• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مسلم نوجوانوں کز سنہری کارنامے۔ یونی کوڈ

مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
تصنیف: شیخ رحمت اللہ خان شاکر۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان
Close فہرست بند کریں
مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
فہرست مضامین
تعارف
شکریہ
ایثار
دین کی راہ میں قربانی
شوق جہاد فی سبیل اللہ
آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و فدائیت
حلم اور جھگڑوں سے اجتناب
اطاعت امیر
سوال سے نفرت بے نیازی اور سیر چشمی
شوق تحصیل علم
فیاضی اور غریب پروری
دین کی راہ میں شدائد کی برداشت
غیرت ایمانی
موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ضروری سبق
دینی امور میں رازداری
پاس فرَمانِ نبویؐ
ہاتھ سے کام کرنا
مہمان نوازی
راست گفتاری اور صاف گوئی
عبادت گزاری اور زہد و اتقاء
شوق پابندی نماز
آنریری قومی خدمت و بے نفسی
سادہ معاشرت
قرض کی وصولی میں آسانی
ادائیگی قرض
شوق تبلیغ
صبر و رضا
خدمت والدین
دیانت اور امانت
پابندی عہد
جرأت و بہادری
Close فہرست بند کریں
فہرست مضامین
تعارف
شکریہ
ایثار
دین کی راہ میں قربانی
شوق جہاد فی سبیل اللہ
آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و فدائیت
حلم اور جھگڑوں سے اجتناب
اطاعت امیر
سوال سے نفرت بے نیازی اور سیر چشمی
شوق تحصیل علم
فیاضی اور غریب پروری
دین کی راہ میں شدائد کی برداشت
غیرت ایمانی
موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ضروری سبق
دینی امور میں رازداری
پاس فرَمانِ نبویؐ
ہاتھ سے کام کرنا
مہمان نوازی
راست گفتاری اور صاف گوئی
عبادت گزاری اور زہد و اتقاء
شوق پابندی نماز
آنریری قومی خدمت و بے نفسی
سادہ معاشرت
قرض کی وصولی میں آسانی
ادائیگی قرض
شوق تبلیغ
صبر و رضا
خدمت والدین
دیانت اور امانت
پابندی عہد
جرأت و بہادری

تعارف
(ازحضرت صاحبزادہ میرزا بشیر صاحب ایم۔ اے)
شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر کی کتاب جس کا عنوان "مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے" ہے اسوقت طبع ہو کر اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔ شاکر صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اس کتاب کے دیباچہ کے طور پر چند سطورلکھ کردوں جس کی تعمیل میں مَیں یہ حروف قلمبند کررہاہوں۔
شاکر صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ ایک عرصہ دراز سے بلکہ طالب علم کے زمانے سے میرے مدنظر تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پاتا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب "گولڈن ڈیڈز" Golden Deedsپڑھائی جاتی تھی۔ جس میں مغربی بچوں اور نوجوانوں کے سنہری کارناموں کا ذکر درج تھا۔ مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی جائے جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کیے جائیں جو مسلمان نونہالوں کی تربیت کے علاوہ دوسری قوموں کے لیے بھی ایک عمدہ سبق ہوں۔ یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیونکہ میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں وہ ایسے شاندار اور روح پرور ہیں کہ ان کے مقابلہ پر مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا۔ مگر افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی۔ بالآخر گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ تقریب پیدا کر دی کہ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نے مجھ سے مشورہ پوچھا کہ میں آج کل رخصت کی وجہ سے فارغ ہوں۔ مجھے کوئی ایسا مضمون بتایا جائے جس پر مںک ایک مختصر کتاب لکھ کر اسلام اور احمدیت کی خدمت کر سکوں۔ اس پر میں نے شاکر صاحب کو اپنی یہ خواہش بتا کر یہ تحریک کی کہ وہ اس موضوع پر مطالعہ کر کے کتاب تیار کریں۔ اور میں نے چند ایسی کتابوں کے نام بھی بتادئیے جس سے وہ اس مضمون کی تیاری میں مدد لے سکتے تھے۔ اور انتخاب وغیرہ کے متعلق بھی مناسب مشورہ دیا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ شاکر صاحب نے مطلوبہ کتاب کے تیار کرنے میں کافی محنت سے کام لے کر ایک اچھا مجموعہ تیار کرلیا ہے۔ میں نے اس سارے مجموعہ کو بالاستیعاب نہیں دیکھا مگر بعض حصے دیکھے ہیں۔ اور بعض جگہ مشورہ دے کر اصلاح بھی کروائی ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔
یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ کسی قوم کی مضبوطی اور ترقی میں اس کے نوجوانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک تسلیم شد ہ بات ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک بڑا عمدہ ذریعہ سلف صالح کی روایات ہیں۔ جنہیں سن کر یا مطالعہ کر کے وہ اپنے اندر کام کی روح پیدا کرسکتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض مسلمان نوجوانوں نے انحضرت ﷺ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ ان کا ذکر پڑھ کر بے اختیار تعریف نکلتی ہے اور ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں نے ایسی ایسی خدمات سرانجام دی ہیں کہ بڑے بڑے لوگ بھی ان میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رکتے تھے۔
دراصل بچپن کازمانہ ایک بڑا ہی عجیب و غریب زمانہ ہوتا ہے جس میں ایک طرف تو نمو اورترقی کی طاقت اپنا کام کر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف خطرات سے ایک گونہ بے پروائی کا عالم ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر انسان کے ذہن کو ایک اچھے راستہ پر ڈال دیا جائے تو وہ حقیقتاً حیرت انگیز کام کرسکتا ہے اور اس ذہنی کیفیت کے پیدا کرنے کے لیے ایک طرف تو ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری طرف عملی نمونہ کی۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ جب ہمارے نوجوان سلف صالح کے کارناموں کا مطالعہ کریں گے اور انہیں اس بات پر آگاہی حاصل ہو گی کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انحضرت ﷺ اور آپ کے خلفاء کی قوت قدسیہ کے ماتحت مسلمان بچے کیاکیا خدمات بجا لاتے رہے ہیں تو چونکہ خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں ایمان اور اخلاص پہلے سے موجود ہے۔ وہ اس عملی نمونہ کو دیکھ کر اپنے اندر ایک حیرت انگیز عملی تبدیلی پیدا کرسکیں گے۔
روایات کا قومی اخلاق پر اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ بعض محقیقن نے تو قوم کے لفظ کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ روایات کے مجموعہ کا نام ہی قوم ہے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے ممتاز کرنے والی زیادہ تر قومی روایات ہی ہوتی ہیں۔ مگر روایات کو محض قصہ کے رنگ میں نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ ان کی تحریکی قوت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ گذشتہ تاریخ ہماری آئندہ عمارت کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔
میں ا س مختصر تمہید کے ساتھ اس مجموعہ کو اپنے عزیز نوجوانوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ میں یہ بھی امیدکرتا ہوں کہ شاکر صاحب اس کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں احمدی نوجوانوں کے کارناموں کو بھی شامل کرلیں گے کیونکہ ان میں بھی انسان کو بہت روح پرورنظارے ملتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا بشیر احمد
قادیان۔ یکم اپریل 1939ء




شکریہ
ہر کتاب کے ساتھ اس کے مصنف یا مؤلف کی طرف سے ایک تمہید ضروری سمجھی جاتی ہے اور اسی رواج کے مطابق میں نے یہ چند سطور لکھنی ضروری سمجھی ہیں ورنہ تمہید میں جو کچھ ہونا چاہیے وہ سب حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمدؐ صاحب ایم اے بیان فرما چکے ہیں۔ اور میرے لیے صرف یہی باقی ہے کہ ہمیں حضرت ممدوح کا اس نوازش اور رہنمائی کے لیے شکریہ ادا کروں جو دورانِ تالیف میں ہمیشہ میرے شامل حال رہی۔ اور جو دراصل اس تالیف کا موجب ہے۔
یہ سخت ناانصافی ہوگی اگر میں ا س امر کا اقرار نہ کروں کہ اس تالیف کے سلسلہ میں مجھے دارالمصنفین اعظم گڑھ کی تصنیفات اور تالیفات سے گراں قدر امداد ملی ہے۔ علاوہ ازیں میں نے حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمدؐ صاحب ایم اے کی سیرت "خاتم النبیین" سے بھی بہت استفادہ کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے 17 مارچ 1939ء کے خطبۂ جمعہ میں، جو 7اپریل 1939ء کے الفضل میں شائع ہوا ہے۔ روحانی جماعتوں کے لیے نوجوانوں کی اہمیت کو پوری وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اور اس تالیف کا مقصد یہی ہے کہ اس سے نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح میں مدد مل سکے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس غرض کے پورا کرنے کا موجب بنائے۔ اور سلسلہ کے نوجوان اس سے فائد ہ اٹھا سکیں۔ آمین
احباب میری علمی کم آئیگی سے بخوبی آگاہ ہںف۔ اس لیے میری اس کوشش میں انہیں جو کوتاہیاں یا فروگزاشتیں نظر آئیں ان سے مجھے مطلع فرمائیں تاکہ دوسرے ایڈیشن میں اصلاح کی جاسکے۔ نیز وہ دوسرے حصہ کی تالیف میں ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
خاکسار
رحمت اللہ خان شاکر
اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار الفضل
مورخہ 5 اپریل 1939ء


ایثار
صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اپنے بھائیوں کے لیے مجسم ایثار و قربانی تھا۔ تاریخ اسلام کے اوراق اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں سے چند ایک واقعات بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں دوستوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
1
ایک غزوہ میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل، حضرت حارثؓ بن ہشام اور حضرت سہیلؓ بن عمر زخمی ہوئے۔ تینوں جان کنی کی حالت میں تھے اور شدید پیاس محسوس کر رہے تھے۔ ایسی حالت میں ایک شخص عکرمہؓ کے لیے پانی لایا۔ ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں اس پانی کے چند قطرات ان کے لیے کتنی بڑی قیمتی چیز تھے۔ عام حالات میں دوسرے کے لیے ایثار کرنا اور اپنے جذبات کو دوسرے کے لیے قربان کردینا کوئی ایسی مشکل بات نہیں لیکن جب انسان کو اپنا آخری وقت نظرآرہا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس وقت پانی کا ایک قطرہ میرے لیے آبِ حیات کاحکم رکھتا ہے۔ اس وقت اپنی حالت کو فراموش کر دینا اور اپنے بھائی کی ضرورت کا احسا س کر کے اسے مقدم کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ ہر شخص بآسانی لگاسکتا ہے۔ لیکن لاکھوں لاکھ درود ہوں اس مقدس وجود پر جس نے عرب کے وحشیوں میں، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایسا انقلاب عظیم پیدا کردیا کہ وہ اپنے بھائی کی ضرورت کو دیکھ کر اپنی حالت کو بالکل ہی بھول جاتے تھے۔ چنانچہ جب پانی حضرت عکرمہؓ کے پاس لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیلؓ حسرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اور آپ کی اسلامی اخوت اور جذبہ ایثار کے لیے یہ چیز ناقابل برداشت ہوگی کہ خود پانی پی لیں۔ درآنحالیکہ آپ کا بھائی پاس ہی پیاسا پڑا ہو۔ چنانچہ فرمایا کہ پہلے ان کو پلاؤ۔ وہ شخص پانی لے کر حضرت سہیلؓ کے پاس پہنچا۔ مگر وہ بھی اسی چشمۂ روحانیت سے فیض یاب تھے جس کا ہر ایک قطرہ نفسانیت کے لیے موت کا حکم رکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت سہیلؓ کی نظر اس وقت حضرت حارثؓ پر پڑی اور آپ نے دیکھا کہ وہ بھی پانی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے تک رہے ہیں۔ اس خیال کا آنا تھاکہ آپ کے لیے اس پانی کو اپنے حلق سے اتارنا ناممکن ہوگیا۔ یہ کیونکر ممکن تھاکہ آپ اپنی جان کو اپنے بھائی کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھ سکتے۔ اور اسے پیاس کی حالت میں چھوڑ کر خود پانی پی لیتے۔ چنانچہ پانی لانے والے سے کہا کہ پہلے حضرت حارثؓ کو پلاؤ۔ وہ پانی لے کر ان کے پاس پہنچا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی پانی نہ پی سکا اور سب نے تشنہ کامی میں جانِ عزیز آفریں کے سپرد کردی۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
غور فرمائیے کہ ان تینوں کے درمیان کوئی دنیوی رشتہ نہ تھا بلکہ اسلامی اخوت تھی۔ جس نے دوسرے کو پیاس کی حالت میں دیکھ کر حلق سے پانی کے چند قطرات کا اترنا ناممکن بنا دیا۔ اور پھر سوچیے کہ کیا یہ کیفیت کسی دنیوی تدبیر سے انسان کے اندر پیدا کی جاسکتی ہے؟
2
ایک مسلمان اپنے باغ کی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تھا لیکن بیچ میں ایک دوسرے شخص کا درخت آتا تھا۔ دیوار بنانے کے خواہش مند نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کیا کہ یہ درخت مجھے دلوا دیجئے۔ تاکہ میری دیوار سیدھی بن سکے لیکن درخت کا مالک اسے دینا پسند نہ کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ درخت دے دو تو اس کے عوض جنت میں تمہیں درخت ملیں گے۔ مگر وہ اپنا درخت دینا پسند نہ کرتا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ بھی بطور حکم اسے یہ کہنا نہ چاہتے تھے۔ ایک اور نوجوان صحابی حضرت ثابتؓ بن وحداح کو جب اس کا علم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس درخت کے عوض تمہیں جنت میں درخت ملیں گے تو آنحضرت ﷺ کی خواہش کو پورا کرکے جنت الفردوس میں باغات کے حصول کی خواہش نے ان کو بے تاب کر دیا اور فوراً درخت کے مالک کے پاس پہنچے اور اس سے کہا۔ کہ مجھ سے میرا باغ لے لو اور اس کے عوض یہ درخت مجھے دے دو۔ اس کو اور کیا چاہیے تھا۔ فوراً معاملہ طے ہوگیا۔ حضرت ثابتؓ یہ طے کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں نے یہ سودا کیا ہے اور یہ درخت دیوار بنانے والے کے حوالہ کردینے پر آمادگی ظاہر کی۔ آنحضرت ﷺ یہ سن کر نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا۔ ثابتؓ کے لیے جنت میں کتنے درخت ہیں۔
اس کے بعد حضرت ثابتؓ اپنی بیوی کے پاس باغ میں پہنچے اور کہا کہ یہاں سے نکل چلو۔ میں نے یہ باغ جنت کے ایک درخت کے عوض فروخت کر دیا ہے۔
اس نیک بخت بیوی کاایثار ملاحظہ ہو کہ اس پر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہایت نفع مند سودا ہے۔ (اصابہ جلد 7۔ ص 58)۔
صحابہ کرامؓ کے ایثار کے ساتھ یہ واقعہ ان کی ایمانی حالت کا بھی آئینہ دار ہے۔ موجودالوقت جائیداد کو آئندہ زندگی میں نفع کے خیال سے چھوڑ دینا اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتا جب تک انسانی قلب اس یقین اور ایمان کے ساتھ پر نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے نکلی ہوئی بات ایک اور ایک دو کی طرح صحیح اور یقینی ہے۔
اس واقعہ کو پڑھ کر جب ہم اپنے زمانہ کی حالت پر نظر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں کے ساتھ جھگڑتے اور تنازعات کرتے رہتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ ان کے لیے ایثار پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ان جائز اور واجبی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کس طرح قانونی موشگافیوں کی آڑ لیتے ہیں۔ اور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے کام لیتے ہیں تو ہمارا سرندامت سے جھک جاتا ہے۔ کیا ہم امید رکھیں کہ ہمارے دوست اپنے بزرگوں کی مثال کو خضرِ راہ بنائیں گے اور بالخصوص اس واقعہ سے سبق حاصل کریں گے۔
3
حضرت لبیدؓ بن ربیعہ بہت فیاض آدمی تھے۔ اور جاہلیت کے زمانہ میں یہ عہدکر رکھا تھا کہ جب بادِ صبا چلاکرے گی میں جانور ذبح کر کے لوگوں کو کھلایا کروں گا۔ اور ہمیشہ اس عہد کو نبھاتے رہے لیکن ایک زمانہ ایسا آیا۔ کہ آپ کی مالی حالت اس قابل نہ رہی۔ تاہم اس عہد کو نہ ٹوٹنے دیا۔
لیکن اپنے اس عہد کو نباہنے کے لیے خود انہیں جس قدر خیال تھا۔ ان کے اسلامی بھائیوں کو اس سے کم نہ تھا۔ اور وہ اپنے بھائی کے اس عہد کو ایفاء ہوتا دیکھنے کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جب باد صبا چلتی تو بطور امداد اونٹ جمع کر کے حضرت لبید کے پاس بھیج دیتے۔ کہ وہ اس عہد کے پورا کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اور ان کے اس عہد کی ذمہ داری براہ راست ان پر نہ ہونے کے باوجودوہ کبھی اپنے بھائی کے لیے ایثار سے غافل نہ ہوتے تھے۔
4
آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد جب سقیفہ بنو ساعدہ میں صحابہ کرامؓ خلافت کا سوال حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو اگرچہ بعض طبائع میں ایک قسم کی کشمکش موجود تھی اوربوجہ اسکے کہ تمام لوگ یکساں طور پر اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ نہیں ہوتے اور پھر عربوں کی عصبیت تومشہور ہی ہے۔ یہ موقعہ نہایت نازک تھا اور اگر آنحضرت ﷺ کے فیضِ نے صحابہ کرامؓ کو سراپا ایثار بنا کر نفسانیت کا خاتمہ نہ کر دیا ہوتا اورادنیٰ سی تحریک بھی عوام الناس کو زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی طرف متوجہ کردیتی تو خطرناک فتنہ کا دروازہ کھل جاتا لیکن اس وقت بھی ان لوگوں میں ہمیں ایثار کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ چنانچہ اس خطرہ کو بھانپ کر ایک انصاری نوجوان حضرت زیدبن ثابت اٹھے۔ اور فرمایا کہ آنحضرت ﷺ مہاجر تھے۔ اس لیے آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہی ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کافی فخرہے کہ آپ کے انصار تھے اور جس طرح آپ کے انصار تھے اسی طرح آپ کے خلفاء کے بھی انصار ہی رہیں گے۔ اور جذبات و نفسانیت کو اس طرح نظر انداز کردینے کی تحریک کانتیجہ یہ ہوا کہ باہم نفاق و اختلاف کا دروازہ بند ہوگیا۔ اور باوجود یہ کہ مختلف نسلوں اور قبائل کے مسلمان وہاں جمع تھے۔ خلافت کامسئلہ بخیروخوبی طے ہوگیا اور کوئی جھگڑا پیدا نہ ہوا۔ (مسنداحمدبن حنبل جلد5 صفحہ 1820)
5
حضرت حمزہؓ جب جنگ احد میں شہید ہوئے تو ان کی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ نے اپنے صاحبزادہ حضرت زبیرؓ کو دو چادریں دیں کہ ان سے حضرت حمزہؓ کے کفن کا کام لیا جائے۔ جب ان کو کفن پہنایا جارہا تھا تو حضرت زبیرؓ نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش پڑی ہے جس کے لیے کفن میسر نہیں۔ آپ نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ اپنے ماموں کو تو دو چادریں پہنا دیں اور دوسرا بھائی پاس بے کفن پڑا رہے۔ چنانچہ آپ نے ایک چادر ان کے لیے دے دی لیکن ایک چادر حضرت حمزہؓ کے لیے کافی نہ تھی۔ سر چھپایا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر ننگاہوجاتا۔ آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ چادر سے چہرہ ڈھانک دو اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو۔
اللہ اللہ! کیسے لوگ تھے کہ فرطِ غم کی حالت میں بھی جبکہ انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے انہیں اپنے بھائیوں کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ مردوں میں بھی امتیاز گوارا نہ کرتے اور ان کی ضروریات سے آنکھیں بند نہ کرسکتے تھے۔
6
حضرت قیس بن عبادہ کے لوگ کثرت سے مقروض تھے۔ ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو مقروض عیادت کے لیے آتے ہوئے شرماتے تھے۔ آپ کو علم ہوا تو اعلانِ عام کرادیا کہ میں نے سب قرضے معاف کئے۔ اس پر لوگ اس کثرت سے آنے لگے کہ بالاخانہ کا زینہ جس میں آپ صاحب فراش تھے ٹوٹ گیا۔
7
حضرت کثیرؓ بن صلت امیرمعاویہؓ کے مقروض تھے۔ امیرمعاویہؓ نے مردان کو لکھا کہ قرضہ میں ان کا مکان خرید لو۔ مردان نے حضرت کثیر کو بلاکر کہا کہ تین روز کے اندر اندر یا تو روپیہ کا انتظام کر دو۔ ورنہ مکان دینے کے لیے تیار رہو۔ حضرت کثیرؓ مکان دینا نہ چاہتے تھے۔ ادھر روپیہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ قرض کی رقم میں تیس ہزار کی کمی تھی۔ سوچتے سوچتے حضرت قیس بن عبادہ کا خیال آیا۔ تو ان کے پاس جاکر تیس ہزار قرض مانگا، جو انہوں نے فوراً دے دیا۔ اور وہ روپیہ لے کر مردان کے پاس پہنچے۔ معلوم نہیں کس وجہ سے اسے ایسا خیال آیا کہ اس نے روپیہ بھی لوٹا دیا اورمکان بھی لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب چونکہ روپیہ کی ضرورت نہ رہی تھی اس لیے فوراً حضرت قیسؓ کے پا س پہنچے۔ کہ اپنا روپیہ واپس لے لیں۔ مجھے اب ضرورت نہیں رہی مگر انہوں نے فرمایا ہم کوئی چیز دے کر اسے واپس نہیں لیا کرتے۔
8
حضرت طلحہؓ جو نوجوان صحابہ میں سے تھے۔ بنو تمیم کے محتاجوں اور تنگدستوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ مقروضوں کا قرض ادا کردیتے تھے۔ ایک شخص صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا۔ حضرت طلحہؓ نے سب کا سب اپنے پاس سے ادا کردیا۔
9
صحابہ کرامؓ میں لالچ نام کو نہ تھا۔ اور ہمیشہ دوسرے بھائیوں کا خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرؓ کو عطیہ دینا چاہا تو انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ مجھے اس وقت ضرورت نہیں اس لیے آپؐ اسے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔
10
صحابہ کرامؓ کی زندگیاں مجسم ایثار تھیں اور وہ ہر موقعہ پر اپنے بھائیوں کے لیے قربانی کرنے کے واسطے آمادہ رہتے تھے۔ لیکن ان کے ایثار کے سب واقعات کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو صرف ایک واقعہ ہی ایسا ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تو اکثر ان میں سے بالکل غریب اور نادار تھے۔ نہ کھانے کو کچھ پاس تھا نہ پہننے کو اور نہ سر چھپانے کو کوئی جگہ تھی۔ لیکن انصارِ مدینہ نے اس اخلاص اورایثار کے ساتھ ان سے سلوک کیا کہ انہیں محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ کسی غیر جگہ میں ہیں۔ اپنے مکانات ان کی رہائش کے لیے خالی کردئیے اور انہیں اپنے اموال میں حصہ دار بنالیا۔ اپنی زمینیں اور باغات ان کے ساتھ تقسیم کردئیے اور یہاں تک ان کے لیے ایثار کرنے کو تیار ہوگئے کہ حضرت سعد بن الربیع نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو، جن کے ساتھ ان کی مواخات قائم ہوئی تھی، کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں۔ جن میں سے ایک کو میں طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس کے ساتھ نکاح کرسکیں۔ اگرچہ حضرت عبدالرحمن نے اس تجویز کو بوجہ اس کے ناجائز ہونے کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور نہ ہی حضرت سعد بن الربیع اسے جائز سمجھتے تھے۔ تاہم یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ و ہ اپنے بھائی کے لیے کس قدر ایثار پر آمادہ۔۔۔۔۔ ہیں۔ انہوں نے یہ پیشکش کر دی اور مہاجرین کے لیے انصار کے ایثار کی یہ ایک ایسی درخشاں مثال ہے کہ جس کی نظیر نہ تو آج تک تاریخ عالم پیش کر سکی ہے اور نہ آئندہ پیش کرسکے گی۔
11
ایک دفعہ ایک یتیم لڑکے نے ایک شخص پر ایک نخلستان کی ملکیت کے متعلق دعویٰ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس یتیم کے خلاف فیصلہ کیا۔ جسے سن کر وہ روپڑا۔ ایک یتیم کی آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو اس سراپا رحم اور مجسم شفقت انسان پرکوئی اثر نہ کرتے، یہ ناممکن تھا۔ چنانچہ آپؐ نے ازراہ رحم ا س شخص سے فرمایا کہ گو فیصلہ تمہارے حق میں ہے لیکن اگر یہ نخلستان اس بچے کو دے دو تو اللہ تعالیٰ ا سکے عوض تمہیں جنت میں دے گا۔ ہر انسان چونکہ عرفان کے صحیح مقام پر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے اس لیے اسے اس مشورہ کے قبول کرنے میں تامل تھا۔ لیکن وہیں ایک اور صحابی حضرت ابوالدحداحؓ موجود تھے۔ آنحضرت ﷺ کے منہ سے اس فقرہ کا سننا تھا کہ حضور کی خواہش کو پورا کرنے اور جنت میں اس کے عوض زیادہ باغات کے حصول کے خیال نے جائیداد کے لئے ان کی محبت کو سرد کردیا۔ اور انہوں نے فوراً اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ ایک یتیم لڑکے لیے زیادہ سے زیاد ہ ایثار کا نمونہ دکھائیں۔ چنانچہ انہوں نے ا س باغ کے مالک سے کہا کہ تم میرا باغ لے لو اور اس کے عوض اپنا یہ باغ مجھے دے دو۔ چونکہ یہ سودا نفع مند تھا۔ وہ فوراً رضامند ہوگیا۔ معاملے طے کر کے حضرت ابوالدحداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو نخلستان ا س یتیم کو دلوانے کی آپ کی خواہش تھی وہ اگر میں دے دوں تو کیا مجھے جنت میں اس کے عوض باغ ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ باغ اس لڑکے کو دے دیا۔
ہمارے دوست ان چند مثالوں پر اگر غور کریں اور دیکھیں کہ اپنے جذبات کو اپنے بھائیوں کے لیے قربان کرنے۔ دو بھائیوں کے جھگڑے اور تنازعہ کا تصفیہ کرانے، غریبوں کی امداد کرنے اور انہیں قرض کے مصائب سے نجات دلانے، دین کی راہ میں نقصان اٹھانے والے بھائیوں کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے لیے آسائش کے سامان بہم پہنچانے کے لیے ان پر کس قدر بھاری ذمہ داریاں ہیں تو نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اور بلحاظ قوم اس قدر عزت اور ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ کہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے۔ لیکن اس کا کیا علاج؟ کہ ایثار کے مفہوم سے بھی مسلمان نا آشنا ہیں اور ان کی نگاہ اپنے نفس اور اپنے خاندان سے آگے جا ہی نہیں سکتی۔
حوالہ جات
1۔ (استیعاب ج3ص19)
2۔ (اصابہ ج7 ص58)
3۔ (استیعاب ج3ص393)
4۔ (مسند احمد ج5ص238)
5۔ (ابن سعدج3ص9)
6۔ (سیر انصارج2 ص134)
7۔ (استیعاب ج3ص539)
8۔ ؟
9۔ (بخاری کتاب الزکوۃ باب الاستعفاف عن المسئلۃ)
10۔ ؟
11۔ (استیعاب ج4ص210)






