• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مضامین بشیر ۔ جلد 1

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مضامین بشیر ۔ جلد 1

۱۹۱۳ء
صلح یا جنگ
احمدیوں اور غیراحمدیوں کے باہم تعلقات پر بحث کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اور ہر ایک کا کام نہیں کہ اس پر قلم اٹھاوے کیونکہ یہ مضمون قومی نظام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور قومی نظام کی پوری ذمہ۔داری کو سوائے قوم کے لیڈر کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لہذا ایسا مضمون جس پر حضرت اقدس کی کوئی تحریر شاہد نہ ہو، کبھی بھی قوم کے لئے دستور العمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھاہے کہ جوکچھ لکھوں، اس پر حضرت صاحب کی شہادت ہو ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔ایسا ہی میرا خیال ہے کہ اگر ہرایک احمدی کوئی مضمون لکھتے ہوئے حضرت صاحب کی کتب کو سامنے رکھ لے تو قوم بہت سی مشکلات سے بچ جاوے۔ اس قدر تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔
قرآن شریف اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسے فرمایا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا۱؎۔ اسلام کا کام اس فطرت کا جگانا ہے اور قرآن اِسی غرض سے دنیا میں نازل ہوا مگر وقت یا یوں کہئے کہ زمانہ اپنے اندر ایک عجیب اثر رکھتا ہے۔ کتنی ہی سخت سے سخت مصیبت کیوں نہ پڑے کیسا ہی بڑے سے بڑا غم کیوں نہ ہو ایک عرصہ کے بعد اس کی تیزی ضرور کم ہوجائے گی۔ مجھ کو یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت احمدی قوم پر بڑے درد کا وقت تھا اور غم کی وجہ سے وہ دیوانی نظر آتی تھی لیکن آج پانچ یا چھ سال کے بعد وہ غم نہیں، وہ درد نہیں، وہ تکلیف نہیں، وقت نے اپنا اثر کیا اور آہستہ آہستہ غم کم ہوتا گیا۔اور اب جتنا ہم کو زمانہ اس سانحہ دور ڈالتا چلاجائے گا،اتنا ہی ہمارے لئے اس کی تکلیف کم ہوتی جائے گی۔ اسی طرح جو اسلام کی محبت اور دین الٰہی کی غیرت اور اپنی عقبیٰ کی فکرمسلمانوں کو نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی وہ آج نہیں۔ وہ فاتح تھے اور یہ مفتوح۔ وہ بادشاہ تھے اور یہ رعایا۔ وہ آزاد تھے اور یہ غلام۔ وہ اسلام کا فخر اور یہ اسلام کی جائے عار۔ غرض وہ منعم علیہم اور یہ مغضوب، دُنیا کی محبت آگئی اور دین کو کھو بیٹھے۔ زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے ان کے دروازوں پر لاڈھیر کئے۔ آسمان نے ان کے لئے رحمت کے باد ل برسائے مگر انہوں نے شکر کرنے کی بجائے اپنی عیش میں خدا کو بھلادیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ ذلت۔ قردۃ خاسئین ہوگئے دوسرے کے نچائے ناچتے ہیں۔ پھر اس پر غضب یہ ہوا کہ عیسائی تہذیب نے ملک میں قدم رکھا اور مسلمان جو پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے اس پر لٹو ہوگئے۔ پتلون کی آمد پر پاجامہ صاحب رفوچکر ہوئے اور جبّہ کی مسند پر فراک کوٹ کو بٹھایا گیا اور کیا چاہیئے تھا من مانی مرادیں مل گئیں۔ شراب وکباب میں غرق ہوئے۔ بابو صاحب کا لقب پایا اور مولویت کو خیرباد کہہ دی۔اللہ اللہ! یہ وہ قوم ہے جو اسلام کا دعویٰ رکھتی ہے۔ خدا تو ظالم نہیں۔ ہاں انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پر مصائب کیوں آتے ہیں۔ کوئی کہے تم انعاموں کے کام کرتے ہو؟ یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے طریقے ہیں؟ دوسروںپر کفر کے فتوے اور اپنے گھر کا یہ حال! آخر شرم بھی کوئی چیز ہے، جائے غور ہے یہ آسمان پر تھے اور زمین پر گرے، تختوں پر ان کا ٹھکانا تھا اور اب خاک بھی ان کو جگہ دیتی شرماتی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کس بات کا نتیجہ ہے؟ یہ عتاب کیسا ؟ اس ناراضگی کے کیا معنے؟ خدا بدل گیا یا یہ ہی وہ نہ رہے؟ کبھی اس آیت پر بھی غور کیا ہے؟
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُمَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِھِمْ ۲؎
کہنے والے نے خوب کہا ہے:-
غیروں سے اب لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے
اسلامی جوش مٹ گیا اور دنیا کی محبت دل میں گھرکر گئی۔ عیش وعشرت کے خمار میں پڑ گئے اور اپنے مولیٰ کو بُھلادیا۔ جوں جوں زمانہ دور ہوتا گیا اسلامی تعلیم دلوں سے محو ہوتی گئی تو کیا اب کئی صدیوں کا خمار ان چکنی چپڑی باتوں سے دور ہوجائے گا؟ یہ نیند نہیں بدمستی ہے اب کوئی مضبوط ہاتھ ہی ہوش میں لائے گا۔ نرم باتوں کو کون سنتاہے۔ ہم نے تودیکھا ہے کہ شرابی اپنے نشہ میں مست عجیب شور مچاتے ہیں اور بیہودہ بکواس سے ناک میں دم کردیتے ہیں مگر جب بالوں سے پکڑ کر دوچار رسید کردی جائیں تو فوراً ہوش آجاتا ہے۔
جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۳؎کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حق کو چھوڑدیا جاوے اور دل خوش کن باتیں کرکے راضی کرلیا جاوے۔ ہاں بات کرنے کا طریق احسن ہو اور اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مثلاً ایک ہندو ہمارے پاس آوے اور ہم سے سوال کرے کہ آپ ہم کو کیا سمجھتے ہیں تو ہم اگر حق کہتے ہوئے نہ ڈریں تو دو طرح سے جواب دے سکتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو کمبخت کافر بے ایمان جہنم کا ایندھن ہے اور یہ جواب حق ہوگا۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو تم نے اللہ کے ایک مرسل کا انکار کیا اور کسی رسول کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔ تم میں حقیقی ایمان نہیں اور اللہ تعالیٰاسی وجہ سے تم پر خوش نہیں اور جس پر وہ ناراض ہوتا ہے ان کے لئے اُس نے جہنم کا عذاب رکھا ہے۔ یہ ہے وہ جواب جو جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُکے ماتحت آئے گا۔ حق بھی ظاہر ہوگیا اور اس کے بیان میں نرمی بھی آگئی۔ وہ کلمات جو اپنے اندر صرف نرمی ہی نرمی رکھتے ہیں، اور حق سے دور ہوتے ہیں۔ بلاریب سننے والے کو ضرور خوش کردیں گے اور وہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ الَّاِالْاِحْسَانُ۴؎کے ماتحت غالباً ہماری ہاں میں ہاں بھی ملادے گا لیکن کیا اس سے ہمارا مطلب حل ہوگیا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے تو اس کے اور حق کے درمیان ہمیشہ کے لئے روک قائم کردی۔ یقین رکھو کہ ایسا شخص ہمارے قریب نہیں آیا بلکہ ہم سے دور چلا گیا۔ جب کبھی ہم اس کے خلافِ مطلب کوئی بات کہیں گے وہ الگ ہوجائے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ مخالفت سے بالکل نہ گھبراتے تھے بلکہ جب کبھی سنتے کہ فلانی جگہ مخالفوں کا بڑا زور ہے تو بہت خوش ہوتے کہ اب وہاں احمدیت بھی ترقی کرے گی۔ تجربہ نے بھی یہ ہی ثابت کیا ہے کہ جہاں کہیں زیادہ مخالفت ہوئی وہیں زیادہ ترقی ہوئی۔ اور کیوں نہ ہوتی خدا کے مرسلوں کی بات پوری ہوکر رہا کرتی ہے۔ سو چاہیئے کہ ہم جو مسیح کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلیں اور اگر ہم ان کے منشاء کو پورا نہیں کررہے تو ہم احمدی کہلانے کے حقدار نہیں جیسے کہ آج کل کے برائے نام مسلمانوں پر مسلمان کا لفظ بولتے ہوئے طبیعت ہچکچاتی ہے۔ غرضیکہ حق ایک ایسی چیز ہے جو کسی وقت بھی چھوڑنی نہیں چاہیئے۔ وہ پالیسی جس میںحق کو چھپانا پڑے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کی واہ واہ کو، کامیابی کو حاصل کرلیا جاوے مگر یاد رکھو صرف ہاں میں ہاں ملانے والے کبھی جماعت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے اور ہوں بھی کیسے۔ منافق کو حق سے کیا نسبت ہے اس کو اگلا جہاں یاد ہی نہیں۔ مثلاً ایک عیسائی ہم سے کہے کہ میں نبی کریم .6ؐ کو مانتاہوں مگر ان کو مسیح پر فضیلت نہیں تو کیا اس کا جواب یہ چاہیئے کہ ہاں لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۵؎ قرآن شریف میں بھی آیا ہے؟ کمبخت عیسائی تو خوش ہوگیا مگر ساتھ ہی حق کا بھی خون ہوگیااس کا جواب تو یہ تھا کہ ہم کیوں نہ نبی کریم ؐ کو مسیح پر فضیلت دیں عَلَیْھِمَا السَّلَامُ؟ غلام کو آقا سے کیا نسبت؟ مریم کے صاحبزادے کا عرب کے سردار سے کیا مقابلہ؟ محمد مصطفی ( فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ) کے کام کو دیکھو اور پھر شام کے نبی کی کاروائی۔ سورج اور چاند کی بھی کچھ نسبت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ جواب تھا جو نصرانی کو ہوش میں لاتااور اس کو اپنی عقبیٰ کی فکر پڑتی۔
حضرت صاحب نے بیشک ہندوئوں کو صلح کا پیغام دیا۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ ہے کہ پیغام کے مخاطب ہندو تھے لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ کن شرائط پر۔ سب سے بڑی شرط جو پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ تم
لَآاٖلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّہ
پر ایمان لے آئو۔ پھر ہم تم بھائی ہیں ورنہ یادرکھو کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ہونی ممکن ہے مگر تم سے ناممکن۔ اب اگر حضرت مسیح موعود ؑ کے وصال کے بعد احمدیہ سرکل میں سے کوئی فرد یا جماعت یہ آواز اٹھائے کہ غیر احمدیوں سے صلح کی جاوے تو اس کے لئے ہم اپنے آقا کے نقش قدم پر چل کر علیٰ بصیرۃیہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑی شرط یہ ہو کہ غیر احمدی اپنے مسیح کو مار کر خدا کے مسیح اورمہدی کو مان لیں اور اسی کے سایۂ عاطفت کے نیچے آجاویں۔ پھر وہ ہمارے بھائی ہوں گے لیکن اگر وہ اس شرط کو قبول نہ کریں جس طرح ہندوئوں نے ہماری آواز پر لبیک نہ کہا تو یاد رکھیں کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ممکن ہے مگر ان کے ساتھ ناممکن۔
پھر ایک اور بات ہے وہ یہ کہ دنیا میں دو ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔دینی اور دنیوی۔ دینی تعلقات میں سب سے بڑا تعلق عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیا میں رشتہ داری سب سے بڑا تعلق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان دونوںبڑے تعلقات کو جو احمدی اور غیراحمدیوں کے درمیان ہوسکتے تھے ہمیشہ کے لئے قطع کردیا ہے۔ دین میں حکم دیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز بالکل نہ پڑھو۔ مرجائیں تو جنازہ کوئی نہیں۔ دنیا کے لئے فرمایا کہ غیر احمدی کو لڑکی نہ دینا۔اب باہم تعلق کی بات ہی کونسی رہ گئی۔ یہ ہی باتیں ہیں جن سے نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روکا۔ ورنہ کفار کے ساتھ لین دین کے معاملات اور معمولی تعلقات تو اصحاب بھی رکھتے تھے۔ یہ ایک بڑا باریک نکتہ ہے جو غور کرنے والے کے لیئے کافی ہے۔ ع
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
اب ہم اس مضمون کی تائید میں جو ہم نے شروع میں لکھا ہے حضرت صاحب کی تحریر پیش کرتے ہیں۔ آپ ازالہ اوہام حصہ اوّل میں فرماتے ہیں:-
’’بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوںمختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اورا پنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدرمرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام دہی تصور کرلیتے ہیں……اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اورتلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کرسکتے ہیں۔ تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے……کیا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ۶؎ نہیں فرمایا۔کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ۷؎ نہیں رکھا گیا؟ (افسوس ہے یہاں اشدّاء بینھم اور رحماء علی الکفار پر عمل ہو رہا ہے)……دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچادیوے۔ پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے…… اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صور ت میں اس کو سمجھ لیوے اورپھر مشتعل ہوکر گالیاں دینی شروع کردے تو کیا اس سے امرمعروف کا دروازہ بند کردینا چاہیئے۔ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں…… اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلّشانہ مداہنہ کی حمایت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی مائوں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتائو کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکّہ کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے وَدُّوْالَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ…۸؎… وہ تلخ الفاظ جو اظہار حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سُنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہوجائیں…… سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہوجاتی ہے…… سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیدا کردیتی ہے اگر چہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ہی تحریک روبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے۔ جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہوسکتا۔ لیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہر ایک طور کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ انبیاء نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہوجائے۔ اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کردیں۔ اور اس راہ میںحرکت کریں۔ گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اورا پنے دلوں کا اہل حق کے دِلوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرلیں۔ گو وہ عدوّانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو……دراصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم ماراہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدر ضرورت ومصلحت استعمال میں لانا ہر ایک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سُستی اور کاہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیر اللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی ضعیف اور کمزور ہے جیسے ایک کیڑے کی جان ضعیف اور کمزور ہوتی ہے۔‘‘ ۹؎
یہ ہیں الفاظ ہمارے آقا کے، ہمارے ہادی کے، ہمارے مرشد کے، ہمارے امام کے، دیکھیں اس کے غلاموں پر ان کا کیا اثر ہوتاہے چوں چرا کرتے ہیں یا سرتسلیمِ خَم۔
میں آخر میں یہ اشارہ کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ نرمی استعمال کرنے اور دل خوش کن باتیں کہنے سے اختلاط کا ڈر ہوتا ہے اور اختلاط کے بدنتائج سے تو غالباً اکثر لوگ واقف ہی ہوں گے۔
سو اَے قوم ! تو خواب غفلت سے جاگ اور اپنے فرض منصبی کو پہچان۔ اس راہ پر قدم مار جس پر تیرا امام تجھ کو ڈال گیا ہے۔ تو ایک قطرہ ہے جس کو تو نہیں جانتی کہ کن کن محنتوں، کن کن مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرکے۔ کن کن مصیبتوں کو جھیل کر، دنوں کو خرچ کرکے، راتوں کو جاگ جاگ کر، جبینِ نیاز کو تنہائی میں اپنے مولیٰ کے سامنے خاک پر رگڑ رگڑ کے ایک شخص نے صاف کیا ہے۔ آہ! کیا اس کی محنت کا یہ ہی اجر ہے کہ اس کے صاف کئے ہوئے قطرے کو پھر گندے سمندر میں پھینک دیا جاوے؟ فتدبّر۔
اختلاط کے نتائج پر انشاء اللہ حسب توفیق پھر کبھی لکھوں گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ئ)

۱۹۱۶ء
مسئلہ کفر واسلام
اس وقت تک مسئلہ کفر واسلام پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گاہے گاہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائے وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرایہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو۔
چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام الناس کے لئے مضمون اور بھی مشتبہ ہو جاتا ہے، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پرہیز رکھوں گا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ
میں نے اپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر واسلام کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ غیراحمدیوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں۔ دوسرے یہ کہ غیراحمدیوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے۔
غیراحمدیوں کا اسلام
مضمون اوّل کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ ’’اسلام‘‘ اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی مذہب نے آنحضرت ؐ سے پہلے اسلام کا نام پایا۔ گو حقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے۔ اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ مذہب لائے جوان قیود سے آزاد ہے اور آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے۔ اِس لئے آپؐ کی بعثت سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوامذہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا۔ اسی طرح آپ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا۔ گویا کہ آپ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے۔ گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہوگئے۔ ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا۔ اَب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اسی طرح قائم رہے گا، جیسا کہ ایک دفعہ ہوچکا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی۔ اور جو کوئی بھی کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آجا ئے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیںبلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے۔ تاحقیقت پر جو میل آجاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے رہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہوجانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا۔ (جیسا کہ لوکان الایمان معلقا بالثر یا۱۰؎ اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے) ایسے وقت کے لئے نبی کریمؐ کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ماتحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقدر تھی۔ اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور مسیح ہے۔ وہ محمد رسول اللہ کا نائب، مسیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا۔ اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے۔ وہ مسلم ہے اور حق رکھتاہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کردیا ہے۔
خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد ؐ رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسان کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کردے۔ مسیح موعود ؑ خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرماوے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرسکتا ہے۔ اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں۔ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا۔ کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا۔ محمد ؐ رسول اللہ کو خاتم النبیین یقین کرنا۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں؟ یقینا ہے اور بہت کچھ ہے۔ خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے۔ وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے۔ بھلا بتائو تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیراحمدیوں کو ہندوئوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیادہ قریب کر رکھا ہے۔ غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرتا ہے۔ مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں ان کو مسلمان بھی لکھا ہے۔ بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض کردیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ۔ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص باوجود ایک دائرہ سے خارج ہوجانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے۔ غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھادیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو۔ اسی طرح میرا یہ بھی دعویٰ ہے کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کرسکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعود ؑ نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو۔ حالانکہ میں بفضلِ خدا ایک نہیں بیسیوں ایسے حوالے پیش کرسکتاہوں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے غیر احمدیوں کو مسلمان کہااور لکھا ہے۔ اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیراحمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے۔فتدبرو۔
میں نے اپنے رسالہ ’’کلمۃ الفصل‘‘ میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کردیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے۔ یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبدالحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں:-
’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیںکیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے‘‘
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکدر نہیں کرسکتا۔
پھر آپ نے اپنی ۲۶ دسمبر ۱۹۰۶ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ:-
’’اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں۔ اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔‘‘
دیکھئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لاکر اپنے عقائد کو درست نہ کریں۔
پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۱ (روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۴۱ حاشیہ) پر تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جب میں دہلی گیا تھا۔ اور میاں نذیر حسین غیرمقلّد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی۔ تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بدزبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کرکے آخری فیصلہ یہی ٹھہرا یا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے۔ پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلادوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا۔‘‘
دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کس دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیر حسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قراد دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمدیوں میں دین اسلام کا ایک رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے۔ ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں۔ اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں۔ جن کو عند الضرورت پیش کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی روسے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اسمیؔ اور رسمیؔ طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اورلکھا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے۔ جو یہ ہے۔
’’چو دَورِ خسروی آغاز کردند‘‘
’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ ۱۱؎
اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے۔ اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیاہے۔ پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیراحمدیوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں۔ کیونکہ کلام الٰہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے۔ اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الٰہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکار کر رہا ہے۔فتدبّرو
غیراحمدیوں کا کُفر
اب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتاہے۔ سواس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا منکر اسی طرح الٰہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان ویقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق خدا کے رگ وریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کا صفاتی وجود ہرجگہ محسوس ومشہود ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں۔ یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے۔ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت کے خادم تھے۔ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین حصہ پنجم صفحہ۱۳۸ پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو۔ غرض اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پاجاتے ہیں۔ وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیںبلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ وریشہ کے اندر سرایت کر جاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کردیتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ حدیث نبوی کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًابِالثُّرَیَّالَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسْ۔ اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ سوماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس ومشہود کروا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلاکر خاک کردیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے۔ سو اس لحاظ سے توتمام مامورین کا انکار منکرین کے غیرمومن ہونے پر مہر لگانے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ سو جاننا چاہیئے کہ کُفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر۔ ظاہری کفر سے یہ مُراد ہے کہ انسان کُھلے طور پر کسی رسول کا انکار کردے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے۔ جس طرح یہود نے مسیح ناصریؑ کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہراً طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میںاپنے آپ کو شمار کرتاہو لیکن درحقیقت (اللہ تعالیٰ کی نظر میں) وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جاپڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو۔ اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کاربند نہ ہو یا اگر ہوتو صرف قشرپر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو۔ غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے۔ جیسا کہ مسیح ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا۔ گو وہ ظاہراً طور پر تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صِرف رسمی طور پر منسوب تھے۔ چنانچہ اس حقیقت کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کردیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جاپڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی اُمت میں ہونے کا دعویٰ صرف ایک زبانی دعویٰ تھا جو آزمانے پر غلط نکلا۔ حضرت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کاربند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرماکر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کردی اور اس بات پر الٰہی مُہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے۔ ایک مسیح کا ظاہری کفر اور دسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے۔ جنہوں نے آپ کا انکار کرکے اس بات پر بھی مہر لگادی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے۔ پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا۔ ایک ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سے پہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے۔ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوںکا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پر ظاہری کفر کا فتویٰ عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے۔ تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کافر کہیں۔ ہاں اگر وہ کسی اور مامورمن اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیسا کہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی باطنی کفر کیا کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے۔ ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گاکہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہوچکا ہے۔ مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھاکہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا۔ پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کردیاکہ امت موسویہ میں واقعی اکثر دھاگے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے میں ٹوٹ گئے۔ اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفر ان پر عائد نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اسلام سے ظاہراًطور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں۔ پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے۔ ہم غیراحمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں۔ آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کافر نہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ کا بھی باطنی کفر شروع ہے۔
فریق مخالف نے مسئلہ کفر واسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کردیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے۔ کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری کافر ہیں۔ ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ غیراحمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیںاور یہ بالبداہت غلط ہے۔ خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کروجو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے۔ ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود ؑ کا کافر سمجھتے ہیںاور بس۔ چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہراً طور پر انکار نہیں کیا۔ بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعودؑ کے سواکسی اور رسول کے مطلقاً کافر نہیں کہلاسکتے۔ ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ حقیقۃالوحی میں فرماتے ہیں کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا‘‘۱۲؎
جس کا یہی مطلب ہے۔ کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے۔ فتدبر
تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود ؑ کا کفر زیاد ہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے۔ جیسا کہ خود حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:-
’’فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس وجنّ میں سے اُن سا کوئی بھی بدطالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔‘‘۱۳؎
خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں۔ اِس لئے علمیت کے دائرہ سے ان کو خارج قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:-
’’جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔‘‘۱۴؎
اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعودؑ کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعودؑ کے ظاہراً طور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کافر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ:-
’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود ؑ کو نہیں مانتا۔‘‘
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :-
’’اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘۱۵؎
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۳ پر لکھا ہے کہ:-
’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘
ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں۔وہوالمراد
‎(مطبوعہ الفضل ۶ ،۵ستمبر۱۹۱۶ئ)











۱۹۱۷ء
اِسْمُہٗ اَحْمَدُ
قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی ایک پیشگوئی درج ہے، جو ان کے بعد کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمدؐ ہوگا۔ اصل الفاظ پیشگوئی کے جو قرآن کریم میں درج ہیں یہ ہیں:-
’’وَاِذْقَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْ.6ٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّر.6ًم ا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن.6ْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۱۶؎
یعنی فرمایا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رُسول ہوں۔ مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے۔ یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اور جس کا اسم احمد ہوگا۔‘‘
پیشتر اس کے کہ اور قرائن کے ساتھ اس موعود رسول کی تعیین کی جاوے ہم پہلے الفاظ اسمہٗ احمد کو ہی لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ کس حد تک ہم کو تعیین کے کام میں مدد دیتے ہیں۔ پہلا لفظ اسم ہے یہ مشتق ہے۔ وسم سے جس کے معنی نشان لگانے کے ہیں تو گویا اس لحاظ سے اسم کے معنی ہوئے نشان اور چونکہ نشان کی غرض تخصیص وتعیین ہوتی ہے تو اس لئے اسم کے پورے معنی ہوئے وہ نشان وغیرہ جس سے کسی شے کی تعیین وتخصیص ہوجائے۔ اب اسم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسم سے مراد اسم ذات لیا جائے۔ یعنی وہ نام جس سے کوئی شخص عام طور پر معروف ہو۔ خواہ حقیقت کے لحاظ سے اس نام کا مفہوم نام بردہ میں پایا جاوے یا نہ پایا جاوے۔ مثلاً بیسیوں ایسے دہریہ مل جائیں گے جن کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ ہوگا۔ حالانکہ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ناموں سے کوسوں دور ہوںگے۔ ایسے اسم کو جس میں حقیقت کا ہونا نہ ہونا ضروری نہ ہو۔ اسم ذات کہتے ہیں۔ دوسری اسم کی یہ صورت ہے کہ مثلاًکسی شخص کا کوئی نام بطور اسم ذات کے تونہ ہو مگر اس نام کامفہوم نمایاں طورپر اس شخص میں پایا جاوے۔ مثلاً محمد رسول اللہ کا اسم ذات کے طورپر تو عبداللہ نام نہ تھا مگر عبداللہ کے مفہوم کے لحاظ سے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی عبداللہ نہیں گزرا۔ ایسے نام کو اسم صفت کہتے ہیں۔
قرآن شریف میں بھی اسم کے معنے صفت کے آئے ہیں۔ ملاحظہ ہو
لَہُ الْاَ سْمَآئُ الْحُسْنٰی ۱۷؎
یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پاک ہیں غرض لفظ اسم دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسم ذات اور اسم صفت۔ کیونکہ یہ دونوں ایک حد تک تعیین اور تخصیص کرنے والے ہوتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اسمہٗ احمدؐ والی پیشگوئی کس شخص پر چسپاں ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوشخص رسالت کے مدعی ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر ہوئی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی پر ضرورچسپاں ہوگی۔ پہلے ہم لفظ اسم کے مفہوم اول یعنی اسم ذات کے لحاظ سے پیشگوئی کی تعیین کرنے ہیں۔ آنحضرتؐ کا اسم ذات محمدؐ تھا۔ یہی نام آپ کا آپ کے بزرگوں نے رکھا اور اسی نام سے آپ مشہور تھے۔ دوسری طرف مسیح موعود کا نام تھا غلام احمد یہی نام ان کا ان کے والدین نے رکھا۔ اور اسی نام سے وہ مشہور تھے۔ یہ سرسری نظر جو ہم نے ان دومدعیان رسالت پرڈالی تو ہم کو معلوم ہوا کہ یہ پیشگوئی کم ازکم اس ذات کے لحاظ سے ان ہر دو میں سے کسی پر بھی چسپاں نہیں ہوتی تو پھر یہ ماننا پڑا کہ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی یا ہماری ظاہری نظر نے دھوکا کھایا۔ پہلی صورت چونکہ مسلمہ طور پر غلط ہے۔ اس لئے دوسری صورت کو صحیح سمجھ کر پھر نظر ڈالتے ہیں تاکہ اگر سرسری نظر نے لفظ احمد کو ان دو بزرگوں پر اسم ذات کے طور پر نہیں چسپاں کیا تو شاید پیشگوئیوں میں جو اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اس کو خیال رکھتے ہوئے ہم ذرا گہری نظر سے لفظ احمد کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعودؑ میں سے کسی کے ساتھ اسم ذات کے طورپر دیکھ سکیں۔ تاریخ اور احادیث صحیحہ (وضعیات الگ رکھ کر)شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ کا رسالت سے پہلے کبھی بھی احمد کے نام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکتا۔ دعویٰ سے پہلے کی شرط اس واسطے ہے کہ دعویٰ کے بعد والا نام اوّل تو اسم ذات نہیں کہلاسکتا۔ دوسرے خصم پر حجت نہیںہے۔ اگر دعویٰ سے بعد کا اپنے مُونھ سے آپ بولا ہوا نام بھی اسم ذات ہوسکتا ہے تو پھر تو امان اٹھ جاوے۔ مثلاً پیشگوئی ہو کہ عبدالرحمن نام ایک شخص مامور ہوکر آئے گا تو ایک شخص مسمی جمال دین اُٹھے اور کہے کہ میرا نام ہی عبدالرحمن ہے۔ تو وہ صحیح نہ سمجھا جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں تو یہ جھگڑا بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسم ذات کے طور پر دعویٰ کے بعد بھی کبھی اپنا نام احمد نہیں بتایا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ غرض محمد رسول اللہ کے معاملہ میں تو ہماری گہری نظر بھی ماندہ ہوکر واپس لوٹی کیونکہ بالحاظ اسم ذات کے کُجا محمد اور کجا احمد۔ اب رہے مسیح موعودان کے متعلق بھی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہماری سرسری نظر تعیین کرنے سے قاصر رہی۔ اب ذرا گہری نظر ڈالیں مسیح موعود کا نام جو عام مشہور تھا اور جو والدین نے رکھا غلام احمد تھا۔ یہ مرکب ہے لفظ غلام اور احمد سے۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان ہر دو میں سے نام کا اصل اور ضروری حصہ کونسا ہے۔ یاد رہے کہ نام ہوتا ہے۔ تعیین اور تخصیص کے لئے اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم مسیح موعود کے خاندان کے ممبروں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور تھوڑی دیر کے لئے تعصب کو الگ رکھیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہم کو ضرور نظر آجائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے والد کے چار بھائی تھے۔ تو گویا کل پانچ ہوئے۔ ان میں سے تین یہ ہیںمرزا غلام حیدر، مرزاغلام مرتضیٰ، مرزا غلام محی الدین باقی دو بچپن میں فوت ہوئے۔ اس لئے ان کے نام کی ابھی تک تحقیقات نہیں کرسکا۔ مگر اتناپتہ یقینی چل گیا ہے کہ ان کے ناموں میں غلام کا لفظ ضرور تھا۔ تو اب غلام کا لفظ تو ان سب میں مشترک تھا۔ اس لئے یہ الفاظ ان کے ناموں کا اصل حصہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس نے تخصیص پیدا نہیں کی بلکہ تخصیص پیدا کرنے والے حیدر اور مرتضیٰ اور محی۔الدین الفاظ تھے۔ پس اگر ان کو ہی اصل نام کہہ دیا جاوے تو حرج نہیں۔ اب آگے چلئے۔ حضرت مسیح موعودؑ دوبھائی تھے۔ آپ کا نام غلام احمد تھا اور آپ کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر تھا۔ غور فرمائیں غلام کا لفظ پھر مشترک ہؤا۔ اسم کا کام ہے ایک حد تک تخصیص کرنا وہ تخصیص کس لفظ نے قائم کی؟ ہمارا ضمیر بولتا ہے کہ ایک طرف احمد نے اور دوسری طرف قادر نے۔ پس حرج نہیں کہ انہی کو اصل نام سمجھا جاوے۔ مسیح موعود کے چچا مرزا غلام محی۔الدین کی نسل میں بھی یہی سلسلہ چلا۔ ان کے تین بیٹے ہوئے۔ جن کے نام تھے مرزاکمال۔الدین، مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین۔ ان میں دین کا لفظ مشترک ہے اور امام اور نظام اور کمال نے تخصیص کی۔ پس وہی اصل نام ٹھہرے پھر آگے چلئے۔ مرزا غلام قادر جو مسیح موعود کے بڑے بھائی تھے۔ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام رکھا گیا عبدالقادر، گویا اس نے اپنے باپ کے خصوصیت والے اصل نام کو ورثہ میں لیا۔ پھر یہی نہیں خود مسیح موعود کی اولاد کو لیجئے۔ دعویٰ کے بعد کی مثال تو آپ مانیں گے نہیں۔ دعویٰ سے بہت سال پہلے جب آپ ابھی جوان ہی تھے اور بالکل گوشہ تنہائی میں اپنے دن کانتے تھے اور بیرونی دنیا میں کوئی آپ کو نہ جانتا تھا۔ آپ کے ہاں دولڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے نام رکھے گئے مرزا سلطان احمد اور مرزافضل احمد۔ دیکھئے باپ کے اصل نام کو ورثہ میں لے لیا وہ نام جس نے باپ کو چچا سے خصوصیت دی تھی پھر اور سنئے حضرت مسیح موعود کے والد نے دو گائوں آباد کئے اور ان دونوں کو اپنے دو بیٹوں کے نام پر موسوم کیا۔ ایک کا نام رکھا قادرآباد اور دوسرے کا احمد آباد۔
ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید اکی، احمدتھا۔ اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی تھا مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوںکی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پرپیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے توعقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے۔ خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے۔ جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے۔جیسا اوپر بیان ہؤا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ تا ۱۹ مئی ۱۹۱۷؁ئ)








حوالہ جات
۱۹۱۳ء ،۱۹۱۶ئ،۱۹۱۷ء
۱۔ الروم:۳۱
۲۔الرعد:۱۲
۳۔النحل:۱۲۶
۴۔الرحمن:۶۱
۵۔البقرہ:۲۸۶
۶۔التحریم:۱۰
۷۔الفتح:۳۰
۸۔القلم:۱۰
۹۔ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد ۳۔صفحہ ۱۰۹ تا ۱۲۰
۱۰۔صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورۃ الجمعہ
۱۱۔تذکرہ صفحہ ۵۱۴ - ۵۶۲ طبع ۲۰۰۴ء
۱۲۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۶۸
۱۳۔ الھُدیٰ ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۵۰
۱۴۔ نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۷۲
۱۵۔ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵
۱۶۔ الصف:۷
۱۷۔ الحشر:۲۵









