مضامین بشیر ۔ جلد 1
۱۹۱۳ء
صلح یا جنگ
احمدیوں اور غیراحمدیوں کے باہم تعلقات پر بحث کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اور ہر ایک کا کام نہیں کہ اس پر قلم اٹھاوے کیونکہ یہ مضمون قومی نظام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور قومی نظام کی پوری ذمہ۔داری کو سوائے قوم کے لیڈر کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لہذا ایسا مضمون جس پر حضرت اقدس کی کوئی تحریر شاہد نہ ہو، کبھی بھی قوم کے لئے دستور العمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھاہے کہ جوکچھ لکھوں، اس پر حضرت صاحب کی شہادت ہو ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔ایسا ہی میرا خیال ہے کہ اگر ہرایک احمدی کوئی مضمون لکھتے ہوئے حضرت صاحب کی کتب کو سامنے رکھ لے تو قوم بہت سی مشکلات سے بچ جاوے۔ اس قدر تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔
قرآن شریف اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسے فرمایا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا۱؎۔ اسلام کا کام اس فطرت کا جگانا ہے اور قرآن اِسی غرض سے دنیا میں نازل ہوا مگر وقت یا یوں کہئے کہ زمانہ اپنے اندر ایک عجیب اثر رکھتا ہے۔ کتنی ہی سخت سے سخت مصیبت کیوں نہ پڑے کیسا ہی بڑے سے بڑا غم کیوں نہ ہو ایک عرصہ کے بعد اس کی تیزی ضرور کم ہوجائے گی۔ مجھ کو یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت احمدی قوم پر بڑے درد کا وقت تھا اور غم کی وجہ سے وہ دیوانی نظر آتی تھی لیکن آج پانچ یا چھ سال کے بعد وہ غم نہیں، وہ درد نہیں، وہ تکلیف نہیں، وقت نے اپنا اثر کیا اور آہستہ آہستہ غم کم ہوتا گیا۔اور اب جتنا ہم کو زمانہ اس سانحہ دور ڈالتا چلاجائے گا،اتنا ہی ہمارے لئے اس کی تکلیف کم ہوتی جائے گی۔ اسی طرح جو اسلام کی محبت اور دین الٰہی کی غیرت اور اپنی عقبیٰ کی فکرمسلمانوں کو نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی وہ آج نہیں۔ وہ فاتح تھے اور یہ مفتوح۔ وہ بادشاہ تھے اور یہ رعایا۔ وہ آزاد تھے اور یہ غلام۔ وہ اسلام کا فخر اور یہ اسلام کی جائے عار۔ غرض وہ منعم علیہم اور یہ مغضوب، دُنیا کی محبت آگئی اور دین کو کھو بیٹھے۔ زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے ان کے دروازوں پر لاڈھیر کئے۔ آسمان نے ان کے لئے رحمت کے باد ل برسائے مگر انہوں نے شکر کرنے کی بجائے اپنی عیش میں خدا کو بھلادیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ ذلت۔ قردۃ خاسئین ہوگئے دوسرے کے نچائے ناچتے ہیں۔ پھر اس پر غضب یہ ہوا کہ عیسائی تہذیب نے ملک میں قدم رکھا اور مسلمان جو پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے اس پر لٹو ہوگئے۔ پتلون کی آمد پر پاجامہ صاحب رفوچکر ہوئے اور جبّہ کی مسند پر فراک کوٹ کو بٹھایا گیا اور کیا چاہیئے تھا من مانی مرادیں مل گئیں۔ شراب وکباب میں غرق ہوئے۔ بابو صاحب کا لقب پایا اور مولویت کو خیرباد کہہ دی۔اللہ اللہ! یہ وہ قوم ہے جو اسلام کا دعویٰ رکھتی ہے۔ خدا تو ظالم نہیں۔ ہاں انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پر مصائب کیوں آتے ہیں۔ کوئی کہے تم انعاموں کے کام کرتے ہو؟ یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے طریقے ہیں؟ دوسروںپر کفر کے فتوے اور اپنے گھر کا یہ حال! آخر شرم بھی کوئی چیز ہے، جائے غور ہے یہ آسمان پر تھے اور زمین پر گرے، تختوں پر ان کا ٹھکانا تھا اور اب خاک بھی ان کو جگہ دیتی شرماتی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کس بات کا نتیجہ ہے؟ یہ عتاب کیسا ؟ اس ناراضگی کے کیا معنے؟ خدا بدل گیا یا یہ ہی وہ نہ رہے؟ کبھی اس آیت پر بھی غور کیا ہے؟
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُمَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِھِمْ ۲؎
کہنے والے نے خوب کہا ہے:-
غیروں سے اب لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے
اسلامی جوش مٹ گیا اور دنیا کی محبت دل میں گھرکر گئی۔ عیش وعشرت کے خمار میں پڑ گئے اور اپنے مولیٰ کو بُھلادیا۔ جوں جوں زمانہ دور ہوتا گیا اسلامی تعلیم دلوں سے محو ہوتی گئی تو کیا اب کئی صدیوں کا خمار ان چکنی چپڑی باتوں سے دور ہوجائے گا؟ یہ نیند نہیں بدمستی ہے اب کوئی مضبوط ہاتھ ہی ہوش میں لائے گا۔ نرم باتوں کو کون سنتاہے۔ ہم نے تودیکھا ہے کہ شرابی اپنے نشہ میں مست عجیب شور مچاتے ہیں اور بیہودہ بکواس سے ناک میں دم کردیتے ہیں مگر جب بالوں سے پکڑ کر دوچار رسید کردی جائیں تو فوراً ہوش آجاتا ہے۔
جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۳؎کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حق کو چھوڑدیا جاوے اور دل خوش کن باتیں کرکے راضی کرلیا جاوے۔ ہاں بات کرنے کا طریق احسن ہو اور اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مثلاً ایک ہندو ہمارے پاس آوے اور ہم سے سوال کرے کہ آپ ہم کو کیا سمجھتے ہیں تو ہم اگر حق کہتے ہوئے نہ ڈریں تو دو طرح سے جواب دے سکتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو کمبخت کافر بے ایمان جہنم کا ایندھن ہے اور یہ جواب حق ہوگا۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو تم نے اللہ کے ایک مرسل کا انکار کیا اور کسی رسول کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔ تم میں حقیقی ایمان نہیں اور اللہ تعالیٰاسی وجہ سے تم پر خوش نہیں اور جس پر وہ ناراض ہوتا ہے ان کے لئے اُس نے جہنم کا عذاب رکھا ہے۔ یہ ہے وہ جواب جو جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُکے ماتحت آئے گا۔ حق بھی ظاہر ہوگیا اور اس کے بیان میں نرمی بھی آگئی۔ وہ کلمات جو اپنے اندر صرف نرمی ہی نرمی رکھتے ہیں، اور حق سے دور ہوتے ہیں۔ بلاریب سننے والے کو ضرور خوش کردیں گے اور وہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ الَّاِالْاِحْسَانُ۴؎کے ماتحت غالباً ہماری ہاں میں ہاں بھی ملادے گا لیکن کیا اس سے ہمارا مطلب حل ہوگیا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے تو اس کے اور حق کے درمیان ہمیشہ کے لئے روک قائم کردی۔ یقین رکھو کہ ایسا شخص ہمارے قریب نہیں آیا بلکہ ہم سے دور چلا گیا۔ جب کبھی ہم اس کے خلافِ مطلب کوئی بات کہیں گے وہ الگ ہوجائے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ مخالفت سے بالکل نہ گھبراتے تھے بلکہ جب کبھی سنتے کہ فلانی جگہ مخالفوں کا بڑا زور ہے تو بہت خوش ہوتے کہ اب وہاں احمدیت بھی ترقی کرے گی۔ تجربہ نے بھی یہ ہی ثابت کیا ہے کہ جہاں کہیں زیادہ مخالفت ہوئی وہیں زیادہ ترقی ہوئی۔ اور کیوں نہ ہوتی خدا کے مرسلوں کی بات پوری ہوکر رہا کرتی ہے۔ سو چاہیئے کہ ہم جو مسیح کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلیں اور اگر ہم ان کے منشاء کو پورا نہیں کررہے تو ہم احمدی کہلانے کے حقدار نہیں جیسے کہ آج کل کے برائے نام مسلمانوں پر مسلمان کا لفظ بولتے ہوئے طبیعت ہچکچاتی ہے۔ غرضیکہ حق ایک ایسی چیز ہے جو کسی وقت بھی چھوڑنی نہیں چاہیئے۔ وہ پالیسی جس میںحق کو چھپانا پڑے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کی واہ واہ کو، کامیابی کو حاصل کرلیا جاوے مگر یاد رکھو صرف ہاں میں ہاں ملانے والے کبھی جماعت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے اور ہوں بھی کیسے۔ منافق کو حق سے کیا نسبت ہے اس کو اگلا جہاں یاد ہی نہیں۔ مثلاً ایک عیسائی ہم سے کہے کہ میں نبی کریم .6ؐ کو مانتاہوں مگر ان کو مسیح پر فضیلت نہیں تو کیا اس کا جواب یہ چاہیئے کہ ہاں لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۵؎ قرآن شریف میں بھی آیا ہے؟ کمبخت عیسائی تو خوش ہوگیا مگر ساتھ ہی حق کا بھی خون ہوگیااس کا جواب تو یہ تھا کہ ہم کیوں نہ نبی کریم ؐ کو مسیح پر فضیلت دیں عَلَیْھِمَا السَّلَامُ؟ غلام کو آقا سے کیا نسبت؟ مریم کے صاحبزادے کا عرب کے سردار سے کیا مقابلہ؟ محمد مصطفی ( فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ) کے کام کو دیکھو اور پھر شام کے نبی کی کاروائی۔ سورج اور چاند کی بھی کچھ نسبت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ جواب تھا جو نصرانی کو ہوش میں لاتااور اس کو اپنی عقبیٰ کی فکر پڑتی۔
حضرت صاحب نے بیشک ہندوئوں کو صلح کا پیغام دیا۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ ہے کہ پیغام کے مخاطب ہندو تھے لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ کن شرائط پر۔ سب سے بڑی شرط جو پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ تم
لَآاٖلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّہ
پر ایمان لے آئو۔ پھر ہم تم بھائی ہیں ورنہ یادرکھو کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ہونی ممکن ہے مگر تم سے ناممکن۔ اب اگر حضرت مسیح موعود ؑ کے وصال کے بعد احمدیہ سرکل میں سے کوئی فرد یا جماعت یہ آواز اٹھائے کہ غیر احمدیوں سے صلح کی جاوے تو اس کے لئے ہم اپنے آقا کے نقش قدم پر چل کر علیٰ بصیرۃیہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑی شرط یہ ہو کہ غیر احمدی اپنے مسیح کو مار کر خدا کے مسیح اورمہدی کو مان لیں اور اسی کے سایۂ عاطفت کے نیچے آجاویں۔ پھر وہ ہمارے بھائی ہوں گے لیکن اگر وہ اس شرط کو قبول نہ کریں جس طرح ہندوئوں نے ہماری آواز پر لبیک نہ کہا تو یاد رکھیں کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ممکن ہے مگر ان کے ساتھ ناممکن۔
پھر ایک اور بات ہے وہ یہ کہ دنیا میں دو ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔دینی اور دنیوی۔ دینی تعلقات میں سب سے بڑا تعلق عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیا میں رشتہ داری سب سے بڑا تعلق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان دونوںبڑے تعلقات کو جو احمدی اور غیراحمدیوں کے درمیان ہوسکتے تھے ہمیشہ کے لئے قطع کردیا ہے۔ دین میں حکم دیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز بالکل نہ پڑھو۔ مرجائیں تو جنازہ کوئی نہیں۔ دنیا کے لئے فرمایا کہ غیر احمدی کو لڑکی نہ دینا۔اب باہم تعلق کی بات ہی کونسی رہ گئی۔ یہ ہی باتیں ہیں جن سے نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روکا۔ ورنہ کفار کے ساتھ لین دین کے معاملات اور معمولی تعلقات تو اصحاب بھی رکھتے تھے۔ یہ ایک بڑا باریک نکتہ ہے جو غور کرنے والے کے لیئے کافی ہے۔ ع
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
اب ہم اس مضمون کی تائید میں جو ہم نے شروع میں لکھا ہے حضرت صاحب کی تحریر پیش کرتے ہیں۔ آپ ازالہ اوہام حصہ اوّل میں فرماتے ہیں:-
’’بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوںمختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اورا پنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدرمرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام دہی تصور کرلیتے ہیں……اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اورتلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کرسکتے ہیں۔ تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے……کیا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ۶؎ نہیں فرمایا۔کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ۷؎ نہیں رکھا گیا؟ (افسوس ہے یہاں اشدّاء بینھم اور رحماء علی الکفار پر عمل ہو رہا ہے)……دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچادیوے۔ پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے…… اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صور ت میں اس کو سمجھ لیوے اورپھر مشتعل ہوکر گالیاں دینی شروع کردے تو کیا اس سے امرمعروف کا دروازہ بند کردینا چاہیئے۔ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں…… اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلّشانہ مداہنہ کی حمایت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی مائوں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتائو کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکّہ کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے وَدُّوْالَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ…۸؎… وہ تلخ الفاظ جو اظہار حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سُنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہوجائیں…… سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہوجاتی ہے…… سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیدا کردیتی ہے اگر چہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ہی تحریک روبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے۔ جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہوسکتا۔ لیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہر ایک طور کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ انبیاء نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہوجائے۔ اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کردیں۔ اور اس راہ میںحرکت کریں۔ گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اورا پنے دلوں کا اہل حق کے دِلوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرلیں۔ گو وہ عدوّانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو……دراصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم ماراہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدر ضرورت ومصلحت استعمال میں لانا ہر ایک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سُستی اور کاہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیر اللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی ضعیف اور کمزور ہے جیسے ایک کیڑے کی جان ضعیف اور کمزور ہوتی ہے۔‘‘ ۹؎
یہ ہیں الفاظ ہمارے آقا کے، ہمارے ہادی کے، ہمارے مرشد کے، ہمارے امام کے، دیکھیں اس کے غلاموں پر ان کا کیا اثر ہوتاہے چوں چرا کرتے ہیں یا سرتسلیمِ خَم۔
میں آخر میں یہ اشارہ کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ نرمی استعمال کرنے اور دل خوش کن باتیں کہنے سے اختلاط کا ڈر ہوتا ہے اور اختلاط کے بدنتائج سے تو غالباً اکثر لوگ واقف ہی ہوں گے۔
سو اَے قوم ! تو خواب غفلت سے جاگ اور اپنے فرض منصبی کو پہچان۔ اس راہ پر قدم مار جس پر تیرا امام تجھ کو ڈال گیا ہے۔ تو ایک قطرہ ہے جس کو تو نہیں جانتی کہ کن کن محنتوں، کن کن مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرکے۔ کن کن مصیبتوں کو جھیل کر، دنوں کو خرچ کرکے، راتوں کو جاگ جاگ کر، جبینِ نیاز کو تنہائی میں اپنے مولیٰ کے سامنے خاک پر رگڑ رگڑ کے ایک شخص نے صاف کیا ہے۔ آہ! کیا اس کی محنت کا یہ ہی اجر ہے کہ اس کے صاف کئے ہوئے قطرے کو پھر گندے سمندر میں پھینک دیا جاوے؟ فتدبّر۔
اختلاط کے نتائج پر انشاء اللہ حسب توفیق پھر کبھی لکھوں گا۔
(مطبوعہ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ئ)
۱۹۱۶ء
مسئلہ کفر واسلام
اس وقت تک مسئلہ کفر واسلام پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گاہے گاہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائے وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرایہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو۔
چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام الناس کے لئے مضمون اور بھی مشتبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پرہیز رکھوں گا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ
میں نے اپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر واسلام کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ غیراحمدیوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں۔ دوسرے یہ کہ غیراحمدیوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے۔
غیراحمدیوں کا اسلام
مضمون اوّل کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ ’’اسلام‘‘ اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی مذہب نے آنحضرت ؐ سے پہلے اسلام کا نام پایا۔ گو حقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے۔ اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ مذہب لائے جوان قیود سے آزاد ہے اور آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے۔ اِس لئے آپؐ کی بعثت سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوامذہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا۔ اسی طرح آپ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا۔ گویا کہ آپ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے۔ گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہوگئے۔ ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا۔ اَب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اسی طرح قائم رہے گا، جیسا کہ ایک دفعہ ہوچکا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی۔ اور جو کوئی بھی کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آجا ئے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیںبلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے۔ تاحقیقت پر جو میل آجاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے رہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہوجانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا۔ (جیسا کہ لوکان الایمان معلقا بالثر یا۱۰؎ اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے) ایسے وقت کے لئے نبی کریمؐ کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ماتحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقدر تھی۔ اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور مسیح ہے۔ وہ محمد رسول اللہ کا نائب، مسیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا۔ اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے۔ وہ مسلم ہے اور حق رکھتاہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کردیا ہے۔
خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد ؐ رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسان کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کردے۔ مسیح موعود ؑ خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرماوے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرسکتا ہے۔ اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں۔ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا۔ کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا۔ محمد ؐ رسول اللہ کو خاتم النبیین یقین کرنا۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں؟ یقینا ہے اور بہت کچھ ہے۔ خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے۔ وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے۔ بھلا بتائو تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیراحمدیوں کو ہندوئوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیادہ قریب کر رکھا ہے۔ غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرتا ہے۔ مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں ان کو مسلمان بھی لکھا ہے۔ بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض کردیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ۔ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص باوجود ایک دائرہ سے خارج ہوجانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے۔ غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھادیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو۔ اسی طرح میرا یہ بھی دعویٰ ہے کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کرسکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعود ؑ نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو۔ حالانکہ میں بفضلِ خدا ایک نہیں بیسیوں ایسے حوالے پیش کرسکتاہوں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے غیر احمدیوں کو مسلمان کہااور لکھا ہے۔ اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیراحمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے۔فتدبرو۔
میں نے اپنے رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کردیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے۔ یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبدالحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں:-
’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیںکیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے‘‘
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکدر نہیں کرسکتا۔
پھر آپ نے اپنی ۲۶ دسمبر ۱۹۰۶ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ:-
’’اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں۔ اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔‘‘
دیکھئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لاکر اپنے عقائد کو درست نہ کریں۔
پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۱ (روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۴۱ حاشیہ) پر تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جب میں دہلی گیا تھا۔ اور میاں نذیر حسین غیرمقلّد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی۔ تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بدزبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کرکے آخری فیصلہ یہی ٹھہرا یا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے۔ پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلادوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا۔‘‘
دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کس دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیر حسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قراد دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمدیوں میں دین اسلام کا ایک رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں۔ اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں۔ جن کو عند الضرورت پیش کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی روسے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اسمیؔ اور رسمیؔ طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اورلکھا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے۔ جو یہ ہے۔
’’چو دَورِ خسروی آغاز کردند‘‘
’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ ۱۱؎
اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے۔ اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیاہے۔ پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیراحمدیوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں۔ کیونکہ کلام الٰہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے۔ اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الٰہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکار کر رہا ہے۔فتدبّرو
غیراحمدیوں کا کُفر
اب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتاہے۔ سواس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا منکر اسی طرح الٰہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان ویقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق خدا کے رگ وریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کا صفاتی وجود ہرجگہ محسوس ومشہود ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں۔ یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے۔ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت کے خادم تھے۔ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین حصہ پنجم صفحہ۱۳۸ پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو۔ غرض اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پاجاتے ہیں۔ وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیںبلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ وریشہ کے اندر سرایت کر جاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کردیتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ حدیث نبوی کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًابِالثُّرَیَّالَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسْ۔ اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ سوماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس ومشہود کروا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلاکر خاک کردیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے۔ سو اس لحاظ سے توتمام مامورین کا انکار منکرین کے غیرمومن ہونے پر مہر لگانے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ سو جاننا چاہیئے کہ کُفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر۔ ظاہری کفر سے یہ مُراد ہے کہ انسان کُھلے طور پر کسی رسول کا انکار کردے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے۔ جس طرح یہود نے مسیح ناصریؑ کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہراً طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میںاپنے آپ کو شمار کرتاہو لیکن درحقیقت (اللہ تعالیٰ کی نظر میں) وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جاپڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو۔ اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کاربند نہ ہو یا اگر ہوتو صرف قشرپر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو۔ غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے۔ جیسا کہ مسیح ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا۔ گو وہ ظاہراً طور پر تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صِرف رسمی طور پر منسوب تھے۔ چنانچہ اس حقیقت کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کردیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جاپڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی اُمت میں ہونے کا دعویٰ صرف ایک زبانی دعویٰ تھا جو آزمانے پر غلط نکلا۔ حضرت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کاربند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرماکر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کردی اور اس بات پر الٰہی مُہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے۔ ایک مسیح کا ظاہری کفر اور دسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے۔ جنہوں نے آپ کا انکار کرکے اس بات پر بھی مہر لگادی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے۔ پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا۔ ایک ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سے پہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے۔ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوںکا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پر ظاہری کفر کا فتویٰ عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے۔ تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کافر کہیں۔ ہاں اگر وہ کسی اور مامورمن اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیسا کہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی باطنی کفر کیا کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے۔ ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گاکہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہوچکا ہے۔ مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھاکہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا۔ پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کردیاکہ امت موسویہ میں واقعی اکثر دھاگے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے میں ٹوٹ گئے۔ اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفر ان پر عائد نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اسلام سے ظاہراًطور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں۔ پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے۔ ہم غیراحمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں۔ آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کافر نہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ کا بھی باطنی کفر شروع ہے۔
فریق مخالف نے مسئلہ کفر واسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کردیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے۔ کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری کافر ہیں۔ ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ غیراحمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیںاور یہ بالبداہت غلط ہے۔ خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کروجو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے۔ ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود ؑ کا کافر سمجھتے ہیںاور بس۔ چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہراً طور پر انکار نہیں کیا۔ بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعودؑ کے سواکسی اور رسول کے مطلقاً کافر نہیں کہلاسکتے۔ ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ حقیقۃالوحی میں فرماتے ہیں کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا‘‘۱۲؎
جس کا یہی مطلب ہے۔ کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے۔ فتدبر
تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود ؑ کا کفر زیاد ہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے۔ جیسا کہ خود حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:-
’’فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس وجنّ میں سے اُن سا کوئی بھی بدطالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔‘‘۱۳؎
خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں۔ اِس لئے علمیت کے دائرہ سے ان کو خارج قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:-
’’جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔‘‘۱۴؎
اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعودؑ کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعودؑ کے ظاہراً طور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کافر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ:-
’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود ؑ کو نہیں مانتا۔‘‘
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :-
’’اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘۱۵؎
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۳ پر لکھا ہے کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘
ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں۔وہوالمراد
(مطبوعہ الفضل ۶ ،۵ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱۹۱۷ء
اِسْمُہٗ اَحْمَدُ
قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی ایک پیشگوئی درج ہے، جو ان کے بعد کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمدؐ ہوگا۔ اصل الفاظ پیشگوئی کے جو قرآن کریم میں درج ہیں یہ ہیں:-
’’وَاِذْقَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْ.6ٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّر.6ًم ا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن.6ْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۱۶؎
یعنی فرمایا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رُسول ہوں۔ مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے۔ یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اور جس کا اسم احمد ہوگا۔‘‘
پیشتر اس کے کہ اور قرائن کے ساتھ اس موعود رسول کی تعیین کی جاوے ہم پہلے الفاظ اسمہٗ احمد کو ہی لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ کس حد تک ہم کو تعیین کے کام میں مدد دیتے ہیں۔ پہلا لفظ اسم ہے یہ مشتق ہے۔ وسم سے جس کے معنی نشان لگانے کے ہیں تو گویا اس لحاظ سے اسم کے معنی ہوئے نشان اور چونکہ نشان کی غرض تخصیص وتعیین ہوتی ہے تو اس لئے اسم کے پورے معنی ہوئے وہ نشان وغیرہ جس سے کسی شے کی تعیین وتخصیص ہوجائے۔ اب اسم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسم سے مراد اسم ذات لیا جائے۔ یعنی وہ نام جس سے کوئی شخص عام طور پر معروف ہو۔ خواہ حقیقت کے لحاظ سے اس نام کا مفہوم نام بردہ میں پایا جاوے یا نہ پایا جاوے۔ مثلاً بیسیوں ایسے دہریہ مل جائیں گے جن کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ ہوگا۔ حالانکہ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ناموں سے کوسوں دور ہوںگے۔ ایسے اسم کو جس میں حقیقت کا ہونا نہ ہونا ضروری نہ ہو۔ اسم ذات کہتے ہیں۔ دوسری اسم کی یہ صورت ہے کہ مثلاًکسی شخص کا کوئی نام بطور اسم ذات کے تونہ ہو مگر اس نام کامفہوم نمایاں طورپر اس شخص میں پایا جاوے۔ مثلاً محمد رسول اللہ کا اسم ذات کے طورپر تو عبداللہ نام نہ تھا مگر عبداللہ کے مفہوم کے لحاظ سے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی عبداللہ نہیں گزرا۔ ایسے نام کو اسم صفت کہتے ہیں۔
قرآن شریف میں بھی اسم کے معنے صفت کے آئے ہیں۔ ملاحظہ ہو
لَہُ الْاَ سْمَآئُ الْحُسْنٰی ۱۷؎
یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پاک ہیں غرض لفظ اسم دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسم ذات اور اسم صفت۔ کیونکہ یہ دونوں ایک حد تک تعیین اور تخصیص کرنے والے ہوتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اسمہٗ احمدؐ والی پیشگوئی کس شخص پر چسپاں ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوشخص رسالت کے مدعی ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر ہوئی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی پر ضرورچسپاں ہوگی۔ پہلے ہم لفظ اسم کے مفہوم اول یعنی اسم ذات کے لحاظ سے پیشگوئی کی تعیین کرنے ہیں۔ آنحضرتؐ کا اسم ذات محمدؐ تھا۔ یہی نام آپ کا آپ کے بزرگوں نے رکھا اور اسی نام سے آپ مشہور تھے۔ دوسری طرف مسیح موعود کا نام تھا غلام احمد یہی نام ان کا ان کے والدین نے رکھا۔ اور اسی نام سے وہ مشہور تھے۔ یہ سرسری نظر جو ہم نے ان دومدعیان رسالت پرڈالی تو ہم کو معلوم ہوا کہ یہ پیشگوئی کم ازکم اس ذات کے لحاظ سے ان ہر دو میں سے کسی پر بھی چسپاں نہیں ہوتی تو پھر یہ ماننا پڑا کہ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی یا ہماری ظاہری نظر نے دھوکا کھایا۔ پہلی صورت چونکہ مسلمہ طور پر غلط ہے۔ اس لئے دوسری صورت کو صحیح سمجھ کر پھر نظر ڈالتے ہیں تاکہ اگر سرسری نظر نے لفظ احمد کو ان دو بزرگوں پر اسم ذات کے طور پر نہیں چسپاں کیا تو شاید پیشگوئیوں میں جو اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اس کو خیال رکھتے ہوئے ہم ذرا گہری نظر سے لفظ احمد کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعودؑ میں سے کسی کے ساتھ اسم ذات کے طورپر دیکھ سکیں۔ تاریخ اور احادیث صحیحہ (وضعیات الگ رکھ کر)شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ کا رسالت سے پہلے کبھی بھی احمد کے نام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکتا۔ دعویٰ سے پہلے کی شرط اس واسطے ہے کہ دعویٰ کے بعد والا نام اوّل تو اسم ذات نہیں کہلاسکتا۔ دوسرے خصم پر حجت نہیںہے۔ اگر دعویٰ سے بعد کا اپنے مُونھ سے آپ بولا ہوا نام بھی اسم ذات ہوسکتا ہے تو پھر تو امان اٹھ جاوے۔ مثلاً پیشگوئی ہو کہ عبدالرحمن نام ایک شخص مامور ہوکر آئے گا تو ایک شخص مسمی جمال دین اُٹھے اور کہے کہ میرا نام ہی عبدالرحمن ہے۔ تو وہ صحیح نہ سمجھا جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں تو یہ جھگڑا بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسم ذات کے طور پر دعویٰ کے بعد بھی کبھی اپنا نام احمد نہیں بتایا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ غرض محمد رسول اللہ کے معاملہ میں تو ہماری گہری نظر بھی ماندہ ہوکر واپس لوٹی کیونکہ بالحاظ اسم ذات کے کُجا محمد اور کجا احمد۔ اب رہے مسیح موعودان کے متعلق بھی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہماری سرسری نظر تعیین کرنے سے قاصر رہی۔ اب ذرا گہری نظر ڈالیں مسیح موعود کا نام جو عام مشہور تھا اور جو والدین نے رکھا غلام احمد تھا۔ یہ مرکب ہے لفظ غلام اور احمد سے۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان ہر دو میں سے نام کا اصل اور ضروری حصہ کونسا ہے۔ یاد رہے کہ نام ہوتا ہے۔ تعیین اور تخصیص کے لئے اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم مسیح موعود کے خاندان کے ممبروں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور تھوڑی دیر کے لئے تعصب کو الگ رکھیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہم کو ضرور نظر آجائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے والد کے چار بھائی تھے۔ تو گویا کل پانچ ہوئے۔ ان میں سے تین یہ ہیںمرزا غلام حیدر، مرزاغلام مرتضیٰ، مرزا غلام محی الدین باقی دو بچپن میں فوت ہوئے۔ اس لئے ان کے نام کی ابھی تک تحقیقات نہیں کرسکا۔ مگر اتناپتہ یقینی چل گیا ہے کہ ان کے ناموں میں غلام کا لفظ ضرور تھا۔ تو اب غلام کا لفظ تو ان سب میں مشترک تھا۔ اس لئے یہ الفاظ ان کے ناموں کا اصل حصہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس نے تخصیص پیدا نہیں کی بلکہ تخصیص پیدا کرنے والے حیدر اور مرتضیٰ اور محی۔الدین الفاظ تھے۔ پس اگر ان کو ہی اصل نام کہہ دیا جاوے تو حرج نہیں۔ اب آگے چلئے۔ حضرت مسیح موعودؑ دوبھائی تھے۔ آپ کا نام غلام احمد تھا اور آپ کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر تھا۔ غور فرمائیں غلام کا لفظ پھر مشترک ہؤا۔ اسم کا کام ہے ایک حد تک تخصیص کرنا وہ تخصیص کس لفظ نے قائم کی؟ ہمارا ضمیر بولتا ہے کہ ایک طرف احمد نے اور دوسری طرف قادر نے۔ پس حرج نہیں کہ انہی کو اصل نام سمجھا جاوے۔ مسیح موعود کے چچا مرزا غلام محی۔الدین کی نسل میں بھی یہی سلسلہ چلا۔ ان کے تین بیٹے ہوئے۔ جن کے نام تھے مرزاکمال۔الدین، مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین۔ ان میں دین کا لفظ مشترک ہے اور امام اور نظام اور کمال نے تخصیص کی۔ پس وہی اصل نام ٹھہرے پھر آگے چلئے۔ مرزا غلام قادر جو مسیح موعود کے بڑے بھائی تھے۔ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام رکھا گیا عبدالقادر، گویا اس نے اپنے باپ کے خصوصیت والے اصل نام کو ورثہ میں لیا۔ پھر یہی نہیں خود مسیح موعود کی اولاد کو لیجئے۔ دعویٰ کے بعد کی مثال تو آپ مانیں گے نہیں۔ دعویٰ سے بہت سال پہلے جب آپ ابھی جوان ہی تھے اور بالکل گوشہ تنہائی میں اپنے دن کانتے تھے اور بیرونی دنیا میں کوئی آپ کو نہ جانتا تھا۔ آپ کے ہاں دولڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے نام رکھے گئے مرزا سلطان احمد اور مرزافضل احمد۔ دیکھئے باپ کے اصل نام کو ورثہ میں لے لیا وہ نام جس نے باپ کو چچا سے خصوصیت دی تھی پھر اور سنئے حضرت مسیح موعود کے والد نے دو گائوں آباد کئے اور ان دونوں کو اپنے دو بیٹوں کے نام پر موسوم کیا۔ ایک کا نام رکھا قادرآباد اور دوسرے کا احمد آباد۔
ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید اکی، احمدتھا۔ اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی تھا مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوںکی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پرپیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے توعقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے۔ خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے۔ جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے۔جیسا اوپر بیان ہؤا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے۔
(مطبوعہ الفضل ۱۵ تا ۱۹ مئی ۱۹۱۷ئ)
حوالہ جات
۱۹۱۳ء ،۱۹۱۶ئ،۱۹۱۷ء
۱۔ الروم:۳۱
۲۔الرعد:۱۲
۳۔النحل:۱۲۶
۴۔الرحمن:۶۱
۵۔البقرہ:۲۸۶
۶۔التحریم:۱۰
۷۔الفتح:۳۰
۸۔القلم:۱۰
۹۔ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد ۳۔صفحہ ۱۰۹ تا ۱۲۰
۱۰۔صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورۃ الجمعہ
۱۱۔تذکرہ صفحہ ۵۱۴ - ۵۶۲ طبع ۲۰۰۴ء
۱۲۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۶۸
۱۳۔ الھُدیٰ ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۵۰
۱۴۔ نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۷۲
۱۵۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵
۱۶۔ الصف:۷
۱۷۔ الحشر:۲۵
۱۹۲۶ء
سیرت المہدی اور غیرمبایعین
ناظرین کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات میں ایک کتاب سیر ت المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس حاسدانہ اور معاندانہ نظر سے دیکھے گا۔ جس سے کہ اہل پیغام نے اسے دیکھا ہے مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میری اُمیدوں کو ایک سخت ناگوار صدمہ پہنچایا ہے۔ جرح و تنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی بحثیںجو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی علمی تنویر کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیںاور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیں اور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا مضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے۔ میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لے کر آخرتک بغض وعداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیںاور ان کے مضمون کا لب ولہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے۔ جابجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعارکے استعمال سے مضمون کے تقدس کو بری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے۔ مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو۔ پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصول انتقام کے ماتحت لاکر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا۔ میں انسان ہوں اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پاک ہوتی ہے۔ اور نہ ایسا دعویٰ کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے۔ میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں، محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اگر اس میں میں نے کوئی غلطی کی ہے یا کوئی دھوکا کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبّہ کرے تاکہ اگر یہ اصلاح درست ہو تو نہ صرف میں خود آیندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہوجائوں بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہو جانے سے بچ جائیں لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کرکے بجائے اصلاح کر نے کے بغض وعداوت کا تخم بوئے۔ اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوں میں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت غیر مناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب وملت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کرکے ان کے اس افسوسناک رویۂ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ اب ان عبارتوں کو نقل کرکے مزید بدمزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطافرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کر اپنے طرز تحریر میں آیندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوںکو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی، دور فرما کر مجھے اپنی رضامندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین
اصل مضمون کے شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اوربات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کام نہیں لیا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پرریویو کرنے لگاہے، اس کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالے یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کرکے کتاب کے حسن وقبح کا ایک اجمالی ریویو لوگوں کے سامنے پیش کرے تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ اصول دنیا بھر میں مسلّم ہے اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے۔ چنانچہ یہود ونصاریٰ کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی عَلیٰ شَیْ ئٍ وَّقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الیَہُوْدُ عَلیٰ شیْ ئٍ وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ۱؎۔یعنی یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کرگئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن اِن کو نظر ہی نہیں آتے اوریہودیہی کہتے چلے جاتے ہیںکہ نصاریٰ میں کوئی خوبی نہیںہے اور نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے مبّرا ہیںحالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیئے کہ تورات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاقف ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۲؎۔ یعنی کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دیدے کیونکہ بے انصافی تقویٰ سے بعید ہے۔ اور پھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ شراب اور جوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۳؎۔ یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ کیسی منصفانہ تعلیم ہے جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے مگر افسوس! کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زرّیں اصول کو نظر انداز کرکے اپنا فرض محض یہی قرار دیا کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ میں ڈاکٹر صاحب سے امانت ودیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟ کیا سیرۃ المہدی میںکوئی ایسے نئے اور مفید معلومات نہیں ہیں۔ جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃالمہدی حصہ اوّل میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے تو میں خاموش ہوجائوں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اوردیانتداری پر مبنی نہیں ہے۔ اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی مخالفت میں عموماً کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کرلیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کے لئے ہی آپ.6ؐ کی بعض خوبیاں بھی ذکرکردی جائیں۔ تاکہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کرکے دھوکہ میں آجائیں لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہوگئے ہیں کہ اور نہیں تو کم۔از کم اپنے مضمون کو مقبول بنانے کے لئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کردی جائیں۔
مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ’’ سیرت المہدی پر ایک نظر‘‘ مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو۔ سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ گویا ’’یہ نظر‘‘ عدل وانصاف کی نظر نہیں جسے حسن وقبح سب کچھ نظر آنا چاہیئے بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے۔ اور اپنے دل ودماغ کو اس بات کا عادی بنائیے کہ وہ اِس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کرسکیں۔ جسے آپ اپنا دشمن تصور فرماتے ہوں۔ میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ورنہ آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے۔٭
اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتاہوں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اوّل کے متعلق قائم کی ہے۔ سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرت المہدی کہلانے کی حقدارہی نہیں۔ زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کرنے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا۔ ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہٗ مطالعہ کرلے تاکہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میںآگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ اگر وہ ذرا تکلیف اٹھا کر اس ’’عرض حال‘‘ کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اورمیں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں۔ چنانچہ سیرۃ المہدی کے ’’عرض حال‘‘ میں میرے یہ الفاظ درج ہیں۔
٭:-مطبوعہ الفضل۷ مئی ۱۹۲۶ء
’’بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرت یا سوانح سے کوئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط واستدلال کا وقت آئے گا
(خواہ میرے لئے یا کسی اور کے لئے) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوالیں گی۔‘‘
میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہوجانے کے باوجود ڈاکٹرصاحب کا اس اعتراض کو پیش کرناماسوائے اس کے اور کیا معنی رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کردینے کا شوق ہے۔ میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃالمہدی میں بعض بظاہر لاتعلق روایات درج ہیں اوراپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے اور پھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا۔ ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کردیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کرکے اس کا اجمالی جواب دیا ہے اورپھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کردیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقیدصرف ان کی حدّت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے۔ اور اعتراضات کے نمبر کا اضافہ مزید براں رہے۔ افسوس! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال واستنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کردیا جاوے۔ اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیرۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعود کی سیرت پر روشنی نہیں پڑتی اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کرسکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرما دیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیںہے۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے۔ پس اگر ان کثیر التعداد روایات کی بناء پر کتاب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیئے اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجودہر مخلص احمدی کے لئے ایساہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اورجذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو، لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کرنے دیتا۔ پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے تو اس خیال سے کہ یہ باتیں بہرحال ہیں تو ہمارے آقا، ہماری جان کی راحت، اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعودؑ ہی کے متعلق۔ میرا یہ علمی جرم اہل ذوق اوراہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیئے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کا اختیار ہے مگر تاریخ عالم اور صحیفۂ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبۂ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیئے۔ آپ اشعار کا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا ؎
خلق میگوئید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم باخلق وعالم کار نیست
بس یہی میرا جواب ہے۔ حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں ؎
تا نہ دیوانہ شدم ہوش نیا مد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احسان کردی ۴؎
پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیئے۔
تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض وغایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے۔ واللہ الموفق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فرمائی ہیںاور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں۔ یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں۔‘‘۵؎
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریںگے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کردوں تاکہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہوجاوے اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو، ذکر سے نہ رہ جائے۔ کیونکہ اگر اس وقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی اور نہ بعد میں ہمارے پاس اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میں نے اسی غرض کو مد نظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظرانداز کرکے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے میرے خلاف ایک الزام دھردیا ہے۔
چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اس کے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرماویں خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں۔ انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوجائے گا کہ سیرت کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے۔ دراصل سیرت کی کتب میں تمام وہ روایات درج کردی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں جس کی سیرت لکھنی مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت ﷺکے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متداول کتاب ہے اور میں امید کرتا ہوںکہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں۔ اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ براہ راست بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طور پر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت وسوانح پر اثر ڈالتی ہیں، اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کردیا ہے۔ بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑجاتاہے کہ نہ معلوم آنحضرت ﷺ کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں لیکن اہل نظر وفکر ان سے بھی آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے حالات ہمیں اس بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم وتربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا۔ یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا اور کس حالت میں چھوڑا اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرت وسوانح کے لحاظ سے لاتعلق نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک و قوم کی حالت کا مفصّل بیان درج ہوتا ہے۔ جو بادی النظر میں ایک لاتعلق بات سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن درحقیقت آپ کی سیرت وسوانح کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ان باتوں کا علم نہایت ضروری ہے۔ الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو، جس کی سیرت لکھی جارہی ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور گفتگوئیں اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں۔ جن کو ایک جلدباز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد اور لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے۔ حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ پھر بعض وہ علمی نقطے اور نئی علمی تحقیقاتیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میںبیان کی جاتی ہیںتاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کس دل ودماغ کا انسان ہے۔ او ر اس کی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے مگر عامی لوگ ان باتوں کو سیرۃ و سوانح کے لحاظ سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اس کے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے ورنہ اگروہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج ومتعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی او راسی وسیع مفہوم کو مدنظر رکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہرقسم کی روایات درج کردی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیںد ے سکتا۔
میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے متعلق مفیداستدلالات کرسکیں۔ جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت ﷺکے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کردیں اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روائتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اٹھایا ہے اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ان سے مدد حاصل کی ہے۔
اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہوجاتا۔ پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیئے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بناء پر رد نہیں کر دینا چاہیئے۔ ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں مگر جو روایت اصول روایت وداریت کی رو سے صحیح قرار پائے اور وہ ہو بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لاتعلق یا غیرضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کردینا چاہیئے۔
بہرحال میںنے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہوسکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قراردی جاسکیں۔ اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اٹھایا ہے۔ اور مثالیں نہیں دیں ورنہ میں مثالیں دے کر بتاتا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیرمتعلق نظر آتی ہیں دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کے لئے پیش کرتاہوںاور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیرسے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کروں گا جن کا بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نظرنہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے ثابت کریں گے۔ میں انشاء اللہ اتنا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی روایات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے ثابت کردوں گا جن کو ڈاکٹر صاحب غیرمتعلق قرار دیں گے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے۔ اور مورخین اس کو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کہی بات ضبط و تحریر میں آنے سے رہ نہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جاسکے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے اپنے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنایا ہے۔٭
دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے
٭:مطبوعہ الفضل۲۱مئی۱۹۲۶ء
کہ گوکتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط واستدلال بعد میں ہوتا رہے گا لیکن عملاً خوب دل کھول کر بحثیں کی گئی ہیں اور جگہ جگہ استدلال واستنباط سے کام لیا گیا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں:-
’’مصنف صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ’ترتیب اورا ستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا‘مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب ’استنباط واستدلال‘سے کام لیا ہے۔‘‘
اس اعتراض کے جواب میںسب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے۔ یعنی وہ کونسا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قراردی ہے اور پھر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال واستنباط سے کام لیا ہے۔ پھر بھی میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بچیں ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بدظنّی کی طرف مائل کردیتی ہیں۔ ناظرین غو رفرمائیں کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیںاور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کو دیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لیئے ان کو داخل کرلیا گیا ہے۔ کیا یہ طریق عمل انصاف ودیانت پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے؟اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کردی گئی ہیں اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کون سا ہوگیا اور وہ کون سا خطرناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے۔ اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھا ایک حدتک ناظرین کو حاصل ہوگئی۔ میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ میں نے پوراکیا استدلال واستنباط کی اُمید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیا ہوں۔ گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہورہے ہیں! فرماتے ہیں:-
’’ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا تو حیرت ہوجاتی ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب ! بیشک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدردان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا۔
یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال واستنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیںہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے حالانکہ اس کا سیاق وسباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے، اگر ڈاکٹر صاحب جلدبازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہوجاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جونہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں۔ اور اس بات کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ ’’اس طرح وہ مفت میں اپنامذاق اڑواتے ہیں۔‘‘مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے۔ میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے :-
’’میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے متعلق جتنی بھی روایتیں جمع ہوسکیں ان کو ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیا جاوے۔ ترتیب اوراستنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر وقت ہوسکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہوا تو پھر نہ ہوسکے گا۔‘‘۶؎
اس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب واستدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں۔ پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گو یا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکا کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے لئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکا بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دیئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اورترتیب دینے کے نتیجہ میںضروری ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ترتیب و استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘
جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو ترتیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں۔ چنانچہ میرے اس دعویٰ کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دور آگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں:-
’’میںنے جو بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دیئے ہیں۔ ……اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا۔ بعض روایات یقینا ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ واری کلیتہً خاکسار پر ہے۔‘‘۷؎
اِن الفاظ کے ہوتے کوئی انصاف پسند شخص ’’استنباط واستدلال‘‘ سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دیئے جاتے ہیںبلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں، ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اٹھ کھڑا ہونااور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل وانصاف پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیں کئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ’’استدلالات‘‘ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے ہیں۔ وہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیاہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ اس کتاب میں ترتیب واستنباط واستدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جہاں میں نے استدلال واستنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ واخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیںیعنی منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیں اور جو واقعاتِ زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں، ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ واخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کرلیا گیا ہے اور استدلال واستنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کردیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال واستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا وہاں دوقسم کے استدلالات مراد ہیں اولؔ وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضروت پیش آتی ہے۔ اور دوسرےؔ وہ استدلالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق وعادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اور ان دونوں قسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے۔ والشاذ کالمعدوم باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا اور نہ ہی ان کا ملتوی کرنا درست تھا کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہوجاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کردی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے اور صرف روایات کو جمع کردیا ہے لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دئیے ہیں مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے ہاں بے شک میں نے ایک دوجگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں لیکن ان بحثوں کو استدلالات اورتشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلاسکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کرکے میں نے انہیں درج کردیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم وتربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مؤرخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم وتربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے بلکہ معمولی ہے لیکن اس بات کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اورترتیب اور استنباط و استدلال کاکام بعد میں ہوتا رہے گا مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں……الخ۔‘‘
گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال واستنباط قرار دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہدی میں درج کردیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں در ج کردیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرۃ سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا؟ میں واقع حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بناء پر استدلال واستنباط رکھا ہے اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال واستنباط کے نام سے یاد کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرمائیں تووہ یقینا ان الفاظ کو خارج کردینے کا فیصلہ فرمائیں گے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیںاور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات ……الخ۔‘‘۸؎
اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کرنے اور ایک جگہ جمع کردینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قراردیا ہے۔ اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قراردیا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے آپ معاف فرمائیں مگر میں پھریہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل وانصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی۔٭
تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:-
’’روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے۔ یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کو نظر انداز کرکے عربی صرف ونحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے…… مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔‘‘
یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیراس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے۔
٭:مطبوعہ الفضل۲۵مئی۱۹۲۶ء
دراصل منقّدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتامگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کرسکیں اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب ولہجہ کرتے ہیں جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر وتمسخر کا رنگ نظر آتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرکے پبلک کے سامنے پیش کیاہے اور مجھے اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں۔
بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک وتیمّن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیت۔الدعا میں جاکر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتاہوں کہ بغیر کسی تصنّع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اسی طرح لکھی گئیں جس طرح کہ عربی کی عبارت کا دستور ہے بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیا کہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں پھر جب بعد میں بیت۔الدعا سے باہر آکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اور پھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میری کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قراردیں یا حسن ظنّی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت واحترام پر محمول خیال فرمالیں مگر بہرحال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعاکے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا۔ چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہوگئیں۔ اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایسا کیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیئے نہ کہ جائے اعتراض۔ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا۔ واللّٰہ علٰی مااقول شھید
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ’’خاکسار عرض کرتا ہے۔‘‘ ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ ’’عرض کرتا ہے خاکسار‘‘۔‘‘
اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محوحیرت ہونے لگتے ہیں۔ افسوس!
چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹرصاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے۔ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں راویوں کے ’’صادق وکاذب‘‘ ’’عادل وثقہ‘‘ ہونے کے متعلق کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسرے یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چُھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گویا کتاب کے اندر مرسل روائتیں درج ہیں جو پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اڑایا ہے کہ احادیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے۔ لیکن محدثین کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نام ونشان نہیں اور روایات کے جمع کرنے میں ’’بھونڈاپن اختیار کیا گیا ہے۔‘‘الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی’’ ایک گڑبڑ مجموعہ ہے۔‘‘ اور مصنف یعنی خاکسار نے ’’مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے۔‘‘ چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں، اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں‘‘ میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملاحظہ فرمائیے۔ ان میں بھی راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ وسیرۃ کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق وکاذب ثقہ وعدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں۔ جن سے ان کے صادق وکاذب، عادل وغیرعادل، حافظ وغیرحافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور انہی کتب کی بناء پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیرصحیح مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نامعلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میں بھی مجھے مجرم قراردے رہے ہیں کہ میں نے کیوں سیرۃ المہدی کے اندرہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیںکئے۔ حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تومیں اس راوی کا ثقہ وعادل ہونا ثابت کرتااور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے اوروہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتاہوں۔ سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے۔ روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا (۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہم تو نہیں (۲) اس کے حافظہ میںتو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں (۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے گویہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو (۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لے کر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کردینے کا عادی تو نہیں (۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں (۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق وکاذب،حافظ و غیرحافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔ وغیرہ ذالک اور جہاں تک میرا علم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میں علیٰ قدرمراتب ملحوظ رکھا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے۔
دوسرا حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی چُھٹا ہوامعلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا۔ پس ضروراس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہوگی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاسکتی۔ میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں۔ اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۃً متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسااوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو۔ مثلاً فرض کرو کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یاد رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا۔ اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت کمزور سمجھی جائے گی لیکن دراصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہوگی بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قرار دی جاتی ہیں۔ مگربایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میں وہ ہلکی ہی اترے گی اس طرح عملاً بہت سی باتوں میں فرق پڑجاتا ہے۔ پس باوجود ڈاکٹرصاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو یہ کمزور سمجھی جانی چاہیئے۔ میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں۔ عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایت کو درج کردیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بدیہی ہوگا اس لئے ان کی کمزور ی بھی لوگوں کے سامنے رہے گی۔اور مناسب جرح وتعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابلِ اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ ان کی روائتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگرکبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے ردّ کئے جانے کے قابل نہ ہوں اور ان سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نفعھا اکبر من اثمھا والا معاملہ ہے۔ واللّٰہ اعلم ۔ یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاںتک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کردیا ہے۔ اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتاہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی۔ سیرۃ المہدی کے صفحہ ۱۲۸ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے او راس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے۔
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے۔ لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا۔‘‘
میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدِّنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کردیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون سی روایت ان کے مدنظر ہے لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیاکرتے بلکہ یہ کام تحقیق وتنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرلوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا۔ ہاں ایک غیرواضح سی مثال روایت نمبر ۷۳ کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی لیکن خود مرعوب ہوکر بدحواس ہوگیا ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ :-
’’اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھاتھا یا کہ کسی کی زبانی سنا تھا اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا۔‘‘
اس کے جواب میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اند رکوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو (مثلاً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو) تو لامحالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کررہا ہے۔ اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ کا چشم۔دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے۔ بہرحال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خود اپنی دیکھی ہوئی بات بیان کررہا ہے۔ اسی لئے میں نے اس سے سوال کرکے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہوا ہے کہ راوی کی روایت کسی بلاواسطہ علم پر مبنی نہیں ہے۔ وہاں میں نے خودسوال کرکے تصریح کرالی ہے۔ چنانچہ جو مثال مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی۔ مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی اب حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے۔ پس لامحالہ مجھے یہ شک پیدا ہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا۔ چنانچہ میںنے مولوی صاحب سے سوال کیا اور انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کردی۔ الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتّی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور غلطی کا اعتراف کرلینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلّت نہیں بلکہ موجب عزّت ہے۔ پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کوئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے تو میں نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہوںگا۔ افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کرنے کے خیال سے اعتراض کردیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلاوجہ حقیراور بے فائدہ ثابت کرنے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اٹھائے۔ مصنف کی بھی تنویر ہو۔ اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے۔ اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں جو مبایعین اور غیرمبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تمام احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اورضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیرہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرت المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نشان تک نہیں ہے۔ محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت واحترام ہے اور گو جائز طور پر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل وسینہ میں موجود ہوتی ہے یا کم از کم ہونی چاہیئے۔ لیکن میرے دل کا یہ حال ہے واللّٰہ علیٰ مااقول شھید کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چیں ہونے کو بھی میں اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں اور ان کے مدِّمقابل کھڑاہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں۔ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں اور نقل کی نیت سے ہرگز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہوبھی تو میرے نزدیک اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقشِ پاپر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہوجائے۔ پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف ونحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے۔ باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی۔ سو وہ تو مسلّم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان جیسا دِل و دماغ اور علم وعمل عطا فرمائے۔ پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہوسکا چھان بین اور تحقیق وتدقیق سے کام لیا ہے اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کرسکوں گا کہ مَیں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا۔ آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’میں نے مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے‘‘ آپ کو مبارک ہواس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں۔ اگر سیرۃ المہدی ایک گڑبڑ مجموعہ ہے تو بہرحال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے۔ میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے۔ پھر نامعلوم آپ نے اسے ایک گڑبڑ مجموعہ قرار دینے میںکون سی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے۔ آج اگروہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا۔ بہرحال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اٹھایا گیااور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑبڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں اور مذاق اڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی مذاق اڑانے والے ہیں۔ سنجیدہ ہوجائیے۔ پس نہ میرا مذاق اڑے گا۔ اور نہ آپ کی متانت اور سنجید گی پر کسی کو حرف گیری کا موقع ملے گا۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے۔٭
پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیاہے وہ یہ ہے کہ سیرت المہدی میں
’’احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی ہر ایک روایت کو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کیا ہے۔ پڑھنے والوں کو سمجھ نہیں آتاکہ یہ موجودہ زمانے کے راویوں کی کوئی روایت شروع ہورہی ہے یا قرآن کی سورت شروع ہورہی ہے۔ خاصہ پارہ عم نظر آتا ہے گویا جابجا سورتیں شروع ہورہی ہیں۔ حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی۔ اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے۔‘‘
٭:مطبوعہ الفضل یکم جون۱۹۲۶ء
میں اس اعتراض کے لب ولہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں۔ اب کہاں تک اسے دہراتا جائوں مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی۔ تعصب بھی بری بلا ہے میں تبرک وتیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللہ لکھتا ہوں اورڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں مگر مکرم ڈاکٹر صاحب! اس معاملہ میں تو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کالکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کے اصل کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے اس کے خلاف کرو تاکہ نقل کرنے کے الزام کے نیچے نہ آجائو۔ میں کہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کاکلام اور مجسم برکت ورحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولیٰ سمجھی جانی چاہیئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) فرماتے ہیں:-
’’کل امرذی بال لا یبدأ ببسم اللّٰہ فھوابتر۔‘‘۹؎
یعنی ہر کام جو ذرا سی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہوجاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھاتو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے۔ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللہ درج کردی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا۔ جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں۔ دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کررکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو خدا کے نام سے شروع ہونا چاہیئے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ اسلام نے تو اس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت وسکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کردیا ہو۔ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا، گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا، شہر سے نکلنا ،شہر میں داخل ہونا،کسی سے ملنا ، کسی سے رخصت ہونا، رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا، کپڑے بدلنا، کسی کام کو شروع کرنا، کسی کام کو ختم کرنا، غرض زندگی کی ہر حرکت وسکون میں خدا کے ذکر کو داخل کردیا اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبردست دلائل میں سے ایک دلیل ہے مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللہ لکھنے پر کیوں چیں بجیں ہورہے ہیں۔ میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کردیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد وکفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور وغوغا کچھ اچھا بھی لگتا لیکن ایک طرف اس چیخ وپکار کو دیکھئے اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مناسب تھی تو حیرت ہوتی ہے۔ خیر جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو بلکہ زندگی کی ہر حرکت وسکون خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تا کہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو۔ چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہرسورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے۔ اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ میں اس کی ہرروایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا۔ اگر سیرت المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہوئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو رکھا ہے۔ بہرحال اگر قرآن کریم اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں تو سیرۃالمہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتیّٰ کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃالمہدی کو ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ‘‘ قرارد یا ہے بدرجہ اولیٰ بسم اللہ سے شروع کی جانی چاہیئے۔ اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللہ کے شروع نہیں کیا۔
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر وخوبی سر انجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعاکے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے۔ یہ اگر ایک ’’بچوں کا کھیل‘‘ ہے تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزارہا سنجیدگیوں سے بڑھ کر ہے۔ اور جناب ڈاکٹر موصوف سے میری یہ بصد منّت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکائیں۔ مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگرمیں نے تصنّع کے طور پر یا لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہوسکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوں اس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
چھٹا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ
’’ دراصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لیئے بنائی گئی ہے۔ یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں۔ جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے، نہ لاہوری احمدیوںکے، نہ کسی محقق کے، بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود ؑ پر صاف زد پڑتی ہے مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوں پر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روائتیں مضبوط کرکے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔الخ‘‘
اس اعتراض کے لب ولہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کردیا جائے اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پروا نہیں کرتااور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب وذی شان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کردینے کو کوئی معمولی بات نہ جانیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خد اکو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنّت میں داخل ہے مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتاہوں کہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق وصداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف۔ یہ نیت کا معاملہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔ ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آرہی ہے وہ عرض کرتا ہوں۔
ایک جنگ میں اسامہؓ بن زیدؓ اور ایک کافر کا سامنا ہوا۔ کافر اچھا شمشیرزن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ ؓ کو بھی ایک موقع خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر وار کیا۔ کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں پاکر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر اسامہؓ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار (سے موت) کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کو کردی آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا۔اے اسامہ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد ماردیا؟ اور آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ اسامہ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھا تاکہ بچ جاوے آپ نے جوش سے فرمایا:-
’’أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعَلَمْ مِنْ أَ جْلِ ذَالِکَ قَالَھَاأَمْ لَا ۱۰؎
یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں‘‘
حضرت اسامہؓ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ
تَمَیَّنْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْیَوْمِ ۱۱؎
میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کرتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی۔ میں بھی جو رسول پاک.6ؐ کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں آپ کی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرناک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیاجائے۔ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کرکے درج کی ہے کہ اس سے غیرمبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کردیا ہے۔ ولعنت اللّٰہ علیٰ من کذب ۔ بایں ہمہ اگر میری یہ کتاب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ محققین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے۔٭
ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں اور جو بات درایتہ غلط ہو وہ خواہ روایت کی رو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپ کے مزیل شان بھی ہیں اور ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست باز یقین کرتا ہو، ان روایات کو قبول نہیں کرسکتا۔ راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان، ہمارا مشاہدہ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کرسکتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیںجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریقِ عمل اور آپؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں مگر سیرت المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور ان کے متعلق بہرحال یہ قرار دینا ہوگا کہ اگرراوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے۔ اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑگیا ہے۔ واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا۔ پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپ کی مسلّم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقیدت مند اسے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے۔ لیکن بایںہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے۔ درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرأت کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرررسان نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دراصل جہاں بھی استدلال واستنباط، قیاس واستخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطرناک احتمالات واختلافات کا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون ۱۹۲۶ء
دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیںاور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے۔ وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں۔ اور کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔والشاذ کا لمعدوم لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال واستنباط کرنے او ر اس کا ایک مفہوم قراردے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے رستہ پر چل نکلتا ہے اور حق وباطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے ردّ کردو۔ یا جو بات تمہیں حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقلمند اصولاً اس کا منکر نہیں ہوسکتا لیکن اگر ذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگاہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح وتعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال واستنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گراتا چلا جائے۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہوسکتی مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کارے دارد۔ اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے۔ اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کرسکتا۔ مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے۔ جن کا حل نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔ اور مجھے ایسے شخص کی جرأت پر حیرت ہوگی جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت کی تحریرا ت کا مفہوم معین کرنے میں اس کا فیصلہ ہر صور ت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھادھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قراد دے کر ردّ کردیا جائے، ایک عامیانہ فعل ہوگا جو کسی صورت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبایعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیرمبایعین یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات پر ہے۔ اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کرکے ایسا مرتبہ دے دیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو روایت غیرمبایعین کو ایسی ملے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ثابت ہوتی ہو تو وہ اسے ردّ کردیں۔ کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اوراگر کوئی روایت مبایعین کے سامنے ایسی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں۔ کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اسی طرح مبایعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیراحمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا۔ اور غیرمبایعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیراحمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعود ؑ کے طریق عمل کے خلاف نہیں۔ اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ کہ اگر کسی مبایع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے ردّ کردے۔ کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ اور جب کوئی روایت کسی غیرمبایع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو وہ اسے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کاروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہوجائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چادیواری میں ایسی طرح محصور ہوکر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کرچکا ہے۔ ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی قابل اعتماد ذرائع سے پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہو ردّ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے۔ مکر م ڈاکٹر صاحب مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کماحقہٗ غور نہیں فرمایا۔ ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہوجاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہرقسم کی روایت کو ردّ کئے جانے کے قابل قرار دیتے۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیئے وہ روایت ہی ہے اورعلم تاریخ کا سارا دارومدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کو ترک کردیا ہو۔ متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیتہً صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے ۔ البتہ بعد کے مورخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیاد روایت پر ہی رکھی ہے اوردرایت کو ایک حد مناسب تک پرکھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے۔ واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور وہ فہم وفراست میں بھی اچھا ہے اور روایت کے دوسرے پہلوئوں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بناء پر ردّ کردیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خودغرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں۔ خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی رو سے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقعی ہوچکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کریں سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو جس کے مفہوم کے متعلق امت میں اجماع ہوچکا ہو۔ مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا منکر نہیں۔ پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا خواہ بظاہر وہ درایت مضبوط ہی نظر آئے ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے) کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگا نا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح تحریرات ( یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے) کے مخالف ہے، لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر واسلام یا خلافت یا جنازہ غیراحمدیاں وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کریں اور اس سے استدلال واستنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑدیں تاکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاسکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔
اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کردیں گے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پریہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ’’محمودی‘‘خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیں اور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعترض کا حق نہیں تھا کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤیّد ہیں تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل ا ورتحریروں کے خلاف تھیں ان کو میں نے ردّ کردیا ہے اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں۔ اور یہ ہوبھی کیسے سکتاتھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں
’’صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہوتو حضرت مسیح موعود کو راست بازماننے والا تو قطعاً اس کو قبول نہیں کرسکتا…… ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کرسکتے ہیں۔ مگر مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ہماری ضمیر ہمارا مشاہدہ ہمارا تجربہ قطعاً قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں۔ ردّ کردیا اور درج نہیں کیا۔اور اس طرح میری کتاب ’’محمودی‘‘ عقائد کی کتاب بن گئی۔ تو میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا باعث بنا اور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ قابل ملامت۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی روسے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پر کھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم۔وفراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں۔ تو گو ایسا ممکن ہو لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ’’پیغامی‘‘ عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہوجائے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب افسوس! آپ نے اعتراض کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کردی ہیں۔ اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں میں کروں تو کیا کروں۔ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتا ہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو،اُسے ردّ کرتا جائوں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہوجائیں کہ اب یہ کتاب روایت ودرایت ہر دوپہلو سے اچھی ہے کیونکہ اس میں کوئی بات لاہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں۔ اگر جرح وتعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے۔
یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مد نظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے۔ روایت ودرایت دونوں پہلوئوں کو دیانتداری کے ساتھ علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاں بات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے بلکہ جو بات بھی روایت کے روسے میں نے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے روسے اسے حضرت مسیح موعود کی صریح اور اصولی اور غیراختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا اور آپ کے مسلم اور غیرمشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے بھی اسے قابل ردّ نہیں سمجھا اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں سمجھتا ہوں کہ گو شائد احتیاط اسی میں ہے جو میں نے کیا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہو اسے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کے لئے چھوڑدے جو عندالضرورت استدلال واستنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ واِلاَّ نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہت سی سچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی۔ اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم رہ جائے گی۔ یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں۔ واللّٰہ اعلم ولا علم لنا الّا ماعلّمتنا۔٭
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے اصولی اعتراض کا جواب دینے کے بعداب میںان مثالوں کو لیتا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون۱۹۲۶ء
ہوں جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی سے پیش فرماکر ان پر جرح کی ہے۔ لیکن اس بحث کے شروع کرنے سے قبل میں ضمنی طور پر ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوںاور وہ یہ کہ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب لکھنا شروع کیا تو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کے نام ایک خط ارسال کیا تھا۔ جس کی نقل میں نے نہیں رکھی۔ مگر جس کا مضمون جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تھا کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کامضمون جو سیرۃ المہدی کی تنقید میں لکھا گیا ہے۔ پیغام صلح میں شائع ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کیا ایڈیٹر صاحب پیغام صلح اس بات کے لئے تیار ہوں گے کہ میں اپنا مضمون بھی ان کی خدمت میں ارسال کردوں۔ اور وہ اُسے اپنے اخبار میں شائع فرمائیں۔ تاکہ جن اصحاب تک ڈاکٹر صاحب کی جرح پہنچی ہے ان تک میرا جواب بھی پہنچ جائے۔ اور پبلک کو کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں امداد ملے۔ اس خط کا جو جواب مجھے موصول ہوا وہ سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے تھا اور مضمون کے لحاظ سے وہ وہی تھا جس کی مجھے امید تھی لیکن اس بات سے مجھے خوشی ہوئی کہ خط کا لب ولہجہ اچھا تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا سا دل آزار طریق اختیار نہیں کیا گیا تھابلکہ متانت اور تہذیب کے ساتھ جواب دیا گیاتھا۔ خط کا مضمون خلاصۃً یہ تھا کہ جو تجویز تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہے وہ پسندیدہ ہے لیکن کیا کارکنان الفضلؔ بھی ہمارے مضامین (غیرمبایعین کے مضامین) کو اپنے اخبار میں جگہ دینے کے لئے تیار ہوں گے۔ اگر الفضل والے اس بات کے لئے تیار ہوں تو تمہارا یہ مضمون پیغام صلح میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تجویز کی گئی تھی کہ بہتر ہو کہ طرفین کی جانب سے چند آدمی نامزد کردئے جائیں۔ جن کے سوا کسی اور کو ایک دوسرے کے خلاف قلم اٹھانے کی اجازت نہ ہو۔ وغیرہ ذالک
میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اس خط کے الفاظ اور طرز تحریر کے متعلق مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے مضمون سے ضرور ایک حد تک اختلاف رکھتا ہوں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اصولاً ہمارے غیرمبایع دوستوں کو اس بات سے اتفاق ہے کہ ان کا اخبار مخالف خیالات کے اظہار کے لئے بھی کھلا ہونا چاہیئے اور اسے وہ علمی تحقیق کے لئے مفید سمجھتے ہیں تو یہ خیال درمیان میں نہیں آنا چاہیئے کہ جب تک الفضل اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہوگا اس وقت تک ’’پیغام صلح‘‘ بھی ہمارے مضمون نہیں لے سکتا۔ اگر ایک طریق اچھا اور پسندیدہ ہے تو کسی دوسرے کا اسے قبول نہ کرنا اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم بھی جو اس کی خوبی کے معترف ہیں اسے ردّ کردیں۔ پس میرے خیال میں سیکرٹری صاحب انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور نے جہاں اتنی وسعت قلب دکھا ئی تھی کہ اصولاً میرے مضمون کے شائع کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا تھا۔ وہاں اگر ذرا اور وسعت سے کام لے کر ’’الفضل ؔ‘‘ والی شرط زائد نہ کرتے تو اچھا ہوتا مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیںکیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب انجن اشاعت اسلام لاہور نے ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور اختلافی مضامین اور عام تحقیقی مضامین میں کوئی امتیاز نہیں کیا جو کہ ایک صریح غلطی ہے۔ میں نے جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں لکھا تھا اس کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور طرفین کے اختلافی عقائد کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے ایڈیٹر صاحب کو اسے اپنے اخبار میں شائع کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیئے۔ واِلّااگر میرا یہ مضمون اختلافی عقائد سے تعلق رکھتاتو میں کبھی بھی ایسا خط نہ لکھتا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں اختلافی عقائد کے اظہار کے لئے فریقین کے اپنے اپنے اخبارات موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم فریق مخالف سے یہ امید رکھیں کہ وہ اختلافی عقائد کے متعلق ہمارے مضامین اپنے اخبار میں شائع کرنے کی اجازت دے گا۔ اور دراصل مستشنیات کو الگ رکھیں تو ایسا ہونا بھی مشکل ہے کیونکہ اس طریق میں بعض ایسی عملی دقتوں کے رونما ہونے کا احتمال ہے کہ جن سے بجائے اس کے کہ تعلقات میں کوئی اصلاح کی صورت پیدا ہو۔ فساد کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن عام علمی اورتحقیقی مضامین شائع کرنے میں اس قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ بلکہ ایسا طریق علاوہ وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے آپس کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور چونکہ میرا مضمون اختلافی عقائد کے متعلق نہ تھا اس لئے میں نے محض نیک نیتی کے ساتھ ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کی خدمت میں خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ اگر ممکن ہو تو میرے مضمون کو وہ اپنے اخبار میں شائع کرکے مجھے اور عام پبلک کو ممنون فرمائیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کے جواب میں سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک ایسا سوال کھڑا کردیا کہ جس کا نتیجہ سوائے اس کے کہ طرفین آپس میں الجھنا شروع کردیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ میں نے کسی ایسے مضمون کے لئے پیغام صلح کے کالموں کی فیاضی کا مطالبہ نہیں کیا تھا جو فریقین کے اختلافی عقائد سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ ایک عام علمی اور تحقیقی مضمون کی اشاعت کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہنا کہ جب تک الفضل ہمارے مضامین کے شائع کرنے کی اجازت نہیں دے گا اُس وقت تک تمہارا مضمون پیغام صلح میں شائع نہیں ہوسکتا انصاف سے بعید ہے۔
اوّل تو الفضل میرا اخبار نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اور مجھے اس کی پالیسی یا اس کے انتظام سے کسی قسم کا بلاواسطہ تعلق نہیں۔ پس اس کے متعلق مجھ سے کوئی فیصلہ چاہنا خلاف اصول ہے۔ دوسرے میرا یہ خط جو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں ارسال کیا تھا ایک بالکل پرائیویٹ خط تھا جس کے جواب میں کوئی محکمانہ بحث شروع نہیں کی جاسکتی تھی۔ اور تیسرے میں نے یہ خط اس نیت اور خیال سے لکھا تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور اختلافی عقائد سے اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے کارکنان پیغام صلح کو اس کے شائع کرنے میں تامّل نہیں ہوسکتا۔ مگر میری اس درخواست سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مجھے یہ جواب دیا گیا کہ جب تک الفضل کے کالم غیرمبایعین کے مضامین کے لئے کھولے نہ جائیں گے اس وقت تک پیغام۔صلح تمہارا مضمون شائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ طریق کسی طرح بھی جائز اور صلح جوئی کا طریق نہیں سمجھا جاسکتا۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ کب کسی غیرمبائع کی طرف سے کوئی عام علمی مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع ہونے کے لئے آیا۔ اور الفضل والوں نے اس کا انکار کیا؟ کم از کم میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی غیرمبائع نے کوئی عام تحقیقی مضمون جسے اختلافی عقائد سے تعلق نہ ہو ’’الفضل‘‘ میں بھیجا ہو اور پھر کارکنان الفضل نے اسے محض اس بناء پر ردّ کردیا ہو کہ اس کا لکھنے والا جماعت مبایعین میںسے نہیں ہے پس جب کوئی ایسی مثال موجودہی نہیں ہے تو ایک فرضی روک کو آڑ بنا کر انکار کردینا انصاف سے بعید ہے۔ اگر سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور اس بناء پر انکار فرماتے کہ ان دنوں میں پیغام صلح میں اس مضمون کے شائع ہونے کی گنجائش نہیں ہے یاکوئی اور اسی قسم کی روک بیان کرتے جو بعض اوقات اخبار نویسوں کو پیش آجاتی ہے تومجھے ہرگز کوئی شکایت نہ تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اول تو ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی حکم کے ماتحت سمجھ کر ایک ہی فتویٰ لگادیا گیا ہے اور اختلافی مضامین اور عام علمی اور تحقیقی مضامین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا اور دوسرے الفضل کا نام درمیان میں لاکررو ک پیش کردی گئی ہے جو بالکل فرضی اور موہوم ہے میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ چند الفاظ سیکرٹری صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کی تسلّی کے لئے کافی ہوں گے۔
اب میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں پہلی مثال جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان فرمائی ہے۔ وہ منگل کے دن کے متعلق ہے میں نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں حضرت والدہ صاحبہ کی زبانی یہ روایت درج کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے بڑی لمبی جرح کی ہے جوکئی حصوں پر منقسم ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مختصراً تمام حصوں کا جواب دوں۔ کیونکہ میرے خیال میں اس امر میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی سخت غلطی کھائی ہے اور صرف ایک عامیانہ جرح کرکے اپنے دل کو خوش کرنا چاہا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس جرح کا جواب دوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیرت المہدی حصہ اول کے شائع ہونے کے بعد مجھے بعض دوستوں کی طرف سے بھی یہ بات پہنچی تھی کہ یہ روایت کچھ وضاحت چاہتی ہے۔ چنانچہ میں نے انہی دنوں میں سیرت المہدی حصہ دوئم میں جو ان ایام میں زیر تالیف ہے، اس روایت کے متعلق ایک تشریحی نوٹ درج کردیا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب دینے سے پہلے یہ نوٹ احباب کے سامنے پیش کردوں کیونکہ یہ نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوئم کے مسودے میں آج سے ایک سال پہلے کا لکھا ہوا موجود ہے۔ جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیا تھا۔
میرے اس بیان کے تسلیم کرنے میں اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی تامّل ہے اور وہ میرے اس نوٹ کو اپنی جرح کے جواب میںلکھا ہوا خیال کریں تو ان کا اختیار ہے لیکن میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے شائع ہونے سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے اور اگر میں بھولتا نہیں تو بعض دوستوں نے اسے اسی زمانہ میں مسودے کی صورت میں مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان دوستوں میں سے چودہری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لاہور، مولوی۔جلال۔الدین صاحب شمس مبلّغ شام اور نیک محمد خان صاحب کے نام مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ مقدم الذکر دواحباب نے سیرۃ المہدی حصہ دوئم کا مسودہ لاہور میں مطالعہ کیا تھا۔جبکہ میں گذشتہ سال ماہ جون میں تبدیل آب وہوا کے لئے منصوری جاتا ہوا دودن کے لئے لاہور ٹھہرا تھا اور مؤخّرالذکر صاحب نے غالباً ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں بمقام منصوری اسے پڑھا تھا۔ یہ دوست اگر بھول نہ گئے ہوں تو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ جو نوٹ اس روایت کے متعلق ذیل میں درج کرتا ہوں وہ آج کا نہیں بلکہ آج سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ وہ نوٹ یہ ہے:-
’’روایت نمبر۳۲۲ ۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خاکسارعرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر۱۰ (صحیح نمبر ۱۱) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہیئے۔ ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے۔ اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کی ابتداء اس دِن میں فرماتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پرفوقیت رکھتے ہیں اور اس توازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گویا سب سے پیچھے ہے کیونکہ وہ شدانددو سختی کا اثر رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذباللّٰہ منگل کوئی منحوس دن ہے۔ پس حتی الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال وبرکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جائے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جائے۔ ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا انسان نقصان اٹھاتاہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ان پر بالآخر توہم پرستی غالب آجاتی ہے۔ ’گر حفظ مراتب نہ کنی زند یقی‘ جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتا ہے۔ اور یہ سوال کہ دنوں کی تاثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے، یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اٹھانے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔‘‘
میرا یہ نوٹ ہرعقل مند اور سعید الفطرت انسان کی تسلی کے لئے کافی ہونا چاہیئے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں اصولی طور پر گو مختصراً ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا جواب آگیا ہے۔ اور روایت مذکورۃالصدر کے متعلق جس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا احتمال تھا اس کا ازالہ کردیا گیا ہے۔ یہ نوٹ اس وقت کا ہے جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا تنقیدی مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیاتھا بلکہ غالباً ابھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول کا مطالعہ بھی نہیں فرمایا ہوگا۔ اندریں حالات اگر میں صرف اسی جواب پربس کروں تو قابل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن چونکہ یہ ایک علمی سوال ہے اور ڈاکٹرصاحب نے اس روایت کے متعلق ضمنی طور پر بعض ایسے اعتراضات کئے ہیںجن کا جواب علم دوست احباب کی دلچسپی اور بعض ناواقف لوگوں کی تنویر کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ جواب عرض کروں۔ وما توفیقی اِلاّ باللّٰہ٭
اب میں ان تفصیلی اعتراضات کو لیتا ہوں جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اپنے مضمون میں منگل والی روایت کے متعلق بیان کئے ہیں۔سب سے پہلا اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ:-
’’حضرت والدہ صاحبہ اپنا خیال پیش کرتی ہیں کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو
٭:مطبوعہ الفضل۲۲جولائی ۱۹۲۶ء
اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ کیا حضرت صاحب نے کبھی فرمایا تھا…… کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے کسی امر میں غلطی سے اپنے خیالات پر حضرت صاحب کے خیالات کو قیاس کرلیا ہو۔‘‘
اس اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اس روایت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ بیان نہیں کئے گئے، بلکہ راوی نے خود اپنے الفاظ میں ایک خیال آپ کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملہ میں کماحقہ غور نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی حدیث نبوی کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ کتب احادیث میں بہت سی ایسی حدیثیں ملتی ہیں۔ جن میں راوی خود اپنے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک خیال بیان کردیتا ہے، اور آپ کے الفاظ بیان نہیں کرتا اور ائمہ حدیث اسے رد نہیں کرتے۔
میرا یہ مضمون آگے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے۔ اور میں اسے زیادہ طول نہیں دینا چاہتا ورنہ میں ایسی متعدد مثالیں ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کرتا کہ راویوں نے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان کرنے کے ایک خیال آپ.6ؐ کی طرف منسوب کردیا ہے اور محدثین نے اسے صحیح مانا ہے۔ دراصل حدیث میں کئی جگہ ایسے الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فلاں بات کو پسند فرماتے تھے۔ اور فلاں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ وغیرہ ذالک ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جو غالباً ہمارے خلاف مضمون نویسی سے کچھ تھوڑا سا وقت بچا کر احادیث کے مطالعہ میںبھی صرف کرتے ہوں گے۔ اس بات کا انکار نہیں کریں گے۔
دراصل ہرزبان میں اظہار خیال کے طریقوں میں سے ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات بجائے اس کے کہ دوسرے شخص کے الفاظ بیان کئے جائیں۔ صرف اپنے الفاظ میں اس کے خیال کا اظہار کردیا جاتا ہے اور یہ طریق ایسا شائع ومتعارف ہے کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ مگر نہ معلوم میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو کیا غصہ ہے کہ خواہ نخواہ اعتراض کی ہی سوجھتی ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب حسن ظنی فرماتے تو یہ خیال کرسکتے تھے کہ چونکہ حضرت والدہ صاحبہ ایک بہت لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہی ہیں۔ اس لئے ان کا یہ بیان کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، اپنی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ اور نہ عام حالات میں کسی غلط فہمی پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ انہوں نے جو حضرت صاحب کے الفاظ بیان نہیں کئے تو یہ اس لئے نہیں کہ یہ بات مشکوک ہے بلکہ اس لئے کہ یہ روایت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بلاارادہ روایت بالمعنی کا طریق اختیار کیا ہے یا یہ کہ ان کا یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ایک قول پر مبنی نہیں۔ بلکہ یا تو متعدد مرتبہ کی گفتگو پر مبنی ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بہت لمبا عرصہ رہنے کے نتیجہ میں اُن کی طبیعت نے آپ کے متعلق ایک اثر قبول کیا تھا جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے جیسا کہ مثلاً حدیث میں حضرت عائشہ.6ؓ کا قول آتا ہے کہ
کان یحب التیمن فی سائرامرہ ۱۲؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر بات میں دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان نہیں کئے بلکہ صرف اپنے الفاظ میں آپ کی طرف ایک خیال منسوب کردیا ہے۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں؟ ہرگز نہیں اگر ڈاکٹر صاحب غور فرمائیں تو ان کو معلوم ہو کہ بیوی کی طرف سے اس قسم کی روایت جس کانام روایت بالمعنی رکھا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں بلکہ بعض اوقات عام لفظی روایتوں کی نسبت بھی یہ روایت زیادہ پختہ اور قابل اعتماد سمجھی جانی چاہیئے۔ کیونکہ جہاںلفظی روایت کسی ایک وقت کے قول پر مبنی ہوتی ہے وہاں اس قسم کی معنوی روایت جو بیوی یا کسی ایسے ہی قریبی کی طرف سے مروی ہو متعدد مرتبہ کی گفتگو یا لمبے عرصہ کی صحبت کے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ان دونوں میں فرق ظاہر ہے۔ حضرت عائشہؓ والی روایت کو ہی دیکھ لو۔ اگر حضرت عائشہؓ صرف یہ فرمادیتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فلاں موقع پر فرمایا تھا کہ ہر بات میں دائیں سے ابتداء کرنی چاہیئے تو ان کی اس روایت کو ہرگز وہ پختگی حاصل نہ ہوتی جو موجودہ صورت میں اسے حاصل ہے کیونکہ موجودہ صورت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی ایک قول نقل نہیں کیا۔ بلکہ متعدد مرتبہ کی گفتگو یا ایک لمبی صحبت کے اثر کے نتیجہ کو بیان کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہو کہ یہ روایت چونکہ حضرت عائشہؓ نے کی ہے اس لئے وہ جرح سے بالا ہے۔ کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیوی تھیںجنہوںنے کئی سال آپ کی صحبت میں گذارے اور جو دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے آپؐ کو دیکھتی تھیں مگر کسی دوسرے راوی کی طرف سے اس قسم کی روایت بالمعنی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی تو اس کے متعلق میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ جس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے جرح فرمائی ہے وہ بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی کی ہی ہے۔ اور بیوی بھی وہ جس نے حضرت عائشہ.6ؓ کی نسبت بہت زیادہ عرصہ اپنے خاوند کے ساتھ گذارا ہے۔ لیکن بایں ہمہ میں ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں۔ ایک صحابی ابوبرزۃ.6ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشائِ وَالحَدِیْثَ بَعْدَھَا۱۳؎ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو ناپسند فرماتے تھے۔ او راسی طرح عشاء کے بعد بات چیت کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس حدیث میں ابوبرزہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف ایک خیال اپنے الفاظ میں منسوب کیا ہے۔ اور امام بخاری صاحب نے اسے بلا جرح اپنی صحیح بخاری میں درج فرمالیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی طرح یہ اعتراض نہیں کیا کہ:-
’’ابوبرزۃ.6ؓ اپنا خیال پیش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے قبل سونے کو ناپسند فرماتے تھے مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ آنحضرت.6ؐ کا ایسا خیال تھا۔ کیا آپؐ نے کبھی فرمایاتھا کہ عشاء کی نماز سے قبل سونا مکروہ ہوتا ہے ……کیا یہ ممکن نہیں کہ ابوبرزۃ.6ؓ نے غلطی سے اپنے خیالات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کو قیاس کرلیا ہے۔‘‘
یہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اپنے الفاظ ہیں جن میں سوائے ناموں کی تبدیلی کے میں نے کوئی تصرف نہیں کیا تاکہ اور نہیں تو کم از کم اپنے الفاظ کا لحاظ کرکے ہی ڈاکٹر صاحب میرے معاملہ میں کچھ درگذر سے کام لیں۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ خود اسی روایت کے اندر یہ ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلاں موقع پر منگل کے دن کے متعلق اپنے خیال کا اظہار فرمایاتھا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ کے جوش میں اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ میں ڈاکٹر صاحب سے باادب عرض کرتا ہوں کہ وہ اس روایت کے آخری حصہ کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں جہاں ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی ولادت کا ذکر ہے۔ اور پھر بتائیں کہ کیا اس جگہ صاف الفاظ میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اور پھر انصاف سے کہیں کہ اگر بالفرض کوئی اور واقع نہ بھی ہو۔ تو کیا صرف یہی واقعہ اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں تھا۔ کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو مقابلۃً اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اندریں حالات ڈاکٹرصاحب کا یہ فرمانا کہ والدہ صاحبہ کو کیسے معلوم ہوا۔ کہ حضرت صاحب کا یہ خیال تھا کہ منگل کادن اچھا نہیں ہے اور یہ کہ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جاوے کہ والدہ صاحبہ نے خودبخود ہی ایسا سمجھ لیا ہوگا۔ ایک لایعنی بات ہے جس کی طرف کوئی فہمیدہ شخص توجہ نہیں کرسکتا۔
دوسرا اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ اس روایت کے اندر جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت منگل کے دن نہ ہو تو اس بات کا کیا ثبوت ہے یعنی کیا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ:-
’’میںاس امر کے لئے دعا کرنے چلا ہوں یا دعا کے وقت میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی جو اس حصہ روایت کے راوی ہیں) پاس کھڑے دعا کے الفاظ سنتے جاتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں بلکہ اغلب یہی ہے کہ حضرت صاحب ایسے موقع پر بچہ کی ولادت کی سہولت کے لئے دعا کررہے ہوں…… مستورات کے دل میں جو منگل کی نحوست کا خوف تھا۔ اس نے والدہ صاحبہ یادیگر مستورات کے دل پر یہ خیال مستولی کردیا کہ حضور منگل کو ٹالنے کے لئے دعا کررہے ہیں۔ میاں صاحب نے مستورات سے ایک بات لے لی اور اسے لے اڑے۔ آگے مخاطبین اپنے مرید ہیں جو سچ اور بجا کہنے اور سبحان اللہ! سبحان اللہ! کا نعرہ بلند کرنے کو ہرآن موجودہیں۔‘‘
ان الفاظ میں جس بے دردی کے ساتھ متانت کا خون کیا گیاہے، وہ ڈاکٹر صاحب کا ہی حصہ ہے جس میں خاکسار ان کے سامنے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آخر آپ خود بھی کسی کے حلقہ بگوشوں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہوں گے پھر دوسرے کے متعلق ایسی دل آزار باتوں سے کیا حاصل ہے آپ میری کتاب پر ریویو فرما رہے ہیں شوق سے فرمائیے اور تنقید میں جو کچھ بھی جی میں آتا ہے شوق سے کہئے۔ مگر ان طعنوں اور دل آزار باتوں کو بلا وجہ درمیان میں لاکر کسی دوسرے کو اپنے اوپر حرف گیری کرنے کا موقع کیوں دیتے ہیں۔ آگے آپ کا اختیار ہے۔ جو مزاج میں آئے کیجئے۔ انشاء اللہ میرے توازن طبع کو آپ متزلزل ہوتا نہیں دیکھیں گے۔
آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے موقع پر دعا فرمائی تھی۔ اس کے متعلق حضرت والدہ صاحبہ یا میاں صاحب کو کیسے پتہ لگا کہ وہ منگل کے متعلق تھی۔ کیا وہ دعا کے وقت ساتھ ساتھ تھے اور الفاظ سنتے جاتے تھے۔ یا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے ان سے کہہ گئے تھے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں اور پھر آپ نے حسب عادت اس پر مذاق اڑایا ہے۔ اس کے متعلق اگر آپ مجھے اجازت دیں تو مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے تو اس روایت میں ایسی عبارت کوئی نہیں لکھی جس سے یہ پتہ لگتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کرنے کے لئے اس جگہ سے اٹھ کر کہیں اور تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ ؑ نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر کوئی لمبی دعا فرمائی تھی۔ اور جب یہ نہیں تو پھر آپ کو یہ کیسے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود ؑ اس دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ اتنی دیر تک یہ دعا فرماتے رہے تھے کہ دوسرے کو آپ کے ساتھ ساتھ رہ کر آپ کے الفاظ سننے کا موقع مل سکتا۔ جن معتبر ذرائع سے آپ کو بغیر اس کے کہ اس روایت میں کوئی ایسا ذکر موجود ہو،یہ سب مخفی علوم حاصل ہوگئے ان کے معلوم کرنے کا مجھے شوق ہے تاکہ میں آپ کی قوت استدلال کا اندازہ کرسکوں۔ اور اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ بغیر اس قسم کا ذکر موجود ہونے کے خود بخود اپنی طرف سے یہ باتیں فرض کرکے اعتراض قائم کرنے لگ جائیں تو دوسرے کے لئے بھی آپ کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیئے۔ بہرحال جو بنیاد آپ اپنے ان استدلات کی پیش فرمائیں گے۔ اس سے زیادہ قوی اور یقینی بنیاد میںاس بات کی پیش کرنے کا ذمہ دار ہوں کہ حضرت والدہ اور حضرت میاں صاحب کو یہ علم کس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا اس غرض کے لئے تھی کہ خدا تعالیٰ مولودہ کو منگل کے اثر سے محفوظ فرمائے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوسروں پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس طرح سمجھی۔ حالانکہ اس کے سمجھنے کے لئے کافی ووافی قرائن موجود ہیں۔ لیکن خود بغیر کسی بنیاد کے نتیجہ پر نتیجہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔ اورپھر طرفہ یہ کہ اپنے ان موہوم نتائج پر اپنی علمی تنقید کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ مضمون ہے جس پر غیر مبایعین کو ناز ہے۔ اور جس کے جواب کے لئے میرے نام پیغام صلح کے پرچے خاص طور پر بھجوائے جاتے ہیں تاکہ دنیا پر یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ وہ لاجواب مضمون ہے جس کے جواب کے لئے ہم خود خصم کو چیلنج دیتے ہیں مگر کوئی معقول جواب نہیں ملتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ آپ نے بڑے ظلم سے کام لیا ہے۔ میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا وہ جاتے ہوئے فرماگئے تھے کہ میں اس امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں؟ پھر میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی باقاعدہ لمبی دعا کی تھی جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا کوئی شخص حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ہوکر دعا کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ آپ نے خود ہی یہ باتیں فرض کرلیں اور پھر ان کی بنا پر خود ہی اعتراض جمادیئے۔ آپ کے تخیلات کے زور نے اس چھوٹی سی بات کو ایسا بڑا اور اہم بنادیا ہے کہ میں اب اصل حقیقت کو عرض کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ کے احساسات کوکوئی ناگوار صدمہ نہ پہنچ جائے۔ مگر چونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیںاس لئے مجبوراً عرض کرتا ہوں بات یہ ہے کہ اس تیرانداز شہزادہ کی طرح جس کا ذکر حالی کی ایک نظم میں آتا ہے آپ کے تخیلات کا تیر ہرجگہ لگا لیکن اگر نہیں لگا تو اصل نشانے پر نہیں لگا۔ جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ اصل نشانہ بالکل قریب اور سامنے تھا اس لئے آپ کے تخیلات اپنے زور میں اسے چھوڑ کر بلند اور دور نکل گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی بات لکھی تھی کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم پیدا ہونے لگیں تو حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اب بات صاف تھی اور ڈاکٹرصاحب بھی اسے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ حضرت صاحب نے اسی وقت گھر کی مجلس میں یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان سے فرمادیئے ہوں گے۔ اور بس۔ یعنی جب ولادت کا وقت ہوا تو حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر کہ منگل کا دن ہے اس مفہوم کے دعائیہ الفاظ فرمائے کہ خدا تعالیٰ بچہ کو منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اب اس صاف حقیقت کو چھوڑ کر بات کا بتنگڑ بنادینا کہ گویا حضرت مسیح موعودؑ اس امر کے لئے خاص طور پر دعا کرنے کے واسطے کسی علیحدہ جگہ میں تشریف لے گئے ہوں گے اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں یا کوئی شخص خود بخود آپ کے پیچھے پیچھے جاکر آپ کے الفاظ سنتا گیا ہوگا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ڈاکٹر صاحب کے دماغی تخیلات کا نتیجہ ہیں جن کا کہ قطعاً کوئی ذکر صراحتہً یا کنایتہ روایت میں موجود نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک معمولی سی بات کو بڑا بنادیا ہے۔ منگل کا اچھا یا برا ہونا کوئی اہم دینی امور میں سے نہیں ہے کہ جس پر ڈاکٹر صاحب اسقدر چیں بجیں ہوتے۔ دنیا کی ہرچیز اچھے اور برے پہلو رکھتی ہے اور اشیاء کی برکات میں تفاوت بھی مسلم ہے۔ پھر ایک معمولی سی بات کو لے کر اس پر اعتراضات جماتے چلے جانا گویا کہ وہ نہایت اہم امور میںسے ہے۔ کہاں کا انصاف ہے اور پھر زیادہ افسوس یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسی باتیں فرض کرلی گئی ہیں کہ جن کا روایت کے اندر نام ونشان تک نہیں ایک سرسری بات تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت پر حضرت صاحب نے دعا فرمائی کہ وہ منگل کے خراب اثر سے محفوظ رہے۔ جس کا منشاء صرف یہ تھاکہ اسوقت گھر کی مجلس میں حضرت صاحب نے اپنی زبان مبارک سے اس قسم کے دعائیہ الفاظ فرمائے۔اس پر یہ فرض کرلینا کہ حضرت صاحب نے ایک خاص اہتمام کے ساتھ کسی تنہائی کی جگہ میں جاکر یہ دعا فرمائی ہوگی اور پھر اس فرضی واقعہ پر یہ سوال کرنا کہ کیا آپ جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ میں اس غرض سے جاتا ہوں یا یہ کہ کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ امانت ودیانت کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ کسی خاص اہتمام کے ساتھ کسی علیحدہ جگہ میں جاکر کی جائے یا یہ کہ وہ اتنی لمبی ہو کہ کسی دوسرے شخص کو دعا کرنے والے کے ساتھ ساتھ رہ کر اس کے الفاظ سننے کا موقع مل سکے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ممکن ہے کہ آپ کی ساری دعائیں اسی شان کی ہوتی ہوں مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ دعا کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اور اگر کسی علیحدہ جگہ میں جاکر لمبی دعا کرنا دعا کہلاتی ہے تو کسی بات کے پیش آنے پر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے دعائیہ الفاظ کہہ دینا بھی دعا ہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابن عباس ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضو کے لئے پانی کا لوٹا بھر کر لائے تو آپؐ نے دعا فرمائی کہ خدا اسے دین کا علم عطا کرے۱۴؎۔ اور سب لوگ اس کے یہی معنی سمجھتے رہے ہیں کہ آپ نے وہیں بیٹھے بیٹھے یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان مبارک سے فرمائے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شایدیہ معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت وضو کی تیاری چھوڑ کر کسی حجرہ میں تشریف لے گئے ہوں گے تا کہ وہاں جاکر ابن عباس .6ؓ کی علمی ترقی کے لئے دعافرمائیں۔ اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے میں اس غرض سے جاتا ہوں یا کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتاہوگا تعصب کا ستیاناس ہو یہ بھی انسان کی عقل پر کیسا پردہ ڈال دیتا ہے۔٭
ایک اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ منگل کا منحوس اثر صرف دنیا او راہل دنیا کے لئے ہے اور آخرت والوں پر اس کا اثر مبارک پڑ رہا ہے۔ یہ فضول بات ہے گویا اگر کچھ اثر ہے تو سب طرف ایک سا اثر ہونا چاہیئے اور اس تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔
اس اعتراض کے جواب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا سراسر ظلم ہے کہ وہ بار بار میری طرف یہ منسوب کر رہے ہیں کہ گویا میرے نزدیک منگل منحوس دن ہے۔ میں نے ایسا بالکل نہیں لکھا۔ اور مجھے ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرت ہے کہ کس دلیری کے ساتھ وہ میری طرف ایسی بات منسوب کرتے جاتے ہیں جس کا نام ونشان تک میری تقریر وتحریر میں موجود نہیں۔ بلکہ اگر ڈاکٹر صاحب میری بات کا یقین کرسکیں تو میں یہ کہوں گا کہ جو کبھی میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوسرے ایام کے مقابلہ میں اپنے افاضۂ برکات کے لحاظ سے کم ہے اور نیز یہ کہ اس کا اثر شدائد اور سختی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نہ معلوم کن مخفی اثرات سے متاثر ہوکر میری طرف اپنے مضمون میں باربار یہی خیال منسوب کرتے جاتے ہیں کہ میں منگل کو ایک منحوس دن سمجھتا ہوں۔ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہندولوگ عموماً منگل کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب نے ان سے متاثر ہوکر بلا سوچے سمجھے میری طرف بھی یہی عقیدہ منسوب کردیا ہے۔ حالانکہ نہ میں نے ایسا لکھا اور نہ میرے خیال میں کبھی یہ بات آئی۔ باقی رہا اصل معاملہ یعنی ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ جو میں نے لکھا ہے۔ کہ گویا دنوں وغیرہ کی شمار اہل دنیا کے واسطے ہے۔ آخرت پر اس کا اثر نہیں، یہ غلط ہے۔ سو اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری طرح میری بات پر غور نہیں فرمایا۔ میرا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک چیز کا ایک معیّن حلقہ اثر ہوتا ہے جس کے اندر اندر اس
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶جولائی ۱۹۲۶ء
کا اثر محدود رہتا ہے اور چونکہ ستارے اس عالم دنیوی کا ایک حصہ ہیں اس لئے ان کا اثر بھی اسی دنیا تک محدود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ڈاکٹر صاحب اعتراض پیدا کرتے اور یہ خیال کہ اگر کسی ستارہ کا اثر اس دنیا کے اوپر کسی خاص رنگ میں پڑ رہا ہے تو ضرور ہے کہ آخرت پربھی اس کا وہی اثر پڑتا ہو۔ ایک طفلانہ خیال ہے۔ ایک درخت اگر ایک جگہ سایہ ڈال رہا ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ دوسری جگہ بھی سایہ ڈال رہا ہوگا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے جو قانون مخلوقات میں جاری کیا ہے وہی چلے گا۔ اور ڈاکٹر صاحب یاکسی اور کی مرضی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ تو کیا ان کے لئے وہ ایک مبارک گھڑی آرہی تھی یا منحوس! یعنی اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آخرت پر ستاروں کا کوئی اثر نہیں پھر بھی اس اعتراض کا کیا جواب ہے کہ قرب وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ ( اور چونکہ دنیا ستاروں کے اثرکے نیچے ہے اور وہ منگل کا دن تھا) تو کیا وصال محبوب کی آمد آمد حضرت صاحب کے لئے منحوس تھی؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں جو قابل افسوس میلان نحوست ومنحوس وغیرہ کی طرف پیدا ہوگیا ہے اس کے متعلق عرض کرچکا ہوں کہ اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں، میرا اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں۔ میں نے نہ یہ الفاظ لکھے اور نہ ان کا مفہوم میرے ذہن میںتھا۔ میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن فوت ہوئے تھے اور وہ دن دنیا کے لئے ایک مصیبت کا دن تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا اثر دنیا تک محدود ہے اس لیئے آخرت کے نقطہ نگاہ سے وہ گھڑی حضرت صاحب کے لئے وصال محبوب کی مبارک گھڑی تھی۔ اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان دوباتوں میں قطعاً کوئی تناقص نہیں کیونکہ دو مختلف موقعوں کے لحاظ سے دومختلف حالتیں ہوسکتی ہیں۔ فرض کرو کہ ایک دائرہ ہے کہ جو سختی اور شدائد کا حلقہ ہے۔ اور اس کے باہر ایک مقام آرام اور خوشی کا ہے۔ اب اگر ایک شخص اس دائرہ کے اندر ہے اور اس کے کنارے کی طرف چل رہا ہے تو وہ جب تک کہ دائرہ سے باہر نہیں ہوجاتا شدائد کے حلقہ کے اندر ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن بایں ہمہ مسرت وخوشی کے مقام سے بھی وہ قریب ہوتا جائے گا۔ ایسی حالت میںکیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آرام وخوشی کا مقام اس شخص کے لئے سختی اور شدائد کا مقام ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے وصال محبوب کی آمد شدائد کا پہلو (یا بقول ڈاکٹر صاحب نعوذ باللہ نحوست کا پہلو) ہرگز نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ شدائد ومصیبت کا پہلو صرف ان لوگوں کے لئے تھا جن کو آپ اپنے پیچھے چھوڑ رہے تھے۔ یعنی دنیا واہل دنیا کے لئے۔ اور یہی میں نے لکھا تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔
آخری اعتراض ڈاکٹر صاحب کا اصل مسئلہ کے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یا فعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔ قرآن میں کہیں نہیں، حدیث میں کہیں نہیں، حضرت صاحب کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔ اگر منگل کا دن ایسا ہی منحوس تھا تو کیا آپ کا فرض نہ تھا کہ اس راز کو جماعت کو بتلا جاتے…… کس قدر لغو! کہ وہ شخص جو قرآن کا بینظیر علم رکھتا تھا جس کے فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللہ نہ جانتا تھا۔ کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعاً۱۵؎ کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔ وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلاگیا وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا۔ اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جاوے گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
کا ش یہ زور قلم صداقت کی تائید میں خرچ ہوتا! کاش یہ لفاظی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں استعمال نہ کی جاتی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرا ن ہوں کہ اپنے مطلب کے حاصل کرنے کے لئے کس طرح ایک چھوٹی سی بات کو بڑھا کر اس طرح آہ وپکار شروع کردیتے ہیں کہ گویا دنیا میں ایک ظلم عظیم برپا ہوگیا ہے۔ جس کے مقابلہ کے لئے ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کی اعلیٰ ترین طاقتیں وقف کردینا چاہتے ہیں۔ ایک سرسری سی بات تھی کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور اس میزان میں منگل کا دن سب سے سخت ہے۔ اب اس پر یہ واویلا اور یہ شور پکارکہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ کہاں کا انصاف ہے۔
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یافعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔‘‘
غیظ وغضب میں سب کچھ بھول جانے والے ڈاکٹر صاحب خدا کے لئے یہ منحوس کا لفظ ترک کردیجئے۔ غالباً آپ کے سوا دنیا کا ہر فرد بشر یہ گواہی دے سکتا ہے کہ میری تحریر میںکسی جگہ منگل کے دن کے متعلق منحوس یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ استعمال نہیں ہوا اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میری نیت میں بھی یہ نہ تھا کہ منگل کو ئی منحوس دن ہے تو پھر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ آپ اس تکرار اور اس اصرار کے ساتھ میری طرف یہ لفظ منسوب کرتے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو دنیا کا ڈر نہیں ہے تو خدا سے ہی ڈریئے۔ باقی آپ کا یہ فرمانا کہ کیا حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی ہے جو یہ بیان کرسکے کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ شاید آپ بھول گئے ہوں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس روایت کے راوی حضرت کے اصحاب میں سے ہی ہیں۔ پہلی روایہ حضرت والدہ صاحبہ ہیں جن کے صحابیہ ہونے سے آپ باوجود اس قدر مخالفت کے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ دوسرے راوی حضرت خلیفہ ثانی ہیں جو وہ بھی صحابیوں میں سے ہیں۔ پھر نامعلوم آپ کس صحابی کی شہادت ڈھونڈتے ہیں اور اگر آپ کا یہ منشاء ہے کہ ان راویوں کے علاوہ کوئی اور راوی ہو تو اوّل تو اس ترجیح بلا مرجح کی کوئی وجہ چاہیئے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی کی روایت کیوں منظور نہیں اور دوسروں کی کیوں منظور ہے۔ اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب میں نے کوئی اور شہادت پیش کی تو آپ یہ نہ فرمائیں گے۔ کہ اس راوی کی شہادت بھی میں نہیں مانتا۔ کوئی اور راوی لائو تب مانوں گا۔ آپ خود فرمائیں کہ اس طرح یہ سلسلہ کبھی بند بھی ہوسکتا ہے مگر چونکہ آپ کو بہت اصرار ہے اس لئے ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں۔ امید ہے اس شہادت کے متعلق آپ کو جرح کا خیال نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں:-
’’ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں…… یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے۔ اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے ( یعنی وہ دنیا اور اہل دینا پر دوا اور غذاکی طرح اچھا اور برا اثر ڈالتے ہیں) …… پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلو فر اور تربد اور سقمو نیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے۔ (جیسا کہ اطباء لوگ قائل ہوتے ہیں۔ اور خوش قسمتی سے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی طبیب ہیں اور ان ادویہ کی تاثیرات کے ضرور قائل ہوں گے)مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں …… یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔‘‘ ۱۶؎
لیجئے ڈاکٹر صاحب اب آپ کیا فرماتے ہیں ستاروں کی تاثیرات کے متعلق حضرت صاحب نے کیسا صاف فیصلہ فرمادیا ہے اور اگر آپ کو یہ عذر ہو کہ یہ تو صرف عام تاثیرات کا بیان ہے حضرت صاحب نے یہ تو نہیں لکھا کہ انسان کی ولادت پر بھی ستاروں کا اثر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر زیر بحث ایک بچہ کی ولادت کا سوال ہے نہ کہ کوئی عام تاثیرات کا ذکر تو اس کے متعلق بھی ملاحظہ فرمائیے حضرت صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’چونکہ اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا۔‘‘ ۱۷؎
میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت صاحب کے اس غیر مشکوک فیصلہ کے بعد ڈاکٹر صاحب یا کوئی اور احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہوسکتا ہے اور یہی وہ بات تھی جو میں نے اس روایت میں بیان کی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اتنی آہ وپکار کی ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرمائیں کہ ان حوالجات میں منگل کا کہاں ذکر ہے تو گو منگل کو مخصوص طور پر ذکر کئے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سارے مسئلہ کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ ستاروں کی تاثیرات زمانہ اور اہل زمانہ اور ولادت بچگان پر پڑتی ہیں اور ان حوالجات میں قطعی طور پر یہ بیان کردیا گیاہے کہ ستارے اس قسم کی تاثیرات اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ تاثیرات دو ا اور غذا کی طرح مفید اور ضرررساں ہر دو پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ گو ڈاکٹر صاحب پر مزید اتمام حجت کرنے کے لئے ایک اور حوالہ بھی پیش کرتا ہوں۔
حضرت صاحب فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ…… مریخ کے اثرکے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مفسدین کے قتل اور خوں ریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کوقتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور ان کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔‘‘ ۱۸؎
اس جگہ مریخ کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کے رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہئیت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک منگل کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا اور اگر اس جگہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت کیوں ہوئی تو اس کا جواب آگے آئے گا۔٭
ڈاکٹر صاحب ستاروں کے اثرات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں یہ مسئلہ :-
’’یہ مسئلہ قرآن شریف میںکہیں نہیں۔ حدیث میں کہیں نہیں۔ حضرت صاحب کی تقریروتحریر میںکہیں نہیں۔‘‘
حضرت صاحب کا فیصلہ تو پیش خدمت کر چکا ہوں اب حدیث کو لیجئے۔ بخاری میں ایک حدیث آتی ہے کہ ایک سفر میں رات کو بارش ہوئی اور صبح کو لوگوں میں یہ باتیں ہوئیں کہ یہ بارش فلاں فلاں ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز میں تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ :-
’’اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنْ بِیْ وَکَافِرٌ فَاَمَّا مَنْ قَالَ:مُطِرُنا بِفَضْلِ اللَّہِ وَرَحْمَتِہِ فَذَالِکَ مُؤْمِنْ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ،وَاَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْئِ کَذَاوکَذَا، فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ ۱۹؎
یعنی خدا فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بندوں میں سے بعض نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور وہ وہ تھے جنہوں نے یہ کہا کہ خدا کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش برسی ہے۔ اور وہ جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے اثر نے بارش برسائی ہے، وہ میرے کافر ہوئے اور ستاروں کے مومن بنے۔‘‘
یہ حدیث نبوی جس میں امت محمدیہ کو توحید کا ایک نہایت لطیف سبق سکھایا گیا ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ستارے اپنے اندر دنیا اور اہل دنیا کے لئے تاثیرات رکھتے ہیں کیونکہ اگر ستاروں میں تاثیرات نہ ہوتیں تو یہ نہ کہا جاتا کہ ستاروں کی تاثیر کی طرف بارش وغیرہ کو منسوب نہ کرو اورخدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کیا کرو۔ بلکہ اس صورت میں یہ بیان کیا جاتا کہ بارش کے برسنے میں ستاروں کے اثر کا دخل نہیں۔ بلکہ فلاں فلاں اسباب کا دخل ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ انعامات کو خدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ جس میں یہ صاف اشارہ ہے کہ ستاروں کی تاثیرات تو درست ہیں لیکن مومن کو چاہیئے کہ تمام ارضی اور سماوی انعامات کو خدا کے فضل کی طرف منسوب کیا کرے اور درمیانی وسائط کو صرف بطور ایک خادم کے سمجھے۔ تاکہ ایک تو اس
٭:مطبوعہ الفضل ۲۷جولائی ۱۹۲۶ء
کا قلب خدا کے شکر وامتنان کے جذبات سے معمور رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اس نکتہ کو بھول کر کسی مخفی شرک میں مبتلا نہ ہو کہ دنیا کا کارخانہ خواہ کتنے ہی لمبے سلسلہ اسباب کے ماتحت چل رہا ہو،اس کا اصل چلانے والا صرف خدا ہی ہے اور باقی ہر اک چیز اس کی خادم اور اس کے قبضہ تصرف کے نیچے ہے۔ واِلّا اگر اس حدیث کا یہ منشاء نہ ہوتا تو عبارت اس طرح ہونی چاہیئے تھی کہ بارشیں ستاروں کے اثر کے ماتحت نہیں ہوتیں بلکہ فلاں فلاں سبب سے ہوتی ہیں۔ پس ستاروں کی تاثیر کے مقابلہ میں کسی دوسرے سبب کا بیان نہ کرنا بلکہ خد اکے فضل اور رحمت کا نام لینا جو مسبب الاسباب ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ستاروں کی تاثیر کا انکار مقصود نہیں بلکہ ان کی تاثیرکو تسلیم کرتے ہوئے اس مواحدانہ نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہر انعام کو خدائے واحد کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ نہ کہو کہ عمر جو بیمار تھا وہ زید کے علاج سے اچھا ہوا ہے بلکہ یہ کہو کہ خد اکے فضل نے اسے اچھا کیا ہے تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ علاج تو زید کا ہی تھا لیکن شفایابی کی نسبت خدا کی طرف ہوئی چاہیئے جس نے زید کو صحیح اور درست علاج کی توفیق دی۔
خلاصہ یہ کہ سبب کے مقابلہ میں مسبب کا ذکر نہ کرنا اس وجہ سے نہیں ہوا کرتا کہ وہ سبب غلط ہے بلکہ اس لئے کہ اصل نام لینے کے قابل مسبب ہے اور اگر سبب کی نفی مقصود ہو تو اس کے مقابلہ میں مسبب کو نہیں بلکہ کسی دوسرے سبب کو لایا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حدیث مذکورہ بالا میں ستاروں کی تاثیر کی نفی نہ کرتے ہوئے خدا کے فضل ورحمت کا نام نہ لینا اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ستاروں کی تاثیر برحق ہے۔ باقی ایمان ومحبت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ تمام انعاماتِ ارضی وسماوی کی نسبت خدا کے فضل ورحمت کی طرف کی جائے اور درمیانی وسائط کو ان کا باعث قرار دے کر خدا کے فضل ورحمت کو مشکوک نہ بنایا جائے۔ الغرض اس حدیث سے ستاروں کی تاثیر کا وجود ثابت ہے۔ وہوالمراد
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ تاثیر سماوی کی وجہ سے دن بھی اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں تو اس کے متعلق مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتاہوں۔
’’اَضَّلَ اللّٰہُ عَنِ الْجٔمُعَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلنا،فَکَانَ لِلْیَھُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلْنَصَارَیٰ یَؤْمُ الْأَ حَدِ، فَجَائَ اللّٰہُ بِنَا، فَھَدَانااللَّہُ لِیَؤْمِ الْجُمْعَۃِ۔۲۰؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو امتیں ہم سے پہلے گذری ہیں وہ جمعہ کے دن کو اپنا مبارک دن قرار دینے سے بھٹکی رہیں۔ چنانچہ یہود نے ہفتہ کو اپنا مبارک دن بنالیا اور عیسائیوں نے اتوار کو لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں قائم کیا تو اس نے ہم کو جمعہ کے دن کی طرف ہدایت کی‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں پر ایک امتیاز حاصل ہے جس کی وجہ سے وہی اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے ہفتہ کا مبارک دن قرار دے کر اس دن اپنی مخصوص اور اجتماعی عبادات کو سرانجام دیا جائے اور یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن جو ایک مخصوص اجتماعی عبادت رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ سے جمعہ کو امتیاز حاصل ہوگیا ہے، یہ غلط ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے پتہ لگتا ہے حق یہ ہے کہ جمعہ کا یہ امتیاز اس عبادت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ عبادت اس لئے ہے کہ جمعہ کو ایک امتیاز حاصل ہے۔ چنانچہ موطا کی ایک روایت ہے کہ
’’خَیْرُ یَوْمِ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجٔمْعَۃِ۲۱؎۔
یعنی سب دنوں میں سے جمعہ کا دن مبارک ترین دن ہے۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ اسی طرح ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کے لئے عموماً جمعرات کے دن کو پسند فرماتے تھے جس سے یہ ظاہر ہے کہ جمعرات اپنی برکات کے لحاظ سے باقی دنوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اسے دوسروں پر ترجیح دیتے۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ دنوں میں برکات کا فرق تسلیم فرماتے تھے اور اس فرق سے مناسب حد تک فائدہ اٹھانے کا خیال بھی آپ کو رہتا تھا۔ اب رہی قرآن کی شہادت سو وہ بھی ملاحظہ ہو۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآ ئِلِ سُجَّدًالِّلّٰہِ۔ ۲۲؎
یعنی کیا لوگ نہیں دیکھتے کہ دنیا کی ہر چیز کا سایہ یعنی اثر خدا کے حکم کے ماتحت دائیں بائیں یعنی ہر طرف پھرتا ہے۔‘‘
اس اصل کے ماتحت ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ستارے بھی اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں اور نیز یہ کہ یہ تاثیر دنیا کی ہر چیز پر اثرپیدا کررہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ستاروں کا اثر زمانہ اور اہل زمانہ اور حیات انسانی پر بھی پڑتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا۔ اور اگر کسی شخص کو یہ شبہ گذرے کہ اس آیت کریمہ میں تو ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے۔ ستاروں کی تاثیر کا کوئی خاص ذکر نہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ جب اس آیت میں دنیا کی ہر چیز میں ہر دوسری چیز کے لئے تاثیر مان لی گئی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ستارے بھی کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی زندگی پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ مگر معترض کی مزید تسلی کے لئے ایک اور آیت پیش کرتاہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَزَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ۲۳؎
یعنی ہم نے آسمانوں کو روشن ستاروں سے زینت دی ہے تاکہ وہ نظام عالم کی حفاظت میں بھی کام دیں۔‘‘
اس جگہ ستاروں کی تین غرضیں بیان کی گئی ہیں۔ اوّلؔ زینت دوسرےؔ تنویر۔ تیسرےؔ حفاظت وتقویم عالم اور تیسری شق کے اندر ان کی وہ مختلف تاثیرات شامل ہیں جو وہ دنیا اوراہل دنیا پر قانون قدرت کے ماتحت ڈالتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں کہ :-
’’یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاسے یعنی حِفْظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘۲۴؎
پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں ان آیات قرآنی کی تفسیر فرمائی ہے جن میں آدم کی پیدائش اور اس کے متعلق فرشتوں کے سوال کا ذکر ہے۔ اس میں بھی آپ نے یہی بات بیان کی ہے کہ:-
’’ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش پر خدا سے یہ سوال کیا کہ کیا تو ایک ایسی مخلوق بنانے لگا ہے جو دنیا میں فتنوں کا موجب ہوگی۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ جمعہ کا دن قریباً گذرچکا ہے۔ اور اب ستارہ زحل کا اثر شروع ہونے والا ہے جو قہر وعذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس پر ان کو گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس پر خدا نے فرمایا کہ انی اعلم ما لااتعلمون یعنی تمہیں خبر نہیں۔ کہ میں آدم کو کس وقت بنائوں گا۔ میں مشتری کے وقت کے اس حصہ میں اسے بنائوں گا جو اس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہرایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔‘‘۲۴؎
یہ الفاظ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں جو آپ نے ان آیات قرآنی کی تفسیر میں تحریر فرمائے ہیں۔ الغرض قرآن شریف میں یہ بات ثابت ہے کہ ستارے اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں۔ یہ تاثیرات دنوں اورزمانوں پر بھی اپنا اثر رکھتی ہیں۔ وہوالمراد
میں بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کرچکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے جو تحدی کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ:-
’’قرآن میں کہیں نہیں ۔ حدیث میں کہیں نہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔‘‘
یہ بالکل غلط اور ایک محض بے بنیاد دعویٰ ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’کس قدر لغو کہ وہ شخص جو قرآن کا بے نظیر علم رکھتا تھا۔ جس کی فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللّٰہ نہ جانتا تھا کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ ۲۶؎کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ سب کا سب تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کو اس آتش غضب سے نجات دے۔ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اگر سانپ اور بچھو باوجود اس کے کہ وہ لاکھوں انسانوں کی جانیں ہر سال ضائع کردیتے ہیں اور شیر اور چیتا اور بھیڑیا باوجود اس کے کہ وہ ہر آن اس تاک میں رہتے ہیں کہ انسان کو اپنی خوراک بنائیں اور پھر یہ ہزاروں قسم کے زہر اور لاکھوں قسم کی دوسری مضرت رساں چیزیں جن کے تکلیف دہ اثرات کا انسان نشانہ بنا رہتا ہے۔ انسان کی خدمت کے لئے مسخر سمجھی جاسکتی ہیں تو بعض قہری اور شدائد کا پہلو رکھنے والی تاثیرات والے ستارے کیوں نہ مسخّرسمجھے جائیں۔ افسوس ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں کیا کہ ہر اک چیز مسخّر ہے ان معنوں میںکہ وہ خدا کے حکم اور اس کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہے۔ اور پھر ہر اک چیز انسان کے لئے مسخرہے ان معنوں میںکہ انسان خد اکے مقرر کردہ قانون کا علم حاصل کرکے اس سے اپنی ترقی وبہبودی میں مدد حاصل کرسکتا ہے۔ پس خدا کی قہری اور جلالی شان کو ظاہر کرنے والی چیزیں بھی انسان ہی کے لئے مسخر ہیں کیونکہ ان کے اندر بھی انسان کی فلاح وبہبود ی کا راز مضمر ہے۔ ابلیس بھی جو آگ سے پیدا کیا گیا اور ہر وقت ابن آدم کو گمراہ اور آلام میں مبتلا کرنے کے درپے رہتا ہے اس آیت تسخیر سے باہر نہیںکیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کے بہت سے مخفی مگر قیمتی جوہروں کو ظاہر کرنے اور نشوونما دینے کا باعث بنتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل عامیانہ رنگ میں ایک اعتراض کردیا ہے اور اس کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین چیزیں بعض اوقات انسان کے لئے نحوست کا موجب ہوجاتی ہیں۔ ایک مکان دوسرے بیوی اور تیسرے سواری تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ چیزیں تسخیر سے باہر ہیں۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلا گیا۔ وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جائے۔ گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
میں ڈاکٹر صاحب سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے یہ بتائیں کہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے۔ آخر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ خوانخواہ بلاوجہ ایک بات میری طرف منسوب کرکے اس پر اعتراض جمادیا جاتا ہے۔ میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ جو شدائد اور سختیوں کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے، انصاف کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ڈرنے کا لفظ جائز طور پر استعمال ہوسکتا ہے تو میں ان سے بادب پوچھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے سفروں کے لئے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں سے ڈرتے تھے۔‘‘اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ نے جو یہ لکھا ہے کہ :-
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت خاص خاص ستاروں کی تاثیرات سے کام لیا ۔‘‘
’’ تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نعوذ باللہ خدا باقی ستاروں سے ڈرتا تھا۔‘‘
افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم کی بچگانہ باتوں کو اپنے مضمون کے اندر داخل کرکے خواہ۔نخواہ اپنے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے۔٭
پھر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔’’گویا منگل کا دن ٹل گیا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ تقدیر الٰہی تو قانون قدرت کے ماتحت بات بات پر بدلتی ہے۔ پھر وہ منگل کے ٹلنے سے بدل جائے تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ آپ کے پاس ایک ملیریا کا
٭:مطبوعہ الفضل ۳۰جولائی۱۹۲۶ء
بیمار آتا ہے جس کے خون کے جراثیم اگر ہلاک نہ کئے جائیں تو اس کی تقدیر یہ ہے کہ وہ خود ہلاک ہو۔ لیکن آپ اسے کونین دے کر اس کی تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ آپ کو خود بھوک لگتی ہے اور اگر آپ کھانا نہ کھائیں تو آپ کی تقدیر موت ہے لیکن آپ کھانا کھا کر اس تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ تو پھر اگر منگل کا دن ٹل جانے سے خد اکی کوئی تقدیر بدل جاوے تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ آپ نے میرے خلاف غصہ میں تقدیر کے مسئلہ کو بھی بری طرح مسخ کردیا ہے۔ حالانکہ اگر آپ سوچتے تو آپ کو پتہ لگتا کہ خدا کے مقرر کردہ قانون قدرت کے ماتحت جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہی خدا کی تقدیر ہوتی ہے۔ مثلاً خدا کی یہ تقدیر ہے کہ فلاں زہر کھانے سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے لیکن یہ بھی خدا ہی کی تقدیر ہے کہ اگر اس زہر کے اثر کو فلاں طرح مٹایا جائے تو وہ مٹ جاتا ہے۔ آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کا سارا فن اسی بنیاد پر قائم ہے کہ خدا کی ایک قسم کی تقدیروں کو اس کی دوسری قسم کی تقدیروں سے مٹایا جائے۔ پھر نہ معلوم آپ میرے خلاف بلاوجہ اعتراض جماکر لوگوں کو دھوکا دینے کی راہ کیوں اختیار کررہے ہیں۔ کیا آپ اس حدیث کو بھول گئے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ابوعبیدۃ رضی اللہ عنہ کی فوج میں طاعون شروع ہوئی تو حضرت عمرؓ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ فوج کو ادھر ادھر کھلی ہوا میں پھیلا دیں۔ اور خود بھی باہر کھلے میدان میں نکل جائیں اور انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ کیا آپ مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدا کی تقدیر سے بھاگوں یعنی کیا میرے جانے سے خدا کی تقدیر بدل جائے گی تو اس پر حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا تھا کہ ہاں میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ خدا کی ایک تقدیر سے نکل کر دوسری تقدیر میں داخل ہوجائیں۔ یعنی آپ کے یہاں رہنے سے اگر خدا کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس مرض کے اثر کو قبول کریں تو باہر جانے سے اس کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس کے اثر سے محفوظ ہوجائیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ پسند فرمایا ہے کہ ہم لوگ اپنے سفروں کے لئے حتی الوسع جمعرات کا دن اختیار کریں۔ تو کیا بقول ڈاکٹر صاحب ’’جمعرات کے سفر سے تقدیر الٰہی بدل جائے گی؟‘‘ اور پھر خدا نے جو آدم کی پیدائش میں بعض ستاروں کی تاثیرات کو اختیار کیا اور بعض کو ترک کیا تو کیا اس طرح ’’انسان کے لئے تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! آپ نے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے اور اتنا نہیں سوچا کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور انسان تو انسان ہے اس دنیا میں خدا کی بھی یہی سنت ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ سے کام لیتا ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ اسباب کی رعایت رکھتے ہوئے یہ دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ مبارکہ بیگم کو منگل کے اس اثر سے جو شدائد اور سختی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے محفوظ فرمائے تو کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ خدا کی ایک تقدیر کو اس کی دوسری بہتر تقدیر کے ذریعہ سے بدلنا چاہا ہے۔ جیسا کہ خود خدا نے ہمارے جدّامجد آدم کی پیدائش کے وقت بعض ستاروں کی تاثیر کو چھوڑ کر اور بعض دوسرے ستاروںکی تاثیر کو اختیار کرکے آدم کی تقدیر کو بدلا تھا۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ تم حتی الوسع جمعرات کو سفر کرکے اپنی تقدیر کو بہتر صورت میں بدلنے کی کوشش کیا کرو۔ اور جیسا کہ خود جناب ڈاکٹر صاحب اپنے بیماروں کا علاج کرکے ان کی تقدیر بدلنے کی کوشش فرمایا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک فرد بشر بلکہ ہر اک لایعقل جانور بھی ہر روز خدا کے قانون قدرت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بُری تقدیروں کو اچھی تقدیر کی صورت میں بدلتا رہتا ہے۔ اور میں اس شخص کو سعادت فطری کے مادہ سے محروم کلّی سمجھتا ہوں جو آدم کا بیٹا ہوکر جس کے خمیر میں خدا کی نیک تقدیروں کے مددسے اس کی ضرر رساں تقدیروں کے بدلنے کا مادہ فطرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہتا ہے۔ اور خدا کے جاری کردہ قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دینی ودنیاوی ترقیات کے دروازے نہیں کھولتابلکہ ضرررساں تقدیروں کا تختہ مشق بنارہ کر قعرمذّلت کی طرف گرتا چلا جاتا ہے۔
مگر یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ گویا انسان کے حالات زندگی کلیتہً ان ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اور جو انسان ستاروں کی اعلیٰ تاثیرات کے ماتحت پیدا ہوتا ہے وہ بہرحال خوش بخت ہوگا اور اعلیٰ زندگی بسر کرے گا اور جو کسی دوسری قسم کی تاثیرات کے ماتحت دنیا میں آتا ہے وہ بہرحال شدائد اور سختیوں کا اثر پائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے صرف ستارے ہی نہیں ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اربوں اور چیزیں بھی ہیں۔ جن میں سے بہت سی انسان کے اپنے اختیار میں ہیں اور ان سب کے مجموعی اثر کے نتیجے میں انسانی زندگی کے حالات متعین ہوتے ہیں اور بہت سی تاثیرات ایک دوسرے کے مقابل پر آجانے کی وجہ سے کٹ بھی جاتی ہیں۔ پس بالکل ممکن ہے اور عملاً ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی ولادت امن وآسائش وغیرہ کی تاثیررکھنے والے اجرام سماوی کے ماتحت وقوع میں آئے لیکن دوسرے اثرات اس کی زندگی کے حالات کو دوسرے رنگ میں پلٹ دیں۔ یا کسی شخص کی ولادت شدائد اور سختیوں کی تاثیر کے ماتحت ہو لیکن دوسری چیزوں کی تاثیرات اس اثر کو مٹا کر امن و اسائش وغیرہ کی تاثیر کو غالب کردیں۔ جیسا کہ مثلاً کونین کے اندر یہ تاثیر ہے کہ وہ ملیریا کے کیٹروں کو مارتی ہے لیکن اگر اس کے مقابلہ میں ایسی چیزیں آجائیں جو قانون قدرت کے ماتحت ملیریا کے کیٹرے پیدا کرتی ہیں۔ اور ان مؤخر الذکر اشیاء کا بہت غلبہ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر اپنے بیمارکو کونین کھلاتا رہے اس کا خون ملیریا کے جراثیم سے پاک نہیں ہوسکے گا جب تک کہ ان مخالف تاثیرات کو توڑنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر بے شمار چیزیں اثر ڈالتی ہیںاور ان میں سے ایک ستارے بھی ہیں۔ اور چونکہ ہر عقلمند شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ حتی الوسع تمام نیک تاثیرات کے اثر سے مستفید ہو اور تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔ اس لیئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت کسی چھوٹے سے چھوٹے خدائی انعام کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت خدا سے یہ دعا مانگی کہ وہ کسی ایسی تاثیرات کے ماتحت پیدا نہ ہو جو شدائد اور سختی وغیرہ کا اثر رکھتی ہوں۔ اور اگر اس کی ولادت اسی دن مقدر ہو تو پھر خدا کی طرف سے کوئی دوسرے ایسے سامان پیدا ہوجائیں جن کی تاثیر اس دن کی تاثیر پر غالب آجائے۔ اور یہ کوئی انوکھی دعا نہیں۔ بلکہ اسی اصل کے ماتحت ہے جس کے ماتحت خدا نے ہمارے جدامجد آدم کی پیدائش کا انتظام کیا تھا۔ الغرض ستارے اپنے اندر مختلف قسم کی تاثیرات رکھتے ہیں جو انسانی زندگی پر اثر ڈالتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ دن بھی الگ الگ ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اس لئے دنوں کا بھی اعلیٰ قدر مراتب انسانی حالات پر اثر پڑتا ہے۔ پس ہرمومن کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں خدا کی دوسری بابرکت تقدیروں سے فائدہ اٹھاتا ہے وہاں ان تقادیر سے بھی حتی الوسع متمتّع ہو جو دنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مگر یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ ہر اک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنا توہم پرستی پیدا کرتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص اپنے کسی اہم اور فوری کام کو صرف اس خیال سے ملتوی کردیتا ہے کہ آج منگل ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سختی پیش آئے یا کسی ضروری اور فوری سفر یا کام کو صرف اس خیال سے پیچھے ڈال دیتا ہے کہ مثلاً آج جمعرات نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کام برکات سے محروم ہوجائے تو وہ غلطی کرتا ہے بلکہ ایک گونہ مخفی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میںیہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص نے باقی لاکھوں کروڑوں تاثیرات کو جو اسی طرح خدا کی پیدا کردہ ہیں جس طرح کہ ستارے، نظر انداز کرکے صرف اس دنوں والی تاثیر پر اپنا تکیہ کرلیا ہے۔ بلکہ ان اسباب کے پیدا کرنے والے خدا ئے ذوالجلال کو بھی فراموش کرکے صرف ستاروں کو ہی اپنی قضا وقدر کامالک سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہندوئوں کا حال ہوا۔ جو کسی صورت میں اپنے کسی کام کی ابتداء منگل کو نہیں کرتے گویا منگل کے ہاتھ میں کل قضاء قدر کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں جن سے مومن کو پرہیز لازم ہے۔ منگل ہرگز کوئی منحوس دن نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح خدا کی مقدس مخلوق ہے جیسا کہ دوسرے دن ہیں۔ صرف بات یہ ہے کہ اس نے خدا کی قہری اور جلالی صفات سے حصہ پایا ہے۔ جیسا کہ بعض دوسرے دن خدا کی جمالی اور رحیمی صفات کے ظل ہیں ۔ حقیقت یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ ومن اعتدی فقد ظلم
اس روایت کی بحث کو ختم کرنے سے قبل ایک اور شبہ کا ازالہ ضروری ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اور جو بعض دوسرے لوگوںکے دل میں بھی کھٹک سکتا ہے۔ وہ شبہ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:-
’’پھر حضرت مسیح موعود نے جو تحفہ گولڑویہ میں اس دنیا کے زمانہ کو ایک ہفتہ قرار دے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو منگل کا دن قراردیا ہے اور آپ کے جلالی رنگ کو مریخ یعنی منگل کے رنگ میں دکھایا ہے تو یہ کیا سمجھ کر ایسا تحریر کیا ہے۔ کیا حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل دنیا کے لئے باعث رحمت سمجھتے تھے یا نعوذ باللہ باعث نحوست۔ کیا وہ ایک ایسے ستارے کو جسے منحوس سمجھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرسکتے تھے۔ حضرت صاحب کی یہ تحریر فیصلہ کن ہے۔‘‘
اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی ہر اک تحریر خدا کے فضل سے فیصلہ کن ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اس تحریر کے معنی کیا ہیں۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ میں وہی نحوست کے خیالات بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ میری ہر بات کو اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے اور پھر اس فرضی بات پر اعتراضات کا ایک طوما ر کھڑا کردیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں۔ میں نے اپنی کسی تقریرو تحریر میں منحوس یا نحوست یا اس مفہوم کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔ اور نہ میرے ذہن میں کبھی یہ مفہوم آیا ہے میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ ’’حضرت مسیح موعود ؑ دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ اور پھر یہ کہ آپ کا روز وفات جو کہ منگل کا دن تھا وہ دنیا کے واسطے ایک بڑی مصیبت کا دن تھا۔‘‘ جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ منگل کا دن اپنے اندر شدائد اور سختی کی تاثیر رکھتا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود.6ؑ نے بمقابلہ دوسرے دنوں کے اسے اچھا نہیں سمجھا۔ نہ کہ نعوذ باللہ وہ کوئی منحوس دن ہے۔ پس جبکہ بنائے اعتراض ہی غلط اور باطل ہے تو اعتراض خود غلط اور باطل ہوا۔ وہوالمراد
دراصل ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مسیح ابن مریم کی طرح جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اور اسی لئے آپ کی فطرت میں صلح اور آشتی اورامن جوئی اور محبت ونرمی اور عفوودرگزر کی طرف زیادہ میلان ہے اور خدا کی جلالی صفات سے مقابلۃً بہت کم حصہ آپ نے لیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتب میں متعدد جگہ اپنی بعثت کی ان خصوصیات کو بیان فرمایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ میری بعثت جمالی رنگ میں مقدر تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مشتری ستارہ کی تاثیرات کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں مشتری کی جمالی صفات سے حصہ پائوں۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:-
’’ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے۔ جو کوکب ششم من جملہ خُنّس کُنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل ودانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے۔‘‘۲۷؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’اس وقت کے مبعوث پرپر توۂ ستارہ مشتری ہے نہ پرتوۂ مریخ۔‘‘ ۲۸؎
الغرض چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مشتری کی تاثیر کے ماتحت جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اس لئے طبعاً اور فطرتاً آپ میں جمالی صفات کی طرف زیادہ میلان تھا اور جلالی صفات جو قہر اور عذاب اور شدائد اور سختیوں وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں آپ میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ آپ ان چیزوں کو زیادہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جن کی تاثیرات جمالی رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور جلالی صفات مثل قہروعذاب اور قتل وخونریزی کے لئے کوئی طبعی محبت اپنے اندر نہ پاتے تھے اور یہی اس روایت کامنشاء ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت چونکہ مریخ ستارہ کے ماتحت تھی اس لئے آپ کے اندر خدا کی جلالی صفات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ آپ.6ؐ کو اپنے دشمنوں کے خلاف تلوار سے کام لینا پڑا اور ہر شخص جو قتل وخونریزی اور فساد فی سبیل اللہ کی نیت سے آپ کے خلاف اٹھا۔ خدا نے اسے خود آپ کے ہاتھ سے ہی اپنی جلالی تجلّیات کا نشانہ بنایا۔ مگر اس موقع پر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں ایک وہ جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے ماتحت جلالی صفات کے ساتھ وقوع میں آیا اور دوسرا وہ جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے ماتحت آپ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کے ذریعہ جمالی صفات کے ماتحت واقع ہوا ۔ اور ان دونوں میں آپ ہی کی قوت قدسیہ اور افاضہ روحانی کا ظہور تھا کیونکہ آپ جامع کمالات جمالی وجلالی تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں۔ (۱) ایک بعث محمدیؐ جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے……(۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے اور ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے…… اور چونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلۂ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے۔ اس لئے خدا نے بلاواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسیٰ سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خداتعالیٰ نے ایک بروز (یعنی مسیح موعود) کے آئینہ میں اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلادیا۔‘‘۲۹؎
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم سب قدموں کے اوپر ہے کیونکہ آپ خدا کی جلالی اور جمالی صفات کے ظل کامل ہیں۔ اور باقی کوئی اور فرد بشر اولین اور آخرین میں سے اس مرتبہ کو نہیں پہنچا۔
میرا یہ لکھنا کہ منگل کا دن دوسرے دنوں سے بلحاظ اپنی برکات کے مقابلۃً کم ہے۔ اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ چونکہ وہ خدا کی قہری اور جلالی شان کا ظل ہے اور اس کے سوا باقی دن یاتوجمالی صفات کاظل ہیں یا اگر جلالی بھی ہیں تو منگل سے کم ہیں۔ اس لئے وہ اس جہت سے منگل کی نسبت اپنے افاضۂ برکات میں فائق ہیں کیونکہ خدا کی جمالی صفات اس کی جلالی صفات پر غالب ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ عَذَابِی.6ٓ.6ْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئ.6ُ ج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَی.6ْئٍ۔۳۰؎
یعنی میرا عذاب تو میرے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ جو اپنے اعمال سے اپنے آپ کو اس کا سزاوار بناتا ہے۔لیکن میری رحمت کی صفات سب پر وسیع ہیں۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے کہ
’’ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ ۳۱؎
یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ جن صفات کا غلبہ ہے وہی اپنے افاضۂ برکات میں بھی فائق سمجھی جائیں گی۔
پس ثابت ہوا کہ وہ دن جوان ستاروں کی تاثیرات کے ماتحت آتے ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کی جمالی صفات کا مظہر ہیں اپنے افاضۂ برکات میں دوسرے دوسرے دنوں پر فائق ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ:-
’’اگرچہ جمعہ کا دن (جو بوجہ مشتری ستارے کے زیراثر ہونے کے جو اپنے اندرجمالی تاثیرات رکھتا ہے) سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر اک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ جمالی صفات کو جلالی صفات پر ایک گونہ وسعت اور فوقیت حاصل ہے۔ اور اسی وجہ سے منگل جو خدا کی جلالی صفات کا اثر رکھتا ہے دوسرے دنوں سے اپنے افاضۂ برکات میں مقابلتاً کم ہے۔ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی جلالی اور جمالی ہر دوقسم کی صفات کا مظہر اتم بنایا تھا اس لئے اس کے جلالی بعث کو مریخ کے اثر کے ماتحت رکھا اور آپ کے جمالی بعث کو مشتری کی تاثیر کے ماتحت ظاہر کیا اور یہ وہ مقام عالی ہے جس کی بلندیوں تک کوئی انسان نہیں پہنچا۔ اللھم صل علیہ وعلٰی عبدک المسیح الموعود بارک وسلم۔
منگل والی روایت کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ سائنس کی رو سے بھی ستاروں کی تاثیرات کے متعلق کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کسی بات کا سائنس کی تحقیق میں ابھی تک نہ آیا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بات غلط ہے۔ دراصل دنیا کے علوم میں سے بہت ہی تھوڑا حصہ ہے جو ابھی تک سائنس کی تحقیق میں آیا ہے۔ اور باقی سب میدان ہنوز غیردریافت شدہ حالت میں پڑا ہے۔ اندریں حالات کوئی بات سائنس کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے جب سائنس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت اس کے مخالف پڑتی ہو اور اگر وہ سائنس کی کسی ثابت شدہ حقیقت کے مخالف نہیں ہے۔ تو صرف اس بناء پر کہ ابھی تک وہ سائنس کے احاطۂ تحقیق میں نہیں آئی، قابل اعتراض نہیں سمجھی جاسکتی۔ کون نہیں جانتا کہ سائنس کی تحقیقاتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پس اگر ایک چیز آج اس کے احاطہ تحقیق میں نہیں آئی۔ توکل آجائے گی۔ اور اگر بالفرض وہ کبھی بھی اس کے احاطہ تحقیق میں نہ آئے۔ پھر بھی جب تک کہ اس پر سائنس دان کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیںہے۔ لیکن میں کہتا ہوں گو سائنس کی روسے ابھی تک ستاروں کی اس قسم کی تاثیرات ثابت نہیں ہوئیں۔ لیکن اُصولاً سائنس دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز ہر دوسری چیز پر کچھ نہ کچھ اثر ڈال رہی ہے۔ اور اس اصول کے ماتحت یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی زندگی ستاروں سے متاثر ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نہ صرف یہ کہ سائنس اس عقیدہ کے مخالف نہیں بلکہ اُصولاً اس کی مؤیّد ہے۔ وہوالمراد
ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے اس مضمون میں اس عام معروف خیال کی بناء پر بحث کی ہے کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہیئت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ اور اس میں کوئی ذاتی تحقیق میں نے نہیں کی۔ مگر میرے نزدیک یہ ممکن ہے کہ یہ معروف عقیدہ درست نہ ہو بلکہ اس کے خلاف بعض قرائن بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انگریزوں کے لٹریچر میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے منگل کا دن مریخ کے زیراثر نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش مشتری کے زیراثر تھی اور پھر آپ نے اس سے آگے ہزار ہزار سال کا دن رکھ کر زمانہ کی شمار شروع فرمائی ہے اس کی رُو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ مبارک منگل کے مقابلہ میں نہیں آتا۔ حالانکہ دوسری طرف آپ کی یہ صاف اور واضح تحریر موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت تھی۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منگل اور مریخ ایک نہیں ہیں بہرحال یہ بات مزید تحقیق چاہتی ہے۔ اور میں نے اس امر میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی اور اسی لئے میں نے عام معروف خیال پر جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے اپنے جواب کی بنارکھ دی ہے۔ واللہ اعلم٭
اگلی مثال کی بحث شروع کرنے سے قبل میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مضمون کچھ زیادہ طول پکڑرہا ہے اور گو ابھی تک ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بائیس مثالوں میں سے میں نے صرف ایک مثال کی بحث کو ختم کیا ہے لیکن حجم کے لحاظ سے میرا مضمون ابھی سے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے برابر پہنچ گیا ہے اور گو اعتراض کی نسبت جواب عموماً زیادہ لمبا ہوتا ہے لیکن چونکہ مجھے بھی دوسرے کام ہیں اور ناظرین کے لئے بھی طویل مضامین کے مطالعہ کے واسطے وقت نکالنا آسان نہیں۔ اس لئے میں انشاء اللہ آیندہ اپنے جوابات میں حتی الوسع اختصار سے کام لوں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بہت سی لاتعلق باتوں کو داخل کردیا ہے اور کئی جگہ میرے مفہوم کو بری طرح بگاڑکر خواہ مخواہ اعتراض کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے۔ واِلاّاگر وہ صرف معقول علمی تنقید تک اپنے آپ کو محدود رکھتے تو ایک تو بحث میں کوئی بدمزگی نہ پیدا ہوتی اور دوسرے یہ فائدہ ہوتا کہ اعتراضات وجوابات اس قدر طول نہ پکڑتے۔ اور لوگ جلد اور آسانی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ تک پہنچ جاتے۔ مگر میں ایک حد تک ڈاکٹر صاحب کو مجبور سمجھتا ہوں کیونکہ دراصل مخالفت کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عدل وانصاف کے مقام سے متزلزل نہ ہونے دینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور بڑے مجاہدہ کو
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۲۶ء
چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہیئے تھا کہ اس بات کو یاد رکھتے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’لا یجر منّکم شنان قوم علیٰ ان لاتعدلوا اعدلوا ھوا قرب للتقویٰ۔
یعنی کسی کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو۔ تمہیں چاہیئے کہ بہرحال عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔ کیونکہ یہی تقویٰ کا مقام ہے‘‘
میں نے یہ الفاظ نیک نیتی اور ہمدردی کے خیال سے عرض کئے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس معاملہ میں بدظنی سے کام نہیں لیں گے۔
دوسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ حضرت والدہ صاحبہ کی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ کوئی انگریز مولوی محمد علی صاحب سے دریافت کرتا تھا کہ جس طرح بڑے لوگ جنہوں نے کسی بڑے کام کی بنیاد رکھی ہوئی ہو اپنے بعد اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں کیا اس طرح مرزا صاحب نے بھی کیا ہے اور اس کے بعد آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں حضرت والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھتے ہیں کریں اس روایت کو لے کر جس بے دردی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔ میں نے ہم کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ اس حملہ کا نشانہ صرف خاکسار ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ فرماتے ہیں:-
’’کیا واقعی اگر حضرت بیوی صاحبہ فرمادیتیں تو وہ میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین مقرر کردیتے؟…… یہ بہتر ہوا کہ حضرت بیوی صاحبہ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ ورنہ مفت میں خفت اٹھانی پڑتی‘‘
اور پھر اس فرضی بات کے اوپر جو محض ڈاکٹر صاحب کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے ایک طومار اعتراضات کا کھڑا کردیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کہ اگر بیوی صاحبہ یہ جواب دے دیتیں کہ ہاں میاں محمود احمد صاحب کو جانشین بنادو تو پھر کیا ہوتا۔ جو بات وقوع میں ہی نہیں آئی اس کے متعلق میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں؟ ڈاکٹر صاحب کے دماغ کو تو خیر بغض۔وعداوت کے بخارات نے گھیرا ہوا ہے اس لئے وہ مجبوری کا عذر رکھتے ہیں لیکن میں اگر ہوش وحواس رکھتے ہوئے ان فرضی باتوں میں پڑجائوں تو مجھے دنیا کیا کہے گی اور خدا کے سامنے میرا کیا جواب ہوگا؟ اگر مجھے دیوانہ پن کی باتوں سے پرہیز نہ ہوتا تو میں یہ عرض کرتا کہ اگر بالفرض حضرت والدہ صاحبہ وہی جواب دے دیتیں جس کا فرضی خیال بھی ڈاکٹر صاحب کو بے چین کررہا ہے تو پھر غالباً ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ ایک لاعلاج اضطراب کا شکار ہوجاتے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو خاموشی اختیار کرنے سے دوسرے نمبر پر اس جواب کے سوا اور کوئی جواب ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا میرے ذہن میں نہیں آتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور جو جواب خدانے حضرت والدہ صاحبہ کے دل میں الہام کیا، اس کاا نہوں نے اظہار کردیا۔ اب آپ اور آپ کے رفقاء قیامت تک اپنا سر پیٹیں وہ جو اب بدل نہیں سکتا۔ پس اب اس بغض وعداوت کی آگ میں جلنے سے کیا حاصل ہے؟ بہتر یہی ہے کہ دل سے غصہ نکال دیں اور عقل وخردسے صلح کرلیں۔ اور آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ:-
’’حضرت صاحب نے میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین بنانا مناسب نہیں سمجھا، نہ بنایا بلکہ انجمن کا پریزیڈنٹ بھی نہیں بنایا۔ گویا کسی ذمہ داری کے عہدہ کا اہل نہیں سمجھا۔ ورنہ اگر وہ اپنا جانشین بنانا چاہتے تو کم سے کم پریذیڈنٹ تو بنادیتے …… آپ نے تو میاں صاحب کو انجمن کے کسی ذمہ دار عہدہ کے لائق بھی نہ سمجھا۔ جانشین بنا نا تو بہت دور رہا۔‘‘
یہ سراسر آپ کی خوش فہمی ہے۔ روایت میں یہ کہاں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا صاحب کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر بعد میں اپنی رائے بدل لی۔ وہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے ایک بات دریافت کی تھی۔ اگر میں نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہوتا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ حضرت میاں صاحب کو اپنا جانشین مقرر کرجائیں تو پھر آپ یہ اعتراض کرتے ہوئے بھی بھلے لگتے لیکن خواہ نخواہ اپنی طرف سے ایک بات فرض کرکے اس پر اعتراض جمادینا دیانت داری سے بعید ہے۔ باقی رہا حضرت میاں صاحب کی لیاقت کا سوال سو اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ خدا کے فضل سے حضرت میاں صاحب کوئی غیرمعروف آدمی نہیں ہیں۔ ان کی زندگی کے حالات اور ان کی قابلیت دنیا کے سامنے ہے۔ اور ہر عقلمند انسان جسے تعصّب نے اندھا نہیں کررکھا اپنے طور پر فیصلہ کرسکتا ہے۔ کہ وہ کس دل ودماغ کے مالک ہیں۔ ہاں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر ضرورپہنچا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر صاحب کا دماغ ان تاریک بخارات سے صاف نہ ہو جو بغض، حسد اور کینہ وعداوت کی آگ سے اٹھتے ہیںوہ اس بات کے بھی اہل نہیں ہیں کہ حضرت میاں صاحب کی خداداد اہلیت اور قابلیت کو سمجھ تک سکیں۔ چہ جائیکہ اس کی گہرائیوں تک ان کو رسائی حاصل ہو۔ یہ بات میں نے خوش عقیدگی کے مبالغہ آمیز طریق پر نہیں کہی۔ بلکہ علیٰ وجہ البصیرت اس پر قائم ہوں اور جو بھی معقول طریق اس کے امتحان کا مقرر کیا جاسکے اس کے لئے تیار ہوں۔ باقی رہی انجمن کی عہدہ داری سو شائد اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہوگا کہ چونکہ ان کے داماد جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے انجمن کے سیکرٹری رہے تھے۔ اس لئے نیم خلافت ان کی تسلیم کی جانی چاہیئے۔ اور اس نعمت عظمیٰ سے حضرت میاں صاحب محروم کلّی ہیں! افسوس ہے کہ جب انسان تعصّب کا شکارہوتا ہے تو اس کی بصیرت پر پردہ پڑجاتا ہے بھلا حضرت کی جانشینی اور انجمن کی عہدہ داری کے درمیان کون سا طبعی رشتہ ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کوئی رشتہ ہے تو میں بادب یہ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ حضرت صاحب کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خلیفہ ہونا تھا اس لئے حضرت صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پریذیڈنٹ مقرر فرمایا۔ اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے بعد خدا کے علم میں حضرت میاں صاحب کی خلافت تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب نے اپنی جگہ حضرت میاں صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا اور اگر اس استدلال کو اور آگے چلایا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ مولوی محمد علی صاحب نے کبھی بھی خلیفہ نہیں بننا تھا اس لئے وہ ہرزمانہ میں صدرانجمن کی صدارت سے محروم رہے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کے اصول کے مطابق حضرت صاحب کے زمانہ میں ان کے سیکرٹری بننے نے ہمیشہ کے لئے اس بات کا فیصلہ کردیا کہ وہ صرف ایک ماتحت عہدہ پر کارکن رہ سکنے کے اہل ہیں، کسی سلسلہ انتظام کی انتہائی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی وغیرہ ذالک۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ ان منہ کی پھونکوں سے قلعہ خلافت کی دیواروں میں رخنہ پیدا نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ مفت میں اپنی خفّت کروائیں۔ آپ نے بڑے ظلم اور دل آزاری کے طریق سے کام لیا ہے، اور گو میں آپ کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتاہوں مگر مجھے خدا کا خوف ہے اور میں اپنے اخلاق کو بھی بگاڑنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی جو میں نے بعض جگہ کسی قدر بلند آواز اختیار کی ہے یہ محض نیک نیتی سے آپ کے بیدار کرنے کی غرض سے کی ہے ورنہ میرا خدا جانتا ہے کہ میرا سینہ اب بھی آپ کے لئے سوائے ہمدردی کے جذبات کے اور کوئی جذبات اپنے اندر نہیں رکھتا۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کو اگر اس معاملہ میں انسانی مشورہ کی ضرورت تھی تو بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرسکتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں کی کوئی فہرست نہیں دی۔ غالباً اس فہرست میں اول نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا نام نامی ہوگا۔ اور پھر ان کے ہم مشرب رفقاء کے اسماء گرامی ہوں گے کیونکہ جب تک یہ بزرگان ملت کسی مشورہ میں شریک نہ کئے جائیں اس وقت تک بھلا مشورہ کا مفہوم کب پورا ہوتا ہے! کہنے کی بات نہیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک گروہ ہر بات میں مشورہ کے لئے اپنے آپ کو آگے کردیتا تھا اور اگر ان سے مشورہ نہ لیا جاتا تھا یا ان کا مشورہ قبول نہ کیا جاتا تھا تو ان کے تیور بدلنے شروع ہوجاتے تھے کہ اہل الرائے تو ہم ہیں اور مشورہ نعوذباللہ بے وقوف اور جاہل لوگوں کا مانا جاتا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر حضرت صاحب کی یہ بات مشورہ کے طور پر ہی تھی تو پھر بھی آپ کو حسد میں جلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت صاحب خدا کی طرف سے مامور تھے انہوں نے جس سے چاہا مشورہ لیا اور جس سے چاہا نہ لیا۔ حدیث کھول کر دیکھئے کیا کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے مشورہ نہ لیتے تھے؟ کیا صلح حدیبیہ کے وقت آپ نے ایک بڑے اہم امرمیں سارے اہل الرائے صحابہ کو چھوڑ کر صرف اپنی بیوی ام سلمہ سے مشورہ نہیں لیا؟ اور کیا ام سلمہ کے اس مشورہ سے آئمہ حدیث نے عورتوں سے اہم امور میں مشورہ لینے کا جواز نہیں نکالا۔ اور کیا امام قسطلانی نے اس مشورہ کے متعلق یہ نوٹ نہیں لکھا کہ فیہ فضیلۃ ام سلمۃ ووفور عقلھا۔ یعنی اس واقعہ سے امّ سلمہ.6ؓ کی فضیلت اور کمال دانشمندی ثابت ہوتی ہے۔ پھر کیا آپ نے اپنی بیوی عائشہؓ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم نصف دین اس سے سیکھو۳۲؎۔ گویا نہ صرف خود اپنی بیویوں سے مشورہ لیا بلکہ امّت کو بھی حکم دیا کہ ان سے مشورہ لیا کرو۔ اندریں حالات اگر حضرت صاحب نے اپنی بیوی سے کسی امر میں مشورہ لے لیا تو حرج کون سا ہوگیا۔ اور وہ کون سا شرعی حکم ہے جس کی نافرمانی وقوع میں آئی؟ کیا نبی کی بیوی جو دن رات اس کی صحبت اور تربیت سے مستفید ہوتی ہے اور نبی کے بعد خدائی نشانات کی گویا سب سے بڑی شاہد ہے مشورہ کی بالکل نااہل سمجھی جانی چاہیئے۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشرب رفقاء بڑے بڑے اہل الرائے جن کے مشورہ کے بغیر کوئی قومی کام سرانجام نہیں پاسکتا؟ اگر یہی تھا تو نعوذ باللہ خدا نے سخت غلطی کھائی کہ حضرت صاحب کو بار بار یہ الہام فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ۳۳؎ ۔ یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوستوں کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ میں واقعی حیران ہوں کہ آخر کس بنا پر ڈاکٹر صاحب نے یہ خیال قائم کیا ہے کہ نبی کی بیوی اہم امور میں مشورہ کی اہل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے تھے اور پھر صحابہ کبار بڑے بڑے مسائل میں اپنی بیویوں سے مشورہ پوچھتے تھے۔ اور ان میں سے بعض کی قوت استدلال واستخراج کا خصوصیت کے ساتھ لوہا مانتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ کان اکابر الصحابۃ یرجعون الیٰ قولھا ویستفتونھا ۳۴؎ یعنی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کے قول کی طرف رجوع کرتے اور ان سے فتویٰ پوچھتے تھے۔ دراصل حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ کسی نبی کی بیوی کو خصوصیت کے ساتھ بلید اور ایک موٹی سمجھ کی عورت سمجھا جائے بالعموم اس کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کی لمبی صحبت اور ہر وقت کی تربیت نے اس میں وہ اہلیت پیدا کردی ہوگی جو بہت سے دوسرے لوگوں میں نہیں پائی جاتی۔ اور اس لئے وہ اس بات کی اہل مانی جائے گی کہ مشورہ طلب امور میں اس کی رائے پوچھی جائے۔ باقی ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ:-
’’اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامورمن اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعدجماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑا دینے کو تیار تھا حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ یا تو پرلے درجہ کی جہالت اور یا پرلے درجہ کی بے انصافی اور سینہ زوری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شروع سے ہی یہ افسوس ناک عادت رہی ہے کہ ایک بات اپنی طرف سے فرض کرتے ہیں اور پھر اس پر بڑے فخریہ لہجے میں اعتراض جمانا شروع کردیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ میں نے یہ کب لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ گویا دوزانو ہوکر حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے بیٹھ گئے تھے؟ کہ جو کہو میں اس پر عمل کروں گا۔ اور ہرگز’’ استعداد اور قابلیت پر غور نہیں کروں گا۔ ‘‘ اور’’نہ کچھ سوچوں گا اور نہ سمجھوں گا‘‘بس جس طرح تم اس معاملہ میں مجھے کہوگی اسی طرح کردوں گا۔ بلکہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ ’’صرف ایک اشارہ کافی ہے۔‘‘ اور میں تعمیل کے لئے حاضر ہوں اور ’’جس شخص کے متعلق کہو اس کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ ڈوری دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ اگر میں نے یہ الفاظ یا اس مفہوم کے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے قریب کی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے دور کی بھی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ کہے یا لکھے ہوں تو میں مجرم ہوں اور اپنے اس جرم کی ہر جائز سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اگر میں نے یہ الفاظ نہیں کہے اور میرا خدا گواہ ہے کہ یہ الفاظ کہنا تودرکنار ان الفاظ کا مفہوم تک بھی میرے دل ودماغ کے کسی دوردراز کونے میں پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ کسی عقلمند کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے۔ توڈاکٹر صاحب اس خدا سے ڈریں جس کے سامنے وہ ایک دن کھڑے کئے جائیں گے۔ اور اپنی ان دل آزار شوخیوں کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ وہ کسی حساب میں نہیں۔ خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور نہ اس کے حساب سے کوئی چیز باہرہے۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔۳۵؎٭
بات نہایت صاف اور معمولی تھی کہ حضرت صاحب نے کسی انگریز کے سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پوچھتا تھاکہ جس طرح وہ لوگ جنہوں نے بڑے کاموں کی بنیاد ڈالی ہوتی ہے اپنے بعد اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں۔ کیا اس طرح میں نے بھی کوئی اپنا قائمقام مقرر کیا ہے اور پھر یہ ذکر کرنے کے بعد آپ نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں کریں۔ اب اس بات پر یہ شور وپکار پیدا کرنا کہ لیجیئودوڑیو اندھیر ہوگیا سارے سلسلہ کا انتظام بیوی کے ہاتھ میں دیا جارہا ہے اور قطعاً کوئی اہلیت اورقابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کے معاندانہ تخیل کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قطعاً غور سے کام نہیں لیا۔ اور خوامخواہ اعتراض پیدا کرنے کی راہ اختیار کی ہے۔
اولؔ تو روایت کے اندر کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ بات مشورہ حاصل کرنے کے لئے کی تھی۔ بسااوقات ہم دوسرے سے ایک بات پوچھتے ہیں اور اس میں قطعاً مشورہ لینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس طرح گفتگو کا سلسلہ جاری کرکے خود اپنے کسی خیال کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور یا محض دوسرے کا خیال معلوم کرنے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے۔ یعنی صرف دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کیا خیال رکھتا ہے اور یا بعض اوقات جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے دوسرے کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملہ میں درست رائے رکھتا ہے یا نہیں تاکہ اگر اس کی رائے میں کوئی خامی یا نقص ہو تو اس کی اصلاح کردی جائے۔ اور ان تینوں صورتوں میںسے ہر اک صورت یہاں چسپاں ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء ہو کہ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع کرکے اشارۃً اپنے خیال کا اظہار فرمائیں کہ میری رائے میں محمود میرا جانشین ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے سوال سے محض حضرت والدہ صاحبہ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں اور بس۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو حضرت والدہ صاحبہ کی تعلیم مقصود ہو۔ یعنی یہ ارادہ ہو کہ اگر ان کی طرف سے کسی غلط رائے کا اظہار ہو تو آپ اس کی اصلاح فرمائیں اور اس حقیقت کو ظاہر فرمائیں۔ کہ خلافت کے سوال کو کلیۃً خدا پر چھوڑ دینا چاہیئے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔ اور تعجب ہے کہ
٭:مطبوعہ الفضل ۳۱ اگست ۱۹۲۶ء
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اس تیسری صورت کو تسلیم کرنے کے باوجود پھر نہایت بے دردی کے ساتھ دوسری فرضی باتوں کو درمیان میں لاکر دل آزار جرح کا طریق اختیار کیا ہے اور محض بلاوجہ انجمن اور خلافت کا جھگڑا شروع کردیا ہے۔ اور بزعم خود حضرت میاں صاحب کی ناقابلیت کو اعتراض کا نشانہ بناکر اپنے قلب سوزاں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا پر معاملہ چھوڑنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فلاں شخص خلیفہ نہ بنے بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تعیین کا اظہار نہیں کرتے بلکہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جسے پسند کرے گا اس کی طرف اپنے تصرف خاص سے لوگوں کے قلوب خود بخود پھیردے گا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں متعدد مرتبہ اشارات کرنے کے پھر بالآخر معاملہ خدا پر چھوڑدیا اور صراحتہً یہ حکم نہیں فرمایا کہ ابوبکر میرے بعدخلیفہ ہوگا۔ لیکن خدا کے تصرف خاص نے آپ کے بعد ابوبکر کو ہی خلیفہ بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات پورے ہوئے ۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ اس قسم کے اشارات دینے کے باوجود کہ آپ کے بعد معاً یا کچھ وقفہ سے حضرت میاں صاحب کی خلافت ہوگی۔ پھر معاملہ خدا پر ہی چھوڑا اور خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق اپنے وقت پر حضرت میاں صاحب کی خلافت کو قائم کیا۔
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سوال حضرت والدہ صاحبہ سے کیا اس سے مراد حضرت والدہ صاحبہ کا امتحان تھا تو اس صورت میں بھی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے سمجھا ہے اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت میاں صاحب کی خلافت نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر کوئی منشاء ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ اس معاملہ کو خدا کے تصرف پر چھوڑنا چاہیئے اور اپنے حکم کے ذریعہ سے اس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ اور دراصل خدا پر چھوڑنے میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور وہ کام جو خدا کا منشاء ہوتا ہے وہ خود لوگوں کی رائے سے تصضیہ پاجائے۔ چنانچہ ایسے موقع پر خدا تعالیٰ لوگوں کے قلوب پر ایسا تصرف کرتا ہے کہ وہ اسی شخص کے حق میں رائے دیتے ہیں جو خدا کی نظر میں اس کا اہل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ گو بظاہر صورت لوگ خلیفہ کاانتخاب کرتے ہیں لیکن اس انتخاب کے وقت لوگوں کے قلوب خدا کے خاص تصرف کے ماتحت کام کررہے ہوتے ہیں۔ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے بھی خلفاء راشدین ہوئے ہیں ان سب کی خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش از وقت علم تھا۔ چنانچہ آپ کے اقوال میں صریح طور پر اس قسم کے اشارات موجود ہیں لیکن بایں ہمہ آپ نے اپنے حکم کے ذریعہ سے کسی کی خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ خدا پر اس معاملہ کو چھوڑ دیا۔ اور پھر خدا نے اپنے تصرف خاص سے ایسا انتظام فرمایا کہ لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ سے وہی لوگ مسند خلافت پر قائم ہوتے گئے جن کی کہ پیش از وقت اس نے اپنے رسول کو خبر دی تھی۔
پس خدا پر چھوڑنے کے یہی معنی ہیں کہ ہونا تو وہی ہے جو خدا کا منشاء ہے اور جس کی عموماً پیش ازوقت اس نے اپنے رسول کو خبردے دی ہوتی ہے۔ لیکن جس طرح خدا کے ہر امر میں ایک اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس معاملہ میں یہ اخفاء کا پردہ رکھا جاتا ہے کہ خدا خود پس پردہ رہ کر لوگوں کی رائے کے ذریعہ سے اپنے ارادہ کو پورا فرماتا ہے۔ اور یہی وہ خلافت کا راز ہے جسے ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں نے نہیں سمجھا اور فتنے کی رو میں بہہ گئے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر وہ گفتگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے والدہ صاحبہ کے ساتھ فرمائی اس سے مشورہ حاصل کرنا مقصود نہ تھا تو اس کی تین غرضیں عقلاً مانی جاسکتی ہیں۔
اولؔ یہ کہ حضرت صاحب کا یہ منشاء تھا کہ سلسلہ کلام شروع کرکے اپنے خیال کا اظہار فرمادیں جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارات فرمائے۔
دوسرےؔ یہ کہ آپ نے یہ گفتگو محض اس اردے سے کی تھی کہ والدہ صاحبہ کا خیال معلوم کریں کہ کیا ہے کیونکہ بعض اوقات محض دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک بات پوچھی جاتی ہے
اورتیسرےؔ یہ کہ آپ نے والدہ صاحبہ کے امتحان اور تعلیم کے لئے ایسا کیا تھا۔ تاکہ اگر وہ آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہیں کہ ہاں محمود کو مقرر کردیں توآپ ان کو اس حقیقت سے مطلع فرمائیں کہ گو واقعہ کے لحاظ سے محمود نے ہی اپنے وقت پر آپ کا خلیفہ بننا ہو۔ لیکن عام سنت اللہ کے مطابق اس سوال کو خدا کے تصرف پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ خود لوگوںکے انتخاب کے ذریعہ سے اپنے ارادے کو پورا فرمائے۔ مگر چونکہ حضرت والدہ صاحبہ کے جواب سے آپ سمجھ گئے کہ وہ اس نکتہ سے آگاہ ہیں اور جانتی ہیں کہ آپ نے وہی کرنا ہے جو خدا کا منشاء اور اس کی سنت ہے۔ اس لئے آپ مطمئن ہوکر خاموش ہوگئے۔ یہ تینوں صورتیں بالکل معقول اور حالات کے عین مطابق اور روایت کے اندرونی سیاق وسباق سے پوری موافقت رکھنے والی ہیں اور ان کو ترک کرکے ڈاکٹر صاحب کا دوسری فرضی باتوں میں پڑ جانا جن کو روایت کا سیاق وسباق اور دیگر حالات ہرگز برداشت نہیں کرتے صرف ڈاکٹر صاحب کی اس دلی مہربانی کا ایک کرشمہ ہے جو وہ ہمارے حال پر رکھتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسرا پہلو ا س روایت کا یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ گفتگو فرمائی تواس سے آپ کی غرض مشورہ طلب کرنا تھی یعنی آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت والدہ صاحبہ سے مشورہ حاصل کریں کہ اس معاملہ میں کیا کرنا مناسب ہے۔ سو اس صورت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گوروایت کے الفاظ اور دیگر حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی غرض کوئی باقاعدہ مشورہ حاصل کرنا نہ تھی لیکن اس بات کو امکانی طور پر تسلیم کرتے ہوئے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت صاحب نے مشورہ کے طریق پر ہی یہ گفتگو فرمائی ہو پھر بھی ہرگز اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ سراسر ظلم ہے کہ انہوں نے مشورہ کی حقیقت اور اس کی غرض وغایت کو سمجھنے کے بغیر یونہی ایک اعتراض جمادیا ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر صاحب کی یہ ایک سخت غلطی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مشورہ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ بہرصورت قبول کیا جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس مشورہ کے مطابق عملدرآمد کرے۔ یہ وہ خطرناک غلطی ہے جو ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کی اصل بنیاد ہے حالانکہ ہر وہ شخص جو قوانین تمدّن اور فن سیاسیات سے آشنا ہے بلکہ ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت غور وفکر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال سراسر غلط اور بودا ہے۔ مشورہ لینے والے کے لئے ہرگز ہرگز یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بہر صورت مشورہ کو قبول ہی کرے۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’شَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْر.6ِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ۔۳۶؎
یعنی اے نبی لوگوں کے ساتھ مشورہ کرلیا کرو۔ اور جب مشورہ کے بعد کسی بات پر عزم کرلو تو پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘
اس آیت میں یہ صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مشورہ کی پابندی ضروری نہیں اور مشورہ کے بعد مشورہ لینے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بات کے متعلق اسے اطمینان اور شرح صدر پیدا ہو اس پر قائم ہوجائے۔ سیاسیات میں بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی افسران کے ساتھ مشورہ دینے والی مجلسیں ہوتی ہیں۔لیکن ان افسروں کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر مفاد ملکی کے ماتحت ضروری خیال کریں تو اپنی ذمہ داری پر ان کے مشورہ کو ردّ کردیں۔ تمدنیات میں بھی دوست دوست بھائی بھائی باپ بیٹے خاوند بیوی وغیرہ کے باہم مشورہ ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن مشورہ لینے والا کبھی اس بات کا پابند نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بہرصورت مشورہ کو قبول کرے۔ بلکہ مشورہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف دماغوں کے غور وفکر کے نتیجہ میں بات کے تمام پہلو واضح ہوجائیں۔اور کسی امر کے حصول کے لئے جو مختلف تجاویز اختیار کی جاسکتی ہوں وہ سب سامنے آکر اس بات کے فیصلہ کا موقع ملے کہ ان میں سے کونسی تجویز اختیار کئے جانے کے قابل ہے۔ ایک اکیلا آدمی جب کسی بات کے متعلق سوچتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو بعض اوقات بات کا کوئی نہ کوئی پہلو اس کی نظر سے مخفی رہ جاتا ہے لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو مشورہ میں شریک کرتا ہے تو خواہ وہ لوگ اس سے لیاقت میں کم ہی کیوں نہ ہوں باہم مشورہ سے بات کے کئی مخفی پہلو سامنے آجاتے ہیں اور کئی باتیں جو اس کے ذہن میں نہیں آئی ہوتیں دوسروں کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اور اس طرح مشورہ لینے والے کو مختلف تجویزوں اور مختلف پہلوئوں کے درمیان ٹھنڈے دل سے موازنہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس مشورہ اس غرض کے لئے نہیں ہوتا کہ مشورہ لینے والا دوسروں کے ہاتھ میں اپنے معاملہ کو دے دیتا ہے کہ اب جس طرح کہو اسی طرح میں عمل کروں۔ بلکہ مشورہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ مختلف دماغوں کے کام میں لگنے سے معاملہ زیر غور کے متعلق حسن وقبح کے مختلف پہلو سامنے آجائیں اور پھر مشورہ لینے والا آسانی کے ساتھ موازنہ کرکے کسی ایک رائے پر قائم ہوسکے۔
مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے میری روایت کو کھول کر دیکھا جائے۔ اس میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت والدہ صاحبہ سے یہ دریافت کیا تھا کہ تمہارا اس معاملہ میںکیا خیال ہے اور بس۔ اب اس سے ڈاکٹر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے گویا خلافت کا سارا معاملہ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا صاف یہ ظاہر کررہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مشورہ لینے کے یہ معنی ہیں کہ مشورہ لینے والا مشورہ کا پابند ہوجاتا ہے واِلاّ اگر ان کا ایسا خیال نہ ہوتا تو وہ محض مشورہ طلب کرنے کا ذکر پڑھنے پر یہ واویلا نہ شروع کردیتے کہ دیکھو بیوی کے ہاتھ میں خلافت کا معاملہ دے دیا گیا ہے۔ خوب غور کرلو کہ محض مشورہ مانگنے کا ذکر پڑھنے پر ڈاکٹر صاحب کا یہ آہ وپکار کرنا کہ:-
’’ اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامور من اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعد جماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑادینے کو تیار تھا۔ حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ صاف ظاہر کررہا ہے کہ یا تو ان الفاظ کا لکھنے والا مشورہ کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہے اور یا ہماری عداوت میں اس کا دل ایسا سیاہ ہوچکا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ محض ایک غلط نتیجہ نکال کر اور میری طرف وہ بات منسوب کرکے جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی خلق خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ گفتگو مشورہ کی غرض سے ہی تھی تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ آپ نے اپنے ایک دلی مونس اور رفیق دیرینہ کی رائے معلوم کرنی چاہی تھی۔ تا کہ اگر وہ مفید ہو اور قابل قبول ہو تو آپ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ نہ یہ کہ آپ کا یہ منشاء تھا کہ بس جو کچھ بھی حضرت ام المومنین کے منہ سے نکلے اس کے آپ پابندہوجائیں گے اور اپنے فکروغور سے ہرگز کوئی کام نہیں لیں گے اور نہ ہی دعا او راستخارہ سے خدائے علیم وقدیر سے استعانت فرمائیںگے۔ یہ محض ایک جہالت کا استدلال ہے جس کی نہ معلوم ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ نے انہیں کس طرح اجازت دی ہے۔ اگر یہ مشورہ ہی تھا تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشورہ کے تمام لوازمات کو پورا فرمایا ہوگا۔ یعنی جہاں ایک طرف آپ نے مشورہ کیا تھا وہاں ساتھ ہی اپنے غور وفکر سے بھی کام لیا ہوگا۔ دعائیں بھی فرمائی ہوں گی اور استخارے بھی کئے ہوں گے۔ اور پھر وہی کیا ہوگا جس پر بالآخر آپ کو شرح صدر حاصل ہوا ہوگا۔ یعنی یہ کہ خلافت کے معاملہ کو خدا پر چھوڑدیا جائے۔ تاکہ وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق خود اپنے تصرّف خاص سے لوگوں کے قلوب کو اس شخص کی طرف پھیردے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر سوائے چند اشخاص کے ساری جماعت جمع ہوگئی۔ اور پھر ان کے بعد حضرت میاں صاحب کو خدا نے اس مقام کے لئے منتخب فرمایا اور جماعت کے قلوب کو ان کی طرف جھکا دیا اور سوائے ایک قلیل گروہ کے سب نے ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا۔ اور ہزاروں نے رؤیا اور کشوف اور الہام کے ذریعہ تحریک پاکر بیعت کی۔
الغرض خواہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کو مشورہ کے رنگ میں سمجھا جائے اور خواہ دوسرے رنگ میں خیال کیا جائے ہرگز کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اور مجھے سخت حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ضمیر نے کس طرح یہ اجازت دے دی کہ ایک صاف اور سادہ بات کو بگاڑ کر ایک ایسا نتیجہ نکالیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا اور کوئی عقل مند آدمی جس کی آنکھوں پر تعصّب اور عداوت کی پٹی بندھی ہوئی نہ ہو ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا۔ جو میں نے لکھے تھے۔ اور اس موقع پر میں اس افسوس کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس اعتراض میں حضرت والدہ صاحبہ کے ادب واحترام کو بھی کماحقہٗ ملحوظ نہیں رکھا۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ جس لب ولہجہ میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کیا ہے اس لب ولہجہ میں وہ کبھی اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
اس صورت میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حرم کا جسے خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اُم المومنین کے مقدس نام سے یاد کیا ہے، اس قدر احترام۔وادب نہ ہو جیسا کہ ان کو اپنی والدہ کا ہے۔ میں اس امر کے متعلق زیادہ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ ڈرتا ہوں کہ میرے متعلق ذاتیات کا الزام نہ قائم کردیا جائے مگر مجھے اس کا افسوس ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر غیرت مند احمدی کو اس کا افسوس ہونا چاہیئے۔٭
تیسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی سے پیش فرمائی ہے، وہ مولوی شیر علی صاحب کی ایک روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ چند لوگ جن میں خود مولوی صاحب بھی تھے اور غالباً مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے آپ کے مکان کے اندر گئے۔ اس وقت آپ نے چند خربوزے انہیں کھانے کے لئے دیئے۔اتفاق سے جو خربوزہ مولوی شیر علی صاحب کو دیا وہ بڑا اور موٹا تھا آپ نے یہ خربوزہ مولوی صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں یہ کیسا ہے پھر خود مسکراتے ہوئے فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ خربوزہ بھی پھیکا ہی ہوگا۔ چنانچہ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ خربوزہ پھیکا ہی نکلا۔
اس روایت کو نقل کرکے ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ایک عجیب خود ساختہ نتیجہ نکال کر بڑے فخریہ طور پر یہ اعتراض جمایا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’اس روایت میں خواجہ کمال الدین صاحب پرزدکرنی مقصود تھی۔ وہ موٹے تھے۔ اس لئے حضرت صاحب کی زبان سے ایک قاعدہ گھڑوایا گیا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ خواجہ صاحب منافق ہیں۔‘‘
میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں نے یہ روایت خواجہ صاحب پر زد کرنے کی غرض سے گھڑ کر بیان کی ہو تو میں اس *** سے بچ نہیں سکتا جو خدا کے ایک مامور ومرسل پر افترا باندھنے والے پر پڑتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی خدائے غیّور کے
٭:مطبوعہ الفضل ۳ ستمبر۱۹۲۶ء
سامنے ہیں۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ اس اعتراض میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے انتہائی بغض وعداوت سے کام لے کر مجھ پر یہ خطرناک الزام لگایا ہے کہ خواجہ صاحب پر زد لگانے کی نیت سے میں نے یہ روایت خود اپنی طرف سے گھڑکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کردی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے ظلم کی انتہا ہے مگر میں کچھ نہیں کہتا۔ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللَّہِ۳۷؎ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے لگادینے پر ہی بس نہیں کی بلکہ حسب عادت تمسخر اور استہزاء سے بھی کام لیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’جامع الروایات کو فکر پڑی کہ وہ خود بدولت بھی ایک حد تک موٹے ہیں۔ اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی موٹے تھے۔ میر ناصرنواب مرحوم موٹے تھے ایک زمانہ تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم موٹے تھے۔ میر محمد اسحاق موٹے۔ حافظ روشن علی موٹے۔ خود مولوی شیر علی راوی موٹے۔ اجی موٹوں کی تو ایک فہرست ہے جو گننے لگوں توخواہ نخواہ وقت ضائع ہو۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب وقت کی آپ فکر نہ فرمائیں آپ کا وقت ماشاء اللہ انہی باتوں کے لئے وقف ہے۔ اپنی طبیعت کے ان فطری بخارات کو ایک دفعہ دل کھول کر نکل جانے دیں۔ ورنہ یہ مادہ اگر یہاں دب گیا تو کہیں اور جا پھوٹے گا۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیںغلطی سے آپ کسی اپنے جیسے کو مخاطب کربیٹھے تو پھر خیر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اعتراض تو یہ ہے کہ میں نے یا مولوی شیر علی صاحب نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑلی ہے تاکہ خواجہ صاحب کو منافق ثابت کیا جائے۔ اس کا ایک جواب تو دے دیا گیا ہے۔ کہ اگر ہم نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑی ہے تو *** اللّٰہ علیٰ من افتریٰاور خواجہ صاحب کو منافق ثابت کرنے کے متعلق یہ جواب ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میری نیت ہرگز یہ نہ تھی کہ خواجہ صاحب یا کسی اور صاحب پر زد کی جائے۔ واللّٰہ علیٰ اقول شھید اور جب کہ خود ڈاکٹر صاحب بڑی مہربانی سے مجھے یہ بات یاددلاتے ہیں کہ میں خود ایک حدتک موٹاہوں تو پھر کون عقل مندیہ خیال کرسکتا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میرے دل میں کوئی ایسی نیت ہوسکتی ہے جو خود میرے ہی خلاف پڑتی ہو۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میرے دل میں خواجہ صاحب کی اس قدر عداوت بھری ہوئی ہے کہ میں ان کو منافق ثابت کرنے کے لئے خود اپنے ایمان پر بھی تبر رکھ سکتاہوں۔ میں نے تو صاف لکھ دیا تھا کہ درایتًہ حضرت صاحب کے اس قول سے یہ مراد نہیں ہوسکتا کہ موٹاپا اور منافقت لازم وملزوم ہیں۔ بلکہ مطلب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آرام طلبی وتعیش کے نتیجے میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو وہ عموماً ضرور ناقص الایمان ہوتا ہے۔ اب میرے اس نوٹ کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو فوراً خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر پڑجانا خواہ نخواہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی مثال یاد دلاتا ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ بقول ڈاکٹر صاحب یہ خاکسار جامع الروایات ایک حد تک موٹا اور مولوی شیرعلی صاحب راوی بھی موٹے لیکن ہم دونوں کو اس روایت کے بیان کرتے اور نقل کرتے ہوئے کوئی فکر دامنگیر نہیں ہوتا کہ لوگ ہمارے ایمانوں کے متعلق کیا کہیں گے۔ کیونکہ ہمیں تسلی ہے کہ ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں۔اور یہ کہ حضرت صاحب کے اس قول میں ہرگز کوئی عمومیت مقصود نہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا اس روایت کے پڑھتے ہی ماتھا ٹھنک جاتا ہے اور خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر دامنگیر ہونے لگتی ہے۔ بہرحال خواہ ڈاکٹر صاحب خواجہ صاحب کے ایمان کے متعلق کچھ ہی فتویٰ لگائیں مجھے اس روایت کے بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب کے ایمان پر زد کرنا مقصود نہ تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت سراسر بدظنی سے کام لے کر میری نیت پر ایک ناجائز حملہ کیا ہے۔
اس اعتراض کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اگر خواجہ صاحب پر زد کرنا مقصود نہیں تو پھر اس روایت کے بیان کرنے سے مطلب کیا تھا۔ اور کیوں ایسی لاتعلق بات داخل کرکے ناظرین کے وقت کو ضائع کیا گیا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہرگز لاتعلق نہیں اور ڈاکٹر صاحب چونکہ محبت کے کوچے سے ناآشناء اور سیرت کے اصول سے نابلد ہیں اس لئے ان کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہواہے۔ میں نے جہاں اپنے مضمون کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کے اصولی اعتراضات کا جواب دیا تھا وہاں یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ کے مفہوم کے متعلق سخت دھوکا لگا ہے اور انہوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ سیرۃ سے مرادیا تو زندگی کے بڑے بڑے واقعات ہیں اور یا ایسی خاص باتیں ہیں کہ جن سے اہم اخلاق وعادات کے متعلق بلاواسطہ روشنی پڑتی ہو۔ حالانکہ یہ درست نہیں اور سیرت کے مفہوم کو ایک بہت بڑی وسعت حاصل ہے جس میں علاوہ زندگی کے تمام قابل ذکر واقعات کے روزمرہ کی ایسی ایسی باتیں جن سے اخلاق وعادات کے متعلق کسی نہ کسی طرح استدلال ہوسکتا ہو۔ اور صاحب سیرت کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے سونے جاگنے چلنے پھرنے کام کاج کرنے دوستوں سے ملنے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات رکھنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے وغیرہ کے متعلق ہر قسم کی باتیں شامل ہیں۔ بلکہ فلسفہ اخلاق کے ماہرین جانتے ہیں کہ اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کرنے کے لئے زیادہ اہم واقعات کو چننا غلطی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر انسان عموماً تکلف وتصنع سے کام لیتا ہے اور اس کی اصل طبیعت وعادات پردہ کے پیچھے مستور رہتی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہیں بسا اوقات ایک ناواقف آدمی قابل ذکر بھی نہیں سمجھتا وہی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان سے اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کیا جاوے کیونکہ ان میں انسان کے اخلاق وعادات کی تصویر ہر قسم کے تصنع وتکلف کے لباس سے عریاں ہوکر اپنی ننگی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ مثال کے طورپر دیکھ لیجئے کہ اگر ایک باقاعدہ جلسہ ہو اور اس میں اپنے اور بیگانے ہر قسم کے لوگ جمع ہوں تو اس کے اندر ایک لغو اور بیہودہ شخص بھی حتی الوسع سنبھل کر بیٹھے گا اوراپنی ہرحرکت وسکون میں خاص احتیاط سے کام لے گا تاکہ اس کے متعلق لوگ کوئی بُری رائے نہ قائم کریںلیکن وہی شخص جب اپنے گھر میں ہوگا اور اپنے واقفوں اور ملنے والوں میں بیٹھے گا تو پھر تمام تکلفات سے جدا ہوکر اس کے اخلاق وعادات کی ننگی تصویر ظاہر ہونے لگے گی۔ پس اخلاق وعادات کے استدلال کے لئے روزمرہ کی نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کو چننا چاہیئے نہ کہ خاص خاص موقعوں کی اہم باتوں کو۔ اسی لئے جو لوگ فن سیرۃ میں ماہر گذرے ہیں انہوں نے ایسی ایسی چھوٹی اور بظاہر ناقابل ذکر باتوں کو لیا ہے کہ ناواقف آدمی کو حیرت ہوتی ہے مگر دانا جانتاہے کہ یہی صحیح رستہ ہے۔
اب اس اصل کے ماتحت دیکھا جائے تو کوئی عقل مند میری اس روایت کو لاتعلق یا ناقابل ذکر نہیں کہہ سکتا۔ میری روایت کیا ہے؟ یہی نا کہ چند احباب اپنی روزمرہ کی ملاقات کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور حضرت چونکہ کسی وجہ سے باہر تشریف نہیں لاسکتے ان کو اپنے پاس گھر کے اندر ہی بلا لیتے ہیں۔ اور پھر کچھ خربوزے ان کے سامنے کھانے کے لئے رکھتے ہیں۔ بلکہ دوستانہ بے تکلفی کے طریق پر ایک ایک کے ہاتھ میں الگ الگ خربوزہ دیتے ہیں۔ اور دیتے ہوئے مسکرا کر کچھ ریمارک بھی فرماتے جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف رکھتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ بتائیں کہ کیا یہ ایک لاتعلق روایت ہے؟ کیا اس روایت سے حضرت صاحب کی مجلس کا طریق اور آپ کا اپنے خدام کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور ان سے محبت وبے تکلفی کی باتیں کرنے کا طریق ظاہر نہیں ہوتا؟ کیا اس روایت سے آپ کے اخلاق وعادات کی سادگی اور بے تکلفی پر کوئی روشنی نہیں پڑتی؟ ان سوالات کے جواب کے لیئے مجھے کسی ثالث کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا اپنا نورضمیر اگر وہ بجھ کر مٹ نہیں چکا اس ثالثی کے لئے کافی ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا ۔ ع
اگر درخانہ کس است حرفے بس است
باقی رہا محبت کا میدان سو اس کے متعلق کیا عرض کروں اور پھر کروں بھی تو کس سے کروں؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس کوچے کے محرم نہیں۔ ان کے مضمون سے مجھے خشک نیچریت کی بو آتی ہے۔ ہاں اگر ڈاکٹر صاحب محبت کے ذوق سے شناسا ہوتے تو میں عرض کرتا کہ ذرا احادیث نبوی کو کھول کر مطالعہ فرمائیں کس طرح صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول وفعل ہرحرکت و سکون کو عشق ومحبت کے الفاظ میں ملبوس کرکے بعد میں آنے والوں کے لئے جمع کردیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی موقع پر صحابہ کے سامنے کھانا کھاتے ہیں۔ اور گوشت میں کدو پک کر سامنے آتا ہے اور آپ کدو کے ٹکڑے شوق سے نکال نکال کر تناول فرماتے ہیں۔ صحابہ کے لئے اس نظارہ میں بھی عشق ومحبت کی غذا ہے وہ جھٹ احادیث نبوی کے مجموعہ میں اس روایت کو داخل کرکے اس محبت کی دعوت میں ہمیں بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔
اس قسم کی روایتیں احادیث نبوی میںایک دو نہیں دس بیس نہیں پچاس ساٹھ نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں۔ اور اہل دل اس سے محبت وعشق کی غذا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن میں اگراس قسم کی کوئی روایت اپنے مجموعہ میں درج کردیتا ہوں تو مجرم سمجھا جاتا ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب میرے اس ناقابل معافی جرم کو پبلک کی عدالت کے سامنے لاکر مجھے ذلت وبدنامی کی سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ اچھا یونہی سہی۔ ع
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
ایک اعتراض اور دراصل اس روایت کے متعلق سارے اعتراضوں میں سے اکیلا سنجیدہ اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ یہ بات حضرت صاحب کے طریق واخلاق کے خلاف ہے کہ آپ نے ایک ایسی مجلس میں جس میں ایک موٹا آدمی بھی بیٹھا ہو، ا س قسم کے الفاظ فرمائے ہوں کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اعتراض ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی حضرت صاحب کا طریق ہرگز ایسا نہ تھا کہ مجلس میں اس قسم کی کوئی بات کریں کہ جو کسی کا دل دکھانے والی ہو یا جس میں صریح طور پر کوئی شخص اپنے متعلق اشارہ سمجھے مگر ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ موجودہ روایت کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے اس طریق کی رو سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو روایت کے الفاظ میں اس مجلس کے اندر خواجہ کمال الدین صاحب کی موجودگی کو ’’غالباً‘‘کے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔جس کے یہ معنی ہیں کہ راوی کو خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے کے متعلق یقین نہیںہے بلکہ شک ہے اور کوئی عقل مند ایک غیر یقینی بات پر اپنے اعتراض کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس لفظ کو بالکل نظر انداز کر کے ایسے طور پر اعتراض پیش کیا ہے کہ گویا راوی کے نزدیک خواجہ صاحب کا اس مجلس میں موجود ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ خواجہ صاحب وہاں موجود نہ ہوں۔
بہرحال جبکہ روایت کی روسے خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے اور نہ ہونے ہر دو کا احتمال موجود ہے تو ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کسی عقل مند کے نزدیک قابل توجہ نہیں سمجھا جاسکتا۔دوسرےؔ یہ کہ غالباً ڈاکٹر صاحب بھول گئے ہیں کہ خواجہ صاحب موصوف ہمیشہ سے اسی طرح کے موٹے اور فربہ نہیں چلے آئے بلکہ اوائل کے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ شروع میں خواجہ صاحب ایک درمیانے جسم کے آدمی تھے۔ چنانچہ غالباً خود خواجہ صاحب اس امر کی شہادت دے سکیں گے کہ ان کے والد صاحب مرحوم یعنی جناب خواجہ عزیزالدین صاحب کبھی کبھی ہنستے ہوئے پدرانہ آزادی کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’خواجہ پشاورکے سنڈوں کا گوشت کھاکھا کر خود بھی سنڈا ہوگیا ہے۔‘‘ جس سے ظاہر ہے کہ وکالت کے لئے پشاور جانے سے قبل اور نیز پشاور کے ابتدائی ایام میں خواجہ صاحب اس تن و توش کے آدمی نہ تھے۔ الغرض جناب خواجہ صاحب ہمیشہ سے ہی اس فربہی کے مالک نہیں رہے۔ اور اس لئے بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو روایت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کی ہے وہ اس زمانہ کی ہو جب کہ خواجہ صاحب زیادہ موٹے آدمیوں میں شمارنہ ہوتے ہوں۔ جیساکہ خود ہمارے محترم راوی صاحب بھی ان دنوں میں جسم کے ہلکے ہوتے تھے۔ مگر بعد میں جسم بھاری ہوگیا۔ تیسراؔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ آپ مجلس میں کوئی ایسا ریمارک نہیں فرماتے تھے کہ جو کسی کا دل دکھانے والا ہو لیکن جس قسم کی مجلس کا روایت کے اندر ذکر ہے وہ ایک ایسے لوگوں کی مجلس تھی جو عموماً حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ اور آپ کے طریق واخلاق وعادات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور حضرت صاحب بھی ان کے ساتھ بہت بے تکلفی کے ساتھ ملتے اور گفتگو فرماتے تھے اور یہ لوگ ویسے بھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھے۔
پس ایسی مجلس کے اندر حضرت صاحب نے اگر وہ الفاظ فرمادیئے ہوں کہ جن کا روایت میں ذکر آتا ہے تو ہرگز قابل تعجب نہیں۔ کیونکہ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ یہ لوگ میرے صحبت یافتہ اور میرے طرزوطریق سے واقف اور فہمیدہ لوگ ہیں اس لئے وہ میرے الفاظ سے کوئی ایسا مفہوم نہیں نکالیں گے کہ جو غلط ہو اور میرے طریق کے خلاف ہو۔ چنانچہ اس وقت کے حاضرین مجلس میں سے کسی کو اس طرف خیال تک نہیں گیا کہ حضرت صاحب نے نعوذباللہ کوئی دل آزار بات کہی ہے۔ بلکہ سب یہی سمجھے کہ آپ کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ محض بدن کا موٹا ہونا منافقت کی علامت ہے خواہ وہ کسی وجہ سے ہو۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ آرام طلبی اور تعیش وغیرہ کے نتیجہ میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو اس کے ایمان میں نفاق کی ضرور آمیزش ہے اور چونکہ اس وقت سب حاضرین اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھتے ہوں گے کہ اگر ہم میں سے کوئی موٹا بھی ہے تو وہ تعیش کے نتیجہ میں موٹا نہیں ہوا۔ اس لئے کسی کے دل میں حضرت صاحب کی یہ بات نہیں کھٹکی۔
