• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مرقات الیقین ۔ سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نورالدین رض

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مرقات الیقین ۔ سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نورالدین رض

‏Mr.1
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم
پیش لفظ
یہ کتاب حاجی الحرمین حضرت مولوی حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے ایمان افروز حالات و واقعات پر مشتمل ہے اور یہ حالات آپ نے خود مرتب کتاب اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کو لکھوائے تھے اور ان کا ایک بڑا حصہ اس سے پہلے اخبار الحکم میں بھی شائع ہو چکا تھا-
عظیم الشان انسان
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک عظیم الشان‘ عالم باعمل اور زندہ جاوید انسان تھے- اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو نوازا- اور آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا جاں نثار خادم بننے کی سعادت بخشی-
آپ کا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کا نتیجہ تھا- حضرت اقدس اپنی کتاب >آئینہ کمالات اسلام< میں فرماتے ہیں -:
>میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب میرا کون ناصر و مددگار ہے- میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعائوں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا- اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا… اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے… جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہے- جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کی اشاعت کرنا اس خوف سے برا سمجھتا تھا کہ مبادا انہیں نقصان پہنچائے مگر میں اسے ان لوگوں سے پاتا ہوں جن کے نفسانی جذبات شکستہ اور طبعی شہوات مٹ گئی ہیں اور ان کے متعلق اس قسم کا خوف نہیں کیا جا سکتا… وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے-<
)ترجمہ ازعربی عبارت مندرجہ>آئینہ کمالات اسلام<
روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۸۱ تا۵۸۶(
اس میں شک نہیں کہ آپ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ قصر احمدیت کی پہلی بنیادی اینٹ ہیں‘ جو نہایت خوش نما اور اس قصر کے حسن و جمال کی رونق کا باعث ہے لیکن مجھے پیش لفظ میں آپ کے محاسن و فضائل اور آپ کی خدمات جلیلہ اور عظیم الشان قربانیوں کا ذکر کرنا مقصود نہیں کیونکہ یہ کتاب ان امور سے معمور ہے- مگر میں اس جگہ ایک بات کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے للہی تعلق اور اخلاص و محبت کا ذکر کرکے اور یہ لکھ کر کہ
>میں آپ کی راہ میں قربان ہوں‘ جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے<
لکھا ہے-
>دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو<
سو اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ تمنا پوری کی اور آپ کو صدیقوں کا مقام عطا فرمایا-
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے آپ کی مشابہت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے >الوصیت< میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی مثال میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پیش کی ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے جس شخص کے ہاتھ پر صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا وہ حضرت ابوبکر صدیق~رضی۱~ سے بہت سی باتوں میں مشابہت رکھتا تھا- مثلاً
۱ - حضرت ابوبکر صدیقؓ مردوں میں سے پہلے شخص تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ پر بغیر کسی تردد اور شک کے ایمان لائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں -:
>انی قلت یٰایھا الناس انی رسول اللٰہ الیکم جمیعاً فقلتم کذبت وقال ابوبکر صدقت< )بخاری کتاب التفسیر(
اور فرمایا -:
>ما دعوت احداً الی الاسلام الا کانت لہ کبوۃ و تردد و نظر الا ابابکر ماعتم عنہ حین ذکرتہ وما تردد فیہ< )ابن ہشام جلد اول(
یعنی >میں نے تم لوگوں سے کہا کہ میں تم سب کی طرف رسول ہوں تو تم نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے مگر ابوبکر نے تصدیق کی اور میں نے جس کسی کو بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے اس کے ماننے میں تردد اور شک ظاہر کیا- لیکن ابوبکر وہ شخص تھا جس نے بغیر کسی تردد اور بغیر کسی تاخیر کے اسے قبول کر لیا-<
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت الحاج الحکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ سے متعلق فرماتے ہیں -:
>انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے- تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے- اٰمنا و صدقنا فاکتبنا مع الشاھدین
)ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۲۱ (
۲ - اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں فرمایا -:
>و ما نفعنی مال احد قط مانفعنی مال ابی بکر< )ترمذی(
یعنی مجھے کسی شخص کے مال سے کبھی ایسا نفع نہیں پہنچا جیسا کہ ابوبکرؓ کے مال سے-
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب >ازالہ اوہام< میں فرماتے ہیں-
>ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں<
اور >آئینہ کمالات اسلام< میں فرماتے ہیں -:
>مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اس کے مال نے جوکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے دیا اور کئی سال سے دے رہا ہے-<
)ترجمہ از عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام- روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۸۲(
۳ - جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہؓ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ کا خلیفہ اول تسلیم کیا ویسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام اراکین جماعت نے حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کو آپ کا خلیفہ اول تسلیم کیا اور اس سے متعلق اخبار میں یہ اعلان شائع کیا-
>اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیاں جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں- اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں- جیسا کہ آپ کے شعر ~}~
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نوردیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے
سے ظاہر ہے‘ کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تھا-<
دستخط کنندگان
رحمت اللہ )مالک انگلش ویر ہائوس لاہور-( صاحبزادہ مرزا محمود احمد- مفتی محمد صادق عفی اللہ عنہ- سید محمد احسن امروہوی- سیدمحمدحسین اسسٹنٹ سرجن لاہور- مولوی محمد علی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز- خواجہ کمال الدین- ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ- خلیفہ رشیدالدین اسسٹنٹ سرجن- مرزا خدا بخش- شیخ یعقوب علی ایڈیٹرالحکم- اکبر شاہ خاں نجیب آبادی- نواب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ- ڈاکٹر بشارت احمد اسسٹنٹ سرجن وغیرہم-
اور حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اس موقعہ پر کھڑے ہو کر اس امر کی رقت آمیز اور دردمندانہ الفاظ میں تائید کی کہ ہم میں سے اب مسیح کا جانشین اور بیعت لینے کے لائق حضرت مولوی صاحب موصوف ہی ہیں-<
اور اس سے پہلے لکھا ہے -:
>جب بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر کون اس کے قابل ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس کا جانشین ہو- حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے بھی اس سے اتفاق کیا-< )بدر مورخہ ۲ جون ۱۹۰۸ئ(
اللہ تعالیٰ نے آپ کی خلافت کے ذریعہ اس سوال کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیا کہ حضرت مسیح موعود کے بعد مطابق الوصیت شخصی خلافت ہوگی یا کہ انجمن آپ کی خلیفہ ہوگی اور نئے خلیفہ کی ہر احمدی کو بیعت کرنا اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا لازمی ہوگا یا نہیں- اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے ان تمام لوگوں کی گردنوں کو‘ جو بعد میں مسئلہ خلافت مسیح موعود میں اختلاف کرنے والے تھے‘ آپ کے سامنے جھکا دیا اور انہی کے ذریعہ اور انہی کے اپنے دستخطوں سے خلافت کے متعلق ساری کارروائی تکمیل کو پہنچی اور جب آپ کے عہد خلافت میں بعض نے سرتابی کی روح کا مظاہرہ کیا تو آپ نے نہایت عزم و استقلال کے ساتھ اس روح کو کچل دیا- آپ نے احمدیہ بلڈنگس لاہور کی مسجد میں ۱۹۱۲ء میں تقریر کے دوران نہایت جلالی رنگ میں فرمایا-
>میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے- اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو- پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے- پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے-
اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے- پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمدعلی کو کہہ دیں- پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام|المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں- یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں- مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا ہے- وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزاصاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے- میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود- بشیر- شریف- نواب ناصر- نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا-
میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں- ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے- بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں۔۔۔۔۔۔ میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرماں|بردار ہے- ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرماں بردار نہیں- مگر نہیں- میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرماں بردار ہے اور ایسا فرماں بردار کہ تم )میں سے( ایک بھی نہیں- جس طرح علیؓ- فاطمہؓ- عباسؓ نے ابوبکرؓ کی بیعت کی تھی اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرماں برداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر فدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حق دار سمجھا خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہو وہ جھوٹا اور فاسق ہے- فرشتے بن کر اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو- ابلیس نہ بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خلافت کا نام نہ لو- نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے- میں جب مر جائوں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کرے گا-
>تم نے میرے ہاتھ پر اقرار کئے ہیں- تم خلافت کا نام نہ لو- مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے-< )بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ئ(
پھر آپ نے اپنے جانشین کے متعلق ان الفاظ میں وصیت کی-
>میرا جانشین متقی ہو- ہر دل عزیز‘ عالم باعمل ہو- حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک‘ چشم پوشی اور درگذر کو کام میں لاوے- میں سب کا خیر خواہ تھا وہ سب کا خیر خواہ رہے- قرآن و حدیث کا درس جاری رہے-<
یہ وصیت آپ نے مولوی محمد علی صاحب سے تین بار حاضرین مجلس کے سامنے پڑھوائی اور تصدیق کروائی مگر افسوس کہ انہوں نے اس وصیت کے برخلاف آپ کے جانشین کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اصل خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انجمن ہے اور تفرقہ کی بنیاد رکھ دی-
بہرحال اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ قدرت ثانیہ کو ظاہر فرمایا اور خلافت کی عظمت اور اس کی اہمیت اور اس کا حقیقی مقام آپ کے ذریعہ ظاہر ہوا- بے شک آپ ایک عظیم الشان انسان تھے- اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن کے ساتھ وابستہ ہو کر آپ کے بعد آپ کے خلیفہ اور جانشین ہونے کی وجہ سے تاریخ کسی طرح آپ کو نظر انداز نہیں کر سکتی- مگر بعض نادانوں نے تابع اور متبوع کے حقیقی مقام کو شناخت نہ کرنے کی وجہ سے یہاں تک لکھ دیا کہ وہ معاذ اللہ
>اپنے متبوع سے علم و تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے<
حالانکہ آپ کی تمام بڑائی اور آپ کی تمام عظمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روحانی وابستگی کی وجہ سے تھی- آپ خود فرماتے ہیں کہ میں ساری آمدنیوں کو چھوڑ کر جو دوسرے شہروں میں مجھے ہو سکتی ہیں کیوں قادیان میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں-
>اس کا مختصر جواب یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیرفانی ہے‘ جس کو چور اور قزاق نہیں لے جا سکتا- مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا- پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں- میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا‘ ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے‘ میں نہیں رہ سکتا- ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے- پس میرے دوست میرا مال میری ضرورتیں اس امام کی اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں-< )سورہ جمعہ کی تفسیر صفحہ۶۳(
اور جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے احباب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں -:
>ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو- ہم کیا اور ہماری ہستی کیا- ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے- پاکباز تھے تو پھر امام کی ضرورت ہی کیا تھی- اگر کتابوں سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی- ہمارے پاس بہت سی کتابیں تھیں- مگر نہیں‘ ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم جس قدر یہاں ہیں اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں علاج کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت پر ناراض ہونا عقل مندی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ صادق مامور ایک ہی ہے جو مسیح اور مہدی ہو کر آیا ہے- پس خدا سے مدد مانگو- ذکراللہ کی طرف آئو جو فحشاء اور منکر سے بچانے والا ہے- اسی کو اسوہ بنائو اور اسی کے نمونہ پر چلو جو ایک ہی مقتدا اور مطاع اور امام ہے-< )سورہ جمعہ کی تفسیر صفحہ۶۶(
اور اپنے ایک عربی قصیدہ میں جو >کرامات الصادقین< میں شائع شدہ ہے فرماتے ہیں -:
فواللٰہ مذ لاقیتہ زادنی الھدیٰ
و عرفت من تفھیم احمد احمدا
وکم من عویص مشکل غیر واضح
انار علی فصرت منہ مسھداً
اللہ کی قسم جب سے مجھے ان کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے انہوں نے مجھے ہدایت میں بڑھایا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب >احمد< کے سمجھانے سے ہی میں نے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو شناخت کیا ہے اور کتنے ہی نہایت مشکل اور مبہم مسائل تھے جو آپ نے مجھ پر روشن اور واضح کئے اور میں آپ ہی سے ان کی حقیقت سمجھ کر بیدار ہوا-
پس ایسے تابع شخص کے متعلق‘ جو اپنے متبوع میں فنا ہو‘ یہ کہنا کہ وہ اپنے متبوع سے علم اور تقویٰ میں بڑھا ہوا تھا- حد درجہ کی جسارت ہے-
اس کتاب کے ایک حصہ پر تاریخی نام >نوردین اعظم< لکھا ہوا ہے غالباً اس کتاب کے سن اشاعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- لیکن حقیقت کے لحاظ سے >اعظم< کے لفظ کا استعمال درست نہیں- ہم نے چونکہ نقل مطابق اصل کی ہے اس لئے اس لفظ کو رہنے دیا گیا ہے- ورنہ آپ کی تعریف جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کی ہے وہی آپ کی حقیقی تعریف ہے اور >خلیفۃ المسیح< | کا لقب آپ کے لئے سب القاب سے بڑا لقب اور سب سے بڑی فضیلت ہے-
الغرض آپ نے جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ اس امر کی بین دلیل ہے کہ آپ فنا فی المسیح الموعود تھے- یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا -:
>دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں- مولوی صاحب پہلے راست بازوں کا ایک نمونہ ہیں- جزاھم اللٰہ خیرالجزائ< )ازالہ اوہام- روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۲۲(
اور فرمایا -:
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نوردیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر یک پر از نور یقین بودے
اللہ تعالیٰ تمام فرزندان احمدیت کو آپ سا نور ایمان اور ایقان اور عرفان بخشے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- امین اللھم امین-
خاکسار
جلال الدین شمس
۱۴ / دسمبر ۱۹۶۲ء
* * *
‏Mr.2a

بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مقدمہ
از
جناب اکبر شاہ خان نجیب آبادی
رب انی ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی فانہ لایغفر الذنوب الا انت-
رب العالمین! اے خالق آسمان و زمین! اے ہوائوں کے چلانے اور بادلوں کے لانے والے! اے بادلوں سے مینہ برسانے اور پہاڑوں سے دریا بہانے والے-! اے خزاں کے بعد بہار اور خشک مردہ زمین کو اپنے ابرکرم سے گلزار بنانے والے! اے فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسراً فرمانے والے! اے رب المشرقین و المغربین! اے شہنشاہ دارین! اے احسن الخالقین! اے ارحم الراحمین! اے میرے پیارے اللہ تعالیٰ! اے کامل محبوب! اے غایت مقصود! اے کامل معبود! اے موالید ثلاثہ جمیع کائنات موجدات کے خالق! اے چرند و پرند اور ہر ذی|روح کے رازق! اے میرے مولا! اے میری روح کی راحت اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اے میرے دل کے سرور! اے میرے جسم و روح کی حفاظت کرنے والے! اے میری مرادوں کے برلانیوالے! اے میرے ماں باپ سے زیاہ محبت کرنے والے! اے پکارنے والوں کی آوازوں کو سننے اور فریادی کی فریاد کو پہنچنے والے! اے عزت و ذلت کے مالک! اے خطا کاروں کی خطائوں کو دامن عفو سے ڈھانکنے والے! اے کمزوروں کو طاقت بخشنے والے! اے میرے پیارے اللہ! او میرے پیارے! او میرے پیارے! او میرے پیارے اللہ! اللہ میاں او میرے پیارے اللہ میاں! او سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت! او سب باوفائوں سے زیادہ باوفا! اپنے دوستوں کی خاطر عزیز رکھنے والے! نوح کو طوفان سے بچانے والے! موسیٰ کو بچا کر فرعون کو غرق کرنے والے! مچھلی کے پیٹ میں سے یونس کی فریاد سن لینے والے! وکذٰلک ننجی المومنین فرمانے والے! میں بھی کہتا ہوں اور تو جانتا ہے کہ درد دل سے کہتا ہوں- لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین- text] [tagاور چھوٹوں کو بڑا بنانے والے اور ڈوبتوں کو بچانے اور گرتے ہوئوں کو سنبھالنے والے! مجھ پر بھی نظر کرم فرما- تیرا غضب تیرے رحم سے کمتر اور تیری درگذر تیری گرفت سے برتر ہے- مجھ کو مورد فضل و عطا بنا- میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کس کس چیز کی ضرورت ہے- مجھ کو نہیں معلوم کہ میرے لئے کیا مفید ہے اور کیا مضر ہے- اللہ میاں! اے میرے پیارے اللہ میاں! تو مجھ کو وہ سب کچھ عطا کر دے جو میرے لئے موجب خیر و خوبی اور میرے جسم و روح کے لئے مفید ہو- اے میرے پیارے اللہ! تو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مجھ کو بہتر سے بہتر مقامات‘ بہتر سے بہتر اسباب اور اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی و کامرانی عطا کر- اے میرے اللہ! جبکہ مجھ کو خبر ہی نہیں کہ میری بھلائی کس میں ہے- تو بتا پھر تجھ سے کیا مانگوں- ہاں تیری ہی بتائی ہوئی بات عرض ہے-
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للٰہ رب العالمین- الرحمٰن الرحیم- مالک یوم الدین- ایاک نعبد و ایاک نستعین- اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولاالضالین-
ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار- اے میرے اللہ! مجھ کو مومن اور مفلح بنا- اے میرے اللہ! مجھ کو اپنی رضا مندی کی راہوں پر چلا- اے میرے اللہ! تو مجھ کو ایسا بنا دے کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے اور ایسا خوش ہو کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو- اے میرے اللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے مجھ کو تیری کتاب اور شریعت ملی اور پھر ان کے خلفاء کے ذریعہ اس کتاب کے سمجھنے میں آسانی ہوئی- میرے ماں باپ میری پرورش کا ذریعہ ہیں- میرے جسم کا ہر ذرہ ان کے احسانات کے بوجھ میں دبا ہوا ہے- اے میرے اللہ! اس دنیا میں کس کس نے مجھ پر کس کس قسم کے احسانات کئے تو سب سے واقف ہے- میں تو سب کے نام بھی نہیں گن سکتا- پس تو ہر ایک محسن کو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ جزا عطا کر- اللٰھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید- ]text [tagاے میرے اللہ! تو مجھ کو ایسا بنا دے کہ جس جس سے مجھ کو محبت ہے ان سب پر میری وجہ سے تیرے فضل و کرم کی بارشیں ہوں- اے میرے اللہ! میں نیک آدمیوں سے محبت کروں اور مجھ سے سب محبت کریں- اے میرے اللہ تو مجھ کو نافع الناس بنا- اے میرے اللہ! مجھ کو قوت اور توفیق عطا کر کہ میں بآسانی تیرے احکام کی تعمیل کروں- اے میرے اللہ! مجھ کو صحیح اور نافع علم عطا کر- اللہ|میاں! مجھ کو تو اپنے سوا کسی مخلوق کا محتاج نہ کر- اے میرے اللہ! مجھ کو اسی دنیا میں جنتی زندگی عطا کر اور مرنے کے بعد بھی جنت )جو تیری رضا کا اعلیٰ مقام ہے( میرا مکان ہو- اے میرے اللہ! اے میرے پیارے اللہ! اے ادعونی استجب لکم فرمانے والے! تو ہی بتا میں تیرے سوا کس سے فریاد کروں؟ میں تیرے دروازہ کو چھوڑ کر کہاں جائوں؟ تجھ سے نہ کہوں تو اور کس سے کہوں؟ تجھ سے نہ مانگوں تو اور کس سے مانگوں؟ تو اگر میری مدد نہ کرے تو اور کون ہے جو میری مدد کر سکتا ہے؟ اے میرے پیارے! میں بڑا گنہگار‘ بڑا نافرمان‘ بڑا آرام طلب اور عبادتوں میں سست ہوں- محض اپنے فضل و کرم سے میری بخشش فرما- میں کتنے ہی جوش اور ہمت سے کام لوں لیکن تیری حمد و ستائش ادا ہونا میری طاقت سے باہر اور تیرے احسانات کی گنتی میری ہمت کے دائرہ سے بیروں و افزوں ہے- رب انی ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی انہ لا یغفر الذنوب الا انت-
اے خدا اے خالق چرخ بریں
تو رحیم و ارحم و راحم ہے رب العالمین
فضل سے بنتی ہیں تیرے محنتیں بھی راحتیں
تو اگر چاہے تو ہر غمگیں بنے فرحت قریں
تو اگر چاہے تو ہو پتھر سے جاری جوئے شیر
تو اگر چاہے تو ہو حنظل سے پیدا انگبیں
تو اگر چاہے تو دے ادنیٰ کو اعلیٰ مرتبہ
تو اگر چاہے تو ہو فرش زمین عرش بریں
تو اگر چاہے تو ہر اک معصیت طاعت بنے
تو اگر چاہے تو اکبر شاہ خاں ہو نوردیں
رب العالمین! میں التجا کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں میری طرف سے ہزاروں ہزار بلکہ بے شمار صلٰوۃ و سلام و برکات کے ایسے تحائف بھیج جن کو دیکھ کر میرے پیارے ہاں! میری جان و مال و آبرو سب سے زیادہ پیارے نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم اس قدر خوش ہو جائیں جس کے تصور سے میری واہمہ بھی عاجز ہو-
اللٰھم صل علیٰ سیدنا و مولانا محمد بعدد کل معلوم لک
اللہ میاں! حضرت ابوبکر صدیقؓ- حضرت عمر فاروقؓ- حضرت عثمان غنیؓ- حضرت علی- حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح- حضرت طلحہؓ- حضرت زبیرؓ بن العوام- حضرت سعدؓ بن وقاص- حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف- حضرت سعیدؓ بن زید- تمام اصحاب بدر‘ تمام اصحاب بیعت الرضوان‘ تمام مہاجرین‘ تمام انصار‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت سلام و درود بھیج-
اللہ میاں! تمام ائمہ حدیث- ائمہ فقہ- ائمہ تصوف- حضرت خالد بن ولید- حضرت عمر بن عبدالعزیز- مہتدی باللہ عباسی- سلطان صلاح الدین- محمد بن قاسم- سلطان محمد ناصرالدین محمود- سکندر لودھی- شیر شاہ افغان- اورنگ زیب عالمگیر اور محمد ثانی- سلیم سلیمان سلاطین عثمانی کی خدمت میں میرا سلام پہنچا-
اللہ میاں! میں نے حضرت امام غزالی کی >احیاء العلوم-< حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی >فتوح الغیب< اور حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید~رح~ کی >تقویتہ الایمان< سے بہت فائدہ اٹھایا ہے- میری طرف سے ان کو بہت بہت سلام پہنچے-
اے میرے پیارے خدائے تعالیٰ! تیرے پیارے مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تو میرے دین و دنیا دونوں کو سدھار دیا اور تو جانتا ہے کہ انہیں کی برکت سے میں نے سچا اور پکا ایمان حاصل کیا ہے- اتنے بڑے عظیم الشان محسن کے احسان کی جزا‘ الٰہی! تو ہی دے سکتا ہے- الٰہی! تو مسیح موعود کی روح پر فتوح پر اپنے فضل و انعام و برکات و سلام و رحمت و رضوان کی مسلسل و ممتد بارشیں کر اور ان کی جناب میں میری طرف سے صلٰوۃ و سلام کے ایسے اعلیٰ تحائف و ہدایا پہنچا جو آج تک ان کی خدمت میں کسی نے نہ بھجوائے ہوں- میرے ماں باپ- بہنوں- بھائیوں- بیوی- بچوں- دوستوں- استادوں- شاگردوں پر اپنے پیارے مسیح موعود کے صدقے اپنا فضل و کرم فرما اور دین و دنیا کی عفو و عافیت اور حسنات دارین سب کو عطا کر- ]ksn [tag امین یارب العالمین-
ہاں اے رب العالمین! تیرا ایک پیارا بندہ ہے- حب اگر کوئی بری چیز نہیں تو مجھ کو اس سے محبت ہے- اس کی محبت میں میں نے جو جو لذتیں حاصل کی ہیں‘ ان کا شکر تو بڑی چیز ہے بیان بھی نہیں ہو سکتا- اے میرے مولا! اس کا وجود تو بڑا نافع الناس ہے- اور تو تو فرماتا ہے واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض- پس اے میرے اللہ! اس کو تیرے مقررہ قانون کے موافق بھی بہت لمبی مدت تک زندہ و سلامت رہنا چاہئے اور میں بھی بڑی عاجزی‘ کمال انکسار اور نہایت آرزو کے ساتھ تجھ رب‘ رحمن‘ رحیم‘ کریم‘ رئوف‘ منان‘ وھاب‘ سلام‘ حی‘ قیوم خدا کی جناب میں التجا کرتا ہوں کہ اس کو ہمارے سر پر بہت عرصہ تک سلامت با کرامت رکھ اور ہم سب کو توفیق عطا کر کہ اس کے انفاس قدسیہ سے فائدہ اٹھائیں- امین یارب العالمین-
تمہید
علم ریاضی انسان کے دماغ میں ایک موزونیت اور اسباب سے نتائج تک پہنچنے کی قابلیت پیدا کر دیتا ہے- علم ادب خوش|سلیقگی و نفاست|پسندی سکھاتا اور علم اخلاق انسان کو نافع الناس- متین و سنجیدہ بنا کر بے|ضرر اور لوگوں کی نگاہوں میں محبوب بنا دیتا ہے- علوم طبعیہ ذکاوت و باریک|بینی پیدا کرتے ہیں- لیکن علم تاریخ کو تمام دینی و دنیوی علوم کا جامع اور ہر ایک مفید نتیجہ کا مورث کہا جا سکتا ہے- انسان میں خدائے تعالیٰ نے مختلف اقسام کے قویٰ اور بے|شمار استعدادیں ودیعت فرمائی ہیں- ہر ایک استعداد جبکہ بے|کار چھوڑ دی جائے اور کام میں نہ لائی جائے تو مردہ ہو جاتی ہے- یہ کاشت|کار جن کو ساری ساری عمر کھیت کی محدود زمین‘ گنتی کے چند مویشیوں‘ گائوں کے متعدد چھپروں اور چوپال میں شام کو آکر حقہ پینے والے چند لنگوٹ بند بھائی بندوں کے سوا دنیا کے علوم و ترقیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- انہیں میں اکثر ایسی استعداد والے دماغ بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان استعدادوں کو جگا کر ان سے کام لیا جاتا تو ارسطو و بیکن اور تیمور و نپولین کے برابر یا ان سے بھی بڑھ چڑھ کر کارنامے دنیا کو دکھاتے اور اہل عالم کو محو حیرت بناتے- بڑے بڑے عالم و فاضل اور معزز خاندانوں کے یتیم اور لاوارث بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ ابتداء بڑے ذہین اور اپنے باپ دادا کے قدم بقدم ترقیات کی راہیں طے کرنے والے نظر آتے ہیں- لیکن سامان و اسباب کا میسر نہ آنا اور ناہموار صحبتوں کے بدنتائج ان کو انجام کار خاک مذلت سے اٹھنے اور گوشہ گمنامی سے نکلنے نہیں دیتے- سلطنت روما سے بھی پہلے کا قدیم زمانہ‘ یورپ میں جا|بجا درختوں کی جڑیں کھانے والے اور درختوں کے پتے جسم کو لپیٹنے والے ایسے وحشی پیش کرتا ہے جن کو بن مانس سے کچھ تھوڑا ہی سا اونچے درجے پر بٹھا سکتے ہیں- لیکن اگر ان میں استعدادیں نہ تھیں تو آج وہی ساری دنیا کے استاد کیسے بن گئے؟ صوبہ سرحدی کے جاہل پٹھان جب لکھ پڑھ جاتے ہیں تو کسی علمی معرکہ میں اپنے ہم چشموں سے پیچھے نظر نہیں آتے- اس بات کے ثبوت کے لئے زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں کہ فیاض ازل نے ترقیات کی استعدادوں کے عطا کرنے میں کسی بخل یا زیادہ تفریق کو روا نہیں رکھا- ہاں! ان استعدادوں کے متحرک کرنے اور کام میں لانے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے- کہ جس قدر چاہے کام لے اور ترقیات کے میدان میں کامیابی کے گھوڑے اڑاتا چلا جائے- انسان کے سوا دوسرے حیوانات کو عطا شدہ استعدادوں کے متحرک کرنے کا مکلف بھی نہیں بنایا- ایک کتے کا بچہ اسی طرح پانی میں تیرنا جانتا ہے جس طرح بڑا کتا- لیکن حضرت انسان اگر اپنی استعداد شناوری کو کام میں نہیں لاتے- تو کتے کے بچے کے برابر بھی نہیں تیر سکتے- وقس علی ھذا
غرض کہ تمام ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ضرورت ہے کسی تحریک کی اور تحریک کے بعد عمل کی جس کا لازمی نتیجہ ورزش ہے- اور عمل اور ورزش کے ساتھ ہی کامیابی و مقصد وری دیکھی جاتی ہے-
فطری استعدادوں میں تحرک پیدا کرنے کے بعد عمل و ورزش پر مستعد کر دینے والی چیز درحقیقت بڑی مفید- قیمتی اور ضروری چیز ہے- اور وہ علم تاریخ ہے- یوں سمجھنا چاہئے کہ انسان اور انسانی قویٰ کا مجموعہ ایک مشین ہے- انسانی ترقیات کی استعدادیں اس مشین کے پرزے اور تاریخ اسٹیم ہے- تاریخ کی اسٹیم سے تمام پرزوں میں تحریک پیدا ہو جاتی ہے- اس اعتبار سے اگر تاریخ کو جامع العلوم اور مخزن الفنون بھی کہا جائے تو بے جا نہیں- اگر تاریخ کوئی عالی مرتبہ چیز نہ ہوتی تو بائبل اور قرآن کریم اور دیگر کتب سماویہ میں تاریخی واقعات کے بیان کی بجائے مسائل ریاضیہ مذکور ہوتے اور بنی اسرائیل‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت دائود و سلیمان علیہما السلام کے واقعات کی بجائے علم بیطاری و باغبانی کے قواعد کھول کھول کر سمجھائے جاتے-
تاریخ ہم کو بزرگوں کے حالات سے واقف کرتی اور دل و دماغ میں ایک بابرکت جوش پیدا کر دیتی ہے- انسانی فطرت میں ایک خاص قسم کی پیاس اور خواہش ہے جو اس کو تماشاگاہوں اور تھیٹروں میں لے جاتی‘ ملکوں کی سیاحی‘ باغوں کی سیر اور کوہ و صحرا کی سیاحت پر آمادہ کر دیتی اور سیروا فی الارضکے حکم کی تعمیل کراتی ہے- یہی پیاس ہے جو بچوں کو رات کے وقت چڑے چڑیا کی کہانی‘ طوطے مینا کی داستان کے سننے اور سنانے پر آمادہ کرتی ہے- یہی پیاس ہے جو تاریخی مطالعہ سے کما حقہ تسکین پاتی اور فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون کے ارشادکی تعمیل پر آمادہ کرکے انسان کو مقاصد عالیہ تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے- فطرت کے اس تقاضے پر نظر فرما کر فطرتوں کے خالق نے کتب سماویہ میں تاریخی چاشنی رکھی ہے- فرضی قصوں‘ جھوٹے ناولوں اور بے بنیاد کہانیوں میں بھی ایک تاثیر بہ مقدار کثیر موجود ہوتی ہے اور اسی لئے بعض علماء نے پندو وعظ کو کہانیوں کے لباس میں پیش کرنا مناسب سمجھا مثلاً کلیلہ دمنہ وغیرہ- لیکن فطرت انسانی جو پاک و صاف اور مطہر و مصفیٰ چیزوں کی جانب مائل مخلوق ہوئی ہے‘ کذب و دروغ کی بدبو کے سبب اس جوش اور طاقت کے ساتھ فرضی کہانیوں کی طرف نہیں جھکتی جیسی سچے حالات اور واقعات صحیحہ یعنی تاریخ کی جانب- اور یہی سبب ہے کہ علم تاریخ سے ان لوگوں کو جن کی فطرتیں رذیل اور مسخ شدہ ہوتی ہیں کوئی تعلق کبھی نہیں ہوا- دنیا میں کوئی رذیل اور کمینہ یا کوئی دہریہ اعلیٰ درجہ کا مورخ نہیں ہوا-
انسان چونکہ مل جل کر رہنے اور ہم جنسوں کے ساتھ محبت و ہمدردی سے بسر کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے- لہذا جو واقعہ جس قدر زیادہ ہم جنس سے تعلق رکھتا ہے اسی قدر اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے- کسی بیل یا گھوڑے کے حالات اس قدر موثر نہیں ہو سکتے جس قدر کسی انسان کے- پھر کسی دوسرے ملک کے تاریخی حالات سے اس قدر دلچسپی نہیں ہوتی جس قدر اپنے ملک کے واقعات سے- پھر کسی دوسری قوم و مذہب کی تاریخ اس قدر باعث دل بستگی نہیں ہوتی جس قدر اپنی قوم اور اپنے مذہب کی- اپنی دادی یا نانی سے اپنے خاندانی بزرگوں کے حالات سن کر ہمارے دل میں جس قدر جوش‘ خوشی‘ غم‘ غصہ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں محلہ کے دوسرے پرانے لوگوں کے حالات سے وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی-
جس قوم میں قوم کے تاریخی حالات اور پاستانی واقعات پورے طور پر شائع ہوتے ہیں- )خواہ کہانیوں‘ نظموں اور گیتوں ہی میں سہی( اس قوم میں قومی امتیازات اور خصوصیات بھی محفوظ اور قائم رہتے ہیں اور یہ قومی خصوصیات قوم کے افراد کاکسی میدان اور کسی مقابلہ میں دل نہیں ٹوٹنے دیتے اور ہمت کی کمر چست رکھ کر انجام کار کھوئے ہوئے کمالات تک پھر پہنچا دیتے ہیں- ایک وہ شخص جواپنے باپ دادا کے حالات سے بے خبر ہے- موقع پا کر خیانت کر سکتا ہے- لیکن جو یہ جانتا ہے کہ میرے دادا نے فلاں موقع پر لاکھوں روپوں کی پروا نہ کر کے اور دیانت کو ہاتھ سے نہ دے کر عزت و ناموری حاصل کی تھی‘ اس سے خیانت کا ارتکاب دشوار ہے- ایک وہ شخص جو اپنے دادا کے حالات سے بے خبر ہے‘ میدان جنگ سے جان بچا کر فرار کی عار گوارا کر سکتا ہے- لیکن جو واقف ہے کہ میرے باپ نے فلاں فلاں میدانوں میں اپنی جان کو معرض ہلاکت میں ڈال کر میدان جنگ سے منہ نہ موڑ کر عزت اور شہرت حاصل کی تھی وہ کبھی نہ بھاگ سکے گا اور بھاگنے کا خیال دل میں آتے ہی اس کے باپ کے کارناموں کی یاد زنجیرپا ہو جائے گی- اسی طرح وفاداری و بے وفائی‘ جھوٹ اور سچ‘ زنا و پاک دامنی‘ حیا اور بے حیائی‘ بخل و سخاوت و غیرہ بہت سی باتوں کو قیاس کر لو‘ بزرگوں کے حالات کی واقفیت ہی دنیا میں بہت کچھ امن اور قوموں میں زندگی کی روح پیدا کر سکتی ہے-
اسلام کے دنیا پر بے شمار احسانات ہیں- انہیں میں یہ ایک عظیم الشان احسان ہے کہ مسلمانوں ہی نے دنیا میں علم تاریخ کی ترویج کی اور مسلمانوں ہی سے سیکھ کر دوسری قوموں نے اس فن میں ترقی کی- کیسے افسوس اور کس قدر ملال کا مقام ہے کہ آجکل مسلمان ہی سب سے زیادہ اپنے بزرگوں کے حالات سے بے خبر پائے جاتے ہیں-
بنی اسرائیل کی کیسی عظیم الشان قوم تھی کہ نحن ابنٰوا اللٰہ و احباوہ تک کہنے کا حوصلہ کیا لیکن جب اپنے بزرگوں کے حالات سے بے خبر ہوتے گئے‘ قعر مذلت میں اترتے گئے- چنانچہ قرآن کریم میں خدائے تعالیٰ نے یا بنی اسرائ|یل اذکروا کے الفاظ سے بار بار ان کو مخاطب فرمایا اور ان کے بزرگوں کے حالات کو یاد دلایا ہے- پس معلوم ہوا کہ کسی قوم کو تنزل سے ترقی کی طرف لے جانے کی ایک یہ بھی اعلیٰ درجہ کی تدبیر ہے کہ ان کے بزرگوں کے حالات باربار یاد دلائے جائیں یعنی قومی تاریخ کی خوب اشاعت کی جائے-
تاریخ کا وہ حصہ جس میں خاص خاص شخصوں کی زندگی کے قابل تذکرہ نتیجہ خیز حالات ذکر کئے جائیں عام تاریخ سے زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے کیونکہ پڑھنے والے کو واقعات سے نتائج اخذ کرنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کی مجموعی تاریخ سے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حالات دل پر اثر کرتے ہیں-
آج کل تاریخ نویسی میں اس بات پر زیادہ زور نظر آتا ہے کہ مورخین اصول درایت کو زیادہ کام میں لا کر خود ہی نتائج اخذ کرکے ناظرین کے سامنے رکھ دیتے ہیں- اس میں یہ نقص ہے کہ پڑھنے والے کو اپنے دماغ سے زیادہ کام لینے کی ضرورت نہیں رہتی اور بڑی آسانی سے انسان مورخ کا مقلد بن جاتا ہے- اس تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے بہت سے مفید اور بابرکت نتائج‘ جو مختلف مستعد دماغوں سے برآمد ہوتے‘ تاریکی اور پوشیدگی ہی میں رہ جاتے ہیں- مسلمانوں کے فن تاریخ میں یہ خوبی ہے کہ انہوں نے روایت کی صحت پر بڑا زور دیا ہے جس کے لئے رواۃ احادیث و آثار کے اخلاق پر حیرت انگیز تنقید اور فن اسماء الرجال کی ضخیم و جسیم کتابیں شاہد ہیں- اس طرح اصل واقعہ اور پوری کیفیت تو ہمارے سامنے پیش ہو جاتی ہے- پھر اس سے اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے موافق قلوب پر اثر ہوتا ہے اور یہی فطرت کا تقاضا ہے- مثال کے طور پر یوں سمجھنا چاہئے- کہ کسی ورکشاپ میں لوہار‘ نجار‘ معمار‘ سنار وغیر مختلف کاریگر اپنی اعلیٰ درجہ کی قابلیتوں اور کاریگریوں کو کام میں لا رہے ہیں- ایک لوہار جب اس کارخانہ میں سیر کرتا ہوا جائے گا تو اس مقام پر زیادہ دیر ٹھہرے گا جہاں لوہار اپنا کام کر رہے ہیں- اسی طرح نجار نجاروں کا تماشا زیادہ غور سے دیکھے گا اور اپنے پیشہ کے متعلق کوئی قیمتی بات بھی حاصل کر سکے گا- لیکن اگر اس کارخانہ میں سیر کے لئے جانے والے ہر شخص کو مہتمم کارخانہ سنار کی کاریگریوں یعنی زیوروں کا معائنہ کرانے اور ہر ایک زیور کی صنعت کاریوں کے دکھانے میں تمام وقت گذار دے تو ظاہر ہے کہ بے چارے لوہار اور نجار وغیرہ دوسرے پیشہ ور سیاح اپنے مفید مطلب واقفیت حاصل کرنے سے رہ جائیں گے- مناسب یہی ہے کہ مہتمم صاحب اپنے کمرہ میں بیٹھے ہوئے انتظام و اہتمام کی مشین چلاتے رہیں اور سیر کرنے والے آزادی سے جہاں چاہیں سیر کریں-
اس موقعے پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مورخ ایسا ہونا چاہئے جو ہر قسم کے نتائج صحیح صحیح اخذ کرے اور کوئی پہلو بلا تنقید نہ رہنے دے لیکن یہ صرف ایک دل خوشکن خیال ہی خیال ہے کیونکہ بہرحال اس کا کام محدود ضرور ہوگا اور ظاہر ہے کہ انسان غیر محدود ذرائع علوم کا خواہش مند ہے-
دوسرا نقص جدید تاریخ نویسی میں یہ ہے کہ مورخین اپنی محدود عقل و فہم کے موافق واقعات کا تسلسل قائم کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں کہ بعض زبردست اور قابل اعتبار روایتوں کو چھوڑ کر کمزور یا خود تراشیدہ روایتوں اور تھیوریوں کو ترجیح دیں- اس طرح اصل تاریخ کا خون ہو کر تاریخ ایک جھوٹا افسانہ اور فرضی ناول بن سکتی ہے- لیکن جو تاریخیں اسلامی طرز پر لکھی گئی ہیں ان میں یہ نقص نہیں- ہر شخص کی نظر سے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے نظارے گذرے ہوں گے کہ بعض باتوں کی اصلیت سمجھ میں نہ آئی ہوگی- پس ایسے موقعوں پر روایت کی صحت پر زور دینے والے مورخ کو کوئی دقت پیش نہیں آتی- وہ جو دیکھتا یا سنتا ہے بلا کم و کاست وہی لکھ دیتا ہے- لیکن دوسری قسم کے مورخ کو تو مصیبت کا سامنا ہوتا ہے- روایت کی صحت و درستی جبکہ نہایت ضروری اور شاندار فن تاریخ کا سنگ بنیاد ہے- تو اب دیکھنا یہ ہے کہ روایت کی صحت کس طرح حاصل ہو- زیادہ قیمتی بیان اس میں راوی کا سمجھا جاتا ہے جو کسی واقعہ کا چشم دید حال بیان کرے اور ظاہر ہے کہ وہ شخص جس پر خود واقعہ گذرا ہے اور بھی زیادہ روایت اپنے متعلق بیان کر سکتا ہے- پس تاریخ کی وہ کتابیں جو عظیم الشان اور مسلمہ راست گفتار انسانوں نے اپنے اوپر گذرے ہوئے حالات میں لکھی یا لکھوائی ہیں- تاریخ کی بہترین کتابیں کہی جا سکتی ہیں- اس تمہید کے بعد اب اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوتا ہوں-
گذارش احوال
مسلمانوں میں انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی نہیں- سینکڑوں ہزاروں بی-اے‘ ایم-اے‘ جس حصہ ملک میں چاہو‘ موجود ہیں- سر سید احمد خاں وغیرہ کے طرز پر چلنے والے لوگ اور قومی مرثیے پڑھنے والے جنٹلمین بھی بہ افراط پائے جاتے ہیں- مسجدوں میں وعظ کہنے والے پرانی وضع کے مولوی اور مزاروں پر حال قال والے صوفی بھی ضرورت سے زیادہ موجود پائے جاتے ہیں- دھواں دھار تقریریں کرنے والے لیکچرار اور دلوں کو بے تاب کردینے والے جادو نگار بھی کم و بیش دیکھے سنے جاتے ہیں- تلوار و خنجر اٹھانے والوں نے باٹ ترازو بھی سنبھال لئے- ہل چلانے اور بیل کی دم پکڑنے والے کتابوں کے مصنف بن گئے- کرنی بسولی والے نقشہ کشی سیکھ کر معمار سے انجینئر اور بعض دوا بیچنے یا سر مونڈنے والے ڈاکٹر ہو گئے- اس سے بھی گذر کر بعض ریزہ اقوام نے اپنے آپ کو اعلیٰ قوموں میں شامل ٹھہرایا- وغیرہ وغیرہ- چشم ظاہر بین میں مسلمانوں کی یہ حالت روبہ ترقی نظر آسکتی ہے- لیکن جو دل دانا اور چشم بینا رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ اس کا نام اسلامی ترقی نہیں- سرسید کی لائف میں خواجہ حالی نے ادعا کیا ہے کہ یہ لائف مسلمانوں کے لئے نمونہ نہیں ہونی چاہئے- لیکن جاننے والے جانتے اور ارباب دانش پہنچانتے ہیں کہ قرآن کریم کو موم کی ناک بنانے اور موجود فلسفہ اور زمانہ حال کی مادی ترقیات سے مرعوب ہو کر >چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی< کہنے والے لوگوں نے کہاں تک اسلام کی
حقیقت کو سمجھا اور خدا تعالیٰ کی کتاب کو مشعل راہ بنایا ہے- ہاں! یہ سچ ہے کہ سرسید نے شریعت کی حقیقت سے کوسوں دور اور رسم و رواج کی کثیف دلدلوں میں پھنسے ہوئے نور ایمانی سے مہجور جبہ|پوشوں کی مخالفتوں پر کان نہیں دھرا اور سرسری نظر میں اس طرح وہ بڑے دلیر اور جری نظر آتے ہیں لیکن ان کی یہ تمام دلیری اور جرئات فلسفہ جدیدہ اور یورپی ترقیات کی پشت|گری کی بدولت ہے‘ نہ صرف ایمان و ایقان باللہ اور کتاب اللہ کے بھروسہ پر- اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ سرسید کی کوئی حقارت مدنظر ہے یا ان کی نیت پر حملہ مقصود- بلکہ میرے نزدیک وہ اپنی نیت میں بہت نیک اور اپنی کوششوں میں عنداللہ ماجور ہونے والے ہیں- انہوں نے جو کچھ کیا- غالباً نیک نیتی سے اور اپنے نزدیک بہتر سمجھ کر کیا- لیکن ایک انسان جب تک تائیدات غیبی شامل حال نہ ہوں اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس کی رہبری نہ ہو اپنی محدود اور ناتمام عقل سے کہاں صراط مستقیم پر پہنچ سکتا ہے؟ قرآن کریم کی طرف سے بے توجہی اور دعائوں کو غیر ضروری سمجھنے نے اکثر مسلمانوں کو کچھ کا کچھ بنا دیا ہے- ہماری شریعت کسی قسم کی دنیوی ترقی کی مانع ہرگز نہیں بلکہ ہر قسم کی دنیوی ترقی کے اصول بھی قرآن کریم اور صرف قرآن کریم ہی میں بدرجہ اتم موجود ہیں- اس موقع پر ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ تفصیلی طور پر قرآن کریم کی عظمت‘ ہستی باری تعالیٰ اور صفات حسنہ باری تعالیٰ پر ایمان اور سچے مسلمان کی تعریف بیان کی جائے- مگر چونکہ اصل مدعائے نگارش سے قرب ہونا مدنظر اور گنجائش اوراق مختصر ہے- نیز کتاب کے مطالعہ کرنے والے زیادہ تر وہی لوگ فرض کئے گئے ہیں جو ان باتوں کے متعلق آگاہی رکھتے اور جانتے ہیں کہ ہم دعائوں کے بدوں کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے اور قرآن کریم اور سنت و حدیث کو چھوڑ کر فلاح دارین تک نہیں پہنچ سکتے- لہذا صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ وہ اس زمانہ کے ایک کامل انسان )امیرالمومنین سیدنا نورالدینؓ( کی لائف کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس باخدا اور مرد کامل کی لائف ان کے لئے بہترین نمونہ ہے یانہیں؟ اور اس کے قدم بقدم چل کر وہ سچے پکے مسلمان بن سکتے ہیں اور فلاح دارین حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں؟
حضور امیر المومنینؓ کی سوانح عمری کا مرتب و شائع ہونا کس قدر ضروری کام تھا اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں- مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب نے جب کبھی الحکم میں حیات|النور کا ذکر کیا ہے لوگوں میں خوشی اور بے تابی کے آثار دیکھے گئے ہیں- لیکن چونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی سوانح عمریوں کی طرح حیات النور کی اشاعت میں بھی غیر معمولی انتظار کی زحمت برداشت کرنا ہمارے لئے مقدر ہے- لہذا خدائے تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حیات النور کے خمیازہ کشوں کے لئے ایک اور سامان تسکین مہیا فرمایا-
خلاصہ کلام یہ کہ میں نے شروع ہی سے دعائوں کو اپنے کام کا سنگ بنیاد بنایا اور خدائے تعالیٰ ہی نے ہر موقع پر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا-
ہاں! اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ نے یہ عزت میرے حصہ میں لکھی تھی کہ میں حضورؓ سے عرض کروں کہ اپنی سوانح عمری خود لکھوائیں اور وہ گذارش درجہ قبولیت کو پہنچے- الحمد للٰہ رب العالمین- اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اس حیرت کا ذکر کروں کہ میں پنسل کاغذ لے کر حاضر ہوتا‘ آپ کام کرتے کرتے مجھ کو منتظر بیٹھا ہوا دیکھ کر فرماتے- اچھا تم بھی کچھ لکھ لو- آپ فرماتے جاتے اور میں لکھتا جاتا- باوجود اس کے کہ میں محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے اکثر لیکچراروں کے لیکچر بآسانی حرف بحرف لکھ سکتا ہوں‘ بڑی مستعدی اور پوری ہمت کو کام میں لا کر آپ کے تمام الفاظ قلمبند کر سکا ہوں- اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کس روانی اور طلاقت کے ساتھ تقریر فرماتے ہوں گے- لیکن جب اپنی جائے قیام پر آکر اس پنسل کے شکستہ لکھے ہوئے کو صاف کرتا تو مجھ کو یاد نہیں کہ عبارت کو چست اور درست بنانے کے لئے کہیں کسی فقرہ میں کوئی تغیر و تبدل کرنا پڑا ہو- بس آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اپنی اصلی حالت میں لکھ دیا ہے- ناظرین خود اندازہ فرمالیں گے کہ اس طرح بے|ساختہ اور پختہ تقریر کرنے والے ہندوستان میں کس قدر اشخاص موجود ہیں اور یہ سب کچھ آپ نے ایسی حالت میں لکھوایا ہے کہ گردوپیش بہت سے مریض‘ مرید‘ مہمان‘ طالب علم اور مختلف ضرورتوں والے جمع ہوتے تھے- بیچ بیچ میں کئی دفعہ لوگوں کی طرف مخاطب ہونا‘ کسی کو نسخہ لکھنا‘ کسی کی عرضی پڑھنا وغیرہ یہ کام بھی ہو جاتے تھے اور اس طرح میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو کسی قدر آرام کا موقع بھی مل جاتا تھا-
میں اس بات سے واقف ہوں کہ جب تک تنقید و رائے|زنی نہ کی جائے اور مناسب موقعوں پر نتائج کی طرف ناظرین کو متوجہ نہ کیا جائے- سوانح عمری میں لطف پیدا نہیں ہوتا لیکن اس لئے کہ
زعشق ناتمام باجمال یار مستغنی است
باب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
کوئی نوٹ یا حاشیہ تک لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب کی حیات|النور کا کام خود انجام دینا غیرضروری خیال کیا- یہ کتاب متن ہے- حیات النور ایک شرح حامل المتن ہوگی )انشاء اللہ تعالیٰ( حیات النور کی بھی ہم کو ضرورت ہے اور بڑی ضرورت- میں اپنے ناظرین سے التماس کرتا ہوں کہ وہ شیخ صاحب پر حیات النور کے جلد شائع کرنے کے لئے ضرور تقاضا کریں- میں بھی عرض کرتا ہوں ~}~
بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا
اس اعتراض کا بھی مجھ کو اندیشہ نہیں رہا کہ >سوانح عمری چونکہ ایک مرید و معتقد نے لکھی ہے لہذا خوش عقیدگی نے تنقید کے کام کو ناقص رکھا ہو گا-< اصل حالات صحیح واقعات ناظرین کے سامنے ہیں- خود غور فرماویں اور نتائج اخذ کریں-
اب میں اخبار بدر سے حضور امیر المومنینؓ کا شجرہ نسب نقل کرنے کے بعد وہ الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امیرالمومنین کی نسبت ارقام فرمائے ہیں اس مقدمہ میں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں-
* * *
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نوردین بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے
خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں- سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نوردین ہے میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں- ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے‘ اس کے تصور سے قدرت الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے- وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہیں ہر وقت اللہ اور رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرکے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہردم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے- ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں -:

>مولانا- مرشدنا- امامنا-
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عالی جناب !
میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے‘ جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے‘ وہ مطالب حاصل کروں- اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلائوں اور اسی راہ میں جان دوں- میں آپ کی راہ میں قربان ہوں- میرا جو کچھ ہے‘ میرا نہیں‘ آپ کا ہے- حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا- اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجالائوں کہ ان کی تمام قیمت اداکردہ اپنے پاس سے واپس کردوں- حضرت پیر و مرشد! نابکار شرمسار عرض کرتا ہے- اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے- میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ مجھ پر ڈال دیا جائے پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو- مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کیلئے تیار ہوں- دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو<-
مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمت اور ان کی غمخواری اور جان نثاری جیسے ان کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال‘ سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے اور وہ محبت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں- ان کی روح محبت کے جوش اور مستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور ہر دم اور ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں~}~۱ - لیکن یہ نہایت درجہ کی بے|رحمی ہے کہ ایسے جان|نثار پر وہ سارے فوق|العادت بوجھ ڈال دیئے جائیں جن کو اٹھانا ایک گروہ کا کام ہے- بے شک مولوی صاحب اس خدمت کو بہم پہنچانے کے لئے تمام جائداد سے دست|بردار ہو جانا اور ایوب نبی کی طرح یہ کہنا کہ >میں اکیلا آیا اور اکیلا جائوں گا< قبول کر لیں گے- لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پرخطر اور پرفتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اس کے بندے میں ہونا چاہئے بڑے زور شور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے- اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال صالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کو فدا کرنے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کے اس غیر متبدل اور مستحکم قانون سے ڈریں جو وہ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے- لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون- یعنی تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں<- ) فتح اسلام صفحہ۶۰تا۶۵‘ ایڈیشن سوم ( ۲~}~
‏footer] ema~}~[fr۲ روحانی خزائن جلدنمبر۳ صفحہ۳۵تا۳۸(
-----------------------------------------------
۱~}~ >حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور احادیث و تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں- فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے- فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں- ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ تیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں- بہت سی عمدہ کتابوں کے مئولف ہیں- حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے-<
‏Mr.2b

>میرے ایک مخلص دوست مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی جو نوتعلیم یافتہ جوان اور تربیت جدیدہ کے رنگ سے رنگین اور نازک خیال آدمی ہیں جن کے دل پر میرے محب صادق اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی مربیانہ اور استادانہ صحبت کا نہایت عمدہ بلکہ خارق عادت اثر پڑا ہوا ہے<- )ازالہ اوہام صفحہ۳۴ مطبوعہ ریاض ہند پریس( ۱~}~
۱~}~ روحانی خزائن جلد نمبر۳ صفحہ۱۱۹(
>حبی فی اللہ مولوی حکیم نوردین صاحب بھیروی- مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدر رسالہ فتح اسلام میں لکھ آیا ہوں- لیکن ان کی تازہ ہمدردیوں نے پھر مجھے اس وقت ذکر کرنے کا موقع دیا- ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے- میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں- میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا- اگرچہ ان کی روزمرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے- مولوی صاحب موصوف اگرچہ اپنی فیاضی کی وجہ سے اس مصرعہ کے مصداق ہیں کہ قرار در کف آزادگاں نگیرد مال- لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپیہ نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلہ کی تائید میں دیا اور اب بیس روپیہ ماہواری دینا اپنے نفس پر واجب کر دیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے- میں یقیناً دیکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہو سکتا- ان کو خدا تعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقت|بالا نے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے- انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے- تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط‘ اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں‘ قادیان میں میرے پاس پہنچا- جس میں یہ فقرات درج تھے- اٰمنا و صدقنا فاکتبنا مع الشاھدین- مولوی صاحب موصوف کے اعتقاد اور اعلیٰ درجہ کی قوت ایمانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ ریاست جموں کے ایک جلسہ میں مولوی صاحب موصوف کا ایک ڈاکٹر صاحب سے جن کا نام جگن ناتھ ہے اس عاجز کی نسبت کچھ تذکرہ ہوا- مولوی صاحب نے بڑی قوت اور استقامت سے یہ دعویٰ پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے ان کے یعنی اس عاجز کے ہاتھ پر کوئی آسمانی نشان دکھلانے پر قادر ہے- پھر ڈاکٹر صاحب کے انکار پر مولوی صاحب نے ریاست کے بڑے بڑے ارکان کی مجلس میں یہ شرط قبول کی کہ اگر وہ یعنی یہ عاجز کسی مدت مسلمہ فریقین پر کوئی آسمانی نشان دکھلا نہ سکے تو مولوی صاحب ڈاکٹر صاحب کو پانچ ہزار روپیہ بطور جرمانہ دیں گے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شرط ہوگی کہ اگر انہوں نے کوئی نشان دیکھ لیا تو بلا توقف مسلمان ہو جائیں گے اور ان تحریری اقراروں پر مندرجہ ذیل گواہیاں ثبت ہوئیں-
خان بہادر جنرل ممبر کونسل ریاست جموں - غلام محی الدین خاں -
سراج الدین احمد سپرنٹنڈنٹ و افسر ڈاک خانہ جات ریاست جموں -
سرکار سنگھ سیکرٹری راجہ امر سنگھ صاحب بہادر پریذیڈنٹ کونسل -
مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب ناقابل قبول اعجازی صورتوں کو پیش کرکے ایک حکمت عملی سے گریز کر گئے- چنانچہ انہوں نے ایک آسمانی نشان یہ مانگا کہ کوئی مرا ہوا پرندہ زندہ کر دیا جائے حالانکہ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ ہمارے اصولوں سے یہ مخالف ہے- ہمارا یہی اصول ہے کہ مردوں کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے- حرام علیٰ قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون یعنی ہم نے یہ واجب کر دیا ہے کہ جو مر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے- میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا تھا کہ آسمانی نشان کی اپنی طرف سے کوئی تعیین ضروری نہیں بلکہ جو امر انسانی طاقتوں سے بالاتر ثابت ہو خواہ کوئی امر ہو- اسی کو آسمانی نشان سمجھ لینا چاہئے اور اگر اس میں شک ہو تو بالمقابل ایسا ہی کوئی دوسرا امر دکھلا کر یہ ثبوت دینا چاہئے کہ وہ امر الٰہی قدرتوں سے مخصوص نہیں- لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے کنارہ کر گئے اور مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے- دل میں ازبس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں- مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں- جزاھم اللٰہ خیر الجزاء واحسن الیھم فی الدنیا والعقبیٰ<- )ازالہ اوہام صفحہ ۷۷۷ تا ۷۸۱ ( ۱~}~
۱~}~ روحانی خزائن جلدنمبر۳ صفحہ۵۲۰تا۵۲۲
>جب سے میں خداتعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں- دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے- اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مددگار ہے- میں تنہا اور ذلیل ہوں- پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے درپے اٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارہ میں میرے دوست ہیں- اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرف نورالدین ہے- وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسبت کے لحاظ سے ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے پس مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ عضو مل گیا اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے- اور میں اپنے غموں کو بھول گیا جب سے کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا- اور میں نے دین کی نصرت کی راہوں میں اس کو سابقین میں سے پایا اور مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اس کے مال نے جو کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا اور کئی سال سے دیتا ہے- وہ علم و فضل اور نیکی و سخاوت میں اپنے ہم چشموں پر فوقیت لے گیا ہے اور باوجود اس کے اس کا حلم کوہ رضویٰ سے زیادہ مضبوط ہے- اس نے اپنا تمام چیدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا ہے اور اپنی تمام خوشی خدا تعالیٰ کے کلام میں رکھی ہے- میں نے دیکھا ہے کہ سخاوت اس کی عبادت ہے اور علم اس کی غذا ہے اور حلم اس کی سیرت ہے اور توکل اس کی قوت اور میں نے اس کی مانند جہان میں کوئی عالم نہیں دیکھا اور منعمین میں ہو کر اس کی مانند مخلوق میں فقیر نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کی مانند کوئی خرچ کرنے والا دیکھا- میں نے جب سے عقل و سمجھ پائی ہے اس کی مانند کوئی وسیع علم والا نہیں دیکھا اور وہ جب میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھ کو بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کو پھیلانا اس خوف سے برا جانتا ہوں کہ مبادا ان کے نفسوں کو ضرر دے- لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ تو ایسے لوگوں میں سے ہے جن کے نفسانی جذبات شکستہ ہو گئے ہیں اور جن کی طبعی شہوات فنا ہوگئی ہیں اور ان پر کوئی خوف نہیں کیا جا سکتا اور اس کے کمال کے نشانوں میں سے یہ ہے کہ جب اس نے اسلام کو مجروح دیکھا اور اس کو ایک مسافر سرگردان کی طرح یا اس درخت کی طرح پایا جو اپنی جگہ سے ہلایا جائے- تو اس نے غم کو اپنا شعار بنا لیا اور مارے غم کے اس کے عیش مکدر ہو گیا اور وہ مضطر کی طرح دین کی مدد کو کھڑا ہو گیا اور ایسی کتابیں تصنیف کیں جو دقائق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں اور جس کی نظیر پہلے لوگوں کی کتابوں میں نہیں پائی جاتی- ان کی عبارتیں باوجود مختصر ہونے کے فصاحت سے بھری ہوئی ہیں- اور ان کے الفاظ نہایت دل|ربا‘ خوبصورت اور عمدہ ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو شراب طہور پلاتی ہیں اور اس کی کتابوں کی مثال اس ریشم کی ہے جو مشک کے ساتھ آلودہ کیا جائے- پھر اس میں موتی اور یاقوت اور بہت سی کستوری ملائی جائے پھر اس میں عنبر ملا کر معجون کی طرح بنا دیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی کتابیں جامع ہیں- ہم ان میں فوائد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کر سکتے- وہ تمام سے بڑھ گئی ہیں اس لئے کہ اس نے تمام کمی و زیادتی کا احاطہ کر لیا ہے اور بسبب اس کے کہ دلائل و براہین کے رسوں کے ساتھ دلوں کو کشش کرتی ہیں- اپنے غیر پر فوقیت لے گئی ہیں- مبارکی ہے اس شخص کو جو ان کو حاصل کرے اور پہچانے اور غور سے پڑھے ان کی مانند کوئی مددگار نہیں مل سکتا- جو کوئی یہ چاہے کہ قرآن شریف کے عقدوں کو حل کرے اور خدا تعالیٰ کی کتاب کے اسراروں پر واقفیت ہو تو اس کو چاہئے کہ ان کتابوں میں مشغول ہو کیونکہ وہ اس چیز کی متکفل ہیں جس کو ذہین طالب تلاش کرتا ہے- ان کے ریحان کی خوشبو دلوں کو فریفتہ کرتی ہے- ان کی شاخوں میں کثرت سے میوے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس باغ کی طرح ہیں جس کے خوشے جھکے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی لغو بات نہیں سنائی دیتی اور پاکوں کے لئے مہمانی ہے- ان میں سے ایک کا نام فصل الخطاب اور ایک کا نام تصدیق براہین احمدیہ ہے باوجود متانت الفاظ اور لطافت بیانی کے قیمتی معانی پرو دیئے گئے ہیں- یہاں تک کہ وہ مولفین کے لئے اسوہ حسنہ ہوگئی ہیں- اور متکلمین آرزو کرتے ہیں کہ وہ انہیں کتابوں کی طرز پر لکھیں اور بڑے بڑے عالموں کی زبانوں نے ان کتابوں کی مدح سرائی کی ہے- ان کے جواہرات جواھرالنحور )چھاتیوں کے ہاروں میں پروئے ہوئے جواہر( پر فوقیت لے گئے- اور ان کے موتی دریائوں کے موتیوں پر فائق ہو گئے ہیں- اور وہ اس کے کمالات پر ایک دلیل قاطع ہیں- ان کی خبر کو ایک وقت کے بعد جان لوگے- اور مولف فاضل نے ان کتابوں پر قرآن شریف کے نکات کی تفسیر کرنے کے لئے کمر باندھی ہے- اور اپنی تحقیق میں روایت اور درایت کے متفق کرنے کی مشقت اٹھائی ہے- پس آفرین ہے اس کی عالی ہمت کے لئے اور اس کے روشن افکار کے لئے- پس وہ مسلمانوں کا فخر ہے اور اس کو قرآن کریم کے دقائق کے استخراج میں اور فرقان حمید کے حقائق کے خزانوں کو پھیلانے میں عجیب ملکہ ہے- بلاشک وہ مشکوۃ نبوت کیانوار سے منور ہے اور شان مردمی اور اپنی پاک|طینی کے مناسب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے نور لیتا ہے- وہ ایک عجیب و غریب مرد ہے- اس کے ایک ایک لمحہ کے ساتھ انوار کی نہریں بہتی ہیں- اس کے ایک ایک رشحہ کے ساتھ فکروں کے مشرب پھوٹتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ خیرالواھبین ہے- وہ نخبۃ|المتکلمین ہے اور زبدۃ|المولفین- لوگ اس کے زلال سے پیتے ہیں اور اس کی گفتگو کی شیشیاں شراب طہور کی طرح خریدتے ہیں- وہ ابرار اور اخیار اور مومنین کا فخر ہے- اس کے دل میں لطائف اور دقائق اور معارف اور حقائق کے انوار ساطعہ ہیں- جب وہ اپنے پاک و صاف کلمات اور اچھوتے‘ فی|البدیہہ‘ عجیب و غریب ملفوظات کے ساتھ کلام کرتا ہے تو گویا دلوں اور روحوں کو لطیف راگوں اور دائودی مزامیر کے ساتھ فریفتہ کرتا ہے اور کھلے کھلے معجزوں کے ساتھ لوگوں کو گھٹنوں کے بل بٹھا لیتا ہے- جب کلام کرتا ہے تو ایسی حکمتیں منہ سے نکالتا ہے کہ گویا وہ پانی ہے جو پے در پے ٹپک رہا ہے اور سامعین کے مونہوں کی طرف جا رہا ہے اور میں نے اپنے فکر کے گھوڑے کو اس کے کمال کی طرف چلایا تو میں نے اس کو اس کے علوم اور اعمال اور نیکی اور صدقات میں یکتائے زمانہ پایا- وہ نہایت ذکی|الذہن‘ حدیدالفوائد‘ فصیح اللسان‘ نخبۃ|الابراراور زبدۃ الاخیار ہے- اس کو سخاوت اور مال عطا کیا گیا ہے- امیدیں اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہیں- پس وہ خدام دین کا سردار ہے- اور میں اس پر رشک کرنے والوں میں سے ہوں- امیدوں والے اس کے صحن میں اترتے ہیں اور اس کی ہتھیلی سے ابر سخاوت طلب کرتے ہیں- جو اس کے گھر کا قصد کرتا ہے اور اس کی ملاقات کرتا ہے تو وہ اس سے منہ نہیں پھیرتا اور فقراء میں سے جو اس کے پاس آتا ہے وہ اس کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے-
‏Mr.2c

خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے اور وہ میری ملاقات کے لئے نہایت میلان دل کے ساتھ ایسا مضطرب رہتا ہے جیسے دولت مند سونے کے ساتھ محبت و یقین کے پائوں سے چل کر دور دراز ملکوں سے میرے پاس آتا ہے وہ ایک دلربا جوان ہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں- اپنی تمام طاقت سے میری طرف سعی کرتا ہے اگرچہ اس کو اتنی ہی فرصت مل جائے جو اونٹنی کے دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس پر قسم قسم کے انعام کئے ہیں اور اس کی بقا کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کی ہے- اس کو میرے دل سے عجیب تعلقات ہیں- میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں کی مفارقت اختیار کرتا ہے- میرے کلام کے سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے وہ اپنے اصلی وطن کی یاد کو چھوڑ دیتا ہے اور میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے- اور میں اس کو اپنی رضا میں فانیوں کی طرح دیکھتا ہوں- جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بلا توقف پورا کرتا ہے- اور جب کسی کام کی طرف مدعو کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں سے ہوتا ہے- اس کا دل سلیم ہے اور خلق عظیم اور کرم ابرکثیر کی طرح ہے- اس کی صحبت بدحالوں کے دلوں کو سنوارتی ہے اور اس کا حملہ دین کے دشمنوں پر شیر ببر کے حملہ کی طرح ہے- کفار پر اس نے پتھر برسائے ہیں- آریوں کے مسائل کو اس نے کھودا- اور نقب لگا کر ان بیوقوفوں کی زمین میں اترا اور ان کا تعاقب کیا اور ان کی زمین کو تہ و بالا کر دیا اور اپنی کتابوں کو مکذبین کے رسوا کرنے کے لئے نیزوں کی طرح سیدھا کیا- پس خدا تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر ویدوں کو شرمندہ کیا- پس ان کے منہ پر راکھ ڈالی گئی اور سیاہ کر دیا گیا اور مردوں کی طرح ہو گئے- پھر انہوں نے دوبارہ حملہ کرنا چاہا لیکن مردے موت کے بعد کس طرح زندہ ہو سکتے ہیں‘ لرزتے ہوئے واپس چلے گئے- اگر ان کے لئے حیاء میں سے کچھ بھی حصہ ہوتا تو وہ دوبارہ حملہ نہ کرتے لیکن بے حیائی سے اس قوم کا حلیہ اس طرح ہو گیا ہے جس طرح محجل گھوڑوں میں تحجیل- پس وہ ذبح کئے ہوئوں کی طرح حملہ کرتے ہیں- اور فاضل نبیل موصوف میرے سب سے زیادہ محبت کرنے والے دوستوں میں سے ہے- وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے اور عقد نیت کو میرے ساتھ خالص کر دیا ہے اور جنہوں نے عہد کا سودا مجھے اس بات پر دیا- کہ وہ خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہ کریں گے- پس میں نے اس کو ان لوگوں میں سے پایا ہے جو اپنے عہدوں کی محافظت کرتے اور رب العالمین سے ڈرتے ہیں اور وہ اس پر شرر زمانہ میں اس ماء المعین کی طرح ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے- جس طرح اس کے دل میں قرآن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ایسی محبت میں اور کسی کے دل میں نہیں دیکھتا- وہ قرآن کا عاشق ہے اور اس کی پیشانی میں آیات مبین کی محبت چمکتی ہے- اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نور ڈالے جاتے ہیں- پس وہ ان نوروں کے ساتھ قرآن شریف کے وہ دقائق دکھاتا ہے جو نہایت بعید و پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس کی اکثر خوبیوں پر مجھے رشک آتا ہے- اور یہ خداتعالیٰ کی عطا ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے- اور وہ خیرالرازقین ہے- اور خدا تعالیٰ نے اس کو ان لوگوں میں سے بنایا ہے جو قوت و بصارت والے ہیں اور اس کے کلام میں وہ حلاوت و طلاوت و دیعت کی گئی ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتی- اور اس کی فطرت کے لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے پوری پوری مناسبت ہے- خدا تعالیٰ کے کلام میں بے شمار خزانے ہیں- جو اس بزرگ جوان کے لئے ودیعت رکھے گئے ہیں- اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے- اس کے لئے کوئی اس کے رزقوں میں جھگڑنے والا نہیں- کیونکہ اس کے بندوں میں سے بعض وہ مرد ہیں جن کو تھوڑی سی نمی دی گئی ہے اور دوسرے کئی آدمی ہیں جن کو بہت سا پانی دیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ حجت|بازی کرنے والے ہیں- مجھے میری زیست کی قسم ہے کہ وہ بڑے بڑے میدانوں کا مرد ہے- اس کے لئے کسی کا یہ قول صادق آتا ہے لکل علم رجال ولکل میدان ابطال اور نیز یہ بھی صادق آتا ہے- ان فی الزوایا خبایا و فی الرجال بقایا- خدا تعالیٰ اس کو عافیت دے اور اس کو محفوظ رکھے- اور اس کی عمر کو اپنی رضامندی اور اطاعت میں لمبا کرے اور اس کو مقبولین میں سے بنائے- میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لبوں پر حکمت بہتی ہے اور آسمان کے نور اس کے پاس نازل ہوتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ مہمانوں کی طرح اس پر نزول انوار متواتر ہو رہا ہے- جب کبھی وہ کتاب اللہ کی تاویل کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسرار کے منبع کھولتا ہے اور لطائف کے چشمے بہاتا ہے اور عجیب و غریب معارف ظاہر کرتا ہے جو پردوں کے نیچے ہوتے ہیں- دقائق کے ذرات کی تدقیق کرتا ہے اور حقایق کی جڑوں تک پہنچ کر کھلا کھلا نور لاتا ہے- عقل مند اس کی تقریر کے وقت اس کے کلام کے اعجاز اور عجیب تاثیر کی وجہ سے تسلیم کے ساتھ اس کی طرف اپنی گردنوں کو لمبا کرتے ہیں- حق کو سونے کی ڈلی کی طرح دکھاتا ہے اور مخالفین کے اعتراضات کو جڑھ سے اکھیڑ دیتا ہے- موجودہ زمانہ فلسفہ کے طوفانی حملہ کا وقت تھا جس نے فاسد اور گندہ کر دیا اور اضطراب میں ڈال دیا- ہر ایک جوان کو اس چیز نے جو واقع ہوئی اور علماء علوم روحانیہ کی دولت اور اسرار رحمانیہ کے جواہرات سے بے گوشت ہڈی کی طرح خالی ہاتھ رہ گئے- پس یہ جوان کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں پر اس طرح ٹوٹ پڑا جیسے شیاطین پر شہاب گرتے ہیں- سو وہ علماء میں آنکھ کی پتلی کی طرح ہے اور حکمت کے آسمان میں روشن سورج کی طرح ہے- وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور وہ ان سطحی رایوں سے خوش نہیں ہوتا جن کا منبت اونچی زمین ہے نہ نیچی زمین- بلکہ اس کا فہم ان دقیق الماخذ مخفی اسرار کی طرف پہنچتا ہے- جو گہری زمین میں ہوتے ہیں- فللہ درہ وعلی اللٰہ اجرہ- اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کھوئی ہوئی دولت کو واپس کر دیا ہے اور وہ ان لوگوں میں سے ہے- جو توفیق دیئے جاتے ہیں- اور سب حمد اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ کو یہ دوست ایسے وقت میں بخشا جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی- سو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کی عمر و صحت و ثروت میں برکت دے اور مجھ کو ایسے اوقات عطا کرے جن میں وہ دعائیں قبول ہوں جو اس کے اور اس کے قبیلہ کے لئے کروں- اور میری فراست گواہی دیتی ہے کہ یہ استجابت ایک محقق امر ہے نہ ظنی- اور میں ہر روز امیدواروں میں سے ہوں- خداتعالیٰ کی قسم! میں اس کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں اور قرآن شریف کے اسرار کھولنے میں اور اس کے کلام اور مفہوم کے سمجھنے میں اس کو سابقین میں سے پاتا ہوں اور میں اس کے علم و حلم کو ان دو پہاڑوں کی طرح دیکھتا ہوں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں- میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کونسا دوسرے پر فوقیت لے گیا ہے- وہ دین متین کے باغوں میں سے ایک باغ ہے- اے رب! تو اس پر آسمان سے برکتیں نازل کر اور دشمنوں کے شر سے اس کو محفوظ رکھ اور جہاں کہیں وہ ہو تو اس کے ساتھ ہو اور دنیا و آخرت میں اس پر رحم کر- اے ارحم الراحمین! آمین‘ ثم آمین- تمام تعریف اولاً و آخراً و ظاھراً و باطناً اللہ تعالیٰ کے لئے ہے- وہی دنیا و آخرت میں میرا ولی ہے- اسی کے کلام نے مجھے بلوایا اور اسی کے ہاتھ نے مجھے ہلایا- سو میں نے یہ مسودہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اشارے سے اور القاء سے لکھا ہے- ولاحول ولا قوۃ الا باللٰہ- وہ ہی قادر ہے آسمان و زمین میں- اے رب! جو میں نے لکھا ہے محض تیری قوت و طاقت اور تیرے الہام کے اشارے سے لکھا ہے پس تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے‘ اے رب العالمین-<!
)مترجمہ عزیزم مولوی عبدالرحمن ازحصہ عربی آئینہ کمالات اسلام ازصفحہ۵۸۱تا۵۸۹(
>مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں- کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خداتعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں میں ان کی صحبت کا اثر ہے- مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں- اگرچہ یہ طریق دنیا اور معاشرت کے اصولوں کے مخالف ہے مگر جو شخص خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر اور دین اسلام کو ایک سچا اور منجانب اللہ دین سمجھ کر اور بایں ہمہ اپنے زمانہ کے امام کو بھی شناخت کرکے اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی ہو کر محض اعلاء کلمہ اسلام کے لئے اپنے مال حلال اور طیب کو اس راہ میں فدا کرتا ہے اس کا جو عنداللہ قدر ہے وہ ظاہر ہے- اللہ جل شانہ فرماتا ہے- لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون ~}~
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
اسے دے چکے مال و جاں باربار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے
خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے-آمین ثم آمین- ~}~
>چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نوردین بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پراز نور یقین بودے<
)نشان آسمانی صفحہ ۴۶(
>اور میرے سب دوست متقی ہیں لیکن ان سب سے قوی بصیرت اور کثیر العلم اور زیادہ تر نرم اور حلیم اور اکمل الایمان والاسلام اور سخت محبت اور معرفت اور خشیت اور یقین اور ثبات والا ایک مبارک شخص بزرگ‘ متقی‘ عالم‘ صالح‘ فقیہ اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق حکیم‘ حاجی الحرمین‘ حافظ القرآن‘ قوم کا قریشی‘ نسب کا فاروقی ہے جس کا نام نامی مع لقب گرامی مولوی حکیم نورالدین بھیروی ہے- اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے اور صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اول نمبر پر ہے اور غیر اللہ سے انقطاع میں اور ایثار اور خدمات دین میں وہ عجیب شخص ہے- اس نے اعلائے کلمہ~ن۲~ اللہ کے لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور میں نے اس کو ان مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک رضا پر اور اولاد و ازواج پر اللہ تعالٰی کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کی رضا چاہتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے مال اور جانیں صرف کرتے ہیں- اور ہر حال میں شکرگذاری سے زندگی بسر کرتے ہیں- اور وہ شخص رقیق القلب‘ صاف طبع‘ حلیم‘ کریم اور جامع الخیرات‘ بدن کے تعہد اور اس کی لذات سے بہت دور ہے- بھلائی اور نیکی کا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی فوت نہیں ہوتا اور وہ چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے اعلاء اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہادے اور اپنی جان کو بھی خاتم النبیین کی راہ میں صرف کرے- وہ ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتا ہے اور مفسدوں کی بیخ|کنی کے واسطے ہر ایک سمندر میں غوطہ|زن ہوتا ہے- میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راست|باز اور جلیل|القدر فاضل ہے اور باریک|بین اور نکتہ|رس- اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محب اس سے سبقت نہیں لے گیا-<
)حمامہ~ن۲~ البشریٰ ترجمہ عربی از صفحہ۱۵ تا صفحہ۱۶(
‏]op [tag
شجرہ نسب
) منقولہ از بدر ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ء (
حضرت خلیفۃ المسیح اول فاروق اعظم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں- آپ کا شجرہ نسب حاصل کرکے ہم واقفیت عامہ کے واسطے درج اخبار کرتے ہیں آج سے ۱۳ صدیاں قبل حضرت عمرؓ خلافت نبوی کے مالک ہوئے تھے آج ان کے ایک بیٹے کو خدا تعالی نے ایک نبی کا خلیفہ اول بنا دیا- فالحمد للٰہ علیٰ ذالک
‏]tnec [tag ایڈیٹر
حضرت امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ حضرت سلطان المشائخ شیخ عبداللہ حضرت نصیرالدین حضرت سلطان ابراہیم
حضرت شیخ مسعود حضرت عبداللہ حضرت واعظ اصغر حضرت واعظ اکبر حضرت شیخ فتح محمد خان حضرت شیخ اسحاق
حضرت عبدالسامع شیخ محمود حضرت نصیرالدین حضرت شیخ فرخ شاہ کابلی قدس سرہ العزیز حضرت شیخ احمد المعروف حافظ محمود
حضرت شیخ جمال الدین حضرت شعیب حضرت احمد حضرت شیخ یوسف حضرت شیخ محمد حضرت شیخ شہاب الدین
حضرت شیخ سلیمان حضرت شیخ بہاوالدین مخزن اسرار حضرت شیخ بدرالدین حضرت شریعت پناہ قاضی عبدالرحمن
معارف دستگاہ حافظ یار محمد حقائق ماب حافظ عبدالعزیز مغفور حافظ نصراللہ حافظ عبدالقصیر حافط عبدالغنی
کمالات دستگاہ حافظ عبدالرب فضیلت پناہ حافظ فخرالدین حافظ معزالدین غفران پناہ حافط غلام محمد
حفاظت پناہ حافظ غلام رسول
امیرالمومنین خلیفتہ المسیح نورالدین
عبدالحی عبدالسلام عبدالواہاب عبدالمنان امامہ حفصہ امتہ الحی
‏Mr.3