۱۹۲۶ء
سیرت المہدی اور غیرمبایعین
ناظرین کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات میں ایک کتاب سیر ت المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس حاسدانہ اور معاندانہ نظر سے دیکھے گا۔ جس سے کہ اہل پیغام نے اسے دیکھا ہے مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میری اُمیدوں کو ایک سخت ناگوار صدمہ پہنچایا ہے۔ جرح و تنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی بحثیںجو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی علمی تنویر کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیںاور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیں اور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا مضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے۔ میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لے کر آخرتک بغض وعداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیںاور ان کے مضمون کا لب ولہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے۔ جابجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعارکے استعمال سے مضمون کے تقدس کو بری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے۔ مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو۔ پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصول انتقام کے ماتحت لاکر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا۔ میں انسان ہوں اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پاک ہوتی ہے۔ اور نہ ایسا دعویٰ کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے۔ میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں، محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اگر اس میں میں نے کوئی غلطی کی ہے یا کوئی دھوکا کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبّہ کرے تاکہ اگر یہ اصلاح درست ہو تو نہ صرف میں خود آیندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہوجائوں بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہو جانے سے بچ جائیں لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کرکے بجائے اصلاح کر نے کے بغض وعداوت کا تخم بوئے۔ اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوں میں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت غیر مناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب وملت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کرکے ان کے اس افسوسناک رویۂ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ اب ان عبارتوں کو نقل کرکے مزید بدمزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطافرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کر اپنے طرز تحریر میں آیندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوںکو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی، دور فرما کر مجھے اپنی رضامندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین
اصل مضمون کے شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اوربات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کام نہیں لیا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پرریویو کرنے لگاہے، اس کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالے یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کرکے کتاب کے حسن وقبح کا ایک اجمالی ریویو لوگوں کے سامنے پیش کرے تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ اصول دنیا بھر میں مسلّم ہے اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے۔ چنانچہ یہود ونصاریٰ کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی عَلیٰ شَیْ ئٍ وَّقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الیَہُوْدُ عَلیٰ شیْ ئٍ وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ۱؎۔یعنی یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کرگئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن اِن کو نظر ہی نہیں آتے اوریہودیہی کہتے چلے جاتے ہیںکہ نصاریٰ میں کوئی خوبی نہیںہے اور نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے مبّرا ہیںحالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیئے کہ تورات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاقف ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۲؎۔ یعنی کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دیدے کیونکہ بے انصافی تقویٰ سے بعید ہے۔ اور پھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ شراب اور جوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۳؎۔ یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ کیسی منصفانہ تعلیم ہے جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے مگر افسوس! کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زرّیں اصول کو نظر انداز کرکے اپنا فرض محض یہی قرار دیا کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ میں ڈاکٹر صاحب سے امانت ودیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟ کیا سیرۃ المہدی میںکوئی ایسے نئے اور مفید معلومات نہیں ہیں۔ جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃالمہدی حصہ اوّل میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے تو میں خاموش ہوجائوں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اوردیانتداری پر مبنی نہیں ہے۔ اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی مخالفت میں عموماً کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کرلیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کے لئے ہی آپ.6ؐ کی بعض خوبیاں بھی ذکرکردی جائیں۔ تاکہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کرکے دھوکہ میں آجائیں لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہوگئے ہیں کہ اور نہیں تو کم۔از کم اپنے مضمون کو مقبول بنانے کے لئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کردی جائیں۔
مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ’’ سیرت المہدی پر ایک نظر‘‘ مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو۔ سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ گویا ’’یہ نظر‘‘ عدل وانصاف کی نظر نہیں جسے حسن وقبح سب کچھ نظر آنا چاہیئے بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے۔ اور اپنے دل ودماغ کو اس بات کا عادی بنائیے کہ وہ اِس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کرسکیں۔ جسے آپ اپنا دشمن تصور فرماتے ہوں۔ میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ورنہ آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے۔٭
اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتاہوں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اوّل کے متعلق قائم کی ہے۔ سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرت المہدی کہلانے کی حقدارہی نہیں۔ زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کرنے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا۔ ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہٗ مطالعہ کرلے تاکہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میںآگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ اگر وہ ذرا تکلیف اٹھا کر اس ’’عرض حال‘‘ کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اورمیں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں۔ چنانچہ سیرۃ المہدی کے ’’عرض حال‘‘ میں میرے یہ الفاظ درج ہیں۔
٭:-مطبوعہ الفضل۷ مئی ۱۹۲۶ء
’’بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرت یا سوانح سے کوئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط واستدلال کا وقت آئے گا
(خواہ میرے لئے یا کسی اور کے لئے) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوالیں گی۔‘‘
میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہوجانے کے باوجود ڈاکٹرصاحب کا اس اعتراض کو پیش کرناماسوائے اس کے اور کیا معنی رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کردینے کا شوق ہے۔ میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃالمہدی میں بعض بظاہر لاتعلق روایات درج ہیں اوراپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے اور پھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا۔ ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کردیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کرکے اس کا اجمالی جواب دیا ہے اورپھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کردیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقیدصرف ان کی حدّت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے۔ اور اعتراضات کے نمبر کا اضافہ مزید براں رہے۔ افسوس! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال واستنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کردیا جاوے۔ اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیرۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعود کی سیرت پر روشنی نہیں پڑتی اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کرسکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرما دیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیںہے۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے۔ پس اگر ان کثیر التعداد روایات کی بناء پر کتاب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیئے اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجودہر مخلص احمدی کے لئے ایساہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اورجذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو، لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کرنے دیتا۔ پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے تو اس خیال سے کہ یہ باتیں بہرحال ہیں تو ہمارے آقا، ہماری جان کی راحت، اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعودؑ ہی کے متعلق۔ میرا یہ علمی جرم اہل ذوق اوراہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیئے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کا اختیار ہے مگر تاریخ عالم اور صحیفۂ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبۂ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیئے۔ آپ اشعار کا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا ؎
خلق میگوئید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم باخلق وعالم کار نیست
بس یہی میرا جواب ہے۔ حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں ؎
تا نہ دیوانہ شدم ہوش نیا مد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احسان کردی ۴؎
پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیئے۔
تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض وغایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے۔ واللہ الموفق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فرمائی ہیںاور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں۔ یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں۔‘‘۵؎
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریںگے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کردوں تاکہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہوجاوے اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو، ذکر سے نہ رہ جائے۔ کیونکہ اگر اس وقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی اور نہ بعد میں ہمارے پاس اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میں نے اسی غرض کو مد نظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظرانداز کرکے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے میرے خلاف ایک الزام دھردیا ہے۔
چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اس کے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرماویں خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں۔ انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوجائے گا کہ سیرت کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے۔ دراصل سیرت کی کتب میں تمام وہ روایات درج کردی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں جس کی سیرت لکھنی مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت ﷺکے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متداول کتاب ہے اور میں امید کرتا ہوںکہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں۔ اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ براہ راست بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طور پر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت وسوانح پر اثر ڈالتی ہیں، اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کردیا ہے۔ بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑجاتاہے کہ نہ معلوم آنحضرت ﷺ کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں لیکن اہل نظر وفکر ان سے بھی آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے حالات ہمیں اس بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم وتربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا۔ یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا اور کس حالت میں چھوڑا اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرت وسوانح کے لحاظ سے لاتعلق نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک و قوم کی حالت کا مفصّل بیان درج ہوتا ہے۔ جو بادی النظر میں ایک لاتعلق بات سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن درحقیقت آپ کی سیرت وسوانح کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ان باتوں کا علم نہایت ضروری ہے۔ الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو، جس کی سیرت لکھی جارہی ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور گفتگوئیں اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں۔ جن کو ایک جلدباز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد اور لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے۔ حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ پھر بعض وہ علمی نقطے اور نئی علمی تحقیقاتیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میںبیان کی جاتی ہیںتاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کس دل ودماغ کا انسان ہے۔ او ر اس کی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے مگر عامی لوگ ان باتوں کو سیرۃ و سوانح کے لحاظ سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اس کے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے ورنہ اگروہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج ومتعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی او راسی وسیع مفہوم کو مدنظر رکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہرقسم کی روایات درج کردی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیںد ے سکتا۔
میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے متعلق مفیداستدلالات کرسکیں۔ جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت ﷺکے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کردیں اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روائتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اٹھایا ہے اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ان سے مدد حاصل کی ہے۔
اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہوجاتا۔ پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیئے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بناء پر رد نہیں کر دینا چاہیئے۔ ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں مگر جو روایت اصول روایت وداریت کی رو سے صحیح قرار پائے اور وہ ہو بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لاتعلق یا غیرضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کردینا چاہیئے۔
بہرحال میںنے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہوسکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قراردی جاسکیں۔ اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اٹھایا ہے۔ اور مثالیں نہیں دیں ورنہ میں مثالیں دے کر بتاتا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیرمتعلق نظر آتی ہیں دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کے لئے پیش کرتاہوںاور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیرسے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کروں گا جن کا بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نظرنہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے ثابت کریں گے۔ میں انشاء اللہ اتنا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی روایات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے ثابت کردوں گا جن کو ڈاکٹر صاحب غیرمتعلق قرار دیں گے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے۔ اور مورخین اس کو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کہی بات ضبط و تحریر میں آنے سے رہ نہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال واستنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جاسکے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے اپنے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنایا ہے۔٭
دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے
٭:مطبوعہ الفضل۲۱مئی۱۹۲۶ء
کہ گوکتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط واستدلال بعد میں ہوتا رہے گا لیکن عملاً خوب دل کھول کر بحثیں کی گئی ہیں اور جگہ جگہ استدلال واستنباط سے کام لیا گیا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں:-
’’مصنف صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ’ترتیب اورا ستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا‘مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب ’استنباط واستدلال‘سے کام لیا ہے۔‘‘
اس اعتراض کے جواب میںسب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے۔ یعنی وہ کونسا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قراردی ہے اور پھر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال واستنباط سے کام لیا ہے۔ پھر بھی میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بچیں ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بدظنّی کی طرف مائل کردیتی ہیں۔ ناظرین غو رفرمائیں کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیںاور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کو دیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لیئے ان کو داخل کرلیا گیا ہے۔ کیا یہ طریق عمل انصاف ودیانت پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے؟اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کردی گئی ہیں اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کون سا ہوگیا اور وہ کون سا خطرناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے۔ اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھا ایک حدتک ناظرین کو حاصل ہوگئی۔ میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ میں نے پوراکیا استدلال واستنباط کی اُمید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیا ہوں۔ گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہورہے ہیں! فرماتے ہیں:-
’’ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا تو حیرت ہوجاتی ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب ! بیشک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدردان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا۔
یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال واستنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیںہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے حالانکہ اس کا سیاق وسباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے، اگر ڈاکٹر صاحب جلدبازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہوجاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جونہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں۔ اور اس بات کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ ’’اس طرح وہ مفت میں اپنامذاق اڑواتے ہیں۔‘‘مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے۔ میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے :-
’’میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے متعلق جتنی بھی روایتیں جمع ہوسکیں ان کو ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیا جاوے۔ ترتیب اوراستنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر وقت ہوسکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہوا تو پھر نہ ہوسکے گا۔‘‘۶؎
اس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب واستدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں۔ پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گو یا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکا کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے لئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکا بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دیئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اورترتیب دینے کے نتیجہ میںضروری ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ترتیب و استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘
جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو ترتیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں۔ چنانچہ میرے اس دعویٰ کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دور آگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں:-
’’میںنے جو بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دیئے ہیں۔ ……اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا۔ بعض روایات یقینا ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ واری کلیتہً خاکسار پر ہے۔‘‘۷؎
اِن الفاظ کے ہوتے کوئی انصاف پسند شخص ’’استنباط واستدلال‘‘ سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دیئے جاتے ہیںبلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں، ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اٹھ کھڑا ہونااور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل وانصاف پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیں کئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ’’استدلالات‘‘ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے ہیں۔ وہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیاہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ اس کتاب میں ترتیب واستنباط واستدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں۔ امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جہاں میں نے استدلال واستنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ واخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیںیعنی منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیں اور جو واقعاتِ زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں، ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ واخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کرلیا گیا ہے اور استدلال واستنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کردیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال واستنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا وہاں دوقسم کے استدلالات مراد ہیں اولؔ وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضروت پیش آتی ہے۔ اور دوسرےؔ وہ استدلالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق وعادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اور ان دونوں قسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے۔ والشاذ کالمعدوم باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا اور نہ ہی ان کا ملتوی کرنا درست تھا کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہوجاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کردی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے اور صرف روایات کو جمع کردیا ہے لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دئیے ہیں مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے ہاں بے شک میں نے ایک دوجگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں لیکن ان بحثوں کو استدلالات اورتشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلاسکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کرکے میں نے انہیں درج کردیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم وتربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مؤرخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم وتربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے بلکہ معمولی ہے لیکن اس بات کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اورترتیب اور استنباط و استدلال کاکام بعد میں ہوتا رہے گا مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں……الخ۔‘‘
گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال واستنباط قرار دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہدی میں درج کردیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں در ج کردیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرۃ سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا؟ میں واقع حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بناء پر استدلال واستنباط رکھا ہے اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال واستنباط کے نام سے یاد کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرمائیں تووہ یقینا ان الفاظ کو خارج کردینے کا فیصلہ فرمائیں گے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں:-
’’میرا ارادہ ہے وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیںاور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں۔ نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات ……الخ۔‘‘۸؎
اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کرنے اور ایک جگہ جمع کردینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قراردیا ہے۔ اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قراردیا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے آپ معاف فرمائیں مگر میں پھریہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل وانصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی۔٭
تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:-
’’روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے۔ یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کو نظر انداز کرکے عربی صرف ونحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے…… مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔‘‘
یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیراس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے۔
٭:مطبوعہ الفضل۲۵مئی۱۹۲۶ء
دراصل منقّدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتامگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کرسکیں اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب ولہجہ کرتے ہیں جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر وتمسخر کا رنگ نظر آتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرکے پبلک کے سامنے پیش کیاہے اور مجھے اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں۔
بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک وتیمّن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیت۔الدعا میں جاکر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتاہوں کہ بغیر کسی تصنّع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اسی طرح لکھی گئیں جس طرح کہ عربی کی عبارت کا دستور ہے بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیا کہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں پھر جب بعد میں بیت۔الدعا سے باہر آکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اور پھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میری کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قراردیں یا حسن ظنّی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت واحترام پر محمول خیال فرمالیں مگر بہرحال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعاکے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا۔ چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہوگئیں۔ اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایسا کیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیئے نہ کہ جائے اعتراض۔ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا۔ واللّٰہ علٰی مااقول شھید
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے۔وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ’’خاکسار عرض کرتا ہے۔‘‘ ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ ’’عرض کرتا ہے خاکسار‘‘۔‘‘
اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محوحیرت ہونے لگتے ہیں۔ افسوس!
چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹرصاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے۔ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں راویوں کے ’’صادق وکاذب‘‘ ’’عادل وثقہ‘‘ ہونے کے متعلق کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسرے یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چُھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گویا کتاب کے اندر مرسل روائتیں درج ہیں جو پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اڑایا ہے کہ احادیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے۔ لیکن محدثین کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نام ونشان نہیں اور روایات کے جمع کرنے میں ’’بھونڈاپن اختیار کیا گیا ہے۔‘‘الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی’’ ایک گڑبڑ مجموعہ ہے۔‘‘ اور مصنف یعنی خاکسار نے ’’مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے۔‘‘ چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں، اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں‘‘ میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملاحظہ فرمائیے۔ ان میں بھی راویوں کے صادق وکاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ وسیرۃ کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق وکاذب ثقہ وعدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں۔ جن سے ان کے صادق وکاذب، عادل وغیرعادل، حافظ وغیرحافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور انہی کتب کی بناء پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیرصحیح مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نامعلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میں بھی مجھے مجرم قراردے رہے ہیں کہ میں نے کیوں سیرۃ المہدی کے اندرہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیںکئے۔ حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تومیں اس راوی کا ثقہ وعادل ہونا ثابت کرتااور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے اوروہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتاہوں۔ سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے۔ روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا (۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہم تو نہیں (۲) اس کے حافظہ میںتو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں (۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے گویہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو (۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لے کر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کردینے کا عادی تو نہیں (۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں (۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق وکاذب،حافظ و غیرحافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔ وغیرہ ذالک اور جہاں تک میرا علم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میں علیٰ قدرمراتب ملحوظ رکھا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے۔
دوسرا حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی چُھٹا ہوامعلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا۔ پس ضروراس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہوگی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاسکتی۔ میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں۔ اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۃً متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسااوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو۔ مثلاً فرض کرو کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یاد رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا۔ اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت کمزور سمجھی جائے گی لیکن دراصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہوگی بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قرار دی جاتی ہیں۔ مگربایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میں وہ ہلکی ہی اترے گی اس طرح عملاً بہت سی باتوں میں فرق پڑجاتا ہے۔ پس باوجود ڈاکٹرصاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو یہ کمزور سمجھی جانی چاہیئے۔ میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں۔ عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایت کو درج کردیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بدیہی ہوگا اس لئے ان کی کمزور ی بھی لوگوں کے سامنے رہے گی۔اور مناسب جرح وتعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابلِ اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ ان کی روائتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگرکبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے ردّ کئے جانے کے قابل نہ ہوں اور ان سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نفعھا اکبر من اثمھا والا معاملہ ہے۔ واللّٰہ اعلم ۔ یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاںتک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کردیا ہے۔ اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتاہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی۔ سیرۃ المہدی کے صفحہ ۱۲۸ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے او راس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے۔
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے۔ لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا۔‘‘
میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدِّنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کردیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون سی روایت ان کے مدنظر ہے لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیاکرتے بلکہ یہ کام تحقیق وتنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرلوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا۔ ہاں ایک غیرواضح سی مثال روایت نمبر ۷۳ کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی لیکن خود مرعوب ہوکر بدحواس ہوگیا ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ :-
’’اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھاتھا یا کہ کسی کی زبانی سنا تھا اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا۔‘‘
اس کے جواب میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اند رکوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو (مثلاً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو) تو لامحالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کررہا ہے۔ اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ کا چشم۔دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے۔ بہرحال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خود اپنی دیکھی ہوئی بات بیان کررہا ہے۔ اسی لئے میں نے اس سے سوال کرکے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہوا ہے کہ راوی کی روایت کسی بلاواسطہ علم پر مبنی نہیں ہے۔ وہاں میں نے خودسوال کرکے تصریح کرالی ہے۔ چنانچہ جو مثال مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی۔ مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی اب حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرورشاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے۔ پس لامحالہ مجھے یہ شک پیدا ہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا۔ چنانچہ میںنے مولوی صاحب سے سوال کیا اور انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کردی۔ الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتّی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور غلطی کا اعتراف کرلینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلّت نہیں بلکہ موجب عزّت ہے۔ پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کوئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے تو میں نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہوںگا۔ افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کرنے کے خیال سے اعتراض کردیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلاوجہ حقیراور بے فائدہ ثابت کرنے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اٹھائے۔ مصنف کی بھی تنویر ہو۔ اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے۔ اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں جو مبایعین اور غیرمبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تمام احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اورضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیرہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرت المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نشان تک نہیں ہے۔ محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت واحترام ہے اور گو جائز طور پر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل وسینہ میں موجود ہوتی ہے یا کم از کم ہونی چاہیئے۔ لیکن میرے دل کا یہ حال ہے واللّٰہ علیٰ مااقول شھید کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چیں ہونے کو بھی میں اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں اور ان کے مدِّمقابل کھڑاہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں۔ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں اور نقل کی نیت سے ہرگز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہوبھی تو میرے نزدیک اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقشِ پاپر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہوجائے۔ پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف ونحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے۔ باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی۔ سو وہ تو مسلّم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان جیسا دِل و دماغ اور علم وعمل عطا فرمائے۔ پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہوسکا چھان بین اور تحقیق وتدقیق سے کام لیا ہے اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کرسکوں گا کہ مَیں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا۔ آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’میں نے مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے‘‘ آپ کو مبارک ہواس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں۔ اگر سیرۃ المہدی ایک گڑبڑ مجموعہ ہے تو بہرحال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے۔ میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے۔ پھر نامعلوم آپ نے اسے ایک گڑبڑ مجموعہ قرار دینے میںکون سی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے۔ آج اگروہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا۔ بہرحال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اٹھایا گیااور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑبڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں اور مذاق اڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی مذاق اڑانے والے ہیں۔ سنجیدہ ہوجائیے۔ پس نہ میرا مذاق اڑے گا۔ اور نہ آپ کی متانت اور سنجید گی پر کسی کو حرف گیری کا موقع ملے گا۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے۔٭
پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیاہے وہ یہ ہے کہ سیرت المہدی میں
’’احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی ہر ایک روایت کو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کیا ہے۔ پڑھنے والوں کو سمجھ نہیں آتاکہ یہ موجودہ زمانے کے راویوں کی کوئی روایت شروع ہورہی ہے یا قرآن کی سورت شروع ہورہی ہے۔ خاصہ پارہ عم نظر آتا ہے گویا جابجا سورتیں شروع ہورہی ہیں۔ حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی۔ اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے۔‘‘
٭:مطبوعہ الفضل یکم جون۱۹۲۶ء
میں اس اعتراض کے لب ولہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں۔ اب کہاں تک اسے دہراتا جائوں مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی۔ تعصب بھی بری بلا ہے میں تبرک وتیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللہ لکھتا ہوں اورڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں مگر مکرم ڈاکٹر صاحب! اس معاملہ میں تو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کالکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کے اصل کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے اس کے خلاف کرو تاکہ نقل کرنے کے الزام کے نیچے نہ آجائو۔ میں کہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کاکلام اور مجسم برکت ورحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولیٰ سمجھی جانی چاہیئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) فرماتے ہیں:-
’’کل امرذی بال لا یبدأ ببسم اللّٰہ فھوابتر۔‘‘۹؎
یعنی ہر کام جو ذرا سی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہوجاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھاتو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے۔ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللہ درج کردی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا۔ جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں۔ دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کررکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو خدا کے نام سے شروع ہونا چاہیئے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ اسلام نے تو اس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت وسکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کردیا ہو۔ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا، گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا، شہر سے نکلنا ،شہر میں داخل ہونا،کسی سے ملنا ، کسی سے رخصت ہونا، رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا، کپڑے بدلنا، کسی کام کو شروع کرنا، کسی کام کو ختم کرنا، غرض زندگی کی ہر حرکت وسکون میں خدا کے ذکر کو داخل کردیا اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبردست دلائل میں سے ایک دلیل ہے مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللہ لکھنے پر کیوں چیں بجیں ہورہے ہیں۔ میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کردیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد وکفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور وغوغا کچھ اچھا بھی لگتا لیکن ایک طرف اس چیخ وپکار کو دیکھئے اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مناسب تھی تو حیرت ہوتی ہے۔ خیر جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو بلکہ زندگی کی ہر حرکت وسکون خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تا کہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو۔ چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہرسورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے۔ اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ میں اس کی ہرروایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا۔ اگر سیرت المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہوئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو رکھا ہے۔ بہرحال اگر قرآن کریم اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں تو سیرۃالمہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتیّٰ کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃالمہدی کو ’’ایک گڑبڑ مجموعہ ‘‘ قرارد یا ہے بدرجہ اولیٰ بسم اللہ سے شروع کی جانی چاہیئے۔ اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللہ کے شروع نہیں کیا۔
دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر وخوبی سر انجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعاکے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے۔ یہ اگر ایک ’’بچوں کا کھیل‘‘ ہے تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزارہا سنجیدگیوں سے بڑھ کر ہے۔ اور جناب ڈاکٹر موصوف سے میری یہ بصد منّت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکائیں۔ مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگرمیں نے تصنّع کے طور پر یا لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہوسکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوں اس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
چھٹا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ
’’ دراصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لیئے بنائی گئی ہے۔ یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں۔ جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے، نہ لاہوری احمدیوںکے، نہ کسی محقق کے، بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود ؑ پر صاف زد پڑتی ہے مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوں پر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روائتیں مضبوط کرکے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔الخ‘‘
اس اعتراض کے لب ولہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کردیا جائے اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پروا نہیں کرتااور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب وذی شان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کردینے کو کوئی معمولی بات نہ جانیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خد اکو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنّت میں داخل ہے مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتاہوں کہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق وصداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف۔ یہ نیت کا معاملہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔ ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آرہی ہے وہ عرض کرتا ہوں۔
ایک جنگ میں اسامہؓ بن زیدؓ اور ایک کافر کا سامنا ہوا۔ کافر اچھا شمشیرزن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ ؓ کو بھی ایک موقع خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر وار کیا۔ کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں پاکر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر اسامہؓ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار (سے موت) کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کو کردی آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا۔اے اسامہ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد ماردیا؟ اور آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ اسامہ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھا تاکہ بچ جاوے آپ نے جوش سے فرمایا:-
’’أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعَلَمْ مِنْ أَ جْلِ ذَالِکَ قَالَھَاأَمْ لَا ۱۰؎
یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں‘‘
حضرت اسامہؓ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ
تَمَیَّنْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْیَوْمِ ۱۱؎
میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کرتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی۔ میں بھی جو رسول پاک.6ؐ کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں آپ کی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرناک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں۔ ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیاجائے۔ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کرکے درج کی ہے کہ اس سے غیرمبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کردیا ہے۔ ولعنت اللّٰہ علیٰ من کذب ۔ بایں ہمہ اگر میری یہ کتاب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ محققین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے۔٭
ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں اور جو بات درایتہ غلط ہو وہ خواہ روایت کی رو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپ کے مزیل شان بھی ہیں اور ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست باز یقین کرتا ہو، ان روایات کو قبول نہیں کرسکتا۔ راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان، ہمارا مشاہدہ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کرسکتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیںجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریقِ عمل اور آپؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں مگر سیرت المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور ان کے متعلق بہرحال یہ قرار دینا ہوگا کہ اگرراوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے۔ اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑگیا ہے۔ واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا۔ پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپ کی مسلّم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقیدت مند اسے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔ اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے۔ لیکن بایںہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے۔ درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرأت کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرررسان نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دراصل جہاں بھی استدلال واستنباط، قیاس واستخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطرناک احتمالات واختلافات کا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون ۱۹۲۶ء
دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیںاور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے۔ وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں۔ اور کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔والشاذ کا لمعدوم لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال واستنباط کرنے او ر اس کا ایک مفہوم قراردے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے رستہ پر چل نکلتا ہے اور حق وباطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے ردّ کردو۔ یا جو بات تمہیں حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقلمند اصولاً اس کا منکر نہیں ہوسکتا لیکن اگر ذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگاہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح وتعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال واستنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گراتا چلا جائے۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہوسکتی مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کارے دارد۔ اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے۔ اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کرسکتا۔ مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے۔ جن کا حل نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔ اور مجھے ایسے شخص کی جرأت پر حیرت ہوگی جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت کی تحریرا ت کا مفہوم معین کرنے میں اس کا فیصلہ ہر صور ت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھادھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قراد دے کر ردّ کردیا جائے، ایک عامیانہ فعل ہوگا جو کسی صورت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبایعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیرمبایعین یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات پر ہے۔ اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کرکے ایسا مرتبہ دے دیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو روایت غیرمبایعین کو ایسی ملے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ثابت ہوتی ہو تو وہ اسے ردّ کردیں۔ کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اوراگر کوئی روایت مبایعین کے سامنے ایسی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں۔ کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے۔ اسی طرح مبایعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیراحمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا۔ اور غیرمبایعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیراحمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعود ؑ کے طریق عمل کے خلاف نہیں۔ اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ کہ اگر کسی مبایع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے ردّ کردے۔ کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ اور جب کوئی روایت کسی غیرمبایع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو وہ اسے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے۔ ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کاروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہوجائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چادیواری میں ایسی طرح محصور ہوکر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کرچکا ہے۔ ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی قابل اعتماد ذرائع سے پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہو ردّ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے۔ مکر م ڈاکٹر صاحب مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کماحقہٗ غور نہیں فرمایا۔ ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہوجاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہرقسم کی روایت کو ردّ کئے جانے کے قابل قرار دیتے۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیئے وہ روایت ہی ہے اورعلم تاریخ کا سارا دارومدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کو ترک کردیا ہو۔ متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیتہً صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے ۔ البتہ بعد کے مورخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیاد روایت پر ہی رکھی ہے اوردرایت کو ایک حد مناسب تک پرکھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے۔ واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور وہ فہم وفراست میں بھی اچھا ہے اور روایت کے دوسرے پہلوئوں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بناء پر ردّ کردیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خودغرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں۔ خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی رو سے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقعی ہوچکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کریں سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو جس کے مفہوم کے متعلق امت میں اجماع ہوچکا ہو۔ مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا منکر نہیں۔ پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا خواہ بظاہر وہ درایت مضبوط ہی نظر آئے ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے) کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگا نا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح تحریرات ( یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے) کے مخالف ہے، لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر واسلام یا خلافت یا جنازہ غیراحمدیاں وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کریں اور اس سے استدلال واستنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑدیں تاکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاسکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔
اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کردیں گے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پریہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ’’محمودی‘‘خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیں اور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعترض کا حق نہیں تھا کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤیّد ہیں تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل ا ورتحریروں کے خلاف تھیں ان کو میں نے ردّ کردیا ہے اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں۔ اور یہ ہوبھی کیسے سکتاتھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں
’’صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہوتو حضرت مسیح موعود کو راست بازماننے والا تو قطعاً اس کو قبول نہیں کرسکتا…… ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کرسکتے ہیں۔ مگر مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ہماری ضمیر ہمارا مشاہدہ ہمارا تجربہ قطعاً قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں۔ ردّ کردیا اور درج نہیں کیا۔اور اس طرح میری کتاب ’’محمودی‘‘ عقائد کی کتاب بن گئی۔ تو میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا باعث بنا اور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ قابل ملامت۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی روسے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پر کھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم۔وفراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں۔ تو گو ایسا ممکن ہو لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ’’پیغامی‘‘ عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہوجائے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب افسوس! آپ نے اعتراض کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کردی ہیں۔ اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں میں کروں تو کیا کروں۔ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتا ہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو،اُسے ردّ کرتا جائوں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہوجائیں کہ اب یہ کتاب روایت ودرایت ہر دوپہلو سے اچھی ہے کیونکہ اس میں کوئی بات لاہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں۔ اگر جرح وتعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے۔
یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مد نظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے۔ روایت ودرایت دونوں پہلوئوں کو دیانتداری کے ساتھ علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاں بات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے بلکہ جو بات بھی روایت کے روسے میں نے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے روسے اسے حضرت مسیح موعود کی صریح اور اصولی اور غیراختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا اور آپ کے مسلم اور غیرمشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے بھی اسے قابل ردّ نہیں سمجھا اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں سمجھتا ہوں کہ گو شائد احتیاط اسی میں ہے جو میں نے کیا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہو اسے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کے لئے چھوڑدے جو عندالضرورت استدلال واستنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ واِلاَّ نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہت سی سچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی۔ اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم رہ جائے گی۔ یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں۔ واللّٰہ اعلم ولا علم لنا الّا ماعلّمتنا۔٭
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے اصولی اعتراض کا جواب دینے کے بعداب میںان مثالوں کو لیتا
٭:مطبوعہ الفضل ۱۱جون۱۹۲۶ء
ہوں جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی سے پیش فرماکر ان پر جرح کی ہے۔ لیکن اس بحث کے شروع کرنے سے قبل میں ضمنی طور پر ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوںاور وہ یہ کہ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب لکھنا شروع کیا تو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کے نام ایک خط ارسال کیا تھا۔ جس کی نقل میں نے نہیں رکھی۔ مگر جس کا مضمون جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تھا کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کامضمون جو سیرۃ المہدی کی تنقید میں لکھا گیا ہے۔ پیغام صلح میں شائع ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کیا ایڈیٹر صاحب پیغام صلح اس بات کے لئے تیار ہوں گے کہ میں اپنا مضمون بھی ان کی خدمت میں ارسال کردوں۔ اور وہ اُسے اپنے اخبار میں شائع فرمائیں۔ تاکہ جن اصحاب تک ڈاکٹر صاحب کی جرح پہنچی ہے ان تک میرا جواب بھی پہنچ جائے۔ اور پبلک کو کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں امداد ملے۔ اس خط کا جو جواب مجھے موصول ہوا وہ سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے تھا اور مضمون کے لحاظ سے وہ وہی تھا جس کی مجھے امید تھی لیکن اس بات سے مجھے خوشی ہوئی کہ خط کا لب ولہجہ اچھا تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا سا دل آزار طریق اختیار نہیں کیا گیا تھابلکہ متانت اور تہذیب کے ساتھ جواب دیا گیاتھا۔ خط کا مضمون خلاصۃً یہ تھا کہ جو تجویز تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہے وہ پسندیدہ ہے لیکن کیا کارکنان الفضلؔ بھی ہمارے مضامین (غیرمبایعین کے مضامین) کو اپنے اخبار میں جگہ دینے کے لئے تیار ہوں گے۔ اگر الفضل والے اس بات کے لئے تیار ہوں تو تمہارا یہ مضمون پیغام صلح میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تجویز کی گئی تھی کہ بہتر ہو کہ طرفین کی جانب سے چند آدمی نامزد کردئے جائیں۔ جن کے سوا کسی اور کو ایک دوسرے کے خلاف قلم اٹھانے کی اجازت نہ ہو۔ وغیرہ ذالک
میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ اس خط کے الفاظ اور طرز تحریر کے متعلق مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے مضمون سے ضرور ایک حد تک اختلاف رکھتا ہوں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اصولاً ہمارے غیرمبایع دوستوں کو اس بات سے اتفاق ہے کہ ان کا اخبار مخالف خیالات کے اظہار کے لئے بھی کھلا ہونا چاہیئے اور اسے وہ علمی تحقیق کے لئے مفید سمجھتے ہیں تو یہ خیال درمیان میں نہیں آنا چاہیئے کہ جب تک الفضل اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہوگا اس وقت تک ’’پیغام صلح‘‘ بھی ہمارے مضمون نہیں لے سکتا۔ اگر ایک طریق اچھا اور پسندیدہ ہے تو کسی دوسرے کا اسے قبول نہ کرنا اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم بھی جو اس کی خوبی کے معترف ہیں اسے ردّ کردیں۔ پس میرے خیال میں سیکرٹری صاحب انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور نے جہاں اتنی وسعت قلب دکھا ئی تھی کہ اصولاً میرے مضمون کے شائع کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا تھا۔ وہاں اگر ذرا اور وسعت سے کام لے کر ’’الفضل ؔ‘‘ والی شرط زائد نہ کرتے تو اچھا ہوتا مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیںکیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب انجن اشاعت اسلام لاہور نے ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور اختلافی مضامین اور عام تحقیقی مضامین میں کوئی امتیاز نہیں کیا جو کہ ایک صریح غلطی ہے۔ میں نے جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں لکھا تھا اس کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور طرفین کے اختلافی عقائد کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے ایڈیٹر صاحب کو اسے اپنے اخبار میں شائع کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیئے۔ واِلّااگر میرا یہ مضمون اختلافی عقائد سے تعلق رکھتاتو میں کبھی بھی ایسا خط نہ لکھتا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں اختلافی عقائد کے اظہار کے لئے فریقین کے اپنے اپنے اخبارات موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم فریق مخالف سے یہ امید رکھیں کہ وہ اختلافی عقائد کے متعلق ہمارے مضامین اپنے اخبار میں شائع کرنے کی اجازت دے گا۔ اور دراصل مستشنیات کو الگ رکھیں تو ایسا ہونا بھی مشکل ہے کیونکہ اس طریق میں بعض ایسی عملی دقتوں کے رونما ہونے کا احتمال ہے کہ جن سے بجائے اس کے کہ تعلقات میں کوئی اصلاح کی صورت پیدا ہو۔ فساد کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن عام علمی اورتحقیقی مضامین شائع کرنے میں اس قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ بلکہ ایسا طریق علاوہ وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے آپس کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور چونکہ میرا مضمون اختلافی عقائد کے متعلق نہ تھا اس لئے میں نے محض نیک نیتی کے ساتھ ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کی خدمت میں خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ اگر ممکن ہو تو میرے مضمون کو وہ اپنے اخبار میں شائع کرکے مجھے اور عام پبلک کو ممنون فرمائیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کے جواب میں سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک ایسا سوال کھڑا کردیا کہ جس کا نتیجہ سوائے اس کے کہ طرفین آپس میں الجھنا شروع کردیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ میں نے کسی ایسے مضمون کے لئے پیغام صلح کے کالموں کی فیاضی کا مطالبہ نہیں کیا تھا جو فریقین کے اختلافی عقائد سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ ایک عام علمی اور تحقیقی مضمون کی اشاعت کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہنا کہ جب تک الفضل ہمارے مضامین کے شائع کرنے کی اجازت نہیں دے گا اُس وقت تک تمہارا مضمون پیغام صلح میں شائع نہیں ہوسکتا انصاف سے بعید ہے۔
اوّل تو الفضل میرا اخبار نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اور مجھے اس کی پالیسی یا اس کے انتظام سے کسی قسم کا بلاواسطہ تعلق نہیں۔ پس اس کے متعلق مجھ سے کوئی فیصلہ چاہنا خلاف اصول ہے۔ دوسرے میرا یہ خط جو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں ارسال کیا تھا ایک بالکل پرائیویٹ خط تھا جس کے جواب میں کوئی محکمانہ بحث شروع نہیں کی جاسکتی تھی۔ اور تیسرے میں نے یہ خط اس نیت اور خیال سے لکھا تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور اختلافی عقائد سے اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے کارکنان پیغام صلح کو اس کے شائع کرنے میں تامّل نہیں ہوسکتا۔ مگر میری اس درخواست سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مجھے یہ جواب دیا گیا کہ جب تک الفضل کے کالم غیرمبایعین کے مضامین کے لئے کھولے نہ جائیں گے اس وقت تک پیغام۔صلح تمہارا مضمون شائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ طریق کسی طرح بھی جائز اور صلح جوئی کا طریق نہیں سمجھا جاسکتا۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ کب کسی غیرمبائع کی طرف سے کوئی عام علمی مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع ہونے کے لئے آیا۔ اور الفضل والوں نے اس کا انکار کیا؟ کم از کم میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی غیرمبائع نے کوئی عام تحقیقی مضمون جسے اختلافی عقائد سے تعلق نہ ہو ’’الفضل‘‘ میں بھیجا ہو اور پھر کارکنان الفضل نے اسے محض اس بناء پر ردّ کردیا ہو کہ اس کا لکھنے والا جماعت مبایعین میںسے نہیں ہے پس جب کوئی ایسی مثال موجودہی نہیں ہے تو ایک فرضی روک کو آڑ بنا کر انکار کردینا انصاف سے بعید ہے۔ اگر سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور اس بناء پر انکار فرماتے کہ ان دنوں میں پیغام صلح میں اس مضمون کے شائع ہونے کی گنجائش نہیں ہے یاکوئی اور اسی قسم کی روک بیان کرتے جو بعض اوقات اخبار نویسوں کو پیش آجاتی ہے تومجھے ہرگز کوئی شکایت نہ تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اول تو ہرقسم کے مضامین کو ایک ہی حکم کے ماتحت سمجھ کر ایک ہی فتویٰ لگادیا گیا ہے اور اختلافی مضامین اور عام علمی اور تحقیقی مضامین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا اور دوسرے الفضل کا نام درمیان میں لاکررو ک پیش کردی گئی ہے جو بالکل فرضی اور موہوم ہے میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ چند الفاظ سیکرٹری صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کی تسلّی کے لئے کافی ہوں گے۔
اب میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں پہلی مثال جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان فرمائی ہے۔ وہ منگل کے دن کے متعلق ہے میں نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں حضرت والدہ صاحبہ کی زبانی یہ روایت درج کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے بڑی لمبی جرح کی ہے جوکئی حصوں پر منقسم ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مختصراً تمام حصوں کا جواب دوں۔ کیونکہ میرے خیال میں اس امر میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی سخت غلطی کھائی ہے اور صرف ایک عامیانہ جرح کرکے اپنے دل کو خوش کرنا چاہا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس جرح کا جواب دوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیرت المہدی حصہ اول کے شائع ہونے کے بعد مجھے بعض دوستوں کی طرف سے بھی یہ بات پہنچی تھی کہ یہ روایت کچھ وضاحت چاہتی ہے۔ چنانچہ میں نے انہی دنوں میں سیرت المہدی حصہ دوئم میں جو ان ایام میں زیر تالیف ہے، اس روایت کے متعلق ایک تشریحی نوٹ درج کردیا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب دینے سے پہلے یہ نوٹ احباب کے سامنے پیش کردوں کیونکہ یہ نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوئم کے مسودے میں آج سے ایک سال پہلے کا لکھا ہوا موجود ہے۔ جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیا تھا۔
میرے اس بیان کے تسلیم کرنے میں اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی تامّل ہے اور وہ میرے اس نوٹ کو اپنی جرح کے جواب میںلکھا ہوا خیال کریں تو ان کا اختیار ہے لیکن میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے شائع ہونے سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے اور اگر میں بھولتا نہیں تو بعض دوستوں نے اسے اسی زمانہ میں مسودے کی صورت میں مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان دوستوں میں سے چودہری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لاہور، مولوی۔جلال۔الدین صاحب شمس مبلّغ شام اور نیک محمد خان صاحب کے نام مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ مقدم الذکر دواحباب نے سیرۃ المہدی حصہ دوئم کا مسودہ لاہور میں مطالعہ کیا تھا۔جبکہ میں گذشتہ سال ماہ جون میں تبدیل آب وہوا کے لئے منصوری جاتا ہوا دودن کے لئے لاہور ٹھہرا تھا اور مؤخّرالذکر صاحب نے غالباً ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں بمقام منصوری اسے پڑھا تھا۔ یہ دوست اگر بھول نہ گئے ہوں تو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ جو نوٹ اس روایت کے متعلق ذیل میں درج کرتا ہوں وہ آج کا نہیں بلکہ آج سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ وہ نوٹ یہ ہے:-
’’روایت نمبر۳۲۲ ۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خاکسارعرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر۱۰ (صحیح نمبر ۱۱) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہیئے۔ ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے۔ اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کی ابتداء اس دِن میں فرماتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پرفوقیت رکھتے ہیں اور اس توازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گویا سب سے پیچھے ہے کیونکہ وہ شدانددو سختی کا اثر رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذباللّٰہ منگل کوئی منحوس دن ہے۔ پس حتی الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال وبرکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جائے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جائے۔ ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا انسان نقصان اٹھاتاہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ان پر بالآخر توہم پرستی غالب آجاتی ہے۔ ’گر حفظ مراتب نہ کنی زند یقی‘ جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتا ہے۔ اور یہ سوال کہ دنوں کی تاثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے، یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اٹھانے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔‘‘
میرا یہ نوٹ ہرعقل مند اور سعید الفطرت انسان کی تسلی کے لئے کافی ہونا چاہیئے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں اصولی طور پر گو مختصراً ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا جواب آگیا ہے۔ اور روایت مذکورۃالصدر کے متعلق جس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا احتمال تھا اس کا ازالہ کردیا گیا ہے۔ یہ نوٹ اس وقت کا ہے جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا تنقیدی مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیاتھا بلکہ غالباً ابھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول کا مطالعہ بھی نہیں فرمایا ہوگا۔ اندریں حالات اگر میں صرف اسی جواب پربس کروں تو قابل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن چونکہ یہ ایک علمی سوال ہے اور ڈاکٹرصاحب نے اس روایت کے متعلق ضمنی طور پر بعض ایسے اعتراضات کئے ہیںجن کا جواب علم دوست احباب کی دلچسپی اور بعض ناواقف لوگوں کی تنویر کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ جواب عرض کروں۔ وما توفیقی اِلاّ باللّٰہ٭
اب میں ان تفصیلی اعتراضات کو لیتا ہوں جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اپنے مضمون میں منگل والی روایت کے متعلق بیان کئے ہیں۔سب سے پہلا اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ:-
’’حضرت والدہ صاحبہ اپنا خیال پیش کرتی ہیں کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو
٭:مطبوعہ الفضل۲۲جولائی ۱۹۲۶ء
اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ کیا حضرت صاحب نے کبھی فرمایا تھا…… کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے کسی امر میں غلطی سے اپنے خیالات پر حضرت صاحب کے خیالات کو قیاس کرلیا ہو۔‘‘
اس اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اس روایت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ بیان نہیں کئے گئے، بلکہ راوی نے خود اپنے الفاظ میں ایک خیال آپ کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملہ میں کماحقہ غور نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی حدیث نبوی کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ کتب احادیث میں بہت سی ایسی حدیثیں ملتی ہیں۔ جن میں راوی خود اپنے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک خیال بیان کردیتا ہے، اور آپ کے الفاظ بیان نہیں کرتا اور ائمہ حدیث اسے رد نہیں کرتے۔
میرا یہ مضمون آگے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے۔ اور میں اسے زیادہ طول نہیں دینا چاہتا ورنہ میں ایسی متعدد مثالیں ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کرتا کہ راویوں نے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان کرنے کے ایک خیال آپ.6ؐ کی طرف منسوب کردیا ہے اور محدثین نے اسے صحیح مانا ہے۔ دراصل حدیث میں کئی جگہ ایسے الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فلاں بات کو پسند فرماتے تھے۔ اور فلاں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ وغیرہ ذالک ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جو غالباً ہمارے خلاف مضمون نویسی سے کچھ تھوڑا سا وقت بچا کر احادیث کے مطالعہ میںبھی صرف کرتے ہوں گے۔ اس بات کا انکار نہیں کریں گے۔
دراصل ہرزبان میں اظہار خیال کے طریقوں میں سے ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات بجائے اس کے کہ دوسرے شخص کے الفاظ بیان کئے جائیں۔ صرف اپنے الفاظ میں اس کے خیال کا اظہار کردیا جاتا ہے اور یہ طریق ایسا شائع ومتعارف ہے کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ مگر نہ معلوم میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو کیا غصہ ہے کہ خواہ نخواہ اعتراض کی ہی سوجھتی ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب حسن ظنی فرماتے تو یہ خیال کرسکتے تھے کہ چونکہ حضرت والدہ صاحبہ ایک بہت لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہی ہیں۔ اس لئے ان کا یہ بیان کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، اپنی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ اور نہ عام حالات میں کسی غلط فہمی پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ انہوں نے جو حضرت صاحب کے الفاظ بیان نہیں کئے تو یہ اس لئے نہیں کہ یہ بات مشکوک ہے بلکہ اس لئے کہ یہ روایت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بلاارادہ روایت بالمعنی کا طریق اختیار کیا ہے یا یہ کہ ان کا یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ایک قول پر مبنی نہیں۔ بلکہ یا تو متعدد مرتبہ کی گفتگو پر مبنی ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بہت لمبا عرصہ رہنے کے نتیجہ میں اُن کی طبیعت نے آپ کے متعلق ایک اثر قبول کیا تھا جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے جیسا کہ مثلاً حدیث میں حضرت عائشہ.6ؓ کا قول آتا ہے کہ
کان یحب التیمن فی سائرامرہ ۱۲؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر بات میں دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ بیان نہیں کئے بلکہ صرف اپنے الفاظ میں آپ کی طرف ایک خیال منسوب کردیا ہے۔ اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں؟ ہرگز نہیں اگر ڈاکٹر صاحب غور فرمائیں تو ان کو معلوم ہو کہ بیوی کی طرف سے اس قسم کی روایت جس کانام روایت بالمعنی رکھا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں بلکہ بعض اوقات عام لفظی روایتوں کی نسبت بھی یہ روایت زیادہ پختہ اور قابل اعتماد سمجھی جانی چاہیئے۔ کیونکہ جہاںلفظی روایت کسی ایک وقت کے قول پر مبنی ہوتی ہے وہاں اس قسم کی معنوی روایت جو بیوی یا کسی ایسے ہی قریبی کی طرف سے مروی ہو متعدد مرتبہ کی گفتگو یا لمبے عرصہ کی صحبت کے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ان دونوں میں فرق ظاہر ہے۔ حضرت عائشہؓ والی روایت کو ہی دیکھ لو۔ اگر حضرت عائشہؓ صرف یہ فرمادیتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فلاں موقع پر فرمایا تھا کہ ہر بات میں دائیں سے ابتداء کرنی چاہیئے تو ان کی اس روایت کو ہرگز وہ پختگی حاصل نہ ہوتی جو موجودہ صورت میں اسے حاصل ہے کیونکہ موجودہ صورت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی ایک قول نقل نہیں کیا۔ بلکہ متعدد مرتبہ کی گفتگو یا ایک لمبی صحبت کے اثر کے نتیجہ کو بیان کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہو کہ یہ روایت چونکہ حضرت عائشہؓ نے کی ہے اس لئے وہ جرح سے بالا ہے۔ کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیوی تھیںجنہوںنے کئی سال آپ کی صحبت میں گذارے اور جو دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے آپؐ کو دیکھتی تھیں مگر کسی دوسرے راوی کی طرف سے اس قسم کی روایت بالمعنی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی تو اس کے متعلق میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ جس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے جرح فرمائی ہے وہ بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی کی ہی ہے۔ اور بیوی بھی وہ جس نے حضرت عائشہ.6ؓ کی نسبت بہت زیادہ عرصہ اپنے خاوند کے ساتھ گذارا ہے۔ لیکن بایں ہمہ میں ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں۔ ایک صحابی ابوبرزۃ.6ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشائِ وَالحَدِیْثَ بَعْدَھَا۱۳؎ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو ناپسند فرماتے تھے۔ او راسی طرح عشاء کے بعد بات چیت کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس حدیث میں ابوبرزہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف ایک خیال اپنے الفاظ میں منسوب کیا ہے۔ اور امام بخاری صاحب نے اسے بلا جرح اپنی صحیح بخاری میں درج فرمالیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی طرح یہ اعتراض نہیں کیا کہ:-
’’ابوبرزۃ.6ؓ اپنا خیال پیش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے قبل سونے کو ناپسند فرماتے تھے مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ آنحضرت.6ؐ کا ایسا خیال تھا۔ کیا آپؐ نے کبھی فرمایاتھا کہ عشاء کی نماز سے قبل سونا مکروہ ہوتا ہے ……کیا یہ ممکن نہیں کہ ابوبرزۃ.6ؓ نے غلطی سے اپنے خیالات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کو قیاس کرلیا ہے۔‘‘
یہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اپنے الفاظ ہیں جن میں سوائے ناموں کی تبدیلی کے میں نے کوئی تصرف نہیں کیا تاکہ اور نہیں تو کم از کم اپنے الفاظ کا لحاظ کرکے ہی ڈاکٹر صاحب میرے معاملہ میں کچھ درگذر سے کام لیں۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ خود اسی روایت کے اندر یہ ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلاں موقع پر منگل کے دن کے متعلق اپنے خیال کا اظہار فرمایاتھا۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ کے جوش میں اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ میں ڈاکٹر صاحب سے باادب عرض کرتا ہوں کہ وہ اس روایت کے آخری حصہ کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں جہاں ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی ولادت کا ذکر ہے۔ اور پھر بتائیں کہ کیا اس جگہ صاف الفاظ میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اور پھر انصاف سے کہیں کہ اگر بالفرض کوئی اور واقع نہ بھی ہو۔ تو کیا صرف یہی واقعہ اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں تھا۔ کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو مقابلۃً اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اندریں حالات ڈاکٹرصاحب کا یہ فرمانا کہ والدہ صاحبہ کو کیسے معلوم ہوا۔ کہ حضرت صاحب کا یہ خیال تھا کہ منگل کادن اچھا نہیں ہے اور یہ کہ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جاوے کہ والدہ صاحبہ نے خودبخود ہی ایسا سمجھ لیا ہوگا۔ ایک لایعنی بات ہے جس کی طرف کوئی فہمیدہ شخص توجہ نہیں کرسکتا۔
دوسرا اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ اس روایت کے اندر جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت منگل کے دن نہ ہو تو اس بات کا کیا ثبوت ہے یعنی کیا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ:-
’’میںاس امر کے لئے دعا کرنے چلا ہوں یا دعا کے وقت میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی جو اس حصہ روایت کے راوی ہیں) پاس کھڑے دعا کے الفاظ سنتے جاتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں بلکہ اغلب یہی ہے کہ حضرت صاحب ایسے موقع پر بچہ کی ولادت کی سہولت کے لئے دعا کررہے ہوں…… مستورات کے دل میں جو منگل کی نحوست کا خوف تھا۔ اس نے والدہ صاحبہ یادیگر مستورات کے دل پر یہ خیال مستولی کردیا کہ حضور منگل کو ٹالنے کے لئے دعا کررہے ہیں۔ میاں صاحب نے مستورات سے ایک بات لے لی اور اسے لے اڑے۔ آگے مخاطبین اپنے مرید ہیں جو سچ اور بجا کہنے اور سبحان اللہ! سبحان اللہ! کا نعرہ بلند کرنے کو ہرآن موجودہیں۔‘‘
ان الفاظ میں جس بے دردی کے ساتھ متانت کا خون کیا گیاہے، وہ ڈاکٹر صاحب کا ہی حصہ ہے جس میں خاکسار ان کے سامنے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آخر آپ خود بھی کسی کے حلقہ بگوشوں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہوں گے پھر دوسرے کے متعلق ایسی دل آزار باتوں سے کیا حاصل ہے آپ میری کتاب پر ریویو فرما رہے ہیں شوق سے فرمائیے اور تنقید میں جو کچھ بھی جی میں آتا ہے شوق سے کہئے۔ مگر ان طعنوں اور دل آزار باتوں کو بلا وجہ درمیان میں لاکر کسی دوسرے کو اپنے اوپر حرف گیری کرنے کا موقع کیوں دیتے ہیں۔ آگے آپ کا اختیار ہے۔ جو مزاج میں آئے کیجئے۔ انشاء اللہ میرے توازن طبع کو آپ متزلزل ہوتا نہیں دیکھیں گے۔
آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے موقع پر دعا فرمائی تھی۔ اس کے متعلق حضرت والدہ صاحبہ یا میاں صاحب کو کیسے پتہ لگا کہ وہ منگل کے متعلق تھی۔ کیا وہ دعا کے وقت ساتھ ساتھ تھے اور الفاظ سنتے جاتے تھے۔ یا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے ان سے کہہ گئے تھے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں اور پھر آپ نے حسب عادت اس پر مذاق اڑایا ہے۔ اس کے متعلق اگر آپ مجھے اجازت دیں تو مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے تو اس روایت میں ایسی عبارت کوئی نہیں لکھی جس سے یہ پتہ لگتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کرنے کے لئے اس جگہ سے اٹھ کر کہیں اور تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ ؑ نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر کوئی لمبی دعا فرمائی تھی۔ اور جب یہ نہیں تو پھر آپ کو یہ کیسے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود ؑ اس دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ اتنی دیر تک یہ دعا فرماتے رہے تھے کہ دوسرے کو آپ کے ساتھ ساتھ رہ کر آپ کے الفاظ سننے کا موقع مل سکتا۔ جن معتبر ذرائع سے آپ کو بغیر اس کے کہ اس روایت میں کوئی ایسا ذکر موجود ہو،یہ سب مخفی علوم حاصل ہوگئے ان کے معلوم کرنے کا مجھے شوق ہے تاکہ میں آپ کی قوت استدلال کا اندازہ کرسکوں۔ اور اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ بغیر اس قسم کا ذکر موجود ہونے کے خود بخود اپنی طرف سے یہ باتیں فرض کرکے اعتراض قائم کرنے لگ جائیں تو دوسرے کے لئے بھی آپ کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیئے۔ بہرحال جو بنیاد آپ اپنے ان استدلات کی پیش فرمائیں گے۔ اس سے زیادہ قوی اور یقینی بنیاد میںاس بات کی پیش کرنے کا ذمہ دار ہوں کہ حضرت والدہ اور حضرت میاں صاحب کو یہ علم کس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا اس غرض کے لئے تھی کہ خدا تعالیٰ مولودہ کو منگل کے اثر سے محفوظ فرمائے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوسروں پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس طرح سمجھی۔ حالانکہ اس کے سمجھنے کے لئے کافی ووافی قرائن موجود ہیں۔ لیکن خود بغیر کسی بنیاد کے نتیجہ پر نتیجہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔ اورپھر طرفہ یہ کہ اپنے ان موہوم نتائج پر اپنی علمی تنقید کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ مضمون ہے جس پر غیر مبایعین کو ناز ہے۔ اور جس کے جواب کے لئے میرے نام پیغام صلح کے پرچے خاص طور پر بھجوائے جاتے ہیں تاکہ دنیا پر یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ وہ لاجواب مضمون ہے جس کے جواب کے لئے ہم خود خصم کو چیلنج دیتے ہیں مگر کوئی معقول جواب نہیں ملتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ آپ نے بڑے ظلم سے کام لیا ہے۔ میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا وہ جاتے ہوئے فرماگئے تھے کہ میں اس امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں؟ پھر میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی باقاعدہ لمبی دعا کی تھی جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا کوئی شخص حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ہوکر دعا کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ آپ نے خود ہی یہ باتیں فرض کرلیں اور پھر ان کی بنا پر خود ہی اعتراض جمادیئے۔ آپ کے تخیلات کے زور نے اس چھوٹی سی بات کو ایسا بڑا اور اہم بنادیا ہے کہ میں اب اصل حقیقت کو عرض کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ کے احساسات کوکوئی ناگوار صدمہ نہ پہنچ جائے۔ مگر چونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیںاس لئے مجبوراً عرض کرتا ہوں بات یہ ہے کہ اس تیرانداز شہزادہ کی طرح جس کا ذکر حالی کی ایک نظم میں آتا ہے آپ کے تخیلات کا تیر ہرجگہ لگا لیکن اگر نہیں لگا تو اصل نشانے پر نہیں لگا۔ جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ اصل نشانہ بالکل قریب اور سامنے تھا اس لئے آپ کے تخیلات اپنے زور میں اسے چھوڑ کر بلند اور دور نکل گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی بات لکھی تھی کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم پیدا ہونے لگیں تو حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اب بات صاف تھی اور ڈاکٹرصاحب بھی اسے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ حضرت صاحب نے اسی وقت گھر کی مجلس میں یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان سے فرمادیئے ہوں گے۔ اور بس۔ یعنی جب ولادت کا وقت ہوا تو حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر کہ منگل کا دن ہے اس مفہوم کے دعائیہ الفاظ فرمائے کہ خدا تعالیٰ بچہ کو منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے۔ اب اس صاف حقیقت کو چھوڑ کر بات کا بتنگڑ بنادینا کہ گویا حضرت مسیح موعودؑ اس امر کے لئے خاص طور پر دعا کرنے کے واسطے کسی علیحدہ جگہ میں تشریف لے گئے ہوں گے اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں یا کوئی شخص خود بخود آپ کے پیچھے پیچھے جاکر آپ کے الفاظ سنتا گیا ہوگا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ڈاکٹر صاحب کے دماغی تخیلات کا نتیجہ ہیں جن کا کہ قطعاً کوئی ذکر صراحتہً یا کنایتہ روایت میں موجود نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک معمولی سی بات کو بڑا بنادیا ہے۔ منگل کا اچھا یا برا ہونا کوئی اہم دینی امور میں سے نہیں ہے کہ جس پر ڈاکٹر صاحب اسقدر چیں بجیں ہوتے۔ دنیا کی ہرچیز اچھے اور برے پہلو رکھتی ہے اور اشیاء کی برکات میں تفاوت بھی مسلم ہے۔ پھر ایک معمولی سی بات کو لے کر اس پر اعتراضات جماتے چلے جانا گویا کہ وہ نہایت اہم امور میںسے ہے۔ کہاں کا انصاف ہے اور پھر زیادہ افسوس یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسی باتیں فرض کرلی گئی ہیں کہ جن کا روایت کے اندر نام ونشان تک نہیں ایک سرسری بات تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت پر حضرت صاحب نے دعا فرمائی کہ وہ منگل کے خراب اثر سے محفوظ رہے۔ جس کا منشاء صرف یہ تھاکہ اسوقت گھر کی مجلس میں حضرت صاحب نے اپنی زبان مبارک سے اس قسم کے دعائیہ الفاظ فرمائے۔اس پر یہ فرض کرلینا کہ حضرت صاحب نے ایک خاص اہتمام کے ساتھ کسی تنہائی کی جگہ میں جاکر یہ دعا فرمائی ہوگی اور پھر اس فرضی واقعہ پر یہ سوال کرنا کہ کیا آپ جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ میں اس غرض سے جاتا ہوں یا یہ کہ کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتا تھا۔ امانت ودیانت کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ کسی خاص اہتمام کے ساتھ کسی علیحدہ جگہ میں جاکر کی جائے یا یہ کہ وہ اتنی لمبی ہو کہ کسی دوسرے شخص کو دعا کرنے والے کے ساتھ ساتھ رہ کر اس کے الفاظ سننے کا موقع مل سکے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ممکن ہے کہ آپ کی ساری دعائیں اسی شان کی ہوتی ہوں مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ دعا کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اور اگر کسی علیحدہ جگہ میں جاکر لمبی دعا کرنا دعا کہلاتی ہے تو کسی بات کے پیش آنے پر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے دعائیہ الفاظ کہہ دینا بھی دعا ہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابن عباس ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضو کے لئے پانی کا لوٹا بھر کر لائے تو آپؐ نے دعا فرمائی کہ خدا اسے دین کا علم عطا کرے۱۴؎۔ اور سب لوگ اس کے یہی معنی سمجھتے رہے ہیں کہ آپ نے وہیں بیٹھے بیٹھے یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان مبارک سے فرمائے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شایدیہ معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت وضو کی تیاری چھوڑ کر کسی حجرہ میں تشریف لے گئے ہوں گے تا کہ وہاں جاکر ابن عباس .6ؓ کی علمی ترقی کے لئے دعافرمائیں۔ اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے میں اس غرض سے جاتا ہوں یا کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جاکر آپ کے الفاظ سنتا جاتاہوگا تعصب کا ستیاناس ہو یہ بھی انسان کی عقل پر کیسا پردہ ڈال دیتا ہے۔٭
ایک اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ منگل کا منحوس اثر صرف دنیا او راہل دنیا کے لئے ہے اور آخرت والوں پر اس کا اثر مبارک پڑ رہا ہے۔ یہ فضول بات ہے گویا اگر کچھ اثر ہے تو سب طرف ایک سا اثر ہونا چاہیئے اور اس تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔
اس اعتراض کے جواب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا سراسر ظلم ہے کہ وہ بار بار میری طرف یہ منسوب کر رہے ہیں کہ گویا میرے نزدیک منگل منحوس دن ہے۔ میں نے ایسا بالکل نہیں لکھا۔ اور مجھے ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرت ہے کہ کس دلیری کے ساتھ وہ میری طرف ایسی بات منسوب کرتے جاتے ہیں جس کا نام ونشان تک میری تقریر وتحریر میں موجود نہیں۔ بلکہ اگر ڈاکٹر صاحب میری بات کا یقین کرسکیں تو میں یہ کہوں گا کہ جو کبھی میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوسرے ایام کے مقابلہ میں اپنے افاضۂ برکات کے لحاظ سے کم ہے اور نیز یہ کہ اس کا اثر شدائد اور سختی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نہ معلوم کن مخفی اثرات سے متاثر ہوکر میری طرف اپنے مضمون میں باربار یہی خیال منسوب کرتے جاتے ہیں کہ میں منگل کو ایک منحوس دن سمجھتا ہوں۔ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہندولوگ عموماً منگل کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب نے ان سے متاثر ہوکر بلا سوچے سمجھے میری طرف بھی یہی عقیدہ منسوب کردیا ہے۔ حالانکہ نہ میں نے ایسا لکھا اور نہ میرے خیال میں کبھی یہ بات آئی۔ باقی رہا اصل معاملہ یعنی ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ جو میں نے لکھا ہے۔ کہ گویا دنوں وغیرہ کی شمار اہل دنیا کے واسطے ہے۔ آخرت پر اس کا اثر نہیں، یہ غلط ہے۔ سو اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری طرح میری بات پر غور نہیں فرمایا۔ میرا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک چیز کا ایک معیّن حلقہ اثر ہوتا ہے جس کے اندر اندر اس
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶جولائی ۱۹۲۶ء
کا اثر محدود رہتا ہے اور چونکہ ستارے اس عالم دنیوی کا ایک حصہ ہیں اس لئے ان کا اثر بھی اسی دنیا تک محدود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ڈاکٹر صاحب اعتراض پیدا کرتے اور یہ خیال کہ اگر کسی ستارہ کا اثر اس دنیا کے اوپر کسی خاص رنگ میں پڑ رہا ہے تو ضرور ہے کہ آخرت پربھی اس کا وہی اثر پڑتا ہو۔ ایک طفلانہ خیال ہے۔ ایک درخت اگر ایک جگہ سایہ ڈال رہا ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ دوسری جگہ بھی سایہ ڈال رہا ہوگا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے جو قانون مخلوقات میں جاری کیا ہے وہی چلے گا۔ اور ڈاکٹر صاحب یاکسی اور کی مرضی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ تو کیا ان کے لئے وہ ایک مبارک گھڑی آرہی تھی یا منحوس! یعنی اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آخرت پر ستاروں کا کوئی اثر نہیں پھر بھی اس اعتراض کا کیا جواب ہے کہ قرب وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے۔ ( اور چونکہ دنیا ستاروں کے اثرکے نیچے ہے اور وہ منگل کا دن تھا) تو کیا وصال محبوب کی آمد آمد حضرت صاحب کے لئے منحوس تھی؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں جو قابل افسوس میلان نحوست ومنحوس وغیرہ کی طرف پیدا ہوگیا ہے اس کے متعلق عرض کرچکا ہوں کہ اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں، میرا اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں۔ میں نے نہ یہ الفاظ لکھے اور نہ ان کا مفہوم میرے ذہن میںتھا۔ میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن فوت ہوئے تھے اور وہ دن دنیا کے لئے ایک مصیبت کا دن تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا اثر دنیا تک محدود ہے اس لیئے آخرت کے نقطہ نگاہ سے وہ گھڑی حضرت صاحب کے لئے وصال محبوب کی مبارک گھڑی تھی۔ اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان دوباتوں میں قطعاً کوئی تناقص نہیں کیونکہ دو مختلف موقعوں کے لحاظ سے دومختلف حالتیں ہوسکتی ہیں۔ فرض کرو کہ ایک دائرہ ہے کہ جو سختی اور شدائد کا حلقہ ہے۔ اور اس کے باہر ایک مقام آرام اور خوشی کا ہے۔ اب اگر ایک شخص اس دائرہ کے اندر ہے اور اس کے کنارے کی طرف چل رہا ہے تو وہ جب تک کہ دائرہ سے باہر نہیں ہوجاتا شدائد کے حلقہ کے اندر ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن بایں ہمہ مسرت وخوشی کے مقام سے بھی وہ قریب ہوتا جائے گا۔ ایسی حالت میںکیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آرام وخوشی کا مقام اس شخص کے لئے سختی اور شدائد کا مقام ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے وصال محبوب کی آمد شدائد کا پہلو (یا بقول ڈاکٹر صاحب نعوذ باللہ نحوست کا پہلو) ہرگز نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ شدائد ومصیبت کا پہلو صرف ان لوگوں کے لئے تھا جن کو آپ اپنے پیچھے چھوڑ رہے تھے۔ یعنی دنیا واہل دنیا کے لئے۔ اور یہی میں نے لکھا تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔
آخری اعتراض ڈاکٹر صاحب کا اصل مسئلہ کے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یا فعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔ قرآن میں کہیں نہیں، حدیث میں کہیں نہیں، حضرت صاحب کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔ اگر منگل کا دن ایسا ہی منحوس تھا تو کیا آپ کا فرض نہ تھا کہ اس راز کو جماعت کو بتلا جاتے…… کس قدر لغو! کہ وہ شخص جو قرآن کا بینظیر علم رکھتا تھا جس کے فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللہ نہ جانتا تھا۔ کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعاً۱۵؎ کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔ وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلاگیا وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا۔ اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جاوے گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
کا ش یہ زور قلم صداقت کی تائید میں خرچ ہوتا! کاش یہ لفاظی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں استعمال نہ کی جاتی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر حیرا ن ہوں کہ اپنے مطلب کے حاصل کرنے کے لئے کس طرح ایک چھوٹی سی بات کو بڑھا کر اس طرح آہ وپکار شروع کردیتے ہیں کہ گویا دنیا میں ایک ظلم عظیم برپا ہوگیا ہے۔ جس کے مقابلہ کے لئے ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کی اعلیٰ ترین طاقتیں وقف کردینا چاہتے ہیں۔ ایک سرسری سی بات تھی کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور اس میزان میں منگل کا دن سب سے سخت ہے۔ اب اس پر یہ واویلا اور یہ شور پکارکہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ کہاں کا انصاف ہے۔
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یافعل سے صراحتہً یا کنایتہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے۔‘‘
غیظ وغضب میں سب کچھ بھول جانے والے ڈاکٹر صاحب خدا کے لئے یہ منحوس کا لفظ ترک کردیجئے۔ غالباً آپ کے سوا دنیا کا ہر فرد بشر یہ گواہی دے سکتا ہے کہ میری تحریر میںکسی جگہ منگل کے دن کے متعلق منحوس یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ استعمال نہیں ہوا اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میری نیت میں بھی یہ نہ تھا کہ منگل کو ئی منحوس دن ہے تو پھر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ آپ اس تکرار اور اس اصرار کے ساتھ میری طرف یہ لفظ منسوب کرتے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو دنیا کا ڈر نہیں ہے تو خدا سے ہی ڈریئے۔ باقی آپ کا یہ فرمانا کہ کیا حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی ہے جو یہ بیان کرسکے کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ شاید آپ بھول گئے ہوں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس روایت کے راوی حضرت کے اصحاب میں سے ہی ہیں۔ پہلی روایہ حضرت والدہ صاحبہ ہیں جن کے صحابیہ ہونے سے آپ باوجود اس قدر مخالفت کے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ دوسرے راوی حضرت خلیفہ ثانی ہیں جو وہ بھی صحابیوں میں سے ہیں۔ پھر نامعلوم آپ کس صحابی کی شہادت ڈھونڈتے ہیں اور اگر آپ کا یہ منشاء ہے کہ ان راویوں کے علاوہ کوئی اور راوی ہو تو اوّل تو اس ترجیح بلا مرجح کی کوئی وجہ چاہیئے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی کی روایت کیوں منظور نہیں اور دوسروں کی کیوں منظور ہے۔ اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب میں نے کوئی اور شہادت پیش کی تو آپ یہ نہ فرمائیں گے۔ کہ اس راوی کی شہادت بھی میں نہیں مانتا۔ کوئی اور راوی لائو تب مانوں گا۔ آپ خود فرمائیں کہ اس طرح یہ سلسلہ کبھی بند بھی ہوسکتا ہے مگر چونکہ آپ کو بہت اصرار ہے اس لئے ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں۔ امید ہے اس شہادت کے متعلق آپ کو جرح کا خیال نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں:-
’’ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں…… یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے۔ اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے ( یعنی وہ دنیا اور اہل دینا پر دوا اور غذاکی طرح اچھا اور برا اثر ڈالتے ہیں) …… پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلو فر اور تربد اور سقمو نیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے۔ (جیسا کہ اطباء لوگ قائل ہوتے ہیں۔ اور خوش قسمتی سے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی طبیب ہیں اور ان ادویہ کی تاثیرات کے ضرور قائل ہوں گے)مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں …… یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔‘‘ ۱۶؎
لیجئے ڈاکٹر صاحب اب آپ کیا فرماتے ہیں ستاروں کی تاثیرات کے متعلق حضرت صاحب نے کیسا صاف فیصلہ فرمادیا ہے اور اگر آپ کو یہ عذر ہو کہ یہ تو صرف عام تاثیرات کا بیان ہے حضرت صاحب نے یہ تو نہیں لکھا کہ انسان کی ولادت پر بھی ستاروں کا اثر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر زیر بحث ایک بچہ کی ولادت کا سوال ہے نہ کہ کوئی عام تاثیرات کا ذکر تو اس کے متعلق بھی ملاحظہ فرمائیے حضرت صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’چونکہ اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا۔‘‘ ۱۷؎
میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت صاحب کے اس غیر مشکوک فیصلہ کے بعد ڈاکٹر صاحب یا کوئی اور احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہوسکتا ہے اور یہی وہ بات تھی جو میں نے اس روایت میں بیان کی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اتنی آہ وپکار کی ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرمائیں کہ ان حوالجات میں منگل کا کہاں ذکر ہے تو گو منگل کو مخصوص طور پر ذکر کئے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سارے مسئلہ کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ ستاروں کی تاثیرات زمانہ اور اہل زمانہ اور ولادت بچگان پر پڑتی ہیں اور ان حوالجات میں قطعی طور پر یہ بیان کردیا گیاہے کہ ستارے اس قسم کی تاثیرات اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ تاثیرات دو ا اور غذا کی طرح مفید اور ضرررساں ہر دو پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ گو ڈاکٹر صاحب پر مزید اتمام حجت کرنے کے لئے ایک اور حوالہ بھی پیش کرتا ہوں۔
حضرت صاحب فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ…… مریخ کے اثرکے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مفسدین کے قتل اور خوں ریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کوقتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور ان کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔‘‘ ۱۸؎
اس جگہ مریخ کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کے رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہئیت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک منگل کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا اور اگر اس جگہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت کیوں ہوئی تو اس کا جواب آگے آئے گا۔٭
ڈاکٹر صاحب ستاروں کے اثرات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں یہ مسئلہ :-
’’یہ مسئلہ قرآن شریف میںکہیں نہیں۔ حدیث میں کہیں نہیں۔ حضرت صاحب کی تقریروتحریر میںکہیں نہیں۔‘‘
حضرت صاحب کا فیصلہ تو پیش خدمت کر چکا ہوں اب حدیث کو لیجئے۔ بخاری میں ایک حدیث آتی ہے کہ ایک سفر میں رات کو بارش ہوئی اور صبح کو لوگوں میں یہ باتیں ہوئیں کہ یہ بارش فلاں فلاں ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز میں تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ :-
’’اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنْ بِیْ وَکَافِرٌ فَاَمَّا مَنْ قَالَ:مُطِرُنا بِفَضْلِ اللَّہِ وَرَحْمَتِہِ فَذَالِکَ مُؤْمِنْ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ،وَاَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْئِ کَذَاوکَذَا، فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ ۱۹؎
یعنی خدا فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بندوں میں سے بعض نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور وہ وہ تھے جنہوں نے یہ کہا کہ خدا کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش برسی ہے۔ اور وہ جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے اثر نے بارش برسائی ہے، وہ میرے کافر ہوئے اور ستاروں کے مومن بنے۔‘‘
یہ حدیث نبوی جس میں امت محمدیہ کو توحید کا ایک نہایت لطیف سبق سکھایا گیا ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ستارے اپنے اندر دنیا اور اہل دنیا کے لئے تاثیرات رکھتے ہیں کیونکہ اگر ستاروں میں تاثیرات نہ ہوتیں تو یہ نہ کہا جاتا کہ ستاروں کی تاثیر کی طرف بارش وغیرہ کو منسوب نہ کرو اورخدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کیا کرو۔ بلکہ اس صورت میں یہ بیان کیا جاتا کہ بارش کے برسنے میں ستاروں کے اثر کا دخل نہیں۔ بلکہ فلاں فلاں اسباب کا دخل ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ انعامات کو خدا کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ جس میں یہ صاف اشارہ ہے کہ ستاروں کی تاثیرات تو درست ہیں لیکن مومن کو چاہیئے کہ تمام ارضی اور سماوی انعامات کو خدا کے فضل کی طرف منسوب کیا کرے اور درمیانی وسائط کو صرف بطور ایک خادم کے سمجھے۔ تاکہ ایک تو اس
٭:مطبوعہ الفضل ۲۷جولائی ۱۹۲۶ء
کا قلب خدا کے شکر وامتنان کے جذبات سے معمور رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اس نکتہ کو بھول کر کسی مخفی شرک میں مبتلا نہ ہو کہ دنیا کا کارخانہ خواہ کتنے ہی لمبے سلسلہ اسباب کے ماتحت چل رہا ہو،اس کا اصل چلانے والا صرف خدا ہی ہے اور باقی ہر اک چیز اس کی خادم اور اس کے قبضہ تصرف کے نیچے ہے۔ واِلّا اگر اس حدیث کا یہ منشاء نہ ہوتا تو عبارت اس طرح ہونی چاہیئے تھی کہ بارشیں ستاروں کے اثر کے ماتحت نہیں ہوتیں بلکہ فلاں فلاں سبب سے ہوتی ہیں۔ پس ستاروں کی تاثیر کے مقابلہ میں کسی دوسرے سبب کا بیان نہ کرنا بلکہ خد اکے فضل اور رحمت کا نام لینا جو مسبب الاسباب ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ستاروں کی تاثیر کا انکار مقصود نہیں بلکہ ان کی تاثیرکو تسلیم کرتے ہوئے اس مواحدانہ نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہر انعام کو خدائے واحد کے فضل ورحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ نہ کہو کہ عمر جو بیمار تھا وہ زید کے علاج سے اچھا ہوا ہے بلکہ یہ کہو کہ خد اکے فضل نے اسے اچھا کیا ہے تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ علاج تو زید کا ہی تھا لیکن شفایابی کی نسبت خدا کی طرف ہوئی چاہیئے جس نے زید کو صحیح اور درست علاج کی توفیق دی۔
خلاصہ یہ کہ سبب کے مقابلہ میں مسبب کا ذکر نہ کرنا اس وجہ سے نہیں ہوا کرتا کہ وہ سبب غلط ہے بلکہ اس لئے کہ اصل نام لینے کے قابل مسبب ہے اور اگر سبب کی نفی مقصود ہو تو اس کے مقابلہ میں مسبب کو نہیں بلکہ کسی دوسرے سبب کو لایا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حدیث مذکورہ بالا میں ستاروں کی تاثیر کی نفی نہ کرتے ہوئے خدا کے فضل ورحمت کا نام نہ لینا اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ستاروں کی تاثیر برحق ہے۔ باقی ایمان ومحبت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ تمام انعاماتِ ارضی وسماوی کی نسبت خدا کے فضل ورحمت کی طرف کی جائے اور درمیانی وسائط کو ان کا باعث قرار دے کر خدا کے فضل ورحمت کو مشکوک نہ بنایا جائے۔ الغرض اس حدیث سے ستاروں کی تاثیر کا وجود ثابت ہے۔ وہوالمراد
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ تاثیر سماوی کی وجہ سے دن بھی اپنی برکات وتاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں تو اس کے متعلق مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتاہوں۔
’’اَضَّلَ اللّٰہُ عَنِ الْجٔمُعَۃِ مَنْ کَانَ قَبْلنا،فَکَانَ لِلْیَھُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلْنَصَارَیٰ یَؤْمُ الْأَ حَدِ، فَجَائَ اللّٰہُ بِنَا، فَھَدَانااللَّہُ لِیَؤْمِ الْجُمْعَۃِ۔۲۰؎
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو امتیں ہم سے پہلے گذری ہیں وہ جمعہ کے دن کو اپنا مبارک دن قرار دینے سے بھٹکی رہیں۔ چنانچہ یہود نے ہفتہ کو اپنا مبارک دن بنالیا اور عیسائیوں نے اتوار کو لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں قائم کیا تو اس نے ہم کو جمعہ کے دن کی طرف ہدایت کی‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں پر ایک امتیاز حاصل ہے جس کی وجہ سے وہی اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے ہفتہ کا مبارک دن قرار دے کر اس دن اپنی مخصوص اور اجتماعی عبادات کو سرانجام دیا جائے اور یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن جو ایک مخصوص اجتماعی عبادت رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ سے جمعہ کو امتیاز حاصل ہوگیا ہے، یہ غلط ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے پتہ لگتا ہے حق یہ ہے کہ جمعہ کا یہ امتیاز اس عبادت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ عبادت اس لئے ہے کہ جمعہ کو ایک امتیاز حاصل ہے۔ چنانچہ موطا کی ایک روایت ہے کہ
’’خَیْرُ یَوْمِ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجٔمْعَۃِ۲۱؎۔
یعنی سب دنوں میں سے جمعہ کا دن مبارک ترین دن ہے۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ اسی طرح ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کے لئے عموماً جمعرات کے دن کو پسند فرماتے تھے جس سے یہ ظاہر ہے کہ جمعرات اپنی برکات کے لحاظ سے باقی دنوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اسے دوسروں پر ترجیح دیتے۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ دنوں میں برکات کا فرق تسلیم فرماتے تھے اور اس فرق سے مناسب حد تک فائدہ اٹھانے کا خیال بھی آپ کو رہتا تھا۔ اب رہی قرآن کی شہادت سو وہ بھی ملاحظہ ہو۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآ ئِلِ سُجَّدًالِّلّٰہِ۔ ۲۲؎
یعنی کیا لوگ نہیں دیکھتے کہ دنیا کی ہر چیز کا سایہ یعنی اثر خدا کے حکم کے ماتحت دائیں بائیں یعنی ہر طرف پھرتا ہے۔‘‘
اس اصل کے ماتحت ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ستارے بھی اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں اور نیز یہ کہ یہ تاثیر دنیا کی ہر چیز پر اثرپیدا کررہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ستاروں کا اثر زمانہ اور اہل زمانہ اور حیات انسانی پر بھی پڑتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا۔ اور اگر کسی شخص کو یہ شبہ گذرے کہ اس آیت کریمہ میں تو ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے۔ ستاروں کی تاثیر کا کوئی خاص ذکر نہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ جب اس آیت میں دنیا کی ہر چیز میں ہر دوسری چیز کے لئے تاثیر مان لی گئی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ستارے بھی کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی زندگی پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ مگر معترض کی مزید تسلی کے لئے ایک اور آیت پیش کرتاہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَزَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ۲۳؎
یعنی ہم نے آسمانوں کو روشن ستاروں سے زینت دی ہے تاکہ وہ نظام عالم کی حفاظت میں بھی کام دیں۔‘‘
اس جگہ ستاروں کی تین غرضیں بیان کی گئی ہیں۔ اوّلؔ زینت دوسرےؔ تنویر۔ تیسرےؔ حفاظت وتقویم عالم اور تیسری شق کے اندر ان کی وہ مختلف تاثیرات شامل ہیں جو وہ دنیا اوراہل دنیا پر قانون قدرت کے ماتحت ڈالتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں کہ :-
’’یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاسے یعنی حِفْظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘۲۴؎
پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں ان آیات قرآنی کی تفسیر فرمائی ہے جن میں آدم کی پیدائش اور اس کے متعلق فرشتوں کے سوال کا ذکر ہے۔ اس میں بھی آپ نے یہی بات بیان کی ہے کہ:-
’’ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش پر خدا سے یہ سوال کیا کہ کیا تو ایک ایسی مخلوق بنانے لگا ہے جو دنیا میں فتنوں کا موجب ہوگی۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ جمعہ کا دن قریباً گذرچکا ہے۔ اور اب ستارہ زحل کا اثر شروع ہونے والا ہے جو قہر وعذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس پر ان کو گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس پر خدا نے فرمایا کہ انی اعلم ما لااتعلمون یعنی تمہیں خبر نہیں۔ کہ میں آدم کو کس وقت بنائوں گا۔ میں مشتری کے وقت کے اس حصہ میں اسے بنائوں گا جو اس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہرایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔‘‘۲۴؎
یہ الفاظ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں جو آپ نے ان آیات قرآنی کی تفسیر میں تحریر فرمائے ہیں۔ الغرض قرآن شریف میں یہ بات ثابت ہے کہ ستارے اپنے اندر تاثیرات رکھتے ہیں۔ یہ تاثیرات دنوں اورزمانوں پر بھی اپنا اثر رکھتی ہیں۔ وہوالمراد
میں بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کرچکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے جو تحدی کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ:-
’’قرآن میں کہیں نہیں ۔ حدیث میں کہیں نہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تقریر وتحریر میں کہیں نہیں۔‘‘
یہ بالکل غلط اور ایک محض بے بنیاد دعویٰ ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:-
’’کس قدر لغو کہ وہ شخص جو قرآن کا بے نظیر علم رکھتا تھا۔ جس کی فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے۔ وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللّٰہ نہ جانتا تھا کہ سَخَّرَ لَکُمْ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ ۲۶؎کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ سب کا سب تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کو اس آتش غضب سے نجات دے۔ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اگر سانپ اور بچھو باوجود اس کے کہ وہ لاکھوں انسانوں کی جانیں ہر سال ضائع کردیتے ہیں اور شیر اور چیتا اور بھیڑیا باوجود اس کے کہ وہ ہر آن اس تاک میں رہتے ہیں کہ انسان کو اپنی خوراک بنائیں اور پھر یہ ہزاروں قسم کے زہر اور لاکھوں قسم کی دوسری مضرت رساں چیزیں جن کے تکلیف دہ اثرات کا انسان نشانہ بنا رہتا ہے۔ انسان کی خدمت کے لئے مسخر سمجھی جاسکتی ہیں تو بعض قہری اور شدائد کا پہلو رکھنے والی تاثیرات والے ستارے کیوں نہ مسخّرسمجھے جائیں۔ افسوس ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں کیا کہ ہر اک چیز مسخّر ہے ان معنوں میںکہ وہ خدا کے حکم اور اس کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہے۔ اور پھر ہر اک چیز انسان کے لئے مسخرہے ان معنوں میںکہ انسان خد اکے مقرر کردہ قانون کا علم حاصل کرکے اس سے اپنی ترقی وبہبودی میں مدد حاصل کرسکتا ہے۔ پس خدا کی قہری اور جلالی شان کو ظاہر کرنے والی چیزیں بھی انسان ہی کے لئے مسخر ہیں کیونکہ ان کے اندر بھی انسان کی فلاح وبہبود ی کا راز مضمر ہے۔ ابلیس بھی جو آگ سے پیدا کیا گیا اور ہر وقت ابن آدم کو گمراہ اور آلام میں مبتلا کرنے کے درپے رہتا ہے اس آیت تسخیر سے باہر نہیںکیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کے بہت سے مخفی مگر قیمتی جوہروں کو ظاہر کرنے اور نشوونما دینے کا باعث بنتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل عامیانہ رنگ میں ایک اعتراض کردیا ہے اور اس کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین چیزیں بعض اوقات انسان کے لئے نحوست کا موجب ہوجاتی ہیں۔ ایک مکان دوسرے بیوی اور تیسرے سواری تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ چیزیں تسخیر سے باہر ہیں۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:-
’’وہ شخص جو انسان کی خلافت الٰہی کا نکتہ جماعت کو بتلا گیا۔ وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جائے۔ گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
میں ڈاکٹر صاحب سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے یہ بتائیں کہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے۔ آخر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ خوانخواہ بلاوجہ ایک بات میری طرف منسوب کرکے اس پر اعتراض جمادیا جاتا ہے۔ میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے۔ جو شدائد اور سختیوں کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے، انصاف کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ڈرنے کا لفظ جائز طور پر استعمال ہوسکتا ہے تو میں ان سے بادب پوچھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے سفروں کے لئے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں سے ڈرتے تھے۔‘‘اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ نے جو یہ لکھا ہے کہ :-
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت خاص خاص ستاروں کی تاثیرات سے کام لیا ۔‘‘
’’ تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نعوذ باللہ خدا باقی ستاروں سے ڈرتا تھا۔‘‘
افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم کی بچگانہ باتوں کو اپنے مضمون کے اندر داخل کرکے خواہ۔نخواہ اپنے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے۔٭
پھر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔’’گویا منگل کا دن ٹل گیا تو تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! خدا آپ کی آنکھیں کھولے۔ تقدیر الٰہی تو قانون قدرت کے ماتحت بات بات پر بدلتی ہے۔ پھر وہ منگل کے ٹلنے سے بدل جائے تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ آپ کے پاس ایک ملیریا کا
٭:مطبوعہ الفضل ۳۰جولائی۱۹۲۶ء
بیمار آتا ہے جس کے خون کے جراثیم اگر ہلاک نہ کئے جائیں تو اس کی تقدیر یہ ہے کہ وہ خود ہلاک ہو۔ لیکن آپ اسے کونین دے کر اس کی تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ آپ کو خود بھوک لگتی ہے اور اگر آپ کھانا نہ کھائیں تو آپ کی تقدیر موت ہے لیکن آپ کھانا کھا کر اس تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ تو پھر اگر منگل کا دن ٹل جانے سے خد اکی کوئی تقدیر بدل جاوے تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ آپ نے میرے خلاف غصہ میں تقدیر کے مسئلہ کو بھی بری طرح مسخ کردیا ہے۔ حالانکہ اگر آپ سوچتے تو آپ کو پتہ لگتا کہ خدا کے مقرر کردہ قانون قدرت کے ماتحت جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہی خدا کی تقدیر ہوتی ہے۔ مثلاً خدا کی یہ تقدیر ہے کہ فلاں زہر کھانے سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے لیکن یہ بھی خدا ہی کی تقدیر ہے کہ اگر اس زہر کے اثر کو فلاں طرح مٹایا جائے تو وہ مٹ جاتا ہے۔ آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کا سارا فن اسی بنیاد پر قائم ہے کہ خدا کی ایک قسم کی تقدیروں کو اس کی دوسری قسم کی تقدیروں سے مٹایا جائے۔ پھر نہ معلوم آپ میرے خلاف بلاوجہ اعتراض جماکر لوگوں کو دھوکا دینے کی راہ کیوں اختیار کررہے ہیں۔ کیا آپ اس حدیث کو بھول گئے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ابوعبیدۃ رضی اللہ عنہ کی فوج میں طاعون شروع ہوئی تو حضرت عمرؓ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ فوج کو ادھر ادھر کھلی ہوا میں پھیلا دیں۔ اور خود بھی باہر کھلے میدان میں نکل جائیں اور انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ کیا آپ مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدا کی تقدیر سے بھاگوں یعنی کیا میرے جانے سے خدا کی تقدیر بدل جائے گی تو اس پر حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا تھا کہ ہاں میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ خدا کی ایک تقدیر سے نکل کر دوسری تقدیر میں داخل ہوجائیں۔ یعنی آپ کے یہاں رہنے سے اگر خدا کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس مرض کے اثر کو قبول کریں تو باہر جانے سے اس کی یہ تقدیر ہوگی کہ آپ اس کے اثر سے محفوظ ہوجائیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ پسند فرمایا ہے کہ ہم لوگ اپنے سفروں کے لئے حتی الوسع جمعرات کا دن اختیار کریں۔ تو کیا بقول ڈاکٹر صاحب ’’جمعرات کے سفر سے تقدیر الٰہی بدل جائے گی؟‘‘ اور پھر خدا نے جو آدم کی پیدائش میں بعض ستاروں کی تاثیرات کو اختیار کیا اور بعض کو ترک کیا تو کیا اس طرح ’’انسان کے لئے تقدیر الٰہی بدل جائے گی۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب! آپ نے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے اور اتنا نہیں سوچا کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور انسان تو انسان ہے اس دنیا میں خدا کی بھی یہی سنت ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ سے کام لیتا ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ اسباب کی رعایت رکھتے ہوئے یہ دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ مبارکہ بیگم کو منگل کے اس اثر سے جو شدائد اور سختی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے محفوظ فرمائے تو کچھ برا نہیں کیا۔ بلکہ خدا کی ایک تقدیر کو اس کی دوسری بہتر تقدیر کے ذریعہ سے بدلنا چاہا ہے۔ جیسا کہ خود خدا نے ہمارے جدّامجد آدم کی پیدائش کے وقت بعض ستاروں کی تاثیر کو چھوڑ کر اور بعض دوسرے ستاروںکی تاثیر کو اختیار کرکے آدم کی تقدیر کو بدلا تھا۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ تم حتی الوسع جمعرات کو سفر کرکے اپنی تقدیر کو بہتر صورت میں بدلنے کی کوشش کیا کرو۔ اور جیسا کہ خود جناب ڈاکٹر صاحب اپنے بیماروں کا علاج کرکے ان کی تقدیر بدلنے کی کوشش فرمایا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک فرد بشر بلکہ ہر اک لایعقل جانور بھی ہر روز خدا کے قانون قدرت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بُری تقدیروں کو اچھی تقدیر کی صورت میں بدلتا رہتا ہے۔ اور میں اس شخص کو سعادت فطری کے مادہ سے محروم کلّی سمجھتا ہوں جو آدم کا بیٹا ہوکر جس کے خمیر میں خدا کی نیک تقدیروں کے مددسے اس کی ضرر رساں تقدیروں کے بدلنے کا مادہ فطرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہتا ہے۔ اور خدا کے جاری کردہ قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دینی ودنیاوی ترقیات کے دروازے نہیں کھولتابلکہ ضرررساں تقدیروں کا تختہ مشق بنارہ کر قعرمذّلت کی طرف گرتا چلا جاتا ہے۔
مگر یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ گویا انسان کے حالات زندگی کلیتہً ان ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اور جو انسان ستاروں کی اعلیٰ تاثیرات کے ماتحت پیدا ہوتا ہے وہ بہرحال خوش بخت ہوگا اور اعلیٰ زندگی بسر کرے گا اور جو کسی دوسری قسم کی تاثیرات کے ماتحت دنیا میں آتا ہے وہ بہرحال شدائد اور سختیوں کا اثر پائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے صرف ستارے ہی نہیں ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اربوں اور چیزیں بھی ہیں۔ جن میں سے بہت سی انسان کے اپنے اختیار میں ہیں اور ان سب کے مجموعی اثر کے نتیجے میں انسانی زندگی کے حالات متعین ہوتے ہیں اور بہت سی تاثیرات ایک دوسرے کے مقابل پر آجانے کی وجہ سے کٹ بھی جاتی ہیں۔ پس بالکل ممکن ہے اور عملاً ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی ولادت امن وآسائش وغیرہ کی تاثیررکھنے والے اجرام سماوی کے ماتحت وقوع میں آئے لیکن دوسرے اثرات اس کی زندگی کے حالات کو دوسرے رنگ میں پلٹ دیں۔ یا کسی شخص کی ولادت شدائد اور سختیوں کی تاثیر کے ماتحت ہو لیکن دوسری چیزوں کی تاثیرات اس اثر کو مٹا کر امن و اسائش وغیرہ کی تاثیر کو غالب کردیں۔ جیسا کہ مثلاً کونین کے اندر یہ تاثیر ہے کہ وہ ملیریا کے کیٹروں کو مارتی ہے لیکن اگر اس کے مقابلہ میں ایسی چیزیں آجائیں جو قانون قدرت کے ماتحت ملیریا کے کیٹرے پیدا کرتی ہیں۔ اور ان مؤخر الذکر اشیاء کا بہت غلبہ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر اپنے بیمارکو کونین کھلاتا رہے اس کا خون ملیریا کے جراثیم سے پاک نہیں ہوسکے گا جب تک کہ ان مخالف تاثیرات کو توڑنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر بے شمار چیزیں اثر ڈالتی ہیںاور ان میں سے ایک ستارے بھی ہیں۔ اور چونکہ ہر عقلمند شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ حتی الوسع تمام نیک تاثیرات کے اثر سے مستفید ہو اور تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔ اس لیئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت کسی چھوٹے سے چھوٹے خدائی انعام کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت خدا سے یہ دعا مانگی کہ وہ کسی ایسی تاثیرات کے ماتحت پیدا نہ ہو جو شدائد اور سختی وغیرہ کا اثر رکھتی ہوں۔ اور اگر اس کی ولادت اسی دن مقدر ہو تو پھر خدا کی طرف سے کوئی دوسرے ایسے سامان پیدا ہوجائیں جن کی تاثیر اس دن کی تاثیر پر غالب آجائے۔ اور یہ کوئی انوکھی دعا نہیں۔ بلکہ اسی اصل کے ماتحت ہے جس کے ماتحت خدا نے ہمارے جدامجد آدم کی پیدائش کا انتظام کیا تھا۔ الغرض ستارے اپنے اندر مختلف قسم کی تاثیرات رکھتے ہیں جو انسانی زندگی پر اثر ڈالتی رہتی ہیں۔ اور چونکہ دن بھی الگ الگ ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اس لئے دنوں کا بھی اعلیٰ قدر مراتب انسانی حالات پر اثر پڑتا ہے۔ پس ہرمومن کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں خدا کی دوسری بابرکت تقدیروں سے فائدہ اٹھاتا ہے وہاں ان تقادیر سے بھی حتی الوسع متمتّع ہو جو دنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مگر یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ ہر اک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنا توہم پرستی پیدا کرتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص اپنے کسی اہم اور فوری کام کو صرف اس خیال سے ملتوی کردیتا ہے کہ آج منگل ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سختی پیش آئے یا کسی ضروری اور فوری سفر یا کام کو صرف اس خیال سے پیچھے ڈال دیتا ہے کہ مثلاً آج جمعرات نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کام برکات سے محروم ہوجائے تو وہ غلطی کرتا ہے بلکہ ایک گونہ مخفی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میںیہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص نے باقی لاکھوں کروڑوں تاثیرات کو جو اسی طرح خدا کی پیدا کردہ ہیں جس طرح کہ ستارے، نظر انداز کرکے صرف اس دنوں والی تاثیر پر اپنا تکیہ کرلیا ہے۔ بلکہ ان اسباب کے پیدا کرنے والے خدا ئے ذوالجلال کو بھی فراموش کرکے صرف ستاروں کو ہی اپنی قضا وقدر کامالک سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہندوئوں کا حال ہوا۔ جو کسی صورت میں اپنے کسی کام کی ابتداء منگل کو نہیں کرتے گویا منگل کے ہاتھ میں کل قضاء قدر کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں جن سے مومن کو پرہیز لازم ہے۔ منگل ہرگز کوئی منحوس دن نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح خدا کی مقدس مخلوق ہے جیسا کہ دوسرے دن ہیں۔ صرف بات یہ ہے کہ اس نے خدا کی قہری اور جلالی صفات سے حصہ پایا ہے۔ جیسا کہ بعض دوسرے دن خدا کی جمالی اور رحیمی صفات کے ظل ہیں ۔ حقیقت یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ ومن اعتدی فقد ظلم
اس روایت کی بحث کو ختم کرنے سے قبل ایک اور شبہ کا ازالہ ضروری ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اور جو بعض دوسرے لوگوںکے دل میں بھی کھٹک سکتا ہے۔ وہ شبہ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:-
’’پھر حضرت مسیح موعود نے جو تحفہ گولڑویہ میں اس دنیا کے زمانہ کو ایک ہفتہ قرار دے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو منگل کا دن قراردیا ہے اور آپ کے جلالی رنگ کو مریخ یعنی منگل کے رنگ میں دکھایا ہے تو یہ کیا سمجھ کر ایسا تحریر کیا ہے۔ کیا حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل دنیا کے لئے باعث رحمت سمجھتے تھے یا نعوذ باللہ باعث نحوست۔ کیا وہ ایک ایسے ستارے کو جسے منحوس سمجھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرسکتے تھے۔ حضرت صاحب کی یہ تحریر فیصلہ کن ہے۔‘‘
اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی ہر اک تحریر خدا کے فضل سے فیصلہ کن ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اس تحریر کے معنی کیا ہیں۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ میں وہی نحوست کے خیالات بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ میری ہر بات کو اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے اور پھر اس فرضی بات پر اعتراضات کا ایک طوما ر کھڑا کردیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں۔ میں نے اپنی کسی تقریرو تحریر میں منحوس یا نحوست یا اس مفہوم کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔ اور نہ میرے ذہن میں کبھی یہ مفہوم آیا ہے میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ ’’حضرت مسیح موعود ؑ دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ اور پھر یہ کہ آپ کا روز وفات جو کہ منگل کا دن تھا وہ دنیا کے واسطے ایک بڑی مصیبت کا دن تھا۔‘‘ جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ منگل کا دن اپنے اندر شدائد اور سختی کی تاثیر رکھتا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود.6ؑ نے بمقابلہ دوسرے دنوں کے اسے اچھا نہیں سمجھا۔ نہ کہ نعوذ باللہ وہ کوئی منحوس دن ہے۔ پس جبکہ بنائے اعتراض ہی غلط اور باطل ہے تو اعتراض خود غلط اور باطل ہوا۔ وہوالمراد
دراصل ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مسیح ابن مریم کی طرح جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اور اسی لئے آپ کی فطرت میں صلح اور آشتی اورامن جوئی اور محبت ونرمی اور عفوودرگزر کی طرف زیادہ میلان ہے اور خدا کی جلالی صفات سے مقابلۃً بہت کم حصہ آپ نے لیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتب میں متعدد جگہ اپنی بعثت کی ان خصوصیات کو بیان فرمایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ میری بعثت جمالی رنگ میں مقدر تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مشتری ستارہ کی تاثیرات کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں مشتری کی جمالی صفات سے حصہ پائوں۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:-
’’ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے۔ جو کوکب ششم من جملہ خُنّس کُنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل ودانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے۔‘‘۲۷؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’اس وقت کے مبعوث پرپر توۂ ستارہ مشتری ہے نہ پرتوۂ مریخ۔‘‘ ۲۸؎
الغرض چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مشتری کی تاثیر کے ماتحت جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے۔ اس لئے طبعاً اور فطرتاً آپ میں جمالی صفات کی طرف زیادہ میلان تھا اور جلالی صفات جو قہر اور عذاب اور شدائد اور سختیوں وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں آپ میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ آپ ان چیزوں کو زیادہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جن کی تاثیرات جمالی رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور جلالی صفات مثل قہروعذاب اور قتل وخونریزی کے لئے کوئی طبعی محبت اپنے اندر نہ پاتے تھے اور یہی اس روایت کامنشاء ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ۔وسلم کی بعثت چونکہ مریخ ستارہ کے ماتحت تھی اس لئے آپ کے اندر خدا کی جلالی صفات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ آپ.6ؐ کو اپنے دشمنوں کے خلاف تلوار سے کام لینا پڑا اور ہر شخص جو قتل وخونریزی اور فساد فی سبیل اللہ کی نیت سے آپ کے خلاف اٹھا۔ خدا نے اسے خود آپ کے ہاتھ سے ہی اپنی جلالی تجلّیات کا نشانہ بنایا۔ مگر اس موقع پر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں ایک وہ جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے ماتحت جلالی صفات کے ساتھ وقوع میں آیا اور دوسرا وہ جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے ماتحت آپ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کے ذریعہ جمالی صفات کے ماتحت واقع ہوا ۔ اور ان دونوں میں آپ ہی کی قوت قدسیہ اور افاضہ روحانی کا ظہور تھا کیونکہ آپ جامع کمالات جمالی وجلالی تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں۔ (۱) ایک بعث محمدیؐ جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے……(۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے اور ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے…… اور چونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلۂ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے۔ اس لئے خدا نے بلاواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسیٰ سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خداتعالیٰ نے ایک بروز (یعنی مسیح موعود) کے آئینہ میں اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلادیا۔‘‘۲۹؎
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم سب قدموں کے اوپر ہے کیونکہ آپ خدا کی جلالی اور جمالی صفات کے ظل کامل ہیں۔ اور باقی کوئی اور فرد بشر اولین اور آخرین میں سے اس مرتبہ کو نہیں پہنچا۔
میرا یہ لکھنا کہ منگل کا دن دوسرے دنوں سے بلحاظ اپنی برکات کے مقابلۃً کم ہے۔ اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ چونکہ وہ خدا کی قہری اور جلالی شان کا ظل ہے اور اس کے سوا باقی دن یاتوجمالی صفات کاظل ہیں یا اگر جلالی بھی ہیں تو منگل سے کم ہیں۔ اس لئے وہ اس جہت سے منگل کی نسبت اپنے افاضۂ برکات میں فائق ہیں کیونکہ خدا کی جمالی صفات اس کی جلالی صفات پر غالب ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ عَذَابِی.6ٓ.6ْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئ.6ُ ج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَی.6ْئٍ۔۳۰؎
یعنی میرا عذاب تو میرے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ جو اپنے اعمال سے اپنے آپ کو اس کا سزاوار بناتا ہے۔لیکن میری رحمت کی صفات سب پر وسیع ہیں۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے کہ
’’ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ ۳۱؎
یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ جن صفات کا غلبہ ہے وہی اپنے افاضۂ برکات میں بھی فائق سمجھی جائیں گی۔
پس ثابت ہوا کہ وہ دن جوان ستاروں کی تاثیرات کے ماتحت آتے ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کی جمالی صفات کا مظہر ہیں اپنے افاضۂ برکات میں دوسرے دوسرے دنوں پر فائق ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ:-
’’اگرچہ جمعہ کا دن (جو بوجہ مشتری ستارے کے زیراثر ہونے کے جو اپنے اندرجمالی تاثیرات رکھتا ہے) سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر اک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ جمالی صفات کو جلالی صفات پر ایک گونہ وسعت اور فوقیت حاصل ہے۔ اور اسی وجہ سے منگل جو خدا کی جلالی صفات کا اثر رکھتا ہے دوسرے دنوں سے اپنے افاضۂ برکات میں مقابلتاً کم ہے۔ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی جلالی اور جمالی ہر دوقسم کی صفات کا مظہر اتم بنایا تھا اس لئے اس کے جلالی بعث کو مریخ کے اثر کے ماتحت رکھا اور آپ کے جمالی بعث کو مشتری کی تاثیر کے ماتحت ظاہر کیا اور یہ وہ مقام عالی ہے جس کی بلندیوں تک کوئی انسان نہیں پہنچا۔ اللھم صل علیہ وعلٰی عبدک المسیح الموعود بارک وسلم۔
منگل والی روایت کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ سائنس کی رو سے بھی ستاروں کی تاثیرات کے متعلق کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کسی بات کا سائنس کی تحقیق میں ابھی تک نہ آیا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بات غلط ہے۔ دراصل دنیا کے علوم میں سے بہت ہی تھوڑا حصہ ہے جو ابھی تک سائنس کی تحقیق میں آیا ہے۔ اور باقی سب میدان ہنوز غیردریافت شدہ حالت میں پڑا ہے۔ اندریں حالات کوئی بات سائنس کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے جب سائنس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت اس کے مخالف پڑتی ہو اور اگر وہ سائنس کی کسی ثابت شدہ حقیقت کے مخالف نہیں ہے۔ تو صرف اس بناء پر کہ ابھی تک وہ سائنس کے احاطۂ تحقیق میں نہیں آئی، قابل اعتراض نہیں سمجھی جاسکتی۔ کون نہیں جانتا کہ سائنس کی تحقیقاتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پس اگر ایک چیز آج اس کے احاطہ تحقیق میں نہیں آئی۔ توکل آجائے گی۔ اور اگر بالفرض وہ کبھی بھی اس کے احاطہ تحقیق میں نہ آئے۔ پھر بھی جب تک کہ اس پر سائنس دان کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیںہے۔ لیکن میں کہتا ہوں گو سائنس کی روسے ابھی تک ستاروں کی اس قسم کی تاثیرات ثابت نہیں ہوئیں۔ لیکن اُصولاً سائنس دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز ہر دوسری چیز پر کچھ نہ کچھ اثر ڈال رہی ہے۔ اور اس اصول کے ماتحت یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی زندگی ستاروں سے متاثر ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نہ صرف یہ کہ سائنس اس عقیدہ کے مخالف نہیں بلکہ اُصولاً اس کی مؤیّد ہے۔ وہوالمراد
ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے اس مضمون میں اس عام معروف خیال کی بناء پر بحث کی ہے کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہیئت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں۔ اور اس میں کوئی ذاتی تحقیق میں نے نہیں کی۔ مگر میرے نزدیک یہ ممکن ہے کہ یہ معروف عقیدہ درست نہ ہو بلکہ اس کے خلاف بعض قرائن بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انگریزوں کے لٹریچر میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے منگل کا دن مریخ کے زیراثر نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش مشتری کے زیراثر تھی اور پھر آپ نے اس سے آگے ہزار ہزار سال کا دن رکھ کر زمانہ کی شمار شروع فرمائی ہے اس کی رُو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ مبارک منگل کے مقابلہ میں نہیں آتا۔ حالانکہ دوسری طرف آپ کی یہ صاف اور واضح تحریر موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت تھی۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منگل اور مریخ ایک نہیں ہیں بہرحال یہ بات مزید تحقیق چاہتی ہے۔ اور میں نے اس امر میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی اور اسی لئے میں نے عام معروف خیال پر جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے اپنے جواب کی بنارکھ دی ہے۔ واللہ اعلم٭
اگلی مثال کی بحث شروع کرنے سے قبل میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مضمون کچھ زیادہ طول پکڑرہا ہے اور گو ابھی تک ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بائیس مثالوں میں سے میں نے صرف ایک مثال کی بحث کو ختم کیا ہے لیکن حجم کے لحاظ سے میرا مضمون ابھی سے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے برابر پہنچ گیا ہے اور گو اعتراض کی نسبت جواب عموماً زیادہ لمبا ہوتا ہے لیکن چونکہ مجھے بھی دوسرے کام ہیں اور ناظرین کے لئے بھی طویل مضامین کے مطالعہ کے واسطے وقت نکالنا آسان نہیں۔ اس لئے میں انشاء اللہ آیندہ اپنے جوابات میں حتی الوسع اختصار سے کام لوں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بہت سی لاتعلق باتوں کو داخل کردیا ہے اور کئی جگہ میرے مفہوم کو بری طرح بگاڑکر خواہ مخواہ اعتراض کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے۔ واِلاّاگر وہ صرف معقول علمی تنقید تک اپنے آپ کو محدود رکھتے تو ایک تو بحث میں کوئی بدمزگی نہ پیدا ہوتی اور دوسرے یہ فائدہ ہوتا کہ اعتراضات وجوابات اس قدر طول نہ پکڑتے۔ اور لوگ جلد اور آسانی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ تک پہنچ جاتے۔ مگر میں ایک حد تک ڈاکٹر صاحب کو مجبور سمجھتا ہوں کیونکہ دراصل مخالفت کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عدل وانصاف کے مقام سے متزلزل نہ ہونے دینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور بڑے مجاہدہ کو
٭:مطبوعہ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۲۶ء
چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہیئے تھا کہ اس بات کو یاد رکھتے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’لا یجر منّکم شنان قوم علیٰ ان لاتعدلوا اعدلوا ھوا قرب للتقویٰ۔
یعنی کسی کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو۔ تمہیں چاہیئے کہ بہرحال عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔ کیونکہ یہی تقویٰ کا مقام ہے‘‘
میں نے یہ الفاظ نیک نیتی اور ہمدردی کے خیال سے عرض کئے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس معاملہ میں بدظنی سے کام نہیں لیں گے۔
دوسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ حضرت والدہ صاحبہ کی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ کوئی انگریز مولوی محمد علی صاحب سے دریافت کرتا تھا کہ جس طرح بڑے لوگ جنہوں نے کسی بڑے کام کی بنیاد رکھی ہوئی ہو اپنے بعد اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں کیا اس طرح مرزا صاحب نے بھی کیا ہے اور اس کے بعد آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں حضرت والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھتے ہیں کریں اس روایت کو لے کر جس بے دردی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔ میں نے ہم کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ اس حملہ کا نشانہ صرف خاکسار ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ فرماتے ہیں:-
’’کیا واقعی اگر حضرت بیوی صاحبہ فرمادیتیں تو وہ میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین مقرر کردیتے؟…… یہ بہتر ہوا کہ حضرت بیوی صاحبہ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ ورنہ مفت میں خفت اٹھانی پڑتی‘‘
اور پھر اس فرضی بات کے اوپر جو محض ڈاکٹر صاحب کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے ایک طومار اعتراضات کا کھڑا کردیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کہ اگر بیوی صاحبہ یہ جواب دے دیتیں کہ ہاں میاں محمود احمد صاحب کو جانشین بنادو تو پھر کیا ہوتا۔ جو بات وقوع میں ہی نہیں آئی اس کے متعلق میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں؟ ڈاکٹر صاحب کے دماغ کو تو خیر بغض۔وعداوت کے بخارات نے گھیرا ہوا ہے اس لئے وہ مجبوری کا عذر رکھتے ہیں لیکن میں اگر ہوش وحواس رکھتے ہوئے ان فرضی باتوں میں پڑجائوں تو مجھے دنیا کیا کہے گی اور خدا کے سامنے میرا کیا جواب ہوگا؟ اگر مجھے دیوانہ پن کی باتوں سے پرہیز نہ ہوتا تو میں یہ عرض کرتا کہ اگر بالفرض حضرت والدہ صاحبہ وہی جواب دے دیتیں جس کا فرضی خیال بھی ڈاکٹر صاحب کو بے چین کررہا ہے تو پھر غالباً ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ ایک لاعلاج اضطراب کا شکار ہوجاتے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو خاموشی اختیار کرنے سے دوسرے نمبر پر اس جواب کے سوا اور کوئی جواب ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا میرے ذہن میں نہیں آتا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور جو جواب خدانے حضرت والدہ صاحبہ کے دل میں الہام کیا، اس کاا نہوں نے اظہار کردیا۔ اب آپ اور آپ کے رفقاء قیامت تک اپنا سر پیٹیں وہ جو اب بدل نہیں سکتا۔ پس اب اس بغض وعداوت کی آگ میں جلنے سے کیا حاصل ہے؟ بہتر یہی ہے کہ دل سے غصہ نکال دیں اور عقل وخردسے صلح کرلیں۔ اور آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ:-
’’حضرت صاحب نے میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین بنانا مناسب نہیں سمجھا، نہ بنایا بلکہ انجمن کا پریزیڈنٹ بھی نہیں بنایا۔ گویا کسی ذمہ داری کے عہدہ کا اہل نہیں سمجھا۔ ورنہ اگر وہ اپنا جانشین بنانا چاہتے تو کم سے کم پریذیڈنٹ تو بنادیتے …… آپ نے تو میاں صاحب کو انجمن کے کسی ذمہ دار عہدہ کے لائق بھی نہ سمجھا۔ جانشین بنا نا تو بہت دور رہا۔‘‘
یہ سراسر آپ کی خوش فہمی ہے۔ روایت میں یہ کہاں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا صاحب کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر بعد میں اپنی رائے بدل لی۔ وہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے ایک بات دریافت کی تھی۔ اگر میں نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہوتا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ حضرت میاں صاحب کو اپنا جانشین مقرر کرجائیں تو پھر آپ یہ اعتراض کرتے ہوئے بھی بھلے لگتے لیکن خواہ نخواہ اپنی طرف سے ایک بات فرض کرکے اس پر اعتراض جمادینا دیانت داری سے بعید ہے۔ باقی رہا حضرت میاں صاحب کی لیاقت کا سوال سو اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ خدا کے فضل سے حضرت میاں صاحب کوئی غیرمعروف آدمی نہیں ہیں۔ ان کی زندگی کے حالات اور ان کی قابلیت دنیا کے سامنے ہے۔ اور ہر عقلمند انسان جسے تعصّب نے اندھا نہیں کررکھا اپنے طور پر فیصلہ کرسکتا ہے۔ کہ وہ کس دل ودماغ کے مالک ہیں۔ ہاں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر ضرورپہنچا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر صاحب کا دماغ ان تاریک بخارات سے صاف نہ ہو جو بغض، حسد اور کینہ وعداوت کی آگ سے اٹھتے ہیںوہ اس بات کے بھی اہل نہیں ہیں کہ حضرت میاں صاحب کی خداداد اہلیت اور قابلیت کو سمجھ تک سکیں۔ چہ جائیکہ اس کی گہرائیوں تک ان کو رسائی حاصل ہو۔ یہ بات میں نے خوش عقیدگی کے مبالغہ آمیز طریق پر نہیں کہی۔ بلکہ علیٰ وجہ البصیرت اس پر قائم ہوں اور جو بھی معقول طریق اس کے امتحان کا مقرر کیا جاسکے اس کے لئے تیار ہوں۔ باقی رہی انجمن کی عہدہ داری سو شائد اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہوگا کہ چونکہ ان کے داماد جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے انجمن کے سیکرٹری رہے تھے۔ اس لئے نیم خلافت ان کی تسلیم کی جانی چاہیئے۔ اور اس نعمت عظمیٰ سے حضرت میاں صاحب محروم کلّی ہیں! افسوس ہے کہ جب انسان تعصّب کا شکارہوتا ہے تو اس کی بصیرت پر پردہ پڑجاتا ہے بھلا حضرت کی جانشینی اور انجمن کی عہدہ داری کے درمیان کون سا طبعی رشتہ ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کوئی رشتہ ہے تو میں بادب یہ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ حضرت صاحب کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خلیفہ ہونا تھا اس لئے حضرت صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پریذیڈنٹ مقرر فرمایا۔ اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے بعد خدا کے علم میں حضرت میاں صاحب کی خلافت تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب نے اپنی جگہ حضرت میاں صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا اور اگر اس استدلال کو اور آگے چلایا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ مولوی محمد علی صاحب نے کبھی بھی خلیفہ نہیں بننا تھا اس لئے وہ ہرزمانہ میں صدرانجمن کی صدارت سے محروم رہے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کے اصول کے مطابق حضرت صاحب کے زمانہ میں ان کے سیکرٹری بننے نے ہمیشہ کے لئے اس بات کا فیصلہ کردیا کہ وہ صرف ایک ماتحت عہدہ پر کارکن رہ سکنے کے اہل ہیں، کسی سلسلہ انتظام کی انتہائی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی وغیرہ ذالک۔ مکرم ڈاکٹر صاحب آپ ان منہ کی پھونکوں سے قلعہ خلافت کی دیواروں میں رخنہ پیدا نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ مفت میں اپنی خفّت کروائیں۔ آپ نے بڑے ظلم اور دل آزاری کے طریق سے کام لیا ہے، اور گو میں آپ کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتاہوں مگر مجھے خدا کا خوف ہے اور میں اپنے اخلاق کو بھی بگاڑنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی جو میں نے بعض جگہ کسی قدر بلند آواز اختیار کی ہے یہ محض نیک نیتی سے آپ کے بیدار کرنے کی غرض سے کی ہے ورنہ میرا خدا جانتا ہے کہ میرا سینہ اب بھی آپ کے لئے سوائے ہمدردی کے جذبات کے اور کوئی جذبات اپنے اندر نہیں رکھتا۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کو اگر اس معاملہ میں انسانی مشورہ کی ضرورت تھی تو بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرسکتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں کی کوئی فہرست نہیں دی۔ غالباً اس فہرست میں اول نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا نام نامی ہوگا۔ اور پھر ان کے ہم مشرب رفقاء کے اسماء گرامی ہوں گے کیونکہ جب تک یہ بزرگان ملت کسی مشورہ میں شریک نہ کئے جائیں اس وقت تک بھلا مشورہ کا مفہوم کب پورا ہوتا ہے! کہنے کی بات نہیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک گروہ ہر بات میں مشورہ کے لئے اپنے آپ کو آگے کردیتا تھا اور اگر ان سے مشورہ نہ لیا جاتا تھا یا ان کا مشورہ قبول نہ کیا جاتا تھا تو ان کے تیور بدلنے شروع ہوجاتے تھے کہ اہل الرائے تو ہم ہیں اور مشورہ نعوذباللہ بے وقوف اور جاہل لوگوں کا مانا جاتا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اگر حضرت صاحب کی یہ بات مشورہ کے طور پر ہی تھی تو پھر بھی آپ کو حسد میں جلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت صاحب خدا کی طرف سے مامور تھے انہوں نے جس سے چاہا مشورہ لیا اور جس سے چاہا نہ لیا۔ حدیث کھول کر دیکھئے کیا کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے مشورہ نہ لیتے تھے؟ کیا صلح حدیبیہ کے وقت آپ نے ایک بڑے اہم امرمیں سارے اہل الرائے صحابہ کو چھوڑ کر صرف اپنی بیوی ام سلمہ سے مشورہ نہیں لیا؟ اور کیا ام سلمہ کے اس مشورہ سے آئمہ حدیث نے عورتوں سے اہم امور میں مشورہ لینے کا جواز نہیں نکالا۔ اور کیا امام قسطلانی نے اس مشورہ کے متعلق یہ نوٹ نہیں لکھا کہ فیہ فضیلۃ ام سلمۃ ووفور عقلھا۔ یعنی اس واقعہ سے امّ سلمہ.6ؓ کی فضیلت اور کمال دانشمندی ثابت ہوتی ہے۔ پھر کیا آپ نے اپنی بیوی عائشہؓ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم نصف دین اس سے سیکھو۳۲؎۔ گویا نہ صرف خود اپنی بیویوں سے مشورہ لیا بلکہ امّت کو بھی حکم دیا کہ ان سے مشورہ لیا کرو۔ اندریں حالات اگر حضرت صاحب نے اپنی بیوی سے کسی امر میں مشورہ لے لیا تو حرج کون سا ہوگیا۔ اور وہ کون سا شرعی حکم ہے جس کی نافرمانی وقوع میں آئی؟ کیا نبی کی بیوی جو دن رات اس کی صحبت اور تربیت سے مستفید ہوتی ہے اور نبی کے بعد خدائی نشانات کی گویا سب سے بڑی شاہد ہے مشورہ کی بالکل نااہل سمجھی جانی چاہیئے۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشرب رفقاء بڑے بڑے اہل الرائے جن کے مشورہ کے بغیر کوئی قومی کام سرانجام نہیں پاسکتا؟ اگر یہی تھا تو نعوذ باللہ خدا نے سخت غلطی کھائی کہ حضرت صاحب کو بار بار یہ الہام فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ۳۳؎ ۔ یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوستوں کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ میں واقعی حیران ہوں کہ آخر کس بنا پر ڈاکٹر صاحب نے یہ خیال قائم کیا ہے کہ نبی کی بیوی اہم امور میں مشورہ کی اہل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے تھے اور پھر صحابہ کبار بڑے بڑے مسائل میں اپنی بیویوں سے مشورہ پوچھتے تھے۔ اور ان میں سے بعض کی قوت استدلال واستخراج کا خصوصیت کے ساتھ لوہا مانتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ کان اکابر الصحابۃ یرجعون الیٰ قولھا ویستفتونھا ۳۴؎ یعنی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کے قول کی طرف رجوع کرتے اور ان سے فتویٰ پوچھتے تھے۔ دراصل حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ کسی نبی کی بیوی کو خصوصیت کے ساتھ بلید اور ایک موٹی سمجھ کی عورت سمجھا جائے بالعموم اس کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کی لمبی صحبت اور ہر وقت کی تربیت نے اس میں وہ اہلیت پیدا کردی ہوگی جو بہت سے دوسرے لوگوں میں نہیں پائی جاتی۔ اور اس لئے وہ اس بات کی اہل مانی جائے گی کہ مشورہ طلب امور میں اس کی رائے پوچھی جائے۔ باقی ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ:-
’’اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامورمن اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعدجماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑا دینے کو تیار تھا حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ یا تو پرلے درجہ کی جہالت اور یا پرلے درجہ کی بے انصافی اور سینہ زوری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شروع سے ہی یہ افسوس ناک عادت رہی ہے کہ ایک بات اپنی طرف سے فرض کرتے ہیں اور پھر اس پر بڑے فخریہ لہجے میں اعتراض جمانا شروع کردیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ میں نے یہ کب لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ گویا دوزانو ہوکر حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے بیٹھ گئے تھے؟ کہ جو کہو میں اس پر عمل کروں گا۔ اور ہرگز’’ استعداد اور قابلیت پر غور نہیں کروں گا۔ ‘‘ اور’’نہ کچھ سوچوں گا اور نہ سمجھوں گا‘‘بس جس طرح تم اس معاملہ میں مجھے کہوگی اسی طرح کردوں گا۔ بلکہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ ’’صرف ایک اشارہ کافی ہے۔‘‘ اور میں تعمیل کے لئے حاضر ہوں اور ’’جس شخص کے متعلق کہو اس کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ ڈوری دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ اگر میں نے یہ الفاظ یا اس مفہوم کے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے قریب کی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے دور کی بھی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ کہے یا لکھے ہوں تو میں مجرم ہوں اور اپنے اس جرم کی ہر جائز سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اگر میں نے یہ الفاظ نہیں کہے اور میرا خدا گواہ ہے کہ یہ الفاظ کہنا تودرکنار ان الفاظ کا مفہوم تک بھی میرے دل ودماغ کے کسی دوردراز کونے میں پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ کسی عقلمند کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے۔ توڈاکٹر صاحب اس خدا سے ڈریں جس کے سامنے وہ ایک دن کھڑے کئے جائیں گے۔ اور اپنی ان دل آزار شوخیوں کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ وہ کسی حساب میں نہیں۔ خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور نہ اس کے حساب سے کوئی چیز باہرہے۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔۳۵؎٭
بات نہایت صاف اور معمولی تھی کہ حضرت صاحب نے کسی انگریز کے سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پوچھتا تھاکہ جس طرح وہ لوگ جنہوں نے بڑے کاموں کی بنیاد ڈالی ہوتی ہے اپنے بعد اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر کرجاتے ہیں۔ کیا اس طرح میں نے بھی کوئی اپنا قائمقام مقرر کیا ہے اور پھر یہ ذکر کرنے کے بعد آپ نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کردوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں کریں۔ اب اس بات پر یہ شور وپکار پیدا کرنا کہ لیجیئودوڑیو اندھیر ہوگیا سارے سلسلہ کا انتظام بیوی کے ہاتھ میں دیا جارہا ہے اور قطعاً کوئی اہلیت اورقابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کے معاندانہ تخیل کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قطعاً غور سے کام نہیں لیا۔ اور خوامخواہ اعتراض پیدا کرنے کی راہ اختیار کی ہے۔
اولؔ تو روایت کے اندر کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ بات مشورہ حاصل کرنے کے لئے کی تھی۔ بسااوقات ہم دوسرے سے ایک بات پوچھتے ہیں اور اس میں قطعاً مشورہ لینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس طرح گفتگو کا سلسلہ جاری کرکے خود اپنے کسی خیال کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور یا محض دوسرے کا خیال معلوم کرنے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے۔ یعنی صرف دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کیا خیال رکھتا ہے اور یا بعض اوقات جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے دوسرے کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملہ میں درست رائے رکھتا ہے یا نہیں تاکہ اگر اس کی رائے میں کوئی خامی یا نقص ہو تو اس کی اصلاح کردی جائے۔ اور ان تینوں صورتوں میںسے ہر اک صورت یہاں چسپاں ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء ہو کہ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع کرکے اشارۃً اپنے خیال کا اظہار فرمائیں کہ میری رائے میں محمود میرا جانشین ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے سوال سے محض حضرت والدہ صاحبہ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں اور بس۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو حضرت والدہ صاحبہ کی تعلیم مقصود ہو۔ یعنی یہ ارادہ ہو کہ اگر ان کی طرف سے کسی غلط رائے کا اظہار ہو تو آپ اس کی اصلاح فرمائیں اور اس حقیقت کو ظاہر فرمائیں۔ کہ خلافت کے سوال کو کلیۃً خدا پر چھوڑ دینا چاہیئے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔ اور تعجب ہے کہ
٭:مطبوعہ الفضل ۳۱ اگست ۱۹۲۶ء
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اس تیسری صورت کو تسلیم کرنے کے باوجود پھر نہایت بے دردی کے ساتھ دوسری فرضی باتوں کو درمیان میں لاکر دل آزار جرح کا طریق اختیار کیا ہے اور محض بلاوجہ انجمن اور خلافت کا جھگڑا شروع کردیا ہے۔ اور بزعم خود حضرت میاں صاحب کی ناقابلیت کو اعتراض کا نشانہ بناکر اپنے قلب سوزاں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا پر معاملہ چھوڑنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فلاں شخص خلیفہ نہ بنے بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تعیین کا اظہار نہیں کرتے بلکہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جسے پسند کرے گا اس کی طرف اپنے تصرف خاص سے لوگوں کے قلوب خود بخود پھیردے گا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں متعدد مرتبہ اشارات کرنے کے پھر بالآخر معاملہ خدا پر چھوڑدیا اور صراحتہً یہ حکم نہیں فرمایا کہ ابوبکر میرے بعدخلیفہ ہوگا۔ لیکن خدا کے تصرف خاص نے آپ کے بعد ابوبکر کو ہی خلیفہ بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات پورے ہوئے ۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ اس قسم کے اشارات دینے کے باوجود کہ آپ کے بعد معاً یا کچھ وقفہ سے حضرت میاں صاحب کی خلافت ہوگی۔ پھر معاملہ خدا پر ہی چھوڑا اور خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق اپنے وقت پر حضرت میاں صاحب کی خلافت کو قائم کیا۔
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سوال حضرت والدہ صاحبہ سے کیا اس سے مراد حضرت والدہ صاحبہ کا امتحان تھا تو اس صورت میں بھی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے سمجھا ہے اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت میاں صاحب کی خلافت نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر کوئی منشاء ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ اس معاملہ کو خدا کے تصرف پر چھوڑنا چاہیئے اور اپنے حکم کے ذریعہ سے اس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ اور دراصل خدا پر چھوڑنے میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور وہ کام جو خدا کا منشاء ہوتا ہے وہ خود لوگوں کی رائے سے تصضیہ پاجائے۔ چنانچہ ایسے موقع پر خدا تعالیٰ لوگوں کے قلوب پر ایسا تصرف کرتا ہے کہ وہ اسی شخص کے حق میں رائے دیتے ہیں جو خدا کی نظر میں اس کا اہل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ گو بظاہر صورت لوگ خلیفہ کاانتخاب کرتے ہیں لیکن اس انتخاب کے وقت لوگوں کے قلوب خدا کے خاص تصرف کے ماتحت کام کررہے ہوتے ہیں۔ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے بھی خلفاء راشدین ہوئے ہیں ان سب کی خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش از وقت علم تھا۔ چنانچہ آپ کے اقوال میں صریح طور پر اس قسم کے اشارات موجود ہیں لیکن بایں ہمہ آپ نے اپنے حکم کے ذریعہ سے کسی کی خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ خدا پر اس معاملہ کو چھوڑ دیا۔ اور پھر خدا نے اپنے تصرف خاص سے ایسا انتظام فرمایا کہ لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ سے وہی لوگ مسند خلافت پر قائم ہوتے گئے جن کی کہ پیش از وقت اس نے اپنے رسول کو خبر دی تھی۔
پس خدا پر چھوڑنے کے یہی معنی ہیں کہ ہونا تو وہی ہے جو خدا کا منشاء ہے اور جس کی عموماً پیش ازوقت اس نے اپنے رسول کو خبردے دی ہوتی ہے۔ لیکن جس طرح خدا کے ہر امر میں ایک اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس معاملہ میں یہ اخفاء کا پردہ رکھا جاتا ہے کہ خدا خود پس پردہ رہ کر لوگوں کی رائے کے ذریعہ سے اپنے ارادہ کو پورا فرماتا ہے۔ اور یہی وہ خلافت کا راز ہے جسے ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں نے نہیں سمجھا اور فتنے کی رو میں بہہ گئے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر وہ گفتگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے والدہ صاحبہ کے ساتھ فرمائی اس سے مشورہ حاصل کرنا مقصود نہ تھا تو اس کی تین غرضیں عقلاً مانی جاسکتی ہیں۔
اولؔ یہ کہ حضرت صاحب کا یہ منشاء تھا کہ سلسلہ کلام شروع کرکے اپنے خیال کا اظہار فرمادیں جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارات فرمائے۔
دوسرےؔ یہ کہ آپ نے یہ گفتگو محض اس اردے سے کی تھی کہ والدہ صاحبہ کا خیال معلوم کریں کہ کیا ہے کیونکہ بعض اوقات محض دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک بات پوچھی جاتی ہے
اورتیسرےؔ یہ کہ آپ نے والدہ صاحبہ کے امتحان اور تعلیم کے لئے ایسا کیا تھا۔ تاکہ اگر وہ آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہیں کہ ہاں محمود کو مقرر کردیں توآپ ان کو اس حقیقت سے مطلع فرمائیں کہ گو واقعہ کے لحاظ سے محمود نے ہی اپنے وقت پر آپ کا خلیفہ بننا ہو۔ لیکن عام سنت اللہ کے مطابق اس سوال کو خدا کے تصرف پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ خود لوگوںکے انتخاب کے ذریعہ سے اپنے ارادے کو پورا فرمائے۔ مگر چونکہ حضرت والدہ صاحبہ کے جواب سے آپ سمجھ گئے کہ وہ اس نکتہ سے آگاہ ہیں اور جانتی ہیں کہ آپ نے وہی کرنا ہے جو خدا کا منشاء اور اس کی سنت ہے۔ اس لئے آپ مطمئن ہوکر خاموش ہوگئے۔ یہ تینوں صورتیں بالکل معقول اور حالات کے عین مطابق اور روایت کے اندرونی سیاق وسباق سے پوری موافقت رکھنے والی ہیں اور ان کو ترک کرکے ڈاکٹر صاحب کا دوسری فرضی باتوں میں پڑ جانا جن کو روایت کا سیاق وسباق اور دیگر حالات ہرگز برداشت نہیں کرتے صرف ڈاکٹر صاحب کی اس دلی مہربانی کا ایک کرشمہ ہے جو وہ ہمارے حال پر رکھتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسرا پہلو ا س روایت کا یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ گفتگو فرمائی تواس سے آپ کی غرض مشورہ طلب کرنا تھی یعنی آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت والدہ صاحبہ سے مشورہ حاصل کریں کہ اس معاملہ میں کیا کرنا مناسب ہے۔ سو اس صورت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گوروایت کے الفاظ اور دیگر حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی غرض کوئی باقاعدہ مشورہ حاصل کرنا نہ تھی لیکن اس بات کو امکانی طور پر تسلیم کرتے ہوئے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت صاحب نے مشورہ کے طریق پر ہی یہ گفتگو فرمائی ہو پھر بھی ہرگز اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اور ڈاکٹر صاحب کا یہ سراسر ظلم ہے کہ انہوں نے مشورہ کی حقیقت اور اس کی غرض وغایت کو سمجھنے کے بغیر یونہی ایک اعتراض جمادیا ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر صاحب کی یہ ایک سخت غلطی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مشورہ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ بہرصورت قبول کیا جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس مشورہ کے مطابق عملدرآمد کرے۔ یہ وہ خطرناک غلطی ہے جو ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کی اصل بنیاد ہے حالانکہ ہر وہ شخص جو قوانین تمدّن اور فن سیاسیات سے آشنا ہے بلکہ ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت غور وفکر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال سراسر غلط اور بودا ہے۔ مشورہ لینے والے کے لئے ہرگز ہرگز یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بہر صورت مشورہ کو قبول ہی کرے۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’شَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْر.6ِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ۔۳۶؎
یعنی اے نبی لوگوں کے ساتھ مشورہ کرلیا کرو۔ اور جب مشورہ کے بعد کسی بات پر عزم کرلو تو پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘
اس آیت میں یہ صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مشورہ کی پابندی ضروری نہیں اور مشورہ کے بعد مشورہ لینے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بات کے متعلق اسے اطمینان اور شرح صدر پیدا ہو اس پر قائم ہوجائے۔ سیاسیات میں بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی افسران کے ساتھ مشورہ دینے والی مجلسیں ہوتی ہیں۔لیکن ان افسروں کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر مفاد ملکی کے ماتحت ضروری خیال کریں تو اپنی ذمہ داری پر ان کے مشورہ کو ردّ کردیں۔ تمدنیات میں بھی دوست دوست بھائی بھائی باپ بیٹے خاوند بیوی وغیرہ کے باہم مشورہ ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن مشورہ لینے والا کبھی اس بات کا پابند نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بہرصورت مشورہ کو قبول کرے۔ بلکہ مشورہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف دماغوں کے غور وفکر کے نتیجہ میں بات کے تمام پہلو واضح ہوجائیں۔اور کسی امر کے حصول کے لئے جو مختلف تجاویز اختیار کی جاسکتی ہوں وہ سب سامنے آکر اس بات کے فیصلہ کا موقع ملے کہ ان میں سے کونسی تجویز اختیار کئے جانے کے قابل ہے۔ ایک اکیلا آدمی جب کسی بات کے متعلق سوچتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو بعض اوقات بات کا کوئی نہ کوئی پہلو اس کی نظر سے مخفی رہ جاتا ہے لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو مشورہ میں شریک کرتا ہے تو خواہ وہ لوگ اس سے لیاقت میں کم ہی کیوں نہ ہوں باہم مشورہ سے بات کے کئی مخفی پہلو سامنے آجاتے ہیں اور کئی باتیں جو اس کے ذہن میں نہیں آئی ہوتیں دوسروں کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اور اس طرح مشورہ لینے والے کو مختلف تجویزوں اور مختلف پہلوئوں کے درمیان ٹھنڈے دل سے موازنہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس مشورہ اس غرض کے لئے نہیں ہوتا کہ مشورہ لینے والا دوسروں کے ہاتھ میں اپنے معاملہ کو دے دیتا ہے کہ اب جس طرح کہو اسی طرح میں عمل کروں۔ بلکہ مشورہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ مختلف دماغوں کے کام میں لگنے سے معاملہ زیر غور کے متعلق حسن وقبح کے مختلف پہلو سامنے آجائیں اور پھر مشورہ لینے والا آسانی کے ساتھ موازنہ کرکے کسی ایک رائے پر قائم ہوسکے۔
مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کی طرف قدم بڑھادیا ہے میری روایت کو کھول کر دیکھا جائے۔ اس میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت والدہ صاحبہ سے یہ دریافت کیا تھا کہ تمہارا اس معاملہ میںکیا خیال ہے اور بس۔ اب اس سے ڈاکٹر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے گویا خلافت کا سارا معاملہ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا صاف یہ ظاہر کررہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مشورہ لینے کے یہ معنی ہیں کہ مشورہ لینے والا مشورہ کا پابند ہوجاتا ہے واِلاّ اگر ان کا ایسا خیال نہ ہوتا تو وہ محض مشورہ طلب کرنے کا ذکر پڑھنے پر یہ واویلا نہ شروع کردیتے کہ دیکھو بیوی کے ہاتھ میں خلافت کا معاملہ دے دیا گیا ہے۔ خوب غور کرلو کہ محض مشورہ مانگنے کا ذکر پڑھنے پر ڈاکٹر صاحب کا یہ آہ وپکار کرنا کہ:-
’’ اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامور من اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعد جماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑادینے کو تیار تھا۔ حضرت صاحب کی شان پر خطرناک حملہ ہے۔‘‘
یہ صاف ظاہر کررہا ہے کہ یا تو ان الفاظ کا لکھنے والا مشورہ کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہے اور یا ہماری عداوت میں اس کا دل ایسا سیاہ ہوچکا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ محض ایک غلط نتیجہ نکال کر اور میری طرف وہ بات منسوب کرکے جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی خلق خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ گفتگو مشورہ کی غرض سے ہی تھی تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ آپ نے اپنے ایک دلی مونس اور رفیق دیرینہ کی رائے معلوم کرنی چاہی تھی۔ تا کہ اگر وہ مفید ہو اور قابل قبول ہو تو آپ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ نہ یہ کہ آپ کا یہ منشاء تھا کہ بس جو کچھ بھی حضرت ام المومنین کے منہ سے نکلے اس کے آپ پابندہوجائیں گے اور اپنے فکروغور سے ہرگز کوئی کام نہیں لیں گے اور نہ ہی دعا او راستخارہ سے خدائے علیم وقدیر سے استعانت فرمائیںگے۔ یہ محض ایک جہالت کا استدلال ہے جس کی نہ معلوم ڈاکٹر صاحب کے دل ودماغ نے انہیں کس طرح اجازت دی ہے۔ اگر یہ مشورہ ہی تھا تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشورہ کے تمام لوازمات کو پورا فرمایا ہوگا۔ یعنی جہاں ایک طرف آپ نے مشورہ کیا تھا وہاں ساتھ ہی اپنے غور وفکر سے بھی کام لیا ہوگا۔ دعائیں بھی فرمائی ہوں گی اور استخارے بھی کئے ہوں گے۔ اور پھر وہی کیا ہوگا جس پر بالآخر آپ کو شرح صدر حاصل ہوا ہوگا۔ یعنی یہ کہ خلافت کے معاملہ کو خدا پر چھوڑدیا جائے۔ تاکہ وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق خود اپنے تصرّف خاص سے لوگوں کے قلوب کو اس شخص کی طرف پھیردے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر سوائے چند اشخاص کے ساری جماعت جمع ہوگئی۔ اور پھر ان کے بعد حضرت میاں صاحب کو خدا نے اس مقام کے لئے منتخب فرمایا اور جماعت کے قلوب کو ان کی طرف جھکا دیا اور سوائے ایک قلیل گروہ کے سب نے ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا۔ اور ہزاروں نے رؤیا اور کشوف اور الہام کے ذریعہ تحریک پاکر بیعت کی۔
الغرض خواہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کو مشورہ کے رنگ میں سمجھا جائے اور خواہ دوسرے رنگ میں خیال کیا جائے ہرگز کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اور مجھے سخت حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ضمیر نے کس طرح یہ اجازت دے دی کہ ایک صاف اور سادہ بات کو بگاڑ کر ایک ایسا نتیجہ نکالیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا اور کوئی عقل مند آدمی جس کی آنکھوں پر تعصّب اور عداوت کی پٹی بندھی ہوئی نہ ہو ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا۔ جو میں نے لکھے تھے۔ اور اس موقع پر میں اس افسوس کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس اعتراض میں حضرت والدہ صاحبہ کے ادب واحترام کو بھی کماحقہٗ ملحوظ نہیں رکھا۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ جس لب ولہجہ میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کیا ہے اس لب ولہجہ میں وہ کبھی اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
اس صورت میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حرم کا جسے خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اُم المومنین کے مقدس نام سے یاد کیا ہے، اس قدر احترام۔وادب نہ ہو جیسا کہ ان کو اپنی والدہ کا ہے۔ میں اس امر کے متعلق زیادہ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ ڈرتا ہوں کہ میرے متعلق ذاتیات کا الزام نہ قائم کردیا جائے مگر مجھے اس کا افسوس ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر غیرت مند احمدی کو اس کا افسوس ہونا چاہیئے۔٭
تیسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی سے پیش فرمائی ہے، وہ مولوی شیر علی صاحب کی ایک روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ چند لوگ جن میں خود مولوی صاحب بھی تھے اور غالباً مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے آپ کے مکان کے اندر گئے۔ اس وقت آپ نے چند خربوزے انہیں کھانے کے لئے دیئے۔اتفاق سے جو خربوزہ مولوی شیر علی صاحب کو دیا وہ بڑا اور موٹا تھا آپ نے یہ خربوزہ مولوی صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں یہ کیسا ہے پھر خود مسکراتے ہوئے فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ خربوزہ بھی پھیکا ہی ہوگا۔ چنانچہ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ خربوزہ پھیکا ہی نکلا۔
اس روایت کو نقل کرکے ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ایک عجیب خود ساختہ نتیجہ نکال کر بڑے فخریہ طور پر یہ اعتراض جمایا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’اس روایت میں خواجہ کمال الدین صاحب پرزدکرنی مقصود تھی۔ وہ موٹے تھے۔ اس لئے حضرت صاحب کی زبان سے ایک قاعدہ گھڑوایا گیا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ خواجہ صاحب منافق ہیں۔‘‘
میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں نے یہ روایت خواجہ صاحب پر زد کرنے کی غرض سے گھڑ کر بیان کی ہو تو میں اس *** سے بچ نہیں سکتا جو خدا کے ایک مامور ومرسل پر افترا باندھنے والے پر پڑتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی خدائے غیّور کے
٭:مطبوعہ الفضل ۳ ستمبر۱۹۲۶ء
سامنے ہیں۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ اس اعتراض میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے انتہائی بغض وعداوت سے کام لے کر مجھ پر یہ خطرناک الزام لگایا ہے کہ خواجہ صاحب پر زد لگانے کی نیت سے میں نے یہ روایت خود اپنی طرف سے گھڑکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کردی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے ظلم کی انتہا ہے مگر میں کچھ نہیں کہتا۔ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللَّہِ۳۷؎ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے لگادینے پر ہی بس نہیں کی بلکہ حسب عادت تمسخر اور استہزاء سے بھی کام لیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:-
’’جامع الروایات کو فکر پڑی کہ وہ خود بدولت بھی ایک حد تک موٹے ہیں۔ اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی موٹے تھے۔ میر ناصرنواب مرحوم موٹے تھے ایک زمانہ تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم موٹے تھے۔ میر محمد اسحاق موٹے۔ حافظ روشن علی موٹے۔ خود مولوی شیر علی راوی موٹے۔ اجی موٹوں کی تو ایک فہرست ہے جو گننے لگوں توخواہ نخواہ وقت ضائع ہو۔‘‘
مکرم ڈاکٹر صاحب وقت کی آپ فکر نہ فرمائیں آپ کا وقت ماشاء اللہ انہی باتوں کے لئے وقف ہے۔ اپنی طبیعت کے ان فطری بخارات کو ایک دفعہ دل کھول کر نکل جانے دیں۔ ورنہ یہ مادہ اگر یہاں دب گیا تو کہیں اور جا پھوٹے گا۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیںغلطی سے آپ کسی اپنے جیسے کو مخاطب کربیٹھے تو پھر خیر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اعتراض تو یہ ہے کہ میں نے یا مولوی شیر علی صاحب نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑلی ہے تاکہ خواجہ صاحب کو منافق ثابت کیا جائے۔ اس کا ایک جواب تو دے دیا گیا ہے۔ کہ اگر ہم نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑی ہے تو *** اللّٰہ علیٰ من افتریٰاور خواجہ صاحب کو منافق ثابت کرنے کے متعلق یہ جواب ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میری نیت ہرگز یہ نہ تھی کہ خواجہ صاحب یا کسی اور صاحب پر زد کی جائے۔ واللّٰہ علیٰ اقول شھید اور جب کہ خود ڈاکٹر صاحب بڑی مہربانی سے مجھے یہ بات یاددلاتے ہیں کہ میں خود ایک حدتک موٹاہوں تو پھر کون عقل مندیہ خیال کرسکتا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میرے دل میں کوئی ایسی نیت ہوسکتی ہے جو خود میرے ہی خلاف پڑتی ہو۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میرے دل میں خواجہ صاحب کی اس قدر عداوت بھری ہوئی ہے کہ میں ان کو منافق ثابت کرنے کے لئے خود اپنے ایمان پر بھی تبر رکھ سکتاہوں۔ میں نے تو صاف لکھ دیا تھا کہ درایتًہ حضرت صاحب کے اس قول سے یہ مراد نہیں ہوسکتا کہ موٹاپا اور منافقت لازم وملزوم ہیں۔ بلکہ مطلب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آرام طلبی وتعیش کے نتیجے میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو وہ عموماً ضرور ناقص الایمان ہوتا ہے۔ اب میرے اس نوٹ کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو فوراً خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر پڑجانا خواہ نخواہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی مثال یاد دلاتا ہے۔ ناظرین غور فرمائیں کہ بقول ڈاکٹر صاحب یہ خاکسار جامع الروایات ایک حد تک موٹا اور مولوی شیرعلی صاحب راوی بھی موٹے لیکن ہم دونوں کو اس روایت کے بیان کرتے اور نقل کرتے ہوئے کوئی فکر دامنگیر نہیں ہوتا کہ لوگ ہمارے ایمانوں کے متعلق کیا کہیں گے۔ کیونکہ ہمیں تسلی ہے کہ ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں۔اور یہ کہ حضرت صاحب کے اس قول میں ہرگز کوئی عمومیت مقصود نہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا اس روایت کے پڑھتے ہی ماتھا ٹھنک جاتا ہے اور خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر دامنگیر ہونے لگتی ہے۔ بہرحال خواہ ڈاکٹر صاحب خواجہ صاحب کے ایمان کے متعلق کچھ ہی فتویٰ لگائیں مجھے اس روایت کے بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب کے ایمان پر زد کرنا مقصود نہ تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت سراسر بدظنی سے کام لے کر میری نیت پر ایک ناجائز حملہ کیا ہے۔
اس اعتراض کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اگر خواجہ صاحب پر زد کرنا مقصود نہیں تو پھر اس روایت کے بیان کرنے سے مطلب کیا تھا۔ اور کیوں ایسی لاتعلق بات داخل کرکے ناظرین کے وقت کو ضائع کیا گیا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہرگز لاتعلق نہیں اور ڈاکٹر صاحب چونکہ محبت کے کوچے سے ناآشناء اور سیرت کے اصول سے نابلد ہیں اس لئے ان کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہواہے۔ میں نے جہاں اپنے مضمون کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کے اصولی اعتراضات کا جواب دیا تھا وہاں یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ کے مفہوم کے متعلق سخت دھوکا لگا ہے اور انہوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ سیرۃ سے مرادیا تو زندگی کے بڑے بڑے واقعات ہیں اور یا ایسی خاص باتیں ہیں کہ جن سے اہم اخلاق وعادات کے متعلق بلاواسطہ روشنی پڑتی ہو۔ حالانکہ یہ درست نہیں اور سیرت کے مفہوم کو ایک بہت بڑی وسعت حاصل ہے جس میں علاوہ زندگی کے تمام قابل ذکر واقعات کے روزمرہ کی ایسی ایسی باتیں جن سے اخلاق وعادات کے متعلق کسی نہ کسی طرح استدلال ہوسکتا ہو۔ اور صاحب سیرت کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے سونے جاگنے چلنے پھرنے کام کاج کرنے دوستوں سے ملنے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات رکھنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے وغیرہ کے متعلق ہر قسم کی باتیں شامل ہیں۔ بلکہ فلسفہ اخلاق کے ماہرین جانتے ہیں کہ اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کرنے کے لئے زیادہ اہم واقعات کو چننا غلطی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر انسان عموماً تکلف وتصنع سے کام لیتا ہے اور اس کی اصل طبیعت وعادات پردہ کے پیچھے مستور رہتی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہیں بسا اوقات ایک ناواقف آدمی قابل ذکر بھی نہیں سمجھتا وہی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان سے اخلاق وعادات کے متعلق استدلال کیا جاوے کیونکہ ان میں انسان کے اخلاق وعادات کی تصویر ہر قسم کے تصنع وتکلف کے لباس سے عریاں ہوکر اپنی ننگی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ مثال کے طورپر دیکھ لیجئے کہ اگر ایک باقاعدہ جلسہ ہو اور اس میں اپنے اور بیگانے ہر قسم کے لوگ جمع ہوں تو اس کے اندر ایک لغو اور بیہودہ شخص بھی حتی الوسع سنبھل کر بیٹھے گا اوراپنی ہرحرکت وسکون میں خاص احتیاط سے کام لے گا تاکہ اس کے متعلق لوگ کوئی بُری رائے نہ قائم کریںلیکن وہی شخص جب اپنے گھر میں ہوگا اور اپنے واقفوں اور ملنے والوں میں بیٹھے گا تو پھر تمام تکلفات سے جدا ہوکر اس کے اخلاق وعادات کی ننگی تصویر ظاہر ہونے لگے گی۔ پس اخلاق وعادات کے استدلال کے لئے روزمرہ کی نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کو چننا چاہیئے نہ کہ خاص خاص موقعوں کی اہم باتوں کو۔ اسی لئے جو لوگ فن سیرۃ میں ماہر گذرے ہیں انہوں نے ایسی ایسی چھوٹی اور بظاہر ناقابل ذکر باتوں کو لیا ہے کہ ناواقف آدمی کو حیرت ہوتی ہے مگر دانا جانتاہے کہ یہی صحیح رستہ ہے۔
اب اس اصل کے ماتحت دیکھا جائے تو کوئی عقل مند میری اس روایت کو لاتعلق یا ناقابل ذکر نہیں کہہ سکتا۔ میری روایت کیا ہے؟ یہی نا کہ چند احباب اپنی روزمرہ کی ملاقات کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور حضرت چونکہ کسی وجہ سے باہر تشریف نہیں لاسکتے ان کو اپنے پاس گھر کے اندر ہی بلا لیتے ہیں۔ اور پھر کچھ خربوزے ان کے سامنے کھانے کے لئے رکھتے ہیں۔ بلکہ دوستانہ بے تکلفی کے طریق پر ایک ایک کے ہاتھ میں الگ الگ خربوزہ دیتے ہیں۔ اور دیتے ہوئے مسکرا کر کچھ ریمارک بھی فرماتے جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف رکھتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ بتائیں کہ کیا یہ ایک لاتعلق روایت ہے؟ کیا اس روایت سے حضرت صاحب کی مجلس کا طریق اور آپ کا اپنے خدام کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور ان سے محبت وبے تکلفی کی باتیں کرنے کا طریق ظاہر نہیں ہوتا؟ کیا اس روایت سے آپ کے اخلاق وعادات کی سادگی اور بے تکلفی پر کوئی روشنی نہیں پڑتی؟ ان سوالات کے جواب کے لیئے مجھے کسی ثالث کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا اپنا نورضمیر اگر وہ بجھ کر مٹ نہیں چکا اس ثالثی کے لئے کافی ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا ۔ ع
اگر درخانہ کس است حرفے بس است
باقی رہا محبت کا میدان سو اس کے متعلق کیا عرض کروں اور پھر کروں بھی تو کس سے کروں؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس کوچے کے محرم نہیں۔ ان کے مضمون سے مجھے خشک نیچریت کی بو آتی ہے۔ ہاں اگر ڈاکٹر صاحب محبت کے ذوق سے شناسا ہوتے تو میں عرض کرتا کہ ذرا احادیث نبوی کو کھول کر مطالعہ فرمائیں کس طرح صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول وفعل ہرحرکت و سکون کو عشق ومحبت کے الفاظ میں ملبوس کرکے بعد میں آنے والوں کے لئے جمع کردیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی موقع پر صحابہ کے سامنے کھانا کھاتے ہیں۔ اور گوشت میں کدو پک کر سامنے آتا ہے اور آپ کدو کے ٹکڑے شوق سے نکال نکال کر تناول فرماتے ہیں۔ صحابہ کے لئے اس نظارہ میں بھی عشق ومحبت کی غذا ہے وہ جھٹ احادیث نبوی کے مجموعہ میں اس روایت کو داخل کرکے اس محبت کی دعوت میں ہمیں بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔
اس قسم کی روایتیں احادیث نبوی میںایک دو نہیں دس بیس نہیں پچاس ساٹھ نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں۔ اور اہل دل اس سے محبت وعشق کی غذا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن میں اگراس قسم کی کوئی روایت اپنے مجموعہ میں درج کردیتا ہوں تو مجرم سمجھا جاتا ہوں۔ اور ڈاکٹر صاحب میرے اس ناقابل معافی جرم کو پبلک کی عدالت کے سامنے لاکر مجھے ذلت وبدنامی کی سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ اچھا یونہی سہی۔ ع
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
ایک اعتراض اور دراصل اس روایت کے متعلق سارے اعتراضوں میں سے اکیلا سنجیدہ اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ یہ بات حضرت صاحب کے طریق واخلاق کے خلاف ہے کہ آپ نے ایک ایسی مجلس میں جس میں ایک موٹا آدمی بھی بیٹھا ہو، ا س قسم کے الفاظ فرمائے ہوں کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اعتراض ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی حضرت صاحب کا طریق ہرگز ایسا نہ تھا کہ مجلس میں اس قسم کی کوئی بات کریں کہ جو کسی کا دل دکھانے والی ہو یا جس میں صریح طور پر کوئی شخص اپنے متعلق اشارہ سمجھے مگر ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ موجودہ روایت کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے اس طریق کی رو سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو روایت کے الفاظ میں اس مجلس کے اندر خواجہ کمال الدین صاحب کی موجودگی کو ’’غالباً‘‘کے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔جس کے یہ معنی ہیں کہ راوی کو خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے کے متعلق یقین نہیںہے بلکہ شک ہے اور کوئی عقل مند ایک غیر یقینی بات پر اپنے اعتراض کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس لفظ کو بالکل نظر انداز کر کے ایسے طور پر اعتراض پیش کیا ہے کہ گویا راوی کے نزدیک خواجہ صاحب کا اس مجلس میں موجود ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ خواجہ صاحب وہاں موجود نہ ہوں۔
بہرحال جبکہ روایت کی روسے خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے اور نہ ہونے ہر دو کا احتمال موجود ہے تو ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کسی عقل مند کے نزدیک قابل توجہ نہیں سمجھا جاسکتا۔دوسرےؔ یہ کہ غالباً ڈاکٹر صاحب بھول گئے ہیں کہ خواجہ صاحب موصوف ہمیشہ سے اسی طرح کے موٹے اور فربہ نہیں چلے آئے بلکہ اوائل کے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ شروع میں خواجہ صاحب ایک درمیانے جسم کے آدمی تھے۔ چنانچہ غالباً خود خواجہ صاحب اس امر کی شہادت دے سکیں گے کہ ان کے والد صاحب مرحوم یعنی جناب خواجہ عزیزالدین صاحب کبھی کبھی ہنستے ہوئے پدرانہ آزادی کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’خواجہ پشاورکے سنڈوں کا گوشت کھاکھا کر خود بھی سنڈا ہوگیا ہے۔‘‘ جس سے ظاہر ہے کہ وکالت کے لئے پشاور جانے سے قبل اور نیز پشاور کے ابتدائی ایام میں خواجہ صاحب اس تن و توش کے آدمی نہ تھے۔ الغرض جناب خواجہ صاحب ہمیشہ سے ہی اس فربہی کے مالک نہیں رہے۔ اور اس لئے بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو روایت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کی ہے وہ اس زمانہ کی ہو جب کہ خواجہ صاحب زیادہ موٹے آدمیوں میں شمارنہ ہوتے ہوں۔ جیساکہ خود ہمارے محترم راوی صاحب بھی ان دنوں میں جسم کے ہلکے ہوتے تھے۔ مگر بعد میں جسم بھاری ہوگیا۔ تیسراؔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ آپ مجلس میں کوئی ایسا ریمارک نہیں فرماتے تھے کہ جو کسی کا دل دکھانے والا ہو لیکن جس قسم کی مجلس کا روایت کے اندر ذکر ہے وہ ایک ایسے لوگوں کی مجلس تھی جو عموماً حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ اور آپ کے طریق واخلاق وعادات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور حضرت صاحب بھی ان کے ساتھ بہت بے تکلفی کے ساتھ ملتے اور گفتگو فرماتے تھے اور یہ لوگ ویسے بھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھے۔
پس ایسی مجلس کے اندر حضرت صاحب نے اگر وہ الفاظ فرمادیئے ہوں کہ جن کا روایت میں ذکر آتا ہے تو ہرگز قابل تعجب نہیں۔ کیونکہ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ یہ لوگ میرے صحبت یافتہ اور میرے طرزوطریق سے واقف اور فہمیدہ لوگ ہیں اس لئے وہ میرے الفاظ سے کوئی ایسا مفہوم نہیں نکالیں گے کہ جو غلط ہو اور میرے طریق کے خلاف ہو۔ چنانچہ اس وقت کے حاضرین مجلس میں سے کسی کو اس طرف خیال تک نہیں گیا کہ حضرت صاحب نے نعوذباللہ کوئی دل آزار بات کہی ہے۔ بلکہ سب یہی سمجھے کہ آپ کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ محض بدن کا موٹا ہونا منافقت کی علامت ہے خواہ وہ کسی وجہ سے ہو۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ آرام طلبی اور تعیش وغیرہ کے نتیجہ میں جو شخص موٹا ہوگیا ہو اس کے ایمان میں نفاق کی ضرور آمیزش ہے اور چونکہ اس وقت سب حاضرین اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھتے ہوں گے کہ اگر ہم میں سے کوئی موٹا بھی ہے تو وہ تعیش کے نتیجہ میں موٹا نہیں ہوا۔ اس لئے کسی کے دل میں حضرت صاحب کی یہ بات نہیں کھٹکی۔
ڈاکٹر صاحب ضد کی وجہ سے انکار کردیں تو الگ بات ہے ورنہ یقینا وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ بسااوقات ایک لفظ مطلق استعمال کیا جاتا ہے لیکن دراصل وہ مقید ہوتا ہے اور بعض غیر مذکور شرائط کے ماتحت اس کے وسیع معنی مقصود نہیں ہوتے او راس بات کا پتہ قرائن سے چلتا ہے کہ یہاں یہ لفظ اپنے کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن شریف وحدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
چنانچہ اگر ڈاکٹر صاحب اصول فقہ کی کوئی کتاب مطالعہ فرمائیں تو ان کو میرے اس بیان کی تصدیق مل جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر راوی کے شک کو نظر انداز کرتے ہوئے یہی مان لیا جائے کہ خواجہ صاحب اس مجلس میں ضرور موجود تھے اور پھر واقعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ وہ اس وقت بھی موٹے تھے تو پھر بھی اس روایت کے ماننے سے کوئی حرج لازم نہیں آتا۔ کیونکہ اس وقت حضرت صاحب کے سامنے وہ لوگ تھے جو روز کے ملنے والے تھے اور آپ کے طریق وعادات سے خوب واقف تھے اور حضرت صاحب کو بھی یہ حسن ظنی تھی کہ وہ واقف حال اور فہمیدہ لوگ ہیں۔ عام حالات میں میرے الفاظ سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالیں گے۔ پس ایسے لوگوں کے سامنے اگر حضرت صاحب نے آزادی سے وہ الفاظ فرمادیئے ہوں تو ہرگز قابل اعتراض نہیں۔
اس بحث کو ختم کرنے سے قبل یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ اس جگہ منافق سے مراد وہ منافق نہیں ہے جو دل میں تو کافر ہوتا ہے لیکن کسی وجہ سے ظاہر اپنے آپ کو مومن کرتا ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو دل میں بھی جھوٹا نہیں جانتا۔ لیکن اس کا ایمان اس درجہ ناقص ہوتا ہے کہ اس کے اعمال پر کوئی اثر نہیں کرسکتا۔ اور نہ غیروں کی محبت اس کے دل سے نکال سکتا ہے۔ دراصل قرآن شریف وحدیث سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کئی قسم کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کی حالت کو بھی حالت نفاق سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو ویسے تو دل سے ہی ایمان لاتا ہے اور اپنا ایمان ظاہر بھی کرتا ہے لیکن اس کا ایمان ایسا کمزور ہوتا ہے کہ اس کے اعمال وعادات عموماً غیرمومنانہ رہتے ہیں اور اس کا دل بھی غیروں کے تعلقات سے آزاد نہیں ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںایسے لوگ منافق سمجھے جاتے تھے لیکن موجودہ زمانہ میں چونکہ ایمان کا معیار بہت گرا ہوا ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو مومنین کی جماعت میں شمار کرلیا جاتا ہے اور منافق صرف اس شخص کا نام رکھا جاتا ہے کہ جو دل میں تو کافر ہو مگر ظاہر اپنے آپ کو مومن کرے۔
بہرحال جیسا کہ قرائن سے پتہ لگتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جو منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے ایسا شخص مراد ہے کہ جس کا ایمان اس کے اعمال پر اثر پیدا نہ کرسکے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو شعار اسلام کو ترک کرکے آرام طلبی اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے فربہ ہوتا جاتا ہو اس کا ایمان ضرور اس موخرالذکر قسم میں داخل سمجھا جاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم ولاعلم لنا الاما علمتنا۔٭








