• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مسئلہ وراثت

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مسئلہ وراثت

(النساء:۱۲)

استدلال شیعہ:۔اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ایک اسلامی قانون پیش کیا ہے کہ ہر شخص کی وارث اس کی اولاد ہے۔چونکہ تمام احکام قرآنی میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ مساوی طور پر شریک ہیں اس لئے اس مسئلہ میں بھی آپ کا کوئی استثناء نہیں۔ بدیں و جہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو وراثت سے محروم کر کے ان کی حق تلفی کی۔

جواب:۔بیشک یہ آیت عام ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر عام میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی شریک ہوں جیسا کہ (النور:۳۳) میں باوجود یکہ خطاب عام ہے پھر بھی آنحضرت ؐ کی بیویاں اس سے مستثنیٰ ہیں۔اسی طرح (النساء:۱۲) والی آیت میں آنحضرت ؐ کا استثناء ہوسکتا ہے اگر کوئی کہے والی آیت میں اس واسطے استثناء مانتے ہیں کہ اس استثناء کا خودقرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر ہے جہاں فرمایا (الاحزاب:۵۴) لیکن والی آیت کا استثناء قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ قرآن کریم کی عمومیت میں استثناء ضرور قرآن ہی کے ذریعہ ہو بلکہ حدیث یا تعامل کے ذریعہ سے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ (بنی اسرائیل:۲۴) یعنی اپنے والدین کو اُف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو۔کے حکم سے آنحضرتؐ کا حکم عام ہے مگر اس میں آنحضرتؐشامل نہیں۔اور یہ استثناء قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں،بلکہ واقعات سے ثابت ہے کیونکہ حضورؐ کے والدین بچپن ہی میں فوت ہوچکے تھے ۔اسی طرح (النساء:۱۲) والی آیت میں جو استثناء ہے وہ آپ کی اسی صحیح حدیث کی بناء پر ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں موجود ہے۔نَحْنُ مَعَاشِرُ الْاَنْبِیَآءِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ (بخاری کتاب خمس باب فضائل اصحاب النبیؐ ۔مغازی فرائض ۔مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۶۳) جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔
 
Top