مذہب و عقائد
)حضرت امیر المومنینؓ کے اپنے الفاظ میں(
ایڈیٹر رسالہ البیان کے نام ماہ ستمبر ۱۹۰۸ء میں آپ نے ایک خط لکھا جس میں ظاہر فرمایا ہے کہ ہمارا مذہب کیا ہے وہ عبارت اخبار الحکم سے یہاں نقل کی جاتی ہے-
جناب من! ہمارا مذہب کیا ہے؟ مختصراً عرض ہے-
اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ
۱ - اللہ تعالیٰ تمام صفات کاملہ سے موصوف اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے- اپنی ذات میں یکتا اور صفات میں بے ہمتا- اپنے افعال میں لیس کمثل | اور اپنے تمام عبادات میں وحدہ لا شریک-
۲ - ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان پر ایمان لابد ہے-
۳ - تمام کتب الٰہیہ -
۴ - تمام رسولوں اور نبیوں -
۵ - حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المکی و المدنی محمد بن عبداللہ- ابن آمنہ- خاتم النبین‘ رسول رب العالمین ہیں اور آپ پر جو کتاب نازل ہوئی- کیا معنی! اس پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے- قرآن کریم بلا تحریف و تبدیل و کمی و زیادتی کے اسی ترتیب موجودہ پر ہم کو حضرت نبی کریم سے پہنچا-
۶ - تقدیر کا مسئلہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اشیاء جو ہیں اور جوہوں گی اور جو ہو چکیں سب کا اتم و اکمل طور پر علم ہے- جزئیات کا بھی وہ عالم ہے- نیکی کاثمرہ نیک اور بدی کا نتیجہ بد ہوتا ہے- جیسا کوئی کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے- یعفو عن کثیر -
۷ - بعد الموت نفس کو بقا ہے- قبر سے لے کر حشر نشر- صراط- جہنم- بہشت کے واقعات جو کچھ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں- سب صحیح ہیں-
۸ - صحابہ کرامؓ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے معاویہ و مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک کسی کو برا نہیں کہتے اور نہ دل میں ان کی نسبت بداعتقاد ہیں- اہل بیت کو بدل اپنا محبوب و پیارا یقین کرتے ہیں- تمام بیبیاں حضرت نبی کریمﷺ~ کی حضرت عائشہؓ و خدیجہؓ سے لے کر اور تمام خاندان نبوت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسن سبط اکبر او ر امام حسین سبط اصغر شہید کربلا اور ان کی والدہ بتول زھرا سیدۃ النساء اہل الجنہ- سب کو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ گروہ بدل یقین کرتے ہیں- صلٰوۃ اللٰہ و سلامہ علیھم اجمعین- اولاد امجاد مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام علی بن حسین زین العابدین اور محمد باقر العلوم اور جعفر صادق سے لے کر زید بن علی اور اولاد صادق علیہ السلام میں حسن بن عسکری تک سب کو علماء باعمل اور ائمہ دین مانتے ہیں- امام ابو حنیفہ- مالک- شافعی- اور احمد کو ائمہ فقہاء سے- بخاری و مسلم- ابودائود اور نسائی کو ائمہ محدثین سے- خواجہ معین الدین چشتی اور الشیخ عبدالقادر جیلانی- خواجہ نقشبند- شیخ احمد سرہندی- شیخ شہاب الدین سہروردی- ابوالحسن الشاذلی کو ائمہ تصوف‘ اس لئے ان کو مکرم معظم واجب التعظیم اعتقاد کرتے ہیں- کتاب و سنت پر ہمارا عمل ہے- اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کر لیتے ہیں اور اس لئے ہم سفر میں گیارہ رکعت فرض اور حضر میں سترہ رکعت فرض اور تین رکعت وتر کے علاوہ بیس رکعت رواتب اور بعض چالیس رکعت تک پڑھتے ہیں- ہر رکعت میں الحمد اور کچھ حصہ قرآن کریم کا اور رکوع و سجود میں تسبیح و تحمید اور تشہد میں التحیات و صلٰوۃ و سلام و دعا پڑھتے ہیں- تمام رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں- چاندی میں ۵۲ تولہ چاندی پر چالیسواں حصہ‘ ساڑھے سات تولہ سونے پر سوا دو ماشہ زکٰوۃ اور بارانی زمین پر عشر اور نہری و چاہی زمین پر بیسواں حصہ زکٰوۃ دیتے ہیں- اور حج بیت اللہ کرتے ہیں- فضائل میں ترقی اور رذائل سے بچنے میں لگے رہتے ہیں-
مرزا
دریں رہ گر کشندم ور بسوزند
نتابم رو ز ایوان محمد
پر ہر ایک کا عمل ہے- با ایں ہمہ لوگ اور آپ ہم سے کیوں خفا ہیں؟
۱ - اس لئے کہ مرزا نے دعویٰ مکالمہ الہیہ کا کیا- مگر اس دعوے کی بنا اس پر تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے صفات میں الاٰن کما کان ہے- پس اگر وہ پہلے کسی سے بولتا اور کلام کرتا تھا تو اب وہ کیوں نہیں بولتا- اور اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم میں دعا ہے کہ الٰہی! انبیائ- صدیقوں- شہداء اور صلحاء کی راہ عطا فرما- اور ان راہوں میں ایک راہ مکالمہ کی بھی ہے- پس اگر ہم مکالمہ کے مدعی ہیں تو کیا کفر کیا؟ بنی|اسرائیل کو اس لئے عبادت عجل پر ملامت ہوئی- اولم یروا انہ لا یکلمھم ولا یھدیھم سبیلاً کہ ان کا معبود ان سے بات نہیں کرتا اور ان کو ہدایت نہیں فرماتا- پس اس وقت کیوں مسلمان مکالمات الہیہ سے انکار کرتے ہیں-؟
۲ - دعویٰ امامت و تجدید دین- اس کی بنا مکالمات اور حدیث علیٰ راس مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا اور سورہ نور کی آیت استخلاف پر تھی- اور ہمیشہ مجدد گذرتے رہے- پس اس صدی کو کیوں خالی چھوڑتے ہیں-؟
۳ - دعویٰ مہدویت جس کا مدار وہی مکالمات تھے اور حدیث لا مھدی الا عیسیٰ- یہ صحیح حدیث اسفار حدیث میں موجود ہے- منجملہ ان کے ابن ماجہ میں بھی ہے مگر جناب نے بہت حقارت اور بری نگاہ سے اس کا نام روایت اور مرزا صاحب کی توہین کے لئے فرمایا کہ حدیث کر کے مرزا نے اس روایت کو پیش کیا ہے- حالانکہ یہ حدیث ہے- اور پھر کیا مجدد مھدی نہیں ہوتا؟ انصاف! انصاف!!
۴ - دعویٰ عیسیٰ ابن مریم ہونے کا- اس کا مدار بھی مکالمہ الٰہیہ تھا اور قرآن کریم کی آیت و مریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا و صدقت بکلمات ربھا و کتبہ وکانت من القانتین ]ttex )[tagسورۃتحریم( پر تھا- اس آیت کریمہ سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- مومن جس سے خطا ہو جائے وہ امراۃ فرعون کی مثل ہے کہ شیطان کے ماتحت ہے- وہ تو دعائیں کریں- نجنی من فرعون اور اس آیت میں ذکر ہے دوسری قسم کے مومن کا- دوسرا مومن وہ ہے جو محصن ہے- وہ مریم ہوتا ہے اور جب اس پر کلام الٰہی کا نفخ ہوتا ہے تو مریم سے ابن مریم ہو جاتا ہے تیسری وجہ یہ کہ ~}~
چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
‏]5sil [tagچوتھی وجہ حدیث صحیح ینزل فیکم ابن مریم
۵ - مرزا صاحب کا دعویٰ کہ ابن مریم مر گئے اس کے ثبوت کے لئے انہوں نے اسی رسالے لکھے-
۶ - جو طبعی موت سے مر گئے وہ دنیا میں بایں جسم عنصری واپس نہیں آتے- ومن ورائھم برزخ الیٰ یوم یبعثون
۷ - آپ نے ہزاروں پیشگوئیاں کیں جو صحیح ہوئیں- جو بظاہر کسی کو نظر آتا ہیکہ صحیح نہیں‘ ان پر مراز صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے- بایں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمکو خاتم النبین مانا اور ان کے عشق و محبت میں ہزاروں صفحہ لکھا ہے‘ بے|ریب لکھا ہے کہ میں نبیبمعنی پیشگوئی کرنے والا ہوں- مجھے احادیث اور کلام الٰہی میں نبی کہا گیا مگر نہ نبی تشریعی -اور یہی مذہب تمام صوفیاء کرام کا ہے- فتوحات مکیہ پر آپ غور کریں- آپ کی سرخی اور آپ کا مضمون کم سے کم چار لاکھ مسلمان احمدیوں کو دکھ دینے والا ہے- اگرچہ آپ کے ساتھ بھی بہت سے اخبار اور رسائل ہیں- مولوی صاحب! آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں- اس پر دریافت طلب امر ہے کہ آپ کو اس بارے میں وحی نبوت ہوئی ہے کہ آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں یا آپ کی دہریت کا فتویٰ ہے-
نورالدین
فروری ۱۹۰۹ء میں حسن نظامی دہلوی نے آپؓ کی خدمت میں ایک خط لکھا اس کے جواب میں ان کو جو خط آپؓ نے لکھا- درج ذیل ہے-
مکرم معظم جناب مولانا- مکرمت نامہ پہنچا- اس پر عرض ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح بخاری کو میں اور ہماری جماعت اصح الکتب یقین کرتے ہیں- اس میں لکھا ہے کہ ایک بار سرور عالم‘ فخر بنی آدم‘ خاتم المرسلین‘ سیدالاولین و الاخرین‘ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حضرات صحابہ کرامؓ شرف اندوز تھے اور ایک جنازہ گذرا- اور اس مطہر و مزکی جماعت نے اس کی تعریف کی- عربی عبارت میں ہے- اثنوا علیہ خیراً فقال وجبت- پھر ایک اور جنازہ گذرا تو اس کی مذمت ہوئی پھر ارشاد ہوا- وجبت- وجبت کے معنی ہیں کہ اس کے لئے واجب ہو چکی- حضرات صحابہ کرامؓ نے عرض کیا- ما وجبت یا رسول اللٰہ! کیا واجب ہوا- فرمایا- الذی اثنیتم علیہ خیراً فوجبت لہ الجنۃ واما الذی اثنیتم علیہ شراً فوجبت لہ النار- انتم شھداء فی الارض- جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوئی- اب جو میں قرآن کریم کو پڑھتا ہوں تو اس میں ارشاد ہے- وکذٰلک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شھداء علی الناس تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حقیقت ہر زمانہ کے اخیار میں طاری و ساری ہے- اور ہمیشہ اس کے مطابق ہم مشاہدہ کرتے ہیں- اور اس معیار پر میں نے حضرت نظام الحق والدین سلطان الدنیا و العقبی کو دیکھا تو سات سو برس کے قریب قریب ہوتا ہے کہ ہزاروں ہزار اخیار آپ کی مدح میں رطب اللسان ہیں- اگر یہ مشت خاک ان ابرار و اخیار کے ساتھ ہم آواز نہ ہو تو حسب الارشاد ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ ونصلہ جھنم وسائ|ت مصیراً- مجھ سے زیادہ کون بدقسمت ہو سکتا ہے- پس میرا دلی یقین یہ ہے کہ وہ محبوب الٰہی حسب تزکیہ شہداء اللہ واقعی محبوب الٰہی تھے- یہی میرا دلی اعتقاد ہے- عام لوگوں کی اجنبیت انشاء اللہ تعالیٰ میرے نزدیک جوئے نمی ارزد کا رنگ رکھتیہے- ~}~
کاش آنا نکہ عیب من گیرند
روئے آں دلستاں بدیدندے
اب دوسرے ارشاد اور اس کی اہمیت پر گذارش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- انا لننصر رسلنا والذین اٰمنوا فی الحیٰوۃ الدنیا اور فرماتا ہے وللٰہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولٰکن المنافقین لا یفقھون- پس مولانا- اگر ہم فی الواقع جناب الٰہی کی نظر میں مومن ہیں تو ہم یقیناً یقیناً معزز و منصور ہیں- ہمیں کفار کے جلسہ کا قطعاً جوش و رنج نہیں- اور نہ ہم ان کے نظاروں کو اہم یقین کر سکتے ہیں- جناب کو معلوم ہوگا حضرت فرید الحق والدین جب قطب الحق کے جانشین ہوئے تو ہفتہ کے اندر اندر قرب دہلی سے دوری اختیار فرمائی تو کیا ان کے لئے اجودھن کا جنگل مضر ہوا- لاواللہ-
اپنی کتاب رسالہ نورالدین میں آپؓ نے اپنا مذہب بیان فرمایا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے-
۱ - ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ ہے اور وہ موصوف بصفات کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزہ لم یلد ولم یولد ہے- اسی کے ارادہ اور اسی کی خلق سے یہ تمام مخلوق ہے- وہ وراء الورائ‘ محیط کائنات لا الٰہ الا اللٰہ خالق کل شی|ء وھو بکل شی|ء محیط- وھو الاول وان الیٰ ربک المنتھیٰ وھوالاٰخر ہے- جبکہ ہمارا یہ عقیدہ اور یہ ایمان ہے تو سوفسطائی- دہریہ- مسیحی- اور وہ یونانی منطقی اور سناتن جو اللہ تعالیٰ کو علت- لابشرط- بشرط لا نرگن مانتا ہے اور وجودی- نیچری- آریہ سماجی جس کے نزدیک اللہ خالق ارواح‘ خالق مادہ‘ خالق زمانہ‘ خالق فضا اور ان کے گن- کرم- سبھائو- خواص- افعال- عادت کا خالق نہیں- ہماری کتاب کو کیوں پسند کرے گا-
۲ - ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ وہ متکلم ہے- اپنے پیاروں سے کلام کرتا ہے- ارادہ و مشیت سے اس کے کام ہوتے ہیں- وہ کلام کرتا رہا‘ کرتا رہتا ہے اور کلام کرے گا- اس کے کلام و تکلیم پر کبھی مہر نہیں لگی- پس جو لوگ اس کو گم صم مانتے ہیں مثلاً برہمو اور نیچری اور جو لوگ کہتے ہیں دو ارب برس سے وہ خاموش ہے اور صرف چار ہی آدمیوں سے سرشٹی کے ابتدا میں بولا تھا یا جو کہتے ہیں کہ مسیح یا نبی کریم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بات کرکے اب خاموش ہے اور جن کا وہم ہے کہ بیج کی طرح بے اختیار ہے وہ کیوں پسند کرنے لگے- ][۳ - ہم مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں- ان پر اور اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں‘ رسولوں اور نبیوں پر ہمارا ایمان ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین رسول رب العالمین مانتے ہیں- پھر ان باتوں کے مخالف کیوں پسند کرنے لگے-
۴ - ہمارے نزدیک ہر ایک شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے- اور ہم عفو‘ مغفرت‘ شفاعت بالاذن کے معتقد ہیں- پس ہماری باتوں سے کفارہ کا قائل کب راضی ہوا- اور جو اللہ تعالیٰ کو )کھما( عفو والا نہ مانے- وہ کیونکر راضی ہو-
۵ - ہم صحابہ کرام‘ تابعین عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ابوبکرؓ و عمرؓ سے لے کر معاویہؓ و مغیرہؓ تک اویس قرنی اور حسن بصری سے لے کر ابراہیم نخعی و نافع عکرمہ تک‘ اور اہل بیت میں خدیجہؓ و عائشہؓ سے لے کر علی المرتضیٰؓ اور تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام ان سب کو بحمداللہ اپنا محبوب اور دل سے پیارا اعتقاد کرتے ہیں قال الامام امامنا علیہ السلام ~}~
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آل محمد است
پس رافضی‘ شیعہ‘ خارجی‘ ناصبی‘ جبریہ‘ قدریہ‘ مرجیہ‘ جھمیہ‘معتزلہ‘ تعامل اسلام کا منکر- احادیث صحیحہ کا منکر اور ان کو تودہ طوفان کہنے والے کب پسند کر سکتے ہیں حالانکہ وہ معمولی کتب تورایخ بلکہ امور تاریخیہ- لغت و کتب بیان کو اپنا مقتدا بنائے ہوئے ہیں- ہم ائمہ تصوف- ائمہ فقہ- ائمہ حدیث- ائمہ کلام کی تعظیم و تکریم کو ضروری یقین کرتے ہیں اور ان کی مشترکہ سبیل کو سبیل المومنین مانتے ہیں- ہاں! ان لوگوں کے آثار باقیہ فتوح الغیب و فتح الربانی للسید الشیخ عبدالقادر الجیلانی- عوارف للشیخ شھاب الدین السھروردی جس کو میرے ابن عم حضرت فرید الدین گنج شکر چشتی ہمیشہ اپنے درس میں رکھتے تھے- اور وہ نسخہ جس پر حضرت سلطان نظام الدین نے پڑھا- اب تک جمالیوں میں موجود ہے- منازل السائرین شرح مدارج السالکین- طریق الھجرتین- مجمع الفوائد و زاد المعاد لشیخ الاسلام الشیخ ابن قیم- فصل الخطاب لخواجہ محمد پارسا- مکتوبات لشیخ مشائخنا المجدد احمدالسرھندی- فتوحات مکیہ ابن عربی- الکتاب الصحیح لامام البخاری- الموطاء لامام دارالھجرۃ- امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہکے آثار باقیہ- تصانیف ابویوسف- امام ائمہ فقہ و حدیث و تصانیف امام محمد الشیبانی و طحاوی- الام للشافعی-محلی و فصل لابن حزم- السنن الکبری للبیھقی- وراء تعارض العقل والنقل والرد علی المنطقیین- و منھاج السنۃللشیخ الاجل رئیس المتکلمین والفقھاء و المحدثین والمفسرین شیخ الاسلام شیخ ابن تیمیہ الحرانی والمطالب العالیہ للامام الرازی- فتح الباری لابن حجر- فتح القدیر و تحریر لابن ھمام اور تمام تصانیف حافظ ذہبی جیسے دول الاسلام‘ میزان و تذکرہ وغیرہ- حجۃ اللہ البالغہ لشیخ مشائخنا شاہ ولی اللہ دھلوی- نیل الاوطار للشوکانی الیمنی موجود ہیں- مصنف خدا پرست دیکھ لے- انہیں کے ساتھ ہیں- ابن المنذر‘ ابن قدامہ‘ ابویعلی-میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں اور سچے دل سے علیٰ وجہ البصیرۃ کامل یقین کرتا ہوں کہ بے ریب یہ لوگ مصداق تھے- وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا وکانوا بایٰاتنا یوقنون )پ۲۱‘ السجدہ:۲۵( کے- اور ان کی دعائیںواجعلنا للمتقین اماماً )پ۱۹‘ الفرقان:۷۵( ضرور ہی قبول ہوئیں- پس بڑے ہی بے نصیب ہیں وہ لوگ جو انسانی امامت کے منکر ہیں- اور انی جاعلک للناس اماماً کے بھید سے ناواقف ہیں- ان کی عملی حالتیں ان پر خود ملامت کرتی ہوں گی اگر فطرت سلیمہ باقی ہے- بحمداللہ ہم نے ان سب کے اسفار طیبہ کو خوب غور سے پڑھا اور ہم علیٰ بصیرۃ اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سب لوگ خداتعالیٰ کے برگزیدوں میں اور ہادیوں میں سے تھے- ہم نے لغت میں بخاری- اصمعی- ابوعبیدہ- ابوعبید- مفردات راغب- نہایہ- مجمع|البحار- لسان العرب اور صرف و نحو میں سیبویہ-ابن مالک- ابن ہشام اور سیوطی اور قرائ|ت میں شاطبی اور ابوعمر دوانی اور معانی و بیان میں عبدالقاہر جرجانی مصنف دلائل الاعجاز اور اسرارالبلاغہ اور سکاکی مصنف مفتاح العلوم اور ادب میں اصمعی اور تفاسیر میں روایتاً ابن جریر- ابن کثیر- شوکانی کی فتح القدیر اور درایۃ و روایۃ دونوں میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور فقط درایت میں تفسیر کبیر کو ائمہ سلف کے بعد انتخاب کیا ہے- قریب زمانہ کے جو ہندوستانیوں میں اصحاب تصنیف گذرے ہیں- ان میں صاحب حجتہ اللہ البالغہ اور ازالتہ الخفاء شاہ ولی اللہ کو میں ممتاز انسان اور صافی الذہن جانتا ہوں- میں حضرت مسیح کی وفات کا قائل ہوں اور میرا کامل یقین ہے کہ وہ قتل اور پھانسی سے بچ کر اپنی موت سے مر چکے- اس امت میں انعمت علیھم- مغضوب- ضال تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں- پس وہ مسیح موعود علیہ السلام بھی موجود ہے- جس کو ہم میں نازل ہونا تھا- وہ مہدی معہود اور اس وقت کا امام بھی ہے- وہ اختلافوں میں حکم ہے- ہم نے اس کی آیات بینات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر‘ جزا و سزا‘ حشراجساد‘ جنت و نار- اپنی بے|ثبات زندگی کو نصب العین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے- ہم نے اپنے مقتدائوں میں ابن حزم اور ابن تیمیہ کو بھی شمار کیا ہے- اس کی تائید میں صرف دو قول یہاں لکھتے ہیں- اول ایک شخص اہل اللہ میں سے ہے- راست|باز- صالح اور ثقہ امین ان کا نام عبداللہ الغزنوی کرکے ہمارے ملک پنجاب میں مشہور ہے- ہمارے امام علیہ السلام نے ان کو خاتم النبیین رسول رب العالمین نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کی شکل پر رئویا میں دیکھا ہے اور یہ بسبب ان کی کمال اتباع سنت کے تھا وہ بہت خوبیوں کے جامع اور علمی اور عملی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خصوصیت سے ممتاز فرمایا تھا- انہوں نے ابن حزم کے بارے میں توجہ کی کہ یہ بہت سخت الفاظ استعمال میں لاتے ہیں- اس پر عبداللہ المرحوم کو الہام ہوا- )ہاں! میں اس وقت تک عبداللہ مرحوم کو صادق‘ راست باز یقین کرتا ہوں اور اسی یقین پر اس الہام کو شائع کرتا ہوں( ~}~
گفتگوئے عاشقاں در باب رب
جوسشش عشق است نے ترک ادب
ہرکہ کرد از جام حق یک جرعہ نوش
نے ادب ماند درو نے عقل و ہوش
ہاں و ہاں ترک حسد کن با شہاں
ورنہ ابلیسے شوی اندر جہاں
با دمے شیرے تو بازی می کنی
با ملائک ترک و تازی می کنی
اس کہانی کی شہادت ایک شخص ساکن لاہور کوچہ کندی گراں کے پاس بھی ہے اور اس کا نام عبدالحق ہے- وہ بھی حسن ظن کے قابل ہیں- ولا ازکی علی اللہ احدا-
دوم حضرت امام سیوطی~رح~ نے اپنی بے نظیر کتاب الاشباہ والنظائر کی جلد سوم صفحہ ۳۲ میں لکھا ہے- قال فیہ جواب سائل سال عن حرف لو لشیخنا و سیدنا الامام العالم العلامۃ الاوحد الحافظ المجتھد الزاھد العابد القدوۃ امام الائمۃ قدوۃ الامۃ علامۃ العلماء وارث الانبیاء اٰخرالمجتھدین اوحد علماء الدین برکۃ الاسلام حجۃ الاعلام برھان المتکلمین قامع المبتدعین ذی العلوم الرفیعۃ والفنون البدیعۃ محی السنۃ ومن عظمت بہ علینا المنۃ وقامت بہ علی الاعداء الحجۃ واستبانت ببرکۃ وھدیۃ المحجۃ- تقی الدین ابی العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیۃ الحرائی منارۃ و شید من الدین ارکانہ-
)۲۳ اگست ۱۹۰۷ء بروز جمعہ حضرت حکیم حاجی الحرمین
جناب مولوی نورالدینؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا(
اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ-
اما بعد- اعوذ باللٰہ من الشیطان الرجیم-
یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللٰہ حق تقٰتہ ولا تموتن الا و انتم مسلمون واعتصموا بحبل اللٰہ جمیعاً ولا تفرقوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عذاب عظیم- )آل عمران آیت ۱۰۳ تا ۱۰۵(
تم نے سنا ہوگا کہ جب کبھی میں کوئی خطبہ پڑھتا ہوں وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا‘ کوئی لیکچر ہو یا اور کوئی نصیحت ہو تو میری عادت ہے کہ اس کے شروع میں اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ پڑھ لیتا ہوں- اگرچہ میری عادت نہیں کہ اپنی ہر ایک حرکت اور بات کو بلند آواز سے ظاہر کروں مگر جب کوئی لمبی بات یا دردمند دل کی بات کرنی ہو تو میں اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ اس کے اول ضرور پڑھتا ہوں اور میری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو میری نصیحت سنتے ہیں اس بات کے گواہ رہیں کہ میں خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اس کی ذات و صفات میں مانتا ہوں اور میں حضور قلب سے‘ یقین سے‘ استقلال سے یہ بات کہتاہوں کہ میں اس کی قدرتوں کو بیان کرتے ہوئے کبھی شرمندگی نہیں اٹھاتا- میں اسے اپنا محبوب مانتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء کا سردار اور فخر رسل سمجھتا ہوں اور میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے اس کی امت میں مجھے بنایا‘ اس کے محبوں میں سے بنایا‘ اس کے دین کے محبوں میں سے بنایا- اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مرجائوں گا- ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بڑی بیمارپرسی کی- تمام رات جاگتے تھے- ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستار شاہ صاحب ہیں- بعضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خداتعالیٰ کی غفور رحیمیاں ہیں- ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی- اور یاد رکھو کہ اگر میں مر جاتا تو اسی ایمان پر مرتا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اپنی ذات و صفات میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سچے رسول اور خاتم الانبیاء اور فخر رسل ہیں اور یہ بھی میرا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب مہدی ہیں‘ مسیح ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے غلام ہیں- بڑے راست باز اور سچے ہیں- گو مجھ سے ایسی خدمت ادا نہیں ہوئی جیسی کہ چاہئے تھی اور ذرہ بھی ادا نہیں ہوئی- میں آج اپنی زندگی کا ایک نیا دن سمجھتا ہوں- گو تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے مگر اب میں ایک نیا انسان ہوں اور ایک نئی مخلوق ہوں- میرے قویٰ پر‘ میرے عادات پر‘ میرے دماغ پر‘ میرے وجود پر‘ میرے اخلاق پر جو اس بیماری نے اثر کیا ہے‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک نیا انسان ہوں- مجھے کسی کی پروا نہیں- میں ذرا کسی کی خوشامد نہیں کر سکتا- میں بالکل الگ تھلگ ہوں- میں صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں- وہی میرا رب ہے کیونکہ اس بات کا بھروسہ نہیں کہ آئندہ ہفتہ تک میری زندگی ہے کہ نہیں- لہذا میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور اپنے باطن کو ایسا پاک صاف کر لو جیسا کہ چاہئے- خدا تعالیٰ بڑا پاک‘ قدوس اور سب سے بڑھ کر مطہر ہے- اس کی جناب میں مقرب بھی وہی ہو سکتا ہے جو خود پاک ہے- گندہ آدمی قبولیت حاصل نہیں کر سکتا- دیکھو ایک پاک صاف اور عمدہ لباس والا آدمی ایک پیشاب والی گندی جگہ پر نہیں بیٹھتا- اسی طرح ایک پاک اور قدوس خدا ایک گندے کو اپنا مقرب کس طرح بنا سکتا ہے؟ اسی واسطے اس نے سعیدوں کے واسطے بہشت اور شقیوں کے واسطے دوزخ بنایا ہے- ایک ناپاک انسان تو بہشت کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لائق کب ہو سکتا ہے- ۔۔۔۔۔۔۔الخ-
)۱۹۱۰ء کے ایام جلسہ سالانہ میں جو خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ
نے فرمایا درج ذیل ہے(
اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- اما بعد‘ اعوذ باللٰہ من الشیطٰن الرجیم- بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم- والعصر- ان الانسان لفی خسر الا الذین اٰمنو۱ وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر-
تمام خطبے جو دنیا میں پڑھے جاتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک‘ ان کا ابتدا اشھد ان لا الٰہ الا اللٰہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ- سے ہوتا ہے-
اس کلمہ کا پہلا حصہ ہے- لا الٰہ الا اللٰہ اس کے تین فائدے ہیں-
)۱-( پہلا فائدہ یہ ہے کہ جو شخص اسے باواز بلند پڑھ لیتا ہے‘ ہم اسے مسلمان اور شرک سے بیزار سمجھ لیتے ہیں-
)۲-( دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ جب اس کے معنوں پر حقیقی طور پر ایمان ہوتا ہے تو ایسا مومن دنیا کے تمام اسباب اور ذرائع کو تب ذریعہ مانتا ہے جب دیکھ لیتا ہے کہ میرا مولیٰ ان کو اسباب بناتا ہے اور اسی نے ان میں تاثیر رکھ دی ہے-
)۳-( تیسرا فائدہ جس کی شہادت تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام اولیاء کرام یک زبان ہو کر دیتے آئے ہیں یہ ہے کہ جب اس کلمہ کی کثرت کی جاوے اور اسے باربار سمجھ کر دوہرایا جاوے تو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے اور اس کے قرب کی راہ میں جو حجاب اور پردے ہوتے ہیں وہ آسانی سے بتدریج اٹھ جاتے ہیں- فقرہ اول کے دو حصے ہیں ایک میں لا الٰہ دوسرے میں الا اللٰہ ہے- پہلا حصہ گناہوں کے دور کرنے اور ان سے بچانے کا سامان ہے اور دوسرا نیکیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ- لا الٰہ میں دنیا کے تمام معبودوں‘ محبوبوں اور مطلوبوں کی نفی ہے- جو کوئی چیز انسان کی نظر اور ایمان میں محبوب اور مطلوب ہی نہ رہے تو وہ ان امور پر جو گناہ ہیں جھک کیونکر سکتا ہے- اصل اشیاء جو اس کے لئے حلال ہیں وہ بھی جب اس کا مقصود بالذات نہ ہونگی تو جو اس پر حرام ہیں ان کی طرف تو وہ توجہ بھی نہیں کر سکتا- اس طرح پر یہ پہلا حصہ لا الٰہ گناہوں سے بچانے کا ذریعہ ٹھہرتا ہے- کس کس طرح پر ہر ایک گناہ سے انسان اس حصہ پر ایمان لا کر بچ سکتا ہے یہ لمبی بحث ہے- دانشمند اس اصل پر جو میں نے بیان کر دیا ہے غور کریں- الا اللٰہ سے نیکیوں کی طرف توجہ کیونکر پیدا ہوتی ہے؟ اس طرح پر کہ جب انسان دنیا کے تمام مطلوبات و محبوبات کو فانی اور ادنیٰ یقین کر کے کامل الصفات خدا کے ساتھ پیوند کرتا ہے تو پھر اس کی تجلی اس کے تمام جذبات کو اپنی رضا کے نیچے کر لیتی ہے اور اس کا اصل مطلوب ہر امر میں خدا ہوتا ہے- پس وہ کسی کام کو کرتا ہی نہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لے- یعنی جہاں ایک طرف
اسے نگران حال پاتا ہے وہاں دوسری طرف اس کی رضا اور اجازت کو دیکھتا ہے- اس طرح پر وہ نیکیوں کو حاصل کرتا ہے-
پھر اس کلمہ کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کا جملہ اس لئے لگایا کہ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ زمانہ گذشتہ میں جو ہادی دنیا کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاً آئے‘ ایک زمانہ گذرنے کے بعد ان کو معبود بنا لیا گیا اور خدا تعالیٰ کی معبودیت میں ان کو شریک کر لیا گیا- اس گند سے دنیا کو بچانے کے لئے آپ~صل۳~ نے اس حصہ کو رکھا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ ایک عبد سمجھیں اور آئندہ چونکہ اس امت میں ولی ہوں گے اس لئے انہیں بھی کوئی معبود قرار نہ دے لے- پس میں اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کو کلمہ کا متمم یقین کرتا ہوں اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ اس جزو پر ایمان لانے کے بدوں مومن بن ہی نہیں سکتا- جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے جو لا الٰہ الا اللٰہ کا منشاء ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حسنات کاملہ پر غور کرتا اور اس کے اسماء اور افعال پر سوچتا ہے تو یقیناً اسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں‘ اللہ تعالیٰ کی کتابوں‘ اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور تقدیر اور حشرنشر‘ پل صراط‘ جنت ونار پر ایمان لانا لابدی ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے صفات کے ہی ثمرات ہیں اور ایمان باللہ کے لئے لابد ہے کہ وہ اس کو صفات کاملہ سے موصوف یقین کرے- چونکہ اسی نے تقدیر کو بنایا- ملائکہ کو پیدا کیا- جنت و نار کو پیدا کیا- انبیاء علیہم السلام کو بھیجا- ان کو صحائف دئیے- اس لئے ملائکہ پر ایمان لانا- خدا کی کتابوں‘ اس کے رسولوں‘ تقدیر‘ حشرونشر‘ پل صراط‘ جنت و نار پر ایمان لانا ضروری ہو جاتا ہے-
پس میرے ایمان میں ایمان باللہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان باتوں پر بھی ایمان نہ لاوے- پھر ایمان کے بعد اس کا اثر انسان کے جوارح پر ہوتا ہے- جوراح سے جو امور سرزد ہوتے ہیں ان کا نام اعمال ہے- ان میں نماز ہے- روزہ ہے- حج ہے- اخلاق فاضلہ ہیں- رذائل سے بچنا ہے- ایمان باللہ اور ایمان کامل کے ساتھ اعمال بھی لابد ہیں- قرآن کریم سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا والذین یومنون بالاٰخرۃ یومنون بہ وھم علیٰ صلوٰتھم یحافظون- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے تو وہ آخرت پر بھی ایمان لاتا ہے- یعنی اللہ پر ایمان لانا آخرت پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے- پھر اس ایمان کا اثر اعمال پر یوں پڑتا ہے کہ ایسے مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں- انہیں ضائع نہیں ہونے دیتے- پس یاد رکھو کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کا دعویٰ کرے اور بایں نماز کا تارک ہو اور قرآن کریم کی اتباع میں سستی کرے‘ وہ اپنے اس لا الہ الا اللہ کے دعویٰ میں سچا نہیں جیسا کہ یہ آیت ظاہر کرتی ہے-
اس کے بعد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کے ساتھ ہمیں ضرورت پڑتی ہے کہ ہم قرآن شریف میں دیکھیں کہ آپ کس درجہ کے انسان تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند معلوم کرنے کے لئے مومنوں کو دو آیتیں‘ جو ادنیٰ تعداد شہادت کی ہے‘ سامنے رکھنی پڑتی ہیں- ایک جگہ انک لعلیٰ خلق عظیم اور دوسری جگہ فرمایا- کان فضل اللٰہ علیک عظیماً- اب غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو عظمتوں کا ذکر کیا ہے- ایک تو عظیم اخلاق پر ہونا ہی بڑا ہوتا ہے پھر جس کو اللہ بڑا بنائے اس کا خیال کرو کہ وہ بڑائی کس شان کی ہوگی- اللہ تعالیٰ جو کامل الصفات ہستی ہے اس کی طرف سے جس کو بڑائی عطا ہو وہ بڑائی ایسی نہیں ہو سکتی جس کا وہم یا اندازہ ہو سکے اور یہ بڑائی ایک تو اخلاق میں عطا کی- اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے|مثل اخلاق کا اندازہ ہو سکتا ہے- پھر عظیم فضل آپ پر کیا- اب غور کرو جس کو یہ دو عظمتیں حاصل ہوں اور فضل عظیم اور خلق عظیم والا جن کا مقتدا ہو- انہیں کسی اور کی ریجھ ہی کیا ہوسکتی ہے؟ و ھو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم -
پھر جو کتاب اللہ جل شانہ نے اس کامل انسان صاحب خلق عظیم و فضل عظیم پر نازل کی اس کے لئے دو گواہیاں میں پیش کرتا ہوں- ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا- انا لہ لحافظون- اور پھر فرماتا ہے nsk] ga[t لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ- پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا آپ وعدہ فرمایا اور دوسری آیت میں یہ فرمایا کہ باطل اس پر اپنا اثر نہیں کر سکتا- اب جس کتاب کا محافظ حق سبحانہ ہو اور وہ آئندہ کے لئے پیشگوئی کرتا ہے کہ اس کو باطل کرنے والی چیز نہیں بھیجیں گے تو ہمیں سائنس کا کیا ڈر اور کسی اندرونی یا بیرونی حملے کا کیا خوف؟
میں نے ہمیشہ یہ ظاہر کیا ہے کہ جس قدر سائنس اور دیگر علوم ترقی کریں گے اسی قدر قرآن مجید کے کمالات کا اظہار ہوگا- اس کتاب کو لے کر ہمیں کسی حملے سے دنیا میں رہ کر گھبرانے کی حاجت نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے اور تجربہ نے بتا دیا ہے کہ نہ اس میں تحریف ہوگی اور نہ یہ دنیا سے اٹھے گی- پس یہ کتاب کامل کتاب ہے اور یہی خالق فطرت نے بتا دیا ہے تو اس پر کسی حملہ کا ڈر نہیں اور نہ گھبرانے کی حاجت ہے- ہاں اگر ڈر ہے تو اس بات کا کہ بعض گھروں سے نکل کر دوسرے گھروں میں چلی جائے گی تو پچھلے بزرگوں کی روح کو کیسا ملال ہوگا- پس خوف ہے تو یہ ہے کہ کوئی اس کی اتباع سے نہ نکل جائے-
موجودہ حالت میں میں دیکھتا ہوں کہ کچھ امراء ہیں‘ کچھ علماء اور سجادہ نشین ہیں اور کچھ وہ نوجوان ہیں جو قوم کے لئے کالجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں- جب عملی رنگ میں یہی لوگ مذہبی امور میں سست ہوں تو عوام مخلوق کا کیا حال ہو سکتا ہے- اس لئے سورۃ العصر میں نے پڑھی ہے اور میرا مطلب اس میں یہ ہے کہ زمانہ جس طرح پر تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں تیزی سے گزر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ شریف میں جہاں انسانی عمر کے اس طرح تیزی سے گزرنے کی طرف متوجہ کیا ہے- ساتھ ہی اس سورۃ میں اس کا علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہیں اگر ہمارا حکم مان لو- اس حکم کی تعمیل سے تم زندہ جاوید ہو جائو گے اور وہ یہ ہے کہ آپ مومن بنو اور اعمال صالحہ کرو- دوسرے کو مومن بنائو اور حق کی وصیت کرو- حق کے پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو اور صبرو استقلال سے کام لو-
اس علاج پر اگر مومن عمل کرے اور اس کو اپنا دستور العمل بنا لے تو یقیناً یقیناً وہ ہمیشہ کی زندگی پالے گا- بہرحال یہ سورۃ العصر وہ سورت کریمہ ہے کہ جب صحابہ کرامؓ آپس میں ملتے تھے تو اس کو پڑھ لیا کرتے تھے- آج تم اور ہم بھی ملے ہیں اور نہیں معلوم آئندہ ہمیں ملنے کا موقعہ ہو گا یا نہیں اس لئے میں نے اس سنت پر عمل کرنے کی نیت سے اس سورت کو پڑھا ہے اور میں نے چاہا ہے کہ وصیت الحق کے طور پر تمہیں سنا دوں- سنو! میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہ اپنی ذات میں یکتا‘ اپنی صفات میں بے|ہمتا اپنے اسماء اور افعال میں لیس کمثلہ شی|ء ہے میں اللہ تعالیٰ کے ملائکہ پر ایمان رکھتا ہوں جو تمام نیکیوں کے محرک ہیں اور ان پر ایمان لانے کی یہ غرض ہے کہ ہر نیک تحریک پر انسان عمل کرے- میں اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں پر ایمان رکھتا ہوں خواہ ان کا ذکر قرآن مجید میں ہے یا نہیں- وہ سب کے سب اللہ تعالیٰٰ کے راست|باز بندے تھے اور انہوں نے مخلوق کو اللہ تعالیٰٰ کا کلام اپنے اپنے وقت پر پہنچایا- میں اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہوں کہ تمام نبوتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئیں بلکہ میں اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہوں اور بصیرت اور شرح|صدر کے ساتھ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف تمام نبوتوں کے جامع اور خاتم تھے بلکہ آپ خاتم النبیین‘ خاتم الرسل اورخاتم کمالات انسانی تھے- یہ میرا یقین ہے کہ تمام انبیاء اور تمام اولیاء اور تمام انسانی کمالات کے آپ جامع اور خاتم ہیں اور اب آپ کے بعد میرا واہمہ بھی تجویز نہیں کرتا کہ کسی شخص میں ایسے کمالات ہوں- میں اس کے متعلق حضرت صاحب کا ایک شعر سناتا ہوں-
اے در انکار و شکے آں شاہ دیں
خادماں و چاکرانش را بہ بیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے لئے جب ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کیسے پاک گروہ تھے تو یہ قصہ معلوم ہوتا ہے- تمہارا وجود اس گائوں میں خود گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ احمد کا غلام بننے سے کیا فضل کرتا ہے- اسی طرح پر میں خدا کی تقدیر‘ حشرونشر‘ پل|صراط‘ جنت و نار پر ایمان رکھتا ہوں- میں اب تم کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کہ میں نے لمبا خطبہ نہیں سنایا- میری غرض یہ بھی ہے کہ میرے پھر تقریر کرنے تک اگر کوئی اور تمہیں تقریریں سنائیں یا باتیں بتائیں گے تو ہمارے مذہب اور معتقدات کا یہ معیار ہو گا- اگر اس کے موافق کوئی بات ہو تو ہماری طرف سے سمجھو اور اگر اس کے خلاف ہو تو وہ ہمارے عقائد کے مطابق نہیں-
اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے آیا ہے جیسا کہ اس سورۃ سے ظاہر ہے اس لئے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تمہیں دین کی بہت سی باتیں پہنچائی ہیں وہاں ہم تم کو دنیا کی ایک بات سناتے ہیں مگر دنیا کی نہیں ہم اسے دین ہی سمجھتے ہیں اور دین ہی سمجھ کر کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے دنیا کے کام بلکہ دین کے بھی سب کام امن پر موقوف ہیں- اگر امن قائم نہ رہے گا تو کوئی کام نہیں ہو سکے گا- جس قدر امن بڑھ کر ہو گا اسی قدر حق کا ابلاغ عمدہ طور سے ہو گا- اس واسطے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کے حامی رہے- آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی خود رہ کر عیسائیوں کی سلطنت میں جو حبشہ میں تھی صحابہ کرامؓ کو رکھ کر ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے- اس زندگی کے فرائض میں سے امن ہے- اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین یا دنیا کا عمدگی سے نہیں کر سکتے- میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ امن کی کوشش کرو- امن کے لئے ایک تو طاقت کی ضرورت ہے جو گورنمنٹ کے پاس ہے- دوسرے نیک چلنی اور گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری کی جو تمہارا فرض ہے- میں اس امر کو کسی کی خوشامد کی غرض سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی غرض سے کہتا ہوں کہ امن پسند جماعت بنو تاکہ ہر قسم کی ترقیوں کا تم کو موقع ملے اور چین سے زندگی بسر کرو- اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرو اور اسی سے مانگو- یہ خوب یاد رکھو کہ بلاامن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے- پس تم امن کے قائم رکھنے میں ہمیشہ گورنمنٹ کا وفاداری سے ساتھ دو- میں اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کا بدلہ اگر امن کے قائم کرنے کے لئے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ضرور دے گا اور اگر خلاف ورزی کریں گے تو اس کے بدنتیجہ کا ضرور منتظر رہنا پڑے گا- پھر اس کے بعد ایک اور بات کہتا ہوں کہ باہم محبت کو بڑھائو اور بغضوں کو دور کرو اور محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو اور صبر کرنے والے کے ساتھ آپ خداتعالیٰ ہوتا ہے- اس واسطے صبر کرنے والے کو کوئی ذلت اور تکلیف نہیں پہنچ سکتی-
)ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے- اس حالت کرب و اضطراب میں آپ نے ایک وصیت عربی زبان میں لکھی- اس کا ترجمہ درج ذیل ہے(-
یہ میری شہادت امانت ہے اس شخص کے لئے جو سنے‘ دیکھے اور سمجھے- بعد اس کے کہ گواہ کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو اوپر اس کے- میں محتاج رب العالمین‘ نورالدین- اے خدا مجھ کو میرے نام کی مانند دین کا نور بنا دے- آمین- تحقیق اللہ تعالیٰ میرا رب عالم کا رب ہے- الرحمن ہے- الرحیم ہے- مالک یوم الدین ہے- اور تحقیق وہ اللہ احد الصمد‘ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد ہے- وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد‘ الحی القیوم- و انہ بکل شی|ء علیم- یدبر الامر من السماء الی الارض- القادر ‘ فعال لما یرید- السمیع البصیر- کلم اللٰہ موسیٰ تکلیماً- ولہ الاسماء الحسنیٰ- وھو الغنی من العالمین مستوی ہوا اوپر اپنے عرش کے- ولیس کمثلہ شی|ئ- احاط بکل شی|ء علماً و خلقاً ووسع کل شی|ء علماً واحصیٰ کل شی|ء عدداً- یعلم السر واخفیٰ- الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر- عالم الغیب والشھادۃ فتعالیٰ عما یشرکون وہ ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں اور وہ ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی شے نہیں- وہ ایسا باطن ہے کہ اس کے سوا کوئی شے نہیں- کوئی اس کی قضا کو لوٹانے والا نہیں ہے اور نہ کوئی اس کے حکم کو پیچھے ڈالنے والا ہے بیدہ الخیر وھو علیٰ کل شی|ء قدیر- وتمت کلمۃ ربک صدقاًوعدلاً- لامبدل لکلماتہ ولیس بظلام للعبید- ولایظلم ربک احداً وللٰہ الحجۃ البالغۃ ولو شاء لھدی الناس جمیعاً غضب میں آتا ہے شرک و عصیان سے- رضامند اور فرح|مند ہوتا ہے بندہ کی توبہ سے- لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر اور باوجود ان باتوں کے وجوہ یومئذ ناضرۃ الیٰ ربھا ناظرۃ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے- نازل ہوا بذریعہ روح الامین کے ہمارے مولا اور ہمارے رسول پر جو خاتم النبیین ہیں اور اولاد آدم کے سردار اور جہان کے واسطے رحمت ہیں- آدمیوں کی طرف بھیجے گئے اور عام کئے گئے طرف تمام آدمیوں کے- قال اللٰہ تعالیٰ قل یٰاایھا الناس انی رسول اللٰہ الیکم جمیعاً اور نازل کیا اچھا کلام اور وعدہ کیا کہ تحقیق خدائے تعالیٰ حافظ ہے اس کے لئے جیسا کہ فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظوناور ہدایت ہے اور رحمت ہے- شفا اور روح ہے- فضل ہے‘ کفایت ہے اور تحقیق کافی ہوا-
اور ملائکہ حق ہیں اور رسول حق ہیں اور کتابیں اللہ تعالیٰ کی‘ اور وہ چیز جو پہلے نازل کی گئی حق ہیں اور ہمیشہ سے ہے اللہ تعالیٰ رب‘ رحیم‘ متکلم اور ہمیشہ رہے گا- و خلق کل شی|ء فقدرہ تقدیراً اور قبر اور سوال اس قبر میں اور نشر اور حشر اجساد اور حساب اور ایک فریق جنت میں ایک نار میں اور صراط اور شفاعت اہل کبائر کے لئے چہ جائیکہ اہل صغائر اور شفاعت واسطے رفع درجات کے حق ہے- جنت کی نعمتیں بھی حق ہیں اور وہ عطا غیرمحدود ہے- اور آلام نار کے حق ہیں و ان علیھا تسعۃ عشر -وان ربک فعال لما یرید اللہ تعالیٰ کی رحمت مسبوق بالغضب ہے- تحقیق وہ ارحم الراحمین‘ احکم الحاکمین‘ اکرم الاکرمین ہے- پھر اسلام مبنی ہے اوپر پانچ چیزوں کے- تشہد‘ صلٰوۃ‘ صوم ‘ حج اور تحقیق نماز اور سوا اس کے جیسا کہ ثابت ہوا ہے تعامل اور سنت سے اور جیسا کہ ثابت ہوا مشرحا موطا اور بخاری سے اور دیکھا ہے ان کو ہم نے مومنین میں اور یقین کیا ہے ہم نے کہ وہ طریقہ مومنین کا ہے اور فرمایا اللہ نے و من یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولیٰ ونصلہ جھنم وسائ|ت مصیراً اور تحقیق اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جیسا کہ حکم کیا ہم کو اس چیز کی اتباع کرنے کا جو کہ نازل کی ہماری طرف- حکم کیا ہم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جیسا کہ فرمایا- قل ان کنتم تحبون اللٰہ فاتبعونی یحببکم اللٰہاور جیسا کہ حکم کیا خداتعالیٰ نے اپنی اطاعت کا حکم کیا‘ اپنے رسول کی اطاعت کا اور اطاعت اولی الامر کا- پس فرمایا اطیعو اللٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم اور بلکہ فرمایا اطاعت والدین کی بابت وان جاھداک علیٰ ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلاتطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفاً اور ضرور چاہئے مقدم رکھنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اور اطاعت کتاب کا اوپر اطاعت خلق کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت خاص اللہ تعالیٰ عز سلطانہ کی اطاعت ہے جیسا کہ فرمایا ومن یطع الرسول فقد اطاع اللٰہ اور دوست رکھتا ہوں میں اتباع کرنا گروہ سابقین اولین کا مہاجرین وانصار سے- جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللٰہ عنھم ورضوا عنہ پس تحقیق وہ لوگ اول ان شخصوں میں سے ہیں کہ مزکی ہوئے ہمارے حبیب اور ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تزکیہ کرنے سے- اور خلفائے راشدون‘ ان میں سے ابوبکر و عمر و عثمان- نہ تھے یہ اور نہ کوئی ان میں سے منافق کبھی- پس تحقیق اللہ تعالیٰ نے توصیف بیان کی منافقین کی کہ ھموا بمالم ینالوا اور یہ لوگ ہیں نالوا ماھموا اور یہ لوگ مصداق ہیں خداتعالیٰ کے اس ارشاد کے وعد اللٰہ الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصٰلحٰت لیستخلفنھم فی الارض- وھم الغالبون جیسا کہ ذکر کیا سورۃ مائدہ میں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان میں ہیں- ان کے نکاح میں آئیں بیٹی رسول کی حضرت فاطمہؓ بتول اور دوستی ان کی ایمان ہے اور بغض ان کا نفاق ہے اور وہ بھائی ہیں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بمنزلہ ہارون کے ہیں موسیٰ علیہ السلام سے اور انہیں صحابہ میں سے سردار ہیں حسن مجتبیٰ- زیادہ کر میرے قلب میں اے خدا محبت ان کی- رضی اللہ عنہ- پس تحقیق وہ مصداق ہیں اس حدیث شریف کے کہ صلح کرائے گا اللہ تعالیٰ بہ سبب اس کے مسلمانوں کے دو گروہوں میں - اور دوست رکھتا ہوں میں اس کے بھائی حسین کو جو سردار ہیں جوانان اہل جنت کے- مقتول ہوئے بحالت غربت‘ مظلوم‘ شہید- اور بغض رکھتا ہوں میں ان کے مقابلہ میں عنید ذات الخیبہسے- پس تحقیق حال یہ ہے کہ نہیں تعریف کی اس کی کسی نے بھلائی کے ساتھ بلکہ ثنا کی اس کی شرارت کی- اور دوست رکھتا ہوں میں عشرہ مبشرہ کو اور دوست رکھتا ہوں میں اصحاب بدر کو- اور دوست رکھتا ہوں میں اصحاب بیعت الرضوان کو اور جو شخص کہ مقتول ہوا جنگ احد میں اور تمام ان شخصوں کو کہ جن کی بشارت دی ہمارے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور پڑھا ہے ہم نے ان کو صحاح میں- بلکہ دوست رکھتا ہوں میں اس شخص کو بھی کہ جو اسلام لایا آپ کے ہاتھ پر کہ جو کریم ہے اور مر گیا اوپر اسلام کے- مثلاً معاویہ‘ مغیرہ بن شعبہ- نہیں جھوٹ بولا ان میں سے کسی نے امر دین میں رسول اکرم سے- اور نہیں تھا کوئی ان میں سے بہرا- اور چھوڑ دیا ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا روافض‘ شیعہ‘ خوارج‘ معتزلہ کو اور ایسے مقلد جامد کو جو چھوڑنے والے ہیں نصوص قرآن و سنت کو اور احادیث صحیحہ ثابتہ کو واسطے ایک شخص کے قول کے- والحمد للٰہ رب العالمین اور باوجود ان باتوں کے دوست رکھتا ہوں میں ابوحنیفہ~رح‘~ مالک~رح‘~ شافعی~رح‘~ احمد~رح‘~ محمداسماعیل بخاری~رح~ اور اصحاب سنن‘ فقہا اور محدثین کو- رحم کرے اللہ تعالیٰ ان پر- اور تعظیم کرتا ہوں میں اس چیز کی جو اوپر ان کے ہے اور ان کی اتباع کرنے کو میں دوست رکھتا ہو- پس تحقیق وہی لوگ سردار ہیں اور ثنا کرتا ہوں میں اوپر ان کے بہتری کی اور محتاج ہوں میں ان کی تحقیقات کی طرف- اور باوجود اس کے مقدم کرتا ہوں میں جس شخص کو مقدم کیا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے- اور اعتقاد رکھتا ہوں میں یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے‘ ان کے اپنی طرف رفع کرنے سے پہلے‘ وفات دی جیسا کہ وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انی متوفیک ورافعک الی-اور نہیں قتل ہوئے اور نہیں صلیب دیئے گئے- اور ثابت ہوا رفع ان کا بہ|سبب دلیل قول اللہ تعالیٰ کے بل رفعہ اللٰہ الیہاور مقدم کیا اس پاک ذات اللہ جل شانہ نے اپنے وعدہ میں ان کی وفات کو- اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مقدم کیا ہے ہم بھی مقدم کرتے ہیں- جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے موخر کیا ہم بھی موخر کرتے ہیں- پھر فرمایا اللہ جل شانہ نے الم نجعل الارض کفاتاً احیاء وامواتاًاور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل پس گزر گئے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام بھی جس طرح کہ گزر گئے باقی رسول علیہم الصلوۃ والسلام- اور یہ بات کہ حضرت عیسیٰ بن مریم جو کہ اترنے والے ہیں اترے- صلٰوۃ اللہ کی اوپر ان کے اور سلام- پس تحقیق اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہمارے لئے قرآن شریف کی سورہ نور میں کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ کرے گا اس شخص کو جو خلیفہ ہو گا ہم میں سے- اور تصریح فرمائی ہے ہمارے رسول نے جو کہ سردار ہیں اولین وآخرین کے اور سردار ہیں اولاد آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے تحقیق امام ہو گا تمہارا تم میں سے نازل ہونے والا- اور شہادت دی اللہ جل شانہ اور اس کے ملائکہ نے اور صاحب علم نے کہ تحقیق وہ وہی ہے- اور شہادت دی شمس وقمر نے کہ تحقیق وہ مہدی ہے- اور طاعون اور جدب اور قتال نے کہ تحقیق وہ مرسل ہیں جیسا کہ فرمایا ولقد ارسلنا الیٰ امم من قبلک فاخذنٰھم بالباساء والضراء اور فائز ہونا اس کا اور فلاح پانا اس کا مقابلہ میں مخالفوں کے آریہ‘ براہمہ‘ نصاریٰ‘ سکھ‘ علماء اور متصوفین اور حکام اور اقارب اس کے اور بنی|عم اس کے ببکرۃ ابیھم اس طرح کہ وہی مطاع ہے اور پائے گا تو اس کو اور نصرت اس کی کو کہ تحقیق وہ اوپر حق کے ہے-
تم کلامہ
اس مقدمہ میں میں نے جو جو کچھ لکھنا چاہا تھا نیز سلسلہ ترتیب جس تفصیل کا مقتضی ہے گنجائش اوراق اس کے لئے قلیل اور لکھنے کی قابل باتیں بہت طویل ہیں- لہذا یہاں تک پہنچ کر مقدمہ گویا بیچ میں ہی چھوڑتا ہوں~}~-
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
کل چین بہار تو ز داماں گلہ دارد
مئولف
* * *
‏Mr.4
الٰہی غنچہ ذکر خفی گردان دہانم را
مکن گویا بحرفے خبر ثنائے خود زبانم را
نہال معرفت در جوئبار خاطرم بنشاں
معطر کن چو نخل از بوئے وحدت مغز جانم را
مکن دست ادب را کوتہ از من گاہ نزدیکی
چو نے ہنگام دوریہا رسائی دہ زبانم را
‏poemc] g[taدریں غفلت سرا از شہرت بسیار گم نامم
بلند آوازہ گرداں چوں قیامت داستانم را
بمژگان سیہ چشماں گرہ از کار من بکشا
بہ بند از تار زلف عنبریں مویاں میانم را
نمی|خواہم کہ در عالم دلے از من غمیں باشد
ز فیض دوستی آگاہ گرداں دشمنانم را
* * *
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
نوردین اعظم
‏ils5] ga[t۱۳۳۱ھ
طفلی و عنفوان شباب
۱۲۵۸ھ یا ۱۸۴۱ء یا سمت ۹۸بکرمی کے قریب میرا تولد کا زمانہ ہے- ابتدا میں میں نے اپنی ماں کی گود میں قرآن کریم پڑھا ہے اور انہیں سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں اور سنیں- کچھ حصہ قرآن شریف کا والد صاحب سے بھی پڑھا مگر وہ عدیم الفرصت تھے- پھر مجھے بسبب ان تعلقات کے جو لاہور میں تھے )اور وہ یہ تھے کہ ہمارا ایک مطبع قادری نام کابلی مل کی حویلی میں تھا( ۷۰ ہجری کے قریب لاہور میں آنا پڑا- یہاں آ کر مجھے خناق کا مرض ہوا اور حکیم غلام دستگیر لاہوری ساکن سیدمٹھا )جن کا تعلق میرے بھائیوں سے بہت تھا اور میرے بھائی طب میں ان کے شاگرد بھی تھے( میرا علاج کرتے تھے- اس وقت اگرچہ طبی تعلیم کی تحریک میرے دل میں پیدا ہوئی مگر میرے بھائی صاحب نے مجھے منشی محمد قاسم کشمیری کے پاس فارسی کی تکمیل کے لئے سپرد کیا- انہوں نے مجھ پر بہت محنت کی- بڑی مہربانی سے رزم اور بزم اور بہاریہ مضامین لکھ دیتے اور مجھ سے لکھواتے- میرزا امامویروی کے سپرد اس لئے کیا کہ میں خوش خطی سیکھوں مگر مجھ کو فارسی زبان سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ایک بڑا وقت ایسی زبان کے سیکھنے میں خرچ کرنا پڑا جس کے ساتھ بلحاظ دین اور ضرورت سلطنت مجھ کو کچھ بھی دلچسپی نہ تھی مگر اس میں میرے بھائیوں کا بھی قصور نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اس وقت کی موجودہ حالت کسی جدید تحریک کا باعث بن ہی نہیں سکتی تھی- خوش خطی کے لئے ا‘ ب‘ ج‘ د‘ کا لکھنا مہینوں کا سفر تھا اور چونکہ میرے دماغ کو ہاتھ سے کسب کرنے کی بناوٹ نہیں بخشی گئی تھی‘ میں اس فن سے کورے کا کورا رہا- رسائل طغراء کے عجیب در عجیب نکات اور امام ویروی صاحب کے بے|نظیر قطعات اس عمر میں میری دلچسپی کا باعث نہ تھے- مرزا امام ویروی صاحب مہرکنی کے کسب میں بھی کمال رکھتے تھے مگر مجھے اس سے بھی محروم رہنا پڑا- یہ میرے دونوں استاد شیعہ مذہب کے پابند تھے مگر مباحثات سے ان دونوں بزرگوں کا تعلق کم تھا- مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ شیعہ مذہب سے میں آگاہ ہو گیا- پس اس محنت کا اگر کوئی نتیجہ سمجھا جائے تو صرف یہ ہوا تھا کہ میری معلومات میں شیعہ مذہب کے جاننے کی ترقی ہوئی- اسی زمانہ میں حکیم اللہ دین لاہوری سے نیاز حاصل ہوا مگر فارسی اور خوش|خطی کے شغل نے موقع نہ دیا کہ کوئی استفادہ کرتا-
۷۲ ہجری میں مجھ کو وطن آنا پڑا اور میاں حاجی شرف الدین فارسی کے استاد مقرر کئے گئے- مگر دلچسپی کے نہ ہونے نے یہ فائدہ پہنچایا کہ مجھے سبق یاد کرنے کی محنت سے بچا لیا اور میرے قویٰ خوب مضبوط رہے- غالباً اس وقت اگر کوئی محنت کا علم پڑتا تو میرے دماغ کو تکلیف ہوتی اس لئے اس کا بھی شکر ہی ادا کرتا ہوں- تھوڑے عرصہ کے بعد میرے بھائی سلطان احمد صاحب بھیرہ میں تشریف لائے اور انہوں نے باضابطہ عربی کی تعلیم دینی شروع کی- خداتعالیٰ ان کا بھلا کرے انہوں نے صرف میں >بنائوں< اور
تعلیلات کا گورکھ دھندا میرے سامنے نہ رکھا- بہت سادہ طور پر تعلیم شروع کی جو میرے لئے مفید اور دلچسپ ثابت ہوئی- میں نے بہت ہی جلد یہ رسائل پڑھ لئے- جناب الہی کے انعامات میں سے یہ بات تھی کہ ایک شخص غدر میں‘ کلکتہ کے تاجر کتب جو مجاہدین کے پاس اس زمانہ میں روپیہ لے جایا کرتے تھے‘ ہمارے مکان میں اترے- انہوں نے ترجمہ قرآن کی طرف یا یہ کہنا چاہئے کہ اس گراں بہا جواہرات کی کان کی طرف مجھے متوجہ کیا جس کے باعث میں اس بڑھاپے میں نہایت شادمانہ زندگی بسر کرتا ہوں- ذٰلک فضل اللٰہ علینا وعلی الناس ولٰکن اکثر الناس لایشکرون یہ تو کلکتہ کے تاجر سے فائدہ ہوا- پھر ایک بمبئی سے تاجر آیا جس نے تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار کی سپارش کی کہ میں ان دونوں کتابوں کو پڑھوں- اردو زبان مجھے نہایت پسند تھی اور میری دل لگی کا موجب- اس لئے میں نے ان دونوں کو خوب پڑھا- اور تھوڑے دنوں کے بعد لاہور آ گیا- عربی تو پڑھتا ہی تھا- حکیم اللہ دین صاحب لاہوری مقیم گمٹی بازار میرے استاد مقرر ہوئے اور وہ مجھے موجز پڑھاتے تھے- عربی عبارت نہایت صحیح پڑھنا اور تلفظ میں بڑی احتیاط کرنا یہ ان کو ہمیشہ مدنظر تھا- چند روز کے بعد مجھ کو بھیرہ آنا پڑا اور اس دلچسپ علم کے درس سے محروم ہوا-
یہاں سے ایک خاص تقریب کے باعث مجھے راولپنڈی جانا پڑا اور نارمل سکول کی تعلیم میرے ذمہ لگائی گئی- غالباًیہ ۵۸ء کا ذکر ہے- میری عمر اس وقت اٹھارہ برس کے قریب قریب ہو چکی تھی- منشی محمد قاسم صاحب کی تعلیم کی قدر اس وقت معلوم ہوئی کیونکہ نارمل سکول میں >سہ نثر ظہوری< اور >ابوالفضل< کے پڑھنے میں میں مدرسہ میں طلباء کا سرتاج تھا- مولوی سکندر علی نام ہیڈماسٹر اتنے خوش ہوئے کہ میری غیرحاضری کو بھی معاف کر دیا- اس غیرحاضری میں مجھے یہ فائدہ ہوا کہ حساب اور جغرافیہ پڑھنے کے لئے میں نے ایک آدمی کو نوکر رکھ لیا اور بجائے اس ذہاب وایاب کے جو مدرسہ کے جانے میں ہوتا تھا میرا وقت اقلیدس اور حساب اور جغرافیہ کے لئے مفت بچ جاتا تھا- کیونکہ نارمل سکول ہمارے مکان سے دو تین میل پر تھا- تقسیم کسور مرکب کے لئے میں نے شیخ غلام نبی صاحب نام ہیڈماسٹر لون میانی کو ٹھیکہ دار بنایا ور وہی میں نے سب سے پہلے سیکھنی چاہی- اس کا سیکھنا تھا کہ سارے مبادی الحساب ہر چہار حﷺ کے پڑھانے میں آخر کو ہم شیخ صاحب کے بھی استاد ہو گئے- اقلیدس کے لئے منشی نہال چند ساکن ضلع شاہ پور کو منتخب کیا- انہوں نے مجھے نہایت محبت سے پہلے مقالہ کی چند شکلیں پڑھائیں- پھر مجھ میں محض خداتعالیٰ کے فضل سے سارے تعلیمی حصہ کو خودبخود پڑھنے کا فہم پیدا ہو گیا اور میں ایک امتحان میں جس کو تحصیلی امتحان کہتے ہیں ایسا کامیاب ہوا کہ پنڈدادن خان کا ہیڈماسٹر ہو گیا- منشی محمد قاسم صاحب کی تعلیم اس وقت میرے لئے بڑی مفید ہوئی کیونکہ پنڈدادن خان میں فارسی مدرس میری مخالفت کے لئے اپنے شاگردوں کو امتحاناً بھیجا کرتے تھے اور وہ فارسی کی معمولی باتوں کو نہایت عظمت کی نگاہ سے دیکھ کر مجھ سے پوچھتے تھے اور میں خوش ہوتا تھا- عربی کی تعلیم میرے بھائی صاحب نے میری ہیڈماسٹری کے وقت پھر شروع کرا دی اور میں >الفیہ<اور منطق کے رسائل اور >شرح عقائد< وہاں پڑھ چکا تھا- لیکن آخر چار برس کے بعد وہ نوکری کا تعلق خداتعالیٰ کے محض فضل سے ٹوٹا اور میرے والد صاحب نے مجھ کو تعلیم عربی کی تکمیل کے لئے تاکید فرمائی- مولوی احمدالدین صاحب جو بگے والے قاضی صاحب کے نام سے مشہور تھے میرے استاد ہوئے- وہ میرے بھائیوں کے بھی استاد تھے- مگر ان کو جامع مسجد کے بنانے کے لئے ایسی فکر لگی ہوئی تھی کہ ایک جگہ ٹھہرنا ان کے لئے محال تھا- میں ایک سال ان کے ہمراہ سفر اور حضر میں رہا اور عربی زبان کی معمولی درسی کتابیں نہایت تکلیف سے پڑھیں اور تنگ آ کر اپنے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب سے کہا- وہ مجھے لاہور میں لائے اور حکیم محمد بخش اور چند اور اساتذہ کے سپرد کر کے بھیرہ تشریف لے گئے- یہاں اب ہمارا مطبع کا تعلق کوئی نہ تھا- بھائی صاحب کے جاتے ہی ایک طالب|علم کی ترغیب سے ہندوستان کو چلا گیا اور بمقام رامپور روہیل|کھنڈ پڑھنا اختیار کیا-

رام پور اور لکھنئو
ہم تین آدمی تھے- ایک آدمی کا نام مولوی محمد مصطفی تھا- ایک مولوی علائ|الدین اور ایک میں خود تھا- ہم نے سفر میں پہلے یہ تجویز سوچی کہ ایک کو امیر بنانا چاہئے اور سفر کے اصل مقصد کو مدنظر رکھ کر باقیوں کو اس کی رائے کی پابندی اور فرمانبرداری چاہئے- یہ قرار پایا کہ ایک شہر میں تین برس تک رہیں )کیونکہ عربی علوم پڑھنے کے لئے یہ مدت کافی سے بھی زیادہ تھی( اور ایسے شہر میں رہیں جس میں صرف دو تین عالم نہیں بلکہ بہت زیادہ عالم ہوں تاکہ مختلف علوم میں کافی اور بآسانی آگاہی حاصل ہو سکے- کاندھلہ رستہ میں پڑا- جب وہاں پہنچے تو مولوی نورالحسن ایک پاک صورت معمور|الاوقات مجھے ملے- انہوں نے مجھ سے رہنے کے واسطے کہا مگر میں نے اس خیال سے کہ ہمارا اصل ارادہ اب رامپور کا ہو چکا ہے وہاں ٹھہرنا پسند نہ کیا- میں مولوی نورالحسن کے لئے دعا کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے بہت ہی محبت واخلاص سے فرمایا‘ جو فرمایا سفر بلارئیس کے بہتر نہیں - خدا جانے مسلمانوں نے کیوں اس کی پروا کم کر دی ہے- ہم رامپور کی ایک ایسی ویران مسجد میں جو کچھ بڑی نہ تھی‘ تینوں جا ٹھہرے- جب کھانے کا وقت آیا تو ایک لڑکی ہم تین آدمیوں کی روٹیاں لائی- اس لڑکی کی عمر غالباً سات آٹھ سال کے درمیان تھی- کھانا کھا کر ہم شہر میں علماء کی جستجو میں پھرتے رہے- شام کا وقت آیا تو اسی لڑکی نے پھر کھانا لا کر دیا- دوسرے دن دوپہر کو بدستور لائی اور شام کو بھی- پھر تیسرے دن ادھر روٹی دی ادھر یہ کہا کہ میری اماں کہتی ہے کہ آپ دعا کریں کہ میرا خاوند میری طرف توجہ کرے- میں اس کے خاوند کا نام جانتا ہوں- میں اس کے خاوند کے پاس پہنچا اور بقدر اپنی اس طاقت کے جو مجھ کو حاصل تھی اس کو خوب وعظ کیا- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو رعایت سے بلایا اور مجھ کو جناب الہی کے حضور شکر کا موقع ملا- اسی دن شام کے قریب میں اکیلا پنجابیوں کے محلہ کی ایک گلی میں ہو کر گزرا- وہاں ایک شخص حافظ عبدالحق راستہ میں مجھ کو ملے- انہوں نے فرمایا کہ آپ میری مسجد میں آ کر رہیں- میں نے کہا میں اکیلا نہیں ہوں ہم تین آدمی ہیں- انہوں نے تینوں کی ذمہ داری اٹھائی- تب میں نے کہا کہ ہم پڑھنے کے لئے آئے ہیں- ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کے گھر میں روٹیاں مانگتے پھریں- انہوں نے کہا ایسا نہ ہو گا- پھر میں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ محلہ کے لڑکے ہمارے سپرد کر دیں- انہوں نے کہا یہ بھی نہ ہو گا- پھر میں نے کہا کہ ہم کو کتابوں اور استادوں کی فکر ہے انہوں نے کہا کہ مدد دوں گا- فجزاہ اللہ خیرا- انہوں نے ایک سال اپنے اس معاہدہ پر بڑی عمدگی سے گزارا- رحمہ اللہ تعالیٰ- بلکہ جن دنوں میں دوبارہ ایک سال حکیم علی حسین صاحب کی خدمت میں رہا تو ان دنوں میں بھی حافظ عبدالحق صاحب اور اس محلہ کے لوگ میرے ساتھ بدستور مروت کرتے تھے- میں ان کے اور ان کی اولاد کے لئے دعا کرتا ہوں- ابتدائے ورود رامپور میں مجھے یہ فکر تھی کہ میرا پچھلا پڑھا ہوا یہاں آ کر مفید ہو گا یا نہ ہو گا اور اب مجھے کہاں سے شروع کرنا چاہئے- اس لئے میں فکرمند ہی رہتا تھا- جو صاحب ہمیں ترغیب دے کر لائے تھے وہ تو اس بیکاری سے تنگ آ کر رامپور چھوڑ کر خلاف وعدہ چلے گئے- اور تعجب ہے کہ ہم سے انہوں نے پوچھا بھی نہیں- اس لئے ہم دو ہی رہ گئے- ان دنوں میں میں طالب علموں میں پھرا کرتا تھا- اتفاقاً ایک دن دیکھتا ہوں کہ بہت سے طالب علم ایک جگہ آپس میں مباحثہ کر رہے ہیں- جس سوال پر جھگڑا تھا میں نے اس پر بہت غور کیا تو ایک جواب میرے خیال میں آیا جس کو میں یقینا کافی جواب سمجھتا تھا- وہ سوال اور جواب دل میں رکھ کر میں نے سوچا کہ اگر آج ہم اس سوال اور جواب میں جیت گئے تو اس وقت کا پڑھا بابرکت ثابت ہو گیا- نہیں تو ہمیں اب کیا ڈر ہے- انہیں میں سے جو لائق طالب علم ہے اس کو استادی کے لئے پسند کر لیں گے- میں نے بلند آواز سے کہا- میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں- اس پر بہت سے طالب علموں نے ہنسی اڑائی مگر پنجابی طالب علم میرے طرف دار ہو گئے- انہوں نے کہا کہ پہلے امتحان لیا جائے کہ اس نے سوال کو سمجھا ہے یا نہیں- اگر سوال سمجھا ہے تو اس کے جواب کو توجہ اور قدر سے سنا جائے کیونکہ مباحثہ تو ہو ہی رہا ہے- اس پر وہ مباحثہ کسی قدر ٹھنڈا ہوا- میں نے کہا کہ کوئی بڑا نحوی حکم مقرر کرو- ایک بزرگ مولوی غلام نبی صاحب کو سب نے تسلیم کیا کہ وہ نحو کے پورے ماہر ہیں- ہم سب اٹھے اور ان کی خدمت میں چلے گئے- میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر وہی بڑے عالم ہیں تو انہیں کو استاد بنا لیں گے- مولوی غلام نبی صاحب نہایت خوبصورت سفید ریش باوقار آدمی تھے- میں نے دیکھا کہ انہوں نے کچھ حقارت کے لہجے میں فرمایا کہ تم لوگ کس طرح آئے- میں نے بڑھ کر کہا کہ ایک سوال ہے اور اس کا جواب ہے- آپ کو حکم بنانا چاہتے ہیں- انہوں نے بیٹھنے کی اجازت دی- وہ سوال اور اس کا جواب مجھ سے سن کر کہا کہ مولوی جی! )مجھ کو اس وقت اپنے متعلق >مولوی جی< سننے سے بھی بہت خوشی ہوئی کہ میرا پچھلا پڑھا ہوا ضائع نہیں ہوا(- حالانکہ میں نے شرح جامی نہیں پڑھی تھی‘ الفیہ اس کے بدلہ میں پڑھا تھا- یہ سوال عبدالرحمن میں جو جامی کا حاشیہ ہے لکھا ہے اور اس میں اس سوال کے دو جواب بھی دیئے ہیں( پھر وہ دونوں جواب بھی سنائے مگر وہ جواب بہت ہی کمزور تھے جن کے متعلق مولوی صاحب نے خود فرمایا کہ یہ بہت کمزور ہیں اور آپ کا جواب بہت صحیح ہے- اور یہ لوگ تو آپ سے کبھی نہ مانتے جب تک یہی جواب نہ سنتے جو کتاب میں لکھے ہوئے ہیں- معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سوچ کر جواب دیا ہے- مجھ کو مولوی صاحب کی تقریر سے خوشی ہوئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب شرح جامی تک کی کتابیں میں نہیں پڑھوں گا- اس واسطے ملاحسن‘ مشکوۃ‘ اصول شاشی‘ شرح وقایہ اور مبیذی مختلف استادوں سے شروع کیں- مبیذی پڑھنے میں مجھ کو بڑا ہی تعجب ہوا کرتا تھا کیونکہ جس چیز کو میں نہیں سمجھتا تھا اس کو ہمارے استاد بھی نہیں سمجھتے تھے- اس واسطے جتنی کراہت ممکن تھی میرے دل میں اس کتاب کی نسبت پیدا ہو گئی- یہاں آ کر مجھے اتنا افسوس ہوا کرتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان تعلیمی درسی کتابیں سوچ سمجھ کر مقرر کیا کریں اور پھر ان کے امتحان بھی ہوا کریں اور اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ طالب علم دین و دنیا دونوں میں ترقی کر سکیں تو قوم پر کتنا بڑا احسان ہو- الگ الگ درس گاہیں بڑی دقت میں ڈالتی ہیں- سب سے بڑی دقت جو مجھ کو محسوس ہوئی یہ ہے کہ نہ تو استاد صلاح دیتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہئے اور نہ طالب علم اپنے حسب منشاء آزادی کے ساتھ اپنے ان قویٰ کے متعلق جو خدا تعالیٰ نے عطا کئے ہیں کسی کتاب کے انتخاب کی جرئات کر سکتا ہے- نیز اخلاق فاضلہ کی تعلیم وتاکید نہیں ہوتی- میں اپنی تحقیق سے کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں کسی استاد میں یہ بات نہ دیکھی- ان باتوں کا رنج مجھے اب تک بھی ہے- کس قدر رنج ہوتا ہے جب کہ میں غور کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارے افعال‘ اقوال‘ عادات‘ اخلاق پر کبھی ہمارے معلموں میں سے کسی نے نوٹس نہ لیا- بلکہ عقائد کے متعلق بھی کبھی کچھ نہ کہا- مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ مشکوۃ میں ہی ہمارے اخلاق پر توجہ دلائی گئی ہو-
رامپور میں تین باتیں بڑی قابل غور ہیں- ایک یہ کہ شاہ جی عبدالرزاق صاحب ایک بزرگ تھے- میں ان کی خدمت میں اکثر جایا کرتا تھا- ایک زمانہ میں مجھ سے سستی ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ نوردین ! تم بہت دنوں بعد آئے- اب تک کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ہم طالب علموں کو اپنے درس تدریس کے اشغال سے فرصت بھی کم ہی ملتی ہے- کچھ مجھ سے سستی بھی ہوئی- فرمانے لگے کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں اکثر اتفاق ہوا ہے- فرمایا کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ دونوں چھریاں لے کر ایک دوسری سے رگڑتا ہے- چھریوں کی دھار پر جو چربی جم جاتی ہے اس طرح رگڑنے سے وہ دور ہو کر چھریاں پھر تیز ہو جاتی ہیں اور قصاب پھر گوشت کاٹنے لگتا ہے اور اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چھریوں کو آپس میں رگڑ کر تیز کرتا رہتا ہے- میں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت یہ سب کچھ دیکھا ہے مگر آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا کہ کچھ ہم پر غفلت کی چربی چھا جاتی ہے‘ کچھ تم پر- جب تم آ جاتے ہو تو کچھ تمہاری غفلت دور ہو جاتی ہے کچھ ہماری اور اس طرح دونوں تیز ہو جاتے ہیں- پس ہم سے ملتے رہا کرو اور زیادہ عرصہ جدائی اور دوری میں نہ گزارا کرو- ان کی اس بات نے مجھے بہت بڑے بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جا کر ضرور بیٹھنا چاہئے- اس سے بڑی بڑی سستیاں دور ہو جاتی ہیں-
دوسری بات جو رامپور میں بڑی عجیب نظر آئی یہ تھی کہ ایک طالب علم میرے دوست تھے- وہ پڑھنے میں کچھ سست ہو گئے- میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو کہا کہ میں ایک حسین لڑکے پر عاشق ہو گیا ہوں- بدوں اس کے دیکھے دل بے|تاب رہتا ہے اور اس کی ملاقات کسی طرح میسر نہیں ہو سکتی اس لئے پڑھا نہیں جاتا- میں یہ سن کر بہت دلیری کر کے اٹھا اور اس لڑکے کے پاس چلا گیا- اپنے دوست کو بھی ہمراہ لے گیا اور اس لڑکے سے کہا کہ یہ ہمارے دوست ہیں- آپ پر عاشق ہو گئے ہیں اس لئے ان سے پڑھنے میں محنت نہیں ہوتی اور میری یہ خواہش ہے کہ ان کے پڑھنے کا حرج نہ ہو- لہذا میں ان کی سفارش کرتا ہوں کہ یہ عصر کے بعد آپ کے پاس آ جایا کریں گے اور شام تک آپ کی دکان پر بیٹھ کر مغرب کے وقت اٹھ کر چلے جایا کریں گے- آپ میری سفارش سے اس بات کو منظور کر لیں- میری اس جرئات پر اس شریف لڑکے کو بڑا ہی تعجب ہوا اور پھر کہا کہ بہت اچھا آ جایا کریں- اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص للہ فی اللہ کام کرتا ہے خداتعالیٰٰ اس میں ضرور برکت رکھ دیتا ہے-
تیسری بات یہ ہے کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق تھا- ایک بزرگ شاہ صاحب میری کتابیں لکھا کرتے تھے- اور شاہ صاحب کتابت میں بہت کچھ کماتے تھے مگر سب کیمیا میں لگا دیتے تھے- ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ دس روپیہ مجھ کو دے دیں اور میں آئندہ کتاب نہ لکھوں گا بلکہ نقد روپیہ آپ کو ادا کر دوں گا- میں نے کہا کیوں؟ کہا میں اٹھارہ برس کا تھا تب مجھ کو کیمیا کے نسخوں کا شوق ہے- میں کیمیا کے معاملات میں خوب تجربہ|کار ہوں- اب مجھ کو کیمیا کا اصل نسخہ مل گیا ہے- چاندی بنائوں گا اور آپ کے روپے ادا کردوں گا- میں نے ان کو دس روپے دے دیئے مگر بہت دنوں تک شاہ صاحب ملے نہیں- ایک روز میں اس مسجد میں چلا گیا جہاں وہ امامت کراتے تھے- مگر وہ مسجد میں نظر نہ آئے- جس حجرہ میں وہ رہتے تھے اس کو دیکھا دروازہ بند ہے- اندر سے زنجیر لگی ہوئی ہے- آواز دی مگر اندر سے جواب نہ آیا- دروازہ کو کھٹکھٹایا‘ دھکا دیا- کواڑ کچھ کمزور تھے- دروازہ کھل گیا- شاہ صاحب چارپائی پر بیٹھے تھے- مجھ کو دیکھ کر چونک پڑے- مجھ سے کہنے لگے- دیکھئے ہم نے کیمیا تو بنائی تھی- یہ کہہ کر ایک مٹی کا برتن اٹھا لائے- اس میں جلی ہوئی کوئی چیز تھی- کچھ ذرات سے بھی چمکتے تھے- کہا چاندی تو بننے ہی لگی تھی- مگر ہم نے کچھ سستی کی- اچھی طرح برتن کو بند نہیں کیا تھا- خیر اب تو کتاب لکھے دیتا ہوں مگر آئندہ نہ لکھوں گا- مجھ کو کیمیاگری سے بڑی ہی نفرت ہو گئی- اس سے پہلے میں راولپنڈی سے بھیرہ کو آتا تھا- ایک مسجد میں میں نے نماز پڑھی وہاں دو آدمی سکندر نامہ کے کسی شعر پر الجھے ہوئے تھے- میں نے نماز پڑھ کر ان کا فیصلہ کیا اور شعر کے کچھ معنے بتائے- جس کو وہ دونوں مان گئے- ان میں ایک نوجوان ہمارے گھر چلا آیا اور پڑھنا شروع کیا- وہ ہمارے گھر رہتا تھا اور پڑھتا تھا- عربی میں بھی اس کی اچھی استعداد ہو گئی تھی- بہت دنوں کے بعد ایک روز اس کے دادا آئے ہم نے انکی مناسب مدارات کی- انہوں نے بڑا شکریہ ادا کیا- اور کہا کہ >آپ نے ہمارے ساتھ بڑا سلوک کیا اور میرے پوتے کو عالم بنا دیا- میں اس کے عوض میں آپ کو کیمیا سکھاتا ہوں< مجھ کو چونکہ اپنے والد صاحب سے بہت ہی محبت تھی اور کوئی بات بھی ان سے نہیں چھپاتا تھا- میں نے جا کر والد صاحب سے عرض کیا کہ اس لڑکے پر واقعی ہم نے بڑا احسان کیا ہے- اب اس کے دادا صاحب آئے ہیں- وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں کیمیا بتائے دیتا ہوں- آپ کا اس میں کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اس لڑکے کے دادا سے کہو کہ بہتر یہ ہے کہ آپ ہم کو دس ہزار روپیہ بنا کر دے دیں- کیمیا کے سیکھنے کی ضرورت نہیں- میں نے ایسے ہی ان سے کہہ دیا- وہ تو چلے گئے- بعد میں ان کے پوتے نے کہا کہ- >یہ تو ٹھگ آدمی ہے< خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے کیمیا کی خواہش سے مجھ کو بچایا- میرے قلب کے کسی گوشہ میں بھی کبھی کیمیا کی کوئی خواہش نہیں ہوئی-
شاید یہ بات بھی کسی کو مفید ہو کہ اس زمانہ میں رامپور میں میاں سبحان شاہ رہتے تھے- میرا ایک بہت پیارا دوست انکے پاس گیا اور ان کی خدمت میں شریعت کے متعلق کچھ عرض کیا- میاں سبحان شاہ نے اس کی بات کو ہنسی میں ٹلا دیا- میرا دوست کسی قدر شوخ تھا- کھڑا ہو گیا- میاں صاحب نے کہا- آپ جاتے تو ہیں مگر آپ تو پھر بھی ہمارے یہاں آہی جائیں گے- اس نے غلیظ قسم کھائی کہ میں آپ کے یہاں ہرگز نہ آئوں گا- لیکن جب وہ مکان پر آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کے گلے میں کوئی رسہ ڈالا گیا ہے اور زور سے کوئی کھینچتا ہے- چنانچہ وہ مجبوراً اٹھ کر کھچا چلا جاتا تھا- راستہ میں قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتا تھا مگر سبحان شاہ کے مکان کی طرف چلا جاتا تھا- پھر اس نے بڑے الحاح سے دعا مانگی یہاں تک کہ وہ رسہ ٹوٹ گیا اور وہ راستہ ہی سے اپنے مکان کو واپس چلا آیا- بہت دنوں کے بعد اپنی مرضی سے بلا کسی جبر کے وہ سبحان شاہ کے مکان پر گیا- انہوں نے دیکھتے ہی کہا چلے جائو اور یہ چلا آیا- مگر یہ کہتا ہوا آیا کہ آپ کا رسہ تو ہم نے توڑ ہی دیا- یہ وہاں کے عجائبات میں سے ایک بات ہے-
رامپور میں مشکوۃ میں نے حسن شاہ صاحب سے پڑھی- شرح وقایہ مولوی عزیزاللہ صاحب افغان سے اور اصول شاشی اور میبذی مولوی ارشاد حسین صاحب سے‘ ]kns [tag متنبی مفتی سعداللہ صاحب سے‘ صدریٰ وغیرہ مولوی عبدالعلی صاحب سے‘ ملا حسن حافظ سعداللہ رڑیان ملک پنجاب سے پڑھی-
ایک عجیب معرکہ~ن۲~ الآراء بات‘ جو مجھ کو اس وقت پیش آئی‘ یہ تھی کہ مجھ سے میرے بعض احباب نے کہا کہ تم زواہد ثلاثہ پڑھو- میں نے ان سے پوچھا یہ کس علم کی کتابیں ہیں- اس میرے سوال نے وہاں ایک شور برپا کر دیا- بڑی بڑی مخالفتیں میرے اس سوال پر ہوئیں- مجھ کو یہ فائدہ ہوا کہ ان تینوں کتابوں کے پڑھنے میں مجھے تامل ہو گیا- اگرچہ طوعا و کرھاtext] gat[ میرزاہد رسالہ اور میرزاہد ملا جلال کو میں نے پڑھا مگر بڑی بدمذاقی سے- ایک دفعہ میں گلی میں جاتا تھا اور بہت سے طالب علم میرے ساتھ تھے- راستہ میں ایک خوش وضع اور عمدہ لباس والے آدمی سے جن کے ساتھ بہت سے طالب علم تھے ملاقات ہوئی- انہوں نے مجھ کو دیکھ کر کہا کہ تمہارا ہی نام نورالدین ہے اور تم نے ہی زواہد ثلاثہ کے متعلق لوگوں سے کچھ گفتگو کی ہے- میں نے کہا کہ >حضرت ایسا ہوا ہے< انہوں نے میری پیٹھ تھپکی اور کہا کہ >خوب! میں بھی تمہارا ہم خیال ہوں- اب اگر کوئی تم سے زواہد ثلاثہ کے متعلق گفتگو کرے اور تم ہار جائو تو اس کو میرے پاس لائو-< انہوں نے بڑی محبت سے گفتگو کی اور کہا کہ زواہد میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے یہ کوئی علم نہیں- بعد میں میں نے لوگوں سے انکا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ مولوی حکیم عبدالکریم صاحب- انکی زبان میں کسی قدر لکنت بھی تھی- رامپور میں چونکہ میں دو تین برس رہا- اس لئے بڑی بڑی باتیں ہیں مگر اس وقت اللہ جل شانہ کے احسانوں میں سے ایک احسان کا ذکر کر دینا مجھے پسند آتا ہے-
مولوی ارشاد حسین صاحب میرے ہم قوم بزرگ تھے- اور میں سلسلہ نقش بندیہ میں مرید بھی تھا مگر پھر بھی مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید~رح~ کی شان میں وہاں اکثر جھگڑا ہو جاتا تھا- میں ہر چند کوشش کرتا تھا کہ وہاں یہ جھگڑے نہ ہوں کیونکہ ہمارے پڑھنے میں حرج ہوتا تھا- مگر وہاں میرا کوئی سکوت کارگر نہ ہوا- ایک دن مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم جو مولوی محمد اسماعیل صاحب کی اس قدر تعریف کرتے اور اتنی عقیدت رکھتے ہو- کیا تم نے ان کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا- نہیں- کہا ہم تو ان سے علم میں زیادہ ہیں- میں نے کہا- ہاں- آپ ان سے علم میں زیادہ بھی سہی لیکن یہی تو ان کا جذب ہے کہ میں ان کے مقابلہ میں آپ کو یا کسی کو نہیں سمجھتا- یہ سن کر مولوی صاحب بہت ہی خفا ہو گئے- میں ان سے صرف اصول شاشی کا سبق پڑھنے جایا کرتا تھا- میں تو اپنی کتاب کھول کر پڑھنے لگا- تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب ٹھنڈے ہو گئے- طلباء میں ایک عبدالقادر خاں تھے - وہ آسودہ حال بھی معلوم ہوتے تھے- جہاں میں نماز پڑھاتا تھا- اس محلہ میں ایک شخص کلن خاں رہتے تھے جو بے چارے سیدھے سادھے کچھ ان پڑھ سے تھے- ایک روز عبدالقادر خاں نے کلن خاں کو علیحدہ لے جا کر سمجھایا کہ یہ طالب علم جو نماز پڑھاتا ہے اس قابل نہیں کہ اس کی عزت کی جائے کیونکہ اس کا مولوی ارشاد حسین سے کئی مسائل میں تنازع ہے- کلن خاں نے کہا کہ ہماری مسجد میں کوئی طالب علم جماعت نہیں کراتا- عبدالقادر خاں نے میرا پورا پتہ بتایا اور نام لیا- کلن خاں نے اپنی تلوار نکال کر عبدالقادر خاں کو دکھلائی اور کہا کہ وہ مسئلے تو یہاں تلوار کی دھار پر لکھے ہوئے ہیں- آپ پڑھنا چاہیں تو ہم ابھی پڑھانے کو موجود ہیں پڑھ لیں- عبدالقادر خاں بے چارہ ایک شریف انسان تھا- وہ بھاگ گیا اور پھر مکتب میں خود ہی مجھ سے یہ سب واقعہ بیان کر دیا- میرا خیال تھا کہ کلن خاں صاحب بھی مجھ سے ذکر کریں گے- لیکن انہوں نے قطعاً مجھ سے ذکر نہیں کیا حالانکہ روزانہ ملاقات ہوتی تھی- جب بہت دن گزر گئے تو میں نے ہی کلن خاں سے کہا کہ میرے متعلق عبدالقادر خاں سے کچھ آپ کی باتیں ہوئی تھیں؟ کلن خاں نے ہنس کر کہا کہ ہاں وہ آپ کے متعلق کچھ کہنے لگا تھا مگر رہ گیا- اگر ذرا زیادہ زبان ہلاتا تو فوراً اس کا سر اڑا دیتا- میں نے کہا کہ آپ کو ایسا نہیں چاہیے تھا- اگر خدانخواستہ یہ بات نواب صاحب تک پہنچتی تو آپ کو مشکل پیش آتی- کہا کہ نہیں جناب ہمارا سارا محلہ ذبح ہو جائے گا تب کوئی آپ کو ہاتھ لگا سکے گا- نواب صاحب ہوں یا کوئی ہوں- میں اب تک کلن خاں کا ثناخواں ہوں اور میں اس کو عنایت ایزدی سمجھتا ہوں-
اب مصیبت یہ پڑی کہ میرا سبق رات کو یا دوپہر کو بہت دور ایک مقام پر ہوتا تھا- ان شب بیداریوں نے مجھے بیمار کر دیا اور مجھے سہر کا مرض لاحق حال ہو گیا جس سے میں بہت تنگ ہوا- میں نے وہاں تحقیقات کی کہ آجکل ہندوستان میں بڑا عالم طبیب کون ہے- اس محدود جماعت میں سوائے حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کے کسی کا نام نہ سنا- مگر سب نے یہ بھی کہا کہ ان کے ہاتھ میں شفا نہیں اور مجھے جلد معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس مسلول اور مدقوق یا مجذوم یا ذیابیطس کے گرفتار ہی اکثر پہنچتے ہیں- سو ایسے بیماروں میں کامیابی کی کمی ان کے نقص کے سبب نہیں-
بیماری نے تو لاچار کر ہی رکھا تھا- میں رامپور سے مراد آباد چلا گیا اور وہاں ایک خدا تعالیٰ کا بندہ عبدالرشید نام ساکن بنارس مجھے اسماعیل نام ایک پنجابی نوجوان تاجر کے ذریعہ ملا- جس نے میری خدمت والدین کے برابر کیا‘ بڑھ کر کی اور میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اچھا ہو گیا- عمدہ صحت کے بعد میں نے لکھنئو کا قصد کیا- میرے مکرم دوست عبدالرحمن خان مالک مطبع نظامی میرے بھائی کے دوست تھے- انکے پاس کانپور میںٹھہرا- انہوں نے حکیم صاحب )حکیم علی حسین صاحب لکھنوی( کی بہت تعریف کی اور دوسرے دن گاڑی میں سوار کراکر لکھنئو روانہ کیا- کچی سڑک اور گرمی کا موسم‘ گردوغبار نے مجھے خاک آلودہ کر دیا تھا کہ میں لکھنئو پہنچا- جہاں وہ گاڑی ٹھہری وہاں اترتے ہی میں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا- خدائی عجائبات ہیں کہ جہاں گاڑی ٹھہری تھی‘ اس کے سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا یہاں ایک پنجابی مثل یاد کرنے کے قابل ہے >لل کرے اولیاں رب کرے سولیاں< میں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا گھسا- ایک بڑا ہال نظر آیا- ایک فرشتہ خصلت دلربا‘ حسین سفید ریش‘ نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چار زانو بیٹھا ہوا- پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے تھے- سامنے پاندان‘ اگالدان‘ خاص دان‘ قلم دوات کاغذ دھرے ہوئے- ہال کے کنارے کنارے جیسے کوئی التحیات میں بیٹھتا ہے- بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے- نہایت براق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا- وہ قہقہہ دیوار دیکھ کر میں حیران سا رہ گیا- کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا- بہرحال اس کے مشرقی دروازے سے )اپنا بستہ اس دروازہ ہی میں رکھ کر( حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا- گرد آلودہ پائوں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے میں خود ہی محجوب ہو گیا- حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا جو لکھنئو میں ایک نرالی آواز تھی- یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلودہ ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے اور میں دوزانو بیٹھ گیا- یہ میرا دو زانو بیٹھنا بھی اس چاندنی کے لئے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوا وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جو اراکین لکھنئو سے تھا اس وقت مجھے مخاطب کر کے کہا- آپ کس مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں؟ میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھا- مگر >خدا شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد< میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی غیر ذی ذرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے- صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- فداہ ابی و امی- اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفہ کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں- اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہوگیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے ایک انقباض ہے‘ میں خود تو نہیں پڑھا سکتا- میں نے قسم کھالی ہے کہ اب نہیں پڑھائوں گا- میری طبیعت ان دنوں بہت جوشیلی تھی اور شاید سہر کا بقیہ بھی ہو اور حق تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے کام ہوتے ہیں- منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی کہ میں نے جوش بھری اور درد مندانہ آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا- >رنجانیدن دل جہل است و کفارئہ یمین سہل-< اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پرآب ہو گئے- تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا- مولوی نورکریم حکیم ہیں اور بہت لائق- میں آپ کو ان کے سپرد کردوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے- جس پر میں نے عرض کیا کہ >ملک خدا تنگ نیست پائے مرا لنگ نیست-< تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا- ہم نے قسم توڑ دی- اس کے بعد حکیم صاحب تو گھر کو تشریف لے گئے اور وہ لوگ جو مختلف اغراض اور بیماروں کے لئے آئے تھے- اپنی اپنی جگہ چلے گئے- میں نے بھی تنہائی کو غنیمت سمجھ کر اپنا بوریا بدھنا سنبھالا اور اس مکان سے باہر نکلا- میرے بھائی صاحب کے دوست علی بخش خاں مرحوم مطبع علوی کے مالک تھے- میں ان کے مکان پر پہنچا- وہاں میں نے بڑا آرام پایا- غسل کیا- کپڑے بدلے- خان صاحب نے انار کا ایک خوبصورت درخت دکھایا جو ان کے مطبع والے مکان میں تھا- اور فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی کی یادگار ہے- وہاں آرام پا کر میں مختلف علماء سے جو لکھنئو میں تھے ملا اور عجیب عجیب باتیں سننے میں آئیں-
آخر علی بخش خان نے مجھے ایک مکان دیا اور وہاں کھانے کا انتظام مجھے خود کرنا پڑا- جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں- حرفہ کے لئے میرے دماغ میں کوئی بناوٹ نہیں- اپنی روٹی پکانے کے لئے ایک منطق سے کام لینے لگا- چولہے میں آگ جلائی- توا رکھا اور روٹی گول بنانے کی یہ ترکیب سوجھی کہ آٹے کو بہت پتلا گھول لیا اور ایک برتن کے ذریعہ اس گرم توے پر بلا گھی اور خشکے کے خوبصورت دائرہ کی طرح آٹا ڈال دیا- جب اس کا نصف حصہ پک گیا تو پلٹنے کے لئے روٹی کو اٹھانے کی فضول کوششیں کی- ان کوششوں میں روٹی اوپر تک پک چکی تھی- خیالی فلسفہ نے توے کو اتار کر آگ کے سامنے رکھوایا- جب عمدہ طور پر اوپر کا حصہ پختہ نظر آیا تو چاقو سے اتارنے کی ٹھہری- مگر چاقو کے ذریعہ اترنے سے بھی اس نے انکار کیا اور مجھے دعا کی توفیق ملی- اس مکان سے باہر نکل کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر یوں دعا مانگنے لگا- اے کریم مولا! ایک نادان کے کام سپرد کرنا اپنے بنائے ہوئے رزق کو ضائع کرنا ہے- یہ کس لائق ہے- جس کے سپرد روٹی پکانا کیا گیا-
اس روٹی کے انتظام اور دعا کے بعد حکیم صاحب کے حضور پرتکلف لباس میں جا پہنچا- جاتے ہی اپنی دعا کی قبولیت کا یہ اثر دیکھا کہ حکیم صاحب نے فرمایا- آپ اس وقت آئے اور بے اجازت چلے گئے- یہ شاگردوں کا کام ہے؟ آئندہ تم روٹی ہمارے ساتھ کھایا کرو اور یہیں رہو یا جہاں ٹھہرے ہو وہاں رہو مگر روٹی یہاں کھایا کرو- میں نے کچھ عذر معذرت کی پھر آپ نے فرمایا کیا پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا طب پڑھنا چاہتا ہوں- مجھے اس وقت یہ بھی اطلاع نہ تھی کہ دنیا میں بڑا طبیب کون ہے- حکیم صاحب نے فرمایا- طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا- افلاطون کے برابر- مجھ کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب- آپ نے ہنس کر فرمایا کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے- اگر کسی چھوٹے کا نام لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا- کیونکہ ہر ایک انسان اپنی غایت مطلوب تک نہیں پہنچتا- حکیم الٰہ دین صاحب لاہوری مرحوم اور حکیم محمد بخش لاہوری مرحوم سے کسی قدر موجز تو میں پڑھ ہی چکا ہوں اور علمی مباحثات کے لئے میری پہلی تعلیم کافی سے بھی زیادہ تھی- میں نے عرض کیا- قانون شروع کرادو- اس پر حکیم صاحب نے تبسم کیا- پھر میں نے جلد جواب دیا کہ میں تو خدائے تعالیٰ کی کتاب بھی سمجھ سکتا ہوں اور سمجھتا ہوں- بوعلی سینا یا اس کا قانون اس سے بڑے ہیں؟ حکیم صاحب نے نفیسی کی طرف اور اس کے علمی حصہ کے لئے مجھے مجبور کیا میں نے کتاب شروع کر دی- ایک ہی سبق تمام دن میں میرے لئے ہرگز قابل برداشت نہ تھا- میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں کوئی اور سبق پڑھوں مگر وہابیت کا خدائے تعالیٰ بھلا کرے- اس نے کوئی جگہ پسند نہ کرنے دی- پھر بھی مولوی فضل اللہ نام فرنگی محلی سے میری سفارش ہوئی اور انہوں نے ملاحسن یا حمداللہ پڑھانے کا وعدہ کیا اور شروع کرادی- میں نے چند سبق ہی پڑھے ہونگے کہ تنہائی میں اپنی گزشتہ عمر کا مطالعہ شروع کیا اور اس بات تک پہنچ گیا کہ اگر تو اسی طرح پڑھے گا تو ان علوم سے متمتع ہونے کے دن تجھ کو کب ملیں گے اور میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ اگرچھ سات سبق ہر روز نہ ہوں تو پڑھنا گویا عمر کو ضائع کرنا ہے- غرض اس فیصلہ کے بعد حکیم صاحب کے حضور صرف اس لئے گیا کہ آج میں ان سے رخصت ہو کر واپس رامپور جائوں گا- لیکن قدرت خداوندی کے کیا تماشے ہیں کہ میری اس ادھیڑ بن کے وقت حکیم صاحب کے نام نواب کلب علی خان نواب رامپور کا تار آیا تھا کہ آپ ملازمت اختیار کر لیں- علی بخش نام ان کے ایک چہیتے خدمت گار علیل ہیں- ان کا آکر علاج کریں- دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر میں وہاں حاضر ہوا- اپنے منشاء کا اظہار کر کے عرض کیا کہ اب میں رامپور جانا چاہتا ہوں- حکیم صاحب نے فرمایا- تم یہ بتائو- مجھ جیسے آدمی کو ملازمت اچھی ہے یا آزادی سے علاج کرنا- چار سو روپیہ کے قریب یہاں شہر میں آمدنی ہوتی ہے- کیا اس آمدنی کو چھوڑ کر ملازمت اختیار کریں؟ تمہارے خیال میں یہ بھلی بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نوکری آپ کے لئے بہت ضروری ہے- کیونکہ موجودہ حالت میں اگر آپ کے حضور کوئی شخص اپنے پہلو یا سرین کو کھجلانے لگے تو آپ کو یہی خیال ہوگا کہ کچھ دینے لگا ہے- اس پر وہ بہت قہقہہ مار کر ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ ڈال دیا- یہ بھی اس شخص کے تصرفات کی کوئی بات ہے- غرض ہماری ولایت کا وہاں سکہ بیٹھ گیا- پھر وہ تار نکالا اور کہا کہ کیا یہ آپ کے رامپور جانے کی ترکیب نہیں؟ اچھا ہم منظور کرتے ہیں اور آپ ساتھ چلیں- غرض معاً رامپور واپس آنے کی تیاری ہوگئی- رامپور پہنچ کر حکیم صاحب نے کہا کہ اس شخص کی صحت کے لئے تم دعا کرو- میں نے کہا یہ بچتا نظر نہیں آتا اور مجھے اس کے لئے دعا کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور بدوں توجہ دعا نہیں ہو سکتی- اب یہ جئے یا مرے ہم تو رامپور پہنچ ہی گئے- آخر علی بخش کا انتقال ہو گیا- حکیم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اس )علی بخش( کے مرنے پر ہمارے شہر کے ایک حکیم ابراہیم صاحب ہیں- ان کو دربار میں ہم پر ہنسی کا موقع ملا ہے- میں خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتا ہوں- میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس مریض جیسا کوئی ان کے ہاتھ سے بھی مر رہے گا- آپ کیوں گھبراتے ہیں- قدرت الٰہی دیکھو نہ گمان نہ خیال- علی بخش کے بالمقابل ایک دوسرا خدمت گار نواب کا اسی بیماری میں گرفتار ہوا اور حکیم ابراہیم صاحب لکھنوی اس کے معالج تجویز ہوئے- مریض کو ورم کبد بھی تھا- ایک دن اس کے منہ
سے خون آیا- معالج حکیم صاحب نے فرمایا کہ یہ بحرانی خون ہے اور ہم کو اس کی صحت کی بہت امید ہے- ہمارے حکیم صاحب نے آکر یہی بات ظاہر کی- میں نے عرض کیا کہ اب یہ مرگیا ہے- خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں- انسان کی کیا مقدرت ہے- وہ مریض مر گیا- عوض معاوض گلہ ندارد- حکیم ابراہیم صاحب آئندہ تمسخر سے باز آگئے-
طب کے پڑھنے میں مجھے جو امر بہت نافع نظر آیا اور میں نے خود عمل کیا اور جس میں میں نے بہت فائدہ اٹھایا- اس کو بیان کرنا شاید مفید ہو- سو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ میں نے مفرد اور مرکب ادویہ کے متعلق بہت دنوں تک حضرت حکیم صاحب سے کبھی بھی سوال نہ کیا کہ یہ مرکب کس طرح بنتا ہے- یا اس مفرد کا کیا نام ہے- بات یہ تھی کہ اگر وہ نام بتاتے تو صرف لکھنئو کا مروج نام فرماتے اور وہ میرے لئے اپنے وطن میں کچھ بھی مفید نہ ہوتا- مرکبات کے واسطے میں یقین کرتا تھا کہ قرابادینوں کا مطالعہ کافی ہوگا- اس پر آخر حکیم صاحب نے مجھ سے سنکھیا )سم الفار( اور سرخ مرچ کے متعلق سوال فرمایا کہ تم اس کو مفردات سے کس طرح نکالو گے- )یہ سوال ممکن تھا کہ میرے راستہ میں پہاڑ بنتا کہ میں آئندہ دوائوں کے نام پوچھ لیا کرتا- مگر میں نے خیال کیا کہ ایک ایک دوا کے بیس بیس نام ہوتے ہیں- خود حکیم صاحب بھی مجھے کب بتا سکتے ہیں( میں نے اپنے مطالعہ کی عادت کے باعث جلد اس کا جواب حاصل کر لیا جس پر وہ خود مطمئن ہو گئے- دوسری بات نسخہ نویسی کے متعلق تھی- وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے نسخے لکھا کروں اور مجھے مطلوب تھا کہ میں علم پڑھوں- جس وقت میں بیماروں کا گھمسان دیکھتا تو اپنے دوسرے اساتذہ کے پاس اور علوم کے واسطے چلا جاتا- کیونکہ حکیم صاحب کے پاس صبح سے عشاء تک اپنا ضروری سبق بھی بمشکل ختم ہو سکتا تھا- ایک دن مزمن ماشرہ کا مبتلا ایک بیمار آیا اس کا سر اس قدر موٹا ہو گیا تھا جیسے ہاتھی کا- اس کے ہونٹوں اور آنکھوں کی شکل بھی بڑی بھیانک تھی- میں اس سے دو تین روز پہلے یہ مرض پڑھ چکا تھا- مگر مریض کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ماشرہ ہے- ادھر حکیم صاحب نے فرمایا کہ اس کا نسخہ لکھو- میں سخت گھبرایا- آخر میرے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار تھا- معاً حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ ایسے ماشرہ دنیا میں کم دیکھنے میں آتے ہیں- تب میں نے عرض کیا کہ اس مریض کو دیکھنے میں بہت جمگھٹا ہو گیا ہے- یہ اس کو مکان پر لے جائیں اور پھر آکر نسخہ لے جائیں- اس طرح وقت کو ٹلا دیا اور خود اپنے کمرہ میں جاکر حکیم صاحب کی زیر نظر کتابیں شرح گیلانی قانون پر‘ ترویح الارواح طبری اور مجموعہ بقائی کو دیکھنا شروع کیا اور ان تمام کتابوں سے ایک مشترکہ نسخہ ضماد اور طلاء اور کھانے کا لکھ لیا اور کتابیں اپنی اپنی جگہ پر رکھوا دیں اور نسخے قریباً یاد کر لئے- تیمار دار دیر کے بعد آیا اور حکیم صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ آپ نے نسخہ لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ ابھی لکھ دیتا ہوں- قلم اٹھا کر نسخے لکھ دیئے اور حکیم صاحب کے حضور پیش کئے- حکیم صاحب نے ان کو دیکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ شرح گیلانی‘ ترویح اور مجموعہ بقائی لائو- میں لایا- میرے نسخوں کو سامنے رکھ کر سرسری نظر ان کتابوں پر ڈال لی اور نسخے تیمار دار کو دے دیئے- جب فراغت ہوئی تو اپنا بیاض بڑی محبت سے مجھ کو عطا کیا اور فرمایا- تم اس کے اہل ہو- دے کر آپ حرم سرا میں تشریف لے گئے- میں نے دیکھا اس میں کچھ نسخے تھے- اس بیاض کو میں نے مطب میں ہی چھوڑ دیا اور اپنے کمرہ میں چلا گیا- کسی دوسرے وقت حکیم صاحب آئے اور بیاض کو اس طرح کھلا پڑا ہوا دیکھ کر اٹھایا اور مجھے دیا- میں نے عرض کیا اس کو کیا کروں- نسخہ لکھنا تو تشخیص پر منحصر ہے اور اس میں کوئی تشخیص نہیں- اس پر متبسم ہو کر کہا کہ بات تو ٹھیک ہے- تیسری بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ درسی کتب میں قانونچہ- موجز‘ اقصرائی‘ نفیسی‘ سدیدی‘ شرح اسباب کا لمبا سلسلہ مجھے حیرت زدہ کرتا تھا اور مجھ کو یقین تھا کہ جیسے اور علوم میں ملکہ پیدا ہونے کے بغیر کوئی علم نہیں آسکتا اسی طرح طب بھی ایک ملکہ کے بغیر کیونکر مفید ہو سکتا ہے- جیسے درسی کتابوں میں علی العموم یہ غلط راہ اختیار کی گئی ہے کہ مختصرات اور حواشی در حواشی میں وقت ضائع کیا جاتا ہے- دودھ کاجلا چھاچھ کو بھی پھونکنے لگا- مجھ کو اپنی گذشتہ عمر کے ضائع ہونے کا سخت ہی افسوس تھا- اس لئے میں نے صرف قانون ہی کا پڑھ لینا اور وہ بھی صرف عملی حصہ کا پڑھنا پسند کیا تھا- حکیم صاحب نے ایک دن مجھے فرمایا کہ تم شرح اسباب کسی کو ہمارے سامنے پڑھائو- جس کو میں نے بطیب خاطر پسند کیا اور ایک شخص مولوی محمد اسحاق ساکن نگینہ کو شرح اسباب حکیم صاحب کے سامنے پڑھانی شروع کی اور اس میں مجھے کامیابی
ہوئی- یہ باتیں اس لئے ذکر کر دی ہیں کہ کسی کو فائدہ ہو-
میں جس زمانہ میں طب پڑھتا تھا- ان دنوں مجھ کو متنبی پڑھنے کا بھی خیال پیدا ہوا- لہذا میں مفتی سعداللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا- بہت الحاح سے میں نے انکی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ کو آپ ایک سبق پڑھا دیا کریں- انہوں نے بہت روکھے الفاظ میں یہ فرمایا کہ ہم کو فرصت نہیں- میں نے کہا اچھا- اب ہم اسی وقت پڑھیں گے جب آپ ہماری منت کریں گے- میں مکان پر آیا اور میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ میں علم پڑھنا پسند نہیں کرتا انہوں نے فرمایا کیوں؟ میں نے کہا علم سے فائدہ کوئی نہیں- آپ مجھے غایت علم بتائیں کہ علم سے نتیجہ کیا ملے گا؟ انہوں نے فرمایا کہ علم سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں- حکیم صاحب نے فرمایا کہ بات کیا ہے‘ ذرا ہم سے بیان تو کرو- میں نے کہا مفتی سعداللہ صاحب کے پاس گیا تھا- ان سے کچھ پڑھنا چاہتا تھا- انہوں نے بڑے روکھے پن سے کہا کہ ہم کو فرصت نہیں- حکیم صاحب نے مطب میں سے ایک پرچہ اٹھا کر مفتی سعداللہ صاحب کے نام رقعہ لکھا کہ جب آپ کچہری سے فارغ ہوں تو اسی راستہ سے تشریف لائیں اور مجھ سے ملتے ہوئے جائیں- رقعہ آدمی کے ہاتھ بھجوا دیا اور مفتی صاحب کچہری سے اٹھ کر سیدھے حکیم صاحب کے پاس آئے- مجھ کو حکیم صاحب نے پہلے سے کہہ دیا کہ تم اپنی کوٹھڑی میں چلے جائو- جب مفتی صاحب تشریف لائے تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ اگر میں پڑھنا چاہوں تو آپ کو میرے پڑھانے کے لئے کچھ وقت مل سکے گا- مفتی صاحب نے بڑے زور شور سے کہا کہ ہاں وقت بہت مل سکتا ہے اور ہم‘ جس وقت کے لئے آپ کہیں‘ فرصت نکال سکتے ہیں- حکیم صاحب نے کہا اگر کوئی ہمارے پیرو مرشد پڑھنے لگیں؟ مفتی صاحب نے کہا ان کو تو جہاں وہ چاہیں ہم خود جا کر پڑھا دیا کریں گے- تھوڑی دیر کے بعد حکیم صاحب نے مجھ کو بلوایا- میں جب آیا تو مجھ کو آتے ہوئے دیکھ کر مفتی صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ آئو صاحب ہم اب آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ پڑھیں- معلوم ہوا کہ حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ طالب علم کے لئے فرشتے پر بچھاتے ہیں‘ یہ بہت صحیح ہے- باری خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے سبق مجھ کو شروع کرایا- ہم کچھ نخرہ بھی کرتے رہے مگر یہ شکایت میں اب تک بھی کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں بڑے بڑے علماء کی خدمت میں جاتا تھا کسی نے نہ تو اخلاقی تعلیم دی اور نہ کسی کتاب کا مشورہ دیا- نہ آئندہ کی ضرورتوں سے آگاہ کیا-
ایک مرتبہ طالب علموں میں مباحثہ ہوا کہ اہل کمال اپنا کمال کسی کو بتاتے ہیں یا نہیں؟ میرا دعویٰ تھا کہ اہل کمال تو اپنا کمال سکھانے اور بتانے کے لئے تڑپتے ہیں مگر کوئی سیکھنے والا نہیں ملتا- باقی تمام طالب علم کہتے تھے کہ سیکھنے والے بہت ہیں مگر وہ سکھاتے ہی نہیں- میں نے کہا تم یوں تو مانتے نہیں اور نہ تم ہارنا جانتے ہو- کوئی صاحب کمال بتائو- اس کے پاس چل کر اسی سے فیصلہ کرائیں- سب نے بالاتفاق کہا کہ یہاں امیر شاہ صاحب عامل ایک باکمال ہیں- ان کا ایک باغیچہ شہر کے اندر تھا- سب طالب علم ان کے مکان پر چلے گئے- وہ ایک لکڑی کے تخت پر تکیہ لگائے لیٹے ہوئے تھے اور پاس ہی زمین پر ایک چھوٹی سی چٹائی بچھی ہوئی تھی- جو ہمارے بڑے بڑے طالب علم اور زیادہ مستحق تھے- وہ فوراً سب سے پہلے چٹائی پر بیٹھ گئے- باقی بہت سے طالب علم زمین پر ہی بیٹھ گئے- چونکہ مجھ کو زمین پر بیٹھنے کی قطعاً عادت نہ تھی اور اب بھی مجھے بڑی نفرت ہوتی ہے- میں سامنے کی ایک کچی دیوار کے پاس کھڑا رہا- جب سب بیٹھ گئے تو امیر شاہ صاحب نے بڑی حقارت سے کہا- >او ملو! کس طرح آئے-< میں نے عرض کیا- ایک مقدمہ ہے جس میں یہ سب لوگ مدعی اور میں مدعا علیہ ہوں یا میں مدعی ہوں اور یہ سب مدعا علیہ ہیں- آپ سے فیصلہ چاہتے ہیں- تب انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم کھڑے کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا کہ چٹائی بہت چھوٹی ہے جو ہمارے اعزاز کے قابل طالب علم تھے- وہ بیٹھ گئے اب کوئی جگہ نہیں اس لئے میں کھڑا ہوں- انہوں نے فرمایا تم ہمارے پاس آجائو- میں فوراً تخت پر ان کے پاس جا بیٹھا- طالب علموں کا تو اس وقت فیصلہ ہو گیا- مگر انہوں نے مقدمہ سن کر صاف لفظوں میں مجھ سے کہا کہ تم سچے ہو اور یہ سب غلطی پر ہیں- میں نے کہا بس فیصلہ ہو گیا- اب جاتے ہیں- میں جب اٹھ کر چلنے لگا تو انہوں نے مجھ کو پھر بٹھایا اور خود اٹھ کر ایک قریب کی کوٹھڑی میں گئے وہاں سے ایک قلمی ضخیم کتاب لائے- میں نے اس کو دیکھا تو عملیات کی کتاب تھی- مجھ سے فرمانے لگے کہ میری ساری عمر کا اندوختہ یہی ہے اور میں یہ کتاب تم کو دیتا ہوں- میں نے کہا میں تو طالب علم ہوں- ابھی پڑھتا ہوں مجھ کو اس کی ضرورت نہیں- یہ سن کر وہ چشم پرآب ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم تم کو دیتے ہیں اور تم لیتے نہیں- یہ لوگ مانگتے ہیں اور ہم ان کو دیتے نہیں- پھر بھی جب میں اٹھنے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک بات عملیات کے متعلق کہتے ہیں- اس کو سن لو- جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی غرض کے لئے آئے تو تم کو چاہیے کہ تم جناب الٰہی کی طرف جھک جائو اور یوں التجا کرو کہ الٰہی میں نے اس کو نہیں بلایا- تو نے خود بھیجا ہے- جس کام کے لئے آیا ہے اگر وہ کام تجھ کو کرنا منظور نہیں تو جس گناہ کے سبب میرے لئے تو نے یہ سامان ذلت بھیجا- میں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں- پھر بھی دوبارہ تمہاری اس دعا مانگنے کے بعد وہ شخص اصرار کرے تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگ کر اس کو کچھ لکھ دیا کرو- مجھ کو امیر شاہ صاحب کے بتائے ہوئے اس نکتہ نے آج تک بڑا فائدہ دیا- مگر ان طلباء نے مطلق توجہ نہیں کی اور ان کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی کہ انہوں نے کیا بتا دیا- جب وہاں سے باہر نکلے تو طالب علموں نے میری نسبت کہا کہ اس کو حب کا عمل آتا ہے اس نے کھڑے ہو کر ان پر بھی حب کا عمل ڈالا اور وہ اس کے قابو میں آگئے اور اسی واسطے یہ ہمیشہ بڑے بڑے امیروں اور معززوں میں رہتا ہے اور سب اس کی خاطر کرتے ہیں- یہاں میں دو برس حضرت حکیم صاحب کے حضور حاضر رہا اور بمشکل >قانون< کا عملی حصہ ختم کیا- بعد حصول سند و اجازت رخصت مانگی کہ اب میں عربی کی تکمیل اور حدیث پڑھنے کے لئے جاتا ہوں- آپ نے مجھے میرٹھ اور دہلی جانے کا مشورہ دیا اور نہایت محبت سے فرمایا کہ ہم معقول خرچ ان دونوں شہروں میں تمہیں بھیجا کریں گے- مگر جب میں میرٹھ پہنچا تو حافظ احمد علی صاحب کلکتہ کو چلے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین مجاہدین کو روپیہ پہنچانے کے مقدمہ میں ماخوذ تھے- ان دونوں سے ایک حرف پڑھنا بھی نصیب نہ ہوا )اگرچہ پھر آخر میں ایک وقت میں نے حافظ احمد علی صاحب سہارنپوری سے بہت کچھ استفادہ کیا- مگر وہ طالب علمی کا وقت نہ تھا( اور میں بھوپال پہنچ گیا-
‏Mr.5