دین کی راہ میں قربانی
1
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے قبول اسلام کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ جتنی دولت اسلام کی مخالفت میں صرف کر چکا ہوں۔ اس سے دوگنا خدمت اسلام میں صرف کروں گا اور اسلام کی مخالت میں جتنی لڑائیاں لڑا ہوں اس سے دوگنا اسلام کی تائید میں لڑوں گا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو فتنہ ارتداد اٹھا اس میں شام کی معرکہ آرائیوں میں ان کے کارہانے نمایاں سے تاریخ اسلام کے صفحات مزین ہیں۔ اور اس طرح لڑائیوں کے متعلق انہوں نے اپنا عہد پورا کیا۔ مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ ان سب لڑائیوں کی تیاری اور اخراجات کے لیے آپ نے کبھی ایک حبہ بیت المال سے نہیں لیا۔ جب لشکرِ اسلامی شام پر فوج کشی کے لیے تیار ہو رہا تھا تو حضرت ابوبکرؓ فوج کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ تو ایک خیمہ کے باہر آپ نے دیکھا کہ چاروں طرف گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ تلواریں اور دوسرا سامانِ جنگ باافراط رکھا ہے۔ آپ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خیمہ حضرت عکرمہ کا ہے اور سب سامان ان کا اپنا ہے۔ آپ نے کچھ رقم اخراجاتِ جنگ کے لیے ان کو دینا چاہی۔ مگر انہوں نے لینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے پاس تاحال دو ہزار دینار موجود ہیں اس لیے بیت المال پر بوجھ ڈالنے کی مجھے ضرورت نہیں۔
2
مالی قربانی کے علاوہ عزت کی قربانی بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ اورکئی لوگ محض اس وجہ سے ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی نظروں سے گرجانے کا خوف ہوتا ہے لیکن صحابہ کی حالت بالکل مختلف تھی۔ اور دین کی راہ میں وہ ہرچیز کی قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔
حضرت سعدؓ بن معاذ اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو قبیلہ کے لوگوں کو بھی اس کی اصلاح ہوگئی۔ آپ جب ان میں پہنچے تو کھڑے ہوئے کر پوچھا کہ میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں۔ لوگوں نے کہا آپ سردار اور اہل فضیلت ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ جب تک تم لوگ اسلام قبول نہ کرو گے میں تم سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتا۔ آپ کو اپنے قبیلہ میں جو اثر و رسوخ حاصل تھا۔ ا س کا یہ نتیجہ ہوا کہ شام سے پہلے پہلے تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
3
حضرت عبداللہ بن زید کے پاس جائیداد بہت قلیل تھی۔ اور نہایت تنگی کے ساتھ بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کے لیے مال کی ضرور ت تھی۔ جسے پورا کرنے کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی۔ حضرت عبداللہ کے پاس گو مال کی کمی تھی لیکن دل میں ایمانی حرارت موجود تھی۔ ا س سے مجبورہو کر آ پ کے پاس جو کچھ بھی تھا آپ نے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ ان کے باپ نے آکر آنحضرت ﷺ سے شکائتاً اس کا ذکر کیا۔ تو آپ نے ان کو لا کر فرمایا کہ خداتعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا ہے لیکن اب تمہارے باپ کی میراث کے طور پر تم کو واپس کرتا ہے۔ تم اس کو قبول کرلو۔
4
جب قرآن کریم کی آیت مَن ذَاالّذِی یُقَرِضُ الَلّٰہَ قَرضًا حَسَناً نازل ہوئی تو ایک نوجوان صحابی حضرت ثابتؓ بن وحداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا خداتعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں، یہ سننا تھا کہ دنیوی ضرورتیں، بیوی بچوں کی فکر اور مستقبل کا خیال سب چیزیں آ پ کی نظر سے اوجھل ہوگئیں۔ اور صرف خدا اور اس کا رسول اور اس کے دین کی ضرورت سامنے رہی۔ چنانچہ آپ نے اپنا تمام مال صدقہ کر دیا۔
5
جب آیت کریمہ لن تنا لواالبرَّحتیٰ تنفقوا مما تحبّون نازل ہوئی تو صحابہؓ نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔ ایک نوجوان صحابی حضرت ابو طلحہؓ نے اپنی ایک نہایت قیمتی جائیداد وقف کردی۔ اس میں ایک کنواں تھا جس کاپانی شیریں تھا۔ اور آنحضرت ﷺ اسے بہت شوق سے پیا کرتے تھے۔
6
حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ حضرت علیؓ کی شادی کے بعد ایک روز آنحضرت ﷺ آپ کے ہاں گئے تو حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا۔ کہ حارثہ بن نعمان کے پاس کئی مکانات ہیں ان سے فرمائیں کہ ایک مکان ہمارے لیے خالی کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ و ہ ہمارے لیے پہلے ہی اتنے مکانات خالی کر چکے ہیں کہ مجھے اب ان سے بات کہتے ہوئے تأمل ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے اس کے متعلق کوئی ذکر کرنا بھی پسند نہ کیا۔ حضرت حارثہ کو کسی اور ذریعہ سے اس بات کا علم ہوگیا۔ تو آپ بھاگے بھاگے آئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرا تمام مال اور جائداد حضورپر قربان ہے اور میں تو اس میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ آپ مری کوئی چیزقبول فرمائیں۔ جو چیز آپ قبول فرمالیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اسکے کہ جو میرے قبضہ میں رہے۔ اور پھر خودبخود ایک مکان خالی کرکے پیش کیا جس میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے رہائش اختیار فرمالی۔
7
8ھ میں مسلمانوں کو ایک غزوہ پیش آیا جسے غزوہ جیش الخبط کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تھی لیکن زادِ راہ ختم ہوگیا اور مجاہدین کو سخت پریشانی کاسامنا ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے لگے۔ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ بھی اس لشکر میں شریک تھے۔ آپ نے تین مرتبہ تین تین اونٹ قرض لے کر ذبح کیے اور سارے لشکر کو دعوت دی۔
8
حضرت صہیب ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ مگر نہایت مسکین اور بے کس آدمی تھے۔ قریشِ مکہ ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے تھے۔ تنگ آکر آپ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو مشرکین نے کہا کہ تم جب یہاں آئے تھے تو بالکل مفلس اور قلاش تھے۔ اب ہماری وجہ سے مالدار ہوگئے ہوتو چاہتے ہو کہ تمام مال و اسباب لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔ ہم ہرگز تمہیں ایسا نہ کرنے دیں گے۔ آپ کے دل میں ایمان کی جو لگن تھی وہ ایسی نہ تھی کہ مال و دولت کی زنجیر ان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے سے باز رکھ سکتی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمام مال و دولت تمہارے حوالہ کردوں تو پھر تو تم کو میرے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ وہ رضامند ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے سب مال و اسباب ان کے حوالے کیا اور بالکل مفلس ہو کر ہجرت اختیارکی۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا۔ رَبِح صَہیب یعنی صہیبؓ نفع میں رہے۔
جو لوگ معمولی مواقع پیش آنے پر دین کی خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور ثواب کے مواقع ہاتھ سے کھو دیتے ہیں انہیں اپنے اس بزرگ کی مثال پر غور کرنا چاہیے جس نے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا تمام اندوختہ قربان کرنے میں ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا۔
9
حضرت نوفل بن حارث نے غزوہ حنین میں تین ہزار نیزے اپنی گرہ سے خرید کر مجاہدین کے لیے پیش کیے۔
10
حضرت سعد بن مالک بیمار ہوئے تو آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ انہیں اپنی اس سعادت پر اس قدر مسرت ہوئی کہ عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا کل مال صدقہ کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ورثاء کے لیے کیا چھوڑتے ہو۔ تو عرض کیا کہ وہ سب خدا تعالیٰ کے فضل سے آسودہ حال ہیں۔ مگر آپؐ نے فرمایا۔ کہ نہیں صرف 1/10 کی وصیت کرو۔ لیکن انہوں نے اس سے زیادہ کرنے کی خواہش کی تو آپ نے 1/3 کی اجازت دے دی۔
11
حضرت ابی وقاص مرض الموت میں مبتلا تھے کہ آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت ابی وقاص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرے پاس دولت بہت ہے اور ورثاء میں سے صرف ایک لڑکی ہے۔ چاہتا ہوں کہ 2/3 مال صدقہ کردوں۔ آپؐ نے منع فرمایا تو عرض کیا۔ اچھا نصف کی اجازت دیجئے۔ مگر آپؐ نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ تیسرا حصہ کافی ہے۔
12
حضرت طلحہؓ نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ اور جنگِ بدر میں جس جاں نثاری کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے لیے سینہ سپر رہے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کسی دوسری جگہ آچکا ہے۔ لیکن مالی قربانی کے لحاظ سے بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ عہد کر رکھا تھا کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال پیش کیا کریں گے۔ چنانچہ اس عہد کو استقلال اور استقامت کے ساتھ نباہا۔
غزوہ تبوک کے موقع پر جب مسلمان عام طور پر فلاکت میں مبتلا تھے اور سامان جنگ کی فراہمی کے لیے سخت دقت درپیش تھی۔ آپ نے ایک گراں قدر رقم پیش کی۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو فیاض کا خطاب دیا۔
13
جب قرآن کریم کی آیت کریمہ رِجال صَدَقُوا مَاعَاھَدُ واللہ عَلَیہِ فَمِنھُم من قضی نحبہ یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ طلحہؓ تم بھی ان لوگوں میں سے ہو۔
14
حضرت طلحہؓ غزوہ ذی القرد میں آنحضرت ﷺ اوردیگر مجاہدین کے ساتھ ایک چشمہ آب پر سے گزرے تو اسے خرید کر وقف کردیا۔
15
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جوانی کے وقت اسلام قبول کیا۔ آپ بہت بڑے تاجر اوربہت بڑے مالدار تھے لیکن دولت سے پیار بالکل نہ تھا۔ بلکہ اسے راہ خدا میں خرچ کرنے میں ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر گیہوں، آٹا اوردیگر اشیاء خوردنی بار تھیں۔ چونکہ یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ تمام مدینہ میں چرچا ہونے لگا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے عبدالرحمن جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہونگے۔ حضرت عبدالرحمن تک بھی یہ بات پہنچی۔ تو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ گواہ رہیں میں نے یہ پورا قافلہ معہ اسباب و سامان حتیٰ کہ کجاوے تک راہ خدا میں وقف کردیا۔
16
مذکورہ بالا مثال پرہی آپ کی مالی قربانی ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ زندگی بھر راہ دین میں کثرت سے قربانیاں کرتے رہے۔ چنانچہ دو مرتبہ آپ نے یک مشت چالیس چالیس ہزار دینار دئیے اور ایک غزوہ کے موقعہ پر جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور اتنے ہی اونٹ حاضر کیے۔
17
وفات کے وقت بھی آپ نے پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے راہ خدا میں وقف کرنے کی وصیت کی۔ علاوہ ازیں اس وقت تک بدری صحابیوں میں سے جو جو زندہ تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت تک ایک سو بدری صحابی زندہ تھے۔ اور سب نے اس وصیت سے بخوشی فائدہ اٹھایا حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا حصہ لیا۔
18
دین کی راہ میں صحابہؓ کی قربانیاں کئی رنگ میں ہوتی تھیں۔ ایک متمول انسان کا خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا اور بات ہے لیکن ایک معمولی حیثیت کے آدمی کا اپنے سرمایہ اور پونجی سے محروم ہوجانا بہت بڑا ابتلاء ہے۔ اور شیطان نے اس راہ سے بھی صحابہؓ کے ایمان میں تزلزل پیدا کرنے کی کوششیں کی لیکن باقی تمام راہوں کی طرح وہ اس راہ سے بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا۔
حضرت خبابؓ ایک نوجوان صحابی تھے جن کاایک مشرک عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا۔ آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ جب تک محمدﷺ کی نبوت کا علی الاعلان انکار نہ کرو گے میں یہ روپیہ تم کو ہرگز ادا نہ کروں گا۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ روپیہ ملے یا نہ ملے لیکن یہ تو قیامت تک نہیں ہوسکتا کہ میں ایک معمولی دنیوی فائدہ کے لیے نبوت و رسالت سے انکار کردوں۔
19
جانی اور مالی اور عزت کی قربانیوں کے علاوہ دنیا میں تعلقات اور رشتہ داروں کی قربانی بھی بہت مشکل ہے۔ آنحضرت ﷺ کی آواز پر جن لوگوں نے لبیک کہا۔ ان کے لیے اس قربانی کا موقعہ آنا بھی لازمی تھا۔ چنانچہ صحابہؓ کو یہ قربانیاں کرنی پڑیں۔ اور آپ نے دوسرے رنگ کی قربانیوں کی طرح اس میں بھی نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص اپنی والدہ کے بے حد فرماں بردار اور خدمت گزار تھے۔ انیس سال کا سن تھا کہ آپ کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماں کو علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور قسم کھائی کہ جب تک سعد نئے دین کو نہ چھوڑیں گے میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی اور نہ ان سے بات چیت کروں گی۔ چنانچہ اس قسم کو پورا کیا حتیٰ کہ تیسرے دن بے ہوش ہوگئی۔ اور نقاہت کی وجہ سے غش پرغش آنے لگے۔ اسے اپنے سعادت مند فرزند پر یہ امید تھی کہ اسے مسلسل فاقہ اور تکلیف کی حالت میں دیکھ کر ضرور اس کا کہا مان لے گا۔ اسلام سے برگشتہ ہو جائے گا اور ایمان کواس کی خوشنودی پر قربان کر دے گا۔ ایک طرف ماں کی جان جانے کا خیال تھا اور دوسری طرف ایمان کے ضائع ہونے کا۔ عام حالات میں دنیا دار لوگ اپنی ماں کو کسی عقیدہ پر قربان کرنے کے لیے بہت کم تیار ہوسکتے ہیں۔ لیکن حضرت سعد اسلام کو ماں کی جان سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ چنانچہ ماں کی اس ستیہ آگرہ کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا اور اس سے صاف کہہ دیا کہ اگر تمہارے قالب میں سو جانیں ہوں اور ہر ایک نکل جائے تو بھی میں اپنے دین کو نہ چھوڑوں گا۔
20
ایسے ابتلاء اور بھی کئی صحابہؓ کو پیش آئے مگر سب کے سب ثابت قدم رہے۔ حضرت خالد بن سعید جب اسلام لائے تو ان کے باپ کو سخت صدمہ ہوا۔ بیٹے کو خوب زدوکوب کیا اور ساتھ ہی خود کھانا پینا ترک کردیا اورکہا کہ جب تک میرا بیٹا اسلام کو ترک نہ کرے گا میں نہ کھانا کھاؤں اور نہ پانی پیوں گا۔ گھر میں ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا حتیٰ کہ سب نے بات چیت تک بند کردی مگر اس سعید نوجوان پر ان میں سے کسی بات کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے رسول کریمﷺ کی رفاقت کو ایک لمحہ کے لیے بھی چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اور آخر کار حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس پر باپ کو اور بھی رنج ہوا اور وہ بھی اپنا مال و اسباب کو لے کر طائف کو چلاگیا۔
21
حضرت ابوبکر کی عمر آنحضرتﷺ سے اڑھائی سال کم تھی۔ آپؐنے چالیس سال کی عمر میں دعویٰ رسالت کیا۔ اور اس لحاظ سے حضرت ابوبکرؓ کاشمار بھی نوجوان صحابہ میں ہوسکتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ بہت سے غلام اور لونڈیاں جو اپنے مشرک آقاؤں کے قبضہ میں تھے اسلام قبول کرنے کے باعث طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ اور ان کے ہاتھوں سخت اذیتیں اٹھا رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی محبت نے اپنے بھائیوں کے مصائب پر جوش مارا اور ان کی محبت نے مال و دولت کی محبت انکے دل میں سرد کردی۔ اور انہوں نے کئی ایسے غلام مثلاًحضرت بلالؓ ، حضرت عامر بن فہیرہ، نذیرہ، نہدیہ، جاریہ بن نوفل اور بنت تہدیہ وغیرہ کو خرید کر آزاد کردیا۔
کسی دنیوی لالچ کے بغیر اور کسی ظاہری نفع کی امید کے بالکل نہ ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کے لیے جن سے نہ کوئی رشتہ تھا اور نہ قرابت۔ حتیٰ کہ ہم قوم بلکہ بعض حالتوں میں ہم وطن ہونے کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس قدر مالی قربانی کرنا صرف مسلمانوں کا ہی حصہ ہے۔
22
حضرت ابوبکرؓ عرب کے متمول ترین لوگوں میں سے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول اسلام کی توفیق ایسے وقت میں دی جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ تھا یعنی عالم جوانی میں، جو عمر عرب کے تمدن کے لحاظ سے داد عیش و نشاط دینے کی عمر سمجھی جاتی تھی لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو دین کے لیے وقف فرما دیا تھا۔ قبول اسلام کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم نقد موجود تھے مگر سب راہ دین میں صرف کردئیے۔
آپ نے اس قدر مالی قربانیاں کیں کہ زمانہ خلافت میں آپ پر چھ ہزاردرہم قرض تھا۔ وفات کے وقت بھی آپ مقروض تھے۔ اور وصیت فرمائی تھی کہ میرا باغ بیچ کر قرض ادا کیا جائے اور پھر جو مال بچے وہ حضرت عمرؓ کے سپرد کر دیا جائے۔ اس عظیم الشان انسان کی وفات پر جو دنیا میں درہم و دینار سے کھیلتا رہا اور سیم وزر لٹاتا رہا جسے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے حکومت کا بھی بلند ترین منصب عطا کیا جب ا سکے مال و اسباب کاجائزہ لیا گیا تو صرف ایک غلام ایک لونڈی اور دو اونٹنیاں نکلیں۔ جو حضرت عمرؓ کے سپرد کر دی گئیں۔
23
حضرت عثمان نے 34سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ آپ بہت بڑے دولت مند تھے۔ مکہ سے ہجرت کرکے جب مسلمان مدینہ میں آئے تو پانی کی سخت تکلیف تھی۔ صرف ایک کنواں (بیررومہ)ایسا تھا جس کا پانی عمدہ اورشیریں تھا۔ مگر وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا جو پانی قیمتاً فروخت کرتا تھا۔ ادھر صحابہ کی مالی حالت عام طور پر ایسی نہ تھی کہ مول لے کر پانی پی سکیں۔ اس لیے حضرت عثمانؓ نے وہ کنواں اس کے یہودی مالک سے بیس ہزار درہم میں خرید کر وقف کردیا۔
24
آنحضرتﷺ نے جب غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا تو مالی تنگی حد سے زیاد ہ تھی۔ اور سامان جنگ کا مہیا کرنا سخت مشکل ہو رہا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو مالی اعانت کی تحریک فرمائی۔ تو حضرت عثمان نے دس ہزار مجاہدین کو اپنے خرچ سے آراستہ کیا۔ اور ان کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی آپ کے روپیہ سے خریدی گئی۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامان رسدکے لیے ایک ہزار دینار نقد پیش کیے۔
25
حضرت امام حسنؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے تین مرتبہ اپنا آدھا آدھا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کیا۔ اور تنصیف میں اس قدر شدت سے کام لیا کہ دو جوتوں میں سے ایک جوتا بھی دے دیا۔ (اسد الغابہ جلد2۔ ص 13)
26
دین کی راہ میں صحابہ کرام کیا مرد اور کیا عورتیں ہررنگ میں قربانی کے لیے کمربستہ نظرآتے ہیں۔ مال و دولت اور جان عزیز کے علاوہ جب موقعہ ہوتا تو اپنی اولادوں کو بھی نہایت اخلاص کے ساتھ قربان کردیتے تھے۔ ایک عورت کی مثال پڑھیے اور غور کیجئے کہ ہمارے بزرگ کیسے کامل الایمان تھے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو حضرت خنساء اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے کہا کہ پیارے بیٹو! تم نے اسلام کسی جبر کے ماتحت اختیار نہیں کیا اس لیے اسکی خاطر قربانی کرنا تمہار افرض ہے۔ خدا کی قسم میں نے نہ تمہارے باپ سے کبھی خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا۔ یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس میں جو آیا وہ ایک نہ ایک دن مرے گا۔ لیکن خوش بخت ہے وہ انسان جسے خدا تعالی کی راہ میں جان دینے کا موقعہ ملے۔ اس لیے صبح اٹھ کرلڑنے کے لیے میدان میں نکلو اور آخر وقت تک لڑو۔ کامیاب ہو کر واپس آؤ۔ نہیں تو شہادت کا مرتبہ حاصل کرو۔ سعادت مندبیٹوں نے بوڑھی ماں کی اس نصیحت کو گوش ہوش سے سنا اور لڑائی شروع ہوئی تو ایک ساتھ گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں۔ اور نہایت جوش کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے کفار پر ٹوٹ پڑے۔ اور چاروں نے شہادت کادرجہ پایا۔ دلاور ماں نے جب بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو ان کو قربانی کا یہ موقعہ ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ (اسد الغابہ جلد 1 ص 560)
صحابہ کرامؓ کے مردوزن کی قربانیوں کی یہ چندایک مثالیں دینی ترقی کا راز اپنے اندر مضمر رکھتی ہیں۔ انہیں ہر قسم کی قربانیوں کے مواقع پیش آئے۔ مالی بھی اور جانی بھی۔ عزت کی بھی اور رشتہ داروں کی اور اولاد کی بھی۔ اور انہوں نے ہر موقعہ پر نہایت شرح صدر اور بشاشت قلب کے ساتھ یہ قربانیاں پیش کیں۔ پھر یہ سعادت کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھی۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مالدار لوگوں کے لیے قربانیاں کرنا کیا مشکل امر ہے؟ مشکل تو غریبوں کے لیے ہے جن کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ ہو لیکن ان واقعات میں جہاں آپ کو نادار لوگوں کی انتہائی قربانیوں کی مثالیں نظرآئیں گی وہاں امراء کی بے مثال قربانیاں بھی ملیں گی۔ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جو پہلے ہی تنگ دست ہو اس کے لیے کچھ دے دینا کیامشکل ہے۔ مشکل تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کی ضروریات وسیع ہوتی ہیں۔ جن کی تمدنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بوجہ عادی ہونے کے آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور تکلیف سے گزارہ نہیں کرسکتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قربانی نہ دولت و مال پر منحصر ہے اور نہ تنگدستی اور مفلسی کا نتیجہ۔ بلکہ اس کا تعلق انسان کے قلبی ایمان کے ساتھ ہوتا ہے جس کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہو اس کے لیے قربانی کی راہ میں نہ اس کی غربت حائل ہو سکتی ہے نہ کثرت اموال۔
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج3ص568)
2۔ (سیر انصارج2ص14ص)
3۔ (اسد الغابہ ج2ص138، 139 )
4۔ (اسد الغابہ ج۱ص305)
5۔ (سیر انصارج۱ص168، 169)
6۔ (ابن سعدج 8ص22)
7۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃسیف البحر۔۔۔ )
8۔ (ابن سعدج3ص162)
9۔ (اسد الغابہ ج5ص573، 574)
10۔ (ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء فی الوصیۃ فی الثلث و الربع)
11۔ (ابو داؤد کتاب الوصایا باب ما جاء فی ما لا یجوز للموصی فی مالہ)
12۔ (اسد الغابہ ج 2ص475، 479)
13۔ (فتح الباری ج ص )
14۔ (اصابہ ج3 ص430)
15۔ (اسد الغابہ ج3 ص377، 378)
16۔ (اسد الغابہ ج3 ص379)
17۔ (اسد الغابہ ج3 ص379)
18۔ (بخاری کتاب الاجارہ باب ھل یواجر الرجل نفسہ من مشرک)
19۔ (اسد الغابہ ج3 ص234، 235)
20۔ (ابن سعد ج3ص100)
21۔ (فتح الباری ج7 ص24)
22۔ (ابن سعد ج1ص122)
23۔ (ابن سعد ج1ص137)
24۔ (استیعاب ج3 ص157)
25۔ (مستدرک حاکم ج3 ص103)
26۔ (اسد الغابہ ج6 زیر لفظ خنسا)
شوق جہاد فی سبیل اللہ
1
حضرت سعد الاسود کے متعلق دوسری جگہ بتایا جاچکاہے کہ انہیں حصول رشتہ میں سخت مشکلات پیش آئی تھیں۔ اور آخر آنحضرتﷺ کی تجویز پر حضرت عمروبن وہب کی لڑکی نے آپ کے ساتھ رشتہ منظور کرلیا تھا۔ ہر شخص باآسانی اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک ہمہ صفت موصوف پاکباز لڑکی کے ساتھ اس قدر تگ ودو اور کوشش کے بعدرشتہ میں کامیابی ان کے لیے کس قدر مسرت کا موجب ہوئی ہوگی۔ اور کس طرح ان کا دل امنگوں اور آرزوؤں سے لبریز ہوگا۔ تقریب رخصتانہ کی تکمیل کے سلسلہ میں آپ بیوی کے لیے بازار سے تحائف خریدنے کے لیے نکلے۔ اور عین اس وقت کہ آپ نہایت خوش آئند خواب کو پورا ہوتا دیکھنے کے سامان فراہم کرنے میں مصروف تھے۔ منادی کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ یا خیل اللّٰہ ارکبی وبا لجنۃ البشری۔ یعنی اے خدا تعالیٰ کے سپاہیو! جہاد کے لیے سوار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت پاؤ۔ اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ تمام ولولے سرد پڑے گئے جہاد کاجوش رگوں میں دوڑنے لگا۔ اور نوعروس کے ساتھ شادی کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ اسی روپیہ سے تحائف کی بجائے تلوار، نیزہ اور گھوڑا خرید کیا۔ سر پرعمامہ باندھا اور مہاجرین کے لشکر میں جاکر شامل ہوگئے۔ وہاں سے میدان جنگ میں پہنچے اور داد شجاعت دینے لگے۔ ایک موقعہ پر گھوڑا کچھ اڑا تو نیچے اتر آئے اور پاپیادہ تیغ زنی کرنے لگے۔ حتیٰ کہ درجہ شہادت پایا اور نوعروس سے ہم آغوش ہونے کی بجائے عروس تیغ سے ہمکنار ہوئے۔ آنحضرتﷺ کوخبر ہوئی تو لاش پرتشریف لے گئے۔ آپ کا سر گود میں رکھ لیا۔ اور دعا فرمائی اورتمام سامان مرحوم کی بیوی کے پاس بھجوادیا۔
یہ واقعہ کسی حاشیہ آرائی یا تبصرہ کا محتاج نہیں۔ وہ نوجوان جو دین کے لیے بلائے جانے پر عذر تراشتے اور بہانے تلاش کرتے ہیں انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
2
حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے جہادی کارناموں سے تاریخ کے اوراق مزین ہیں۔ شام پر فوج کشی ہوئی تو فحل کے معرکہ میں شامل تھے اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے تھے۔ سر سینہ اور تمام جسم زخموں سے چھلنی ہو چکا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ ہمدردی کہاکہ اس طرح اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں نہ ڈالیں تو جواب دیا کہ لات و عزیٰ کے لیے تو جان پر کھیلا کرتا تھا اور آج خدا اوررسول کے لیے لڑنے کا وقت آیا ہے تو کیا جان کو عزیز رکھوں۔ خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
3
معرکہ یرموک میں حضرت خالد بن ولید نے حضرت عکرمہ کو ایک دستہ کاافسر مقرر کیا۔ دشمن بہت زبردست تھا اور اس نے ایسا حملہ کیا کہ مجاہدین اسلام کے قدم ڈگمگا گئے۔ حضرت عکرمہؓ نے یہ حالت دیکھی تو بہ آواز بلند پکارا کہ کون موت پر بیعت کرتا ہے۔ فوراً چار سو جان باز سامنے آموجود ہوئے اور خدا کی راہ میں جانیں لڑا دینے کا عزم کر کے دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اپنے اس عہد کو ایسی دیانت داری سے نبھایا کہ اکثر نے شہادت پائی۔ اور جو باقی بچے وہ بھی زخموں سے چور چور تھے۔
4
حضرت واثلہ بن اسقع ایک نوجوان صحابی تھے۔ جو 9ھ میں اسلام لائے چند ہی روز بعد غزوہ تبوک کی تیاری شروع ہوئی۔ اور مجاہدین سر سے کفن باندھ باندھ کر میدان کی طرف روانہ ہوگئے لیکن اس نو مسلم کے پاس سواری نہ تھی۔ بہت کوشش کی مگر کوئی صورت نہ بن سکی۔ ادھر شوق جہاد نے بے تاب کر رکھا تھا۔ مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار صدائیں لگانے لگے کہ کون شخص مجھے مال غنیمت کے عوض تبوک پہنچانے کا ذمہ لیتا ہے۔ اتفاق سے ایک انصاری بزرگ ابھی روانہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے حامی بھری اور کہا کہ میں لے چلوں گا۔ کھانا بھی دوں گا اور سواری بھی۔ اس طرح آپ میدان جنگ میں پہنچے اور جہاد میں شامل ہوئے۔
5
حضرت ابو محجن ثقفی بہت آخر زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس لیے ان کا ذکر عہد فاروقی میں ہی نظر آتا ہے۔ جس زمانہ میں ایران پر مسلمانوں نے فوج کشی کی یہ کسی وجہ سے قید تھے۔ لیکن جہاد کے شوق نے اس قدر بے تاب کر دیاکہ قید سے فرار ہو کر میدان جنگ میں جا پہنچے۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے سپہ سالار لشکر اسلام حضرت سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ انہیں گرفتار کرکے قید کر دیاجائے۔ چنانچہ وہیں قید کردئیے گئے۔
جب جنگ قادسیہ لڑی جارہی تھی یہ اس وقت پابند سلاسل تھے۔ لیکن میدان جنگ کے واقعات سن کر رگوں میں خون جوش مارہاتھا۔ حضرت سعد کی بیوی حضرت سلمیٰ سے کہا کہ مجھے آزاد کردو کہ میدان میں جاکر داد شجاعت دوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زندہ بچ گیا تو خود بخود آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔ انہوں نے انکار کیا تو ایسے درد انگیز اشعار پڑھنے لگے کہ حضرت سلمیٰ کا دل بھر آیا۔ اور انہوں نے آزاد کردیا۔ چنانچہ میدان جنگ میں جا پہنچے۔ اور ایسی شجاعت سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمنوں کی صفیں الٹ دیتے۔ صحابہ کرام آپ کی شجاعت کو دیکھ کر عش عش کر رہے تھے۔
6
غزوہ بدر کے وقت حضرت انسؓ کی عمر صرف بارہ برس تھی مگر میدان جنگ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ پہنچے۔ اور آپ کی خدمت بجا لاتے ہوئے غزوہ احد کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی۔ لیکن اس میں بھی شریک ہوئے۔
7
حضرت ابو سعیدؓ خدری کی عمر غزوہ احد کے وقت صرف تیرہ سال تھی مگر لڑائی میں شامل ہونے کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے۔ آپ نے سر سے پاؤں تک دیکھا اور فرمایا کہ بہت کم سن ہیں لیکن باپ نے ہاتھ پکڑ کر آنحضرتﷺ کو دکھایا کہ پورے مرد کا ہاتھ ہے۔ تاہم آپ نے اجازت نہ دی لیکن اس سے یہ بات واضح ہے کہ صحابہ کرام دینی خدمات کو اس قدر ضروری اور قابل فخر سمجھتے تھے کہ اپنے بچوں کو اس کا موقعہ دلانے کے لیے نہایت حریص رہتے تھے۔ اور ان کو آگے کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ سعادت حاصل ہوجائے۔ ہمارے زمانہ میں جو لوگ نہ صرف خود پیچھے ہٹتے بلکہ اپنی اولاد کو بھی اپنے گھروں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کی اپنی اولادوں سے محبت ہم سے کسی طرح کم نہ تھی۔ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے۔ ان کے پہلو میں بھی دل تھے۔ جو ہم سے زیادہ پدری شفقت سے لبریز تھے۔ مگر جوش ایمان اور خدمت اسلام ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب تھی۔
8
حضرت ابو سعید خدریؓ کی عمر غزوہ خندق کے وقت صرف پندرہ سال تھی مگر شریک جنگ ہوئے اور بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دی۔ اسی طرح غزوہ بنی مصطلق میں بھی کم سنی کے باوجود شریک ہوئے۔
9
حضرت براء بن عازب غزو ہ بدر کے وقت بہت کم سن تھے۔ مگر جوش ایمان پورے جوش پر تھا۔ اس لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر آپ نے شرکت کی اجازت نہ دی۔
10
حضرت رافع بن خدیج کی عمر غزوہ بدر کے وقت صرف چودہ سال کی تھی مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر شریک جنگ ہونے کی اجازت طلب کی۔ مگر آپ نے کمسنی کی وجہ سے واپس کر دیا۔ اگلے سال اجازت ملی لیکن ایک اور نوعمر لڑکے سمرہ بن جذب کو آنحضرتﷺ نے کم سنی کی وجہ سے اجازت نہ دی۔ تو اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپؐ نے رافع کو اجازت دے دی ہے حالانکہ میں کشتی میں اس کو گرالیتا ہوں۔ آنحضرتﷺ کو اس بات کا بہت لطف آیا اور فرمایا کہ اچھا سمرہ سے کشتی کرو۔ چنانچہ دونوں میں کشتی ہوئی اور آپ نے حضرت رافع کو پچھاڑ دیا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے اجازت دے دی۔
11
آنحضرتﷺ جب غزوہ بدر کے لیے نکلے تو کئی کم عمر بچے بھی شوق جہاد میں ساتھ ہوئے۔ جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ آنحضرتﷺ نے مدینہ سے تھوڑی دور باہر آکر فوج کا جائزہ لیا تو بچوں کو واپسی کا حکم دیا۔ حضرت عمیر نے یہ حکم سنا تو لشکر میں ادھر ادھر چھپ گئے لیکن آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ اور آپ نے واپسی کا ارشاد فرمایا۔ جسے سن کر آپ روپڑے۔ اس شوق اور تڑپ کو دیکھتے ہوئے آخر آپ نے اجازت دے دی۔
ذرا غور فرمائیے کہ انسان کو اپنی جان کس قدر عزیز ہوتی ہے لیکن صحابہ کرام اس طرح ایسے مواقع پر میدان میں نکلنے کی کوشش کرتے تھے جن میں جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتاتھا۔ اور زندہ سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید بالکل موہوم ہوتی۔ ہمارے زمانہ میں باوجود یہ کہ جانی خطرات بہت کم ہیں اور تبلیغ کے لیے نکلنے والوں کا تھوڑے سے عرصہ کے بعد زندہ سلامت گھر آجانے کا امکان بہت زیاد ہ ہوتا ہے۔ تاہم بعض لوگ اس سے جی چراتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اورپھر اسلام کی کس مپرسی کا بھی رونا روتے رہتے ہیں۔ اور یہ نہںا دیکھتے کہ جس راہ پر چل کر صحابہ کرام نے عزت حاصل کی اور اسلام کا علم بلند کیا اسے اختیارکیے بغیر وہ کامیابی کی امید کس طرح رکھ سکتے ہیں۔
12
حضرت عبدالرحمن بن عوف سے احادیث میں ایک ایسا واقعہ بیان ہے جسے پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مجاہدین اسلام کی جان بازی پر جرات و بسالت بھی آفرین کہتی ہے۔ آپ روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں صفیں آراستہ ہوئیں اور حملہ عام ہونے لگا تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ماری تو دونوں جانب انصار کے دو جوان لڑکے پائے۔ ان کو دیکھ کر مجھ پر افسردگی سی طاری ہوگئی میں نے خیال کیا کہ جنگ میں دونوں پہلو جب تک مضبوط نہ ہوں لڑائی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو مضبوط ہوں اور جب میرے دونوں پہلو اس قدر کمزور ہیں کہ دو کم سن اور نوعمر بچے کھڑے ہیں تو میرے لیے کوئی قابل ذکر لڑائی کرنے کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی یہ خیال کرہی رہا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے آہستہ سے ایسے انداز میں کہ وہ دوسرے لڑکے سے اخفاء رکھنا چاہتا ہے پوچھا کہ چچا وہ ابوجہل کون ہیں جو مکہ میں آنحضرتﷺ کو بہت تکالیف پہنچایا کرتے تھے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اسے قتل کروں گا۔ اور یا پھر اس مردود کو قتل کرنے کی کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ میں نے اس کے سوال کا ابھی جواب نہ دیا تھا کہ دوسرے نے بھی بالکل اسی انداز میں یہی سوال کیا۔ ان بچوں کے اس بلند ارادہ کو دیکھ کر میں حیران ہوگیا اور خیال کرنے لگا کہ بھلا یہ بچے اپنے عہد کو کس طرح پورا کرسکتے ہیں۔ جبکہ ابو جہل قریش کے بڑے بڑے نامی پہلوانوں اور آزمودہ کار سپاہیوں کے حلقہ میں ہے۔
تاہم میں نے ان کو ہاتھ کے اشارہ سے ابوجہل کا پتہ دے دیا۔ میرا اشارہ ہی کرنا تھا کہ وہ دونوں نوعمر بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفوں کو کاٹتے ہوئے چشم زدن میں ابوجہل پر جاپڑے اور اس پھرتی سے اس پر حملہ کیا کہ آن واحد میں اس سرکش انسان کا مغرور سر خاک پر تھا اور یہ سب کچھ ایسا آناً فاناً ہوا کہ ابو جہل کے ساتھی دیکھتے ہی رہ گئے۔ عکرمہ بھی اپنے باپ کے ہمراہ تھے۔ اسے تو وہ نہ بچا سکے مگر ان دونوں میں سے ایک لڑکے یعنی حضرت معاذ پر حملہ آور ہوئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ ان کا ایک بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔ اس قدر شدید زخم کھانے کے باوجود معاذ پیچھے نہیں ہٹا بلکہ عکرمہ کا پیچھا کیا لیکن وہ بچ کر نکل گئے۔ معاذ نے جنگ بدستور جاری رکھی۔ اور چونکہ کٹا ہوا ہاتھ لڑنے میں روک ہو رہا تھا اس لیے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگے۔
13
صحابہ جہاد میں شرکت کے لیے کس قدر حریص ہوئے تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ حضرت سعد بن خشبہ جنگ بدر کے وقت کم عمر تھے۔ تاہم شرکت کے لیے تیار ہوگئے۔ چونکہ آپ کے والد بھی میدان جنگ میں جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ضرور گھر پررہنا چاہیے اور بیٹے کو گھر رہنے کے لیے کہا۔ بیٹے نے جواب دیا کہ اگر حصول جنت کے علاوہ کوئی اور موقعہ ہوتا تو بسر وچشم آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتا اور اپنے آپ پر آپ کو ترجیح دیتا لیکن اس معاملہ میں میں ایسا کرنے کے لیے نہیں ہوں۔ آخر فیصلہ اس بات پر ٹھہرا کہ قرعہ ڈال لیا جائے۔ چنانچہ قرعہ میں بیٹے کا نام نکلا۔ وہ شریک ہوئے اور شہادت پائی۔
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج 4 ص202)
2۔ (اسد الغابہ ج ۳ ص568، 569)
3۔ (تاریخ طبری ص 2100)
4۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد)
5۔ (استیعاب ج 4 ص311)
6۔ (اسد الغابہ ج 1 ص177)
7۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی مصطلق)
8۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی مصطلق)
9۔ (بخاری کتاب المغازی ص565)
10۔ (تاریخ طبری ص 1392 )
11۔ (اصابہ ج4 ص603)
12۔ (سیرت خاتم النبیینؐ ص362)
13۔ (سیر انصار ج2ص 34)


آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و فدائیت
رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کو جو عشق اور تعلق فدائیت تھا اس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ صرف چند ایک واقعات درج کر کے بتایا جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ آپ پر فدا ہونے کے لیے ہر وقت اسی طرح تیار رہتے تھے جس طرح پروانہ شمع پر۔
مردوں کی فدائیت تو کجا مسلم خواتین کو بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ ایسا بے نظیر اخلاص تھا کہ وہ حضور کے وجود کو اپنے تمام اقرباء سے زیادہ قیمتی تصور کرتی تھیں۔ جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتﷺ بمع صحابہ کرام کے شام کے قریب مدینہ کو واپس ہوئے۔ چونکہ اس جنگ میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ آنحضرتﷺ نے شہادت پائی ہے اس لیے مدینہ کی عورتیں عالم گھبراہٹ میں گھروں سے نکل کر رستہ پر کھڑی تھیں۔ اور عالم بے تابی میں منہ اٹھا اٹھاکر دیکھ رہی تھیں کہ اس طرف سے کوئی آتا ہوا دکھائی دے اور وہ آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کریں۔ ایک انصاری عورت نے ایک شخص سے جو اسے احد سے واپس آتا ہوا دکھائی دیا آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کیا۔ اس کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ حضور صحیح و سالم ہیں۔ اس نے اس عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ تمہارا باپ شہید ہوگیاہے۔ لیکن جس طرح اس مرد نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی تشویش نہ ہونے کی وجہ سے اس عورت کے سوال کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی طرح اس عورت نے اپنی بے تابی کے باعث اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر حضور علیہ اسلام کے متعلق پوچھا۔ اس نے پھر اپنے اطمینان قلب کے باعث اس کی تشویش کا اندازہ نہ کرتے ہوئے اسے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ کہا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو چکاہے۔ مگر اسکے نزدیک یہ خبر بھی چنداں اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اس کی نظر میں باپ اور بھائی بہن سب اس وقت ہیچ نظر آرہے تھے اور ایک ہی خیال تھا کہ اس محبوب حقیقی کی حالت سے آگاہ ہو۔ اس لیے اس نے اس خبر کو بھی نہایت بے التفاتی سے سنا اور نہایت بے تابی کے ساتھ پھر وہی سوال دھرایا۔ یعنی آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کیا کہ آپؐ کیسے ہیں لیکن اب بھی اس کو اس بے چاری کے جذبات کا احسا س نہ ہوسکا۔ اور بجائے اس کے کہ اسے آنحضرتﷺ کی خیریت کی خبر سنا کر اس کے دل کو راحت پہنچاتا اسے اس کے خاوند کی شہادت کی اندوہناک خبرسنائی۔ مگر اس خبر نے بھی جو اس کے خرمن امن کو جلا کر خاکستر کر دینے کے لیے کافی تھی اس شمع نبوت کے پروانہ پر کوئی اثر نہ کیااور اس کی توجہ کو نہ ہٹایا۔ اس نے پھر نہایت بے تابی کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خیریت دریافت کی۔ اور بے چین ہو کر بولی کہ مجھے ان خبروں کی ضرورت نہیں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون مرا، کون جیتا ہے مجھے تو صرف یہ بتاؤ کہ رسول خدا ﷺ کا کیا حال ہے۔ آخر جب اس کے پاس اس کے متعلقین کے تعلق کوئی اور خبر نہ رہی تو اس نے اسے بتایا کہ آنحضرتﷺ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں اور صحیح و سالم تشریف لا رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر اس کی جان میں جان آئی او باوجود یکہ ایک لمحہ پہلے وہ اپنے تمام خاندان کی تباہی کی خبر سن چکی تھی لیکن آنحضرتﷺ کی سلامتی کی خبر نے تمام صدمات کو اس کے دل سے محو کردیا۔ اورایک ایسی راحت اور تسکین کی لہر اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی کہ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ کل مصیبۃ جلل۔ یعنی اگر آپ زند ہ ہیں تو پھر سب مصائب ہیچ ہیں۔
2
صحابہ کرام کا آنحضرتﷺ کے ساتھ عشق کا اندازہ ایک اور واقعہ سے کریں۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ کاچہرہ مبارک زخمی ہوا تو حضرت مالک بن سنان نے بڑھ کر خون کو چوسا اور ادب کے خیال سے چوسے ہوئے خون کو زمین پر پھینکنا گوارا نہ کیا بلکہ اسے پی گئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھنا چاہے جس کا خون میرے خون سے آمیز ہو تو وہ مالک بن سنان کو دیکھے۔ اس کے بعد حضرت مالک نے نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہادت حاصل کی۔
3
جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرتﷺ ایک تیر کے ساتھ اسلامی لشکر کی صفیں درست کر رہے تھے۔ ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے بڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے تیر کے اشارہ سے انہیں پیچھے ہٹنے کو کہا تو اتفاق سے تیر کی لکڑی آہستہ سے ان کے سینہ میں لگی۔ انہوں نے جرأت کر کے عرض کیا۔ کہ یا رسول اللہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا۔ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ صحابہ کرام ان کی اس بات پر دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسے گستاخانہ کلمات ادا کرنے والی زبان کاٹ ڈالیں۔ گو ادب کی وجہ سے بولتے نہ تھے۔ ان کے یہ جذبات بھی اس عشق کا نتیجہ تھے جو ان کو اپنے ہادی ﷺ کے ساتھ تھا۔ لیکن اپنی محبت کے باعث وہ اس محبت کا اندازہ نہ کرسکتے تھے جس کا چشمہ حضرت سواد کے دل میں ابل رہاتھا۔ اور جس سے مجبور ہو کر انکے منہ سے یہ گستاخانہ الفاظ نکلے تھے۔ آنحضرتﷺ جو سراپا انصاف اور مساوات تھے کب اس بات کو گوارا کرسکتے تھے کہ کسی شخص کے دل میں خیال رہے کہ آپ نے اس سے زیادتی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے فوراً فرمایا کہ بہت اچھا تم مجھ سے بدلہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا سینہ ننگا تھا۔ جس وقت آپ کا تیر مجھے لگا۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے بھی اپنے سینہ مبارک سے کپڑا ٹھا دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیائے عشق و محبت میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ حضرت سواد آگے بڑھے اور نہایت ادب کے ساتھ اپنے پیارے محبوب کے سینہ مبارک کو چوم لیا۔ اور اس طرح اپنی بے قرا ر روح کی تسکین حاصل کی۔ یہ دیکھ کر آنحضرتﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔ حضرت سواد نے رقت بھری آواز میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ زبردست دشمن کے ساتھ مقابلہ ہے جنگ کا میدان ہے اور کوئی دم معرکہ کارزار گرم ہونے والا ہے خدا جانے کون زندہ رہتا ہے اور کسے شہادت کا درجہ نصیب ہوتا ہے معلوم نہیں۔ پھر اس مقدس وجو د کو دیکھنے کاموقعہ ملتا ہے یا نہیں۔ میرے دل میں یہ خیالات موجزن تھے کہ معلوم نہیں پھر اس مقدس و اطہر جسم کو چھونے کی سعادت کبھی حاصل ہو سکے گی یا نہیں اس لیے میں نے چاہا کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ آپ کے جسم مبارک کو تو چھولوں اور اس کے لیے میرے دل نے یہی صورت تجویز کی۔
4
حضرت سعد بن ربیع جنگ احد میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ جنگ کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت ابی بن کعب کو انکے متعلق دریافت حال کے لیے بھیجا۔ وہ تلاش کرتے ہوئے بڑی مشکل سے آپ تک پہنچے۔ حضرت سعد اس وقت حالت نزع میں تھے۔ حضرت ابی نے ان سے دریافت کیا کہ کوئی پیغام ہو تو دے دو۔ اب ہر شخص اپنے دل میں غور کرے کہ ایسی حالت اگر اسے پیش آئے تو وہ کیا پیغام دے گا۔ یقینا اس کے سامنے اس وقت اس کے بیوی بچے عزیز و اقارب مال اور جائیداد اور لین دین کے معاملات ایک ایک کر کے آتے جائیں گے۔ اور اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے جس قدر تفصیل سے ممکن ہو بیوی بچوں کے مستقبل، ان کے ساتھ اظہار محبت و الفت، تلقین صبر و رضا، جائداد و املاک کے مناسب انتظام وغیرہ وغیرہ امور کے متعلق ہدایات دینا ضروری سمجھے گا لیکن اس سعید نوجوان نے عین اس وقت جبکہ اسے اپنی موت نہایت ہی قریب نظرآرہی تھی اوروہ دیکھ رہا تھا کہ بہت تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی آنکھیں بند ہو جائیں گی، طاقت گویائی سلب ہو جائے گی اور اس کے لیے اپنے متعلقین کے واسطے کوئی پیغام دینا ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن باوجود اس کے اس وقت نہ اس کے سامنے اپنی بیوی کی بیوگی آئی، اور نہ اس کے سامنے بچوں کی یتیمی، کہ ان کے تعلق میں کوئی جملہ زبان سے نکالتا۔ اور اس نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا پیغام پہنچا دینا اور میری قوم سے کہنا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول خداﷺ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو یاد رکھنا کہ خدا تعالیٰ کے حضور تمہارا کوئی جواب مسموع نہ ہوگا۔ یہ الفاظ کہے اور جان دے دی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
5
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا۔ اور سودا طے ہوگیا لیکن لوگوں کو اس کا علم نہ تھا۔ اس لیے حضور جب تشریف لے جا رہے تھے تو کسی نے اسے زیادہ قیمت پیش کر دی۔ اس نے چاہا کہ آنحضرتﷺ کے ساتھاس کا جو سودا طے ہو چکا ہے اسے کسی بہانہ سے فسخ کر دے۔ چنانچہ اس نے حضور کو آواز دی کہ آپ گھوڑا لیتے ہیں تو لیں ورنہ میں اسے کسی اورکے پاس بیچ دوں گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم تو میرے پاس گھوڑا فروخت کر چکے ہو اور سودا مکمل ہو چکاہے۔ مگراس نے انکار کیا اور کہا کہ ہرگز نہیں میں نے کوئی سودا نہیں کیا۔ اگر جیسا کہ آپؐ کہتے ہیں۔ سودا ہو چکا ہے تو کوئی گواہ پیش کریں۔ عین اس وقت ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابت وہاں آنکلے اور یہ گفتگو سنی۔ جب آنحضرتﷺ سے اس شخص نے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں گواہ ہوں کہ یہ سودا ہو چکا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کس طرح شہادت دیتے ہوکیا تم سودا ہونے کے وقت موجود تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ جب ہم آپؐ پر ایمان لے آئے ہیں تو اس بات پر یقین کر کے ایمان لائے ہیں کہ حضورؐ راستباز اور پاکبازہیں۔ اور جب ایسی اہم باتوں میں آپ کی صداقت کی تصدیق کر چکے ہیں تو پھر ایسی معمولی سی بات میں آپؐ کے راستی پر ہونے کی تصدیق میں کوئی تامل کیسے ہوسکتا ہے۔
6
جنگ احد کے بعد بعض لوگوں کا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کراپنے قبائل میں تعلیم دین کے لیے قراء بھیجنے کی درخواست کرنے اور پھر ان کو ساتھ لے جاکر بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دینے کے واقعہ کا ذکر اس کتاب میں کسی دوسری جگہ آچکا ہے۔ ان ستر قراء میں سے صرف دو زندہ بچے تھے جنہیں کفارنے اسیر کرلیا تھا۔ اور ان میں سے ایک حضرت زیدؓ تھے جنہیں صفو ان بن امیہ کے پاس فروخت کردیا گیا۔ صفوان نے انہیں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس لیے خریدا تھا کہ شہید کر کے اپنے جذبہ انتقام کو فرو کرے۔ چنانچہ اس نے ان کے شہید کرنے کا انتظام کیا۔ انہیں مقتل میں لے جایا گیا۔ اورعین اس وقت جبکہ وہ موت سے ہم آغوش ہونے کے لیے تیار کھڑے تھے ایک شخص نے کہاکہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہمارے قبضہ میں ہوں اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو تو تمہیں یہ بات پسند ہے یا نہیں۔ حضرت زید نے نہایت لاپروائی کے ساتھ جوا ب دیا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ آنحضرتﷺ کا نعوذ باللہ ظالموں کے پنجہ میں اسیر ہو کر مقتل میں کھڑا ہونا تو درکنار خدا کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ محمد ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے۔ اور میں گھر میں بیٹھا ہوں۔ ابو سفیان یہ جواب سن کر عش عش کر اٹھا اور کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کے ساتھی آپ سے جتنی محبت کرتے ہںئ دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
7
صحابہ کرام سفر و حضر میں آنحضرتﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک سفر کے موقعہ پر ایک جگہ پڑاؤ ہوا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ پانی کا انتظام کرلو ورنہ صبح تکلیف اٹھاؤ گے۔ چنانچہ لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نکل گئے۔ آنحضرتﷺ اپنے اونٹ پر تشریف فرما تھے کہ نیند کا غلبہ ہوا اور آپ سو گئے۔ حضرت ابوقتادہ پاسبانی کے لیے پاس بیٹھے رہے اور حضور نیند میں جس طرف جھکتے ابو قتادہ اس طرف سہارا دے دیتے۔ تا حضور کی استراحت میں فرق نہ آئے۔ ایک دفعہ جو سہارا دیا تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ اور آپ نے فرمایا۔ ابو قتادہ تم کب سے میرے ساتھ ہو۔ انہوں نے جواب دیا شام سے۔ آپؐ نے فرمایا۔ حفظک اللّٰہ کما حفظت رسولہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جس طرح تم نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے۔
8
حضرت انسؓ کے متعلق پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ آٹھ دس سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کی خدمت پر مامور ہوئے تھے لیکن اس کمسنی کے باوجود آپ پر پروانہ وارفدا تھے۔ اور نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ نماز فجر سے قبل اٹھ کر مسجد نبوی میں پہنچتے۔ اور حضور کے تشریف لانے سے قبل حضور علیہ السلام کے لیے پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کر کے حاضر رہتے۔
9
حضرت ابو طلحہؓ نے بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ جنگ احد میں جب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو آنحضرتﷺ کے گردوپیش بہت تھوڑے آدمی رہ گئے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے اس وقت نہایت جان نثاری کا ثبوت پیش کیا۔ اور اپنی جان پر کھیل کر حضور کی حفاظت کرتے رہے۔ دشمن کی طرف سے جو تیر آتا اسے اپنے ایک ہاتھ پر روکتے تھے اور جب نیزا آکرلگتا تو ہاتھ کو ادھر ادھر جنبش دینا تو درکنار منہ سے بھی اف تک نہ کرتے تھے۔ مبادا حرکت پیدا ہو اورہاتھ سامنے سے ہٹ جائے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کو کوئی گزند پہنچ جائے۔ آپ نے اسی ایک ہاتھ پر اس قدر تیر کھائے کہ وہ بالکل شل ہوگیا۔
10
جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے ارشاد الٰہی کے ماتحت صحابہ کرام کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ یقینا کوئی جنگ پیش آنے والی ہے۔ جب مدینہ سے باہر آگئے تو صحابہ کرام کو جمع کر کے تمام حالات ان کو بتائے اور ان سے مشورہ دریافت فرمایا کہ اب ہمیں کیا راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اکثر صحابہؓ نے نہایت پرجوش تقریریں کیں اور کہا کہ ہمارے مال اور جانیں سب راہِ الٰہی میں حاضر ہیں۔ ہم ہر وقت اور ہر میدان میں خدمت کے لیے تیار ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو۔ کیا کرنا چاہیے۔ اس پر صحابہ نے پھر اپنی فدائیت اور جاں نثاری کا یقین دلایا۔ اور ایک صحابی حضرت مقداد بن اسود نے نہایت پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یا رسول اللہ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ جبکہ آپؐ جہا ں بھی چاہتے ہیں ہمیں لے چلیں ہم آپ کے دائیں لڑیں گے اوربائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے اورپیچھے لڑیں گے اوردشمن آپ تک نہ پہنچ سکے گا۔ جب تک کہ ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے مگر ان تقریروں کے باوجود آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے۔ اس پر ایک انصاری حضرت سعدبن معاذ نے کہا کہ یا رسول اللہ شاید آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ اور بات بھی دراصل یہی تھی۔ انصار کے ساتھ چونکہ معاہدہ یہی تھا کہ مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں و ہ دفاع کریں گے اور اب مدینہ سے باہر لڑائی کا امکان تھا۔ آنحضرتﷺ کو اس معاہدہ کا خاص خیال تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ انصار کو اس سے زیادہ کے لیے مجبور کریں۔ جتنی ذمہ داری اٹھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اس لیے آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے تو اب اس معاہدہ کاکیا ذکر وہ تو اس وقت تک کے لیے تھا جب تک کہ ہمیں آپؐ کی پوری معرفت حاصل نہ تھی۔ اب تو ہم آپ کو خود دیکھ چکے ہیں اس لیے آپؐ جہاں فرمائیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا ارشادفرمائیں تو ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ ہٹے گا۔
11
حضرت زبیر بن العوامؓ صرف سولہ برس کے تھے جب اسلام قبول کیا لیکن حد درجہ مستقل مزاج اور جان نثار تھے۔ آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص فدائیانہ تعلق رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے مشہور کر دیا کہ مشرکین نے آنحضرتﷺ کو نعوذ باللہ گرفتار کرلیاہے۔ حضرت زبیر کو یہ خبرپہنچی تو بے تاب ہو گئے اور باوجود یکہ مکہ میں مسلمانوں کی حالت اس وقت نہایت کمزور تھی آپ تلوار لے کر لوگوں کو چیرتے ہوئے حضور کی خدمت میں جا پہنچے۔ حضورؐ نے دیکھا تو دریافت فرمایا کہ کیا بات تھی۔ آپ نے سارا واقعہ سنایا۔ تو حضور بہت خوش ہوئے۔
12
پہلے بھی یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ صحابہ کرام آنحضرتﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جنگ احد میں اس خاص نازک موقعہ پر جن لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے محبوب رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت حاصل کی ان میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے۔ اس معرکہ میں آپ کے بدن پر بیس زخم آئے۔ مگر آپ نے قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ پاؤں میں ایک ایسا کاری زخم لگا تھا کہ مندمل ہونے کے بعد بھی اس کا اثرقائم رہا اور ہمشہ کے لیے پاؤں لنگڑا ہوگیا تھا۔ آنحضرتﷺ جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو اکثر حضرت عبدالرحمن بھی پیچھے پیچھے ہولیتے تھے۔ ایک نخلستان میں پہنچ کر آنحضرتﷺ سجدہ میں گر گئے۔ اور اس قدر لمبا سجدہ کیا کہ حضرت عبدالرحمن کو خیا ل گزرا کہ شاید روح اطہر قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ محبت کی وجہ سے یہ خیال آتے ہی بے تاب ہوگئے اور گھبرا کر قریب آئے۔ پاؤں کی آہٹ پاکر آنحضرتﷺ نے سر اٹھایا۔ اور دریافت فرمایا کہ کیابات ہے حضرت عبدالرحمن نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ بیان کی۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ سجدہ شکر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا وہ خود اس پر درود بھیجے گا۔
13
آنحضرتﷺ جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو حضرت بلالؓ خدمت کے لیے ہمرکاب رہتے اورہاتھ میں بلم لے کر آگے آگے چلتے تھے۔ آپ کی ناداری او افلاس ایک معروف بات ہے۔ تاہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اس کے اظہار کے لیے آپؐ کی دعوت کا بہت شوق رہتا تھا۔ چنانچہ محنت ومزدوری سے کچھ نہ کچھ اس غرض سے پس انداز کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ نہایت اعلیٰ درجہ کی خوش ذائقہ کھجوریں لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلال یہ کہاں سے حاصل کیں۔ عرض کیا، یا رسول اللہ میرے پاس کھجوریں تو تھیں مگر بہت خراب اور حضو ر کے پیش کرنے کے ناقابل۔ اس لیے میں نے ان کھجوروں کے دو صاع دے کر یہ ایک صاع حاصل کی ہیں۔ تا حضور کو پیش کرسکوں۔ آئندہ کے لیے گو حضور نے اس قسم کے سودے سے منع فرمادیا تاہم اس سے آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کی محبت کا باآسانی اندازہ کیا جاسکتاہے۔
14
حضرت زید بن حارثؓ گو ایک اچھے خاندان کے نونہال تھے مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بچپن ہی میں ان کی متاع آزادی کو چھین لیا۔ اور عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے لے آئے۔ جہاں حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے حضور پیش کردیا اور اس طرح آپ آنحضرتﷺ کے حضور پہنچے۔
ایک دفعہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ بہ نیت حج مکہ میں آئے تو انہیں پہچان لیا اور جاکر ان کے والد کو خبر دی۔ جس پر اس کا خوش ہونا ایک طبعی بات تھی چنانچہ وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ میں پہنچا۔ اور آنحضرتﷺ سے بصد منت و الحاح عرض کیا کہ میرے لڑکے کو آزاد کردیں۔ اور جو فدیہ چاہیں لے لیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ فدیہ کی ضرورت نہیں زید کو بلا کر پوچھ لیاجائے اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
چنانچہ حضرت زید کو بلایا گیا۔ اور آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے والد اور چچا ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔ ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ بچپن میں ہی والدین، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے چھوٹ جانے والے کو اتنے لمبے عرصہ کی مایوسی کے بعد جب پھر ان سے ملنے کا موقعہ ملے اور پھر اپنے محبو ب وطن میں جاکر ماں باپ، بہن بھائیوں دوسرے رشتہ داروں، دوست، احباب اور بچپن کے ہم جولیوں سے آزادانہ طور پر ملنے جلنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ اس کے رستہ میں حائل نہ ہو تو اس کے جذبات ایسے وقت میں کیا ہوسکتے ہیں۔ سامنے باپ اور چچا کھڑے تھے اور اس یقین کے ساتھ ان کے دل بھرے ہوئے تھے کہ ہمارا لخت جگر اب ہمارے ساتھ جائے گا۔ جدائی کی دلگداز گھڑیاں ا ب ختم ہونے کو ہیں اور پھر اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہوگا۔ وہ تاعمر ہمارے پاس ہی رہے گا۔ وہ یہ وہم بھی نہ کرسکتے تھے کہ جب زید کو آنحضرتﷺ جانے کا اختیار دے رہے ہیں تو اسے اس میں کوئی تامل ہوسکتا ہے مگر حضرت زید نے جواب دیا کہ میں حضور پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آپ ہی میرے باپ اور ماں ہیں۔ آ پ کے در کو چھوڑ کر میں کہیں جانا پسند نہیں کرتا۔ اس جواب کو سن کر ان کے والد اور چچا محو حیرت ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ زید کیا تم ہم پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ حضرت زید نے کہا کہ ہاں مجھے اس ذات پاک میں ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں کہ اس پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
15
اہل عرب کا خیال تھا کہ کسی کا پاؤں سن ہو جائے تو اگر وہ اپنے محبوب کو یا دکرے تو یہ کیفیت دور ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر کا پاؤں سن ہوا تو کسی نے کہا کہ اپنے محبوب کو یاد کریں۔ تو انہوں نے جھٹ کہا۔ یا محمد۔
یہ ایک ذوقی بات ہے۔ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے جس سے صحابہؓ کی فدائیت اور آنحضرتﷺ کے ساتھ ان کے انتہائی عشق کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔
16
کفار جب آنحضرتﷺ پر تشدد کرتے تو بسا اوقات حضرت ابوبکرؓ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کی سعادت حاصل کرتے۔
ایک دفعہ آنحضرتﷺ خانہ کعبہ میں تبلیغ فرما رہے تھے کہ قریش سخت برہم ہوئے۔ اور آپ پر حملہ آور ہوئے۔ اس وقت قریش کے غصہ کا پارہ اگرچہ انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ان سے تعرض کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا تھا تاہم حضرت ابوبکرؓ کے جذبہ جان نثاری نے جوش مارا اور آپؐ نے آگے بڑھ کر قریش کو بہت *** ملامت کی اور فرمایا۔ خدا تم لوگوں سے سمجھے کیا تم آپؐ کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ آپ ایک خدا کا نام لیتے ہیں۔
17
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کافر عقبہ بن معیط نے اپنی چادر کا حضور کے گلے میں پھندا ڈال ڈیا لیکن عین اس وقت حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے۔ اور اس بدبخت کی گردن پکڑ کر آپ سے علیحدہ کی اور فرمایا: کیا تم اس شخص کو قتل کردو گے جو تمہارے پا س خدا تعالیٰ کی کھلی نشانیاں لایا ہے اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔
18
آنحضرتﷺ جب ہجرت کے اراد ہ سے مکہ سے نکلے اور غار ثور میں پناہ گزین ہوئے تو اس غار کے تمام سوراخ اگرچہ نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے تاہم ایک سوراخ باقی رہ گیا۔ آنحضرتﷺ حضرت ابو بکر کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرمارہے تھے کہ اتفاقاً اس سوراخ میں سے ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے محبوب آقاکے آرام میں کوئی معمولی خلل بھی گوارا نہ کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر خوشی اور مسرت کے جذبات سے اس سوراخ پر پاؤں رکھ دیا جس پر سانپ نے کاٹ لیا۔ زہر اثرکرنے لگا مگر آپ نے پھر بھی حضور کے آرام کا اس قدر خیال رکھا کہ اف تک نہ کی۔ اور معمولی سی معمولی حرکت بھی آپ سے سرزد نہ ہوئی۔ تا آنحضرتﷺ کے آرام میں خلل نہ آئے۔ لیکن درد کی شدت بے قرار کر رہی تھی۔ اس لیے آنکھوں سے آنسو گر گئے۔ جن کا ایک قطر ہ آنحضرتﷺ کے رخسار مبارک پر گرا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے لعاب دہن اس مقام پر لگایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے زہر دور ہوگیا۔
19
حضرت ام عمارہ ایک صحابیہ تھیں۔ غزوہ احد میں جب ایک اچانک حملہ کی وجہ سے بڑے بڑے بہادران اسلام کے پاؤں تھوڑے سے وقت کے لیے اکھڑ گئے تو وہ آنحضرتﷺ کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئیں۔ کفار آپ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بے جگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے۔ ادھر آپ کے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے۔ جو آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے۔ ایسے نازک اور خطرناک موقعہ پر حضرت ام عمارہ آپ کے لیے سینہ سپر تھںپ۔ کفار جب آنحضرتﷺ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام عمارہ کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قیمہ جب آنحضرتﷺ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا۔ اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا۔ اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہوجاتا۔
20
آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے اخلاص کو دیکھ کر وہ عیسائی مورخین بھی جو مسلمانوں اور ان کے مذہب پر خواہ مخواہ اعتراض پیدا کرتے رہتے ہیں اس کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ ایک عیسائی مورخ لکھتا ہے کہ
"عیسائی اس کو یاد رکںی تو اچھا ہو کہ محمد کے مسائل نے وہ درجہ نشہ دین کا آپ کے پیروؤں میں پیدا کردیا تھا کہ جس کو حضرت مسیح کے ابتدائی حواریوں میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ جب حضرت مسیح کو یہود صلیب پر لٹکانے گئے تو ان کے پیرو بھاگ گئے اور ان کا نشہ دینی جاتا رہا۔ اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دئیے۔ برعکس اس کے محمدﷺ کے پیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ کو غالب کردیا"۔
آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے عشق و فدائیت کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ صحابہ کرام آپ کی حفاظت کے لیے ظاہری انتظامات سے بھی غافل نہ ہوتے تھے۔ اور کبھی اس خیال میں نہ رہتے تھے کہ جب آپ اس قدر مقرب بارگاہ الٰہی ہیں تو وہ خود آپ کی حفاظت کرے گا۔ اور آنحضرتﷺ کے متعلق ایسے واقعات اور انتظامات کی موجودگی کے باوجود حیرت ہے کہ آج کل بعض لوگ ایسے انتظامات کو توکّل کے منافی قراردیتے ہوئے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ جب آپ کے لیے بھی ایسے انتظامات ضروری تھے تو آپ کے جانشین یا اس کے خلفاء کے لیے وہ کیونکر ناجائز ہو سکتے ہیں۔
بے شک یہ صحیح ہے کہ اس زمانہ میں جنگیں درپیش نہیں ہیں لیکن کیا حفاظت صرف جنگ کے موقع پر ہی ضروری ہوتی ہے۔ اور عام حالات میں نہیں۔ کیا ہمارے زمانہ میں باوجود ایک آئینی حکومت ہونے کے حملوں اور قاتلانہ حملوں کے واقعات نہیں ہوتے۔ بالخصوص جب مذہبی مخالفت انتہائی شدت پر ہو۔ اور مطلب پرست مولویوں نے جاہل عوام الناس کو مذہب کے نام پر سخت مشتعل کر رکھا ہو۔ حتیٰ کہ اپنے مخالفوں کی جان لینے کے جواز کے فتوے صادر کردئیے ہوں۔ تو ان کی موجودگی میں حفاظت کے معمولی انتظامات جنہیں زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر کہا جاسکتا ہے کیونکر توکّل کے منافی سمجھے جاسکتے ہیں اور ان پر ایک دیانت دار اور خدا ترس انسان کیونکر معترض ہو سکتا ہے۔
پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی انتظام کیا جائے تو و ہ تقویٰ اور توکّل کے منافی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف یہ جائز اور بالکل ضروری ہے بلکہ اس سے غفلت برتنا اور آنحضرتﷺ کے نور کے حقیقی مشعل برداروں کی جان کی حفاظت کے انتظامات سے غفلت برتنا بہت بڑا قومی جرم ہے۔
حوالہ جات
1۔ (سیرۃ ابن ہشام ج3 ص105)
2۔ (سیر انصار جلد 1 ص185)
3۔ (سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر)
4۔ (موطا کتاب الجہاد باب ترغیب فی الجہاد )
5۔ (مسند احمد بن حنبل ج5 ص215)
6۔ (سیر انصارجلد 1 ص363)
7۔ (مسند احمد بن حنبل ج5 ص298)
8۔ (سیر انصارجلد ۱ ص168، 169)
9۔ (سیر انصارجلد 1 ص160)
10۔ (سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر)
11۔ (اسد الغابہ ج2 ص130)
12۔ (مسند احمد بن حنبل ج1ص191)
13۔ (بخاری کتاب الکفالہ باب اذا باع الو کیل شیئا۔۔۔ )
14۔ (ابن سعد ج1 ص28)
15۔ (ادب المفرد )
16۔ (بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابو بکر)
17۔ (بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب ذکر ما لقی النبی ﷺ و اصحابہ من المشرکین بمکۃص )
18۔ (زرقانی ج1 ص335)
19۔ (سیرۃ ابن ھشام ذکر احد)