ڈاکٹر صاحب ضد کی وجہ سے انکار کردیں تو الگ بات ہے ورنہ یقینا وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ بسااوقات ایک لفظ مطلق استعمال کیا جاتا ہے لیکن دراصل وہ مقید ہوتا ہے اور بعض غیر مذکور شرائط کے ماتحت اس کے وسیع معنی مقصود نہیں ہوتے او راس بات کا پتہ قرائن سے چلتا ہے کہ یہاں یہ لفظ اپنے کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن شریف وحدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
چنانچہ اگر ڈاکٹر صاحب اصول فقہ کی کوئی کتاب مطالعہ فرمائیں تو ان کو میرے اس بیان کی تصدیق مل جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر راوی کے شک کو نظر انداز کرتے ہوئے یہی مان لیا جائے کہ خواجہ صاحب اس مجلس میں ضرور موجود تھے اور پھر واقعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ وہ اس وقت بھی موٹے تھے تو پھر بھی اس روایت کے ماننے سے کوئی حرج لازم نہیں آتا۔ کیونکہ اس وقت حضرت صاحب کے سامنے وہ لوگ تھے جو روز کے ملنے والے تھے اور آپ کے طریق وعادات سے خوب واقف تھے اور حضرت صاحب کو بھی یہ حسن ظنی تھی کہ وہ واقف حال اور فہمیدہ لوگ ہیں۔ عام حالات میں میرے الفاظ سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالیں گے۔ پس ایسے لوگوں کے سامنے اگر حضرت صاحب نے آزادی سے وہ الفاظ فرمادیئے ہوں تو ہرگز قابل اعتراض نہیں۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ اس جگہ منافق سے مراد وہ منافق نہیں ہے جو دل میں تو کافر ہوتا ہے لیکن کسی وجہ سے ظاہر اپنے آپ کو مومن کرتا ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو دل میں بھی جھوٹا نہیں جانتا۔ لیکن اس کا ایمان اس درجہ ناقص ہوتا ہے کہ اس کے اعمال پر کوئی اثر نہیں کرسکتا۔ اور نہ غیروں کی محبت اس کے دل سے نکال سکتا ہے۔ دراصل قرآن شریف وحدیث سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کئی قسم کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کی حالت کو بھی حالت نفاق سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو ویسے تو دل سے ہی ایمان لاتا ہے اور اپنا ایمان ظاہر بھی کرتا ہے لیکن اس کا ایمان ایسا کمزور ہوتا ہے کہ اس کے اعمال وعادات عموماً غیرمومنانہ رہتے ہیں اور اس کا دل بھی غیروں کے تعلقات سے آزاد نہیں ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںایسے لوگ منافق سمجھے جاتے تھے لیکن موجودہ زمانہ میں چونکہ ایمان کا معیار بہت گرا ہوا ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو مومنین کی جماعت میں شمار کرلیا جاتا ہے اور منافق صرف اس شخص کا نام رکھا جاتا ہے کہ جو دل میں تو کافر ہو مگر ظاہر اپنے آپ کو مومن کرے۔
بہرحال جیسا کہ قرائن سے پتہ لگتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جو منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے ایسا شخص مراد ہے کہ جس کا ایمان اس کے اعمال پر اثر پیدا نہ کرسکے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو شعار اسلام کو ترک کرکے آرام طلبی اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے فربہ ہوتا جاتا ہو اس کا ایمان ضرور اس موخرالذکر قسم میں داخل سمجھا جاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم ولاعلم لنا الاما علمتنا۔٭
٭:مطبوعہ الفضل ۳ستمبر۱۹۲۶ء
حوالہ جات
۱۹۲۲ء
۱۔ البقرہ:۱۱۴
۲۔ المائدہ:۹
۳۔ البقرہ:۲۲۰
۴۔ مطبوعہ البدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۴ء
۵۔ سیرت المہدی صفحہ ۱
۶۔ سیرت المہدی صفحہ الف
۷۔ سیرت المہدی صفحہ ج
۸۔ سیرت المہدی پروف صفحہ ۱
۹۔کنزالعمال جلد ۱ الفصل الثانی فی فضائل امسور والآیات والبسملۃ۔
۱۰۔ سنن ابودائود۔ کتاب الجہاد۔ باب علی ما یقاتل المشرکون
۱۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث النبیؐ اسامۃ بن زید الی الحرقات من جھینۃ۔
۱۲۔ مفہوماً۔ صحیح البخاری۔ کتاب اللباس۔
۱۳۔ صحیح البخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب مایکرہ من النوم قبل العشائ۔
۱۴۔ صحیح المسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل عبداللہ بن عباسؓ
۱۵۔ الجاثیہ:۱۴
۱۶۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۷۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۸۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۵۳
۱۹۔ صحیح البخاری۔ کتاب الاذان۔ باب یستقبل الامام النَّاسَ اِذااسلم۔
۲۰۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب ھدایۃ ھٰذہٖ الامۃ لیومِ الجمعۃ۔
۲۱۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب فضل یوم الجمعۃ۔
۲۲۔ النحل:۴۹
۲۳۔ حٰمٓ السجدہ:۱۳
۲۴۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲ حاشیہ
۲۵۔ ملخص ؍؍ ؍؍ ؍؍ صفحہ ۲۸۰ حاشیہ
۲۶۔ الجاثیۃ : ۱۴
۲۷۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۸۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۹۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۴
۳۰۔ الاعراف:۱۵۷
۳۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللّٰہِ تعالٰی بل ھو قرآن مجید فی لوحٍ محفوظٍ۔
۳۲۔لسان العرب جلد زیرِ لفظ حَمَر.6َ
۳۳۔ تذکرہ صفحہ۳۵۷،۳۷۸،۳۹۳۔ طبع ۲۰۰۴ء
۳۴۔ مفہوماً۔ اسد الغابہ۔ جلد ۶۔ باب عائشہ بنت ابوبکر.6ؓ صفحہ۱۹۴۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ جلد ۴۔ باب النساء وَکناھُنَّ۔ صفحہ۴۳۷
۳۵۔ الشعرآئ:۲۲۸
۳۶۔ اٰل عمران:۱۶۰
۳۷۔ یوسف:۸۷
۱۹۲۷ء
برکات رمضان سے فائدہ اٹھائو
رمضان کا مہینہ کئی وجوہات سے ایک نہایت مبارک مہینہ ہے اور اس مہینہ میں سے خصوصا آخری عشرہ کے دن بہت برکت والے دن سمجھے گئے ہیں۔ احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور صدقہ وخیرات اور ذکر الٰہی اور اصلاح نفس کی طرف ایسے شوق وذوق کے ساتھ متوجہ ہوں کہ ان کی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہوجائے۔ اگررمضان کا مہینہ آئے اور بغیر ہمارے اندر کوئی انقلاب پیدا کرنے کے گذرجائے اور ہم جیسا کہ اس مبارک مہینہ سے قبل تھے ویسے ہی بعد میں رہیں تو ہم سے بڑھ کر زیادہ خسارہ میں اور کون ہوگا۔ پس دعائوں سے اور مجاہدہ سے اپنے قدم کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیئے اور خدا کے ان فضلوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیئے جو ان ایام میں اس کے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتے ہیں۔ اس دفع خدا کے فضل سے رمضان کی ستائیس تاریخ کو جمعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ جمع ہوجائیں تو وہ وقت بہت ہی مُبارک ہوتا ہے۔ پس ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھائو لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ باتیں منترجنتر کے طور پر نہیں ہیں کہ انسان خواہ اپنے اعمال اور خیالات میں کیسا ہی رہے کوئی خاص گھڑی اسے کامیاب کرسکتی ہے۔ بعض وقتوں میں بے شک خاص برکات کا نزول ہوتا ہے لیکن ان برکات سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اپنے اندر تغیر پیدا کرکے اپنے آپ کو ان فضلوں کا اہل بناتا ہے۔ کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ بارش اللہ تعالیٰ کا ایک خاص مادی فضل ہے لیکن جس زمین میں تخم گندہ ہوتا ہے اس کی روئیدگی بھی بارش کے بعد گند ی ہی ہوتی ہے۔ پس اپنے نفسوںکا محاسبہ کرکے دعا اور ذکر الٰہی مجاہدہ اور صدقہ وخیرات سے اپنے اندر ایک تغیر پیداکرو اور پھر یہ مُبارک گھڑیاں سونے پر سہاگہ کا کام دیں گی اور احباب کو چاہیئے کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح کے لئے دعائیں کریں اور ہر دعا کو حمد باری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے کے ساتھ شروع کریں اور اپنی دعائوں میں ایک زندگی پیدا کریں تاکہ وہ قبولیت کے مقام کو پہنچ سکیں اور میں اسلام اور احمدیت کی مقدس اخوت کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جن دو احمدیوں کے دلوں میں باہمی کدورت ہو یا جس جماعت کے افراد میں کوئی جھگڑا یا تنازعہ رُونما ہو وہ ان مبارک دنوں میں اپنے سینوں اور دلوں کو ایک دوسرے کی طرف سے صاف کرلیں اور صلح جوئی کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ کر سرعت کے ساتھ قدم اٹھائیں تاکہ پیشتر اس کے کہ خدا کے یہ مقدس دن ختم ہوکر عید کا چاند ہم پر طلوع ہو ہمارے سینے ہر قسم کی کدورتوں سے صاف ہوکر ایک دوسرے کی محبت سے معمور ہوجائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آسمان پر سے ہمیں دیکھ کر سرور حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
(مطبوعہ الفضل یکم اپریل ۱۹۲۷ئ)
نظارت تعلیم وتربیت کا ایک ضروری اعلان
مجلس مشاورت قریب آگئی ہے جس میں حسب دستور سابق ہر نظارت کی طرف سے مشورہ کے لئے ضروری امور پیش کئے جائیں گے۔ میں احباب سے اس بات میں مشورہ چاہتا ہوں خصوصاً سیکرٹریان تعلیم وتربیت سے کہ اس مشاورت میں جماعت کی تعلیم وتربیت کے متعلق کون سے امور پیش کئے جائیں۔ ایسے امور تجویز ہونے چاہئیں جو اصولی ہوں اور جماعت کی موجودہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے ان کی طرف توجہ کیا جانا ضروری ہو۔ احباب کی طرف سے مشورہ آنے پر میں نظارت تعلیم وتربیت کا ایجنڈا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کروں گا۔ چونکہ وقت بہت تنگ ہے جواب جلد آنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور تحریر کئے جاتے ہیں۔
(۱) بعض کمزور احمدی جو غیر احمدیوں کو رشتہ دے دیتے ہیں ان کی روک تھام کس طرح کی جانی مناسب ہے اور جو شخص باوجود کوشش کے باز نہ آئے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔
(۲) جو کمزور لوگ احمدیوں میں سے شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو ظاہری شعار سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً ڈاڑھی کا رکھنا، ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیئے اور کس حد تک حجت پوری ہونے کے بعد۔
(۳) کیا تبلیغی وفود کی طرح تعلیم وتربیت کے وفود کو ملک میں دورہ کے لئے بھیجنا مناسب ہے اگر مناسب ہے تو ان وفود کا کس طریق پر اور کس موسم میں انتظام کیا جانا مناسب ہوگا۔
(۴) بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان وبورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان اور احمدیہ ہوسٹل لاہور میں جب احمدی بچوں کا بقایا ہوجاتا ہے اور والدین باوجود تقاضوں کے بقایا ادا نہیں کرتے، ان کے ساتھ کیا طریق اختیار کیا جانا چاہیئے۔
(۵) وظائف تعلیمی جو نظارت تعلیم کی طرف سے دیئے جاتے ہیں ان کی تقسیم کے متعلق کیا اصول ہونا چاہیئے اور نیز جو طلباء بغیر اس کے کہ پہلے اپنے وظیفہ کی منظوری حاصل کریں، قادیان آجائیں اور یہاں اُس وقت گنجائش نہ ہو یا دوسرے زیادہ حقدار موجود ہوں تو ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے وغیرہ ذالک۔
(۶) جماعت میں پرائمری تعلیم کو عام کرنے کے لئے حتّٰی کہ کوئی احمدی ناخواندہ نہ رہے کیا تجویز کی جانی چاہیں۔
(مطبوعہ الفضل۸ اپریل ۱۹۲۷ئ)
سود کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کافیصلہ
مسلمان تجّارکی مشکلات کا حل
یوں تو بعض صورتوں میں سودی روپے کے اشاعت اسلام میں خرچ کئے جانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ فتاویٰ احمدیہ میں شائع ہوچکاہے اور اکثر احباب اس سے آگاہ ہوں گے لیکن حال میںہی حضرت اقدس کا ایک خط میاں غلام نبی صاحب سیٹھی مہاجر سے ملا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۸ء میں سیٹھی صاحب کو اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔ جبکہ وہ راولپنڈی میں تجارت کا کام کرتے تھے۔ اس خط سے چونکہ سود کے مسئلے کے متعلق بعض نئے پہلوئوں سے روشنی پڑتی ہے اور مسلمان تجار کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اس لئے احباب کی اطلاع کے لئے یہ خط شائع کیا جاتا ہے ۔ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:-
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ‘ونصلی علٰے رسولہ الکریم
مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوفِ الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کردے گا۔ اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریںبلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے، وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سُود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیّال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے۔ لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرّہ ذاتی نفع کے خداتعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے۔ یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے، جو چیز اُس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے ۔ بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو، وہ خداتعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوںکے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم اُن سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسِلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کواللہ تعالیٰ دیکھتاہے وہ جزا دے گا۔ ہاں ماسوااِس کے دُعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار: مرزا غلام احمدازقادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’سُود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے۔یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سُود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیاہے)خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے ۔کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اس خط سے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں:
نمبر(۱) سودی آمد کا روپیہ سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑجاوے تو اس کے واسطہ یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے۔ مسلمان تاجر جو آج کل گردوپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سُود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کرسکتے ہیں۔
نمبر(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپیہ سے الگ حساب رکھ کر جمع کرنا چاہیئے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اُس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے۔
نمبر(۳) سُود کاروپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اُسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے۔
نمبر(۴) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہوسکتا ہے۔ جن میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع واشاعت لٹریچرمصارف ڈاک وغیرہ ذالک۔
نمبر(۵) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جاسکتے ہیں جس کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضامندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں۔ یعنی ان کے حصُول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کانہ ہو۔ جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتاہے۔
نمبر(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوے کی مویدّ ہے۔
نمبر(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص اپنے آپ عمداً سُود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپیہ کا وارث بن جاوے۔
نمبر(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سُودکے لین دین کا قائم ہوگیاہے۔ اور جس کی وجہ سے فی زمانہ بغیرسودی لین دین میں پڑنے کے تجارت نہیں کی جا سکتی۔ وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینامذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا۔ کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کوجو ایک تاجر تھے اور اسی قِسم کے حالات اُن کو پیش آتے تھے، اس فتوے کے اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے۔ گویا حضرت صاحب کامنشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو غرض رعایت بنا کر کاروبار نہ کرے لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردوپیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے۔ تو اس میں مضائقِہ نہیں اور اسی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ سُود میں ملوث ہونے کے اندیشہ سے مسلمان تجارت چھوڑدیں۔ یا اپنے کاروبار کو معمولی دوکانوں تک محدود رکھیں۔ جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی۔ اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کرلیں۔
نمبر(۹) اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کو سود کے لئے بنک بھی جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں اگر مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے ۔ تو بشر طیکہ مذکورہ بالا حرج نہیں۔
نمبر(۱۰) جو شخص اس فتوے کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے۔ اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔
نمبر(۱۱) ایک اصولی بات اس خط میں موجود ہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے۔ اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایاہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کرلینی کافی ہے کہ آنکھیں کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے یہ نہیںکہ ان کے سامنے بالکل نہ آئے کیونکہ بعض صورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیئے کہ خدا سے دُعا کرتا رہے کہ وہ اُسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا تھاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے جو غیر محرم ہوتی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں۔اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کرتا تھاکہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں۔لیکن بڑے ہوکر سمجھ آئی کہ وہ دراصل اسی حکمت سے تھا۔
ایک بات حضرت صاحب کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ نازک وقت جو اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میںسب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے۔اس اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے دستخط کے صرف۔غ۔ کا حرف درج فرمایا۔جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں۔
(مطبوعہ الفضل یکم نومبر۱۹۲۷ئ)
شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو
گذشتہ مجلس مشاورت جو اپریل ۱۹۲۷ء میں قادیان میں منعقد ہوئی تھی۔اس میں ایک امر نظارتِ تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ بھی پیش ہوا تھا کہ جو احمدی کہلانے والے لوگ شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو انسان کے ظاہری شعار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیںمثلاًڈاڑھی کارکھنا غیرہ ذٰلک۔ ان کے متعلق کیا طریق اختیارکیاجائے۔ یعنی اگروہ باوجودباربارکی پندونصیحت کے ڈاڑھی نہ رکھیںتوآیاان کے متعلق کوئی سرزنش کا پہلو اختیار کرنا مناسب ہوگا یانہیں اور اگر مناسب ہوگا توکیا۔ اس کے متعلق مجلسِ مشاورت نے بعض تجاویزپیش کیں جنہیںحضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے منظورفرمایااورجوانہی دنوںمیںالفضل میںشائع کردی گئی تھیںمگران تجاویزکے منظور فرمانے کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ بھی ارشادفرمایاتھاکے اس مسئلہ کے متعلق نظارت تعلیم وتربیت کوچاہیئے کہ مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت میں یہ احساس پیداکرے کہ وہ اپنی ظاہری صورتوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء مبارک کے مطابق بنائیںاور شریعت کے کسی حکم کو بھی چھوٹاسمجھ کرنہ ٹالیں بلکہ سب کی پابندی اختیار کریں تاکہ اعلیٰ درجہ کے مومنین میںان کا شمارہواور خداکی نعمت کاکوئی دروازہ بھی ایسانہ رہے جو ان پر بندہو۔ سو اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے خاکسار اپنے احباب کے سامنے یہ چند سطور پیش کرتا ہے اور امید رکھتاہے کہ وہ میری اس عرضداشت کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کردیں گے کہ اطاعت رسول کے لئے ان کے اندر ایک ایسا شوق اور ولولہ موجود ہے کہ اس علم کے ہونے بعد کہ کوئی ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے، دنیا کی کوئی روک جسے شریعت روک نہیں قراردیتی ان کو اس کی تعمیل سے باز نہیںرکھ سکتی۔
سب سے پہلے جو بات میں عر ض کرنا چاہتاہوں۔ وہ ایک اصولی بات ہے اور وہ یہ کہ بیشک شریعت کے احکام میں تفاوت ہے اور کوئی عقلمند ان میں مدارج کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور ڈاڑھی کا رکھنا یقینا ان اصولی باتوں میں سے نہیں ہے جن پر انسان کی روحانی زندگی کا بلاواسطہ دارومدار ہے لیکن بایں ہمہ اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا۔ دراصل چونکہ شریعت کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہر جہت سے انسان کو کامل بنائے اور تمام ان امور کی طرف توجہ کرے جو با لواسطہ یا بلاواسطہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر اثرپیدا کرتی ہیں۔ اس لئے خداوند تعالیٰ نے شریعت میں صرف اصولی باتوں کو ہی داخل نہیںفرمایا بلکہ بعض فروعی امور میں بھی ہدایت جاری کی ہیں اور یہ سب انسان کی روحانی حیات کے لئے کم وبیش ضروری ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف ان باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے احترازکیا ہے، جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی سے اس قدردُور کا تعلق رکھتی تھیں کہ ان میں دخل انداز ہونا فائدہ کی نسبت نقصان کے زیادہ احتمالات رکھتا تھا۔ یا جن کے متعلق انسان اپنے ظاہری علوم کی بناء پر خود طریق ثواب اختیارکر سکتا تھا اور اس لئے ان کے متعلق احکام جاری کرنا بے فائدہ قیود کا پیدا کرنا تھا۔
دراصل جیسا کہ عیسائیت بیان کرتی ہے (گو وہ اس معاملہ میںحد اعتدال سے بہت تجاوز کر گئی ہے)شریعت کے احکام کے متعلق ایک پہلو نقصان کا بھی ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کے توڑنے سے انسان مجرم اور گنہگار بن جاتا ہے اور اسی لئے اسلام نے نہایت حکیمانہ طور پر اس معاملہ میں اعتدال کے طریق کو اختیار کیا ہے اور شرعی احکام صرف اس حد تک جاری کئے ہیںکہ جس حد تک بالکل ضروری اور لابدی تھے اور باقی امور میں انسان کو اس کی عقلِ خداداد اور شریعت کے اصولی قیاس پر چھوڑدیا ہے تاکہ وہ خود اپنے لئے اپنا راستہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں شریعت کو ایک رحمت قراردیا ہے اور دوسری طرف اسی قرآن میںخود فرمایا ہے کہ زیادہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسئلے نہ پوچھا کرو تاکہ تمہارے لئے تفصیلی احکام نازل ہوکر تنگی کا موجب نہ بنیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شریعت سراسر رحمت ہی رحمت ہے تو پھر اس روک کے کیا معنی ہیں؟ کیا نعوذباللہ خدا اس رحمت کے دائرہ کو ہم پر تنگ کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں شریعت کے احکام کے نزول کے محرک بننے سے روک دیا ہے؟ اس ظاہری تضاد کا یہی حل ہے کہ شریعت بیشک ایک رحمت ہے لیکن شریعت کے ساتھ ایک پہلو عذاب کا بھی ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کو توڑنا خدا کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور اگر بعض تفصیلی امور جو طریق بودوباش اور تمدن وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں شریعت دخل انداز ہو تو یہ عذاب کا پہلو رحمت کے پہلو سے غالب ہوجاتا ہے یعنی ان کے ماننے میں فائدہ کا پہلو اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا ان کے نہ ماننے میں (اگر وہ شریعت کا حصہ بن جائیں) نقصان کا پہلو غالب ہوتا ہے اور اسی لئے جب شریعت ان تفصیلات کی حد کو پہنچتی ہے تو کمال حکمت سے وہ آگے جانے سے رک جاتی ہے اور لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اپنی عقلِ خداداد اور شریعت کے قیاس کے ماتحت خود اپنے واسطے ان تفصیلات میں طریقِ عمل قائم کریں۔
اس جگہ اس بات کا بیان بھی ضروری ہے کہ درحقیقت کسی شرعی حکم کے توڑنے میں دو قسم کا نقصان اور اس کے مان لینے میں دو قسم کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یا نقصان تو یہ ہے کہ چونکہ ہر شرعی حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے اندر بعض طبعی خواص رکھتا ہے اس لئے اس کا مان لینا وہ نیک اثرات پیدا کرتا ہے جواس کا طبعی نتیجہ ہیں اور اسی طرح اس کانہ ماننا وہ بد اثرات پیدا کرتاہے جو طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں اور دوسرا فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ چونکہ خدا کا یہ حکم ہے کہ شریعت کی پابندی اختیار کی جائے۔ اس لئے کسی شرعی حکم کا مان لینا قطع نظر اس کے فائدہ کے خدا کی رضا کا موجب اور اس کا نہ ماننا قطع نظر اس کے نقصان کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ایسے تفصیلی امور کو شریعت کا حصہ بنانے سے احتراز فرمایاہے۔ جن کے اختیار کرنے میں کوئی بڑے فوائد مترتب نہیں ہو سکتے مگر ان کے ترک کرنے میں خدا کی ناراضگی کاپہلو ضرور موجود ہے تاکہ کمزور لوگ ان امور میں نافرمانی کرکے خدا کی ناراضگی کانشانہ نہ بنیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ شریعت نے صرف انہی امور میںدخل دیا ہے جن میں دخل دینا انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کیلئے ضروری اور لابدی تھا۔ اور باقی امور میں انسان کواختیار دے دیا ہے کہ وہ خود اپنا طریق عمل قائم کرے اور اس لئے درحقیقت شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا اور گو احکام میں تفاوت ضرور ہے لیکن سب احکام یقینا ایسے ہیں جو انسان کے اخلاق وروحانیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معتدبہ اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر کسی بات کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ وہ ایک شرعی حکم ہے تو کسی مومن کے لئے ہرگز یہ زیبا نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ یہ چھوٹا ہے۔ اس لئے اس کے ماننے کی چنداں ضرورت نہیںیا یہ کہ اس بات کو دین و ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہستی جس نے ہمارے لئے دین وایمان کا نصاب مقرر فرمایا ہے اور جس کے سامنے جاکر ہم نے کسی دن اس نصاب کا امتحان دینا ہے وہ جب کسی بات کو ہمارے دین وایمان کاحصہ قرار دیتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اسے لاتعلق سمجھ کر ٹال دیں اور اگر ہم اپنی نادانی سے ایسا کریں گے تو نقصان اُٹھائیں گے۔ کیونکہ ہمارا ممتحن ہمارے خیال کے مطابق ہمارا امتحان نہیں لے گا بلکہ اس نصاب کے مطابق لے گا جو اس نے مقرر کیا ہے۔
اندریںحالات بحث طلب امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی با ت شریعت کا حصہ ہے یا نہیں یا موجودہ بحث کے لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا ڈاڑھی کا رکھنا شریعت کا حصہ قرار پاتا ہے یا نہیں سواس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ ہروہ بات جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکیا ہے اور اس کے کرنے کا اپنی اُمت کو حکم دیا ہے وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہواور عقل بھی یہی چاہتی ہے شارع جس کام کو کرے اور اس کے کرنے کا حکم دے وہ شریعت کا حصّہ ہونی چاہیئے۔ہاں البتہ ایسی باتوںکے متعلق اختلاف ہے جن کو شارع نے خود تو کیا ہے مگر ان کے کرنے کاحکم نہیں دیا۔ یا جن کے متعلق شارع نے بعض صورتوںمیں ہدایت تودی ہے لیکن خود اس کی پابندی اختیار نہیں کی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شبہ کا احتمال ہے کہ ممکن ہے وہ شارع کی ذاتی خصوصیت یا ذاتی میلان طبع کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور دین کا حصہ نہ ہوں اور اسی طرح بعض اور باتوں کے متعلق بھی اشتباء کا پہلو ہوسکتا ہے کہ کیا وہ شریعت کا حصّہ ہیں یا نہیں اور اسی لئے ان کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر بہرحال یہ مسلّم ہے کہ جس بات کو شارع نے کیا اور اس کے کرنے کا حکم دیا وہ شریعت کا حصّہ ہے بشرطیکہ کوئی واضح قرینہ اس کے خلاف موجود نہ ہو۔
اب اس تشریح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا رکھنا شریعت اسلامی کا حصّہ ہے کیونکہ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا حکم دونوں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیںاور حدیث شریف سے یہ ہر دو باتیں ثابت ہیں۔یعنی اول یہ کہ آپ.6ؐ کی ڈاڑھی تھی چنانچہ آپؐ کے متعلق حدیث میں کَثَّّ اللحیۃ ۱؎کے الفاظ آتے ہیںیعنی آپ کی ڈاڑھی گھنی تھی اور اسی قسم کی بہت سی احادیث ہیں۔اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی اُمت کو یہ ارشاد فرمایا کہ ڈاڑھی رکھا کرو۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:-
قصواالشوارب وأَ عفواللحی۲؎
یعنی ’’ ڈاڑھیوں کو بڑھائو اور مونچھوں کو کاٹ کر چھوٹا کرو‘‘۔اور یہ بھی حدیث میںآتا ہے کہ ایک دفعہ غیر مسلم لوگ آپ کے سامنے آئے جن کی ڈاڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔اور دوسری طرف اس بات کے متعلق قطعاً کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ آپؐ کا یہ تعامل اور آپؐ کا یہ ارشاد ایک یونہی ایک ذاتی پسندیدگی کے اظہار کے طور پر تھااور دین کا حصّہ نہیں ہے۔ اور سنت کے لحاظ سے دیکھیںتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بس نہیں ۔بلکہ جتنے بھی نبی دنیا میں گذرے ہیںاور ان کی تاریخ محفوظ ہے ان سب کی ڈاڑھیاںتھیں۔چنانچہ حضرت ہارونؑ کی ڈاڑھی کا قرآن شریف میںبھی ذکر ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاڑھی لاکھوں احمدی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندریں حالات کوئی مسلمان اور خصوصیت کے ساتھ کوئی احمدی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتاکہ ڈاڑھی رکھنا شریعتِ اسلامی کاحصّہ نہیںہے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ احکام کے مدارج میں اختلاف ہے اور ڈاڑھی کے حکم کو ہم قطعاًان اہم احکام میں شمارنہیں کرسکتے جن پرہر انسان کی روحانی زندگی کابلاواسطہ دارومدار ہے مگربہرحال اس میں کلام نہیں کہ وہ شریعت کاحصہ ہے۔ اب کوئی مومن اس حکم کو چھوٹا کہہ کر ٹال نہیں سکتا کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ چھوٹی باتوں کو شریعت نے اپنے دائرہ میں شامل نہیں کیا اور جن کو شامل کیا ہے۔ وہ چھوٹی نہیں ہیں۔
(مطبوعہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۷ئ)
ایک قابل قدر خاتون کا اِنتقال
اخوات واحباب کو الفضل کے ذریعہ یہ اطلاع مل چکی ہے کہ ۱۰ دسمبر کی صبح کو اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح،محمد صاحب سیال ایم۔اے فوت ہوکر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہونچ گئیں۔ مرحومہ جماعت کی خاص خواتین میں سے تھیں اور لجنہ اماء اللہ قادیان کے کام میں بہت دلچسپی لیتی تھیں۔ انہیں احمدی مستورات کی اصلاح وترقی کا خاص خیال رہتا تھا۔ چنانچہ مرحومہ نے اپنے گھر میں درس تدریس کا سِلسلہ جاری کررکھا تھا اور بہت سی خواتین اور لڑکیوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ مرحومہ اپنی عادات واطوار میں نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتی رہتی تھیں کہ انسان کو اس دنیا میں نہایت سادہ طور پر زندگی گذارنی چاہیئے۔ شروع شروع میں جب مدرسہ خواتین جاری ہوا تو مرحومہ کے علمی شوق نے اُنھیں اس میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ اس مدرسہ میں تعلیم پاتی رہیں لیکن بعد میں کُچھ تو صحت کی خرابی کی وجہ سے اور کُچھ خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور مرحومہ نے اپنی جگہ اپنی لڑکی عزیزہ آمنہ بیگم کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔
مرحومہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں اور حضرت خلیفہ اولؓ کو ان کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی خواہش سے چوہدری فتح محمد صاحب کے ساتھ ان کی شادی کرائی تھی۔ امتہ الحفیظ بیگم جن کے مضامین اکثر الفضل میں نکلتے رہتے ہیں۔ مرحومہ کی چھوٹی بہن ہیں۔ مجھ سے بھی مرحومہ کو خاص تعلق تھا کیونکہ وہ میری رضاعی بہن تھیں۔ میں سمجھتا ہوں مرحومہ کی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مرحومہ کی وفات جماعت کے لئے اور خصوصاً قادیان کی احمدی خواتین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور میں نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے مرحومہ کے معزز اور قابل قدر شوہر برادرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے اور مرحومہ کے والد صاحب مفتی فضل الرحمن صاحب اور مرحومہ کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا دعا کرتا ہوں کہ اللہ۔تعالیٰ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔ اور مرحومہ کی اولاد کو اس رستے پر چلنے کی توفیق عطاکرے جس کے متعلق مرحومہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس پر چلیں جو صدق واخلاص کا رستہ ہے۔ اللہم آمین
(مطبوعہ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ئ)
۱۹۲۸ء
سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط اخبار الفضل میں شائع کرایا تھا جو حضور نے سیٹھی غلام نبی صاحب کے نام لکھا تھا اور جس میں سودی لین دین کے متعلق ایک اصولی فتویٰ درج تھا۔ اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ چونکہ یہ فتویٰ ایک اہم مسئلہ کے متعلق ہے اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس بھی شائع کردیا جائے تو بہترہے۔ اور ساتھ ہی سیٹھی صاحب سے وہ حالات قلم بند کرواکے شائع کئے جائیں جن کے ماتحت ان کو حضرت سے اس استفسار کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ اس کے متعلق میں نے سیٹھی صاحب سے دریافت کیا ہے اور انہوں نے جو تحریر جواب میں مجھے ارسال کی ہے وہ درج ذیل ہے۔ احباب سیٹھی صاحب کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ مرض دمہ سے بہت بیمار رہتے ہیں۔ سیٹھی صاحب کا خط جو انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا درج ذیل ہے۔
’’سیدی ومولائی سلمہٗ اللہ الرحمن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یاسیدی میں راولپنڈی دکان بزازی اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ کرتا تھا۔ وہاں پر ہمارا دستور تھا کہ جس قدر روپیہ زائد ہو صراف کے پاس جمع کرتے جاتے تھے اور جب ضرورت ہوتی اس سے لے کر کام میں لاتے تھے اور لین دین سودی ہوتا تھا یعنی سود لیتے اور دیتے تھے۔ میں جب احمدی ہوا تو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل شروع کیا لیکن چونکہ میرے شرکاء زبردست اور میں کمزور تھا اور وہ اس طریق سودی کو چھوڑتے نہیں تھے اور میرے حصہ کا سود خود بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ بحصہ رسدی سال بسال مجھ کو لینا پڑتا تھا۔ اور میں والد صاحب کی زندگی میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس لئے میںنے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے مسئلہ پوچھا یعنی لکھ کر دریافت کیا تو حضور نے مجھ کو جواب دیا جو یہ خط ہے۔
عاجز غلام نبی سیٹھی احمدی
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مندرجہ بالا خط کا مضمون حسب ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علی رسولہٖ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی کا نکال دے گا۔اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دیدیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہوجاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یار ہزنی یا ڈاکہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کے رد میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کی رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میںخدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’ سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عملاً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہوجائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیا ہے) خرچ ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ‘‘
(مطبوعہ الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور بندہ جس وقت بھی اپنے خدا کی طرف رجوع کرے وہ اسے تواب اور رحیم وکریم پائے گا۔ بلکہ اس کی قدیم سنت کے مطابق اگر بندہ اس کی طرف ایک قدم آتا ہے تو وہ اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے اور اگر بندہ اس کی طرف چل کر آتا ہے تو وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی بندوں کی بے۔توجہی اور غفلت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے بعض خاص خاص اوقات کو اپنی رحمت کے غیرمعمولی فیضان کے لئے مخصوص کردیا ہے اور انہی خاص اوقات میں سے رمضان کا مہینہ ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں اور فضلوں کو کھینچنے کی کوشش کریں اور ذکر الٰہی اور نیک اعمال اور صدقہ وخیرات اور دعا سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں۔ اگلا رمضان نہ معلوم کس کو نصیب ہو اور کس کو نہ ہو۔
پس جو موقع میسر ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس بات کا عہد کرلیں کہ رمضان کا مہینہ آپ کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرکے جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان کے موقع پر اپنے دل کے ساتھ کم از کم یہ عہد باندھ لے کہ وہ اس رمضان میں اپنی فلاں کمزوری کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے گا۔ اور پھر اس عہد کو پورا کرکے چھوڑے تاکہ اور نہیں تو رمضان کا مہینہ اسے ایک کمزوری اور نقص سے تو پاک کرنے کا موجب ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لیں تو خدا کے فضل سے عید کا دن ہماری جماعت کے قدم کو بہت آگے پائے گا۔ ہم لوگوں میں ابھی بہت سی کمزوریاں اور نقص ہیں۔ کوئی نماز میں سست ہے کوئی چندوں کی ادائیگی میں ڈھیلا ہے کوئی لین دین میں صاف نہیں۔ کوئی لغو اور فضول عادات میں مبتلا ہے۔ غرض کسی میں کوئی نقص ہے اور کسی میں کوئی۔ پس آئو آج سے ہم میں سے ہر فرد یہ عہد کرے کہ رمضان کے گذرنے سے قبل وہ اپنی فلاں کمزوری کو ترک کردے گا اور پھر کبھی اپنے آپ کو اس کمزوری کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دے گا۔ یہ کوئی بڑا عہد نہیں ہے بلکہ ایک معمولی ہمت کا کام ہے۔ اور اگر رمضان کا مہینہ اتنی بھی تبدیلی ہمارے اندر نہ پیدا کرسکے تو اس کا آنا یا نہ آنا ہمارے لئے برابر ہے۔
اب آخری عشرہ کے دن قریب آرہے ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ کے خاص ایام قرارد یاہے۔ پس ان کی برکات سے فائدہ اٹھائو اور کوشش کرو کہ ان دنوں میں تم خدا سے قریب تر ہوجائو تاکہ جب عید کا دن آئے تو وہ ہم سب کے لیئے حقیقی خوشی کا دن ہو۔ انشاء اللہ حسب دستور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ۲۸ یا۲۹ رمضان کے دن نماز عصر کے بعد تمام مقامی جماعت کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں دعا فرمائیں گے۔ بیرونی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ اس دن اور اسی وقت اپنی مقامی مسجد میں یا مسجد نہ ہو تو کسی دوسری جگہ جہاں نمازوں کا انتظام ہو اکٹھے ہوکر دعا کریں تاکہ اس گھڑی ایک متحدہ التجا خدا کے دربار تک پہونچے۔ اور خدا کی رحمتیں ہماری دستگیری کے لئے نیچے اترآئیں۔ اگر ممکن ہوا تو میں انشاء اللہ دعا کی معین تاریخ اور وقت سے بعد میں اطلاع دوں گا۔ دعا میں حمد اور درود کے بعد اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور بہبودی کو سب دعائوں پر مقدم رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔
(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
اپنے گھروں میں درس جاری کرو
ایک عرصہ سے اس بات کی تحریک کی جارہی ہے کہ مقامی جماعتوں کو چاہیئے کہ اپنی اپنی جگہ قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے درس جاری کریں لیکن ابھی تک بہت سی جماعتوں نے اس کا انتظام نہیں کیا۔ جس کی وجہ کچھ تو یقینی طور پر غفلت اور بے پرواہی ہے لیکن زیادہ تر مقامی حالات ہیں جن کی وجہ سے عموماً مقامی احباب کا ہرروز ایک معینہ وقت پر ایک معینہ جگہ پر جمع ہونا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ انہی دقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر درسوں کے اجراء کی تحریک کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ جہاں روزانہ درس نہ ہوسکے وہاں ہفتہ میں دوبار یا کم از کم ہفتہ میں ایک بار ہی درس کا انتظام کردیا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے اس ارشاد کے ماتحت بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگیا ہے اور خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ بہت بابرکت ہوگا۔ جن جن جماعتوں نے ابھی تک ایسے درسوں کا انتظام نہ کیا ہو ان کو چاہیئے کہ فوراً اس کی طرف توجہ کریں۔
لیکن اس موقع پر جس قسم کے درس کی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں وہ گھر کا درس ہے ۔ ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقع پر گھر کے سب لوگ مرد عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں۔ اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔ تاکہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے۔ اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہوجائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید وبابرکت ہوسکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مقامی امراء یا پریذیڈنٹ وسیکرٹریان تعلیم وتربیت بہت جلد اس کی طرف توجہ فرمائیںگے اور آئندہ تعلیم وتربیت کی ماہواری رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہونا چاہیئے کہ اتنے گھروں میں خانگی درس کا انتظام ہے۔
(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
محمد ہست بُرہانِ محمد
مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.6ٗ
آپ نے فرمائش کی تھی کہ میں ’’الفضل‘‘ کے خاتم النبیین نمبر کے لیئے کوئی مضمون لکھوں۔ ایسی تحریک میں حصہ لینا ہر مسلمان کے واسطے موجب سعادت اور باعثِ فخر ہونا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں بعض معذوریوں کی وجہ سے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور مجھے اس محرومی کا قلق ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مصرع مندرجہ عنوان کے متعلق کچھ لکھوں گا اورمیں نے اپنے ذہن میں اس مضمون کا ایک مختصر سا ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا۔ لیکن اس ذہنی خاکہ کو سپردِ قلم نہ کرسکا۔ میرا ارادہ مثالیں دے کر یہ بیان کرنے کا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (فداہ نفسی) اپنے اس کمال میں منفرد ہیں کہ آپ کا ہر قول اور ہرفعل اور ہرحرکت اور ہر سکون اور ہر عادت اور ہر خلق آپ کی صداقت اور آپ کی فضیلت اور آپ کے کمال کی ایک روشن دلیل ہے اور اس خصوصیت میں آپ جملہ بنی آدم پر ممتاز اور فائق ہیں کیونکہ دنیا میں اور کوئی شخص ایسا نہیں گذرا جس کی ہر بات اس کے کمال کی دلیل ہو۔ اور اسی لئے ’’سید ولد آدم‘‘ کا خطاب پانے کے لئے آپ کے سوا اور کوئی شخص حقدار نہیں۔ یہ مضمون ایک نہایت وسیع مضمون ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں اسے نہایت مدلل اور دلچسپ طریق پر بیان کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس موقع پر جو ایسے مضمون کے واسطے ایک بہت عمدہ موقع تھا۔ میں اس مضمون کے بیان کرنے سے محروم رہا ہوں۔ اگر زندگی رہی اور خدا نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھرکبھی عرض کروں گا۔وما توفیقی الَّا باللّٰہ
اگر مناسب سمجھیں تو میری طرف سے یہ چند سطور اخبار میں شائع فرمادیں تاکہ احباب کی دُعا میں تھوڑا سا حصہ میں بھی پاسکوں۔
خاکسار
مرزابشیراحمد
(مطبوعہ الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ئ)
مقامی امیر کی پوزیشن
اس دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ڈلہوزی تشریف لے جاتے ہوئے مجھے قادیان کا مقامی امیرمقرر فرمایا۔ میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کردیا تھا کہ میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے غالباً میری بہت سی کمزوریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور مجھے یہ بار اٹھانا پڑا۔ اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے منصب امارت کے متعلق جماعت میں بعض احباب کو غلط فہمی پیدا ہورہی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کا امیر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام ہے اور اسے وہی یا قریباً قریباً وہی اختیارات حاصل ہیں جو خلیفہ وقت کو خدا کی طرف سے حاصل ہیں۔ یہ خیال مجھے اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس عرصۂ۔امارت میں میرے پاس بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ مثلاً فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اسے منسوخ کیا جائے۔ یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ جو ان سب کے افسر ہیں حکم صادر فرماسکتے ہیں۔ اسی طرح اس عرصہ میں میرے پاس قادیان کے بعض مقامی احباب کی ایسی تحریریں آئی ہیں کہ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نام تجویز کیا جاوے اور زیادہ تعجب کے قابل یہ ہے کہ بعض بیرونی احباب کی طرف سے بھی اسی قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ابھی تک جماعت کو قادیان کے مقامی امیر کی پوزیشن کی حقیقت معلوم نہیں ہے اور وہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ گو یہ درست ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں حضرت کا قائم مقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو اس میں شک نہیںہے کہ مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے۔ جس طرح کہ دوسرے مقامات میں امیر ہوتے ہیںاور اسے کوئی زائد اختیار یا زائد رُتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں ہے۔ گو جو فرق مدارج کا ایک ہی نوع کے افراد میں ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔ قادیان کا مقامی امیر اسی طرح ناظران۔سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت ہے جس طرح دوسرے مقامی امیر ہیں کیونکہ ناظران مرکزی نظام سلسلہ کے رکن ہیں اور امیر خواہ مرکز کی جماعت کا ہی ہو محض ایک مقامی عہدیدار ہے۔ اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہیئے کہ مثلاً لاہور جو پنجاب کا دارالسلطنت ہے وہاں ایک ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جو ایک مقامی حیثیت رکھتا ہے اور وہیں پر حکومت پنجاب کے مختلف سیکرٹریان یا ممبران ایگزیکٹو کونسل بھی رہتے ہیںجو مرکزی حکومت کے رکن ہیں۔ اب کوئی شخص یہ خیال نہیں کرسکتا کہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر جو مقامی عہدیدار ہے وہ مرکزی حکومت کے ارکان کے کام میں دخیل ہوسکتا ہے یا ان کو ہدایات جاری کرسکتا ہے۔ دراصل سارا دھوکا اس لئے لگا ہے کہ حضرت کی موجودگی میں قایان میں کوئی مقامی امیر نہیں ہوتا کیونکہ حضرت باتباع سنت نبوی صرف اپنی غیرحاضری میں قادیان کا مقامی امیر مقرر فرماتے ہیں۔ حضرت کی موجودگی میں بھی کوئی مقامی امیر ہوا کرتا تو یہ غلط فہمی نہ پیدا ہوتی مگر چونکہ مرکز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا مقامی امیر بھی خلیفۂ وقت ہوا کرتا ہے اس لئے یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ قادیان کے مقامی امیر کے وہ اختیارات اور وہ ذمہ داریاں سمجھ لی گئی ہیں جو خلیفہ کے عہدہ کے ساتھ خاص ہیں۔ بہرحال میں اس اعلان کے ذریعہ احباب کی اس غلط فہمی کو دور کردینا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ احباب اپنے نظام حکومت اور سیاست سلسلہ کے اصول سے اس قدر ناواقفی کا اظہار نہیں کریں گے۔ یہ امر بھی اس ضمن میں واضح ہونا چاہیئے کہ حضرت جب کبھی قادیان سے باہر تبدیل آب وہوا وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے صرف قادیان کا مقامی امیر کسی کومقرر فرماتے ہیں۔ پس قادیان کے امیر کا تعلق صرف قادیان کی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔ پس بیرونی احباب کا قادیان کے امیر کے ساتھ ان امور میں خط وکتابت کرنا جن امور میں وہ پہلے حضرت کے ساتھ خط وکتابت فرمایا کرتے تھے، کسی طرح بھی درست رائے نہیں ہے۔
(مطبوعہ الفضل۱۷ جولائی ۱۹۲۸ئ)
۱۹۲۹ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں
سب سے بہتر شخص
مقدس بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکم لِاَھْلِہ.6ِ ۳؎ یعنی تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ آپؐ کے ان الفاظ کو اگر اس بارہ میں آپ کی تعلیم اور آپؐ کے تعامل کا خلاصہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ آپ کی خانگی زندگی یقینا ان الفاظ کی بہترین تفسیر تھی۔
رسول کریمؐ اور تعدد ازدواج
قومی اور ملکی اور سیاسی اور دینی ضروریات نے آپ.6ؐ کو مجبور کیا کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کریں۔ اور یہ ایک قربانی تھی جو آپ.6ؐ کو ایک غیرنفسی ضرورت کے ماتحت کرنی پڑی۔ مگر آپ.6ؐ نے اس قربانی کی روح کو اس خوبی اور کمال کے ساتھ نبھایا……… اور باوجود اپنی خانگی ذمہ داری کی پیچیدگیوں کے معاشرت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جو دنیا کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ میرے یہ الفاظ میری قلبی خوش عقیدگی کی گونج نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد ٹھوس تاریخی واقعات پر قائم ہے جنہیں کسی دوست کی خوش عقیدگی یا کسی دشمن کا تعصب اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے۔
معاشرت کا کامل نمونہ
کثرت ازدواج کی وجہ سے جو اضافہ آپ کی خانگی ذمہ داریوں میں ہوا۔ اس کو آپ کی ان گوناگوں اور بھاری ذمہ داریوں نے اور بھی بہت زیادہ کردیا تھا جو ایک مصلح۔ ایک امام۔ جماعت۔ ایک انتظامی حاکم۔ ایک جوڈیشل قاضی۔ ایک سیاسی لیڈر۔ ایک فوجی جرنیل اورایک بین۔الاقوام نظام جمہوریت کے صدر کی حیثیت میں آپ پر عائد ہوتی تھیں اور ہر شخص جو آپ کی خانگی زندگی اور گھر کی معاشرت کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا چاہتا ہے اس کا یہ پہلا فرض ہے کہ ان حالات کو پورے طور پر مدنظر رکھے جو آپ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں نے آپ کے لئے پیدا کررکھے تھے۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے تحریر نہیں کئے کہ میں آپ.6ؐ کی زندگی کے حالات کو آپ کی خانگی معاشرت پر رائے لگاتے وقت ایک موجب رعایت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں نے یہ الفاظ اس لئے لکھے ہیں کہ تایہ ظاہر ہو باوجود ان عظیم الشان ذمہ داریوں کے جو عام اسباب کے ماتحت یقینا آپ.6ؐ کے خانگی فرائض کی ادائیگی کے رستے میں روک ہوسکتی تھیں۔ آپ.6ؐ نے معاشرت کا وہ کامل نمونہ دکھایا جو دنیا کے ہر شخص کو خواہ وہ کیسے ہی حالات زندگی کے ماتحت رہا ہو شرماتا ہے۔
مگر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے اور اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس قدر مختلف پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں کہ اس مختصر گنجائش کو دیکھتے ہوئے جو ایڈیٹر صاحب الفضل نے (جن کی تحریک پر میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں) اس کے لئے مقرر کی ہے اس مضمون پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھنا تو درکنار معمولی اور واجبی تفصیل میںجانا بھی ناممکن ہے۔ پس میں نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند موٹی موٹی باتوں کے تحریر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ وما توفیقی الاباللّٰہ
رسول کریمؐ کی پہلی شادی
سب سے پہلی شادی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ حضرت خدیجہ سے تھی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بیوہ تھیں۔ گویا آپ نے عین عنفوان شباب میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی۔ بظاہر حالات یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید یہ شادی کسی وقتی مصلحت کے ماتحت ہوگئی ہوگی اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کوئی خوشی کی زندگی نہیں گذری ہوگی کیونکہ جہاں بیوی کی عمر خاوند کی عمر سے اتنی زیادہ ہو کہ ایک کی جوانی کا عالم اور دوسرے کے بڑھاپے کا آغاز ہو تو وہاں عام حالات میں ایسا جوڑا کوئی خوشی کا جوڑا نہیں سمجھا جاتا مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خوشی کا اتحاد ہوا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کامل محبت ایک دوسرے پر کامل اعتماد۔ ایک دوسرے کے لئے کامل قربانی کا نظارہ اگر کسی نے کسی ازدواجی جوڑے میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ میں نظر آئے گا۔ کیا ہی بہشتی زندگی تھی جو اس رشتہ کے نتیجے میں دونوں کو نصیب ہوئی۔
پاکیزہ خانگی کا اثر
مجھے اس رشتہ کے کمال اتحاد کا احساس سب سے بڑھ کر اس وقت ہوتا ہے جبکہ میں اس تاریخی واقعہ کا مطالعہ کرتا ہوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اس غیر مانوس اور غیرمتوقع جلال الٰہی سے مرعوب ہوکر سخت گھبرائے ہوئے اپنے گھرمیں آئے اور ایک سہمی ہوئی آواز میں اپنی رفیق حیات سے فرمایا کہ مجھ پر آج یہ حالت گذری ہے اور مجھے اپنے نفس کی طرف سے ڈر پیدا ہوگیا ہے۔ اس وقت گھر میں بظاہر حالات صرف یہی میاں بیوی تھے۔ خاوند ادھیڑ عمر کو پہنچا ہوا۔ اور بیوی بوڑھی۔ گھر کی چاردیواری میں دوست ودشمن کی نظروں سے دور تکلف کا طریق بیرون از سوال تھا۔ دونوں پندرہ سال کے لمبے عرصہ سے ایک دوسرے کے رفیق زندگی تھے۔ ایک دوسرے کی خوبیاں ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ اگر کوئی کمزوری تھی تو وہ بھی ایک دوسرے پر مخفی نہ تھی۔ ایسی حالت میں جس سادگی کے ساتھ خاوند نے اپنی پریشانی اپنی بیوی سے بیان کی اور جس بے۔ساختگی کے عالم میں بیوی نے سامنے سے جواب دیا وہ اس مقدس جوڑے کے کمال اتحاد کا ایک بہترین آئینہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ تاریخ میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
’’ کَلَّا، وَاللّٰہِ!مَایَحْزُنْکَ اللّٰہُ اَبَدًا،اِنّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتَعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقَّ۔۴؎
ہے ہے ایسا نہ کہیں خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپ رشتوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو دنیا سے معدوم ہوچکے تھے ان کو آپ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے اور آپ مہمان نواز ہیں اور حق وانصاف کے رستے میں جو مصائب لوگوں پر آتے ہیں ان میں آپ ان کی اعانت فرماتے ہیں۔‘‘
حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ اپنے اندر ایک نہایت وسیع مضمون رکھتے ہیںجس کی پوری گہرائی تک وہی شخص پہنچ سکتا ہے جو دل ودماغ کے نازک احساسات سے اچھی طرح آشنا ہو۔ ان الفاظ میں اس مجموعی اثر کا نچوڑ مخفی ہے جو پندرہ سالہ خانگی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے قلب پر پیدا کیا۔ جو خاوند اپنی روزمرہ زندگی کے واقعات سے اپنی بیوی کے دل ودماغ میں وہ اثرات پیدا کرسکتا ہے جن کا ایک چھوٹے پیمانہ کا فوٹو ان الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کی پاکیزہ خانگی زندگی اور حسن معاشرت کا اندازہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کا صدمہ
حضرت خدیجہؓ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں اور ان کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا اور لکھا ہے کہ ایک عرصہ تک آپ کے چہرہ پر غم کے آثار نظر آتے رہے اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا۔ ان کی وفات کے بعد جب کبھی ان کا ذکر آتا تھا آپؐ کی آنکھیں پُر نم ہوجاتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی اور دروازہ پر آکر اندر آنے کی اجازت چاہی ان کی آواز مرحومہ خدیجہ سے بہت ملتی تھی۔ یہ آواز سن کر آپ بے۔چین ہوکر اپنی جگہ سے اٹھے اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ اور بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا جب کبھی باہر سے کوئی چیز تحفۃً آتی تھی۔ آپ لازماً حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو اس میں سے حصہ بھیجتے تھے اور اپنی وفات تک آپ نے کبھی اس طریق کو نہیںچھوڑا۔
بدر میں جب ستر کے قریب کفار مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے تو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ،وسلم کے داماد یعنی زینب بنت خدیجہ کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ جو ابھی تک مشرک تھے۔ زینب نے ان کے فدیہ کے طور پر مکہ سے ایک ہاربھیجا۔ یہ وہ ہار تھا جو مرحومہ خدیجہ نے اپنی لڑکی کو جہیز میں دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور حضرت خدیجہ کی یاد میں آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ آپ نے رقّت بھری آواز میں صحابہ سے فرمایا یہ ہار خدیجہ نے زینب کو جہیز میں دیا تھا۔ تم اگر پسند کرو تو خدیجہ کی یہ یادگار اس کی بیٹی کو واپس کردو۵؎۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی۔ انھوں نے فوراً واپس کردیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کی جگہ ابوالعاص کا یہ فدیہ مقرر فرمایا کہ وہ مکہ جاکر زینب کو فوراً مدینہ بھجوادیں۔ اور اس طرح ایک مسلمان خاتون (اور خاتون بھی وہ جو سرورکائنات کی لخت جگر تھی) دارکفر سے نجات پاگئی۔ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زندہ بیوی کے متعلق کبھی جذبات رقابت نہیں پیدا ہوئے لیکن مرحومہ خدیجہ کے متعلق میرے دل میں بعض اوقات رقابت کا احساس پیدا ہونے لگتاتھا۶؎۔ کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان کی یاد آپ کی دل کی گہرائیوں میں جگہ لئے ہوئے تھی۔
دوسری شادیاں
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ.6ؐ نے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے ساتھ شادی کی اور ہجرت کے بعد تو حالات کی مجبوری کے ماتحت آپؐ کو بہت سی شادیاں کرنا پڑیں اور آپ.6ؐ کی خانگی ذمہ،داریاں بہت نازک اور پیچیدہ ہوگئیں مگر بایں ہمہ آپؐ نے عدل وانصاف کا ایک نہایت کامل نمونہ دکھایا اور کسی ذرا سی بات میں بھی انصاف کے میزان کو اِدھر اُدھر جھکنے نہیں دیا۔ آپؐ کا وقت آپ کی توجہ آپ کا مال آپ کا گھر اس طرح آپ.6ؐ کی مختلف بیویوں میں تقسیم شدہ تھے کہ جیسے کسی مجسم چیز کو ترازو میں تول کر تقسیم کیا گیا ہو۔ اور اس خانگی بانٹ کے نتیجہ میں آپؐ کی زندگی حقیقۃً ایک مسافرانہ زندگی تھی۔ اور آپؐ کا پروگرام حیات آپؐ کے اس قول کی ایک زندہ تفسیر تھا جو آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’کن فی الدنیاکعابری سبیلٍ۷؎
یعنی انسان کو دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گذارنی چاہیئے۔ ‘‘
بیویوں میں کامل عدل
مگر باوجود اس کامل عدل وانصاف کے آپؐ فرماتے تھے کہ اے میرے خدا میں اپنی طاقت کے مطابق اپنی بیویوں میں برابری اور مساوات کا سلوک کرتا ہوں لیکن اگر تیری نظر میں کوئی ایسا حق وانصاف ہے جس سے میں کوتاہ رہا ہوں اور جو میری طاقت سے باہر ہے تو تو مجھے معاف فرما۔ آپ کا یہ عدیم المثال انصاف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپؐ کے دل میںاپنی ساری بیویوں کی ایک سی ہی قدر اور ایک سی ہی محبت تھی کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے اور خود آپؐ کے اپنے اقوال سے بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بعض بیویوں سے ان کی ممتاز خوبیوں اور محاسن کی وجہ سے دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت تھی۔ پس آپ کا یہ انصاف محض انصاف کی خاطر تھا۔ جسے آپ کی قلبی محبت کا فرق اپنی جگہ سے ہلا نہیںسکا۔ مرض الموت میں جب کہ آپ کو سخت تکلیف تھی اور غشیوں تک نوبت پہنچ جاتی تھی آپ دوسروں کے کندھوں پر سہارا لے کر اور اپنے قدم مبارک کو ضعف ونقاہت کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے اپنی باری پوری کرنے کے خیال سے اپنی بیویوں کے گھروں میں دورہ فرماتے تھے حتیّٰ کہ بالآخر خود آپ کی ازدواج نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ آپؐ عائشہ کے گھر میں آرام فرمائیں ہم اپنی باری خود اپنی خوشی سے چھوڑتی ہیں۔ اس عدل وانصاف کے توازن کو قائم رکھنے کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ آپؐ کی موجودگی میں آپ کی بعض بیویوں کا کسی بات پر آپس میں کچھ اختلاف ہوگیا۔ حضرت عائشہ ایک طرف تھیں اور بعض دوسری بیویاں دوسری طرف۔ دوسری بیویوں نے غصہ میں آکر حضرت عائشہ کے ساتھ کسی قدر سخت باتیں کیں۔ مگر حضرت عائشہ نے صبر سے کام لیا اور خاموش رہیں۔ ان کی خاموشی سے دلیر ہوکر ان بیگمات نے ذرا زیادہ سختی سے کام لینا شروع کیا جس پر حضرت عائشہ کو بھی غصہ آگیا اور انھوں نے سامنے سے جواب دیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے اور آپ خوب جانتے تھے کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ حق پر ہیں اور حضرت عائشہ سے آپ کو دوسری بیویوں کی نسبت محبت بھی زیادہ تھی مگر چونکہ اس اختلاف کا کوئی عملی اثر نہیں تھا آپ بالکل خاموش رہے تاکہ دوسری بیویوں کے دل میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ آپؐ عائشہ کی پاسداری فرماتے ہیں۔ البتہ جب یہ نظارہ بدل گیا تو آپؐ نے حضرت عائشہ سے ازراہ نصیحت فرمایا چونکہ تم حق بجانب تھیں جب تک تم خاموش رہیں تمہاری طرف سے خدا کے فرشتے جواب دیتے رہے لیکن جب تم نے خود جواب دینے شروع کئے تو فرشتے چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔
تعلیم وتادیب کا خیال
تعلیم وتادیب کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اپنے گھر میں ایک بہترین مصلح اور معلم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور کوئی موقع اصلاح اور تعلیم کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ قرآن شریف کی ایک مشہور آیت ہے:
’’قُوْٓااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۸؎
یعنی اے مسلمانواپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی ہرقسم کی معصیت اورگناہ سے اور دوسرے ضررساں رستوں سے بچائو۔‘‘
آپؐ اس آیت پر نہایت پابندی کے ساتھ مگر نہایت خوبی سے عمل پیرا تھے اور یہ آپ.6ؐ کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپؐ کی ازواج مطہرات اسلامی اخلاق وعادت اور اسلامی شعار کا بہت اعلیٰ نمونہ تھیں۔ بشریت کے ماتحت ان سے بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی تھی لیکن ان کی غلطیوں میں بھی اسلام کی بو آتی تھی۔
حضرت عائشہؓ پر بہتان کا واقعہ
جب بعض شریر فتنہ پرداز منافقوں نے حضرت عائشہ پر بہتان باندھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور آپؐ کی زندگی بے چین ہوگئی۔ اس بے چینی کے عالم میں آپؐ نے ایک دن حضرت عائشہ سے فرمایا:
’’ عائشہ اگر تمہارا دامن پاک ہے تو خدا عنقریب تمہاری بریت ظاہر فرمادے گا مگر دیکھو انسان بعض اوقات ٹھوکر بھی کھاتا ہے لیکن اگر اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جائے اور خدا کی طرف جھکے تو خدا ارحم الراحمین ہے۔ وہ اپنے بندے کو ضائع نہیں کرتا تم سے اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو تمہیں چاہیئے کہ خدا کی طرف جھکو اوراس کے رحم کی طالب بنو۔‘‘
حضرت عائشہ کا دل پہلے سے بھرا ہوا تھا۔ اس خیال نے ان کے جذبات کو مزید ٹھیس لگائی کہ میرا رفیق زندگی اور میرا سرتاج بھی میرے متعلق اس قسم کی لغزش کا امکان تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ وہ تھوڑی دیر تو بالکل خاموش رہیں اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں کہ:
’’فَصَبْرٌٌجَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔اِنَّمَآ اَشْکُوْاَبِثّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۹؎
یعنی میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ اور میں اس بات کے متعلق جو کہی جارہی ہے خدا کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتی اور نہ میں اپنے دکھ کی کہانی خدا کے سوا کسی سے کہتی ہوں۔‘‘
یہ حضرت عائشہ کی غلطی تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ان پر کوئی بدظنی نہیں کی تھی بلکہ محض ایک اصولی نصیحت فرمائی تھی مگر آپؐ کے الفاظ نے حضرت عائشہ کے حساس دل کو چوٹ لگائی اور وہ اس غم میں اندر ہی اندر گھلنے لگ گئیں۔ لیکن اس پر کوئی زیادہ وقت نہ گزرا کہ حضرت عائشہ کی بریت میں وحی الٰہی نازل ہوئی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش خوش ان کے قریب گئے اور انہیں مبارک باد دی حضرت عائشہ نے رقّت بھری آواز میں جس میں کسی قدر رنج کی آمیزش بھی تھی جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں کسی کی شکر گزار نہیں ہوں بلکہ صرف اپنے خدا کی شکر گزار ہوں جس نے خود میری بریت فرمائی۔ سرورکائنات کے سامنے اس رنگ میں یہ الفاظ کہنا بھی ایک غلطی تھی مگر دیکھو تو غلطیاں کیسی پیاری غلطیاں ہیں جیسے ایمان واخلاص کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو معطر کررہی ہیں اور یہ سب باغ وبہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔
امہات المومنینؓ کو نصیحت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں عموماً یہ نصیحت فرماتے تھے کہ تمہاری حیثیت عام مومنات کی سی نہیں ہے بلکہ میرے تعلق کی وجہ سے تمہیں ایک بہت بڑی خصوصیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہیں اس کے مطابق اپنے آپ کو بنانا چاہیئے بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ تم مومنوں کی روحانی مائیں ہو۔ جیسا کہ میں روحانی باپ ہوں۔ پس تمہیں ہررنگ میں دوسروں کے واسطے ایک نمونہ بننا چاہیئے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم کوئی غلط طریق اختیار کروگی تو خدا کی طرف سے تمہیں دوہری سزا ہوگی کیونکہ تمہارے خراب نمونہ سے دوسروں پر بھی برا اثر پڑے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب کثرت کے ساتھ اموال آئے تو دوسرے صحابیوں کی طرح آپؐ کی ازدواج نے بھی اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ مانگا۔ آپؐ نے فرمایا۔ اگر تمہیں دنیا کے اموال کی تمنا ہے تو میں تمہیں مال دئے دیتا ہوں لیکن اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں (کیونکہ میں اپنی زندگی کو دنیا کے مال ومتاع کی آلایش سے ملوث نہیں کرنا چاہتا) اور اگر تم میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو دنیا کے اموال کا خیال دل سے نکال دو سب نے یک زبان ہوکر عرض کیا کہ ہمیں خدا کے رسول کا تعلق بس ہے مال نہیں چاہیئے اور جب انہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے اموال کوٹھکرادیا تو خدا نے اپنے وقت پر ان کو دنیا کے اموال بھی دے دیئے۔
محبت ودلداری
مگر اس تعلیم وتادیب کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت ودلداری کے طریق کو بھی کبھی نہیں چھوڑا حتیّٰ الوسع آپ ہر بات میں اپنی بیویوں کے احساسات اور ان کی خوشی کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور تلطّف سے بات کرتے۔ اور باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً ان کے پاس گذارتے حتی کہ سفروں میں بھی باری باری اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رکھتے اور آپ کی عادت تھی کہ اپنی بیویوں کی عمر اور حالات کے مناسب ان سے سلوک فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ جب بیاہی ہوئی آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی انہیں دنوں میں چند حبشی لوگ تلوار کا کرتب دکھانے کے لئے مدینہ میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی مسجد میں کرتب دکھانے کی اجازت دی۔ اور آپ نے خود حضرت عائشہ کو اپنی اوٹ میں لے کر اپنے حجرہ کی دیوار کے پاس کھڑے ہوگئے اور جب تک حضرت عائشہ اس تماشے سے (جو درحقیقت ایک فوجی تربیت کے خیال سے کرایا گیا تھا) سیر نہیں ہوگئیں۔ آپ اسی طرح کھڑے رہے۔۱۰؎
ایک اور موقع پر جبکہ حضرت عائشہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھیں آپ نے ان کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا جس میں حضرت عائشہ آگے نکل گئیں۔ پھر ایک دوسرے موقع پر جبکہ عائشہ کا جسم کسی قدر بھاری ہوگیا تھا آپ دوڑے تو حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں جس پر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:-
’’ھٰذِہِ بِتْلِکَ۱۱؎
یعنی لو عائشہ اب اس دن کا بدلا اتر گیا ہے۔‘‘
ایک دن حضرت عائشہ اور حفصہؓ بنت عمر نے صفیہؓ کے متعلق مذاق مذاق میں کچھ طعن کیا کہ وہ ہمارا مقابلہ کس طرح کرسکتی ہے ہم رسول اللہ کی صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ آپؐ کی برادری میں آپ کی ہم پلہ ہیں اور وہ ایک غیر قوم ایک یہودی رئیس کی لڑکی ہے۔ صفیہؓ کے دل کو چوٹ لگی اور وہ رونے لگ گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو صفیہ کو روتے دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ انہوں نے کہا عائشہ نے آج مجھ پر یہ چوٹ کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا واہ یہ رونے کی کیا بات تھی تم نے یہ کیوں نہ جواب دیا کہ میرا باپ خدا کا ایک نبی ہارون اور میرا چچا خدا کا ایک بزرگ نبی موسیٰ۔ اور میرا خاوند محمد (صلعم) خاتم النبین۱۲؎۔ پھر مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے۔ بس اتنی سی بات سے صفیہ کا دل خوش ہوگیا۔
نوجوانی کی حالت میں طبعاً محبت کے جذبات زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ایسا شخص دوسرے کی طرف سے بھی محبت کا زیادہ مظاہرہ چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو علم النفس کے کامل ترین ماہر تھے اس جہت سے بھی اپنی بیویوں کے مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے (جو آپ کی ساری بیویوں میں سے خوردسالہ تھیں) کسی برتن سے منہ لگا کر پانی پیا جب وہ پانی پی چکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن کو اٹھایا اور اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا۱۳؎۔ اس قسم کی باتیں خواہ اپنے اندر کوئی زیادہ وزن نہ رکھتی ہوں مگر ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جسے کوئی وقائع نگار نظر انداز نہیں کرسکتا۔ الغرض محبت میں تلطف میں دلداری میں وفاداری میں تعلیم وتربیت میں تادیب واصلاح میں اور پھرمختلف بیویوں میں عدل وانصاف میں آپ ایک ایسا کامل نمونہ تھے کہ جب تک نسل انسانی کا وجود قائم ہے دنیا کے لئے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلٰی ال محمد وبارک وسلم۔
(مطبوعہ الفضل۳۱ مئی ۱۹۲۹ئ)
۱۹۳۲ء
محمدؐ ہسْت برہانِ محمدؐ
حقیقی اور کامل تعریف
مصرع مندرجہ عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بانیٔ سِلسلہ احمدیہ کے ایک قصیدہ سے ماخوذ ہے جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت میں منظوم فرمایا تھا۔ میں نے بہت غور کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح میں جو الفاظ انسانوں کی طرف سے کہے گئے ہیں خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے ان میں مصرع مندرجہ بالا سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحیح اور حقیقی اور کامل تعریف کا حاصل اور کوئی فقرہ نہیں۔
سب سے بڑا باکمال
بے شک دنیا میں تعریف کے مستحق لاکھوں انسان گزرے ہیں اور ان میں سے بعض نے وہ مرتبہ پایا ہے کہ آنکھ ان کی رفعت اور روشنی کو دیکھ کر خیرہ ہوتی ہے اور یہ باکمال لوگ پائے بھی ہر میدان میں جاتے ہیں یعنی دین ودنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان لوگوں کے وجود سے خالی ہو مگر ان میں سے کون ہے؟ جس کی ہستی کا ہر پہلو اس کے کمال پر شاہد ہو۔ کون ہے جس کے وجود کا ہرذرہ اس کے نورِ باطن کا پتہ دے رہا ہو؟ کون ہے جس کی ذات والا صفات کا ہر خلق اس کی یگانگت کی دلیل ہو؟ یقینا یہ کمال صرف مقدس بانیٔ اسلام (فداہ نفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی دوسرا انسان اس صفت میں آپؑ کا شریک نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ خداداد نے دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یدِبیضانے ایک عالم کی آنکھ کو مسخر کردیا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دم عیسوی سے روحانی مُردوں نے زندگی پائی مگر باوجود اپنے روحانی کمال کے حضرت مسیح ناصری ؑ نے موسیٰ علیہ السلام کا یدبیضا نہ پایا۔ حضرت موسیؑ کو باوجود اپنی رفعتِ شان کے حسنِ یوسفؑ سے محرومی رہی۔ حضرت یوسفؑ باوجود اپنی ظاہری وباطنی حُسن کے حضرت موسیٰ ؑ کے یدبیضا اور حضرت مسیح ؑکے دمِ عیسوی کو نہ پاسکے لیکن اسلام کا مقدس بانی اپنے ہروصف میں یکتا ہوکر چمکا۔ اپنی ہرشان میں دوسروں سے بالا رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدبِیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری
مصرعہ مندرجہ عنوان
یہ شعر بہت خوب ہے بہت ہی خوب ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اس سے بھی ارفع ہے۔ آپؐ کے یدبیضا کے سامنے حضرت موسیٰ ؑ کا یدبیضا ماند ہے۔ آپؐ کے انفاسِ روحانی سے حضرت عیسیٰ ؑ کے دمِ عیسوی کو کوئی نسبت نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن وکمال کی حقیقی تصویر صرف اس مصرع میں ملتی ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زبان سے نکلا اور میرے اس مضمون کا عنوان ہے۔ میرا یہ دعویٰ محض خوش عقیدگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخ کی مضبوط ترین شہادت اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ رہنمایانِ عالم میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والاصفات وہ ذات ہے جس کا ہروصف ہر خط وخال ہر ادا آپؐ کے کمال کی دلیل ہے۔ اسی لئے قدرت نے آپؐ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مجسم تعریف کے ہیں۔ اور مصرع مندرجہ عنوان کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر دنیا میںکوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں ’’محمدؐ یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہو اور اس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے۔
احسن تقویم کا کامل نمونہ
میرے لئے اس نہایت مختصر مضمون میںاپنے اس وسیع دعویٰ کے دلائل لانے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس مضمون میں دلائل کا بیان کرنا میرا مقصد ہے۔ میں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتاہوں کہ ہمارا رسولؐ مرتبہ کیا رکھتا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جس نے اسے اس تعریف کا مستحق بنایا ہے جو مصرع مندرجہ عنوان میں بیان کی گئی ہے۔ سو جیساکہ میںنے اوپر بیان کیا ہے وہ مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود نبوت ورسالت کے جملہ کمالات میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ کسی ایک وصف یا ایک کمال کو لے کر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آپ.6ؐ کا امتیاز ی خاصہ ہے۔ میں آنحضرت صلی۔اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سوانح نگار ہوں اور خدا کے فضل سے آپ.6ؐ کے حالاتِ زندگی کا کسی قدر مطالعہ رکھتا ہوں۔ اور میں نے آپ.6ؐ کے سوانح کا مطالعہ بھی ایک آزاد تنقیدی نظر کے ساتھ کیا ہے۔ میں اس معاملہ میں اپنی ذاتی (گو معاملہ کی اہمیت کے مقابلہ میں نہایت ناچیز) شہادت پیش کرتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف ومحاسن کا جائزہ لے کر آپ.6ؐ کے وجودمیں کسی امتیازی خاصہ کی تلاش کرنی چاہی ہے تو میری نظر ہمیشہ ماندہو ہوکر لوٹ گئی ہے اور کبھی کامیابی نہیں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے اپنے نبی میں اوصافِ جلالی کا نور دیکھا تو اسے لے کر اپنے بانی کی تعریف میں پل باندھ دیئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تبعین نے اپنے مسیح کے اوصاف جمالی کا نظارہ کیا تو اس سے مسحور ہوکر انہیں خدا کے پہلو میں جابٹھایا۔
گوئتم بدھ کے نام لیووں نے اپنے بانی کی نفس کشی اور فنائیت کو دیکھ کر اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے مِلا دئیے۔ مگر اسلام کا بانی خدائے ذوالعرش کی کامل تصویر تھا اس لئے اس کے کمال نے اس بات سے انکار کیا کہ اس کاکوئی وصف اس کے کسی دوسرے وصف سے ہیٹا ہو۔ وہ اپنی امت کی کامل اصلاح کا پیغام لایا تھا اس لئے اس کی تصویر کا کوئی رنگ اس کے دوسرے رنگوں سے مغلوب نہیں ہوا۔ تا ایسا نہ ہو کہ اس کے متبع اس کے غالب رنگ سے متاثر ہوکر اصلاح کے ایک پہلو میں نفع اور دوسرے میں نقصان کا طریق اختیار کرلیں۔ قدرت نے اس کے تمام قوائے فطری کی ایک سی آبپاشی کی اور اس کے وجود میں اپنے اس فعل کو کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۱۴؎ تک پہنچادیا اسی واسطے جہاں دوسرے نبیوں کی بعثت کے لئے الٰہی کلام میںان کے حسبِ حال اور اور رنگ کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو خدا تعالیٰ نے خود اپنی آمد کہہ کر پکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح خدا کی ہستی کی بہترین دلیل خود خدا کی ذات ہے جو بغیر کسی بیرونی توسّل کے خود اپنی قدرت وجبروت کے زور سے اپنے آپ کو منواتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال کی بہترین دلیل خود آپ.6ؐ کا وجودِ باجود ہے۔ جو اپنے ہر وصف میںایک سی کشش اور ایک سی طاقت کے ساتھ دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کررہا ہے۔
نادر کرشمۂ قدرت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت صرف ان روحانی کمالات تک محدود نہیں جو نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بلکہ اس نادر کرشمۂ قدرت نے دین ودنیا کے جس میدان میں قدم رکھا ہے وہاں حُسن واحسان کا ایک کامل نقش اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔ یہ دلائل وامثلہ کی بحث میں پڑنے کا موقع نہیں ورنہ میں تاریخ سے مثالیں دے دے کر بتاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بچہ تھے تو بہترین بچہ تھے۔ اور جب جوان ہوئے تو بہترین جوان نکلے، ادھیڑ عمر کو پہونچے تو ادھیڑ عمر والوں میں بے مثل تھے اور جب بوڑھے ہوئے تو بوڑھوں میں لاجواب ہوئے۔ شادی کی تو بہترین خاوند بنے اور جب بادشاہ بنے تو دنیا کے بادشاہوں کے سرتاج نکلے۔ کسی کے دوست ہوئے تو جہان کی دوستیوں کو شرمادیا اور اگر کوئی آپ کا دشمن بنا تو اُس نے آپ.6ؐ کو اپنا بہترین دشمن پایا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو آپ.6ؐ کے سامنے ہمیشہ کے لئے نیچا کردیا۔ فوج کی کمان لی تو دنیا کے جرنیلوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ اور سیاست کی تو سیاست کا ایک بہترین ضابطہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ انتظامی حاکم بنے تو ضبط ونظم کی مثال بن گئے اور قضا کی کرسی پر بیٹھے تو عدل وانصاف کا مجسمہ نظر آئے۔ فاتح بنے تو دنیا کے فاتحین کو ایک سبق دیا۔ اور کبھی کسی معرکہ میں حکمت الٰہی سے مفتوح ہوئے تو مفتوح ہونے کا بہترین نمونہ قائم کیا۔ معلم خیر بنے تو جذب وتاثیر میں عدیم المثال نکلے اور عابد کا لباس پہنا تو تعبّد کو انتہا تک پہونچا دیا اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ کبھی کسی وصف پر زور ہو اور کبھی کسی وصف پر اپنے اپنے موقع پر ہر وصف کا دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ کامل طور پر ظہور ہوا۔ اور جب بالآخر خدا کی طرف سے واپسی کا پیغام آیا تو موت کا کیسا دلکش اور کیسا پیارا نقشہ پیش کیا کہ نزع کا عالم ہے اور روح جسم کے ساتھ اپنی آخری کڑیاں توڑ رہی ہے اور یہاں زبان پریہ الفاظ ہیںکہ
’’ اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانکُم۱۵؎یعنی
اے مسلمانوں تم خدا کی عبادت میں کبھی سست نہ ہونا۔ کہ وہی ہرخیروبرکت اور ہر قوت وطاقت کا منبع ہے۔ اور دنیا میں جو لوگ تم سے کمزور ہوں۔ اور تمہارے اختیار کے نیچے رکھے جائیں اُن کے حقوق کی حفاظت کرنا۔‘‘
اور جب رشتہ حیات ٹوٹنے کے لئے آخری جھٹکا کھاتا ہے تو آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ ہیں۔
’’اَللّٰھُمّٰ بِالرَّفِیْقِ الْاَ علٰی اللَّھم بِالرفیقِ الا عْلٰی۱۶؎ یعنی
اے میرے آقا تو اب مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مجھے اپنی رفاقتِ اعلیٰ میں لے لے۔‘‘
مطہر زندگی اور مطہر موت
یہ اسی پاک ومطہر زندگی اورپاک ومطہر موت کا اثر تھا کہ جب وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی،اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ.6ؐ کے چہرۂ مبارک پر سے چاردر ہٹا کر آپ.6ؐ کی پیشانی کو بوسہ دیا تو اس زندگی بھر کے رفیق کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ کہ طَبْتَ حیًّا ومیّتاً۱۷؎ یعنی ’’تو زندہ تھا تو بہترین زندگی کا مالک تھا اور فوت ہوا تو بہترین موت کا وارث بنا۔‘‘ کیا کسی اور نبی کے اوصاف میں یہ ہمہ گیر افضیلت نظر آتی ہے۔ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اور نبی ایسا گزرا ہے جس کی زندگی اتنے مختلف پہلوئوں کے مناظِر پیش کرتی ہو؟
من کل الوجُوہ افضلیّت
یہ اسی ہمہ گیر افضلیت کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ.6ؐ کے لئے ایسی کامیابی مقدر کی جس کی مثال کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ بے شک خدا کے ازلی رفیق لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.6ْ۱۸؎ کے ماتحت ہر نبی زکے لئے غلبہ مقدر ہوتا ہے مگر غلبہ کے بھی مدارج ہیں اور یقینا جو غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہوا اس کے سامنے دوسرے نبیوں کی کامیابی اسی طرح ماند ہے جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے دوسرے اجرام سماوی کی روشنی ماند ہوتی ہے۔ غرض جس جہت سے بھی دیکھاجائے جن پہلوئوں سے بھی مشاہدہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات دوسرے رہنمایانِ عالم سے اس طرح ممتاز وفائق نظر آتی ہے جیسے ایک بلند مینار آس پاس کی تمام عمارتوں سے ممتاز وبالا ہوتا ہے۔ اور آپ کا یہ امتیاز کسی ایک وصف یا کسیِ ایک شعبۂ زندگی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور من کل الوجوہ ہے۔ اسی لئے جہاں دوسرے انبیاء مرسلین کی تعریف میں ان کے خاص خاص اوصاف کو چُن لیا جاتا ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تعریف سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ:-
’’محمدؐ ہست بُرہان محمد.6ؐ‘‘
اللّٰھَمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ
(مطبوعہ الفضل ۶ نومبر ۱۹۳۲ئ)
۱۹۳۳ء
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے کی ہدایات صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ولایت روانہ ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی انہیں نہایت ضروری اور اہم ہدایات تحریر فرما کردیں۔ ذیل میں انہیں افادہ عام کے لئے درج کیا جاتا ہے۔
عزیزم مظفر احمد سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ:
اب جبکہ تم ولایت کے لمبے سفر پر جارہے ہو ۔( اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اورتمہیں ہرقسم کی دینی ودنیوی خیریت کے ساتھ کامیاب اور بامراد واپس لائے) میں چاہتا ہوں کہ اپنی سمجھ کے مطابق جو باتیں تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں وہ تمہیں اختصار کے ساتھ لکھ کردوں تاکہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ تمہارے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق وھوالمستعان
ہر اچھی بات اختیار کرو اور بُری سے بچو
(۱) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا مذہب تہذیب اورتمدن بالکل جدا ہے۔ یہ ملک تمہارے واسطے گویا ایک نئی دنیا کا حکم رکھتا ہے۔ اس میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے داخل ہو۔ اس ملک میں بہت سی باتیں تمہیں مفید اور اچھی ملیں گی انہیں اس تسلی کے بعد کہ وہ واقعی اچھی ہیں بیشک اختیار کرو اور ان سے فائدہ اٹھائو کیونکہ مفید اور اچھی چیز جہاں بھی ملے وہ مومن کا مال ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ
’’ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث وجدھا۱۹؎یعنی
ہر اچھی بات مومن کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ وہ جہاں بھی ملے اسے لے لینا چاہیئے۔‘‘
مگر جہاں اس ملک میں اچھی باتیں ملیں گی وہاں بہت سی خراب اور ضرررساں باتیں بھی ملیں گی۔ ان باتوںکے مقابلہ پر تمہیں اپنے آپ کو ایک مضبوط چٹان ثابت کرنا چاہیئے اور خواہ دنیا کچھ سمجھے مگر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خراب اور ضرررساں چیز کے معلوم کرنے کا یقینی معیار سوائے اس کے اور کوئی نہیںکہ جوبات خدا اور اس کے رسول کے حکم اور موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کے خلاف ہے وہ یقینا نقصان دہ اور ضرررساں ہے۔
دین اور اخلاق کی حفاظت
(۲) ولایت میں تمہیں اپنے دین اور اخلاق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ملک اپنے اندر بعض ایسے عناصر رکھتا ہے جو دین اور اخلاق کے لئے سخت ضررساں ہیں۔ پس اس ملک میں دعا اور استغفار کرتے ہوئے داخل ہو اور جب تک اس میں رہو یا اس قسم کے دوسرے ملک میں رہو۔ خاص طور پر دعا اور استغفار پر زوردو تاکہ تمہارا دل ان ممالک کے مخفی زہروں سے محفوظ رہے اور زنگ آلود نہ ہو۔ نماز کی نہایت سختی کے ساتھ پابندی رکھو اور اسے اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ اسی طرح اسلام کی دوسری عبادات اور احکام کی پابندی اختیار کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ساری برکت اور کامیابی کا راز مخفی ہے۔
تعلق باللہ کے لئے کوشش
(۳) باوجود اسلام کی مقرر کردہ عبادات اور اس کے احکام کی پابندی اختیار کرنے کے یہ یاد رکھو کہ یہ باتیں اسلام میں بالذات مقصود نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اصل مقصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اصل مقصد خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا ہے۔ پس اپنی عبادت میں ہمیشہ اس مقصد کو یاد رکھو اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ وہ باوجود نماز کے پابند ہونے کے نماز سے غافل ہوتے ہیں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہزار برس کی نمازیں جو اس مقصد سے لاپرواہی کی حالت میں ادا کی جاتی ہیں اس ایک سجدہ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے سچی تڑپ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ پس اپنی ہرعبادت میں اور اپنے ہر عمل میں اس بات کی کوشش کرو کہ خدا کے قرب اور خدا کی محبت میں ترقی ہو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا ہوجائے۔ اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو بالکل خدا کے حکم اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت چلائو اور کوشش کرو کہ تم میں خدا اوراس کے رسول کی صفات جلوہ فگن ہوجائیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
مذہبی کتب کا مطالعہ
(۴) میں تمہیں اپنی طرف سے ایک قرآن شریف اور ایک کتاب حدیث اور بعض کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور ایک کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دے رہا ہوں ان کا باقاعدہ مطالعہ رکھو اور خصوصاً قرآن شریف اور اس زمانہ کے لحاظ سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مطالعہ میں ہرگز کوتاہی نہ کرو کیونکہ ان میں زندگی کی روح ہے۔ قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرو اور اس کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالو۔ قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کا ظاہر صحیفہ فطرت کی طرح بہت سادہ ہے مگر اس کے اندر حقائق اور معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں۔ جن سے انسان اپنے غور اورفکر اور تدبر کے مطابق فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر قرآن شریف کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے زیادہ یقینی رستہ تقویٰ اور طہارت ہے۔ اس کے بغیر قرآن شریف کے حقائق انسان پر نہیں کھل سکتے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کو قرآن شریف ہمیشہ ایک سطحی کتاب نظر آتا ہے حالانکہ سمجھنے والے جانتے ہیں کہ گو اس کا ظاہر سادہ ہے مگر اس کے اندر بے شمار ذخیرے مخفی ہیں جو تقویٰ اور طہارت کے ساتھ غور کرنے والوں پر کھلتے ہیں۔ حدیث کا جو حصہ یقینی ہے وہ بھی اپنے اندر انتہائی اثر اور صداقت رکھتا ہے اور اس کے مطالعہ سے انسان روحانی پیاس کی سیری محسوس کرتا ہے اور اس زمانہ کے لئے خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتب میں خاص اثر رکھا گیا ہے۔ ان سب سے علی قدرِ مراتب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
لباس کے متعلق ہدایت
(۵) جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا لباس یہاں کے لباس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ اصولی بات یادرکھو کہ اسلام کو اصولاً لباسوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لباس گردوپیش کے حالات اور ملک کی آب وہوا پر منحصر ہے۔ پس اگر تم وہاں کی آب وہوا کے ماتحت وہاں کے لباس کاکوئی حصہ اختیار کرنا ضروری سمجھو تو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر انگریزی لباس میںایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجّال کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے ناپسند فرماتے تھے۔ اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ پس گو ظاہری اور جسمانی لحاظ سے انگریزی ٹوپی مفید ہو۔ مگر اس کی ان associationsکی وجہ سے اس کا روحانی اثر ضرررساں ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا۔ بلکہ اگر کسی چیز کے استعمال میں وہاں کے حالات کے ماتحت کوئی فائدہ یا خوبی پائو تو اسے بیشک اختیار کرسکتے ہو۔ ہاں یہ ضرور مدنظر رکھنا کہ لباس کے معاملہ میں حتّٰی الوسع سادگی اختیار کی جائے نمائش یا بھڑکیلا پن یا فضول خرچی مومن کی شان سے بعید ہے اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال تو تم جانتے ہو کہ مردوں کے لئے منع ہی ہے۔
خوراک کے متعلق ہدایت
(۶)ولایت کے سفر میںخوراک کا معاملہ بھی خاص توجہ چاہتا ہے۔ ان ممالک میں شراب اور سؤر کے گوشت کی اس قدر کثرت ہے کہ جب تک انسان خاص توجہ سے کام نہ لے غلطی یا غفلت سے ان میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شراب کا معاملہ تو خیر نسبتاً سہل ہے کیونکہ اس میں غلط فہمی کا امکان بہت کم ہے۔ مگر سؤر کے گوشت کے معاملہ میں بسااوقات غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کی نگرانی رکھنی چاہیئے کہ کھانے میں غلطی سے ممنوع گوشت سامنے نہ آجائے۔ مگر شائد اس سے بھی زیادہ نگرانی کی ضرورت اس بات میں ہے کہ کہیں غلطی سے ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت استعمال نہ ہوجائے۔ یورپ میں اورجہاز پر بھی اکثر ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ یعنی خود جانور تو جائز ہوتا ہے مگر ذبح کا طریق غلط ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی دوکانوں سے گوشت منگوایا جائے جو اسلامی طریق پر جانور ذبح کرتے ہیں۔ مثلاً یہودی لوگ اس معاملہ میں بہت محتاط ہیں اور خالص اسلامی رنگ میں ذبح کرتے ہیں۔ ان کی دوکانوں سے گوشت منگوایا جاسکتا ہے۔ اور جہاز وغیرہ پر جہاں انتظام اپنے ہاتھ میں نہ ہو وہاں مچھلی اور انڈے کی غذا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی عادت ڈال لینی چاہیئے کہ stewardیاwaiterکو پہلے سے تاکید کردی جائے کہ شراب یا سؤر کا گوشت یا غیراسلامی طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت سامنے نہ آئے۔ اور کھانا سامنے آنے پر بھی پوچھ لینا چاہیئے۔ جہاز پر غالباً جاتے ہوئے تو بمبئی سے ذبح کیا ہوا گوشت ذخیرہ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی تسلی کرلینی چاہیئے۔ اگر گوشت مشکوک ہو تو سبزی اور مچھلی اور انڈے اور پھل کی صورت میں دوسری غذا بکثرت مل سکتی ہے۔ خوراک کا معاملہ مخفی طور پر انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے اس معاملہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے اور پھر اسلامی احکام کی تعمیل مزیدبرآں ہے۔
اسلامی شعار کی پابندی
(۷)ایک بات اسلامی شعار کی پابندی ہے۔ ظاہری ہئیت کے متعلق جو اسلامی طریق ہے خواہ وہ شریعت کے احکام سے ثابت ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تعامل سے اس کی پابندی اختیار کرنی ضروری ہے شعار کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ انسان کے اندر ونہ پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ دوسروں کے لئے ظاہر میں دیکھنے والی چیز صرف شعار ہی ہے۔ انسان کے اخلاقی زیوروں میں سے اعلیٰ ترین زیور یہ ہے کہ وہ اپنے قومی اور ملّی شعار کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ اسے عزت کی نظر سے دیکھے۔ جو قومیں اس کا خیال نہیں کرتیں وہ آہستہ آہستہ ذلیل ہوجاتی ہیں۔ ڈاڑھی بھی اسلامی شعار کا حصہ ہے اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہ صرف اس پر عمل کیا ہے بلکہ زبانی طور پر بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے۔
پس اس شعار کا تمہیں احترام کرنا چاہیئے۔ اسلام کا یہ منشاء نہیں کہ ڈاڑھی اتنی ہو یا اُتنی نہ ہو۔ ان تفصیلات میں اسلام نہیں جاتا کیونکہ یہ باتیں انسان کی اپنی وضع اور مرضی پر موقوف ہیں مگر اسلام یہ ضرور چاہتا ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے خواہ وہ کتنی ہی ہو۔ ڈاڑھی مرد کا فطرتی زیور اور حسن ہے۔ اور اس کے رکھنے میں بہت سے طبی اور اخلاقی فوائد مخفی ہیں۔ انگلستان میں بھی اب تک بادشاہ ڈاڑھی رکھتا ہے اور اور بھی کئی بڑے بڑے لوگ رکھتے ہیں۔
خدمتِ اسلام
(۸) تمہیں اپنے ولایت کے قیام میں اپنے حالات کے مطابق اسلام اور سلسلہ کی تبلیغ میں بھی حصہ لینا چاہیئے اور اس کا سب سے زیادہ سہل طریق یہ ہے کہ وہاں کے مشن کے کام میں جہاں تک ممکن ہو امداد دو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اسے سرانجام دینے کی پوری پوری کوشش کرو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے بہتر تبلیغ انسان کے اپنے نمونہ سے ہوتی ہے۔ اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ اسلام بہتر مذہب ہے۔
تعلیم کے متعلق ہدایت
(۹) تمہاری تعلیم کے تعلق میں مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیںہے۔ تم سمجھدار ہو اور اس لائن میں کافی تجربہ حاصل کرچکے ہو۔ اپنے وقت کی قدروقیمت کو پہچانتے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرو اور یاد رکھو کہ دنیا میں جو مرتبہ محنت کو حاصل ہے۔ وہ عام حالات میں ذہن کو بھی حاصل نہیں ہے۔ محنت سے اگر وہ ٹھیک طرح پرکی جائے ذہن کی کمی بڑی حدتک پوری کی جاسکتی ہے مگر ذہن محنت کی کمی کو پورا نہیں کرسکتا۔ پس محنت کی عادت ڈالو۔ اور محنت بھی ایسی جسے گویا کام میں غرق ہوجانا کہتے ہیں۔ ایسی محنت اگر صحیح طریق پر کی جائے اور خدا کا فضل شامل ہو جائے تو ضرور اعلیٰ نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ جس لائن کے واسطے تم جارہے ہو اس کے لئے عموماً بہترین لڑکے لئے جاتے ہیں۔ جب تک شروع سے ہی محنت اختیار نہیں کرو گے کامیابی مشکل ہوگی۔ اگر تم محنت کرو تو پھر تمہیں خدا کے فضل سے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیںہے۔ اگر گذشتہ نتائج میں دوسرے طلباء تم سے آگے بھی رہے ہوں تو تم محنت سے ان سے آگے نکل سکتے ہو۔ انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میںہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہیئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے۔
پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کونسا ہے اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہیئے۔ یہ تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سارا دارومدار طالبعلم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے۔ البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ علاوہ ازیں تمہیں چاہیئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو۔ جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اور گذشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہیئے۔
اس کے علاوہ تمہیں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے بھی کسی کالج میں داخل ہوجانا چاہیئے کیونکہ ایک تو یہ تعلیم مقابلہ کے امتحان میں مدد دے گی اور دوسرے اگر خدانخواستہ مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کی صورت نہ ہوسکی تو یہ تعلیم ویسے بھی مفید رہے گی۔ بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو بیرسٹری کے علاوہ کوئی اور کورس بھی لے لو بشرطیکہ وہ امتحان مقابلہ کی تیاری میں روک نہ ہو۔ مثلاً بی۔اے کا کورس یا اور اسی قسم کا کوئی کورس لے سکتے ہو۔ غرض اپنے ولایت کے قیام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
تعلیم کا ایک ضروری حصہ اخبار بینی ہے جس کی تمہیں عادت ڈالنی چاہیئے۔ زمانہ حال کے معلومات کے لئے اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیںہے اور ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اسی طرح جو نئی نئی کتب شائع ہوں ان کا بھی مطالعہ رکھنا چاہیئے۔ رسائل کا مطالعہ بھی مفید ہوتا ہے۔
تقریر کی مشق کے لئے تم نے ہندستان میں میری نصیحت کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب اگر خدا توفیق دے تو اس کمی کے بھی پورا کرنے کا خیال رکھنا۔
خرچ کے متعلق
(۱۰) خرچ کے متعلق میں نے دردؔ صاحب کو لکھا ہے وہ وہاں کے حالات کے ماتحت اندازہ لکھ کر بھجوادیں گے۔ جس کے مطابق انشاء اللہ تمہیں خرچ بھجوایا جاتا رہے گا۔ میں نے انہیں لکھا ہے کہ اندازہ لگاتے ہوئے درمیانہ درجہ کے شریفانہ معیار کو مدنظر رکھیں یعنی نہ ہی تو کوئی ناواجب تنگی ہو جو تکلیف کا موجب بنے اور نہ ہی ایسی ہی فراخی ہو جو بے جا آرام وآسائش کا باعث ہو اور فضول خرچی میں شمار ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اپنے اخراجات میں اسی اصول کو مدنظر رکھوگے۔
سوسائٹی کے متعلق
(۱۱) وہاں اپنی سوسائٹی کے انتخاب کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ایسے لوگوں میں ملاجاوے جو اپنی زبانؔ اور عادت واطوار کے لحاظ سے شریف طبقہ کے لوگ سمجھے جاتے ہوں اور رذیل اور بداخلاق اور گندے اور عامیانہ زبان والے لوگوں سے قطعی پرہیز کرنا چاہیئے۔
خط وکتابت کی تاکید
(۱۲) ولایت کی ہندوستان کے ساتھ خط وکتابت ہفت روزہ ہے۔ جس میں ایک عام ڈاک ہے اور ایک ہوائی ڈاک ہے۔ تمہیں چاہیئے کہ التزام کے ساتھ ہرہفتہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو۔ اگر ہوائی ڈاک کے ذریعہ خط لکھ سکو تو بہتر ہوگا ورنہ عام ڈاک میں خط بھجوادیا کرو۔ حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المؤمنین ؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلۂ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوادئیے جائیں۔
اب میں موٹی موٹی باتیں جو تمہیں کہنا چاہتا تھا وہ کہہ چکا ہوں میرے دل میں بہت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ تمہیں کہنا نہیں چاہتا اور بس اسی قدر نصیحت کے ساتھ تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں ۔ خدا تمہیں خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے اور ہر قسم کی مکروہات سے بچاتے ہوئے کامیاب اور مظفرومنصور واپس لائے۔ اٰمین اللہم اٰمین
نوٹ:- ایک بات جو میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لکھنے سے رہ گئی ہے۔ وہ وہاں کی عورتوں کے متعلق ہے۔ ولایت میں علاوہ اس کے کہ عورت بالکل بے پردہ اور نہایت آزاد ہے، آبادی کے لحاظ سے اس کی کثرت بھی ہے جس کی وجہ سے مردوں کو باوجود کوشش کے ان کے ساتھ ملنا پڑتا ہے اور اسی اختلاط کے بعض اوقات خراب نتائج نکلتے ہیں۔ میں عورت ذات کا مخالف نہیں ہوں۔ عورت اللہ کی ایک نہایت مفید اور بابرکت مخلوق ہے اور مرد کے واسطے رفاقت حیات اور اولاد کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے عورت کا وجود ایک نہایت قابل قدر وجود ہے مگر غیر مرد عورت کا بے حجابانہ اختلاط اپنے اندر سخت فتنے کے احتمالات رکھتا ہے اور اسی لئے جہاں شریعت نے عورت کے وجود کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے وہاں یہ بھی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ غیر مرد وعورت ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں پردہ کی ان ان شرائط کو ملحوظ رکھیں۔ ان شرائط میں سے خاص طور پر قابل ذکر یہ ہیں کہ (الف) غیر مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھیں۔(ب) وہ ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں دوسروں سے علیحدہ ہوکر نہ ملیں اور (ج) ان کا جسم ایک دوسرے کے ساتھ نہ چھوئے۔ ان شرائط کے علاوہ شریعت نے اور کوئی خاص شرط پردہ کے متعلق نہیں لگائی۔ پس میںامید کرتا ہوں کہ تم ولایت میں پردے کی ان شرطوں کی پابندی اختیار کرو گے اور دل میں خدا سے دعا بھی کرتے رہو گے کہ وہ تمہیں ہر قسم کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے۔ اللہ تمہارا حافظ وناصر ہو۔
(مطبوعہ الفضل۳۱ اکتوبر ۱۹۳۳ئ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیّت میں
انبیاء کا ایک نمایاں امتیاز
دنیا میں بہت لوگ علم النفس کے ماہر گزرے ہیں اور آج کل تو یہ علم خصوصیت سے بہت ترقی کرگیا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگ جو اس علم کے عالم کہلاتے ہیں۔ ان کا علم صرف اصطلاحات کی واقفیت تک محدود ہوتا ہے اور اگر اصطلاحات کے علم سے اوپر گزر کر کبھی کسی کو حقیقی علم تک رسائی بھی ہوتی ہے تو وہ صرف اس فن کے علمی حصہ تک محدود رہتی ہے اور اس کا عملی حصہ جو حقیقۃً مقصود ہے اس فن کے اکثر ماہرین کے دائرہ حصول سے باہر رہتا ہے اور صرف علم النفس پر ہی مصر نہیں۔ دنیا میں بہت سے علوم اسی نامرادی کی حالت میں پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کا مبلغ علم اصطلاحات کی حد سے آگے نہیں جاتا۔ اور جن صورتوں میں وہ آگے جاتا بھی ہے وہ صرف علمی پہلو تک محدود رہتا ہے۔ اور علوم کے عملی استعمال تک بہت ہی کم لوگ پہونچتے ہیں۔ منطق کے علم کو دیکھو تو ہزاروں لاکھوں اس علم کے ماہر نظر آئیں گے مگر ان کا علم اصطلاحات سے آگے نہیں جاتا اور ان کی عمرِعزیز اصطلاحات کے رٹنے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور اس علم کا جو حقیقی مقصد ہے کہ جرح وتعدیل کا صحیح ملکہ پیدا ہوجائے اس سے اکثر لوگ محروم رہتے ہیں۔ بلکہ بسااوقات منطقی لوگ اپنے دلائل میں زیادہ بودے اور سطحی پائے گئے ہیں کیونکہ اصطلاحات کی الجھن ان کے لئے حقیقت تک پہونچنے کے رستے میں روک بن جاتی ہے لیکن عام لوگوں کے مقابل پر اگر انبیاء کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ امتیاز نمایاںصورت میں نظر آتا ہے کہ ان کے جُملہ علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ گو بعض اوقات علوم کی اصطلاحات سے بوجہ ظاہری تعلیم کی کمی کے واقف نہیں ہوتے مگر ہر علم جواُن کے دائرۂ کار سے تعلق رکھتا ہے اس کے اصل مقصدومدعا یا بالفاظِ دیگر اس علم کے گودے اور جوہر سے انہیں پوری پوری واقفیت ہوتی ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی شخص ایسے علم کا عالم مل نہیں سکتا۔
انبیاء اور علم النفس
علم النفس بھی جو گویا انسان کے ذہنی اور قلبی تاثرات کا علم ہے انبیاء کے مخصوص علوم کا حصہ ہے کیونکہ تربیت اور اصلاح کے کام سے اس علم کو خاص تعلق ہے بلکہ حق یہ ہے کہ شریعت کی داغ بیل زیادہ تر اسی علم کی بناء پر قائم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ قرآن شریف ہمیں بتاتا ہے اور حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے انبیاء کے بھی مدارج ہیں جیسا جیسا کام کسی نبی کے سپرد ہونا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق دی جاتی اور علوم کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔
رسول کریمؐ اور علم النفس
ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خاتم النبیئینؐ تھے اور بخلاف گزشتہ انبیاء کے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپ.6ؐ کا پیغام ہراسودواحمر کے نام تھا۔ اور آپ.6ؐ کی شریعت ہر قوم اور ہرزمانہ کے لئے بھیجی گئی تھی۔ اس لئے طبعاً آپؐ کے اندر وہ قوتیں بھی ودیعت کی گئی تھیں اور وہ علوم آپ.6ؐ کو عطا ہوئے تھے جو اس عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کے لئے ضروری تھے اور اس میں کسی نبی کی ہتک نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء میں سے کسی کو وہ علوم نہیں دیئے گئے جو آپ.6ؐ کو دیئے گئے اور کوئی ان قوتوں کو ساتھ لے کر نہیں آیا جنہیں لے کر آپ.6ؐ مبعوث ہوئے۔ اسی لئے آپ.6ؐ نے فرمایا ہے۔ ا.6َٔنَاسَیَّدُ وَلَدِاٰدْمَ وَلَافَخْر.6َ۲۰؎ میں آدمؑ کی اولاد کا سردار ہوں مگر اس کی وجہ سے میں اپنے نفس میں کوئی تکبر نہیں پاتا اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم افضل الرسل تھے تو ضروری تھا کہ علم النفس میں بھی جس کا جاننا فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ گویا لازم وملزوم کے طور پر ہے۔ آپ.6ؐسب سے اول اور سب سے آگے ہوں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقۃً ایسا ہی تھا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے تربیت اور اصلاح کا عظیم الشان اور عدیم المثال کام لینا تھا۔ اس لئے یہ علم آپ.6ؐ کے وجود میں اس طرح سرایت کئے ہوئے تھا جیسے ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبو کر نکالنے کے بعد پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ایک قدرتی چشمے کے طور پر اس علم کی ابدی صداقتیں آپؐ سے پھوٹ پھوٹ بہتی تھیں۔ چونکہ میرے لئے اس مختصر مضمون میں اس موضوع کے سارے پہلوئوں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کسی ایک پہلو کو بھی تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جاسکتا۔ اس لئے میں اس جگہ نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند مثالیں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بیان کروں گا جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپؐ کی ہر بات علم النفس کے ابدی اصول کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نکلتی تھی۔ اور زیادہ اختصار کے خیال سے میں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بھی صرف اس حصہ کو لوں گا جو روزمرہ کی گفتگو اور بے ساختہ نکلی ہوئی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔
رسول کریمؐ کے کلام کا کمال
میں بتاچکا ہوں کہ عام زبان میں علم النفس اس علم کا نام ہے جو انسانی ذہن کی تشریح اور اس کے کام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس علم میں ذہنی اور قلبی تاثرات سے بحث کی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کس طرح اثر قبول کرتا ہے اور اس کے خیالات کی روئیں کس طرح اور کن اصول کے ماتحت چلتی ہیں۔ وغیرذالک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں یہ کمال تھا کہ اس میں مخاطب فرد یا جماعت کی ذہنی کیفیت کا پورا پور لحاظ رکھا جاتاتھا اور کسی فرد یا جماعت کے خیالات کی اصلاح کے لئے جو بہترین طریق ہوسکتا ہے اس کے مطابق آپ کی زبان مبارک گویا ہوتی تھی۔ اور اس لئے سوائے اس کے کہ مشیتِ ایزدی دوسری طرح ہو آپ.6ؐ کی ہر بات ایک آہنی میخ کی طرح سامع کے دل میں دھنس جاتی تھی اور آپ اپنے مخاطب کے خیالات کی رَو کو غلط رستے پر جاتا دیکھ کر یا یہ سمجھ کر کہ اس کے غلط رستے پر پڑنے کا احتمال ہے فوراً ایسی بات فرماتے تھے جو سامع کی ذہنی رَو کو کاٹ کر اس کا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسی مثالیں آپ.6ؐ کی زندگی میں ہزاروں ملتی ہیں بلکہ آپ.6ؐ کی ساری زندگی ہی اس کی مثال ہے۔ مگر میں اس جگہ بطور نمونہ صرف چند مثالیں بیان کردینے پر اکتفا کروں گا۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ۔
جنگ بدر کے موقع کی مثال
جنگ بدر کے موقع پر جب کہ ابھی مسلمان لشکرِ کفار کے سامنے نہیں ہوئے تھے اور اکثر مسلمان اس بات سے بے خبر تھے کہ کفار کا ایک جرار لشکر مکہ سے نکل کر آرہا ہے۔ اور صرف اس خیال سے گھر سے نکلے تھے کہ قافلہ سے سامنا ہوگا۔ اس وقت بعض صحابہ نے کفار مکہ کا ایک سپاہی جوانہیں ایک چشمہ پر مل گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر پیش کیا۔ آپ.6ؐ نے اس سے لشکرِ کفار کے متعلق بعض سوالات کئے اور پھر پوچھا کہ رؤساء مکہ میں سے کون کون ساتھ ہے۔ اس نے کہا عتبہ شیبہ امیہ۔ نظربن حارث۔ عقبہ۔ ابوجہل۔ ابوالبختری۔ حکیم بن حزام وغیرہ سب ساتھ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ قبیلہ قریش کے روح رواں تھے اور نہایت بہادر اور جری سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ان کے نام سُن کر اور یہ معلوم کرکے کہ مکہ کے سارے نامی لوگ مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکل آئے ہیں۔ بعض کمزور صحابہ کسی قدر گھبرائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو بے۔ساختہ فرمایا۔ ھذہ مکّۃ قدالقت الیکم اخلاف کبدھا۲۱؎۔ لومکہ نے تو تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں۔یعنی تم خوش ہو کہ خدانے تمہارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کردیا ہے۔ صحابہ کے خیالات کی رو فوراً پلٹا کھاگئی کہ یہ تو کوئی گھبرانے کا موقع نہیں ہے بلکہ خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ان روساء کفار کو ہمارے ہاتھوں تباہ کرنے کے لئے یہاں جمع کردیا ہے اور اس طرح وہی خبر جو کمزور طبیعت مسلمانوں کے لئے پریشانی اور خوف کا باعث بن سکتی تھی۔ آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بے ساختہ نِکلی ہوئی بات سے ان کے لئے خوشی اور تقویت کا باعث بن گئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فقرہ کسیِ غوروفکر کے نتیجہ میں نہیں فرمایا بلکہ ادھر آپ.6ؐ نے مکہ کے سپاہی کے مونہہ سے یہ الفاظ سنے اور صحابہ کے چہروں پر نظر ڈال کر گھبراہٹ کے آثار دیکھے اور اُدھر بے ساختہ طورپر آپ.6ؐ کے مونہہ سے یہ لفظ نکل گئے۔ جیسا کہ ایک تیر اپنی کمان کے چلّہ سے نکل جاتا ہے اور اس بات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خیالات کی روپلٹا کھاکر فوراً اپنا رخ بدل گئی۔
فتح مکّہ کے موقع کی مثال
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابوسفیان رئیس مکّہ کی دلداری منظور تھی۔ اور آپؐ نے اس کے ساتھ اس بارے میں بعض وعدے بھی فرمائے تھے۔ جب اسلامی لشکر نہایت درجہ شان وشوکت کے ساتھ اپنے پھریرے لہراتا ہوا مکہ کی طرف بڑھا اور ابوسفیان ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا اس تزک واحتشام کو دیکھ رہا تھا۔ تو اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے حضرت سعدبن عبادہ رئیس انصار نے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور علم بردار تھے ابوسفیان کو سُناکر کہاکہ آج مکہ والوں کی ذلّت کا دن ہے۔ ابوسفیان کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح لگی۔ اس نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ،وسلم سے کہا:-
’’آپ.6ؐ نے سنا سعد نے کیا کہا ہے۔ سعد کہتا ہے کہ آج مکّہ کی ذلّت کا دن ہے۔‘‘
آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’ سعد نے غلط کہا۔ آج تو مکّہ کی عزت کا دن ہے۔ سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے۔‘‘۲۲؎
یہ ایک بے ساختگی کا کلام تھا۔ مگر دیکھو تو اس میں علم النفس کی کتنی ابدی صداقتیں مخفی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مکہ والوں کی ذلّت کے فقرہ سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ میں داخل ہوں تو مکہ والوں کی یہ ذلّت ہے حالانکہ مکہ خواہ مفتوح ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آرہا ہے۔ تو اس کی عزت ہی عزت ہے۔ اور پھر مکہ کا مقام ایسا ہے کہ اسے کسی صورت میں ذلّت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے سعد کے فقرہ سے اور اس فقرہ کے کہنے کے انداز سے مسلمانوں کے دلوں میں ابوسفیان کے متعلق تحقیر کے جذبات پیدا ہوسکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء اس کی دلداری کرنا تھا۔ اس لئے آپ.6ؐ نے فوراً ابوسفیان کی شکایت پر سعد کو تنبیہ فرمائی۔ اور مسلمانوں کے خیالات کوغلط رستے پر پڑنے سے روک لیا۔ تیسرے آپؐ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سعد کے مونہہ سے یہ بات بے اختیار نکلی ہے اور جان بوجھ کر نہیں کہی گئی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سعد اپنے قبیلہ کا سردار ہے۔ حتی الوسع اس کی تحقیر بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ حکم تو دیا کہ اس کے ہاتھوں سے سرداری کا جھنڈا لے لیا جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ یہ جھنڈا اس سے لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے تاکہ سعد کی بھی دلداری رہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر طعن کا موقع نہ پیدا ہو۔ غور کرو۔ ان مختصر سے الفاظ میں جو بے ساختہ آپ.6ؐ کے مونہہ سے نکلے، آپؐ کی نظر کہاں کہاں تک پہنچی۔ گویا ایک آن واحد میں آپؐ کے الفاظ نے کئی ذہنی دروازے جو نقصان دہ تھے، بندکردیئے اور کئی ذہنی دروازے جو نفع مند تھے وہ کھول دیئے۔
غزؤہ حنین کے موقع کی مثال
غزؤہ حنین کے بعد جب غنائم کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ والوں کی تالیف قلب کے خیال سے انہیں زیادہ حصہ دیا۔ بعض جوشیلے اور کم فہم انصار کو اس پر شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر انعام مکہ والے لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات پہونچی تو آپؐ نے انصار کو ایک علیحدہ جگہ میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ مجھے ایسی ایسی خبر پہونچی ہے۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوسکے کہ لوگ تو بھیڑ بکری اور اونٹ لئے جاتے ہیں مگر تمہارے ساتھ خدا کا رسول جارہا ہے۔ انصار کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے بعض نادان نوجوانوں کے مونہہ سے یہ فقرہ نکل گیا تھا۔ ہم خدا کے رسول کو لیتے ہیں۔ ہمیں دنیا کے اموال کی رغبت نہیں۔ آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’اے انصار کے گروہ۔ اب تم مجھے جنت میں حوضِ کوثر پر ہی ملنا۔‘‘۲۳؎
علم النفس کے ماتحت اس واقعہ کے پہلے حصہ کی تشریح واضح ہے۔ کسی نوٹ کی ضرورت نہیں مگر آپ.6ؐ کا آخری فقرہ کچھ تشریح چاہتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ اور صاف فقرہ ہے۔ مگر علم النفس کے سانچے میں کس طرح ڈھل کر نکلا ہے ۔ آپ.6ؐ کا منشاء یہ تھا کہ تم میں سے بعض نے دنیا کا لالچ کیا ہے۔ اب اس کی پاداش میں تمہیں دنیا میں اس خدائی انعام سے محرومی رہے گی جو دنیا کے انعاموںمیں سب سے بڑا انعام ہے۔ یعنی حکومت وسلطنت۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اخلاص اور تمہاری قربانیاں رائگاں گئیں۔ بلکہ اس کے لئے تم مجھے آخرت میں حوضِ کوثر پر آکر ملنا۔ وہاں تم آخرت کے انعاموں سے مالامال کئے جائو گے۔ اور خدا تمہاری سب کسریں نکال دے گا مگر دنیا میں حکومت واقتدار کا انعام اب تمہیں نہیں ملے گا۔ گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے انصار کے دل میں یہ سبق پختہ طور پر جمادیا کہ اگر قومی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہو اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ سنبھال کر چلو ورنہ ایک حصہ کا وبال دوسرے حصہ کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اور اسی فقرہ میں آپ نے یہ بھی بتادیا کہ تم نے میرا دامن پکڑ کر دنیا کی نعمتوں کا لالچ کیا اب تمہیں دنیا کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے مگر چونکہ خیالات کی اس رو کے ساتھ فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گویا انصار کی جماعت خدائی انعامات سے محروم رہی۔ اس لئے آپؐ نے ساتھ ہی اس کا ازالہ فرمادیا کہ نہیں۔ ایسا نہیں بلکہ خدا انہیں آخرت میں انعامات کا وارث بنائے گا۔ اور چونکہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے اگر آخرت میں انعامات مل جائیں تو دنیا کی محرومی چنداں قابل لحاظ نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فقرہ میں یہ مزید لطافت ہے کہ گو آپ.6ؐ کا اصل منشاء اس موقع پر انصار کو تنبیہہ کرنا تھا۔ لیکن آپ.6ؐ نے انعام کے حصہ کو تو صراحت کے ساتھ لفظوں میں بیان فرمادیا۔ مگرسزا اور محرومی کے مفہوم کو لفظوں میں نہیں بیان کیا۔ بلکہ بین السطور رکھا یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اب تمہیں دنیا میںحکومت کا انعام نہیں ملے گا۔ بلکہ صرف اس قدر فرماکر خاموش ہوگئے کہ اچھا اب تم مجھے آخرت میں ملنا مگر چونکہ یہ ایک توبیخ کا موقع تھا آپ.6ؐ نے یہ بات نہیں کھولی کہ آخرت میں تم خدائی انعامات سے بہت بڑا حصہ پائو گے۔ بلکہ صرف اس قدرفرمانے پر اکتفا کی۔ کہ مجھے حوضِ کوثر پر ملنا۔ یعنی اس حوض پر میرے پاس آنا۔ جہاں ہر انعام اور ہرخوبی اپنی انتہائی کثرت میں پائی جائے گی۔ جس میں اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی محرومی کی تلافی آخرت کے انعاموں کی کثرت سے ہوجائے گی۔ یہ صحرائے عرب.6ؐ کے اس امّی نبی.6ؐ کا کلام ہے جو ظاہری علم کے لحاظ سے ابجد تک سے بے بہرہ تھا۔
ایک اور موقع کی مثال
مشیّت ایزدی کے ماتحت ایک جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور کئی صحابی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ بعد میں یہ لوگ شرم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو مسجد کے کونے میں منہ چھپائے تاریکی میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تو پوچھا تم کون ہو۔ وہ شرم سے پانی پانی ہورہے تھے روکر عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَحْنُ الْفَرَّرُوْنَ، ہم بھگوڑے ہیں۔ یارسول اللہ آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔ بَلْ انْتُمْ الْعَکَّارُوْنَ۔۲۴؎ نہیں نہیں تم بھگوڑے نہیں ہو۔ تم تو دوبارہ حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہو۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی مذامت میں ڈوبے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ہم آپ.6ؐ کو کیا مونہہ دکھائیں۔ ہم تو میدان میں پیٹھ دکھا چکے ہیں۔ آپؐ دیکھتے ہیں۔ کہ ان کی ہمتیں گری جاتی ہیں۔ فوراً فرماتے ہیں کہ تم بھگوڑے کہاں ہو تم تو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہو۔ میرے ساتھ ہوکر پھر جنگ کے لئے نکلوگے اور اس ایک لفظ سے گرے ہوئے پست ہمت سپاہی کو اس کی پستی سے اٹھا کر کسی بلندی پر پہونچا دیتے ہیں!