٭:مطبوعہ الفضل ۳ستمبر۱۹۲۶ء
حوالہ جات
۱۹۲۲ء
۱۔ البقرہ:۱۱۴
۲۔ المائدہ:۹
۳۔ البقرہ:۲۲۰
۴۔ مطبوعہ البدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۴ء
۵۔ سیرت المہدی صفحہ ۱
۶۔ سیرت المہدی صفحہ الف
۷۔ سیرت المہدی صفحہ ج
۸۔ سیرت المہدی پروف صفحہ ۱
۹۔کنزالعمال جلد ۱ الفصل الثانی فی فضائل امسور والآیات والبسملۃ۔
۱۰۔ سنن ابودائود۔ کتاب الجہاد۔ باب علی ما یقاتل المشرکون
۱۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث النبیؐ اسامۃ بن زید الی الحرقات من جھینۃ۔
۱۲۔ مفہوماً۔ صحیح البخاری۔ کتاب اللباس۔
۱۳۔ صحیح البخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب مایکرہ من النوم قبل العشائ۔
۱۴۔ صحیح المسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل عبداللہ بن عباسؓ
۱۵۔ الجاثیہ:۱۴
۱۶۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۷۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲۔ حاشیہ
۱۸۔ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۵۳
۱۹۔ صحیح البخاری۔ کتاب الاذان۔ باب یستقبل الامام النَّاسَ اِذااسلم۔
۲۰۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب ھدایۃ ھٰذہٖ الامۃ لیومِ الجمعۃ۔
۲۱۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب فضل یوم الجمعۃ۔
۲۲۔ النحل:۴۹
۲۳۔ حٰمٓ السجدہ:۱۳
۲۴۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۸۲ حاشیہ
۲۵۔ ملخص ؍؍ ؍؍ ؍؍ صفحہ ۲۸۰ حاشیہ
۲۶۔ الجاثیۃ : ۱۴
۲۷۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۸۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳ حاشیہ
۲۹۔ تحفہ گولڑویہ: روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۴
۳۰۔ الاعراف:۱۵۷
۳۱۔ صحیح البخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللّٰہِ تعالٰی بل ھو قرآن مجید فی لوحٍ محفوظٍ۔
۳۲۔لسان العرب جلد زیرِ لفظ حَمَر.6َ
۳۳۔ تذکرہ صفحہ۳۵۷،۳۷۸،۳۹۳۔ طبع ۲۰۰۴ء
۳۴۔ مفہوماً۔ اسد الغابہ۔ جلد ۶۔ باب عائشہ بنت ابوبکر.6ؓ صفحہ۱۹۴۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ جلد ۴۔ باب النساء وَکناھُنَّ۔ صفحہ۴۳۷
۳۵۔ الشعرآئ:۲۲۸
۳۶۔ اٰل عمران:۱۶۰
۳۷۔ یوسف:۸۷















۱۹۲۷ء
برکات رمضان سے فائدہ اٹھائو
رمضان کا مہینہ کئی وجوہات سے ایک نہایت مبارک مہینہ ہے اور اس مہینہ میں سے خصوصا آخری عشرہ کے دن بہت برکت والے دن سمجھے گئے ہیں۔ احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور صدقہ وخیرات اور ذکر الٰہی اور اصلاح نفس کی طرف ایسے شوق وذوق کے ساتھ متوجہ ہوں کہ ان کی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہوجائے۔ اگررمضان کا مہینہ آئے اور بغیر ہمارے اندر کوئی انقلاب پیدا کرنے کے گذرجائے اور ہم جیسا کہ اس مبارک مہینہ سے قبل تھے ویسے ہی بعد میں رہیں تو ہم سے بڑھ کر زیادہ خسارہ میں اور کون ہوگا۔ پس دعائوں سے اور مجاہدہ سے اپنے قدم کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیئے اور خدا کے ان فضلوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیئے جو ان ایام میں اس کے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتے ہیں۔ اس دفع خدا کے فضل سے رمضان کی ستائیس تاریخ کو جمعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ جمع ہوجائیں تو وہ وقت بہت ہی مُبارک ہوتا ہے۔ پس ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھائو لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ باتیں منترجنتر کے طور پر نہیں ہیں کہ انسان خواہ اپنے اعمال اور خیالات میں کیسا ہی رہے کوئی خاص گھڑی اسے کامیاب کرسکتی ہے۔ بعض وقتوں میں بے شک خاص برکات کا نزول ہوتا ہے لیکن ان برکات سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اپنے اندر تغیر پیدا کرکے اپنے آپ کو ان فضلوں کا اہل بناتا ہے۔ کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ بارش اللہ تعالیٰ کا ایک خاص مادی فضل ہے لیکن جس زمین میں تخم گندہ ہوتا ہے اس کی روئیدگی بھی بارش کے بعد گند ی ہی ہوتی ہے۔ پس اپنے نفسوںکا محاسبہ کرکے دعا اور ذکر الٰہی مجاہدہ اور صدقہ وخیرات سے اپنے اندر ایک تغیر پیداکرو اور پھر یہ مُبارک گھڑیاں سونے پر سہاگہ کا کام دیں گی اور احباب کو چاہیئے کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح کے لئے دعائیں کریں اور ہر دعا کو حمد باری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے کے ساتھ شروع کریں اور اپنی دعائوں میں ایک زندگی پیدا کریں تاکہ وہ قبولیت کے مقام کو پہنچ سکیں اور میں اسلام اور احمدیت کی مقدس اخوت کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جن دو احمدیوں کے دلوں میں باہمی کدورت ہو یا جس جماعت کے افراد میں کوئی جھگڑا یا تنازعہ رُونما ہو وہ ان مبارک دنوں میں اپنے سینوں اور دلوں کو ایک دوسرے کی طرف سے صاف کرلیں اور صلح جوئی کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ کر سرعت کے ساتھ قدم اٹھائیں تاکہ پیشتر اس کے کہ خدا کے یہ مقدس دن ختم ہوکر عید کا چاند ہم پر طلوع ہو ہمارے سینے ہر قسم کی کدورتوں سے صاف ہوکر ایک دوسرے کی محبت سے معمور ہوجائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آسمان پر سے ہمیں دیکھ کر سرور حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل یکم اپریل ۱۹۲۷ئ)









نظارت تعلیم وتربیت کا ایک ضروری اعلان
مجلس مشاورت قریب آگئی ہے جس میں حسب دستور سابق ہر نظارت کی طرف سے مشورہ کے لئے ضروری امور پیش کئے جائیں گے۔ میں احباب سے اس بات میں مشورہ چاہتا ہوں خصوصاً سیکرٹریان تعلیم وتربیت سے کہ اس مشاورت میں جماعت کی تعلیم وتربیت کے متعلق کون سے امور پیش کئے جائیں۔ ایسے امور تجویز ہونے چاہئیں جو اصولی ہوں اور جماعت کی موجودہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے ان کی طرف توجہ کیا جانا ضروری ہو۔ احباب کی طرف سے مشورہ آنے پر میں نظارت تعلیم وتربیت کا ایجنڈا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کروں گا۔ چونکہ وقت بہت تنگ ہے جواب جلد آنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور تحریر کئے جاتے ہیں۔
(۱) بعض کمزور احمدی جو غیر احمدیوں کو رشتہ دے دیتے ہیں ان کی روک تھام کس طرح کی جانی مناسب ہے اور جو شخص باوجود کوشش کے باز نہ آئے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔
(۲) جو کمزور لوگ احمدیوں میں سے شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو ظاہری شعار سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً ڈاڑھی کا رکھنا، ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیئے اور کس حد تک حجت پوری ہونے کے بعد۔
(۳) کیا تبلیغی وفود کی طرح تعلیم وتربیت کے وفود کو ملک میں دورہ کے لئے بھیجنا مناسب ہے اگر مناسب ہے تو ان وفود کا کس طریق پر اور کس موسم میں انتظام کیا جانا مناسب ہوگا۔
(۴) بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان وبورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان اور احمدیہ ہوسٹل لاہور میں جب احمدی بچوں کا بقایا ہوجاتا ہے اور والدین باوجود تقاضوں کے بقایا ادا نہیں کرتے، ان کے ساتھ کیا طریق اختیار کیا جانا چاہیئے۔
(۵) وظائف تعلیمی جو نظارت تعلیم کی طرف سے دیئے جاتے ہیں ان کی تقسیم کے متعلق کیا اصول ہونا چاہیئے اور نیز جو طلباء بغیر اس کے کہ پہلے اپنے وظیفہ کی منظوری حاصل کریں، قادیان آجائیں اور یہاں اُس وقت گنجائش نہ ہو یا دوسرے زیادہ حقدار موجود ہوں تو ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے وغیرہ ذالک۔
(۶) جماعت میں پرائمری تعلیم کو عام کرنے کے لئے حتّٰی کہ کوئی احمدی ناخواندہ نہ رہے کیا تجویز کی جانی چاہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل۸ اپریل ۱۹۲۷ئ)











سود کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کافیصلہ
مسلمان تجّارکی مشکلات کا حل
یوں تو بعض صورتوں میں سودی روپے کے اشاعت اسلام میں خرچ کئے جانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ فتاویٰ احمدیہ میں شائع ہوچکاہے اور اکثر احباب اس سے آگاہ ہوں گے لیکن حال میںہی حضرت اقدس کا ایک خط میاں غلام نبی صاحب سیٹھی مہاجر سے ملا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۸ء میں سیٹھی صاحب کو اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔ جبکہ وہ راولپنڈی میں تجارت کا کام کرتے تھے۔ اس خط سے چونکہ سود کے مسئلے کے متعلق بعض نئے پہلوئوں سے روشنی پڑتی ہے اور مسلمان تجار کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اس لئے احباب کی اطلاع کے لئے یہ خط شائع کیا جاتا ہے ۔ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:-
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ‘ونصلی علٰے رسولہ الکریم
مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوفِ الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کردے گا۔ اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریںبلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے، وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سُود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیّال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے۔ لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرّہ ذاتی نفع کے خداتعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے۔ یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے، جو چیز اُس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے ۔ بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو، وہ خداتعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوںکے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم اُن سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسِلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کواللہ تعالیٰ دیکھتاہے وہ جزا دے گا۔ ہاں ماسوااِس کے دُعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار: مرزا غلام احمدازقادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’سُود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے۔یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سُود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیاہے)خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے ۔کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اس خط سے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں:
نمبر(۱) سودی آمد کا روپیہ سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑجاوے تو اس کے واسطہ یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے۔ مسلمان تاجر جو آج کل گردوپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سُود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کرسکتے ہیں۔
نمبر(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپیہ سے الگ حساب رکھ کر جمع کرنا چاہیئے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اُس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے۔
نمبر(۳) سُود کاروپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اُسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے۔
نمبر(۴) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہوسکتا ہے۔ جن میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع واشاعت لٹریچرمصارف ڈاک وغیرہ ذالک۔
نمبر(۵) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جاسکتے ہیں جس کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضامندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں۔ یعنی ان کے حصُول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کانہ ہو۔ جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتاہے۔
نمبر(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوے کی مویدّ ہے۔
نمبر(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص اپنے آپ عمداً سُود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپیہ کا وارث بن جاوے۔
نمبر(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سُودکے لین دین کا قائم ہوگیاہے۔ اور جس کی وجہ سے فی زمانہ بغیرسودی لین دین میں پڑنے کے تجارت نہیں کی جا سکتی۔ وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینامذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا۔ کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کوجو ایک تاجر تھے اور اسی قِسم کے حالات اُن کو پیش آتے تھے، اس فتوے کے اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے۔ گویا حضرت صاحب کامنشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو غرض رعایت بنا کر کاروبار نہ کرے لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردوپیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے۔ تو اس میں مضائقِہ نہیں اور اسی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ سُود میں ملوث ہونے کے اندیشہ سے مسلمان تجارت چھوڑدیں۔ یا اپنے کاروبار کو معمولی دوکانوں تک محدود رکھیں۔ جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی۔ اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کرلیں۔
نمبر(۹) اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کو سود کے لئے بنک بھی جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں اگر مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے ۔ تو بشر طیکہ مذکورہ بالا حرج نہیں۔
نمبر(۱۰) جو شخص اس فتوے کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے۔ اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔
نمبر(۱۱) ایک اصولی بات اس خط میں موجود ہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے۔ اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایاہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کرلینی کافی ہے کہ آنکھیں کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے یہ نہیںکہ ان کے سامنے بالکل نہ آئے کیونکہ بعض صورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیئے کہ خدا سے دُعا کرتا رہے کہ وہ اُسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا تھاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے جو غیر محرم ہوتی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں۔اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کرتا تھاکہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں۔لیکن بڑے ہوکر سمجھ آئی کہ وہ دراصل اسی حکمت سے تھا۔
ایک بات حضرت صاحب کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ نازک وقت جو اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میںسب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے۔اس اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے دستخط کے صرف۔غ۔ کا حرف درج فرمایا۔جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم نومبر۱۹۲۷ئ)









شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو
گذشتہ مجلس مشاورت جو اپریل ۱۹۲۷ء میں قادیان میں منعقد ہوئی تھی۔اس میں ایک امر نظارتِ تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ بھی پیش ہوا تھا کہ جو احمدی کہلانے والے لوگ شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو انسان کے ظاہری شعار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیںمثلاًڈاڑھی کارکھنا غیرہ ذٰلک۔ ان کے متعلق کیا طریق اختیارکیاجائے۔ یعنی اگروہ باوجودباربارکی پندونصیحت کے ڈاڑھی نہ رکھیںتوآیاان کے متعلق کوئی سرزنش کا پہلو اختیار کرنا مناسب ہوگا یانہیں اور اگر مناسب ہوگا توکیا۔ اس کے متعلق مجلسِ مشاورت نے بعض تجاویزپیش کیں جنہیںحضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے منظورفرمایااورجوانہی دنوںمیںالفضل میںشائع کردی گئی تھیںمگران تجاویزکے منظور فرمانے کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ بھی ارشادفرمایاتھاکے اس مسئلہ کے متعلق نظارت تعلیم وتربیت کوچاہیئے کہ مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت میں یہ احساس پیداکرے کہ وہ اپنی ظاہری صورتوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء مبارک کے مطابق بنائیںاور شریعت کے کسی حکم کو بھی چھوٹاسمجھ کرنہ ٹالیں بلکہ سب کی پابندی اختیار کریں تاکہ اعلیٰ درجہ کے مومنین میںان کا شمارہواور خداکی نعمت کاکوئی دروازہ بھی ایسانہ رہے جو ان پر بندہو۔ سو اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے خاکسار اپنے احباب کے سامنے یہ چند سطور پیش کرتا ہے اور امید رکھتاہے کہ وہ میری اس عرضداشت کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کردیں گے کہ اطاعت رسول کے لئے ان کے اندر ایک ایسا شوق اور ولولہ موجود ہے کہ اس علم کے ہونے بعد کہ کوئی ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے، دنیا کی کوئی روک جسے شریعت روک نہیں قراردیتی ان کو اس کی تعمیل سے باز نہیںرکھ سکتی۔
سب سے پہلے جو بات میں عر ض کرنا چاہتاہوں۔ وہ ایک اصولی بات ہے اور وہ یہ کہ بیشک شریعت کے احکام میں تفاوت ہے اور کوئی عقلمند ان میں مدارج کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور ڈاڑھی کا رکھنا یقینا ان اصولی باتوں میں سے نہیں ہے جن پر انسان کی روحانی زندگی کا بلاواسطہ دارومدار ہے لیکن بایں ہمہ اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا۔ دراصل چونکہ شریعت کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہر جہت سے انسان کو کامل بنائے اور تمام ان امور کی طرف توجہ کرے جو با لواسطہ یا بلاواسطہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر اثرپیدا کرتی ہیں۔ اس لئے خداوند تعالیٰ نے شریعت میں صرف اصولی باتوں کو ہی داخل نہیںفرمایا بلکہ بعض فروعی امور میں بھی ہدایت جاری کی ہیں اور یہ سب انسان کی روحانی حیات کے لئے کم وبیش ضروری ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف ان باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے احترازکیا ہے، جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی سے اس قدردُور کا تعلق رکھتی تھیں کہ ان میں دخل انداز ہونا فائدہ کی نسبت نقصان کے زیادہ احتمالات رکھتا تھا۔ یا جن کے متعلق انسان اپنے ظاہری علوم کی بناء پر خود طریق ثواب اختیارکر سکتا تھا اور اس لئے ان کے متعلق احکام جاری کرنا بے فائدہ قیود کا پیدا کرنا تھا۔
دراصل جیسا کہ عیسائیت بیان کرتی ہے (گو وہ اس معاملہ میںحد اعتدال سے بہت تجاوز کر گئی ہے)شریعت کے احکام کے متعلق ایک پہلو نقصان کا بھی ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کے توڑنے سے انسان مجرم اور گنہگار بن جاتا ہے اور اسی لئے اسلام نے نہایت حکیمانہ طور پر اس معاملہ میں اعتدال کے طریق کو اختیار کیا ہے اور شرعی احکام صرف اس حد تک جاری کئے ہیںکہ جس حد تک بالکل ضروری اور لابدی تھے اور باقی امور میں انسان کو اس کی عقلِ خداداد اور شریعت کے اصولی قیاس پر چھوڑدیا ہے تاکہ وہ خود اپنے لئے اپنا راستہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں شریعت کو ایک رحمت قراردیا ہے اور دوسری طرف اسی قرآن میںخود فرمایا ہے کہ زیادہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسئلے نہ پوچھا کرو تاکہ تمہارے لئے تفصیلی احکام نازل ہوکر تنگی کا موجب نہ بنیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شریعت سراسر رحمت ہی رحمت ہے تو پھر اس روک کے کیا معنی ہیں؟ کیا نعوذباللہ خدا اس رحمت کے دائرہ کو ہم پر تنگ کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں شریعت کے احکام کے نزول کے محرک بننے سے روک دیا ہے؟ اس ظاہری تضاد کا یہی حل ہے کہ شریعت بیشک ایک رحمت ہے لیکن شریعت کے ساتھ ایک پہلو عذاب کا بھی ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کو توڑنا خدا کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور اگر بعض تفصیلی امور جو طریق بودوباش اور تمدن وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں شریعت دخل انداز ہو تو یہ عذاب کا پہلو رحمت کے پہلو سے غالب ہوجاتا ہے یعنی ان کے ماننے میں فائدہ کا پہلو اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا ان کے نہ ماننے میں (اگر وہ شریعت کا حصہ بن جائیں) نقصان کا پہلو غالب ہوتا ہے اور اسی لئے جب شریعت ان تفصیلات کی حد کو پہنچتی ہے تو کمال حکمت سے وہ آگے جانے سے رک جاتی ہے اور لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اپنی عقلِ خداداد اور شریعت کے قیاس کے ماتحت خود اپنے واسطے ان تفصیلات میں طریقِ عمل قائم کریں۔
اس جگہ اس بات کا بیان بھی ضروری ہے کہ درحقیقت کسی شرعی حکم کے توڑنے میں دو قسم کا نقصان اور اس کے مان لینے میں دو قسم کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یا نقصان تو یہ ہے کہ چونکہ ہر شرعی حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے اندر بعض طبعی خواص رکھتا ہے اس لئے اس کا مان لینا وہ نیک اثرات پیدا کرتا ہے جواس کا طبعی نتیجہ ہیں اور اسی طرح اس کانہ ماننا وہ بد اثرات پیدا کرتاہے جو طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں اور دوسرا فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ چونکہ خدا کا یہ حکم ہے کہ شریعت کی پابندی اختیار کی جائے۔ اس لئے کسی شرعی حکم کا مان لینا قطع نظر اس کے فائدہ کے خدا کی رضا کا موجب اور اس کا نہ ماننا قطع نظر اس کے نقصان کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ایسے تفصیلی امور کو شریعت کا حصہ بنانے سے احتراز فرمایاہے۔ جن کے اختیار کرنے میں کوئی بڑے فوائد مترتب نہیں ہو سکتے مگر ان کے ترک کرنے میں خدا کی ناراضگی کاپہلو ضرور موجود ہے تاکہ کمزور لوگ ان امور میں نافرمانی کرکے خدا کی ناراضگی کانشانہ نہ بنیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ شریعت نے صرف انہی امور میںدخل دیا ہے جن میں دخل دینا انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کیلئے ضروری اور لابدی تھا۔ اور باقی امور میں انسان کواختیار دے دیا ہے کہ وہ خود اپنا طریق عمل قائم کرے اور اس لئے درحقیقت شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا اور گو احکام میں تفاوت ضرور ہے لیکن سب احکام یقینا ایسے ہیں جو انسان کے اخلاق وروحانیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معتدبہ اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر کسی بات کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ وہ ایک شرعی حکم ہے تو کسی مومن کے لئے ہرگز یہ زیبا نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ یہ چھوٹا ہے۔ اس لئے اس کے ماننے کی چنداں ضرورت نہیںیا یہ کہ اس بات کو دین و ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہستی جس نے ہمارے لئے دین وایمان کا نصاب مقرر فرمایا ہے اور جس کے سامنے جاکر ہم نے کسی دن اس نصاب کا امتحان دینا ہے وہ جب کسی بات کو ہمارے دین وایمان کاحصہ قرار دیتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اسے لاتعلق سمجھ کر ٹال دیں اور اگر ہم اپنی نادانی سے ایسا کریں گے تو نقصان اُٹھائیں گے۔ کیونکہ ہمارا ممتحن ہمارے خیال کے مطابق ہمارا امتحان نہیں لے گا بلکہ اس نصاب کے مطابق لے گا جو اس نے مقرر کیا ہے۔
اندریںحالات بحث طلب امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی با ت شریعت کا حصہ ہے یا نہیں یا موجودہ بحث کے لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا ڈاڑھی کا رکھنا شریعت کا حصہ قرار پاتا ہے یا نہیں سواس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ ہروہ بات جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکیا ہے اور اس کے کرنے کا اپنی اُمت کو حکم دیا ہے وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہواور عقل بھی یہی چاہتی ہے شارع جس کام کو کرے اور اس کے کرنے کا حکم دے وہ شریعت کا حصّہ ہونی چاہیئے۔ہاں البتہ ایسی باتوںکے متعلق اختلاف ہے جن کو شارع نے خود تو کیا ہے مگر ان کے کرنے کاحکم نہیں دیا۔ یا جن کے متعلق شارع نے بعض صورتوںمیں ہدایت تودی ہے لیکن خود اس کی پابندی اختیار نہیں کی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شبہ کا احتمال ہے کہ ممکن ہے وہ شارع کی ذاتی خصوصیت یا ذاتی میلان طبع کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور دین کا حصہ نہ ہوں اور اسی طرح بعض اور باتوں کے متعلق بھی اشتباء کا پہلو ہوسکتا ہے کہ کیا وہ شریعت کا حصّہ ہیں یا نہیں اور اسی لئے ان کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر بہرحال یہ مسلّم ہے کہ جس بات کو شارع نے کیا اور اس کے کرنے کا حکم دیا وہ شریعت کا حصّہ ہے بشرطیکہ کوئی واضح قرینہ اس کے خلاف موجود نہ ہو۔
اب اس تشریح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا رکھنا شریعت اسلامی کا حصّہ ہے کیونکہ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا حکم دونوں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیںاور حدیث شریف سے یہ ہر دو باتیں ثابت ہیں۔یعنی اول یہ کہ آپ.6ؐ کی ڈاڑھی تھی چنانچہ آپؐ کے متعلق حدیث میں کَثَّّ اللحیۃ ۱؎کے الفاظ آتے ہیںیعنی آپ کی ڈاڑھی گھنی تھی اور اسی قسم کی بہت سی احادیث ہیں۔اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی اُمت کو یہ ارشاد فرمایا کہ ڈاڑھی رکھا کرو۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:-
قصواالشوارب وأَ عفواللحی۲؎
یعنی ’’ ڈاڑھیوں کو بڑھائو اور مونچھوں کو کاٹ کر چھوٹا کرو‘‘۔اور یہ بھی حدیث میںآتا ہے کہ ایک دفعہ غیر مسلم لوگ آپ کے سامنے آئے جن کی ڈاڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔اور دوسری طرف اس بات کے متعلق قطعاً کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ آپؐ کا یہ تعامل اور آپؐ کا یہ ارشاد ایک یونہی ایک ذاتی پسندیدگی کے اظہار کے طور پر تھااور دین کا حصّہ نہیں ہے۔ اور سنت کے لحاظ سے دیکھیںتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بس نہیں ۔بلکہ جتنے بھی نبی دنیا میں گذرے ہیںاور ان کی تاریخ محفوظ ہے ان سب کی ڈاڑھیاںتھیں۔چنانچہ حضرت ہارونؑ کی ڈاڑھی کا قرآن شریف میںبھی ذکر ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاڑھی لاکھوں احمدی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندریں حالات کوئی مسلمان اور خصوصیت کے ساتھ کوئی احمدی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتاکہ ڈاڑھی رکھنا شریعتِ اسلامی کاحصّہ نہیںہے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ احکام کے مدارج میں اختلاف ہے اور ڈاڑھی کے حکم کو ہم قطعاًان اہم احکام میں شمارنہیں کرسکتے جن پرہر انسان کی روحانی زندگی کابلاواسطہ دارومدار ہے مگربہرحال اس میں کلام نہیں کہ وہ شریعت کاحصہ ہے۔ اب کوئی مومن اس حکم کو چھوٹا کہہ کر ٹال نہیں سکتا کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ چھوٹی باتوں کو شریعت نے اپنے دائرہ میں شامل نہیں کیا اور جن کو شامل کیا ہے۔ وہ چھوٹی نہیں ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۷ئ)









ایک قابل قدر خاتون کا اِنتقال
اخوات واحباب کو الفضل کے ذریعہ یہ اطلاع مل چکی ہے کہ ۱۰ دسمبر کی صبح کو اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح،محمد صاحب سیال ایم۔اے فوت ہوکر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہونچ گئیں۔ مرحومہ جماعت کی خاص خواتین میں سے تھیں اور لجنہ اماء اللہ قادیان کے کام میں بہت دلچسپی لیتی تھیں۔ انہیں احمدی مستورات کی اصلاح وترقی کا خاص خیال رہتا تھا۔ چنانچہ مرحومہ نے اپنے گھر میں درس تدریس کا سِلسلہ جاری کررکھا تھا اور بہت سی خواتین اور لڑکیوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ مرحومہ اپنی عادات واطوار میں نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتی رہتی تھیں کہ انسان کو اس دنیا میں نہایت سادہ طور پر زندگی گذارنی چاہیئے۔ شروع شروع میں جب مدرسہ خواتین جاری ہوا تو مرحومہ کے علمی شوق نے اُنھیں اس میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ اس مدرسہ میں تعلیم پاتی رہیں لیکن بعد میں کُچھ تو صحت کی خرابی کی وجہ سے اور کُچھ خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور مرحومہ نے اپنی جگہ اپنی لڑکی عزیزہ آمنہ بیگم کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔
مرحومہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں اور حضرت خلیفہ اولؓ کو ان کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی خواہش سے چوہدری فتح محمد صاحب کے ساتھ ان کی شادی کرائی تھی۔ امتہ الحفیظ بیگم جن کے مضامین اکثر الفضل میں نکلتے رہتے ہیں۔ مرحومہ کی چھوٹی بہن ہیں۔ مجھ سے بھی مرحومہ کو خاص تعلق تھا کیونکہ وہ میری رضاعی بہن تھیں۔ میں سمجھتا ہوں مرحومہ کی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مرحومہ کی وفات جماعت کے لئے اور خصوصاً قادیان کی احمدی خواتین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور میں نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے مرحومہ کے معزز اور قابل قدر شوہر برادرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے اور مرحومہ کے والد صاحب مفتی فضل الرحمن صاحب اور مرحومہ کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا دعا کرتا ہوں کہ اللہ۔تعالیٰ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔ اور مرحومہ کی اولاد کو اس رستے پر چلنے کی توفیق عطاکرے جس کے متعلق مرحومہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس پر چلیں جو صدق واخلاص کا رستہ ہے۔ اللہم آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ئ)













۱۹۲۸ء
سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط اخبار الفضل میں شائع کرایا تھا جو حضور نے سیٹھی غلام نبی صاحب کے نام لکھا تھا اور جس میں سودی لین دین کے متعلق ایک اصولی فتویٰ درج تھا۔ اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ چونکہ یہ فتویٰ ایک اہم مسئلہ کے متعلق ہے اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس بھی شائع کردیا جائے تو بہترہے۔ اور ساتھ ہی سیٹھی صاحب سے وہ حالات قلم بند کرواکے شائع کئے جائیں جن کے ماتحت ان کو حضرت سے اس استفسار کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ اس کے متعلق میں نے سیٹھی صاحب سے دریافت کیا ہے اور انہوں نے جو تحریر جواب میں مجھے ارسال کی ہے وہ درج ذیل ہے۔ احباب سیٹھی صاحب کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ مرض دمہ سے بہت بیمار رہتے ہیں۔ سیٹھی صاحب کا خط جو انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا درج ذیل ہے۔
’’سیدی ومولائی سلمہٗ اللہ الرحمن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یاسیدی میں راولپنڈی دکان بزازی اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ کرتا تھا۔ وہاں پر ہمارا دستور تھا کہ جس قدر روپیہ زائد ہو صراف کے پاس جمع کرتے جاتے تھے اور جب ضرورت ہوتی اس سے لے کر کام میں لاتے تھے اور لین دین سودی ہوتا تھا یعنی سود لیتے اور دیتے تھے۔ میں جب احمدی ہوا تو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل شروع کیا لیکن چونکہ میرے شرکاء زبردست اور میں کمزور تھا اور وہ اس طریق سودی کو چھوڑتے نہیں تھے اور میرے حصہ کا سود خود بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ بحصہ رسدی سال بسال مجھ کو لینا پڑتا تھا۔ اور میں والد صاحب کی زندگی میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس لئے میںنے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے مسئلہ پوچھا یعنی لکھ کر دریافت کیا تو حضور نے مجھ کو جواب دیا جو یہ خط ہے۔
عاجز غلام نبی سیٹھی احمدی
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مندرجہ بالا خط کا مضمون حسب ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علی رسولہٖ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی کا نکال دے گا۔اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دیدیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہوجاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یار ہزنی یا ڈاکہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کے رد میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کی رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میںخدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان
۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء
’’ سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عملاً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہوجائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیا ہے) خرچ ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)






رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور بندہ جس وقت بھی اپنے خدا کی طرف رجوع کرے وہ اسے تواب اور رحیم وکریم پائے گا۔ بلکہ اس کی قدیم سنت کے مطابق اگر بندہ اس کی طرف ایک قدم آتا ہے تو وہ اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے اور اگر بندہ اس کی طرف چل کر آتا ہے تو وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی بندوں کی بے۔توجہی اور غفلت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے بعض خاص خاص اوقات کو اپنی رحمت کے غیرمعمولی فیضان کے لئے مخصوص کردیا ہے اور انہی خاص اوقات میں سے رمضان کا مہینہ ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں اور فضلوں کو کھینچنے کی کوشش کریں اور ذکر الٰہی اور نیک اعمال اور صدقہ وخیرات اور دعا سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں۔ اگلا رمضان نہ معلوم کس کو نصیب ہو اور کس کو نہ ہو۔
پس جو موقع میسر ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس بات کا عہد کرلیں کہ رمضان کا مہینہ آپ کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرکے جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان کے موقع پر اپنے دل کے ساتھ کم از کم یہ عہد باندھ لے کہ وہ اس رمضان میں اپنی فلاں کمزوری کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے گا۔ اور پھر اس عہد کو پورا کرکے چھوڑے تاکہ اور نہیں تو رمضان کا مہینہ اسے ایک کمزوری اور نقص سے تو پاک کرنے کا موجب ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لیں تو خدا کے فضل سے عید کا دن ہماری جماعت کے قدم کو بہت آگے پائے گا۔ ہم لوگوں میں ابھی بہت سی کمزوریاں اور نقص ہیں۔ کوئی نماز میں سست ہے کوئی چندوں کی ادائیگی میں ڈھیلا ہے کوئی لین دین میں صاف نہیں۔ کوئی لغو اور فضول عادات میں مبتلا ہے۔ غرض کسی میں کوئی نقص ہے اور کسی میں کوئی۔ پس آئو آج سے ہم میں سے ہر فرد یہ عہد کرے کہ رمضان کے گذرنے سے قبل وہ اپنی فلاں کمزوری کو ترک کردے گا اور پھر کبھی اپنے آپ کو اس کمزوری کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دے گا۔ یہ کوئی بڑا عہد نہیں ہے بلکہ ایک معمولی ہمت کا کام ہے۔ اور اگر رمضان کا مہینہ اتنی بھی تبدیلی ہمارے اندر نہ پیدا کرسکے تو اس کا آنا یا نہ آنا ہمارے لئے برابر ہے۔
اب آخری عشرہ کے دن قریب آرہے ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ کے خاص ایام قرارد یاہے۔ پس ان کی برکات سے فائدہ اٹھائو اور کوشش کرو کہ ان دنوں میں تم خدا سے قریب تر ہوجائو تاکہ جب عید کا دن آئے تو وہ ہم سب کے لیئے حقیقی خوشی کا دن ہو۔ انشاء اللہ حسب دستور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ۲۸ یا۲۹ رمضان کے دن نماز عصر کے بعد تمام مقامی جماعت کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں دعا فرمائیں گے۔ بیرونی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ اس دن اور اسی وقت اپنی مقامی مسجد میں یا مسجد نہ ہو تو کسی دوسری جگہ جہاں نمازوں کا انتظام ہو اکٹھے ہوکر دعا کریں تاکہ اس گھڑی ایک متحدہ التجا خدا کے دربار تک پہونچے۔ اور خدا کی رحمتیں ہماری دستگیری کے لئے نیچے اترآئیں۔ اگر ممکن ہوا تو میں انشاء اللہ دعا کی معین تاریخ اور وقت سے بعد میں اطلاع دوں گا۔ دعا میں حمد اور درود کے بعد اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور بہبودی کو سب دعائوں پر مقدم رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)








اپنے گھروں میں درس جاری کرو
ایک عرصہ سے اس بات کی تحریک کی جارہی ہے کہ مقامی جماعتوں کو چاہیئے کہ اپنی اپنی جگہ قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے درس جاری کریں لیکن ابھی تک بہت سی جماعتوں نے اس کا انتظام نہیں کیا۔ جس کی وجہ کچھ تو یقینی طور پر غفلت اور بے پرواہی ہے لیکن زیادہ تر مقامی حالات ہیں جن کی وجہ سے عموماً مقامی احباب کا ہرروز ایک معینہ وقت پر ایک معینہ جگہ پر جمع ہونا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ انہی دقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر درسوں کے اجراء کی تحریک کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ جہاں روزانہ درس نہ ہوسکے وہاں ہفتہ میں دوبار یا کم از کم ہفتہ میں ایک بار ہی درس کا انتظام کردیا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے اس ارشاد کے ماتحت بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگیا ہے اور خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ بہت بابرکت ہوگا۔ جن جن جماعتوں نے ابھی تک ایسے درسوں کا انتظام نہ کیا ہو ان کو چاہیئے کہ فوراً اس کی طرف توجہ کریں۔
لیکن اس موقع پر جس قسم کے درس کی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں وہ گھر کا درس ہے ۔ ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقع پر گھر کے سب لوگ مرد عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں۔ اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔ تاکہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے۔ اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہوجائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید وبابرکت ہوسکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مقامی امراء یا پریذیڈنٹ وسیکرٹریان تعلیم وتربیت بہت جلد اس کی طرف توجہ فرمائیںگے اور آئندہ تعلیم وتربیت کی ماہواری رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہونا چاہیئے کہ اتنے گھروں میں خانگی درس کا انتظام ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ئ)





محمد ہست بُرہانِ محمد
مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.6ٗ
آپ نے فرمائش کی تھی کہ میں ’’الفضل‘‘ کے خاتم النبیین نمبر کے لیئے کوئی مضمون لکھوں۔ ایسی تحریک میں حصہ لینا ہر مسلمان کے واسطے موجب سعادت اور باعثِ فخر ہونا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں بعض معذوریوں کی وجہ سے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور مجھے اس محرومی کا قلق ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مصرع مندرجہ عنوان کے متعلق کچھ لکھوں گا اورمیں نے اپنے ذہن میں اس مضمون کا ایک مختصر سا ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا۔ لیکن اس ذہنی خاکہ کو سپردِ قلم نہ کرسکا۔ میرا ارادہ مثالیں دے کر یہ بیان کرنے کا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (فداہ نفسی) اپنے اس کمال میں منفرد ہیں کہ آپ کا ہر قول اور ہرفعل اور ہرحرکت اور ہر سکون اور ہر عادت اور ہر خلق آپ کی صداقت اور آپ کی فضیلت اور آپ کے کمال کی ایک روشن دلیل ہے اور اس خصوصیت میں آپ جملہ بنی آدم پر ممتاز اور فائق ہیں کیونکہ دنیا میں اور کوئی شخص ایسا نہیں گذرا جس کی ہر بات اس کے کمال کی دلیل ہو۔ اور اسی لئے ’’سید ولد آدم‘‘ کا خطاب پانے کے لئے آپ کے سوا اور کوئی شخص حقدار نہیں۔ یہ مضمون ایک نہایت وسیع مضمون ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں اسے نہایت مدلل اور دلچسپ طریق پر بیان کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس موقع پر جو ایسے مضمون کے واسطے ایک بہت عمدہ موقع تھا۔ میں اس مضمون کے بیان کرنے سے محروم رہا ہوں۔ اگر زندگی رہی اور خدا نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھرکبھی عرض کروں گا۔وما توفیقی الَّا باللّٰہ
اگر مناسب سمجھیں تو میری طرف سے یہ چند سطور اخبار میں شائع فرمادیں تاکہ احباب کی دُعا میں تھوڑا سا حصہ میں بھی پاسکوں۔
خاکسار
مرزابشیراحمد
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ئ)
مقامی امیر کی پوزیشن
اس دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ڈلہوزی تشریف لے جاتے ہوئے مجھے قادیان کا مقامی امیرمقرر فرمایا۔ میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کردیا تھا کہ میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے غالباً میری بہت سی کمزوریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور مجھے یہ بار اٹھانا پڑا۔ اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے منصب امارت کے متعلق جماعت میں بعض احباب کو غلط فہمی پیدا ہورہی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کا امیر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام ہے اور اسے وہی یا قریباً قریباً وہی اختیارات حاصل ہیں جو خلیفہ وقت کو خدا کی طرف سے حاصل ہیں۔ یہ خیال مجھے اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس عرصۂ۔امارت میں میرے پاس بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ مثلاً فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اسے منسوخ کیا جائے۔ یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ جو ان سب کے افسر ہیں حکم صادر فرماسکتے ہیں۔ اسی طرح اس عرصہ میں میرے پاس قادیان کے بعض مقامی احباب کی ایسی تحریریں آئی ہیں کہ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نام تجویز کیا جاوے اور زیادہ تعجب کے قابل یہ ہے کہ بعض بیرونی احباب کی طرف سے بھی اسی قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ابھی تک جماعت کو قادیان کے مقامی امیر کی پوزیشن کی حقیقت معلوم نہیں ہے اور وہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ گو یہ درست ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں حضرت کا قائم مقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو اس میں شک نہیںہے کہ مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے۔ جس طرح کہ دوسرے مقامات میں امیر ہوتے ہیںاور اسے کوئی زائد اختیار یا زائد رُتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں ہے۔ گو جو فرق مدارج کا ایک ہی نوع کے افراد میں ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔ قادیان کا مقامی امیر اسی طرح ناظران۔سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت ہے جس طرح دوسرے مقامی امیر ہیں کیونکہ ناظران مرکزی نظام سلسلہ کے رکن ہیں اور امیر خواہ مرکز کی جماعت کا ہی ہو محض ایک مقامی عہدیدار ہے۔ اس کی مثال ایسی سمجھنی چاہیئے کہ مثلاً لاہور جو پنجاب کا دارالسلطنت ہے وہاں ایک ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جو ایک مقامی حیثیت رکھتا ہے اور وہیں پر حکومت پنجاب کے مختلف سیکرٹریان یا ممبران ایگزیکٹو کونسل بھی رہتے ہیںجو مرکزی حکومت کے رکن ہیں۔ اب کوئی شخص یہ خیال نہیں کرسکتا کہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر جو مقامی عہدیدار ہے وہ مرکزی حکومت کے ارکان کے کام میں دخیل ہوسکتا ہے یا ان کو ہدایات جاری کرسکتا ہے۔ دراصل سارا دھوکا اس لئے لگا ہے کہ حضرت کی موجودگی میں قایان میں کوئی مقامی امیر نہیں ہوتا کیونکہ حضرت باتباع سنت نبوی صرف اپنی غیرحاضری میں قادیان کا مقامی امیر مقرر فرماتے ہیں۔ حضرت کی موجودگی میں بھی کوئی مقامی امیر ہوا کرتا تو یہ غلط فہمی نہ پیدا ہوتی مگر چونکہ مرکز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا مقامی امیر بھی خلیفۂ وقت ہوا کرتا ہے اس لئے یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ قادیان کے مقامی امیر کے وہ اختیارات اور وہ ذمہ داریاں سمجھ لی گئی ہیں جو خلیفہ کے عہدہ کے ساتھ خاص ہیں۔ بہرحال میں اس اعلان کے ذریعہ احباب کی اس غلط فہمی کو دور کردینا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ احباب اپنے نظام حکومت اور سیاست سلسلہ کے اصول سے اس قدر ناواقفی کا اظہار نہیں کریں گے۔ یہ امر بھی اس ضمن میں واضح ہونا چاہیئے کہ حضرت جب کبھی قادیان سے باہر تبدیل آب وہوا وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے صرف قادیان کا مقامی امیر کسی کومقرر فرماتے ہیں۔ پس قادیان کے امیر کا تعلق صرف قادیان کی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔ پس بیرونی احباب کا قادیان کے امیر کے ساتھ ان امور میں خط وکتابت کرنا جن امور میں وہ پہلے حضرت کے ساتھ خط وکتابت فرمایا کرتے تھے، کسی طرح بھی درست رائے نہیں ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۷ جولائی ۱۹۲۸ئ)
















۱۹۲۹ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں
سب سے بہتر شخص
مقدس بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکم لِاَھْلِہ.6ِ ۳؎ یعنی تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ آپؐ کے ان الفاظ کو اگر اس بارہ میں آپ کی تعلیم اور آپؐ کے تعامل کا خلاصہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ آپ کی خانگی زندگی یقینا ان الفاظ کی بہترین تفسیر تھی۔
رسول کریمؐ اور تعدد ازدواج
قومی اور ملکی اور سیاسی اور دینی ضروریات نے آپ.6ؐ کو مجبور کیا کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کریں۔ اور یہ ایک قربانی تھی جو آپ.6ؐ کو ایک غیرنفسی ضرورت کے ماتحت کرنی پڑی۔ مگر آپ.6ؐ نے اس قربانی کی روح کو اس خوبی اور کمال کے ساتھ نبھایا……… اور باوجود اپنی خانگی ذمہ داری کی پیچیدگیوں کے معاشرت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جو دنیا کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ میرے یہ الفاظ میری قلبی خوش عقیدگی کی گونج نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد ٹھوس تاریخی واقعات پر قائم ہے جنہیں کسی دوست کی خوش عقیدگی یا کسی دشمن کا تعصب اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتے۔
معاشرت کا کامل نمونہ
کثرت ازدواج کی وجہ سے جو اضافہ آپ کی خانگی ذمہ داریوں میں ہوا۔ اس کو آپ کی ان گوناگوں اور بھاری ذمہ داریوں نے اور بھی بہت زیادہ کردیا تھا جو ایک مصلح۔ ایک امام۔ جماعت۔ ایک انتظامی حاکم۔ ایک جوڈیشل قاضی۔ ایک سیاسی لیڈر۔ ایک فوجی جرنیل اورایک بین۔الاقوام نظام جمہوریت کے صدر کی حیثیت میں آپ پر عائد ہوتی تھیں اور ہر شخص جو آپ کی خانگی زندگی اور گھر کی معاشرت کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا چاہتا ہے اس کا یہ پہلا فرض ہے کہ ان حالات کو پورے طور پر مدنظر رکھے جو آپ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں نے آپ کے لئے پیدا کررکھے تھے۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے تحریر نہیں کئے کہ میں آپ.6ؐ کی زندگی کے حالات کو آپ کی خانگی معاشرت پر رائے لگاتے وقت ایک موجب رعایت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں نے یہ الفاظ اس لئے لکھے ہیں کہ تایہ ظاہر ہو باوجود ان عظیم الشان ذمہ داریوں کے جو عام اسباب کے ماتحت یقینا آپ.6ؐ کے خانگی فرائض کی ادائیگی کے رستے میں روک ہوسکتی تھیں۔ آپ.6ؐ نے معاشرت کا وہ کامل نمونہ دکھایا جو دنیا کے ہر شخص کو خواہ وہ کیسے ہی حالات زندگی کے ماتحت رہا ہو شرماتا ہے۔
مگر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے اور اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس قدر مختلف پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں کہ اس مختصر گنجائش کو دیکھتے ہوئے جو ایڈیٹر صاحب الفضل نے (جن کی تحریک پر میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں) اس کے لئے مقرر کی ہے اس مضمون پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھنا تو درکنار معمولی اور واجبی تفصیل میںجانا بھی ناممکن ہے۔ پس میں نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند موٹی موٹی باتوں کے تحریر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ وما توفیقی الاباللّٰہ
رسول کریمؐ کی پہلی شادی
سب سے پہلی شادی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ حضرت خدیجہ سے تھی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بیوہ تھیں۔ گویا آپ نے عین عنفوان شباب میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی۔ بظاہر حالات یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید یہ شادی کسی وقتی مصلحت کے ماتحت ہوگئی ہوگی اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کوئی خوشی کی زندگی نہیں گذری ہوگی کیونکہ جہاں بیوی کی عمر خاوند کی عمر سے اتنی زیادہ ہو کہ ایک کی جوانی کا عالم اور دوسرے کے بڑھاپے کا آغاز ہو تو وہاں عام حالات میں ایسا جوڑا کوئی خوشی کا جوڑا نہیں سمجھا جاتا مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خوشی کا اتحاد ہوا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کامل محبت ایک دوسرے پر کامل اعتماد۔ ایک دوسرے کے لئے کامل قربانی کا نظارہ اگر کسی نے کسی ازدواجی جوڑے میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ میں نظر آئے گا۔ کیا ہی بہشتی زندگی تھی جو اس رشتہ کے نتیجے میں دونوں کو نصیب ہوئی۔
پاکیزہ خانگی کا اثر
مجھے اس رشتہ کے کمال اتحاد کا احساس سب سے بڑھ کر اس وقت ہوتا ہے جبکہ میں اس تاریخی واقعہ کا مطالعہ کرتا ہوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اس غیر مانوس اور غیرمتوقع جلال الٰہی سے مرعوب ہوکر سخت گھبرائے ہوئے اپنے گھرمیں آئے اور ایک سہمی ہوئی آواز میں اپنی رفیق حیات سے فرمایا کہ مجھ پر آج یہ حالت گذری ہے اور مجھے اپنے نفس کی طرف سے ڈر پیدا ہوگیا ہے۔ اس وقت گھر میں بظاہر حالات صرف یہی میاں بیوی تھے۔ خاوند ادھیڑ عمر کو پہنچا ہوا۔ اور بیوی بوڑھی۔ گھر کی چاردیواری میں دوست ودشمن کی نظروں سے دور تکلف کا طریق بیرون از سوال تھا۔ دونوں پندرہ سال کے لمبے عرصہ سے ایک دوسرے کے رفیق زندگی تھے۔ ایک دوسرے کی خوبیاں ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ اگر کوئی کمزوری تھی تو وہ بھی ایک دوسرے پر مخفی نہ تھی۔ ایسی حالت میں جس سادگی کے ساتھ خاوند نے اپنی پریشانی اپنی بیوی سے بیان کی اور جس بے۔ساختگی کے عالم میں بیوی نے سامنے سے جواب دیا وہ اس مقدس جوڑے کے کمال اتحاد کا ایک بہترین آئینہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ تاریخ میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
’’ کَلَّا، وَاللّٰہِ!مَایَحْزُنْکَ اللّٰہُ اَبَدًا،اِنّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتَعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقَّ۔۴؎
ہے ہے ایسا نہ کہیں خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپ رشتوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو دنیا سے معدوم ہوچکے تھے ان کو آپ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے اور آپ مہمان نواز ہیں اور حق وانصاف کے رستے میں جو مصائب لوگوں پر آتے ہیں ان میں آپ ان کی اعانت فرماتے ہیں۔‘‘
حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ اپنے اندر ایک نہایت وسیع مضمون رکھتے ہیںجس کی پوری گہرائی تک وہی شخص پہنچ سکتا ہے جو دل ودماغ کے نازک احساسات سے اچھی طرح آشنا ہو۔ ان الفاظ میں اس مجموعی اثر کا نچوڑ مخفی ہے جو پندرہ سالہ خانگی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے قلب پر پیدا کیا۔ جو خاوند اپنی روزمرہ زندگی کے واقعات سے اپنی بیوی کے دل ودماغ میں وہ اثرات پیدا کرسکتا ہے جن کا ایک چھوٹے پیمانہ کا فوٹو ان الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کی پاکیزہ خانگی زندگی اور حسن معاشرت کا اندازہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کا صدمہ
حضرت خدیجہؓ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں اور ان کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا اور لکھا ہے کہ ایک عرصہ تک آپ کے چہرہ پر غم کے آثار نظر آتے رہے اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا۔ ان کی وفات کے بعد جب کبھی ان کا ذکر آتا تھا آپؐ کی آنکھیں پُر نم ہوجاتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی اور دروازہ پر آکر اندر آنے کی اجازت چاہی ان کی آواز مرحومہ خدیجہ سے بہت ملتی تھی۔ یہ آواز سن کر آپ بے۔چین ہوکر اپنی جگہ سے اٹھے اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ اور بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا جب کبھی باہر سے کوئی چیز تحفۃً آتی تھی۔ آپ لازماً حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو اس میں سے حصہ بھیجتے تھے اور اپنی وفات تک آپ نے کبھی اس طریق کو نہیںچھوڑا۔
بدر میں جب ستر کے قریب کفار مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے تو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ،وسلم کے داماد یعنی زینب بنت خدیجہ کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ جو ابھی تک مشرک تھے۔ زینب نے ان کے فدیہ کے طور پر مکہ سے ایک ہاربھیجا۔ یہ وہ ہار تھا جو مرحومہ خدیجہ نے اپنی لڑکی کو جہیز میں دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور حضرت خدیجہ کی یاد میں آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ آپ نے رقّت بھری آواز میں صحابہ سے فرمایا یہ ہار خدیجہ نے زینب کو جہیز میں دیا تھا۔ تم اگر پسند کرو تو خدیجہ کی یہ یادگار اس کی بیٹی کو واپس کردو۵؎۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی۔ انھوں نے فوراً واپس کردیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کی جگہ ابوالعاص کا یہ فدیہ مقرر فرمایا کہ وہ مکہ جاکر زینب کو فوراً مدینہ بھجوادیں۔ اور اس طرح ایک مسلمان خاتون (اور خاتون بھی وہ جو سرورکائنات کی لخت جگر تھی) دارکفر سے نجات پاگئی۔ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زندہ بیوی کے متعلق کبھی جذبات رقابت نہیں پیدا ہوئے لیکن مرحومہ خدیجہ کے متعلق میرے دل میں بعض اوقات رقابت کا احساس پیدا ہونے لگتاتھا۶؎۔ کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان کی یاد آپ کی دل کی گہرائیوں میں جگہ لئے ہوئے تھی۔
دوسری شادیاں
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ.6ؐ نے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے ساتھ شادی کی اور ہجرت کے بعد تو حالات کی مجبوری کے ماتحت آپؐ کو بہت سی شادیاں کرنا پڑیں اور آپ.6ؐ کی خانگی ذمہ،داریاں بہت نازک اور پیچیدہ ہوگئیں مگر بایں ہمہ آپؐ نے عدل وانصاف کا ایک نہایت کامل نمونہ دکھایا اور کسی ذرا سی بات میں بھی انصاف کے میزان کو اِدھر اُدھر جھکنے نہیں دیا۔ آپؐ کا وقت آپ کی توجہ آپ کا مال آپ کا گھر اس طرح آپ.6ؐ کی مختلف بیویوں میں تقسیم شدہ تھے کہ جیسے کسی مجسم چیز کو ترازو میں تول کر تقسیم کیا گیا ہو۔ اور اس خانگی بانٹ کے نتیجہ میں آپؐ کی زندگی حقیقۃً ایک مسافرانہ زندگی تھی۔ اور آپؐ کا پروگرام حیات آپؐ کے اس قول کی ایک زندہ تفسیر تھا جو آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’کن فی الدنیاکعابری سبیلٍ۷؎
یعنی انسان کو دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گذارنی چاہیئے۔ ‘‘
بیویوں میں کامل عدل
مگر باوجود اس کامل عدل وانصاف کے آپؐ فرماتے تھے کہ اے میرے خدا میں اپنی طاقت کے مطابق اپنی بیویوں میں برابری اور مساوات کا سلوک کرتا ہوں لیکن اگر تیری نظر میں کوئی ایسا حق وانصاف ہے جس سے میں کوتاہ رہا ہوں اور جو میری طاقت سے باہر ہے تو تو مجھے معاف فرما۔ آپ کا یہ عدیم المثال انصاف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپؐ کے دل میںاپنی ساری بیویوں کی ایک سی ہی قدر اور ایک سی ہی محبت تھی کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے اور خود آپؐ کے اپنے اقوال سے بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بعض بیویوں سے ان کی ممتاز خوبیوں اور محاسن کی وجہ سے دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت تھی۔ پس آپ کا یہ انصاف محض انصاف کی خاطر تھا۔ جسے آپ کی قلبی محبت کا فرق اپنی جگہ سے ہلا نہیںسکا۔ مرض الموت میں جب کہ آپ کو سخت تکلیف تھی اور غشیوں تک نوبت پہنچ جاتی تھی آپ دوسروں کے کندھوں پر سہارا لے کر اور اپنے قدم مبارک کو ضعف ونقاہت کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے اپنی باری پوری کرنے کے خیال سے اپنی بیویوں کے گھروں میں دورہ فرماتے تھے حتیّٰ کہ بالآخر خود آپ کی ازدواج نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ آپؐ عائشہ کے گھر میں آرام فرمائیں ہم اپنی باری خود اپنی خوشی سے چھوڑتی ہیں۔ اس عدل وانصاف کے توازن کو قائم رکھنے کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ آپؐ کی موجودگی میں آپ کی بعض بیویوں کا کسی بات پر آپس میں کچھ اختلاف ہوگیا۔ حضرت عائشہ ایک طرف تھیں اور بعض دوسری بیویاں دوسری طرف۔ دوسری بیویوں نے غصہ میں آکر حضرت عائشہ کے ساتھ کسی قدر سخت باتیں کیں۔ مگر حضرت عائشہ نے صبر سے کام لیا اور خاموش رہیں۔ ان کی خاموشی سے دلیر ہوکر ان بیگمات نے ذرا زیادہ سختی سے کام لینا شروع کیا جس پر حضرت عائشہ کو بھی غصہ آگیا اور انھوں نے سامنے سے جواب دیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے اور آپ خوب جانتے تھے کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ حق پر ہیں اور حضرت عائشہ سے آپ کو دوسری بیویوں کی نسبت محبت بھی زیادہ تھی مگر چونکہ اس اختلاف کا کوئی عملی اثر نہیں تھا آپ بالکل خاموش رہے تاکہ دوسری بیویوں کے دل میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ آپؐ عائشہ کی پاسداری فرماتے ہیں۔ البتہ جب یہ نظارہ بدل گیا تو آپؐ نے حضرت عائشہ سے ازراہ نصیحت فرمایا چونکہ تم حق بجانب تھیں جب تک تم خاموش رہیں تمہاری طرف سے خدا کے فرشتے جواب دیتے رہے لیکن جب تم نے خود جواب دینے شروع کئے تو فرشتے چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔
تعلیم وتادیب کا خیال
تعلیم وتادیب کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اپنے گھر میں ایک بہترین مصلح اور معلم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور کوئی موقع اصلاح اور تعلیم کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ قرآن شریف کی ایک مشہور آیت ہے:
’’قُوْٓااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۸؎
یعنی اے مسلمانواپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی ہرقسم کی معصیت اورگناہ سے اور دوسرے ضررساں رستوں سے بچائو۔‘‘
آپؐ اس آیت پر نہایت پابندی کے ساتھ مگر نہایت خوبی سے عمل پیرا تھے اور یہ آپ.6ؐ کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپؐ کی ازواج مطہرات اسلامی اخلاق وعادت اور اسلامی شعار کا بہت اعلیٰ نمونہ تھیں۔ بشریت کے ماتحت ان سے بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی تھی لیکن ان کی غلطیوں میں بھی اسلام کی بو آتی تھی۔
حضرت عائشہؓ پر بہتان کا واقعہ
جب بعض شریر فتنہ پرداز منافقوں نے حضرت عائشہ پر بہتان باندھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور آپؐ کی زندگی بے چین ہوگئی۔ اس بے چینی کے عالم میں آپؐ نے ایک دن حضرت عائشہ سے فرمایا:
’’ عائشہ اگر تمہارا دامن پاک ہے تو خدا عنقریب تمہاری بریت ظاہر فرمادے گا مگر دیکھو انسان بعض اوقات ٹھوکر بھی کھاتا ہے لیکن اگر اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جائے اور خدا کی طرف جھکے تو خدا ارحم الراحمین ہے۔ وہ اپنے بندے کو ضائع نہیں کرتا تم سے اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو تمہیں چاہیئے کہ خدا کی طرف جھکو اوراس کے رحم کی طالب بنو۔‘‘
حضرت عائشہ کا دل پہلے سے بھرا ہوا تھا۔ اس خیال نے ان کے جذبات کو مزید ٹھیس لگائی کہ میرا رفیق زندگی اور میرا سرتاج بھی میرے متعلق اس قسم کی لغزش کا امکان تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ وہ تھوڑی دیر تو بالکل خاموش رہیں اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں کہ:
’’فَصَبْرٌٌجَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔اِنَّمَآ اَشْکُوْاَبِثّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۹؎
یعنی میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ اور میں اس بات کے متعلق جو کہی جارہی ہے خدا کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتی اور نہ میں اپنے دکھ کی کہانی خدا کے سوا کسی سے کہتی ہوں۔‘‘
یہ حضرت عائشہ کی غلطی تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ان پر کوئی بدظنی نہیں کی تھی بلکہ محض ایک اصولی نصیحت فرمائی تھی مگر آپؐ کے الفاظ نے حضرت عائشہ کے حساس دل کو چوٹ لگائی اور وہ اس غم میں اندر ہی اندر گھلنے لگ گئیں۔ لیکن اس پر کوئی زیادہ وقت نہ گزرا کہ حضرت عائشہ کی بریت میں وحی الٰہی نازل ہوئی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش خوش ان کے قریب گئے اور انہیں مبارک باد دی حضرت عائشہ نے رقّت بھری آواز میں جس میں کسی قدر رنج کی آمیزش بھی تھی جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں کسی کی شکر گزار نہیں ہوں بلکہ صرف اپنے خدا کی شکر گزار ہوں جس نے خود میری بریت فرمائی۔ سرورکائنات کے سامنے اس رنگ میں یہ الفاظ کہنا بھی ایک غلطی تھی مگر دیکھو تو غلطیاں کیسی پیاری غلطیاں ہیں جیسے ایمان واخلاص کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو معطر کررہی ہیں اور یہ سب باغ وبہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔
امہات المومنینؓ کو نصیحت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں عموماً یہ نصیحت فرماتے تھے کہ تمہاری حیثیت عام مومنات کی سی نہیں ہے بلکہ میرے تعلق کی وجہ سے تمہیں ایک بہت بڑی خصوصیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہیں اس کے مطابق اپنے آپ کو بنانا چاہیئے بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ تم مومنوں کی روحانی مائیں ہو۔ جیسا کہ میں روحانی باپ ہوں۔ پس تمہیں ہررنگ میں دوسروں کے واسطے ایک نمونہ بننا چاہیئے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم کوئی غلط طریق اختیار کروگی تو خدا کی طرف سے تمہیں دوہری سزا ہوگی کیونکہ تمہارے خراب نمونہ سے دوسروں پر بھی برا اثر پڑے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب کثرت کے ساتھ اموال آئے تو دوسرے صحابیوں کی طرح آپؐ کی ازدواج نے بھی اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ مانگا۔ آپؐ نے فرمایا۔ اگر تمہیں دنیا کے اموال کی تمنا ہے تو میں تمہیں مال دئے دیتا ہوں لیکن اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں (کیونکہ میں اپنی زندگی کو دنیا کے مال ومتاع کی آلایش سے ملوث نہیں کرنا چاہتا) اور اگر تم میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو دنیا کے اموال کا خیال دل سے نکال دو سب نے یک زبان ہوکر عرض کیا کہ ہمیں خدا کے رسول کا تعلق بس ہے مال نہیں چاہیئے اور جب انہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے اموال کوٹھکرادیا تو خدا نے اپنے وقت پر ان کو دنیا کے اموال بھی دے دیئے۔
محبت ودلداری
مگر اس تعلیم وتادیب کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت ودلداری کے طریق کو بھی کبھی نہیں چھوڑا حتیّٰ الوسع آپ ہر بات میں اپنی بیویوں کے احساسات اور ان کی خوشی کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور تلطّف سے بات کرتے۔ اور باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً ان کے پاس گذارتے حتی کہ سفروں میں بھی باری باری اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رکھتے اور آپ کی عادت تھی کہ اپنی بیویوں کی عمر اور حالات کے مناسب ان سے سلوک فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ جب بیاہی ہوئی آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی انہیں دنوں میں چند حبشی لوگ تلوار کا کرتب دکھانے کے لئے مدینہ میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی مسجد میں کرتب دکھانے کی اجازت دی۔ اور آپ نے خود حضرت عائشہ کو اپنی اوٹ میں لے کر اپنے حجرہ کی دیوار کے پاس کھڑے ہوگئے اور جب تک حضرت عائشہ اس تماشے سے (جو درحقیقت ایک فوجی تربیت کے خیال سے کرایا گیا تھا) سیر نہیں ہوگئیں۔ آپ اسی طرح کھڑے رہے۔۱۰؎
ایک اور موقع پر جبکہ حضرت عائشہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھیں آپ نے ان کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا جس میں حضرت عائشہ آگے نکل گئیں۔ پھر ایک دوسرے موقع پر جبکہ عائشہ کا جسم کسی قدر بھاری ہوگیا تھا آپ دوڑے تو حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں جس پر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:-
’’ھٰذِہِ بِتْلِکَ۱۱؎
یعنی لو عائشہ اب اس دن کا بدلا اتر گیا ہے۔‘‘
ایک دن حضرت عائشہ اور حفصہؓ بنت عمر نے صفیہؓ کے متعلق مذاق مذاق میں کچھ طعن کیا کہ وہ ہمارا مقابلہ کس طرح کرسکتی ہے ہم رسول اللہ کی صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ آپؐ کی برادری میں آپ کی ہم پلہ ہیں اور وہ ایک غیر قوم ایک یہودی رئیس کی لڑکی ہے۔ صفیہؓ کے دل کو چوٹ لگی اور وہ رونے لگ گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو صفیہ کو روتے دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ انہوں نے کہا عائشہ نے آج مجھ پر یہ چوٹ کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا واہ یہ رونے کی کیا بات تھی تم نے یہ کیوں نہ جواب دیا کہ میرا باپ خدا کا ایک نبی ہارون اور میرا چچا خدا کا ایک بزرگ نبی موسیٰ۔ اور میرا خاوند محمد (صلعم) خاتم النبین۱۲؎۔ پھر مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے۔ بس اتنی سی بات سے صفیہ کا دل خوش ہوگیا۔
نوجوانی کی حالت میں طبعاً محبت کے جذبات زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ایسا شخص دوسرے کی طرف سے بھی محبت کا زیادہ مظاہرہ چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو علم النفس کے کامل ترین ماہر تھے اس جہت سے بھی اپنی بیویوں کے مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے (جو آپ کی ساری بیویوں میں سے خوردسالہ تھیں) کسی برتن سے منہ لگا کر پانی پیا جب وہ پانی پی چکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن کو اٹھایا اور اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا۱۳؎۔ اس قسم کی باتیں خواہ اپنے اندر کوئی زیادہ وزن نہ رکھتی ہوں مگر ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جسے کوئی وقائع نگار نظر انداز نہیں کرسکتا۔ الغرض محبت میں تلطف میں دلداری میں وفاداری میں تعلیم وتربیت میں تادیب واصلاح میں اور پھرمختلف بیویوں میں عدل وانصاف میں آپ ایک ایسا کامل نمونہ تھے کہ جب تک نسل انسانی کا وجود قائم ہے دنیا کے لئے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلٰی ال محمد وبارک وسلم۔
‎(مطبوعہ الفضل۳۱ مئی ۱۹۲۹ئ)