بھوپال میں پہلی مرتبہ
بھوپال جاتے ہوئے دو باتیں رستہ میں پیش آئیں- ایک یہ کہ جب میں گوالیار پہنچا تو میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہوئی جو حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مخلصوں میں سے تھے- مجھ کو کچھ ان کی صحبت میں ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ میں وہیں رہ پڑا- مجھ سے باتیں کرتے کرتے انہوں نے یہ دو شعر پڑھے-
نہ کر عوض مرے عصیان و جرم بے حد کا
کہ تیری ذات غفور و رحیم کہتے ہیں
کہیں نہ کہہ دے عدو دیکھ کر مجھے غمگین
یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں
ان شعروں کا اثر جو میرے دل پر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آج اس بات کو شاید پچاس برس کے قریب زمانہ گزرتا ہے لیکن وہ لذت اب تک بھی فراموش نہیں ہوئی-اگرچہ ادعیہ مسنونہ کی برابری یہ دعا نہیں کرسکتی مگر معلوم نہیں کہ کیسے دل سے نکلی تھی جس میں عجیب قسم کااثر ہے-
وہاں سے چل کر میں گونہ نام ایک چھائونی میں پہنچا- میرے پائوں بہت زخمی ہو گئے تھے اور چلنے کی تاب ان میں بالکل باقی نہ تھی- کیونکہ میں بہت ہی تھک گیا تھا- ایک مسجد میں جو چھائونی میں تھی جا کر آرام کیا- یہ مسجد کچھ ویران ہی سی معلوم ہوئی- رات بہت چلی گئی تو ایک شخص نماز پڑھنے آیا- میں نے اس سے کہا کہ تم بہت دیر کر کے نماز پڑھنے آئے ہو- اس نے کہا- ہم کاروباری لوگ ہیں- یہاں ہم بڑے اتفاق سے رہتے تھے- یہ مسجد بھی بڑی آباد تھی- لیکن یہاں رفع یدین اور آمین بالجہر پر آپس میں ایسا جھگڑا ہوا کہ قریب تھا کہ یہ مسجد گنج شہیداں ہو جائے- آخر ایک دنیادار نے سب کو کہہ دیا کہ نمازیں اپنے اپنے گھر میں پڑھو اور اپنے کاروبار کرو- کیوں مولویوں کے کہنے سے تباہ ہوتے ہو- چنانچہ سب نے مسجد کی نماز چھوڑ دی ہے اور اپنے اپنے گھروں میں لوگ پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے- مگر میرا دل مسجد کے سوا نہیں لگتا- اس لئے میں ایسے وقت مسجد میں آتا ہوں جبکہ کوئی اس محلہ کا آدمی مجھ کو مسجد میں آتے ہوئے نہ دیکھ سکے- میں نے کہا ممکن ہو تو تم کل ان لوگوں کو بلائو- ہم ان کو کچھ سنانا چاہتے ہیں- وہ نماز پڑھ کر چلا گیا- کچھ دیر کے بعد کھچڑی لایا جو ہم دونوں رفیقوں کے لئے کافی سے زیادہ تھی- دوسرے دن بہت سے آدمیوں کو اکٹھا کر کے لایا- میں نے ان کو باہمی عداوت کے متعلق بہت سمجھایا اور بتایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ واحد ہے- رسول واحد ہے- کتاب واحد ہے- قبلہ توجہ واحد ہے- فرائض میں بھی قریباً باہمی اشتراک ہے- چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اتنے بڑے عظیم|الشان کام جماعت کو چھوڑ دینا لوگوں کی غلطی ہے- میری تقریر کا بہت اثر ہوا- بہت سے لوگ میرے ہمدرد ہو گئے- ان میں سے ایک شخص ڈاکٹر حبیب اللہ خان نے میرے ساتھ میرے پائوں کے زخموں کے متعلق بڑی بڑی ہمدردیاں کیں- آخر وہ سانبھر جھیل کو تبدیل ہو گئے تھے- میرے ساتھ اپنے آخری دم تک اپنی محبت کو انہوں نے بہت نباہا- میں قادیان میں تھا جب ان کا انتقال ہوا ہے- وہ ہمیشہ بڑی بڑی محبتوں کا اظہار میرے ساتھ کرتے رہے-
مجھے ان مسائل کے متعلق بڑا ہی تعجب آیا کرتا ہے کہ یہ کیا جھگڑے ہیں- اگر ہماری قوم کے ملاح ان چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے باعث عوام کو جوش نہ دلائیں تو میرے نزدیک خود ان علماء اور گدی نشینوں کو بھی کوئی ضرر نہ پہنچے- مگر طالب|علمی میں ان کو پاک باتوں کی طرف توجہ کم دلائی جاتی ہے اور طالب علمی میں پاک صحبتیں ان لوگوں کو بہت ہی کم نصیب ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے اخلاق کے متعلق عملی کتاب کوئی نہیں-
گونہ چھائونی سے چلا- میرے ساتھ محمود نامی ایک افغان نہایت خوبصورت نوجوان تھا- ہم نے گونہ سے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ ایک زمیندار نے ہم سے کہا کہ اس سڑک پر مری ہے )مری وہ ہیضہ کو کہتا تھا( دوسری سڑک پر چلو- لیکن محمود ایک بڑا متوکل آدمی تھا- توکل کے غلط معنی جس میں آجکل علی العموم مسلمان گرفتار ہو کر کاہل اور سست ہو گئے ہیں‘ اس میں وہ بھی گرفتار تھا- اس کے کہنے پر محمود نے پروا نہ کی- میں نے بھی روکا مگر اس نے کہا- خبر واحد ہے کیا اعتبار- میں نے محمود سے کہا کہ میں بیزار ہوں مگر مجبور ہوں- آخر ہم چلے- چند منٹ کے بعد محمود خود ہیضہ میں مبتلا ہو گیا- دور سے ایک گائوں نظر آتا تھا- ہم نے بہت کوشش کی کہ جلد وہاں پہنچیں مگر ایک ہی اجابت نے محمود کو مضمحل کر دیا- آخر گائوں کے پاس پہنچے- گائوں والوں نے بالکل روک دیا- اور ہم نے ایک املی کے درخت کے نیچے ڈیرا کر دیا- محمود کی حالت وقتاً فوقتاً بگڑتی گئی اور دو تین روز کے بعد اس نے انتقال کیا- اس کے دفن کرنے میں اور اتنے روز کھانا نہ ملنے میں مجھے بہت دقت ہوئی- مرنے کے بعد میں نے گائوں کے نمبردار کی دفن کے لئے بہت کچھ منت کی- مگر وہ ایک زرخطیر لے کر راضی ہوا اور پھر بھی یہ کہا کہ میت کو ہم میں سے کوئی نہ اٹھائے گا- ہاں ہم ایک گہرا گڑھا کھود دیتے ہیں- میں نے محمود کو خود اٹھا کر گڑھے میں ڈالا اور نماز جنازہ تب یاد آئی جب مٹی برابر کر چکے- ایک مسلمان جو صرف ایک ہی مسلمان گائوں میں تھا اور اس کا نام گرجن اور ایک اس کا بھائی جس کا نام ارجن تھا اور جس کو میں نے ہرچند اپنی امداد کے لئے کہا تھا اور وہ انکار کر چکا تھا- اس کا اکلوتا بیٹا ہیضہ میں گرفتار ہو گیا- کچھ تو وہ مشرکانہ خیال کے باعث اور کچھ اس لئے کہ مجھ کو محمود کا علاج کرتے بھی دیکھا تھا- میرے پاس دوڑتا اور روتا ہوا آیا اور کہا- ہمارے گھر چلو اور بھوجن بھی کھائو- میں چلا گیا اور اس کے لڑکے کو یہ دوائی دی- گل ناشگفتہ عشر )آکھ( تولہ‘ سہاگہ بریاں ۵ ماشہ‘ دارفلفل ۵ ماشہ- لونگ ۵ ماشہ- زنجبیل ۵ ماشہ- گولی بنائی اور نیم کی انتر چھال کے پانی کے ساتھ دی اور لہسن کوٹ کر اس کے ناخنوں پر باندھ دیا- لڑکا سنبھل گیا- اس کی ماں نے تازہ چوکا بنا کر مجھ کو اس کے اندر بٹھا کر کھانا کھلایا- شہر میں مرض کی بڑی شدت ہو گئی اور ہم وہاں طبیب ہو گئے- نمبردار نے ہمارا روپیہ واپس کر دیا اور مجھے کہا کہ آپ کو میں مع آپ کے اسباب کے بھوپال پہنچا دوں گا- اس نے اپنے عہد کو بڑی وفاداری سے نباہا- اسی راستہ میں میں نے حضرت شاہ وجیہ الدین کے )جو ہمارے شیخ المشائخ شاہ ولی اللہ صاحب کے بڑے تھے( گنج شہیداں کو دیکھنے اور عبرت حاصل کرنے میں بہت فائدہ اٹھایا- وہاں شاہ صاحب کو کنگن ولی کہتے تھے-
میں بھوپال پہنچا تو میرے پاس کچھ روپیہ تھا- جس کو میں نے اپنے اسباب کے ساتھ بیرونی سرائے میں رکھا اور ایک روپیہ اس میں سے نکال لیا- کیونکہ بلا کسی خاص اجازت کے شہر کے اندر کسی اجنبی کو جانے نہیں دیتے تھے اس لئے میں نے بیرونی سرائے میں اسباب رکھ کر کپڑے بدلے اور وہ ایک روپیہ رومال میں باندھ کر شہر میں چلا گیا- شہر میں تھوڑی دور چل کر ایک باورچی کی دوکان آئی- وہاں جا کر میں نے کھانا کھایا- اس باورچی نے آٹھ آنے مجھ سے مانگے- میں نے اس کو روپیہ دیا- اس نے مجھ کو اٹھنی واپس دی- وہ اٹھنی لے کر میں چلا اور قلعہ دار سے اجازت حاصل کی- تھوڑی دیر کے بعد جو دیکھتا ہوں تو وہ اٹھنی کہیں گر گئی تھی- جب واپس سرائے میں پہنچا تو میرا اسباب تو بالکل محفوظ تھا مگر روپے ندارد- دوسرے دن میں اسباب کو لے کر جب دروازہ شہر میں داخل ہوا تو یہ فکر تھی کہ کتابیں وغیرہ کہاں رکھوں- جب اسی باورچی کی دکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے کہا کہ کھانا کھا لو- میں نے کتابیں اور اسباب اس کی دکان پر رکھ کر بلاتکلف خوب کھانا کھا لیا- میرے دل میں تھا پیسے تو پاس ہیں نہیں مگر آخر تمام اسباب آٹھ آنہ کا بھی نہ ہوگا؟ میں اسباب وہیں رکھ کر چلا آیا- بھوپال میں باجی کی مسجد بڑی عمدہ ہوادار جگہ اور تالاب کے کنارے تھی- مجھ کو پسند آئی- میں زیادہ حصہ اسی میں رہتا تھا-
اب میں اس باورچی کی دکان کی طرف بھی نہیں جا سکتا تھا- مجھ کو بہت وقتوں تک کھانے کا موقع نہ ملا- ایک دن میں نے دل میں یقین کیا کہ آج شائد شام تک نہ بچوں گا- اس باجی کی مسجد میں ایک چبوترہ تھا- عصر کے بعد میں ٹیک لگا کر اس چبوترہ میں بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا- میرے بدن سے پسینہ جاری تھا اور خیال تھا کہ شام تک شائد ہی زندہ رہوں- اسی وقت وہاں منشی جمال الدین مدارالمہام نماز کے لئے آئے اور نماز پڑھ کر اپنے امام صاحب کو میرے پاس بھیجا- اس وقت میں تو جان سے بھی بیزار تھا- لہذا امام صاحب نے جو کچھ مجھ سے کہا- اس کا جواب میں نے بہت روکھا سوکھا دیا- معلوم نہیں کہ امام صاحب نے کیا جا کر کہا ہوگا- مگر ان کے پہنچتے ہی منشی صاحب مع اپنے ہمراہیوں کے خود میرے پاس چلے آئے- ضعف کے باعث میں اٹھ نہیں سکتا تھا اور میری عادت بھی نہ تھی- امام صاحب نے ہی آگے بڑھ کر مجھ سے کہا کہ منشی صاحب آتے ہیں- میں نے کہا آنے دو- منشی صاحب آئے اور میں لیٹا ہی رہا- منشی صاحب نے کہا آپ پڑھے ہوئے ہیں- میں نے کہا ہاں- پھر انہوں نے کہا آپ کیا کیا علوم جانتے ہیں- میں نے کہا سبھی کچھ جانتا ہوں- تب انہوں نے اپنی نبض مجھ کو دکھائی- مجھے یہ تو یاد نہیں میں نے نبض کس احتیاط سے دیکھی- اس روز ان کو بہت بدہضمی ہو چکی تھی- میں نے نبض دیکھ کر کہا کہ بدہضمی ہے- انہوں نے مجھ سے نسخہ طلب کیا- میں نے ان کو نسخہ لکھوادیا جو بہت قیمتی تھا- انہوں نے کہا- اگر فائدہ نہ کرے- میں نے اس کا جواب نہایت سختی سے دیا- پھر انہوں نے کہا آپ علم مساحت جانتے ہیں؟ میں نے کہا جانتا ہوں- سامنے تالاب تھا جو بہت بڑا تھا- انہوں نے کہا کہ آپ یہاں بیٹھ کر اس تالاب کی مساحت کر سکتے ہیں- میں نے کہا ہاں- میں نے ایک قاعدہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ تو ایک قلم کے ذریعہ سے کر سکتے ہیں- بس اس کے بعد وہ سب لوگ چلے گئے- راستہ سے انہوں نے کہلا کر بھجوایا کہ ہم آپ کی ضیافت کرتے ہیں- میں نہ اٹھ سکتا تھا نہ جا سکتا تھا- میں نے کہا مجھ کو ضیافت کی کوئی ضرورت نہیں- تب انہوں نے کہلا کر بھجوایا کہ مسنون دعوت ہے- میں نے سوچا- مرتے تو ہیں آخر وقت سنت پر تو عمل ہو اور کہا کہ بہت اچھا دعوت منظور ہے- غالباً دن ابھی بہت باقی تھا کہ ایک سپاہی آیا اور کہا کہ کھانا تیار ہے‘ چلو- میں نے اس سے کہا کہ میں چل نہیں سکتا- اس نیک انسان نے کہا کہ آپ میری پیٹھ پر سوار ہو جائیں- چنانچہ میں اس کی پشت پر سوار ہو گیا اور وہ مجھ کو خوب احتیاط سے لے گیا- وہاں کھانا دستر خوان پر چنا جا چکا تھا- اس سپاہی نے لے جا کر مجھ کو منشی صاحب کے پاس ہی بٹھا دیا- میں نے اس وقت بہت غور کیا کہ کیا چیز ہے جو کھائوں- پلائو کے ساتھ مجھ کو رغبت تھی- میں نے پلائو کی رکابی میں سے لقمہ اٹھایا- جب منہ کے قریب لے گیا تو ڈرا کہ ایسا نہ ہو گلے میں پھنس جائے اور جان نکل جائے- اس واسطے پلائو کے لقمہ کو پھینک دیا- پھر جو غور کیا تو ایک برتن میں مرغ کا شوربا تھا- میں نے اس کو اٹھا لیا اور ایک بہت چھوٹا سا گھونٹ بھرا تو میری آنکھوں میں روشنی سی آگئی- پھر ایک اور گھونٹ بھرا- اسی طرح آہستہ آہستہ میں نے اس کو پینا شروع کیا- منشی صاحب نے اپنے باورچی کو بلایا اور دریافت کیا کہ اس پلائو میں کیا نقص ہے- اس نے کہا کہ اس میں نقص تو کوئی نہیں ہاں اس کے مرغ میں کسی قدر داغ لگ گیا تھا- چونکہ یہ برتن بڑا ہے اور چاولوں کی زیادہ مقدار اس میں ہے- میں نے وہ داغ لگا ہوا گوشت نیچے دبا دیا ہے- منشی صاحب نے اس میں سے ایک لقمہ اٹھا کر سونگھا- مگر ان کو کچھ محسوس نہ ہوا- وہ یہ سمجھے کہ اس نے سونگھ کر اس نقص کو محسوس کیا اور لقمہ چھوڑ دیا- پھر انہوں نے باورچی سے کہا کہ ان تمام کھانوں میں سب سے عمدہ پکا ہوا کھانا کونسا ہے- اس نے کہا شوربا- جس کا پیالہ ان کے ہاتھ میں ہے- خیر میں نے وہ شوربا قریباً تمام ہی پی لیا اور وہ اس وقت میرے لئے بہت ہی مفید ہوا- میرے ہوش و حواس اور قویٰ ٹھیک ہو گئے- جب کھانے سے سب فارغ ہو گئے تو اور لوگوں کو ہٹا دیا اور مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو- کہاں سے آئے ہو- ان دنوں میرا لہجہ اردو کا لکھنوی طرز پر تھا- میں نے کہا کہ میں ایک پنجابی آدمی ہوں اور یہاں پڑھنے کے لئے آیا ہوں- یہ بات میرے لئے بہت ہی مفید ہوئی- منشی صاحب کو یہ گمان تھا کہ یہ کوئی آسودہ حال صدمہ رسیدہ اور حوادث کا پامال ہے- پڑھنے کا یونہی نام لیا ہے ورنہ یہ خود عالم ہے- تب انہوں نے فرمایا کہ آپ میرے پاس رہیں اور میرے ساتھ ہی کھانا کھایا کریں- جہاں آپ کو پڑھنا ہوگا میں کوشش کردوں گا- ان کا ایک توشہ خانہ تھا- اس میں رہنے کے لئے جگہ دی- اور اپنے مہتمم کتب خانہ کو حکم دیا کہ کسی کتاب سے انکو مت روکو- میں نے کہا میرے پاس بھی کتابیں ہیں- ایک دکان پر میں نے اپنا سامان رکھ دیا ہے- اس دکاندار کو کچھ دینا ہوگا- وہاں سے سامان منگوادیں جو دینا ہوگا میں دے دوں گا- تھوڑی دیر کے بعد سب سامان مع کتابوں کے پہنچ گیا اور میں ان کے توشہ خانہ میں رہنے لگا- حضرت مولوی عبدالقیوم صاحب سے میں نے بخاری ]ttex [tagاور ھدایہ دو کتابیں شروع کیں- حضرت منشی صاحب مغرب کے بعد خود قرآن شریف کا لفظی ترجمہ پڑھایا کرتے تھے- ایک روز میں بھی اس درس میں چلا گیا- وہاں یہ سبق تھا- واذا لقوا الذین اٰمنوا قالوا اٰمنا و اذا خلا بعضھم الیٰ بعض- محمد عمران کا نواسہ قاری تھا- میں نے کہا کیا اجازت ہے ہم لوگ کچھ سوال بھی کریں؟ منشی صاحب نے فرمایا بخوشی- میں نے کہا یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور نرم لفظ بولا ہے- یعنی بعضھم الیٰ بعض اور اس سورۃ کے ابتدا میں جہاں انہیں کا ذکر ہے وہاں بڑا تیز لفظ ہے- اذا خلوا الیٰ شیٰطینھم اس نرمی اور سختی کی کیا وجہ ہوگی؟ منشی صاحب نے فرمایا کیا تم جانتے ہو؟ میں نے کہا- میرے خیال میں ایک بات آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق تھے‘ ایک اہل کتاب‘ ایک مشرک- اہل کتاب کے لئے نرم یعنی بعضھم کا نرم لفظ اور مشرکین کے لئے سخت الیٰ شیٰطینھم بولا ہے- منشی صاحب سن کر اپنی مسند پر سیدھے کھڑے ہو گئے اور میرے پاس چلے آئے- مجھ سے کہا کہ آپ وہاں بیٹھیں اور میں بھی اب قرآن شریف پڑھوں گا- قدرت الٰہی ہم وہاں ایک ہی لفظ پر قرآن کریم کے مدرس بن گئے-
منشی صاحب کو دن بدن مجھ سے محبت بڑھتی جاتی تھی- ان کے دربار میں ایک روز کوئی اخلاقی مسئلہ پیش ہوا- میں بھی وہاں موجود تھا- قاضی شہر نے شاہ اسحاق صاحب کی نسبت کوئی سخت لفظ بولا- صرف اتنی غیرت پر میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا- کھانے کے وقت میں منشی صاحب کے یہاں نہیں گیا- وہ مجھ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اس روز خود بھی کھانا نہیں کھایا- میں زمانہ سے ناتجربہ کار- مجھ کو خبر نہیں کہ وہ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں- دوسرے دن انہوں نے کسی آدمی سے دریافت کیا کہ نورالدین عصر کی نماز کہاں پڑھتا ہے- اس نے کہا کہ توشہ خانہ کے پاس کی مسجد میں- میں وہاں عصر کی نماز پڑھتا تھا- خود منشی صاحب میرے دہنی طرف آکر بیٹھ گئے- میں نے جو سلام پھیرا اور کہا کہ السلام علیکم ورحمہ~ن۲~ اللہ فوراً فرمانے لگے آخاہ! آپ نے تو ابتدا کر دی- میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھالیا- ایک بگھی جس کو وہاں چرٹ کہتے تھے اس میں اپنے ساتھ سوار کرکے شہر سے باہر بہت دور لے گئے- باہر جا کر مجھ سے کہا کہ آپ نے توکل سے ہم کو بھوکا رکھا- میں نے کہا کہ آپ کی محفل میں شاہ اسحاق صاحب کی برائی ہوتی ہے اور میں تو شاہ صاحب کا عاشق ہوں- منشی صاحب نے فرمایا- آپ نے شاہ اسحاق صاحب کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں- کہا میں نے تو شاہ صاحب کی خدمت میں قرآن شریف پڑھا ہے- میں شیعہ تھا اور سخت شیعہ تھا مگر ہمارا گھر دہلی میں ایسی جگہ تھا کہ شاہ صاحب کے سامنے سے ہو کر جانا پڑتا تھا- آخر میں شاہ صاحب کے درس میں شریک ہوا اور انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہے کہ میں موجوہ حالت کو پہنچا- پھر اپنا سارا قصہ تشیع کا اور سنی ہونے کا سنایا اور کہا کہ میں شاہ صاحب کا بہت معتقد ہوں- لیکن وہ ایک سرکاری معاملہ تھا- جس میں اس وقت مجھ کو بولنا مناسب نہ تھا اور یہ لوگ ایسے ہی ہیں- ان کی باتوں کی طرف زیادہ التفات نہیں چاہیے- یہ کہہ کر بگھی کو لوٹایا اور مجھ کو اپنے مکان پر لے گئے- کھانا کھایا اور مجھ سے کہا کہ آپ ایسی باتوں کا زیادہ خیال نہ کیا کریں- میں نے ان کی قرآن شریف کی آیتوں سے محبت اور وقاف للقران ہونا اس طرح دیکھا کہ مجھ کو یاد نہیں کہ کسی اور کو ایسا دیکھا ہو-
ایک دفعہ میں منشی جمال الدین صاحب کے ساتھ ان کے باغ میں جاتا تھا- راستہ میں انہوں نے پوچھا کہ حتیٰ اذا ما جائ|وھا شھد علیھم میں جس طرح ما سے پہلے
اذا آیا ہے عربی کے کسی شعر میں اس کی مثال موجود ہے؟ بچپن کی حالت بھی کیا بری ہوتی ہے- میں اور ان کا نواسہ محمد نام بگھی میں ایک سیٹ پر بیٹھے تھے اور مقابل کی سیٹ پر منشی صاحب تھے- میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ~}~
اذا ما بکی من خلفھا انصرفت لہ
بشق و تحتی شقھا لم تحول
پڑھنے کو تو یہ شعر میں نے پڑھ ہی دیا مگر اس حالت کو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے- جب انہوں نے کہا کہ اس شعر کا ترجمہ کرو- میں نے میاں محمد کی طرف دیکھا اور انہوں نے منہ کے سامنے کوئی چیز کر کے گردن جھکائی اور مسکرائے- وہ بھی خاموش اور میں بھی چپ- منشی صاحب کی طبیعت بہت ہی نیک تھی- وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ کوئی فحش شعر ہو گا اور بات کو ٹلا دیا اور سلسلہ کلام شروع کردیا- اس روز مجھ کو یہ سبق ملا کہ بات کو منہ سے نکالنے میں انسان کو بہت زیادہ عاقبت اندیشی سے کام لینا چاہیے- گو بعض اوقات زیادہ غور و خوض انسان کو نقصان بھی پہنچا دیتا ہے مگر اس کی تلافی دعائوں سے ہو سکتی ہے- مجھ کو اپنی اس حرکت پر بڑی حیرت رہی- مگر انکی شرافت دیکھو کہ کسی دن بھی انہوں نے اس شعر کے متعلق مجھ سے نہ پوچھا- بھوپال میں میں دو دفعہ گیا ہوں- طالب علمی میں تو یہی کافی ہے کہ میں نے بخاری اور ھدایہ مولوی عبدالقیوم صاحب سے پڑھیں اور حدیث مسلسل بالاولیت میں نے وہاں کے مفتی صاحب سے سنی فجزاہ اللہ احسن الجزاء جو انہوں نے محمد بن ناصر حضرمی سے روایت کی-
محمد بن ناصر حضرمی کا ایک قصہ مجھ کو منشی صاحب نے سنایا کہ ایک مرتبہ وہ میرے مکان پر آئے- چونکہ بڑے نیک اور مشہور آدمی تھے- میں نے ایک ہزار روپیہ کی تھیلی ان کے سامنے رکھی- یہ دیکھ کر ان کے چہرہ پر بڑا تغیر اور خفگی کے آثار نمایاں ہوئے- میں نے وہ تھیلی فوراً اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی تو ان کے چہرہ پر بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے اور میں ہنس پڑا- وہ کہنے لگے کہ تم کیوں ہنسے- میں نے کہا کہ میں نے روپیہ آپ کے سامنے رکھا تو آپ کے چہرہ پر تغیر نمایاں ہوا اور جب میں نے روپیہ اٹھا لیا تو آپ کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں ہوئے- فرمانے لگے کہ ہاں ہمارا ارادہ تھا کہ آپ کے پاس آیا کریں گے اور آپ کو حدیث سنائیں گے- جب آپ نے روپیہ رکھا تو ہم کو رنج ہوا کہ یہ تو دنیادار آدمی ہے- حدیث میں آیا ہے کہ روپیہ کوئی دے تو واپس نہ کرو- اس لئے ہم روپیہ تو لے لیتے مگر روپیہ لے کر پھر حدیث نہ سناتے- اب معلوم ہوا کہ تم بڑے ذہین آدمی ہو اس لئے ضرور آیا کریں گے اور تم کو حدیث سنائیں گے- یہ بھی فرمانے لگے کہ ہم کو روپیہ کی ضرورت نہیں- ہمارے گھر اس قدر کھجوریں پیدا ہو جاتی ہیں جو سال بھر کے لئے کافی ہوتی ہیں- ہمارے گھر کے اونٹ ہیں- ایک طرف اونٹ پر کھجوریں لاد لیتے ہیں- دوسری طرف غلام کو سوار کر لیتے ہیں- پانی کا مشکیزہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں- اسی طرح حج کو جاتے ہیں اور دور دور سفر کر آتے ہیں- کسی چیز کی اور الحمد للہ ضرورت نہیں- یہ قصہ خود منشی جمال الدین صاحب نے بلا کسی وساطت کے سنایا- محمد بن ناصر حضرمی )حضر موت کے رہنے والے( جب بات کرتے تھے تو بہت جلد جلد بلاتکان زبان سے الفاظ نکلتے تھے- مگر کوئی لفظ قرآن و حدیث کے الفاظ سے باہر نہ ہوتا-
منشی جمال الدین صاحب کی ایک یہ بات دیکھی کہ وہ ہمیشہ نابینا مرد یا نابینا عورت کی تلاش میں رہتے تھے اور دور دور سے بلواتے تھے- کبھی مرد و عورت دونوں نابینا ہوتے تھے اور ان کی شادی کر دیتے تھے- کبھی دونوں میں ایک ہی نابینا ہوتا تھا- ان سب کا تمام خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے اور ان کا ایک محلہ آباد کیا تھا- ان کے جو بچے ہوتے تھے- ان کے لئے اسی محلہ میں ایک مدرسہ بھی جاری کیا تھا- ایک روز ایک لڑکے کو )جس کے ماں باپ دونوں نابینا تھے( دیکھ کر وجد کی حالت منشی صاحب پر طاری ہو گئی- مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو اس کی دونوں آنکھیں کیسی اچھی ہیں- وہاں دور دور کے اندھے جمع تھے- حتیٰ کہ ایک سیالکوٹ کا بھی تھا- منشی صاحب اقتصاد کے بڑے عالم تھے- ان کے لئے عضلہ کا ایک سیر گوشت خصوصیت سے پکتا تھا- ایک وقت کھانا کھاتے تھے- اس گوشت میں کئی آدمیوں کو شریک کر لیتے تھے- ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ میں نوجوان تھا جب یہاں نوکر ہوا- میں نے تین روپیہ سے زیادہ کا گوشت اب تک نہیں کھایا- مجھ کو سن کر بہت تعجب ہوا- تو فرمانے لگے کہ میں تین روپیہ کا ایک بکرا ہر روز خریدتا ہوں اور نماز فجر کے بعد اس کو ذبح کر دیتا ہوں- ایک سیر گوشت اس میں سے نکلوا کر باقی پر ایک سپاہی کھڑا کردیتا ہوں کہ اس کے تین روپیہ وصول کر لے- وہ باقی گوشت پوست فوراً تین روپیہ میں فروخت ہو جاتا ہے اور لوگ علی الصبح آکر سب خرید کر لے جاتے ہیں- اس طرح ہر روز ہم کو تین روپیہ بچ جاتے ہیں- یہ طریقہ انہوں نے اپنے بہت سے کھانے پینے میں مقرر کر رکھا تھا- مگر مجھ کو تو صرف گوشت کا حال سنایا تھا-
بھوپال کے واقعات بہت ہی عجیب ہیں- مگر طبی امور کے متعلق صرف یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے نہایت عمدہ دو صدریاں بنوائی تھیں جن کے پہننے کی ہمیشہ مجھے عادت تھی- ان میں ایک چوری ہو گئی- مجھے یقین ہوا کہ طالب علمی کی حالت میں یہ ایک مصیبت ہے- مصیبت پر صبر کرنے والے کو نعم البدل ملتا ہے- دوسری صدری کو اس کے شکریہ میں دے دیا- تھوڑے دنوں کے بعد ایک امیر کبیر کے لڑکے کو سوزاک ہوا- اس نے اپنے آدمی کو کہا کہ کوئی ایسا طبیب جس کو لوگ نہ جانتے ہوں بلا لائو- مگر وہ بنی ہوئی دوا نہ دے بلکہ سہل دوا بتلا دے ایسی نہ ہو کہ جس کے بنانے میں مجھے عام نوکروں کو آگاہی کرنی پڑے- جن سے کہا تھا ان کا نام پیرابو احمد مجددی تھا- انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم طبیب ہے اور اس کے طبیب ہونے سے لوگ ناواقف ہیں- میں اس کو اپنے ساتھ لائوں گا- چنانچہ وہ مجھ کو وہاں لے گئے- وہ نوجوان اپنے گھر کے ایک دالان کے آگے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا- وہاں ایک باغیچہ بھی تھا- وہیں ہمارے لئے کرسیاں منگوائیں- میں نے اس کا حال دریافت کر کے کہا کہ کیلے کی جڑھ کا ایک چھٹانک پانی صاف کر کے اس میں یہ شورہ قلمی جو آپ کے دالان میں بارود کے لئے رکھا ہے کئی دفعہ پئیں اور شام تک مجھے اطلاع دیں- میں کہہ کر چلا آیا اور قدرت الٰہی سے اس کو شام تک تخفیف ہوگئی- اس نے مجھے ایک گراں بہا خلعت اور اتنا روپیہ دیا کہ مجھ پر حج فرض ہو گیا- ساتھ ہی یہ بات ہوئی- کہ مجھے شدت بخار میں سیلان اللعاب خطرناک رنگ میں شروع ہوا- جس میں پانی بودار سیاہ رنگ کانکلتا تھا- ایک شخص حکیم فرزند علی نے مجھے رائے دی کہ آپ کا وطن اگر قریب ہے تو جلد چلے جائیں- اس احتراقی مواد سے بچنے کی کوئی امید نہیں- شام کے وقت ایک بزرگ جو وہاں مہتمم طلبہ~ن۲~ العلم تھے اور نہایت ہی مخلصانہ حالت میں تھے- آئے اور کہنے لگے کہ میں بوڑھا ہوں اور میرے منہ سے لعاب آتا ہے- کوئی ایسی چیز بتائو جو افطار کے وقت کھا لیا کروں- میں نے کہا مربائے آملہ بنارسی- دانہ الائچی- ورق طلا سے افطار کریں- وہ یہ نسخہ دریافت کر کے گئے- معاً واپس آئے اور ایک مرتبان مربہ اور بہت سی الائچیاں اور دفتری ورق طلا کی میرے سامنے لارکھی اور کہا کہ آپ کے منہ سے بھی لعاب آتا ہے- آپ بھی کھائیں- میں نے ان کو کھانا شروع کیا- ایک آدھ کے کھانے سے چند منٹ کے لئے تخفیف ہوگئی- جب پھر پانی کا آغاز شروع ہوا تو ایک اور کھا لیا- غرض مجھے یاد نہیں کہ کس قدر کھا گیا- عشاء کے بعد مجھے بہت تخفیف ہوگئی- میں نے بجائے وطن کے حرمین کا ارادہ کر لیا-
میں جب بھوپال سے رخصت ہونے لگا تو اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کیلئے حاضر ہوا- سینکڑوں آدمی بطریق مشایعت میرے ہمراہ تھے جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے- میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں- فرمایا کہ >خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا-< میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں- غالباً یہ بھی نہ سمجھے ہوں گے- سب نے کہا- ہاں ہم بھی نہیں سمجھے- مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میری زبان سے نکلا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت فعال لما یرید- وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے- فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے- یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم کوئی خدا ہو؟ رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے- اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے- تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے- لہذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہیے- حضرت مولوی صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی- وجزاھم اللٰہ تعالیٰ-
حرمین کے لئے سفر
مجھ کو اس تپ نے جو بھوپال میں آتا تھا- بھوپال سے جدا ہونے کے بعد بھی سفر میں نہیں چھوڑا مگر اس کا یہ قاعدہ تھا کہ پندرہ دن کے بعد صرف ایک دن کے لئے ہوا کرتا تھا- رستہ میں برہان پور سٹیشن پر میں اترا- جب شہر میں گیا تو ایک آدمی مولوی عبداللہ نام مجھ کو ملے- انہوں نے میری بڑی خاطر مدارات کی اور کہا کہ میں تمہارے باپ کا دوست ہوں- جب میں رخصت ہوا تو انہوں نے مجھ کو مٹھائی کی ایک ٹوکری دی- جب راستہ میں ٹوکری کھولی تو اس میں ایک ہزار روپیہ کی ہنڈی مکہ معظمہ کے ایک ساہوکار کے نام تھی اور کچھ نقد روپیہ بھی تھا- اس ہنڈی میں لکھا تھا کہ نورالدین کو‘ ایک ہزار روپیہ تک جب وہ طلب کریں‘ دے دو اور ہمارے حساب میں لکھ لو- اس کے حوصلہ کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا- اگرچہ میں نے وہ ایک ہزار روپیہ وصول نہیں کیا مگر ان کے حوصلہ کی داد دینی ضروری ہے- ان مولوی عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ میں ساہی وال ضلع شاہ پور کا باشندہ ہوں- میں مکہ معظمہ میں حج کو گیا- اس زمانہ میں میں بہت ہی غریب تھا- مکہ معظمہ میں صبح سے شام تک >لقمۃ للٰہ! مسکین< کی صدا سے بھیک مانگتا تھا- پھر بھی کافی طور پر پیٹ نہیں بھرتا تھا اور تمام دن بازاروں گلی کوچوں میں پھرتا رہتا تھا- ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ تو اگر کبھی بیمار ہو جائے اور اتنا زیادہ نہ چل سکے تو بھوک کے مارے مر جائے گا- اس تحریک کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ بس آج ہی مر جائیں گے اور اب سوال نہ کریں گے- پھر میں بیت اللہ شریف میں گیا اور پردہ پکڑ کر یوں اقرار کیا کہ >اے میرے مولیٰ- گو تو اس وقت میرے سامنے نہیں- مگر میں اس مسجد کا پردہ پکڑ کر عہد کرتا ہوں کہ کسی بندے اور کسی مخلوق سے اب نہیں مانگوں گا-< یہ معاہدہ کر کے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا- اتنے میں ایک شخص آیا- اس نے میرے ہاتھ پر ڈیڑھ آنہ کے پیسے )انگریزی سکے( رکھ دیئے- اب میرے دل میں یہ شک ہوا کہ میری شکل سائل کی سی ہے- گو میں نے زبان سے سوال نہیں کیا- اس لئے میرے لئے یہ پیسے جائز ہیں یا نہیں- میں یہ سوچنے لگا اور وہ شخص اتنے میں غائب ہو گیا- میں نے وہاں سے اٹھ کر دو پیسے کی روٹی کھا لی- اور چار پیسے کی دیا سلائیاں خریدیں جو بارہ ڈبیاں ملیں- چونکہ مجھ کو گلی کوچوں میں دن بھر چلنے کی عادت تو تھی ہی- ان دیا سلائیوں کو ہاتھ میں لے کر کبریت کبریت کہتا پھرتا تھا- تھوڑی دیر میں وہ چھ پیسے کی بک گئیں- پھر میں نے چھ پیسے کی خریدیں وہ بھی اسی طرح بیچ دیں- آخر شام تک میرے پاس ایک چونی ہوگئی- دو پیسے کی روٹی کھا کر رات کو سو رہا- دوسرے دن پھر دیاسلائیاں خریدیں اور اسی طرح بیچیں- چند روز کے بعد وہ اتنی ہو گئیں کہ جن کے اٹھانے میں دقت ہوتی تھی- آخر میں نے وہ مختلف چیزیں جنکی عورتوں کو ضرورت ہوتی ہے خریدیں اور بقچہ کمر سے لگا کر پھرنے لگا- مگر سودا ایسا خریدتا تھا اور نفع اس قدر کم لیتا تھا کہ شام تک سب فروخت ہوجائے- رات کو بالکل فارغ ہو کر سوتا تھا- کچھ دنوں بعد ایک چادر بچھا کر اس پر سودا جما کر بیٹھ جاتا اور فروخت کرتا- پھر اس قدر ترقی ہوگئی کہ میں نے نصف دکان کرایہ پر لے لی- پھر اس قدر ترقی ہوئی کہ میں بمبئی آگیا وہاں قرآن شریف خریدتا اور ارد گرد کے گائوں اور قصبوں میں لے جا کر فروخت کرتا- پھر میری ایسی ساکھ بڑھی کہ میں تیس ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر تمہارے شہر بھیرہ میں لے گیا اور تمہارے والد نے وہ سب کے سب خرید لئے- مجھ کو اس میں منافع عظیم ہوا- پھر دوبارہ اسی طرح ہزاروں ہزار کے قرآن شریف خرید کر لے جاتا- جب میں نے دیکھا کہ اب روپیہ بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس تجارت سے بڑھ کر ہے تو میں نے کپڑے کی تجارت شروع کی- یہ میری عادت تھی کہ مال بہت جلد فروخت کر دیتا اور نفع بہت کم لیتا تھا- اب مال اس قدر بڑھا کہ میں برھان پور سے اس کو اٹھا نہ سکا- میں نے یہیں کوٹھی بنا لی اور اب میں اتنا بڑا آدمی ہوں- اس سے مجھ کو اس حدیث کا مضمون صحیح ثابت ہوا کہ جس میں ارشاد ہے کہ تجارت میں بڑا رزق ہے-
میں جب بمبئی پہنچا تو مولوی عنایت اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی مجھے اس زمانہ میں فوزالکبیر کا بڑا شوق تھا- میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ کتاب مجھ کو کہیں سے پیدا کردیں- انہوں نے فرمایا کہ کل آئو- میں جب دوسرے دن گیا تو انہوں نے وہ کتاب بمبئی کی چھپی ہوئی مجھے دکھائی اور کہا کہ ہم اس کی قیمت پچاس روپیہ لیں گے- میں نے فوراً پچاس روپیہ کا نوٹ نکال کر ان کو دے دیا- اور وہ کتاب لیکر کھڑا ہو گیا اور باہر جانے لگا- انہوں نے کہا کیوں اس قدر جلدی کیوں اٹھ کھڑے ہوئے- میں نے کہا کہ بیع شرا میں ایک مختلف مسئلہ ہے- حنفیہ تفارق قولی کے قائل ہیں اور محدثین تفارق جسمی کی طرف مائل ہیں- میں چاہتا ہوں کہ احتیاطاً دونوں کے موافق بیع صحیح اور قوی ہو جائے- اس لئے آپ کے مکان سے جانے کا ارادہ کیا ہے- ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی ایسا ہی کیا تھا- چنانچہ میں اس وقت ان کے موافق عمل کرتا ہوں- میں وہاں سے اٹھ کر گلی میں جا کر پھر جلد واپس آگیا- تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے مجھے وہ بڑے ہی مخلص اور عمدہ آدمی معلوم ہوئے- جب باتوں سے فارغ ہو کر میں اٹھنے لگا تو انہوں نے پچاس روپیہ کا نوٹ نکالا اور مجھ سے کہا کہ میں اپنی طرف سے آپ کو اس عمدہ نظارہ پر دیتا ہوں جو عمدہ کتابوں سے آپ کے محبت کرنے کے متعلق میں نے دیکھا- میں نے کہا کہ گو میں طالب علم آدمی ہوں مگر محتاج نہیں ہوں- حج مجھ پر فرض ہے- مگر انہوں نے وہ پچاس روپیہ مجھ کو واپس کر ہی دیئے یا یوں سمجھو کہ اپنے پاس سے دیئے-
بمبئی سے روانگی کے وقت مجھ کو اپنے وطن کے پانچ آدمی حج کو جاتے ہوئے ملے- جن کے باعث مجھ کو جہاز میں بڑا آرام ملا- کیونکہ وہ میرے مفت کے خدمت گذار ہوتے تھے- بندرگاہ حدیدہ میں اس جہاز کو کچھ مدت ٹھہرنا تھا- میں جوان آدمی تھا اس لئے میرا ارادہ ہوا کہ جب تک جہاز لنگر ڈالے ہوئے ہے میں یمن کے اندرونی حصہ کے علماء کو دیکھ آئوں- چنانچہ میں حدیدہ سے مراعہ پہنچا اور وہاں سے میں نے بہت کچھ نفع اٹھایا اور تعجب ہے کہ وہاں کے ایک نوجوان نے مجھ سے الفیہ کی اجازت لکھوائی جو مجھ کو اس وقت بڑے اچنبھے کی بات معلوم ہوتی تھی- اس نوجوان نے کچھ الفیہ مجھ سے پڑھ بھی لیا- ان احباب میں سے جو سفر میں میرے شریک تھے دو شخصوں کو میں نے دیکھا کہ بلا کسی حساب کتاب کے شراکت میں خرچ اٹھاتے ہیں- میں نے کہا- میں پڑھا لکھا آدمی ہوں‘ مجھ سے لکھوا لیا کرو- ان کو میری یہ بات بڑی ہی ناگوار گزری اور کہا کہ آپ بھائیوں میں تفرقہ ڈلوانا چاہتے ہیں- میں سمجھتا تھا کہ یہ مزدوری پیشہ لوگ ہیں اور یہاں خرچ بہت ہوتا ہے- انجام انکی اس یکجہتی کا اچھا نہ ہوگا- وہ دو تو مجھ سے یوں ناراض ہوگئے ایک ضعیف العمر تھے وہ تو ویسے ہی قابل ادب تھے- چوتھے صاحب جن سے بہت آرام ملتا تھا- انہوں نے مجھ سے کہا کہ اپنی کتابیں میرے صندوق میں رکھ دو کیونکہ اس میں جگہ خالی ہے- میں سفروں کا تجربہ کار نہ تھا- میں نے کتابیں رکھ دیں- جدہ سے ہم سوار ہوئے- پڑائو پر جہاں ٹھہرے وہاں یہ حادثہ ہوا کہ انکے صندوق کی کنجی گم ہو گئی- وہ طبیعت کے بڑے تیز تھے مجھ سے کہنے لگے کہ تمہاری کتابوں کے سبب سے چونکہ صندوق بھاری تھا اس لئے اس کی کنجی کسی نے چرائی ہے- تم ابھی کنجی پیدا کرو- میں نے کہا کہ تمہاری کنجی میں نے چرائی نہیں- اور میری کتابیں اپنے صندوق میں تم نے خود ہی باصرار بلا میری درخواست کے رکھی ہیں- مگر وہ کچھ ایسے ضدی آدمی تھے کہ ایک ہی بات پر اڑ گئے اور کہا کہ میری کنجی اسی وقت پیدا کرو- یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ شور برپا ہوا اور ارد گرد کے تمام لوگوں کو اطلاع ہوئی- ایک ہمارے ساتھ لوہار تھا- اس نے کہا کہ اس تالے کی اعلیٰ سے اعلیٰ کنجی مکہ معظمہ میں پہنچتے ہی بنادوں گا- مگر اس وقت یہاں چونکہ کوئی سامان نہیں- اس لئے مجبور ہوں- صندوق والے نے کہا کہ میں تو اپنی کنجی مانگتا ہوں غرض کہ ایسے پیچھے پڑے کہ کسی طرح چین نہیں لینے دیتے تھے- میں نے منت سماجت بھی کی- اور لوگوں نے بھی انکی خوشامد کی اور سمجھایا مگر وہ اپنی بات سے نہ ٹلے- رات کو وہ اور ہم سب سو گئے- اسی رات ترکوں کے کیمپ پر چوروں نے حملہ کیا- ترک لوگ سپاہی تھے- انہوں نے چوروں کا تعاقب کیا- بھاگتے چوروں کی کنجیاں رہ گئیں- اور یہ کرشمہ اس دعا کا تھا جو رات کو میں نے جناب الٰہی میں کی تھی- صبح کے وقت ترک مع کنجیوں کے اس گچھے کے ہندیوں کے کیمپ میں آئے اور منشا ان کا یہ تھا کہ جن کے صندوقوں میں وہ کنجیاں لگیں- وہی چور ہیں ان کو پکڑ لیا جائے- میں نے ایک ترک کے ہاتھ میں کنجیوں کا گچھا دیکھا تو اس میں وہ کنجی بھی تھی- میں نے اس ترک سے کہا- اگر ان کنجیوں کے ذریعہ سے چور پکڑنے منظور ہیں تو یہ کنجی تو میری ہے- مجھ کو پکڑ لو مگر یہ کنجی مجھ کو دے دو - اول تو وہ کچھ خفا سا ہوا اور کہا- ہم تم کو پکڑ لیں گے- میں نے کہا کچھ حرج نہیں مگر میری کنجی مجھے دے دو- آخر وہ تمام کنجیوں کا گچھا میری طرف پھینک کر چلا گیا- میں نے وہ کنجی صندوق والے صاحب کو دی کہ لیجئے- وہ کچھ بہت ہی شرمندہ سے ہوگئے اور پھر مجھ سے عذر کرنے لگے- مکہ معظمہ میں کوئی بزرگ محمد حسین سندھی تھے ان کے مکان پر ہم اترے- انہوں نے اپنا بیٹا ہمارے ساتھ کر دیا کہ طواف القدوم کرادے- مطوفون کی ہوشیاری اور ذہانت کبھی میرے دل سے فراموش نہیں ہوئی- اور میں اب تک حیران ہوتا ہوں کہ وہ کیسے ہوشیار ہوتے ہیں- ہم جب مسجد بیت اللہ میں داخل ہوئے تو مطوف کی پہلی آواز یہ تھی کہ یا بیت اللٰہ- اس کی اس آواز پر میں نے کہا کہ میں مسنون دعائیں جانتا ہوں- میں خود پڑھ لوں گا تو دوسری آواز یہ تھی یا رب البیت- اس کی اس ذہانت پر اس قدر تعجب ہوا کہ آج تک بھی وہ تعجب دور نہیں ہوا- تمام مراتب میں اس نے سنن کو نہایت احتیاط سے مدنظر رکھا- میں نے کسی روایت کے ذریعہ سنا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے تو اس وقت کوئی ایک دعا مانگ لو وہ ضرور ہی قبول ہوجاتی ہے- میں علوم کا اس وقت ماہر تو تھا ہی نہیں جو ضعیف و قوی روایتوں میں امتیاز کرتا- میں نے یہ دعا مانگی- >الٰہی میں تو ہر وقت محتاج ہوں- اب میں کون کونسی دعا مانگوں- پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ میں جب ضرورت کے وقت تجھ سے دعا مانگوں تو اس کو قبول کر لیا کر-< روایت کا حال تو محدثین نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دعا قبول ہی ہوگئی- بڑے بڑے نیچریوں- فلاسفروں- دہریوں سے مباحثہ کا اتفاق ہوا اور ہمیشہ دعا کے ذریعہ مجھ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ایمان میں بڑی ترقی ہوتی گئی-

مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ
مکہ معظمہ میں میں نے شیخ محمد خزرجی سے ابودائود اور سید حسین سے صحیح مسلم اور موطا مولوی رحمت اللہ صاحب سے پڑھنا شروع کی- ان تینوں بزرگوں کی صحبت بڑی ہی دلربا تھی- سید حسین صاحب کی صحبت میں مدت دراز تک حاضری کا اتفاق رہا- مگر میں نے سوائے الفاظ حدیث کے قطعاً کوئی لفظ ان کی زبان سے نہیں سنا- جب میں نے مولوی رحمت اللہ صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم بیس برس سے دیکھتے ہیں کہ یہ کسی سے تعلق نہیں رکھتے اور ہم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کھاتے کہاں سے ہیں- سیدحسین صاحب نہایت ہی کم سخن تھے اور باتیں کرنے میں اس قدر تامل تھا کہ بعض اوقات ضروری کلام بھی نہیں فرماتے تھے- حرم میں‘ میں ان سے مسلم پڑھتا تھا- سائل بھی وہاں آجاتے تھے- وہ تھوڑی دیر تک ان سائلوں کو دیکھتے رہتے تھے- پھر کسی کو کہتے تھے کہ تم یا باسط پڑھو- کسی کو کہتے- nsk] gat[یا غنی پڑھو- کسی کو یا حمید کسی کو یامجید وغیرہ کا حکم دیتے- یہ انکی معمولی روزانہ باتیں تھیں- لیکن میں ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ یہ مختلف اسماء مختلف اشخاص کو آپ کیوں بتاتے ہیں- انکی قلت کلام نے پوچھنے کی اجازت نہیں دی-
شیخ محمد صاحب کو صحاح ستہ خوب آتی تھیں- سادہ سادہ پڑھاتے تھے- مباحثات کی طرف سے ان کی طبیعت بالکل متنفر تھی- ایک دفعہ میں ابودائود پڑھتا تھا- اعتکاف کے مسئلہ میں حدیث سے معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان معتکف میں بیٹھے- مجھے اشارہ کیا کہ تم حاشیہ کو پڑھو یہ حدیث بہت مشکل ہے- میں نے عرض کیا کہ حدیث تو بہت آسان ہے- حکماً میں دیکھ لیتا ہوں- انہوں نے کہا بہت مشکل ہے- میں نے سرسری طور پر اس کا حاشیہ دیکھا- اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے- کیونکہ اکیس تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے اکیسویں رات لیلۃ القدر ہو- اگر اس کے لحاظ سے عصر کو بیٹھیں تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے ثابت نہیں- میں نے دیکھ کر کہا کہ ذرا بھی مشکل نہیں- یہ محاشی کی غلطی ہے- میں ایسی راہ عرض کرتا ہوں جس میں ذرا بھی اشکال نہیں یعنی بیس کی صبح کو بیٹھے- انہوں نے کہا یہ تو اجماع کے خلاف ہے- میں نے کہا- امام احمد رحمہ~ن۲~ اللہ علیہ کے اقوال آپ پڑھیں- یہ اجماع محض دعاوی ہیں- ہر ایک شخص اپنے اپنے مذہب کی کثرت کو دیکھ کر لفظ اجماع بول لیا کرتا ہے- اس پر وہ بہت ہی تند ہوگئے- میری عادت تھی کہ سبق کو پڑھ کر کسی بڑے کتب خانہ میں اس کتاب کی شرح دیکھا کرتا تھا اور کوئی لغت اٹک جاتا تھا تو لغت کی کتاب میں دیکھ لیتا تھا- میں نے ان کی تیزی کی طرف دھیان نہ کرکے سبق کو بہت تیزی سے پڑھنا شروع کردیا- صبح سے لیکر دوپہر کے قریب تک پڑھتا ہی چلا گیا- مگر وہ چپ ہی بیٹھے رہے- جب ظہر کی اذان کی آواز آئی تو اتنا فرمایا کہ جماعت مشکل سے ملے گی- سوائے اس کے انہوں نے اس وقت تک کوئی کلام نہیں کیا- میں نے کتاب کو بند کر دیا- عبداللہ حلوائی ایک شخص کے مکان پر یہ سبق ہوا کرتا تھا اور دن کا کھانا میرا اور شیخ صاحب کا اسی کے یہاں ہوتا تھا- میں وضو کر کے ظہر کی نماز کو چلا گیا-ظہر کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کے خلوت خانہ میں جا پہنچا- انہوں نے فرمایا کہ آج تمہارا اپنے شیخ سے مباحثہ ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ تلمیذ اور استاد کا کوئی مباحثہ نہیں ہو سکتا- میں طالب علم آدمی ہوں میرا مباحثہ ہی کیا- ہمارے شیخ تو بڑے آدمی ہیں- ہاں یوں طالب علم اساتذہ سے کچھ پوچھا ہی کرتے ہیں- فرمانے لگے نہیں کوئی بڑا مسئلہ ہے- میں نے کہا مسئلہ تو کوئی نہیں ایک جزوی بات تھی- مولوی صاحب کی طرز سے مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ان کو ساری خبر پہنچ گئی ہے- مگر میں حیران تھا کہ سوائے میرے اور شیخ کے وہاں اورکوئی نہ تھا خبر کیسے پہنچی- اتنے میں مولوی صاحب نے خود ہی فرمایا کہ تمہارے شیخ آئے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض طالب علم بہت دلیر آجاتے ہیں اور ان کے مشکلات کا خمیازہ ہمیں اٹھانا پڑتا ہے اور پھر انہوں نے سارا واقعہ ہم کو سنایا- میں نے جب سمجھ لیا کہ اب اخفا کا کوئی موقع نہیں تو ان سے عرض کیا کہ یہ ایک جزوی مسئلہ ہے- اکیس کی صبح کو نہ بیٹھے بیس کی صبح کو بیٹھ گئے- اس طرح حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے- مولوی رحمت اللہ صاحب نے فرمایا کہ بات اجماع کے خلاف ہو جاتی ہے- میں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات پر بھلا اجماع کیا ہوگا- تب انہوں نے فرمایا کہ سبق کل پڑھائیں گے- اب تم ہمارے ساتھ ہمارے مکان پر چلو- یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے- جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد کے صحن میں پہنچ گئے- میں نے عرض کیا حضرت اس کوٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے ہیں- فرمایا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے- میں نے کہا انبیا کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے- اور اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کو اہل کتاب کی کتابوں سے بہت آگاہ فرمایا ہے- آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء نبی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں- آپ نے تو اتنے بڑے اجماع کو چھوڑ دیا- میں نے اگر جزوی مسئلہ میں ایک حدیث کے معنی میں اختلاف کیا تو حرج کیا ہوا- فرمایا- دل دھڑکتا ہے- میں نے کہا- جس کا دل نہ دھڑکے وہ کیا کرے- پھر فرمایا کہ دل دھڑکتا ہے اور کھڑے ہوگئے- تب میں نے بہت دلیری سے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ محقق اور عالم ہیں- ہر مسئلہ میں شخص واحد کا اتباع- اس کے متعلق آپ مجھے ارشاد کریں- فرمایا ہم تو امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں- مگر ہر مسئلہ میں تو ہم فتویٰ نہیں دیتے- میں نے عرض کیا کہ حضور کے فرمانے سے تقلید شخصی کا مسئلہ تو حل ہو گیا- فرمایا تقلید کا مسئلہ بہت سہل اور بہت مشکل ہے- میں نے عرض کیا کہ میں اس کلام کو سمجھا نہیں- فرمایا ہر جزوی مسئلہ میں ایک ہی شخص کی تقلید نہ کسی نے کی نہ کوئی کر سکتا ہے اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ تقلید شخصی کوئی بڑی بات نہیں اور مسئلہ صاف ہو جاتا ہے- مگر مشکل یہ ہے کہ ہم غدر میں ہندوستان سے بھاگے تھے- تو پونا کے قریب ایک گائوں میں ٹھہرے وہاں جمعہ کے دن ایک شخص وعظ کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس طرح شروع کیا کہ نہ میں ہنپھی )حنفی( کی مانوں نہ شاپھی )شافعی( کی- میں وہ کہوں جو حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے یہ کہہ کر اس نے مولوی خرم علی صاحب کی کتاب نصیحت المسلمین شروع کر دی- بیچ میں یہ بھی کہا کہ یہ بات مسکوت میں لکھی ہے- جب وہ وعظ سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ مشکوۃ کو مسکوت کہہ رہے تھے- سو اس لئے تقلید کا مسئلہ مشکل ہے- کیونکہ وہ پہلا فتویٰ دیں- تو جو لوگ مشکوۃ کو مسکوت کہتے ہیں‘ وہ بھی مجتہد مطلق بن جاتے ہیں- بات تو بہت ہی سہل تھی- مگر بہت ہی مشکل ہو گئی- ہم علی العموم ان باتوں کے دشمن نہیں- تمہاری شفاعت تمہارے شیخ سے کردی ہے- تم سبق پڑھتے جائیو- وہ روکیں گے نہیں اور آزادی سے پڑھو- ہم نے شیخ کو مطمئن کر دیا ہے- ہم تمہارا مذاق خوب جانتے ہیں- میں نے عرض کیا ہمارے شیخ حدیث کا بڑا ادب کرتے ہیں- اگر میں ان کے حضور پڑھتا رہوں تو وہ کبھی مجھ کو بند نہ کریں گے- فرمایا- وہ ڈرے تھے- ہم نے مطمئن کر دیا ہے- چنانچہ میں دوسرے دن گیا- گو شیخ صاحب اس دن تو نہ بولے- مگر میں نے سبق پڑھ لیا- میں نے نسائی‘ ابودائود‘ ابن ماجہ ان سے پڑھ لیں- ان دنوں مولوی ابوالخیر صاحب دہلوی خلف الرشید حضرت محمد عمر نقش بندی مجددی مجھ سے درالمختار پڑھا کرتے تھے- کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبدالغنی مجددی~رح~ مدینہ سے مکہ میں تشریف لائے- شہر میں بڑی دھوم دھام مچی- میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا- اس وقت وہ حرم میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہزاروں آدمی ان کے گرد موجود تھے- سب سے پہلے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اعتکاف کب بیٹھا جائے- طالب علمانہ زندگی بھی عجیب ہوتی ہے- وہی ایک مسئلہ اتنے بڑے وجود کے سامنے میں نے پیش کیا- آپ نے بے تکلف فرمایا کہ بیس کی صبح کو- میں تو سن کر حیران رہ گیا- ان کی عظمت اور رعب میرے دل میں بہت پیدا ہوا- مگر پھر بھی جرات کر کے پوچھا کہ حضرت میں نے سنا ہے کہ یہ اجماع کے خلاف ہے- ان کے علم پر قربان ہو جائوں- بڑے عجیب لہجہ میں فرمایا کہ جہالت بڑی بری بلا ہے- حنفیوں میں فلاں فلاں- شافعیوں میں فلاں- حنابلہ میں فلاں- مالکیوں میں فلاں- کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقہ میں اس بیس کے بھی قائل ہیں- میں اس علم اور تجربہ کے قربان ہوگیا- ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی کہ کیا علم ہے! تب وہاں سے ہٹ کر میں نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ جا سکتا ہوں؟ اس کاغذ کو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سنائی المستشار موتمن- پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہیے- میں نے یہ قصہ جا کر حضرت مولانا رحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں- یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے تو حرم میں بیٹھ کر ہزارہا مخلوق کے سامنے فتویٰ دیا- مگر کسی نے چوں بھی نہ کی- فرمایا شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں-
حرمین میں جن شیوخ سے میں پڑھتا تھا- ان میں سے جو شیخ الحدیث تھے ان کی والدہ کو قلاع کا مرض ہوا اور اطبا کے ناز سے وہ تنگ آگئے- مجھ سے فرمایا کہ کوئی طبیب تمہارا دوست ہو تو اس سے دوا لادو- میں اس فن کا خوب ماہر تھا- میں نے یہ نسخہ بنا کر پیش کیا- شورہ قلمی دو ماشہ- کتھا دو ماشہ- الائچی خورد دو ماشہ- گل سرخ دو ماشہ- کافور ایک ماشہ- توتیائے سبز بریاں چھ رتی- شاید کچھ کمی بیشی بھی ہو- مگر شیخ سے یہ اظہار نہ کیا کہ میں طبیب ہوں- اس کے استعمال نے معاً فائدہ دیا- یہ ان کو پھر بھی معلوم نہ ہوا کہ یہ خود طبیب ہے- وہاں ایک اور امر میری طبی توجہ کے بڑھانے کا یہ ہوا کہ ڈاکٹر محمد وزیر خاں صاحب جو ہمارے شیخ مولوی رحمت اللہ کے بڑے دوست اور مناظرہ آگرہ میں شامل تھے- مولوی صاحب کے مکان پر ان سے تعارف ہوا- ان دنوں شریف مکہ کو سنگ مثانہ تھا- چونکہ فرانس کے ساتھ وہاں کے شریف کا تعلق تھا‘ فرانس سے وہ آلہ جس سے پتھری پیس کر نکالتے ہیں‘ منگوایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے اس کو پیس کر نکالا- اس کامیاب تجربہ سے مجھے ڈاکٹری طب کا بہت شوق ہوا مگر میری موجودہ حالت اور شواغل اس طرف جھکنے نہ دیتے تھے- ڈیڑھ برس کے بعد مجھے کچھ سبکدوشی ہوئی تو حضرت شیخ المشائخ‘ پیرومرشد‘ حضرت شاہ عبدالغنی رحمہ~ن۲~ اللہ علیہ سے نیاز حاصل ہوا اور اس طبیب روح کے باعث مدینہ چلا گیا- ان کے حضور بہت مدت رہا- اس عرصہ میں تمام دنیوی شواغل چھوٹ گئے- صرف ایک مخلص عنایت فرما جو عورتوں کے تپ دق سے خوب ماہر تھے‘ ان سے کبھی کبھی طبی تذکرہ ہو جایا کرتا تھا- وہاں کی اقامت میں خود تجربہ کا خیال حضرت شاہ کی خاص توجہات کے باعث ہرگز نہ ہو سکا-
مکہ معظمہ میں ایک قابل افسوس امر یہ پیش آیا کہ میرے شہر کا رہنے والا میرا ہموطن‘ میرا ہم مکتب ایک شخص وہاں رہتا تھا- چونکہ اتنے تعلقات تھے اس لئے میں جب مدینہ طیبہ کو جانے لگا تو اپنا بہت سا اسباب اور روپیہ اس کے پاس رکھ دیا اور کہا کہ میں زمانہ دراز تک مدینہ منورہ میں رہوں گا- یہ روپیہ تجارت میں لگائو- تم کو فائدہ ہو جائے گا- میں جب آئندہ حج کے وقت آئوں گا تو روپیہ تم سے لے لوں گا- تم حج کے زمانہ سے پہلے ہی روپیہ جمع رکھنا- میں جب آیا اور حج سے فارغ ہوا تو روپیہ اور اسباب اس سے طلب کیا- بہت اصرار اور تقاضوں کے بعد ایک روز وہ مجھ کو ایک عمدہ عظیم الشان مکان کے پاس لے گیا جس کے دروازہ پر قفل لگا ہوا تھا- کہنے لگا میں نے آپ کا روپیہ اور اسباب اس شخص کے پاس رکھ دیا ہے- معلوم نہیں کہاں چلا گیا ہے- اس گھر کی حیثیت بڑی عظیم الشان معلوم ہوتی تھی- ہم دونوں کے باتیں کرتے ہوئے ایک عرب آ گیا اور پوچھا کیا معاملہ ہے- میں نے کہا میرا کچھ اسباب ہے جو اس صاحب خانہ کے پاس ہے اور تعجب ہے اتنا بڑا مکان ہے اور قفل لگا ہوا ہے- تب اس نے کہا کہ یہ ہندی آدمی جو آپ کے پاس ہے‘ یہ کیوں کھڑا ہے؟ میں نے کہا اسی نے رکھا ہے- یہ سنتے ہی اس نے بڑے طیش و غضب کا چہرہ بنا کر کہا یہ جھوٹا ہے- یہ آپ کا مال اور روپیہ سب کھا گیا اور اس مکان کا مالک تو بڑا عظیم الشان آدمی ہے- وہ تو مع اپنے کنبہ کے آدمیوں کے اپنے احباب کو رخصت کرنے گیا ہے اور جدہ میں اس وقت تک رہے گا جب تک کہ سب حجاج رخصت نہ ہو لیں- مجھ سے تو اس نے بڑی محبت اور نرمی سے کلام کیا مگر ہمارے ہم مکتب کو بڑے غضب سے بہت گالیاں دیں- ہمارا ہم مکتب خاموش اور شرمندہ ہو کر رہ گیا- پھر عرب نے کہا یہ حال مکہ شہر کا ہے- ان ہندیوں نے عرب کو بہت ہی بدنام کیا ہے اور اپنے قصور کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے- پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا کہ تمہارا کپڑا مال اور روپیہ سارا اسباب اس نے ایک بنگالی عورت کو دے دیا ہے اور یہ لوگ ایسے کام یہاں بہت کرتے ہیں- اب اس سے آپ واپسی کی کوئی امید نہ رکھیں- اس واقعہ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ میرے ایک استاد جن کے مکتب کا وہ ہم مکتب تھا‘ جب حج کو جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے مال و اسباب کی خود حفاظت کریں اور کسی شخص پر بھروسہ نہ کریں- جب وہ حج سے واپس آئے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تمہاری نصیحت کے سبب سے ہم اپنے ایک شاگرد کی دست برد سے بچ گئے- اس قسم کی مخلوق بھی کہیں کہیں ہوتی ہے- اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے-
دوسرا افسوس وہاں یہ دیکھا کہ ایک دفعہ میں منیٰ سے آرہا تھا تو میں نے کسی سے دریافت کیا کہ محسب کہاں ہے- کوئی نہیں بتا سکا- پھر میں نے کہا کہ اچھا خیف بنی کنانہ کہاں ہے؟ پھر میں نے پوچھا کہ بطحی کہاں ہے- جب کہیں پتہ نہ لگا تو میں بہت حیران ہوا- ایک شخص نے جو خشک سا وہابی تھا‘ مجھ سے کہا کہ دیکھا! کہاں تک یہ نوبت پہنچی ہے- پھر اس نے پتہ دیا کہ جنۃ المعالی )جو وہاں کا مشرقی قبرستان ہے( وہی محسب ]ttex [tagہے- وہی خیف بنی کنانہ اور بطحی ہے- میں وہاں کی مسجد میں گیا تو تعجب اور بھی بڑھ گیا- وہاں چند ضعیف العمر بنگالی بیٹھے تھے-
تیسرا تعجب وہاں یہ ہوا کہ عرفات میں میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے کپڑے کا پلہ پکڑ کر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہلاتے ہیں- میں اس نظارہ کو دیکھ کر بہت ہی متعجب ہوا- ادھر ادھر لوگوں سے پوچھا تو لوگوں نے کہا پہلے یہ کپڑا اس سامنے والی پہاڑی سے ہلتا ہے- وہاں اصلیت کا پتہ لگے گا- میں تو جوشیلا جوان تھا- دوڑا- اس پہاڑی کے چاروں طرف پھرا- آخر ایک رستہ نظر آیا جس کے ذریعہ اوپر چڑھ گیا- وہاں بہت سے ترک دیکھے جو سنگینیں چڑھائے ہوئے تھے- انہوں نے مجھے اشارہ سے منع بھی کیا- مگر میں رکا نہیں- زیادہ چھیڑ انہوں نے بھی نہ کی- جب اوپر پہنچا تو دیکھا کہ ایک اونٹنی پر ایک ترک سوار ہے- اس کے ہاتھ میں کتاب ہے اور چاروں طرف پہرہ|دار کھڑے ہیں- میں ان سپاہیوں کو بھی چیرتا ہوا اس اونٹنی کے پاس جا کھڑا ہوا- میں نے بہت کوشش کی کہ اس کتاب کا کچھ حصہ سنوں- مگر کوئی ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آیا- مگر یہ بات حل ہو گئی کہ وہ ترک جس کتاب کو پڑھ رہا تھا تھوڑے وقفہ کے بعد بایاں ہاتھ ہلاتا تھا- اس کو دیکھ کر پہاڑی کے لوگ کپڑا ہلاتے تھے- ترکی بولی میں جانتا نہ تھا اور نہ اب جانتا ہوں اور وہاں سوائے ترک سپاہیوں کے اورکوئی بھی نہ تھا- میں نیچے اتر آیا- آخر پتہ لگا کہ یہ امام صاحب خطبہ پڑھ رہے ہیں اور جہاں اللٰہ اکبر- اللٰہ اکبر- لا الٰہ الا اللٰہ- واللٰہ اکبر- اللٰہ اکبر- وللٰہ الحمد کا مقام آتا ہے تو یہ اپنا ہاتھ ہلاتے ہیں اور لوگ اپنا کپڑا ہلاتے ہیں- اب یہ رسم رہ گئی ہے- اللٰہ اکبر کوئی نہیں کہتا-
‏Mr.6