(مطبوعہ الفضل۲۶ نومبر۱۹۳۳ئ)
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
الحمدللہ کہ مورخہ ۱۹ دسمبر۱۹۳۳ء سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ مہینہ نہایت درجہ مبارک ہے۔ اور اس کے اوصاف میں بہت سی قرآنی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ رمضان کے ذکر میں فرماتا ہے:-
’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ ۲۵؎
یعنی رمضان کے مہینہ میں میں اپنے بندوں سے قریب ہوجاتا ہوں اور ان کی دعائوں کو خاص طور پر سنتا ہوں۔‘‘
پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ سوائے کسی شرعی عذر مثلاً سفر اور بیماری وغیرہ کے روزہ ہرگز ترک نہ کیا جائے۔ اور روزے کے ایام کو خاص طور پر تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی اور نوافل میں گزارہ جائے۔ اور ہرقسم کے مناہی اور لغویات سے کلی طور پر پرہیز کیا جائے۔ نیز رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر نماز تہجد کا اہتمام کیا جائے اور اپنی اپنی جگہ پر نماز تراویح کا انتظام کرکے قرآن شریف ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
علاوہ ازیں حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مہینہ میں خاص طور پر صدقہ وخیرات پر زور دیتے تھے۔ اس لئے احباب کو بھی اس سنت کے ماتحت رمضان میں حتی الوسع صدقہ وخیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ غرض اس ماہ میں دینی مشاغل اور اعمال صالحہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیئے۔ اور خصوصیت کے ساتھ دعائوں پر بہت زور دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح اور بہبودی کے لئے دعائیں کی جائیں اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود بھیجنے کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی دعا ئیں کی جائیں۔
اس کے علاوہ ایک اور بات جس کی طرف بعض گزشتہ رمضانوں میں بھی توجہ دلائی جاتی رہی ہے یہ ہے کہ ہراحمدی بھائی کوچاہیئے کہ اس رمضان میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا عہد باندھیں اور پھر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اس عہد کو نبھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے متعلق یہ عہد کرلیا کرے کہ آئندہ میں اس سے بچوں گا اور پھر اپنی پوری کوشش کے ساتھ خداسے دعا کرتے ہوئے اس سے ہمیشہ کے لئے مجتنب ہوجائے۔ اس کے متعلق کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اپنے نفس کے ساتھ خدا کو گواہ رکھ کر عہد باندھا جائے۔ البتہ اگر ایسے احباب جو اس رمضان میں اس نسخہ کو استعمال فرمائیں۔ بذریعہ خط مجھے بھی اطلاع بھجوادیں تو میں انشاء اللہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی خدمت میں ان کے اسماء پیش کرکے ان کے لئے خاص دعا کی تحریک کروں گا مگر اس اطلاع میں بھی سوائے کسی بدیہی بات کے اپنی کمزوری کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ایسا اظہار ناجائز ہے بلکہ صرف اس بات کی اطلاع بھجوائی جائے کہ ہم نے اس تحریک کے ماتحت اس رمضان میں اپنی ایک کمزوری کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد باندھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ احباب میری اس تحریک کی طرف خاص توجہ فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
(مطبوعہ الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۳ئ)
حوالہ جات
۱۹۲۷ئ،۱۹۲۸،۱۹۲۹،ئ۱۹۳۲ئ،۱۹۳۳ء
۱۔ شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۲، مسند ابی ھزیرہؓ
۳۔جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
۴۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بداء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد۔ باب فی فدالاسیربالمال۔
۶۔مسند احمد بن حنبل جلد ۷۔ حدیث نمبر۲۴۳۴۳
۷۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی، جامع الترمذی باب الذہد باب ماجاء فی قصر الامل۔
۸۔ التحریم:۷
۹۔صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک
۱۰۔صحیح البخاری کتاب العیدین باب الحراب والدَّرق یوم العید۔
۱۱۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد باب تت۔
۱۲۔ جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۱۳۔ سنن النسائی کتاب الطھارۃ باب مواکلۃ الحائض والشرب من سؤرھا۔
۱۴۔التین:۵
۱۵۔ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایاباب وھل اوصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۱۶۔صحیح البخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت۔
۱۷۔ الطبقات الکبریٰ الابن سعد۔ جلد الثانی ذکر تقبیل ابی بکر صدیقؓ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاتہٗ
۱۸۔المجادلۃ:۲۲
۱۹۔جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقۃ علی العبادۃ۔
۲۰۔ سنن ابنِ ماجہ ابواب الزھد ذکر الشفاعۃ۔
۲۱۔البدایۃ والنھایۃ جلد۳ صفحہ۲۶۵
۲۲۔ اسعد الغابہ جلد نمبر ۲ صفحہ۳۰۰-۳۰۱ ذکر سعد بن عبادۃؓ۔طبع بیروت
۲۳۔ صحیح البخاری کتاب باب المناقب الانصار۔ ۱۔۸۔ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبرو احتّٰی تلقونی علی الحوض
۲۴۔ جامع الترمذی ابوب الجہاد باب ماجاء فی الذارمن الزحف۔
۲۵۔ البقرہ:۱۸۷
۱۹۳۴ء
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
ابتداء رمضان میں مَیں نے اخبار کے ذریعہ احباب کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان کے مبارک مہینہ کی برکات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کے ماتحت یہ بھی تحریک کی تھی کہ احباب رمضان میں اپنی کسی کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور اس طرح اصلاح النفس کے لئے ایک عملی قدم اٹھا کر عنداللہ ماجور ہوں۔ الحمد للہ کہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں بعض احباب نے اس قسم کا عہد باندھا ہے اور مجھے اس سے اطلاع بھی دی ہے۔ گو یہ تعداد زیادہ نہیںمگر ایک نیک تحریک کا جس حد تک بھی نتیجہ نکلے غنیمت ہے۔ میں ایسے احباب کے اسماء خاص دعا کی تحریک کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور جب رمضان کے آخری دن نماز عصر کے بعد دعا ہوگی ۔ اس میں بھی انشائ۔اللہ حضرت کی خدمت میں دوبارہ عرض کروں گا۔ مگر میں اس اعلان کے ذریعہ دوسرے احباب سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی وقت ہے وہ بھی اس تحریک سے فائدہ اٹھائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ علاوہ ازیں آج سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے جو رمضان کا مبارک ترین حصہ سمجھا گیا ہے۔ احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور نوافل اور دعائوں پر زور دیں اور اپنی دعائوں میںا سلام اور سلسلہ کی ترقی کو خصوصیت سے ملحوظ رکھیں اور ہردعا کو تحمید اور درود سے شروع کریں کیونکہ ان کی قبولیت کا یہ ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
(مطبوعہ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ئ)
ایک نہائت ضروری اعلان
دُعا اختتام درس رمضان
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان میں رمضان کے مہینہ میں مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کا درس ہؤا کرتا ہے اس درس کے اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن شریف کی آخری دو سُورتوں کا درس دے کر دُعا فرمایا کرتے ہیں۔ اس سال یہ دُعا انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹ رمضان مطابق ۱۶جنوری ۱۹۳۴ء بروز منگل قبل غروب آفتاب ہوگی۔ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ۔تعالیٰ بعد نماز عصر پہلے درس دیں گے اور پھر دُعا فرمائیں گے۔ بَیرونی احباب اس وقت اپنی اپنی جگہ پر دُعا کا انتظام کرکے اس دُعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز عموماً یہ دُعا بہت لمبی فرمایا کرتے ہیں اور قادیان کے اردگردونواح کے احباب اس میں شریک ہوتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ وقت ایک خاص رقّت اور سوز کا وقت ہوتا ہے۔ بیرونی جماعتوں کو چاہیئے کہ حتیٰ الوسع اپنی اپنی جگہ پر انتظام کرکے اس مبارک موقع میں شرکت اختیار کریں۔
(مطبوعہ الفضل۱۶ جنوری ۱۹۳۴ئ)
ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کُن زلزلہ
اور
خداکے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان
ہرمامورمرسل کے ساتھ نشانات بھیجے جاتے ہیں
اللہ تعا لیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ دنیا کی اصلا ح کے لئے اپنے کسی بند ے کو مامور فرماتا ہے تو اس کی تائید کے لئے اپنی طرف سے غیبی نشانات بھی ظاہر کرتا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیا ز ہو جائے اور سعیدروحیں صداقت کی طرف راستہ پانے میں رو شنی حاصل کریں۔ یہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک رحمت کے نشان اور دوسرے قہری نشان۔
ہر چند کہ ہر مامور من اللہ خدا کی طرف سے اصل میں رحمت کا پیغام لے کر ہی آتا ہے اورخود اس کا وجود ایک مجسّم رحمت ہوتا ہے لیکن چونکہ دنیا میں ہر مامور کا انکار کیا جاتاہے۔ جیسا کہ فرمایا:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَا دِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱؎
یعنی اے افسوس لوگوں پران کی طرف کوئی رسوُل نہیں آتا مگر یہ اس کا انکار کرتے اور اس کے دعوے کو ہنسی کا نشا نہ بنالیتے ہیں۔‘‘
اس لئے لازماً ہر مامورومرسل کو رحمت کے نشانوںکے ساتھ ساتھ قہر اور عذاب کے نشان بھی دیئے جاتے ہیںلیکن چونکہ خدا کی رحمت بہرحال اس کے عذاب پر غالب ہے۔ اس لئے جہاں رحمت کے لئے کوئی حدبندی نہیں، وہاں خداتعالیٰ نے خود اپنے عذاب کے لئے ازل سے چند اصولی قاعدے اورحدبندیاںمقرر کر رکھی ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُ وْ نَ۲؎۔ وَمَا کُنَّا مَُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَ سُوْلًا۔۳؎
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کواس حالت میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ اپنی غلطیوںکو محسوس کرکے توبہ اور استغفارمیں لگی ہوئی ہو اورنہ ہی ہم کبھی کوئی سخت عذاب نازل کرتے ہیں۔ جب تک کہ ہم اپنی طرف سے کوئی رسُول مبعوث نہ کرلیں‘‘۔
اس اصولی قاعدے کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی یہ سُنت ہے کہ اگرکوئی قوم اپنی شوخیوں اور بداعمالیوں میںحد سے گزرنے لگتی ہے۔ تو وہ پہلے اس میں ایک مامور کو مبعوث کرکے توبہ اور اصلا ح کا موقع دیتا ہے اور اگروہ اپنی اصلاح نہیں کرتی تو پھر خدا کی طرف سے وہ عذاب کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔
آیت مندرجہ بالاکے ماتحت بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مامور ومرسل کی بعثت کے بعداللہ تعالیٰ دُنیا کے مختلف حصوں میںجو کسی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں۔ اپنے قہری نشانوں کی تجلّی دکھاتا ہے تاکہ دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرکے اپنے مامور کی طرف متوجہ کرے۔ایسے عذابوں کا باعث مامور کا انکار نہیں ہوتامگر وہ مامور کے لئے ایک نشان قرارپاتے ہیںاور مشیت الٰہی ان کو اس وقت تک روکے رکھتی ہے۔ جب تک کہ رسول مبعوث نہ ہولے اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ایسے عذابوںکی خبرقبل ازوقت اپنے مامور کو دے کراس کی صداقت کے لئے ایک مزید شہادت پیدا کر دیتا ہے۔
الغرض مامورین کی بعثت کے بعد رحمت کے نشانوں کے ساتھ قہری نشانات کا ظہور بھی خدائی سنّت میں داخل ہے۔ یہ قہری نشانات ایسے علا قوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں مامور کا نام پہنچ چُکا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میںبھی جہاں مامور کا نام ابھی تک نہیں پہونچا ہوتا۔ وہ ایسے ملکوں میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جہاںخدا کے نزدیک مامور کے متعلق اتمام حجت ہوچکا ہوتا ہے اور ایسے ملکوں میں بھی جہاں ابھی اتمام حجت نہیں ہوچکا ہوتا مگریہ جملہ عذاب خواہ کسی باعث اور کسی وجہ سے ہوں،وہ مامور کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہوتے ہیں۔ اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ان کے متعلق اپنے مامور کو پہلے سے خبر دے کر اس نشان کی عزت کو دوبالا کر دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ نشانات کا وعدہ
اسی قدیم سنت کے مطا بق جس کی مثا لیںدُنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس زمانہ میںدُنیا کی اصلاح کے لئے حضرت میر زاغلا م احمدؐ صاحب قادیانی مسیح موعودو مہدی معہود جری اللہ فی حلل الا انبیاء کو آج سے قریباًپچاس سال پیشتر مبعوث فرمایا اورآپ کوہر قوم کے نبی کا نام دے کرتما م اقوامِ عالم کے لئے آؒؒخری زمانے کا موعود مصلح قراردیا تو آپ کے ساتھ ساتھ رحمت کے نشا نوںکے پیچھے پیچھے عذاب کے نشانوں کی بھی خبر دی۔ چنانچہ آپ کی زندگی اور آپ کی جماعت کی زندگی رحمت کے نشا نوں سے معمور ہے اور قیامت تک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے والوںاور آپ کی تعلیم پر چلنے والوںکو آسمان اور زمین کی نعمتوںسے مالامال کرے گا اور ان پر رحمت کی بارشیں برسائے گا اور ان کوایک پتلی اور نازک کونپل کی طرح زمین سے نکال کرآہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بنادے گا ۔ جس کی جڑیں زمین کی پاتال میں قا ئم ہوں گی اور شا خیں آسما ن سے باتیں کریں گی اور اس درخت کے مقابلہ پر جو دراصل وہی درخت ہے جس کا بیج آج سے سا ڑھے تیرہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بویا تھا۔ دنیا کی دوسری روئیدگیاںگھاس پات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں گی مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور قدیم سے یہی ہوتاچلا آیاہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کاانکاربھی مقدر تھا۔ چنا نچہ ابتدائے دعویٰ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے یہ الہام فرمایاکہ:-
’’میں اپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تُجھ کواٹھا ئوںگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پردنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوںسے اس کی سچائی ظا ہر کردے گا ۔‘‘۴؎
آخری زمانہ کے ساتھ زلازل کی خصوصّیت
یہ زور آور حملے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ کے لئے مقدر تھے۔ مختلف صورتوںمیںآنے والے تھے مگر قرآن شریف اورکتب سا بقہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زما نے کاایک خاص قہری نشان زلزلوں کی صورت میں ظاہر ہونا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ کے متعلق اپنی آمدثانی کا ذکرکرتے ہُوئے فرماتے ہیںکہ اس زمانہ میں
’’قوم قوم پر اور بادشا ہت بادشا ہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچا ل آویں گے‘‘۔۵؎
اسی طرح قرآن شریف آخری زمانہ کے عذابوںکا ذکر کرتا ہُوافرماتاہے:-
’’یَوْ مَ تَرْجُفُ الرَّاجِِِِفَۃُ۔تَتْبَعُھَاالرَّادِفَۃُقُلُوْبٌ یَّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ۔ اَبْصَارُھَاخَا شِعَۃٌ۔۶؎
یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی قسم کھاکر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہیں، فرماتاہے کہ:-
’’اس وقت زمین زلزلوں کے دھکوںسے لرزہ کھائے گی اورایک کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا۔ جس سے لوگوں کے دل دھڑکنے لگیں گے اورآنکھیںخوف اور ہیبت کے مارے اوپر نہیں اٹھ سکیں گی۔‘‘
اسی کے مطا بق احادیث میںبھی قرب قیامت کی علامت کے ذکر میںصراحت کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے۔۷؎
اسی طرح جب شروع شروع میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلا م نے خدا کی طرف سے حکم پاکر دعویٰ کیا تو آپ کے ابتدائی الہاموںمیں آئندہ آنے والے زلزلوںکی خبر تھی۔ چنانچہ ۱۸۸۳ء کا ایک الہا م ہے کہ:-
’’فَبَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَا لُوْاوَکَا نَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھَا۔اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدُ ہُ۔فَلَمَّا تَجَلّٰی ربُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا۔وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ‘‘۔۸؎
یعنی خدا اپنے اس مامور مرسل کی ان تمام باتوں سے بریّت ظاہر کرے گا جو مخالف لوگ اس کے متعلق کہیں گے۔کیونکہ وہ خدا کی طرف سے عزت یافتہ ہے۔ کیا مخالفوں کے حملوں کے مقابلہ پراللہ اپنے اس بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب خدا اپنی تجلی پہاڑ پرکرے گا تو اس کو پارہ پارہ کردے گا اور منکرین کی ساری تدبیروںکو خدا تعالیٰ خاک میں ملا دے گا۔‘‘
پھر اسی براہین احمدیہ میں دوسری جگہ یہ الہام درج ہے کہ۔
’’فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا۔قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِاللّٰہِ الصَّمَدِ۔۹؎
یعنی وہ زمانہ آتا ہے کہ’’جب خدا پہاڑ پر اپنی تجلی ظا ہر کرے گا تو اسے پارہ پارہ کردے گا۔ یہ کام خدا تعالیٰ کی خا ص قدرت سے ہوگا جسے وہ اپنے بندے کے لئے ظاہر کرے گا۔‘‘
۱۹۰۵ء کا تباہ کُن زلزلہ
ا س کے بعد جب خدا کے علم میںزلازل کا زمانہ قریب آیا تو خدا تعالیٰ نے زیادہ صراحت اور زیادہ تعیین کے ساتھ اس کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر الہا مات نازل فرمائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اُ س ہیبت نا ک اور تبا ہ کُن زلزلہ کی خبر دی گئی جو ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمال مغربی ہندوستان میںآیا جس سے کا نگڑہ کی آباد وادی خدائی عذاب کا ایک عبرت ناک نشانہ بن گئی۔ چنانچہ پہلا الہام اس بارے میںدسمبر۱۹۰۳ء میںہؤا۔ جو یہ تھا۔
.6َِ’’زلزلہ کا ایک دھکّا۔‘‘۱۰؎
یعنی عنقریب ایک زلزلہ کا حا دثہ پیش آنے والا ہے۔
ا س کے بعد یکم جون ۱۹۰۴ء کو الہام ہؤا۔
’’عَفَتِ الدِّیَارُمُحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔۱۱؎
یعنی جس زلزلہ کی خبر دی گئی ہے۔ وہ بہت سخت ہوگااور اس سے’’ملک کے ایک حصّہ میں عارضی رہائش کے مکان اور نیز مستقل رہائش کے مکان منہدم ہوکر مٹ جائیں گے‘‘۔
اس الہام میں زلزلہ کی تباہی کے علاوہ کمال خوبی کے ساتھ اس جگہ کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا تھا جہاں اس زلزلہ کی سب سے زیادہ سختی محسوس ہونی تھی ۔ چنانچہ مُحَلّٰھَاوَمُقَامُھَاکے الفاظ صاف طورپریہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس زلزلہ کی زیادہ تباہی ایسے علاقہ میں آئے گی جہاں عارضی رہائش اور مستقل رہائش دونوں قسم کی بستی ہوگی اور ظاہر ہے کہ وہ ایسا پہاڑ ہی ہوسکتا ہے۔ جہاں ایک طرف تو مستقل آبادی ہو اور دوسری طرف وہاں گرمی گزارنے کے لئے لوگ موسم گرما میں عارضی طور پر بھی جاکررہتے ہوں۔ چنانچہ کانگڑہ کے ضلع میں دھرم سالہ اور پالم پور وغیرہ کے صحت افزا مقامات بالکل اسی نقشہ کے مطا بق ہیں۔ گویا زلزلہ سے قریباً سَواسال قبل جبکہ اس زلزلہ کا وہم وگمان بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو آنے والے زلزلہ کی خبر دے دی۔ اور پھر زلزلہ سے دس ماہ قبل اس کی خطرناک تباہی سے اطلاع دی۔ اور پھر اس کی جگہ بھی بتادی اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے مندرجہ بالاالہام سے صرف چنددن بعد یعنی ۸جون ۱۹۰۴ء کو پھر دوبا رہ الہام کیا کہ:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُمَحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔۱۲؎
یعنی ایک حصّہ ملک کے عا رضی رہائش کے مکانات اور مستقل رہائش کے مکانات منہدم ہوکر مٹ جائیں گے۔ مگر میں اس حادثہ عظیمہ میں اُن لوگوں کو جوتیری جماعت کی چاردیواری میں ہوں گے محفوظ رکھوں گا۔‘‘
اس الہا م میں سا بقہ خبر کی تکرار کے ساتھ یہ بشارت زیادہ کی گئی کہ اس زلزلہ میں جما عت احمدیہ کی جا نیں محفو ظ رہیں گی ۔ اس کے بعد جب زلزلہ کا وقت زیادہ قریب آیا تو ۲۷؍۲۶ فروری ۱۹۰۵ء کی رات کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایک کشف میں بتایا کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پرشورقیامت برپاہے اور پھراس کے ساتھ ہی الہام ہؤاکہ:-
’’موتا موتی لگ رہی ہے ۔‘‘۱۳؎
گویا اس الہام میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جس زلزلہ کا وعد ہ دیا گیا ہے اس میں صرف مالی نقصان ہی نہیں ہو گا بلکہ جانی نقصان بھی ہوگااور بہت سی جا نیں ضا ئع جا ئیں گی لیکن چونکہ ان دنوں میں طاعون کا بھی دوردورہ تھا اور خیا ل ہوسکتا تھا کہ شا ید یہ الہام طا عون کے متعلق ہو۔ اس لئے یکم اپریل ۱۹۰۵ء کوخدا نے الہا م فرما یاـ:-
’’مَحَوْ نَا نَارَ جَھَنَّمَ۔۱۴؎
یعنی ہم نے وقتی طور پر طا عون کی آگ کو محوکردیاہے۔‘‘
یعنی یہ نہ سمجھو کہ یہ موتا موتی جس کی خبردی گئی ہے طاعون کے ذریعہ ہوگی کیونکہ خداکے علم میں یہ تباہی کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں مقدر ہے۔
پھر جب یہ زلزلہ بالکل سرپر آن پہنچا تو اس سے صرف ایک دن پہلے یعنی ۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہام ہواکہ:-
’’موت دروازے پر کھڑی ہے ۔‘‘۱۵؎
یعنی جس تباہی کی ہم نے خبردی تھی۔ اس کا وقت آن پہنچا ہے ۔ چنا نچہ اس الہام کے دوسرے دن یعنی ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت زلزلہ آیا اور اس سختی کے ساتھ آیا کہ ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے اور یہ زلزلہ عین شرائط بیان کردہ کے مطا بق آیا۔ یعنی اس کی سب سے زیادہ تباہی ضلع کا نگڑہ کے مقامات دھرم سا لہ اور پالم پور وغیرہ میں ہوئی جو اس علا قہ میں مستقل اور عارضی رہائش کے بڑے مرکز تھے اور اس زلزلہ کے نتیجہ میں لاکھوں روپے کے مالی نقصان کے علا وہ کئی ہزار لوگ اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ چنا نچہ سرکاری اعلا نات سے پتہ لگتا ہے کہ اس زلزلہ میںقریبا ً۳۰ ہزار جا نیں ضا ئع ہوئیں اور بے شما رعمارتیں مٹی کا ڈھیر ہوگئیں۔۱۶؎
مگر یہ خداکا فضل رہاکہ جیسا کہ پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا ۔ اس تباہی میں کوئی احمدی فوت نہیں ہوا۔
اب ہرانصا ف پسند شخص غور کرے کہ یہ کیسا عظیم الشان نشان تھا جو خدانے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہا تھ پر ظاہر کیا۔ خدانے وقت سے پہلے ۔
۱۔عذاب کی نوعیت بتادی۔
۲۔عذاب کی جگہ کی طرف اشا رہ کردیا گیا ۔
۳۔تباہی کی تفصیل بیا ن کردی۔
۴۔عذاب کاوقت ظاہر فرمادیا ۔
۵۔اور بالآخریہ بشا رت بھی دے دی کہ اس حا دثہ میںاحمدیوںکی جا نیں محفوظ رہیں گی۔
اور پھر سب کچھ عین اسی طرح ظا ہر ہواجس طرح پہلے بتادیا گیا تھا۔ کیا اس سے بڑھ کرکوئی نشان ہوگا مگر افسوس کہ بہت تھوڑے تھے جنہوں نے اس نشان سے فائدہ اٹھا یا اور اکثر لوگ انکار اور استہزاء میں ترقی کرتے گئے اور خداکا یہ قول ایک دفعہ پھرسچا ہواکہ:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱۷؎
یعنی اے افسوس لوگوں پر ان کے پا س کوئی رسول نہیں آتامگر وہ اس کا انکا ر کرتے اور اسے ہنسی کا نشانہ بنا لیتے ہیں ۔‘‘
آیندہ زلا زل کی پیشگوئی
جب اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ اس کے اس عظیم الشان نشان سے لوگوںنے فائدہ نہیں اٹھا یا تو اس کی رحمت پھرحرکت میں آکر عذاب کی صورت میں تجلی کرنے کے لئے تیار ہوئی۔چنانچہ اس زلزلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو پے درپے زلزلوں کی خبردی اوربار بار الہام فرمایا کہ اب تیری صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے خدازمین کو غیرمعمولی طور پر جنبش دے گا اور کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے جن میںسے بعض قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کے بعض حصے تہ وبالاکر دئیے جا ئیں گے اور یہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں آئیں گے تا خدااپنے قہری نشانوں سے لوگوں کو بیدارکرے اور تیری صداقت دنیا پر ظاہرہو۔ چنا نچہ۸اپریل ۱۹۰۵ء کو خدانے فرمایا:-
’’تا زہ نشا ن۔تا زہ نشان کادھکہ زَلْزَ لَۃُ السَّا عَۃِ قُوْا اَنْفُسَکُمْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔۱۸؎
یعنی لوگوں نے پہلے نشان سے فائدہ نہیں اٹھا یا اس لئے اب ہم اور تازہ نشان دکھائیں گے اور یہ نشان دھکے کی صورت میں ظا ہر ہوگا ۔ جو قیامت کا نمونہ ہوگا ۔ پس اے لوگو اس آنے والے عذاب سے اپنی جا نوں کو بچا ئو۔ اس کے ذریعے حق ظا ہر ہوگا اور با طل بھا گ جا ئے گا ۔‘‘
پھر۹اور ۱۰ اپریل۱۹۰۵ء کو یہ الہام ہوا:-
’’لَکَ نُرِیْ اٰ یٰتٍ وَّنَھْدِمُ مَایَعْمَرُوْن.6َ۔۱۹؎
یعنی ہم تیرے لئے اور نشانات ظا ہر کریں گے اور جو عمارتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ انہیں ہم مٹاتے جا ئیں گے ۔‘‘
پھر۱۰اپریل ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’اِنِّیْ مَعَ الْاَافْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃ.6ً۔۲۰؎
یعنی میں اپنی فوجیں لے کر آؤں اور اچا نک آئوںگا ‘‘۔
یہ الہام اس کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا۔
پھر ۱۵ اپریل ۱۹۰۵ء کو ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خواب دیکھاکہ
’’سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیا دہ معلوم ہوتا تھا ۔‘‘۲۱؎
پھر ۱۸اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک اور خواب دیکھا کہ :-
’’بڑے زور سے زلزلہ آیاہے اور زمین اس طرح اڑرہی ہے جس طرح روئی دھنی جا تی ہے۔‘‘۲۲؎
پھر۲۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ الہا م ہوا کہ :-
’’بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا۔‘‘۲۳؎
پھر ۲۳مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’زمین تہ وبالاکردی۔‘‘۲۴؎
پھر ۲۳اگست ۱۹۰۵ء کو یہ وحی ہوئی کہ:-
’’۱۔پہاڑگرااور زلزلہ آیا۔۲۔توجانتا ہے میں کون ہوں؟ میں خداہوں جس کو چاہتاہوں عزت دیتاہوں۔ جس کو چاہتاہوں ذلت دیتاہوں۔‘‘۲۵؎
پھر۱۳ستمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُکَذِکْرِیْ۔۲۶؎
یعنی جس طرح لوگوں نے میری یاد کو اپنے دلوں سے محوکررکھا ہے۔ اسی طرح اب میرے ہاتھ سے آبادیا ں بھی صفحہ ہستی سے محوہوں گی۔‘‘
پھر ۱۴مارچ ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’چمک دکھلائوں گا تم کواس نشان کی پنج بار۔‘‘۲۷؎
یعنی پانچ زلزلے خا ص طور پر نمایاں ہوں گے۔
پھر ۱۴ مئی ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا:-
’’ھَلْ اَتٰکَ حَدِ یْثُ الزَّ لْزَ لَۃِ۔اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزا لَھَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اثْقَالَھَا ۔وَقَالَ لْاِانْسَانُ مَالَھَا۔۲۸؎
کیا تمھارے پاس زلزلہ کی خبر پہنچ گئی ہے۔ جب زمین کو سخت دھکے آئیں گے اور وہ اپنے اندر کی چیزیں نکال کر باہر پھینک دے گی اور لوگ حیرت سے کہیں گے زمین کو کیا ہوگیا ہے۔‘‘
پھر ۱۲اگست ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۲۹؎یعنی سخت زلزلوںکے ساتھ ساتھ بعض طغیانیاںبھی مقدر ہیں اور یہ دونوں مل کر تباہی کا باعث بنیں گے۔‘‘
پھر ۱۹مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’اَرَدْتُ زَمَانَ الزَّ لْزَلَۃ.6ِ۔۳۰؎
یعنی خدافرماتاہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اب دنیا پر زلزلوں کا زمانہ آجائے۔‘‘
پھر۲۴ مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’لاکھوںانسانوں کو تہ وبالا کردوں گا۔‘‘۳۱؎
یعنی یہ جو زلازل کا زمانہ آرہا ہے اس میں دنیا کے مختلف حصوںمیں زلزلے آئیں گے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوںگی۔
پھر۱۲مئی ۱۹۰۷ء کو الہام ہوا:-
’’ان شہروں کودیکھ کررونا آئے گا ‘‘۳۲؎
مندرجہ بالاالہامات ورؤیا کے علاوہ اور بھی بہت سے الہامات اور خوابیں ہیںجن میں زلزلہ کی خبر دی گئی ہے اور بعض الہامات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعض زلزلے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں ہی آئیں گے اور بعض آپ کے بعد۔ مگر اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف اسی پر اکتفا کی جا تی ہے اور الہامات اور خوابوں پر ہی بس نہیں بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلوں کے متعلق بعض مکاشفات بھی دیکھے ہیںجنہیں آپ نے اپنی تصنیفات میں درج فرمایاہے۔ مثلاً آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں ؎
وہ تباہی آئے گی شہروںپہ اور دیہات پر
جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار
ایک دم میں غم کدے ہوجائیں گے عشرت کدکے
شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہوکر سوگوار
وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں
پست ہوجائیں گے جیسے پست ہو اک جا ئے غار
ایک ہی گردش سے گھر ہوجا ئیں گے مٹی کا ڈھیر
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہرگھڑی
پھرتاہے آنکھوںکے آگے وہ زماں وہ روزگار ۳۳؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ توسب کو معلوم ہیں۔ لیکن حال میں ۱۶اگست ۱۹۰۶ء کوجو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چلّی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا۔ وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا۔ جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے بربادہوگئے اور ہزارہاجانیں تلف ہوئیں اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خا نماں ہیں ۔ شاید نا دان لوگ کہیں گے کہ یہ کیوں کر نشان ہوسکتا ہے۔ یہ زلزلے توپنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خداتمام دنیا کا خداہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تما م دنیاکے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے ……یاد رہے کہ خدانے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبردی ہے۔ پس یقینا سمجھوکہ جیساکہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیاء کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوںگے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی ……اور اکثر مقامات زیروزبر ہوجائیں گے کہ گویا ان میںکبھی آبادی نہ تھی……یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہاراملک ان سے محفوظ ہے۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ شا ید ان سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھوگے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خداتمھاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں…میں نے کوشش کی کہ خداکی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمھاری آنکھوں کے سا منے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے مگر خداغضب میں دھیماہے توبہ کرو تاتم پررحم کیاجائے۔‘‘۳۴؎
مندرجہ بالا خدائی الہامات و مکاشفات میں جس دل ہلا دینے والے طریق پر زلزلوں کی خبردی گئی ہے۔ وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور جیساکہ ان میں صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے یہ شروع سے مقدر تھا کہ موعودہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں اور مختلف وقتوں میں آئیں اور ان میں سے بعض اس قدر سخت ہوں کہ قیامت کا نمونہ پیش کریں۔سو ان میںسے بعض زلزلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں آگئے۔(جیساکہ شمال مغربی ہندوستان۔جزائرغرب الہند۔ فارموسا۔ سان فرانسسکواورچلی وغیرہ میں پے درپے خطرناک زلزلے آئے)اور یہ زلزلے اس طرح غیر معمولی طور پر آئے کہ مشہور انگریزی اخبار پائونیر کو حیران ہوکر لکھنا پڑا کہ یہ بالکل ایک غیرمعمولی تباہی ہے۔ چنانچہ پائونیرنے لکھا۔
’’ اس عالمگیر تباہی کی دنیا کی تاریخ میں حضرت مسیح ناصری کے ایک سو سال بعد سے لے کر آج تک بہت ہی کم مثا ل نظر آتی ہے‘‘۔۳۵؎
لا ہور کے ایک انگریزی اخبا ر سول نے لکھا:-
’’جمیکا کا تباہ کن زلزلہ جو ۱۹۰۶ء کے اسی قسم کے بہت سے تباہ کن زلا زل کے اس۔قدر جلد بعد آیا ہے۔ ہر شخص کے دل میں یہ خیال پیدا کررہا ہے کہ اب سطح زمین امن کی جگہ نہیں رہی… اس زلزلہ میں ہمیں اس قسم کے ہیبت ناک واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں جو دور کے کسی گزشتہ زمانہ میں سناجاتاہے کہ ہواکرتے تھے……یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس کرئہ ارض کو چھوڑ کر کسی اور پر امن کرّہ میں نہیں جاسکتے‘‘۔۳۶؎
الغرض حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کی پیشگوئی کے بعد آپ کی زندگی میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے سخت زلزلے آئے اور بعض آپ کی وفات کے بعد آئے۔( جیساکہ اٹلی، جاپان، چین وغیرہ کے تباہ کن زلزلے) اور بعض آ یندہ آئیں گے اور یہ خدا ہی کو علم ہے کہ وہ کب کب اور کہاں کہاں آئیں گے اوران کے نتیجہ میں کیا کیا تبا ہی مقد ر ہے۔مگر وہ تبا ہ کن زلزلہ جو حال ہی میں ۱۰جنوری ۱۹۳۴ء کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آیا ہے جس نے صوبہ بہار اور ریاست نیپال اور بنگال کے بعض حصوں میں قیامت برپاکررکھی ہے۔وہ ایک ایسا زلزلہ ہے کہ اس میں ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی ہندوستان والے زلزلہ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات وکشوف میں تصریح اور تعیین پائی جاتی ہے اور یوں نظرآتاہے کہ گویا خدائی ہاتھ معین طور پر اشارہ کررہاہے کہ یہ زلزلہ ان خاص زلزلوں میں سے ایک ایسا زلزلہ ہے جس کے متعلق تعیین اور صراحت کے ساتھ خبردی گئی تھی۔
۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء کا قیامت نما زلزلہ اور اس کی علامات
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات اور کشوف سے پتہ لگتا ہے کہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ ذیل علا مات مقرر تھیں۔ یعنی منجملہ بعض اور علامات کے ذیل کی پانچ علامت اس کے لئے خا ص طور پر مقرر کی گئی تھیں۔
اوّل۔اس زلزلہ میں خطرناک تباہی آئے گی اور اس کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہو گا ۔
دوم۔ یہ زلزلہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد اس کے قریب کے زمانہ میں آئے گا۔
سوم۔ یہ زلزلہ موسم بہار میں آئے گا۔
چہارم۔یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں آئے گا۔
پنجم۔ یہ زلزلہ خاکسار اقم الحروف مرزابشیراحمد کی زندگی میں آئے گااور خاکسار ہی ابتداً اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلا نے والاہوگا۔
یہ وہ پانچ علا مات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آج سے قریباً ۲۸ سال پہلے اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر ظاہر فرمائیںاور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں کس طرح منِ وعن پوری ہوئیں۔
اس زلزلہ کی خطرناک تباہی کے ساتھ پانی کاسیلاب بھی مقدر تھا
سب سے پہلی علا مت جو زلزلہ کی تباہی اور پانی کے سیلا ب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اس میں سے تباہی والا حصہ تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بہت سے الہامات اور کشوف میں بیان ہوا ہے۔ جیساکہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے اور چونکہ یہ زلزلہ بھی ان خطرناک زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ہے جن کی خبردی گئی تھی ۔ اس لئے جو تباہی کی صورت دوسرے سخت زلزلوں کے متعلق بیان ہوئی ہے۔ وہی اس زلزلہ پر بھی چسپاں ہوگی مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے ایک مکاشفہ میں ایک ایسے زلزلے کاذکر کیا ہے جس کے ساتھ زمین کو زیروزبر کردینے والی تباہی کے پہلو بہ پہلو سیلاب کی تباہی بھی شامل ہوگی۔ چنانچہ فرماتے ہیں ؎
سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے
جو خبر دی وحئی حق نے اس سے دل بیتاب ہے
زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیرو زبر
وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑاسیلاب ہے ۳۷؎
اس مکاشفہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صاف الفاظ میںبیان فرماتے ہیں۔ ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے جس سے زمین زیروزبر ہوجائے گی اور اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا۔ عام حالات کے لحاظ سے یہ ایک عجوبہ بات نظرآتی ہے کہ زلزلہ اور سیلاب ایک جگہ جمع ہوں مگر خدا کے مسیح نے یہ بتا رکھاتھا کہ وقت آتا ہے کہ یہ دونوں تباہیاں ایک جگہ جمع ہوں گی۔
اس مکا شفہ میںیہ بھی اشارہ ہے کہ پہلے زلزلہ آئے گااور پھر اس کے بعد پانی کا سیلا ب آئے گا مگر ساتھ ہی دونوں کو اکٹھا کرکے یہ بھی ظا ہر فرمادیاگیا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں الگ الگ حادثات ہیں بلکہ اصل میں دونوں ایک ہی چیز ہیں مگر ان کا ظہور ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے ہوگا۔ اب دیکھ لو کہ۱۵؍ جنوری۱۹۳۴ء کو صو بہ بہار میں بعنیہٖٖٖٖ اس کے مطابق واقعہ ہوا یعنے پہلے زلزلہ آیااور اس سے زمین زیروزبر ہوگئی اورپھر اس کے بعد زمین پھٹنے سے اس کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکلا ۔ جس سے میل ہامیل تک کا علاقہ پانی میں غرق ہوکریوں نظر آنے لگا جیسے کوئی سمندر ہے۔ چنانچہ ہندوستان کا مشہور انگریزی اخبار سٹیٹسمین لکھتاہے:-
ــ’’اس زلزلہ کے دھکوں سے کئی جگہوںپر زمین پھٹ پھٹ کر بڑے بڑے غار پڑ گئے اور زمین کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکل آیاجس سے اب سارا علاقہ غرقاب ہے‘‘۔۳۸؎
لاہور کاایک اخبار’’زمیندار‘‘رقمطراز ہے کہ:-
’’اس زلزلہ کے نتیجہ میںزمین کے پھٹ جانے کی وجہ سے پانی کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طغیانی آگئی ہے۔ تمام شہر پانی کاایک ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر نظر آتا ہے‘‘۔۳۹؎
زمین کے پھٹنے سے جو سیلاب آیا۔ اس کے علا وہ زلزلہ کے بعد اس علا قہ میں سخت بارش بھی ہوئی۔ گو یا اوپر اور نیچے دونوں طرف سے زلزلہ کی مصاحبت کے لئے پانی آموجودہوا۔ اور خدا کی قدرت نمائی کامز ید کر شمہ یہ ہے کہ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعض الہامات میں یہ ظا ہر کیاگیا تھا کہ بعض زلزلے ایسے بھی آئیں گے کہ ان سے پہلے ملک میں سخت طغیانیاں آچکی ہوں گی۔ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے سے پہلے بھی ملک کے مختلف حصوں میں طغیانیاں آئیں۔ چنانچہ اس بارے میں یہ الہام الٰہی اوپر درج ہو چکا ہے کہ:-
’’صحن میں ند یا ں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۴۰؎
اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھا تھا کہ:-
’’میرے پر خدا نے الہامیہ ظاہر کیا تھا کہ سخت بارشیں ہونگی اور گھروں میں ندیاں چلیںگی اور بعد اس کے سخت زلزلے آئیںگے‘‘۔۴۱؎
سو ہم دیکھتے ہیںکہ یہ علا مت بھی ۱۵؍ جنوری والے زلزلہ میں لفظ بلفظ پوری ہوئی کیونکہ جیساکہ سب لوگ جا نتے ہیں کہ گز شتہ موسم برسات کے آ خر میں ملک کے کئی حصو ں میںنہایت سخت طغیانیاں آئیں۔چنانچہ رہتک، صوبہ پنجاب،دریائے گومتی کی وادی، صوبہ یو۔پی، مدناپور کا علاقہ صوبہ بنگال اور اڑیسہ صوبہ بہار میں۱۹۳۳ء کے آخر میںجو تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ گویا اس زلزلہ میںوہ دونوں علا متیں پوری ہوئیںجو پہلے سے بتادی گئی تھیں۔ یعنے اول یہ کہ زلزلہ سے پہلے مختلف حصوں میں تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ جن سے صحنوں میں ندیاں چل گئیں اور دوسرے یہ کہ اس خاص زلزلہ میں زلزلہ کے دھکوں سے جگہ بہ جگہ زمین کا پھٹ کر اندر کا پانی جوش مارتاہواباہر نکل آیا اور ایک خطرناک سیلا ب کی صورت پیدا ہوگئی اوراسطرح وہ پیش گوئی حرف بحر ف پوری ہوئی کہ اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہوگا اورزلزلے کے دھکے اور پانی کی تباہی دونوں مل کر تباہی کے ہیبت ناک منظر کو پوراکریں گے۔
جا ن ومال کا بے انداز نقصان
با قی رہا جا ن ومال کا نقصان جو اس زلزلہ کے نتیجہ میں ہوا۔ سو اس کی داستان ایک خون کے آنسو رلانے والی داستان ہے ۔ جانی نقصان کا تو ابھی صحیح اندازہ لگ ہی نہیں سکا۔ گورنمنٹ نے اپنی طرف سے وقتاًفوقتاً اندازے شائع کئے اور ہزاروں جانوں کانقصان بتایا مگر بعد میں ہر اندازے کی تردید ہوگئی اور صحیح اندازہ لگ بھی کس طرح سکتا ہے۔ جبکہ ابھی ہزارہامکانوںکا ملبہ اسی طرح ڈھیروں کی صورت میں پڑاہے او ر کچھ خبر نہیں کہ ان کے نیچے کتنی جانیں دبی پڑی ہیں۔ اور مالی نقصان کا تو یہ حال ہے کہ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور سوائے مٹی کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا۔ غریبوںکے گھر امیروں کے مکانات راجوں، مہاراجوں کی کوٹھیاں،بادشاہوں کے محل، گورنمنٹ کی عمارات، کارخا نے ، پُل، دوکانیں، بازار، منڈیاں وغیرہ سب خاک میں مل گئے ہیں۔اور سیلاب اورزمین کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے سے فصلوںکاجو نقصان ہوا ہے وہ مزید برآں ہے۔
الغرض اس علاقہ میںاس وقت ایک قیامت کانمونہ برپاہے۔ مونگھیر، درابھنگہ ،مظفرپور، موتی،ہاری اور کھٹمنڈ وتو گویا بالکل ہی صا ف ہوچکے ہیں اور باقی جگہوں میں بھی ایک ہولناک نظارہ تباہی وبربادی کانظر آتاہے۔ زلزلہ کی رَو پہلے تو ایک طرف سے دوسری طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر یوں محسوس ہؤاکہ زمین کے نیچے کوئی چیز چکی کی طرح گھوم رہی ہے۔گویا خدائی فرشتوں کی فوج اس ارادہ سے اتری ہے کہ سب کچھ پیس کر رکھ دے گی اس زلزلہ کی تباہی ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی زلزلے سے بھی بہت بڑھ کر ہے کیو نکہ نہ صرف جانوں کانقصان زیادہ ہے۔بلکہ بوجہ اس کے یہ ایک زرخیز اور آبادعلاقہ تھا ۔ اس میں جو مالی نقصان ہوا ہے۔ وہ کانگڑہ وادی کے نقصان سے بہت بڑا ہے ۔ اور کروڑوں کروڑ روپے سے کسی صورت میں کم نہیں ۔ چنانچہ اسی نقصان کو دیکھتے ہوئے علا وہ بہت سے ہندوستا نی لیڈروں کے ہزایکسی لنسی وائسرائے ہند اور گورنران صو بجا ت والِیا ن ریاست اور ہز میجسٹی کنگ جارج اور وزیر ہند اور لارڈ مئیرآف لنڈن اور غیرحکومتوںکے صدر اور وزرا ء وغیر ہ نے مصیبت زدگان کی امداد کے لئے چندہ کی خاص تحریک کی ہے اور خود بھی چندہ دیا ہے۔
الغرض کیا بلحاظ جانی نقصان اور کیا بلحاظ مالی نقصان (جس کاپورا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا اور اس وقت تک جو بھی اندازہ ہوا ہے۔اس سے اصل نقصان بہرحال بڑھ کر ہے) یہ زلزلہ ایک خاص زلزلہ تھا اور اس میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں کہ یہ ایک قیامت کا ایک نمونہ تھا جو خدانے دنیا کے سامنے پیش کیا مگر چونکہ ہر قوم وملت کے اخبارات میں اس زلزلہ کی تباہی کے حالات مفصل شائع ہوچکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس کے متعلق حوالے اور اقتباسات نقل کر نے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن محض نمونے کے طور پر اور کسی قدر تفصیلا ت کا علم دینے کے لئے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
تباہی کے ہولناک کوائف
اخبار الجمیعۃ دہلی لکھتا ہے:-
’’سب سے زیادہ ہولناک تباہی کی خبر یںصوبہ بہار کے بڑے بڑے شہروںاور قصبوں مثلاً پٹنہ، مظفرپور، دربھنگہ ، لہریاسرائے ، مونگھیر، بھاگل پور، جمال پور، گیا، بتیا، ترہٹ،پورینہ،سمستی پور، سارن، چمپارن، موتی ہاری، صاحب گنج، ستیامڑھی، چھپرا، منمیت پور، حاجی پور، ڈیگھی، آرہ اور چھوٹے چھوٹے قصبات ودیہات کے متعلق موصول ہوئی ہیں۔مونگھیر، دربھنگہ اور مظفرپور بالکل تباہ ہوگئے۔ مونگھیر میں صرف چار مکانات باقی ہیں۔پٹنہ میں کوئی ایسی عمارت نہیں بچی جو بالکل یا جزوی طور پر مسمار نہ ہوگئی ہو۔اول الذکر شہر میں ہزاروں لاشیں برآمد ہوچکی ہیںاور ہزاروں ابھی چونے اور اینٹوں اور لوہے کے گاڈروں کے نیچے دبی پڑی ہیں۔
شہروں اورشہروں کے باہر دیہاتی علاقوںمیں زمین شق ہوگئی کنوئیں ابل پڑے اور بعض مقامات پر کئی کئی سوگز کی چوڑائی سے پانی بیس فٹ اونچا فضاء میں کئی کئی گھنٹوں تک ابلتا رہا اور ایسی طغیا نی آئی کہ وہ علا قے جو ہمیشہ خشک رہتے تھے سات فٹ گہرے پانی کی جھیل بن گئے ۔ پٹنہ کے قریب گنگا کا دریا پانچ منٹ کے لئے بالکل غا ئب ہو گیااور پا نچ منٹ کے بعد پورے جوش اور طغیانی کے ساتھ بہنے لگا۔ غاروں سے گندھک اور ریت نکلتا رہا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں اور گائوں کے گائوں غرق ہوگئے ۔ آتشزدگی نے علیحدہ تباہ کیا مونگھیر اور مظفرپور میں ہزاروں انسان جو مرگئے ان کی لاشیں بلاامتیاز مذہب وملت دریا میں بہادی گئیں۔جو باقی رہ گئے ان کی خانما ں بربادی اور حسرت انگیز تباہی کا منظر قابل رحم ہے۔۴۲؎
سٹیٹس مین کا بیان ہے کہ:-
’’مہاراجہ دربھنگہ کے محلات اور مکانات اس طرح زمین کے برابر ہوگئے کہ ان کے کھنڈروں کو پہچانا بھی نہیں جاسکتا‘‘۴۳؎
اخبار سول لا ہور لکھتا ہے کہ:-
’’ مہاراجہ صاحب دربھنگہ کے محلات کا یہ حال ہے کہ انند باغ محل کا مینار اور دیواریں زمین سے پیوست ہوگئی ہیں اور باقی بھی شکستہ ہوگئی ہیں۔ نور گو ازمحل ، موتی محل بالکل کھنڈرات ہوگئے ہیں۔راج نگر جس پر مہاراج کے باپ نے ایک کرو ڑ روپیہ خرچ کیاتھا ۔ اب صرف ایک تباہ شدہ بستی اور اجاڑ کھنڈرات کاڈھیر رہ گیا ہے۔ مہاراجہ دربھنگہ کے کل نقصان کا موٹا اندازہ پانچ کروڑ روپے سے کم نہیں ہے‘‘۔۴۴؎
اخبار سرچ لا ئٹ پٹنہ لکھتا ہے کہ ’’جب بھونچال آیاتو اس کے ساتھ ہی زمین سے آگ نکلنی شروع ہوگئی ۔جس سے موضع اکدھرم اور نتہو دونوں گائوں تباہ ہوگئے‘‘۴۵؎
اخبار حقیقت لکھنؤ لکھتا ہے کہ:-
’’کھٹ منڈو میں ایسی قیامت آئی کہ جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ رام نگر سے کھٹمنڈو کو جو سلسلہ کوہ جاتا ہے اس کی سب سے بڑی پہاڑی راماراتھوئی میں عجیب طور پر شگاف ہوگیا ہے یعنے جس طرح کوئی دیوار بنیاد تک شق ہوجائے۔ اس طرح پہاڑ کے دوٹکڑے ہوگئے اورشگاف کی تہہ میں ایک کھولتا ہؤاچشمہ ابل پڑا ہے جس سے کچھ ایسے بخارات اٹھ رہے ہیں کہ کوئی اس کے قریب نہیں جا سکتا۔تین سرکاری عالی شان محل جن کی خوبصورتی اور صناعی پر یورپین انجینئر عش عش کرتے تھے مسمار ہوگئے ہیں۔ اور سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ راستہ میں ایک ایسا گہرا شگاف پڑگیا ہے کہ کئی دنوں تک آمدو رفت نہ ہوسکے گی۔ اگرچہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس علا قہ میں ہزاروں جانیں ضائع ہوگئی ہیں لیکن اس سے عجیب واقعہ یہ ہے کہ کئی پہاڑی ندیاں جو ان دنوں بھی ابلتی رہتی ہیںوہ بھی غا ئب ہوگئی ہیں۔گوالا منڈی نیپال گنج اوربھکتہ تھوری میں بھی اس وقت حشربپا ہے۔ بازار تبا ہ ہوگئے ہیں۔ شہر پرویرانے کا دھوکہ ہوتا ہے خاص کرنیپال گنج میں جہاں بڑے بڑے گودام تھے۔ ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ لاکھوں روپیہ سے زیادہ ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ دشوار ہے۔ انسان تو انسان حیوان اس قہر خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوںکے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے ‘‘۔۴۶؎
اخبار ملاپ لا ہور لکھتاہے کہ:
’’وادی نیپال میں قریباً قریباًتمام مکانات گرگئے ہیں ۔ کھٹمنڈو میں کئی میدانوں اور پہاڑیوں میں دراڑ پڑگئے ہیں ۔ مہاراجہ کی دو لڑکیاں ہلا ک ہوگئیں۔ مہاراجہ کی ایک پوتی اور چچازادبھائی ۔ اس کی بیوی اور دوبچے بھی ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔۴۷؎
ٹریفک منیجر بنگال ریلوے کابیان ہے کہ:-
’’اس علاقہ میں آمدورفت کے ذرائع کے کلی انقطاع کااندازہ کرنا آسان نہیں۔ مختصر یہ ہے کہ نہ سڑکیں رہی ہیں نہ ریلیں نہ تاریں۔ملک کے وسیع قطعے سیلاب میں غرق ہیں ۔ اور عملی طور پر اس علاقہ میں سے گزرنا قطعاًناممکن ہورہا ہے۔ اس وقت آنکھوں کے سا منے ابتری اور مایوسی کامنظرہے اور آیندہ کے لئے سوائے خاموشی اور خطرے کے کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔۴۸؎
اخبارزمیندار لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’۱۵؍ جنوری کے ہو لناک زلزلے نے صوبہ بہار کے مختلف مقامات پر تباہی وبربادی کا جو ہولناک منظر پیدا کردیاہے۔ اس کی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ اس بدنصیب صوبہ بہار میں اب تک تقریبا ً ہزارہا نفوس جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ہلا کت کاشکار ہوچکے ہیں۔مجروحین کی تعداد قریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ کروڑوں روپے کی جائدادیں زلزلے کے بے پناہ ہاتھ سے پیوند ز مین ہو چکی ہیں ۔ تما م اثاث البیت جو انہوں نے صدیوں کی محنت سے جمع کیا تھا ۔ ہزاروں من ملبے کے نیچے دب کر برباد ہوچکا ہے۔ شہروں کے شہر مسمار اور علاقوں کے علاقے ڈھنڈہار ہوچکے ہیں۔ کئی کئی میل تک کھانے پینے کی چیزوں کانام ونشان نہیں۔ سردی سے بچنے کے لئے کپڑے کی دھجی تک میسر نہیں۔۴۹؎
اخبار پرتاپ لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’بہارواڑیسہ سے جو اطلا عات موصول ہوئی ہیں وہ بہت دردناک ہیں۔وہاں سے جو اصحاب بھاگ کر الہ آباد میں آئے ہیںان کا بیان ہے کہ مونگھیر، مظفرپور، چھپرا، ستیامڑھی اور دربھنگہ میں ۲۰ کروڑ کا نقصان ہوگیا ہے۔ ۲۵ ہزار آدمی صرف ایک مونگھیر میں مرگئے ہیں۔ صرف ۲۲؍جنوری کے دن سرکاری انتظامات کے ماتحت تین ہزار لاشوں کو جلایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا شہروں میں بازاروں کا نام،ونشان نہیں ملتا۔ وہ لاشوں، سروں، ٹانگوں اور پتھروں وغیرہ سے بھرے ہوئے ہیں اتنی بدبو پھیل رہی ہے کہ ٹھہرنا مشکل ہورہا ہے۔‘‘
امرت بازار پتر کاسپیشل نامہ نگارمونگھیرسے لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ زدہ علاقہ میں ایک لاکھ مویشی ہلاک ہوگئے ہیں……ایک تجارتی ایجنٹ ابھی ابھی مظفرپور سے آیا ہے جو زلزلہ کے وقت وہاں موجود تھا۔وہ بیان کرتا ہے کہ مکانات کی چھتوںسے انسانی سر۔ٹانگیں۔ ہاتھ اور پائوں بیسیوںکی تعداد میں کٹے ہوئے گررہے تھے ۔ ہاہا کار کی آوازوں سے میں گھبراگیا۔کئی آدمیوں کو کھڑ کیو ں سے چھلا نگیں لگا تے دیکھا مگر ان کے نیچے آ نے سے پہلے دیواریں گر جاتی تھیں۔ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انسانی سروں۔ ہاتھوںاور بازوؤں کی بارش ہو رہی ہے……گیا کے قریب ایک چھوٹا سا دریا تھا۔جس کا نام پھلگر ہے وہ بالکل خشک ہوگیا۔ جہاں پہلے پانی تھاوہاں اب ریت کے انبار لگے ہوئے ہیں نہ معلوم دریا کا پانی کہاں غائب ہوگیالیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ندیاں جو اس موسم میںبالکل خشک ہوا کرتی تھیںپانی سے بھرگئی ہیں‘‘۔۵۰؎
مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ:-
’’۳بج کر۵منٹ پر جب کہ میں بازار میں جا رہا تھا دفعتہ ہولناک آواز سنائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ ہوائی جہاز آرہا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں کپکپی اور رعشہ شروع ہونے لگا۔ پھر زمین میں دائیں اور بائیں دوحرکتیں ہوئیں۔ بعد ازاں ایسا معلوم ہؤا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھمادیا ہے………میرے ہوش وحواس زائل ہوگئے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا۔ جہاںتک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں……شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میںاپنا گھر نہ پہچان سکا۔آخر ایک ٹیلہ پر بیٹھ کر رات گزاری۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو تمام شہر خاک کا ڈھیر تھا‘‘۔۵۱؎
آنریبل سیدعبدالعزیزصاحب وزیر تعلیم صوبہ بہار بیان کرتے ہیںکہ:-
’’ایک جگہ نہر پانی سے بھری ہوئی رواں تھی۔زمین پھٹی اور نہر کا پانی اندر سماگیا اور نہر خشک ہوگئی۔ ایک لا ری جارہی تھی۔ زلزلہ آیا اور آدمی اس سے اترگئے ۔ زمین شق ہوگئی اور لا ری زمین کے اندرسماگئی۔ اس کے بعد زمین لاری کو اپنے پیٹ میں لے کر اس طرح پیو ست ہوگئی کہ گویا کچھ ہواہی نہیں‘‘۔۵۲؎
مہاراجہ صاحب مونگھیرکے داماد کا بیان ہے کہـ:-
’’وہ شہر(مونگھیر) جو کسی وقت نہایت خوبصورت اور دلکش تھا،نہایت بھیانک اور خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ سوائے منہدم دوکانات کے ملبوں کے علاوہ وہاں کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ ابھی ہلاک ہونے والوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال ۲۵ہزار آدمیوں کااندازہ کیا گیا ہے۔ اب تک میونسپلٹی رجسٹروں میں ۱۲ہزار کے نام درج ہوچکے ہیں۔ چیل اورکووں کے جھنڈ کے جھنڈ مردہ لاشوں کو چیرنے اور پھاڑنے میں مشغول نظرآتے ہیں۔ تمام شہر قبرستان کا ایک ہیبت ناک منظر پیش کررہا ہے۔ میں اس منظر کے بیان کرنے سے قاصر ہوں جو میں نے وہاں دیکھا‘‘۔۵۳؎
اخبار ملاپ کا ایڈیٹر اپنے چشم دید حالات لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ کی وجہ سے ایسی سخت مصیبت آئی ہے کہ جس کا بیان کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تواریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ان حالات کے بیان کرنے سے دل لرزتا ہے … …مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ طوفان نوحؑ آگیا ہے یہ کیفیت پانی کے سیلاب سے ہوئی۔ بڑے بڑے لکھ پتی اس وقت درختوں کے نیچے چادر وغیرہ تانے ہوئے پڑے ہیں‘‘۔۵۴؎
پھر لکھتاہے کہ:-
’’اٹھائیس برس کے بعد ایک بار پھر ہندوستان نے ایک خوفناک بھونچال کو دیکھا ہے۔۱۹۰۵ء میں ضلع کانگڑہ میں تباہی مچی تھی اور اب کے بہارواڑیسہ اور نیپال میں ہیبت ناک بربادی ہوئی ہے۔ بھونچال کے وقت کئی کئی فٹ مکانات معہ بنیادوں کے زمین کے اوپر اچھلے ہیں۔ کنوئوں کا پانی فوارے کی طرح باہر نکلا ہے اور اپنے ساتھ اندر کی ریت بھی ساتھ لایا ہے کہ کھیتوں میں میل ہامیل تک ریت کی کئی کئی فٹ تک تہ جم گئی ہے‘‘۔
’’باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں۔ بچے اپنے ماتاپتا کو تلاش کررہے ہیں۔ گرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اٹھا کر دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ماتاپتانیچے سے نظر آسکیںاور انہیں پیار سے بلا سکیں۔لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے۔ جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ وپکار کا کیا ٹھکاناہے پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے‘‘۔۵۵؎
پھر لکھتا ہے کہ:-
’’وہ کھیت جو ۱۵؍ جنوری کی دوپہر تک دھان کی فصل کے لئے نہایت مفید تھے۔ دفعتہ ریگستان میں تبدیل ہوگئے ہیںاور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیازلزلہ کے باعث جو ریت زمین کے جگر سے نکل کر خوشگوار کھیتوں میںپـڑی ہے۔ وہ صحرا کی دائمی صورت اختیار کرجائے گی یااس ریگستان کے نخلستان میںتبدیل ہو جانے کا کوئی امکان باقی ہے؟……اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو لاکھوں ایکڑ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ اس کے غریب باشندوں کو جن کاگزارہ کاشت اراضی پر تھا کس طرح روٹی مہیا کی جائے اورزمین کو کس طرح اس قابل بنایاجا ئے کہ وہ ازسرِنو اپنی زندگی شروع کرسکیں۔‘‘
’’شہروالوں کے متعلق یہ غلط خیال ہے کہ وہی زیادہ مصیبت زدہ ہیں۔ دیہات والے تو بالکل ہی تباہ ہوگئے ہیں۔ ایک لاکھ ایکڑرقبہ سے زیادہ گنّے کی فصل کھڑی ہے مگر گناپیلنے کے تمام کارخانے تباہ ہوگئے ہیں‘‘۔۵۶؎
پھر ملاپ لاہور کا ایڈیٹر اپنے ایڈیٹوریل مضمون میں لکھتاہے کہ:-
’’تین دن اورتین رات لگاتار بھونچال زدہ علاقہ میں سفر کرنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتاہوںکہ تباہی بہت بڑی ہے اور اخباروںکے ذریعہ اب تک عوام کو جوپتہ لگا ہے وہ اس تباہی کا عشرعشیر بھی نہیں ہے۔ میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، افسوس میراقلم اورمیری زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے۔کوئی تباہی سی تباہی ہے اور بربادی سی بربادی ہے؟ دومنٹ کے جھٹکے نے چشم زدن میں دوسومیل لمبے اور ایک سومیل چوڑے علاقہ کو کھنڈرات میںتبدیل کردیا ہے۔ ہزاروں برس کی تہذیبیںاور سینکڑوں برس کی یادگاریںمٹادی گئی ہیں۔ جن مکانوں اورمحلوں میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ وہاں اب گدھ اور چیلیں منڈلارہی ہیںاورحیوانوںانسانوںکی لاشوںکونوچ نوچ کرکھارہی ہیں۔‘‘
’’ریل کی سڑکیںٹوٹ چکی ہیں۔ موٹرکار کا راستہ پھٹ چکاہے۔ کھیت دلدل بن گئے ہیں۔ ایک ہزار گائوں پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ کنوئوں نے آتش فشاںپہاڑ کے دہانہ کاکام دیا ہے۔ بھونچال کے وقت ان سے ریت پانی اور کالا مادہ اچھل اچھل کر نکلتارہاہے۔ کئی مقامات پر زمین اتنی پھٹ گئی ہے کہ اس میں کئی غاریں بن گئی ہیںاور بہت سے جانور ان غاروں میں گرکرجاں بحق ہوگئے ہیں۔‘‘
’’زلزلہ کا سب سے زیادہ غصہ مونگھیر پر نکلاہے۔ یہ مہابھارت کے راجہ کرن کا آباد کیا ہواپرانا شہر تھا۔ چالیس پچاس ہزار کی آبادی ہوگی۔ تنگ بازاراور تنگ گلیاں تھیں۔مکانات سہ منزلہ اور چار منزلہ تھے ۔ دیہات سے لوگ عید کے لئے خوشی کا سامان خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہندو بسنت کی تیاریوں میںمشغول تھے کہ یک لخت۱۵جنوری کو ایک مہیب شور زمین کے اندر سے سنائی دینے لگا۔گڑگڑاہٹ نے کان پھاڑڈالے اور زمین متزلزل ہواٹھی۔ مکانات ناچتے ہوئے نظر آنے لگے اور پھر ایک لمحہ میں ’’اڑااڑادہم‘‘کی صدائیں اٹھیں۔گردوغبار کا چاروں طرف اٹھتا ہواانبار تھا۔جو جہاں تھا وہیں رہ گیااور کسی کو کسی کی خبر لینے کی سدھ نہ رہی۔ چند منٹوںکے بعد جو لوگ زندہ بچ نکلے۔انہوں نے دیکھا کہ مونگھیر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا اور کھنڈرات کے اندرون سے چیخوں کی صدائیں بلندہو رہی ہیں۔ زلزلہ کی ہیبت ناک آواز تو بند ہوگئی ہے لیکن دبے ہوئے مردوں بچوں اور عورتوں کی چلاہٹ سے زمین کے اندر طوفان برپاہورہا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ انسانی شور بند ہوگیا اور دبے ہوئے لوگ یاتومرگئے یابے ہوش ہوگئے۔‘‘
’’اس کے بعد کھدائی کاکام شروع ہوا۔بازاروں میں سائیکل سوار بد ستور سائیکل پر بیٹھا نکلا ہے لیکن مراہوا۔ مکان میں ماں بچے کو نہلا رہی ہے۔ ایک ننھا بچہ گود میں ہے اسی حالت میں مکان گراہے اور لاشیں اسی حالت میں نکلی ہیں۔ دوکاندار سوداتول رہا ہے سامنے خریدار کھڑے ہیں اور انہیں جہاںکاتہاں بھونچال نے رکھ دیا ہے۔ ملبہ کو ہٹانے کے بعد اسی پوزیشن میں لا شیں نکلی ہیں۔
مونگھیر کے بعد شمالی بہار میں سب سے زیادہ نقصان مظفرپور میںہواہے۔ اس کی آبادی۵۲ ہزارکی تھی۔ سارے شہر میں ایک درجن سے زائد مکان نہیں بچے۔ سب کے سب نشٹ ہوگئے ہیں… …اس وقت تک مظفرپور میںملبہ کے نیچے سے۳ہزار لاشیں نکل چکی ہیںاور ابھی اور نکالی جارہی ہیں۔‘‘
’’لوگوںکا بیان ہے کہ پہلے ایک معمولی ساجھٹکاآیا۔ پھر زمین کے اندر سے ہوائی،جہاز کے چلنے کی آواز آئی۔ شور زیادہ بڑھااور ایسامعلوم ہوا جیسے بم کے ہزارہاگولے پھٹ رہے ہیں اور تب مکانات گرنے لگے اور چیخ وپکار کی ختم نہ ہونے والی صدائیںبلند ہو اٹھیں۔ دوکانوں اور مکانوں کے اندر زمین پھٹ گئی اور پانی اور ریت کے چشمے جاری ہوگئے۔ سڑکیں بھی پھٹ گئی اور ان کے اندر سے بھی ریت اور پانی باہر نکلنے لگا۔ دیہات میںبھی زمین جگہ جگہ سے پھٹ گئی اور کہیں سے سات گز اور کہیں سے پانچ پانچ گز بلند فوارے جا ری ہوگئے۔‘‘
’’جنک پور میں سات آٹھ دن گزرجانے کے باوجود بازاروں میں کشتی چل رہی ہے۔ اسی طرح ستیامڑھی کا حال ہواہے اور دوسری طرف موتی ہاری (چمپارن) میں بھی جل تھل بن گیا ہے اور اس سارے علاقہ میںجہاں جہاں خشکی ہی خشکی تھی وہاں پانی ہی پانی ہوگیا ہے ۔عجیب تبدیلیاں ہوئی ہیں۔کروڑپتی اور لا کھوں پتی لوگوں کے عالی شان محل گرگئے ہیں اور اب وہ پھٹی پرانی بوریوں میں رات بسرکررہے ہیں۔ کئی خا ندانوں کے نام ونشان مٹ گئے ہیں‘‘۔۵۷؎
پھر یہی اخبار ملاپ اپنے ایک اور نمبر میں ایک اور شخص کا چشم دیدبیان لکھتاہے کہ:-
’’ایک دومنٹ میں ہی مکانوں کے گرنے سے اندھیراہوگیا نظر کچھ نہیں آتا تھا۔ جیسا کہ روز قیامت ہے۔زمین ہل رہی تھی مکان گررہے تھے ز مین پھٹ رہی تھی اور ایسی پھٹ رہی تھی جیسے کوئی مقراض سے زمین چیررہا ہے اور جہاں وہ پھٹ رہی تھی پانی کا دریا امڈرہا تھا لوگ جو باقی بچے تھے وہ اپنی جا ن پانی کے بہاؤ سے بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے بھاگ کرکہاں جائیںجدھردیکھوپانی ہی پانی نظرآتا تھا۔ چاروں طرف زمین پھٹ رہی تھی …… شہر میں سڑکیں پھٹ چکی تھیں۔ ہزاروں آدمی کھنڈرات کے نیچے دب کر مرچکے تھے۔ خاندانوں کے خاندان تباہ ہوگئے ہیں۔ کل جو لاکھوں کے مالک تھے وہ آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔۵۸؎
اخبارزمیندار لکھتا ہے کہ:-
’’ مونگھیر میں رات سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو اب تک برابر جا ری ہے۔ بد نصیب باشندگان مونگھیر کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت ان کی حالت قا بل رحم ہے۔ ان کے پا س نہ اوڑھنے کے لئے کمبل ہے نہ پہنے کے لئے کپڑا۔ اس نئی مصیبت کی وجہ سے بعض کی زبان سے یہ الفاظ سنے گئے اس سے تو بہتر تھا کہ ہم بھی مرجاتے۔ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے اے خدا ہمیں موت دے ‘‘۔۵۹؎
اخبار ملاپ لکھتاہے کہ:-
’’مظفرپور اور پٹنہ میںکل رات سے موسلا دھار بارش شروع ہے۔ سڑکو ں پر پڑے پڑے ہزارہا بندگان خدا اب بارش میں شرابور سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ مطلع پرابرمحیط ہے۔ اور ابھی بارش تھمنے کی کو ئی علا مت نظر نہیں آتی ‘‘۔۶۰؎
اخبار پرکاش لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے شاید ہی کو ئی اتنابڑا زلزلہ آیاہو۔ زلزلہ کیا ہے پر ماتماکا ایک کوپ ہے‘‘۔۶۱؎
اخبار سرفراز لکھنئو لکھتاہے کہ:-
’’ہندوستان کے باشندے گویا زلزلے کو بھولے ہوئے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اب کچھ زمانہ سے ہندوستان میں بھی پے درپے زلزلے آرہے ہیں‘‘۔۶۲؎
اخبار اہلحدیث لکھتاہے کہ:-
’’یقین ہے کہ بعد ختم رسالت محمدؐیہ علی صاحب ہاالتحیتہ والسلام اگر نبوت جاری رہتی تو جدید نبی پر جو کتاب آتی اس میں عادثموداور فرعونیوں کی تباہی کے ذکر کے ساتھ ہی صوبہ بہار کے زلزلہ زدہ مقامات کاذکر بھی ضرور ہوتا۔ یعنی بتایاجاتاکہ عادیوں ثمودیوں کے عذاب سے زیادہ عذاب ان مقامات پرآیا‘‘۔۶۳؎
گورنمنٹ ہند کے ہوم ممبرسر ہیری ہیگ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہاکہ:-
’’سرکاری عمارتوں مثلاًعدالتوں، دفتروں اور رہائشی مکانات کی مرمت یاازسرنو تعمیرکے مجموعی اخراجات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن گورنر بہار نے کہا ہے کہ صرف ایک شہر میں۳۰لاکھ کی سرکاری عمارات مسمار ہوچکی ہیں۔ ریل کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ صرف جمال پور کے نقصان کی مرمت کااندازہ ۵۰لاکھ روپے سے کم نہیںہے۔‘‘
’’مقامی اداروں مثلاً ڈسٹرکٹ بورڈوںاور میونسپل کمیٹیوںکو بھی ہسپتالوں، دواخانوں، سکولوں، سڑکوں اورپلوں کی تباہی سے بہت نقصان پہنچاہے۔ پرائیویٹ ملکیتوںکے نقصان کا مجموعی اندازہ پیش کرنا قطعاًنا ممکن ہے۔‘‘
’’زراعتی زمینوں کے نقصانات کا اندازہ بھی ویساہی ناممکن ہے۔ بعض مقامات پر سُرخ کیچڑاور ریت زمین سے نکل آئی ہے اور یہ کہ وہ مستقبل میںزمین کی زراعتی قابلیتوں کو کس حد تک نقصان پہنچائے گی۔ اس کااندازہ سردست نہیں کیاجاسکتا۔ کاشتکاروں پر اس وقت سب سے زیادہ مصیبت کارخانجات شکرسازی کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ جیساکہ ہزایکسی لنسی گورنر نے اشارہ کیا تھا۔ تین اضلاع متاثرہ میںدولاکھ ایکڑزمین پر نیشکر بویاجاتاتھا۔ جس سے ۲۲لاکھ من شکر برآمد ہوتی تھی۔ کارخانوں کی تباہی نے بے چارے کاشتکاروںکے لئے نہایت شدیدپیچیدگی پیداکردی ہے‘‘۔۶۴؎
ہزایکسلینسی گورنرصاحب بہادر بہارنے تقریر کرتے ہوئے فرمایاجس کاخلاصہ یہ ہے کہ:-
’’ اس زلزلہ کی تباہ کاری گزشتہ تاریخ کے مقابلہ میں بلحاظ عظمت سب سے زیادہ وسیع اور بھاری ہے۔ اگر دریائے گنگا کے جنوبی حصوں کو جن میں نسبتاًجان ومال کاکم نقصان ہواہے۔ چھوڑبھی دیا جائے۔ تب بھی جس قدر علاقہ زلزلہ سے تباہ ہواہے وہ کسی طرح ملک سکاٹ لینڈ کے رقبہ سے کم نہیں ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس سے پانچ گناہ زیادہ ہے۔‘‘
’’شمالی بہار کے شہروں میں اغلباًایک خشتی مکان بھی نہیں ہے۔ جو کامل طور پر نقصان سے بچ گیا ہو۔ مونگھیر کاگنجان بازار اس حد تک برباد ہوچکاہے کہ کئی دن تک رستہ کاپتہ باوجود کوشش کے نہیں لگ سکا۔ ہزارہا جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور اگر یہ جھٹکادن کی بجائے رات کو لگتا۔ تو اس سے ہزاردرجہ زیادہ نقصان جان ہوتا۔ شہری آبادی جس پر یہ مصیبت آئی ہے۵لاکھ نفو س سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ ۱۲شہر جن کی آبادی ۱۰ہزار سے ۶۰ہزار تک تھی کامل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔‘‘
’’فوجی سپاہی جنہوں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ سے رقبہ متاثرہ کی تباہی وبربادی کامشاہدہ کیاہے وہ اس کو ایک میدان جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جس کو دشمن کی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیاہو۔ ایک بہت بڑے علاقے کے زمینداروں کی قابل کاشت زمینیں شگافوں، غاروں اور پانی کے ابلتے ہوئے چشموںسے تباہ ہوگئی ہیں۔ اور پانی کے ساتھ نکلی ہوئی ریت نے تین فٹ تک بلکہ اس سے زیادہ زمین کو ڈھانک دیاہے۔ اس نقصان کی پوری وسعت کااندازہ جو ہندوستان کے ایک نہایت زرخیز علاقہ کو پہنچا ہے۔ ایک مدت مدید تک کرنامشکل ہے۔ جس علاقہ کاڈائریکٹرآف ایگریکلچر اور ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے معائنہ کیاہے ۔ ان کااندازہ ہے کہ مظفرپور اور دربھنگہ کے نزدیک ۲ہزار مربع میل کے رقبہ پر نصف زمین بالکل ریگستان بن گئی ہے۔‘‘
’’اس کے علاوہ ہوائی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ یہ نقصان شمالی بھاگلپور اور ضلع پورینہ کے کھیتوں میں بھی پایاجاتاہے۔‘‘
’’تمام شمالی بہار میںآمدورفت کے ذرائع مسدود ہیںاور سڑکیں اور ریلیں بربادہوچکی ہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ اور ایک خطرہ جس کو قطعاً نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ہے کہ زلزلہ نے تمام ملک کی سطح میں بلحاظ نشیب وفراز بڑی بڑی تبدیلیاں پیداکردی ہیں۔ زمین کے دھنسنے اور ابھرنے کی کشاکش سے اونچی اونچی سڑکیںمعمولی سطح زمین کے برابرہوگئی ہیں۔ آب رسانی کے سابقہ ذرائع بالکل معطل ہوگئے ہیں۔ دریائوں کی گزرگاہیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اس قدر تباہی اور زمین کے تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت اندیشہ ہے کہ آیندہ برسات اس علاقہ میںسخت طوفان کاباعث ہوگی‘‘۔۶۵؎
لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لندن میں تقریر کرتے ہوئے چشم پُرآب ہوکر کہاکہ:-
’’یہ زلزلہ ایسا ہیبت ناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور یہ قریباً قریباً ناممکن ہے کہ اس تباہی کانقشہ انگلستان کے باشندے اپنے تصور میں لاسکیں‘‘۔۶۶؎
کیا یہ تباہی جو اوپر کے حوالہ جات میں بیان ہوئی ہے۔ قیامت کے نمونہ سے کم ہے۔ کیا یہ تباہی اس ہولناک نقشہ کے عین مطابق نہیں۔ جو آج سے ۲۸سال قبل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ؟ کیایہ تباہی خدائے ذوالجلال کی قدرت اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے ثابت کر نے کے لئے کافی نہیں ؟اور پھر کیا یہ تباہی خداکے وعدے کے مطابق اس کے زور آور حملوں میں سے ایک زور آور حملہ نہیں؟فاعتبرویٰٓاُولی الابصار
اس زلزلہ نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آناتھا
دوسری علامت اس زلزلہ کے لئے یہ مقرر کی گئی تھی کہ وہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کی وفات کے بعداس کے زمانہ سے ملتا ہواآئے گا۔ یہ علامت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ ۳مئی ۱۹۰۵ء کی صُبح کو آپ کو غیبی تحریر دکھائی گئی جس پر یہ الفاظ لکھے تھے:-
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘۔۶۷؎
یہ خبر نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے واقعہ قتل کے متعلق تھی ۔ جیساکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مفصل اور مدلل مضمون محررہ ۲۔ نومبر۱۹۳۳ء میں دوسرے الہامات اور تاریخی واقعات کی روشنی میںثابت کیاگیا۔ جو آج سے قریباً دوماہ پہلے شائع ہوکر تمام اکنافِ عالم میںپھیل چکاہے اور یہ الہام بذاتِ خود ایک عظیم الشان پیشگوئی کاحامل تھاجو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو کنگ نادرشاہ کے افسوس ناک قتل سے پوری ہوئی مگر یہاں ہمیں اس پیشگوئی کی تفصیلات سے کوئی سروکار نہیںہے بلکہ اس جگہ صرف یہ بتانامقصودہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے متعلق۳مئی ۱۹۰۵ء کو ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو آکر پوری ہوئی۔ اب ہم جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان الہامات پر نظر ڈالتے ہیں جو’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے بعد آپ کو ہوئے۔ تو صاف طور پران میں ایک ایسے زلزلے کی خبر پاتے ہیں جو بہت تباہ کن ہوگا اور اس میں زمین تہ وبالاکردی جائے گی ۔چنانچہ ۳ مئی۱۹۰۵ء کے بعد الہامات درج ذیل ہیں۔
سب سے پہلاالہام ۹مئی ۱۹۰۵ء کو ہُواجو یہ ہے کہ:-
’’پھر بہارآئی خداکی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۶۸؎
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘کے الہام کے بعد یہ پہلاالہام تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کوہوا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے متعدد جگہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ الہام زلزلہ کے متعلق ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپ اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ(یعنی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کازلزلہ) بھی بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبردی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا‘‘۔۶۹؎
پھر اسی دن یعنی ۹؍مئی۱۹۰۵ء کو دوسرا الہام ہواکہ:-
’’یَسْتَنبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔قُلْ اِیْ وَرَبِّیٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔۷۰؎
یعنی لوگ تجھ سے پو چھتے ہیں کہ کیایہ زلزلہ کی خبر درست ہے۔ تو کہہ دے ہاں خداکی قسم وہ درست ہے۔‘‘
پھر ۱۰مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’کیاعذاب کامعاملہ درست ہے؟اگر درست ہے تو کس حد تک؟‘‘۷۱؎
یہ الہام بھی یقینا زلزلہ کے متعلق ہے اور واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ اس پیشگوئی کے اعلان کے بعد اکثر مخالف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے سوال کرتے رہتے تھے ۔ کہ یہ جو زلزلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اگر یہ درست ہے تو اس کی کیاکیاعلامات اور کیا کیاتفصیلات ہیں۔۷۲؎
پھر ۲۲مئی ۱۹۰۵کو الہام ہواکہ:-
’’صَدَّقَنَا الرُّو.6ْ.6ٔ یَااِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْن.6َ۷۳؎
یعنی ہم نے تیرے رویا کو سچاکرکے دکھایااور ہم اسی طرح نیکوکاروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔‘‘
اس الہام کو بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے زلزلہ کی طرف منسوب فرمایاہے چنانچہ فرماتے ہیںکہ:-
’’اس پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہوچکی ہے۔ آج۲۲مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خداتعالیٰ کی طرف سے یہ وحی (یعنی وحی مندرجہ بالا) ہوئی‘‘۔۷۴؎
پھر ۲۳مئی۱۹۰۵ء کو الہام ہواکہ:-
’’زمین تہ وبالاکر دی۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۷۵؎
یعنی ایک تباہ کن زلزلہ آنے والاہے۔ جبکہ خدائے ذوالجلال اپنی فوجوں کے ساتھ تیری صداقت کے اظہار کے لئے اچانک آئے گا‘‘
یہ سارے الہامات موعودہ زلزلہ کے بارے میںایک کڑی کی صورت میںنازل ہوئے ہیںاور ’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر اتارے گئے ہیں۔ جس سے صاف ظاہرہے کہ خداکے علم میںہمیشہ سے یہ مقدر تھاکہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کاواقعہ اور یہ زلزلہ عظیمہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے وقوع پذیرہوں گے۔
خوب غور کرلو کہ ۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ ان الہامات کو جو دوبالکل مختلف واقعات سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر نازل کرتاہے۔ او ر پھر ۲۸سال کے لمبے عرصہ کے بعدوہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح آگے پیچھے ہوکرپورے ہوتے ہیں۔ جس طرح ۲۸سال پہلے انہیں اتاراگیاتھا۔ کیایہ ایک اتفاقی امر ہے یاکہ قدرت کے ہاتھوں کاایک پیوند ہے جو ازل سے جوڑاگیا؟
الغرض زلزلہ کے متعلق مندرجہ بالاالہامات کو ’’آہ نادرشاہ‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صاف اشارہ تھاکہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پوری ہوں گی۔ یعنی پہلے نادرشاہ کی دردناک وفات کاواقعہ پیش آئے گا اور پھر یہ تباہ کن زلزلہ ظاہر ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لوکہ پیش گوئی کے ۲۸سال بعدنومبر۱۹۳۳ء میں کنگ نادرشاہ قتل ہوئے اور اس کے پیچھے پیچھے موعود زلزلہ آن پہنچا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔وماعلیناالاالبلاغ
یہ زلزلہ بہار کے موسم میں مقدر تھا
تیسری علامت یہ بیان کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا۔چنانچہ اس بارے میں جو الہام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر نازل ہوا وہ اوپر کی بحث میں درج کیاجاچکاہے۔ جو یہ ہے:-
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۷۶؎
اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ بھی (جو۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا) بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبر دی کہ وہ دوسرازلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا۔ اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلناشروع ہوجاتاہے اس لئے اسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے…مجھے معلوم نہیں کہ بہار کے دنوں سے مرادیہی بہار کے دن ہیں جو اس جاڑے کے گزرنے کے بعد آنے والے ہیںیا اور کسی اور وقت پراس پیش گوئی کاظہور موقوف ہے جو بہار کاوقت ہوگا۔ بہرحال خداتعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے خواہ کوئی بہارہو‘‘۔۷۷؎
اب دیکھوکہ مندجہ بالاالہام میںاللہ تعالیٰ نے کس صراحت کے ساتھ یہ فرمادیاہے کہ:-
’’آیندہ تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور حضرت مسیح موعودؑنے بھی یہ صراحت کردی ہے کہ بہار سے لازماً مراداس الہام کے معاً بعد آنے والی بہار مراد نہیں ہے بلکہ مطلقاًبہار کاموسم مراد ہے۔ خواہ وہ کوئی بہار ہواور کتنے سالوں کے بعد آئے لیکن جیساکہ اوپر کی بحث میں بتایاجاچکاہے۔ خداکے علم میں ابتداء سے یہی تھا کہ اس بہار سے وہ بہار مرادہے جو کنگ نادرشاہ کے واقعہ قتل کے بعدپیش آئے گی۔ الغرض اس زلزلہ کی علامات میں سے ایک علامت یہ تھی کہ وہ نادرشاہ کے قتل کے بعد بہار کے موسم میں آئے گا۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ ۱۵؍جنوری۱۹۳۴ء کازلزلہ عین بہارکی ابتدامیںآیااور حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی‘‘۔
اور ایک نکتہ اس پیش گوئی میں یہ ہے کہ گو پنجاب کے حالات کے لحاظ سے جہاں سردی زیادہ پڑتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آخر جنوری میں بہار کاآغاز تحریر فرمایا لیکن چونکہ خداکے علم میں یہ تھا کہ یہ زلزلہ صوبہ بہاروبنگال میں آئے گا۔ جہاں سردی کی کمی کی وجہ سے بہار کاآغاز طبعاًکسی قدر پہلے ہوتاہے اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلہ کازمانہ بیان کرکے لوگوں کو ہوشیار کیاہے وہاں بجائے آخر جنوری کے عملاً سارے ماہ جنوری کو اس میں شامل کرلیاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیںکہ۔’’اسی مہینہ (یعنی جنوری ) سے خوف کے دن شروع ہوں گے۔‘‘۷۸؎
اور پھر اس پیش گوئی میں خداتعالیٰ کی ایک مزید قدرت نمائی یہ ہے جس سے پیشگوئی کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ۲۸؍جنوری۱۹۰۶ء کو پنجاب میں ایک درمیانے درجہ کازلزلہ آیا تو چونکہ وہ بھی بہار کے موسم میںتھااور اپنی وسعت کے لحاظ سے یہ الہام اس پر بھی چسپاں ہوتاتھا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسے اس زلزلہ پر چسپاں کر دیامگر فوراًہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ:-
’’زلزلہ آنے کو ہے۔‘‘۷۹؎
اور خداتعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود کے قلم سے یہ تشریح کروائی کہ
’’اس زلزلہ کو جو (۲۸فروری کو)ہوا۔ اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کوہے‘‘۔یعنی آگے چل کرآئے گا۔ اور آپ نے لکھا کہ یہ تشریح میری طرف سے نہیں بلکہ خداکی طرف سے’’میرے دل میںڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کانمونہ ہے وہ ابھی آیانہیں بلکہ آنے کو ہے‘‘۔۸۰؎
الغرض جیساکہ خدائی وعدہ تھا۔ یہ زلزلہ عین بہار کے موسم میںجبکہ بنگال وبہار میںشگوفہ پھوٹ رہاتھا، وقوع پذیر ہوا اور خداکی یہ پیش گوئی اپنے پورے جلال کے ساتھ پوری ہوئی کہ ایک تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور یہ بہار وہ ہوگی جو نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آئے گی اب چاہو تو قبول کرو۔
یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا
چوتھی علامت یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ ہندو ستان کے شمال مشرق میں آئے گا۔ چنانچہ اس بارے میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کارویاء آج سے۲۷ سال پہلے شائع ہوچکاہے۔یہ ہے، آپ فرماتے ہیںکہ:-
’’میں نے ۲۰ اپریل ۱۹۰۷ء کورویاء میں دیکھا کہ بشیراحمد(خاکسار راقم الحروف ابن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام) کھڑاہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘۔۸۱؎
اس رویاء کے متعلق کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ مطلب بالکل ظاہرہے یعنی یہ کہ اس ملک کاآئندہ سخت زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آئے گا۔ جیساکہ پہلا سخت زلزلہ جو ۱۹۰۵ء میں آیا۔شمال مغربی حصہ میں آیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے اس خواب میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جو یقینی طور پر اس با ت کو ثا بت کرتے ہیں کی شمال مشرق سے ملک کاشمال مشرق مراد ہے نہ کہ کچھ اور۔ چنانچہ خواب کے الفاظ یہ ہیںکہ’’زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘ کے الفاظ اس فقرہ میں ’’چلاگیا‘‘ کے الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سمت جو بتائی گئی ہے۔ یہ کسی پہلی سمت کے مقابل پر ہے ۔ یعنی مقصود یہ ہے کہ پہلازلزلہ ہندوستان کے شمال مغر ب میں آیاتھااور آیندہ زلزلہ اس کے مقابل پر شمال مشرق میں آئے گا۔ خوب سوچ لو کہ’’چلاگیا‘‘کے الفاظ سوائے اس کے اور کچھ ثابت نہیں کرتے کہ ان میں یہ اشارہ کرنامطلوب ہے کہ اگر پہلے زلزلہ کی تباہی کامرکز ہندوستان کاشمال مغربی حصہ تھا تو آیندہ زلزلہ میں یہ مرکز منتقل ہوکر شمال مشرق میں چلا جائے گا۔
اب دیکھو کہ یہ علامت ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ میں کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی ہے۔ ہندوستان کے جغرافیہ کاادنیٰ علم رکھنے والوں سے بھی یہ بات مخفی نہیں ہے۔ حتیٰ کے بچے بھی اسے جانتے ہیںکہ وادی کانگڑہ اور پنجاب جن میں۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا۔ وہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور بنگال اور بہار اور نیپال جن میں ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی سب سے بڑی تباہی آئی۔ وہ ہندوستان کاشمال مشرقی حصہ ہیں اور یہ بات ایسی بدیہی اور عیاں ہے کہ اس پر ہمیں کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں مگرناواقف لوگو ں کی تسلی کے لئے اس جگہ تین اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتاہے کہ مو جودہ زلزلہ صحیح معنوںمیں شمال مشرقی زلزلہ ہے۔ چنانچہ پنجاب کاانگر یزی اخبار سول لکھتاہے:-
’’۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کاتحت الارض مرکز آسام سمجھا جاتاہے۔ کیونکہ شمال مشرقی ہندوستان میں جتنے زلزلے کے دھکے محسوس ہوتے رہے ہیںان کاتعلق آسام سے رہاہے……آلات سائنس کامطالعہ بتاتاہے کہ موجودہ زلزلہ کامرکز عرض بلد ۴؍ ۱ ۲۶شمال اور طول بلد ۴؍ ۱ ۸۵ شرق میں واقع ہے‘‘۔۸۲؎
پھر اخبار سٹیٹس مین رقم طرازہے کہ :-
’’لمبے تجربے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیںکہ ہندوستان کے شمال ومشرق کے زلزلے کامرکز آسام ہے‘‘۔۸۳؎
پھر لکھنؤ کااخبار سرفراز لکھتاہے:-
’’جو زلزلہ ۱۹۰۵ء میں وقوع پذیر ہوااس کامرکز شمال ومغرب ہند کی وادی کانگڑہ میںتھا……اور اب اس ۱۹۳۴ء کے زلزلے کے متعلق اندازاہ ہوتا ہے کہ شمال وشرق ہند اس کا اصلی مرکز ہوگا‘‘۔۸۴؎
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیش گوئی کہ ہندوستان کاآیندہ سخت زلزلہ ملک کے شمال مشرق میں آئے گا۔پوری شان اور پوری آب وتاب کے ساتھ پوری ہوگئی ہے اور سوائے اس کے کہ کسی کے کان اور آنکھ اور دل سب مسلوب ہوچکے ہوں۔ کوئی شخص اس کی صداقت میں شبہ نہیں کرسکتا۔ فبایّ حدیث بعد ذالک یؤمنون
اس زلزلہ کی پیشگوئی کی طرف سب سے پہلے مرزابشیراحمد کی طرف سے اشارہ ہوگا
پانچویں علامت یہ تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مرزابشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گااور ایساہوگاکہ ابتداء ًخاکسار ہی اس پیش گوئی کی طرف توجہ دلائے گا۔ یہ علامت بھی مندرجہ بالارؤیا سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں بیان کیا گیاہے کہ شمال مشرق کی سمت کی طرف خاکسار نے اشارہ کر کے کہاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیاہے۔
اب دیکھ لو کہ یہ علامت بھی کس طرح ہوبہوپوری ہوئی ہے۔ زندگی میں ایک دم کااعتبار نہیں۔ دنیا میں ہرروز بچے بھی مرتے ہیں اور جوان بھی مرتے ہیں اور بوڑھے بھی مرتے ہیں اور کوئی شخص کسی عمر میں بھی موت کے حملے سے محفوظ نہیں ہے مگر خدانے آج سے ۲۷ سال پہلے اپنے مقدس مسیح کو خبر دی تھی کہ ہندوستان کے شمال مشرق میں ایک سخت زلزلہ آنے والاہے۔ اور وہ زلزلہ تیرے بیٹے بشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گا۔ اور وہی اس کی طرف اشارہ کرکے بتائے گا کہ یہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ ہے۔ اس پیشگوئی پر آج ۲۷ سال سے زائد عرصہ گزر چکاہے مگر اس طویل عرصہ میں اللہ۔تعالیٰ نے مجھے موت سے محفوظ رکھا اور مجھے اس وقت تک زندگی دی کہ میں اس زلزلہ کو دیکھوں اور لوگوں کو بتائوں کہ یہ وہی شمال مشرق کازلزلہ ہے۔ جس کاوعدہ دیاگیاتھا اور پھر صرف مجھے زندگی ہی نہیں دی بلکہ ایسا تصرف فرمایاکہ سب سے پہلے میراہی ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ یہی ۱۵جنوری ۱۹۳۴ء کازلزلہ ہے اور جس رنگ میں کہ میراذہن اس طرف منتقل ہواوہ بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی خبریں اخبارات میںشائع ہوئیں تو اس کے چند روز بعد میں نے ایک رات یہ محسوس کیاکہ مجھے بے خوابی کاعارضہ لاحق ہے اور نیند نہیں آتی۔ حالانکہ عموماً مجھے بے خوابی کی شکایت نہیں ہواکرتی۔ میں اس بے خوابی پر حیران تھا۔ اور وقت گزارنے کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کامجموعہ ’’البشریٰ‘‘ اٹھاکر اسے پڑھنا شروع کیااور میں اسے صبح کے ساڑھے چار بجے تک اسے پڑھتا رہا۔ آخر میں میری نظرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء پر پڑی کہ بشیر احمد شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا مگر اس وقت بھی مجھے یہ خیال نہیں آیاکہ اس میں ۱۵ جنوری والے زلزلہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اٹھا تو دن کے دوران میں اچانک ایک بجلی کی چمک کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ خواب اسی زلزلہ پر چسپاں ہوتی ہے اور پھر جب میں نے اس کے حالات پر غور کیاتو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ زلزلہ ہے جو ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا۔ جس کے بعد میں نے اس کاذکر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ کیا۔اور سب نے حیرت کے ساتھ اس سے اتفاق کیاکہ ہاں یہ وہی زلزلہ ہے۔ اور پھر جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے اس کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ اب مناسب ہے کہ بشیر احمد ہی اس زلزلہ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر شائع کرے۔
اور اس جگہ یہ بیان کر دینابھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء میں جہاں یہ ظاہر کیاگیاتھاکہ یہ زلزلہ خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آئے گا اور وہی سب سے پہلے اس کی طرف اشارہ کرنے والاہوگا۔ وہاں اس رویا ء کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ اشارہ بھی ملتاہے کہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد آنامقدر تھا کیو نکہ حضرت مسیح موعود علیہ،السلام کا خاکسار کو شمال مشرق کی طرف اشارہ کرتے دیکھنا اور اس رویاء میں اس پیش گوئی کے ظہور کے وقت سے خود آپ کی ذات کاکوئی تعلق ظاہر نہ ہونایہی ظاہر کرتاہے کہ یہ زلزلہ آپ کی زندگی کے بعد آناتھا۔ چنانچہ اس کے متعلق بعض دوسرے الہامات میں صاف اشارہ بھی ہے جیساکہ ۹ ؍ مارچ ۹۰۶ء کاالہام ہے کہ:-
’’رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃِالسَّاعَۃِ‘‘۸۵؎
یعنی ’’ اے خدا مجھے یہ قیامت کے نمونہ والازلزلہ نہ دکھا‘‘۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔
الغرض وہ پانچویں علامت بھی جو اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمائی تھی یعنی یہ کہ یہ زلزلہ مرزابشیر احمد کی زندگی میں آئے گا اور وہی اس کی طرف ابتداًتوجہ دلانے والا ہوگا۔ حرف بحرف پوری ہوئی۔فالحمدللّٰہ علی ذالک ولا حول ولاقوۃ الاباللّٰہ۔
تمام موعودہ علامات پوری ہوگئیں
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا سے علم پاکر۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلہ کے متعلق پانچ زبر دست علامات بیان فرمائی تھیں اور آج ۲۷۔ ۲۸سال کے لمبے زمانے کے بعدہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب علامات من وعن پوری ہوئیں۔ ایک تباہ کن زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق اپنے ساتھ پانی کے سیلاب کو لایا۔ زلزلہ آیااور جیساکہ وعدہ تھا عین بہار کے مو سم میں آیااور کنگ نادرشاہ کے قتل کے واقعہ کے ساتھ یو ں ملاہو اآیا کہ گویاقدرت کے ہاتھوں نے ان دو حادثوں کو ازل سے جوڑ رکھا تھا۔ زلزلہ آیا اور جیسا کہ وعدہ تھاعین بہار کے موسم میں آیا۔ گویابہار کے موسم کوبہار کے صوبے سے کوئی مخفی نسبت تھی ۔ زلزلہ آیااور خدائی اشارہ کے مطابق ملک کے شمال مشرق میں آیا۔یعنی جس طرح خدائی فرشتوں نے ۱۹۰۵ء میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ڈیرے ڈالے تھے۔ ۱۹۳۴ء میں یہ فرشتوں کی چھائونی ملک کے شمال مشرق میں آگئی ۔ زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آیااور خدانے ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے اس بات کی طرف میرا ہی ذہن منتقل ہوا کہ یہ وہی موعود زلزلہ ہے اور ہوسکتاہے کہ میرے نام کی نسبت سے اس میں یہ بھی اشارہ ہو کہ یہ زلزلہ خدائی سلسلہ کے لئے بشار ت لے کر آتاہے۔ پس میں پھر کہوں گا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک ولاحول قوۃ الاباللّٰہ۔
مصیبت زدگان سے ہمدردی
ہم دنیاکی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خداجانتاہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیاکیا جذبات اٹھتے ہیں ۔ ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیںجسے اس زلزلہ میں کسی قسم کانقصان پہنچاہے۔ ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان گرنے پر۔ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر۔ ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جداہونے پر ۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کاعملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارایہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کاکوئی نشان پوراہوتاہوادیکھیں تو اسے دنیاکے سامنے پیش کریںاور لوگوں کو بتائیں کہ خداکے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پو ری ہوا کرتی ہیں تاکہ وہ خداکوپہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور مرسل کی شناخت کریںاور خداسے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروںکے نیچے آجائیں۔ خدانے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو دنیا کے لیئے ایک رحمت کا مجسمہ بناکر بھیجا۔ مگر افسوس دنیانے آپ کو قبول نہ کیا اور وقت کی ضرورت کو نہ پہچانااور خداکے مامورومرسل پر اپنے تیرو تفنگ نکالے اور اسے اپنی ہنسی کا نشانہ بنایا۔ تب خدااپنے وعدہ کے مطابق اپنی فوجوں کو لے کر آسمان سے اترااور اس نے پھر کہا:-
’’میںاپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھائوں گا۔ دنیامیں ایک نذیر آیاپر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔۸۶؎
دعوت الی الحق
سو اے عزیزو! اب خداکے دونوں ہاتھ تمہارے سامنے ہیں ۔ ایک طرف اس کی رحمت کاہاتھ ہے اور دوسری طرف اس کے غضب کاہاتھ۔ اور تمھیں اختیارہے کہ جسے چاہو قبول کرو مگر یادرکھو کہ خداکے زور آور حملے ابھی ختم نہیں ہوگئے۔ خدانے اپنے مسیح سے بہت سے عجائبات قدرت دکھانے کاوعدہ فرمایاہے اور یہ سب عجائبات ظاہر ہوکر رہیں گے او ر کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔ مگر بدقسمت ہے وہ جو خداکی طرف سے نشان پر نشان دیکھتاہے اور ایمان کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔ یادرکھو کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میںاپنے قہری نشانوں کی تجلی دکھائے گا۔ حتی کہ لوگ حیران ہوکر پکار اٹھیں گے کہ اس دنیاکو کیاہونے والاہے؟پس پیشتر اس کے کہ تمھاری باری آئے خدا سے ڈرو اور اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرو۔ دیکھو صدیوں کے انتظار کے بعد خدا نے تمھاری طرف ایک مامور کو بھیجا ہے اور اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس مردہ دنیا کو پھر زندہ کرے۔ پس اس کے اس ارادے کے رستے میں حائل مت ہو کیو نکہ یہ ارادہ پوراہوکر رہے گا۔ اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ تم دنیاکے رشتوں اور دنیا کی دوستیوںاور دنیا کے مالوں اور دنیا کی عزتوں کی خاطر خداکو چھوڑرہے ہو مگر سن رکھو کہ یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور آخر پر ہر شخص کامعاملہ خدا کے ساتھ پڑنے والاہے ۔ پس اپنی عاقبت کی فکر کرو اور اس دن سے ڈرو کہ جب سب تعلقات سے الگ ہوکر خداکے سامنے کھڑا ہوناہوگا۔ خدا نے اپنی حجت تم پر پوری کر دی۔ اور اپنے زبردست نشانوں سے تم پر ثابت کردیا کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔کیا اب بھی تم آنکھیں نہیں کھولوگے۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام خدا کا دین نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے نہیں ۔ کیا اب بھی تم خدا کی گواہی کو قبول نہیں کرو گے ؟ اور اے بہارو بنگال کے لوگو!اور اے نیپال کے رہنے والو!