حلم اور جھگڑوں سے اجتناب
صحابہ کرام میں اسلامی تعلیم نے ایسی محبت اور یگانگت پیدا کر دی تھی کہ باہمی جھگڑوں سے بہت بچتے تھے۔ اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے پڑ کر جو عام لوگوں میں خطرناک فسادات پیدا کردیتی ہیں قومی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ اور کسی بھائی کی طرف سے اگر کوئی ناخوشگوار بات پیدا ہوتی تو نہایت تحمل اور بردباری کا ثبوت دیتے تھے۔ دراصل ان کی عظیم الشان طاقت اور قوت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ باہم نفاق اور تفرقہ پیدا نہ ہونے دیتے تھے کیونکہ یہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو قومی قوت اور طاقت کو تباہ کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم کے افراد باہم دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ آمادہ پیکار ہوں وہ مخالف اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتی ہے۔ چندواقعات ملاحظہ ہوں۔
1
حضرت قیسؓ بن عاصم المنقری اپنے قبیلہ کے رئیس تھے۔ ایک مرتبہ ایسا واقعہ ہوا کہ ان کے لڑکے کو ان کے بھائی کے لڑکے یعنی ان کے بھتیجے نے قتل کردیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی صدمہ نہیں ہوسکتا۔ ایسے موقع پر بڑے بڑے تحمل اور بردبار لوگ بھی ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ لوگ مقتول کی لاش اور اس کے ساتھ قاتل کو گرفتار کرکے ان کے پاس لے آئے۔ ہر شخص غورکرسکتا ہے کہ نوجوان فرزند کی لاش اگر سامنے پڑی ہو ئی ہو تو اس کے دل کی کیفیت کیاہوسکتی ہے۔ اوروہ کس طرح قاتل کو ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ایسے صدمات کے موقعہ پر کمزور سے کمزور اور بے بس سے بے بس انسان بھی خطرناک اقدام کر گزرے ہںی۔ لیکن حضرت قیسؓ نے ہر قسم کی طاقت اور سامان رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی بلکہ صرف اتنا کیا کہ اپنے بھتیجے کو بزرگانہ انداز میں نصیحت کی۔ اس کے فعل کی شناعت کو اس پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے کتنا برا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی اور اس طرح گنہگار ہوئے۔ اور اس کے علاوہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرکے قطع رحمی کی اور اپنی خاندانی طاقت کی کمزوری کا موجب ہوئے۔ بس اس کے بعد آپ نے اپنے دوسرے لڑکے سے کہا کہ اس کی مشکیں کھول دو اور بھائی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو۔
جو لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں سے برسوں تنازعات کرتے رہتے ہیں ان کے لیے اس واقعہ میں بڑا سبق ہے۔
2
حضرت حذیفہ بن الیمان ایک نوجوان صحابی تھے۔ اپنے والد کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ ایک موقعہ پر مشرکین اور مسلمانوں کے مابین ان کے والد آگئے۔ مسلمانوں نے مشرکین پرحملہ کیا تو حذیفہ نے آواز دی کہ دیکھنا سامنے میرے والد ہیں۔ لیکن یہ آواز مسلمانوں تک نہ پہنچ سکی۔ اور یوں بھی جب گھمسان کی جنگ ہو رہی ہو اور دو فریق ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں۔ دور سے آئی ہوئی کسی بیرونی آواز کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی اور ایک مسلمان کے ہاتھوں نادانستہ طور پر حضرت حذیفہ کے والدشہید ہوگئے۔ حضرت حذیفہ کو علم ہوا تو بجائے اس کے کہ کوئی جھگڑا وغیرہ کھڑا کرتے صرف اتنا کہا۔ یغفر اللّٰہ لکم۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے۔
اس واقعہ کے ساتھ اگر اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اسلام سے قبل عربوں کی ذہنیت کیا تھی اور وہ کس طرح کتیا کے بچوں کی موت پر برسوں برسرپیکاررہتے تھے تو اس عظیم الشان انسان پر بے ساختہ درود بھیجنے کو دل چاہتا ہے جس نے ان کے اندر ایسا عظیم الشان اور پاکیزہ تغیر پیدا کردیا۔
3
ایک دفعہ دو صحابیوں یعنی امرٔا لقیس اور ربیعہ بن عبدان حضرمی کے مابین کسی زمین کی ملکیت کے بارے میں تنازعہ پیدا ہوگیا۔ جس میں ربیعہ نے بحیثیت مدعی آنحضرتﷺ کے حضور شکایت کی۔ آپ نے ان سے ثبوت طلب فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تم ثبوت پیش نہ کرسکو گے تو ربیعہ سے قسم لے کر ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ لیکن امرء القیس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو شخص اپنا حق سمجھتے ہوئے اسے چھوڑ دے اسے کیا اجر ملے گا۔ آپ نے فرمایا جنت۔ اس پر امرء لقیس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں اس زمین سے ربیعہ کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔
4
حضرت عروہ بن مسعود کو بعض لوگوں نے زخمی کر دیا تھا اور وہ آخری دموں پر تھے کہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ ان کے خون کا بدلہ لینے کی تیاریاں کرنے لگے۔ انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے خود اپنا خون معاف کردیا۔ میرے بارے میں کوئی جنگ و جدل نہ کرو میں چاہتا ہوں کہ تمہارے درمیان مصالحت رہے۔
5
صحابہ کرامؓ اکثر جھگڑے کے مواقع کو حلم و برداشت سے کام لے کر ٹال دیتے تھے۔ اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے درمیان مقدمات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ حضرت سلمان بن ربیعہ باہلی کوفہ کے قاضی تھے۔ ان کی نسبت حضرت ابووائل کا بیان ہے کہ میں ان کے پاس مسلسل چالیس روز تک آتا جاتا رہا۔ لیکن ان کے یہاں کسی فریق مقدمہ کو کبھی نہیں دیکھا۔
6
مروان برسرعام منبرپر چڑھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔ حضرت امام حسنؓ اس کی باتوں کو اپنے کانوں سے سنتے۔ اور خاموش رہتے تھے۔ ایک مرتبہ اس نے کسی شخص کے ذریعہ آپ کو نہایت فحش باتیں کہلا بھیجیں۔ آپ نے سنیں تو فرمایا اس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں اسے گالی کا جواب گالی سے دے کر اس پر سے دشنام دہی کا داغ نہیں مٹاؤں گا۔ آخر ہم دونوں نے ایک روز احکم الحاکمین کے حضور جانا ہے اور وہی منتقم حقیقی جھوٹے سے اس کے جھوٹ کا بدلہ لے گا۔
سیرت صحابہؓ کا یہ پہلو ہمارے زمانہ میں خاص طورپر قابل توجہ ہے۔ عام مسلمانوں میں آج تحمل و بردباری کا فقدان ہے جس کی ایک بڑی وجہ کسی نظام کا موجود نہ ہونا ہے چونکہ و ہ ایک ایسے منتشر گلہ کی طرح ہیں جس کا کوئی نگہبان نہیں۔ اس لیے قومی وحدت اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی قومی شوکت کے احساس سے بالکل عاری ہو کر ذرا ذرا سی باتوں پر طول طویل تنازعات بلکہ مقدمات میں مبتلا رہتے ہںل۔ اور اس طرح اپنی اقتصادی بدحالی کے باوجود بہت سا روپیہ ضائع کرنے کے علاوہ اپنا وقت اور قوت عمل بھی ضائع کرتے ہیں۔ اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے علماء اور مذہبی رہنما ان کے سامنے ان کے بزرگوں کا اسوہ پیش نہیں کرتے اور انہیں کبھی یہ بتانے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ان کے آباؤاجداد کا کیا طریق عمل تھا۔ اور وہ ایسے موقع پر کس طرح حیرت انگیز حلم کا ثبوت دیتے تھے۔
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج 4ص 126، 127 )
2۔ (بخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا)
3۔ (اسد الغابہ ج1ص 160)
4۔ (ابن سعد زکر عروہ بن مسعود)
5۔ (اسد الغابہ ج 2ص281)
6۔ (تار یخ الخلفاء سیوطی ص189)











اطاعت امیر
صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایک چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے اوروہ یہ کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے۔ اور اپنے علم و فضل کے باوجود ان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشرنہ ہونے دیا۔ اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بے بسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران ہوتے تھے۔ اس ضمن میں چند ایک اہم واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔
1
ایک دفعہ حضرت عمار نے حضرت عمر کے سامنے ایک حدیث بیان کی۔ حضرت عمر نے آپ کو ٹوکا۔ لیکن اپنی بات کامل وثوق کے باوجود انہوں نے امام وقت کے ساتھ اختلاف کی جرات نہیں کی۔ بلکہ نہایت پشیمانی کے ساتھ عرض کیا۔ یا امیر المومنین! اگر آپ فرمائیں تو آئندہ میں کبھی اس حدیث کی روایت نہ کروں گا۔
2
ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حج کے متعلق لوگوں کو کوئی فتویٰ دیا۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ ابھی ٹھہر جائیے کیونکہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اس کے متعلق کچھ اور بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فوراً لوگوں سے کہا کہ میرے فتویٰ پر عمل نہ کرو۔ امیر المومنین تشریف لا رہے ہیں ان کی اقتداء کرو۔
3
ایک بار حضرت عثمان نے منیٰ میں چار رکعت نماز ادا کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان سے اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہاں دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اور ان کے بعد حضرت عمرؓ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس لیے میں تو چار رکعتوں پر دو کو ہی ترجیح دوں گا لیکن جب وقت آیا تو خود بھی چار رکعتیں ہی پڑھیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ تو اس مسئلہ میں حضرت عثمانؓ سے اختلاف رکھتے تھے اور اب خود بھی ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ قول و فعل میں اس تفاوت کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اختلاف بری چیز ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چونکہ ا س جگہ مکان بنالیا تھا۔ اس لیے آپ اپنے آپ کو مسافر کی حیثیت میں نہ سمجھتے تھے اس لیے قصرکی بجائے پوری نماز ادا کرنا ضروری خیال فرماتے تھے۔
4
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اتباعِ سنت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس لیے جب منی۔ میں تنہا نماز پڑھتے تو قصرکرتے تھے۔ لیکن جب امام کے ساتھ نماز کا اتفاق ہوتا تو چار رکعت ہی ادا فرماتے تھے۔ اور فرماتے کہ اختلاف سے بچنا چاہیے۔
5
ایک بار حضرت ابوبکرؓ ایک شخص پر بہت ناراض ہوئے۔ پاس ایک صحابی بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا امیر المومنینؓ اگر ارشاد ہو تو اس کی گردن اڑا دوں۔ جب حضرت ابوبکرؓ کا غصہ فرو ہوا تو اس سے پوچھا کہ اگر میں کہتا تو کیا تم واقعی اس کو مار ڈالتے۔ انہوں نے جواب دیا یا امیرالمومنین ضرور ماردیتا۔
اس کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ واقعہ اس زمانہ کے تمدن کے مطابق ہے اور اس کے اندراج سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک خلیفہ وقت کی خوشنودی اس قدر اہم چیز تھی کہ اس کی ناراضگی اور خفگی کے مورد کو وہ قابل گردن زدنی سمجھتے تھے۔ گو یہ ثابت نہیں کہ صرف اسی طرح اختلاف کے اظہار کرنے والے کو کبھی بھی سزا دی گئی۔ تاہم اس سے اس روح کا پتہ ضرو چلتا ہے جو ان لوگوں کے قلو ب میں موجو دتھی۔
یہ چند ایک واقعات صرف اس نقطہ نگاہ سے درج کیے گئے ہیں کہ بتایا جاسکے کہ دین متین کے وہ اولین حامل دینی امور میں خلفاء اور امراء کی آراء کے سامنے کس طرح اپنے علم و فضل کے خیال کو ترک کر کے بلاچون و چرا ان کے پیچھے ہو لیتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث یا تکرار کا خیال بھی دل میں نہ لاتے تھے۔ اور دراصل جب تک یہ روح موجود نہ ہو اور ذاتی آراء کے ماتحت خلفاء کے ساتھ اختلافات کا دروازہ کھول دیا جائے تو خلافت کا منشاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا اور تسکین دین کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
یہ امر نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض علماء کہلانے والے محض ذاتی عداوت و رقابت کی بناء پر آج حریت ضمیر اور مساوات اسلامی کا تقاضا یہی سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ کسی بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اعلیٰ درجہ کا ایمان یہی ہے کہ فوراً اس پر اعتراض کر دیا جائے۔ اور اس کے لیے وہ سطحی خیالات اور معمولی علمیت رکھنے والے ایک دو لوگوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے خلیفہ وقت کے متعلق کوئی اعتراض دل میں پیدا ہونے کی صورت میں برملا اور بھری مجلس میں اس کا اعلان ضروری سمجھا۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ لوگ دینی لحاظ سے کسی ممتاز اور نمایاں حیثیت کے مالک ہرگز نہ تھے۔
اس کے مقابلہ میں ہم نے جو مثالیں پیش کیں ہیں وہ جلیل القدر صحابہؓ کی ہیں۔ جو نہایت ارفع دینی مقام پر کھڑے تھے اور اس لیے انہی کے اسوہ کی تقلید ہمارے لیے کسی نفع کا موجب ہوسکتی ہے۔
ا سکے علاوہ صحابہ آنحضرتﷺ نیز خلفاء و امراء کے احکام کی تعمیل جس مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ کرتے تھے اگرچہ وہ بھی اپنی شان میں بے نظیر ہے۔ لیکن اس جگہ اس کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ دوسرے عنوانات کی ذیل میں اس کی مثالیں آپ کو ضرور مل سکیں گے۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اسلامی مجاہدین مرتدین کی سرکوبی میں مصروف تھے تو حضرت خالد بن ولید سجاح بنت الحرث مدعیہ سے مقابلہ کر رہے تھے کہ میدان جنگ میں مالک بن نویرہ سے سامنا ہوا۔ اور حضرت خالد بن ولید کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔ یہ میدان جنگ کا ایک معمولی واقعہ ہے لیکن بعض مسلمانوں کی رائے تھی کہ مالک مسلمان تھا۔ اور اس کی بستی سے اذان کی آواز آئی تھی۔ اس لیے اس کا قتل ناجائز ہے۔ ایک صحابی حضرت ابوقتادہ نام حضرت خالد بن ولید کی فوج میں شامل تھے اور وہ بھی اسی رائے کے موید تھے کہ مالک مسلمان تھا اور اس کا قتل ناجائز ہے چنانچہ وہ اس قتل پر بہت برہم ہوئے اور اس پر ناراضگی کے طور پر بلا اجازت لشکر سے علیحدہ ہو کر مدینہ چلے آئے۔ اور یہاں آکر شکایت کی کہ خالد مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ مدینہ میں بعض اکابر صحابہ حتی کہ حضرت عمر بھی ابوقتادہ کے ہم خیال تھے۔ اور چاہتے تھے کہ حضرت خالد بن ولید سے قصاص لیا جانا چاہیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے تمام حالات سنے او رفرمایا قطع نظر اس سے کہ خالد مجرم ہے یا نہیں۔ ابوقتادہ کے جرم میں کوئی شبہ نہیں کہ و ہ امیر فوج کے حکم اور اجازت کے بغیرواپس آگئے ہیں۔ اور حکم دیا کہ و ہ فوراً واپس جائیں اور حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہو کر ان کے ہر ایک حکم کو بلا چون و چرا بجا لائیں۔ چنانچہ انہیں واپس جانا پڑا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اطاعت امیر کس قدر ضروری چیز ہے اور امیر کے ساتھ اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں بھی کسی کو اس کی اطاعت سے انحراف کی اجازت نہیں۔
افسوس کہ آج مسلمانوں میں اول تو کوئی امیر ہی نہیں اور ان کی پستی کی سب سے اہم ترین وجہ یہی ہے۔ لیکن اگر کسی کو امیر بنا بھی لیں تو اسکی اطاعت ان کے لیے محال ہے۔ احمدیوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ایک نظام میں منسلک کر کے ایک واجب الاطاعت امام کے ماتحت کیا ہے۔ اور یہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر وہ اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نعمت سے فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ بلا چون و چرا اطاعت امیر کی جائے۔
حوالہ جات
1۔ (ابوداؤد کتاب الطہارت)
2۔ (نسائی کتاب الحج)
3۔ (ابوداؤد کتاب المناسک)
4۔ (مسلم کتاب الصلوۃ)
5۔ (ابوداؤد کتاب الحدود)







سوال سے نفرت بے نیازی اور سیر چشمی
صحابہ کرامؓ کے دلوں میں آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ پر جو ایمان پیدا کر دیا تھا وہ انہیں تنگ سے تنگ حالت میں بھی انسان کے سامنے جھکنے نہیں دیتا تھا اس لیے وہ سوال کو سخت معیوب سمجھتے تھے۔ اس کی چندمثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
1
حضرت مالکؓ نے جنگ احد میں شہادت پائی تو ان کے فرزند حضرت ابو سعید خدری کی عمر اس وقت صرف تیرہ سال تھی۔ باپ نے کوئی جائداد نہ چھوڑی تھی کہ جس سے بسر اوقات ہوسکتی۔ فاقہ پر فاقہ آنے لگا حتی کہ کئی بار پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرنا پڑا۔ ایک روز ان کی والدہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺکے پاس جاؤ۔ آج انہوں نے فلاں شخص کو دیا ہے تم بھی مانگو۔ ماں کے حکم کے ماتحت وہ حضورکی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت حضور خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص تنگی کی حالت میں صبر کرے اللہ تعالیٰ اسے غنی کرے گا۔ یہ سن کر حضرت ابو سعید نے دل میں کہاکہ جب میرے پاس ایک اونٹنی موجود ہے تو مجھے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ واپس آگئے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بات ان کے حق مںا پوری کی اور اس قدررزق دیا کہ تمام انصار سے دولت و ثروت میں بڑھ گئے۔
2
حضرت ثوبان ایک غلام تھے جنہیں آنحضرتﷺ نے خرید کر آزاد کردیا تھا۔ اور نصیحت فرمائی تھی کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرنا۔ چنانچہ انہوں نے اس ارشاد پر اس قدر شدت سے عمل کیا کہ اگر کبھی سواری کی حالت میں کوڑا زمین پر گرجاتا تو کسی سے یہ بھی نہ کہتے کہ پکڑا دو بلکہ خود اتر کر پکڑتے تھے۔
3
ایک مرتبہ چند صحابہؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو دیگر شرائط بیعت کے علاوہ آپ نے ایک شرط یہ پیش کی کہ لاتساَلو الناس شیئا۔ یعنی لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ اور ان لوگوں نے نہایت سختی کے ساتھ اس ارشادپر عمل کیا۔
4
ایک بار حکیم بن حزام نے آنحضرتﷺ سے کچھ سوال کیا جسے آپ نے پورا کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے پھر مانگا اور آپ نے پھر دیا لیکن ساتھ نصیحت فرمائی کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہرحال بہتر ہے۔ حضرت حکیم نے اس نصیحت کو سن کر عہد کیا کہ آئندہ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ اور اس عہد پر اس شدت سے عمل کیا کہ نہ صرف یہ کہ اس کے بعد کسی سے کچھ مانگا نہیں بلکہ اگر خود بخود پیش کیا جاتا تو اسے قبول کرنا باعث عار سمجھ کر رد کردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اپنے عہد خلافت میں ان کو عطیہ دینے کے لیے طلب فرماتے تو وہ انکار کردیتے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اپنے زمانہ میں ان کو عطیہ دینا چاہا مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ آخر حضرت عمرؓ نے کہا کہ مسلمانو! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں مگر وہ خود نہیں لیتے۔
5
حضرت مالک بن سنان کو سوال سے اس قدر نفرت تھی کہ ایک مرتبہ تین روز تک بھوکے رہے لیکن کسی سے کچھ مانگا نہیں۔
6
ایک مرتبہ عبدالعزیز بن مروان نے حضرت عبداللہ بن عمر کو لکھا کہ اپنی ضروریات مجھے پیش کریں۔ میں پوری کروں گا۔ انہوں نے جواب مںا لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہترہے۔ خیرات اس شخص سے شروع کرو جس کے تم کفیل ہو میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔
7
ایک بار حضرت وائل بن حجر حضرت امیر معاویہ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو عطیہ دینا اوروظیفہ مقرر کرنا چاہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں مجھ سے زیادہ مستحق لوگوں کو دو۔
8
حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن ارقم کو تیس ہزار درہم دینا چاہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
9
مال خمس میں سے ایک حصہ اہل بیت کو ملا کرتا تھا جس کا انتظام اور تقسیم وغیرہ حضرت علیؓ کے سپرد تھی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ بہت سا مال آیا۔ تو آپ نے حسب معمول اہل بیت کا حصہ حضرت علیؓ کو دینا چاہا۔ مگر انہوں نے کہا کہ اس سال تو ہم اس سے بے نیاز ہیں جو مسلمان مستحق ہیں یہ بھی ان میں تقسیم کردیں اور حضرت عمر نے وہ حصہ بیت المال میں داخل کردیا۔
آنحضرتﷺ کے ان صریح ارشادات اور بزرگوں کے اسوہ کے باوجود جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج گداگروں اور بھیک منگوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمان کہلانے اور امت محمدیہ میں اپنا شمار کرانے والوں کی ہے تو ہر غیرت مند اور باحیا مسلمان کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔
حوالہ جات
1۔ (مسند احمد ج3 ص380)
2۔ (مسند احمد ج6 ص373)
3۔ (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)
4۔ (بخاری کتاب الزکوۃ)
5۔ (اسد الغابہ ج4 ص234)
6۔ (مسند احمد ج6 ص4)
7۔ (استیعاب ج4 ص123)
8۔ (استیعاب ج3 ص4)
9۔ (ابو داؤد کتاب الخراج)



شوق تحصیل علم
کون نہیں جانتا کہ عرب جاہلیت کا مرکز تھا جس میں تعلیم کا نام و نشان بھی مشکل سے ملتا تھا۔ لیکن نورِ ایمان کے ساتھ مسلمانوں کے اندر حصول علم کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہوگیا جس نے نہ صرف یہ کہ ان کی کایا پلٹ دی بلکہ دنیا بھر کے علوم کا ان کو بانی بنا دیا۔ یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس پر کئی ضخیم جلدیں لکھی جاسکتی ہیں مگر یہ اس کا موقعہ نہیں۔ اس لیے صرف بطور نمونہ چند نوجوان صحابہ کی علمی شان کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
1
حضرت ابوہریرہ کا جو مرتبہ علم حدیث میں ہے اس سے سب دنیا واقف ہے۔ مگر شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہوگا کہ آپ نے عین جوانی میں یعنی تیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اور اس زمانہ میں جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے بکھرنے والے موتیوں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کے جوش میں تمام جذبات کو مار کر ایک بے نوا فقیر کی طرح اپنے آپ کو حضور کے قدموں میں ڈال دیا۔ اور سایہ کی طرح ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے۔ کئی کئی فاقے گزر جاتے مگر پیٹ پر پتھر باندھ کر اس وجہ سے سجدہ ہی میں پڑے رہتے کہ ایسا نہ ہو کھانے کی فکر میں باہر جائں اور بعد میں آنحضرت ﷺ باہر تشریف لاکر کوئی بات ارشاد فرمائیں اور اس کے سننے سے محروم رہ جائیں۔ فاقہ کی وجہ سے کئی بار غش کھا کھا کر گرتے۔ اور لوگ خیال کرتے کہ آپ مرض مرع کے مریض ہیں۔ حالانکہ یہ حالت صرف بھوک کے باعث ہوتی تھی۔ اسی جانفشانی کانتیجہ ہے کہ آپ سے مرویات کی تعداد 5374 ہے۔
(اصابہ جلد 7۔ صفحہ 205)
2
آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت اسامہ بن زید کی عمر صرف بیس سال تھی لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ آ پکا سینہ اقوال النبی ﷺ کا خزینہ تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کو جس بات میں شک ہوتا اس کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (بخاری جلد 1۔ صفحہ 414)
3
حضرت عثمان بن ابی العاص آنحضرت ﷺ کے آخری زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ اوراس وقت آپ کی عمر بھی بہت چھوٹی تھی مگر علمی پایہ کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ حضرت عمرؓ فرمایاکرتے تھے کہ یہ لڑکا تفقہ فی الاسلام اور علم القرآن کا بڑا حریص ہے۔ کم سنی کے باوجود امتیاز کے باعث آنحضرت ﷺ نے آپ کو بنی تقیف کا امام مقرر فرمایا تھا۔
(تہذیب الناس صفحہ220)
4
حضرت ابو سعید خدری کی عمر گو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم آپ سے 1170 احادیث مروی ہیں جس سے اندازہ کیا جاکتا ہے کہ وہ حصول علم کاکس قدرشوق رکھتے تھے۔
5
حضرت سعد بن زراہ کو آنحضرت ﷺ نے بوجہ ان کی علمیت کے بنو نجار کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ بلحاظ سن و سال آپ سب نقیبوں میں سے چھوٹے تھے۔
(اسد الغابہ جلد1۔ صفحہ 71)
6
حضرت جابر بن عبداللہ کی عمر قبولِ اسلام کے وقت صرف 1819۔ سال تھی۔ لیکن تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن انیس کو ایک حدیث یاد ہے۔ حضرت عبداللہ اس وقت شام میں رہتے تھے۔ حضرت جابر نے ایک اونٹ خریدا اور اس حدیث کو سننے کے لیے ان کے پاس شام میں پہنچے۔ اسی طرح ایک حدیث حضرت مسلمہ امیر مصر کو یادتھی اوراسکی خاطر حضرت جابر ان کے پاس مصر پہنچے۔ (فتح الباری جلد 1۔ صفحہ159)
7
حضرت زید بن ثابت نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ سترہ سورتیں حفظ کر چکے تھے۔ عرب کے نوجوان ابتدائی زندگی جس طرح گزارتے تھے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک اچنبھا بات تھی۔ اس لیے لوگ آپ کو آنحضور کی خدمت میں لے گئے۔ حضور ﷺ نے آپ سے قرآن سنا تو نہایت مسرور ہوئے۔
8
حضرت زیدبن ثابت جن کا ذکر مندرجہ بالا واقعہ میں ہو چکا ہے نہایت ذکی اور فہیم تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس بعض خطوط سریانی اور عبرانی میں آتے ہیں جن کااظہار کسی پر مناسب نہیں ہوتا۔ اور یہ زبانیں سوائے یہود کے کوئی نہیں جانتا بہتر ہے کہ تم یہ زبان سیکھ لو۔ چنانچہ آپ سیکھنے لگے۔ اور اس قدر شوق اور محنت سے کام لیا کہ پندرہ ہی روز میں خطوط پڑھنے اور ان کا جواب لکھنے پر قادرہوگئے۔ (سند جلد5۔ صفحہ 186)
9
حضرت سہل بن سعد کی عمرآنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم تحصیل علم کے شوق کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آپ سے 1188 احادیث مروی ہیں۔ (سیر انصاریہ جلد 2۔ صفحہ 6)
10
حضرت عمرو بن خرم نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھالیکن علمی قابلیت اصابت رائے اور قوت فیصلہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ بیس سال کی عمر میں ہی آنحضرت ﷺ نے آپ کو نجران کا حاکم مقرر کر کے بھیجا۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ 117)
11
حضرت عمیر بن سعد آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس قدر کمسن تھے کہ غزوہ میں شرکت نہ کرسکے۔ تاہم صحابہ میں بلحاظ علم و فضل ایسا بلند مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھے عمیر جیسے چند آدمی اور مل جاتے تو امور خلافت میں ان سے بہت مدد ملتی۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ120)
12
مسلم نوجوانوں کو قرآن سیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے کسی خاص غرض کے ماتحت حفاظ کی مردم شماری کرائی۔ تو معلوم ہوا کہ فوج کے ایک دستہ میں تین سو سے زائد حفاظ تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن)
13
حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم شباب یعنی 32 سال کی عمر میں انتقال کیا تھا مگر اس عمر کو عام طو پر نفسانی خواہشات کے غلبہ کی عمر سمجھی جاتی ہے۔ آپ نے جس پاکبازی کے ساتھ بسرکیا اس کا انداز اس امرسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر جب انتقال فرمانے لگے تو لوگوں نے کہا کہ کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں مگر آ پ نے فرمایا کہ کاش معاذ زندہ ہوتے تو ان کو خلیفہ مقرر کر جاتا۔ نیز آپ فرمایا کرتے تھے کہ عجزت النساء ان یلدن مثل معاذ یعنی عورتیں معاذ کا ثانی پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ (سیر انصار جلد 2 صفحہ 184) اس کے علاوہ آپ مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ (کنز العمال 134) مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے آپ کو یمن کا امیر مقرر فرمایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کے نزدیک آپ کا علمی اور عقلی پایہ بہت بلندتھا۔ (مسند جلد5۔ صفحہ 235)
14
حضرت مجمع بن جاریہ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا تھا جو اگرچہ فی زمانہ کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی لیکن اس زمانہ کے تمدن کے لحاظ سے بہت بڑی بات تھی (اسد الغابہ جلد4۔ صفحہ203) زہد و تقدس کی وجہ سے اپنی قوم میں امام تھے۔ آپ کا باپ ہی مسجد ضرار کا بانی تھا۔ مگر آپ نے باوجود کم سنی کے اسلامی تعلیم کی روح کو ایسی عمدہ طرح اخذ کیا ہوا تھا کہ باپ کا قطعاً کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ 204)
15
حضرت نعمان بن منذر کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آٹھ سال کی تھی لیکن حضور علیہ السلام کے حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہتے اور انہیں یاد رکھتے تھے۔ منبر کے بالکل قریب بیٹھ کر وعظ سنتے تھے۔ ایک مرتبہ دعویٰ سے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق اکثر صحابہ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں۔ (مسند جلد4۔ صفحہ269)
16
حضرت سمرہ بن جندب عہد نبوت میں بالکل صغیر السن تھے۔ مگر سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں لکھا ہے کہ کان من الحفاظ المکثرین عن رسول اللّٰہ ﷺ یعنی آپ حدیث کے حافظ اور آنحضرتﷺ سے کثیر روایت کرنے والے تھے۔ (استیعاب جلد 2۔ صفحہ 579)
17
حضرت عمر کے متعلق لکھا ہے کہ مدینہ سے کسی قدر فاصلہ پر اقامت رکھتے تھے مگر تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ ایک روز خود آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوتے اور دوسرے روز اپنے پڑوسی حضرت عتبان بن مالک کو بھیجتے۔ تاکہ کسی روز بھی حضور کے ارشادات سننے سے محروم نہ رہیں۔ آپ واپس آکر اس روز کی بات پڑوسی کو سناتے اور دوسرے روز ان سے خودسنتے۔ (بخاری کتاب العلم)
18
مدینہ سے باہر رہنے والے مسلمان قبائل اپنے میں سے بعض کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔ جو دربار رسالت میں کچھ عرصہ حاضر رہ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر واپس جاکر اپنے قیبلہ کو سکھاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ88)
19
اصحاب الصفہ نہایت غریب اور نادار لوگ تھے جو گزارہ کے لیے محنت شاقہ پرمجبور تھے۔ چنانچہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور باہر سے شہر میں پانی بھر کر لاتے۔ اور اس طرح قوت لایموت کا انتظام کرتے تھے۔ اس وجہ سے دن میں تعلیم کا وقت بہت کم ملتا تھا اس لیے رات کو پڑھتے تھے۔ (مسند جلد 3۔ صفحہ 137)
20
حضرت عمرو بن مسلمہ کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سات آٹھ سال کی تھی مگر اپنے قبیلہ میں سب سے زیاد ہ قرآن دان تھے۔ قبیلہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ امام الصلوۃ کسے بنائیں۔ آپ نے فرمایا جو سب سے زیاد ہ قرآن دان ہو چنانچہ آپکو امام بنایا گیا۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
21
حضرت سلمان فارسی ابو الدرداء کو لکھتے ہیں کہ علم ایک چشمہ ہے جس پر لوگ پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں۔ اور دوسروں کو سیراب کرنے کے لیے اس سے نالیاں نکالتے ہیں لیکن اگر کوئی عالم خاموش ہو تو وہ جسم بے روح ہے۔ اگر علم کو لٹایا نہ جائے تو وہ مدفون خزانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ عالم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تاریک راستے میں چراغ دکھاتا ہے۔
22
حضرت عبداللہ بن عباس نہ صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بلکہ حضرت عمر کے زمانہ میں کم سن تھے مگر علمی پایہ اتنا بلند تھا کہ حضرت عمر اکثر پیچیدہ اور مشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے۔ و ہ اپنی کم عمری کی وجہ سے مجلس میں بات کرنے سے جھجکتے تو حضرت عمر ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے کہ علم عمر کی کمی یا زیادتی پر منحصر نہیں۔ آپ کو شیوخ بدرکے ساتھ بٹھاتے تھے۔
(بخاری صفحہ 615)
23
حضرت عبداللہ بن عباس کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت صرف چودہ پندرہ سال تھی مگر پھر بھی علمی جستجو اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کی مرویات کی تعداد 6620 ہے۔
24
بعض لوگ محض اس وجہ سے علم بلکہ بعض دینی خدمات سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ کسی کے پاس جاکرکسب علم کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مگرصحابہ کرام میں یہ مرض نہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی ہونے کی وجہ سے خاص خاندانی وجاہت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ ان کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا جسکا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ مگر یہ علو مرتبت تحصیل و طلب علم کے راستہ میں روک نہ تھا۔ آپ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعدآپ کے اصحاب کے پاس جاتے اور ان سے حضور کی باتیں سنتے تھے۔ جب آپ کو معلوم ہوتا کہ کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو فوراً اس کے مکان پر پہنچتے۔ اور اس سے حدیث سنتے تھے اوراس طرح آپ نے عرب کے کونہ کونہ میں پھر کران جواہر پاروں کو جمع کیا۔ جو اطراف ملک میں مختلف لوگوں کے پاس منتشر صورت میں موجود تھے۔ (مستدرک حاکم جلد 3 فضائل ابن جساس) اس محنت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام میں جب آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل پر اختلاف ہوتا تو حضرت عباس کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جس طرح آپ نے کوشش اور سعی کے ساتھ علم حاصل کیا تھا اسی طرح کوشش اور محنت کے ساتھ اس کی اشاعت بھی فرماتے۔ چنانچہ ان کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔ اور سینکڑوں طلباء روزانہ ان سے اکتساب علم کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم جلد3)
25
حضرت عمر نے قبول اسلام کے بعد جہاں دینی علوم میں کمال حاصل کیا وہاں دین کی راہ میں کام آنے والے دنیوی علوم بھی سیکھے۔ چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے عبرانی بھی سیکھ لی تھی۔ چنانچہ آپ ایک دفعہ توریت کاایک نسخہ لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ آپ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت ﷺ کا چہرہ فرطِ انبساط سے متغیر ہوتا جاتا تھا۔
26
علم الفرائض یعنی تقسیم ترکہ کے علم کو مرتب کرنے والے حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت ہیں۔ قرآن شریف میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں انہیں بنیاد قراردے کر ان دونوں بزرگوں نے علم الفرائض کی ایسی مستحکم عمارت کھڑی کر دی کہ آج تک مسلمان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور قیامت تک اٹھاتے رہیں گے۔
27
حضرت علیؓ کے متعلق یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھا تاہم تحصیل علم کا شوق اس قدر تھا کہ آپ کے علمی کمال کودیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا انامدینۃ العلم و علی بابھا یعنی میں علم کا گھرہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
28
آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسن کی عمر صرف آٹھ سال تھی لیکن باوجود اس کے آپ نے علمی لحاظ سے اس قدر ترقی کرلی تھی کہ بعد کے زمانہ میں مدینہ میں جو جماعت علم افتاء کی ترتیب کے لیے مقرر ہوئی آپ اس کے ایک رکن تھے۔
29
دینی علم میں اضافہ کا شوق ہر چھوٹے بڑے صحابی کو رہتا تھا۔ ایک دفعہ امیر معاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ آپ نے رسول کریمﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنا ہے اس سے مجھے بھی مستفید کریں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ آنحضرت ﷺ نے فضول گوئی مال کے ضیاع اور سوال سے منع فرمایا ہے۔
30
دینی علوم کے علاوہ دنیوی علوم کی طرف بھی صحابہ کرام کو خاص توجہ تھی۔ چنانچہ امیر معاویہ نے اپنے زمانہ کے جید عالم حضرت عبید بن شربہ سے تاریخ گزشتہ کے واقعات سلاطین عجم کے حالات، انسانی زبان کی ابتداء اور اس کی تا ریخ اور مختلف ممالک کے واقعات اور مشہور مقامات کے حالا ت سنے۔ اورپھر ان کے قلم بند کیے جانے کا مکمل انتظام کیا تھا۔
31
حضرت عبداللہ بن زبیر کی عمر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں گو صرف سات آٹھ سال تھی تاہم جب بڑے ہوئے تو دینی علوم میں نہایت بلندپایہ رکھنے کے علاوہ دینوی علوم کے بھی ماہر تھے۔ ان کے پاس مختلف ممالک کے غلام تھے۔ اورسب کے ساتھ ان کی مادری زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں حصولِ علم کی راہ میں جو مشکلات تھیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اگر اس بات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام تحصیل علم کے لیے کس قدر محنت کرتے تھے۔
32
آنحضرتﷺ کی تعلیم اور صحبت قدسی نے صحابہ کرام کے اندر شوق علم اس قدر بھر دیا تھا کہ اب ایسے وحشی ملک کے نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے اس میں بہت محنت کی۔ اورکوشش کرکے نہایت بلند مقام علمی میدان میں حاصل کیے۔ حضرت ربیعہ بنت معوذ بن عفراء باوجود عورت ہونے کے ایسی عالمہ تھیں کہ بڑے بڑے جیدعالم مثلاً حضرت ابن عباس اور امام زین العابدین اکثر ان سے مسائل اسلامی دریافت کرتے تھے۔
33
حضرت اسماء بنت عمیس علم تعبیر الرویا میں اس قدر دسترس رکھتی تھیں کہ حضرت عمر جیسا فاضل اورجید عالم بھی بعض مرتبہ اپنے خوابوں کی تعبیریں ان سے دریافت کیا کرتا تھا۔
اپنے بزرگوں کی حصول علم کے لیے جدوجہد اور علمی میدان میں ممتاز مقام حاصل کرنے کو ایک طرف رکھیے۔ انہوں نے نہ صرف دینی علوم بلکہ اشد ترین رکاوٹوں کے باوجود دنیوی علوم سیکھنے میں جو محنت اور مشقت اٹھائی اور جو ترقیات کیں ان پر نظر ڈالیے اور اس کے ساتھ دورِ حاضرہ کے مسلمان کہلانے والوں کی حالت کو ملاحظہ فرمائیے کہ یہ تعلیم کے میدان میں سب سے پسماندہ اور جاہل سمجھے جاتے ہیں تو طبیعت کس قدر رنجیدہ ہوتی ہے۔
یہ تو دورِ اول کے مسلمانوں کی علمی جولانیاں تھیں۔ بعد میں آنے والوں نے اس میدان میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ بھی نہایت ہی شاندار اورزندہ جاوید ہیں۔ آج دنیا میں جو علوم مروج ہیں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان تمام کی بنیادیں مسلمانوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھیں اور آج مختلف علوم و فنون میں جو نئی نئی تحقیقاتیں ہو رہی ہیں یہ سب کی سب انہی بزرگوں کی دماغی کاوشوں کی روشنی میں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ مگر افسوس کہ یورپ نے ان جواہر پاروں سے فائدہ اٹھایا اور اس وجہ سے علمی ترقیات کرتے کرتے زندگی کے ہرشعبہ میں اس قدر ترقی کر گیا کہ ساری دنیا پر چھا گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اپنی اس میراث کی کوئی قدر نہ کی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ہاتھ سے حکومت تو گئی تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ زندگی کے تمام شعبوں میں گرتے گئے اور آج یہ حالت ہے کہ ان کا شمار دنیا کی پسماندہ اقوام میں ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے۔
حوالہ جات
1۔ (اصابہ ج7 ص353)
2۔ (بخاری کتاب الانبیائ)
3۔ (تہذیب الناس ص260)
4۔ (استیعاب ج4 ص235ص)
5۔ (اسد الغابہ ج1 ص100)
6۔ (فتح الباری ج 1 ص159)
7۔ (اسد الغابہ ج2ص137)
8۔ (مسند احمد ج5 ص189)
9۔ (سیر انصارج2 ص 6)
10۔ (سیر انصارج2 ص117)
11۔ (سیر انصارج2 ص 120)
12۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن)
13۔ (سیر انصارج2 ص184)(مسند احمد ج5 ص235)
14۔ (اسد الغابہ ج4 ص272)(سیر انصارج2 ص204)
15۔ (مسند احمد ج4 ص269)
16۔ (استیعاب ج2 ص213 تا215)
17۔ (بخاری کتاب العلم)
18۔ (بخاری کتاب الجہاد)
19۔ (مسند احمد ج3ص137)
20۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
21۔ (دارمی باب البلاغ)
22۔ (بخاری کتاب التفسیر)
23۔ (تہذیب التہذیب زیر لفظ عبد اللہ بن عباس)
24۔ (مستدرک حاکم ج۳ فضائل ابن عباس)
25۔ (مسند دارمی ص 62)
26۔ (کنز العمال ج6 ص372)
27۔ (مستدرک حاکم ج3 ص493)
28۔ (اعلام الموقعین ج1 ص72)
29۔ (بخاری کتا ب ا لزکوۃ)
30۔ (فہرست ابن ندیم ص132)
31۔ (مستدرک حاکم ج 3 ص548)
32۔ (سیر الصحابیات ص 135)
33۔ (اصابہ ج 8 ص16)
فیاضی اور غریب پروری
1
حضرت عبید اللہ بن عباس آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے۔ جب جوان ہوئے تو فیاضی آپ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا۔ روزانہ دسترخوان کے لیے ایک اونٹ ذبچ ہوتا جو حاجت مندوں کو کھلا دیتے۔ آپ کے بھائی نے اس کو اسراف قرار دیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر آپ نے اس نیک عادت کو ترک کرنے کی بجائے دو اونٹ ذبح کرنے شروع کردئیے۔
2
حضرت ابو شریح نے فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔ طبیعت بہت فیاض پائی تھی اور اعلان عام کر رکھا تھا کہ جو شخص میرا دودھ، گھی، برہ پائے۔ اسے عام اجازت ہے کہ اسے استعمال کرے۔ ہر شخص میری چیزوں کو بلاتکلف استعمال کرسکتا ہے۔
3
حضرت ابوقتادہ کی پیدائش ہجرت نبوی سے اٹھارہ سال قبل ہوئی تھی۔ اس لیے قبولِ اسلام کے وقت عالم جوانی تھا۔ ایک دفعہ آپ آنحضرتﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس پر کوئی قرض تو نہیں لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض ہے۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ کوئی ترکہ بھی چھوڑا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ کچھ نہیں۔ اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ جنازہ پڑھ لیں۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں اس کا قرض ادا کردوں تو حضور نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ ابوقتادہ اٹھے اور گھر سے روپیہ لاکر اپنے مرحوم بھائی کا تمام قرض بے باق کردیا۔
4
حضرت سعید بن العاص خاندان بنی امیہ کے ایک نوجوان رئیس تھے۔ جن کی دریادلی اور فیاضی مشہور عام تھی۔ آپ کا معمول تھاکہ ہفتہ میں ایک روز تمام بھائی بھتیجوں اور متعلقین کو جمع کر کے دعوت طعام دیتے۔ حاجت مندوں کی امداد، پارچات اور نقدی سے بھی کرتے۔ جمعہ کی ہر شب کو کوفہ کی مسجد میں دیناروں سے بھری ہوئی تھیلیاں نمازیوں میں تقسیم کراتے تھے۔ سوالی کو کبھی رد نہ کرتے تھے اور اس کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ کسی حاجت مند کے سوال پر اگر کچھ پاس نہ ہوتا تو اسے ایک تحریر دے دیتے کہ بعد میں آکر وصول کرلے۔
5
آپکے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ ایک روز مسجد سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک شخص پیچھے پیچھے ہولیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کام ہے اس نے کہا نہیں یونہی آپ کو تن تنہا آتے دیکھا تو ساتھ ہولیا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے فلاں غلام کو بلا لاؤ اورکاغذ قلم دوات بھی منگواؤ۔ اس نے تعمیل کی تو آپ نے اسے بیس ہزار کی ہنڈی تحریر کردی۔ اور کہا کہ میرے پاس اس وقت روپیہ نہیں پھر کبھی آکر یہ رقم وصول کرلینا۔ آپ کی وفات ہوئی تو دس ہزار اشرفی آپ پر قرض تھا۔ بیٹے نے پوچھا۔ یہ قرض کیونکرہوا تو کہا کہ کسی کی حاجت روائی کی اورکسی کو سوال سے پہلے دے دیا۔
6
حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم جوانی یعنی 32 سال کی عمر میں وفات پائی تھی مگر طبیعت کی فیاضی اور غرباء سے ہمدردی کا یہ حال تھا کہ وفات کے وقت تمام جائیداد بیع ہو چکی تھی۔
7
حضرت سعد بن عبادہ کے پاس ایک مرتبہ ایک ضعیفہ آئی۔ اور کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اناج وغیرہ کچھ نہیں۔ کیونکہ چوہے وہیں ہوتے ہیں جہاں اناج وغیرہ ہو۔ آپ نے اس کی یہ بات سن کر کہا کہ سوال کا طریقہ نہایت عمدہ ہے اچھا جاؤ اور اب تمہارے گھر میں چوہے ہی چوہے نظر آئںا گے۔ چنانچہ آپ نے اس کا گھر غلہ روغن اور دوسری خوردنی اشیاء سے بھر دیا۔
8
حضرت زبیر بن العوام نے صرف 16 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا لیکن اسلامی تعلیم کے رنگ میں بالکل رنگین تھے۔ آپ کے پاس قریباً ایک ہزار غلام تھے۔ جو روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک معقول رقم لاتے تھے مگر آپ اس میں سے ایک حبہ بھی اپنے یا اپنے اہل و عیال کے لیے خرچ نہ کرتے تھے بلکہ سب کچھ صدقہ کر دیتے تھے۔
9
حضرت زبیرکی فیاضی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ باوجود اس قدر تمول کے بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے تھے۔
10
حضرت زبیر کا دروازہ فقراء اور مساکین کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ قیس بن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ بغیر غرض کے محض ہمدردی کے طور پر خرچ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
11
ایک مرتبہ حضرت طلحہ نے اپنی ایک جائداد سات لاکھ درہم میں فروخت کی۔ اور یہ رقم سب کی سب راہ خدا میں وقف کردی۔ آ پ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے شوہر کو غمگین دیکھا تو پوچھا کہ آپ ملول کیوں نظر آتے ہیں۔ کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی۔ آپ نے جواب دیا نہیں تم نہایت اچھی بیوی ہو۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہوگئی ہے۔ سوچ رہاہوں کہ اسے کیا کروں۔ میں نے کہا کہ اسے تقسیم کرادیجئے۔ چنانچہ اسی وقت لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کردی۔
12
حضرت جعفر نے بھی جو حضرت علی کے بھائی تھے نوجوانی میں اسلام قبول کیا تھا۔ فیاضی اور غریب پروری آپ کا خاصہ تھا۔ مساکین اور غرباء کے ساتھ نہایت مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ ان کو اپنے گھر لے جاتے اور کھانا کھلاتے۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ میں نے جعفر کو مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا ہے۔ وہ اصحاب صفہ کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور جو کچھ ہوتا سامنے لاکر رکھ دیتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات شہد اور گھی کا خالی مشکیزہ لاکر سامنے رکھ دیتے تھے اور اسے پھاڑ کر ہم لوگ چاٹ لیتے تھے۔
13
حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ معمول تھا کہ عام طور پر کسی مسکین کو شامل کیے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے۔ ایک بار بعض لوگوں نے ان کی بیوی سے کہا کہ تم اپنے خاوند کی اچھی طرح خدمت نہیں کرتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں کیا کروں۔ ان کے لیے کھانا تیار کرتی ہوں۔ تو کسی نہ کسی مسکین کو شریک کرلیتے ہیں۔ ان کی بیوی نے فقراء سے کہلا بھیجا کہ ان کے رستہ میں اب نہ بیٹھا کرو۔ مگر وہ مسجد سے نکلے تو ان کو گھر سے بلوا بھیجا۔ آخر ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ بلانے پر بھی نہ آیا کرو۔ چنانچہ ایک مرتبہ وہ نہ آئے تو اس رات آپ نے کھانا ہی تناول نہ فرمایا۔
14
حضرت سعد بن عبادہ کی فیاضی مشہور دور و نزدیک تھی۔ شام ہوتی تو ان کا ایک آدمی باآواز بلند پکارتا کہ جسے گوشت اور چربی کی خواہش ہو یہاں آئے۔ آپ اسی اسی اصحاب صفہ کو کھانا کھلاتے تھے۔
15
حضرت قیس بن سعد انصار کے علم بردار اور دریا دل آدمی تھے۔ ایک غزوہ میں جب سامان رسد کم تھا آپ قرض اٹھا اٹھا کر ساری فوج کو کھانا کھلاتے رہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی اس غزوہ میں شامل تھے۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ انہیں روکنا چاہیے ورنہ باپ دادا کا سرمایہ لٹا دیں گے۔ لیکن جب ان کے والد کو علم ہوا کہ حضرت ابوبکراور حضرت عمر ان کے لڑکے کو فیاضی سے روکنا چاہتے ہیں۔ تو آنحضرتﷺ سے شکایت کی اور کہا کہ مجھے ان دونوں سے کون بچائے گاجو میرے لڑکے کو بخیل کرنا چاہتے ہیں۔
16
حضرت قیس بن عبادہ اس قدر فیاض تھے کہ آپ جہاں بھی جاتے ایک آدمی گوشت اور مالیدہ کا پیالہ بھرا ہوا ساتھ لے کر چلتا۔ اور پکارتا جاتا کہ آؤ اور کھاؤ۔
17
ایک دفعہ حضرت امام حسن نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں بیٹھا ہوا خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ خدایا مجھے د س ہزار درہم عنایت فرما۔ آپ گھر واپس تشریف لائے اور اسے اتنی رقم بھجوا دی جس کے ملنے کی و ہ دعا کر رہا تھا۔
18
ایک مرتبہ ایک شخص جو حضرت علی کا دشمن تھا۔ مدینہ میں آیا۔ لیکن اس کے پاس زادراہ اور سواری نہ تھی۔ لوگوں نے اسے کہا کہ حضرت امام حسن کے پاس جاؤ ان سے زیادہ فیاض کوئی نہیں۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اسے دونوں چیزوں کا انتظام کر دیا۔ کسی شخص نے کہا کہ آپ نے ایسے شخص کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے جو آپ کا اور آپ کے والد دونوں کا دشمن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں اپنی آبرو نہ بچاؤں۔
19
حضرت امام حسن ایک دفعہ کھجوروں کے ایک باغ میں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے۔ لیکن اس طرح کہ ایک لقمہ خود کھاتا ہے اور دوسرا کتے کے آگے ڈال لیتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے آدھی روٹی کتے کو کھلا دی۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کتے کو دھتکار کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے۔ آپ نے اس کے آقا کا نام دریافت کیا اور اس سے فرمایا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں یہیں رہنا۔ وہ تو وہیں کام کرتا رہا اور آپ اس کے آقا کے پاس پہنچے اور باغ اور غلام دونوں چیزیں اس سے خرید کر واپس آئے۔ اور آکر غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہیں معہ اس باغ کے تمہارے آقا سے خرید لیا ہے۔ اور تمہیں آزاد کرکے یہ باغ تمہارے نام ہبہ کرتا ہوں۔ غلام نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپ نے جس خدا کے لیے مجھے آزاد کیا ہے اسی کی راہ میں یہ باغ صدقہ کرتا ہوں۔
سبحان اللہ ایک طرف رحم دلی اور نیک عادات کی قدر و قیمت دیکھیے۔ فیاضی پر نظر ڈالیے اور پھر دوسری طرف سیر چشمی اور بے نیازی ملاحظہ فرمائیے۔ کہتے ہیں کہ غلامی انسانی فطرت کو مسخ کر دیتی ہے۔ اسے انسانیت کے اعلی جوہر سے محروم کر دیتی ہے۔ بلند اخلاقی اور فراخ حوصلگی کو مٹا کر تنگ نظری اور تنگدلی پیدا کر دیتی ہے لیکن اسلام کے اندر کیا تاثیر تھی۔ اور رسول پاکﷺ کی پاک محبت کا کس قدر اثر تھا کہ مسلمانوں کے غلام بھی فیاضی اور بے نیازی میں بادشاہوں سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی دولت اور اس کے مال نہ ان کو اپنی طرف مائل کرسکتے تھے اور نہ جسمانی غلامی اور ظاہری بے بسی ان کی روحانی بلند پروازوں کی راہ میں حائل ہوسکتی تھی۔ اسلام نے ان کے اندر وسعت قلب اور خیالات کی ایسی بلندی پیدا کر دی تھی کہ ان کو اپنی تنگدستی کا احساس تک باقی نہ رہا تھا۔
20
حضرت امام حسین بے حد فیاض تھے۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں کثرت کے ساتھ اموال خرچ کرتے تھے۔ کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے واپس نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ آپ نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی آواز سن کر آپ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہوئے۔ اس پر نگاہ ڈالی تو چہرہ پرفقروفاقہ کے آثار دکھائی دئیے۔ آ پ نے اپنے خادم سے پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے تو لاؤ اس نے کہا کہ آپ نے دو سو درہم جو اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں ہوئے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ لے آؤ۔ اب اہل بیت سے زیادہ مستحق ایک شخص آگیا ہے۔ چنانچہ وہ تھیلی اس سائل کے حوالہ کردی۔ اور اس وقت اس سے زیادہ نہ دے سکنے پر معذرت بھی کی۔
21
حضرت اسماء بنت ابوبکر کے متعلق کسی دوسری جگہ ذکر آچکا ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہرحضرت زبیر بالکل غریب تھے۔ اور اس لیے انہیں نہایت تنگی سے گزراوقات کرنی پڑتی تھی۔ مگر اس تنگی نے ان کی طبیعت میں کوئی تنگ دلی پیدا نہیں کی تھی۔ اور اسلامی تعلیم انسان کے اندر جو بلندی خیال پیدا کرتی ہے اس پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوسکی تھی۔ ان کی بہن حضرت عائشہ کے ترکہ میں سے ان کے حصہ میں ایک جائداد آئی۔ جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ درہم وصول ہوئے۔ جس شخص نے مالی مشکلات کا سامنا کیا ہو اور تنگ دستی میں مبتلا رہ چکاہو۔ ہاتھ میں کوئی رقم آنے پر طبعاً وہ جزرسی کی طرف مائل ہوتا اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ لیکن انسانی فطرت کے بالکل برعکس حضرت اسماء نے یہ ساری رقم اپنے غریب اور محتاج اعزہ پر خرچ کردی۔
صحابہ کرام کی فیاضی اور سیر چشمی کی یہ چند مثالیں ہر ایک انصاف پسند اور حقیقت آگاہ کو اس امر کے اقرار پر مجبور کریں گی کہ دنیا کی تاریخ اور مختلف اقوام و ملل کے حالات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ فیاضی سے کام لینے والے اور رفاہ عام پر اپنی دولت خرچ کرنے والے بے شک آج بھی بعض لوگ نظر آتے ہیں۔ لیکن صحابہ کرام کی فیاضی کے اندر جو بے نفسی، خدا ترسی اور ہمدردی نظر آتی ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دے گی۔ افسو س ہے کہ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں۔ اس لیے صرف ایک اصولی فرق کی طرف اشارہ پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس پر جتنا زیادہ غور کیا جائے۔ ہمارے خیال کی تصدیق ہوتی جائے گی۔
اس کے علاوہ اس ضمن میں ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی فیاضیوں کے دریا کی روانی صرف ان کے بھائی بندوں، رشتہ داروں، دوستوں اور بنی نوع انسان تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ مندرجہ بالا امثلہ آپ پر یہ بھی واضح کریں گی کہ اس میں دوست دشمن بلکہ جنس و غیر جنس تک کی کوئی تمیز نہ تھی۔ فخرِ موجودات اور سرورِ کائنات ﷺ خود جس طرح رحمت للعالمین تھے، اسی طرح آپ کے فیض صحبت سے تربیت یافتہ مرد و عورت بھی اپنی رحمت اور فیاضی کے دائرہ کو ہر ممکن حد تک وسعت دینے کی کوشش کرتے تھے۔
اللھم صل علیٰ محمد وبارک وسلم
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج3 ص185)
2۔ (استیعاب ج4 ص251)
3۔ (مسند احمد ج6 ص403)
4۔ (استیعاب ج2 ص184، 185)
5۔ (استیعاب ج2 ص184، 185)
6۔ (سیر انصار ج2 ص 164)
7۔ (استیعاب ج2 ص184، 185)
8۔ (اصابہ ج2 ص460)
9۔ (بخاری کتاب الجہاد)
10۔ (فتح الباری ج7 ص66) ؟
11۔ (ابن سعد ج1 ص157)
12۔ (بخاری کتاب المناقب)
13۔ (ابن سعد ج4 ص166)
14۔ (اصابہ ج3ص56)
15۔ (اسد الغابہ ج4 ص119)
16۔ (استیعاب ج2 ص184، 185)
17۔ (ابن عساکر ج4 ص214)
18۔ (ابن عساکر ج4 ص214)
19۔ (ابن عساکر ج4 ص214)
20۔ (ابن عساکر ج4 ص323)
21۔ (بخاری کتاب الھبۃ)

