، 7)
مزامیر
سوال:۔ مزامیر کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
فرمایا:
بعض نے قرآن شریف کے ایک لفظ لَھْوَالْحَدِیْثِ (لقمان : ۷)کو مزامیر سے تعبیر کیا ہے مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام او رمحل دیکھنا چاہیے۔ ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کے علامات اس میں پائے جاتے ہیں اور متقی باخد اہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے۔ صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اُسے برا نہ کہو۔ اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے۔بایزید بسطامیؒ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے۔رمضان کا مہینہ تھا۔ انہوں نے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کردی۔ تب سب لوگ کافر کہہ کر بھاگ گئے۔ عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے اور اس کے واسطے روزہ ضروری نہیں۔لوگ نفرت کرکے بھاگے ۔ ان کے واسطے عبادت کے لیے مقام خلوت حاصل ہو گیا۔
یہ اسرار ہیں اور ان کے واسطے ایک عمدہ مثال خود قرآن شریف میں موجود ہے جہاں حضرت خضرؑ نے ایک کشتی توڑ ڈالی اور ایک لڑکے کو قتل کر دیا۔ کوئی ظاہر شریعت ان کو ایسے کام کی اجازت نہ دے سکتی تھی۔ اس قصہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ خضری اسرار اس امت میںہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات متفرقہ کے جامع تھے اور ظلّی طور پر وہ کمالا ت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں موجود ہیں۔ جو خضر نے کیا آئندہ صاحبان کمالات بھی حسبِ ضرورت کرتے ہیں۔ جہاں حضرت خضر نے ایک نفس زکیّہ کو قتل کر دیا اس کے بالمقابل مزامیر کیا شے ہے۔ لہٰذا جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ جلد بازی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ دوسری علامات کو دیکھنا چاہیے جو اولیاء الرحمٰن میں پائی جاتی ہیں، ان لوگوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اس میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ جو اعتراض کرے گا وہ مارا جائے گا۔ تعجب ہے کہ زبان کھولنے والے خود گندے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے دل ناپاک ہوتے ہیں اور پھر بزرگوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ (بدر 17نومبر 1905ء صفحہ 7)
نظر بٹّو
یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ ا ولیاء اﷲ میں کسی ایسی بات کا ہونا بھی سنت اﷲ میں چلا آتا ہے۔ جیساکہ خوبصورت بچے کو جب ماں عمدہ لباس پہنا کر باہر نکالتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک سیاہی کا داغ بھی لگا دیتی ہے تاکہ وہ نظر بد سے بچا رہے۔ ایسا ہی خد ابھی اپنے پاکیزہ بندوں کے ظاہری حالات میں ایک ایسی بات رکھ دیتا ہے جس سے بد لوگ اس سے دور رہیں اور صرف نیک لوگ اس کے گرد جمع رہیں۔ سعید آدمی چہرے کی اصلی خوبصورتی کو دیکھتا ہے اور شقی کا دھیان اس داغ کی طرف رہتا ہے۔
امرتسر کا واقعہ ہے۔ایک دعوت میں چند مولوی شریک تھے اور صاحب مکان نے مجھے بھی بلایا ہوا تھا۔ چائے لائی گئی۔ میں نے پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑلی۔ تب سب نے اعتراض کیا کہ یہ سنت کے برخلاف کام کرتا ہے۔ میں نے کہا۔ یہ سنت ہے کہ پیالی دائیں ہاتھ سے پکڑی جائے مگر کیا یہ سنت نہیں لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل : ۳۷)یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول۔کیا آپ لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ مجھ پر حسن ظن کرتے اور خاموش رہتے۔یا یہ نہیں ہوسکتا تھا تو اعتراض کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ ہی لیتے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پھر میں نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دائیں بازو کی ہڈی بچپن سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پیالی پکڑ کر میں ہاتھ کو اوپر نہیں اُٹھا سکتا۔ جب یہ بات انہیں بتلائی گئی، تب وہ سن کر شرمندہ ہو گئے۔
(بدر 17نومبر1905ء صفحہ7)
صوفیاء کے طریقوں کوحسن ظنی سے دیکھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی۔ ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اوراطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر اِلَّا اللّٰہُ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے ۔ اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اورنہ ا سوئہ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے۔ اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوںنے مجدد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو اس کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ حضور نے فرمایا اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کردینا مناسب ہے۔ حضور نے فرمایا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جا نکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو۔ اوران میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہوکر جان بلب ہوں ۔ اوران کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہوکر ہلاکت کا موجب نہ ہوجائے۔ یادامنِ کوہ میں پتھروں کو توڑ کر اوربڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے۔ لیکن جہاں دریا جاری ہو۔ کیاوہاں بھی ان تکالیف کو اُٹھانے کی ضرورت ہے؟ فرمایا پس شکر کرنا چاہئے کہ اس وقت خدا نے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفّٰی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خدا کی ناشکری اورجہالت ہے۔
حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پرسرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوئہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا۔ حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفّٰی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا۔ بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)
بدعات سے اجتناب کے لئے عورتوں کو خصوصی نصائح
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کونصائح کرتے ہوئے ایک اشتہار شائع کیاجس میں آپ ؑ نے تحریرفرمایا:
’’جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس پر فرض ہے کہ گھر جا کر اپنے کنبے کو عورتوں کو تمام مضمون اور اشتہار کا اچھی طرح سمجھا کر سنا وے اور ذہن نشین کر دے اور جو عورت خواندہ ہو اس پر بھی لازم ہے کہ ایسا ہی کرے۔ ‘‘
اشتہار بغرض تبلیغ و انداز
چونکہ قرآن شریف و احادیث صحیحہ نبویہ سے ظاہر و ثابت ہے کہ ہریک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر کسی قدراختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا اور راہ راست کی ہدایت کی یا نہیں، اس لئے میںنے قیامت کی باز پرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلقین کو( جو ہمارے رشتہ دار و اقارب وواسطہ دار ہیں) ان کی بے راہیوں ،بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کاہار ہو رہی ہیں اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کا موں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے۔ ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سنتے نہیں۔ ہر چند ڈرایا گیا ۔ کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبارنہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اورکوئی عذاب نہیں اس لئے ہم نے ان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اور بھائیوںکو خبر دار کرنا چاہا تاہماری گردن پرکوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا اور سیدھا راہ نہیں بتایا۔ سو آج ہم کھول کر بآوازبلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اوراس کے رسولؐ نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں- لیکن ہمارے گھروں میں جو بد رسمیں پڑ گئی ہیں اگر چہ وہ بہت ہیں۔ مگر چند موٹی موٹی رسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ تا نیک بخت عورتیں خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان کو چھوڑ دیں۔ اور وہ یہ ہیں۔
(1) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اوربے صبری کے کلمات منہ پر لانا۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوئوں سے لی گئی ہیں۔ جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوئوں کی رسمیں پکڑ لیں۔ کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میںیہ حکم ہے کہ صِرف اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہیں یعنی ہم خد اکا مال اور ملک ہیں اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو توصرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے۔
(2) دوم۔ برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلّا کر رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے۔ یہ سب ناپاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(3) سوم ۔سیاپا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں۔ حرا مخور عورتیں، شیطان کی بہنیں جو دور دورسے سیاپا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر اور فریب سے منہ کو ڈھانک کر اور بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں۔ ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صدہا روپیہ کا پلائو اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس غرض سے کہ تا لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی۔ اچھا نام پیدا کیا۔ سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے توبہ کرنا لازم ہے۔
(4) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو۔ دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کرلینا نہایت ثواب کا کام ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود *** اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے۔اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔
(5) یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں۔اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں۔ ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک *** ہیں۔ ان کا نمازروزہ اور کوئی عمل منظور نہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پسِ پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوںپر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں۔ ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ *** ہے خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چرا ویں اور نا محرم سے اپنے تئیں بچاویں اور یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں اُن سے پردہ کرنا ضروری ہے۔ جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے۔ عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیںکیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو۔
( 6) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لئے کوئی دوسرا نکاح کرناچاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں- ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس کے صدہا مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں۔ پھر جو شخص اللہ رسول کے حکم کے مطابق نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے۔ ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ نہایت مردود شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے ربّ کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بد ذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے۔
(7) بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں۔ پس اگر پہلی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مدد گار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں سو ان کوبھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
(8) ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سرا سر تکبر،نخوت کا طریق ہے جو سر اسر احکامِ شریعت کے بر خلاف ہے۔بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔رشتہ ناطہ میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے کہ وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَ تْقٰـکُمْ یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے۔
(9) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخی اوربڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی چلوانا اور کنجروں، ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے۔ ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے۔ گناہ سر پر چڑھتا ہے۔ صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کر ے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلادیوے۔
(10) ہمارے گھر وںمیں شریعت کی پابندی کی بہت سستی ہے۔ بعض عورتیں زکوٰۃ دینے کے لائق اور بہت سازیور اُن کے پاس ہے۔ وہ زکوۃ نہیں دیتیں۔ بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی رکھتی ہیں۔ بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا۔ بعض فرضی بیویوں کی پوجا کرتی ہیں۔ بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھا ویں کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں۔ ہم صرف خالص اللہ کے لیے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آئو خدا تعالیٰ سے ڈرو۔ ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الٰہی میں مبتلا ہو جائو گے جس کا انتہاء نہیں۔
( الحکم 10جولائی1902ء صفحہ6 تا 8)
محرم میں رسومات سے بچو
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں میں امامَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’ عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائز نہیں ہے۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ253)
فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو، مُلانوں کو نہ دو۔ ملّاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کو ڈالتے ہیں ، کتے اور کوّے کھاتے ہیں اور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ229)
نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکارکے طریق کی ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے تو ایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا۔ حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی۔ احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا۔ چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا۔ حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرما تھے۔ خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہوکر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی۔ حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بندیہ خاندان میں بیعت ہوں اوران کے طریقہ کے مطابق ذکر اذکار بھی کرتا ہوں۔ ایک رات میںذکر نفی اثبات میں حسبِ طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لا کو وسط سینہ سے اُٹھاکر پیشانی تک لے جاتا تھا۔ وہاں سے لفظ اِلٰہ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ اِلَّا اللّٰہ کی ضرب قلب پر لگاتا۔ کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رَو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہوکر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا۔ آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور ناقابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میں نے خیال کیا اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہوکر چارپائی سے نیچے گر جاؤں۔ چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریںمیں نے ذکر کو قصدًا بند کردیا۔ چونکہ رات کافی گذر چکی تھی اس لئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی۔ صبح بیدار ہونے پر حالت حسبِ معمول تھی۔ اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پیدا نہ ہوئی۔
حضور نے سن کر فرمایا کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پیدا ہو۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے۔ حضور نے فرمایا کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس میں ایک عالَم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی۔ اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے بلکہ حکم کی تعمیل اوراپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے۔ خدا چاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے۔ اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے ۔ خدا کی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے۔ خواہ لذت ہویا نہ ہو۔ وہ اس کی مرضی پر ہے۔ پھر فرمایا یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طورپر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگاکہ آپ اس کوپھر چاہتے ہیں۔ اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی۔ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیںجس میں مستقل لذت پیدا ہوگی جو پھر جُدا نہیں ہوگی۔ وہ اتباع سنت اوراسوئہ حسنہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی غرض خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ پھر فرمایا۔ نماز خشوع و خضوع سے پڑھنی چاہئے۔ منہیات سے پرہیز ضروری ہے۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ67،68)
بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار نہ کرو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں الہ دین فلاسفر اورپھر اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب کو ایک زمانہ میں قبروں کے کپڑے اتار لینے کی دھت ہوگئی تھی یہاں تک کہ فلاسفر نے ان کو بیچ کر کچھ روپیہ بھی جمع کرلیا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح ہم بدعت اور شرک کو مٹاتے ہیں۔ حضرت صاحب نے جب سُنا تو اس کام کو ناجائز فرمایا۔ تب یہ لوگ باز آئے اور وہ روپیہ اشاعت اسلام میں دے دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف ناجائز کاموں سے روکا ہے بلکہ جائز کاموں کے لئے ناجائز وسائل کے اختیار کرنے سے بھی روکا ہے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ780)
بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے اور شادی بیاہ وغیرہ کی جو رسوم رائج ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو اہل حدیث کی طرح کلی طورپرردّ نہیں کردیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے جو مشرکانہ یا مخالفِ اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی توجیہ فوائد کی نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اِس اِس فائدہ یا ضرورت کے لئے یہ رسم ایجاد ہوئی۔ مثلًا نیوتہ (جسے پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں ) امداد باہمی کے لئے شروع ہوا لیکن اب وہ ایک تکلیف دہ رسم ہوگئی ہے۔
( سیرت المہدی جلد 1صفحہ744)
فاتحہ خوانی اور اسقاط
عرض کیاگیا کہ جب کوئی مسلمان مرجائے تو اس کے بعد جو فاتحہ خوانی کا دستور ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے یا نہیں ؟ فرمایا:
’’نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں۔ ‘‘
عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے ؟ فرمایا:
’’نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا دروازہ کھل جاتاہے ۔‘‘
(بدر19اپریل 1906ء صفحہ3)
میّت کے لئے اسقاط
سوال ہوا کہ ملّا ں لوگ مُردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا : اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے ۔مُلّائوں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں ۔یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
(الحکم 24اپریل 1903ء صفحہ10)
ایک اورموقعہ پر فرمایا :
(ان لوگوں نے )ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں ۔یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے۔ انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو۔
(البدر16مارچ 1904ء صفحہ6)
قُل خوانی
سوال:۔ میّت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کاثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟
جواب:۔ قل خوانی کی کو ئی اصل۔۔۔۔ شریعت میں نہیں ہے صدقہ ،دعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ مُلّا نوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے سواگر اسے ہی مردہ تصور کر لیا جاوے (اور واقعی ملاں لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہو تے ہیں )تو ہم مان لیں گے۔
ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں صحابہ کرامؓ بھی فوت ہو ئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے صدہاسال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے۔ (البدر16مارچ 1904ء صفحہ5،6)
میت کے لئے فاتحہ خوانی
سوال: میت کے لئے فاتحہ خوانی کے لئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں؟
جواب : فرمایا یہ درست نہیں ہے۔ بدعت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے۔ (البدر 16مارچ1904ء صفحہ6)
ختم اور فا تحہ خوانی
ایک بزرگ نے عر ض کی کہ حضور مَیں نے اپنی ملا زمت سے پہلے یہ منت ما نی تھی کہ جب میں ملا زم ہو جا ؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حسا ب سے نکال کر اس کا کھا نا پکواکر حضرت پیران پیرکا ختم دلا ؤں گا ۔ اس کے متعلق حضو ر کیا فر ما تے ہیں ؟فر ما یا کہ :۔
خیر ات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جا ئز ہے اور جسے چا ہے انسا ن دے مگر اس فا تحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فا ئدہ ؟ اور یہ کیوں کیا جا تا ہے ؟ میرے خیا ل میں یہ جو ہما رے ملک میں رسم جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھاکرتے ہیں، یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کے فعل سے نہیں ۔غربا ء ومساکین کو بے شک کھا نا کھلاؤ۔
(الحکم 31مارچ1903ء صفحہ4)
چہلم کی رسم ناجائز ہے
ایک شخص کا سوال حضرت صاحبؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا:
’’یہ رسم سنت سے باہر ہے۔ ‘‘
(بدر 14 فروری 1907ء صفحہ 4)
مسجدکی امامت اور ختم پر اجرت لینا
ایک سوال پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلّاں لوگ پڑھتے ہیں۔اس ملک کے لوگ جو ختم وغیرہ دیتے ہیں تو مُلَّاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شوربا اور روٹی زیادہ ملے۔
وَلَا تَشْتَرُوْابِاٰ یٰاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا (البقرہ:۴۲)
یہ کفر ہے ۔جو طریق آج کل پنجا ب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے ملا ں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کرکے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعًا ناجائزہے ۔صحابہؓ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طر ح اجرت پر امامت کرائی ہو پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کو رٹ تک مقدمہ چلتا ہے ۔یہانتک کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نماز جنازہ کی چھ یا سات تکبیریں کہیں ۔لوگوں نے پوچھا تو جواب دیاکہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یادرہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادرہے جب مجھے یہ بات بھول جا تی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہو تی ہے ۔
اسی طرح ایک مُلَّا یہاں آکر رہا ۔ہمارے میرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جومحلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قدچھوٹے ہیں اس لیے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی ۔
اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردّی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہوجاتا ہے ۔ (البدر27مارچ1903ء صفحہ73)
طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے زیارتیں لیکر نکلنا
لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں۔ ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا: ۔
جو لوگ اب باہر جاکر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے۔ سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا، ورنہ پھر وہی شوخی اور بیبا کی کیوں نظر آرہی ہے۔ اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوںکہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو۔ خداتعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پرہنسی کرتے ہیںاور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انھوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کرکے سلامت بیٹھا ہوں، حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتاہے۔یہ عجیب معاملہ ہے۔ یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کوپھانسی دے دی جاوے۔ پھر کیا خداتعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اور اس کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لیکر کوئی شخص انصاف کرے اور بتادے کہ کیا ہو سکتا ہے کہ جو شخص اﷲتعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جائے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟ (الحکم 10جون 1904ء صفحہ3)
یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا کیسا ہے
سوال:۔یا شیخ عبدالقادر جیلانی شَیْئًا لِلّٰہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:۔ ہر گز نہیں یہ توحید کے برخلاف ہے ۔
سوال :۔ جبکہ غائب اور حاضر دونوں کو خطاب کر لیتے ہیں پھر اس میں کیا حرج ہے ؟
جواب:۔ دیکھو بٹالہ میں لوگ زندہ موجود ہیں اگر ان کو یہاں سے آواز دو تو کیا وہ کوئی جواب دیتا ہے پھر بغداد میںسید عبدالقادر جیلانی کی قبر پر جا کر آواز دوتو کوئی جواب نہیں آئے گا خدا تعالیٰ تو جواب دیتا ہے جیسا کہ فر مایا اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۱)مگر قبروں والوں میں سے کون جواب دیتا ہے پھر کیوں ایسا فعل کرے جو توحید کے خلاف ہے ۔
سوال:۔جب کہ یہ لوگ زندہ ہیں پھران کو مردہ تو نہیں کہہ سکتے۔
جواب :۔زندگی ایک الگ امر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہماری آواز بھی سن لیں یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے نزدیک زندہ ہیں مگر ہم نہیں مان سکتے کہ ان کو سماع کی قوت بھی ہے حاضر ناظر ہو ناایک الگ صفت ہے جو خدا ہی کو حاصل ہے دیکھو ہم بھی زندہ ہیں مگر لا ہوریا امرتسر کی آوازیں نہیں سن سکتے۔ خدا تعالیٰ کے شہید اور اولیاء اللہ بیشک خدا کے نزدیک زندہ ہو تے ہیں مگر ان کو حاضر ناظر نہیں کہہ سکتے ۔دعاؤں کے سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے اس کو یقین کر نا یہی اسلام ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے پھر کس قدر قابلِ شرم یہ امر ہے کہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی تو کہتے ہیں یا محمد ﷺ،یا ابوبکر ،یا عمر نہیں کہتے البتہ یا علی کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بلاوجہ کی جاوے۔ جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان صُمٌّ وَّبُکْمٌ ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے ۔اسلام توحید کے لئے آیا ہے جب توحید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا؟تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کا حصّہ دار بناتے ہیں خود ان کو بھی یہ مقام توحید ہی کے ماننے سے ملا تھا۔اگر وہ بھی ایسے ’’یا‘‘کہنے والے ہوتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدا ئے تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی تب یہ رتبہ ان کو ملا یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں۔ (الحکم 10مارچ1904ء صفحہ12)
مولُودخوانی
ایک شخص نے مولودخوانی پر سوال کیا ۔فرمایا :۔
آنحضرت ﷺ کا تذکر ہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ اولیاء اور انبیا ء کی یا د سے رحمت نازل ہو تی ہے اور خودخدانے بھی انبیاء کے تذکر ہ کی تر غیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جا ویں جن سے تو حید میں خلل واقع ہو تو وہ جا ئز نہیں ۔خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولودوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہو تے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں ۔اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے ۔ آنحضرت ﷺکی بعثت ،پیدائش اور وفات کا ذکر ہوتوموجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں ہیں کہ اپنی شریعت یاکتاب بنا لیویں ۔
بعض ملا ں اس میں غلوکر کے کہتے ہیں کہ مولودخوانی حرام ہے ۔اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کر وگے ؟ کیونکہ جس کا ذکر زیا دہ ہو اس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہو تی ہے ۔
مولود کے وقت کھڑا ہو نا جائز نہیں ۔ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہو تاہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح آگئی ہے بلکہ ان مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بد معاش لوگ ہو تے ہیں وہا ں آپ کی روح کیسے آسکتی ہے اوریہ کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے ؟
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ (بنی اسرائیل :۳۷)
دونوں طرف کی رعایت رکھنی چاہیے ۔جب تک وہابی جو کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت نہیں سمجھتا وہ بھی خدا سے دور ہے ۔انہوں نے بھی دین کو خراب کر دیا ہے ۔جب کسی نبی ، ولی کا ذکر آجاوے تو چِلَّا اٹھتے ہیں کہ ان کو ہم پر کیا فضیلت ہے؟انہوں نے انبیاء کے خوارق سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہا ، دوسرے فرقے نے شرک اختیار کیا حتیٰ کہ قبروں کو سجدہ کیا اور اس طرح اپنا ایمان ضائع کیا ۔ہم نہیں کہتے کہ انبیا ء کی پرستش کرو بلکہ سوچو اور سمجھو ۔خدا تعا لیٰ بارش بھیجتا ہے ہم تواس پر قادر نہیں ہو تے مگر با رش کے بعد کیسی سرسبزی اورشادا بی نظر آتی ہے ۔اسی طرح انبیاء کا وجود بھی با رش ہے۔
پھر دیکھو کہ کوڑی اور موتی دونوں دریا ہی سے نکلتے ہیں پتھر اور ہیرا بھی ایک ہی پہاڑ سے نکلتا ہے مگر سب کی قیمت الگ الگ ہو تی ہے اسی طرح خدا نے مختلف وجود بنائے ہیں ۔انبیاء کا وجود اعلیٰ درجہ کا ہو تا ہے اور خدا کی محبت سے بھرا ہوا ۔اس کو اپنے جیسا سمجھ لینا اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا بلکہ خدا نے تووعدہ کیا ہے کہ جواُن سے محبت کرتا ہے وہ انہیں میں سے شمار ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بہشت میں ایک ایسا مقام عطا ہو گا جس میں صرف میں ہی ہو ں گا۔ایک صحا بی روپڑاکہ حضور مجھے جو آپ سے محبت ہے مَیں کہاں ہوں گا؟ آپؐ نے فرمایا تو بھی میرے ساتھ ہوگا۔پس سچی محبت سے کام نکلتا ہے۔ایک مشرک ہرگز سچی محبت نہیں رکھتا۔میں نے جہاں تک دیکھا ہے ۔وہابیوں میں تیزی اور چالا کی ہو تی ہے۔ خاکساری اور انکساری تو ان کے نصیب نہیں ہو تی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں۔وہ بھی الہام کے منکر ،یہ بھی منکر ۔جب تک انسان برا ہ راست یقین حاصل نہ کرے قصص کے رنگ میں ہرگز خدا تعا لیٰ تک پہنچ نہیں سکتا جو شخص خدا تعا لیٰ پر پورا ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ اس پر کچھ تو خدا کا رنگ آجاوے۔
دوسر ے گروہ میں سوائے قبرپر ستی اور پیرپرستی کے کچھ روح با قی نہیں ہے ۔قرآن کو چھوڑدیا ہے۔خدا نے امت وسط کہا تھا، وسط سے مراد ہے میانہ رو۔اور وہ دونوں گروہ نے چھوڑدیا۔پھر خدا فر ما تا ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْنِیْ (ال عمران :۳۲)
کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قر آن پڑھا تھا ؟اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے ہا ں آنحضرت ﷺ نے خوش الحانی سے قر آن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے ۔جب یہ آیت آئی وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓوُلَا ئِ شَھِیْدًا (النسا ئ:۴۲) آپ روئے اور فر ما یا بس کر میں آگے نہیں سن سکتا ۔آپ کو اپنے گواہ گذرنے پر خیال گذرا ہو گا۔ ہمیں خودخواہش رہتی ہے کہ کو ئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کا م کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے ۔سچے مو من کے واسطے کا فی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کا م آنحضرت ﷺ نے کیا ہے کہ نہیں ۔اگر نہیں کیا تو کر نے کا حکم دیا ہے کہ نہیں ؟حضر ت ابر اہیم ؑ آپ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولودنہ کروایا ؟ (البدر27مارچ1903ء صفحہ73،74)
گدی نشینوں کی بدعات
فرمایا:
یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ہر ایک مسلمان کیوں مسلمان کہلاتا ہے ۔مسلمان وہی ہے جو کہتا ہے کہ اسلام برحق ہے ، حضرت محمد ﷺ نبی ہیں، قرآن کتابِ آسمانی ہے ۔ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں اقرارکرتا ہوں کہ میں ان سے باہر نہ جاؤں گا۔ نہ عقیدہ میں نہ عبادت میں، نہ عمل درآمد میں۔میری ہر ایک بات اور عمل اس کے اندراندرہی ہوگا۔ اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے دیکھیں کہ آج کل گدی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں ۔اگر وہ خدا کی کتاب پر عمل نہیں کرتے توقیامت کو اس کا جواب کیا ہو گا کہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا۔اس وقت طوافِ قبر ،کنجریوں کے جلسے اور مختلف طریقے ذکر جن میں سے ایک ارّہ کا ذکر بھی ہے ہوتے ہیں۔لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھُول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں ۔نہ رسول کو بتلائیں۔ جو رسول ﷺ کی عظمت جانتا ہے اسے ماننا پڑیگاکہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیے۔
کتا ب اللہ کے بر خلاف جو کچھ ہو رہاہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النّار ہے۔اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجُز اس قانون کے جو مقرر ہے اِدھر اُدھر بالکل نہ جاوے ۔کسی کا کیا حق ہے کہ باربار ایک شریعت بناوے ۔
بعض پیر زادے چوڑیاں پہنتے ہیں ۔ مہندی لگاتے ہیں ۔لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں۔سَدا سہاگن ان کا نام ہو تا ہے ۔اب ان سے کو ئی پوچھے کہ آنحضرت ﷺ تو مرد تھے۔اس کو مرد سے عورت بننے کی کیا ضرورت پڑی؟
ہمارا اُصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سُنّت کے سوا نہیں۔کس شئے نے ان کو جرأت دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں۔بجائے قرآن کے کا فیاں پڑھتے ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا دل قرآن سے کھٹا ہو ا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ فر ماتا ہے جو میری کتا ب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آوے گا اور کتا ب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہو گا ۔ (البدر13مارچ1903ء صفحہ59)
سر ودکی رسم
مختلف گدی نشینوں کے حالات پر افسوس ہوتا رہا۔جو سرود وغیرہ بدعات میں گرفتار ہیں۔اس پر آپ نے فرمایا کہ:
انسان میں ایک ملکہ احتظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرود سے حظ اٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھوکہ لگتا ہے کہ میں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں،مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے۔خواہ اس میں شیطان کی تعریف ہو یا خدا کی۔جب یہ لوگ اس میں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں۔تو ان کے واسطے شیطان کی تعریف یا خدا کی ۔سب برابر ہو جاتے ہیں۔
(بدر19مارچ1908ء صفحہ5،6)
فقراء کے نِت نئے طور طریقے
فرمایا:۔
میں تعجب کرتاہوں کہ آج کل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اصل دین سے بالکل الگ ہیں جس دُنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں اسی دُنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہو رہے ہیں۔ توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امو رکو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دُنیا پرستی کی باتیں ہیں اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتابلکہ اُن سے بڑھ سکتا ہے اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالتِ عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوتِ ایمانی کو پاتا ہے ۔ آج کل کے پیرزادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی یا تو پرواہ نہیں کرتے یا ایسی طرح جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں۔ ایک ذکر ارّہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے ۔ بعض آدمی ایسی مشقتوں سے دیوانے ہو جاتے ہیںاور بعض مر ہی جاتے ہیں۔جو دیوانے ہوجاتے ہیں ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کی جو راہیں خود ہی مقرر فرما دی ہیں وہ کچھ کم نہیں ۔ خدا تعالیٰ ان باتوں سے راضی ہوتاہے کہ انسان عفت اور پرہیز گاری اختیار کرے۔ صدق و صفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے ۔ دنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تبتل الیٰ اللہ اختیار کرے۔ خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر اختیارکرے۔ خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔ نماز انسان کو منزہ بنا دیتی ہے ۔ نماز کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا تعالیٰ کی طرف رکھے یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں ۔ ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں۔ فکر کے ساتھ شکرگذاری کا مادہ بڑھتا ہے ۔ انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین اور آسمان ، ہوااور بادل ، سورج اور چاند ، ستارے اور سیارے ۔ سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ فکر معرفت کو بڑھاتا ہے۔
غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے نیک بندے مصروف رہتے ہیں۔ اسی پر کسی نے کہاہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ آج کل کے لوگوں میں صبر نہیں ۔ جو اس طرف جھکتے ہیں وہ ابھی ایسے مستعجل ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر ایک دم میں سب کچھ بنا دیا جائے اور قرآن شریف کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس میں لکھا ہے کہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ہدایت کا راستہ ملتاہے ۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تمام تعلق مجاہدہ پر موقوف ہے ۔ جب انسان پوری توجہ کیسا تھ دُعا میں مصروف ہوتاہے تو اس میں اس کے دل میں رقت پید اہوتی ہے اور وہ آستانہ الٰہی پر آگے سے آگے بڑھتا ہے تب وہ فرشتوں کے ساتھ مصافحہ کرتاہے ۔
ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں۔ بعض نے ہندوئوں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتاہے ۔ ہمارے بھائی صاحب کو ورزش کا شوق تھا۔ اُن کے پاس ایک پہلوان آیا تھا۔ جاتے ہوئے اُس نے ہمارے بھائی صاحب کو الگ لیجا کر کہا کہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بہت ہی قیمتی ہے۔ یہ کہہ کر اُس نے ایک منتر پڑھ کر اُن کو سُنایا اور کہا کہ یہ منتر ایسا پُرتاثیر ہے کہ اگر ایک دفعہ صبح کے وقت اس کو پڑھ لیا جاوے تو پھر سارا دن نہ نماز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ وضو کی ضرورت ۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں۔ وہ پاک کلام جس میں ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:۳) کا وعدہ دیا گیا ہے خود اسی کو چھوڑ کر دوسری طرف بھٹکتے پھرتے ہیں۔ انسان کے ایمان میں ترقی تب ہی ہوسکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ پر چلے اور خدا پر اپنے توکل کو قائم کرے۔ ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ کھجوریں جمع کرتاتھا۔ آپ نے فرمایا کہ کس لیے ایسا کرتاہے ۔ اس نے کہا کہ کل کے لیے جمع کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تو کل کے خدا پر ایمان نہیں رکھتا؟ لیکن یہ بات بلال ؓ کو فرمائی ہر کسی کو نہیں فرمائی اور ہر ایک کو وعظ اور نصیحت اس کی برداشت کے مطابق کیا جاتاہے۔ (بدریکم اگست 1907ء صفحہ3)
بہترین ریاضت
ایک شخص نے عرض کی کہ میں پہلے فقراء کے پاس پھرتا رہا اور کئی طرح کی مشکل ریاضتیں انہوں نے مجھ سے کرائیں۔ اب میںنے آپ کی بیعت کی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟فرمایا:۔
نئے سرے سے قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے معانی پر خوب غور کرو ۔ نماز کو دل لگا کر پڑھو اور احکام شریعت پر عمل کرو۔ انسان کا کام یہی ہے ۔ آگے پھر خدا کے کام شروع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عاجزی سے خدا تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتاہے خدا تعالیٰ اس پر راضی ہوتاہے۔
(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ3)
آج کل کے پیر
فرمایا:
آج کل کے پیراکثر فاحشہ عورتوں کو مرید بناتے ہیں ۔ بعض ہندوئوں کے پیر ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ اپنی بدکاریوں پر اور اپنے کفر پر برابر قائم رہتے ہیں۔ صرف پیر کو چندہ دے کر وہ مرید بن سکتے ہیں۔ اعمال خواہ کیسے ہی ہوں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتاتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل کو بھی مرید بنا سکتے تھے وہ اپنے بُتوں کی پرستش بھی کرتا رہتا اور اس قدر لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہ پڑتی مگر یہ باتیں بالکل گناہ ہیں۔
(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ3)
جَھنڈ یا بودی رکھنا
سوال پیش ہوا کہ کسی بزرگ کے نام پر جو چھوٹے بچوں کے سر پر جھنڈ یعنی بودی رکھی جاتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟فرمایا
’’ناجائز ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے‘‘
(بدر14مارچ1907ء صفحہ5)
میّت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا
ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:
سب باتیں نیت پر موقوف ہیں۔ اگر یہ نیّت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتاہے ۔ ادھر وہ دفن ہو ادھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تاکہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تویہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے ۔
(بدر16فروری 1906ء صفحہ2)
محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا
سوال پیش ہوا کہ محرّم میں جو لوگ تابوت بناتے ہیں اورمحفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ فرمایا :
’’ گناہ ہے۔‘‘
(بدر14مارچ1907ء صفحہ5)
دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم
قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت وچاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ لِلّٰہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:
ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کردینا ایک رسم وبدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس سے پرہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں۔ ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کرلیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے۔ (بدر14مارچ1907ء صفحہ5)
ذکر اَرَّہ کرنا کیسا ہے؟
ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ جو صوفیوں نے بنایا ہوا ہے کہ توجہ کے واسطے اس طرح بیٹھنا چاہیے اور پھر اس طرح دل پر چوٹ لگانی چاہیے اور ذکر اَرَّہ اور دیگر اس قسم کی کتابیں۔ کیایہ جائز ہیں؟ فرمایا:
یہ جائز نہیں ہیں بلکہ سب بدعات ہیں حَسْبُنَا کَتَابُ اللّٰہ ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب سلوک کے واسطے کافی ہے جو باتیں اب ان لوگوں نے نکالی ہیں یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ میں ہرگز نہ تھیں۔
یہ صرف ان لوگوں کا اختراع ہے اور اس سے بچنا چاہیئے ۔ ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ :۱۱۹) صادق کی صحبت میں رہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں مشکلات آسان ہوجاتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ بڑے خدا رسیدہ اور بڑے قبولیت والے انسان تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کا راہ دیکھنا ہو وہ قرآن شریف کو پڑھے۔ اب اگر ہم آنحضرت ﷺ کے فرمودہ طریق پر کچھ بڑھائیں اور نئی باتیں ایجاد کریں یا اس کے بر خلاف چلیں تو یہ کفر ہوگا۔ اس زمانہ میں جیسا کہ علماء کے درمیان بہت سے فرقے بن گئے ہیں۔ ایسا ہی فقراء کے درمیان بھی بہت سے فرقے بن گئے ہیں اور سب اپنی اپنی باتیں نئی طرز کی نکالتے ہیں ۔ تمام زمانہ کا یہ حال ہورہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے۔اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہورہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانہ کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اس کے وقت کو پائیں۔
(بدر15نومبر1906ء صفحہ5)
تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟
ایک شخص نے ذکر کیا کہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ لوگ نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن تسبیحیں نہیں رکھتے۔ فرمایا:
صحابہؓ کے درمیان کہاں تسبیحیں ہوتی تھیں۔ یہ تو ان لوگوں نے بعد میں باتیں بنائی ہیں۔ ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ لمبی تسبیح ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور کوچہ میں سے گذر رہا تھا ۔ راستہ میں ایک بڑھیا نے دیکھا کہ خدا کا نام تسبیح پر گن رہا ہے ۔ اس نے کہا کہ کیا کوئی دوست کا نام گن کر لیتا ہے ۔ اس نے اسی جگہ تسبیح پھینک دی ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حساب ہیں ان کو کون گن سکتاہے۔
(بدر 22 مارچ 1906ء صفحہ2)
ایک شخص نے پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:
تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتاہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اﷲتعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اﷲتعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خداتعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اﷲتعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اﷲ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا۔