تم اس وقت خصوصیت سے خدا کے الزام کے نیچے ہو۔کیونکہ وہ بستیاں تمھاری آنکھوں کے سامنے ہیں جو خدائی عذاب کا نشانہ بنیں۔تم نے خدا کی ایک قہری تجلی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراس کے ایک زبردست نشان کو اپنے سامنے مشاہدہ کیا ۔پس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جائو اور توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے ۔خدا کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی یہ سنت ہے کہ ایسے عذاب کے بعد پھر اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے ۔سو اس کے عذاب کوتوتم نے دیکھ لیا۔اب آئواور اس کی رحمت کو قبول کرو۔
اے ہمارے مسلمان بھائیواور اے حضرت مسیح ناصری کے نام لیوائو اور اے ہمارے ہندو ہم۔وطنو اور اے تمام لوگو جو کسی مذہب وملت سے تعلق رکھنے کا دم بھرتے ہو!دیکھو اور سوچو کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ جھوٹا ہوتا اور خدا نے آپ کو مسلمانوں کے لئے مہدی اور عیسائیوں کے لئے مسیح اور ہندئوں کے لئے کرشن اور دوسری قوموں کے لئے آخری زمانہ کا موعود مصلح بنا کر نہ بھیجا ہوتا تو آپ کو ہلاک کردینے کے لئے خود آپ کا افترا ہی کافی تھا کیونکہ خدا کے ازلی قانون کے ماتحت افترا کے اندر ہی ایسا آتشین مادہ موجود ہے کہ وہ مفتری علے اﷲکو بہت جلد جلا کر راکھ کردیتا ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تم دیکھتے ہو کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ باوجود ہر قسم کی مخالفت اور عداوت کے دن بدن بڑھتا چلاجاتا ہے اور ہر میدان میں اﷲ تعالی اسے فتح اور کامیابی عطاکرتا اور اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی کا مُنہ دکھاتا ہے۔ دشمن نے اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا اورکوئی دقیقہ اس سلسلہ کو مٹانے کا اٹھا نہیں رکھامگر جسے خدابڑھانا چاہے اسے کون مٹا سکتا ہے۔
خدا نے ابتداء سے فرما رکھا تھا کہ ایک درخت ہے جو میرے ہاتھ سے لگا یا گیا۔اب یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گااور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ مگر خوش قسمت ہے وہ جواس درخت کو پہچانتا ہے اور اس کے پھل پھول کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتاکیونکہ وہ ابدی زندگی کا پھل ہے ،جس کے کھانے کے بعد کوئی موت نہیں ۔پس آئو اور اس ابدی زندگی کے پھل کو کھا کر خدائی جنت کے وارث بنو ۔وَاٰخِرُدَعْوٰنَآ اَنِ الْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(مطبوعہ الفضل ۴ مارچ ۱۹۳۴ئ)
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن شریف کے نزول کی ابتداء ہوئی اور جسے خدا تعالیٰ نے روزے جیسی بابرکت عبادت کے لئے مخصوص کیا ہے اور اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں خدا اپنے بندوں سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ یعنی اپنے قرب کے دروازے ان کے لئے خاص طور پر کھولتا ہے اور ان کی دعائوں کو خاص طورپر سنتاہے مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی خدا کی آواز پر کان دھرے اور اس پر ایما ن لا نے کے حق کو ادا کرے۔ پس روحانی رنگ میںترقی کرنے کے لئے یہ ایک خا ص مہینہ ہے اور وہ شخص بدقسمت ہے جو اس مہینہ کو پاتا ہے اور پھر ترقی کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔ اسی تحریک کی غرض سے امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گزشتہ دوجمعوں میں جماعت کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی ہے اور میرے اس نوٹ کی پہلی غرض یہی ہے کہ احباب سے یہ تحریک کروں کہ حضرت امیرالمومنین کے خطبوں کو غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان پر کاربند ہوکر تقرب الٰہی کے لئے ساعی ہوں۔ رمضان کے متعلق مندرجہ ذیل امور خا ص طور پر قابل توجہ ہیں۔
۱۔جن لوگوںپر روزہ رکھنافر ض ہے اور وہ بیمار یا مسافر نہیں،وہ ضرور رکھیں اور روزہ کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں۔
۲۔رمضان میںنماز تہجد کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے خواہ باجماعت تراویح کے رنگ میںیا علیحدہ طور پر گھر میں۔
۳۔روزہ رکھنا صرف بھوکے اور پیا سے رہنے کا نام نہیںہے بلکہ یہ ایام در حقیقت تما م قوائے جسمانی پر گویا ایک بریک لگانے کی غرض سے رکھے ہیں۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں جملہ نفسانی اور جسمانی طاقتوںکو خا ص طور پرضبط میں رکھیںتاکہ روحانی اور باطنی طاقتوںکو نشونماپانے کا موقع میسرآسکے اور یہ بھی یادرکھیںکہ اصل روزہ دل کا ہے۔ پس سب سے زیادہ توجہ دل کے خیالات وجذبات کو پاک کرنے کی طرف ہونی چاہیئے۔
۴۔چو نکہ اس مہینہ کو خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے نزول کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے ان ایام میںقرآن شریف کی تلاوت اور اس کے معانی میں تدبر کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔
۵۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ صدقہ وخیرات کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کے متعلق حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیںکہ رمضان میں آپؐ کی حا لت صدقہ وخیرات کے معاملہ میںایسی ہوتی تھی کہ گویا ایک زور سے چلنے والی ہوا ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی۔ اور دراصل روزہ میںضبط نفس اور قربانی کی جو تعلیم دی گئی ہے اس کا منشا کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ اپنی ضروریات سے کاٹ کر غرباء کی مدد نہ کی جائے۔
۶۔چو نکہ روزہ کی برکات سے متمتع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان خدا کی آوازکوسنے اور اس پر ایمان لائے۔ اس لئے اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے اوامرونواہی کو تلا ش کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اگر احباب غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگاکہ قرآن شریف کے بہت سے احکام ایسے ہیں۔ جن پر عمل کرنے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان پر عمل کرنے کا موقع تلاش کیاہے۔ اسی طرح کئی نواہی ایسی ملیں گی جن کے متعلق انسان غفلت کی حا لت میں گزر جا تا ہے۔ پس رمضان میںخاص طور پرقرآن شریف کے اوامرونواہی کو مطالعہ کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیئے۔ تاکہ ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے جو خداکی طرف سے رمضان کے مبارک مہینہ میں رکھی گئی ہیں۔
۷۔مگر ایک عمومی کوشش کے علا وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلا م یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ رمضان میں اپنی کسی خاص کمزوری کو خیال میں رکھ کراس کے متعلق دل میںیہ عہد کرے کہ وہ آئندہ خداکی توفیق سے اس سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے بھی احباب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
۸۔اس زمانہ میںلوگوں نے رمضان کو ضبط نفس اور قربانی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے عملاً تعیش کا آلہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ سحری اور افطاری کے متعلق خاص اہتمام کئے جاتے ہیں اور بجائے کم خوری اور سادہ خوری کے رمضان میں غذا کی مقداراور غذا کی اقسام اور بھی زیادہ کردی جاتی ہیں۔ یہ طریق رمضان کی روح کے بالکل منافی ہے۔ پس احباب کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کا رمضان ان کے لئے کِسی امیّش کا ذریعہ نہ بنے بلکہ یہ دن خا ص طور پر سادگی اور ضبط نفس کی حالت میں گزریں۔ امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکے گذشتہ خطبات میں خوراک کے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر رمضان میں خصوصیت سے عمل ہونا چاہیئے۔
۹۔رمضان کا مہینہ خا ص طورپر نیک تحریکات کے قبول کرنے کا زمانہ ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اسلا م اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی تدابیر سے بڑھ کر اور کوئی تحریک نہیں ہوسکتی۔پس اس مہینہ میں احباب کو خاص طور پر اس سکیم کی طرف توجہ دینی چاہیئے جو حضرت امیرالمومنین نے گزشتہ خطبات میں جماعت کے سامنے پیش فرمائی ہے۔
۱۰۔رمضان کو قبولیت دعاکے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ میں دعائوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور خصوصیت کے ساتھ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے دعائیں کریں۔ ان ایام میں سلسلہ احمدیہ کی مخالفت جس رنگ میں اور جس وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے۔ اس کی مثال کئی جہت سے اس سے پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔ یہ مخالفت یقینا خدا کے آنے والے انعامات کے لئے پیش خیمہ کے طور پر ہے۔ مگر ضروری ہے کہ ہم لوگ نہ صرف اپنے عمل سے بلکہ اپنی دعائوںسے بھی اس کے جاذب بنیں۔ پس ان روزوں کے ایام میںخصوصیت کے ساتھ دعائوں کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہواور ہم کو اس رستہ پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضاء اور فلاح کا رستہ ہے۔آمین
(مطبوعہ الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۴ئ)
۱۹۳۵ء
اختتام درس قرآن کریم کی دُعا
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان پر قادیان میں قرآن شریف کے درس کا انتظام کیا گیا تھا۔ اور اب آخری عشرہ میں مکرمی مولوی غلام رسول صاحب راجیکی آخری پاروں کا درس دے رہے ہیں۔ یہ درس انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹رمضان مطابق ۶جنوری بروز اتوار ہوگا۔ اور آخری دو سورتوں کا درس خود حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ میں ۶جنوری کو بعد نماز عصر فرمائیں گے۔ جس کے بعد حسب دستور حضور مقامی جماعت کے ساتھ دُعا فرمائیں گے۔ بیرونی احباب اپنی اپنی جگہ پر ۶ جنوری کو بعد نماز عصر وقبل اذان مغرب دعا کا انتظام کرکے اس دعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔
(مطبوعہ الفضل ۳جنوری ۱۹۳۵ئ)
۱۹۱۳ء
صلح یا جنگ
احمدیوں اور غیراحمدیوں کے باہم تعلقات پر بحث کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اور ہر ایک کا کام نہیں کہ اس پر قلم اٹھاوے کیونکہ یہ مضمون قومی نظام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور قومی نظام کی پوری ذمہ۔داری کو سوائے قوم کے لیڈر کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لہذا ایسا مضمون جس پر حضرت اقدس کی کوئی تحریر شاہد نہ ہو، کبھی بھی قوم کے لئے دستور العمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھاہے کہ جوکچھ لکھوں، اس پر حضرت صاحب کی شہادت ہو ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔ایسا ہی میرا خیال ہے کہ اگر ہرایک احمدی کوئی مضمون لکھتے ہوئے حضرت صاحب کی کتب کو سامنے رکھ لے تو قوم بہت سی مشکلات سے بچ جاوے۔ اس قدر تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔
قرآن شریف اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسے فرمایا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا۱؎۔ اسلام کا کام اس فطرت کا جگانا ہے اور قرآن اِسی غرض سے دنیا میں نازل ہوا مگر وقت یا یوں کہئے کہ زمانہ اپنے اندر ایک عجیب اثر رکھتا ہے۔ کتنی ہی سخت سے سخت مصیبت کیوں نہ پڑے کیسا ہی بڑے سے بڑا غم کیوں نہ ہو ایک عرصہ کے بعد اس کی تیزی ضرور کم ہوجائے گی۔ مجھ کو یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت احمدی قوم پر بڑے درد کا وقت تھا اور غم کی وجہ سے وہ دیوانی نظر آتی تھی لیکن آج پانچ یا چھ سال کے بعد وہ غم نہیں، وہ درد نہیں، وہ تکلیف نہیں، وقت نے اپنا اثر کیا اور آہستہ آہستہ غم کم ہوتا گیا۔اور اب جتنا ہم کو زمانہ اس سانحہ دور ڈالتا چلاجائے گا،اتنا ہی ہمارے لئے اس کی تکلیف کم ہوتی جائے گی۔ اسی طرح جو اسلام کی محبت اور دین الٰہی کی غیرت اور اپنی عقبیٰ کی فکرمسلمانوں کو نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی وہ آج نہیں۔ وہ فاتح تھے اور یہ مفتوح۔ وہ بادشاہ تھے اور یہ رعایا۔ وہ آزاد تھے اور یہ غلام۔ وہ اسلام کا فخر اور یہ اسلام کی جائے عار۔ غرض وہ منعم علیہم اور یہ مغضوب، دُنیا کی محبت آگئی اور دین کو کھو بیٹھے۔ زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے ان کے دروازوں پر لاڈھیر کئے۔ آسمان نے ان کے لئے رحمت کے باد ل برسائے مگر انہوں نے شکر کرنے کی بجائے اپنی عیش میں خدا کو بھلادیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ ذلت۔ قردۃ خاسئین ہوگئے دوسرے کے نچائے ناچتے ہیں۔ پھر اس پر غضب یہ ہوا کہ عیسائی تہذیب نے ملک میں قدم رکھا اور مسلمان جو پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے اس پر لٹو ہوگئے۔ پتلون کی آمد پر پاجامہ صاحب رفوچکر ہوئے اور جبّہ کی مسند پر فراک کوٹ کو بٹھایا گیا اور کیا چاہیئے تھا من مانی مرادیں مل گئیں۔ شراب وکباب میں غرق ہوئے۔ بابو صاحب کا لقب پایا اور مولویت کو خیرباد کہہ دی۔اللہ اللہ! یہ وہ قوم ہے جو اسلام کا دعویٰ رکھتی ہے۔ خدا تو ظالم نہیں۔ ہاں انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پر مصائب کیوں آتے ہیں۔ کوئی کہے تم انعاموں کے کام کرتے ہو؟ یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے طریقے ہیں؟ دوسروںپر کفر کے فتوے اور اپنے گھر کا یہ حال! آخر شرم بھی کوئی چیز ہے، جائے غور ہے یہ آسمان پر تھے اور زمین پر گرے، تختوں پر ان کا ٹھکانا تھا اور اب خاک بھی ان کو جگہ دیتی شرماتی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کس بات کا نتیجہ ہے؟ یہ عتاب کیسا ؟ اس ناراضگی کے کیا معنے؟ خدا بدل گیا یا یہ ہی وہ نہ رہے؟ کبھی اس آیت پر بھی غور کیا ہے؟
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُمَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِھِمْ ۲؎
کہنے والے نے خوب کہا ہے:-
غیروں سے اب لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے
اسلامی جوش مٹ گیا اور دنیا کی محبت دل میں گھرکر گئی۔ عیش وعشرت کے خمار میں پڑ گئے اور اپنے مولیٰ کو بُھلادیا۔ جوں جوں زمانہ دور ہوتا گیا اسلامی تعلیم دلوں سے محو ہوتی گئی تو کیا اب کئی صدیوں کا خمار ان چکنی چپڑی باتوں سے دور ہوجائے گا؟ یہ نیند نہیں بدمستی ہے اب کوئی مضبوط ہاتھ ہی ہوش میں لائے گا۔ نرم باتوں کو کون سنتاہے۔ ہم نے تودیکھا ہے کہ شرابی اپنے نشہ میں مست عجیب شور مچاتے ہیں اور بیہودہ بکواس سے ناک میں دم کردیتے ہیں مگر جب بالوں سے پکڑ کر دوچار رسید کردی جائیں تو فوراً ہوش آجاتا ہے۔
جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۳؎کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حق کو چھوڑدیا جاوے اور دل خوش کن باتیں کرکے راضی کرلیا جاوے۔ ہاں بات کرنے کا طریق احسن ہو اور اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مثلاً ایک ہندو ہمارے پاس آوے اور ہم سے سوال کرے کہ آپ ہم کو کیا سمجھتے ہیں تو ہم اگر حق کہتے ہوئے نہ ڈریں تو دو طرح سے جواب دے سکتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو کمبخت کافر بے ایمان جہنم کا ایندھن ہے اور یہ جواب حق ہوگا۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو تم نے اللہ کے ایک مرسل کا انکار کیا اور کسی رسول کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔ تم میں حقیقی ایمان نہیں اور اللہ تعالیٰاسی وجہ سے تم پر خوش نہیں اور جس پر وہ ناراض ہوتا ہے ان کے لئے اُس نے جہنم کا عذاب رکھا ہے۔ یہ ہے وہ جواب جو جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُکے ماتحت آئے گا۔ حق بھی ظاہر ہوگیا اور اس کے بیان میں نرمی بھی آگئی۔ وہ کلمات جو اپنے اندر صرف نرمی ہی نرمی رکھتے ہیں، اور حق سے دور ہوتے ہیں۔ بلاریب سننے والے کو ضرور خوش کردیں گے اور وہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ الَّاِالْاِحْسَانُ۴؎کے ماتحت غالباً ہماری ہاں میں ہاں بھی ملادے گا لیکن کیا اس سے ہمارا مطلب حل ہوگیا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے تو اس کے اور حق کے درمیان ہمیشہ کے لئے روک قائم کردی۔ یقین رکھو کہ ایسا شخص ہمارے قریب نہیں آیا بلکہ ہم سے دور چلا گیا۔ جب کبھی ہم اس کے خلافِ مطلب کوئی بات کہیں گے وہ الگ ہوجائے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ مخالفت سے بالکل نہ گھبراتے تھے بلکہ جب کبھی سنتے کہ فلانی جگہ مخالفوں کا بڑا زور ہے تو بہت خوش ہوتے کہ اب وہاں احمدیت بھی ترقی کرے گی۔ تجربہ نے بھی یہ ہی ثابت کیا ہے کہ جہاں کہیں زیادہ مخالفت ہوئی وہیں زیادہ ترقی ہوئی۔ اور کیوں نہ ہوتی خدا کے مرسلوں کی بات پوری ہوکر رہا کرتی ہے۔ سو چاہیئے کہ ہم جو مسیح کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلیں اور اگر ہم ان کے منشاء کو پورا نہیں کررہے تو ہم احمدی کہلانے کے حقدار نہیں جیسے کہ آج کل کے برائے نام مسلمانوں پر مسلمان کا لفظ بولتے ہوئے طبیعت ہچکچاتی ہے۔ غرضیکہ حق ایک ایسی چیز ہے جو کسی وقت بھی چھوڑنی نہیں چاہیئے۔ وہ پالیسی جس میںحق کو چھپانا پڑے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کی واہ واہ کو، کامیابی کو حاصل کرلیا جاوے مگر یاد رکھو صرف ہاں میں ہاں ملانے والے کبھی جماعت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے اور ہوں بھی کیسے۔ منافق کو حق سے کیا نسبت ہے اس کو اگلا جہاں یاد ہی نہیں۔ مثلاً ایک عیسائی ہم سے کہے کہ میں نبی کریم .6ؐ کو مانتاہوں مگر ان کو مسیح پر فضیلت نہیں تو کیا اس کا جواب یہ چاہیئے کہ ہاں لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۵؎ قرآن شریف میں بھی آیا ہے؟ کمبخت عیسائی تو خوش ہوگیا مگر ساتھ ہی حق کا بھی خون ہوگیااس کا جواب تو یہ تھا کہ ہم کیوں نہ نبی کریم ؐ کو مسیح پر فضیلت دیں عَلَیْھِمَا السَّلَامُ؟ غلام کو آقا سے کیا نسبت؟ مریم کے صاحبزادے کا عرب کے سردار سے کیا مقابلہ؟ محمد مصطفی ( فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ) کے کام کو دیکھو اور پھر شام کے نبی کی کاروائی۔ سورج اور چاند کی بھی کچھ نسبت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ جواب تھا جو نصرانی کو ہوش میں لاتااور اس کو اپنی عقبیٰ کی فکر پڑتی۔
حضرت صاحب نے بیشک ہندوئوں کو صلح کا پیغام دیا۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ ہے کہ پیغام کے مخاطب ہندو تھے لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ کن شرائط پر۔ سب سے بڑی شرط جو پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ تم
لَآاٖلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّہ
پر ایمان لے آئو۔ پھر ہم تم بھائی ہیں ورنہ یادرکھو کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ہونی ممکن ہے مگر تم سے ناممکن۔ اب اگر حضرت مسیح موعود ؑ کے وصال کے بعد احمدیہ سرکل میں سے کوئی فرد یا جماعت یہ آواز اٹھائے کہ غیر احمدیوں سے صلح کی جاوے تو اس کے لئے ہم اپنے آقا کے نقش قدم پر چل کر علیٰ بصیرۃیہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑی شرط یہ ہو کہ غیر احمدی اپنے مسیح کو مار کر خدا کے مسیح اورمہدی کو مان لیں اور اسی کے سایۂ عاطفت کے نیچے آجاویں۔ پھر وہ ہمارے بھائی ہوں گے لیکن اگر وہ اس شرط کو قبول نہ کریں جس طرح ہندوئوں نے ہماری آواز پر لبیک نہ کہا تو یاد رکھیں کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ممکن ہے مگر ان کے ساتھ ناممکن۔
پھر ایک اور بات ہے وہ یہ کہ دنیا میں دو ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔دینی اور دنیوی۔ دینی تعلقات میں سب سے بڑا تعلق عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیا میں رشتہ داری سب سے بڑا تعلق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان دونوںبڑے تعلقات کو جو احمدی اور غیراحمدیوں کے درمیان ہوسکتے تھے ہمیشہ کے لئے قطع کردیا ہے۔ دین میں حکم دیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز بالکل نہ پڑھو۔ مرجائیں تو جنازہ کوئی نہیں۔ دنیا کے لئے فرمایا کہ غیر احمدی کو لڑکی نہ دینا۔اب باہم تعلق کی بات ہی کونسی رہ گئی۔ یہ ہی باتیں ہیں جن سے نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روکا۔ ورنہ کفار کے ساتھ لین دین کے معاملات اور معمولی تعلقات تو اصحاب بھی رکھتے تھے۔ یہ ایک بڑا باریک نکتہ ہے جو غور کرنے والے کے لیئے کافی ہے۔ ع
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
اب ہم اس مضمون کی تائید میں جو ہم نے شروع میں لکھا ہے حضرت صاحب کی تحریر پیش کرتے ہیں۔ آپ ازالہ اوہام حصہ اوّل میں فرماتے ہیں:-
’’بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوںمختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اورا پنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدرمرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام دہی تصور کرلیتے ہیں……اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اورتلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کرسکتے ہیں۔ تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے……کیا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ۶؎ نہیں فرمایا۔کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ۷؎ نہیں رکھا گیا؟ (افسوس ہے یہاں اشدّاء بینھم اور رحماء علی الکفار پر عمل ہو رہا ہے)……دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچادیوے۔ پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے…… اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صور ت میں اس کو سمجھ لیوے اورپھر مشتعل ہوکر گالیاں دینی شروع کردے تو کیا اس سے امرمعروف کا دروازہ بند کردینا چاہیئے۔ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں…… اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلّشانہ مداہنہ کی حمایت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی مائوں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتائو کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکّہ کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے وَدُّوْالَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ…۸؎… وہ تلخ الفاظ جو اظہار حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سُنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہوجائیں…… سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہوجاتی ہے…… سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیدا کردیتی ہے اگر چہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ہی تحریک روبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے۔ جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہوسکتا۔ لیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہر ایک طور کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ انبیاء نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہوجائے۔ اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کردیں۔ اور اس راہ میںحرکت کریں۔ گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اورا پنے دلوں کا اہل حق کے دِلوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرلیں۔ گو وہ عدوّانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو……دراصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم ماراہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدر ضرورت ومصلحت استعمال میں لانا ہر ایک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سُستی اور کاہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیر اللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی ضعیف اور کمزور ہے جیسے ایک کیڑے کی جان ضعیف اور کمزور ہوتی ہے۔‘‘ ۹؎
یہ ہیں الفاظ ہمارے آقا کے، ہمارے ہادی کے، ہمارے مرشد کے، ہمارے امام کے، دیکھیں اس کے غلاموں پر ان کا کیا اثر ہوتاہے چوں چرا کرتے ہیں یا سرتسلیمِ خَم۔
میں آخر میں یہ اشارہ کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ نرمی استعمال کرنے اور دل خوش کن باتیں کہنے سے اختلاط کا ڈر ہوتا ہے اور اختلاط کے بدنتائج سے تو غالباً اکثر لوگ واقف ہی ہوں گے۔
سو اَے قوم ! تو خواب غفلت سے جاگ اور اپنے فرض منصبی کو پہچان۔ اس راہ پر قدم مار جس پر تیرا امام تجھ کو ڈال گیا ہے۔ تو ایک قطرہ ہے جس کو تو نہیں جانتی کہ کن کن محنتوں، کن کن مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرکے۔ کن کن مصیبتوں کو جھیل کر، دنوں کو خرچ کرکے، راتوں کو جاگ جاگ کر، جبینِ نیاز کو تنہائی میں اپنے مولیٰ کے سامنے خاک پر رگڑ رگڑ کے ایک شخص نے صاف کیا ہے۔ آہ! کیا اس کی محنت کا یہ ہی اجر ہے کہ اس کے صاف کئے ہوئے قطرے کو پھر گندے سمندر میں پھینک دیا جاوے؟ فتدبّر۔
اختلاط کے نتائج پر انشاء اللہ حسب توفیق پھر کبھی لکھوں گا۔
(مطبوعہ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ئ)
۱۹۱۶ء
مسئلہ کفر واسلام
اس وقت تک مسئلہ کفر واسلام پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گاہے گاہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائے وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرایہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو۔
چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام الناس کے لئے مضمون اور بھی مشتبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پرہیز رکھوں گا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ
میں نے اپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر واسلام کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ غیراحمدیوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں۔ دوسرے یہ کہ غیراحمدیوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے۔
غیراحمدیوں کا اسلام
مضمون اوّل کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ ’’اسلام‘‘ اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی مذہب نے آنحضرت ؐ سے پہلے اسلام کا نام پایا۔ گو حقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے۔ اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ مذہب لائے جوان قیود سے آزاد ہے اور آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے۔ اِس لئے آپؐ کی بعثت سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوامذہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا۔ اسی طرح آپ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا۔ گویا کہ آپ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے۔ گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہوگئے۔ ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا۔ اَب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اسی طرح قائم رہے گا، جیسا کہ ایک دفعہ ہوچکا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی۔ اور جو کوئی بھی کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آجا ئے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیںبلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے۔ تاحقیقت پر جو میل آجاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے رہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہوجانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا۔ (جیسا کہ لوکان الایمان معلقا بالثر یا۱۰؎ اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے) ایسے وقت کے لئے نبی کریمؐ کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ماتحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقدر تھی۔ اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور مسیح ہے۔ وہ محمد رسول اللہ کا نائب، مسیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا۔ اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے۔ وہ مسلم ہے اور حق رکھتاہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کردیا ہے۔
خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد ؐ رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسان کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کردے۔ مسیح موعود ؑ خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرماوے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرسکتا ہے۔ اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں۔ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا۔ کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا۔ محمد ؐ رسول اللہ کو خاتم النبیین یقین کرنا۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں؟ یقینا ہے اور بہت کچھ ہے۔ خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے۔ وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے۔ بھلا بتائو تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیراحمدیوں کو ہندوئوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیادہ قریب کر رکھا ہے۔ غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرتا ہے۔ مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں ان کو مسلمان بھی لکھا ہے۔ بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض کردیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ۔ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص باوجود ایک دائرہ سے خارج ہوجانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے۔ غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھادیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو۔ اسی طرح میرا یہ بھی دعویٰ ہے کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کرسکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعود ؑ نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو۔ حالانکہ میں بفضلِ خدا ایک نہیں بیسیوں ایسے حوالے پیش کرسکتاہوں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے غیر احمدیوں کو مسلمان کہااور لکھا ہے۔ اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیراحمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے۔فتدبرو۔
میں نے اپنے رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کردیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے۔ یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبدالحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں:-
’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیںکیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے‘‘
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکدر نہیں کرسکتا۔
پھر آپ نے اپنی ۲۶ دسمبر ۱۹۰۶ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ:-
’’اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں۔ اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔‘‘
دیکھئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لاکر اپنے عقائد کو درست نہ کریں۔
پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۱ (روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۴۱ حاشیہ) پر تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جب میں دہلی گیا تھا۔ اور میاں نذیر حسین غیرمقلّد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی۔ تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بدزبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کرکے آخری فیصلہ یہی ٹھہرا یا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے۔ پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلادوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا۔‘‘
دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کس دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیر حسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قراد دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمدیوں میں دین اسلام کا ایک رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں۔ اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں۔ جن کو عند الضرورت پیش کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی روسے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اسمیؔ اور رسمیؔ طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اورلکھا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے۔ جو یہ ہے۔
’’چو دَورِ خسروی آغاز کردند‘‘
’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ ۱۱؎
اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے۔ اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیاہے۔ پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیراحمدیوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں۔ کیونکہ کلام الٰہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے۔ اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الٰہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکار کر رہا ہے۔فتدبّرو
غیراحمدیوں کا کُفر
اب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتاہے۔ سواس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا منکر اسی طرح الٰہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان ویقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق خدا کے رگ وریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کا صفاتی وجود ہرجگہ محسوس ومشہود ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں۔ یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے۔ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت کے خادم تھے۔ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین حصہ پنجم صفحہ۱۳۸ پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو۔ غرض اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پاجاتے ہیں۔ وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیںبلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ وریشہ کے اندر سرایت کر جاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کردیتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ حدیث نبوی کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًابِالثُّرَیَّالَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسْ۔ اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ سوماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس ومشہود کروا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلاکر خاک کردیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے۔ سو اس لحاظ سے توتمام مامورین کا انکار منکرین کے غیرمومن ہونے پر مہر لگانے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ سو جاننا چاہیئے کہ کُفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر۔ ظاہری کفر سے یہ مُراد ہے کہ انسان کُھلے طور پر کسی رسول کا انکار کردے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے۔ جس طرح یہود نے مسیح ناصریؑ کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہراً طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میںاپنے آپ کو شمار کرتاہو لیکن درحقیقت (اللہ تعالیٰ کی نظر میں) وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جاپڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو۔ اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کاربند نہ ہو یا اگر ہوتو صرف قشرپر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو۔ غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے۔ جیسا کہ مسیح ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا۔ گو وہ ظاہراً طور پر تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صِرف رسمی طور پر منسوب تھے۔ چنانچہ اس حقیقت کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کردیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جاپڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی اُمت میں ہونے کا دعویٰ صرف ایک زبانی دعویٰ تھا جو آزمانے پر غلط نکلا۔ حضرت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کاربند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرماکر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کردی اور اس بات پر الٰہی مُہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے۔ ایک مسیح کا ظاہری کفر اور دسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے۔ جنہوں نے آپ کا انکار کرکے اس بات پر بھی مہر لگادی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے۔ پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا۔ ایک ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سے پہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے۔ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوںکا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پر ظاہری کفر کا فتویٰ عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے۔ تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کافر کہیں۔ ہاں اگر وہ کسی اور مامورمن اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیسا کہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی باطنی کفر کیا کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے۔ ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گاکہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہوچکا ہے۔ مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھاکہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا۔ پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کردیاکہ امت موسویہ میں واقعی اکثر دھاگے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے میں ٹوٹ گئے۔ اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفر ان پر عائد نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اسلام سے ظاہراًطور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں۔ پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے۔ ہم غیراحمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں۔ آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کافر نہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ کا بھی باطنی کفر شروع ہے۔
فریق مخالف نے مسئلہ کفر واسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کردیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے۔ کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری کافر ہیں۔ ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ غیراحمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیںاور یہ بالبداہت غلط ہے۔ خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کروجو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے۔ ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود ؑ کا کافر سمجھتے ہیںاور بس۔ چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہراً طور پر انکار نہیں کیا۔ بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعودؑ کے سواکسی اور رسول کے مطلقاً کافر نہیں کہلاسکتے۔ ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ حقیقۃالوحی میں فرماتے ہیں کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا‘‘۱۲؎
جس کا یہی مطلب ہے۔ کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے۔ فتدبر
تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود ؑ کا کفر زیاد ہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے۔ جیسا کہ خود حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:-
’’فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس وجنّ میں سے اُن سا کوئی بھی بدطالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔‘‘۱۳؎
خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں۔ اِس لئے علمیت کے دائرہ سے ان کو خارج قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:-
’’جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔‘‘۱۴؎
اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعودؑ کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعودؑ کے ظاہراً طور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کافر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ:-
’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود ؑ کو نہیں مانتا۔‘‘
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :-
’’اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘۱۵؎
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۳ پر لکھا ہے کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘
ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں۔وہوالمراد
(مطبوعہ الفضل ۶ ،۵ستمبر۱۹۱۶ئ)
۱۹۱۷ء
اِسْمُہٗ اَحْمَدُ
قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی ایک پیشگوئی درج ہے، جو ان کے بعد کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمدؐ ہوگا۔ اصل الفاظ پیشگوئی کے جو قرآن کریم میں درج ہیں یہ ہیں:-
’’وَاِذْقَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْ.6ٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّر.6ًم ا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن.6ْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۱۶؎
یعنی فرمایا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رُسول ہوں۔ مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے۔ یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اور جس کا اسم احمد ہوگا۔‘‘
پیشتر اس کے کہ اور قرائن کے ساتھ اس موعود رسول کی تعیین کی جاوے ہم پہلے الفاظ اسمہٗ احمد کو ہی لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ کس حد تک ہم کو تعیین کے کام میں مدد دیتے ہیں۔ پہلا لفظ اسم ہے یہ مشتق ہے۔ وسم سے جس کے معنی نشان لگانے کے ہیں تو گویا اس لحاظ سے اسم کے معنی ہوئے نشان اور چونکہ نشان کی غرض تخصیص وتعیین ہوتی ہے تو اس لئے اسم کے پورے معنی ہوئے وہ نشان وغیرہ جس سے کسی شے کی تعیین وتخصیص ہوجائے۔ اب اسم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسم سے مراد اسم ذات لیا جائے۔ یعنی وہ نام جس سے کوئی شخص عام طور پر معروف ہو۔ خواہ حقیقت کے لحاظ سے اس نام کا مفہوم نام بردہ میں پایا جاوے یا نہ پایا جاوے۔ مثلاً بیسیوں ایسے دہریہ مل جائیں گے جن کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ ہوگا۔ حالانکہ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ناموں سے کوسوں دور ہوںگے۔ ایسے اسم کو جس میں حقیقت کا ہونا نہ ہونا ضروری نہ ہو۔ اسم ذات کہتے ہیں۔ دوسری اسم کی یہ صورت ہے کہ مثلاًکسی شخص کا کوئی نام بطور اسم ذات کے تونہ ہو مگر اس نام کامفہوم نمایاں طورپر اس شخص میں پایا جاوے۔ مثلاً محمد رسول اللہ کا اسم ذات کے طورپر تو عبداللہ نام نہ تھا مگر عبداللہ کے مفہوم کے لحاظ سے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی عبداللہ نہیں گزرا۔ ایسے نام کو اسم صفت کہتے ہیں۔
قرآن شریف میں بھی اسم کے معنے صفت کے آئے ہیں۔ ملاحظہ ہو
لَہُ الْاَ سْمَآئُ الْحُسْنٰی ۱۷؎
یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پاک ہیں غرض لفظ اسم دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسم ذات اور اسم صفت۔ کیونکہ یہ دونوں ایک حد تک تعیین اور تخصیص کرنے والے ہوتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اسمہٗ احمدؐ والی پیشگوئی کس شخص پر چسپاں ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوشخص رسالت کے مدعی ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر ہوئی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی پر ضرورچسپاں ہوگی۔ پہلے ہم لفظ اسم کے مفہوم اول یعنی اسم ذات کے لحاظ سے پیشگوئی کی تعیین کرنے ہیں۔ آنحضرتؐ کا اسم ذات محمدؐ تھا۔ یہی نام آپ کا آپ کے بزرگوں نے رکھا اور اسی نام سے آپ مشہور تھے۔ دوسری طرف مسیح موعود کا نام تھا غلام احمد یہی نام ان کا ان کے والدین نے رکھا۔ اور اسی نام سے وہ مشہور تھے۔ یہ سرسری نظر جو ہم نے ان دومدعیان رسالت پرڈالی تو ہم کو معلوم ہوا کہ یہ پیشگوئی کم ازکم اس ذات کے لحاظ سے ان ہر دو میں سے کسی پر بھی چسپاں نہیں ہوتی تو پھر یہ ماننا پڑا کہ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی یا ہماری ظاہری نظر نے دھوکا کھایا۔ پہلی صورت چونکہ مسلمہ طور پر غلط ہے۔ اس لئے دوسری صورت کو صحیح سمجھ کر پھر نظر ڈالتے ہیں تاکہ اگر سرسری نظر نے لفظ احمد کو ان دو بزرگوں پر اسم ذات کے طور پر نہیں چسپاں کیا تو شاید پیشگوئیوں میں جو اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اس کو خیال رکھتے ہوئے ہم ذرا گہری نظر سے لفظ احمد کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعودؑ میں سے کسی کے ساتھ اسم ذات کے طورپر دیکھ سکیں۔ تاریخ اور احادیث صحیحہ (وضعیات الگ رکھ کر)شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ کا رسالت سے پہلے کبھی بھی احمد کے نام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکتا۔ دعویٰ سے پہلے کی شرط اس واسطے ہے کہ دعویٰ کے بعد والا نام اوّل تو اسم ذات نہیں کہلاسکتا۔ دوسرے خصم پر حجت نہیںہے۔ اگر دعویٰ سے بعد کا اپنے مُونھ سے آپ بولا ہوا نام بھی اسم ذات ہوسکتا ہے تو پھر تو امان اٹھ جاوے۔ مثلاً پیشگوئی ہو کہ عبدالرحمن نام ایک شخص مامور ہوکر آئے گا تو ایک شخص مسمی جمال دین اُٹھے اور کہے کہ میرا نام ہی عبدالرحمن ہے۔ تو وہ صحیح نہ سمجھا جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں تو یہ جھگڑا بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسم ذات کے طور پر دعویٰ کے بعد بھی کبھی اپنا نام احمد نہیں بتایا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ غرض محمد رسول اللہ کے معاملہ میں تو ہماری گہری نظر بھی ماندہ ہوکر واپس لوٹی کیونکہ بالحاظ اسم ذات کے کُجا محمد اور کجا احمد۔ اب رہے مسیح موعودان کے متعلق بھی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہماری سرسری نظر تعیین کرنے سے قاصر رہی۔ اب ذرا گہری نظر ڈالیں مسیح موعود کا نام جو عام مشہور تھا اور جو والدین نے رکھا غلام احمد تھا۔ یہ مرکب ہے لفظ غلام اور احمد سے۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان ہر دو میں سے نام کا اصل اور ضروری حصہ کونسا ہے۔ یاد رہے کہ نام ہوتا ہے۔ تعیین اور تخصیص کے لئے اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم مسیح موعود کے خاندان کے ممبروں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور تھوڑی دیر کے لئے تعصب کو الگ رکھیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہم کو ضرور نظر آجائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے والد کے چار بھائی تھے۔ تو گویا کل پانچ ہوئے۔ ان میں سے تین یہ ہیںمرزا غلام حیدر، مرزاغلام مرتضیٰ، مرزا غلام محی الدین باقی دو بچپن میں فوت ہوئے۔ اس لئے ان کے نام کی ابھی تک تحقیقات نہیں کرسکا۔ مگر اتناپتہ یقینی چل گیا ہے کہ ان کے ناموں میں غلام کا لفظ ضرور تھا۔ تو اب غلام کا لفظ تو ان سب میں مشترک تھا۔ اس لئے یہ الفاظ ان کے ناموں کا اصل حصہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس نے تخصیص پیدا نہیں کی بلکہ تخصیص پیدا کرنے والے حیدر اور مرتضیٰ اور محی۔الدین الفاظ تھے۔ پس اگر ان کو ہی اصل نام کہہ دیا جاوے تو حرج نہیں۔ اب آگے چلئے۔ حضرت مسیح موعودؑ دوبھائی تھے۔ آپ کا نام غلام احمد تھا اور آپ کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر تھا۔ غور فرمائیں غلام کا لفظ پھر مشترک ہؤا۔ اسم کا کام ہے ایک حد تک تخصیص کرنا وہ تخصیص کس لفظ نے قائم کی؟ ہمارا ضمیر بولتا ہے کہ ایک طرف احمد نے اور دوسری طرف قادر نے۔ پس حرج نہیں کہ انہی کو اصل نام سمجھا جاوے۔ مسیح موعود کے چچا مرزا غلام محی۔الدین کی نسل میں بھی یہی سلسلہ چلا۔ ان کے تین بیٹے ہوئے۔ جن کے نام تھے مرزاکمال۔الدین، مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین۔ ان میں دین کا لفظ مشترک ہے اور امام اور نظام اور کمال نے تخصیص کی۔ پس وہی اصل نام ٹھہرے پھر آگے چلئے۔ مرزا غلام قادر جو مسیح موعود کے بڑے بھائی تھے۔ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام رکھا گیا عبدالقادر، گویا اس نے اپنے باپ کے خصوصیت والے اصل نام کو ورثہ میں لیا۔ پھر یہی نہیں خود مسیح موعود کی اولاد کو لیجئے۔ دعویٰ کے بعد کی مثال تو آپ مانیں گے نہیں۔ دعویٰ سے بہت سال پہلے جب آپ ابھی جوان ہی تھے اور بالکل گوشہ تنہائی میں اپنے دن کانتے تھے اور بیرونی دنیا میں کوئی آپ کو نہ جانتا تھا۔ آپ کے ہاں دولڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے نام رکھے گئے مرزا سلطان احمد اور مرزافضل احمد۔ دیکھئے باپ کے اصل نام کو ورثہ میں لے لیا وہ نام جس نے باپ کو چچا سے خصوصیت دی تھی پھر اور سنئے حضرت مسیح موعود کے والد نے دو گائوں آباد کئے اور ان دونوں کو اپنے دو بیٹوں کے نام پر موسوم کیا۔ ایک کا نام رکھا قادرآباد اور دوسرے کا احمد آباد۔
ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید اکی، احمدتھا۔ اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی تھا مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوںکی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پرپیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے توعقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے۔ خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے۔ جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے۔جیسا اوپر بیان ہؤا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے۔
(مطبوعہ الفضل ۱۵ تا ۱۹ مئی ۱۹۱۷ئ)
حوالہ جات
۱۹۱۳ء ،۱۹۱۶ئ،۱۹۱۷ء
۱۔ الروم:۳۱
۲۔الرعد:۱۲
۳۔النحل:۱۲۶
۴۔الرحمن:۶۱
۵۔البقرہ:۲۸۶
۶۔التحریم:۱۰
۷۔الفتح:۳۰
۸۔القلم:۱۰
۹۔ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد ۳۔صفحہ ۱۰۹ تا ۱۲۰
۱۰۔صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورۃ الجمعہ
۱۱۔تذکرہ صفحہ ۵۱۴ - ۵۶۲ طبع ۲۰۰۴ء
۱۲۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۶۸
۱۳۔ الھُدیٰ ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۵۰
۱۴۔ نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۷۲
۱۵۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵
۱۶۔ الصف:۷
۱۷۔ الحشر:۲۵
۱۹۲۶ء
سیرت المہدی اور غیرمبایعین
ناظرین کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات میں ایک کتاب سیر ت المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس حاسدانہ اور معاندانہ نظر سے دیکھے گا۔ جس سے کہ اہل پیغام نے اسے دیکھا ہے مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میری اُمیدوں کو ایک سخت ناگوار صدمہ پہنچایا ہے۔ جرح و تنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی بحثیںجو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی علمی تنویر کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیںاور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیں اور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا مضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے۔ میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لے کر آخرتک بغض وعداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیںاور ان کے مضمون کا لب ولہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے۔ جابجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعارکے استعمال سے مضمون کے تقدس کو بری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے۔ مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو۔ پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصول انتقام کے ماتحت لاکر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا۔ میں انسان ہوں اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پاک ہوتی ہے۔ اور نہ ایسا دعویٰ کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے۔ میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں، محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اگر اس میں میں نے کوئی غلطی کی ہے یا کوئی دھوکا کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبّہ کرے تاکہ اگر یہ اصلاح درست ہو تو نہ صرف میں خود آیندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہوجائوں بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہو جانے سے بچ جائیں لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کرکے بجائے اصلاح کر نے کے بغض وعداوت کا تخم بوئے۔ اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوں میں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت غیر مناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب وملت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کرکے ان کے اس افسوسناک رویۂ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ اب ان عبارتوں کو نقل کرکے مزید بدمزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطافرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کر اپنے طرز تحریر میں آیندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوںکو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی، دور فرما کر مجھے اپنی رضامندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین
اصل مضمون کے شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اوربات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کام نہیں لیا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پرریویو کرنے لگاہے، اس کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالے یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کرکے کتاب کے حسن وقبح کا ایک اجمالی ریویو لوگوں کے سامنے پیش کرے تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ اصول دنیا بھر میں مسلّم ہے اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے۔ چنانچہ یہود ونصاریٰ کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی عَلیٰ شَیْ ئٍ وَّقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الیَہُوْدُ عَلیٰ شیْ ئٍ وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ۱؎۔یعنی یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کرگئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن اِن کو نظر ہی نہیں آتے اوریہودیہی کہتے چلے جاتے ہیںکہ نصاریٰ میں کوئی خوبی نہیںہے اور نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے مبّرا ہیںحالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیئے کہ تورات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاقف ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۲؎۔ یعنی کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دیدے کیونکہ بے انصافی تقویٰ سے بعید ہے۔ اور پھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ شراب اور جوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۳؎۔ یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ کیسی منصفانہ تعلیم ہے جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے مگر افسوس! کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زرّیں اصول کو نظر انداز کرکے اپنا فرض محض یہی قرار دیا کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ میں ڈاکٹر صاحب سے امانت ودیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟ کیا سیرۃ المہدی میںکوئی ایسے نئے اور مفید معلومات نہیں ہیں۔ جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃالمہدی حصہ اوّل میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے تو میں خاموش ہوجائوں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اوردیانتداری پر مبنی نہیں ہے۔ اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی مخالفت میں عموماً کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کرلیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کے لئے ہی آپ.6ؐ کی بعض خوبیاں بھی ذکرکردی جائیں۔ تاکہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کرکے دھوکہ میں آجائیں لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہوگئے ہیں کہ اور نہیں تو کم۔از کم اپنے مضمون کو مقبول بنانے کے لئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کردی جائیں۔
مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ’’ سیرت المہدی پر ایک نظر‘‘ مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو۔ سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ گویا ’’یہ نظر‘‘ عدل وانصاف کی نظر نہیں جسے حسن وقبح سب کچھ نظر آنا چاہیئے بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے۔ اور اپنے دل ودماغ کو اس بات کا عادی بنائیے کہ وہ اِس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کرسکیں۔ جسے آپ اپنا دشمن تصور فرماتے ہوں۔ میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ورنہ آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے۔٭
اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتاہوں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اوّل کے متعلق قائم کی ہے۔ سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرت المہدی کہلانے کی حقدارہی نہیں۔ زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کرنے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا۔ ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہٗ مطالعہ کرلے تاکہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میںآگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ اگر وہ ذرا تکلیف اٹھا کر اس ’’عرض حال‘‘ کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اورمیں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں۔ چنانچہ سیرۃ المہدی کے ’’عرض حال‘‘ میں میرے یہ الفاظ درج ہیں۔
٭:-مطبوعہ الفضل۷ مئی ۱۹۲۶ء
’’بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرت یا سوانح سے کوئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط واستدلال کا وقت آئے گا
(خواہ میرے لئے یا کسی اور کے لئے) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوالیں گی۔‘‘
میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہوجانے کے باوجود ڈاکٹرصاحب کا اس اعتراض کو پیش کرناماسوائے اس کے اور کیا معنی رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کردینے کا شوق ہے۔ میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃالمہدی میں بعض بظاہر لاتعلق روایات درج ہیں اوراپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے اور پھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا۔ ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کردیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کرکے اس کا اجمالی جواب دیا ہے اورپھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کردیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقیدصرف ان کی حدّت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے۔ اور اعتراضات کے نمبر کا اضافہ مزید براں رہے۔ افسوس! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال واستنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کردیا جاوے۔ اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیرۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعود کی سیرت پر روشنی نہیں پڑتی اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کرسکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرما دیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیںہے۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے۔ پس اگر ان کثیر التعداد روایات کی بناء پر کتاب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیئے اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجودہر مخلص احمدی کے لئے ایساہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اورجذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو، لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کرنے دیتا۔ پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے تو اس خیال سے کہ یہ باتیں بہرحال ہیں تو ہمارے آقا، ہماری جان کی راحت، اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعودؑ ہی کے متعلق۔ میرا یہ علمی جرم اہل ذوق اوراہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیئے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کا اختیار ہے مگر تاریخ عالم اور صحیفۂ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبۂ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیئے۔ آپ اشعار کا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا ؎
خلق میگوئید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم باخلق وعالم کار نیست
بس یہی میرا جواب ہے۔ حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں ؎
تا نہ دیوانہ شدم ہوش نیا مد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احسان کردی ۴؎
پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیئے۔
تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض وغایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے۔ واللہ الموفق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فرمائی ہیںاور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں۔ یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں۔‘‘۵؎
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریںگے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کردوں تاکہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہوجاوے اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو، ذکر سے نہ رہ جائے۔ کیونکہ اگر اس وقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی اور نہ بعد میں ہمارے پاس اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میں نے اسی غرض کو مد نظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظرانداز کرکے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے میرے خلاف ایک الزام دھردیا ہے۔
چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اس کے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرماویں خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں۔ انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوجائے گا کہ سیرت کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے۔ دراصل سیرت کی کتب میں تمام وہ روایات درج کردی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں جس کی سیرت لکھنی مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت ﷺکے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متداول کتاب ہے اور میں امید کرتا ہوںکہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں۔ اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ براہ راست بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طور پر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت وسوانح پر اثر ڈالتی ہیں، اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کردیا ہے۔ بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑجاتاہے کہ نہ معلوم آنحضرت ﷺ کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں لیکن اہل نظر وفکر ان سے بھی آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے حالات ہمیں اس بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم وتربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا۔ یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا اور کس حالت میں چھوڑا اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرت وسوانح کے لحاظ سے لاتعلق نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک و قوم کی حالت کا مفصّل بیان درج ہوتا ہے۔ جو بادی النظر میں ایک لاتعلق بات سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن درحقیقت آپ کی سیرت وسوانح کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ان باتوں کا علم نہایت ضروری ہے۔ الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو، جس کی سیرت لکھی جارہی ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور گفتگوئیں اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں۔ جن کو ایک جلدباز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد اور لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے۔ حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ پھر بعض وہ علمی نقطے اور نئی علمی تحقیقاتیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میںبیان کی جاتی ہیںتاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کس دل ودماغ کا انسان ہے۔ او ر اس کی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے مگر عامی لوگ ان باتوں کو سیرۃ و سوانح کے لحاظ سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اس کے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے ورنہ اگروہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج ومتعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی او راسی وسیع مفہوم کو مدنظر رکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہرقسم کی روایات درج کردی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیںد ے سکتا۔
میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے متعلق مفیداستدلالات کرسکیں۔ جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت ﷺکے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کردیں اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روائتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اٹھایا ہے اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ان سے مدد حاصل کی ہے۔
اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہوجاتا۔ پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیئے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بناء پر رد نہیں کر دینا چاہیئے۔ ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں مگر جو روایت اصول روایت وداریت کی رو سے صحیح قرار پائے اور وہ ہو بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لاتعلق یا غیرضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کردینا چاہیئے۔
بہرحال میںنے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہوسکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قراردی جاسکیں۔ اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اٹھایا ہے۔ اور مثالیں نہیں دیں ورنہ میں مثالیں دے کر بتاتا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیرمتعلق نظر آتی ہیں دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کے لئے پیش کرتاہوںاور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیرسے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کروں گا جن کا بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نظرنہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے ثابت کریں گے۔ میں انشاء اللہ اتنا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی روایات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے ثابت کردوں گا جن کو ڈاکٹر صاحب غیرمتعلق قرار دیں گے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے۔ اور مورخین اس کو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کہی بات ضبط و تحریر میں آنے سے رہ نہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جاسکے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے اپنے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنایا ہے۔٭
دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے
٭:مطبوعہ الفضل۲۱مئی۱۹۲۶ء
کہ گوکتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط واستدلال بعد میں ہوتا رہے گا لیکن عملاً خوب دل کھول کر بحثیں کی گئی ہیں اور جگہ جگہ استدلال واستنباط سے کام لیا گیا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں:-
’’مصنف صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ’ترتیب اورا ستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا‘مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب ’استنباط واستدلال‘سے کام لیا ہے۔‘‘
اس اعتراض کے جواب میںسب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے۔ یعنی وہ کونسا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قراردی ہے اور پھر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال واستنباط سے کام لیا ہے۔ پھر بھی میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بچیں ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بدظنّی کی طرف مائل کردیتی ہیں۔ ناظرین غو رفرمائیں کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیںاور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کو دیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لیئے ان کو داخل کرلیا گیا ہے۔ کیا یہ طریق عمل انصاف ودیانت پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے؟اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کردی گئی ہیں اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کون سا ہوگیا اور وہ کون سا خطرناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے۔ اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھا ایک حدتک ناظرین کو حاصل ہوگئی۔ میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ میں نے پوراکیا استدلال واستنباط کی اُمید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیا ہوں۔ گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہورہے ہیں! فرماتے ہیں:-
’’ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا تو حیرت ہوجاتی ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب ! بیشک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدردان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا۔
یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال واستنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیںہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے حالانکہ اس کا سیاق وسباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے، اگر ڈاکٹر صاحب جلدبازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہوجاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جونہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں۔ اور اس بات کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ ’’اس طرح وہ مفت میں اپنامذاق اڑواتے ہیں۔‘‘مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے۔ میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے :-
’’میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے متعلق جتنی بھی روایتیں جمع ہوسکیں ان کو ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیا جاوے۔ ترتیب اوراستنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر وقت ہوسکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہوا تو پھر نہ ہوسکے گا۔‘‘۶؎
اس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب واستدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں۔ پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گو یا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکا کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے لئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکا بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دیئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اورترتیب دینے کے نتیجہ میںضروری ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ترتیب و استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘
جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو ترتیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں۔ چنانچہ میرے اس دعویٰ کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دور آگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں:-
’’میںنے جو بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دیئے ہیں۔ ……اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا۔ بعض روایات یقینا ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ واری کلیتہً خاکسار پر ہے۔‘‘۷؎
اِن الفاظ کے ہوتے کوئی انصاف پسند شخص ’’استنباط واستدلال‘‘ سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دیئے جاتے ہیںبلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں، ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اٹھ کھڑا ہونااور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل وانصاف پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیں کئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ’’استدلالات‘‘ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے ہیں۔ وہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیاہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ اس کتاب میں ترتیب واستنباط واستدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جہاں میں نے استدلال واستنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ واخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیںیعنی منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیں اور جو واقعاتِ زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں، ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ واخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کرلیا گیا ہے اور استدلال واستنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کردیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال واستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا وہاں دوقسم کے استدلالات مراد ہیں اولؔ وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضروت پیش آتی ہے۔ اور دوسرےؔ وہ استدلالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق وعادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اور ان دونوں قسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے۔ والشاذ کالمعدوم باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا اور نہ ہی ان کا ملتوی کرنا درست تھا کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہوجاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کردی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے اور صرف روایات کو جمع کردیا ہے لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دئیے ہیں مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے ہاں بے شک میں نے ایک دوجگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں لیکن ان بحثوں کو استدلالات اورتشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلاسکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کرکے میں نے انہیں درج کردیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم وتربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مؤرخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم وتربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے بلکہ معمولی ہے لیکن اس بات کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اورترتیب اور استنباط و استدلال کاکام بعد میں ہوتا رہے گا مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں……الخ۔‘‘
گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال واستنباط قرار دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہدی میں درج کردیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں در ج کردیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرۃ سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا؟ میں واقع حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بناء پر استدلال واستنباط رکھا ہے اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال واستنباط کے نام سے یاد کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرمائیں تووہ یقینا ان الفاظ کو خارج کردینے کا فیصلہ فرمائیں گے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیںاور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات ……الخ۔‘‘۸؎
اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کرنے اور ایک جگہ جمع کردینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قراردیا ہے۔ اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قراردیا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے آپ معاف فرمائیں مگر میں پھریہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل وانصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی۔٭
تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:-
’’روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے۔ یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کو نظر انداز کرکے عربی صرف ونحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے…… مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔‘‘
یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیراس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے۔
٭:مطبوعہ الفضل۲۵مئی۱۹۲۶ء
دراصل منقّدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتامگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کرسکیں اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب ولہجہ کرتے ہیں جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر وتمسخر کا رنگ نظر آتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرکے پبلک کے سامنے پیش کیاہے اور مجھے اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں۔
بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک وتیمّن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیت۔الدعا میں جاکر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتاہوں کہ بغیر کسی تصنّع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اسی طرح لکھی گئیں جس طرح کہ عربی کی عبارت کا دستور ہے بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیا کہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں پھر جب بعد میں بیت۔الدعا سے باہر آکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اور پھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میری کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قراردیں یا حسن ظنّی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت واحترام پر محمول خیال فرمالیں مگر بہرحال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعاکے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا۔ چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہوگئیں۔ اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایسا کیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیئے نہ کہ جائے اعتراض۔ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا۔ واللّٰہ علٰی مااقول شھید
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ’’خاکسار عرض کرتا ہے۔‘‘ ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ ’’عرض کرتا ہے خاکسار‘‘۔‘‘
اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محوحیرت ہونے لگتے ہیں۔ افسوس!
چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹرصاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے۔ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں راویوں کے ’’صادق وکاذب‘‘ ’’عادل وثقہ‘‘ ہونے کے متعلق کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسرے یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چُھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گویا کتاب کے اندر مرسل روائتیں درج ہیں جو پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اڑایا ہے کہ احادیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے۔ لیکن محدثین کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نام ونشان نہیں اور روایات کے جمع کرنے میں ’’بھونڈاپن اختیار کیا گیا ہے۔‘‘الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی’’ ایک گڑبڑ مجموعہ ہے۔‘‘ اور مصنف یعنی خاکسار نے ’’مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے۔‘‘ چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں، اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں‘‘ میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملاحظہ فرمائیے۔ ان میں بھی راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ وسیرۃ کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق وکاذب ثقہ وعدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں۔ جن سے ان کے صادق وکاذب، عادل وغیرعادل، حافظ وغیرحافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور انہی کتب کی بناء پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیرصحیح مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نامعلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میں بھی مجھے مجرم قراردے رہے ہیں کہ میں نے کیوں سیرۃ المہدی کے اندرہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیںکئے۔ حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تومیں اس راوی کا ثقہ وعادل ہونا ثابت کرتااور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے اوروہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتاہوں۔ سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے۔ روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا (۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہم تو نہیں (۲) اس کے حافظہ میںتو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں (۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے گویہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو (۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لے کر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کردینے کا عادی تو نہیں (۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں (۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق وکاذب،حافظ و غیرحافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔ وغیرہ ذالک اور جہاں تک میرا علم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میں علیٰ قدرمراتب ملحوظ رکھا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے۔
دوسرا حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی چُھٹا ہوامعلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا۔ پس ضروراس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہوگی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاسکتی۔ میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں۔ اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۃً متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسااوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو۔ مثلاً فرض کرو کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یاد رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا۔ اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت کمزور سمجھی جائے گی لیکن دراصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہوگی بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قرار دی جاتی ہیں۔ مگربایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میں وہ ہلکی ہی اترے گی اس طرح عملاً بہت سی باتوں میں فرق پڑجاتا ہے۔ پس باوجود ڈاکٹرصاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو یہ کمزور سمجھی جانی چاہیئے۔ میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں۔ عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایت کو درج کردیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بدیہی ہوگا اس لئے ان کی کمزور ی بھی لوگوں کے سامنے رہے گی۔اور مناسب جرح وتعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابلِ اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ ان کی روائتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگرکبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے ردّ کئے جانے کے قابل نہ ہوں اور ان سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نفعھا اکبر من اثمھا والا معاملہ ہے۔ واللّٰہ اعلم ۔ یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاںتک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کردیا ہے۔ اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتاہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی۔ سیرۃ المہدی کے صفحہ ۱۲۸ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے او راس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے۔
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے۔ لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا۔‘‘
میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدِّنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کردیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون سی روایت ان کے مدنظر ہے لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیاکرتے بلکہ یہ کام تحقیق وتنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرلوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا۔ ہاں ایک غیرواضح سی مثال روایت نمبر ۷۳ کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی لیکن خود مرعوب ہوکر بدحواس ہوگیا ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ :-
’’اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھاتھا یا کہ کسی کی زبانی سنا تھا اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا۔‘‘
اس کے جواب میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اند رکوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو (مثلاً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو) تو لامحالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کررہا ہے۔ اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ کا چشم۔دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے۔ بہرحال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خود اپنی دیکھی ہوئی بات بیان کررہا ہے۔ اسی لئے میں نے اس سے سوال کرکے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہوا ہے کہ راوی کی روایت کسی بلاواسطہ علم پر مبنی نہیں ہے۔ وہاں میں نے خودسوال کرکے تصریح کرالی ہے۔ چنانچہ جو مثال مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی۔ مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی اب حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے۔ پس لامحالہ مجھے یہ شک پیدا ہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا۔ چنانچہ میںنے مولوی صاحب سے سوال کیا اور انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کردی۔ الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتّی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور غلطی کا اعتراف کرلینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلّت نہیں بلکہ موجب عزّت ہے۔ پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کوئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے تو میں نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہوںگا۔ افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کرنے کے خیال سے اعتراض کردیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلاوجہ حقیراور بے فائدہ ثابت کرنے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اٹھائے۔ مصنف کی بھی تنویر ہو۔ اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے۔ اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں جو مبایعین اور غیرمبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تمام احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اورضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیرہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرت المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نشان تک نہیں ہے۔ محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت واحترام ہے اور گو جائز طور پر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل وسینہ میں موجود ہوتی ہے یا کم از کم ہونی چاہیئے۔ لیکن میرے دل کا یہ حال ہے واللّٰہ علیٰ مااقول شھید کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چیں ہونے کو بھی میں اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں اور ان کے مدِّمقابل کھڑاہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں۔ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں اور نقل کی نیت سے ہرگز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہوبھی تو میرے نزدیک اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقشِ پاپر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہوجائے۔ پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف ونحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے۔ باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی۔ سو وہ تو مسلّم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان جیسا دِل و دماغ اور علم وعمل عطا فرمائے۔ پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہوسکا چھان بین اور تحقیق وتدقیق سے کام لیا ہے اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کرسکوں گا کہ مَیں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا۔ آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’میں نے مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے‘‘ آپ کو مبارک ہواس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں۔ اگر سیرۃ المہدی ایک گڑبڑ مجموعہ ہے تو بہرحال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے۔ میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے۔ پھر نامعلوم آپ نے اسے ایک گڑبڑ مجموعہ قرار دینے میںکون سی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے۔ آج اگروہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا۔ بہرحال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اٹھایا گیااور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑبڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں اور مذاق اڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی مذاق اڑانے والے ہیں۔ سنجیدہ ہوجائیے۔ پس نہ میرا مذاق اڑے گا۔ اور نہ آپ کی متانت اور سنجید گی پر کسی کو حرف گیری کا موقع ملے گا۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے۔٭
پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیاہے وہ یہ ہے کہ سیرت المہدی میں
’’احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی ہر ایک روایت کو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کیا ہے۔ پڑھنے والوں کو سمجھ نہیں آتاکہ یہ موجودہ زمانے کے راویوں کی کوئی روایت شروع ہورہی ہے یا قرآن کی سورت شروع ہورہی ہے۔ خاصہ پارہ عم نظر آتا ہے گویا جابجا سورتیں شروع ہورہی ہیں۔ حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی۔ اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے۔‘‘
٭:مطبوعہ الفضل یکم جون۱۹۲۶ء
میں اس اعتراض کے لب ولہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں۔ اب کہاں تک اسے دہراتا جائوں مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی۔ تعصب بھی بری بلا ہے میں تبرک وتیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللہ لکھتا ہوں اورڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں مگر مکرم ڈاکٹر صاحب! اس معاملہ میں تو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کالکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کے اصل کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے اس کے خلاف کرو تاکہ نقل کرنے کے الزام کے نیچے نہ آجائو۔ میں کہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کاکلام اور مجسم برکت ورحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولیٰ سمجھی جانی چاہیئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) فرماتے ہیں:-
’’کل امرذی بال لا یبدأ ببسم اللّٰہ فھوابتر۔‘‘۹؎
یعنی ہر کام جو ذرا سی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہوجاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھاتو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے۔ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللہ درج کردی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا۔ جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں۔ دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کررکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو خدا کے نام سے شروع ہونا چاہیئے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ اسلام نے تو اس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت وسکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کردیا ہو۔ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا، گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا، شہر سے نکلنا ،شہر میں داخل ہونا،کسی سے ملنا ، کسی سے رخصت ہونا، رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا، کپڑے بدلنا، کسی کام کو شروع کرنا، کسی کام کو ختم کرنا، غرض زندگی کی ہر حرکت وسکون میں خدا کے ذکر کو داخل کردیا اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبردست دلائل میں سے ایک دلیل ہے مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللہ لکھنے پر کیوں چیں بجیں ہورہے ہیں۔ میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کردیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد وکفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور وغوغا کچھ اچھا بھی لگتا لیکن ایک طرف اس چیخ وپکار کو دیکھئے اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مناسب تھی تو حیرت ہوتی ہے۔ خیر جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو بلکہ زندگی کی ہر حرکت وسکون خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تا کہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو۔ چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہرسورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے۔ اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ میں اس کی ہرروایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا۔ اگر سیرت المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہوئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو رکھا ہے۔ بہرحال اگر قرآن کریم اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں تو سیرۃالمہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتیّٰ کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃالمہدی کو ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ‘‘ قرارد یا ہے بدرجہ اولیٰ بسم اللہ سے شروع کی جانی چاہیئے۔ اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللہ کے شروع نہیں کیا۔
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر وخوبی سر انجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعاکے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے۔ یہ اگر ایک ’’بچوں کا کھیل‘‘ ہے تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزارہا سنجیدگیوں سے بڑھ کر ہے۔ اور جناب ڈاکٹر موصوف سے میری یہ بصد منّت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکائیں۔ مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگرمیں نے تصنّع کے طور پر یا لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہوسکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوں اس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
چھٹا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ
’’ دراصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لیئے بنائی گئی ہے۔ یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں۔ جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے، نہ لاہوری احمدیوںکے، نہ کسی محقق کے، بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود ؑ پر صاف زد پڑتی ہے مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوں پر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روائتیں مضبوط کرکے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔الخ‘‘
اس اعتراض کے لب ولہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کردیا جائے اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پروا نہیں کرتااور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب وذی شان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کردینے کو کوئی معمولی بات نہ جانیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خد اکو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنّت میں داخل ہے مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتاہوں کہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق وصداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف۔ یہ نیت کا معاملہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔ ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آرہی ہے وہ عرض کرتا ہوں۔
ایک جنگ میں اسامہؓ بن زیدؓ اور ایک کافر کا سامنا ہوا۔ کافر اچھا شمشیرزن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ ؓ کو بھی ایک موقع خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر وار کیا۔ کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں پاکر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر اسامہؓ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار (سے موت) کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کو کردی آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا۔اے اسامہ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد ماردیا؟ اور آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ اسامہ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھا تاکہ بچ جاوے آپ نے جوش سے فرمایا:-
’’أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعَلَمْ مِنْ أَ جْلِ ذَالِکَ قَالَھَاأَمْ لَا ۱۰؎
یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں‘‘
حضرت اسامہؓ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ
تَمَیَّنْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْیَوْمِ ۱۱؎
میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کرتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی۔ میں بھی جو رسول پاک.6ؐ کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں آپ کی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرناک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیاجائے۔ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کرکے درج کی ہے کہ اس سے غیرمبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کردیا ہے۔ ولعنت اللّٰہ علیٰ من کذب ۔ بایں ہمہ اگر میری یہ کتاب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ محققین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے۔٭
ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں اور جو بات درایتہ غلط ہو وہ خواہ روایت کی رو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپ کے مزیل شان بھی ہیں اور ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست باز یقین کرتا ہو، ان روایات کو قبول نہیں کرسکتا۔ راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان، ہمارا مشاہدہ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کرسکتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیںجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریقِ عمل اور آپؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں مگر سیرت المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور ان کے متعلق بہرحال یہ قرار دینا ہوگا کہ اگرراوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے۔ اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑگیا ہے۔ واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا۔ پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپ کی مسلّم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقیدت مند اسے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے۔ لیکن بایںہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے۔ درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرأت کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرررسان نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دراصل جہاں بھی استدلال واستنباط، قیاس واستخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطرناک احتمالات واختلافات کا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون ۱۹۲۶ء
دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیںاور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے۔ وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں۔ اور کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔والشاذ کا لمعدوم لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال واستنباط کرنے او ر اس کا ایک مفہوم قراردے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے رستہ پر چل نکلتا ہے اور حق وباطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے ردّ کردو۔ یا جو بات تمہیں حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقلمند اصولاً اس کا منکر نہیں ہوسکتا لیکن اگر ذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگاہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح وتعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال واستنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گراتا چلا جائے۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہوسکتی مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کارے دارد۔ اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے۔ اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کرسکتا۔ مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے۔ جن کا حل نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔ اور مجھے ایسے شخص کی جرأت پر حیرت ہوگی جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت کی تحریرا ت کا مفہوم معین کرنے میں اس کا فیصلہ ہر صور ت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھادھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قراد دے کر ردّ کردیا جائے، ایک عامیانہ فعل ہوگا جو کسی صورت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبایعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیرمبایعین یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات پر ہے۔ اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کرکے ایسا مرتبہ دے دیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو روایت غیرمبایعین کو ایسی ملے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ثابت ہوتی ہو تو وہ اسے ردّ کردیں۔ کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اوراگر کوئی روایت مبایعین کے سامنے ایسی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں۔ کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اسی طرح مبایعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیراحمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا۔ اور غیرمبایعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیراحمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعود ؑ کے طریق عمل کے خلاف نہیں۔ اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ کہ اگر کسی مبایع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے ردّ کردے۔ کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ اور جب کوئی روایت کسی غیرمبایع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو وہ اسے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کاروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہوجائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چادیواری میں ایسی طرح محصور ہوکر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کرچکا ہے۔ ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی قابل اعتماد ذرائع سے پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہو ردّ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے۔ مکر م ڈاکٹر صاحب مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کماحقہٗ غور نہیں فرمایا۔ ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہوجاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہرقسم کی روایت کو ردّ کئے جانے کے قابل قرار دیتے۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیئے وہ روایت ہی ہے اورعلم تاریخ کا سارا دارومدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کو ترک کردیا ہو۔ متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیتہً صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے ۔ البتہ بعد کے مورخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیاد روایت پر ہی رکھی ہے اوردرایت کو ایک حد مناسب تک پرکھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے۔ واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور وہ فہم وفراست میں بھی اچھا ہے اور روایت کے دوسرے پہلوئوں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بناء پر ردّ کردیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خودغرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں۔ خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی رو سے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقعی ہوچکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کریں سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو جس کے مفہوم کے متعلق امت میں اجماع ہوچکا ہو۔ مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا منکر نہیں۔ پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا خواہ بظاہر وہ درایت مضبوط ہی نظر آئے ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے) کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگا نا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح تحریرات ( یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے) کے مخالف ہے، لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر واسلام یا خلافت یا جنازہ غیراحمدیاں وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کریں اور اس سے استدلال واستنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑدیں تاکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاسکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔
اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کردیں گے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پریہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ’’محمودی‘‘خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیں اور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعترض کا حق نہیں تھا کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤیّد ہیں تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل ا ورتحریروں کے خلاف تھیں ان کو میں نے ردّ کردیا ہے اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں۔ اور یہ ہوبھی کیسے سکتاتھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں
’’صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہوتو حضرت مسیح موعود کو راست بازماننے والا تو قطعاً اس کو قبول نہیں کرسکتا…… ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کرسکتے ہیں۔ مگر مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ہماری ضمیر ہمارا مشاہدہ ہمارا تجربہ قطعاً قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں۔ ردّ کردیا اور درج نہیں کیا۔اور اس طرح میری کتاب ’’محمودی‘‘ عقائد کی کتاب بن گئی۔ تو میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا باعث بنا اور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ قابل ملامت۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی روسے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پر کھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم۔وفراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں۔ تو گو ایسا ممکن ہو لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ’’پیغامی‘‘ عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہوجائے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب افسوس! آپ نے اعتراض کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کردی ہیں۔ اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں میں کروں تو کیا کروں۔ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتا ہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو،اُسے ردّ کرتا جائوں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہوجائیں کہ اب یہ کتاب روایت ودرایت ہر دوپہلو سے اچھی ہے کیونکہ اس میں کوئی بات لاہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں۔ اگر جرح وتعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے۔
یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مد نظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے۔ روایت ودرایت دونوں پہلوئوں کو دیانتداری کے ساتھ علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاں بات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے بلکہ جو بات بھی روایت کے روسے میں نے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے روسے اسے حضرت مسیح موعود کی صریح اور اصولی اور غیراختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا اور آپ کے مسلم اور غیرمشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے بھی اسے قابل ردّ نہیں سمجھا اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں سمجھتا ہوں کہ گو شائد احتیاط اسی میں ہے جو میں نے کیا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہو اسے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کے لئے چھوڑدے جو عندالضرورت استدلال واستنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ واِلاَّ نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہت سی سچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی۔ اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم رہ جائے گی۔ یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں۔ واللّٰہ اعلم ولا علم لنا الّا ماعلّمتنا۔٭
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے اصولی اعتراض کا جواب دینے کے بعداب میںان مثالوں کو لیتا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون۱۹۲۶ء
ہوں جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی سے پیش فرماکر ان پر جرح کی ہے۔ لیکن اس بحث کے شروع کرنے سے قبل میں ضمنی طور پر ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوںاور وہ یہ کہ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب لکھنا شروع کیا تو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کے نام ایک خط ارسال کیا تھا۔ جس کی نقل میں نے نہیں رکھی۔ مگر جس کا مضمون جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تھا کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کامضمون جو سیرۃ المہدی کی تنقید میں لکھا گیا ہے۔ پیغام صلح میں شائع ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کیا ایڈیٹر صاحب پیغام صلح اس بات کے لئے تیار ہوں گے کہ میں اپنا مضمون بھی ان کی خدمت میں ارسال کردوں۔ اور وہ اُسے اپنے اخبار میں شائع فرمائیں۔ تاکہ جن اصحاب تک ڈاکٹر صاحب کی جرح پہنچی ہے ان تک میرا جواب بھی پہنچ جائے۔ اور پبلک کو کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں امداد ملے۔ اس خط کا جو جواب مجھے موصول ہوا وہ سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے تھا اور مضمون کے لحاظ سے وہ وہی تھا جس کی مجھے امید تھی لیکن اس بات سے مجھے خوشی ہوئی کہ خط کا لب ولہجہ اچھا تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا سا دل آزار طریق اختیار نہیں کیا گیا تھابلکہ متانت اور تہذیب کے ساتھ جواب دیا گیاتھا۔ خط کا مضمون خلاصۃً یہ تھا کہ جو تجویز تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہے وہ پسندیدہ ہے لیکن کیا کارکنان الفضلؔ بھی ہمارے مضامین (غیرمبایعین کے مضامین) کو اپنے اخبار میں جگہ دینے کے لئے تیار ہوں گے۔ اگر الفضل والے اس بات کے لئے تیار ہوں تو تمہارا یہ مضمون پیغام صلح میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تجویز کی گئی تھی کہ بہتر ہو کہ طرفین کی جانب سے چند آدمی نامزد کردئے جائیں۔ جن کے سوا کسی اور کو ایک دوسرے کے خلاف قلم اٹھانے کی اجازت نہ ہو۔ وغیرہ ذالک
میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اس خط کے الفاظ اور طرز تحریر کے متعلق مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے مضمون سے ضرور ایک حد تک اختلاف رکھتا ہوں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اصولاً ہمارے غیرمبایع دوستوں کو اس بات سے اتفاق ہے کہ ان کا اخبار مخالف خیالات کے اظہار کے لئے بھی کھلا ہونا چاہیئے اور اسے وہ علمی تحقیق کے لئے مفید سمجھتے ہیں تو یہ خیال درمیان میں نہیں آنا چاہیئے کہ جب تک الفضل اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہوگا اس وقت تک ’’پیغام صلح‘‘ بھی ہمارے مضمون نہیں لے سکتا۔ اگر ایک طریق اچھا اور پسندیدہ ہے تو کسی دوسرے کا اسے قبول نہ کرنا اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم بھی جو اس کی خوبی کے معترف ہیں اسے ردّ کردیں۔ پس میرے خیال میں سیکرٹری صاحب انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور نے جہاں اتنی وسعت قلب دکھا ئی تھی کہ اصولاً میرے مضمون کے شائع کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا تھا۔ وہاں اگر ذرا اور وسعت سے کام لے کر ’’الفضل ؔ‘‘ والی شرط زائد نہ کرتے تو اچھا ہوتا مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیںکیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب انجن اشاعت اسلام لاہور نے ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور اختلافی مضامین اور عام تحقیقی مضامین میں کوئی امتیاز نہیں کیا جو کہ ایک صریح غلطی ہے۔ میں نے جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں لکھا تھا اس کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور طرفین کے اختلافی عقائد کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے ایڈیٹر صاحب کو اسے اپنے اخبار میں شائع کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیئے۔ واِلّااگر میرا یہ مضمون اختلافی عقائد سے تعلق رکھتاتو میں کبھی بھی ایسا خط نہ لکھتا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں اختلافی عقائد کے اظہار کے لئے فریقین کے اپنے اپنے اخبارات موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم فریق مخالف سے یہ امید رکھیں کہ وہ اختلافی عقائد کے متعلق ہمارے مضامین اپنے اخبار میں شائع کرنے کی اجازت دے گا۔ اور دراصل مستشنیات کو الگ رکھیں تو ایسا ہونا بھی مشکل ہے کیونکہ اس طریق میں بعض ایسی عملی دقتوں کے رونما ہونے کا احتمال ہے کہ جن سے بجائے اس کے کہ تعلقات میں کوئی اصلاح کی صورت پیدا ہو۔ فساد کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن عام علمی اورتحقیقی مضامین شائع کرنے میں اس قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ بلکہ ایسا طریق علاوہ وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے آپس کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور چونکہ میرا مضمون اختلافی عقائد کے متعلق نہ تھا اس لئے میں نے محض نیک نیتی کے ساتھ ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کی خدمت میں خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ اگر ممکن ہو تو میرے مضمون کو وہ اپنے اخبار میں شائع کرکے مجھے اور عام پبلک کو ممنون فرمائیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کے جواب میں سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک ایسا سوال کھڑا کردیا کہ جس کا نتیجہ سوائے اس کے کہ طرفین آپس میں الجھنا شروع کردیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ میں نے کسی ایسے مضمون کے لئے پیغام صلح کے کالموں کی فیاضی کا مطالبہ نہیں کیا تھا جو فریقین کے اختلافی عقائد سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ ایک عام علمی اور تحقیقی مضمون کی اشاعت کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہنا کہ جب تک الفضل ہمارے مضامین کے شائع کرنے کی اجازت نہیں دے گا اُس وقت تک تمہارا مضمون پیغام صلح میں شائع نہیں ہوسکتا انصاف سے بعید ہے۔
اوّل تو الفضل میرا اخبار نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اور مجھے اس کی پالیسی یا اس کے انتظام سے کسی قسم کا بلاواسطہ تعلق نہیں۔ پس اس کے متعلق مجھ سے کوئی فیصلہ چاہنا خلاف اصول ہے۔ دوسرے میرا یہ خط جو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں ارسال کیا تھا ایک بالکل پرائیویٹ خط تھا جس کے جواب میں کوئی محکمانہ بحث شروع نہیں کی جاسکتی تھی۔ اور تیسرے میں نے یہ خط اس نیت اور خیال سے لکھا تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور اختلافی عقائد سے اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے کارکنان پیغام صلح کو اس کے شائع کرنے میں تامّل نہیں ہوسکتا۔ مگر میری اس درخواست سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مجھے یہ جواب دیا گیا کہ جب تک الفضل کے کالم غیرمبایعین کے مضامین کے لئے کھولے نہ جائیں گے اس وقت تک پیغام۔صلح تمہارا مضمون شائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ طریق کسی طرح بھی جائز اور صلح جوئی کا طریق نہیں سمجھا جاسکتا۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ کب کسی غیرمبائع کی طرف سے کوئی عام علمی مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع ہونے کے لئے آیا۔ اور الفضل والوں نے اس کا انکار کیا؟ کم از کم میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی غیرمبائع نے کوئی عام تحقیقی مضمون جسے اختلافی عقائد سے تعلق نہ ہو ’’الفضل‘‘ میں بھیجا ہو اور پھر کارکنان الفضل نے اسے محض اس بناء پر ردّ کردیا ہو کہ اس کا لکھنے والا جماعت مبایعین میںسے نہیں ہے پس جب کوئی ایسی مثال موجودہی نہیں ہے تو ایک فرضی روک کو آڑ بنا کر انکار کردینا انصاف سے بعید ہے۔ اگر سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور اس بناء پر انکار فرماتے کہ ان دنوں میں پیغام صلح میں اس مضمون کے شائع ہونے کی گنجائش نہیں ہے یاکوئی اور اسی قسم کی روک بیان کرتے جو بعض اوقات اخبار نویسوں کو پیش آجاتی ہے تومجھے ہرگز کوئی شکایت نہ تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اول تو ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی حکم کے ماتحت سمجھ کر ایک ہی فتویٰ لگادیا گیا ہے اور اختلافی مضامین اور عام علمی اور تحقیقی مضامین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا اور دوسرے الفضل کا نام درمیان میں لاکررو ک پیش کردی گئی ہے جو بالکل فرضی اور موہوم ہے میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ چند الفاظ سیکرٹری صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کی تسلّی کے لئے کافی ہوں گے۔