۱۹۳۲ء
محمدؐ ہسْت برہانِ محمدؐ
حقیقی اور کامل تعریف
مصرع مندرجہ عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بانیٔ سِلسلہ احمدیہ کے ایک قصیدہ سے ماخوذ ہے جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت میں منظوم فرمایا تھا۔ میں نے بہت غور کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح میں جو الفاظ انسانوں کی طرف سے کہے گئے ہیں خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے ان میں مصرع مندرجہ بالا سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحیح اور حقیقی اور کامل تعریف کا حاصل اور کوئی فقرہ نہیں۔
سب سے بڑا باکمال
بے شک دنیا میں تعریف کے مستحق لاکھوں انسان گزرے ہیں اور ان میں سے بعض نے وہ مرتبہ پایا ہے کہ آنکھ ان کی رفعت اور روشنی کو دیکھ کر خیرہ ہوتی ہے اور یہ باکمال لوگ پائے بھی ہر میدان میں جاتے ہیں یعنی دین ودنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان لوگوں کے وجود سے خالی ہو مگر ان میں سے کون ہے؟ جس کی ہستی کا ہر پہلو اس کے کمال پر شاہد ہو۔ کون ہے جس کے وجود کا ہرذرہ اس کے نورِ باطن کا پتہ دے رہا ہو؟ کون ہے جس کی ذات والا صفات کا ہر خلق اس کی یگانگت کی دلیل ہو؟ یقینا یہ کمال صرف مقدس بانیٔ اسلام (فداہ نفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی دوسرا انسان اس صفت میں آپؑ کا شریک نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ خداداد نے دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یدِبیضانے ایک عالم کی آنکھ کو مسخر کردیا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دم عیسوی سے روحانی مُردوں نے زندگی پائی مگر باوجود اپنے روحانی کمال کے حضرت مسیح ناصری ؑ نے موسیٰ علیہ السلام کا یدبیضا نہ پایا۔ حضرت موسیؑ کو باوجود اپنی رفعتِ شان کے حسنِ یوسفؑ سے محرومی رہی۔ حضرت یوسفؑ باوجود اپنی ظاہری وباطنی حُسن کے حضرت موسیٰ ؑ کے یدبیضا اور حضرت مسیح ؑکے دمِ عیسوی کو نہ پاسکے لیکن اسلام کا مقدس بانی اپنے ہروصف میں یکتا ہوکر چمکا۔ اپنی ہرشان میں دوسروں سے بالا رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدبِیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری
مصرعہ مندرجہ عنوان
یہ شعر بہت خوب ہے بہت ہی خوب ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اس سے بھی ارفع ہے۔ آپؐ کے یدبیضا کے سامنے حضرت موسیٰ ؑ کا یدبیضا ماند ہے۔ آپؐ کے انفاسِ روحانی سے حضرت عیسیٰ ؑ کے دمِ عیسوی کو کوئی نسبت نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن وکمال کی حقیقی تصویر صرف اس مصرع میں ملتی ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زبان سے نکلا اور میرے اس مضمون کا عنوان ہے۔ میرا یہ دعویٰ محض خوش عقیدگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخ کی مضبوط ترین شہادت اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ رہنمایانِ عالم میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والاصفات وہ ذات ہے جس کا ہروصف ہر خط وخال ہر ادا آپؐ کے کمال کی دلیل ہے۔ اسی لئے قدرت نے آپؐ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مجسم تعریف کے ہیں۔ اور مصرع مندرجہ عنوان کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر دنیا میںکوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں ’’محمدؐ یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہو اور اس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے۔
احسن تقویم کا کامل نمونہ
میرے لئے اس نہایت مختصر مضمون میںاپنے اس وسیع دعویٰ کے دلائل لانے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس مضمون میں دلائل کا بیان کرنا میرا مقصد ہے۔ میں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتاہوں کہ ہمارا رسولؐ مرتبہ کیا رکھتا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جس نے اسے اس تعریف کا مستحق بنایا ہے جو مصرع مندرجہ عنوان میں بیان کی گئی ہے۔ سو جیساکہ میںنے اوپر بیان کیا ہے وہ مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود نبوت ورسالت کے جملہ کمالات میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ کسی ایک وصف یا ایک کمال کو لے کر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آپ.6ؐ کا امتیاز ی خاصہ ہے۔ میں آنحضرت صلی۔اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سوانح نگار ہوں اور خدا کے فضل سے آپ.6ؐ کے حالاتِ زندگی کا کسی قدر مطالعہ رکھتا ہوں۔ اور میں نے آپ.6ؐ کے سوانح کا مطالعہ بھی ایک آزاد تنقیدی نظر کے ساتھ کیا ہے۔ میں اس معاملہ میں اپنی ذاتی (گو معاملہ کی اہمیت کے مقابلہ میں نہایت ناچیز) شہادت پیش کرتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف ومحاسن کا جائزہ لے کر آپ.6ؐ کے وجودمیں کسی امتیازی خاصہ کی تلاش کرنی چاہی ہے تو میری نظر ہمیشہ ماندہو ہوکر لوٹ گئی ہے اور کبھی کامیابی نہیں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے اپنے نبی میں اوصافِ جلالی کا نور دیکھا تو اسے لے کر اپنے بانی کی تعریف میں پل باندھ دیئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تبعین نے اپنے مسیح کے اوصاف جمالی کا نظارہ کیا تو اس سے مسحور ہوکر انہیں خدا کے پہلو میں جابٹھایا۔
گوئتم بدھ کے نام لیووں نے اپنے بانی کی نفس کشی اور فنائیت کو دیکھ کر اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے مِلا دئیے۔ مگر اسلام کا بانی خدائے ذوالعرش کی کامل تصویر تھا اس لئے اس کے کمال نے اس بات سے انکار کیا کہ اس کاکوئی وصف اس کے کسی دوسرے وصف سے ہیٹا ہو۔ وہ اپنی امت کی کامل اصلاح کا پیغام لایا تھا اس لئے اس کی تصویر کا کوئی رنگ اس کے دوسرے رنگوں سے مغلوب نہیں ہوا۔ تا ایسا نہ ہو کہ اس کے متبع اس کے غالب رنگ سے متاثر ہوکر اصلاح کے ایک پہلو میں نفع اور دوسرے میں نقصان کا طریق اختیار کرلیں۔ قدرت نے اس کے تمام قوائے فطری کی ایک سی آبپاشی کی اور اس کے وجود میں اپنے اس فعل کو کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۱۴؎ تک پہنچادیا اسی واسطے جہاں دوسرے نبیوں کی بعثت کے لئے الٰہی کلام میںان کے حسبِ حال اور اور رنگ کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو خدا تعالیٰ نے خود اپنی آمد کہہ کر پکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح خدا کی ہستی کی بہترین دلیل خود خدا کی ذات ہے جو بغیر کسی بیرونی توسّل کے خود اپنی قدرت وجبروت کے زور سے اپنے آپ کو منواتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال کی بہترین دلیل خود آپ.6ؐ کا وجودِ باجود ہے۔ جو اپنے ہر وصف میںایک سی کشش اور ایک سی طاقت کے ساتھ دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کررہا ہے۔
نادر کرشمۂ قدرت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت صرف ان روحانی کمالات تک محدود نہیں جو نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بلکہ اس نادر کرشمۂ قدرت نے دین ودنیا کے جس میدان میں قدم رکھا ہے وہاں حُسن واحسان کا ایک کامل نقش اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔ یہ دلائل وامثلہ کی بحث میں پڑنے کا موقع نہیں ورنہ میں تاریخ سے مثالیں دے دے کر بتاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بچہ تھے تو بہترین بچہ تھے۔ اور جب جوان ہوئے تو بہترین جوان نکلے، ادھیڑ عمر کو پہونچے تو ادھیڑ عمر والوں میں بے مثل تھے اور جب بوڑھے ہوئے تو بوڑھوں میں لاجواب ہوئے۔ شادی کی تو بہترین خاوند بنے اور جب بادشاہ بنے تو دنیا کے بادشاہوں کے سرتاج نکلے۔ کسی کے دوست ہوئے تو جہان کی دوستیوں کو شرمادیا اور اگر کوئی آپ کا دشمن بنا تو اُس نے آپ.6ؐ کو اپنا بہترین دشمن پایا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو آپ.6ؐ کے سامنے ہمیشہ کے لئے نیچا کردیا۔ فوج کی کمان لی تو دنیا کے جرنیلوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ اور سیاست کی تو سیاست کا ایک بہترین ضابطہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ انتظامی حاکم بنے تو ضبط ونظم کی مثال بن گئے اور قضا کی کرسی پر بیٹھے تو عدل وانصاف کا مجسمہ نظر آئے۔ فاتح بنے تو دنیا کے فاتحین کو ایک سبق دیا۔ اور کبھی کسی معرکہ میں حکمت الٰہی سے مفتوح ہوئے تو مفتوح ہونے کا بہترین نمونہ قائم کیا۔ معلم خیر بنے تو جذب وتاثیر میں عدیم المثال نکلے اور عابد کا لباس پہنا تو تعبّد کو انتہا تک پہونچا دیا اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ کبھی کسی وصف پر زور ہو اور کبھی کسی وصف پر اپنے اپنے موقع پر ہر وصف کا دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ کامل طور پر ظہور ہوا۔ اور جب بالآخر خدا کی طرف سے واپسی کا پیغام آیا تو موت کا کیسا دلکش اور کیسا پیارا نقشہ پیش کیا کہ نزع کا عالم ہے اور روح جسم کے ساتھ اپنی آخری کڑیاں توڑ رہی ہے اور یہاں زبان پریہ الفاظ ہیںکہ
’’ اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانکُم۱۵؎یعنی
اے مسلمانوں تم خدا کی عبادت میں کبھی سست نہ ہونا۔ کہ وہی ہرخیروبرکت اور ہر قوت وطاقت کا منبع ہے۔ اور دنیا میں جو لوگ تم سے کمزور ہوں۔ اور تمہارے اختیار کے نیچے رکھے جائیں اُن کے حقوق کی حفاظت کرنا۔‘‘
اور جب رشتہ حیات ٹوٹنے کے لئے آخری جھٹکا کھاتا ہے تو آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ ہیں۔
’’اَللّٰھُمّٰ بِالرَّفِیْقِ الْاَ علٰی اللَّھم بِالرفیقِ الا عْلٰی۱۶؎ یعنی
اے میرے آقا تو اب مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مجھے اپنی رفاقتِ اعلیٰ میں لے لے۔‘‘
مطہر زندگی اور مطہر موت
یہ اسی پاک ومطہر زندگی اورپاک ومطہر موت کا اثر تھا کہ جب وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی،اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ.6ؐ کے چہرۂ مبارک پر سے چاردر ہٹا کر آپ.6ؐ کی پیشانی کو بوسہ دیا تو اس زندگی بھر کے رفیق کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ کہ طَبْتَ حیًّا ومیّتاً۱۷؎ یعنی ’’تو زندہ تھا تو بہترین زندگی کا مالک تھا اور فوت ہوا تو بہترین موت کا وارث بنا۔‘‘ کیا کسی اور نبی کے اوصاف میں یہ ہمہ گیر افضیلت نظر آتی ہے۔ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اور نبی ایسا گزرا ہے جس کی زندگی اتنے مختلف پہلوئوں کے مناظِر پیش کرتی ہو؟
من کل الوجُوہ افضلیّت
یہ اسی ہمہ گیر افضلیت کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ.6ؐ کے لئے ایسی کامیابی مقدر کی جس کی مثال کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ بے شک خدا کے ازلی رفیق لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.6ْ۱۸؎ کے ماتحت ہر نبی زکے لئے غلبہ مقدر ہوتا ہے مگر غلبہ کے بھی مدارج ہیں اور یقینا جو غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہوا اس کے سامنے دوسرے نبیوں کی کامیابی اسی طرح ماند ہے جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے دوسرے اجرام سماوی کی روشنی ماند ہوتی ہے۔ غرض جس جہت سے بھی دیکھاجائے جن پہلوئوں سے بھی مشاہدہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات دوسرے رہنمایانِ عالم سے اس طرح ممتاز وفائق نظر آتی ہے جیسے ایک بلند مینار آس پاس کی تمام عمارتوں سے ممتاز وبالا ہوتا ہے۔ اور آپ کا یہ امتیاز کسی ایک وصف یا کسیِ ایک شعبۂ زندگی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور من کل الوجوہ ہے۔ اسی لئے جہاں دوسرے انبیاء مرسلین کی تعریف میں ان کے خاص خاص اوصاف کو چُن لیا جاتا ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تعریف سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ:-
’’محمدؐ ہست بُرہان محمد.6ؐ‘‘
اللّٰھَمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ
‎(مطبوعہ الفضل ۶ نومبر ۱۹۳۲ئ)
















۱۹۳۳ء
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے کی ہدایات صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ولایت روانہ ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی انہیں نہایت ضروری اور اہم ہدایات تحریر فرما کردیں۔ ذیل میں انہیں افادہ عام کے لئے درج کیا جاتا ہے۔
عزیزم مظفر احمد سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ:
اب جبکہ تم ولایت کے لمبے سفر پر جارہے ہو ۔( اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اورتمہیں ہرقسم کی دینی ودنیوی خیریت کے ساتھ کامیاب اور بامراد واپس لائے) میں چاہتا ہوں کہ اپنی سمجھ کے مطابق جو باتیں تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں وہ تمہیں اختصار کے ساتھ لکھ کردوں تاکہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ تمہارے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق وھوالمستعان
ہر اچھی بات اختیار کرو اور بُری سے بچو
(۱) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا مذہب تہذیب اورتمدن بالکل جدا ہے۔ یہ ملک تمہارے واسطے گویا ایک نئی دنیا کا حکم رکھتا ہے۔ اس میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے داخل ہو۔ اس ملک میں بہت سی باتیں تمہیں مفید اور اچھی ملیں گی انہیں اس تسلی کے بعد کہ وہ واقعی اچھی ہیں بیشک اختیار کرو اور ان سے فائدہ اٹھائو کیونکہ مفید اور اچھی چیز جہاں بھی ملے وہ مومن کا مال ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ
’’ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث وجدھا۱۹؎یعنی
ہر اچھی بات مومن کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ وہ جہاں بھی ملے اسے لے لینا چاہیئے۔‘‘
مگر جہاں اس ملک میں اچھی باتیں ملیں گی وہاں بہت سی خراب اور ضرررساں باتیں بھی ملیں گی۔ ان باتوںکے مقابلہ پر تمہیں اپنے آپ کو ایک مضبوط چٹان ثابت کرنا چاہیئے اور خواہ دنیا کچھ سمجھے مگر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خراب اور ضرررساں چیز کے معلوم کرنے کا یقینی معیار سوائے اس کے اور کوئی نہیںکہ جوبات خدا اور اس کے رسول کے حکم اور موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کے خلاف ہے وہ یقینا نقصان دہ اور ضرررساں ہے۔
دین اور اخلاق کی حفاظت
(۲) ولایت میں تمہیں اپنے دین اور اخلاق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ملک اپنے اندر بعض ایسے عناصر رکھتا ہے جو دین اور اخلاق کے لئے سخت ضررساں ہیں۔ پس اس ملک میں دعا اور استغفار کرتے ہوئے داخل ہو اور جب تک اس میں رہو یا اس قسم کے دوسرے ملک میں رہو۔ خاص طور پر دعا اور استغفار پر زوردو تاکہ تمہارا دل ان ممالک کے مخفی زہروں سے محفوظ رہے اور زنگ آلود نہ ہو۔ نماز کی نہایت سختی کے ساتھ پابندی رکھو اور اسے اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ اسی طرح اسلام کی دوسری عبادات اور احکام کی پابندی اختیار کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ساری برکت اور کامیابی کا راز مخفی ہے۔
تعلق باللہ کے لئے کوشش
(۳) باوجود اسلام کی مقرر کردہ عبادات اور اس کے احکام کی پابندی اختیار کرنے کے یہ یاد رکھو کہ یہ باتیں اسلام میں بالذات مقصود نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اصل مقصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اصل مقصد خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا ہے۔ پس اپنی عبادت میں ہمیشہ اس مقصد کو یاد رکھو اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ وہ باوجود نماز کے پابند ہونے کے نماز سے غافل ہوتے ہیں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہزار برس کی نمازیں جو اس مقصد سے لاپرواہی کی حالت میں ادا کی جاتی ہیں اس ایک سجدہ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے سچی تڑپ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ پس اپنی ہرعبادت میں اور اپنے ہر عمل میں اس بات کی کوشش کرو کہ خدا کے قرب اور خدا کی محبت میں ترقی ہو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا ہوجائے۔ اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو بالکل خدا کے حکم اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت چلائو اور کوشش کرو کہ تم میں خدا اوراس کے رسول کی صفات جلوہ فگن ہوجائیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
مذہبی کتب کا مطالعہ
(۴) میں تمہیں اپنی طرف سے ایک قرآن شریف اور ایک کتاب حدیث اور بعض کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور ایک کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دے رہا ہوں ان کا باقاعدہ مطالعہ رکھو اور خصوصاً قرآن شریف اور اس زمانہ کے لحاظ سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مطالعہ میں ہرگز کوتاہی نہ کرو کیونکہ ان میں زندگی کی روح ہے۔ قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرو اور اس کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالو۔ قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کا ظاہر صحیفہ فطرت کی طرح بہت سادہ ہے مگر اس کے اندر حقائق اور معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں۔ جن سے انسان اپنے غور اورفکر اور تدبر کے مطابق فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر قرآن شریف کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے زیادہ یقینی رستہ تقویٰ اور طہارت ہے۔ اس کے بغیر قرآن شریف کے حقائق انسان پر نہیں کھل سکتے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کو قرآن شریف ہمیشہ ایک سطحی کتاب نظر آتا ہے حالانکہ سمجھنے والے جانتے ہیں کہ گو اس کا ظاہر سادہ ہے مگر اس کے اندر بے شمار ذخیرے مخفی ہیں جو تقویٰ اور طہارت کے ساتھ غور کرنے والوں پر کھلتے ہیں۔ حدیث کا جو حصہ یقینی ہے وہ بھی اپنے اندر انتہائی اثر اور صداقت رکھتا ہے اور اس کے مطالعہ سے انسان روحانی پیاس کی سیری محسوس کرتا ہے اور اس زمانہ کے لئے خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتب میں خاص اثر رکھا گیا ہے۔ ان سب سے علی قدرِ مراتب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
لباس کے متعلق ہدایت
(۵) جس ملک میں تم جارہے ہو وہاں کا لباس یہاں کے لباس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ اصولی بات یادرکھو کہ اسلام کو اصولاً لباسوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لباس گردوپیش کے حالات اور ملک کی آب وہوا پر منحصر ہے۔ پس اگر تم وہاں کی آب وہوا کے ماتحت وہاں کے لباس کاکوئی حصہ اختیار کرنا ضروری سمجھو تو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر انگریزی لباس میںایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجّال کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے ناپسند فرماتے تھے۔ اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ پس گو ظاہری اور جسمانی لحاظ سے انگریزی ٹوپی مفید ہو۔ مگر اس کی ان associationsکی وجہ سے اس کا روحانی اثر ضرررساں ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا۔ بلکہ اگر کسی چیز کے استعمال میں وہاں کے حالات کے ماتحت کوئی فائدہ یا خوبی پائو تو اسے بیشک اختیار کرسکتے ہو۔ ہاں یہ ضرور مدنظر رکھنا کہ لباس کے معاملہ میں حتّٰی الوسع سادگی اختیار کی جائے نمائش یا بھڑکیلا پن یا فضول خرچی مومن کی شان سے بعید ہے اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال تو تم جانتے ہو کہ مردوں کے لئے منع ہی ہے۔
خوراک کے متعلق ہدایت
(۶)ولایت کے سفر میںخوراک کا معاملہ بھی خاص توجہ چاہتا ہے۔ ان ممالک میں شراب اور سؤر کے گوشت کی اس قدر کثرت ہے کہ جب تک انسان خاص توجہ سے کام نہ لے غلطی یا غفلت سے ان میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شراب کا معاملہ تو خیر نسبتاً سہل ہے کیونکہ اس میں غلط فہمی کا امکان بہت کم ہے۔ مگر سؤر کے گوشت کے معاملہ میں بسااوقات غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کی نگرانی رکھنی چاہیئے کہ کھانے میں غلطی سے ممنوع گوشت سامنے نہ آجائے۔ مگر شائد اس سے بھی زیادہ نگرانی کی ضرورت اس بات میں ہے کہ کہیں غلطی سے ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت استعمال نہ ہوجائے۔ یورپ میں اورجہاز پر بھی اکثر ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ یعنی خود جانور تو جائز ہوتا ہے مگر ذبح کا طریق غلط ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی دوکانوں سے گوشت منگوایا جائے جو اسلامی طریق پر جانور ذبح کرتے ہیں۔ مثلاً یہودی لوگ اس معاملہ میں بہت محتاط ہیں اور خالص اسلامی رنگ میں ذبح کرتے ہیں۔ ان کی دوکانوں سے گوشت منگوایا جاسکتا ہے۔ اور جہاز وغیرہ پر جہاں انتظام اپنے ہاتھ میں نہ ہو وہاں مچھلی اور انڈے کی غذا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی عادت ڈال لینی چاہیئے کہ stewardیاwaiterکو پہلے سے تاکید کردی جائے کہ شراب یا سؤر کا گوشت یا غیراسلامی طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت سامنے نہ آئے۔ اور کھانا سامنے آنے پر بھی پوچھ لینا چاہیئے۔ جہاز پر غالباً جاتے ہوئے تو بمبئی سے ذبح کیا ہوا گوشت ذخیرہ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی تسلی کرلینی چاہیئے۔ اگر گوشت مشکوک ہو تو سبزی اور مچھلی اور انڈے اور پھل کی صورت میں دوسری غذا بکثرت مل سکتی ہے۔ خوراک کا معاملہ مخفی طور پر انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے اس معاملہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے اور پھر اسلامی احکام کی تعمیل مزیدبرآں ہے۔
اسلامی شعار کی پابندی
(۷)ایک بات اسلامی شعار کی پابندی ہے۔ ظاہری ہئیت کے متعلق جو اسلامی طریق ہے خواہ وہ شریعت کے احکام سے ثابت ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تعامل سے اس کی پابندی اختیار کرنی ضروری ہے شعار کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ انسان کے اندر ونہ پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ دوسروں کے لئے ظاہر میں دیکھنے والی چیز صرف شعار ہی ہے۔ انسان کے اخلاقی زیوروں میں سے اعلیٰ ترین زیور یہ ہے کہ وہ اپنے قومی اور ملّی شعار کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ اسے عزت کی نظر سے دیکھے۔ جو قومیں اس کا خیال نہیں کرتیں وہ آہستہ آہستہ ذلیل ہوجاتی ہیں۔ ڈاڑھی بھی اسلامی شعار کا حصہ ہے اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہ صرف اس پر عمل کیا ہے بلکہ زبانی طور پر بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے۔
پس اس شعار کا تمہیں احترام کرنا چاہیئے۔ اسلام کا یہ منشاء نہیں کہ ڈاڑھی اتنی ہو یا اُتنی نہ ہو۔ ان تفصیلات میں اسلام نہیں جاتا کیونکہ یہ باتیں انسان کی اپنی وضع اور مرضی پر موقوف ہیں مگر اسلام یہ ضرور چاہتا ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے خواہ وہ کتنی ہی ہو۔ ڈاڑھی مرد کا فطرتی زیور اور حسن ہے۔ اور اس کے رکھنے میں بہت سے طبی اور اخلاقی فوائد مخفی ہیں۔ انگلستان میں بھی اب تک بادشاہ ڈاڑھی رکھتا ہے اور اور بھی کئی بڑے بڑے لوگ رکھتے ہیں۔
خدمتِ اسلام
(۸) تمہیں اپنے ولایت کے قیام میں اپنے حالات کے مطابق اسلام اور سلسلہ کی تبلیغ میں بھی حصہ لینا چاہیئے اور اس کا سب سے زیادہ سہل طریق یہ ہے کہ وہاں کے مشن کے کام میں جہاں تک ممکن ہو امداد دو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اسے سرانجام دینے کی پوری پوری کوشش کرو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے بہتر تبلیغ انسان کے اپنے نمونہ سے ہوتی ہے۔ اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ اسلام بہتر مذہب ہے۔
تعلیم کے متعلق ہدایت
(۹) تمہاری تعلیم کے تعلق میں مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیںہے۔ تم سمجھدار ہو اور اس لائن میں کافی تجربہ حاصل کرچکے ہو۔ اپنے وقت کی قدروقیمت کو پہچانتے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرو اور یاد رکھو کہ دنیا میں جو مرتبہ محنت کو حاصل ہے۔ وہ عام حالات میں ذہن کو بھی حاصل نہیں ہے۔ محنت سے اگر وہ ٹھیک طرح پرکی جائے ذہن کی کمی بڑی حدتک پوری کی جاسکتی ہے مگر ذہن محنت کی کمی کو پورا نہیں کرسکتا۔ پس محنت کی عادت ڈالو۔ اور محنت بھی ایسی جسے گویا کام میں غرق ہوجانا کہتے ہیں۔ ایسی محنت اگر صحیح طریق پر کی جائے اور خدا کا فضل شامل ہو جائے تو ضرور اعلیٰ نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ جس لائن کے واسطے تم جارہے ہو اس کے لئے عموماً بہترین لڑکے لئے جاتے ہیں۔ جب تک شروع سے ہی محنت اختیار نہیں کرو گے کامیابی مشکل ہوگی۔ اگر تم محنت کرو تو پھر تمہیں خدا کے فضل سے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیںہے۔ اگر گذشتہ نتائج میں دوسرے طلباء تم سے آگے بھی رہے ہوں تو تم محنت سے ان سے آگے نکل سکتے ہو۔ انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میںہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہیئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے۔
پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کونسا ہے اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہیئے۔ یہ تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سارا دارومدار طالبعلم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے۔ البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ علاوہ ازیں تمہیں چاہیئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو۔ جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اور گذشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہیئے۔
اس کے علاوہ تمہیں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے بھی کسی کالج میں داخل ہوجانا چاہیئے کیونکہ ایک تو یہ تعلیم مقابلہ کے امتحان میں مدد دے گی اور دوسرے اگر خدانخواستہ مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کی صورت نہ ہوسکی تو یہ تعلیم ویسے بھی مفید رہے گی۔ بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو بیرسٹری کے علاوہ کوئی اور کورس بھی لے لو بشرطیکہ وہ امتحان مقابلہ کی تیاری میں روک نہ ہو۔ مثلاً بی۔اے کا کورس یا اور اسی قسم کا کوئی کورس لے سکتے ہو۔ غرض اپنے ولایت کے قیام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔
تعلیم کا ایک ضروری حصہ اخبار بینی ہے جس کی تمہیں عادت ڈالنی چاہیئے۔ زمانہ حال کے معلومات کے لئے اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیںہے اور ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اسی طرح جو نئی نئی کتب شائع ہوں ان کا بھی مطالعہ رکھنا چاہیئے۔ رسائل کا مطالعہ بھی مفید ہوتا ہے۔
تقریر کی مشق کے لئے تم نے ہندستان میں میری نصیحت کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب اگر خدا توفیق دے تو اس کمی کے بھی پورا کرنے کا خیال رکھنا۔
خرچ کے متعلق
(۱۰) خرچ کے متعلق میں نے دردؔ صاحب کو لکھا ہے وہ وہاں کے حالات کے ماتحت اندازہ لکھ کر بھجوادیں گے۔ جس کے مطابق انشاء اللہ تمہیں خرچ بھجوایا جاتا رہے گا۔ میں نے انہیں لکھا ہے کہ اندازہ لگاتے ہوئے درمیانہ درجہ کے شریفانہ معیار کو مدنظر رکھیں یعنی نہ ہی تو کوئی ناواجب تنگی ہو جو تکلیف کا موجب بنے اور نہ ہی ایسی ہی فراخی ہو جو بے جا آرام وآسائش کا باعث ہو اور فضول خرچی میں شمار ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اپنے اخراجات میں اسی اصول کو مدنظر رکھوگے۔
سوسائٹی کے متعلق
(۱۱) وہاں اپنی سوسائٹی کے انتخاب کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ایسے لوگوں میں ملاجاوے جو اپنی زبانؔ اور عادت واطوار کے لحاظ سے شریف طبقہ کے لوگ سمجھے جاتے ہوں اور رذیل اور بداخلاق اور گندے اور عامیانہ زبان والے لوگوں سے قطعی پرہیز کرنا چاہیئے۔
خط وکتابت کی تاکید
(۱۲) ولایت کی ہندوستان کے ساتھ خط وکتابت ہفت روزہ ہے۔ جس میں ایک عام ڈاک ہے اور ایک ہوائی ڈاک ہے۔ تمہیں چاہیئے کہ التزام کے ساتھ ہرہفتہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو۔ اگر ہوائی ڈاک کے ذریعہ خط لکھ سکو تو بہتر ہوگا ورنہ عام ڈاک میں خط بھجوادیا کرو۔ حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المؤمنین ؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلۂ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوادئیے جائیں۔
اب میں موٹی موٹی باتیں جو تمہیں کہنا چاہتا تھا وہ کہہ چکا ہوں میرے دل میں بہت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ تمہیں کہنا نہیں چاہتا اور بس اسی قدر نصیحت کے ساتھ تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں ۔ خدا تمہیں خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے اور ہر قسم کی مکروہات سے بچاتے ہوئے کامیاب اور مظفرومنصور واپس لائے۔ اٰمین اللہم اٰمین

نوٹ:- ایک بات جو میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لکھنے سے رہ گئی ہے۔ وہ وہاں کی عورتوں کے متعلق ہے۔ ولایت میں علاوہ اس کے کہ عورت بالکل بے پردہ اور نہایت آزاد ہے، آبادی کے لحاظ سے اس کی کثرت بھی ہے جس کی وجہ سے مردوں کو باوجود کوشش کے ان کے ساتھ ملنا پڑتا ہے اور اسی اختلاط کے بعض اوقات خراب نتائج نکلتے ہیں۔ میں عورت ذات کا مخالف نہیں ہوں۔ عورت اللہ کی ایک نہایت مفید اور بابرکت مخلوق ہے اور مرد کے واسطے رفاقت حیات اور اولاد کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے عورت کا وجود ایک نہایت قابل قدر وجود ہے مگر غیر مرد عورت کا بے حجابانہ اختلاط اپنے اندر سخت فتنے کے احتمالات رکھتا ہے اور اسی لئے جہاں شریعت نے عورت کے وجود کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے وہاں یہ بھی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ غیر مرد وعورت ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں پردہ کی ان ان شرائط کو ملحوظ رکھیں۔ ان شرائط میں سے خاص طور پر قابل ذکر یہ ہیں کہ (الف) غیر مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھیں۔(ب) وہ ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں دوسروں سے علیحدہ ہوکر نہ ملیں اور (ج) ان کا جسم ایک دوسرے کے ساتھ نہ چھوئے۔ ان شرائط کے علاوہ شریعت نے اور کوئی خاص شرط پردہ کے متعلق نہیں لگائی۔ پس میںامید کرتا ہوں کہ تم ولایت میں پردے کی ان شرطوں کی پابندی اختیار کرو گے اور دل میں خدا سے دعا بھی کرتے رہو گے کہ وہ تمہیں ہر قسم کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے۔ اللہ تمہارا حافظ وناصر ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل۳۱ اکتوبر ۱۹۳۳ئ)



آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیّت میں
انبیاء کا ایک نمایاں امتیاز
دنیا میں بہت لوگ علم النفس کے ماہر گزرے ہیں اور آج کل تو یہ علم خصوصیت سے بہت ترقی کرگیا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگ جو اس علم کے عالم کہلاتے ہیں۔ ان کا علم صرف اصطلاحات کی واقفیت تک محدود ہوتا ہے اور اگر اصطلاحات کے علم سے اوپر گزر کر کبھی کسی کو حقیقی علم تک رسائی بھی ہوتی ہے تو وہ صرف اس فن کے علمی حصہ تک محدود رہتی ہے اور اس کا عملی حصہ جو حقیقۃً مقصود ہے اس فن کے اکثر ماہرین کے دائرہ حصول سے باہر رہتا ہے اور صرف علم النفس پر ہی مصر نہیں۔ دنیا میں بہت سے علوم اسی نامرادی کی حالت میں پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کا مبلغ علم اصطلاحات کی حد سے آگے نہیں جاتا۔ اور جن صورتوں میں وہ آگے جاتا بھی ہے وہ صرف علمی پہلو تک محدود رہتا ہے۔ اور علوم کے عملی استعمال تک بہت ہی کم لوگ پہونچتے ہیں۔ منطق کے علم کو دیکھو تو ہزاروں لاکھوں اس علم کے ماہر نظر آئیں گے مگر ان کا علم اصطلاحات سے آگے نہیں جاتا اور ان کی عمرِعزیز اصطلاحات کے رٹنے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور اس علم کا جو حقیقی مقصد ہے کہ جرح وتعدیل کا صحیح ملکہ پیدا ہوجائے اس سے اکثر لوگ محروم رہتے ہیں۔ بلکہ بسااوقات منطقی لوگ اپنے دلائل میں زیادہ بودے اور سطحی پائے گئے ہیں کیونکہ اصطلاحات کی الجھن ان کے لئے حقیقت تک پہونچنے کے رستے میں روک بن جاتی ہے لیکن عام لوگوں کے مقابل پر اگر انبیاء کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ امتیاز نمایاںصورت میں نظر آتا ہے کہ ان کے جُملہ علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ گو بعض اوقات علوم کی اصطلاحات سے بوجہ ظاہری تعلیم کی کمی کے واقف نہیں ہوتے مگر ہر علم جواُن کے دائرۂ کار سے تعلق رکھتا ہے اس کے اصل مقصدومدعا یا بالفاظِ دیگر اس علم کے گودے اور جوہر سے انہیں پوری پوری واقفیت ہوتی ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی شخص ایسے علم کا عالم مل نہیں سکتا۔
انبیاء اور علم النفس
علم النفس بھی جو گویا انسان کے ذہنی اور قلبی تاثرات کا علم ہے انبیاء کے مخصوص علوم کا حصہ ہے کیونکہ تربیت اور اصلاح کے کام سے اس علم کو خاص تعلق ہے بلکہ حق یہ ہے کہ شریعت کی داغ بیل زیادہ تر اسی علم کی بناء پر قائم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ قرآن شریف ہمیں بتاتا ہے اور حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے انبیاء کے بھی مدارج ہیں جیسا جیسا کام کسی نبی کے سپرد ہونا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق دی جاتی اور علوم کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔
رسول کریمؐ اور علم النفس
ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خاتم النبیئینؐ تھے اور بخلاف گزشتہ انبیاء کے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپ.6ؐ کا پیغام ہراسودواحمر کے نام تھا۔ اور آپ.6ؐ کی شریعت ہر قوم اور ہرزمانہ کے لئے بھیجی گئی تھی۔ اس لئے طبعاً آپؐ کے اندر وہ قوتیں بھی ودیعت کی گئی تھیں اور وہ علوم آپ.6ؐ کو عطا ہوئے تھے جو اس عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کے لئے ضروری تھے اور اس میں کسی نبی کی ہتک نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء میں سے کسی کو وہ علوم نہیں دیئے گئے جو آپ.6ؐ کو دیئے گئے اور کوئی ان قوتوں کو ساتھ لے کر نہیں آیا جنہیں لے کر آپ.6ؐ مبعوث ہوئے۔ اسی لئے آپ.6ؐ نے فرمایا ہے۔ ا.6َٔنَاسَیَّدُ وَلَدِاٰدْمَ وَلَافَخْر.6َ۲۰؎ میں آدمؑ کی اولاد کا سردار ہوں مگر اس کی وجہ سے میں اپنے نفس میں کوئی تکبر نہیں پاتا اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم افضل الرسل تھے تو ضروری تھا کہ علم النفس میں بھی جس کا جاننا فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ گویا لازم وملزوم کے طور پر ہے۔ آپ.6ؐسب سے اول اور سب سے آگے ہوں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقۃً ایسا ہی تھا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے تربیت اور اصلاح کا عظیم الشان اور عدیم المثال کام لینا تھا۔ اس لئے یہ علم آپ.6ؐ کے وجود میں اس طرح سرایت کئے ہوئے تھا جیسے ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبو کر نکالنے کے بعد پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ایک قدرتی چشمے کے طور پر اس علم کی ابدی صداقتیں آپؐ سے پھوٹ پھوٹ بہتی تھیں۔ چونکہ میرے لئے اس مختصر مضمون میں اس موضوع کے سارے پہلوئوں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کسی ایک پہلو کو بھی تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جاسکتا۔ اس لئے میں اس جگہ نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند مثالیں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بیان کروں گا جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپؐ کی ہر بات علم النفس کے ابدی اصول کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نکلتی تھی۔ اور زیادہ اختصار کے خیال سے میں آپ.6ؐ کے کلام میں سے بھی صرف اس حصہ کو لوں گا جو روزمرہ کی گفتگو اور بے ساختہ نکلی ہوئی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔
رسول کریمؐ کے کلام کا کمال
میں بتاچکا ہوں کہ عام زبان میں علم النفس اس علم کا نام ہے جو انسانی ذہن کی تشریح اور اس کے کام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس علم میں ذہنی اور قلبی تاثرات سے بحث کی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کس طرح اثر قبول کرتا ہے اور اس کے خیالات کی روئیں کس طرح اور کن اصول کے ماتحت چلتی ہیں۔ وغیرذالک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں یہ کمال تھا کہ اس میں مخاطب فرد یا جماعت کی ذہنی کیفیت کا پورا پور لحاظ رکھا جاتاتھا اور کسی فرد یا جماعت کے خیالات کی اصلاح کے لئے جو بہترین طریق ہوسکتا ہے اس کے مطابق آپ کی زبان مبارک گویا ہوتی تھی۔ اور اس لئے سوائے اس کے کہ مشیتِ ایزدی دوسری طرح ہو آپ.6ؐ کی ہر بات ایک آہنی میخ کی طرح سامع کے دل میں دھنس جاتی تھی اور آپ اپنے مخاطب کے خیالات کی رَو کو غلط رستے پر جاتا دیکھ کر یا یہ سمجھ کر کہ اس کے غلط رستے پر پڑنے کا احتمال ہے فوراً ایسی بات فرماتے تھے جو سامع کی ذہنی رَو کو کاٹ کر اس کا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسی مثالیں آپ.6ؐ کی زندگی میں ہزاروں ملتی ہیں بلکہ آپ.6ؐ کی ساری زندگی ہی اس کی مثال ہے۔ مگر میں اس جگہ بطور نمونہ صرف چند مثالیں بیان کردینے پر اکتفا کروں گا۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ۔
جنگ بدر کے موقع کی مثال
جنگ بدر کے موقع پر جب کہ ابھی مسلمان لشکرِ کفار کے سامنے نہیں ہوئے تھے اور اکثر مسلمان اس بات سے بے خبر تھے کہ کفار کا ایک جرار لشکر مکہ سے نکل کر آرہا ہے۔ اور صرف اس خیال سے گھر سے نکلے تھے کہ قافلہ سے سامنا ہوگا۔ اس وقت بعض صحابہ نے کفار مکہ کا ایک سپاہی جوانہیں ایک چشمہ پر مل گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر پیش کیا۔ آپ.6ؐ نے اس سے لشکرِ کفار کے متعلق بعض سوالات کئے اور پھر پوچھا کہ رؤساء مکہ میں سے کون کون ساتھ ہے۔ اس نے کہا عتبہ شیبہ امیہ۔ نظربن حارث۔ عقبہ۔ ابوجہل۔ ابوالبختری۔ حکیم بن حزام وغیرہ سب ساتھ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ قبیلہ قریش کے روح رواں تھے اور نہایت بہادر اور جری سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ان کے نام سُن کر اور یہ معلوم کرکے کہ مکہ کے سارے نامی لوگ مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکل آئے ہیں۔ بعض کمزور صحابہ کسی قدر گھبرائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو بے۔ساختہ فرمایا۔ ھذہ مکّۃ قدالقت الیکم اخلاف کبدھا۲۱؎۔ لومکہ نے تو تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں۔یعنی تم خوش ہو کہ خدانے تمہارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کردیا ہے۔ صحابہ کے خیالات کی رو فوراً پلٹا کھاگئی کہ یہ تو کوئی گھبرانے کا موقع نہیں ہے بلکہ خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ان روساء کفار کو ہمارے ہاتھوں تباہ کرنے کے لئے یہاں جمع کردیا ہے اور اس طرح وہی خبر جو کمزور طبیعت مسلمانوں کے لئے پریشانی اور خوف کا باعث بن سکتی تھی۔ آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بے ساختہ نِکلی ہوئی بات سے ان کے لئے خوشی اور تقویت کا باعث بن گئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فقرہ کسیِ غوروفکر کے نتیجہ میں نہیں فرمایا بلکہ ادھر آپ.6ؐ نے مکہ کے سپاہی کے مونہہ سے یہ الفاظ سنے اور صحابہ کے چہروں پر نظر ڈال کر گھبراہٹ کے آثار دیکھے اور اُدھر بے ساختہ طورپر آپ.6ؐ کے مونہہ سے یہ لفظ نکل گئے۔ جیسا کہ ایک تیر اپنی کمان کے چلّہ سے نکل جاتا ہے اور اس بات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خیالات کی روپلٹا کھاکر فوراً اپنا رخ بدل گئی۔
فتح مکّہ کے موقع کی مثال
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابوسفیان رئیس مکّہ کی دلداری منظور تھی۔ اور آپؐ نے اس کے ساتھ اس بارے میں بعض وعدے بھی فرمائے تھے۔ جب اسلامی لشکر نہایت درجہ شان وشوکت کے ساتھ اپنے پھریرے لہراتا ہوا مکہ کی طرف بڑھا اور ابوسفیان ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا اس تزک واحتشام کو دیکھ رہا تھا۔ تو اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے حضرت سعدبن عبادہ رئیس انصار نے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور علم بردار تھے ابوسفیان کو سُناکر کہاکہ آج مکہ والوں کی ذلّت کا دن ہے۔ ابوسفیان کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح لگی۔ اس نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ،وسلم سے کہا:-
’’آپ.6ؐ نے سنا سعد نے کیا کہا ہے۔ سعد کہتا ہے کہ آج مکّہ کی ذلّت کا دن ہے۔‘‘
آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’ سعد نے غلط کہا۔ آج تو مکّہ کی عزت کا دن ہے۔ سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے۔‘‘۲۲؎
یہ ایک بے ساختگی کا کلام تھا۔ مگر دیکھو تو اس میں علم النفس کی کتنی ابدی صداقتیں مخفی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مکہ والوں کی ذلّت کے فقرہ سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ میں داخل ہوں تو مکہ والوں کی یہ ذلّت ہے حالانکہ مکہ خواہ مفتوح ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آرہا ہے۔ تو اس کی عزت ہی عزت ہے۔ اور پھر مکہ کا مقام ایسا ہے کہ اسے کسی صورت میں ذلّت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے سعد کے فقرہ سے اور اس فقرہ کے کہنے کے انداز سے مسلمانوں کے دلوں میں ابوسفیان کے متعلق تحقیر کے جذبات پیدا ہوسکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء اس کی دلداری کرنا تھا۔ اس لئے آپ.6ؐ نے فوراً ابوسفیان کی شکایت پر سعد کو تنبیہ فرمائی۔ اور مسلمانوں کے خیالات کوغلط رستے پر پڑنے سے روک لیا۔ تیسرے آپؐ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سعد کے مونہہ سے یہ بات بے اختیار نکلی ہے اور جان بوجھ کر نہیں کہی گئی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سعد اپنے قبیلہ کا سردار ہے۔ حتی الوسع اس کی تحقیر بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ حکم تو دیا کہ اس کے ہاتھوں سے سرداری کا جھنڈا لے لیا جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ یہ جھنڈا اس سے لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے تاکہ سعد کی بھی دلداری رہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر طعن کا موقع نہ پیدا ہو۔ غور کرو۔ ان مختصر سے الفاظ میں جو بے ساختہ آپ.6ؐ کے مونہہ سے نکلے، آپؐ کی نظر کہاں کہاں تک پہنچی۔ گویا ایک آن واحد میں آپؐ کے الفاظ نے کئی ذہنی دروازے جو نقصان دہ تھے، بندکردیئے اور کئی ذہنی دروازے جو نفع مند تھے وہ کھول دیئے۔
غزؤہ حنین کے موقع کی مثال
غزؤہ حنین کے بعد جب غنائم کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ والوں کی تالیف قلب کے خیال سے انہیں زیادہ حصہ دیا۔ بعض جوشیلے اور کم فہم انصار کو اس پر شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر انعام مکہ والے لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات پہونچی تو آپؐ نے انصار کو ایک علیحدہ جگہ میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ مجھے ایسی ایسی خبر پہونچی ہے۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوسکے کہ لوگ تو بھیڑ بکری اور اونٹ لئے جاتے ہیں مگر تمہارے ساتھ خدا کا رسول جارہا ہے۔ انصار کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے بعض نادان نوجوانوں کے مونہہ سے یہ فقرہ نکل گیا تھا۔ ہم خدا کے رسول کو لیتے ہیں۔ ہمیں دنیا کے اموال کی رغبت نہیں۔ آپ.6ؐ نے فرمایا:-
’’اے انصار کے گروہ۔ اب تم مجھے جنت میں حوضِ کوثر پر ہی ملنا۔‘‘۲۳؎
علم النفس کے ماتحت اس واقعہ کے پہلے حصہ کی تشریح واضح ہے۔ کسی نوٹ کی ضرورت نہیں مگر آپ.6ؐ کا آخری فقرہ کچھ تشریح چاہتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ اور صاف فقرہ ہے۔ مگر علم النفس کے سانچے میں کس طرح ڈھل کر نکلا ہے ۔ آپ.6ؐ کا منشاء یہ تھا کہ تم میں سے بعض نے دنیا کا لالچ کیا ہے۔ اب اس کی پاداش میں تمہیں دنیا میں اس خدائی انعام سے محرومی رہے گی جو دنیا کے انعاموںمیں سب سے بڑا انعام ہے۔ یعنی حکومت وسلطنت۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اخلاص اور تمہاری قربانیاں رائگاں گئیں۔ بلکہ اس کے لئے تم مجھے آخرت میں حوضِ کوثر پر آکر ملنا۔ وہاں تم آخرت کے انعاموں سے مالامال کئے جائو گے۔ اور خدا تمہاری سب کسریں نکال دے گا مگر دنیا میں حکومت واقتدار کا انعام اب تمہیں نہیں ملے گا۔ گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے انصار کے دل میں یہ سبق پختہ طور پر جمادیا کہ اگر قومی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہو اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ سنبھال کر چلو ورنہ ایک حصہ کا وبال دوسرے حصہ کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اور اسی فقرہ میں آپ نے یہ بھی بتادیا کہ تم نے میرا دامن پکڑ کر دنیا کی نعمتوں کا لالچ کیا اب تمہیں دنیا کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے مگر چونکہ خیالات کی اس رو کے ساتھ فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گویا انصار کی جماعت خدائی انعامات سے محروم رہی۔ اس لئے آپؐ نے ساتھ ہی اس کا ازالہ فرمادیا کہ نہیں۔ ایسا نہیں بلکہ خدا انہیں آخرت میں انعامات کا وارث بنائے گا۔ اور چونکہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے اگر آخرت میں انعامات مل جائیں تو دنیا کی محرومی چنداں قابل لحاظ نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فقرہ میں یہ مزید لطافت ہے کہ گو آپ.6ؐ کا اصل منشاء اس موقع پر انصار کو تنبیہہ کرنا تھا۔ لیکن آپ.6ؐ نے انعام کے حصہ کو تو صراحت کے ساتھ لفظوں میں بیان فرمادیا۔ مگرسزا اور محرومی کے مفہوم کو لفظوں میں نہیں بیان کیا۔ بلکہ بین السطور رکھا یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اب تمہیں دنیا میںحکومت کا انعام نہیں ملے گا۔ بلکہ صرف اس قدر فرماکر خاموش ہوگئے کہ اچھا اب تم مجھے آخرت میں ملنا مگر چونکہ یہ ایک توبیخ کا موقع تھا آپ.6ؐ نے یہ بات نہیں کھولی کہ آخرت میں تم خدائی انعامات سے بہت بڑا حصہ پائو گے۔ بلکہ صرف اس قدرفرمانے پر اکتفا کی۔ کہ مجھے حوضِ کوثر پر ملنا۔ یعنی اس حوض پر میرے پاس آنا۔ جہاں ہر انعام اور ہرخوبی اپنی انتہائی کثرت میں پائی جائے گی۔ جس میں اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی محرومی کی تلافی آخرت کے انعاموں کی کثرت سے ہوجائے گی۔ یہ صحرائے عرب.6ؐ کے اس امّی نبی.6ؐ کا کلام ہے جو ظاہری علم کے لحاظ سے ابجد تک سے بے بہرہ تھا۔
ایک اور موقع کی مثال
مشیّت ایزدی کے ماتحت ایک جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور کئی صحابی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ بعد میں یہ لوگ شرم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو مسجد کے کونے میں منہ چھپائے تاریکی میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تو پوچھا تم کون ہو۔ وہ شرم سے پانی پانی ہورہے تھے روکر عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَحْنُ الْفَرَّرُوْنَ، ہم بھگوڑے ہیں۔ یارسول اللہ آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔ بَلْ انْتُمْ الْعَکَّارُوْنَ۔۲۴؎ نہیں نہیں تم بھگوڑے نہیں ہو۔ تم تو دوبارہ حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہو۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی مذامت میں ڈوبے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ہم آپ.6ؐ کو کیا مونہہ دکھائیں۔ ہم تو میدان میں پیٹھ دکھا چکے ہیں۔ آپؐ دیکھتے ہیں۔ کہ ان کی ہمتیں گری جاتی ہیں۔ فوراً فرماتے ہیں کہ تم بھگوڑے کہاں ہو تم تو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہو۔ میرے ساتھ ہوکر پھر جنگ کے لئے نکلوگے اور اس ایک لفظ سے گرے ہوئے پست ہمت سپاہی کو اس کی پستی سے اٹھا کر کسی بلندی پر پہونچا دیتے ہیں!
‎(مطبوعہ الفضل۲۶ نومبر۱۹۳۳ئ)









رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
الحمدللہ کہ مورخہ ۱۹ دسمبر۱۹۳۳ء سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ مہینہ نہایت درجہ مبارک ہے۔ اور اس کے اوصاف میں بہت سی قرآنی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ رمضان کے ذکر میں فرماتا ہے:-
’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ ۲۵؎
یعنی رمضان کے مہینہ میں میں اپنے بندوں سے قریب ہوجاتا ہوں اور ان کی دعائوں کو خاص طور پر سنتا ہوں۔‘‘
پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ سوائے کسی شرعی عذر مثلاً سفر اور بیماری وغیرہ کے روزہ ہرگز ترک نہ کیا جائے۔ اور روزے کے ایام کو خاص طور پر تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی اور نوافل میں گزارہ جائے۔ اور ہرقسم کے مناہی اور لغویات سے کلی طور پر پرہیز کیا جائے۔ نیز رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر نماز تہجد کا اہتمام کیا جائے اور اپنی اپنی جگہ پر نماز تراویح کا انتظام کرکے قرآن شریف ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
علاوہ ازیں حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مہینہ میں خاص طور پر صدقہ وخیرات پر زور دیتے تھے۔ اس لئے احباب کو بھی اس سنت کے ماتحت رمضان میں حتی الوسع صدقہ وخیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ غرض اس ماہ میں دینی مشاغل اور اعمال صالحہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیئے۔ اور خصوصیت کے ساتھ دعائوں پر بہت زور دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح اور بہبودی کے لئے دعائیں کی جائیں اور آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود بھیجنے کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی دعا ئیں کی جائیں۔
اس کے علاوہ ایک اور بات جس کی طرف بعض گزشتہ رمضانوں میں بھی توجہ دلائی جاتی رہی ہے یہ ہے کہ ہراحمدی بھائی کوچاہیئے کہ اس رمضان میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا عہد باندھیں اور پھر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اس عہد کو نبھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہررمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے متعلق یہ عہد کرلیا کرے کہ آئندہ میں اس سے بچوں گا اور پھر اپنی پوری کوشش کے ساتھ خداسے دعا کرتے ہوئے اس سے ہمیشہ کے لئے مجتنب ہوجائے۔ اس کے متعلق کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اپنے نفس کے ساتھ خدا کو گواہ رکھ کر عہد باندھا جائے۔ البتہ اگر ایسے احباب جو اس رمضان میں اس نسخہ کو استعمال فرمائیں۔ بذریعہ خط مجھے بھی اطلاع بھجوادیں تو میں انشاء اللہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی خدمت میں ان کے اسماء پیش کرکے ان کے لئے خاص دعا کی تحریک کروں گا مگر اس اطلاع میں بھی سوائے کسی بدیہی بات کے اپنی کمزوری کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ایسا اظہار ناجائز ہے بلکہ صرف اس بات کی اطلاع بھجوائی جائے کہ ہم نے اس تحریک کے ماتحت اس رمضان میں اپنی ایک کمزوری کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد باندھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ احباب میری اس تحریک کی طرف خاص توجہ فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۳ئ)








حوالہ جات
۱۹۲۷ئ،۱۹۲۸،۱۹۲۹،ئ۱۹۳۲ئ،۱۹۳۳ء
۱۔ شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۲، مسند ابی ھزیرہؓ
۳۔جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
۴۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بداء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد۔ باب فی فدالاسیربالمال۔
۶۔مسند احمد بن حنبل جلد ۷۔ حدیث نمبر۲۴۳۴۳
۷۔ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی، جامع الترمذی باب الذہد باب ماجاء فی قصر الامل۔
۸۔ التحریم:۷
۹۔صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک
۱۰۔صحیح البخاری کتاب العیدین باب الحراب والدَّرق یوم العید۔
۱۱۔ سنن ابودائود کتاب الجھاد باب تت۔
۱۲۔ جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۱۳۔ سنن النسائی کتاب الطھارۃ باب مواکلۃ الحائض والشرب من سؤرھا۔
۱۴۔التین:۵
۱۵۔ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایاباب وھل اوصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۱۶۔صحیح البخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت۔
۱۷۔ الطبقات الکبریٰ الابن سعد۔ جلد الثانی ذکر تقبیل ابی بکر صدیقؓ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاتہٗ
۱۸۔المجادلۃ:۲۲
۱۹۔جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقۃ علی العبادۃ۔
۲۰۔ سنن ابنِ ماجہ ابواب الزھد ذکر الشفاعۃ۔
۲۱۔البدایۃ والنھایۃ جلد۳ صفحہ۲۶۵
۲۲۔ اسعد الغابہ جلد نمبر ۲ صفحہ۳۰۰-۳۰۱ ذکر سعد بن عبادۃؓ۔طبع بیروت
۲۳۔ صحیح البخاری کتاب باب المناقب الانصار۔ ۱۔۸۔ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبرو احتّٰی تلقونی علی الحوض
۲۴۔ جامع الترمذی ابوب الجہاد باب ماجاء فی الذارمن الزحف۔
۲۵۔ البقرہ:۱۸۷






















۱۹۳۴ء
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
ابتداء رمضان میں مَیں نے اخبار کے ذریعہ احباب کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان کے مبارک مہینہ کی برکات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کے ماتحت یہ بھی تحریک کی تھی کہ احباب رمضان میں اپنی کسی کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور اس طرح اصلاح النفس کے لئے ایک عملی قدم اٹھا کر عنداللہ ماجور ہوں۔ الحمد للہ کہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں بعض احباب نے اس قسم کا عہد باندھا ہے اور مجھے اس سے اطلاع بھی دی ہے۔ گو یہ تعداد زیادہ نہیںمگر ایک نیک تحریک کا جس حد تک بھی نتیجہ نکلے غنیمت ہے۔ میں ایسے احباب کے اسماء خاص دعا کی تحریک کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور جب رمضان کے آخری دن نماز عصر کے بعد دعا ہوگی ۔ اس میں بھی انشائ۔اللہ حضرت کی خدمت میں دوبارہ عرض کروں گا۔ مگر میں اس اعلان کے ذریعہ دوسرے احباب سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی وقت ہے وہ بھی اس تحریک سے فائدہ اٹھائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ علاوہ ازیں آج سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے جو رمضان کا مبارک ترین حصہ سمجھا گیا ہے۔ احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور نوافل اور دعائوں پر زور دیں اور اپنی دعائوں میںا سلام اور سلسلہ کی ترقی کو خصوصیت سے ملحوظ رکھیں اور ہردعا کو تحمید اور درود سے شروع کریں کیونکہ ان کی قبولیت کا یہ ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ئ)


ایک نہائت ضروری اعلان
دُعا اختتام درس رمضان
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان میں رمضان کے مہینہ میں مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کا درس ہؤا کرتا ہے اس درس کے اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن شریف کی آخری دو سُورتوں کا درس دے کر دُعا فرمایا کرتے ہیں۔ اس سال یہ دُعا انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹ رمضان مطابق ۱۶جنوری ۱۹۳۴ء بروز منگل قبل غروب آفتاب ہوگی۔ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ۔تعالیٰ بعد نماز عصر پہلے درس دیں گے اور پھر دُعا فرمائیں گے۔ بَیرونی احباب اس وقت اپنی اپنی جگہ پر دُعا کا انتظام کرکے اس دُعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز عموماً یہ دُعا بہت لمبی فرمایا کرتے ہیں اور قادیان کے اردگردونواح کے احباب اس میں شریک ہوتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ وقت ایک خاص رقّت اور سوز کا وقت ہوتا ہے۔ بیرونی جماعتوں کو چاہیئے کہ حتیٰ الوسع اپنی اپنی جگہ پر انتظام کرکے اس مبارک موقع میں شرکت اختیار کریں۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۶ جنوری ۱۹۳۴ئ)




ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کُن زلزلہ
اور
خداکے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان
ہرمامورمرسل کے ساتھ نشانات بھیجے جاتے ہیں
اللہ تعا لیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ دنیا کی اصلا ح کے لئے اپنے کسی بند ے کو مامور فرماتا ہے تو اس کی تائید کے لئے اپنی طرف سے غیبی نشانات بھی ظاہر کرتا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیا ز ہو جائے اور سعیدروحیں صداقت کی طرف راستہ پانے میں رو شنی حاصل کریں۔ یہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک رحمت کے نشان اور دوسرے قہری نشان۔
ہر چند کہ ہر مامور من اللہ خدا کی طرف سے اصل میں رحمت کا پیغام لے کر ہی آتا ہے اورخود اس کا وجود ایک مجسّم رحمت ہوتا ہے لیکن چونکہ دنیا میں ہر مامور کا انکار کیا جاتاہے۔ جیسا کہ فرمایا:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَا دِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱؎
یعنی اے افسوس لوگوں پران کی طرف کوئی رسوُل نہیں آتا مگر یہ اس کا انکار کرتے اور اس کے دعوے کو ہنسی کا نشا نہ بنالیتے ہیں۔‘‘
اس لئے لازماً ہر مامورومرسل کو رحمت کے نشانوںکے ساتھ ساتھ قہر اور عذاب کے نشان بھی دیئے جاتے ہیںلیکن چونکہ خدا کی رحمت بہرحال اس کے عذاب پر غالب ہے۔ اس لئے جہاں رحمت کے لئے کوئی حدبندی نہیں، وہاں خداتعالیٰ نے خود اپنے عذاب کے لئے ازل سے چند اصولی قاعدے اورحدبندیاںمقرر کر رکھی ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُ وْ نَ۲؎۔ وَمَا کُنَّا مَُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَ سُوْلًا۔۳؎
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کواس حالت میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ اپنی غلطیوںکو محسوس کرکے توبہ اور استغفارمیں لگی ہوئی ہو اورنہ ہی ہم کبھی کوئی سخت عذاب نازل کرتے ہیں۔ جب تک کہ ہم اپنی طرف سے کوئی رسُول مبعوث نہ کرلیں‘‘۔
اس اصولی قاعدے کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی یہ سُنت ہے کہ اگرکوئی قوم اپنی شوخیوں اور بداعمالیوں میںحد سے گزرنے لگتی ہے۔ تو وہ پہلے اس میں ایک مامور کو مبعوث کرکے توبہ اور اصلا ح کا موقع دیتا ہے اور اگروہ اپنی اصلاح نہیں کرتی تو پھر خدا کی طرف سے وہ عذاب کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔
آیت مندرجہ بالاکے ماتحت بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مامور ومرسل کی بعثت کے بعداللہ تعالیٰ دُنیا کے مختلف حصوں میںجو کسی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں۔ اپنے قہری نشانوں کی تجلّی دکھاتا ہے تاکہ دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرکے اپنے مامور کی طرف متوجہ کرے۔ایسے عذابوں کا باعث مامور کا انکار نہیں ہوتامگر وہ مامور کے لئے ایک نشان قرارپاتے ہیںاور مشیت الٰہی ان کو اس وقت تک روکے رکھتی ہے۔ جب تک کہ رسول مبعوث نہ ہولے اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ایسے عذابوںکی خبرقبل ازوقت اپنے مامور کو دے کراس کی صداقت کے لئے ایک مزید شہادت پیدا کر دیتا ہے۔
الغرض مامورین کی بعثت کے بعد رحمت کے نشانوں کے ساتھ قہری نشانات کا ظہور بھی خدائی سنّت میں داخل ہے۔ یہ قہری نشانات ایسے علا قوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں مامور کا نام پہنچ چُکا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میںبھی جہاں مامور کا نام ابھی تک نہیں پہونچا ہوتا۔ وہ ایسے ملکوں میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جہاںخدا کے نزدیک مامور کے متعلق اتمام حجت ہوچکا ہوتا ہے اور ایسے ملکوں میں بھی جہاں ابھی اتمام حجت نہیں ہوچکا ہوتا مگریہ جملہ عذاب خواہ کسی باعث اور کسی وجہ سے ہوں،وہ مامور کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہوتے ہیں۔ اور بسااوقات اللہ تعالیٰ ان کے متعلق اپنے مامور کو پہلے سے خبر دے کر اس نشان کی عزت کو دوبالا کر دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ نشانات کا وعدہ
اسی قدیم سنت کے مطا بق جس کی مثا لیںدُنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس زمانہ میںدُنیا کی اصلاح کے لئے حضرت میر زاغلا م احمدؐ صاحب قادیانی مسیح موعودو مہدی معہود جری اللہ فی حلل الا انبیاء کو آج سے قریباًپچاس سال پیشتر مبعوث فرمایا اورآپ کوہر قوم کے نبی کا نام دے کرتما م اقوامِ عالم کے لئے آؒؒخری زمانے کا موعود مصلح قراردیا تو آپ کے ساتھ ساتھ رحمت کے نشا نوںکے پیچھے پیچھے عذاب کے نشانوں کی بھی خبر دی۔ چنانچہ آپ کی زندگی اور آپ کی جماعت کی زندگی رحمت کے نشا نوں سے معمور ہے اور قیامت تک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے والوںاور آپ کی تعلیم پر چلنے والوںکو آسمان اور زمین کی نعمتوںسے مالامال کرے گا اور ان پر رحمت کی بارشیں برسائے گا اور ان کوایک پتلی اور نازک کونپل کی طرح زمین سے نکال کرآہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بنادے گا ۔ جس کی جڑیں زمین کی پاتال میں قا ئم ہوں گی اور شا خیں آسما ن سے باتیں کریں گی اور اس درخت کے مقابلہ پر جو دراصل وہی درخت ہے جس کا بیج آج سے سا ڑھے تیرہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بویا تھا۔ دنیا کی دوسری روئیدگیاںگھاس پات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں گی مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور قدیم سے یہی ہوتاچلا آیاہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کاانکاربھی مقدر تھا۔ چنا نچہ ابتدائے دعویٰ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے یہ الہام فرمایاکہ:-
’’میں اپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تُجھ کواٹھا ئوںگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پردنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوںسے اس کی سچائی ظا ہر کردے گا ۔‘‘۴؎
آخری زمانہ کے ساتھ زلازل کی خصوصّیت
یہ زور آور حملے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ کے لئے مقدر تھے۔ مختلف صورتوںمیںآنے والے تھے مگر قرآن شریف اورکتب سا بقہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زما نے کاایک خاص قہری نشان زلزلوں کی صورت میں ظاہر ہونا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ کے متعلق اپنی آمدثانی کا ذکرکرتے ہُوئے فرماتے ہیںکہ اس زمانہ میں
’’قوم قوم پر اور بادشا ہت بادشا ہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچا ل آویں گے‘‘۔۵؎
اسی طرح قرآن شریف آخری زمانہ کے عذابوںکا ذکر کرتا ہُوافرماتاہے:-
’’یَوْ مَ تَرْجُفُ الرَّاجِِِِفَۃُ۔تَتْبَعُھَاالرَّادِفَۃُقُلُوْبٌ یَّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ۔ اَبْصَارُھَاخَا شِعَۃٌ۔۶؎
یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی قسم کھاکر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہیں، فرماتاہے کہ:-
’’اس وقت زمین زلزلوں کے دھکوںسے لرزہ کھائے گی اورایک کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا۔ جس سے لوگوں کے دل دھڑکنے لگیں گے اورآنکھیںخوف اور ہیبت کے مارے اوپر نہیں اٹھ سکیں گی۔‘‘
اسی کے مطا بق احادیث میںبھی قرب قیامت کی علامت کے ذکر میںصراحت کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے۔۷؎
اسی طرح جب شروع شروع میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلا م نے خدا کی طرف سے حکم پاکر دعویٰ کیا تو آپ کے ابتدائی الہاموںمیں آئندہ آنے والے زلزلوںکی خبر تھی۔ چنانچہ ۱۸۸۳ء کا ایک الہا م ہے کہ:-
’’فَبَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَا لُوْاوَکَا نَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھَا۔اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدُ ہُ۔فَلَمَّا تَجَلّٰی ربُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا۔وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ‘‘۔۸؎
یعنی خدا اپنے اس مامور مرسل کی ان تمام باتوں سے بریّت ظاہر کرے گا جو مخالف لوگ اس کے متعلق کہیں گے۔کیونکہ وہ خدا کی طرف سے عزت یافتہ ہے۔ کیا مخالفوں کے حملوں کے مقابلہ پراللہ اپنے اس بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب خدا اپنی تجلی پہاڑ پرکرے گا تو اس کو پارہ پارہ کردے گا اور منکرین کی ساری تدبیروںکو خدا تعالیٰ خاک میں ملا دے گا۔‘‘
پھر اسی براہین احمدیہ میں دوسری جگہ یہ الہام درج ہے کہ۔
’’فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا۔قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِاللّٰہِ الصَّمَدِ۔۹؎
یعنی وہ زمانہ آتا ہے کہ’’جب خدا پہاڑ پر اپنی تجلی ظا ہر کرے گا تو اسے پارہ پارہ کردے گا۔ یہ کام خدا تعالیٰ کی خا ص قدرت سے ہوگا جسے وہ اپنے بندے کے لئے ظاہر کرے گا۔‘‘
۱۹۰۵ء کا تباہ کُن زلزلہ
ا س کے بعد جب خدا کے علم میںزلازل کا زمانہ قریب آیا تو خدا تعالیٰ نے زیادہ صراحت اور زیادہ تعیین کے ساتھ اس کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر الہا مات نازل فرمائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اُ س ہیبت نا ک اور تبا ہ کُن زلزلہ کی خبر دی گئی جو ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمال مغربی ہندوستان میںآیا جس سے کا نگڑہ کی آباد وادی خدائی عذاب کا ایک عبرت ناک نشانہ بن گئی۔ چنانچہ پہلا الہام اس بارے میںدسمبر۱۹۰۳ء میںہؤا۔ جو یہ تھا۔
.6َِ’’زلزلہ کا ایک دھکّا۔‘‘۱۰؎
یعنی عنقریب ایک زلزلہ کا حا دثہ پیش آنے والا ہے۔
ا س کے بعد یکم جون ۱۹۰۴ء کو الہام ہؤا۔
’’عَفَتِ الدِّیَارُمُحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔۱۱؎
یعنی جس زلزلہ کی خبر دی گئی ہے۔ وہ بہت سخت ہوگااور اس سے’’ملک کے ایک حصّہ میں عارضی رہائش کے مکان اور نیز مستقل رہائش کے مکان منہدم ہوکر مٹ جائیں گے‘‘۔
اس الہام میں زلزلہ کی تباہی کے علاوہ کمال خوبی کے ساتھ اس جگہ کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا تھا جہاں اس زلزلہ کی سب سے زیادہ سختی محسوس ہونی تھی ۔ چنانچہ مُحَلّٰھَاوَمُقَامُھَاکے الفاظ صاف طورپریہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس زلزلہ کی زیادہ تباہی ایسے علاقہ میں آئے گی جہاں عارضی رہائش اور مستقل رہائش دونوں قسم کی بستی ہوگی اور ظاہر ہے کہ وہ ایسا پہاڑ ہی ہوسکتا ہے۔ جہاں ایک طرف تو مستقل آبادی ہو اور دوسری طرف وہاں گرمی گزارنے کے لئے لوگ موسم گرما میں عارضی طور پر بھی جاکررہتے ہوں۔ چنانچہ کانگڑہ کے ضلع میں دھرم سالہ اور پالم پور وغیرہ کے صحت افزا مقامات بالکل اسی نقشہ کے مطا بق ہیں۔ گویا زلزلہ سے قریباً سَواسال قبل جبکہ اس زلزلہ کا وہم وگمان بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو آنے والے زلزلہ کی خبر دے دی۔ اور پھر زلزلہ سے دس ماہ قبل اس کی خطرناک تباہی سے اطلاع دی۔ اور پھر اس کی جگہ بھی بتادی اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے مندرجہ بالاالہام سے صرف چنددن بعد یعنی ۸جون ۱۹۰۴ء کو پھر دوبا رہ الہام کیا کہ:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُمَحَلُّھَاوَمُقَامُھَا۔اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔۱۲؎
یعنی ایک حصّہ ملک کے عا رضی رہائش کے مکانات اور مستقل رہائش کے مکانات منہدم ہوکر مٹ جائیں گے۔ مگر میں اس حادثہ عظیمہ میں اُن لوگوں کو جوتیری جماعت کی چاردیواری میں ہوں گے محفوظ رکھوں گا۔‘‘
اس الہا م میں سا بقہ خبر کی تکرار کے ساتھ یہ بشارت زیادہ کی گئی کہ اس زلزلہ میں جما عت احمدیہ کی جا نیں محفو ظ رہیں گی ۔ اس کے بعد جب زلزلہ کا وقت زیادہ قریب آیا تو ۲۷؍۲۶ فروری ۱۹۰۵ء کی رات کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایک کشف میں بتایا کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پرشورقیامت برپاہے اور پھراس کے ساتھ ہی الہام ہؤاکہ:-
’’موتا موتی لگ رہی ہے ۔‘‘۱۳؎
گویا اس الہام میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جس زلزلہ کا وعد ہ دیا گیا ہے اس میں صرف مالی نقصان ہی نہیں ہو گا بلکہ جانی نقصان بھی ہوگااور بہت سی جا نیں ضا ئع جا ئیں گی لیکن چونکہ ان دنوں میں طاعون کا بھی دوردورہ تھا اور خیا ل ہوسکتا تھا کہ شا ید یہ الہام طا عون کے متعلق ہو۔ اس لئے یکم اپریل ۱۹۰۵ء کوخدا نے الہا م فرما یاـ:-
’’مَحَوْ نَا نَارَ جَھَنَّمَ۔۱۴؎
یعنی ہم نے وقتی طور پر طا عون کی آگ کو محوکردیاہے۔‘‘
یعنی یہ نہ سمجھو کہ یہ موتا موتی جس کی خبردی گئی ہے طاعون کے ذریعہ ہوگی کیونکہ خداکے علم میں یہ تباہی کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں مقدر ہے۔
پھر جب یہ زلزلہ بالکل سرپر آن پہنچا تو اس سے صرف ایک دن پہلے یعنی ۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہام ہواکہ:-
’’موت دروازے پر کھڑی ہے ۔‘‘۱۵؎
یعنی جس تباہی کی ہم نے خبردی تھی۔ اس کا وقت آن پہنچا ہے ۔ چنا نچہ اس الہام کے دوسرے دن یعنی ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت زلزلہ آیا اور اس سختی کے ساتھ آیا کہ ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے اور یہ زلزلہ عین شرائط بیان کردہ کے مطا بق آیا۔ یعنی اس کی سب سے زیادہ تباہی ضلع کا نگڑہ کے مقامات دھرم سا لہ اور پالم پور وغیرہ میں ہوئی جو اس علا قہ میں مستقل اور عارضی رہائش کے بڑے مرکز تھے اور اس زلزلہ کے نتیجہ میں لاکھوں روپے کے مالی نقصان کے علا وہ کئی ہزار لوگ اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ چنا نچہ سرکاری اعلا نات سے پتہ لگتا ہے کہ اس زلزلہ میںقریبا ً۳۰ ہزار جا نیں ضا ئع ہوئیں اور بے شما رعمارتیں مٹی کا ڈھیر ہوگئیں۔۱۶؎
مگر یہ خداکا فضل رہاکہ جیسا کہ پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا ۔ اس تباہی میں کوئی احمدی فوت نہیں ہوا۔
اب ہرانصا ف پسند شخص غور کرے کہ یہ کیسا عظیم الشان نشان تھا جو خدانے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہا تھ پر ظاہر کیا۔ خدانے وقت سے پہلے ۔
۱۔عذاب کی نوعیت بتادی۔
۲۔عذاب کی جگہ کی طرف اشا رہ کردیا گیا ۔
۳۔تباہی کی تفصیل بیا ن کردی۔
۴۔عذاب کاوقت ظاہر فرمادیا ۔
۵۔اور بالآخریہ بشا رت بھی دے دی کہ اس حا دثہ میںاحمدیوںکی جا نیں محفوظ رہیں گی۔
اور پھر سب کچھ عین اسی طرح ظا ہر ہواجس طرح پہلے بتادیا گیا تھا۔ کیا اس سے بڑھ کرکوئی نشان ہوگا مگر افسوس کہ بہت تھوڑے تھے جنہوں نے اس نشان سے فائدہ اٹھا یا اور اکثر لوگ انکار اور استہزاء میں ترقی کرتے گئے اور خداکا یہ قول ایک دفعہ پھرسچا ہواکہ:-
’’یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِمَایَاْ تِیْھِمْ مِّنْ رَّ سُوْ لٍ اِلَّاکَا نُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔۱۷؎
یعنی اے افسوس لوگوں پر ان کے پا س کوئی رسول نہیں آتامگر وہ اس کا انکا ر کرتے اور اسے ہنسی کا نشانہ بنا لیتے ہیں ۔‘‘
آیندہ زلا زل کی پیشگوئی
جب اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ اس کے اس عظیم الشان نشان سے لوگوںنے فائدہ نہیں اٹھا یا تو اس کی رحمت پھرحرکت میں آکر عذاب کی صورت میں تجلی کرنے کے لئے تیار ہوئی۔چنانچہ اس زلزلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو پے درپے زلزلوں کی خبردی اوربار بار الہام فرمایا کہ اب تیری صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے خدازمین کو غیرمعمولی طور پر جنبش دے گا اور کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے جن میںسے بعض قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کے بعض حصے تہ وبالاکر دئیے جا ئیں گے اور یہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں آئیں گے تا خدااپنے قہری نشانوں سے لوگوں کو بیدارکرے اور تیری صداقت دنیا پر ظاہرہو۔ چنا نچہ۸اپریل ۱۹۰۵ء کو خدانے فرمایا:-
’’تا زہ نشا ن۔تا زہ نشان کادھکہ زَلْزَ لَۃُ السَّا عَۃِ قُوْا اَنْفُسَکُمْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔۱۸؎
یعنی لوگوں نے پہلے نشان سے فائدہ نہیں اٹھا یا اس لئے اب ہم اور تازہ نشان دکھائیں گے اور یہ نشان دھکے کی صورت میں ظا ہر ہوگا ۔ جو قیامت کا نمونہ ہوگا ۔ پس اے لوگو اس آنے والے عذاب سے اپنی جا نوں کو بچا ئو۔ اس کے ذریعے حق ظا ہر ہوگا اور با طل بھا گ جا ئے گا ۔‘‘
پھر۹اور ۱۰ اپریل۱۹۰۵ء کو یہ الہام ہوا:-
’’لَکَ نُرِیْ اٰ یٰتٍ وَّنَھْدِمُ مَایَعْمَرُوْن.6َ۔۱۹؎
یعنی ہم تیرے لئے اور نشانات ظا ہر کریں گے اور جو عمارتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ انہیں ہم مٹاتے جا ئیں گے ۔‘‘
پھر۱۰اپریل ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’اِنِّیْ مَعَ الْاَافْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃ.6ً۔۲۰؎
یعنی میں اپنی فوجیں لے کر آؤں اور اچا نک آئوںگا ‘‘۔
یہ الہام اس کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا۔
پھر ۱۵ اپریل ۱۹۰۵ء کو ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خواب دیکھاکہ
’’سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیا دہ معلوم ہوتا تھا ۔‘‘۲۱؎
پھر ۱۸اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک اور خواب دیکھا کہ :-
’’بڑے زور سے زلزلہ آیاہے اور زمین اس طرح اڑرہی ہے جس طرح روئی دھنی جا تی ہے۔‘‘۲۲؎
پھر۲۳ـ اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ الہا م ہوا کہ :-
’’بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا۔‘‘۲۳؎
پھر ۲۳مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’زمین تہ وبالاکردی۔‘‘۲۴؎
پھر ۲۳اگست ۱۹۰۵ء کو یہ وحی ہوئی کہ:-
’’۱۔پہاڑگرااور زلزلہ آیا۔۲۔توجانتا ہے میں کون ہوں؟ میں خداہوں جس کو چاہتاہوں عزت دیتاہوں۔ جس کو چاہتاہوں ذلت دیتاہوں۔‘‘۲۵؎
پھر۱۳ستمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’عَفَتِ الدِّیَارُکَذِکْرِیْ۔۲۶؎
یعنی جس طرح لوگوں نے میری یاد کو اپنے دلوں سے محوکررکھا ہے۔ اسی طرح اب میرے ہاتھ سے آبادیا ں بھی صفحہ ہستی سے محوہوں گی۔‘‘
پھر ۱۴مارچ ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’چمک دکھلائوں گا تم کواس نشان کی پنج بار۔‘‘۲۷؎
یعنی پانچ زلزلے خا ص طور پر نمایاں ہوں گے۔
پھر ۱۴ مئی ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا:-
’’ھَلْ اَتٰکَ حَدِ یْثُ الزَّ لْزَ لَۃِ۔اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزا لَھَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اثْقَالَھَا ۔وَقَالَ لْاِانْسَانُ مَالَھَا۔۲۸؎
کیا تمھارے پاس زلزلہ کی خبر پہنچ گئی ہے۔ جب زمین کو سخت دھکے آئیں گے اور وہ اپنے اندر کی چیزیں نکال کر باہر پھینک دے گی اور لوگ حیرت سے کہیں گے زمین کو کیا ہوگیا ہے۔‘‘
پھر ۱۲اگست ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:-
’’صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۲۹؎یعنی سخت زلزلوںکے ساتھ ساتھ بعض طغیانیاںبھی مقدر ہیں اور یہ دونوں مل کر تباہی کا باعث بنیں گے۔‘‘
پھر ۱۹مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’اَرَدْتُ زَمَانَ الزَّ لْزَلَۃ.6ِ۔۳۰؎
یعنی خدافرماتاہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اب دنیا پر زلزلوں کا زمانہ آجائے۔‘‘
پھر۲۴ مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا:-
’’لاکھوںانسانوں کو تہ وبالا کردوں گا۔‘‘۳۱؎
یعنی یہ جو زلازل کا زمانہ آرہا ہے اس میں دنیا کے مختلف حصوںمیں زلزلے آئیں گے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوںگی۔
پھر۱۲مئی ۱۹۰۷ء کو الہام ہوا:-
’’ان شہروں کودیکھ کررونا آئے گا ‘‘۳۲؎
مندرجہ بالاالہامات ورؤیا کے علاوہ اور بھی بہت سے الہامات اور خوابیں ہیںجن میں زلزلہ کی خبر دی گئی ہے اور بعض الہامات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعض زلزلے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں ہی آئیں گے اور بعض آپ کے بعد۔ مگر اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف اسی پر اکتفا کی جا تی ہے اور الہامات اور خوابوں پر ہی بس نہیں بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلوں کے متعلق بعض مکاشفات بھی دیکھے ہیںجنہیں آپ نے اپنی تصنیفات میں درج فرمایاہے۔ مثلاً آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں ؎
وہ تباہی آئے گی شہروںپہ اور دیہات پر
جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار
ایک دم میں غم کدے ہوجائیں گے عشرت کدکے
شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہوکر سوگوار
وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں
پست ہوجائیں گے جیسے پست ہو اک جا ئے غار
ایک ہی گردش سے گھر ہوجا ئیں گے مٹی کا ڈھیر
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہرگھڑی
پھرتاہے آنکھوںکے آگے وہ زماں وہ روزگار ۳۳؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ توسب کو معلوم ہیں۔ لیکن حال میں ۱۶اگست ۱۹۰۶ء کوجو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چلّی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا۔ وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا۔ جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے بربادہوگئے اور ہزارہاجانیں تلف ہوئیں اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خا نماں ہیں ۔ شاید نا دان لوگ کہیں گے کہ یہ کیوں کر نشان ہوسکتا ہے۔ یہ زلزلے توپنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خداتمام دنیا کا خداہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تما م دنیاکے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے ……یاد رہے کہ خدانے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبردی ہے۔ پس یقینا سمجھوکہ جیساکہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیاء کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوںگے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی ……اور اکثر مقامات زیروزبر ہوجائیں گے کہ گویا ان میںکبھی آبادی نہ تھی……یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہاراملک ان سے محفوظ ہے۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ شا ید ان سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھوگے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خداتمھاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں…میں نے کوشش کی کہ خداکی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمھاری آنکھوں کے سا منے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے مگر خداغضب میں دھیماہے توبہ کرو تاتم پررحم کیاجائے۔‘‘۳۴؎
مندرجہ بالا خدائی الہامات و مکاشفات میں جس دل ہلا دینے والے طریق پر زلزلوں کی خبردی گئی ہے۔ وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور جیساکہ ان میں صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے یہ شروع سے مقدر تھا کہ موعودہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں اور مختلف وقتوں میں آئیں اور ان میں سے بعض اس قدر سخت ہوں کہ قیامت کا نمونہ پیش کریں۔سو ان میںسے بعض زلزلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں آگئے۔(جیساکہ شمال مغربی ہندوستان۔جزائرغرب الہند۔ فارموسا۔ سان فرانسسکواورچلی وغیرہ میں پے درپے خطرناک زلزلے آئے)اور یہ زلزلے اس طرح غیر معمولی طور پر آئے کہ مشہور انگریزی اخبار پائونیر کو حیران ہوکر لکھنا پڑا کہ یہ بالکل ایک غیرمعمولی تباہی ہے۔ چنانچہ پائونیرنے لکھا۔
’’ اس عالمگیر تباہی کی دنیا کی تاریخ میں حضرت مسیح ناصری کے ایک سو سال بعد سے لے کر آج تک بہت ہی کم مثا ل نظر آتی ہے‘‘۔۳۵؎
لا ہور کے ایک انگریزی اخبا ر سول نے لکھا:-
’’جمیکا کا تباہ کن زلزلہ جو ۱۹۰۶ء کے اسی قسم کے بہت سے تباہ کن زلا زل کے اس۔قدر جلد بعد آیا ہے۔ ہر شخص کے دل میں یہ خیال پیدا کررہا ہے کہ اب سطح زمین امن کی جگہ نہیں رہی… اس زلزلہ میں ہمیں اس قسم کے ہیبت ناک واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں جو دور کے کسی گزشتہ زمانہ میں سناجاتاہے کہ ہواکرتے تھے……یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس کرئہ ارض کو چھوڑ کر کسی اور پر امن کرّہ میں نہیں جاسکتے‘‘۔۳۶؎
الغرض حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کی پیشگوئی کے بعد آپ کی زندگی میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے سخت زلزلے آئے اور بعض آپ کی وفات کے بعد آئے۔( جیساکہ اٹلی، جاپان، چین وغیرہ کے تباہ کن زلزلے) اور بعض آ یندہ آئیں گے اور یہ خدا ہی کو علم ہے کہ وہ کب کب اور کہاں کہاں آئیں گے اوران کے نتیجہ میں کیا کیا تبا ہی مقد ر ہے۔مگر وہ تبا ہ کن زلزلہ جو حال ہی میں ۱۰جنوری ۱۹۳۴ء کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آیا ہے جس نے صوبہ بہار اور ریاست نیپال اور بنگال کے بعض حصوں میں قیامت برپاکررکھی ہے۔وہ ایک ایسا زلزلہ ہے کہ اس میں ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی ہندوستان والے زلزلہ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات وکشوف میں تصریح اور تعیین پائی جاتی ہے اور یوں نظرآتاہے کہ گویا خدائی ہاتھ معین طور پر اشارہ کررہاہے کہ یہ زلزلہ ان خاص زلزلوں میں سے ایک ایسا زلزلہ ہے جس کے متعلق تعیین اور صراحت کے ساتھ خبردی گئی تھی۔
۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء کا قیامت نما زلزلہ اور اس کی علامات
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات اور کشوف سے پتہ لگتا ہے کہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ ذیل علا مات مقرر تھیں۔ یعنی منجملہ بعض اور علامات کے ذیل کی پانچ علامت اس کے لئے خا ص طور پر مقرر کی گئی تھیں۔
اوّل۔اس زلزلہ میں خطرناک تباہی آئے گی اور اس کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہو گا ۔
دوم۔ یہ زلزلہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد اس کے قریب کے زمانہ میں آئے گا۔
سوم۔ یہ زلزلہ موسم بہار میں آئے گا۔
چہارم۔یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں آئے گا۔
پنجم۔ یہ زلزلہ خاکسار اقم الحروف مرزابشیراحمد کی زندگی میں آئے گااور خاکسار ہی ابتداً اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلا نے والاہوگا۔
یہ وہ پانچ علا مات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آج سے قریباً ۲۸ سال پہلے اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر ظاہر فرمائیںاور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں کس طرح منِ وعن پوری ہوئیں۔
اس زلزلہ کی خطرناک تباہی کے ساتھ پانی کاسیلاب بھی مقدر تھا
سب سے پہلی علا مت جو زلزلہ کی تباہی اور پانی کے سیلا ب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اس میں سے تباہی والا حصہ تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بہت سے الہامات اور کشوف میں بیان ہوا ہے۔ جیساکہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے اور چونکہ یہ زلزلہ بھی ان خطرناک زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ہے جن کی خبردی گئی تھی ۔ اس لئے جو تباہی کی صورت دوسرے سخت زلزلوں کے متعلق بیان ہوئی ہے۔ وہی اس زلزلہ پر بھی چسپاں ہوگی مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے ایک مکاشفہ میں ایک ایسے زلزلے کاذکر کیا ہے جس کے ساتھ زمین کو زیروزبر کردینے والی تباہی کے پہلو بہ پہلو سیلاب کی تباہی بھی شامل ہوگی۔ چنانچہ فرماتے ہیں ؎
سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے
جو خبر دی وحئی حق نے اس سے دل بیتاب ہے
زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیرو زبر
وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑاسیلاب ہے ۳۷؎
اس مکاشفہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صاف الفاظ میںبیان فرماتے ہیں۔ ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے جس سے زمین زیروزبر ہوجائے گی اور اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا۔ عام حالات کے لحاظ سے یہ ایک عجوبہ بات نظرآتی ہے کہ زلزلہ اور سیلاب ایک جگہ جمع ہوں مگر خدا کے مسیح نے یہ بتا رکھاتھا کہ وقت آتا ہے کہ یہ دونوں تباہیاں ایک جگہ جمع ہوں گی۔
اس مکا شفہ میںیہ بھی اشارہ ہے کہ پہلے زلزلہ آئے گااور پھر اس کے بعد پانی کا سیلا ب آئے گا مگر ساتھ ہی دونوں کو اکٹھا کرکے یہ بھی ظا ہر فرمادیاگیا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں الگ الگ حادثات ہیں بلکہ اصل میں دونوں ایک ہی چیز ہیں مگر ان کا ظہور ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے ہوگا۔ اب دیکھ لو کہ۱۵؍ جنوری۱۹۳۴ء کو صو بہ بہار میں بعنیہٖٖٖٖ اس کے مطابق واقعہ ہوا یعنے پہلے زلزلہ آیااور اس سے زمین زیروزبر ہوگئی اورپھر اس کے بعد زمین پھٹنے سے اس کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکلا ۔ جس سے میل ہامیل تک کا علاقہ پانی میں غرق ہوکریوں نظر آنے لگا جیسے کوئی سمندر ہے۔ چنانچہ ہندوستان کا مشہور انگریزی اخبار سٹیٹسمین لکھتاہے:-
ــ’’اس زلزلہ کے دھکوں سے کئی جگہوںپر زمین پھٹ پھٹ کر بڑے بڑے غار پڑ گئے اور زمین کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکل آیاجس سے اب سارا علاقہ غرقاب ہے‘‘۔۳۸؎
لاہور کاایک اخبار’’زمیندار‘‘رقمطراز ہے کہ:-
’’اس زلزلہ کے نتیجہ میںزمین کے پھٹ جانے کی وجہ سے پانی کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طغیانی آگئی ہے۔ تمام شہر پانی کاایک ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر نظر آتا ہے‘‘۔۳۹؎
زمین کے پھٹنے سے جو سیلاب آیا۔ اس کے علا وہ زلزلہ کے بعد اس علا قہ میں سخت بارش بھی ہوئی۔ گو یا اوپر اور نیچے دونوں طرف سے زلزلہ کی مصاحبت کے لئے پانی آموجودہوا۔ اور خدا کی قدرت نمائی کامز ید کر شمہ یہ ہے کہ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعض الہامات میں یہ ظا ہر کیاگیا تھا کہ بعض زلزلے ایسے بھی آئیں گے کہ ان سے پہلے ملک میں سخت طغیانیاں آچکی ہوں گی۔ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے سے پہلے بھی ملک کے مختلف حصوں میں طغیانیاں آئیں۔ چنانچہ اس بارے میں یہ الہام الٰہی اوپر درج ہو چکا ہے کہ:-
’’صحن میں ند یا ں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے‘‘۴۰؎
اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھا تھا کہ:-
’’میرے پر خدا نے الہامیہ ظاہر کیا تھا کہ سخت بارشیں ہونگی اور گھروں میں ندیاں چلیںگی اور بعد اس کے سخت زلزلے آئیںگے‘‘۔۴۱؎
سو ہم دیکھتے ہیںکہ یہ علا مت بھی ۱۵؍ جنوری والے زلزلہ میں لفظ بلفظ پوری ہوئی کیونکہ جیساکہ سب لوگ جا نتے ہیں کہ گز شتہ موسم برسات کے آ خر میں ملک کے کئی حصو ں میںنہایت سخت طغیانیاں آئیں۔چنانچہ رہتک، صوبہ پنجاب،دریائے گومتی کی وادی، صوبہ یو۔پی، مدناپور کا علاقہ صوبہ بنگال اور اڑیسہ صوبہ بہار میں۱۹۳۳ء کے آخر میںجو تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ گویا اس زلزلہ میںوہ دونوں علا متیں پوری ہوئیںجو پہلے سے بتادی گئی تھیں۔ یعنے اول یہ کہ زلزلہ سے پہلے مختلف حصوں میں تباہ کن طغیانیاں آئیں۔ جن سے صحنوں میں ندیاں چل گئیں اور دوسرے یہ کہ اس خاص زلزلہ میں زلزلہ کے دھکوں سے جگہ بہ جگہ زمین کا پھٹ کر اندر کا پانی جوش مارتاہواباہر نکل آیا اور ایک خطرناک سیلا ب کی صورت پیدا ہوگئی اوراسطرح وہ پیش گوئی حرف بحر ف پوری ہوئی کہ اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلا ب بھی ہوگا اورزلزلے کے دھکے اور پانی کی تباہی دونوں مل کر تباہی کے ہیبت ناک منظر کو پوراکریں گے۔
جا ن ومال کا بے انداز نقصان
با قی رہا جا ن ومال کا نقصان جو اس زلزلہ کے نتیجہ میں ہوا۔ سو اس کی داستان ایک خون کے آنسو رلانے والی داستان ہے ۔ جانی نقصان کا تو ابھی صحیح اندازہ لگ ہی نہیں سکا۔ گورنمنٹ نے اپنی طرف سے وقتاًفوقتاً اندازے شائع کئے اور ہزاروں جانوں کانقصان بتایا مگر بعد میں ہر اندازے کی تردید ہوگئی اور صحیح اندازہ لگ بھی کس طرح سکتا ہے۔ جبکہ ابھی ہزارہامکانوںکا ملبہ اسی طرح ڈھیروں کی صورت میں پڑاہے او ر کچھ خبر نہیں کہ ان کے نیچے کتنی جانیں دبی پڑی ہیں۔ اور مالی نقصان کا تو یہ حال ہے کہ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور سوائے مٹی کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا۔ غریبوںکے گھر امیروں کے مکانات راجوں، مہاراجوں کی کوٹھیاں،بادشاہوں کے محل، گورنمنٹ کی عمارات، کارخا نے ، پُل، دوکانیں، بازار، منڈیاں وغیرہ سب خاک میں مل گئے ہیں۔اور سیلاب اورزمین کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے سے فصلوںکاجو نقصان ہوا ہے وہ مزید برآں ہے۔
الغرض اس علاقہ میںاس وقت ایک قیامت کانمونہ برپاہے۔ مونگھیر، درابھنگہ ،مظفرپور، موتی،ہاری اور کھٹمنڈ وتو گویا بالکل ہی صا ف ہوچکے ہیں اور باقی جگہوں میں بھی ایک ہولناک نظارہ تباہی وبربادی کانظر آتاہے۔ زلزلہ کی رَو پہلے تو ایک طرف سے دوسری طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر یوں محسوس ہؤاکہ زمین کے نیچے کوئی چیز چکی کی طرح گھوم رہی ہے۔گویا خدائی فرشتوں کی فوج اس ارادہ سے اتری ہے کہ سب کچھ پیس کر رکھ دے گی اس زلزلہ کی تباہی ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی زلزلے سے بھی بہت بڑھ کر ہے کیو نکہ نہ صرف جانوں کانقصان زیادہ ہے۔بلکہ بوجہ اس کے یہ ایک زرخیز اور آبادعلاقہ تھا ۔ اس میں جو مالی نقصان ہوا ہے۔ وہ کانگڑہ وادی کے نقصان سے بہت بڑا ہے ۔ اور کروڑوں کروڑ روپے سے کسی صورت میں کم نہیں ۔ چنانچہ اسی نقصان کو دیکھتے ہوئے علا وہ بہت سے ہندوستا نی لیڈروں کے ہزایکسی لنسی وائسرائے ہند اور گورنران صو بجا ت والِیا ن ریاست اور ہز میجسٹی کنگ جارج اور وزیر ہند اور لارڈ مئیرآف لنڈن اور غیرحکومتوںکے صدر اور وزرا ء وغیر ہ نے مصیبت زدگان کی امداد کے لئے چندہ کی خاص تحریک کی ہے اور خود بھی چندہ دیا ہے۔
الغرض کیا بلحاظ جانی نقصان اور کیا بلحاظ مالی نقصان (جس کاپورا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا اور اس وقت تک جو بھی اندازہ ہوا ہے۔اس سے اصل نقصان بہرحال بڑھ کر ہے) یہ زلزلہ ایک خاص زلزلہ تھا اور اس میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں کہ یہ ایک قیامت کا ایک نمونہ تھا جو خدانے دنیا کے سامنے پیش کیا مگر چونکہ ہر قوم وملت کے اخبارات میں اس زلزلہ کی تباہی کے حالات مفصل شائع ہوچکے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس کے متعلق حوالے اور اقتباسات نقل کر نے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن محض نمونے کے طور پر اور کسی قدر تفصیلا ت کا علم دینے کے لئے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
تباہی کے ہولناک کوائف
اخبار الجمیعۃ دہلی لکھتا ہے:-
’’سب سے زیادہ ہولناک تباہی کی خبر یںصوبہ بہار کے بڑے بڑے شہروںاور قصبوں مثلاً پٹنہ، مظفرپور، دربھنگہ ، لہریاسرائے ، مونگھیر، بھاگل پور، جمال پور، گیا، بتیا، ترہٹ،پورینہ،سمستی پور، سارن، چمپارن، موتی ہاری، صاحب گنج، ستیامڑھی، چھپرا، منمیت پور، حاجی پور، ڈیگھی، آرہ اور چھوٹے چھوٹے قصبات ودیہات کے متعلق موصول ہوئی ہیں۔مونگھیر، دربھنگہ اور مظفرپور بالکل تباہ ہوگئے۔ مونگھیر میں صرف چار مکانات باقی ہیں۔پٹنہ میں کوئی ایسی عمارت نہیں بچی جو بالکل یا جزوی طور پر مسمار نہ ہوگئی ہو۔اول الذکر شہر میں ہزاروں لاشیں برآمد ہوچکی ہیںاور ہزاروں ابھی چونے اور اینٹوں اور لوہے کے گاڈروں کے نیچے دبی پڑی ہیں۔
شہروں اورشہروں کے باہر دیہاتی علاقوںمیں زمین شق ہوگئی کنوئیں ابل پڑے اور بعض مقامات پر کئی کئی سوگز کی چوڑائی سے پانی بیس فٹ اونچا فضاء میں کئی کئی گھنٹوں تک ابلتا رہا اور ایسی طغیا نی آئی کہ وہ علا قے جو ہمیشہ خشک رہتے تھے سات فٹ گہرے پانی کی جھیل بن گئے ۔ پٹنہ کے قریب گنگا کا دریا پانچ منٹ کے لئے بالکل غا ئب ہو گیااور پا نچ منٹ کے بعد پورے جوش اور طغیانی کے ساتھ بہنے لگا۔ غاروں سے گندھک اور ریت نکلتا رہا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں اور گائوں کے گائوں غرق ہوگئے ۔ آتشزدگی نے علیحدہ تباہ کیا مونگھیر اور مظفرپور میں ہزاروں انسان جو مرگئے ان کی لاشیں بلاامتیاز مذہب وملت دریا میں بہادی گئیں۔جو باقی رہ گئے ان کی خانما ں بربادی اور حسرت انگیز تباہی کا منظر قابل رحم ہے۔۴۲؎
سٹیٹس مین کا بیان ہے کہ:-
’’مہاراجہ دربھنگہ کے محلات اور مکانات اس طرح زمین کے برابر ہوگئے کہ ان کے کھنڈروں کو پہچانا بھی نہیں جاسکتا‘‘۴۳؎
اخبار سول لا ہور لکھتا ہے کہ:-
’’ مہاراجہ صاحب دربھنگہ کے محلات کا یہ حال ہے کہ انند باغ محل کا مینار اور دیواریں زمین سے پیوست ہوگئی ہیں اور باقی بھی شکستہ ہوگئی ہیں۔ نور گو ازمحل ، موتی محل بالکل کھنڈرات ہوگئے ہیں۔راج نگر جس پر مہاراج کے باپ نے ایک کرو ڑ روپیہ خرچ کیاتھا ۔ اب صرف ایک تباہ شدہ بستی اور اجاڑ کھنڈرات کاڈھیر رہ گیا ہے۔ مہاراجہ دربھنگہ کے کل نقصان کا موٹا اندازہ پانچ کروڑ روپے سے کم نہیں ہے‘‘۔۴۴؎
اخبار سرچ لا ئٹ پٹنہ لکھتا ہے کہ ’’جب بھونچال آیاتو اس کے ساتھ ہی زمین سے آگ نکلنی شروع ہوگئی ۔جس سے موضع اکدھرم اور نتہو دونوں گائوں تباہ ہوگئے‘‘۴۵؎
اخبار حقیقت لکھنؤ لکھتا ہے کہ:-
’’کھٹ منڈو میں ایسی قیامت آئی کہ جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ رام نگر سے کھٹمنڈو کو جو سلسلہ کوہ جاتا ہے اس کی سب سے بڑی پہاڑی راماراتھوئی میں عجیب طور پر شگاف ہوگیا ہے یعنے جس طرح کوئی دیوار بنیاد تک شق ہوجائے۔ اس طرح پہاڑ کے دوٹکڑے ہوگئے اورشگاف کی تہہ میں ایک کھولتا ہؤاچشمہ ابل پڑا ہے جس سے کچھ ایسے بخارات اٹھ رہے ہیں کہ کوئی اس کے قریب نہیں جا سکتا۔تین سرکاری عالی شان محل جن کی خوبصورتی اور صناعی پر یورپین انجینئر عش عش کرتے تھے مسمار ہوگئے ہیں۔ اور سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ راستہ میں ایک ایسا گہرا شگاف پڑگیا ہے کہ کئی دنوں تک آمدو رفت نہ ہوسکے گی۔ اگرچہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس علا قہ میں ہزاروں جانیں ضائع ہوگئی ہیں لیکن اس سے عجیب واقعہ یہ ہے کہ کئی پہاڑی ندیاں جو ان دنوں بھی ابلتی رہتی ہیںوہ بھی غا ئب ہوگئی ہیں۔گوالا منڈی نیپال گنج اوربھکتہ تھوری میں بھی اس وقت حشربپا ہے۔ بازار تبا ہ ہوگئے ہیں۔ شہر پرویرانے کا دھوکہ ہوتا ہے خاص کرنیپال گنج میں جہاں بڑے بڑے گودام تھے۔ ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ لاکھوں روپیہ سے زیادہ ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ دشوار ہے۔ انسان تو انسان حیوان اس قہر خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوںکے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے ‘‘۔۴۶؎
اخبار ملاپ لا ہور لکھتاہے کہ:
’’وادی نیپال میں قریباً قریباًتمام مکانات گرگئے ہیں ۔ کھٹمنڈو میں کئی میدانوں اور پہاڑیوں میں دراڑ پڑگئے ہیں ۔ مہاراجہ کی دو لڑکیاں ہلا ک ہوگئیں۔ مہاراجہ کی ایک پوتی اور چچازادبھائی ۔ اس کی بیوی اور دوبچے بھی ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔۴۷؎
ٹریفک منیجر بنگال ریلوے کابیان ہے کہ:-
’’اس علاقہ میں آمدورفت کے ذرائع کے کلی انقطاع کااندازہ کرنا آسان نہیں۔ مختصر یہ ہے کہ نہ سڑکیں رہی ہیں نہ ریلیں نہ تاریں۔ملک کے وسیع قطعے سیلاب میں غرق ہیں ۔ اور عملی طور پر اس علاقہ میں سے گزرنا قطعاًناممکن ہورہا ہے۔ اس وقت آنکھوں کے سا منے ابتری اور مایوسی کامنظرہے اور آیندہ کے لئے سوائے خاموشی اور خطرے کے کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔۴۸؎
اخبارزمیندار لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’۱۵؍ جنوری کے ہو لناک زلزلے نے صوبہ بہار کے مختلف مقامات پر تباہی وبربادی کا جو ہولناک منظر پیدا کردیاہے۔ اس کی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ اس بدنصیب صوبہ بہار میں اب تک تقریبا ً ہزارہا نفوس جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ہلا کت کاشکار ہوچکے ہیں۔مجروحین کی تعداد قریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ کروڑوں روپے کی جائدادیں زلزلے کے بے پناہ ہاتھ سے پیوند ز مین ہو چکی ہیں ۔ تما م اثاث البیت جو انہوں نے صدیوں کی محنت سے جمع کیا تھا ۔ ہزاروں من ملبے کے نیچے دب کر برباد ہوچکا ہے۔ شہروں کے شہر مسمار اور علاقوں کے علاقے ڈھنڈہار ہوچکے ہیں۔ کئی کئی میل تک کھانے پینے کی چیزوں کانام ونشان نہیں۔ سردی سے بچنے کے لئے کپڑے کی دھجی تک میسر نہیں۔۴۹؎
اخبار پرتاپ لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’بہارواڑیسہ سے جو اطلا عات موصول ہوئی ہیں وہ بہت دردناک ہیں۔وہاں سے جو اصحاب بھاگ کر الہ آباد میں آئے ہیںان کا بیان ہے کہ مونگھیر، مظفرپور، چھپرا، ستیامڑھی اور دربھنگہ میں ۲۰ کروڑ کا نقصان ہوگیا ہے۔ ۲۵ ہزار آدمی صرف ایک مونگھیر میں مرگئے ہیں۔ صرف ۲۲؍جنوری کے دن سرکاری انتظامات کے ماتحت تین ہزار لاشوں کو جلایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا شہروں میں بازاروں کا نام،ونشان نہیں ملتا۔ وہ لاشوں، سروں، ٹانگوں اور پتھروں وغیرہ سے بھرے ہوئے ہیں اتنی بدبو پھیل رہی ہے کہ ٹھہرنا مشکل ہورہا ہے۔‘‘
امرت بازار پتر کاسپیشل نامہ نگارمونگھیرسے لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ زدہ علاقہ میں ایک لاکھ مویشی ہلاک ہوگئے ہیں……ایک تجارتی ایجنٹ ابھی ابھی مظفرپور سے آیا ہے جو زلزلہ کے وقت وہاں موجود تھا۔وہ بیان کرتا ہے کہ مکانات کی چھتوںسے انسانی سر۔ٹانگیں۔ ہاتھ اور پائوں بیسیوںکی تعداد میں کٹے ہوئے گررہے تھے ۔ ہاہا کار کی آوازوں سے میں گھبراگیا۔کئی آدمیوں کو کھڑ کیو ں سے چھلا نگیں لگا تے دیکھا مگر ان کے نیچے آ نے سے پہلے دیواریں گر جاتی تھیں۔ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انسانی سروں۔ ہاتھوںاور بازوؤں کی بارش ہو رہی ہے……گیا کے قریب ایک چھوٹا سا دریا تھا۔جس کا نام پھلگر ہے وہ بالکل خشک ہوگیا۔ جہاں پہلے پانی تھاوہاں اب ریت کے انبار لگے ہوئے ہیں نہ معلوم دریا کا پانی کہاں غائب ہوگیالیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ندیاں جو اس موسم میںبالکل خشک ہوا کرتی تھیںپانی سے بھرگئی ہیں‘‘۔۵۰؎
مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ:-
’’۳بج کر۵منٹ پر جب کہ میں بازار میں جا رہا تھا دفعتہ ہولناک آواز سنائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ ہوائی جہاز آرہا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں کپکپی اور رعشہ شروع ہونے لگا۔ پھر زمین میں دائیں اور بائیں دوحرکتیں ہوئیں۔ بعد ازاں ایسا معلوم ہؤا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھمادیا ہے………میرے ہوش وحواس زائل ہوگئے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا۔ جہاںتک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں……شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میںاپنا گھر نہ پہچان سکا۔آخر ایک ٹیلہ پر بیٹھ کر رات گزاری۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو تمام شہر خاک کا ڈھیر تھا‘‘۔۵۱؎
آنریبل سیدعبدالعزیزصاحب وزیر تعلیم صوبہ بہار بیان کرتے ہیںکہ:-
’’ایک جگہ نہر پانی سے بھری ہوئی رواں تھی۔زمین پھٹی اور نہر کا پانی اندر سماگیا اور نہر خشک ہوگئی۔ ایک لا ری جارہی تھی۔ زلزلہ آیا اور آدمی اس سے اترگئے ۔ زمین شق ہوگئی اور لا ری زمین کے اندرسماگئی۔ اس کے بعد زمین لاری کو اپنے پیٹ میں لے کر اس طرح پیو ست ہوگئی کہ گویا کچھ ہواہی نہیں‘‘۔۵۲؎
مہاراجہ صاحب مونگھیرکے داماد کا بیان ہے کہـ:-
’’وہ شہر(مونگھیر) جو کسی وقت نہایت خوبصورت اور دلکش تھا،نہایت بھیانک اور خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ سوائے منہدم دوکانات کے ملبوں کے علاوہ وہاں کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ ابھی ہلاک ہونے والوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال ۲۵ہزار آدمیوں کااندازہ کیا گیا ہے۔ اب تک میونسپلٹی رجسٹروں میں ۱۲ہزار کے نام درج ہوچکے ہیں۔ چیل اورکووں کے جھنڈ کے جھنڈ مردہ لاشوں کو چیرنے اور پھاڑنے میں مشغول نظرآتے ہیں۔ تمام شہر قبرستان کا ایک ہیبت ناک منظر پیش کررہا ہے۔ میں اس منظر کے بیان کرنے سے قاصر ہوں جو میں نے وہاں دیکھا‘‘۔۵۳؎
اخبار ملاپ کا ایڈیٹر اپنے چشم دید حالات لکھتا ہے کہ:-
’’زلزلہ کی وجہ سے ایسی سخت مصیبت آئی ہے کہ جس کا بیان کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تواریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ان حالات کے بیان کرنے سے دل لرزتا ہے … …مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ طوفان نوحؑ آگیا ہے یہ کیفیت پانی کے سیلاب سے ہوئی۔ بڑے بڑے لکھ پتی اس وقت درختوں کے نیچے چادر وغیرہ تانے ہوئے پڑے ہیں‘‘۔۵۴؎
پھر لکھتاہے کہ:-
’’اٹھائیس برس کے بعد ایک بار پھر ہندوستان نے ایک خوفناک بھونچال کو دیکھا ہے۔۱۹۰۵ء میں ضلع کانگڑہ میں تباہی مچی تھی اور اب کے بہارواڑیسہ اور نیپال میں ہیبت ناک بربادی ہوئی ہے۔ بھونچال کے وقت کئی کئی فٹ مکانات معہ بنیادوں کے زمین کے اوپر اچھلے ہیں۔ کنوئوں کا پانی فوارے کی طرح باہر نکلا ہے اور اپنے ساتھ اندر کی ریت بھی ساتھ لایا ہے کہ کھیتوں میں میل ہامیل تک ریت کی کئی کئی فٹ تک تہ جم گئی ہے‘‘۔
’’باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں۔ بچے اپنے ماتاپتا کو تلاش کررہے ہیں۔ گرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اٹھا کر دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ماتاپتانیچے سے نظر آسکیںاور انہیں پیار سے بلا سکیں۔لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے۔ جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ وپکار کا کیا ٹھکاناہے پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے‘‘۔۵۵؎
پھر لکھتا ہے کہ:-
’’وہ کھیت جو ۱۵؍ جنوری کی دوپہر تک دھان کی فصل کے لئے نہایت مفید تھے۔ دفعتہ ریگستان میں تبدیل ہوگئے ہیںاور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیازلزلہ کے باعث جو ریت زمین کے جگر سے نکل کر خوشگوار کھیتوں میںپـڑی ہے۔ وہ صحرا کی دائمی صورت اختیار کرجائے گی یااس ریگستان کے نخلستان میںتبدیل ہو جانے کا کوئی امکان باقی ہے؟……اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو لاکھوں ایکڑ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ اس کے غریب باشندوں کو جن کاگزارہ کاشت اراضی پر تھا کس طرح روٹی مہیا کی جائے اورزمین کو کس طرح اس قابل بنایاجا ئے کہ وہ ازسرِنو اپنی زندگی شروع کرسکیں۔‘‘
’’شہروالوں کے متعلق یہ غلط خیال ہے کہ وہی زیادہ مصیبت زدہ ہیں۔ دیہات والے تو بالکل ہی تباہ ہوگئے ہیں۔ ایک لاکھ ایکڑرقبہ سے زیادہ گنّے کی فصل کھڑی ہے مگر گناپیلنے کے تمام کارخانے تباہ ہوگئے ہیں‘‘۔۵۶؎
پھر ملاپ لاہور کا ایڈیٹر اپنے ایڈیٹوریل مضمون میں لکھتاہے کہ:-
’’تین دن اورتین رات لگاتار بھونچال زدہ علاقہ میں سفر کرنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتاہوںکہ تباہی بہت بڑی ہے اور اخباروںکے ذریعہ اب تک عوام کو جوپتہ لگا ہے وہ اس تباہی کا عشرعشیر بھی نہیں ہے۔ میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، افسوس میراقلم اورمیری زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے۔کوئی تباہی سی تباہی ہے اور بربادی سی بربادی ہے؟ دومنٹ کے جھٹکے نے چشم زدن میں دوسومیل لمبے اور ایک سومیل چوڑے علاقہ کو کھنڈرات میںتبدیل کردیا ہے۔ ہزاروں برس کی تہذیبیںاور سینکڑوں برس کی یادگاریںمٹادی گئی ہیں۔ جن مکانوں اورمحلوں میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ وہاں اب گدھ اور چیلیں منڈلارہی ہیںاورحیوانوںانسانوںکی لاشوںکونوچ نوچ کرکھارہی ہیں۔‘‘
’’ریل کی سڑکیںٹوٹ چکی ہیں۔ موٹرکار کا راستہ پھٹ چکاہے۔ کھیت دلدل بن گئے ہیں۔ ایک ہزار گائوں پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ کنوئوں نے آتش فشاںپہاڑ کے دہانہ کاکام دیا ہے۔ بھونچال کے وقت ان سے ریت پانی اور کالا مادہ اچھل اچھل کر نکلتارہاہے۔ کئی مقامات پر زمین اتنی پھٹ گئی ہے کہ اس میں کئی غاریں بن گئی ہیںاور بہت سے جانور ان غاروں میں گرکرجاں بحق ہوگئے ہیں۔‘‘
’’زلزلہ کا سب سے زیادہ غصہ مونگھیر پر نکلاہے۔ یہ مہابھارت کے راجہ کرن کا آباد کیا ہواپرانا شہر تھا۔ چالیس پچاس ہزار کی آبادی ہوگی۔ تنگ بازاراور تنگ گلیاں تھیں۔مکانات سہ منزلہ اور چار منزلہ تھے ۔ دیہات سے لوگ عید کے لئے خوشی کا سامان خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہندو بسنت کی تیاریوں میںمشغول تھے کہ یک لخت۱۵جنوری کو ایک مہیب شور زمین کے اندر سے سنائی دینے لگا۔گڑگڑاہٹ نے کان پھاڑڈالے اور زمین متزلزل ہواٹھی۔ مکانات ناچتے ہوئے نظر آنے لگے اور پھر ایک لمحہ میں ’’اڑااڑادہم‘‘کی صدائیں اٹھیں۔گردوغبار کا چاروں طرف اٹھتا ہواانبار تھا۔جو جہاں تھا وہیں رہ گیااور کسی کو کسی کی خبر لینے کی سدھ نہ رہی۔ چند منٹوںکے بعد جو لوگ زندہ بچ نکلے۔انہوں نے دیکھا کہ مونگھیر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا اور کھنڈرات کے اندرون سے چیخوں کی صدائیں بلندہو رہی ہیں۔ زلزلہ کی ہیبت ناک آواز تو بند ہوگئی ہے لیکن دبے ہوئے مردوں بچوں اور عورتوں کی چلاہٹ سے زمین کے اندر طوفان برپاہورہا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ انسانی شور بند ہوگیا اور دبے ہوئے لوگ یاتومرگئے یابے ہوش ہوگئے۔‘‘
’’اس کے بعد کھدائی کاکام شروع ہوا۔بازاروں میں سائیکل سوار بد ستور سائیکل پر بیٹھا نکلا ہے لیکن مراہوا۔ مکان میں ماں بچے کو نہلا رہی ہے۔ ایک ننھا بچہ گود میں ہے اسی حالت میں مکان گراہے اور لاشیں اسی حالت میں نکلی ہیں۔ دوکاندار سوداتول رہا ہے سامنے خریدار کھڑے ہیں اور انہیں جہاںکاتہاں بھونچال نے رکھ دیا ہے۔ ملبہ کو ہٹانے کے بعد اسی پوزیشن میں لا شیں نکلی ہیں۔
مونگھیر کے بعد شمالی بہار میں سب سے زیادہ نقصان مظفرپور میںہواہے۔ اس کی آبادی۵۲ ہزارکی تھی۔ سارے شہر میں ایک درجن سے زائد مکان نہیں بچے۔ سب کے سب نشٹ ہوگئے ہیں… …اس وقت تک مظفرپور میںملبہ کے نیچے سے۳ہزار لاشیں نکل چکی ہیںاور ابھی اور نکالی جارہی ہیں۔‘‘
’’لوگوںکا بیان ہے کہ پہلے ایک معمولی ساجھٹکاآیا۔ پھر زمین کے اندر سے ہوائی،جہاز کے چلنے کی آواز آئی۔ شور زیادہ بڑھااور ایسامعلوم ہوا جیسے بم کے ہزارہاگولے پھٹ رہے ہیں اور تب مکانات گرنے لگے اور چیخ وپکار کی ختم نہ ہونے والی صدائیںبلند ہو اٹھیں۔ دوکانوں اور مکانوں کے اندر زمین پھٹ گئی اور پانی اور ریت کے چشمے جاری ہوگئے۔ سڑکیں بھی پھٹ گئی اور ان کے اندر سے بھی ریت اور پانی باہر نکلنے لگا۔ دیہات میںبھی زمین جگہ جگہ سے پھٹ گئی اور کہیں سے سات گز اور کہیں سے پانچ پانچ گز بلند فوارے جا ری ہوگئے۔‘‘
’’جنک پور میں سات آٹھ دن گزرجانے کے باوجود بازاروں میں کشتی چل رہی ہے۔ اسی طرح ستیامڑھی کا حال ہواہے اور دوسری طرف موتی ہاری (چمپارن) میں بھی جل تھل بن گیا ہے اور اس سارے علاقہ میںجہاں جہاں خشکی ہی خشکی تھی وہاں پانی ہی پانی ہوگیا ہے ۔عجیب تبدیلیاں ہوئی ہیں۔کروڑپتی اور لا کھوں پتی لوگوں کے عالی شان محل گرگئے ہیں اور اب وہ پھٹی پرانی بوریوں میں رات بسرکررہے ہیں۔ کئی خا ندانوں کے نام ونشان مٹ گئے ہیں‘‘۔۵۷؎
پھر یہی اخبار ملاپ اپنے ایک اور نمبر میں ایک اور شخص کا چشم دیدبیان لکھتاہے کہ:-
’’ایک دومنٹ میں ہی مکانوں کے گرنے سے اندھیراہوگیا نظر کچھ نہیں آتا تھا۔ جیسا کہ روز قیامت ہے۔زمین ہل رہی تھی مکان گررہے تھے ز مین پھٹ رہی تھی اور ایسی پھٹ رہی تھی جیسے کوئی مقراض سے زمین چیررہا ہے اور جہاں وہ پھٹ رہی تھی پانی کا دریا امڈرہا تھا لوگ جو باقی بچے تھے وہ اپنی جا ن پانی کے بہاؤ سے بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے بھاگ کرکہاں جائیںجدھردیکھوپانی ہی پانی نظرآتا تھا۔ چاروں طرف زمین پھٹ رہی تھی …… شہر میں سڑکیں پھٹ چکی تھیں۔ ہزاروں آدمی کھنڈرات کے نیچے دب کر مرچکے تھے۔ خاندانوں کے خاندان تباہ ہوگئے ہیں۔ کل جو لاکھوں کے مالک تھے وہ آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔۵۸؎
اخبارزمیندار لکھتا ہے کہ:-
’’ مونگھیر میں رات سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو اب تک برابر جا ری ہے۔ بد نصیب باشندگان مونگھیر کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت ان کی حالت قا بل رحم ہے۔ ان کے پا س نہ اوڑھنے کے لئے کمبل ہے نہ پہنے کے لئے کپڑا۔ اس نئی مصیبت کی وجہ سے بعض کی زبان سے یہ الفاظ سنے گئے اس سے تو بہتر تھا کہ ہم بھی مرجاتے۔ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے اے خدا ہمیں موت دے ‘‘۔۵۹؎
اخبار ملاپ لکھتاہے کہ:-
’’مظفرپور اور پٹنہ میںکل رات سے موسلا دھار بارش شروع ہے۔ سڑکو ں پر پڑے پڑے ہزارہا بندگان خدا اب بارش میں شرابور سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ مطلع پرابرمحیط ہے۔ اور ابھی بارش تھمنے کی کو ئی علا مت نظر نہیں آتی ‘‘۔۶۰؎
اخبار پرکاش لاہور لکھتا ہے کہ:-
’’ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے شاید ہی کو ئی اتنابڑا زلزلہ آیاہو۔ زلزلہ کیا ہے پر ماتماکا ایک کوپ ہے‘‘۔۶۱؎
اخبار سرفراز لکھنئو لکھتاہے کہ:-
’’ہندوستان کے باشندے گویا زلزلے کو بھولے ہوئے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اب کچھ زمانہ سے ہندوستان میں بھی پے درپے زلزلے آرہے ہیں‘‘۔۶۲؎
اخبار اہلحدیث لکھتاہے کہ:-
’’یقین ہے کہ بعد ختم رسالت محمدؐیہ علی صاحب ہاالتحیتہ والسلام اگر نبوت جاری رہتی تو جدید نبی پر جو کتاب آتی اس میں عادثموداور فرعونیوں کی تباہی کے ذکر کے ساتھ ہی صوبہ بہار کے زلزلہ زدہ مقامات کاذکر بھی ضرور ہوتا۔ یعنی بتایاجاتاکہ عادیوں ثمودیوں کے عذاب سے زیادہ عذاب ان مقامات پرآیا‘‘۔۶۳؎
گورنمنٹ ہند کے ہوم ممبرسر ہیری ہیگ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہاکہ:-
’’سرکاری عمارتوں مثلاًعدالتوں، دفتروں اور رہائشی مکانات کی مرمت یاازسرنو تعمیرکے مجموعی اخراجات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن گورنر بہار نے کہا ہے کہ صرف ایک شہر میں۳۰لاکھ کی سرکاری عمارات مسمار ہوچکی ہیں۔ ریل کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ صرف جمال پور کے نقصان کی مرمت کااندازہ ۵۰لاکھ روپے سے کم نہیںہے۔‘‘
’’مقامی اداروں مثلاً ڈسٹرکٹ بورڈوںاور میونسپل کمیٹیوںکو بھی ہسپتالوں، دواخانوں، سکولوں، سڑکوں اورپلوں کی تباہی سے بہت نقصان پہنچاہے۔ پرائیویٹ ملکیتوںکے نقصان کا مجموعی اندازہ پیش کرنا قطعاًنا ممکن ہے۔‘‘
’’زراعتی زمینوں کے نقصانات کا اندازہ بھی ویساہی ناممکن ہے۔ بعض مقامات پر سُرخ کیچڑاور ریت زمین سے نکل آئی ہے اور یہ کہ وہ مستقبل میںزمین کی زراعتی قابلیتوں کو کس حد تک نقصان پہنچائے گی۔ اس کااندازہ سردست نہیں کیاجاسکتا۔ کاشتکاروں پر اس وقت سب سے زیادہ مصیبت کارخانجات شکرسازی کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ جیساکہ ہزایکسی لنسی گورنر نے اشارہ کیا تھا۔ تین اضلاع متاثرہ میںدولاکھ ایکڑزمین پر نیشکر بویاجاتاتھا۔ جس سے ۲۲لاکھ من شکر برآمد ہوتی تھی۔ کارخانوں کی تباہی نے بے چارے کاشتکاروںکے لئے نہایت شدیدپیچیدگی پیداکردی ہے‘‘۔۶۴؎
ہزایکسلینسی گورنرصاحب بہادر بہارنے تقریر کرتے ہوئے فرمایاجس کاخلاصہ یہ ہے کہ:-
’’ اس زلزلہ کی تباہ کاری گزشتہ تاریخ کے مقابلہ میں بلحاظ عظمت سب سے زیادہ وسیع اور بھاری ہے۔ اگر دریائے گنگا کے جنوبی حصوں کو جن میں نسبتاًجان ومال کاکم نقصان ہواہے۔ چھوڑبھی دیا جائے۔ تب بھی جس قدر علاقہ زلزلہ سے تباہ ہواہے وہ کسی طرح ملک سکاٹ لینڈ کے رقبہ سے کم نہیں ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس سے پانچ گناہ زیادہ ہے۔‘‘
’’شمالی بہار کے شہروں میں اغلباًایک خشتی مکان بھی نہیں ہے۔ جو کامل طور پر نقصان سے بچ گیا ہو۔ مونگھیر کاگنجان بازار اس حد تک برباد ہوچکاہے کہ کئی دن تک رستہ کاپتہ باوجود کوشش کے نہیں لگ سکا۔ ہزارہا جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور اگر یہ جھٹکادن کی بجائے رات کو لگتا۔ تو اس سے ہزاردرجہ زیادہ نقصان جان ہوتا۔ شہری آبادی جس پر یہ مصیبت آئی ہے۵لاکھ نفو س سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ ۱۲شہر جن کی آبادی ۱۰ہزار سے ۶۰ہزار تک تھی کامل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔‘‘
’’فوجی سپاہی جنہوں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ سے رقبہ متاثرہ کی تباہی وبربادی کامشاہدہ کیاہے وہ اس کو ایک میدان جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جس کو دشمن کی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیاہو۔ ایک بہت بڑے علاقے کے زمینداروں کی قابل کاشت زمینیں شگافوں، غاروں اور پانی کے ابلتے ہوئے چشموںسے تباہ ہوگئی ہیں۔ اور پانی کے ساتھ نکلی ہوئی ریت نے تین فٹ تک بلکہ اس سے زیادہ زمین کو ڈھانک دیاہے۔ اس نقصان کی پوری وسعت کااندازہ جو ہندوستان کے ایک نہایت زرخیز علاقہ کو پہنچا ہے۔ ایک مدت مدید تک کرنامشکل ہے۔ جس علاقہ کاڈائریکٹرآف ایگریکلچر اور ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے معائنہ کیاہے ۔ ان کااندازہ ہے کہ مظفرپور اور دربھنگہ کے نزدیک ۲ہزار مربع میل کے رقبہ پر نصف زمین بالکل ریگستان بن گئی ہے۔‘‘
’’اس کے علاوہ ہوائی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ یہ نقصان شمالی بھاگلپور اور ضلع پورینہ کے کھیتوں میں بھی پایاجاتاہے۔‘‘
’’تمام شمالی بہار میںآمدورفت کے ذرائع مسدود ہیںاور سڑکیں اور ریلیں بربادہوچکی ہیں۔‘‘
’’اس کے علاوہ اور ایک خطرہ جس کو قطعاً نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ہے کہ زلزلہ نے تمام ملک کی سطح میں بلحاظ نشیب وفراز بڑی بڑی تبدیلیاں پیداکردی ہیں۔ زمین کے دھنسنے اور ابھرنے کی کشاکش سے اونچی اونچی سڑکیںمعمولی سطح زمین کے برابرہوگئی ہیں۔ آب رسانی کے سابقہ ذرائع بالکل معطل ہوگئے ہیں۔ دریائوں کی گزرگاہیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اس قدر تباہی اور زمین کے تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت اندیشہ ہے کہ آیندہ برسات اس علاقہ میںسخت طوفان کاباعث ہوگی‘‘۔۶۵؎
لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لندن میں تقریر کرتے ہوئے چشم پُرآب ہوکر کہاکہ:-
’’یہ زلزلہ ایسا ہیبت ناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور یہ قریباً قریباً ناممکن ہے کہ اس تباہی کانقشہ انگلستان کے باشندے اپنے تصور میں لاسکیں‘‘۔۶۶؎
کیا یہ تباہی جو اوپر کے حوالہ جات میں بیان ہوئی ہے۔ قیامت کے نمونہ سے کم ہے۔ کیا یہ تباہی اس ہولناک نقشہ کے عین مطابق نہیں۔ جو آج سے ۲۸سال قبل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ؟ کیایہ تباہی خدائے ذوالجلال کی قدرت اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے ثابت کر نے کے لئے کافی نہیں ؟اور پھر کیا یہ تباہی خداکے وعدے کے مطابق اس کے زور آور حملوں میں سے ایک زور آور حملہ نہیں؟فاعتبرویٰٓاُولی الابصار
اس زلزلہ نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آناتھا
دوسری علامت اس زلزلہ کے لئے یہ مقرر کی گئی تھی کہ وہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کی وفات کے بعداس کے زمانہ سے ملتا ہواآئے گا۔ یہ علامت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ ۳مئی ۱۹۰۵ء کی صُبح کو آپ کو غیبی تحریر دکھائی گئی جس پر یہ الفاظ لکھے تھے:-
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘۔۶۷؎
یہ خبر نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے واقعہ قتل کے متعلق تھی ۔ جیساکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مفصل اور مدلل مضمون محررہ ۲۔ نومبر۱۹۳۳ء میں دوسرے الہامات اور تاریخی واقعات کی روشنی میںثابت کیاگیا۔ جو آج سے قریباً دوماہ پہلے شائع ہوکر تمام اکنافِ عالم میںپھیل چکاہے اور یہ الہام بذاتِ خود ایک عظیم الشان پیشگوئی کاحامل تھاجو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو کنگ نادرشاہ کے افسوس ناک قتل سے پوری ہوئی مگر یہاں ہمیں اس پیشگوئی کی تفصیلات سے کوئی سروکار نہیںہے بلکہ اس جگہ صرف یہ بتانامقصودہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے متعلق۳مئی ۱۹۰۵ء کو ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو ۸نومبر ۱۹۳۳ء کو آکر پوری ہوئی۔ اب ہم جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان الہامات پر نظر ڈالتے ہیں جو’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے بعد آپ کو ہوئے۔ تو صاف طور پران میں ایک ایسے زلزلے کی خبر پاتے ہیں جو بہت تباہ کن ہوگا اور اس میں زمین تہ وبالاکردی جائے گی ۔چنانچہ ۳ مئی۱۹۰۵ء کے بعد الہامات درج ذیل ہیں۔
سب سے پہلاالہام ۹مئی ۱۹۰۵ء کو ہُواجو یہ ہے کہ:-
’’پھر بہارآئی خداکی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۶۸؎
’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘کے الہام کے بعد یہ پہلاالہام تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کوہوا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے متعدد جگہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ الہام زلزلہ کے متعلق ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپ اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ(یعنی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کازلزلہ) بھی بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبردی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا‘‘۔۶۹؎
پھر اسی دن یعنی ۹؍مئی۱۹۰۵ء کو دوسرا الہام ہواکہ:-
’’یَسْتَنبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔قُلْ اِیْ وَرَبِّیٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔۷۰؎
یعنی لوگ تجھ سے پو چھتے ہیں کہ کیایہ زلزلہ کی خبر درست ہے۔ تو کہہ دے ہاں خداکی قسم وہ درست ہے۔‘‘
پھر ۱۰مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا:-
’’کیاعذاب کامعاملہ درست ہے؟اگر درست ہے تو کس حد تک؟‘‘۷۱؎
یہ الہام بھی یقینا زلزلہ کے متعلق ہے اور واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ اس پیشگوئی کے اعلان کے بعد اکثر مخالف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے سوال کرتے رہتے تھے ۔ کہ یہ جو زلزلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اگر یہ درست ہے تو اس کی کیاکیاعلامات اور کیا کیاتفصیلات ہیں۔۷۲؎
پھر ۲۲مئی ۱۹۰۵کو الہام ہواکہ:-
’’صَدَّقَنَا الرُّو.6ْ.6ٔ یَااِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْن.6َ۷۳؎
یعنی ہم نے تیرے رویا کو سچاکرکے دکھایااور ہم اسی طرح نیکوکاروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔‘‘
اس الہام کو بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے زلزلہ کی طرف منسوب فرمایاہے چنانچہ فرماتے ہیںکہ:-
’’اس پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہوچکی ہے۔ آج۲۲مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خداتعالیٰ کی طرف سے یہ وحی (یعنی وحی مندرجہ بالا) ہوئی‘‘۔۷۴؎
پھر ۲۳مئی۱۹۰۵ء کو الہام ہواکہ:-
’’زمین تہ وبالاکر دی۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۷۵؎
یعنی ایک تباہ کن زلزلہ آنے والاہے۔ جبکہ خدائے ذوالجلال اپنی فوجوں کے ساتھ تیری صداقت کے اظہار کے لئے اچانک آئے گا‘‘
یہ سارے الہامات موعودہ زلزلہ کے بارے میںایک کڑی کی صورت میںنازل ہوئے ہیںاور ’’آہ نادرشاہ کہاں گیا‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر اتارے گئے ہیں۔ جس سے صاف ظاہرہے کہ خداکے علم میںہمیشہ سے یہ مقدر تھاکہ نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کاواقعہ اور یہ زلزلہ عظیمہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے وقوع پذیرہوں گے۔
خوب غور کرلو کہ ۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ ان الہامات کو جو دوبالکل مختلف واقعات سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر نازل کرتاہے۔ او ر پھر ۲۸سال کے لمبے عرصہ کے بعدوہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح آگے پیچھے ہوکرپورے ہوتے ہیں۔ جس طرح ۲۸سال پہلے انہیں اتاراگیاتھا۔ کیایہ ایک اتفاقی امر ہے یاکہ قدرت کے ہاتھوں کاایک پیوند ہے جو ازل سے جوڑاگیا؟
الغرض زلزلہ کے متعلق مندرجہ بالاالہامات کو ’’آہ نادرشاہ‘‘والے الہام کے ساتھ ملاکر نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صاف اشارہ تھاکہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پوری ہوں گی۔ یعنی پہلے نادرشاہ کی دردناک وفات کاواقعہ پیش آئے گا اور پھر یہ تباہ کن زلزلہ ظاہر ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لوکہ پیش گوئی کے ۲۸سال بعدنومبر۱۹۳۳ء میں کنگ نادرشاہ قتل ہوئے اور اس کے پیچھے پیچھے موعود زلزلہ آن پہنچا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔وماعلیناالاالبلاغ
یہ زلزلہ بہار کے موسم میں مقدر تھا
تیسری علامت یہ بیان کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا۔چنانچہ اس بارے میں جو الہام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر نازل ہوا وہ اوپر کی بحث میں درج کیاجاچکاہے۔ جو یہ ہے:-
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔۷۶؎
اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’چونکہ پہلازلزلہ بھی (جو۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا) بہار کے ایام میں تھا۔ اس لئے خدانے خبر دی کہ وہ دوسرازلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا۔ اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلناشروع ہوجاتاہے اس لئے اسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے…مجھے معلوم نہیں کہ بہار کے دنوں سے مرادیہی بہار کے دن ہیں جو اس جاڑے کے گزرنے کے بعد آنے والے ہیںیا اور کسی اور وقت پراس پیش گوئی کاظہور موقوف ہے جو بہار کاوقت ہوگا۔ بہرحال خداتعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے خواہ کوئی بہارہو‘‘۔۷۷؎
اب دیکھوکہ مندجہ بالاالہام میںاللہ تعالیٰ نے کس صراحت کے ساتھ یہ فرمادیاہے کہ:-
’’آیندہ تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور حضرت مسیح موعودؑنے بھی یہ صراحت کردی ہے کہ بہار سے لازماً مراداس الہام کے معاً بعد آنے والی بہار مراد نہیں ہے بلکہ مطلقاًبہار کاموسم مراد ہے۔ خواہ وہ کوئی بہار ہواور کتنے سالوں کے بعد آئے لیکن جیساکہ اوپر کی بحث میں بتایاجاچکاہے۔ خداکے علم میں ابتداء سے یہی تھا کہ اس بہار سے وہ بہار مرادہے جو کنگ نادرشاہ کے واقعہ قتل کے بعدپیش آئے گی۔ الغرض اس زلزلہ کی علامات میں سے ایک علامت یہ تھی کہ وہ نادرشاہ کے قتل کے بعد بہار کے موسم میں آئے گا۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ ۱۵؍جنوری۱۹۳۴ء کازلزلہ عین بہارکی ابتدامیںآیااور حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی‘‘۔
اور ایک نکتہ اس پیش گوئی میں یہ ہے کہ گو پنجاب کے حالات کے لحاظ سے جہاں سردی زیادہ پڑتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آخر جنوری میں بہار کاآغاز تحریر فرمایا لیکن چونکہ خداکے علم میں یہ تھا کہ یہ زلزلہ صوبہ بہاروبنگال میں آئے گا۔ جہاں سردی کی کمی کی وجہ سے بہار کاآغاز طبعاًکسی قدر پہلے ہوتاہے اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے زلزلہ کازمانہ بیان کرکے لوگوں کو ہوشیار کیاہے وہاں بجائے آخر جنوری کے عملاً سارے ماہ جنوری کو اس میں شامل کرلیاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیںکہ۔’’اسی مہینہ (یعنی جنوری ) سے خوف کے دن شروع ہوں گے۔‘‘۷۸؎
اور پھر اس پیش گوئی میں خداتعالیٰ کی ایک مزید قدرت نمائی یہ ہے جس سے پیشگوئی کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ۲۸؍جنوری۱۹۰۶ء کو پنجاب میں ایک درمیانے درجہ کازلزلہ آیا تو چونکہ وہ بھی بہار کے موسم میںتھااور اپنی وسعت کے لحاظ سے یہ الہام اس پر بھی چسپاں ہوتاتھا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسے اس زلزلہ پر چسپاں کر دیامگر فوراًہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ:-
’’زلزلہ آنے کو ہے۔‘‘۷۹؎
اور خداتعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود کے قلم سے یہ تشریح کروائی کہ
’’اس زلزلہ کو جو (۲۸فروری کو)ہوا۔ اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کوہے‘‘۔یعنی آگے چل کرآئے گا۔ اور آپ نے لکھا کہ یہ تشریح میری طرف سے نہیں بلکہ خداکی طرف سے’’میرے دل میںڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کانمونہ ہے وہ ابھی آیانہیں بلکہ آنے کو ہے‘‘۔۸۰؎
الغرض جیساکہ خدائی وعدہ تھا۔ یہ زلزلہ عین بہار کے موسم میںجبکہ بنگال وبہار میںشگوفہ پھوٹ رہاتھا، وقوع پذیر ہوا اور خداکی یہ پیش گوئی اپنے پورے جلال کے ساتھ پوری ہوئی کہ ایک تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور یہ بہار وہ ہوگی جو نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آئے گی اب چاہو تو قبول کرو۔
یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا
چوتھی علامت یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ ہندو ستان کے شمال مشرق میں آئے گا۔ چنانچہ اس بارے میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کارویاء آج سے۲۷ سال پہلے شائع ہوچکاہے۔یہ ہے، آپ فرماتے ہیںکہ:-
’’میں نے ۲۰ اپریل ۱۹۰۷ء کورویاء میں دیکھا کہ بشیراحمد(خاکسار راقم الحروف ابن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام) کھڑاہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘۔۸۱؎
اس رویاء کے متعلق کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ مطلب بالکل ظاہرہے یعنی یہ کہ اس ملک کاآئندہ سخت زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آئے گا۔ جیساکہ پہلا سخت زلزلہ جو ۱۹۰۵ء میں آیا۔شمال مغربی حصہ میں آیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے اس خواب میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جو یقینی طور پر اس با ت کو ثا بت کرتے ہیں کی شمال مشرق سے ملک کاشمال مشرق مراد ہے نہ کہ کچھ اور۔ چنانچہ خواب کے الفاظ یہ ہیںکہ’’زلزلہ اس طرف چلاگیا‘‘ کے الفاظ اس فقرہ میں ’’چلاگیا‘‘ کے الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سمت جو بتائی گئی ہے۔ یہ کسی پہلی سمت کے مقابل پر ہے ۔ یعنی مقصود یہ ہے کہ پہلازلزلہ ہندوستان کے شمال مغر ب میں آیاتھااور آیندہ زلزلہ اس کے مقابل پر شمال مشرق میں آئے گا۔ خوب سوچ لو کہ’’چلاگیا‘‘کے الفاظ سوائے اس کے اور کچھ ثابت نہیں کرتے کہ ان میں یہ اشارہ کرنامطلوب ہے کہ اگر پہلے زلزلہ کی تباہی کامرکز ہندوستان کاشمال مغربی حصہ تھا تو آیندہ زلزلہ میں یہ مرکز منتقل ہوکر شمال مشرق میں چلا جائے گا۔
اب دیکھو کہ یہ علامت ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ میں کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی ہے۔ ہندوستان کے جغرافیہ کاادنیٰ علم رکھنے والوں سے بھی یہ بات مخفی نہیں ہے۔ حتیٰ کے بچے بھی اسے جانتے ہیںکہ وادی کانگڑہ اور پنجاب جن میں۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا۔ وہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور بنگال اور بہار اور نیپال جن میں ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی سب سے بڑی تباہی آئی۔ وہ ہندوستان کاشمال مشرقی حصہ ہیں اور یہ بات ایسی بدیہی اور عیاں ہے کہ اس پر ہمیں کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں مگرناواقف لوگو ں کی تسلی کے لئے اس جگہ تین اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتاہے کہ مو جودہ زلزلہ صحیح معنوںمیں شمال مشرقی زلزلہ ہے۔ چنانچہ پنجاب کاانگر یزی اخبار سول لکھتاہے:-
’’۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کاتحت الارض مرکز آسام سمجھا جاتاہے۔ کیونکہ شمال مشرقی ہندوستان میں جتنے زلزلے کے دھکے محسوس ہوتے رہے ہیںان کاتعلق آسام سے رہاہے……آلات سائنس کامطالعہ بتاتاہے کہ موجودہ زلزلہ کامرکز عرض بلد ۴؍ ۱ ۲۶شمال اور طول بلد ۴؍ ۱ ۸۵ شرق میں واقع ہے‘‘۔۸۲؎
پھر اخبار سٹیٹس مین رقم طرازہے کہ :-
’’لمبے تجربے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیںکہ ہندوستان کے شمال ومشرق کے زلزلے کامرکز آسام ہے‘‘۔۸۳؎
پھر لکھنؤ کااخبار سرفراز لکھتاہے:-
’’جو زلزلہ ۱۹۰۵ء میں وقوع پذیر ہوااس کامرکز شمال ومغرب ہند کی وادی کانگڑہ میںتھا……اور اب اس ۱۹۳۴ء کے زلزلے کے متعلق اندازاہ ہوتا ہے کہ شمال وشرق ہند اس کا اصلی مرکز ہوگا‘‘۔۸۴؎
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیش گوئی کہ ہندوستان کاآیندہ سخت زلزلہ ملک کے شمال مشرق میں آئے گا۔پوری شان اور پوری آب وتاب کے ساتھ پوری ہوگئی ہے اور سوائے اس کے کہ کسی کے کان اور آنکھ اور دل سب مسلوب ہوچکے ہوں۔ کوئی شخص اس کی صداقت میں شبہ نہیں کرسکتا۔ فبایّ حدیث بعد ذالک یؤمنون
اس زلزلہ کی پیشگوئی کی طرف سب سے پہلے مرزابشیراحمد کی طرف سے اشارہ ہوگا
پانچویں علامت یہ تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مرزابشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گااور ایساہوگاکہ ابتداء ًخاکسار ہی اس پیش گوئی کی طرف توجہ دلائے گا۔ یہ علامت بھی مندرجہ بالارؤیا سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں بیان کیا گیاہے کہ شمال مشرق کی سمت کی طرف خاکسار نے اشارہ کر کے کہاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیاہے۔
اب دیکھ لو کہ یہ علامت بھی کس طرح ہوبہوپوری ہوئی ہے۔ زندگی میں ایک دم کااعتبار نہیں۔ دنیا میں ہرروز بچے بھی مرتے ہیں اور جوان بھی مرتے ہیں اور بوڑھے بھی مرتے ہیں اور کوئی شخص کسی عمر میں بھی موت کے حملے سے محفوظ نہیں ہے مگر خدانے آج سے ۲۷ سال پہلے اپنے مقدس مسیح کو خبر دی تھی کہ ہندوستان کے شمال مشرق میں ایک سخت زلزلہ آنے والاہے۔ اور وہ زلزلہ تیرے بیٹے بشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گا۔ اور وہی اس کی طرف اشارہ کرکے بتائے گا کہ یہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ ہے۔ اس پیشگوئی پر آج ۲۷ سال سے زائد عرصہ گزر چکاہے مگر اس طویل عرصہ میں اللہ۔تعالیٰ نے مجھے موت سے محفوظ رکھا اور مجھے اس وقت تک زندگی دی کہ میں اس زلزلہ کو دیکھوں اور لوگوں کو بتائوں کہ یہ وہی شمال مشرق کازلزلہ ہے۔ جس کاوعدہ دیاگیاتھا اور پھر صرف مجھے زندگی ہی نہیں دی بلکہ ایسا تصرف فرمایاکہ سب سے پہلے میراہی ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ شمال مشرق کاموعود زلزلہ یہی ۱۵جنوری ۱۹۳۴ء کازلزلہ ہے اور جس رنگ میں کہ میراذہن اس طرف منتقل ہواوہ بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی خبریں اخبارات میںشائع ہوئیں تو اس کے چند روز بعد میں نے ایک رات یہ محسوس کیاکہ مجھے بے خوابی کاعارضہ لاحق ہے اور نیند نہیں آتی۔ حالانکہ عموماً مجھے بے خوابی کی شکایت نہیں ہواکرتی۔ میں اس بے خوابی پر حیران تھا۔ اور وقت گزارنے کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کامجموعہ ’’البشریٰ‘‘ اٹھاکر اسے پڑھنا شروع کیااور میں اسے صبح کے ساڑھے چار بجے تک اسے پڑھتا رہا۔ آخر میں میری نظرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء پر پڑی کہ بشیر احمد شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے کہ زلزلہ اس طرف چلاگیا مگر اس وقت بھی مجھے یہ خیال نہیں آیاکہ اس میں ۱۵ جنوری والے زلزلہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اٹھا تو دن کے دوران میں اچانک ایک بجلی کی چمک کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ خواب اسی زلزلہ پر چسپاں ہوتی ہے اور پھر جب میں نے اس کے حالات پر غور کیاتو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ زلزلہ ہے جو ہندوستان کے شمال مشرق میں آناتھا۔ جس کے بعد میں نے اس کاذکر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ کیا۔اور سب نے حیرت کے ساتھ اس سے اتفاق کیاکہ ہاں یہ وہی زلزلہ ہے۔ اور پھر جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے اس کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ اب مناسب ہے کہ بشیر احمد ہی اس زلزلہ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر شائع کرے۔
اور اس جگہ یہ بیان کر دینابھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس رویاء میں جہاں یہ ظاہر کیاگیاتھاکہ یہ زلزلہ خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آئے گا اور وہی سب سے پہلے اس کی طرف اشارہ کرنے والاہوگا۔ وہاں اس رویا ء کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ اشارہ بھی ملتاہے کہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد آنامقدر تھا کیو نکہ حضرت مسیح موعود علیہ،السلام کا خاکسار کو شمال مشرق کی طرف اشارہ کرتے دیکھنا اور اس رویاء میں اس پیش گوئی کے ظہور کے وقت سے خود آپ کی ذات کاکوئی تعلق ظاہر نہ ہونایہی ظاہر کرتاہے کہ یہ زلزلہ آپ کی زندگی کے بعد آناتھا۔ چنانچہ اس کے متعلق بعض دوسرے الہامات میں صاف اشارہ بھی ہے جیساکہ ۹ ؍ مارچ ۹۰۶ء کاالہام ہے کہ:-
’’رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃِالسَّاعَۃِ‘‘۸۵؎
یعنی ’’ اے خدا مجھے یہ قیامت کے نمونہ والازلزلہ نہ دکھا‘‘۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔
الغرض وہ پانچویں علامت بھی جو اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمائی تھی یعنی یہ کہ یہ زلزلہ مرزابشیر احمد کی زندگی میں آئے گا اور وہی اس کی طرف ابتداًتوجہ دلانے والا ہوگا۔ حرف بحرف پوری ہوئی۔فالحمدللّٰہ علی ذالک ولا حول ولاقوۃ الاباللّٰہ۔
تمام موعودہ علامات پوری ہوگئیں
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا سے علم پاکر۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلہ کے متعلق پانچ زبر دست علامات بیان فرمائی تھیں اور آج ۲۷۔ ۲۸سال کے لمبے زمانے کے بعدہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب علامات من وعن پوری ہوئیں۔ ایک تباہ کن زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق اپنے ساتھ پانی کے سیلاب کو لایا۔ زلزلہ آیااور جیساکہ وعدہ تھا عین بہار کے مو سم میں آیااور کنگ نادرشاہ کے قتل کے واقعہ کے ساتھ یو ں ملاہو اآیا کہ گویاقدرت کے ہاتھوں نے ان دو حادثوں کو ازل سے جوڑ رکھا تھا۔ زلزلہ آیا اور جیسا کہ وعدہ تھاعین بہار کے موسم میں آیا۔ گویابہار کے موسم کوبہار کے صوبے سے کوئی مخفی نسبت تھی ۔ زلزلہ آیااور خدائی اشارہ کے مطابق ملک کے شمال مشرق میں آیا۔یعنی جس طرح خدائی فرشتوں نے ۱۹۰۵ء میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ڈیرے ڈالے تھے۔ ۱۹۳۴ء میں یہ فرشتوں کی چھائونی ملک کے شمال مشرق میں آگئی ۔ زلزلہ آیااور وعدہ کے مطابق خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آیااور خدانے ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے اس بات کی طرف میرا ہی ذہن منتقل ہوا کہ یہ وہی موعود زلزلہ ہے اور ہوسکتاہے کہ میرے نام کی نسبت سے اس میں یہ بھی اشارہ ہو کہ یہ زلزلہ خدائی سلسلہ کے لئے بشار ت لے کر آتاہے۔ پس میں پھر کہوں گا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک ولاحول قوۃ الاباللّٰہ۔
مصیبت زدگان سے ہمدردی
ہم دنیاکی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خداجانتاہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیاکیا جذبات اٹھتے ہیں ۔ ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیںجسے اس زلزلہ میں کسی قسم کانقصان پہنچاہے۔ ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان گرنے پر۔ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر۔ ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جداہونے پر ۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کاعملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارایہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کاکوئی نشان پوراہوتاہوادیکھیں تو اسے دنیاکے سامنے پیش کریںاور لوگوں کو بتائیں کہ خداکے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پو ری ہوا کرتی ہیں تاکہ وہ خداکوپہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور مرسل کی شناخت کریںاور خداسے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروںکے نیچے آجائیں۔ خدانے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو دنیا کے لیئے ایک رحمت کا مجسمہ بناکر بھیجا۔ مگر افسوس دنیانے آپ کو قبول نہ کیا اور وقت کی ضرورت کو نہ پہچانااور خداکے مامورومرسل پر اپنے تیرو تفنگ نکالے اور اسے اپنی ہنسی کا نشانہ بنایا۔ تب خدااپنے وعدہ کے مطابق اپنی فوجوں کو لے کر آسمان سے اترااور اس نے پھر کہا:-
’’میںاپنی چمکار دکھلائوں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھائوں گا۔ دنیامیں ایک نذیر آیاپر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔۸۶؎
دعوت الی الحق
سو اے عزیزو! اب خداکے دونوں ہاتھ تمہارے سامنے ہیں ۔ ایک طرف اس کی رحمت کاہاتھ ہے اور دوسری طرف اس کے غضب کاہاتھ۔ اور تمھیں اختیارہے کہ جسے چاہو قبول کرو مگر یادرکھو کہ خداکے زور آور حملے ابھی ختم نہیں ہوگئے۔ خدانے اپنے مسیح سے بہت سے عجائبات قدرت دکھانے کاوعدہ فرمایاہے اور یہ سب عجائبات ظاہر ہوکر رہیں گے او ر کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔ مگر بدقسمت ہے وہ جو خداکی طرف سے نشان پر نشان دیکھتاہے اور ایمان کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔ یادرکھو کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میںاپنے قہری نشانوں کی تجلی دکھائے گا۔ حتی کہ لوگ حیران ہوکر پکار اٹھیں گے کہ اس دنیاکو کیاہونے والاہے؟پس پیشتر اس کے کہ تمھاری باری آئے خدا سے ڈرو اور اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرو۔ دیکھو صدیوں کے انتظار کے بعد خدا نے تمھاری طرف ایک مامور کو بھیجا ہے اور اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس مردہ دنیا کو پھر زندہ کرے۔ پس اس کے اس ارادے کے رستے میں حائل مت ہو کیو نکہ یہ ارادہ پوراہوکر رہے گا۔ اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ تم دنیاکے رشتوں اور دنیا کی دوستیوںاور دنیا کے مالوں اور دنیا کی عزتوں کی خاطر خداکو چھوڑرہے ہو مگر سن رکھو کہ یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور آخر پر ہر شخص کامعاملہ خدا کے ساتھ پڑنے والاہے ۔ پس اپنی عاقبت کی فکر کرو اور اس دن سے ڈرو کہ جب سب تعلقات سے الگ ہوکر خداکے سامنے کھڑا ہوناہوگا۔ خدا نے اپنی حجت تم پر پوری کر دی۔ اور اپنے زبردست نشانوں سے تم پر ثابت کردیا کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔کیا اب بھی تم آنکھیں نہیں کھولوگے۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام خدا کا دین نہیں۔ خدا نے تم پر ثابت کردیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے نہیں ۔ کیا اب بھی تم خدا کی گواہی کو قبول نہیں کرو گے ؟ اور اے بہارو بنگال کے لوگو!اور اے نیپال کے رہنے والو!
تم اس وقت خصوصیت سے خدا کے الزام کے نیچے ہو۔کیونکہ وہ بستیاں تمھاری آنکھوں کے سامنے ہیں جو خدائی عذاب کا نشانہ بنیں۔تم نے خدا کی ایک قہری تجلی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراس کے ایک زبردست نشان کو اپنے سامنے مشاہدہ کیا ۔پس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جائو اور توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے ۔خدا کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی یہ سنت ہے کہ ایسے عذاب کے بعد پھر اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے ۔سو اس کے عذاب کوتوتم نے دیکھ لیا۔اب آئواور اس کی رحمت کو قبول کرو۔
اے ہمارے مسلمان بھائیواور اے حضرت مسیح ناصری کے نام لیوائو اور اے ہمارے ہندو ہم۔وطنو اور اے تمام لوگو جو کسی مذہب وملت سے تعلق رکھنے کا دم بھرتے ہو!دیکھو اور سوچو کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ جھوٹا ہوتا اور خدا نے آپ کو مسلمانوں کے لئے مہدی اور عیسائیوں کے لئے مسیح اور ہندئوں کے لئے کرشن اور دوسری قوموں کے لئے آخری زمانہ کا موعود مصلح بنا کر نہ بھیجا ہوتا تو آپ کو ہلاک کردینے کے لئے خود آپ کا افترا ہی کافی تھا کیونکہ خدا کے ازلی قانون کے ماتحت افترا کے اندر ہی ایسا آتشین مادہ موجود ہے کہ وہ مفتری علے اﷲکو بہت جلد جلا کر راکھ کردیتا ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تم دیکھتے ہو کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ باوجود ہر قسم کی مخالفت اور عداوت کے دن بدن بڑھتا چلاجاتا ہے اور ہر میدان میں اﷲ تعالی اسے فتح اور کامیابی عطاکرتا اور اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی کا مُنہ دکھاتا ہے۔ دشمن نے اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا اورکوئی دقیقہ اس سلسلہ کو مٹانے کا اٹھا نہیں رکھامگر جسے خدابڑھانا چاہے اسے کون مٹا سکتا ہے۔
خدا نے ابتداء سے فرما رکھا تھا کہ ایک درخت ہے جو میرے ہاتھ سے لگا یا گیا۔اب یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گااور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ مگر خوش قسمت ہے وہ جواس درخت کو پہچانتا ہے اور اس کے پھل پھول کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتاکیونکہ وہ ابدی زندگی کا پھل ہے ،جس کے کھانے کے بعد کوئی موت نہیں ۔پس آئو اور اس ابدی زندگی کے پھل کو کھا کر خدائی جنت کے وارث بنو ۔وَاٰخِرُدَعْوٰنَآ اَنِ الْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۴ مارچ ۱۹۳۴ئ)
رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائو
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن شریف کے نزول کی ابتداء ہوئی اور جسے خدا تعالیٰ نے روزے جیسی بابرکت عبادت کے لئے مخصوص کیا ہے اور اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں خدا اپنے بندوں سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ یعنی اپنے قرب کے دروازے ان کے لئے خاص طور پر کھولتا ہے اور ان کی دعائوں کو خاص طورپر سنتاہے مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی خدا کی آواز پر کان دھرے اور اس پر ایما ن لا نے کے حق کو ادا کرے۔ پس روحانی رنگ میںترقی کرنے کے لئے یہ ایک خا ص مہینہ ہے اور وہ شخص بدقسمت ہے جو اس مہینہ کو پاتا ہے اور پھر ترقی کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔ اسی تحریک کی غرض سے امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گزشتہ دوجمعوں میں جماعت کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی ہے اور میرے اس نوٹ کی پہلی غرض یہی ہے کہ احباب سے یہ تحریک کروں کہ حضرت امیرالمومنین کے خطبوں کو غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان پر کاربند ہوکر تقرب الٰہی کے لئے ساعی ہوں۔ رمضان کے متعلق مندرجہ ذیل امور خا ص طور پر قابل توجہ ہیں۔
۱۔جن لوگوںپر روزہ رکھنافر ض ہے اور وہ بیمار یا مسافر نہیں،وہ ضرور رکھیں اور روزہ کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں۔
۲۔رمضان میںنماز تہجد کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے خواہ باجماعت تراویح کے رنگ میںیا علیحدہ طور پر گھر میں۔
۳۔روزہ رکھنا صرف بھوکے اور پیا سے رہنے کا نام نہیںہے بلکہ یہ ایام در حقیقت تما م قوائے جسمانی پر گویا ایک بریک لگانے کی غرض سے رکھے ہیں۔ پس احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں جملہ نفسانی اور جسمانی طاقتوںکو خا ص طور پرضبط میں رکھیںتاکہ روحانی اور باطنی طاقتوںکو نشونماپانے کا موقع میسرآسکے اور یہ بھی یادرکھیںکہ اصل روزہ دل کا ہے۔ پس سب سے زیادہ توجہ دل کے خیالات وجذبات کو پاک کرنے کی طرف ہونی چاہیئے۔
۴۔چو نکہ اس مہینہ کو خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے نزول کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے ان ایام میںقرآن شریف کی تلاوت اور اس کے معانی میں تدبر کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔
۵۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ صدقہ وخیرات کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کے متعلق حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیںکہ رمضان میں آپؐ کی حا لت صدقہ وخیرات کے معاملہ میںایسی ہوتی تھی کہ گویا ایک زور سے چلنے والی ہوا ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی۔ اور دراصل روزہ میںضبط نفس اور قربانی کی جو تعلیم دی گئی ہے اس کا منشا کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ اپنی ضروریات سے کاٹ کر غرباء کی مدد نہ کی جائے۔
۶۔چو نکہ روزہ کی برکات سے متمتع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان خدا کی آوازکوسنے اور اس پر ایمان لائے۔ اس لئے اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے اوامرونواہی کو تلا ش کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اگر احباب غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگاکہ قرآن شریف کے بہت سے احکام ایسے ہیں۔ جن پر عمل کرنے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان پر عمل کرنے کا موقع تلاش کیاہے۔ اسی طرح کئی نواہی ایسی ملیں گی جن کے متعلق انسان غفلت کی حا لت میں گزر جا تا ہے۔ پس رمضان میںخاص طور پرقرآن شریف کے اوامرونواہی کو مطالعہ کرکے ان کے مطا بق عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیئے۔ تاکہ ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے جو خداکی طرف سے رمضان کے مبارک مہینہ میں رکھی گئی ہیں۔
۷۔مگر ایک عمومی کوشش کے علا وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلا م یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ رمضان میں اپنی کسی خاص کمزوری کو خیال میں رکھ کراس کے متعلق دل میںیہ عہد کرے کہ وہ آئندہ خداکی توفیق سے اس سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے بھی احباب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
۸۔اس زمانہ میںلوگوں نے رمضان کو ضبط نفس اور قربانی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے عملاً تعیش کا آلہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ سحری اور افطاری کے متعلق خاص اہتمام کئے جاتے ہیں اور بجائے کم خوری اور سادہ خوری کے رمضان میں غذا کی مقداراور غذا کی اقسام اور بھی زیادہ کردی جاتی ہیں۔ یہ طریق رمضان کی روح کے بالکل منافی ہے۔ پس احباب کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کا رمضان ان کے لئے کِسی امیّش کا ذریعہ نہ بنے بلکہ یہ دن خا ص طور پر سادگی اور ضبط نفس کی حالت میں گزریں۔ امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکے گذشتہ خطبات میں خوراک کے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر رمضان میں خصوصیت سے عمل ہونا چاہیئے۔
۹۔رمضان کا مہینہ خا ص طورپر نیک تحریکات کے قبول کرنے کا زمانہ ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اسلا م اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی تدابیر سے بڑھ کر اور کوئی تحریک نہیں ہوسکتی۔پس اس مہینہ میں احباب کو خاص طور پر اس سکیم کی طرف توجہ دینی چاہیئے جو حضرت امیرالمومنین نے گزشتہ خطبات میں جماعت کے سامنے پیش فرمائی ہے۔
۱۰۔رمضان کو قبولیت دعاکے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے۔ پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ میں دعائوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور خصوصیت کے ساتھ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے دعائیں کریں۔ ان ایام میں سلسلہ احمدیہ کی مخالفت جس رنگ میں اور جس وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے۔ اس کی مثال کئی جہت سے اس سے پہلے زمانہ میں نہیں ملتی۔ یہ مخالفت یقینا خدا کے آنے والے انعامات کے لئے پیش خیمہ کے طور پر ہے۔ مگر ضروری ہے کہ ہم لوگ نہ صرف اپنے عمل سے بلکہ اپنی دعائوںسے بھی اس کے جاذب بنیں۔ پس ان روزوں کے ایام میںخصوصیت کے ساتھ دعائوں کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہواور ہم کو اس رستہ پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضاء اور فلاح کا رستہ ہے۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۴ئ)




















۱۹۳۵ء
اختتام درس قرآن کریم کی دُعا
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان پر قادیان میں قرآن شریف کے درس کا انتظام کیا گیا تھا۔ اور اب آخری عشرہ میں مکرمی مولوی غلام رسول صاحب راجیکی آخری پاروں کا درس دے رہے ہیں۔ یہ درس انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹رمضان مطابق ۶جنوری بروز اتوار ہوگا۔ اور آخری دو سورتوں کا درس خود حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ میں ۶جنوری کو بعد نماز عصر فرمائیں گے۔ جس کے بعد حسب دستور حضور مقامی جماعت کے ساتھ دُعا فرمائیں گے۔ بیرونی احباب اپنی اپنی جگہ پر ۶ جنوری کو بعد نماز عصر وقبل اذان مغرب دعا کا انتظام کرکے اس دعا میں شریک ہوسکتے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳جنوری ۱۹۳۵ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تذکرہ کے بارے میں جماعت کو پیغام
آپ کو علم ہوگا کہ جہاں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تین سال گزرے جلسہ،سالانہ پر احباب جماعت کو ان کے تزکیہ نفس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے مجموعہ کی بالالتزام تلاوت کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔ اور اس سے جو فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ان کا ذِکر فرمایا تھا وہاں نظارت تالیف وتصنیف کو بھی ارشاد فرمایا تھا کہ جلد تر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات مکاشفات اور رویاء کا صحیح اور مکمل مجموعہ شائع کرنے کا انتظام کرے تاکہ دوست اس سے پوری طرح مستفید ہوسکیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ نے اس کی ترتیب وتدوین کے متعلق ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی۔ جس نے باہمی مشورہ کے بعد ضروری اُمور طے کئے جن کے مطابق مکرمی مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کی نگرانی میں سلسلہ احمدیہ کے دونوجوان علماء کے سپرد یہ کام کیا گیااور وقتاً فوقتاً خاکسار نے بھی بحیثیت ناظر تالیف وتصنیف ان کے کام کو دیکھا۔ اور ضروری مشورے دیئے۔اس کی تیاری کے لئے مرتب کنندگان نے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا گہرا مطالعہ کیا وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشتہارات، مکتوبات، تقاریر اور ڈائریوں کا بھی مطالعہ کیا۔ مزیدبرآں سلسلہ کے اخبارات، رسائل اور دوسری ضروری کتب کو بھی پڑھا اور ان کے مطالعہ کے بعد جس قدر الہامات، مکاشفات اور رویاء وغیرہ مل سکے وہ سب کے سب تاریخی ترتیب کے ساتھ جمع کرلئے گئے۔ یہی نہیں بلکہ بعض ضروری تشریحات بھی حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کی کتب سے لے کر ایزاد کی گئیں۔ اس کے سوا جن الہامات کی تاریخوں وغیرہ کے متعلق کچھ ابہام تھا اُن کے متعلق فٹ نوٹوں میں تشریح کی گئی۔ اور حضور کے جو الہامات عربی، فارسی اور انگریزی وغیرہ میں تھے ان کا ترجمہ بھی ساتھ ہی ساتھ دے دیا گیا۔ اور جن کا ترجمہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہیں فرمایا تھا۔ ان کا ترجمہ مرتب کی طرف سے حاشیہ میں دے دیا گیا۔ مزیدبرآں عربی عبارتوں پر اعراب بھی لگادئے گئے۔ تاکہ پڑھنے والا صحت کے ساتھ پڑھ سکے۔
الغرض اس مجموعہ کو زیادہ سے زیادہ مکمل، صحیح اور مفید بنانے میں جو باتیں ضروری تھیں ان کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور اس کی موجودہ صورت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ احباب جماعت اسے دیکھیں گے تو یقینا خوش ہوںگے۔ علاوہ اس محنت اور مفید اضافوں اور ضروری فٹ نوٹوں کے اس کی کتابت، طباعت اور کاغذ کا بھی عمدہ انتظام کیا گیا ہے۔
کتاب کا سائز ۲۰×۲۶ ہے۔ کاغذ اعلیٰ ساخت کا چھپائی عمدہ، لکھائی دیدہ زیب اور مسطر ۲۲ سطری، حاشیہ کھلا، اصل متن کا قلم جلی اور ترجمہ اور نوٹوں کا قلم قدرے خفی رکھا گیا ہے۔ تاکہ اصل اور ترجمہ میں امتیاز رہے اور حجم چھ ساڑھے چھ سو صفحات کے لگ بھگ اور قیمت بلاجلددوروپے
الغرض یہ مجموعہ الہامات جس کا نام حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ’’تذکرہ‘‘ تجویز فرمایا ہے۔ اپنی باطنی اور ظاہری خوبیوں کے لحاظ سے اس قابل ہوگیا ہے کہ دوست اسے زیادہ سے زیادہ تعداد میں خریدیں اور پڑھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
چونکہ قلت سرمایہ کی وجہ سے صرف ایک ہزار ہی چھپوایا گیا ہے۔ اس لئے دوستوں کو چاہیئے کہ اس نعمت غیرمترقبہ کو جلد سے حاصل کرلیں۔ ورنہ ختم ہوجانے پر پھر انتظار کرنا پڑے گا۔ لہٰذا جو دوست چاہتے ہیںکہ اس دُرِّ بے بہا کو جلد تر حاصل کریں اور اعلان ہذا پڑھتے ہی اپنا آرڈر بھجوادیں۔
احباب کی خاطر اس مجموعہ کی جلد بھی کروائی جارہی ہے۔ جلد انشاء اللہ مضبوط، خوبصورت اور سادے کپڑے کی ہوگی اور اس پر کتاب کا نام سنہری حرفوں سے لکھا ہوگا۔ امید ہے کہ دوست اس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸ نومبر۱۹۳۵ئ)






حوالہ جات
۱۹۳۴ء ،۱۹۳۵ء
۱۔ یٰس.6ٓ:۳۱
۲۔ الانفال:۳۴
۳۔ بنی اسراء یل:۱۶
۴۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۵۷ حاشیہ درحاشیہ روحانی خزائن ۱ صفحہ ۶۶۵۔ تذکرہ صفحہ ۸۱ طبع ۲۰۰۴ء
۵۔ متی باب ۲۴ آیت ۷
۶۔ النازعات: ۷ تا ۱۰
۷۔ کتب احادیث ابواب الشراط الساعۃ
۸۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۱۲ طبع ۱۸۸۴ء ۔ تذکرہ صفحہ۷۲ طبع۲۰۰۴ء
۹۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۵۷ طبع ۱۸۸۴ئ۔ تذکرہ صفحہ۸۲ طبع ۲۰۰۴ء
۱۰۔ الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ئ۔ تذکرہ صفحہ۴۱۸ طبع ۲۰۰۴ء
۱۱۔ الحکم۳۱ مئی ۱۹۰۴ئ۔ تذکرہ صفحہ۴۳۲ طبع ۲۰۰۴ء
۱۲۔الحکم ۱۰جون تا ۱۷ جون ۱۹۰۴ئ۔ تذکرہ صفحہ۴۳۳ طبع ۲۰۰۴ء
۱۳۔ الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۔ تذکرہ صفحہ۴۴۴ طبع ۲۰۰۴ء
۱۴۔ الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲۔ تذکرہ ۴۴۸ طبع ۲۰۰۴ء
۱۵۔الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲۔ تذکرہ ۴۴۸ طبع ۲۰۰۴ء
۱۶۔ ایڈیٹوریل اخبارسول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۱۷جنوری ۱۹۳۴ء
۱۷۔ یٰس.6ٓ:۳۱
۱۸۔ اشتہار الانذار مطبوعہ ۸ اپریل ۱۹۰۵ء تذکرہ صفحہ ۴۵۰ طبع ۲۰۰۴ء
۱۹۔ الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ صفحہ ۴۵۱ طبع ۲۰۰۴ء
۲۰۔ الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ صفحہ ۴۵۱ طبع ۲۰۰۴ء
۲۱۔بدرہ ۲اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱۔ تذکرہ صفحہ ۴۵۴ طبع ۲۰۰۴ء
۲۲۔الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ صفحہ ۴۵۵ طبع ۲۰۰۴ء
۲۳۔ بدر۲۷اپریل ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ صفحہ۴۵۷ طبع۲۰۰۴ء
۲۴۔ بدر ۱۸ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵۔ تذکرہ صفحہ۴۶۳ طبع۲۰۰۴ء
۲۵۔ بدر ۲۴ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲۔ تذکرہ ۴۷۲ طبع۲۰۰۴ء
۲۶۔ بدر ۱۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲۔ تذکرہ صفحہ۴۷۹ طبع۲۰۰۴ء
۲۷۔تجلیاتِ الٰہیہ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۹۵۔ تذکرہ صفحہ۵۱۶ طبع۲۰۰۴ء
۲۸۔ بدر ۱۷ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۲۔ تذکرہ ۵۲۷ طبع ۲۰۰۴ء
۲۹۔ بدر ۲۷ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۱۲۔ تذکرہ ۵۶۴ طبع ۲۰۰۴ء
۳۰۔ بدر ۲۱ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۳۔ تذکرہ ۵۹۷ طبع ۲۰۰۴ء
۳۱۔ بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۳۔ تذکرہ ۵۹۷ طبع ۲۰۰۴ء
۳۲۔ بدر ۱۶مئی ۱۹۰۷ء صفحہ۴۔ تذکرہ صفحہ۶۰۸ طبع ۲۰۰۴ء
۳۳۔ پیشگوئی جنگ عظیم از نوٹ بک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
۳۴۔ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۶۷ تا۲۶۹
۳۵۔ اخبار پائو نیر الہٰہ آباد۔ ۲۲ اپریل ۱۹۰۶ء
۳۶۔ اخبار سول لاہور۔ ۷فروری ۱۹۰۷ء
۳۷۔ اشتہار النداء من وحی اسماء مطبوعہ ۲۱ اپریل ۱۹۰۵ء
۳۸۔ سٹیٹسمین مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۳۴ء
۳۹۔ زمیندار ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء
۴۰۔ بدر ۲۷ ستمبر ۱۹۰۶ئ۔ تذکرہ ۵۶۴ طبع ۲۰۰۴ء
۴۱۔ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۷۸
۴۲۔ الجمیعۃ ۲۴ جنوری۱۹۳۴ء
۴۳۔ سٹیٹسمین دہلی ۲۰ جنوری ۱۹۳۴ء
۴۴۔ سول ملٹری گزٹ ۹ فروری ۱۹۳۴ء
۴۵۔ سرچ لائٹ پٹنہ ۲۹ جنوری ۱۹۳۴ء
۴۶۔ حقیقت ۱۸ جنوری ۱۹۳۴ء
۴۷۔ ملاپ یکم فروری ۱۹۳۴ء
۴۸۔ سول لاہور ۹ فروری ۱۹۳۴ء
۴۹۔ زمیندار ۲۵ فروری ۱۹۳۴ء
۵۰۔ پرتاپ لاہور ۲۶ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۱۔ انقلاب یکم فروری ۱۹۳۴ء
۵۲۔ انقلاب ۲ فروری ۱۹۳۴ء
۵۳۔ حقیقت لکھنئو ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۴۔ ملاپ لاہور ۳۱ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۵۔ ملاپ لاہور ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۶۔ ملاپ ۳ فروری ۱۹۳۴ء
۵۷۔ ملاپ ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۸۔ ملاپ ۲۶ جنوری ۱۹۳۴ء
۵۹۔ زمیندار ۳فروری ۱۹۳۴ء
۶۰۔ ملاپ ۳۱ جنوری ۱۹۳۴ء
۶۱۔ پرکاش ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء
۶۲۔ سرفراز ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء
۶۳۔ اہلحدیث ۹فروری ۱۹۳۴ء
۶۴۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء
۶۵۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۵ فروری ۱۹۳۴ء
۶۶۔ اخبار سول ۱۰ فروری ۱۹۳۴ء
۶۷۔ بدر ۲۷ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ ، تذکرہ صفحہ ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء
۶۸۔ بدر ۱۱ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱، تذکرہ صفحہ ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء
۶۹۔ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۳۱۴
۷۰۔ بدر ۱۱ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱، تذکرہ صفحہ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء
۷۱۔ بدر ۱۱ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱، تذکرہ صفحہ۴۶۲ طبع ۲۰۰۴ء
۷۲۔ ضمیمہ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۲۱، صفحہ۲۵۰-۲۵۱
۷۳۔ الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ ۴۶۳۔ طبع ۲۰۰۴ء
۷۴۔بدر۱۸ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵
۷۵۔ الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ئ۔ تذکرہ ۴۶۳۔ طبع ۲۰۰۴
۷۶۔ بدر ۱۱ مئی ۱۹۰۵ئ، تذکرہ صفحہ ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴
۷۷۔ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۱۴
۷۸۔ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۱۴
۷۹۔ اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی ۲ مارچ ۱۹۰۶ء
۸۰۔ اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی ۲ مارچ ۱۹۰۶ء
۸۱۔ بدر مئی ۱۹۰۷ئ، تذکرہ صفحہ ۶۰۴ طبع ۲۰۰۴ء (مفہوماً)
۸۲۔ اخبار سول لاہور ۲۳ جنوری ۱۹۳۴ء
۸۳۔ سٹیٹسمین دہلی ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء
۸۴۔ اخبار سرفراز لکھنئو ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء
۸۵۔ بدر ۱۶ مارچ ۱۹۰۶ئ، تذکرہ صفحہ ۵۱۳ طبع ۲۰۰۴
۸۶۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۶۵، تذکرہ صفحہ ۸۱ طبع ۲۰۰۴ء



















۱۹۳۶ء
سیرۃ المہدی حصّہ اوّل کے متعلق ضروری اعلان
ابتداء میں جبکہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل پہلی دفعہ شائع ہوئی تو اس کی بعض روایات کے متعلق بعض احباب کی طرف سے تشریح وتوضیح کا مطالبہ کیاگیاتھا اور بعض مخالفین سلسلہ کی طرف سے بھی نکتہ چینی ہوئی تھی۔ اس نکتہ چینی کے پیش نظر میں نے سیرۃ المہدی حصہ دوم کی تصنیف کے وقت اس میں بعض تشریحی نوٹ زیادہ کردیئے تھے لیکن پھر بھی کچھ حصہ ایسا باقی رہ گیا جو مزید تشریح کا محتاج تھا۔ اس حصہ کو میں نے اب سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی طبع دوم میں جواب گذشتہ سالانہ جلسہ پر شائع ہوئی ہے۔ اپنی طرف سے واضح کردیا ہے۔ یعنی جو جو حصے میری رائے میں تشریح اور وضاحت چاہتے تھے، انہیں تشریحی نوٹوں کے رنگ میں واضح کردیا گیا ہے۔
جیسا کہ میں نے طبع اوّل کے وقت کتاب کے شروع میں لکھا تھا۔ میں روایات کی صحت کا اس رنگ میں مدعی نہیں ہوں کہ ہرروایت ہر صورت میں اوراپنی پوری تفصیل کے ساتھ درست اور صحیح ہے۔ جو باتیں ایک عرصہ گذرجانے کے بعد لوگوں کے سینوں سے جمع کی جاتی ہیں، ان میں بہرحال غلطی کا امکان ہوتا ہے اور میں نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میری روایات کا مجموعہ اس امکان سے بالا ہے۔ ہاں میں نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی تھی اور کرتا ہوں کہ صرف ایسی روایات کو لیا جاوے جو میرے خیال میں فی الجملہ درست اور صحیح ہیں مگر کسی تفصیل میں فرق پڑجانا یا کسی جزو میں غلطی لگ جانا ایک ایسا عنصر ہے جو اس قسم کے مجموعہ سے کبھی بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال جو باتیں سیرۃالمہدی کے حصہ اوّل کی طبع اول میں مجھے قابل تشریح معلوم ہوئیں، انہیں میں نے طبع دوم میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور میں کہہ سکتاہوں کہ موجودہ صورت میں سیرۃ المہدی حصہ اوّل کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن کی نسبت فی الجملہ زیادہ مستند ہے۔ اگر اس میں بھی کوئی غلطی نظر آئی یا کسی مزید تشریحی نوٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ آئندہ ایڈیشن میں یا کتاب کے دوسرے حصص میں واضح کی جاسکے گی اور میں احباب کاممنون ہوں گا جو مجھے کسی غلطی یا اغلاق کی طرف توجہ دلائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل۷ جوالائی ۱۹۳۶ئ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش معیّن ہوگئی
۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تاریخ پیدائش اور عُمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصے سے زیرِ غور چلاآتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تصریح فرمائی ہے کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے۔ اور آپ کی عُمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں۱؎۔ کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتاتھا۔ البتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بعض ایسے امور بیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ کی عُمر کی تعیین کی جاتی رہی ہے۔ ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتا ہے اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتا ہے اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیربحث چلا آیا ہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے۔
میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیا ہے اوراپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصّوں میں بیان کیا ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ گو مجھے یہ خیال غالب رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے مگر ابھی تک کوئی معین تاریخ معلوم نہیں کی جاسکی تھی۔ لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں جن سے یقینی طور پر معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے جو بروز جمعہ ۱۴ شوال ۱۲۵۰ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱ بکرمی ہے۔ اس تعیین کی وجوہ یہ ہیں:
(۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے جس میں کسی غلطی یاغلط فہمی کی گنجائش نہیں کہ میری پیدائش جُمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی۔۲؎
(۲) ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میںہوئی تھی۔
(۳) مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرفِ مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہوئے تھے۳؎۔ اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی۔ ۴؎وغیرہ وغیرہ۔
میں نے گزشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور دوسروں سے بھی کرایا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ پھاگن کے مہینے میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کِس کِس سن میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴ شوال ۱۲۵۰ہجری بمطابق ۱۳فروری ۱۸۳۵عیسوی ہے۔ جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا:-
تاریخ معہ سن عیسوی
تاریخ چاند معہ سن ہجری
دن
تاریخ ہندی مہینہ معہ سن بکرمی
۴ فروری ۱۸۳۱؁ء
۱۷ فروری ۱۸۳۲؁ء
۸فروری ۱۸۳۳؁ء
۲۸فروری۱۸۳۴؁ء
۱۳فروری ۱۸۳۵؁ء
۵فروری ۱۸۳۶؁ء
۲۴فروری۱۸۳۷؁ء
۹فروری۱۸۳۸؁ء
یکم فروری ۱۸۳۹؁ء
۲۱فروری ۱۸۴۰؁ء
۲۰ شعبان ۱۲۴۶؁ھ
۱۴رمضان ۱۲۴۷؁ھ
۱۷رمضان ۱۲۴۸؁ھ
۱۸شوال ۱۲۴۹؁ھ
۱۴شوال۱۲۵۰؁ھ
۱۷شوال۱۲۵۱؁ھ
۱۸ذیقعدہ۱۲۵۲؁ھ
۲۰ذیقعدہ۱۲۵۳؁ھ
۱۵ذیعقدہ ۱۲۵۴؁ھ
۱۶ذی الحج ۱۲۵۵؁ھ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
۷ پھاگن ۱۸۸۷بکرم
یکم پھاگن ۱۸۸۸بکرم
۴ پھاگن ۱۸۸۹بکرم
۵پھاگن ۱۸۹۰بکرم
یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرم
۳پھاگن ۱۸۹۲بکرم
۴پھاگن ۱۸۹۳بکرم
۷پھاگن۱۸۹۴بکرم
۳پھاگن۱۸۹۵بکرم
۴پھاگن۱۸۹۶بکرم
اس نقشہ کی رو سے ۱۸۳۳ عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جاسکتی ہے۔ مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہوچکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے۔ صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ عیسوی میں ہوئی تھی۔ پس ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بمطابق ۱۴شوال ۱۲۵۰؁ ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔ اور اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴ربیع الثانی ۱۳۲۶ہجری ۵؎ میں ہوئی آپ کی عمر پورے ۷۵ سال ۶ ماہ اور دس دن کی بنتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیدائش کی تاریخ معین طور پر معلوم ہوگئی ہے۔ ہمارے احباب اپنی تحریر وتقریر میں ہمیشہ اس تاریخ کو بیان کیا کریں گے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے اور ہم لوگ اس بارہ میں ایک معین بنیاد پر قائم ہوجائیں۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایک الہام الٰہی میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی عمر ۸۰ سال یا اس ے پانچ یا چار کم یا پانچ یا چار زیادہ ہوگی۶؎۔ اگر اس الہام کے لفظی معنی لئے جائیں تو آپ کی عمر پچھتر،چھیتر یا اسّی یا چوراسی ،پچاسی سال کی ہونی چاہیئے بلکہ اگراس الہام کے معنے کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال یا اسی یا ساڑھے چوراسی سال کی ہونی چاہیئے۔ اور یہ ایک عجیب قدرت نمائی ہے کہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال کی بنتی ہے۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے کہ میری ولادت ہوئی اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۂ والعصر کے اعداد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ نکلتا ہے۔ جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹ سال بنتا ہے۷؎۔یہ زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہیئے کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اب اگر یہ حساب نکالا جائے تو اس کی رُو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتا ہے۔ کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے ۱۱ نکالنے سے ۵۹۸۹ رہتے ہیں۔ اور ۵۹۸۹ میں سے ۴۷۳۹ منہا کرنے سے ۱۲۵۰ بنتے ہیں۔ گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتا ہے۔ فالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ اگست ۱۹۳۶ئ)