(الحکم10جون1904ء صفحہ3)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے لئے ایک تسبیح تحفہ لایا۔ وہ تسبیح آپ نے مجھے دے دی اور فرمایا:لو اس پر درود شریف پڑھا کرو۔ وہ تسبیح بہت خوبصورت تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ تسبیح کے استعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طورپر پسند نہیں فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ166)
سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں :
حضرت اقدس کبھی تعویذ آج کل کے درویشوںفقیروںمولویوںکی طرح سے نہیں لکھتے تھے پانچ چار دفعہ آپ کو تعویذ لکھنے کا کام پڑا ہے اور وہ یوں پڑا ہے کہ خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں کے اولاد نہیں ہوتی تھی ۔انہوں نے اولاد کے بارہ میں دعا کرائی۔ آپ نے فرمایاہاں ہم دعا کریں گے خلیفہ صاحب نے عرض کی کہ ایک تعویذ مرحمت ہو جائے۔ فرمایا لکھ دیں گے پھر ایک دفعہ عرض کی۔ فرمایا ہاں یاد دلا دینا لکھ دیں گے۔ اب خلیفہ صاحب نے ادب سے تعویذ کے لئے خود عرض کرنا مناسب نہ جانا اور جناب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے سے تھے ان سے کہا کہ تم تعویذ حضرت اقدس سے لادو ۔ ان کو حضرت اقدس علیہ السلام کے پیچھے لگادیا۔یہ جب جاتے تو کہتے ابا خلیفہ جی کے واسطے تعویذ لکھ دو۔دو چار دفعہ تو ٹالا لیکن یہ پیچھے لگ گئے۔ ایک دن انہوں نے کہا ابا تعویذ لکھ دو۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا محمود کو جس بات کی ضد پڑ جاتی ہے مانتا نہیں تعویذ لکھ کر دے دیا۔ آپ نے معہ بسم اللہ تمام الحمدللہ لکھ کر تعویذ محمود احمدصاحب کو دے دیا یہ لے کر خلیفہ جی کو دے آئے۔ بس تعویذ کا باندھنا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہ طفیل دعائے مسیح ان کی بیوی حاملہ ہوئی اور لڑکا پیدا ہوا۔
ایک شخص کا حیدر آباد کی طرف سے خط آیا اور وہ غیر احمدی تھا لکھا کہ ایک تعویذ اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر مجھے بھیج دو۔ حضرت اقدس نے مجھے فرمایا صاحبزادہ صاحب ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا ۔لاؤ الحمد شریف لکھ دیں ۔ اسی میں ساری برکتیں ہیں۔ آپ نے الحمدلکھ کر مجھ کو دے دی اور فرمایا خط میں بھیج دو۔
ایک شخص کا خط مارواڑ سے آیا اورلکھا کہ ہمارے گھرمیں آگ لگ جاتی ہے اور خود بخود لگ جاتی ہے اور طرح طرح کی ہیبت ناک آوازیں آتی ہیں اورہمارے بال بچے اکثر اورہم بھی بیمار رہتے ہیں۔ کوئی تعویذ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مرحمت فرمائیے تاکہ اس آسیب سے کوئی جن ہے یا خبیث ہے نجات ملے۔ فرمایا تم ہی کچھ لکھ دو۔ ہم آسیب واسیب کچھ نہیں جانتے۔ میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے کہنے کے مطابق یہ لکھ دیا کہ مکان کے چاروں کونوں میں رات کو ہر روز اذان کہہ دیا کرو۔ پھر میں نے یہ خط حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھا یا۔ فرمایا بہتر ہے یہ خط بھیج دو۔ دو تین ہفتہ کے بعد اس کا خط آیا کہ اب آگ بھی نہیں لگتی اور خواب پریشان بھی نہیں آتے اور خدا تعالیٰ نے ہم سب کو تندرست کردیا۔ پھر میں نے تعویذ کے لئے عرض کیاتو فرمایا: ہاں لکھ دیں گے پھر ایک روز الحمد لکھ دی اور فرمایا : بھیج دو۔
قادیان کی بعض عورتیں اور گاؤں کی عورتیں آجاتیں کہ مرزا جی ہمیں اپنے ہاتھ کا تعویذ دو۔ آپ فرمادیتے صاحب زادہ صاحب کے پاس جاؤ۔ وہ تعویذ لکھ دیں گے تم جانتی ہو کہ صاحبزادہ صاحب کون ہیں۔ وہ لمبے قد والے پیر صاحب ،وہ کہہ دیتی کہ ہاں ہم جانتے ہیں قادیان اور نواح قادیان میں سب مردوعورت مجھ سے واقف ہیں۔کوئی پیر صاحب کوئی بڑا پیر کہتے تھے۔ پھر وہ عورتیں میرے پاس آتیں اور کہتیں کہ مرزا صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔تعویذ لکھ دو۔میں بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے دیکھا دیکھی الحمد شریف ہی لکھ دیا کرتاتھا۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ186-184)
تعویذ گنڈوں کے فوائدتصوراتی ہیں
ایک صاحب نے گنڈے ،تعویذات کی تاثیرات کی نسبت استفسار کیا ۔اس پر فرمایا :
ان کا اثر ہونا تو ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔اس قسم کے علاج تصورات کے مدّ میں آجاتے ہیں کیونکہ تصورات کو انسان پر اثرانداز ی میں بڑا اثر ہے ۔اس سے ایک کو ہنسا دیتے ہیں ،ایک کو رُلا دیتے ہیںاور کئی چیزیں جو کہ واقعی طورپر موجود نہ ہوں ،دوسروں کو دِکھلا دیتے ہیںاوربعض امراض کا علاج ہوتا ہے ۔اکثر اوقات تعویذوں سے فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ توآخر تعویذ دینے والے کو کہنا پڑتا ہے کہ اب میری پیش نہیں چلتی۔
(البدر21اگست 1903ء صفحہ242)
دلائل الخیرات کا ورد
ایک روز ایک شخص نے سوال کیا کہ دلائل الخیرات کا ورد اور پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا دلائل الخیرات میں جتنا وقت خرچ ہو۔ اگر نماز اورقرآن شریف کی تلاوت میں خرچ ہو تو کتنا فائدہ ہوتا ہے ۔ یہ کتابیں قرآن شریف اور نماز سے روک دیتی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام اور حکم ہے اور انسانوں کا بناوٹی وظیفہ ہے۔ فرمایا قرآن شریف کی آیتوں اور سورتوں کا بھی لوگ وظیفہ کرتے ہیں اور یہ بدعت ہے اورناسمجھی سے ایسا کرتے ہیں۔ قرآن شریف وظیفہ کے لئے نہیں ہے۔ یہ عمل کرنے کے لئے اوراخلاق کو درست کرنے کے لئے ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو تسبیح ہاتھ میں دے کر حجروں میں بٹھا دیتے تو دین ہم تک کب تک پہنچتا ۔ وہاں تو تلوار تھی اور جہاد تھا اور آپ بار بار فرماتے تھے کہ اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ یعنی جنت تلواروں کے سایہ میں ہے ۔ ہمارا زمانہ بھی منہاج نبوت کا زمانہ اور ہمارا طریق بھی منہاج نبوت کا طریق ہے۔ اب لوگوں کو چاہئے کہ حجروں میں آگ لگا دیں۔ تسبیح ہاتھ سے پھینک دیں۔ رنگے کپڑوں کو جلا کر راکھ کردیں اور جہاد کے لئے اوردین کی حمایت کے لئے مال سے ،جان سے، ہاتھ سے، جس طرح سے ہوسکے کریں ۔ جب جہاد سیفی جہاد تھا اوراب جہاد لسانی وقلمی ہے۔ جہاد جب بھی تھا اور اب بھی ہے لیکن صورت جہاد بدل گئی ہے۔مومن کبھی قشر پر راضی نہیں ہوتا،وہ مغز چاہتا ہے۔ لفظ پرستی کفر ہے، نرے لفظوں کے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔اس پر عمل کرنے سے اس کے مطابق چلنے سے کام چلتا ہے۔ (تذکرۃ المہدی صفحہ184-183)
بابا بُلّھے شاہ کی کافیاں
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریرکرتے ہیں کہ
(پادری عمادالدین کی کتاب توزین الاقوال کا ذکر حضور کی مجلس میں ہورہا تھا۔) میں نے عرض کیا کہ حضرت! اسی کتاب میں عمادالدین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ولی نہیں ہوا۔ ہاں ایک شخص کو سنا ہے کہ بُلّھے شاہ قصور میں ہوا ہے۔اس کی کافیاں سُننے اوردیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ہے اور بُرے لفظوں سے یاد کرتا ہے اور شراب اور اباحت کو پسند کرتا ہے اوراسلام کی جابجا کافیوں میں توہین کرتا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
ایسے ہی لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت ننگِ اسلام اورعار ایمان ہیں۔ ایسے لوگوں کا وجود بدنام کنندہ صلحاء ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے عبرت پکڑنی چاہئے کہ نہ ایسے لوگ ہوتے اور نہ اسلام پر دھبہ لگتا۔ اگرچہ اسلام تو ایسا منور ہے کہ اس پر کسی قسم کا داغ دھبہ نہیں لگ سکتا لیکن ایسے لوگوں سے بجائے نفع کے نقصان پہنچا اور جن کے دلوں میں زیغ اورکجی ہے وہ ایسی ایسی باتیں پیش کردیتے ہیں اور عمدہ پاک لوگوں کو چھوڑ کر ایسے بیہودہ لوگ چھانٹ لیتے ہیں ورنہ اسلام نے تو اپنی پاک تاثیرات سے ہزار درہزار اورکروڑ درکروڑ انسانوں کو اس درجہ پر پہنچا دیا کہ وہ درجہ مسیح کو بھی حاصل نہیں ہوا۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ46-45)
بسم اللہ کی رسم
ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہا ں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جاوے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دیجاتی ہے۔ اگرچہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں۔
حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا:
تختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینایہ سب بدعتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے اور باوجود غربت کے اور کم جائیدا دہونے کے اس قدر اسراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے۔
(بدر5ستمبر1907ء صفحہ3)
کلام پڑھ کر پھونکنا
ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمارکو دم کروں تاکہ اس کو شفا ہو۔ حضرت نے فرمایا:۔
بے شک قرآن شریف میں شفا ہے ۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے۔ قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو۔ تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔
(بدر25؍اکتوبر1906ء صفحہ4)
کشف قبورکا دعویٰ بے ہودہ بات ہے
فرمایا:
یہ لوگ جو کشف قبور لئے پھرتے ہیںیہ سب جھوٹ ، لغو اور بے ہودہ بات ہے اور شرک ہے۔ہم نے سنا ہے کہ اس طرف ایک شخص پھرتا ہے اور اس کو بڑا دعویٰ کشف قبور کا ہے۔اگر اس کا علم سچا ہے تو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے اور ہم اس کو ایسی قبروں پر لے جائیں گے جن سے ہم خوب واقف ہیں،مگر یہ سب بے ہودہ باتیں ہیں اور ان کے پیچھے پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہے۔سعید آدمی کو چاہیے کہ ایسے خیالا ت میں اپنے اوقات کوخراب نہ کرے اوراس طریق کو اختیار کرے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے صحابہؓ نے اختیار کیا۔
(بدر19مارچ1908ء صفحہ5)
خودساختہ وظائف واذکار
بڑے بڑے صوفیوں ، سجادہ نشینوں نے اپنا کمال اس میں سمجھ رکھا ہے کہ بڑے لمبے چوڑے وظائف اور اذکارواشغال خود ہی تجویز کرلیے ہیں۔اور اُن میں پڑ کر اصل کو بھی کھوبیٹھے ہیں۔ پھر بڑے سے بڑا کام کیاتو یہ کرلیا کہ چِلَّہ کرتے ہیں۔ کچھ جَو ساتھ لے جاتے ہیں۔ ایک آدمی مقرر کرلیتے ہیں جوہر روز دودھ یا کوئی اورچیز پہنچاآتا ہے۔ ایک تنگ و تاریک گندی سی کوٹھڑی یا غار ہوتی ہے اور اس میں پڑے رہتے ہیں ۔ خدا جانے وہ اس میں کس طرح رہتے ہیں۔ پھر بُری بُری حالتوں میں باہر نکلتے ہیں۔ یہ اسلام رہ گیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان چِلّہ کشیوں سے اسلام اور مُسلمانوں یا عام لوگوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اس میں اخلاق میں کیا ترقی ہوتی ہے۔ (الحکم9جولائی1900ء صفحہ4)
فرمایا:
میں جانتاہوںکہ جن لوگوں نے ان ارکان کو چھو ڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ اُن کی اپنی شامتِ اعمال ہے ورنہ قرآن شریف تو کہہ چکاتھا اَلْیَوْمَ اَکْملْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ:۴) اکمال دین ہو چکاتھااور اتمام ِ نعمت بھی ،خداکے حضورپسندیدہ دین اسلام ٹھہرچکاتھا ۔ اب پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجادکرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنایا اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لیے نہیںہے بلکہ لذت نفس کی خاطر ہے۔ لوگوں نے لذت نفس اور لذت روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اگر لذت نفس اور لذت روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ ایک بد کا ر عورت کے گانے سے بدمعاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے۔کیا وہ اس لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گے۔ ہرگز نہیں جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم راہیں نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگاہے کہ وہ نفس اور رُوح کی لذت میں کوئی فرق نہیں کرسکے ور نہ وہ ان بیہودگیوں میں روح کی لذت اور اطمینان نہ پاتے۔ ان میں نفس مطمئنہ نہیں ہے جو بُلّھے شاہ کی کافیوں میں لذت کے جویاں ہیں روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے ۔
(الحکم31جولائی 1902ء صفحہ8)
نیز فرمایا:
(ان لوگوں نے )اپنی شامت ِاعمال کو نہیں سوچا اُن اعمال خیرکو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ، ترک کردیا اور ان کی بجائے خودتراشیدہ درود و وظائف داخل کر لیے اور چند کافیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھاگیا۔ بلّھے شاہ کی کافیوں پر وجد میںآجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کے قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہا ں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیںلیکن جہاںاس قسم کے مجمعے ہوں وہاںایک گروہ کثیر جمع ہو جاتاہے ۔نیکیو ں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی او ر شہوانی اُمور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا ۔
دیکھاگیا ہے کہ بعض ان رقص و سرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاںاُتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجدہوجاتاہے ۔اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیداہو گئے ہیں اصل بات یہ کہ جنہوںنے نمازسے لذّت نہیں اُٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں۔وہ روح کی تسلّی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہو تا ہے ۔مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لو گ جو اس قسم کی بد عتیں مسلمان کہلاکر نکالتے ہیں ۔ اگرروح کی خوشی اور لذت کا سامان اسی میں تھا تو چاہیے تھاکہ پیغمبر خدا ﷺ جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیامیں تھے ، وہ بھی اس قسم کی کوئی تعلیم دیتے یااپنے اعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے۔ میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدی نشین اور صاحب سلسلہ ہیںپوچھتا ہوںکہ کیاپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے وردوظائف اور چلہ کشیاں،اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے ؟اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعہء اصل تھے۔ مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شریف میں یہ پڑھتے ہیںاَلیوَ ْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدہ:۴) اوردوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو توڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ایک طرف تویہ ظالم طبع لوگ مجھ پرافتراکرتے ہیں کہ گویامیںایسی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتاہوںجو صاحب شریعت نبی ﷺکے سوا الگ نبوت ہے ، مگر دُوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیںکرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خودکر رہے ہیں۔جب کہ خلافِ رسول اور خلافِ قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں۔ اب اگر کسی کے دل میں انصاف اور خداکا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کر تے ہیں جب کہ اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم … ہی کو اپنا امام اور حکم مانتے ہیںکیا ارّہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعوی تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں۔
(الحکم10اگست1902ء صفحہ5)
تصورِ شیخ
سوال: جوتصورِ شیخ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم شیخ کو خدا نہیں سمجھتے۔
جواب: مانا کہ وہ ایساکہتے ہیں مگر بت پرستی تو شروع ہی تصورسے ہوتی ہے ۔ بُت پرست بھی بڑھتے بڑھتے ہی اس درجہ تک پہنچاہے۔ پہلے تصور ہی ہوگا۔ پھر یہ سمجھ لیا کہ تصورقائم رکھنے کے لئے بہترہے تصویرہی بنالیں اور پھر اس کوترقی دیتے دیتے پتھر اوردھاتوں کے بُت بنانے شروع کردیئے اور اُن کو تصویرکاقائم مقام بنالیا۔ آخر یہاں تک ترقی کی کہ اُن کی روحانیت کو اوروسیع کرکے ان کو خدا ہی مان لیا۔ اب نرے پتھر ہی رکھ لیتے ہیں اور اقرارکرتے ہیں کہ منتر کے ساتھ اُن کو درست کرلیتے ہیں اور پرمیشر کا حلُول ان پتھروں میں ہوجاتا ہے۔ اس منتر کا نام انہوں نے اواہن رکھا ہوا ہے۔ مَیں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ مَیں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو، تو اس نے کہاکہ اس پراواہن لکھا ہواہے۔ مجھے اس سے کراہت آئی۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تُومجھے دکھا۔ جب مَیں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہواتھا۔ اَرَدْتُ اَنْ اُسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کا خلیفہ جو ہوتا ہے، ردائے الٰہی کے نیچے ہوتا ہے۔ اسی لیے آدم ؑ کے لیے فرمایا کہ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ (الحجر:۳۰) اسی طرح پرغلطیاں پیداہوتی گئیں۔ اُصول کو نہ سمجھا۔ کچھ کاکچھ بگاڑ کر بنالیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شرک اور بُت پرستی نے اس کی جگہ لے لی۔ ہماری تصویر کی اصل غرض وہی تھی جو ہم نے بیان کردی کہ لنڈن کے لوگوں کو اطلاع ہو اور اس طرح پر ایک اشتہار ہوجاوے۔
(الحکم 24؍اکتوبر1901ء صفحہ2 )
قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ
فرمایا:
تصورِ شیخ کا مسئلہ ہندوئوں کی ایجاد اورہندوئوں ہی سے لیاگیا ہے۔چنانچہ قلب جاری ہونے کا مسئلہ بھی ہندوئوں ہی سے لیاگیاہے۔ قرآن میں اس کا ذکر نہیں۔اگر خدا تعالیٰ کی اصل غرض انسان کی پیدائش سے یہ ہوتی ، توپھر اتنی بڑی تعلیم کی کیا ضرورت تھی۔ صرف اجرائے قلب کا مسئلہ بتاکر اس کے طریقے بتادیئے جاتے۔ مجھے ایک شخص نے معتبر روایت کی بنا پر بتایا کہ ہندو کا قلب رام رام پر جاری تھا۔ ایک مسلمان اس کے پاس گیا اس کا قلب بھی رام رام پر جاری ہوگیا۔ یہ دھوکا نہیں کھاناچاہیے۔رام خدا کا نام نہیں ہے۔ دیانند نے بھی اس پر گواہی دی ہے کہ یہ خدا کانام نہیں ہے۔ قلب جاری ہونے کا دراصل ایک کھیل ہے جو سادہ لوح جُہلاکو اپنے دام میں پھنسانے کے لئے کیا جاتاہے۔ اگر لوٹالوٹا کہا جاوے تو اس پر بھی قلب جاری ہوسکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو تو پھر وہی بولتا ہے۔ یہ تعلیم قرآن نے نہیں دی ہے، بلکہ اس سے بہتر تعلیم دی ہے۔ اِلَّامَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعرائ:۹۰) خدا یہ چاہتا ہے کہ ساراوجودہی قلب ہوجائے ورنہ اگر وجود سے خدا کا ذکر جاری نہیںہوتا تو ایساقلب قلب نہیں بلکہ کلب ہے۔
خدا یہی چاہتا ہے کہ خدا میں فنا ہوجائو اور اس کے حدود وشرائع کی عظمت کرو۔ قرآن فناء نظری کی تعلیم دیتا ہے۔میں نے آزما کر دیکھا ہے کہ قلب جاری ہونے کی صرف ایک مشق ہے جس کاا نحصار صلاح وتقویٰ پر نہیں ہے۔ایک شخص منٹگمری یا ملتان کے ضلع کا مجھے چیف کورٹ میں ملا کرتا تھا،اسے اجرائے قلب کی خوب مشق تھی۔پس میرے نزدیک یہ کوئی قا بل وقعت بات نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس کو کوئی عزت اور وقعت نہیں دی۔خدا تعالیٰ کا منشا اور قرآن شریف کی تعلیم کا مقصد صرف یہ تھا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:۱۰)کپڑا جب تک سارا نہ دھویا جائے وہ پاک نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح پر انسان کے سارے جو ارح اس قابل ہیں کہ وہ دھوئے جائیں۔کسی ایک کے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا ۔اس کے سوا یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خدا کا سنوارا ہوا بگڑتا نہیں،مگر انسان کی بناوٹ بگڑ جاتی ہے۔ہم گواہی دیتے ہیں اور اپنے تجربے کی بناء پر گواہی دیتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے اندرخدا تعالیٰ کی مرضی اور سنت نبوی کے موافق تبدیلی نہیں کرتا اور پاکیزگی کی راہ اختیار نہیں کرتا تو خواہ اس کے قلب سے ہی آوازآتی ہو ،وہ زہر جو انسان کی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے دور نہیں ہو سکتی۔روحانیت کے نشوونما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے۔جو لوگ قلب جاری ہو نے کے شعبدے لئے پھرتے ہیںانہوں نے سنت نبوی کی سخت توہین کی ہے ۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان دنیا میں گزرا ہے؟پھر غار حرا میں بیٹھ کروہ قلب جاری کرنے کی مشق کیا کرتے تھے یا فنا کا طریق آپ نے اختیا ر کیا ہوا تھا؟پھر آپ کی ساری زندگی میں کہیں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ آپ نے صحابہ کو یہ تعلیم دی ہو کہ تم قلب جاری کرنے کی مشق کرو اور کوئی ان قلب جاری کرنے والوں میں سے پتا نہیں دیتا اور کبھی نہیں کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کابھی قلب بھی جاری تھا۔یہ تمام طریق جن کا قرآن شریف میںکوئی ذکر نہیںانسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ بھی نہیں ہوا۔قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو۔اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِکے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲)پر عمل کرو اور ایسی فنا اتم تم پر آجائے کہ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا(المزمل:۹)کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤاور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقد م کر لو۔ یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے۔نادان انسان اپنے عقل اور خیال کے پیمانہ سے خداکو ناپنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرے اور یہی ناممکن ہے۔
پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان خیالات سے بالکل الگ رہو اور وہ طریق اختیار کرو جو خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے طرز عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اسی پر چل کر انسان دنیا اور آخرت میں فلاح اور فوز حاصل کر سکتا ہے اور صحابہ کرام کو جس کی تعلیم دی۔پھر وقتاً فوقتاً خدا کے بر گزیدوں نے سنت جاریہ کی طرح اپنے اعمال سے ثابت کیا اور آج بھی خد انے اسی کو پسند کیا ہے۔اگر خدا تعالیٰ کا اصل منشاء یہی ہوتا تو ضرور تھا کہ آج بھی جب اس نے ایک سلسلہ گمشدہ صداقتوں اورحقائق کے زندہ کرنے کے لئے قائم کیا یہی تعلیم دیتا ہے اور میری تعلیم کا منتہا یہی ہوتا ۔مگر تم دیکھتے ہو کہ خدا نے ایسی تعلیم نہیں دی ہے ،بلکہ وہ تو قلب سلیم چاہتا ہے وہ محسنوں اور متقیوں کو پیار کرتا ہے،ان کا ولی ہوتا ہے۔کیا سارے قرآن میں ایک جگہ بھی لکھاہوا ہے کہ وہ ان کو پیار کرتا ہے جن کے قلب جاری ہوں؟یقینا سمجھو کہ یہ محض خیالی باتیں اور کھیلیں ہیں جن کا اصلاح نفس اور روحانی امور سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے،بلکہ ایسے کھیل خدا سے بُعد کا موجب ہو جاتے ہیں اور انسان کے عملی حصہ میں مضر ثابت ہوتے ہیں،اس لئے تقویٰ اختیار کرو۔سنت نبوی کی عزت کرو اور اس پر قائم ہو کر دکھاؤ جو قرآن شریف کی تعلیم کا اصل فخر یہی ہے۔
سوال:پھر صوفیوں کو کیا غلطی لگی ؟
جواب:ان کو حوالہ بخدا کرو۔معلوم نہیں انہوں نے کیا سمجھااور کہاں سے سمجھا تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَا کَسَبَتْ(البقرہ:۱۳۵)بعض وقت لوگوں کو دھوکا لگتا ہے کہ وہ ابتدائی حالت کو انتہائی سمجھ لیتے ہیں۔کیا معلوم کہ انہوںنے ابتدا میں یہ کہا ہو پھر آخر میں چھوڑ دیا ہو یا کسی اور ہی نے ان کی باتوں میں التباس کر دیا ہو اور اپنے خیالات ملا دئیے ہوں۔اسی طرح پرتو تورات اور انجیل میں تحریف ہو گئی ہے۔گزشتہ مشائخ کا اس میں نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ان کا تو ذکر خیر چاہیے۔انسان کو لازم ہے کہ جس غلطی پر خدا اسے مطلع کردے خود اس میں نہ پڑے۔خدا نے یہی فرمایا ہے کہ شرک نہ کرو اور تمام عقل اور طاقت کے ساتھ خدا کے ہو جاؤ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا۔مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہُ
(الحکم31؍اکتوبر1901ء صفحہ1،2)
حبس دم
سوال:حبس دم کیا ہے؟
جواب:۔’’یہ بھی ہندو جوگیوں کا مسئلہ ہے۔اسلام میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے۔‘‘
(الحکم31؍اکتوبر1901ء صفحہ2)
نصف شعبان (شب براء ت )کی رسوم
نصف شعبان کی نسبت فرمایا :
’’یہ رسوم حلواوغیرہ سب بدعات ہیں ۔‘‘ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7)
برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا
سوال پیش ہوا کہ برائے برآمدگی مراد یا سیرابی ملک یا بطور چٹھ جو لوگ ذبیحہ دیتے ہیں جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جائز نہیں ہے۔‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)

نئی ایجادات
فوٹو گرافی ،ٹیکہ،ریل کی سواری
اسباب سے استفادہ جائز ہے
فرمایا:
علاج حرام تو نہیں اب دیکھو انگریزوں نے ریل بنائی ہے ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تار ایجاد کی ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تیلیاں آگ جلانے کی ولایت سے آتی ہیں۔ اسی طرح اگر ان کی دوا ہو اور ہم استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں۔ ہاں جو خدا بتلا دیوے وہ حارج نشان نہیں ہے۔ اگر ٹیکہ کروا کریہ کہیں کہ نشان ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے ہم کو علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی مخفی امر ہے جو بعد ازاں معلوم ہوگا ورنہ ہم ان کی چیزیں اور ادویہ استعمال کرتے ہی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ جب تک طاعونی کیڑے کاکوئی طبیعت میں تعلق نہ ہو تب تک طاعون نہیں ہوتی اوردوسری طرف آپ وہ کیڑے داخل کرتے ہیں اور چیچک کے ساتھ اس کا قیاس مع ا لفارق ہے۔ چیچک کا مادہ توشیرِ مادر کے ساتھ آتا ہے مگر اس میں ظن کیا گیا ہے کہ بہت سی طبائع میں مادہ موجود ہی نہیں ہوتا۔ صرف اس ظن پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے کسی طرح وہ مادہ نہ آجائے۔ (البدر31؍اکتوبر1902ء صفحہ6)
خادمِ شریعت فن جائز ہے
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیاتھا کہ کیا عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟
فرمایا:
’’یہ ایک نئی ایجاد ہے، پہلی کتب میں اس کا ذکر نہیں۔بعض اشیا ء میں ایک من جانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اُتر آتی ہے۔اگر اس فن کو خادمِ شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘
(بدر24،31دسمبر1908ء صفحہ5)
فوٹو گرافی
منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویریں اتارا کرتا تھااور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاف شرع نہ ہولیکن جناب کی تصویر دیکھ کر یہ وہم جاتا رہا۔فرمایا
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویر بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اسی قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔مولوی لوگ جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں۔وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں۔
اسلام ایک وسیع مذہب ہے جو اعمال کا مدار نیّات پر رکھتا ہے۔بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بہت بُری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا (بنی اسرائیل : 38)
مگراس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک نثار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے۔غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جاوے تو بہت مشکل پڑتی ہے۔اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن کاتہ بند نیچے ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے۔حضرت ابو بکر ؓ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ اُن کا تہ بند بھی ویسا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تو اُن میں سے نہیں ہے۔غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شے ہے۔
منشی نظیر حسین صاحب : میں خود تصویر کشی کرتا ہوں۔اس کے لیے کیا حکم ہے؟فرمایا :
اگر کفر اور بُت پرستی کو مدد نہیں دیتے۔تو جائز ہے، آج کل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے۔
(الحکم 24مئی1904ء صفحہ3)
تصویر مفسدِ نماز نہیں
ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ۔جواب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السّلام نے فرمایا :۔
کفار کے تبتعّ پر تو تصویر ہی جائز نہیں ۔ ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اُس کی حُرمت اضافی ہے ،اگر نفس تصویر مُفسد نمازہو تو مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا ۔ اس کا جوا ب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے۔ میں کہوں گا کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہو گا ۔ اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا ۔
اصل با ت یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ آیااس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ۔ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون :۴) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
مثلاً ہم نے ایک موقعہ پر عیسائیوں کے مثلّث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے۔ اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ تاتثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حیّ وقیوم ازلی و ابدی غیر متغیرہے اور تجسّم سے پاک ہے۔ اس طرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو، تو شرع کلام نہیں کرتی کیونکہ جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے پاس کل نبیوں کی تصویریں تھیں۔ قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے، تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اسکے پاس دیکھی تھی۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ نفس تصویر کی حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویریں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہیں۔ شریعت ایک پہلو سے حرام کرتی ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے۔ روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے۔
گر حفظ مراتب نہ کُنی زندیقی
حرمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بالنفس حرام ہوتی ہے، ایک بالنسبت۔ جیسے خنزیر بالکل حرام ہے خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا، سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک قسم کا حرام ہے۔ یہ حرام بالنفس ہے۔ لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسبِ حلال سے روپیہ پیدا کرے تو حلال ہے لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا۔ بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔
ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہو گی، بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی توہین کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے کہ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے۔
یاد رکھو اسلام بُت نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل نا سمجھ مولویوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے۔
آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے۔ بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اُڑتے ہیں تو خود بخود اُن کی تصویر اتر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا نام مصور ہے۔ یُصَوِّرُ کُمْ فِی الْاَرْحَامِ (آلِ عمران : 7) پھر بلاسوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں۔ غیر حقیقی حرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہیے۔ اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں ورنہ حرام ہے۔
(الحکم 28فروری 1902ء صفحہ6 )
حضرت مسیح موعود ؑ کا اپنی تصویرڈاک کے کارڈپر چھپوانے پر ناپسندیدگی
مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں۔اس پر حضورؑ نے فرمایا :
میں تو اسے ناپسند کرتا ہوں۔یہ الفاظ جاکر میں نے اپنے کانوں سے سنے لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے۔میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ9)
ایک اور موقع پرذکر آیا کہ ایک شخص نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپوائی ہے تاکہ لوگ ان کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں۔ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا:
میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔ کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔ اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کرسکتا ہے۔خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی۔ چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے جن میں لکھاتھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔ ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ شریعت میں ہر ایک امر جومَا یَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد : ۱۸)کے نیچے آئے اس کو دیر پا رکھا جاتا ہے۔لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خرید نا نہیں چاہیے۔بت پرستی کی جڑ تصویر ہے۔ جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے۔ ایسی باتوںسے بچنا چاہیے اور ان سے دور رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہماری جماعت پر سرنکالتے ہی آفت پڑ جائے۔ میں نے اس ممانعت کو کتاب میں درج کر دیا ہے جو زیر طبع ہے۔ جو لوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتے ہیں اُن پر ہم سخت ناراض ہیں۔ ان پر خدا ناراض ہے۔ ہاں اگر کسی طریق سے کسی انسان کی روح کو فائدہ ہوتو وہ طریق مستثنیٰ ہے۔
ایک کارڈ تصویر والا دکھایا گیا۔ دیکھ کر فرمایا:
’’یہ بالکل ناجائز ہے۔‘‘
ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کاایک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے۔ اب کیا کروں؟ فرمایا :
ان کو جلا دو اور تلف کردو۔ اس میں اہانت دین اورا ہانت شرع ہے۔ نہ ان کو گھر میں رکھو۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ بلکہ اس سے اخیر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ اس تصویر کی جگہ پر اگر تبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا۔
(الحکم 10؍اکتوبر1905ء صفحہ3)
فوٹوبنوانے کی غرض
پھر اعتراض کیا گیا کہ تصویر پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصورِ شیخ کی غرض سے بنوائی گئی ہے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
یہ تو دوسرے کی نیت پر حملہ ہے۔ مَیں نے بہت مرتبہ بیان کیا ہے کہ تصویر سے ہماری غرض کیا تھی۔ بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کو بلادِ یورپ خصوصاً لنڈن میں تبلیغ کرنی منظور تھی لیکن چونکہ یہ لوگ کسی دعوت یا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک داعی کے حالات سے واقف نہ ہوں اوراس کے لیے اُن کے ہاں علم تصویر میں بڑی بھاری ترقی کی گئی ہے۔ وہ کسی شخص کی تصویر اور اس کے خدوخال کو دیکھ کررائے قائم کرلیتے ہیں کہ اس میں راستبازی ، قوتِ قدسی کہاں تک ہے؟ اور ایساہی بہت سے امور کے متعلق انہیں اپنی رائے قائم کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ پس اصل غرض اور نیت ہماری اس سے یہ تھی جس کو ان لوگوں نے جو خواہ نخواہ ہربات میں مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو بُرے بُرے پیرایوں میں پیش کیا اور دُنیا کو بہکایا ۔ مَیں کہتاہوں کہ ہماری نیت توتصویر سے صرف اتنی ہی تھی۔ اگر یہ نفسِ تصویر کو ہی بُرا سمجھتے ہیں، تو پھر کوئی سکّہ اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ بہتر ہے کہ آنکھیں بھی نکلوادیں کیونکہ اُن میں بھی اشیاء کا ایک انعکاس ہی ہوتا ہے۔
یہ نادان اتنانہیں جانتے کہ افعال کی تہ میں نیت کا بھی دخل ہوتا ہے اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ پڑھتے ہیں۔ مگر سمجھتے نہیں ۔بھلااگرکوئی شخص محض ریاکاری کے لئے نماز پڑھے تو اس کو یہ کوئی مستحسن امر قراردیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسی نماز کافائدہ کچھ نہیں، بلکہ وبالِ جان ہے تو کیا نماز بُری تھی؟ نہیں،اس کے بداستعمال نے اس کے نتیجہ کوبُرا پیداکیا۔ اسی طرح پرتصویر سے ہماری غرض تو اسلام کی دعوت میں مددلیناتھا۔ جو اہل یورپ کے مذاق پرہوسکتی تھی۔ اس کو تصوّر شیخ بنانا اور کچھ سے کچھ کہنا افتراء ہے۔ جو مسلمان ہیں اُن کو اس پرغصہ نہیں آنا چاہیے تھا۔ جو کچھ خدا ور رسول نے فرمایا ہے وہ حق ہے۔ اگر مشائخ کا قول خدا او رسول کے فرمودہ کے موافق نہیں تو کالائے بدبریش خاوند۔ تصورِ شیخ کی بابت پوچھو تو اس کا کوئی پتہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ صالحین اور فانین فی اللہ کی محبت ایک عمدہ شے ہے، لیکن حفظِ مراتب ضروری ہے۔
گرحفظِ مراتب نہ کُنی زِندیقی
پس خداکو خدا کی جگہ، رسول کورسول کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرالو۔ اس سے زیادہ چونکہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹) پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہ کہا گیا کہ تم اُسے ہی سب کچھ سمجھو۔ اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲)اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے خدا سمجھ لو، بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ اتباع کا حکم تو دیا ہے، مگر تصورِ شیخ کا حکم قرآن میں پایانہیں جاتا۔ (الحکم24تا 28؍اکتوبر1901ء صفحہ1،2)
فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت
فرمایا :
فی زمانہ تصویر کی ان لوگوں کے بالمقابل کس قدر حاجت ہے۔ہر ایک رزم بزم میں آج کل تصویر سے اثر ڈالا جاتا ہے۔پگٹ کی بھی تصویر شائع ہوئی ہے فوٹو کے بغیر آج کل جنگ ناقص ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح کے ہتھیار مخالف تیار کریں تم بھی ویسے ہی تیار کرو اس سے فوٹو کا جواز ثابت ہے بندوقوں اور توپوں سے جنگ کرنے کا جواز بھی اسی طرح کیا گیا ہے ورنہ آگ سے مارنا تو حرام ہے جہاں ضرورت حقہ محرک اور مستدعی ہوتی ہے یا اس کے متعلق الہام ہوتا ہے اس مقام پر تصویر کی حرمت کی سند پیش کرنا حماقت ہے جبرائیل نے خود حضرت عائشہؓ کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی۔
مولوی محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں بھی ایسی ہی ضرورت پیش آئی ہو گی حضرت اقدس ؑنے فرمایا :۔
ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ۔پھر فرمایا :۔
ایک حرمت حقیقی ہوتی ہے ایک غیر حقیقی ہوتی ہے جو غیر حقیقی ہوتی ہے وہ اسبابِ داعیہ سے اٹھ جاتی ہے۔ (البدر 28نومبرتا5دسمبر1902ء صفحہ35)
ضرورت کے لئے تصویر کا جواز
ایک احمدی صاحب نے سوال کیا کہ گاؤں کے لوگ اس لیے تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے تصویر کھچوائی ہے اس کا ہم کیا جواب دیویں ؟فرمایا کہ:۔
انسان جب دنیاوی ضرورتوں کے لیے ہر وقت پیسہ روپیہ وغیرہ جیب میں رکھتا ہے جن پر تصویر وغیرہ بنی ہو ئی ہو تی ہے تو پھر دینی ضرورت کے لیے تصویر کا استعمال کیوں روانہیں ہو سکتا ان لوگوں کی مثال لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:3) کی ہے کہ خود تو ایک فعل کرتے ہیں اور دوسروں کو اسے معیوب بتلا تے ہیں اگر ان لوگوں کے نزدیک تصویر حرام ہے تو ان کو چا ہیے کہ کل مال وزر باہر نکال کر پھینک دیںاورپھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ ملاں لوگ جو بڑھ بڑ ھ کر باتیںبناتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ایک پیسہ کو تو وہ ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتے۔
(البدر25؍ستمبر1903ء صفحہ381)
حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ
ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ حضور کی نظمیں فونو گراف میں بند کر کے لوگوں کو سنائی جائیں؟
فرمایا:۔
اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ تبلیغ کی خاطر اس طرح سے نظم فونوگراف میں سنانا جائز ہے کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رقّت حاصل ہوتی ہے۔
(بدر24مئی1908ء صفحہ8)
کفارکی مصنوعات کا استعمال جائز ہے
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ جب ریل دجّا ل کا گدھا ہے تو ہم لوگ اس پر کیوں سوار ہوں؟ فرمایا:۔
کُفّار کی صنعت سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گھوڑی کو گدھے کے ساتھ ملانا دجل ہے پس ملانے والا دجّال ہے لیکن آپ برابر خچر پر سواری کرتے تھے اور ایک کافر بادشاہ نے ایک خچر آپ کو بطور تحفہ کے بھیجی تھی اورآپ اس پربرابر سواری کرتے رہے۔ (بدر28مارچ1907ء صفحہ4)
ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے
ریل کے ذکر پر فرمایا
اس زمانہ میں خدا نے ہماری جماعت کو فائدہ پہنچایا ہے کہ سفر کو بہت آرام ہے ورنہ کہاں سے کہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان ایک دوسرے مقام پر پہنچتا تھا۔ مدراس جہاں سیٹھ عبدالرحمن صاحب ہیں اگر کوئی جاتا توگرمیوں میں روانہ ہوتا اور سردیوں میں پہنچتا تھا۔ اس زمانہ کی نسبت خدا نے خبر دی ہے وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۔ کہ جب ایک اقلیم کے لوگ دوسرے اقلیم والوںکے ساتھ ملیں گے ۔ (البدر6فروری1903ء صفحہ21)
امورِ معاشرت، رہن سہن اور باہمی تعاون
وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک
فرمایا:
جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں بھی جو ہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو بباعث کثرت نسل انسان نوع انسان میں پیدا ہوا وہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ خدانے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کرکے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندر سب کولے آوے سو خدا نے قوموں کے جدا جدا گروہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقّت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہوگیا تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بنا وے جیسے مثلاً ایک شخص باغ لگاتا ہے اور باغ کے مختلف بوٹوں کو مختلف تختوں پر تقسیم کرتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد تمام باغ کے ارد گرد دیوار کھینچ کر سب درختوں کو ایک ہی دائرہ کے اندر کر لیتاہے اِسی کی طرف قرآن شریف نے اشارہ فرمایا ہے اوروہ یہ آیت ہے۔(الانبیائ:93) یعنی اے دنیا کے مختلف حصوں کے نبیو ! یہ مسلمان جو مختلف قوموں میں سے اس دنیا میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ تم سب کی ایک اُمّت ہے جو سب پر ایمان لاتے ہیں اور میں تمہارا خدا ہوں سو تم سب مل کر میری ہی عبادت کرو۔ (دیکھو الجزو نمبر۱۷ سورۃ الانبیائ) اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہوسکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عیدگاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردونواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکّہ معظمہ میں۔ سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امّت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا۔ اوّل چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اوربعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچادے۔ اوّل تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کردیوے جیسا کہ اس کا وعدہ قرآن شریف میں ہے (الکہف : ۱۰۰) یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کردے گا جیسا کہ وہ ابتداء میں ایک مذہب پر جمع تھے تاکہ اوّل اورآخر میں مناسبت پیدا ہو جائے۔
غرض پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے تو خدا نے اُن کے سہولت تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کردیا اور ہر ایک قوم کے لئے اُس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے یَآ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الجزو نمبر۲۶۔ سورۃ الحجرات:۱۴) اور پھر فرماتا ہے لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُم فَاسْتَبِقُوا الخَیْْرَاتِ(الجزو نمبر ۶ ۔سورۃ المائدۃ :۴۹) (ترجمہ) اے لوگو! ہم نے مرد اور عورت سے تمہیں پیدا کیا ہے اورہم نے تمہارے کنبے اور قبیلے مقرر کئے یہ اس لئے کیا کہ تاتم میں باہم تعارف پیدا ہو۔ اور ہر ایک قوم کے لئے ہم نے ایک مشرب اور مذہب مقرر کیا تاہم مختلف فطرتوں کے جو ہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے ظاہرکردیں پس تم اے مسلمانو! تمام بھلائیوں کو دوڑ کرلو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں۔غرض مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر خدا نے نوع انسان کو کئی قوموں پر منقسم کردیا۔ پہلے زمانہ کے لوگ تو آبائی رشتہ کے سلسلہ میں منسلک تھے اور ان میں وحدت قرابت حاصل تھی اور پھر جب بہت سی قومیں بن گئیں تو ہر ایک قوم میں وحدت قائم کرنے کے لئے کتابیں بھیجی گئیں اور اُس زمانہ میں ہر ایک حصہ ملک میں صرف قومی وحدت حاصل ہوسکتی تھی اس سے زیادہ نہیں یعنی تمام دنیا کی وحدت غیر ممکن تھی اور پھر تیسرا زمانہ ایسا آیا جس میں اقوامی وحدت کے سامان پیدا ہوگئے یعنی تمام دنیا کی وحدت کے سامان ظہور میں آگئے اور ہر ایک زمانہ جو نوع انسان پر آیا وہ اس بات کا مقتضی تھا جو اِسی زمانہ کے مطابق کتاب دی جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی وحدت کا جب خدا نے ارادہ کیا تب ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا رسول بھیجا اور یہ قومی وحدت اقوامی وحدت سے مقدم تھی اور حکمت ربّانی اس امر کی مقتضی تھی کہ اوّل ہر ایک ملک میں قومی وحدت قائم کرے اور جب قومی وحدت کا دور ختم ہوچکا تب اقوامی وحدت کا زمانہ شروع ہوگیا اوروہی زمانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا تھا اور یاد رہے کہ کسی رسول اور کتاب کی اسی قدر عظمت سمجھی جاتی ہے جس قدر اُن کو اصلاح کاکام پیش آتا ہے اور جس قدر اس اصلاح کے وقت مشکلات کا سامنا پڑتا ہے سو یہ بات ظاہر ہے کہ ابتدائے زمانہ میں جو کتاب نازل ہوئی ہوگی وہ کسی طرح کامل مکمل نہیں ہوسکتی کیونکہ ابتدائے زمانہ میں اِن مشکلات کا وہم و گمان بھی نہیں آسکتا جو بعد میں پیدا ہوئیں ایسا ہی قومی وحدت کے زمانہ میں اسی وقت میں اس وقت کے نبیوں اور رسولوں کو وہ مشکلات ہرگز پیش نہیں آسکتی تھیں جو اقوامی وحدت کے زمانہ میں اس نبی کو پیش آئیں جس کو یہ حکم ہوا کہ جو تمام قوموں کوایک وحدت پر قائم کرو۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ144تا147)
مخا لفوں کو سلام کہنا
ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضو ر مخا لفوں سے جو ہمیں اور حضو ر کوسخت گا لی گلوچ نکا لتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیںان سے السلام علیکم لینا جا ئزہے یا نہیں ۔فر ما یا :۔
مومن بڑا غیر ت مند ہو تا ہے کیا غیر ت اس امر کا تقاضا کر تی ہے کہ وہ توگا لیا ں دیں اور تم ان سے السلام علیکم کرو؟ ہا ں البتہ خرید وفروخت جا ئزہے ۔اس میں حرج نہیںکیو نکہ قیمت دینی اور ما ل لینا کسی کا اس میں احسا ن نہیں ۔ (الحکم 10؍اپریل 1903ء صفحہ14)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