اب میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں پہلی مثال جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان فرمائی ہے۔ وہ منگل کے دن کے متعلق ہے میں نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں حضرت والدہ صاحبہ کی زبانی یہ روایت درج کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے بڑی لمبی جرح کی ہے جوکئی حصوں پر منقسم ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مختصراً تمام حصوں کا جواب دوں۔ کیونکہ میرے خیال میں اس امر میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی سخت غلطی کھائی ہے اور صرف ایک عامیانہ جرح کرکے اپنے دل کو خوش کرنا چاہا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس جرح کا جواب دوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیرت المہدی حصہ اول کے شائع ہونے کے بعد مجھے بعض دوستوں کی طرف سے بھی یہ بات پہنچی تھی کہ یہ روایت کچھ وضاحت چاہتی ہے۔ چنانچہ میں نے انہی دنوں میں سیرت المہدی حصہ دوئم میں جو ان ایام میں زیر تالیف ہے، اس روایت کے متعلق ایک تشریحی نوٹ درج کردیا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب دینے سے پہلے یہ نوٹ احباب کے سامنے پیش کردوں کیونکہ یہ نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوئم کے مسودے میں آج سے ایک سال پہلے کا لکھا ہوا موجود ہے۔ جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیا تھا۔
میرے اس بیان کے تسلیم کرنے میں اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی تامّل ہے اور وہ میرے اس نوٹ کو اپنی جرح کے جواب میںلکھا ہوا خیال کریں تو ان کا اختیار ہے لیکن میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے شائع ہونے سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے اور اگر میں بھولتا نہیں تو بعض دوستوں نے اسے اسی زمانہ میں مسودے کی صورت میں مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان دوستوں میں سے چودہری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لاہور، مولوی۔جلال۔الدین صاحب شمس مبلّغ شام اور نیک محمد خان صاحب کے نام مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ مقدم الذکر دواحباب نے سیرۃ المہدی حصہ دوئم کا مسودہ لاہور میں مطالعہ کیا تھا۔جبکہ میں گذشتہ سال ماہ جون میں تبدیل آب وہوا کے لئے منصوری جاتا ہوا دودن کے لئے لاہور ٹھہرا تھا اور مؤخّرالذکر صاحب نے غالباً ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں بمقام منصوری اسے پڑھا تھا۔ یہ دوست اگر بھول نہ گئے ہوں تو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ جو نوٹ اس روایت کے متعلق ذیل میں درج کرتا ہوں وہ آج کا نہیں بلکہ آج سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ وہ نوٹ یہ ہے:-
’’روایت نمبر۳۲۲ ۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خاکسارعرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر۱۰ (صحیح نمبر ۱۱) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہیئے۔ ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے۔ اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کی ابتداء اس دِن میں فرماتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پرفوقیت رکھتے ہیں اور اس توازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گویا سب سے پیچھے ہے کیونکہ وہ شدانددو سختی کا اثر رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذباللّٰہ منگل کوئی منحوس دن ہے۔ پس حتی الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال وبرکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جائے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جائے۔ ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا انسان نقصان اٹھاتاہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ان پر بالآخر توہم پرستی غالب آجاتی ہے۔ ’گر حفظ مراتب نہ کنی زند یقی‘ جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتا ہے۔ اور یہ سوال کہ دنوں کی تاثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے، یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اٹھانے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔‘‘
میرا یہ نوٹ ہرعقل مند اور سعید الفطرت انسان کی تسلی کے لئے کافی ہونا چاہیئے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں اصولی طور پر گو مختصراً ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا جواب آگیا ہے۔ اور روایت مذکورۃالصدر کے متعلق جس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا احتمال تھا اس کا ازالہ کردیا گیا ہے۔ یہ نوٹ اس وقت کا ہے جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا تنقیدی مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیاتھا بلکہ غالباً ابھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول کا مطالعہ بھی نہیں فرمایا ہوگا۔ اندریں حالات اگر میں صرف اسی جواب پربس کروں تو قابل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن چونکہ یہ ایک علمی سوال ہے اور ڈاکٹرصاحب نے اس روایت کے متعلق ضمنی طور پر بعض ایسے اعتراضات کئے ہیںجن کا جواب علم دوست احباب کی دلچسپی اور بعض ناواقف لوگوں کی تنویر کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ جواب عرض کروں۔ وما توفیقی اِلاّ باللّٰہ٭
اب میں ان تفصیلی اعتراضات کو لیتا ہوں جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اپنے مضمون میں منگل والی روایت کے متعلق بیان کئے ہیں۔سب سے پہلا اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ:-
’’حضرت والدہ صاحبہ اپنا خیال پیش کرتی ہیں کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو
٭:مطبوعہ الفضل۲۲جولائی ۱۹۲۶ء
اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ کیا حضرت صاحب نے کبھی فرمایا تھا…… کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے کسی امر میں غلطی سے اپنے خیالات پر حضرت صاحب کے خیالات کو قیاس کرلیا ہو۔‘‘
اس اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اس روایت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ بیان نہیں کئے گئے، بلکہ راوی نے خود اپنے الفاظ میں ایک خیال آپ کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملہ میں کماحقہ غور نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی حدیث نبوی کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ کتب احادیث میں بہت سی ایسی حدیثیں ملتی ہیں۔ جن میں راوی خود اپنے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک خیال بیان کردیتا ہے، اور آپ کے الفاظ بیان نہیں کرتا اور ائمہ حدیث اسے رد نہیں کرتے۔
میرا یہ مضمون آگے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے۔ اور میں اسے زیادہ طول نہیں دینا چاہتا ورنہ میں ایسی متعدد مثالیں ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کرتا کہ راویوں نے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان کرنے کے ایک خیال آپ.6ؐ کی طرف منسوب کردیا ہے اور محدثین نے اسے صحیح مانا ہے۔ دراصل حدیث میں کئی جگہ ایسے الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فلاں بات کو پسند فرماتے تھے۔ اور فلاں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ وغیرہ ذالک ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جو غالباً ہمارے خلاف مضمون نویسی سے کچھ تھوڑا سا وقت بچا کر احادیث کے مطالعہ میںبھی صرف کرتے ہوں گے۔ اس بات کا انکار نہیں کریں گے۔
دراصل ہرزبان میں اظہار خیال کے طریقوں میں سے ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات بجائے اس کے کہ دوسرے شخص کے الفاظ بیان کئے جائیں۔ صرف اپنے الفاظ میں اس کے خیال کا اظہار کردیا جاتا ہے اور یہ طریق ایسا شائع ومتعارف ہے کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ مگر نہ معلوم میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو کیا غصہ ہے کہ خواہ نخواہ اعتراض کی ہی سوجھتی ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب حسن ظنی فرماتے تو یہ خیال کرسکتے تھے کہ چونکہ حضرت والدہ صاحبہ ایک بہت لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہی ہیں۔ اس لئے ان کا یہ بیان کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، اپنی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ اور نہ عام حالات میں کسی غلط فہمی پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ انہوں نے جو حضرت صاحب کے الفاظ بیان نہیں کئے تو یہ اس لئے نہیں کہ یہ بات مشکوک ہے بلکہ اس لئے کہ یہ روایت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بلاارادہ روایت بالمعنی کا طریق اختیار کیا ہے یا یہ کہ ان کا یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ایک قول پر مبنی نہیں۔ بلکہ یا تو متعدد مرتبہ کی گفتگو پر مبنی ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بہت لمبا عرصہ رہنے کے نتیجہ میں اُن کی طبیعت نے آپ کے متعلق ایک اثر قبول کیا تھا جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے جیسا کہ مثلاً حدیث میں حضرت عائشہ.6ؓ کا قول آتا ہے کہ
کان یحب التیمن فی سائرامرہ ۱۲؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر بات میں دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان نہیں کئے بلکہ صرف اپنے الفاظ میں آپ کی طرف ایک خیال منسوب کردیا ہے۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں؟ ہرگز نہیں اگر ڈاکٹر صاحب غور فرمائیں تو ان کو معلوم ہو کہ بیوی کی طرف سے اس قسم کی روایت جس کانام روایت بالمعنی رکھا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں بلکہ بعض اوقات عام لفظی روایتوں کی نسبت بھی یہ روایت زیادہ پختہ اور قابل اعتماد سمجھی جانی چاہیئے۔ کیونکہ جہاںلفظی روایت کسی ایک وقت کے قول پر مبنی ہوتی ہے وہاں اس قسم کی معنوی روایت جو بیوی یا کسی ایسے ہی قریبی کی طرف سے مروی ہو متعدد مرتبہ کی گفتگو یا لمبے عرصہ کی صحبت کے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ان دونوں میں فرق ظاہر ہے۔ حضرت عائشہؓ والی روایت کو ہی دیکھ لو۔ اگر حضرت عائشہؓ صرف یہ فرمادیتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فلاں موقع پر فرمایا تھا کہ ہر بات میں دائیں سے ابتداء کرنی چاہیئے تو ان کی اس روایت کو ہرگز وہ پختگی حاصل نہ ہوتی جو موجودہ صورت میں اسے حاصل ہے کیونکہ موجودہ صورت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی ایک قول نقل نہیں کیا۔ بلکہ متعدد مرتبہ کی گفتگو یا ایک لمبی صحبت کے اثر کے نتیجہ کو بیان کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہو کہ یہ روایت چونکہ حضرت عائشہؓ نے کی ہے اس لئے وہ جرح سے بالا ہے۔ کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیوی تھیںجنہوںنے کئی سال آپ کی صحبت میں گذارے اور جو دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے آپؐ کو دیکھتی تھیں مگر کسی دوسرے راوی کی طرف سے اس قسم کی روایت بالمعنی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی تو اس کے متعلق میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ جس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے جرح فرمائی ہے وہ بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی کی ہی ہے۔ اور بیوی بھی وہ جس نے حضرت عائشہ.6ؓ کی نسبت بہت زیادہ عرصہ اپنے خاوند کے ساتھ گذارا ہے۔ لیکن بایں ہمہ میں ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں۔ ایک صحابی ابوبرزۃ.6ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشائِ وَالحَدِیْثَ بَعْدَھَا۱۳؎ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو ناپسند فرماتے تھے۔ او راسی طرح عشاء کے بعد بات چیت کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس حدیث میں ابوبرزہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف ایک خیال اپنے الفاظ میں منسوب کیا ہے۔ اور امام بخاری صاحب نے اسے بلا جرح اپنی صحیح بخاری میں درج فرمالیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی طرح یہ اعتراض نہیں کیا کہ:-
’’ابوبرزۃ.6ؓ اپنا خیال پیش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے قبل سونے کو ناپسند فرماتے تھے مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ آنحضرت.6ؐ کا ایسا خیال تھا۔ کیا آپؐ نے کبھی فرمایاتھا کہ عشاء کی نماز سے قبل سونا مکروہ ہوتا ہے ……کیا یہ ممکن نہیں کہ ابوبرزۃ.6ؓ نے غلطی سے اپنے خیالات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کو قیاس کرلیا ہے۔‘‘
یہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اپنے الفاظ ہیں جن میں سوائے ناموں کی تبدیلی کے میں نے کوئی تصرف نہیں کیا تاکہ اور نہیں تو کم از کم اپنے الفاظ کا لحاظ کرکے ہی ڈاکٹر صاحب میرے معاملہ میں کچھ درگذر سے کام لیں۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ خود اسی روایت کے اندر یہ ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلاں موقع پر منگل کے دن کے متعلق اپنے خیال کا اظہار فرمایاتھا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ کے جوش میں اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ میں ڈاکٹر صاحب سے باادب عرض کرتا ہوں کہ وہ اس روایت کے آخری حصہ کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں جہاں ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی ولادت کا ذکر ہے۔ اور پھر بتائیں کہ کیا اس جگہ صاف الفاظ میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اور پھر انصاف سے کہیں کہ اگر بالفرض کوئی اور واقع نہ بھی ہو۔ تو کیا صرف یہی واقعہ اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں تھا۔ کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو مقابلۃً اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اندریں حالات ڈاکٹرصاحب کا یہ فرمانا کہ والدہ صاحبہ کو کیسے معلوم ہوا۔ کہ حضرت صاحب کا یہ خیال تھا کہ منگل کادن اچھا نہیں ہے اور یہ کہ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جاوے کہ والدہ صاحبہ نے خودبخود ہی ایسا سمجھ لیا ہوگا۔ ایک لایعنی بات ہے جس کی طرف کوئی فہمیدہ شخص توجہ نہیں کرسکتا۔
دوسرا اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ اس روایت کے اندر جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت منگل کے دن نہ ہو تو اس بات کا کیا ثبوت ہے یعنی کیا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ:-
’’میںاس امر کے لئے دعا کرنے چلا ہوں یا دعا کے وقت میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی جو اس حصہ روایت کے راوی ہیں) پاس کھڑے دعا کے الفاظ سنتے جاتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں بلکہ اغلب یہی ہے کہ حضرت صاحب ایسے موقع پر بچہ کی ولادت کی سہولت کے لئے دعا کررہے ہوں…… مستورات کے دل میں جو منگل کی نحوست کا خوف تھا۔ اس نے والدہ صاحبہ یادیگر مستورات کے دل پر یہ خیال مستولی کردیا کہ حضور منگل کو ٹالنے کے لئے دعا کررہے ہیں۔ میاں صاحب نے مستورات سے ایک بات لے لی اور اسے لے اڑے۔ آگے مخاطبین اپنے مرید ہیں جو سچ اور بجا کہنے اور سبحان اللہ! سبحان اللہ! کا نعرہ بلند کرنے کو ہرآن موجودہیں۔‘‘
ان الفاظ میں جس بے دردی کے ساتھ متانت کا خون کیا گیاہے، وہ ڈاکٹر صاحب کا ہی حصہ ہے جس میں خاکسار ان کے سامنے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آخر آپ خود بھی کسی کے حلقہ بگوشوں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہوں گے پھر دوسرے کے متعلق ایسی دل آزار باتوں سے کیا حاصل ہے آپ میری کتاب پر ریویو فرما رہے ہیں شوق سے فرمائیے اور تنقید میں جو کچھ بھی جی میں آتا ہے شوق سے کہئے۔ مگر ان طعنوں اور دل آزار باتوں کو بلا وجہ درمیان میں لاکر کسی دوسرے کو اپنے اوپر حرف گیری کرنے کا موقع کیوں دیتے ہیں۔ آگے آپ کا اختیار ہے۔ جو مزاج میں آئے کیجئے۔ انشاء اللہ میرے توازن طبع کو آپ متزلزل ہوتا نہیں دیکھیں گے۔
آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے موقع پر دعا فرمائی تھی۔ اس کے متعلق حضرت والدہ صاحبہ یا میاں صاحب کو کیسے پتہ لگا کہ وہ منگل کے متعلق تھی۔ کیا وہ دعا کے وقت ساتھ ساتھ تھے اور الفاظ سنتے جاتے تھے۔ یا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے ان سے کہہ گئے تھے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں اور پھر آپ نے حسب عادت اس پر مذاق اڑایا ہے۔ اس کے متعلق اگر آپ مجھے اجازت دیں تو مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے تو اس روایت میں ایسی عبارت کوئی نہیں لکھی جس سے یہ پتہ لگتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کرنے کے لئے اس جگہ سے اٹھ کر کہیں اور تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ ؑ نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر کوئی لمبی دعا فرمائی تھی۔ اور جب یہ نہیں تو پھر آپ کو یہ کیسے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود ؑ اس دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ اتنی دیر تک یہ دعا فرماتے رہے تھے کہ دوسرے کو آپ کے ساتھ ساتھ رہ کر آپ کے الفاظ سننے کا موقع مل سکتا۔ جن معتبر ذرائع سے آپ کو بغیر اس کے کہ اس روایت میں کوئی ایسا ذکر موجود ہو،یہ سب مخفی علوم حاصل ہوگئے ان کے معلوم کرنے کا مجھے شوق ہے تاکہ میں آپ کی قوت استدلال کا اندازہ کرسکوں۔ اور اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ بغیر اس قسم کا ذکر موجود ہونے کے خود بخود اپنی طرف سے یہ باتیں فرض کرکے اعتراض قائم کرنے لگ جائیں تو دوسرے کے لئے بھی آپ کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیئے۔ بہرحال جو بنیاد آپ اپنے ان استدلات کی پیش فرمائیں گے۔ اس سے زیادہ قوی اور یقینی بنیاد میںاس بات کی پیش کرنے کا ذمہ دار ہوں کہ حضرت والدہ اور حضرت میاں صاحب کو یہ علم کس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا اس غرض کے لئے تھی کہ خدا تعالیٰ مولودہ کو منگل کے اثر سے محفوظ فرمائے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوسروں پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس طرح سمجھی۔ حالانکہ اس کے سمجھنے کے لئے کافی ووافی قرائن موجود ہیں۔ لیکن خود بغیر کسی بنیاد کے نتیجہ پر نتیجہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔ اورپھر طرفہ یہ کہ اپنے ان موہوم نتائج پر اپنی علمی تنقید کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ مضمون ہے جس پر غیر مبایعین کو ناز ہے۔ اور جس کے جواب کے لئے میرے نام پیغام صلح کے پرچے خاص طور پر بھجوائے جاتے ہیں تاکہ دنیا پر یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ وہ لاجواب مضمون ہے جس کے جواب کے لئے ہم خود خصم کو چیلنج دیتے ہیں مگر کوئی معقول جواب نہیں ملتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ آپ نے بڑے ظلم سے کام لیا ہے۔ میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا وہ جاتے ہوئے فرماگئے تھے کہ میں اس امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں؟ پھر میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی باقاعدہ لمبی دعا کی تھی جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا کوئی شخص حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ہوکر دعا کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ آپ نے خود ہی یہ باتیں فرض کرلیں اور پھر ان کی بنا پر خود ہی اعتراض جمادیئے۔ آپ کے تخیلات کے زور نے اس چھوٹی سی بات کو ایسا بڑا اور اہم بنادیا ہے کہ میں اب اصل حقیقت کو عرض کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ کے احساسات کوکوئی ناگوار صدمہ نہ پہنچ جائے۔ مگر چونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیںاس لئے مجبوراً عرض کرتا ہوں بات یہ ہے کہ اس تیرانداز شہزادہ کی طرح جس کا ذکر حالی کی ایک نظم میں آتا ہے آپ کے تخیلات کا تیر ہرجگہ لگا لیکن اگر نہیں لگا تو اصل نشانے پر نہیں لگا۔ جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ اصل نشانہ بالکل قریب اور سامنے تھا اس لئے آپ کے تخیلات اپنے زور میں اسے چھوڑ کر بلند اور دور نکل گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی بات لکھی تھی کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم پیدا ہونے لگیں تو حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اب بات صاف تھی اور ڈاکٹرصاحب بھی اسے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ حضرت صاحب نے اسی وقت گھر کی مجلس میں یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان سے فرمادیئے ہوں گے۔ اور بس۔ یعنی جب ولادت کا وقت ہوا تو حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر کہ منگل کا دن ہے اس مفہوم کے دعائیہ الفاظ فرمائے کہ خدا تعالیٰ بچہ کو منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اب اس صاف حقیقت کو چھوڑ کر بات کا بتنگڑ بنادینا کہ گویا حضرت مسیح موعودؑ اس امر کے لئے خاص طور پر دعا کرنے کے واسطے کسی علیحدہ جگہ میں تشریف لے گئے ہوں گے اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں یا کوئی شخص خود بخود آپ کے پیچھے پیچھے جاکر آپ کے الفاظ سنتا گیا ہوگا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ڈاکٹر صاحب کے دماغی تخیلات کا نتیجہ ہیں جن کا کہ قطعاً کوئی ذکر صراحتہً یا کنایتہ روایت میں موجود نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک معمولی سی بات کو بڑا بنادیا ہے۔ منگل کا اچھا یا برا ہونا کوئی اہم دینی امور میں سے نہیں ہے کہ جس پر ڈاکٹر صاحب اسقدر چیں بجیں ہوتے۔ دنیا کی ہرچیز اچھے اور برے پہلو رکھتی ہے اور اشیاء کی برکات میں تفاوت بھی مسلم ہے۔ پھر ایک معمولی سی بات کو لے کر اس پر اعتراضات جماتے چلے جانا گویا کہ وہ نہایت اہم امور میںسے ہے۔ کہاں کا انصاف ہے اور پھر زیادہ افسوس یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسی باتیں فرض کرلی گئی ہیں کہ جن کا روایت کے اندر نام ونشان تک نہیں ایک سرسری بات تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت پر حضرت صاحب نے دعا فرمائی کہ وہ منگل کے خراب اثر سے محفوظ رہے۔ جس کا منشاء صرف یہ تھاکہ اسوقت گھر کی مجلس میں حضرت صاحب نے اپنی زبان مبارک سے اس قسم کے دعائیہ الفاظ فرمائے۔اس پر یہ فرض کرلینا کہ حضرت صاحب نے ایک خاص اہتمام کے ساتھ کسی تنہائی کی جگہ میں جاکر یہ دعا فرمائی ہوگی اور پھر اس فرضی واقعہ پر یہ سوال کرنا کہ کیا آپ جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ میں اس غرض سے جاتا ہوں یا یہ کہ کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ امانت ودیانت کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ کسی خاص اہتمام کے ساتھ کسی علیحدہ جگہ میں جاکر کی جائے یا یہ کہ وہ اتنی لمبی ہو کہ کسی دوسرے شخص کو دعا کرنے والے کے ساتھ ساتھ رہ کر اس کے الفاظ سننے کا موقع مل سکے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ممکن ہے کہ آپ کی ساری دعائیں اسی شان کی ہوتی ہوں مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ دعا کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اور اگر کسی علیحدہ جگہ میں جاکر لمبی دعا کرنا دعا کہلاتی ہے تو کسی بات کے پیش آنے پر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے دعائیہ الفاظ کہہ دینا بھی دعا ہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابن عباس ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضو کے لئے پانی کا لوٹا بھر کر لائے تو آپؐ نے دعا فرمائی کہ خدا اسے دین کا علم عطا کرے۱۴؎۔ اور سب لوگ اس کے یہی معنی سمجھتے رہے ہیں کہ آپ نے وہیں بیٹھے بیٹھے یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان مبارک سے فرمائے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شایدیہ معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت وضو کی تیاری چھوڑ کر کسی حجرہ میں تشریف لے گئے ہوں گے تا کہ وہاں جاکر ابن عباس .6ؓ کی علمی ترقی کے لئے دعافرمائیں۔ اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے میں اس غرض سے جاتا ہوں یا کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتاہوگا تعصب کا ستیاناس ہو یہ بھی انسان کی عقل پر کیسا پردہ ڈال دیتا ہے۔٭
ایک اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ منگل کا منحوس اثر صرف دنیا او راہل دنیا کے لئے ہے اور آخرت والوں پر اس کا اثر مبارک پڑ رہا ہے۔ یہ فضول بات ہے گویا اگر کچھ اثر ہے تو سب طرف ایک سا اثر ہونا چاہیئے اور اس تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔
اس اعتراض کے جواب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا سراسر ظلم ہے کہ وہ بار بار میری طرف یہ منسوب کر رہے ہیں کہ گویا میرے نزدیک منگل منحوس دن ہے۔ میں نے ایسا بالکل نہیں لکھا۔ اور مجھے ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرت ہے کہ کس دلیری کے ساتھ وہ میری طرف ایسی بات منسوب کرتے جاتے ہیں جس کا نام ونشان تک میری تقریر وتحریر میں موجود نہیں۔ بلکہ اگر ڈاکٹر صاحب میری بات کا یقین کرسکیں تو میں یہ کہوں گا کہ جو کبھی میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوسرے ایام کے مقابلہ میں اپنے افاضۂ برکات کے لحاظ سے کم ہے اور نیز یہ کہ اس کا اثر شدائد اور سختی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نہ معلوم کن مخفی اثرات سے متاثر ہوکر میری طرف اپنے مضمون میں باربار یہی خیال منسوب کرتے جاتے ہیں کہ میں منگل کو ایک منحوس دن سمجھتا ہوں۔ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہندولوگ عموماً منگل کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب نے ان سے متاثر ہوکر بلا سوچے سمجھے میری طرف بھی یہی عقیدہ منسوب کردیا ہے۔ حالانکہ نہ میں نے ایسا لکھا اور نہ میرے خیال میں کبھی یہ بات آئی۔ باقی رہا اصل معاملہ یعنی ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ جو میں نے لکھا ہے۔ کہ گویا دنوں وغیرہ کی شمار اہل دنیا کے واسطے ہے۔ آخرت پر اس کا اثر نہیں، یہ غلط ہے۔ سو اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری طرح میری بات پر غور نہیں فرمایا۔ میرا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک چیز کا ایک معیّن حلقہ اثر ہوتا ہے جس کے اندر اندر اس
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶جولائی ۱۹۲۶ء
کا اثر محدود رہتا ہے اور چونکہ ستارے اس عالم دنیوی کا ایک حصہ ہیں اس لئے ان کا اثر بھی اسی دنیا تک محدود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ڈاکٹر صاحب اعتراض پیدا کرتے اور یہ خیال کہ اگر کسی ستارہ کا اثر اس دنیا کے اوپر کسی خاص رنگ میں پڑ رہا ہے تو ضرور ہے کہ آخرت پربھی اس کا وہی اثر پڑتا ہو۔ ایک طفلانہ خیال ہے۔ ایک درخت اگر ایک جگہ سایہ ڈال رہا ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ دوسری جگہ بھی سایہ ڈال رہا ہوگا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے جو قانون مخلوقات میں جاری کیا ہے وہی چلے گا۔ اور ڈاکٹر صاحب یاکسی اور کی مرضی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ تو کیا ان کے لئے وہ ایک مبارک گھڑی آرہی تھی یا منحوس! یعنی اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آخرت پر ستاروں کا کوئی اثر نہیں پھر بھی اس اعتراض کا کیا جواب ہے کہ قرب وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ ( اور چونکہ دنیا ستاروں کے اثرکے نیچے ہے اور وہ منگل کا دن تھا) تو کیا وصال محبوب کی آمد آمد حضرت صاحب کے لئے منحوس تھی؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں جو قابل افسوس میلان نحوست ومنحوس وغیرہ کی طرف پیدا ہوگیا ہے اس کے متعلق عرض کرچکا ہوں کہ اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں، میرا اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں۔ میں نے نہ یہ الفاظ لکھے اور نہ ان کا مفہوم میرے ذہن میںتھا۔ میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن فوت ہوئے تھے اور وہ دن دنیا کے لئے ایک مصیبت کا دن تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا اثر دنیا تک محدود ہے اس لیئے آخرت کے نقطہ نگاہ سے وہ گھڑی حضرت صاحب کے لئے وصال محبوب کی مبارک گھڑی تھی۔ اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان دوباتوں میں قطعاً کوئی تناقص نہیں کیونکہ دو مختلف موقعوں کے لحاظ سے دومختلف حالتیں ہوسکتی ہیں۔ فرض کرو کہ ایک دائرہ ہے کہ جو سختی اور شدائد کا حلقہ ہے۔ اور اس کے باہر ایک مقام آرام اور خوشی کا ہے۔ اب اگر ایک شخص اس دائرہ کے اندر ہے اور اس کے کنارے کی طرف چل رہا ہے تو وہ جب تک کہ دائرہ سے باہر نہیں ہوجاتا شدائد کے حلقہ کے اندر ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن بایں ہمہ مسرت وخوشی کے مقام سے بھی وہ قریب ہوتا جائے گا۔ ایسی حالت میںکیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آرام وخوشی کا مقام اس شخص کے لئے سختی اور شدائد کا مقام ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے وصال محبوب کی آمد شدائد کا پہلو (یا بقول ڈاکٹر صاحب نعوذ باللہ نحوست کا پہلو) ہرگز نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ شدائد ومصیبت کا پہلو صرف ان لوگوں کے لئے تھا جن کو آپ اپنے پیچھے چھوڑ رہے تھے۔ یعنی دنیا واہل دنیا کے لئے۔ اور یہی میں نے لکھا تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔
آخری اعتراض ڈاکٹر صاحب کا اصل مسئلہ کے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یا فعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔ قرآن میں کہیں نہیں، حدیث میں کہیں نہیں، حضرت صاحب کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔ اگر منگل کا دن ایسا ہی منحوس تھا تو کیا آپ کا فرض نہ تھا کہ اس راز کو جماعت کو بتلا جاتے…… کس قدر لغو! کہ وہ شخص جو قرآن کا بینظیر علم رکھتا تھا جس کے فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللہ نہ جانتا تھا۔ کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعاً۱۵؎ کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔ وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلاگیا وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا۔ اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جاوے گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
کا ش یہ زور قلم صداقت کی تائید میں خرچ ہوتا! کاش یہ لفاظی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں استعمال نہ کی جاتی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرا ن ہوں کہ اپنے مطلب کے حاصل کرنے کے لئے کس طرح ایک چھوٹی سی بات کو بڑھا کر اس طرح آہ وپکار شروع کردیتے ہیں کہ گویا دنیا میں ایک ظلم عظیم برپا ہوگیا ہے۔ جس کے مقابلہ کے لئے ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کی اعلیٰ ترین طاقتیں وقف کردینا چاہتے ہیں۔ ایک سرسری سی بات تھی کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور اس میزان میں منگل کا دن سب سے سخت ہے۔ اب اس پر یہ واویلا اور یہ شور پکارکہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ کہاں کا انصاف ہے۔
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یافعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔‘‘
غیظ وغضب میں سب کچھ بھول جانے والے ڈاکٹر صاحب خدا کے لئے یہ منحوس کا لفظ ترک کردیجئے۔ غالباً آپ کے سوا دنیا کا ہر فرد بشر یہ گواہی دے سکتا ہے کہ میری تحریر میںکسی جگہ منگل کے دن کے متعلق منحوس یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ استعمال نہیں ہوا اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میری نیت میں بھی یہ نہ تھا کہ منگل کو ئی منحوس دن ہے تو پھر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ آپ اس تکرار اور اس اصرار کے ساتھ میری طرف یہ لفظ منسوب کرتے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو دنیا کا ڈر نہیں ہے تو خدا سے ہی ڈریئے۔ باقی آپ کا یہ فرمانا کہ کیا حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی ہے جو یہ بیان کرسکے کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ شاید آپ بھول گئے ہوں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس روایت کے راوی حضرت کے اصحاب میں سے ہی ہیں۔ پہلی روایہ حضرت والدہ صاحبہ ہیں جن کے صحابیہ ہونے سے آپ باوجود اس قدر مخالفت کے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ دوسرے راوی حضرت خلیفہ ثانی ہیں جو وہ بھی صحابیوں میں سے ہیں۔ پھر نامعلوم آپ کس صحابی کی شہادت ڈھونڈتے ہیں اور اگر آپ کا یہ منشاء ہے کہ ان راویوں کے علاوہ کوئی اور راوی ہو تو اوّل تو اس ترجیح بلا مرجح کی کوئی وجہ چاہیئے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی کی روایت کیوں منظور نہیں اور دوسروں کی کیوں منظور ہے۔ اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب میں نے کوئی اور شہادت پیش کی تو آپ یہ نہ فرمائیں گے۔ کہ اس راوی کی شہادت بھی میں نہیں مانتا۔ کوئی اور راوی لائو تب مانوں گا۔ آپ خود فرمائیں کہ اس طرح یہ سلسلہ کبھی بند بھی ہوسکتا ہے مگر چونکہ آپ کو بہت اصرار ہے اس لئے ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں۔ امید ہے اس شہادت کے متعلق آپ کو جرح کا خیال نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں:-
’’ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں…… یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے۔ اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے ( یعنی وہ دنیا اور اہل دینا پر دوا اور غذاکی طرح اچھا اور برا اثر ڈالتے ہیں) …… پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلو فر اور تربد اور سقمو نیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے۔ (جیسا کہ اطباء لوگ قائل ہوتے ہیں۔ اور خوش قسمتی سے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی طبیب ہیں اور ان ادویہ کی تاثیرات کے ضرور قائل ہوں گے)مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں …… یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔‘‘ ۱۶؎
لیجئے ڈاکٹر صاحب اب آپ کیا فرماتے ہیں ستاروں کی تاثیرات کے متعلق حضرت صاحب نے کیسا صاف فیصلہ فرمادیا ہے اور اگر آپ کو یہ عذر ہو کہ یہ تو صرف عام تاثیرات کا بیان ہے حضرت صاحب نے یہ تو نہیں لکھا کہ انسان کی ولادت پر بھی ستاروں کا اثر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر زیر بحث ایک بچہ کی ولادت کا سوال ہے نہ کہ کوئی عام تاثیرات کا ذکر تو اس کے متعلق بھی ملاحظہ فرمائیے حضرت صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’چونکہ اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا۔‘‘ ۱۷؎
میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت صاحب کے اس غیر مشکوک فیصلہ کے بعد ڈاکٹر صاحب یا کوئی اور احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہوسکتا ہے اور یہی وہ بات تھی جو میں نے اس روایت میں بیان کی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اتنی آہ وپکار کی ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرمائیں کہ ان حوالجات میں منگل کا کہاں ذکر ہے تو گو منگل کو مخصوص طور پر ذکر کئے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سارے مسئلہ کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ ستاروں کی تاثیرات زمانہ اور اہل زمانہ اور ولادت بچگان پر پڑتی ہیں اور ان حوالجات میں قطعی طور پر یہ بیان کردیا گیاہے کہ ستارے اس قسم کی تاثیرات اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ تاثیرات دو ا اور غذا کی طرح مفید اور ضرررساں ہر دو پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ گو ڈاکٹر صاحب پر مزید اتمام حجت کرنے کے لئے ایک اور حوالہ بھی پیش کرتا ہوں۔
حضرت صاحب فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ…… مریخ کے اثرکے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مفسدین کے قتل اور خوں ریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کوقتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور ان کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔‘‘ ۱۸؎
اس جگہ مریخ کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کے رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہئیت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک منگل کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا اور اگر اس جگہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت کیوں ہوئی تو اس کا جواب آگے آئے گا۔٭
ڈاکٹر صاحب ستاروں کے اثرات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں یہ مسئلہ :-
’’یہ مسئلہ قرآن شریف میںکہیں نہیں۔ حدیث میں کہیں نہیں۔ حضرت صاحب کی تقریروتحریر میںکہیں نہیں۔‘‘
حضرت صاحب کا فیصلہ تو پیش خدمت کر چکا ہوں اب حدیث کو لیجئے۔ بخاری میں ایک حدیث آتی ہے کہ ایک سفر میں رات کو بارش ہوئی اور صبح کو لوگوں میں یہ باتیں ہوئیں کہ یہ بارش فلاں فلاں ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز میں تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ :-
’’اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنْ بِیْ وَکَافِرٌ فَاَمَّا مَنْ قَالَ:مُطِرُنا بِفَضْلِ اللَّہِ وَرَحْمَتِہِ فَذَالِکَ مُؤْمِنْ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ،وَاَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْئِ کَذَاوکَذَا، فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ ۱۹؎
یعنی خدا فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بندوں میں سے بعض نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور وہ وہ تھے جنہوں نے یہ کہا کہ خدا کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش برسی ہے۔ اور وہ جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے اثر نے بارش برسائی ہے، وہ میرے کافر ہوئے اور ستاروں کے مومن بنے۔‘‘
یہ حدیث نبوی جس میں امت محمدیہ کو توحید کا ایک نہایت لطیف سبق سکھایا گیا ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ستارے اپنے اندر دنیا اور اہل دنیا کے لئے تاثیرات رکھتے ہیں کیونکہ اگر ستاروں میں تاثیرات نہ ہوتیں تو یہ نہ کہا جاتا کہ ستاروں کی تاثیر کی طرف بارش وغیرہ کو منسوب نہ کرو اورخدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کیا کرو۔ بلکہ اس صورت میں یہ بیان کیا جاتا کہ بارش کے برسنے میں ستاروں کے اثر کا دخل نہیں۔ بلکہ فلاں فلاں اسباب کا دخل ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ انعامات کو خدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ جس میں یہ صاف اشارہ ہے کہ ستاروں کی تاثیرات تو درست ہیں لیکن مومن کو چاہیئے کہ تمام ارضی اور سماوی انعامات کو خدا کے فضل کی طرف منسوب کیا کرے اور درمیانی وسائط کو صرف بطور ایک خادم کے سمجھے۔ تاکہ ایک تو اس
٭:مطبوعہ الفضل ۲۷جولائی ۱۹۲۶ء
کا قلب خدا کے شکر وامتنان کے جذبات سے معمور رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اس نکتہ کو بھول کر کسی مخفی شرک میں مبتلا نہ ہو کہ دنیا کا کارخانہ خواہ کتنے ہی لمبے سلسلہ اسباب کے ماتحت چل رہا ہو،اس کا اصل چلانے والا صرف خدا ہی ہے اور باقی ہر اک چیز اس کی خادم اور اس کے قبضہ تصرف کے نیچے ہے۔ واِلّا اگر اس حدیث کا یہ منشاء نہ ہوتا تو عبارت اس طرح ہونی چاہیئے تھی کہ بارشیں ستاروں کے اثر کے ماتحت نہیں ہوتیں بلکہ فلاں فلاں سبب سے ہوتی ہیں۔ پس ستاروں کی تاثیر کے مقابلہ میں کسی دوسرے سبب کا بیان نہ کرنا بلکہ خد اکے فضل اور رحمت کا نام لینا جو مسبب الاسباب ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ستاروں کی تاثیر کا انکار مقصود نہیں بلکہ ان کی تاثیرکو تسلیم کرتے ہوئے اس مواحدانہ نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہر انعام کو خدائے واحد کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ نہ کہو کہ عمر جو بیمار تھا وہ زید کے علاج سے اچھا ہوا ہے بلکہ یہ کہو کہ خد اکے فضل نے اسے اچھا کیا ہے تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ علاج تو زید کا ہی تھا لیکن شفایابی کی نسبت خدا کی طرف ہوئی چاہیئے جس نے زید کو صحیح اور درست علاج کی توفیق دی۔
خلاصہ یہ کہ سبب کے مقابلہ میں مسبب کا ذکر نہ کرنا اس وجہ سے نہیں ہوا کرتا کہ وہ سبب غلط ہے بلکہ اس لئے کہ اصل نام لینے کے قابل مسبب ہے اور اگر سبب کی نفی مقصود ہو تو اس کے مقابلہ میں مسبب کو نہیں بلکہ کسی دوسرے سبب کو لایا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حدیث مذکورہ بالا میں ستاروں کی تاثیر کی نفی نہ کرتے ہوئے خدا کے فضل ورحمت کا نام نہ لینا اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ستاروں کی تاثیر برحق ہے۔ باقی ایمان ومحبت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ تمام انعاماتِ ارضی وسماوی کی نسبت خدا کے فضل ورحمت کی طرف کی جائے اور درمیانی وسائط کو ان کا باعث قرار دے کر خدا کے فضل ورحمت کو مشکوک نہ بنایا جائے۔ الغرض اس حدیث سے ستاروں کی تاثیر کا وجود ثابت ہے۔ وہوالمراد
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ تاثیر سماوی کی وجہ سے دن بھی اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں تو اس کے متعلق مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتاہوں۔
’’اَضَّلَ اللّٰہُ عَنِ الْجٔمُعَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلنا،فَکَانَ لِلْیَھُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلْنَصَارَیٰ یَؤْمُ الْأَ حَدِ، فَجَائَ اللّٰہُ بِنَا، فَھَدَانااللَّہُ لِیَؤْمِ الْجُمْعَۃِ۔۲۰؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو امتیں ہم سے پہلے گذری ہیں وہ جمعہ کے دن کو اپنا مبارک دن قرار دینے سے بھٹکی رہیں۔ چنانچہ یہود نے ہفتہ کو اپنا مبارک دن بنالیا اور عیسائیوں نے اتوار کو لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں قائم کیا تو اس نے ہم کو جمعہ کے دن کی طرف ہدایت کی‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں پر ایک امتیاز حاصل ہے جس کی وجہ سے وہی اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے ہفتہ کا مبارک دن قرار دے کر اس دن اپنی مخصوص اور اجتماعی عبادات کو سرانجام دیا جائے اور یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن جو ایک مخصوص اجتماعی عبادت رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ سے جمعہ کو امتیاز حاصل ہوگیا ہے، یہ غلط ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے پتہ لگتا ہے حق یہ ہے کہ جمعہ کا یہ امتیاز اس عبادت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ عبادت اس لئے ہے کہ جمعہ کو ایک امتیاز حاصل ہے۔ چنانچہ موطا کی ایک روایت ہے کہ
’’خَیْرُ یَوْمِ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجٔمْعَۃِ۲۱؎۔
یعنی سب دنوں میں سے جمعہ کا دن مبارک ترین دن ہے۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ اسی طرح ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کے لئے عموماً جمعرات کے دن کو پسند فرماتے تھے جس سے یہ ظاہر ہے کہ جمعرات اپنی برکات کے لحاظ سے باقی دنوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اسے دوسروں پر ترجیح دیتے۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ دنوں میں برکات کا فرق تسلیم فرماتے تھے اور اس فرق سے مناسب حد تک فائدہ اٹھانے کا خیال بھی آپ کو رہتا تھا۔ اب رہی قرآن کی شہادت سو وہ بھی ملاحظہ ہو۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآ ئِلِ سُجَّدًالِّلّٰہِ۔ ۲۲؎
یعنی کیا لوگ نہیں دیکھتے کہ دنیا کی ہر چیز کا سایہ یعنی اثر خدا کے حکم کے ماتحت دائیں بائیں یعنی ہر طرف پھرتا ہے۔‘‘
اس اصل کے ماتحت ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ستارے بھی اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں اور نیز یہ کہ یہ تاثیر دنیا کی ہر چیز پر اثرپیدا کررہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ستاروں کا اثر زمانہ اور اہل زمانہ اور حیات انسانی پر بھی پڑتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا۔ اور اگر کسی شخص کو یہ شبہ گذرے کہ اس آیت کریمہ میں تو ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے۔ ستاروں کی تاثیر کا کوئی خاص ذکر نہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ جب اس آیت میں دنیا کی ہر چیز میں ہر دوسری چیز کے لئے تاثیر مان لی گئی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ستارے بھی کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی زندگی پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ مگر معترض کی مزید تسلی کے لئے ایک اور آیت پیش کرتاہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَزَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ۲۳؎
یعنی ہم نے آسمانوں کو روشن ستاروں سے زینت دی ہے تاکہ وہ نظام عالم کی حفاظت میں بھی کام دیں۔‘‘
اس جگہ ستاروں کی تین غرضیں بیان کی گئی ہیں۔ اوّلؔ زینت دوسرےؔ تنویر۔ تیسرےؔ حفاظت وتقویم عالم اور تیسری شق کے اندر ان کی وہ مختلف تاثیرات شامل ہیں جو وہ دنیا اوراہل دنیا پر قانون قدرت کے ماتحت ڈالتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں کہ :-
’’یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاسے یعنی حِفْظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘۲۴؎
پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں ان آیات قرآنی کی تفسیر فرمائی ہے جن میں آدم کی پیدائش اور اس کے متعلق فرشتوں کے سوال کا ذکر ہے۔ اس میں بھی آپ نے یہی بات بیان کی ہے کہ:-
’’ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش پر خدا سے یہ سوال کیا کہ کیا تو ایک ایسی مخلوق بنانے لگا ہے جو دنیا میں فتنوں کا موجب ہوگی۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ جمعہ کا دن قریباً گذرچکا ہے۔ اور اب ستارہ زحل کا اثر شروع ہونے والا ہے جو قہر وعذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس پر ان کو گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس پر خدا نے فرمایا کہ انی اعلم ما لااتعلمون یعنی تمہیں خبر نہیں۔ کہ میں آدم کو کس وقت بنائوں گا۔ میں مشتری کے وقت کے اس حصہ میں اسے بنائوں گا جو اس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہرایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔‘‘۲۴؎
یہ الفاظ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں جو آپ نے ان آیات قرآنی کی تفسیر میں تحریر فرمائے ہیں۔ الغرض قرآن شریف میں یہ بات ثابت ہے کہ ستارے اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں۔ یہ تاثیرات دنوں اورزمانوں پر بھی اپنا اثر رکھتی ہیں۔ وہوالمراد
میں بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کرچکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے جو تحدی کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ:-
’’قرآن میں کہیں نہیں ۔ حدیث میں کہیں نہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔‘‘
یہ بالکل غلط اور ایک محض بے بنیاد دعویٰ ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’کس قدر لغو کہ وہ شخص جو قرآن کا بے نظیر علم رکھتا تھا۔ جس کی فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللّٰہ نہ جانتا تھا کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ ۲۶؎کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ سب کا سب تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کو اس آتش غضب سے نجات دے۔ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اگر سانپ اور بچھو باوجود اس کے کہ وہ لاکھوں انسانوں کی جانیں ہر سال ضائع کردیتے ہیں اور شیر اور چیتا اور بھیڑیا باوجود اس کے کہ وہ ہر آن اس تاک میں رہتے ہیں کہ انسان کو اپنی خوراک بنائیں اور پھر یہ ہزاروں قسم کے زہر اور لاکھوں قسم کی دوسری مضرت رساں چیزیں جن کے تکلیف دہ اثرات کا انسان نشانہ بنا رہتا ہے۔ انسان کی خدمت کے لئے مسخر سمجھی جاسکتی ہیں تو بعض قہری اور شدائد کا پہلو رکھنے والی تاثیرات والے ستارے کیوں نہ مسخّرسمجھے جائیں۔ افسوس ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں کیا کہ ہر اک چیز مسخّر ہے ان معنوں میںکہ وہ خدا کے حکم اور اس کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہے۔ اور پھر ہر اک چیز انسان کے لئے مسخرہے ان معنوں میںکہ انسان خد اکے مقرر کردہ قانون کا علم حاصل کرکے اس سے اپنی ترقی وبہبودی میں مدد حاصل کرسکتا ہے۔ پس خدا کی قہری اور جلالی شان کو ظاہر کرنے والی چیزیں بھی انسان ہی کے لئے مسخر ہیں کیونکہ ان کے اندر بھی انسان کی فلاح وبہبود ی کا راز مضمر ہے۔ ابلیس بھی جو آگ سے پیدا کیا گیا اور ہر وقت ابن آدم کو گمراہ اور آلام میں مبتلا کرنے کے درپے رہتا ہے اس آیت تسخیر سے باہر نہیںکیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کے بہت سے مخفی مگر قیمتی جوہروں کو ظاہر کرنے اور نشوونما دینے کا باعث بنتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل عامیانہ رنگ میں ایک اعتراض کردیا ہے اور اس کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین چیزیں بعض اوقات انسان کے لئے نحوست کا موجب ہوجاتی ہیں۔ ایک مکان دوسرے بیوی اور تیسرے سواری تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ چیزیں تسخیر سے باہر ہیں۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلا گیا۔ وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جائے۔ گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
میں ڈاکٹر صاحب سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے یہ بتائیں کہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے۔ آخر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ خوانخواہ بلاوجہ ایک بات میری طرف منسوب کرکے اس پر اعتراض جمادیا جاتا ہے۔ میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ جو شدائد اور سختیوں کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے، انصاف کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ڈرنے کا لفظ جائز طور پر استعمال ہوسکتا ہے تو میں ان سے بادب پوچھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے سفروں کے لئے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں سے ڈرتے تھے۔‘‘اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ نے جو یہ لکھا ہے کہ :-
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت خاص خاص ستاروں کی تاثیرات سے کام لیا ۔‘‘
’’ تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نعوذ باللہ خدا باقی ستاروں سے ڈرتا تھا۔‘‘
افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم کی بچگانہ باتوں کو اپنے مضمون کے اندر داخل کرکے خواہ۔نخواہ اپنے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے۔٭
پھر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔’’گویا منگل کا دن ٹل گیا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ تقدیر الٰہی تو قانون قدرت کے ماتحت بات بات پر بدلتی ہے۔ پھر وہ منگل کے ٹلنے سے بدل جائے تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ آپ کے پاس ایک ملیریا کا
٭:مطبوعہ الفضل ۳۰جولائی۱۹۲۶ء
بیمار آتا ہے جس کے خون کے جراثیم اگر ہلاک نہ کئے جائیں تو اس کی تقدیر یہ ہے کہ وہ خود ہلاک ہو۔ لیکن آپ اسے کونین دے کر اس کی تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ آپ کو خود بھوک لگتی ہے اور اگر آپ کھانا نہ کھائیں تو آپ کی تقدیر موت ہے لیکن آپ کھانا کھا کر اس تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ تو پھر اگر منگل کا دن ٹل جانے سے خد اکی کوئی تقدیر بدل جاوے تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ آپ نے میرے خلاف غصہ میں تقدیر کے مسئلہ کو بھی بری طرح مسخ کردیا ہے۔ حالانکہ اگر آپ سوچتے تو آپ کو پتہ لگتا کہ خدا کے مقرر کردہ قانون قدرت کے ماتحت جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہی خدا کی تقدیر ہوتی ہے۔ مثلاً خدا کی یہ تقدیر ہے کہ فلاں زہر کھانے سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے لیکن یہ بھی خدا ہی کی تقدیر ہے کہ اگر اس زہر کے اثر کو فلاں طرح مٹایا جائے تو وہ مٹ جاتا ہے۔ آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کا سارا فن اسی بنیاد پر قائم ہے کہ خدا کی ایک قسم کی تقدیروں کو اس کی دوسری قسم کی تقدیروں سے مٹایا جائے۔ پھر نہ معلوم آپ میرے خلاف بلاوجہ اعتراض جماکر لوگوں کو دھوکا دینے کی راہ کیوں اختیار کررہے ہیں۔ کیا آپ اس حدیث کو بھول گئے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ابوعبیدۃ رضی اللہ عنہ کی فوج میں طاعون شروع ہوئی تو حضرت عمرؓ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ فوج کو ادھر ادھر کھلی ہوا میں پھیلا دیں۔ اور خود بھی باہر کھلے میدان میں نکل جائیں اور انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ کیا آپ مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدا کی تقدیر سے بھاگوں یعنی کیا میرے جانے سے خدا کی تقدیر بدل جائے گی تو اس پر حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا تھا کہ ہاں میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ خدا کی ایک تقدیر سے نکل کر دوسری تقدیر میں داخل ہوجائیں۔ یعنی آپ کے یہاں رہنے سے اگر خدا کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس مرض کے اثر کو قبول کریں تو باہر جانے سے اس کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس کے اثر سے محفوظ ہوجائیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ پسند فرمایا ہے کہ ہم لوگ اپنے سفروں کے لئے حتی الوسع جمعرات کا دن اختیار کریں۔ تو کیا بقول ڈاکٹر صاحب ’’جمعرات کے سفر سے تقدیر الٰہی بدل جائے گی؟‘‘ اور پھر خدا نے جو آدم کی پیدائش میں بعض ستاروں کی تاثیرات کو اختیار کیا اور بعض کو ترک کیا تو کیا اس طرح ’’انسان کے لئے تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! آپ نے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے اور اتنا نہیں سوچا کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور انسان تو انسان ہے اس دنیا میں خدا کی بھی یہی سنت ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ سے کام لیتا ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ اسباب کی رعایت رکھتے ہوئے یہ دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ مبارکہ بیگم کو منگل کے اس اثر سے جو شدائد اور سختی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے محفوظ فرمائے تو کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ خدا کی ایک تقدیر کو اس کی دوسری بہتر تقدیر کے ذریعہ سے بدلنا چاہا ہے۔ جیسا کہ خود خدا نے ہمارے جدّامجد آدم کی پیدائش کے وقت بعض ستاروں کی تاثیر کو چھوڑ کر اور بعض دوسرے ستاروںکی تاثیر کو اختیار کرکے آدم کی تقدیر کو بدلا تھا۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ تم حتی الوسع جمعرات کو سفر کرکے اپنی تقدیر کو بہتر صورت میں بدلنے کی کوشش کیا کرو۔ اور جیسا کہ خود جناب ڈاکٹر صاحب اپنے بیماروں کا علاج کرکے ان کی تقدیر بدلنے کی کوشش فرمایا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک فرد بشر بلکہ ہر اک لایعقل جانور بھی ہر روز خدا کے قانون قدرت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بُری تقدیروں کو اچھی تقدیر کی صورت میں بدلتا رہتا ہے۔ اور میں اس شخص کو سعادت فطری کے مادہ سے محروم کلّی سمجھتا ہوں جو آدم کا بیٹا ہوکر جس کے خمیر میں خدا کی نیک تقدیروں کے مددسے اس کی ضرر رساں تقدیروں کے بدلنے کا مادہ فطرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہتا ہے۔ اور خدا کے جاری کردہ قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دینی ودنیاوی ترقیات کے دروازے نہیں کھولتابلکہ ضرررساں تقدیروں کا تختہ مشق بنارہ کر قعرمذّلت کی طرف گرتا چلا جاتا ہے۔
مگر یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ گویا انسان کے حالات زندگی کلیتہً ان ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اور جو انسان ستاروں کی اعلیٰ تاثیرات کے ماتحت پیدا ہوتا ہے وہ بہرحال خوش بخت ہوگا اور اعلیٰ زندگی بسر کرے گا اور جو کسی دوسری قسم کی تاثیرات کے ماتحت دنیا میں آتا ہے وہ بہرحال شدائد اور سختیوں کا اثر پائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے صرف ستارے ہی نہیں ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اربوں اور چیزیں بھی ہیں۔ جن میں سے بہت سی انسان کے اپنے اختیار میں ہیں اور ان سب کے مجموعی اثر کے نتیجے میں انسانی زندگی کے حالات متعین ہوتے ہیں اور بہت سی تاثیرات ایک دوسرے کے مقابل پر آجانے کی وجہ سے کٹ بھی جاتی ہیں۔ پس بالکل ممکن ہے اور عملاً ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی ولادت امن وآسائش وغیرہ کی تاثیررکھنے والے اجرام سماوی کے ماتحت وقوع میں آئے لیکن دوسرے اثرات اس کی زندگی کے حالات کو دوسرے رنگ میں پلٹ دیں۔ یا کسی شخص کی ولادت شدائد اور سختیوں کی تاثیر کے ماتحت ہو لیکن دوسری چیزوں کی تاثیرات اس اثر کو مٹا کر امن و اسائش وغیرہ کی تاثیر کو غالب کردیں۔ جیسا کہ مثلاً کونین کے اندر یہ تاثیر ہے کہ وہ ملیریا کے کیٹروں کو مارتی ہے لیکن اگر اس کے مقابلہ میں ایسی چیزیں آجائیں جو قانون قدرت کے ماتحت ملیریا کے کیٹرے پیدا کرتی ہیں۔ اور ان مؤخر الذکر اشیاء کا بہت غلبہ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر اپنے بیمارکو کونین کھلاتا رہے اس کا خون ملیریا کے جراثیم سے پاک نہیں ہوسکے گا جب تک کہ ان مخالف تاثیرات کو توڑنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر بے شمار چیزیں اثر ڈالتی ہیںاور ان میں سے ایک ستارے بھی ہیں۔ اور چونکہ ہر عقلمند شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ حتی الوسع تمام نیک تاثیرات کے اثر سے مستفید ہو اور تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔ اس لیئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت کسی چھوٹے سے چھوٹے خدائی انعام کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت خدا سے یہ دعا مانگی کہ وہ کسی ایسی تاثیرات کے ماتحت پیدا نہ ہو جو شدائد اور سختی وغیرہ کا اثر رکھتی ہوں۔ اور اگر اس کی ولادت اسی دن مقدر ہو تو پھر خدا کی طرف سے کوئی دوسرے ایسے سامان پیدا ہوجائیں جن کی تاثیر اس دن کی تاثیر پر غالب آجائے۔ اور یہ کوئی انوکھی دعا نہیں۔ بلکہ اسی اصل کے ماتحت ہے جس کے ماتحت خدا نے ہمارے جدامجد آدم کی پیدائش کا انتظام کیا تھا۔ الغرض ستارے اپنے اندر مختلف قسم کی تاثیرات رکھتے ہیں جو انسانی زندگی پر اثر ڈالتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ دن بھی الگ الگ ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اس لئے دنوں کا بھی اعلیٰ قدر مراتب انسانی حالات پر اثر پڑتا ہے۔ پس ہرمومن کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں خدا کی دوسری بابرکت تقدیروں سے فائدہ اٹھاتا ہے وہاں ان تقادیر سے بھی حتی الوسع متمتّع ہو جو دنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مگر یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ ہر اک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنا توہم پرستی پیدا کرتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص اپنے کسی اہم اور فوری کام کو صرف اس خیال سے ملتوی کردیتا ہے کہ آج منگل ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سختی پیش آئے یا کسی ضروری اور فوری سفر یا کام کو صرف اس خیال سے پیچھے ڈال دیتا ہے کہ مثلاً آج جمعرات نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کام برکات سے محروم ہوجائے تو وہ غلطی کرتا ہے بلکہ ایک گونہ مخفی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میںیہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص نے باقی لاکھوں کروڑوں تاثیرات کو جو اسی طرح خدا کی پیدا کردہ ہیں جس طرح کہ ستارے، نظر انداز کرکے صرف اس دنوں والی تاثیر پر اپنا تکیہ کرلیا ہے۔ بلکہ ان اسباب کے پیدا کرنے والے خدا ئے ذوالجلال کو بھی فراموش کرکے صرف ستاروں کو ہی اپنی قضا وقدر کامالک سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہندوئوں کا حال ہوا۔ جو کسی صورت میں اپنے کسی کام کی ابتداء منگل کو نہیں کرتے گویا منگل کے ہاتھ میں کل قضاء قدر کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں جن سے مومن کو پرہیز لازم ہے۔ منگل ہرگز کوئی منحوس دن نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح خدا کی مقدس مخلوق ہے جیسا کہ دوسرے دن ہیں۔ صرف بات یہ ہے کہ اس نے خدا کی قہری اور جلالی صفات سے حصہ پایا ہے۔ جیسا کہ بعض دوسرے دن خدا کی جمالی اور رحیمی صفات کے ظل ہیں ۔ حقیقت یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ ومن اعتدی فقد ظلم
اس روایت کی بحث کو ختم کرنے سے قبل ایک اور شبہ کا ازالہ ضروری ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اور جو بعض دوسرے لوگوںکے دل میں بھی کھٹک سکتا ہے۔ وہ شبہ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:-
’’پھر حضرت مسیح موعود نے جو تحفہ گولڑویہ میں اس دنیا کے زمانہ کو ایک ہفتہ قرار دے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو منگل کا دن قراردیا ہے اور آپ کے جلالی رنگ کو مریخ یعنی منگل کے رنگ میں دکھایا ہے تو یہ کیا سمجھ کر ایسا تحریر کیا ہے۔ کیا حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل دنیا کے لئے باعث رحمت سمجھتے تھے یا نعوذ باللہ باعث نحوست۔ کیا وہ ایک ایسے ستارے کو جسے منحوس سمجھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرسکتے تھے۔ حضرت صاحب کی یہ تحریر فیصلہ کن ہے۔‘‘
اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی ہر اک تحریر خدا کے فضل سے فیصلہ کن ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اس تحریر کے معنی کیا ہیں۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ میں وہی نحوست کے خیالات بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ میری ہر بات کو اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے اور پھر اس فرضی بات پر اعتراضات کا ایک طوما ر کھڑا کردیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں۔ میں نے اپنی کسی تقریرو تحریر میں منحوس یا نحوست یا اس مفہوم کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔ اور نہ میرے ذہن میں کبھی یہ مفہوم آیا ہے میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ ’’حضرت مسیح موعود ؑ دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ اور پھر یہ کہ آپ کا روز وفات جو کہ منگل کا دن تھا وہ دنیا کے واسطے ایک بڑی مصیبت کا دن تھا۔‘‘ جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ منگل کا دن اپنے اندر شدائد اور سختی کی تاثیر رکھتا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود.6ؑ نے بمقابلہ دوسرے دنوں کے اسے اچھا نہیں سمجھا۔ نہ کہ نعوذ باللہ وہ کوئی منحوس دن ہے۔ پس جبکہ بنائے اعتراض ہی غلط اور باطل ہے تو اعتراض خود غلط اور باطل ہوا۔ وہوالمراد
دراصل ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مسیح ابن مریم کی طرح جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اور اسی لئے آپ کی فطرت میں صلح اور آشتی اورامن جوئی اور محبت ونرمی اور عفوودرگزر کی طرف زیادہ میلان ہے اور خدا کی جلالی صفات سے مقابلۃً بہت کم حصہ آپ نے لیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتب میں متعدد جگہ اپنی بعثت کی ان خصوصیات کو بیان فرمایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ میری بعثت جمالی رنگ میں مقدر تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مشتری ستارہ کی تاثیرات کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں مشتری کی جمالی صفات سے حصہ پائوں۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:-
’’ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے۔ جو کوکب ششم من جملہ خُنّس کُنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل ودانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے۔‘‘۲۷؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’اس وقت کے مبعوث پرپر توۂ ستارہ مشتری ہے نہ پرتوۂ مریخ۔‘‘ ۲۸؎
الغرض چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مشتری کی تاثیر کے ماتحت جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اس لئے طبعاً اور فطرتاً آپ میں جمالی صفات کی طرف زیادہ میلان تھا اور جلالی صفات جو قہر اور عذاب اور شدائد اور سختیوں وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں آپ میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ آپ ان چیزوں کو زیادہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جن کی تاثیرات جمالی رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور جلالی صفات مثل قہروعذاب اور قتل وخونریزی کے لئے کوئی طبعی محبت اپنے اندر نہ پاتے تھے اور یہی اس روایت کامنشاء ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت چونکہ مریخ ستارہ کے ماتحت تھی اس لئے آپ کے اندر خدا کی جلالی صفات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ آپ.6ؐ کو اپنے دشمنوں کے خلاف تلوار سے کام لینا پڑا اور ہر شخص جو قتل وخونریزی اور فساد فی سبیل اللہ کی نیت سے آپ کے خلاف اٹھا۔ خدا نے اسے خود آپ کے ہاتھ سے ہی اپنی جلالی تجلّیات کا نشانہ بنایا۔ مگر اس موقع پر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں ایک وہ جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے ماتحت جلالی صفات کے ساتھ وقوع میں آیا اور دوسرا وہ جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے ماتحت آپ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کے ذریعہ جمالی صفات کے ماتحت واقع ہوا ۔ اور ان دونوں میں آپ ہی کی قوت قدسیہ اور افاضہ روحانی کا ظہور تھا کیونکہ آپ جامع کمالات جمالی وجلالی تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں۔ (۱) ایک بعث محمدیؐ جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے……(۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے اور ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے…… اور چونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلۂ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے۔ اس لئے خدا نے بلاواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسیٰ سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خداتعالیٰ نے ایک بروز (یعنی مسیح موعود) کے آئینہ میں اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلادیا۔‘‘۲۹؎
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم سب قدموں کے اوپر ہے کیونکہ آپ خدا کی جلالی اور جمالی صفات کے ظل کامل ہیں۔ اور باقی کوئی اور فرد بشر اولین اور آخرین میں سے اس مرتبہ کو نہیں پہنچا۔
میرا یہ لکھنا کہ منگل کا دن دوسرے دنوں سے بلحاظ اپنی برکات کے مقابلۃً کم ہے۔ اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ چونکہ وہ خدا کی قہری اور جلالی شان کا ظل ہے اور اس کے سوا باقی دن یاتوجمالی صفات کاظل ہیں یا اگر جلالی بھی ہیں تو منگل سے کم ہیں۔ اس لئے وہ اس جہت سے منگل کی نسبت اپنے افاضۂ برکات میں فائق ہیں کیونکہ خدا کی جمالی صفات اس کی جلالی صفات پر غالب ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ عَذَابِی.6ٓ.6ْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئ.6ُ ج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَی.6ْئٍ۔۳۰؎
یعنی میرا عذاب تو میرے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ جو اپنے اعمال سے اپنے آپ کو اس کا سزاوار بناتا ہے۔لیکن میری رحمت کی صفات سب پر وسیع ہیں۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے کہ
’’ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ ۳۱؎
یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ جن صفات کا غلبہ ہے وہی اپنے افاضۂ برکات میں بھی فائق سمجھی جائیں گی۔
پس ثابت ہوا کہ وہ دن جوان ستاروں کی تاثیرات کے ماتحت آتے ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کی جمالی صفات کا مظہر ہیں اپنے افاضۂ برکات میں دوسرے دوسرے دنوں پر فائق ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ:-
’’اگرچہ جمعہ کا دن (جو بوجہ مشتری ستارے کے زیراثر ہونے کے جو اپنے اندرجمالی تاثیرات رکھتا ہے) سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر اک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ جمالی صفات کو جلالی صفات پر ایک گونہ وسعت اور فوقیت حاصل ہے۔ اور اسی وجہ سے منگل جو خدا کی جلالی صفات کا اثر رکھتا ہے دوسرے دنوں سے اپنے افاضۂ برکات میں مقابلتاً کم ہے۔ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی جلالی اور جمالی ہر دوقسم کی صفات کا مظہر اتم بنایا تھا اس لئے اس کے جلالی بعث کو مریخ کے اثر کے ماتحت رکھا اور آپ کے جمالی بعث کو مشتری کی تاثیر کے ماتحت ظاہر کیا اور یہ وہ مقام عالی ہے جس کی بلندیوں تک کوئی انسان نہیں پہنچا۔ اللھم صل علیہ وعلٰی عبدک المسیح الموعود بارک وسلم۔
منگل والی روایت کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ سائنس کی رو سے بھی ستاروں کی تاثیرات کے متعلق کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کسی بات کا سائنس کی تحقیق میں ابھی تک نہ آیا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بات غلط ہے۔ دراصل دنیا کے علوم میں سے بہت ہی تھوڑا حصہ ہے جو ابھی تک سائنس کی تحقیق میں آیا ہے۔ اور باقی سب میدان ہنوز غیردریافت شدہ حالت میں پڑا ہے۔ اندریں حالات کوئی بات سائنس کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے جب سائنس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت اس کے مخالف پڑتی ہو اور اگر وہ سائنس کی کسی ثابت شدہ حقیقت کے مخالف نہیں ہے۔ تو صرف اس بناء پر کہ ابھی تک وہ سائنس کے احاطۂ تحقیق میں نہیں آئی، قابل اعتراض نہیں سمجھی جاسکتی۔ کون نہیں جانتا کہ سائنس کی تحقیقاتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پس اگر ایک چیز آج اس کے احاطہ تحقیق میں نہیں آئی۔ توکل آجائے گی۔ اور اگر بالفرض وہ کبھی بھی اس کے احاطہ تحقیق میں نہ آئے۔ پھر بھی جب تک کہ اس پر سائنس دان کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیںہے۔ لیکن میں کہتا ہوں گو سائنس کی روسے ابھی تک ستاروں کی اس قسم کی تاثیرات ثابت نہیں ہوئیں۔ لیکن اُصولاً سائنس دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز ہر دوسری چیز پر کچھ نہ کچھ اثر ڈال رہی ہے۔ اور اس اصول کے ماتحت یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی زندگی ستاروں سے متاثر ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نہ صرف یہ کہ سائنس اس عقیدہ کے مخالف نہیں بلکہ اُصولاً اس کی مؤیّد ہے۔ وہوالمراد
ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے اس مضمون میں اس عام معروف خیال کی بناء پر بحث کی ہے کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہیئت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ اور اس میں کوئی ذاتی تحقیق میں نے نہیں کی۔ مگر میرے نزدیک یہ ممکن ہے کہ یہ معروف عقیدہ درست نہ ہو بلکہ اس کے خلاف بعض قرائن بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انگریزوں کے لٹریچر میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے منگل کا دن مریخ کے زیراثر نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش مشتری کے زیراثر تھی اور پھر آپ نے اس سے آگے ہزار ہزار سال کا دن رکھ کر زمانہ کی شمار شروع فرمائی ہے اس کی رُو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ مبارک منگل کے مقابلہ میں نہیں آتا۔ حالانکہ دوسری طرف آپ کی یہ صاف اور واضح تحریر موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت تھی۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منگل اور مریخ ایک نہیں ہیں بہرحال یہ بات مزید تحقیق چاہتی ہے۔ اور میں نے اس امر میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی اور اسی لئے میں نے عام معروف خیال پر جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے اپنے جواب کی بنارکھ دی ہے۔ واللہ اعلم٭
اگلی مثال کی بحث شروع کرنے سے قبل میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مضمون کچھ زیادہ طول پکڑرہا ہے اور گو ابھی تک ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بائیس مثالوں میں سے میں نے صرف ایک مثال کی بحث کو ختم کیا ہے لیکن حجم کے لحاظ سے میرا مضمون ابھی سے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے برابر پہنچ گیا ہے اور گو اعتراض کی نسبت جواب عموماً زیادہ لمبا ہوتا ہے لیکن چونکہ مجھے بھی دوسرے کام ہیں اور ناظرین کے لئے بھی طویل مضامین کے مطالعہ کے واسطے وقت نکالنا آسان نہیں۔ اس لئے میں انشاء اللہ آیندہ اپنے جوابات میں حتی الوسع اختصار سے کام لوں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بہت سی لاتعلق باتوں کو داخل کردیا ہے اور کئی جگہ میرے مفہوم کو بری طرح بگاڑکر خواہ مخواہ اعتراض کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے۔ واِلاّاگر وہ صرف معقول علمی تنقید تک اپنے آپ کو محدود رکھتے تو ایک تو بحث میں کوئی بدمزگی نہ پیدا ہوتی اور دوسرے یہ فائدہ ہوتا کہ اعتراضات وجوابات اس قدر طول نہ پکڑتے۔ اور لوگ جلد اور آسانی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ تک پہنچ جاتے۔ مگر میں ایک حد تک ڈاکٹر صاحب کو مجبور سمجھتا ہوں کیونکہ دراصل مخالفت کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عدل وانصاف کے مقام سے متزلزل نہ ہونے دینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور بڑے مجاہدہ کو
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۲۶ء
چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہیئے تھا کہ اس بات کو یاد رکھتے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’لا یجر منّکم شنان قوم علیٰ ان لاتعدلوا اعدلوا ھوا قرب للتقویٰ۔
یعنی کسی کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو۔ تمہیں چاہیئے کہ بہرحال عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔ کیونکہ یہی تقویٰ کا مقام ہے‘‘
میں نے یہ الفاظ نیک نیتی اور ہمدردی کے خیال سے عرض کئے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس معاملہ میں بدظنی سے کام نہیں لیں گے۔
دوسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ حضرت والدہ صاحبہ کی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ کوئی انگریز مولوی محمد علی صاحب سے دریافت کرتا تھا کہ جس طرح بڑے لوگ جنہوں نے کسی بڑے کام کی بنیاد رکھی ہوئی ہو اپنے بعد اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں کیا اس طرح مرزا صاحب نے بھی کیا ہے اور اس کے بعد آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں حضرت والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھتے ہیں کریں اس روایت کو لے کر جس بے دردی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔ میں نے ہم کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ اس حملہ کا نشانہ صرف خاکسار ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ فرماتے ہیں:-
’’کیا واقعی اگر حضرت بیوی صاحبہ فرمادیتیں تو وہ میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین مقرر کردیتے؟…… یہ بہتر ہوا کہ حضرت بیوی صاحبہ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ ورنہ مفت میں خفت اٹھانی پڑتی‘‘
اور پھر اس فرضی بات کے اوپر جو محض ڈاکٹر صاحب کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے ایک طومار اعتراضات کا کھڑا کردیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کہ اگر بیوی صاحبہ یہ جواب دے دیتیں کہ ہاں میاں محمود احمد صاحب کو جانشین بنادو تو پھر کیا ہوتا۔ جو بات وقوع میں ہی نہیں آئی اس کے متعلق میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں؟ ڈاکٹر صاحب کے دماغ کو تو خیر بغض۔وعداوت کے بخارات نے گھیرا ہوا ہے اس لئے وہ مجبوری کا عذر رکھتے ہیں لیکن میں اگر ہوش وحواس رکھتے ہوئے ان فرضی باتوں میں پڑجائوں تو مجھے دنیا کیا کہے گی اور خدا کے سامنے میرا کیا جواب ہوگا؟ اگر مجھے دیوانہ پن کی باتوں سے پرہیز نہ ہوتا تو میں یہ عرض کرتا کہ اگر بالفرض حضرت والدہ صاحبہ وہی جواب دے دیتیں جس کا فرضی خیال بھی ڈاکٹر صاحب کو بے چین کررہا ہے تو پھر غالباً ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ ایک لاعلاج اضطراب کا شکار ہوجاتے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو خاموشی اختیار کرنے سے دوسرے نمبر پر اس جواب کے سوا اور کوئی جواب ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا میرے ذہن میں نہیں آتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور جو جواب خدانے حضرت والدہ صاحبہ کے دل میں الہام کیا، اس کاا نہوں نے اظہار کردیا۔ اب آپ اور آپ کے رفقاء قیامت تک اپنا سر پیٹیں وہ جو اب بدل نہیں سکتا۔ پس اب اس بغض وعداوت کی آگ میں جلنے سے کیا حاصل ہے؟ بہتر یہی ہے کہ دل سے غصہ نکال دیں اور عقل وخردسے صلح کرلیں۔ اور آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ:-
’’حضرت صاحب نے میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین بنانا مناسب نہیں سمجھا، نہ بنایا بلکہ انجمن کا پریزیڈنٹ بھی نہیں بنایا۔ گویا کسی ذمہ داری کے عہدہ کا اہل نہیں سمجھا۔ ورنہ اگر وہ اپنا جانشین بنانا چاہتے تو کم سے کم پریذیڈنٹ تو بنادیتے …… آپ نے تو میاں صاحب کو انجمن کے کسی ذمہ دار عہدہ کے لائق بھی نہ سمجھا۔ جانشین بنا نا تو بہت دور رہا۔‘‘
یہ سراسر آپ کی خوش فہمی ہے۔ روایت میں یہ کہاں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا صاحب کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر بعد میں اپنی رائے بدل لی۔ وہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے ایک بات دریافت کی تھی۔ اگر میں نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہوتا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ حضرت میاں صاحب کو اپنا جانشین مقرر کرجائیں تو پھر آپ یہ اعتراض کرتے ہوئے بھی بھلے لگتے لیکن خواہ نخواہ اپنی طرف سے ایک بات فرض کرکے اس پر اعتراض جمادینا دیانت داری سے بعید ہے۔ باقی رہا حضرت میاں صاحب کی لیاقت کا سوال سو اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ خدا کے فضل سے حضرت میاں صاحب کوئی غیرمعروف آدمی نہیں ہیں۔ ان کی زندگی کے حالات اور ان کی قابلیت دنیا کے سامنے ہے۔ اور ہر عقلمند انسان جسے تعصّب نے اندھا نہیں کررکھا اپنے طور پر فیصلہ کرسکتا ہے۔ کہ وہ کس دل ودماغ کے مالک ہیں۔ ہاں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر ضرورپہنچا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر صاحب کا دماغ ان تاریک بخارات سے صاف نہ ہو جو بغض، حسد اور کینہ وعداوت کی آگ سے اٹھتے ہیںوہ اس بات کے بھی اہل نہیں ہیں کہ حضرت میاں صاحب کی خداداد اہلیت اور قابلیت کو سمجھ تک سکیں۔ چہ جائیکہ اس کی گہرائیوں تک ان کو رسائی حاصل ہو۔ یہ بات میں نے خوش عقیدگی کے مبالغہ آمیز طریق پر نہیں کہی۔ بلکہ علیٰ وجہ البصیرت اس پر قائم ہوں اور جو بھی معقول طریق اس کے امتحان کا مقرر کیا جاسکے اس کے لئے تیار ہوں۔ باقی رہی انجمن کی عہدہ داری سو شائد اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہوگا کہ چونکہ ان کے داماد جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے انجمن کے سیکرٹری رہے تھے۔ اس لئے نیم خلافت ان کی تسلیم کی جانی چاہیئے۔ اور اس نعمت عظمیٰ سے حضرت میاں صاحب محروم کلّی ہیں! افسوس ہے کہ جب انسان تعصّب کا شکارہوتا ہے تو اس کی بصیرت پر پردہ پڑجاتا ہے بھلا حضرت کی جانشینی اور انجمن کی عہدہ داری کے درمیان کون سا طبعی رشتہ ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کوئی رشتہ ہے تو میں بادب یہ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ حضرت صاحب کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خلیفہ ہونا تھا اس لئے حضرت صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پریذیڈنٹ مقرر فرمایا۔ اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے بعد خدا کے علم میں حضرت میاں صاحب کی خلافت تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب نے اپنی جگہ حضرت میاں صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا اور اگر اس استدلال کو اور آگے چلایا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ مولوی محمد علی صاحب نے کبھی بھی خلیفہ نہیں بننا تھا اس لئے وہ ہرزمانہ میں صدرانجمن کی صدارت سے محروم رہے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کے اصول کے مطابق حضرت صاحب کے زمانہ میں ان کے سیکرٹری بننے نے ہمیشہ کے لئے اس بات کا فیصلہ کردیا کہ وہ صرف ایک ماتحت عہدہ پر کارکن رہ سکنے کے اہل ہیں، کسی سلسلہ انتظام کی انتہائی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی وغیرہ ذالک۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ ان منہ کی پھونکوں سے قلعہ خلافت کی دیواروں میں رخنہ پیدا نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ مفت میں اپنی خفّت کروائیں۔ آپ نے بڑے ظلم اور دل آزاری کے طریق سے کام لیا ہے، اور گو میں آپ کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتاہوں مگر مجھے خدا کا خوف ہے اور میں اپنے اخلاق کو بھی بگاڑنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی جو میں نے بعض جگہ کسی قدر بلند آواز اختیار کی ہے یہ محض نیک نیتی سے آپ کے بیدار کرنے کی غرض سے کی ہے ورنہ میرا خدا جانتا ہے کہ میرا سینہ اب بھی آپ کے لئے سوائے ہمدردی کے جذبات کے اور کوئی جذبات اپنے اندر نہیں رکھتا۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کو اگر اس معاملہ میں انسانی مشورہ کی ضرورت تھی تو بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرسکتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں کی کوئی فہرست نہیں دی۔ غالباً اس فہرست میں اول نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا نام نامی ہوگا۔ اور پھر ان کے ہم مشرب رفقاء کے اسماء گرامی ہوں گے کیونکہ جب تک یہ بزرگان ملت کسی مشورہ میں شریک نہ کئے جائیں اس وقت تک بھلا مشورہ کا مفہوم کب پورا ہوتا ہے! کہنے کی بات نہیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک گروہ ہر بات میں مشورہ کے لئے اپنے آپ کو آگے کردیتا تھا اور اگر ان سے مشورہ نہ لیا جاتا تھا یا ان کا مشورہ قبول نہ کیا جاتا تھا تو ان کے تیور بدلنے شروع ہوجاتے تھے کہ اہل الرائے تو ہم ہیں اور مشورہ نعوذباللہ بے وقوف اور جاہل لوگوں کا مانا جاتا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر حضرت صاحب کی یہ بات مشورہ کے طور پر ہی تھی تو پھر بھی آپ کو حسد میں جلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت صاحب خدا کی طرف سے مامور تھے انہوں نے جس سے چاہا مشورہ لیا اور جس سے چاہا نہ لیا۔ حدیث کھول کر دیکھئے کیا کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے مشورہ نہ لیتے تھے؟ کیا صلح حدیبیہ کے وقت آپ نے ایک بڑے اہم امرمیں سارے اہل الرائے صحابہ کو چھوڑ کر صرف اپنی بیوی ام سلمہ سے مشورہ نہیں لیا؟ اور کیا ام سلمہ کے اس مشورہ سے آئمہ حدیث نے عورتوں سے اہم امور میں مشورہ لینے کا جواز نہیں نکالا۔ اور کیا امام قسطلانی نے اس مشورہ کے متعلق یہ نوٹ نہیں لکھا کہ فیہ فضیلۃ ام سلمۃ ووفور عقلھا۔ یعنی اس واقعہ سے امّ سلمہ.6ؓ کی فضیلت اور کمال دانشمندی ثابت ہوتی ہے۔ پھر کیا آپ نے اپنی بیوی عائشہؓ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم نصف دین اس سے سیکھو۳۲؎۔ گویا نہ صرف خود اپنی بیویوں سے مشورہ لیا بلکہ امّت کو بھی حکم دیا کہ ان سے مشورہ لیا کرو۔ اندریں حالات اگر حضرت صاحب نے اپنی بیوی سے کسی امر میں مشورہ لے لیا تو حرج کون سا ہوگیا۔ اور وہ کون سا شرعی حکم ہے جس کی نافرمانی وقوع میں آئی؟ کیا نبی کی بیوی جو دن رات اس کی صحبت اور تربیت سے مستفید ہوتی ہے اور نبی کے بعد خدائی نشانات کی گویا سب سے بڑی شاہد ہے مشورہ کی بالکل نااہل سمجھی جانی چاہیئے۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشرب رفقاء بڑے بڑے اہل الرائے جن کے مشورہ کے بغیر کوئی قومی کام سرانجام نہیں پاسکتا؟ اگر یہی تھا تو نعوذ باللہ خدا نے سخت غلطی کھائی کہ حضرت صاحب کو بار بار یہ الہام فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ۳۳؎ ۔ یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوستوں کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ میں واقعی حیران ہوں کہ آخر کس بنا پر ڈاکٹر صاحب نے یہ خیال قائم کیا ہے کہ نبی کی بیوی اہم امور میں مشورہ کی اہل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے تھے اور پھر صحابہ کبار بڑے بڑے مسائل میں اپنی بیویوں سے مشورہ پوچھتے تھے۔ اور ان میں سے بعض کی قوت استدلال واستخراج کا خصوصیت کے ساتھ لوہا مانتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ کان اکابر الصحابۃ یرجعون الیٰ قولھا ویستفتونھا ۳۴؎ یعنی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کے قول کی طرف رجوع کرتے اور ان سے فتویٰ پوچھتے تھے۔ دراصل حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ کسی نبی کی بیوی کو خصوصیت کے ساتھ بلید اور ایک موٹی سمجھ کی عورت سمجھا جائے بالعموم اس کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کی لمبی صحبت اور ہر وقت کی تربیت نے اس میں وہ اہلیت پیدا کردی ہوگی جو بہت سے دوسرے لوگوں میں نہیں پائی جاتی۔ اور اس لئے وہ اس بات کی اہل مانی جائے گی کہ مشورہ طلب امور میں اس کی رائے پوچھی جائے۔ باقی ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ:-
’’اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامورمن اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعدجماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑا دینے کو تیار تھا حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ یا تو پرلے درجہ کی جہالت اور یا پرلے درجہ کی بے انصافی اور سینہ زوری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شروع سے ہی یہ افسوس ناک عادت رہی ہے کہ ایک بات اپنی طرف سے فرض کرتے ہیں اور پھر اس پر بڑے فخریہ لہجے میں اعتراض جمانا شروع کردیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ میں نے یہ کب لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ گویا دوزانو ہوکر حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے بیٹھ گئے تھے؟ کہ جو کہو میں اس پر عمل کروں گا۔ اور ہرگز’’ استعداد اور قابلیت پر غور نہیں کروں گا۔ ‘‘ اور’’نہ کچھ سوچوں گا اور نہ سمجھوں گا‘‘بس جس طرح تم اس معاملہ میں مجھے کہوگی اسی طرح کردوں گا۔ بلکہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ ’’صرف ایک اشارہ کافی ہے۔‘‘ اور میں تعمیل کے لئے حاضر ہوں اور ’’جس شخص کے متعلق کہو اس کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ ڈوری دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ اگر میں نے یہ الفاظ یا اس مفہوم کے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے قریب کی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے دور کی بھی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ کہے یا لکھے ہوں تو میں مجرم ہوں اور اپنے اس جرم کی ہر جائز سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اگر میں نے یہ الفاظ نہیں کہے اور میرا خدا گواہ ہے کہ یہ الفاظ کہنا تودرکنار ان الفاظ کا مفہوم تک بھی میرے دل ودماغ کے کسی دوردراز کونے میں پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ کسی عقلمند کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے۔ توڈاکٹر صاحب اس خدا سے ڈریں جس کے سامنے وہ ایک دن کھڑے کئے جائیں گے۔ اور اپنی ان دل آزار شوخیوں کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ وہ کسی حساب میں نہیں۔ خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور نہ اس کے حساب سے کوئی چیز باہرہے۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔۳۵؎٭
بات نہایت صاف اور معمولی تھی کہ حضرت صاحب نے کسی انگریز کے سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پوچھتا تھاکہ جس طرح وہ لوگ جنہوں نے بڑے کاموں کی بنیاد ڈالی ہوتی ہے اپنے بعد اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں۔ کیا اس طرح میں نے بھی کوئی اپنا قائمقام مقرر کیا ہے اور پھر یہ ذکر کرنے کے بعد آپ نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں کریں۔ اب اس بات پر یہ شور وپکار پیدا کرنا کہ لیجیئودوڑیو اندھیر ہوگیا سارے سلسلہ کا انتظام بیوی کے ہاتھ میں دیا جارہا ہے اور قطعاً کوئی اہلیت اورقابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کے معاندانہ تخیل کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قطعاً غور سے کام نہیں لیا۔ اور خوامخواہ اعتراض پیدا کرنے کی راہ اختیار کی ہے۔
اولؔ تو روایت کے اندر کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ بات مشورہ حاصل کرنے کے لئے کی تھی۔ بسااوقات ہم دوسرے سے ایک بات پوچھتے ہیں اور اس میں قطعاً مشورہ لینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس طرح گفتگو کا سلسلہ جاری کرکے خود اپنے کسی خیال کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور یا محض دوسرے کا خیال معلوم کرنے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے۔ یعنی صرف دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کیا خیال رکھتا ہے اور یا بعض اوقات جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے دوسرے کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملہ میں درست رائے رکھتا ہے یا نہیں تاکہ اگر اس کی رائے میں کوئی خامی یا نقص ہو تو اس کی اصلاح کردی جائے۔ اور ان تینوں صورتوں میںسے ہر اک صورت یہاں چسپاں ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء ہو کہ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع کرکے اشارۃً اپنے خیال کا اظہار فرمائیں کہ میری رائے میں محمود میرا جانشین ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے سوال سے محض حضرت والدہ صاحبہ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں اور بس۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو حضرت والدہ صاحبہ کی تعلیم مقصود ہو۔ یعنی یہ ارادہ ہو کہ اگر ان کی طرف سے کسی غلط رائے کا اظہار ہو تو آپ اس کی اصلاح فرمائیں اور اس حقیقت کو ظاہر فرمائیں۔ کہ خلافت کے سوال کو کلیۃً خدا پر چھوڑ دینا چاہیئے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔ اور تعجب ہے کہ
٭:مطبوعہ الفضل ۳۱ اگست ۱۹۲۶ء
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اس تیسری صورت کو تسلیم کرنے کے باوجود پھر نہایت بے دردی کے ساتھ دوسری فرضی باتوں کو درمیان میں لاکر دل آزار جرح کا طریق اختیار کیا ہے اور محض بلاوجہ انجمن اور خلافت کا جھگڑا شروع کردیا ہے۔ اور بزعم خود حضرت میاں صاحب کی ناقابلیت کو اعتراض کا نشانہ بناکر اپنے قلب سوزاں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا پر معاملہ چھوڑنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فلاں شخص خلیفہ نہ بنے بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تعیین کا اظہار نہیں کرتے بلکہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جسے پسند کرے گا اس کی طرف اپنے تصرف خاص سے لوگوں کے قلوب خود بخود پھیردے گا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں متعدد مرتبہ اشارات کرنے کے پھر بالآخر معاملہ خدا پر چھوڑدیا اور صراحتہً یہ حکم نہیں فرمایا کہ ابوبکر میرے بعدخلیفہ ہوگا۔ لیکن خدا کے تصرف خاص نے آپ کے بعد ابوبکر کو ہی خلیفہ بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات پورے ہوئے ۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ اس قسم کے اشارات دینے کے باوجود کہ آپ کے بعد معاً یا کچھ وقفہ سے حضرت میاں صاحب کی خلافت ہوگی۔ پھر معاملہ خدا پر ہی چھوڑا اور خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق اپنے وقت پر حضرت میاں صاحب کی خلافت کو قائم کیا۔
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سوال حضرت والدہ صاحبہ سے کیا اس سے مراد حضرت والدہ صاحبہ کا امتحان تھا تو اس صورت میں بھی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے سمجھا ہے اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت میاں صاحب کی خلافت نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر کوئی منشاء ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ اس معاملہ کو خدا کے تصرف پر چھوڑنا چاہیئے اور اپنے حکم کے ذریعہ سے اس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ اور دراصل خدا پر چھوڑنے میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور وہ کام جو خدا کا منشاء ہوتا ہے وہ خود لوگوں کی رائے سے تصضیہ پاجائے۔ چنانچہ ایسے موقع پر خدا تعالیٰ لوگوں کے قلوب پر ایسا تصرف کرتا ہے کہ وہ اسی شخص کے حق میں رائے دیتے ہیں جو خدا کی نظر میں اس کا اہل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ گو بظاہر صورت لوگ خلیفہ کاانتخاب کرتے ہیں لیکن اس انتخاب کے وقت لوگوں کے قلوب خدا کے خاص تصرف کے ماتحت کام کررہے ہوتے ہیں۔ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے بھی خلفاء راشدین ہوئے ہیں ان سب کی خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش از وقت علم تھا۔ چنانچہ آپ کے اقوال میں صریح طور پر اس قسم کے اشارات موجود ہیں لیکن بایں ہمہ آپ نے اپنے حکم کے ذریعہ سے کسی کی خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ خدا پر اس معاملہ کو چھوڑ دیا۔ اور پھر خدا نے اپنے تصرف خاص سے ایسا انتظام فرمایا کہ لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ سے وہی لوگ مسند خلافت پر قائم ہوتے گئے جن کی کہ پیش از وقت اس نے اپنے رسول کو خبر دی تھی۔
پس خدا پر چھوڑنے کے یہی معنی ہیں کہ ہونا تو وہی ہے جو خدا کا منشاء ہے اور جس کی عموماً پیش ازوقت اس نے اپنے رسول کو خبردے دی ہوتی ہے۔ لیکن جس طرح خدا کے ہر امر میں ایک اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس معاملہ میں یہ اخفاء کا پردہ رکھا جاتا ہے کہ خدا خود پس پردہ رہ کر لوگوں کی رائے کے ذریعہ سے اپنے ارادہ کو پورا فرماتا ہے۔ اور یہی وہ خلافت کا راز ہے جسے ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں نے نہیں سمجھا اور فتنے کی رو میں بہہ گئے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر وہ گفتگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے والدہ صاحبہ کے ساتھ فرمائی اس سے مشورہ حاصل کرنا مقصود نہ تھا تو اس کی تین غرضیں عقلاً مانی جاسکتی ہیں۔
اولؔ یہ کہ حضرت صاحب کا یہ منشاء تھا کہ سلسلہ کلام شروع کرکے اپنے خیال کا اظہار فرمادیں جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارات فرمائے۔
دوسرےؔ یہ کہ آپ نے یہ گفتگو محض اس اردے سے کی تھی کہ والدہ صاحبہ کا خیال معلوم کریں کہ کیا ہے کیونکہ بعض اوقات محض دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک بات پوچھی جاتی ہے
اورتیسرےؔ یہ کہ آپ نے والدہ صاحبہ کے امتحان اور تعلیم کے لئے ایسا کیا تھا۔ تاکہ اگر وہ آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہیں کہ ہاں محمود کو مقرر کردیں توآپ ان کو اس حقیقت سے مطلع فرمائیں کہ گو واقعہ کے لحاظ سے محمود نے ہی اپنے وقت پر آپ کا خلیفہ بننا ہو۔ لیکن عام سنت اللہ کے مطابق اس سوال کو خدا کے تصرف پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ خود لوگوںکے انتخاب کے ذریعہ سے اپنے ارادے کو پورا فرمائے۔ مگر چونکہ حضرت والدہ صاحبہ کے جواب سے آپ سمجھ گئے کہ وہ اس نکتہ سے آگاہ ہیں اور جانتی ہیں کہ آپ نے وہی کرنا ہے جو خدا کا منشاء اور اس کی سنت ہے۔ اس لئے آپ مطمئن ہوکر خاموش ہوگئے۔ یہ تینوں صورتیں بالکل معقول اور حالات کے عین مطابق اور روایت کے اندرونی سیاق وسباق سے پوری موافقت رکھنے والی ہیں اور ان کو ترک کرکے ڈاکٹر صاحب کا دوسری فرضی باتوں میں پڑ جانا جن کو روایت کا سیاق وسباق اور دیگر حالات ہرگز برداشت نہیں کرتے صرف ڈاکٹر صاحب کی اس دلی مہربانی کا ایک کرشمہ ہے جو وہ ہمارے حال پر رکھتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسرا پہلو ا س روایت کا یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ گفتگو فرمائی تواس سے آپ کی غرض مشورہ طلب کرنا تھی یعنی آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت والدہ صاحبہ سے مشورہ حاصل کریں کہ اس معاملہ میں کیا کرنا مناسب ہے۔ سو اس صورت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گوروایت کے الفاظ اور دیگر حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی غرض کوئی باقاعدہ مشورہ حاصل کرنا نہ تھی لیکن اس بات کو امکانی طور پر تسلیم کرتے ہوئے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت صاحب نے مشورہ کے طریق پر ہی یہ گفتگو فرمائی ہو پھر بھی ہرگز اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ سراسر ظلم ہے کہ انہوں نے مشورہ کی حقیقت اور اس کی غرض وغایت کو سمجھنے کے بغیر یونہی ایک اعتراض جمادیا ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر صاحب کی یہ ایک سخت غلطی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مشورہ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ بہرصورت قبول کیا جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس مشورہ کے مطابق عملدرآمد کرے۔ یہ وہ خطرناک غلطی ہے جو ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کی اصل بنیاد ہے حالانکہ ہر وہ شخص جو قوانین تمدّن اور فن سیاسیات سے آشنا ہے بلکہ ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت غور وفکر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال سراسر غلط اور بودا ہے۔ مشورہ لینے والے کے لئے ہرگز ہرگز یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بہر صورت مشورہ کو قبول ہی کرے۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’شَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْر.6ِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ۔۳۶؎
یعنی اے نبی لوگوں کے ساتھ مشورہ کرلیا کرو۔ اور جب مشورہ کے بعد کسی بات پر عزم کرلو تو پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘
اس آیت میں یہ صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مشورہ کی پابندی ضروری نہیں اور مشورہ کے بعد مشورہ لینے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بات کے متعلق اسے اطمینان اور شرح صدر پیدا ہو اس پر قائم ہوجائے۔ سیاسیات میں بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی افسران کے ساتھ مشورہ دینے والی مجلسیں ہوتی ہیں۔لیکن ان افسروں کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر مفاد ملکی کے ماتحت ضروری خیال کریں تو اپنی ذمہ داری پر ان کے مشورہ کو ردّ کردیں۔ تمدنیات میں بھی دوست دوست بھائی بھائی باپ بیٹے خاوند بیوی وغیرہ کے باہم مشورہ ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن مشورہ لینے والا کبھی اس بات کا پابند نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بہرصورت مشورہ کو قبول کرے۔ بلکہ مشورہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف دماغوں کے غور وفکر کے نتیجہ میں بات کے تمام پہلو واضح ہوجائیں۔اور کسی امر کے حصول کے لئے جو مختلف تجاویز اختیار کی جاسکتی ہوں وہ سب سامنے آکر اس بات کے فیصلہ کا موقع ملے کہ ان میں سے کونسی تجویز اختیار کئے جانے کے قابل ہے۔ ایک اکیلا آدمی جب کسی بات کے متعلق سوچتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو بعض اوقات بات کا کوئی نہ کوئی پہلو اس کی نظر سے مخفی رہ جاتا ہے لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو مشورہ میں شریک کرتا ہے تو خواہ وہ لوگ اس سے لیاقت میں کم ہی کیوں نہ ہوں باہم مشورہ سے بات کے کئی مخفی پہلو سامنے آجاتے ہیں اور کئی باتیں جو اس کے ذہن میں نہیں آئی ہوتیں دوسروں کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اور اس طرح مشورہ لینے والے کو مختلف تجویزوں اور مختلف پہلوئوں کے درمیان ٹھنڈے دل سے موازنہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس مشورہ اس غرض کے لئے نہیں ہوتا کہ مشورہ لینے والا دوسروں کے ہاتھ میں اپنے معاملہ کو دے دیتا ہے کہ اب جس طرح کہو اسی طرح میں عمل کروں۔ بلکہ مشورہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ مختلف دماغوں کے کام میں لگنے سے معاملہ زیر غور کے متعلق حسن وقبح کے مختلف پہلو سامنے آجائیں اور پھر مشورہ لینے والا آسانی کے ساتھ موازنہ کرکے کسی ایک رائے پر قائم ہوسکے۔
مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے میری روایت کو کھول کر دیکھا جائے۔ اس میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت والدہ صاحبہ سے یہ دریافت کیا تھا کہ تمہارا اس معاملہ میںکیا خیال ہے اور بس۔ اب اس سے ڈاکٹر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے گویا خلافت کا سارا معاملہ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا صاف یہ ظاہر کررہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مشورہ لینے کے یہ معنی ہیں کہ مشورہ لینے والا مشورہ کا پابند ہوجاتا ہے واِلاّ اگر ان کا ایسا خیال نہ ہوتا تو وہ محض مشورہ طلب کرنے کا ذکر پڑھنے پر یہ واویلا نہ شروع کردیتے کہ دیکھو بیوی کے ہاتھ میں خلافت کا معاملہ دے دیا گیا ہے۔ خوب غور کرلو کہ محض مشورہ مانگنے کا ذکر پڑھنے پر ڈاکٹر صاحب کا یہ آہ وپکار کرنا کہ:-
’’ اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامور من اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعد جماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑادینے کو تیار تھا۔ حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ صاف ظاہر کررہا ہے کہ یا تو ان الفاظ کا لکھنے والا مشورہ کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہے اور یا ہماری عداوت میں اس کا دل ایسا سیاہ ہوچکا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ محض ایک غلط نتیجہ نکال کر اور میری طرف وہ بات منسوب کرکے جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی خلق خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ گفتگو مشورہ کی غرض سے ہی تھی تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ آپ نے اپنے ایک دلی مونس اور رفیق دیرینہ کی رائے معلوم کرنی چاہی تھی۔ تا کہ اگر وہ مفید ہو اور قابل قبول ہو تو آپ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ نہ یہ کہ آپ کا یہ منشاء تھا کہ بس جو کچھ بھی حضرت ام المومنین کے منہ سے نکلے اس کے آپ پابندہوجائیں گے اور اپنے فکروغور سے ہرگز کوئی کام نہیں لیں گے اور نہ ہی دعا او راستخارہ سے خدائے علیم وقدیر سے استعانت فرمائیںگے۔ یہ محض ایک جہالت کا استدلال ہے جس کی نہ معلوم ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ نے انہیں کس طرح اجازت دی ہے۔ اگر یہ مشورہ ہی تھا تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشورہ کے تمام لوازمات کو پورا فرمایا ہوگا۔ یعنی جہاں ایک طرف آپ نے مشورہ کیا تھا وہاں ساتھ ہی اپنے غور وفکر سے بھی کام لیا ہوگا۔ دعائیں بھی فرمائی ہوں گی اور استخارے بھی کئے ہوں گے۔ اور پھر وہی کیا ہوگا جس پر بالآخر آپ کو شرح صدر حاصل ہوا ہوگا۔ یعنی یہ کہ خلافت کے معاملہ کو خدا پر چھوڑدیا جائے۔ تاکہ وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق خود اپنے تصرّف خاص سے لوگوں کے قلوب کو اس شخص کی طرف پھیردے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر سوائے چند اشخاص کے ساری جماعت جمع ہوگئی۔ اور پھر ان کے بعد حضرت میاں صاحب کو خدا نے اس مقام کے لئے منتخب فرمایا اور جماعت کے قلوب کو ان کی طرف جھکا دیا اور سوائے ایک قلیل گروہ کے سب نے ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا۔ اور ہزاروں نے رؤیا اور کشوف اور الہام کے ذریعہ تحریک پاکر بیعت کی۔
الغرض خواہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کو مشورہ کے رنگ میں سمجھا جائے اور خواہ دوسرے رنگ میں خیال کیا جائے ہرگز کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اور مجھے سخت حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ضمیر نے کس طرح یہ اجازت دے دی کہ ایک صاف اور سادہ بات کو بگاڑ کر ایک ایسا نتیجہ نکالیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا اور کوئی عقل مند آدمی جس کی آنکھوں پر تعصّب اور عداوت کی پٹی بندھی ہوئی نہ ہو ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا۔ جو میں نے لکھے تھے۔ اور اس موقع پر میں اس افسوس کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس اعتراض میں حضرت والدہ صاحبہ کے ادب واحترام کو بھی کماحقہٗ ملحوظ نہیں رکھا۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ جس لب ولہجہ میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کیا ہے اس لب ولہجہ میں وہ کبھی اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
اس صورت میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حرم کا جسے خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اُم المومنین کے مقدس نام سے یاد کیا ہے، اس قدر احترام۔وادب نہ ہو جیسا کہ ان کو اپنی والدہ کا ہے۔ میں اس امر کے متعلق زیادہ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ ڈرتا ہوں کہ میرے متعلق ذاتیات کا الزام نہ قائم کردیا جائے مگر مجھے اس کا افسوس ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر غیرت مند احمدی کو اس کا افسوس ہونا چاہیئے۔٭
تیسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی سے پیش فرمائی ہے، وہ مولوی شیر علی صاحب کی ایک روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ چند لوگ جن میں خود مولوی صاحب بھی تھے اور غالباً مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے آپ کے مکان کے اندر گئے۔ اس وقت آپ نے چند خربوزے انہیں کھانے کے لئے دیئے۔اتفاق سے جو خربوزہ مولوی شیر علی صاحب کو دیا وہ بڑا اور موٹا تھا آپ نے یہ خربوزہ مولوی صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں یہ کیسا ہے پھر خود مسکراتے ہوئے فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ خربوزہ بھی پھیکا ہی ہوگا۔ چنانچہ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ خربوزہ پھیکا ہی نکلا۔
اس روایت کو نقل کرکے ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ایک عجیب خود ساختہ نتیجہ نکال کر بڑے فخریہ طور پر یہ اعتراض جمایا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’اس روایت میں خواجہ کمال الدین صاحب پرزدکرنی مقصود تھی۔ وہ موٹے تھے۔ اس لئے حضرت صاحب کی زبان سے ایک قاعدہ گھڑوایا گیا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ خواجہ صاحب منافق ہیں۔‘‘
میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں نے یہ روایت خواجہ صاحب پر زد کرنے کی غرض سے گھڑ کر بیان کی ہو تو میں اس *** سے بچ نہیں سکتا جو خدا کے ایک مامور ومرسل پر افترا باندھنے والے پر پڑتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی خدائے غیّور کے
٭:مطبوعہ الفضل ۳ ستمبر۱۹۲۶ء
سامنے ہیں۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ اس اعتراض میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے انتہائی بغض وعداوت سے کام لے کر مجھ پر یہ خطرناک الزام لگایا ہے کہ خواجہ صاحب پر زد لگانے کی نیت سے میں نے یہ روایت خود اپنی طرف سے گھڑکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کردی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے ظلم کی انتہا ہے مگر میں کچھ نہیں کہتا۔ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللَّہِ۳۷؎ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے لگادینے پر ہی بس نہیں کی بلکہ حسب عادت تمسخر اور استہزاء سے بھی کام لیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’جامع الروایات کو فکر پڑی کہ وہ خود بدولت بھی ایک حد تک موٹے ہیں۔ اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی موٹے تھے۔ میر ناصرنواب مرحوم موٹے تھے ایک زمانہ تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم موٹے تھے۔ میر محمد اسحاق موٹے۔ حافظ روشن علی موٹے۔ خود مولوی شیر علی راوی موٹے۔ اجی موٹوں کی تو ایک فہرست ہے جو گننے لگوں توخواہ نخواہ وقت ضائع ہو۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب وقت کی آپ فکر نہ فرمائیں آپ کا وقت ماشاء اللہ انہی باتوں کے لئے وقف ہے۔ اپنی طبیعت کے ان فطری بخارات کو ایک دفعہ دل کھول کر نکل جانے دیں۔ ورنہ یہ مادہ اگر یہاں دب گیا تو کہیں اور جا پھوٹے گا۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیںغلطی سے آپ کسی اپنے جیسے کو مخاطب کربیٹھے تو پھر خیر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اعتراض تو یہ ہے کہ میں نے یا مولوی شیر علی صاحب نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑلی ہے تاکہ خواجہ صاحب کو منافق ثابت کیا جائے۔ اس کا ایک جواب تو دے دیا گیا ہے۔ کہ اگر ہم نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑی ہے تو *** اللّٰہ علیٰ من افتریٰاور خواجہ صاحب کو منافق ثابت کرنے کے متعلق یہ جواب ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میری نیت ہرگز یہ نہ تھی کہ خواجہ صاحب یا کسی اور صاحب پر زد کی جائے۔ واللّٰہ علیٰ اقول شھید اور جب کہ خود ڈاکٹر صاحب بڑی مہربانی سے مجھے یہ بات یاددلاتے ہیں کہ میں خود ایک حدتک موٹاہوں تو پھر کون عقل مندیہ خیال کرسکتا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میرے دل میں کوئی ایسی نیت ہوسکتی ہے جو خود میرے ہی خلاف پڑتی ہو۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میرے دل میں خواجہ صاحب کی اس قدر عداوت بھری ہوئی ہے کہ میں ان کو منافق ثابت کرنے کے لئے خود اپنے ایمان پر بھی تبر رکھ سکتاہوں۔ میں نے تو صاف لکھ دیا تھا کہ درایتًہ حضرت صاحب کے اس قول سے یہ مراد نہیں ہوسکتا کہ موٹاپا اور منافقت لازم وملزوم ہیں۔ بلکہ مطلب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آرام طلبی وتعیش کے نتیجے میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو وہ عموماً ضرور ناقص الایمان ہوتا ہے۔ اب میرے اس نوٹ کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو فوراً خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر پڑجانا خواہ نخواہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی مثال یاد دلاتا ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ بقول ڈاکٹر صاحب یہ خاکسار جامع الروایات ایک حد تک موٹا اور مولوی شیرعلی صاحب راوی بھی موٹے لیکن ہم دونوں کو اس روایت کے بیان کرتے اور نقل کرتے ہوئے کوئی فکر دامنگیر نہیں ہوتا کہ لوگ ہمارے ایمانوں کے متعلق کیا کہیں گے۔ کیونکہ ہمیں تسلی ہے کہ ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں۔اور یہ کہ حضرت صاحب کے اس قول میں ہرگز کوئی عمومیت مقصود نہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا اس روایت کے پڑھتے ہی ماتھا ٹھنک جاتا ہے اور خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر دامنگیر ہونے لگتی ہے۔ بہرحال خواہ ڈاکٹر صاحب خواجہ صاحب کے ایمان کے متعلق کچھ ہی فتویٰ لگائیں مجھے اس روایت کے بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب کے ایمان پر زد کرنا مقصود نہ تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت سراسر بدظنی سے کام لے کر میری نیت پر ایک ناجائز حملہ کیا ہے۔
اس اعتراض کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اگر خواجہ صاحب پر زد کرنا مقصود نہیں تو پھر اس روایت کے بیان کرنے سے مطلب کیا تھا۔ اور کیوں ایسی لاتعلق بات داخل کرکے ناظرین کے وقت کو ضائع کیا گیا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہرگز لاتعلق نہیں اور ڈاکٹر صاحب چونکہ محبت کے کوچے سے ناآشناء اور سیرت کے اصول سے نابلد ہیں اس لئے ان کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہواہے۔ میں نے جہاں اپنے مضمون کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کے اصولی اعتراضات کا جواب دیا تھا وہاں یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ کے مفہوم کے متعلق سخت دھوکا لگا ہے اور انہوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ سیرۃ سے مرادیا تو زندگی کے بڑے بڑے واقعات ہیں اور یا ایسی خاص باتیں ہیں کہ جن سے اہم اخلاق وعادات کے متعلق بلاواسطہ روشنی پڑتی ہو۔ حالانکہ یہ درست نہیں اور سیرت کے مفہوم کو ایک بہت بڑی وسعت حاصل ہے جس میں علاوہ زندگی کے تمام قابل ذکر واقعات کے روزمرہ کی ایسی ایسی باتیں جن سے اخلاق وعادات کے متعلق کسی نہ کسی طرح استدلال ہوسکتا ہو۔ اور صاحب سیرت کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے سونے جاگنے چلنے پھرنے کام کاج کرنے دوستوں سے ملنے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات رکھنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے وغیرہ کے متعلق ہر قسم کی باتیں شامل ہیں۔ بلکہ فلسفہ اخلاق کے ماہرین جانتے ہیں کہ اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کرنے کے لئے زیادہ اہم واقعات کو چننا غلطی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر انسان عموماً تکلف وتصنع سے کام لیتا ہے اور اس کی اصل طبیعت وعادات پردہ کے پیچھے مستور رہتی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہیں بسا اوقات ایک ناواقف آدمی قابل ذکر بھی نہیں سمجھتا وہی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان سے اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کیا جاوے کیونکہ ان میں انسان کے اخلاق وعادات کی تصویر ہر قسم کے تصنع وتکلف کے لباس سے عریاں ہوکر اپنی ننگی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ مثال کے طورپر دیکھ لیجئے کہ اگر ایک باقاعدہ جلسہ ہو اور اس میں اپنے اور بیگانے ہر قسم کے لوگ جمع ہوں تو اس کے اندر ایک لغو اور بیہودہ شخص بھی حتی الوسع سنبھل کر بیٹھے گا اوراپنی ہرحرکت وسکون میں خاص احتیاط سے کام لے گا تاکہ اس کے متعلق لوگ کوئی بُری رائے نہ قائم کریںلیکن وہی شخص جب اپنے گھر میں ہوگا اور اپنے واقفوں اور ملنے والوں میں بیٹھے گا تو پھر تمام تکلفات سے جدا ہوکر اس کے اخلاق وعادات کی ننگی تصویر ظاہر ہونے لگے گی۔ پس اخلاق وعادات کے استدلال کے لئے روزمرہ کی نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کو چننا چاہیئے نہ کہ خاص خاص موقعوں کی اہم باتوں کو۔ اسی لئے جو لوگ فن سیرۃ میں ماہر گذرے ہیں انہوں نے ایسی ایسی چھوٹی اور بظاہر ناقابل ذکر باتوں کو لیا ہے کہ ناواقف آدمی کو حیرت ہوتی ہے مگر دانا جانتاہے کہ یہی صحیح رستہ ہے۔
اب اس اصل کے ماتحت دیکھا جائے تو کوئی عقل مند میری اس روایت کو لاتعلق یا ناقابل ذکر نہیں کہہ سکتا۔ میری روایت کیا ہے؟ یہی نا کہ چند احباب اپنی روزمرہ کی ملاقات کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور حضرت چونکہ کسی وجہ سے باہر تشریف نہیں لاسکتے ان کو اپنے پاس گھر کے اندر ہی بلا لیتے ہیں۔ اور پھر کچھ خربوزے ان کے سامنے کھانے کے لئے رکھتے ہیں۔ بلکہ دوستانہ بے تکلفی کے طریق پر ایک ایک کے ہاتھ میں الگ الگ خربوزہ دیتے ہیں۔ اور دیتے ہوئے مسکرا کر کچھ ریمارک بھی فرماتے جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف رکھتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ بتائیں کہ کیا یہ ایک لاتعلق روایت ہے؟ کیا اس روایت سے حضرت صاحب کی مجلس کا طریق اور آپ کا اپنے خدام کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور ان سے محبت وبے تکلفی کی باتیں کرنے کا طریق ظاہر نہیں ہوتا؟ کیا اس روایت سے آپ کے اخلاق وعادات کی سادگی اور بے تکلفی پر کوئی روشنی نہیں پڑتی؟ ان سوالات کے جواب کے لیئے مجھے کسی ثالث کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا اپنا نورضمیر اگر وہ بجھ کر مٹ نہیں چکا اس ثالثی کے لئے کافی ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا ۔ ع
اگر درخانہ کس است حرفے بس است
باقی رہا محبت کا میدان سو اس کے متعلق کیا عرض کروں اور پھر کروں بھی تو کس سے کروں؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس کوچے کے محرم نہیں۔ ان کے مضمون سے مجھے خشک نیچریت کی بو آتی ہے۔ ہاں اگر ڈاکٹر صاحب محبت کے ذوق سے شناسا ہوتے تو میں عرض کرتا کہ ذرا احادیث نبوی کو کھول کر مطالعہ فرمائیں کس طرح صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول وفعل ہرحرکت و سکون کو عشق ومحبت کے الفاظ میں ملبوس کرکے بعد میں آنے والوں کے لئے جمع کردیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی موقع پر صحابہ کے سامنے کھانا کھاتے ہیں۔ اور گوشت میں کدو پک کر سامنے آتا ہے اور آپ کدو کے ٹکڑے شوق سے نکال نکال کر تناول فرماتے ہیں۔ صحابہ کے لئے اس نظارہ میں بھی عشق ومحبت کی غذا ہے وہ جھٹ احادیث نبوی کے مجموعہ میں اس روایت کو داخل کرکے اس محبت کی دعوت میں ہمیں بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔
اس قسم کی روایتیں احادیث نبوی میںایک دو نہیں دس بیس نہیں پچاس ساٹھ نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں۔ اور اہل دل اس سے محبت وعشق کی غذا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن میں اگراس قسم کی کوئی روایت اپنے مجموعہ میں درج کردیتا ہوں تو مجرم سمجھا جاتا ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب میرے اس ناقابل معافی جرم کو پبلک کی عدالت کے سامنے لاکر مجھے ذلت وبدنامی کی سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ اچھا یونہی سہی۔ ع
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
ایک اعتراض اور دراصل اس روایت کے متعلق سارے اعتراضوں میں سے اکیلا سنجیدہ اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ یہ بات حضرت صاحب کے طریق واخلاق کے خلاف ہے کہ آپ نے ایک ایسی مجلس میں جس میں ایک موٹا آدمی بھی بیٹھا ہو، ا س قسم کے الفاظ فرمائے ہوں کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اعتراض ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی حضرت صاحب کا طریق ہرگز ایسا نہ تھا کہ مجلس میں اس قسم کی کوئی بات کریں کہ جو کسی کا دل دکھانے والی ہو یا جس میں صریح طور پر کوئی شخص اپنے متعلق اشارہ سمجھے مگر ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ موجودہ روایت کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے اس طریق کی رو سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو روایت کے الفاظ میں اس مجلس کے اندر خواجہ کمال الدین صاحب کی موجودگی کو ’’غالباً‘‘کے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔جس کے یہ معنی ہیں کہ راوی کو خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے کے متعلق یقین نہیںہے بلکہ شک ہے اور کوئی عقل مند ایک غیر یقینی بات پر اپنے اعتراض کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس لفظ کو بالکل نظر انداز کر کے ایسے طور پر اعتراض پیش کیا ہے کہ گویا راوی کے نزدیک خواجہ صاحب کا اس مجلس میں موجود ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ خواجہ صاحب وہاں موجود نہ ہوں۔