دین کی راہ میں شدائد کی برداشت
1
حضرت عمار کے والد یاسر بن عامر یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے حلیف ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ کے ساتھ ان کی شادی کردی۔ جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ تینوں بزرگ ابتداء ایام میں ہی قبول صداقت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت عمار اس وقت عمر کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد 303۔ 5 ہی تھی کہ باپ ماں اور بیٹا مسلمان ہوگئے۔ یہ و ہ زمانہ تھا کہ مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانی سے محفوظ نہ تھے تو اس غریب الوطن خاندان کا کیا حال ہوگا۔ بنی مخزوم نے اس خاندان کو سخت مظالم کا تختہ مشق بنایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان بے چاروں پر مظالم کی انتہا کردی اور ایسی وحشت و بربریت کا ثبوت دیا کہ آج بھی اس کا ذکر آنے پر انسانیت کی جبین عرق ندامت سے تر ہوجاتی ہے۔ دنیا میں سنگین سے سنگین جرائم پر اتنی شدید سزا کی مثال شاید ہی تاریخ پیش کرسکے جو ان بے بس اور بے کس لوگوں کو محض اسلام قبول کرنے پر دی جاتی تھی۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمار کی والدہ کو ابوجہل نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہیدکردیا۔ لیکن یہ انجام دیکھنے کے باوجود بھی وہ مستقل رہے۔ اور ان کے قلوب میں نور ایمان کی جو شمع روشن ہو چکی تھی۔ مظالم کی شدید ترین آندھیاں اور جبروستم کے بے پناہ طوفان اسے گل نہ کرسکے۔ حضرت یاسر بھی بوجہ ضعیف العمری ان شدائد سے جانبر نہ ہوسکے اور انتقال فرما گئے۔ حضرت عمار کو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے، پانی میں غوطے دیتے ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جارہا تھا کہ آنحضرتﷺ کا اس طرف سے گزر ہوا۔ آپ نے حضرت عمار کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا یا نار کونی برداً وسلاما علی عمار کماکنت علیٰ ابراھیم اچھا ہونے کے بعد آپ کی پیٹھ پر زخموں کے نشانات باقی رہے لیکن ان پیہم صدمات اور ان تکالیف کے باوجود جو خود حضرت عمار کو دی جاتی تھیں۔ ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی۔ اور و ہ نہایت پامردی سے اس پر قائم رہے۔ ایمان ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز تھی۔ جس کی حفاظت و ہ ہرچیز سے ضروری سمجھتے تھے۔
2
حضرت بلال نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر آپ غلام تھے۔ اس زمانہ میں عرب کے غلام جو حیثیت رکھتے تھے وہ تاریخ دان اصحاب سے پوشیدہ نہیں۔ کسی غلام کا اپنے آقا کی مرضی کے خلاف ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت کرنا بھی گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ اور پھر اسلام کو قبول کرنا جسے مٹا دینے کے لیے کفار کی تمام طاقتیں وقف تھیں۔ کوئی آسان بات نہ تھی۔ امیہ بن خلف آپ کو چلچلاتی دھوپ میں جبکہ مکہ کی زمین آگ اگل رہی ہوتی گرم ریت پر لٹاتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا۔ تاکہ آپ حرکت نہ کرسکیں۔ اور کہتا کہ توبہ کرو ورنہ یونہی سسک سسک کر جان دینی ہوگی۔ مگر آپ کی زبان سے عین اس حالت میں بھی احد احد کی آواز نکلتی تھی۔ یعنی اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
3
حضرت خباب بن ارت کو بھی طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مشرکین انگارے دھکاتے اور مجھے ان پرلٹا دیتے اور اس پر بھی جب ان وحشیوں کا شوق ستم رانی پورا نہ ہوتا تو ایک شخص سینہ پر سوار ہو جاتا کہ جنبش نہ کرسکوں۔ اور اس طرح اس وقت تک مجھے لٹائے رکھتے جب تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر آگ کو سردنہ کردیتی۔ لیکن یہ مردمجاہد آئے دن کے ان مصائب کے باوجود اپنے ایمان پر مستقل رہا۔ اورکسی مداہنت سے کام لے کر بھی ان تکالیف سے نجات حاصل کرنے کا خیال دل میں نہ لاتا۔
4
حضرت عمر نے اسلام لانے سے قبل اپنی بہن اوربہنوئی حضرت سعد بن زید کو اس قدر مارا کہ ان کے چہرے سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے۔ مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی اور آخر ان کا استقلال حضرت عمر کو اسلام میں داخل کرنے کا موجب ہوا۔
5
حضرت ابو جندل بن سہیل مکہ میں ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کے والدنے ان کو قید میں ڈال دیا۔ بیڑیاں پہنا دیں اور کئی برس تک انہیں مقید رکھا۔ اس قید پر قناعت نہ کرتے ہوئے انہیں اس قدر زدوکوب کیا جاتا کہ بدن پر نشان پڑ جاتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر کفار کی طرف سے شرائط طے کرنے کے لیے یہی سہیل دربار رسالت میں آیا تھا۔ ابھی اس شرط پر بحث جاری تھی کہ قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر آئے گا اسے قریش کے پاس لوٹا دیا جائے گا کہ حضرت ابوجندل اسی طرح پابجولاں کسی نہ کسی طرح کفار کی نظروں سے بچتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ انہیں دیکھتے ہی ان کے والد نے کہاکہ ابو جندل کو واپس کر دیا جائے۔ اور اس کے بغیر شرائط صلح طے کرنے سے انکار کردیا۔ آنحضرتﷺ کو چونکہ معاہدات کا بہت خیال تھا۔ آپ نے ابوجندل کو واپس جانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے چاہا کہ یہ فیصلہ نہ ہو۔ اپنی مصیبتوں کا نہایت درد ناک الفاظ میں ذکر کرکے آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام کے جذبات رحم کو اپیل کیا۔ صحابہ بھی اپنے بھائی کی حالت کو دیکھ کر بے تاب و بے قرار ہوتے جاتے تھے۔ اور کسی حالت میں انہیں واپس بھیجنا پسند نہ کرتے تھے۔ وہ اس بات کو زیادہ پسند کرتے تھے کہ اپنی بھائی کو مصیبتوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی جان قربان کردیں۔ ان کی تلواریں نیاموں میں تڑپ رہی تھیں مگر آنحضرتﷺ کے ارشاد کے سامنے کسی کو دم مارنے کا حوصلہ نہ تھا۔ اس لیے خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہ گئے۔ حضرت ابوجندل کی اپیل پر آپ نے صرف یہی فرمایا کہ صبر سے کام لو۔ اور واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ نہایت خاموشی سے واپس چلے گئے اور پھر انہی مصائب میں گرفتار ہوگئے۔ لیکن پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔
6
معرکہ احد کے بعد چند لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: تعلیم دین کے لیے چند معلمین ہمارے ساتھ بھیجے جائیں۔ آپ نے ستر مشہور قاری ان کے ساتھ روانہ کیے۔ جن میں سے ایک حضرت حرام بن ملحان تھے۔ جب یہ مقدس قافلہ منزل کے قریب پہنچا تو حضرت حرام نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ ٹھہریں اور میں پہلے جاکر ان لوگوں کا حال دیکھتا ہوں۔ چنانچہ آپ ان کے قبیلہ میں پہنچے اور آنحضرتﷺ کی رسالت پر تقریر شروع کی۔ ان بدبختوں کی نیت پہلے ہی بد تھی۔ چنانچہ آپ تقریر کر رہے تھے کہ ایک شخص نے پیچھے سے اس زور سے تیر مارا کہ ایک پہلو کو توڑتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ جب جسم سے خون کا فوارہ چھوٹا تو حضرت حرام نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پھیرا اور فرمایا فزت ورب الکعبہ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پہنچے اور لڑ کر شہادت حاصل کی۔
بنا کر وند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
7
دین کی راہ میں صحابہ تکالیف کو جس قدر خوشی کے ساتھ برداشت کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک غزوہ میں سب کے پاس صرف ایک سواری تھی۔ سفر لمبا تھا اور اکثر پا برہنہ تھے۔ چلتے چلتے بعض کے پاؤں میں زخم ہوگئے۔ بعض کے ناخن گر گئے۔ زخموں کی وجہ سے صحابہ نے پاؤں میں چیتھڑے لپیٹ رکھے تھے۔ اس وجہ سے اس غزوہ کا نام ہی ذات الرقاع پڑ گیا۔
8
غزوہ احزاب میں صحابہ کے پاس سامان رسد اس قدر کم تھا کہ ایک ایک مٹھی جو اور تھوڑی سی چربی پر ہر ایک گزارہ کرتا تھا۔
9
ایک غزوہ میں سامان رسد کی اس قدر قلت تھی کہ صحابہ کھجوروں کی گٹھلیاں چوس چوس کر پانی پی لیتے تھے۔
10
ایک غزوہ میں صحابہ کو فی کس ایک کھجور ملتی تھی۔ جس کو وہ بچوں کی طرح چوس چوس کر کھاتے اور پانی پی لیتے تھے۔ اس کے علاوہ درختوں کے پتے جھاڑ لاتے اور انہیں پانی میں بھگو کر کھالیتے تھے۔
11
حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے ایک مالدار گھرانہ کے چشم و چراغ تھے اور اس لیے اس قدر نازونعم میں پرورش پائی تھی کہ مکہ میں اس لحاظ سے کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلی سے اعلی خوراک کھاتے تھے۔ نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اورعطریات استعمال میں لاتے تھے غرضیکہ نہایت آسائش کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے کھانے پینے اور پہننے کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔
لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا۔ آخر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ اور آپ کی ماں اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو خبر کردی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو قید میں ڈال دیا گیا۔
آپ ایک عرصہ تک قید و بند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقعہ ملنے پر ترک وطن کرکے حبشہ کی راہ لی۔ اس قدر پرتکلف زندگی کے عادی نوجوان کو قید اور غریب الوطنی میں جس قدر مصائب کا سامنا ہوسکتا ہے ان کے بیان کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایمان نے دل پر ایسا اثر کر رکھا تھا کہ کسی مصیبت نے ان کو مغلوب نہیں کیااور پائے استقلال میں کبھی ذرہ بھرلغزش نہ آئی۔
12
حضرت ابو فکیہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اسلام کی دولت سے مالامال کیا۔ صفوان اور دوسرے کفار ان کو طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر زمین پر لٹا دیتے۔ اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے تھے۔ تاکہ حرکت نہ کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کا دماغ مختل ہوجاتا۔ سفاک ان کے پاؤں میں رسہ باندھتے اور گرم زمین پر گھسیٹتے ہوئے لیے پھرتے تھے مگر وہ نہایت صبر کے ساتھ ان کی سختیوں کو برداشت کرتے اور کبھی یہ خیال دل میں نہ لاتے تھے کہ اپنی جان کو مصیبت سے بچانے کے لیے کسی مدا ہنت سے کام لیں۔
13
حضرت زبیر بن عوام جب اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تو آپ کے چچا نے کوشش کی کہ جبروتشدد کے ذریعہ ان کو ارتداد اختیار کرنے پر مجبور کیاجائے۔ چنانچہ وہ بدبخت آپکو ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں پہنچاتا تھا۔
14
تحمل و شدائد کے ضمن میں باوجود یکہ اس جلد میں صحابیات کا ذکر مقصود نہیں تاہم حضرت ام شریک کا ذکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ جب آپ ایمان لائیں تو ان کے اقارب نے ان کو ایذا دینی شروع کی اور اس کے لیے یہ طریق ایجاد کیا کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتے اور اس سخت گرمی کے ساتھ شہد ایسی گرم چیز کھلاتے اور پانی بالکل نہ دیتے تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے حواس مختل ہو جاتے۔ ایسی حالت میں ان سے کہتے کہ اسلام چھوڑ دو۔ مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ سمجھانے کے لیے وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو و ہ سمجھ جاتیں کہ توحید کا انکار کرانا چاہتے ہیں۔ مگر آپ جواب دیتیں کہ یہ ہرگز نہ ہوگا۔
صحابہ کرام نے دین کی راہ میں جو شدائد اور مصائب برداشت کیے ان میں ہجرت کی داستان نہایت درد انگیز ہے۔ اپنے گھر بار اور وطن عزیز کے ساتھ تمام عزیز و اقارب حتی کہ مال و اسباب کو بھی چھوڑ دینا بیوی بچوں سے منہ موڑ لینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ لیکن صحابہ کرام نے یہ سب کچھ چھوڑا۔ اور ایسا چھوڑا کہ پھر واپسی کی خواہش بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اگر کبھی مکہ میں آتے تھے تو اپنے قدیم مکان میں اترنا تک پسند نہ کرتے تھے۔
ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچے تو اسے معلوم ہو سکتاہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ کوئی ایک دن کے لیے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ بیوی بچوں اورماں باپ عزیز و اقارب دوست احباب اور وطن عزیز سے جداہو۔ لیکن صحابہ کرام نے خدا تعالیٰ کے لیے ان سب جدائیوں کو گوارا کیا تاکہ اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکیں۔
آنحضرتﷺ کی ہجرت سے قبل بعض صحابہ نے کفار کی ایذا رسانیوں سے نجات کی کوئی راہ نہ دیکھتے ہوئے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور وہاں غربت اور غریب الوطنی کی زندگی کو مکہ کی زندگی پر ترجیح دی۔ اورجب آنحضرتﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو پھر بہت سے لوگ وہاں چلے گئے۔ وہاں جاکر ان کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہوا۔ آب و ہوا راس نہ آئی۔ اور کئی بزرگ بخار میں مبتلا ہوگئے۔ صحت برباد ہوگئی کاروبار کا کوئی انتظام نہ تھا گھر بار نہ تھے، وطن عزیز اور مکہ کی وادیوں، چشموں اور پہاڑیوں کے نظاروں کی یاد ان کو بے تاب کر دیتی تھی۔ مگر آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں پر کہ اسلام کی را ہ میں ان سب مشکلات کو بخوشی برداشت کیا۔ اور زبان سے اف تک نہ کی۔
مختصر یہ کہ اسلام قبول کرنے والے جانباز لوگوں کو ظالم و سفاک لوگ سخت دکھ اور اذیتیں پہنچاتے تھے۔ اور اس کے لیے طرح طرح کے طریقے ایجاد کرتے رہتے تھے۔ اور ستم پرستم یہ ہے کہ یہ تکالیف کوئی آنی اور وقتی نہ ہوتی تھیں بلکہ ان کا سلسلہ بہت لمبا چلتا تھا۔ ایک دفعہ ہی جان دے دینا آسان ہے لیکن مسلسل ظلم برداشت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہرروز نئی موت قبول کی جائے۔ لیکن ہمارے نوجوان صحابہ نے اس موت کو پوری جواں مردی اور جرات کے ساتھ برداشت کیا اوریہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں چنانچہ صحابہ کرام جب شام گئے تو ان کے متعلق اہل کتاب کے ایک عالم نے جو رائے ظاہرکی وہ یہ ہے۔
"عیسیٰ بن مریم کے وہ متبع جو آروں سے چیرے اور سولی پر لٹکائے گئے ان لوگوں سے زیادہ تکالیف برداشت کرنے والے نہ تھے" (استیعاب جلد1 صفحہ2)
آج جو لوگ دین کی راہ میں عارضی اور بالکل معمولی سی جدائی بھی برداشت کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور وقتی طورپر بھی تبلیغ اسلام کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے ہیں اس لیے تامل کرتے ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل و عیال کو کوئی معمولی سی تکلیف ہوگی یا کاروبار کو کوئی خفیف سا نقصان پہنچے گا۔ یا حالت سفر میں و ہ گھر جیسا آرام و آسائش حاصل نہ کرسکیں گے۔ وہ صحابہ کرام کے مثیل ہونے کا دعویٰ اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا خیال بھی کس طرح دل میں لاسکتے ہیں۔
ان واقعات سے آپ پر ظاہر ہوگیا ہے کہ صحابہ کرام دین کی راہ میں بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ سامان کی کمی کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھاتے تھے۔ مگر ان کے قلوب میں ایمان کی اس قدر حرارت موجود تھی کہ جس کے سامنے مصائب کے پہاڑ بھی پگھل کر بہ جاتے تھے اور کوئی چیز ان کے مجاہدانہ اقدام میں حائل نہ ہوسکتی تھی۔ آج زمانہ بالکل مختلف ہے انسانی تمدن میں بہت حد تک تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ اور گوعلمبرداران صداقت کو آج بھی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر آج ان کی نوعیت بدل چکی ہے اور شدت میں بہرحال کمی آچکی ہے۔ دوسری طرف اسلام کی حالت ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سربلند کرنے اور اس کی صحیح تصویر کودنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پورے جوش کے ساتھ میدان عمل میں نکلیں اور مندرجہ بالا سطور کے مطالعہ سے اگر ہمارے نوجوان دین کی خاطر انتہائی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ عزم کریں کہ اس راہ میں جو مصائب بھی آئیں گے۔ وہ انہیں خوشی سے برداشت کریں گے تو اسلام کی ترقی یقینی ہو جاتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ درجات پائیں گے کہ ان کا نام ابدالاباد تک زندہ رہے گا۔ اور جس طرح آج صحابہ کے واقعات پڑھ کر ہمارے دلوں کی عمیق ترین گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں آنے والی نسلوں کے قلوب میں ہمارے لیے محبت کے یہی جذبات موجزن ہوں گے۔
حوالہ جات
1۔ (مستدرک حاکم ج3 ص383)
2۔ (اسد الغابہ ج1 ص283)
3۔ (ابن سعد ج3 ص117)
4۔ (سیر الصحابہ ج2 ص42)
5۔ (بخاری کتاب الشروط)
6۔ (بخاری کتاب المغازی)
7۔ (مسلم کتاب الجہاد)
8۔ (بخاری کتاب المغازی)
9۔ (مسلم کتاب الایمان)
10۔ (ابو داؤد کتاب الاطعمہ)
11۔ (ابن سعد ج3 ص82) (اسد الغابہ ج4ص387)
12۔ (اسد الغابہ ج5ص249)
13۔ (سیر الصحابہ ج2 ص42)
14۔ (ابن سعد ج8 ص111)
15۔ (ابن سعد ج3 زکر عبدالرحمان بن عوف)