مدینہ طیبہ
مدینہ طیبہ کے جانے میں چونکہ میں نے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے ہی پہلے مشورہ لیا تھا اس لئے میں انہیں کی خدمت میں سب سے پہلے حاضر ہوا- انہوں نے ایک علیحدہ حجرہ رہنے کے واسطے مجھے عطا کیا- میں وہاں صرف رہتا تھا- سبق کسی سے نہیں پڑھا کرتا تھا- نہ شاہ صاحب سے- پھر میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں- مکان پر تو میرا ایسا خیال ہوتا تھا- لیکن جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خیال کرتا تھا کہ کیا فائدہ- ان کے پاس جا کر عجیب عجیب خیال اٹھتے تھے- کبھی یہ سوچتا تھا کہ حلال و حرام اور اوامر|و|نواہی قرآن کریم میں موجود ہی ہیں- ان لوگوں سے کیا سیکھنا- اگر حسن اعتقاد سے نفع ہے تو مجھ کو ان سے ویسے ہی بہت عقیدت ہے- پھر اپنی جگہ جا کر یہ بھی خیال کرتا تھا کہ ہزارہا لوگ جو بیعت اختیار کرتے ہیں اگر اس میں کوئی نفع نہیں تو اس قدر مخلوق کیوں مبتلا ہے- غرض کہ میں اسی سوچ و بچار میں بہت دنوں پڑا رہا- فرصت کے وقت ایک کتب خانہ جو مسجد نبویﷺ~ کے جنوب و مشرق میں تھا وہاں جا کر اکثر بیٹھتا اور کتابیں دیکھا کرتا تھا- بہت دنوں کے بعد آخر میں نے پختہ ارادہ کیا کہ کم سے کم بیعت کر کے تو دیکھیں اس میں فائدہ کیا ہے؟ اگر کچھ فائدہ نہ ہوا تو پھر چھوڑنے کا اختیار ہے- لیکن جب میں خدمت میں حاضر ہوا اور خیال آیا کہ ایک شریف آدمی ایک معاہدہ کر کے چھوڑ دے تو یہ بھی ایک حماقت ہی ہے- پہلے ہی سے اس بات کو سوچ لینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ پھر چھوڑ دے- آخر ایک دن میں خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں- آپ نے فرمایا کہ استخارہ کرو- میں نے عرض کیا کہ میں نے تو بہت کچھ استخارہ اور فکر کیا ہے- لیکن شاہ صاحب نے جونہی اپنا ہاتھ بیعت لینے کے لئے بڑھایا- میرے دل میں بڑی مضبوطی سے یہ بات آئی کہ معاہدہ قبل از تحقیقات! یہ کیا بات ہے؟ اس لئے باوجودیکہ حضرت شاہ صاحب نے ہاتھ بڑھایا تھا- میں نے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ لئے- مربع بیٹھ گیا اور عرض کیا- بیعت سے کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا کہ >سمعی کشفی گردد و دید بشنید مبدل گردد< اور یہ وہ جواب ہے جو نجم الدین کبریٰ نے دیا ہے- پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے- لیکن اس وقت آپ نے اپنے ہاتھ کو ذرا سا پیچھے ہٹا لیا اور فرمایا تمہیں وہ حدیث یاد ہے جس میں ایک صحابی نے درخواست کی تھی کہ اسئلک مرافقتک فی الجنۃ میں نے عرض کیا خوب یاد ہے- آپ نے فرمایا- اس امر کے لئے تم کو اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو کم سے کم چھ مہینے میرے پاس رہنا ہو گا اور اگر فروع اسلام سیکھنے ہیں تو ایک برس رہنا ہو گا- تب میں نے پھر اور بھی جب ہاتھ بڑھایا تو آپ نے میری بیعت لی اور فرمایا کہ کوئی مجاہدہ سوائے اس کے آپ کو نہیں بتاتے کہ ہر وقت آپ آیت و نحن اقرب الیہ من حبل الورید پر توجہ رکھیں- پھر واللٰہ معکم این ما کنتم کی نسبت ایسا ہی فرمایا- اس توجہ میں میں نے بارہا حضرت نبی کریم~صل۲~ کو دیکھا اور اپنی بعض غفلتوں اور سستیوں کے نتائج کا مشاہدہ کیا- چھ مہینہ کے اندر اندر آپ کا وہ وعدہ میرے حق میں بہرحال پورا ہو گیا- جزاہ اللٰہ عنی احسن الجزاء
آپ بڑے محتاط تھے اور آپ کی نظر دینی علوم میں بڑی وسیع تھی- بہت قلیل الکلام تھے- مثنوی‘ ترمذی‘ بخاری‘ رسالہ قشیریہ یہ چار چیزیں آپ کے درس میں ہوتی تھیں- آپ کے کھانے پینے کے عجائبات میں سے ایک یہ بات ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں جو اکبر خاں سنوری حضرت مسیح موعود کے مرید اور خاص خادم رہتے ہیں- ان کے ایک حقیقی بھائی ولی داد خاں صاحب تھے جو مدینہ منورہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں اسی طرح رہتے تھے- ان کو ایک دفعہ گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا- وہ نہایت عمدہ گیہوں جس میں جو کا ایک دانا بھی نہ تھا لائے- ولی داد خاں کو تو کچھ نہ فرمایا- لیکن آئندہ بازار کا سودا ان کی معرفت منگوانا بند کردیا- ولی داد خاں چونکہ منجملہ بڑے احباب کے تھے بہت گھبرائے- آخر ایک شخص کو پھر گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا- اس شخص نے وہ روپیہ جو گیہوں خریدنے کا تھا‘ ولی داد خاں کو دیا اور یہ کہا کہ اب کی دفعہ جو گیہوں حضرت صاحب کے واسطے لائو تو اس میں بہت سے جو ملے ہوئے ہوں- چنانچہ وہ گیہوں لائے جس میں بہت ہی جو ملے ہوئے تھے- خوش ہو کر فرمانے لگے کہ یہ گیہوں کون لایا ہے؟ اس شخص نے سفارش کے طور پر کہا کہ ولی داد خاں لائے ہیں- فرمانے لگے کہ اب ان کو عقل آگئی ہے- لہذا آئندہ وہی لایا کریں- ایک دفعہ مذاہب کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اشھر المذاھب مذھب ابی حنیفۃ و اوسع المذاھب مذھب مالک و اقول المذاھب مذھب الشافعی و احوط المذاھب مذھب احمد ابن حنبل -
آپ کو میں نے نہایت ہی وسیع الخلق پایا اور کم کلامی میں تو مجھ کو تعجب بھی آتا تھا- وہاں آپ کے مکان میں ہر روز ختم ہوتا تھا اور بعض مریدین انیس ہزار دفعہ لا الٰہ الا اللٰہ ہر روز پڑھتے تھے- ایک شخص نے شکایت کی کہ نورالدین اتنی محنت نہیں کرتا- نیز امام کے پیچھے الحمد پڑھتا ہے اور رفع یدین کا قائل ہے- آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ایسی چھری لائیں جو رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ کو بخاری میں سے کاٹ سکے اور انیس ہزار بار لا الہ الا اللہ پڑھنے کی کوئی سند ہے تو وہ نورالدین کو دکھلائی جائے- اگر وہ صحیح ہوگی تو وہ مان لے گا- اس پر ہمارے سب پیر بھائی بالکل خاموش ہو گئے-
میرے حجرہ کے ساتھ ایک اور حجرہ تھا- اس میں مولوی نبی بخش نام چشتی جامپور کے رہنے والے رہتے تھے- ایک دفعہ ایک رکعت وتر کے معاملہ میں ان سے دوستانہ گفتگو تھی- جس میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ایک رکعت وتر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات کے خلاف ہے اور کوئی دلیل اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی- امام کا فیصلہ کافی دلیل ہے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں- کچھ دن کے بعد میں نے ان کو ایک کتاب میں نماز عاشقان دکھائی جو ایک رکعت ہوتی ہے اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے- انہوں نے فرمایا کہ یہ نماز بہت ہی مجرب ہے- میں نے کہا کہ یہ امام صاحب کی اس ایک رکعت والی تحقیق کے خلاف ہے- تب انہوں نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں بڑی ہی گستاخی کے کلمات کہے- میں نے کہا کہ اس دن آپ اتنے مداح تھے یا اب ایسے گستاخ ہیں- تو کہنے لگے کہ وہ فقہاء کے مقابلہ میں ہیں اور یہ تو سلطان جی نے لکھا ہے- سلطان جی تو عرش پر پہنچنے والے ہیں ان کے سامنے ابوحنیفہ وغیرہ ملا لوگوں کی کیا حقیقت ہے- تب میں نے فیصلہ کیا کہ محبت اور تقلید بھی بڑی تکلیف میں ڈالنے والی چیز ہے- وہ مدینہ میں اس وجہ سے رہتے تھے کہ حالت یقظہ میں نبی کریم کو دیکھیں- میں نے ایک دفعہ رئویا میں نبی کریم~صل۲~ کو دیکھا- آپﷺ~ نے فرمایا کہ >تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے< ان دنوں میں میں نے نبی بخش کو بہت ڈھونڈا- باوجودیکہ میرے ساتھ کے حجرہ میں رہتے تھے مگر ملاقات نہیں ہو سکی اور وہ حجرہ میں آئے ہی نہیں- بہت دنوں کے بعد جب ملے تو میں نے کہا آپ کو کوئی تکلیف ہو تو بتائیں اور ضرورت ہو تو میں آپ کو کچھ دام دے دوں- کہا کہ مجھ کو بہت شدت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چونہ اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آگئے ہیں- اس لئے ضرورت نہیں-
مدینہ طیبہ میں ایک ترک کو مجھ سے بہت محبت تھی- اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب پسند ہو تو ہمارے کتب خانہ سے لے جایا کریں- گو ہمارا قانون نہیں ہے مگر آپ کے اس عشق و محبت کی وجہ سے جو آپ کو قرآن کریم سے ہے- آپ کو اجازت ہے- میں نے کہا کہ مسئلہ ناسخ و منسوخ کے متعلق کوئی کتاب دو- انہوں نے مجھے ایک کتاب دی جس میں چھ سو آیات منسوخ لکھی تھی- مجھے یہ بات پسند نہ آئی- ساری کتاب کو پڑھا اور مزا نہ آیا- میں اس کتاب کو واپس لے گیا اور کہا کہ میں جوان آدمی ہوں اور خدا کے فضل سے یہ چھ سو آیتیں یاد کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ کتاب پسند نہیں- وہ بہت بوڑھے اور ماہر شخص تھے- انہوں نے ایک اور کتاب دی جس کا نام اتقان تھا اور ایک مقام اس میں بتایا جہاں ناسخ و منسوخ کی بحث تھی- خوشی ایسی چیز ہے کہ میں نے فوزالکبیر کو جو بمبئی میں پچاس روپے کی خریدی تھی ابھی پڑھا بھی نہیں تھا- میں اتقان کو لایا اور پڑھنا شروع کیا- اس میں لکھا تھا کہ انیس آیتیں منسوخ ہیں- میں اس کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا اور میں نے سوچا کہ انیس یا بیس آیتوں کو تو فوراً یاد کر لوں گا- گو مجھے خوشی بہت ہوئی- مگر مجھ کو ایسا قلب اور علم دیا گیا تھا کہ پھر بھی وہ کتاب مجھ کو پسند نہ آئی- اب مجھ کو فوزالکبیر کا خیال آیا کہ اس کو بھی تو پڑھ کر دیکھیں- اس کو پڑھا تو اس کے مصنف نے لکھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو علم مجھے دیا ہے اس میں پانچ آیتیں منسوخ ہیں- یہ پڑھ کر تو بہت ہی خوشی ہوئی- میں نے جب ان پانچ پر غور کی تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی کہ یہ ناسخ و منسوخ کا جھگڑا ہی بے بنیاد ہے- کوئی چھ سو بتاتا ہے کوئی انیس یا اکیس اور کوئی پانچ- اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو صرف فہم کی بات ہے- میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ قطعی فیصلہ کر لیا کہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ صرف بندوں کے فہم پر ہے- ان پانچ نے سب پر پانی پھیر دیا- یہ فہم جب مجھے دیا گیا تو اس کے بعد ایک زمانہ میں میں لاہور کے اسٹیشن پر شام کو اترا- بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیانوالی ]text [tagمسجد میں گیا- شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید و حدیث پر ہوتا ہے تو ناسخ و منسوخ کیا بات ہے- میں نے کہا کچھ نہیں- وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے- گو میر ناصر کے استاد تھے- انہوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہو گا- یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا- میں نماز میں تھا- اور وہ جوش سے ادھر ادھر ٹہلتے رہے- جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کہا ادھر آئو- تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں- میں نے کہا ہاں نہیں ہے- تب بڑے جوش سے کہا کہ تم نے ابومسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے- وہ احمق بھی قائل نہ تھا- میں نے پھر کہا پھر تو ہم دو ہو گئے- پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو- مراد آباد میں صدرالصدور ہے- میں نے جواب دیا کہ میں رامپور‘ لکھنئو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا- اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں- تب میں نے کہا کہ بہت اچھا- پھر ہم اب تین ہو گئے- کہنے لگا کہ یہ سب بدعتی ہیں- امام شوکانی~رح~ نے لکھا ہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے- میں نے کہا تم دو ہو گئے- میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں- تم کوئی آیت پڑھ دو جو منسوخ ہو- اس کے ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے پڑھ دے تو کیا جواب دوں- خدا تعالیٰ ہی سمجھائے تو بات بنے- اس نے ایک آیت پڑھی- میں نے کہا کہ فلاں کتاب نے جس کے تم بھی قائل ہو‘ اس کا جواب دیا ہے- کہنے لگا ہاں- پھر میں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا- علماء کو یہ وہم رہتا ہے- ایسا نہ ہو کہ ہتک ہو- اس لئے اس نے یہی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے- اس کے بعد پھر بھیرہ میں ایک شخص نے نسخ کا مسئلہ پوچھا اور میں نے اپنے فہم کے مناسب جواب دیا اور کہا کہ پانچ کے متعلق میری تحقیق نہیں- تو اس دوست نے کہا کہ آپ ان پانچ پر نظر ڈال لیں- میں نے تفسیرکبیر رازی میں بہ تفصیل ان مقامات کو دیکھا تو تین مقام خوب میری سمجھ میں آگئے اور دو سمجھ میں نہ آئے- تفسیر کبیر میں اتنا تو لکھا ہے کہ شدت اور خفت کا فرق ہو گیا ہے- پھر میں ایک مرتبہ ریل میں بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا- جیسے بجلی کوند جاتی ہے- میں نے پڑھا کہ فلاں آیت منسوخ نہیں ہے- میں بڑا خوش ہوا کہ اب تو چار مل گئیں- صرف ایک ہی رہ گئی- بڑی بڑی کتابوں کا تو کیا‘ میں چھٹ بھیوں کی بھی پڑھ لیتا ہوں- اس طرح پر ایک کتاب میں وہ پانچویں بھی مل گئی اور خدا کے فضل سے مسئلہ ناسخ و منسوخ حل ہو گیا-
مدینہ طیبہ کی تعجب انگیز باتوں میں سے ہے کہ ایک دن میں نہر پر گیا جو بہت نیچے بہتی تھی اور سیڑھیوں سے نیچے اتر کر جانا پڑتا تھا- میں نے دیکھا کہ نیچے ایک آدمی تمام کپڑے اتارے ہوئے بالکل ننگا‘ مادر زاد کسی اوپر کھڑے ہوئے آدمی سے بہت بے|تکلفی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اور وہاں بہت سے آدمی موجود تھے- مجھ سے رہا نہ گیا- میں نے اس سے کہا کہ تم اس طرح ننگے ہو کر حیا نہیں کرتے؟ اس نے بہت بے|تکلفی سے جواب دیا- ان اللٰہ یریٰ وراء الستر جس سے مجھ کو ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی عملی حالت اور ان کے اخلاق فاضلہ میں بہت نقصان آ گیا ہے- وہاں کے کسی آدمی نے اس کو منع بھی نہ کیا- وہاں بیرونی شہر میں زیدی شیعہ بھی بہت رہتے ہیں اور ان میں متعہ کا رواج ہے- ایک ہمارے دوست تھے- انہوں نے وہاں ایک عظیم الشان سرائے لوگوں کے آرام کے لئے بنانی تجویز کی اور بہت سا روپیہ اس پر خرچ کیا- وہاں کے قاضی صاحب نے سو پونڈ ان سے قرض مانگے- انہوں نے ہمارے پیرو مرشد شاہ عبدالغنی صاحب سے مشورہ لیا- انہوں نے فرمایا کہ قرض وغیرہ نہیں یہ تو قاضی صاحب تم سے لیتے ہیں پھر وہ تم کو واپس نہ دیں گے- آخر انہوں نے انکار کیا- دوسرے ہی دن دارالقضا سے حکم|نامہ آیا کہ جہاں تم سرائے بناتے ہو- یہاں ایک کوچہ نافذہ تھا اور نافذہ کوچہ کا بند کرنا حدیث سے منع ہے- اس لئے سرائے کا بنانا بند کیا جائے- چونکہ ان کے ہزاروں روپے خرچ ہو چکے تھے بہت گھبرائے- آخر ایک بزرگ نے )جن کو میں جانتا ہوں( صلاح دی کہ تم جدہ چلے جائو اور انگریزی قونصل سے جا کر ملو( چنانچہ ہمارے دوست وہاں گئے اور تمام حالات انگریزی قونصل سے بیان کئے- اس نے قاضی صاحب کے نام ایک چٹھی لکھ دی- وہ چٹھی قاضی صاحب کے پاس پہنچی تو اگلے ہی روز دارالقضا سے حکم پہنچا کہ چونکہ پتہ چلا ہے کہ کوچہ نافذہ کی آمدو رفت رک گئی ہے اور جبکہ آمدو رفت رکی ہوئی ہے تو اب وہ کوچہ نافذہ کے حکم میں نہیں رہا- لہذا سرائے بنانے کی اجازت دی جاتی ہے-
ایک اور ہمارے دوست تھے- انہوں نے وہاں ایک عظیم الشان باغ بنانا چاہا- وہاں کے لوگوں اور زمین داروں نے اس کام میں خوب مدد دی- لیکن جب پھل آنے لگا تو رات کو جاکر سب کاٹ لیتے تھے- یہ اخلاق قابل افسوس ہیں اور بیان اس لئے کئے ہیں کہ کوئی عبرت حاصل کرے اور شاید کوئی خدا تعالیٰ کا نیک بندہ دعا کرے- ایک دفعہ ایک شخص شاہ صاحب کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں مدینہ منورہ ہجرت کر کے آیا ہوں- لیکن یہاں کے لوگوں کے حالات سے میں تنگ آ گیا ہوں- شاہ صاحب سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ہم بھی تو ہجرت کر کے آئے ہیں- تم نے اگر جوار نبی کریمﷺ~ کے لئے ہجرت کی ہے تو وہ موجود ہے اور اگر اس لئے کی ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ یہاں موجود ہیں تو یہ لوگ تو بے|شک آج موجود نہیں ہیں- آپ یہاں سے چلے جائیں-
جن دنوں میں شاہ عبدالغنی صاحب سے تعلیم پاتا تھا- ایک دن ظہر کی نماز جماعت سے مجھ کو نہ ملی- جماعت ہو چکی تھی اور میں کسی سبب سے رہ گیا- مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں- خوف کے مارے میرا رنگ زرد ہو گیا- مسجد کے اندر گھسنے سے بھی ڈر معلوم ہوتا تھا- وہاں ایک باب الرحمت ہے- اس پر لکھا ہوا ہے- یا عبادی الذین اسرفوا علیٰ انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللٰہ ان اللٰہ یغفر الذنوب جمیعاًانہ ھو الغفور الرحیم- اس کو پڑھ کر پھر بھی بہت ڈرتا ہوا اور حیرت|زدہ سا ہو کر مسجد کے اندر گھسا اور بہت ہی گھبرایا- جب میں منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچا اور نماز ادا کرنے لگا تو رکوع میں مجھے جس خیال نے بہت زور دیا وہ یہ تھا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ مابین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ اور جنت تو وہ مقام ہے جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی ہے- پس میں نے دعا کی- الٰہی میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے-