بہرحال جبکہ روایت کی روسے خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے اور نہ ہونے ہر دو کا احتمال موجود ہے تو ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کسی عقل مند کے نزدیک قابل توجہ نہیں سمجھا جاسکتا۔دوسرےؔ یہ کہ غالباً ڈاکٹر صاحب بھول گئے ہیں کہ خواجہ صاحب موصوف ہمیشہ سے اسی طرح کے موٹے اور فربہ نہیں چلے آئے بلکہ اوائل کے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ شروع میں خواجہ صاحب ایک درمیانے جسم کے آدمی تھے۔ چنانچہ غالباً خود خواجہ صاحب اس امر کی شہادت دے سکیں گے کہ ان کے والد صاحب مرحوم یعنی جناب خواجہ عزیزالدین صاحب کبھی کبھی ہنستے ہوئے پدرانہ آزادی کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’خواجہ پشاورکے سنڈوں کا گوشت کھاکھا کر خود بھی سنڈا ہوگیا ہے۔‘‘ جس سے ظاہر ہے کہ وکالت کے لئے پشاور جانے سے قبل اور نیز پشاور کے ابتدائی ایام میں خواجہ صاحب اس تن و توش کے آدمی نہ تھے۔ الغرض جناب خواجہ صاحب ہمیشہ سے ہی اس فربہی کے مالک نہیں رہے۔ اور اس لئے بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو روایت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کی ہے وہ اس زمانہ کی ہو جب کہ خواجہ صاحب زیادہ موٹے آدمیوں میں شمارنہ ہوتے ہوں۔ جیساکہ خود ہمارے محترم راوی صاحب بھی ان دنوں میں جسم کے ہلکے ہوتے تھے۔ مگر بعد میں جسم بھاری ہوگیا۔ تیسراؔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ آپ مجلس میں کوئی ایسا ریمارک نہیں فرماتے تھے کہ جو کسی کا دل دکھانے والا ہو لیکن جس قسم کی مجلس کا روایت کے اندر ذکر ہے وہ ایک ایسے لوگوں کی مجلس تھی جو عموماً حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ اور آپ کے طریق واخلاق وعادات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور حضرت صاحب بھی ان کے ساتھ بہت بے تکلفی کے ساتھ ملتے اور گفتگو فرماتے تھے اور یہ لوگ ویسے بھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھے۔
پس ایسی مجلس کے اندر حضرت صاحب نے اگر وہ الفاظ فرمادیئے ہوں کہ جن کا روایت میں ذکر آتا ہے تو ہرگز قابل تعجب نہیں۔ کیونکہ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ یہ لوگ میرے صحبت یافتہ اور میرے طرزوطریق سے واقف اور فہمیدہ لوگ ہیں اس لئے وہ میرے الفاظ سے کوئی ایسا مفہوم نہیں نکالیں گے کہ جو غلط ہو اور میرے طریق کے خلاف ہو۔ چنانچہ اس وقت کے حاضرین مجلس میں سے کسی کو اس طرف خیال تک نہیں گیا کہ حضرت صاحب نے نعوذباللہ کوئی دل آزار بات کہی ہے۔ بلکہ سب یہی سمجھے کہ آپ کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ محض بدن کا موٹا ہونا منافقت کی علامت ہے خواہ وہ کسی وجہ سے ہو۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ آرام طلبی اور تعیش وغیرہ کے نتیجہ میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو اس کے ایمان میں نفاق کی ضرور آمیزش ہے اور چونکہ اس وقت سب حاضرین اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھتے ہوں گے کہ اگر ہم میں سے کوئی موٹا بھی ہے تو وہ تعیش کے نتیجہ میں موٹا نہیں ہوا۔ اس لئے کسی کے دل میں حضرت صاحب کی یہ بات نہیں کھٹکی۔
ڈاکٹر صاحب ضد کی وجہ سے انکار کردیں تو الگ بات ہے ورنہ یقینا وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ بسااوقات ایک لفظ مطلق استعمال کیا جاتا ہے لیکن دراصل وہ مقید ہوتا ہے اور بعض غیر مذکور شرائط کے ماتحت اس کے وسیع معنی مقصود نہیں ہوتے او راس بات کا پتہ قرائن سے چلتا ہے کہ یہاں یہ لفظ اپنے کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن شریف وحدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
چنانچہ اگر ڈاکٹر صاحب اصول فقہ کی کوئی کتاب مطالعہ فرمائیں تو ان کو میرے اس بیان کی تصدیق مل جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر راوی کے شک کو نظر انداز کرتے ہوئے یہی مان لیا جائے کہ خواجہ صاحب اس مجلس میں ضرور موجود تھے اور پھر واقعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ وہ اس وقت بھی موٹے تھے تو پھر بھی اس روایت کے ماننے سے کوئی حرج لازم نہیں آتا۔ کیونکہ اس وقت حضرت صاحب کے سامنے وہ لوگ تھے جو روز کے ملنے والے تھے اور آپ کے طریق وعادات سے خوب واقف تھے اور حضرت صاحب کو بھی یہ حسن ظنی تھی کہ وہ واقف حال اور فہمیدہ لوگ ہیں۔ عام حالات میں میرے الفاظ سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالیں گے۔ پس ایسے لوگوں کے سامنے اگر حضرت صاحب نے آزادی سے وہ الفاظ فرمادیئے ہوں تو ہرگز قابل اعتراض نہیں۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ اس جگہ منافق سے مراد وہ منافق نہیں ہے جو دل میں تو کافر ہوتا ہے لیکن کسی وجہ سے ظاہر اپنے آپ کو مومن کرتا ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو دل میں بھی جھوٹا نہیں جانتا۔ لیکن اس کا ایمان اس درجہ ناقص ہوتا ہے کہ اس کے اعمال پر کوئی اثر نہیں کرسکتا۔ اور نہ غیروں کی محبت اس کے دل سے نکال سکتا ہے۔ دراصل قرآن شریف وحدیث سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کئی قسم کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کی حالت کو بھی حالت نفاق سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو ویسے تو دل سے ہی ایمان لاتا ہے اور اپنا ایمان ظاہر بھی کرتا ہے لیکن اس کا ایمان ایسا کمزور ہوتا ہے کہ اس کے اعمال وعادات عموماً غیرمومنانہ رہتے ہیں اور اس کا دل بھی غیروں کے تعلقات سے آزاد نہیں ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںایسے لوگ منافق سمجھے جاتے تھے لیکن موجودہ زمانہ میں چونکہ ایمان کا معیار بہت گرا ہوا ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو مومنین کی جماعت میں شمار کرلیا جاتا ہے اور منافق صرف اس شخص کا نام رکھا جاتا ہے کہ جو دل میں تو کافر ہو مگر ظاہر اپنے آپ کو مومن کرے۔
بہرحال جیسا کہ قرائن سے پتہ لگتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جو منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے ایسا شخص مراد ہے کہ جس کا ایمان اس کے اعمال پر اثر پیدا نہ کرسکے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو شعار اسلام کو ترک کرکے آرام طلبی اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے فربہ ہوتا جاتا ہو اس کا ایمان ضرور اس موخرالذکر قسم میں داخل سمجھا جاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم ولاعلم لنا الاما علمتنا۔٭
٭:مطبوعہ الفضل ۳ستمبر۱۹۲۶ء
حوالہ جات
۱۹۲۲ء
۱۔ البقرہ:۱۱۴
۲۔ المائدہ:۹
۳۔ البقرہ:۲۲۰
۴۔ مطبوعہ البدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۴ء
۵۔ سیرت المہدی صفحہ ۱
۶۔ سیرت المہدی صفحہ الف
۷۔ سیرت المہدی صفحہ ج
۸۔ سیرت المہدی پروف صفحہ ۱
۹۔کنزالعمال جلد ۱ الفصل الثانی فی فضائل امسور والآیات والبسملۃ۔
۱۰۔ سنن ابودائود۔ کتاب الجہاد۔ باب علی ما یقاتل المشرکون
۱۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث النبیؐ اسامۃ بن زید الی الحرقات من جھینۃ۔
۱۲۔ مفہوماً۔ صحیح البخاری۔ کتاب اللباس۔
۱۳۔ صحیح البخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب مایکرہ من النوم قبل العشائ۔
۱۴۔ صحیح المسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل عبداللہ بن عباسؓ
۱۵۔ الجاثیہ:۱۴
۱۶۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۷۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۸۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۵۳
۱۹۔ صحیح البخاری۔ کتاب الاذان۔ باب یستقبل الامام النَّاسَ اِذااسلم۔
۲۰۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب ھدایۃ ھٰذہٖ الامۃ لیومِ الجمعۃ۔
۲۱۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب فضل یوم الجمعۃ۔
۲۲۔ النحل:۴۹
۲۳۔ حٰمٓ السجدہ:۱۳
۲۴۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲ حاشیہ
۲۵۔ ملخص ؍؍ ؍؍ ؍؍ صفحہ ۲۸۰ حاشیہ
۲۶۔ الجاثیۃ : ۱۴
۲۷۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۸۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۹۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۴
۳۰۔ الاعراف:۱۵۷
۳۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللّٰہِ تعالٰی بل ھو قرآن مجید فی لوحٍ محفوظٍ۔
۳۲۔لسان العرب جلد زیرِ لفظ حَمَر.6َ
۳۳۔ تذکرہ صفحہ۳۵۷،۳۷۸،۳۹۳۔ طبع ۲۰۰۴ء
۳۴۔ مفہوماً۔ اسد الغابہ۔ جلد ۶۔ باب عائشہ بنت ابوبکر.6ؓ صفحہ۱۹۴۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ جلد ۴۔ باب النساء وَکناھُنَّ۔ صفحہ۴۳۷
۳۵۔ الشعرآئ:۲۲۸
۳۶۔ اٰل عمران:۱۶۰
۳۷۔ یوسف:۸۷
۱۹۲۷ء
برکات رمضان سے فائدہ اٹھائو
رمضان کا مہینہ کئی وجوہات سے ایک نہایت مبارک مہینہ ہے اور اس مہینہ میں سے خصوصا آخری عشرہ کے دن بہت برکت والے دن سمجھے گئے ہیں۔ احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور صدقہ وخیرات اور ذکر الٰہی اور اصلاح نفس کی طرف ایسے شوق وذوق کے ساتھ متوجہ ہوں کہ ان کی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہوجائے۔ اگررمضان کا مہینہ آئے اور بغیر ہمارے اندر کوئی انقلاب پیدا کرنے کے گذرجائے اور ہم جیسا کہ اس مبارک مہینہ سے قبل تھے ویسے ہی بعد میں رہیں تو ہم سے بڑھ کر زیادہ خسارہ میں اور کون ہوگا۔ پس دعائوں سے اور مجاہدہ سے اپنے قدم کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیئے اور خدا کے ان فضلوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیئے جو ان ایام میں اس کے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتے ہیں۔ اس دفع خدا کے فضل سے رمضان کی ستائیس تاریخ کو جمعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ جمع ہوجائیں تو وہ وقت بہت ہی مُبارک ہوتا ہے۔ پس ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھائو لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ باتیں منترجنتر کے طور پر نہیں ہیں کہ انسان خواہ اپنے اعمال اور خیالات میں کیسا ہی رہے کوئی خاص گھڑی اسے کامیاب کرسکتی ہے۔ بعض وقتوں میں بے شک خاص برکات کا نزول ہوتا ہے لیکن ان برکات سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اپنے اندر تغیر پیدا کرکے اپنے آپ کو ان فضلوں کا اہل بناتا ہے۔ کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ بارش اللہ تعالیٰ کا ایک خاص مادی فضل ہے لیکن جس زمین میں تخم گندہ ہوتا ہے اس کی روئیدگی بھی بارش کے بعد گند ی ہی ہوتی ہے۔ پس اپنے نفسوںکا محاسبہ کرکے دعا اور ذکر الٰہی مجاہدہ اور صدقہ وخیرات سے اپنے اندر ایک تغیر پیداکرو اور پھر یہ مُبارک گھڑیاں سونے پر سہاگہ کا کام دیں گی اور احباب کو چاہیئے کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح کے لئے دعائیں کریں اور ہر دعا کو حمد باری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے کے ساتھ شروع کریں اور اپنی دعائوں میں ایک زندگی پیدا کریں تاکہ وہ قبولیت کے مقام کو پہنچ سکیں اور میں اسلام اور احمدیت کی مقدس اخوت کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جن دو احمدیوں کے دلوں میں باہمی کدورت ہو یا جس جماعت کے افراد میں کوئی جھگڑا یا تنازعہ رُونما ہو وہ ان مبارک دنوں میں اپنے سینوں اور دلوں کو ایک دوسرے کی طرف سے صاف کرلیں اور صلح جوئی کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ کر سرعت کے ساتھ قدم اٹھائیں تاکہ پیشتر اس کے کہ خدا کے یہ مقدس دن ختم ہوکر عید کا چاند ہم پر طلوع ہو ہمارے سینے ہر قسم کی کدورتوں سے صاف ہوکر ایک دوسرے کی محبت سے معمور ہوجائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آسمان پر سے ہمیں دیکھ کر سرور حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
(مطبوعہ الفضل یکم اپریل ۱۹۲۷ئ)
نظارت تعلیم وتربیت کا ایک ضروری اعلان
مجلس مشاورت قریب آگئی ہے جس میں حسب دستور سابق ہر نظارت کی طرف سے مشورہ کے لئے ضروری امور پیش کئے جائیں گے۔ میں احباب سے اس بات میں مشورہ چاہتا ہوں خصوصاً سیکرٹریان تعلیم وتربیت سے کہ اس مشاورت میں جماعت کی تعلیم وتربیت کے متعلق کون سے امور پیش کئے جائیں۔ ایسے امور تجویز ہونے چاہئیں جو اصولی ہوں اور جماعت کی موجودہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے ان کی طرف توجہ کیا جانا ضروری ہو۔ احباب کی طرف سے مشورہ آنے پر میں نظارت تعلیم وتربیت کا ایجنڈا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کروں گا۔ چونکہ وقت بہت تنگ ہے جواب جلد آنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور تحریر کئے جاتے ہیں۔
(۱) بعض کمزور احمدی جو غیر احمدیوں کو رشتہ دے دیتے ہیں ان کی روک تھام کس طرح کی جانی مناسب ہے اور جو شخص باوجود کوشش کے باز نہ آئے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔
(۲) جو کمزور لوگ احمدیوں میں سے شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو ظاہری شعار سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً ڈاڑھی کا رکھنا، ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیئے اور کس حد تک حجت پوری ہونے کے بعد۔
(۳) کیا تبلیغی وفود کی طرح تعلیم وتربیت کے وفود کو ملک میں دورہ کے لئے بھیجنا مناسب ہے اگر مناسب ہے تو ان وفود کا کس طریق پر اور کس موسم میں انتظام کیا جانا مناسب ہوگا۔
(۴) بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان وبورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان اور احمدیہ ہوسٹل لاہور میں جب احمدی بچوں کا بقایا ہوجاتا ہے اور والدین باوجود تقاضوں کے بقایا ادا نہیں کرتے، ان کے ساتھ کیا طریق اختیار کیا جانا چاہیئے۔
(۵) وظائف تعلیمی جو نظارت تعلیم کی طرف سے دیئے جاتے ہیں ان کی تقسیم کے متعلق کیا اصول ہونا چاہیئے اور نیز جو طلباء بغیر اس کے کہ پہلے اپنے وظیفہ کی منظوری حاصل کریں، قادیان آجائیں اور یہاں اُس وقت گنجائش نہ ہو یا دوسرے زیادہ حقدار موجود ہوں تو ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے وغیرہ ذالک۔
(۶) جماعت میں پرائمری تعلیم کو عام کرنے کے لئے حتّٰی کہ کوئی احمدی ناخواندہ نہ رہے کیا تجویز کی جانی چاہیں۔
(مطبوعہ الفضل۸ اپریل ۱۹۲۷ئ)
سود کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کافیصلہ
مسلمان تجّارکی مشکلات کا حل
یوں تو بعض صورتوں میں سودی روپے کے اشاعت اسلام میں خرچ کئے جانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ فتاویٰ احمدیہ میں شائع ہوچکاہے اور اکثر احباب اس سے آگاہ ہوں گے لیکن حال میںہی حضرت اقدس کا ایک خط میاں غلام نبی صاحب سیٹھی مہاجر سے ملا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۸ء میں سیٹھی صاحب کو اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔ جبکہ وہ راولپنڈی میں تجارت کا کام کرتے تھے۔ اس خط سے چونکہ سود کے مسئلے کے متعلق بعض نئے پہلوئوں سے روشنی پڑتی ہے اور مسلمان تجار کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اس لئے احباب کی اطلاع کے لئے یہ خط شائع کیا جاتا ہے ۔ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:-
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ‘ونصلی علٰے رسولہ الکریم
مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوفِ الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کردے گا۔ اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریںبلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے، وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سُود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیّال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے۔ لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرّہ ذاتی نفع کے خداتعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے۔ یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے، جو چیز اُس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے ۔ بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو، وہ خداتعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوںکے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم اُن سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسِلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کواللہ تعالیٰ دیکھتاہے وہ جزا دے گا۔ ہاں ماسوااِس کے دُعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار: مرزا غلام احمدازقادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’سُود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے۔یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سُود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیاہے)خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے ۔کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اس خط سے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں:
نمبر(۱) سودی آمد کا روپیہ سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑجاوے تو اس کے واسطہ یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے۔ مسلمان تاجر جو آج کل گردوپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سُود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کرسکتے ہیں۔
نمبر(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپیہ سے الگ حساب رکھ کر جمع کرنا چاہیئے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اُس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے۔
نمبر(۳) سُود کاروپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اُسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے۔
نمبر(۴) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہوسکتا ہے۔ جن میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع واشاعت لٹریچرمصارف ڈاک وغیرہ ذالک۔
نمبر(۵) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جاسکتے ہیں جس کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضامندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں۔ یعنی ان کے حصُول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کانہ ہو۔ جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتاہے۔
نمبر(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوے کی مویدّ ہے۔
نمبر(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص اپنے آپ عمداً سُود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپیہ کا وارث بن جاوے۔
نمبر(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سُودکے لین دین کا قائم ہوگیاہے۔ اور جس کی وجہ سے فی زمانہ بغیرسودی لین دین میں پڑنے کے تجارت نہیں کی جا سکتی۔ وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینامذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا۔ کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کوجو ایک تاجر تھے اور اسی قِسم کے حالات اُن کو پیش آتے تھے، اس فتوے کے اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے۔ گویا حضرت صاحب کامنشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو غرض رعایت بنا کر کاروبار نہ کرے لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردوپیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے۔ تو اس میں مضائقِہ نہیں اور اسی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ سُود میں ملوث ہونے کے اندیشہ سے مسلمان تجارت چھوڑدیں۔ یا اپنے کاروبار کو معمولی دوکانوں تک محدود رکھیں۔ جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی۔ اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کرلیں۔
نمبر(۹) اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کو سود کے لئے بنک بھی جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں اگر مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے ۔ تو بشر طیکہ مذکورہ بالا حرج نہیں۔
نمبر(۱۰) جو شخص اس فتوے کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے۔ اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔
نمبر(۱۱) ایک اصولی بات اس خط میں موجود ہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے۔ اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایاہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کرلینی کافی ہے کہ آنکھیں کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے یہ نہیںکہ ان کے سامنے بالکل نہ آئے کیونکہ بعض صورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیئے کہ خدا سے دُعا کرتا رہے کہ وہ اُسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا تھاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے جو غیر محرم ہوتی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں۔اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کرتا تھاکہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں۔لیکن بڑے ہوکر سمجھ آئی کہ وہ دراصل اسی حکمت سے تھا۔
ایک بات حضرت صاحب کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ نازک وقت جو اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میںسب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے۔اس اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے دستخط کے صرف۔غ۔ کا حرف درج فرمایا۔جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں۔
(مطبوعہ الفضل یکم نومبر۱۹۲۷ئ)
شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو
گذشتہ مجلس مشاورت جو اپریل ۱۹۲۷ء میں قادیان میں منعقد ہوئی تھی۔اس میں ایک امر نظارتِ تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ بھی پیش ہوا تھا کہ جو احمدی کہلانے والے لوگ شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو انسان کے ظاہری شعار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیںمثلاًڈاڑھی کارکھنا غیرہ ذٰلک۔ ان کے متعلق کیا طریق اختیارکیاجائے۔ یعنی اگروہ باوجودباربارکی پندونصیحت کے ڈاڑھی نہ رکھیںتوآیاان کے متعلق کوئی سرزنش کا پہلو اختیار کرنا مناسب ہوگا یانہیں اور اگر مناسب ہوگا توکیا۔ اس کے متعلق مجلسِ مشاورت نے بعض تجاویزپیش کیں جنہیںحضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے منظورفرمایااورجوانہی دنوںمیںالفضل میںشائع کردی گئی تھیںمگران تجاویزکے منظور فرمانے کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ بھی ارشادفرمایاتھاکے اس مسئلہ کے متعلق نظارت تعلیم وتربیت کوچاہیئے کہ مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت میں یہ احساس پیداکرے کہ وہ اپنی ظاہری صورتوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء مبارک کے مطابق بنائیںاور شریعت کے کسی حکم کو بھی چھوٹاسمجھ کرنہ ٹالیں بلکہ سب کی پابندی اختیار کریں تاکہ اعلیٰ درجہ کے مومنین میںان کا شمارہواور خداکی نعمت کاکوئی دروازہ بھی ایسانہ رہے جو ان پر بندہو۔ سو اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے خاکسار اپنے احباب کے سامنے یہ چند سطور پیش کرتا ہے اور امید رکھتاہے کہ وہ میری اس عرضداشت کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کردیں گے کہ اطاعت رسول کے لئے ان کے اندر ایک ایسا شوق اور ولولہ موجود ہے کہ اس علم کے ہونے بعد کہ کوئی ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے، دنیا کی کوئی روک جسے شریعت روک نہیں قراردیتی ان کو اس کی تعمیل سے باز نہیںرکھ سکتی۔
سب سے پہلے جو بات میں عر ض کرنا چاہتاہوں۔ وہ ایک اصولی بات ہے اور وہ یہ کہ بیشک شریعت کے احکام میں تفاوت ہے اور کوئی عقلمند ان میں مدارج کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور ڈاڑھی کا رکھنا یقینا ان اصولی باتوں میں سے نہیں ہے جن پر انسان کی روحانی زندگی کا بلاواسطہ دارومدار ہے لیکن بایں ہمہ اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا۔ دراصل چونکہ شریعت کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہر جہت سے انسان کو کامل بنائے اور تمام ان امور کی طرف توجہ کرے جو با لواسطہ یا بلاواسطہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر اثرپیدا کرتی ہیں۔ اس لئے خداوند تعالیٰ نے شریعت میں صرف اصولی باتوں کو ہی داخل نہیںفرمایا بلکہ بعض فروعی امور میں بھی ہدایت جاری کی ہیں اور یہ سب انسان کی روحانی حیات کے لئے کم وبیش ضروری ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف ان باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے احترازکیا ہے، جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی سے اس قدردُور کا تعلق رکھتی تھیں کہ ان میں دخل انداز ہونا فائدہ کی نسبت نقصان کے زیادہ احتمالات رکھتا تھا۔ یا جن کے متعلق انسان اپنے ظاہری علوم کی بناء پر خود طریق ثواب اختیارکر سکتا تھا اور اس لئے ان کے متعلق احکام جاری کرنا بے فائدہ قیود کا پیدا کرنا تھا۔
دراصل جیسا کہ عیسائیت بیان کرتی ہے (گو وہ اس معاملہ میںحد اعتدال سے بہت تجاوز کر گئی ہے)شریعت کے احکام کے متعلق ایک پہلو نقصان کا بھی ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کے توڑنے سے انسان مجرم اور گنہگار بن جاتا ہے اور اسی لئے اسلام نے نہایت حکیمانہ طور پر اس معاملہ میں اعتدال کے طریق کو اختیار کیا ہے اور شرعی احکام صرف اس حد تک جاری کئے ہیںکہ جس حد تک بالکل ضروری اور لابدی تھے اور باقی امور میں انسان کو اس کی عقلِ خداداد اور شریعت کے اصولی قیاس پر چھوڑدیا ہے تاکہ وہ خود اپنے لئے اپنا راستہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں شریعت کو ایک رحمت قراردیا ہے اور دوسری طرف اسی قرآن میںخود فرمایا ہے کہ زیادہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسئلے نہ پوچھا کرو تاکہ تمہارے لئے تفصیلی احکام نازل ہوکر تنگی کا موجب نہ بنیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شریعت سراسر رحمت ہی رحمت ہے تو پھر اس روک کے کیا معنی ہیں؟ کیا نعوذباللہ خدا اس رحمت کے دائرہ کو ہم پر تنگ کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں شریعت کے احکام کے نزول کے محرک بننے سے روک دیا ہے؟ اس ظاہری تضاد کا یہی حل ہے کہ شریعت بیشک ایک رحمت ہے لیکن شریعت کے ساتھ ایک پہلو عذاب کا بھی ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کو توڑنا خدا کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور اگر بعض تفصیلی امور جو طریق بودوباش اور تمدن وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں شریعت دخل انداز ہو تو یہ عذاب کا پہلو رحمت کے پہلو سے غالب ہوجاتا ہے یعنی ان کے ماننے میں فائدہ کا پہلو اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا ان کے نہ ماننے میں (اگر وہ شریعت کا حصہ بن جائیں) نقصان کا پہلو غالب ہوتا ہے اور اسی لئے جب شریعت ان تفصیلات کی حد کو پہنچتی ہے تو کمال حکمت سے وہ آگے جانے سے رک جاتی ہے اور لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اپنی عقلِ خداداد اور شریعت کے قیاس کے ماتحت خود اپنے واسطے ان تفصیلات میں طریقِ عمل قائم کریں۔
اس جگہ اس بات کا بیان بھی ضروری ہے کہ درحقیقت کسی شرعی حکم کے توڑنے میں دو قسم کا نقصان اور اس کے مان لینے میں دو قسم کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یا نقصان تو یہ ہے کہ چونکہ ہر شرعی حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے اندر بعض طبعی خواص رکھتا ہے اس لئے اس کا مان لینا وہ نیک اثرات پیدا کرتا ہے جواس کا طبعی نتیجہ ہیں اور اسی طرح اس کانہ ماننا وہ بد اثرات پیدا کرتاہے جو طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں اور دوسرا فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ چونکہ خدا کا یہ حکم ہے کہ شریعت کی پابندی اختیار کی جائے۔ اس لئے کسی شرعی حکم کا مان لینا قطع نظر اس کے فائدہ کے خدا کی رضا کا موجب اور اس کا نہ ماننا قطع نظر اس کے نقصان کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ایسے تفصیلی امور کو شریعت کا حصہ بنانے سے احتراز فرمایاہے۔ جن کے اختیار کرنے میں کوئی بڑے فوائد مترتب نہیں ہو سکتے مگر ان کے ترک کرنے میں خدا کی ناراضگی کاپہلو ضرور موجود ہے تاکہ کمزور لوگ ان امور میں نافرمانی کرکے خدا کی ناراضگی کانشانہ نہ بنیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ شریعت نے صرف انہی امور میںدخل دیا ہے جن میں دخل دینا انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کیلئے ضروری اور لابدی تھا۔ اور باقی امور میں انسان کواختیار دے دیا ہے کہ وہ خود اپنا طریق عمل قائم کرے اور اس لئے درحقیقت شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا اور گو احکام میں تفاوت ضرور ہے لیکن سب احکام یقینا ایسے ہیں جو انسان کے اخلاق وروحانیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معتدبہ اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر کسی بات کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ وہ ایک شرعی حکم ہے تو کسی مومن کے لئے ہرگز یہ زیبا نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ یہ چھوٹا ہے۔ اس لئے اس کے ماننے کی چنداں ضرورت نہیںیا یہ کہ اس بات کو دین و ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہستی جس نے ہمارے لئے دین وایمان کا نصاب مقرر فرمایا ہے اور جس کے سامنے جاکر ہم نے کسی دن اس نصاب کا امتحان دینا ہے وہ جب کسی بات کو ہمارے دین وایمان کاحصہ قرار دیتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اسے لاتعلق سمجھ کر ٹال دیں اور اگر ہم اپنی نادانی سے ایسا کریں گے تو نقصان اُٹھائیں گے۔ کیونکہ ہمارا ممتحن ہمارے خیال کے مطابق ہمارا امتحان نہیں لے گا بلکہ اس نصاب کے مطابق لے گا جو اس نے مقرر کیا ہے۔
اندریںحالات بحث طلب امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی با ت شریعت کا حصہ ہے یا نہیں یا موجودہ بحث کے لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا ڈاڑھی کا رکھنا شریعت کا حصہ قرار پاتا ہے یا نہیں سواس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ ہروہ بات جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکیا ہے اور اس کے کرنے کا اپنی اُمت کو حکم دیا ہے وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہواور عقل بھی یہی چاہتی ہے شارع جس کام کو کرے اور اس کے کرنے کا حکم دے وہ شریعت کا حصّہ ہونی چاہیئے۔ہاں البتہ ایسی باتوںکے متعلق اختلاف ہے جن کو شارع نے خود تو کیا ہے مگر ان کے کرنے کاحکم نہیں دیا۔ یا جن کے متعلق شارع نے بعض صورتوںمیں ہدایت تودی ہے لیکن خود اس کی پابندی اختیار نہیں کی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شبہ کا احتمال ہے کہ ممکن ہے وہ شارع کی ذاتی خصوصیت یا ذاتی میلان طبع کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور دین کا حصہ نہ ہوں اور اسی طرح بعض اور باتوں کے متعلق بھی اشتباء کا پہلو ہوسکتا ہے کہ کیا وہ شریعت کا حصّہ ہیں یا نہیں اور اسی لئے ان کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر بہرحال یہ مسلّم ہے کہ جس بات کو شارع نے کیا اور اس کے کرنے کا حکم دیا وہ شریعت کا حصّہ ہے بشرطیکہ کوئی واضح قرینہ اس کے خلاف موجود نہ ہو۔
اب اس تشریح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا رکھنا شریعت اسلامی کا حصّہ ہے کیونکہ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا حکم دونوں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیںاور حدیث شریف سے یہ ہر دو باتیں ثابت ہیں۔یعنی اول یہ کہ آپ.6ؐ کی ڈاڑھی تھی چنانچہ آپؐ کے متعلق حدیث میں کَثَّّ اللحیۃ ۱؎کے الفاظ آتے ہیںیعنی آپ کی ڈاڑھی گھنی تھی اور اسی قسم کی بہت سی احادیث ہیں۔اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی اُمت کو یہ ارشاد فرمایا کہ ڈاڑھی رکھا کرو۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:-
قصواالشوارب وأَ عفواللحی۲؎
یعنی ’’ ڈاڑھیوں کو بڑھائو اور مونچھوں کو کاٹ کر چھوٹا کرو‘‘۔اور یہ بھی حدیث میںآتا ہے کہ ایک دفعہ غیر مسلم لوگ آپ کے سامنے آئے جن کی ڈاڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔اور دوسری طرف اس بات کے متعلق قطعاً کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ آپؐ کا یہ تعامل اور آپؐ کا یہ ارشاد ایک یونہی ایک ذاتی پسندیدگی کے اظہار کے طور پر تھااور دین کا حصّہ نہیں ہے۔ اور سنت کے لحاظ سے دیکھیںتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بس نہیں ۔بلکہ جتنے بھی نبی دنیا میں گذرے ہیںاور ان کی تاریخ محفوظ ہے ان سب کی ڈاڑھیاںتھیں۔چنانچہ حضرت ہارونؑ کی ڈاڑھی کا قرآن شریف میںبھی ذکر ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاڑھی لاکھوں احمدی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندریں حالات کوئی مسلمان اور خصوصیت کے ساتھ کوئی احمدی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتاکہ ڈاڑھی رکھنا شریعتِ اسلامی کاحصّہ نہیںہے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ احکام کے مدارج میں اختلاف ہے اور ڈاڑھی کے حکم کو ہم قطعاًان اہم احکام میں شمارنہیں کرسکتے جن پرہر انسان کی روحانی زندگی کابلاواسطہ دارومدار ہے مگربہرحال اس میں کلام نہیں کہ وہ شریعت کاحصہ ہے۔ اب کوئی مومن اس حکم کو چھوٹا کہہ کر ٹال نہیں سکتا کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ چھوٹی باتوں کو شریعت نے اپنے دائرہ میں شامل نہیں کیا اور جن کو شامل کیا ہے۔ وہ چھوٹی نہیں ہیں۔
(مطبوعہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۷ئ)
ایک قابل قدر خاتون کا اِنتقال
اخوات واحباب کو الفضل کے ذریعہ یہ اطلاع مل چکی ہے کہ ۱۰ دسمبر کی صبح کو اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح،محمد صاحب سیال ایم۔اے فوت ہوکر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہونچ گئیں۔ مرحومہ جماعت کی خاص خواتین میں سے تھیں اور لجنہ اماء اللہ قادیان کے کام میں بہت دلچسپی لیتی تھیں۔ انہیں احمدی مستورات کی اصلاح وترقی کا خاص خیال رہتا تھا۔ چنانچہ مرحومہ نے اپنے گھر میں درس تدریس کا سِلسلہ جاری کررکھا تھا اور بہت سی خواتین اور لڑکیوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ مرحومہ اپنی عادات واطوار میں نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتی رہتی تھیں کہ انسان کو اس دنیا میں نہایت سادہ طور پر زندگی گذارنی چاہیئے۔ شروع شروع میں جب مدرسہ خواتین جاری ہوا تو مرحومہ کے علمی شوق نے اُنھیں اس میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ اس مدرسہ میں تعلیم پاتی رہیں لیکن بعد میں کُچھ تو صحت کی خرابی کی وجہ سے اور کُچھ خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور مرحومہ نے اپنی جگہ اپنی لڑکی عزیزہ آمنہ بیگم کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔
مرحومہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں اور حضرت خلیفہ اولؓ کو ان کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی خواہش سے چوہدری فتح محمد صاحب کے ساتھ ان کی شادی کرائی تھی۔ امتہ الحفیظ بیگم جن کے مضامین اکثر الفضل میں نکلتے رہتے ہیں۔ مرحومہ کی چھوٹی بہن ہیں۔ مجھ سے بھی مرحومہ کو خاص تعلق تھا کیونکہ وہ میری رضاعی بہن تھیں۔ میں سمجھتا ہوں مرحومہ کی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مرحومہ کی وفات جماعت کے لئے اور خصوصاً قادیان کی احمدی خواتین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور میں نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے مرحومہ کے معزز اور قابل قدر شوہر برادرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے اور مرحومہ کے والد صاحب مفتی فضل الرحمن صاحب اور مرحومہ کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا دعا کرتا ہوں کہ اللہ۔تعالیٰ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔ اور مرحومہ کی اولاد کو اس رستے پر چلنے کی توفیق عطاکرے جس کے متعلق مرحومہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس پر چلیں جو صدق واخلاص کا رستہ ہے۔ اللہم آمین
(مطبوعہ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ئ)
۱۹۲۸ء
سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط اخبار الفضل میں شائع کرایا تھا جو حضور نے سیٹھی غلام نبی صاحب کے نام لکھا تھا اور جس میں سودی لین دین کے متعلق ایک اصولی فتویٰ درج تھا۔ اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ چونکہ یہ فتویٰ ایک اہم مسئلہ کے متعلق ہے اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس بھی شائع کردیا جائے تو بہترہے۔ اور ساتھ ہی سیٹھی صاحب سے وہ حالات قلم بند کرواکے شائع کئے جائیں جن کے ماتحت ان کو حضرت سے اس استفسار کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ اس کے متعلق میں نے سیٹھی صاحب سے دریافت کیا ہے اور انہوں نے جو تحریر جواب میں مجھے ارسال کی ہے وہ درج ذیل ہے۔ احباب سیٹھی صاحب کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ مرض دمہ سے بہت بیمار رہتے ہیں۔ سیٹھی صاحب کا خط جو انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا درج ذیل ہے۔
’’سیدی ومولائی سلمہٗ اللہ الرحمن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یاسیدی میں راولپنڈی دکان بزازی اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ کرتا تھا۔ وہاں پر ہمارا دستور تھا کہ جس قدر روپیہ زائد ہو صراف کے پاس جمع کرتے جاتے تھے اور جب ضرورت ہوتی اس سے لے کر کام میں لاتے تھے اور لین دین سودی ہوتا تھا یعنی سود لیتے اور دیتے تھے۔ میں جب احمدی ہوا تو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل شروع کیا لیکن چونکہ میرے شرکاء زبردست اور میں کمزور تھا اور وہ اس طریق سودی کو چھوڑتے نہیں تھے اور میرے حصہ کا سود خود بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ بحصہ رسدی سال بسال مجھ کو لینا پڑتا تھا۔ اور میں والد صاحب کی زندگی میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس لئے میںنے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے مسئلہ پوچھا یعنی لکھ کر دریافت کیا تو حضور نے مجھ کو جواب دیا جو یہ خط ہے۔
عاجز غلام نبی سیٹھی احمدی
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مندرجہ بالا خط کا مضمون حسب ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علی رسولہٖ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی کا نکال دے گا۔اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دیدیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہوجاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یار ہزنی یا ڈاکہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کے رد میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کی رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میںخدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’ سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عملاً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہوجائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیا ہے) خرچ ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ‘‘
(مطبوعہ الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور بندہ جس وقت بھی اپنے خدا کی طرف رجوع کرے وہ اسے تواب اور رحیم وکریم پائے گا۔ بلکہ اس کی قدیم سنت کے مطابق اگر بندہ اس کی طرف ایک قدم آتا ہے تو وہ اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے اور اگر بندہ اس کی طرف چل کر آتا ہے تو وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی بندوں کی بے۔توجہی اور غفلت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے بعض خاص خاص اوقات کو اپنی رحمت کے غیرمعمولی فیضان کے لئے مخصوص کردیا ہے اور انہی خاص اوقات میں سے رمضان کا مہینہ ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں اور فضلوں کو کھینچنے کی کوشش کریں اور ذکر الٰہی اور نیک اعمال اور صدقہ وخیرات اور دعا سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں۔ اگلا رمضان نہ معلوم کس کو نصیب ہو اور کس کو نہ ہو۔
پس جو موقع میسر ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس بات کا عہد کرلیں کہ رمضان کا مہینہ آپ کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرکے جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان کے موقع پر اپنے دل کے ساتھ کم از کم یہ عہد باندھ لے کہ وہ اس رمضان میں اپنی فلاں کمزوری کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے گا۔ اور پھر اس عہد کو پورا کرکے چھوڑے تاکہ اور نہیں تو رمضان کا مہینہ اسے ایک کمزوری اور نقص سے تو پاک کرنے کا موجب ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لیں تو خدا کے فضل سے عید کا دن ہماری جماعت کے قدم کو بہت آگے پائے گا۔ ہم لوگوں میں ابھی بہت سی کمزوریاں اور نقص ہیں۔ کوئی نماز میں سست ہے کوئی چندوں کی ادائیگی میں ڈھیلا ہے کوئی لین دین میں صاف نہیں۔ کوئی لغو اور فضول عادات میں مبتلا ہے۔ غرض کسی میں کوئی نقص ہے اور کسی میں کوئی۔ پس آئو آج سے ہم میں سے ہر فرد یہ عہد کرے کہ رمضان کے گذرنے سے قبل وہ اپنی فلاں کمزوری کو ترک کردے گا اور پھر کبھی اپنے آپ کو اس کمزوری کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دے گا۔ یہ کوئی بڑا عہد نہیں ہے بلکہ ایک معمولی ہمت کا کام ہے۔ اور اگر رمضان کا مہینہ اتنی بھی تبدیلی ہمارے اندر نہ پیدا کرسکے تو اس کا آنا یا نہ آنا ہمارے لئے برابر ہے۔
اب آخری عشرہ کے دن قریب آرہے ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ کے خاص ایام قرارد یاہے۔ پس ان کی برکات سے فائدہ اٹھائو اور کوشش کرو کہ ان دنوں میں تم خدا سے قریب تر ہوجائو تاکہ جب عید کا دن آئے تو وہ ہم سب کے لیئے حقیقی خوشی کا دن ہو۔ انشاء اللہ حسب دستور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ۲۸ یا۲۹ رمضان کے دن نماز عصر کے بعد تمام مقامی جماعت کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں دعا فرمائیں گے۔ بیرونی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ اس دن اور اسی وقت اپنی مقامی مسجد میں یا مسجد نہ ہو تو کسی دوسری جگہ جہاں نمازوں کا انتظام ہو اکٹھے ہوکر دعا کریں تاکہ اس گھڑی ایک متحدہ التجا خدا کے دربار تک پہونچے۔ اور خدا کی رحمتیں ہماری دستگیری کے لئے نیچے اترآئیں۔ اگر ممکن ہوا تو میں انشاء اللہ دعا کی معین تاریخ اور وقت سے بعد میں اطلاع دوں گا۔ دعا میں حمد اور درود کے بعد اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور بہبودی کو سب دعائوں پر مقدم رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔
(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
اپنے گھروں میں درس جاری کرو
ایک عرصہ سے اس بات کی تحریک کی جارہی ہے کہ مقامی جماعتوں کو چاہیئے کہ اپنی اپنی جگہ قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے درس جاری کریں لیکن ابھی تک بہت سی جماعتوں نے اس کا انتظام نہیں کیا۔ جس کی وجہ کچھ تو یقینی طور پر غفلت اور بے پرواہی ہے لیکن زیادہ تر مقامی حالات ہیں جن کی وجہ سے عموماً مقامی احباب کا ہرروز ایک معینہ وقت پر ایک معینہ جگہ پر جمع ہونا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ انہی دقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر درسوں کے اجراء کی تحریک کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ جہاں روزانہ درس نہ ہوسکے وہاں ہفتہ میں دوبار یا کم از کم ہفتہ میں ایک بار ہی درس کا انتظام کردیا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے اس ارشاد کے ماتحت بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگیا ہے اور خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ بہت بابرکت ہوگا۔ جن جن جماعتوں نے ابھی تک ایسے درسوں کا انتظام نہ کیا ہو ان کو چاہیئے کہ فوراً اس کی طرف توجہ کریں۔
لیکن اس موقع پر جس قسم کے درس کی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں وہ گھر کا درس ہے ۔ ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقع پر گھر کے سب لوگ مرد عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں۔ اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔ تاکہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے۔ اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہوجائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید وبابرکت ہوسکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مقامی امراء یا پریذیڈنٹ وسیکرٹریان تعلیم وتربیت بہت جلد اس کی طرف توجہ فرمائیںگے اور آئندہ تعلیم وتربیت کی ماہواری رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہونا چاہیئے کہ اتنے گھروں میں خانگی درس کا انتظام ہے۔
(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)
محمد ہست بُرہانِ محمد
مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.6ٗ
آپ نے فرمائش کی تھی کہ میں ’’الفضل‘‘ کے خاتم النبیین نمبر کے لیئے کوئی مضمون لکھوں۔ ایسی تحریک میں حصہ لینا ہر مسلمان کے واسطے موجب سعادت اور باعثِ فخر ہونا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں بعض معذوریوں کی وجہ سے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور مجھے اس محرومی کا قلق ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مصرع مندرجہ عنوان کے متعلق کچھ لکھوں گا اورمیں نے اپنے ذہن میں اس مضمون کا ایک مختصر سا ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا۔ لیکن اس ذہنی خاکہ کو سپردِ قلم نہ کرسکا۔ میرا ارادہ مثالیں دے کر یہ بیان کرنے کا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (فداہ نفسی) اپنے اس کمال میں منفرد ہیں کہ آپ کا ہر قول اور ہرفعل اور ہرحرکت اور ہر سکون اور ہر عادت اور ہر خلق آپ کی صداقت اور آپ کی فضیلت اور آپ کے کمال کی ایک روشن دلیل ہے اور اس خصوصیت میں آپ جملہ بنی آدم پر ممتاز اور فائق ہیں کیونکہ دنیا میں اور کوئی شخص ایسا نہیں گذرا جس کی ہر بات اس کے کمال کی دلیل ہو۔ اور اسی لئے ’’سید ولد آدم‘‘ کا خطاب پانے کے لئے آپ کے سوا اور کوئی شخص حقدار نہیں۔ یہ مضمون ایک نہایت وسیع مضمون ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں اسے نہایت مدلل اور دلچسپ طریق پر بیان کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس موقع پر جو ایسے مضمون کے واسطے ایک بہت عمدہ موقع تھا۔ میں اس مضمون کے بیان کرنے سے محروم رہا ہوں۔ اگر زندگی رہی اور خدا نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھرکبھی عرض کروں گا۔وما توفیقی الَّا باللّٰہ
اگر مناسب سمجھیں تو میری طرف سے یہ چند سطور اخبار میں شائع فرمادیں تاکہ احباب کی دُعا میں تھوڑا سا حصہ میں بھی پاسکوں۔
خاکسار
مرزابشیراحمد
(مطبوعہ الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ئ)
مقامی امیر کی پوزیشن
اس دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ڈلہوزی تشریف لے جاتے ہوئے مجھے قادیان کا مقامی امیرمقرر فرمایا۔ میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کردیا تھا کہ میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے غالباً میری بہت سی کمزوریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور مجھے یہ بار اٹھانا پڑا۔ اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے منصب امارت کے متعلق جماعت میں بعض احباب کو غلط فہمی پیدا ہورہی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کا امیر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام ہے اور اسے وہی یا قریباً قریباً وہی اختیارات حاصل ہیں جو خلیفہ وقت کو خدا کی طرف سے حاصل ہیں۔ یہ خیال مجھے اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس عرصۂ۔امارت میں میرے پاس بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ مثلاً فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اسے منسوخ کیا جائے۔ یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ جو ان سب کے افسر ہیں حکم صادر فرماسکتے ہیں۔ اسی طرح اس عرصہ میں میرے پاس قادیان کے بعض مقامی احباب کی ایسی تحریریں آئی ہیں کہ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نام تجویز کیا جاوے اور زیادہ تعجب کے قابل یہ ہے کہ بعض بیرونی احباب کی طرف سے بھی اسی قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ابھی تک جماعت کو قادیان کے مقامی امیر کی پوزیشن کی حقیقت معلوم نہیں ہے اور وہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ گو یہ درست ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں حضرت کا قائم مقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو اس میں شک نہیںہے کہ مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے۔ جس طرح کہ دوسرے مقامات میں امیر ہوتے ہیںاور اسے کوئی زائد اختیار یا زائد رُتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں ہے۔ گو جو فرق مدارج کا ایک ہی نوع کے افراد میں ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔ قادیان کا مقامی امیر اسی طرح ناظران۔سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت ہے جس طرح دوسرے مقامی امیر ہیں کیونکہ ناظران مرکزی نظام سلسلہ کے رکن ہیں اور امیر خواہ مرکز کی جماعت کا ہی ہو محض ایک مقامی عہدیدار ہے۔ اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہیئے کہ مثلاً لاہور جو پنجاب کا دارالسلطنت ہے وہاں ایک ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جو ایک مقامی حیثیت رکھتا ہے اور وہیں پر حکومت پنجاب کے مختلف سیکرٹریان یا ممبران ایگزیکٹو کونسل بھی رہتے ہیںجو مرکزی حکومت کے رکن ہیں۔ اب کوئی شخص یہ خیال نہیں کرسکتا کہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر جو مقامی عہدیدار ہے وہ مرکزی حکومت کے ارکان کے کام میں دخیل ہوسکتا ہے یا ان کو ہدایات جاری کرسکتا ہے۔ دراصل سارا دھوکا اس لئے لگا ہے کہ حضرت کی موجودگی میں قایان میں کوئی مقامی امیر نہیں ہوتا کیونکہ حضرت باتباع سنت نبوی صرف اپنی غیرحاضری میں قادیان کا مقامی امیر مقرر فرماتے ہیں۔ حضرت کی موجودگی میں بھی کوئی مقامی امیر ہوا کرتا تو یہ غلط فہمی نہ پیدا ہوتی مگر چونکہ مرکز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا مقامی امیر بھی خلیفۂ وقت ہوا کرتا ہے اس لئے یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ قادیان کے مقامی امیر کے وہ اختیارات اور وہ ذمہ داریاں سمجھ لی گئی ہیں جو خلیفہ کے عہدہ کے ساتھ خاص ہیں۔ بہرحال میں اس اعلان کے ذریعہ احباب کی اس غلط فہمی کو دور کردینا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ احباب اپنے نظام حکومت اور سیاست سلسلہ کے اصول سے اس قدر ناواقفی کا اظہار نہیں کریں گے۔ یہ امر بھی اس ضمن میں واضح ہونا چاہیئے کہ حضرت جب کبھی قادیان سے باہر تبدیل آب وہوا وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے صرف قادیان کا مقامی امیر کسی کومقرر فرماتے ہیں۔ پس قادیان کے امیر کا تعلق صرف قادیان کی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔ پس بیرونی احباب کا قادیان کے امیر کے ساتھ ان امور میں خط وکتابت کرنا جن امور میں وہ پہلے حضرت کے ساتھ خط وکتابت فرمایا کرتے تھے، کسی طرح بھی درست رائے نہیں ہے۔
(مطبوعہ الفضل۱۷ جولائی ۱۹۲۸ئ)
۱۹۲۹ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں
سب سے بہتر شخص
مقدس بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکم لِاَھْلِہ.6ِ ۳؎ یعنی تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ آپؐ کے ان الفاظ کو اگر اس بارہ میں آپ کی تعلیم اور آپؐ کے تعامل کا خلاصہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ آپ کی خانگی زندگی یقینا ان الفاظ کی بہترین تفسیر تھی۔
رسول کریمؐ اور تعدد ازدواج
قومی اور ملکی اور سیاسی اور دینی ضروریات نے آپ.6ؐ کو مجبور کیا کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کریں۔ اور یہ ایک قربانی تھی جو آپ.6ؐ کو ایک غیرنفسی ضرورت کے ماتحت کرنی پڑی۔ مگر آپ.6ؐ نے اس قربانی کی روح کو اس خوبی اور کمال کے ساتھ نبھایا……… اور باوجود اپنی خانگی ذمہ داری کی پیچیدگیوں کے معاشرت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جو دنیا کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ میرے یہ الفاظ میری قلبی خوش عقیدگی کی گونج نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد ٹھوس تاریخی واقعات پر قائم ہے جنہیں کسی دوست کی خوش عقیدگی یا کسی دشمن کا تعصب اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے۔
معاشرت کا کامل نمونہ
کثرت ازدواج کی وجہ سے جو اضافہ آپ کی خانگی ذمہ داریوں میں ہوا۔ اس کو آپ کی ان گوناگوں اور بھاری ذمہ داریوں نے اور بھی بہت زیادہ کردیا تھا جو ایک مصلح۔ ایک امام۔ جماعت۔ ایک انتظامی حاکم۔ ایک جوڈیشل قاضی۔ ایک سیاسی لیڈر۔ ایک فوجی جرنیل اورایک بین۔الاقوام نظام جمہوریت کے صدر کی حیثیت میں آپ پر عائد ہوتی تھیں اور ہر شخص جو آپ کی خانگی زندگی اور گھر کی معاشرت کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا چاہتا ہے اس کا یہ پہلا فرض ہے کہ ان حالات کو پورے طور پر مدنظر رکھے جو آپ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں نے آپ کے لئے پیدا کررکھے تھے۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے تحریر نہیں کئے کہ میں آپ.6ؐ کی زندگی کے حالات کو آپ کی خانگی معاشرت پر رائے لگاتے وقت ایک موجب رعایت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں نے یہ الفاظ اس لئے لکھے ہیں کہ تایہ ظاہر ہو باوجود ان عظیم الشان ذمہ داریوں کے جو عام اسباب کے ماتحت یقینا آپ.6ؐ کے خانگی فرائض کی ادائیگی کے رستے میں روک ہوسکتی تھیں۔ آپ.6ؐ نے معاشرت کا وہ کامل نمونہ دکھایا جو دنیا کے ہر شخص کو خواہ وہ کیسے ہی حالات زندگی کے ماتحت رہا ہو شرماتا ہے۔
مگر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے اور اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس قدر مختلف پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں کہ اس مختصر گنجائش کو دیکھتے ہوئے جو ایڈیٹر صاحب الفضل نے (جن کی تحریک پر میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں) اس کے لئے مقرر کی ہے اس مضمون پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھنا تو درکنار معمولی اور واجبی تفصیل میںجانا بھی ناممکن ہے۔ پس میں نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند موٹی موٹی باتوں کے تحریر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ وما توفیقی الاباللّٰہ
رسول کریمؐ کی پہلی شادی
سب سے پہلی شادی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ حضرت خدیجہ سے تھی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بیوہ تھیں۔ گویا آپ نے عین عنفوان شباب میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی۔ بظاہر حالات یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید یہ شادی کسی وقتی مصلحت کے ماتحت ہوگئی ہوگی اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کوئی خوشی کی زندگی نہیں گذری ہوگی کیونکہ جہاں بیوی کی عمر خاوند کی عمر سے اتنی زیادہ ہو کہ ایک کی جوانی کا عالم اور دوسرے کے بڑھاپے کا آغاز ہو تو وہاں عام حالات میں ایسا جوڑا کوئی خوشی کا جوڑا نہیں سمجھا جاتا مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خوشی کا اتحاد ہوا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کامل محبت ایک دوسرے پر کامل اعتماد۔ ایک دوسرے کے لئے کامل قربانی کا نظارہ اگر کسی نے کسی ازدواجی جوڑے میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ میں نظر آئے گا۔ کیا ہی بہشتی زندگی تھی جو اس رشتہ کے نتیجے میں دونوں کو نصیب ہوئی۔
پاکیزہ خانگی کا اثر
مجھے اس رشتہ کے کمال اتحاد کا احساس سب سے بڑھ کر اس وقت ہوتا ہے جبکہ میں اس تاریخی واقعہ کا مطالعہ کرتا ہوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اس غیر مانوس اور غیرمتوقع جلال الٰہی سے مرعوب ہوکر سخت گھبرائے ہوئے اپنے گھرمیں آئے اور ایک سہمی ہوئی آواز میں اپنی رفیق حیات سے فرمایا کہ مجھ پر آج یہ حالت گذری ہے اور مجھے اپنے نفس کی طرف سے ڈر پیدا ہوگیا ہے۔ اس وقت گھر میں بظاہر حالات صرف یہی میاں بیوی تھے۔ خاوند ادھیڑ عمر کو پہنچا ہوا۔ اور بیوی بوڑھی۔ گھر کی چاردیواری میں دوست ودشمن کی نظروں سے دور تکلف کا طریق بیرون از سوال تھا۔ دونوں پندرہ سال کے لمبے عرصہ سے ایک دوسرے کے رفیق زندگی تھے۔ ایک دوسرے کی خوبیاں ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ اگر کوئی کمزوری تھی تو وہ بھی ایک دوسرے پر مخفی نہ تھی۔ ایسی حالت میں جس سادگی کے ساتھ خاوند نے اپنی پریشانی اپنی بیوی سے بیان کی اور جس بے۔ساختگی کے عالم میں بیوی نے سامنے سے جواب دیا وہ اس مقدس جوڑے کے کمال اتحاد کا ایک بہترین آئینہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ تاریخ میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
’’ کَلَّا، وَاللّٰہِ!مَایَحْزُنْکَ اللّٰہُ اَبَدًا،اِنّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتَعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقَّ۔۴؎
ہے ہے ایسا نہ کہیں خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپ رشتوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو دنیا سے معدوم ہوچکے تھے ان کو آپ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے اور آپ مہمان نواز ہیں اور حق وانصاف کے رستے میں جو مصائب لوگوں پر آتے ہیں ان میں آپ ان کی اعانت فرماتے ہیں۔‘‘
حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ اپنے اندر ایک نہایت وسیع مضمون رکھتے ہیںجس کی پوری گہرائی تک وہی شخص پہنچ سکتا ہے جو دل ودماغ کے نازک احساسات سے اچھی طرح آشنا ہو۔ ان الفاظ میں اس مجموعی اثر کا نچوڑ مخفی ہے جو پندرہ سالہ خانگی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے قلب پر پیدا کیا۔ جو خاوند اپنی روزمرہ زندگی کے واقعات سے اپنی بیوی کے دل ودماغ میں وہ اثرات پیدا کرسکتا ہے جن کا ایک چھوٹے پیمانہ کا فوٹو ان الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کی پاکیزہ خانگی زندگی اور حسن معاشرت کا اندازہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کا صدمہ
حضرت خدیجہؓ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں اور ان کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا اور لکھا ہے کہ ایک عرصہ تک آپ کے چہرہ پر غم کے آثار نظر آتے رہے اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا۔ ان کی وفات کے بعد جب کبھی ان کا ذکر آتا تھا آپؐ کی آنکھیں پُر نم ہوجاتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی اور دروازہ پر آکر اندر آنے کی اجازت چاہی ان کی آواز مرحومہ خدیجہ سے بہت ملتی تھی۔ یہ آواز سن کر آپ بے۔چین ہوکر اپنی جگہ سے اٹھے اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ اور بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا جب کبھی باہر سے کوئی چیز تحفۃً آتی تھی۔ آپ لازماً حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو اس میں سے حصہ بھیجتے تھے اور اپنی وفات تک آپ نے کبھی اس طریق کو نہیںچھوڑا۔
بدر میں جب ستر کے قریب کفار مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے تو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ،وسلم کے داماد یعنی زینب بنت خدیجہ کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ جو ابھی تک مشرک تھے۔ زینب نے ان کے فدیہ کے طور پر مکہ سے ایک ہاربھیجا۔ یہ وہ ہار تھا جو مرحومہ خدیجہ نے اپنی لڑکی کو جہیز میں دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور حضرت خدیجہ کی یاد میں آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ آپ نے رقّت بھری آواز میں صحابہ سے فرمایا یہ ہار خدیجہ نے زینب کو جہیز میں دیا تھا۔ تم اگر پسند کرو تو خدیجہ کی یہ یادگار اس کی بیٹی کو واپس کردو۵؎۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی۔ انھوں نے فوراً واپس کردیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کی جگہ ابوالعاص کا یہ فدیہ مقرر فرمایا کہ وہ مکہ جاکر زینب کو فوراً مدینہ بھجوادیں۔ اور اس طرح ایک مسلمان خاتون (اور خاتون بھی وہ جو سرورکائنات کی لخت جگر تھی) دارکفر سے نجات پاگئی۔ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زندہ بیوی کے متعلق کبھی جذبات رقابت نہیں پیدا ہوئے لیکن مرحومہ خدیجہ کے متعلق میرے دل میں بعض اوقات رقابت کا احساس پیدا ہونے لگتاتھا۶؎۔ کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان کی یاد آپ کی دل کی گہرائیوں میں جگہ لئے ہوئے تھی۔
دوسری شادیاں
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ.6ؐ نے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے ساتھ شادی کی اور ہجرت کے بعد تو حالات کی مجبوری کے ماتحت آپؐ کو بہت سی شادیاں کرنا پڑیں اور آپ.6ؐ کی خانگی ذمہ،داریاں بہت نازک اور پیچیدہ ہوگئیں مگر بایں ہمہ آپؐ نے عدل وانصاف کا ایک نہایت کامل نمونہ دکھایا اور کسی ذرا سی بات میں بھی انصاف کے میزان کو اِدھر اُدھر جھکنے نہیں دیا۔ آپؐ کا وقت آپ کی توجہ آپ کا مال آپ کا گھر اس طرح آپ.6ؐ کی مختلف بیویوں میں تقسیم شدہ تھے کہ جیسے کسی مجسم چیز کو ترازو میں تول کر تقسیم کیا گیا ہو۔ اور اس خانگی بانٹ کے نتیجہ میں آپؐ کی زندگی حقیقۃً ایک مسافرانہ زندگی تھی۔ اور آپؐ کا پروگرام حیات آپؐ کے اس قول کی ایک زندہ تفسیر تھا جو آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’کن فی الدنیاکعابری سبیلٍ۷؎
یعنی انسان کو دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گذارنی چاہیئے۔ ‘‘
بیویوں میں کامل عدل
مگر باوجود اس کامل عدل وانصاف کے آپؐ فرماتے تھے کہ اے میرے خدا میں اپنی طاقت کے مطابق اپنی بیویوں میں برابری اور مساوات کا سلوک کرتا ہوں لیکن اگر تیری نظر میں کوئی ایسا حق وانصاف ہے جس سے میں کوتاہ رہا ہوں اور جو میری طاقت سے باہر ہے تو تو مجھے معاف فرما۔ آپ کا یہ عدیم المثال انصاف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپؐ کے دل میںاپنی ساری بیویوں کی ایک سی ہی قدر اور ایک سی ہی محبت تھی کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے اور خود آپؐ کے اپنے اقوال سے بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بعض بیویوں سے ان کی ممتاز خوبیوں اور محاسن کی وجہ سے دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت تھی۔ پس آپ کا یہ انصاف محض انصاف کی خاطر تھا۔ جسے آپ کی قلبی محبت کا فرق اپنی جگہ سے ہلا نہیںسکا۔ مرض الموت میں جب کہ آپ کو سخت تکلیف تھی اور غشیوں تک نوبت پہنچ جاتی تھی آپ دوسروں کے کندھوں پر سہارا لے کر اور اپنے قدم مبارک کو ضعف ونقاہت کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے اپنی باری پوری کرنے کے خیال سے اپنی بیویوں کے گھروں میں دورہ فرماتے تھے حتیّٰ کہ بالآخر خود آپ کی ازدواج نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ آپؐ عائشہ کے گھر میں آرام فرمائیں ہم اپنی باری خود اپنی خوشی سے چھوڑتی ہیں۔ اس عدل وانصاف کے توازن کو قائم رکھنے کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ آپؐ کی موجودگی میں آپ کی بعض بیویوں کا کسی بات پر آپس میں کچھ اختلاف ہوگیا۔ حضرت عائشہ ایک طرف تھیں اور بعض دوسری بیویاں دوسری طرف۔ دوسری بیویوں نے غصہ میں آکر حضرت عائشہ کے ساتھ کسی قدر سخت باتیں کیں۔ مگر حضرت عائشہ نے صبر سے کام لیا اور خاموش رہیں۔ ان کی خاموشی سے دلیر ہوکر ان بیگمات نے ذرا زیادہ سختی سے کام لینا شروع کیا جس پر حضرت عائشہ کو بھی غصہ آگیا اور انھوں نے سامنے سے جواب دیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے اور آپ خوب جانتے تھے کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ حق پر ہیں اور حضرت عائشہ سے آپ کو دوسری بیویوں کی نسبت محبت بھی زیادہ تھی مگر چونکہ اس اختلاف کا کوئی عملی اثر نہیں تھا آپ بالکل خاموش رہے تاکہ دوسری بیویوں کے دل میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ آپؐ عائشہ کی پاسداری فرماتے ہیں۔ البتہ جب یہ نظارہ بدل گیا تو آپؐ نے حضرت عائشہ سے ازراہ نصیحت فرمایا چونکہ تم حق بجانب تھیں جب تک تم خاموش رہیں تمہاری طرف سے خدا کے فرشتے جواب دیتے رہے لیکن جب تم نے خود جواب دینے شروع کئے تو فرشتے چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔
تعلیم وتادیب کا خیال
تعلیم وتادیب کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اپنے گھر میں ایک بہترین مصلح اور معلم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور کوئی موقع اصلاح اور تعلیم کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ قرآن شریف کی ایک مشہور آیت ہے:
’’قُوْٓااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۸؎
یعنی اے مسلمانواپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی ہرقسم کی معصیت اورگناہ سے اور دوسرے ضررساں رستوں سے بچائو۔‘‘
آپؐ اس آیت پر نہایت پابندی کے ساتھ مگر نہایت خوبی سے عمل پیرا تھے اور یہ آپ.6ؐ کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپؐ کی ازواج مطہرات اسلامی اخلاق وعادت اور اسلامی شعار کا بہت اعلیٰ نمونہ تھیں۔ بشریت کے ماتحت ان سے بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی تھی لیکن ان کی غلطیوں میں بھی اسلام کی بو آتی تھی۔
حضرت عائشہؓ پر بہتان کا واقعہ
جب بعض شریر فتنہ پرداز منافقوں نے حضرت عائشہ پر بہتان باندھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور آپؐ کی زندگی بے چین ہوگئی۔ اس بے چینی کے عالم میں آپؐ نے ایک دن حضرت عائشہ سے فرمایا:
’’ عائشہ اگر تمہارا دامن پاک ہے تو خدا عنقریب تمہاری بریت ظاہر فرمادے گا مگر دیکھو انسان بعض اوقات ٹھوکر بھی کھاتا ہے لیکن اگر اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جائے اور خدا کی طرف جھکے تو خدا ارحم الراحمین ہے۔ وہ اپنے بندے کو ضائع نہیں کرتا تم سے اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو تمہیں چاہیئے کہ خدا کی طرف جھکو اوراس کے رحم کی طالب بنو۔‘‘
حضرت عائشہ کا دل پہلے سے بھرا ہوا تھا۔ اس خیال نے ان کے جذبات کو مزید ٹھیس لگائی کہ میرا رفیق زندگی اور میرا سرتاج بھی میرے متعلق اس قسم کی لغزش کا امکان تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ وہ تھوڑی دیر تو بالکل خاموش رہیں اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں کہ:
’’فَصَبْرٌٌجَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔اِنَّمَآ اَشْکُوْاَبِثّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۹؎
یعنی میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ اور میں اس بات کے متعلق جو کہی جارہی ہے خدا کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتی اور نہ میں اپنے دکھ کی کہانی خدا کے سوا کسی سے کہتی ہوں۔‘‘
یہ حضرت عائشہ کی غلطی تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ان پر کوئی بدظنی نہیں کی تھی بلکہ محض ایک اصولی نصیحت فرمائی تھی مگر آپؐ کے الفاظ نے حضرت عائشہ کے حساس دل کو چوٹ لگائی اور وہ اس غم میں اندر ہی اندر گھلنے لگ گئیں۔ لیکن اس پر کوئی زیادہ وقت نہ گزرا کہ حضرت عائشہ کی بریت میں وحی الٰہی نازل ہوئی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش خوش ان کے قریب گئے اور انہیں مبارک باد دی حضرت عائشہ نے رقّت بھری آواز میں جس میں کسی قدر رنج کی آمیزش بھی تھی جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں کسی کی شکر گزار نہیں ہوں بلکہ صرف اپنے خدا کی شکر گزار ہوں جس نے خود میری بریت فرمائی۔ سرورکائنات کے سامنے اس رنگ میں یہ الفاظ کہنا بھی ایک غلطی تھی مگر دیکھو تو غلطیاں کیسی پیاری غلطیاں ہیں جیسے ایمان واخلاص کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو معطر کررہی ہیں اور یہ سب باغ وبہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔
امہات المومنینؓ کو نصیحت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں عموماً یہ نصیحت فرماتے تھے کہ تمہاری حیثیت عام مومنات کی سی نہیں ہے بلکہ میرے تعلق کی وجہ سے تمہیں ایک بہت بڑی خصوصیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہیں اس کے مطابق اپنے آپ کو بنانا چاہیئے بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ تم مومنوں کی روحانی مائیں ہو۔ جیسا کہ میں روحانی باپ ہوں۔ پس تمہیں ہررنگ میں دوسروں کے واسطے ایک نمونہ بننا چاہیئے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم کوئی غلط طریق اختیار کروگی تو خدا کی طرف سے تمہیں دوہری سزا ہوگی کیونکہ تمہارے خراب نمونہ سے دوسروں پر بھی برا اثر پڑے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب کثرت کے ساتھ اموال آئے تو دوسرے صحابیوں کی طرح آپؐ کی ازدواج نے بھی اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ مانگا۔ آپؐ نے فرمایا۔ اگر تمہیں دنیا کے اموال کی تمنا ہے تو میں تمہیں مال دئے دیتا ہوں لیکن اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں (کیونکہ میں اپنی زندگی کو دنیا کے مال ومتاع کی آلایش سے ملوث نہیں کرنا چاہتا) اور اگر تم میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو دنیا کے اموال کا خیال دل سے نکال دو سب نے یک زبان ہوکر عرض کیا کہ ہمیں خدا کے رسول کا تعلق بس ہے مال نہیں چاہیئے اور جب انہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے اموال کوٹھکرادیا تو خدا نے اپنے وقت پر ان کو دنیا کے اموال بھی دے دیئے۔
محبت ودلداری
مگر اس تعلیم وتادیب کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت ودلداری کے طریق کو بھی کبھی نہیں چھوڑا حتیّٰ الوسع آپ ہر بات میں اپنی بیویوں کے احساسات اور ان کی خوشی کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور تلطّف سے بات کرتے۔ اور باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً ان کے پاس گذارتے حتی کہ سفروں میں بھی باری باری اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رکھتے اور آپ کی عادت تھی کہ اپنی بیویوں کی عمر اور حالات کے مناسب ان سے سلوک فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ جب بیاہی ہوئی آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی انہیں دنوں میں چند حبشی لوگ تلوار کا کرتب دکھانے کے لئے مدینہ میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی مسجد میں کرتب دکھانے کی اجازت دی۔ اور آپ نے خود حضرت عائشہ کو اپنی اوٹ میں لے کر اپنے حجرہ کی دیوار کے پاس کھڑے ہوگئے اور جب تک حضرت عائشہ اس تماشے سے (جو درحقیقت ایک فوجی تربیت کے خیال سے کرایا گیا تھا) سیر نہیں ہوگئیں۔ آپ اسی طرح کھڑے رہے۔۱۰؎
ایک اور موقع پر جبکہ حضرت عائشہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھیں آپ نے ان کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا جس میں حضرت عائشہ آگے نکل گئیں۔ پھر ایک دوسرے موقع پر جبکہ عائشہ کا جسم کسی قدر بھاری ہوگیا تھا آپ دوڑے تو حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں جس پر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:-
’’ھٰذِہِ بِتْلِکَ۱۱؎
یعنی لو عائشہ اب اس دن کا بدلا اتر گیا ہے۔‘‘
ایک دن حضرت عائشہ اور حفصہؓ بنت عمر نے صفیہؓ کے متعلق مذاق مذاق میں کچھ طعن کیا کہ وہ ہمارا مقابلہ کس طرح کرسکتی ہے ہم رسول اللہ کی صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ آپؐ کی برادری میں آپ کی ہم پلہ ہیں اور وہ ایک غیر قوم ایک یہودی رئیس کی لڑکی ہے۔ صفیہؓ کے دل کو چوٹ لگی اور وہ رونے لگ گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو صفیہ کو روتے دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ انہوں نے کہا عائشہ نے آج مجھ پر یہ چوٹ کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا واہ یہ رونے کی کیا بات تھی تم نے یہ کیوں نہ جواب دیا کہ میرا باپ خدا کا ایک نبی ہارون اور میرا چچا خدا کا ایک بزرگ نبی موسیٰ۔ اور میرا خاوند محمد (صلعم) خاتم النبین۱۲؎۔ پھر مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے۔ بس اتنی سی بات سے صفیہ کا دل خوش ہوگیا۔
نوجوانی کی حالت میں طبعاً محبت کے جذبات زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ایسا شخص دوسرے کی طرف سے بھی محبت کا زیادہ مظاہرہ چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو علم النفس کے کامل ترین ماہر تھے اس جہت سے بھی اپنی بیویوں کے مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے (جو آپ کی ساری بیویوں میں سے خوردسالہ تھیں) کسی برتن سے منہ لگا کر پانی پیا جب وہ پانی پی چکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن کو اٹھایا اور اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا۱۳؎۔ اس قسم کی باتیں خواہ اپنے اندر کوئی زیادہ وزن نہ رکھتی ہوں مگر ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جسے کوئی وقائع نگار نظر انداز نہیں کرسکتا۔ الغرض محبت میں تلطف میں دلداری میں وفاداری میں تعلیم وتربیت میں تادیب واصلاح میں اور پھرمختلف بیویوں میں عدل وانصاف میں آپ ایک ایسا کامل نمونہ تھے کہ جب تک نسل انسانی کا وجود قائم ہے دنیا کے لئے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلٰی ال محمد وبارک وسلم۔
(مطبوعہ الفضل۳۱ مئی ۱۹۲۹ئ)
۱۹۳۲ء
محمدؐ ہسْت برہانِ محمدؐ
حقیقی اور کامل تعریف
مصرع مندرجہ عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بانیٔ سِلسلہ احمدیہ کے ایک قصیدہ سے ماخوذ ہے جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت میں منظوم فرمایا تھا۔ میں نے بہت غور کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح میں جو الفاظ انسانوں کی طرف سے کہے گئے ہیں خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے ان میں مصرع مندرجہ بالا سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحیح اور حقیقی اور کامل تعریف کا حاصل اور کوئی فقرہ نہیں۔
سب سے بڑا باکمال
بے شک دنیا میں تعریف کے مستحق لاکھوں انسان گزرے ہیں اور ان میں سے بعض نے وہ مرتبہ پایا ہے کہ آنکھ ان کی رفعت اور روشنی کو دیکھ کر خیرہ ہوتی ہے اور یہ باکمال لوگ پائے بھی ہر میدان میں جاتے ہیں یعنی دین ودنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان لوگوں کے وجود سے خالی ہو مگر ان میں سے کون ہے؟ جس کی ہستی کا ہر پہلو اس کے کمال پر شاہد ہو۔ کون ہے جس کے وجود کا ہرذرہ اس کے نورِ باطن کا پتہ دے رہا ہو؟ کون ہے جس کی ذات والا صفات کا ہر خلق اس کی یگانگت کی دلیل ہو؟ یقینا یہ کمال صرف مقدس بانیٔ اسلام (فداہ نفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی دوسرا انسان اس صفت میں آپؑ کا شریک نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ خداداد نے دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یدِبیضانے ایک عالم کی آنکھ کو مسخر کردیا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دم عیسوی سے روحانی مُردوں نے زندگی پائی مگر باوجود اپنے روحانی کمال کے حضرت مسیح ناصری ؑ نے موسیٰ علیہ السلام کا یدبیضا نہ پایا۔ حضرت موسیؑ کو باوجود اپنی رفعتِ شان کے حسنِ یوسفؑ سے محرومی رہی۔ حضرت یوسفؑ باوجود اپنی ظاہری وباطنی حُسن کے حضرت موسیٰ ؑ کے یدبیضا اور حضرت مسیح ؑکے دمِ عیسوی کو نہ پاسکے لیکن اسلام کا مقدس بانی اپنے ہروصف میں یکتا ہوکر چمکا۔ اپنی ہرشان میں دوسروں سے بالا رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدبِیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری
مصرعہ مندرجہ عنوان
یہ شعر بہت خوب ہے بہت ہی خوب ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اس سے بھی ارفع ہے۔ آپؐ کے یدبیضا کے سامنے حضرت موسیٰ ؑ کا یدبیضا ماند ہے۔ آپؐ کے انفاسِ روحانی سے حضرت عیسیٰ ؑ کے دمِ عیسوی کو کوئی نسبت نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن وکمال کی حقیقی تصویر صرف اس مصرع میں ملتی ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زبان سے نکلا اور میرے اس مضمون کا عنوان ہے۔ میرا یہ دعویٰ محض خوش عقیدگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخ کی مضبوط ترین شہادت اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ رہنمایانِ عالم میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والاصفات وہ ذات ہے جس کا ہروصف ہر خط وخال ہر ادا آپؐ کے کمال کی دلیل ہے۔ اسی لئے قدرت نے آپؐ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مجسم تعریف کے ہیں۔ اور مصرع مندرجہ عنوان کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر دنیا میںکوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں ’’محمدؐ یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہو اور اس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے۔
احسن تقویم کا کامل نمونہ
میرے لئے اس نہایت مختصر مضمون میںاپنے اس وسیع دعویٰ کے دلائل لانے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس مضمون میں دلائل کا بیان کرنا میرا مقصد ہے۔ میں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتاہوں کہ ہمارا رسولؐ مرتبہ کیا رکھتا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جس نے اسے اس تعریف کا مستحق بنایا ہے جو مصرع مندرجہ عنوان میں بیان کی گئی ہے۔ سو جیساکہ میںنے اوپر بیان کیا ہے وہ مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود نبوت ورسالت کے جملہ کمالات میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ کسی ایک وصف یا ایک کمال کو لے کر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آپ.6ؐ کا امتیاز ی خاصہ ہے۔ میں آنحضرت صلی۔اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سوانح نگار ہوں اور خدا کے فضل سے آپ.6ؐ کے حالاتِ زندگی کا کسی قدر مطالعہ رکھتا ہوں۔ اور میں نے آپ.6ؐ کے سوانح کا مطالعہ بھی ایک آزاد تنقیدی نظر کے ساتھ کیا ہے۔ میں اس معاملہ میں اپنی ذاتی (گو معاملہ کی اہمیت کے مقابلہ میں نہایت ناچیز) شہادت پیش کرتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف ومحاسن کا جائزہ لے کر آپ.6ؐ کے وجودمیں کسی امتیازی خاصہ کی تلاش کرنی چاہی ہے تو میری نظر ہمیشہ ماندہو ہوکر لوٹ گئی ہے اور کبھی کامیابی نہیں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے اپنے نبی میں اوصافِ جلالی کا نور دیکھا تو اسے لے کر اپنے بانی کی تعریف میں پل باندھ دیئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تبعین نے اپنے مسیح کے اوصاف جمالی کا نظارہ کیا تو اس سے مسحور ہوکر انہیں خدا کے پہلو میں جابٹھایا۔
گوئتم بدھ کے نام لیووں نے اپنے بانی کی نفس کشی اور فنائیت کو دیکھ کر اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے مِلا دئیے۔ مگر اسلام کا بانی خدائے ذوالعرش کی کامل تصویر تھا اس لئے اس کے کمال نے اس بات سے انکار کیا کہ اس کاکوئی وصف اس کے کسی دوسرے وصف سے ہیٹا ہو۔ وہ اپنی امت کی کامل اصلاح کا پیغام لایا تھا اس لئے اس کی تصویر کا کوئی رنگ اس کے دوسرے رنگوں سے مغلوب نہیں ہوا۔ تا ایسا نہ ہو کہ اس کے متبع اس کے غالب رنگ سے متاثر ہوکر اصلاح کے ایک پہلو میں نفع اور دوسرے میں نقصان کا طریق اختیار کرلیں۔ قدرت نے اس کے تمام قوائے فطری کی ایک سی آبپاشی کی اور اس کے وجود میں اپنے اس فعل کو کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۱۴؎ تک پہنچادیا اسی واسطے جہاں دوسرے نبیوں کی بعثت کے لئے الٰہی کلام میںان کے حسبِ حال اور اور رنگ کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو خدا تعالیٰ نے خود اپنی آمد کہہ کر پکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح خدا کی ہستی کی بہترین دلیل خود خدا کی ذات ہے جو بغیر کسی بیرونی توسّل کے خود اپنی قدرت وجبروت کے زور سے اپنے آپ کو منواتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال کی بہترین دلیل خود آپ.6ؐ کا وجودِ باجود ہے۔ جو اپنے ہر وصف میںایک سی کشش اور ایک سی طاقت کے ساتھ دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کررہا ہے۔
نادر کرشمۂ قدرت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت صرف ان روحانی کمالات تک محدود نہیں جو نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بلکہ اس نادر کرشمۂ قدرت نے دین ودنیا کے جس میدان میں قدم رکھا ہے وہاں حُسن واحسان کا ایک کامل نقش اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔ یہ دلائل وامثلہ کی بحث میں پڑنے کا موقع نہیں ورنہ میں تاریخ سے مثالیں دے دے کر بتاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بچہ تھے تو بہترین بچہ تھے۔ اور جب جوان ہوئے تو بہترین جوان نکلے، ادھیڑ عمر کو پہونچے تو ادھیڑ عمر والوں میں بے مثل تھے اور جب بوڑھے ہوئے تو بوڑھوں میں لاجواب ہوئے۔ شادی کی تو بہترین خاوند بنے اور جب بادشاہ بنے تو دنیا کے بادشاہوں کے سرتاج نکلے۔ کسی کے دوست ہوئے تو جہان کی دوستیوں کو شرمادیا اور اگر کوئی آپ کا دشمن بنا تو اُس نے آپ.6ؐ کو اپنا بہترین دشمن پایا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو آپ.6ؐ کے سامنے ہمیشہ کے لئے نیچا کردیا۔ فوج کی کمان لی تو دنیا کے جرنیلوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ اور سیاست کی تو سیاست کا ایک بہترین ضابطہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ انتظامی حاکم بنے تو ضبط ونظم کی مثال بن گئے اور قضا کی کرسی پر بیٹھے تو عدل وانصاف کا مجسمہ نظر آئے۔ فاتح بنے تو دنیا کے فاتحین کو ایک سبق دیا۔ اور کبھی کسی معرکہ میں حکمت الٰہی سے مفتوح ہوئے تو مفتوح ہونے کا بہترین نمونہ قائم کیا۔ معلم خیر بنے تو جذب وتاثیر میں عدیم المثال نکلے اور عابد کا لباس پہنا تو تعبّد کو انتہا تک پہونچا دیا اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ کبھی کسی وصف پر زور ہو اور کبھی کسی وصف پر اپنے اپنے موقع پر ہر وصف کا دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ کامل طور پر ظہور ہوا۔ اور جب بالآخر خدا کی طرف سے واپسی کا پیغام آیا تو موت کا کیسا دلکش اور کیسا پیارا نقشہ پیش کیا کہ نزع کا عالم ہے اور روح جسم کے ساتھ اپنی آخری کڑیاں توڑ رہی ہے اور یہاں زبان پریہ الفاظ ہیںکہ
’’ اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانکُم۱۵؎یعنی
اے مسلمانوں تم خدا کی عبادت میں کبھی سست نہ ہونا۔ کہ وہی ہرخیروبرکت اور ہر قوت وطاقت کا منبع ہے۔ اور دنیا میں جو لوگ تم سے کمزور ہوں۔ اور تمہارے اختیار کے نیچے رکھے جائیں اُن کے حقوق کی حفاظت کرنا۔‘‘
اور جب رشتہ حیات ٹوٹنے کے لئے آخری جھٹکا کھاتا ہے تو آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ ہیں۔
’’اَللّٰھُمّٰ بِالرَّفِیْقِ الْاَ علٰی اللَّھم بِالرفیقِ الا عْلٰی۱۶؎ یعنی
اے میرے آقا تو اب مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مجھے اپنی رفاقتِ اعلیٰ میں لے لے۔‘‘
مطہر زندگی اور مطہر موت
یہ اسی پاک ومطہر زندگی اورپاک ومطہر موت کا اثر تھا کہ جب وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی،اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ.6ؐ کے چہرۂ مبارک پر سے چاردر ہٹا کر آپ.6ؐ کی پیشانی کو بوسہ دیا تو اس زندگی بھر کے رفیق کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ کہ طَبْتَ حیًّا ومیّتاً۱۷؎ یعنی ’’تو زندہ تھا تو بہترین زندگی کا مالک تھا اور فوت ہوا تو بہترین موت کا وارث بنا۔‘‘ کیا کسی اور نبی کے اوصاف میں یہ ہمہ گیر افضیلت نظر آتی ہے۔ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اور نبی ایسا گزرا ہے جس کی زندگی اتنے مختلف پہلوئوں کے مناظِر پیش کرتی ہو؟
من کل الوجُوہ افضلیّت
یہ اسی ہمہ گیر افضلیت کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ.6ؐ کے لئے ایسی کامیابی مقدر کی جس کی مثال کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ بے شک خدا کے ازلی رفیق لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.6ْ۱۸؎ کے ماتحت ہر نبی زکے لئے غلبہ مقدر ہوتا ہے مگر غلبہ کے بھی مدارج ہیں اور یقینا جو غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہوا اس کے سامنے دوسرے نبیوں کی کامیابی اسی طرح ماند ہے جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے دوسرے اجرام سماوی کی روشنی ماند ہوتی ہے۔ غرض جس جہت سے بھی دیکھاجائے جن پہلوئوں سے بھی مشاہدہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات دوسرے رہنمایانِ عالم سے اس طرح ممتاز وفائق نظر آتی ہے جیسے ایک بلند مینار آس پاس کی تمام عمارتوں سے ممتاز وبالا ہوتا ہے۔ اور آپ کا یہ امتیاز کسی ایک وصف یا کسیِ ایک شعبۂ زندگی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور من کل الوجوہ ہے۔ اسی لئے جہاں دوسرے انبیاء مرسلین کی تعریف میں ان کے خاص خاص اوصاف کو چُن لیا جاتا ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تعریف سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ:-
’’محمدؐ ہست بُرہان محمد.6ؐ‘‘
اللّٰھَمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ
(مطبوعہ الفضل ۶ نومبر ۱۹۳۲ئ)
۱۹۳۳ء
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے کی ہدایات صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ولایت روانہ ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی انہیں نہایت ضروری اور اہم ہدایات تحریر فرما کردیں۔ ذیل میں انہیں افادہ عام کے لئے درج کیا جاتا ہے۔
عزیزم مظفر احمد سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ:
اب جبکہ تم ولایت کے لمبے سفر پر جارہے ہو ۔( اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اورتمہیں ہرقسم کی دینی ودنیوی خیریت کے ساتھ کامیاب اور بامراد واپس لائے) میں چاہتا ہوں کہ اپنی سمجھ کے مطابق جو باتیں تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں وہ تمہیں اختصار کے ساتھ لکھ کردوں تاکہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ تمہارے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق وھوالمستعان
ہر اچھی بات اختیار کرو اور بُری سے بچو
(۱) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا مذہب تہذیب اورتمدن بالکل جدا ہے۔ یہ ملک تمہارے واسطے گویا ایک نئی دنیا کا حکم رکھتا ہے۔ اس میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے داخل ہو۔ اس ملک میں بہت سی باتیں تمہیں مفید اور اچھی ملیں گی انہیں اس تسلی کے بعد کہ وہ واقعی اچھی ہیں بیشک اختیار کرو اور ان سے فائدہ اٹھائو کیونکہ مفید اور اچھی چیز جہاں بھی ملے وہ مومن کا مال ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ
’’ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث وجدھا۱۹؎یعنی
ہر اچھی بات مومن کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ وہ جہاں بھی ملے اسے لے لینا چاہیئے۔‘‘
مگر جہاں اس ملک میں اچھی باتیں ملیں گی وہاں بہت سی خراب اور ضرررساں باتیں بھی ملیں گی۔ ان باتوںکے مقابلہ پر تمہیں اپنے آپ کو ایک مضبوط چٹان ثابت کرنا چاہیئے اور خواہ دنیا کچھ سمجھے مگر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خراب اور ضرررساں چیز کے معلوم کرنے کا یقینی معیار سوائے اس کے اور کوئی نہیںکہ جوبات خدا اور اس کے رسول کے حکم اور موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کے خلاف ہے وہ یقینا نقصان دہ اور ضرررساں ہے۔
دین اور اخلاق کی حفاظت
(۲) ولایت میں تمہیں اپنے دین اور اخلاق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ملک اپنے اندر بعض ایسے عناصر رکھتا ہے جو دین اور اخلاق کے لئے سخت ضررساں ہیں۔ پس اس ملک میں دعا اور استغفار کرتے ہوئے داخل ہو اور جب تک اس میں رہو یا اس قسم کے دوسرے ملک میں رہو۔ خاص طور پر دعا اور استغفار پر زوردو تاکہ تمہارا دل ان ممالک کے مخفی زہروں سے محفوظ رہے اور زنگ آلود نہ ہو۔ نماز کی نہایت سختی کے ساتھ پابندی رکھو اور اسے اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ اسی طرح اسلام کی دوسری عبادات اور احکام کی پابندی اختیار کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ساری برکت اور کامیابی کا راز مخفی ہے۔
تعلق باللہ کے لئے کوشش
(۳) باوجود اسلام کی مقرر کردہ عبادات اور اس کے احکام کی پابندی اختیار کرنے کے یہ یاد رکھو کہ یہ باتیں اسلام میں بالذات مقصود نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اصل مقصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اصل مقصد خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا ہے۔ پس اپنی عبادت میں ہمیشہ اس مقصد کو یاد رکھو اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ وہ باوجود نماز کے پابند ہونے کے نماز سے غافل ہوتے ہیں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہزار برس کی نمازیں جو اس مقصد سے لاپرواہی کی حالت میں ادا کی جاتی ہیں اس ایک سجدہ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے سچی تڑپ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ پس اپنی ہرعبادت میں اور اپنے ہر عمل میں اس بات کی کوشش کرو کہ خدا کے قرب اور خدا کی محبت میں ترقی ہو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا ہوجائے۔ اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو بالکل خدا کے حکم اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت چلائو اور کوشش کرو کہ تم میں خدا اوراس کے رسول کی صفات جلوہ فگن ہوجائیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
مذہبی کتب کا مطالعہ
(۴) میں تمہیں اپنی طرف سے ایک قرآن شریف اور ایک کتاب حدیث اور بعض کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور ایک کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دے رہا ہوں ان کا باقاعدہ مطالعہ رکھو اور خصوصاً قرآن شریف اور اس زمانہ کے لحاظ سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مطالعہ میں ہرگز کوتاہی نہ کرو کیونکہ ان میں زندگی کی روح ہے۔ قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرو اور اس کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالو۔ قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کا ظاہر صحیفہ فطرت کی طرح بہت سادہ ہے مگر اس کے اندر حقائق اور معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں۔ جن سے انسان اپنے غور اورفکر اور تدبر کے مطابق فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر قرآن شریف کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے زیادہ یقینی رستہ تقویٰ اور طہارت ہے۔ اس کے بغیر قرآن شریف کے حقائق انسان پر نہیں کھل سکتے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کو قرآن شریف ہمیشہ ایک سطحی کتاب نظر آتا ہے حالانکہ سمجھنے والے جانتے ہیں کہ گو اس کا ظاہر سادہ ہے مگر اس کے اندر بے شمار ذخیرے مخفی ہیں جو تقویٰ اور طہارت کے ساتھ غور کرنے والوں پر کھلتے ہیں۔ حدیث کا جو حصہ یقینی ہے وہ بھی اپنے اندر انتہائی اثر اور صداقت رکھتا ہے اور اس کے مطالعہ سے انسان روحانی پیاس کی سیری محسوس کرتا ہے اور اس زمانہ کے لئے خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتب میں خاص اثر رکھا گیا ہے۔ ان سب سے علی قدرِ مراتب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
لباس کے متعلق ہدایت
(۵) جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا لباس یہاں کے لباس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ اصولی بات یادرکھو کہ اسلام کو اصولاً لباسوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لباس گردوپیش کے حالات اور ملک کی آب وہوا پر منحصر ہے۔ پس اگر تم وہاں کی آب وہوا کے ماتحت وہاں کے لباس کاکوئی حصہ اختیار کرنا ضروری سمجھو تو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر انگریزی لباس میںایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجّال کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے ناپسند فرماتے تھے۔ اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ پس گو ظاہری اور جسمانی لحاظ سے انگریزی ٹوپی مفید ہو۔ مگر اس کی ان associationsکی وجہ سے اس کا روحانی اثر ضرررساں ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا۔ بلکہ اگر کسی چیز کے استعمال میں وہاں کے حالات کے ماتحت کوئی فائدہ یا خوبی پائو تو اسے بیشک اختیار کرسکتے ہو۔ ہاں یہ ضرور مدنظر رکھنا کہ لباس کے معاملہ میں حتّٰی الوسع سادگی اختیار کی جائے نمائش یا بھڑکیلا پن یا فضول خرچی مومن کی شان سے بعید ہے اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال تو تم جانتے ہو کہ مردوں کے لئے منع ہی ہے۔
خوراک کے متعلق ہدایت
(۶)ولایت کے سفر میںخوراک کا معاملہ بھی خاص توجہ چاہتا ہے۔ ان ممالک میں شراب اور سؤر کے گوشت کی اس قدر کثرت ہے کہ جب تک انسان خاص توجہ سے کام نہ لے غلطی یا غفلت سے ان میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شراب کا معاملہ تو خیر نسبتاً سہل ہے کیونکہ اس میں غلط فہمی کا امکان بہت کم ہے۔ مگر سؤر کے گوشت کے معاملہ میں بسااوقات غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کی نگرانی رکھنی چاہیئے کہ کھانے میں غلطی سے ممنوع گوشت سامنے نہ آجائے۔ مگر شائد اس سے بھی زیادہ نگرانی کی ضرورت اس بات میں ہے کہ کہیں غلطی سے ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت استعمال نہ ہوجائے۔ یورپ میں اورجہاز پر بھی اکثر ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ یعنی خود جانور تو جائز ہوتا ہے مگر ذبح کا طریق غلط ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی دوکانوں سے گوشت منگوایا جائے جو اسلامی طریق پر جانور ذبح کرتے ہیں۔ مثلاً یہودی لوگ اس معاملہ میں بہت محتاط ہیں اور خالص اسلامی رنگ میں ذبح کرتے ہیں۔ ان کی دوکانوں سے گوشت منگوایا جاسکتا ہے۔ اور جہاز وغیرہ پر جہاں انتظام اپنے ہاتھ میں نہ ہو وہاں مچھلی اور انڈے کی غذا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی عادت ڈال لینی چاہیئے کہ stewardیاwaiterکو پہلے سے تاکید کردی جائے کہ شراب یا سؤر کا گوشت یا غیراسلامی طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت سامنے نہ آئے۔ اور کھانا سامنے آنے پر بھی پوچھ لینا چاہیئے۔ جہاز پر غالباً جاتے ہوئے تو بمبئی سے ذبح کیا ہوا گوشت ذخیرہ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی تسلی کرلینی چاہیئے۔ اگر گوشت مشکوک ہو تو سبزی اور مچھلی اور انڈے اور پھل کی صورت میں دوسری غذا بکثرت مل سکتی ہے۔ خوراک کا معاملہ مخفی طور پر انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے اس معاملہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے اور پھر اسلامی احکام کی تعمیل مزیدبرآں ہے۔
اسلامی شعار کی پابندی
(۷)ایک بات اسلامی شعار کی پابندی ہے۔ ظاہری ہئیت کے متعلق جو اسلامی طریق ہے خواہ وہ شریعت کے احکام سے ثابت ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تعامل سے اس کی پابندی اختیار کرنی ضروری ہے شعار کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ انسان کے اندر ونہ پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ دوسروں کے لئے ظاہر میں دیکھنے والی چیز صرف شعار ہی ہے۔ انسان کے اخلاقی زیوروں میں سے اعلیٰ ترین زیور یہ ہے کہ وہ اپنے قومی اور ملّی شعار کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ اسے عزت کی نظر سے دیکھے۔ جو قومیں اس کا خیال نہیں کرتیں وہ آہستہ آہستہ ذلیل ہوجاتی ہیں۔ ڈاڑھی بھی اسلامی شعار کا حصہ ہے اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہ صرف اس پر عمل کیا ہے بلکہ زبانی طور پر بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے۔
پس اس شعار کا تمہیں احترام کرنا چاہیئے۔ اسلام کا یہ منشاء نہیں کہ ڈاڑھی اتنی ہو یا اُتنی نہ ہو۔ ان تفصیلات میں اسلام نہیں جاتا کیونکہ یہ باتیں انسان کی اپنی وضع اور مرضی پر موقوف ہیں مگر اسلام یہ ضرور چاہتا ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے خواہ وہ کتنی ہی ہو۔ ڈاڑھی مرد کا فطرتی زیور اور حسن ہے۔ اور اس کے رکھنے میں بہت سے طبی اور اخلاقی فوائد مخفی ہیں۔ انگلستان میں بھی اب تک بادشاہ ڈاڑھی رکھتا ہے اور اور بھی کئی بڑے بڑے لوگ رکھتے ہیں۔
خدمتِ اسلام
(۸) تمہیں اپنے ولایت کے قیام میں اپنے حالات کے مطابق اسلام اور سلسلہ کی تبلیغ میں بھی حصہ لینا چاہیئے اور اس کا سب سے زیادہ سہل طریق یہ ہے کہ وہاں کے مشن کے کام میں جہاں تک ممکن ہو امداد دو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اسے سرانجام دینے کی پوری پوری کوشش کرو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے بہتر تبلیغ انسان کے اپنے نمونہ سے ہوتی ہے۔ اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ اسلام بہتر مذہب ہے۔
تعلیم کے متعلق ہدایت
(۹) تمہاری تعلیم کے تعلق میں مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیںہے۔ تم سمجھدار ہو اور اس لائن میں کافی تجربہ حاصل کرچکے ہو۔ اپنے وقت کی قدروقیمت کو پہچانتے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرو اور یاد رکھو کہ دنیا میں جو مرتبہ محنت کو حاصل ہے۔ وہ عام حالات میں ذہن کو بھی حاصل نہیں ہے۔ محنت سے اگر وہ ٹھیک طرح پرکی جائے ذہن کی کمی بڑی حدتک پوری کی جاسکتی ہے مگر ذہن محنت کی کمی کو پورا نہیں کرسکتا۔ پس محنت کی عادت ڈالو۔ اور محنت بھی ایسی جسے گویا کام میں غرق ہوجانا کہتے ہیں۔ ایسی محنت اگر صحیح طریق پر کی جائے اور خدا کا فضل شامل ہو جائے تو ضرور اعلیٰ نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ جس لائن کے واسطے تم جارہے ہو اس کے لئے عموماً بہترین لڑکے لئے جاتے ہیں۔ جب تک شروع سے ہی محنت اختیار نہیں کرو گے کامیابی مشکل ہوگی۔ اگر تم محنت کرو تو پھر تمہیں خدا کے فضل سے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیںہے۔ اگر گذشتہ نتائج میں دوسرے طلباء تم سے آگے بھی رہے ہوں تو تم محنت سے ان سے آگے نکل سکتے ہو۔ انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میںہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہیئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے۔
پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کونسا ہے اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہیئے۔ یہ تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سارا دارومدار طالبعلم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے۔ البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ علاوہ ازیں تمہیں چاہیئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو۔ جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اور گذشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہیئے۔
اس کے علاوہ تمہیں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے بھی کسی کالج میں داخل ہوجانا چاہیئے کیونکہ ایک تو یہ تعلیم مقابلہ کے امتحان میں مدد دے گی اور دوسرے اگر خدانخواستہ مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کی صورت نہ ہوسکی تو یہ تعلیم ویسے بھی مفید رہے گی۔ بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو بیرسٹری کے علاوہ کوئی اور کورس بھی لے لو بشرطیکہ وہ امتحان مقابلہ کی تیاری میں روک نہ ہو۔ مثلاً بی۔اے کا کورس یا اور اسی قسم کا کوئی کورس لے سکتے ہو۔ غرض اپنے ولایت کے قیام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
تعلیم کا ایک ضروری حصہ اخبار بینی ہے جس کی تمہیں عادت ڈالنی چاہیئے۔ زمانہ حال کے معلومات کے لئے اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیںہے اور ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اسی طرح جو نئی نئی کتب شائع ہوں ان کا بھی مطالعہ رکھنا چاہیئے۔ رسائل کا مطالعہ بھی مفید ہوتا ہے۔
تقریر کی مشق کے لئے تم نے ہندستان میں میری نصیحت کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب اگر خدا توفیق دے تو اس کمی کے بھی پورا کرنے کا خیال رکھنا۔
خرچ کے متعلق
(۱۰) خرچ کے متعلق میں نے دردؔ صاحب کو لکھا ہے وہ وہاں کے حالات کے ماتحت اندازہ لکھ کر بھجوادیں گے۔ جس کے مطابق انشاء اللہ تمہیں خرچ بھجوایا جاتا رہے گا۔ میں نے انہیں لکھا ہے کہ اندازہ لگاتے ہوئے درمیانہ درجہ کے شریفانہ معیار کو مدنظر رکھیں یعنی نہ ہی تو کوئی ناواجب تنگی ہو جو تکلیف کا موجب بنے اور نہ ہی ایسی ہی فراخی ہو جو بے جا آرام وآسائش کا باعث ہو اور فضول خرچی میں شمار ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اپنے اخراجات میں اسی اصول کو مدنظر رکھوگے۔
سوسائٹی کے متعلق
(۱۱) وہاں اپنی سوسائٹی کے انتخاب کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ایسے لوگوں میں ملاجاوے جو اپنی زبانؔ اور عادت واطوار کے لحاظ سے شریف طبقہ کے لوگ سمجھے جاتے ہوں اور رذیل اور بداخلاق اور گندے اور عامیانہ زبان والے لوگوں سے قطعی پرہیز کرنا چاہیئے۔
خط وکتابت کی تاکید
(۱۲) ولایت کی ہندوستان کے ساتھ خط وکتابت ہفت روزہ ہے۔ جس میں ایک عام ڈاک ہے اور ایک ہوائی ڈاک ہے۔ تمہیں چاہیئے کہ التزام کے ساتھ ہرہفتہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو۔ اگر ہوائی ڈاک کے ذریعہ خط لکھ سکو تو بہتر ہوگا ورنہ عام ڈاک میں خط بھجوادیا کرو۔ حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المؤمنین ؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلۂ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوادئیے جائیں۔
اب میں موٹی موٹی باتیں جو تمہیں کہنا چاہتا تھا وہ کہہ چکا ہوں میرے دل میں بہت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ تمہیں کہنا نہیں چاہتا اور بس اسی قدر نصیحت کے ساتھ تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں ۔ خدا تمہیں خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے اور ہر قسم کی مکروہات سے بچاتے ہوئے کامیاب اور مظفرومنصور واپس لائے۔ اٰمین اللہم اٰمین
نوٹ:- ایک بات جو میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لکھنے سے رہ گئی ہے۔ وہ وہاں کی عورتوں کے متعلق ہے۔ ولایت میں علاوہ اس کے کہ عورت بالکل بے پردہ اور نہایت آزاد ہے، آبادی کے لحاظ سے اس کی کثرت بھی ہے جس کی وجہ سے مردوں کو باوجود کوشش کے ان کے ساتھ ملنا پڑتا ہے اور اسی اختلاط کے بعض اوقات خراب نتائج نکلتے ہیں۔ میں عورت ذات کا مخالف نہیں ہوں۔ عورت اللہ کی ایک نہایت مفید اور بابرکت مخلوق ہے اور مرد کے واسطے رفاقت حیات اور اولاد کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے عورت کا وجود ایک نہایت قابل قدر وجود ہے مگر غیر مرد عورت کا بے حجابانہ اختلاط اپنے اندر سخت فتنے کے احتمالات رکھتا ہے اور اسی لئے جہاں شریعت نے عورت کے وجود کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے وہاں یہ بھی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ غیر مرد وعورت ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں پردہ کی ان ان شرائط کو ملحوظ رکھیں۔ ان شرائط میں سے خاص طور پر قابل ذکر یہ ہیں کہ (الف) غیر مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھیں۔(ب) وہ ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں دوسروں سے علیحدہ ہوکر نہ ملیں اور (ج) ان کا جسم ایک دوسرے کے ساتھ نہ چھوئے۔ ان شرائط کے علاوہ شریعت نے اور کوئی خاص شرط پردہ کے متعلق نہیں لگائی۔ پس میںامید کرتا ہوں کہ تم ولایت میں پردے کی ان شرطوں کی پابندی اختیار کرو گے اور دل میں خدا سے دعا بھی کرتے رہو گے کہ وہ تمہیں ہر قسم کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے۔ اللہ تمہارا حافظ وناصر ہو۔
(مطبوعہ الفضل۳۱ اکتوبر ۱۹۳۳ئ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیّت میں
انبیاء کا ایک نمایاں امتیاز
دنیا میں بہت لوگ علم النفس کے ماہر گزرے ہیں اور آج کل تو یہ علم خصوصیت سے بہت ترقی کرگیا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگ جو اس علم کے عالم کہلاتے ہیں۔ ان کا علم صرف اصطلاحات کی واقفیت تک محدود ہوتا ہے اور اگر اصطلاحات کے علم سے اوپر گزر کر کبھی کسی کو حقیقی علم تک رسائی بھی ہوتی ہے تو وہ صرف اس فن کے علمی حصہ تک محدود رہتی ہے اور اس کا عملی حصہ جو حقیقۃً مقصود ہے اس فن کے اکثر ماہرین کے دائرہ حصول سے باہر رہتا ہے اور صرف علم النفس پر ہی مصر نہیں۔ دنیا میں بہت سے علوم اسی نامرادی کی حالت میں پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کا مبلغ علم اصطلاحات کی حد سے آگے نہیں جاتا۔ اور جن صورتوں میں وہ آگے جاتا بھی ہے وہ صرف علمی پہلو تک محدود رہتا ہے۔ اور علوم کے عملی استعمال تک بہت ہی کم لوگ پہونچتے ہیں۔ منطق کے علم کو دیکھو تو ہزاروں لاکھوں اس علم کے ماہر نظر آئیں گے مگر ان کا علم اصطلاحات سے آگے نہیں جاتا اور ان کی عمرِعزیز اصطلاحات کے رٹنے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور اس علم کا جو حقیقی مقصد ہے کہ جرح وتعدیل کا صحیح ملکہ پیدا ہوجائے اس سے اکثر لوگ محروم رہتے ہیں۔ بلکہ بسااوقات منطقی لوگ اپنے دلائل میں زیادہ بودے اور سطحی پائے گئے ہیں کیونکہ اصطلاحات کی الجھن ان کے لئے حقیقت تک پہونچنے کے رستے میں روک بن جاتی ہے لیکن عام لوگوں کے مقابل پر اگر انبیاء کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ امتیاز نمایاںصورت میں نظر آتا ہے کہ ان کے جُملہ علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ گو بعض اوقات علوم کی اصطلاحات سے بوجہ ظاہری تعلیم کی کمی کے واقف نہیں ہوتے مگر ہر علم جواُن کے دائرۂ کار سے تعلق رکھتا ہے اس کے اصل مقصدومدعا یا بالفاظِ دیگر اس علم کے گودے اور جوہر سے انہیں پوری پوری واقفیت ہوتی ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی شخص ایسے علم کا عالم مل نہیں سکتا۔
انبیاء اور علم النفس
علم النفس بھی جو گویا انسان کے ذہنی اور قلبی تاثرات کا علم ہے انبیاء کے مخصوص علوم کا حصہ ہے کیونکہ تربیت اور اصلاح کے کام سے اس علم کو خاص تعلق ہے بلکہ حق یہ ہے کہ شریعت کی داغ بیل زیادہ تر اسی علم کی بناء پر قائم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ قرآن شریف ہمیں بتاتا ہے اور حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے انبیاء کے بھی مدارج ہیں جیسا جیسا کام کسی نبی کے سپرد ہونا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق دی جاتی اور علوم کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔
رسول کریمؐ اور علم النفس
ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خاتم النبیئینؐ تھے اور بخلاف گزشتہ انبیاء کے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپ.6ؐ کا پیغام ہراسودواحمر کے نام تھا۔ اور آپ.6ؐ کی شریعت ہر قوم اور ہرزمانہ کے لئے بھیجی گئی تھی۔ اس لئے طبعاً آپؐ کے اندر وہ قوتیں بھی ودیعت کی گئی تھیں اور وہ علوم آپ.6ؐ کو عطا ہوئے تھے جو اس عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کے لئے ضروری تھے اور اس میں کسی نبی کی ہتک نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء میں سے کسی کو وہ علوم نہیں دیئے گئے جو آپ.6ؐ کو دیئے گئے اور کوئی ان قوتوں کو ساتھ لے کر نہیں آیا جنہیں لے کر آپ.6ؐ مبعوث ہوئے۔ اسی لئے آپ.6ؐ نے فرمایا ہے۔ ا.6َٔنَاسَیَّدُ وَلَدِاٰدْمَ وَلَافَخْر.6َ۲۰؎ میں آدمؑ کی اولاد کا سردار ہوں مگر اس کی وجہ سے میں اپنے نفس میں کوئی تکبر نہیں پاتا اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم افضل الرسل تھے تو ضروری تھا کہ علم النفس میں بھی جس کا جاننا فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ گویا لازم وملزوم کے طور پر ہے۔ آپ.6ؐسب سے اول اور سب سے آگے ہوں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقۃً ایسا ہی تھا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے تربیت اور اصلاح کا عظیم الشان اور عدیم المثال کام لینا تھا۔ اس لئے یہ علم آپ.6ؐ کے وجود میں اس طرح سرایت کئے ہوئے تھا جیسے ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبو کر نکالنے کے بعد پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ایک قدرتی چشمے کے طور پر اس علم کی ابدی صداقتیں آپؐ سے پھوٹ پھوٹ بہتی تھیں۔ چونکہ میرے لئے اس مختصر مضمون میں اس موضوع کے سارے پہلوئوں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کسی ایک پہلو کو بھی تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جاسکتا۔ اس لئے میں اس جگہ نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند مثالیں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بیان کروں گا جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپؐ کی ہر بات علم النفس کے ابدی اصول کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نکلتی تھی۔ اور زیادہ اختصار کے خیال سے میں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بھی صرف اس حصہ کو لوں گا جو روزمرہ کی گفتگو اور بے ساختہ نکلی ہوئی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔
رسول کریمؐ کے کلام کا کمال
میں بتاچکا ہوں کہ عام زبان میں علم النفس اس علم کا نام ہے جو انسانی ذہن کی تشریح اور اس کے کام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس علم میں ذہنی اور قلبی تاثرات سے بحث کی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کس طرح اثر قبول کرتا ہے اور اس کے خیالات کی روئیں کس طرح اور کن اصول کے ماتحت چلتی ہیں۔ وغیرذالک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں یہ کمال تھا کہ اس میں مخاطب فرد یا جماعت کی ذہنی کیفیت کا پورا پور لحاظ رکھا جاتاتھا اور کسی فرد یا جماعت کے خیالات کی اصلاح کے لئے جو بہترین طریق ہوسکتا ہے اس کے مطابق آپ کی زبان مبارک گویا ہوتی تھی۔ اور اس لئے سوائے اس کے کہ مشیتِ ایزدی دوسری طرح ہو آپ.6ؐ کی ہر بات ایک آہنی میخ کی طرح سامع کے دل میں دھنس جاتی تھی اور آپ اپنے مخاطب کے خیالات کی رَو کو غلط رستے پر جاتا دیکھ کر یا یہ سمجھ کر کہ اس کے غلط رستے پر پڑنے کا احتمال ہے فوراً ایسی بات فرماتے تھے جو سامع کی ذہنی رَو کو کاٹ کر اس کا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسی مثالیں آپ.6ؐ کی زندگی میں ہزاروں ملتی ہیں بلکہ آپ.6ؐ کی ساری زندگی ہی اس کی مثال ہے۔ مگر میں اس جگہ بطور نمونہ صرف چند مثالیں بیان کردینے پر اکتفا کروں گا۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ۔
جنگ بدر کے موقع کی مثال
جنگ بدر کے موقع پر جب کہ ابھی مسلمان لشکرِ کفار کے سامنے نہیں ہوئے تھے اور اکثر مسلمان اس بات سے بے خبر تھے کہ کفار کا ایک جرار لشکر مکہ سے نکل کر آرہا ہے۔ اور صرف اس خیال سے گھر سے نکلے تھے کہ قافلہ سے سامنا ہوگا۔ اس وقت بعض صحابہ نے کفار مکہ کا ایک سپاہی جوانہیں ایک چشمہ پر مل گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر پیش کیا۔ آپ.6ؐ نے اس سے لشکرِ کفار کے متعلق بعض سوالات کئے اور پھر پوچھا کہ رؤساء مکہ میں سے کون کون ساتھ ہے۔ اس نے کہا عتبہ شیبہ امیہ۔ نظربن حارث۔ عقبہ۔ ابوجہل۔ ابوالبختری۔ حکیم بن حزام وغیرہ سب ساتھ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ قبیلہ قریش کے روح رواں تھے اور نہایت بہادر اور جری سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ان کے نام سُن کر اور یہ معلوم کرکے کہ مکہ کے سارے نامی لوگ مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکل آئے ہیں۔ بعض کمزور صحابہ کسی قدر گھبرائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو بے۔ساختہ فرمایا۔ ھذہ مکّۃ قدالقت الیکم اخلاف کبدھا۲۱؎۔ لومکہ نے تو تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں۔یعنی تم خوش ہو کہ خدانے تمہارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کردیا ہے۔ صحابہ کے خیالات کی رو فوراً پلٹا کھاگئی کہ یہ تو کوئی گھبرانے کا موقع نہیں ہے بلکہ خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ان روساء کفار کو ہمارے ہاتھوں تباہ کرنے کے لئے یہاں جمع کردیا ہے اور اس طرح وہی خبر جو کمزور طبیعت مسلمانوں کے لئے پریشانی اور خوف کا باعث بن سکتی تھی۔ آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بے ساختہ نِکلی ہوئی بات سے ان کے لئے خوشی اور تقویت کا باعث بن گئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فقرہ کسیِ غوروفکر کے نتیجہ میں نہیں فرمایا بلکہ ادھر آپ.6ؐ نے مکہ کے سپاہی کے مونہہ سے یہ الفاظ سنے اور صحابہ کے چہروں پر نظر ڈال کر گھبراہٹ کے آثار دیکھے اور اُدھر بے ساختہ طورپر آپ.6ؐ کے مونہہ سے یہ لفظ نکل گئے۔ جیسا کہ ایک تیر اپنی کمان کے چلّہ سے نکل جاتا ہے اور اس بات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خیالات کی روپلٹا کھاکر فوراً اپنا رخ بدل گئی۔
فتح مکّہ کے موقع کی مثال
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابوسفیان رئیس مکّہ کی دلداری منظور تھی۔ اور آپؐ نے اس کے ساتھ اس بارے میں بعض وعدے بھی فرمائے تھے۔ جب اسلامی لشکر نہایت درجہ شان وشوکت کے ساتھ اپنے پھریرے لہراتا ہوا مکہ کی طرف بڑھا اور ابوسفیان ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا اس تزک واحتشام کو دیکھ رہا تھا۔ تو اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے حضرت سعدبن عبادہ رئیس انصار نے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور علم بردار تھے ابوسفیان کو سُناکر کہاکہ آج مکہ والوں کی ذلّت کا دن ہے۔ ابوسفیان کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح لگی۔ اس نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ،وسلم سے کہا:-
’’آپ.6ؐ نے سنا سعد نے کیا کہا ہے۔ سعد کہتا ہے کہ آج مکّہ کی ذلّت کا دن ہے۔‘‘
آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’ سعد نے غلط کہا۔ آج تو مکّہ کی عزت کا دن ہے۔ سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے۔‘‘۲۲؎
یہ ایک بے ساختگی کا کلام تھا۔ مگر دیکھو تو اس میں علم النفس کی کتنی ابدی صداقتیں مخفی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مکہ والوں کی ذلّت کے فقرہ سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ میں داخل ہوں تو مکہ والوں کی یہ ذلّت ہے حالانکہ مکہ خواہ مفتوح ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آرہا ہے۔ تو اس کی عزت ہی عزت ہے۔ اور پھر مکہ کا مقام ایسا ہے کہ اسے کسی صورت میں ذلّت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے سعد کے فقرہ سے اور اس فقرہ کے کہنے کے انداز سے مسلمانوں کے دلوں میں ابوسفیان کے متعلق تحقیر کے جذبات پیدا ہوسکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء اس کی دلداری کرنا تھا۔ اس لئے آپ.6ؐ نے فوراً ابوسفیان کی شکایت پر سعد کو تنبیہ فرمائی۔ اور مسلمانوں کے خیالات کوغلط رستے پر پڑنے سے روک لیا۔ تیسرے آپؐ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سعد کے مونہہ سے یہ بات بے اختیار نکلی ہے اور جان بوجھ کر نہیں کہی گئی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سعد اپنے قبیلہ کا سردار ہے۔ حتی الوسع اس کی تحقیر بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ حکم تو دیا کہ اس کے ہاتھوں سے سرداری کا جھنڈا لے لیا جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ یہ جھنڈا اس سے لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے تاکہ سعد کی بھی دلداری رہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر طعن کا موقع نہ پیدا ہو۔ غور کرو۔ ان مختصر سے الفاظ میں جو بے ساختہ آپ.6ؐ کے مونہہ سے نکلے، آپؐ کی نظر کہاں کہاں تک پہنچی۔ گویا ایک آن واحد میں آپؐ کے الفاظ نے کئی ذہنی دروازے جو نقصان دہ تھے، بندکردیئے اور کئی ذہنی دروازے جو نفع مند تھے وہ کھول دیئے۔
غزؤہ حنین کے موقع کی مثال
غزؤہ حنین کے بعد جب غنائم کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ والوں کی تالیف قلب کے خیال سے انہیں زیادہ حصہ دیا۔ بعض جوشیلے اور کم فہم انصار کو اس پر شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر انعام مکہ والے لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات پہونچی تو آپؐ نے انصار کو ایک علیحدہ جگہ میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ مجھے ایسی ایسی خبر پہونچی ہے۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوسکے کہ لوگ تو بھیڑ بکری اور اونٹ لئے جاتے ہیں مگر تمہارے ساتھ خدا کا رسول جارہا ہے۔ انصار کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے بعض نادان نوجوانوں کے مونہہ سے یہ فقرہ نکل گیا تھا۔ ہم خدا کے رسول کو لیتے ہیں۔ ہمیں دنیا کے اموال کی رغبت نہیں۔ آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’اے انصار کے گروہ۔ اب تم مجھے جنت میں حوضِ کوثر پر ہی ملنا۔‘‘۲۳؎
علم النفس کے ماتحت اس واقعہ کے پہلے حصہ کی تشریح واضح ہے۔ کسی نوٹ کی ضرورت نہیں مگر آپ.6ؐ کا آخری فقرہ کچھ تشریح چاہتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ اور صاف فقرہ ہے۔ مگر علم النفس کے سانچے میں کس طرح ڈھل کر نکلا ہے ۔ آپ.6ؐ کا منشاء یہ تھا کہ تم میں سے بعض نے دنیا کا لالچ کیا ہے۔ اب اس کی پاداش میں تمہیں دنیا میں اس خدائی انعام سے محرومی رہے گی جو دنیا کے انعاموںمیں سب سے بڑا انعام ہے۔ یعنی حکومت وسلطنت۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اخلاص اور تمہاری قربانیاں رائگاں گئیں۔ بلکہ اس کے لئے تم مجھے آخرت میں حوضِ کوثر پر آکر ملنا۔ وہاں تم آخرت کے انعاموں سے مالامال کئے جائو گے۔ اور خدا تمہاری سب کسریں نکال دے گا مگر دنیا میں حکومت واقتدار کا انعام اب تمہیں نہیں ملے گا۔ گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے انصار کے دل میں یہ سبق پختہ طور پر جمادیا کہ اگر قومی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہو اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ سنبھال کر چلو ورنہ ایک حصہ کا وبال دوسرے حصہ کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اور اسی فقرہ میں آپ نے یہ بھی بتادیا کہ تم نے میرا دامن پکڑ کر دنیا کی نعمتوں کا لالچ کیا اب تمہیں دنیا کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے مگر چونکہ خیالات کی اس رو کے ساتھ فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گویا انصار کی جماعت خدائی انعامات سے محروم رہی۔ اس لئے آپؐ نے ساتھ ہی اس کا ازالہ فرمادیا کہ نہیں۔ ایسا نہیں بلکہ خدا انہیں آخرت میں انعامات کا وارث بنائے گا۔ اور چونکہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے اگر آخرت میں انعامات مل جائیں تو دنیا کی محرومی چنداں قابل لحاظ نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فقرہ میں یہ مزید لطافت ہے کہ گو آپ.6ؐ کا اصل منشاء اس موقع پر انصار کو تنبیہہ کرنا تھا۔ لیکن آپ.6ؐ نے انعام کے حصہ کو تو صراحت کے ساتھ لفظوں میں بیان فرمادیا۔ مگرسزا اور محرومی کے مفہوم کو لفظوں میں نہیں بیان کیا۔ بلکہ بین السطور رکھا یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اب تمہیں دنیا میںحکومت کا انعام نہیں ملے گا۔ بلکہ صرف اس قدر فرماکر خاموش ہوگئے کہ اچھا اب تم مجھے آخرت میں ملنا مگر چونکہ یہ ایک توبیخ کا موقع تھا آپ.6ؐ نے یہ بات نہیں کھولی کہ آخرت میں تم خدائی انعامات سے بہت بڑا حصہ پائو گے۔ بلکہ صرف اس قدرفرمانے پر اکتفا کی۔ کہ مجھے حوضِ کوثر پر ملنا۔ یعنی اس حوض پر میرے پاس آنا۔ جہاں ہر انعام اور ہرخوبی اپنی انتہائی کثرت میں پائی جائے گی۔ جس میں اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی محرومی کی تلافی آخرت کے انعاموں کی کثرت سے ہوجائے گی۔ یہ صحرائے عرب.6ؐ کے اس امّی نبی.6ؐ کا کلام ہے جو ظاہری علم کے لحاظ سے ابجد تک سے بے بہرہ تھا۔
ایک اور موقع کی مثال
مشیّت ایزدی کے ماتحت ایک جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور کئی صحابی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ بعد میں یہ لوگ شرم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو مسجد کے کونے میں منہ چھپائے تاریکی میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تو پوچھا تم کون ہو۔ وہ شرم سے پانی پانی ہورہے تھے روکر عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَحْنُ الْفَرَّرُوْنَ، ہم بھگوڑے ہیں۔ یارسول اللہ آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔ بَلْ انْتُمْ الْعَکَّارُوْنَ۔۲۴؎ نہیں نہیں تم بھگوڑے نہیں ہو۔ تم تو دوبارہ حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہو۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی مذامت میں ڈوبے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ہم آپ.6ؐ کو کیا مونہہ دکھائیں۔ ہم تو میدان میں پیٹھ دکھا چکے ہیں۔ آپؐ دیکھتے ہیں۔ کہ ان کی ہمتیں گری جاتی ہیں۔ فوراً فرماتے ہیں کہ تم بھگوڑے کہاں ہو تم تو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہو۔ میرے ساتھ ہوکر پھر جنگ کے لئے نکلوگے اور اس ایک لفظ سے گرے ہوئے پست ہمت سپاہی کو اس کی پستی سے اٹھا کر کسی بلندی پر پہونچا دیتے ہیں!