میرا اپنا طریق تو یہ ہے کہ سب کو السلام علیکم کہتا ہوں ہاں کوئی شقی جیسا کہ لیکھرام تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلام نہیں کیا ۔ اگر ملے تو ممکن ہے کہ طبیعت رکے۔ عام لوگ باوجود دشمن ہونے کے دھوکہ خوردہ ہیں اور سلام کی دعا کے مستحق۔
(الفضل 21؍اگست1946ء صفحہ4)
غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے
افریقہ سے ایک دوست نے بذریعہ تحریر حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ اس جگہ کے اصلی باشندے مردو زن بالکل ننگے رہتے ہیں اور معمولی خور و نوش کی اشیاء کالین دین ان کے ساتھ ہی ہوتاہے تو کیا ایسے لوگوں سے ملنا جلنا گناہ تو نہیں؟
حضرت نے فرمایا :۔
تم نے تو ان کو نہیں کہا کہ ننگے رہو وہ خود ہی ایسا کرتے ہیں۔ اس میں تم کو کیا گناہ ؟ وہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں بعض فقیر اور دیوانے ننگے پھرا کرتے ہیں۔ ہاں ایسے لوگوں کو کپڑے پہننے کی عادت ڈالنے کی کوشش کر نی چاہئے۔
ایسے ہی لوگوں کی نسبت یہ بھی سوال کیا گیا کہ چونکہ ملک افریقہ میں غریب لوگ بھی ہیں جو نوکری پر بآسانی سستے مل سکتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں سے کھانا پکوایا جائے تو یہ کیا جائز ہے؟ یہ لوگ حرام حلال کی پہچان نہیں رکھتے ۔ فرمایا:
اس ملک کے حالات کے لحاظ سے جائز ہے کہ اُن کو نوکر رکھ لیا جائے اور اپنے کھانے وغیرہ کے متعلق ا ن سے احتیاط کرائی جائے۔
یہ بھی سوال ہوا کہ کیا ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے ؟ فرمایا :۔
اس ملک میں اور ان علاقوں میں بحالتِ اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن صورت ِ نکاح میں اُن کو کپڑے پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا
سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیسا ہے؟ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے۔ اگر گیت گندے اورناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپؐ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔
(اصحاب احمد جلد2صفحہ552نیا ایڈیشن )
بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ تحریر کرتے ہیں :
(دسمبر1901ئ) آج میں نے حضرت اقدسؑ کو لکھ کر بھیجا کہ ’’حضورؑ کے ہاں جو بشیر، شریف احمداورمبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعہ سے پیدا ہوئے۔ان کے ایسے مواقع پر جو اظہار خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضورؑ بروز محمدؐ ہیںاس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘
اس پر حضرت اقدسؑ نے تقریر سیر میں فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ایک مسلّم مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔اگر کوئی ریا سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے تو ایسا کھاناوغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ مگر اگر کوئی تشکر اوراللہ کی رضا جوئی کی نیت سے خرچ کرتا ہے بلا ریا ومعاوضہ تواس میں ہرج نہیں بلکہ بیاہوں میں اور ولادت میں بڑا اعلان ہونا چاہئے اوربیاہوں میں اعلان بالدف ضروری ہے بلکہ انگریزی باجا بھی اس غرض سے جائز ہے۔ اگر کوئی امر خلافِ شریعت نہ ہو تو عورتیں گابھی لیں تو ہرج نہیں لیکن سب سے بڑی بات نیت ہے۔ فرمایا کہ بعض لوگ عورتوں کو خلیع الرّسن (حصہ سے زیادہ آزادی۔ ناقل) کر دیتے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں اوربعض ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے بہائم اور لونڈیوں سے۔ یہ بھی درست نہیں۔ جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے وہاں تک ان کو آزادی دینی چاہئے اورجہاں پر شریعت کے خلاف ہو وہاں ان کو روکنا چاہئے۔
(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551نیا ایڈیشن سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب )
ایک ہندومہمان کے ساتھ خوش خلقی
(ایک ہندو دوست جو مہمان بن کر آئے تھے )نے عرض کیا کہ مجھے تو لوگ ڈراتے تھے کہ مرزا صاحب تو کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے اور ہندوئوں کے ساتھ بہت بدخلقی سے پیش آتے ہیں۔ میں نے یہ سب بات اس کے برخلاف پائی ہے اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا خلیق اور مہمان نواز دیکھاہے۔ حضرت نے فرمایا:
لوگ جھوٹی خبریں اُڑا دیتے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے وسیع اخلاق سکھلائے ہیں ۔ بلکہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم پوری طرح سے آپ کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کی قومی رسم کے مطابق ہمارا کھانا کھالینا جائز نہیں۔ ایسے ہندو مہمانوں کے کھانے کا انتظام ہم کسی ہندو کے ہاں کر لیا کرتے ہیں لیکن اس کھانے کی ہم خود نگرانی نہیں کر سکتے۔ ہمارے اصول میں داخل نہیں کہ اختلافِ مذہبی کے سبب کسی کے ساتھ بدخلقی کریں اور بدخلقی مناسب بھی نہیں کیونکہ نہایت کار ہمارے نزدیک غیر مذہب والا ایک بیمار کی مانند ہے جس کو صحت روحانی حاصل نہیں ۔ پس بیمار تو اور بھی قابلِ رحم ہے جس کے ساتھ بہت خلق اور حلم اور نرمی کیساتھ پیش آنا چاہئے ۔ اگر بیمار کے ساتھ بدخلقی کی جاوے تو اس کی بیماری اور بھی بڑھ جائے گی۔ اگر کسی میں کجی اور غلطی ہے تو محبت کے ساتھ سمجھانا چاہیے ۔
ہمارے بڑے اصول دو ہیں ۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلا ق سے پیش آنا ۔
(بدر19؍جولائی1906ء صفحہ3)
ہندوئوں سے ہمدردی
ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہ سبب پرانے تعلقات کے ایک ہندو ہمارے شہر کا ہمارے معاملات شادی اور غمی میں شامل ہوتا ہے اور کوئی مرجائے تو جنازہ میں بھی ساتھ جاتا ہے۔ کیا ہمارے واسطے بھی جائز ہے کہ ہم ان کے ساتھ ایسی شمولیت دکھائیں؟ فرمایا :
’’ہندوئوں کی رسوم اور امورمخالف شریعت اسلام سے علیحدگی اور بیزاری رکھنے کے بعد دنیوی امور میں ہمدردی رکھنا اور ان کی امداد کرنا جائز ہے۔ ‘‘
(بدر6جون1907ء صفحہ8)
اہل کتاب کا کھانا
امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شوربا وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا :
چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیساکہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو۔اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کانہ ہوتا ہو۔
اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا۔جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے۔اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتاہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور درازا مصاروبلاد میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں۔اس پر حضورؑ نے فرمایا :
ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا ، مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیااور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیا رکردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتاہے۔اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔
عیسائیوں کی نسبت ہندوئوں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں۔اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوںاور سب شے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔
علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے۔اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلّت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔انجیل کوئی کتاب نہیں ہے۔
اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اہل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا۔ (البدر 16جولائی 1904ء صفحہ3)
وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا
ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں اور ذبیحہ وغیرہ انہی کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں؟فرمایا:
بہت تجسس کرنا جائز نہیں ہے۔ موٹے طور پر جو انسان مشرک یا فاسق ہو اس سے پرہیز کرو۔ عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات درپیش آتی ہیں جو ذبیحہ، اللہ کا نام لے کر کیا جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو، جائز ہے۔
(البدر 16جولائی 1904ء صفحہ 4)
خواب کا پورا کرنا
ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں اپنی بیوی کا خواب لکھا کہ کسی شخص نے خواب میں میری بیوی کو کہا کہ تمہارے بیٹے پر بڑا بوجھ ہے اس پر سے صدقہ اتارو اورایسا کرو کہ چنے بھگو کر مٹی کے برتن میں رکھ کر اور لڑکے کے بدن کا کرتہ اتار کر اس میں باندھ کر رات سوتے وقت سرہانے چارپائی کے نیچے رکھ دو اور ساتھ چراغ جلا دوصبح کسی غیر کے ہاتھ اٹھوا کر چوراہے میں رکھ دو۔ یہ خواب لکھ کر حضرت سے دریافت کیا کہ کیا جائز ہے کہ ہم خواب اسی طرح سے پورا کریں۔ جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا :
’’جائز ہے کہ اس طرح سے کریں اور خواب کو پورا کرلیں۔ ‘‘
(بدر4؍اپریل 1907ء صفحہ6)
طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی
سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا:
طبیب اور ڈاکٹرکو چاہئے کہ وہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچائو رکھے ۔ بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے ۔ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچائو بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں۔
(بدر4اپریل1907ء صفحہ6)
طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟
سوال ہواکہ طاعون زدہ کے غسل کے واسطے کیا حکم ہے؟فرمایا:
مومن طاعون سے مرتا ہے تو وہ شہید ہے۔ شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں۔
سوال ہوا کہ اس کو کفن پہنایا جائے یا نہیں؟ فرمایا:
شہید کے واسطے کفن کی ضرورت نہیں۔ وہ انہیں کپڑوں میں دفن کیا جاوے۔ ہاں اس پر ایک سفید چادر ڈال دی جائے تو ہرج نہیں۔
(بدر4؍اپریل 1907ء صفحہ6)
طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کے واسطے حکم
یکم اپریل 1907ء کی صبح کو حضرت اقدس ؑ مع خدام باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے۔ راستہ میں عاجز راقم (حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر ۔ ناقل) کو مخاطب کرکے فرمایا :
اخبار میں چھاپ دو اور سب کو اطلاع کر دو کہ یہ دن خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضَبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتاہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے ۔ میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دُعا کرتاہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتاہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا۔ دیکھو حضرت نوحؑ کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوحؑ کا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں۔ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ کافر جہنم کوگیا اور مسلمان شہید کہلایا۔ ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ ہم خداتعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے لیکن جماعت کے آدمیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتاجب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے۔ سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو۔ اپنے نفس کو تمام جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق عباد کو ادا کرو اور اعمال ِ صالحہ کو پورا کرو۔ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لائو اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کر دعانہ کی ہو۔ اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو۔ جس مکان میں چوہے مرنے شروع ہوں اس کو خالی کردو۔ اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جائو اور کسی کھلے میدان میں جاکر ڈیرا لگائو۔ جو تم میں سے بتقدیر الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھو لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جائو بلکہ اس اثر سے بچو۔ اُسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدا نخواستہ اس بیماری سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتاہے اس واسطے سب لوگ اس کے اردگرد جمع نہ ہوں۔ حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اُٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہوکر مثلاً ایک سو گزکے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے ۔
اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں ۔ یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے ۔
مکرراً یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہو اور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے اس کو بلا توقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتاہے گو کوئی چوہا بھی اس میں نہ مرا ہو اور حتی المقدور مکانوں کی چھتوں پررہو۔ نیچے کے مکان سے پر ہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو۔ نالیاں صاف کراتے رہو۔ سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اورخداتعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کرلو۔
(بدر4؍اپریل 1907ء صفحہ5،6)
نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز ہے
خان صاحب عبدالحمید نے کپورتھلہ سے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے شاندار نشان کے پورا ہونے کی خوشی پر دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا۔
حضرت نے اجازت دی اور فرما یا :
تحدیث بالنعمۃ کے طور پر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے ۔
(بدر28مارچ1907ء صفحہ4)
مجالس مشاعرہ
ایک جگہ بعض شاعر انہ مذاق کے دوست ایک باقاعدہ انجمنِ مشاعرہ قائم کرنا چاہتے تھے اس کے متعلق حضرت سے دریافت کیا گیا۔
فرمایا: یہ تضییع اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جاویں اور لوگ شعر بنانے میں مستغرق رہیں۔ ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے یا کسی اخبار میں چھپوائے ۔ ہم نے اپنی کتابوں میں کئی نظمیں لکھی ہیں مگر اتنی عمر ہوئی آج تک کبھی کسی مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے ۔ میں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ کوئی شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہے۔ ہاں اگر حال کے طورنہ صرف قال کے طور پر او رجوشِ روحانی سے اور نہ خواہش نفسانی سے کبھی کوئی نظم جو مخلوق کے لیے مفید ہو سکتی ہو لکھی جائے تو کچھ مضائقہ نہیں مگر یہی پیشہ کر لینا ایک منحوس کام ہے۔
(بدر27جون 1907ء صفحہ7)
نسل افزائی کے لئے سانڈرکھنا
ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصۃً لوجہ اللہ نسل افزائی کی نیت سے اگر کوئی سانڈ چھوڑے تو کیا یہ جائز ہے ؟ فرمایا:
اَصْلُ الْاَ شیَائِ اِبَاحَۃٌ اشیاء کا اصل تو اباحت ہی ہے۔ جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرمایا وہ حرام ہیں باقی حلال ۔ بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔
عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں آیاہے ۔
فرمایا:
میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیاہے وہ تو دیوتوں کے نام پر دیتے تھے۔ یہاں خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے۔ نسل افزائی ایک ضروری بات ہے ۔ خد اتعالیٰ نے قرآن مجید میں انعام وغیرہ کو اپنی نعمتوں سے فرمایا ہے۔ سو اس نعمت کا قدر کرنا چاہئے اور قدر میں نسل کا بڑھا نا بھی ہے۔ پس اگر ایسا نہ ہوتو پھر چارپائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے اس لیے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں۔ ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہے۔ ایک ہی کام جب کسی غیر اللہ کے نام پر ہو تو حرام اور اگر اللہ کے لیے ہو تو حلال ہوجاتا ہے۔
(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
بدامنی کی جگہ پر احمدی کا کردار
ایک جگہ سے چند احمدیوں کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ اس جگہ بدامنی ہے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں۔ کوئی پُرسان نہیں۔ چند ملاں ہم کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیا آپ کی اجازت ہے کہ ہم بھی اُن کو قتل کرنے کی کوشش کریں؟
حضرت نے فرمایا :
ایسا مت کرو۔ ہر طرح سے اپنی حفاظت کرو لیکن خود کسی پر حملہ نہ کرو۔ تکالیف اُٹھائو اور صبر کرو۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے کوئی انتظام احسن کردے۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اور صبر کرتاہے ۔ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتاہے۔
(بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
تشبّہ بالکفار
ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوئوں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں؟اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
تشبہ بالکفار تو کسی ہی رنگ میں بھی جائز نہیں۔اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکہ سا لگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگالے۔یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندو رکھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں۔ مسلمانوں کو اپنی ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہیے ہمارے آنحضرت ﷺ تہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سرا ویل بھی خرید ناآپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے۔ علاوہ ازیں ٹوپی، کُرتہ، چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں۔ ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہئے کہ ان میں سے ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو۔جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ مَیں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم و عادات کی؟اب اُسے ڈر چاہیے تو خدا کااوراتباع چاہیے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی۔کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیںاور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے۔
ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھائیں۔سیالکوٹ سے ایک دوبا رانگریزی جوتا آیا۔ہمیں اس کا پہننا ہی مشکل ہوتاتھا کبھی ادھر کا ادھر اور کبھی بائیں کا دائیں۔آخر تنگ آکر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے مگر اس طرح بھی کام نہ چلا۔آخر مَیں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں۔
(الحکم 17؍اپریل 1903ء صفحہ8)
کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال جائز ہے
چھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا :
شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا۔ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے۔اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایااور یہ فعل اس لئے کیا کہ تا امت کو تکلیف نہ ہو۔جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے۔مگر بالکل اس کا پابند ہونا اورتکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے۔کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَمِنْھُمْ
سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض دفعہ کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیتے ہیں اور صف پر بھی کھالیتے ہیں۔چارپائی پر بھی کھالیتے ہیں تو ایسی باتوں میں صرف گذارہ کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
تشبیہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا۔ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے اور خواہش کی ہے کہ کاش ان کے مذہب میںیہ ہوتی اور انگریزوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختیار کئے ہیں مگر اب رسم پرستی کی خاطر وہ مجبور ہیں،ترک نہیں کر سکتے۔
(البدر6فروری 1903ء صفحہ21)
اپریل فول ایک گندی رسم ہے
فرمایا :
قرآن نے جھوٹوں پر *** کی ہے۔ اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یاردوست مت بنائو۔ اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو، ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو۔ اب بتلائو یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں۔ اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں۔ دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں۔ چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ شاباش اے پادریان! جھوٹ کی مشق بھی اسے کہتے ہیں۔ شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے۔
(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ199)
دینی غیرت کا اظہار ؍ عیسائیوں کے کنوئیں کا پانی نہ لیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓصاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہوگیا تھا موسم گرما تھا۔ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔ عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں) کا پانی نہیں لیاجاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے۔ لہٰذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد2 صفحہ198)
دینی غیرت کا اظہار ؍ مٹھائی نہیں کھائی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں۔ دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کرلیتے تھے۔ کبھی اُن کے کاتب آجاتے ، کبھی میں جاتا۔ ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا۔ جاکر بیٹھا ہی تھاکہ آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر آباد کا۔ اس نے کہا وہاں کے منشی عبدالواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے۔ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے۔ پھر کسی جگہ کاآتھم نے ذکر کیاکہ میں وہاں کا ڈپٹی تھا اورمنشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اورمیرا اُن کا بڑا تعلق تھا۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ملہم سمجھتے تھے۔ تم تو میرے بھتیجے ہوئے اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ان کی خاطر کرنی چاہیے۔ چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی ۔ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کھاسکتا کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اورمولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں بھی چائے نہیں پی سکتا۔ وہ کہتا رہاکہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اورحضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ نے بہت اچھا کیا۔ اب تمہیں وہاں جاکر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں خواہش ہو تو خود آجایا کریں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ48،49)
دینی غیرت کا اظہار ؍ بدگومخالفین سے معانقہ ناجائز قراردیا
حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا :
میرے نزدیک ہر گز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں۔قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں۔اُن کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے،تو کیا وہ روارکھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے۔پھر جب یہ بات نہیں اﷲ اور رسولؐ کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے۔
(الحکم 17؍اگست 1902ء صفحہ10)
ناول لکھنا اور پڑھنا
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیساہے؟ فرمایا :
ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے کہ حَسَنُہٗ حَسَنٌ وَ قَبِیْحُہٗ قَبِیْحٌ اُس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور قبیح قبیح ہے ۔ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ مثنوی مولوی رُومی میں جو قصے لکھے ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں اور اصل واقعات نہیں ہیں۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمثیلوں سے بہت کام لیتے تھے ۔ یہ بھی۔۔۔۔ ایک قسم کے ناول ہیں جو ناول نیت صالح سے لکھے جاتے ہیں، زبان عمدہ ہوتی ہے نتیجہ نصیحت آمیز ہوتاہے اور بہرحال مفید ہیں اُن کے حسب ضرورت و موقعہ لکھنے پڑھنے میں گناہ نہیں۔
ٍٍٍ (بدر5ستمبر1907ء صفحہ3)
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا
سوال پوچھنے پر آپؑ نے فرمایاکہ
’’ قربانی کا گوشت غیر مُسلم کو بھی دینا جائز ہے ۔‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ83)
عیسائیوں کا کھانا جائز ہے
اہل کتاب کا کھانا کھانے پر بابو محمد افضل صاحب کے سوال پرحضرت اقدس ؑنے جواب دیا کہ ’’ تمدّن کے طور پر ہندوؤں کی چیز بھی کھا لیتیہیں۔اسی طرح عیسائیوں کا کھا نا بھی درست ہے مگر بایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں،کوئی ناپاک چیز نہ ہو۔ ‘‘
(الحکم17جون1901ء صفحہ4 )
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ، ہندوئوں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا:
شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ( الشمس:۱۰) پر زور دیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔
(الحکم 10جون1904صفحہ3)
ہندو رئیسہ کی دعوت اور نذرقبول کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
(ایک) مقدمہ میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دورہ پر تھے، بمقام کارخانہ دھاریوال پیشی تھی اوررمضان کا مہینہ تھا۔ تاریخ سے پہلے خیال تھا کہ کارخانہ دھاریوال کے قریب کسی جگہ ڈیرہ لگایا جائے تا کہ پیشی کے وقت تکلیف نہ ہو۔ (قادیان سے آٹھ میل سفر تھا) پہلے موضع لیل میں کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ مسلمانانِ لیل نے انکار کردیا۔ بعدش موضع کھونڈا تجویز ہوگئی اور رانی ایشر کورصاحبہ جو موضع کھونڈا کی رئیسہ تھی اس نے حضرت اقدس کی تشریف آوری پر بہت خوشی کا اظہار کیا اوراپنے مصاحبوں کو حضور علیہ السلام کے استقبال کے لئے آگے بھیجا اوراپنا عالی شان مکان صاف کراکر رہائش کے لئے دے دیا اور اپنے مصاحبوں کے ذریعہ نذرانہ پیش کیااورکہلا بھیجا کہ مجھے حضور کے آنے کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سردار جیمل سنگھ صاحب سرگباش آگئے ہیں۔ (سردار جیمل سنگھ صاحب رانی موصوفہ کے خسر تھے) اس رات کو رانی صاحبہ موصوفہ نے حضور علیہ السلام کو مع خدام پُر تکلف دعوت دی حضور علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ266،267)
اس واقعہ کے متعلق اخبار الحکم لکھتا ہے
رانی ایشر کور نے اپنے اہلکاروں کے ہاتھ ایک تھال مصری کا اور ایک باداموں کا بطور نذر پیش کیا اور کہلابھیجا ،بڑی مہربانی فرمائی۔ میرے واسطے آپ ؑ کا تشریف لانا ایساہی ہے جیسے سردار جیمل سنگھ آنجہانی کا آنا۔ حضرت اقدس ؑ نے نہایت سادگی اور اُس لہجہ میں جو ان لوگوں میں خداداد ہوتا ہے، فرمایاکہ اچھا آپ نے چونکہ دعوت کی ہے ہم یہ نذر بھی لے لیتے ہیں۔
(الحکم 31جنوری 1899ء صفحہ7 )
ایک ہندوساہوکار کی طرف سے دی ہوئی دعوت میں شرکت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریبًا ایک ماہ قیام پذیر رہے ۔ بیعتِ اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے۔ ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا۔ وہ جالندھرحضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرناچاہتا ہوں۔ آپ نے فورًا دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی باباخیل میں کیا اوربہت پرتکلف کھانے پکوائے۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے ۔ اس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا اورلوٹا اور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دھلانے لگا۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خدا قبول کرلے۔ غرض بڑے اخلاص اورمحبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کو قبول کرے گا ، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے۔تم خدا کو واحد لاشریک یقین کرو اوربتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اوراپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اوربڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ50،51)
ہندوؤں کے ساتھ لین دین اور معاشرت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندؤوں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔ اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے ۔ ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹونبوکے ذریعہ سے آتی تھیں۔ یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیز کا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے۔ مہینہ بعد دکاندار وہ ٹونبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا۔ اس کو چیک کرکے آپ حساب ادا کردیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ہندوؤں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پرہیز نہیں تھا۔ آج کل جو عمومًا پرہیز کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے ۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ794)
مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا
ایک مختار عدالت نے سوال کیا کہ بعض مقد مات میں اگرچہ وہ سچا اور صداقت پر ہی مبنی ہو مصنوعی گواہوںکا بنانا کیسا ہے ؟ فرمایا :
اوّل تو اس مقدمہ کے پیرو کا ر بنو جو بالکل سچاہو ۔یہ تفتیش کرلیا کرو کہ مقدمہ سچا ہے یا جھوٹا پھر سچ آپ ہی فروغ حاصل کرے گا۔دوم گواہوں سے آپ کا کچھ واسطہ ہی نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ موکل کا کام ہے کہ وہ گواہ پیش کرے۔ یہ بہت ہی بُری بات ہے کہ خود تعلیم دی جاوے کہ چند گواہ تلاش کرلائو اور ان کو یہ بات سکھا دو ۔تم خود کچھ بھی نہ کہو۔موکل خود شہادت پیش کرے خواہ وہ کیسی ہی ہو ۔
(الحکم 24؍اپریل 1903ء صفحہ10)
اشعار اور نظم پڑھنا
اشعار اور نظم پر سوال ہوا تو فرمایا :
نظم تو ہماری اس مجلس میں بھی سنائی جا تی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ ایک شخص ۔۔۔ خوش الحان کی تعریف سن کر اس سے چندایک اشعارسنے پھر فرما یا کہ رَحِمَکَ اللّٰہُ یہ لفظ آپ جسے کہتے تھے وہ جلدہی شہید ہوجا تا چنانچہ وہ بھی میدان میں جا تے ہی شہید ہو گیا ۔ایک صحابیؓ نے آنحضرت ﷺ کے بعد مسجد میں شعر پڑھے۔حضر ت عمرؓ نے روکا کہ مسجدمیں مت پڑھو ،وہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ تو کو ن ہے کہ مجھے روکتا ہے میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرت ﷺ کے سامنے اشعار پڑھے تھے اور آپ نے مجھے منع نہ کیا ۔حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے۔
(البدر27مارچ 1903ء صفحہ74)
شعر کہنا
ایک شخص کا اعتراض پیش ہو ا کہ مرزا صاحب شعرکہتے ہیں ۔ فر ما یا :
آنحضرت ﷺ نے بھی خود شعر پڑھے ہیں ۔پڑھنا اور کہنا ایک ہی با ت ہے ۔پھر آنحضرت ﷺ کے کُل صحابی شاعر تھے ۔حضر ت عائشہؓ ،امام حسن ؓاور اما م حسین ؓ کے قصائد مشہور ہیں۔حسان بن ثابت ؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفا ت پر قصیدہ لکھاہے ۔
سید عبد القادر صاحب نے بھی قصائد لکھے ہیں ۔کسی صحابی ؓ کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑا یا بہت شعر نہ کہا ہو مگر آنحضرت ﷺ نے کسی کو منع نہ فرما یا ۔قر آن کی بہت سی آیا ت شعروں سے ملتی ہیں ۔
ایک شخص نے عرض کی کہ سورہ شعراء میں اخیر پر شاعروں کی مذمت کی ہے۔ فر ما یا :
وہ مقام پڑھو ۔وہا ں خدا نے فسق وفجور کر نیوالے شاعروں کی مذمت کی ہے اور مو من شاعرکا وہا ں خود استثنا ء کر دیا ہے ۔پھر سا ری زبورنظم ہے ،یر میا ہ ،سلیمان اور موسیٰ کی نظمیں تورات میں ہیں اس سے ثا بت ہوا کہ نظم گنا ہ نہیںہے ہا ںفسق وفجور کی نظم نہ ہو ۔ہمیں خود الہام ہوتے ہیں بعض ان میں سے مُقَفّٰی اور بعض شعروں میں ہو تے ہیں ۔
( البدر27مارچ1903ء صفحہ74 )
آتش بازی
فرمایا :
اس میں ایک جزو گندھک کا بھی ہو تا ہے اور گندھک وبائی ہوا صاف کرتی ہے۔چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میں مثلاًانار بہت جلد ہو اکو صاف کرتا ہے اور اگر کوئی شخص صحیح نیت اصلاح ہوا کے واسطے ایسی آتش بازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلاوے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں مگر یہ بہ شرط اصلاح نیّت کے ساتھ ہوکیونکہ تمام نتائج نیّت پر مترتب ہو تے ہیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ صحابی ؓنے گھر بنوایا اور آپؐ کو مجبور کیا کہ آپ ؐ اس میں قدم ڈالیں ۔آپؐ نے اس مکان کو دیکھا۔اس کے ایک طرف کھڑکی تھی ۔آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ کس لیے بنائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ٹھنڈی ہو ا کے آنے کے واسطے۔آپؐ نے فرمایاکہ اگر تواذان سننے کے واسطے اس کی نیّت رکھتا تو ہوا تو آہی جاتی اور تیری نیّت کا ثواب بھی تجھے مل جاتا ۔
(الحکم 24؍اپریل 1903ء صفحہ10)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پر یونہی کھیل تفریح کے طورپر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوں تو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے۔ نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلاناطاعونی مادہ کو مارنے اورہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرررساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزوں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ341)
آتش بازی اور باجا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی، تماشے اور باجے کا تقاضا کیا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں۔ حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب ناجائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ مثلًا شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے ۔ ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہوجائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تو وہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اورباجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے ۔ اگر اس نے اس نیت سے باجا بھجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہوجائے گی۔ اس میں بھی ناجائز کا سوال اُٹھ گیا۔
(سیرۃ المہدی جلد2صفحہ321)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں سوال کیا کہ شادیوں کے موقعہ پر اکثر لوگ باجا، آتش بازی ، وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ کیا ہے ؟ فرمایا: ’’ آتش بازی تو جائز نہیں۔ یہ ایک نقصان رساں فعل ہے اور باجا کا بغرض تشہیر نکاح جواز ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ268)
سکھوں اور ہندوئوں کا اذان دلوانا
اخبار البدر نے لکھا کہ آج کل طاعون کی کثرت کے وقت اکثر سکھوں اور ہندوئوں کے گائوںمیں یہ علاج کیا جاتا ہے کہ اذان نماز بڑے زور اور کثرت سے ہر ایک گھر میں دلائی جاتی ہے اس کی نسبت ایک شخص نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ فعل کیسا ہے؟ فرمایا :
اذان سراسر اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے ہمیں تو حضرت علی ؓ کا جواب یاد آتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ مَیں اس اَرَاَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق :۱۰،۱۱) کا مصداق ہونا نہیں چاہتا۔ہمارے نزدیک بانگ میں بڑی شوکت ہے اور اس کے دلوانے میں حرج نہیں (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے۔)
(البدر یکم مئی1903ء صفحہ116)
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا :
تین چارماشہ تک توحرج نہیں لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیںجیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جا ئیداد
ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تا ئب ہو تو اس کے پا س جواول جا ئیداد رشوت وغیرہ سے بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے ۔ فر ما یا :
شریعت کا حکم ہے کہ توبہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسے پہنچایا جا وے ۔ رشوت اور ہدیہ میں ہمیشہ تمیز چا ہیے۔رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا یا لیا جا وے ورنہ اگر کسی نے ہما را ایک کا م محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہو ئی تو اس کو جو دیا جاوے گا۔وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے ۔
(البدر27مارچ1903ء صفحہ76 )
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے۔ میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا :۔
’’مت جائو۔لَا تُلْقُوْا بِاَ یْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ : ۱۹۶) پچھلی رات کو اٹھ کر اُن کے لیے دعا کرو۔ یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جائو۔ ایسے مقام پر جانا گناہ ہے۔‘‘
(الحکم24؍اپریل 1902ء صفحہ8)
بھاجی قبول نہ کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ 7دسمبر1899ء کا واقعہ ہے ۔ فرمایا کہ ہم نے گھر میں کہا ہوا ہے کہ جب کوئی بھاجی کے طورپر کوئی چیز بھیجے تو نہ لیا کرو۔ پھر فرمایا کہ ایک روزایک عورت سکھ مذہب کی ہمارے گھر میں بعض چیزیں لے کر آئی۔ حسب دستور ہمارے گھر سے واپس کردی گئیں۔ اس عورت نے کہا کہ واپس نہ کرو مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔ مجھ پر آپ نے بڑا احسان کیا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے اس عورت کو شناخت کیا۔ اصل بات یہ تھی کہ اس عورت کے لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری تھی اور لڑکا قریب المرگ تھا وہ ہمارے پاس لڑکے کولے آئی۔ اس کا علاج کیا گیا، لڑکا اچھا ہوگیا۔ اس کے شکرانہ میں وہ کچھ چیزیں لائی تھی پھر ہم نے گھر میں کہا کہ لے لو ۔ یہ شکرگزاری کے طورپر ہے۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ231،232)
بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’صلاح الدین ‘‘ کے عقیقہ کے وقت ڈاکٹر صاحب نے دو بکرے منگوائے۔ میں نے کہا کہ کچھ مٹھائی بھی منگوالو۔ میں نے منت مانی ہے کہ لڑکا ہوگا تو مٹھائی تقسیم کروں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقیقہ کرنا تو سنت ہے۔ لڈو بانٹنے بدعت نہ ہوں؟ حضور ؑ سے پوچھ لیا جاوے۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ خوشی کے موقعہ پر شیرینی بانٹنی جائز ہے ۔ ‘‘ پہلے دوبکرے کئے گئے تھے پھر ایک اور کیا گیا تھا۔ دوسرے دن کچھ گوشت بازار سے بھی منگایا گیا تھا تاکہ تقسیم پوری ہوجاوے۔ اس وقت مٹھائی چار سیر روپیہ کی تھی جو کہ اٹھارہ روپیہ کی منگواکرتمام گھروں میں اور دفاتر و مہمانخانہ وغیرہ سب جگہ تقسیم کی گئی تھی۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ223)
بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنے کی اجازت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر لدھیانہ میں سنی۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب ادا کی گئی۔ امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی۔ اورپہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی۔ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی۔ اس کے بعدحضور نے بیعت لی۔ اس روز ہم دو آدمیوں نے بیعت کی تھی۔ پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا۔ حضور نے دروازہ بند کرکے کنڈی لگادی اوربیعت لی۔ بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی اگر اجازت ہو تو اب بھی منگوالی جائے۔ فرمایا لازمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہے تو ہم منع نہیں کرتے اور فرمایا ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کے مآخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اورغور کرنے سے مل سکتے ہیں مثلًا یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کردے تو خدا تعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے۔ اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا۔ لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اوردوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ و پند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی ۔ اس لئے وہاں چلیں گے اورمجلس میں جاکر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے۔ جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یا دوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ84،85)
بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدا بخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ انہوں نے لڈو میرے ہاں بھیجے ۔ میں نے واپس کردئیے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایاکہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی۔ یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی۔ میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی۔ اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ52)
گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے ۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آواز سُنائی دی جو اس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سُنتے ہی حضور لوٹ پڑے۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا توانہوں نے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا۔ اور واپس ہی چلے آئے۔ راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں۔ وہاں ایک معزز سکھ سردارنی تھی۔ اُس نے بمنت حضور کی دعوت کی۔ حضور نے فرمایا قادیان قریب ہی ہے ۔ مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی۔ اور اس کے ہاں جاکر سب نے کھانا کھایا۔ اور تھوڑی دیر آرام کرکے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے۔ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں۔ مرزا محمد اسماعیل صاحب شیر فروش ، حافظ حامد علی ، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی اور بھی چند آدمی تھے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ49)
ٹنڈ کروانے کی ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایاہوا تھا۔خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی۔ اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اسے ناپسند فرمایا اورآئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے مجھے یاد نہیں رہا کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامت منافق یا علامت یہود کونسا لفظ فرمایا مگرآپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے ضرور تھے کہ منافق یا یہود۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اوراُسے ناپسند فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ629،630)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سر کے بال منڈوانے کو بہت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے ۔ نیز حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لمبے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جو میر صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب کے بال نصف گردن تک لمبے تھے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ان لوگوں کے بال نظر آتے ہیں جنہوں نے پٹے رکھے ہوتے ہیں اس طرح آپ کے بال نظر آتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گو آپ کے بال لمبے ہوتے تھے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ نہایت نرم اورباریک تھے اور گھنے بھی نہ تھے وہ پٹوں کی طرح نظر نہ آتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ383)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سِیْمَاھُمْ التَّحْلِیْقُ اَوِ التَّسْبِیْدُ اِن (منافقین کی) شناخت یہ ہے کہ ان کے سر کے بال منڈے ہوئے ہوں گے داڑھی بھی اسی میں شامل ہے۔
یہ حدیث دراصل حضرت اقدس امام علیہ السلام نے دارالامان میں بخاری شریف سے نکال کر دکھلائی تھی اور اس وقت بالوں کاذکر تھا اورکئی بار فرمایا تھا کہ سر اور داڑھی کے بال منڈانا منافق کی علامت ہے۔ پھر فرمایا کہ ہم کو کبھی بال منڈانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہمارے سرپرجوبال ہیں وہی ہیں جو عقیقہ کے دن اترے۔ آپ کے بال نہایت نرم اورنازک مونڈھوں تک رہتے تھے جیسے حدیثوں میں مسیح موعود کی علامت ٹھہرائی ہے۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ32)
حضرت مسیح موعود ؑ کے مصافحہ کاطریق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا۔ مصافحہ کیا کرتے تھے اورحضرت صاحب کے مصافحہ کرنے کاطریقہ ایسا تھا جو عام طورپر رائج ہے ۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ718)
لباس میں سادگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ عام طورپر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عمومًا دس گز لمبی ہوتی تھی۔ پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کرسرپر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے۔ بدن پر گرمیوں میں عمومًا ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے۔ اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے ۔ پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا۔ نیز آپ عمومًا جراب بھی پہنے رہتے تھے بلکہ سردیوں میں دودو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے۔ پاؤں میں آپ ہمیشہ دیسی جوتا پہنتے تھے۔ نیز بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب سے حضرت مسیح موعود ؑ کودورے پڑنے شروع ہوئے۔ اس وقت سے آپ نے سردی گرمی میں گرم کپڑے کا استعمال شروع فرمادیا تھا۔ ان کپڑوں میں آپ کو گرمی بھی لگتی تھی اوربعض اوقات تکلیف بھی ہوتی تھی مگر جب ایک دفعہ شروع کردئیے تو پھر آخر تک یہی استعمال فرماتے رہے ۔ اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کے لئے کپڑوں کے جوڑے بنوا کر باقاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گرگابی لے آیا۔ آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا۔ کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اورپھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا اُلٹا پاؤں پڑجاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دئیے تھے مگر باوجود اس کے آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے۔ اس لئے آپ نے اسے اتاردیا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیص کے کفوں کے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے انگریزی طرز کی گرم قیمص بنواکر لایا کرتے تھے۔ آپ انہیں استعمال تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ کیونکہ اول تو کفوں کے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے۔ دوسرے بٹنوں کے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا۔ بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑا مل جاتا تھا پہن لیتے تھے۔ مگر عمومًا انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے۔ دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوا رکھے بہت گھبراتے تھے۔ گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے کُرتے اورپگڑیاں تیار ہوتی تھیں۔ باقی سب کپڑے عمومًا ھدیۃً آپ کو آجاتے تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بعض اوقات کمر پر پٹکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے۔ اور ہاتھ میں عصا رکھنا بھی آپ کی سنت ہے۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے کُرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھان کے کُرتے تیار کئے۔ حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے کُرتے کیا کرنے ہیں مگر میں نے تیار کرلئے۔ ان میں سے اب تک بہت سے کُرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ60،61)