مکہ معظمہ میں دوسری مرتبہ
جب میں مدینہ سے مکہ کو چلا- راستہ میں دو واقعے بڑے عجیب پیش آئے- اول یہ کہ میں ہمیشہ سنتا تھا کہ مسافروں اور بدوئوں میں لڑائی ہو جاتی ہے- اس پر میں نے خود بہت غور کیا ہے- اس کے دو باعث معلوم ہوتے ہیں- ایک یہ کہ بدو ہندوستانی نہیں سمجھتے اور ہندوستانی عربی نہیں جانتے- ایک کچھ کہتا ہے تو دوسرا سمجھتا نہیں- جب ایک کا مطلب دوسرا نہیں سمجھتا تو دونوں جلد تیز ہو جاتے ہیں- پس پہلا سبب لڑائی اور بدمزگی کا زبان کی ناواقفیت ہے- دوسرا سبب مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ عربوں میں دستور ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے کوئی دوسرا شخص آکر شامل ہو جائے تو روکتے نہیں- اب مثلاً کسی نے ایک آدمی کے قابل کھچڑی پکا کر ایک بدو کو دی تو سب کے سب اس میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح سب کے سب بھوکے ہی رہتے ہیں- بھوکا آدمی ویسے بھی جلد برافروختہ اور غضب|ناک ہو جاتا ہے- میں نے ان دونوں اصولوں کو پیش|نظر رکھ کر بہت سی کھجوریں خرید کر بدوئوں کی نظر سے پوشیدہ خوب محفوظ کر کے رکھ لی تھیں- جب آدھی رات کا وقت ہوتا تو میں ایک بک خوب بھر کر کھجوریں خاموشی کے ساتھ اپنے بدو کو دے دیتا تھا جس سے اس کا پیٹ خوب بھر جاتا تھا- لہذا وہ میری خدمت اس طرح کرتا تھا جیسے ایک وفادار غلام اپنے آقا کی- کبھی تو میں تھوڑا سا پانی ساتھ بھی رکھ لیتا تھا اور کبھی بدو سے کہتا کہ مجھ کو پانی کی ضرورت ہے- وہ کہیں نہ کہیں سے پانی لاکر مجھ کو دیتا تھا- ایک دن رات کو میں نے پانی کی فرمائش کی تو اس نے کہا کہ یہاں سے دو تین میل پر ٹھنڈے پانی کا چشمہ آتا ہے- ذرا ٹھہریئے- لیکن عجائبات قدرت- مجھ کو پیاس بہت تھی- میں نے کہا- اچھا ٹھنڈا پانی نہ سہی ویسا ہی سہی- رات کے وقت میں نے ان لوگوں کے چال چلن میں دیکھا ہے کہ اپنے اونٹ سے علیحدہ ہو کر دوسرے اونٹ والے کے پاس قطعاً نہیں جاتے- اس نے مجھ سے گلاس مانگا- میرے سامنے ایک ہندوستانی تھے- وہ آگے بڑھا اور ان کے پاس جا کر نہایت ادب سے کہا کہ ایک معزز شخص کے واسطے ایک گلاس پانی کی ضرورت ہے- انہوں نے بجائے اس کے کہ پانی دیتے‘ ّ*** ّ*** کہہ کر شور مچا دیا- وہ بدو بڑی چالاکی سے اپنے اونٹ کے پاس پہنچ گیا اور مجھ سے کہا کہ اس وقت پانی کا کوئی موقع نہیں ملا- آپ تھوڑا سا انتظار کریں- دو تین میل چل کر جہاں پانی تھا‘ وہاں سے بڑا ٹھنڈا پانی میرے واسطے لایا- میں نے پانی پیا اور پھر سو گیا- دن کے وقت جہاں ڈیرا ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک ہندوستانی بے|چارے بڑے مضطر ہیں اور شور مچا رہے ہیں- میں نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشکیزہ میں راتکوئی بدمعاش سوراخ کر گیا ہے- اب ہم کو مشکل یہ ہے کہ مکہ تک پانی نہیں ملے گا- میں تاڑ گیا کہ یہ اس ہمارے بدو کا کام ہے- میں نے علیحدگی میں اس سے کہا کہ رات اس ہندوستانی کے مشکیزہ میں کسی نے سوراخ کر دیا ہے- کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نے یہ کام کیا ہو- وہ کہنے لگا کہ مولوی صاحب! دیکھو ہم نے آپ کے لئے اس سے پانی مانگا اور اس نے ایک گلاس پانی نہ دیا- پھر بھلا غصہ آتا یا نہ آتا- میں نے اس کو بہت ملامت کی- میری دانست میں ان سے حجاج کو کسی قدر ملاطفت اور علیحدگی کا سلوک بہت مناسب ہوتا ہے- میں نے آنے اور جانے دونوں موقعوں پر نہ مشکیزہ رکھا نہ چھاگل- مجھ کو پینے کے لئے یا وضو کے لئے پانی کی کوئی دقت نہیں ہوئی- زبان کی واقفیت پر بھی بہت کچھ مدار ہے- میں کسی دن کوئی شعر سنا دیتا تھا تو سن کر بدو ناچنے لگتے تھے-۔
دوسرا واقعہ عجیب یہ ہے کہ ایک جگہ ہم نے ڈیرا کیا- میرے مقام کے قریب ایک عظیم|الشان خیمہ تھا- اس کے اندر بڑا مباحثہ ہو رہا تھا- میں نے اس خیمے کے اندر جانا تو مناسب نہ سمجھا- ان کے مباحثہ پر میں بہت متوجہ رہا- آخری فقرہ جو ایک مقلد نے پیش کیا یہ تھا کہ کسی مسئلہ میں کسی امام کے بالمقابل ترجیح دینا اس شخص کا کام ہو سکتا ہے جو اپنے کامل دلائل‘ اور جس کے خلاف چلتا ہے‘ اس کے دلائل کے جوابات کامل طور پر جانتا ہو اور اگر اس قدر وسیع واقفیت نہ ہو تو ترجیح کس طرح ہو سکتی ہے- لہذا تم لوگ کسی مسئلہ میں ترجیح کے مستحق نہیں- اس وقت مجھ کو یہ خیال آیا کہ کم سے کم ہم بھی اس کا کچھ جواب تو دیں اور جوانی کی ایک ترنگ تھی- میں نے بلند آواز سے کہا- جب ایک مسئلہ میں اتنے بڑے علم کی ضرورت ہے تو ایک امام کو دوسرے پر تمام مسائل میں ترجیح دینے کے لئے تو لاکھوں علوم کی ضرورت ہو گی- ہماری اس آواز نے بھی کچھ بجلی کا سا کام دیا- مگر وہ لوگ کچھ امراء تھے اور ان دنوں مجھ کو امراء سے تنفر تھا-
جب مکہ معظمہ کے قریب پہنچے تو میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ حضرت نبی کریمﷺ~ کداء کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے تھے- لیکن آدمیوں کی باربرداریاں اور سواریاں اس راستہ نہیں جاتی تھیں- اس واسطے میں ذی طوی سے ذرا آگے بڑھ کر اونٹ سے کود پڑا- اور کداء کے راستہ سے مکہ میں داخل ہوا- مجھے افسوس ہوا کہ اس رستہ سے بہت ہی تھوڑے لوگ گئے- حالانکہ کوئی حرج نہ تھا- صرف ہمت‘ قوت اور معلومات کافی تھی-
مکہ معظمہ میں میں جہاں رہتا تھا- میری عادت تھی کہ اکثر وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر لیا کرتا تھا- جن کے گھر میں رہتا تھا وہ ایک بوڑھے شخص مخدوم کہلاتے تھے- انہوں نے میری اس حرکت کو بار بار دیکھ کر کہا کہ آپ تنعیم سے کیوں احرام نہیں باندھتے؟ میں نے کہا کہ میں طالب علم آدمی ہوں- میرے پاس اتنا وقت کہاں ہے- آنے جانے میں چھ سات میل کا سفر ہے اور پھر بلاضرورت اور بیہودہ بات ہے- احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھ سکتے ہیں- اس پر وہ بڑے گھبرائے اور کہنے لگے کہ آپ تمام شہر کے خلاف کرتے ہیں- میں نے کہا تمام شہر کے خلاف تو نہیں البتہ گدھے والوں کے خلاف کرتا ہوں جن کے کرایہ میں کمی ہوتی ہے- اس پر وہ ہنس کر چپ ہو رہے- ان کے گھر میں جو سب سے بے|نظیر کام میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ مخدوم صاحب بہت ضعیف العمر آدمی تھے اور ان کی بیوی بے|نظیر حسین اور بہت کم|عمر تھی- لیکن وہ اپنے ہاتھ سے کاغذ گھوٹ کر پیسے کما کر اپنے خاوند کے لئے نہایت نرم غذا بنایا کرتی تھی- میں اس خدمت کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا- ایک دن میں نے تنہائی میں اس سے کہا کہ تم کو اپنے حسن کی خبر بھی ہے؟ اس نے کہا- خوب خبر ہے اور میں اپنی اس خبر کی شہادت بھی دے سکتی ہوں اور وہ شہادت یہ ہے کہ مکہ کی تمام عورتوں کو دیکھ لو یہ اپنے رخساروں پر ایک داغ بناتی ہیں اور مجھ کو دیکھو میرے چہرہ پر کوئی داغ نہیں اور سارے شہر میں ایسی میں ہی ایک عورت ہوں- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میں اپنے حسن کو پہچانتی ہوں- جب عورتوں نے مجھ کو بہت مجبور کیا تو میں نے اپنے بالوں کے نیچے گردن پر داغ بنائے- چنانچہ اس نے اپنے بال اٹھا کر مجھے دکھائے- میں نے کہا اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مخدوم صاحب کی تم اس قدر خدمت کرتی ہو کہ میں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں- یہ نہایت ضعیف|العمر آدمی ہیں اور تم نوعمر ہو- کہنے لگی اگر یہ ضعیف|العمر نہ ہوتے تو میں کیوں کاغذ گھوٹتی- چونکہ خدا تعالیٰ نے میرے لئے یہ خاوند عطا کیا ہے تو میرا فرض ہے کہ ان کے ساتھ بہت غم|گسارانہ برتائو کروں- مجھ کو معلوم ہوا اور بہت ہی پسندیدہ معلوم ہوا کہ نیکی اور نیک|طینتی اس عورت میں بدرجہ اتم موجود ہے- میں نے جب مخدوم صاحب سے پوچھا کہ آپ اس پر مطمئن ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں اس کی راست|بازی پر قسم اٹھا سکتا ہوں- یہ بہت ہی غمگسار ہے اور جس طرح اس کا نام صادقہ ہے اسی طرح یہ واقعی صادقہ ہے-
مکہ معظمہ میں ایک عمدہ طبیب کی بڑی ضرورت ہے- ایک اچھا خدا ترس تجربہ|کار طبیب بڑی وسعت سے گذارہ کر سکتا ہے- میں نے اپنے استاد کی والدہ صاحبہ کی بیماری کا ذکر بھی کیا ہے- میں جن دنوں وہاں تھا غالباً وہ ۸۵ ہجری یا ۸۶ ہجری کا زمانہ تھا- امراض زیادہ تر اولاد کی کمی‘ خون کی کمی‘ قہوہ کی کثرت‘ عام ضعف پائے جاتے تھے- وہاں رہنے کے لئے طبیب ایسا ہو جو کسی قدر دستکاری بھی جانتا ہو-
حج کے بعد علی العموم عرب لوگ اپنے گھر کی چیزیں بہت ارزاں فروخت کیا کرتے ہیں- خصوصاً جب ان کا ارادہ عیش و عشرت کے لئے طائف جانے کا ہو تو روپیوں کی چیزیں کوڑیوں میں فروخت کر دینا ان کے نزدیک بہت سہل ہے- لیکن جب حجاج کی آمد کے دن ہوتے ہیں تو وہی چیزیں جو کوڑیوں میں خریدی تھیں روپیوں میں فروخت ہو سکتی ہیں- حج کے بعد کباڑیوں کی طرح خریداری شروع کرے اور حج کے ابتدا میں بیچ دے تو اس طرح بڑی اعلیٰ درجہ کی تجارت ہو سکتی ہے- قرضہ کا معاملہ بہت خطرناک ہے-
مجھ کو ایک نکتہ معرفت وہاں یہ حاصل ہوا کہ چونکہ ہر سال نئے حاجی آتے ہیں اور وہ بہت جلد چلے جاتے ہیں- اس واسطے وہاں کے لوگوں کو کسی کامل انسان سے بھی سچی محبت کبھی نہیں ہو سکتی- وہاں ہر روز نئے مہمان آتے اور جاتے ہیں- اگر وہ شدید محبت کسی سے کریں تو پھر تو ان کی ہلاکت ہے- میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہاں جناب الٰہی کی محبت کے واسطے خالص سامان مہیا ہے- انسانی محبتیں کوئی چیز نہیں- وہاں کے شرفاء اور حجی لوگ اور عرب اور عربانیہ بے|شک وہاں کے تمدن و معاشرت کا قابل|قدر نمونہ ہیں اور ان کی مجالس میں فصیح زبان بھی بولی جاتی ہے- گو کہ گتر متر بھی بول لیتے ہیں-
بہرحال بمبئی پہنچے- ایک میاں بیوی جن کو میں نے مکہ میں دیکھا تھا- مجھ کو ملے- میں نے ان سے کہا کہ اگر تمہارا کچھ اسباب ہو یا تم کو اپنے گھر والوں کو کوئی پیغام دینا ہو تو مجھ کو دے دو- میں ریل کے راستے جلد جائوں گا )انہوں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ہم آہستہ آہستہ دریا کے راستے ملک کو جائیں گے( وہ دونوں بہت شریف معلوم ہوتے تھے- وہ عورت سر سے کپڑا اتار کر میرے پائوں پر گر پڑی اور کہا کہ صرف آپ کی مہربانی یہ ہے کہ ہمارا پتہ اس ملک میں کسی کو نہ دیں- میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں ایک شریف عورت ہوں- کم|عمری میں بیوہ ہو گئی اور ہمارے یہاں بوجہ شرافت کے بیوہ کا نکاح نہیں کرتے اور یہ بزرگ پیری مریدی کرتے ہیں- ہمارے پڑوس میں ان کے مرید رہتے ہیں- میں نے ان سے مخفی طور پر نکاح کر لیا ہے جس کی خبر ہمارے گھر والوں کو نہیں- اس طرح مجھ کو گیارہ دفعہ اسقاط کرانا پڑا- پھر بھی میرے جوش جوانی کے ایسے تھے کہ میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ ہم آزادانہ میاں بیوی کے طور پر نہیں رہتے- تم یہ کرو کہ ملتان پہنچو اور وہاں ایک جگہ مقرر کر لی کہ میں بھی ملتان پہنچتی ہوں- پھر وہاں ہم خوب کھل کر رہیں گے- جب میں حج کے ارادہ سے چلی تو میرے بھائی جو آسودہ حال تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں تاکہ تم کو تکلیف نہ ہو- میں نے اس بات کو منظور کر لیا- رات کو کسی گائوں میں ہم لوگ ٹھہرے- رات کو بڑی شدت سے آندھی اور بارش آئی- اور تمام مسافروں میں افراتفری مچ گئی- میں نے دوراندیشی کے طور پر عین بارش اور ہوا کے طوفان میں وہاں سے جنگل کی طرف رخ کیا اور صبح تک دوڑتی بھاگتی چلی گئی اور کچھ خبر نہ تھی کہ کدھر جاتی ہوں- صبح کی روشنی میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ ملتان کا راستہ کونسا ہے؟ لوگوں نے مجھے ایک سڑک پر ڈال دیا- میں نہیں جانتی کہ میرے بھائی واپس ہوئے یا کہاں تک انہوں نے میری تلاش کی- میں جب ملتان پہنچی تو یہ میرے میاں صاحب منتظر کھڑے تھے- وہاں سے ہم بخوشی و خرمی مکہ پہنچ کر مدتوں رہے جیسا کہ تم نے دیکھا ہے ہمارے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں پہنچی- اب میں جاتی ہوں- ملتان کے ارد گرد میں اپنے میاں صاحب سے الگ ہو جائوں گی- یہ اصل بات ہے- پس آپ ہمارا کوئی ذکر نہ کریں- یہ قصہ صرف اس لئے بیان کیا ہے کہ بیوائوں کو بٹھانا اچھا نہیں- وہ عورت کسی زمانہ میں ہمارے گھر میں بھی آئی تھی- اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے- جن کے گھر میں جوان اور بیوہ عورتیں ہیں کہ ان کا نکاح استخارہ کر کے کر دیں-
‏Mr.6a
بھیرہ
واپسی میں میں دہلی اترا اور میرے ایک پرانے رفیق نے مجھ سے بیان کیا کہ تمہارے طبیب استاد یہاں دہلی میں ہیں- میں اس کو ساتھ لے کر حضرت استاد کی خدمت میں پہنچا-مجھے فرمایا کہ تم حرمین سے کیا کیا لائے- میں نے بعض لطیف کتابوں کا ذکر کیا جو میں وہاں سے لایا تھا- تو آپ نے فرمایا وہ سب مجھے دے دو- میں نے انشراح صدر سے کہا کہ وہ تو آپ ہی کی چیز ہے- لیکن میں نے صندوقوں کو لاہور بھیج دیا ہے- کیونکہ ریل وہاں تک ہے- میں لاہور پہنچ کر وہ صندوق آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا- آپ نے سن کر فرمایا کہ ہم بھی لاہور دیکھنا چاہتے ہیں- آج ہی چلیں- میں بڑی خوشی سے حاضر ہوا اور آپ لاہور تشریف لائے- بہت سے مقامات کی سیر میں میں آپ کے ساتھ ہی تھا- باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ وہ صندوق ریل سے منگوائو- میں جب ریل کو جانے لگا تو فرمایا کہ ہم ہی منگوا لیں گے- چنانچہ اپنے نوکر کو بھیج کر وہ صندوق )جن کا محصول میں نے ابھی ادا نہیں کیا تھا( اپنی گرہ سے محصول دے کر منگوا لئے- پھر مجھ سے کہا کہ یہ ہم نے صرف اس لئے کیا کہ کچھ ہمارا حصہ بھی ان میں شامل ہو جائے- مطلب یہ کہ بمبئی سے لاہور تک کا کرایہ ان صندوقوں کا انہوں نے دے دیا- اصل رحمت الٰہی کا ذکر کرنا مجھے مقصود ہے کہ اس وقت میری جیب میں اتنے روپے ہی نہ تھے کہ میں ان صندوقوں کا محصول دیتا- بہرحال میں آپ کو رخصت کرکے شہر لاہور میں داخل ہوا تو ایک میرے وطن کا ہندو جس کے پاس باربرداری کے سامان تھے- اس نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کا اسباب بھیرہ لئے چلتا ہوں آپ مجھے روپیہ بھیرہ میں دے دیں- اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے مع اسباب کے بھیرہ پہنچا دیا-
وہاں میرے ملنے کو شہر کے بہت سے ہندو مسلمان جمع ہوئے تو اسی جلسہ میں ایک مولوی صاحب نے یہ ذکر بھی کیا کہ بخاری ایک کتاب ہزار سال سے گمنامی کے کونے میں پڑی ہوئی تھی- دلی کے ایک شخص نے جس کا نام اسماعیل تھا اس کتاب کو شائع کیا- یہ خطرناک کلمہ ایسا تھا جس سے میرے کان آشنا نہ تھے اور میں نے اس قسم کا کلمہ کسی خارجی یا شیعہ سے بھی نہیں سنا تھا چہ جائیکہ ایک حنفی مذہب کے ممتاز عالم کے منہ سے نکلا- مجھے تعجب ہوا پھر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہوا- وہ پہلا ہی دن تھا کہ میں اپنے وطن میں پہنچا تھا- بہت کچھ نشیب و فراز دل میں پیدا ہوئے- آخر میں نے اتنی بات سے تو رکنا مناسب نہ سمجھا کہ میں نے کہا کہ اول تو میں ابھی طالب|علمی سےآیا ہوں‘ نہ میرا مطالعہ نہ میری وسعت نظر- نہ مجھے تجربہ- لیکن بخاری کی ساٹھ شروح کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں- اگر ایک شرح کو سولہ برس کے قریب قریب ختم کر لیا جائے جو کچھ زیادہ مدت نہیں معلوم ہوتی- تو اس ہزار برس میں ہر روز بخاری کی شرح لکھی گئی ہے اور یہ شروح شافعی مذہب کی بھی ہیں- حنفیوں کی بھی- مالکیوں اور حنابلہ کی بھی- میں نے خود بخاری کو ایک بڑے حنفی المذہب مولوی عبدالقیوم صاحب سے بھوپال میں پڑھا ہے- پھر شاہ عبدالغنی صاحب سے بھی- ان دونوں کی صحبت میں میں نے کبھی ایسے لفظ نہیں سنے- یہ میرا فقرہ اس مولوی صاحب کے قلب پر بجلی کا کام کر گیا-
پھر ایک دن میں اپنی مسجد میں مشکٰوۃ پڑھا رہا تھا- اس میں یہ حدیث آئی کہ جو کوئی اذان کی آواز سنے وہ اذان کے کلمات کہے اور بعد اس کے]kns [tag اللٰھم رب ھٰذہ الدعوۃ التامۃ۔ ۔ ۔ ۔ الخ آخر تک دعا پڑھے حلت لہ شفاعتی- اس حدیث کے بیان کو ایک شخص عبدالعزیز نام پشاوری جس کو عزیز بھی کہتے تھے سن کر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ یہ دعا لکھ دیں- اس وقت میرے پاس اتفاق سے انگریزی لکھنے کا لوہے کا قلم تھا جو بہت ہی باریک تھا اسی سے میں نے وہ دعا لکھ دی- وہ چونکہ ضعیف|العمر اور نظر کا کمزور تھا- اس کے پڑھنے کی کوشش کی مگر اس کی کم|نظری نے روک دیا- وہ پرچہ لے کر ایک مشہور کاتب محمد دین کے پاس پہنچا کہ یہ دعا آپ بہت موٹے حروف میں خوش قلم لکھ دیں- کاتب صاحب نے تو آگا پیچھا ہی نہ دیکھا کہ یہ دعا تو شفاعت کے لئے ہے وہ اس کاغذ کو لے کر بخاری کے دشمن مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ اس شخص کے قلم سے وارزقنا شفاعتہ کا لفظ بلاارادہ چھوٹ گیا ہے- مولوی صاحب کے اس پہلے غضب پر یہ میرا لکھا ہوا کاغذ اور بھی خطرناک کام کر گیا اور اب وہ میرے مقابلہ کے لئے بالکل تیار ہو گئے- وہ ابھی کچھ منصوبوں ہی میں تھے کہ ایک روز صبح کے وقت ایک سید صاحب اور ان کے ساتھ ایک متولی صاحب دونوں میرے پاس آئے- اور شاہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے سسرال میں ایک جماعت ہے جو نمازوں میں رکوع اور قومہ میں رفع یدین کرتے ہیں- آپ کا فتویٰ ان لوگوں کی نسبت کیا ہے کہ ان سے کیا معاملہ کیا جائے- کیونکہ وہاں جھگڑے میں آپ کو منصف مقرر کیا گیا ہے- میں نے اس وقت کمزوری سے کام لیا اور ان سے کہا کہ پہلے پتہ لگایا جائے اور ان رفع یدین کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی- اور سنیوں میں وہ شافعی ہیں یا حنبلی- اگر اس قسم کے لوگ ہوں تو ان کے مذہب میں رفع یدین ثابت ہے- ہاں اگر وہ حنفی مذہب کے مقلد ہیں تو پھر ان کے متعلق ان کے مناسب فتویٰ دیا جا سکتا ہے- سید نے اس فتویٰ کو بہت پسند کیا اور دونوں واپس چلے گئے- قدرت ہی کے تماشے ہیں- جب وہ دونوں صاحب مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے تو وہ مولوی صاحب جو بخاری پر ناراض اور دعائے شفاعت پر گھبرائے ہوئے تھے پاس سے گزرے اور انہوں نے شاہ صاحب سے پوچھا- آپ یہاں کس طرح آئے تھے- شاہ صاحب نے کہا- میں نے ایک سوال کیا تھا مگر بہت ہی معقول جواب دیا ہے- شاہ صاحب سے سن کر مولوی صاحب نے ان کو بتاکید فرمایا کہ میں یہاں کھڑا ہوں- آپ اس سے یہ اور دریافت کر آئیں کہ آپ کے نزدیک رفع یدین کا کیا حکم ہے- وہ شاہ صاحب جب واپس تشریف لائے اور میں نے ان کو دیکھا تو اپنی کمزوری پر بہت ہی افسوس کیا- خیر انہوں نے جیسا ان کو مولوی صاحب نے سمجھایا تھا اسی طرح کھڑے کھڑے ہی مجھ سے دریافت کیا- میں تو پہلے ہی اپنی حالت پر افسوس کر رہا تھا- میں نے ان سے کہا کہ میرے نزدیک رفع یدین کرنا جائز ہے- اس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا ایسا خیال ہے تو آپ کا اس ملک میں یا کم سے کم اس شہر میں رہنا محال ہو گا- میں نے ان کو جیسا کہ میں تیار ہو ہی چکا تھا‘ کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں ان میں بندوں کا کوئی دخل نہیں- پہلے دن کی گفتگو- وہ دعا- شاہ صاحب کا یہ سوال ان تینوں چیزوں نے مل کر اپنا ایک عجیب کیمیاوی اثر دکھلایا-
ایک دن صبح کو میں اپنے مکان سے اترا تو حکیم فضل دین صاحب جو میرے بڑے مخلص اور محسن اور پیارے اور دل سے فرمانبردار دوست تھے رحمھم اللہ- کچھ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ اذان کی دعا کس طرح ہے؟ وہ سوال میں بہت ہی ادب کیا کرتے تھے- میں نے ان کو حسب معمول دعا سنا دی- انہوں نے کہا یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا آپ کیوں گھبراتے ہیں- کبیری شرح منیہ اور لمعات شرح مشکوۃ شیخ عبدالحق محدث دہلوی میں ایسا ہی ہو گا- میرے مکان کے نیچے بہت سے مسلمان بیمار بھی ہوا کرتے تھے- لیکن اس دن خلاف معمول کوئی آدمی نہ تھا- اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا- جس کی حالت پر اب مجھ کو رحم آتا ہے اور بہت ہی رحم آتا ہے- اس کا نام غلام محمد تھا- قوم جلاہا مگر بہت جوشیلا آدمی تھا- رحم کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کی اولاد میں ایک لڑکا میں نے دیکھا ہے جو بڑا جوشیلا شیعہ ہے اور رفع یدین کو تو وہ قریباً فرض ہی سمجھتا ہے- یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں- اس نے آ کر کہا کہ حضرت پیر صاحب کی بی|بی بہت سخت بیمار ہیں- آپ وہاں چل کر ان کو دیکھ لیں- میں ان پیر صاحب کی بڑی عزت کرتا تھا- اس واسطے بلاتکلف اس کے ساتھ ہو لیا- وہ بڑی تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا چلا- میں نے بہت سی مخلوق راستہ میں دیکھی جو بے|ساختہ پیر صاحب کے مکان کی طرف جا رہے تھے- جب میں ان کے دروازہ کے قریب پہنچا تو وہاں بڑا ازدحام خلقت کا مجھے نظر آیا- لیکن ان کے زنان خانہ کی طرف نہ کوئی مرد جاتا ہوا دیکھا نہ کوئی عورت- میاں غلام محمد صاحب کو دیکھا تو وہ بھی وہاں غائب ہو گئے- اس وقت معلوم ہوا کہ فریب سے مجھ کو کسی دوسری غرض کے لئے بلایا گیا ہے- لیکن اس وقت وہاں سے کوئی واپس جانے کی صورت نظر نہ آئی تو ناچار میں بھی مردانہ کی طرف خود بخود چلا گیا- وہاں پیر صاحب ایک بڑی چارپائی پر گائو تکیہ لگائے اور اپنے دونوں پائوں کو چارپائی کے دونوں طرف رکھے ہوئے چت تھے- اور ایک عالم جو اس شہر سے باہر کے تھے اور میں اس دم تک ان کے علم اور تقدس اور نیکی کا بڑا معتقد تھا ان کو دیکھا کہ ان ان|پڑھ پیر صاحب کے پائوں پر ماتھا رکھے ہوئے اور ہاتھ سے ان کا پیر دبائے ہوئے بیٹھے ہیں- میں دیکھ کر بے|تاب ہو گیا- میں نے کراہت سے ان کو دیکھ کر پیر صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آپ کی بیوی بیمار ہے- آپ کا آدمی گیا تھا- چلئے اس کو دیکھ لوں- انہوں نے کہا کہ ایک مسئلہ ضروری ہے- پہلے اس کی نسبت آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے- میں نے کہا- آپ تو پیر ہیں- آپ کو مسائل سے کیا غرض پڑی ہے- آج کل تو پیر مسائل سے قطعاً سبکدوش ہیں- ابھی میں کھڑا ہی تھا کہ انہوں نے دوبارہ اصرار کیا مگر وہ ایسے ذہین اور فہیم تھے کہ فوراً تاڑ گئے کہ یہ زمین پر تو بیٹھے گا نہیں- چارپائی پر ہی بیٹھے گا- یہ ان کی فراست نہایت صحیح تھی- جلد تاڑ کر کہا کہ اوہو! علماء تو سب نیچے بیٹھے ہیں اور یہ رسول کے جانشین ہیں- ہمارے نوکروں نے بڑی غلطی کی کہ ہمارے لئے چارپائی بچھائی- اپنے نوکروں سے کہا کہ جلد چارپائی اٹھائو- چارپائی کے اٹھنے سے جگہ بھی فراخ ہو گئی- پیر صاحب بھی نیچے ہی بیٹھ گئے- میں نے کہا کیا مسئلہ ہے؟ کام سب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتے ہیں- اصل محرک مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور اس میں ایک جگہ انہوں نے اپنی انگلی رکھ چھوڑی تھی- میں سمجھا کہ کوئی ایسا مسئلہ ہو گا جس کا اس کتاب میں ذکر ہے- میں نے خدا تعالیٰ کے کامل رحم اور بندہ|نوازی سے اس کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ بھائی صاحب یہ کیا کتاب ہے- تو مولوی صاحب نے بڑے غضب سے کہا کہ آپ میرے بھائی نہیں ہیں- حالانکہ میں رشتہ میں ان کو بھائی سمجھتا تھا- میں نے کہا- یہ تو کوئی ناراض ہونے کی بات نہیں اگر اخوت اسلامی کے سبب آپ بھائی ہونا نہیں مانتے تو ہمارے یہاں سکھوں کو بھی بھائی کہتے ہیں- تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے کتاب چھوڑ دی اور کہا کہ اچھا ان معنوں میں آپ لے لیں- جہاں ان کی انگلی رکھی ہوئی تھی میرے ہاتھ میں آ کر وہ مقام تو مل گیا- میں اپنے مولا کی کس مہربانی کا ذکر کروں- وہ کتاب دلائل الخیرات مطبع کانپور کی تھی- میں نے ہاتھ میں لے کر جب اس کو کھولا تو اس کے ساتویں صفحہ پر میری نظر پڑی اور اس میں اذان کی دعا وہی لکھی تھی جو میرے ہاتھ سے لکھی گئی تھی- اب میں خوشی سے اس قدر جوش میں آ گیا کہ میں بیٹھ نہیں سکا اور میرے دل میں یہ بات جوش|زن ہو گئی کہ بہرحال یہ عالم آدمی ہے اور بڑا ہوشیار ہے- اس نے ضرور اچھی طرح دیکھ بھال لیا ہو گا- لیکن اب تو وہ لفظ دلائل الخیرات میں موجود نہیں- ہو نہ ہو یہ وارزقنا کا لفظ خدا تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے- میں نے کھڑے ہو کر بڑی بلند آواز سے کہا کہ تم نے بنی اسرائیل میں ایک لڑکے کا قصہ سنا ہوگا کہ وہ توریت پڑھتا تھا اور جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا تھا تو کاٹ دیتا تھا- اور پھر خود بخود قدرت خدا سے اس میں نام لکھا جاتا تھا- سب نے کہا کہ ہاں- ہم نے یہ قصہ سنا ہے- میں نے کہا وہاں تو کاٹا ہوا پھر لکھا جاتا تھا اور یہاں خدا تعالیٰ نے لکھا ہوا کاٹ دیا- اس دلائل الخیرات کو دیکھو- اس میں وارزقنا کا لفظ کٹ گیا ہے- وہ لوگ تو پہلے ہی دلائل الخیرات میں اس دعا کو دیکھ چکے تھے کہ وارزقنا کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے- سب اٹھ اٹھ کر اور جھک جھک کر دیکھنے لگے- اور اس بات سے غافل )کہ پہلے انہوں نے کونسے صفحہ پر یہ دعا دیکھی تھی اور اب یہ ساتواں صفحہ تھا( حیران و ششدر رہ گئے- میری تیز زبانی اور طاقت اور بھی بڑھ گئی- پیر صاحب فوراً سمجھ گئے اور انہوں نے پہلو بدل کر کہا کہ یہ مولویوں کی بحث ہے- ہم اس کو نہیں جانتے- مسئلہ دراصل وہ جو ہم دریافت کریں- تم یہ بتائو کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للٰہ پڑھنا جائز ہے یا ناجائز؟ میں اپنے مولا کی حمد کس طرح بیان کروں اور میری کیا ہستی ہے کہ اس کے فضل و کرم اور تصرفات پر قربان ہو جائوں- میں نے ان سے کہا کہ پیر صاحب آپ تو یا شیخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ الخ کے وظیفہ کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں- پہلے اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھو کہ وہ جناب شیخ کو قطعی جنتی بھی مانتے ہیں یا نہیں؟ پیر صاحب نے کہا- ہاں یہ انصاف کی بات ہے- وہاں بہت سے مولوی موجود تھے- سب نے متفق ہو کر کہا کہ سوائے عشرہ مبشرہ کے ہم کسی کو قطعی جنتی نہیں جانتے- میں نے پیر صاحب کو کہا کہ یہ تو آپ کے باپ کو )وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے( جنتی بھی نہیں مانتے- شیئاً للٰہ کا وظیفہ کیا- انہوں نے بہت گھبرا کر اور بڑی حیرت کے لہجہ میں کہا- >ارے او مولویو یہ کیا کام کرتے ہو-< غرض وہ سحر تو باطل ہو گیا- اب پیر صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے- مجھ سے کہنے لگے آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں- اپنا خیال بتائیں- میں نے کہا بخاری شریف میں لکھا ہے کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ قطعی بہشتی ہیں- یعنی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور نبی کریمﷺ~ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اور اچھے لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا وجبت جب اس کے معنی پوچھے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جس کی اچھے لوگ تعریف کرتے ہیں تو وہ جنتی ہوتا ہے چونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی نسبت جہاں تک میرا خیال ہے ہزارہا بزرگوں نے تعریف فرمائی ہے- لہذا اس حدیث کی رو سے میں ان کو یقینی جنتی سمجھتا ہوں- مولویوں میں سے اس وقت کسی نے مجھ پر جرح نہیں کی- پیر صاحب اس وقت ہمارے قابو میں آ گئے- اصل وظیفہ کے متعلق پوچھنا تو رہ ہی گیا- بات کچھ اور کی اور ہی ہو گئی- تب میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے- میں اصل حقیقت کو سمجھ گیا ہوں- اب آپ اپنے گھر چلے جائیں- خیر خدا تعالیٰ کے فضل و نعمت کا شکر ادا کرتا ہوا بآرام اپنے گھر پہنچ گیا اور وہ جادو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے باطل ہو گیا-
ایک دفعہ وہاں کے علماء مباحثہ کے لئے جمع ہوئے- وہاں کی جامع مسجد کو‘ جو شیر شاہ کی بنوائی ہوئی ہے‘ اکھاڑہ بنایا- کئی قسم کی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تم جو اولیاء کا پکارنا شرک کہتے ہو‘ اگر علماء میں سے کسی نے ایسا لکھا ہو تو بلا گفتگو اس امر کو مان لیں گے- بہت سے علماء تھے جن سے یہ اقرار پختہ کرایا- دوسرے دن میں تفسیر عزیزی کو لے گیا اور اس میں سے وتبتل الیہ تبتیلاً کا موقع ان کو دکھایا گیا جہاں شاہ عبدالعزیز صاحب تحریر فرماتے ہیں- >و بعضے پیر پرستان از زمرہ مسلمین در حق پیر ان خود امر اول را ثابت می کنند و در وقت احتیاج بہمیں اعتقاد بانہا استعانت می نمایند ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ< اس کے لطیف جوابوں میں ایک شخص نے جو بڑے پیر بنے ہوئے تھے اور عالم بھی مشہور تھے- میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ آپ گھبرا کر کیوں بات کرتے ہیں- یہاں کیا کوئی تمہارا دشمن ہے؟ مجھ کو ان کی اس بات پر بہت ہی حیرت و افسوس ہوا- مگر دوسرے مولوی نے کہا کہ یہ لفظ پیران )ببائے فارسی( نہیں بلکہ بیران )ببائے موحدہ( ہے اور بیر ہنومان کو کہتے ہیں- پھر آپس میں کچھ اشارے کر کے سب کھڑے ہو گئے- معلوم ہوا کہ کوئی خاص منصوبہ میرے متعلق انہوں نے تجویز کیا تھا اور اسی لئے انہوں نے ایسی بھی کوشش کی تھی کہ وہاں میرے دوستوں میں سے ایک شخص بھی موجود نہ تھا- میں اس وقت اپنے دل میں یہ دعا مانگ رہا تھا عذت بربی و ربکم ان ترجمون- اس مسجد جامع میں ایک منبر تھا- ایک مولوی اس پر جا کھڑا ہوا- ایک دنیادار آدمی جس کو میرے خسر سے محبت تھی- اس عظیم الشان ازدحام اور کہرام میں میرے پاس سے یہ کہتا ہوا گزر گیا کہ- >اگر یہ وقت ٹل جائے تو پھر ہم انتظام کر سکتے ہیں< جب مولوی کھڑا ہوا تو مجھ کو یقین ہو گیا کہ اب یہ کسی قسم کا فتویٰ دے گا اور اس فتویٰ کی حقیقت مجھ کو معلوم نہ تھی- میرے داہنی طرف شہر کے تحصیلدار کھڑے تھے- ان کا نام رام داس تھا اور ان کے داہنے ہاتھ پر تھانہ دار تھے جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا اور تھانہ دار کے داہنے اور پیچھے بہت سے سپاہی تھے- باقی ہزارہا مخلوق ان کے پیچھے تھی- اس تھانہ دار کا نقار تو صحیح تھا کیونکہ مولوی ہمارے مخالف تھے- لیکن مجھ کو بڑا تعجب ہوا جبکہ تحصیل|دار نے بھی مجھے دھمکی دی اور کہا کہ آپ کی نسبت جو یہ شخص فتویٰ دینے لگا ہے اس میں یہ شخص مختار ہے- اس وقت محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں آیا کہ جیسا میرے خسر کے دوست نے کہا ہے وقت ٹل جائے تو اس ٹلنے کی تدبیر کرنی چاہیے- چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ سے تائید پا کر اپنی پوری طاقت سے تحصیل دار کی رگ گردن کو جو شہ|رگ کہلاتی ہے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اس طرح دبایا کہ تحصیل دار صاحب کی چیخ نکل گئی اور وہ بے|ہوش ہو کر گر پڑے- تھانہ|دار کو جب یہ معلوم ہوا کہ تحصیل|دار مارا جا چکا تو اس کو خیال آیا کہ ہم تھانہ سے باقاعدہ روزنامچہ میں روانگی درج کر کے نہیں آئے- ہم کو تھانہ سے باقاعدہ آنا چاہیے- چنانچہ تحصیل|دار کے بے|ہوش ہو کر گرتے ہی تھانہ|دار مع تمام سپاہیوں کے وہاں سے بھاگ گیا- اس کے جاتے ہی یکلخت تمام مسجد خالی ہو گئی- حتیٰ کہ ان منبر پر چڑھنے والے مولوی صاحب کا بھی کوئی پتہ و نشان نہ تھا- تحصیل|دار رام|داس کو جب ہوش آیا تو ان کا چہرہ زرد اور منہ فق تھا اور اس تمام مسجد میں سوائے میرے اور ان کے کوئی تیسرا آدمی نہ تھا- تحصیل دار نے بڑی لجاجت اور خوف زدہ آواز سے کہا کہ مہاراج! میں آپ کا مخالف نہیں ہوں- معلوم ہوتا تھا کہ ان کو اندیشہ ہے کہ یہ مذہب کے جوش میں مجھ کو قتل نہ کر ڈالے- میں نے ان کو محبت سے اٹھایا اور گلے لگا لیا لیکن ان کا اندیشہ رفع نہ ہوا- تحصیل دار قد میں مجھ سے چھوٹے اور بڑے شریف الطبع انسان تھے- میں نے ان کو اپنی بغل میں دبا لیا اور اسی طرح بغل میں لئے مسجد سے باہر نکلا- لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ہوا ہو گئے تھے- کسی کا پتہ و نشان نہ تھا- جوں جوں ہم دونوں شہر کے قریب آتے جاتے تھے- تحصیل دار کا چہرہ بشاش ہوتا جاتا تھا- جب ہم دروازہ میں آئے تو انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا اور جب چوک میں پہنچے تو بالکل سنبھل گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ ارشاد کریں تو میں تحصیل کو چلا جائوں- میں نے کہا ہاں جائو- ان کی شرافت کا یہ حال ہے کہ آخری دم تک انہوں نے اور ان کے بیٹے ڈاکٹر فتح چند نے میری ہمیشہ سچی تعظیم کی اور کبھی بھی اس امر کا اظہار نہ کیا- وکفی اللٰہ المومنین القتال-
‏Mr.7
بھیرہ
واپسی میں میں دہلی اترا اور میرے ایک پرانے رفیق نے مجھ سے بیان کیا کہ تمہارے طبیب استاد یہاں دہلی میں ہیں- میں اس کو ساتھ لے کر حضرت استاد کی خدمت میں پہنچا-مجھے فرمایا کہ تم حرمین سے کیا کیا لائے- میں نے بعض لطیف کتابوں کا ذکر کیا جو میں وہاں سے لایا تھا- تو آپ نے فرمایا وہ سب مجھے دے دو- میں نے انشراح صدر سے کہا کہ وہ تو آپ ہی کی چیز ہے- لیکن میں نے صندوقوں کو لاہور بھیج دیا ہے- کیونکہ ریل وہاں تک ہے- میں لاہور پہنچ کر وہ صندوق آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا- آپ نے سن کر فرمایا کہ ہم بھی لاہور دیکھنا چاہتے ہیں- آج ہی چلیں- میں بڑی خوشی سے حاضر ہوا اور آپ لاہور تشریف لائے- بہت سے مقامات کی سیر میں میں آپ کے ساتھ ہی تھا- باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ وہ صندوق ریل سے منگوائو- میں جب ریل کو جانے لگا تو فرمایا کہ ہم ہی منگوا لیں گے- چنانچہ اپنے نوکر کو بھیج کر وہ صندوق )جن کا محصول میں نے ابھی ادا نہیں کیا تھا( اپنی گرہ سے محصول دے کر منگوا لئے- پھر مجھ سے کہا کہ یہ ہم نے صرف اس لئے کیا کہ کچھ ہمارا حصہ بھی ان میں شامل ہو جائے- مطلب یہ کہ بمبئی سے لاہور تک کا کرایہ ان صندوقوں کا انہوں نے دے دیا- اصل رحمت الٰہی کا ذکر کرنا مجھے مقصود ہے کہ اس وقت میری جیب میں اتنے روپے ہی نہ تھے کہ میں ان صندوقوں کا محصول دیتا- بہرحال میں آپ کو رخصت کر کے شہر لاہور میں داخل ہوا تو ایک میرے وطن کا ہندو جس کے پاس باربرداری کے سامان تھے- اس نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کا اسباب بھیرہ لئے چلتا ہوں آپ مجھے روپیہ بھیرہ میں دے دیں- اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے مع اسباب کے بھیرہ پہنچا دیا-
وہاں میرے ملنے کو شہر کے بہت سے ہندو مسلمان جمع ہوئے تو اسی جلسہ میں ایک مولوی صاحب نے یہ ذکر بھی کیا کہ بخاری ایک کتاب ہزار سال سے گمنامی کے کونے میں پڑی ہوئی تھی- دلی کے ایک شخص نے جس کا نام اسماعیل تھا اس کتاب کو شائع کیا- یہ خطرناک کلمہ ایسا تھا جس سے میرے کان آشنا نہ تھے اور میں نے اس قسم کا کلمہ کسی خارجی یا شیعہ سے بھی نہیں سنا تھا چہ جائیکہ ایک حنفی مذہب کے ممتاز عالم کے منہ سے نکلا- مجھے تعجب ہوا پھر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہوا- وہ پہلا ہی دن تھا کہ میں اپنے وطن میں پہنچا تھا- بہت کچھ نشیب و فراز دل میں پیدا ہوئے- آخر میں نے اتنی بات سے تو رکنا مناسب نہ سمجھا کہ میں نے کہا کہ اول تو میں ابھی طالب|علمی سےآیا ہوں‘ نہ میرا مطالعہ نہ میری وسعت نظر- نہ مجھے تجربہ- لیکن بخاری کی ساٹھ شروح کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں- اگر ایک شرح کو سولہ برس کے قریب قریب ختم کر لیا جائے جو کچھ زیادہ مدت نہیں معلوم ہوتی- تو اس ہزار برس میں ہر روز بخاری کی شرح لکھی گئی ہے اور یہ شروح شافعی مذہب کی بھی ہیں- حنفیوں کی بھی- مالکیوں اور حنابلہ کی بھی- میں نے خود بخاری کو ایک بڑے حنفی المذہب مولوی عبدالقیوم صاحب سے بھوپال میں پڑھا ہے- پھر شاہ عبدالغنی صاحب سے بھی- ان دونوں کی صحبت میں میں نے کبھی ایسے لفظ نہیں سنے- یہ میرا فقرہ اس مولوی صاحب کے قلب پر بجلی کا کام کر گیا-
پھر ایک دن میں اپنی مسجد میں مشکٰوۃ پڑھا رہا تھا- اس میں یہ حدیث آئی کہ جو کوئی اذان کی آواز سنے وہ اذان کے کلمات کہے اور بعد اس کےnsk] g[ta اللٰھم رب ھٰذہ الدعوۃ التامۃ۔ ۔ ۔ ۔ الخ آخر تک دعا پڑھے حلت لہ شفاعتی- اس حدیث کے بیان کو ایک شخص عبدالعزیز نام پشاوری جس کو عزیز بھی کہتے تھے سن کر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ یہ دعا لکھ دیں- اس وقت میرے پاس اتفاق سے انگریزی لکھنے کا لوہے کا قلم تھا جو بہت ہی باریک تھا اسی سے میں نے وہ دعا لکھ دی- وہ چونکہ ضعیف|العمر اور نظر کا کمزور تھا- اس کے پڑھنے کی کوشش کی مگر اس کی کم|نظری نے روک دیا- وہ پرچہ لے کر ایک مشہور کاتب محمد دین کے پاس پہنچا کہ یہ دعا آپ بہت موٹے حروف میں خوش قلم لکھ دیں- کاتب صاحب نے تو آگا پیچھا ہی نہ دیکھا کہ یہ دعا تو شفاعت کے لئے ہے وہ اس کاغذ کو لے کر بخاری کے دشمن مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ اس شخص کے قلم سے وارزقنا شفاعتہ کا لفظ بالارادہ چھوٹ گیا ہے- مولوی صاحب کے اس پہلے غضب پر یہ میرا لکھا ہوا کاغذ اور بھی خطرناک کام کر گیا اور اب وہ میرے مقابلہ کے لئے بالکل تیار ہو گئے- وہ ابھی کچھ منصوبوں ہی میں تھے کہ ایک روز صبح کے وقت ایک سید صاحب اور ان کے ساتھ ایک متولی صاحب دونوں میرے پاس آئے- اور شاہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے سسرال میں ایک جماعت ہے جو نمازوں میں رکوع اور قومہ میں رفع یدین کرتے ہیں- آپ کا فتویٰ ان لوگوں کی نسبت کیا ہے کہ ان سے کیا معاملہ کیا جائے- کیونکہ وہاں جھگڑے میں آپ کو منصف مقرر کیا گیا ہے- میں نے اس وقت کمزوری سے کام لیا اور ان سے کہا کہ پہلے پتہ لگایا جائے اور ان رفع یدین کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی- اور سنیوں میں وہ شافعی ہیں یا حنبلی- اگر اس قسم کے لوگ ہوں تو ان کے مذہب میں رفع یدین ثابت ہے- ہاں اگر وہ حنفی مذہب کے مقلد ہیں تو پھر ان کے متعلق ان کے مناسب فتویٰ دیا جا سکتا ہے- سید نے اس فتویٰ کو بہت پسند کیا اور دونوں واپس چلے گئے- قدرت ہی کے تماشے ہیں- جب وہ دونوں صاحب مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے تو وہ مولوی صاحب جو بخاری پر ناراض اور دعائے شفاعت پر گھبرائے ہوئے تھے پاس سے گزرے اور انہوں نے شاہ صاحب سے پوچھا- آپ یہاں کس طرح آئے تھے- شاہ صاحب نے کہا- میں نے ایک سوال کیا تھا مگر بہت ہی معقول جواب دیا ہے- شاہ صاحب سے سن کر مولوی صاحب نے ان کو بتاکید فرمایا کہ میں یہاں کھڑا ہوں- آپ اس سے یہ اور دریافت کر آئیں کہ آپ کے نزدیک رفع یدین کا کیا حکم ہے- وہ شاہ صاحب جب واپس تشریف لائے اور میں نے ان کو دیکھا تو اپنی کمزوری پر بہت ہی افسوس کیا- خیر انہوں نے جیسا ان کو مولوی صاحب نے سمجھایا تھا اسی طرح کھڑے کھڑے ہی مجھ سے دریافت کیا- میں تو پہلے ہی اپنی حالت پر افسوس کر رہا تھا- میں نے ان سے کہا کہ میرے نزدیک رفع یدین کرنا جائز ہے- اس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا ایسا خیال ہے تو آپ کا اس ملک میں یا کم سے کم اس شہر میں رہنا محال ہو گا- میں نے ان کو جیسا کہ میں تیار ہو ہی چکا تھا‘ کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں ان میں بندوں کا کوئی دخل نہیں- پہلے دن کی گفتگو- وہ دعا- شاہ صاحب کا یہ سوال ان تینوں چیزوں نے مل کر اپنا ایک عجیب کیمیاوی اثر دکھلایا-
ایک دن صبح کو میں اپنے مکان سے اترا تو حکیم فضل دین صاحب جو میرے بڑے مخلص اور محسن اور پیارے اور دل سے فرمانبردار دوست تھے رحمھم اللہ- کچھ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ اذان کی دعا کس طرح ہے؟ وہ سوال میں بہت ہی ادب کیا کرتے تھے- میں نے ان کو حسب معمول دعا سنا دی- انہوں نے کہا یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا آپ کیوں گھبراتے ہیں- کبیری شرح منیہ اور لمعات شرح مشکوۃ شیخ عبدالحق محدث دہلوی میں ایسا ہی ہو گا- میرے مکان کے نیچے بہت سے مسلمان بیمار بھی ہوا کرتے تھے- لیکن اس دن خلاف معمول کوئی آدمی نہ تھا- اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا- جس کی حالت پر اب مجھ کو رحم آتا ہے اور بہت ہی رحم آتا ہے- اس کا نام غلام محمد تھا- قوم جلاہا مگر بہت جوشیلا آدمی تھا- رحم کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کی اولاد میں ایک لڑکا میں نے دیکھا ہے جو بڑا جوشیلا شیعہ ہے اور رفع یدین کو تو وہ قریباً فرض ہی سمجھتا ہے- یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں- اس نے آ کر کہا کہ حضرت پیر صاحب کی بی|بی بہت سخت بیمار ہیں- آپ وہاں چل کر ان کو دیکھ لیں- میں ان پیر صاحب کی بڑی عزت کرتا تھا- اس واسطے بلاتکلف اس کے ساتھ ہو لیا- وہ بڑی تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا چلا- میں نے بہت سی مخلوق راستہ میں دیکھی جو بے|ساختہ پیر صاحب کے مکان کی طرف جا رہے تھے- جب میں ان کے دروازہ کے قریب پہنچا تو وہاں بڑا ازدحام خلقت کا مجھے نظر آیا- لیکن ان کے زنان خانہ کی طرف نہ کوئی مرد جاتا ہوا دیکھا نہ کوئی عورت- میاں غلام محمد صاحب کو دیکھا تو وہ بھی وہاں غائب ہو گئے- اس وقت معلوم ہوا کہ فریب سے مجھ کو کسی دوسری غرض کے لئے بلایا گیا ہے- لیکن اس وقت وہاں سے کوئی واپس جانے کی صورت نظر نہ آئی تو ناچار میں بھی مردانہ کی طرف خود بخود چلا گیا- وہاں پیر صاحب ایک بڑی چارپائی پر گائو تکیہ لگائے اور اپنے دونوں پائوں کو چارپائی کے دونوں طرف رکھے ہوئے چت تھے- اور ایک عالم جو اس شہر سے باہر کے تھے اور میں اس دم تک ان کے علم اور تقدس اور نیکی کا بڑا معتقد تھا ان کو دیکھا کہ ان ان|پڑھ پیر صاحب کے پائوں پر ماتھا رکھے ہوئے اور ہاتھ سے ان کا پیر دبائے ہوئے بیٹھے ہیں- میں دیکھ کر بے|تاب ہو گیا- میں نے کراہت سے ان کو دیکھ کر پیر صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آپ کی بیوی بیمار ہے- آپ کا آدمی گیا تھا- چلئے اس کو دیکھ لوں- انہوں نے کہا کہ ایک مسئلہ ضروری ہے- پہلے اس کی نسبت آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے- میں نے کہا- آپ تو پیر ہیں- آپ کو مسائل سے کیا غرض پڑی ہے- آج کل تو پیر مسائل سے قطعاً سبکدوش ہیں- ابھی میں کھڑا ہی تھا کہ انہوں نے دوبارہ اصرار کیا مگر وہ ایسے ذہین اور فہیم تھے کہ فوراً تاڑ گئے کہ یہ زمین پر تو بیٹھے گا نہیں- چارپائی پر ہی بیٹھے گا- یہ ان کی فراست نہایت صحیح تھی- جلد تاڑ کر کہا کہ اوہو! علماء تو سب نیچے بیٹھے ہیں اور یہ رسول کے جانشین ہیں- ہمارے نوکروں نے بڑی غلطی کی کہ ہمارے لئے چارپائی بچھائی- اپنے نوکروں سے کہا کہ جلد چارپائی اٹھائو- چارپائی کے اٹھنے سے جگہ بھی فراخ ہو گئی- پیر صاحب بھی نیچے ہی بیٹھ گئے- میں نے کہا کیا مسئلہ ہے؟ کام سب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتے ہیں- اصل محرک مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور اس میں ایک جگہ انہوں نے اپنی انگلی رکھ چھوڑی تھی- میں سمجھا کہ کوئی ایسا مسئلہ ہو گا جس کا اس کتاب میں ذکر ہے- میں نے خدا تعالیٰ کے کامل رحم اور بندہ|نوازی سے اس کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ بھائی صاحب یہ کیا کتاب ہے- تو مولوی صاحب نے بڑے غضب سے کہا کہ آپ میرے بھائی نہیں ہیں- حالانکہ میں رشتہ میں ان کو بھائی سمجھتا تھا- میں نے کہا- یہ تو کوئی ناراض ہونے کی بات نہیں اگر اخوت اسلامی کے سبب آپ بھائی ہونا نہیں مانتے تو ہمارے یہاں سکھوں کو بھی بھائی کہتے ہیں- تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے کتاب چھوڑ دی اور کہا کہ اچھا ان معنوں میں آپ لے لیں- جہاں ان کی انگلی رکھی ہوئی تھی میرے ہاتھ میں آ کر وہ مقام تو مل گیا- میں اپنے مولا کی کس مہربانی کا ذکر کروں- وہ کتاب دلائل الخیرات مطبع کانپور کی تھی- میں نے ہاتھ میں لے کر جب اس کو کھولا تو اس کے ساتویں صفحہ پر میری نظر پڑی اور اس میں اذان کی دعا وہی لکھی تھی جو میرے ہاتھ سے لکھی گئی تھی- اب میں خوشی سے اس قدر جوش میں آ گیا کہ میں بیٹھ نہیں سکا اور میرے دل میں یہ بات جوش|زن ہو گئی کہ بہرحال یہ عالم آدمی ہے اور بڑا ہوشیار ہے- اس نے ضرور اچھی طرح دیکھ بھال لیا ہو گا- لیکن اب تو وہ لفظ دلائل الخیرات میں موجود نہیں- ہو نہ ہو یہ وارزقنا کا لفظ خدا تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے- میں نے کھڑے ہو کر بڑی بلند آواز سے کہا کہ تم نے بنی اسرائیل میں ایک لڑکے کا قصہ سنا ہوگا کہ وہ توریت پڑھتا تھا اور جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا تھا تو کاٹ دیتا تھا- اور پھر خود بخود قدرت خدا سے اس میں نام لکھا جاتا تھا- سب نے کہا کہ ہاں- ہم نے یہ قصہ سنا ہے- میں نے کہا وہاں تو کاٹا ہوا پھر لکھا جاتا تھا اور یہاں خدا تعالیٰ نے لکھا ہوا کاٹ دیا- اس دلائل الخیرات کو دیکھو- اس میں وارزقنا کا لفظ کٹ گیا ہے- وہ لوگ تو پہلے ہی دلائل الخیرات میں اس دعا کو دیکھ چکے تھے کہ وارزقنا کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے- سب اٹھ اٹھ کر اور جھک جھک کر دیکھنے لگے- اور اس بات سے غافل )کہ پہلے انہوں نے کونسے صفحہ پر یہ دعا دیکھی تھی اور اب یہ ساتواں صفحہ تھا( حیران و ششدر رہ گئے- میری تیز زبانی اور طاقت اور بھی بڑھ گئی- پیر صاحب فوراً سمجھ گئے اور انہوں نے پہلو بدل کر کہا کہ یہ مولویوں کی بحث ہے- ہم اس کو نہیں جانتے- مسئلہ دراصل وہ جو ہم دریافت کریں- تم یہ بتائو کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للٰہ پڑھنا جائز ہے یا ناجائز؟ میں اپنے مولا کی حمد کس طرح بیان کروں اور میری کیا ہستی ہے کہ اس کے فضل و کرم اور تصرفات پر قربان ہو جائوں- میں نے ان سے کہا کہ پیر صاحب آپ تو یا شیخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ الخ کے وظیفہ کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں- پہلے اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھو کہ وہ جناب شیخ کو قطعی جنتی بھی مانتے ہیں یا نہیں؟ پیر صاحب نے کہا- ہاں یہ انصاف کی بات ہے- وہاں بہت سے مولوی موجود تھے- سب نے متفق ہو کر کہا کہ سوائے عشرہ مبشرہ کے ہم کسی کو قطعی جنتی نہیں جانتے- میں نے پیر صاحب کو کہا کہ یہ تو آپ کے باپ کو )وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے( جنتی بھی نہیں مانتے- شیئاً للٰہ کا وظیفہ کیا- انہوں نے بہت گھبرا کر اور بڑی حیرت کے لہجہ میں کہا- >ارے او مولویو یہ کیا کام کرتے ہو-< غرض وہ سحر تو باطل ہو گیا- اب پیر صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے- مجھ سے کہنے لگے آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں- اپنا خیال بتائیں- میں نے کہا بخاری شریف میں لکھا ہے کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ قطعی بہشتی ہیں- یعنی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور نبی کریمﷺ~ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اور اچھے لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا وجبت جب اس کے معنی پوچھے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جس کی اچھے لوگ تعریف کرتے ہیں تو وہ جنتی ہوتا ہے چونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی نسبت جہاں تک میرا خیال ہے ہزارہا بزرگوں نے تعریف فرمائی ہے- لہذا اس حدیث کی رو سے میں ان کو یقینی جنتی سمجھتا ہوں- مولویوں میں سے اس وقت کسی نے مجھ پر جرح نہیں کی- پیر صاحب اس وقت ہمارے قابو میں آ گئے- اصل وظیفہ کے متعلق پوچھنا تو رہ ہی گیا- بات کچھ اور کی اور ہی ہو گئی- تب میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے- میں اصل حقیقت کو سمجھ گیا ہوں- اب آپ اپنے گھر چلے جائیں- خیر خدا تعالیٰ کے فضل و نعمت کا شکر ادا کرتا ہوا بآرام اپنے گھر پہنچ گیا اور وہ جادو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے باطل ہو گیا-
ایک دفعہ وہاں کے علماء مباحثہ کے لئے جمع ہوئے- وہاں کی جامع مسجد کو‘ جو شیر شاہ کی بنوائی ہوئی ہے‘ اکھاڑہ بنایا- کئی قسم کی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تم جو اولیاء کا پکارنا شرک کہتے ہو‘ اگر علماء میں سے کسی نے ایسا لکھا ہو تو بلا گفتگو اس امر کو مان لیں گے- بہت سے علماء تھے جن سے یہ اقرار پختہ کرایا- دوسرے دن میں تفسیر عزیزی کو لے گیا اور اس میں سے وتبتل الیہ تبتیلاً کا موقع ان کو دکھایا گیا جہاں شاہ عبدالعزیز صاحب تحریر فرماتے ہیں- >و بعضے پیر پرستان از زمرہ مسلمین در حق پیر ان خود امر اول را ثابت می کنند و در وقت احتیاج بہمیں اعتقاد بانہا استعانت می نمایند ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ< اس کے لطیف جوابوں میں ایک شخص نے جو بڑے پیر بنے ہوئے تھے اور عالم بھی مشہور تھے- میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ آپ گھبرا کر کیوں بات کرتے ہیں- یہاں کیا کوئی تمہارا دشمن ہے؟ مجھ کو ان کی اس بات پر بہت ہی حیرت و افسوس ہوا- مگر دوسرے مولوی نے کہا کہ یہ لفظ پیران )ببائے فارسی( نہیں بلکہ بیران )ببائے موحدہ( ہے اور بیر ہنومان کو کہتے ہیں- پھر آپس میں کچھ اشارے کر کے سب کھڑے ہو گئے- معلوم ہوا کہ کوئی خاص منصوبہ میرے متعلق انہوں نے تجویز کیا تھا اور اسی لئے انہوں نے ایسی بھی کوشش کی تھی کہ وہاں میرے دوستوں میں سے ایک شخص بھی موجود نہ تھا- میں اس وقت اپنے دل میں یہ دعا مانگ رہا تھا عذت بربی و ربکم ان ترجمون- اس مسجد جامع میں ایک منبر تھا- ایک مولوی اس پر جا کھڑا ہوا- ایک دنیادار آدمی جس کو میرے خسر سے محبت تھی- اس عظیم الشان ازدحام اور کہرام میں میرے پاس سے یہ کہتا ہوا گزر گیا کہ- >اگر یہ وقت ٹل جائے تو پھر ہم
انتظام کر سکتے ہیں< جب مولوی کھڑا ہوا تو مجھ کو یقین ہو گیا کہ اب یہ کسی قسم کا فتویٰ دے گا اور اس فتویٰ کی حقیقت مجھ کو معلوم نہ تھی- میرے داہنی طرف شہر کے تحصیلدار کھڑے تھے- ان کا نام رام داس تھا اور ان کے داہنے ہاتھ پر تھانہ دار تھے جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا اور تھانہ دار کے داہنے اور پیچھے بہت سے سپاہی تھے- باقی ہزارہا مخلوق ان کے پیچھے تھی- اس تھانہ دار کا نقار تو صحیح تھا کیونکہ مولوی ہمارے مخالف تھے- لیکن مجھ کو بڑا تعجب ہوا جبکہ تحصیل|دار نے بھی مجھے دھمکی دی اور کہا کہ آپ کی نسبت جو یہ شخص فتویٰ دینے لگا ہے اس میں یہ شخص مختار ہے- اس وقت محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں آیا کہ جیسا میرے خسر کے دوست نے کہا ہے وقت ٹل جائے تو اس ٹلنے کی تدبیر کرنی چاہیے- چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ سے تائید پا کر اپنی پوری طاقت سے تحصیل دار کی رگ گردن کو جو شہ|رگ کہلاتی ہے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اس طرح دبایا کہ تحصیل دار صاحب کی چیخ نکل گئی اور وہ بے|ہوش ہو کر گر پڑے- تھانہ|دار کو جب یہ معلوم ہوا کہ تحصیل|دار مارا جا چکا تو اس کو خیال آیا کہ ہم تھانہ سے باقاعدہ روزنامچہ میں روانگی درج کر کے نہیں آئے- ہم کو تھانہ سے باقاعدہ آنا چاہیے- چنانچہ تحصیل|دار کے بے|ہوش ہو کر گرتے ہی تھانہ|دار مع تمام سپاہیوں کے وہاں سے بھاگ گیا- اس کے جاتے ہی یکلخت تمام مسجد خالی ہو گئی- حتیٰ کہ ان منبر پر چڑھنے والے مولوی صاحب کا بھی کوئی پتہ و نشان نہ تھا- تحصیل|دار رام|داس کو جب ہوش آیا تو ان کا چہرہ زرد اور منہ فق تھا اور اس تمام مسجد میں سوائے میرے اور ان کے کوئی تیسرا آدمی نہ تھا- تحصیل|دار نے بڑی لجاجت اور خوف|زدہ آواز سے کہا کہ مہاراج! میں آپ کا
مخالف نہیں ہوں- معلوم ہوتا تھا کہ ان کو اندیشہ ہے کہ یہ مذہب کے جوش میں مجھ کو قتل نہ کر ڈالے- میں نے ان کو محبت سے اٹھایا اور گلے لگا لیا لیکن ان کا اندیشہ رفع نہ ہوا- تحصیل|دار قد میں مجھ سے چھوٹے اور بڑے شریف الطبع انسان تھے- میں نے ان کو اپنی بغل میں دبا لیا اور اسی طرح بغل میں لئے مسجد سے باہر نکلا- لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ہوا ہو گئے تھے- کسی کا پتہ و نشان نہ تھا- جوں جوں ہم دونوں شہر کے قریب آتے جاتے تھے- تحصیل|دار کا چہرہ بشاش ہوتا جاتا تھا- جب ہم دروازہ میں آئے تو انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا اور جب چوک میں پہنچے تو بالکل سنبھل گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ ارشاد کریں تو میں تحصیل کو چلا جائوں- میں نے کہا ہاں جائو- ان کی شرافت کا یہ حال ہے کہ آخری دم تک انہوں نے اور ان کے بیٹے ڈاکٹر فتح چند نے میری ہمیشہ سچی تعظیم کی اور کبھی بھی اس امر کا اظہار نہ کیا- وکفی اللٰہ المومنین القتال-
عجائبات مباحثہ میں ایک مباحثہ میں نے اپنے ملک میں یہ دیکھا کہ میں ایک گائوں میں مباحثہ کے لئے بلایا گیا- مقام مباحثہ میں جب میں پہنچا تو ایک بڑا میدان دیکھا کہ اس میں بہت سی چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں اور چارپائیوں پر ایک ایک کتاب علیحدہ علیحدہ کرکے برابر برابر پھیلی ہوئی ہیں- میں نے بھی ان میں سے بعض کو دور سے رکھے ہوئے دیکھا- کتابیں اس قدر فراہم کی گئی تھیں کہ انہوں نے وہ وسیع میدان پر کر دیا تھا- میں نے مہتمم مباحثہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ تمام کتابیں رفع یدین والی حدیث کی تردید میں ہیں- مجھ کو بہت تعجب ہوا کہ اس حدیث کی تردید تو چند محدثین اور چند فقہا کے اقوال سے بھی یہ لوگ کر سکتے تھے- اس قدر وسیع کتب خانہ‘ پھر کتابوں کو ایک ایک کرکے پھیلا کر رکھنے سے کیا فائدہ؟ میں اول اس کمرہ میں گیا جہاں مباحثہ تجویز ہوا تھا- میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ یہ کتابوں کا کیا کارخانہ ہے- پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک سہل بات ڈالی اور اسکی محرک معمولات مظہری نام ایک کتاب ہو گئی جو اس وقت میرے کوٹ اور کرتہ کے درمیان رکھی تھی- میں نے کھڑے ہی کھڑے مولوی صاحب سے پوچھا کہ اگر معمولات مظہری میں جو آپ کے پیروں کے پیر کے ملفوظات ہیں‘ کوئی اس قسم کا فیصلہ نکل آئے جو فرض کرو ان کتابوں کے خلاف ہے تو کیا آپ اپنے پیر کو چھوڑ دیں گے؟ باعث مباحثہ بھی کھڑا ہی تھا- میں بھی کھڑا تھا اور وہ بزرگ بیٹھے تھے- انہوں نے فرمایا کہ وہ ہمارا طریقت کا پیر ہے‘ شریعت کا پیر نہیں- میں نے کہا کیا وہ شرعی امور کے مخالف ہو کر بھی آپ کی طریقت کے پیر رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا- ہاں- باعث مباحثہ جو ایک بڑا ہوشیار دنیا دار آدمی تھا- وہ تاڑ گیا اور اس نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ میں تو حقیقت کو پہنچ گیا- یہ لوگ تو آپ سے کچھ بھی مباحثہ نہیں کرسکتے- مجھ کو تو کسی کاوش کی ضرورت نہ تھی- میں وہاں سے گھوڑے پر سوار ہو کر اس ارادہ سے کہ اپنے گھر چلا جائوں‘ اس گائوں سے باہر نکلا- لیکن ایک آدمی نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچا اور اس نے آتے ہی میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ یہ ڈھول کی آواز نہیں سنتے؟ میں نے کہا کہ میں تو ڈھول کی آواز پہچانتا نہیں- اس نے کہا کہ یہ فلاں دنیا دار نے اس خوشی کا ڈھول بجوایا ہے کہ آپ ہار گئے ہیں- مجھ کو بڑا تعجب ہوا اور میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا کر اپنے آپ کو پھر اسی مقام پر پہنچایا- اب اس دنیا دار کو بھی ہوش آیا- میں نے اس سے کہا کہ تم نے مجھ سے تو کہا تھا کہ حقیقت معلوم ہوگئی‘ یہ لوگ مباحثہ نہیں کر سکتے اور اب سنا کہ یہ فتح کا ڈھول بجوایا ہے- یہ سن کر اس نے ڈھول بجانے والے کو بڑی فحش گالی دے کر نیچے اتارا- میں نے اس دنیا دار کو دھمکی دی کہ اگر اس طرح آدمی فتح یاب ہو سکتا ہے تو تمہارے مخالف تم کو جان سے مار ڈالنے پر تیار ہو سکتے ہیں- تم نے سوچا سمجھا نہیں اور غور سے کام نہیں لیا- تحریری اور تقریری مباحثہ کرالو اور ان شرارتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو- پھر وہاں سے میں ایک بڑے پرامن مکان میں چلا گیا- تھوڑے سے تحریری مناظرہ کے بعد کتابوں والے مولوی صاحب نے مناظرہ کو روک دیا- میں ان کو جانتا تھا کہ وہ مناظروں سے دور رہنے والے آدمی تھے- میں ان کو بہت شریف الطبع اور نیک طبیعت خیال کرتا تھا- لیکن ان کے اس لفظ پر مجھ کو اس وقت تک تعجب ہے کہ انہوں نے میرے سامنے یہ کہا کہ اس ملک میں کوئی مذہبی مباحثہ کبھی نہیں ہوتا تھا- اس گائوں کے مولوی نے تفرقہ ڈال دیا ہے اور جو مفرق الجماعت ہوتے ہیں وہ ملعون ہوتے ہیں- علیہ *** اللہ والملائکہ والناس اجمعین- اس لفظ سے میں کانپ گیا اور معلوم ہوا کہ شریف الطبع انسان بھی جوش میں آکر حد سے نکل جاتا ہے-
ایک مسجد میں یہ عجیب بات دیکھی کہ ایک بزرگ میری بہت مذمت کر رہے تھے اور میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا- انہوں نے مجھ کو دیکھا نہ تھا اور بڑے جوش سے اپنے کام میں مصروف تھے- میں جانتا تھا کہ دنیا میں یہ ہماری بھی کچھ لحاظ داری کرتے ہیں- میں نے آہستگی سے کسی اور شخص سے ایک بات کی اور خیال کیا کہ یہ بھی میری آواز سن لیں گے- چنانچہ وہ فوراً میری آواز سن کر چونک پڑے اور میری طرف منہ کر کے فرمانے لگے کہ >آپ بیٹھے ہیں؟< اور اس کے بعد ان پر ایک سکتہ کا عالم طاری ہو گیا‘ جس سے مجھ کو افسوس ہوا کہ کس قسم کی یہ مخلوقات ہے-
ایک واقعہ اسی کے قریب یہ ہوا کہ ہمارے شہر میں ایک بہت بڑے پیر ولایت تھے- بہت کچھ سمجھا کر ان سے لوگوں نے یہ اقرار لے لیا کہ اس قدر مدد دیں گے کہ نورالدین کو شہر سے نکال دیں- جب پیر صاحب آرے بلے کہہ چکے‘ مجھ کو بھی یہ خبر پہنچی- میں دوپہر کے وقت پیر صاحب کے پاس پہنچا اور وہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت پیر صاحب اکثر تنہا ہی ہوتے تھے- میں نے کہا کہ ایک عرض کرنے آیا ہوں جو بہت ہی مختصر ہے- یہ باغ جو آپ کے گھر کے پاس ہے اس باغ کی نسبت ایک سوال ہے کہ >آپ تو حجرہ شاہ مقیم کے رہنے والے ہیں اور وہ یہاں سے بہت دور ہے- یہ باغ آپ کو اس شہر میں کس طرح مل گیا؟ بس میرا اتنا ہی سوال ہے< پیر صاحب نے فرمایا کہ آپ کے دادا نے ہمارے دادا کو دیا تھا- میں نے کہا کہ بہرحال آپ کو ہمارے خاندان سے کچھ نفع پہنچا ہے- یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ میں اور آپ کا بڑا بھائی لاہور میں ایک جگہ رہتے تھے اور ہمارے باہم بہت کچھ رسم آمدورفت تھی- میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے اس شہر سے نکالنے میں شریک ہیں- خیر یہ تو احسان کا بدلہ ہی ہو گا مگر اتنا آپ یاد رکھیں کہ جو لوگ میرے مرید اور معتقد ہیں وہ تو کم سے کم آپ کو کبھی سلام نہ کریں گے- یہ کہہ کر میں چلا آیا اور جلد وہاں سے واپس ہو گیا- دن کے آخر حصہ میں جب علماء اکٹھے ہو کر ان کے پاس گئے اور میرے اخراج کا فتویٰ پیش کیا تو پیر صاحب نے ہنس کر یہ فرمایا کہ فقر کا دروازہ بڑا ہی اونچا ہے- ہندو‘ سکھ‘ مسلمان‘ عیسائی‘ وہابی سب فقر کے سلامی ہیں- تب ان علماء نے عرض کیا کہ آپ نے کل فرمایا تھا کہ میں کل تدبیر بتادوں گا اور ہم سے خوب پکی بات آپ کی اس کام کے متعلق ہو چکی تھی- پیر صاحب نے کہا کہ ہاں آپ رسولﷺ~ کی گدی کے مالک ہیں اور اس لئے آپ کی رعایت کرنی ضروری ہے- لیکن فقر کا دروازہ بہت اونچا ہے اور فقر کے سب سلامی ہیں- مولویوں نے بڑا ہی زور دیا- مگر سلام کے لفظ کو پیر صاحب چھوڑ نہ سکے- پھر ان کا آدمی میرے پاس پہنچا کہ پیر صاحب آپ کے مکان کے قریب سے گزریں گے- جب وہ قریب آئیں تو آپ باہر نکل کر ان سے ملیں- میں نے خیال رکھا- جب مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ قریب ہیں- میں مکان سے نکل کر ان سے ملا- وہ ایک گھوڑی پر سوار تھے- مگر کوئی آدمی ان کے آگے پیچھے نہ تھا- حالانکہ وہ بڑے ذی وجاہت آدمی تھے- مجھ سے کہنے لگے کہ >جوان میں نے وہ کام کر دیا ہے- یار! اب اپنے مریدوں سے کہہ دینا کہ وہ ہم کو سلام کر لیا کریں< میں نے کہا کہجب میں نے خود آپ کو سلام کیا ہے تو میرے مرید بھلا کیوں نہ کریں گے-
بھیرہ میں میں نے ایک طبیب سے مشورہ کیا کہ میں یہاں طب کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ تم یہاں کامیاب نہیں ہو سکتے- کیونکہ میں مانگ لینے والا آدمی ہوں- پھر بھی مجھے اس شہر میں پانچ روپیہ سے زیادہ آمدنی نہیں اور تم تو مانگو گے نہیں اور تمہاری حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوا کا مفت دینا تمہاری عادت میں داخل ہوگا- ان سے میں کسی تقریب میں یہ بات بھی کہہ چکا تھا کہ معاجین‘ شربت اور فصد کا طریق مجھے لمبا نظر آتا ہے- انہوں نے کہا یہاں عطار اور جراح مخالفت کریں گے- علماء کی مخالفت اس کے علاوہ ہے- میں نے توکلاً علی اللٰہ اپنے ایک طالب علم سے کہا کہ یہ سرمہ بنائو- جست بیس ماشہ‘ سرمہ سیاہ بیس ماشہ‘ زنگار تین ماشہ‘ سفیدہ کاشغری چار ماشہ‘ افیون تین ماشہ‘ سمندر جھاگ چار ماشہ اور اسی طرح کا ایک اور سرمہ جس میں افیون نہ ہو- میں نے عصر کے بعد وضو کرتے وقت ایک شخص کی آنکھ کو غور سے دیکھ کر پہلی قسم کا سرمہ لگا دیا- اس کی دیکھا دیکھی ایک اور نے درخواست کی اس کے بھی لگا دیا- یہ ہمارا پہلا اشتہار تھا- صبح بہت سے لوگ آئے اور سرمہ ہی طلب کیا- ہمارے شہر میں رطوبت کے زیادہ ہونے سے یہ بیماری بکثرت تھی- بعض کو نزلی اور بعض کو معدی آشوب تھا اور بعض کو طبقات العین میں- اس لئے اطریفل کشنیزی جس میں گل اسطوخودوس پڑتا ہے اس کی ہدایت کی- بعض کے کان کے پیچھے یا ہڈی یا گردن پر پلاسٹر لگا دیا- خدا تعالیٰ ہی کے عجائبات ہیں کہ اس تدبیر نے بڑی کامیابی کا منہ دکھلایا-
‏Mr.7a
عجیب سفر
بھیرہ میں جب میں علاج کرتا تھا تو ایک ایسے مکان میں بیٹھتا تھا جو ایک طبیب کے لئے نہایت ہی مناسب تھا اور اس میں بیٹھ کر عورت اور مرد‘ دونوں کے حالات بے تکلف سن سکتا تھا- میں اپنے والد صاحب کے ارشاد سے بیٹھتا اور علاج کرتا تھا- مکان وہ بہت وسیع تھا- والد صاحب کی وفات کے تھوڑے دنوں بعد میرے ایک بھائی صاحب نے جن کے مجھ پر بڑے بڑے احسانات ہیں- )منجملہ ان احسانات کے یہ کہ انہوں نے مجھ کو پڑھایا‘ پرورش کیا‘ شادی کی- اور بھی بڑے بڑے احسان ہیں- اور میں ہمیشہ ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں( مجھ سے آکر فرمایا کہ یہ مکان میرے روپیہ سے لیا گیا اور میرے ہی روپیہ سے یہ درست کیا گیا- تم اس قدر لکھ دو- میں تو ان پر اپنے جان و مال سب کو قربان کرنے کے لئے تیار تھا- میں نے نہایت انشراح قلب سے ان کے حسب منشا لکھ دیا اور اپنے طالب علموں سے کہا کہ یہاں سے دوائیں اٹھا کر فلاں مسجد کے حجرہ میں رکھ دو اور اسی وقت وہ مکان خالی کر دیا- روپیہ اس وقت میرے پاس بالکل نہ تھا- میں نے سمجھا کہ یہ میرے استاد بھی ہیں- مربی بھی ہیں- ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں ذرا بھی کدورت پیدا ہو- ایک دو روز کے بعد میری والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس تحریر کا منشا یہ نہ تھا کہ تم یہاں سے چلے جائو- اس تحریر کا منشا کچھ اور ہی تھا جس کا اثر تم پر نہیں پڑ سکتا تھا- کچھ انہوں نے کسی اصل بات کی طرف اشارہ بھی کرنا چاہا مگر میں تو مکان چھوڑ ہی چکا تھا-
وہاں ایک سرکاری زمین تھی جس کو کمیٹی کی زمین کہتے تھے- میں نے اپنے ایک دوست مستری سے کہا کہ تم اس زمین پر مکان بنائو اور ایک ہندو سے کہا کہ تم روپیہ دے دو- مکان بننا شروع ہو گیا- وہاں تحصیل|دار )جن کا نام منصب|دار خاں تھا اور جو راولپنڈی کے علاقہ کے رہنے والے تھے( نے میرے پاس کہلا بھجوایا کہ اول تو کوئی مکان بلا اجازت اور بغیر نقشہ منظور کرائے بنانا جائز نہیں پھر یہ کہ سرکاری زمین میں مکان بنانا قانون کے خلاف ہے- میں بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکتا- مگر ہاں یہ بتائے دیتا ہوں کہ کمیٹی بھی اگرچہ بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکی لیکن انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کر دی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ بنا بنایا مکان گرا دیا جائے گا- میرے دوست مستری نے بھی یہی کہا- مگر چونکہ میرا دل انشراح صدر سے یہی کہتا تھا کہ مکان ضرور بنے گا- اس لئے میں نے کہا کہ تم اپنا کام کئے جائو- صاحب ڈپٹی کمشنر نے کمیٹی والوں کی رپورٹ پر کہا کہ ہم بہت جلد وہاں آنے والے ہیں- خود ہی آکر موقع کا ملاحظہ کریں گے- چنانچہ وہ آئے اور بعد ملاحظہ فرمایا کہ جس قدر مکان بن چکا ہے وہ تو ابھی رہنے دو- باقی تعمیر کا کام روک دو- میں بھی اس وقت وہاں قریب کے مکان میں موجود تھا- ڈپٹی کمشنر صاحب کے تشریف لانے کی خبر سن کر وہاں گیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب وہاں سے چلے گئے تھے اور بہت سے قدم آگے نکل گئے تھے- مجھ کو آتا دیکھ کر شائد ان کے ہمراہی لوگوں میں سے کسی نے کہا ہو گا کہ مکان بنوانے والا آگیا ہے- وہ پھر واپس آئے اور ان کو واپس ہوتے دیکھ کر میرے دل نے کہا کہ حکم لوٹ گیا- جب وہ آگئے تو مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ سرکاری زمین ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! مگر سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے- انہوں نے فرمایا کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ اگر سرکار کو اس شہر کے مقام پر فوجی میدان بنانا پڑے تو کیا شہر کے لوگ انکار کر سکتے ہیں؟ کہا- ہاں! نہیں کر سکتے- میں نے کہا بس اسی طرح ہر جگہ سرکاری ہی کہلاتی ہے- تب انہوں نے کہا کہ آپ کا مکان سرکاری زمین کے کتنے حصہ میں بن سکتا ہے- میں نے کہا ایک طرف تو سڑک ہے- دوسری طرف بھی شارع عام ہے اس کے درمیان جتنی زمین ہے اس میں مکان بن سکتا ہے- فرمایا کہ ابھی میخیں گاڑ دو- چنانچہ میخیں گاڑ دی گئیں- پھر تحصیل دار اور میونسپلٹی کے لوگوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کا مکان تو نافع عام ہوتا ہے- ہم کو کوئی اعتراض نہیں- مجھ سے فرمایا کہ اچھا آپ اپنا مکان بنائیں- جب وہ چلے گئے تو تحصیل دار نے میرے پاس آکر کہا کہ یہ تو سکھا شاہی فیصلہ ہوا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو خود بھی اختیار اس طرح سرکاری زمین دینے کا نہیں ہے- میں نے ان سے کہا کہ آپ خاموش رہیں- بہت دور جاکر ڈپٹی کمشنر پھر واپس آئے اور مجھ سے فرمایا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ بدرو ہے آپ کو اس کے سبب سے بہت تکلیف پہنچے گی- میں نے کہا- میں نے سنا ہے انگریز بہت عقل مند ہوتے ہیں- آپ ہی کوئی تدبیر بتائیں- کہا میں نے تدبیر یہ سوچی ہے کہ سرکار کی طرف سے آپ کے مکان کا پشتہ کمیٹی بنادے پھر کمیٹی والوں سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے کہا نہیں- وہ تحصیل دار مجھ سے کہنے لگا کہ یہ ایک ہزار روپیہ اور ہم پر جرمانہ ہوا- میں نے ان سے کہا کہ تم ان باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہو-
اس مکان کے بننے میں جب بارہ سو روپیہ خرچ ہو گیا تو مجھ کو خیال آیا کہ کہیں وہ ہندو اپنا روپیہ نہ مانگ بیٹھے- میں اسی خیال میں تھا کہ میرے ایک دوست ملک فتح خاں صاحب گھوڑے پر سوار میرے پاس آئے اور فرمایا کہ میں راولپنڈی جاتا ہوں کیونکہ لارڈ لٹن نے دلی میں دربار کیا ہے- بڑے بڑے رئیس تو دلی بلائے گئے ہیں اور چھوٹے رئیس راولپنڈی جمع ہوں گے اور انہی تاریخوں میں راولپنڈی میں دربار ہوگا- ہم راولپنڈی بلائے گئے ہیں- میں نے انکے کان میں چپکے سے کہا کہ مجھ کو بھی دربار میں جانا ہے- انہوں نے کہا کہ یہ گھوڑا ہے‘ آپ اس پر سوار ہو جائیں- اس وقت جس قدر میرے بیمار تھے وہ وہیں بیٹھے رہے اور میں نے گھر میں بھی اطلاع نہیں کی- اسی وقت سوار ہو کر چل دیا- فتح خاں اور ہم دونوں جب جہلم پہنچے تو وہاں ریل تھی- ملک فتح خاں مرحوم تو راولپنڈی چلے گئے- میں نے کہا- میں تو دلی جاتا ہوں- میرے کپڑے بہت میلے ہو گئے تھے اس لئے میں نے اپنے کپڑے اتار کر ملک حاکم خاں تحصیل دار جہلم کا ایک پاجامہ‘ پگڑی اور کوٹ پہن لیا‘ جس کے نیچے کرتہ نہ تھا- میں سیر کے لئے نکلا اور ٹہلتا ہوا اسٹیشن جہلم پر پہنچا- میں نے اسٹیشن پر کسی سے پوچھا کہ لاہور کا تھرڈ کلاس کا کیا کرایہ ہے؟ معلوم ہوا کہ پندرہ آنہ- اس کوٹ کی جیب میں دیکھا تو صرف پندرہ آنہ کے پیسے پڑے تھے- میں نے ٹکٹ لیا اور لاہور پہنچا- یہاں بڑی گھمسان تھی کیونکہ لوگ دربار کے سبب دہلی جارہے تھے- ٹکٹ ملنا محال تھا اور میری جیب میں تو کوئی پیسہ بھی نہ تھا- ایک پادری جن سے کسی مرض کے متعلق طبی مشورہ دینے کے سبب میری پہلے سے جان پہچان تھی- اسٹیشن پر مل گئے- ان کا نام گولک ناتھ تھا- انہوں نے کہا- آپ کہاں جاتے ہیں؟ ٹکٹ تو بڑی مشکل سے ملے گا- میں نے کہا مجھ کو دہلی جانا ہے- گولک ناتھ نے کہا میں جاتا ہوں اور ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں- چنانچہ وہ گئے اور بہت ہی جلد ایک ٹکٹ دہلی کا لائے- میں نے ٹکٹ ان سے لیا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو پادری صاحب کہنے لگے >آپ میری ہتک نہ کریں- معاف کریں- میں اس کے دام نہ لوں گا اور میں بھی تو دہلی ہی جاتا ہوں- رستہ میں دیکھا جائے گا< میں رستہ میں ان کو تلاش کرتا رہا وہ نظر نہ آئے اور دہلی کے اسٹیشن پر بھی باوجود تلاش مجھ کو نہ ملے- اسٹیشن پر اترا تو عصر کا وقت تھا- میں آہستہ آہستہ اس سڑک پر چلا جس پر رئوسا کے خیمے نصب تھے- میں غالباً پانچ میل نکل گیا- اب چونکہ آفتاب غروب ہونے کو تھا- میں نے واپسی کا ارادہ کیا- اتنے میں ایک سپاہی جو حضرت منشی جمال الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ملازم تھا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو منشی صاحب بلاتے ہیں- انہوں نے آپ کو دیکھ کر مجھے بلانے بھیجا ہے- میں نے کہا اب تو وقت تنگ ہے- میں کل‘ انشاء اللہ تعالیٰ‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا- اس نے کہا کہ وہ بہت اصرار سے آپ کو بلاتے ہیں- میں نے پھر بھی کہا کہ کل آئوں گا- اس نے کہاپاس ہی تو ان کا خیمہ ہے- آپ ذرا تکلیف کر کے خود ہی ان سے عذر کر لیں- جب میں گیا تو وہ حسب عادت بڑی ہی مہربانی سے پیش آئے اور فرمایا کہ میرا ایک نواسہ محمد عمر نام بیمار ہے آپ اس کو دیکھیں- میں نے کہا کہ میں کل آکر اس کو دیکھوں گا- انہوں نے فرمایا کہ آپ آج رات کو یہیں رہیں- کل ہم آپ کے مکان پر چلیں گے- چنانچہ میرے لئے علیحدہ ایک آرام دہ خیمہ کھڑا کر دیا اور اگلے روز چونکہ جمعہ تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ مکان پر جانے سے تو اس کو ہم نے روک لیا ہے راتوں رات ہی میرے لئے کپڑے تیار کرا دیئے جو میں نے اگلے روز پہن لئے- جمعہ کا وقت آیا تو ہم دونوں جامع مسجد گئے اور نماز پڑھی- جس طرف حضرت مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ ہمارے شیخ المشائخ کی قبر ہے- اس طرف کی سیڑھیوں سے وہ اترے وہیں ان کی بگھیاں کھڑی تھیں- مجھ سے کہا کہ آپ کا مکان کہاں ہے- ادھر چلیں- میں حیران- مجھ کو سامنے ایک تنگ گلی نظر آئی- میں نے کہا- ادھر ہے- فرمایا اس طرف تو ہماری بگھی نہیں جا سکتی- اپنے دو آدمی میرے ساتھ کر دیئے اور کہا کہ اسباب لے آئو- میں ان آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اس گلی میں پہنچا- بلا کسی ارادہ کے چلا جاتا تھا کہ ایک مکان نظر پڑا کہ اس مکان میں بڑی کثرت سے لوگ جاتے ہیں اور آتے بھی ہیں- اس مکان میں مخلوق کی اس قدر آمدو رفت دیکھ کر میں بھی بلا تکلف اس مکان میں گھس گیا- جب ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ نیچے ایک بڑا دالان ہے اور اوپر زینہ کے راستے بالاخانہ پر لوگ جا رہے ہیں- میں نے ان سپاہیوں کو تو اس دالان میں بٹھایا اور بلا تکلف سیڑھیوں پر چڑھ گیا- اس وقت میرے دل میں ذرا وسوسہ نہ آیا کہ یہ کس کا اور کیسا مکان ہے گویا قدرت کا ایک ہاتھ تھا جو مجھ کو پکڑ کر اوپر لے گیا- وہاں کثرت سے آدمی بیٹھے ہوئے تھے- میں بھی ان کی طرف متوجہ ہوا- میں نے ان لوگوں میں سے صرف عبیداللہ صاحب ساکن بنت مصنف تحفہ الھند کو پہچانا- مجھ کو دیکھتے ہی وہ بڑے خوش ہوکر بولے کہ آپ کا آنا تو میرے لئے بڑا ہی مبارک ہوا ہے- میرے ساتھ کچھ نوجوان نومسلم ہیں- میں اسی فکر میں تھا کہ ان کو کہاں رکھوں- اب آپ جیسا انسان اور کون مل سکتا ہے- آپ ان کو اپنے یہاں لے جائیں- یقین ہے کہ آپ بڑی مہربانی سے رکھیں گے- انہیں نومسلموں میں ہمارے دوست ہدایت اللہ بھی تھے جو بہت کمسن تھے- میں نے کہا- ہاں میں بخوشی ان کی خدمت گذاری کو موجود ہوں- مجھ کو ابھی اپنے مکان پر واپس جانا ہے آپ میرے ساتھ کر دیں- مولوی صاحب نے کہا- ان کے ساتھ ان کے بسترے اور سب ضروری سامان موجود ہے- میں نے کہا میرے آدمی نیچے بیٹھے ہیں- وہ سب اٹھا کر لے چلیں گے- ان کو دے دو- ان سپاہیوں سے اسباب اٹھوا کر ہم بخیرو عافیت منشی صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے- وہ بہت ہی خوش اور احسان مند ہوئے اور ہم سب کو اپنی بگھیوں پر سوار کراکر کیمپ میں لے آئے- میں نے کہا کہ میں تھوڑے ہی دنوں آپ کے پاس رہ سکتا ہوں اور میاں محمد عمر کے رسولی ہے‘ یہ بہت دنوں کے بعد جائے گی اور میں گھر میں اطلاع دے کر بھی نہیں آیا- انہوں نے فرمایا کہ آپ ضرور ٹھہریں اور گھر کے لئے پانسو روپیہ کا نوٹ بھیج دیں- میں بہت گھبرایا کہ ہم تو بارہ سو کے مقروض ہو کر نکلے تھے اور یہ تو پانسو ہی دیتے ہیں- شائد یہ وہ جگہ نہیں جہاں ہمیں جانا ہے- خیر میں نے وہ نوٹ تو اس ہندو کو بھجوا دیا اور گھر میں لکھا کہ آپ مطمئن رہیں- تھوڑے ہی دنوں کے بعد منشی صاحب نے سات سو روپیہ اور دیا- اور مجھ سے کہا کہ جس طرح ممکن ہو آپ بھوپال تک چلیں- میں نے سمجھا کہ میرا قرضہ تو پورا ہو ہی گیا ہے اب جہاں چاہیں جا سکتے ہیں-
بھوپال میں دوسری مرتبہ
چنانچہ میں منشی صاحب کے ہمراہ بھوپال پہنچا- منشی صاحب نے کچھ ماہانہ اپنے پاس سے اور کچھ سرکار سے مقرر کرا دیا اور فرمایا کہ لوگوں سے بھی فیس لے لیا کریں- غرض وہاں مجھ کو بہت آرام ملا- یہ میرے دوبارہ بھوپال جانے کی وجہ تھی- میں اب تک منشی صاحب کے واسطے بہت دعائیں کرتا ہوں-
بھوپال میں ہمارے ایک مریض محمد عمر منشی جمال الدین کے نواسے تیز طبیعت‘اس کے ساتھ متمول تھے- انہوں نے تیل کی شیشی جس میں جمالگوٹہ کا تیل تھا اٹھا لی اور مجھ سے کہا کہ میں پیتا ہوں- میں نے کہا کہ یہ خطرناک زہر ہے ایسا نہ ہو کہ ہلاک ہو جائو اور ساتھ ہی ہم بھی ہلاک ہوں- لیکن انہوں نے ذرا بھی پروا نہ کی اور چند قطرے پی گئے- میں تو بہت ہی گھبرایا مگر وہ پی چکے تھے- میں نے کہا فعل ما قدر - تھوڑی دیر کے بعد ان کو بڑا ہی اضطراب ہوا- چونکہ وہ حضرت نواب صدیق حسن صاحب مرحوم کی بیوی کے بیٹے اور مدارالمہام صاحب کے نواسے تھے- بڑی خلقت جمع ہو گئی- بہت سے ڈاکٹر اور حکیم آئے- مجھے بھی بلوایا- اب وہ میاں صاحب یہ بھی نہ کہیں کہ ہم نے بہ|جبر پی ہے اور نہ میں نے بتایا- میں کتیرا پیس کر اپنے ساتھ لے گیا- میں نے کہا- یہ معاملہ تو پیچھے ہوگا جب ہوگا- اس وقت ان کو یہ پلا دیا جائے- ان کی اماں ایسی گھبرائیں جس کا کچھ اندازہ نہیں ہو سکتا- کچھ مجھے دھمکی بھی دی اور ان کی دھمکی کی شہرت بھی بہت ہوگئی- میں اپنے مکان پر مطمئن ہو کر واپس چلا آیا کیونکہ کتیرے نے ان کو بہت فائدہ دیا تھا- میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان عورت بہت سا سونے کا زیور اور بہت سے کپڑے لائی اور بدوں کچھ کہے گٹھڑی رکھ کر فوراً بھاگ گئی- میں نے منشی ہدایت اللہ سے کہا کہ دیکھو یہ عورت کہاں سے آئی اور کیسی گٹھڑی لائی- جب اس کو کھول کر دیکھا تو وہ قیمتی کپڑوں اور زیوروں سے بھری ہوئی تھی- میں بہت گھبرایا کہ ایک معاملہ تو طے نہیں ہوا‘ یہ دوسرا کیا معاملہ ہے- تھوڑی دیر کے بعد ایک بوڑھی عورت اتنی ہی چیزیں اور لے کر آئی اور رکھ کر چلی گئی- میں نے منشی ہدایت اللہ سے کہا کہ دیکھو تو سہی یہ کہاں کی عورتیں ہیں اور کیا بات ہے- وہ اس کے پیچھے گئے- معلوم ہوا کہ حضرت پیر ابو احمد صاحب مجددی کے گھر سے آئی تھیں- کچھ وقفہ کے بعد حضرت پیر صاحب تشریف لائے اور بہت جھنجلا کر کہا کہ آپ ابھی تک یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں- یہاں بڑا فساد ہونے والا ہے- ہمارے گھر چلو- میں نے کہا وہ لڑکا انشاء اللہ تعالیٰ اچھا ہو جائے گا اور کوئی فساد وغیرہ نہ ہوگا- تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا کہ >یہاں رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے- پھر فرمایا- کیا ہمارے گھر والوں نے زیور نہیں بھیجا؟ جس قدر روپیہ ان لوگوں سے لیا ہے سب واپس کردو< تب مجھ کو اس زیور وغیرہ کی حقیقت معلوم ہوئی- میں ان کی نیکی‘ وسعت حوصلہ‘ شرافت اور خوبیوں کا کوئی اندازہ نہیں کرسکا اور اس وقت بھی نہیں کر سکتا- دھمکی کے لحاظ سے وقت بڑا خطرناک تھا- بہرحال وہ لڑکا خدا کے فضل سے اچھا ہو گیا- اور جو سلوک میرے ساتھ پیر صاحب نے کیا وہ ایسا نہیں جس کا بدلہ میں اتار سکوں- اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی اتارے گا- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پیر صاحب‘ ان کی اولاد اور بیوی کو اپنی جناب سے بہت بہت اجر عطا فرمائے -
یہ قصہ اس قصہ کے لگ بھگ ہے جو رامپور میں ایک پٹھان کلن خاں نے عبدالقادر خاں پر تلوار سونت لی تھی اور ذرا بھی عبدالقادر خاں ٹھہرتا تو کلن خاں مار ہی دیتا‘ یا اس قصہ کے لگ بھگ ہے کہ بھیرہ میں ہمارے ساتھ عوام کا فساد تھا اس میں حفظ امن کے لئے طرفین کے عمائد لوگوں کے کچھ مچلکے اور ضمانتیں لئے جانے کا حکم ہوا- میرے نام بھی وہ حکم پہنچا تھا اگرچہ میں کسی مقدمہ سے تعلق نہ رکھتا تھا- سکیسر میں جانا تھا جو بھیرہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے- مولوی صاحبان نے یہ تجویز کی کہ راستہ میں ایسے فتوے دیئے جائیں کہ اسے کھانے پینے کی دقتیں پیش آئیں- میں نے ایک تیز گھوڑی لی اور ارادہ کیا کہ اگر عصر کے وقت یہاں سے سوار ہوں تو صبح کے وقت سکیسر پہنچ سکتے ہیں- ساٹھ کوس بڑی بات نہیں- میں اس گھوڑی پر سوار ہو کر چل دیا- چھ کوس کے فاصلہ پر چکرم داس ایک گائوں ہے- وہاں میں نے دیکھا کہ بہت سے گائوں کے آدمی لٹھ لئے ہوئے سڑک پر کھڑے ہیں- اس وقت مجھ کو یہ تمیز نہ ہوئی کہ یہ کون ہیں اور کس غرض سے کھڑے ہیں- مگر جب میں بہت ہی قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملک فتح خاں صاحب مع اپنے ملازمین کے ہیں- سلام علیک کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کیسے کھڑے ہیں- فرمایا کہ میں نے سنا تھا کہ آپ کو چھائونی جانا ہے اور مجھے بھی چھائونی جانا ہے- اس واسطے آپ کا منتظر تھا- لیکن ہم لوگ آہستہ آہستہ چلیں گے- صبح ہوتے چھائونی پہنچ جائیں گے- غرضیکہ ایک گائوں سے نکل کر دوسرے میں‘ دوسرے سے نکل کر تیسرے میں‘ اسی طرح رات بھر چل کر صبح ہوتے شاہ پور کی چھائونی میں پہنچے- وہاں کے آفیسر اور منشی اور اہلکار بہت سے لوگ ہمارے ملنے کو آئے- ملک صاحب نے دیکھا کہ یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی تو مجھ سے کہا کہ مجھ کو خوشاب جانا ہے- چھائونی میں ہم دن بھر رہے‘ رات کو بھی رہے‘ پھر دوسرے دن بھی رہے- بمشکل ہم وہاں سے سوار ہوئے- خوشاب چار کوس تھا- جب دریا کے پار کنارے پر اترے تو وہاں کے نائب تحصیل|دار صاحب شیخ فضل کریم اور وہاں کے بہت سے عمائد اور احباب ہماری ملاقات کو آئے- ملک صاحب نے جب یہ امن دیکھا تو مجھ سے فرمایا کہ مجھ کو توسکیسر جانا ہے- خوشاب میں بھی دو تین روز لگے- وہاں سے جب سوار ہوا تو گل حسین شاہ ایک سید نے دودھ کا بھرا ہوا ایک کٹورا پیش کیا- دودھ ان دنوں مجھ کو ہضم نہ ہوتا تھا- میں نے عذر کیا- انہوں نے بہت افسوس سے کہا کہ اگر کسی شخص کو دودھ ہضم نہ ہوتا ہواور وہ آپ کے پاس علاج کو آئے تو آپ کیا کریں گے؟ اس بات کے سننے سے واقعی مجھ کو بھی اپنی حالت پر افسوس آیا اور وہ کٹورا ان کے ہاتھ سے لیکر گھوڑی پر چڑھے ہوئے ہی سارا پی گیا- مگر میں یقین کرتا تھا کہ اب یہ ہضم نہ ہوگا- اس لئے میں جلدی ہی ان سے رخصت ہو کر چل دیا- سکیسر کے راستہ میں ایک پل آتا ہے جس کے نیچے پانی بہتا ہے- وہاں پہنچ کر مجھ کو گونہ تکلیف محسوس ہوئی- میں اتر پڑا اور ایک بہت بڑی صفراوی اجابت ہوئی اور طبیعت بالکل صاف ہوگئی- سکیسر پہنچے- قاضی علی احمد صاحب )جو سودرہ کے باشندے تھے اور بنیاسرائیل کہلاتے تھے( سررشتہ دار نے ایک آدمی بھیجا کہ آپ کو جو ضرورت ہو حکم کر بھیجیں- میں خود اس لئے حاضر نہیں ہوا کہ مقدمہ کے متعلق اشتباہ نہ ہو- جب میں سرائے کے اندر گیا تو ایک عمدہ چارپائی پر نہایت عمدہ بستر بچھا ہوا تھا- چارپائی خالی تھی اور ملک صاحب ایک چٹائی پر بیٹھے تھے- انہوں نے مجھے چارپائی پر بٹھانا چاہا- چونکہ وہ میرے مخلص اور عمر میں مجھ سے بڑے تھے- میں نے کہا کہ یا تو آپ ہی چارپائی پر بیٹھیں یا ہم دونوں بیٹھیں- انہوں نے کہا کہ نہیں آپ بیٹھ جائیں- مصلحت اسی میں ہے- خیر میں اس وقت تو ان کی مصلحت کو نہیں سمجھا اور چارپائی پر بیٹھ گیا- تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی آیا جس کے چہرہ پر بڑا غضب تھا مگر وہ ملک صاحب کو دیکھ کر ٹھنڈا ہو گیا- اس ملک کے رواج کے موافق ملک صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے لگا تو ملک صاحب نے کہا کہ نہیں آپ ہمارے پیر صاحب کے قدم لیں- چنانچہ میری طرف بڑھا اور مراسم تعظیم بجا لایا- تھوڑی دیر کے بعد ملک صاحب نے اس سے کہا کہ میاں سلطان علی کہاں ہیں؟ )یہ میانوالی کے رئیس تھے( اس نے کہا کہ میں ابھی جاتا ہوں اور ان کو اطلاع کرتا ہوں- چنانچہ میاں سلطان علی صاحب آئے اور ملک صاحب نے ان سے بھی اسی طرح میری طرف جھکنے کو کہا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ گویا میرا بیٹا ہے آپ اس کو کچھ وعظ کریں- تھوڑی دیر کے بعد سلطان علی ہاتھ باندھ کر میرے سامنے کھڑے ہو گئے کہ کچھ مجھے ارشاد کرو- چونکہ وہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کے مقدمہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کا ارادہ کچھ عظیم الشان تھا‘ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں بس یہی ارشاد ہے- پیر ابو احمد صاحب کا احسان میں اور میری اولاد کبھی نہیں بھول سکتی- یہ پیر ابو احمد صاحب شاہ رئوف احمد صاحب کے بیٹے تھے- ملک صاحب کے ساتھ تو ہمارے تعلقات طبیبانہ بھی تھے مگر پیر صاحب کے ساتھ کوئی اس قسم کا تعلق نہ تھا‘ یہ صرف ان کا احسان ہی احسان تھا والاجر من اللٰہ- پیر صاحب نے مجھ سے ایام طالب علمی میں بھی بڑے بڑے نیک سلوک کئے اور بہت بہت میری امداد طالب علمی میں کی تھی- میں ان سب کے بدلہ میں ان کیلئے دعا کرتا ہوں-
بھیرہ
بھیرہ میں ایک شخص میرے پاس آیا- اور کہا کہ ایک مسجد ہے اس میں کنواں کوئی نہیں ہے- میں چاہتا ہوں کہ اس میں کنواں بن جائے- وہ چونکہ ملا تھا- اس لئے مجھ کو تعجب ہوا کہ یہ ملا ہو کر ایسی ہمت اور رفاہ عام کا کام کرتا ہے- میں خود اس کے ہمراہ اس محلہ میں اٹھا ہوا چلا گیا- میں نے اس محلہ والوں سے کہا کہ میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ ڈال دیا کہ یہ تمہارے محلہ میں کنواں بنوانا چاہتا ہے- تم کنواں بنوالو- کنوئیں کے نہ ہونے سے تم کو پانی دور سے لانا پڑتا ہے- نیز تمہاری جوان عمر بہو بیٹیاں پانی لینے کے لئے بازار میں سے ہو کر جاتی ہیں- یہ خرابی اور تکلیف بھی جاتی رہے گی- اس محلہ کے نمبردار نے نہ تو میری وجاہت کا خیال کیا اور نہ خود دل میں شرمایا- بے ساختہ مجھ کو جواب دیا کہ مولوی صاحب! انسان کے جسم میں ایک مقعد ہوتی ہے‘ اس میں پاخانہ بھرا رہتا ہے- اسی طرح ہمارا محلہ بھی بھیرہ شہر کی مقعد ہے لہذا ہر قسم کی گندگیاں ہم میں ہونی چاہیں- اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ہماری بہو بیٹیاں بازار میں ہو کر جاتی ہیں- جب ہماری مائیں اور دادیاں بھی بازار میں ہو کر ہی پانی لاتی رہی ہیں تو بہو بیٹیاں ان سے زیادہ معزز نہیں- میں وہاں سے چلا آیا- مگر مجھ کو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ میری اس محنت کو ضائع نہ کرے گا- بعد میں مجھ کو معلوم ہوا کہ ملا اس مسجد کی امامت کا بھوکا تھا اور اسی لئے کنواں بنواتا تھا کہ مسجد کی امامت مل جائے- چند ہی روز کے بعد میونسپلٹی نے حکم دیا کہ شہر کی گلیاں سب پختہ بنوائی جائیں- اس محلہ میں سڑک اس طرح نکالی گئی کہ انکے دروازوں کے سامنے ذرا بھی صحن نہ رہا- وہ پنکھے بنانے والوں کا محلہ تھا- ان لوگوں کو بڑی تکلیف ہوئی- اور سڑک سے دوسری طرف کی تمام زمین پر اہل ہنود نے قبضہ کر لیا- اس نمبردار سے سب نے کہا کہ اب تو اس کی ایک ہی سبیل ہو سکتی ہے کہ اگر نورالدین تمہاری مدد کرے تو وہ تم کو زمین دلا سکتا ہے- وہ نمبردار میرے پاس آیا کہ حضرت! آیئے اس کنوئیں کی اینٹ آپ اپنے ہاتھ سے رکھیں- مجھ کو بڑی حیرت ہوئی- میں نے اس سے کہا کہ صاف بات بتائو- تم تو کنواں بنوانے کے اس قدر مخالف تھے یا اب خود مجھ سے درخواست کرتے ہو؟ کہنے لگا کہ حضور آپ کا فرمان بھلا کہیں بغیر پورا کئے تھوڑا ہی ہم رہ سکتے ہیں- خیر اس کو تو اس وقت میں نے رخصت کر دیا اور اس ملا کو بلوایا- اس نے بتایا کہ اصل بات تو یہ ہے- اور اب جب تک آپ کا قدم درمیان نہ ہو نہ کنواں بن سکتا ہے نہ زمین ان کو ہندو دے سکتے ہیں- ہندو میرا بڑا لحاظ کرتے تھے- میں نے ان سے کہا کہ نصف زمین ان کو دے دو کہ یہ کنواں وغیرہ بنوالیں- انہوں نے میرے کہنے سے مان لیا- کنواں بن گیا اور ملا صاحب بھی اس مسجد کے امام بن گئے- چونکہ ملا صاحب کے ارادہ میں دنیا کی ملونی تھی اس لئے اس کام میں اس قدر دیر ہوئی-
طب کے پیشہ میں دوبار مجھ کو اللہ تعالیٰ نے مارمار کر توحید سکھلائی اور دونوں واقعوں سے اعتماد علی المخلوق اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے بالکل نکال دیا- پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص کو محرقہ تپ تھی اور وہ ایک بڑا امیر کبیر آدمی تھا- میں نے اس کے علاج میں بہت ہی زور لگایا اور مجھ کو یقین تھا کہ ساتویں دن اس کو بحران ہو جائے گا- ساتویں روز کی رات میں شام ہی سے اس کو خوب اضطراب شروع ہوا اور میں نے اس کو فال نیک سمجھا- اس کے گھر والے تو اس علم سے ناواقف تھے- انہوں نے رات ہی کو ایک اور طبیب )اس طبیب کا نام کرم علی تھا یہ پنڈدادنخاں کا ایک خاندانی طبیب تھا( کو بلایا- وہ آخر شب وہاں پہنچا- بڑا تجربہ کار آدمی تھا- اس کو یقین ہو گیا کہ مریض کے عوارض تو روبہ انحطاط ہیں اب بحران شروع ہونے والا ہے- آتے ہی اپنے پاس سے ایک پڑیہ بہت جلدی نکال کر وہاں بید مشک رکھا ہوا تھا اس کے ساتھ کھلائی- میری طرف دیکھ کر ہنسا اور ان سے کہا کہ یہ کیا تپ ہے ابھی ہماری پڑیہ سے ٹوٹ جائے گا- کچھ وقفہ کے بعد اس کو بحران شروع ہوا- گھر والوں نے سمجھا کہ اس حکیم کے پاس اکسیر کی پڑیہ تھی- والا نورالدین کو آج چھ روز ہوئے- کس قدر اس نے زور لگایا اور ذرا بھی فائدہ نہ ہوا- اور آج کی رات تو بڑی تکلیف کی تھی- اس حکیم نے بھی بحران کے بعد بہت بڑا انعام مانگا- مجھ کو یہ انعام ملا کہ مخلوق پر بھروسہ نہ کرنا- الحمد للہ رب العلمین-
دوسرا واقعہ یہ ہے- کہ میرے ایک دوست تھے- جن کی عمر اسی برس کے قریب تھی- میرے ساتھ وہ بڑی ہی محبت کا برتائو کیا کرتے تھے- میں نے ان کو بہت ترغیب دی کہ آپ شادی کر لیں مگر وہ مضائقہ کرتے تھے- میری وجاہت بھی ان کے دل پر بڑی تھی- آخر مجھ سے کہا کہ مجھے شہوانی تحریک ہوتی ہی نہیں- میرے خیال میں تھا کہ ایک باکرہ نوجوان کے ساتھ شادی کی تو تحریک ہو جائے گی- لیکن ظاہر میں میں نے سم الفار- پارہ- افیون کا مرکب معجون فلاسفہ کے ساتھ دیا- انہوں نے شادی بھی کرلی- اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت میں سے ہے کہ انکے گھر میں حمل ہو گیا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی- وہ تو بہت ہی خوش ہوگئے- چونکہ بہت بڑے امیر تھے- میں نے کہا کہ آپ اس لڑکی کو کسی اور کا دودھ پلوائیں- لیکن اس کو انہوں نے مانا نہیں- بہرحال دوسرے سال پھر حمل ہوا اور لڑکا پیدا ہوا جو اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد حیات نام اکسٹرا اسسٹنٹ ہے اور مجھے ہمیشہ اپنا چچا ہی لکھا کرتا ہے- خدا تعالیٰ اس کی حیات میں بہت برکت دے- وہ میرے نہایت پیارے دوست کی یادگار ہے- میری طبی آمدنی اس وقت اتنی قلیل تھی کہ ہم میاں بیوی دو آدمیوں کے لئے بھی گونہ مشکلات پڑجاتے تھے- جب انکے لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے بعض آدمیوں کو مبارک باد کے لئے میرے پاس روانہ کیا- میری حالت تو خود بہت کمزور تھی- مگر مجھے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑا- پھر ایک دفعہ میں چھائونی شاہ پور میں گیا- وہاں سے مجھے کچھ روپے مل گئے تھے- میں اس خیال سے کہ انہوں نے مجھے کچھ مالی امداد نہیں دی- انکے گائوں میں چلا گیا- وہ اپنے گائوں کے بہت سے وہ لڑکے جو ان کے لڑکے کے قریب پیدا ہوئے تھے جمع کرکے لائے اور سب کو کہا کہ تم سلام کرو- مجھ کو ان لڑکوں کی تعداد اور اپنی جیب کے روپیوں میں کچھ مناسبت معلوم نہ ہوئی تو میں نے جو کچھ میری جیب میں تھا- سب ان کے لڑکے کو دے دیا- اس کو انہوں نے فال نیک سمجھا گویا یہ لڑکا امیر ہوگا- اورباقی لڑکے اس کے دست نگر رہیں گے- اس کے ہاتھ سے ان بچوں کو تقسیم کرا دیا- جب میں گھر میں پہنچا تو ایک میرے مکرم دوست اللٰھم اغفرہ وارحمہ- جو میری آسائش کو بہت ضروری سمجھتے تھے‘ حکیم فضل الدین ان کا نام تھا اور قسم قسم کی امدادوں میں وہ لگے رہتے تھے- انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تو یوں کچھ دیتے نہیں- آپ اس لڑکے کے لئے ایک لباس بنواکر بھیج دیں- وہ لباس بمبئی میں تیار کرایا گیا- جیسا وہ قیمتی تھا ویسا ہی وہ عمر کے لحاظ سے جوان آدمی کے قابل تھا- وہ لباس میں نے کسی آدمی کی معرفت ان کو بھیج دیا- اس لباس کی وسعت مقدار کو دیکھ کر اس رئیس نے یہ تفاول لیا کہ یہ لڑکا جوان ہو گا اور وہ لباس جوانی کے وقت کے لئے محفوظ رکھا- جب وہ آدمی واپس آیا تو میں نے حکیم فضل الدین صاحب سے کہا کہ مال کا نام قرآن کریم نے فضل رکھا ہے- یہ فضل سے حاصل ہوتا ہے- مجھ کو تو یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ میں مخلوق پر قطعاً اب کبھی بھروسہ نہ کروں گا اور خدا تعالیٰ اب مجھ کو اپنے خاص کارخانہ سے رزق بھیجے گا اور میں آئندہ ارادہ بھی نہ کروں گا کہ کسی کو قیمتاً دوائی دوں- یہ ایک امارت اور دولت مندی کی راہ تھی جو مجھ کو اس دن عطا ہوئی الحمد للہ رب العلمین-
مجھے ان دنوں تاریخ ابن خلدون کا شوق تھا- کوئی تاجر لایا- ستر روپیہ اس نے قیمت کہی- میں نے کہا کہ باقساط تو روپیہ میں دے دوں گا‘ یک دم میرے پاس نہیں ہے لیکن اس تاجر نے قسطوں کو پسند نہ کیا- جب میں ظہر کی نماز کے لئے مطب میں آیا تو وہ کتاب وہاں رکھی دیکھی- ہر چند میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون رکھ گیا ہے لیکن کسی نے پتہ نہ بتایا- نہ تاجر کا کچھ پتہ چلا- کبھی کبھی میں مطب میں ذکر کر دیا کرتا تھا- آخر ایک دن ایک بیمار نے کہا کہ یہ کتاب ایک سکھ رکھ گیا تھا- جس کو میں صورت سے تو پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا- وہ یہاں تحصیل میں بہت آتا جاتا رہتا ہے- کچھ دنوں کے بعد وہ اس سکھ کو لے آیا- میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کتاب آپ نے کس طرح رکھی- اس نے کہا کہ >آپ کی مجلس میں ذکر ہوا تھا کہ آپ کے پاس روپیہ نہیں لہذا میں نے ستر روپیہ دے کر کتاب خرید لی اور یہاں رکھ دی تھی- اور یہ ستر روپیہ میں نے فلاں امیر سے وصول کر لیا تھا کیونکہ ان کا ہم کو حکم ہے کہ نورالدین کو جب کوئی ضرورت ہوا کرے بلا ہمارے پوچھے روپیہ خرچ کر دیا کرو- چنانچہ مجھ کو یہ موقع مل گیا اور میں نے انکے حکم کے موافق روپیہ خرچ کیا- میرے پاس بھی چونکہ ستر روپیہ آگئے تھے- میں نے ستر روپے اس امیر کے پاس واپس کر دیئے- میرا آدمی دوپہر کے وقت وہاں پہنچا اور روپے پیش کئے جن کو انہوں نے بڑے غضب اور رنج سے لیا اور اس آدمی کو روٹی بھی نہ کھلائی- پھر میرے بڑے بھائی کو بلایا اورکہا کہ ہم نے نوردین کے لئے جب سوچا تو کوئی حدنذرانہ کی ہم کو نظر نہ آئی اس لئے ہم نے یہ تجویز کیا تھا کہ ہم سارے ہی اس کے ہیں اور ہم نے اپنے نوکروں کو حکم دے دیا تھا کہ جب ان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو بلا دریغ روپیہ خرچ کر دیا کریں- مگر انہوں نے ستر روپیہ واپس بھیجا- ہم کو اس سے بہت رنج ہوا ہے- اب کیا کریں؟ ہمارے بھائی صاحب نے ستر روپیہ تو آپ سے لے لیا اور اس رئیس سے کہدیا کہ ہم اس کو سمجھا دیں گے- مجھ کو آکر ملامت کی اور بتادیا کہ وہ ستر روپیہ ہم نے لے لیا ہے- گویا یہ ایک رقم تھی جو ہم کو وصول ہوئی- توکل علی اللہ کی خوشی کے مقابلہ میں یہ رقم مجھ کو واپس لینی گوارا بھی نہ تھی-
ان دنوں میں ایک بیمار ایسے فالج میں گرفتار ہوا جس کا فالج پائوں کے اطراف عصابہ سے شروع ہوا اور روز مرہ بڑھتا گیا- پھر ہاتھ بھی مفلوج ہوگئے- اس کے باپ نے میری طرف رجوع کیا- طب یونانی اس مرض سے جہاں تک میرا خیال ہے خاموش ہے- قواعد کلیہ سے کام لینا اس وقت میری طاقت سے باہر تھا- تیمار دار ڈاکٹروں کا منکر تھا- ڈاکٹری مسودہ بھی اس وقت میری سمجھ میں پورا نہ آیا- غرض میں نے کسٹرایل‘ کلونجی اور شہد پلایا اور مسہل کے بعد اس کے فقرات ظہر پر ایک پلسٹر لگا دیا جس سے اس کا سانس ٹھہر گیا- پھر اسے کچھ کونین اور فولاد دو تین روز حب فرفیون ہفتہ میں دو بار دینا شروع کیا- یہی اصول علاج تھے جو اس وقت کئے اور کامیابی ہوئی- ہماری نواح کے گائوں میں میری طب کا غیر معمولی چرچا پھیل گیا- جموں سے ایک شخص جو اس وقت بھی افسر پولیس ہیں- مدقوق ہو کر علاج کے لئے میرے پاس آئے- شہر میں وہ ہمارے پڑوسی تھے- ان کا نام لالہ متھراداس ہے- ان کے علاج میں کامیابی ہوئی- اسی اثناء میں دیوان کرپا رام وزیر اعظم جموں کا گزر پنڈدادنخان میں ہوا- بہرحال دیوان صاحب اور لالہ متھراداس کے ماموں بخشی صاحب نے سرکار جموں سے میرا ذکر کیا-
ان دنوں مجھ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا کہ جس کو مختلف اسباب سے میں پسند کرتا تھا- میں نے اس کے یہاں نکاح کی تحریک کی- وہ عورت تو راضی ہوگئی- مگر ملک کا رواج جو بیوائوں کے نکاح کا نہیں ہے اس کے متعلق اس نے عذر کیا اور پھر یہ بھی کہا کہ آپ نکاح کر لیں کچھ دنوں کے بعد میرے ولی راضی ہو جائیں گے- میں نے ان ولیوں کو اس خیال پر کہ وہ بیوہ کے نکاح کو روکتے ہیں معزول سمجھا- اور اس نکاح میں جرات کر لی- قبل اس کے کہ وہ ہمارے گھر میں آئے- میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے زمین پر لیٹے ہیں اور ڈاڑھی منڈی ہوئی ہے- میں ہوشیار ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ نکاح سنت کے خلاف واقع ہوا ہے- تب میں نے ایک خط میاں نذیر حسین دہلوی اور ایک خط شیخ محمد حسین بٹالوی کو لکھا اور اس میں لکھ دیا کہ وہ بیوہ بالغ ہے‘ ولی مانع ہے- یہ تو اب مجھ کو یاد نہیں کہ ان دونوں میں سے کس کا خط آیا تھا مگر ایک کا خط آیا- جس میں لکھا تھا کہ ایسے ولی معزول ہو جاتے ہیں اور ایسی بیوہ اپنے اختیار سے نکاح کر سکتی ہے کیونکہ حدیث لا نکاح الا بولی میں کلام ہے میرے تو مطلب کے مطابق تھا- میں بڑا خوش ہو کر اٹھا کہ اب اس کو گھر میں بلالوں- بیٹھک کے پھاٹک پر پہنچا تو ایک شخص حدیث کی کتاب لایا اور کہا یہ حدیث سمجھادو الاثم ما حاک فی صدرک ولو افتاک المفتون اس کے دیکھتے ہی میرا بدن بالکل سن ہو گیا اور میں نے کہا کہ تم لے جائو پھر بتا دیں گے- میں نے یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو آگاہ کیا ہے کہ ان مفیتوں کے فتووں کی طرف توجہ نہ کرو- میں نے وہ پھاٹک بند کر دیا- بیٹھک کے اندر دالان میں آیا- میرے دل میں یہ بھی خیال آتا تھا کہ اول تو حدیث میں کلام ہے دوسرے مفتی نے فتویٰ دے دیا ہے- بہرحال دالان میں آتے ہی مجھ پر نوم غیر طبعی طاری ہوگئی- میں لیٹ گیا تو میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا- اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کے قریب معلوم ہوتی تھی- گویا وہ عمر تھی جب آپﷺ~ کی شادی ہوئی ہو گی- میں نے دیکھا کہ بائیں جانب سے آپ کی ڈاڑھی خشخشی ہے اور داہنی طرف بال بہت بڑے ہیں اور میں حضور میں بیٹھا ہوں- میں نے دل میں سوچا کہ بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے- پھر معاً میرے دل میں آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق تجھ کو تامل ہے اس لئے یہ فرق ہے- تب میں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا- یہ خیال کرتے ہی میں نے دیکھا کہ دونوں طرف ڈاڑھی برابر ہو گئی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور مجھ سے کہا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے- میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپﷺ~ چل پڑے اور میں پیچھے پیچھے تھا- بانہال کے رستے سے ہم کشمیر گئے- یہ بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر کی ملازمت کی تحریک ہے اس لئے میں بھیرہ کا اور کوئی حال نہیں لکھواتا-
‏Mr.8
ریاست کشمیر و جموں
جموں ریاست میں پہنچ کر سب سے عجیب نظارہ یہ دیکھنے میں آیا کہ میں نے ایک مختصربالاخانہ ایسے موقع پر کرایہ پر لیا جہاں سے مجھ کو دربار آنے جانے میں سہولت ہو- وہ مکان اصل میں سرکاری اور اس کا مہتمم ایک بہت ضعیف العمر آدمی تھا- لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہ شخص بدعہد ہے- آپ سال کے لئے اس سے اسٹامپ لکھا لیں- چنانچہ میں نے اس سے اسٹامپ بھی لکھا لیا- دوسرے تیسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ جو کرایہ آپ دیتے ہیں اس سے دوگنا کرایہ دوسرا آدمی دیتا ہے- میں نے کہا کہ تم تو ہم کو تحریر دے چکے ہو- اس نے کہا کہ میں اپنی تحریر کا کوئی اعتبار نہیں کرتا- میں نے کہا اچھا ہم ہی دوگنا کرایہ دیں گے- تھوڑی دیر کے بعد آیا کہ وہ آدمی چوگنا کرایہ دیتا ہے- میں نے کہا بہت اچھا ہم چوگنا کرایہ ہی دے دیں گے- تھوڑی دیر کے بعد آیا کہ وہ بارہ گنا کرایہ دیتا ہے- میں نے اس کی پیرانہ سالی شہر کے سرکاری مکانوں کی افسری اور اس بدعہدی کو خیال کیا تو مجھے اس شہر سے نفرت ہوگئی- میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ ہم ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتے- ابھی سب اسباب باندھو اور یہاں سے چلو- چنانچہ میرے آدمیوں نے تمام اسباب باندھ کر نیچے اتار دیا اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اس شہر کو ابھی چھوڑ دینا چاہیے جہاں ایسا ضعیف العمر اور تمام سرکاری مکانات کا افسر ایسا بدعہد ہے- تمام اسباب نیچے اتر گیا تھا اور میں ابھی اوپر ہی تھا کہ اس طرف سے ایک شخص فتح نام رئیس گذرے اور کھڑے ہوکر دریافت کرنے لگے کہ یہ کس کا اسباب ہے- اتنے میں میں بھی وہاں آگیا- مجھ سے کہنے لگے کہ آپ تو ابھی آئے ہیں جاتے کہاں ہیں؟ میں نے سختی سے جواب دیا کہ تم لوگ بدعہد ہو- بدعہدوں میں رہنا مجھے پسند نہیں- وہ اس بھید کو سمجھ گئے کہ افسر نزول ایک بدعہد آدمی ہے ان کے ساتھ آدمی بہت تھے- انہوں نے اپنے آدمیوں سے کہا سب اسباب کو اٹھا کر ہمارے مکان میں لے جائو- میں نے کہا کہ مجھے اس شہر میں رہنا پسند ہی نہیں- لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور سب اسباب اپنے
مکان پر بھجوادیا- میں نے ان سے کہا کہ میرے رکھنے میں آپ کو بڑی تکلیف ہوگی- کیونکہ یہاں دو فلاں فلاں آدمی ہیں جن کو مجھ سے نقار ہے اور چونکہ دونوں بڑے آدمی ہیں اور میرے ساتھ خاص طور پر نقار رکھتے ہیں- پس مناسب نہیں ہے کہ میرے سبب آپ درباری آدمیوں سے مخالفت پیدا کریں- میں نے مختلف پہلوئوں سے سمجھایا- لیکن وہ کہنے لگے کہ ہم کچھ پروا نہیں کرتے- چنانچہ وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے اور دس برس اپنے مکان میں رکھا- مجھ کو یا میرے طالب علموں یا میرے مہمانوں کو اس دس برس میں کوئی بھی شکایت کا موقع نہ ملا- میں اب تک ان کے وسعت حوصلہ پر حیران ہوں اور مجھ کو افسوس ہوتا ہے کہ میں اتنا ذی|حوصلہ نہیں اور یہ بات ان کی ذات ہی سے وابستہ نہیں تھی بلکہ ان کے گھر کے تمام چھوٹے بڑے سب ایک ہی رنگ میں رنگین دیکھے- جب میں وہاں تھا تو میں نے ایک شادی اس زمانہ میں کی- جب میری بیوی گھر میں آئی تو ان کی بہن نے اس کے ساتھ ایسے نیک سلوک کئے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی سے کرتی|ہے-
جموں میں میاں لعل دین نام ایک ممتاز رئیس تھے- ان کی لڑکی کو زحیر کاذب ہوئی اور اطباء نے قوابض سے کام لیا- مریضہ کی حالت بہت ردی ہوگئی- میاں لعل دین کو مجھ سے مذہبی رنج تھا- ادھر بیمار کی نسبت یاس- کچھ اطباء نے بھی مدد ہی کی ہوگی- مجھے علاج کے لئے بلایا- >عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد< میں نے اس کو اس حال میں دیکھا کہ پٹ پڑ )جب چنا اپنے خول میں ہوتا ہے تو اس کو پٹ پڑ کہتے ہیں( کی طرح اس میں غلاظت ہے- مجھے یقین ہوا کہ زحیر کاذب ہے اور علاج میں غلطی ہوئی ہے- مگر میں خطرناک حالت میں جرئات نہ کر سکا کہ کوئی امر ظاہر کروں- اس وقت مجھے طب جدید نے یہ فائدہ دیا کہ موجودہ طبیب جو اس وقت وہاں حاضر تھے- سب طب انگریزی سے ناواقف تھے- میں نے ایک مرکب ایسا بتا دیا جس میں پوڈافلین تھی اور وہ تشخیص کارگر ہو گئی- اگر سو دست تھے تو گیارہ رہ گئے- دوسرے دن بھی میں نے وہی ترکیب استعمال کی- جس پر انہوں نے باوجود کدورت مجھ کوایک یارقندی یا بومع زین دیا اور خلعت بھی دیا-
دوسری تقریب یہ ہوئی کہ چنگی کے افسر کو قولنج شدید ہوا اور آدھی رات کے وقت مجھے بلایا- میں نے یہ سوچ لیا کہ شدت درد کے باعث مسہل مفید نہیں ہوتا- اس لئے میں نے افیون‘ مکبوج‘ نوشادر کا مرکب اپنے پاس سے دیا جس سے اس کا درد قولنج دور ہو گیا-
دوسری عجیب بات یہ ہوئی کہ وہاں ایک دفعہ بہت شدید ہیضہ پھیلا- وہاں کے راجہ باہو نام ایک قلعہ میں تشریف لے گئے- اس سبب سے مجھے بھی وہاں جانا پڑا- راجہ موتی سنگھ جی بھی تشریف لے گئے- وہاں پہنچ کر ان کو ذوسنطاریا )جسے ڈسنٹری کہتے ہیں( کا شدید مرض لاحق ہوا- ساتھ ہی ان کو پیچش بھی تھی اور وہ ہیضہ کے دن تھے- اس لئے اس قلعہ میں انکو میرے طبی مشورہ کی ضرورت پڑی- بہت دنوں کی آمدورفت سے ان کے ساتھ ایک گہرا تعلق پیدا ہو گیا- انہوں نے جو رقم بطور شکریہ مجھ کو دی تھی وہ سالہا سال برابر دیتے رہے- مہاراج کے ساتھ ان کے تعلقات میں کسی قدر کدورت تھی- ان دنوں ایک شاہزادہ کی شادی تھی- مجھ سے انہوں نے اس کدورت اور شادی کا ذکر کیا- میں نے ان کو صلاح دی کہ اب شادی کا موقع ہے آپ اس شادی میں ضرور ساتھ چلیں- اس میں آپ کے اور ان کے تعلقات‘ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور صاف ہو جائیں گے- اس کے علاوہ بھی جو مناسب تھا مشورہ دیا- چنانچہ سمت ۳۷ بکرمی میں مصالحت ہوگئی اور وہ اس شاہزادہ کی شادی میں شریک ہو گئے- میں بھی ساتھ تھا- پہلی ہی منزل میں ایک ہاتھی میری سواری میں تھا جس پر ایک عماری تھی اور اس میں دو آدمیوں کے بافراغت بیٹھنے کی جگہ تھی- اس سواری میں ایک اسپرنگ کے صدمہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی- پھر دوسری منزل میں تو ایسی حالت ہوئی کہ میں سفر کے قابل نہ رہا- میں نے رات کے دس بجے کے قریب ایک ڈاکٹر کو بلایا جو بنگالی تھا-میں نے کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے- یہاں کبھی کبھی ناسور ہو جاتا ہے آپ اس کچے ورم کو چیر دیجئے- اس نے عذر کیا کہ میں اوزار اور سامان سب کچھ ابھی بند کر چکا ہوں کہ مبادا صبح کے سفر میں کوئی چیز رہ نہ جائے لیکن جب میں نے بہت سختی سے کہا اور چاقو نکال کر دیا کہ اسی سے چیر دیجئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ کلورفارم نہیں ہے- میں نے کہا کہ کلوروفارم کی کوئی ضرورت نہیں- اس کے دل میں بھی طیش پیدا ہوا- اس نے بڑی سختی سے شگاف دیا- میں نے کہا کہ زخم کے دونوں کنارے خوب دبا کر لہو نکال دو اور دونوں لب زخم کے ملا کر باندھ دو- اس سے جس قدر سختی ہو سکی کی- مجھے قدرتی کلوروفارم یہ ملی کہ غشی طاری ہوگئی اور ڈاکٹر نے اپنا کام اچھی طرح کیا- صبح کو ڈاکٹر صاحب سویرے ہی بغیر معائنہ کئے چل دیئے- میں نے آئینہ نیچے رکھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زخم خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گیا ہے- لیکن اپنے قویٰ کے گھمنڈ پر میں ایک گھوڑی پر سوار ہو گیا- اگرچہ میں نے بڑی احتیاط کی اور زین کے ایک طرف رہا- لیکن چار میل پہنچ کر مجھ میں یہ طاقت نہ رہی کہ میں اس سواری پر رہ سکوں- چنانچہ میں اتر گیا- باریک سی شرک کی بو مجھ میں یہ تھی کہ آخر مہتممان کیمپ یہاں سے گزریں گے وہ ضرور ہمدردی کریں گے- تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ولی عہد صاحب آئے- انہوں نے کہا کیوں اتر پڑے؟ میں نے کہا کہ میں سواری نہیں کر سکتا- میری طبیعت اچھی نہیں- ولی عہد صاحب یہ کہہ کر کہ اچھا
کیمپ میں آئو وہاں بندوبست ہو جائے گا اور سرپٹ گھوڑا دوڑا کر چلے گئے- میں نے کہا کہ ایک بت تو ٹوٹ گیا- لیکن نفس امارہ نے پھر بھی یہ سمجھا کہ اس کے دوسرے بھائی آئیں گے- چونکہ وہ میرا ہی علاج کرتے تھے اور مجھ سے ان کا بہت تعلق تھا وہ آئے اور بڑی ہمدردی سے کھڑے ہو گئے- میں نے کہا کہ میں سوار نہیں ہو سکتا- انہوں نے کہا کہ آپ کیمپ میں پہنچئے اور سرپٹ گھوڑا دوڑا کر چل دیئے- پھر ان کے تیسرے بھائی آئے اور وہ بھی بدستور دریافت کر کے چل دیئے- پھر راجہ صاحب آئے انہوں نے بڑی محبت سے میرا حال دریافت کیا اور کہا کہ آپ سوار ہو جائیں- میں نے کہا کہ میں گھوڑے کی سواری نہیں کر سکتا- انہوں نے فرمایا کہ یہاں سے دو چار میل کے فاصلہ پر کیمپ ہے- آپ وہاں پہنچیں سب بندوبست ہو جائے گا- یہ فرما کر وہ بھی روانہ ہوگئے- پھر کیمپ کے مہتمم صاحب جو وہی ایک سب سے پیچھے تھے آئے اور انہوں نے بھی سابق رئوسا کی طرح کام لیا- اب میں لا الہ الا اللہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو دوسرے پر امید رکھتا ہے بڑی غلطی کرتا ہے- اب میری امیدگاہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تھا- اتنے میں دیوان لچھمن داس نام جو ان دنوں فوجی افسر تھے گزرے- انہوں نے جب مجھے دیکھا تو معاً اتر پڑے اور کہا کہ کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا کہ میرے ایک پھنسی ہے اس لئے میں سوار نہیں ہو سکتا- آپ تشریف لے چلیں- لیکن انہوں نے کہا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہاں اس حالت میں چھوڑ کر ہم آگے چلے جائیں- غرضیکہ وہ اتر کر میرے پاس ہی بیٹھ گئے اور باتیں کرتے رہے- اتنے میں انکی پالکی آئی- انہوں نے میرے پاس سے اٹھ کر اپنے آدمی کو علیحدہ لے جا کر کچھ حکم دیا اور اس کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے- ان کا آدمی پالکی لے کر میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ پالکی میں سوار ہو جائیں اور یہ پالکی جموں واپس ہونے تک آپ کے ساتھ رہے گی- میں نے اس کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھا اور سوار ہو گیا- اس میں خوب آرام کا بستر بچھا ہوا تھا- میں اس میں لیٹ گیا اور شکریہ میں قرآن شریف کی تلاوت شروع کی- وہ ایک مہینہ کا سفر تھا- میں‘ الحمد للہ‘ جلدی ہی اچھا ہو گیا اور میں نے پالکی کو رخصت کرنا چاہا- لیکن پالکی برداروں اور ان کے ہمراہی افسر نے کہا کہ ہم کو دیوان جی کا حکم ہے کہ جب تک آپ جموں واپس نہ پہنچیں ہم آپ کی خدمت میں رہیں- میں نے اس ایکمہینہ میں چودہ پارے قرآن شریف کے یاد کر لئے- جب ہم جموں واپس پہنچے تو میں نے پالکی برداروں اور ان کے افسر کو انعام دینا چاہا- لیکن انہوں نے کہا کہ ہم انعام لے چکے ہیں- ہم کو اسی دن دیوان جی نے انعام اور خرچ کے لئے کافی روپیہ دے دیا تھا اور ان کا حکم ہے کہ آپ سے کچھ نہ لیں- میں نے اس افسر کو بہت سمجھایا کہ ان کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں- مگر اس نے تو اور اپنے پاس سے کسی قدر روپیہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ جو روپیہ انہوں نے خرچ کے واسطے دیا تھا وہ بھی سب خرچ نہیں ہوا اور اب ہم میںاتنی طاقت نہیں کہ انکو واپس دیں- چنانچہ اس نے وہ روپیہ واپس نہ لیا اور میں نے خدا تعالیٰ کا فضل یقین کر کے وہ روپیہ لے لیا- پھر اس کے بعد دیوان لچھمن داس نے میرے ساتھ اس قدر نیکیاں کیں کہ ان کے بیان کرنے کے لئے بڑے وقت کی ضرورت ہے-
ایک دفعہ وہ وزیر اعظم ہو گئے- ان کو پشتو بولنے کا بڑا شوق تھا اور ہمیشہ اپنی اردل میں پشتو بولنے والے ہی رکھتے تھے- وزیر اعظم ہو کر انہوں نے اپنے یہاں ایسے پشتو بولنے والوں کو مقرر کیا جو کوئی دوسری زبان نہیں جانتے تھے اور حکم دیا کہ پرائیویٹ ملاقات کے لئے کوئی ہمارے مکان پر نہ آئے- میں نے ایک روز شیخ فتح محمد صاحب سے کہا کہ آپ وزیر صاحب کے پاس جائیں اور ضرور ملاقات کریں- انہوں نے کہا کہ وہاں تو پشتون لوگ ہیں جو کسی کی سنتے ہی نہیں- ٹھوکریں مارمار کر لوگوں کو نکال دیتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ وہاں جاکر ذلیل ہو چکے ہیں- اس وقت رات کے دس بجے تھے- میں نے کہا اچھا میں دیوان جی کو ابھی ایک خط لکھتا ہوں- شیخ صاحب نے کہا آپ خط ہرگز نہ لکھیں- لیکن میں نے انکی بات کو نہ مانا اور اسی وقت خط لکھا کہ یہاں کے لوگ ملاقاتوں کے عادی ہیں- میں نے سنا ہے آپ نے خطرناک پہرہ بٹھایا ہے- مہربانی کرکے ایک وسیع کمرہ جس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہو ملاقات کے لئے مقرر فرمائیں کہ لوگ وہاں جا کر بیٹھ سکیں- باقی جب آپ کا جی چاہے اس کمرہ میں ملاقات کے لئے آئیں اور جس سے چاہیں ملاقات کریں- جس سے چاہیں نہ کریں- مگر پشتونوں سے شریف آدمیوں کو دھکے دلوانا آپکی شان کے خلاف ہے- یہ خط اسی وقت ڈاک میں ڈالا اور ڈاک والے نے فوراً وہاں پہنچایا- ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ ان کا حقیقی بہنوئی جو ان کا پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھا- لالٹین لئے ہوئے خود ہی میرے پاس پہنچا- اور کہا کہ آپ کا ایک خط دیوان صاحب نے پڑھا ہے اور آپ کو بلایا ہے- شیخ فتح محمد صاحب نے منع کیا اور کہا کہ اس وقت نہ جائو لیکن میں چلا گیا اور اس وقت وہاں کوئی پہرہ نظر نہ آیا- دیوان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو کہیں پہرہ کا پتہ نہیں- میں نے اسی وقت موقوف کر دیا ہے اور فلاں کمرہ کو دیکھو اس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہے اور وہ شرفاء کی ملاقات کے لئے مخصوص کر دیا ہے- میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا جس کا انہوں نے ان لفظوں میں مجھ کو جواب دیا کہ ریاست میں اس طرح صفائی سے کہنے والا انسان بھی ضروری ہے اور اس لئے میں آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں- اب میں کسی کو نہ روکوں گا اور آپ کے لئے تو کوئی وقت مقرر نہیں- آپ جس وقت چاہیں بلاتکلف تشریف لائیں-
میں جب حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو- آپ نے فرمایا کہ میں یہ مجاہدہ بتاتا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں- مجھ کو عیسائی مذہب سے واقفیت نہ تھی- ان کے اعتراضوں کی بھی خبر نہ تھی کہ کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں- پھر یہ کہ میں اپنے آپ کو کبھی فرصت میں نہیں رکھتا اور اس کام کے لئے فراغت و فرصت کی بھی ضرورت تھی- جموں میں تو مجھ کو فرصت بہت ہی کم تھی- جب میں قادیان سے یہ حکم لے کر اپنے وطن میں پہنچا تو وہاں میرا ایک ہم مکتب حافظ قرآن مسجد کا پیش امام تھا- وہ میرے سامنے تقدیر کا مسئلہ لے بیٹھا اور اس نے اس مسئلہ کے پیش کرنے میں بڑی شوخی سے گفتگو کی- میں حیران اس کے منہ کو دیکھتا رہا کہ فرفر بولتا تھا- حالانکہ مسجد کے ملا میں اس قدر شوخی نہیں ہوتی- جب لوگ چلے گئے تو میں نے اس کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ حافظ صاحب مجھ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ عیسائی ہو گئے ہیں- اس نے کہا کہ عیسائی ہو گئے ہیں تو حرج ہی کیا ہے؟ میں نے کہا اپنے گورو سے ذرا مجھ کو بھی ملائو- چنانچہ وہ مجھ کو پنڈدادنخان لے گیا- دریا سے اترے تو ایک گائوں کے نمبردار نے کہا تمہاری دعوت ہے- میں نے کہا شہر سے واپس آکر دعوت کھائیں گے- چنانچہ میں اور حافظ صاحب دونوں ایک انگریز کی کوٹھی میں جا دھمکے- حافظ صاحب تو پہلے سے واقف ہی تھے- پادری صاحب ملاقات کے کمرہ میں تشریف لائے- میں نے کہا کہ پادری صاحب میرے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہم مکتب آپ کے مرید ہو گئے ہیں آپ ہم کو بھی کچھ سنائیں- مطلب میرا یہ تھا کہ انکے مذہب کا پتہ لگے- اگر وہ اس وقت اعتراض پیش کرتا تو کوئی ایک دو ہی اعتراض کرتا کیونکہ میں نے پادری صاحب سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ لمبی بحث نہ کریں‘ اپنے مذہب کا خلاصہ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور صرف ایک اعتراض بطور خلاصہ پیش کریں- مگر پادری صاحب کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ میری بات کو ٹال کر ہمارے لئے چاء بسکٹ کا اہتمام کرنے لگے- میں نے کہا کہ میں اس شہر میں چار برس ہیڈ ماسٹر رہ چکا ہوں اور یہاں میری کافی واقفیت ہے ہم کو چاء وغیرہ کی ضرورت نہیں آپ ہم سے گفتگو کریں- میں نے حافظ صاحب سے بھی کہا کہ تم اس کو اکسائو- چنانچہ حافظ صاحب اس کو علیحدہ لے گئے اور بہت دیر تک باتیں کر کے واپس آئے اور کہا کہ میں نے بہت زور لگایا مگر یہ تو آگے چلتا ہی نہیں- یہ کہتا ہے کہ میں ان سے زبانی گفتگو نہ کروں گا- ہاں بعد میں اعتراضات لکھ کر بھجوادوں گا- میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ جب تک ان کے اعتراضات ہمارے پاس پہنچیں اور ہماری طرف سے جواب نہ ہولے اس وقت تک آپ بپتسمہ نہ لیں- حافظ صاحب نے کہا ہاں یہ تو ضرور ہو گا- میں نے پادری صاحب سے بھی کہہ دیا کہ یہ ایسا کہتے ہیں- انہوں نے کہا ہاں یہ مناسب ہے- پھر میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتائو اور کون ہے جو مثل تمہارے ہو- حافظ صاحب نے کہا کہ ایک اسٹیشن ماسٹر ہے چنانچہ ہم اسٹیشن پر آئے- اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تو بڑی دلیری سے کہا مذہب عیسائی کا مقابلہ تو کسی مذہب سے ہو ہی نہیں سکتا- میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ تو پھنس گئے- جب اسٹیشن ماسٹر نے حافظ صاحب سے سنا کہ پادری صاحب خاموش ہو گئے تو وہ حیران ہو گیا- آخر اس پادری نے ایک بڑا طومار اعتراضوں کا لکھ کر بھیجا- میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتائو یہ کوئی ایک دن کا کام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں- میں نے کہا تم ہی مدت مقرر کرو- حافظ صاحب نے کہا کہ ایک برس تک کتاب چھپ کر ہمارے پاس پہنچ جائے- میں جموں آیا- اس زمانہ میں زلزلے بہت آئے تھے- راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سبب پاگل ہو گیا تھا- اس نے جموں کے راجہ کو لکھا کہ ہم کو ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب کی ضرورت ہے- چنانچہ میں وہاں گیا- مجھ کو شہر سے باہر ایک تنہا مکان دیا گیا- بس ایک مریض کا دیکھنا اور تمام دن تنہائی- میں وہاں بائیبل اور قرآن شریف پڑھنے لگا- ان تمام اعتراضوں کو پیش نظر رکھ کر بائیبل پر نشان کرتا- پھر اس کے بعد قرآن شریف پڑھتا اور نشان کرتا رہا- اس کے بعد کتاب لکھنی شروع کی اور چار جلد کی ایک کتاب )فصل الخطاب( لکھی- ادھر کتاب تیار ہوئی ادھر راجہ کا لڑکا اچھا ہوا- اب روپیہ کی فکر تھی کہ کتاب چھپے- راجہ پونچھ نے کئی ہزار روپیہ دیا- جب جموں آیا تو راجہ صاحب جموں نے پوچھا- کیا دیا؟ میں نے وہ تمام روپیہ آگے رکھ دیا- وہ بہت ناراض ہوئے کہ بہت تھوڑا روپیہ دیا- چنانچہ اسی وقت حکم دیا کہ ان کو سال بھر کی تنخواہ اور انعام ہماری سرکار سے ملے- میں نے وہ روپیہ اور دو جلدیں دلی بھیج دیں وہاں سے چھپ کر آئیں تو حافظ صاحب اور مثل ان کے دوسرے لوگوں کو بھیج دیں- انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم سچے دل سے اب مسلمان ہوگئے- باقی کی ضرورت نہیں-
چونکہ پونچھ کے راجہ سے مجھے پہلے ہی بڑا تعلق تھا اور اب اس کے لڑکے کے علاج سے جس میں مجھ کو بڑی کامیابی ہوئی- راجہ اور اس کے ولی عہد سے بہت تعلق بڑھ گیا تھا ایک دفعہ راجہ پونچھ جموں میں تشریف لائے اور علیل ہو گئے- مجھے بلا بھیجا- میں نے دیکھ کر کوئی علاج کا انتظام کر دیا- جب میں ان کے مکان سے باہر نکلا- رستہ میں ان کے سپاہیوں کے مکانات تھے- ان میں سے ایک شخص نے مجھ سے آکر کہا کہ فلاں خدمت گار آپ کو بلاتا ہے- میں نے کہا کہ اس خدمت گار کا گھر ایسے موقع پر ہے کہ جب وہ گھر جائے گا تو میرے مکان کے پاس سے ہی گزرے گا- وہ وہاں آجائے ہم دوائی دے دیں گے- لیکن اس خدمت گار نے جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کسی آدمی سے کہا کہ نورالدین تو بہت متکبر ہو گیا ہے- اب ہم اس کو اپنے راجہ کے پاس نہیں آنے دیں گے- میری عادت تھی کہ میں کسی امیر کے گھر بدوں اس کے بلائے نہ جاتا تھا- دوسرے دن راجہ صاحب کا کوئی آدمی نہ آیا اور میں بھی اپنی عادت کے موافق نہ گیا- کئی مہینے اسی طرح گزر گئے- ایک دن میں اپنے مکان کے دروازہ پر کھڑا تھا کہ وہ خدمت گار کسی اور طبیب کو ہمراہ لئے جا رہا تھا- ہمارے پڑوس میں چند معزز میاں صاحبان رہتے تھے- وہ بہت ہی ہنسے اور میری طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آج اس کی محنت ٹھکانے لگی- میں نے دریافت کیا کہ آپ کیوں ہنستے ہیں- انہوں نے کہا کہ مدت سے یہ اس طبیب کو اس طرف سے اس لئے لے جایا کرتا تھا کہ آپ کو دکھلائے کہ ہم نے اور طبیب رکھ لیا ہے- تھوڑے ہی دنوں کے بعد مہاراج کشمیر لاہور کو تشریف لے گئے- میں بھی ہمراہ تھا اور قدرت الٰہی سے وہ دوسرا طبیب جو وہ بھی مہاراج کشمیر کا ملازم تھا- لاہور میں ساتھ نہ آسکا- راجہ پونچھ بھی جو بدستور بیمار تھے ہمراہ تھے- کیمپ میں چونکہ میں ایک ہی طبیب تھا- اس لئے مجھے عین دوپہر کے وقت راجہ پونچھ نے بلوایا- اس وقت وہ تنہائی میں تھے اور طبیعت بہت مضمحل تھی- مجھ سے فرمایا کہ سرکار نے )ہم نے( اس سال کا مقرری روپیہ آپ کو نہیں دیا- اس لئے ہم دو سال کا روپیہ آپ کو بھیج دیں گے اور آپ کوئی دوائی بتائیں- میں نے کہا کہ آپ نے دوپہر کے وقت شائد اس لئے بلایا ہے کہ آپ کا وہ خدمت گار جس کے بلانے سے میں اس کے پاس نہیں گیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ ہم اپنے راجہ کے پاس نہ آنے دیں گے- یہ دوپہر کا وقت اس کی حاضری کا وقت نہیں ہے- چونکہ آپ اس کے رعب میں آئے ہوئے ہیں- لہذا خطرہ ہے کہ اگر میں آپ کا علاج شروع کروں اور اس کو پتہ لگ جائے تو آپ کو کوئی ضرر پہنچے اور چوری کا علاج مجھے پسند بھی نہیں ہے- تب انہوں نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں سے ڈرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ یہ کمینے زہر بھی دے دیتے ہیں- خیر لاہور سے ہم بہت جلد واپس آگئے- اور وہاں میں نے سنا کہ راجہ صاحب دن بدن مضمحل ہوتے جاتے ہیں- آخر ایک دن ان کا انتقال ہو گیا- لیکن ابھی اس خدمت گار کا گونہ عروج مصلحتا باقی تھا اور میرا تعلق ان دنوں ایک ایسے شہزادے سے تھا جس کے ساتھ ولی عہد پونچھ کو کسی قدر تکدر تھا- میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ آپ پر ایک مقدمہ ہونے والا ہے اور اس کا باعث اس شہزادہ کا تعلق ہے- ولی عہد پونچھ کا منشاء ہے کہ آپ پر یہ مقدمہ بنایا جائے کہ ان کا والد آپ کے علاج کی کسی غلطی سے فوت ہوا ہے اور اس علاج میں ایک زہر بھی ہے- مجھے بہت ہی ہنسی آئی کہ اہل دنیا کے تعلق کیا! اور ان کی خدمتیں کیا! اور ان کے معاہدات کیا؟ میں نے کسی موقع پر اس شہزادہ سے ذکر کیا تو اس نے کہا افسوس آپ کو خبر ہو گئی- معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ بات زیادہ کھل گئی ہے- میرا بھی منشاء تھا کہ یہ نالش کرے تو پھر ہم اس کا سارا قرضہ مع سود کے ادا کر دیں گے- آپ مطمئن رہیں- یہ لوگ بہت ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں- یہ کمینہ خدمت گاروں کے ماتحت بڑی مجبوری سے کام کرتے ہیں- اور قابل رحم گروہ ہے- تب مجھے یاد آیا کہ جن دنوں میں اس کا علاج کرتا تھا- میں نے اس سے کہا کہ آپ مقدمات سنا کریں اور انکے فیصلوں میں لگے رہا کریں اس طرح آپ کو ایک اچھا موقع آرام کا مل جائے گا- میرے کہنے سے وہ صرف عرضیاں سن لیتا تھا- ایک دفعہ عرضیاں سنانے والے نے عرضی سناتے سناتے اس کے چہرہ کو بہت غور کے ساتھ دیکھا اور عرضی کو بہت فحش گالی کے ساتھ زمین پر پھینک دیا اور لگا اس کی نبض دیکھنے- چونکہ بارعب آدمی تھا- اس نے جب سب لوگوں سے جو وہاں بیٹھے تھے- کہا کہ دیکھو ہمارے سرکار کی طبیعت مضمحل ہوئی جاتی ہے تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ساتھ ہی اس نے یہ نسخہ بتا دیا کہ تم لوگ بڑے شریر ہو- حضور کے یہاں عرضیاں نہ دیا کرو- اس سے سرکار کو تکلیف ہوتی ہے- دیکھو اس وقت کیسی خراب حالت ہو گئی ہے- پھر کیوڑہ اور بیدمشک منگایا اور میرے پاس سوار دوڑایا- اس سوار نے میرے پاس پہنچ کر بڑی خطرناک حالت بیان کی اور یہ بھی کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ کے پہنچنے تک زندہ رہیں یا نہیں- میرا مکان فاصلہ پر تھا- میں سرپٹ گھوڑا دوڑا کر پہنچا تو وہ مکان سے اتر رہے تھے- سیڑھیوں پر ہی ملاقات ہوئی- وہیں میں نے نبض دیکھی- مجھ سے کہا- مولوی صاحب! آپ تو دور ہوتے ہیں- کہیں قریب آجائیں تو اچھا ہے- اب بھی یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ میری بہت ہی خراب حالت ہو گئی تھی- مگر میں نے کیوڑہ اور بید مشک پیا تو اب یہ سب کہتے ہیں کہ ذرا طبیعت ٹھیک ہو گئی- میں نے کہا کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کہا کہ اس وقت تو میں شکار کے لئے جاتا ہوں- میں نے کہا میں بھی چلتا ہوں- چنانچہ ہم شکار کے لئے روانہ ہو گئے- خوب فاصلہ پر شکار تھا- وہاں پہنچ کر ایک موقع پر میں نے دریافت کیا کہ آپ کو خود بھی کچھ معلوم ہوا تھا کہ طبیعت خراب ہے- کہا مجھ کو تو معلوم نہیں ہوا مگر لوگ کہتے تھے کہ تمہاری طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے- میں نے دو آدمیوں سے جو پاس تھے پوچھا انہوں نے کہا کہ ہم کو تو کوئی بات معلوم ہوئی نہیں مگر جو عرضیاں سنایا کرتے ہیں انہوں نے کہا تھا- ہم نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی تھی- تب میں سمجھا کہ یہ ملا جی کے شاگردوں والا معاملہ معلوم ہوتا ہے- بہرحال وہاں ایک ریچھ ملا- وہ بھاگا اس کے پیچھے دوڑے- میں تو چند قدم پر رہ گیا- مگر ہمارے مریض صاحب جس طرح ہرن دوڑتا ہے اس کے متعاقب پہاڑ پر چڑھ گئے- جب میں واپس آیا تو ان کے بڑے چہیتے اور معتمد شخص جن کو وہ وزیر کے لفظ سے پکارا کرتے تھے میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ یہاں علاج کرنے آئے ہیں یا ہمارے ولی عہد کو حکومت سکھلانے آئے ہیں؟ آپ صرف دوا وغیرہ بتا دیا کریں اور حکومت کرنی نہ سکھائیں ورنہ آپ کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی- یہ لوگ اگر ایسے ہو جائیں جیسا آپ چاہتے ہیں تو ہم لوگ روٹی کہاں سے کھائیں- خیر میں اصلیت کو پہنچ گیا- خدا تعالیٰ ہمارے ملک کے رئیسوں پر رحم کرے اور ان کو ہدایت کرے-
مہاراج کشمیر مجھ سے بہت ہی بمدارات پیش آتے تھے- بعض وقت میں خود بھی تعجب کیا کرتا تھا- ایک دن مجھ سے تنہائی میں کہا کہ جانتے ہو میں تم سے ڈرتا ہوں- میں نے کہا کہ آپ تو بادشاہ ہیں اور میں ایک غریب آدمی ہوں- ڈرنا کیا معنی؟ کہا میں تم سے بہت ڈرتا ہوں اور بعض اوقات میں ایسی چشم پوشی کرتا ہوں کہ میری طبعیت کے وہ بالکل خلاف ہوتی ہے- آج میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں- وہ وجہ یہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی کوئی ذلیل آدمی نہ تھا- وہ ایک شاہی خاندان کا شہزادہ تھا اور ایسی سلطنت جیسی کہ محمود کی تھی ایک کمینہ انسان کو کبھی میسر نہیں ہو سکتی- میں محمود کے حسب اور نسب کو خوب جانتا ہوں- وہ شاہان ایران کی نسل سے تھا- مگر نیک نامی کا جینا اور بدنامی کا مرنا دونوں کیسے عجیب ہیں کہ ملافردوسی نے دو شعر کہہ کر کہ ~}~