تبلیغ احمدیت کے متعلق قیمتی ہدایات
پچھلے سال مجھے تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کے لیئے جاتے ہوئے والد صاحب حضرت مرزابشیراحمد صاحب نے چند ہدایات لکھ کر دیں۔ جو افادہ عام کے لئے میں الفضل میں شائع کررہا ہوں۔
خاکسار
مرزا منیر احمد
(۱) تبلیغ ایک بڑا مقدس فرض ہے جس کی ادائیگی ہر سچے احمدی کے ذمہ ہے لیکن سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اپنی نیت کو صاف کرے اور سوائے خد ااور اس کے دین کی خدمت کے اور کوئی خیال اپنے دل میں نہ رکھے۔
(۲) محض انسانی کوشش سے تبلیغ جیسے کام میںکبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہمیشہ تبلیغ کی ظاہری کوشش کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطاکرے۔
(۳) تبلیغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کا اپنا نمونہ اچھا ہو۔ ایسا شخص جس کا اپنا نمونہ اچھا نہیں اور اس کے اعمال اس تعلیم کے مطابق نہیں، جس کی وہ تبلیغ کررہا ہے۔ کبھی بھی تبلیغ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پس تبلیغ کے دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے اعمال کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا نمونہ بنانے کی کوشش کرو۔ جتنا اعلیٰ نمونہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اثر ہوگا۔ خصوصاً نماز کی پابندی یعنی وقت پر نماز ادا کرنا اور حتیٰ الوسع جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا، قرآن شریف کی باقاعدہ تلاوت کرنا، سچ بولنا، لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔ وعدہ کو پورا کرنا۔ لوگوں کی خدمت کرنا اور سب کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنا۔ اپنی ظاہری شکل وصورت کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق رکھنا۔ کھانے پینے میں سادگی اختیار کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیئے اور ان میں لوگوں کے لئے ایسا نمونہ بننا چاہیئے کہ وہ دیکھ کر سمجھ لیں کہ یہ شخص ایک اَیسا نمونہ پیش کرتا ہے جس کی تقلید کرنی چاہیئے۔
(۴) تبلیغ کے لئے بڑے صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ خواہ دوسرے کی طرف سے کتنی ہی سختی ہو۔ تم اس کے مقابل میں ہمیشہ نرمی اور محبت کا طریق اختیار کرو۔ انسان اپنی محبت اور نرمی سے دوسرے کی سختی کو زیر کرسکتا ہے اور سخت سے سخت انسان بھی احسان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ پس سب کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آئو۔
(۵) تبلیغ میں کبھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیئے اور اگر فوراً کوئی نتیجہ نہ نکلے تو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ صبر اور استقلال کے ساتھ لگے رہو بالآخر کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ گو یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص جسے انسان تبلیغ کرے وہ احمدی ہوجائے مگر کسی نہ کسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کامیابی دے دیتا ہے ورنہ ثواب تو ضرور مل جاتا ہے۔
(۶) تبلیغ میں حتی الوسع بحث کا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ بحث سے دوسرے کو ضد پیدا ہوتی ہے بلکہ نرمی اور ہمدردی کے رنگ میں سمجھانا چاہیئے۔ اور اگر کسی وقت انسان دیکھے کہ دوسرے کو ضد پید اہورہی ہے تو اس وقت گفتگو بند کرکے دوسرے وقت کوشش کی جائے۔
(۷) اگر کسی شخص کے کسی سوال یا اعتراض کا جواب نہ آتا ہو تو گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ دل میں دعا کرنی چاہیئے اور سوچنا چاہیئے۔ دعا کرنے اور سوچنے سے اکثر اوقات جواب سمجھ میں آجاتا ہے۔ لیکن اگر پھر بھی جواب سمجھ میں نہ آئے تو کبھی غلط اور بناوٹی جواب نہیں دینا چاہیئے بلکہ کہہ دینا چاہیئے کہ اس سوال کا جواب مجھے اس وقت معلوم نہیں میں اپنے کسی عالم سے پوچھ کر بتائوں گا۔
(۸) تبلیغ کے لئے ضروری کتابیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور یہ کتابیں دو قسم کی ہونی چاہئیں۔ اول ایسی کتابیں جو اپنے مطالعہ کے واسطے ہوں۔ یہ کتابیں مترجم قرآن شریف کے علاوہ مندرجہ ذیل مناسب ہیں۔ ’’دعوۃ الامیر‘‘۔’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘۔’’کشتی نوح‘‘۔’’احمدیہ پاکٹ بک‘‘۔’’درثمین اردو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری وہ کتابیں جو لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہوں۔ اس کے لئے سستے ایڈیشن کی کشتی نوح کے چند نسخے اور بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے رسالے اور اشتہارات لینے چاہئیں جو غالباً دفتر تحریک جدید سے مل جائیں گے۔ یا بازار سے خریدے جاسکتے ہیں۔
(۹) اپنے کام کی باقاعدہ رپورٹ دفتر تحریک جدید قادیان اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ۔تعالیٰ کی خدمت میں بھجواتے رہو اور دعا کے لئے بھی لکھتے رہو۔
(۱۰) جو تمہارا امیر مقرر ہو اس کی پوری پوری فرمانبرداری کرو اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرو۔ خواہ وہ تمہاری مرضی کے کیسا ہی خلاف ہو اورہر طرح اس کا ادب کرو۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم دسمبر۱۹۳۶ئ)

۱۹۳۷ء
آپ چودہری فتح محمد صاحب کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟
احباب کو معلوم ہے کہ اس وقت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے پنجاب اسمبلی کے لئے تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے مُسلم حلقے کی طرف سے بطور امیدوار کھڑے ہیں۔ یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ چودھری صاحب موصوف سارے امیدواروں میں سے زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ تجربہ کار، زیادہ قابل، زمینداروں سے زیادہ ہمدردی رکھنے والے اور اپنی رائے کو زیادہ آزادی کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔ پس جُملہ مسلمان ووٹروں کا یہ ایک قومی فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود چودھری صاحب کے حق میں رائے دیں بلکہ دوسرے ووٹروں سے بھی چودھری صاحب کے حق میں رائے دلائیں۔ بعض لوگ اس معاملہ میں مذہبی سوال اُٹھا کر عوام کو بھڑکانا چاہتے ہیں مگر یہ ان کی سراسر غلطی بلکہ بددیانتی ہے کیونکہ کونسلوںکا معاملہ کوئی مذہبی معاملہ نہیںہے بلکہ یہ ایک خالص سیاسی سوال ہے جس میں مسلمانوں کے سب فرقے برابر ہیں۔ یعنی اس میں شیعہ ۔سنی۔ احمدی اور اہلحدیث کا کوئی امتیاز نہیںبلکہ محض ہندومسلمان کا سوال ہے۔
پس اس معاملے میں مسلمان ووٹروں کو صرف یہ دیکھنا چاہیئے کہ امید واروں میں سب سے زیادہ قابل کون ہے اور مسلمان زمینداروں کے حقوق کی صحیح نمائندگی کون کرسکتا ہے، پھر جو امیدوار سب سے بہتر ثابت ہو اسے ووٹ دینی چاہیئے۔ اگر آپ ہم سے رائے لیں تو ہم آپ کو پوری پوری دیانتداری کے ساتھ یہ مشورہ دیں گے کہ آپ چودھری فتح محمد صاحب کو ووٹ دیں کیونکہ وہ یقینا ہر جہت سے سب سے بہتر امیدوار ہیں اور ہم آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ آپ چودھری صاحب موصوف کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں:
(۱) اس طرح کہ اگر آپ بٹالہ تحصیل میں خود ووٹر ہیں تو آپ پولنگ کے دن اپنے گائوں میں موجود رہیں اور اپنا ووٹ چودھری فتح محمد صاحب کے حق میں دیں۔ آپ کو اپنے گائوں سے پولنگ سٹیشن تک پہونچانے کے لئے سواری کا انتظام کردیا جائے گا۔
(۲) اگر آپ کسی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرسکتے تو بے شک کسی سے ذکرنہ کریں اورپولنگ کے دن خاموشی کے ساتھ پولنگ سٹیشن پر جاکر چودھری صاحب کے حق میں پرچی دے دیں۔
(۳) اگر آپ خود ووٹر نہیں ہیں تو پھر آپ ووٹروں کو سمجھا کر تحریک کریں کہ وہ چودھری فتح محمد صاحب کے حق میں رائے دیں۔
(۴) اگر آپ ووٹر ہیں تو پھر بھی آپ دوسرے ووٹروں کو چودھری صاحب کے حق میں رائے دینے کی تحریک کریں۔
(۵) اگر آپ باہر کسی جگہ رہتے ہیں تو پولنگ کے دن سے پہلے رخصت لے کر یا فرصت نکال کر ضرور اس جگہ پہونچ جائیں جہاں آپ کی ووٹ درج ہے۔ پولنگ مختلف مقامات پر ہوگا اور ۱۸ جنوری سے شروع ہوکر ۲۹ جنوری ۱۹۳۷ء تک رہے گا۔ آدمیوں کے حلقے کے پولنگ کی جگہ اور معین وقت کا علم آپ خط لکھ کر ہم سے معلوم کرسکتے ہیں۔
(۶) اگر آپ کے گائوں کا کوئی ووٹر باہر گیا ہوا ہو اور وہ چودھری صاحب کے حق میں گزرسکتا ہو تو آپ اس کے نام اور پتہ سے ہمیں اطلاع دیں تاکہ اگر سفر لمبا نہ ہو تو اس کے بلانے کا انتظام کیا جائے۔
(۷) اگر آپ کے گائوں کا کوئی ووٹر فوت شدہ یا مفقود الخبر یا غیر حاضر ہو اور دور دراز جگہ پر گیا ہوا ہو تو آپ اس کے نام وغیرہ سے ہمیں اطلاع دیں تاکہ اگر اس کی جگہ کوئی جعلی پرچی گزرنے لگے تو ہمیں اس کا علم ہوجائے۔
(۸) آپ اپنے علاقے کے ووٹروں کو چودھری فتح محمد صاحب کا نام اچھی طرح سمجھادیں اور اُن سے چودھری فتح محمدصاحب کانام دوہراکر تسلی کرلیں تاکہ ووٹ دینے کے وقت ان کے مونہہ سے کوئی غلط نام نہ نکل جائے۔
(۹) آپ اپنے علاقے میں ظاہراً یا خفیہ جس طرح آپ مناسب سمجھیں یہ پراپیگنڈا کریں کہ یہ کوئی مذہبی سوال نہیں ہے بلکہ محض ایک سیاسی سوال ہے اور چونکہ اس لحاظ سے چودھری فتح محمدصاحب سب سے بہتر امیدوار ہیں اس لئے انہیں ووٹ دینی چاہیئے۔
(۱۰) آپ اپنے علاقہ کے ووٹروں کو سمجھائیں کہ ووٹ ایک نہایت قیمتی امانت ہے اور آئندہ اسمبلی میں اہم سیاسی سوالات پیش آنے والے ہیں۔ پس وہ کسی غیراہل شخص کو ووٹ دے کر اپنی امانت کو ضائع نہ کریں۔
(۱۱) آپ اپنے علاقہ کے ووٹروں کو کہیںکہ احمدی جماعت پنجاب کے پچیس تیس حلقوں میں غیراحمدی امیدواروں کی مدد کررہی ہے۔ پس اگر دوتین حلقوں میں خود اسے ضرورت ہے تو یہ اخلاق اور وفاداری کے خلاف ہے کہ اسے مدد نہ دی جائے۔
(۱۲) اگر آپ کے خیال میں چودہری فتح محمد صاحب کی امداد کرنے کا کوئی ایسا ذریعہ ہو جو آپ کے اختیار سے باہر ہے آپ ہمیں اطلاع دیں تاکہ اُسے اختیار کیا جاسکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۷ئ)










قادیان کے ووٹران کی خدمت میں ضروری گذارش
احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے واسطے گورنمنٹ کی طرف سے پروگرام مقرر ہوگیا ہے۔ قادیان میں ۲۶۔۲۷اور ۲۸ جنوری ۳۷ء کو مقامی ووٹروں کا پولنگ ہوگا۔ یعنی ۲۶ جنوری کو قادیان کی مستورات کا پولنگ ہوگااور ۲۷ جنوری کو مرد ووٹران مندرجہ فہرست جزو اوّل کا پولنگ ہوگا۔ اور ۲۸ جنوری کو مرد ووٹران مندرجہ فہرست جزو دوم و تتمہ کا پولنگ ہوگا۔ جزواول میں ان ووٹران کے نام درج ہیں جو بغیردرخواست جائداد کی بناء پر ووٹربنے ہیں۔ اور فہرست دوم میں وہ ووٹر درج ہیں جو بذریعہ درخواست خواندگی وغیرہ کی بناء پر ووٹربنے ہیں۔ بہرحال قادیان میں مندرجہ بالا تاریخوں میں پولنگ ہوگا۔
پس جن دوستوں اور بہنوں کا ووٹ قادیان میں درج ہے اور وہ اس وقت قادیان سے باہر گئے ہوئے ہیں، انہیں چاہیئے کہ مندرجہ بالا تاریخوں پر ضرور قادیان پہونچ جائیں تاکہ وقت مقررہ پر اپنا ووٹ دے سکیں۔ یہ ایک نہائت ضروری معاملہ ہے۔ جس کے واسطے بہنوں اور بھائیوں کو خاص طور پر وقت نکال کر قادیان پہونچنا چاہئے۔ جو ووٹر اس وقت قادیان میں مقیم ہیں انہیں بھی مندرجہ بالا تاریخیں نوٹ کرلینی چاہئیں تاکہ وہ ان تاریخوں پر قادیان سے باہر نہ جائیں۔ اگر کسی دوست کو یہ علم نہ ہو کہ قادیان میں اس کی ووٹ درج ہے یا نہیں تو وہ میرے دفتر میں تشریف لاکر یا خط لکھ کر دریافت فرمالیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ئ)




قادیان کے ووٹران کے متعلق احباب کی خاص ذمہ داری
جیسا کہ متعدد دفعہ اعلان کیا جاچکا ہے ۔ ۲۶ تا ۲۸ جنوری کوقادیان میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا پولنگ ہوگا۔ ۲۶ کو مستورات کا پولنگ ہوگا، ۲۷ کو جزواول کے مرد ووٹروں کا پولنگ ہوگا اور ۲۸ کو جزو ثانی اور تتمّہ کے مرد ووٹروں کا پولنگ ہوگا۔
بعض احباب ایسے ہیں جن کا ووٹ قادیان میں درج ہے مگر اس وقت وہ قادیان سے باہر ہیں۔ ایسے تمام احباب کو نظارت ہذا کی طرف سے قادیان پہونچنے کے لئے تاکیدی خطوط لکھے جارہے ہیں۔ ان احباب کو ہر ممکن کوشش کرکے تاریخ مقررہ پر قادیان پہونچ جانا چاہیئے۔ نیز دوسرے احباب جماعت کو بھی چاہئے کہ قادیان کے ووٹر جس جگہ بھی ہوں انہیں خاص کوشش کے ساتھ تیار کرکے مذکورہ بالا تواریخ پر قادیان بھجوادیں تاکہ وہ وقت مقررہ پر چودہری فتح محمد صاحب کے حق میں ووٹ دے سکیں۔ یہ ایک نہائت ضروری کام ہے جس میں قطعاً غفلت نہیں ہونی چاہیئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۳۷ئ)






اسْرارِ حدیث
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِلَبَنٍ قَدْ شِیْبَ بَمَائٍ وَعَنْ یَمِیِنِہِ أَعْرَابِیَّ وَعَنْ یَّسَارِہِ أَبُوْبَکْرٍ فَشَرِبَ ثُمَّ اَعْطَی الْأَعَرابِیَّ وَقَالَ: الْاَیْمَنُ فَاْ لاَیْمَنُ ۸؎
انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس دودھ (جس میں پانی ملا ہوا تھا) لایا گیا۔ اس وقت آپ کے دائیں طرف ایک اعرابی یعنی کوئی عام دیہاتی آدمی تھا اور بائیں طرف حضرت ابوبکر تھے۔ آپ نے دودھ پیا اور اپنا بچا ہوا دودھ اس اعرابی کو دے دیا اور فرمایا دائیں جانب دائیں جانب ہی ہے۔
دوسری روائت میں آتا ہے کہ
’’اس مجلس میں حضرت عمرؓ بھی تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ اپنا بچا ہوا دودھ ابوبکر.6ؓ کو دیجئے اس پر آپ نے فرمایا دایاں دایاں ہی ہے۔‘‘
جاننا چاہیئے کہ افراد کی فضیلت دوقسم پر ہے۔ ایک ذاتی فضیلت اور دوسرے حالاتی فضیلت۔ ذاتی فضیلت تو اس طرح پر ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مقرب ہے اور دوسرا اس سے کم تو اس صورت میں مقدم الذکر شخص دوسرے پر فضیلت رکھے گا اور یہ فضیلت اس کی ذاتی فضیلت کہلائے گی حالاتی فضیلت کی یہ مثال ہوسکتی ہے کہ مثلاً ایک شخص ایک وقت کسی نہائت مبارک اور پاک جگہ میں ہے اور دوسرا جو ذاتی فضیلت کے لحاظ سے اس سے بہت بڑھا ہوا ہے۔ اس وقت کسی وجہ سے اس جگہ کی نسبت کسی کم مبارک جگہ میں ہے۔ مثلا ایک مسجد میں ہے اور دوسرا بازار میں یا ایک مسجد کی پہلی صف میں ہے اور دوسرا پیچھے تو اس مقدم الذکر شخص کو دوسرے شخص پر حالاتی فضیلت حاصل ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ ایک محض جزوی اور وقتی فضیلت ہوگی مگر ہوگی ضرور۔
دوسرے یہ جاننا چاہیئے کہ روحانی امور میں کسی شخص کی فضیلت ذاتی کے متعلق یقینی علم حاصل کرنا ایک نہائت ہی مشکل امر ہے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ علم صرف خدا کو ہی حاصل ہوتا ہے یا جسے خدا چاہے یہ فراست عطا کرتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے جب روحانی ترقیات کے تمام ذریعے شریعت نے کھول کر بتادیئے ہیں تو پھر کسی کی فضیلت ذاتی کا علم کس طرح مخفی ہوسکتا ہے کیونکہ جو شخص ان ذرائع کو جس حد تک استعمال کرتا نظر آئے گا وہ اس حد تک فضیلت رکھنے والا سمجھا جائے گا مگر یہ خیال باطل ہے کیونکہ اول تو گوروحانی ترقیات کے ذرائع سب بیان شدہ ہیں مگر سب ظاہر ونمایاں نہیں ہیں بلکہ بہت سے مخفی ہیں جن کا علم خاص مجاہدہ سے کھلتا ہے اور عامۃ الناس تو الگ رہے بعض اوقات ظاہری علوم کے حامل بھی ان سے آگاہ نہیں ہوتے۔ دوسرے کسی شخص کا ان ذرائع کو استعمال کرتا ہوا نظر آنا اس بات کی دلیل بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص صاحبِ فضیلت روحانیہ ہے کیونکہ قلب کی نیّات کو جن پر سب شے کا دارومدار ہے کوئی نہیں جانتا۔ اور پھر اگر نیّات درست بھی ہوں تو دوسرے مخفی امراض کو کون سمجھ سکتا ہے۔ بلکہ نیّات اور مخفی امراض تو ایسی مخفی اشیاء ہیں کہ بعض اوقات خود سالک بھی ان کے متعلق دھوکا کھاجاتا ہے۔ لہٰذا کسی کی ذاتی فضیلت کا علم ایک نہائت ہی مشکل امر ہے اور کم از کم ظاہری علوم سے تو یہ حاصل نہیں ہوسکتا لیکن اس کے مقابلہ میںکسی کی حالاتی فضیلت کا علم ایک بالکل آسان امر ہے۔ جسے عام واقفیت رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ اس کوحقیقت سے واسطہ نہیں بلکہ صرف ظاہری حالت سے تعلق ہے۔
ان دو باتوں کے بیان کرنے کے بعد خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا جو بچا ہوا دودھ اس اعرابی کو دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیا تو آپ نے اپنے اس فعل سے امت کو بعض عظیم الشان سبق دیئے۔
اوّل آپ نے اپنے اس فعل سے اپنی امت کو اس بات کا علم دیا اور احساس کرایاکہ جس طرح جسمانی طور پر منور اشیاء مثلاً سورج، چاند، چراغ وغیرہ ہر وقت اپنی روشنی کی کرنیں باہر پھینکتے رہتے ہیں۔ اسی طرح روحانی طور پر منور اشیاء سے بھی ہر وقت انوار باطنی کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا کہ ضیاء روحانی کی کرنیں ان سے صادر ہونی رک جائیں کیونکہ اگر یہ نہ تسلیم کیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا الایمن فالایمنّ فرمانا یعنی دایاں دایاں ہی ہے بے۔حکمت ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس بیٹھنے میں فی ذاتہ.6ٖ کوئی اثر نہیں تو پھر نہ دائیں کا سوال رہا اور نہ بائیں گا۔ نہ پاس کا نہ بُعْد کا۔ نہ آگے کا نہ پیچھے کا۔ خوب غور کرلو یہ سوالات تبھی پیدا ہوسکتے ہیں جب یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ کے اندر سے ہر وقت خاموش طور پر انوار روحانی کا صدور ہوتا رہتا تھا۔ دائیں بائیں کے مقابلہ کے سوال کو فی الحال الگ رکھو۔ صرف اس بات پر نظر کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہات میں سے کسی ایک جہت کے متعلق خاص برکت کے الفاظ فرمائے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے وجود کے اندر سے انوارِ باطنی نکل نکل کر اس جہت کو مبارک کررہے ہیں۔ ورنہ اگر یہ نہیں تو اس کی برکت کیسی۔ اس حدیث سے نورانی وجودوں کے محض قرب سے دوسری اشیاء کا (بشرطیکہ وہ قبولیت کا مادہ رکھتی ہوں) متاثر ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے جو ہر صادق کی کامیابی کی تہہ میں کام کرتا ہے۔ اور یہی سالک کے سلوک کی کامیابی کی کلیدِ اعظم ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ آپ کے اس فعل میں سب سے پہلے یہ سبق تھا کہ پاک وجودوں سے ہروقت خاموش طور پر انوار روحانی کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ وھوالمراد
دوسرا سبق جو اس حدیث میں ہے۔ یہ ہے کہ گو روحانی انوار کا صدور ہر جانب پر اثر ڈالتا ہے مگر دائیں جانب کو انوار کی کرنیں زیادہ زور اور زیادہ صفائی کے ساتھ رخ کرتی ہیں۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے جس کا ادراک صرف ایک عارف پر کھولا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے تجربہ سے اس کے صدق کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دوسرے موقع پر بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ مسجد میں جماعت کے وقت جہاں قرب امام اور بعض اور وجوہ سے باقی صفوں پر صفِ اول کو ترجیح دی گئی ہے وہاں آپ کے اقوال سے یہ بھی ثابت ہے کہ صف اول میں سے شرط ایمن یعنی دائیں جانب کی نصف صف کو بائیں جانب کی نصف صف پر فضیلت حاصل ہے مگر یہ موقع اس اصل کی اہمیت ظاہر کرنے کے واسطے ایک خاص موقع تھا کیونکہ ایک طرف صدیق اکبر تھا اور دوسری طرف ایک اعرابی۔ پس ایسے حالات میں بھی آپ کا اعرابی والی جانب کو اس کے شق ایمن ہونے کے ابوبکر صدیق والی جانب پر ترجیح دینا شق ایمن کی برکات کی ہیت کو خاص طور پر ظاہر کرنے والا ہے۔
تیسرے اس فعل سے آپ اپنی امت کو یہ سبق دینا چاہتے تھے کہ مقامی اور وقتی انعامات ان لوگوں کا حق ہوتے ہیں جو مقامی اور وقتی خصوصیت رکھتے ہیں نہ کہ ان کا جو بحیثیت مجموعی مستقل طور پر کلی فضیلت رکھتے ہوں کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو مقامی اور وقتی فضیلت رکھنے والے لوگ انعامات سے بالکل ہی محروم ہوجائیں حالانکہ خدا کی رحیمیت اور رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر سب لوگ انعامات حاصل کریں اور اپنے اپنے حقوق میں مثلاً ایک جرنیل ہے جو تمام فوج میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور اس نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں کئے ہیں اور دوسرا ایک معمولی سپاہی ہے جس نے اپنے محدود دائرہ میں کوئی عام فضیلت حاصل کی ہے۔ تو اب اس محدود دائرہ کے اندر انعامات کی تقسیم ہوگی تو سپاہی کو بھی انعام مِلے گا اور یہ ظلم ہوگا کہ وہ انعام بھی جرنیل کو دے دیا جائے۔ ہاں جرنیل اپنے وسیع دائرہ میں بے شک بے شمار انعامات کا وارث ہوگا۔ بعینہ وہی صورت اس مجلس میں تھی آپ کے بچے ہوئے دودھ کا کسی کو ملنابے شک ایک انعام تھا کیونکہ وہ آپ کا تبرک تھا لیکن یہ انعام صرف مقامی حیثیت رکھتا تھا۔ پس یہ انعام اس کا حق ہوسکتا تھا جو اس مجلس میں مقامی فضیلت رکھتا ہو۔ اور ظاہر ہے مقامی فضیلت جس کا نام میں نے حالاتی فضیلت رکھا ہے اس وقت اس اعرابی کو تمام اہل مجلس پر حاصل تھی۔ آپ نے اس کو اس انعام کا وارث بنایا۔ ہاں اگر کوئی وسیع دائرہ کا انعام ہوتا تو آپ بے شک ذاتی فضیلت کے نام پر تقسیم کرتے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اس فعل سے صحابہ کو یہ سبق سکھادیا کہ کسی کی عام ذاتی فضیلت اور اہلیت کی وجہ سے کسی دوسرے کی جزوی یا حالاتی فضیلت کو نظر انداز نہ کردینا چاہیئے۔ بلکہ اس مؤخرالذکر شخص کے حقوق کی بھی پوری نگہداشت کرنی ضروری ہے۔ خواہ بظاہر اس وقت کسی بڑے شخص کی کیسی شان ہی نظر آتی ہو۔
چوتھے اس حدیث سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ظاہری صورت کا بھی بڑا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ نے اس اعرابی کے صرف ظاہری مقام کا جو ایک محض اتفاقی امر تھا اور صرف ظاہری صورت میں واقعہ ہوگیا تھا اور حقیقت کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہ تھا بہت بڑا لحاظ کیا اور اسے قابلِ انعام گردانا۔
پس سالک کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ بتایا ہے کہ اگر کبھی وہ کسی مقام قرب کی رُوح میں داخل نہیں ہوسکتا تو اس کے ظاہری حالات کو ہی اپنے اوپر وارد کرلے۔ کیونکہ ظاہری حالت بھی فیض الٰہی کو کھینچتی اور بندہ کو انعامات کا وارث بناتی ہے۔
یہ وہ چند حکمتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس فعل میں جو حدیث متذکرۃ الصدر میں بیان کیا گیا ہے پائی جاتی ہیں۔ واللّٰہ اعلم۔ بعض اور حکمتیں بھی ہیں مگر ان کے لئے زیادہ گہری نظر درکار ہے۔ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام بھی کلامِ الٰہی کی طرح (گومحدود پیمانہ پر) ہدایت کا بحرِ بیکراں ہے اور آپ کا ہر قول وفعل اور حرکت وسکون اپنے اندر بہت بہت حکمتیں رکھتا ہے۔ ان اسرار سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے طبیعت اطمینان اور سکون حاصل کرتی ہے۔ نیز بندہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لاتعداد راستوں پر آگاہ ہوکر اپنے اعمالِ صالح کا دائرہ بہت وسیع کرسکتا ہے۔
واٰخردعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ جون ۱۹۳۷ئ)
میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی مَوت پر میرے قلبی تاثرات
میاں فخر الدین صاحب کی وفات کی خبر
کل شام کو جب میں مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر گھر گیا تو مجھے کسی شخص نے یہ اطلاع دی کہ میاں فخرالدین ملتانی فوت ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے میری طبیعت کو ایک سخت دھکا لگا اور میں ایک گہری فکر میں پڑگیا اور میاں فخرالدین صاحب کے انجام کے متعلق سوچنے لگ گیا کہ یہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا۔ سب سے پہلے میرا خیال آج سے اکتیس سال قبل کے زمانہ کی طرف گیا۔ جب میاں فخرالدین پہلی دفعہ قادیان آئے تھے۔
ابتدائی حالات
مجھے یاد ہے کہ جس دن میں اپنی شادی کے سفر سے واپسی پر پشاور سے بٹالہ پہونچا تھا۔ اسی دن اور اسی گاڑی سے میاں فخرالدین بھی بٹالہ میں اترے تھے ا ورپھر وہ ہمارے ساتھ ہی یا شائد کچھ آگے پیچھے قادیان پہونچے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور غالباً والد کو ناراض کرکے یا شائد ان کی لاعلمی میں قادیان آئے تھے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اخلاص اور عقیدت کے ساتھ آئے تھے۔ اور پھر انہوں نے علی الترتیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول ؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں اپنی عمر کے اکتیس سال گزارے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضلوں سے حصہ پایا۔ یعنی انہیں احمدیت میں حصولِ تعلیم کی بھی توفیق ملی۔ نئے رشتہ دار بھی مل گئے۔ روزگار کا بھی راستہ کھل گیا او رسب سے بڑھ کر یہ کہ سلسلہ کی خدمت کا بھی موقع مل گیا اور چونکہ ملنسار تھے اور دوستوں کی خدمت کا بھی جذبہ رکھتے تھے، اس لئے آہستہ آہستہ جماعت کے اچھے طبقہ میں ان کے تعلقات ہوگئے اور انہوں نے احمدیت میں ایک باعزت زندگی گزاری۔
باہمی تعلقات
خاکسار راقم الحروف کے ساتھ بھی ان کا قریباً شروع سے ہی تعلق تھا اور وہ میرے ساتھ محبت رکھتے تھے اور سوائے اپنی عمر کے آخری دوتین سالوں کے میں نے ان میں ہمیشہ اخلاص کا جذبہ پایا۔ ان کے تعلق کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ وہ جماعت میں اکیلے داخل ہوئے تھے اور خدمت کا شوق رکھتے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہمیشہ محبت کا سلوک کرتارہا اور چونکہ مجھے تصنیف کا شوق تھا۔ میں اپنی اکثر تصانیف انہیں دے دیا کرتا تھا اور وہ انہیں چھپواکر اخروی ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی فائدہ بھی حاصل کرتے تھے۔ میں نے کبھی کسی تصنیف کے بدلہ میں ان سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا۔ حتیٰ کہ میں ان سے خود اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدا کرتا تھا۔ میاں فخرالدین صاحب کو بسااوقات اصرار ہوتا تھا کہ اپنی تصنیف کا کم از کم ایک نسخہ تو ہدیۃً لے لیا کروں مگر میں ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کردیا کرتا تھا کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے۔ اور میں اس معاملہ میں معاوضہ سے اپنے ثواب کو مکدر نہیں کرنا چاہتا۔ میاں فخر الدین صاحب چونکہ کتب کی تجارت کرتے تھے۔ ان کو اس عرصہ میں خدمت کا موقع ملتا رہا اور ان کے ہاتھ سے بعض اچھی اچھی کتابیں طبع ہوئیں اور میں خوش تھا کہ وہ اپنی طاقت اور سمجھ کے مطابق ثواب اور خدمت کے راستہ پر قدم زن ہیں مگر انجام کا حال صرف خدا ہی جانتا ہے۔
جماعت سے اخراج
وفات سے کچھ عرصہ قبل میاں فخرالدین کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے جو آپ کی ذات اور طریق کار دونوں کے متعلق تھے اور بدقسمتی سے ان ایام میں انہیں صحبت بھی ایسی ملی جس سے اِس مرض کو مزید تقویت پہونچی اور وہ جلد جلد اپنے اخلاص کے مقام سے گرتے گئے اور بالآخر خلیفۂ وقت کی طرف سے خطرناک طور پر مسموم ہوکر اس حالت کو پہونچ گئے کہ جب ایک شاخ خشک ہوکر اپنے درخت سے کاٹ دیئے جانے کے قابل ہوجاتی ہے اور حضرت صاحب نے انہیں جماعت سے خارج فرمادیا۔
نہائت افسوسناک انجام
اس وقت تک بھی میں سمجھتا تھا کہ شائد اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جائیں اور توبہ اور اصلاح کی طرف میلان پیدا ہو۔چنانچہ انہوں نے خود بھی ایک خواب دیکھا جس میں انہیں بتایا گیا کہ توبہ کرکے معافی مانگ لینی چاہیئے اور بعض دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا کہ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے تو بہت جلد عذاب الٰہی میں مبتلا ہوجائیں گے مگر کچھ تو اپنی طبیعت کے ناواجب جوش کی وجہ سے اور اس زنگ کی وجہ سے جو ان کے دل پر لگ چکا تھا اور کچھ بعض غلط مشورہ دینے والوں کے پیچھے لگ کر انہوں نے خداکی آواز کو نہ سنا اور مخالفت میں بڑھتے گئے اور بالآخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے خاندان کے متعلق ایک نہائت گندہ اشتہار نکالا اور مومنوں کی جماعت کی سخت دل آزاری کی۔ جس پر سلسلہ کی تعلیم کے خلاف ایک نوجوان نے اشتعال میں آکر اور اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھتے ہوئے ان پر حملہ کردیا اور وہ چھ دن بعد ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ مرنا تو سبھی نے ہے مگر جو انجام میاں فخرالدین کا ہوا ہے وہ بہت دردناک ہے اور ہر مومن اور متقی کے لئے یہ ایک خوف کا مقام ہے۔ اور یہی وہ احساس ہے جس کی وجہ سے میاں فخرالدین کی وفات کا سن کر میری طبیعت کو ایک سخت دھکا لگا۔ کیونکہ ان کی موت کا سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آگیا جب وہ آج سے اکتیس سال قبل اخلاص اور محبت کے ساتھ قادیان آئے تھے۔ اور اس کے بعد میری آنکھوں کے سامنے ان کی موت کا زمانہ آیا۔ جب وہ جماعت سے کٹ کر الگ ہوچکے تھے بلکہ جماعت کی تخریب کے درپے تھے اور میں نے یوں محسوس کیا کہ ایک شخص نے اکتیس سال کے لمبے زمانہ میں دن رات لگ کر ایک عمارت تیار کی اور اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق اسے سجایا اور آراستہ کیا مگر پھر نہ معلوم دل میں کیا آیا کہ ایک آن کی آن میں اس عمارت کو گرا کر خاک میں ملادیا۔
اس خیال کے ساتھ ہی میرے سامنے سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث آگئی کہ ایک شخص نیک عمل کرتا ہے۔ اور نیک عمل کرتے کرتے گویا جنت کے دروازہ پر پہونچ جاتاہے۔ مگر پھر اس کی کوئی مخفی بدی اس کے رستہ میں حائل ہوکر اسے جنت کے رستہ سے ہٹاکر دوسرے راستہ پر ڈال دیتی ہے۔ اور اس حدیث کے ساتھ ہی میری توجہ اس قرآنی آیت کی طرف بھی پھر گئی کہ
’’وَلَاتَکُوْنُوْاکَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَامِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا ۹؎
یعنی اے مومنو! تم اس عورت کی طرح مت بنو جس نے بڑی محنت کے ساتھ سوت کاتا لیکن جب وہ سُوت مکمل ہونے کو آیا تو پھر اس نے کسی وجہ سے اپنے کاتے ہوئے مضبوط سوت کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔‘‘
ان خیالات نے مجھے سخت محزون کردیا۔ اور میں نے خیال کیا کہ کاش فخرالدین اس گروہ میں نہ ہوتا جنہوں نے اس خیال سے ایک ایمان اور تقویٰ کی عمارت کھڑی کی کہ ہم مرنے کے بعد اُس میں بسیرا کریں گے مگرجب وہ عمارت تکمیل کو پہونچنے لگی اور ان کے مرنے کا وقت آیا تو انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے اس عمارت کو گرا کر اُسے پاش پاش کردیا۔
فخرالدین کے ساتھیوں کا خیال
پھر مجھے فخرالدین کے ساتھیوں کا خیال آیا اور میں نے کہا خدایا ان میں بھی بعض پُرانے ہیں۔ ان کی آنکھیں کھول اور انہیں توبہ کی توفیق دے اور انہیں خراب انجام سے بچالے اور ان کے دلوں کو حق وصداقت کی طرف پھیردے اور اس عارضی لغزش کو دور کرکے انہیں پھر سیدھے راستہ کی طرف لے آ اور انہیں اس نور سے محروم نہ کر جو تونے ازل سے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کررکھا ہے اور بالآخر میں اس لئے بھی مغموم ہوا کہ جو دوست اس وقت خدا کے فضل سے سیدھے راستہ پر گامزن ہیں مگر ان کا انجام ہماری نظر سے پوشیدہ ہے۔ اَیسا نہ ہوکہ ان میں سے بھی کوئی شخص ٹھوکر کھاکر بھٹک جائے اوراپنے ہاتھوں سے اپنا کاتا ہوا سُوت کاٹ دے بلکہ اے خدا تو ہم سب کو راستی اور صداقت اور ایمان اور اخلاص پر وفات دے او رہمیں ان لوگوں سے نہ بنا جو تیرے دربار میں پہونچ کر پھر دھتکار دیئے جاتے ہیں اور منعم علیہ بن کر پھر مغضوب ہوجاتے ہیں۔ آمین اللّٰھم اٰمِین۔
پانچ خطرناک غلطیاں
ان خیالات کے بعد میں اس سوچ میں پڑگیا کہ میاں فخرالدین کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس کے جواب میں میرے دل نے مجھے کہا کہ میاں فخرالدین سے پانچ خطرناک غلطیاں سرزد ہوئیں۔ جن کی وجہ سے وہ اس حد تک خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا نشانہ بن گئے کہ جب انعام لینے کا وقت آیا تو انعام لینا تو الگ رہا جو کچھ اپنے پاس موجود تھا وہ بھی گنوا بیٹھے وہ غلطیاں یہ تھیں:
(۱) میاں فخر الدین نے ایک الٰہی سِلسلہ میں اپنے آپ کو منسلک کرکے اور ایک خلافتِ حقّہ کے ساتھ بیعت کا رشتہ جوڑ کر پھر اپنے امام اور مقتدا پر بدظنی کی اور بدظنی بھی ایسی کی جو بغیر شرعی ثبوت کے ایک ادنیٰ مومن کے متعلق بھی جائز نہیں۔
(۲) وہ اپنے دل میں زہر پیدا ہوجانے کے بعد اور دل میں خلیفۂ وقت سے بیعت کا تعلق قطع کردینے کے باوجود محض ظاہری طور پر اور پردہ رکھنے کے لئے ایک کافی لمبے عرصہ تک اپنے آپ کو بیعت میں شمار کرتے رہے مگر درپردہ وہ اپنے امام کے خلاف کوشش کرتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنے اوپر اس خدائی فتویٰ کو لے لیا جس کا نام نفاق ہے اور جس کے متعلق قرآنِ کریم میں سخت وعید آیا ہے۔
(۳) انہوں نے خلیفۂ وقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے خاندان پر وہ گندے الزامات لگائے جن کے متعلق قرآن شریف کا یہ صریح حکم ہے کہ اگر ایسے الزامات لگانے والا ایک ہی واقعہ کے متعلق چارچشم دید گواہ نہیں لاتا تو وہ خدا کے نزدیک جھوٹا او رکذّاب ہے۔
(۴) انہوںنے الزامات کے لگانے میں وہ طریق اختیار کیا جس سے بدچلنی اور فحش کی اشاعت ہوتی ہے اور گندے جذبات اور گندے خیالات کا چرچا ہوتا ہے اور قوم کے اخلاق بگڑتے ہیں۔ یقینا بسااوقات خود بدی کا وجود خصوصاً جبکہ وہ مخفی ہو اخلاق کو اس قدر خراب نہیں کرتا جتنا کہ ایک بدی کا آزادانہ چرچا خراب کرتا ہے کیونکہ اس سے بدی کا رُعب مٹتا ہے اور لوگوں میں اس کے ارتکاب کی جُرأت پیدا ہوتی ہے۔ اِسی واسطے حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ یہ لوگ دو وجہ سے مجرم ہیں:
اوّل:- اس لئے کہ انہوں نے ثبوت کے بغیرالزام لگایا۔
دوسرے:- اس لئے کہ انہوں نے قوم میں بدی کا چرچا کرکے کمزور مزاج لوگوں کے اخلاق پر گندا اثر پیدا کیا اور فحش اور گندے جذبات کی اشاعت میں حصہ لیا۔
(۵) پانچویں میاں فخرالدین نے یہ غلطی کی کہ خدا کی قائم کردہ جماعت سے الگ ہوکر جماعت کو نقصان پہنچانے اور جماعت کے بندھے ہوئے شیرازے کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور یہ وہ بات ہے جو خدا کے غضب کے بھڑکانے میں سب سے تیز تر ہے۔
ایک عظیم الشان قرآنی اصل
اس کے علاوہ میاں فخر الدین نے اس عظیم الشان قرآنی اصل کو بھی بھلادیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو اختیار کرتا ہے تو اس لئے اختیار نہیں کرتا کہ اس چیز میں سب خوبی ہی خوبی ہوتی ہے اور کوئی بھی بُرائی نہیں ہوتی اور جب وہ کِسی چیز کو رد کرتا ہے تو اس لئے رد نہیں کرتا کہ اس میں صرف خرابی ہی خرابی ہے اور کوئی بھی خوبی نہیں بلکہ وہ اپنے ازلی قانون کے ماتحت ہر چیز کو تولتا ہے اور پھر تولنے کے نتیجہ میں اگر کسی چیز میں خوبی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو تو باوجود اس کے کہ اس میں کوئی ایک آدھ نقص ہو وہ اسے قبول کرلیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کسی چیز میں نقصان کا پہلو نمایاں اور غالب ہو تو باوجود اس کی بعض خوبیوں کے اللہ تعالیٰ اس کو رد کردیتا ہے۔ مثلاً شراب اور جوئے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں اس لئے حرام قراردیا ہے کہ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۱۰؎۔یعنی گو ان میں بعض خوبیاں بھی ہیں مگر نقصان کا پہلو بہت غالب ہے۔ پس میاں فخر الدین صاحب کو یہ دیکھنا چاہیئے تھااور اب اُن کے بعد اُن کے رفقاء کو یہ خیال کرنا چاہیئے کہ اگر ایک شخص کی خلافت کو خدا نے نوازا ہے اور وہ اسے ترقی پر ترقی اور برکت پر برکت دے رہا ہے اور خدا کا قول اور فعل دونوں اس کی تائید میں ہیں۔ تو اول تو ہمارا یہ کام نہیں کہ اس کے نقصوں کے متعلق جستجو کریں۔ اور اگر بالفرض ہمیں کوئی نقص نظر آتا بھی ہے تو پھر بھی ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جب خدا نے اس نقص کے باوجود اسے قبول کیا ہے اور اسے اپنی رحمت اور برکت سے نواز اہے تو ہم کون ہیں کہ اس پر حرف گیری کریں؟ اور اسے قابِل ردّ قراردیں۔ ان حالات میں اگر ہمیں کوئی نقص نظر آتا ہے تو اول تو ہمارا فرض ہے کہ استغفار کرکے اس شیطانی خیال کو دل سے نکال دیں اور اگر ہم اسے دل سے نہ نکال سکیں تو ہمیں چاہیئے کہ کم از کم اسے ظاہر کرکے فتنہ نہ پیدا کریں بلکہ خدا سے دعا کریں کہ اگر کوئی نقص ہے تو وہ اس نقص کو دور کردے۔
الغرض یہ ایک زریں اصول تھا جو میاں فخرالدین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے بالکل نظر انداز کردیا اور وہ یہ کہ خد اکے ازلی قانون میں کسی چیز کے محض نقص یا محض خوبی کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر تولا جاتا ہے۔ پھر جو پہلو بھاری ہو اس کے مطابق اسے قبول کیا جاتا یا رد کیا جاتا ہے۔ اگر ایک شخص میں ہزاروں خوبیاں ہیں اور یہ خوبیاں نہائت اہم اور وزنی اور وسیع الاثر ہیں اور اس کے مقابلہ پر ہمیں اس میں ایک آدھ کمزوری بھی نظر آتی ہے تو کیا اس کی اس کمزوری کی وجہ سے اس کی ہزاروں خوبیوں پر پانی پھیردیا جائے گا۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ خدا اسے باوجود اس مزعومہ کمزوری کے قبول کرے گا کیونکہ اس کا ترازو حق کا ترازو ہے۔ اور اس کا یہ قانون ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۱۱؎یعنی نیکیاں کمزوریوں کو مٹادیتی ہیں۔ یہ ایک نہائت گری ہوئی ذہنیت ہے کہ کسی شخص کی طرف کوئی ایک آدھ جھوٹی سچی کمزوری منسوب کرکے اسے گرانے کی کوشش کی جائے اور اس کی ہزار ہا خوبیوں اور اعلیٰ قابلیتوں اور دین کے لئے اس کی محبت اور غیرت اور جوش اور قربانی کو بالکل نظر انداز کردیا جائے۔ افسوس کہ یہ لوگ الوصیت کے ان الفاظ کو بھی بھول چکے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ موعود خلیفہ میں بعض لوگوں کو بعض کمزوریاں نظر آئیں اور دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے وہ اسے بعض اعتراضات کا نشانہ بنائیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس وجہ سے جماعت کو ٹھوکر نہیں کھانی چاہیئے کیونکہ ’’ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے یہ ایک بہت لطیف سبق تھا مگر افسوس کہ میاں فخرالدین اور ان کے رفقاء نے اس سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔
اس جگہ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس پیرے میں جوکچھ لکھا گیا ہے وہ صرف اصولی طور پر مخرجین کے اعتراضات اور ان کی موجودہ ذہنیت اور ادعا کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے ورنہ حقیقت کے لحاظ سے ان کے جملہ اتہامات سراسر باطل اور جھوٹ ہیں اور قرآن شریف ان سب کو مفتریات قرار دیتا ہے اور الزام لگانے والوں کو افترا پرداز اور کذاب ٹھہراتا ہے۔ والحق ماشھد بہٖ القران۔
نیت کے نیک ہونے کا ادعا
ایک اور بات جو غالباً ٹھوکر کا باعث ہورہی ہے۔ یہ ہے کہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں اور اس بات کے مدعی ہیں کہ ہماری نیت نیک ہے اس لئے خدا ہمیں کامیابی عطا کرے گا۔ اس کے متعلق میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اول تو نیت کا اصل حال صرف خدا کو معلوم ہوتا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس کی نیت اچھی ہے اور کس کی خراب ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ نیت کا معاملہ ایسا نازک ہے کہ بسااوقات خود نیت کرنے والے انسان کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس کی نیت حقیقتاً نیک ہے یا نہیں کیونکہ کئی مخفی پردے درمیان میں حائل ہوتے ہیں۔ دوسرے محض نیک نیت ہونا قطعاً کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی محض ظاہری نیک نیتی انسان کو خدائی گرفت سے بچا سکتی ہے۔ مثلاً دیکھو یہ جو کروڑوں لوگ اسلام کے منکر ہیں۔ کیا یہ سب بدنیت ہیں؟ اور یہ ساری غیراحمدی دنیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رد کررہی ہے کیا وہ بدنیت ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ جہاں تک ظاہری نیت کا سوال ہے دنیا میں اکثر لوگ نیک نیت ہوتے ہیں لیکن وہ محض اس قسم کی نیک نیتی کی وجہ سے حق کے انکار کی *** سے نہیں بچ سکتے۔ حقیقۃ الوحی کھول کر دیکھو۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نیت کے متعلق مفصل بحث کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے کِس شخص کو نیک نیت سمجھا جاسکتا ہے اور کس کو نہیں اور یہ تشریح فرمائی ہے کہ جو شخص حق کا منکر ہے اسے محض اس کی ظاہری نیک نیتی کی وجہ سے نیک نیت نہیں قراردیا جاسکتا جب تک کہ وہ ان شرائط اور لوازمات کو پورا نہ کرے جو نیک نیتی کے لئے ضروری ہیں۔ ۱۲؎
پس ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ وہ نیک نیت ہیں بالکل قابِل قبول نہیں اور وہ انہیں خدائی گرفت سے ہرگز نہیں بچا سکتا اس طرح تو ہر مفسد اور ہر فتنہ پرداز یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نیک نیت ہوں قرآن کھول کر دیکھو کیا مدینہ کے منافق یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ اِنَّمَانَحْنُ مُصْلِحُوْنَ یعنی ہم تو صرف اصلاح کی نیت سے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ فرماکر ان کے دعو ٰی کو ٹھکرادیا کہ
’’اَلَٓااِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّایَشْعُرُوْنَ۱۳؎
یعنی خبردار یہی لوگ مفسد اور فتنہ پرداز ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں۔ ‘‘
پس محض اصلاح اور نیک نیتی کا دعویٰ کوئی چیز نہیں ہے جب تک اس دعویٰ میںخدا کی ازلی شریعت کے ماتحت اصلاح اور نیک نیتی کی حقیقت مضمر نہ ہو اور اس کی علامات نہ پائی جائیں۔ تعجب ہے کہ الزامات تو اس رنگ میں لگائے جارہے ہیں جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’ اُولٰٓئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکَاذِبُوْنَ۱۴؎
یعنی اس رنگ میں الزام لگانے والے خدا کے نزدیک جھوٹے اور مفتری ہیں‘‘
مگر دعویٰ اصلاح اور نیک نیتی کا کیا جاتا ہے۔ پھر رستہ تو وہ اختیار کیا جارہا ہے جس سے جماعت کا شیرازہ منتشر ہوتا ہے اور اس کی بندھی ہوئی ہوا بکھرتی ہے اور جماعت بدنام ہوتی اور اس کا رعب مٹتا اور اس کی طاقت میں کمی آتی ہے مگر دعویٰ جماعت کو ترقی دینے کا کیا جارہا ہے۔ پھر جماعت میں بدی اور بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرکے فحش کی اشاعت کی جاتی ہے اور گندی باتیں کرکر کے کمزور طبیعت لوگوں میں گندے جذبات کو ابھارا جارہا ہے مگر دعویٰ یہ کہ ہم جماعت کو پاک وصاف کرنا چاہتے ہیں!!! افسوس ہے کہ ان لوگوں کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑگیا ہے کہ اب وہ ان بدیہی حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ جو ایک راستہ چلتے ہوئے شخص کو بھی نظر آنے چاہئیں اور وہ قرآن وحدیث کی صریح تعلیم کے خلاف قدم زن ہوکر جماعت کو ہلاکت اور تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، اللہ،تعالیٰ انہیں ہدایت دے ۔ مجھے تو ان کا انجام اچھا نظر نہیں آتا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ وہ جس راستہ پر چل رہے ہیں اس کی آخری منزل سوائے بے دینی اور بے حیائی کے اور کچھ نہیں اور ثبوت پوچھو تو سوائے اس کے کچھ پیش نہیں کرسکتے کہ فلاں مرد یہ کہتا ہے اور فلاں عورت یہ سناتی ہے۔ اور فلاں لڑکا یہ گواہی دیتا ہے۔ لاحول ولاقوۃ الااباللّٰہ کیا معصوم لوگوں کے چال چلن کی اتنی ہی قیمت رہ گئی ہے کہ زید وبکر کی بے ہودہ بکواس سے انہیں داغ دار کرنے کی کوش کی جائے؟ کیا اس شخص کا کیرکٹر جس کے ہاتھ میں آپ نے چہارم صدی تک اپنا بیعت کا ہاتھ دیئے رکھا۔ اسی معیار پر تولے جانے کے قابل ہے کہ آوارہ مزاج اور آزاد منش نوجوان اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ افسوس صد افسوس کہ اتنا بھی نہیں سوچا گیا کہ شہادت دینے والے کس قماش کے لوگ ہیں۔ اور جس کے متعلق شہادت دی جارہی ہے وہ کس پوزیشن کا انسان ہے۔اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا بشارات ہیں۔ اور پھر یہ بھی نہیںدیکھا گیا کہ اس قسم کے الزامات نئے نہیں ہیں بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اکثر انبیاء اور صلحاء پر اور ان کے اہل وعیال پر کمینہ لوگوں کی طرف سے ایسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قول وفعل سے ان کی تردید کرتا رہا ہے۔
اچھی زندگی وہی جس کا انجام اچھا ہو
میں اپنے خیالات کی رو میں اصل مضمون سے ہٹ کر دوسری طرف نکل گیا۔ میں یہ بیان کررہا تھا کہ میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی وفات پر میرے دل میں کیا کیا خیالات اٹھے ۔ میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ ان کی وفات کی خبر سن کر میری آنکھوں کے سامنے ان کی قادیان کی اکتیس سالہ زندگی کا نقشہ پھر گیا اور میں نے ان کے آغاز کے مقابل پر ان کے انجام کو رکھ کر دیکھا اور میرا دل خوف سے بھر گیا اور میں نے دل میں کہا کہ اچھی زندگی وہی ہے جس کا انجام اچھا ہو۔
میرے دل میں یہ خیال آیافخرالدین آج سے ڈھائی ماہ قبل فوت ہوجاتے تو گو اس وقت بھی ان کے دل میں مرض پیدا ہوچکا تھا مگر بہرحال ابھی تک وہ خدا کے پردۂ ستاری کے نیچے تھے اور یقینا اس وقت انہیں یہ نعمت تو حاصل ہوجاتی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک جماعت ان کے جنازہ میں شریک ہوتی اور ان کے لئے خدا سے مغفرت کی طالب ہوتی اور چونکہ وہ موصی تھے اغلب یہ ہے کہ خدا ان کی لغزش کو معاف فرمادیتا اور مقبرہ بہشتی میںجگہ پالیتے مگر اس ڈھائی ماہ کے قلیل عرصہ نے کیا کیا تغیر پیدا کردیا اور انہیں کہاں سے اٹھا کر کہاں دے مارا! یقینا یہ خدائے غیور کی تقدیر ہے جسے کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ ہمارے دل ان کی موت پر خوش نہیں بلکہ میںاپنے اوپر دوسروں کو قیاس کرکے کہتا ہوں کہ ہم سب کو ان کی موت کارنج ہے اور دلی رنج ہے اور ہمارے دل اس خیال سے محزوں ہیں کہ ہمارا ایک ساتھی جو برسوں ہمارے اندر رہا کس طرح اپنی عمر کے آخری لمحات میں ہم سے جدا ہوکر ایک ایسے رستہ پر پڑگیا جواب ہمارے رستہ سے کہیں اور کبھی نہیں مل سکتا بلکہ اس رستہ کا ہر قدم اس روحانی جدائی کو وسیع کرتا جاتا ہے جو ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوچکی ہے۔ یہ ایک نہایت دردناک منظر ہے مگر ہر الٰہی سلسلہ کو یہ مناظر دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بغیر کوئی قوم مستحکم نہیں ہوسکتی۔
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری
اسی تخیل میں میری نظر میاں فخر الدین سے ہٹ کر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف منتقل ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ یہ وہ صاحب ہیں جن کا میرے ساتھ میاں فخرالدین کی نسبت بھی زیادہ وسیع اور زیادہ گہرا تعلق رہا ہے۔ یعنی ان کی اہلیہ صاحبہ میری رضاعی بہن ہیں اور ایک مخلص اور پرانے اور مرحوم صحابی کی لڑکی ہیں۔ وہ خود برسوں ایک صیغہ میں میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور پھر ان کے ساتھ میرے ذاتی دوستانہ تعلقات بھی رہے ہیں۔ میں نے ان باتوں کا خیال کیا اور میرا دل سخت دردمندہوگیا اور میں نے ان کے لئے دعا کی کہ خدایا اِن کی آنکھوں کو کھول اور انہیں اپنے فضل سے سچے رستہ کی طرف ہدایت دے اور انہیں بد انجام سے بچا اور اگر تیرے علم میں یہ مقدر نہیں ہے تو کم،ازکم انہیں اس خطرناک رستہ سے ہٹالے جو تیرے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے اور انہیں کسی گمنامی کے گوشے میں لے جاکر ڈال دے۔ جہاں وہ کسی دوسرے ماحول میں پڑکر اس آگ کے کھیل کو بھول جائیں جس میں وہ اب مصروف ہیں۔
انتہائی اشتعال سے مغلوب ہوجانے والا نوجوان
بالآخر مجھے اس نوجوان کا بھی خیال آیا جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے زخمی ہوکر میاں فخرالدین کی موت واقع ہوئی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ نوجوان اپنی جوانی کے عالم میں اس انتہائی اشتعال سے مغلوب ہوکر جو میاں فخرالدین کے الفاظ نے دلایا، میاں فخرالدین پر حملہ کربیٹھا ہے اور اس حملہ میں اس نے جماعت کی اس تعلیم کو یاد نہیں رکھا کہ ہمیں ہر اشتعال کی حالت میں خواہ وہ کیسا ہی سخت ہو، اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہیئے اور صبر اور برداشت کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیئے۔
میں نے دعا کی کہ خدایا یہ نوجوان جو ایک سخت غلطی کا مرتکب ہوچکا ہے۔ تو اسے توفیق عطا کر کہ وہ سچی اور دلی ندامت کے ساتھ تیرے آستانہ پر گرجائے اور قبل اس کے کہ توبہ کا دروزاہ بند ہو وہ تیری معافی کو پالے اور اے خدا تو آئندہ جماعت کے افراد کو یہ توفیق عطا کر کہ وہ اپنے جوشوں کو ناواجب طور پر ظاہر کرنے کی بجائے اپنے نفسوں کو روک کر رکھیں اور اپنے جوشوں کو قابو میں رکھتے ہوے انہیں ان رستوں پر ڈالیں جو تیرے دین کے لئے رحمت اور برکت اور نیک نامی کا باعث ہوں۔ آمین اللہم آمین
وَاٰخرُدَعْوٰنَااَن.6ِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَلَاحَولَ وَلَا قُوّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ العَلیّ العَظِیْم۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۵ اگست ۱۹۳۷ئ)
مولوی محمد علی صاحب کو قتل کی دھمکی
آج کل میری کِسی تحریک یا خواہش کے بغیر اخبار پیغام صلح لاہور کے اربابِ حل وعقد ’’پیغام،صلح‘‘ کے بعض پرچے میرے نام بھجوادیتے ہیں۔ جس سے اس اخبار کے مضامین اور مراسلات کا ایک حد تک علم ہوتا رہتا ہے۔ ایک حدتک کا علم میں نے اس لئے لکھا ہے کہ میں پیغام صلح کو بالاستیعاب نہیں دیکھتا بلکہ صرف اس کے خاص خاص حصے دیکھ لیتا ہوں۔ اس لیئے بعض حصے میرے مطالعہ سے رہ جاتے ہیں۔ بہرحال مجھے ان دنوں ’’پیغام صلح‘‘ کے مطالعہ سے پتہ لگا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو کوئی گمنام خط اس مضمون کا پہنچا ہے جس میں مولوی صاحب موصوف کو کعب بن اشرف سے مشابہت دی گئی ہے۔ اور انہیں اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو قتل کی دھمکی دی گئی ہے چِٹھی کے جو الفاظ ’’پیغام صلح‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ اور غالباً وہ خلاصہ کے رنگ میں ہیں۔ ان میں قتل کا تو ذکر نہیں ہے مگر ایک رنگ تہدید کا ضرور پایا جاتا ہے۔
اس کے متعلق سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی چٹھی چونکہ مولوی محمد علی صاحب کو غالباً پہلی دفعہ ملی ہے اس لئے وہ کچھ زیادہ گھبراگئے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عام حالات میں اس قسم کی چٹھیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ بسااوقات وہ ایک محض مجنونانہ ذہنیت یا شرارت پسند میلانِ طبع کا مظاہرہ ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے کوئی حقیقی دھمکی مضمر نہیں ہوتی۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اسی قسم کی تہدیدی چٹھیاں جن میں بعض اوقات صریح طور پر قتل کی دھمکی ہوتی ہے بڑی کثرت کے ساتھ پہونچتی رہتی ہیں مگر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ یا جماعت کی طرف سے ان پر کبھی واویلا نہیں کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں خود مجھے بھی دو چٹھیاں پے درپے پہونچی ہیں جن میں سخت غیظ وغضب کا اظہار کرکے دھمکی دی گئی ہے اور مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ ان چٹھیوں کا لکھنے والا ایک غیرمبایع ہے مگر میں نے ان چٹھیوں پر سوائے اس کے کوئی ایکشن نہیں لیا کہ انہیں اپنی میز کے دراز میں رکھ لیا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کم از کم دوسری چٹھی تو صریح طور پر خطرناک دھمکی کارنگ رکھتی ہے مگر نہ معلوم مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے اس چٹھی پر جو انہیں پہونچی ہے اس قدر شور اور واویلا کرنا کیوں مناسب خیال کیا ہے۔ میں اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھ سکا کہ چونکہ انہیں اس قسم کی چٹھی پہلی دفعہ آئی ہے اس لئے وہ زیادہ گھبرا گئے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ اپنی مظلومیت کا مظاہرہ بھی مدنظر ہو۔ واللّٰہ اعلم بالصّواب
دوسری بات جو میں اس تعلق میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو چٹھی مولوی محمد علی صاحب کو پہونچی ہے۔ امکانی طور پر اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
اول: یہ کہ جیسا کہ میرے پاس بعض لوگوں نے بدظنی کا اظہار کیا ہے ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ چٹھی اپنی مظلومیت کے مظاہرہ کے لئے خود وضع کرلی گئی ہو۔
دوسرے: یہ کہ یہ چٹھی غیرمبایعین کے کِسی فرد نے اپنے لیڈروں کے علم کے بغیر اپنی پارٹی کے ہاتھ میں پراپیگنڈا کا ایک آلہ دینے کے لئے گمنام صورت میں لکھ دی ہو۔
تیسرے: یہ کہ واقعی غیرمبایعین کے کِسی مخالف نوجوان نے دھمکی کے طور پر یہ چٹھی لِکھی ہو۔
یہ تین امکانی صورتیں ہیں جو اس چٹھی کے متعلق ہوسکتی ہیں۔ مجھے اس بات کے اظہار میں قطعاً کوئی تامل نہیں کہ ذاتی طور پر میں صورتِ اول کو غلط اور ناقابلِ قبول خیال کرتا ہوں کیونکہ باوجود ان کی شدید مخالفت کے میں مولوی محمد علی صاحب پر اس قدر گری ہوئی بدظنی نہیں کرسکتا کہ انہوں نے از خود یہ بات وضع کرلی ہو۔ ہاں باقی دونوںصورتیں میرے نزدیک قرینِ قیاس اورقابل قبول ہیں۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ غیرمبایعین کے کسی فرد نے یہ چٹھی اس غرض سے لکھ دی ہو کہ اس طرح پراپیگنڈا کا ایک بہت عمدہ آلہ ہماری پارٹی کے ہاتھ آجائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اپنی مجنونانہ ذہنیت یا شرارت پسند میلانِ طبع کی وجہ سے تخویف وغیرہ کے خیال سے یہ چٹھی لکھی ہو۔ ان دو صورتوں میں سے صورتِ اول کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ اللہ۔تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے اور اسے ہدایت دے جو اپنی پارٹی کے حق میں اس قدر گرے ہوئے اور کمینہ طریق عمل کو اختیار کرتا ہے کہ اپنے ہی لیڈر کو خود ایک دھمکی کی چٹھی لکھ کر اپنی پارٹی کا نام پیدا کرنا چاہتا ہے۔
تیسری اور آخری صورت البتہ ضرور اس قابل ہے کہ اس کے متعلق ہماری طرف سے کچھ اظہار خیال کیا جائے۔ سو اس امکانی صورت کے پیش نظر کہ اس چٹھی کا لکھنے والا کوئی مبائع نوجوان ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض یہ چٹھی کِسی مبائع کی لکھی ہوئی ہے تو یقینا وہ سخت غلطی خوردہ اور گمراہی کے راستہ پر چلنے والا ہے اور اسے چاہیئے کہ بہت جلد خدا کے حضور توبہ کرکے اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ خدائی سلسلے اپنی ترقی کے لئے اس قِسم کے غلط اور مفسدانہ طریقوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ طریق ان کی ترقی میں خطرناک روک بن جاتے ہیں اور ایسے کام ثواب کا موجب نہیں ہوتے بلکہ خدا کی ناراضگی اور عذاب کا باعث بن جاتے ہیں۔ کعب بن اشرف کی مثال بالکل جدا گانہ رنگ اور جداگانہ حیثیت رکھتی ہے اور اسے مولوی محمد علی صاحب یا ان کے کسی رفیق پر چسپاں کرنا حددرجہ کی نادانی اور جہالت ہے۔ کعب مدینہ کا ایک یہودی رئیس تھا جو نہ صرف اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشد ترین مخالف اور معاند تھا بلکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرکے اور آپ کی حکومت کے جوئے کو اپنی گردن پر اٹھا کر پھر آپ سے غداری کی اور خفیہ خفیہ اسلام کے دُشمنوں کے ساتھ سازش کرکے اسلام کو مٹانا چاہا اور بالآخر اس قدر دلیر ہوگیا کہ اپنے حددرجہ اشتعال انگیز اور گندے شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے خلاف عربوںکو ابھارا اور آپ کے قتل کی سازش کی۔ ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکومتِ مدینہ کے صدر تھے۔ اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ پس کعب بن اشرف کی مثال پر مولوی محمدعلی صاحب یا ان کے کسی رفیق کو دھمکی دینا پر لے درجہ کی بے وقوفی کا فعل ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ یہ فعل صرف جہالت ہی کا فعل نہیں بلکہ شریعت کے منشاء کے صریح خلاف اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے سخت مخالف ہے اور اگر ایسا شخص تائب نہیں ہوگا تو وہ یقینا خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنے گا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آخرت کو خراب اور تباہ کرنے والا ہوگا۔
پس جہاں ہم اس کے اس فعل سے بیزاری اور نفرت کا اعلان کرتے ہیں۔ وہاں خود اُسے بھی جتادینا چاہتے ہیں کہ اس کا فعل اخلاقاً مذہباً اور قانوناً ہر طرح قابلِ ملامت ہے اور اسے چاہیئے کہ بہت جلد توبہ کرکے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔ میں نہیں جانتا کہ اس چٹھی کا لکھنے والا کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے اور اس کی اصل غرض وغائت کیا ہے لیکن اگر جیسا کہ اہل پیغام کا دعویٰ ہے وہ ایک مبائع نوجوان ہے تو میں اسے اس عہد بیعت کا واسطہ دے کر جو اس نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھا ہے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس خلافِ اسلام اور خلافِ احمدیت طریق سے باز آجائے اور اس راستہ پر قدم زن نہ ہو جو دنیا وآخرت دونوں میں ذلت ورسوائی کا رستہ ہے۔ اور جس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جماعت بدنام ہو اور اس کی ترقی میں روک پیدا ہوجائے۔
ہم خدا کے فضل سے حق پر ہیں اور خدا کی نصرت کا ہاتھ ہمیں ہر روز ترقی کی طرف لے جارہا ہے اور ہمارے دشمن ناکامی پر ناکامی دیکھتے ہوئے روز بروز گرتے جاتے اور ذلیل ہوتے جارہے ہیں اور یہ جو بعض درمیانی ابتلا آتے ہیںاور بعض مخفی فتنے سر نکالتے ہیں۔ سو یہ بھی ہماری ترقی کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ یہ وہ خدائی پھاوڑہ ہے جس سے دین کے کھیت کی گوڈائی مقصود ہے یا یہ وہ کھاد ہے جو خدائی فضل کے نشونما کو زیادہ کرنے کے لئے کھیت میں ڈالی گئی ہے۔ پس ہمیں ان سے ڈرنا نہیں چاہیئے۔ بلکہ خوش ہونا چاہیئے کہ ان کالے بادلوں کے پیچھے رحمت کی بارشیں مخفی ہیں اور ہمیں گھبراکر کسی خلافِ اسلام یا خلافِ احمدیت طریق کو نہیں اختیار کرنا چاہیئے بلکہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خدا خود اپنی مخفی فوجوں کے ساتھ ہماری مدد کو آرہا ہے اور ہمیں ہرگز کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے جس سے خدا ناراض ہوکر اپنی فوجوں کو عارضی طور پر پیچھے ہٹالے اور اپنی نصرت کے ہاتھ سے ہمیں محروم کردے۔
میں نے یہ الفاظ تصنّع یا نمائش یا ظاہری داری کے طور پر نہیں لکھے بلکہ وہ میرے دل کی آواز ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کی حرکات کرنے والے لوگ یقینا اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف قدم مارتے ہیں اور گو وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا دوست خیال کریں مگر ان کا فعل حقیقتاً دشمنی کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے۔ ان کو یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ ان کی نیت اچھی ہے کیونکہ ظاہری نیت کوئی چیز نہیں اور اصل نیت وہی ہے جو خدا اور رسول کے حکم کے مطابق ہو۔
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا تو ہمیں اس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کر جو تیری رضا کا رستہ ہے اور جس پر چل کر تیرے پاک بندے ہمیشہ تجھے پاتے رہے ہیں اور توہمارے بوڑھوں اور ہمارے جوانوںہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو توفیق دے کہ وہ ہر بات میں تیری رضا کو اپنا مقصد بنائیں اور اے خدا تو ان کے قدموں کو خود ہر قسم کی لغزش سے بچا اور انہیں صداقت اور راستی کے رستہ پر ڈال دے۔ اٰمین اللھم اٰمین
بالآخر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اہلِ پیغام نے اس خط کے سلسلہ میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ یہ خط حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی انگیخت سے لکھا گیا ہے اور جماعت مبایعین کا ہاتھ اس کی تہہ میں کام کررہا ہے۔ اس کے تعلق میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۱۵؎ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓ ااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔ ۱۶؎
واٰخردعوانا ان الحمد اللّٰہ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۵ ستمبر۱۹۳۷ئ)




رمضان کا مہینہ نفس کو پاک کرنے کیلئے خاص اثر رکھتا ہے
جماعت کے احباب اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں
رمضان کا مبارک مہینہ قریب آرہا ہے بلکہ شاید اس مضمون کے شائع ہونے تک وہ شروع ہوچکا ہو۔ یہ مہینہ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے ایک خاص مبارک مہینہ ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں خصوصیت سے عبادت اور ذکرالٰہی پر زور دیا جاتا ہے کیونکہ علاوہ روزوں کے جو خود اپنے اندر ایک نہایت درجہ مبارک عبادت کا رنگ رکھتے ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں نوافل اور قرآن خوانی اور دعائوں اور دیگر رنگ میں ذکرالٰہی پر خاص زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو اللہ تعالیٰ کی نظرمیں بہت بڑی برکت اور فضیلت حاصل ہے۔
پس سب سے پہلے تو میں احباب سے یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مہینے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حقیقت کو سمجھ کر ان مبارک ایام کو اس رنگ میں گزاریں جس رنگ میں کہ اللہ۔تعالیٰ اور اس کے رسول کا منشاء ہے کہ انہیں گزارا جائے یعنی اول سوائے اس کے کہ کسی شخص کو کوئی شرعی عذر ہو سارے مہینے کے روزے پورے کئے جائیں اور روزہ رکھنے میں روزے کی اس مبارک حقیقت کو مدنظر رکھاجائے جو اسلام نے بیان کی ہے تاکہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے تک محدود نہ ہو بلکہ ایک زندہ روحانی حقیقت اختیار کرلے۔
دوسرے یہ کہ رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز کو بالالتزام ادا کیا جائے۔ جس کے لئے بہتر وقت تو سحری کا ہے مگر بطریق تنزل نمازِ عشاء کے بعد بھی وہ ادا کی جاسکتی ہے۔
تیسرے یہ کہ اس مہینے میں تلاوتِ قرآن مجید پر خاص زور دیا جائے اور اس بات کی خاص کوشش کی جائے کہ کم از کم ایک دَور گھر پر مکمل ہوجائے۔
چوتھے یہ کہ رمضان کے مہینے میں دُعائوں پر خاص طور پر زور دیا جائے۔ دعا علاوہ ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہونے کے حصول مطالب کے لئے بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دُعائوں میں سب سے مقدم اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سوال کو رکھنا چاہیئے۔ اس کے بعد ذاتی دعائیں بھی کی جائیں۔
پنجم یہ کہ اس مہینے میں خاص طور پر صدقہ وخیرات پر زور دینا چاہیئے کیونکہ صدقہ وخیرات کو ردِّ بلا اور حصولِ ترقیات میں بہت بڑا دخل حاصل ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست رمضان کے مبارک مہینے میں مندرجہ بالا پانچ باتوں کا خیال رکھیں اور رسم کے طور پر نہیں بلکہ دل کے اخلاص اور خشوع کے ساتھ ان باتوں کو اختیار کریں تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ عظیم الشان روحانی فوائد سے متمتع ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ میں اس سال پھر وہ تحریک کرنا چاہتا ہوں جو میں بعض گزشتہ سالوں میں کرتا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دوست اس رمضان کے مہینے میں اپنی کِسی ایک کمزوری کو مدنظر رکھ کر اسے دُور کرنے کی اور اس سے مجتنب رہنے کا خدا کے ساتھ پختہ عہد باندھیں تاکہ جب رمضان ختم ہو تو وہ کم از کم اپنے ایک نقص سے کلّی طور پر پاک ہوچکے ہوں۔
یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمائی تھی اور خدا کے فضل سے تطہیرنفس کے لئے بہت مفید اور بابرکت ہے۔
چونکہ بعض دوست اپنے نفس کے محاسبہ کی عادت نہیں رکھتے اور اپنے اندر کمزوریاں رکھتے ہوئے بھی ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول نہیں ہوتی کہ ہمارے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں جنہیں ہمیں دور کرنا چاہیئے اس لئے ایسے دوستوں کی رہنمائی کے لئے ایک مختصر فہرست ذیل میں ان کمزوریوں کی درج کی جاتی ہے جوآج کل عام طور پر لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرکے ان کمزوریوں میں سے جو کمزوریاں ان میں پائی جاتی ہوں ان میں سے کسی ایک کو چن کر اس کے متعلق اپنے دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ عہد باندھیں کہ وہ اس کے فضل اورتوفیق کے ساتھ آئندہ اس کمزوری سے کلّی طور پر مجتنب رہیں گے۔
کمزوریوں کی فہرست درج ذیل ہے:
(۱) فرض نماز میں سُستی ۔
(۲) نماز باجماعت میں سُستی۔
(۳) امام الصلوٰۃ سے کِسی بات پر لڑ کر اس کے پیچھے نماز ترک کردینا۔
(۴) نماز کے لئے طہارت وغیرہ کے معاملہ میں بے احتیاطی کرنا۔
(۵) سنت نماز کی ادائیگی میں سستی۔
(۶) تہجد کی نماز میں سستی۔
(۷)روزہ رکھنے میں سستی یعنی بغیر واجبی عذر کے یونہی کِسی بہانے پر روزہ ترک کردینا۔
(۸)جو روزے کِسی عذر پر چھوڑے جائیں بعد میں ان کو پورا کرنے یا فدیہ دینے میں سستی۔
(۹)صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود زکو ٰۃ ادا کرنے میں سستی ۔
(۱۰)اس بات کی تحقیق اور جستجو کرنے میں سُستی کہ آیا میں صاحبِ نصاب ہوں یا نہیں۔
(۱۱) جماعت کے مقررہ چندوں کو شرح کے مطابق ادا کرنے میں سستی۔
(۱۲)جماعت کے چندوں کو باقاعدہ بروقت ادا کرنے میں سستی۔
(۱۳)وصیت کی طاقت رکھنے کے باوجود وصیت کرنے میں سستی۔
(۱۴)یہ جانتے ہوئے کہ میرے مرنے کے بعد وصیت کی ادائیگی میں تنازع پیدا ہوسکتا ہے اپنی زندگی میں وصیت ادا کردینے یا اِس کی ادائیگی کا پختہ انتظام کردینے میں سستی۔
(۱۵)باوجود اس بات کی طاقت رکھنے کے وصیت کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے میں سستی۔
(۱۶)تبلیغ کا فرض ادا کرنے میں سستی۔
(۱۷)اپنے اہل وعیال اور ہمسایوں اور دوستوں کی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دینے میں سستی۔
(۱۸)اپنے گھر میں درسِ قرآن کریم یا درسِ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جاری کرنے یا جاری رکھنے میں سستی۔
(۱۹)اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے اور اپنے ساتھ مسجد میں لانے میں سستی۔
(۲۰)مقامی جماعت کے کاموں میں خاطر خواہ حصہ اور دلچسپی لینے میں سستی۔
(۲۱)مقامی امیریا پریذیڈنٹ کی خاطر خواہ اطاعت کرنے میں بے پروائی اور بے احتیاطی۔
(۲۲)باوجود طاقت رکھنے کے مرکز میں بار بار آنے اور خلافت اور مرکز کے فیوض سے مستفیض ہونے میں سستی۔
(۲۳)باوجود طاقت رکھنے کے ’’الفضل‘‘ اور دیگر مرکزی اخبارات ورسائل منگوانے میں سستی۔
(۲۴)فتنہ پردازوں اور منافق طبع لوگوں سے فتنہ اور نفاق کی باتیں سننے کے باوجود ان کے متعلق رپورٹ کرنے کے معاملہ میں سستی اور بے پروائی یا لحاظ داری۔
(۲۵)رشتہ داری یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے سچی شہادت دینے میں تامل کرنا۔
(۲۶)جھوٹ بولنا۔
(۲۷)دوسروں پر جھوٹے افتراء باندھنا ۔
(۲۸)بیکاری یعنے باوجود اس کے کہ کام کی ہمت اور اہلیت ہو اس خیال سے کہ فلاں کام ہماری شان کے خلاف ہے یا اس میں معاوضہ کم ملتا ہے اپنے مفید اوقات کو بیکاری میں ضائع کردینا۔
(۲۹)باوجود فارغ وقت رکھنے کے اور اپنی خدمات کو آنریری طور پر سلسلہ کے لئے پیش کردینے کے قابل ہونے کے بیکاری میں وقت گزارنا۔
(۳۰)بدنظری ۔
(۳۱)انسانی قوت کا غلط استعمال۔
(۳۲)اسلامی پردے کی حدود کو توڑنا۔
(۳۳)بدمعاملگی یعنی کسی سے روپیہ لے کر یا کوئی چیز لے کر روپیہ یا چیز کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنا اور کمزور اور جھوٹے عذروں پر ادائیگی کو ٹالتے جانا۔
(۳۴)بدزبانی یعنی غصہ میں آکر خلاف تہذیب اور خلاف اخلاق الفاظ استعمال کرنا۔
(۳۵)حقہ نوشی یا سگریٹ نوشی۔
(۳۶)تمباکو کے دیگر ضرررساں استعمالات یعنی ان میں تمباکو کھانا یا نسوار استعمال کرنا وغیرہ۔
(۳۷)موجودہ تہذیب سے متاثر ہوکر اسلامی شعار کے خلاف ڈاڑھی منڈانا۔
(۳۸)حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف احمدی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے سے کرنا۔
(۳۹)مرکز کی اجازت کے بغیر غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لینا۔
(۴۰)سلسلہ کی تعلیم کے خلاف غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا۔
(۴۱)باوجود حج کی طاقت رکھنے اور دیگر شرائظ کے پورا ہونے کے حج میں سستی کرنا۔
(۴۲)ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری میں سستی کرنا۔
(۴۳)بیوی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی سے پیش آنا یا عورت کی صورت میں خاوند کے ساتھ بدسلوکی اور تمرد سے پیش آنااور خاوند کی خدمت میں سستی کرنا۔
(۴۴)رشوت لینا۔
(۴۵)رشوت دینا۔
(۴۶)فرائض منصبی کے ادا کرنے میں بددیانتی یا سستی کرنا۔
(۴۷)شراب پینا یا دیگر منشّی اشیاء کا استعمال کرنا۔
(۴۸)سود لینا یا دینااس زمانہ میں سود کے معاملہ میں بہت غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ اور جھوٹے بہانوں کی آڑ میں ایسے لین دین کو جائز قرار دیا جارہا ہے جو حقیقتاً سود کا رنگ رکھتاہے۔
(۴۹)یتامیٰ کے مال میں خیانت یا بے جا تصرف کرنا۔
(۵۰)یتیموں کی پرورش میں سستی یا بے احتیاطی کرنا۔
(۵۱)نوکروں کے ساتھ نا واجب سختی اور ظلم سے پیش آنا۔
(۵۲)مقدمہ بازی کی عادت یعنی بات بات پر مقدمہ کھڑا کردینے کی عادت یا دیگر بہترذرائع سے فیصلہ کا رستہ کھلا ہونے کے باوجود مقدمہ کا طریق اختیار کرنا۔
(۵۳)سستی اور کاہلی یعنی اپنے وقت کی قیمت کو نہ پہچانتے ہوئے اپنے کام میں سستی اور کاہلی کا طریق اختیار کرنا۔
(۵۴)فضول خرچی یعنی اپنی آمد سے اپنے خرچ کو بڑھالینا۔
(۵۵)فضول اور ضرررساں کھیلوں میں وقت گزارنا یعنی شطرنج تاش وغیرہ۔
(۵۶)کھانے پینے میں اسراف۔
(۵۷)اولادکی ناواجب محبت۔
(۵۸)بدظنی کی عادت یعنی دوسرے کے ہرفعل کی تہہ میں کسی خاص خراب نیت کی جستجو رکھنا۔
(۵۹)عزیزوں اور دوستوں کی موت پر ناجائز جزع فزع کرنا۔
(۶۰)شادیوں کے موقع پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنا۔
(۶۱)قرضہ لینے میں ناواجب دلیری سے کام لینا اور چھوٹی چھوٹی ضرورت پر بلکہ غیرحقیقی ضرورت پر قرضہ لے لینا وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند کمزوریاں جو بغیر کسی خاص ترتیب کے اوپر درج کی گئی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد کمزوری مدنظر رکھ کر ان کے متعلق اس رمضان کے مہینہ میں اپنے دل میں عہد کیا جائے کہ آئیندہ خواہ کچھ ہو ہر حال میں ان سے کلّی اجتناب کیا جائے گا۔ اور پھر اس عہد پر دوست ایسی پختگی اور ایسے عزم کے ساتھ قائم ہوں کہ خدا کے فضل سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس عزم سے ہلانہ سکے۔
جو دوست اس تحریک میں حصہ لیں انہیں چاہیئے کہ دفترہذا کو اپنے ارادے سے بذریعہ خط اطلاع کردیں اس اطلاع میں اس کمزوری کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں جس کے متعلق عہدباندھا گیا ہو۔ بلکہ صرف اس قدر ذکرکافی ہے کہ میں نے ایک یا ایک سے زائد کمزوریوں کے خلاف دل میں عہد کیا ہے۔ نظارت ہذا اس کا وعدہ کرتی ہے کہ انشاء اللہ ایسے دوستوں کی ایک مکمل فہرست ہر روز مرتب کرکے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کی تحریک کے ساتھ پیش کردیا کرے گی۔ وباللّٰہ التوفیق
‎(مطبوعہ الفضل ۵ نومبر۱۹۳۷ئ)

اندرونی اختلافات سے بچنے کا طریق
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم وتربیت نے ایک صاحب کو تربیت کے متعلق حال میں ایک خط لکھوایا، جس کا ضروری اقتباس بغرض افادہ عام درج ذیل کیا جاتا ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست اس عظیم الشان جنگ کو مدنظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت کی وجہ سے حق وباطل کے درمیان شروع کیا گیا ہے، تو انہیں غیروں کے مقابلہ سے اتنی فرصت ہی نہیں مل سکتی کہ وہ آپس کی چھوٹی چھوٹی اختلافی باتوں کی طرف توجہ دے سکیں۔ کسی قوم کے افراد ہمیشہ جھگڑنے کی طرف اُسی وقت متوجہ ہوتے ہیں جب دشمن کی طرف سے اُن کی نظر ہٹ جاتی ہے۔ پس میں کسی فریق پر الزام رکھنے کے بغیر آپ کو اور دوسرے فریق کو یہی نصیحت کروں گا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغائت کو پہچانیں اور باہمی اختلافات میں الجھنے کی بجائے اپنی توجہ کو باطل کا مقابلہ کرنے میں صرف کریں۔ یہ زاویہ نظر آپ کے لئے اور مقامی جماعت کے لیئے اور سارے سلسلہ کے لئے انشاء اللہ بہت مفید ہوگا۔ اور جونہی کہ آپ اس زاویۂ نظر کو اختیار کریں گے، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی نظر خودبخود اندرونی اختلافات کی طرف سے ہٹ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور دیگر مقامی دوستوں کے ساتھ ہو اور اس رنگ میں چلنے اور کام کرنے کی توفیق دے۔ جو اس کی رضاء کے حصول کا باعث ہو
‎(مطبوعہ الفضل ۷ نومبر۱۹۳۷ئ)