لباس۔ سبز پگڑی پہننا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے چوہدری غلام محمد صاحب بی اے نے بیان کیاکہ جب میں ۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہوئی تھی ۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ گراں گذرا کہ مسیح موعود ؑ کو رنگدار پگڑی سے کیا کام۔ پھر میں نے مقدمہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سبزلباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ99)
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض عادات مبارکہ
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حضور ؑ کے حلیہ مبارک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
آپ کے سر کے بال نہایت باریک سیدھے، چکنے ، چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے۔ گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اورنہایت ملائم تھے۔ گردن تک لمبے تھے۔ آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کترواتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طورپر پٹے رکھے جاتے ہیں۔ سرمیں تیل بھی ڈالتے تھے ۔ چنبیلی یا حنا وغیرہ کا ۔ یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے۔
آپ کی داڑھی اچھی گھندار تھی ، بال مضبوط ، موٹے اور چمکدار سیدھے اورنرم، حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ داڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتروادیتے تھے یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اوربرابر رکھتے تھے۔ داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتروائے تھے اور وہ تبرک کے طورپر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں۔ ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی اوربہت خوبصورت۔ نہ اتنی کم کہ چھدری اورنہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ413)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ حضرت مسیح موعو د ؑ کے کھانے پینے، لباس اور بعض دیگر عادات مبارکہ کاذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
روٹی آپ تندوری اورچولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے۔ ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اوربکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعا تو مکھن ہے اورپھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں۔ مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہوگئی تھی اورہضم کی طاقت کم ہوگئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اورباقرخانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ423)
حضرت مسیح موعود ؑ کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ روایت کرتے ہیں :
ابتدائے ایام میں آپ وسمہ اورمہندی لگایا کرتے تھے پھردورانِ سر کے دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اورریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے۔ وسمہ ترک کردیا تھا۔ البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایامگر پھر ترک کردیا۔ آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب نے ایک وسمہ تیار کرکے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے۔ اس سے ریش مبارک میں سیاہی آگئی تھی مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفاکی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ413)
ایک موقعہ پرمہندی اور وسمہ کی نسبت ذکر ہوا۔ حضور ؑنے فرمایا :
’’ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ وسمہ نہ لگانا چاہیے یا مہندی لگائی جاوے یا وسمہ اور مہندی ملا کر۔ ‘‘
( البدر8مئی1903ء صفحہ1)

متفرق
قرآن شریف کی جامعیت
فرمایا:
کل چیزیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔اگرانسان عقل مند ہو تو اس کے لئے وہ کافی ہے۔یورپین لوگ ایک قوم سے معاہدہ کرتے ہیں۔اس کی ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں کہ دراز عرصہ کے بعد بھی نئی ضرورتوں اور واقعات کے پیش آنے پر بھی اس میں استدلال اور استنباط کا سامان موجود ہوتا ہے۔ایسا ہی قرآن شریف میں آئندہ کی ضرورتوں کے مواد اور سامان موجود ہیں۔
(از نوٹ بک مولوی شیر علی صاحب بحوالہ ملفوظات جلداوّل صفحہ533)
قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں
فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کرکے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کوایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی فوجداری مالی سب ہدایتیں ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اُس کے دعوے کی ڈگری کی۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ242،243)
قرآن کریم اورسائنس
فرمایا:
اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے بلکہ مذہب کو ایک سائنس (عِلم) بنا دیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف حقائق کا زمانہ ہے جبکہ ہر بات کوعِلمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے ۔ مَیں اس لئے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہرکروں۔ (الحکم 10؍اپریل1902ء صفحہ6)
قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی ہے یانہیں؟
فرمایا :
ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے۔اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میںنہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ وہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں۔ایک شخص نے کہا کہ حضور حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی سمجھا گیا ہے فرمایا :
اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر ان کی خطا ہے۔
(البدر یکم مئی 1903ء صفحہ115)
نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری ہے
مولانا محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ لَا تَقْرَبُوْا الصَّلٰوۃَ وَ أَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء :۴۴) سے ثابت ہے کہ انسان کو اپنے قول کا علم ہونا ضروری ہے۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
جن لوگوں کو ساری عمر میں تَعْلَمُوْا نصیب نہ ہو اُن کی نماز ہی کیا ہے۔
(البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114)
تکلف سے قرآن پڑھنے کی ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی۔ایک مکان تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے۔ اس کے جنوب میں کرایہ پر لیا گیا تھا۔ ایک روز حضورؑ مکان کے اوپرکے حصہ میں تھے۔ نیچے والے حصہ میں ایک شخص قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا، سُن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے۔ ‘‘ گویا تکلف سے قرآن کریم پڑھنے کو ناپسند فرمایا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ251)
کلام پڑھ کر پھونکنا
ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جائے کہ مَیں پڑھ کر اپنے بیمارکو دم کروںتاکہ اُس کو شفاء ہو۔ حضرت نے فرمایا:
بے شک قرآن شریف میں شفاء ہے۔ رُوحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کا کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے۔ قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دُعا کرو۔ تمہارے واسطے یہی کافی ہے ۔
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ146)
قرآن شریف پڑھ کر بخشنا ثابت نہیں
فرمایا:
’’ مُردوں کو ثواب پہنچانے کے واسطے صدقہ و خیرات دینا چاہئے اور اُن کے حق میں دعائے مغفرت کرنی چاہئے۔ قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کو بخشنا ثابت نہیں۔ ‘‘
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ199)
قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد اسماعیل مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف سے فال لینے سے منع فرمایا ہے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ429)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں:۔
’’قرآن شریف سے فال لینے سے حضرت صاحب عمومًا منع فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بہتر یہ ہے کہ جو امر پیش آوے اس کے متعلق استخارہ کرلیا جاوے۔ ‘‘
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ199)
تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہوجائے
کسی شخص کے سوال پر کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے درمیان میں وضو ساقط ہو جائے تو پھر کیا وضو کیا جائے۔ فرمایا :
قرآن شریف کی تلاوت سے قبل جب پہلی دفعہ وضو کرلیا ہو اور اثناء تلاوت میں اگر وضو قائم نہ رہے تو پھر تیمم کیا جاسکتا ہے۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ199)
ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ؓ و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرور سلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمدصاحب واہلیہ مولوی محمد علی صاحب اوراہلیہ پیر منظور محمد صاحب، حضرت مولوی صاحب خلیفہ اولؓ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں۔ اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُمِّ وسیم سلمہا اللہ رہتی ہیں۔ پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑ اور اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت اماں جان نے دریافت کیا کہ ’’ اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں۔ ان سے کہہ دو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ243)
قرآن شریف کے اوراق کا ادب
ایک شخص نے عرض کی کہ قرآن شریف کے بوسیدہ اوراق کو اگر بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلا دیا جائے تو کیا جائز ہے؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔ حضرت عثمانؓ نے بھی بعض اوراق جلائے تھے۔ نیت پر موقوف ہے۔ ‘‘
(بدر8؍اگست 1907ء صفحہ5)
آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کی آمین کی تقریب پر اپنے دوستوں کی خصوصی دعوت کی اور اس موقعہ کے لئے نظم بھی لکھی۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اﷲ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایساہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے یہ لڑکے چونکہ اﷲ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اﷲ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں اس وقت جب انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیاکہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں۔
(الحکم10؍اپریل 1903ء صفحہ 2)
تعظیم قبلہ
سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پائوں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔
سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔ فرمایا :
یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر کوئی شخص اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پائوں رکھ کر کھڑا ہوا کرے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔
وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج:۳۳)
(الحکم31جولائی1904ء صفحہ14)
سورۃ فاتحہ کا دم
حضرت پیر سراج الحق ؓ صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سرساوہ سے چل کر قادیان شریف حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا مرشدنا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح علیہ السلام بھی آئے ہوئے تھے اور صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اورحضرت اقدس علیہ السلام بھی تشریف رکھتے تھے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ پیر صاحب بہت سے پیر دیکھے کہ وہ عملیات اور تعویذ کرتے ہیں کوئی عمل آپ کے بھی یاد ہے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین آجائے کہ عمل ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں یاد ہے ۔ فرمایا دکھاؤ اورمیں نے عرض کی کہ ہاں وقت آنے دیجئے، دکھلا دوں گا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ضرور صاحبزادہ صاحب کو یاد ہوگا ان کے بزرگوں سے عمل چلے آتے ہیں۔ کوئی دو گھنٹہ کے بعد ایک شخص آیا جس کوذات الجنب یعنی پسلی کا درد شدت سے تھا میں نے عرض کی کہ دیکھئے اس پر عمل کرتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ہاں عمل کرو۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ہاں عمل کرو۔ میں نے اسی شخص پر دم کیا اس کو درد سے بالکل خدا تعالیٰ نے آرام کردیا اور شفا دی۔ جب اس کو آرام ہوگیا تو حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ مسمریزم ہے؟ میں نے اس زمانہ میں مسمریزم کا نام بھی نہیں سنا تھا اور نہ میں جانتا تھا کہ مسمریزم کیا چیز ہوتا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایاصاحبزادہ صاحب تم نے کیا پڑھا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد ۔ میں نے الحمد شریف پڑھی تھی۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ186)
تعویذ اور دم
ایک شخص نے مسئلہ ا ستفسار کیا کہ تعویذ کا بازووغیرہ مقامات پر باندھنا اور دم وغیرہ کر نا جائز ہے کہ نہیں ؟ اس پرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جناب مولاناحکیم نورالدین صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
’’احادیث میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نہیں؟‘‘
حکیم صاحب نے عرض کی کہ لکھا ہے کہ خالدبن ولیدجب کبھی جنگوں میں جاتے تو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک جو کہ آپ کی پگڑی میں بندھے ہو تے آگے کی طرف لٹکا لیتے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے صرف ایک دفعہ صبح کے وقت ساراسرمنڈوایا تھا توآپ نے نصف سرکے بال ایک خاص شخص کودے دیئے اور نصف سرکے بال باقی اصحاب میں بانٹ دیئے ۔آنحضرت ﷺ کے جبہ مبارک کو دھودھوکر مریضوں کو بھی پلاتے تھے اور مریض اس سے شفایاب ہوتے تھے۔ایک عورت نے ایک دفعہ آپ کا پسینہ بھی جمع کیا یہ تمام اذکا ر سن کر حضرت اقدس نے فرمایا :
’’پھر اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہر حال اس میں کچھ بات ضرور ہے جو خالی ازفائدہ نہیں ہے اور تعویذوغیرہ کی اصل بھی اس سے نکلتی ہے بال لٹکا ئے تو کیا اور تعویذباندھا تو کیا میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں میں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔آخر کچھ تو ہے تبھی وہ برکت ڈھونڈیں گے مگر ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے ۔‘‘
(البدر17جولائی1903 ء صفحہ1)
شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا درست ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:
نذر کے متعلق حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ ہاں اگر کوئی نذر مانی جائے تو پھر اُس کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ نذر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے ناپسند فرمایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ سے ایک قسم کا ٹھیکہ ہوجاتا ہے اورخدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اس کی بجائے صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے کام لے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نذر بھی شکرانہ کے طورپر مان لے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ مَیں یہ استنباط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک عمل سے کرتا ہوں۔ آپ بعض دفعہ اُن لوگوں کو جو آپ سے دعا کے لئے عرض کرتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ مَیں دعا کروں گا۔ آپ اپنے دل میں خدمت دین کے لئے کوئی رقم مقرر کرلیں جسے اس کام کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکرانہ کے طورپر اگر کوئی نذر مان لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ اُس نذر کے ساتھ ساتھ دعاؤں اور گریہ وزاری اور صدقات و خیرات سے بھی کام لیا جائے ۔ (تفسیر کبیر جلد2صفحہ620)
چندہ دینے کی نیت سے نذر ماننا
حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام مکتوب میں آپ نے تحریر فرمایا:
’’عنایت نامہ پہنچا، مضمون سے آگاہی ہوئی۔ اب یقینا معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہے بلکہ ایک سخت ابتلا ہے۔ میں اسی فکر میں تھا کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کے لئے پوری توجہ بخشے اور خدا کا استغناء ذاتی بھی پیش نظر تھا کہ اتنے میں نظام الدین مستری کا قصہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ معاً دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ خدا کے فضل اور کرم سے کیا تعجب ہے کہ اگر نظام الدین کی کارروائی کے موافق آپ کی طرف سے مع اپنے بھائیوں کے کارروائی ہو تو خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو نظام الدین کے ساتھ کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے۔ چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا۔ افسوس ہے کہ وہ خط شاید چاک کیا گیا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ میں ایک فوجداری جرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ اس بیقراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس خوفناک مقدمہ سے رہا کر دے تو میں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلاتوقف ادا کروں گا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی۔ تب میں نے دعا کی کہ اے خدائے قادر و کریم! اگر تو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا۔ اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بَلا سے رہائی پا جائے گا۔ دوم مجھے جو اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پورا ہو گا۔ سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہو جائے گا۔ دعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا جو آپ کے ملاحظہ کے لئے بھیجتا ہوں اور دوسرے روز پچاس روپے آ گئے۔ پس میرے دل میں خیال گزرا کہ ان دنوں میں دینی ضروریات کے لئے بہت کچھ تفکرات مجھے پیش ہیں۔ مہمانوں کے اُترنے کیلئے عمارت نامکمل ہے۔ مرزا خدا بخش کی چار سَو روپیہ کی خریدی ہوئی زمین ہے وہ توسیع مکان کے لئے مل سکتی ہے۔ اگر اس قدر روپیہ دیا جائے۔ پھر کم سے کم دو ہزار روپیہ اور چاہیے تا اس پر عمارت بنائی جائے اور تکمیل مینار کا فکر بھی ہر وقت دل کو لگا ہوا ہے مگر وہ ہزار ہا روپیہ کا کام ہے۔ جس طرح خدا چاہے گا اس کو انجام دے گا۔ بالفعل بموجب وحی الٰہی وَسِّعْ مَکَانَکَ کے مہمانوں کے پورے آرام کے لئے ان اخراجات کی ضرورت ہے۔ پس میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اگر ایک بلا سے رہا ہونے کے لئے آپ معہ اپنے بھائیوں کے دوسری بلا کو منظور کر لیں یعنی یہ نذر کر لیں کہ اگر ہمیں اس بلا سے غیبی مدد سے رہائی ہوئی تو ہم اس قدر روپیہ محض للہ ان دینی ضروریات کیلئے جس طرح ہم سے ہو سکے بلا توقف ادا کر دیں گے تو میں اسی طرح دعا کروں گاجس طرح میں نے نظام الدین مستری کیلئے دعا کی تھی۔ خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ کے اس صدق کو دیکھ کر آپ کی مشکل کشائی فرماوے۔ میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ خداتعالیٰ بے نیاز ہے مگر مجھے اپنے ربّ کریم کی سابق عنایتوں پر نظر کر کے یقین کُلّی ہے کہ کم سے کم وہ مجھے آئندہ کے حالات سے اطلاع دے دے گا اور چونکہ اس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ نشان اور دکھلاؤں گا اس لئے تعجب نہیں کہ آپ کی اس بیقراری کے وقت یہ بھی ایک نشان ظاہر ہو جائے۔ لیکن قبل اس کے کہ خداتعالیٰ مشکل کشائی فرما دے۔ ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور ایک پیسہ کا بھی مطالبہ نہیں۔ ہاں اگر دعا سنی جائے اور آپ کا کام ہو جائے تب فی الفور آپ کو نذر مقررہ بلاتاخیر ایک ساعت ادا کرنا ہوگا اور دو نفل پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کرنا ہوگا اور بعد پختگی عہد بلاتوقف مجھے اطلاع دینا ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین کے لئے میں نے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک چڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کر دیا اور میں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا۔یہ بات خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے۔ دل تومانتا ہے کہ کچھ ہونہار بات ہے۔ واللّٰہ اعلم‘‘
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ299،300)
بعض دفعہ قسم توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہوتا ہے
خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ واستغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اُس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہوگئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے د ووقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی (النور:23)تب حضرت ابوبکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی ۔ اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اُس کاتوڑنا حُسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمتگار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچا۵۰س جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پرمعاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللّٰہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترکِ وعدہ پر باز پُرس ہوگی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد 21صفحہ181)
ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والاوظیفہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ پیر سراج الحق نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آتھم کی پیش گوئی کی میعاد قریب آئی تو اہلیہ صاحبہ مولوی نورالدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہتا ہے کہ ایک ہزار ماش کے دانے لے کر ان پر ایک ہزار دفعہ سورہ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ پڑھنی چاہئے اور پھر ان کو کسی کنوئیں میں ڈال دیا جاوے اورپھر واپس منہ پھیر کر نہ دیکھا جاوے۔ یہ خواب حضرت خلیفہ اولؓ نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ اس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے اورعصر کا وقت تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اس خواب کو ظاہر میں پورا کردینا چاہیے کیونکہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی خواب خود آپ یا احباب میں سے کوئی دیکھتے تو آپ اسے ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی سعی فرماتے تھے۔ چنانچہ اس موقعہ پر بھی اسی خیال سے حضرت نے ایسا فرمایا۔ اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے میر ااور میاں عبداللہ صاحب سنوری کا نام لیا اور حضرت نے پسند فرمایا اور ہم دونوں کو ماش کے دانوں پر ایک ہزار دفعہ سورہ اَلَمْ تَرَ کَیْف پڑھنے کا حکم دیا۔چنانچہ ہم نے عشاء کی نماز کے بعد سے شروع کرکے رات کے دو بجے تک یہ وظیفہ ختم کیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کی زبانی بھی درج ہوچکی ہے ۔ اور مجھے میاں عبداللہ صاحب والی روایت سن کر تعجب ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فعل کس حکمت کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اس قسم کی کارروائی بظاہر آپ کے طریق عمل کے خلاف ہے لیکن اب پیر صاحب کی روایت سے یہ عقدہ حل ہوگیا ہے کہ آپ کا یہ فعل دراصل ایک خواب کی بنا پر تھا جسے آپ نے ظاہری صورت میں بھی پورا فرمادیا کیونکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ حتی الوسع خوابوں کو ان کی ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔بشرطیکہ ان کی ظاہری صورت شریعت اسلامی کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔ اوراس خواب میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح اصحاب فیل(جو عیسائی) تھے کے حملہ سے خدا نے کعبہ کو محفوظ رکھا اور اپنے پاس سے سامان پیدا کرکے ان کو ہلاک و پسپا کیا اسی طرح آتھم کی پیش گوئی والے معاملہ میں بھی عیسائیوں کا اسلام پر حملہ ہوگا اوران کو ظاہرًا اسلام کے خلاف شور پیدا کرنے کا موقعہ مل جائے گا لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو شکست و ہزیمت کا سامان پیدا کردے گااوریہ کہ مومنوں کو چاہئے کہ اس معاملہ میں خدا پر بھروسہ کریں اور اسی سے مدد کے طالب ہوں اور اس وقت کو یاد رکھیں کہ جب مکہ والے کمزور تھے اوران پر ابرہہ کا لشکر حملہ آور ہوا تھا اورپھر خدا نے ان کو بچایا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر صاحب اورمیاں عبداللہ صاحب کی روایتوں میں بعض اختلافات ہیں جو دونوں میں سے کسی صاحب کے نسیان پر مبنی معلوم ہوتے ہیں مثلًا میاں عبداللہ صاحب نے اپنی روایت میں بجائے ماش کے چنے کے دانے بیان کئے ہیں۔ مگر خواہ ان میں سے کوئی ہوماش اورچنے ہر دو کی تعبیر علم الرؤیا کے مطابق غم و اندوہ کی ہے۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ آتھم والے معاملہ میں بظاہر کچھ غم پیش آئے گا۔ مگر یہ غم و اندوہ سورۃ الفیل کے اثر کے ماتحت بالآخر تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جاوے گا۔ واللہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ289،290)
دین اسلام کے پانچ مجاہدات
فرمایا:
خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ صدقات، حج ،اسلامی دشمن کا ذبّ اور دفع خواہ سیفی ہو خواہ قلمی۔یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں ۔ مسلمانوں کوچاہئے کہ ان میں کوشش کریں اوران کی پابندی کریں۔ یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں ۔ بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اوران میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیںیعنی ایسا نہیں چاہیے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے بلکہ ایسا کرنا چاہیے کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے ۔
(بدر24اکتوبر1907ء صفحہ3)
سخت مجاہدات کرنے پر ناپسندیدگی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بطور وِرد ووظائف کچھ پڑھنے کے لئے دریافت کیا ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اتباع سنت اور نمازیں سنوارکر پڑھنا سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے اس کے علاوہ چلتے پھرتے درود شریف ، استغفار اورجس قدر وقت فراغت میسر ہو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا کافی ہے۔ ہمارے ہاں الٹے لٹک کر یاسردی میں پانی میں کھڑے ہوکرچلہ کرنے کا خلاف سنت کوئی طریق نہیں ہے۔ ‘‘ اس پر اس درویش نے باصرار کہا کہ میں چونکہ سن شعور سے ہی مجاہدات کا عادی ہوں۔ اس لئے بطریق مجاہدہ اگر کچھ فرمادیا جاوے تو میں اب ان کے موافق کار بند رہوں گا۔ اس کی یہ بات سن کر حضرت صاحب اُٹھے اور اندر جاکر ایک پلندہ براہین احمدیہ کے اس حصہ کا جو اس وقت تک شائع ہوا تھا اُٹھا لائے اور اس کو دے کر فرمایا کہ ’’ لو جہاں جاؤ اس کو خود بھی پڑھو اور دوسرے لوگوں کو بھی سناؤ۔خدا نے اس وقت کا یہی مجاہدہ قراردیا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد2صفحہ279)
اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز
اخباربدر نے لکھا کہ میاں محمد دین احمدی کباب فروش لاہور (حال ساکن موضع دھورہ ڈھیری بٹاں ریاست جموں) نے ایک عریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس میں لکھا تھا ’’یا حضرت میں نے چند روز سے محض رضائے الٰہی کے لیے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دی جاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں۔ کیاایسی دعا مانگنا جائز ہے؟‘‘
حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہے ‘‘ ( بدر6جون1907ء صفحہ8)
مسمریزم یا عمل الترب کے اثرات
حضرت پیر سراج الحق ؓصاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ
(پٹنہ عظیم آباد کے رہنے والے) ایک مولوی صاحب نے ایک روز مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت مسمریزم جو آج کل بہت مشہور ہے یہ کیاچیزہے۔ آیا اس میں کسی قسم کا اثر بھی ہے یا یوں ہی ایک بچوںکا کھیل تماشا اوروہم اور بے نتیجہ شے ہے؟ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مولوی صاحب مسمریزم بہت عمدہ کار آمد چیز اور نتیجہ خیزبات ہے ۔ یوں تو کوئی شے بھی خدا نے عبث اور بے فائدہ نہیں بنائی رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا لیکن یہ مسمریزم تو بڑی کار آمد شے اور خاص اثر رکھتی ہے اور جیسا کہ اسلام نے اس کو لیا اور برتا اور فائدہ اُٹھایا ہے اورکسی مذہب یا کسی فرقہ نے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ حقیقت اورمغز اسلام کو میسر آیا اور قشر اور پوست دوسروں کے حصے میں گیا۔ کہتے ہیں مسمر ایک انگریز کا نام ہے جس نے اس کو پھیلایااور مشہور کیا ہے سواس واسطے اس کے نام پر مسمریزم نام شہرت پکڑ گیا ورنہ دراصل اس کا نام تربی علم ہے ترب مٹی کو کہتے ہیں اور مٹی سے انسان کی پیدائش ہے۔ خَلَقَہُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ ۔ میرا لڑکا سلطان احمد بھی ایک میز کہیں سے لے آیا تھا۔ وہ بھی ہاتھ رکھنے سے حرکت کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں الہامًا فرمایا کہ یہ عمل الترب ہے۔ مسیح میں بھی یہ قوت تربی اچھی خاصی تھی ۔ ہمار ے الہام میں ہے ہٰذَا ھُوَ التَّرْبُ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ یہ وہ عمل ترب ہے کہ مخلوق اس کی شناخت سے بے خبر ہے ۔ پہلے زمانے میں فقراء کے پاس تھا وہ اس کو پوشیدہ راز سمجھ کر کسی کو نہیں بتلایا کرتے تھے سوائے خاص لوگوں کے صرف ان میں ہی تھا کہ دوسرے شخصوں کو بے ہوش کردیتے۔ یہ ان کی کرامت ہوتی تھی مگر اب مسمریزم کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں۔ فقراء صوفیہ کی اصطلاح میں اس کا نام توجہ اور تصور ہے۔ اگر کسی کو مسمریزم نام اچھا نہ معلوم ہو تو اس کو توجہ اور تصور کہہ سکتے ہیں۔ غرض اسلام نے اس کو اس طرح سے لیا ہے کہ پہلے مصافحہ اور معانقہ کی صورت میں اگرچہ اوروں میں بھی مصافحہ اور معانقہ ہے لیکن بے اصل یوں ہی دل لگی کے طورسے۔ پھر نماز باجماعت میں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز باجماعت میں مونڈھے سے مونڈھا اورپاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہو اور اپنے درمیان کچھ فاصلہ نہ رکھو کہ خالی جگہ شیطان داخل ہو جائے گا۔ یہ اس بات کو ظاہر کیا کہ ایک شخص کی توجہ جسمانی اور روحانی دوسرے شخص میں سرایت کرجاوے۔جماعت میں جیسے جسمانی رنگ میں کوئی ضعیف اور کوئی قوی ہوتا ہے ،ایسا ہی روحانی اور باطنی کیفیات میں بھی ضعف و قوت کا فرق ہوتا ہے تو جب اس میں ایک دوسرے کے ملنے سے ایک دیوار کی طرح ہوجائیں گے اورمل کر کھڑے ہونے سے ایک دوسرے کی تاثیر اور فیوض اور جذب روحانی پھیل کر سب میں پہنچ جاوے گی۔
جب پہلی صف اپنی قوت اور جذبِ روحانی سے پر ہوجائے گی تو پھر اس صف کا اثر دوسری صف پر پڑے گا اورپھر ان دونوں صفوں کا اثر تیسری پر پہنچے گا۔ اس کے سمجھنے کے لئے بجلی کی مشین کی سی ہے جو آج کل نکلی ہے ۔ اگر اس بجلی کی مشین یا کل کو کوئی شخص ہاتھ میں پکڑے تو اس کا ہاتھ سُن ہوجائے گااور چھوٹ نہیں سکے گا۔ ایسا ہی اگر کوئی دوسرا شخص اس کا ہاتھ پکڑ لے تو اس پر بھی برقی اثر ہوجائے گا یہاں تک کہ اگر دس اوربیس اور پچاس سو تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے جائیں تو وہ برقی اثر سب پر یکساں اثر کرتا چلا جائے گا۔اگر درمیان میں کچھ بھی فصل رہے گا تو برقی طاقت رُک جائے گی اور اس کی قوت جذب کام نہیں دے گی اور وہ جدائی جو واقعہ ہوئی ہے وہ اس برقی طاقت کو آگے نہیں چلنے دے گی اور روک ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر نماز کی صف میں کچھ فصل مل کر کھڑے ہونے میں ہوگا تو قوتِ روحانی یا اثر باطنی ایک دوسرے میں سے ہوکر آرہا تھاوہ رہ جائے گا ۔ اس کا نام اصطلاح شریعت میں شیطان رکھا ہے۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ276تا278)
متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر اپنی بہن کے لڑکے کو جو چھ یا آٹھ سال کا تھا۔ حضرت اقدس ؑ کے گھر میں لے جاتی تھی۔ ایک دن اس کو جبکہ نماز پڑھ رہی تھی کھانسی ہوئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اس بچہ کو کالی کھانسی ہے جب تک آرام نہ ہو یہاں ساتھ نہ لایا کرو۔ ‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور دعا فرماویں کہ آرام ہوجائے۔ چنانچہ بچہ کو جلد آرام ہو گیا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ267)
متعدی بیماری سے بچاؤکی تدبیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اورمیری بہن مکیریاں سے آئے۔ طاعون کے دن تھے۔ حضور علیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم کو کسی نے نہیں روکا؟‘‘ عرض کیا کہ نہیں۔ حضورؑ ہم کو کسی نے نہیں روکا۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کوئی جگہ خالی نہیں رہے گی سب جگہ طاعون پڑجائے گی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ264-265)
طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ
یکم مارچ 1907ء کو ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے۔ فرمایا کہ
گاؤں سے فورًا باہر نکل جاؤاور کھلی ہوا میں اپنا ڈیرہ لگاؤ۔مت خیال کرو کہ طاعون زدہ جگہ سے باہر نکلنا انگریزوں کا خیال ہے اور اس واسطے اس کی طرف توجہ کرنا فرض نہیں،یہ بات نہیں۔طاعون والی جگہ سے باہر نکلنا، یہ فیصلہ شرعی ہے۔گندی ہوا سے اپنے آپ کو بچاؤ۔جان بوجھ کر ہلاکت میں مت پڑو اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرواور خداتعالیٰ سے اپنے گناہ بخشواؤکہ وہ قادر خدا ہے اورسب کچھ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔باوجودان احتیاطوں کے اگر تقدیرِ الٰہی آجائے توصبر کرو۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ6)
زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہوجانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت اُم ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ بنت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیاصبح کا وقت تھا یکایک شوروغل کی آوازیں آئیں اور جھٹکے شروع ہوگئے۔ ہم اس وقت گھر میں وہ کمرہ جو کنوئیں کے اوپر تھا اوراب گرادیاگیا ہے، اس میں تھے۔ نوکریںباہر سے دروازہ کھٹکھٹاتیں کہ دروازہ کھول کر باہر نکلو۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ چارپائی پرچڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش فرماتے مگر جھٹکوں کے باعث کھول نہیں سکتے تھے۔ کنڈی کنڈے سے کچھ ہی پیچھے ہٹاتے تھے کہ زلزلہ کے جھٹکے سے ہاتھ چھوٹ جاتا اورحلقہ پیچھے ہٹ جاتا۔کئی بار ایسا ہوا۔ بمشکل کنڈی کھولی۔سردی بھی لگ رہی تھی۔ میں پردہ کے واسطے چادر اُٹھانی چاہی مگر میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے جلدی سے باہر کھینچ لیا۔ وہاں آنگن کی کنڈی بند تھی اسے بمشکل کھولا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اورسب خدا کے حضور سجدہ میں گرے پڑے تھے۔ میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھنی تھی میں کھڑی رہی۔ حضرت میاں صاحب نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سجدہ میں گرادیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ255)
برتھ کنٹرول
حضرت مسیح موعود ؑ تحریرفرماتے ہیں :
قرآن شریف میں صرف یہ آیت ہے نِسَآئُ کُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ (البقرہ:۲۲۴) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ۔صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھویعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو۔ بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے۔ اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کانام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے۔ پس اس آیت میں ظاہر فرمایاکہ چونکہ عورت درحقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طرح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔ ہاں اگرعورت بیمار ہو اور یقین ہوکہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیّت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ292)
لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟
ہندوؤں کے اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے کہ مسلمان جنگوں میں لونڈیاں بناکران سے ہم بستر ہوتے تھے ، آپ ؑ نے فرمایا:
کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جو لڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بناکر اُن سے ہم بستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھہرائے گا۔
اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اُس ابتدائی زمانہ میں اکثر چنڈال اور خبیث طبع لوگ ناحق اسلام کے دشمن ہوکر طرح طرح کے دُکھ مسلمانوں کو دیتے تھے اگر کسی مسلمان کو قتل کریں تو اکثر اس میّت کے ہاتھ پیر اور ناک کاٹ دیتے تھے اور بے رحمی سے بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم کی عورت ہاتھ آتی تھی تو اُس کو لونڈی بناتے تھے اور اپنی عورتوں میں (مگر لونڈی کی طرح) اُس کو داخل کرتے تھے اور کوئی پہلو ظلم کا نہیں تھا جو انہوں نے اٹھا رکھا تھا۔ ایک مدت دراز تک مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم ملتا رہا کہ ان لوگوں کی شرارتوں پر صبر کرو مگر آخرکار جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو خدا نے اجازت دے دی کہ اب ان شریر لوگوں سے لڑو اور جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اس سے زیادہ نہ کرو٭ لیکن پھر بھی مُثلہ کرنے سے منع کیا یعنی منع فرمادیا کہ کافروں کے کسی مقتول کی ناک کان ہاتھ وغیرہ نہیں کاٹنے چاہئیں اور جس بے عزتی کو مسلمانوں کے لئے وہ لوگ پسند کرتے تھے اس کا بدلہ لینے کے لئے حکم دے دیا۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ رسم جاری ہوئی کہ کافروں کی عورتیں لونڈی کی طرح رکھی جائیں اور عورتوں کی طرح استعمال کی جائیں یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کافر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لاویں تو اُس کو لونڈی بناویں اور عورتوں کی طرح اُن کو استعمال کریں اور جب مسلمان اُن کی عورتوں اور اُن کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کرکے رکھیں۔خدا بے شک حلیم ہے مگر وہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے۔
( ٭حاشیہ۔یاد رہے کہ نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی بھی رضا مندی لی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگجو لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بے جا ظلم کئے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف ہوگئے لہٰذا وہ اب فتحیاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنے کے لئے اس کی رضا مندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو اقارب پر فتحیاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضا مندی ہے۔ یہی حکم توریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فَکُّ رَقَبَۃٍ یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کردیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے ۔ اگرچہ مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے ۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کاطریق چھوڑ دیا ہے ۔ اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بنادیں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔منہ)
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ252تا254)
زنا کی گواہی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طورپر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیں۔ جس کے یہ الفاظ ہیں کہ کَالْمِیْلِ فِی الْمِکْحَلَۃِ ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ804)
مہندی لگانا سُنت ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مُراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے۔ حضور ؑ نے اونچا دالان رہنے کو دیا۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضور ؑکی خدمت میں سلام کو جاتی۔ حضرت اقدس ؑ واُمّ المومنین صاحبہ ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔ میں سلام کرکے ایک چھوٹی چارپائی پر جو سامنے پڑی تھی بیٹھ گئی۔ میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھی۔ حضور ؑ نے حضرت ام المومنین سے دریافت کیا کہ ’’ کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے پہنتی ہیں؟ ‘‘ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں۔ حضور ؑ نے میرے ہاتھوں کو دیکھ کر فرمایا کہ ’’ مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں؟ ‘‘ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’ کیوں؟‘‘ میں نے پھر کہا کہ حضور ؑ ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’ مہندی لگانا سنت ہے۔ عورتوں کو ہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں۔‘‘ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جو لاہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پُڑا مہندی کا بھی تھا۔ آپ ؑ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ ’’گھر میں مہندی ہے؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ مہندی گھر میں ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مراد خاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگایا کرے۔ ‘‘ وہ کپڑا ریشمی موتیا رنگ کا تھا۔ اس دن سے میں عمومًا مہندی لگاتی ہوں اور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ235،236)
خلاف شرع امور میں والدین کی فرمانبرداری کس حد تک کی جائے؟
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی محمد بشیر بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اورحضرت مولوی عبدالکریم صاحب ہمراہ تھے۔ان دنوں میری شادی ونکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیا دارانہ وضع کے پابند اورنام و نمود کے خوگر تھے اوراپنے احباب اورمشیروں کے زیر اثر شادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اورخلاف شرع رسوم کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق و تمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میںا وردیگر بزرگان کے نام بھجوادیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اوراُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کرلینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے۔ میں تو اسی طرح کروں گا جیسا میرا دل چاہتا ہے، تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوااور میرے پاس کیا تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اورخاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ اپنی یہ مشکل پیش کی۔ انہوں نے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے ادا کرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کردو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اورمیرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اورمیرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہوکر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اورتردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اورمولوی عبدالکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میںحاضر ہوجاتے۔ ایک دن موقعہ پاکر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرما ہیں اس لئے اس معاملہ کو حضور کو پیش کردو۔ میں نے عرض کیا کہ لوگوں کی ہر وقت آمدورفت اورحضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ مولوی صاحب نے فرمایا موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے۔ خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تومولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرماکر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کردیا۔ حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اوراس سے متفق ہونے کے باوجود عملًا اس کے خلاف اور اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر تم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تواس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میرا اُن سے انقطاع انجام ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایا کہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جو خلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے ناپسند کرنے کے باوجود کچھ تعرض نہ کرو۔ اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اوراپنی ناپسندیدگی کا اظہار کردے۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کا اوراُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اتنے میں گاڑی آگئی ۔ خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اورنیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایاکہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کردیا۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرناچاہئے۔ دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاںحضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ بلامخالفت گزرگیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ88تا90)