اگر مادر شاہ بانو بدے
مرا سیم و زر تا بزانو بدے
اگر شاہ را شاہ بودے پدر
بہ سر بر نہادے مرا تاج زر
ایک ایسا خطرناک ٹیکا لگایا ہے کہ ہم بادشاہوں کی مجلسوں میں اس کا ذکر آتا ہے- اس لئے میں مصنف لوگوں سے بہت ڈرتا ہوں- تمہارا بھی اسی لئے زیادہ خیال کرتا ہوں-
ان رئوسا میں بعض وجود بڑے نیک اور مخلوق الٰہی کے واسطے بہت مفید ہوتے ہیں اور بعض اس کے خلاف- اس قسم کی باتوں کو صرف اس وجہ سے بیان کرنا مناسب سمجھا گیا ہے کہ شاید کسی کو نفع پہنچے-
کشمیر میں ایک مولوی عبدالقدوس صاحب رہتے تھے- وہ بڑے بزرگ آدمی تھے- اور میرے پیر بھائی بھی تھے- کیونکہ وہ شاہ جی عبدالغنی صاحب کے مرید تھے اور میں بھی شاہ صاحب کا مرید تھا- ان کو مجھ سے خاص محبت تھی اور باوجود ضعف پیری کے میرے مکان پر ترمذی کا سبق پڑھنے آتے تھے- میں نے ایک رئویا دیکھا کہ انکی گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں- میں نے ایک جھپٹا مارا اور سب بچے اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل دیا- رستہ میں میں نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا نام کھیعص ہے- میں اپنے اس رئویا کو بہت ہی تعجب سے دیکھتا تھا- جب میں حضرت مرزا صاحب کا مرید ہوا تو میں نے ان سے اس خواب کا ذکر کیا- مرزا صاحب نے فرمایا کہ آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور وہ لڑکے فرشتے تھے- دھرم پال نے جب >ترک اسلام< کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب نظر آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مولیٰ مجھ سے فرماتا ہے کہ >اگر کوئی شخص قرآن شریف کی کوئی آیت تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر قرآن ہو تو ہم خود تم کو اس آیت کے متعلق علم دیں گے< جب دھرم پال کی کتاب آئی اور خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس کے جواب کی توفیق دی- حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن تو ہے- گو میرے سامنے نہیں- یہ مقطعات پر سوال کرتا ہے- اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا- جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا-
جموں میں ٹھٹھیروں کی دوکانوں کے پاس جلاکا کے محلہ میں ایک مندر ہے- میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اس مندر کے سامنے آٹے‘ نمک‘ تیل وغیرہ یعنی پرچون کی ایک دوکان ہے- وہاں ایک لکڑی کی چوکی پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم بیٹھے ہیں- میں وہاں سے گزرا تو آپﷺ~ نے فرمایا کہ تم ہمارے یہاں سے آٹا لے لو- چنانچہ انہوں نے ایک لکڑی کی ترازو میں آٹا تولا جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے قابل تھا- میں نے اپنے دامن میں اس کو لیا- جب وہ آٹا میرے دامن میں ڈال چکے تو کفہ ترازو کو زور سے ڈنڈی پر مارا تا کہ سب آٹا میرے دامن پر گر جائے- جب میں آٹا اپنے دامن میں لے چکا تو میں نے سوال کیا کہ آپﷺ~ نے حضرت ابوہریرہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی جس سے وہ آپ کی حدیثیں یاد رکھتے تھے؟ آپﷺ~ نے فرمایا- >ہاں< میں نے عرض کیا- وہ بات مجھے بھی بتادیں تا کہ میں آپﷺ~ کی حدیثیں یاد کر لوں- کہا کہ ہم کان میں بتاتے ہیں- میں نے کان آگے کیا اور آپﷺ~ نے اپنا منہ میرے کان سے لگایا کہ اتنے میں خلیفہ نورالدین نے میرے ایک پائوں کو خوب زور سے دبایا اور کہا کہ نماز کا وقت ہے- میری سمجھ میں آیا کہ حدیث پر عمل کرنا یہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے- اٹھانے والا بھی خواب ہی کا فرشتہ ہوتا ہے اور نورالدین کے لفظ سے یہ تعبیر میری سمجھ میں آئی-
وہاں بعض اوقات مجھے خاص خدمت گاروں میں بیٹھنے کا موقع ملتا تھا- ایک دفعہ میں نے ان سے کہا آئو ہم تمہیں قرآن سنائیں- وہ سب ہندو تھے- میں نے دو ایک روز انہیں قرآن سنایا- ایک شخص جس کا نام رتی رام تھا اور وہ خزانہ کا افسر تھا اور افسر خزانہ کا بیٹا بھی تھا- اس نے عام مجلس میں کہا کہ دیکھو ان کو قرآن شریف سنانے سے روکو ورنہ میں مسلمان ہو جائوں گا- قرآن شریف بڑی دلربا کتاب ہے اور اس کا مقابلہ ہرگز نہیں ہوسکتا اور نورالدین کے سنانے کا انداز بھی بہت ہی دلفریب اور دلربا ہے-
وہاں کے وزراء میں سے دیوان گو بند سہائے‘ دیوان اننت رام اور دیوان کرپا رام دنیوی اخلاق کی رو سے بہت ہی بے نظیر آدمی تھے- وسعت خیالات کے ساتھ عام مروت کا مادہ بھی ان لوگوں میں تھا- دیوان لچھمن داس اور سردار روپ سنگھ- سردار لال من- سردار موتی رام ایسے اشخاص ہیں جن کو میرے طبی مشوروں کے علاوہ مجھ سے خاص طور پر خطرناک معرکوں میں سلوک کرنے کا موقع ملا ہے- میں ان کا ہمیشہ شکر گذار ہوں گا-
ایک دفعہ وہاں کے گورنر پنڈت رادھاکشن صاحب نے راجہ امرسنگھ کے مکان پر مجھ سے کہا کہ لیکھرام کے بعض اعتراضات جو اسلام پر کئے گئے ہیں بالکل لاجواب ہیں- مسلمان ان کا جواب نہیں دے سکتے- میں نے کہا بات تو بڑی سہل ہے- آپ ان اعتراضوں میں سے اعلیٰ درجہ کا اعتراض میرے سامنے اس وقت پیش کریں اور راجہ صاحب کو ہم جج بنائیں گے- تب انہوں نے اسکندریہ کے کتب خانہ کے متعلق یہ اعتراض کیا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے جلایا گیا- میں نے ان سے کہا کہ آپ کے نزدیک دنیا میں کوئی صحیح تاریخ ہے؟ جس میں اسلامی پہلی صدی یا دوسری یا تیسری اور چوتھی صدی کے درمیان اس قصہ کو کسی مورخ نے بیان کیا ہے آپ اس کا نام لیں- انہوں نے کہا کہ میں نے عربی تاریخیں نہیں پڑھیں- میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے انگریزی تاریخیں نہیں پڑھیں- مگر خیر‘ اب آپ کسی انگریزی تاریخ کا نام لیں جو نسبتاً قابل اعتماد ہو- تب انہوں نے گبن کی تاریخ ڈکلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر
۔Gibbon By Empire Roman the of fall and Decline
یعنی )تاریخ زوال سطنت روما( کا ذکر کیا- میں نے کہا بس یہی ایک کتاب ہمارے اور آپ کے درمیان فیصلہ کن ہوگی‘ منگوائی جائے- چنانچہ دیوان امرناتھ صاحب کے کتب خانہ سے وہ کتاب منگوائی گئی اور کتب خانہ کے متعلق جو کچھ کہ اس مصنف کا خیال تھا- گورنر صاحب کے سامنے پیش کیا- انہوں نے کیسا تعجب کے قابل جواب دیا کہ چونکہ ہم کو ابتداء سے ہی تعلیم دی جاتی ہے کہ اسلام کا مذہب بہت برا ہے اس واسطے جو اعتراض اس پر کیا جائے ہم کو وہ عظیم الشان ہی معلوم ہوتا ہے- تب میں نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ کی مسلمان رعایا پنڈت جی سے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے- جبکہ یہ اسلام کے ایسے خیر خواہ ہیں )کشمیریوں کے محاورہ میں خیر خواہ بدخواہ کو کہتے ہیں( گورنر صاحب نے کہا کہ میں ہندو نہیں بلکہ بدھ ہوں‘ کیونکہ میں لداخ کا گورنر رہا ہوں- وہاں بدھوں کی تعلیم مجھ کو بہت پیاری معلوم ہوئی- مجھ کو ایک طمع بھی تھی- موقع بھی تھا اور بات بھی بن گئی- میں نے کہا کہ آپ کے محکمہ میں فتح محمد اور فتح چند دو امیدوار ہوں اور لیاقت میں بھی فتح محمد دوسرے سے بڑھا ہوا ہو تو آپ کس کو جگہ دیں گے- انہوں جواب دیا کہ ہم فتح چند کو جگہ دیں گے گو وہ لیاقت میں کم ہی ہو- میں نے کہا آپ کی بات تو متضاد ہوگئی کیونکہ فتح چند بدھ نہیں ہے- گورنر صاحب نے کہا کہ مجھ پر اپنے باپ کی تعلیم کا یہ اثر ہے- اس پر میں نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ توجہ کریں کہ کیا حال آپکی مسلمان رعایا کا ہو سکتا ہے- اس طرح کے بہت سے نظارے وہاں دیکھنے میں آئے- اللہ تعالیٰ سے رحم کا امیدوار ہوں-
جب راجہ پونچھ کو قلعہ باہو میں ذوسنطاریا نے آدبایا تھا وہاں سبوس اسبغول‘ انجبار اور شیرہ بکن نے مجھے تحریک دی کہ میں ہندی طب پڑھوں- کیونکہ بکن کی نسبت صرف ہندی طب راہ نما ہوئی تھی- اس کام کے لئے پنڈت ہرنام داس بوڑھے پنڈت انتخاب کئے اور ان سے امرت ساگر اور سسرت سبقاً پڑھا اور طب جدید کی بہت سی مصری کتابیں منگوا کر مطالعہ کیں- پنڈت صاحب کی میں ایسی خدمت کرتا تھا کہ بعض وقت ان کے لئے حقہ کی عمدہ قسم کی نلیاں کشمیر سے منگواتا تھا اور وہ بھی مجھ کو بچوں سے کم عزیز نہ سمجھتے تھے- اس میرے پڑھنے کی خبر مہاراج جموں کو کی گئی کہ یہ شخص ابھی پنڈت ہرنام داس سے طب پڑھتا ہے جو آپ کا ادنیٰ نوکر ہے- مجھ سے جب پوچھا گیا کہ تم دربار میں پنڈت ہرنام داس کی تواضع زیادہ کیوں کرتے ہو؟ تو میں نے کہا کہ وہ میرے استاد ہیں- اس میری گفتگو نے رئیس کے دل پر بہت ہی بڑا اثر کیا اور مجھ کو بڑی عظمت سے دیکھنے لگا-
ان دنوں میں میرے مولا نے جو میری نخوت کا علاج کیا وہ بھی عجیب ہے کہ میاں لعل دین کا بیٹا فیروزالدین جو مجھ سے دلی تعلق اور اخلاص اور گہری محبت رکھتا تھا وہ عالم شباب میں مبتلاء چیچک ہوا اور مرگیا- میرے سامنے ہی اس نے جان دی- اس صدمہ سے‘اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے‘ کہ مجھ پر کیا کیا گزری- اور مجھ کو یہ واقعہ اب تک بھی تکلیف دیتا ہے کہ کوئی تدبیر وہاں کام نہ دے سکی- بہت ہی ٹکریں ماریں مگر ناکامی رہی- یہ سب خدا تعالیٰ کے فضل کی باتیں ہیں-
میں نے شیخ فتح محمد اور ان کے تمام کنبہ والوں اور ان کے بھائی شیخ امام الدین کو خلوص و محبت کا نہایت ہی پاک نمونہ پایا- شیخ علی محمد تاجر وزیر آباد مقیم جموں کو بھی مجھ سے بڑی محبت تھی راجہ عطا محمد خاں رئیس یاڑی پوڑہ اور راجہ فیروزالدین خان اور راجہ قطب الدین خاص ذکر کے قابل ہیں اور ان میں طبی تذکرے بھی موجب ذکر ہیں مگر بات لمبی ہوتی جاتی ہے- صرف اتنا بتائے دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک شخص جو خطرناک ضعف باہ میں گرفتار تھا- اس نے مجھ سے کہا کہ کوئی خاص طور کی دوائی آپ مجھے دیں- میں نے اس کو نسخہ زدجام عشق بنا کر دیا- جس کے استعمال کے بعد اس نے میری اور میری بیوی کی دعوت اپنے گھر میں کی اور اس کی بیوی نے میری بیوی کے ہاتھ میں سونے کے بڑے بڑے کنگن بہت محبت سے ڈال دیئے اور خود اس شخص نے قیمتی گھوڑے باصرار دیئے-
ایک شخص بڑے عملیات کے مدعی تھے اور وہ اپنے آپ کو شاہ عبدالغنی صاحب کا مرید بھی ظاہر کرتے تھے- انہوں نے عملیات پر کتاب بھی لکھی تھی- میں نے شاہ صاحب کے تعلقات کی بنا پر ان کو ایک خط لکھا- جس پر انہوں نے مجھ کو ایک عمل لکھ کر بھیجا کہ اس سے پانچ روپیہ روز آدمی کما سکتا ہے- چونکہ وہ شاہ صاحب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے اس لئے میں نے اس عمل کا تجربہ کیا- میں طب کا پیشہ بھی کرتا تھا- تھوڑے دنوں کے بعد مجھ کو یہ خیال ہوا کہ یہ جو مجھ کو آمدنی ہوتی ہے آیا اس عمل کا نتیجہ ہے یا طب کا؟ ان دونوں میں تشخیص کرنے کے لئے یا تو عمل چھوڑ دیا جائے یا طب- سو میں نے طب کو چھوڑنا پسند نہ کیا- عمل کو چھوڑ دیا- اس مہینہ میں مجھ کو بارہ سو روپیہ کی آمدنی ہوئی- اس لئے مجھ کو رنج ہوا کہ اس عمل کی نحوست سے بارہ سو کی بجائے ڈیڑھ سو ہی ملتا تھا- جب میں جموں گیا تو ایک روز علی الصباح وہ عامل صاحب میرے مکان پر پہنچے- میرے دل میں خیال گزرا کہ شاید یہ اپنے دل میں خیال کرتے ہوں گے کہ یہ میرے عمل کے سبب یہاں نوکر ہے اس لئے میں نے اپنے نفس پر بہت ہی جبر کرکے اپنی عادت کے خلاف انکی طرف مطلق توجہ نہیں کی- چاء اور کھانا وغیرہ تو بڑی بات ہے- میں نے انکی طرف دیکھا بھی نہیں- آخر دس بج گئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں‘ میں آپ کو پہچانتا ہوں- آپ فلاں کتاب کے مصنف ہیں- اس سے زیادہ میں نے اور کوئی تعارف ظاہر نہ کیا- وہ میرے اس روکھے پن سے بہت ہی متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کہیں تو میں میاں لعل دین کے مکان پر جا ٹھہروں- میں نے کہا- ہاں آپ شوق سے جائیں- چنانچہ وہ اٹھ کر میاں صاحب کے یہاں پہنچے- تھوڑی دیر کے بعد میاں صاحب کا ایک خاص خدمت گار میرے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ ابھی میاں صاحب کے مکان پر ایک عامل آیا ہے جس نے ایک تعویذ لکھ کر آگ میں ڈالا اور وہ اشرفی بن گیا- وہاں اس عامل کی بڑی خاطر مدارات ہو رہی ہے- پلائو اور زردے پک رہے ہیں- دو ایک روز کے بعد وہ عامل پھر میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ آپ اگر میرے لئے کوشش کریں تو یہاں دعاگویوں کی ایک مد ہے- ساٹھ روپیہ تنخواہ ہوتی ہے- مجھے اس میں ملازم کرادیں- یہ سن کر مجھ کو اور بھی شبہ ہوا کہ مجھ کو تو انہوں نے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کا عمل بتایا اور خود ساٹھ روپیہ ماہوار کے لئے سفارش چاہتے ہیں- میں نے کہا اس قسم کی نوکریاں میاں صاحب اور حافظ حکیم فدا محمد صاحب کی معرفت مل سکتی ہیں- میری نسبت اس رئیس کا خیال ہے کہ یہ شخص اس قسم کے لوگوں سے بہت تعلق نہیں رکھتا جو گنڈے تعویذ کرتے ہیں- مجھے انکی تصنیف اور ان کے حالات اور اس تعلق پر جو انہوں نے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے ظاہر کیا بہت ہی افسوس و رنج ہوا کہ دنیا میں مسلمانوں نے اپنا کیسا حال بنایا ہے- پھر وہ پندرہ روپیہ ماہوار تک بھی آگئے لیکن میں نے ان کو کچھ ملامت نہ کی-
پونچھ میں مجھ کو ایک فقیر ملا جو بازاروں میں عجیب طرح کی آوازیں کسا کرتا تھا- میں نے اس کو بلا کر کہا کہ تم یہ کیا حرکت کیا کرتے ہو- جب میں نے اس کی بہت مدارات کی تو اس نے کہا کہ میں چالیس برس سے ایک فقیر کا معتقد ہوں اور اس نے مجھے ایک عمل بتایا ہے- میں اسی کی مشق کیا کرتا ہوں- تین باتوں کا اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا مگر ابھی ان تینوں باتوں میں سے کوئی ظاہر نہیں ہوئی- لیکن میں عمل برابر کئے جاتا ہوں- میں نے کہا- ان باتوں میں سے تم ایک بات تو بتائو- اس نے کہا کہ فقیر نے بتایا تھا کہ تم جب آنکھیں بند کرو گے تو تم کو سب حقیقت کا پتہ لگ جائے گا- میں نے کہا یہ تو میں تم کو ابھی بتائے دیتا ہوں- تم اپنی آنکھیں بند کرو- چنانچہ اس نے آنکھیں بند کرلیں- میں نے کہا تم کو کچھ نظر آتا ہے؟ کہا اندھیرا نظر آتا ہے- میں نے کہا حقیقت تو معلوم ہو گئی کہ اس عمل میں سوائے اندھیر کے اور کچھ نہیں- اس نے کہا کہ مجھ سے یہ بھی کہا تھا- مرے ہوئے لوگوں کی برائیوں اور بھلائیوں سے آگاہ ہو سکتے ہو- اس وقت میں ایک ایسی جگہ تھا کہ سامنے عبدالغفور نام ایک بزرگ کی خانقاہ تھی اور اس کے قریب ہی ایک کنچنی کی قبر تھی- میں نے اس بزرگ کی خانقاہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ اس نے کہا کہ یہ تو بڑے بزرگ ولی گزرے ہیں- پھر میں نے دوسری قبر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ کس کی قبر ہے؟ کہا کہ یہ ایک بدکار کنچنی کی قبر ہے- میں نے کہا- بس یہ بات تو تم کو حاصل ہے- وہ بہت ہی حیران سا ہو گیا اور میرے ہاتھ پائوں چومنے لگا اور آئندہ اپنی حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کر کے ایک بھلا آدمی بن کر میرے پاس سے چلا گیا- میں نے ایک مرتبہ )جبکہ اس کو میرے موجود ہونے کا علم نہ تھا( اس کو بازار میں پھر بھی ویسی حرکت کا مرتکب دیکھا- لیکن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اس کو چالیس برس کی عادت جس کام کی پڑی ہوئی ہے یک لخت اس کا چھوٹنا مشکل ہی ہے-
ایک شیعہ طبیب بھی وہاں تھے- جن کو اپنے مذہب میں بہت غلو تھا- چونکہ وہ میرے ہم پیشہ تھے اور ولی عہد صاحب کے وہ خاص طبیب تھے- ایک دن انہوں نے مطاعن صحابہؓ کا ذکر شروع کیا- میں نے انکی خدمت میں مختصراً اتنا ہی عرض کیا کہ عمرؓ نام صحابی کی اولاد میں سے میں بھی ہوں- ہاں! اب آپ اعتراض کریں- ان کی شرافت کا یہ عجیب حال ہے کہ جب تک ہم وہاں رہے انہوں نے مذہبی چھیڑ چھاڑ میرے سامنے کبھی نہ کی- صرف میں نے ولی عہد کی تحریک پر ایک خط لکھا تھا جو مطبوع موجود ہے- مگر اس کا بھی انہوں نے جواب نہ دیا-
ایک مرتبہ دیوان اننت رام صاحب وزیر اعظم کے استاد مولوی عبداللہ صاحب نے سرکار میں میری شکایت اس بنا پر کی کہ یہ اس شخص کی اولاد ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گدی پر غاصبانہ حملہ کیا- چونکہ میرے سامنے کا واقعہ نہیں ہے- مجھے اس کی تفصیل سے آگاہی نہیں- صرف سرکار نے مجھ سے کہا کہ پیغمبر صاحبﷺ~ کا جانشین ان کی اولاد کو کیوں نہیں کیا گیا- میں نے اس کو مذہبی جھگڑا نہ سمجھا- عرض کیا کہ آپ کی نرینہ اولاد نہ تھی اور بیٹی کی اولاد میں بھی کوئی بالغ لڑکا نہ تھا اور آپﷺ~ کی گدی کوئی دنیوی رسومات کی گدی نہ تھی اس لئے دنیوی رسومات کے مطابق کوئی گدی نشین نہیں بنایا گیا- لیکن جب انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ مولا مرتضیٰؓ آپ کے بیٹے تھے- لیکن عمرؓ نے غاصبانہ رنگ میں اس گدی کو حاصل کیا- تب مجھے معاً خیال آیا کہ یہ مولوی عبداللہ صاحب کی تحریک ہے- اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ حضرت علیؓ داماد تھے اور حضرت عمرؓ آپﷺ~ کے بلافصل جانشین نہیں- تب انہوں نے پوچھا کہ کیا حضرت علیؓ بیٹے نہیں تھے- وہاں خود رئیس کا ایک داماد بیٹھا تھا- میں نے کہا ایسا ہی دامادی کا تعلق تھا- جیسا اس راجہ کو حضور سے ہے تب انہوں نے بہت گرم ہو کر اور جھنجلا کر کہا کہ اب میں مباحثہ کی بنا کو سمجھ گیا ہوں- دیکھو ہم لوگ داماد اور وزیر ایسے لوگوں کو نہیں بناتے جو سلطنت کا استحقاق رکھتے ہوں- دیکھو یہ ہمارے سابڑوں )سابڑوں یا سابنوں ان کی زبان میں داماد کو کہتے ہیں( ہیں- غدر میں انہوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا- اس لئے ان کو پورٹ بلیر )کالا پانی( بھیجا گیا- جب ہم نے غدر میں انگریزوں کی خدمات کیں تو اس کے بدلہ میں انہوں نے ہم کو کوئی ملک دینا چاہا لیکن ہم نے بجائے علاقہ لینے کے ان کو اور ان کے باپ کو پورٹ بلیر سے بلایا اور انکی ریاست ان کو دلوا کر اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی اب اگر یہ ذرا بھی کوئی حرکت کریں تو پورٹ بلیر موجود ہے اور یہ اننت رام جی ہمارے وزیر اعظم ہیں- اگر اب ہم موقوف کردیں تو یہ لون تیل کی دکانداری کریں- پھر مجھے معلوم نہیں کہ مولوی عبداللہ صاحب کو انہوں نے کیا کہا-
ایک دفعہ مجھے کتاب عبقات الانوار کے دیکھنے کا بڑا شوق ہوا جو حدیث من کنت مولاہ- فعلی مولاہ- کی بحث پر ہے اور میر حامد حسینصاحب نے سات سو صفحات سے زیادہ پر لکھی ہے- ایک میر نواب نام لکھنئو کے شیعہ وہاں طبیب تھے اور میں نے سنا یہ کتاب ان کے پاس ہے- میں نے ان سے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ رات کے دس بجے آپ لیں اور صبح کے چار بجے واپس کر دیں تو میں دے سکتا ہوں- میں نے سمجھا کہ یہ میری دن بھر برابر کام کرنے کی عادت سے واقف ہیں انہوں نے سوچا ہوگا کہ دن بھر کا تھکا ہوا رات کو سو جائے گا- کتاب کیا دیکھ سکے گا؟ بہرحال میں نے رات کے دس بجے وہ کتاب منگوائی اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میں جب اس کے مطالعہ اور خلاصہ اور نقل سے فارغ ہوگیا تو میں نے اپنے ملازم کو آواز دی اور پوچھا کہ اب کیا بجا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ابھی چار نہیں بجے- میں نے کہا کہ حکیم نواب صاحب کویہ کتاب دے آئو- اس خلاصہ کو میں نے ایک نظر پھر بھی دیکھ لیا- میں حیران تھا کہ اتنی بڑی محنت کیوں کی گئی ہے- اس خلاصہ کے مکرر دیکھنے میں میں نے اس کے کچھ جوابات بھی سوچ لئے تھے- تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک دن شیخ فتح محمد صاحب نے کہا کہ میری اور آپکی آج الٰہی بخش نام ایک رئیس کے ہاں ضیافت ہے- میں اور شیخ صاحب دونوں اکٹھے ضیافت کو چلے تو رستہ میں شیخ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں الٰہی بخش ایک جوشیلے شیعہ ہیں- انہوں نے کوئی مجتہد بلوایا ہے- جس کی آپ کے ساتھ بحث ہوگی- اور شرط یہ ٹھہری ہے کہ ہم جس قدر سنی وہاں دعوت میں شامل ہوں گے- اگر مباحثہ میں آپ ہار گئے تو ہم کو شیعہ ہونا پڑے گا- اور پہلے سے اس کا ذکر آپ سے اس لئے نہیں کیا کہ تیاری کرکے جاتے تو مزہ نہ آتا- میں نے شیخ صاحب کو بہت ملامت کی کہ ایسی شرطیں نہیں کیا کرتے مگر انہوں نے میری باتیں ہنسی ہی میں اڑا دیں جب وہاں پہنچے تو شیخ فتح محمد صاحب نے جو بڑے ہی بے تکلف بھی تھے کہا کہ ارے او شیعو! لائو کہاں ہیں وہ تمہارے بحث کرنے والے مولوی- چنانچہ کتاب عبقات الانوار میرے سامنے پیش کی گئی- ابھی تک میں نے مجتہد صاحب کو بھی نہیں پہچانا تھا- کیونکہ اس وقت تک میرے سامنے نہیں ہوئے تھے- میں نے اپنے مولا کا بڑا ہی شکر ادا کیا کہ یہ وہی کتاب ہے جو میں دیکھ چکا ہوں- میں نے اس کتاب کے جلد جلد ورق الٹنے شروع کئے- چند منٹ میں اس کے سب ورقوں کو الٹ گیا- پھر میں نے وہ کتاب میاں الٰہی بخش کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ منشا کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ اس کتاب کو بہت غور سے پڑھیں- میں اپنے مولا کی غریب پروری کی کوئی حد نہیں سمجھتا- اس وقت مجھ کو بڑی خوشی ہوئی- میں نے کہا کہ میں نے یہ کتاب پڑھ لی- اگر آپ کہیں تو میں اس کا خلاصہ سنادوں اور پھر اس کا جواب نہایت مختصر طور پر عرض کردوں- وہاں بہت سے شیعہ مولوی موجود تھے- سب نے کہا کہ آپ خلاصہ سنائیں- میں نے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے خلاصہ سنایا جس کے سننے کے بعد ان شیعوں نے علیحدہ جا کر سرگوشی کی کہ اس شخص سے مباحثہ کرنا ہمارا کام نہیں- الٰہی بخش نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ کھانا لائو- بس پھر کیا تھا- ہمارے شیخ فتح محمد صاحب نے خوب اچھل اچھل کر کہا کہ ہم کھانا نہیں کھاتے- مباحثہ ہو جائے- اور بلائو کہاں ہیں تمہارے مباحثہ کرنے والے- میرے اس خلاصہ کو سنانے سے یہ فائدہ ہوا کہ مباحثہ کے لئے کوئی سامنے نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے وہ مباحثہ ٹال دیا-
میں نے ریاست کے معاملات میں بہت ہی غور کیا ہے- وہاں چار نقص بڑے ہیں- اول یہ کہ رئیس کے خدمت گار جس قدر اجہل ہوں اسی قدر ان کا زیادہ رسوخ ہوتا ہے اور وہ بہت تھوڑی طمع پر ایک شریف کی ہتک کرنے میں دریغ نہیں کرتے- میں نے خود ایک دفعہ اس موجودہ رئیس سے کہا کہ آپ ان خدمت گاروں سے اس قدر ڈرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بڑے خبیث باطن ہوتے ہیں انکی دو‘ دو‘ چار‘ چار روپیہ تو تنخواہ ہوتی ہے- تھوڑی سی طمع پر یہ اپنے آقا کو زہر دے دیتے ہیں- ان کو دو روپیہ کی بجائے سو روپیہ مل جائیں اور یہ قتل کر دیں تو ان کا کیا کر سکتے ہیں- میں نے کہا کہ آپ ان کو موقوف کر سکتے ہیں- کہا کہ وہ جو دوسرے آئیں گے وہ بھی انہیں کے بھائی بند ہوں گے- یہ ایک بڑی خطرناک قوم ہے جو ہمارے ارد گرد رہتی ہے- پھر کہا کہ میری ولی عہدی کے زمانہ میں ان لوگوں نے مجھے ایسا لوٹا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے؟
دوسرا نقص یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ شرفا کو زیرو زبر کرتے رہتے ہیں- اس واسطے ارکان و عمائد میں رئیس کی نسبت بھی اور آپس میں بھی بدظنی بہت پھیل جاتی ہے- اس بدظنی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ کسی کام کو وہ دل لگا کر نہیں کرتے- بلکہ ایام گزاری ہی کرتے ہیں-
تیسرا نقص یہ ہوتا ہے کہ اپنی ناپائداری کو دیکھ کر طمع کا دامن بہت دراز کر لیتے ہیں-
چوتھا نقص یہ ہوتا ہے کہ ایجنٹوں اور ریذیڈنٹوں کے کانوں میں عجیب در عجیب متضاد باتیں پہنچتی ہیں جس سے ان کو رئیس سے بڑا تنفر پیدا ہوجاتا ہے-
ایک معزز کو ذلیل کر دینا اور ایک ذلیل کو معزز بنا دینا یہ لوگ اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں- میرے سامنے جو جو شرفا بگڑے اور جو جو غربا امیر بنے وہ ایسے واقعات ہیں جن کے بیان سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- دو چار روپیہ کے ملازم لاکھوں روپیہ کے مالدار بن جاتے ہیں اور لاکھوں روپے والے خاک میں مل جاتے ہیں-
میاں لعل دین وہاں کے بڑے رئیسوں اور امراء میں سے تھے اور اصل میں خدمت گاری ان کا عہدہ تھا- مجھ سے کسی سبب سے ان کو بہت رنج تھا- میں ایک روز ان کے مکان پر چلا گیا- ان کا مکان حاجت مندوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ ایک کھڑکی میں اونچے بیٹھے ہوئے اپنے منشی سے کچھ حکم لکھا رہے تھے- کیونکہ وہ خود لکھے پڑھے نہ تھے- جوں جوں حاجت مند اٹھتے گئے اور مکان خالی ہوتا گیا- میں بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا- آخر ان کا خدمت گار اور منشی ہی رہ گیا اور میں بھی بہت ہی قریب جا پہنچا- ان کو معلوم تھا کہ میں ان کے مکان پر کبھی نہیں جاتا تھا- اس واسطے بہت متعجب ہو کر پوچھا کہ آپ کس واسطے آئے ہیں؟ ان کے نوکر اور منشی بھی اس وقت یہ سمجھ کرکہ اس کوکوئی خاص بات خلوت میں کہنی ہے چلے گئے تھے- صرف ہم دونوں ہی موجود تھے- میں نے کہا کہ آپ کا جاہ و جلال ایسا ہے کہ عام علماء تو آپ کو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ہر آدمی کے لئے ایک واعظ کی ضرورت ہے میں اس واسطے آیا ہوں کہ آپ سے دریافت کروں کہ آپ کا واعظ کون ہے- اس پر انہوں نے کہا کہ میں ان پڑھ آدمی ہوں- باریک باتیں میں سمجھ نہیں سکتا- میں نے کہا کہ ہر آباد شہر کے قریب کوئی اجڑا شہر ضرور ہوتا ہے اور ہر ایک امیر کے مکان کے قریب حوادث زمانہ کے مارے ہوئے امیر کا ویران گھر ضرور ہوتا ہے اور وہی ویرانہ اس کا واعظ بن سکتا ہے- اس پر وہ کچھ متحیر ہو کر کہنے لگا- کہ مولوی صاحب آگے آئیں چونکہ میں ان کے گھٹنے کے بالکل قریب ہی تھا- اور آگے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے میں نے اپنا سر ہی آگے کر دیا- انہوں نے کہا کہ دیکھو میرا بیٹھنے کا گدیلا تو وہ ہے اور میں ہمیشہ اس کھڑکی ہی میں بیٹھتا ہوں- آپ دیکھیں اس کھڑکی کے سامنے ایک محراب دار دروازہ ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ میرے لئے واعظ ہے- اس گھر کا مالک ہماری ہی قوم کا ایک شخص تھا اور اتنا بڑا آدمی تھا کہ سرخ چھاتا اس کے لئے مہاراج کے سامنے لگایا جاتا تھا اور ہم لوگ تو کالی چھتری بھی سرکار کے سامنے نہیں لگا سکتے- اب اس گھر کا مالک ایسا ویران ہوا ہے کہ خود اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازم ہے- میں یہ سنتے ہی فوراً کھڑا ہو گیا اور یہ کہہ کر کہ آپ کے لئے یہ واعظ بس ہے- وہاں سے چل دیا- پھر میں نے یہ مضمون سرکار کے سامنے دوہرایا تو انہوں نے کہا میرے لئے تو کئی واعظ موجود ہیں- اول جہاں ہم لوگوں کو راج تلک لگایا جاتا ہے- اس کے گرد جو بڑا ویرانہ اور کچے مکانات ہیں یہ سب اصل مالکوں کے مکانات ہیں اور وہ لوگ اب تک بھی ہم لوگوں کو سلام کرنے کے مجوز نہیں- دوسرے میں جہاں کچہری لگاتا ہوں- اس کے سامنے دھارانگر ایک مشہور شہر تھا جو بالکل ویران ہے- تیسرا باہو کا قلعہ میرے سامنے ہے اور وہ بھی بہت بڑے طاقت ور راجوں کا قلعہ تھا- ہمارے لئے ان سے بڑھ کر کوئی واعظ ممکن نہیں- پھر جن لوگوں کے ہم نے ملک لئے وہ بھی کچھ کم واعظ نہیں ہیں-
ایک شخص راجہ سورج کول نام وہاں کونسل کے سینئر ممبر تھے- ان کے گردہ میں بہت مدت سے درد تھا- مجھ کو انہوں نے بلایا میری تشخیص میں ان کے گردہ میں پتھری ثابت ہوئی- جب میں نے بے تکلفی سے ان سے کہہ دیا تو انہوں نے بہت ہی رنج ظاہر کیا اور کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ سات انگریز میرے ماتحت رہے ہیں- میں نے کہا کہ انگریزوں کے ماتحت رہنے سے گردے کی پتھری نہیں رک سکتی- پھر انہوں نے کہا کہ میرا ایک بیٹا ڈاکٹر ہے- میں نے کہا کہ بیٹے کے ڈاکٹر ہونے سے بھی باپ کی پتھری نہیں رک سکتی- اس پر وہ بہت ہی ناراض ہوگئے- کچھ مدت کے بعد پیری نام ایک انگریز جو لاہور میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا- وہاں گیا اور مہاراج نے ان راجہ صاحب کے درد گردہ کا ذکر کیا اور تاکید کی کہ آپ ضرور علاج کریں- ڈاکٹر نے انکو جاکر دیکھا اور فکر کرنے لگا کہ اتنے میں راجہ صاحب نے کہا کہ ایک دیسی طبیب نے یہ بھی کہا تھا کہ تمہارے گردہ میں پتھری ہے- یہ سنتے ہی انگریز نے دوسرے انگریز سے کہا کہ فوراً گردے کو چیر دو- اس انگریز نے فوراً شگاف دیا مگر پتھری اس کو نظر نہ آئی- اس پر پیری صاحب نے نشتر خود ہاتھ میں لیا اور شگاف کو وسیع کیا تو گردے کی نالی کے پاس پتھری نظر آئی اس کو نکالا اور بڑی خوشی کی اور میرے متعلق بھی جو کچھ ان سے بن پڑا بہت کچھ تعریفی لفظ بولے- راجہ صاحب نے پھر مجھے بلایا- مگر میں نے جانا پسند نہ کیا- اس پر وہ پھر ناراض ہو گئے- گو مجھے پورا علم نہیں ہے- مگر قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پھر میرا وہاں رہنا اور مجھ کو دیکھنا پسند نہ کیا- وہاں کے دوسرے ممبر نے جن کا نام باگ رام تھا مجھ سے کہا کہ اگر آپ استعفیٰ دے دیں تو اس میں بڑے مصالح ہیں- میں نے ان سے کہا کہ بنے ہوئے روزگار کو خود چھوڑنا ہماری شریعت میں پسند نہیں کیا گیا الاقامۃ فی ما اقام اللٰہ ضروری ہے- باگ رام صاحب نے مجھ کو استعفیٰ کی ترغیب دی لیکن میں نے شرعی امر کو مقدم سمجھا- آخر ایک روز میری علیحدگی کا پروانہ آیا- اور جب پھر مجھے کسی تقریب پر وہاں جانا پڑا تو موجودہ مہاراج صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ پر بھی بہت بے جا ظلم ہوا ہے آپ معاف کردیں- میںنے کہا یہ تو خدا تعالیٰ کا گناہ ہے- خدا کا گناہ خدا تعالیٰ ہی معاف کر سکتا ہے- بندے کی کیا طاقت ہے- ان کے والد ماجد عالم لوگوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں جیسے کہ میں نے ذکر کیا ہے ڈرتے تھے- ان دنوں میں مہاراج کو اپنے چھوٹے بھائی صاحب سے کدورت تھی اور میرا ان کے ساتھ بڑا تعلق تھا- اس لئے اور بھی ممبر صاحب کو موقع مل گیا-
جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا وہ مجھ سے ہمیشہ نصیحتا کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ میں ایک سو روپیہ پس انداز کر لیا کریں- یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں- میں ہمیشہ یہی کہہ دیا کرتا- ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے- ہم پر انشاء اللہ تعالیٰ کبھی مشکلات نہ آئیں گے- جس دن میں وہاں سے علیحدہ ہوا- اس دن وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہو گی- میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا- آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں- ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چار سو اسی روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کی ان دنوں کی تنخواہ ہے- اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ کیا نوردین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا- ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے میرے پاس بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ روپیہ نہ تھا- یہ ہمارے جیب خرچ کا روپیہ ہے- جس قدر اس وقت موجود تھا- سب کا سب حاضر خدمت ہے- پھر تو اس کا غضب بہت ہی بڑھ گیا- مجھ کو ایک شخص کا ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ دینا تھا- اس پنساری نے اس طرف اشارہ کیا کہ بھلا یہ تو ہوا- جن کا آپ کو قریباً دو لاکھ روپیہ دینا ہے وہ آپ کو بدوں اس کے کہ اپنا اطمینان کرلیں کیسے جانے دیں گے؟ اتنے میں انہیں کا آدمی آیا اور بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو جانا ہے- ان کے پاس روپیہ نہ ہوگا- اس لئے تم ان کا سب سامان گھر جانے کا کردو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو دے دو- اور اسباب کو اگر وہ ساتھ نہ لے جاسکیں تو تم اپنے اہتمام سے بحفاظت پہنچوا دو- میں نے کہا- مجھ کو روپیہ کی ضرورت نہیں- خزانہ سے بھی روپیہ آگیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے- میرے پاس روپیہ کافی سے زیادہ ہے اور اسباب میں سب ساتھ ہی لے جائوں گا- غالباً اس وقت میرے پاس بارہ سو یا اس سے بھی کچھ زیادہ روپیہ آگیا تھا- وہ ہندو پنساری کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ پرمشیروں کے یہاں بھی کچھ لحاظ داری ہی ہوتی ہے- ہم لوگ صبح سے لیکر شام تک کیسے کیسے دکھ اٹھاتے ہیں- تب کہیں بڑی دقت سے روپیہ کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے- بھلا اور تو ہوا اس احمق کو دیکھو اپنے روپیہ کا مطالبہ تو نہ کیا اور دینے کو تیار ہو گیا- میں نے کہا خدا تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے- ہم اس کا روپیہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ادا کر دیں گے- تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے- بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفا خانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں- وہاں میں نے ایک مکان بنایا- ابھی وہ ناتمام ہی تھا- اور غالباً سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا- اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں- اس واسطے میں قادیان آیا- چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا- اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا- یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لیکر رخصت ہوں- آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے- میں نے کہا ہاں‘ اب تو میں فارغ ہی ہوں- یکہ والے سے میں نے کہہ دیا کہ اب تم چلے جائو- آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے‘ کل پرسوں اجازت لیں گے- اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی- آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں- میں نے حسب الارشاد بیوی کے بلانے کے لئے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کردیں- جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوا لیں- تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپکی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلالیں- لیکن مولوی عبدالکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے- اور وہ شعر حریری میں موجود ہے ~}~
لا تصبون الی الوطن
فیہ تھان و تمتحن
خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا- پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے-
* * *
‏Mr.9

خاتمہ
عطر مجموعہ
حضرت امیرالمومنینؓ کی خودنویسانیدہ سوانح عمری کا یہ پہلا حصہ ختم کرنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کے متعلق آپ ہی کے الفاظ میں اپنی نوٹ بکوں سے مندرجہ ذیل سرخیوں کے تحت میں کچھ لکھوں مثلاً
دعا۔ قرآن کریم کی عظمت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عظمت۔ تعظیم لامراللہ- شفقت علی خلق اللہ۔ توکل علی اللہ۔ غیرت اسلام۔ آپؓ کا خاص علم کلام۔ قوت ایمان۔ قرآن کریم کے درس کا شوق۔ نکات قرآنی۔ قدر علم۔ قدردانی اہل کمال۔ کتابوں سے محبت۔ شوق کتب بینی۔ جفاکشی۔ اوالوالعزمی۔ شجاعت۔ سخاوت۔ فراست۔ دیانت و امانت۔ محبت۔ اتفاق کی قدر۔ عربی زبان سے محبت۔ رعب و ہیبت- بعض کرامات و خوارق۔ اپنے استادوں کی عظمت۔ مرشدوں سے محبت۔ عفو و درگذر۔ کشوف و الہامات۔ مذاہب غیر پر نظر۔ جامعیت علوم۔ معرکہ الارء مسائل پر تسکین بخش محاکمہ۔ طرز معاشرت۔ وفاداری۔ گورنمنٹ کی وفاداری۔ ہمیشہ خوش رہنا۔ تجربات جو ہر شخص کے لئے کیمیا سے بڑھ کر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اور الحمد للہ میرے پاس آپ کے اس قدر کلمات طیبات محفوظ ہیں کہ میں اپنی طرف سے ایک حرف بھی لکھے بدوں مندرجہ بالا عنوانوں کے تحت میں بہت کچھ درج کر سکتا ہوں۔ لیکن چونکہ یہ شائع ہونے والی کتاب حضرت کی لائف کا قادیان تشریف لانے سے پہلے پہلے حالات کا حصہ ہے یعنی پہلا حصہ ہے۔ لہذا مذکورہ بالا باتوں کے متعلق دوسرے حصہ میں جو )قادیانی زندگی سے متعلق ہوگا( درج کرنا مناسب سمجھا گیا۔ اس جگہ اپنی نوٹ|بکوں سے صرف وہ چند واقعات انتخاب کرکے لکھتا ہوں جو پہلی زندگی سے تاریخانہ تعلق رکھتے ہیں۔ اور مسلسل سوانح عمری میں )جو حضرت نے لکھوائی ہے( مذکور نہیں ہوئے۔ میری نوٹ بکوں )یادداشتوں( میں بہت سے واقعات بھی ہیں جو حضرتؓ نے اپنے سلسلہ سوانح|عمری میں لکھوا دیئے ہیں۔ ان کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی )وہ تاریخانہ واقعات جو قادیانی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں- دوسرے حصہ میں نقل ہونے کے لئے میری نوٹ بکوں میں محفوظ ہیں(۔ اس طرح یہ قادیانی زندگی سے پہلے کا حصہ ایک حد تک کامل کہے جانے کے قابل ہو جائے گا۔ ہاں مذکورہ بالا سرخیوں کے تحت میں جو کچھ دوسرے حصہ میں درج ہوگا۔ اس کو اس پہلی زندگی سے بھی ایسا ہی تعلق ہے جیسا قادیانی زندگی سے۔ لیکن اس کے اندراج کے لئے دوسرا حصہ ہی بہتر مقام ہے۔
یہ بات پھر یاد دلائی جاتی ہے کہ حضرت امیرالمومنینؓ کی لائف کے متعلق میں نے احتیاط کی ہے کہ جو کچھ لکھا جائے خود حضرتؓ ہی کے الفاظ ہوں- اپنی طرف سے کچھ نہ لکھا جائے۔ اور یہ امتیاز اس کتاب کا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتا ہوں۔
‏ ]nsk [tag الحمد للٰہ رب العالمین۔
میں نے یہ بھی احتیاط کی ہے کہ کسی حکایت کو اپنی یادداشتوں سے )جو بطور روزنامچہ لکھی ہوئی ہیں( نقل کرتے وقت پیشانی پر تاریخ بھی لکھ دی جائے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا رہے کہ حضرتؓ نے یہ واقعہ کس تاریخ میں بیان فرمایا تھا اور اس سے میرے اس کام کی عظمت بھی ظاہر ہوگی جو میں حضرتؓ کے کلمات طیبات کے محفوظ کرنے میں کماینبغی احتیاط سے کرتا رہا ہوں۔ بحولہ وقوتہ تعالیٰ۔
المرتب

اہل خاندان۔ ایام طفولیت
)۸ فروری ۱۹۱۰ء در مسجد مبارک بعد نماز ظہر(
ہمارے باپ کے نہ کوئی بھائی تھا نہ بہن تھی- ہمارے دادا کے نہ کوئی بھائی تھا نہ بہن- اسی طرح ہمارے پردادا کے- غرض کہ ہماری گیارہ پشتوں تک ایک ہی ایک شخص ہوا ہے- پھر دیکھو ہم کتنے بھائی اور بہن ہوئے اور ہماری اولاد تو اور بھی زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۳/ ستمبر ۱۹۰۹ئ- بعد نماز عصر در مسجد مبارک(
ہم نو بھائی بہن تھے- میں اپنے تمام بھائی بہنوں سے چھوٹا ہوں- میں اپنے ماں باپ کی سب سے آخری اولاد ہوں- ہمارے باپ نے ہم سب کو پڑھانے کی بے|حد کوشش کی- ہمارے ایک بڑے بھائی تھے جو ہم سب میں بڑے خوبصورت تھے- ہمارے باپ کے حکم کے موافق وہ مدن|چند ایک جذامی کے پاس پڑھنے جاتے تھے- اس وقت فارسی زبان کا عام رواج تھا اور مدن|چند فارسی کا ماہر تھا- شہر والوں نے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کو کوڑھی کے پاس پڑھنے بھیجتے ہیں؟ ہمارے باپ نے فرمایا کہ کوڑھی ہو اور عالم ہو تو جاہل تندرست سے اچھا ہے- ہم سب بھائی بہن بحمد للہ پڑھے لکھے تھے- ہماری بہنیں بھی خوب لکھ پڑھ سکتی تھیں- ہمارے باپ علم کے بڑے ہی قدردان تھے- جب ہماری سب سے بڑی بہن کی شادی ہوئی تو ہمارے باپ نے جہیز میں سب سے اوپر قرآن شریف رکھ دیا اور کہا کہ ہماری طرف سے یہی ہے- اس قرآن شریف کا کاغذ حریری باریک بڑی محنت اور صرف زر سے میسر ہوا تھا- جلالپور جٹاں کے مولوی نور احمد صاحب نے سو روپیہ میں صرف لکھ کر دیا- جدول- رول- آیتیں بنانا- رنگ بھرنا- سونے کا پانی پھیرنا وغیرہ علاوہ-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)دسمبر ۱۹۰۶ئ- در مطب(
بچوں کو مارنا اچھا نہیں- اکرموا اولادکم بھی آیا ہے- جب شریعت نے ان کو مکلف نہیں کیا تو ہم کون جو مکلف کریں- اولاد کے نیک بنانے کے لئے دعائیں کرو- میری اور میرے بھائی بہنوں کی تربیت زدوکوب کے ذریعہ سے نہیں ہوئی- میرے والدین ہم سب پر اور بالخصوص مجھ پر بہت ہی زیادہ شفقت فرماتے تھے- ہماری تعلیم کے لئے وہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کی بھی پروا نہ کرتے تھے- میں نے اپنے والد یا والدہ سے کبھی کوئی گالی نہیں سنی- والدہ صاحبہ جن سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے وہ اگر کسی کو گالی دیتی تھیں تو یہ گالی دیتی تھیں- >محروم نہ جاویں< یا >نامحروم<
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل ۱۹۰۷ء بعد درس قبل مغرب اس میدان میں فرش پر بیٹھے ہوئے جہاں اب دفتر بدر ہے اس کی مشرقی افتادہ زمین- بوجہ طاعون بجائے مسجد کلاں وہاں درس ہوا تھا- تاریخ درج نہیں-
میرے باپ کو چلنے کی بہت عادت تھی لیکن میں تو زیادہ دور نہیں چل سکتا- سخت گرمی اور پیاس محسوس ہونے لگتی ہے- میری ماں بھی بہت کم چل سکتی تھیں- یہ مجھ میں انہی کا اثر ہے- میری ماں پڑھی لکھی اور مذہب سے خوب واقف تھیں- نہایت صحیح عقائد رکھتی تھیں- فقہ کے بہت مسائل یاد تھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ مارچ ۱۹۰۷ئ(
میری ماں اچھی پڑھی ہوئی اور قرآن شریف کو خوب سمجھتی سمجھاتی تھیں- وہ اعوان قوم میں سے تھیں- میری بھاوج بگہ والے مشہور خاندان میں سے تھیں- دودھ چھڑانے کا زمانہ مجھ کو یاد ہے- دودھ چھڑانے کے بعد میری بھاوج نے مجھ کو اکثر اپنے پاس رکھا- وہ مجھ کو کھلاتے اور بہلاتے ہوئے اکثر یہ کہا کرتی تھیں- انت الھادی- انت الحق- لیس الھادی الا ھو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ اگست ۱۹۰۸ئ(
اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے- انہوں نے مجھ کو اس وقت جبکہ میں تحصیل علم کے لئے پردیس کو جانے لگا- فرمایا اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو خبر نہ کرنا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ فروری ۱۹۱۰ئ(
میں اپنے ماں باپ کے لئے دعا مانگنے سے تھکتا نہیں- میں نے اب تک کوئی جنازہ ایسا نہیں پڑھا جس میں ان کے لئے دعا نہ مانگی ہو-
خدا تعالیٰ رحم کرے میری والدہ پر- انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکات قرآن مجھ کو بتائے- منجملہ ان کے ایک یہ بات تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی فرماں|برداری کرو گے اسی قسم کے انعامات پائو گے اور جس قسم کی نافرمانی کرو گے اسی قسم کی سزا پائو گے~}~- از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو ز جو
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان- ~}~
از مذاہب مذہب دہقاں قوی اے مولوی مذہب دہقاں چہ باشد ہرچہ کشتی بدروی
وہ اکثر فرمایا کرتی تھیں- >جو آگ کھائے گا انگارے ہگے گا<
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ اپریل ۱۹۱۲ئ(
میں نے اپنے ماں اور باپ کو ترشرو کبھی نہیں دیکھا حالانکہ میں عبدالحی پر کبھی خفا بھی ہو جاتا ہوں-
)۸/ جون ۱۹۰۹ء بعد نماز عصر قبل درس در مسجد مبارک(
میری ماں کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی اتفاق ہوتا تھا- انہوں نے تیرہ برس کی عمر سے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا تھا- چنانچہ یہ ان کا اثر ہے کہ ہم سب بھائیوں کو قرآن شریف سے بہت ہی شوق رہا ہے-
‏)۷3]/ [rtf مئی ۱۹۰۹ئ(
میرے والد صاحب کو بھینس رکھنے کا بڑا شوق تھا- انہوں نے اس کے چرانے والے کو تاکید کر دی تھی کہ ہماری بھینس کا دودھ نہ دوہا کر- ہم تجھ کو اجرت زیادہ دے دیں گے- لیکن وہ ایک دن دودھ دوہتا ہوا دیکھا گیا- تب کہنے لگا- حضور! میرا بیٹا مر گیا ہے آج اس کی جمعرات ہے میں نے بہت سوچا- پھر یقین ہو گیا- آپ کی بھینس طیب حلال ہے اسی کا دودھ اس کی فاتحہ میں دوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۸ء بروز عید بعد نماز ظہر جبکہ سب لوگ چلے گئے- مسجد مبارک میں اس عاجز )احقر اکبر( کو جو خدمت میں حاضر تھا- مخاطب کرکے فرمایا -:
ایک دن ہم اپنے گھر بھیرہ میں تھے- یہ وہ زمانہ تھا کہ روم و روس میں لڑائی ہو رہی تھی اور ہندوستان میں روز خبریں مشہور ہوا کرتی تھیں- رات کا وقت تھا- ہمارے گھر میں ہم سات بھائی اور دو بہنیں اور دونوں ماں باپ تھے- پھر ہر ایک بھائی کی غالباً پانچ پانچ چھ چھ اولاد تھی- سوائے میرے سب کی شادیاں ہو چکی تھیں- گھر خوب بھر رہا تھا- میں نے اپنی ماں سے کہا کہ روز خبریں آرہی ہیں کہ آج اس قدر آدمی مارے گئے- آج اس قدر مارے گئے- آخر وہ مارے جانے والے کسی کے بیٹے اور بھائی ضرور ہوتے ہوں گے- دیکھو ہمارے گھر میں تو ہر طرح امن و امان ہے اور کوئی فکر نہیں- بس آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹے کو یعنی مجھ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیجئے- میری شادی بھی نہیں ہوئی- نہ بیوی ہے نہ بچے- یہ سن کر میری ماں نے کہا کہ میرے سامنے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے- غرض میں خاموش ہو رہا- اب سنو! تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہمارے بھائی مرنے شروع ہوئے- جو مرتا- اس کی بیوی جو اس کے ہاتھ آتا لے کر گھر سے نکل جاتی- کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ باقی بھائی قبضہ کر لیں گے اور اسباب میرے قبضہ میں نہ رہے گا- رفتہ رفتہ سب مر گئے اور سارا گھر خالی ہو گیا جبکہ میرا تعلق ریاست جموں سے تھا- میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم پر اپنے مکان پر آیا- وہاں میں اس جگہ جو ہمارے مشترکہ خزانہ کی کوٹھڑی گھر کی عام نشست گاہ کے قریب تھی- دوپہر کے وقت سو رہا تھا- میری والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں- انہوں نے اس قدر زور سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کہ میری آنکھ کھل گئی- میں نے ان سے کہا کہ صبر کے کلمہ کو تو اس قدر بے صبری کے ساتھ نہیں کہنا چاہئے- پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام گھر اب ویران اورخالی کیوں پڑا ہے؟ کہا کہ ہاں مجھ کو وہ تیری اس روز رات کی بات خوب یاد ہے- اسی کا یہ اثر ہے اور مجھ کو ہر ایک بیٹے کی موت کے وقت وہ بات یاد آتی رہی ہے- پھر میں نے کہا اور بھی کچھ سمجھ میں آیا؟ کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں کہ میرا دم تیرے سامنے نہ نکلے گا- بلکہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو یہاں نہ ہوگا- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور قاضی امیر حسین نے جو اس وقت موجود تھے کفن دفن کا کام انجام دیا- میں اس وقت جموں میں تھا- اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نورالدین کفن دفن میں شریک ہو- اور ہم اس کے سامنے فوت ہوں گے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۵/ جنوری ۱۹۰۷ء در مطب(
میں سفر میں جانے لگا تو ایک بزرگ کی بات یاد آئی جس نے کہا کہ جس شہر میں جائو وہاں چار شخصوں یعنی ایک وہاں کے پولیس افسر- ایک طبیب- ایک اہل دل اور ایک امیر سے ضرور ملاقات رکھنا- اور جس شہر میں یہ چاروں نہ ہوں- وہاں جانا نہ چاہئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ جون ۱۹۰۹ئ(
میرے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب جو بڑے عالم متبحر تھے ہرن پور کو جا رہے تھے- راستہ میں کسی گائوں میں تھوڑی دیر کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھہرے تو دیکھا کہ وہاں بہت سے جاہل مسلمان جمع ہیں اور بڑے زور شور کی بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ مسلمان کیا ہوتے ہیں اور مسلمین کیا ہوتے ہیں- بھائی صاحب حیران تھے- فرماتے تھے کہ میں سوچتا تھا کہ مسلمانوں کی جہالت کہاں تک پہنچ گئی ہے اور یہ اپنی اسی حالت میں خوشہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)مئی ۱۹۰۹ئ(
بھیرہ کی جامع مسجد میں میرے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب وعظ بیان فرما رہے تھے- میری اس وقت بہت چھوٹی عمر تھی- مجھ کو یاد ہے کہ انہوں نے اپنے بیان میں کسی موقع پر یہ حدیث پڑھیالدنیا جیفۃ و طالبھا کلاب اور اس کا ترجمہ بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہاں بجائے کلاب کے غراب کیوں نہ فرمایا- کوا بھی تو مردار خور ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ کتے کو کتنی ہی بڑی مقدار میں اس کی ضرورت سے زیادہ مردار مل جائے پھر بھی وہ دوسرے کتے کو دیکھ کر غراتا ہے اور پاس نہیں آنے دیتا- لیکن کوے میں یہ بات نہیں- وہ مردار دیکھ کو شور مچاتا اور اپنے تمام ہم قوموں کو خبر کر دیتا ہے- کتے میں قومی ہمدردی نہیں اور کوے میں ہمدردی اپنی قوم کی بہت ہے- اسی وجہ سے کتے کو زیادہ ذلیل ٹھہرایا گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۱/ ستمبر ۱۹۰۸ئ(
عبدالرحمن کے باپ ہمارے ایک بھائی تھے- وہ جب ڈیرہ غازی خاں کی طرف گئے تو وہاں سنا کہ ایک نواب صاحب رمضان میں روزہ نہیں رکھتے اور کھانا بھی سب کے سامنے باہر بیٹھ کر کھاتے ہیں- انہوں نے کہا کہ لو ہم ابھی اس حرکت سے اس کو روکے دیتے ہیں- چنانچہ یہ گئے- اس کو دیکھا کہ اس نے پانی پی کر الحمد للٰہ کہا- انہوں نے کہا استغفراللٰہ آپ تو مسلمان ہیں- لوگ خواہ مخواہ بازار میں چرچا کر رہے ہیں کہ نواب صاحب کرسٹان ہو گئے کیونکہ رمضان شریف کی حرمت نہیں فرماتے- کھلے طور پر باہر مردانہ میں کھانا کھاتے ہیں- اس نے اپنے ملازموں سے کہا کہ تم نے مجھ کو خبر بھی نہیں کی کہ رمضان آ گئے واقعی رمضان کا ضرور ادب کرنا چاہئے- پھر اس نے رمضان میں باہر کھانا نہیں کھایا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ نومبر ۱۹۰۹ئ(
میری ایک بہن تھیں- ان کا ایک لڑکا تھا وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا- اس کے چند روز بعد میں گیا- میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے ہوئے دیکھا- مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی تم اگر آجاتے تو میرا لڑکا بچ ہی جاتا- میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہو گا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا- چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا- پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا- ان کو میری بات یاد تھی- مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو- میں نے کہا کہ خداتعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو- چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا اور اب تک زندہ برسر روزگار ہے- یہ الٰہی غیرت تھی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)جنوری ۱۹۰۷ء در درس حدیث(
میرا حافظہ کچھ اس قدر تیز ہے کہ مجھے دودھ چھوڑنا بھی یاد ہے- میری ماں نے جب اپنی چھاتی پر کچھ لگایا تو میں نے اپنے بڑے بھائی سے کہا- حوا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۱/ فروری ۱۹۱۰ئ(
مجھ کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے سے کتابوں کا شوق ہے- بچپنے میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرتا تھا- سن تمیز کے وقت میں نے کتابوں کا بڑا انتخاب کیا اور مفید کتابوں کے جمع کرنے میں بڑی کوشش کی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲/ اپریل ۱۹۱۲ئ(
میں نے کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا- میں نے صرف ایک ہی کھیل کھیلا ہے اور وہ تیرنا ہے- مجھ کو تیرنا خوب آتا ہے- بعض اوقات میں بڑے بڑے عظیم الشان دریائوں میں بھی تیرتا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ فروری ۱۹۱۲ئ(
میرے سامنے میرے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں نے کبھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو دور سے دیکھ کر آپس میں کہا کرتے کہ یارو سنبھل کر بولنا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
سمت ۱۹۰۳ )بکرمی( کی بات ہے جس کو اب قریباً ۶۶ برس گزر گئے ہوں گے مجھ کو اس طرح یاد ہے جیسے ایک اور ایک دو کہ ایک مردانہ نام چاوہ کا ڈاکو تھا- سکھوں کا عہد تھا اس کو پکڑ کر اس کا سر اڑا دیا گیا تھا- ہمارے شہر میں چٹی پل دروازہ پر اس کا سر لٹکا دیا تھا- چونکہ وہ بڑا ڈاکو تھا- اس کو سب دیکھنے کے لئے گئے- میں بھی گیا تھا- یہ یاد نہیں کہ میں خود گیا یا کوئی لے گیا- میں بڑی گھمسان میں کھڑا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۵/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
ایک مرتبہ جبکہ میں بچہ تھا ایک مولوی نے کہا کہ تم بھی ختم میں چلو- میں چلا گیا- وہاں لوگ قرآن شریف پڑھ رہے تھے- میں نے بھی ایک سپارہ لیا- ابھی میں نے آدھا ہی پڑھا تھا کہ بعض نے دو- بعض نے چار پڑھ لئے- قریب سے ایک نے غصہ کے ساتھ مجھ سے سپارہ لیا اور کہا کہ تم نہیں جانتے- لائو میں پڑھ دوں- اس نے لے کر ویسے ہی ورق لوٹنے شروع کر دئیے اور جھٹ سپارہ ختم کرکے رکھ دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۳/ جنوری ۱۹۰۹ء بعد مغرب(
ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے- ایک دفعہ ہمارے استاد نے ہم کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے بھیجا- ہم میں ایک لڑکا تھا- اس نے وضو کر لینے کے بعد سب کو مخاطب کرکے کہا کہ یارو کیسی نماز؟ کون نماز پڑھتا ہے- یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار سے رگڑی- مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا- جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسجد میں نماز پڑھ کر آیا ہے- اس نے ہم سب کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی اٹکل سکھائی- پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑا نامی گرامی چور ہوا اور ہمارے شہر کے تمام چوروں اور بدمعاشوں میں اس کا نمبر سب سے اول تھا- ایک مرتبہ وہ ایک قلعہ کی دیوار سے کودا اور اس کو قید کی سخت تکلیف اٹھانی پڑی- میری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ نماز دل سے پڑھو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۶/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
میں جب بچہ تھا تب مجھ کو ایک کتاب پڑھائی گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ~}~
شب چو عقد نماز بر بندم چہ خورد بامداد فرزندم
یہ کوئی ساتویں صدی کی بات ہے- اب تو چودھویں صدی ہے- میں کبھی اس آیت کو پڑھا کرتا ہوں کہ اللہ الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ والنھار مبصراً ان اللٰہ لذو فضل علی الناس ولٰکن اکثر الناس لا یشکرون اور پھر تعجب کے ساتھ اس شعر کو پڑھتا ہوں- رات کے وقت بھی دنیا کے تفکرات کو نہ چھوڑنا فضول ہے- مومن کو چاہئے کہ رات کو سکون کرے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ مارچ ۱۹۱۲ئ(
ہمارے شہر میں ایک بڑا پہلوان عظیم شاہ آیا- ہمارے ایک دوست )نجم الدین کے بھائی( نے ہم سے کہا کہ آئو‘ اکھاڑے میں چلیں‘ کشتی لڑیں گے- ہم جب وہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ عظیم شاہ پہلوان پائوں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہاتھوں سے چل رہا ہے- مجھ کو یہ نظارہ دیکھ کر بڑی نفرت ہوئی- کہا کہ افمن یمشی مکباً علیٰ وجھہ- ہمارے دوست تو لنگوٹا باندھ کر دھڑام سے اکھاڑے میں داخل ہوئے اور میں وہاں سے چلا آیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ نومبر ۱۹۰۸ئ(
مجھ کو بچپنے میں شوق تھا کہ اس دریا پر جو ہمارے شہر کے قریب ہے جا کر بہت تیرتا تھا- میں نے سردیوں کے موسم میں ایک مرتبہ اس دریا کے قریب ایک فقیر کو ننگے بدن صرف ایک کھال کے اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا- میں اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور اس سے دریافت کیا کہ تم کو سردی کیوں نہیں معلوم ہوتی؟ اس نے کہا کہ سنکھیا کھاتا رہتا ہوں اور اور بھی گرم چیزیں استعمال کرتا ہوں- جلد پر راکھ ملتے ملتے ایک تہہ جم گئی ہے- جلد کے مسامات بھی بند ہو گئے ہیں اس لئے سردی نہیں معلوم ہوتی- اس قسم کے لوگوں کا خدا تعالیٰ کے حصول اور تقرب کے متعلق کوئی مدعا نہیں ہوتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ اپریل ۱۹۱۲ئ(
میں مدرسہ میں پڑھنے جایا کرتا تھا- اس کے راستہ میں ایک شخص بٹیر لڑایا کرتا تھا- میں نے وہ اس سے خرید لیا- گھر لایا تو بڑا خراب تھا- میں اس کے پاس لے گیا- اس نے کہا کہ تم نے خراب کر دیا ہے- دوسرا لے جائو- وہ بھی بڑا تیز معلوم ہوتا تھا- گھر جا کر وہ بھی بہت خراب تھا- ایک شخص نے مجھ کو بتایا کہ یہ لوگ شراب پلا کر ان کو ایسا بنا دیتے ہیں- وہ شخص اب بھی میرا ادب کرتا ہے- میں اس کو بھی اپنا استاد ہی سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے بتا دیا کہ دھوکوں سے بچو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۰/ مئی ۱۹۰۹ئ(
جب میں راولپنڈی میں آیا تو ہمارے مکان کے قریب ایک انگریز الیگزنڈر کی کوٹھی تھی- ایک شخص مجھ کو وہاں لے گیا- اس نے میزان الحق اور طریق الحیوۃ دو کتابیں بڑی خوبصورت چھپی ہوئی مجھ کو دیں- میں نے ان کو خوب پڑھا- میں بچہ ہی تھا لیکن قرآن کریم سے اس زمانہ میں بھی مجھ کو محبت تھی- مجھ کو وہ دونوں کتابیں بہت لچر معلوم ہوئیں- اس وقت ان کے روح القدس کو بھی نہیں جانتا تھا- میں نے دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے والے مباحثات میں کبھی عاجز نہیں ہوتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ہمارے خاندان کی ایک عورت بیوہ ہو گئی- اس نے کسی شخص سے شادی کرنی چاہی- اس شخص نے جس کے ساتھ شادی ہونے والی تھی مجھ کو لکھا کہ کیا آپ خوشی سے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس سے شادی کرلوں؟ میں نے کہا- ہاں! بڑی خوشی سے اور بڑی مبارکی کی بات ہے- وہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ دیکھو انہوں نے اپنی عزت کا خیال نہیں کیا- میں نے کہا اس شخص کو جس کی یہ بیوی تھی- جب خدا تعالیٰ نے مار دیا تو اب خدا تعالیٰ کی مرضی ہی یوں تھی-
‏]cent [tag۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ اکتوبر ۱۹۰۸ئ(
حکیم فضل الدین میرے نہایت بچپنے کے دوست ہیں- جبکہ ہمارے شہر میں کوہاٹ کے علاقہ سے محمد جی نامی ایک مولوی آکر وعظ کیا کرتے اور ہم دنوں بڑے شوق سے ان کا وعظ سننے جایا کرتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏Mr.10
متعلق بہ اہل و عیال
)۲۲/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میرا نکاح جب ہونے لگا تو میرے استاد جو نکاح پڑھانے والے تھے- میں نے ان سے کہا کہ مہر مجھ کو تو ادا کرنا پڑے گا آپ کو تو ادا کرنا پڑے گا نہیں- عورتوں میں شور مچ گیا کہ لڑکا بول پڑا- ہمارے استاد صاحب بھی ناراض ہو گئے- عورتیں بھی ناراض ہو گئیں لیکن میں نے تو پانچ سو روپے سے زیادہ منظور نہیں کیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/ مئی ۱۹۰۹ء در مسجد مبارک(
میری تین بیویاں ہوئیں جن میں دو آپس میں لڑتی بھی تھیں- میں نے اس بات کے معلوم کرنے کی کہ لڑائی کی بنیاد کیا ہے؟ بہت کوشش کی- لیکن بعض بعض باتوں کا مجھ کو آج تک بھی پتہ نہیں چلا- جب اپنے گھر کے متعلق اور اپنے متعلق واقعہ کی یہ حالت ہے تو دوسرے واقعات اور تاریخ پر کیا اعتماد ہو سکتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ جون ۱۹۰۹ء بعد نماز عصر قبل از درس در مسجد مبارک(
میری بیوی کو جب میرے لڑکے محمود احمد کا حمل ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ تم لکھا بہت کرو- مدعا اس سے یہ تھا کہ تجربہ کروں کہ یہ بچہ لکھنے کا شوقین ہو گا یا نہیں؟ چنانچہ جس وقت محمود احمد کے انتقال کا زمانہ قریب تھا- میں نے ایک قلم لیا اور ایک روپیہ لیا- دونوں اس کے سامنے کئے- اس نے ہر مرتبہ قلم ہی کی طرف ہاتھ بڑھایا-
‏cent] g[ta۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۴/ جون ۱۹۰۹ئ(
میری نئی نئی شادی ہوئی تھی- میری بیوی کی عمر چھوٹی تھی- میرے ایک دوست تھے- انہوں نے کہا کہ ہماری بیوی تمہاری بیوی سے ملاقات کرنا چاہتی ہے- میں نے کہا کہ شوق سے وہ آئیں- چنانچہ وہ آئی- میری بیوی کو دیکھتے ہی ایک بڑا ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ ہائے تیری تو قسمت پھوٹ گئی- تو تو ابھی بچی ہے اور تیرے ماں باپ اور بھائیوں نے مولوی صاحب کے ساتھ تیری شادی کر دی جو تیرے باپ کے ہم عمر ہیں- میں نے تو اپنی بیٹی کی شادی ایک نہایت خوبصورت اور جوان شخص کے ساتھ کی ہے- میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہ کون عورت ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست کی بیوی ہے- میری بیوی نے کہا کہ یہ مجھ سے ایسا ایسا کہتی ہے اور اس کی سب باتیں اس کے سامنے ہی نقل کر دیں- وہ سنتے ہی فوراً وہاں سے چل دی- مجھ کو کچھ کہنے کی بھی نوبت نہ پہنچی- اس کی لڑکی کی جس شخص کے ساتھ شادی ہوئی تھی یعنی اس کا داماد تپ دق سے جلد مر گیا- پھر دوسرے کے ساتھ شادی کی- چند روز کے بعد قریباً ایک ہزار روپیہ دے کر اس سے طلاق حاصل کی- اب بھی وہ لڑکی موجود ہے- قرآن کریم میں اسی واسطے علی العموم عورتوں کو گھروں میں آنے سے روکا گیا ہے- دیکھو سورہ نور-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ اگست ۱۹۰۸ئ(
لدھیانہ میں میری اس موجودہ بیوی کے کان میں درد ہوا- ایک عیسائی ڈاکٹرنی کو بلایا- اس نے علاج کیا- آرام ہو گیا- چونکہ اس نے بہت خدمت کی تھی لہذا وہ بڑی دوست بن گئی اور روزانہ آنا جانا شروع کیا- ایک روز اس نے کہا کہ بیوی تمہارا مذہب اسلام تو بہت اچھا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ دو بیویاں کیوں کر لیتے ہیں- چونکہ میری بڑی بیوی زندہ تھی لہذا ڈاکٹرنی کی بات کا میری اس چھوٹی بیوی کے دل پر بڑا اثر ہوا- پھر ایک دن وہ اپنی کوٹھی میں بطور سیر لے گئی اور پردہ کے متعلق اعتراض کیا- میری بیوی اس کا بھی جواب نہ دے سکی- اس کے بعد میں لدھیانہ گیا- بیوی کو ہمراہ لے کر مالیر کوٹلہ پہنچا- وہاں ایک عیسائی عورت کے نام‘ جو مالیر کوٹلہ کے ولی عہد کی اتالیق تھی‘ اسی لدھیانہ والی ڈاکٹرنی کی چٹھی آئی- جس میں میری بیوی کے مالیر کوٹلہ آنے اور اس سے ملاقات کرنے کی بابت اشارہ تھا- مجھ کو اس کا حال معلوم ہوگیا- میں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ تمہاری کسی عیسائی عورت سے لدھیانہ میں ملاقات ہوئی تھی؟ اس نے کہا کہ ہاں ایک مس ڈاکٹرنی سے کان کے درد کا علاج کرایا تھا اور تمام قصہ سنایا- میں نے ہر چند نصیحت کی مگر تعدد ازدواج کے متعلق میری بیوی کی تشفی نہ ہوئی- میں نے دعائیں کیں جس کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ ایک ناول کسی نے میرے پاس اسی عرصہ میں بھیجا جس کا نام شاید >فلورا فلورنڈا< تھا- وہ میری بیوی نے دیکھا اور اول سے آخر تک بغور پڑھا- نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میری بات کو بھی مان گئی اور اسی روز سے اس کو عیسائی عورتوں سے اب نہایت سخت نفرت ہے- وہ ناول عبدالحلیم شرر کا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۸/ مئی ۱۹۱۲ئ(
میں نے جب سے شادیاں کی ہیں آج تک اپنی کسی بیوی کا کوئی صندوق کبھی ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا-
)۱۷/ دسمبر ۱۹۱۱ئ(
میں ایک مرتبہ ایک عیسائی عورت سے شادی کرنے لگا تھا- لیکن صرف پردہ کے مشکلات کے باعث باز رہا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ نمبر ۱۹۱۰ئ(
میرے بہت سے لڑکے مرے- جب کوئی لڑکا مرتا تو میں یہی سمجھتا کہ اس میں کوئی نقص ہوگا- خدا تعالیٰ اس سے بہتر بدلہ دے گا- خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے مایوس ہونا تو کافروں کا کام ہے- خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی جب قدر نہیں کی جاتی تو وہ نعمتیں چھن جاتی ہیں- اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جاتی ہی نہیں مگر ناشکری سے- جب نعمت چلی جائے تو آدمی مایوس نہ ہو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ مارچ ۱۹۰۹ئ(
میرے بچے جب مرے تو میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ اگر تم مرتے تب بھی یہ تم سے جدا ہو جاتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
مجھ کو شاہ ولی اللہ صاحب کا فارسی ترجمہ قرآن کریم کے تمام ترجموں میں پسند ہے- میں نے ایک مرتبہ اپنی لڑکی امامہ کو وہ پڑھانا چاہا- اس لئے اول اس کو فارسی پڑھانی شروع کی- وہ لڑکی بڑی ہی ذہین اور پڑھنے لکھنے میں بہت ہوشیار تھی- میں نے اس کو اول کریما شروع کرائی- میں خود ہی اس کو پڑھایا کرتا تھا- ایک دن سبق آیا کہ
~}~ بدہ ساقیا آب آتش لباس
اب میں حیران تھا کہ اس کو کس طرح پڑھائوں- میں نے کہا کہ امامہ آج تو رہنے دو‘ سبق کل پڑھائیں گے- اگلے روز میں نے وہ آب آتش لباس والا ورق پھاڑ دیا اور اس طرح پھاڑا کہ یہ بھی نہ معلوم ہوکہ کوئی ورق علیحدہ کیا گیا ہے لیکن جب وہ پڑھنے بیٹھی تو کہنے لگی کہ وہ آتش لباس والا ورق کہاں گیا- پھر اس نے ورق پھاڑنے والے کو بہت برا بھلا کہا- غرض میں نے آب آتش لباس ورق کے سوا کریما اس کو پڑھائی- اس کے بعد نہ گلستاں اس قابل تھی- نہ بوستاں کہ اس کو پڑھاتا- انوار سہیلی ان سے بھی بدتر نکلی- جب کوئی کتاب نہ ملی تو مجبوراً میں نے کہا کہ تم شاہ ولی اللہ صاحب کا ترجمہ ہی پڑھو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہد جوانی - طلب علم
)۱۵/ مارچ ۱۹۱۰ئ(
میں ایک مرتبہ آگرہ سے بھوپال پیادہ پا گیا اور معلوم بھی نہ ہوا- اب تو نواب صاحب کی کوٹھی تک جانے سے کئی دن تک تکان کا اثر باقی رہتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۹/ اکتوبر ۱۹۱۰ئ(
میں جوانی کے عالم میں جبکہ جہلم کا دریا خوب چڑھا ہوا تھا تیر کر پار چلا جاتا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ مارچ ۱۹۱۲ء بعد نماز ظہر(
قویٰ مختلف ہوتے ہیں- میں زمانہ طالب علمی میں کئی کئی وقت تک کھانا نہیں کھاتا تھا اور کوئی ضعف و نقاہت قطعاً محسوس نہیں ہوتا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۱/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
میں نے حج میں دو مرتبہ سات سات دفعہ طواف کرکے دو دو رکعتیں پڑھیں- یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ یہ موقع کسی کو بڑی ہی مشکل سے مل سکتا ہے بلکہ نہیں ملتا- مطاف میں دن رات ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے- دنیا میں کوئی جگہ نہیں جہاں اس کثرت سے ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو- پس نزول رحمت جس قدر وہاں ہوتا ہے دوسری جگہ ہو ہی نہیں سکتا-
‏]cent [tag۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/ فروری ۱۹۱۲ئ(
میرے استاد نے مجھ سے کہا کہ تم قانون )قانون شیخ( کس طرح پڑھو گے؟ میں نے کہا کہ میں تو قرآن شریف پڑھ سکتا ہوں- قانون کی کیا حقیقت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ مئی ۱۹۰۹ئ(
یہ بھی ایک شرک ہے کہ آدمی ڈپلومے یا سند پر بھروسہ کرے- ایک مرتبہ ایک شخص نے جو افسر مدارس تھا اور میں بھی پنڈدادنخاں میں مدرس تھا- مجھ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومے کا گھمنڈ ہے- میں نے اپنے آدمی سے کہا- ڈپلومہ لائو جس کو یہ خدا سمجھے ہوئے ہے وہ ہمارے پاس بھی ایک ہے- منگا کر اسی وقت اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا- وہ آدمی بڑا حیران ہوا- مجھ سے کہا آپ کو کوئی جوش ہے؟ میں نے کہا نہیں- کہا کوئی رنج ہے؟ میں نے کہا نہیں- آپ نے اس کو باعث غرور و تکبر‘ موجب روزی سمجھا ہے- میں نے اس کو پارہ کرکے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بحمد اللٰہبھروسہ نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲/ نومبر ۱۹۱۰ئ(
میں نے بائیبل- دساتیر- وید وغیرہ تمام مذاہب کی کتابیں پڑھی بھی ہیں- سنی بھی ہیں- مجھ کو سب سے زیادہ قرآن کریم ہی کی عظمت نظر آئی اور کوئی چیز بھی گمراہی کا موجب نہیں ہوسکی- فالحمد للٰہ رب العالمین-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲/ نومبر ۱۹۱۲ئ(
میں نے عنفوان شباب میں لوگوں کو بہت نصیحت کی ہے- ایک شخص کو میں نے بہت نصیحت کی تو وہ چیخ مار کر رونے لگا- میں نے کہا کیوں روتے ہو؟ کہا کہ تمہاری باتیں زبان کو تو خاموش کئے دیتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا- اسی طرح ایک شخص کو میں نماز کے لئے باربار کہتا تھا- میں نے ایک اور شخص سے کہا کہ تم اس کو نماز کے لئے نصیحت کرو- جب اس نے نماز کے لئے کہا تو اس بے نماز نے اس کو جواب دیا کہ نماز تو ہم پڑھتے مگر نورالدین ہم کو نماز نہیں پڑھنے دیتا کیونکہ ہم نے عہد کیا ہے کہ جو نورالدین کہے گا وہ نہ کریں گے- اس شخص نے مجھ سے آکر کہا کہ تم اس کو یہ کہو کہ نماز نہ پڑھ تو پھر وہ پڑھنے لگے گا- میں نے کہا کہ ممکن ہے وہ یہ کہہ دے کہ ساری عمر تو ہم نے تمہاری بات مانی نہیں لائو یہ ایک بات تو مان لیں- اس لئے میں تو ڈر ہی گیا- اور چپ ہو رہا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۲/ جنوری ۱۹۱۰ء قبل مغرب در مسجد مبارک(
میں نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان صاحب تونسوی اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شاہ غلام علی صاحب اور صحابہؓ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک عالم میں خود دیکھا ہے- حضرت شاہ سلیمان صاحب بائیس برس کے تھے جب خلیفہ ہوئے اور پورے ۷۸ برس خلافت کی- سو برس کی عمر پائی- شاہ سلیمان صاحب قوم سے پٹھان روہیلے تھے- حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فقیہ‘ محدث اور حکیم صوفی ہیں- شاہ غلام علی صاحب بٹالہ کے باشندہ سید تھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ جنوری ۱۹۱۰ء بعد نماز فجر(
میں نے دنیا کے جملہ مذاہب کی کتابیں پڑھیں اور سنی ہیں- ژند- پاژند- سفرنگ- دساتیر- بائیبل- وید- گیتا وغیرہ کتابوں پر بہت ہی بہت غور کیا ہے- دنیا کی تمام کتابوں کی اچھی باتوں کا خلاصہ اور بہتر سے بہتر خلاصہ قرآن کریم ہے- مولانا مولوی فضل الرحمان صاحب گنج مرادآبادی کے ملفوظات میں میں نے پڑھا ہے- انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے مولانا شاہ عبدالقادر صاحب سے دو سو برس پہلے کا ایک بھاکا کا ترجمہ دیکھا ہے جس میں اللہ کا ترجمہ من موہن لکھا تھا- مجھ کو تو بڑا شوق ہوا کہ اس ترجمہ میں بڑے بڑے مفید الفاظ ہوں گے مگر ملا نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم جنوری ۱۹۰۶ئ(
میں نے بہت روپیہ- محنت- وقت خرچ کر کے احادیث کو پڑھا ہے اور اس قدر پڑھا ہے کہ اگر بیان کروں تو تم کو حیرت ہو- ابھی میرے سامنے کوئی کلمہ حدیث کا- ایک قرآن کا- ایک کسی اور شخص کا پیش کرو- میں بتادوں گا کہ یہ قرآن کا ہے یہ حدیث کا اور یہ کسی معمولی انسان کا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم جنوری ۱۹۰۷ء (
مجھ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہ ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار بہت پڑھا کرو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۴/ مئی ۱۹۰۹ء بعد ظہر(
میں نے ایک مرتبہ ایک جگہ ڈیڑھ روپیہ ماہوار کی نوکری کی- اس شخص سے جس کی نوکری کی- کچھ نہیں کہا کہ کس قدر علوم و کمالات سے واقف ہوں- کچھ عرصہ کے بعد جب کام اور نوکری کا تعلق ختم ہو گیا- میں ان کے یہاں گیا اور برابر گدیلے پر جاکر بیٹھ گیا اور کہا کہ میں حکیم ہوں- محدث ہوں- ادیب ہوں وغیرہ- وہ سن کر حیران رہ گیا اور مجھ سے
معافی مانگنے لگا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ نومبر ۱۹۱۲ئ(
میری جوانی کی عمر کا ذکر ہے- ایک مقدمہ تھا- فریقین نے مجھ کو منصف قرار دیا- میں حالات سے واقف نہ تھا- ایک کمشنر ولایت سے نیا نیا آیا تھا- اس کے سامنے میں گیا- اس نے کہا کہ >ایک لڑکی نے دعویٰ ورثہ کا کیا ہے آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں-< میں نے قرآن شریف سے نکال کر آیت دکھا دی- اس نے کہا کہ قرآن شریف کو تو سب مسلمان مانتے ہی ہیں؟ میں نے کہا ہاں- اس نے فیصلہ کر دیا- لڑکی کو حق دلا دیا اور فیصلہ میں لکھ دیا کہ رواج بھی ایسا ہی ہے- دوسرے فریق نے مجھ سے کہا کہ تم نے یہ کیا غضب کیا- میں نے کہا تمہارے بزرگوں نے ایسا ہی کیا ہے- )وہ سید تھے-( انہوں نے اپیل کیا- مگر کچھ ہوا نہیں کیونکہ کمشنر نے رواج بھی لکھ دیا تھا- ایک اور واقعہ ہے کہ مجھ کو لوگ اس لئے برا جانتے تھے کہ میں امام کے پیچھے الحمدپڑھتا تھا- ملک فتح خاں سے کسی نے کہا کہ تم نوردین سے کیوں ملتے ہو؟ اتفاق سے ان جیسے رئیس نے عدالت میں عندالاستفسار کہہ دیا کہ ہم قرآن شریف کے اس حصہ کو جو حقوق وارثت کے متعلق یعنی بیٹیوں کو حق دلانے کے متعلق ہے نہیں مانتے- فتح خاں نے ان سے کہا کہ نوردین تو الحمد پڑھتا ہے تم تو قرآن ہی کو نہیں مانتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۵/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر در مسجد مبارک(
ائمہ اربعہ- ائمہ حدیث- ائمہ تصوف- ائمہ کلام میں سے کسی نے قرآن شریف کی پوری تفسیر نہیں لکھی- مجھ کو بچپنے ہی سے تفسیر کا بہت شوق ہے- میں نے کئی مرتبہ تفسیر لکھنی شروع کی اور پوری نہ ہو سکی- ایک مرتبہ میں نے بڑی دعا مانگی کہ خدا تعالیٰ تفسیر لکھنے کی توفیق دے- خواب میں دیکھا کہ مجھ کو ایک دوات دی گئی لیکن وہ خشک تھی- میں سمجھا کہ اور دعا مانگنی چاہئے کیونکہ پانی ڈالنے سے دوات کام دے سکتی ہے- پھر دوسری مرتبہ خواب دیکھا کہ ایک قلم دیا گیا جو چرا ہوا تھا- میں نے سمجھ لیا کہ چرے ہوئے قلم کا تو کوئی علاج ہی نہیں- اس کی وجہ یہی تھی کہ میرے اوپر بھی امام کا لفظ آنے والا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۳۱3]/ [rtf مئی ۱۹۰۹ئ(
میں نے بڑی بڑی فہرستوں کو دیکھا ہے- ان میں علم رئویا کی کتابوں کو علوم متفرقات میں رکھا ہے میں نے چونکہ قرآن کریم میں رئویا کا تذکرہ دیکھا تھا- لہذا میں اس پر اپنا شرح صدر نہ پاتا تھا- پھر میری سمجھ میں آیا کہ رئویا کی کتابیں قرآن کریم اور حدیث کی لغت کی کتابوں کے ساتھ رکھنی چاہیں- چنانچہ میں نے اپنے کتب خانہ میں تعطیر الانام اور کامل التعبیر وغیرہ کو مفردات راغب‘ مجمع البحار فائق کے ساتھ رکھا - اس نکتہ کو مولوی قائم الدین مرحوم سیالکوٹی نے بہت ہی پسند کیا- )یہ نوجوان انگریزی اور عربی کا بڑا ماہر تھا(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۱/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
میں نے بڑی تحقیقات کی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی ایک بھی بہرا نہ تھا- یہ بڑا ہی معرفت کا نکتہ ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم اگست ۱۹۰۸ئ(
میں نے جب مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید رحمہ~ن۲~ اللہ علیہ کی کتاب الحق الصریح فی احکام المیت والضریح پڑھی تو اس میں یہ بھی دیکھا کہ خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ وہ عرض بھی نہیں- جوہر بھی نہیں- وہ جسم بھی نہیں وغیرہ‘ بدعت ہے- یہ میرے بچپنے کا ذکر ہے- میں ڈرا کرتا تھا کہ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ جب خدا تعالیٰ کو ایسا کہنا بدعت ہے تو کیا اس کو جوہر و عرض و جسم وغیرہ کہہ سکتے ہیں؟ غرض کہ جب اس کتاب کا کہیں کسی سے ذکر ہوتا تو میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا کہ یہ شخص اس جوہر و عرض والی بات پر اعتراض نہ کرے- میری طالب علمی کے زمانہ میں کسی نے اعتراض نہ کیا- میں جب بھوپال گیا تو وہاں ایک مفتی صاحب سے میں نے کہا کہ خواجہ محمد پارسا کی کتاب فصل الخطاب مجھ کو کہیں سے لادو- انہوں نے وہ کتاب مجھ کو دی- میں نے جب اس کو اول ہی کھولا تو میری نظر اس مقام پر پڑی کہ >جو سید ہو اور پھر وہ سید بادشاہ بھی ہو- اس کی تعریف میں یہ کہنا کہ وہ چمار بھی نہیں- وہ بھنگی بھی نہیں وغیرہ سخت حماقت ہے- جب ہم نے کہا اللہ تو پھر جوہر و عرض وغیرہ کی سب صفات تو خود اس کے نام اللہ ہی سے رد ہوگئیں-< یہ دیکھ کر میری طبیعت بڑی خوش ہوئی- پھر میں نے اس کتاب کو خود مہیا کیا اور اب الحمد للہ میرے پاس کتب خانہ میں موجود ہے- میں نے اس کو بہت پڑھا ہے- وہ تصوف کی ایک کتاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی کئی کتابوں کا نام فصل الخطاب رکھا ہے -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳ /اگست ۱۹۰۸ئ(
میں نے ایک مرتبہ جرمن کے عربی جاننے والے پروفیسروں کو لکھا کہ وہ کون کونسی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے سے زبان عربی بہت اعلیٰ درجہ کی آجائے- انہوں نے جن کتابوں کے نام لکھ کر بھیجے ان میں یہ کتابیں بالاتفاق سب نے لکھیں- القرآن- البخاری- المسلم- امام شافعی کی کتاب الام - احیاء العلوم - جاحظ کی کل کتابیں- مبرد کی کتاب الکامل- العقد الفرید- سیرت ابن ھشام- تاریخ طبری- فتوح البلدان- تقویم البلدان- مقدمہ ابن خلدون- شفا- رحلہ ابن بطوطہ- الف لیلی- کلیلہ دمنہ- سبع معلقہ- حماسہ- اغانی- دیوان جریر- سقط الزند- قانون بو علی سینا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۲۰/]3 [rtf مارچ ۱۹۰۹ئ(
میں نے ایک نوجوان کو مدینہ کے راستہ میں دیکھا کہ پیدل سفر کر رہا تھا- اس نے مجبور و مضطر ہو کر ایک جاتے ہوئے سوار کو ٹانگ پکڑ کر نیچے کھینچ لیا اور خود سوار ہو گیا- اس وقت مجھ کو خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد یاد آگیا- وتزودوا )بقرہ رکوع ۲۵(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متعلق بہ اساتذہ
)۸/ فروری ۱۹۱۰ئ(
‏]txte [tag ہمارے چار مرشد ہوئے ہیں- محمد جی بخاری- عبدالقیوم صاحب- شاہ عبدالغنی صاحب- میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۲/ اگست ۱۹۰۸ئ(
مکہ معظمہ میں ہمارے ایک شیخ تھے- میں نے ان سے صحیح مسلم پڑھی- ان کا نام شیخ حسین تھا- مجھ سے مولوی رحمت اللہ صاحب کہتے تھے کہ بیس برس ہو گئے- لوگ تلاش میں ہیں لیکن آج تک یہ نہ معلوم ہوا کہ یہ کھاتے کہاں سے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ مئی ۱۹۱۰ئ(
میرے ایک پیر شاہ عبدالغنی صاحب فرماتے تھے کہ سورۃ نور قرآن شریف میں ہے اور خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس میں بڑے ضروری احکام بیان فرمائے ہیں- لیکن ہندوستان کے لوگ اس کے کسی حصہ پر نہ توجہ کرتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۴/ مئی ۱۹۰۹ئ(
حکیم فضل الدین صاحب نے میری کسی بیماری میں گھبرا کر حضرت صاحب )مسیح موعود( کو لکھ دیا کہ بیمار ہیں- حضرت صاحب بے تاب ہو کر میرے پاس جموں تشریف لے گئے- وہاں حضرت صاحب نے ایک جلسہ میں فرمایا تھا کہ انبیاء علیہم السلام بھی ناقہ اللہ ہوتے ہیں- بھلا ان کو کوئی چھیڑ کر تو دیکھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۵/ مئی ۱۹۰۹(
میرے ایک استاد تھے مولوی رحمت اللہ- ان کے عیسائیوں سے بڑے بڑے معرکہ~ن۲~الاراء مباحثے ہوئے- وہ کرانہ کے رہنے والے تھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۱/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میں نے اپنے استادوں کو دیکھا ہے وہ ذرا بھی مخالفت کو برادشت نہیں کر سکتے تھے- بس ایک مولوی رحمت اللہ کو دیکھا ہے کہ میں نے ان کا سخت سے سخت مقابلہ بھی کیا ہے لیکن وہ ہنستے ہی رہتے تھے- میں نے کسی مولوی کا یہ دل گردہ نہیں دیکھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۷/ دسمبر ۱۹۱۲ئ(
ایک امیر آدمی تھا- میرے استاد حکیم صاحب نے اس سے کہا کہ آپ نہانے کے پانی میں یہ دوا ملالیں- اس نے کہا کہ حکیم صاحب میں تین برس سے نہیں نہایا- میرے استاد نے کہا کہ آپ منہ بھی دھوتے ہیں؟ کہا کہ میں رومال کو تھوک لگا کر منہ صاف کر لیتا ہوں- حکیم صاحب نے کہا کہ پھر آپ کا مذہب کیا ہوا؟ اس نے کہا جو کسی بڑی حسین کنچنی کا مذہب ہو وہی ہمارا مذہب ہے کہ اس کے ساتھ اسی کا ہم مذہب ہو کر خوب لطف آئے- وہ امیر آدمی کئی لاکھ آدمیوں پر حکومت کرتا اور ایک بڑے ملک کا مالک تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳/ جون ۱۹۰۹ئ(
میرے ایک پیر ہوتے تھے- عبدالغنی ان کا نام تھا- دلی میں رہتے تھے- مرزا کامران ان کے ایک مرید تھے- مرزا کامران نے کہا کہ شاہ صاحب قلعہ میں رات کے وقت شہزادیاں چوڑھوں کے پاس اور چوڑھیاں شاہزادوں کے پاس ہوتی ہیں- شاہ صاحب نے مرزا کامران کو حکم دیا کہ تم قلعہ سے چلے آئو- ایسی جگہ ہرگز نہ رہو- عصر کے وقت مرزا کامران قلعہ سے باہر چلے آئے- شام کے وقت شاہ صاحب کو الہام ہوا کہ تم نے تو قلعہ والوں کو تباہ کر دیا- جب تک مرزا کامران قلعہ میں تھا اس وقت تک ہم نے عذاب کو روک دیا تھا- اب چونکہ مرزا کامران چلا آیا- لہذا ہم قلعہ پر عذاب بھیجتے ہیں- شاہ صاحب فرماتے تھے کہ ہم کو پھر تو کچھ افسوس ہی ہوا- قلعہ اور دلی شہر فتح ہوا- شاہ صاحب کو وہاں سے مع اہل و عیال بھاگنا پڑا- پھر بہزار دقت کراچی اور وہاں سے مکہ معظمہ پہنچے-
مولوی اسماعیل شہید~رح~ دہلوی کے بیٹے محمد عمر صاحب ایک بزرگ دہلی میں رہتے تھے- مولوی رحمت اللہ صاحب سے میں نے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ محمد عمر صاحب جب ہمارے ساتھ دہلی میں جا رہے تھے- بادشاہ کی سواری کے ڈنکے کی آواز آئی- یکلخت ان کی رنگت زرد ہو گئی- پیشاب کرنے بیٹھ گئے- بادشاہ کی سواری آئی اور گزر گئی- بعدہ وہ اٹھے تو چہرہ خوش تھا- دریافت کیا کہ حضرت آپ کیوں اس قدر گھبرا گئے تھے اور اب کیوں مطمئن ہیں؟ کہا- میں نے بادشاہ کی سواری سامنے سے آتی ہوئی محسوس کرکے اس بات کا خوف کیا کہ کہیں میرے ایمان کو نہ لے جائے- نواب وزیر الدولہ نواب ٹونک انہیں محمد عمر صاحب کے بہت معتقد تھے- ایک مرتبہ ان کے مکان پر ملاقات کے لئے آئے- محمد عمر صاحب نے سنا کہ وزیر الدولہ آیا ہے تو دیوار کود کر پچھواڑے کی طرف سے مکان چھوڑ کر چل دئیے کہ امیروں کی ملاقات سے دل سیاہ ہوتا اور قلب پر غفلت طاری ہوتی ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ نومبر ۱۹۱۲ئ(
ہمارے ایک استاد مولوی تھے ہم پڑھنے کے لئے سفر میں ان کے ساتھ پھرا کرتے تھے- وہ ایک علاقہ میں گئے- کسی کی چوری کی بھینسیں واپس کرانی تھیں- ہم سب ان کے ساتھ تھے- انیس دن وہاں مقیم رہے- گائوں والوں نے کہا- بھینسیں یہاں نہیں ہیں- ہر چند کوشش کی مگر نہیں ملیں- آخر ایک دوسرے طالب علم نے مجھ سے کہا کہ بھینسیں تو آج شام سے پہلے آجائیں گی- میں نے کہا کس طرح؟ کہا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جہاں کوئی قریشی اذان کہتا ہے وہ بستی ویران ہو جاتی ہے- آج دائرہ )چوپال( کے سامنے چل کر میں کہوں گا- آج ہی- تم کہنا آج نہیں- چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا- ایک شخص سن کر دوڑا ہوا آیا- اس طالب علم نے دریافت کرنے پر جواب دیا کہ یہ ہمارا ساتھی قریشی ہے اور اب اذان دینے کا ارادہ ہے- وہ یہ سن کر دوڑا ہوا واپس گیا اور ہم سے کہتا گیا کہ ذرا آپ ٹھہرے رہیں- تھوڑی دیر میں واپس آیا اور کہا کہ بھینسیں آج ہی آجائیں گی- آپ اذان نہ دیں- چنانچہ بھینسیں آگئیں اور مولوی صاحب کے سپرد کردی گئیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۴/ اگست ۱۹۰۸ء در خطبہ جمعہ(
میرے ایک پیر بھائی نے مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہوئے رکوع یا سجدہ میں دیکھا کہ خود انہیں کا جنازہ لائے ہیں- حتیٰ کہ انہوں نے خود اس جنازہ کا منہ کھول کر دیکھا- میرے وہ پیر بھائی حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کے داماد تھے- انہوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ میں نے ایسا دیکھا ہے اور جنازہ کا منہ کھول کر دیکھا تو پسینہ آرہا تھا اور اس پسینہ سے یہ پڑھا جاتا تھا مع الذین انعم اللٰہ-شاہ صاحب نے فرمایا کہ تمہاری موت کا وقت بہت قریب آگیا ہے- چنانچہ وہ تھوڑی دیر کے بعد مر گئے- میں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کیسے سمجھا- کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مومن کو پسینہ آتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست آشنا
)۲/ جون ۱۹۰۹ئ(
میرے ایک دوست تھے جن سے مجھ کو بڑی محبت تھی- ایک مرتبہ میرے پاس آئے وہ چاء پینے کے عادی تھے- میں نے ان کیلئے چاء تیار کرائی اور خوشی کے ساتھ ان سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کیلئے چاء تیار کرائی ہے- یہ سن کر وہ تو بہت ہی ناراض ہوئے اور یہ کہہ کر چل دئیے کہ چاء تو ہم چوہڑے کو بھی پلا دیتے ہیں- چاء کا احسان ہم پر جتایا گیا- غرض کہ وہ چاء تیار ہونے سے پہلے ہی چل دئیے- جبکہ ایک انسان دوسرے انسان کی رضامندی کا طریقہ نہیں معلوم کر سکتا تو خداتعالیٰ کی رضامندی کی راہ اپنی تجویز سے کیسے معلوم کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲/ فروری ۱۹۱۰ئ(
جب میں رامپور میں رہتا تھا- اس زمانہ میں میرا ایک دوست عیدالفطر کے دن مجھ سے ملنے آیا اور کہا کہ آج سویاں کھلائو- میں نے کہا کہ اس محلہ میں جہاں میں رہتا ہوں سب لوگ اس خیال کے ہو گئے ہیں کہ آج سویاں نہ پکائیں گے- ہاں کل ہم تم کو پکوا دیں گے- وہ سن کر سخت متعجب اور برافروختہ ہوا اور کہا کہ >جا تو نے سارے محلہ کو خراب کر دیا-<
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ ستمبر ۱۹۰۸ئ(
میں نے اپنے ایک دوست کو دیکھا کہ ان کا کام نہیںچلتا- میں نے ان کو تجارت کی ترغیب دی اور تین ہزار روپیہ اپنے پاس سے ان کو دئیے- انہوں نے وہ تین ہزار روپیہ لیکر کہا کہ بھلا ان میں کیا ہو سکتا ہے؟ کچھ بھی نہ ہوگا- میں نے کہا کہ تم کو شکر ادا کرنا چاہئے تھا- لیکن چونکہ تم نے شکر ادا نہیں کیا لہذا تم کو ہرگز نفع نہ ہوگا اور واقعی کچھ نہ ہوگا- چنانچہ ایسا ہی ہوا-
)۱۹/ جنوری ۱۹۱۰ئ(
میرے ایک محسن بزرگ تھے- وہ بہت بوڑھے تھے- ان کا نام منشی جمال الدین تھا- وہ جب سچے موتیوں کی مالا پہنتے تو پہنتے وقت میری طرف دیکھتے اور یہ آیت پڑھا کرتے- منہ حلیۃ تلبسونھا )سورہ نحل رکوع۲(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۲/ جون ۱۹۱۱ئ(
میاں جمال الدین صاحب وزیر اعظم بھوپال ایک مرتبہ کہنے لگے- میاں تم چلے نہ جائو تو ایک بات کہتا ہوں- میں نے کہا فرمائیے- کہا کہ میں تم پر عاشق ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ مارچ ۱۹۱۰ئ(
میرا ایک آشنا تھا- وہ دلی کا رہنے والا تھا- بعد غدر کے انگریزی پڑھ کر بڑا آدمی بن گیا حتیٰ کہ جج وغیرہ معزز عہدوں تک پہنچا- اس کا بیٹا پڑھا لکھا آدمی نہ تھا- اس نے اپنے بیٹے کو مجبوراً فوج میں بھرتی کرانا چاہا- ایک بڑے انگریز سے ملا اور سفارش کی- اس انگریز نے کہا کہ اگر آپ دلی کے رہنے والے نہ ہوتے تو ہم ضرور آپ کے بیٹے کو فوج میں بھرتی کر لیتے- دیکھو- بغاوت کا کیسا برا نتیجہ ہوتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ فروری ۱۹۱۲ئ(
ایک دفعہ ایک مجلس میں شفاعت کے متعلق گفتگو ہوئی- میں نے کہا کہ شفاعت اذن سے ہوگی- میرا ایک آشنا جو میرے خیال میں بڑا نیک تھا میرے قریب ہی بیٹھا تھا- اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تم کیا کہتے ہو کہ شفاعت بالاذن ہو گی؟ ہم نے شفاعت کے بھروسہ بڑی بڑی بدکاریاں کی ہیں- آج تم نے ہمارے سب منصوبوں کو خاک میں ملا دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک ہمارے دوست تھے- وہ بہت ہی اچھی حالت میں فوت ہوئے ہیں- لیکن ان کی ابتدائی عمر بڑے بڑے فسق و فجور میں گزری تھی- انہوں نے ایک مرتبہ خود ہی اپنا قصہ سنایا کہ میں لاہور میں مدرس تھا- میں نے سنا کہ امرتسر میں ایک رنڈی ہے جو کسی بڑے بھاری رئیس کی ملازم ہے اور کسی دوسرے شخص کے پاس نہیں جاتی- وہ کہتے تھے کہ مجھ کو تنخواہ ملی تو میں نے تنخواہ لیکر اپنے شاگردوں سے کہا کہ دیکھو ہم اس قلعہ کو فتح کرتے ہیں- چنانچہ اپنے شاگردوں کو لے کر امرتسر پہنچے- )شاگرد بھی کوئی ایسے ہی ہوں گے( رنڈی کے گھر جاکر اس کی نایکہ کے سامنے پگڑی اتار کر رکھ دی اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے- اس نے توجہ بھی نہ کی- جب بہت دیر ہوگئی تو شاگردوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ توجہ کرتی ہی نہیں اب آپ چلیں- جب اس نایکہ نے مولوی صاحب کا لفظ سنا تو کہا کہ آپ مولوی صاحب ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں میں مولوی ہوں اور یہ سب میرے شاگرد ہیں- آج مجھ کو تنخواہ ملی تھی وہ سب کی سب لے کر یہاں آیا ہوں- یہ موجود ہے- چنانچہ سب اس کے سامنے رکھ دی- اس پر کچھ ایسا اثر ہوا اور لفظ مولوی صاحب نے کچھ ایسا کام کیا کہ اس نے کہا کہ اچھا چاہے کچھ ہی ہو ہم تمہارا کہنا مانے لیتے ہیں- ایک رات کے واسطے تم اس رنڈی کو لے جائو- چنانچہ میں اس کوہمراہ لے کر اسی وقت ریل میں بیٹھ کر لاہور آیا اور کھلی ٹمٹم میں بیٹھ کر دلی دروازہ ہوتا ہوا سربازار نہایت فخر و غرور کے ساتھ اس رنڈی کو اپنے ساتھ بٹھا کر لایا اور فخریہ شہر میں اس بات کو ظاہر کیا کہ دیکھو ہم کسی سے کم نہیں ہیں- غرض کہ ان کی حالت بہت خراب تھی- ان کو ہدایت صرف ایک آیت سن کر ہوئی- وہ آیت یہ ہے الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللٰہ۔۔۔۔۔الخ ]txet [tagاس آیت کو سن کر ان کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ پھر ان کی حالت نہایت ہی اچھی ہوگئی اور بہت ہی اچھی حالت میں فوت ہوئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۰ /مئی ۱۹۰۹ئ(
میرے پاس ایک شخص آیا کہ میری بیوی کو آتشک ہوگئی ہے اور وہ روتا تھا- میں جانتا تھا کہ وہ عورت نیک ہے یعنی حرامکار نہیں ہے- میں نے اس عورت کو بلا کر اس کے زخم دیکھنا چاہے تو اس نے اپنا ہاتھ دکھایا- میں نے کہا کہ یہ ہرگز آتشک کا زخم نہیں- یہ آگ سے جلا ہوا ہے- غرض کہ اس نے بڑی مشکل سے مجھے بتایا کہ یہ خاوند مجھ کو پسند نہیں ہے- اصل بات کچھ تھی ظاہر کچھ کرتی تھی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۲/ فروری ۱۹۱۰ئ(
میرے بعض دوستوں نے مجھ کو ملامت کی کہ تو اس قدر حسن ظن سے کیوں کام لیتا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تو میرے خداتعالیٰ نے بلاواسطہ مجھ کو بتایا ہے- میں کیوں بدظنی سے نہ بچوں- بدظنی سے بچنے کا طریق سورہ نور کے پہلے رکوع میں لکھا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۴3]/ [rtf اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میرے ایک دوست شہزادے تھے- اور احمد سعید ایک دوسرے دوست تھے- احمدسعید اپنی معرفت لوگوں کے کپڑے لاتے اور شہزادے صاحب وہ کپڑے سیتے اور اسی میں اپنا گزارہ کرتے- ایک روز احمد سعید صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ کو اگر کپڑے سلوانے ہوں تو مجھ کو دے دیں- شہزادے صاحب سیتے ہیں میں سلوا دوں گا لیکن خود نہ دیں ورنہ آپ سے وہ سلائی نہ لیں گے- میں نے ایک روز کہا کہ شہزادے صاحب! ابھی تک اس حالت عسرت میں آپ کو بعض امیرانہ شوق موجود ہیں- کہا کہ میاں بگڑی ہوئی عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ مارچ ۱۹۱۲ء بعد نماز ظہر(
میرے ایک دوست تھے متمول آدمی تھے- ان سے اکثر فجر کی پہلی رکعت رہ جاتی تھی- ایک نابینا حافظ صاحب تھے- وہ ہمیشہ ان کو کہتے کہ تم نماز میں دیر کر کے آتے ہو- یہ بے|ایمانی اور نفاق کی علامت ہے- جب باربار ان کو حافظ صاحب نے شدومد کے ساتھ ٹوکا تو انہوں نے حافظ صاحب کی شادی کرا دی- پھر تو حافظ صاحب کی ان سے بھی بدتر حالت ہوئی- پہلے ہی دن کی نماز فجر قضا ہوئی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
میں نے اس وقت تک ہزارہا روپیہ لوگوں کو قرض دیا لیکن سوائے ایک شخص کے کہ اس نے نو روپیہ قرض لئے تھے اور جس آنکھ سے لئے تھے اسی آنکھ سے ادا کئے تھے اور کسی نے اسی آنکھ سے ادا نہیں کئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۰/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں لاہور کے ڈبی بازار میں جا رہا تھا- وہاں ایک شخص مجھ سے ملا اور کہا کہ ہم کو تم سے بڑی بڑی امیدیں تھیں- میں نے کہا کہ یہ بات پہلے بھی کہی گئی ہے یعنی قالوا یا صالح قد کنت فینا مرجواً -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۸/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میں نے اپنے ایک آشنا سے دریافت کیا- سویلزیشن کا نشان کیا ہے؟ کہا سویلزیشن کا نشان یہ ہے کہ دو روپیہ کا مقدمہ ہو تو پریوی کونسل تک پہنچائے اور جعلی نوٹ بنا لے- یہ باتیں بھلا جاہل شخص سے کہاں ہو سکتی ہیں-
‏14] p[۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۸/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
ایک علمی مجلس میں ایک شخص نے ایک ریزولیوشن پیش کیا اور ایسے پردرد لب و لہجہ سے تقریر کی کہ وہ تقریر کرتے ہوئے خود رو بھی پڑا مگر کسی نے اس کی بات کی تائید نہ کی- میں نے چونکہ پہلے کبھی ایسا واقعہ دیکھا نہ تھا- مجھ کو اس پر رحم آیا اور میں نے کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ میں اس کی بات کی تائید کرتا ہوں- مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ سن کر ہنس پڑے اور سب نے سر نیچے کر لئے- اب مجھ کو اور بھی زیادہ تعجب ہوا- پھر اس شخص نے میز پر مکے بھی مارے اور خوب زور شور سے تقریر کرتا رہا- لیکن تمام مجلس خاموش تھی- آخر کسی عقل مند نے مجلس برخاست کردی- جب اٹھ کر چلے تو میں حیران تھا کہ تمام اہل مجلس نے کیوں ایسی سرد مہری دکھائی- دروازہ کے قریب پہنچ کر وہی لیکچرار دھڑام سے گر پڑا اور اس وقت مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ شراب کے نشے میں چور تھا- آج کل واعظ عام طور پر خود عملی حالت میں کمزور اور دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲/ جون ۱۹۰۹ئ(
‏]ttex [tag میں جموں میں تھا- ایک ہندو عورت میرے ساتھ بڑا اخلاص رکھتی تھی- میرے دو لڑکے تھے ایک فضل الٰہی دوسرا حفیظ الرحمان- ان دونوں کا انتقال ہو گیا- اس ہندنی نے مجھ سے کہا کہ میں دو لڑکے آپ کے واسطے خرید کر لائوں گی جو ایسے ایسے ہونگے- میں نے اس سے کہا کہ نادان! وہ لڑکے ہمارے کیسے ہو سکتے ہیں اور اس طرح کہاں تلافی ہو سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴ /جون ۱۹۰۹ئ(
میرا ایک بڑا بھاری دشمن تھا‘ ایک شخص جو اکثر اس کے پاس رہتا تھا‘ میرے پاس آیا اور کہا کہ مجھ کو تحصیل دار تک پہنچا دو- میں تمہارے اس دشمن پر قتل کا جرم ثابت کئے دیتا ہوں- میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ اس کو نکال دو- اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا تم جب اس کے دوست بنے ہوئے ہو تو پھر اس کو مقدمہ میں کیوں پھنساتے ہو؟ کہنے لگا کہ میں تو اس مقدمہ کے ثابت کرنے ہی کے لئے اس کے پاس رہتا ہوں- میں نے کہا کہ پھر تو تم منافق ہو- میں ایسے شخص کا روادار نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص نے ایک مرتبہ میری بڑی خاطر مدارات کی اور مجھ سے کہا کہ میرے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی خوش رفتار ایک اونٹنی ہے- آپ اس پر سوار ہو کر سیر کو جائیں- ایک ملازم جو اس اونٹنی پر نوکر تھا وہ بھی میرے ساتھ بیٹھا کہ سیر کرا کر لائے- میں نے راستہ میں اس سے پوچھا کہ تمہارا آقا کیسا آدمی ہے؟ اس نے ایک نہایت غلیظ گالی اس کو دی اور کہا کہ اگر یہ رات کو یا شام کو مکان سے باہر نکلے تو ہم فوراً مار ڈالیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۱۶3] ft/[s فروری ۱۹۱۲ئ(
چند قومیں ہیں جن پر مجھ کو کبھی اعتبار نہیں آیا- ایک دہریہ‘ دوسرے رافضی‘ تیسرے عیسائی- چوتھے جو حقیقتاً منافق ہیں اور ان کو منافقوں کے علامات سے پہچان سکتے ہیں- دہریہ جب خدا تعالیٰ ہی کا قائل نہیں تو اس کی قسم کا کیا اعتبار- رافضی تقیہ کی آڑ میں سب کچھ کر سکتے ہیں- عیسائی کفارہ پر اعتماد رکھتے ہیں- منافق کا اعتبار تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ظاہر و باطن یکساں نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ نومبر ۱۹۱۲ئ(
میرا ایک آشنا تھا- اس نے میری ضیافت کی- مجھ کو اپنا بڑا باغ دکھایا- اس میں ایک درخت آم کا بتا کر کہا کہ سارا باغ تو خدا کا ہے- آپ کے ساتھ والے جہاں سے اور جسقدر چاہیں کھائیں مگر یہ ایک درخت سید عبدالقادر جیلانی کا ہے اس کو ہاتھ نہ لگائیں- میں نے کہا سید عبد القادر جیلانی تو خدا تعالیٰ کے عاشق تھے وہ بھلا کیسے گوارا کریں گے کہ خدا تعالیٰ کا نام اس پر نہ ہو اور ان کا نام ہو- اس نے کہا کہ نہیں صاحب! اس درخت پر خدا کا تو آپ ذکر ہی نہ کریں- چند روز کے بعد دریا کا ایسا سیلاب آیا کہ اس باغ کا نام و نشان تک باقی نہ رہا- میں نے اس سے کہا کہ وہ تو سب کا سب خدا تعالیٰ ہی لے گیا- چپ ہو گیا اور کچھ جواب نہ دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏Mr.11

وطن یعنی بھیرہ وغیرہ
)۸/ فروری ۱۹۱۰ئ(
بھیرہ میں جب میری مخالفت لوگوں نے کی تو دروازوں پر لوگ بیٹھتے تھے اور میرے پاس آنے والوں کو روکتے تھے اور یہی میری شہرت کا باعث ہوا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
بھیرہ میں دو آدمی آپس میں بڑے دوست تھے- ایک مرگیا- اس کے وارث موجود تھے- دوسرا خود موجود تھا- ان میں آپس میں نزاع ہوا- ایک نے مجھ کو لکھا کہ حاکم سے )جو ہندو تھا( میری سفارش کردو- میں نے ان کو جواب میں بہت نصیحت لکھی اور یہ آیت لکھی الم تر الی الذین یزعمون انھم اٰمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطان ان یضلھم ضلالاً بعیداً- میرا وہ خط کہیں فریق مخالف کے ہاتھ آگیا- اس نے اس حاکم سے )جو کھتری یعنی ہندو تھا( میری چغلی کھائی کہ آپ کو نورالدین نے طاغوت لکھا ہے- اس نے کہا کہ سچ لکھا ہے- تم یہ بتائو کہ کیا تمہارے عقیدہ میں ہم ایسے نہیں- چغل خور لاجواب رہ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۸/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
ایک امیر شخص نے جو راجہ کہلاتا تھا- میری ضیافت کی اوربڑی ہی خاطرتواضع سے پیش آیا- باتوں باتوں میں اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص بھیرہ کا رہنے والا ہے-بھیرہ کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ متغیر ہو گیا- یہ ۱۸۶۰ء کے قریب کی بات ہے-اس نے کہا کہ بھیرہ کاایک اکسٹرا اسسٹنٹ تھا-اس نے ہم پربڑے ہی ظلم کئے-اس نے نہایت ہی طیش اور رنج اورحسرت کے ساتھ اس کے مظالم کابیان کیااورکہا کہ ہم قیامت کے دن اس سے بدلہ لیں گے-میں نے کہا کہ وہ تو ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کوچلا گیا- یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ ہم نے معاف کیا-اس کی ہجرت کی خبرنے ایسااثر کیا کہ وہ شخص آبدیدہ ہو گیا-دیکھو خداتعالیٰ خود ہی اپنے بندوں کے حق العباد کواس طرح معاف کرادیتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ مئی ۱۹۰۹ء در درس حدیث(
حکیم فضل الدین صاحب کے والد نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ ہماری مسجد میں جس قدر مولوی آتے ہیں ہم ان کو علیحدہ لے جا کر سمجھا دیتے ہیں- وہ انہیں بتائے ہوئے مسائل پر وعظ کرتے ہیں- میں نے کہا کہ پھر ہم کو تو تم اچھا جانتے ہوگے؟ کہا کہ تم تو ہمارا کہنا نہیں مانتے وہ کہنا تو مان لیتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲/ جون ۱۹۰۹ئ(
ایک مرتبہ پنڈدادنخاں میں کسی مقام پر یعنی ایک گائوں میں میرا گزر ہوا- وہاں ایک شخص نے میری بڑی خاطر مدارات کی- معلوم ہوا کہ وہ میرے باپ کا بڑا معتقد تھا- بزرگوں کی اولاد سمجھ کر خدمت گزاری اور خاطرداری سے پیش آیا- چلتی دفعہ اس نے کہا کہ کوئی تعویذ لکھ دو یا کوئی نصیحت کرو یا کوئی بات بتائو- اس وقت مجھ کو اس آیت کا خیال آیا- لا اقول لکم عندی خزائن اللٰہ ولا اعلم۔۔۔۔۔ )سورہ انعام-( اور مجھ کو بڑا ہی سرور حاصل ہوا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
)۱۷/ مارچ ۱۹۱۲ء قبل نماز ظہر(
بھیرہ کے قریب ایک گائوں میں میاں حیدر نام ایک بھنگ گھونٹنے اور پینے والے فقیر رہتے تھے- میں نے ان سے پوچھا کہ امام مہدی کی کیا شناخت ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ امام صاحب جب آئیں گے تو ان کی سواری کے آگے سوا لاکھ فقیر مطہریں ہاتھ میں لئے ہوئے دھمال ڈالتے ہوئے چلیں گے- میں نے کہا کہ یہ مولوی لوگ تو نہ مانیں گے- کہا کہ پھر تو کچھ جھگڑا ہی معلوم ہوتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم/ جون ۱۹۰۹ئ(
ہمارے شہر میں ایک لڑکا ہے- طوائف قوم کا بڑا متین معلوم ہوتا ہے اور بڑی شرم کے ساتھ بات کرتا ہے- لیکن اس میں حیا کا مادہ نہیں- ایک شخص نے اس سے پوچھا کہ آپکے باپ کا نام کیا ہے؟ اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر دکھا دیا کہ یہ نام ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم جون ۱۹۰۹ئ(
ایک مرتبہ میری مخالفت بھیرہ میں اس قدر بڑھی کہ لوگ میرے قتل کے منصوبے کیا کرتے تھے- یہاں تک زور ہوا کہ ایک شخص میرا دودھ شریک بھائی تھا- اس نے میرے دشمنوں سے کہا کہ میں نورالدین کے چھری مار کر اس کا کام تمام کر دوں گا- میں نے جب سنا تو میں ایک دن رات کو نماز عشاء کے بعد اس کے گھر چلا گیا- اس کی ماں کا چونکہ میں نے دودھ پیا تھا اس لئے وہ مجھ سے پردہ تو کرتی ہی نہ تھی- میں وہاں جاکر لیٹ گیا اور خراٹوں تک بھی نوبت پہنچادی- سب نے سمجھا کہ یہ سوگیا ہے- میرے دل میں یہ خیال اور شوق کہ دیکھوں یہ کس طرح چھری مارے گا یہاں تک کہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو اس کی ماں نے مجھ کو جگایا کہ بیٹا اب تم اپنے گھر جائو- میں نے کہا کہ میں یہیں سو رہوں گا کیونکہ آدھی رات تو گزر ہی گئی ہے- اس نے کہا کہ نہیں تم اپنے گھر ہی جا کر سوئو- میں نے کہا کہ اچھا میں تنہا نہ جائوں گا- اس کو )دودھ شریک بھائی کو( میرے ساتھ بھیجو کہ مجھ کو مکان تک پہنچا آئے- وہ میرے ساتھ ہو لیا- میں نے دانستہ اس کو پیچھے رکھا اور خود آگے آگے چلا- لیکن اس نے کچھ نہیں کیا- پھر جب میں اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو میں دروازہ کی سیڑھیوں پر اوپر کھڑے ہو کر اس کو نیچے کی سیڑھی پر کھڑا کر کے باتیں کرنے لگا کہ اب یہ اطمینان سے چھری بھونک دیگا لیکن وہ تو اس قدر گھبرایا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ اب اجازت دیجئے- میں نے کہا اچھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ جون ۱۹۰۹ئ(
جب میں پنڈدادنخاں میں تھا تو وہاں سکندر کی بیوی کا بت نکلا تھا- اس کو ایک انگریز خرید کر لے گیا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۴ جون ۱۹۰۹ئ(
ہمارے شہر میں ایک عالم شخص مسجد میں رہتے تھے- محمد اشرف ان کا نام تھا- مسجد کے اندر ہی کے حصہ میں ان کا سب سامان- آٹا- صندوق- گھڑے- کتابیں وغیرہ سب کچھ رہتا تھا- وہ جب کہیں جاتے تو سارا سامان ساتھ ہوتا- بازار میں جب جاتے تو آٹے کے گھڑے اور کتابیں غرض کہ تمام سامان سب شاگرد اٹھائے ہوئے ہوتے- عجیب قسم کی ان کی سواری نکلتی تھی- وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بازار میں کوئی فقیر آٹے کا سوال کرے تو کیا گھر سے آٹا لینے جائیں- اگر کوئی فتویٰ لکھوائے تو قلم دوات کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں- وہیں قلم دوات لیا اور فتویٰ لکھ دیا- ایک مرتبہ ایک مولوی ان کے پاس آیا اور کہا کہ مولوی صاحب آپ راگ کو برا جانتے ہیں اور میں راگ کو جائز بلکہ ضروری ثابت کرتا ہوں- راگ کے ذریعہ سے خداشناسی میسر ہوتی ہے- وہ اس وقت شہر سے باہر کسی جگہ گئے ہوئے تھے- وہیں یہ گفتگو ہوئی تھی- اسی وقت کھڑے ہوگئے اور اس مولوی کو ہمراہ لے کر چل کھڑے ہوئے- شہر میں آئے اور ایک رنڈی کے مکان میں مع تمام لائو لشکر اور سامان اور مع اس مولوی کے چلے گئے- وہاں وہ رنڈی گا رہی تھی- یہ سب جاکر خاموش کھڑے ہو گئے- رنڈی نے جب اس طرح ان کو کھڑے ہوئے دیکھا تو وہ اپنا گانا ختم کرکے کھڑی ہوگئی اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ تشریف لائیے اور کرم فرمائیے- انہوں نے فرمایا کہ واہ صاحب! آپ نے گانا کیوں چھوڑ دیا؟ پھر کہا کہ ان مولوی صاحب کو تو خداتعالیٰ مل ہی گیا ہوگا لیکن ان کی بیوی اور بیٹی محروم ہیں ان کو بھی تم بلا کر تعلیم دو تاکہ خداشناسی سے وہ بھی محروم نہ رہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۹/ مئی ۱۹۱۰ئ(
میں اس بات سے ہمیشہ متعجب رہا کرتا تھا کہ عرب کے لوگ تو رحمن کو جانتے تھے پھر وہ کیوں چڑتے اور انکار کرتے تھے- ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ حکیم فضل الدین کی مسجد میں آمین بالجھر پر لوگوں میں جھگڑا ہوا- میں نے جاکر پوچھا تو وہاں کے لوگ کہنے لگے کہ ہم آمین کو بہت اچھا سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کبھی آمین بالجھر کہتے نہیں- اس وقت میرا وہ تعجب دور ہو گیا اور بات سمجھ میں آگئی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ نومبر ۱۹۱۰ئ(
میں ایک مرتبہ ایک گلی میں جاتا تھا- ایک فقیر نے مجھ سے ایک پیسہ مانگا- میں نے کہا سائیں! تم تو سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہو اور کہتے ہو کہ ہم سب سے آزاد ہیں- پھر اس قدر محتاج! میں تو دنیادار ہوں یعنی میرے بیوی بچے بھی ہیں- مجھ سے تم کو التجا کرنی پڑی- ذرا یہ بتا دو کہ آزادی کیسی اور کیا چیز ہے؟ اس نے اپنے مرشد کو ایک بڑی گندی گالی دی کہ اس نے مجھ کو پوست پینے کی عادت ڈالی اور کہا کہ لائو پوست پینے کے لئے پیسہ دلوائو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۳/ اپریل ۱۹۱۲ئ(
‏]txet [tag ہمارے شہر میں ایک کنچنی رہتی تھی- روزانہ میرے پاس آتی اور کہتی کہ توبہ کیا ہوتی ہے؟ میں بہت تنگ ہوا- کچھ عرصہ وہ غیر حاضر اور غائب رہی- پھر ایک روز خوب بن ٹھن کر آئی اور کہنے لگی کہ توبہ سے تو بھوکے مرنے لگے تھے- ہولیوں میں فلاں مقام پر گئے تو اتنے روپے کما لائے- مجھ کو سن کر بڑا جوش آیا- میں نے کہا- اٹھ جا- یہ ہمارا مکان ہے- تجھ کو یہ روپیہ کھانا بھی نصیب نہ ہو گا اور توبہ بھی نصیب نہ ہو گی- وہ اٹھ کر چلی گئی- جاتے ہی اس پر فالج گرا- اس کا ایک رشتہ دار دوڑتا ہوا میرے پاس آیا- میں نے کہا- وہ اب نہیں بچے گی- اس نے کہا خیر وہ نہ بچے لیکن روپیہ جو وہ لائی ہے وہ ہم کو معلوم نہیں اس نے کہاں رکھا ہے؟ اتنا ہو کہ وہ روپیہ تو بتا دے کیونکہ ہمارے گھر جب کوئی مرتا ہے تو پانچ سو روپیہ برادری کی روٹی میں خرچ ہوتا ہے- میں نے کہا وہ روپیہ بھی نہ ملے گا- وہ سخت حیران ہوا- آخر اس کے بہت اصرار پر میں نے کہا اچھا چلو- جا کر دیکھا کہ بالکل بے ہوش پڑی ہے- ایک آدمی نے بہت زور سے آوازیں دیں لیکن کچھ نہ بولی- میں نے آس پاس کی تمام بدکار عورتوں کو بلوایا وہ آگئیں- میں نے کہا کہ اس نے توبہ کی حقارت کی ہے- دیکھو! اب یہ بغیر توبہ مرتی ہے- تم بتائو تمہارا کیا منشا ہے- ان میں جو سب سے زیادہ بدکار تھی- اول اسی نے کہا کہ میں تو توبہ کرتی ہوں- میں نے کہا تم اس کے مرنے پر کھانا بھی برادری کو نہ کھلائو- کیونکہ اگر بدنامی بھی ہوگی تو کس قوم میں؟ ان سب کی سمجھ میں آگیا اور کوئی کھانا وغیرہ بھی برادری کو نہ دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۵/ مئی ۱۹۰۹ئ(
بھیرہ میں میرے ایک دوست تھے میں نے ان سے ایک کتاب چند مرتبہ مستعار مانگی- انہوں نے دینے کا وعدہ کیا- پھر ایک روز میں نے ان سے بازار میں کہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا- ان کی زبان سے جواب صاف سن کر میں نے بلند آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا- چند ہی روز کے بعد پشاور سے ایک بڑا پلندہ بذریعہ ڈاک آیا- جس میں بھیجنے والے کا نام نہ تھا- اس میں وہی کتاب- اس کتاب کی شرح اور اس فن کی اور کتابیں بھی تھیں- میں نے اس قسم کے سب آدمیوں سے اس کا تذکرہ کیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ یہ کتابیں کس نے بھجوائیں اور کیوں بھجوائیں- میں نے ایک مرتبہ ایک امیر آدمی کے سامنے بھی تذکرہ کیا- وہ میرا ہم خیال نہ تھا- اس نے کہا گو میں آپ کا ہم خیال نہیں ہوں لیکن آپ کی وہ انا للہ مجھ کو کھا گئی- اس کتاب کے پشاور ہونے کا مجھ کو علم تھا- میں نے اپنے آدمی کو لکھا کہ خرید کر آپ کے نام روانہ کردے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ جون ۱۹۰۹ئ(
میں ایک شہر میں مدرس تھا- میرے پاس ایک دوست آکر ٹھہرے- اس شہر میں پانی دریا سے لاتے ہیں کنوئوں کا رواج نہیں- دریا پر جانے کا راستہ مدرسہ کے سامنے کو تھا- دریا سے کچھ ہندو عورتیں پانی لا رہی تھیں- صاف ستھری ساڑھیاں باندھے خوبصورت لباس پہنے اور پیتل کی چمکدار گاگریں سروں پر رکھے آرہی تھیں- ان کے پیچھے چند مسلمان عورتیں نیلے نیلے میلے میلے کپڑے پہنے اور مٹی کے کثیف گھڑے سروں پر رکھے آرہی تھیں- میرے وہ دوست باہر کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے- انہوں نے مجھ کو آواز دی کہ جلدی باہر آئو- میں گھبرا کر جلدی سے باہر آیا- تو مجھ سے کہا کہ کیا یہ پیچھے جانے والی ان اگلی جانے والیوں سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ تم مسلمان ہو جائو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۹/ دسمبر ۱۹۰۶ئ(
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لڑائیوں میں اپنی بیوی عائشہ صدیقہؓ اور اپنی بیٹی فاطمہؓ کو بھی لے جاتے تھے- کسی تاریخ میں نہیں لکھا کہ یہ دونوں پکڑی گئی ہوں- میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی شکست نہیں کھائی- میں ایسی کہانیوں کو جھوٹ سمجھتا ہوں کہ نبی کریمﷺ~ نے شکست بھی کھائی- میں کسی رسول کے قتل کا قائل نہیں- خدا تعالٰی خود فرماتا ہے انا لننصر رسلناغرض کہ میرا اعتقاد نہیں کہ کسی رسول کو شکست ہوئی ہو- چونکہ مجھ کو رسولوں سے محبت ہے اسلئے میں نے اپنی عمر میں کبھی شکست نہیں کھائی- بہت آدمیوں نے میرے قتل کے منصوبے کئے مگر ہمیشہ ناکام رہے-
)۱۴/ مئی ۱۹۰۹ء قبل از نماز عشاء در مسجد مبارک(
پنڈدادنخاں اور میانی کے درمیان ایک ندی ہے- میانی میں بھی ہمارا ایک گھر تھا- پنڈدادنخاں میں میں مدرس تھا- میانی سے پنڈدادنخاں آتے ہوئے دریا پر میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دریا میں داخل ہوتے وقت اپنا تہ بند سر پر کھول کر رکھ لیا اور ننگا ہو کر چلنے لگا- ایک دوسرے شخص نے اس کو بڑی ہی *** ملامت کی اور نہایت سخت سست کہا کہ اس طرح ننگا ہو کر کیوں دریا میں جاتا ہے- پہلے شخص کے پیچھے وہ دوسرا شخص بھی دریا میں داخل ہوا- جوں جوں آگے بڑھتا گیا پانی گہرا آتا گیا اور وہ اپنا تہ بند اوپر کو اٹھاتا گیا- جب اس نے دیکھا کہ پانی تو شاید ناف تک آجائے گا تو اس نیبھی اپنا تہ بند کھول کر سر پر رکھ لیا اور پہلے شخص کی طرح بالکل ننگا ہو گیا- اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آیا کہ جو شخص کسی دوسرے کی تحقیر کرتا ہے- وہ خود بھی اسی قسم کی ذلت اٹھاتا ہے- اگر وہ دوسرا شخص کپڑے کے بھیگنے کی پروا نہ کرتا اور ننگا نہ ہوتا تو کوئی بڑے نقصان کی بات نہ تھی لیکن جس بات کے لئے اس نے دوسرے کی تحقیر کی تھی- اسی کا مرتکب اس کو بھی ہونا پڑا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲/ جولائی ۱۹۰۷ء بعد نماز عصر(
میں جب پنڈدادنخاں میں مدرس تھا اس وقت میں نے ایک فوت شدہ شخص کو جو میرا ہم
وطن تھا رئویا میں دیکھا اور معلوم ہوا کہ یہ بہت بیمار ہے- میں نے کہا کہ تم تو بہت بیمار ہو اور میں نے سنا ہے کہ جو مرجاتا ہے وہ بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے- اس پر اس نے اپنے ہاتھ سے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑ کر مجھے دکھایا کہ میں اس لڑکی پر دنیا میں عاشق تھا اس واسطے اب میں بیمار اور مبتلائے عذاب ہوں- جب میں اپنے شہر میں آیا تو اس کے ایک دوست سے میں نے پوچھا کہ فلاں شخص جس عورت کے عشق میں فوت ہوا آپ مجھے اس عورت کا پتہ بتا سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ میں نے کہا کہ بھلا عشق کہیں مخفی رہ سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ جب میرے اس دوست کا انتقال ہوا ہے تو اس کا سر میری ران پر تھا اور میں نے اس سے اس وقت دریافت کیا تھا- کہ اس عشق کا حال تم نے کسی کو بتایا ہے؟ تو اس نے کہا تھا کہ اس کا حال یا تو اس عورت کو معلوم ہے یا تم کو یا مجھ کو یا خدا تعالیٰ کو اور کسی چوتھے انسان کو معلوم نہیں- مرتے ہوئے جب اس نے یہ کہا تو آپ کو کہاں سے خبر ہوئی؟ غرض کہ اس عورت کا نام اس نے مجھ کو نہ بتایا- ہمارے شہر میں ایک محلہ ہے وہاں کی عورتیں کسی قدر خد و خال میں اچھی ہوتی ہیں اور ان لوگوں میں پردہ کا رواج بھی نہیں گو مسلمان ہیں- اس محلہ کی عورتیں ایک روز کسی شادی میں جاتی تھیں- میں بھی اتفاق سے اس طرف سے گزرا- ان کو دیکھ کر مجھ کو یقین ہوا کہ اس وقت اس محلہ کی سب عورتیں ہیں- میں نے ان سے کہا کہ >مائیو! دیوار کے ساتھ مل کر ایک صف تو بنائو< میرے بزرگوں کی وجاہت ایسی تھی کہ انہوں نے میری بات مان لی اور سڑک کے کنارے سب ایک صف میں کھڑی ہوگئیں- ان میں بعینہ وہی لڑکی جو میں نے رئویا میں دیکھی تھی نظر آئی جو ابھی کنواری ہی تھی- میں نے ان سے کہا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو- چنانچہ بعض دوسری عورتوں نے اس کو دھکیل کر میری طرف بھیج دیا- جب میرے قریب آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام مجھ کو بتادیا- اس کا نام دریافت کرکے میں نے ان سے کہا کہ بس اب چلی جائو- کچھ دنوں کے بعد اس متوفی کا وہی دوست مجھ کو ملا میں نے اس سے کہا کہ تم نے تو ہمیں اس عورت کا نام نہ بتایا- مگر ہم کو معلوم ہو گیا- وہ فلاں محلہ کی لڑکی ہے اور اس کا نام یہ ہے- وہ سن کر ہکا بکا سا رہ گیا اور کہا کہ ہاں یہی نام ہے مگر آپ کو کسی طرح معلوم ہوا- میں نے اس سے اپنے رئویا کا ذکر نہ کیا اور نہ مناسب تھا-
ایک اور رئویا میں نے پنڈدادنخاں میں دیکھا- وہاں ایک سررشتہ دار تھا- جو اپنی فضولیوں میں بڑا مشہور تھا- میں نے اس کو دیکھا کہ وہ بہشت میں ایک بڑی اونچی اٹاری پر ہے- جب میں نے اس کو اور اس نے مجھ کو دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ تم تو بڑے سیہ کار تھے تم کو بہشت میں اور پھر عرفات میں کیونکر موقع ملا- اس نے جواب میں کہا کہ >میری غریب الوطنی پر جناب الٰہی نے رحم فرمایا< میں نے بیداری کے بعد اس کی بہت جستجو کی مگر کہیں پتہ نہ لگا- یہی معلوم ہوا کہ عرصہ سے مفقود الخبر ہے- دو برس کے بعد ایک میری رشتہ دار نے مجھ کو بتایا کہ فلاں آدمی بمبئی کے قریب ایک مقام کلیانی میں مرگیا ہے وہ مکہ معظمہ کو پیادہ پا جاتا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۲/ جون ۱۹۱۲ئ(
میرا ایک بھتیجا تھا- اس کا نام شہسوار تھا- میں اس کو ہمراہ لے کر جموں کے ارادہ سے گھر سے نکلا- میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا- میں نے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ روپیہ قرض لے لوں لیکن طبیعت نے مضائقہ کیا اور ویسے ہی چل دیا- ہم دونوں گھوڑوں پر سوار تھے- شہر سے باہر ایک آدمی نے مجھے ایک روپیہ اور کچھ بتاشے دئیے- ایک اور آدمی نے ایک اٹھنی دی- تین چار کوس چل کر سڑک کے کنارے آوان نام ایک گائوں کے قریب پہنچے تو لڑکے نے مجھ سے کہا کہ بتاشے ہمارے پاس ہیں- گرمی ہے- اگر آپ فرمائیں تو میں یہاں کنوئیں پر جا کر شربت پی لوں- چنانچہ وہ لڑکا تھوڑی دور جا کر پھر واپس ہوا اور مجھ سے کہا کہ آپ بھی آجائیں- ہم دونوں اس گائوں میں پہنچے- لڑکے نے لوٹا کھولنا چاہا- لیکن کنوئیں والے نے کہا کہ ذرا آپ ٹھہر جائیں- خیر ہم بیٹھ گئے- میں نے اس سے پوچھا کہ ٹھہرانے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ گائوں کے نمبردار نے دور سے آپ کو دیکھا تھا- وہ دودھ لینے کے واسطے گیا ہے- تھوڑے ہی وقفہ میں نمبردار آیا اور اس نے ایک روپیہ مجھ کو نذر دیا- اس کا بیٹا کبھی میرے پاس علاج کے واسطے آیا تھا اور اچھا ہو گیا تھا- خیر ہم نے دودھ پیا- جب اٹھنے لگے تو اس نمبردار نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیں- غرض تھوڑی دیر میں وہاں کی مسجد کا ملا آیا اور اس نے ایک روپیہ دیا- چونکہ وہ غریب حالت میں تھا- میں نے اس سے روپیہ لینا پسند نہ کیا- اس عرصہ میں گائوں کے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوگئے تھے- جب میں نے روپیہ واپس کرنا چاہا تو سب نے یک زبان ہو کر کہا یہ روپیہ تو ضرور لے لیں- آپ ہرگز واپس نہ کریں- میں نے سبب پوچھا تو کہا کہ یہ شخص بہت دنوں سے بیمار تھا اور اس نے آپ سے بذریعہ ڈاک جموں سے دوائی منگوائی تھی- یہ اس کے استعمال سے اچھا ہو گیا- ہم سب کہتے تھے کہ تو نے دوا مفت منگوائی اور کوئی شکریہ بھی ادا نہیں کیا- اس نے کہا کہ اگر نوردین یہاں ہمارے گائوں میں آئے تو روپیہ دے دوں گا- یہ کبھی روپیہ دینے والا نہیں- آج اتفاق سے ہی یہ قابو چڑھا ہے- اب آپ اس سے روپیہ لے ہی لیں- عجیب بات ہے کہ میں اس سے پیشتر کبھی اس گائوں میں نہیں گیا تھا )حالانکہ ہمارے شہر سے صرف ساڑھے چار میل کے فاصلہ پر ہوگا( اور نہ اس کے بعد کبھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا- اب میرے پاس ساڑھے تین روپیہ ہو گئے- غرض ہم ریل کے کنارے پر پہنچے- اسٹیشن پر پہنچ کر میرے دل میں خیال آیا کہ اس لڑکے کو لاہور دکھادیں- میں نے اسٹیشن پر دیکھا کہ لاہور تک کا دو آدمیوں کا تھرڈ کلاس کا کرایہ تین روپیہ ہے- ہم نے دو ٹکٹ تھرڈ کلاس کے لئے اور لاہور پہنچ گئے- آٹھ آنے ہمارے پاس باقی تھے- اسٹیشن پر اترے- ایک گاڑی بان نے کہا کہ سوار ہو جائو- ہم نے کہا- انار کلی میں شیخ رحیم بخش کی کوٹھی پر اترنا ہے کیا لوگے؟ اس نے کہا کہ ایک روپیہ سے کم نہ لوں گا- ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تو ایک اٹھنی ہے- چاہو تو لے لو- اس نے ہنس کر اٹھنی لے لی اور شیخ صاحب کے مکان پر ہم کو پہنچا دیا- کچھ دن لاہور رہنے کے بعد جب چلنے لگے تو شیخ صاحب نے اپنی گاڑی میرے لئے منگوادی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ ہمارے نوکر کو آپ انعام نہ دیں- اسٹیشن پر مجھے یقین تھا کہ میں ابھی کی گاڑی میں جائوں گا- پیسہ تو پاس ایک بھی نہ تھا- لیکن یقین ایسا کامل تھا کہ اس میں ذرا بھی تزلزل نہ تھا- میرے کھڑے کھڑے ٹکٹ تقسیم ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بند ہو گئے- ٹرین بھی آئی- مسافر بھی سوار ہو گئے- اندر جانے کا دروازہ بھی بند کیا گیا- انجن نے روانگی کی سیٹی دی- اس وقت بھی مجھ کو یقین تھا کہ اسی گاڑی پر جائوں گا- جب بالکل گاڑی چلنے ہی کو تھی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نوردین نوردین پکارتا ہوا دور تک چلا گیا- اور گاڑی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ وہ چل کر پھر رک گئی- وہ شخص پھر واپس آیا اور مجھے دیکھ لیا- دیکھتے ہی دوڑتا ہوا اسٹیشن کے کمرہ میں گیا وہاں سے تین ٹکٹ لایا- ایک اپنا اور دو ہمارے- ساتھ ہی ایک سپاہی بھی لایا- دروازہ کھلوایا اور ہم تینوں سوار ہوئے- ہمارے سوار ہوتے ہی ٹرین چل دی- اس نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے- میں نے نسخہ لکھ دیا اور پھرٹکٹوں کو دیکھنے لگا کہ یہ کہاں تک کے ہیں اور کیا کرایہ دیا گیا ہے- وہ خود ہی فوراً بولا کہ میں ان ٹکٹوں کے دام ہرگز نہ لوں گا- میں بھی خاموش ہو گیا- ٹکٹ وہیں تک کے تھے جہاں ہم کو جانا تھا- یعنی وزیر آباد- وہ تو نسخہ لکھوا کر شاہدرہ اتر گیا- ہم وزیرآباد پہنچے میں نے لڑکے سے کہا کہ بیگ لے کر تم شہر میں سے ہوتے ہوئے سیدھے شہر کے دوسری طرف پہنچو- پیچھے پیچھے میں بھی آتا ہوں- وزیرآباد سے جموں تک ریل نہ تھی- راستہ میں ایک شخص ملا- اس نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے- آپ اس کو دیکھ لیں- میں نے کہا کہ یہ کوئی علاج کا موقع نہیں- مجھ کو جانے کی جلدی ہے- اس نے کہا کہ میرا بھائی جو میرے ساتھ ہے یہ آگے اڈے پر جاتا ہے اور یکہ کرایہ کرتا ہے- اتنے میں آپ میری ماں کو دیکھ لیں- آپ کو اڈے پر پہنچ کر یکہ تیار ملے گا- چنانچہ میں نے اس کی ماں کو دیکھا اور نسخہ لکھا- جب میں وہاں سے چلا تو اس شخص نے چلتے چلتے میری جیب میں کچھ روپے ڈال دئے جن کو میں نے اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی پہلے جیب میں ہاتھ ڈال کر گن لیا معلوم ہوا کہ دس روپیہ ہیں- اڈے پر پہنچے تو اس کا بھائی اور یکہ والا آپس میں جھگڑ رہے تھے- یکہ والا کہتا تھا کہ دس روپیہ لوں گا اور وہ کہتا تھا کہ کم- میں نے کہا جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں- دس روپیہ کرایہ ٹھیک ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏Mr.12
لکھنئو۔ رامپور وغیرہ
)۲/ جون ۱۹۰۹ئ(
لکھنئو میں میرے ایک استاد تھے- انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ بھلا یہ تو بتائو عبدالکریم یا کریم بخش تمہارے نزدیک کیسے نام ہیں- میں نے کہا کہ ایسے سوال کا جواب جو آپ نے کیا ہو- میں کیا دے سکتا ہوں- کہا کہ یہاں لکھنئو میں ایک ننگ دھڑنگ فقیر ہے- اس کا نام کریم جی ہے- جو عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ بیٹا ہم کو کریم جی نے دیا ہے- اس کا نام عبدالکریم یا کریم بخش رکھتی ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳/ اگست ۱۹۰۸ئ(
ایک مرتبہ لکھنئو میں ایک مجتہد کے پاس ایک شیعہ آیا- اس نے ان سے پوچھا کہ کربلا اور مکہ کے حج میں کیا فرق ہے- مجتہد نے کہا کہ مکہ کے حج میں تو بہت سے شرائط ہیں اور کربلا کے حج میں کوئی شرط نہیں- وہ سائل پائوں چوم کر خوش ہوکر چلا گیا- جب وہ چلا گیا تو مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو میں تو کربلا کے حج کا قائل نہیں ہوں- اسی وجہ سے تو میں نے کہا کہ کربلا کے حج میں کوئی شرط نہیں کیونکہ قرآن شریف میں اس کا ذکر نہیں ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ دسمبر ۱۹۰۹ئ(
میں نے لکھنئو میں سنا کہ حجام کو خلیفہ کہتے ہیں وجہ اس کی یہ کہ خلفائے راشدین سے ان کو عداوت ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم جون ۱۹۰۹ئ(
ہمارے ایک طبیب استاد تھے- ان کے یہاں ایک پہلوان آیا- اس کو ہیضہ ہوا تھا- انہوں نے اس سے یہ نہ کہا کہ تم کو ہیضہ ہے- کہا کہ میاں تمہارے معدہ میں فتور و بدہضمی ہے- اس نے یہ سن کر ایک مگدر )نال( جو سامنے پڑا ہوا تھا- اٹھانے کے لئے جھک کر کہا کہ بدہضمی تو ہمارے پاس بھی نہیں پھٹک سکتی- لو دو چار ہاتھ اس کے ابھی نکالتا ہوں- یہ کہہ کر ایک ہاتھ سے اس کو اٹھالیا- ہاتھ اوپر کو سیدھا کیا اور فوراً اسی حالت میں دم نکل گیا-
‏]tnce [tag۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
رامپور میں ہمارے استاد حکیم صاحب کے یہاں بڑی بڑی سینیوںمیں جلیبیاں آئیں- انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم یہ بتائو کہ ان جلیبیوں کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ یہ پیران پیر صاحب کی گیارھویں کی ہیں- میں نے کہا آپ عالم ہیں- مجھ سے کیا دریافت فرماتے ہیں- انہوں نے کہا ہمارے لئے تو ان کا کھانا جائز ہے- میں نے کہا ما اھل لغیر اللٰہ کا آپ کو خیال نہیں؟ کہا کہ تم کسی طالب علم کو جو گیلانی سید ہو بھیج کر دیکھو اور وہ وہاں جاکر اپنا گیلانی سید ہونا بیان کرے اور کچھ مانگے- دھکوں اور جوتیوں کے سوا اور کچھ نہ ملے گا- ہمارے یہاں اس قدر آئی ہیں- فلاں رئیس کے یہاں اس قدر- فلاں اہلکار کے یہاں اس قدر گئی ہوں گی- یہ سب ریاکاری اور نمود کے لئے کرتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۱/ اگست ۱۹۰۸ئ(
میں رامپور میں جن حکیم صاحب سے طب پڑھتا تھا وہ بڑے آدمی تھے- ان کے یہاں بہت سے مہمان لکھنئو وغیرہ کے پڑے رہتے تھے- وہیں مرزا رجب علی بیگ سرور مصنف فسانہ عجائب بھی جو بہت بوڑھے آدمی تھے‘ رہتے تھے- میں نے ایک دن ان سے کہا کہ مرزا صاحب! مجھ کو اپنی کتاب فسانہ عجائب پڑھا دو- میں اس کتاب کو آپ سے پڑھ کر اس کی سند لینا چاہتا ہوں- انہوں نے کہا بہت اچھا- میں نے ایک دو صفحہ ہی پڑھا تھا کہ یہ فقرہ آیا کہ >ادھر مولوی ظہور اللہ و مولوی محمد مبین وغیرہ اور ادھر مولوی تقی و میر محمد مجتہد وغیرہ< میں نے اس فقرہ پر پہنچ کر ان سے کہا کہ مرزا صاحب یہ بتائو کہ تم سنی کیسے ہوئے- نہایت حیران اور متعجب ہو کر کہنے لگے کہ تم نے یہ کیسے معلوم کیا کہ میں سنی ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا؟ آپ ہیں تو سنی- یہ بتا دیجئے کس طرح سنی ہوئے- انہوں نے کہا تم اول یہ بتائو میرا سنی ہونا کس طرح معلوم کیا؟ میں نے کہا ادھر کا لفظ اپنی طرف اشارہ ہوتا ہے- آپ نے ادھر کے ساتھ سنی مولویوں کے نام لکھے ہیں اور جب لکھا ہے ادھر تو ادھر کے ساتھ شیعوں کے نام لکھے ہیں- دلیل اس بات کی ہے کہ تم سنی ہو- سن کر ہنس پڑے اور کہا کہ لو میرے سنی ہونے کی داستان سنو- میں جب لکھنئو سے دلی آنے لگا تو لکھنئو کے بادشاہ نے مجھ سے کہا کہ تم دلی جاتے ہو- وہاں شاہ عبدالعزیز صاحب سے ضرور مل کر آنا- میں دلی آیا اور شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا- لیکن یہ سوچ کر کہ یہ عربی کے بہت بڑے عالم ہیں اور میں عربی جانتا نہیں- اردو میں عربی الفاظ بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں- ان کے سامنے اگر عربی کا کوئی لفظ زبان سے غلط نکلا تو یہ بہت ہی حقیر سمجھیں گے کہ یہ شاعر کیسا ہے کہ الفاظ بھی صحیح نہیں بول سکتا- میں خاموش ہی بیٹھا رہا اور خاموش ہی اٹھ کر چلا آیا- دوسرے دن کچھ عبارت یاد کی کہ اس طرح گفتگو کروں گا اور الفاظ بہت سوچ سمجھ کر اور تحقیق کرکے صحیح صحیح یاد کر لئے- لیکن جب وہاں گیا تو پھر یہ خیال ہوا کہ اگر گفتگو بڑھی اور مجھ کو اور کچھ باتیں کرنی پڑیں تو بڑی مشکل ہوگی- اسی خیال سے پھر خاموش رہا- غرض تین روز تک اسی طرح جاتا اور خاموش ہی اٹھ کر واپس آتا رہا- یہ بھی خیال تھا کہ جب لکھنئو جائوں گا تو بادشاہ دریافت کریں گے کہ دلی میں شاہ عبدالعزیز صاحب سے مل کر آئے- کیا باتیں ہوئیں؟ تو کیا جواب دوں گا؟ اس وجہ سے روز جاتا بھی تھا- ایک دن شاہ صاحب نے خود ہی مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا اور کہا کہ میاں تم کہاں سے آئے ہو؟ کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا کہ میں لکھنئو رہتا ہوں- انہوں نے فرمایا کہ لکھنئو میں کہاں؟ میں نے کہا کہ پکے پل پر- یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ ہاں تو تم چاندپور کے رہنے والے ہو- میں نے کہا کہ نہیں میں لکھنئو رہتا ہوں- انہوں نے فرمایا کہ ہاں لکھنئو میں کس مقام پر- میں نے کہا کہ پکے پل پر- کچھ سوچ کر فرمایا کہ ہاں تو تم چاندپور کے رہنے والے ہو- میں سن کر خاموش رہا- میں نے شاہ صاحب سے عرض کیا کہ شیعہ سنی کا جھگڑا کس طرح طے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ تم یہ بتائو کہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان کوئی چیز بھی مابہ الاشتراک ہے میں نے کہا کہ ہاں قرآن شریف کو شیعہ بھی مانتے ہیں اور سنی بھی- انہوں نے کہا کہ بس تو اب آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن شریف جو مذہب تعلیم فرمائے اسی کو قبول کرلو- میں نے کہا میں تو عربی نہیں جانتا- کہا کہ ہمارے بھائی رفیع الدین نے قرآن شریف کا ترجمہ لکھا ہے تم اس ترجمہ کو پڑھو اور جو لفظ ترجمہ کاسمجھ میں نہ آئے بس اسی لفظ کے اوپر کا اصل عربی لفظ لے کر کسی سنی یا شیعہ مولوی سے اس لفظ کے معنی دریافت کرلو- لیکن صرف اسی لفظ کے معنی- آگے پیچھے کی عبارت دریافت کرنے کی ضرورت نہیں- اس طرح تمام ترجمہ خوب سمجھ کو پڑھ لو- چنانچہ میں نے وہ ترجمہ پڑھا- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں تو سنی ہوگیا- میں جب واپس ہو کر لکھنئو گیا تو بادشاہ نے مجھ سے دریافت کیا- میں نے قرآن شریف والی بات کا ذکر تو کیا نہیں- بادشاہ سے عرض کیا کہ کیا بتائوں وہ چاندپور کہتے رہے اور میں لکھنئو کہتا رہا- بادشاہ نے کہا کس طرح اتفاق ہوا مفصل بیان کرو- جب میں نے مفصل بیان کیا تو بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ تمام پرانے کاغذات اور نوشتے بہم پہنچا کر اس بات کو تحقیق کرو کہ لکھنئو کی آبادی سے پیشتر اس تمام قطعہ زمین میں جہاں اب لکھنئو آباد ہے- کون کون سے گائوں آباد تھے- چنانچہ بہت دنوں میں یہ بات تحقیق ہو کر بادشاہ کی خدمت میں تحقیق کا نتیجہ پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جہاں پکا پل ہے وہاں پیشتر چاندپور نام ایک آبادی تھی- بادشاہ نے بڑا تعجب کیا کہ افسوس ہم کو اپنے شہر کا جغرافیہ معلوم نہیں اور شاہ عبدالعزیز دلی میں بیٹھے ہوئے ہمارے شہر کے جغرافیہ سے اس قدر واقف!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ اگست ۱۹۰۸ئ(
‏]txet [tag رامپور میں میں نے ایک شخص کو دیکھا- ان کا نام نورالدین تھا- انہوں نے غیرمقلدوں کے رد میں ایک کتاب لکھی- اس کتاب میں پہلی ہی دلیل یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حنفی مذہب رکھتے تھے- کان حنیفاًمسلماً وما کان من المشرکین- اس کتاب کی قیمت پچیس ہزار روپیہ رکھی تھی- مجھ سے کہا کہ تم ایک کتاب لے لو- کچھ اب دے دو چاہے ایک پیسہ- باقی قیامت کو دے دینا- میں نے کہا کہ میں تو قیامت کا قائل ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲/ فروری ۱۹۱۲ئ(
لکھنئو میں ایک بڑا ذکی نوجوان تھا- باتوں باتوں میں میرا اس کا جھگڑا ہو گیا- ہمارے استاد نے کہا کہ اچھا تم دونوں میں سے جو والعٰدیٰت ضبحاً کے معنی کرے وہ جیت گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴ /جنوری ۱۹۱۲ء بعد عصر(
میرے ایک بنارس کے رہنے والے محسن مولوی عبدالرشید تھے- انہوں نے میرے ساتھ بڑی نیکیاں کی ہیں- وہ مرادآباد میں رہتے تھے- ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد آگیا- ان بنارسی بزرگ کے بیوی بچے نہ تھے- مسجد کے ایک حجرہ میں رہتے تھے- حیران ہوئے کہ اب اس مہمان کا کیا بندوبست کروں اور کس سے کہوں- انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام کریں- وہ مہمان لیٹ گیا اور سوگیا- انہوں نے وضو کرکے قبلہ رخ بیٹھ کر یہ دعا پڑھنی شروع کی افوض امری الی اللٰہ ان اللٰہ بصیر بالعباد- جب اتنی دیر گذری کہ جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے اور یہ برابر دعا پڑھنے میں مصروف تھے کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جلتا ہے جلدی آئو- یہ اٹھے ایک شخص تانبے کی رکابی میں گرم گرم پلائو لئے ہوئے آیا- انہوں نے لے لیا اور مہمان کو اٹھا کر کھلایا- وہ حجرہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے- اس رکابی کا کوئی مالک نہ نکلا- وہ تانبے کی رکابی رکھی رہتی تھی اور وہ کہا کرتے تھے جس کی رکابی ہو لے جائے لیکن کوئی اس کا مالک پیدا نہ ہوا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۶/ جون ۱۹۰۹ء بعد نماز عصر قبل از درس(
میں رامپور میں تین سال تک رہا ہوں- وہاں کے پٹھانوں کے اکثر حالات سے واقف ہوں- عموماً یا تو قصائی کی دوکان پر ان کی لڑائی ہوتی ہے یا لڑکوں کے پیچھے- یہ پٹھان لوگ بڑے شریف اور باوفا ہوتے ہیں اور شریفانہ خصائل پٹھانوں کے بہت ہی قابل ستائش ہوتے ہیں )آگے کلن خاں رامپوری کا قصہ بیان فرمایا جو آپؓ نے اپنے سوانح میں بھی لکھوایا ہے اسی لئے یہاں نہیں لکھا جاتا(-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مولوی محمد علی صاحب کی بڑی بیوی کے کفن دفن سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں آئے اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی لڑکی حمیدہ بیگم اور بابو شاہدین مرحوم کی چھوٹی بیوی رسول بیگم دونوں کے نکاح کا خطبہ پڑھا- )دونوں کا نکاح حسب ترتیب اسداللہ اور بابو منظور الٰہی کے ساتھ ہوا( اور خطبہ میں فرمایا -:
قاری عبدالرحیم صاحب رام پوری جو آخر میرٹھ میں رہتے تھے- میرے ایک مخلص دوست نے ان سے دریافت کیاکہ تم سب بھائی اس قدر نیک اور فرشتہ خصال کیوں ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے ماں باپ جب قصد جماع کرتے تو ان کی عادت تھی کہ پہلے دونوں دعائیں مانگتے رہتے کہ الٰہی تو ہم کو صالح اولاد عطا کر- اسی کا یہ اثر ہے کہ ہم سب بھائی ایسے ہیں- اللٰھم جنبنا الشیطٰن وجنب الشیطان ما رزقتنا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر و جموں
)۳ /دسمبر ۱۹۱۳ئ(
ہمارے ایک واقف کار موتی رام تھے- میرے ایک لڑکے کا انتقال ہوا تو موتی رام کہنے لگا کہ دیکھو مولوی صاحب! مشاہدہ کا تو انکار نہیں ہو سکتا- میں نے کہا ہاں- کہا کہ ہمارے باپ دیوی جی کے مندر سے دو پستے لائے- ان کے کوئی اولاد نہ تھی اور دو بیویاں تھیں- ایک نے پستہ نہ کھایا- دوسری نے دونوں کھالئے اور ہم دو بھائی پیدا ہو گئے- میں نے کہا تمہارے بھائی شب لال بڑی بھنگ پیتے ہیں- تم بھی ان سے تنگ ہو- کہا ہاں- موتی رام ہمیشہ دائم المریض رہتے تھے- میں نے کہا تم ہمیشہ مریض رہتے ہو- کہا ہاں- میں نے کہا پھر میں ایسے لڑکے کیا کروں گا-
اسی طرح کشمیر میں ایک مندر نیا بنایا گیا- اس میں ایک بڑی بھاری پتھر کی مورت رکھنی تھی- بہت سے کشمیری مسلمانوں کو بلایا- انہوں نے رسے باندھے کچھ اوپر سے کھینچتے تھے کچھ نیچے سے دھکیلتے تھے- اوپر والے کہتے تھے لا الٰہ نیچے والے کہتے تھے الا اللٰہ- اسی طرح اس کو چڑھا رہے تھے- میں نے ایک ہندو سے جو مہذب معلوم ہوتا تھا کہا کہ یہ بدوں توحید کے تو چڑھتا نہیں- اس نے کہا کہ یہ ابھی پاک نہیں- میں نے کہا تو ابھی یہ ناپاک ہے- کہا کہ ہاں ایسا ہی کہنا پڑتا ہے- بت پرستی بڑی لغو چیز ہے- بت پرستوں کی عقل ماری جاتی ہے- تعجب ہے کہ ہمارے مسلمان بھی بت پرستی میں گرفتار ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۵/ جنوری ۱۹۰۹ئ(
میں کشمیر میں تھا- ایک روز دربار کو جا رہا تھا- یار محمد خاں ایک شخص میری اردلی میں تھا- اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ میں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا- میں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے- میں جب دربار میں گیا تو وہاں مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو تو خلعت ملنا چاہئے- چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا- اس میں جو چادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی- میں نے یار محمد خاں سے کہا کہ دیکھو ہمارے خداتعالیٰ کو ہمارا کیسا خیال ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۱/ دسمبر ۱۹۱۱ئ(
میں کشمیر میں تھا- وہاں ایک نجوم کا اعلم العلماء یعنی تمام پنڈتوں کا استاد جوتشی تھا- اس کی رسائی مہاراجہ کے گھر میں اندر عورتوں تک بھی تھی- میں نے ان ایام میں کچھ عرصہ سے دربار میں جانا چھوڑ دیا تھا- میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بتائو ہم دربار میں کب جائیں گے؟ اس نے اپنے بہت سے شاگردوں کو جمع کرکے کہا کہ اس سوال پر غور کرو- سب نے اتفاق کرکے ایک تاریخ مقرر کی- میں نے کہا یہ تاریخ غلط ہے- پھر پنڈت صاحب نے خود بھی غور کی اور سب کے اتفاق سے ایک تاریخ معین ہوئی- میں نے کہا کہ یہ بھی غلط ہے- پھر میں نے کہا کہ ہم بتاتے ہیں- رات کا پچھلا حصہ ہوگا- فلاں تاریخ ہوگی جب ہم بلائے جائیں گے- اگر کہو تو اس وقت تم کو بھی جگا دیں- چنانچہ اسی تاریخ اور اسی وقت جب آدمی بلانے آیا تو میں نے اس سے کہا کہ فلاں راستہ سے چلیں گے- چنانچہ راستہ میں جب پنڈت جی کا مکان آیا تو میں نے پنڈت جی کو بلایا وہ سوتے ہوئے اٹھ کر باہر آئے- میں نے کہا کہ دیکھو ہم بلائے ہوئے جا رہے ہیں- اس کے بعد پنڈت جی مجھ سے کہا کرتے تھے کہ >مہاراج تمہارا تاجک بڑا زبردست ہے ہم کو بھی بتادو< ہماری نجوم درحقیقت صرف اس قدر تھی کہ پیشتر سے یہ معلوم تھا کہ فلاں تاریخ کو آم آنے والے ہیں- میں جانتا تھا کہ یہ بہت کھا جائیں گے- اور ہماری ضرورت پڑے گی- آم کھانے سے ہمیشہ رات کے پچھلے حصہ میں نفخ ہوا کرتا تھا- ][۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں پندرہ سولہ برس تک ایک غیر مسلم )مہاراجہ کشمیر( کا نوکر رہا- مجھ کو ایک دفعہ بھی سلام نہ کرنا پڑا- صرف ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ تمام اہل دربار کو نذریں دکھانی لازمی تھیں- نذر دکھلانا بھی ایک قسم کا سلام ہی ہے- موقع کچھ ایسا ہی تھا کہ میں نے بھی نذر دکھلانے کا عزم کیا- روپیہ ہاتھ میں لے کر جب میں نذر دکھلانے والا تھا- ویسے ہی بلا کسی خیال کے میری نظر روپیہ پر پڑی- میں ہتھیلی پر روپیہ لئے ہوئے خود ہی جب اس کو دیکھ رہا تھا تو مہاراج نے مجھ کو آواز دے کر کہا کہ مولوی صاحب! آپ نذر دکھلاتے ہیں یا روپیہ دیکھتے ہیں- میں نے بے ساختہ کہا کہ مہاراج روپیہ کو دیکھتا ہوں کہ یہ روپیہ ہی ہے جس کی وجہ سے مجھ کو نذر دکھلانے کی ضرورت پیش آئی- یہ سن کر فوراً مہاراج نے کہا کہ ہاں! آپ کو نذر دکھلانے کی ضرورت نہیں- آپ تو نذر دکھلانے سے آزاد ہیں- سب ہنس پڑے اور اس طرح بات ہنسی میں ٹل گئی اور مجھ کو نذر بھی نہ دکھلانی پڑی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میں جموں میں تھا- وہاں ایک روز راجہ کے سامنے ایک شخص مسمی مرزا پیارے نے ستار بجایا- راجہ نے ستار سن کر کہا کہ مرزا صاحب آپ نے خوب ستار بجایا- مرزا صاحب نے جھک کر سلام کیا- بس اسی حالت میں سرجھکائے اور ہاتھ اٹھائے ہوئے دم نکل گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ مئی ۱۹۰۹ قبل مغرب بعد درس(
کشمیر میں میرے پاس ایک نوجوان رہتا تھا- میں نے اس کو باربار سمجھایا کہ ہمارے پاس رہتے ہو- قرآن شریف پڑھا کرو- وہ ٹالتا ہی رہتا تھا- میں کشمیر سے وطن کو آنے لگا- وہ جوان بھی میرے ساتھ چلا- راستہ میں ایک مقام اودھم پور ہے ہم وہاں اترے- وضو کیا- نماز پڑھی- وہیں ڈاک آئی جس میں اس کی نوکری کا پروانہ آیا- وہ بڑا خوش ہوا- اودھم پور سے ہم چل دئیے- وہ جوان میرے ڈر سے سفر میں ایک حمائل اپنے گلے میں لٹکائے رکھتا تھا- جب اودھم پور سے کئی چڑھائیاں اور کئی اتار ہم طے کر چکے اور نیچے اتر کر ایک تالاب کے کنارے ذرا دم لینے اور آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو اس لڑکے نے کہا کہ مولوی صاحب میرا قرآن شریف تو وہیں درخت سے لٹکا ہوا رہ گیا جہاں نماز پڑھی تھی- مگر خیر میں اب لاہور جاتے ہی سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ ایک نہایت عمدہ سا قرآن شریف خریدوں گا- میں نے کہا- بس اب تم کو قرآن شریف پڑھنے کا موقع نہ ملے گا- قرآن شریف تو تم سے گیا- چنانچہ جاتے ہی پولیس کا کام سپرد ہوا- اور قصہ مختصر پھر اس کو قرآن شریف پڑھنا نصیب نہ ہوا- اب چند روز ہوئے اس کا خط میرے پاس آیا تھا- وہ لکھتا ہے کہ مجھ کو آج تک بھی قرآن شریف پڑھنا نصیب نہ ہوا- مگر ہاں میرا ارادہ ہے کہ اپنے لڑکے کو قرآن شریف پڑھائوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نما ظہر(
ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے مجھ سے کہا کہ کیوں مولوی جی تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سور کھاتے ہو اس لئے بیجا حملہ کر بیٹھتے ہو- بھلا یہ تو بتائو کہ انگریز بھی تو سور کھاتے ہیں وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے؟ میں نے کہا کہ وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں- اس سے اصلاح ہو جاتی ہے- سن کر خاموش ہی ہو گئے- اور پھر دو برس تک مجھ سے کوئی مذہبی مباحثہ نہیں کیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۶/ اکتوبر ۱۹۱۲ء بعد عصر(
میں مہاراجہ کشمیر کے یہاں نوکر ہوا تو میں نے بعض احباب کے مشورہ سے درخواست دی کہ میری تنخواہ ماہ بماہ مجھ کو مل جایا کرے- انہیں احباب کے مشورے سے میں اس وقت دربار سے غیر حاضر تھا- جبکہ میری درخواست پیش ہوئی- مہاراج بہت ناراض ہوئے کہ ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور تنخواہ ماہ بماہ لیتے ہیں- تمام حاضرین دربار نے یک زبان ہو کر میری تائید کی اور کہا کہ ان کا خرچ بہت ہے اور بدوں اس کے گذر مشکل ہے- خیر میری درخواست پر تو میرے حسب منشاء حکم لکھا گیا- لیکن جب میں دربار میں گیا تو مجھ کو سنانے کے لئے مہاراج نے کہا کہ بعض لوگ اپنی تنخواہ ہم سے پہلے ٹھہراتے اور ماہ بماہ مانگتے ہیں- لیکن ہمارے وزیر اعظم دس برس سے ہمارے یہاں نوکر ہیں اب تک تنخواہ کا مانگنا تو درکنار تنخواہ مقرر بھی نہیں ہوئی- میںنے کہا کہ پھر وہ کھاتے کہاں سے ہیں؟ بعد میں مجھ سے ایک شخص نے کہا کہ قریباً تمام اہلکاروں کی یہی حالت ہے مگر مہاراج کو سمجھائے کون؟ میں نے کہا دیکھو ہم ہی کبھی سمجھائیں گے- اس نے کہا کہ آپ ہی صرف ایسے شخص ہیں- جن کی تنخواہ ماہ بماہ مقرر ہوئی ہے- ورنہ چھ ماہی سے کم کسی کو تنخواہ نہیں ملتی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۱/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں ریاست کشمیر میں ملازم تھا- وہاں میری بڑی تنخواہ تھی- بعض اسی اسی روپیہ ماہوار کے طبیب مجھ سے اول بیٹھنے کی کوشش کرتے اور میں ان کو آگے بیٹھنے دیتا اور بہت خوش ہوتا- وہاں ایک بوڑھے آدمی تھے- انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی ابتدائی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں- بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے- وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے- کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے- اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے- ایک دن سردربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے- وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے کہا کہ حکیم صاحب! انکو سورہ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنا دوجس میں آتا ہے ذٰلک مما اوحیٰ الیک ربک من الحکمۃ- پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)یکم جون ۱۹۰۹ئ(
میں جب کشمیر میں تھا تو وہاں ایک شخص آیا- اس کا تعلق خبیث ارواح سے تھا- مہاراج نے ایک بنگالی ڈاکٹر کو جو مہاراج کے ہاں نوکر تھا بھیجا- اس نے کچھ مٹھائی اور پیسے وغیرہ اس کے سامنے رکھے- اس شخص نے کہا کہ اس کے دل میں یہ خیال ہے- اور رخصت چاہتا ہے- وہ بنگالی ڈاکٹر سن کر حیران ہی رہ گیا- کیونکہ اس کے دل کی بات ٹھیک ٹھیک بتائی گئی تھی- پھر دہلی کے ایک حکیم صاحب کو بھیجا- ان کے دل کی بات بھی اسی طرح اس نے بتادی اور وہ بھی غرق حیرت ہو کر چلے آئے- کچھ دل میں سوچ کر میں بھی گیا- میں لاحول پڑھتا رہا- اس نے بڑی دیر تک غور کرکے کہا کہ اس شخص کا حال مجھ کو کچھ نہیں معلوم ہوتا- یہاں ایک لڑکا رہتا تھا- اس کا نام عبدالعلی تھا- اس کے باپ کو جنات کے حاضر کرنے کا بڑا دعویٰ تھا- وہ میرے ساتھ اکثر رہا- لیکن کبھی بھی میرے سامنے تو وہ جنات کو حاضر نہ کر سکا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
>۸ جون ۱۹۰۹ء قبل از درس بعد نماز عصر مسجد مبارک میں جبکہ سید سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب رامپور جانے کے لئے ۹ جون کی صبح کو قصد روانگی رکھتے تھے- ان کو چند نصائح فرماتے ہوئے<-
مہاراجہ کشمیر سے بارہا میرا مباحثہ ہوا- ہمیشہ میں نے انہیں کو منصف مقرر کیا- اس کے بعد ایک شیعہ حکیم صاحب سے عبقات الانوار سات سو صفحہ کی کتاب لے کر پڑھنے اور ضیافت کے بہانہ مباحثہ کے لئے بلائے جانے کا مفصل حال بیان فرمایا جو آپ نے اپنی سوانح میں بھی لکھوایا ہے-
)۱۰/ جون ۱۹۰۹ئ(
میں نے ایک مرتبہ مہاراج کشمیر سے دریافت کیاکہ آپ کے یہاں بادشاہوں اور دوسرے دیوتائوں میں فرق کیا ہے کہا کہ دوسرے دیوتا تو ناقص ہوتے ہیں اور راجہ کامل دیوتا ہوتا ہے- میں نے کہا ثبوت؟ کہا دیکھو ابھی ثبوت دیتے ہیں- یہ کہہ کر پنڈت کو بلایا اور اس سے کہا کہ تم گدھا خیرات میں لے سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں- پھر کہا کنجروں کا مال لے سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں- کہا دیکھو یہ ناقص ہے اور ہم سب کچھ لے سکتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
)۱۰/ اگست ۱۹۰۸ئ(
مولوی عبدالکریم صاحب جب پہلے پہل مجھ سے ملے تو ان کی بہت چھوٹی عمر تھی- پتلے دبلے اور بہت صاف دل تھے- میں نے ان سے جموں میں کہا کہ تم میرے پاس آیا کرو- مولوی عبدالکریم چار زبانیں جانتے تھے- انگریزی- عربی- فارسی- اردو- میں نے تو اس وقت تک اپنی جماعت میں کوئی شخص دیکھا نہیں جو ان کی طرح چار زبانیں اچھی طرح جانتا ہو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ اکتوبر ۱۹۱۲ء در درس کلام اللہ(
میں کشمیر میں تھا- ایک روز میں نے خود صبح کی اذان کہی- میں جوان تھا- بڑے مزے میں خوب زور سے اذان کہی- میں جس محلہ میں رہتا تھا- وہاں سب ہندو یا سکھ ہی رہتے تھے- صرف ایک مسلمان تھے- وہ بھی بیچارے شراب کے نشے میں مخمور رہتے تھے- راجہ میری اذان سن رہا تھا- دن میں مجھ سے کہا کہ آج صبح اذان کس نے دی؟ میں نے کہا کہ میں نے دی تھی- کہا کہ آپ نے حی علی الصلٰوۃ کہا اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ کہا یعنی نماز کے لئے آئو تو کوئی اس آواز پر آیا نہیں- چونکہ اذان کے الفاظ بڑے ہی پرتاثیر ہیں- اس لئے مجھ کو بڑا ہی ڈر معلوم ہوا کہ یہ لوگ حی علی الصلوہ کی تعمیل نہیں کرتے- کہیں سب کے سب غارت نہ ہو جائیں- میں چونکہ اس شہر کا مالک ہوں اس لئے میں بڑا ہی خوف زدہ بیٹھا رہا- مطلب اس کہنے سے یہ تھا کہ آئندہ اذان نہ کہیں مگر ایک لطیف پیرایہ میں کہا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ اکتوبر ۱۹۰۸ئ(
کشمیر میں جذامیوں کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن آئی- وہاں ایک سو چار جذامیوں میں ننانوے مسلمان تھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۰ئ(
میں کسی زمانہ میں ایک بڑے امیر کے ساتھ اس کے باغ میں گیا- باغ میں سے اس امیر نے اپنے ہاتھ سے بادام توڑ کر مجھے دئیے- میں نے بادام دانت سے توڑ توڑ کر کھانے شروع کئے- اس امیر )راجہ کشمیر( نے میری طرف بڑی حیرت سے دیکھا- یا آج یہ حالت ہے کہ چھوہارہ اور انگریزی مٹھائی نہیں کھا سکتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۰ئ(
مجھ سے ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے کہا کہ مولوی صاحب! ان اختلافوں کے مٹانے کے واسطے بھی کوئی معیار ہے؟ میں نے کہا کہ آپ ہی کچھ سوچئے کہ کیا معیار ہو سکتا ہے؟ کہنے لگے مذہب وہ سچا ہے جو پراچین )پرانا- قدیم( ہو اور تمہارا تو صرف بارہ سو برس سے ہے- میں نے کہا- ہمارے یہاں فبھدٰھم اقتدہ آیا ہے یعنی جو پرانا اور اچھا ہو اس کی پیروی کرو- سن کر کہا کہ رام چند جی سب سے پرانے ہیں- ہم ان کو مانتے ہیں- میں نے کہا رام چند کس کی پرستش کرتے تھے؟ کہا کہ وشن کی- میں نے کہا کہ وہ کس کی؟ کہا وہ ردر کی- میں نے عرض کیا اور وہ کس کی؟ تو کہا وہ برہما کی- میں نے کہا برہما کس کی؟ کہا کہ برہما کیول ایشور کی- میں نے کہا کہ بس وہی اسلام ہے- کیا معنی! وحدہ لا شریک کی پرستش کرتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ فروری ۱۹۱۲ئ(
میں نے جموں میں بہت درس دیئے ہیں- میں اپنی جیب سے بہت سے روپے بھی اس کام کے لئے خرچ کرتا تھا- پھر مجھ کو خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ ہم تیرے لئے دوسری صورت پیدا کر دیں گے- اب میں کچھ زیادہ روپیہ بھی خرچ نہیں کرتا- اخلاص ایسی چیز ہے کہ یا تو میں ہزاروں روپے خرچ کرکے بعض نوجوانوں کو بنانا چاہتا تھا یا اب میں ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو مجھ پر جان بھی دینے کو تیار ہیں- اور بالکل میرے جاں گداز عاشق ہیں- )کاش میں ان میں سے ہوں- اکبر شاہ خاں(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۱۲3] ft/[s نومبر ۱۹۱۰ء بعد مغرب(
میں جب ریاست پونچھ میں تھا تو وہاں میرا کوا بڑھ گیا اور زبان پر زیادہ گرنے لگا- ورم شدید ہو گیا- میں نے اس کو کٹوا دیا- اس لئے میری آواز بھاری ہو گئی پھر اب تک کبھی کوا نہیں بڑھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۷/ فروری ۱۹۱۲ئ(
ایک مرتبہ کشمیر میں ایک شخص میرے مکان پر آکر مقیم ہوا- بڑی بے تکلف اور محبت کی باتیں کیا کرتا تھا- بظاہر غریب آدمی معلوم ہوتا تھا- میں بھی اس سے محبت کرتا تھا- ایک روز موقع پاکر اس نے تنہائی میں مجھ سے کہا کہ حضرت! دس ہزار روپے دلائے دیتے ہیں‘ چاہے نقد چاہے زمین- میںنے ہر چند غور کیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا- آخر میں نے ہنس کر کہا کہ کچھ کھول کر کہو- کہنے لگا کہ صرف اتنا کام ہے کہ رئیس کے متعلق یہ یہ باتیں ہیں ذرا ان کا پتہ لگائو- باقی آپ کو کام کچھ نہ کرنا پڑے گا وہ ہم خود کر لیں گے- صرف پتہ صحیح بتادو اور فلاں مقام پر آپ سے ملنے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔ آجائیں گے- میں نے اس سے کہا کہ مجھ کو ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں- وہ اسی دن میرے یہاں سے چلا گیا- دوسرے کسی رئیس کے پاس گیا- وہاں جاکر کامیاب ہو گیا یا نہیں- اس طرح ایک اور شخص میرے پاس بیمار بن کر آیا کہ میرے پائوں میں درد ہے- میں ہر چند دوا دیتا لیکن درد نہ گھٹتا نہ بڑھتا- وہ ایک گدی نشین تھا- مجھ کو شبہ ہوا کہ یہ بھی اسی قسم کا آدمی ہے- میں نے اس کو تنہائی میں بلا کر پوچھا کہ تم اپنا اصل مدعا بتائو؟ کہنے لگا کہ تم بڑے چالاک ہو کہ میری اصل غرض سمجھ گئے- پھر صاف طور پر کہا کہ ہاں بات یہی ہے- تب ہی تو تمہارے پاس آئے ہیں- میں نے کہا کہ رئیس مجھ پر بھروسہ کرتا ہے- میں ہرگز اس کی مخالفت میں کوئی کام نہ کروں گا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میں جموں میں تھا- وہاں وبا کے دنوں میں ایک ہاتھی کو خوب سیاہ کرکے نکالا گیا- ایک بنارس کا برہمن تھا- اس کا نام رام ہرک تھا- اس نے کہا یہ ہاتھی مجھ کو دیا جائے- لوگوں نے کہا کہ ہاتھی کا دان بڑا منحوس ہوتا ہے- اس نے کہا بلا سے- چاہے کچھ ہو- یہ مجھ کو ضرور ملنا چاہئے- چونکہ اس نے بہت کوشش کی لہذا وہ ہاتھی اسی کو مل گیا اور ساتھ ہی چند روز کا اس کے کھانے پینے کا خرچ بھی- شہر والوں نے کہا کہ چونکہ تم ہاتھی لئے جاتے ہو یعنی ہاتھی کے ساتھ شہر کی وبا بھی تمہارے ساتھ جائے گی لہذا تم کو پھر کبھی یہاں واپس نہ آنے دیا جائے گا- برہمن نے کہا بہت اچھا- میں واپس نہ آئوں گا- میرے پاس آیا تو میں نے کہا رام ہرک جی! بس اب تو تم کبھی اس ملک میں واپس نہ آسکو گے- کہنے لگا کہ میں اس ہاتھی کو کمسریٹ والوں کے ہاتھ جا کر کم سے کم سو روپیہ کو تو ضرور ہی فروخت کردوں گا اور ان ہندئوں جاہل بتوں کو پوجنے والی قوم کو دیکھو- میں کیسا بیوقوف بناتا ہوں اور اسی ملک میں پھر واپس آتا ہوں- چند روز کے بعد ہم سری نگر گئے تو دیکھا وہاں رام ہرک جی موجود ہیں- لوگوں نے اس سے کہا کہ تم تو دان کا ہاتھی لے کر گئے تھے- یہاں کیسے آگئے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ تو میں جموں کی وبا لے گیا تھا- اسی لئے جموں واپس نہیں گیا اگر کشمیر کی وبا کے حصہ کا ہاتھی دو تو وہ ہاتھی لے جاکر پھر یہاں بھی واپس نہ آئوں گا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۴/ ستمبر ۱۹۰۹ئ(
میرا ایک شاگرد تھا- اس کو مجھ سے حسن ظن تھا- وہ جموں کشمیر میں میرے پاس گیا- میں نے اس کیلئے بہت کوشش کی اور وہ سو روپیہ ماہوار کا نوکر ہو گیا- اب اس کو مجھ سے بدظنی ہوئی کہ یہ اگر چاہتے تو مجھ کو سو روپیہ سے زیادہ کا نوکر کرا دیتے- اسی بدظنی کو بڑھاتے بڑھاتے اس نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ پندرہ بااثر اشخاص کو اپنے ساتھ ملا لیا جن میں ایک پندرہ سو روپیہ ماہوار کا نوکر تھا- باقی سب بھی ایسے ہی معزز تھے- سب کے سب مل کر میری مخالفت کے درپے اور منصوبہ بازی میں لگے رہتے تھے- میں نے ایک دن ان سب کی ضیافت کر دی اور صرف انہیں کی‘ انکے نوکروں کی نہیں- جب وہ مکان میں سب آگئے تو میں نے اپنے آدمی کو حکم دیا کہ تمام دروازے بند کر دو- علاج معالجہ کے سبب بہت سے راجپوت اور فوجی پٹھان میرے معتقد تھے اور مہمان اس بات سے واقف تھے- لہذا ان کو یہ گمان ہوا کہ اس مکان میں پہلے سے آدمی بلوا کر چھپا رکھے ہیں اور اب ہماری سب کی خبر لی جائے گی- جو ان میں سب سے بڑا آدمی تھاوہ سب سے زیادہ ڈرا- میں نے ان سے کہا کہ تم ڈرو مت- ہم نے تم کو گرفتار تو کر ہی لیا ہے تمہاری جان کو زیان نہیں پہنچے گا- پھر میں نے اس آدمی سے جو سب سے زیادہ ڈرتا تھا- مخاطب ہو کر اور کڑک کر کہا کہ اچھا تو شریک ہے یا نہیں؟ اس نے ڈرتے ہوئے لرزتے ہوئے کہا کہ مجھ کو تو فلاں شخص نے یہ یہ باتیں کہہ کر شامل کیا- اس شخص نے کہا کہ مجھ کو فلاں نے مجبور کیا- غرض اس طرح آخر دو آدمیوں پر بات ٹھہری کہ تمام سازش کے بانی اور محرک یہ دونوں ہیں- وہ دونوں چونکہ کمزور تھے اسلئے سب انہیں کے سر ہو گئے- ان دونوں میں ایک وہی میرا شاگرد تھا- اس نے کہا میں ان پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا تھا- یہ اگر چاہتے تو مجھ کو بڑی نوکری دلا سکتے تھے- اس بڑے آدمی نے کہا کہ یہ سو روپیہ کی نوکری تو تجھ کو صرف مولوی صاحب ہی کوششوں سے ملی ہے ورنہ تو کہاں اور یہ نوکری کہاں؟ وہ سخت لاجواب خموش اور تصویر کی طرح دم بخود تھا- اب سب کو یقین تھا کہ بس حکم کی دیر ہے اور ہم سب پر کفش کاری شروع ہوتی ہے- میں نے ان سے کہا کہ میں تو تمہارے سب کے حوصلے دیکھتا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ جون ۱۹۱۲ئ(
ایک بڑا شخص اسی ہزار مربع میل کا مالک تھا )مہاراجہ کشمیر( اسلئے اس کے پاس سپاہی بہت تھے- میں نے جس زمانہ میں دیکھا- اس کے پاس اڑتالیس ہزار فوج تھی- میں نے کہا کہ آپ نے بہت آدمی دیکھے ہیں- یہ تو بتائیے بہادر کی تعریف کیا ہے؟ کہا میں نے تو کوئی بہادر دیکھا نہیں- یہ جس قدر مونچھوں کو تائو دینے والے ہوتے ہیں‘ کنچنیوں کے ساتھ تاش- چوسر- شطرنج کھیلنا خوب جانتے ہیں- بہادر نہیں ہوتے- پھر ایک چھوٹے سے پتلے دبلے آدمی کو دیکھایا کہ بس یہ ایک شخص بہادر میں نے دیکھا ہے- یہ شیر کی طرح حملہ کرتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۴/ جولائی ۱۹۱۲ئ(
ایک ڈاکٹر جو کشمیر میں گورنر تھا وہ عورتوں مردوں کی مساوات کا بڑا ہی قائل تھا- وہ ایک خیمہ میں بیٹھا ہوا عورت مرد کی مساوات کے متعلق بہت زور دے کر تقریر کر رہا تھا- میں وہاں اتفاقاً چلا گیا- وہ اس وقت تک مجھ کو پہچانتا نہ تھا- میں نے آہستگی سے پوچھا کہ حضور کا کوئی بیٹا ہے؟ اول تو اس کو میرا لباس وغیرہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ یہ کون وحشی سا آدمی ہے جو باقاعدہ انٹروڈیوس ہوئے بدوں مخاطب ہے مگر اس نے آخر کہہ دیا کہ ہاں میرے ایک بیٹا ہے- میں نے کہا وہ آپ کی بیوی کے پیٹ سے ہی پیدا ہوا ہوگا؟ اب اس کو اور بھی تعجب ہوا مگر اس نے کہہ دیا کہ ہاں- میں نے بڑی جرات کے ساتھ فوراً اٹھ کر خوب زور سے اس کی چھاتیوں کو پکڑ کر مروڑا- میں جانتا تھا کہ وہ جسم میں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں- اب تو وہ بہت گھبرایا لیکن میری جرات کو دیکھ کر حیران بھی تھا- مجھ سے کہا یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا اب تو آپ کی باری ہوگی کہ بچہ جنیں- میں یہ دیکھتا ہوں- کہ آپ کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا یا نہیں؟ اور کچھ بچہ کا سامان شروع ہے یا نہیں؟ اس نے اس امیر سے جس کے خیمہ میں آیا ہوا تھا- پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ بڑے آدمی ہیں- میں کیا بتائوں یہ خود ہی بتادیں گے- اب تو وہ اور بھی زیادہ حیران ہوا- مجھ سے کہنے لگا کہ آپ اپنا نام بتادیں- میں نے کہا ہم فقیر آدمی ہیں- جب اس نے باصرار کہا تو میں نے کہا کہ میرا نام نورالدین ہے- نام میرا وہ چونکہ خوب جانتا تھا- کہنے لگا کہ آپ تو بڑے عالم ہیں- میں نے کہا کہ آپ نے اپنی ساری علمیت کا زور عورت مرد کی مساوات میں صرف کیا- میری دلیل کا بھی آپ کوئی جواب دے سکتے ہیں؟ کہا آپ کی دلیل کا تو کوئی جواب نہیں دے سکتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۴]3 /[stfمارچ ۱۹۰۷ئ(
مہاراجہ کشمیر بارہا سردربار تمام درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ تم سب اپنی اپنی غرض کو آ کر میرے پاس جمع ہو گئے ہو اور میری خوشامد کرتے ہو- لیکن صرف ایک یہ شخص )میری طرف اشارہ کر کے( ہے جس کو میں نے اپنی غرض کو بلایا ہے اور مجھ کو اس کی خوشامد کرنی پڑتی ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/دسمبر ۱۹۱۱ئ(
مجھ کو کسی سے خود کوشش کر کے مباحثہ کرنے کی نہ کبھی خواہش ہوئی اور نہ اب ہے- ہاں! جب کوئی مجبور ہی کردے اور گلے ہی میں آپڑے تو پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگ کر مباحثہ کیا اور ہمیشہ کامیاب ہوا ہوں- تم لوگ اس کا تجربہ کر کے دیکھو- ہاں انبیاء علیہم السلام معذور ہوتے ہیں- کیونکہ مامور ہوتے ہیں-
‏Mr.13