کیا آپ نے تحریک رمضان میں حصہ لیا ہے؟
کچھ دن ہوئے میں نے ’’الفضل‘‘ میں ایک نوٹ کے ذریعہ دوستوں کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی تھی اور تحریک کی تھی۔ چونکہ رمضان کا مہینہ اپنے اندر عظیم الشان روحانی برکات رکھتا ہے۔ اس لئے دوستوں کو اس کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے پورا پورافائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ جب رمضان کا مہینہ گزرے اور عید کا دن آئے تو وہ ہمارے لئے حقیقی عید ہو اور ان دنوں میں ہم اپنے خدا سے قریب تر ہوچکے ہوں۔ اس کے لئے میں نے رمضان کی بعض خصوصیات کا بھی ذکر کیا تھا۔ اور مثال کے طور پر پانچ اور بھی باتیں بتائیں تھیں۔ جن کی طرف دوستوں کو اس مہینہ میں خاص طور پر توجہ دینی چاہیئے یعنی:
اول:- سوائے اس کے کہ کوئی شرع عذر ہو رمضان کے سارے روزے پورے رکھے جائیں تاکہ خدا کی خاطر بھوکے اور پیاسے رہ کر اور پھر اپنی بیوی سے جُدا رہ کر اپنی جان اور اپنی نسل کو خدا کے رستہ میں قربان کرنے کی طاقت اور ہمت ہو۔ کیونکہ بھوکا پیاسا رہنا خود اپنے نفس کی قربانی کے قائم مقام ہے اور بیوی سے مخصوص صورت میں علیحدگی اختیار کرنا اپنی نسل کو خدا کے لئے قربان کرنے کی آمادگی کی طر ف اشارہ کرتا ہے۔
دوم:- رمضان کے مہینہ میں تراویح کی نماز کو جو درحقیقت تہجد ہی کی نماز ہے۔ التزام اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے تاکہ ایک تو نماز کی وہ حقیقی غرض حاصل ہو۔ جو خدا کے ساتھ مناجات اور ذاتی تعلق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور دوسرے نیند اور آرام کے ترک سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اے خدا ہم زندہ رہ کر اور زندگی کے حوائج کو پورا کرتے ہوئے بھی تیرے لئے زندگی کے ہر آرام وآسائش کو قید وبند کے اندر رکھنے کے لئے تیار ہیں۔
سوم:- اس مہینہ میں قرآن شریف کی تلاوت پر زیادہ زور دیا جائے اور کم از کم ایک دَور پورا کرلیا جائے۔ تاکہ اس ذریعہ سے اس بات کو اظہار ہو کہ اے خدا ہم تیرے پیغام سے غافل نہیں اور ہمیں تیرا بھیجا ہوا کلام یاد ہے۔ اور ہم اس کے سب حکموں پر عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو چلانے کے لئے شب وروز فکرمند اور متوجہ ہیں۔
چہارم:- رمضان میں دعائوں پر خاص زور دیاجائے تاکہ قبولیت کے اس وعدہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جاسکے جو خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ رمضان میں میں اپنے بندوںکے زیادہ قریب ہوجاتا ہوں اور ان کی دعائوں کو زیادہ سنتاہوں۔ اور تا اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں ہماری رفتارِ ترقی کو تیزتر کردیں اور تا ہم جلدتر اس خدائی وعدے کے دن کو دیکھ لیں۔ جو ہمارے لئے ازل سے مقدر ہے۔ مگر جس کا آگے یا پیچھے ہونا بڑی حد تک خود ہماری حالت پر موقوف ہے۔
پنجم:- اس ماہ میں صدقہ وخیرات پر زیادہ زور دیا جائے تاکہ ایک تو مساکین ویتامیٰ ہمارے اموال میں سے اپنا پورا پورا حصہ پالیں۔ اور ان کی مشکلات ومصائب میں کمی آکر قوم کا قدم من حیث القوم ترقی کی طرف اٹھے۔ دوسرے ہم اس لحاظ سے خدا کے فضل کو اپنی طرف کھینچنے والے بنیں کہ جب ہم خدا کے پیدا کئے ہوئے بندوں کی مشکلات کو دور کرنے کے درپے ہیں تو خدا جو کسی کا احسان اپنے سرپر نہیں رہنے دیتا وہ آگے سے بھی بڑھ چڑھ کر ہماری دینی اور دُنیوی مشکلات کو دُور فرمائے گا۔
ان پانچ رستوں کو اختیار کرکے ہم رمضان کے مہینہ میں غیرمعمولی اخلاقی اور روحانی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ اور جماعت کا قدم انفرادی اور اجتماعی رنگ میں ہر دو طرح سرعت کے ساتھ آگے اٹھ سکتا ہے اور ان پانچ طریقوں کے نتیجہ کے طور پر میں نے یہ بھی تحریک کی تھی کہ جماعت کے احباب رمضان کے مہینہ میں محاسبۂ نفس کی عادت ڈالیں۔ اور اپنے دل میں اس بات کا عہد کریں کہ وہ اس رمضان میں اپنی کِسی ایک یا ایک سے زیادہ کمزوری کو دور کریں گے اور خدا کے فضل سے پھر کبھی اس کمزوری کا ارتکاب نہیں کریں گے بلکہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنے عہد پر قائم رہیں گے۔ اور اس کے بالمقابل میں نے احباب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جو دوست اپنے دل میں ایسا عہد باندھیں گے اور مجھے اس عہد سے اطلاع دیں گے میں انشاء اللہ ان کے اسماء ہر روز بلاناغہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے لئے پیش کیا کروں گا۔میں اپنی طرف سے اس وعدہ کو پورا کررہا ہوں اور ہر روز حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دوستوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعت نے اس مبارک تحریک میں کافی حصہ نہیں لیا اور کم از کم جن دوستوں نے مجھے اطلاع دی ہے ان کی تعداد ابھی تک بہت کم ہے۔ لہذا میں پھر اس اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر انہوں نے ابھی تک اس بارے میں سستی کی ہے تو اب سستی نہ کریں اور فوراً اس نیک تحریک میں حصہ لے کر جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی کی جاری کردہ ہے رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں دوستوں کو اپنی اطلاع میں کمزوری کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اس قدر اطلاع دینا کافی ہے کہ ہم نے ایک یا ایک سے زیادہ کمزوریوں کے دور کرنے کا عہد باندھا ہے۔ کمزوریوں کی ایک عام فہرست میں نے گذشتہ مضمون میں دے دی تھی۔ اب اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر ان کمزوریوں پر حصر نہیں ہے بلکہ ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرکے اپنے لئے خود فیصلہ کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷ نومبر۱۹۳۷ئ)










لَیْلَۃُ الْقَدْر کی دُعا اور تحریک مصالحت
رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے۔ جس کی طاق راتوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہدائت فرمائی ہے کہ اس میں لیلۃ القدر کو تلاش کیا جائے۔ اس مبارک رات کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت ایک صحابی بروایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یوں بیان کرتے ہیں کہ جو شخص لیلۃ القدر کو سچی نیّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خشنودی کے حصول کے لئے کھڑا ہوکر عبادت اور دعا میں گزارتا ہے۔اس کے تمام سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں گویا یہ رات گناہوں کی معافی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خاص رات ہے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر میںلیلۃ القدر کوپائوں تو کیا دُعا کروں۔ آپ نے فرمایا یہ دعا کرو:-
’’اَللّٰھُمَّ انَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّی۱۷؎
کہ اے اللہ تعالیٰ یقینا تو گناہوں کو بہت معاف کرنے والا ہے اور تومعاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معافی عطا فرما اور مجھے عفو کی چادر میں لپیٹ لے۔‘‘
یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ اس رات کا گناہوں کے عفو اور خدا کی خوشنودی کے حصول سے خاص تعلق ہے۔ کیا ہی مبارک یہ مہینہ ہے اور کیا ہی مبارک یہ رات ہے جو ہمار لئے ہمارے مالکِ حقیقی کی رضا اور خوشنودی کا دروازہ کھولنے کے لئے دوڑی چلی آرہی ہے۔ پس اے احمدیت کے فرزندو آئو ہم ان مبارک گھڑیوں میں سب کے سب اپنے گناہ بخشوا لیں اور اپنے مالکِ حقیقی کو راضی کرکے اپنے دلوں کو اس کا تخت گاہ بنائیں۔ اور اسی کے ہوجائیں اور اس زَریں موقع کو ضائع نہ کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں:
’’اگر تم خدا کے ہوجائو گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے۔ تم سوئے ہوئے ہوگے اور خداتعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا‘‘۱۸؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’ہر ایک جو پیچ درپیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے۔ وہ اس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے۔ کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کرلیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہدباندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا۔ وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔۱۹؎
نظارت تعلیم وتربیت لیلۃ القدرکی مندرجہ بالادعا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاک کلمات کو پیش کرکے احباب جماعت کو تحریک کرتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی برکت حاصل کرنے کے لئے ان دنوں میں اپنے دلوں کو پاک وصاف کرلیں اور ہر ایک قسم کا غصہ اور کینہ اور حسد اور بغض دلوں سے نکال دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ
’’تم آپس میں جلدصلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا۔ کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑدو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہوکر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تاتم بخشے جائو۔‘‘ ۲۰؎
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷ نومبر۱۹۳۷ئ)






تحریک اصلاحِ نفس کے متعلِّق آخری یاددہانی
میں نے اس رمضان مبارک کے بارے میں احباب سے ایک تحریک اصلاحِ نفس کے متعلق کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ایک ارشاد کی روشنی میں احباب سے اپیل کی تھی کہ اس رمضان میں اپنے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کمزوری کے دور کرنے کا خداسے عہد کریں اور پھر خدا سے مدد مانگتے ہوئے اس عزم کے ساتھ اس پر قائم ہوں کہ کوئی دنیا کی طاقت آپ کو اس ارادے سے ہٹا نہ سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کی تاریخ تک جو کہ رمضان کی بائیس تاریخ ہے دوسواناسی (۲۷۹) احباب اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور میں اپنے وعدہ کے مطابق ان دوستوں کے نام دُعا کی تحریک کے ساتھ ہرروز حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان دوستوں کا حامی وناصر ہو اور انہیں ان کے نیک مقاصد اور ارادوں میں کامیاب فرمائے۔ آمین
اب چونکہ رمضان کے آخری آیام ہیں اس لئے میں یہ آخری یاددہانی شائع کرکے احباب سے اپیل کرتا ہوں جن دوستوں نے کسی وجہ سے ابھی تک اس تحریک کی طرف توجہ نہیں کی وہ بھی اس میں شامل ہوکر اصلاح نفس اور حصول ثواب کے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور رضائے الٰہی کی جستجو میں سستی اور بے توجہی سے کام نہ لیں۔
دوسری بات اس ضمن میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دوستوں نے غالباً اس تحریک کی غرض وغایت اور حقیقت کو نہیں سمجھا کیونکہ متعدد دوستوں نے اپنے خطوط میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ ہم اپنی جملہ کمزوریوں کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ یہ ارادہ اور یہ خواہش مبارک ہے مگر جو تحریک اس وقت کی گئی ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ دوست اپنی کِسی معین اور مخصوص کمزوری یا کمزوریوں کو سامنے رکھ کر ان کے متعلق خدا سے عہد کریں کہ آیندہ وہ اُن سے مجتنب رہیں گے تاکہ اصلاح نفس کے ساتھ محاسبۂ نفس کی بھی عادت پیدا ہو۔ محض عمومی رنگ میں ساری کمزوریوں کے ترک کا ارادہ نیک ارادہ تو ضرور سمجھا جائے گا مگر وہ اس تحریک کے ماتحت نہیں آسکتا۔ جو اس وقت کی گئی ہے دوسری بات جو میں یہ کہنا چاہتا ہوں ، یہ ہے کہ بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں باوجود منع کرنے کے اپنی کمزوریوں کا ذکر کر دیا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم فلاں فلاں کمزوری سے مجتنب رہیں گے۔ یہ نہ صرف اعلان کے خلاف ہے بلکہ جائز بھی نہیں ہے کیونکہ جس کمزوری کو خدا نے اپنے پردہ ستاری کے نیچے چھپایا ہوا ہے۔ اسے ظاہر کرنا خدا کے فضل کی ناشکری ہے۔ پس دوست آئندہ اس قسم کے اظہار سے مجتنب رہیں۔ البتہ ایسی کمزوریوں کا اظہار کیا جاسکتا ہے جن میں ستاری کا سوال پیدا نہیں ہوتا مثلاً حقہ نوشی یا داڑھی منڈوانا وغیرہ۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے من حیث الجماعت اس تحریک میں دلچسپی لی ہے۔ اور اپنے اپنے حلقوں میں تحریک کرکے مقامی دوستوں کو آمادہ کیا ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں ان جماعتوں کے نام یہ ہیں:-
(۱)جماعت احمدیہ یادگیرحیدرآباددکن
(۲)جماعت احمدیہ کراچی
(۳)جماعت احمدیہ جمشید پوری
(۴)جماعت احمدیہ بنگہ ضلع جالندھر
(۵)جماعت احمدیہ کھاریاں ضلع گجرات
(۶)جماعت احمدیہ مزنگ لاہور
(۷)جماعت احمدیہ لالہ موسیٰ ضلع گجرات
(۸)جماعت احمدیہ سرائے نورنگ ضلع بنوں۔
فجزاھم اللّٰہ خیرًا وکان اللّٰہ معھُمْ
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ نومبر۱۹۳۷ئ)





حوالہ جات
۱۹۳۶ء ، ۱۹۳۷ء
۱۔ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۵
۲۔ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۸۱ حاشیہ
۳۔ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۸
۴۔ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۲۸۳
۵۔ اخبار الحکم ضمیمہ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء
۶۔ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۰
۷۔ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۴۷
۸۔ جامع الترمذی کتاب الاشربہ باب مَاجَاْئَ اَنَّ الْأّ یْمَنِیْنَ اَحَقّ بِالشُّرْبِ
۹۔ النحل:۹۳
۱۰۔ البقرہ:۲۲۰
۱۱۔ ھود:۱۱۵
۱۲۔ملحض حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۱۷۴ تا۱۷۸
۱۳۔ البقرہ:۱۳
۱۴۔ النور:۱۴
۱۵۔ اٰل عمران:۶۲
۱۶۔ الشعرائ: ۲۲۸
۱۷۔ جامع الترمذی، کتاب الدعوات باب فی فَضلِ سُؤَالِ العافِیَۃِ والمُعَافاۃِ۔
۱۸۔ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۲۲
۱۹۔ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۰-۱۹
۲۰۔کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۱۲














۱۹۳۸ء
عزیز سعید احمد مرحوم
دوستوں کا شکریہ
عزیزسعید احمد کی وفات حسرت آیات کی خبرالفضل میں شائع ہوچکی ہے اور اس پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ام المومنینؓ اور خاکسار اور دیگر افرادخاندان کے نام متعدد دوستوں کی طرف سے ہمدردی کے تار اور خطوط موصُول ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔ ہم ان سب دوستوں کے ممنون ہیں جنہوں نے عزیزمرحوم کی بیماری میں عزیز کو اپنی دعائوں میں یاد رکھا اور اس کی وفات پر ہمدردی کا اظہار فرمایا۔ فجزاھم اللّٰہ خیراً
بیماری کی ابتدا
عزیز سعید احمد جو گویا رشتہ میں ہمارا پوتا تھا یعنی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑپوتا اور مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے کا لڑکا تھا۔ ایک بہت ہی سعید فطرت، شریف مزاج، ہوشیار اور ہونہار بچہ تھا اور اپنی طبیعت میںصبر وشکر اور ضبط کا خاص مادہ رکھتا تھا۔ ۱۹۳۴ء میں اس نے پنجاب یونیورسٹی سے بہت اچھے نمبر لے کر بی۔اے پاس کیا اور اسی سال کے آخر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ولایت گیا۔ جہاں اس نے ۱۹۳۶ء میں لنڈن یونی ورسٹی سے بی۔اے کی سند حاصل کی اور اسی سال یعنی ۱۹۳۶ء میں مرحوم نے آئی۔سی ۔ایس کا بھی امتحان دیا مگر چونکہ بی۔اے اور بار کا بوجھ ساتھ تھا۔ اس لئے گو اچھے نمبروں پر پاس ہوگیا مگر مقابلہ میں نہیں آسکا لیکن اس ناکامی پر عزیز سعید احمد کو کوئی صدمہ نہیں ہوا کیونکہ جیسا کہ اس نے مجھے اپنے متعدد خطوں میں خود لکھا تھا۔ وہ ملازمت کو پسند نہیں کرتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ آزادرہ کر ملک وقوم کی خدمت کرے۔چنانچہ اس کے بعد مرحوم بیرسٹری کی تیاری میں مصروف رہا اور اس کے متعدد امتحانات پاس کئے مگر عمر نے وفا نہ کی اور آخر ستمبر ۱۹۳۷ء کے آخر میں عزیز کی صحت خراب رہنے لگی۔ اس اطلاع کے آنے پر فوراً یہ ہدایت بھجوائی گئی کہ عزیز سعید احمد کو کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھایا لیا جائے مگر چونکہ عزیز مرحوم اپنی طبیعت کے لحاظ سے اپنے لئے کِسی خاص انتظام کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لئے یہ ڈاکٹری امتحان نومبر کے آخر تک ملتوی ہوتا گیا اور اس دوران میں عزیز بطور خود ایک عام ڈاکٹر سے علاج کراتا رہا اور ہر طرح خوش اور تسلی یافتہ تھا اور درمیان میں بعض اوقات طبیعت اچھی بھی ہوجاتی رہی۔
تشویشناک حالت
نومبر کے آخرمیں جب ایک ماہر ڈاکٹر نے عزیز سعید احمد کا ایکس رے کے ذریعہ امتحان کیا تو معلوم ہوا کہ عزیز کو سخت قسم کی جلد جلد بڑھنے والی سِل ہے اور یہ کہ بیماری کافی ترقی کرچکی ہے۔ اس پر سخت تشویش ہوئی اور عزیز سعید احمد کو فوراً درد صاحب نے لنڈن کے مشہور برائٹن ہسپتال میں داخل کراکے علاج شروع کرادیا مگر اس وقت گو ظاہری طور پر حالت ایسی خراب نہیں تھی مگر بیماری اس حد تک پہونچ چکی تھی کہ شروع سے ہی ڈاکٹر نے مرض کو لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ حضرت امیرالمومنین کے مشورہ کے ماتحت یہاں سے تار بھجوائی گئی کہ اگر حالت سفر کے قابل ہو تو فوراً ہندوستان بھجوانے کا انتظام کیا جائے مگر ڈاکٹر نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس لئے ناچار وہیں علاج کرایا گیا اور گو ولایت کا بہترین ہسپتال ا ور بہترین علاج میسر تھا اور درمیان میں کچھ سنبھالے بھی آتے رہے مگر فی۔الجملہ حالت دن بدن گرتی گئی۔
عزیز مرحوم کے والد کی ولایت کو روانگی
اس اثناء میں یہ بھی تجویز کی گئی کہ عزیز مرحوم کے والد یعنی عزیز مکرم مرزا عزیز احمد صاحب خود ولایت چلے جائیں اور جب بھی عزیز کی حالت سنبھلے اسے واپس لے آئیں مگر بعض وجوہ سے اس تجویز میں بھی نقصان کے پہلو دیکھے گئے اور اس طرح ۱۹۳۸ء کا ابتداء آگیا۔ اس وقت سارے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ آخری فیصلہ ہوا کہ مرزا عزیز احمد صاحب ہوائی جہاز کے ذریعہ فوراً ولایت تشریف لے جائیں تاکہ اگر عزیز کی حالت سفر کے قابل نہ ہو تو کم ازکم وہ اسے دیکھ ہی لیں۔ کیونکہ اس عرصہ میں خود مرحوم نے بھی اشارہ کنایہ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میرے اباجان لنڈن آجائیں تو اچھی بات ہے کیونکہ اس بہانہ سے ان کی سیر بھی ہوجائے گی۔ چنانچہ اصل تجویز کو جو سمندر کے رستہ سفرکرنے کی تھی ترک کرکے مرزا عزیز احمد صاحب ۷ جنوری ۱۹۳۷ء ٭کو کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور ۱۰جنوری کو بروز پیر شام کے بعد لنڈن پہنچ گئے۔
٭:- سہواً ۱۹۳۷ء لکھا گیا ہے، اصل میں ۱۹۳۸ء ہے۔
باپ بیٹے کی ملاقات
جاتے ہی عزیز سعید احمد کے پاس ہسپتال میں پہنچے۔ عزیز بہت کمزور ہورہا تھا اور گوہوش وحواس اچھی طرح قائم تھے اور باپ بیٹے میں معمولی باتیں ہوئیں مگربیمار کی تکلیف اور کوفت کے خیال سے مرزا عزیز احمد صاحب اس کے پاس زیادہ نہیں ٹھہرے اور نصف گھنٹہ کے بعد عزیز سے رخصت ہوکر قریب کے ہوٹل میں تشریف لے آئے جہاں بوجہ اس کے کہ خود ہسپتال کے اندر کسی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی ان کے لئے انتظام کیا گیا تھا۔ اس رات عزیز مرحوم کو ساری رات باوجود نیند کی دوائی کے نیند نہیں آئی اور گھبراہٹ اور بے خوابی کی حالت رہی۔ جس کی وجہ غالباً وہ اعصابی دھکا تھا جو اسے اپنی موجودہ حالت میں باپ سے ملنے سے طبعاً لگا ہوگا۔
دوسرے دن گیارہ بجے صبح کو جب عزیز سعید احمد کو ملنے کے لئے اس کے والد صاحب دوبارہ گئے تو اس کے بعد جلد ہی اسے جلد ی جلدی سانس آنا شروع ہوگیا۔ اور تنفس اکھڑگیا اور تیسرے دن یعنی بدھ کے روز تو حالت بہت نازک ہوگئی اور مرحوم کو ایک قسم کی غنودگی سی رہنے لگی۔ اس حالت میں بھی جب مرزا عزیز احمد صاحب اس کے پاس گئے تو ایک تنہائی کا موقع پاکر مرحوم نے اپنے اباجان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور کہا اباجی فکرنہ کرنا۔
وفات
بس اس کے بعد عزیز سعید احمد نہیں بول سکا کیونکہ کمزوری بہت تھی اور اس کے ساتھ غنودگی بھی تھی اور ڈاکٹر نے بھی آرام کے خیال سے مزید غنودگی کی دوائی دے رکھی تھی۔ یہی غنودگی کی حالت وفات تک جاری رہی۔ اور بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب کو صبح سوا دو بجے کے قریب عزیز کی روح جسد عنصری سے پرواز کرکے اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ونرضی بمایرضی بہ اللّٰہ
نہائت تلخ جدائی
موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے اور ایک اسلام واحمدیت کی فضا میں تربیت یافتہ شخص ہر صدمہ میں رضاکے سبق کو مقدم رکھتا ہے اور ہم بھی خدا کے فضل سے اس سبق کو نہیں بھولے مگر جن حالات میںعزیز مرحوم کی وفات ہوئی ہے انہوں نے اس کی جدائی کو بہت ہی تلخ بنادیا ہے۔ نوجوان (ابھی عزیز اپنی عمر کے پچیس سال بھی پورے نہیں کرسکا تھا) سعید الفطرت، شریف مزاج، صابر شاکر، بڑوں کا حددرجہ مؤدب، چھوٹوں کے لئے نہائت شفیق، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ بہت محبت کرنے والا اور تعلقات کے نبھانے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے والا، پھر نہائت قابل اور نہائت ہونہار، ملک وقوم کی خدمت کا خاص جذبہ رکھنے والا، غربا اور مساکین کا دلی ہمدرد۔ یہ وہ صفات تھیں جو مرحوم میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں۔ اگر ان صفات کا مالک نوجوان عین اٹھتی جوانی کے عالم میں جب کہ وہ زندگی کی کش مکش میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو تیار کررہا تھا اور حصولِ تعلیم کی آخری کڑیوں پر پہونچ چکا تھا اور اس کے اوصافِ حسنہ کی وجہ سے اس کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ اچانک فوت ہوجائے اور فوت بھی ایسی حالت میں ہو کہ وہ وطن سے چھ ہزار میل پر اپنے عزیزوں سے دور ہسپتال کے ایک علیحدہ کمرہ میں تنہائی میں پڑا ہوا ہو تو انسانی فطرت جس کے اندر خالق فطرت نے خود اپنے ہاتھ سے جذبات کا خمیر دیا ہے انتہائی صدمہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتی اور ہم اس صدمہ سے بالا نہیں بلکہ شاید جذبات کی دنیا میں دوسروں سے کچھ آگے ہی ہوں مگر ہمارا مقدم فرض وہ ہے جو ہمیں اپنے خدا سے جوڑتا ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے خدا کا ہر فعل خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی تلخ اثر رکھتا ہو اپنے اندر نہ صرف انتہائی حکمت رکھتا ہے بلکہ اس کی گہرائیوں میں سراسر رحمت ہی رحمت مخفی ہوتی ہے۔ پس ہم خدا کی دی ہوئی امانت کو صبر اور رضا کے ہاتھوں سے خدا کے سپرد کرتے ہیں اور اس کے اس امتحان کو جو خواہ بظاہر کس قدر ہی بھاری ہے مگر بہرحال وہ ہماری بہتری کے لئے ہے، دلی انشراح کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔
اللھم تقبل منا انک انت السمیع الدعا
مرحوم کی قابلِ ستائش عادات
مرحوم یوں تو اپنا عزیز ہی تھا مگر گزشتہ تین سال سے جبکہ وہ ولائت میں تھا۔ وہ گویاایک طرح سے میری ولائت میں بھی تھا یعنی اس کی تعلیمی نگرانی اور اسے اخراجات وغیرہ بھجوانے کا انتظام میرے سپرد تھا اور اس تین سال کے لمبے عرصہ میں تقریباً ہر ہفتہ میں میرے پاس اس کا خط آیا اور میں نے ہر ہفتہ اسے خط لکھا۔ مجھے اس نے اس عرصہ میں اپنے کسی لفظ کسی تحریر کسی انداز سے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ بعض اوقات اگر زائد خرچ کا مطالبہ کا سوال آیا تو مرحوم نے ایسے انداز میں مطالبہ کیا کہ نہ صرف میں نے اسے کبھی برا نہیں مانا بلکہ اکثر اوقات اس کے زائد مطالبات کو پورا کرنے میں خوشی محسوس کی۔ اس سارے عرصہ میں صرف ایک دفعہ ایسا موقع آیا کہ مرحوم نے اپنے خط میں ایک تیسرے شخص کے متعلق ایک ایسا لفظ لکھا جو مجھے گراں گزرا مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کے بھجوانے کے معاً بعد عزیز مرحوم کو اپنی غلطی محسوس ہوئی۔ چنانچہ جب میں نے جواب میں نصیحتًا اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی تو اس کا فوراً جواب آیا کہ میں نے اپنی غلطی محسوس کرلی ہے اور میں بلا تامل معافی مانگتا ہوں۔ اور ساتھ ہی وجہ بھی لکھی کہ اس اس وجہ سے میری طبیعت اپنے رستہ سے کسی قدر اکھڑ گئی تھی مگر انشائ۔اللہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ جو وجہ عزیز نے لکھی تھی وہ واقعی ایک حد تک اُسے معذور ثابت کرتی تھی۔ پھر جب عزیز سعید احمد آئی۔سی ۔ایس میں پاس تو ہوگیا مگر مقابلہ میں نہ آسکا اور عزیز مظفر احمد مقابلہ میں آگیا تو عزیز سعید احمد نے مجھے مظفر احمد کی کامیابی پر مبارکباد لکھی مگر ساتھ ہی لکھا کہ میں مبارک باد اس لئے دے رہا ہوں کہ مظفر کو اور آپ کو کامیابی کی خوشی ہوگی۔ ورنہ ویسے تو میں مظفر کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ چونکہ قابل اور ہونہار ہے اگر وہ آزاد رہ کر خدمت کرتا تو بہتر تھا اور لکھا کہ میں تو صرف والد صاحب کے زور دینے سے آئی۔سی۔ایس کا امتحان دیتا رہا ہوں ورنہ مجھے ملازمت ہرگز پسند نہیں اور گو مجھے والد صاحب کی وجہ سے اپنی ناکامی کا افسوس ہے مگر اپنے خیال کے لحاظ سے میں خوش ہوں کہ اچھا ہوا۔
میں نے عزیز سعید احمد کی مبارکباد کا شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ عزیز مظفر احمد کا آئی۔سی۔ایس میں جانا اس کی اپنی یا میری خواہش کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکہ مشورہ کے ماتحت وسیع ترقومی مفاد کے خیال سے یہ رستہ اختیار کیا گیا ہے اور گوآزاد پیشہ عام طور پر اچھا ہوتا ہے مگر اچھی نیت کے ماتحت بعض اوقات ملازمت بھی آزاد پیشہ کی طرح اعلیٰ خدمت کا رنگ رکھتی ہے جس سے عزیز سعید احمد نے اتفاق کیا۔
سوشلزم کا مطالعہ
چونکہ مرحوم میں غرباء کی ہمدردی کا مادہ بہت تھا اس لئے چند ماہ سے عزیز سعید احمد نے سوشلزم کا بھی مطالعہ شروع کررکھا تھا تاکہ معلوم ہوسکے کہ سوشلزم غرباء کے لئے کس کس رنگ میں امداد اور فائدہ کا دروازہ کھولتی ہے۔ اس پر میں نے مرحوم کو لکھا تھا کہ اس مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم کا بھی مطالعہ رکھو تاکہ صحیح موازنہ کرنے میں مدد ملے۔ چنانچہ میںنے عزیز مرحوم کو اسلامی مسائل زکوٰۃ اور تقسیم ورثہ اور سود کے متعلق کچھ نوٹ بھی لکھ کر بھیجے تھے اور بتایا تھا کہ غرباء کی امداد اور دولت کی مناسب اور واجبی تقسیم کے متعلق جو اصول اسلام نے پیش کردیئے ہیں اس پر سوشلزم قطعاً کوئی اضافہ نہیں کرسکتی بلکہ اکثر جگہ سوشلزم نے ٹھوکر کھائی ہے۔ عزیز اس قسم کی علمی خط وکتابت سے بہت خوش ہوتاتھا اوراس سے فائدہ اٹھاتا تھا۔
جذبۂ قربانی وانکسار
مرحوم جب اس آخری بیماری میں مبتلا ہوا تو شروع میں اس طرف توجہ نہیں ہوئی کہ یہ مرض سل ہے لیکن چونکہ عزیز سعید احمد کے جسم کی کمزوری کی وجہ سے شبہ ہوتا تھا۔ اس لئے احتیاطاً تاکیدی خط لکھا گیا کہ کسی ماہر امراض سینہ کو دکھالیا جائے لیکن مرحوم نے محض اس خیال سے کہ میری وجہ سے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی جائے اور اس قدر اہتمام کیوں کیا جائے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ یونہی ایک قسم کی عام بیماری ہے سینہ کے امتحان کو ملتوی رکھا حتّٰی کہ اندر ہی اندر بیماری ترقی کرگئی اور سینہ امتحان کے وقت تک خطرناک صورت اختیار کرگئی۔ یقینا مرحوم کی یہ ایک غلطی تھی مگر اس غلطی کی تہہ میں بھی وہی جذبہ انکسار وقربانی کا م کررہا تھا جو مرحوم کا خاصہ تھا۔ بیماری کے آخری ایام میں جبکہ بیماری کے خطرناک ہونے کا اسے علم ہوگیا تھا۔سعید کے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ وہ اپنے اباجان سے مل لے مگر اسی جذبہ نے جس پر وہ اب اپنے آپ کوسرعت کے ساتھ قربان کرتا جاتا تھا، اسے اس خواہش کا اظہار نہیں کرنے دیا اور جب بھی اس کے سامنے ذکر آیا اس نے یہی کہا کہ میری خاطر اباجان تکلیف نہ کریں لیکن جب ہم نے بالآخر اسے اپنے فیصلہ کی اطلاع دی کہ تمہارے ابا جان وہاں آرہے ہیں تو اس کے دبے ہوئے جذبات باہر آگئے اور اس نے اس خبر پر بہت خوشی کا اظہارکیا۔ ولایت کے قیام کے متعلق مرحوم کا کام اس تعلق میں بھی یادگار رہے گاکہ جو ایک انگریزی تبلیغی رسالہ ہمارے بچوں نے مل کر لنڈن سے نکالا تھا جس کا نام الاسلام تھا اس کا مینیجر بھی مرحوم تھا۔ الغرض عزیز سعید احمد ایک بہت ہی اچھی صفات کا بچہ تھا اوربہت قابل اور ہونہار تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے غریقِ رحمت فرمائے اور جنت میں اپنے فضل خاص کاوارث کرے۔ آمین
ولایت میں عزیز کی تیمارداری کرنے والے احباب کا شکریہ
اس موقع پر ان احباب کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ جنہوں نے ولایت میں عزیز کی تیمارداری اور ہمدردی میں حصہ لیا۔ ان میں نمایاں حیثیت مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو حاصل ہے۔ جو گویا اس بیماری میں حقیقی معنوں میں مرحوم کے ولی اور گارڈین رہے اور اپنے آپ کو ہر رنگ میں تکلیف میں ڈال کر مرحوم کے لئے جملہ ضروری قسم کے انتظامات فرماتے رہے اور ہمیں بھی تاروں وغیرہ کے ذریعہ سے باخبر رکھا اور پھر مرحوم کی وفات کے بعد بھی نعش کو ہندوستان بھجوانے وغیرہ کے متعلق ضروری انتظام سرانجام دیئے۔ فجزاہ اللّٰہ خیراً
درد صاحب کے علاوہ حضرت مولوی شیرعلی صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس اور ڈاکٹر کیپٹن عطاء اللہ صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ اور مسٹرنٹل اور مسٹر فیولنگ اور عزیز مرزا ناصر احمد صاحب اور عزیز مرزا مظفر احمد صاحب بھی ہرطرح مرحوم کی تیمارداری اور ہمدردی میں مصروف رہے۔فجزاھم اللّٰہ خیراً وکان اللّٰہ معھم
چونکہ عزیز مرحوم کے تعلقات کا حلقہ خاصہ وسیع تھا۔ اس لئے بہت سے انگریز دوست بھی مرحوم کی بیماری کے ایام میں ہسپتال آتے رہے اور ہمدردی کے اظہار کے لئے پھولوں اور پھلوں کے تحائف پیش کرتے رہے۔
سرایڈورڈ میکلیگن کا شکریہ
اس تعلق میں سرایڈورڈ میکلیگن سابق گورنر کا نام نامی خاص طور پر قابل ذکر ہے جو عزیز سعید احمد کی بیماری کی خبر سن کر خود ہسپتال میں تشریف لائے اور پھولوں کا تحفہ پیش کیا۔ سر ایڈورڈ میکلیگن کا ہمارے خاندان کے ساتھ بہت تعلق تھا اور مرحوم کے دادا برادرم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے ساتھ بھی خاص تعلق تھا۔ اس لئے سر موصوف بیماری کا سن کر عیادت کے لئے تشریف لائے اور اپنی شرافت اوروفاداری کا ثبوت دیا۔
عزیز سعید احمد کی بیماری کے آخری ایام اور وفات کے تعلق میں جو پہلاخط مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا ہے اس کے ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
مولانا درد صاحب کا خط
مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے ہیں:-
’’جمعہ کی نماز کے بعد میاں سعید احمد کے پاس میں اور مظفر گئے۔ سعید بہت کمزور معلوم ہوتا ہے۔ گلاخراب ہے، پسینہ زیادہ آتا ہے، بولتے وقت تکلیف ہوتی ہے۔ مرزا عزیز احمد صاحب اچھا ہوا ہوائی جہاز سے آرہے ہیں سعیدا حمد کو بتادیا ہے…… سرایڈورڈمیکلیگن سابق گورنرپنجاب پھولوں کا گملا لے کر سعید احمد کی بیماری کی خبرسُن کر انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آئے اور حال پوچھتے رہے… … پیر کے دن شام کے بعد مرزا عزیز احمد صاحب کے استقبال کے لئے میاں ناصر احمد صاحب اور مظفر احمد صاحب کے ہمراہ ہوائی جہاز کے اترنے کی جگہ میں گیا۔ جہاز لیٹ تھا۔ مرزا صاحب نہایت آرام کے ساتھ یہاں پہنچ گئے اور نوبجے کے قریب ہم ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل میں اسباب رکھ کر ہسپتال گئے۔ ہم نے یہ تجویز کی کہ میاں ناصر اور مظفر اور میں سب ان کے ساتھ جائیں تاکہ سعید اور خود مرزا صاحب جذبات پرقابو رکھ سکیںاور سعید کی طبیعت میں زیادہ جذباتی ہیجان نہ پیدا ہو۔ آدھ گھنٹہ سعید کے پاس بیٹھ کر واپس آگئے……دوسرے دن صبح ساڑھے گیارہ بجے سعید کی خواہش کے مطابق مرزا صاحب اور ہم پھر ہسپتال میں گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی سعید کا دم جلدی جلدی آنے لگا۔ اس لئے اس خیال سے کہ اسے آرام آجائے تو پھر آئیں گے ہم جلدی واپس آگئے۔ پھر چاربجے کے قریب گئے اور تھوڑی دیر بیٹھے رہے مگر وہی حال تھا…… بدھ کے روز دوپہر کے قریب ہسپتال والوں کا فون آیا کہ سعید کی حالت خراب ہے۔ مجھے اس وقت سخت تکلیف تھی مگر سب کو اطلاع دی اور حضرت مولوی شیر علی صاحب، مرزا عزیز احمدصاحب اور میاں ناصر احمد صاحب اور شمس صاحب اور میں ہسپتال پہنچ گئے۔ مظفر پہلے سے پہنچا ہوا تھا۔ سعید کی حالت بہت خراب تھی۔ ڈاکٹروں کو فوراً بلا کر دکھایا مگر حالت نہ سنبھلی۔ ہم ساری رات وہاں رہے اور رات کے دوبجکر دس منٹ پر سعید کا انتقال ہوگیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون … … صبح جاکر میں ہسپتال سے سرٹیفکیٹ لایا اور پھر رجسٹرار کے پاس جاکر ضروری رپورٹ دی۔ اور ہیرڈ کے ساتھ انتظام کیا کہ وہ سعید کے جسم کو امبام کردے۔ یعنی ہندوستان پہنچانے کے لئے ضروری مصالحہ لگا کر محفوظ کردے…… سعید کے فوٹو کا بھی انتظام کیا‘‘
حضرت مولوی شیر علی صاحب کا خط
درد صاحب کے خط کے علاوہ خود میرے نام بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب اور شمس صاحب کے خطوط موصول ہوئے ہیں اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے خط میں سعیدکے آخری حالات اکٹھی صورت میں بیان کئے گئے اور بعض دوسرے ضروری کوائف بھی درج ہیں۔ اس لئے ان کا خط درج ذیل کرتا ہوں:-
’’مسجد لندن۔ ۱۵ جنوری ۱۹۳۸ئ۔ بخدمت مخدومی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے ایدہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عزیزم مرزا سعید احمد مرحوم کی وفات کے دردناک حادثہ سے سخت افسوس ہوا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پر بیشمار رحمتیں اور فضل نازل فرمائے اور اپنی جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ مرحوم نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے متصف تھا۔ اپنے خاندان کی خصوصیات اور اپنے آبائو اجداد کے اخلاق فاضلہ اس میں خاص طور پر نمایاں تھے۔ بیماری میں بھی اس نے حیرت انگریز نمونہ دکھایا۔ ہسپتال میں آنے سے پہلے جس مکان میں رہتا تھا وہاں ایک ڈاکٹر اس کا علاج کرتا تھا۔ اس نے درد صاحب کے کہنے پر بلغم کا معائنہ کیا۔ جب وہ اس کے بعد مرحوم کے پاس آیا اس وقت ڈاکٹر کیپٹن عطاء اللہ صاحب مع اہلیہ صاحبہ اور بندہ عزیز مرحوم کے پاس تھے اس نے علیحدہ ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کو نتیجہ بتایا اور سینہ کو ٹسٹ کیا۔ اس وقت عزیز کو اپنی بیماری کی حقیقت معلوم ہوئی مگر اس کے چہرہ پر کوئی تغیر نہ آیا۔
عزیز نے اپنے کمرہ میں ٹیلیفون لگوایا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کے چلاجانے کے تھوڑی دیر بعد عزیز نے درد صاحب کو ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ ڈاکٹر ابھی آیا تھا وہ آپ کو ٹیلیفون کرے گا۔کچھ خراب خبر ہی بتاگیا ہے۔ اس کے بعد عزیز نے مجھے کہا کہ مجھے پہلے ہی شبہ تھا۔ ایک جرمن ماہر نے بھی مجھے دیکھا تھا۔ درد صاحب نے فوراً ایک بہترین ماہر کے ساتھ وقت مقرر کیا۔ دوسرے دن تین بجے ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کے ہمراہ درد صاحب عزیز کو ڈاکٹر برل کے پاس لے گئے جو امراض سینہ کا بہترین ماہر سمجھا جاتا ہے۔ باوجود سخت کمزوری کے عزیز نے پسند نہ کیا کہ اس کو اٹھا کر نیچے لے جائیں۔ خود ہی دوسروں کا سہارا لے کر سیڑھیوں سے نیچے اُترا۔ ہسپتال میں بھی کبھی گھبراہٹ یا بے چینی کا اظہار نہ کیا بلکہ نہایت اطمینان کی حالت میں رہتا اور جب بھی ملنے جاتے مرحوم کو بالکل خوش دیکھتے اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتا۔ نرسوں کو بھی اس کے حسن اخلاق کی وجہ سے اس کے ساتھ خاص انس اور ہمدردی ہوگئی تھی۔
بیماری کے ایام میں ایک دن جبکہ میں عزیز کے پاس گیا تو عزیز نے بتایا کہ آج رات میں نے خواب میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے۔ وہ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور مجھے دیکھ کر پھر واپس تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد عزیز سعید نے مجھے کہا شاید میں نے تم کو پہلے نہیں بتایا جس مکان میں مَیں پہلے رہتا تھا وہاں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا۔ حضور تشریف لائے ہیں اور حضور کے ساتھ تم (شیرعلی) ہو۔ پہلے میں نے خیال کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ ہیں مگر پھر میں نے دیکھا کہ تم ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس تشریف لے گئے مگر تم میرے بستر ے کے پاس کھڑے رہے اور تمہارے ہاتھ میں کوئی چھوٹی سی چیز ہے۔ (عزیز نے کسی چیز کا نام لیا جو میں نے اچھی طرح سمجھا نہیں تھا شائد دیا کہا تھا) اورتم ابھی میرے بسترہ کے پاس کھڑے تھے کہ میری آنکھ کھل گئی۔
جب میں بیماری کے دوران میں مرحوم کے پاس جاتا۔ اگر کبھی کچھ دیر بیٹھ کر واپس آنے لگتا تو عزیز کہتا کہ اور بیٹھو۔ ایک دن عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب کو کہا کہ یہ آسٹریلیا کے سیب رکھے ہیں۔ شیرعلی کو کاٹ کردو۔ جب اٹھنے لگتا تو عزیز مصافحہ کرتا اور دعا کے لئے کہتا۔
عزیز میں ضبط کا مادہ بہت تھا۔ ابتداء سے عزیز کے دل میں اپنے والد صاحب کو دیکھنے کی خواہش تھی مگر کبھی کھل کر ظاہر نہیں کیا۔ کبھی اس طرح اس خواہش کو ظاہر کرتے کہ میں کہتا ہو ں اگر اباجی آجائیں تو اچھا ہے۔ اس طرح لندن کو ہی دیکھ جائیں گے۔ جب آپ کے ایک خط میں یہ ذکر پڑھا کہ عزیز کے والد صاحب کے ولایت آنے کی تجویز ہورہی ہے تو اس وقت تار دلوایا کہ میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ آجائیں۔ عزیز گویا اپنے والد صاحب کے آنے کے ہی منتظر تھے۔ جب پیر کے دن مورخہ ۱۰ جنوری کو مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب عشاء کے وقت لنڈن پہنچے تو آتے ہی عزیز کو ملنے کے لئے ہسپتال میں تشریف لے گئے۔ جب عزیز کو مل کر چلے آئے تو اس رات ملاقات کے اثر کے نتیجہ میں یا معلوم نہیں کس وجہ سے عزیز کو نیند نہیں آئی۔ نیند کے لئے نرس نے انجکشن کردیا تھا مگر اس رات باوجود انجکشن کے نیند نہ آئی۔ صبح جب گیارہ بجے مکرمی مرزا صاحب اور درد صاحب عزیز کو پھر ملنے گئے تو جانے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ عزیز کو جلدی جلدی سانس آنے کی شکایت پیدا ہوگئی ہے۔ اس لئے مرزا صاحب اور درد صاحب جلدی وہاں سے چلے آئے تاعزیز آرام کرسکے۔ دوسرے دن بروز بدھ دوپہر کے قریب نئے مکان میں ہسپتال سے ٹیلیفون آیا کہ عزیز کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ درد صاحب مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ میں نے بذریعہ ٹیلیفون درد صاحب کو اطلاع دی اور پھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو بھی اطلاع دی اور پھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا کہ میں ابھی ہسپتال جاتا ہوں اور فرمایا مرزا مظفراحمد صاحب کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اور مرزا صاحب پہلے سے وہاں پہنچے ہوئے ہوں گے۔ درد صاحب نے بھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو فون کیا کہ فوراً بذریعہ موٹر ہسپتال میں پہنچ جائیںاور مجھے بھی فون کیا ہم سب جلدی ہسپتال میں پہنچ گئے۔ اس وقت عزیز کی حالت بہت ہی کمزور تھی اور غنودگی طاری تھی۔ جب ہوش آتا تو اپنے والد صاحب کی طرف آنکھیں پھیر کردیکھتے جو ان کے سر کی طرف ایک کرسی میں سر نیچے کرکے بیٹھے ہوئے تھے اور جب مرزا صاحب سر اُٹھا کر دیکھتے تو عزیز اپنی آنکھیں پھیر لیتا۔ اسی طرح عزیزمرحوم دوسروں کی طرف بھی آنکھیں اٹھا کر دیکھ لیتا۔ پانچ بجے شام کے قریب عزیز نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اب آپ جائیں( تا میں سوجائوں) اس پر سب اٹھ کر چلے آئے مگر مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب تھوڑی دیر پیچھے ٹھہر گئے۔ اس وقت عزیز کے ہاتھ کپڑے سے باہر تھے مرزا صاحب نے ان کو اندر کیا تب عزیز نے اپنے ابّاجان کو تنہا دیکھ کر ان کے ہاتھ چومے اور کہا کہ ابا جی فکرنہ کرنا۔ (یہ بھی عزیز کا کمال ضبط تھا کہ دوسروں کے سامنے اپنے جذبات کو ظاہر نہ کیا) مکرمی مرزا صاحب نے فرمایا کہ فکر تو صرف مجھے ہی نہیں بلکہ قادیان میں جو ہیں ان کو بھی فکر ہے۔ تم اپنی بیماری کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرو۔ عزیز نے جواب دیا کہ میں مقابلہ کررہا ہوں۔ عزیز اس وقت نہایت نازک حالت میں اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں تھا مگر اس وقت بھی عزیز نے اپنے والد صاحب کو تسلی دی۔ اللہ تعالیٰ عزیز پر رحم فرماوے اور اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
اس کے بعد درد صاحب نے اور مکرمی مرزا صاحب نے مجھے مکان پر بھیج دیا۔ پھر آٹھ بجے کے قریب درد صاحب کا فون آیا کہ ڈاکٹر برل آیا تھا۔ وہ عزیز کو اور انجکشن کرگیا ہے تا جو غنودگی کی حالت ہے وہ زیادہ گہری ہوجائے اور عزیز کو تکلیف محسوس نہ ہواور ہم نے ہسپتال سے متصل ایک ہوٹل میں ایک کمرہ لے لیا ہے کیونکہ ہم ہسپتال میں رات کو نہیں ٹھہرسکتے تھے۔ چنانچہ مکرمی مرزا صاحب وحضرت مرزا ناصر احمد صاحب وعزیزم مرزا مظفر احمد صاحب ودرد صاحب ومولانا شمس صاحب رات وہاں ہوٹل میں ہی ٹھہرے۔ پھر رات کے ڈیڑھ بجے نرس نے ہوٹل میں درد صاحب کو ٹیلیفون پر عزیز کی آخری حالت کی اطلاع دی جب یہ سب وہاں پہنچے تو ایک دو دم باقی تھے۔ اور ان کے سامنے عزیز دوبجے کے بعد اس عالم سے رخصت ہوا اور اپنے مولا سے جاملا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے بعد درد صاحب نے مجھے ٹیلیفون کیا کہ فوراً موٹر لے کر پہنچ جائو۔ چنانچہ بندہ بھی وہاں پہنچ گیا اور ہم سب صبح تک وہاں رہے۔
مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب نے بہت صبر سے کام لیا ہے اور عزیزم مظفر احمد صاحب سلمہٗ وحضرت مرزا ناصر احمد صاحب ومکرمی درد صاحب اور مولانا شمس صاحب نے ہمدردی کا پورا پورا حق ادا کیا ۔ جزاھم اللّٰہ خیرا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سلمہٗ کی اگرچہ خود طبیعت علیل تھی اور ڈاکٹر کی طرف سے آرام کرنے کی تاکید تھی مگر پھر بھی وہ عزیز کے پاس کثرت سے تشریف لے جاتے اور بیماری کی حالت میں بھی ملنے کے لئے چلے جاتے تھے اور عزیزم مظفر احمد صاحب سلمہٗ تو روزانہ باقاعدہ جاتے اور جوچیزیں عزیز چاہتا وہ اس کے لئے مہیا کرتے۔ چنانچہ عزیزمرحوم نے عزیزم مظفراحمد صاحب کی اس خدمت گزاری کے متعلق اپنی خوشی کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ میں نے عمو صاحب کو (یعنی آپ کو) تم سے تمہاری ہی تعریف کا خط لکھوانا ہے۔ درد صاحب تو دن رات عزیز مرحوم کی ہمدردی میں مصروف رہے اور عزیز کے معالجہ میں اور ہرطرح آرام پہنچانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
مکرمی شمس صاحب بھی کثرت سے عزیز مرحوم کی خبرگیری کے لئے جاتے رہے اور دوسرے دوست بھی عیادت کے لئے ہسپتال میں جاتے رہے۔ اگرچہ ڈاکٹرکی طرف سے ہدایت تھی کہ زیادہ آدمیوں کا آنا اچھا نہیں ہے۔ نومسلموں میں سے مسٹرنٹل نے عزیز مرحوم کے ساتھ خاص محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور اسلامی اخوت کا رنگ دکھایا۔ مسٹرفیولنگ نے بھی بہت اظہار محبت کیا اور کئی بار عزیز مرحوم کی عیادت کے لئے گیا اور پھل بھی عزیز کے لئے لے جاتا رہا۔ فجزاھم اللّٰہ خیرا الجزا۔
مکرمی درد صاحب کو خاندان نبوت کے ساتھ خاص محبت ہے اور وہ اس خاندان مبارک کے تمام افراد کے ایک جان نثار غلام ہیں۔ عزیز مرحوم کی زندگی میں تو انہوں نے عزیز کی ہر طرح خدمت کی ہی تھی عزیز کی وفات کے بعد بھی آپ فوراً اس کوشش میں مصروف ہوگئے کہ عزیز مرحوم کا جنازہ قادیان پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوگئے۔ یہ سب کام اُن سے وہ محبت کرواتی ہے جو ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے خاندان کے ساتھ مرکوز ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کو ان خدمات کی سرانجام دہی کے لئے قابلیت بھی خاص طور پر بخشی ہے۔ فجزاہ اللّٰہ خیراالجزا
اس موقع پر نو مسلم خواتین نے بھی عزیز مرحوم کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا ۔ چنانچہ بعض ان میں سے ہسپتال میں عزیزکی عیادت کے لئے بھی گئیں اور جب مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب تشریف لائے تو ایک نو مسلمہ خاتون نصیرہ بار بار مجھے کہتی تھی کہ درد صاحب سے کہنا کہ جب مرزا سعید صاحب اپنے والد صاحب کے ہمراہ ہندوستان جانے لگیں تو مجھے بھی اطلاع کریں تا میں اس وقت مرزا سعید احمد صاحب سے مل لوں۔
عزیز مرحوم کے دوستوں کا دائرہ یہاں بھی وسیع تھا اور جماعت سے باہر بھی کئی لوگ ان کے اخلاقِ حمیدہ کی وجہ سے ان کے مداح اور گرویدہ تھے۔ عزیزم مرحوم کو غرباء کے ساتھ خاص ہمدردی تھی۔ اللہ تعالیٰ عزیز کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔
آخر میں یہ بات قابل ذکرہے کہ مرزا عزیز احمد صاحب جو سعید کے ملنے کے لئے ولایت گئے تھے، وہ ہوائی جہاز کے ذریعہ واپس آرہے ہیں اور امید ہے ۲۳ جنوری کو کراچی اور پھر ایک دو روز میں قادیان پہنچ جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہر طرح ان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ عزیز سعید کا جنازہ سمندر کے ذریعہ آرہا ہے اور دس فروری تک بمبئی پہنچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی روح کو ابدی رحمت میں جگہ دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵جنوری۱۹۳۸ئ)








صدمات میں اوہامِ باطِلہ سے بچنے کا طریق
بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مصائب اور صدمات میں طرح طرح کے اوہامِ باطلہ کا شکار ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات ایسے خیالات کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں یا اگر اظہار نہیں کرتے تو کم ازکم ایسے خیالات کو دل میں جگہ دے دیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کے متعلق نعوذباللہ بدظنی اور بدگمانی کا رستہ کھلتا ہے اور اندر ہی اندر ایمان کو گھن لگ جاتا ہے۔ اس قسم کے خیالات کا اصل باعث تو کسی صدمہ پر صبر ورضا کو ہاتھ سے دے دینا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات ان خیالات کی بنیاد لاعلمی پر بھی ہوتی ہے۔ یعنی لوگ موت وحیات کے قانون کو سمجھنے کے بغیر خدا کے فعل کے متعلق رائے قائم کرنے لگ جاتے ہیں اور چونکہ صدمہ کا بھی غلبہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس رائے زنی میں کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں۔
احباب کو معلوم ہے کہ چند دن ہوئے ولایت میں ہمارا ایک عزیز بچہ مرزا سعید احمد فوت ہوگیا۔ وفات جو ایک بہت لمبی جدائی کا نام ہے۔ طبعاً اپنے اندر ایک انتہائی تلخی کا عنصر رکھتی ہے مگر جن حالات میں عزیز مرحوم کی وفات ہوئی انہوں نے اس کو خاص طور پر تلخ کردیا تھا۔ اور اس تلخی کا احساس طبعاً ہمارے سارے خاندان کو تھا اور ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اور الحمد للہ کہ ہم نے صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس خدائی امتحان کو رضا کے ساتھ قبول کیا ہے۔
احباب کو یہ بھی معلوم ہے کہ آج کل میرا اپنا بچہ عزیزمرزا مظفر احمد بھی ولایت میں تعلیم پارہا ہے۔ سعید احمد مرحوم کے ساتھ مظفر احمد کا بہت گہرا تعلق تھا۔ یعنی اول تو قریبی رشتہ دار پھر دوست، پھر ہم عمر، پھر ہم جماعت اور پھر دونوں وطن سے دور اوراپنے دوسرے عزیزوں کی نظروں سے اوجھل۔ ان حالات میں مظفر کو طبعاً سعید کی وفات کا انتہائی صدمہ ہوا۔ اپنے اس صدمہ کے اظہار کے لئے اس نے مجھے ایک خط لکھا ہے جو درد وغم کے جذبات سے معمور ہے اور گو اس خط میں مظفر نے خدا کے فضل سے صبر ورضا کو نہیں چھوڑا مگر ایک فقرہ وہ ایسا لِکھ گیا جو مجھے کھٹکا ہے۔ بلکہ خود مظفر کو بھی کھٹکا ہے۔ کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ مجھے یہ خیال آیا تھا لیکن پھر میں نے اسے دل میں ہی دبالیا۔ بہرحال میں نے اس کی تربیت کے خیال سے اسے اس ڈاک میں ایک خط لِکھا ہے جس کا متعلقہ حصہ ناظرین کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھجوارہا ہوں تاکہ ہمارے دوست مصائب وآلام میں اوہام باطلہ سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں۔ یہ خط ایک پرائیویٹ خط ہے اور اگر میں اخبار کے لئے مضمون لکھتا تو شائد دوسرے رنگ میں لکھتا لیکن بہرحال چونکہ اصول ایک ہی ہے۔ میں اسے دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کروارہا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو کِسی دوسرے وقت اس موضوع پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھوں گا۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ العظیم ۔
خط درج ذیل ہے:-
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم
نَحمدہٗ ونصّلی علیٰ رسُولہٖ الکریم وَعَلیٰ عبدہٖ المسیح الموعُود
قادیان ۷ فروری ۱۹۳۸ء
عزیزم مظفر احمد سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمہارے خط سے عزیزسعید احمد مرحوم کی بیماری اور وفات کے حالات کا تفصیلی علم حاصل ہوا۔ اس میں شبہ نہیں کہ عزیزسعید احمد کی وفات نہایت درجہ تلخ حالات میں ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے سب عزیزوں کے دل پر بہت بھاری بوجھ ہے اور میں نے تو خصوصیت کے ساتھ اس حادثہ کی تلخی کو بہت زیادہ محسوس کیا ہے۔ کیونکہ علاوہ عام رشتہ کے میرے ساتھ گزشتہ تین سال میں سعید مرحوم کا خاص تعلق رہا تھا اور میں نے اس صدمہ کو اسی طرح محسوس کیا ہے جیسے کہ ایک باپ کو اپنے بیٹے کا صدمہ ہوتا ہے مگر تمہارے اس خط میں ایک فقرہ ایسا ہے جسے میں دینی تربیت کے لحاظ سے یونہی بلانوٹس نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ فقرہ اس مفہوم کا ہے کہ تمہیں سعید کی وفات پر انتہائی غم والم کی حالت میں خیال آیا کہ بیسیوں ایسے آدمی ہیں جن کی موت کِسی شخص کے لئے کسی خاص تکلیف کا باعث نہیں ہوتی لیکن موت آئی تو بے چارے سعید کو ہم سے جدا کرنے کے لئے اور وہ بھی اس جوانی کی عمر میںوہ اور اس غریب الوطنی کی حالت میں الخ۔ یہ فقرہ جیسا کہ خود تم نے محسوس کیا ہے اپنے اندر ایک گلہ کا رنگ رکھتا ہے اور گو مجھے خوشی ہے کہ تم نے اسے دبادیا اور اس خیال کا اظہار نہیں کیا اورجو خراب خیال دل کے اندر ہی دبایا جائے۔ وہ گناہ نہیں ہوتا بلکہ دبادینے کی وجہ سے ایک نیکی شمار ہوتا ہے لیکن پھر بھی چونکہ تمہارے دل میں اس قسم کا خیال آیا تھا۔ اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تربیتی اور تعلیمی لحاظ سے اس کے متعلق کچھ ذکر کروں:-
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جسے کبھی بھولنا نہیں چاہیئے کہ خدا نے دنیا میں دو قسم کے قانون جاری کئے ہیں۔ ایک قانون نیچر ہے اور دوسرا قانون شریعت ہے۔ یہ دونوں قانون اپنے علیحدہ علیحدہ دائروں میں چلتے ہیں اور ایک دوسرے کے دائرہ میں دخل انداز نہیں ہوتے اور دنیا کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے ان کا علیحدہ علیحدہ رہنا ہی مفید اور ضروری ہے۔ اس تقسیم کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ موت وحیات کا قانون نیچر کے قانون کا حصہ ہے یعنی زندگی اور موت کے امور قانون نیچر کے ماتحت رونما ہوتے ہیں اور قانونِ شریعت سے انہیں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (سوائے مستثنیات کے جن کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں)پس موت وحیات کے واقعات کو قانون شریعت کے ماتحت لاکر ان کے متعلق رائے لگانا ہمیشہ غلط نتیجہ پیدا کرے گا۔ مثلاً اگر ایک اچھا اور نیک آدمی کسی وجہ سے ہیضہ کے جراثیم کی زد کے نیچے آجاتاہے اور ان جراثیم کے مقابلہ کی بھی اس کے جسم میں طاقت نہیں ہے تو وہ لازماً ہیضہ کا شکار ہوجائے گا اور اس کی نیکی اسے اس حملہ سے محفوظ نہیں رکھ سکے گی مگر اس کے مقابل پر اگر ایک خراب آدمی ہے لیکن وہ ہیضہ کے جراثیم کی زد کے نیچے نہیں آیا یا زد کے نیچے تو آیا مگر اس کی جسمانی حالت ان جراثیم کے مقابلہ کے لئے کافی مضبوط تھی تو باوجود دینی لحاظ سے گندہ اور خراب ہونے کے وہ اس آفت سے محفوظ رہے گا۔ خدا کا یہ قانون دنیا کی ہر چیز میں کام کررہا ہے۔ جاندار اور غیرجاندار، انسان اور حیوان، امیرا ور غریب، نیک اور بد سب اس قانون کے جوئے کے نیچے ہیں۔ پس اگر سعید مرحوم قانون نیچر کی زد میں آگیا۔ یعنی ایک طرف اس نے اپنی والدہ مرحومہ سے سل کی بیماری کا میلان ورثہ میں پایا اور دوسری طرف اس کی اپنی جسمانی بناوٹ بھی کمزور تھی اور تیسری طرف اس نے ہوا میں اڑتے ہوئے یا کسی اور طرح سل کے جراثیم کو اپنے جسم کے اندر لے لیا اور چوتھی طرف اس نے اپنے جذبہ صبر ورضا کے ماتحت شروع میں اپنے اس خطرہ کا کسی سے اظہار نہیں کیا۔ حتیٰ کہ بیماری اندر ہی اندر ترقی کرکے خطرناک صورت اختیار کرگئی اور پانچویں طرف اسے یہ حالات اس ملک میں پیش آئے جہاں کی آب وہوا سخت مرطوب اور خنک ہے تو ان حالات کا لازمی اور قدرتی نتیجہ یہی ہوسکتا تھا جو ہوا۔ یعنی قانون نیچر کے حملہ نے ہمارے عزیزکی زندگی کے لہلہاتے پودہ کو عین جوانی کے عالم میں کاٹ کر گرادیا۔ یقینا یہ سارا منظر اپنے اندر ایک انتہائی تلخی رکھتا ہے مگر اس تلخ نتیجہ کو عام قانون نیچر کے دائرہ سے نکال کر اوہام باطلہ کا شکار ہونے لگنا سخت غلطی ہے، جس پر استغفار کرنا چاہیئے۔ یہ حادثہ خواہ کتنا ہی تلخ ہے مگر بہرحال وہ قانون نیچر کا ایک حصہ ہے اور اسے اس کے دائرہ کے اندر ہی محدود رکھنا چاہیئے ورنہ خدا پر بدظنی پیدا ہونے کا راستہ کھلتا ہے جو سراسر مہلک ہے۔ مجھے یہ خوشی ہے کہ تم نے اس باطل خیال کو پیدا ہوتے ہی دبادیا اور اس کے اظہار سے باز رہے اور اس طرح گناہ میں گرنے کی بجائے ایک نیکی کمالی ورنہ اگر اظہار کردیتے یا اس خیال کو اپنے دل میں راسخ ہونے دیتے تو یہ سراسر معصیت تھی۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس واقعہ کو فرض کے طور پر مستثنیات کے دائرہ میں لے جاکر قانون شریعت کے ماتحت ہی لاکر دیکھنا ہو تو پھر بھی اس میں امکانی طور پر ایسی توجیہات کے راستے کھلے ہیں جو ایک مومن کی تسلی کا باعث ہونے چاہئیں۔ دوسری باتوں کے ذکر کو چھوڑتے ہوئے میں صرف مثال کے طور پر قرآن شریف کے اس بیان کردہ اصول کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات انجام کے لحاظ سے بچوں کی وفات ان کے والدین کے لئے بلکہ خود بچوں کے لئے رحمت کا موجب ہوتی ہے۔ یعنی کسی نہ کسی رنگ میں اس کی تہہ میں خدائی رحمت کا جلوہ مخفی ہوتا ہے اور خدا کے رازوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بعض مصالح ہوسکتے ہیں جو اس قسم کے واقعات کی تہہ میں کام کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال تمہارے لئے یہی دو اصول کافی ہیں جو میں نے اوپر بیان کردیئے ہیں۔
اب ایک مختصر سی تیسری بات عشق ووفاء کے میدان کی بھی سن لو اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ اس نے ہم پر ہزاروں احسان کئے ہوں اور یہ احسان بہت وزنی اور اہم ہوں اور پھر کبھی کسی موقع پر ہمیں اس محسن کی طرف سے کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے تو قطع نظر اس کے کہ اس تکلیف کے نیچے بھی رحمت وشفقت مخفی ہو۔ کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ اس شخص کے کثیر التعداد اور عظیم الشان احسانوں کو یادرکھتے ہوئے اس کی اس تکلیف اور سختی کو بھلا دیں اورتکلیف کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے احسانوں کی وجہ سے اس کے شکرگزار رہیں۔ قطع نظر دوسرے لاتعداد احسانوں کے اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو عظیم،الشان احسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں پیدا کرکے کیا ہے۔ وہی اکیلا اس قدر بھاری ہے کہ میںاپنے ذوق کے مطابق تو سمجھتا ہوں کہ اگر بالفرض خدا ہم سب کو آپ کی نسل میںپیدا کرنے کے بعد عین جوانی کے عالم میں حرفِ غلط کی طرح مٹاتا چلا جائے اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑے تو کم ازکم جہاں تک میرے قلبی احساسات کا تعلق ہے میں پھر بھی اس کے پیدا کرنے کے احسان کو اس کے مارنے کے فعل پر بھاری سمجھوں گا اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی میرے دل میں اس کی شکرگذاری کا جذبہ کم نہیں ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا ہیـــ ؎
صادق آں باشد کہ ایّامِ بلا
مے گذارد بامحبت باوفا
گر قضا را عاشقے گردد اسیر
بوسد آں زنجیر را کز آشنا ۱؎
یعنی صادق وہ ہوتا ہے جو مصیبت اور ابتلا کے دنوں کو بھی محبت اور وفاداری کے ساتھ گذارتا ہے اور اگر کبھی خدائی قضاء وقدر کے ماتحت کوئی عاشق مصائب وآلام میں گرفتار ہوجائے تو وہ اپنے وفورِ عشق میں ان مصائب وآلام کی آہنی زنجیروں کو بھی چومتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ زنجیریں بھی میرے محبوب کی طرف سے ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے جس کے متعلق سب سے مقدم فرض خود ہمارا ہے کہ ہم اس پر عمل کریں کیونکہ ہم آپ کی صرف روحانی نسل سے ہی نہیں ہیں بلکہ جسمانی نسل سے بھی ہیں اور دوسروں کی نسبت ہماری ذمہ داری زیادہ ہے۔ میں نے یہ باتیں محض اصولی طور پر تمہاری دینی تربیت کے لحاظ سے لکھی ہیں۔ ورنہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ تم نے اپنے خدا پر کوئی بدگمانی کی ہے۔ میں جانتا ہوںکہ تمہارا یہ ایک محض اڑتا ہوا خیال تھا جو تم نے دل میں فوراً ہی دباکر مٹادیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ تم نے اسی قسم کے خیالات کی بنا پر ہی اسے دبایا ہوگا۔ جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں کیونکہ تم بھی آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے ہو اورگو ہماری نسبت تمہارا فاصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بقدر ایک قدم زیادہ ہے لیکن بہرحال تم اس خونی رشتہ کے مبارک اثر سے محروم نہیں ہوسکتے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تم کو پہنچا ہے اور عزیز سعید مرحوم کی وفات کے متعلق بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قانون نیچر کا ایک دردناک طبعی نتیجہ ہے جو خواہ ہمارے لئے کتنا ہی تلخ اور بھاری ہے مگر بہرحال وہ ہمارے محسن ومحبوب خدا کی طرف سے ہے اورہم باوجود انتہائی غم کے دلی صبر ورضا کے ساتھ اپنے خدا کی ان بھاری زنجیروں کو چومتے ہیں۔ جو اس کی قضاء وقدر نے ہم پر ڈالی ہیں اور اس کے امتحان کو قبول کرتے ہیں۔ خدا بھی ہمارے صبر کو قبول فرمائے اور اس پر استقامت دے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا بشیر احمد
اس خط میں میں نے تین اصول بیان کئے ہیں جو دوستوں کی آسانی کے لئے ذیل میں معین صورت میں دہرادیتا ہوں تاکہ وہ اپنے صدمات میں ان کے ذریعہ سے اوہام باطلہ سے بچ سکیں۔ وہ اصول یہ ہیں:-
۱۔ موت وحیات کے واقعات عموماً قضاء قدر کے عام قانون کے ماتحت وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان میں خدا کی کوئی خاص تقدیر مخفی نہیںہوتی۔ اس لئے انہیں بلاوجہ خدا کا خاص فعل قراردے کر بدگمانی کا رستہ نہیں کھولنا چاہیئے اور خدا کی تقدیر عام فی الجملہ مخلوق کی بہتری اور ترقی کے لئے مقصود ہے۔
۲۔ اگر کبھی استثناء کے رنگ میں موت وحیات کا کوئی فعل قانون شریعت کے ماتحت خدا کی تقدیر خاص کے نیچے وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس میں بھی نیک لوگوں کے لئے کوئی نہ کوئی رحمت کا پہلو ہی مخفی ہوتا ہے۔ پس کسی صدمہ کی ظاہری تلخی کے غلبہ میں اس کی مخفی رحمت کے پہلو کو بند کرتی ہے۔ واللہ اعلم ولا علم لنا الا ماعلمنا
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲فروری۱۹۳۸ئ)








احباب سے ایک ضروری معذرت
عزیز مرزاسعید احمد کا جنازہ جب ولایت سے قادیان پہنچا تو اس وقت مرحوم کا چہرہ عزیزواقارب کے علاوہ دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو بھی جنھیں چہرہ دیکھنے کی خواہش تھی، دکھایا گیا تھا لیکن مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ ہجوم کی کثرت اورترتیب کو خاطر خواہ صورت میں قائم نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بعض دوست باوجود خواہش کے چہرہ نہیں دیکھ سکے۔ حتّٰی کہ اس فہرست میں بعض اپنے اعزّہ بھی شامل ہیں۔ مجھے یہ اطلاع پاکر بہت ہی افسوس ہوا ہے اور میں ایسے سب دوستوں اور بہنوں اور بھائیوں سے معذرت چاہتا ہوں۔ دراصل اس وقت حالت ایسی تھی کہ ایک عام انتظام کے سوا خاص انتظام مشکل تھا۔ علاوہ ازیں یہ بھی خیال تھا کہ شاید بعض لوگ باوجودموقع پانے کے، جذباتی تکلیف کی وجہ سے چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ پس اگر کِسی دوست یا عزیز کا اس ہنگامہ میں خیال بھی آیا تو اس کی غیرحاضری کو اس وجہ کی طرف منسوب سمجھ لیا گیا۔ امید ہے ہمارے احباب اس دلی معذرت کو قبول فرمائیں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۹ فروری۱۹۳۸ئ)






تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک
برائیوں کی اقسام
جس طرح نیکیوں کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس طرح بدیوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ بعض بدیاں اپنی ذات میں بہت ہی اہم اور خطرناک ہوتی ہیں مگر وہ عموماً بدی کے ارتکاب کرنے والے کی ذات تک محدود رہتی ہیں اور دوسروں تک ان کا اثر جلدی نہیں پہونچتا لیکن اس کے مقابل پر بعض بدیاں ایسی ہوتی ہیں کہ گووہ اپنی ذات میں زیادہ اہم اور خطرناک نہ ہوں لیکن ان کے متعدی ہونے کا پہلو بہت غالب ہوتا ہے اور وہ ایک تیز آگ کی طرح اپنے ماحول میں پھیلتی جاتی ہیں۔
تمباکو اور زردہ
ان موخرالذکر خرابیوں میں سے تمباکو اور زردہ کا استعمال نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور آج کل تو اس مرض نے ایسی عالمگیر وسعت حاصل کرلی ہے کہ شائد دنیا کی کوئی اور خرابی اس کی وسعت کو نہیں پہونچتی۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، امیر، غریب سب اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔ اور چونکہ انسانی فطرت میں تنوع کی محبت بھی داخل ہے اس لئے تمباکو کے استعمال کو اس کی وسعت کے مناسب حال تنوع بھی غیرمعمولی طور پر نصیب ہواہے۔ چنانچہ حقہ، سگریٹ، سگار اور بیڑی مع اپنی گوناگوں اقسام کے اور پھر زردہ اور نسوار وغیرہ تمباکو کے استعمال کی ایسی معروف صورتیں ہیں کہ اس اضافہ کا بچہ بچہ ان سے واقف ہے اور یہ عادت مشرق ومغرب کی حدود سے آزاد ہوکر دنیا کے کونے کونے میں راسخ ہوچکی ہے اور دیہات وشہروں ہر دو میں ایک سی حکومت جمائے ہوئے ہے۔
خفیف قسم کا نشہ یا خمار
میں چونکہ خدا کے فضل سے اس مذموم عادت کی کسی نوع میں بھی کبھی مبتلا نہیں ہوا اور بچپن سے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہوں۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ تمباکو میںوہ کونسی کشش ہے جس نے دنیا کے کثیر حصہ کو اس کا گرویدہ بنا رکھا ہے لیکن سننے سنانے سے جو کچھ معلوم ہوا ہے نیز جو کچھ اس عادت میں مبتلا لوگوں کے دیکھنے سے اندازہ لگایا جاسکا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ اس عادت کی وسعت محض اس خفیف قسم کے نشہ یا خمار کی بناء پر ہے جو تمباکو کا استعمال پیدا کرتا ہے اور لوگ اپنے فارغ اوقات کاٹنے یا اپنے فکروں کو غرق کرنے یا یونہی ایک گونہ حالت سکر وخمار پیدا کرنے کی غرض سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور چونکہ دوسری طرف کسی مذہب نے بھی تمباکو کے استعمال کو حرام قرار نہیں دیا۔ اس لئے بڑی جرأت اور دلیری سے ہر شخص اس عادت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرض روز بروز سرعت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے لیکن غور کیا جائے تو تمباکو کا استعمال اپنے اندر بہت سے دینی اور اخلاقی اور جسمانی اور اقتصادی نقصانات کا حامل ہے۔ جن کی طرف سے کوئی عقلمند اور ترقی کرنے والی قوم آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔
مختصر طور پر تمباکو کے نقصانات مندرجہ ذیل صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
دینی واخلاقی لحاظ سے نقصان
اول: دینی اور اخلاقی لحاظ سے
(الف) تمباکو کے استعمال میں ایک خفیف قسم کے خمار یا سکر کی آمیزش ہے۔ اس لئے خواہ تھوڑے پیمانہ پر ہی سہی مگر بہرحال وہ اپنی اصل کے لحاظ سے ان نقصانات سے حصہ پاتا ہے جو شراب کے تعلق میں اسلام نے بیان کئے ہیں۔ اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر تمباکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس کے استعمال سے منع فرماتے۔
(ب) تمباکو کے استعمال سے خواہ وہ حقہ اور سگریٹ کی صورت میں ہو یا زردہ اور نسوار کی صورت میں، انسان کو بسااوقات ایسی مجالس یا صحبت یا سوسائٹی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو دینی یا اخلاقی لحاظ سے اچھی نہیں ہوتی۔ بے شک اس نقصان کا دروازہ سب صورتوں میں کھلا نہیں ہوتا لیکن بہت سی صورتوں میں اس کا احتمال ضرور ہوتا ہے اور چونکہ حکم کثرت کی بناء پر لگتا ہے اس لئے اس جہت سے بھی اس عادت سے پرہیز لازم ہے۔
(ج) تمباکو کے استعمال سے اوقات کو بے کار طور پر گزار نے اور وقت ضائع کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس نقص کو اکثر لوگ محسوس نہیں کرتے مگر قومی ترقی کے لئے یہ نقص ایک گونہ گھن کا حکم رکھتا ہے۔ اور احمدیوں کو تو خاص طور پر اس نقص کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام ہے کہ اَنْتَ الْمَسِیْحٌ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہ.6ٗ ۲؎ یعنی تو خدا کا مسیح ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں جائے گا۔
(د) حقہ اور سگریٹ کے استعمال سے مونہہ میں ایک طرح کی بو پیدا ہوتی ہے اور گو بُو خود ایک جسمانی نقص ہے مگر اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ بو خدا کی رحمت کے فرشتوں کو بہت ہی ناپسند ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بو کی حالت میں مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمباکو کی مذمت میں فرمایا ہے کہ حقہ اور سگریٹ نوش اعلیٰ الہام سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح یہ نقص ایک اہم دینی اور اخلاقی نقص بن جاتا ہے۔
(ھ) تمباکو کے استعمال سے طبی اصول کے ماتحت قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ ایسا شخص نیکیوں کے اختیار کرنے اور بدیوں کا مقابلہ کرنے میں عموماً کم ہمتی دکھاتا ہے۔
جسمانی لحاظ سے نقصانات
دوم:- جسمانی لحاظ سے تمباکو کے مندرجہ ذیل نقص سمجھے جاسکتے ہیں۔
(الف) ایک تو وہی مندرجہ بالا نقص یعنی مونہہ میں بو پیدا ہونا جو ہر طبقہ اور ہر سوسائٹی میں ناپسندیدہ سمجھی گئی ہے اور یقینا صحت پر بھی بُرا اثر پیدا کرتی ہوگی۔
(ب) تمباکو کے استعمال سے گوعارضی طور پر اس چیز کے عادی شخص کو کِسی قدر ہوشیاری اور ہمت محسوس ہوتی ہے لیکن اس کا مستقل اور دائمی اثر یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ قوت ارادی کم ہوتی جاتی اور اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں اور یقینا اگر دوسرے حالات برابر ہوں تو ایک تمباکو کی عادت رکھنے والی قوم کی صحت فے الجملہ اس قوم سے ادنیٰ ہوگی جو اس عادت سے محفوظ ہے ۔
(ج) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حقہ یا سگریٹ وغیرہ سے جو دھوآں انسان کے جسم کے اندر جاتا ہے وہ انسانی صحت کے لئے مضر ہوتا ہے۔
(د) زردہ اور نسوار کے استعمال سے مسوڑوں کو بھی نقصان پہونچتا ہے۔
اقتصادی لحاظ سے نقصان
سوم:- اقتصادی لحاظ سے تمباکو کے استعمال کے یہ نقصانات ہیں:
(الف) ایک بالکل بے فائدہ اور بے خیر چیزمیں مختلف اقوام کا بے شمار روپیہ ضائع چلا جاتا ہے۔ یقینا اگر اندازہ کیا جائے تو دُنیا میں ہر سال اربوں روپے کا تمباکو خرچ ہوتا ہوگا اور اغلب یہ ہے کہ اس میں سے کروڑوں روپیہ مسلمان خرچ کرتے ہیں۔ اب دیکھو کہ ایک غریب قوم کے لئے یہ کس قدر بھاری نقصان ہے۔ احمدیوں میں بھی اگر ان کی پنجاب کی آبادی ایک لاکھ سمجھی جائے اور ان میں سے سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیس ہزار اشخاص تمباکو اور زردہ وغیرہ کے عادی قرار دیئے جائیں اور فی کس تمباکو کا سالانہ خرچ دوسے لے کر تین روپے تک سمجھا جائے (حالانکہ غالباً اصل خرچ اس سے زیادہ ہوگا) تو صرف پنجاب کے احمدیوں میں تمباکو اور زردہ کی وجہ سے چالیس سے لے کر ساٹھ ہزار روپے تک سالانہ خرچ ہورہا ہے۔ جو ایک بہت بھاری قومی نقصان ہے۔
اسی طرح تمباکو نوشی افراد کے مالی نقصان کا بھی باعث ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ غریب غریب لوگ جنہیں پیٹ بھر کرکھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔ عادت کی وجہ سے تمباکو پر ضرور خرچ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی اقتصادی حالت روزبروزبد سے بدتر ہوتی جاتی ہے مگر وہ اس نقصان کو محسوس نہیں کرتے۔
(ب) چونکہ حقہ سگریٹ وغیرہ کی وجہ سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ اس لئے پیشہ ورلوگ اس کی وجہ سے مالی نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جو کام ایک تارکِ تمباکو چارگھنٹہ میں کرتا ہے۔ اسے ایک حقہ نوش عموماً ساڑھے چارگھنٹے میں کرتا ہے اور حساب کرکے دیکھا جائے۔ تو یہ نقصان بھی ایک بھاری قومی نقصان ہے۔
(ج) تمباکو کی وجہ سے قوتِ ارادی کے کمزور ہوجانے کے نتیجہ میں نسبتی لحاظ سے انسان کے کمانے کی طاقت پر بھی اثر پڑتا ہے۔
(د) حقہ اور سگریٹ کی وجہ سے آتشزدگی کے حادثات کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔
نقصان سے بچنے کے طریق
الغرض تمباکو کا استعمال ہر جہت سے ضرررسان اور نقصان دِہ ہے اور جس طرح حقہ اور سگریٹ وغیرہ کی صورت میں تمباکو ایک ظاہری دھوآں پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح تمباکو اور زردہ کا استعمال افراد و اقوام کے دین اور اخلاق اور صحت اور اموال کو بھی گویا دھوآں بنا کر اڑاتا جارہا ہے۔ مگر کوئی اس دھوئیں کو دیکھتا نہیں۔ لیکن اب وقت ہے کہ کم از کم احمدی جماعت کے احباب اس نقص کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں جو مندرجہ ذیل صورتوں میں ہوسکتی ہے۔
(۱) جو لوگ حقہ یا سگریٹ یا زردہ یا نسوار وغیرہ کی عادت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان میں سے جو جو لوگ اس مذموم عادت کو ترک کرسکتے ہوں (اور میں نہیں سمجھتا کہ حقیقتاً کوئی ایک فردِ واحد بھی اَیسا ہو جو اسے ترک نہ کرسکتا ہو) وہ اپنے دلوں میں خدا سے ایک پختہ عہد باندھ کر اس عادت کو یکدم یا آہستہ آہستہ جس طرح بھی توفیق ملے ترک کردیں مگر بہتر ہے کہ یکدم ترک کریں کیونکہ آہستہ آہستہ ترک کرنے کے طریق میں سستی کا احتمال ہوتا ہے۔
(۲) جو لوگ اپنے خیال میںکسی وجہ سے اس عادت کو ترک نہ کرسکتے ہوں۔ مثلاً بوڑھے لوگ جن کو پُرانی عادت ہوچکی ہے یا دمہ وغیرہ کے بیمار جنہیں اس کے ترک کرنے سے بیماری کی تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو وہ مندرجہ ذیل دو تجویزیں اختیار کریں:-
(الف) جہاں تک ممکن ہو اس عادت کو کم کرنے کی کوشش کریں اور بہرحال اس کی کثرت سے پرہیز کریں۔
(ب) جب تک اس عادت کے ترک کی توفیق نہیں ملتی کم از کم یہ عہد کریں کہ اپنے بچوں اور دیگر کم عمر عزیزوں کے سامنے تمباکو کے استعمال سے پرہیز کریں گے تاکہ بچوں کو اس کی عادت نہ پڑے نیز ایسے بڑی عمر کے لوگوں کے سامنے بھی تمباکو استعمال نہ کریں جو اس کے عادی نہ ہوں۔
(۳) بچے اور نوجوان جو اس عادت میں مبتلا ہوں۔ وہ اس عادت کو یکدم اور کلی طور پر ترک کردیں کیونکہ انہیں خدا نے طاقت دی ہے اور اس طاقت کا بہترین شکرانہ یہی ہے کہ اس سے نیکی کے رستہ میں فائدہ اٹھایا جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست جن کو ہر معاملہ میں دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہیئے اور جن کے لئے ضروری ہے کہ ہر جہت سے اپنی زندگیوں کو اعلیٰ بنائیں وہ اس سراسر نقصان رسان عادت کے استیصال کی طرف فوری توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔ اور اگر ایسے دوست جو اس تحریک کے نتیجہ میں تمباکو ترک کریں مجھے بھی اپنے ارادہ سے اطلاع دیں تو میں انشاء اللہ ان کے اسماء حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے لئے پیش کروں گا۔ بالآخر ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی تحریروں سے چند حوالہ جات درج کئے جاتے ہیں جن میں تمباکو کے استعمال کو نقصان دہ قرار دے کر اس سے منع کیا گیا ہے۔
ارشاداتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(۱) مورخہ ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا ملخص یہ ہے کہ :-
’’میں نے چندایسے آدمیوں کی شکایت سُنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیزگاری کے پاک اصُول پر قائم نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے بلاتوقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کے لئے ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں۔ حقہ کا ترک اچھا ہے مونہہ سے بو آتی ہے ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک بنایا ہوا شعر پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی بُرائی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘۳؎
(۲) حقہ نوشی کے متعلق ذکرتھافرمایا:-
’’اس کا ترک اچھا ہے یہ ایک بدعت ہے اس کے پینے سے مونہہ سے بو آتی ہے‘‘۴؎
(۳) حدیث میں آیا ہے کہ وہ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکَہُ مَالَا یَعْنِیْہِ ۵؎یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جوچیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑدی جائے اس طرح پر یہ پان حقہ زردہ تمباکو، افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرضِ محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلا قید ہوجائے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جائیںگی۔ یا اگر قید نہ ہو مگر کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہوجاتے ہیں عمدہ صحت کو کِسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضرِ صحت چیزوں کو مفسد ایمان قراردیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔۶؎
ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے سنا اور فرمایا اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نوعمر لڑکے اور نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار یا مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تاوہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں …… فرمایا
’’اصل میں تمباکو ایک دھوآں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ لہذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے۔‘‘۷؎
’’تمباکو کو ہم مسکرات میں داخل کرتے ہیں لیکن یہ ایک لغو فعل ہے اور مومن کی شان ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۸؎ اگر کسی کو کوئی طبیب بطور علاج بتائے توہم منع نہیں کرتے ورنہ یہ لغو اور اسراف کا فعل ہے۔ اور اگر آنحضرت صلی،اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتا تو آپؐ صحابہ کے لئے کبھی پسند نہ فرماتے۔‘‘۹؎
تمباکو کی نسبت فرمایا کہ:-
’’ یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق وفجور کی طرف رغبت ہو مگر تاہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پرہیز کرے۔ مونہہ میں اس سے بدبو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھوآں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوئے۔ ایک لغو اور بے ہودہ حرکت ہے۔ ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کرسکتے اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یونہی مال کو بے جا صرف کرنا ہے عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا‘‘۱۰؎
(۷) ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمباکو پینا مانند سؤر اور شراب کے حرام ہے۔ ہاں ایک لغو امر ہے۔ اس سے مومن کو پرہیز چاہیئے۔ البتہ جو لوگ کسی بیماری کے سبب مجبور ہیں وہ بطور دوا وعلاج کے استعمال کریںتو کوئی حرج نہیں۔۱۱؎
(۸)آپ نے فرمایا:-
’’ تمباکو کے بارہ میں اگرچہ شریعت نے (صراحتاً) کچھ نہیں بتلایا لیکن ہم اسے اس لئے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ اس کے استعمال کو منع فرماتے۔‘‘۱۲؎
(۹)فرمایا ’’انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جبکہ عادت کا چھوڑنا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہوجاتے ہیں۔ میں حقہ کو منع کہتا اور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کوکوئی مجبوری ہو۔ یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیئے۔‘‘۱۳؎
ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ
(۱۰) ’’تمباکو پینا فضول خرچی میں داخل ہے۔ کم از کم آٹھ آنے ماہوار کا تمباکو جو شخص پیئے۔ سال میں چھ روپے اور سولہ سترہ سال میں ایک صد روپے ضائع کرتا ہے۔ ابتداء تمباکو نوشی کی عموماً بُری مجلس سے ہوتی ہے۔‘‘۱۴؎
ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ
(۱) بدبودار چیزیں مثلاً پیاز وغیرہ کھانا یا کھانا کھانے کے بعد مونہہ صاف نہ کرنا اور کھانے کے ریزوں کا مونہہ میں سڑجانا اس قسم کی غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے۔ اس ذیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے۔ حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا ناممکن ہے۔۱۵؎
(۱۲) ایک شخص نے دریافت کیا کہ اگر کسی کے لئے طبیب حقہ بطور دوا تجویز کرے تو کیا کیا جائے۔ حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک دو دفعہ پینے کے لئے کہے توکوئی حرج نہیں اور اگر وہ مستقل طور پر بتلاتا ہے تو یہ کوئی علاج نہیں۔ جو طبیب خود حقہ پیتے ہیں وہی اس قسم کا علاج دوسروں کو بتلایا کرتے ہیں۔ کوئی ایسی بات جس کی انسان کو عادت پڑجائے وہ میرے نزدیک بہت مضر اور بعض دفعہ تقویٰ اور دین کو نقصان دیتی ہے۔۱۶؎
(۱۳) اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حقہ بہت بری چیز ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہیئے۔۱۷؎
(۱۴) ہر قسم کا نشہ بھی بدی ہے۔ اس میں شراب ،افیون، بھنگ ،نسوارچائے حقہ سب چیزیں شامل ہیں۔ ۱۸؎
(۱۵) طلباء کو چاہیئے کہ اپنے اندر دین کی روح پیدا کریں ۔میں نے پہلے ایک بار توجہ دلائی تھی تو اس کا بہت اثر ہوا تھا۔ بعض طلباء جو داڑھیاں منڈاتے تھے انہوں نے رکھ لیں۔ بعض سگریٹ پیتے تھے انہوں نے چھوڑ دیئے۔ اب معلوم ہوا ہے پھر یہ وبائیں پیدا ہورہی ہیں۔ پس میں پھر انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح آپ کریں۔۱۹؎
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴فروری۱۹۳۸ئ)