غیرت ایمانی
1
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ابتداء میں جو فتنہ ارتداد اٹھا تھا جب وہ فرو ہوا اور باغی مقتل میں لائے گئے تو ایک نوجوان حضرت امرء القیس کے ایک چچا بھی ان میں تھے۔ آپ خود ان کو قتل کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا کہ کیا تمہارا ہاتھ اپنے چچا پر اٹھ سکتا ہے اور تمہاری تلوار اپنے باپ کے بھائی کی گردن پر چل سکتی ہے۔ تم مجھے قتل کرو گے۔ آپ نے جواب دیا کہ بے شک آپ میرے چچا ہیں مگر اللہ عزوجل جس کے لیے میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں میرارب ہے۔
2
غزوہ مصطلق سے جب آنحضرتﷺ واپس آرہے تھے تو راستہ میں مریسیع کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ اس جگہ منافقین نے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے اور اس طرح نخل اسلام کو اس کی ابتدائی حالت میں ہی نفاق و اختلاف کی زہر میں ملی ہوا سے مرجھا دینا چاہتے تھے۔ ایک نہایت خطرناک فتنہ کھڑا کرنا چاہا۔ جس سے قریب تھا کہ مسلمانوں میں کشت و خون تک نوبت پہنچتی عصبیت کو مٹا کر اسلام نے ان کے اندر جو اخوت پیدا کی تھی اس کا خاتمہ ہوجاتا اورخانہ جنگی شروع ہوجاتی۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عمر کا ایک ملازم جھجاہ نام چشمہ پر پانی لینے گیا۔ انصارمیں سے بھی ایک شخص سنان پانی کے لیے وہاں گیا۔ دونوں کم علم اور معمولی عقل و سمجھ کے آدمی تھے۔ پانی بھرتے بھرتے دونوں میں تکرار ہوگئی اور جھجاہ نے سنان کے ایک ضرب لگا دی۔ سنان نے دہائی مچادی اور انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ جھجاہ نے مہاجرین کو آواز دی اور چشم زدن میں وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہوگیا اور قریب تھا کہ تلواریں نکل آئیں اور مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ کرلیتے۔ مگر بعض سنجیدہ بزرگوں نے معاملہ رفع دفع کرادیا۔ اور اس طرح یہ فتنہ رک گیا لیکن فتنہ و فساد پیدا کرنے کا ایک زریں موقعہ ضائع ہوجانے کی اطلاع جب منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کو ہوئی تو اس نے پھر اس فتنہ کی آگ کو ہوا دینا چاہی۔ اپنے ساتھیوں کو بہت اکسایا اور کہا لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعزمنھا الاذل یعنی ہمیں مدینہ پہنچنے دو عزت والا شخص یا گروہ، ذلیل شخص یا گروہ کو وہاں سے نکال دے گا۔ یہ سن کر مخلصین کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اوران کی تلواریں عبداللہ کے قتل کے لیے بے قرار ہو رہی تھیں کہ عبداللہ کے لڑکے حضرت حباب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے شرارت کی ہے اور آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے۔ اگر میری اطلاع درست ہے تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر حاضر کروں۔ کیونکہ اگر آپ نے یہ کام کسی اور کے سپرد کیا تو ممکن ہے کسی وقت میری رگ جاہلیت جوش مارے اور میں اس مسلمان کو اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں۔ اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالوں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہمارا ہرگز یہ ارادہ نہیں۔
3
اپنے باپ کی اس گستاخی پرحضرت حباب کو اس قدر طیش تھا کہ جب لشکر نے کوچ کیا تو انہوں نے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں تمہیں ہرگز واپس نہ جانے دوں گا، جب تک تم یہ اقرار نہ کرو کہ معزز ترین وجود آنحضرتﷺ ہیں اور ذلیل ترین تم ہو۔ اور اس مطالبہ پر اس قدر اصرار کیا کہ مجبور ہو کرعبداللہ کو یہ الفاظ کہنے پڑے۔
4
ستر قاریوں کے ایک وفد کے، ایک قبیلہ کی درخواست پر، تعلیم دین کے لیے بھیجنے کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ بیئر معونہ کے مقام پر کفار نے ان کو گھیرا اور سوائے حضرت منذر بن عمرو کے جو اس وفد کے امیر تھے سب شہید ہوگئے۔ حضرت منذر سے کفار نے کہا کہ اگر تم درخواست کرو تو تم کو امان دی جاسکتی ہے۔ مگر آپ کی غیرت نے یہ بے حمیتی گوارا نہ کی کہ اپنی جان بچانے کے لیے کفار سے درخواست کریں۔ اور بے غیرتی کی اس زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ زندگی کتنی پیاری چیز ہے۔ اس سوال کا جواب ہر شخص کا دل دے سکتا ہے۔ اور جب یہ پیاری جان محض منہ سے کہہ دینے سے بچائی جاسکتی ہو اور نہ بچائی جائے تو ایمانی غیرت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ چنانچہ مردانہ وار لڑے اور شہادت پائی۔
5
جنگ بدر میں جو کفار قید ہوئے ان میں ایک ولید بن ولید مشہوراسلامی جرنیل حضرت خالد بن ولید کے بھائی بھی تھے۔ ان سے چار ہزار درہم فدیہ طلب کیا گیا۔ جو ان کے بھائیوں نے ادا کردیا چنانچہ وہ رہا ہو کر مکہ آگئے۔ اور یہاں پہنچتے ہی مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ اس پر ان کے بھائی بہت جز بز ہوئے اور کہا کہ اگر تم نے مسلمان ہی ہونا تھا تو پھر یہ فدیہ ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ آ پ نے جواب دیا کہ ایسا میں نے اس لیے کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فدیہ سے بچنے کے لیے مسلمان ہوگیا۔ اللہ اللہ کس قدر غیرت ہے۔ دل واقعی اسلام قبول کرچکا ہے۔ ایمان گھر کر چکا ہے۔ ایسے وقت میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے سے خاندان کو ایک بہت بڑی مالی سزا سے بھی محفوظ رکھا جاسکتاہے لیکن غیرت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص ایمان پر طعنہ زنی کرے۔ اور اسے مالی بوجھ سے بچنے کا نتیجہ قرار دے۔ مکہ والوں نے آپ کو قید کردیا اور سخت ایذائیں دیں۔ مگر توحید کا نشہ اترنے والا نہ تھا۔ آپ بالکل ثابت قدم رہے اور موقعہ پاکر مدینہ بھاگ گئے۔
6
حضرت عمیر بن سعد کے والد کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ آپ کی والدہ نے ایک شخص جلاس نامی سے نکاح کر لیا جو منافق طبع تھا۔ اور وہی آپ کی پرورش کرتا تھا۔ حضرت عمیر بچپن میں ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ اور غزوہ تبوک میں باوجود خوردسالی کے شریک ہوئے۔ ایک موقعہ پر جلاس نے کہا کہ اگر محمد ﷺاپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ آپ نے یہ بات سنی تو یارائے ضبط نہ رہا اور فوراً جواب دیا۔ کہ آنحضرتﷺ ضرور سچے ہیں۔ اور تم لوگ واقعی گدھوں سے بدتر ہو۔ ظاہر ہے کہ جلاس کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اس کا ربیب اس طرح اس کے سامنے گستاخانہ جواب دے۔ اور حضرت عمیر بھی اس صاف گوئی کے انجام سے بے خبر نہ ہوسکتے تھے۔ اور اچھی طرح جانتے تھے کہ جس شخص سے آپ یہ بات کر رہے ہیں وہی آپکا کفیل ہے اور اگر ا س نے کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن غیرت ایمانی نے ان تمام خیالات کو نزدیک نہ آنے دیا۔ اور برملا وہ بات کہہ دی جو ایمانی غیرت کا تقاضا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی جلا س نے کہا کہ آئندہ میں ہرگزتمہاری کفالت نہ کروں گا۔ مگر آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور فوراً دربار نبوی میں رپورٹ پہنچائی۔ آنحضرتﷺ نے جلاس کو بلوا کر دریافت کیا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ مگر وحی الٰہی سے حضرت عمیر کی بات کی تصدیق ہوگئی۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ان کا کان پکڑ کر فرمایا۔ لڑکے تیرے کانوں نے ٹھیک سنا تھا۔
7
بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے والی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسی باتیں بالخصوص وہ جو امراء اور خلفاء کے بارہ میں ہوں تو نہایت خطرناک ہوتی ہیں۔ صحابہ کی مجالس میں اگر کوئی شخص ایسی بات کرتاتو ان کی غیرت ایمانی ہرگز اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ حضرت عمار بن یاسر کا ذکر پہلے آچکاہے کہ آپ نے بچپن میں اسلام قبول کیا تھا۔ ایک مسلمان مطرف نام بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں کوفہ میں گیا اور اپنے ایک دوست کے پاس ٹھہرا۔ اس کے مکان پر ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا اپنے چرمی لباس کو پیوند لگا رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کے ساتھ حضرت علی کے متعلق بعض ایسی باتیں شروع کیں جو ایک قسم کی نکتہ چینی کا رنگ رکھتی تھیں۔ اس پر اس شخص نے سخت برہم ہو کر مجھے کہا کہ اے فاسق کیا امیر المومنین کی مذمت کر رہاہے۔ میرے دوست نے عذر خواہی کی اور کہا کہ جانے دیں میرا مہمان ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ شخص عمار بن یاسر تھے۔
افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس قسم کی ایمانی غیرت کے اظہار کو تہذیب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اور بعض لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس قسم کی فتنہ انگیزی کی باتیں سن کر ان پر پردہ ڈالتے بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا دوستی اوررشتہ داری کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ اور اگر کبھی ان پر گرفت ہو تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ عقوبت سے محفوظ رہ سکیں۔
8
حضرت سعد بن ابی وقاص نے جوانی کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اس زمانہ میں چونکہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں امن نہ تھا۔ اس لیے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ بھی چھپ چھپ کر سنسان گھاٹیوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بعض کفار نے ان کو دیکھ لیا۔ تو اسلام پر تمسخر کرنے لگے۔ حضرت سعد باوجود یکہ مسلمانوں کی بے بسی اور کفار کی طاقت اور ان کی ستم رانیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس استہزاء کو برداشت نہ کرسکے اور اونٹ کی ہڈی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ کافر کا سر پھٹ گیا۔ کہا جاتاہے کہ اسلام کی راہ میں یہ پہلی خونریزی تھی۔
9
حضرت عثمان بن مظعون بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب قریش مکہ ان معدودے چند اور کمزور حاملان توحید کو طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنا رہے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اسلام کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آخر ان مظالم سے تنگ آکر یہ بھی بعض دوسرے صحابہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے۔ لیکن ایک غلط افواہ کی بناء پر کہ قریش نے اسلام قبول کرلیا ہے واپس آئے۔ مکہ کے قریب پہنچ کر اس غلطی کاعلم ہوا لیکن ا ب نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ اور یہ امر مجبوری ایک مشرک ولید بن مغیرہ کی پیشکش پر اس کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں واپس آگئے۔
ولید کے اثر کی وجہ سے یہ تو کفار کے مظالم سے محفوظ تھے لیکن دوسرے صحابہ کو برابر اذیتیں پہنچائی جا رہی تھیں۔ جسے دیکھ کر آپ کی غیرت ایمانی جوش میں آئی اور دل میں کہا کہ تف ہے مجھ پر میرے بھائی تو مصائب اٹھا رہے ہیں اور میں ایک مشرک کی پناہ میں آرام سے بیٹھا ہوں۔ ان خیالات نے بے قرار کردیااور اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں تمہاری پناہ سے آزاد ہوتا ہوں۔ اب تم پر میری کوئی ذمہ داری نہیں میرے لیے رسولِ خداﷺ کااور آپ کے صحابہ کا نمونہ کافی ہے۔ اور اب میں خدا و رسول کی حمایت میں رہنا چاہتاہوں۔ تم ابھی میرے ساتھ خانہ کعبہ میں چلو اور جس طرح میری حمایت کا اعلان کیا تھا اسی طرح دستبرداری کا اعلان کردو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
حضرت عثمان ا س اعلان کے بعدقریش کی ایک مجلس میں پہنچے جہاں شعر گوئی ہو رہی تھی۔ اور اس زمانہ کا ایک مشہور شاعر لبید قصیدہ پڑھ رہا تھا۔ جس کے ایک مصرعہ کا یہ مطلب تھا کہ تمام نعمتیں زائل ہو نے والی ہیں۔ یہ سن کر آپ بے اختیار بول اٹھے کہ نعماء جنت زائل نہ ہوں گی۔ لبید نے یہ مصرعہ پھر پڑھا۔ اور آپ نے پھر اس کی تردید کی۔ اس پر اس نے قریش کو جوش دلایا کہ تمہاری مجالس میں اس قدربدتمیزی عجیب بات ہے۔ اور ایک بدکردار نے بڑھ کر آپ کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا کہ آنکھ زرد پڑ گئی۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ جب تک تم ولید کی پناہ میں تھے کسی کو یہ جرات تو نہ ہوسکتی تھی۔ ولید نے کہا کہ اب بھی چاہو تو میں پناہ دے سکتا ہوں مگر آپ کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔
10
صحابہ کرام دین کے معاملے میں اس قدر غیور واقع ہوئے تھے کہ انتہائی خطرات کے وقت بھی غیرت ایمانی کا وصف ان کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت ابوفکیہ کو، جو ایک غلام تھے ان کا آقا صفوان بن امیہ طرح طرح کی تکالیف پہنچاتا تھا۔ ان کے پاؤں میں رسی باندھ کرگلیوں میں گرم زمین پر گھسیٹتا جاتا تھا۔ ایک دن اسی حالت میں ان کو گھسیٹ کر لے جارہا تھا کہ راہ میں ایک گبریلا نظر آیا۔ صفوان نے ان کی دل آزاری کے لیے کہا کہ تیرا خدا یہی تو نہیں۔ ظاہر ہے اس قدر بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں ایک بااختیار آقا کے سامنے اس کے غلام کا جواب دینا اور اس کی تردید کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ آپ اگرچاہتے تو اس تمسخر پر خاموش رہ سکتے تھے۔ اور دل میں ہی برا منانے پراکتفا کرسکتے تھے لیکن آپ کی غیرت ایمانی نے ا س بات کو پسند نہیں کیا۔ یہ کلمہ سنتے ہوئے آپ کو اپنی تمام تکالیف بھول گئیں۔ اپنی بے چارگی و بے بسی کا احساس جاتا رہا اور آپ نے فوراً جواب دیا کہ میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس پر صفوان کو سخت طیش آیا اور اس نے اس زور کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹا کہ آپ نیم مردہ نظر آنے لگے۔ آپکا ایک بھائی بھی اس ایذا دہی کے وقت پاس تھا مگر وہ بجائے آپ کے ساتھ کسی ہمدردی کے اظہار کے الٹا صفوان کو ایذا میں اضافہ کرنے پر ابھار رہا تھا۔
11
عتبہ اسلام اور آنحضرتﷺ کے معاندین کی صف اول میں تھا۔ جنگ بدر کے موقعہ پر جب وہ شمشیر بکف میدان میں نکلا تو اس کے مقابلہ کے لیے اس کے فرزند حضرت ابو حذیفہ جو اسلام قبول کر چکے تھے آئے۔ چنانچہ ان کی بہن ہندہ نے یہ دیکھ کر ان کی ہجو میں شعر پڑھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تو بہت ناشکرا ہے۔ کہ جس باپ نے تجھے پال پوس کر جوان کیا آج اس سے نبردآزما ہو رہا ہے مگر آپ نے ان باتوں کی مطلقاً کوئی پرواہ نہ کی اور غیرت کے تقاضہ کو پورا کیا۔
12
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب معاہدہ تحریر کیا جارہاتھا تو کفار کے نمائندہ نے اصرار کیا کہ آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ "رسول اللہ" کا لفظ نہ لکھا جائے اور آپ نے اس شرط کو منظور کرتے ہوئے حضرت علی کو حکم دیا کہ یہ جملہ مٹا دیا جائے۔ باوجود یکہ صحابہ کرام آنحضرتﷺ کے ہر ارشاد کی تعمیل اپنے لیے ذریعہ سعادت دارین سمجھتے تھے مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس بات کو برداشت نہ کیا کہ اپنے ہاتھ سے اسے قلمزن کریں۔ اور خود آنحضرتﷺ نے اپنے دست مبارک سے یہ جملہ کاٹ دیا۔
13
حضرت خبیب کو جب مشرک شہید کرنے لگے تو آپ نے نہایت اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی۔ اور ان سے کہا کہ میرا ارادہ تو نماز کو بہت طول دینے کا تھا مگر اس خیال سے کہ تم لوگ یہ خیال نہ کرو کہ موت سے ڈرتا ہوں اسے مختصر کر دیا ہے اور پھر بعض شعر پڑھنے لگے۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہو کر مرتا ہوں تو اس کا کیا خوف کہ میرا دھڑ کس طرف گرتا ہے اور سر کس طرف۔ یہ مرنا خدا کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے بریدہ اعضاء پر برکت نازل کرسکتا ہے۔
14
قریش کی ستم رانیاں صرف غریب اور بے کس مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ صاحب اثر و رسوخ مسلمان بھی اس سے بچے ہوئے نہ تھے۔ حتی کہ حضرت ابوبکربھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابوبکر بھی ہجرت کے ارادہ سے نکلے لیکن مکہ سے تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک مشرک ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ آ پنے فرمایا کہ میری قوم نے مجھے جلاوطن کر دیا ہے۔ اس نے کہا کہ تم مفلس لوگوں کی دستگیری کرتے ہو۔ قرابت داری کا خیال رکھتے ہو۔ مہمان نوازی کرتے ہو۔ مصیبت زدگان کی امداد کرتے ہو۔ تمہارے جیسا آدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم واپس چلو اور میری امان میں رہو۔ چنانچہ آپ اس کے ساتھ واپس آگئے۔ ابن الدغنہ نے اعلان کر دیا کہ میں نے ابوبکر کو امان دی ہے۔ اور قریش نے اسے تسلیم کرلیا۔ اور کہا کہ ابوبکر کو اپنے گھر میں نمازو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے۔ حضرت ابوبکر اپنے مکان کے صحن میں نماز ادا کرتے اور بآواز بلند تلاوت قرآن کریم کرتے تھے۔ قریش کو اس پر اعتراض ہوا کیونکہ آپ کی آواز میں ا س قدر رقت تھی اور تلاوت ایسے درد اور سوز کے ساتھ کرتے تھے کہ سننے والوں کے دل میں آپ کی پرسوز آواز اترتی جاتی تھی۔ اور قریش کو خطرہ تھا کہ ارد گرد کے گھروں میں رہنے والی عورتیں اور بچے اس سے متاثر ہو جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے ابن الدغنہ کے پاس شکایت کی کہ ابوبکر بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔ جس سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ متاثر نہ ہوجائیں۔ ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ یا تو ایسا نہ کرو او ر یا پھر مجھے اپنی حمایت سے بری الذمہ سمجھو۔ حضرت ابوبکرؓ کی غیرت ایمانی نے کسی مداہنت کو گوارا نہ کیا اور نہایت استغناء کے ساتھ اسے کہہ دیا کہ مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں۔ میرے لیے اللہ و رسول کی پناہ کافی ہے۔
15
حضرت عمر نے 33 سال کی عمر یعنی جوانی میں اسلام قبول کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان نہایت بے بسی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ حضرت عمر ایمان لائے تو مشرکین کو جمع کر کے اعلان کیا کہ اس پر قریش کا بگڑنا ایک لازمی بات تھی۔ لیکن آپ کے رشتہ کے ماموں عاص بن وائل نے آپ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا۔ مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس آسرے کو پسند نہ کیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ درآنحالیکہ دوسرے مسلمان مشرکوں کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی کی پناہ کے باعث آرام کی زندگی بسرکروں۔ آپ نہایت جوانمردی کے ساتھ مشرکین کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے حتی کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جاکرنماز ادا کی۔
16
دینی غیرت نہ صرف مسلمان مردوں بلکہ عورتوں میں بھی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ایمان اور اسلام کے لیے اپنی جانیں اور اپنی عزیز اولادوں کو نہایت جوش کے ساتھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی تھیں۔ حضرت ابوبکر کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ یمامہ پیش آئی تو حضرت ام عمارہ اس مردود کے فتنہ سے اسلام کو پاک دیکھنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ اپنے نوجوان لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہوئیں اور اس کے مقابلہ کے لیے میدان جنگ میں گئیں۔ اس جنگ میں حضرت حبیب کو شہادت نصیب ہوئی۔
ہمارے زمانہ کی مستورات غور کریں کہ ایسے وقت میں کہ ان کا نوجوان لڑکا موت کی نیند سو رہا ہو ان کی کیا حالت ہوگی۔ وہ یقینا جزع فزع اور نالہ و شیون سے آسمان سر پر اٹھالیں گی۔ اور اپنے حواس بھی کھو دیں گی۔ لیکن اس زندہ جاوید خاتون کی ایمانی غیرت ملاحظہ ہو کہ اپنے فرزند کی لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس جنگ میں یا تو مسیلمہ قتل ہوگا اوریا پھرمیں بھی اپنی جان دے دوں گی۔ یہ کہا اورتلوار کھینچ کر میدان جنگ میں کود پڑیں۔ اور ایسی داد شجاعت دی کہ بارہ زخم کھائے۔ ایک ہاتھ بھی کٹ گیا۔ مگر پیچھے نہ ہٹیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غیرت کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلی ہو ئی بات کو پورا کردیا۔ چنانچہ مسیلمہ اسی جنگ میں مارا گیا۔
حوالہ جات
1۔ (استیعاب ج1 ص194)
2۔ (سیرۃ ابن ھشام ص430)
3۔ (استیعاب ج3ص71، 72)
4۔ (ابن سعد ج2 ص36، 37)
5۔ (اسد الغابہ ج4 ص654)
6۔ (سیر انصار ج3 ص107تا109)
7۔ عمار بن یاسر ؟
8۔ (ابن سعد ج3ص 182)
9۔ (اسد الغابہ ج3 ص493)
10۔ (اسد الغابہ ج5 ص249)
11۔ (اسد الغابہ زیر لفظ ابو حذیفہ)
12۔ (مسلم کتاب الجہاد)
13۔ (بخاری کتاب الجہاد)
14۔ (بخاری کتاب المناقب)
15۔ (ابن سعد ج1 ص193)
16۔ (سیرۃ الصحابیات ص 130)
موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ضروری سبق
صحابہ کرام کے نوجوان طبقہ کی ایمانی غیرت کی جو چند امثلہ بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ان میں ہمارے موجودہ زمانہ کے لحاظ سے بہت سے اسباق ہیں۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ نازک سے نازک تعلقات کو بھی فوراً فراموش کر دیتے تھے۔ جب مذہب اور دین کا سوال درمیان میں آجاتا تو باپ کو بیٹے کی، اور بیٹے کو باپ کی، بیوی کو خاوند کی، اور خاوند کو بیوی کی پروانہ نہ رہتی تھی۔ اور صرف یہ مدنظر ہوتا تھا کہ دین کے اقتضاء کو باحسن صورت پورا کیا جائے۔ اسے پورا کرنے میں کوئی تعلق ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تھا۔ دین کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی صورت میں بیٹا خود تلوار ہاتھ میں لے کر باپ کی گردن اڑا دینے کے عزم کا اعلان کردیتا تھا۔ اور باپ تمام پدری شفقت کو بالائے طاق رکھ کر بیٹے کی گردن پرچھری پھیر دینے کو تیار ہو جاتا تھا۔ ابتدائی ایام میں اسلام جس قدر کمزور تھا۔ صحابہ میں اگر ایمانی غیرت اس قدر زبردست نہ ہوتی اور وہ چند مسلمان بھی رشتہ داریوں اورتعلقات کا لحاظ کرتے اور مقابلہ کے وقت یہ سوچنے لگتے کہ مدمقابل ان کا عزیز ہے یا اندرونی طور پر اسلام کونقصان پہنچانے والوں کو اپنے قریبی سمجھ کر سزا سے بچانے کی کوشش شروع کردیتے تو اسلامی ترقی فوراً رک جاتی۔
آج ہمارے زمانہ میں گو لڑائیاں تو ممنوع ہیں اور میدان جنگ سے ہم لوگ بہت دور ہیں۔ اس لیے تلوار کے ساتھ اعزہ کے مقابلہ کا سوال تو درکنار دشمن کے ساتھ بھی اس کا کوئی موقعہ نہیں۔ لیکن تہذیب جدید کے ساتھ جو خطرناک امراض ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے قومی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے بے جا ظاہر داری، مصنوعی ہمدردی، بناوٹی اخلاص اور بعض اس کے مفروضہ تقاضے ہیں۔ ایک طرف اگر درپردہ فتنہ انگیزی کی عادت زیادہ پائی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کی بے جا حمایت ہے۔ بعض لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر دین کی حقیقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اور یا پھر دشمنوں کا آلہ کار بن کر جماعت کے اندر ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جن کے نتیجہ میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو کر وحدت قومی کو نقصان پہنچے۔ اور ایسے لوگوں کے خلاف نوٹس لینے اور ان کے پھیلائے ہوئے زہر سے دوسروں کو محفوظ رکھنے میں ایک بہت بڑی روک یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ لوگ اپنے اعزہ و اقارب کی ایسی باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا یہ مرض ظاہر نہ ہو۔ اور وہ کسی گرفت کے نیچے نہ آسکیں۔ بلکہ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر ایسی باتیں خودبخود ظاہر ہو جائیں تو تب بھی ان کی ایمانی غیرت میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ اپنی شہادت پیش کر کے ہی اس فتنہ کے سدباب میں ممد ہوں اور ثواب حاصل کریں۔
مذکورہ بالا واقعات سے آ پ پر ثابت ہو گا کہ صحابہ اس مرض سے بالکل پاک تھے۔ حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کا پوری طرح احساس تھا۔ اور اگر وہ کوئی فتنہ انگیزی پیدا کرنے والی ایسی بات سن پاتے تو خواہ وہ ان کے کسی عزیز ترین رشتہ دار کی طرف سے ہوتی اور اس کا اظہار ان کے لیے سخت سے سخت مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا۔ وہ خود بخود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ قومی اور ملی مفاد کو ذاتی مفاد اور اپنے آرام و آسائش پر مقدم کرتے اورعواقب سے آنکھیں بند کر کے حضور کو صحیح واقعات سے آگاہ کردیتے تھے۔ بلکہ اپنے ہاتھ سے تلوار کے ساتھ فتنہ کے اس دروازہ کو بند کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتے تھے۔ اگر ہمارے نوجوان بھی ان مثالوں کو مشعلِ راہ بنائیں اور موجودہ زمانہ کے لحاظ سے اس قسم کے فتن کے سدباب کے لیے ہر ممکن اور جائز ذریعہ کو استعمال میں لائیں تو استحکام دین میں اس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اور دشمنوں کی نقصان رسانی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔








دینی امور میں رازداری
غیرت ایمانی کے باب میں ایسی امثلہ پیش کی جاچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ دین میں فتنہ پیدا کرنے والے امور کو کسی صورت میں چھپاتے نہیں تھے۔ اور ان پر پردہ نہیں ڈالتے تھے بلکہ فتنہ انگیز باتوں کو خودبخود ظاہر کردیتے تھے۔ خواہ وہ ان کے عزیز سے عزیز کے منہ سے کیوں نہ نکلی ہوں۔ اور جس طرح ایسی باتوں کا اظہار اور ذمہ دار لوگوں تک ان کا پہنچنا ضروری ہے اس طرح قومی ترقی کے لیے ایسی باتوں کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جن کا اظہار دشمن کے لیے مفید ہوسکتا ہو۔ اور اس وجہ سے ان کا چھپانا ضروری ہو اور یہ چیز بھی صحابہ کرام کی زندگیوں میں نہایت نمایاں نظر آتی ہے۔ ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
1
حضرت عبداللہ بن ارقم ایک نوجون صحابی تھے۔ جو مراسلات تحریر کیا کرتے تھے۔ پوشیدہ سے پوشیدہ مراسلات ان کی تحویل میں رہتے تھے۔ مگر وہ خود بھی کبھی ان کو کھول کر بلاضرورت نہ پڑھتے تھے۔ چہ جائیکہ کسی کو ان کے مضمون سے آگاہ کریں۔
2
حضرت انس آنحضرتﷺ کے خادم تھے۔ اور باوجود یہ کہ آپ کی عمر آٹھ دس سال کی تھی آپ حضور کے کاموں میں انتہائی رازداری سے کام لیتے تھے۔ ایک دفعہ حضور کی خدمت سے فارغ ہو کر گھر کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں بچے کھیل رہے تھے۔ آپ بھی بتقاضائے عمر کھیل دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔ کہ اتنے میں آنحضرتﷺ تشریف لے آئے۔ لڑکوں نے انہیں بتایا کہ حضورﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ حضور جب قریب پہنچے تو حضرت انس کا ہاتھ پکڑ کر ان کو علیحدہ لے گئے اور ان کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا جسے سن کر حضرت انس وہاں سے چلے گئے۔ اور آنحضرتﷺ آپ کے انتظار میں وہیں تشریف فرمارہے۔ حضرت انس فارغ ہو کر واپس آئے اور حضور کو جواب سے آگاہ فرمایا۔ جسے سن کر حضورﷺ واپس تشریف لے گئے اور حضرت انس گھر چلے گئے۔ اور اس غیر معمولی کام کی وجہ سے چونکہ گھرواپس آنے میں معمول سے تاخیر ہوگئی تھی۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو حضرت انس نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے ایک کام پر بھیجا تھا۔ اس لیے دیر ہوگئی۔ اور چونکہ آپ ابھی بچے تھے والدہ نے اس خیال سے کہیں یہ بہانہ ہی نہ ہو کہا کہ کس کام پر بھیجا تھا۔ حضرت انس نے جواب دیا کہ وہ ایک خفیہ بات تھی۔ جو افسو س ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ والدہ کی سعادت دیکھیے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خو ددریافت کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ تاکید کہ کہ کسی اور سے بھی اس کا ذکر ہرگز نہ کرنا۔
3
غزوہ قریظہ کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے یہودیوں کا محاصرہ کیا تو یہودیوں نے حضرت ابولبابہ کو قلعہ میں بلوایا کہ آپ سے مشورہ کر کے اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کریں۔ کیونکہ ان کے خاندان سے پرانے حلیفانہ تعلقات کی بناء پر انہیں حضرت ابولبابہ پر اعتماد تھا اور خیال تھا کہ وہ ضرور ہماری بہتری کی کوئی بات کریں گے۔ حضرت ابولبابہ قلعہ میں پہنچے۔ تو یہود ان کے جذبہ رحم کو اپیل کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں کو جو روپیٹ رہے تھے ان کے سامنے لے آئے۔ حضرت ابولبابہ نے ان کو مشورہ دیا کہ آنحضرتﷺ کے منشاء کے مطابق چلو۔ اس میں تمہاری بہتر ی ہے۔ اور ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کر کے انہیں یہ بات سمجھائی کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو قتل کردیئے جاؤ گے۔ یہ اشارہ انہوں نے یہود کے سنگین جرائم اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران میں عہد شکنی کی وجہ سے اپنے اجتہاد سے کیا کیونکہ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ ایسے جرائم کی سزا قتل ہی ہے۔ کرنے کو تو اشارہ کر گئے لیکن واپسی پر جب یہ خیال آیا کہ میرا یہ اشارہ رازداری کے منافی ہے اور اس طرح اشارہ کر کے میں خدا اور اس کے رسول کے ساتھ ایک گونہ خیانت کا مرتکب ہوا ہوں تو گھبرا گئے اور سوچنے لگے کہ مجھے اس کی تلافی کی کوئی صورت کرنی چاہیے۔ اور اپنے خیال سے ہی تلافی کی۔ یہ صورت ان کے ذہن میں آئی کہ سیدھے مسجد نبوی میں پہنچے اور ایک موٹی زنجیر لے کر مسجد کے ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ دیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے حضور میری توبہ قبول نہ ہوگی اور میرا گناہ معاف نہ ہوگا۔ اسی طرح بندھا رہوں گا۔ ساتھ آٹھ روز اسی طرح بندھے رہے صرف نماز اور حوائج بشری سے فراغت کے لیے آزاد ہوتے اور فارغ ہوتے ہی ان کے حکم کے ماتحت ان کی لڑکی پھر اسی طرح باندھ دیتی۔ غم کی وجہ سے کھانا پینا بالکل چھوٹ گیا۔ مسلسل فاقہ کشی اور اذیت برداشت کرنے کی وجہ سے صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ کان بہرے ہوگئے اور بینائی میں بھی فرق آگیا۔ کئی بار بے ہوش ہو ہو کر گر تے۔ مگر جان کی انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی صرف یہ خیال تھا کہ کسی طرح گناہ کی تلافی ہو جائے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی۔ آنحضرتﷺ نے اس کا اعلان کیا تو صحابہ کھولنے آئے مگر آپ نے فرمایا آنحضرتﷺ جب تک خود نہ کھولیں گے میں بدستور بندھا رہوں گا۔ خواہ جان کیوں نہ چلی جائے۔ آخر آنحضرتﷺ خود تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کو آزادکیا۔ اس پر اس قدر خوش ہوئے کہ کہا اب تمام گھر بار چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضررہوں گا اور کل مال صدقہ کرتا ہوں۔ مگر آنحضرتﷺ نے صرف ایک ثلث کی اجازت دی۔
راز داری کے احساس کے علاوہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک سبق ہے جو نہ صرف خود کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی سزا سے محفوظ رہنے کے لیے طرح طرح کے بہانے کرتے اور اپنی غلطی کو تاویلات کے ذریعہ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دوسرں کے جرائم پر بھی پردہ ڈالنے کی جائز و ناجائز سعی کرتے ہیں۔
4
فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے ساٹھ صحابہ کو بنو ملوح کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔ جن میں ایک نوجوان حضرت غالب بن عبداللہ تھے۔ ایک مقام پر پہنچ کر افسر جیش نے ان کو دشمن کی نقل و حرکت اور حالات کی تحقیق کے لیے آگے بھیجا۔ یہ ان کی آبادی کے قریب پہنچ کر ایک بلند ٹیلہ پر چڑھ کر منہ کے بل لیٹ گئے۔ اور دشمن کی حرکات کا جائزہ لینے لگے۔ اتنے میں ایک شخص جس کا مکان ٹیلہ کے قریب تھا گھر سے نکلا۔ اس کی بیوی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے یونہی جو اوپر دھیان کیا تو آپ کا سایہ نظر آیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ٹیلہ پر مجھے سایہ نظرآتا ہے شاید کوئی آدمی ہے یا ممکن ہے کوئی کتا وغیرہ ہو۔ جو ہمارے ہاں سے کوئی کھانے پینے کی چیز یا برتن وغیرہ اٹھا کر اوپر جا بیٹھا ہو۔ ذرا گھر میں دیکھو تو سہی کہ کتا کوئی چیز یا برتن وغیرہ تونہیں لے گیا۔ بیوی نے سب کچھ دیکھ بھال کر اطمینان دلایا کہ سب چیزیں محفوظ ہیں۔ اس پر اسے یقین ہوگیا کہ ضرور کوئی آدمی ہے اوربیوی سے کہہ کر تیر کمان منگوایا۔ اور آپ پر دو تیر چلائے۔ جن میں سے ایک تو آپ کے پہلو میں لگا اور دوسرا کندھے میں مگر آفرین ہے اس جواں ہمت پر کہ دو تیر لگے اور جسم کے نازک حصوں میں پیوست ہوگئے۔ لیکن اس قدر زخم کھانے کے باوجود کوئی حرکت کرنا تو درکنار منہ سے اف تک نہ کی کہ مبادا اسے علم ہو جائے اوراس طرح مسلمانوں کا راز افشا ہو کر انہیں کوئی نقصان پہنچے۔ یہ دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ محض واہمہ ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی آدمی ہوتا تو اس طرح تیر لگنے پر جنبش تک نہ کرتا۔ چنانچہ وہ مطمئن ہو کر وہاں سے واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد آ پ نے تیر کھینچ کر باہر نکالے۔
5
آنحضرتﷺ نے منافقین کے نام حضرت حذیفہ کو بتادئیے اور اس وجہ سے ان کا لقب ہی "سر رسول اللہ" پڑ گیا تھا۔ چونکہ اس راز کے افشاء کی آنحضرتﷺ نے آپ کو اجازت نہ دی تھی۔ اس لیے آپ نے کبھی ان ناموں کو ظاہرنہیں کیا۔ ایک بار حضرت عمر نے ان سے دریافت کیا کہ میرے عمال میں کوئی منافق ہو تو بتائیے۔ کہ میں ان کے ضرر سے اسلام کو بچانے کا انتظام کرسکوں مگر آپ نے جواب دیا کہ ایک ہے تو سہی مگر افسوس ہے کہ میں اس کا نام نہیں بتاسکتا۔ کہ اس طرح آنحضرتﷺ کے راز کے افشا کا مجرم ہوں گا۔
6
آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکر جب بہ ارادہ ہجرت مکہ سے نکلے تو حضرت ابوبکر نے اپنے نوجوان فرزند حضرت عبداللہ کو ہدایت کی کہ قریش کی نقل و حرکت کا اچھی طرح خیال رکھیں۔ اور روز شام کے بعد غارِ ثور میں پہنچ کر اطلاع دیا کریں۔ چنانچہ آپ اس حکم کی تعمیل نہایت رازداری سے کرتے رہے۔ شام کا اندھیرا ہوتے ہی غار ثور میں پہنچ جاتے۔ اور رات وہیں ٹھہر کر سفیدی صبح نمودار ہونے سے قبل واپس آجاتے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر کے خادم عامر بن فہیرہ کے سپرد یہ کام تھا کہ دن بھربکریاں چرائیں اور رات کو دودھ وہاں پہنچایا کریں۔ چنانچہ وہ بھی اس کی تعمیل اس احتیاط کے ساتھ کرتے رہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ تین رات تک برابر یہ انتظام رہا مگر اس قدررازداری کے ساتھ کہ قریش کو جو آنحضرتﷺ کی تلاش میں دیوانہ وار دشت و جبل کی خاک چھان رہے تھے مطلقاً خبر نہ ہوئی۔
حوالہ جات
1۔ (مستدرک حاکم ج3 ص335)
2۔ (بخاری کتاب الادب)
3۔ (مسند احمد ج3 ص 453) ؟
4۔ (اسد الغابہ ج4 ص34) (سیرۃ ابن ھشام ج4 سریۃ بنی ملوح)
5۔ (اسد الغابہ ج1 ص235)
6۔ (بخاری کتاب المناقب)


پاس فرَمانِ نبویؐ
1
ایک صحابی حضرت سعد الاسود سیاہ رنگ اور کم رو تھے۔ ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی۔ اور ان کی ظاہری بدصورتی کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی لڑکی کے رشتہ پر رضامند نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیاکہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ میری ظاہری شکل و صورت اور رنگ ڈھنگ اچھا نہیں۔ عمروبن وہب قبیلہ بنوثقیف کے ایک نومسلم تھے۔ جن کی طبیعت میں درشتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کے دروازہ پر جاکر دستک دو۔ اوربعد اسلام کہو کہ نبی اللہ (ﷺ) نے تمہاری لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے۔ عمربن وہیب کی لڑکی شکل و صورت کے علاوہ دماغی اور ذہنی لحاظ سے بھی نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ حضرت سعد ان کے مکان پر پہنچے اور جس طرح آنحضرتﷺ نے فرمایا اسی طرح کہا۔ عمروبن وہیب نے یہ بات سنی تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ اور اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا لیکن بات یہیں پر ختم نہںا ہوجاتی بلکہ آگے جو کچھ ہوا وہ اس قدر ایمان پرور بات ہے کہ تمام مذاہب و ملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ خود لڑکی اندر یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے باپ نے حضرت سعد کو جو جواب دیا اسے سن کر وہ تو واپس آگئے۔ اور اسکے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ لیکن لڑکی خود باہر نکل آئی۔ حضرت سعد کو آواز دے کر واپس بلایا اور کہا کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے میرے ساتھ آپ کی شادی کی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چون و چرا کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے۔ یہ تجویز مجھے بسر وچشم منظور ہے اور میں اس چیز پر بخوشی رضامند ہوں۔ جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے اور ایمانی جرات سے کام لے کر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضرتﷺ کی تجویز سے اختلاف کرکے بہت غلطی کی ہے اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اورقبل اس کے کہ وحی الہیٰ آپ کو رسوا کردے اپنی نجات کی فکر کیجئے۔ لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطر خواہ اثر ہوا۔ ان کو اپنی غلطی کا پوری طرح احسا س ہوگیا۔ فوراً بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور کہا یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی۔ مجھے سعد کی بات کا یقین نہ آیا تھا۔ اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس لیے انکار کیا مگراب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میں نے اپنی لڑکی سعد سے بیاہ دی۔
2
حضرت جلیب بھی حضرت سعدکی طرح ظاہری طور پر اچھی شکل و صورت کے مالک نہ تھے۔ آنحضرتﷺ نے انصار کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی کے ساتھ ان کا رشتہ تجویز کیا۔ مگر لڑکی کے ماں باپ کو اس پر اعتراض تھا۔ لڑکی کو اس کا علم ہواتو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔ ماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضیٰ اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم۔ یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مسلمان کو اس میں چون وچرا کی گنجائش نہ ہونی چاہیے۔ اور اس صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے میں حیران ہوں کہ آپ اس تجویز کے کیوں مخالف ہیں۔ میں اس رشتہ پر رضامند ہوں۔ جو مرضی رسول کریمﷺ کی ہے وہی میری ہے۔ رسول کریمﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو بہت مسرور ہوئے۔
3
آنحضرتﷺ ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دوران خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشادکان میں پڑا۔ ان الفاظ میں گویا ایک جادو تھا اور اپنے محبوب کی آواز میں اس قدر شوکت تھی کہ پاؤں نے آگے قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔ یوں معلوم ہوا کہ گویا کسی نے بریک لگا دی۔ آپ حالت بے اختیار میں وہیں بیٹھ گئے۔ اور اتنی بھی جرات نہ کرسکے کہ مسجد میں پہنچ لیں اور تو اس حکم کی تعمیل کریں۔
4
حضرت طلحہ بن البراء آغاز شباب میں اسلام لائے۔ تو آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جو حکم چاہیں دیں میں اس کی بسر و چشم تعمیل کروں گا۔ آپ نے فرمایا۔ جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کردو۔ وہاں کیا دیر تھی ایمان کی حرارت جسم کے رگ و ریشہ میں ایسی سرائت کر چکی تھی کہ اس نے تمام دنیوی محبتوں کو سرد کر دیا تھا۔ اور آنحضرتﷺ کی محبت دل و دماغ میں اس قدر غالب آچکی تھی کہ سب تعلقات اس کے سامنے ہیچ نظر آتے تھے۔ فوراً تلوار سنبھالی اور تعمیل ارشاد کے لیے روانہ ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے یہ فداکاری دیکھی تو واپس بلایا اور فرمایا۔ میں قطع رحم کے لیے نہیں آیا ہوں۔
5
صحابہ آنحضرتﷺ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے کس طرح بدل و جان ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل پر نفسانی میلانات و رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ آنحضرتﷺ کے ہاں ایک کنیز ام ایمن نام تھیں۔ آپ ان پر بہت خوش تھے۔ اور ان کو اماں کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہے توام ایمن سے کرے۔ حضرت زید بن حارثہ نے یہ بات سنی تو فوراً ان کے ساتھ نکاح کرلیا۔ مشہور صحابی اسامہ جو آنحضرتﷺ کو بہت محبوب تھے انہی کے بطن سے تھے۔
6
آنحضرتﷺ نے مدینہ کو بھی مکہ کی طرح حرام قرار دیا۔ اور فرمایا تھا کہ مدینہ کے ارد گرد کی نہ گھاس کاٹی جاسکتی ہے نہ جانوروں کا شکار جائز ہے اور نہ پرندے پکڑنے کی اجازت۔ صحابہ کرام اس ارشاد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرمایا کرتے تھے کہ مدینہ میں چرنے والے ہرنوں کو بدکانے کی بھی میں جرات نہیں کرسکتا۔ ؂۶
7
ایک دن ایک بچہ نے کسی پرندہ کا شکار کیا تو حضرت عبادہ بن الصامت نے اسے دیکھ کر پرندہ کو اس سے چھین کر چھوڑ دیا۔
8
حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک مرتبہ کسی غلام کو مدینہ میں شکار کرتے دیکھ لیا تو اس کے کپڑے چھین لیے اورکہا کہ آنحضرتﷺ کے ارشاد کے خلاف مدینہ کی حدود میں شکار کرنے کی یہی سزا ہونی چاہیے۔
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج2 ص202)
2۔ (سیرانصار ج 1 ص274)
3۔ (اصابہ ج3 ص462)
4۔ (اصابہ ج3 ص426)
5۔ (اسد الغابہ ج2 ص140تا142)
6۔ (مسلم کتاب الحج)
7۔ (مسند احمد ج5ص 317)
8۔ (ابو داؤد کتاب المناسک)











ہاتھ سے کام کرنا
1
صحابہ کرام کے اخلاق میں یہ چیز نہایت نمایاں نظرآتی ہے کہ وہ لوگ ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔ اور اس میں کسی قسم کی ہتک یاسبکی کا خیال ان کے دامن گیر نہ ہوتا تھا۔ جنگ اور اس کے ضمن میں خدمات کے وقت وہ جس شوق سے کام کرتے تھے اس کو نظر انداز کر کے عام زندگی کے چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ پہلے پہل جب مدینہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر تھا۔ جس کا سنگِ بنیاد آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے رکھا۔ اس مسجد کے معمار اور مزدور سب کچھ صحابہ خود تھے۔ آنحضرتﷺ خود بھی کبھی کبھی ان کے ساتھ شرکت فرماتے تھے۔ یہ کام صحابہ نہایت شوق سے کرتے اور بعض اوقات ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتے ؂
ہذا الحمال لا حمال خیبر
ہذا ابرر بنا راطھر
یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو اونٹوں پر لد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے مولا یہ تقویٰ و طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح قباء کے مقام پر بھی جہاں مہاجرین پہلے پہل آکر آباد ہوئے تھے صحابہ نے خود اپنے ہاتھوں سے مسجد تعمیر کی تھی۔
2
حضرت ابودرداء ایک نہایت بلند پایہ اورفاضل صحابی تھے۔ ان کے حلقۂ درس میں بیک وقت سینکڑوں طلباء کی حاضری لکھی ہے۔ مگر انہیں ہاتھ سے کام کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ دمشق کی مسجد میں جہاں وہ امام تھے اپنے ہاتھ سے درخت لگایا کرتے اور ان کی پرورش و دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے تعجب کے رنگ میں ان سے کہا کہ یہ کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں تو فرمایا اس میں بڑا ثواب ہے۔
3
حضرت حرام بن ملحان مسجد نبوی میں خود پانی بھرا کرتے تھے۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان کو فروخت کرکے اصحاب الصفہ اور دوسرے محتاجوں کے لیے خوراک مہیا کیا کرتے تھے۔
4
بیئر معونہ کے مقام پر ستر قاریوں کے کفار کے ہاتھوں شہید ہونے کا واقعہ کسی دوسری جگہ ذکر کیا جاچکا ہے۔ ان قاریوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلاتے اور اس طرح اپنے واسطے قوت لایموت کا سامان مہیا کرتے تھے اور پھر رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔
5
آنحضرتﷺ پہلے مسجد میں ایک ستون کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے منبر کا خیال ظاہر فرمایا تو ایک صحابی حضرت سہل جو کمسن ہی تھے اٹھے اور منبر کے لیے جنگل سے لکڑی کاٹ کر لے آئے۔
6
حضرت کعب بن عجزہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضور کاچہرہ مبارک بھوک کی وجہ سے متغیر ہو رہا ہے۔ چنانچہ آپ فوراً مجلس سے اٹھے اورباہر چلے گئے۔ ایک یہودی اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا۔ اس سے فی ڈول ایک چھوہارہ کے حساب سے مزدور ی طے کی اور اس طرح کچھ چھوہارے جمع کر کے لائے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے۔
7
حضرت عبداللہ بن سلام ایک متمول صحابی تھے۔ ایک دفعہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے آرہے ہیں تو کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مستغنی کیاہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کبر و غرور کا قلع قمع کرنا چاہتا ہوں۔
8
حضرت سعد بن ابی وقاص، جنہوں نے 19 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا کاشمار کبار صحابہ میں ہے۔ آپ نہایت عالم و فاضل، جرنیل اور معزز عہدوں پر متمکن ہوتے رہے۔ آپ کا علمی پایہ اس قدر بلند تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد رسول ﷺ سے کوئی روایت بیان کریں تو پھر اس کے متعلق کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں۔ لیکن سادگی اور ہاتھ سے کام کرنے کی جو تعلیم معلم اسلام سے حاصل کی اسے کسی رتبہ پر پہنچ کر بھی نہ چھوڑا۔ ایک مرتبہ آپ جنگل میں اونٹ چرا رہے تھے کہ خود ان کے لڑکے نے آکر کہا کہ یہ بھی کوئی اچھی بات ہے کہ لوگ تو بادشاہتیں اور حکومتیں کریں اور آپ جنگل میں اونٹ چراتے پھریں۔ آ پ نے اس کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا چپ رہو میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ خداتعالیٰ مستغنی اور پرہیز گار بندے کو محبوب رکھتا ہے۔
9
حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر تھے۔ پانچ ہزار دینار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔ مگر باوجود اس کے اپنے ہاتھ سے چٹائیاں بن کر ذریعہ معاش پیدا کرتے تھے۔ اور تنخواہ سب کی سب راہ خدا میں صرف کردیتے تھے۔
10
حضرت علی کرم اللہ وجہ کی فضیلت محتاج تشریح نہیں۔ آپ آنحضرتﷺ کے داماد اور اہل بیت میں شامل تھے۔ حضرت فاطمہ الزہرا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا تو دعوت ولیمہ کا کوئی سامان نہ تھا۔ آپ کے پاس صرف دو اونٹنیاں تھیں۔ آپ نے تجویز کیا کہ جنگل میں سے ایک گھا س جسے اذخر کہتے ہیں اور جو سناروں کے کام آتی ہے لاد کر لائیں اور اسے سناروں کے پاس بیچ کردعوت ولیمہ کے لیے سامان فراہم کریں۔
11
حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ کنامع رسول اللّٰہ صلعم خدام۔ یعنی ہم سب آنحضرتﷺ کے ساتھ خود اپنے خادم ہوتے تھے اور باری باری اپنے اونٹ چراتے تھے۔
12
ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو فاقہ کی حالت میں پاکر حضرت علی ایک یہودی کے باغ میں آئے۔ اور فی ڈول ایک کھجور معاوضہ طے کر کے سترہ ڈول پانی کے کھینچے۔ اور اس طرح سترہ کھجوریں حاصل کرکے آنحضرتﷺ کے حضور لاکر پیش کیں۔
13
حضرت عبداللہ بن عمر سفر میں ہوتے تو جو کام خود کرسکتے وہ کسی دوسرے کے سپرد نہ کرتے تھے۔ حتی کہ اپنی اونٹنی کو خو دبٹھاتے۔ اور خو دسوار ہوتے تھے۔
14
حضرت عبدالرحمن بن عوف ہجرت کر کے آئے تو حضرت سعدبن الربیع کے ساتھ مواخات ہوئی۔ حضرت سعد نے ان کو نصف مال دینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے بازار کا راستہ بتادو۔ چنانچہ بازار میں گئے اور گھی و پنیر کی تجارت شروع کردی۔
15
حضرت علی حضرت سعد بن مالک حضرت عبد اللہ بن مسعودوغیرہ جلیل القدرصحابہ جب مدینہ میں آئے تو انصار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ اور اس طرح فصل سے حصہ لے لیتے تھے۔
16
مختصر یہ کہ صحابہ کسی کام کو رذیل نہ سمجھتے تھے۔ حضرت خباب لوہار تھے۔ ؂۶۱
17
بعض صحابیات کپڑے بنا کرتی تھیں۔ خوادم المؤمنین حضرت سودہ طائف کا ردیم بناتی تھیں۔
18
ایک صحابی کے ہاتھ سیاہ پڑ گئے۔ آنحضرتﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ دن بھر پتھر پر پھاوڑا چلاتاہوں۔ اس سے اہل وعیال کی روزی کماتا ہوں۔ آپ نے اس کے ہاتھ چوم لیے۔
19
باوجود یہ کہ حضرت ابوبکر بہت بڑے امیر اور صاحب حیثیت آدمی تھے مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی۔ آپ خود بھیڑ بکریاں چرا لیتے تھے۔ محلہ والوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے۔ حتی کہ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کے محلہ کی ایک لڑکی نے نہایت حسرت کے ساتھ کہا کہ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دوہے گا۔
20
حضرب ابوبکر کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے۔ حتی کہ دین و دنیا کے بلند ترین منصب پر فائز ہونے یعنی خلیفہ ہونے کے بعد بھی آپ کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہواکہ اب ہاتھ سے محنت کرنا میری شان کے منافی ہے۔ اور کہ اب مجھے اس سے احترازکرنا چاہیے۔ چنانچہ اگلے ہی روز حسب معمول آپ نے کپڑے کے تھانوں کا گٹھا اٹھایا اور خریدوفروخت کے لیے بازار کی طرف چل دئیے۔ رستہ میں حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ ملے تو انہوں نے کہا کہ اب تو آپ ہمارے امام ہیں یہ کام چھوڑ دیں اور بیت المال سے وظیفہ لے لیا کریں۔
یہ واقعہ ہمارے نوجوانوں کے لیے خاص طور پر عبرت انگیز ہے۔
21
اسلام کی تعلیم کے نتیجہ میں صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ اپنا کام کرنامعمولی بات ہے وہ دوسروں کی خدمت سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ باوجود یہ کہ دنیوی لحاظ سے حضرت عمر کو اتنی بڑی پوزیشن حاصل تھی۔ کہ جو ایک بڑے سے بڑے بادشاہ کو ہوسکتی ہے۔ مگر آپ کندھے پر مشق ڈال کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھر دیتے تھے۔ اور مجاہدین کے بیوی بچوں کو بازار سے سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت کا تمدن ہمارے موجودہ تمدن سے بہت مختلف تھا اور اس زمانہ میں امراء کو بہت سے ایسے دفتری کام نہیں پڑتے تھے جو اس زمانہ میں ضروری ہوگئے ہیں۔ اور دفتری طرز حکومت نے ذمہ دار لوگوں کے لیے کام کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ انہیں بہت سا وقت اس پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ہمارے نوجوانوں کے لیے جو محض کسر شان کے خیال سے بعض کاموں کو اپنے لیے ہتک آمیز خیال کرتے ہیں ان واقعات میں بہت سے سبق مل سکتے ہیں۔
22
حضرت عثمان کی امارت میں کسی کو کلام نہیں۔ گھر میں خدمت گار موجود ہوتے تھے لیکن آپ کی عادت تھی کہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے۔ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو وضو وغیرہ کی تیاری کے لیے کسی کو نہ جگاتے تھے۔ بلکہ تمام سامان خود ہی کرلیتے تھے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے براہ راست تربیت حاصل کرنے والوں کے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو چکی تھی کہ آدمی کو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے۔
23
حضرت علی باوجود یہ کہ آنحضرتﷺ کے فرزند نسبتی اور خود بھی ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ محنت مزدوری کو کبھی اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے رات بھر کسی کے باغ میں پانی دیا اور اس کے عوض کچھ جو حاصل کیے اور پھر صبح جب کھانے کے لیے ان کا حریرہ تیار کرایا تو عین اس وقت کہ جب آپ کھانے کو تیار ہوئے ایک سائل آگیا۔ آپ نے وہ اٹھا یااور اس کے حوالے کردیا۔
24
لوگ بعض اوقات آپ سے مسائل وغیرہ پوچھنے کے لیے آتے تو آپکو کبھی گھر میں اپنا جوتا مرمت کرتے، کبھی زمین کھودتے، اور کبھی جنگل میں اونٹ چراتے ہوئے پاتے تھے۔
25
آنحضرتﷺ کو اپنے جگر گوشہ حضرت فاطمہ الزہرا سے جو محبت تھی اور آپ کی آسائش کا جس قدر خیال رہتا تھا وہ احادیث سے ظاہر ہے۔ تاہم مقدرت ہونے کے بعدبھی ان کا ہاتھ سے کام کرنا آپ کے لیے باعث تکلیف نہیں ہوا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ الزہرا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے گھر میں سخت محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے حتیٰ کہ چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ آپ کے پاس غلام آئے ہیں ایک مجھے عنایت کردیں۔ تاکہ اس مشقت میں مدد مل سکے۔ لیکن سردار دو عالم اور شہنشاہ کونین نے اپنی اکلوتی اور محبوب بیٹی کی یہ بات سن کر جو کچھ فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ہم لوگ نہایت تنگ دستی کی حالت میں بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ اولاد کو معمولی مشقت کا کام بھی کرنا پڑے۔ مگر آپ کو معلوم ہے حضور نے حضرت فاطمہ کو کیا جواب دیا۔ آپ نے فرمایا کیا میں تم کو دوں اور اہل صفہ کی آسائش کا انتظام نہ کروں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ خالی واپس آگئیں۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ ان کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا کیا تم کو میں ایسی بات بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جو تم نے مانگی ہے۔ انہوں نے کہا فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 333۔ 3 بار تسبیح و تحمید اور 34 بار تکبیر کہہ لیا کرو۔
26
حضرت علی کے بلند پایہ اور عالی مقام کو ایک طرف رکھئیے اور دوسری طرف اس واقعہ کو پڑھیے جو آپ خود یوں فرماتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ میں گھر سے مزدوری کے لیے نکلا۔ ایک عورت نے مٹی جمع کر رکھی تھی جسے بھگونا چاہتی تھی۔ میں نے اس کے ساتھ فی ڈول ایک کھجور مقرر کی اور سولہ ڈول بھرے جس سے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور پھرسولہ کھجوریں لے کر میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر وہ کھجوریں کھائیں۔
27
ہاتھ سے کام کرنا صرف صحابہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ خود سرورکائنات شاہِ کونین سرور عالم آنحضرتﷺ کو بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں عارنہ تھی۔ احادیث میں اکثر ایسی روایات ملتی ہیں کہ آپ جب گھر میں تشریف لاتے تو گھر کے کام کاج میں امہات المومنین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے اور یہاں تک کہ اپنے ہاتھ سے اپنا جوتا مرمت کرلیتے تھے۔ پھر قومی کاموں میں بھی آپ صحابہ کے ساتھ کام کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کاسینہ مبارک گردوغبارسے اٹا ہوا تھا اور آپ خود دست مبارک سے اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر صحابہ کرام کو دیتے تھے۔ اور ساتھ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ دفعتاً آپ کی نظر عمار بن یاسر پر پڑی۔ اور آپ نے فرمایا اے ابن سمیہ تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت حالات کے تقاضہ کے ماتحت نہ تھی۔ بلکہ ان بزرگوں نے اپنے رہبر اورہادی سے یہی ہدایت پائی تھی اور اسی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے۔ اس میں کسی امیر و غریب یا چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہ تھا کہ خیال کیا جائے کہ وہ حالات کی مجبوری سے ایسا کرتے تھے۔
28
حضرت اسماء حضرت ابوبکر کی صاحبزادی تھیں۔ جو عرب کے متمول لوگوں میں سے تھے۔ لیکن باایں ہمہ وہ اپنے ہاتھ سے معمولی سے معمولی کام کرتی تھیں۔ ان کا نکاح حضرت زبیر کے ساتھ ایسی حالت میں ہوا کہ حضرت زبیر بالکل غریب تھے۔ ایک اونٹ اور ایک گھوڑا ان کی کل کائنات تھی۔ حضرت اسماء اونٹ اور گھوڑے کی نگہداشت خود کرتی تھیں۔ اور اس کے علاوہ گھر کا باقی کام کاج بھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت زبیر کو ایک زمین دی تو یہ خود وہاں جاکر کھجوروں کی گٹھلیاں اکٹھی کرتیں۔ اور تین فرلانگ سے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
29
حضرت زینب بنت ابو معاویہ کی شادی حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہوئی تھی۔ ان کے شوہر غریب تھے۔ اور یہ دستکاری جانتی تھیں۔ اس لیے اپنے ہاتھ سے محنت کر کے گھرکا خرچ چلاتی تھیں۔
حوالہ جات
1۔ (بخاری کتاب المناقب)
2۔ (سیر انصار ج1 ص184)
3۔ (بخاری کتاب المغازی)
4۔ (سیرت خاتم النبیین ص369)
5۔ (مسند احمد ج5 ص337)
6۔ (اصابہ ج5 ص449)
7۔ (تذکرۃ الحفاظ ج1 ص23)
8۔ (اسد الغابہ ج2 ص232تا235)
9۔ (اسد الغابہ ج2 ص286)
10۔ (ابو داؤد کتاب الخراج)
11۔ (ابو داؤد کتاب الطہارت)
12۔ (ابن ماجہ ابواب الرہون)
13۔ (ابن سعد ج3 ص164)
14۔ (بخاری کتاب البیوع)
15۔ (بخاری کتاب الحرث)
16۔ (بخاری کتاب البیوع)
17۔ (اسد الغابہ ج6ص160) ؟
18۔ (اسد الغابہ ج2ص203)
19۔ (ابن سعد ج1 ص132)
20۔ (ابن سعد ج1 ص ہ13)
21۔ (کنز العمال ج12 ص629)
22۔ (تاریخ طبری ص 2966)
23۔ (بخاری کتاب المناقب) ؟
24۔ (تاریخ طبری ص 3348)
25۔ (بخاری کتاب المناقب)
26۔ (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ علی بن ابی طالب)
27۔ (مسند احمد ج6 ص322)
28۔ (بخاری کتاب المغازی)
29۔ (بخاری کتاب النکاح)
30۔ (اسد الغابہ ج6 ص128)
ایک گزارش
صحابہ کرام کی زندگی کا یہ پہلو ہمارے زمانہ کے لیے بہت درجہ سبق آموز ہے۔ آج مغربی تہذیب و تمدن نے نوجوانوں کے اندر ایسی خطرناک ذہنیت پیدا کر دی ہے اور خودداری اور سیلف رسپکٹ کا ایسا غلط مفہوم ان کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ و ہ بعض کاموں کو کرنا کسرشان سمجھتے ہیں۔ اور اس مفروضہ عزت نفسی کے خیال سے بیکاری کے مرض میں نہایت بری طرح مبتلا رہتے اور نہایت حسرت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے والدین اور متعلقین کے لیے ایک بار بنے رہتے ہیں۔ لیکن جب تک خود ساختہ معیار کے مطابق کام نہ ملے بے کار ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ جس کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تربیت خراب ہو جاتی ہے۔ طبعیت میں آوارگی اور بے راہ روی پیدا ہو کر بعض اوقات ان کے چال چلن کوبگاڑ دیتی ہے۔ ایسے نوجوان اگران واقعات کو غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ و ہ خواہ کتنے معزز گھرانوں کے چشم و چراغ کیوں نہ ہوں۔ سرور کائنات شاہِ دو عالم محمد مصطفےٰ ﷺ کے خاندان کے افراد سے زیادہ معزز نہیں ہوسکتے۔ اور جب یہ حالت ہے کہ حضور ﷺ کا فرزند نسبتی اور قریش کے معزز ترین گھرانے کا معزز اور عالم و فاضل فرزند معمولی گھاس کاٹ کر لانے اور اسے بازار میں فروخت کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتا۔ اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ازدواج مطہرات اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ نہ خاندانی وجاہت ان کے دامن گیر ہوتی ہے اور نہ ہی اس فخر موجودات کے خاندان سے انتساب ان کی محنت و مشقت کے راستہ میں حائل ہوتا ہے۔ تو یقینا و ہ اپنی روش پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہوں گے۔ اوراگر یہ واقعات ان کے دل پر اثر اندازہو کر ان ذہنیتوں میں اصلاح کرسکیں تو مسلمانوں کی قومی اور تمدنی زندگی میں ایک نہایت خوشگوار اور آرام دہ انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔
ایک معزز صحابی کے ہاتھوں کی سیاہی کو دیکھ کر آنحضرتﷺ کا اس کی وجہ دریافت کرنا اور اس کی طرف سے یہ جواب سن کر وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے قوت لایموت مہیا کرنے کے لیے سارا سارا دن پتھر پر پھاوڑہ چلاتا ہے۔ حضور ﷺ کا اس کے ہاتھوں کو چوم لینا ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے ہاتھ سے جو کام بھی ملے کرلیناکوئی کسر شان نہیں بلکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتا ہے۔