شیعہ
)۲۰/ جولائی ۱۹۰۷ئ(
لاہور میں ایک مرتبہ میرا وعظ تھا- اثنائے تقریر میں میں نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرما دیتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علیؓ ہی خلیفہ ہونگے تو کیسی جلدی فیصلہ ہو جاتا- ایک شیعہ نے بعد میں کہا کہ آپ نے بڑے اچنبھے کی بات بیان کی- میں نے کہا کیسے؟ کہا >دو ہزار جگہ قرآن میں خلافت کو شیر خدا کا حق فرمایا ہے< میں نے کہا- کم سے کم نورالدین تو شیعہ ہو جائے گا- کہا کہ کل آپ ٹھہریں گے؟ میں نے کہا- ہاں- پھر کئی روز تک شیعہ صاحب نہ آئے- ایک دن گلی میں مل گئے- میں نے کہا- ہم کو تو یہاں منتظر بٹھا گئے اور خود ادھر کا رخ بھی نہ کیا- کہنے لگے کہ جس مجتہد کے پاس گیا اسی نے بات تو نہ بتائی اور یہی کہا کہ اس کے پاس نہ جانا- مجتہدوں کو گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ جنوری ۱۹۰۷ئ(
مجھ سے کسی نے کہا کہ پنڈدادنخاں میں میتا نام ایک کنچنی ہے- وہ شیعہ گر ہے- یعنی لوگوں کو‘ جو کوئی اس کے یہاں جاتا ہے‘ شیعہ بنا دیتی ہے- اتفاقاً وہ ایک روز بغرض علاج میرے پاس آگئی- بڑی مشہور اور پڑھی لکھی عورت تھی- اس کے میراثی نے جو اس کے ساتھ تھا مجھ سے کہا کہ آپ جانتے بھی ہیں یہ کون ہیں؟ میں نے کہا نہیں- کہا کہ میتا ہے- میں نے کہا اخاہ! آپ ہی میتا ہیں- مجھ کو ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے- وہ ہنسی اور کہا کہ آپ مجھ سے کیا مسئلہ دریافت کریں گے- میں نے کہا کہ یہ بتائو امام حسین علیہ السلام نے کیوں یزید کی بیعت نہیں کی- اس نے کہا کہ یزید فاسق یعنی زانی تھا- اس لئے امام حسینؓ نے بیعت نہیں کی- میں نے کہا تو امام حسینؓ کو فاسقوں اور زانیوں سے نفرت تھی؟ کہا ہاں- میں نے کہا کہ پھر جو خود ترغیب دے اور لوگوں کو زانی بنائے یعنی زنا کرائے اس سے بھلا امام حسینؓ کس طرح خوش ہو سکتے ہیں؟ کہا میں اس قدر نہیں پڑھی- لو نبض دیکھو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ فروری ۱۹۰۸ئ(
میں نے ایک مرتبہ مالیر کوٹلہ میں مولوی شیخ احمد صاحب مجتہد سے کہا- یہ بتائو کہ کیا ثابت کیا جا سکتا ہے یا تمہارا اعتقاد ہے یا کسی شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن شریف میں کوئی ایک پوری سورت بنا کر کسی نے داخل کر دی ہے‘ خواہ وہ مصنوعی سورت چھوٹی سے چھوٹی کیوں نہ ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی بھی سورت قرآن شریف میں اضافہ نہیں کی گئی- ہاں یہ ممکن ہے کہ قرآن شریف میں سے بعض سورتیں یا بعض آیتیں کم کی گئی ہوں اور ترتیب بگاڑی گئی ہو- جب انہوں نے یہ فرمایا تو میں نے ان سے کہا کہ اذا جاء نصر اللٰہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللٰہ افواجاً سے معلوم ہوتا ہے کہ افواج در افواج لوگ دین الٰہی میں داخل ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھے- آپ مجھے صرف ایک فوج اور ایک فوج بھی نہ سہی ایک فوج کے صرف ایک دستہ اور ایک دستہ بھی نہ سہی صرف دس پندرہ ہی نام سنادیں )علی مرتضیٰؓ کے سوا شیعوں کے اعتقاد میں صرف دو ڈھائی شخص مومن تھے( یہ سن کر شیخ احمد
صاحب مجتہد ایسے سٹ پٹائے اور گھبرائے کہ انہوں نے کہا کہ اول تو لفظ اذا کی تحقیق نقلی طور پر ہونی چاہئے- پھر یہ کہ آیا زمانہ حادث ہے یا قدیم- پاک ہے یا نجس- متصل ہے یا منفصل- میں نے عرض کیا کہ اسے لکھ دیجئے کہ ہم اذا کے معنی نہیں جانتے- انہوں نے لکھ دیا کہ ہم اذا کے معنی نہیں جانتے- جب بعد میں دوسرے شیعہ لوگوں کو معلوم ہوا تو بڑا شور مچا کہ یہ کیا کیا کہ تحریر دے دی- پھر تم مجتہد ہی کاہے کے ہوئے- جب اذا کے معنی نہیں جانتے- چنانچہ میرے پاس ان کے آدمی آئے اور خوشامد کرنے لگے کہ وہ پرچہ دے دو- میں نے وہ پرچہ ان کو دے دیا-
)۱۶/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک شیعہ میرے پاس ایک کتاب پانچ جلدوں کی لایا- میں نے اس سے کہا کہ اس کی کیا قیمت ہے؟ اس نے کہا اس کی یہ قیمت ہے کہ آپ اس کو ایک مرتبہ پڑھ جائیے- میں نے اس کی خاطر سے اس کے ۷۵ صفحے پڑھے اور اس کتاب پر یہ آیت لکھ دی- فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم واوذوا فی سبیلی و قاتلوا وقتلوا لاکفرن عنھم سیاٰتھم ولادخلنھم جنٰت تجری من تحتھا الانھار ثواباً من عند اللٰہ واللٰہ عندہ حسن الثواب- اس کتاب میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس تمام کوشش کا یہ آیت کافی جواب تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
میں مالیر کوٹلہ میں تھا کہ شیعوں کی طرف سے ایک اشتہار بلالی پریس ساڈھورہ کا چھپا ہوا نکلا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ~ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تیری قوم سے مجھ کو نقصان پہنچا- میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم تو پھر ابوطالب اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوئے؟ ایک شیعہ نے کہا- ہاں- میں نے کہا اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کذب بہ قومک )رکوع۸ سورہانعام( جب اس کا چرچا ہوا تو اگلے ہی دن تمام اشتہار شہر میں سے اتار لئے گئے-
‏cent] g[ta۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں نے اکثر شیعوں سے دریافت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- یا ایھا النبی جاھدالکفار والمنافقین واغلظ علیھم- تم یہ بتائو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کا مقابلہ کیا کیا ہے؟ میں نے شیعوں سے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے کوشش کی اور کامیاب ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقول تمہارے کوشش کی لیکن ھموا بما لم ینالوا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹/ جون ۱۹۰۹ئ(
میں نے ایک شیعہ سے دریافت کیا کہ تم جو متعہ کرتے ہو اس سے نطفہ رہ جائے اور لڑکی پیدا ہو- تیرہ چودہ برس کے بعد پھر وہی لڑکی متعہ میں تمہارے پاس آجائے تو کیا صورت بچنے کی ہے؟ خاموش ہی رہ گیا کوئی جواب بن نہ آیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۱۴3] fts/[ جون ۱۹۰۹ئ(
میں نے ایک شیعہ سے پوچھا کہ منافقوں کو قتل کرنے کا حکم تھا- ابوبکرؓ و عمرؓ کو کس نے قتل کیا؟ کہنے لگا کہ جب امام مہدی آئیں گے تو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو پیدا کریں گے اور ماریں گے- یہ سن کر ایک شخص نے سر پر خاک ڈالی اور شیعوں کے سامنے جاکر کہا کہ اول ابوبکرؓ نے پھر عمرؓ نے پھر عثمانؓ پھر معاویہؓ پھر یزید و غیرہم نے ہم پر ظلم ہی کئے اور ہم سے یا ہمارے کسی امام سے کچھ بھی نہ ہوسکا- اب امید تھی کہ امام مہدی کے زمانہ میں چین ملے گا لیکن وہ تو آج معلوم ہوا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ پھر پیدا ہو جائیں گے وہ بھلا کاہے کو ہمیں چین لینے دیں گے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۳/ اگست ۱۹۰۸ئ(
میں نے شیعوں سے اکثر پوچھا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سے تو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و زبیرؓ و طلحہؓ وغیرہ اور اصحاب بدر پیدا ہوئے جو تمہارے نزدیک ظالم‘ غاصب‘ کافر‘ مرتد تھے- اب تم بتائو کہ تمہاری دعوت سے کیا ہوگا؟ ایک شیعہ نے کہا- خیر اور تو ہوئے ہی مگر حضرت علیؓ بھی تو پیدا ہوئے- میں نے کہا وہ تو بلا اثر دعوت پیدائشی طور سے ہی ولی پیدا ہوئے تھے- ان کا ذکر کیوں کرتے ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۹/ نومبر ۱۹۰۹ئ(
مالیر کوٹلہ میں شیعوں کے ایک مجتہد آئے- وہاں خوجے شیعہ رہتے ہیں- مجتہد صاحب نے سنا کہ یہ خوجے بوڑھے ہو گئے لیکن اکثروں کی ختنہ نہیں ہوئیں- مجتہد صاحب نے حکم دیا کہ ختنہ کرو اور سبب پوچھا کہ اب تک کیوں نہیں کیں؟ انہوں نے کہا کہ سو روپیہ میں ختنہ ہوتی ہیں- ایک اور شخص نے مجھ سے کہا کہ شریعت پر تو عمل ہو سکتا ہی نہیں- میں نے کہا- کیوں صاحب تمہارے مراسم پر عمل ہو سکتا ہے؟ لاجواب ہو کر سوچا اور سمجھ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۸/ مارچ ۱۹۱۰ئ(
ایک مرتبہ ایک گوہر شاہ شیعہ میرے مکان پر آیا- مجھ کو پتہ لگا کہ کوئی اور شخص مولوی عبداللہ مباحثہ کرنا چاہتے ہیں- اس شخص کو بھیجنے سے مطلب یہ ہے کہ آپ کو ٹٹولے- اس نے کہا کہ آپ کو قرطاس کا مسئلہ معلوم ہے؟ میں نے کہا سیالکوٹ میں بنتا ہے- اور یورپ میں بہت کاغذ بنتا ہے- اس نے کہا کہ قرطاس کا کوئی مسئلہ ہے؟ میں نے کہا- کاغذ گروں سے دریافت کرو- اس نے کہا کہ آپ کے مذہب کی کونسی کتاب ہے؟ میں نے کہا قرآن کافی کتاب ہے- کہا کوئی اور؟ میں نے کہا کہ اور کتاب زیادہ سے زیادہ بخاری ہے- کہا بخاری میں کوئی قرطاس کا معاملہ ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں اس میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت میں سے ایک لڑکی ام کلثوم سے اپنا ناطہ کرنا چاہتے تھے- حضور نبی کریمﷺ~ نے جب کاغذ منگایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خلافت لکھ دیں تو اہل بیت کو فکر ہوئی کہ اگر حضرت ابوبکر کا نام لکھا گیا- تو بڑی مشکل ہوگی- لہذا انہوں نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی خلیفہ ہوں گے- لکھوانے کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت کی طرف داری کی اور کہا کہ اہل بیت کی بات مان لو اور کاغذ رہنے دو- پھر اس شیعہ نے کہا کہ فدک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا فدک کیا تھا؟ کہا- یہودیوں کے باغ تھے- میں نے کہا- قرآن شریف سورۃ حشر رکوع ۱ میں لکھا ہے کہ یہودیوں کے باغ پر کسی نے گھوڑے نہیں دوڑائے- یہ مال کسی کا نہیں- یہ مال مومنوں کا ہے اور مہاجرین کا۔۔۔۔۔ - پس معلوم ہوا کہ یہ مال بہت سے لوگوں کا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سنیوںکا ہے والذین جائ|وا من بعدھم یقولون یہ مال ان لوگوں کا ہے جو بعد میں آئیں گے- اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں کسی مسلمان کی نسبت کوئی کھوٹ نہ ہو- اب بتائو کہ جو اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہیں یعنی شیعہ وہ اگلے صحابہؓ کے حق میں دعا مانگتے اور مغفرت چاہتے ہیں یا ان سب کو تبرہبھیجتے ہیں؟ قرآن کریم تو کہتا ہے یہ ان کا حق ہے جو تبرہ نہیں بھیجتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۱/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
ایک شیعہ نے مجھ سے کہا کہ یہ قرآن تو چپ کتاب ہے )اس کے الفاظ تھے کتاب صامہ( اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ناطق کتاب تھے- میں نے کہا کہ یہ کتاب تو کہتی ہے کہ میں بولتی ہوں- ھٰذا کتابنا ینطق علیکم بالحق )الجاثیہ-( اور اگر حضرت علیؓ ناطق ہیں تو ان کی آواز میرے کان میں پہنچوائو تو سہی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسائی
)۲۴/ جولائی ۱۹۰۷ئ(
بمبئی میں ایک شخص سید حسین پیدل جا رہے تھے- ایک عیسائی کو دیکھا کہ بگھی پر آرہا ہے- اس نے ان کو سلام کیا- انہوں نے بگھی رکوا کر کہا کہ گھوڑے میں زیادہ طاقت ہے یا تم میں؟ اس نے کہا گھوڑے میں- انہوں نے کہا انسان نے جس کو اپنے آپ سے زیادہ طاقتور دیکھا اسی کو قابو کر لیا مگر تم نے خدا کو دیکھا اور مان لیا اور اس کو قابو نہ کیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۳/ دسمبر ۱۹۱۱ئ(
ایک مرتبہ ایک عیسائی سے میری ملاقات ہوئی- میں نے اس سے کہا کہ زنا تم کرتے ہو تو آتشک تم کو ہوتی ہے یا مسیح کو؟ مبہوت رہ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ اپریل ۱۹۰۹ء قبل از درس در مسجد اقصیٰ(
بائیبل کو ہم نے بہت دفعہ پڑھا- ہمارے مطالعہ کی بائیبل جس پر ہم نے بہت سے قیمتی حواشی لکھے تھے- کسی نے چرا لی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظہر(
ایک انگریز کا نام گارڈن تھا- اس نے مجھ سے کہا کہ یورپ نے بڑی ترقی کی ہے؟ میں نے کہا کیا ترقی کی ہے؟ مسلمانوں کی صرف ایک اذان ہی کا مقابلہ کرلو- تم لوگوں سے سوائے گھنٹے بجانے کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن مسلمان کوٹھوں پر‘ بلند میناروں پر چڑھ کر پانچوں وقت اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں- کیا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلال اور کبریائی کے لئے یورپ کوئی چیز ایجاد کر سکتا ہے؟ نہ یہودی مقابلہ کر سکتے ہیں- نہ مسیحی- نہ مجوسی- نہ ہندو- ایک اور انگریز سے اسی قسم کی گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ ہم نے ہی غلام آزاد کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ہم لوگوں ہی کے سر یہ سہرا بندھا- میں نے فوراً جواب دیا کہ مسلمانوں کے ہاں تو انما الصدقات والی آیات میں خدا تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے کے لئے ایک حصہ فی الرقاب مقرر فرمادیا ہے تمہاری انجیل میں تو کہیں غلاموں کے آزاد کرنے کے لئے کوئی بھی حکم نہیں- بھلا مسلمانوں سے بڑھ کر غلاموں کے آزاد کرنے کا دعویٰ تم کیسے کر سکتے ہو؟ وہ بھی سن کر کچھ حیران ہی سا رہ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں ایک مرتبہ سورہ مائدہ کے پہلے رکوع کی آیت الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ پڑھا رہا تھا کہ ایک مسیحی جو بڑا آدمی تھا آگیا- اس نے اعتراض کیا کہ مولوی صاحب یہ تو بڑا ظلم ہے کہ اسلام نے ہماری لڑکیاں تو تم کو دلا دیں اور تمہاری لڑکیاں عیسائیوں کو نہ دینے دیں- میں نے کہا کہ تم کو معلوم نہیں اس میں ایک بڑی پیشگوئی ہے؟ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ عیسائی مسلمانوں کے بادشاہ ہوں گے- پس مسلمانوں کو کہا کہ تم تو اپنے حاکموں پر بدظنی نہ کرو لیکن وہ بغاوت وغیرہ کی بدظنی تم پر کریں گے- اس لئے تم ان کی لڑکیوں سے شادی کر لو تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ہماری تو لڑکیاں مسلمانوں کے گھروں میں ہیں- یہ اگر بغاوت کے منصوبے کریں گے تو ہم کو فوراً معلوم ہو جائیں گے- یہ سن کر وہ خاموش و حیران رہ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ جون ۱۹۰۹ئ(
ایک پادری نے مجھ سے کہا کہ تمہارے یہاں قرآن میں مکہ کو زمین کی ناف کہا ہے- میں نے کہا یہ قرآن شریف موجود ہے اس میں کہیں ناف کا ذکر نہیں- ہاں بائیبل میں یاجوج ماجوج کے ذکر میں مذکور ہے کہ وہ زمین کی ناف پر چڑھائی کریں گے- حدیثوں میں البتہ ناف کا ذکر ہے- بچہ ناف کے ذریعہ سے غذا حاصل کرتا ہے اسی طرح مکہ میں جو کتاب نازل ہونا شروع ہوئی- اس نے ہم کو روحانی غذا پہنچائی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ جون ۱۹۰۹ئ(
ایک مسیحی نے مجھ سے کہا کہ بائیبل کے معنی ہم ہی خوب کر سکتے ہیں‘ تم نہیں کر سکتے- میں نے کہا توریت کے معنی پھر تو یہودی ہی خوب کر سکتے ہیں‘ تم نہیں کر سکتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳/ اگست ۱۹۰۸ء در درس بخاری بعد نماز ظہر در مسجد مبارک(
ٹوانہ کے سردار عمر حیات خاں کے والد ماجد ایک مرتبہ کسی انگریز کی کوٹھی میں گئے تو وہاں اس انگریز نے سوال کیا کہ سردار صاحب! یہ بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے رسول تھے؟ انہوں نے کہا اور تو میں جانتا نہیں- ہاں اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری کوٹھی میں آکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہی معلوم ہوتے ہیں- اس نے کہا کیسے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تین لاکھ روپیہ جمع ہے- اسی برس کی عمر ہے- اولاد کوئی نہیں- لیکن پھر بھی تمہاری کوٹھی میں آکر یہی جی چاہتا ہے کہ کچھ زمین مل جائے- کوئی کرسی کا درجہ بڑھ جائے وغیرہ- دنیا میں مال و دولت اور عورت وغیرہ لطف کی چیزیں ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا کہ دنیا کی محبت نہ کرو- کسی کا مال نہ لو- کسی کی عورت کو مت دیکھو- زنا نہ کرو- پھر یہ کہ اپنی اولاد کے لئے بھی کوئی آمدنی کی کر مقرر نہیں کی- سادات کو زکٰوۃ لینے سے بھی منع کیا- بس اب یہ بتائو کہ پیغمبری سے انہوں نے خود فائدہ کونسا اٹھایا اور آرام کیا حاصل کیا؟ پھر یہ کہ اپنی اولاد کے لئے صدقہ بھی حرام کر دیا- یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے زبردستی ہی پیغمبری کا دعویٰ کرایا ہوگا یعنی خداتعالیٰ نے ہی پیغمبر بنایا ہوگا ورنہ خود تو کوئی فائدہ اٹھایا نہیں- مجھ سے جب کسی نے یہ حکایت بیان کی تو میں نے سن کر کہا کہ اب ضرور ملک صاحب خان کے لڑکا بھی پیدا ہوگا- چنانچہ ان کے لڑکا پیدا ہوا جو موجود ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ اگست ۱۹۰۸ئ(
ایک پادری نے مجھ سے کہا کہ بہشت میں کھائیں گے تو پاخانہ کیوں نہ پھریں گے- میں نے کہا کہ تو نے نو مہینے ماں کے پیٹ میں کھایا کیا وہاں پاخانہ بھی پھرتا تھا- چپ ہو گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/ اگست ۱۹۰۸ئ(
ایک مرتبہ ریل میں ایک انگریز ہمارے ساتھ سوار ہوا- اس کا نام ینگسن تھا- ایک اور منشی جمال الدین تھے- انہوں نے اس انگریز سے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ قرآن شریف خوب جانتا ہے- وہ انگریز میرے پاس آگیا اور کہا آپ نے ]ksn [tag ما قتلوہ وما صلبوہ پر غور کیا ہے؟ میں نے اس کو بہت تفصیل سے سمجھایا- اس نے مجھ سے سن کر کہا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا نورالدین ہے- کہا جموں والا؟ میں نے کہا ہاں- وہ فوراً علیحدہ ہو گیا اور پھر تمام سفر میں مجھ سے بولا ہی نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۸/ اکتوبر ۱۹۱۲ء بروز جمعہ(
میں ایک گاڑی پر سوار ایک انگریز پادری کی کوٹھی کے سامنے سے گزرا- میرے ساتھ ایک گریجویٹ لڑکا بھی سوار تھا- اس نے مجھ سے کہا کہ آپ اس انگریز سے ضرور ملاقات کریں- بڑا فلسفی ہے- اس نے زیادہ مبالغہ کیا تو میں نے کہا کہ مسیحی فلسفی نہیں ہو سکتا- اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا کہ اچھا تم اول اس کے پاس جا کر کہو کہ مجھ کو تھری ون )تثلیث( کے مسئلہ کی فلاسفی سمجھا دیجئے- وہ لڑکا بے|تکلف فوراً اس کے پاس چلا گیا اوراس سے تھری ون )تثلیث( کے مسئلہ کی فلاسفی دریافت کی- پادری نے جواب میں کہا کہ اس مسئلہ کے صحیح ہونے کی دلیل یہی کافی ہے کہ ہم نے اس کو مان لیا اور ایشیائی دماغ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے- وہ لڑکا واپس آیا اور کہا کہ اس نے ہماری بڑی تحقیر کی اور کہا کہ اس کا فہم ایشیائی دماغوں سے بالاتر ہے- میں نے کہا کہ تم پھر جائو اور اس سے کہو تمہارا خدا )مسیح( بھی ایشیائی تھا اور اسکے مرید پولوس‘ پطرس بھی ایشیائی- آپ کے قاعدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تینوں اس مسئلہ کو نہیں سمجھے تھے- جب تمہارا خدا اور اس کے خلیفے بھی نہیں سمجھ سکے تو تم کیسے سمجھ گئے؟ وہ پادری سن کر ہنس پڑا- وہ لڑکا سمجھ گیا کہ یہ ہنسنا لاجواب ہونے کی علامت ہے- مجھ سے آکر کہا کہ وہ تو لاجواب ہو گیا- انہیں ایام میں کچھ عرصہ کے بعد اس پادری کو عیسائیوں کے ایک مجمع میں لیکچر دینے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ لڑکا بھی اس مجمع میں موجود تھا لیکن پادری صاحب نے اس کو نہیں دیکھا تھا- وہاں پادری نے اپنے مسیحیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ان کالجوں کے گریجویٹ لڑکوں سے بچنا چاہئے- یہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں- ایک تعلیم یافتہ لڑکے نے مجھ سے ایسا سوال کیا کہ میں اس کو کوئی جواب نہیں دے سکا اور نہایت سراسیمہ ہو گیا اور اب تک بھی جواب نہیں دے سکتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ ستمبر ۱۹۰۹ئ(
ایک عیسائی مجھ کو ریل میں ملا- میں نے اس سے کہا کہ تم بڑی کوشش کرتے ہو- کہنے لگا کہ جس کا گھر پہاڑ پر بنا ہو اس کو کیا فکر‘ لیکن جس کا گھر ریت کے تودہ پر بنا ہو وہ کوشش بھی نہ کرے؟ ہمارا مذہب تو |ریت کے تودہ پر ہے- ہم کوشش نہ کریں تو کیا کریں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۰/ جنوری ۱۹۰۹ئ(
راولپنڈی میں ایک شخص صفدر علی تھا- وہ عیسائی ہو گیا- اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام نیا زنامہ تھا- ایک مولوی صاحب نے اس میں آیت واٰمنوا بما انزلت مصدقاً لما معکم کی بحث دیکھی اور گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے کہ قرآن شریف تو انجیل کو سچا بتاتا ہے- میں نے کہا ما معکم کے مصداق تو یہودی ہیں نہ کہ عیسائی- مولوی صاحب کی سمجھ میں بات اچھی طرح نہ آئی تو میں نے ان سے کہا کہ تم اس عیسائی سے جاکر یہ پوچھو کہ وہ انجیل جو حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی ہے کونسی ہے؟ چاہے کسی دوسرے نے ہی جمع کی ہو- مولوی صاحب گئے اور دریافت کیا تو عیسائی نے جواب دیا کہ ہمارے یہاں عیسیٰ کوئی نہیں- رب‘ ہمارے خداوند- سو وہ تو خود کتاب نازل کرتے ہیں- تمیز بخشتے ہیں- ان پر کوئی کیا کتاب نازل کرتا اور ان کو کوئی کیا تمیز سکھاتا- مولوی صاحب یہ جواب سن کر میرے پاس آئے تو میں نے ان سے کہا کہ لو تم تو فارغ ہوئے- اب اگر کوئی یہودی ہو تو اس کو بتائو اس کا بھی علاج بتائیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ فروری ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کیوں کرتے ہو؟ میں نے کہا تم یہ بتائو تم کسی بات کے قائل بھی ہو جو کسی مذہب نے مانی ہے؟ کہا کہ ہاں دعا کا قائل ہوں- میں نے کہا کہ زمین گول ہے- نماز کا وقت زمین پر ہر جگہ ہوتا ہے- مسلمان دنیا کے ہر حصہ میں پائے جاتے ہیں یعنی ہر وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ نمازیں پڑھتے ہیں- پھر ہر نماز میں درود پڑھی جاتی ہے اور یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا- تو بتائو کہ کوئی رسول بھی ایسا ہے جس کے لئے اس قدر دعائیں مانگی جاتی ہوں اور مانگی گئی ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسب خواہش محمد یوسف صاحب ان کا خط بجنسہ درج کیا گیا- انہوں نے چاہا کہ اس طرح میرا نام بھی اس کتاب میں درج ہو جس کو وہ اپنے لئے موجبسعادت سمجھتے ہیں- )مرتب(
سیدی مخدومی جناب خان صاحب!
السلام علیکم ورحمہ~ن۲~ اللہ وبرکاتہ
۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ء کو قریباً تین بجے دن کے درس حدیث میں حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مباحثہ کا جو ان کو ایک عیسائی سے پیش آیا تھا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ محمد اکبر )شاہ( خان صاحب کچھ لکھا کرتے ہیں- وہ ہر وقت تو یہاں ہوتے نہیں اور ہمیں باتیں ایک ہی مرتبہ یاد نہیں آتیں- کبھی کبھی کسی سبق کے وقت یاد آجاتی ہیں- یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے اس لئے خان صاحب کو لکھوادیں- لہذا درج ذیل ہے- )راقم محمد یوسف سب ایڈیٹر بدر قادیان(
ایک دفعہ میں ریل میں آتا تھا- ایک عیسائی مجھے ملا- اس نے کہا اب تو اسلام کے مقابل میں ایسی کتاب لکھی گئی ہے کہ اسلام اس کے سامنے ہر گز نہ ٹھہرے گا- میں نے کہا- وہ ایسی کون سی کتاب ہے؟ کہنے لگا کہ اس کتاب کا نام تنقیدالقرآن ہے اور پادری عمادالدین نے لکھی ہے- میں نے کہا اس کی کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ تنقید سنائو- اس نے کہا کہ قرآن نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ خاص قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے اور چونکہ نبی کریمﷺ~ قریش مکہ میں سے تھے‘ دوسروں کی زبان نہیں بول سکتے تھے- اس کتاب میں یہی ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن میں فلاں لفظ فلاں زبان سے اور فلاں لفظ فلاں زبان سے آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص قریش میں سے نہ تھے اور قرآن شریف بھی خاص قریش کی زبان میں نہیں ہے- میں نے کہا- دیکھو میں
بھیرہ کا رہنے والا پنجابی آدمی ہوں اور اردو بولتا ہوں تو کیا اس سے میرا پنجابی ہونا باطل ہو جائے گا؟ اور پھر قرآن شریف میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ خاص قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے- اس پر وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا اور کہا کہ آپ ہی بتائیں کہ آیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت ہے یا نہیں جس میں لکھا ہو کہ یہ قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ نہیں لکھا بلکہ وہاں تو صرف یہ لکھا ہے-
بلسان عربی مبین
یہ سن کر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ نے اس کتاب کا ستیاناس ہی کر دیا-
ہندو - دہریہ
)۱۳/ نومبر ۱۹۰۵ئ(
میں نے ایک رئیس کو جو بوڑھا آدمی تھا ایک مرتبہ رات کے وقت ناچتے ہوئے دیکھا- صبح کو اس مکان میں میں نے جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سانپ کی ایک مورت کسی دھات کی بنی ہوئی ہے- میں نے اس کو انگلی سے ٹھوکا دیا تو اس میں سے جھنکار کی آواز دیر تک نکلتی رہی وہ آواز سن کر وہ رئیس جو قریب کے مکان میں تھا آگیا اور کہا رام رام یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے اس کو بہت شرمندہ کیا- غرض مشرک اعلیٰ درجہ کا بیوقوف ہوتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳۰ /دسمبر ۱۹۰۵ئ(
سفر میں ایک بادشاہ کی مجلس میں بڑے طویل و عریض مقام پر سفید چاندنی بچھی تھی اور نرم نرم ہوا کے باعث اس میں خوشنما تموج ہوتا تھا جو بھلا معلوم ہوتا تھا- اسی حال میں وہ بادشاہ اپنے وزیر سے جو دہریہ مزاج تھا‘ ہستی باری تعالیٰ پر بحث کر رہا تھا- بادشاہ نے مجھ سے فرمایا کہ ہستی باری کی کوئی دلیل بیان کرو- میں نے عرض کیا کہ یہ دلربا تموج چاندنی کا- بادشاہ نے جب اس طرف دیکھا تو اس کو نہایت اچھا معلوم ہوا اور مجھ سے کہا کہ کیونکر؟ میں نے عرض کیا کہ اس تموج کا باعث چاندنی کا ارادہ ہے یا اس میں طبعی خواہش ہے؟ وزیر نے کہا کہ یہ تموج ہوا کی خاص رفتار کے باعث ہے اور یہ متاثر چاندنی بے ارادہ ہے- میں نے عرض کیا کہ اس طرح اس وقت ہوا کی طبعی خاصیت ہے؟ اس نے کہا کہ ایک خاص انقباض کے باعث ہوا میں یہ خاص رفتار ہے- میں نے کہا کہ یہ انقباض بالارادہ ہے؟ اور مجھے یقین تھا کہ یہ فلسفی ہے دو تین قدم سے زیادہ نہیں چلے گا- اس نے کہا کہ اس انقباض خاص کا سبب غیر معلوم ہوتا ہے- میں نے کہا وہ غیر معلوم سبب ارادہ رکھتا ہے کہ نہیں؟ اس پر بولا کہ ایک گریٹ پاور اس انتظام کا موجب ہے- اس پر میں نے اور بادشاہ نے معاً کہا کہ یہ اصطلاحی لفظ ہے- اس کو اللہ- پرمیشر- گاڈ جو چاہو کہو- تب اس نے کہا کہ میں منکر نہیں بلکہ طالب دلیل ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۴/ اپریل ۱۹۰۷ئ(
ایک عظیم الشان شہزادہ کے حضور ایسا اتفاق ہوا کہ ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے اور نیچے دری تھی- وہ شاہزادہ منکر ہستی باری تعالیٰ تھا- اثنائے گفتگو میں اس نے ایک ڈاکٹر کو اپنا استاد بتایا- میں نے کہا کہ اسے طلب فرمائیں- وہ بلایا گیا- میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ سیاہ تاگا جو دری میں ہے اس میں فطری خواہش ہے کہ وہ سیدھا اس مقام تک رہے اور ادھر ادھر نہ جائے؟ ڈاکٹر بولا مولوی صاحب! ایک دری باف کے ارادہ نے اس کو سیدھا یا ٹیڑھا کیا- مگر ہم نے اس دری باف کو دیکھا ہے اور آپ کے صانع کو ہم نے نہیں دیکھا- میں نے کہا ڈاکٹر! سوچ کر کہو- تم نے اس دری کے دری باف کو دیکھا ہے‘ کیا یہ سچ ہے؟ کہا کہ اس کے مثل کو دیکھا ہے- میں نے کہا کیا اس کی اور مثل ہے؟ تو بولا اصل بات یہ ہے کہ میں بچہ تھا جب میں نے مولوی صاحب کو دیکھا اس لئے میں اس وقت بحث میں دب گیا ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳/ جنوری ۱۹۰۷ئ(
میں نے ایک برہمو سے پوچھا کہ تمہارا اصل اصول کیا ہے- اس نے کہا کہ دعا- میں نے کہا تم غلط کہتے ہو- کہا کس طرح؟ میں نے کہا مشاہدہ- کہا وہ کیونکر؟ میں نے کہا تم اپنی کوئی اعلیٰ درجہ کی دعا سنائو تو سہی- اس کو شرم سی آگئی اور کچھ دیر چپ رہ کر کہا کہ آپ ہی سنائیں- میں نے کہا دعویٰ تمہارا اور سنائوں میں- خیر اس کے اصرار پر میں نے سورہ فاتحہ کو بہت سی باتیں مدنظر رکھ کر مع ترجمہ سنانا شروع کیا تو اس نے جھٹ نوٹ بک نکال کر لکھنا شروع کیا اور کہا کہ اصل دعا تو یہی ہے-
)۱۶/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک آریہ نے مجھ سے اعتراض کیا کہ تمہاری شریعت میں مردوں کے واسطے جنت میں بدلہ ملنے کا ذکر ہے‘ عورتوں کے لئے نہیں- میں نے اس کو یہ آیت پڑھ کر سنائی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر و انثیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ طالب علموں کو ساتھ لے کر بڑے بڑے عالی شان مکانوں کے قریب جاتا اور ان کو دیکھ کر کہتا کہ میرے دل میں بڑی تمنا ہے کہ یہ عربی کے مدرسے ہوتے اور مسلمان ایسے ہوتے‘ ایسے ہوتے- یوں عزت و احترام کے ساتھ رہتے وغیرہ- پھر جب خوب ان باتوں کا اثر ہو جاتا تو کہتا کہ اگر کوئی قوت واقعی ہوتی یعنی خدا تعالیٰ ہوتا تو کیوں یہ اندھیر ہوتا- دیکھو کیسی باریک در باریک طریقہ سے دہریت کی تعلیم ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹۱/مئی ۱۹۰۹ئ(
مجھ سے ایک آریہ نے اعتراض کیا کہ تم قبلہ کی سمت کو کیوں معزز سمجھتے ہو اور نمازوں میں اس طرف کو منہ کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہون کرتے وقت تم اس طرف پشت کیوں نہیں کر لیتے؟ پھر اب جو تم نے مجھ سے بات کی تو میری طرف پشت کیوں نہیں کی؟ کہنے لگا اب کبھی یہ اعتراض نہ کروں گا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک نو مسلم لڑکے کی تعلیم پر میں نے ہزارہا روپیہ خرچ کیا- اس نے مجھ کو ایک کارڈ لکھا کہ میں تمہارے اس ناپاک مذہب اسلام سے پھرتا ہوں اور اب گنگا نہانے یعنی پوتر ہونے جاتا ہوں۔ میں نے اس کو لکھا کہ تمہارا روح افزا کارڈ پہنچا۔ اگر تم ایک مرتد ہو گے تو اللہ تعالیٰ ہم کو ایک جماعت دے گا اور یہ آیت بھی لکھی یٰایھا الذین اٰمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللٰہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )مائدہ( جس وقت یہ کارڈ لکھا تھا اس وقت سید حامد شاہ بھی کشمیر ہی میں میرے پاس تھے۔ وہ لڑکا اب ہمارے مریدوں میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ جون ۱۹۰۹ئ(
ایک سرائوگی )جینی( کے کیڑے پڑ گئے۔ میں نے تیزاب ڈال کر ان تمام کیڑوں کو ہلاک اور زخم کو صاف کیا۔ وہ مجھ کو بڑی دعائیں دینے اور کہنے لگا کہ مہاراج بڑی کرپا ہوئی۔ میں نے کہا- کرپا کیا خاک ہوئی؟ تمہارے مذہب پر تو پانی پھر گیا۔ ایک جیو کے عوض میں ہزاروں جیو ہلاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ جون ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ فضا میں عدم محض ہے۔ میں نے کہا تو پھر چاند سورج عدم محض میں چلے گئے؟ کہنے لگا۔ لفظوں کی غلطی نہ پکڑو۔ میں نے کہا آخر کلام تو لفظوں ہی سے ہوتا ہے-
)۹/ اگست ۱۹۰۸ئ(
ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ تمہارے خدا کی کیا شکل اور کیا رنگت ہے؟ میں نے
کہا- تو اول یہ بتا کہ تیری آواز کی کیا شکل ہے؟ تیری قوت ذائقہ کی کیا صورت ہے؟ تیری بینائی کی کیا رنگت ہے؟ اس نے کہا- کم از کم ان کے مقام تو معین ہیں۔ میں نے کہا- زمانہ کی کوئی جگہ مقرر ہے؟ ایک سیکنڈ کا لاکھواں حصہ بھی سارے جہان کو اپنی بغل میںلئے بیٹھا ہے۔ زمانہ کی کوئی شکل بھی نہیں اور زمانہ موجود بھی ہے اور اس کا کوئی مکان بھی معین نہیں۔ پس ہم ایسی بہت سی مخلوق کو جانتے ہیں جس کی کوئی جگہ مقرر نہیں کر سکتے۔ مخلوق میں جب ایسی مثالیں ہیں تو خدا تو پھر خدا ہی ہے۔
‏14] p)[۲۸/ دسمبر ۱۹۰۹ئ(
کفرو شرک بھی بڑی ظلمت ہے۔ میں نے بڑے بڑے ہندوئوں کو ناچتے اور سفید داڑھیوں پر بتوں کے سامنے طنبور بجاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں ایک شخص اپنی لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ نچواتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۰ئ(
ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگ مکہ معظمہ کی پرستش کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پرستش کے معنی کیا ہیں بتائو؟ کہا پوجا۔ میں نے کہا پوجا کس کو کہتے ہیں؟ تب اس نے پرستش کے معنی بتائے کہ جس میں دھیان ہو۔ عظمت ہو۔ میں نے ایک شخض سے کہا کہ ذرا نماز پڑھو۔ اس نے پڑھی۔ میں نے اس برہمو سے دریافت کیا کہ بتائو اس میں کوئی مکہ معظمہ کا دھیان یا عظمت ہے یا مکہ سے کوئی دعا مانگی گئی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ نومبر ۱۹۱۰ئ(
ایک شریر آدمی نے مجھ سے کیا کہ اگر اس زمین سے آسمان تک اور لاانتہا فضا تک سب کو پتھروں سے بھر دیا جائے تو پھر )نعوذ باللہ( تمہارا خدا کہاں جائے گا؟ میں نے کہا کہ زمانہ ان سب پر حکومت کرتا ہے یا نہیں؟ مثلاً ایک سیکنڈ تمام فضا اور تمہارے پتھروں پر گذرتا ہے یا نہیں؟ کہا ہاں زمانہ تو ان پتھروں سے نہیں کچلا جاتا۔ میں نے کہا۔ زمانہ تو خدا تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۴/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
ایک وکیل نے مجھ سے دریافت کیا کہ ہستی باری تعالیٰ کی دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا- تمہاری کوئی جماعت ہے؟ کہا- نہیں۔ میں نے کہا- تم کسی کے ہادی ہو؟ کہا- نہیں۔ میں نے کہا- تم یہ چاہتے ہو کہ جھوٹے مشہور ہو جائو؟ کہا- نہیں۔ میں نے کہا- جب تم جیسا لچر آدمی بھی اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتا تو بھلا یہ انبیاء کی تمام جماعت کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ وہ جھوٹ بولیں؟ پھر مشرق سے لیکر مغرب تک‘ شمال سے لیکر جنوب تک اور ہر زمانہ کے نبی متفق ہیں کہ خداتعالیٰ ہم سے مکالمہ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۷/ فروری ۱۹۱۲ئ(
ایک دہریہ میرے پاس بہت آتا جاتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک ہندو قرآن کا بڑا ماہر ہے اور وہ تمہارا واقف نہیں۔ واقف ہو کر شاید بحث نہ کرے۔ لہذا ابھی چلو۔ میں گیا۔ اس سے کہا کہ سنا ہے آپ قرآن شریف کو خوب جانتے ہیں اور آپ نے کچھ اعتراض بھی کئے ہیں۔ غرض بہت سی باتوں کے بعد اس نے کہا کہ ذرات عالم مفقود نہیں ہوتے اور قرآن میں لکھا ہے کہ مفقود ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ دو دعوے ہیں۔ ایک کا ثبوت آپ کے ذمہ کہ مفقود نہیں ہوتے اور دوسرا قرآن کے ذمہ کہ مفقود ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم منگایا گیا۔ اس نے آیت نکالی کل من علیھا فان۔ ]txte [tagمیں نے کہا کل کا ترجمہ کیا ہوا؟ کہا ہر چیز۔ من کا ترجمہ نہ کر سکا۔ علیھا کا ترجمہ کیا- جو زمین پر ہیں۔ میں نے کہا اس سے تو ثابت ہوا کہ جو زمین کے اوپر اوپر ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ سب نہیں۔ پھر میں نے کہا۔ کہ اس میں مفقود کا لفظ نہیں۔ معدوم کا لفظ بھی نہیں؟ اب فان کا ترجمہ باقی ہے کہ معدوم معنی ہیں یا نہیں؟ وہ کچھ حیران پریشان سا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۳/ جون ۱۹۱۲ئ(
میں ایک مرتبہ راولپنڈی گیا۔ ایک آریہ دوست نے میری خاطر عمدہ عمدہ خربوزہ لا کر میرے آگے رکھے۔ اپنے ہی ہاتھ سے کاٹنے لگا۔ پہلے بیج علیحدہ کئے۔ پھر قاشیں بنائیں۔ پھر چھلکے علیحدہ کئے- پھر شکر ملائی۔ جب میرے آگے رکھنے لگا تو کہا گوشت کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ میں نے کہا- بندہ تو کوئی گوشت نہیں کھاتا- یہ سوال بے ہودہ ہے۔ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ بڑے مہاتما ہیں- یہ بھلا گوشت کے مجوز ہو سکتے ہیں؟ وہ میرے طرز مباحثہ سے ناواقف تھا۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی مدت العمر میں ایک برہمن کو گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ )ایک اودھ کی طرف کا برہمن تھا- وہ کشمیر میں فوج کا کرنیل تھا۔ بازار سے گوشت لاتا اور راستہ میں کچا ہی کھاتا ہوا جاتا( میں نے ایک قاش اٹھائی اور کہا کہ اس کا نام خربوزہ تو نہیں ہے۔ خربوزہ تو وہ تھا جس کا اکثر حصہ یعنی بیج اور چھلکا وغیرہ تم نے پھینک دیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ کہا یہ تو شکر مل کر کوئی مرکب چیز ہی بن گئی ہے جو کچھ اس کا نام رکھا جائے۔ میں نے کہا- انسان ایسا مرکب ہے کہ خربوزہ تک کو نہیں کھا سکتا یہ بھلا گوشت کیا کھا سکتا ہے؟ ہمارے گھرمیں گوشت آتا ہے اس میں گھی۔ زعفران۔ دارچینی۔ خشخاش۔ بیسن وغیرہ چیزیں ملا کر پکاتے ہیں۔ وہ ایک مرکب تیار ہوتا ہے اس کو گوشت نہیں کہہ سکتے- ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں گوشت بھی ہے۔ بھلا انسان بکری کی طرح ساگ بھی کہاں کھا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏Mr.15

مختلف واقعات
)۱۰/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
ایک مرتبہ ایک موچی میرے پاس فروخت کے لئے ایک جوتی لایا- دور سے تو اچھی معلوم ہوتی تھی- جب میں نے ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس میں بھرائو معلوم ہوا- میں نے کہا اس میں تو کھوٹ معلوم ہوتا ہے- وہ بوڑھا موچی مجھ سے کہنے لگا کہ میاں کھوٹ نہ کریں تو روٹی کیسے کھائیں- بھلا سچ سے کہیں روٹی ملتی ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ تو اتنا بوڑھا ہو گیا اب تک تجھ کو جھوٹ ہی کے ذریعہ سے روٹی ملی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ دسمبر ۱۹۱۲ئ(
میں ایک مرتبہ جے پور میں تھا- وہاں کے راجہ نے اپنے آدمیوں سے کہا- ایک بت خریدو- بت سازوں نے یہ چالاکی کی کہ بہت سے بت بنا کر شام کے وقت لائے- راجہ نے کہا کہ اچھا کل دیکھیں گے- ان بتوں میں ایک ٹوٹا ہوا بت بھی بت سازوں نے شامل کر دیا تھا- صبح کو انہوں نے کہا کہ آپ کے آدمیوں نے رات کے وقت ایک بت کا گلا کاٹ دیا ہے- میں نے کہا کہ میں ہی ایک مسلمان یہاں ہوں مگر مجھ کو تو یہ لوگ ان بتوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتے- راجہ نے کہا کہ یہ لوگ )بت ساز( ایسے ہی ہوتے ہیں- ان بت سازوں کو قیمت اس بت کی دے دی- میں نے کہا جو بت اپنا گلا کٹوا بیٹھا وہ بھلا آپ کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
میں نے مختلف اضلاع کے جیل خانوں کے داروغوں سے دریافت کیا ہے- معلوم ہوا کہ قیدیوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے- میں نے ایک شہر کے جیل خانہ میں معلوم کیا تو کل قیدی ۳۳۵ تھے- جن میں صرف ۱۳ ہندو اور ۳۲۲ مسلمان تھے اور اسی ضلع کے مدرسوں میں کل ۱۴۰۰ لڑکے پڑھتے تھے جن میں صرف ۱۴ مسلمان اور ۱۳۸۶ ہندو تھے- تم غور کرو اور سوچو- خداتعالیٰ سے استغفار کرو اور ڈرو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ جنوری ۱۹۱۲ئ(
ایک نوجوان کو میں نے دیکھا کہ اس کے یہاں فسق و فجور بہت ہی ہوتا تھا اور رات دن ہنسی مذاق‘ دل لگی ہوتی رہتی تھی- اگرچہ وہ میرا راستہ نہ تھا- لیکن میں پھیر کھا کر بھی اسی طرف کو جاتا اور کوئی ان کا ملازم ذرا جھوٹ موٹ بھی کوئی بات کرتا تو میں تھوڑی دیر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگتا- میری وہاں بہت بڑی وجاہت تھی- پھر کسی وجیہ آدمی کا اس طرح کھڑے ہوجانا معمولی بات نہ تھی کہ بے اثر رہے- رفتہ رفتہ وہاں واقفیت اور تعلق بڑھ گیا- ایک دن دوپہر کے وقت ان کا ایک آدمی آیا- میں سمجھ گیا کہ آج نکتہ حل ہونے لگا ہے- اس آدمی نے آکر کچھ نہ کہا اور خاموش کھڑا رہا- میں نے اس کو دیکھ کر خود ہی کہا- چلو اور فوراً اٹھ کر چل کھڑا ہوا- وہ بھی میرے ساتھ ساتھ خاموش اور شرمگیں صورت بنائے ہوئے چلا- وہاں پہنچے- میرے جاکر بیٹھنے کے بعد رفتہ رفتہ تمام حاضرین چلے گئے- صرف میں اور وہ رئیس تنہا رہ گئے- میں نے کہا- فرمائیے- وہ کچھ کہتے ہوئے رکا- میں نے بڑی جرات کے ساتھ اس کے کچھ کہے بدوں اس کا کمر بند کھول دیا- دیکھا تو عضو تناسل کا بڑا حصہ آتشک کے زخم سے گلا ہوا تھا- تب مجھ کو معلوم ہوا کہ اس خوشی کے شور میں یہ رنج ہے- خداتعالیٰ بے وجہ کسی کو نہیں پکڑتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ جنوری ۱۹۱۰ئ(
بعض آدمی لباس ہی کے بنانے میں مصروف رہتے ہیں- میں جب ریاست بھوپال میں تھا تو وہاں کے شاہی خاندان میں ایک شادی تھی- میرے ایک وہاں کے شاگرد تھے جو اب بھی وہاں اچھے عہدہ پر ہیں- انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم بھی چلیں گے- میں نے کہا- اچھا- وہ گھر سے کپڑے بدل کر آئے جو بڑے ہی زرق برق تھے- یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سونا ہی سونا ہے- وہ جب آگئے تو مجھ سے کہا کہ آپ نے کپڑے نہیں بدلے- میں نے کہا کہ بھائی ہمارا دوست ہدایت اللہ تو کہیں مکان بند کر کے چلا گیا ہے- چنانچہ ویسے ہی چل کھڑے ہوئے- جب پہلی ڈیوڑھی پر پہنچے تو وہ آگے تھے اور میں پیچھے- دربان نے ان کو روکا- میں آگے بڑھ کر گیا اور دربان سے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں- اس نے کہا اچھا- میں نے دربان سے کہا کہ تو ان کے لباس کو نہیں دیکھتا- اس نے کہا کہ لباس کا کیا ہے- کرایہ پر اس سے بھی اچھا لباس ہر شخص کو مل سکتا ہے- آگے گئے تو وہاں معلوم ہوا کہ اس وقت خاص دربار ہے- سوائے خاندان کے خاص خاص اور چند آدمیوں کے کوئی نہیں جا سکتا- مجھ کو تو دربان نے کہا کہ آپ اندر تشریف لے جائیں لیکن ہمارے ان ہمراہی کو وہیں دالان میں بٹھا لیا جہاں پہلے سے اور بھی رئوساء بیٹھے ہوئے تھے- غرض کہ میں اپنے اسی سادہ اورمعمولی لباس سے اس خاص دربار میں بلا روک ٹوک چلا گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۲/ جون ۱۹۱۲ء ۱۲ بجے دن کے مکان پر(
مجھ کو میووں میں سات میوے بہت پسند ہیں جن میں چار تو ہندوستان سے باہر کے ہیں اور تین ہندوستان کے- کھجور- انگور- انار- سیب- آم- کیلا جو چھوٹا ہوتا ہے- سنگترہ-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ جنوری ۱۹۰۷ئ(
ایک مرتبہ میں ایک کچہری میں بغرض ادائے شہادت گیا- وکیل نے سوال کیا کہ تم مولوی ہو؟ میں نے کہا نہیں- وہ خاموش رہ گیا- بات یہ تھی کہ وہ مجھ پر دروغ حلفی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتا تھا یعنی میں اگر کہتا کہ میں مولوی ہوں تو وہ مجھ سے کہتا کہ سارٹیفکیٹ دکھائو- پنجاب یونیورسٹی میں امتحان ہوتا ہے جس میں مولوی- مولوی عالم- مولوی فاضل کی سندیں لوگ حاصل کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ میں نے یہ امتحان نہیں دیا- اور مولوی سے وہی یونیورسٹی کا سند یافتہ مولوی مراد لیا جاتا- میں اس کی اس منصوبہ بازی کو فوراً فراست سے سمجھ گیا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۵/ مارچ ۱۹۱۲ء بعد نماز جمعہ مولوی محمد علی صاحب سے مخاطب ہو کر(
لباس میں میں نے ترقی نہیں کی جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی قسم کا لباس پہنتا ہوں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص میرے پاس آیا- بوڑھا‘ حاجی‘ آتشک کا مارا ہوا- مجھ کو کامل یقین ہو گیا کہ اس کو آتشک ہے لیکن میں حیرت میں غرق ہو گیا کہ یہ حاجی بھی ہے- بوڑھا بھی ہے اور بہت نیک آدمی ہے اور پھر یہ مرض! مجھ کو نہایت متفکر اور حیرت زدہ دیکھ کر وہ کہنے لگا کہ آپ کیوں اس قدر حیران ہیں؟ میں نے کہا- میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ سوائے زنا کے کوئی دوسرا سبب آتشک کا نہیں ہو سکتا- کہا ذرا سوچ کر بتائیں کہ کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار کہا کہ ہاں بس یہی بات ہے- میرے بڑھاپے کی وجہ سے میری بیوی بدکار ہے- میں نے اس کو چھوڑا نہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۹/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں نے لاہور میں ایک لیکچر سنا- لیکچرار نے کہا کہ میں حساب کے امتحان میں فیل ہوتا رہا- یہ دلیل اس بات کی ہے کہ میں مسلمان ہوں- میں نے ایک شخص سے جو میرے پاس بیٹھا تھا کہا کہ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں- کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے nsk] ga[t لتعلموا عدد السنین والحساب- بھلا مسلمانوں سے زیادہ کون حساب کو جان سکتا ہے-
)۲۹/ مئی ۱۹۰۹ئ(
میں نے تمام دنیا کی تاریخوں کو ٹٹولا ہے ہمیشہ وہ لوگ جو قیامت کے قائل نہیں‘ ان لوگوں سے جو قیامت کے قائل ہیں‘ شکست کھاتے رہے ہیں- قد خسرالذین کذبوا بلقاء اللٰہ وما کانوا مھتدین-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۴/ جون ۱۹۰۹ئ(
‏]txte [tag میں نے پاگل خانہ کے ایک اعلیٰ افسر سے دریافت کیا کہ مجنون و غیر مجنون میں کیا فرق ہے؟ اس نے کہا کہ میں رات دن یہاں رہتا ہوں اور غور کرتا ہوں لیکن آج تک میری سمجھ میں تو کوئی معیار پاگل اور غیر پاگل کا نہیں آیا- اسی طرح ایک وکیل سے پوچھا- اس نے کہا قانون میں بھی مجنون و غیر مجنون کا کوئی مابہ الامتیاز نہیں ہے- درحقیقت پاگل میں خلق عظیم نہیں ہوتا اور پاگل جس قدر محنت کرتا ہے اس کا کوئی اجر اس کو نہیں ملتا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏)۳۰3]/ [rtf جولائی ۱۹۰۸ئ(
میں نے ایک مرتبہ نبی کریم~صل۲~ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں- پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۹/ اگست ۱۹۰۸ئ(
میں نے ایک روز دودھ اور جلیبیاں خوب کھالیں- اس کی وجہ سے ریاح بہت خارج ہوئی- اس روز مجھ کو الہام ہوا >بطن الانبیاء صامۃ<
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۹ /ستمبر ۱۹۰۸ئ(
میں نے ایسے مسلمان دیکھے ہیں جو صرف انہیں احادیث پر عمل کرتے ہیں جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیں اور کسی حدیث کو مطلق نہیں مانتے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۱/ ستمبر ۱۹۰۸ئ(
میرے پاس ایک شخص پنجرے میں ایک نہایت چھوٹا سفید سور کا بچہ بند کرکے لایا- اس کو یہ معلوم تھا کہ اس نے کبھی سور نہیں دیکھا اور واقعی میں نے اس وقت تک کبھی سور نہیں دیکھا تھا- اس نے مجھ سے کہا کہ دیکھو کیسا خوبصورت ہے- بتائو تو سہی یہ کیا جانور ہے؟ میں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ میںنے اس جانور کو کبھی نہیں دیکھا مگر بڑا ہی بدشکل جانور ہے- اس نے باربار کہا کہ نہیں یہ تو بڑا خوبصورت جانور ہے لیکن میں نے ہربار یہی کہا کہ مجھ کو تو یہ بدشکل ہی معلوم ہوتا ہے- آخر میں اس نے بتا دیا کہ یہ سور ہے- میں نے کہا کہ تم بھی سچے ہو اور میں بھی- اس نے کہا کہ یہ کیسے؟ میں نے کہا کہ میری بیسیوں پشتیں گزر گئیں ہوں گی جنہوں نے اسکو شاید دیکھا بھی نہ ہو اور تمہاری بیسیوں پشتیں اس کو کھاتے ہوئے گزر گئیں- اسلئے تمہارا گوشت پوست اسی کا بن گیا اور اسی لئے تمہاری نگاہ میں یہ مرغوب ہے- اس نے سن کر کچھ برا بھی نہ مانا اور کہا کہ ہاں ہو تو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۱/ جون ۱۹۱۰ئ(
اللٰھم حببنا الی اھلھا وحبب صالحی اھلھا الینا- میں نے اپنی عمر میں جن جن شہروں کو دیکھا ہے- اور جن جن شہروں میں رہا ہوں- اس دعا کے نتائج میں نے ہمیشہ دیکھے ہیں- مجھ کو جن لوگوں سے محبت ہوئی ہے وہ آج تک اچھے ہی سمجھے جاتے ہیں اور مجھ کو سب ہی اچھا جانتے تھے- میں بڑے بڑے شریر النفس لوگوں کی صحبت میں بھی گیا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھ کو محفوظ رکھا ہے-
)۸/ مئی ۱۹۱۲ئ(
میں نے بڑے بڑے مال کمانے والوں کو دیکھا ہے- موت اس طرح آجاتی ہے کہ پیشتر سے مطلق خبر نہیں ہوتی- ایک بڑے مال کمانے والے کو دیکھا کہ رات کو جب کچہری سے آیا تو نوکر سے کہا کہ چاء لائو- وہ جب لیکر آیا تو دیکھا- مرا ہوا پڑا تھا- وہ ایک پائی بھی خیرات نہیں کر سکا- ہندو تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ مئی ۱۹۱۲ئ(
ایک شخص غلام حیدر تھے میں نے ان کو دیکھا کہ تمام دیواروںمیں لکڑی اور ٹین لگوا رہے ہیں- میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ کہا کہ ہم تحصیل دار یعنی مجسٹریٹ شہر کے پاس شکایت لے کر گئے کہ ہم کو چوہوں نے بہت تنگ کیا ہے- آپ اس تکلیف سے ہم کو بچائیں- انہوں نے کہا کہ چوہوں کا تو ہم کچھ نہیں کر سکتے- لہذا اب خود حفاظتی کے لئے خود ہی سامان کر رہے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۲ئ(
میں ایک مرتبہ ریل میں سفر کر رہا تھا- میرے پاس اسی کمرہ میں )جو سیکنڈ کلاس کا کمرہ تھا( ایک ایسا شخص بھی تھا جو مجھ کو جانتا تھا اور شراب بہت پیتا تھا- باربار اٹھتا- میرے پاس آتا اور کہتا- مولوی صاحب! مجھ کو قرآن شریف پڑھائو مگر صحیح- لفظ صحیح کو کھینچ کر کہتا اور نشہ کی وجہ سے گر پڑتا- مجھ کو اس کی شراب کی بدبو سے ہی بہت تکلیف تھی- یہ اس کا باربار مجھ سے مخاطب ہونا اور بھی موجب تکلیف ہوا- میں نے اپنے دوسرے ہمراہی سے کہا کہ یہ تو موجب تکلیف ہوتا ہے- کیا کیا جائے؟ اس نے کہا بہت اچھا اگلا اسٹیشن آنے دو- میں اس کا علاج کردوں گا- چنانچہ گوجرانوالہ کا اسٹیشن آیا- وہ اترا اور خدا جانے کسی شخص سے کیا کہہ آیا- میں نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر ایک شخص دوسری کھڑکی کے سامنے آکر کھڑا ہوا- اس شرابی کو آواز دی- وہ کھڑکی کے قریب گیا- اس نے چپکے سے اس سے کوئی مختصر سی بات کہی جو میں نے نہ سنی- وہ شرابی اس وقت بعجلت تمام اترا اور صرف اپنا ٹکٹ لئے ہوئے اسٹیشن سے باہر گیا اور شہر کی طرف دوڑتا ہوا چلا گیا- میرے ساتھی نے کہا کہ بس- اب آپ اطمینان رکھیں- یہ یہاں واپس نہ آئے گا- چنانچہ ایسا ہی ہوا- وہاں گاڑی بہت دیر ٹھہری اور چل بھی دی لیکن وہ شرابی اسٹیشن پر واپس نہ آیا لیکن اس میرے ہمراہی شخص نے مجھ کو یہ نہ بتایا کہ اس نے کیا الفاظ کہلوائے تھے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۷/ مئی ۱۹۰۹ئ(
مسلمانوں میں بدکاری کی بہت عادت ہو گئی ہے- اور پھر بدکاری کو بدکاری بھی نہیں سمجھتے- میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ تو فلاں عورت سے ناجائز تعلق نہ رکھ- اس نے کہا کہ اس عورت نے تو اپنی برادری اور قوم کو چھوڑ کر وفاداری کا ثبوت دیا اور میں مرد ہو کر اس کو چھوڑ دوں اور بے وفائی کروں؟ یہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کے خلاف ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۱/ فروری ۱۹۱۲ئ(
ہندوستان میں مراد آباد ایک شہر ہے- وہاں میرا ایک بڑا محسن تھا جس نے بیماری میں میری بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں- میں بیماری کی حالت میںوہاں رہتا تھا- وہاں ایک عورت ہر روز صبح اٹھ کر پاخانہ میں جاکر قدمچہ کے آگے سجدہ کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میا کھڈی! تو مجھ کو بیٹا دے تو تجھ میں ہگایا کروں گی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۰/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص کسی بزرگ کی اولاد میں سے تھے اور سخت بیمار تھے- میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ کچھ پڑھنا اور سیکھنا چاہئے- کہنے لگے کہ بندر سیکھا کرتے ہیں- بھلا کہیں شیر بھی سیکھتے ہیں؟ ہم شیروں کی اولاد ہیں‘ بندروں کی اولاد نہیں- سیکھنا ہمارا کام نہیں- میں نے کہا- حضرت! تشبیہوں سے تو کام نہیں چلتا- باز سیکھ جاتے ہیں لیکن کوے نہیں سیکھتے- وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ علاج موقوف کر دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۴/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک مرتبہ میرے دل میں کسی گناہ کی خواہش پیدا ہوئی- میں نے بہت سی حمائلیں لے کر اپنی ہر ایک جیب میں ایک ایک حمائل رکھی- ایک حمائل ہاتھ میں رکھنے کی عادت ڈالی بسترے پر- سامنے الماری پر- مکان کی کھونٹیوں پر- غرض کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں قرآن سامنے نہ ہو- پس جب وہ خیال آتا تو قرآن سامنے ہوتا کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے- یہاں تک کہ نفس تنگ ہو گیا اور اس گناہ کا خیال ہی جاتا رہا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۶/ مئی ۱۹۰۹ئ(
ایک مرتبہ میں نے رمضان کے مہینہ میں بحالت بیماری روزے رکھنے شروع کئے- تو میری دستوں کی بیماری رفع ہو گئی- میں نے سمجھا کہ یہ روزے تو اکسیر ہیں لیکن بعد میں میںنے دیکھا کہ میری قوت رجولیت بالکل جاتی رہی- میں نے سمجھا کہ بیماری کی حالت میں روزے رکھنا ایک غلطی تھی‘ اس کی سزا ہے- اٹھارہ یا انیس دن تک خوب توبہ کی تب وہ کیفیت دور ہوئی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۱۱/ جولائی ۱۹۰۹ئ(
ایک بڑا آدمی تھا- وہ لاہور کا رہنے والا نہیں تھا- لاہور میں وہ اور میں دونوں باتیں کرتے ہوئے بازار میں ہو کر گزرے- اس نے کہا کہ دوزخ کے عذاب کو آپ غیر مقطوع مانتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں- کہنے لگا پھر تو کوئی خوف کا مقام نہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن اس سے نجات تو مل ہی جائے گی- یہ گفتگو جس وقت ہوئی تو ہم بازار چوک میں تھے- میں نے فوراً جاتے جاتے کھڑے ہو کر جیب میں سے دو روپیہ نکالے اور اس سے کہا یہاں کوئی شخص تمہارا واقف نہیں- تم یہ دو روپیہ لے لو اور میں تمہارے سر پر ایک جوت لگالوں- گھبرا کر کہا کہ کہیں مار نہ بیٹھنا- مسئلہ میں سمجھ گیا ہوں- )مدعا یہ کہ قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے ایک شریف انسان کیسے اپنی ذلت گوارا کر سکتا ہے(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۵/ جنوری ۱۹۰۹ئ(
میرا ایک دوست تھا اس میں بہت سے عیوب تھے میں نے اس سے کہا کہ تم لوگوں کو وعظ بہت کیا کرو- اس نے اس پر عمل کیا اور اس کے بہت سے عیوب خود ہی کم ہو گئے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۷/ جنوری ۱۹۰۹ئ(
ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم فلاں شخص کو کیسا سمجھتے ہو؟ میں نے کہا- بہت اچھا- اس نے پھر بہت اصرار سے کہا کہ تم بہت اچھا سمجھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں- بعد میں اس نے کہا کہ وہ تو مرزا صاحب کو نہیں مانتا- میں نے کہا اگر اس کو ملک بھی مان لیں تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ملائکہ نے ایک خلیفہ )آدم علیہ السلام( پر اعتراض و انکار غلطی سے کیا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۸/ اگست ۱۹۱۲ئ(
میں کہیں جا رہا تھا راستہ میں ایک شخص میرے ساتھ ہو لیا- میں جانتا تھا کہ یہ اپنی بیوی سے بدسلوکی کرتا ہے- میں نے چلتے چلتے اس سے کہا کہ قرآن کریم میں آیا ہے- وعاشروھن بالمعروف- یہ تعلیم کسی کتاب میں سوائے قرآن مجید کے نہیں- اس نے اسی وقت مجھ سے کہا کہ مجھ کو اجازت ہے؟ میں نے کہا جائو- وہ سیدھا اپنے گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ نورالدین سے میں نے آج ایک بات سنی ہے اس کو صرف آزمانا چاہتا ہوں ورنہ میں تجھ سے ناراض بہت ہوں- اسی وقت عورت سے ہم بستر ہوا- ایک لڑکا ہوا- پھر دوسرا ہوا- پھر تیسرا- پھر چوتھا- وہ عورت یہاں بھی آئی تھی- میں نے کہا کیسے آئیں؟ کہا کہ یہ کنبہ دکھانے آئی ہوں کیونکہ تمہاری کسی نصیحت سے میرا خاوند میری طرف متوجہ ہوا تھا- غرض کہ میرا قرآن سنانا بیکار نہ گیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۰/ دسمبر ۱۹۰۶ئ(
میں نے ایک مرتبہ کسی کا علاج کیا- ایک بڑھیا نے نذرانہ میں مجھ کو سکھوں کے وقت کا تانبے کا ایک پیسہ دیا- میں نے نہایت خوشی اور شکر گذاری کے ساتھ لے لیا اور اپنے دل میں سوچا کہ میں اس کو اگر خدا کے نام پر کسی کو دے دوں تو کم سے کم اس ایک پیسہ کے سات سو پیسے بنا سکتا ہوں- مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللٰہ- )سورہ بقرہ رکوع ۳۶(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)۲۱/ دسمبر ۱۹۰۶ئ(
جموں میں ایک پٹھان تھے- وہ میرا لحاظ بھی بہت کرتے تھے- ایک مرتبہ مجھ کو اپنی نبض دکھائی- میں نے دیکھا کہ نبض نہایت ہی کمزور چلتی ہے- میں نے ان سے کہا کہ کیا تم نے عیاشی کی ہے؟ کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کی مجلس میں ایک مرتبہ زنا کی برائی سن کر میں نے تو زنا سے بالکل توبہ کر لی ہے اور اب قطعاً زنا کے پاس نہیں پھٹکتا- میں نے کہا اچھا اور کسی ذریعہ سے آپ کی منی خارج ہوئی ہے؟ کہا کہ ہاں یہ بات تو ضرور ہے کیونکہ میں نے اسی روز سے دو لڑکے رکھ لئے ہیں ان کے ساتھ اغلام کرتا ہوں- میں نے کہا کہ خان صاحب کیا یہ زنا نہیں ہے؟ کہا مولوی صاحب وہ دونوں لڑکے ہندوئوں کے ہیں اور ہندوئوں میں بھی برہمنوں یعنی مہاراج کے پجاریوں کے- بھلا مسلمانوں کے لڑکوں کے ساتھ یہ کام کر سکتا تھا؟ ان خان صاحب کو بالکل یہ خبر ہی نہیں تھی کہ اغلام بھی کوئی بری چیز ہے ورنہ وہ اس طرح میرے سامنے ہرگز گفتگو نہ کرتے کیونکہ وہ میرا بڑا لحاظ اور ادب کرتے تھے-
ایک اور بوڑھے انگریزی تعلیم یافتہ شخص تھے- وہ میرے ساتھ جب سیر وغیرہ میں ہوتے اور نماز کا وقت آتا تو نماز میں شریک ہوجاتے- میں نے ایک روز پوچھا کہ آپ کا ہمیشہ وضو رہتا ہے- فرمانے لگے کہ مولوی صاحب! ہم شراب بھی پیتے ہیں اور رنڈیاں بھی رکھتے ہیں مگر رات کو یہ کام کرتے ہیں اور دن کو نہیں- صبح اٹھ کر غسل کرنا اور صابون سے نہانا بھی ہمارے فیشن میں داخل ہے- پھر دن بھر نہ شراب پیتے ہیں‘ نہ زنا کرتے ہیں- وضو ٹوٹے تو کیسے؟ ان کے نزدیک وضو صرف زنا اور شراب ہی سے ٹوٹتا تھا- میرے اظہار تعجب پر کہنے لگے کہ کیا مولوی صاحب اور بھی کسی چیز سے وضو ٹوٹتا ہے؟ ان باتوں کا ذکر اس وجہ سے کیا گیا کہ آجکل مسلمان شریعت سے کس قدر ناواقف ہیں اور حالت کہاں تک پہنچ گئی ہے-
)۳/ نومبر ۱۹۱۲ئ(
وزیر آباد کے سٹیشن پر ایک شخص نے جو وکیل تھا اور جموں میں رہتا تھا- مجھ سے کہا کہ آپ قرآن کریم کی بڑی تعریف کرتے ہیں- بتائو صرف و نحو عربی کہاں پڑھیں؟ میں نے کہا آپ نے انگریزی پڑھنے میں محنت کی ہے؟ کہا کہ نہیں- صرف تو نہیں پڑھی جاتی- میں نے کہا قرآن میں قال کی جگہ قولنہیں دیکھا اس لئے صرف کی ضرورت نہیں- کہا نحو؟ میں نے کہا قرآن میں زیرزبر سب لکھے ہوئے ہوتے ہیں- کہا معانی- بیان- بدیع؟ میں نے کہا ان کی ضرورت نہیں- کہا عروض و قافیہ؟ میں نے کہا اس کی بھی ضرورت نہیں- کہا لغت کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہر مسلمان کو دن رات میں نماز- السلام علیکم- اناللہ- سبحان اللہ وغیرہ بہت سی عربی پڑھنی پڑتی ہے- کہنے لگا- قولوا قولاً سدیداً کا ترجمہ کس لغت سے کریں- میں نے کہا- >گلائو گل سدی-< یہ اس کا ترجمہ ہے- کہنے لگا بہت اچھا حضور! اب قرآن پڑھا کروں گا-
جناب خان صاحب- السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ آج کل حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیحؓ کی سوانح عمری لکھ رہے ہیں- میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ کسی طرح میرا نام اس متبرک کتاب میں لکھا جائے لہذا ایک بات لکھتاہوں کہ میں جس روز حضرت صاحب سے بیعت ہوا تھا تو آپ نے اس روز رات کو احیاء العلوم کا درس دیتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ اب تم حضرت صاحب سے واقفیت بڑھائو- میں نے کئی روز تک کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا- ایک روز درس قرآن کے بعد مسجد میں میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا- پھر دروازہ کے قریب مصافحہ کیا تو حضرت صاحب نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو- میں نے کہا کہ نادون ضلع گانگڑہ سے- انہوں نے میرے والد کا نام پوچھا تو میں نے کہا کہ ان کا نام وزیر خان ہے اور وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب میرے تایا حمید خان پرورش کرتے ہیں- اس بات کو سن کر حضرت صاحب نے میری پیٹھ تھپکی اور فرمایا کہ تم ہمارے پاس روز آیا کرو اور ہمارے ساتھ محبت کیا کرو اور ہمارے ساتھ واقفیت پیدا کرو- حضرت صاحب کی اس بات سے مجھ کو پتہ لگ گیا کہ ان کو یتیموں سے بڑی ہمدردی ہے اور مجھے ان کے یہاں جانے کا حوصلہ ہوگیا- اور اب میں ان کے یہاں بغیر کسی ہمراہی کے چلا جاتا ہوں- اگر اس بات کے ذریعہ سے میرا نام کسی جگہ آپ درج کر سکیں تو بڑی مہربانی ہوگی- والسلام
راقم
آپ کا شاگرد محمد نذیر خان فورتھ ہائی
۵ / جولائی ۱۹۱۲ء
تمت
‏Mr.16

بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
حضرت خلیفہ اولؓ
کی
قادیانی زندگی
>حضرت خلیفہ اولؓ کی خود لکھوائی ہوئی سوانح عمری کے ساتھ جس میں آپ کے صرف قادیان تک پہنچنے کے حالات درج ہیں‘ میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کے قادیانی حالات تا وفات بھی مختصراً درج کئے جائیں- اس کے لئے میں نے حضرت مخدومی مفتی محمد صادق صاحب کو تکلیف دی- جنہوں نے ازراہ عنایت باوجود غیرمعمولی عدیم الفرصتی کے مندرجہ ذیل حالات مرتب فرما کر بغرض اندراج دیئے- جو ہدیہ ناظرین ہیں<-
) ناشر (
ابتدائے ہجرت
ابی المکرم‘ استاد المعظم‘ حضرت حافظ حاجی مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ- حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عاشق صادق- اول المبائعین اور اول المھاجرین تھے- اللہ کریم کی ہزاروں برکتیں اور رحمتیں آپ کی روح پر اور آپ کی آل اولاد پر ہوں- ابدالاباد کے لئے- اور جیسا کہ رب تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں حسنات سے مالا مال کیا ایسا ہی اور اس سے بڑھ کر اس عالم میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں تمام حسنات اور انعامات سے مالامال کرتا رہے اور اپنے رضا و قرب کے مقامات و مدارج پر ترقی دیتا رہے- ابدالاباد کے لئے- آمین ثم آمین-
ریاست جموں کی ملازمت سے جب آپ علیحدہ ہوئے‘ میں اس وقت آپ کی خدمت میں موجود تھا- کیونکہ میں بھی اس وقت جموں ہائی اسکول میں ٹیچر تھا- ہزار پندرہ سو روپے ماہوار آپ کی آمدنی تھی- اور خرچ جو قریباً سارا ہی فی سبیل اللہ ہوتا تھا‘ وہ اس کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتا تھا- کبھی آپ کی عادت نہ تھی کہ روپیہ پیسہ جمع رکھیں- اس حالت میں ملازمت ریاست سے اچانک علیحدگی کے باوجود نہ آپ کے چہرہ پر کوئی ملال تھا‘ نہ اس کا کوئی احساس تھا- جیسا روزمرہ آپ درس تدریس میں‘ بیماروں کو دیکھنے میں‘ لوگوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں‘ اپنی کتب کے مطالعہ کرنے میں مصروف اپنی نشست| گاہ میں کھلا دربار لگائے بیٹھے رہتے تھے‘ جہاں لوگ بے|تکلف آتے جاتے رہتے تھے‘ ایسا ہی اس دن اور اس سے دوسرے دن جو تیاری سفر کا دن تھا‘ آپ حسب معمول بیٹھے رہے- گویا علیحدگی ملازمت کا واقعہ ہوا ہی نہیں یا ہوا ہے تو روزمرہ کی باتوں میں سے ایک معمولی سی بات ہے- جموں سے آپ اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے- وہاں آپ کے مکان کے سامنے آپ کی مملوکہ بہت سی خالی زمین پڑی تھی- اس پر مطب اور مہمانوں کی رہائش کے واسطے مکانات بننے شروع ہوگئے- یہ غالباً ۱۸۹۲ء کا واقعہ ہے- بھیرہ اس وقت پنجاب بھر کے بیماروں کے واسطے رجوع کا مرکز بن گیا- دور نزدیک سے لوگ آنے شروع ہوگئے- صدہا بیماروں کا روزانہ علاج کیا جاتا اور دوائی حسب معمول مفت دی جاتی- اسی حال میں کہ مکانات تیار ہو رہے تھے- آپ کو کسی ضرورت کے واسطے دو تین دن کے لئے لاہور آنا پڑا- لاہور پہنچ کر قادیان قریب ہونے کے سبب آپ ایک روز کے واسطے قادیان بھی آگئے- یہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے- یہاں اس وقت حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے- انہوں نے آپ سے ذکر کیا کہ حضرت صاحب )مسیح موعود( کا یہ منشا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اب ملازمت سے فارغ ہو گئے ہیں‘ اب آپ یہیں رہیں- حضرت مسیح موعود کے اس منشا کی خبر سنتے ہی آپ نے فرمایا- بہت اچھا- اب یہاں سے نہیں جاتے اور یہیں رہ پڑے- نہ کوئی سامان لینے گئے نہ کوئی سامان منگوایا- بس جیسے آئے تھے ویسے ہی بیٹھ گئے- یہ تھی آپ کی فرمانبرداری کی روح- اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی فرمانبرداری کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے- آمین-
اس طرح آپ ہجرت کرکے قادیان میں بیٹھ گئے اور پھر کبھی قادیان سے بھیرہ جانے کا خیال بھی نہ کیا- پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے فرمانے سے ایک بیوی کو بھیرہ سے یہاں بلوا لیا اور کچھ عرصہ کے بعد دوسری بیوی کو بھی بلا لیا- پھر یہاں زمین خرید کر کچی دیواروں کے مکان بنوا لئے- اور ہجرت میں ایسے پختہ ہوکر بیٹھے کہ >قطب از جانہ جنبد < کی مثال گویا آپ ہی پر بنائی گئی تھی- آپ حقیقی معنوں میں ایک ولی اللہ اور قطب تھے-
قادیان میں آپ کے مشاغل
قادیان میں آپ کی اقامت کا زمانہ دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے- حصہ اول ابتدائے ہجرت سے لیکر تاوصال حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام قریباً پندرہ سال اور حصہ دوم آپ کا زمانہ خلافت چھ سال- پہلے زمانہ میں آپ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے تھے- اس کے بعد طالب علموں کو درس حدیث و طبی کتب دیتے تھے- مثنوی شریف اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس بھی گاہے دیتے تھے اور بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن شریف دیا کرتے تھے- مہمانوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے تھے- غرباء کی امداد کا خیال رکھتے تھے اور تمام احمدی برادران کو اچھے کاموں کے کرنے اور بدیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے تھے- اور باہر سے آنے والے خطوط کا جو متعلق مسائل دینیہ و طبیہ ہوتے تھے- جواب لکھتے اور لکھاتے رہتے تھے- آپ کی عادت تھی کہ صبح سے شام تک بلکہ اکثر عشاء تک سوائے نمازوں کے اوقات کے ایک ہی جگہ اپنی نشستگاہ میں بیٹھے رہتے تھے‘ جس میں صرف چٹائی بچھی ہوتی تھی اور آپ کے واسطے کوئی الگ مسند نہ ہوتی تھی- ہر طرح کے حاجت مند آتے تھے اور آپ سے مستفیض ہوتے رہتے تھے- ایک کھلا دربار ہوتا تھا- جس پر کبھی کوئی دربان مقرر نہ ہوا- اندر زنانہ میں عموماً صبح کے وقت آپ عورتوں میں بھی درس قرآن شریف دیا کرتے تھے- جب تک آپ کے شاگرد رشید اور رفیق و انیس حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب زندہ رہے وہ مسجد مبارک میں پنج وقت نماز اور جمعہ کی امامت کراتے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ آپ پڑھاتے تھے- حضرت مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد آپ پانچ نمازیں اور جمعہ ان مساجد میں پڑھاتے رہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف لے جاسکتے تھے اور عموماً سب نمازیں مسجد مبارک میں ہوا کرتی تھیں- آپ کی عادت باہر سیر کے واسطے جانے کی نہ تھی- لیکن گاہے حضرت مسیح موعود آپ کو اپنے ساتھ سیر کے واسطے باہر لے جایا کرتے تھے- جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو آپ اس میں عربی پڑھاتے رہے- صدر انجمن احمدیہ کے آپ پریذیڈنٹ تھے- اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن میں سو رائے کے برابر سمجھنی چاہئے-
تصنیف
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اکثر تصنیف کے کام میں مصروف رہتے تھے- لہذا حضور کا ادب کرتے ہوئے آپ تصنیف کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے- اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے حکم سے آپ نے صرف ایک کتاب تصنیف کی- جو ایک آریہ دھرمپال نام کی کتاب >ترک اسلام< کے جواب میں تھی- یہ کتاب آپ نے تصنیف کی اور اس کا مسودہ عاجز راقم نے ایک ایک باب کرکے حضرت مسیح موعود کو شام کی مجلس میں سنایا اور حضرت مسیح موعود نے ہی اس کتاب کا نام نورالدین رکھا- اس کتاب کے چھاپنے اور شائع کرنے کا کام آپ کے قدیمی دوست اور مخلص صادق حضرت مولوی حکیم حاجی حافظ فضل الدین صاحب مرحومؓ نے کیا تھا- زمانہ خلافت میں آپ نے کوئی تصنیف نہیں کی-
گزارے کی صورت
قادیان میں آپ کے گزارے کی صورت بظاہر طب کے سوا اور کچھ نہ تھی- مگر آپ کے خانگی اخراجات- مہمان نوازی‘ یتامی و مساکین کی پرورش- دینی چندوں میں سب سے بڑھ کر حصہ لینا- ان سب پر ایک معقول رقم خرچ ہوتی تھی- اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رقوم کہاں سے آتی تھیں- فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے- اور مجھے رزق من حیث لایحتسب عطا کرتا رہتا ہے- کبھی آپ کی کوئی ایسی ضرورت نہ ہوتی تھی جو پوری نہ ہو جائے اور غیب سے اس کے واسطے سامان بن نہ جائے-
آپ کے سفر
اپنے وطن بھیرہ سے ہجرت کرکے قادیان آجانے کے بعد آپ نے کوئی سفر بغیر حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ نہیں کیا- آپ کے سفر درج ذیل ہیں-
)۱( ریاست جموں کے بعض اراکین نے باصرار آپ کو چند روز کے واسطے جموں بلایا- اور وہاں مہاراجہ صاحب نے آپ سے خواہش کی کہ پھر ریاست میں ملازمت کر لیں مگر چونکہ اس امر کے واسطے حضرت مسیح موعود سے کوئی اجازت نہ تھی اس واسطے آپ انکار کرکے واپس چلے آئے- عاجز ان ایام میں ریاست جموں میں ملازم تھا-
)۲( ریاست بہاولپور کے نواب صاحب نے ایک دفعہ آپ کو اپنے علاج کے واسطے بلایا اور حضرت مسیح موعود سے اس غرض کے واسطے نواب صاحب کے آدمیوں نے اجازت حاصل کی- کچھ دن نواب صاحب کا علاج کرکے آپ واپس آگئے-
)۳( حضرت نواب محمد علی خان صاحب احمدی رئیس مالیر کوٹلہ کی درخواست پر حضرت مسیح موعود نے درس قرآن و حدیث دینے کے واسطے مالیر کوٹلہ بھیجا اور ایک سال سے کچھ زائد عرصہ آپ کا وہاں قیام رہا-
)۴( آریائوں کے ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعود کا ایک مضمون پڑھنے کے واسطے آپ لاہور تشریف لے گئے- یہ وہی مضمون ہے- جو کتاب چشمہ معرفت میں ہے-
)۵( زمانہ خلافت میں ایک دفعہ آپ کو ایک مقدمہ کی شہادت کے واسطے ملتان جانا پڑا- وہاں سے واپسی پر لاہور میں آپ کا لیکچر ہوا-
)۶( شیخ رحمت اللہ صاحب احمدی مرحوم کے مکان اور دکان کی بنیادی اینٹ رکھنے کے واسطے آپ لاہور تشریف لے گئے-
جب حضرت مسیح موعود ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے تھے تو حضرت مولانا کو بھی چند روز بعد وہاں بلا لیا تھا- اسی طرح اس سفر میں بھی لاہور ہمراہ تھے جس سفر میں حضور علیہ السلام نے وفات پائی-
عہد خلافت
قادیان میں آپ کی زندگی کا دوسرا دور حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد شروع ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جماعت کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اب مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے جو حضرت مسیح موعود کا جانشین ہو کر تمام جماعت کا امام مطاع ہو- سب کی نگاہیں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طرف تھیں کہ وہی مسند خلافت کے اہل ہیں اور انہیں سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اس عہدہ کو قبول فرماویں- پس خواجہ کمال الدین صاحب اور دیگر اصحاب حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے- انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ بنایا جائے- میں پاس تھا- جب حضرت مولوی صاحب کو یہ پیغام پہنچایا گیا- اس وقت آپ نے ایک لوٹا پانی کا منگوایا اور وضو کیا اور نواب صاحب کے اس مکان میں جہاں آجکل لائبریری ہے اور حضرت فاضل مولانا مولوی شیر علی صاحب کے دفتر کا کمرہ ہے- یہاں آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھی اور سجدہ میں گر کر بہت روئے- اس کے بعد سب لوگ باغ میں جمع ہوئے- جہاں حضرت مسیح موعود کا جسد مبارک چارپائی پر رکھا تھا- وہاں ایک تحریر‘ جس میں آپکی خدمت میں یہ درخواست تھی کہ عہدہ خلافت کو قبول کریں اور کہ ہم سب آپ کی اسی طرح اطاعت کریں گے جس طرح حضرت مسیح موعود کی اطاعت کرتے تھے- اس پر ممبران انجمن اور دیگر اکابران کے دستخط ثبت ہو چکے تھے- عاجز راقم نے پڑھ کر سنائی- اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے ایک تقریر کی- جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں تو چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد میں سے یا کسی اور بزرگ کو خلیفہ بنایا جاتا- میں تیار ہوں کہ اگر حفیظہ بیگم )حضرت مسیح موعود کی سب سے چھوٹی صاحبزادی جس کی عمر اس وقت قریباً چار سال تھی( کو خلیفہ بنایا جائے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کروں- تم مجھے خلیفہ بنانا چاہتے ہو تو تم کو میری اطاعت کرنی ہو گی- اس پر سب نے کہا کہ ہم اطاعت کریں گے- پھر آپ بیٹھ گئے اور بیعت شروع ہوئی- سب حاضرین نے بیعت کی- دعا ہوئی- اور اس کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا جنازہ پڑھایا- وہ تحریر جو میں نے پڑھی اور آپ کی تقریر ہر دو اخبار بدر میں شائع ہوئی تھیں- ابتدائے ایام خلافت میں آپ اکثر وقت اندر خلوت میں رہتے- دعائوں میں بہت مصروف رہتے- دعا کے واسطے آپ کے لئے ایک علیحدہ کمرہ بنوا دیا گیا تھا- فرمایا کرتے‘ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے کندھوں پر ایک بڑا بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہے جس سے میں دبا جاتا ہوں- اس وقت آپ کی دن کی نشست گاہ مسجد مبارک میں ہوتی تھی- مگر چونکہ بیمار بھی آپکی توجہ کے محتاج ہوتے تھے اور بیماروں کا مسجد میں جمع ہونا مناسب نہ تھا- اس واسطے آپ نے کچھ عرصہ کے بعد پھر اپنے مطب میں بدستور بیٹھنا شروع کر دیا-
آپ کے شاگرد
قرآن و حدیث اور طب پڑھنے والے آپ کے شاگرد صدہا بلکہ ہزارہا ہیں- کیونکہ درس قرآن میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوا کرتے تھے- دینی علوم میں آپ کے خاص شاگردوں میں سے حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں- جن کو آپ نے خصوصیت کے ساتھ ترجمہ قرآن شریف‘ بخاری اور مثنوی مولانا روم پڑھائی- آپ کے طبی شاگردوں میں سے اس وقت قادیان میں مولوی قطب الدین صاحب- مفتی فضل الرحمن صاحب اور عبدالرحمن صاحب کاغانی ہیں اور مولوی غلام محمد صاحب جو ۲۵ء میں فوت ہو چکے ہیں-
آپ کے رشتہ دار
آپ کا فیض عام تھا- ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی ہزارہا آپ کے ممنون احسان تھے اور ہیں- آپ کی وفات کے دن قادیان کے بعض ہندو بھی روتے تھے- ہر شخص کے ساتھ آپ حسن سلوک کرتے تھے- مگر اپنے بھائیوں کی اولاد پر آپ بہت ہی مہربانیاں کرتے تھے- منجملہ آپ کے بھائیوں کی اولاد کے حکیم میر احمد صاحب مہاجر قادیان میں رہتے ہیں-
واقعات زمانہ خلافت
آپ کے زمانہ خلافت کے واقعات میں سے مفصلہ ذیل خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں-
)۱( محلہ دارالعلوم کی زمین خرید کی گئی-
)۲( مدرسہ تعلیم الاسلام و بورڈنگ ہائوس کی شاندار عمارتیں تیار ہوئیں-
)۳( مسجد نور کی عمارت بنائی گئی-
)۴( نور ہسپتال بنا-
)۵( مدرسہ احمدیہ قائم ہوا-
)۶( برہمن بڑیا کے مشہور عالم مولانا مولوی عبدالواحد صاحب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور انکے ذریعہ سے صدہا لوگوں نے بیعت کی-
)۷( اخبار نور جاری ہوا-
)۸( اخبار الفضل جاری ہوا-
)۹( بہت سے شہروں میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان مباحثات ہوئے-
)۱۰( واعظین سلسلہ نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں تبلیغی دورے کئے-
)۱۱( غیر احمدی حضرات نے واعظین سلسلہ کو اپنے جلسوں پر بلانا شروع کیا-
)۱۲( لنڈن میں ایک اسلامی مشن قائم ہوا- جس کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب لنڈن پہنچے-
مرض الموت
جب آپ گھوڑی سے گرے- اور زخموں میں پیپ پڑ جانے کے سبب آپریشن ہوا- آپ کی صحت بہت کمزور ہوگئی تھی- خلاف عادت سردیوں میں جرابیں پہننی شروع کیں اور ہاتھ میں لمبا عصا لیکر اس پر ٹیک لگا کر چلنے لگے- بالخصوص سیڑھیوں پر چڑھنے سے تکلیف ہوتی تھی- ہر بیماری میں آپ نے حضرت اولوالعزم محمود احمد کو اپنی جگہ نماز پڑہانے اور خطبہ پڑھنے کے واسطے مقرر فرمایا- آخری مرض جس میں آپ کی وفات ہوئی- اس کے متعلق ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آپ کو مرض ٹیوبرکلوسس یعنی دق ہو گیا تھا- بخار رہتا تھا اور تھوڑی تھوڑی کھانسی بھی تھی- حضرت نواب محمد علی خان صاحب آپ کو اپنی کوٹھی پر لے گئے تھے اور آخر دم تک انہوں نے تیمارداری اور خدمت گذاری کا حق ادا کیا اور وہیں آپ کی وفات جمعہ کے دن بتاریخ ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء ہوئی- انا للٰہ وانا الیہ راجعون اور ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانی نے جنازہ پڑھایا اور مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قبر کے متصل آپ کو دفن کیا گیا- اللٰھم نور قبرہ الیٰ یوم القیٰمۃ
اولاد
بوقت وفات آپ کی ایک بیوی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ اور انکی اولاد پانچ لڑکے اور ایک لڑکی زندہ موجود تھے- اور پہلی بیوی مرحومہ فاطمہ بی بی کی اولاد میں سے ایک لڑکی بی|بی حفصہ مرحومہ زوجہ مفتی فضل الرحمن صاحب زندہ تھیں- پانچ لڑکوں کے نام یہ ہیں- عبدالحی مرحوم‘ عبدالسلام‘ عبدالوہاب‘ عبدالمنان‘ محمد عبداللہ اور لڑکی مکرمہ بی|بی امہ~ن۲~ الحی مرحومہ تھیں جو حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانی کے نکاح میں آئیں اور جن کی اولاد اس وقت دو لڑکیاں اور ایک لڑکا زندہ موجود ہیں- اللہ تعالیٰ انکی عمر اور صحت اور نیکی میں برکت دے- لڑکوں میں سے محمد عبداللہ صاحب قریباً چھ ماہ بعد اور حضرت صاحبزادہ عبدالحی صاحب قریباً ایک سال بعد فوت ہوئے-
وصیتیں
جہاں تک مجھے یاد ہے- آپ نے تین دفعہ وصیت لکھی- سب سے پہلی وصیت آپ نے ۱۹۰۵ء میں لکھی- جبکہ زلزلوں کے سلسلوں کے سبب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام و آپ کے دیگر اصحاب کے ہمراہ حضرت صاحب کے باغ میں فروکش تھے- آپ بہت بیمار ہوگئے اور متواتر کئی دن باہر تشریف نہ لاسکے- تب آپ نے اپنی ایک وصیت لکھی جو کہ ایمان اور عقائد اور عملیات میں آپ کی عمر بھر کی تحقیقات کا خلاصہ ہے- وہ وصیت عاجز راقم نے اخبار بدر میں چھاپی تھی-
دوسری وصیت آپ نے اس وقت لکھی جبکہ ابتدائے زمانہ خلافت میں مطابق پیشگوئی فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام آپ گھوڑے سے گر کر بیمار ہو گئے اور ایک شب آپ کو خیال ہوا کہ سوجن دل کی طرف جا رہی ہے- تب آپ نے رات کے وقت قلم دوات طلب کی اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے- خلیفہ- محمود- اور اپنے شاگرد کو وہ کاغذ دیا کہ لفافہ میں بند کرکے اپنے پاس رکھو- یہ وصیت شائع نہ ہوئی- گو کئی لوگوں کو اس شاگرد کے ذریعہ سے اس کے مضمون سے آگاہی حاصل ہوگئی- اس کے بعد صحت ہو جانے پر آپ نے وہ لفافہ لیکر پھاڑ دیا- جس قلم اور دوات کے ساتھ یہ وصیت لکھی تھی- وہ اب تک عاجز کے پاس محفوظ ہے-
تیسری وصیت آپ نے مرض الموت میں وفات سے چند یوم قبل کی جس میں یہ تاکید کی ہے کہ جو آپ کا خلیفہ ہو وہ حضرت مسیح موعود کے پرانے اور نئے مریدوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرے- یہ وصیت آپ نے لکھوا کر مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ دو دفعہ بآواز بلند پڑھیں- ان کے پڑھنے کے بعد اسے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے سپرد کیا- اور اسی کے مطابق حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کا انتخاب ہوا-
مقبرہ بہشتی کی وصایا کے ماتحت آپ نے اپنی زرعی زمین جو بھیرہ میں تھی- اپنی زندگی میں ہی صدر انجمن احمدیہ کو ہبہ کر دی تھی- وہ اپنے مکانات جو قادیان اور بھیرہ میں ہیں اور کتب خانہ وقف علی الاولاد کر دیا تھا-
اللٰھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجاتہ فی جنٰت علیٰ
امین ثم امین
* * *
‏muqamat.1

مقامات
ا
آگرہ
۱۱۷‘۲۱۲
اجودھن
۵۲
اسکندریہ
۱۷۹
امرتسر
۲۲۵‘۲۷۱
اودھ
۲۹۳
اودھم پور )کشمیر(
۲۵۱
ایران
۱۷۶
ب - پ - ت
بانہال )کشمیر (
۱۶۴
بٹالہ
۲۱۴
برہان پور
۱۰۸ ‘ ۱۰۹
برہمن بڑیا )بنگلہ دیش(
۳۱۵
بطحا
۱۱۹
بمبئی
۷۵‘ ۱۰۹‘ ۱۱۰‘ ۱۳۳‘ ۱۶۱‘ ۲۴۰‘ ۲۸۰
بنارس
۲۴۷ ‘ ۲۵۸
بہاولپور
۳۱۲
بھوپال
۹۶‘ ۹۹‘ ۱۰۶‘ ۱۰۷‘ ۱۰۸‘
۱۲۵‘ ۱۳۶‘ ۱۵۴‘ ۲۱۲‘ ۲۲۴‘ ۲۹۵
بھیرہ
۷۴‘ ۷۵‘ ۷۶‘ ۸۲‘ ۱۰۹‘ ۱۲۶‘ ۱۳۵‘ ۱۴۶‘ ۱۴۷‘ ۱۹۱
۱۹۹‘ ۲۳۱‘ ۲۳۲‘ ۲۳۶‘ ۲۸۶‘ ۳۰۸‘ ۳۰۹‘ ۳۱۱‘ ۳۱۷
بیت المقدس
۱۱۵
پشاور
۲۳۶ ‘ ۲۳۷
پنجاب
۸۳ ‘ ۸۶
پنڈ دادنخاں
۷۶‘ ۱۵۹‘ ۱۶۳‘ ۱۷۱‘ ۲۱۳‘
۲۳۲‘ ۲۳۴‘ ۲۳۸‘ ۲۳۹
پورٹ بلیر
۱۸۵
پونا
۱۱۵
پونچھ 14] )[pکشمیر(
۱۷۴ ‘ ۱۸۰
تنعیم ) احرام باندھنے کی جگہ (
۱۳۱
ٹونک )ریاست(
۲۲۱
ج - چ - ح - خ
جالندھر
۲۶۸
جامع مسجد دہلی
۱۵۱
جدہ
۱۱۱ ‘ ۱۱۸
جلال پور جٹاں
۱۹۶
2
……
 
Top