(مطبوعہ الفضل۲۶ نومبر۱۹۳۳ئ)
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
الحمدللہ کہ مورخہ ۱۹ دسمبر۱۹۳۳ء سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ مہینہ نہایت درجہ مبارک ہے۔ اور اس کے اوصاف میں بہت سی قرآنی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ رمضان کے ذکر میں فرماتا ہے:-
’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ ۲۵؎
یعنی رمضان کے مہینہ میں میں اپنے بندوں سے قریب ہوجاتا ہوں اور ان کی دعائوں کو خاص طور پر سنتا ہوں۔‘‘
پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ سوائے کسی شرعی عذر مثلاً سفر اور بیماری وغیرہ کے روزہ ہرگز ترک نہ کیا جائے۔ اور روزے کے ایام کو خاص طور پر تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی اور نوافل میں گزارہ جائے۔ اور ہرقسم کے مناہی اور لغویات سے کلی طور پر پرہیز کیا جائے۔ نیز رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر نماز تہجد کا اہتمام کیا جائے اور اپنی اپنی جگہ پر نماز تراویح کا انتظام کرکے قرآن شریف ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
علاوہ ازیں حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مہینہ میں خاص طور پر صدقہ وخیرات پر زور دیتے تھے۔ اس لئے احباب کو بھی اس سنت کے ماتحت رمضان میں حتی الوسع صدقہ وخیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ غرض اس ماہ میں دینی مشاغل اور اعمال صالحہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیئے۔ اور خصوصیت کے ساتھ دعائوں پر بہت زور دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح اور بہبودی کے لئے دعائیں کی جائیں اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود بھیجنے کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی دعا ئیں کی جائیں۔
اس کے علاوہ ایک اور بات جس کی طرف بعض گزشتہ رمضانوں میں بھی توجہ دلائی جاتی رہی ہے یہ ہے کہ ہراحمدی بھائی کوچاہیئے کہ اس رمضان میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا عہد باندھیں اور پھر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اس عہد کو نبھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے متعلق یہ عہد کرلیا کرے کہ آئندہ میں اس سے بچوں گا اور پھر اپنی پوری کوشش کے ساتھ خداسے دعا کرتے ہوئے اس سے ہمیشہ کے لئے مجتنب ہوجائے۔ اس کے متعلق کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اپنے نفس کے ساتھ خدا کو گواہ رکھ کر عہد باندھا جائے۔ البتہ اگر ایسے احباب جو اس رمضان میں اس نسخہ کو استعمال فرمائیں۔ بذریعہ خط مجھے بھی اطلاع بھجوادیں تو میں انشاء اللہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی خدمت میں ان کے اسماء پیش کرکے ان کے لئے خاص دعا کی تحریک کروں گا مگر اس اطلاع میں بھی سوائے کسی بدیہی بات کے اپنی کمزوری کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ایسا اظہار ناجائز ہے بلکہ صرف اس بات کی اطلاع بھجوائی جائے کہ ہم نے اس تحریک کے ماتحت اس رمضان میں اپنی ایک کمزوری کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد باندھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ احباب میری اس تحریک کی طرف خاص توجہ فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
(مطبوعہ الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۳ئ)
حوالہ جات
۱۹۲۷ئ،۱۹۲۸،۱۹۲۹،ئ۱۹۳۲ئ،۱۹۳۳ء
۱۔ شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۲، مسند ابی ھزیرہؓ
۳۔جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
۴۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بداء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد۔ باب فی فدالاسیربالمال۔
۶۔مسند احمد بن حنبل جلد ۷۔ حدیث نمبر۲۴۳۴۳
۷۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی، جامع الترمذی باب الذہد باب ماجاء فی قصر الامل۔
۸۔ التحریم:۷
۹۔صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک
۱۰۔صحیح البخاری کتاب العیدین باب الحراب والدَّرق یوم العید۔
۱۱۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد باب تت۔
۱۲۔ جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۱۳۔ سنن النسائی کتاب الطھارۃ باب مواکلۃ الحائض والشرب من سؤرھا۔
۱۴۔التین:۵
۱۵۔ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایاباب وھل اوصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۱۶۔صحیح البخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت۔
۱۷۔ الطبقات الکبریٰ الابن سعد۔ جلد الثانی ذکر تقبیل ابی بکر صدیقؓ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاتہٗ
۱۸۔المجادلۃ:۲۲
۱۹۔جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقۃ علی العبادۃ۔
۲۰۔ سنن ابنِ ماجہ ابواب الزھد ذکر الشفاعۃ۔
۲۱۔البدایۃ والنھایۃ جلد۳ صفحہ۲۶۵
۲۲۔ اسعد الغابہ جلد نمبر ۲ صفحہ۳۰۰-۳۰۱ ذکر سعد بن عبادۃؓ۔طبع بیروت
۲۳۔ صحیح البخاری کتاب باب المناقب الانصار۔ ۱۔۸۔ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبرو احتّٰی تلقونی علی الحوض
۲۴۔ جامع الترمذی ابوب الجہاد باب ماجاء فی الذارمن الزحف۔
۲۵۔ البقرہ:۱۸۷
۱۹۳۴ء
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
ابتداء رمضان میں مَیں نے اخبار کے ذریعہ احباب کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان کے مبارک مہینہ کی برکات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کے ماتحت یہ بھی تحریک کی تھی کہ احباب رمضان میں اپنی کسی کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور اس طرح اصلاح النفس کے لئے ایک عملی قدم اٹھا کر عنداللہ ماجور ہوں۔ الحمد للہ کہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں بعض احباب نے اس قسم کا عہد باندھا ہے اور مجھے اس سے اطلاع بھی دی ہے۔ گو یہ تعداد زیادہ نہیںمگر ایک نیک تحریک کا جس حد تک بھی نتیجہ نکلے غنیمت ہے۔ میں ایسے احباب کے اسماء خاص دعا کی تحریک کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور جب رمضان کے آخری دن نماز عصر کے بعد دعا ہوگی ۔ اس میں بھی انشائ۔اللہ حضرت کی خدمت میں دوبارہ عرض کروں گا۔ مگر میں اس اعلان کے ذریعہ دوسرے احباب سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی وقت ہے وہ بھی اس تحریک سے فائدہ اٹھائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ علاوہ ازیں آج سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے جو رمضان کا مبارک ترین حصہ سمجھا گیا ہے۔ احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور نوافل اور دعائوں پر زور دیں اور اپنی دعائوں میںا سلام اور سلسلہ کی ترقی کو خصوصیت سے ملحوظ رکھیں اور ہردعا کو تحمید اور درود سے شروع کریں کیونکہ ان کی قبولیت کا یہ ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
(مطبوعہ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ئ)
ایک نہائت ضروری اعلان
دُعا اختتام درس رمضان
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان میں رمضان کے مہینہ میں مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کا درس ہؤا کرتا ہے اس درس کے اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن شریف کی آخری دو سُورتوں کا درس دے کر دُعا فرمایا کرتے ہیں۔ اس سال یہ دُعا انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹ رمضان مطابق ۱۶جنوری ۱۹۳۴ء بروز منگل قبل غروب آفتاب ہوگی۔ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ۔تعالیٰ بعد نماز عصر پہلے درس دیں گے اور پھر دُعا فرمائیں گے۔ بَیرونی احباب اس وقت اپنی اپنی جگہ پر دُعا کا انتظام کرکے اس دُعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز عموماً یہ دُعا بہت لمبی فرمایا کرتے ہیں اور قادیان کے اردگردونواح کے احباب اس میں شریک ہوتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ وقت ایک خاص رقّت اور سوز کا وقت ہوتا ہے۔ بیرونی جماعتوں کو چاہیئے کہ حتیٰ الوسع اپنی اپنی جگہ پر انتظام کرکے اس مبارک موقع میں شرکت اختیار کریں۔
(مطبوعہ الفضل۱۶ جنوری ۱۹۳۴ئ)
ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کُن زلزلہ
اور
خداکے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان
ہرمامورمرسل کے ساتھ نشانات بھیجے جاتے ہیں
اللہ تعا لیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ دنیا کی اصلا ح کے لئے اپنے کسی بند ے کو مامور فرماتا ہے تو اس کی تائید کے لئے اپنی طرف سے غیبی نشانات بھی ظاہر کرتا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیا ز ہو جائے اور سعیدروحیں صداقت کی طرف راستہ پانے میں رو شنی حاصل کریں۔ یہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک رحمت کے نشان اور دوسرے قہری نشان۔
ہر چند کہ ہر مامور من اللہ خدا کی طرف سے اصل میں رحمت کا پیغام لے کر ہی آتا ہے اورخود اس کا وجود ایک مجسّم رحمت ہوتا ہے لیکن چونکہ دنیا میں ہر مامور کا انکار کیا جاتاہے۔ جیسا کہ فرمایا:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَا دِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱؎
یعنی اے افسوس لوگوں پران کی طرف کوئی رسوُل نہیں آتا مگر یہ اس کا انکار کرتے اور اس کے دعوے کو ہنسی کا نشا نہ بنالیتے ہیں۔‘‘
اس لئے لازماً ہر مامورومرسل کو رحمت کے نشانوںکے ساتھ ساتھ قہر اور عذاب کے نشان بھی دیئے جاتے ہیںلیکن چونکہ خدا کی رحمت بہرحال اس کے عذاب پر غالب ہے۔ اس لئے جہاں رحمت کے لئے کوئی حدبندی نہیں، وہاں خداتعالیٰ نے خود اپنے عذاب کے لئے ازل سے چند اصولی قاعدے اورحدبندیاںمقرر کر رکھی ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُ وْ نَ۲؎۔ وَمَا کُنَّا مَُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَ سُوْلًا۔۳؎
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کواس حالت میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ اپنی غلطیوںکو محسوس کرکے توبہ اور استغفارمیں لگی ہوئی ہو اورنہ ہی ہم کبھی کوئی سخت عذاب نازل کرتے ہیں۔ جب تک کہ ہم اپنی طرف سے کوئی رسُول مبعوث نہ کرلیں‘‘۔
اس اصولی قاعدے کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی یہ سُنت ہے کہ اگرکوئی قوم اپنی شوخیوں اور بداعمالیوں میںحد سے گزرنے لگتی ہے۔ تو وہ پہلے اس میں ایک مامور کو مبعوث کرکے توبہ اور اصلا ح کا موقع دیتا ہے اور اگروہ اپنی اصلاح نہیں کرتی تو پھر خدا کی طرف سے وہ عذاب کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔
آیت مندرجہ بالاکے ماتحت بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مامور ومرسل کی بعثت کے بعداللہ تعالیٰ دُنیا کے مختلف حصوں میںجو کسی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں۔ اپنے قہری نشانوں کی تجلّی دکھاتا ہے تاکہ دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرکے اپنے مامور کی طرف متوجہ کرے۔ایسے عذابوں کا باعث مامور کا انکار نہیں ہوتامگر وہ مامور کے لئے ایک نشان قرارپاتے ہیںاور مشیت الٰہی ان کو اس وقت تک روکے رکھتی ہے۔ جب تک کہ رسول مبعوث نہ ہولے اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ایسے عذابوںکی خبرقبل ازوقت اپنے مامور کو دے کراس کی صداقت کے لئے ایک مزید شہادت پیدا کر دیتا ہے۔
الغرض مامورین کی بعثت کے بعد رحمت کے نشانوں کے ساتھ قہری نشانات کا ظہور بھی خدائی سنّت میں داخل ہے۔ یہ قہری نشانات ایسے علا قوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں مامور کا نام پہنچ چُکا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میںبھی جہاں مامور کا نام ابھی تک نہیں پہونچا ہوتا۔ وہ ایسے ملکوں میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جہاںخدا کے نزدیک مامور کے متعلق اتمام حجت ہوچکا ہوتا ہے اور ایسے ملکوں میں بھی جہاں ابھی اتمام حجت نہیں ہوچکا ہوتا مگریہ جملہ عذاب خواہ کسی باعث اور کسی وجہ سے ہوں،وہ مامور کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہوتے ہیں۔ اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ان کے متعلق اپنے مامور کو پہلے سے خبر دے کر اس نشان کی عزت کو دوبالا کر دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ نشانات کا وعدہ
اسی قدیم سنت کے مطا بق جس کی مثا لیںدُنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس زمانہ میںدُنیا کی اصلاح کے لئے حضرت میر زاغلا م احمدؐ صاحب قادیانی مسیح موعودو مہدی معہود جری اللہ فی حلل الا انبیاء کو آج سے قریباًپچاس سال پیشتر مبعوث فرمایا اورآپ کوہر قوم کے نبی کا نام دے کرتما م اقوامِ عالم کے لئے آؒؒخری زمانے کا موعود مصلح قراردیا تو آپ کے ساتھ ساتھ رحمت کے نشا نوںکے پیچھے پیچھے عذاب کے نشانوں کی بھی خبر دی۔ چنانچہ آپ کی زندگی اور آپ کی جماعت کی زندگی رحمت کے نشا نوں سے معمور ہے اور قیامت تک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے والوںاور آپ کی تعلیم پر چلنے والوںکو آسمان اور زمین کی نعمتوںسے مالامال کرے گا اور ان پر رحمت کی بارشیں برسائے گا اور ان کوایک پتلی اور نازک کونپل کی طرح زمین سے نکال کرآہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بنادے گا ۔ جس کی جڑیں زمین کی پاتال میں قا ئم ہوں گی اور شا خیں آسما ن سے باتیں کریں گی اور اس درخت کے مقابلہ پر جو دراصل وہی درخت ہے جس کا بیج آج سے سا ڑھے تیرہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بویا تھا۔ دنیا کی دوسری روئیدگیاںگھاس پات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں گی مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور قدیم سے یہی ہوتاچلا آیاہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کاانکاربھی مقدر تھا۔ چنا نچہ ابتدائے دعویٰ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے یہ الہام فرمایاکہ:-
’’میں اپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تُجھ کواٹھا ئوںگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پردنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوںسے اس کی سچائی ظا ہر کردے گا ۔‘‘۴؎
آخری زمانہ کے ساتھ زلازل کی خصوصّیت
یہ زور آور حملے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ کے لئے مقدر تھے۔ مختلف صورتوںمیںآنے والے تھے مگر قرآن شریف اورکتب سا بقہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زما نے کاایک خاص قہری نشان زلزلوں کی صورت میں ظاہر ہونا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ کے متعلق اپنی آمدثانی کا ذکرکرتے ہُوئے فرماتے ہیںکہ اس زمانہ میں
’’قوم قوم پر اور بادشا ہت بادشا ہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچا ل آویں گے‘‘۔۵؎
اسی طرح قرآن شریف آخری زمانہ کے عذابوںکا ذکر کرتا ہُوافرماتاہے:-
’’یَوْ مَ تَرْجُفُ الرَّاجِِِِفَۃُ۔تَتْبَعُھَاالرَّادِفَۃُقُلُوْبٌ یَّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ۔ اَبْصَارُھَاخَا شِعَۃٌ۔۶؎
یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی قسم کھاکر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہیں، فرماتاہے کہ:-
’’اس وقت زمین زلزلوں کے دھکوںسے لرزہ کھائے گی اورایک کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا۔ جس سے لوگوں کے دل دھڑکنے لگیں گے اورآنکھیںخوف اور ہیبت کے مارے اوپر نہیں اٹھ سکیں گی۔‘‘
اسی کے مطا بق احادیث میںبھی قرب قیامت کی علامت کے ذکر میںصراحت کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے۔۷؎
اسی طرح جب شروع شروع میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلا م نے خدا کی طرف سے حکم پاکر دعویٰ کیا تو آپ کے ابتدائی الہاموںمیں آئندہ آنے والے زلزلوںکی خبر تھی۔ چنانچہ ۱۸۸۳ء کا ایک الہا م ہے کہ:-
’’فَبَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَا لُوْاوَکَا نَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھَا۔اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدُ ہُ۔فَلَمَّا تَجَلّٰی ربُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا۔وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ‘‘۔۸؎
یعنی خدا اپنے اس مامور مرسل کی ان تمام باتوں سے بریّت ظاہر کرے گا جو مخالف لوگ اس کے متعلق کہیں گے۔کیونکہ وہ خدا کی طرف سے عزت یافتہ ہے۔ کیا مخالفوں کے حملوں کے مقابلہ پراللہ اپنے اس بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب خدا اپنی تجلی پہاڑ پرکرے گا تو اس کو پارہ پارہ کردے گا اور منکرین کی ساری تدبیروںکو خدا تعالیٰ خاک میں ملا دے گا۔‘‘
پھر اسی براہین احمدیہ میں دوسری جگہ یہ الہام درج ہے کہ۔
’’فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا۔قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِاللّٰہِ الصَّمَدِ۔۹؎
یعنی وہ زمانہ آتا ہے کہ’’جب خدا پہاڑ پر اپنی تجلی ظا ہر کرے گا تو اسے پارہ پارہ کردے گا۔ یہ کام خدا تعالیٰ کی خا ص قدرت سے ہوگا جسے وہ اپنے بندے کے لئے ظاہر کرے گا۔‘‘
۱۹۰۵ء کا تباہ کُن زلزلہ
ا س کے بعد جب خدا کے علم میںزلازل کا زمانہ قریب آیا تو خدا تعالیٰ نے زیادہ صراحت اور زیادہ تعیین کے ساتھ اس کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر الہا مات نازل فرمائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اُ س ہیبت نا ک اور تبا ہ کُن زلزلہ کی خبر دی گئی جو ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمال مغربی ہندوستان میںآیا جس سے کا نگڑہ کی آباد وادی خدائی عذاب کا ایک عبرت ناک نشانہ بن گئی۔ چنانچہ پہلا الہام اس بارے میںدسمبر۱۹۰۳ء میںہؤا۔ جو یہ تھا۔
.6َِ’’زلزلہ کا ایک دھکّا۔‘‘۱۰؎
یعنی عنقریب ایک زلزلہ کا حا دثہ پیش آنے والا ہے۔
ا س کے بعد یکم جون ۱۹۰۴ء کو الہام ہؤا۔
’’عَفَتِ الدِّیَارُمُحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔۱۱؎
یعنی جس زلزلہ کی خبر دی گئی ہے۔ وہ بہت سخت ہوگااور اس سے’’ملک کے ایک حصّہ میں عارضی رہائش کے مکان اور نیز مستقل رہائش کے مکان منہدم ہوکر مٹ جائیں گے‘‘۔
اس الہام میں زلزلہ کی تباہی کے علاوہ کمال خوبی کے ساتھ اس جگہ کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا تھا جہاں اس زلزلہ کی سب سے زیادہ سختی محسوس ہونی تھی ۔ چنانچہ مُحَلّٰھَاوَمُقَامُھَاکے الفاظ صاف طورپریہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس زلزلہ کی زیادہ تباہی ایسے علاقہ میں آئے گی جہاں عارضی رہائش اور مستقل رہائش دونوں قسم کی بستی ہوگی اور ظاہر ہے کہ وہ ایسا پہاڑ ہی ہوسکتا ہے۔ جہاں ایک طرف تو مستقل آبادی ہو اور دوسری طرف وہاں گرمی گزارنے کے لئے لوگ موسم گرما میں عارضی طور پر بھی جاکررہتے ہوں۔ چنانچہ کانگڑہ کے ضلع میں دھرم سالہ اور پالم پور وغیرہ کے صحت افزا مقامات بالکل اسی نقشہ کے مطا بق ہیں۔ گویا زلزلہ سے قریباً سَواسال قبل جبکہ اس زلزلہ کا وہم وگمان بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو آنے والے زلزلہ کی خبر دے دی۔ اور پھر زلزلہ سے دس ماہ قبل اس کی خطرناک تباہی سے اطلاع دی۔ اور پھر اس کی جگہ بھی بتادی اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے مندرجہ بالاالہام سے صرف چنددن بعد یعنی ۸جون ۱۹۰۴ء کو پھر دوبا رہ الہام کیا کہ:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُمَحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔۱۲؎
یعنی ایک حصّہ ملک کے عا رضی رہائش کے مکانات اور مستقل رہائش کے مکانات منہدم ہوکر مٹ جائیں گے۔ مگر میں اس حادثہ عظیمہ میں اُن لوگوں کو جوتیری جماعت کی چاردیواری میں ہوں گے محفوظ رکھوں گا۔‘‘
اس الہا م میں سا بقہ خبر کی تکرار کے ساتھ یہ بشارت زیادہ کی گئی کہ اس زلزلہ میں جما عت احمدیہ کی جا نیں محفو ظ رہیں گی ۔ اس کے بعد جب زلزلہ کا وقت زیادہ قریب آیا تو ۲۷؍۲۶ فروری ۱۹۰۵ء کی رات کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایک کشف میں بتایا کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پرشورقیامت برپاہے اور پھراس کے ساتھ ہی الہام ہؤاکہ:-
’’موتا موتی لگ رہی ہے ۔‘‘۱۳؎
گویا اس الہام میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جس زلزلہ کا وعد ہ دیا گیا ہے اس میں صرف مالی نقصان ہی نہیں ہو گا بلکہ جانی نقصان بھی ہوگااور بہت سی جا نیں ضا ئع جا ئیں گی لیکن چونکہ ان دنوں میں طاعون کا بھی دوردورہ تھا اور خیا ل ہوسکتا تھا کہ شا ید یہ الہام طا عون کے متعلق ہو۔ اس لئے یکم اپریل ۱۹۰۵ء کوخدا نے الہا م فرما یاـ:-
’’مَحَوْ نَا نَارَ جَھَنَّمَ۔۱۴؎
یعنی ہم نے وقتی طور پر طا عون کی آگ کو محوکردیاہے۔‘‘
یعنی یہ نہ سمجھو کہ یہ موتا موتی جس کی خبردی گئی ہے طاعون کے ذریعہ ہوگی کیونکہ خداکے علم میں یہ تباہی کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں مقدر ہے۔
پھر جب یہ زلزلہ بالکل سرپر آن پہنچا تو اس سے صرف ایک دن پہلے یعنی ۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہام ہواکہ:-
’’موت دروازے پر کھڑی ہے ۔‘‘۱۵؎
یعنی جس تباہی کی ہم نے خبردی تھی۔ اس کا وقت آن پہنچا ہے ۔ چنا نچہ اس الہام کے دوسرے دن یعنی ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت زلزلہ آیا اور اس سختی کے ساتھ آیا کہ ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے اور یہ زلزلہ عین شرائط بیان کردہ کے مطا بق آیا۔ یعنی اس کی سب سے زیادہ تباہی ضلع کا نگڑہ کے مقامات دھرم سا لہ اور پالم پور وغیرہ میں ہوئی جو اس علا قہ میں مستقل اور عارضی رہائش کے بڑے مرکز تھے اور اس زلزلہ کے نتیجہ میں لاکھوں روپے کے مالی نقصان کے علا وہ کئی ہزار لوگ اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ چنا نچہ سرکاری اعلا نات سے پتہ لگتا ہے کہ اس زلزلہ میںقریبا ً۳۰ ہزار جا نیں ضا ئع ہوئیں اور بے شما رعمارتیں مٹی کا ڈھیر ہوگئیں۔۱۶؎
مگر یہ خداکا فضل رہاکہ جیسا کہ پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا ۔ اس تباہی میں کوئی احمدی فوت نہیں ہوا۔
اب ہرانصا ف پسند شخص غور کرے کہ یہ کیسا عظیم الشان نشان تھا جو خدانے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہا تھ پر ظاہر کیا۔ خدانے وقت سے پہلے ۔
۱۔عذاب کی نوعیت بتادی۔
۲۔عذاب کی جگہ کی طرف اشا رہ کردیا گیا ۔
۳۔تباہی کی تفصیل بیا ن کردی۔
۴۔عذاب کاوقت ظاہر فرمادیا ۔
۵۔اور بالآخریہ بشا رت بھی دے دی کہ اس حا دثہ میںاحمدیوںکی جا نیں محفوظ رہیں گی۔
اور پھر سب کچھ عین اسی طرح ظا ہر ہواجس طرح پہلے بتادیا گیا تھا۔ کیا اس سے بڑھ کرکوئی نشان ہوگا مگر افسوس کہ بہت تھوڑے تھے جنہوں نے اس نشان سے فائدہ اٹھا یا اور اکثر لوگ انکار اور استہزاء میں ترقی کرتے گئے اور خداکا یہ قول ایک دفعہ پھرسچا ہواکہ:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱۷؎
یعنی اے افسوس لوگوں پر ان کے پا س کوئی رسول نہیں آتامگر وہ اس کا انکا ر کرتے اور اسے ہنسی کا نشانہ بنا لیتے ہیں ۔‘‘
آیندہ زلا زل کی پیشگوئی
جب اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ اس کے اس عظیم الشان نشان سے لوگوںنے فائدہ نہیں اٹھا یا تو اس کی رحمت پھرحرکت میں آکر عذاب کی صورت میں تجلی کرنے کے لئے تیار ہوئی۔چنانچہ اس زلزلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو پے درپے زلزلوں کی خبردی اوربار بار الہام فرمایا کہ اب تیری صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے خدازمین کو غیرمعمولی طور پر جنبش دے گا اور کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے جن میںسے بعض قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کے بعض حصے تہ وبالاکر دئیے جا ئیں گے اور یہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں آئیں گے تا خدااپنے قہری نشانوں سے لوگوں کو بیدارکرے اور تیری صداقت دنیا پر ظاہرہو۔ چنا نچہ۸اپریل ۱۹۰۵ء کو خدانے فرمایا:-
’’تا زہ نشا ن۔تا زہ نشان کادھکہ زَلْزَ لَۃُ السَّا عَۃِ قُوْا اَنْفُسَکُمْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔۱۸؎
یعنی لوگوں نے پہلے نشان سے فائدہ نہیں اٹھا یا اس لئے اب ہم اور تازہ نشان دکھائیں گے اور یہ نشان دھکے کی صورت میں ظا ہر ہوگا ۔ جو قیامت کا نمونہ ہوگا ۔ پس اے لوگو اس آنے والے عذاب سے اپنی جا نوں کو بچا ئو۔ اس کے ذریعے حق ظا ہر ہوگا اور با طل بھا گ جا ئے گا ۔‘‘
پھر۹اور ۱۰ اپریل۱۹۰۵ء کو یہ الہام ہوا:-
’’لَکَ نُرِیْ اٰ یٰتٍ وَّنَھْدِمُ مَایَعْمَرُوْن.6َ۔۱۹؎
یعنی ہم تیرے لئے اور نشانات ظا ہر کریں گے اور جو عمارتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ انہیں ہم مٹاتے جا ئیں گے ۔‘‘
پھر۱۰اپریل ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’اِنِّیْ مَعَ الْاَافْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃ.6ً۔۲۰؎
یعنی میں اپنی فوجیں لے کر آؤں اور اچا نک آئوںگا ‘‘۔
یہ الہام اس کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا۔
پھر ۱۵ اپریل ۱۹۰۵ء کو ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خواب دیکھاکہ
’’سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیا دہ معلوم ہوتا تھا ۔‘‘۲۱؎
پھر ۱۸اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک اور خواب دیکھا کہ :-
’’بڑے زور سے زلزلہ آیاہے اور زمین اس طرح اڑرہی ہے جس طرح روئی دھنی جا تی ہے۔‘‘۲۲؎
پھر۲۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ الہا م ہوا کہ :-
’’بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا۔‘‘۲۳؎
پھر ۲۳مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’زمین تہ وبالاکردی۔‘‘۲۴؎
پھر ۲۳اگست ۱۹۰۵ء کو یہ وحی ہوئی کہ:-
’’۱۔پہاڑگرااور زلزلہ آیا۔۲۔توجانتا ہے میں کون ہوں؟ میں خداہوں جس کو چاہتاہوں عزت دیتاہوں۔ جس کو چاہتاہوں ذلت دیتاہوں۔‘‘۲۵؎
پھر۱۳ستمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُکَذِکْرِیْ۔۲۶؎
یعنی جس طرح لوگوں نے میری یاد کو اپنے دلوں سے محوکررکھا ہے۔ اسی طرح اب میرے ہاتھ سے آبادیا ں بھی صفحہ ہستی سے محوہوں گی۔‘‘
پھر ۱۴مارچ ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’چمک دکھلائوں گا تم کواس نشان کی پنج بار۔‘‘۲۷؎
یعنی پانچ زلزلے خا ص طور پر نمایاں ہوں گے۔
پھر ۱۴ مئی ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا:-
’’ھَلْ اَتٰکَ حَدِ یْثُ الزَّ لْزَ لَۃِ۔اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزا لَھَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اثْقَالَھَا ۔وَقَالَ لْاِانْسَانُ مَالَھَا۔۲۸؎
کیا تمھارے پاس زلزلہ کی خبر پہنچ گئی ہے۔ جب زمین کو سخت دھکے آئیں گے اور وہ اپنے اندر کی چیزیں نکال کر باہر پھینک دے گی اور لوگ حیرت سے کہیں گے زمین کو کیا ہوگیا ہے۔‘‘
پھر ۱۲اگست ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۲۹؎یعنی سخت زلزلوںکے ساتھ ساتھ بعض طغیانیاںبھی مقدر ہیں اور یہ دونوں مل کر تباہی کا باعث بنیں گے۔‘‘
پھر ۱۹مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’اَرَدْتُ زَمَانَ الزَّ لْزَلَۃ.6ِ۔۳۰؎
یعنی خدافرماتاہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اب دنیا پر زلزلوں کا زمانہ آجائے۔‘‘
پھر۲۴ مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’لاکھوںانسانوں کو تہ وبالا کردوں گا۔‘‘۳۱؎
یعنی یہ جو زلازل کا زمانہ آرہا ہے اس میں دنیا کے مختلف حصوںمیں زلزلے آئیں گے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوںگی۔
پھر۱۲مئی ۱۹۰۷ء کو الہام ہوا:-
’’ان شہروں کودیکھ کررونا آئے گا ‘‘۳۲؎
مندرجہ بالاالہامات ورؤیا کے علاوہ اور بھی بہت سے الہامات اور خوابیں ہیںجن میں زلزلہ کی خبر دی گئی ہے اور بعض الہامات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعض زلزلے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں ہی آئیں گے اور بعض آپ کے بعد۔ مگر اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف اسی پر اکتفا کی جا تی ہے اور الہامات اور خوابوں پر ہی بس نہیں بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلوں کے متعلق بعض مکاشفات بھی دیکھے ہیںجنہیں آپ نے اپنی تصنیفات میں درج فرمایاہے۔ مثلاً آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں ؎
وہ تباہی آئے گی شہروںپہ اور دیہات پر
جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار
ایک دم میں غم کدے ہوجائیں گے عشرت کدکے
شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہوکر سوگوار
وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں
پست ہوجائیں گے جیسے پست ہو اک جا ئے غار
ایک ہی گردش سے گھر ہوجا ئیں گے مٹی کا ڈھیر
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہرگھڑی
پھرتاہے آنکھوںکے آگے وہ زماں وہ روزگار ۳۳؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ توسب کو معلوم ہیں۔ لیکن حال میں ۱۶اگست ۱۹۰۶ء کوجو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چلّی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا۔ وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا۔ جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے بربادہوگئے اور ہزارہاجانیں تلف ہوئیں اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خا نماں ہیں ۔ شاید نا دان لوگ کہیں گے کہ یہ کیوں کر نشان ہوسکتا ہے۔ یہ زلزلے توپنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خداتمام دنیا کا خداہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تما م دنیاکے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے ……یاد رہے کہ خدانے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبردی ہے۔ پس یقینا سمجھوکہ جیساکہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیاء کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوںگے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی ……اور اکثر مقامات زیروزبر ہوجائیں گے کہ گویا ان میںکبھی آبادی نہ تھی……یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہاراملک ان سے محفوظ ہے۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ شا ید ان سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھوگے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خداتمھاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں…میں نے کوشش کی کہ خداکی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمھاری آنکھوں کے سا منے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے مگر خداغضب میں دھیماہے توبہ کرو تاتم پررحم کیاجائے۔‘‘۳۴؎
مندرجہ بالا خدائی الہامات و مکاشفات میں جس دل ہلا دینے والے طریق پر زلزلوں کی خبردی گئی ہے۔ وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور جیساکہ ان میں صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے یہ شروع سے مقدر تھا کہ موعودہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں اور مختلف وقتوں میں آئیں اور ان میں سے بعض اس قدر سخت ہوں کہ قیامت کا نمونہ پیش کریں۔سو ان میںسے بعض زلزلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں آگئے۔(جیساکہ شمال مغربی ہندوستان۔جزائرغرب الہند۔ فارموسا۔ سان فرانسسکواورچلی وغیرہ میں پے درپے خطرناک زلزلے آئے)اور یہ زلزلے اس طرح غیر معمولی طور پر آئے کہ مشہور انگریزی اخبار پائونیر کو حیران ہوکر لکھنا پڑا کہ یہ بالکل ایک غیرمعمولی تباہی ہے۔ چنانچہ پائونیرنے لکھا۔
’’ اس عالمگیر تباہی کی دنیا کی تاریخ میں حضرت مسیح ناصری کے ایک سو سال بعد سے لے کر آج تک بہت ہی کم مثا ل نظر آتی ہے‘‘۔۳۵؎
لا ہور کے ایک انگریزی اخبا ر سول نے لکھا:-
’’جمیکا کا تباہ کن زلزلہ جو ۱۹۰۶ء کے اسی قسم کے بہت سے تباہ کن زلا زل کے اس۔قدر جلد بعد آیا ہے۔ ہر شخص کے دل میں یہ خیال پیدا کررہا ہے کہ اب سطح زمین امن کی جگہ نہیں رہی… اس زلزلہ میں ہمیں اس قسم کے ہیبت ناک واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں جو دور کے کسی گزشتہ زمانہ میں سناجاتاہے کہ ہواکرتے تھے……یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس کرئہ ارض کو چھوڑ کر کسی اور پر امن کرّہ میں نہیں جاسکتے‘‘۔۳۶؎
الغرض حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کی پیشگوئی کے بعد آپ کی زندگی میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے سخت زلزلے آئے اور بعض آپ کی وفات کے بعد آئے۔( جیساکہ اٹلی، جاپان، چین وغیرہ کے تباہ کن زلزلے) اور بعض آ یندہ آئیں گے اور یہ خدا ہی کو علم ہے کہ وہ کب کب اور کہاں کہاں آئیں گے اوران کے نتیجہ میں کیا کیا تبا ہی مقد ر ہے۔مگر وہ تبا ہ کن زلزلہ جو حال ہی میں ۱۰جنوری ۱۹۳۴ء کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آیا ہے جس نے صوبہ بہار اور ریاست نیپال اور بنگال کے بعض حصوں میں قیامت برپاکررکھی ہے۔وہ ایک ایسا زلزلہ ہے کہ اس میں ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی ہندوستان والے زلزلہ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات وکشوف میں تصریح اور تعیین پائی جاتی ہے اور یوں نظرآتاہے کہ گویا خدائی ہاتھ معین طور پر اشارہ کررہاہے کہ یہ زلزلہ ان خاص زلزلوں میں سے ایک ایسا زلزلہ ہے جس کے متعلق تعیین اور صراحت کے ساتھ خبردی گئی تھی۔
۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء کا قیامت نما زلزلہ اور اس کی علامات
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات اور کشوف سے پتہ لگتا ہے کہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ ذیل علا مات مقرر تھیں۔ یعنی منجملہ بعض اور علامات کے ذیل کی پانچ علامت اس کے لئے خا ص طور پر مقرر کی گئی تھیں۔
اوّل۔اس زلزلہ میں خطرناک تباہی آئے گی اور اس کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہو گا ۔
دوم۔ یہ زلزلہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد اس کے قریب کے زمانہ میں آئے گا۔
سوم۔ یہ زلزلہ موسم بہار میں آئے گا۔
چہارم۔یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں آئے گا۔
پنجم۔ یہ زلزلہ خاکسار اقم الحروف مرزابشیراحمد کی زندگی میں آئے گااور خاکسار ہی ابتداً اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلا نے والاہوگا۔
یہ وہ پانچ علا مات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آج سے قریباً ۲۸ سال پہلے اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر ظاہر فرمائیںاور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں کس طرح منِ وعن پوری ہوئیں۔
اس زلزلہ کی خطرناک تباہی کے ساتھ پانی کاسیلاب بھی مقدر تھا
سب سے پہلی علا مت جو زلزلہ کی تباہی اور پانی کے سیلا ب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اس میں سے تباہی والا حصہ تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بہت سے الہامات اور کشوف میں بیان ہوا ہے۔ جیساکہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے اور چونکہ یہ زلزلہ بھی ان خطرناک زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ہے جن کی خبردی گئی تھی ۔ اس لئے جو تباہی کی صورت دوسرے سخت زلزلوں کے متعلق بیان ہوئی ہے۔ وہی اس زلزلہ پر بھی چسپاں ہوگی مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے ایک مکاشفہ میں ایک ایسے زلزلے کاذکر کیا ہے جس کے ساتھ زمین کو زیروزبر کردینے والی تباہی کے پہلو بہ پہلو سیلاب کی تباہی بھی شامل ہوگی۔ چنانچہ فرماتے ہیں ؎
سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے
جو خبر دی وحئی حق نے اس سے دل بیتاب ہے
زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیرو زبر
وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑاسیلاب ہے ۳۷؎
اس مکاشفہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صاف الفاظ میںبیان فرماتے ہیں۔ ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے جس سے زمین زیروزبر ہوجائے گی اور اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا۔ عام حالات کے لحاظ سے یہ ایک عجوبہ بات نظرآتی ہے کہ زلزلہ اور سیلاب ایک جگہ جمع ہوں مگر خدا کے مسیح نے یہ بتا رکھاتھا کہ وقت آتا ہے کہ یہ دونوں تباہیاں ایک جگہ جمع ہوں گی۔
اس مکا شفہ میںیہ بھی اشارہ ہے کہ پہلے زلزلہ آئے گااور پھر اس کے بعد پانی کا سیلا ب آئے گا مگر ساتھ ہی دونوں کو اکٹھا کرکے یہ بھی ظا ہر فرمادیاگیا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں الگ الگ حادثات ہیں بلکہ اصل میں دونوں ایک ہی چیز ہیں مگر ان کا ظہور ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے ہوگا۔ اب دیکھ لو کہ۱۵؍ جنوری۱۹۳۴ء کو صو بہ بہار میں بعنیہٖٖٖٖ اس کے مطابق واقعہ ہوا یعنے پہلے زلزلہ آیااور اس سے زمین زیروزبر ہوگئی اورپھر اس کے بعد زمین پھٹنے سے اس کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکلا ۔ جس سے میل ہامیل تک کا علاقہ پانی میں غرق ہوکریوں نظر آنے لگا جیسے کوئی سمندر ہے۔ چنانچہ ہندوستان کا مشہور انگریزی اخبار سٹیٹسمین لکھتاہے:-
ــ’’اس زلزلہ کے دھکوں سے کئی جگہوںپر زمین پھٹ پھٹ کر بڑے بڑے غار پڑ گئے اور زمین کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکل آیاجس سے اب سارا علاقہ غرقاب ہے‘‘۔۳۸؎
لاہور کاایک اخبار’’زمیندار‘‘رقمطراز ہے کہ:-
’’اس زلزلہ کے نتیجہ میںزمین کے پھٹ جانے کی وجہ سے پانی کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طغیانی آگئی ہے۔ تمام شہر پانی کاایک ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر نظر آتا ہے‘‘۔۳۹؎
زمین کے پھٹنے سے جو سیلاب آیا۔ اس کے علا وہ زلزلہ کے بعد اس علا قہ میں سخت بارش بھی ہوئی۔ گو یا اوپر اور نیچے دونوں طرف سے زلزلہ کی مصاحبت کے لئے پانی آموجودہوا۔ اور خدا کی قدرت نمائی کامز ید کر شمہ یہ ہے کہ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعض الہامات میں یہ ظا ہر کیاگیا تھا کہ بعض زلزلے ایسے بھی آئیں گے کہ ان سے پہلے ملک میں سخت طغیانیاں آچکی ہوں گی۔ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے سے پہلے بھی ملک کے مختلف حصوں میں طغیانیاں آئیں۔ چنانچہ اس بارے میں یہ الہام الٰہی اوپر درج ہو چکا ہے کہ:-
’’صحن میں ند یا ں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۴۰؎
اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھا تھا کہ:-
’’میرے پر خدا نے الہامیہ ظاہر کیا تھا کہ سخت بارشیں ہونگی اور گھروں میں ندیاں چلیںگی اور بعد اس کے سخت زلزلے آئیںگے‘‘۔۴۱؎
سو ہم دیکھتے ہیںکہ یہ علا مت بھی ۱۵؍ جنوری والے زلزلہ میں لفظ بلفظ پوری ہوئی کیونکہ جیساکہ سب لوگ جا نتے ہیں کہ گز شتہ موسم برسات کے آ خر میں ملک کے کئی حصو ں میںنہایت سخت طغیانیاں آئیں۔چنانچہ رہتک، صوبہ پنجاب،دریائے گومتی کی وادی، صوبہ یو۔پی، مدناپور کا علاقہ صوبہ بنگال اور اڑیسہ صوبہ بہار میں۱۹۳۳ء کے آخر میںجو تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ گویا اس زلزلہ میںوہ دونوں علا متیں پوری ہوئیںجو پہلے سے بتادی گئی تھیں۔ یعنے اول یہ کہ زلزلہ سے پہلے مختلف حصوں میں تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ جن سے صحنوں میں ندیاں چل گئیں اور دوسرے یہ کہ اس خاص زلزلہ میں زلزلہ کے دھکوں سے جگہ بہ جگہ زمین کا پھٹ کر اندر کا پانی جوش مارتاہواباہر نکل آیا اور ایک خطرناک سیلا ب کی صورت پیدا ہوگئی اوراسطرح وہ پیش گوئی حرف بحر ف پوری ہوئی کہ اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہوگا اورزلزلے کے دھکے اور پانی کی تباہی دونوں مل کر تباہی کے ہیبت ناک منظر کو پوراکریں گے۔
جا ن ومال کا بے انداز نقصان
با قی رہا جا ن ومال کا نقصان جو اس زلزلہ کے نتیجہ میں ہوا۔ سو اس کی داستان ایک خون کے آنسو رلانے والی داستان ہے ۔ جانی نقصان کا تو ابھی صحیح اندازہ لگ ہی نہیں سکا۔ گورنمنٹ نے اپنی طرف سے وقتاًفوقتاً اندازے شائع کئے اور ہزاروں جانوں کانقصان بتایا مگر بعد میں ہر اندازے کی تردید ہوگئی اور صحیح اندازہ لگ بھی کس طرح سکتا ہے۔ جبکہ ابھی ہزارہامکانوںکا ملبہ اسی طرح ڈھیروں کی صورت میں پڑاہے او ر کچھ خبر نہیں کہ ان کے نیچے کتنی جانیں دبی پڑی ہیں۔ اور مالی نقصان کا تو یہ حال ہے کہ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور سوائے مٹی کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا۔ غریبوںکے گھر امیروں کے مکانات راجوں، مہاراجوں کی کوٹھیاں،بادشاہوں کے محل، گورنمنٹ کی عمارات، کارخا نے ، پُل، دوکانیں، بازار، منڈیاں وغیرہ سب خاک میں مل گئے ہیں۔اور سیلاب اورزمین کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے سے فصلوںکاجو نقصان ہوا ہے وہ مزید برآں ہے۔
الغرض اس علاقہ میںاس وقت ایک قیامت کانمونہ برپاہے۔ مونگھیر، درابھنگہ ،مظفرپور، موتی،ہاری اور کھٹمنڈ وتو گویا بالکل ہی صا ف ہوچکے ہیں اور باقی جگہوں میں بھی ایک ہولناک نظارہ تباہی وبربادی کانظر آتاہے۔ زلزلہ کی رَو پہلے تو ایک طرف سے دوسری طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر یوں محسوس ہؤاکہ زمین کے نیچے کوئی چیز چکی کی طرح گھوم رہی ہے۔گویا خدائی فرشتوں کی فوج اس ارادہ سے اتری ہے کہ سب کچھ پیس کر رکھ دے گی اس زلزلہ کی تباہی ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی زلزلے سے بھی بہت بڑھ کر ہے کیو نکہ نہ صرف جانوں کانقصان زیادہ ہے۔بلکہ بوجہ اس کے یہ ایک زرخیز اور آبادعلاقہ تھا ۔ اس میں جو مالی نقصان ہوا ہے۔ وہ کانگڑہ وادی کے نقصان سے بہت بڑا ہے ۔ اور کروڑوں کروڑ روپے سے کسی صورت میں کم نہیں ۔ چنانچہ اسی نقصان کو دیکھتے ہوئے علا وہ بہت سے ہندوستا نی لیڈروں کے ہزایکسی لنسی وائسرائے ہند اور گورنران صو بجا ت والِیا ن ریاست اور ہز میجسٹی کنگ جارج اور وزیر ہند اور لارڈ مئیرآف لنڈن اور غیرحکومتوںکے صدر اور وزرا ء وغیر ہ نے مصیبت زدگان کی امداد کے لئے چندہ کی خاص تحریک کی ہے اور خود بھی چندہ دیا ہے۔
الغرض کیا بلحاظ جانی نقصان اور کیا بلحاظ مالی نقصان (جس کاپورا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا اور اس وقت تک جو بھی اندازہ ہوا ہے۔اس سے اصل نقصان بہرحال بڑھ کر ہے) یہ زلزلہ ایک خاص زلزلہ تھا اور اس میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں کہ یہ ایک قیامت کا ایک نمونہ تھا جو خدانے دنیا کے سامنے پیش کیا مگر چونکہ ہر قوم وملت کے اخبارات میں اس زلزلہ کی تباہی کے حالات مفصل شائع ہوچکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس کے متعلق حوالے اور اقتباسات نقل کر نے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن محض نمونے کے طور پر اور کسی قدر تفصیلا ت کا علم دینے کے لئے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
تباہی کے ہولناک کوائف
اخبار الجمیعۃ دہلی لکھتا ہے:-
’’سب سے زیادہ ہولناک تباہی کی خبر یںصوبہ بہار کے بڑے بڑے شہروںاور قصبوں مثلاً پٹنہ، مظفرپور، دربھنگہ ، لہریاسرائے ، مونگھیر، بھاگل پور، جمال پور، گیا، بتیا، ترہٹ،پورینہ،سمستی پور، سارن، چمپارن، موتی ہاری، صاحب گنج، ستیامڑھی، چھپرا، منمیت پور، حاجی پور، ڈیگھی، آرہ اور چھوٹے چھوٹے قصبات ودیہات کے متعلق موصول ہوئی ہیں۔مونگھیر، دربھنگہ اور مظفرپور بالکل تباہ ہوگئے۔ مونگھیر میں صرف چار مکانات باقی ہیں۔پٹنہ میں کوئی ایسی عمارت نہیں بچی جو بالکل یا جزوی طور پر مسمار نہ ہوگئی ہو۔اول الذکر شہر میں ہزاروں لاشیں برآمد ہوچکی ہیںاور ہزاروں ابھی چونے اور اینٹوں اور لوہے کے گاڈروں کے نیچے دبی پڑی ہیں۔
شہروں اورشہروں کے باہر دیہاتی علاقوںمیں زمین شق ہوگئی کنوئیں ابل پڑے اور بعض مقامات پر کئی کئی سوگز کی چوڑائی سے پانی بیس فٹ اونچا فضاء میں کئی کئی گھنٹوں تک ابلتا رہا اور ایسی طغیا نی آئی کہ وہ علا قے جو ہمیشہ خشک رہتے تھے سات فٹ گہرے پانی کی جھیل بن گئے ۔ پٹنہ کے قریب گنگا کا دریا پانچ منٹ کے لئے بالکل غا ئب ہو گیااور پا نچ منٹ کے بعد پورے جوش اور طغیانی کے ساتھ بہنے لگا۔ غاروں سے گندھک اور ریت نکلتا رہا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں اور گائوں کے گائوں غرق ہوگئے ۔ آتشزدگی نے علیحدہ تباہ کیا مونگھیر اور مظفرپور میں ہزاروں انسان جو مرگئے ان کی لاشیں بلاامتیاز مذہب وملت دریا میں بہادی گئیں۔جو باقی رہ گئے ان کی خانما ں بربادی اور حسرت انگیز تباہی کا منظر قابل رحم ہے۔۴۲؎
سٹیٹس مین کا بیان ہے کہ:-
’’مہاراجہ دربھنگہ کے محلات اور مکانات اس طرح زمین کے برابر ہوگئے کہ ان کے کھنڈروں کو پہچانا بھی نہیں جاسکتا‘‘۴۳؎
اخبار سول لا ہور لکھتا ہے کہ:-
’’ مہاراجہ صاحب دربھنگہ کے محلات کا یہ حال ہے کہ انند باغ محل کا مینار اور دیواریں زمین سے پیوست ہوگئی ہیں اور باقی بھی شکستہ ہوگئی ہیں۔ نور گو ازمحل ، موتی محل بالکل کھنڈرات ہوگئے ہیں۔راج نگر جس پر مہاراج کے باپ نے ایک کرو ڑ روپیہ خرچ کیاتھا ۔ اب صرف ایک تباہ شدہ بستی اور اجاڑ کھنڈرات کاڈھیر رہ گیا ہے۔ مہاراجہ دربھنگہ کے کل نقصان کا موٹا اندازہ پانچ کروڑ روپے سے کم نہیں ہے‘‘۔۴۴؎
اخبار سرچ لا ئٹ پٹنہ لکھتا ہے کہ ’’جب بھونچال آیاتو اس کے ساتھ ہی زمین سے آگ نکلنی شروع ہوگئی ۔جس سے موضع اکدھرم اور نتہو دونوں گائوں تباہ ہوگئے‘‘۴۵؎
اخبار حقیقت لکھنؤ لکھتا ہے کہ:-
’’کھٹ منڈو میں ایسی قیامت آئی کہ جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ رام نگر سے کھٹمنڈو کو جو سلسلہ کوہ جاتا ہے اس کی سب سے بڑی پہاڑی راماراتھوئی میں عجیب طور پر شگاف ہوگیا ہے یعنے جس طرح کوئی دیوار بنیاد تک شق ہوجائے۔ اس طرح پہاڑ کے دوٹکڑے ہوگئے اورشگاف کی تہہ میں ایک کھولتا ہؤاچشمہ ابل پڑا ہے جس سے کچھ ایسے بخارات اٹھ رہے ہیں کہ کوئی اس کے قریب نہیں جا سکتا۔تین سرکاری عالی شان محل جن کی خوبصورتی اور صناعی پر یورپین انجینئر عش عش کرتے تھے مسمار ہوگئے ہیں۔ اور سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ راستہ میں ایک ایسا گہرا شگاف پڑگیا ہے کہ کئی دنوں تک آمدو رفت نہ ہوسکے گی۔ اگرچہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس علا قہ میں ہزاروں جانیں ضائع ہوگئی ہیں لیکن اس سے عجیب واقعہ یہ ہے کہ کئی پہاڑی ندیاں جو ان دنوں بھی ابلتی رہتی ہیںوہ بھی غا ئب ہوگئی ہیں۔گوالا منڈی نیپال گنج اوربھکتہ تھوری میں بھی اس وقت حشربپا ہے۔ بازار تبا ہ ہوگئے ہیں۔ شہر پرویرانے کا دھوکہ ہوتا ہے خاص کرنیپال گنج میں جہاں بڑے بڑے گودام تھے۔ ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ لاکھوں روپیہ سے زیادہ ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ دشوار ہے۔ انسان تو انسان حیوان اس قہر خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوںکے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے ‘‘۔۴۶؎
اخبار ملاپ لا ہور لکھتاہے کہ:
’’وادی نیپال میں قریباً قریباًتمام مکانات گرگئے ہیں ۔ کھٹمنڈو میں کئی میدانوں اور پہاڑیوں میں دراڑ پڑگئے ہیں ۔ مہاراجہ کی دو لڑکیاں ہلا ک ہوگئیں۔ مہاراجہ کی ایک پوتی اور چچازادبھائی ۔ اس کی بیوی اور دوبچے بھی ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔۴۷؎
ٹریفک منیجر بنگال ریلوے کابیان ہے کہ:-
’’اس علاقہ میں آمدورفت کے ذرائع کے کلی انقطاع کااندازہ کرنا آسان نہیں۔ مختصر یہ ہے کہ نہ سڑکیں رہی ہیں نہ ریلیں نہ تاریں۔ملک کے وسیع قطعے سیلاب میں غرق ہیں ۔ اور عملی طور پر اس علاقہ میں سے گزرنا قطعاًناممکن ہورہا ہے۔ اس وقت آنکھوں کے سا منے ابتری اور مایوسی کامنظرہے اور آیندہ کے لئے سوائے خاموشی اور خطرے کے کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔۴۸؎
اخبارزمیندار لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’۱۵؍ جنوری کے ہو لناک زلزلے نے صوبہ بہار کے مختلف مقامات پر تباہی وبربادی کا جو ہولناک منظر پیدا کردیاہے۔ اس کی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ اس بدنصیب صوبہ بہار میں اب تک تقریبا ً ہزارہا نفوس جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ہلا کت کاشکار ہوچکے ہیں۔مجروحین کی تعداد قریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ کروڑوں روپے کی جائدادیں زلزلے کے بے پناہ ہاتھ سے پیوند ز مین ہو چکی ہیں ۔ تما م اثاث البیت جو انہوں نے صدیوں کی محنت سے جمع کیا تھا ۔ ہزاروں من ملبے کے نیچے دب کر برباد ہوچکا ہے۔ شہروں کے شہر مسمار اور علاقوں کے علاقے ڈھنڈہار ہوچکے ہیں۔ کئی کئی میل تک کھانے پینے کی چیزوں کانام ونشان نہیں۔ سردی سے بچنے کے لئے کپڑے کی دھجی تک میسر نہیں۔۴۹؎
اخبار پرتاپ لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’بہارواڑیسہ سے جو اطلا عات موصول ہوئی ہیں وہ بہت دردناک ہیں۔وہاں سے جو اصحاب بھاگ کر الہ آباد میں آئے ہیںان کا بیان ہے کہ مونگھیر، مظفرپور، چھپرا، ستیامڑھی اور دربھنگہ میں ۲۰ کروڑ کا نقصان ہوگیا ہے۔ ۲۵ ہزار آدمی صرف ایک مونگھیر میں مرگئے ہیں۔ صرف ۲۲؍جنوری کے دن سرکاری انتظامات کے ماتحت تین ہزار لاشوں کو جلایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا شہروں میں بازاروں کا نام،ونشان نہیں ملتا۔ وہ لاشوں، سروں، ٹانگوں اور پتھروں وغیرہ سے بھرے ہوئے ہیں اتنی بدبو پھیل رہی ہے کہ ٹھہرنا مشکل ہورہا ہے۔‘‘
امرت بازار پتر کاسپیشل نامہ نگارمونگھیرسے لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ زدہ علاقہ میں ایک لاکھ مویشی ہلاک ہوگئے ہیں……ایک تجارتی ایجنٹ ابھی ابھی مظفرپور سے آیا ہے جو زلزلہ کے وقت وہاں موجود تھا۔وہ بیان کرتا ہے کہ مکانات کی چھتوںسے انسانی سر۔ٹانگیں۔ ہاتھ اور پائوں بیسیوںکی تعداد میں کٹے ہوئے گررہے تھے ۔ ہاہا کار کی آوازوں سے میں گھبراگیا۔کئی آدمیوں کو کھڑ کیو ں سے چھلا نگیں لگا تے دیکھا مگر ان کے نیچے آ نے سے پہلے دیواریں گر جاتی تھیں۔ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انسانی سروں۔ ہاتھوںاور بازوؤں کی بارش ہو رہی ہے……گیا کے قریب ایک چھوٹا سا دریا تھا۔جس کا نام پھلگر ہے وہ بالکل خشک ہوگیا۔ جہاں پہلے پانی تھاوہاں اب ریت کے انبار لگے ہوئے ہیں نہ معلوم دریا کا پانی کہاں غائب ہوگیالیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ندیاں جو اس موسم میںبالکل خشک ہوا کرتی تھیںپانی سے بھرگئی ہیں‘‘۔۵۰؎
مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ:-
’’۳بج کر۵منٹ پر جب کہ میں بازار میں جا رہا تھا دفعتہ ہولناک آواز سنائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ ہوائی جہاز آرہا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں کپکپی اور رعشہ شروع ہونے لگا۔ پھر زمین میں دائیں اور بائیں دوحرکتیں ہوئیں۔ بعد ازاں ایسا معلوم ہؤا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھمادیا ہے………میرے ہوش وحواس زائل ہوگئے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا۔ جہاںتک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں……شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میںاپنا گھر نہ پہچان سکا۔آخر ایک ٹیلہ پر بیٹھ کر رات گزاری۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو تمام شہر خاک کا ڈھیر تھا‘‘۔۵۱؎
آنریبل سیدعبدالعزیزصاحب وزیر تعلیم صوبہ بہار بیان کرتے ہیںکہ:-
’’ایک جگہ نہر پانی سے بھری ہوئی رواں تھی۔زمین پھٹی اور نہر کا پانی اندر سماگیا اور نہر خشک ہوگئی۔ ایک لا ری جارہی تھی۔ زلزلہ آیا اور آدمی اس سے اترگئے ۔ زمین شق ہوگئی اور لا ری زمین کے اندرسماگئی۔ اس کے بعد زمین لاری کو اپنے پیٹ میں لے کر اس طرح پیو ست ہوگئی کہ گویا کچھ ہواہی نہیں‘‘۔۵۲؎
مہاراجہ صاحب مونگھیرکے داماد کا بیان ہے کہـ:-
’’وہ شہر(مونگھیر) جو کسی وقت نہایت خوبصورت اور دلکش تھا،نہایت بھیانک اور خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ سوائے منہدم دوکانات کے ملبوں کے علاوہ وہاں کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ ابھی ہلاک ہونے والوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال ۲۵ہزار آدمیوں کااندازہ کیا گیا ہے۔ اب تک میونسپلٹی رجسٹروں میں ۱۲ہزار کے نام درج ہوچکے ہیں۔ چیل اورکووں کے جھنڈ کے جھنڈ مردہ لاشوں کو چیرنے اور پھاڑنے میں مشغول نظرآتے ہیں۔ تمام شہر قبرستان کا ایک ہیبت ناک منظر پیش کررہا ہے۔ میں اس منظر کے بیان کرنے سے قاصر ہوں جو میں نے وہاں دیکھا‘‘۔۵۳؎
اخبار ملاپ کا ایڈیٹر اپنے چشم دید حالات لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ کی وجہ سے ایسی سخت مصیبت آئی ہے کہ جس کا بیان کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تواریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ان حالات کے بیان کرنے سے دل لرزتا ہے … …مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ طوفان نوحؑ آگیا ہے یہ کیفیت پانی کے سیلاب سے ہوئی۔ بڑے بڑے لکھ پتی اس وقت درختوں کے نیچے چادر وغیرہ تانے ہوئے پڑے ہیں‘‘۔۵۴؎
پھر لکھتاہے کہ:-
’’اٹھائیس برس کے بعد ایک بار پھر ہندوستان نے ایک خوفناک بھونچال کو دیکھا ہے۔۱۹۰۵ء میں ضلع کانگڑہ میں تباہی مچی تھی اور اب کے بہارواڑیسہ اور نیپال میں ہیبت ناک بربادی ہوئی ہے۔ بھونچال کے وقت کئی کئی فٹ مکانات معہ بنیادوں کے زمین کے اوپر اچھلے ہیں۔ کنوئوں کا پانی فوارے کی طرح باہر نکلا ہے اور اپنے ساتھ اندر کی ریت بھی ساتھ لایا ہے کہ کھیتوں میں میل ہامیل تک ریت کی کئی کئی فٹ تک تہ جم گئی ہے‘‘۔
’’باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں۔ بچے اپنے ماتاپتا کو تلاش کررہے ہیں۔ گرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اٹھا کر دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ماتاپتانیچے سے نظر آسکیںاور انہیں پیار سے بلا سکیں۔لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے۔ جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ وپکار کا کیا ٹھکاناہے پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے‘‘۔۵۵؎
پھر لکھتا ہے کہ:-
’’وہ کھیت جو ۱۵؍ جنوری کی دوپہر تک دھان کی فصل کے لئے نہایت مفید تھے۔ دفعتہ ریگستان میں تبدیل ہوگئے ہیںاور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیازلزلہ کے باعث جو ریت زمین کے جگر سے نکل کر خوشگوار کھیتوں میںپـڑی ہے۔ وہ صحرا کی دائمی صورت اختیار کرجائے گی یااس ریگستان کے نخلستان میںتبدیل ہو جانے کا کوئی امکان باقی ہے؟……اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو لاکھوں ایکڑ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ اس کے غریب باشندوں کو جن کاگزارہ کاشت اراضی پر تھا کس طرح روٹی مہیا کی جائے اورزمین کو کس طرح اس قابل بنایاجا ئے کہ وہ ازسرِنو اپنی زندگی شروع کرسکیں۔‘‘
’’شہروالوں کے متعلق یہ غلط خیال ہے کہ وہی زیادہ مصیبت زدہ ہیں۔ دیہات والے تو بالکل ہی تباہ ہوگئے ہیں۔ ایک لاکھ ایکڑرقبہ سے زیادہ گنّے کی فصل کھڑی ہے مگر گناپیلنے کے تمام کارخانے تباہ ہوگئے ہیں‘‘۔۵۶؎
پھر ملاپ لاہور کا ایڈیٹر اپنے ایڈیٹوریل مضمون میں لکھتاہے کہ:-
’’تین دن اورتین رات لگاتار بھونچال زدہ علاقہ میں سفر کرنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتاہوںکہ تباہی بہت بڑی ہے اور اخباروںکے ذریعہ اب تک عوام کو جوپتہ لگا ہے وہ اس تباہی کا عشرعشیر بھی نہیں ہے۔ میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، افسوس میراقلم اورمیری زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے۔کوئی تباہی سی تباہی ہے اور بربادی سی بربادی ہے؟ دومنٹ کے جھٹکے نے چشم زدن میں دوسومیل لمبے اور ایک سومیل چوڑے علاقہ کو کھنڈرات میںتبدیل کردیا ہے۔ ہزاروں برس کی تہذیبیںاور سینکڑوں برس کی یادگاریںمٹادی گئی ہیں۔ جن مکانوں اورمحلوں میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ وہاں اب گدھ اور چیلیں منڈلارہی ہیںاورحیوانوںانسانوںکی لاشوںکونوچ نوچ کرکھارہی ہیں۔‘‘
’’ریل کی سڑکیںٹوٹ چکی ہیں۔ موٹرکار کا راستہ پھٹ چکاہے۔ کھیت دلدل بن گئے ہیں۔ ایک ہزار گائوں پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ کنوئوں نے آتش فشاںپہاڑ کے دہانہ کاکام دیا ہے۔ بھونچال کے وقت ان سے ریت پانی اور کالا مادہ اچھل اچھل کر نکلتارہاہے۔ کئی مقامات پر زمین اتنی پھٹ گئی ہے کہ اس میں کئی غاریں بن گئی ہیںاور بہت سے جانور ان غاروں میں گرکرجاں بحق ہوگئے ہیں۔‘‘
’’زلزلہ کا سب سے زیادہ غصہ مونگھیر پر نکلاہے۔ یہ مہابھارت کے راجہ کرن کا آباد کیا ہواپرانا شہر تھا۔ چالیس پچاس ہزار کی آبادی ہوگی۔ تنگ بازاراور تنگ گلیاں تھیں۔مکانات سہ منزلہ اور چار منزلہ تھے ۔ دیہات سے لوگ عید کے لئے خوشی کا سامان خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہندو بسنت کی تیاریوں میںمشغول تھے کہ یک لخت۱۵جنوری کو ایک مہیب شور زمین کے اندر سے سنائی دینے لگا۔گڑگڑاہٹ نے کان پھاڑڈالے اور زمین متزلزل ہواٹھی۔ مکانات ناچتے ہوئے نظر آنے لگے اور پھر ایک لمحہ میں ’’اڑااڑادہم‘‘کی صدائیں اٹھیں۔گردوغبار کا چاروں طرف اٹھتا ہواانبار تھا۔جو جہاں تھا وہیں رہ گیااور کسی کو کسی کی خبر لینے کی سدھ نہ رہی۔ چند منٹوںکے بعد جو لوگ زندہ بچ نکلے۔انہوں نے دیکھا کہ مونگھیر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا اور کھنڈرات کے اندرون سے چیخوں کی صدائیں بلندہو رہی ہیں۔ زلزلہ کی ہیبت ناک آواز تو بند ہوگئی ہے لیکن دبے ہوئے مردوں بچوں اور عورتوں کی چلاہٹ سے زمین کے اندر طوفان برپاہورہا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ انسانی شور بند ہوگیا اور دبے ہوئے لوگ یاتومرگئے یابے ہوش ہوگئے۔‘‘
’’اس کے بعد کھدائی کاکام شروع ہوا۔بازاروں میں سائیکل سوار بد ستور سائیکل پر بیٹھا نکلا ہے لیکن مراہوا۔ مکان میں ماں بچے کو نہلا رہی ہے۔ ایک ننھا بچہ گود میں ہے اسی حالت میں مکان گراہے اور لاشیں اسی حالت میں نکلی ہیں۔ دوکاندار سوداتول رہا ہے سامنے خریدار کھڑے ہیں اور انہیں جہاںکاتہاں بھونچال نے رکھ دیا ہے۔ ملبہ کو ہٹانے کے بعد اسی پوزیشن میں لا شیں نکلی ہیں۔
مونگھیر کے بعد شمالی بہار میں سب سے زیادہ نقصان مظفرپور میںہواہے۔ اس کی آبادی۵۲ ہزارکی تھی۔ سارے شہر میں ایک درجن سے زائد مکان نہیں بچے۔ سب کے سب نشٹ ہوگئے ہیں… …اس وقت تک مظفرپور میںملبہ کے نیچے سے۳ہزار لاشیں نکل چکی ہیںاور ابھی اور نکالی جارہی ہیں۔‘‘
’’لوگوںکا بیان ہے کہ پہلے ایک معمولی ساجھٹکاآیا۔ پھر زمین کے اندر سے ہوائی،جہاز کے چلنے کی آواز آئی۔ شور زیادہ بڑھااور ایسامعلوم ہوا جیسے بم کے ہزارہاگولے پھٹ رہے ہیں اور تب مکانات گرنے لگے اور چیخ وپکار کی ختم نہ ہونے والی صدائیںبلند ہو اٹھیں۔ دوکانوں اور مکانوں کے اندر زمین پھٹ گئی اور پانی اور ریت کے چشمے جاری ہوگئے۔ سڑکیں بھی پھٹ گئی اور ان کے اندر سے بھی ریت اور پانی باہر نکلنے لگا۔ دیہات میںبھی زمین جگہ جگہ سے پھٹ گئی اور کہیں سے سات گز اور کہیں سے پانچ پانچ گز بلند فوارے جا ری ہوگئے۔‘‘
’’جنک پور میں سات آٹھ دن گزرجانے کے باوجود بازاروں میں کشتی چل رہی ہے۔ اسی طرح ستیامڑھی کا حال ہواہے اور دوسری طرف موتی ہاری (چمپارن) میں بھی جل تھل بن گیا ہے اور اس سارے علاقہ میںجہاں جہاں خشکی ہی خشکی تھی وہاں پانی ہی پانی ہوگیا ہے ۔عجیب تبدیلیاں ہوئی ہیں۔کروڑپتی اور لا کھوں پتی لوگوں کے عالی شان محل گرگئے ہیں اور اب وہ پھٹی پرانی بوریوں میں رات بسرکررہے ہیں۔ کئی خا ندانوں کے نام ونشان مٹ گئے ہیں‘‘۔۵۷؎
پھر یہی اخبار ملاپ اپنے ایک اور نمبر میں ایک اور شخص کا چشم دیدبیان لکھتاہے کہ:-
’’ایک دومنٹ میں ہی مکانوں کے گرنے سے اندھیراہوگیا نظر کچھ نہیں آتا تھا۔ جیسا کہ روز قیامت ہے۔زمین ہل رہی تھی مکان گررہے تھے ز مین پھٹ رہی تھی اور ایسی پھٹ رہی تھی جیسے کوئی مقراض سے زمین چیررہا ہے اور جہاں وہ پھٹ رہی تھی پانی کا دریا امڈرہا تھا لوگ جو باقی بچے تھے وہ اپنی جا ن پانی کے بہاؤ سے بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے بھاگ کرکہاں جائیںجدھردیکھوپانی ہی پانی نظرآتا تھا۔ چاروں طرف زمین پھٹ رہی تھی …… شہر میں سڑکیں پھٹ چکی تھیں۔ ہزاروں آدمی کھنڈرات کے نیچے دب کر مرچکے تھے۔ خاندانوں کے خاندان تباہ ہوگئے ہیں۔ کل جو لاکھوں کے مالک تھے وہ آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔۵۸؎
اخبارزمیندار لکھتا ہے کہ:-
’’ مونگھیر میں رات سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو اب تک برابر جا ری ہے۔ بد نصیب باشندگان مونگھیر کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت ان کی حالت قا بل رحم ہے۔ ان کے پا س نہ اوڑھنے کے لئے کمبل ہے نہ پہنے کے لئے کپڑا۔ اس نئی مصیبت کی وجہ سے بعض کی زبان سے یہ الفاظ سنے گئے اس سے تو بہتر تھا کہ ہم بھی مرجاتے۔ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے اے خدا ہمیں موت دے ‘‘۔۵۹؎
اخبار ملاپ لکھتاہے کہ:-
’’مظفرپور اور پٹنہ میںکل رات سے موسلا دھار بارش شروع ہے۔ سڑکو ں پر پڑے پڑے ہزارہا بندگان خدا اب بارش میں شرابور سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ مطلع پرابرمحیط ہے۔ اور ابھی بارش تھمنے کی کو ئی علا مت نظر نہیں آتی ‘‘۔۶۰؎
اخبار پرکاش لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے شاید ہی کو ئی اتنابڑا زلزلہ آیاہو۔ زلزلہ کیا ہے پر ماتماکا ایک کوپ ہے‘‘۔۶۱؎
اخبار سرفراز لکھنئو لکھتاہے کہ:-
’’ہندوستان کے باشندے گویا زلزلے کو بھولے ہوئے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اب کچھ زمانہ سے ہندوستان میں بھی پے درپے زلزلے آرہے ہیں‘‘۔۶۲؎
اخبار اہلحدیث لکھتاہے کہ:-
’’یقین ہے کہ بعد ختم رسالت محمدؐیہ علی صاحب ہاالتحیتہ والسلام اگر نبوت جاری رہتی تو جدید نبی پر جو کتاب آتی اس میں عادثموداور فرعونیوں کی تباہی کے ذکر کے ساتھ ہی صوبہ بہار کے زلزلہ زدہ مقامات کاذکر بھی ضرور ہوتا۔ یعنی بتایاجاتاکہ عادیوں ثمودیوں کے عذاب سے زیادہ عذاب ان مقامات پرآیا‘‘۔۶۳؎
گورنمنٹ ہند کے ہوم ممبرسر ہیری ہیگ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہاکہ:-
’’سرکاری عمارتوں مثلاًعدالتوں، دفتروں اور رہائشی مکانات کی مرمت یاازسرنو تعمیرکے مجموعی اخراجات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن گورنر بہار نے کہا ہے کہ صرف ایک شہر میں۳۰لاکھ کی سرکاری عمارات مسمار ہوچکی ہیں۔ ریل کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ صرف جمال پور کے نقصان کی مرمت کااندازہ ۵۰لاکھ روپے سے کم نہیںہے۔‘‘
’’مقامی اداروں مثلاً ڈسٹرکٹ بورڈوںاور میونسپل کمیٹیوںکو بھی ہسپتالوں، دواخانوں، سکولوں، سڑکوں اورپلوں کی تباہی سے بہت نقصان پہنچاہے۔ پرائیویٹ ملکیتوںکے نقصان کا مجموعی اندازہ پیش کرنا قطعاًنا ممکن ہے۔‘‘
’’زراعتی زمینوں کے نقصانات کا اندازہ بھی ویساہی ناممکن ہے۔ بعض مقامات پر سُرخ کیچڑاور ریت زمین سے نکل آئی ہے اور یہ کہ وہ مستقبل میںزمین کی زراعتی قابلیتوں کو کس حد تک نقصان پہنچائے گی۔ اس کااندازہ سردست نہیں کیاجاسکتا۔ کاشتکاروں پر اس وقت سب سے زیادہ مصیبت کارخانجات شکرسازی کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ جیساکہ ہزایکسی لنسی گورنر نے اشارہ کیا تھا۔ تین اضلاع متاثرہ میںدولاکھ ایکڑزمین پر نیشکر بویاجاتاتھا۔ جس سے ۲۲لاکھ من شکر برآمد ہوتی تھی۔ کارخانوں کی تباہی نے بے چارے کاشتکاروںکے لئے نہایت شدیدپیچیدگی پیداکردی ہے‘‘۔۶۴؎
ہزایکسلینسی گورنرصاحب بہادر بہارنے تقریر کرتے ہوئے فرمایاجس کاخلاصہ یہ ہے کہ:-
’’ اس زلزلہ کی تباہ کاری گزشتہ تاریخ کے مقابلہ میں بلحاظ عظمت سب سے زیادہ وسیع اور بھاری ہے۔ اگر دریائے گنگا کے جنوبی حصوں کو جن میں نسبتاًجان ومال کاکم نقصان ہواہے۔ چھوڑبھی دیا جائے۔ تب بھی جس قدر علاقہ زلزلہ سے تباہ ہواہے وہ کسی طرح ملک سکاٹ لینڈ کے رقبہ سے کم نہیں ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس سے پانچ گناہ زیادہ ہے۔‘‘
’’شمالی بہار کے شہروں میں اغلباًایک خشتی مکان بھی نہیں ہے۔ جو کامل طور پر نقصان سے بچ گیا ہو۔ مونگھیر کاگنجان بازار اس حد تک برباد ہوچکاہے کہ کئی دن تک رستہ کاپتہ باوجود کوشش کے نہیں لگ سکا۔ ہزارہا جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور اگر یہ جھٹکادن کی بجائے رات کو لگتا۔ تو اس سے ہزاردرجہ زیادہ نقصان جان ہوتا۔ شہری آبادی جس پر یہ مصیبت آئی ہے۵لاکھ نفو س سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ ۱۲شہر جن کی آبادی ۱۰ہزار سے ۶۰ہزار تک تھی کامل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔‘‘
’’فوجی سپاہی جنہوں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ سے رقبہ متاثرہ کی تباہی وبربادی کامشاہدہ کیاہے وہ اس کو ایک میدان جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جس کو دشمن کی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیاہو۔ ایک بہت بڑے علاقے کے زمینداروں کی قابل کاشت زمینیں شگافوں، غاروں اور پانی کے ابلتے ہوئے چشموںسے تباہ ہوگئی ہیں۔ اور پانی کے ساتھ نکلی ہوئی ریت نے تین فٹ تک بلکہ اس سے زیادہ زمین کو ڈھانک دیاہے۔ اس نقصان کی پوری وسعت کااندازہ جو ہندوستان کے ایک نہایت زرخیز علاقہ کو پہنچا ہے۔ ایک مدت مدید تک کرنامشکل ہے۔ جس علاقہ کاڈائریکٹرآف ایگریکلچر اور ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے معائنہ کیاہے ۔ ان کااندازہ ہے کہ مظفرپور اور دربھنگہ کے نزدیک ۲ہزار مربع میل کے رقبہ پر نصف زمین بالکل ریگستان بن گئی ہے۔‘‘
’’اس کے علاوہ ہوائی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ یہ نقصان شمالی بھاگلپور اور ضلع پورینہ کے کھیتوں میں بھی پایاجاتاہے۔‘‘
’’تمام شمالی بہار میںآمدورفت کے ذرائع مسدود ہیںاور سڑکیں اور ریلیں بربادہوچکی ہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ اور ایک خطرہ جس کو قطعاً نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ہے کہ زلزلہ نے تمام ملک کی سطح میں بلحاظ نشیب وفراز بڑی بڑی تبدیلیاں پیداکردی ہیں۔ زمین کے دھنسنے اور ابھرنے کی کشاکش سے اونچی اونچی سڑکیںمعمولی سطح زمین کے برابرہوگئی ہیں۔ آب رسانی کے سابقہ ذرائع بالکل معطل ہوگئے ہیں۔ دریائوں کی گزرگاہیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اس قدر تباہی اور زمین کے تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت اندیشہ ہے کہ آیندہ برسات اس علاقہ میںسخت طوفان کاباعث ہوگی‘‘۔۶۵؎
لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لندن میں تقریر کرتے ہوئے چشم پُرآب ہوکر کہاکہ:-
’’یہ زلزلہ ایسا ہیبت ناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور یہ قریباً قریباً ناممکن ہے کہ اس تباہی کانقشہ انگلستان کے باشندے اپنے تصور میں لاسکیں‘‘۔۶۶؎
کیا یہ تباہی جو اوپر کے حوالہ جات میں بیان ہوئی ہے۔ قیامت کے نمونہ سے کم ہے۔ کیا یہ تباہی اس ہولناک نقشہ کے عین مطابق نہیں۔ جو آج سے ۲۸سال قبل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ؟ کیایہ تباہی خدائے ذوالجلال کی قدرت اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے ثابت کر نے کے لئے کافی نہیں ؟اور پھر کیا یہ تباہی خداکے وعدے کے مطابق اس کے زور آور حملوں میں سے ایک زور آور حملہ نہیں؟فاعتبرویٰٓاُولی الابصار
اس زلزلہ نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آناتھا
دوسری علامت اس زلزلہ کے لئے یہ مقرر کی گئی تھی کہ وہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کی وفات کے بعداس کے زمانہ سے ملتا ہواآئے گا۔ یہ علامت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ ۳مئی ۱۹۰۵ء کی صُبح کو آپ کو غیبی تحریر دکھائی گئی جس پر یہ الفاظ لکھے تھے:-
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘۔۶۷؎
یہ خبر نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے واقعہ قتل کے متعلق تھی ۔ جیساکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مفصل اور مدلل مضمون محررہ ۲۔ نومبر۱۹۳۳ء میں دوسرے الہامات اور تاریخی واقعات کی روشنی میںثابت کیاگیا۔ جو آج سے قریباً دوماہ پہلے شائع ہوکر تمام اکنافِ عالم میںپھیل چکاہے اور یہ الہام بذاتِ خود ایک عظیم الشان پیشگوئی کاحامل تھاجو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو کنگ نادرشاہ کے افسوس ناک قتل سے پوری ہوئی مگر یہاں ہمیں اس پیشگوئی کی تفصیلات سے کوئی سروکار نہیںہے بلکہ اس جگہ صرف یہ بتانامقصودہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے متعلق۳مئی ۱۹۰۵ء کو ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو آکر پوری ہوئی۔ اب ہم جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان الہامات پر نظر ڈالتے ہیں جو’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے بعد آپ کو ہوئے۔ تو صاف طور پران میں ایک ایسے زلزلے کی خبر پاتے ہیں جو بہت تباہ کن ہوگا اور اس میں زمین تہ وبالاکردی جائے گی ۔چنانچہ ۳ مئی۱۹۰۵ء کے بعد الہامات درج ذیل ہیں۔
سب سے پہلاالہام ۹مئی ۱۹۰۵ء کو ہُواجو یہ ہے کہ:-
’’پھر بہارآئی خداکی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۶۸؎
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘کے الہام کے بعد یہ پہلاالہام تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کوہوا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے متعدد جگہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ الہام زلزلہ کے متعلق ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپ اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ(یعنی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کازلزلہ) بھی بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبردی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا‘‘۔۶۹؎
پھر اسی دن یعنی ۹؍مئی۱۹۰۵ء کو دوسرا الہام ہواکہ:-
’’یَسْتَنبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔قُلْ اِیْ وَرَبِّیٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔۷۰؎
یعنی لوگ تجھ سے پو چھتے ہیں کہ کیایہ زلزلہ کی خبر درست ہے۔ تو کہہ دے ہاں خداکی قسم وہ درست ہے۔‘‘
پھر ۱۰مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’کیاعذاب کامعاملہ درست ہے؟اگر درست ہے تو کس حد تک؟‘‘۷۱؎
یہ الہام بھی یقینا زلزلہ کے متعلق ہے اور واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ اس پیشگوئی کے اعلان کے بعد اکثر مخالف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے سوال کرتے رہتے تھے ۔ کہ یہ جو زلزلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اگر یہ درست ہے تو اس کی کیاکیاعلامات اور کیا کیاتفصیلات ہیں۔۷۲؎
پھر ۲۲مئی ۱۹۰۵کو الہام ہواکہ:-
’’صَدَّقَنَا الرُّو.6ْ.6ٔ یَااِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْن.6َ۷۳؎
یعنی ہم نے تیرے رویا کو سچاکرکے دکھایااور ہم اسی طرح نیکوکاروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔‘‘
اس الہام کو بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے زلزلہ کی طرف منسوب فرمایاہے چنانچہ فرماتے ہیںکہ:-
’’اس پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہوچکی ہے۔ آج۲۲مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خداتعالیٰ کی طرف سے یہ وحی (یعنی وحی مندرجہ بالا) ہوئی‘‘۔۷۴؎
پھر ۲۳مئی۱۹۰۵ء کو الہام ہواکہ:-
’’زمین تہ وبالاکر دی۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۷۵؎
یعنی ایک تباہ کن زلزلہ آنے والاہے۔ جبکہ خدائے ذوالجلال اپنی فوجوں کے ساتھ تیری صداقت کے اظہار کے لئے اچانک آئے گا‘‘
یہ سارے الہامات موعودہ زلزلہ کے بارے میںایک کڑی کی صورت میںنازل ہوئے ہیںاور ’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر اتارے گئے ہیں۔ جس سے صاف ظاہرہے کہ خداکے علم میںہمیشہ سے یہ مقدر تھاکہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کاواقعہ اور یہ زلزلہ عظیمہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے وقوع پذیرہوں گے۔
خوب غور کرلو کہ ۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ ان الہامات کو جو دوبالکل مختلف واقعات سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر نازل کرتاہے۔ او ر پھر ۲۸سال کے لمبے عرصہ کے بعدوہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح آگے پیچھے ہوکرپورے ہوتے ہیں۔ جس طرح ۲۸سال پہلے انہیں اتاراگیاتھا۔ کیایہ ایک اتفاقی امر ہے یاکہ قدرت کے ہاتھوں کاایک پیوند ہے جو ازل سے جوڑاگیا؟
الغرض زلزلہ کے متعلق مندرجہ بالاالہامات کو ’’آہ نادرشاہ‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صاف اشارہ تھاکہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پوری ہوں گی۔ یعنی پہلے نادرشاہ کی دردناک وفات کاواقعہ پیش آئے گا اور پھر یہ تباہ کن زلزلہ ظاہر ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لوکہ پیش گوئی کے ۲۸سال بعدنومبر۱۹۳۳ء میں کنگ نادرشاہ قتل ہوئے اور اس کے پیچھے پیچھے موعود زلزلہ آن پہنچا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔وماعلیناالاالبلاغ
یہ زلزلہ بہار کے موسم میں مقدر تھا
تیسری علامت یہ بیان کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا۔چنانچہ اس بارے میں جو الہام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر نازل ہوا وہ اوپر کی بحث میں درج کیاجاچکاہے۔ جو یہ ہے:-
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۷۶؎
اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ بھی (جو۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا) بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبر دی کہ وہ دوسرازلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا۔ اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلناشروع ہوجاتاہے اس لئے اسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے…مجھے معلوم نہیں کہ بہار کے دنوں سے مرادیہی بہار کے دن ہیں جو اس جاڑے کے گزرنے کے بعد آنے والے ہیںیا اور کسی اور وقت پراس پیش گوئی کاظہور موقوف ہے جو بہار کاوقت ہوگا۔ بہرحال خداتعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے خواہ کوئی بہارہو‘‘۔۷۷؎
اب دیکھوکہ مندجہ بالاالہام میںاللہ تعالیٰ نے کس صراحت کے ساتھ یہ فرمادیاہے کہ:-
’’آیندہ تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور حضرت مسیح موعودؑنے بھی یہ صراحت کردی ہے کہ بہار سے لازماً مراداس الہام کے معاً بعد آنے والی بہار مراد نہیں ہے بلکہ مطلقاًبہار کاموسم مراد ہے۔ خواہ وہ کوئی بہار ہواور کتنے سالوں کے بعد آئے لیکن جیساکہ اوپر کی بحث میں بتایاجاچکاہے۔ خداکے علم میں ابتداء سے یہی تھا کہ اس بہار سے وہ بہار مرادہے جو کنگ نادرشاہ کے واقعہ قتل کے بعدپیش آئے گی۔ الغرض اس زلزلہ کی علامات میں سے ایک علامت یہ تھی کہ وہ نادرشاہ کے قتل کے بعد بہار کے موسم میں آئے گا۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ ۱۵؍جنوری۱۹۳۴ء کازلزلہ عین بہارکی ابتدامیںآیااور حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی‘‘۔
اور ایک نکتہ اس پیش گوئی میں یہ ہے کہ گو پنجاب کے حالات کے لحاظ سے جہاں سردی زیادہ پڑتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آخر جنوری میں بہار کاآغاز تحریر فرمایا لیکن چونکہ خداکے علم میں یہ تھا کہ یہ زلزلہ صوبہ بہاروبنگال میں آئے گا۔ جہاں سردی کی کمی کی وجہ سے بہار کاآغاز طبعاًکسی قدر پہلے ہوتاہے اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلہ کازمانہ بیان کرکے لوگوں کو ہوشیار کیاہے وہاں بجائے آخر جنوری کے عملاً سارے ماہ جنوری کو اس میں شامل کرلیاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیںکہ۔’’اسی مہینہ (یعنی جنوری ) سے خوف کے دن شروع ہوں گے۔‘‘۷۸؎
اور پھر اس پیش گوئی میں خداتعالیٰ کی ایک مزید قدرت نمائی یہ ہے جس سے پیشگوئی کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ۲۸؍جنوری۱۹۰۶ء کو پنجاب میں ایک درمیانے درجہ کازلزلہ آیا تو چونکہ وہ بھی بہار کے موسم میںتھااور اپنی وسعت کے لحاظ سے یہ الہام اس پر بھی چسپاں ہوتاتھا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسے اس زلزلہ پر چسپاں کر دیامگر فوراًہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ:-
’’زلزلہ آنے کو ہے۔‘‘۷۹؎
اور خداتعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود کے قلم سے یہ تشریح کروائی کہ
’’اس زلزلہ کو جو (۲۸فروری کو)ہوا۔ اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کوہے‘‘۔یعنی آگے چل کرآئے گا۔ اور آپ نے لکھا کہ یہ تشریح میری طرف سے نہیں بلکہ خداکی طرف سے’’میرے دل میںڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کانمونہ ہے وہ ابھی آیانہیں بلکہ آنے کو ہے‘‘۔۸۰؎
الغرض جیساکہ خدائی وعدہ تھا۔ یہ زلزلہ عین بہار کے موسم میںجبکہ بنگال وبہار میںشگوفہ پھوٹ رہاتھا، وقوع پذیر ہوا اور خداکی یہ پیش گوئی اپنے پورے جلال کے ساتھ پوری ہوئی کہ ایک تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور یہ بہار وہ ہوگی جو نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آئے گی اب چاہو تو قبول کرو۔
یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا
چوتھی علامت یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ ہندو ستان کے شمال مشرق میں آئے گا۔ چنانچہ اس بارے میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کارویاء آج سے۲۷ سال پہلے شائع ہوچکاہے۔یہ ہے، آپ فرماتے ہیںکہ:-
’’میں نے ۲۰ اپریل ۱۹۰۷ء کورویاء میں دیکھا کہ بشیراحمد(خاکسار راقم الحروف ابن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام) کھڑاہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘۔۸۱؎
اس رویاء کے متعلق کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ مطلب بالکل ظاہرہے یعنی یہ کہ اس ملک کاآئندہ سخت زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آئے گا۔ جیساکہ پہلا سخت زلزلہ جو ۱۹۰۵ء میں آیا۔شمال مغربی حصہ میں آیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے اس خواب میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جو یقینی طور پر اس با ت کو ثا بت کرتے ہیں کی شمال مشرق سے ملک کاشمال مشرق مراد ہے نہ کہ کچھ اور۔ چنانچہ خواب کے الفاظ یہ ہیںکہ’’زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘ کے الفاظ اس فقرہ میں ’’چلاگیا‘‘ کے الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سمت جو بتائی گئی ہے۔ یہ کسی پہلی سمت کے مقابل پر ہے ۔ یعنی مقصود یہ ہے کہ پہلازلزلہ ہندوستان کے شمال مغر ب میں آیاتھااور آیندہ زلزلہ اس کے مقابل پر شمال مشرق میں آئے گا۔ خوب سوچ لو کہ’’چلاگیا‘‘کے الفاظ سوائے اس کے اور کچھ ثابت نہیں کرتے کہ ان میں یہ اشارہ کرنامطلوب ہے کہ اگر پہلے زلزلہ کی تباہی کامرکز ہندوستان کاشمال مغربی حصہ تھا تو آیندہ زلزلہ میں یہ مرکز منتقل ہوکر شمال مشرق میں چلا جائے گا۔
اب دیکھو کہ یہ علامت ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ میں کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی ہے۔ ہندوستان کے جغرافیہ کاادنیٰ علم رکھنے والوں سے بھی یہ بات مخفی نہیں ہے۔ حتیٰ کے بچے بھی اسے جانتے ہیںکہ وادی کانگڑہ اور پنجاب جن میں۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا۔ وہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور بنگال اور بہار اور نیپال جن میں ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی سب سے بڑی تباہی آئی۔ وہ ہندوستان کاشمال مشرقی حصہ ہیں اور یہ بات ایسی بدیہی اور عیاں ہے کہ اس پر ہمیں کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں مگرناواقف لوگو ں کی تسلی کے لئے اس جگہ تین اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتاہے کہ مو جودہ زلزلہ صحیح معنوںمیں شمال مشرقی زلزلہ ہے۔ چنانچہ پنجاب کاانگر یزی اخبار سول لکھتاہے:-
’’۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کاتحت الارض مرکز آسام سمجھا جاتاہے۔ کیونکہ شمال مشرقی ہندوستان میں جتنے زلزلے کے دھکے محسوس ہوتے رہے ہیںان کاتعلق آسام سے رہاہے……آلات سائنس کامطالعہ بتاتاہے کہ موجودہ زلزلہ کامرکز عرض بلد ۴؍ ۱ ۲۶شمال اور طول بلد ۴؍ ۱ ۸۵ شرق میں واقع ہے‘‘۔۸۲؎
پھر اخبار سٹیٹس مین رقم طرازہے کہ :-
’’لمبے تجربے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیںکہ ہندوستان کے شمال ومشرق کے زلزلے کامرکز آسام ہے‘‘۔۸۳؎
پھر لکھنؤ کااخبار سرفراز لکھتاہے:-
’’جو زلزلہ ۱۹۰۵ء میں وقوع پذیر ہوااس کامرکز شمال ومغرب ہند کی وادی کانگڑہ میںتھا……اور اب اس ۱۹۳۴ء کے زلزلے کے متعلق اندازاہ ہوتا ہے کہ شمال وشرق ہند اس کا اصلی مرکز ہوگا‘‘۔۸۴؎
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیش گوئی کہ ہندوستان کاآیندہ سخت زلزلہ ملک کے شمال مشرق میں آئے گا۔پوری شان اور پوری آب وتاب کے ساتھ پوری ہوگئی ہے اور سوائے اس کے کہ کسی کے کان اور آنکھ اور دل سب مسلوب ہوچکے ہوں۔ کوئی شخص اس کی صداقت میں شبہ نہیں کرسکتا۔ فبایّ حدیث بعد ذالک یؤمنون
اس زلزلہ کی پیشگوئی کی طرف سب سے پہلے مرزابشیراحمد کی طرف سے اشارہ ہوگا
پانچویں علامت یہ تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مرزابشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گااور ایساہوگاکہ ابتداء ًخاکسار ہی اس پیش گوئی کی طرف توجہ دلائے گا۔ یہ علامت بھی مندرجہ بالارؤیا سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں بیان کیا گیاہے کہ شمال مشرق کی سمت کی طرف خاکسار نے اشارہ کر کے کہاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیاہے۔
اب دیکھ لو کہ یہ علامت بھی کس طرح ہوبہوپوری ہوئی ہے۔ زندگی میں ایک دم کااعتبار نہیں۔ دنیا میں ہرروز بچے بھی مرتے ہیں اور جوان بھی مرتے ہیں اور بوڑھے بھی مرتے ہیں اور کوئی شخص کسی عمر میں بھی موت کے حملے سے محفوظ نہیں ہے مگر خدانے آج سے ۲۷ سال پہلے اپنے مقدس مسیح کو خبر دی تھی کہ ہندوستان کے شمال مشرق میں ایک سخت زلزلہ آنے والاہے۔ اور وہ زلزلہ تیرے بیٹے بشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گا۔ اور وہی اس کی طرف اشارہ کرکے بتائے گا کہ یہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ ہے۔ اس پیشگوئی پر آج ۲۷ سال سے زائد عرصہ گزر چکاہے مگر اس طویل عرصہ میں اللہ۔تعالیٰ نے مجھے موت سے محفوظ رکھا اور مجھے اس وقت تک زندگی دی کہ میں اس زلزلہ کو دیکھوں اور لوگوں کو بتائوں کہ یہ وہی شمال مشرق کازلزلہ ہے۔ جس کاوعدہ دیاگیاتھا اور پھر صرف مجھے زندگی ہی نہیں دی بلکہ ایسا تصرف فرمایاکہ سب سے پہلے میراہی ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ یہی ۱۵جنوری ۱۹۳۴ء کازلزلہ ہے اور جس رنگ میں کہ میراذہن اس طرف منتقل ہواوہ بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی خبریں اخبارات میںشائع ہوئیں تو اس کے چند روز بعد میں نے ایک رات یہ محسوس کیاکہ مجھے بے خوابی کاعارضہ لاحق ہے اور نیند نہیں آتی۔ حالانکہ عموماً مجھے بے خوابی کی شکایت نہیں ہواکرتی۔ میں اس بے خوابی پر حیران تھا۔ اور وقت گزارنے کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کامجموعہ ’’البشریٰ‘‘ اٹھاکر اسے پڑھنا شروع کیااور میں اسے صبح کے ساڑھے چار بجے تک اسے پڑھتا رہا۔ آخر میں میری نظرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء پر پڑی کہ بشیر احمد شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا مگر اس وقت بھی مجھے یہ خیال نہیں آیاکہ اس میں ۱۵ جنوری والے زلزلہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اٹھا تو دن کے دوران میں اچانک ایک بجلی کی چمک کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ خواب اسی زلزلہ پر چسپاں ہوتی ہے اور پھر جب میں نے اس کے حالات پر غور کیاتو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ زلزلہ ہے جو ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا۔ جس کے بعد میں نے اس کاذکر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ کیا۔اور سب نے حیرت کے ساتھ اس سے اتفاق کیاکہ ہاں یہ وہی زلزلہ ہے۔ اور پھر جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے اس کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ اب مناسب ہے کہ بشیر احمد ہی اس زلزلہ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر شائع کرے۔
اور اس جگہ یہ بیان کر دینابھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء میں جہاں یہ ظاہر کیاگیاتھاکہ یہ زلزلہ خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آئے گا اور وہی سب سے پہلے اس کی طرف اشارہ کرنے والاہوگا۔ وہاں اس رویا ء کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ اشارہ بھی ملتاہے کہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد آنامقدر تھا کیو نکہ حضرت مسیح موعود علیہ،السلام کا خاکسار کو شمال مشرق کی طرف اشارہ کرتے دیکھنا اور اس رویاء میں اس پیش گوئی کے ظہور کے وقت سے خود آپ کی ذات کاکوئی تعلق ظاہر نہ ہونایہی ظاہر کرتاہے کہ یہ زلزلہ آپ کی زندگی کے بعد آناتھا۔ چنانچہ اس کے متعلق بعض دوسرے الہامات میں صاف اشارہ بھی ہے جیساکہ ۹ ؍ مارچ ۹۰۶ء کاالہام ہے کہ:-
’’رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃِالسَّاعَۃِ‘‘۸۵؎
یعنی ’’ اے خدا مجھے یہ قیامت کے نمونہ والازلزلہ نہ دکھا‘‘۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔
الغرض وہ پانچویں علامت بھی جو اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمائی تھی یعنی یہ کہ یہ زلزلہ مرزابشیر احمد کی زندگی میں آئے گا اور وہی اس کی طرف ابتداًتوجہ دلانے والا ہوگا۔ حرف بحرف پوری ہوئی۔فالحمدللّٰہ علی ذالک ولا حول ولاقوۃ الاباللّٰہ۔
تمام موعودہ علامات پوری ہوگئیں
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا سے علم پاکر۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلہ کے متعلق پانچ زبر دست علامات بیان فرمائی تھیں اور آج ۲۷۔ ۲۸سال کے لمبے زمانے کے بعدہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب علامات من وعن پوری ہوئیں۔ ایک تباہ کن زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق اپنے ساتھ پانی کے سیلاب کو لایا۔ زلزلہ آیااور جیساکہ وعدہ تھا عین بہار کے مو سم میں آیااور کنگ نادرشاہ کے قتل کے واقعہ کے ساتھ یو ں ملاہو اآیا کہ گویاقدرت کے ہاتھوں نے ان دو حادثوں کو ازل سے جوڑ رکھا تھا۔ زلزلہ آیا اور جیسا کہ وعدہ تھاعین بہار کے موسم میں آیا۔ گویابہار کے موسم کوبہار کے صوبے سے کوئی مخفی نسبت تھی ۔ زلزلہ آیااور خدائی اشارہ کے مطابق ملک کے شمال مشرق میں آیا۔یعنی جس طرح خدائی فرشتوں نے ۱۹۰۵ء میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ڈیرے ڈالے تھے۔ ۱۹۳۴ء میں یہ فرشتوں کی چھائونی ملک کے شمال مشرق میں آگئی ۔ زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آیااور خدانے ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے اس بات کی طرف میرا ہی ذہن منتقل ہوا کہ یہ وہی موعود زلزلہ ہے اور ہوسکتاہے کہ میرے نام کی نسبت سے اس میں یہ بھی اشارہ ہو کہ یہ زلزلہ خدائی سلسلہ کے لئے بشار ت لے کر آتاہے۔ پس میں پھر کہوں گا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک ولاحول قوۃ الاباللّٰہ۔
مصیبت زدگان سے ہمدردی
ہم دنیاکی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خداجانتاہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیاکیا جذبات اٹھتے ہیں ۔ ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیںجسے اس زلزلہ میں کسی قسم کانقصان پہنچاہے۔ ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان گرنے پر۔ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر۔ ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جداہونے پر ۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کاعملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارایہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کاکوئی نشان پوراہوتاہوادیکھیں تو اسے دنیاکے سامنے پیش کریںاور لوگوں کو بتائیں کہ خداکے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پو ری ہوا کرتی ہیں تاکہ وہ خداکوپہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور مرسل کی شناخت کریںاور خداسے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروںکے نیچے آجائیں۔ خدانے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو دنیا کے لیئے ایک رحمت کا مجسمہ بناکر بھیجا۔ مگر افسوس دنیانے آپ کو قبول نہ کیا اور وقت کی ضرورت کو نہ پہچانااور خداکے مامورومرسل پر اپنے تیرو تفنگ نکالے اور اسے اپنی ہنسی کا نشانہ بنایا۔ تب خدااپنے وعدہ کے مطابق اپنی فوجوں کو لے کر آسمان سے اترااور اس نے پھر کہا:-
’’میںاپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھائوں گا۔ دنیامیں ایک نذیر آیاپر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔۸۶؎
دعوت الی الحق
سو اے عزیزو! اب خداکے دونوں ہاتھ تمہارے سامنے ہیں ۔ ایک طرف اس کی رحمت کاہاتھ ہے اور دوسری طرف اس کے غضب کاہاتھ۔ اور تمھیں اختیارہے کہ جسے چاہو قبول کرو مگر یادرکھو کہ خداکے زور آور حملے ابھی ختم نہیں ہوگئے۔ خدانے اپنے مسیح سے بہت سے عجائبات قدرت دکھانے کاوعدہ فرمایاہے اور یہ سب عجائبات ظاہر ہوکر رہیں گے او ر کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔ مگر بدقسمت ہے وہ جو خداکی طرف سے نشان پر نشان دیکھتاہے اور ایمان کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔ یادرکھو کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میںاپنے قہری نشانوں کی تجلی دکھائے گا۔ حتی کہ لوگ حیران ہوکر پکار اٹھیں گے کہ اس دنیاکو کیاہونے والاہے؟پس پیشتر اس کے کہ تمھاری باری آئے خدا سے ڈرو اور اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرو۔ دیکھو صدیوں کے انتظار کے بعد خدا نے تمھاری طرف ایک مامور کو بھیجا ہے اور اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس مردہ دنیا کو پھر زندہ کرے۔ پس اس کے اس ارادے کے رستے میں حائل مت ہو کیو نکہ یہ ارادہ پوراہوکر رہے گا۔ اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ تم دنیاکے رشتوں اور دنیا کی دوستیوںاور دنیا کے مالوں اور دنیا کی عزتوں کی خاطر خداکو چھوڑرہے ہو مگر سن رکھو کہ یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور آخر پر ہر شخص کامعاملہ خدا کے ساتھ پڑنے والاہے ۔ پس اپنی عاقبت کی فکر کرو اور اس دن سے ڈرو کہ جب سب تعلقات سے الگ ہوکر خداکے سامنے کھڑا ہوناہوگا۔ خدا نے اپنی حجت تم پر پوری کر دی۔ اور اپنے زبردست نشانوں سے تم پر ثابت کردیا کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔کیا اب بھی تم آنکھیں نہیں کھولوگے۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام خدا کا دین نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے نہیں ۔ کیا اب بھی تم خدا کی گواہی کو قبول نہیں کرو گے ؟ اور اے بہارو بنگال کے لوگو!اور اے نیپال کے رہنے والو!
تم اس وقت خصوصیت سے خدا کے الزام کے نیچے ہو۔کیونکہ وہ بستیاں تمھاری آنکھوں کے سامنے ہیں جو خدائی عذاب کا نشانہ بنیں۔تم نے خدا کی ایک قہری تجلی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراس کے ایک زبردست نشان کو اپنے سامنے مشاہدہ کیا ۔پس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جائو اور توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے ۔خدا کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی یہ سنت ہے کہ ایسے عذاب کے بعد پھر اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے ۔سو اس کے عذاب کوتوتم نے دیکھ لیا۔اب آئواور اس کی رحمت کو قبول کرو۔
اے ہمارے مسلمان بھائیواور اے حضرت مسیح ناصری کے نام لیوائو اور اے ہمارے ہندو ہم۔وطنو اور اے تمام لوگو جو کسی مذہب وملت سے تعلق رکھنے کا دم بھرتے ہو!دیکھو اور سوچو کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ جھوٹا ہوتا اور خدا نے آپ کو مسلمانوں کے لئے مہدی اور عیسائیوں کے لئے مسیح اور ہندئوں کے لئے کرشن اور دوسری قوموں کے لئے آخری زمانہ کا موعود مصلح بنا کر نہ بھیجا ہوتا تو آپ کو ہلاک کردینے کے لئے خود آپ کا افترا ہی کافی تھا کیونکہ خدا کے ازلی قانون کے ماتحت افترا کے اندر ہی ایسا آتشین مادہ موجود ہے کہ وہ مفتری علے اﷲکو بہت جلد جلا کر راکھ کردیتا ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تم دیکھتے ہو کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ باوجود ہر قسم کی مخالفت اور عداوت کے دن بدن بڑھتا چلاجاتا ہے اور ہر میدان میں اﷲ تعالی اسے فتح اور کامیابی عطاکرتا اور اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی کا مُنہ دکھاتا ہے۔ دشمن نے اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا اورکوئی دقیقہ اس سلسلہ کو مٹانے کا اٹھا نہیں رکھامگر جسے خدابڑھانا چاہے اسے کون مٹا سکتا ہے۔
خدا نے ابتداء سے فرما رکھا تھا کہ ایک درخت ہے جو میرے ہاتھ سے لگا یا گیا۔اب یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گااور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ مگر خوش قسمت ہے وہ جواس درخت کو پہچانتا ہے اور اس کے پھل پھول کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتاکیونکہ وہ ابدی زندگی کا پھل ہے ،جس کے کھانے کے بعد کوئی موت نہیں ۔پس آئو اور اس ابدی زندگی کے پھل کو کھا کر خدائی جنت کے وارث بنو ۔وَاٰخِرُدَعْوٰنَآ اَنِ الْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(مطبوعہ الفضل ۴ مارچ ۱۹۳۴ئ)
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن شریف کے نزول کی ابتداء ہوئی اور جسے خدا تعالیٰ نے روزے جیسی بابرکت عبادت کے لئے مخصوص کیا ہے اور اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں خدا اپنے بندوں سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ یعنی اپنے قرب کے دروازے ان کے لئے خاص طور پر کھولتا ہے اور ان کی دعائوں کو خاص طورپر سنتاہے مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی خدا کی آواز پر کان دھرے اور اس پر ایما ن لا نے کے حق کو ادا کرے۔ پس روحانی رنگ میںترقی کرنے کے لئے یہ ایک خا ص مہینہ ہے اور وہ شخص بدقسمت ہے جو اس مہینہ کو پاتا ہے اور پھر ترقی کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔ اسی تحریک کی غرض سے امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گزشتہ دوجمعوں میں جماعت کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی ہے اور میرے اس نوٹ کی پہلی غرض یہی ہے کہ احباب سے یہ تحریک کروں کہ حضرت امیرالمومنین کے خطبوں کو غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان پر کاربند ہوکر تقرب الٰہی کے لئے ساعی ہوں۔ رمضان کے متعلق مندرجہ ذیل امور خا ص طور پر قابل توجہ ہیں۔
۱۔جن لوگوںپر روزہ رکھنافر ض ہے اور وہ بیمار یا مسافر نہیں،وہ ضرور رکھیں اور روزہ کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں۔
۲۔رمضان میںنماز تہجد کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے خواہ باجماعت تراویح کے رنگ میںیا علیحدہ طور پر گھر میں۔
۳۔روزہ رکھنا صرف بھوکے اور پیا سے رہنے کا نام نہیںہے بلکہ یہ ایام در حقیقت تما م قوائے جسمانی پر گویا ایک بریک لگانے کی غرض سے رکھے ہیں۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں جملہ نفسانی اور جسمانی طاقتوںکو خا ص طور پرضبط میں رکھیںتاکہ روحانی اور باطنی طاقتوںکو نشونماپانے کا موقع میسرآسکے اور یہ بھی یادرکھیںکہ اصل روزہ دل کا ہے۔ پس سب سے زیادہ توجہ دل کے خیالات وجذبات کو پاک کرنے کی طرف ہونی چاہیئے۔
۴۔چو نکہ اس مہینہ کو خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے نزول کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے ان ایام میںقرآن شریف کی تلاوت اور اس کے معانی میں تدبر کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔
۵۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ صدقہ وخیرات کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کے متعلق حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیںکہ رمضان میں آپؐ کی حا لت صدقہ وخیرات کے معاملہ میںایسی ہوتی تھی کہ گویا ایک زور سے چلنے والی ہوا ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی۔ اور دراصل روزہ میںضبط نفس اور قربانی کی جو تعلیم دی گئی ہے اس کا منشا کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ اپنی ضروریات سے کاٹ کر غرباء کی مدد نہ کی جائے۔
۶۔چو نکہ روزہ کی برکات سے متمتع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان خدا کی آوازکوسنے اور اس پر ایمان لائے۔ اس لئے اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے اوامرونواہی کو تلا ش کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اگر احباب غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگاکہ قرآن شریف کے بہت سے احکام ایسے ہیں۔ جن پر عمل کرنے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان پر عمل کرنے کا موقع تلاش کیاہے۔ اسی طرح کئی نواہی ایسی ملیں گی جن کے متعلق انسان غفلت کی حا لت میں گزر جا تا ہے۔ پس رمضان میںخاص طور پرقرآن شریف کے اوامرونواہی کو مطالعہ کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیئے۔ تاکہ ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے جو خداکی طرف سے رمضان کے مبارک مہینہ میں رکھی گئی ہیں۔
۷۔مگر ایک عمومی کوشش کے علا وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلا م یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ رمضان میں اپنی کسی خاص کمزوری کو خیال میں رکھ کراس کے متعلق دل میںیہ عہد کرے کہ وہ آئندہ خداکی توفیق سے اس سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے بھی احباب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
۸۔اس زمانہ میںلوگوں نے رمضان کو ضبط نفس اور قربانی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے عملاً تعیش کا آلہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ سحری اور افطاری کے متعلق خاص اہتمام کئے جاتے ہیں اور بجائے کم خوری اور سادہ خوری کے رمضان میں غذا کی مقداراور غذا کی اقسام اور بھی زیادہ کردی جاتی ہیں۔ یہ طریق رمضان کی روح کے بالکل منافی ہے۔ پس احباب کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کا رمضان ان کے لئے کِسی امیّش کا ذریعہ نہ بنے بلکہ یہ دن خا ص طور پر سادگی اور ضبط نفس کی حالت میں گزریں۔ امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکے گذشتہ خطبات میں خوراک کے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر رمضان میں خصوصیت سے عمل ہونا چاہیئے۔
۹۔رمضان کا مہینہ خا ص طورپر نیک تحریکات کے قبول کرنے کا زمانہ ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اسلا م اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی تدابیر سے بڑھ کر اور کوئی تحریک نہیں ہوسکتی۔پس اس مہینہ میں احباب کو خاص طور پر اس سکیم کی طرف توجہ دینی چاہیئے جو حضرت امیرالمومنین نے گزشتہ خطبات میں جماعت کے سامنے پیش فرمائی ہے۔
۱۰۔رمضان کو قبولیت دعاکے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ میں دعائوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور خصوصیت کے ساتھ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے دعائیں کریں۔ ان ایام میں سلسلہ احمدیہ کی مخالفت جس رنگ میں اور جس وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے۔ اس کی مثال کئی جہت سے اس سے پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔ یہ مخالفت یقینا خدا کے آنے والے انعامات کے لئے پیش خیمہ کے طور پر ہے۔ مگر ضروری ہے کہ ہم لوگ نہ صرف اپنے عمل سے بلکہ اپنی دعائوںسے بھی اس کے جاذب بنیں۔ پس ان روزوں کے ایام میںخصوصیت کے ساتھ دعائوں کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہواور ہم کو اس رستہ پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضاء اور فلاح کا رستہ ہے۔آمین
(مطبوعہ الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۴ئ)
۱۹۳۵ء
اختتام درس قرآن کریم کی دُعا
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان پر قادیان میں قرآن شریف کے درس کا انتظام کیا گیا تھا۔ اور اب آخری عشرہ میں مکرمی مولوی غلام رسول صاحب راجیکی آخری پاروں کا درس دے رہے ہیں۔ یہ درس انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹رمضان مطابق ۶جنوری بروز اتوار ہوگا۔ اور آخری دو سورتوں کا درس خود حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ میں ۶جنوری کو بعد نماز عصر فرمائیں گے۔ جس کے بعد حسب دستور حضور مقامی جماعت کے ساتھ دُعا فرمائیں گے۔ بیرونی احباب اپنی اپنی جگہ پر ۶ جنوری کو بعد نماز عصر وقبل اذان مغرب دعا کا انتظام کرکے اس دعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔
(مطبوعہ الفضل ۳جنوری ۱۹۳۵ئ)