مہمان نوازی
مہمان نوازی انسانی اخلاق میں سے ایک بہترین خلق ہے۔ اور اسلام نے اس پر خاص زوردیا ہے۔ حتیٰ کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ مہمان کا گھر میں آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمان نوازی صحابہ کرام کی زندگی کا ایک خاص جزو تھا۔ گو ان میں سے اکثر لوگ غریب اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے بالکل نادار تھے لیکن ان کی غربت اور افلاس انہیں مہمان نوازی کے ثواب سے محروم نہیں رکھ سکتا تھا۔ تاریخ اسلام میں اس کی بے شمار مثالوں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1
ایک مرتبہ ایک مہمان دربار نبوی میں آیا۔ چونکہ اس وقت کے لحاظ سے ایک شخص کی مہمان نوازی بھی آسان نہ تھی۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے صحابہ کو تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم کی امید پر اپنے گھرمیں موجود سامان خوردونوش کا جائزہ لیے بغیر حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں ا س مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں۔ چنانچہ اسے ساتھ لے گئے۔ گھر پہنچے تو بیوی سے معلوم ہوا کہ کھانے کو کچھ نہیں۔ صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کے لیے بمشکل کفالت کرسکے گا۔ لیکن بیوی کی طرف سے مایوس کن اطلاع کے باوجود انہیں کوئی تشویش نہ ہوئی۔ اور جذبہ مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ زیادہ فکر تو بچوں کا ہی ہے لیکن ان کو پیار دلاسا دے کر بھوکا ہی سلا دو۔ لیکن ایک مشکل ابھی بھی باقی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق مہمان گھر والوں کو ساتھ شریک کرنے پر اصرار کریگا۔ کیونکہ اس وقت تک پردہ کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ اور ا سکا حل یہ سوچا گیا کہ جب میاں بیوی مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے چراغ گل کردے اور پھر دونوں ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ مارتے رہیں۔ کہ گویاکھانا کھا رہے ہیں۔ لیکن دراصل کچھ نہ کھائیں اور اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھالے۔ چنانچہ ا س ایثار پیشہ خاندان نے ایسا ہی کیا۔ بچوں کو فاقہ سے بہلا کر سلا دیا گیا۔ بیوی نے روشنی بجھا دی اور میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر یونہی مچاکے مارتے رہے کہ گویا بڑے مزے سے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح گھر کے سب لوگ تو فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھالیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ رسول کریم ﷺ کو وحی کے ذریعہ اس کی خبر دی۔ چنانچہ صبح ہوئی تو آپ نے حضرت ابو طلحہ کو بلایا اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کیا۔ آ پ نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ عرش پر ہنسا اور اس لیے میں بھی ہنسا ہوں۔
احباب اس واقعہ پر غورکریں اور دیکھیں کہ یہ مہمان نوازی کتنی مشکل اور قربانی چاہتی ہے۔ اگرچہ خود بھوکا رہنا بھی آسان نہیں لیکن اگر خیال کرلیا جائے کہ روزہ رکھنے کے عادی لوگوں کے لیے ایک وقت کا فاقہ کاٹ لینا کوئی بڑی بات نہیں توکم سے کم یقینا یہ مانناپڑے گا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے جگر گوشوں کو رضاکارانہ طور پر بھوکا رکھنا یقینا ایک ایسی بات ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے یہ بزرگ مہمان نوازی کو کس قدر اہمیت دیتے تھے۔
2
صحابہ کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے۔ یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا۔ چنانچہ ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔
3
جن اسیران جنگ کے پاس کپڑا نہ ہوتا ان کو مسلمان کپڑے بھی مہیا کرتے تھے۔
"محمد ﷺ کی ہدایات کے ماتحت انصار و مہاجرین قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے اور خود پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی کھلاتے۔ اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے۔ " (بحوالہ سیرت خاتم النبین صفحہ 155)
جن لوگوں کا جنگی قیدیوں کا ساتھ یہ سلوک تھا مہمانوں اور اپنے بھائی مہمانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اظہرمن الشمس ہے۔
4
ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین مہمان مدینہ میں آئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے۔ حضرت طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں۔ چنانچہ ان تینوں کو اپنے گھر لے گئے۔ اور پھر وہ جب تک زندہ رہے انہی کے ہاں رہے لیکن انہوں نے کبھی ان کو اپنے لیے بار تصور کر کے ان سے گلو خلاصی کی کوشش نہیں کی اور ایسے اخلاق سے ان کے ساتھ پیش آتے رہے کہ ان کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ و ہ کسی اجنبی جگہ میں ہیں۔
5
حضرت عبداللہ بن مسعود مہمانوں کی خدمت سے حظ محسوس کرتے تھے اور آپ نے کوفہ میں ایک عالی شان مکان مہمانوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔
6
آنحضرتﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری مدارت کیسی کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔
یہ بات سخت افسوس کے قابل ہے کہ اپنے بزرگوں کے ایسے شاندار اسوہ کے ہوتے ہوئے بھی آج مسلمانوں میں یہ وصف نمایاں نظر نہیں آتا۔ بے شک ان میں آج بھی مہمان نواز ہیں لیکن ایسے لوگ شاذ ہونے کی وجہ سے معدوم ہونے کے حکم میں ہیں۔ اور اس کمی کی وجہ جہاں تک سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ہمارا تمدن اسلامی سادگی کو کھو چکا ہے اور جو بے تکلفی اور سادگی اسلام کے ان شیدائیوں کی زندگیوں میں نظرآتی ہے وہ ہمارے اندر دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں وضعداریوں اور تکلفات نے ایسی بری طرح آگھیرا ہے کہ مہمان نوازی کے لیے اعلی سے اعلی سامان اور عمدہ سے عمدہ کھانوں کو ہم ضروری سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر مہمان کو اس سے بہت بڑھ کر کھانا پیش نہ کرسکے جو خود عام طور پر گھروں میں کھاتے ہیں تو اس سے سبکی ہوگی۔ اور وقار میں فرق آئے گا۔ اور اس قسم کے خیالات ایسی بری طرح ہمارے قلوب میں جاگزیں ہو چکے ہیں کہ مہمان نوازی کی سعادت سے محرومی کو گوارا کرلیں گے۔ اس کا کوئی قلق محسوس نہیں کریں گے لیکن یہ کبھی نہیں کریں گے کہ مہمان کے سامنے ماحضر لاکر رکھ دیں۔ اور اس طرح بغیر کوئی بوجھ برداشت کرنے کے ثواب بھی حاصل کرلیں۔ بے شک جو استطاعت رکھتا ہو اس کے لیے مہمان نوازی میں اہتمام بھی ثواب کا موجب ہے اور اسے چاہیے کہ مہمان کا اس رنگ میں بھی احترام کرے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہونے چاہئیں کہ اس کے بغیر مہمان نوازی ہی کرنی چھوڑ دی جائے۔ اگر ہمارے دوست اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور وضعداریوں اور تکلفات کی خود پیدا کردہ پابندیوں سے آزادی حاصل کرکے سادگی اور بے تکلفی کو راہ عمل بنالیں تو یقینا اگر ایک طرف وہ مہان نوازی کی توفیق پاکر ثواب حاصل کرسکیں گے تو دوسری طرف اس ثواب کے حصول کے لیے انہیں کوئی غیر معمولی اور زائد بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے گا۔
حوالہ جات
1۔ ۱۔ (مسلم ج۲ ص 198 ) ؟
2۔ ۲۔ (ابن ھشام زکر غزوۃ بدر)
3۔ ۳۔ (بخاری کتاب الجہاد)
4۔ ۴۔ (مسند احمد ج۱ ص163)
5۔ ۵۔ (تاریخ طبری ص 2842)
6۔ ۶۔ (مسند احمد ج3 ص432)







راست گفتاری اور صاف گوئی
صحابہ کرام راستی اور صدق بیانی کے پیکر اور سچائی و راستبازی کی جیتی جاگتی تصویریں تھے۔ عام حالات و اقعات میں ان کی راست بیانی کا تذکرہ گویا ان کے مقام صدق کی توہین ہے۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا نقصان اور خوفناک سے خوفناک سزا کاخوف بھی ان کو جادہ صداقت سے منحرف نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنی جان پر کھیل جاتے لیکن کیا مجال کہ کوئی خلاف واقعہ حرف زبان پر لائیں۔ اور روحانی لحاظ سے کوئی نمایاں مقام رکھنے والے تو درکنار ان کے کمزور بھی غلط بیانی کی جرات نہ کرسکتے تھے۔ حتی کہ اگر کسی سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی بھی سرزد ہوجاتی تو وہ سزاکے خوف یا عقوبت کے خیال سے اسے چھپانے کا وہم بھی دل میں نہ لاسکتے تھے۔ بلکہ عواقب سے بالکل بے نیاز ہو کر صاف صاف اقرار کرلیتے تھے۔ چند ایمان پرور اور روح افزا واقعات ملاحظہ ہوں۔
1
فتح مکہ کے بعد جب آنحضرتﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو مصلحت و منشائے الہی کے ماتحت اس میں قریش کے ساتھ ترجیحی سلوک روا رکھا۔ ہر شخص کی نظر معاملات کی تمام باریکیوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور ہر شخص معرفت کے اس مقام پر پہنچا ہوا نہیں ہوتا کہ اس کی آنکھ مخفی در مخفی اور باریک در باریک حکمتوں کو دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ رسول کریم ﷺکے حقیقی مقام کی معرفت رکھنے والے اس ترجیح پر معترض ہونا تو درکنار اگر حضور سب کچھ بھی کسی خاص گروہ کے سپرد کر دیتے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن ایک حقیقت ناشناس اور کم فہم انصاری نے اس پر معترضانہ رنگ میں نکتہ چینی کی۔ آنحضرتﷺ کو اسکا علم ہوا تو آپ کو تکلیف ہوئی۔ آپ نے انصار کو طلب فرمایا اور اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ انصار نے اپنے آدمی کی اس نادانی پرکوئی پردہ ڈالنے اور تاویلات سے کام لے کر اس کے جرم کو چھپانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی بلکہ من و عن صحیح صحیح بات بیان کردی۔ اور اس پر کوئی پردہ نہںی ڈالا پھر اس کے ساتھ اپنی پوزیشن کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ واضح کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک نادان کی نادانی اور کم فہمی ہے ورنہ ہمارے دلوں میں ایسا کوئی خیال قطعاً نہیں۔
2
غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن مالک شریک نہ ہوئے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی اس غفلت کے لیے کوئی صحیح عذر بھی نہ تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان سے سراسر کوتاہی ہوئی۔ واپسی پر آنحضرتﷺ نے اس کا سبب دریافت فرمایا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس غفلت کی سزا انہیں ضرور مل کر رہے گی۔ لیکن سزا کے خوف سے انہوں نے ادھر ادھر کی باتوں سے اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کی قطعاً کوشش نہیں کی اور کسی بہانہ سازی سے کام لینے کاخیال تک نہ کیا بلکہ صاف الفاظ میں اپنی غلطی کا اِقرار کرلیا۔
3
حضرت ماعز بن مالک ایک نوجوان صحابی تھے۔ انسان خطا و نسیان کا پتلاہے۔ اور شیطان اسے جادہ صراط سے منحرف کرنے کے لیے اس طرح اس کی تاک میں لگا رہتا ہے کہ ہر وقت اس سے خطا کے صدور کا امکان ہے۔ چنانچہ و ہ بھی اس بہکانے میں آگئے۔ ایک دفعہ ان سے زناء کی لغزش سرزد ہوئی۔ یہ کوئی معمولی لغزش نہ تھی اور شریعت اسلامی میں اس کی سزا سے و ہ ناواقف بھی نہ تھے۔ لیکن صحابہ کرام اپنی خطا کی سزا اس دنیا میں برداشت کرلیناخداتعالیٰ کے حضور گنہگار ہونے کی حیثیت میں جانا بہت زیادہ آسان سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعد میں انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہواتو دامن صبر قرار ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ غفلت کا پردہ اٹھتے ہی اللہ تعالیٰ کا رعب ایسا طاری ہوا کہ بے چین ہوگئے اور بے تاب ہو کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ لیکن آنحضرتﷺ نے چشم پوشی سے کام لیا اور فرمایا جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ ماعزیہ جواب سن کر لوٹے مگر جو لغزش ہو چکی تھی اس نے اطمینان قلب ختم کر دیا تھا۔ طبیعت پر اس کا اس قدربوجھ تھا کہ جلد از جلد اس کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دل کو سکون نہ تھا۔ ارشاد کی تعمیل میں واپس تو ہوگئے لیکن تھوڑی دور جاکر پھر واپس آئے۔ اور پھر دل کی بیتابی سے مجبو ر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے پھر چشم پوشی فرمائی اور پھر یہی جواب دیا کہ جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ اور اسی کے حضور توبہ کرو۔
یہ ارشاد سن کر آپ لوٹنے کو تو پھر لوٹ گئے مگر قلبی کیفیت نے بالکل بے بس کر رکھا تھا۔ قدم اٹھائے آگے کو اور پڑتا پیچھے کی طرف تھا۔ بس ایک ہی خیال دل میں جاگزیں تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس گند اور فسق و فجور کی آلائش سے اپنا دامن پاک کریں۔ اس لیے چند قدم جانے کے بعد پھر ایک وارختگی کے عالم میں واپس ہوئے اور پھر یہی درخواست کی یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ اس پر آپ نے فرمایا تم کس چیز سے پاک ہونا چاہتے ہو۔ ماعز نے نہایت ندامت اور شرمساری کے لہجہ میں عرض کیا زنا کی گندگی سے۔ ان کی یہ صاف بیانی اور رضاکارانہ اقبال جرم کو دیکھ کر آنحضرتﷺ کو بھی حیرت ہوئی۔ اور آپ نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص مجنون تو نہیں۔ اور اس کی یہ باتیں کسی دماغی عارضہ کا نتیجہ تو نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں۔ اس کی دماغی حالت بالکل درست ہے۔ لیکن آپ شرعی حدود قائم کرنے سے قبل چونکہ تمام پہلوؤں کو اچھی طرح معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے اس لیے پھر فرمایا کہ اس نے شراب تو نہیں پی ہوئی۔ ایک شخص نے قریب جاکر منہ سونگھا۔ تو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں اور منہ سے شراب کی بو نہیں آتی تھی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا۔ ماعز کیا تم نے واقعی زنا کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ واقعی مجھ سے یہ خطا سرزد ہوئی۔ اس پر آپ نے سنگساری کا حکم دیا۔ حضرت عمر نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ انہوں نے خدا کی ستاری کی پرواہ نہیں کی۔ اس لیے انہیں شریعت کی ظاہری سزا بھگتنی پڑی۔ اگر وہ توبہ اور استغفار کرتے تو اللہ تعالیٰ ستار ہے۔ ان کی سچی توبہ پر ویسے بھی بخش دیتا اور انہیں اس سزا سے بھی بچا لیتا۔
4
مریسیع کے مقام پر عبداللہ بن ابی نے آنحضرتﷺ کی شان میں جو ناپاک الفاظ استعمال کیے ان کا ذکر اور ا س سلسلہ میں خود اس کے لڑکے کی غیرت ایمانی کا ذکر شرح و بسط کے ساتھ پہلے گزرچکا ہے۔ اس کے یہ ناپاک الفاظ ایک بچہ زید بن ارقم نے سنے تو بے تاب ہوگیااور فوراً اپنے چچا کی وساطت سے آنحضرتﷺ کو خبر کی۔ آ پ نے عبداللہ بن ابی سے پوچھا لیکن وہ چونکہ مرض نفاق میں مبتلا اور حقیقی ایمان سے محروم تھا۔ اس نے انکار کردیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی جو اس کی طرح مرض نفاق کے مریض تھے قسمیں کھا کھا کر اس کی تصدیق کی۔ آنحضرتﷺ نے حکم خداوندی کے مطابق حسن ظنی سے کام لیا۔ اور ان کے بیانات کو صحیح سمجھ کر حضرت زید کی بات کو رد کردیا۔ لیکن بعد میں وحی الٰہی نے زیدکی بات کی تصدیق کردی اور اس طرح اس مومن بچہ کے دامن کو اس غلط بیانی کی آلائش سے پاک کرنے کے لیے اپنے رسول کو براہ راست اس کی سچائی کی اطلاع دی۔
5
حضرت معاذ بن جبل نہایت متقی نوجوان اور اسلامی اخلاق و محاسن کے پیکر تھے۔ راست گوئی کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی بات بیان کی۔ حضرت انس نے جاکر آنحضرتﷺ سے اس کی تصدیق چاہی تو آپ نے فرمایا صدق معاذ، صدق معاذ، صدق معاذ اور اس طرح اپنے ایک صحابی کی راست بیانی کی تصدیق پورے زور کے ساتھ فرمائی۔
6
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے قریباً تیس سال کی عمر میں سلام قبول کیا تھا۔ لیکن تقویٰ و طہارت اور صدق و صفا میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ صحابہ کرام کو ان کی صداقت پر کامل اعتماد تھا۔ حتیٰ کہ وہ کسی تنازعہ کی صورت میں خواہ مدعی ہوتے یا مدعا علیہ صرف ان کے بیان کو ہی کافی سمجھتے تھے۔
7
دین کے معاملہ میں صحابہ کرام نازک سے نازک دنیوی تعلقات کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرتے تھے۔ اور تمام عواقب سے بے نیاز ہو کر سچی بات کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک کمزور مسلمان قدامہ بن مظعون سے ایک مرتبہ ایسی لغزش سرزدہوئی کہ شراب پی لی۔ حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو آپ نے قدامہ کے لیے شرعی سزا تجویز کی۔ لیکن معلوم ہے اس کیس میں شاہد کون تھا۔ اور کس کی شہادت پر اسے یہ سزا ہوئی۔ خود مظعون کی بیوی نے اپنے خاوند کے خلاف شہادت دی اور اس کی شہادت کی بناء پر ملزم کو سزا دی گئی۔
مندرجہ بالا واقعات میں صحابہ میں سے بعض کی لغزشوں کا ذکر آیا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے۔ ایسے واقعات معدودے چند ہیں جن میں کسی صحابی کا کسی نہ کسی وجہ سے لغزش کھا جانا ثابت ہوتاہے۔ ورنہ وہ لوگ پاکبازی اور تقویٰ کے اس قدر بلند مقام پر فائز تھے کہ ان سے ایسے افعال کے صدور کا امکان بھی نہ تھا۔ تاریخ عرب سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ اس ملک میں شراب خوری اور زناکاری کا رواج بہت عام تھا۔ اور اہل عرب شب و روز انہی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ اسلام نے آکر ان برائیوں کو حرام قرار دے دیا اور صحابہ کرام نے اپنی عمر بھر کی عادات کے باوجود ان احکام کی اس قدر شدت کے ساتھ پابندی کی کہ کسی اور قوم کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ اور ایسے عادی لوگوں میں سے کسی ایک کے پاؤں میں کبھی لغزش کا آجانا کوئی ایسی بات نہیں جس کی بناء پر صحابہ کرام کی قومی بزرگی اور پاکبازی پر کوئی اعتراض جائز ہوسکے۔ اور کلی طور پر گناہوں سے معصوم اورمحفوظ تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہوتے ہیں۔ کمزور مومنوں سے کبھی عارضی طورپر لغزش کا ہوجانا ناممکن نہیں ہے۔ صحابہ میں سے اگرکسی سے ایسا ہو جاتا تو وہ فوراً توبہ کی طرف رجوع کرتے۔ اور خود اپنی غلطی اور قصور کا اعتراف کرکے اس کی ہر ممکن تلافی کرلیتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے واقعات سے اور پھر ایسی حرکات کے صدور پر ان پاکبازوں کی پشیمانی اقرار جرم اور اس کی سزا کو قبول کرنے کے لیے بے تابی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انصاف پسند کی نظر میں ان کی وقعت بڑھا دیتی ہے۔
ان واقعات میں ایک اور خاص قابل غور اور قابل تقلید پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام اس دنیا کی سزا کو کوئی سزا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے قلوب پر مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں سے پاک ہو کر جانے کا خیال غالب تھا۔ وہ آخرت کی سزا کو اپنے لیے بالکل ناقابل برداشت سمجھتے تھے۔ اور اس لیے ان کی پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ جس طرح بھی ہو انہیں گناہوں کی سزا اسی دنیا میں مل جائے۔ تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بالکل پاک ہو کر جائیں۔ لیکن ہمارے زمانہ کی حالت اس سے بالکل برعکس ہے۔ آج ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے جو غلطی ہوئی ا سکی سزا سے جسطرح ہو سکے یہاں بچ جائیں اوراس بچاؤ کے لیے اگر اصل جرم کے علاوہ انہیں جھوٹ اور غلط بیانی وغیرہ دوسرے خطرناک جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ کیفیت دراصل خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ جو شخص دل سے ایمان رکھتا ہے کہ ا س نے مرنا اور خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ جہاں اسے اپنے دنیوی اعمال کے لیے لازماً جوا ب دہی کرنا پڑے گی۔ تووہ کبھی اس قدر جرات نہیں کرسکتا کہ کوئی خطا کرنے کے بعد پھر اس کی سزا سے بھی بچنے کی کوشش کرے۔ اور اس طرح اپنے لیے اپنے ہاتھ سے آخرت میں سزا کا موقعہ پیدا کرے۔
سچ یہی ہے کہ ایک ایسے انسان کے لیے جس کا دل نور ایمان سے منور ہو اس دنیا میں انتہائی سزا حتیٰ کہ جان دے دینے کی سزا بھی بہت معمولی اور حقیر ہے بجائے اس کے کہ وہ گنہگار ہونے کی حیثیت میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کے دربار میں حاضر ہو۔ اور پھر کسی بداعمالی کی سزا میں عذاب دوزخ کا مستحق سمجھا جائے۔
حوالہ جات
1۔ (مسلم کتاب الزکوۃ)
2۔ (بخاری کتاب المغازی)
3۔ (مسلم کتاب الحدود)
4۔ (سیرت خاتم النبیین ص560)
5۔ (سیر انصار ج2 ص187)
6۔ (مسند احمد ج1 ص192)
7۔ (اصابہ ج 5 ص323)

عبادت گزاری اور زہد و اتقاء
1
حضرت ابو ہریرہ کے متعلق ثابت ہے کہ آپ نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر شب بیداری آپ کامحبوب مشغلہ تھا۔ آپ کا کنبہ نہایت مختصر اور صرف تین اصحاب پر مشتمل تھا۔ یعنی آپ خود، آپ کی بیوی اور ایک خادم۔ مگر اس مقدس خاندان نے بھی عبادت الہی کے لیے ایسی تقسیم اوقات کر رکھی تھی کہ جس سے ساری رات ہی عبادت میں بسر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ تینوں باری باری ایک تہائی رات جاگتے اور عبادت کرتے تھے۔
2
حضرت حرام بن تمحان رات کے وقت قرآن کریم کا درس دیتے اورنمازیں پڑھتے رہتے تھے۔
3
حضرت عبداللہ بن عمر جوانی میں ہی نہایت متقی اورعبادت گزار تھے۔ عبادت کے شوق میں رات کومسجد کے فرش پر سورہتے۔ دنیاوی دلفریبیوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور خواہشات نفسانی پر پوراقابو رکھتے تھے۔
آنحضرتؐ پر آپ کی عبادت گزاری اور پاکبازی کا اس قدر اثر تھا کہ برملا اس کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہ سے فرمایا کہ عبداللہ جوان صالح ہے۔
4
پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام لانے کے بعدقرار کیا تھا کہ اسلام کی مخالفت میں جو کچھ کیا ہے اور جس جس رنگ میں مخالفت کی ہے۔ اسی رنگ میں مگر اس سے دوگنا خدمت اسلام کریں گے۔ چنانچہ اسلام کی تائید میں میدان جہاد میں آپ نے جو جو کارہائے نمایاں کیے، جس طرح بڑھ بڑھ کر ہر موقعہ پر داد شجاعت دیتے رہے اس کے بے شمار ثبوت تاریخ اسلام میں نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ عبادت میں بھی اس اقرار کو صدق دل کے ساتھ پورا کر کے دکھادیا۔ حالت کفر میں آپ کی جبیں بتوں کے آگے سجدہ ریز رہ چکی تھی اور اپنی ا س نادانی پر انہیں رہ رہ کر افسوس آتا تھا۔ اور اس سے اس کلنک کے ٹیکہ کو دھونے کے لیے بے چین و بے قرار رہتے تھے۔ چنانچہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے اس طرح جھکایا کہ پوری طرح تلافی مافات کردی۔ ارباب سیر تسلیم کرتے ہیں کہ آپ عبادت میں بڑی مشقت اٹھاتے تھے۔
قرآن کریم کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ اسے چہرہ پر رکھ کر فرماتے کتاب ربی۔ کتاب ربی اور یہ کہتے ہوئے ساتھ ساتھ روتے جاتے تھے۔
5
حضرت ابو طلحہ کے متعلق بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے بالکل نو عمری میں اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن عبادت کے ذریعہ تقویٰ میں وہ بلندمقام حاصل کرلیاتھا کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے دعائیں کراتے تھے۔
عبادت اس کثرت سے کرتے تھے کہ سجاد لقب پڑ گیا تھا۔
6
اسلام لانے سے قبل حضرت ابو سفیان مخالفت میں جس قدر بڑھے ہوئے تھے اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ مگر مسلمان ہونے کے بعد اسلامی تعلیم کا ایک زندہ نمونہ بن گئے تھے۔ رات اور دن کا اکثر حصہ عبادتِ الہی میں گزارتے تھے۔ اور اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے آپ کو جوانانِ جنت کا لقب دیا تھا۔
7
حضرت شداد بن اوس کمسنی میں اسلام لائے تھے۔ مگر نہایت عابد و زاہدتھے۔ رات کو دیر دیر تک مصروف عبادت رہتے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ لیٹتے تو پھر خیال آتا کہ میں نے خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔ اور اس وجہ سے فوراً اٹھ بیٹھتے اور عبادت میں مصروف ہو جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات رات رات بھر نماز پڑھتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔
8
حضرت عبداللہ بن رداحہ کی بیوی کا بیان ہے کہ جب آپ گھر سے نکلتے تو دو رکعت نفل پڑھ کر نکلتے تھے۔ اور واپس آتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ یعنی فوراً دو نفل اداکرتے۔
9
حضرت حذیفہ بن الیمان بھی نوجوان تھے۔ مگرعبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے ساتھ رات بھر نماز پڑھتے رہے اور عبادت میں برابر شامل رہے۔
10
حضرت عتاب بن اسیہ بالکل نوعمر صحابی تھے۔ حتیٰ کہ وفات کے وقت آپ کی عمر صرف 25 ۔ 26 سال کی تھی۔ لیکن زہد و اتقاء کی وجہ سے فضلائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اور اپنی عبادت گزاری کے باعث اتنا بلند مقام حاصل کرچکے تھے کہ آنحضرتﷺ نے انہیں مکہ کا عامل مقرر فرمایا۔ اور ان کاتقرر کرتے وقت فرمایا کہ اگر مجھے ان سے زیادہ موزوں آدمی نظرآتا تو اسے اس عہدے پر مقر کرتا ؁ 0۔ 8ھ میں آپ پہلے امیر الحج مقرر ہوئے۔
11
حضرت عبدالرحمن بن عوف باوجود یہ کہ بہت دولت مند تھے مگر خشیت اللہ اور تقویٰ سے قلب معمور تھا۔ اور دنیوی نعماء ان کے لیے کسی ابتلاء کے بجائے ازدیاد ایمان کا موجب ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کو یاد کر کے اکثررویا کرتے تھے۔ ایک دفعہ تمام دن روزہ سے رہے۔ شام کے وقت کھانا آیا تو اسے دیکھ کر روپڑے اور فرمایا۔ مصعب بن عمیر مجھ سے بہتر تھے مگروہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی۔ جس سے سر چھپاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے تھے اور پاؤں چھپاتے تو سرننگا ہوجاتا۔ اسی طرح حضرت حمزہ شہید ہوئے تو یہی حالت تھی۔ مگر اب دنیا ہمارے لیے فراخ ہوگئی ہے اور اس کی نعمتیں ہمیں بکثرت حاصل ہوگئی ہیں۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا صلہ ہمیں یہیں نہ مل جائے اور اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
آپ نمازیں نہایت خشوع سے ادا فرماتے تھے۔ خصوصاً ظہر کے فرض ادا کرنے سے قبل بہت دیرتک نوافل میں مشغول رہتے تھے۔
12
صحابہ کرام ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزنی کی کوشش کرتے تھے۔ اور اس بات کی نہایت احتیاط کرتے تھے کہ ان کا کوئی قدم غلط نہ اٹھ سکے۔ اسکی ایک دلچسپ مثال سنئے۔ ایک سفر میں چند صحابہ کو ایک گاؤں میں قیام کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے رئیس کو سانپ نے ڈس لیا تھا اہلِقریہ نے صحابہ کی شکل و صورت سے مذہبیت کا اندازہ کر کے ان سے درخواست کی کہ مریض کے لیے کوئی چارہ کریں۔ صحابہ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تندرست ہوگیا۔ اس کے عوض ان لوگوں نے صحابہ کو کوئی ہدیہ دیا۔ جب اس کی تقسیم کا سوال پیداہوا تو بعض نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے جھاڑ پھونک کی ممانعت کی ہوئی ہے۔ اس لیے اس تقسیم سے قبل آپ سے دریافت کرلینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس معاوضہ کا استعمال ناجائز ہو اور ہم خواہ مخواہ گنہگار ہوں۔ چنانچہ واپسی پر آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ کوئی جھاڑ پھونک نہیں۔ معاوضہ تقسیم کرلو۔
13
حد درجہ کیجری اور بہادر ہونے کے باجود صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہر وقت لرزاں رہتے تھے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ عہد نبوت میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی تھی تو مسلمان خوف الٰہی سے کانپتے ہوئے مسجد کی طرف بھاگ اٹھتے تھے۔
14
حضرت عثمان کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدرطاری رہتا تھا کہ جب کوئی جنازہ سامنے سے گزرتا توبے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ قبرستان سے گزر ہوتا تو روتے روتے ریش مبارک تر ہوجاتی تھی۔
15
باوجود یہ کہ حضرت علی کی عمر قبول اسلام کے وقت بہت چھوٹی تھی لیکن آپ نہایت عابد و زاہد تھے۔ اس کی تفاصیل میں جانے کے بجائے صرف اس قدرکہہ دینا کافی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کان ماعلمت صائماً قواماً یعنی جہاں تک مجھے علم ہے وہ بہت روزہ دار اور عبادت گار تھے۔
16
زبیر بن سعید کی روایت ہے کہ لم ارھاشمیا قط کاناعبداللّٰہ منہ یعنی میں نے کسی ہاشمی کو ان سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا۔
17
حضرت عبداللہ بن زبیر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے۔ تاہم بے حد عبادت گزار تھے۔ نماز اس قدر استغراق سے پڑھتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ایک بے جان ستون کھڑا ہے۔ رکوع اتنا لمبا کرتے کہ اتنے عرصہ میں ساری سورۃ بقرہ ختم کی جاسکے۔ سجدہ میں گرتے تو اس قدر محویت طاری ہوتی تھی کہ چڑیاں آکر پیٹھ پر بیٹھ جاتی تھیں۔
18
مردوں کے علاوہ مسلم خواتین کو بھی عبادت گزاری اور قرب الہی کے حصول کا بے حد شوق رہتاتھا۔ اور وہ یہ گواراہ نہیں کرسکتی تھیں کہ تقویٰ اللہ میں وہ مردوں سے پیچھے رہیں۔ چنانچہ حضرت اسماء بنت یزید جب چند اورعورتوں کے ہمراہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئیں تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں مسلمان عورتوں کی طرف سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں۔ حضور نے اجازت دی تو عرض کیا کہ ہم بھی حضور کے دست حق پرست پرایمان لائی ہیں۔ مگر ہماری حالت مردوں سے مختلف ہے۔ مرد نماز باجماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں مگر ہم پردہ نشین ہیں۔ اور ان نیکیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اولاد کی پرورش کرتی ہیں اور مردوں کے مال و اسباب کی حفاظت کرتی ہیں تو کیا اس صورت میں ہم کو بھی ثواب ملے گا۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ سے فرمایا کیا تم لوگوں نے کبھی کسی عورت سے ایسی برجستہ گفتگو سنی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں۔ آپ نے حضرت اسماء کو فرمایا کہ اگر عورتیں فرائض زوجیت ادا کرتیں، اور شوہر کی اطاعت کرتی ہیں تو جس جس قدر ثواب مرد کو ملتا ہے اسی قدر عورتوں کو بھی ملتا ہے۔
حوالہ جات
1۔ (ترمذی ابواب الزہد)
2۔ (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ حرام بن ملحان ) ؟
3۔ (تہذیب التہذیب ج5 ص330)(بخاری کتاب الصلو ۃ)
4۔ (اسد الغابہ ج3 ص566 )(حلیۃ الاولیاء زیر لفظ عکرمہ) ؟(دارمی ص207)
5۔ (مستدرک حاکم ج3 ص374)
6۔ (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ ابو سفیان بن حارث ) ؟
7۔ (اسد الغابہ ج2 ص373 )
8۔ (سیر انصار ج2 ص63)
9۔ (مسند احمد ج5 ص45)
10۔ (اسد الغابہ ج3 ص451)
11۔ (بخاری کتاب المغازی)
12۔ (بخاری کتاب الطب)
13۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
14۔ (مسند احمد ج1 ص102)
15۔ (ترمذی کتاب المناقب)
16۔ (مستدرک حاکم ج3 ص108)
17۔ (اسد الغابہ ج3 ص134)
18۔ (اسد الغابہ ج6 ص18)