داروغہ نہ بنو
ایک شخص کا خط حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا، روزے نہیں رکھتا،یہ ہے ، وہ ہے، اس کو کافر کہنا چاہئے یا نہیں؟وہ احمدی ہے یا نہیں؟ فرمایا:
اُس کو کہنا چاہیے کہ تم اپنے آپ کو سنبھالو اوراپنی حالت کو درست کرو۔ ہرشخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ الگ ہے۔تم کو کس نے داروغہ بنایا ہے جو تم لوگوں کے اعمال کی پڑتال کرتے پھرو اوراُن پر کفر یا ایمان کا فتویٰ لگاتے پھرو۔مومن کا کام نہیں کہ بے فائدہ لوگوں کے پیچھے پڑتا رہے۔ (البدر23اپریل 1908ء صفحہ6)
بڑی عمر میں ختنہ کرواناضروری نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے۔ وہ قادیان آکر مسلمان ہوگئے۔ نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا۔ ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو۔ وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہوگئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے ۔ فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے سترِ عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سُنت ہے ۔ اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ756)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض خصوصیات
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰۃ نہیں دی، تسبیح نہیں رکھی ۔ میرے سامنے ضَبْ یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا۔ صدقہ نہیں کھایا۔ زکوٰۃ نہیں کھائی ۔ صرف نذرانہ اورہدیہ قبول فرماتے تھے۔ پِیروں کی طرح مصلّٰی اور خرقہ نہیں رکھا۔ رائج الوقت درود ووظائف (مثلًا پنج سُورہ۔ دعائے گنج العرش ۔ درود تاج ۔ حزب البحر۔ دعائے سریانی وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا کیونکہ ساری جائیداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے ہاتھ میں تھی اور بعد میں تایا صاحب کا انتظام رہا۔ اوراس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ ایک تو آپ جہاد کے کام میں منہمک رہے۔ دوسرے آپ کے لئے حج کا راستہ بھی مخدوش تھا۔ تاہم آپ کی خواہش رہتی تھی کہ حج کریں۔ چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کے بعد آپ کی طرف سے حج بدل کروادیا۔ اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالبًا بیٹھے ہوں گے مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے۔ کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں۔ اورزکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے۔ البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیورپرزکوٰۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اوررسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ623،624)
حضرت مسیح موعود ؑ کااپنی اولاد کے لئے صدقہ ناجائز قراردینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ619)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سلامتی کی دعا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خوابہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ جب مَیں شروع شروع میں احمدی ہوا تو قصبہ شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ’’ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَلَّمَکَ اللّٰہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‘‘ کے پڑھنے کے متعلق استفسار کروں۔ یعنی آیا یہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔ سو مَیں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا۔ حضور نے جواب تحریرفرمایا کہ یہ پڑھنا جائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس استفسار کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں تو کیااس صورت میں بھی آپؐ کو ایک زندہ شخص کی طرح مخاطب کرکے دُعا دینا جائز ہے سو اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت مسیح موعود ؑ کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپؐ کی روحانیت زندہ ہے اور آپؐ اپنی امّت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں۔ اس لئے آپ کے لئے خطاب کے رنگ میں دعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے ایک شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر آپ سے مدد اور نصرت بھی چاہی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’ ’اے سیّدالوریٰ !مددے وقتِ نصرت است‘‘
یعنی اے رسول اللہ! آپؐ کی امّت پر ایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے ۔ میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ553 ، 554)
ہر نو مسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی کو سرپر تول چندر چڑ جی بنگالی کا ایک رشتہ دار گاڑی میں مل گیا اوراسے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ قادیان چلا آیا اور یہاں آکر مسلمان ہوگیا۔ نام کی تبدیلی کے متعلق کسی نے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ ان کااپنا نام بھی اچھا ہے بس نام کے ساتھ احمد زیادہ کردو ،کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ لوگوں نے اس کے بنگالی طرز کے بال کتروادئیے ۔ جسے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ بال کیوں کتروا دئیے؟ پہلے بال بھی اچھے تھے بلکہ اب خراب ہو گئے ہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے بال ایسے رنگ میں کتروا دئیے ہوں گے جو قریبًا منڈے ہوئے کے برابر ہوں اورایسی طرز کے بال حضرت صاحب پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ سر کے بال منڈانے کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کا طریق ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام لانے کے وقت نام بدلنا ضروری نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر مشرکانہ نام ہو تو وہ ضرور بدل دینا چاہئے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ435،436)
حضرت مسیح موعود ؑ کا تبرّک دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کے لئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کرکے تبرک کے طورپرحضور کااترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہاتھ ایک نیا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی۔ گھر میں تلاش سے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی اُترا ہوا بے دھلا کرتہ موجود نہیں۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا دئیے جانے کا حکم فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طورپر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے۔ حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے۔ چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دے دیا گیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالبًا یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی۔ لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا ہوا میلا بے دُھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کرتے ہوئے گھر میں پہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کرتہ دے دیا گیا۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ343،344)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے بیان کیا کہ میں حدیث میں یہ پڑھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال صحابہؓ برکت کے لئے رکھتے تھے اس خیال سے میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے اپنے کچھ بال عنایت فرماویں۔ چنانچہ جب آپ نے حجامت کرائی تو مجھے اپنے بال بھجوادئیے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پاس بھی حضرت صاحب کے کچھ بال رکھے ہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ21)
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ؓصاحب کاتبرک
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا۔ آپ نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اوراس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سربمہر کردیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت الدعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طورپر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دعا کی تحریک رہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت الدعا میں لٹکی رہی۔ لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ339)
داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے
(ایک مہمان) عرب صاحب نے داڑھی کی نسبت دریافت کیا۔حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
یہ انسان کے دل کا خیال ہے بعض انگریز تو داڑھی اور مونچھ سب منڈوا دیتے ہیں وہ اسے خوبصورتی خیال کرتے ہیں اور ہمیں اس سے ایسی سخت کراہت آتی ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا۔داڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے۔البتہ اگر بہت لمبی ہو جاوے تو کٹوا دینی چاہیے۔ایک مشت رہے ۔خدا نے یہ ایک امتیاز مرد اور عورت کے درمیان رکھ دیا ہے۔ (البدر6فروری 1903ء صفحہ21 )
داڑھی تراشنے کا جواز
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتروا دیا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اورمونچھوں کو چھوٹا کریں۔ جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقارکا موجب ہے اورمونچھوں کا بڑھانا عُجب اور تکبر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے۔ اس قسم کی جزئی باتوںمیں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے ۔ منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جائے بلکہ رکھی جاوے۔ لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتروا دینی مناسب ہے ۔ جس کی وجہ غالبًا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے ۔ اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے ۔ مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتروانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہوجاوے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ339،340)
داڑھی کیسی ہو؟
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے ،اوروہ داڑھی منڈوایا کرتے تھے۔ جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوں نے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا۔ آخر انہوں نے داڑھی رکھ لی۔ ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے۔ فرمایا اچھی ہے اور پہلے کیسی تھی۔ گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ82)
حرا م مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری ایک بہن کنچنی تھی ۔ اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا پھر وہ مرگئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی۔ اب میں اس مال کا کیا کروں؟ حضرت صاحب ؑ نے جواب دیا :
ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہوسکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ اگر کسی شخص پر کوئی سگِ دیوانہ حملہ کرے اوراس کے پاس اس وقت کوئی چیز اپنے دفاع کے لئے نہ ہو، نہ سوٹی ، نہ پتھر وغیرہ صرف چند نجاست میں پڑے ہوئے پیسے اس کے قریب ہوں تو کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے ان پیسوں کو اٹھا کر اس کتے کو نہ دے مارے گا اور اس وجہ سے رک جاوے گا کہ یہ پیسے ایک نجاست کی نالی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ پس اسی طرح اس زمانہ میں جو اسلام کی حالت ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمتِ اسلام میں لگایا جاسکتا ہے ۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں جب کی یہ بات ہے ۔ آج کل والے انگریزی پیسے زیادہ رائج نہ تھے بلکہ موٹے موٹے بھدے سے پیسے چلتے تھے جن کو منصوری پیسے کہتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں خدمتِ اسلام کے لئے بعض شرائط کے ماتحت سودی روپیہ کے خرچ کئے جانے کا فتویٰ بھی حضرت صاحب نے اسی اصول پر دیا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فتویٰ وقتی ہے اورخاص شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ وَمَنِ اعْتَدٰی فَقَدْ ظَلَمَ وَحَارَبَ اللّٰہَ ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ243،244)
حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ۱۳۰۳ھ ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف ہو اور دل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یٰسین پڑھے اور اپنی پیشانی پر خشک انگلی سے یَاعَزِیْزُ لکھ کر اس کے سامنے چلا جاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا بلکہ خود اس پر رعب پڑ جائے گا اور ویسے بھی حضرت صاحب نے مجھے ہر روز کے واسطے بعد نماز فجر تین دفعہ یٰسین پڑھنے کا وظیفہ بتایا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان میاں عبداللہ صاحب نے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کیا ہوا تھا اس لئے تاریخ وغیرہ پوری پوری محفوظ رہی اور خاکساراپنی رائے سے عرض کرتا ہے کہ یَاعَزِیْزُ کے الفاظ میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے قلب پر خدا کی طاقت و جبروت اورقہر و غلبہ کی صفات کا نقشہ جمائے گا اوران کا تصور کرے گا تو لازمی طورپر اس کا قلب غیر اللہ کے رعب سے آزاد ہوجائے گا اور بوجہ اس کے کہ وہ مومن ہے اس کو ان صفات کے مطالعہ سے ایک طاقت ملے گی جو دوسرے کو مرعوب کردے گی اور انگلی سے لکھنا علم النفس کے مسئلہ کے ماتحت تصور کو مضبو ط کرنے کے واسطے ہے ورنہ وظائف کوئی منتر جنتر نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ127،128)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمدصاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے تحریری طورپر بیان کیا کہ میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے اگر کسی مقدمہ میں یا اور کسی طرح کسی حاکم کے سامنے جانا ہوتوجانے سے پہلے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ لینی چاہئے اور سات مرتبہ اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر ’’ یا عزیز‘‘ لکھ لینا چاہئے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کامیابی دیتا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالبًا حالت استغناء عن غیراللہ اورحالت توکل علی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ441،442)
کھانے کے لئے کوئی خاص طریق اختیار کرنا خلافِ شرع نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتداء ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔ حضرت صاحب سید تفضّل حسین صاحب تحصیل دار کے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا۔ حضرت صاحب کی دعوت کی اورشہر کے دوسرے معززین کو بھی مدعو کیا۔ حضور تشریف لے گئے اور ہم تینوں کو حسب عادت اپنے دائیں بائیں بٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیااورلوگ ان کے گرد بیٹھ گئے۔ چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے۔جب کھانا شروع ہوا تو میر عباس علی نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوں نہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوں کے طریق کا کھانا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ خلاف شرع نہیں ہے۔ میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب!ہم جو کھاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیں کھاتا۔ غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا۔ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ71،72)
ایک پیر کے بعددوسرے کی بیعت کرنا
ایک شخص نے عرض کی کہ اگر ایک شخص کسی پِیر کا پہلے سے مُرید ہے تو کیا جائز ہے کہ وہ بعد اس کے کسی اور پیر کی بیعت کرے۔ فرمایا
’’ اگر پہلی بیعت کسی اچھے آدمی کی نہ تھی تو وہ خود ہی قابلِ فسخ تھی اور اگر اچھے آدمی کی تھی تو دوسری بیعت نورٌ علی نور ہے۔ ایک چراغ کے ساتھ دوسرا چراغ جلانے سے روشنی بڑھتی ہے ۔ سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے کئی متفرق جگہ بیعتیں کی تھیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 232،233)
حضرت مسیح موعود ؑ کوخدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم
سوال ہوا۔ کیا آپ دوسرے صوفیاء اور مشائخ کی طرح عام طور پر بیعت لیتے ہیں یا بیعت لینے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے۔فرمایا:
’’ہم تو امر الٰہی سے بیعت کرتے ہیں جیسا کہ ہم اشتہار میں بھی یہ الہام لکھ چکے ہیں کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ (الفتح:۱۱) ‘‘
(الحکم 24مئی1901ء صفحہ8)
بیعت کا طریق
حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(قیام قادیان کے دوران) دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔حضرت صاحبؑ مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے۔ جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خاں صاحب کا شہر والا مکان ہے ۔ اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریری رہ چکی ہے ۔ جس کے بالا خانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں۔ (آج کل اگست ۱۹۳۵ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے۔ ) اس زمین پر اُن دنوں حضرت صاحب ؑ کا مویشی خانہ تھا۔ گائے، بیل اُس میں باندھے جاتے تھے۔ اس کا راستہ کوچہ بندی میں سے تھا۔ حضرت صاحب ؑ کے اندرونی دروازے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا۔ یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی۔ جہاں آج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے۔ اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحبؑ مجھے لے گئے اوراندر سے دروازہ بند کردیا۔ اُن ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لی جاتی تھی۔ایک چارپائی بچھی تھی اُس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا۔ حضرت صاحب ؑ بھی اُس پر بیٹھے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحبؑ نے اپنے ہاتھ میں لیا اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی۔ دس شرائط ایک ایک کرکے نہیں دہرائیںبلکہ صرف لفظ دس شرائط کہہ دیا۔
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ تحریر کرتے ہیں کہ ان سے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک ایک شرطِ بیعت کہلوائی ۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں :
انہوںنے حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت لاہور میں غالبًا ۱۸۹۲ء میں کی تھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں حضرت صاحبؑ کی بیعت کرنے کے واسطے علیحدہ کمرہ میں داخل ہوا تو حضرت نے بیعت لینے کے وقت فرمایا کہ کہو مَیں دس شرائط پر عمل کروں گا۔ مَیں نے عرض کی کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ دس شرائط کیا ہیں۔ تب آپؑ نے ایک ایک شرط مجھ سے کہلوائی۔
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ7-6)
میت یا ارواح سے کلام
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں :
جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل بیعت اورچند خدام کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے تو یہ خادم بھی بلحاظ ایڈیٹر اخبار بدر حضور ؑ کے ہمرکاب تھا۔ محلہ چتلی قبر میں الف خان سیاہی والے کے مکان پر قیام ہوا۔ ایک دن حضرت صاحب ؑفرمانے لگے کہ دہلی کے زندوں سے تو بہت امید نہیں چلو یہاں کے مُردوں سے ملاقات کریں کیونکہ اس سرزمین میں کئی ایک بزرگ اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ چنانچہ اس کے مطابق کئی دنوں میں خواجہ میردرد، قطب الدین اولیائ، قطب صاحب اور دیگر بزرگوں کی قبروں پر جاتے رہے۔ ان قبروں پر تھوڑی دیر کھڑے ہوکر ہاتھ اُٹھاکر آپؑ دعا کرتے اور دیگر احباب بھی آپؑ کے ساتھ دعا کرتے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر پر فرمایا:’’ ارواح کا تعلق قبور کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور اہل کشف توجہ سے میّت کے ساتھ کلام بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ-137 138)
حضرت مسیح موعود ؑ کا خدا کے حکم سے مجاہدات بجا لانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خداتعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو۔ بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں۔ ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ ’’ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے‘‘۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالائوں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خداتعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔ غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خداتعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔
(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 13صفحہ196تا198حاشیہ)
اپنی تجویزسے شدید ریاضتیں نہ کرو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے خاص اذن سے ایک مرتبہ آٹھ نو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔ ان روزوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ مَیں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کرسکتا ہوں۔ مَیں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو، وہ فوت ہوجائے۔ اِس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ اِنسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کرسکتا ہے اورجب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہوجائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہوسکتا لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔ میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شاید ریاضتیں اختیار کیں اور آخر یبوست دماغ سے وہ مجنون ہوگئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہوگئے۔ انسانوں کے دماغی قویٰ ایک طرز کے نہیں ہیں۔ پس ایسے اشخاص جن کے فطرتًا قویٰ ضعیف ہیں۔ ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اورجلدتر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں۔ سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدید ہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اورشریعت غراء اسلام سے منافی نہ ہو تو اس کو بجا لانا ضروری ہے لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ پس اُن سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 13صفحہ 199، 200حاشیہ)
سینہ پر دم کردیا
حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضور علیہ السلام کے دم کرنے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں:۔
ایک دفعہ یہ عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور جماعت لاہور کے چند اوراصحاب بھی ساتھ تھے۔ صوفی احمد دین صاحب مرحوم نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سفارش کرکے صوفی صاحب کے سینہ پر دَم کرادوں۔ چنانچہ حضرت صاحب کوچہ بندی میں سے اندرون خانہ جا رہے تھے جبکہ میں نے آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو پیش کیا اوران کی درخواست عرض کی۔ حضور ؑ نے کچھ پڑھ کر صوفی صاحب کے سینہ پر دم کردیا۔ (پھونک مارا) اورپھر اندر تشریف لے گئے۔
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۔صفحہ175،176)
حیلہ اگر خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے
آیت خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْ (صٓ: ۴۵) کی نسبت پوچھا گیاکہ اگر اس کے وہ معنی کئے جاویں جو عام مفسروں نے کئے ہیں تو شرع میں حیلوں کا باب کھل جائے گا۔
آپ نے فرمایا:
چونکہ حضرت ایوبؑ کی بیوی بڑی نیک، خدمت گزار تھی اور آپ بھی متقی صابر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور ایسی تدبیر سمجھا دی جس سے قسم بھی پوری ہوجائے اور ضرر بھی نہ پہنچے ۔ اگر کوئی حیلہ اللہ تعالیٰ سمجھائے تو وہ شرع میں جائز ہے کیونکہ وہ بھی اسی راہ سے آیا جس سے شرع آئی۔ اس لیے کوئی ہرج کی بات نہیں۔
(بدر28فروری 1907ء صفحہ6)
ریڈیو کے ذریعے گانا سننا
سوال: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں ریڈیو کے گانے کے متعلق حضرت مولوی محمد سرورشاہ صاحب اورمولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا فتویٰ پیش کیا گیا۔ اس فتویٰ میں ان ہر دو علماء نے اس بات کا اظہار کیا کہ ریڈیو کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا شریعت اسلامی کی رو سے ناجائز ہے؟
جواب: فرمایا میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گانا آمنے سامنے ہوکر سننا یا بذریعہ ریڈیو یا گراموفون سننا ایک ہی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرارنہیں دیا۔ البتہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح بُرا اثر پڑ سکتا ہے اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جاسکتا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتویٰ میں دینے کو تیار نہیں ہوں۔ ( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ387)
زندوں کا توسل جائز ہے
سوال پوچھا گیا کہ آیا دعا کے بعد یہ کلمات کہنے کہ یا الٰہی تو میری دعا کو بطفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبول فرما، جائز ہے کہ نہیں؟
حضرت اقدس نے فرمایا :
’’شریعت میں توسل احیاء کا جواز ثابت ہوتا ہے بظاہر اس میں شرک نہیں ہے ایک حدیث میں بھی ہے۔ ‘‘ (البدر28نومبر۔5دسمبر1902ء صفحہ37)
تعبیر کرنے والے کی رائے کااثر تعبیر پر نہیں پڑتا
ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خواب بیان کیا جاتا ہے تو یہ بات مشہور ہے کہ سب سے اوّل جو تعبیر معبر کرے وہی ہوا کرتی ہے اور اسی بنا ء پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کس و ناکس کے سامنے خواب بیان نہ کرنا چا ہئے فر ما یا :
جو خواب مبشر ہے اس کا نتیجہ انذار نہیں ہو سکتا اور جو منذر ہے وہ مبشر نہیں ہو سکتا اس لیے یہ بات غلط ہے کہ اگر مبشر کی تعبیر کو ئی مُعبِّر منذر کی کرے تووہ منذر ہو جاوے گا اور منذر مبشر ہو جاوے گا ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کو ئی منذر خواب آوے توصدقہ وخیرات اور دعا سے وہ بلا ٹل جاتی ہے ۔ (البدریکم مئی 1903ء صفحہ117 )
کسی نام سے فال لینا
کسی کے نام سے بطور تفاؤل کے فال لینے پر سوال ہوا فر ما یا :
یہ اکثر جگہ صحیح نکلتا ہے آنحضرت ﷺنے بھی تفاؤل سے کام لیا ہے ایک دفعہ مَیں گورداسپور مقدمہ پر جارہاتھا اور ایک شخص کو سزا ملنی تھی میرے دل میں خیال تھا کہ اسے سزا ہو گی یا نہیں کہ اتنے میں ایک لڑکا ایک بکری کے گلے میں رسی ڈال رہا تھا اس نے رسی کا حلقہ بنا کر بکری کے گلے میں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھنس گئی وہ پھنس گئی مَیں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لا کہ اسے سزا ضرور ہو گی چنا نچہ ایسا ہی ہوا ۔اسی طرح ایک دفعہ سیر کو جارہے تھے اور دل میں پگٹ کا خیال تھا کہ بڑا عظیم الشان مقابلہ ہے دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص غیر از جماعت نے راستہ میں کہا السلام علیکم مَیں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہماری فتح ہو گی ۔
(البدریکم مئی 1903ء صفحہ117 )
کسی کتاب سے فال لینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کے لئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کے لئے فال لی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اس کے ساتھ دعا شامل ہو تو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہوجاتی ہے مَگر میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو ناپسند فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ791)
کسی نام سے بُری فال لینا جائز نہیں
کسی لڑکی کا نام جنت تھا ۔ کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض اوقات انسان آواز مارتا ہے کہ جنت گھر میں ہے اور اگر وہ نہ ہوتو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے ۔ یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی۔ فرمایا:۔
یہ بات نہیں ہے ۔ نام کے رکھنے سے کوئی ہرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے نہ یہ کہ برکت نہیں یا اگر کہے کہ جنت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت نہیں اور دوزخ ہے بلکہ یہ کہ وہ انسان اند رنہیں جس کا نام جنت ہے۔ کسی اور نے کہا کہ حدیث میں بھی حرمت آئی ہے۔ فرمایا کہ :۔
میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتاہے کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبداللہ ، عبدالرحیم اور عبدالرحمن جو ہیں ان پر بھی بات لگ سکتی ہے کیونکہ جب ایک انسان کہتاہے کہ عبدالرحمن اندر نہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ عبدالشیطان اندر ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کا نام نیک فال کے طور پر رکھا جاتا ہے تا وہ شخص بھی اس نام کے مطابق ہو۔ (الحکم31 مارچ1907ء صفحہ10،11)
ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے
ایک شخص نے اپنی کچھ حاجات تحریری طورسے پیش کیں۔ حضرت اقدس ؑنے پڑھ کر جواب میں فرمایا کہ:۔’’اچھا ، ہم دعا کریں گے۔‘‘تو وہ شخص کسی قدر متحیّر ہوکر پوچھنے لگا ۔ آپ نے میری عرضداشت کا جواب نہیں دیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم نے تو کہا ہے کہ دُعا کریں گے۔اس پر وہ شخص بولا کہ حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے؟ فرمایا:۔
’’تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیںہے۔ ہمارا کام تو صرف اللہ کے حضور دُعا کرنا ہے ۔ ‘‘
(الحکم6؍اپریل1908ء صفحہ1)
سجدئہ تعظیمی کی ممانعت
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب لکھتے ہیں:
کشمیر سے ایک احمدی لمبے قد کا غریب آدمی نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے گاؤں سے قادیان تک سارا رستہ پیدل چلتا ہوا آیا کرتا تھا۔ اس کا نام غالبًا اکل جو تھا۔ وہ ایک دفعہ قادیان میں آیا ہوا تھاجبکہ حضرت مسیح موعودؑ ایک صبح سیر پر جانے کے واسطے باہر تشریف لائے ۔ چوک میں وہ کشمیری بھی کھڑا تھا۔جب اس نے حضرت صاحب ؑ کو دیکھا تو فرطِ محبت میں روتا ہوا آپ ؑ کے پاؤں پر سر رکھ دیا۔ آپ ؑنے جھک کر اسے اُٹھایااور فرمایا۔ یہ ناجائز ہے ۔ انسان کو سجدہ نہیں کرنا چاہئے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 206،207)
غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے
ایک شخص نے عرض کی کہ میں ایک گائوں میں دوکان پر گڑ شکر بیچتا ہوں۔ بعض دفعہ لڑکے یا زمینداروں کے مزدور اور خادم چاکر کپاس یا گندم یا ایسی شے لاتے ہیں اور اس کے عوض میں سودا لے جاتے ہیں جیسا کہ دیہات میں عموماًدستور ہوتاہے لیکن بعض لڑکے یا چاکر مالک سے چوری ایسی شے لاتے ہیں۔ کیا اس صورت میں ان کو سودا دینا جائز ہے یاکہ نہیں؟ فرمایا:
جب کسی شے کے متعلق یقین ہو کہ یہ مال مسروقہ ہے تو پھر اس کا لینا جائز نہیں لیکن خواہ مخواہ اپنے آپ کو بدظنی میں ڈالنا امرفاسد ہے۔ ایسی باتوں میں تفتیش کرنا اور خواہ مخواہ لوگوں کو چور ثابت کرنے کی کوشش کرنا دوکاندار کاکام نہیں۔ اگر دوکاندار ایسی تحقیقاتوں میں لگے گا تو پھر دوکانداری کس وقت کرے گا؟ ہر ایک کے واسطے تفتیش کرنا منع ہے۔ قرآن ِ شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ گائے ذبح کرو۔ بہتر تھاکہ ایک گائے پکڑکر ذبح کر دیتے ۔ حکم کی تعمیل ہوجاتی ۔ انہوں نے خواہ مخواہ اور باتیں پوچھنی شروع کیں کہ وہ کیسی گائے ہے اور کیسا رنگ ہے اور اس طرح کے سوال کرکے اپنے آپ کو اور دقت میں ڈال دیا۔ بہت مسائل پوچھتے رہنا اور باریکیاں نکالتے رہنا اچھا نہیں ہوتا۔ (بدر8؍اگست 1907ء صفحہ5)
توریہ کا جواز اور اس کی حقیقت
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
آپ لکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ اِنْ قُتِلْتَ وَاُحْرِقْتَ یعنی سچ کو مت چھوڑ اگرچہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے۔ پھر جس حالت میں قرآنکہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو۔ اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگرچہ تم جلائے جائو اور قتل کئے جائو۔ مگر سچ ہی بولو۔ تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی۔ کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیثِ صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو۔ ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے۔ کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے۔ مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہی اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جواز حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں۔ جو توریہ سے بھی پرہیز کریں۔
اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کیلئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں۔ اور غور کرنے کے بعد معلوم ہوکہ جو کچھ متکلم نے کہا ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے۔ اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو۔ اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو۔ جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کیلئے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کیلئے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے توریہ کا جواز پایا جاتا ہے۔ مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے۔ اور بہرحال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے۔۔۔۔۔
ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو۔ مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کانہ کر سکے۔ جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیر ببر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کرکے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہوکر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں اور کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے۔ مجھے تو ان باتوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اُس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سیّد المرسلین ﷺ جنگ اُحد(سہو ہے یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے۔ شمس) میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ میں نبی اللہ ہوں۔ میں ابن عبد المطلبہوں۔ اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں۔ حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا۔ تو میں دریائے حسرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الٰہی یہ شخض بھی نبی ہی کہلاتا ہے۔ جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے۔
الغرض فتح مسیح نے اپنی جہالت کا خوب پردہ کھولا بلکہ اپنے یسوع صاحب پر بھی وار کیا کہ بعض ان احادیث کو پیش کر دیا جن میں توریہ کے جواز کا ذکر ہے۔ اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے۔ کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے۔ جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالاتفاق کذبِ حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں توریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں۔ تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے توریہ کے کذب کا لفظ آگیا ہو تو نعوذ باللّٰہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس کے قائل کے نہایت باریک تقویٰ کا یہ نشان ہوگا کہ جس نے توریہ کو کذب کی صورت سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو۔ ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں۔ احادیث پر نظر ڈالنے کے وقت یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ایسی حدیثوں پر بھروسہ نہ کریں جو اُن احادیث سے مناقض اور مخالف ہوں۔ جن کی صحت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی ہو۔ اور نہ ایسی حدیثوں پر جو قرآن کی نصوص صریحہ بینہ محکمہ سے صریح مخالف اور مغائر اور مبائن واقع ہوں۔ پھر ایک ایسا مسئلہ جو قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کتب دین میں صراحت سے اس کا ذکر ہے۔ اس کے مخالف کسی بے ہودہ قول یا کسی مغشوش اور غیر ثابت حدیث یا مشتبہ اثر سے تمسک کر کے اعتراض کرنا یہ خیانت اور شرارت کا کام ہے۔ درحقیقت عیسائیوں کو ایسی شرارتوں نے ہی ہلاک کیا ہے۔ ان لوگوں کو خود بخود حدیث دیکھنے کا مادہ نہیں۔ غایت کار مشکٰوۃ کا کوئی ترجمہ دیکھ کر جس بات پر اپنے فہم ناقص سے عیب لگا سکتے ہیں وہی بات لے لیتے ہیں۔ حالانکہ کتب احادیث میں رطب ویا بس سب کچھ ہوتا ہے اور عامل بالحدیث کو تنقید کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہ ایک نہایت نازک کام ہے کہ ہریک قسم کی احادیث میں سے احادیث صحیحہ تلاش کریں اور پھر اس کے صحیح معنی معلوم کریں۔ اور پھر اس کے لئے صحیح محل تلاش کریں۔ (نورالقرآن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ404تا408)
مذہبی آزادی ضروری ہے
ایک مولوی صاحب حدود افغانستان سے حضرت کی ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے مصافحہ کے بعد حضرت نے ان کے کوائف سفر وصعوبت راہ کی حالت دریافت فرمائی۔ بعدازاں حکومتِ افغانستان کی عدم حریّت و آزادی کے متعلق ذکر ہوا ۔اس پر فرمایا:۔
اخبارات میں جو آج کل لکھا جارہا ہے کہ حکومت افغانستان میں ہر مذہب کے لوگوں کو عام آزادی حاصل ہے سراسر دروغ بے فروغ ہے کیونکہ اگر افغانستان میں ہندوستان جیسی حریّت اور آزادی ہر مذہب کے لوگوں کو حاصل ہوتی تو اخوندزادہ حضرت مولوی عبداللطیفؓ کواس بے دردی سے اختلافِ مذہب کے سبب اس حکومت میں ہلاک نہ کیا جاتا۔
(الحکم24فروری 1907ء صفحہ14)
جہادکی حقیقت
جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتوی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی یَضَعُ الْحَرْب اور یَضَعُ الْجِزْیَۃَ کو پورا کرتے ہوئے جہاد کے مسئلہ کی حقیقت واضح فرمائی ۔ آپ کی تحریرات اورملفوظات میں بکثرت یہ مضمون ملتا ہے ۔آپ نے اس مقصد کے لئے ایک کتاب تصنیف فرمائی ’’ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ اور اس کتاب میں آپ نے پوری تفصیل کے ساتھ جہاد کی تعلیم کے مختلف پہلو بیان فرمادئیے۔ آپ نے تحریرفرمایا:
’’جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوںنے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں۔‘‘
لفظ جہد کی تحقیق
’’جاننا چاہئیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کویُدّہ کہتے ہیںدراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّہ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرجیم کویا کے ساتھ بدل دیا گیا اور کچھ تصرف کرکے تشدید کے ساتھ بولا گیا۔‘‘
انبیاء کی مخالفت کے اسباب
’’اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے۔ سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب
ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کی آمدنیوں اوروجاہتوں میں فرق آتا ہے۔ اُن کے شاگرد اور مرید اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے اُن عالموںکو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب اُن کو دیئے گئے تھے جیسے نجم الاُمّۃ اور شمس الاُمّۃ اور شَیخ المَشَائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے۔ سو ان وجوہ سے اہل عقل اُن سے مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء او رمشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے۔ وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوںکی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے۔ اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسااوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہرکرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے۔ یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھابلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا۔ لہٰذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ،مال میں ،کثرت جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتائو کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے۔‘‘
کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں
’’ سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرّ کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ ‘‘
خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت
’’تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پرظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا۔یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے :۔
(الحج:40،41)یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوںکی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے۔ الجزو نمبر۱۷ سورۃ الحج۔ مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے۔ لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیااور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت۔ یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اورنہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی۔ اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوںقسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں ۔اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے۔‘‘
جہاد کا موجودہ غلط تصور
’’یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں۔ اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقینا جانتاہو ں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس و جہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں۔ یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے اس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مارکی بڑی بڑی اُمیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرانا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے۔ ‘‘
اب جہاد کیوں حرام ہوگیا؟
’’یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مردوں اورعورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گاکیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا اور اُس کی عقدہمت اُس کی تلوار ہوگی وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا۔ ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ یَضَعُ الْحَرْب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا۔ ااور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے (محمد:5)یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آجائے۔ یہی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَاہے۔ دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اَصَّحُّ الْکُتُب مانی گئی ہے۔ اس کو غور سے پڑھو۔ اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھاآچکا اور اُس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آجائو تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے منہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے منہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الٰہی جانے گا۔
اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دوگواہیاں پاکر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی۔ میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراسے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افترائوں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیںگے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے۔ غرض اب جب مسیح موعود آگیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے۔ اگر مَیںنہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا۔ اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں۔ جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں۔ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں۔ ‘‘
صحابہؓ کے صدق اور صبر کے نمونے
’’مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھائو اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسااوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔ بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سُنتے ہیں توفی الفوردل میں گذرتا ہے کہ قرائن اِس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بزدلی اور عدم قدرت انتقام ہو مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اُس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلائوں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گذشتہ را ستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟
اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پرکیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی اُن کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے۔ غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آگیا۔ اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کرکے ہمیں بتلائو۔‘‘
موجودہ تصورِ جہاد نفسانی اغراض پر مبنی ہے
’’حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کالانعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قراردے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے۔ کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً
اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوںکی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو۔ پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوئوں میں طاقت۔ بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کرکے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے۔ اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فَیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں۔ انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں۔ کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیرثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جائو اس سے تم بہشت میں داخل ہو جائو گے۔ افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے و جہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا۔ یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میںجو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے۔ آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے۔ لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تووہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوںسے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے۔ اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گن سکتا ہے۔ ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوںگے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا۔ اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا۔ ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا۔ کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا۔ تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے۔ چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہئے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعائوں کے بعدسکھوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی رد کر دیں۔‘‘
اپنی جماعت کو نصیحت
’’اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں۔ مجھے خدا نے جو مسیح موعود کرکے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لائو۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جائو گے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے۔ سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو۔ تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں۔ خدا کے لئے سب پررحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو۔ آئومیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جائو اور خدا میں کھوئے جائو اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُتر تے ہیں۔ مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو ترقی کرو۔ اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اوّل بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں۔ تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھاکر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے۔ یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10) یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا۔‘‘
اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے
’’ دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا اور اِس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسّط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوںگے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوںگی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں۔ سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جائو۔ اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا۔ خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اورریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے۔ سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اُس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے۔ اِس لئے ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے۔ اور قرآن بھی کہتا ہے (التکویر:5)یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ٭ہے۔ (٭ حاشیہ: میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ مسیح موعود اسرئیلی نبی نہیں ہے بلکہ اس کی خُواور طبیعت پر آیا ہے جبکہ توریت میںہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے تو ضرور تھا کہ موسوی سلسلہ کی مانند محمدی سلسلہ کے اخیر پر بھی ایک مسیح ہو۔منہ)وہ ہے جب کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ یُتْرَکُ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی۔ سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں۔ زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیںدیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں۔ چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے۔ ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیںموجود ہیں۔ اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں۔ پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاںہیں۔ انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے
(الانبیائ:31)یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بند ھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونو ںکے جوہر ظاہر کر دیئے۔٭
(٭حاشیہ:کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزارہا نئی حقیقتیں اورخواص اورکلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند رہے۔آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوںنے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا۔منہ)‘‘
مسلمان حکمران علماء کے ذریعہ اپنے عوام کو سمجھائیں
’’بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اس اشتہار میں مفصل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اسلامی قوموں میںپرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑناآسانی سے ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اُس کا قصہ بھی تمام کرنا چاہیں ہاں ایک طریق میرے دل میں گذرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل جن کا رعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میںنہیں ملے گی نامی علماء کوجمع کرکے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کراکر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان ملا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقینا امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ؔملائوں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان ملائوں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی و جہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّالوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفارکے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں۔ عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں۔ پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے۔ اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوئوں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں امیر صاحب پر یہ الزام لگاویں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ لہٰذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کرکے اس سے بڑھ کر اور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتدبہ حصہ ہے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دورِ مسیح موعود آگیا ہے۔ اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کردے گاکہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پُر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی۔ اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں۔‘‘
محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش
’’ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گذارش کرنا چاہتا ہوں اور گویہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں۔ اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اِس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوںدو۲ ہیں (۱) اول وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں۔ آخر دن رات ایسے وعظوں کو سن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے۔ اور اگرچہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں۔ اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرّا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے۔ میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب ملّا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے بری نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کرکے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں۔ کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے (۲) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموںکو قتل کرنامسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے۔ میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے۔ پھر جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میںکتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے۔ ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ میں نے غور کرکے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کاذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذرگئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر۲۳ ۶۷ئ؁ سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا۔ یہ قانون سرحد کی چھ ۶ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی۔ غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی و جہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلانہ طریق ثابت ہو جانے کی و جہ سے اندر ہی اندر دب گئے۔ پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملائوں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک خط مسئلہ جہاد کی پیروی کرکے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروں کو سُرخ کیا کریں اور اس طرح ناحق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذا پہنچایا کریں مگر ساتھ ہی یورپ کے ملائوں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے ناحق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کرکے وحشی مسلمانوں کے دلوں میں یہ جمادیا کہ اُن کے مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے جلد بہشت مل جاتا ہے اگر ان پادری صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کرکے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کے جوش دلانے کے بڑے محرک اسلامی مولوی ہیں تاہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگیزی میں پادریوں کی وہ تحریریں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمان شا کی نظر آتے ہیں۔ افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کرکے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کو مشکلات پیش آتی ہیں اِن مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہر گز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر نہ کرے ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریںگے اور جب سرحد کے وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم انس اور محبت پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریںگے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کرکے اور پشتو میں ان کا ترجمہ کرا کر سرحدی اقوام میں مشتہر کریں بلا شبہ اُن کا بڑا اثر ہوگا۔ مگر ان تمام باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچے دل اور جوش سے کارروائی کی جائے نہ نفاق سے۔ والسلام علٰی من اتبع الھدٰی۔
المشتہر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی عنہ از قادیان
المرقوم ۲۲؍مئی ۱۹۰۰ئ؁ ‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ3تا22)




التوائے جہاد کے متعلق حضرت اقدس کا فیصلہ
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام٭ ہے
دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو
جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا
جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا
جنگوں کے سِلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا
نوٹ:۔ (ایک زبردست الہام اور کشف) آج ۲؍ جون ۱۹۰۰ئ؁ کو بروز شنبہ بعد دوپہر دو ۲ بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا۔ اس کی آخری سطر میں لکھا تھا اقبال۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا یعنی انجام باقبال ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا:- ’’قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے۔ کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے۔‘‘ اِس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبردست نشان ظاہر ہو جائیں گے جس سے کافر کہنے والے جو مجھے کافر کہتے تھے الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ اُن کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ یہ پیشگوئی ہے۔ ہر ایک پڑھنے والا اس کو یادرکھے۔ اس کے بعد ۳؍جون ۱۹۰۰ئ؁ کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا:۔ کافر جو کہتے تھے وہ نگو نسار ہو گئے ۔جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے۔‘‘ یعنی کافر کہنے والوں پر خدا کی حجت ایسی پوری ہو گئی کہ اُن کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی۔ یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہو جائے گی کہ فیصلہ کر دے گی۔ منہ
پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند
کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف وبے گزند
یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا
بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا
اِک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں
کردے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی
وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی
وہ عزمِ مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی
وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی
وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی
وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی
خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی
حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی
حمق آگیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی
کسل آگیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی
وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی
وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی
دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی
اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی
وہ اُنس و شوق و وجد وہ طاعت نہیں رہی
ظلمت کی کچھ بھی حدّو نہایت نہیں رہی
ہر وقت جھوٹ۔ سچ کی تو عادت نہیں رہی
نورِ خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی
سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی
نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی
خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی
دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی
مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی
دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی
سب پر یہ اِک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی
اِک پُھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی
تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی
صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی
بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی
اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے
کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے
ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو
عادت میں اپنے کر لیا فسق و گناہ کو
اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے
اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں
روتے رہو دعائوں میں بھی وہ اثر نہیں
کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں
شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں
تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے
کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے
باقی جو تھے وہ ظالم و سفّاک ہو گئے
اب تم تو خود ہی موردِ خشمِ خدا ہوئے
اُس یار سے بشامتِ عصیاں جُدا ہوئے
اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محلِ سزا ہوئے
سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں
وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں
پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا
وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا
پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے
آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے
ایسا گماں کہ مہدیٔ خونی بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا
اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں
بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
اب سال سترہ۱۷ بھی صدی سے گذر گئے
تم میں سے ہائے سوچنے والے کِدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں
کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں
پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ
مُنہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ
بخلوں سے یارو باز بھی آئوگے یا نہیں
خو اپنی پاک صاف بنائو گے یا نہیں
باطل سے میل دل کی ہٹائو گے یا نہیں
حق کی طرف رجوع بھی لائو گے یا نہیں
اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتائوگے یا نہیں
مخفی جو دل میں ہے وہ سُنائو گے یا نہیں
آخر خدا کے پاس بھی جائو گے یا نہیں
اُس وقت اُس کو مُنہ بھی دکھائو گے یا نہیں
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے اُستوار
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔روحانی خزائن جلد17صفحہ77تا80)


جلسہ سالانہ کا انعقادخالص دینی مقاصد پر مشتمل ہے
جلسہ سالانہ کو بدعت قرار دئیے جانے کے اعتراض کا جواب
اس زمانہ کے علماء کی حالت
’’قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیںاور وہ یہ ہے۔ یُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ حَتّٰی اِذَالَمْ یَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُسًا جُھَّالًا فَسَئَلُوْا فَاَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْاوَاَضَلُّوْا یعنی بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتداء اور سردار قرار دے دیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے۔ تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و صواب فتویٰ دیں گے۔ پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدث اور فقیہ ان تمام لوگوں سے بد تر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوںگے۔ پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن اُن کے حنجروں کے نیچے نہیں اُترے گا یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے۔ ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں مگر اس وقت ہم بطور نمونہ صرف اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جوغلط فتووںکے بارے میں ہم اُوپر لکھے چکے ہیں تاہر یک کو معلوم ہو کہ آجکل اگرمولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں۔‘‘
جلسہ سالانہ کے انعقاد کاپس منظر
’’اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گذشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشورہ اعلائِ کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا اَنسب اور اَولیٰ ہے۔ کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں۔ چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے۔ اب ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پریس قادیان میں چھپا تھاجس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہریک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو۔‘‘
لاہور کی ایک مسجد کے امام کاعجیب استفتاء
’’ اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بد عت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیںاور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک استفتاء پیش کیا جس کایہ مطلب تھاکہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے۔ استفتاء میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہو گا جو حبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سوروپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہو گا، قادیان میںایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے۔ اس استفتاء کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شدّ ر حال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیںکہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے۔ ‘‘
طلبِ علمِ دین کے لئے سفر کی فضیلت
’’اب منصف مزاج لوگ ایماناًکہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں۔ اے بھلے مانس ! کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کے لئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرادیا ہے جس کا عمداً تارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں کُفر۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَۃٍ اور فرمایا گیا ہے کہ اُطْلُبُو الْعِلْمَ وَ لَوْ کَانَ فی الصِّیْنِ یعنی علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور علم کو طلب کرو اگرچہ چین میں جانا پڑے۔ اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفا ظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہو گا۔ پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے۔ رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بد عت نہیں۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بد ظنی کے مادہ فاسد ہ کو ذرا دور کر کے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جب کہ ۲۷ دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ تو اس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے۔ تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کو وہ حدیثیںیاد نہ رہیں جن میں طلب علم کے لئے پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کے لیے جانا موجب خوشنودی خدائے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کر کے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے۔‘‘
مختلف اغراض کے لئے سفر
’’ اور یادر ہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شدّ رحال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ بجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبویؐ یا بیت المقدس اَور تمام سفر حرام ہیں۔یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کے لئے سفر کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی سفر طلب علم ہی کے لیے ہوتاہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کے لئے۔ یا مثلاً عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کے لئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کے لئے اور کبھی مرد اپنی شادی کے لئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کے لئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کے لئے سفر کیا تھااور کبھی سفر جہاد کے لئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوارسے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورکبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کے لئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدّد الف ثانی بھی ہیں۔ اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفر نامے اکثر اُن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے‘‘
قرآن اور حدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب
’’ اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہو گی اور کبھی سفر عجائبات دُنیا کے دیکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ قُلْ سِیْرُوْافِی الْاَرْضِ(الانعام:12) اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُواللّٰہَ وَکُوْنُوْمَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبۃ:119)ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کے لئے بلکہ اتباع خیار کے لئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیمار دارعلاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اورکبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رُو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حثّ و ترغیب پائی جاتی ہے۔ اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے۔ ایسے فتویٰ لکھانے والے اورلکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثراس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں۔ پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی اُن کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پُرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں۔ میں خیال نہیں کرتا کہ بُجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اورجہالت نے اندھا کر دیا ہو۔ وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متامل ہو سکے۔ صحیح بخاری کا صفحہ ۱۶کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کے لئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ بِہٖ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ یعنی جو شخص طلب علم کے لئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے۔ اب اے ظالم مولوی ذرا انصاف کر کہ تو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گو، اہل قبلہ اور اللہ رسولؐ پر ایمان لاتا ہے ، مردود رکھا اورخدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پرواہ نہ کی کہ اَسْعَدُ النَّا سِ بِشَفَا عَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُخَالِصًا مِنْ قَلْبِہٖ اَوْ نَفْسِہِ اور مردودٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہارکیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کے لئے کیوں دعوت کی۔ اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کا کیا مضمون ہے۔کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کے لئے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشااور راگ اور سرود کا ذکر ہے۔ اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو! تم اللہ جل شانہ ‘ سے کیوںنہیں ڈرتے۔کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہر یک مؤاخذہ تم کو معاف ہے۔ حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسولؐ کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے با ز آ جائیں بلکہ مقد مہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آئو کسی طرح باتوں کو بنا کر اس کا ردّ چھاپیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا۔ اس قدر دلیری اور بد دیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کے لئے۔آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کے لیے اور اپنے شبہات دور کرنے کے لئے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کے لئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر واجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سخت مؤاخذہ میں ہو گا تو اللہ جل شانہ‘ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کے لئے کبھی تو گیا تھا تو وہ کہے گابا لارادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہو گئی تھی۔ تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جابہشت میں داخل ہو۔ میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا۔اب اے کوتہ نظر مولوی ذرا نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے ۔‘‘
اس اعتراض کا جواب کہ جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی؟
’’ اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کے لئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی ایسا فعل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کے لئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پا کر حاضر خدمت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے قَالَ اِنَّ وَفدَ عَبْدِ الْقَیْسِ اَتَوا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْااِنَّانَأْتِیْکَ مِنْ شُقَّۃٍ بَعِیْدَۃٍ وَلَا نَسْتَطِیْعُ اَنْ نَاْتِیْکَ اِلَّا فِیْ شَھْرٍ حَرَامٍ یعنی ایک گروہ قبیلہ عبد القیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دورسے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت نہیں ہو سکتے اور ان کے قول کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ردّ نہیں کیا اور قبول کیا۔ پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کے لئے کسی اپنے مقتداء کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں۔وہ اپنی گنجایش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں۔جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں اور یہی صورت ۲۷ دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بسہولت اُن دنوں میں آ سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلاً کسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہو سکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کر لو کچھ مضائقہ نہیں ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی نہ دنیا کی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کے لئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا یہ عنوان ہے مَنْ جَعَلَ لِاَ ھْلِ الْعِلْمِ اَیَّامًا مَّعْلُوْمَۃً یعنی علم کے طالبوں کے افادہ کے لئے خاص دنوں کومقرر کرنا بعض صحابہ کی سُنت ہے۔ اس ثبوت کے لئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وائل سے یہ راویت کرتے ہیںکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُذَ کِّرُ النَّاسَ فِی کُلِّ خَمِیْسٍ یعنی عبد اللہ نے اپنے وعظ کے لئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھااور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے قرآن کریم میں تدبیر اورا نتظام کے لئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کے لئے ہم قرینِ مصلحت سمجھیں اوردشمن پر غالب ہونے کے لئے مفید خیال کریں وہی بجا لا ویں جیساکہ وہ عزا سمہٗ فرماتا ہے وَاَعِدُّوْالَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ (الانفال:61) یعنی دینی دشمنوں کے لئے ہر یک قسم کی طیاری جو کر سکتے ہو کرو اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے جو قوت لگا سکتے ہو لگائو۔ اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کے لئے کارگر ہوں سب بجا لائو اور تمام قوت اپنے فکر کی، اپنے بازو کی، اپنی مالی طاقت کی، اپنے احسن انتظام کی، اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پائو۔ اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صَرف قوت اور حکمت عملی کا نام بد عت رکھتے ہیں۔ اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘
اسلام کی تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیںکہلاسکتا
’’اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی یا نئے نئے طورپرہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ پس اگر حالت موجودہ کے موافق ان حملوںکے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعا ت سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سیّد و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میںپہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیںکر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے۔ اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اُٹھانا اور اُن سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہؓ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بُجز اس کے کہ ایک ذلّت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے، کوئی اَور بھی اس کا نتیجہ ہو گا۔ پس ایسے مقامات تدبیر اورا نتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی، ہماری ہدایت پانے کے لئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے یعنی یہ کہ وَاَعِدُّوْالَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ (الانفال:61) اللہ جل شانہ‘ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں مؤثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو۔ پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکرمیں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ حُبُّ الْاَنْصَارِ مِنَ الْاِیْمَانِ ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیںہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اوراگریہ کہو کہ یہ حدیث حُبُّ الْاَنْصَارِ مِنَ الْاِیْمَان وَبُغْضُ الْاَنْصَارِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی انصار کی محبت ایمان کی نشانی اورانصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ یہ ان انصارکے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار تواس سے یہ لازم آئے گاکہ جواس زمانہ کے بعدانصار رسول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے۔ نہیں نہیںبلکہ یہ حدیث گوایک خاص گروہ کے لئے فرمائی گئی مگر اپنے اند رعموم کافائد ہ رکھتی ہے۔جیساکہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کے لئے نازل ہوئیں مگر ان کامصداق عام قرار دیاگیاہے۔غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصاردین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں مگر ہمارا یہ قول کلی نہیں ہے، راستباز علماء ا س سے باہرہیں ۔ صرف خاص مولویوں کی نسبت یہ لکھاگیاہے ۔ہر یک مسلمان کو دعاکرنا چاہیے کہ خداتعالیٰ جلد اسلام کوان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے کیونکہ اسلام پر اب ایک ناز ک وقت ہے اور یہ نادان دوست اسلام پر ٹھٹھااورہنسی کراناچاہتے ہیں اورایسی باتیں کرتے ہیں جو صریح ہریک شخص کے نو رقلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں ۔امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھاہے ۔چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں۔ قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدِّثُو االنَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُحِبُّوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اوربخاری کے حاشیہ میںاس کی شرح میں لکھاہے اَیْ تَکَلَّمُواالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِھِمْ یعنی لوگوں سے اللہ اور رسولؐ کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو اُن کوسمجھ جائیں اوران کو معقول دکھائی دیں۔خوانخواہ اللہ رسول ؐ کی تکذیب مت کرائو۔ا ب ظاہر ہے کہ جو مخالف اس بات کوسُنے گا کہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیاہے کہ بجُز تین مسجدوں یاایک دواورمحل کے اورکسی طرف سفر جائز نہیں۔ایسامخالف اسلام پرہنسے گااورشارع علیہ السّلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کے لئے اس کو موقع ملے گا۔اس کو یہ توخبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بناء پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یااس کی بے وقوفی ہے وہ توسیدھا ہمارے سیّدومولیٰ ﷺپر حملہ آور ہوگا جیسا کہ انہیں مولویوںکی ایسی ہی کئی مفسد انہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی۔مثلاًجب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیاکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تونعوذباللہ مُردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اورہزاروں سادہ لوحوں کوانہوں نے انہیںباتوں سے گمراہ کیااوران بے تمیزوںنے یہ نہیں سمجھاکہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مُردہ تو اُن میں سے کوئی بھی نہیں ۔معراج کی رات آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظرنہ آئی سب زندہ تھے۔ دیکھئے اللہ جلّشانہٗ اپنے نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتاہے اورفرماتاہے فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْ لِّقَائِہٖ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو نے کے بعد اپنازندہ ہوجانا اورآسمان پر اُٹھائے جانااوررفیق اعلیٰ کو جاملنابیان فرماتے ہیں ۔پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کون سی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں ۔معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کوبرابر زندہ پایااورحضرت عیسٰی کوحضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔ خداتعالیٰ مولوی عبد الحق محدث دہلوی پر رحم کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کایہی مذہب ہے کہ اگرکوئی مسلمان ہوکرکسی دوسرے نبی کی حیات کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی ترسمجھے تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یاشاید یہ لکھاہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہوجائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجزسے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے دین سے نکلتے جاتے ہیں۔خداتعالیٰ ان سب کوصفحہ زمین سے اُٹھالے توبہترہے تادین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے۔ ذرا انصاف کرنے کامحل ہے کہ صدہالوگ طلب علم یاملاقات کے لئے نذیر حسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اوروہ سفر جائز ہواورپھر خود نذیرحسین صاحب بٹالوی صاحب کاولیمہ کھانے کے لئے بدیں عمروپیرانہ سالی دوسو کوس کاسفر اختیارکرکے بٹالہ میں پہنچیں اوروہ سفر بالکل روا ہو اور پھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے شملہ کی طرف دوڑتے جائیں تا دنیوی عزت حاصل کرلیں اوروہ سفر ممنوع اورحرام شمار نہ کیاجائے اورایساہی بعض مولوی وعظ کا نام لے کرپیٹ بھرنے کے لئے مشرق اورمغرب کی طرف گھومتے پھریں اور وہ سفر جائے اعتراض نہ ہواورکوئی ان لوگوں پر بدعتی اوربداعمال اورمردودہونے کے فتوے نہ دے مگر جبکہ یہ عاجز باذن وامرا لٰہی دعوت حق کے لئے مامور ہوکر طلب علم کے لئے اپنی جماعت کے لوگوں کو بلاوے تووہ سفرحرام ہوجائے اوریہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے۔کیا یہ تقویٰ اور خداترسی کاطریق ہے ۔‘‘
ہر زمانہ انتظاماتِ جدیدہ کو چاہتا ہے
’’افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اورانتظام کو بدعات کی مَد میں داخل نہیں کرسکتے ۔ہریک وقت اورزمانہ انتظامات جدیدہ کوچاہتاہے ۔اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجزجدید طور کی تدبیروں کے اورہم کیا کرسکتے ہیں۔پس کیایہ تدبیریں بدعات میں داخل ہوجائیں گی ۔جب اصل سنت محفوظ ہو اوراسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے توکیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذاللہ ہر گز نہیں۔بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اورنقیض واقع ہوں اورآثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اورتہدید پائی جائے اور اگر صرف جدت انتظام اورنئی تدبیر پر بدعت کانام رکھناہے توپھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جائو کچھ شمار بھی ہے ۔علم صَرف بھی بدعت ہوگااورعلم نحو بھی اورعلم کلام بھی اورحدیث کالکھنااوراس کا مبوّب اور مرتب کرناسب بدعات ہوں گے ۔ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا، کَلوں کا کپڑا پہننا، ڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرناتمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنانہ صرف بدعت بلکہ ایک گنا ہ عظیم ٹھہرے گاکیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے ۔صحابہ ؓسے زیادہ سنت کامتبع کون ہوسکتاہے مگرانہوں نے بھی سنت کے وہ معنے نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش صاحب نے سمجھے انہوں نے تدبیر اورانتظام کے طورپر بہت سے ایسے کام کئے کہ جونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اورنہ قرآن کریم میں واردہوئے ۔‘‘
حضرت عمرؓ کے محدثات
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھوجن کاایک رسالہ بنتاہے ۔اسلام کے لئے ہجری تاریخ انہوں نے مقررکی اورشہروں کی حفاظت کے لئے کوتوال مقررکئے اوربیت المال کے لئے ایک باضابطہ دفترتجویز کیا۔ جنگی فوج کے لئے قواعد رخصت اورحاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اورمقدمات مال وغیرہ کے رجوع کے لئے خاص خاص ہدائتیں مرتب کیں اورحفاظت رعایا کے لئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طورپر رات کوپھرنا اوررعایاکاحال اس طرح سے معلوم کرنااپناخاص کام ٹھہرایا۔لیکن کوئی ایسانیاکام اس عاجز نے تونہیں کیا۔صرف طلب علم اورمشورہ امداداسلام اورملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا۔رہا مکان کابنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیت مہمانداری اوربہ نیت آرام ہر یک صادر ووارد بناناحرام ہے تواس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیے اوراخویم حکیم نورالدین صاحب نے کیاگناہ کیاکہ محض للہ اس سلسلہ کی جماعت کے لئے ایک مکان بنوا دیا۔ جو شخص اپنی تما م طاقت اوراپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کررہاہے اس کوجائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے۔ اے حضرات مرنے کے بعدمعلوم ہوگا،ذراصبر کرو۔ وہ وقت آتاہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جائو گے۔آپ لوگ ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کوشناخت نہ کیااورمرگیاوہ جاہلیت کی موت پرمرالیکن اس کی آپ کو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پریعنی چودھویں صدی کے سر پر آیااورنہ صرف چودھویں صدی بلکہ عین ضلالت کے وقت اورعیسائیت اورفلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیااوربتلایاکہ میں امام وقت ہوں اورآپ لوگ اس کے منکرہوگئے اور اس کانام کافر اوردجّال رکھا اور اپنے بدخاتمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پرمرنا پسند کیا ۔اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنجوقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم اے ہمارے خدااپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا ۔وہ کون ہیں ۔نبی اورصدیق اور شہید اور صلحائ۔اس دُعا کا خلاصہ مطلب یہی تھاکہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پائو اس کے سایۂ صحبت میں آجائو اور اس سے فیض حاصل کرو۔ لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پرخوب عمل کیا۔آفرین آفرین میں ان کوکس سے تشبیہ دوں۔وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کے لئے بہت زور کے ساتھ لاف وگزاف مارتا ہے اور اپنی نابینائی سے غافل ہے۔
بالآخرمیں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جلّشانہٗ کی قسم دیتاہوںکہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمدورفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتا بیں کھول کر اور قرآ ن اور حدیث دکھلا کر ثابت کردوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسرباطل اورشیطانی اغواسے ہے ۔والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ ۔
۱۷دسمبر ۱۸۹۲؁ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبوعہ ریاض ہند ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ605تا612)
نمازکی حکمتیں
اوقاتِ نماز کی فلاسفی
فرمایا:۔
پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے۔
(ا) پہلے جب کہ تم مطّلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلّی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔
(۲) دوسرا تغیر اُس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہومثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی۔
(۳) تیسرا تغیر تم پر اُس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلّی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو۔ سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے۔
(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے۔
(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اُس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچؔ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظلّ ہیں۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ69،70)
باجماعت نماز کی حکمت
نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے۔
(لیکچر لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ281،282 )
ارکان نماز پُر حکمت ہیں
دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت ِخاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرتِ احد ّیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ اور اسی کی ِظل وہ نماز ہے جواسلام نے سکھلائی ہے اور رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلّقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے خیال بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خداتعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسمکسی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عباداتکی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرتِ احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اُس اُٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی۔ لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف۔ (لیکچرسیالکوٹ ۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ223،224)
شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں
یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ عرب کے ملک میں بھی عیسائی لوگ ہی شراب لے گئے اور ملک کو تباہ کر دیا۔ معلوم ہوتاہے کہ بت پرستی کے خیال کو بھی عیسیٰ پرستی کے خیال نے ہی قوت دی اور عیسائیوں کی ریس سے وہ لوگ بھی مخلوق پرستی پر زیادہ جم گئے۔ یاد رہے کہ عرب کے جنگلی لوگ شراب کو جانتے بھی نہیں تھے کہ کس بلا کا نام ہے مگر جب حضرات عیسائی وہاں پہنچے اور انہوں نے بعض نومریدوں کو بھی تحفہ دیا۔ تب تو یہ خراب عادت دیکھا دیکھی عام طور پر پھیل گئی اور نماز کے پانچ وقتوں کی طرح شراب کے پانچ وقت مقرر ہوگئے۔ یعنی جاشریہ ۱ صبح قبل طلوع آفتاب کی شراب ہے۔ صبوح۲ جو بعد طلوع کے شراب پی جاتی ہے۔ غبوق۳ جو ظہر اور عصر کی شراب کا نام ہے۔ قیل ۴ جو دوپہر کی شراب کا نام ہے۔ فحم ۵ جو رات کی شراب کا نام ہے۔ اسلام نے ظہور فرما کر یہ تبدیلی کی۔ جو ان پانچ وقتوں کے شرابوں کی جگہ پانچ نمازیں مقرر کر دیں اور ہریک بدی کی جگہ نیکی رکھ دی اور مخلوق پرستی کی جگہ خدا تعالیٰ کا نام سکھا دیا۔