شوق پابندی نماز
1
صحابہ کرام کو عبادت گزاری بالخصوص نماز با جماعت کا اس قدرخیال رہا کرتا تھا کہ حضرت عتبان بن مالک ایک صحابی تھے۔ جو نابینا تھے۔ ان کا مکان قباء کے قریب تھا۔ مسجد اور ان کے مکان کے درمیان ایک وادی تھی۔ بارش ہوتی تو اس میں پانی بھر جاتا تھا مگر باوجود اس کے وہ مسجد میں باقاعدہ حاضر ہوتے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔
2
حضرت عتبان نے جن کا ذکر اوپر ہوچکاہے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ میں نابینا ہوں رستہ خراب ہے اس لیے مسجد میں آنے میں سخت دقت پیش آتی ہے۔ اگر اجازت ہوں تو گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کروں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیا اذان کی آواز آتی ہے۔ عرض کیا ہاں۔ آپ نے فرمایا پھر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ آپ مسجد میں ہی حاضر ہوکر نماز پڑھتے۔
3
حضرت سعید بن ربوح نابینا تھے لیکن صحابہ کے نزدیک نماز با جماعت اس قدر ضروری تھی کہ حضرت عمر نے ان کے لیے ایک غلام کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ نماز کے وقت ان کو مسجد لایا اور پھر واپس گھر پہنچایا کرے۔
4
حضرت معاذ اپنی قوم کے امام الصلوۃ تھے مگرنماز کا اس قدر شوق تھا کہ پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے۔ اور پھراپنی قوم میں آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔
5
صحابہ کرام نماز باجماعت کے لیے کس قدر حریص واقع ہوئے تھے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ کہ قادسیہ کے میدان جنگ میں جب صبح کی اذان ہوئی تو نوجوان مجاہدین اس قدر سرعت کے ساتھ نماز کے لیے دوڑے کہ ایرانیوں نے خیال کیا کہ حملہ کرنے لگے ہیں۔ مگر جب وہ نماز میں مشغول ہوگئے تو ان کے سپہ سالار رستم نے کہا۔ کہ عمر میرا کلیجہ کھاگیا۔ یعنی یہ قوم ہمیں ضرور نگل جائے گی۔
6
حضرت بلال کا معمول تھا کہ جب اذان کہتے دو رکعت نماز ادا کرلیتے اور ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔ جب وضو ٹوٹ جاتا فوراً دوبارہ کرلیتے تھے۔
7
عام عبادات اور نوافل کے علاوہ نماز پنجگانہ کو نہایت پابندی اور اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کرتے تھے۔ حضرت سفیان ثوری روایت کرتے ہیں کا نوایتبایعون الصلوۃ المکتو بتہ فی الجماعتہ یعنی صحابہ کرام خرید و فروخت تو کیا کرتے تھے لیکن نماز با جماعت کبھی نہ چھوڑتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا۔ صحابہ فوراً اپنی دکانیں اورکاروبار بند کر کے مسجد کی طرف چل دئیے۔ رِجَالٌ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ یعنی صحابہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت کے کاروبار خداتعالیٰ کی یادسے نہیں روکتے۔
8
نماز باجماعت کا صحابہ اس قدر خیال رکھتے تھے کہ سخت مجبوری اور معذوری کی حالت میں بھی اسے چھوڑنا گوارا نہ کرسکتے تھے۔ حتی کہ بعض بیمار اور معذور دو آدمیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد آتے تھے۔
9
بنو سلمہ کا محلہ مدینہ میں مسجد سے بہت دور تھا۔ ان کو پابندی جماعت کا اس قدرخیال رہتا تھا کہ مشورہ کیا کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مسجد کے قریب جا آباد ہوں۔ آنحضرتﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اس طرح ایک محلہ کو ویران کردینے کی تجویز کو پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ تمہارا جو قدم بھی مسجد کی طرف اٹھے گا اس کا ثواب ملا کرے گا۔
10
بروقت نماز ادا کرنے کا خیال صحابہ کے اس قدر دامن گیر رہتا تھا کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کو ایک فوری اور اہم کام پر مامور کر کے بھیجا۔ وہ منزل کے قریب پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں اسی طرح چلتا جاؤں تو ایسا نہ ہو نماز قضا ہو جائے۔ دوسری طرف دینی کام میں تاخیر بھی گوارا نہ تھی۔ اس لیے چلتے چلتے اشاروں میں ہی نماز ادا کرلی۔
11
با جماعت نماز کے لیے صحابہ سخت سے سے سخت تکلیف بھی بخوشی برداشت کرتے تھے۔ ایک رات آنحضرتﷺ کو کوئی نہایت ضروری کام پیش آگیا۔ صحابہ کرام عشاء کی نماز باجماعت ادا کرنے کے انتظار میں صبر کے ساتھ مسجد میں بیٹھے رہے۔ کئی بیٹھے بیٹھے سو گئے پھر جاگے، پھر سوئے اور پھر آنحضرتﷺ کے تشریف لانے پر اٹھے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز عشاء کے لیے اس قدر لمبا انتظار کرتے تھے کہ نیند کے مارے ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔
12
حضرت ابو سعید خضدری سے روایت ہے کہ صحابہ بعض اوقات نصف شب تک نماز عشاء کے لیے آنحضرتﷺ کا انتظار کرتے تھے۔
13
باجماعت اور بروقت نماز ادا کرنے کے لیے صحابہ نہایت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھحاضرہوتے۔ اپنے خالق حقیقی کے حضور جبین نیاز خم کرنے میں ان کو جو مزاآتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ نوجوان ایک پہاڑی درہ پرمامور تھے۔ جن میں سے ایک تو سوگئے اور دوسرے نے نماز شروع کردی۔ اتنے میں ایک مشرک کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس نے نماز پڑھنے والے مجاہد پر تین تیر چلائے۔ جو تینوں ہی ان کے جسم میں پیوست ہوگئے لیکن نماز میں محویت کا یہ عالم تھا کہ اف تک نہ کی۔ اور برابرنماز پڑھتے رہے۔ آپ کے رفیق نے بیدار ہونے پر جب آپ کے جسم پر خون کے نشانات اور زخم دیکھے اور اس کی وجہ معلوم کی تو کہا تم نے مجھے پہلے کیوں نہ جگایا۔ کہنے لگے میں ایک سورت نماز میں پڑھ رہا تھا اور میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ اسے ناتمام چھوڑ دوں۔
14
جیسا کہ مذکورہ واقعات سے ظاہر ہوچکا ہے نماز صحابہ کے لیے بہت قیمتی چیز تھی اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی کسی چیز کو و ہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری ایک مرتبہ اپنے باغ میں مصروف نماز تھے کہ ایک چڑیا پر نظر پڑی۔ اس کی رنگت اس قدر خوشکن تھی کہ دیر تک اسے دیکھتے رہے۔ نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یہ بھی بھول گئے کہ کتنی رکعت باقی ہیں اور کتنی پڑھ چکے ہیں۔ اس سے آپ کو اس قدر قلبی اذیت پہنچی کہ آپ نے فیصلہ کرلیا کہ یہ باغ چونکہ میرے لیے فتنہ روحانی کا موجب ہوا ہے اس لیے اسے صدقہ کردوں گا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا اور باغ صدقہ کردیا۔
اسی طرح ایک اور صحابی نے جو نماز پڑھتے ہوئے کھجور کی فصل کو دیکھتے ہوئے بھول گئے کہ کتنی رکعت ادا کر چکے ہیں۔ اپنا باغ محض اس وجہ سے کہ وہ ان کی نماز میں غفلت کا موجب ہوا اسے صدقہ کر دیا۔ باغ س قدر قیمتی تھا کہ حضرت عثمان نے اسے پچاس ہزار درہم میں فروخت کیا۔
15
حضرت انس کے متعلق آتا ہے کہ آپ قیام و سجدہ کو اس قدر لمبا کرتے تھے کہ لوگ سمجھتے بھول گئے ہیں۔ یہ ان کی اکیلی نماز کے متعلق ذکر ہے۔ ورنہ جب کسی نماز میں انسان امام ہو تو اس وقت شریعت کا حکم ہے ہلکی نماز پڑھائے تاکہ بیمار اور دوسرے لوگ اکتا نہ جائیں۔
16
عرب میں جب شدت کی گرمی پڑتی ہے وہ ظاہر ہے۔ نماز ظہر اس وقت ادا کی جاتی تھی جب سورج کی تمازت پورے جوبن پر ہوتی۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور مسلمانوں کی غربت کا یہ عالم تھا کہ مسجد پر چھت تک نہ تھی۔ پتھریلی زمین توے کی طرح تپ جاتی تھی۔ صحابہ کرام اسی زمین پر نماز پڑھنے کے لیے بڑے شوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کنکریاں اٹھا کر ان پر پھونکیں مار مار کر پہلے ان کو ٹھنڈا کرتے اور پھر سجدہ کی جگہ پر رکھ لیتے اور ان پر سجدہ کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نماز ظہر سے زیادہ کوئی نماز ہم پر مشکل نہ تھی لیکن پھر بھی اس میں غفلت نہ ہوتی تھی۔
جو نوجوان آج کل مسقف اور فرش سے آراستہ برقی پنکھوں کے نیچے بھی مساجد میں آکر نماز ظہر ادا کرنے میں تامل کرتے ہیں وہ اگر صحابہ کرام کے اس شوق پر نظر کریں تو شرم سے ان کی گردنیں جھک جائیں۔
17
ایک صحابی کا مکان مسجد سے بہت دور تھا مگر بایں ہمہ وہ کوئی نماز قضا نہ ہونے دیتے تھے اور باقاعدہ مسجدمیں آکر ادا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے ان سے کہا کہ کاش آپ سواری کے لیے گدھا خرید لیں تا دھوپ اور اندھیرے میں آنے جانے میں تکلیف نہ ہو۔ مگر انہوں نے کہا کہ میرا آنا جانا بھی نیکی ہے۔ اس لیے اس سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔
اپنے خالق و مالک خدا کی عبادت اور بالخصوص نماز با جماعت ادا کرنے کی اسلامی تعلیم کے مطابق جس قدر اہمیت ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں لیکن افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں بالخصوص نوجوان اور آسودہ حال طبقہ اس میں بے حدغفلت کا مرتکب پایا جاتا اور آرام طلبی اورفضول مجالس و مشاغل کے باعث عبادت الہی اور نماز کی پابندی میں بہت سست ہو رہا ہے۔ اور مسلمانوں کے تنزل کا سب سے اہم سبب یہی کوتاہی ہے۔ صحابہ کرام کے مندرجہ بالا واقعات نے آپ پر ثابت کردیا ہے کہ آنحضرتﷺ سے براہ راست تعلیم حاصل کرنے اور حضور کے فیض صحبت سے بلاواسطہ استفادہ کرنے والوں کے نزدیک یہ چیز کس قدر ضروری اور اہم تھی۔ ان واقعات میں ایک اورچیز جو آپ کو نمایاں نظرآئے گی وہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملہ میں امیر طبقہ بھی ایسا ہی مستعد ہے جیسا غریب تندرست و معذور چھوٹے اور بڑے مرد و عورت سب یکساں طور پر اس کے حریص تھے۔ اور اس راہ میں انتہائی مشکلات کی برداشت بخوشی کرتیتھے۔
ان واقعات سے ہمارے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اس کا جس قدر مشتاق تھا۔ اس زمانہ کے مسلمان نوجوان اسی قدر سست نظر آتے ہیں۔ بے شک جوانی کا زمانہ امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے۔ دلچسپیوں اور مسرتوں کا زمانہ ہے لیکن اس میں بھی کلام نہیں کہ اس عمر کی عبادت بھی خاص درجہ رکھتی ہے۔
ان واقعات میں وہ مثالیں بالخصوص اس زمانہ کے لحاظ سے اہم ہیں کہ بعض صحابہ نے اپنے قیمتی باغ اور نخلستان محض اس لیے راہ خدا میں صدقہ کردئیے اور ان کو اپنے قبضہ میں رکھنا پسند نہ کیا کہ ان کی وجہ سے نماز میں ان کے استغراق اور محویت میں فرق آیا تھا۔ نیز نماز کے وقت صحابہ کا تمام کاروبار اور بازار بند کر کے مسجد میں جا پہنچنا بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج لوگ نماز اور عبادت کی خاطر اپنا معمولی سے معمولی نقصان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ دکاندار نماز با جماعت سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ محض اس وجہ سے کہ دکان سے اٹھ کر جانے سے بکری میں کچھ کمی آجانے کا احتمال ہے۔ ان دونوں ذہنیتوں کو اگر بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی ترقیات اور اس زمانہ کے مسلمانوں کی پستی کی وجوہ بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں۔ جماعت احمدیہؐ صحابہ کرامؓ کی مثیل ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حد تک عبادت و نماز کی پابندی میں اپنے بزرگوں کے اسوہ کو پیش نظر رکھتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی اس میں بھی کئی افراد ایسے ہیں جو اپنی حالت میں بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں۔ اورنوجوانوں میں بالخصوص اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور مختصر تو یہ ہے کہ جو شخص نماز سے بھی غافل ہے اور اس کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے میں بلاوجہ کوتاہی کرتا ہے وہ کس منہ سے ان بزرگوں سے مماثلت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
حوالہ جات
1۔ (بخاری کتاب الصلوۃ)
2۔ (مسند احمد ج4 ص43)
3۔ (اسوئہ صحابہ ج2) ؟
4۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
5۔ (تاریخ طبری ص2291)
6۔ (مسند احمد ج5ص 30)
7۔ (فتح الباری ج4 ص253)
8۔ (نسائی کتاب الامامۃ)
9۔ (ابن ماجہ کتاب الصلوۃ)
10۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
11۔ (بخاری کتاب الصلوۃ)
12۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
13۔ (موطاکتاب الصلوۃ)
14۔ (بخاری کتاب الصلوۃ)
15۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
16۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
آنریری قومی خدمت و بے نفسی
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب امور سلطنت کی سرانجام دہی کے لیے عمال کی ضرورت بکثرت پیش آنے لگی تو انہیں عمال کے انتخاب میں ایک بہت بڑی دشواری یہ پیش آئی کہ یہ لوگ حق الخدمت لینا زہدو اتقاء کے منافی سمجھتے تھے اور قومی خدمت بغیر معاوضہ ادا کرنا پسندکرتے تھے۔
1
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن سعدی حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا مجھے خبر نہیں کہ آپ بعض ملکی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن جب کوئی معاوضہ پیش کیا جاتا ہے تو اسے لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں اور میری مالی حالت اچھی ہے اس لیے چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت کروں۔
2
حضرت عبداللہ بن ارقم آنحضرتﷺ کے زمانہ میں مراسلات کی کتابت پر مامورتھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ اور پھرحضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے انہیں خزانچی بھی مقرر کردیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب سبکدوش ہوئے تو انہوں نے تیس ہزار یا بعض روایات کے مطابق دو لاکھ درہم بطور معاوضہ پیش کیے۔ مگر آپ نے لینے سے انکار کردیا اورکہا کہ میں نے یہ کام خدا تعالیٰ کی رضاکے لیے کیا ہے۔ اوروہی مجھے اسکا اجر دے گا۔
3
اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی خدمت اسلام کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ کیونکہ حضورؐ کی ذات سے ہی اسلام کا قیام وابستہ تھا۔ اس لیے صحابہؓ کرام آنحضرتﷺ کی خدمت بھی بڑے شو ق سے کرتے تھے۔ اور اس کے لیے کوئی معاوضہ پسند نہ کرتے تھے۔ حضرت ربیعہ بن سلمیٰ کے متعلق آتا ہے کہ آپ دن رات خدمت کے لیے آپؐ کے حضور کمربستہ رہتے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر جب آنحضرتﷺ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت ربیعہ دروازہ پر بیٹھ جاتے۔ تااگر حضور علیہ السلام کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اسے پورا کرسکیں۔ ایک بار آنحضرتﷺ نے ان کو خدمت کا کچھ معاوضہ دینا چاہا۔ لیکن انہوں نے انکارکردیا اورکہا۔ یا رسول اللہ مجھے صرف اس چیز کی ضرورت ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور میری شفاعت کردیں کہ آگ سے نجات ہو جائے۔
ایک بار آنحضرتﷺ نے ان کو شادی کرنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے کہا کہ چھنجٹ حضور کی خدمت گزاری میں مخل ہوگا۔ اس لیے مجھے پسند نہیں۔
4
ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابہؓ تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت نبویؐ کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ حتیٰ کہ معمولی خدمات بھی نہایت اہتمام سے ادا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کو ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا۔ چنانچہ ایک صحابی نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے رکھی تھی اور آپ کے لیے پانی ٹھنڈا کر کے لایا کرتے تھے۔
5
آج کل یہ مرض عام ہے کہ جو کام کسی کے سپرد کیاجائے وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسے مالی لحاظ سے کیا فائدہ ہوگا۔ لیکن صحابہ کرام اس قسم کے خیالات سے بالاتر تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے حضرت عمروبن العاص سے فرمایا۔ کہ میں تم کو ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ مالِ غنیمت دے گا تو اس میں سے کثیر حصہ تمہیں ملے گا۔ آ پنے جواب دیا کہ میں مال کے لیے مسلمان نہیں ہوا۔ صرف اس لیے اسلام لایا ہوں کہ آپ کا فیض صحبت حاصل ہو۔
6
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی آنحضرتﷺ کے ایک خادم تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے چاہا کہ ان کو کچھ معاوضہ دیں۔ چنانچہ فرمایا کہ کچھ مانگو۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں اورکچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ اور۔ تو انہوں نے کہاکہ بس یہی ایک چیز چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کثرت سے نماز پڑھو۔ تو تمہیں دولت نصیب ہوگی۔
7
بے نفسی اور کسی طمع و لالچ سے بے نیاز ہو کر قومی خدمت سرانجام دینے کی تاریخ میں حضرت خالد بن ولید کا واقعہ سب سے زیادہ ممتاز ہے۔ بعض وجوہ کی بناء پر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت کی ابتدء میں ہی ان کو لشکر اسلامی کی سپہ سالاری کے عہدہ جلیلہ سے معزول کر دیا اور حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت کردیا۔ حضرت خالدبن ولید کی جنگی خدمات، بہادری، جرات، تدبر اورمعاملہ فہمی کے واقعات سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہ انہی کی جانبازانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ جنگ یرموک میں رومی امپریلزم کی کمر ہمت ٹوٹ گئی۔ اور قیصر کا ایوان مسلمانوں کے رعب سے کانپنے لگا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے ان کا عزل ضروری سمجھا اوراس کے احکام صادر کردئیے۔ حضرت خالد نے نہایت کشادہ پیشانی کے ساتھ خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل کی۔ اور دل میں کوئی انقباض بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت ہو کر بھی وہ اسی جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ میدان جہاد میں دادِ شجاعت دیتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح اپنے سپہ سالار ہونے کے وقت میں تھے۔ دراصل یہی جذبہ ہے جسکے ماتحت قومی خدمات کوئی نتیجہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جو لوگ معمولی اور برائے نام عہدوں کی وجہ سے قومی و ملی کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے اور ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ بجائے کسی امداد کے تخریبی مساعی میں حصہ لینے لگتے ہیں۔ و ہ قوم کے لیے ایک *** ہیں۔ قومی خدمت میں خلوص، بے نفسی اور شہرت سے بُعد ہونا چاہیے۔ اور جو قومی کام کسی کے سپردہو اسے نفسانی جذبات سے بلند و بالا رہ کر ادا کرنا چاہیے۔ اور یہی و ہ سپرٹ ہے جو کسی قوم کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔
حوالہ جات
1۔ (مسند احمد ج1 ص 17)
2۔ (اسد الغابہ ج3 ص68)
3۔ (مسند احمد ج4ص 58)
4۔ (مسلم کتاب الزہد) ؟
5۔ (ادب المفرد باب اعمال الصالح)
6۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)



سادہ معاشرت
1
صحابہ کرامؓ میں سے وہ لوگ بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے مال کثرت سے دے رکھا تھا، ہمیشہ کھانے اور پہننے میں سادگی اختیار کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف بہت مالدار شخص تھے۔ یہاں تک کہ ان کے ورثاء نے سونے کی اینٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے کلہاڑیوں سے کٹوایا تھا اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے۔ نقد دولت میں سے بیویوں کو آٹھویں حصہ میں سے اسی اسی ہزار دینار آئے تھے۔ ہزاروں اونٹ اور بکریاں ان کے علاوہ تھیں۔ (اسد الغابہ جلد3۔ صفحہ 317)۔ مگر باایں ہمہ کھانے پینے میں تکلفات سے بالکل بالا تھے۔ اور آپ کا دستر خوان گوبہت وسیع ہوتا لیکن تکلف نام کو نہ ہوتا تھا۔ اور ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے فقر وفاقہ کو یاد کر کے آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔
2
حضرت جابرؓ بن عبداللہ گو نہایت ہی بلندمرتبت صحابی تھے مگرساتھ ہی بہت سادگی پسند اور بے تکلف تھے۔ ایک دفعہ بعض صحابہ ان سے ملنے آئے آپ اندر بیٹھے سرکہ کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے۔ وہی اٹھا کر ان دوستوں کے پاس لے آئے۔ اور ان کو شریک طعام ہونے کی دعوت دی۔ اور ساتھ فرمایا کہ اگر کسی کے پاس اس کے دوست احباب آئیں تو اسے چاہیے کہ جو کچھ حاضر ہو پیش کردے۔ اور مہمانوں کو بھی چاہیے کہ کسی چیز کو حقارت سے نہ دیکھیں اور بے تکلفی کے ساتھ ماحضر تناول کرلیں۔ کیونکہ تکلف فریقین کی ہلاکت کا موجب ہے۔
3
اس ضمن میں حضرت عمر کا ایک واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے۔ آپ ایک دفعہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ کے ہاں تشریف لائے۔ تو انہوں نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر پیش کیاتو آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں دو دو سالن۔ خدا کی قسم کبھی نہ کھاؤں گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں زیتون کا تیل بھی سالن کی بجائے روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
4
حضرت مصعب بن عمیر نہایت خوشرو نوجوان تھے۔ والدین مالدار تھے اس لیے بہت نازونعم میں پرورش پائی تھی۔ نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کیا کرتے تھے اور اعلی درجہ کی خوشبوئیں اور عطریات کے استعمال کے عادی تھے۔ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین، خوش پوش اور نازونعم میں پلا ہوا نہیں۔
لیکن یہ حالت اسلام لانے سے قبل کی تھی۔ جب اسلام لائے تو رسول کریمﷺ کی تربیت کا ایسا اثر ہوا کہ یہ تمام تکلفات فراموش ہوگئے۔ اور یہاں تک تبدیلی پیدا ہوگئی کہ ایک دفعہ دربار نبوی میں حاضر ہوئے تو بدن پر ضروریات ستر کو پورا کرنے کے لیے صرف ایک کھا ل کا ٹکڑا تھا۔ جس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے دیکھا توفرمایا۔ الحمداللہ اب سب اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہیے۔ یہ و ہ نوجوان ہے جس سے زیادہ نازونعم کا پلا ہوا مکہ میں کوئی نہ تھا۔ لیکن خدا و رسول کی محبت نے اسے ظاہری تکلفات سے بے نیاز کر دیا ہے۔
5
حضرت سلمان فارسی کے متعلق یہ ذکر آچکا ہے کہ آپ مدائن کے گورنر تھے۔ لیکن طرزِ معاشرت اور ظاہری لباس میں اس قدر سادگی تھی کہ ایک دفعہ کسی شخص نے بازار سے گھاس خریدی تو انہیں مزدور سمجھ کر گانٹھ ان کے سر پر لاد دی۔ کسی واقف کار نے دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ تو ہمارے امیر اور رسول اللہﷺ کے صحابہ ہیں۔ اس پر وہ بہت نادم ہوا معذرت چاہی اور گانٹھ اتارنے کے لیے لپکا۔ مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں اب تو تمہارے مکان پر پہنچ کر ہی اتاروں گا۔
6
حضرت عبداللہ بن عمر کی زندگی دیگر صحابہ کی طرح بہت سادہ تھی۔ ایک دفعہ کسی نے ان کے لیے بیش قیمت کپڑے بطو رہدیہ بھیجے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کردئیے کہ میں غرور کے خوف سے ان کو پہن نہیں سکتا۔
7
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تمدن بے حد سادہ تھا۔ حتیٰ کہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی انتہائی سادگی نظر آتی تھی۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ مقروض ہو کر اپنی زندگی کو تلخ نہیں بناتے تھے۔ بلکہ جو میسر ہوا اسی پر کفایت کرلیتے تھے۔ اور چونکہ یہ روح ہر ایک میں تھی اس لیے اس بات کو معیوب بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا۔ ایک صحابی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتاتھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا مہر کے لیے کچھ ہے۔ بولے صرف تہبند ہے۔ آپ نے فرمایا اگر یہ مہر میں دے دو تو ستر پوشی کیسے کرسکو گے۔ کچھ اور تلاش کرو۔ اور نہیں تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ آپ نے قرآن کی چند سورتوں کا سکھانا مہر مقر ر کرکے نکاح پڑھا دیا۔ ؂۲
8
حضرت ابوبکر کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ آپ متمول اور امیر آدمی تھے۔ علاوہ ازیں اسلام میں انکو بہت بڑا مقام حاصل تھا۔ خاندانی وجاہت اور عزت کے علاوہ آپ اپنے زہد و تقدس اوفدائیت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کی آنکھ کا تارا تھے۔ لیکن طرز معاشرت نہایت سادہ تھی۔ نہایت معمولی لباس زیب تن فرماتے اور سادہ غذا کھاتے تھے۔
9
حضرت عمر نے اسلامی مجاہدین کے لیے جو چیزیں ضروری قرار دے رکھی تھیں۔ ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ ان میں عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی طرف رغبت پیدا نہ ہوسکے۔ اور مشقت پسندی، اور تکالیف کی برداشت کی عادت اور جفاکشی قائم رہے۔ چنانچہ ان کو تیرنے۔ گھوڑے کی سواری، نشانہ بازی، اور ننگے پاؤں چلنے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ نیز حکم تھا کہ و ہ رکاب کے سہارے گھوڑے پر سوار نہ ہوں، حماموں میں غسل نہ کیا کریں، دھوپ میں کھانا کھانا نہ چھوڑیں اور نرم کپڑے نہ پہنا کریں۔
10
یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صحابہ کی سادگی تنگ دستی کی وجہ سے تھی۔ وہ سادہ زندگی اس واسطے بسرکرتے تھے کہ اسوہ رسول کریمﷺ اور تعلیم اسلام سے انہوں نے یہی اخذ کیا تھا۔ اور اسے تعلیم اسلام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ روم و ایران کی فتوحات کے بعد بھی جب دولت و اموال کی کثرت تھی اس وقت بھی صحابہ کرام نہایت سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ ایک دفعہ ام المومنین حفصہ نے حضرت عمر سے کہا کہ اب تو خدا تعالیٰ نے فراخی عطا فرمائی ہے آپ عمدہ غذا اور اچھے کپڑے استعمال کیا کریں۔ تو آپ نے جوا بدیا کہ خدا کی قسم میں تو اپنے آقا کے نقش قدم پر ہی چلوں گا۔ خواہ کتنی خوش حالی کیوں نہ نصیب ہو اور اس کے بعد دیر تک آنحضرتﷺ کی سادگی اور عسرت کا تذکرہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہ بے قرار ہو کر رونے لگیں۔
11
ایک مرتبہ حضرت عمر یزید بن ابی سفیان کے ساتھ کھانے پربیٹھے، دسترخوان پر عمدہ کھانے لائے گئے تو آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم اسوہ رسول اللہﷺ کو ترک کرو گے تو صراط مستقیم سے دور جاپڑو گے۔
12
حضرت عمر باوجود یہ کہ شہنشاہ کی حیثیت رکھتے تھے پھر بھی ضرورت سے زیادہ کپڑے نہیں بنواتے تھے۔ ایک دفعہ آپ دیر تک گھر سے باہر نہ آئے اور لوگ انتظار کرتے رہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کپڑے میلے ہوگئے تھے اس لیے ان کو دھو کر سوکھنے کا انتظار کر رہے تھے۔
ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ آپ کی غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی ہے کہ ہمارے لیے اسکا کھانادشوارہوتاہے۔ آپ نے فرمایا۔ کیاتم سمجھتے ہو کہ اعلیٰ درجہ کی غذا کھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ صحیح نہیں۔ خدا تعالیٰ کی قسم ہے اگر مجھے قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھا سکتاتھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی عدم مقدرت کی بناء پر نہ تھی بلکہ اکابر صحابہ اسے اسلامی تعلیم کا جزو سمجھتے تھے۔
13
ایک مرتبہ حضرت عمر نے بعض صحابہ کو عراق کی ایک مہم پر روانہ فرمایا۔ وہ وہاں سے کامیاب و کامران واپس آئے تو زرق برق لبا س میں ملبوس تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ اور بات تک نہ کی۔ وہ اس برہمی کی وجہ سمجھ گئے۔ وہاں سے اٹھ کرگھروں کو گئے اور سادہ لباس پہن کر واپس آئے۔ تو آپ ان کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور ہر ایک سے بغلگیر ہوئے۔ جو ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت عمرؓ سادہ لباس کو تعلیم اسلام کے ماتحت ضروری سمجھتے تھے۔ اور سادگی تنگ دستی کے نتیجہ میں نہ تھی۔
14
حضرت عثمانؓ امرائے عرب میں سے تھے اور اگر چاہتے تو امیرانہ ٹھاٹھ رکھ سکتے تھے۔ لیکن آپ نے کبھی زیب و زینت کی چیزیں استعمال نہیں کیں۔ حتیٰ کہ اس زمانہ میں عرب کے متوسط طبقہ کے لوگ جو کپڑے استعمال کرتے تھے اس سے بھی آپ پرہیز کرتے تھے۔
15
آنحضرتﷺ کے جگر گوشہ حضرت فاطمۃ الزہرا کی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ ہوئی۔ تو جہیز میں ایک پلنگ، ایک بستر، ایک چادر، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ دیا گیا۔ اور آپ کی دعوت ولیمہ میں صرف کھجور، جوکی روٹی، پنیر اور شوربا تھا۔ اس پر بھی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں اس سے زیادہ پرتکلف ولیمہ نہیں ہوا۔
آج مسلمانوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہر دردمند کا دل خون ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے علاج تک عوام کی نظرتو جاتی نہیں اورلیڈروں کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ فی زمانہ مسلمانوں کے مصائب کی وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ ان کی کام سے نفرت اور پرتکلف زندگی کی عادت ہے۔ مسلمانو ں میں بیکاری بہت زیادہ ہے۔ نوجوان بالخصوص کام سے متنفر ہیں۔ اور جو کام انکے خودساختہ معیار کے مطابق نہ ہو اسے اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو ایسے تکلفات اور بے جا اسراف کا عادی بنا رکھا ہے کہ جس میں اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب انسان ایسی مشکلات میں مبتلاہو تو دین کی را ہ میں قربانی بھی مشکل ہوتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تمدن اورسادہ زندگی کا نقشہ متذکرۃ الصدر مثالوں سے بالکل واضح اور نمایاں صورت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ عسرت کی حالت کو نظر انداز کردیں پھر بھی آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ بالکل سادہ تھے۔ حتیٰ کہ جب اموال بکثرت آنے شروع ہوئے اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اور انہوں نے معلم ربانی سے جو تعلیم حاصل کی تھی اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا۔ نہ کھانوں میں اسراف کے عادی ہوئے اور نہ پہننے میں، شادی بیاہ کے موقع پر بھی اس سادگی کو بدستور قائم رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ شہنشاہ کونین سرور دو عالمﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا کی شادی ایسے رنگ میں کی کہ آج کوئی معمولی سے معمولی حالت رکھنے والا مسلمان بھی کرنا گوارا نہ کرے گا۔ مسلمان شادی بیاہ پر آج جس قدر اسراف کرتے ہیں اس کا مقابلہ آنحضرتﷺ کے اسوہ کے ساتھ کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے۔ اگر استطاعت ہو توایک حد تک جائز خرچ کو گوارا بھی کیا جاسکتا ہے لیکن آج جو مصیبت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ پاس نہ ہونے کی صورت میں قرض اٹھایا جاتا ہے۔ جو بعض صورتوں میں کئی پشتوں تک ادا نہیں ہوتا اور دادا کی غلطی پوتوں تک کی زندگی کو اجیرن کیے رکھتی ہے۔
آنحضرتﷺ کے زمانہ میں دین کی راہ میں قربانیوں کا رنگ اورتھا۔ اور آج بالکل اور ہے۔ آج سب سے زیادہ مالی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اپنی ضروریات کو محدود کر کے اپنی آمدنی میں سے کچھ بچت نہ کرے وہ مالی قربانی کرنے کے قابل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ اور اسی وجہ سے جماعت احمدیہؐ کے امام حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے مخالفین کے مقابلہ میں جماعت کی مضبوطی کے لیے جو تحریک کی اس میں سادہ زندگی اختیار کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ سادہ کھانا، سادہ کپڑے پہننا، ضروریات سے زیادہ کپڑے نہ بنوانا اور اس طرح کے غیر ضروری اخراجات مثلاً عورتوں کے لیس، فیتہ، گوٹا، کناری اور پھربے فائدہ بلکہ مخرب الاخلاق اخراجات مثلاً سینما، تھیٹر، سرکس وغیرہ تماش بینیوں کی ممانعت فرمائی ہے۔ اور ان باتوں پر عمل کرنا جہاں ہمارے لیے اخروی نجات کا ذریعہ بن سکتے ہے۔ وہاں ہمیں طرح طرح کی تمدنی اور اقتصادی پریشانیوں سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی مفید اورمبنی بہ دور اندیشی تجویز ہے کہ اگر آج مسلمان من حیث القوم اسے اختیار کرلیں تو جہاں ایک طرف وہ اپنے پیغمبرﷺ اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چل کر ثوا ب حاصل کریں گے۔ وہاں تمدنی مشکلات سے بھی نجات حاصل کرسکیں گے۔ اور اقتصادی حالت کی درستی کے ساتھ اس قابل ہوسکیں گے کہ قومی طورپر ترقی کرسکیں۔
حوالہ جات
1۔ (اصابہ ج4 ص177 ) (اسد الغابہ ج3 ص375)
2۔ (مسند احمد ج1ص371)
3۔ (اسد الغابہ ج3 ص653)
4۔ (ابن سعد ج1 ص82)
5۔ (ابن سعد ج4ص88)
6۔ (ابن سعد ج4ص161)
7۔ (ابو داؤد کتاب النکاح)
8۔ (ابن سعد ج3ص139)
9۔ (ابو داؤد کتاب الخراج)
10۔ (کنز العمال ج12 ص 635)
11۔ (کنز العمال ج12 ص621)
12۔ (کنز العمال ج12 ص624)
13۔ (کنز العمال ج12 ص637)
14۔ (زرقانی ج2 ص8)












قرض کی وصولی میں آسانی
مقروض کے ساتھ نرمی اور احسان کا سلوک کرنا بھی اعلیٰ اخلاق میں سے ہے اور اسلام نے اس کی خاص طور پر تعلیم دی ہے۔ اس لیے صحابہؓ اس کا خاص خیال رکھتے تھے۔
1
حضرت ابوقتادہ ایک نوجوان صحابی تھے۔ ایک مسلمان پر ان کا قرض آتا تھا۔ یہ مانگنے کے لیے جاتے مگر ملاقات نہ ہوتی۔ اور ممکن ہے وہ عمداً سامنے نہ آتا ہو کیوں کہ تنگ دستی انسان کے لیے سخت ندامت کا موجب ہو جایا کرتی ہے۔ ایک روز یہ گئے تو بچے نے باہر آکر بتادیا کہ میرے والد صاحب گھر میں موجود ہیں۔ آپ نے آواز دی اور کہا کہ مجھے علم ہوگیاہے کہ تم گھر میں ہو۔ اس لیے ضرورباہر آجاؤ۔ آخر وہ آیا تو آپ نے پوچھا کہ چھپنے کی کیا وجہ تھی۔ اس نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں بہت تنگ دست ہوں۔ عیال دار آدمی ہوں۔ آمدنی محدود ہے اس لیے قرض ادا نہیں کرسکا۔ اور ندامت کی وجہ سے سامنے بھی نہیں ہوتا رہا۔ آپ نے کہا کہ تمہیں خدا کی قسم واقعی تمہاری یہی حالت ہے۔ اس نے قسم کھا کر کہا تو آپ آبدیدہ ہوگئے اور سارا قرض اسے معاف کردیا۔
2
حضرت ابو الیسر کعب بن عمرو بھی نوجوان صحابہ میں سے تھے۔ بنو حرام کا ایک شخص ان کا مقروض تھا۔ اور چونکہ ادائیگی کی استطاعت نہ تھی اس لیے سامنے آنے سے گریز کرتا تھا۔ آخر ایک دن و ہ ملا اور اپنے فقرو افلاس کی داستان ایسے الم ناک پیرایہ میں بیان کی کہ آپ کا دل بھر آیا۔ کاغذ منگوا کر اس پر وصولی کر دی اور کہا کہ اگر کبھی مقدرت ہوئی تو ادا کردینا ورنہ میں معاف کرتا ہوں۔
حوالہ جات
1۔ (مسند احمد ج5 ص 308)
2۔ (مسلم ج2 ص45)

ادائیگی قرض
قرض کی وصولی میں مقروض کے ساتھ آسانی اور سہولت کے معاملہ کی مثالیں آپ پڑھ چکے ہیں۔ ا س کا دوسرا حصہ اپنے قرض کی ادائیگی ہے۔ صحابہ کرام جہاں دوسروں سے اپنے قرض کی وصولی میں سہولت کا معاملہ کرتے تھے وہاں اپنے قرض ادا کرنے میں نہایت محتاط تھے۔ چند واقعات درج ذیل ہیں۔
1
حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مرتبہ کسی شخص سے ایک لونڈی خریدی۔ لیکن قیمت ابھی بے باق نہ ہوئی تھی کہ و ہ شخص مفقود الخبر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ ایک سال تک اس کی تلاش میں رہے لیکن و ہ نہ ملا۔ آخر جب اس کے ملنے سے مایوس ہوگئے تو ایک ایک دو دو درہم کر کے اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ واپس آگیا تو اسے بھی قیمت ادا کردوں گا۔ اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا۔
2
حضرت زبیر بن العوام کے متعلق یہ ذکر کیا جاچکاہے کہ باوجود تمول و ثروت کے وفات کے وقت آپ پر بائیس لاکھ روپیہ قرض تھا۔ آپ جب ایک جنگ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے لگے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے اپنے قرض کا سب سے زیادہ خیال ہے۔ اگر میں شہادت پا ؤں تو میرا مال و متاع فروخت کر کے سب سے پہلے میرا قرض ادا کرنا۔
3
حضرت زبیرؓ کی مذکورہ بالا وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادہ کی طرف سے مسلسل چار سال تک حج کے موقعہ پر یہ اعلان کرایا جاتا رہا کہ میرے والد کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو مجھ سے وصول کرے۔
4
فیاضی کے عنوان کے ماتحت یہ واقعہ درج ہو چکا ہے کہ حضرت سعید بن العاص اس قدر فیاض تھے کہ اگر کسی وقت کچھ پاس نہ ہوتا تو حاجت مند کو ہُنڈی تحریر کر کے دیتے تھے کہ پھر آکر وصول کرلے۔ ایک دن مسجد سے واپس آرہے تھے کہ ایک شخص ساتھ ہولیا۔ آپ نے اس سے پوچھا۔ کیا کوئی کام ہے تو اس نے کہا نہیں۔ آپ اکیلے تھے۔ یونہی ساتھ ہولیا۔ آپ نے کاغذ قلم اور دوات منگوائی اور اسے بیس ہزار کی ہنڈی تحریر کر دی۔ اتفاق کی بات ہے کہ آپ کی وفات ہوگئی لیکن وہ شخص اس ہنڈی کو کیش نہ کراسکا۔ وفات کے بعد اس شخص نے وہ ہنڈی ان کے صاحبزادہ حضرت عمر کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اسے فوراً تسلیم کرلیا اور بلا چون و چرا روپیہ ادا کردیا۔
ہمارے زمانہ کے لوگوں کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے۔ آج کل یہ حالت ہے کہ بعض لوگ خود جو قرض لیتے ہیں اسے بھی ادا کرنے میں لیت و لعل کرتے اور قرض خواہوں کو سخت پریشان کرتے ہیں۔ اور پھر والدین کے قرضہ کو ادا کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔ لیکن اس نوجوان نے اتنی گراں قدر رقم باپ کی طرف سے ادا کی۔ حالانکہ یہ قرض نہ تھا۔ بلکہ محض ایک عطیہ تھا اور اگر وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں لیکن انہوں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ والد نے جو عطا کی تھی اس کی ادائیگی نہ کریں۔
5
حضرت عبداللہ بن عمر جب غزوہ احد پر جانے کے لیے تیار ہوئے تو اپنے لڑکے حضرت جابرؓ سے فرمایا۔ کہ اس غزوہ میں ضرور شہید ہو جاؤں گا۔ مجھ پر جو قرض ہے اسے ادا کرنا اور اپنی چھ بہنوں کے ساتھ حسنِ معاملات کرنا۔ باوجود یہ کہ اتنے بڑے کنبہ کی پرورش کا بار حضرت جابر پر تھا وہ باپ کے قرض کو جلد از جلد ادا کرنا اس قدر ضروری سمجھتے تھے کہ جب کھجور کی فصل تیار ہوئی تو انہوں نے پوری دیانت کے ساتھ تمام قرض اداکیا۔ اور فرمایاکہ میں اس بات کے لیے بالکل تیار ہوں کہ اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور بھی نہ لے کر جاؤں لیکن قرض ادا کردوں۔
6
قرض کو ادا کرنے کا خیال صحابہ کرام کو اس طرح دامن گیر رہتا تھا کہ وہ اپنی ضروریات کی اشیاء بیچ کر بھی اس سے سبکدوش ہونے کے لیے تیاررہتے تھے۔ ابن حداد ایک صحابی تھے جن پر ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے۔ اس نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں استغاثہ کیا تو آپ نے تین باراس صحابی سے فرمایا کہ یہودی کا حق اسے ادا کرو۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میرے پاس کچھ نہیں۔ کہاں سے ادا کروں۔ اس پر آنحضرتﷺ تو خاموش ہوگئے مگر حضرت ابن حداد کو خیال آیا۔ چنانچہ آپ اٹھے اور بازار میں گئے۔ اپنے عمامہ کو اتار کر اس سے تہبند کاکام لیا اور تہبند کو چاردرہم پر فروخت کر کے یہودی کا قرض ادا کردیا۔
7
آنحضرتﷺ خود قرض کی ادائیگی اور قرض خواہ کی دل جوئی کا خاص خیا ل رکھتے تھے۔ اور دراصل صحابہ کرام نے جو اخلاق سیکھے وہ آپ ہی سے سیکھے تھے۔ ایک یہودی زیدبن سعنہ کا کچھ قرض آنحضرتﷺ کے ذمہ تھا۔ ایک دن وہ آنحضرتﷺ کی مجلس میں آیا۔ قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور نہایت ناشائستہ باتیں کرنے لگا۔ یہاں تک کہہ گیا کہ تم بنی عبدالمطب بہت نادہندہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ حسب معاہدہ قرض کی ادائیگی کی معیاد میں ابھی تین روز باقی تھے۔ اور اس کا تقاضا قبل از وقت تھا۔ صحابہ کرام کو اس کی بے ہودہ کلامی سخت ناگوار گزری۔ اور حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ کچھ درشتی کی لیکن آنحضرتﷺ نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا۔ کہ لازم ہے اس کاقرض اداکردو۔ اور بیس صاع جو زیادہ دے دو۔ آنحضرتﷺ کی ا س خوش معاملگی کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔
حوالہ جات
1۔ (بخاری کتاب الطلاق)
2۔ (بخاری کتاب الطلاق)
3۔ (بخاری کتاب الجہاد)
4۔ (استیعاب ج2 ص185)
5۔ (بخاری کتاب المغازی)
6۔ (اصابہ زیر لفظ عبد اللہ بن ابی حداد) ؟




شوق تبلیغ
1
صحابہ کرامؓ نے سرور کائناتﷺ سے جو روحانی خزانہ حاصل کیا تھا۔ اس کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ اور اس راہ میں تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے جب دعویٰ رسالت کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ابھی کم سن تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اس طرف جانکلے جہاں آپ بکریاں چرا رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا کہ لڑکے اگر تمہارے پاس دودھ ہو تو پلاؤ۔ مگر حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ یہ بکریاں کسی کی ہیں اس لیے میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی ایسی بکری ہو جس نے ابھی بچہ نہ جنا ہو تو اسے لاؤ۔ حضرت عبداللہ ایک بکری لے آئے۔ آپ نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیر کر دعا مانگی تو اتنا دودھ اتر آیا کہ تینوں نے سیر ہو کر پیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر حضرت عبداللہ کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اسلام قبول کرلیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان نہایت کمزور حالت میں تھے۔ حتی کہ علانیہ عبادت الہی بھی نہ کرسکتے تھے۔ ایک روز مسلمانوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ قریش کو قرآن کریم سنایا جائے لیکن یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس کو سرانجام دینا سخت خطرناک تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ا س خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ لیکن دوسرے صحابہؓ نے کہا کہ آپ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ کوئی ایسا شخص چاہیے جس کا خاندان وسیع ہو تاکہ اس پر حملہ کرنے میں قریش کو کچھ تو تامل ہو۔ مگر حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ نہیں مجھے جانے دو۔ میرا خدا میرا محافظ ہے۔
چنانچہ اگلے روز جب قریش کی مجلس لگی ہوئی تھی یہ شمع قرآنی کا پروانہ وہاں جا پہنچا اور تلاوت قرآن کریم شروع کردی۔ یہ دیکھ کر تمام مجمع مشتعل ہوگیا اور سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ چہرہ متورم ہوگیا۔ لیکن پھر آپ کی زبان بند نہ ہوئی اس سے فارغ ہو کر جب صحابہ میں واپس آئے تو آپکی حالت نہایت خستہ ہو رہی تھی۔ صحابہ نے کہا کہ ہم اس ڈر کی وجہ سے تمہیں جانے سے روکتے تھے۔ مگر حضرت عبداللہ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر تم کہو تو کل پھر جاکر اسی طرح کروں گا۔ دشمنان خدا آج سے زیادہ مجھے کبھی ذلیل نظر نہیں آئے۔ ؂۱
2
شوق تبلیغ صرف مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتیں بھی اس ضمن مںا اپنے فرض کو پورے احساس کے ساتھ ادا کرتی تھیں۔ ام شریک ایک صحابیہ تھیں جو مخفی طور پر قریش کی عورتوں میں جاکر تبلیغ کیاکرتی تھیں۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلام کا نام بھی زبان پر لانا خطرناک تھا۔ قریش کو ان کی تبلیغی مساعی کاعلم ہوا تو مکہ سے نکال دیا۔
3
حضرت عکرمہ بن ابی جہل فتح مکہ کے بعد بھاگ کر یمن چلے گئے تھے لیکن ان کی بیوی ام حکیم بنت الحارث مسلمان ہوگئیں اور اس نعمت سے متمع ہونے کے بعد اپنے خاوند کو بھی اس میں شریک کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ صعوبات سفر برداشت کر کے یمن پہنچیں، اپنے خاوند کو تبلیغ کی اور مسلمان بنا کر واپس لائیں۔
4
حضرل ابو طلحہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ حضرت ام سلیم کے ساتھ نکاح کے خواہاں ہوئے۔ ان کو پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میرا نکاح تم سے نہیں ہوسکتا جب تک تم اسلام نہ قبول کرو۔ ہاں اگر مسلمان ہو جاؤ تو میں بخوشی نکاح کرلوں گی اور میرامہر بھی صرف تمہارا قبول اسلام ہی ہوگا۔ اس کے سواتم سے کچھ نہ مانگوں گی۔ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے۔
5
حضرت ابو ذرغفاری نہایت ابتدائی زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ مکہ میں ان کا کوئی حامی اورمددگار نہ تھا۔ لیکن تبلیغ اسلام کا جوش اس قدرتھا کہ تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اورباآواز بلند اشہد ان الاالہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کہا۔ کفاء کی مجلس لگی ہوئی تھی۔ یہ آواز سنتے ہی ان پر ٹوٹ پڑے اور جوکچھ کسی کے ہاتھ میں آیا دے مارا۔ حتی کہ آپ بے ہوش کر گر پڑے۔ ہوش آیا توتمام بدن خون آلود تھا۔ اس وقت تو وہاں سے اٹھ کر چلے گئے لیکن اگلے روز پھر اسی طرح آکراسلام کا پیغام پہنچانے لگے اور کفار نے پھر اسی طرح مارنا پیٹنا شروع کردیا۔
6
حضرت ابوبکرؓ کا قلب جب نور اسلام سے منور ہوا تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اس نعمت سے فیض یاب کرنے کے لیے ان کے دل میں ایک خاص تڑپ تھی۔ آپ اسلام کی تبلیغ ان مشکلات کے باوجود جو قریش کی طرف سے درپیش تھیں برابر کرتے رہتے تھے۔ اور اس کے نتیجہ میں بعض ایسے بزرگ داخل اسلام ہوئے جو بعد میں افق اسلام پر ستارے بن کر چمکے۔ حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوم، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعدبن ابی وقاص اور حضرت طلحہ، حضرت عثمان مظعون، حضرت ابو عبیدہ، حضرت ابو سلمہ، اور حضرت خالد بن سعید بن العاص آپ کی تبلیغ سے ہی دولت اسلام سے مالامال ہوئے۔
7
آنحضرتﷺ جب عرب کے مختلف قبائل اور عام اجتماعوں میں تبلیغ و ہدایت کا فرض سرانجام دینے کے لیے جاتے تو حضرت ابوبکرؓ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اور چونکہ آپ کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا اس لیے آنحضرتﷺ کا تعارف بھی لوگوں سے کراتے تھے۔
حوالہ جات
1۔ (اسد الغابہ ج3 ص 280)
2۔ (ابن سعد ج8 زکر ام شریک)
3۔ (موطا کتاب النکاح)
4۔ (اسد الغابہ ج6زکر ام سلیم)
5۔ (بخاری کتاب المناقب )
6۔ (بخاری کتاب بنیان الکعبۃ)
7۔ (کنز العمال ج6 ص319)



صبر و رضا
اسلام سے قبل مراسم ماتم اہل عرب کے تمدن کا ایک اہم جزو تھا۔ جو نہایت اہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی تھی۔ کسی کی وفات پر اس کے اعزہ اپنا منہ نوچتے، بال کھسوٹتے، سینہ کوبی کرتے اور سخت جزع فزع سے کام لیتے تھے۔ عورتوں کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ سر کے بال کھول کر خاک ڈالیں۔ روتی پیٹتی جنازہ کے پیچھے پیچھے چلیں۔ حتی کہ بعض عورتیں سر کے بال منڈوا دیتی تھیں۔ رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے کے لیے اجرت پر عورتیں بلوائی جاتی تھیں۔ جو بڑے زور کے ساتھ ماتم کرتیں۔ مردہ کی تدفین کے بعد دستر خوان بچھایا جاتا اور تمام نوحہ کرنے والی عورتوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اسی طرح مرنے کے بعد تیسرے اور چالیسویں دن نیز ششماہی اورسالانہ تقاریب تھیں اور ان کو نظر انداز کر کے کوئی شخص سوسائٹی میں اپنی عزت کو برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔
لیکن رسول کریمﷺ نے ان تمام لغو رسوم کی ممانعت فرمادی۔ اور یہ تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے اسے صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے جو ہر تکلیف کے وقت اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر اللہ تعالی کی قضا پر صبر کرتے ہیں۔ اورغیر معمولی اورغیر طبعی جزع و فزع سے کام نہیں لیتے۔ صحابہ کرام نے اس تعلیم کو اپنی تمام پرانی اورصدہا سالوں کی عادت کے باوجود حرزِ جان بنایا۔ او ر ہمیشہ اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے۔ جیسا کہ ذیل کی چند ایمان پرور مثالوں سے واضح ہوتا ہے۔
1
حضرت ابو طلحہؓ صحابی کا ذکر گذشتہ صفحات میں کئی بار آچکا ہے۔ آپ جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کا لڑکا بیمار تھا جسے اسی حالت میں چھوڑ کر و ہ صبح اٹھ کراپنے کام کاج کے لیے باہر چلے گئے۔ اور لڑکا بعد میں فوت ہوگیا۔ ان کی بیوی نے نہ صرف یہ کہ خود کوئی جزع فزع نہ کیا بلکہ تمام پڑوسیوں اور متعلقین کو روک دیا۔ کوئی صف ماتم نہ بچھائی۔ صرف اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر خاموش ہورہیں۔ اور سب سے کہہ دیا کہ حضرت ابو طلحہؓ آئیں تو وفات کی اطلاع ان کو نہ دی جائے چنانچہ وہ جب شام کو واپس لوٹے تو دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے۔ بیوی نے جواب دیا کہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے۔ اس کے بعد خاوند کے لیے کھانا لائیں۔ رات نہایت سکون اور آرام کے ساتھ بسر کی۔ صبح ہوئی تو خاوند سے کہا کہ اگر ایک قوم کسی کو کوئی چیزعاریتہ دے اور پھر واپس لینا چاہے تو کیا اس کو حق ہے کہ اس پر کوئی اعتراض کرے۔ حضرت ابو طلحہ نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ اچھا پھر اپنے بیٹے پر صبر کرو۔
2
حضرت عبداللہ بن عمر کے صاحبزادہ کا جب انتقال ہوا اور آپ اس کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو بدوؤں کے ساتھ دوڑ میں مسابقت کرنے لگے۔ اس پر حضرت نافع نے کہا کہ ابھی تو آپ بیٹے کو دفن کر کے آئے ہیں اور اب بدوؤں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے جوا بدیا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے جو کام کر دیا ہے اس کے نتائج کو جس طرح بھی ممکن ہو بھلا دینا چاہیے۔
3
جب اسلامی لشکر غزوہ احد سے واپس آرہا تھا تو صحابیات اپنے عزیز و اقارب کا حال دریافت کرنے کے لیے شہر سے باہر نکل آئیں۔ ان عورتوں میں ایک حضرت حمنہ بنت حجش تھیں۔ آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایاکہ حمنہ اپنے بھائی عبداللہ بن جحش پر صبر کرو۔ انہوں نے یہ سن کر صرف انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اپنے ماموں حمزہ بن عبدالمطب کو بھی صبر کرو۔ اس پرپھر انہوں نے انااللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ دعائے مغفرت کی اورخاموش ہو رہیں۔
4
حضرت عبداللہ بن عباس کوسفر میں اپنے بھائی قثم ابن عباس کے انتقال کی خبر ملی۔ سن کر انالِلّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ راستہ سے ہٹ کر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر اونٹ پر سوار ہو کر آگے چل دئیے۔
صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایسے اعلی اور شاندار نمونے صبر و رضا کے نظر آتے ہیں کہ پڑھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتی ہے اور صرف مردوں کے نہیں بلکہ عورتوں کے بعض حالات کو پڑھ کر جب اپنے زمانہ کو دیکھا جاتا ہے تو اپنے بزرگوں کے اسوہ سے اس قدربُعد دیکھ کر آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔
5
ایک صحابیہ حضرت ام عطیہ کا لڑکا خلافت راشدہ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں شریک تھا کہ بیمار ہو کر بصرہ چلا آیا۔ ماں کو اطلاع ہوئی تو اس کی عیادت کے لیے بصرہ کا رخ کیا۔ اور بہ عجلت تمام وہاں پہنچیں۔ لیکن پہنچنے سے ایک دو روز قبل اس کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے اس صدمہ جانکاہ پر نہایت اعلی نمونمہ صبر و رضا کا پیش کیا۔ اور تیسرے روز خوشبو لگائی اور فرمایا کہ شوہر کے سوا کسی کے لیے تین روز سے زیادہ سوگ جائز نہیں۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔ کہ بین اور نوحہ کرنا منع ہے۔ لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے صدمہ پر دلی رنج کا پیدا ہونا طبعی چیز ہے۔ جس کا فقدان کوئی خوبی نہیں بلکہ سنگدلی پر دلالت کرتا ہے اور اس کے نتیجہً میں اگر آنسو نکل آئیں تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اسلام ن جس چیز سے منع کیا ہے وہ نوحہ اور بین کرنا یا اور ایسی حرکات کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فعل پر شکوہ یا گلہ کا رنگ رکھتی ہوں۔ اور بے صبری کو ظاہر کرتی ہوں۔
آنحضرتﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ کو نظرانداز کر کے ایسے مواقع پر آج کل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم پر سخت دھبہ لگانے والی بات ہے۔ اپنے غیر مسلم ہمسایوں کے تمدنی اثرات کو قبول کرکے مسلمانوں نے اپنی روایات کو بالکل بھلا دیا ہے۔ اور موت فوت کے موقعہ پر بالکل وہی کچھ کرتے ہیں جو ہندو یا زمانہ جاہلیت کے عرب کرتے تھے۔ یعنی نوحہ اور بین، سینہ کوبی، بال نوچنا، کھانے کی دعوتیں، اور تیسرا، چالیسواں وغیرہ کی رسوم اداکرنا۔ حالانکہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اسلامی تعلیم کے رو سے جائز نہیں۔ اور سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملا او مولوی اسلام کی صحیح تعلیم کو زندہ رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے جلب منفعت اور معمولی لالچ کے لیے ان سراسر غیر اسلامی باتوں کو جزو اسلام بنا کر عوام الناس کے قلوب پر یہ بات نقش کر رکھی ہے کہ یہ باتیں نہایت ضروری ہیں۔ اور ان کے بغیر مرنے والے کی روح قرار حاصل نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم کرے۔ آمین۔
حوالہ جات
1۔ (مسلم کتاب الاداب)
2۔ (ابن سعد زکر واقد بن عبد اللہ)
3۔ (ابن سعد زکرحمنہ بنت جحش)
4۔ (اسد الغابہ ج4 ص85)
5۔ (بخاری کتاب الجنائز)


خدمت والدین
صحابہ کرامؓ کے اخلاق میں دوسری نیکیوں کے ساتھ والدین کی اطاعت اور خدمت کا جذبہ بھی اسلام نے بہت اعلیٰ پیمانہ پر پیدا کردیا تھا اور ا س میں کافر و مومن کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ وہ دنیوی امور میں ان کی خدمت نہایت اہتمام سے کرتے اور ان کی خوشنودی کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے۔ اور دینی امور کے سوا تعلیم کے مطابق وہ کسی بات میں بھی ان کے منشاء کونظر انداز نہیں کرتے تھے۔
1
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں کھجور کی قیمت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے کھجور کا درخت بھی بہت قیمت پانے لگا تھا۔ لیکن ایک دفعہ حضرت اسامہ بن زید نے کھجور کے ایک درخت میں شگاف کیا اور اس میں سے جمار نکالا۔ چونکہ اس درخت کے ضائع ہوجانے کا احتمال تھا۔ کسی نے کہا کہ جب کھجور کے درخت کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ آپ اسے اس طرح کیوں ضائع کرتے ہیں۔ تو انہوں نے جوا ب دیا کہ میری ماں کی یہ خواہش تھی اور میں حتی الوسیع اس کی فرمائش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
2
حضرت ابو ہریرہ کی ماں نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ آپ اسے تبلیغ کرتے رہتے تھے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ ایک روزانہوں نے تبلیغ کی تو ماں نے آنحضرتﷺ کی شان مبارک میں کوئی ناشائستہ کلمات کہے۔ اور کوئی ہوتا تو نتیجہ نہایت خطرناک نکلتا۔ جیسا کہ بعض دوسرے واقعات سے ظاہر ہے لیکن ماں تھی اس لیے آپ نے صبر کیا۔ تاہم دل پر اس قدر چوٹ لگی کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے۔ اللہ تعالی میری ماں کو ہدایت دے۔
3
باوجود یہ کہ حضرت ابو ہریرہ کی والدہ مومنہ نہ تھیں تاہم جب تک وہ زندہ رہی آپ نے حج نہیں کیا۔ مبادا ان کی غیر حاضری میں اسے کوئی تکلیف پہنچے۔
4
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص مسلمانوں کی خانہ جنگی کے زمانہ میں حضرت علی کے خلاف کوئی حصہ نہ لینا چاہتے تھے۔ تاہم جب ان کے والد نے اصرار کیا تو بادل نخواستہ شریک ہوگئے۔
5
ایک صحابی آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرے پاس دولت ہے اور میرا باپ محتاج ہے۔ کیا میں اسے دے دوں۔ آپ نے فرمایا تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے باپ کے لیے ہو۔
6
ایک اور صحابی نے اپنا باغ اپنی ماں کے نام پر وقف کر دیا۔
7
حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کو اپنی بیوی سے حد درجہ محبت تھی۔ اس محبت نے ایک دفعہ انہیں جہاد میں شامل نہ ہونے دیا۔ حضرت ابی بکرؓ نے یہ دیکھ کر بیوی دین کے رستہ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوئی ہے انہیں حکم دیا کہ اسے طلاق دے دیں۔ اس حکم کی تعمیل ان پر سخت گراں تھی۔ تاہم باپ کے حکم کا وہ انکار نہ کرسکے۔ اور طلاق دے دی۔ لیکن نہایت درد انگیز اشعار کہے۔ جن کا حضرت ابی بکرؓ پر اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے رجوع کی اجازت دے دی۔
8
حضرت حارثہ بن سراقہ کے متعلق مصنف اسد انعابہ کا بیان ہے کہ کان عظیم البر بامہ یعنی اپنی ماں کے ساتھ نہایت نیکی کا برتاؤ کرتے تھے۔
حوالہ جات
1۔ (ابن سعد زکر اسامہ بن زید)
2۔ (مسلم کتاب المناقب)
3۔ (مسلم کتاب النذر)
4۔ (اسد الغابہ ج3 ص245)
5۔ (ابو داؤد کتاب المناقب)
6۔ (ابو داؤد کتاب المناقب)
7۔ (اسد الغابہ زکر عاتکہ بن زید)
8۔ (سیر انصار ج1 ص302)










دیانت اور امانت
دیانت اور امانت انسانی اخلاق کی بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعث سے قبل امانت آ پ کا طرہ امتیاز تھا۔ حتی کہ اپنے ہم وطنوں میں آپ الامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور عرب میں آپ کی ذات ہی الصادق اور الامین کی مشار الیہ سمجھی جاتی تھی۔ آپ کی یہ خوبی ایسی تھی کہ غیر مسلموں پر بھی اس کا خاص اثر ہے۔ چنانچہ مسز اینی بیسنٹ جو ہندوستان میں تھیوسافیکل کی پیشوا اور بڑی مشہور یورپین لیڈی ہیں لکھتی ہیں۔
"پیغمبر اعظم ﷺ کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین کا خطاب دلوایا۔ کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں۔ ایک ذات جو مجسم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہو سکتاہے۔ ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو"۔
آنحضرتﷺ کے فیض صحبت نے جہاں صحابہ کرام میں اور بے شمار خوبیاں پیدا کر دی تھیں وہاں دیانت و امانت میں بھی ان لوگوں کا پایہ بہت بلند کردیا تھا۔ چنانچہ سخت ابتلا کے مواقع پر بھی انکے پائے دیانت نے کبھی لغزش نہیں کھائی۔ چند واقعات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں۔
1
ایک مرتبہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں ایک نوجوان مجاہدکو ایک گھڑا ملا۔ جو کہ اشرفیوں سے پر تھا۔ وہ اگرچاہتے تو اسے اپنے لیے رکھ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا۔ بلکہ اسے اٹھا کر سالار جیش کی خدمت میں لے آئے۔ جنہوں نے اسے مسلمانوں میں بحصہ رسدی بانٹ دیا لیکن اس دیانت داری کا ان پر ایسا اثر تھا کہ کہا اگر اسلام کا یہ حکم نہ ہوتا کہ خمس سے پہلے کسی کو عطیہ نہیں دیا جاسکتا تو میں یہ اشرفیاں تمہیں دے دیتا۔ لیکن اب صرف یہ کرسکتا ہوں کہ اپنا حصہ تمہارے حوالہ کر دوں۔ سو یہ حاضر ہے لیکن ان کی بے نیازی ملاحظہ ہو کہ کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
2
حضرت ابی بن کعب کو ایک مرتبہ ایک تھیلی کہیں سے ملی۔ جس میں سو اشرفیاں تھیں لیکن اسے اپنے پاس رکھ لینے کا خیال تک ان کے دل میں نہ گزرا۔ اور اٹھا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک مالک کی جستجو میں اعلان کرتے رہو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن ایک سال کے بعد پھر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر عرض کیا کہ مالک نہیں ملا۔ آپ نے پھر ایسا ہی کرنے کا ارشادفرمایا۔ چنانچہ انہوں نے پھر ایک سال تک تلاش کیا۔ مگر کوئی دعویدار نہ ملا۔ تیسرے سال پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے پاس رکھو۔ اگر مالک مل گیا تو خیر ورنہ خرچ کرلو۔
3
ایک مرتبہ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی کو کسی کا توشہ دان کہیں سے ملا۔ جسے وہ حضرت عمرؓ کے پاس لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو تمہارا ہے۔ جب سال گزرنے پر بھی مالک نہ ملا تو آپ پھر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب یہ تمہارا ہے۔ مگر آپ نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس وجہ سے حضرت عمرؓ نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔
4
حضرت مقدادکسی باغ میں گئے تو دیکھا کہ ایک چوہابل سے اشرفیاں نکال کر باہر ڈال رہا ہے۔ جو تعداد میں اٹھارہ تھیں۔ آپ اٹھا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں لائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے خود تو بل سے نہیں نکالیں۔ بولے نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر خداتمہیں برکت دے۔ ؂۴
5
حضرت زبیرؓ کے پاس بوجہ ان کے امین ہونے کے لوگ اپنے مال امانت رکھ جاتے تھے۔ لیکن اس خیال سے کہ کہیں ضائع نہ ہو جائے آپ اسے اپنے اوپر قرض قرار دے لیتے تھے۔ متعدد صحابہ کامال ان کے پاس امانت رہتا تھا اور وہ اس قدر دیانت داری سے کام لیتے تھے کہ ان لوگوں کے اہل و عیال کے لیے بھی بوقت ضرورت اپنی جیب سے خرچ کردیتے تھے۔ لیکن ان کی امانت نہیں چھیڑتے تھے۔
6
ایک دفعہ ایک صحابی کی اونٹنی گم ہوگئی۔ تو انہوں نے ایک دوسرے صحابی سے کہا کہ اگر کہیں مل جائے تو پکڑ لینا۔ اتفاقاً انہیں اونٹنی مل گئی۔ لیکن اس کا مالک کہیں چلا گیا۔ انہوں نے اونٹنی کو بحفاظت تمام اپنے ہاں رکھا اور مالک کی تلاش کرتے رہے۔ مگر اسے نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ایک روز اونٹنی سخت بیمار ہوگئی۔ بیوی نے اسے ذبح کر ڈالنے کا مشورہ دیا۔ گھر میں فاقہ کشی کی نوبت پہنچی ہوئی تھی۔ لیکن آپ کی امانت نے اسے ذبح کرناگوارا نہ کیا اور اونٹنی مر گئی۔
7
ایک صحابی کے پاس کسی کی امانت محفوظ تھی۔ لیکن مالک کہیں چلا گیا۔ وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ آ پ نے فرمایا کہ جاؤ ایک سال تک تلاش کرو۔ چنانچہ انہوں نے پوری کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ سال کے بعد پھر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا۔ کہ وہ نہیں ملا۔ تو آپ نے فرمایا پھر تلاش کرو۔ چنانچہ سال کے بعد پھر آکر کہا کہ وہ نہیں ملا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اس قبیلہ کا جو آدمی پہلے ملے اس کے حوالے کردو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
8
حضرت عقیل بن ابی طالب جنگ حنین کے بعد واپس آئے تو بیوی نے پوچھا کہ مال غنیمت میں کچھ لائے ہو یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سوئی کپڑے سینے کے لیے ہے۔ یہ کہہ کر سوئی بیوی کے حوالہ کر دی۔ اتنے میں منادی کرنے والے کی آواز آئی کہ جو کچھ مال غنیمت میں سے کسی کے پاس ہے وہ جمع کرادے۔ چنانچہ آپ نے فوراً سوئی بیوی سے لے لی اورجاکر جمع کرادی۔
9
فتح خیبر کے بعد آنحضرتﷺ نے وہاں کی زمینیں مقامی مزارعین کو بٹائی پر دے دی تھیں۔ جب فصل پک کر تیار ہوئی تو آپ نے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ کو پیداوار کا حصہ لینے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جاکر پیداوار کے دو حصے کر دئیے اور مزارعین سے کہا کہ ایک حصہ جو تمہیں پسند ہو تم لے لو۔ لیکن یہود اس سے زیادہ لینے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے اپنی عورتوں کے زیور جمع کیے اور بطور رشوت حضرت عبداللہؓ کو دینا چاہے تاکہ ان کے ساتھ رعایت کردیں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اے یہود تم میرے نزدیک مبغوض ترین مخلوق ہو۔ لیکن یہ بغض مجھے تمہارے ساتھ کسی ناانصافی پرآمادہ نہیں کرسکتا۔ باقی رہا رشوت کا سوال تو یہ مال حرام ہے۔ اور مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں یہ کھانے کے لیے تیار ہوں گا۔
10
حضرت ابوبکرؓ بھی قبول اسلام کے وقت نوجوان تھے۔ رسول کریمﷺ نے 40 سال کی عمر میں دعویٰ رسالت کیا۔ اور آپ آنحضرتﷺ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ اسلام سے قبل آپ بہت بڑے تاجر تھے اور آپ کی دیانت وامانت مسلمہ تھی۔ قریش میں بہت عزت کے مالک تھے۔ ایام جہالت میں بھی خون بہا کی رقوم آپ کے پاس جمع ہوتی تھیں۔ اگر کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی رقم جمع ہوتی تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
11
ایرانیوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے اور فتوحات حاصل کرتے ہوئے جب مجاہدین اسلام نے نہاوند کے آتش کدہ کو ٹھنڈا کیا تو آتش کدہ کے ایک پجاری نے ایک صندوقچہ لاکر حضرت خذیفہ بن الیمان کے سپرد کیا جو بیش قیمت جواہرات سے بھراہواتھا اور جو اسکے پاس شاہی امانت کے طور پر تھا۔ یہ کوئی مال غنیمت نہ تھا بلکہ پرائیویٹ طور پر حاصل شدہ چیز تھی یا کم سے کم اگرکوئی شخص دیانت داری کی باریک راہوں کاخیال نہ رکھے تو وہ ایسے مال کو اپنے تصرف میں لانے کے لیے کئی تاویلیں کرسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ سب کا سب قومی خزانہ میں داخل کر دیا۔
حوالہ جات
1۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد)
2۔ (ابو داؤد کتاب اللقطۃ ) (بخاری کتاب اللقطۃ)
3۔ (دارمی کتاب البیوع)
4۔ (ابو داؤد کتاب الخراج)
5۔ (اصابہ ج2 ص460)
6۔ (ابو داؤد کتاب الاطعمۃ)
7۔ (ابو داؤد کتاب الفرائض)
8۔ (اسد الغابہ زیر لفظ فاطمہ بنت سودہ)
9۔ (موطا کتاب المساقاۃ)
10۔ (کنز العمال ج6 ص312)












پابندی عہد
صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں پابندی عہد کا وصف بھی دوسری خوبیوں کی طرح بہت ممتاز نظر آتا ہے حتی کہ وہ دشمنوں کے معاملہ میں بھی اس کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے اور خواہ کس قدر نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے اپنے عہد سے ہرگز نہ پھرتے تھے۔
1
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب رومیوں سے مجاہدین اسلام نبرد آزماہوئے تھے اور حمص کو فتح کر چکے تھے کہ کسی فوجی مصلحت کے ماتحت بعد مشورہ یہ طے ہواکہ تمام مفتوحہ علاقہ کو خالی کر کے دمشق میں تمام قوت کو ازسرنو مجتمع کیا جائے۔ لیکن جزیہ کی رقم ان علاقوں کے رہنے والوں سے وصول کی جاچکی تھی۔ اور اس کے عوض مسلمانوں نے ان کی حفاظت کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب ان علاقوں کو خالی کردینے کا فیصلہ ہوا تو چونکہ رومیوں کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا جاسکتا تھا اس لیے جو کچھ ان سے لیا گیا تھا سب کا سب واپس کر دیا گیا۔ اس شریفانہ سلوک کا وہاں کے عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ رورو کر دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو جلدواپس لائے۔
2
ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ کہ مجاہدین اسلام میں سے ایک غلام نے اہل قلعہ کے ساتھ وعدہ کیا کہ انہیں امان دی جائے گی۔ اور چونکہ اس کا کوئی خاص موقعہ نہ ملا تھا اس لیے عام طو پر مسلمانوں نے اس کی وعدہ کی پابندی سے انکار کر دیا۔ لیکن محصورین نے کہا کہ ہمیں اس کا کیا علم کہ وعدہ کرنے والا غلام ہے یا آزاد۔ ہم سے جو وعدہ ہوا ہے وہ بہرحال پوراہونا چاہیے۔ آخر یہ معاملہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مسلمان غلام کاوعدہ بھی قوم کا وعدہ ہے۔ جس کی پابندی لازمی ہے۔
3
پابندی عہدکامسلمان اس قدر خیال رکھتے تھے کہ بڑے سے بڑے حاکم کو بھی اس کی خلاف ورزی کی طرف مائل دیکھتے تو فوراً روک دیتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی اسکی معیاد ختم نہ ہوئی تھی کہ حملہ کی تیاری شروع کردی۔ حضرت عمر بن عنسہ کو جب اسلامی فوج کی تیاریوں کاعلم ہوا تو گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت معاویہ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ وفا کرنی چاہیے۔ بد عہدی مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔
4
کفار کے ساتھ جو وعدہ ہوتا مسلمان اس کی خلاف ورزی بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ امیر معاویہ نے حضرت عقبہ بن عامر کو مصرکا گورنر مقرر کیا۔ وہ مصر کے ایک گاؤں میں اپنے لیے رہائشی مکان تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اور اسکے لیے انہوں نے ایک غیر آباد زمین جو کسی کی ملکیت نہ تھی انتخاب کی۔ ان کے ایک ملازم نے کہا کہ آپ کوئی عمدہ قطعہ مکان کے لیے تجویز کریں۔ یہ زمین جو آپ لے رہے ہیں کوئی اچھی نہیں لیکن حضرت عقبہ نے جواب دیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ذمیوں کے ساتھ جو ہمارا معاہدہ ہے اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی زمین ان کے قبضہ سے نہیں نکالی جائے گی۔
5
پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ستر حفاظ اور قراء کا ایک وفد ایک قبیلہ کی درخواست پر تعلیم دین کے لیے ان کے ساتھ بھیجا تھا۔ مگر کفار نے ان پر حملہ کر کے سوائے دو کے سب کو شہید کردیا۔ ان میں سے زندہ بچنے والوں میں سے ایک حضرت عمروبن امیہ ضمیر تھے۔ وہ جب واپس مدینہ آرہے تھے تو رستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو شخص ملے۔ حضرت عمرو نے جذبہ انتقام کے ماتحت ان کو قتل کردیا۔ مدینہ میں پہنچ کر جب سب حالات حضور کی خدمت میں عرض کیے تو ساتھ ہی ان دو اشخاص کے قتل کا بھی ذکر کیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ یہ دونوں تو ہم سے عہد و پیمان کر گئے تھے۔ اس لیے ان کا قتل جائز نہ تھا۔ اور اس کی تلافی کے لیے اب ان کاخون بہا ادا کرنا ضروری ہے۔
6
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جو معاہدہ مرتب ہوا تھا اس کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ اگلے سال مسلمان مکہ میں آکر عمرہ کرسکتے ہیں۔ مگر تین روز سے زیادہ مکہ میں ٹھہرنہیں سکتے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ تشریف لائے اور ارکان عمرہ سے فارغ ہو کر ام المومنین حضرت میمونہ کے ساتھ نکاح کیا۔ چوتھے روز مشرکین کاایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اور کہاکہ تین روز ہوگئے اس لیے آپ مکہ سے چلے جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں یہاں دعوت ولیمہ دوں اور مکہ والوں کو بھی کھلاؤں۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں دعوت کی ضرورت نہیں۔ آپ عہد کی پابندی کریں۔ چنانچہ آپ نے فوراً کوچ کے اعلان کی منادی کرادی۔ اور مکہ سے نکل کر وادی سرف میں قیام فرمایا۔
7
جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذا ب مارا گیا تو اسکے بقیہ السیف لوگوں میں سے کچھ تو قید ہوگئے اور کچھ فرار۔ قلعہ و شہریمامہ میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہی رہ گئے تھے۔ لیکن حضرت خالد کو اس حقیقت کا علم نہ تھا۔ قیدیوں میں سے ایک شخص مجاعہ بن مرارہ نے ان سے کہا کہ ابھی شہر میں بہت سے جنگجو سپاہی ہیں جن کے پاس رسد بھی کافی ہے۔ اوروہ آپ کو کافی لمبے عرصے تک پریشان کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اندر جاکر ان کو مصالحت پر آمادہ کروں۔ حضرت خالد اس بات پر رضامند ہوگئے اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔ و ہ شخص شہر میں گیا اور جاکر عورتوں اور بچوں کو مسلح کر کے فصیل پر کھڑا کردیا۔ تاکہ یہ ظاہر ہو کہ قلعہ میں زبردست فوج موجود ہے اور صلح کی شرائط میں مسلمان ہمارے ساتھ نرمی پر آمادہ ہوسکیں۔ خیر صلح ہوگئی اور اہل شہر کو کچھ مراعات بھی حاصل ہوگئںو۔ لیکن جب اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا تو مجاعہ کے فریب کاپتہ چلا۔ حضرت خالد نے اس سے کہا کہ تونے مجھے دھوکا کیوں دیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو میری قوم تباہ ہوجاتی۔ اگرچہ اسنے معاہدہ صلح میں دھوکا سے کام لیا تھا۔ لیکن حضرت خالد بن ولید نے پھر بھی اس کی پابندی ضروری سمجھی اور کسی شق کی خلاف ورزی کا خیال تک بھی دل میں نہ لائے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت ابوبکر امیرالمومنین کا حکم نامہ پہنچا کہ فتح کے بعد یمامہ کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا جائے۔ لیکن چونکہ اس حکم کے پہنچنے سے قبل صلح نامہ مکمل ہو چکا تھا اس لیے اس کی تعمیل نہ کی جاسکی اور یہ واقعہ مسلمانوں کے ایفائے عہد کے واقعات میں خاص طورپر ممتاز ہے۔
8
ایرانیوں کا ایک سردار ہرمزان نامی تھا۔ ایرانی جب قادسیہ کے میدان میں شکست کھا کر بھاگے تو اس شخص نے خوزستان کے علاقہ میں اپنی ایک خودمختار حکومت قائم کرلی۔ مسلمانوں نے اسے شکست دی تو اس نے اطاعت قبول کرلی لیکن پھر بغاوت کی۔ مسلمانوں نے پھر اس کی سرکوبی کی لیکن اس کے بعد پھر اس نے جب دیکھا کہ شاہ فارس اپنی فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے آرہاہے تو اس کی مدد کے لیے آمادہ ہوگیا اورمسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار ہوا۔ بہت سی تگ و دو اور لڑائیوں کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں پھر صلح کرتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان مجھے مدینہ میں اپنے خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیں۔ وہ جو فیصلہ میرے متعلق کریں گے مجھے بسر و چشم منظور ہوگا۔ چنانچہ اسے مدینہ بھیجا گیا۔ جب وہ فارو ق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے اتنی مرتبہ کیوں بد عہدی کی ہے۔ ہر مزان نے کہاکہ مجھے پیاس لگی ہے چنانچہ پانی لایا گیا۔ تو پیالہ پکڑ کر اس نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت میں ہی قتل کردیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں اس کا کوئی فکر نہ کرو۔ جب تک تم پانی نہ پی لو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سنتے ہی اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی پیتا ہی نہیں۔ اور اس وعد ہ کے مطابق اب آپ مجھے قتل نہیں کرسکتے۔ اب دیکھیں کہ یہ بھی کوئی وعدہ ہے۔ عام رنگ میں ایک بات کی گئی جسے توڑ مروڑ کر اس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ اور پھر یہ ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو کئی بار بدعہدیاں کرچکا ہے۔ اور عرصہ دراز تک پریشانی کا باعث بنا رہا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے فرمایا کہ گو تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا مگر میں تم کو دھوکا نہ دوں گا اور تمہیں قتل نہ کراؤں گا۔
حوالہ جات
1۔ (کتاب الخراج لقاضی ابو یوسف ص31) ؟
2۔ (فتوح البلدان ص1398) ؟
3۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد)
4۔ (مقریزی ج1 ص208) ؟
5۔ (تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خان ص174)






جرأت و بہادری
مسلمانوں نے نہایت ہی قلیل تعداد اور بے سروسامانی کی حالت میں چند ہی سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا۔ اسکی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک ان لوگوں کی غیر معمولی جرات و بہادری ہے۔ ایمان نے ان کی قلبی کیفیت ایسی کر دی تھی۔ اور مشق الہی میں انہیں اس قدر سرشار کر دیا تھا کہ اسلام کے مقابلہ میں وہ نہ اپنی زندگی کی کوئی قدر و قیمت سمجھتے تھے اور نہ اپنے عزیز و اقارب کی۔ ان کے حوصلے بلند اور ارادے اس قدر مضبوط تھے کہ سخت مشکلات کے وقت بھی وہ کسی بات سے خوف نہ کھاتے تھے۔ ان کی جرات و بہادری کے واقعات تاریخ میں اس قدربیان ہے کہ ان کے بیان کے لیے کئی ضخیم جلدیں درکار ہیں لیکن ہم یہاں بطور نمونہ چند ایک واقعات درج کرتے ہیں۔
1
صحابہ کرامؓ نے جب مدین میں داخل ہونا چاہا تو بیچ میں دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس مشکل کا کوئی حل اس وقت نہ تھا۔ آخر ان جواں مردوں نے نتائج سے بے پرواہ ہو کراپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مد دفرمائی اور اکثر ان میں سے صحیح و سالم کنارے پر پہنچ گئے۔ اور اس طرح دریا پار کر کے شہر میں پہنچے۔ ایرانیوں نے دیکھا تو کہا کہ دیوان آمدند اور شہر کو خالی کر دیا۔
2
قادسیہ کے میدان میں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایرانیوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ہوئی تو ایک سخت مشکل سامنے آئی۔ ایرانی ہاتھیوں کو میدان جنگ میں لائے۔ اور وہ جس طرف رخ کرتے مسلم مجاہدین کو کچلتے ہوئے چلے جاتے۔ اور صفوں کی صفیں الٹ دیتے تھے۔ حضرت قعقاعؓ نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر سیاہ رنگ کے جھول ڈال کر ان کو ہاتھیوں کے مقابلہ پر کھڑا کیا۔ مگر اس سے خاطر خواہ نتیجہ مرتب نہ ہوا۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اور ہاتھیوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ انہیں بعض پاسی نومسلموں نے بتایا کہ اگر ان کے سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں تو پھر یہ کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ آپ نے حضرت قعقاعؓ ، حضرت محالؓ اور حضرت ربیعؓ کو اس پر مامور فرمایا۔ ان تینوں بہادروں نے ہاتھیوں کو گھیرے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر ان کی آنکھیں ضائع کرنے لگے۔ ہاتھیوں میں ایک سفید رنگ کا ہاتھی تھا جسے گویا ان کا سپہ سالار کہا جاسکتا تھا۔ حضرت قعقاعؓ نے جرات سے کام لے کر اس کے سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ کٹ کر الگ جاپڑی۔ اور و ہ بے قرار ہو کر ایسا بے تحاشا بھاگا کہ سب ہاتھی اس کے پیچھے ہولیے۔
3
جرات و بہادری صرف اس کا نام نہیں کہ انسان تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ نبردآزما ہو بلکہ صداقت کو اس وقت قبول کرنا جب ہر طرف سے اس کی مخالفت ہو رہی ہو۔ اور دشمن ایذا رسانی پر اترے ہوئے ہوں، اور صداقت کو قبول کرنا گویا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہو۔ اسکی حمایت کے لیے کھڑے ہو جانا اصل جرات و بہادری ہے اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس بہادری کی مثالوں کی بھی کمی نہیں۔
حضرت علیؓ کی عمر بمشکل چودہ پندرہ برس کی ہوگئی کہ آنحضرتﷺ نے اپنے خاندان کو تبلیغ کرنے کے لیے ایک دعوت کا انتظام کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آپ نے اٹھ کر ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تمہارے سامنے دین ودنیا کی بہترین نعمت پیش کرتاہوں۔ کون ہے جو میرا معاون و مددگار ہوگا۔ سب لوگ یہ بات سن کر چپ رہے لیکن حضرت علیﷺ نے اٹھ کر فرمایا کہ گو میں سب سے چھوٹا ہوں اور کمزور ہوں تاہم آپ کا دست و بازو بنوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر اسی سوال کو دہرایا۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا لیکن تینوں مرتبہ کوئی نہ بولا۔ سوائے حضرت علی کے کہ آپ نے تینوں مرتبہ کھڑے ہو کر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ خاندان کے سب بڑے بڑے لوگ اس بار کو اٹھانے سے انکار کرتے ہیں۔
4
آنحضرتﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو یہ وہ وقت تھا جب مشرکین نے بھی یہ دیکھ کر کہ مسلمان ایک ایک دودو کرکے مکہ سے نکلتے جارہے ہیں یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرتﷺ کا کام تمام کردیا جائے۔ چنانچہ جس شب آپ نے مکہ کو چھوڑنا تھا وہ مسلح ہو کر آپ کے مکان کے ارد گرد پہرہ دینے لگے۔ آنحضرتﷺ نے اس خیال سے کہ کفار کو شک نہ ہو حضرت علی کو اپنے بسترپر سونے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت علی نے اپنی جان کے خوف سے بے نیاز ہو کر ا س خدمت کو قبول کیا اور عین اس وقت جب کفار کی تلواروں کی جھنکار مکان سے باہر صاف سنائی دے رہی تھی حضرت علی نہایت اطمینان کے ساتھ آپ کے بستر پر لیٹے رہے۔ اور کفار کو چونکہ آپکے اندر ہونے کا یقین تھا اس لیے انہوں نے دوسری طرف توجہ نہ کی۔ اور آنحضرتﷺ کو مکہ سے نکل جانے کا موقعہ مل گیا۔ صبح کے وقت جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت برہم ہوئے مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔
5
بہادری اور جرات کے واقعات صرف مردوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عورتوں میں بھی یہ وصف ہمیں نمایاں نظر آتا ہے۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے تمام مسلمان خواتین کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا اوروہاں حضرت حسان کی ڈیوٹی لگا دی تھی۔ ایک دفعہ ایک یہودی قلعہ پر حملہ کی راہ تلاش کرتاہوا اس کے پھاٹک پر پہنچا۔ حضرت صفیہ نے اسے دیکھا تو حضرت حسان سے کہا کہ اسے قتل کردیں۔ ورنہ یہ جاکر اپنے ساتھیوں کو اطلاع دے گا۔ جس سے حملہ کاخطرہ ہے۔ لیکن حضرت حسان کی طبیعت ایک بیماری کی وجہ سے ایسی ہوگئی تھی کہ خونریزی کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ چہ جائیکہ اس میں خود کوئی حصہ لے سکیں اس لیے انہوں نے معذوری کااظہار کیا۔ اور یہودی کے بہ سلامت واپس چلے جانے کی صورت میں چونکہ سخت خطرہ کااحتمال تھا اس لیے حضرت صفیہ خود آگے بڑھیں۔ خیمہ کی ایک چوب اکھیڑی اور قلعہ سے اتر کر اس زورسے یہودی کے سر پر ماری کہ و ہ بدبخت وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت صفیہ نے اس کا سر کاٹ کر قلعہ سے نیچے پھینک دیا تاکہ یہودیوں پر رعب طاری ہو جائے۔ چنانچہ اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور یہودیوں نے سمجھ لیا کہ قلعہ میں بھی ضرور فوج موجود ہے اور اس وجہ سے انہیں قلعہ پر حملہ کی جرات نہ ہوئی۔
6
حضرت ام سلیم غزوہ حنین میں ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے آنحضرتﷺ کو اس سے مطلع کیا۔ حضور نے فرمایا کہ خنجرکیوں پکڑے ہوئے ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہﷺ اگرکوئی مشرک قریب آئے گا تو اس کا پیٹ چاک کردوں گی۔ آنحضرتﷺ یہ جواب سن کر مسکرائے۔
7
ایرانیوں کے ساتھ جنگوں کے دوران میں ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک مقام انبار پر محاصرہ کیا۔ جس کاحاکم شیرزاد نامی ایک ایرانی سردار تھا۔ اس نے شہر کی فصیل کے باہر مٹی کا ایک دمدمہ تیا رکرلیا تھا۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے۔ جب محاصرہ نے طول کھینچا تو حضرت خالد اپنے جان باز سپاہیوں کو لے کرآگے بڑھے۔ رستہ میں خندق حائل تھی اور اس کے دوسری جانب ایرانیوں نے تیروں کی بارش شروع کر رکھی تھی۔ خندق کو عبور کرنے کے لیے حضرت خالد نے حکم دیا کہ کمزوراور دبلے اونٹ ذبح کر کے اس میں ڈال دیے جائیں اور اور اس طرح ایک قسم کا پل بنالیا گیا۔ باقی رہا تیروں کی بارش سو یہ ان سرفروشوں کے لیے کوئی درخورِ اعتناء چیز نہ تھی۔ دشمن اپنا کام کر رہے تھے اور یہ اپنا۔ وہ تیر برسا رہے تھے اور یہ آگے بڑھتے جارہے تھے۔ مسلمان مجاہدین کو تیروں نے جس قدر نقصان پہنچایا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک ہزار کی آنکھیں بے کارہوگئیں۔ مگر یہ برابر بڑھتے گئے حتی کہ پہلے دمدمہ پر قبضہ کرلیا اور پھر فصیل پر پہنچ گئے۔ ایرانیوں نے سخت مزاحمت کی لیکن جو لوگ اس طرح موت سے کھیلتے ہوئے یہاں پہنچے تھے وہ کسی مزاحمت کو کب خاطر میں لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں فتح ہوئی اوروہ فاتحانہ شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔
8
محض شجاعت اور بہادری ہرگز کام نںیے آسکتی بلکہ اس کے ساتھ فہم و فراست سے کام لینا بھی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مسلمان جب ایرانیوں کے ساتھ نبردآزما تھے تو بصرہ کے حاکم حضرت عبداللہ بن عامر نے حضرت ہرم بن حیان کو جور کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ا س محاصرہ نے طول پکڑا اور شہر میں داخلہ مشکل نظرآنے لگا۔ حضرت ہرم بن حیان دن کے وقت روزہ رکھتے اورشب کو عبادت کرتے تھے۔ ایک دن افطاری کے وقت انہیں کھانا نہ ملا لیکن انہوں نے صبر کیا اور اگلے روز پھرروزہ رکھ لیا۔ مگر شام کو پھر کھانا نہ ملا اور اس طرح کئی روز گزر گئے۔ آخر ایک روز انہوں نے اپنے خادم سے پوچھا کہ میرے لیے کھانا کیوں تیار نہیں ہوتا۔ اس نے بتایا کہ میں تو ہر روز تیار کر کے رکھ جاتا ہوں معلوم نہیں کہاں جاتا ہے۔ اس روز خادم نے مقررہ جگہ پر کھانا رکھا اور خو دنگرانی کرتا رہا۔ تھوڑی دیر میں ایک کتا آیا اور کھانا اٹھا کر چلتا ہوا۔ خادم بھی پیچھے پیچھے ہولیا اور اس نے دیکھا کہ کتا ایک بد رو کے رستہ شہر میں داخل ہوگیا۔ خادم نے واپس آکر حضرت ہرم کو اطلاع دی۔ انہوں نے اسے تائید غیبی سمجھا۔ اور چند شجاع نوجوانوں کو ساتھ لے کر رات کے وقت اسی بدرو کے رستہ شہر میں جا داخل ہوئے۔ محافظوں کو قتل کر کے دروازے کھول دئیے اور اس طرح اسلامی لشکر شہر پر قابض ہوگیا۔
9
جنگ قادسیہ کے موقعہ پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پہلے لشکر ایران میں سے ایک شہزادہ ہرمزنامی میدان میں نکلا اور مبارز طلب کیا۔ حضرت غالب بن عبداللہ اسدی اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور فوراً ہی اسے گرفتار کرکے اسلامی لشکر میں لے آئے۔ اس کے بعد اہل فارس کا ایک اور بہت بڑا نامور پہلوان آیا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضرت عاصم پہنچے۔ اور دونوں میں زور آزمائی ہونے لگی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایرانی پہلوان میدان سے بھاگا۔ حضرت عاصم نے اس کا پیچھا کیا اور عین اس وقت جب کہ وہ اپنے لشکر کی صف اول کے قریب پہنچ چکا تھا پیچھے سے اس کے گھوڑے کی دم کو پکڑ کر اسے ایک قدم بھی آگے اٹھانے سے روک دیا۔ اور پھر اس پہلوان کو اس کے گھوڑے سے زبردستی اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور اس طرح گرفتار کرکے اپنی فوج میں لے آئے۔
10
ایرانی جب قادسیہ سے بھاگے تو ان کا ایک سردار شہر یار کوثی کے مقام پر اپنی فوج کو جمع کر کے مسلمانوں سے انتقام لینے کے منصوبے سوچنے لگا۔ حضرت زہرہ بھی تھوڑی سی فوج کے ساتھ ادھر سے گزرے تو ان کو شہریار کی تیاریوں کا علم ہوا۔ اور وہ بھی ان کی آمد کی خبر سن کر باہر نکلا۔ دونوں لشکر بالمقابل ہوئے اور شہر یار نے چیلنج کیا۔ کہ تم میں سے جو شخص بہادر ترین ہو و ہ میرے سامنے آئے۔ حضرت زہرہ نے کہا کہ پہلے تو میرا ا رادہ خود تم سے مقابلہ کرنے کا تھا مگر تمہارے اس غرور کو دیکھ کر میں کسی عام سپاہی کو بھیجتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے حضرت نائل بن چشم اعرج کو جو قبیلہ بنو تمیم کے غلام تھے بھیجا۔ حضرت نائل دبلے پتلے اور شہر یار بڑی ڈیل ڈول کا آدمی تھا۔ اور ا س نے فوراً ہی حضرت نائل کو گرد ن سے پکڑ کر نیچے گرالیا اور چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ لیکن حضرت نائل کے منہ میں ان کے ہاتھ کا انگوٹھا آگیا۔ اور آپ نے اس پر اس زور سے کاٹا کہ وہ شدت درد کی تاب نہ لاسکا۔ اور حضرت نائل اس کے نیچے سے نکل کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور خنجر کے ساتھ اس کا پیٹ چاک کردیا۔
اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے حضرت نائل کو حکم دیا کہ شہر یار کی زرہ ہتھیار اور سارا لباس پہن کر سامنے آئے۔ چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی۔
11
رومیوں کے ساتھ جنگ کے سلسلہ میں مسلمانوں نے ایک قلعہ کامحاصرہ کیا۔ جس نے بہت طول کھینچا۔ کفار باہر آتے نہ تھے اور مسلمان قریب جائیں تو تیر اور پتھر برساتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ نے مدینہ سے کمک منگوائی۔ جس میں ایک حبشی نژاد غلام حضرت وامس بھی تھے جن کی کنیت ابوالہول تھی۔ انہوں نے آکر حضرت ابو عبیدہ سے کہا کہ مجھے تیس جان بازدے دئیے جائیں۔ تو میں قلعہ کے اندر داخلہ کی کوئی صورت انشاء اللہ پیدا کرلوں گا۔ رات کے وقت حضرت وامس تیس نوجوانوں کو لے کر قلعہ کے نیچے پہنچے اور ساتھیوں کو ذرا پیچھے ٹھہرا کرخود قلعہ کے ارد گردچکر لگایا۔ اور اندازہ لگایا کہ ایک چھوٹا سا برج سنسان ہے یا تو اس پر کوئی پہریدار نہیں ہے اور یا اگر ہے تو سویا پڑا ہے۔ حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں میں سے دو کو تو واپس حضرت ابو عبیدہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ ایک ہزار سوار صبح ہونے سے قبل قلعہ کے نیچے پہنچ جائیں۔ فصیل کی بلندی کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ سات آدمی اگر نیچے اوپر کھڑے ہوں توآخری آدمی اوپر پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نیچے کھڑے ہوئے اور چھ آدموں کو ایک دوسرے کے اوپر چڑھایا۔ اس طرح آخری آدمی فصیل پر پہنچ گیا۔ اور اس نے ایک رسہ کنگروں سے مضبوط باندھ دیا۔ جس کے سہارے یہ سب مجاہدین برج میں داخل ہوگئے۔ وہاں دو پہریدارشراب کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کیونکہ سویرے ہی مسلمانوں نے مصلحتاً لشکر اٹھا کر کوچ کا اعلان کر دیا تھا اور رومی ان کے واپس جانے پر جشن منا کر شراب سے بے ہوش ہو رہے تھے۔ چنانچہ برج کے بے ہوش پہریداروں کو قتل کردیا گیا۔ حضرت وامس اپنے ساتھیوں کو لے کر دروازہ پر پہنچے اور پہریداروں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انکے شور مچانے پر فوجی بیدار ہو کر حملہ آور ہوئے۔ حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں کو دروازہ کے ساتھ ساتھ کھڑا کر دیا تاکہ اس پر قبضہ رہے اور رومیوں سے باقاعدہ جنگ ہونے لگی۔ حضرت وامس نے ایسا مورچہ قائم کرلیا تھا کہ رومی زیادہ تعداد میں ان پر حملہ نہیں کرسکتے تھے۔ جگہ تنگ تھی۔ اور اتنے ہی رومی آگے بڑھ سکتے تھے جتنے اس میں سما سکیں۔ اور جو آگے بڑھتے مسلمان مجاہدین ان کو تہ تیغ کر دیتے۔ نصف شب سے لے کر صبح تک برابر یہ معرکہ جدال گرم رہا اور آٹھ مسلمان شہید ہوگئے۔ صبح کے قریب قلعہ سے باہر اسلامی لشکر پہنچ گیا اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگا۔ حضرت وامس نے یہ معلوم کر کے کہ مسلمان آ پہنچے مدافعت کاخیال چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور مسلمان فاتحانہ اندازمیں اندرداخل ہوگئے۔ اس لڑائی میں حضرت وامس کے بدن پر ستر زخم آئے مگر وہ برابر لڑتے رہے۔
حوالہ جات
1۔ (تاریخ طبری ص 2441)
2۔ (تاریخ طبری ص1172)
3۔ (مستدرک حاکم ج3 ص4)
4۔ (ابن سعد ج8 ص27)
5۔ (مسلم ج2 ص103)
6۔ (تاریخ اسلام ص307)
7۔ (تاریخ اسلام ص40)
8۔ (تاریخ اسلام ص 353)
9۔ (تاریخ اسلام )
 
Top