(نورالقرآن ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ351 ،352حاشیہ )

اذان
اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق ہے
اذان ہورہی تھی اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا
کیسی عمدہ شہادت ہے۔ جب یہ ہوا میں گونجتی ہوئی دلوں تک پہنچتی ہے تواس کا عجیب اثر پڑتا ہے۔دوسرے مذاہب کے جس قدر عبادت کے لئے بلانے کے طریق ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انسانی آواز کا مقابلہ دوسری مصنوعی آوازیں کب کرسکتی ہیں۔
(الحکم10نومبر1902ء صفحہ7،8)
اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں
ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سُنا رہا تھا اذان ہونے لگی تو چُپ ہوگیا۔اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا
’’پڑھتے جاؤ۔ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے۔‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ296)
اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں دینا
ایک شخص نے عرض کیا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کیوں دیتے ہیں ؟فرمایا
اس میں حکمت یہ ہے کہ کان میں انگلی دینے سے آواز کو قوت ہوجاتی ہے ۔پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان بغیر کانوں میں انگلی دئیے دیاکرتے تھے ۔ ایک روز حضرت بلالؓ کی آواز میں آپ نے ضعف پایا تو فرمایا بلال کانوں میں انگلی دے کر اذان کہو سو بلال نے ایسا کیا تو آواز میں قوت پیدا ہو گئی اور ضعف جاتارہاپھر یہ فعل حسبِ فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سنت ٹھہرگیا۔ پھر فرمایاکہ اکثر گویّوں اورکلامتوں کو دیکھا گیا ہوگاکہ وہ گانے کے وقت جو اونچی اور بلند آواز اُٹھاتے ہیں تو کان پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں تاکہ آواز کی کمزوری جاتی رہے اور قوت پیدا ہو جائے ۔ (تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 70)
بچے کے کان میں اذان
حکیم محمد عمر صاحب نے فیروز پور سے دریافت کیا کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان اس کے کان میں اذان کہتے ہیں ۔ کیا یہ امر شریعت کے مطابق ہے یا صرف ایک رسم ہے؟ فرمایا:۔
’’ یہ امر حدیث سے ثابت ہے اور نیز اس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق اور حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں لہٰذا یہ رسم اچھی ہے اورجائز ہے۔ ‘‘
(بدر 28مارچ1907ء صفحہ4)
کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے
سوال:۔ کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے؟
(اس سوا ل کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں)
ہاں اذان ہونی چاہئے لیکن اگر وہ لوگ جنہوں نے جماعت میں شامل ہونا ہے وہیں موجود ہوں تو اگر اذان نہ کہی جائے توکچھ حرج نہیں۔ لوگوں نے اس کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے مگر میں ایک دفعہ حضرت صاحب کے ہمراہ گورداسپور کو جارہا تھا راستہ میں نماز کا وقت آیا عرض کیا گیا کہ اذان کہی جائے؟
فرمایا کہ احباب تو جمع ہیں کیا ضرورت ہے۔ اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو نہ دی جائے ورنہ اذان دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو بھی تحریک نماز ہوتی ہے۔
(روزنامہ الفضل 19؍جنوری1922ء صفحہ8)

وضو
ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر
فرمایا:۔انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وُہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے۔ پھر ایک دُوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ (البقرۃ: ۲۲۳) یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں مَیں اُن کو دوست رکھتا ہوں۔ ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممدّ اور معاون ہے۔ اگر انسان اِسے ترک کردے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے ، تو باطنی پاکیزگی پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مُستلزم ہے۔ اس لئے ہر مُسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غُسل کرے۔ ہر نماز میں وُضو کرے ۔ جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے۔ عیدین اورجمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وُہ اسی بنا پر قائم ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے غسل کرنے اور صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیّت (زہر) اور عفونت سے روک ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعدبھی رکھا ہے۔ (رسالہ الانذار بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 164)
وضو کی حقیقت اور فلاسفی
پادری فتح مسیح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا
آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہوسکتے ہیں۔اے نادان! الٰہی نوشتوں پر کیوں غور نہیں کرتا۔۔۔ وضو کرنا تو صرف ہاتھ پیر اورمنہ دھونا ہے ۔ اگر شریعت کا یہی مطلب ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دور ہوجاتے ہیں تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتی کیونکہ وضوسے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے ۔ اور ان کے بجا لانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں۔ (نورالقرآن حصہ دوم ۔روحانی خزائن جلد 9صفحہ420)
وضو کے طبّی فوائد
فرمایا:۔
نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبّی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔اطبّاء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے(آنکھ دُکھنے لگتی ہے۔ ایڈیٹر) اور یہ نُزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بتلاؤ کہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے۔ بظاہر کیسی عمدہ بات ہے۔ منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے۔ مِسواک کرنے سے منہ کی بدبو دُور ہوتی ہے۔ دانت مضبوط ہوجاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پرچبانے اورجلد ہضم ہوجانے کا باعث ہوتی ہے۔ پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے ناک میں کوئی بد بُو داخل ہو، تو دماغ کو پراگندہ کردیتی ہے۔ اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے۔ اس کے بعد وُہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ دُعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اگرچہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم میں ادا ہوجاتی ہیں۔ پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضییعِ اوقات سمجھا جاتا ہے۔ جس میں اِس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یا کھیل اورتماشوں میں ضائع کردیں تو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے۔ اگر قوی ایمان ہوتا ، قوی تو ایک طرف اگر ایمان ہی ہوتا، تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچتی۔
(الحکم 31جنوری 1901ء صفحہ2)
وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک دوست کے نام مکتوب میں تحریر کرتے ہیں:۔
’’ پاؤں کے مسح کی بابت یہ تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں ۔ یعنی غسل کرنا اورمسح کرنا اورپھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی روسے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں کو دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنامعتبر سمجھے گئے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ543)
مضرِ صحت پانی کو استعمال نہ کریں
اخبار بدر نے لکھاکہ
قادیان کے اردگرد نشیب زمین میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہوکر ایک جوہڑ سا بن جاتا ہے جس کو یہاں ڈھاب کہتے ہیں۔ جن ایام میں یہ نشیب زمین (ساری یا اس کا کچھ حصّہ) خشک ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ اس کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس میں بہت سی ناپاکی جمع ہو جاتی ہے جو سیلاب کے پانی کے ساتھ مل جاتی ہے۔
آج صبح حضرت اقدس بمع خدام جب باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے تو اس ڈھاب کے پاس سے گذرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ ایسا پانی گاؤں کی صحت کے واسطے مُضر ہوتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:۔
اس پانی میں بہت سا گند شامل ہو جاتا ہے اور اس کے استعمال سے کراہت آتی ہے۔ اگرچہ فقہ کے مطابق اس سے وضو کرلینا جائز ہے کیونکہ فقہاء کے مقرر کردہ دَہ در دَہ (10x10۔ناقل) سے زیادہ ہے تاہم اگر کوئی شخص جس نے اس میں گندگی پڑتے دیکھی ہو،اگر اس کے استعمال سے کراہت کرے تو اس کے واسطے مجبوری نہیں کہ خواہ مخواہ اس سے یہ پانی استعمال کرایا جائے جیسا کہ گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہے مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا۔ (بدر 26ستمبر1907ء صفحہ6)
گندے جوہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے حضوراپنی عادت کے طورپر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے۔ بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے۔ اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے۔ جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل بر لبِ راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھا۔ حضور اس کے نیچے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کرکے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضوکرنے سے روکا تھا۔ اور وہ دوست مجھے مخول کرتے تھے۔ اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوںنے اپنے کانوں سے سُنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کرنا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ304)
کنوئیں کو پاک کرنے کے مشہور مسئلہ کے بارہ میں رہنمائی
سوال ہوا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مُرغی یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مَر جاویں تو اتنے دَلو(ڈول۔ناقل) پانی نکالنے چاہئیں۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ بُو مزا نہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے۔
فرمایا:۔
ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے۔ یہ جو حساب ہے کہ اتنے دَلو نکالو ، اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے۔ یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہماراعمل ہے۔
عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنّتِ صحیحہ سے پتہ نہ ملے وہاں حنفی فقہ پر عمل کرلو۔ فرمایا:۔
فقہ کی معتبر کتابوں میںبھی کب ایسا تعین ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔
سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے
کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔
مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۶) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ ملّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔ (بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
حضرت مسیح موعود ؑ کے وضو کا طریق
حضرت مرزا بشیراحمدؓصاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں ’’ اکثر حضور کو وضو کرانے کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ وضو حضور بہت سنوار کر فرمایا کرتے۔ ہر عضو کو تین تین دفعہ دھوتے ، سر کے صرف اگلے حصہ کا مسح فرمایا کرتے۔ ریش مبارک میں خلال فرماتے اور جرابوں پر مسح۔ کبھی جرابیں اتارکر بھی پاؤں دھوتے تو انگلیوں میں خلال فرماتے۔ دانتوں کو انگلی سے اچھی طرح ملتے اور مسوڑھوں کو بھی صاف فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ387)

مَوزوں پر مَسح
موزوں پر مسح کاذکر ہوا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
سوتی موزہ پر بھی مسح جائز ہے اور آپ نے اپنے پائے مبارک کو دکھلایا جس میں سوتی موزے تھے کہ میں ان پر مسح کر لیا کرتا ہوں۔ (البدر 2جنوری 1903ء صفحہ 77 )
پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:۔
میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ جراب میں ذرا سا سوراخ ہوجاتا توفورًا اس کو تبدیل کرلیتے مگر میں اب دیکھتا ہوں کہ لوگ ایسی پھٹی ہوئی جرابوں پر جن کی ایڑی اور پنجہ دونوں نہیں ہوتے مسح کرتے چلے جاتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے ؟ شریعت کے احکام کی واقفیت نہیںہوتی۔ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رخصت اور جواز کے صحیح محل کو نہیں سمجھتے ۔
(منصبِ خلافت ۔انوارالعلوم جلد 2صفحہ45)
بیمار کا مسلسل اخراج ِ ریح ناقضِ وضو نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نماز نہ پڑھا سکے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ بھی موجود نہ تھے تو حضرت صاحبؑ نے حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور تو جانتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا مرض ہے اور ہروقت ریح خارج ہوتی رہتی ہے۔ مَیں نماز کس طرح سے پڑھاؤں؟ حضورؑ نے فرمایا حکیم صاحب! آپ کی اپنی نماز باوجود اس تکلیف کے ہو جاتی ہے یانہیں؟ انہوں نے عرض کیا ہاں حضور۔فرمایا کہ پھر ہماری بھی ہو جائے گی۔ آپ پڑھائیے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اخراج ریح جو کثرت کے ساتھ جاری رہتا ہو، نواقضِ وضو میں نہیں سمجھا جاتا۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ614،615)
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
حضرت مرزا بشیراحمدؓصاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا یہ جو حدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ کیا مسئلہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شرمگاہ بھی تو جسم ہی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس لئے یہ حدیث قوی نہیں معلوم ہوتی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تواس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول درست نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلی ہوئی معلوم نہیں ہوتی اور حدیث میں روایتًا کوئی ضعف ہوگا۔ واللہ اعلم (سیرت المہدی جلد1صفحہ320)
کپڑے صاف نہ ہونے کاشک
حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بہت کم نماز پڑھایا کرتے تھے۔ نماز اکثر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ نے عذر کیا کہ مجھے شک ہے کہ میرے کپڑے صاف نہیں۔ اس لئے میں نماز نہیں پڑھاتا۔ نماز کوئی اور پڑھاوے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ان کپڑوں میں کیا آپ کی نماز ہو جائے گی؟ مولوی صاحب نے عرض کیا ہاں نماز تو ہو جائے گی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی نماز ان کپڑوں میں ہو جائے گی تو پھر نماز پڑھائیں۔ آپ کی اقتداء میں ہماری نماز بھی ہو جائے گی۔ (اصحاب احمد جلد 3صفحہ189نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی)
سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہوجاتی ہے
حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب روایت کرتے ہیں کہ
ایک دفعہ ہم نے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہوجاتی ہے۔یعنی اگر چٹائی یادری وغیرہ پاک نہ ہو یامشتبہ ہوگئی ہوتوکوئی ایسا پاک کپڑا ڈال کر نماز ہوجاتی ہے جوصرف سجدہ والی جگہ کو ڈھانپ سکے۔
میں نے اس وقت اس فتویٰ کی حکمت پر غور کیا تھا اورمجھے یہ سمجھ آیا تھا کہ حضرت صاحبؑ نے یہ استنباط بعض وقت جوتی سمیت نماز پڑھ لینے کے جواز سے فرمایا ہوگا۔
(اصحابِ احمد جلد6صفحہ126،127 روایت قاضی عبدالرحیم صاحب نیا ایڈیشن )

ارکانِ نماز
ارکانِ نماز کی حقیقت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
ارکانِ نمازدراصل روحانی نشست و برخاست۔۔۔۔ ہیں۔ انسان کو خدا تعالیٰ کے رُوبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آدابِ خدمتگاران میں سے ہے ۔ رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیار ی ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمال ادب اورکمال تذلّل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے ۔ یہ آداب اور طُرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کردئیے ہیں۔ اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے ۔ اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے۔) صرف نقّال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اوراسے ایک بارِ گراں سمجھ کر اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتاؤ اس میں کیا لذّت اور حظّ آسکتا ہے ؟ اور جب تک لذّت اور سُرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیونکر متحقق ہوگی اور یہ اُس وقت ہوگاجبکہ رُوح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہوکر آستانۂ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے رُوح بھی بولے۔ اُس وقت ایک سُرور اور نُور اور تسکین حاصل ہوجاتی ہے ۔ مَیں اِس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہوتا ہے۔ یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیّہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ۔ پھر نُطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ، پھر جوان ، بُوڑھا ۔ غرض ان تمام عالَموں میں جو اُس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے۔ تو بھی وُہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِّ مقابل میں اپنی عبودیّت کو ڈال دے۔ غرض مدّعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سُرود بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قراردے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے اُس کا فیضان اور پَرتواس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذّت حاصل ہوتی ہے ۔ جس سے بڑھ کر کوئی حظّ نہیں ہے۔
(الحکم 12؍اپریل 1899ء صفحہ5)
تکبیر تحریمہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والدصاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے۔ یعنی یہ دونوں آپس میں چھُو جاتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ744،745)
نماز میں بسم اللہ جھرًا یا سِرًّا دونوں طرح جائزہے
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے فرمایا
بسم اللہ جہرًا اور آہستہ پڑھنا، ہر دوطرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اللہم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے ،بسم اللہ جہرًا پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مرزا صاحب جہرًانہ پڑھتے تھے ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہ میںہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے، اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے، ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتاتھا توصحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دوطرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔ (بدر23مئی 1912ء صفحہ3)
رفع یدین
فرمایا :۔
’’ ضروری نہیںاور جو کرے تو جائز ہے۔ ‘‘ (بدر 31؍اکتوبر 1907ء صفحہ7)
رفع یدین کے متعلق فرمایا کہ:۔
اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا ، خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اوروہابیوں اورسنّیوں کے طریقِ عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کردیا۔
(البدر 3؍اپریل 1903ء صفحہ85)
اس موضوع پر مندرجہ ذیل روایت بھی ملتی ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیںکہ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور فاتحہ خلف امام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے اور ضرور کرنا چاہئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے مگر رفع یدین اور آمین بِالجَہر والی بات کے متعلق مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہو کیونکہ اگر حضور اسے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں ۔ حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مد نظر رکھ کر جواب دے دیا یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام مقصود ہے۔ واللہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ564)
رفع یدین پر عمل چھڑوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلد تھا اور رفع یدین اور آمین بِالجَھر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا۔ عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کردیا بلکہ آمین بِالجَھر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بِالجَھرکہتے نہیں سُنا اور نہ کبھی بسم اللہ بِالجَھرپڑھتے سُنا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کرتے ہیں اکثر نہیں کرتے ، بعض بسم اللہ بِالجَھرپڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر حضرت صاحب کا عمل تھا۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ147،148)
فاتحہ خلف الامام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجود سورۃ فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑ ھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہوکر اس کی تلاوت کو سُننا چاہئے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہئے ۔ اور اہلِ حدیث کایہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہلِ حدیث کے مؤید تھے مگر باوجود اس عقیدہ کے آپ غالی اہلِ حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ334،335)
فاتحہ خلف الامام پڑھنا افضل ہے
حضرت منشی رستم علی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے خط میں انہیں تحریر فرمایا کہ
نماز مقتدی بغیر سورۃ فاتحہ بھی ہو جاتی ہے مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو تو ایک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرا ء ت امام نہ ہو اوراگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہو جائے گی مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 471)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور ؑ کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا کہ ’’ قرا ء ت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے۔ ‘ ‘ میں نے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نمازہوجاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز تو ہو جاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بدوں سورۃ الحمد خلف امام نماز نہ ہوتی ہو تو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لوگ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہوجاتے۔ نماز دونوں طرح سے ہو جاتی ہے فرق صرف افضلیت کا ہے۔ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ153)
مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
سورۃ فاتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے ۔ سوائے اس کے کہ مقتدیوں کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جاچکا ہو۔ اس صورت میں تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہئے۔ امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔
سورہ فاتحہ کی نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آتی ہے۔ صحیح مسلم میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ
قَالَ مَنْ صَلّٰی صَلٰوۃً لَمْ یَقْرَئْ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِدَاجٌ
(مسلم کتاب الصلٰوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ)
یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اوربخاری، مسلم میں عبادہ بن الصامتؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَئْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ
(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب وجوب قراء ۃ الامام والماموم فی الصلوٰۃ کلھا)
یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔ ایک جگہ حضرت عبادہؓ امام الصلوٰۃ تھے۔ ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیمؓ نے نماز شروع کرادی۔ نماز شروع ہوچکی تھی کہ عبادہ بھی آگئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ہم صفوں میں کھڑے ہوگئے۔ ابو نعیم ؓ نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی تو میں نے سنا کہ عبادہؓ بھی آہستہ آہستہ سورۃفاتحہ پڑھتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالجہرنماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھتے جارہے تھے یہ کیا بات ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اورسلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو۔ بعض نے کہا ہاں، بعض نے کہا نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا
لَا تَقْرَئُ وْا بِشَیئٍ مِنَ الْقُرْآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّا بِاُمِّ الْقُرْآنِ
(ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلٰوتِہِ )
جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کیا کرو۔۔۔۔۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہئے۔ خواہ وہ جہراً نماز پڑھ رہا ہو۔ سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آکر ملے۔ اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔ یہ ایک استثناء ہے۔ استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو مثلًا نومسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی۔ خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے۔ سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔ (تفسیر کبیر جلد اول۔ تفسیر سورۃ فاتحہ صفحہ7تا9)
حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں :۔
ایک روز موسم گرما میں حضور چھت پر شاہ نشین پر رونق افروز تھے۔ اس بات پر گفتگو شروع ہوگئی کہ امام کے پیچھے الحمد جائز ہے یا نہیں۔حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور مولوی محمد احسن صاحبؓ مرحوم بھی مجلس میں موجود تھے۔مخالف و موافق آراء کا اظہار کیا جارہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ہر حالت میں الحمد کا پڑھنا ضروری ہے اور اگر امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو مقتدی ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پڑھتا رہے یا وقفہ میں پڑھ لے۔ اورکوئی کہتا تھا کہ جب امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو خاموش رہنا چاہئیے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس طرح کر لیا جائے کہ جب امام بلند آواز سے الحمد پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سنتا رہے اور جب ظہر اورعصر کی نمازوں میں خاموشی سے پڑھے تو مقتدی بھی اپنے طور پر آہستہ پڑھ لے۔ اس طرح دونوں باتوں پر عمل ہوجائے گا۔
(اصحاب احمد جلد3صفحہ190۔نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی روایت کرتے ہیں :۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایک شخص سیالکوٹ یا اس کے گردونواح کا رہنے والا تھا اور ہر روزہم اس کو امام کے پیچھے نماز میں الحمد پڑھنے کو کہتے تھے اورہم اپنی دانست میں تمام دلیلیں اس بارہ میں دے چکے مگر اس نے نہیں مانا اورالحمدللہ امام کے پیچھے نہ پڑھی اوریوں نماز ہمارے ساتھ پڑھ لیتا ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان شریف آگیا ایک روز اسی قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ صرف حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں الحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے اورکوئی دلیل قرآن شریف یا حدیث شریف سے بیان نہیں کی ۔ وہ شخص اتنی بات سُن کر امام کے پیچھے نماز میں الحمد شریف پڑھنے لگا اور کوئی حجت نہیں کی۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علیٰ محمد جوشخص نماز میں الحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے ہونا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے حنفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے اور خلف امام الحمد نہیں پڑھتے تھے ۔ جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہوگئے۔ چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اورہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ اس زمانہ میں تمام حدیثیں مدون و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا۔ اس واسطہ وہ معذور تھے اور اب یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ اب اگر نہیں پڑھے گا تو بے شک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی۔ ہم یہی بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ الحمد نماز میں خلف امام پڑھنی چاہئے۔
ایک روز میں نے دریافت کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علٰی محمد الحمد کس موقع پر پڑھنی چاہئے ۔ فرمایا جہاں موقع پڑھنے کا لگ جاوے ۔ میں نے عرض کیا کہ امام کے سکوت میں؟ فرمایا:۔ جہاں موقع ہو پڑھنا ضرورچاہئے۔
( تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 179،180)
فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ایک موقع پر آپ ؑ نے فرمایا
’’ ضروری ہے ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر 1907ء صفحہ7)
رکوع میں مِلنے والے کی رکعت ہوجاتی ہے
اِس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آکر شامل ہو، اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی ۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اِس امر کے متعلق بیان کئے گئے۔ آخر حضرت صاحب ؑ نے فیصلہ دیا اور فرمایا: ۔
ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لََا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہر حالت میں اس کو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے۔ مگر ٹھہر ٹھہر کرپڑھے تاکہ مقتدی سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہر حال مقتدی کو یہ موقعہ دینا چاہئے کہ وہ سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُم الکتاب ہے ۔ لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشِش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے ۔ آخر رکوع میں آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی۔ اگرچہ اُس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پا لیااس کی رکعت ہوگئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں ۔ وہ ام الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے۔ مگر جو شخص باوجود اپنی کوشِش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر مِلا ہے تو چونکہ دین کی بنا آسانی اورنرمی پر ہے۔ اِس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔وہ سورۃ فاتحہ کاذِکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے۔ میرا دِل خُدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہوجاتی ہے اورمیرا جی نہیں چاہتا کہ مَیں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصّوں کوپورا پالیااور ایک حصہ میں بسبب کِسی مجبوری کے دیر میں مِل سکا ہے تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے ۔ ہاں جو شخص عمدًا سُستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اُس کی نماز ہی فاسد ہے۔‘‘ (الحکم 24فروری 1901 صفحہ 9)
تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب حضور علیہ السلام نماز کے وقت تشہد میں بیٹھتے تو تشہد پڑھنے کی ابتداء ہی میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ بنا لیتے تھے اور صرف شہادت والی انگلی کھلی رکھتے تھے۔ جو شہادت کے موقعہ پر اُٹھاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب کے والد چونکہ اہل حدیث میں سے آئے تھے ۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو غور کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مگر مجھ سے مکرم ڈاکٹر محمداسمٰعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء سے ہی ہاتھ کی انگلیوں کے بند کر لینے کا طریق انہیں یاد نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔ واللّٰہُ اَعْلَم۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ567ئ568)
حضرت سید محمدسرور شاہ صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قعدہ میں بیٹھنے اورشہادت کی انگلی اُٹھانے کے طریق کو یوںبیان کرتے ہیں:۔
(حضرت مسیح موعودؑ: ناقل) دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں۔ ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اور درمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اورپھر التّحیات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلََامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلََامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ( اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اُٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اورپھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی۔) پھر وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ پڑھتے ہیں۔
( رسالہ تعلیم الاسلام مطبوعہ قادیان ماہ جولائی 1906ء جلد اول نمبر اول صفحہ178،179)
تشہّد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت
ایک شخص نے سوال کیا کہ التّحیات کے وقت نماز میں انگشت سبّابہ(شہادت کی انگلی) کیوں اُٹھاتے ہیں؟فرمایا کہ :۔
لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اُٹھایا کرتے تھے اس لئے اس کو سبّابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی۔خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلا ح فرمائی اور وہ عادت ہٹا کر فرمایاکہ خدا کو واحد لاشریک کہتے وقت یہ اُنگلی اُٹھایا کرو تاکہ اس سے وہ الزام اُٹھ جاوے۔ ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے۔ اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی۔ (البدر 20مارچ 1903ء صفحہ66 )
رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنا
مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیا کہ رکوع و سجود میں قرآنی آیت یا دُعا کا پڑھنا کیسا ہے؟فرمایا:۔
سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دُعا پڑھی ہو۔‘‘ (الحکم 24؍اپریل 1903ء صفحہ11 )
سینے پر ہاتھ باندھنا
محمد اسماعیل صاحب سرساوی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ
’’میں جو سینہ پر ہاتھ باندھتا تھا ایک دن مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام کہاں ہاتھ باندھتے تھے؟ میں نے کہا سینہ پر ۔ پس اسی روز سے میاں اسمٰعیل نے بھی سینہ پر بلا خوف ہاتھ باندھنے شروع کئے۔‘‘ (تذکرۃ المہدی صفحہ296)
نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا۔ بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے ۔ خواہ ہم کو پہلے اُس کا علم نہ ہو۔ پس آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی ۔ مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط الشیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں۔ پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ92)
حضرت حاجی غلام احمد صاحبروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ نماز میں ہاتھ کس جگہ باندھیں۔ آپ نے فرمایا کہ
ظاہری آداب بھی ضروری ہیں مگر زیادہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نماز میں رکھنی چاہئے۔
(اصحابِ احمد جلد10صفحہ246 نیا ایڈیشن )
حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری روایت کرتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ میں نے نماز جمعہ سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کا رکوع، قیام ، قومہ، جِلسہ درمیانہ تھا۔ ہر ایک رکن میں اطمینان اور تسلّی ہوتی تھی۔پھر میں نے ہاتھ باندھنے کی کیفیت دیکھی کہ سینے پر ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر تھا اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھِنگلی سے بازو پکڑا ہوا تھا اور تینوں درمیانی انگلیاں بازو پر تھیں اور کہنیوں کے جوڑ سے ورلی طرف ملی ہوئی تھیں۔
(اصحاب احمد جلد10صفحہ257نیا ایڈیشن )
رکوع و سجود میں قرآنی دعاؤں کی ممانعت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورؑ سیدنا مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’ دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے ‘‘ نیز فرمایا کہ ’’اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلًا رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے۔‘‘ نیز فرمایا کہ’’ رکوع و سجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے ۔ اس لئے کلامِ الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ166،167)

نماز با جماعت
امام کہاں کھڑا ہو؟
ذکر ہوا کہ چکڑالوی کا عقیدہ ہے کہ نماز میں امام آگے نہ کھڑا ہو بلکہ صف کے اندرہوکر کھڑا ہو۔ فرمایا:۔
’’امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو ۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنے ہیں وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ چکڑالوی زبانِ عربی سے بالکل جاہل ہے۔ ‘‘ (بدر 28مارچ 1907ء صفحہ9)
امام مقتدیوں کا خیال رکھے
سوال پیش ہوا کہ ایک پیش امام ماہِ رمضان میں مغرب کے وقت لمبی سورتیں شروع کردیتا ہے ۔ مقتدی تنگ آتے ہیں کیونکہ روزہ کھول کر کھانا کھانے کا وقت ہوتا ہے۔ دن بھر کی بھوک سے ضعف لاحقِ حال ہوتا ہے۔ بعض ضعیف ہوتے ہیں۔ اس طرح پیش امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہوگیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ :۔
پیش امام کی اس معاملہ میں غلطی ہے ۔ اس کو چاہئے کہ مقتدیوں کی حالت کا لحاظ رکھے اورنماز کو ایسی صورت میں بہت لمبا نہ کرے۔ (بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓؓ تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں۔ فرمایا:۔
’’امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے۔ ‘‘
نوٹ:۔ مرحوم مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل اتفاقًا ایک دفعہ مسجد مبارک میں عاجز راقم کو امامتِ نماز کا موقعہ ہوا ۔ جب نماز ختم ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب ہنستے ہوئے آگے بڑھے اور فرمانے لگے ۔ حضرت صاحب ؑ (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ) بھی نماز ایسی ہی مختصر پڑھاتے تھے جیسی آپ نے پڑھائی۔ یہ ذکر نماز میں امامت کا تھا ۔ ورنہ جو نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بطور خود علیحدگی میں پڑھتے تھے انہیں بہت لمبا کرتے تھے ۔چونکہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے بہت قبل وقت سے حضرت ؑ کی خدمت میںآنے والے تھے اور اُن ایام میں کثرت سے قادیان میں رہتے تھے۔ انہیں حضرت صاحبؑ کی اقتداء میں بہت نمازیں پڑھنے کا موقعہ ملتا رہا۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صفحہ 131،132)
بیماری کے باوجود حکیم فضل دین صاحب کو امام بنانا
حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی کو آخری عمر میں بواسیر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور وضو قائم نہیں رہتا تھا۔ اس لئے وہ ایک دفعہ وضو کرکے نماز میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور پھر درمیان میں باوجود ریح کے بار بار خارج ہونے کے نماز پڑھتے رہتے تھے اورہر نماز کے لئے تازہ وضو کر لیتے تھے۔ ان کی اس بیماری کے ایام میں ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان کو فرمایا کہ حکیم صاحب آپ ہی نماز پڑھائیں۔ انہوں نے عرض کی ۔حضور کو معلوم ہے کہ میرا تو وضو نہیں ٹھہرتا۔ حضور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی نماز تو ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی۔ انہوں نے عرض کیا کہ نماز تو ہو جاتی ہے۔ مسئلہ ایسا ہی ہے۔ فرمایا
’’آپ کی نماز ہو جاتی ہے تو ہماری بھی ہو جائے گی۔ آپ پڑھادیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 23،24)
غسّال کے پیچھے نماز
ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ غسّال کو نماز کے واسطے پیش امام بنانا جائز ہے؟ فرمایا:۔
یہ سوال بے معنے ہے۔ غسّال ہونا کوئی گناہ نہیں۔ امامت کے لائق وہ شخص ہے جو متقی ہو، نیکو کار ، عالم باعمل ہو۔ اگر ایسا ہے توغسّال ہونا کوئی عیب نہیں جو امامت سے روک سکے۔ (بدر 23مئی1907 صفحہ10)
امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا
وہ جو امامت کامنصب رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اگر اُن کا اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہوجانے میں مجھے شبہ ہے کیونکہ علانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کاایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دو کان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھولتے ہیں اور اسی دوکان پر اُن کا اور اُن کے عیال کا گزارہ ہے چنانچہ اس پیشہ کے عزل و نصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کے لئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں۔ پس یہ امامت نہیں یہ تو حرام خوری کا ایک مکروہ طریقہ ہے۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد3صفحہ26 حاشیہ)
اجرت پر امام الصلوٰۃ مقرر کرنا
ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی ۔وہاں جو امام ہے اس کو کچھ معاوضہ وہ دیتے تھے ، اس غرض سے کہ مسجد آباد رہے۔ وہ اس سلسلہ میں داخل نہیںمیں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے اب کیاکیا جاوے؟
حضور علیہ السلام نے فرمایا
خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کے لئے نماز پڑھتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ نماز تو خدا کے لئے ہے اگر وہ چلا جائے گا تو خداتعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا کے لئے نماز پڑھیںاور مسجد کو آباد کریں۔ ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو احمدی ہویا غیر احمدی،اس کے پیچھے نمازنہیں ہوسکتی۔امام اتقٰی ہونا چاہئے۔ بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اوراس کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیںیہ درست نہیں۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اورخداترسی سے اس کی خدمت کردے تو یہ جائز ہے۔ (الحکم 10نومبر1905ء صفحہ6)
دوسری جماعت
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ
’’ مسجد میں جب ایک جماعت ہو چکے ، تو حسبِ ضرورت دوسری جماعت بھی جائز ہے۔‘‘ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 83)
بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت
حضرت مسیح موعود ؑ کے ملفوظات کے ڈائری نویس لکھتے ہیں کہ
سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجودگی میں حل ہوئے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ؑابھی وضو فرمارہے تھے اورمولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالت طبع نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اُن کا خیال تھا کہ مَیں معذور ہوں۔ الگ پڑھ لوں، مگر چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہوگئی۔حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہوچکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے تو آپ ؑنے فرمایا کہ:
’’ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں۔‘‘ (البدر یکم اگست 1904ء صفحہ4)
(حضرت مصلح موعود ؓ کے مندرجہ ذیل ارشاد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک جگہ پر دو نمازیں پڑھنے کی ممانعت کی کیا وجہ ہے؟)
حضرت مصلح موعود ؓ سے ایک صاحب نے ایک دوسرے دوست کے حوالہ سے عرض کی کہ حضور! یہ کہتے تھے کہ ایک جماعت کے بعد دوسری نہیں ہونی چاہئے ۔
فرمایا:
یہ تو منع نہیں ناپسندیدہ ہے وہ بھی مسجد میں۔کیونکہ اس طرح اگر الگ الگ نمازیں ہونے لگیں تو چند آدمی آئیں اور نماز پڑھیںاور چل دیئے ۔پھراور چند آئے اور جماعت کوکرکے چل دئیے۔تو اس طرح جماعت کی اصل غرض جو ہے وہ مفقود ہوجاتی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کو ناپسند فرمایا ہے۔ (الحکم 28مارچ1920ء صفحہ3)
بغیر وجہ کے جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورِ اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ کی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی۔ آدمی تھوڑے تھے۔ ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہوسکتی تھی ۔ بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقد س اپنی کوٹھڑی میں ہی نماز ادا کر لیں گے، کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہئے۔ ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے یہ اس صورت میں ہونا چاہئے جبکہ جگہ کی قلت ہو۔ ‘‘
(البدر یکم اگست 1904ء صفحہ4)
امام الصلوٰۃ کے لئے ہدایت
کِسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں۔ فرمایا:۔
’’امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے۔ ‘‘
(بدر۔ 20؍اپریل 1905ء صفحہ 2)
مکفّرین ومکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے
تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یادرکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُم ۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ64حاشیہ)
غیر احمدی امام کا اقتداء ناجائز
سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں، تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ فرمایا:۔
پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر، ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اوراگر خاموش رہے نہ تصدیق کرے اور نہ تکذیب ،تو وہ بھی منافق ہے۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 299)
غیر احمدی کے پیچھے نماز
دو آدمیوں نے بیعت کی۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:۔
وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو وہ کُفر لَوٹ کر اُن پر پڑتا ہے۔ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ پھر اُن کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ اُن کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے۔ (بدر 15دسمبر1905ء صفحہ2)
غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ الگ پڑھو!
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ غالبًا ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں سوال کیا کہ حضور اگر غیر احمدی باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو ہم اس وقت نماز کیسے پڑھیں؟ آپؑ نے فرمایا۔ تم اپنی الگ پڑھ لو۔ اس نے کہا کہ حضور جب جماعت ہورہی ہو تو الگ نماز پڑھنی جائز نہیں۔ فرمایا: کہ اگر ان کی نماز باجماعت عنداللہ کوئی چیز ہوتی تو مَیں اپنی جماعت کو الگ پڑھنے کا حکم ہی کیوں دیتا ۔ ان کی نماز اور جماعت جناب الٰہی کے حضور کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس لئے تم اپنی نماز الگ پڑھو اور مقررہ اوقات میں جب چاہو ادا کرسکتے ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس وقت کسی مسجد میں دوسروں کی جماعت ہورہی ہو، ضرور اسی وقت نماز پڑھی جائے کیونکہ اس سے بعض اوقات فتنہ کا احتمال ہوتا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ایک احمدی بہرحال الگ نماز پڑھے اور دوسروں کے پیچھے نہ پڑھے۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ526،527)
غیروں کے پیچھے نماز
کِسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مُرید نہیںہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپؑ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے۔ حضرت ؑ نے فرمایا:۔
جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بد ظنّی کرکے اس سِلسِلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے، ردّ کردیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پَروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لاپروا پڑے ہیں۔ ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے ۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدہ: ۲۸) خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے۔ اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیّت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں۔ (الحکم 17مارچ1901ء صفحہ8)
امام بطور وکیل کے ہوتا ہے
کسی کے سوال پر فرمایا:
مخالف کے پیچھے نمازبالکل نہیں ہوتی۔ پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے نماز تو تمام برکتوں کی کُنجی ہے۔ نماز میں دُعا قبول ہوتی ہے۔ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے اُس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا۔
(الحکم 31جولائی 1901ء صفحہ4)
غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حِکمت
اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا ۔ فرمایا:
صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتحِ عظیم ہے اوریہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو دُنیا میں رُوٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چاردن مُنہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور رُوٹھنا تو خدا کے لئے ہے ۔ تم اگر ان میں رَلے مِلے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے، وہ نہیں رکھے گا۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے۔ (الحکم 10؍اگست 1901ء صفحہ3 )
غیروں کی مساجد میں نماز
ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ الحکم میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ فرمایا:۔
ٹھیک ہے اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میںپڑھ لو، اکیلے پڑھ لوحرج نہیںاور تھوڑے سے صبر کی بات ہے ۔
(البدر 28نومبر1902ء صفحہ36)
اکیلے احمدیوں کے لئے ہدایت
بعض احباب نے سوال کیا کہ نمازتنہا پڑھ لیا کریں؟
فرمایا :
ہاں الگ اور تنہا پڑھ لیا کرو۔ یہ سلسلہ خدا کا ہے وہ چاہتا ہے کہ ان سے الگ رہو۔ عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ خدا جماعت کردیوے گا۔
(البدر 16جنوری 1903ء صفحہ90 )
پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں
میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طورپر نماز پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے نماز درست نہیں وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں، اگر نہ ملے تو چھوڑدیں۔ معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جاوے تو عبادت ہی ہے ۔ جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کرے اورپکّا راہ اختیار کر لے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے ۔
(البدر 9جنوری 1903ء صفحہ85 )
غیروں کے پیچھے نماز
سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ مَیں اپنے مُلک عرب میں جاتا ہوں۔وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں۔فرمایا :۔
’’ مصدقین کے سواکسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ ‘‘
عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور ؑکے حالات سے واقف نہیں ہیںاور اِن کو تبلیغ نہیں ہوئی۔ فرمایا:۔
’’ان کو پہلے تبلیغ کردینا پھر یا وہ مصدق ہوجائیں گے یا مکذّب ۔‘‘
عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے مُلک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے۔ فرمایا:۔
’’ تم خدا کے بنو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کامعاملہ صاف ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفّل ہوجاتا ہے ۔ ‘‘
(الحکم 24ستمبر1901ء صفحہ6 )
مصدّق کے پیچھے نماز
عجب خا ن صاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس ؑ سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں تو اُن کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہیں؟ فرمایا:۔
ناواقف امام سے پوچھ لو۔ اگر وہ مصدّق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک جماعت الگ بنانا چاہتا ہے اس لئے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے جن لوگوں سے وہ جُدا کرنا چاہتا ہے بار بار اُن میں گھُسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے۔ (البدر 20فروری 1903ء صفحہ34 ، 35 )

متفرق مسائل نماز
نمازوں کی ترتیب ضروری ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہو اور ایک ایسا شخص مسجدمیں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہو یا عشاء کی نماز ہورہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجدمیں آجائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نمازعلیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہویا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔
جمع بین الصلوٰتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جبکہ نماز ہورہی ہو تو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نما ز علیحدہ پڑھے اورپھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ اسی طرح اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز علیحدہ پڑھے اورپھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن اگر اسے معلوم نہ ہوسکے کہ یہ کونسی نماز پڑھی جارہی ہے تووہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔
ایسی صورت میں جوامام کی نماز ہوگی وہی نماز اس کی ہو جائے گی بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔ مثلًا اگر عشاء کی نماز ہو رہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجدمیں آجاتا ہے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اورپھر امام کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن اگر اسے معلوم نہ ہوسکے کہ یہ کونسی نماز ہورہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہوجائے گی ۔ مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے۔ یہی صورت عصر کے متعلق ہے۔
اس موقع پر عرض کیا گیا ہے کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز ہی نہیں۔ پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہوجاتا ہے تواس کے بعد ظہر کی نماز اس کے لئے کس طرح جائز ہوسکتی ہے۔ حضور نے فرمایا ہے یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثہ کے طورپر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصر کی نماز کے بعد جائز ہوگی۔
میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ مسئلہ سنا ہے اور ایک دفعہ نہیں سنا دو دفعہ سنا ہے ۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق وضاحت کرچکا ہوں کہ ترتیبِ نماز ضروری چیز ہے۔ لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ امام کونسی نماز پڑھا رہا ہے عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہوجائے۔ جو امام کی نماز ہوگی وہی اس کی نماز ہوجائے گی۔ بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔
(الفضل 27جون1948ء صفحہ3)
نماز باجماعت کھڑی ہونے پر سنتیں پوری کی جاسکتی ہیں
حضرت مولوی محمدابراہیم صاحب بقاپوری روایت کرتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دیکھنے میں آیا کہ جب تکبیر ہوتی تھی تو جو احباب سنتیں پڑھ رہے ہوتے تھے وہ انہیں پوری کرکے جماعت میں شامل ہوتے تھے۔اسی طرح حضرت خلیفہ اول ؓ کے زمانہ میں بھی مندرجہ بالا حدیث(اِذَا اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلَا صَلٰوۃَ اِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ ) کا مطلب ہم یہی سمجھتے تھے کہ جب امام تکبیر کہے اس کے بعد اگر سنتیں پڑھنے والا ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی سنت کی نماز ختم کرکے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکتا ہو تو وہ پوری کرلے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل واقعہ روشنی ڈالتا ہے ۔
… جب امام نے رکوع کے لئے تکبیر کہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُٹھ کر رکوع میں شامل ہوگئے۔ سلام کے بعد مولوی صاحبان سے اپنی رکعت کے متعلق ذکر کیا جو بغیر الحمد کے ادا کی تھی تو انہوں نے کہا کہ چونکہ حدیث میں آیا ہے کہ لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اس لئے آپؑ کی رکعت نہیں ہوئی۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا لَا صَلٰوۃَ آیا ہے نہ کہ لَا رَکْعَۃَ جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں الحمد تو ضرور پڑھنی چاہئے لیکن اگر کسی وجہ سے کسی رکعت میں الحمد نہ پڑھی جائے تو وہ رکعت ہوجاتی ہے اوراسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں شامل ہونے والے کو رکعت پالینے والا ہی شمار کیا ہے ۔ اس دن ہم نے سمجھ لیا کہ یہ جو فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی ایک رکعت سنت رہتی ہو تو وہ پوری کرکے جماعت کے ساتھ شامل ہو صحیح ہے۔ لیکن فرقہ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ نمازی جس حالت میں ہوامام کے تکبیر کہنے کے بعد سلام پھیر دے خواہ وہ آخری التَّحِیَّاتمیں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو مگر روایات کے لحاظ سے صحیح وہی ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا مسلک تھااورصحابہ کرام کا بھی اسی پر عمل تھا۔
خلافتِ ثانیہ کے شروع میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ کا ایک مضمون شائع ہواجس میں لکھا تھا کہ جب تکبیر شروع ہوجاوے تو سنتیں پڑھنے والا خواہ وہ آخری تشہد ہی پڑھ رہا ہو سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوجائے۔ میں نے جب میر صاحب کا مضمون پڑھا تواُن سے عرض کیا کہ آپ کا یہ مسلک سلسلہ کے طرزِ عمل اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استدلال کے خلاف ہے اورفقہاء نے بھی آپ کے خلاف لکھا ہے ۔ اس پر آپ خاموش ہوگئے۔ پھر میں نے مفتی سلسلہ مولوی محمدسرور شاہ صاحب سے دریافت کیا توانہوں نے بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا طرزِ عمل فقہاء والا ہی بتایا۔اس کے بعد اس اختلاف کاذکر میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے کیاتو آپ نے بھی مولوی محمد سرورشاہ صاحب کی تائید فرمائی۔
(حیاتِ بقا پوری صفحہ 222 ، 223 نیا ایڈیشن )
سنتیں پڑھنے کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا معمول
حضرت شیخ یعقوب علی ؓصاحب عرفانی روایت کرتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول شروع سے یہ تھا کہ آپ سُنن اور نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ التزام آپ کاآخر وقت تک رہا ۔ البتہ جب کبھی فرض نماز کے بعد دیکھتے کہ بعض لوگ جو پیچھے سے آکر جماعت میں شریک ہوئے ہیں اورابھی انہوں نے نماز ختم نہیں کی اور راستہ نہیں ہے تو آپ مسجد میں سنّتیں پڑھا کرتے تھے۔یا کبھی کبھی جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سُنن مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عام عادت تھی ایک زمانہ میں بعض طالب علموں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید سُنن ضروری نہیں ۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے 27 ذی الحجہ 1326 ہجری کے درس قرآن مجید میں فرمایا:۔
’’ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعدفوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر میں بھی کرتا ہوں ۔ اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فورًا مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم ہوجاتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) اندر جاکر سب سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے ۔ ایسا ہی میں بھی کرتا ہوں۔ کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے۔ اس پر صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب جو حسب العادت مجلس درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا بے شک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں جاکر فرض ادا کرکے گھر میں آتے تو فوراً سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اور نماز سنت پڑھ کر پھر اورکوئی کام کرتے۔ ان کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب نے بھی یہی شہادت دی اوران کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحاق صاحب نے اور پھر حضرت اقدس (علیہ السلام )کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحب (آج مرحوم) نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا۔ (ایڈیٹر)
(سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ65تا67)
مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز
پیل پایوں کے بیچ میں کھڑے ہونے کاذکر آیا کہ بعض احباب ایسا کرتے ہیں۔ فرمایا
اضطراری حالت میں تو سب جائز ہے ۔ ایسی باتوں کا چنداں خیال نہیں کرنا چاہئے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق خلوص دل کے ساتھ اسی کی عبادت کی جائے۔ ان باتوں کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا۔ (بدر 13فروری 1908ء صفحہ10)
طلوعِ فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں
ایک شخص کاسوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ نمازِ فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے توجائز ہے یا نہیں؟فرمایا
نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دورکعت سُنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز نہیں ہے۔ (بدر7فروری 1907ء صفحہ4)
امام کے سلام پھیرنے سے قبل سلام پھیرلینا
نماز مغرب میں آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے پیش امام صاحب کی آواز آخری صفوں تک نہ پہنچ سکنے کے سبب درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسبِ معمول تکبیر کا بآواز بلند تکرار کرتا جاتا تھا۔ آخری رکعت میں جب سب التحیات بیٹھے تھے اور دعائے التّحیات اور درودشریف پڑھ چکے تھے اور قریب تھا کہ پیش امام صاحب سلام کہیں مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکبّر کو غلطی لگی اور اس نے سلام کہہ دیا جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہہ دیا اور بعض نے سُنتیں بھی شروع کردیں کہ امام صاحب نے سلام کہا اور درمیانی مکبّر نے جو اپنی غلطی پر آگاہ ہوچکا تھا دوبارہ سلام کہا۔ اس پر ان نمازیوںنے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فار غ ہوچکے تھے مسئلہ دریافت کیا کہ آیا ہماری نماز ہوگئی یا ہم دوبارہ نماز پڑھیں؟
صاحبزادہ میاں محموداحمدصاحب نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے تھے فرمایا کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کیا جاچکا ہے اور حضرت نے فرمایا ہے کہ :۔
آخری رکعت میں التّحیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہوجائے تو مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے۔ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
بآواز بلند اپنی زبان میں دُعا
ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور امام اگر اپنی زبان میں (مثلًا اُردو میں) بآواز بلند دُعا مانگتا جائے اورپچھلے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیا کرو۔ فرمایا:۔
دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے تو فرمایا
تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً (الاعراف:۵۶) اور دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ (الاعراف:۲۰۶)
عرض کیا کہ قنوت تو پڑھ لیتے ہیں۔ فرمایا:۔
ہاں ادعیۂ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جاویں۔ باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں۔
(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
جھرًا دعائیں پڑھنا
حضرت مفتی محمدصادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
جب ابتدا میں مَیںقادیان گیا اور مسجد مبارک میں صرف تین چار نمازی ہوا کرتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب مرحوم نماز پڑھایا کرتے تھے۔ جب حضرت مولوی نورالدین ؓصاحب ہجرت کر کے ۔۔۔ قادیان آگئے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُنہیں اپنی مساجد میں پیش امام بنایا اور وہی نمازیں پڑھاتے رہے۔ لیکن اُس کے بعد جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓمرحوم بھی ہجرت کرکے قادیان آگئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓنے انہیں نماز کے واسطے آگے کردیا اورپھر جب تک وہ زندہ رہے وہی پیش امام رہے۔ لیکن گاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام طبیعت کی کمزوری کے سبب مسجد مبارک میں ہی جمعہ بھی پڑھ لیتے تھے اور چونکہ مسجد مبارک میں سب لوگ سما نہ سکتے تھے۔ اس واسطے جمعہ مسجد اقصیٰ میں بھی بدستور ہوتا اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ جمعہ پڑھاتے تھے اور مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبدالکریم ؓصاحب جمعہ پڑھاتے تھے اور گاہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ باہر گئے ہوئے ہوتے اور حضرت مولوی محمد ؐ احسن صاحب قادیان میں موجود ہوتے تو مسجد مبارک میں وہ جمعہ پڑھاتے۔ جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم ہجرت کرکے قادیان چلے آئے تو وہی پیش امام نماز کے ہوتے رہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم اپنی قراء ت میں ہمیشہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے بالجہر پڑھتے تھے اور فجر اور مغرب اور عشاء کی آخری رکعت میں بعد رکوع عمومًا بلند آواز میں بعض دُعائیں مثلًا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ اور رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا الخ اور اَللّٰہُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ الخ اوراَللّٰہُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ بِالْاِمَامِ الْحَکَمِ الْعَادِلِ وغیرہ پڑھاکرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی عدم موجودگی میں جب کہ وہ سفر پر ہوں یا نماز میں کِسی وجہ سے نہ آسکیں ۔ مولوی حکیم فضل الدین صاحبؓ مرحوم اورگاہے عاجز راقم کو یا کسی اور صاحب کو امامت کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حکم فرماتے تھے۔ حضورؑ خود کبھی پیش امام نہ بنتے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات کے بعدحضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول ؓ ہمیشہ پیش امام رہے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 22،23)
سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھناکیوںمنع ہے؟
سوال:۔ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے جبکہ سجدہ انتہائی تذلل کا مقام ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:۔
میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدہ کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قراردیا ہے۔
اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل میں معقول قرارنہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے۔
امام مالکؒ کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا سمندر میں سؤر بھی ہوتا ہے کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ آپ نے فرمایا سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سؤر حرام ہے۔ اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا میں اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سؤر حرام ہے۔ یہی جواب میں دیتا ہوں کہ سجدہ بے شک تذلل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعائیں سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں۔
دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ ہی آئے۔ (الفضل16؍اپریل1944ء صفحہ2-1)
الہامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا
آج جومجھے خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں (مراد ہے رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِی وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ناقل) میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کو نماز میں دعا کے طورپر پڑھا جاوے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کردئیے ہیں۔
(البدر 12دسمبر1902ء صفحہ54کالم3)
الہامی دعائیں واحد متکلم کے صیغہ کو بصورت جمع پڑھنا
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا جس میں سوال تھا کہ دعاالہامیہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِی وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کوصیغہ جمع متکلم میں پڑھ لیا جاوے یا نہ۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
اصل میں الفاظ تو الہام کے یہی ہیں (یعنی واحد متکلم میں ہیں۔) اب خواہ کوئی کسی طرح پڑھ لیوے۔قرآن مجید میں دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں۔
واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ (نوح:۲۹) اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ:۲۰۲) اوراکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے جیسے اس ہماری الہامی دعا میں فَاحْفَظْنِیْ سے یہی مُراد نہیں ہے کہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے متعلقات اورجو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں جیسے گھربار، خویش و اقارب، اعضاء اور قویٰ وغیرہ۔
(البدر26دسمبر1902ء صفحہ69 )
حالات کے مطابق دعا کے الفا ظ میں تبدیلی
میر ناصر نواب صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ والی جوالہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلم کے جمع متکلم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو حرج تو نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا
’’کوئی حرج نہیںہے۔‘‘
(البدر 19دسمبر1902ء صفحہ58 )
قرآنی دعاؤں میںتبدیلی مناسب نہیں
ایک دوست کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں بعض دعائیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہیں یعنی انسان کے اپنے واسطے ہی ہوسکتی ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شامل کرلیا کروں اس میں کیا حکم ہے؟
فرمایا:۔
جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں ان میں کوئی تغیر جائز نہیں کیوں کہ وہ کلام الٰہی ہے وہ جس طرح قرآن شریف میں ہے اسی طرح پڑھنا چاہیئے ۔ ہاں حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں۔ ان کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحدکی بجائے صیغہ جمع پڑھ لیا کریں۔
(بدر4؍اپریل 1907ء صفحہ6)
دعا میں رقّت پیدا کرنے والے الفاظ کا استعمال
دعاکے متعلق ذکر تھا،فرمایا:۔
دعا کے لئے رِقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دُعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ اُن کو جنتر منترکی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔ اتباعِ سنّت ضروری ہے ، مگر تلاشِ رقّت بھی اتباعِ سُنَّت ہے۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعا کرو۔ تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو۔ الفاظ پرست مَخذُو ل ہوتا ہے ۔ حقیقت پرست بننا چاہئے۔ مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہئے۔ مگرحقیقت کو پاؤ۔ ہاں جس کو زبانِ عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے۔
(الحکم 10ستمبر1901ء صفحہ9 )
وتر کیسے پڑھے جائیں
ایک صاحب نے سوال کیا کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں۔ اکیلا بھی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:۔
اکیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔ وتر تین ہیں خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو۔ خواہ تینوں ایک ہی سلام سے درمیان میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو۔ ایک وتر ٹھیک نہیں۔ (الحکم 10؍اپریل 1903ء صفحہ14)
بہتر ہے اوّل وقت وتر پڑھ لیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھا اور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میں نے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضورؑ عشاء کی نماز کے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے۔ تب حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں ۔‘‘ یعنی نماز عشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ172)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وتر پڑھنے کا طریق
سوال:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وتر دورکعت پڑھ کر سلام پھیرتے تھے یا تین پڑھ کر؟
اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:۔
’’ عمومًا دو پڑھ کر۔ ‘‘مولوی سید سرورشاہ صاحب نے کہا جس قدر واقف لوگوں سے اور روایتیں سنی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے پھر ایک پڑھتے۔
(الفضل12؍جون1922ء صفحہ7)
وتر اور دعائے قنوت
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی روایت کرتے ہیں کہ
ایک روز میں نے حضرت اقدس سے پوچھا وتر کی کتنی رکعت ہیں اور کس طرح پڑھنا چاہئے فرمایا وتر تو ایک ہی رکعت ہے ۔ وتر ایک کو کہتے ہیں لیکن ایک رکعت جائز نہیں ہے۔ اس لئے دو رکعت نفل اور اس کے ساتھ لگا دی گئی ہیں اور دو طریق سے پڑھنے چاہئیں ۔ ایک طریق کہ جس طرح حنفی پڑھتے ہیں اور دوسرا طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کے سلام پھیردے اور ایک رکعت چپکے سے اُٹھ کر پڑھ لے۔
پھر میں نے عرض کیا کہ قنوت پڑھنی چاہئے فرمایا ہاں ضرور پڑھنی چاہئے۔پھر میں نے عرض کیا کہ بعض مولوی اس دعائے قنوت کو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں فرمایا وہ بڑی غلطی کرتے ہیں یہ دعا ئے قنوت اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِی عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَ نَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ بڑی عجیب اور توحید کی بھری ہوئی دعا ہے ایسے الفاظ توحید کے سوائے اس سید المرسلین سید المؤحدین صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے سے ادا نہیں ہوسکتے ہیں اور یہ خاص الٰہی تعلیم ہے ان پاک الفاظ کے بھی قربان اوراس منہ کے بھی قربان جس منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ 116)
تہجد کی نماز کا طریق
عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعاملِ اہلِ اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیا کرتے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیاکہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نورالدین صاحب یہ امر تحقیق کے لئے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمان علیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا۔
میرا یہ ہر گز مذہب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کرفقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بَس۔ مَیں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگرکوئی شخص بیمارہو یا کوئی اَور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کرسکے تو وہ اُٹھ کر استغفار ، درود شریف اورالحمدشریف ہی پڑھ لیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نوافل ادا کرتے، آپ کثرت سے گیارہ رکعت پڑھتے آٹھ نفل اور تین وتر۔ آپ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اورپھراُٹھتے اوردورکعت پڑھ لیتے اور سو جاتے ۔ غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گذر رہی ہے۔ (البدر 16نومبر1903ء صفحہ335)
تہجد کا اوّ ل وقت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضور سے کسی نے سوال کیا یا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لئے اول وقت اُٹھنا چاہئے نہ کہ عین صبح کی نماز کے ذرا قبل۔۔۔۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول وقت سے رات کا حصہ مراد نہیں بلکہ تہجد کے وقت کا اول حصہ مراد ہے یعنی نصف شب کے جلد بعد۔ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ تہجد ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ لمبی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو صبح کی اذان سے قبل کسی قدر استراحت کا موقعہ مل جاتا تھا لیکن نوجوان بچے اگر تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی اذان سے کچھ وقت پہلے بھی اُٹھ لیا کریں تو ہرج نہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ671،672)
ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا
ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہوتا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے۔ جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں ۔ ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا۔ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کرسکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفا کی۔
(البدر19جون1903ء صفحہ169)
نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں
مکرم میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے نام مکتوب میں آپؑ تحریرفرماتے ہیں:۔
اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اورادِ معمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے ۔ جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں تہجد کے فوت ہونے پر یاسفر سے واپس آکر پڑھنا ثابت ہے۔ لیکن تعبّد میں کوشش کرنا اورکریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے وَاذْکُرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الجمعہ:11) (مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ528)
تعداد رکعات
پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعت کیوں رکھی ہے؟ فرمایا:۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں۔جو شخص نماز پڑھے گا۔وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔
دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔پس یاد رکھو کہ کامل بندے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔
لَا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ (النور : ۳۸)
جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں۔وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔ (الحکم 24جون1904ء صفحہ1 )
نماز کے بعد تسبیح
ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر33 مرتبہ اﷲ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے۔آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا :۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وعظ حسبِ مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کر نے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انھوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے؛ حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی ۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کردیا جاوے یہی نیکی ہے ۔ایسا نہیں، اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔
وَاذْکُرُوْااللّٰہَ کَثِیْرًالَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال:۴۶)اﷲتعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم فلاح پائو۔ اب یہ وَاذْکُرُوْااللّٰہَ کَثِیْرًا نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ توکثیرکے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ 33مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے، ورنہ جو شخص اﷲتعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔
ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟
درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھاگیا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ و سلم نے جو 33مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی۔ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا توآپؐ نے اسے فرما دیا کہ33 مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔ وہ تو اﷲتعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ (الحکم 24جون 1904ء صفحہ1)
غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز کیسے پڑھیں
مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؓ لکھتے ہیں کہ
قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے سنایا کہ سردار فضل حق صاحبؓ ساکن دھرم کوٹ کے اسلام لانے کا واقعہ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ جب سردار صاحب عید کے دن قادیان آکر مسلمان ہوئے اوراس کے بعد کچھ دن قادیان ٹھہرے تھے۔ ان کے دیگر رشتہ دار اس عرصہ میں چڑھائی کرکے آئے اوران کو اسلام سے ہٹا کر واپس سکھ مت میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔ چنانچہ ایک دن ایک جتھ سکھوں کا آیا۔جس میں بوڑھے بوڑھے اور اپنے مذہب کے واقف لوگ بھی تھے۔اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں فروکش تھے۔ وہ لوگ بھی مسجد مبارک میں ہی آگئے۔ اور غیظ وغضب سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے شروع کردئیے۔ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ مرجا جی!ہمیں یہ بتاؤ کہ جس ملک میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے۔ وہاں مسلمان کیا کریں گے ۔ یہ سوال انہوں نے اپنے خیال میں عقدئہ لا ینحل سمجھ کر پیش کیا۔ لیکن حضرت اقدس ؑ نے نہایت آسانی کے ساتھ فورًا جواب دیا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو انسانی طاقت سے باہر ہو۔ لہٰذا اگر انسان چھ مہینے کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔ تو نہ رکھے۔اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔ رہا نماز کے وقتوں کا سوال۔ سو آج کل تو گھڑیوں کے ذریعہ نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں اور دن اور رات کا اندازہ بھی اس مقام پر شرق اور غرب کے لحاظ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس پر وہ سکھ خاموش اور لاجواب ہوگئے اورجو اعتراض کا پہاڑ بناکر وہ لائے تھے۔ وہ حضور ؑ نے ذرا سی پھونک سے ہی اُڑا دیا۔
(اصحابِ احمد جلد6صفحہ112،113 روایت قاضی ضیاء الدین صاحب ۔نیا ایڈیشن )
نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف ہوجاتی ہیں
سوال :۔ نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں پڑھنی چاہئیں یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پہلے تو اس بات کے متعلق علماء میں اختلاف تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے ہم نے جو کچھ تواتر سے دیکھا ہے اورپوچھنے والوں کے جواب میں آپ نے ہمیشہ جو کچھ فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ نمازیں جمع کرنے کی صورت میں فرضوں سے پہلی سنتیں بھی اوربعد کی سنتیں بھی معاف ہوجاتی ہیں۔
سوال:۔ اگر نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جائے تو کیا پھر بھی سنتیں معاف ہیں؟
جواب:۔ نماز جمعہ سے قبل جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ دراصل جمعہ کے نفل ہیں اور جمعہ کے ساتھ مخصوص ہیں اس لئے نماز جمعہ سے قبل سنتیں بہرحال پڑھنی چاہئیں۔
(الفضل 14اکتوبر1946ء صفحہ4)
حضرت مفتی محمدصادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
غالبًا یہ واقعہ مارچ ۱۸۹۹ئ؁؁ کا ہے جبکہ مَیں لاہور سے چند روز کے واسطے قادیان آیا ہوا تھا۔ چونکہ مَیں اُس کمرے میں ٹھیرایا گیا جو مسجد مبارک اورحضرت مسیح موعود ؑ کے کمرے کے درمیان ہے ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نمازوں کے واسطے اُسی کمرے میں سے گذر کر آتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ دروازہ کھولتے اور مجھے کوئی شَے کھانے کی دے جاتے۔ مثلًا آم یا کوئی اَور شَے ۔ عاجز کے حا ل پر حضور ؑ کی نہایت مہربانی اور شفقت تھی۔
انہیں ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:۔کہ آج نماز ظہروعصر ہر دو جمع کرکے پڑھی جائیں گی۔(عمومًا ایسی جمع کے دن ظہر کی نماز اپنے وقت سے ذرا پیچھے اور عصر اپنے وقت سے قبل پڑھی جاتی تھی ۔ یا عصر کو ظہر کے وقت ساتھ ملا لیا جاتا تھا۔ یا ظہر میں دیر کرکے ہر دو نمازیں عصر کے وقت پڑھ لی جاتی تھیں) مَیں چار رکعت سنت پڑھنے کے واسطے اُسی کمرے میں کھڑا ہوا۔ جیسا کہ ظہر کی نماز کے چار رکعت فرض سے قبل سنّتیں پڑھی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ اپنے کمرے میں ہی وضوء کرکے اور پہلی سنتیں پڑھ کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر پچھلی دو رکعت سنّت عمومًا مسجد ہی میں پڑھا کرتے تھے اور اس کے بعد تھوڑی دیر کے واسطے وہیں مسجد میں خدام کی ملاقات اوربات چیت کے واسطے بیٹھ جایا کرتے تھے۔
غرض مَیں چار رکعت سنّت کی نیّت کرکے ابھی کھڑا ہی ہوا تھا اور چند احباب اوربھی کمرے میں تھے کیونکہ مسجد مبارک میں کمی گنجائش کے سبب بعض احباب ساتھ کے کمروں میں نماز میں شامل ہوجاتے تھے۔ حضرت صاحب ؑ نے مسجد جانے کے واسطے دروازہ کھولا۔ جب میرے پاس سے گذرنے لگے اورمجھے سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا۔ نماز جمع ہوگی سُنتوں کی ضرورت نہیں۔ یہ فرماکر آگے کو بڑھے اور پھر پیچھے پھر کر دیکھاکہ مَیں نماز میں مشغول تھا۔ تو پھر فرمایا۔ کہ نماز جمع ہوگی سنتیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ فرماکرمسجد کے اندر داخل ہوگئے اور میں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر دیا اورسنتیں نہیں پڑھیں۔ جتنے آدمی کمرے میں موجود تھے۔ اُن سب پر اس بات کا خاص اثر ہوا کہ حضرت صاحب ؑ نے نماز کے جمع ہونے کے وقت سنتوں کا پڑھا جانا پسند نہیں فرمایا۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ63،64)
نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنامناسب نہیں
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سُورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کیا ایسا کرسکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کرلیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اُٹھالیں۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا: ۔
’’اِس کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ چند سورتیں یاد کرلیں اور وہی پڑھ لیا کریں۔ ‘‘
( ذِکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 174 )
امام وقت کے بلانے پر نماز توڑنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی ۔ میں نماز توڑ کرحضرت کے پاس چلا گیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز توڑ کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا کیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت عمومًا اس کمرہ میں نشست رکھتے تھے اور اسی کی کھڑکی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ163)
ضرورتًا نماز توڑنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام درمیان میں سے نماز توڑکرکھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے اور جو حصہ نماز کا رہ گیا تھا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔ یہ معلوم نہیں کہ حضوربھول کر بے وضو آگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ783)
سخت مجبوری میں نماز توڑناجائز ہے
افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس کیا گیا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لئے فرمایا)کیونکہ اگر اس کے التواسے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضررپہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اورنماز فاسد نہیں ہوتی ، بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کھُل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے کیونکہ وقت کے اندر نما ز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔
نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اشد ضرورتوں کے لئے نازک موقع پر یہ حُکم ہے۔ یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں بنادیا جاوے ورنہ نماز میں اشغال کی سخت ممانعت ہے اوراللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے۔ (البدر 24نومبر1904ء صفحہ4)
جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے
(حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی مجلس میں) ذکر تھا کہ امیر کابل اجمیر کی خانقاہ میںبوٹ پہنے ہوئے چلا گیا تھا اور ہر جگہ بوٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی اور اس بات کو خانقاہ کے کارندوں نے بُرا منایا۔حضرت نے فرمایا
’’اس معاملہ میں امیر حق پر تھا جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعًا جائز ہے۔‘‘
(بدر11اپریل 1907ء صفحہ3)
پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ605،606)
عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پرگیا۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اوررکوع و سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالبًا مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضورؑنے فرمایا اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔ وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ122)
نماز میں عورتوں کی الگ صف
حضرت میر محمداسحاق صاحب ؓ فرماتے ہیں :۔
بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب و عشا ء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں۔میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا۔ عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔
(ماہانہ الفرقان ستمبر، اکتوبر1961ء صفحہ49)
نماز میں مجبورًاعورت کو ساتھ کھڑا کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھاکہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المومنین کواپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کرلیتے حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے ۔ مَیں نے حضرت ام المومنین ؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہوکر چکر آجایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھ لیا کرو۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ636،637)
امام کاجھرًا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طورپرامام صلوٰۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجہر نمازوں میں بسم اللہ بالجہر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر خود آپ کااپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکثر اختیار کیا ہے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ735)
نمازوں میں قنوت کی دعائیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور صبح او رمغرب اورعشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔ قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں۔ آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔ جو دُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں ان کو بیان کردیتا ہوں۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار (البقرہ :۲۰۲)
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلٰی رُسُلِکَ ۔۔۔۔۔۔ (اٰل عمران:۱۹۵)
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
(الاعراف :۲۴)
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا ( الفرقان :۷۵)
رَبَّنَا لَاتُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔(البقرۃ:۲۸۷)
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَاماً۔۔۔ (الفرقان:۶۶)
رَبَّنَا افْتَحْ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْْرُ الْفَاتِحِیْنَ (الاعراف:۹۰)
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (یونس :۸۶)
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْْتَنَا (اٰل عمران:۹)
رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُّنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا
( اٰل عمران:۱۹۴)
اَللّٰہُمَّ اَیِّدِالْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ بِالْاِمَامِ الْحَکَمِ الْعَادِلِ
اَللّٰہُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ
مُحَمَّدٍ وَّلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ804،805)
مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا
فرمایا:۔
’’آج کل چونکہ وباکا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہئے۔ ‘‘
(البدر یکم مئی 1903ء صفحہ115کالم 2)
فرمایا:۔
قرآن شریف کا منشاء یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی۔اس سے بیشتر کہ عذابِ الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کردے توبہ کرو۔جبکہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سر پر آپڑے تو پھر اس کا مزہ چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہئے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اورپانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملادیں۔ ہرایک قسم کی خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کریں۔ (الحکم 24جولائی 1901ء صفحہ1،2)
نمازکے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا
حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب تحریر کرتے ہیں کہ
ہندوستان میں عمومًا مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ نماز کے اندر تکبیر اولیٰ کے بعد اور سلام پھیرنے سے قبل سوائے مسنون دعاؤں کے جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور کوئی دعا اپنی زبان اُردو یا فارسی یا انگریزی وغیرہ میں کرنا جائز نہیں ہے اور عمومًا لوگوں کی عادت ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد پھر ہاتھ اُٹھاکر اپنی زبان میںدُعائیں کرتے ہیں اوراپنے دلی جذبات اورخواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بارہا فرمایا کہ’’نماز کے اندر سجدہ یا رکوع کے بعد کھڑے ہوکر یا کسی دوسرے موقعہ پر مسنون دعا کہنے کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے ۔کیونکہ اپنی زبان میں ہی انسان اچھی طرح اپنے جذبات اوردِلی جوش کا اظہار کرسکتا ہے۔کِسی نے عرض کی کہ مولوی لوگ تو کہتے ہیں کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ فرمایا’’ اُن کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دُعا خواہ کسی زبان میں کی جائے۔ اِس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ ‘‘ فرمایا:۔
جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ اور تخت کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوا لی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کرکے چلا آیا اور دربار سے باہر آکر شاہی محل کے باہر کھڑے ہوکر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے۔ اُسے چاہیے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا۔ ‘‘ فرمایا:۔ ’’ ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دُعا نہیں کرتے اور نماز کے خاتمہ کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُس شخص کی طرح ہے جس نے اکّے کی چوٹی کو اُلٹا کر زمین پر رکھا اورپیّے اُوپر کی طرف ہوگئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اُس اِکّے کو کھینچے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 197،198)
نماز میںاپنی زبان میں دُعاکرنا جائز ہے
فرمایا:۔
یہ ضروری با ت نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبان میں کی جاویں، چونکہ اصل غرض نماز کی تضرّع اورابتہال ہے، اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے۔ انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص اُنس ہوتا ہے اورپھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے ۔ دُوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل ہو اور مہارتِ کامل ہو، ایک قسم کی اجنبیّت باقی رہتی ہے۔اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دُعائیں مانگے۔
(الحکم 24دسمبر1900ء صفحہ2)
ایک اور موقعہ پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں۔ چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ نماز کے اندر دعائیں مانگے، کیونکہ اُس کا اثر دل پر پڑتا ہے تاکہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو۔ کلامِ الٰہی کو ضرورعربی میں پڑھواور اس کے معنی یاد رکھو اور دُعا بے شک اپنی زبان میں مانگو۔ جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دُعائیں کرتے ہیں ۔ وہ حقیقت سے ناآشنا ہیں۔ دُعا کا وقت نماز ہے۔ نماز میں بہت دعائیں مانگو۔ ‘‘
(الحکم 24مئی1901ء صفحہ9)
نماز میں مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میںبھی دعا کرو
فرمایا :۔
نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پُورا جوش پیدا ہوتا ہے ۔ سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے ۔ وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہئے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہئے۔ اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں۔لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تاکہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضورِ دل نہیں وہ نماز نہیں۔ آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگیدار پڑھ لیتے ہیں جلدی جلدی نمازکو ادا کر لیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے، پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں۔ یہ بدعت ہے ۔ حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دُعا کی جائے۔ نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ نماز خود دُعا ہے۔ دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں۔ نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے۔ رکوع میں بعد تسبیح۔سجدہ میں بعد تسبیح۔ التحیات کے بعد کھڑے ہوکر ۔ رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تاکہ مالا مال ہو جاؤ۔ چاہیے کہ دعا کے وقت آستانہ الوہیت پر رُوح پانی کی طرح بَہہ جائے۔ ایسی دُعا دل کو پاک و صاف کردیتی ہے ۔ یہ دُعا میسر آوے، تو پھر خواہ انسان چارپہر دُعا میں کھڑا رہے گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعائیں مانگنی چاہئیں۔ دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہوجاتی ہے۔ بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ غلط خیال ہے ۔ ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 202،203)
ایک اور موقعہ پر سوال ہوا کہ نماز کے بعد دُعا کرنی یہ سُنّتِ اسلام آئی ہے یا نہیں ؟ فرمایا:۔
ہم انکار نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اُتارتے ہیں ۔ پھر دُعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع و خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو مِیل تک نکل جاوے ۔ بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے ۔ خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے ۔ وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دُعا مانگتے ہیں۔ اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں۔انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگ سکتا ہے ۔
(البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114 )
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرواناچھوڑ دیا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک کے شروع میں حضرت مولوی عبدالکریم ؓ صاحب نماز کے بعدہاتھ اُٹھاکردعا کراتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہاتھ اُٹھاکر دعاکر لیا کرتے تھے۔لیکن بعد میں آپ ؑنے نہایت نرمی کے ساتھ یہ مسئلہ سمجھادیا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایسا کرناچھوڑ دیا۔اس حوالے سے حضرت پیر افتخاراحمدصاحب لدھیانوی کی مندرجہ ذیل روایت قابلِ غور ہے ۔وہ لکھتے ہیں:۔
خدا کی مہربانی سے مجھے وہ وقت یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرماتھے ہم خدام بیٹھے ہوئے تھے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی تھے جبکہ حضور نے نماز کے اندر دعا کرنے کے متعلق تقریرفرمائی۔ جس کا مطلب میری عبارت میں یہ ہے کہ یہ رسم پڑ گئی ہے کہ نماز کے اندر دعا نہیں کرتے ۔ نماز کو بطور رسم وعادت جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں اورجب سلام پھیرچکتے ہیں تو لمبی لمبی دعائیں بڑی تضرّع سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ نماز کے اندر دعا چاہئے۔نماز خود دعا ہے ،نماز اس لئے ہے کہ بندہ اس میں اپنے رب سے دین دنیا کے حسنات طلب کرے اس کی مثال یہ ہے کہ جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اپنی کوئی حاجت پیش نہ کی اور جب دربار سے رخصت ہوکر باہر آئے تو درخواست کرنی شروع کردی۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پنجگانہ کی جماعت کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کیا کرتے تھے۔ حضورعلیہ السلام کی اس تقریر سے پہلے برابر پانچ وقت کی جماعت کے بعد بالالتزام ہاتھ اُٹھاکر دعا کی جاتی تھی۔ امام نماز حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ ، حضرت اقدسؑ، سب مقتدی نماز فرض کا سلام پھیر کر ہاتھ اُٹھاکردعا کیا کرتے تھے ۔ مجھے اس طریق پر سب کا مل کر ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا یاد ہے ۔ کیونکہ میں بھی سب کے ساتھ ہاتھ اُٹھاکر دعا کیا کرتا تھا۔ اس تمام تقریر میں حضرت اقدس نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کواس بات کا اشارہ تک بھی نہیں کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں یا آئندہ ایسا نہ کیا کریں۔ لیکن حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے جس وقت حضور کی یہ تقریرسُنی اس کے بعد نماز کے سلام کے بعد ہاتھ اُٹھاکردعاکرنی چھوڑدی۔ اور اس وقت سے یہی طریق جاری ہے ۔
(افتخارالحق از حضرت صاحبزادہ افتخاراحمدصاحب لدھیانوی صفحہ494،495)
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکردعا کرنا بدعت ہے
مسئلہ پوچھا گیا کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں،لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے۔اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :۔
اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیںاور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے۔بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندو ستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں۔گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے،جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق،اُنس اور سرور بڑھتا ہے۔مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اوربے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں،بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی،بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں؛حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الْاَدْعِیَہ: اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ دعا مانگی جاتی ہے۔انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتاجب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے۔ اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اقام الصلٰوۃ کرتے ہیں۔تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں۔ نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اُسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی۔اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا۔ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے۔اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی ا سے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا۔
مومن کو بے شک اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔مگر نماز کے بعد جو دعاؤںکا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے۔بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے۔میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوار و، یہ بھی دعا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں۔پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا۔اس کایہی سبب ہے کہ وہ ، وہ نماز پڑھتے ہیںجس پر خدا تعالیٰ *** بھیجتا ہے ایسی نمازوں کے لیے ویل آیا ہے۔دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے اس کوپھینک دینا چاہیے۔ہرگز نہیں۔اول اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوںکو بھی سنبھالے۔اس لیے نما زکو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے۔
سائل : الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں ۔ان کو تو دعا مانگنی چاہیے۔
حضرت اقدس : ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو۔سوائے قرآن شریف کے جو رب جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے ،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھیںنماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو۔اس لیے ہر شخص کہ جو عربی زبان نہیں جانتاضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعائوں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے۔ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں۔اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نمازکے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں۔اور ہم بھی کر لیتے ہیں،اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں۔مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے۔اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ رب العزۃ میں عرض کرنا چاہیے۔میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نما زکا تعہد کرو۔جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو۔فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طُول دو۔اور چاہیے کہ اس میں گریہ وبکا ہو،تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے۔نماز ایسی شے ہے کہ سیّئات کو دور کر دیتی ہے۔جیسے فرمایا اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ (ھود:۱۱۵)نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے۔حسنات سے مراد نما زہے،مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے،کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں۔یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے،کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا۔نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا۔آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پا س جاتاہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے۔اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے۔کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے۔پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیںاور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا۔میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نما زکو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے۔مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نما زپڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور روبہ دنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں۔اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے۔اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے۔طبیعتیں دو قسم کی ہیں۔ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں۔جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چھو جاوے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا۔زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیںاور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں۔جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔یہ بدعت نہیں۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی ہوئیں۔لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی۔اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے۔ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا۔اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے،لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے۔یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں ۔یہ قرب کی کنجی ہے۔اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں۔یہ دعائوں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتاتو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے۔جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں۔ہم دعائوں سے انکار نہیں کرتے۔بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعائوں کی قبولیت پر ایمان ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن :۶۱)فرمایا ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایااور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے۔آپ سے التزام ثابت نہیں ہے۔اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی۔تقاضائے وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپؐ کا سارا ہی وقت دعائوں میں گزرتا تھا۔لیکن نماز خاص خزینہ دعائوں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرلے اور اس کی طرف توجہ نہ کرے کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے۔اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نما زپڑھتا ہے تو پھر خارج نماز میں بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے۔ہم تقدیم نما زکی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے۔مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے۔اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بُعد ہو گیامومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے،کیونکہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اقرار،استغفار،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ۔غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔موجود ہیں۔ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے۔بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں۔مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں۔کہتے جاتے ہیں۔جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں۔ (الحکم 24؍اکتوبر 1902ء صفحہ11،12)
عربی کی بجائے کسی اور زبان میں نما زپڑھنا درست نہیں
سائل : ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نما زاپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے۔
حضرت اقدس ؑ: وہ اور طریق ہوگا،جس سے ہم متفق نہیں۔قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور رب جلیل کا کلام ہے۔اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ہم نے تو ان لوگوں کے لیے دعائوں کے واسطے کہا ہے،جو اُمّی ہیںاور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کرسکتے ان کو چاہیے۔کہ اپنی زبان میں دعا کر لیں۔ان لوگوں کی حالت تو یہانتک پہنچی ہوئی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ فتح محمد ایک شخص تھا۔اس کی چچی بہت بڈھی ہو گئی تھی۔اس نے کلمہ کے معنے پوچھے تو اس کو کیا معلوم تھا کہ کیا ہیں۔اس نے بتائے تو اس عورت نے پوچھا کہ محمدؐ مرد تھا یا عورت تھی۔جب اس کو بتایا گیا کہ وہ مرد تھا،تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی کہ پھر کیا میں اتنی عمر تک بیگانے مرد ہی کا نام لیتی رہی؟یہ حالت مسلمانوں کی ہوگئی ہے۔
(الحکم 24؍اکتوبر 1902ء صفحہ12)
 
Top