ہر حال میں سچی شہادت دو
قریباً ہر زمانہ اور ہر قوم میں شہادت کا معاملہ نہایت اہم اور نہایت نازک چلا آیا ہے۔ ایک طرف تو اس کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ افراد اور حکومتوں کے حقوق بیشتر طور پر شہادت کی بناء پر تصفیہ پاتے ہیں اور دوسری طرف اس مسئلہ کو یہ نزاکت حاصِل ہے کہ اکثر لوگ کِسی نہ کِسی غرض یا کِسی نہ کِسی وجہ سے متاثر ہوکر شہادت کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے ہیں اور سچی شہادت کو چھپاکر یا بدل کر معاملہ کو کچھ کی کچھ صورت دے دیتے ہیں۔
شہادت کے متعلق تفصیلی ہدایات
اسی لئے اسلام نے جو دنیا میں صداقت کا سب سے بڑا حامی ہے۔ شہادت کے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو اس نے حکومت کو یہ متنبہ کیا ہے کہ صرف ثقہ اور صادق اورعا دل گواہوں کی شہادت قبول کی جائے اور دوسری طرف شہادت دینے والوں کو اس نے یہ تاکید ی ہدایت دی ہے کہ وہ کِسی صورت میں بھی سچی شہادت پر پردہ نہ ڈالیں بلکہ خواہ ان کی شہادت کا اثر ان کے کِسی قریب ترین عزیز پر پڑتا ہو یا کِسی دوست پر پڑتا ہو یا خود ان کی ذات پر پڑتا ہو وہ بہرحال سچی سچی شہادت دیں اور کسی دُشمن کی دُشمنی کی وجہ سے بھی اپنی شہادت کو حق وصداقت سے منحرف نہ ہونے دیں۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱۔ وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَآئُ اِذَا مَادُعُوْا ۲۰؎
ترجمہ :یعنی جن گواہوں کو شہادت کے لئے بلایا جائے انہیں انکار کا حق نہیں ہے بلکہ بلانے پر بلاتامل حاضِر ہونا چاہیئے۔
۲۔ وَلَا تَکْتُمُواالشَّھَادَۃَ وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہ.6ُ۔۲۱؎
ترجمہ:یعنی اے مُسلمانو! تم کِسی صورت میں بھی گواہی کو چھپایا نہ کرو اور جو شخص سچی گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہگار ہوجائے گا۔ جس سے سارے جسم میں گناہ کا زہر پھیل جائے گا کیونکہ دل سے ہی سارے جسم میں خون پہونچتا ہے۔
۳۔ یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّّٰٰہِ وَلَوْعَلیٰٓ اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَ قْرَبِیْنَ ۔۲۲؎
ترجمہ:یعنی اے مومنو! تم دُنیا میں عدل وانصاف کے قائم کرنے کے درپے رہو۔ اور خدا کی خاطر ہمیشہ سچی شہادت دیا کرو خواہ تمہیں خود اپنے نفس کے خلاف شہادت دینی پڑے یا اپنے والدین کے خلاف دینی پڑے یا دوسرے عزیزوں اور دوستوں کے خلاف دینی پڑے۔
۴۔ وَالَّذِیْنَ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ ۔۲۳؎
ترجمہ:یعنی سچے مومن وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
۵۔ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاِعْدِلُوْاھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ ۲۴؎
ترجمہ:یعنی اے مسلمانو ! چاہیئے کہ تمہیں کسی فریق کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہیئے کہ ہر حال میں عدل وانصاف سے کام لو کیونکہ یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔
شہادت کو خراب کرنے والی باتیں
غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں شہادت کو خراب کرنے والی چار باتیں ہیں:
اوّل :بے جا محبت
دوم :بے جا عداوت
سوم: بے جا لالچ
چہارم: بے جا ڈر
یعنی کبھی تو انسان کسی عزیز یا دوست کی بے جامحبت کی وجہ سے اپنی شہادت کو بدل دیتا ہے اور کبھی کِسی دُشمن کی بے جا عداوت سے متاثر ہوکر اپنی شہادت میں جھوٹ کو راہ دے دیتا ہے اور کبھی کِسی لالچ کے اثر کے نیچے آکر حق کو چھپانے کا طریق اختیار کرتا ہے اور کبھی کسی کے ڈر کی وجہ سے صداقت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ان چار موجبات کے علاوہ دُنیا میں شہادت کو خراب کرنے کا اور کوئی باعث نہیں ہے۔ یعنی شہادت کے معاملہ میں سارا فساد انہی چار جذبات کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً زید اپنے ایک دوست یا عزیز کے مقدمہ میں بطور گواہ بلایا جاتا ہے اور عدالت کے سامنے جاکر اس دوست یا عزیز کی محبت کی وجہ سے جھوٹی گواہی دے آتا ہے یا بکر اپنے کسی دشمن کے مقدمہ میں عدالت کی طرف سے یا فریقِ مخالف کی طرف سے یا بعض اوقات خود دشمن کی طرف سے بطور گواہ بلایا جاتا ہے اور وہ دُشمن کو نقصان پہونچانے کے لئے محض عداوت کے طور پر حق کو چھپا کر کُچھ کا کُچھ کہہ آتا ہے یا عمر کو خود اپنا ایک مقدمہ درپیش ہے اور اس مقدمہ میں اس کی اپنی گواہی ہوتی ہے اور وہ اپنے مفاد کو محفوظ کرنے کے لئے محض لالچ کے طور پر حق پر پردہ ڈال دیتا ہے یا خالد کسی دوسرے کے مقدمہ میں بطور گواہ کے پیش ہوتا ہے اور وہ محض اس لئے کہ میرے کسی افسر کی طرف سے مجھے نقصان نہ پہونچے یا کوئی بڑا شخص مجھ سے ناراض نہ ہوجائے جھوٹ بول کر صداقت کو چھپا دیتا ہے۔
مکروہ قسم کا جھوٹ
یہ سارے نظارے ہر روز سینکڑوں ہزاروں بلکہ شائد لاکھوں کی تعداد میں ملک کی عدالتوں میں پیش آتے ہیں اور اس مکروہ قسم کے جھوٹ میں کم وبیش ملک کا ہر طبقہ ملوث نظر آتا ہے۔ زمیندار، تاجر، قارض، مقروض، افسر، ماتحت، شہری، دیہاتی، امیر ،غریب، جاہل، تعلیم یافتہ، پیشہ ور ملازم حتیٰ کہ دنیاداراور بظاہر دین دار سمجھے جانے والے سب کے سب اِلَّامَاشَآئَ اللّٰہُ اس گندمیں مبتلا ہیں۔ اور مسلمان جنہیں اس معاملہ میں سب سے زیادہ واضح اور سب سے زیادہ تاکیدی تعلیم دی گئی تھی وہ بھی دوسروں کی طرح اس مرض کا شکار ہورہے ہیں بلکہ شائد ان سے بھی بڑھ کر کیونکہ جب ایک سچا آدمی صداقت کو چھوڑتا ہے تو وہ عموماً دوسروں سے بھی ایک قدم آگے نکل جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے اس گند سے بہت حد تک بچی ہوئی ہے اور اس میں بیشمار ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے اپنا یا اپنے عزیزوں کا نقصان کرکے دشمنوں کے حق میں سچی گواہی دی ہے اور افسروں یا بااثر لوگوں کی ناراضگی کی قطعاً پروا نہیں کی مگر بدقسمتی سے شاذ کے طور پر بعض مثالیں ان میں بھی ایسی پیدا ہورہی ہیں کہ کسی کی محبت یا عداوت کی وجہ سے حق پر پردہ ڈال دیاجاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گواہ اپنی طرف سے سچ کہہ رہا ہوتا ہے مگر واقع میں اس کا بیان غلط ہوتا ہے لیکن وہ اپنے غفلت کے پردہ میں اپنی غلطی کو سمجھتا نہیں مگر غور کیا جائے تو اس کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں اس نے اپنے آپ کو چوکس رکھ کر جھوٹی گواہی سے نہیں بچایا۔ یا بعض اوقات یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ صرف جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ حق کو چھپانا یا ذومعنیین قسم کے الفاظ کہہ کر صداقت پر پردہ ڈال دینا گناہ نہیں ہے لیکن یہ ایک خطرناک دھوکا ہے کیونکہ اسلامی تعلیم کی روسے شہادت میں حق کو چھپانا بھی ویسا ہی جرم ہے جیسا کہ جھوٹ بولنا۔
احتیاط سے کام لینا چاہیئے
پس ہمارے دوستوں کو اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہر ایسے موقع پر استغفار کرتے ہوئے عدالت کے سامنے کھڑے ہونا چاہیئے تاکہ کوئی جذبۂ محبت یا عداوت یا لالچ یا ڈر انہیں صداقت کے رستہ سے منحرف نہ کرسکے۔ بے شک وہ دشمن جس نے ہر حال میں عداوت کی ٹھانی ہوئی ہو، ہم پر پھر بھی اعتراض کرے گا مگر ہم خدا کے روبرو ضرور سرخرو ہوں گے۔
مصری صاحب کا اعتراض
مجھے یاد ہے کہ جب کچھ عرصہ ہوا میں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ایک مقدمہ میں عدالت کے بلانے پر بطور گواہ پیش ہوا تو میں یہ دعا کرتا ہوا اندر گیا تھا کہ خدایا مصری صاحب اس وقت ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں تو مجھے توفیق عطا کر کہ اُن کے متعلق بھی میرے مونہہ سے سوائے کلمہ حق کے اور کچھ نہ نکلے اور میری شہادت میں کوئی بات صداقت کے خلاف یا اُسے چھپانے والی نہ ہو۔ اور میں اس وقت دل میں بار بار یہ آیت پڑھ رہا تھا کہ لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۲۵؎ مگر باوجود اس کے میں سنتا ہوں کہ مصری صاحب نے میری گواہی کے متعلق کسی مجلس میں یہ کہا ہے کہ گو اس نے اکثر باتوں میں سچ بولا ہے مگر بعض جھوٹی باتیں بھی کہہ گیا ہے۔ میں ان کے اعتراض کو تو حوالۂ باخدا کرتا ہوں مگر بہرحال میں جماعت کے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ شہادت کے معاملہ میں اپنے معیار صداقت کو بلند کرکے عین اسلامی تعلیم کے منشاء کے مطابق بنائیں اور ہمیشہ دوستی دشمنی کے جذبات سے بالکل الگ ہوکر سچی سچی گواہی دیا کریں۔
کسی کے حق میں ظالم نہ بنو
مگر اس جگہ ایک احتیاط کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے۔ بعض اوقات بعض لوگ شہادت کے معاملہ میں حد سے زیادہ احتیاط کا طریق اختیار کرتے ہوئے اس قدر حساس ہوجاتے ہیں کہ وہ اس بات کے شوق میں کہ دشمن کے حق میں بھی بالکل سچی بات کہنی ہے بعض اوقات نادانستہ طور پر دوست کے حق میں ظلم کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور دشمن کو بچاتے ہوئے نادانستہ طور پر دوست کے خلاف جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ مومن کو چاہیئے کہ اپنے کلام کے ترازو کو عین صداقت کے نکتہ پر قائم رکھے۔ یعنی نہ تو دشمن کے حق میں ظالم بنے اورنہ دوست کے حق میں۔ بلکہ دوست کے حق میں ظالم بننا دوہرا گناہ ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ صداقت کے شوق میں بعض لوگ بلا پوچھے ایک لاتعلق بات بیان کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی اعصابی کمزوری یا باتونی پن کا ایک نتیجہ ہے اور بسا اوقات فتنہ کا باعث ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں یہ حکم نہیں دیتا کہ تم افسر یا عدالت کے سامنے بغیر سوال کے لاتعلق قصے شروع کردو بلکہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ جو بات پوچھی جائے وہ اس حد تک کہ جس حد تک پوچھی گئی ہے بلا کم وکاست سچ سچ بیان کر دی جائے اور غلط بیانی اور ناواجب پردہ داری سے بچا جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست جن کو ہر بات میں اعلیٰ ترین نمونہ قائم کرنا چاہیئے، اپنی گواہیوں میں اسلامی معیار کے مطابق پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ خصوصا زمینداروں کو شہادت کے معاملہ میں بڑی اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اکثر اوقات محبت و عداوت کے جذبات میں بہہ کر دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کے حامی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ وناصر ہو اور ہمیں اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳مارچ ۱۹۳۸ئ)







ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی
احباب کو ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ خبر مل چکی ہے کہ ہماری پھوپھی عمر بی بی صاحبہ جو محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں۔ ۳۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو زائد از نوے سال کی عمر میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ مین دفن ہوچکی ہیں۔ مرحومہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کی لڑکی تھیں مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے عقد میں آئی تھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے مطابق ۱۸۹۲ء میں مرزا احمد بیگ کی وفات ہوئی تو اس وقت سے وہ بیوہ چلی آتی تھیں اور انہو ں نے اپنی آخری عمر قادیان میں گذاری تھی۔ خاوند کی زندگی میں تو وہ سلسلہ کی مخالف تھیں اور اس کے بعد بھی کئی سال تک عملاً مخالف رہیں لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں یعنی غالباً ۱۹۲۱ء میں انہوں نے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اور اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں جب کہ ہماری تائی صاحبہ مرحومہ فوت ہوئیں (ہماری تائی صاحبہ اور پھوپھی صاحبہ حقیقی بہنیں تھیں) تو پھوپھی صاحبہ مرحومہ نے بڑی خواہش اور اصرار کے ساتھ وصیت کردی جو ان کے کہنے پر میں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی تھی۔ اور الحمد للہ کہ پھوپھی صاحبہ اب بہشتی مقبرہ میں پہنچ چکی ہیں۔ جو ایک احمدی مومن اور مومنہ کے لئے بہترین انجام ہے۔
مرحومہ کو میرے ساتھ خاص تعلق تھا۔ اگر مجھے ان کے پاس جانے میں کبھی زیادہ دیر ہو جاتی تو وہ خود کِسی کو کہہ کر مجھے بلوالیا کرتی تھیں اور میرے ساتھ ہمیشہ بزرگانہ بے تکلفی سے گفتگو فرمایا کرتی تھیں۔ میں بھی انہیں علاوہ رشتہ میں بزرگ ہونے کے اس وجہ سے بھی خاص عزت اور محبت کی نظر سے دیکھتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام والی نسل کی آخری یادگار تھے بلکہ آپ کی ایک مشہور پیشگوئی کے رحمت والے حصہ کی نشانی بھی تھیں۔ دراصل محمدی بیگم صاحبہ والی پیشگوئی کے دو حصے تھے۔ ایک تو غضب الٰہی کا حصہ تھا اور دوسرا خدا کی رحمت کا حصہ تھا اور مجھے ہمیشہ اِس خیال سے خوشی ہوتی تھی اور ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے آخری وقت میں آکر ہماری پھوپھی صاحبہ کو رحمت والے حصہ کے لیئے الگ کرلیا تھا ورنہ پیشگوئی کے وقت ان کا قدم دوسرے رستہ پر تھا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
اگر ہمارے مخالفین انصاف کی نظر سے دیکھیں تو پھوپھی صاحبہ کا احمدی ہونابھی پیشگوئی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ درحقیقت اگر غور سے دیکھا جائے اور اس تعلق میں جملہ الہامات اور دوسرے الہامات کو بنظرِ غور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اس پیشگوئی کا مرکزی نقطہ محمدی بیگم صاحبہ کی شادی نہیں تھی بلکہ خاندان کے بے دین اعزّہ کو ایک رحمت یا غضب کا نشان دکھانا اصل مقصد تھا۔ یعنی ان کے سامنے خدا تعالیٰ نے یہ بات پیش کی تھی کہ اگر بے دینی کو ترک کرکے میرے بھیجے ہوئے مسیح کے ساتھ حقیقی تعلق جوڑو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں بھی علیٰ قدر مراتب ان رحمتوں میں سے حصہ دے گا جو اس نے اپنے مسیح کی آل واولاد اور متعلقین کے لئے مقدر کررکھی ہیں۔ لیکن اگر تم بدستور بے دینی پر قائم رہے اور خدا کے مامور ومرسل کے ساتھ حقیقی رشتہ نہ جوڑا تو پھر تم بالآخر خدا کے غضب کا نشانہ بنو گے۔ محمدی بیگم صاحبہ کی شادی اس وقت کے حالات کے ماتحت اس تعلق کی صرف ایک ظاہری نشانی تھی۔ جس طرح کہ حضرت صالح علیہ السلام کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک طرف اپنے فضل ورحمت اور دوسری طرف اپنے غضب ولعنت کے دوہرے نشان کے لئے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ایک ظاہری نشان قرار دے دیا تھا۲۶؎۔ مگر نادان لوگ ظاہری بات کو لے کر جو محض ایک وقتی رنگ رکھتی ہے۔ اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
بہرحال جہاںتک میں نے اس پیشگوئی کے متعلق غور کیا ہے، میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس پیشگوئی میں محمدی بیگم صاحبہ کی شادی اصل مقصود نہیں تھی۔ بلکہ پیشگوئی کی حقیقی غرض وغایت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ داروں کو ایک ایسا نشان دکھایا جائے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہو۔ ایک پہلو رحمت کاجو آپ کو ماننے والوں اور آپ کے ساتھ تعلق جوڑنے والوں کے لئے خاص ہو اور دوسرا غضب کا، جو انکار کرنے والوں اور الگ رہنے والوں کے لیئے مخصوص ہو۔ سو خدا تعالیٰ نے اپنا یہ دودھاری نشان دکھادیا اور دکھا رہا ہے اور اس وقت تک دکھاتا جائے گا جب تک کہ یہ میدان اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز پیدا کردینے کے رنگ میں صاف نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس وقت تک اس خاندان میں سے ایک بہت بڑی تعداد خدا تعالیٰ کی مخفی تاروں کے ذریعہ کھنچی جاکر خداتعالیٰ کی رحمت سے علی قدر مراتب حصہ پاچکی ہے اور کچھ لوگ جو انکار پر فوت ہوئے ہیں وہ پیشگوئی کے دوسرے پہلو کے مظہر ہیں اور ان کے انجام کی تلخی دنیا کے سامنے ہے۔ جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ باقی ایک تیسرا گروہ ہے جو ابھی تک ہم سے جدا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ ہنوز بقید حیات ہیں اس لئے ہم ان کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں اور ہماری خواہش ہے اور ہم اسی کوشش میں ہیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث بن جائیں لَعَلَّ اللّٰہَ یُحَدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْراً۲۷؎۔ اس خاندان کے جن افراد کو اس وقت تک پیشگوئی کے بعد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق مل چکی ہے ان کے اسماء یہ ہیں:-
(۱) ہماری پھوپھی عمر بی بی صاحبہ والدہ محمدی بیگم صاحبہ (۲) ہماری تائی حرمت بی بی صاحبہ خالہ محمدی بیگم صاحبہ (۳) محمودہ بیگم صاحبہ مرحومہ ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ (۴) عنایت بیگم صاحبہ ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ (۵) مرزا گل محمد صاحب ماموں زاد برادر محمدی بیگم صاحبہ (۶) خورشید بیگم صاحبہ ماموں زاد ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ(۷)مرزا ارشد بیگ صاحب مرحوم بہنوئی محمدی بیگم صاحبہ(۸)مرزا سحاق بیگ صاحب فرزند محمدی بیگم صاحبہ(۹)حفیظ بیگم دخترمحمدی بیگم صاحبہ(۱۰) مرزا عبدالسلام بیگ صاحب دختر زادہ محمدی بیگم صاحبہ (۱۱) مرزا محمود بیگ صاحب برادرزادہ محمدی بیگم صاحبہ(۱۲) مرزا اجمل بیگ صاحب ہمشیرہ زادہ محمدی بیگم صاحبہ (۱۳) مرزا امجد بیگ صاحب ہمشیرہ زادہ محمدی بیگم صاحبہ (۱۴)مرزا احسن بیگ صاحب خالہ زادہ محمدی بیگم صاحبہ (۱۵) مرزا ضیاء اللہ بیگ صاحب داماد محمدی بیگم صاحبہ۔ یہ پندرہ نام میں نے صرف ان اشخاص کے لکھے ہیں جو محمدی بیگم صاحبہ کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے ہیں۔ اگر ان کے علاوہ دوسرے عزیزبھی جو اس خاندان سے دور نزدیک کا تعلق رکھتے ہیں شامل کرلئے جائیں تو پھر تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اور نابالغ بچے اور لواحقین ان کے علاوہ ہیں۔
اب کیا ہمارے مخالفین کے لئے یہ سب لوگ اور ان کے مقابل پر غضب کے پہلو سے حصہ پانے والے لوگ اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو خداتعالیٰ نے اس میدان میں حقیقی فتح عطا فرمائی ہے اور پیشگوئی کی غرض رحمت وغضب ہر دو پہلوئوں میں پوری ہوگئی ہے۔
باقی رہا محمدی بیگم صاحبہ کی شادی کا سوال۔ سو ہم کہتے ہیں کہ اول تو وہ خود بالذات مقصود نہیں تھی بلکہ محض ایک ظاہری اور وقتی علامت کے طورپر تھی اور اگر وہ مقصود تھی بھی تو قرآنی اصُول: -
مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا۲۸؎
کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خود اپنی زندگی میں یہ فرمادیا تھا کہ وہ منسوخ ہوگئی ہے ۲۹؎۔اور اسی حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ بھی اشارہ فرمادیا تھا کہ شاید یہ الہام کسی دوسرے وقت میں کسی دوسری صورت میں پورا ہو اور میں اپنے ذوق کے لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی خود محمدی بیگم صاحبہ کو بھی حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا کردے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا یہ الہام اپنی ظاہری صورت میں بھی پورا ہوجائے کہ نردّھا الیک۳۰؎ یعنی ہم اسے بالآخر تیری طرف لوٹا دیں گے کیونکہ ظاہرہے کہ محض رشتہ کی صورت میں لوٹانے سے احمدیت کے حلقہ بگوشوں میں داخل کرکے لوٹانا اپنے اندر بہت زیادہ شان رکھتا ہے۔ اور یہ جوڑشادی بیاہ کے جوڑ سے بھی بہت زیادہ پختہ جوڑ ہے مگر یہ آئندہ کی باتیں ہیں جن کی حقیقت اپنے وقت پرہی کُھلا کرتی ہے۔ ولا علم لنا الاما علمنا اللّٰہ و نرضی بما یرضی بہٖ علیہ توکلنا والیہ ننیب۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۱مارچ۱۹۳۸ئ)










موجودہ برقعہ اور اسلامی پردہ
افراط وتفریط
اسلام نے جو تعلیم پردہ کے متعلق دی ہے۔ اس کی تشریح اور تفصیل بڑی صراحت کے ساتھ ہمارے لڑیچر میں آچکی ہے جس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں۔ صرف خلاصۃً اس قدر اشارہ کافی ہے کہ جیسا کہ دوسرے امور میں اسلام کا قاعدہ ہے اس نے پردہ کے معاملہ میں بھی ایک نہائت اعلیٰ وسطی تعلیم دی ہے جس میں ایک طرف تو عورت کی جائز آزادی اور اس کی صحت وغیرہ کے طبعی تقاضے کو پورا کیا گیا ہے اور دوسری طرف ناواجب آزادی اور زینت کے برملا اظہار اور مردوعورت کے آزادنہ خلاملا کے نتیجہ میں جو خطرات پیدا ہوسکتے ہیں ان کے انسداد کے لئے بھی مناسب تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ اس اسلامی تعلیم کے پیش نظر جس طرح آج سے کچھ عرصہ قبل کا پردہ جو ہندوستان کے اکثر مسلمان خاندانوں میں رائج تھا۔ وہ بوجہ زیادہ سخت ہونے کے افراط کی طرف مائل تھا۔ اسی طرح نئی روشنی کی بے پردگی جس میں اسلامی پردہ کی قیود کو بالکل ہی توڑ دیا گیا ہے، سراسر تفریط کی طرف مائل ہے بلکہ اس کے لئے تو تفریط کا لفظ استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلامی تعلیم کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
اصلاحی تغیر میں ایک خطرہ
احمدیت کی غرض وغائت چونکہ دنیا کو صحیح اسلامی تعلیم پر قائم کرنا ہے۔ اس لئے دوسری بے شمار اصلاحوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رائج الوقت پردہ کے متعلق بھی اصلاح فرمائی اور افراط وتفریط کی راہوں سے بچا کر احمدی مستورات کو صحیح اسلامی پردہ پر قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے نادان لوگ جو رائج الوقت طریق کو ہی صحیح اسلامی طریق سمجھنے لگ جاتے ہیں اور گہرے مطالعہ کے عادی نہیں ہوتے، وہ پردہ کے معاملہ میں احمدی مستورات کی نسبتی آزادی کو خلاف اسلام قرار دے کر اعتراض کرنے لگے اور یہ اعتراضات اپنوں اور بیگانوں دونوں کی طرف سے ہوئے۔ ان اعتراضوں کی تو ہمیں پروا نہیں ہے کیونکہ جو قوم دنیا میں اصلاح کے لئے اٹھتی ہے اسے اس قسم کے اعتراضوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے مگر اس اصلاحی تغیر میں ایک خطرہ بھی پیداہورہا ہے۔ جس کا انسداد ضروری ہے اور میرا یہ مختصر نوٹ اسی خطرہ کے ایک پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔
وہ خطرہ یہ ہے کہ اس اصلاحی قدم کے نتیجہ میں احمدی مستورات کا ایک قلیل حصہ اس عام قاعدہ کے ماتحت کہ انسان ایک انتہا سے ہٹ کر دوسری انتہا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ پردہ کے معاملہ میں کسی قدر ناواجب آزادی کی طرف جھک رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس میلان کو نئی روشنی کی بے پردگی کی زبردست رَونے اور بھی تقویت دے دی ہے۔اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جماعت کا سمجھدار طبقہ اس نقص کی فوری اصلاح کی طرف توجہ دے تاکہ ایسا نہ ہو کہ جماعت کا کوئی حصہ ایک کم خطرہ والے افراط سے نکل کر ایک زیادہ خطرناک تفریط کے گڑھے میں جاگرے۔
اصل اسلامی پردہ
اصل اسلامی پردے کا خلاصہ تین باتوں میں آجاتا ہے۔
اول: غیر محرم مردوں کے سامنے عورت اپنے بدن اور لباس وغیرہ کی زینت کو چھپا کر رکھے۔ سوائے ایسے حصوں کے جن کا چھپانا عملاً ناممکن ہو اور زینت کے مفہوم میں قدرتی اور مصنوعی زینت ہر دو داخل ہیں۔
دوم :غیر محرم مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف نظر نہ اٹھائیں بلکہ جب بھی ایک دوسرے کے سامنے ہوںتو اپنی نظروں کو نیچا رکھیں۔
سوم :غیرمحرم مرد وعورت ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میںاکیلے ملاقات نہ کریں۔
اسلامی پردہ اور احمدی مستورات
ان تین اصولی حدبندیوں کے سوا اسلام پردہ کے متعلق کوئی حد بندی نہیں لگاتا اور ایک مسلمان عورت ان ہرسہ حدبندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر قسم کے جائز کاروبار اور جائز سیروسیاحت اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جائز اختلاط میں حصہ لے سکتی ہے اور یہ ایک بہت ہی شکر کا مقام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی لائی ہوئی تعلیم کے ماتحت احمدی مستورات ان ہر سہ پابندیوں کو بالعموم خوب اچھی طرح سمجھتی اور ان پر دلی شوق کے ساتھ عمل کرتی ہیں اور ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے فضل سے ہم اس معاملہ میں دوسروں کے لئے ایک صحیح اسلامی نمونہ ہیں۔ یعنی ہماری مستورات نہ تو پرانی طرز کے قیدیوں والے پردہ کی پابند ہیں کہ انہیں اپنی چاردیواری سے باہر کی ہوا تک نہ لگے اور ڈولی وغیرہ کے سوا گھر سے باہر قدم رکھنا حرام ہو اور نہ ہی انہوں نے پردہ کی اسلامی حدود کو توڑ کر نئی روشنی کی بے پردگی کو اختیار کیا ہے لیکن بایں ہمہ ابھی تک ہماری جماعت میں بھی بعض طبقوں میں بعض باتوں کے متعلق کسی قدر اصلاح کی ضرورت ہے۔ جس کی طرف ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو خاص توجہ دینی چاہیئے۔ ان باتوں میں سے میں اس نوٹ میں صرف برقعہ کا ذکر کرنا چاہتاہوں۔
برقعہ اور اسلامی پردہ
برقعہ کے متعلق سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیئے کہ برقعہ قطعاً اسلامی پردہ کا حصہ نہیں ہے اور اگر کوئی عورت برقعہ کو ترک کرکے صرف ایک عام چاردر کے استعمال پر کفائت کرے تو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے اس پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی غرض صرف یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کو (یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ زینت میں بدن اور لباس ہر دو کی زینت شامل ہے اور اسی طرح قدرتی اور مصنوعی زینت ہر دو زینت کے مفہوم میں داخل ہیں) غیر محرموں سے چھپائے خواہ یہ چھپانا چادر کے ذریعہ ہو یا کسی اور مناسب ذریعہ سے بلکہ حق یہ ہے کہ برقعہ بہت بعد کی ایجاد ہے۔ جس زمانہ میں اسلامی تعلیم نازل ہوئی تھی اس زمانہ میں صرف چادر کا طریق رائج تھا اور مسلمان عورتیں چادر ہی کے ذریعہ اپنی زینت کو چھپایا کرتی تھیں۔ پس جب خود برقعہ ہی اسلامی پردہ کا حصہ نہ ہو ا تو یہ سوال کہ برقعہ کیسا ہو اور کیسا نہ ہو۔ اسے جہاں تک محض نفسِ برقعہ کا سوال ہے اسلامی تعلیم سے قطعاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اگر ایک برقعہ اسلامی تعلیم کے منشاء کے مطابق عورت کی زینت کو چھپاتا ہے تو خواہ اس کی ساخت کیسی ہو وہ ایک بالکل جائز چیز ہوگا جس پر کسی شخص کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح برقعہ کے کپڑے اور اس کے رنگ کا سوال بھی ایک ایسا سوال ہے جس میں اسلام قطعاً کوئی دخل نہیں دیتا۔
پس جو لوگ محض برقعہ کے وجود پر یا اس کی ساخت پر یا اس کے رنگ پر اعتراض کرتے اور انہیں خلاف اسلام قراردیتے ہیں، وہ یقینی طور پر غلطی خوردہ ہیں۔ جن کی رائے کی تائید میں کوئی صحیح سند نہیں مل سکتی اور ہمارے احباب کو اس قسم کے فضول اور تنگ نظری کے اعتراضوں سے بچنا چاہیئے۔
خود برقعہ باعثِ زینت نہ ہو
البتہ ایک بات ہے جو اس زمانہ کے بعض برقعوں کو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے حدِ اعتراض کے اندر لے آتی ہے اور وہ کسی برقعہ کاخود باعثِ زینت ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ برقعہ کی غرض وغائت عورت کے بدن اور لباس کی قدرتی اور مصنوعی زینت کو چھپانا ہے۔ پس اگر کوئی عورت ایسا برقعہ استعمال کرتی ہے جو اپنی ساخت یا کپڑے کی بناوٹ یا کپڑے کے رنگ وغیرہ کی وجہ سے خود موجبِ زینت ہے تو وہ یقینا ایک خلافِ اسلام فعل کی مرتکب ہوتی ہے۔ جس سے اس کو پرہیز لازم ہے مگر بدقسمتی سے اس زمانہ میں بعض حلقوں میں ایسے برقعے رائج ہورہے ہیں جو یقینا قابل اعتراض حد کے اندر آتے ہیں۔ یعنی کوئی برقعہ تو اپنی ساخت کے لحاظ سے اور کوئی برقعہ اپنے کپڑے کی بناوٹ کے لحاظ سے اور کوئی برقعہ اپنے رنگ کی شوخی کے لحاظ سے قابِل اعتراض ہوجاتا ہے اور اس طرح جو چیز زینت کو چھپانے کے لئے مقرر کی گئی ہے وہ خود زینت کا باعث بن جاتی ہے۔
یہ میلان ابتداء میں ان غیراحمدی مستورات میں شروع ہوا جو ایک طرف تو اپنے واسطے پردہ کی حدود سے آزادی چاہتی تھیں اور دوسری طرف ظاہر داری کے طور پر اسلام کا نام بھی رکھنا چاہتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے لئے گویا ایک بین بین کی صورت تجویز کرلی تاکہ پردہ بھی رہے اور زینت کا اظہار بھی ہوجائے اور پھر ان مستورات کے اثر کے ماتحت بعض احمدی مستورات میں بھی یہ مرض پہونچ گیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا برقعہ جو خود زینت کا باعث ہو قطعاً اسلامی پردہ کے مفہوم کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کے سراسر خلاف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عورت ایک خوبصورت قمیص زیب بدن کرے اور پھر اس قمیص کی خوبصورتی کو چھپانے کے لئے اس کے اوپر ایک اور خوبصورت قمیص پہن لے۔ بہرحال اس قسم کا زیبائشی برقعہ قطعاً اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور ہماری مستورات کو اس قسم کے برقعوں سے بالکل اجتناب کرنا چاہیئے۔ ہم ان کے برقعوں کی ساخت اور کپڑے اور رنگ میں دخل نہیں دیتے لیکن اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے کہ برقعہ جو زینت کے چھپانے کے لئے مقرر ہے وہ خود زینت کا باعث بن جائے کیونکہ ایسا طریق اسلامی تعلیم کے صریح خلاف ہے اور مزید برآں اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ برقعہ کے اندر بھی عورتوں کی ایک حد تک شناخت ہوجاتی ہے اور گو افراد کا پتہ نہ چلے مگر اس حد تک پتہ چل جاتا ہے کہ یہ عورت کس طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حالانکہ ایسا علم بعض حالات میں فتنہ اور شرارت کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔
اسی اصول کے ماتحت گزشتہ ایام میں نظارت تعلیم وتربیت کی تحریک پر لجنہ اماء اللہ قادیان نے یہ قانون بنایا تھا کہ آئندہ لجنہ کی کوئی ممبر سفید اور سیاہ رنگ کے سوا کِسی قسم کا برقعہ استعمال نہ کرے اور ان دو رنگوں میں بھی یہ شرط ملحوظ رہے کہ برقعہ کا کپڑا اپنی بناوٹ وغیرہ کے لحاظ سے اپنے اندر کِسی قسم کی سجاوٹ نہ رکھتا ہو بلکہ بالکل سادہ ہو جس کی غرض محض زینت چھپانا ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ لجنہ نے یہ قانون پاس کرکے پھر اس کی سختی کے ساتھ نگرانی نہیں کی۔ چنانچہ ابھی تک بعض مثالیں اس کے خلاف پائی جاتی ہیں مگر اس جگہ میری غرض لجنہ کی کسی غلطی کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت میں بلا استثنا لجنہ ہو یا غیر لجنہ قادیان ہو یا غیر قادیان، یہ طریق مدنظر رہنا چاہیئے کہ کِسی احمدی عورت کا برقعہ ایسا نہ ہو جو کسی جہت سے بھی زینت کو چھپانے کی بجائے خود زینت کا موجب سمجھا جائے۔ بے شک اگر ایک عورت میل خورہ ہونے کی وجہ سے سیاہ رنگ کو زیادہ پسند کرتی ہے تو وہ سیاہ رنگ کا برقعہ استعمال کرے لیکن برقعہ خواہ سفید ہو یا سیاہ کِسی صورت میں اس کی ساخت اور کپڑا اور رنگ باعثِ زینت نہیں ہونے چاہیں۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ ایک برقعہ ہے تو سفید یا سیاہ رنگ کا مگر اس کے کپڑے میں بیل بوٹوں اور پھولوں وغیرہ سے سجاوٹ کی گئی ہے یا کوئی سجاوٹ نہیں ہے مگر ویسے اس کا رنگ ہی ایسا شوخ اور چمکدار ہے کہ وہ زینت کا باعث سمجھا جاسکتا ہے اور لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو وہ باوجود محض سفید یا سیاہ ہونے کے قابِل اعتراض ہوگا کیونکہ وہ بجائے زینت کو چھپانے کے خود زینت کا باعث ہے اور اس کا استعمال اس غرض کو پورا نہیں کرتا جو چادر یا برقعہ کے استعمال میں اسلام نے مقرر کی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اسلام نے چادر اور برقعہ کی بناوٹ یا تفاصیل میں تو بے شک دخل نہیں دیا مگر بہرحال اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ ایسے ہونے چاہئیں جو پردہ کی شرائط کو پورا کرنے والے ہوں۔ پردہ کی اسلامی شرائط کی روشنی میں میں سمجھتا ہوں کہ ایک برقعہ میں مندرجہ ذیل باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔
برقعہ کیسا ہونا چاہیئے
(۱) برقعہ کی ساخت خواہ ویسے کِسی قسم کی ہو مگر بہرحال وہ ایسی ہونی چاہیئے کہ برقعہ اسلامی پردہ کی غرض وغایت کے ماتحت عورت کے بدن اور لباس کی زینت کو چھپانے والا ہو اور بدن یا لباس کا کوئی حصہ جو چھپانے کے قابل ہے وہ ننگا نہ رہے۔ نیز برقعہ ایسا تنگ بھی نہ ہو کہ اس کی تنگی کے باعث عورت کے بدن کی ساخت ظاہر ہونے لگے۔
(۲) برقعہ کا کپڑا ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ جو خود زینت کا موجب ہو۔ مثلاً پھول دار کپڑا یا شوخ چمکدار رنگ کا کپڑا ناجائز سمجھے جائیں گے۔
(۳) برقعہ کِسی رنگ کا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ سیاہ اور سفید کے سوا باقی رنگوں میں بالعموم کِسی نہ کِسی جہت سے زینت کا دخل آجاتا ہے۔ اس لئے حتی الوسع صرف انہی دورنگوں پر اکتفا کرنی چاہیئے لیکن اگر کوئی اور رنگ ایسا ہو جس میں کسی جہت سے زیبائش اور خوبصورتی کا دخل نہ سمجھا جائے تو اس میں ہرج نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ انہی دو رنگوں پر اکتفا کی جائے تاکہ ٹھوکر کا امکان نہ رہے۔
(۴) کِسی اور جہت سے بھی برقعہ زینت کا موجب نہیں ہونا چاہیئے۔
اگر ہماری بہنیں برقعہ کے متعلق ان چار شرائط کو ملحوظ رکھیں اور ہمارے بھائی اپنی مستورات سے ان شرائط کی پابندی کرائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک برقعہ کا تعلق ہے ہم صحیح اسلامی پردہ پر قائم ہوجاتے ہیں اور کسی شخص کو ہمارے خلاف اعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔
میں امید کرتا ہوں کہ قادیان اور بیرونجات کی لجنات بھی اپنے اپنے حلقہ میں ان شرائط کی پابندی کروانے کی طرف توجہ دیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔ اور ہربات میں اپنی رضا کے رستہ پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
پردہ کے دوسرے پہلوئوں کے متعلق انشاء اللہ کِسی اور فرصت میں عرض کروں گا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵مارچ۱۹۳۸ئ)







اپنے بچوں کو تخت گاہِ رسول کی برکات سے محروم نہ کریں
مرکزی مدارس میں بچوں کو داخل کرنے کی اپیل
احباب نے ’’الفضل‘‘ میں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکوئی قادیان کے نتائج دیکھ لئے ہوں گے جیسا کہ ان ہر دو مدارس کے ہیڈ ماسٹر صاحبان نے اعلان کیا ہے۔ نیا تعلیمی سال چند دن میں شروع ہونے والا ہے اور میں اس مختصر نوٹ کے ذریعہ احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو مرکزی درس گاہوں میں داخل کراکے دُنیوی فوائد کے ساتھ ساتھ دینی فوائد بھی حاصل کریں۔ ہمارے یہ ہردو مدرسے نہایت اہم قومی درس گاہیں ہیں جن میں سے ایک تو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے ہاتھ سے احمدی بچوں کو بیرونی مقامات کے زہریلے اثرات سے بچانے کے لئے قائم فرمائی اور دوسری کی تجویز بھی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں دینی علماء پیدا کرنے کی غرض سے ہوئی۔ اور اس کی باقاعدہ داغ بیل آپ کی وفات کے جلد بعد رکھی گئی۔ اگر غور کیا جائے تو ہماری یہ دو درس گاہیں علوم کی دو زبردست نہریں ہیں جن میں سے ایک میں تو خالص جنتی آبشاررواں ہے اور دوسری حسناتِ دارین کا مخلوط نقشہ پیش کرتی ہے۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس موقع پر جبکہ نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے، اپنے فرائض کو پہچانتے ہوئے اپنے بچوں کو قادیان بھجوانے کی پوری پوری کوشش کریں گے یعنی جن دوستوںکے بچے پہلے سے قادیان میں تعلیم پاتے ہیں وہ اس سلسلہ کو بدستور جاری رکھیں گے اورجن دوستوں نے ابھی تک اپنے بچے قادیان کی درسگاہوں میں داخل نہیں کرائے وہ اب اس اہم قومی اور دینی فریضہ کی طرف توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
بعض لوگ یہ عذر کیا کرتے ہیں کہ بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے خرچ کا بوجھ زیادہ ہوجاتا ہے یا یہ کہ بورڈنگوں میں رہنے سے بچے اس جذباتی پرورش سے محروم ہوجاتے ہیں جو انہیں اپنے والدین کے زیرسایہ اپنے گھروں میں میسر ہوتی ہے۔ میں ان ہر دوباتوں کو تسلیم کرتا ہوں لیکن ہمارے دوستوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے صرف ایک پہلو کو دیکھنا کافی نہیں ہوتا بلکہ سارے پہلوئوں پر یکجائی نظر ڈال کر اور ہر تجویز کے حُسن وقبح کو زیرِ غور لاکر پھر فیصلہ کرنا چاہیئے اور اگر اس اصل کے ماتحت بچوں کی تعلیم اور انہیں قادیان بھجوانے کے بارے میں غور کیا جائے تو قادیان کی تعلیم کے پہلوکو اس قدر غلبہ حاصل ہے اور اس کے اتنے عظیم الشان فوائد ہیں کہ اس کے مقابل پر نقصان کا پہلو بہت ہی کمزور اور حقیر ہے۔ قادیان میں بچوں کو تعلیم دلانے سے مندرجہ ذیل عظیم الشان فوائد حاصل ہوتے ہیں جن سے کوئی معقول شخص انکار نہیں کرسکتا۔
اول :قادیان کی رہائش سے بچے غیرمحسوس طور پر ان عظیم الشان برکات سے حصہ پاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی وجہ سے قادیان کو حاصل ہیں۔ ہر احمدی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ بوجہ اس کے کہ قادیان خدا کے رسول کی تخت گاہ ہے، خدا نے اس کے اندر ایسی برکات نازل کی ہیں جن سے ہرشخص جو اخلاص اور عقیدت کے ساتھ قادیان میں رہائش اختیار کرتا ہے۔ لازماً حصہ پاتا ہے کیونکہ جس طرح مثلاً ظاہری دُنیا میں آگ کا قرب تپش پہونچانے کا موجب ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ روحانی وجود اپنے قریب رہنے والوں کو اپنی برکات پہونچائیں۔
دوم :قادیان سلسلۂ عالیہ احمدیہ کی خلافت گاہ ہے اور خلافت کے وجود سے جتنے روحانی فیوض خدا کے علم میں مقدر ہیں۔ ان سے ہر وہ شخص جو اخلاص کے ساتھ قادیان میں رہتا ہے لازماً حصہ پاتا ہے۔
سوم :قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور خلفائے کرام کے تربیت یافتہ لوگوں کی سب سے بڑی جماعت رہتی ہے جو اس تعداد میں کِسی اور جگہ پائی نہیں جاتی اور لازماً قادیان میں رہنے والے بچے کم وبیش اس جماعت کے نیک اثر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
چہارم: قادیان کے سکولوں میں خواہ وہ خالص دینی سکول ہوں یا مروجہ تعلیم کے سکول، لازماً دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جس میں قرآن شریف حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام شامل ہیں۔ یہ تعلیم اس رنگ میں کسی اور جگہ میسر نہیں اور ظاہر ہے کہ بچپن میں یہ تعلیم بہت گہرا اور بہت وسیع اثر رکھتی ہے۔
پنجم :قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا بورڈنگ تحریک جدید توحضرت امیرالمومنین ایدہ،اللہ نبصرہ العزیزکی خاص نگرانی اور تربیت میں ہے ہی مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ بھی حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمومی تربیت کے ماتحت ایک دیندار طبقہ کی نگرانی میں ہے۔ جس میں بچوں کی ہر رنگ میں نگرانی کی جاتی ہے۔
ششم: قادیان میں بچے بھجواکر آپ اپنی قومی اور مرکزی درسگاہوں کو مضبوط کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
ہفتم: اپنے بچوں کو قادیان کی درسگاہوں میں داخل کراکے آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اہم مطالبہ کو پورا کرنے والے بنیں گے جو حضور نے اس بارے میں تحریک جدید کے مطالبات میں شامل فرمایا ہے۔ یعنی یہ کہ بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھجوایا جائے۔
یہ وہ سات عظیم الشان فوائد ہیں جو اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم دلانے سے ہمارے احباب حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے مقابل پر خرچ کی تھوڑی سی زیادتی یا جذبات کی تھوڑی سی قربانی بیشک اپنے دائرے میں تکلیف دہ چیزیں ہیں مگر ان عظیم الشان فوائد کے مقابلہ میں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس سوال کے سارے پہلوئوںپر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے ضرور اسی نتیجہ پر پہونچیں گے کہ قادیان میں بچوں کو بھجوانا بہرحال نہایت درجہ مفید اور بہتر ہے۔ تفصیلات کے لئے ہیڈ ماسٹر صاحبان سے خط وکتابت کی جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۵ اپریل ۱۹۳۸ئ)








نفاق اور اس کی اقسام اور علامات
نفاق اور منافق کی تشریح کی ضرورت
نفاق اور منافق ایسے الفاظ ہیں کہ جو قریباً ہر مذہبی شخص کی زبان پر کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں اور مذہبی مضامین میںکم وبیش ہر قلم ان کے استعمال کا خوگر ہے مگرباوجود اس کثرتِ استعمال کے ان الفاظ کی حقیقت کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیںا ور اکثرلوگ صرف اس حد تک نفاق کی حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کا ظاہر وباطن ایک نہ ہو۔ ہر چند کہ یہ تعریف غلط نہیں ہے اور نفاق کے عام مفہوم کے لحاظ سے بالکل صحیح تعریف ہے مگر ان الفاظ سے نفاق کے مفہوم کی وسعت اور اس کی اقسام اور علامات کا پتہ نہیں چلتا اور جب تک کسی ضرررسان چیز کی وسعت اور اس کی اقسام اور علامات کا پتہ نہ ہو انسان نہ تو خود اس کے نقصان سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی حالت کو پورے طور پر سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ نفاق جیسے عام دینی مرض کو کِسی قدر تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ اس کے متعلق کِسی قسم کی غلط فہمی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے نفاق اور منافقوں کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے مگر چونکہ قرآنی آیات کے متعلق غور کرنے کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے۔ اس لئے بہت سے لوگ نفاق کی حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھتے ۔ لہٰذا میں اپنے اس مختصر مضمون میں نفاق کی حقیقت اور اس کی اقسام اور علامات کے متعلق کچھ بیان کروں گا۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ العلی العظیم۔
نفاق کے لغوی معنی
سب سے پہلے ہمیں اس لفظ کے لغوی معنی کے متعلق غور کرنا چاہیئے کیونکہ اصطلاحی معنی کی اصل بنیاد لغوی معنی پر ہوا کرتی ہے اور گو اصطلاح میں جاکر کچھ اختلاف پیدا ہوجاتا ہے مگر بہرحال لغوی معنی سے اصطلاحی معنی کا جوڑ ضرور قائم رہتا ہے۔ سو جانناچاہیئے کہ نفاق ایک عربی لفظ ہے جس کی روٹ میں بہت سے معانی مخفی ہیں مگر ان میں سے زیادہ معروف یہ چار ہیں:
(۱) کسی چیز کا اپنے اندر کم ہوتے یا گھٹتے۔ یا خرچ ہوتے۔یا فنا ہوتے جانا۔
(۲) کسی تجارتی سامان یا مال کا منڈی میں بہت مقبول ہونا حتیٰ کہ چاروں طرف اس کے گاہک نظر آئیں۔
(۳) ایسا سوراخ جس کے دو مونہہ ہوں، جس میں کوئی چیز یا جانور ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف سے نکل سکے۔
(۴) کسی جانور کی ایسی بل جس کو مخفی رکھنے کے لئے اس نے اس کے پاس ہی ایک دوسری بل بھی بنارکھی ہو مگر یہ دوسری بل محض نمائشی اور جھوٹی ہو اور صرف دھوکا دینے کی غرض سے بنائی گئی ہو جو تھوڑی دور جاکر بند ہوجاتی ہو اور وہ جانور ان بلوں میں سے جھوٹی اور نمائشی بل کو تو ظاہر کردے اور اصلی بل کے مونہہ کو چھپا کر رکھے۔
یہ وہ چار معروف معنی ہیں جو لغوی طور پر لفظِ نفاق کی روٹ میں پائے جاتے ہیں اور ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ نفاق کے اصطلاحی معنی ان چار لغوی معنوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک خاص طبعی جوڑ رکھتے ہیں۔ مؤخر الذکر دولغوی معنوں کے ساتھ تو نفاق کی اصطلاح کا جوڑ ظاہری ہے کیونکہ ان میں صریح طورپر دو غلے پن کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جس کے لئے کسی تشریح کی ضرورت نہیں اور اوّل الذکر لغوی معنی کے ساتھ اصطلاحی نفاق کا جوڑیوں سمجھاجاسکتا ہے کہ دینی اور روحانی بیماریوںمیں سے نفاق ہی ایک ایسی بیماری ہے جس کا مریض خواہ وہ اس بات کو سمجھے یانہ سمجھے ہر وقت اپنے اندر گھلتا اور گھٹتا رہتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ سِل کے مریض کی طرح اس کے اندرونی اعضا کو یہ بیماری کھاتی چلی جاتی ہے مگر وہ محسوس نہیں کرتا اور ثانی الذکر معنی کے ساتھ اس کا یہ جوڑ ہے کہ مقبول مال کی طرح ایک منافق بھی بذعمِ خود اپنے آپ کو سب کے لئے مقبول بنانا چاہتا ہے تاکہ مومن وکافر سب اس کے خریدار رہیں۔
نفاق کے اصطلاحی معنی
اب رہا نفاق کے اصطلاحی معنی کا سوال۔ سو ایک تو اس کے وہی معروف معنی ہیں جنہیں ہر شخص جانتا ہے۔ یعنی ظاہر کچھ کرنا اور دل میں کُچھ اور رکھنا یا بالفاظ دیگر ظاہر میں تو ایمان کا اظہار کرنا مگر دل میں کافر ہونا۔ یہ وہ معنی ہیں جن سے کم وبیش ہر شخص واقف ہے مگر یہ یادرکھنا چاہیئے کہ نفاق کے صرف یہی معنی نہیں ہیں بلکہ اس کے معنوں میں زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع ہے اور اس وسعت اور تنوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی اکثر لوگ اپنے مرض کو سمجھنے یا دوسروں کے متعلق صحیح رائے لگانے میں غلطی کھاتے ہیں۔ قرآن شریف اور حدیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کا مرض مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے:-
اعتقادی منافق
اول:- کوئی شخص دل میں تو منکر اور کافر ہو مگر کِسی غرض کے ماتحت اپنے آپ کو مومن ظاہر کرے۔ یہ قسم نفاق کی ایک واضح ترین اور کھلی کھلی صورت ہے۔ جس میں منافق پوری طرح اپنی دوغلی چال سے واقف ہوتا ہے مگر طمع یا خوف یا عداوت کی غرض سے دانستہ یہ طریق اختیار کرتا ہے اور گو عام حالات میں وہ لوگوں سے اپنی اصلی حالت کو چھپاتا ہے مگر کبھی کبھی ننگا بھی ہوجاتا ہے۔ احمدیت کے ماحول میں اس نفاق کی مثال یوں سمجھی جائے گی کہ ایک شخص دل میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نعوذباللہ جھوٹا سمجھتا ہو مگر کِسی وجہ سے ظاہر میں جماعت کے اندر شامل ہوجائے یا شامل رہے۔ یا یہ کہ ایک شخص دل میں تو خلیفۂ وقت کو برحق نہ سمجھتا ہو اور اس کی خلافت حقہ کا منکر ہو مگر ظاہر میںکسی غرض کے ماتحت بیعت میں شامل رہے اوراپنے آپ کو خلافت کے حلقہ بگوشوں میں ظاہر کرے۔ اس قسم کے منافق کو اعتقادی منافق کہتے ہیں اور جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ہے۔ احمدیت کے ماحول میں یہ نفاق دواقسام میں منقسم ہے:
(الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق نفاق۔
(ب) خلیفہ وقت کے متعلق نفاق۔
کمزور ایمان کا منافق
دوم: کوئی شخص دل اور ظاہر ہر دو میں تو واقعی مومن ہو مگر اس کے ایمان میں اس درجہ کمزوری پائی جائے کہ بانیٔ سلسلہ یا خلیفۂ وقت یا نظام جماعت کے ساتھ اس کا ایمانی جوڑ اس قدر کمزور ہو کہ وہ کسی دھکے کی برداشت نہ کرسکے اور ہر ابتلاء کے وقت ٹوٹنے کے لئے تیار رہے۔ اس نفاق کو کمزوریٔ ایمان والا نفاق کہنا چاہیئے۔نفاق کی یہ قسم بھی نبوت اور خلافت کے لحاظ سے دو اقسام پر منقسم سمجھی جائے گی۔ یعنی ایک تو ایسا منافق جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق ناقص الایمان ہے اور کسی دھکے کی برداشت نہیں رکھتا اور دوسرے ایسا منافق جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق تو ایک حد تک پختہ ایمان رکھتا ہے مگر خلیفۂ وقت کے متعلق گو بے شک محض دکھاوے کا ایمان نہیں رکھتا مگر اس قدر کمزور ہے کہ ذراسی ٹھوکر سے ٹوٹ سکتا ہے۔
عملی منافق
سوم :کوئی شخص دل اور ظاہر ہر دو میں تو حقیقتاًمومن ہو اور جہاں تک محض ایمان اور عقیدہ کا تعلق ہے اس کا ایمان عام حالات میں محفوظ بھی سمجھا جائے مگر عملی لحاظ سے وہ شخص اس قدر کمزور ہو کہ اس کے اعمال عموماً منکروں کے اعمال کے مشابہ ہوں۔ اس قسم کے منافق کو عملی منافق کہتے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس جگہ عملی کمزوری سے عام عملی کمزوری مراد نہیں جو کم وبیش اکثر اشخاص میں پائی جاتی ہے بلکہ ایسی کمزوری مراد ہے جو انسان کو کفار اور منکروں کے مشابہ بنادے اور خصوصاً یہ کہ دین اور نظامِ جماعت کے لئے محبت اور غیرت اور قربانی کا جذبہ عملاً مفقود ہو اور نہ صرف یہ کہ انسان جماعت کی ترقی میں کوشاں نہ ہو بلکہ عملاً اس کے راستہ میں روڑے اٹکانے والا ثابت ہو۔
منافقین کا ذکر قرآن میں
یہ وہ تین موٹی قسمیں ہیں جن میں نفاق کا مرض تقسیم شدہ ہے اور قرآن شریف نے ان تینوں اقسام کے متعلق علیحدہ علیحدہ تشریح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مثلاً پارہ اول کے شروع میں ہی قرآن شریف میں فرماتا ہے:-
’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْآٰخِرِوَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّٓا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ……وَاِذَا لَقُوْا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اقَالُوْٓااٰمَنَّاوَاِذَاخَلَوْااِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْٓااِنَّامَعَکُمْ اِنَّمَانَحْنُ مُسْتَھْزِئُ وْنَ ۔۳۱؎
یعنی لوگوں میں ایک ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ ہم خدا اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں مگر دراصل وہ مومن نہیں ہوتے۔ وہ خدا اور مومنوں کی جماعت کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ مگر اس دھوکے کا وبال خود انہی پر پڑتا ہے۔ لیکن وہ سمجھتے نہیں……… یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں۔ مگر جب اپنے شیطان رئیسوں کے ساتھ خلوت میں اکھٹے ہوتے ہیں تو انہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصل میں تمہارے ساتھ ہیں ان مومنوں کو تو ہم یونہی بناتے ہیں۔‘‘
جیسا کہ اس عبارت سے ظاہر ہے، اس جگہ قسم اول والا نفاق مراد ہے یعنی جانتے بوجھتے ہوئے دل میںکچھ رکھنا اور ظاہر کچھ اور کرنا اور یہی وہ خالص نفاق ہے جس کے متعلق دوسری جگہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ:-
’’اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔۳۲؎
یعنی منافقین کا یہ گروہ ایسا ہے کہ انہیں دوزخ میں کافروں سے بھی نیچے کے درجہ میں رکھا جائے گا کیونکہ ان کا جرم دہرا ہے یعنی وہ کافر بھی ہیں اور منافق بھی۔‘‘
اس سے کچھ آگے چل کر اسی رکوع میں قرآن شریف کمزور ایمان والے منافقوں کا ذکر فرماتا ہے۔ جسے ہم نے قسم دوم میں رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’اَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَبَرْقٌ…… کُلَّمَآ اَضَآئَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا۔۳۳؎
یعنی ایک قسم منافق لوگوں کی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی مثال اس بارش کی سی سمجھنی چاہیئے۔ جس میں بادلوں کی تاریکیاں اور گرج اور بجلی پائے جاتے ہوں…… جب یہ بجلی چمکتی ہے یعنی جب خدا کا نور کسی چمکتے ہوئے نشان یا آیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوکر ایمان کے راستہ پر چل پڑتے ہیں مگر جب ابتلائوں وغیرہ کی تاریکیاں زور کرتی ہیں تو پھر یہ لوگ شک میں پڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور چلنے سے رک جاتے ہیں۔ یہ گو نفاق کی دوسری قسم ہے۔جسے کمزوریٔ ایمان والانفاق کہنا چاہیئے۔‘‘
اور منافقوں کی تیسری قسم کا ذکر سورۃ حجرات میں آتا ہے۔ جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ …… اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُ وْابِاَمْوَا لِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ۔اللّٰہِ۔۳۴؎
یعنی کئی بادیہ نشین لوگ مُنہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں مگر اے رسول تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم ابھی مومن نہیں ہو۔ ہاں بے شک تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اسلام کی حکومت کو اپنے اوپر تسلیم کرلیا ہے ورنہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا…… اصلی مومن تو وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لاتے ہیں اور پھر وہ اس ایمان میں کبھی ڈگمگاتے نہیں بلکہ اپنے اموال اور نفس کی طاقتوں کے ذریعہ خدا کے راستہ میں ہمیشہ جہاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
یہ قسم عملی نفاق کی ہے جسے ہم نے تیسرے درجہ پر بیان کیا ہے اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ اس جگہ نفاق کا لفظاً ذکر نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری جگہ سورۂ توبہ میں یہ تصریح کردی گئی ہے کہ اعراب کے گروہ میں ایک خاص قسم کا منافق طبقہ موجود ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْاعَلَی النِّفَاقِ۔۳۵؎
یعنی تمہارے اردگرد صحرا میں رہنے والے اعراب میں بھی ایک گروہ منافقین کا موجود ہے مگر یہ مدینہ کے اندر رہنے والے منافق اپنے نفاق میں بہت سرکش اور پختہ ہیں۔‘‘
الغرض یہ تین قسمیں نفاق کی ہیں جو قرآن شریف اور عقل انسانی ہر دو سے ثابت ہوتی ہیں۔ اول خالص نفاق کہ دل میں کفر ہو اور ظاہر میں ایمانَ دوسرے کمزوری ایمان والا نفاق کہ دل میں کفر تو نہ ہو مگر بات بات میں ٹھوکر کا اندیشہ رہے اور تیسرے عملی نفاق کہ انسان مومنوں کی جماعت میں تو شامل ہو اور جماعت کے نظام کو بھی قبول کرے۔ اور عقیدہ میں بھی ایک حد تک پکا ہو مگر اس کی عملی حالت اس قدر کمزور ہوکہ جماعت کی ترقی میں ممدو معاون ہونے کی بجائے وہ عملاً جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک بن جائے اور اس کے اعمال منکروں کے اعمال سے مشابہ رہیں۔
احادیث میں منافق کی علامتیں
حدیث میں بھی جوعلامتیں منافق کی بیان ہوئی ہیں میں ان جملہ اقسام کے نفاق کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ؐ فرماتے ہیں :
’’أَرْبَعْ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ،النِّفَاقِ حَتّٰی یَدْعَھَا: اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَاِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ، وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ۔۳۶؎
یعنی چارخصلتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی شخص میںایک ہی وقت اکٹھی پائی جائیںتو وہ اس بات کی علامت ہوں گی کہ وہ شخص خالص منافق ہے۔ اور اگر کِسی شخص میں ان میں سے صرف ایک خصلت پائی جائے تو ایسے شخص میںایک خصلت نفاق کی سمجھی جائے گی۔ حتیٰ کہ وہ اسے ترک کرکے تائب ہوجائے۔‘‘
اور وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ:-
(۱) جب کسی شخص کو امامِ جماعت یا نظام جماعت کی طرف سے کوئی امانت سپرد ہو، خواہ وہ کوئی مالی امانت ہو یا کسی عہدہ وغیرہ کی ذمہ داری کے رنگ میں ہو تو وہ اس میں خیانت کرے۔
(۲) جب وہ امام جماعت یا دوسرے ذمہ دار افسروں کی طرف منسوب کرکے لوگوں کے سامنے کوئی بات بیان کرے تو اس میں کذب بیانی سے کام لے یا جب وہ امور خوف وامن کے متعلق امام جماعت یا اس کے مقرر کردہ افسران کے پاس کوئی رپورٹ کرے تو اس میں غلط بیانی کا مرتکب ہو۔
(۳) جب وہ امام جماعت یا عہدہ داران جماعت سے جماعتی امور میں کوئی عہد باندھے تو اس میں غداری کرے۔
(۴) جب اسے امام جماعت یا نظامِ جماعت سے کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس اختلاف کی بناء پر وہ جماعت سے یا تو عملاً منحرف ہوجائے یا بالکل قطع کرلینے کے لئے تیار ہوجائے۔
(یادرکھنا چاہیئے کہ فجر کے معنی صرف بدزبانی اور فحش گوئی کے نہیں ہیں بلکہ منحرف ہوجانے اور قطع تعلق کرنے کے بھی ہیں۔ اور اس جگہ حدیث میں یہی معنی مراد ہیں)
یہ وہ چارخصائل ہیں کہ جب کِسی شخص میں وہ یکجا پائے جائیں تو وہ یقینا قسم اول کا منافق ہوگا اور اس کے ایمان کا دعویٰ بالکل جھوٹا سمجھا جائے گا لیکن اگر یہ چارخصائل یکجا نہ پائے جائیں بلکہ ان میں سے صرف بعض پائے جائیں اور بعض نہ پائے جائیں تو ایسا شخص خالص منافق نہیں ہوگا بلکہ حسبِ حالات دوسری اقسام میں سے سمجھا جائے گا۔
اس حدیث کی تشریح کے متعلق یہ بات یادرکھنی چاہیئے کہ یہ جو چار کمزوریاں حدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان سے عام لین دین کی کمزوریاں مراد نہیں ہیں کیونکہ عام رنگ کی کمزوریاں تو بعض اوقات ایک سچے مومن میںبھی پائی جاسکتی ہیں۔ پس ان سے عام کمزوریاں مراد نہیں بلکہ تعلقات مابین الافراد والجماعت کے دائرہ کی کمزوریاں مُراد ہیں کیونکہ نفاق کے مرض کو اسی حلقہ کے ساتھ مخصوص تعلق ہے اور گو اس میں شُبہ نہیں کہ یہ کمزوریاں ایسی قبیح ہیں کہ عام رنگ میں بھی وہ جس کے اندر پائی جائیں وہ کم از کم پختہ مومن نہیں سمجھا جاسکتا لیکن چونکہ نفاق کا تعلق تعلقات مابین الافراد اور جماعت سے ہے، اس لئے حدیث مندرجہ بالا میں اسی دائرہ کی کمزوریاں مراد ہیں۔ بہرحال نفاق کی یہ چار علامتیں ہیں جو حدیث نے بیان کی ہیں اور یہ علامتیں کم وبیش تینوں قسم کے منافقوں میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی قسم اول کے منافق میں جسے حدیث نے خالص منافق کے نام سے یاد کیا ہے۔ وہ سب کی سب پائی جاتی ہیں اور باقی اقسام میں حسبِ حالات جزواًپائی جاتی ہیں:
نفاق کیا ہے؟
مندرجہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ منافق تین قسم کے یا ایک لحاظ سے پانچ قسم کے ہیں اور ان اقسام کی روشنی میں ہر وہ شخص نفاق کے مرض میں مبتلا سمجھا جائے گا جو :-
اول :بظاہر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے مگر دل میں آپ کا منکر اور کافر ہو۔
دوم :حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو دل سے ایمان لاتا ہو اور بظاہر خلیفۂ وقت کی بیعت میں بھی داخل ہو مگر دل میں خلیفۂ وقت کو سچا نہ سمجھتا ہو۔
سوم :حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دل میں اورظاہر میں ہر دو طرح سچا سمجھتا ہو مگر اس قدر کمزور ایمان ہو کہ ذرا سے دھکے سے متزلزل ہونے لگے۔
چہارم :خلیفۂ وقت کو دل میں اور ظاہر میں ہر دو طرح برحق خیال کرتا ہو مگر خلافت کے متعلق اس قدر کمزور ایمان ہو کہ بات بات پر گرنے کا خطرہ پیدا ہوجائے۔
پنجم :جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور خلیفۂ وقت ہر دو کے متعلق سچا اعتقاد رکھتا ہو مگر اس اعتقاد کا اثر اس کے اعمال تک نہ پہونچے اور جماعت کے لئے محبت اور غیرت اور قربانی کے معاملہ میں حددرجہ کمزورہو کہ خواہ عام ایمانی ابتلائوں میں سنبھلا رہے مگر جماعت کی ترقی میں ممدومعاون ہونے کی بجائے عملاً اس کے رستہ میں ایک روک بن جائے اور اس کے اعمال غیروں کے اعمال سے مشابہ ہوں۔
منافق کی علامات
اس کے مقابل پر جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے منافق کی علامات یہ ہیں:
اول :جب امامِ وقت یا جماعت کی طرف سے اس کے ذمہ کوئی کام یا فرض لگایا جائے تو وہ اس میں خیانت سے کام لے۔
دوم :جب وہ امامِ جماعت یا دوسرے ذمہ دار افسروں کی طرف منسوب کرکے لوگوں کے سامنے کوئی بات بیان کرے تو اس میں کذب بیانی سے کام لے۔ اِسی طرح جب کوئی رپورٹ امورخوف وامن کے متعلق جماعتی امور میں امامِ جماعت یا منتظمین مقررہ کو دے تو اس رپورٹ میں دروغ گوئی کاطریق اختیار کرے۔
سوم :جب وہ خلیفۂ وقت یا جماعت کے ساتھ کوئی عہد باندھے خواہ وہ عہدعملاً باندھا گیا ہو یا قولاً تو اس عہدمیں غداری کرے۔
چہارم :جب امامِ وقت یا منتظمین مقررہ کے ساتھ اسے کسی بات میں اختلاف پیدا ہو تو وہ جماعت سے یا تو عملاً منحرف ہوجائے یا بالکل قطع تعلق کرلینے کے لئے تیار ہوجائے۔
ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ ان جملہ اقسام نفاق اور ان جملہ علاماتِ نفاق کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور انہیں ہمیشہ یاد رکھیں تاکہ اول تو اپنے نفسوںکا محاسبہ کرنے میں مدد مل سکے۔ دوسرے دیگر افرادِ جماعت کی حالت کا مطالعہ کرنے اور رائے قائم کرنے میں بھی بصیرت پیدا ہو۔ نیز یہ سہولت بھی پیدا ہوجائے کہ جب کوئی شخص اس مرض میں مبتلا ہوتا نظر آئے تو اوائلِ مرض میں ہی اس کی طرف توجہ دی جاسکے۔ قبل اس کے کہ اس کا مرض لاعلاج حد کو پہونچ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے اور ایمان واخلاص کی مستحکم چٹان پر قائم ہونے کی توفیق دے ۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۹ اپریل ۱۹۳۸ئ)






ایک قابلِ تحقیق مسئلہ
علماء جماعت احمدیہ کو عِلمی تحقیق کی دعوت
سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ عقائد ومسائل کی ان غلطیوں کو صاف کیا جائے جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں میں رائج ہوچکی ہیں۔ ان میں سے بہت سی غلطیوں کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور آپ کے خلفاء کے فتاویٰ کے ماتحت اصلاح ہوچکی ہے لیکن ابھی تک بعض مسائل ایسے ہیںجن میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جو بہت اہم اور وسیع الاثر ہے وہ تقسیم ورثہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہوجائے اور اس کے دوسرے بھائی موجود ہوں تو کیا اس کے والد کی وفات پر اس کے بچوں کو دادا کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا؟
اس بارے میں عام طور پر اسلامی حکم یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں بچوں کو دادا کے ورثہ میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ مثلاً اگرایک شخص زید نامی کے دو بیٹے بکر اور عمر نامی ہوں اور ان میں سے عمر زیدکی زندگی میں چند بچے چھوڑ کر فوت ہوجائے تو عام فتویٰ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس صورت میں زید کی وفات پر زید کا سارا ترکہ جو بیٹوں کو ملنا تھا وہ بکرلے جائے گا اور عمر کے بچوں کو کوئی حصہ نہ ملے گا۔ اور موٹے طور پر اس مسئلہ کی بنیاد یہ دلیل قراردی جاتی ہے کہ پوتوں نے تو باپ کے واسطے سے داد کے ترکہ میں سے حصہ لینا تھا لیکن جب باپ کی وفات نے خود باپ کو ہی ورثہ سے مرحوم کردیا تو اس کے بچوں کو کہاں سے حصہ پہونچ سکتا ہے۔ قانونی اور منطقی رنگ میں یہ ایک بظاہر معقول دلیل ہے لیکن ساتھ ہی یہ صورت اسلامی تعلیم کی روح کے خلاف نظر آتی ہے کیونکہ اول تو جو اولاد حقیقت کے لحاظ سے دادا کی صحیح نسل ہے۔ اسے محض ایک اصطلاحی آڑ کی بنا پر ورثہ سے محروم کردینا اسلامی عدل وانصاف کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے بیٹا خواہ باپ کی زندگی میں فوت ہوجائے مگر بالقوۃ طورپر وہ موجود رہتا ہے اور اس کی اولاد اس کی قائم مقام ہے جو محض اس کے مرنے کی وجہ سے دادا کی نسل سے خارج نہیں قراردی جاسکتی۔
بہرحال یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اب جبکہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تقسیم ورثہ کو اسلامی شریعت کے مطابق قائم کرنے کی جماعت میں پُرزور تحریک فرمائی ہے تو اس بات کی اشد اور فوری ضرورت ہے کہ سِلسلہ کے علماء اس مسئلہ کے متعلق اچھی طرح غور کرکے اسے صحیح اسلامی صورت میں قائم کردیں۔ جہاںتک میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کی تحقیق کا صحیح طریق یہ ہے کہ مندرجہ ذیل عنوانوں کے ماتحت غورکیاجائے:
(۱) قرآن شریف سے اس مسئلہ کے متعلق کیا استدلال ہوتا ہے؟
(۲) حدیث اس مسئلہ میں کیا کہتی ہے۔
(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ کا تعامل کیا ثابت ہوتا ہے۔
(۴)بعد کے آئمہ اسلام نے اس مسئلہ کے متعلق کیا کیا رائے ظاہر کی ہے۔
(۵) آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء کے کسی فتویٰ سے اس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی پڑتی ہے۔
میں امید کرتاہوں کہ ہمارے علماء اور مفتیان ِ سلسلہ اس مسئلہ کے متعلق فوری تحقیق فرمائیں گے۔ تاکہ ان کی رائے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرکے حضور کا فیصلہ حاصل کیا جاسکے۔
اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کسی کتاب میں اس مسئلہ کی عام مسلّمہ صورت کو صحیح تسلیم کیا ہے میں نے یہ حوالہ نہیں دیکھا لیکن اگر یہ درست ہے تو بہرحال مندرجہ بالا تحقیق کے نتیجہ میں وہ حوالہ بھی سامنے آجائے گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ بعض اوقات آپ کا یہ طریق ہوتا تھا کہ ایک فقہی مسئلہ کو عامۃالمسلمین کی مسلمہ صورت میں نقل فرما دیتے تھے اور اس جگہ آپ کی غرض یہ ہوتی تھی کہ اس مسئلہ میں عام مسلمانوں کا یہ خیال ہے اپنی ذاتی رائے اور تحقیق کا اظہار مقصود نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال ہمارے دوست جب اس تحقیق میں قدم رکھیںگے تو ساری حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ئ)



خلافت جوبلی فنڈ
مخلصین قادیان سے اپیل
خلافت جوبلی فنڈ کے تعلق میں گزشتہ رات جو جلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا تھا، اس میں جماعت قادیان نے پچیس ہزار روپیہ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی تھی اور خاکسار راقم الحروف کو کمیٹی برائے فراہمی چندہ کارکن منتخب کیا گیا تھا۔ گو اخلاص اور قربانی کی روح کے سامنے یہ رقم کوئی حقیقت نہیں رکھتی لیکن جماعت قادیان کی عام مالی حالت کے پیش نظر اور ان غیرمعمولی چندوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس سال درپیش ہیں یہ رقم ایک کافی بھاری رقم ہے جس کا پورا کرنا خاص جدوجہد اور منظم کوشش چاہتا ہے۔
جیسا کہ رات کی تقریروں میں اس بات کو واضح کیا گیا تھا، یہ تجویز اس لحاظ سے ایک نہائت اہم تجویز ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت کے ان جذبات شکروامتنان کا امتحان متصور ہے جو اس کے دل میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور خلافت کے متعلق قائم ہیں۔ کیونکہ خدا کے فضل سے ۱۹۳۹ء کے اوائل میں اگر ایک طرف خلافت ثانیہ کے پچیس سال پورے ہورے ہیں تو دوسری طرف انہی ایام میںسلسلہ احمدیہ کے قیام پر بھی پچاس سالہ معیاد پوری ہوتی ہے۔ اس طرح اس فنڈ کو کامیاب بناکر ہمارے دوست اس بات کا عملی ثبوت دیں گے کہ وہ ان ہر دوعظیم الشان نعمتوں یعنی قدرت اولیٰ اور قدرت ثانیہ کی قدر کو پہچانتے اور ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں اور اب جبکہ یہ تجویز پبلک کے سامنے آچکی ہے تو اس تجویز کو کامیاب بنانا قومی غیرت کا بھی اولین تقاضا ہے۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے قادیان کے دوست جنہوں نے خدا کے فضل سے اس وقت تک ہر قسم کی قربانی کا بہترین نمونہ دکھایا ہے اس موقع پر بھی دوسروں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ بننے کی کوشش کریں گے۔ اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردیں گے کہ وہ حقیقی معنوں میں خدائی سلسلہ کی مرکزی جماعت ہیں۔
اپنے دوستوں کی آگاہی کے لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ کسی شخص کی چندہ دینے کی طاقت صرف اس کی ماہواریا سالانہ آمد سے پرکھی نہیںجاتی بلکہ جائیداد بھی چندہ دینے کی طاقت کا حصہ ہے۔ اور اگر ایک شخص ایسا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کا کوئی حصہ بیع یا رہن کرکے ایک نیک تحریک میں حصہ لے سکتا ہے۔ مگر وہ محض اس وجہ سے حصہ نہیں لیتا کہ بزعم خود اس کی ماہوار آمد اس چندہ کی متحمل نہیں ہے تو یقینا وہ اپنے آپ کو ایک اعلیٰ نیکی سے محروم کرتا ہے۔ صحابہ میں کثرت کے ساتھ ایسے شخصوںکی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ ماہوار یا سالانہ آمد بہت کم رکھتے تھے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی چندہ کی تحریک ہوتی تھی تو وہ اپنی کوئی جائیداد یا اثاثہ فروخت کرکے چندہ دینے والوں کی صف اول میں آکر کھڑے ہوتے تھے۔ عقلاً بھی دیکھا جائے تو جب ہم اپنی دنیوی ضروریات کے لئے بسااوقات اپنی جائیدادوں کے رہن رکھنے یا بیع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دینی ضروریات کے لئے ہم اپنی جائیدادوں کی طرف سے آنکھ بند کرکے صرف اپنی ماہوار یاسالانہ آمد کا خیال کرنے لگ جائیں۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکز سلسلہ کے مخلص احباب اس مبارک تحریک میں جسے کامیاب بنانا ہمارے اخلاص اور محبت اور غیرت کا اولین فرض ہے، بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اپنے عمل سے ثابت کردیں گے کہ وہ اخلاص اور قربانی میں ہردوسری جماعت کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ میں انشائ۔اللہ کمیٹی برائے فراہمی چندہ کے ممبروں سے مشورہ کرکے عنقریب تفاصیل شائع کروں گا کہ یہ چندہ کس طرح اور کس ریٹ سے جمع کرنا ہے مگر اس وقت اس نوٹ کے ذریعہ میں احباب کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اس وعدہ کے مطابق جو انہوں نے خدا کے گھر میں بیٹھ کر کیا ہے۔ بیش از بیش قربانی کے لئے تیار رہیں۔
علاوہ اس کے میں اس وقت یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی توفیق اور فضل کے ساتھ میں انشاء اللہ اس بات کی کوشش کروں گا کہ جو پچیس ہزار کی رقم جماعت قادیان نے اپنے ذمہ لی ہے۔ اس میں سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی طرف سے کم ازکم دس ہزار روپے کی رقم پیش کرے۔ اس رقم میں وہ وعدے مجراہوں گے جو اس سے قبل ہمارے خاندان کے افراد کی طرف سے ہوچکے ہیں اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیٹے اور لڑکیاں اور ان ہر دو کی اولاد اور داماد اور بہوئیں شامل ہوں گی۔ اس طرح قادیان کی باقی جماعت پر صرف پندرہ ہزار روپے کا بار رہ جائے گا جو جماعت کے اخلاص اور موقع کی اہمیت کے لحاظ سے یقینا زیادہ نہیں ۔ وباللّٰہِ التوفیق ونعم المولٰی ونعم النصیر
‎(مطبوعہ الفضل۳۰ اپریل ۱۹۳۸ئ)

بے کاری کے نقصانات
اور
اس کے انسداد کا تربیتی پہلو
بیکاری کا مرض
اس زمانہ میں بے کاری کی مرض بہت زیادہ پھیل رہی ہے اور کم وبیش ہر قوم اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ میں نے اس کے متعلق مرض کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ سوائے بعض حقیقی معذوری کی صورتوں کے جب انسان واقعی کام نہ ملنے کی وجہ سے بیکاری کے لئے مجبور ہوجاتا ہے فی زمانہ اکثر صورتوں میں بے کاری حقیقۃً ایک اخلاقی مرض ہے جو دوسری اخلاقی بیماریوں کی طرح اکثر انسانوں کو لگ کر خراب کررہی ہے۔ یعنی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں کام تو مل سکتا ہے مگر یہ خیال کرکے کہ ہمیں جائیداد وغیرہ سے کافی آمد ہے اس لئے کام کی ضرورت نہیں یا یہ خیال کرکے کہ جو کام ملتا ہے وہ ہماری شان کے مطابق نہیں، وہ کام نہیں کرتے اور بے کاری میں اپنی زندگی گزاردیتے ہیں۔ ایسی بیکاری گو اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ جب سوسائٹی کا ایک طبقہ آمد پیدا کرنے کے بغیر رہے گا تو لازماً اس کے نتیجہ میں ملک وقوم کا مالی نقصان ہوگا مگر اس کا اصل نقصان تربیتی اور اخلاقی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا بے کاری کا مسئلہ دو جہت سے قابل غور ہے۔ اول اقتصادی لحاظ سے اور دوسرے تربیتی لحاظ سے اور میں اپنے اس مختصر مضمون میں موخرالذکر صورت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
اخلاقی اور دینی لحاظ سے بیکاری کے نقصانات
سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تربیتی لحاظ سے بیکاری ایک نہائت ہی مہلک بیماری ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کے دین اور اخلاق کو خطرناک نقصان پہونچتا ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس نقصان کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صرف اس کے اقتصادی پہلو تک اپنی نظر کو محدود رکھتے ہیں۔ اخلاقی اور دینی لحاظ سے بے کاری کے موٹے موٹے نقصانات یہ ہیں:
(۱) وقت جیسی قیمتی چیز جو غالباً دُنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے ضائع جاتی ہے۔ جسے انسان بے شمار صورتوں میں ملک اور قوم اور دین کی خدمت میں خرچ کرسکتا ہے۔
(۲) وقت کو بے کار گزارنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور وقت کی قدروقیمت کی حس ماری جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو جب کوئی کام ملتا ہے تو عادت کی وجہ سے وہ اس میں بھی سستی اور غفلت اختیار کرتا ہے اور اس کا فرض شناسی کا معیار بالکل گرجاتا ہے جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے سخت مہلک ہے۔
(۳) بے کار لوگ عموماً خراب عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ جب انسان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے وقت کو گزارنے کے لئے اپنے واسطے ایسے مشاغل تلاش کرتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ اور اس طرح وہ بُری عادتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً شراب نوشی ۔ افیون اور بھنگ چرس وغیرہ کا استعمال۔ جوئے بازی۔ شطرنج اور تاش اور اسی قسم کی دوسری بے فائدہ اور مخربِ اخلاقی کھیلیں۔ غیبت جو بے کاروں کی مجلس کا خاصہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
(۴) بے کاری سے بدصحبتی کی عادت پیداہوتی ہے کیونکہ جب انسان بے کار ہوتا ہے تو وہ اپنا وقت گزارنے کے لیئے اپنے مفید مطلب مجلس ڈھونڈتا ہے اور بالعموم یہ مجلس اخلاقی اور دینی لحاظ سے بہت گندی ہوتی ہے۔
(۵) بے کاری سے بے جا اعتراضات اور نکتہ چینی کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ جس میں انسان اس بات کوبالکل بھول جاتا ہے کہ میں جس شخص یا جماعت یا نظام پر اعتراض کررہا ہوں اس پر اعتراض کرنے کا مجھے حق بھی ہے یا نہیں اور بزرگوں کے ادب اور نظام کے احترام کی روح مٹ جاتی ہے۔
بیکاری کا اِنسداد کس طرح ہوسکتا ہے؟
یہ جملہ نقصانات بہت بھاری نقصانات ہیں مگر افسوس ہے کہ لوگ بالعموم ان کی طرف سے بالکل غافل رہتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی بے کاری کو صرف اس ترازو سے تولتے ہیں کہ بیکار رہنے سے روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ حالانکہ گومالی نقصان بھی بے شک قابل توجہ ہے مگر اس مالی نقصان کو ان عظیم الشان نقصانات سے کچھ بھی نسبت نہیں جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے بیکاری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے دوستوں میں ان نقصانات کا احساس پیدا ہوجائے تو پھر کم ازکم جہاں تک بیکاری کے اخلاقی اور دینی پہلو کا تعلق ہے بیکاری کے مرض کو ایک دن میں نابود کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے لئے کِسی نوکری یا نفع مند کام کے تلاش کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ بیکارلوگ اپنی بے کاری کو چھوڑ کر کسی ذاتی یا خاندانی۔ یا قومی یا دینی کام میں لگ جائیں، خواہ وہ آنریری ہی ہو اور خواہ اس کے بدلے میں انہیں ایک پیسہ بھی حاصل نہ ہو۔ اس طرح اقتصادی لحاظ سے وہ اپنا کوئی نقصان نہیں کریں گے کیونکہ وہ پہلے بھی نہیں کماتے تھے اور اب بھی نہیں کمائیں گے۔ مگر اخلاقی اور دینی لحاظ سے وہ اپنے آپ کو خطرناک نتائج سے محفوظ کرلیں گے اور ان کی آنریری خدمات سے ان کے خاندان یا قوم یا ملک یا دین کو جو فائدہ پہونچے گا وہ مزید برآں ہوگا۔
مثلاً ایک شخص زید نامی بے کار ہے۔ اب قطع نظر اس کے کہ اس کی یہ بیکاری کسی مجبوری کا نتیجہ ہے یا کہ خود پیدا کردہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا وقت اسے کوئی مالی بدلہ نہیں دے رہا۔ اس حالت میں اگر وہ کسی خاندانی یا قومی یا دینی کام کے لئے اپنی خدمات آنریری طور پر پیش کردے تو ظاہر ہے کہ اقتصادی لحاظ سے وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا بلکہ جہاں ہے وہیں رہتا ہے مگر اخلاقی اور دینی لحاظ سے وہ نہ صرف بہت سے خطرناک نقصانات سے بچ جاتا ہے بلکہ عظیم الشان فوائد بھی حاصل کرتا ہے اور اس خدائی منشاء کو بھی پورا کرنے والا بنتا ہے کہ جو آیت رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفِقُوْنَ۳۷؎ میں بیان ہؤا ہے۔یعنی یہ کہ سچے مومن وہ ہیں جو ہر اس چیز میں سے جو ہم نے ان کو دی ہے خواہ وہ مال ہے یا وقت ہے یا جسمانی طاقتیں ہیں۔ یا آل واولاد ہے خدا کے رستے میں خرچ کرتے ہیں۔ بہرحال تربیتی نقطۂ نگاہ سے بیکاری کا علاج مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے صرف اس احساس کی ضرورت ہے کہ جو وقت بیکاری کی حالت میں فضول طور پر ضائع ہوجاتا ہے اسے کسی مفید کام میں خرچ کرنا چاہیئے اگر یہ کام آمد کا بھی ذریعہ ہوتو فَبھَا۔ لیکن اگر ایسا کام میسر نہ آئے تو پھر آنریری طور پر ہی کسی مفید کام کو اختیار کرلیا جائے تاکہ بہرحال وقت ضائع نہ ہو اور عادتیں بھی خراب ہونے سے محفوظ رہیں۔
بیکاری کے اقسام
جہاں تک میں نے غور کیا ہے بیکاری کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
(۱) بیکاری بوجہ اس کے کہ کسی حقیقی معذوری مثلاً بیماری یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے کوئی شخص کام نہ کرسکتا ہو۔
(۲) بیکاری بوجہ اس کے کہ حقیقتہً کوئی کام نہ ملتا ہو۔
(۳) بیکاری بوجہ اس کے کہ کام تو مل سکتا ہو مگر انسان اسے اپنی شان کے مطابق نہ خیال کرے۔
(۴) بیکاری بوجہ اس کے کہ جائیداد وغیرہ کی کافی آمد موجود ہونے کے باعث انسان کام کی ضرورت نہ سمجھے۔
مجبور کی بیکاری
یہ وہ چار قسم کی بے کاری ہے جو عموماً دنیا میں پائی جاتی ہے اور میں اس جگہ ان جملہ اقسام بیکاری کے متعلق مختصر طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں۔ سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کی وجہ سے انسان کام نہ کرسکتا ہو۔ اس کے متعلق مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر معذوری ایسی ہو کہ انسان واقعی کام نہ کرسکتا ہو۔ مثلاً کوئی شخض کسی موذی مرض میں بالکل ہی صاحب فراش ہوجائے یا کوئی ایسا جسمانی نقص ہو کہ کام کی اہلیت ہی جاتی رہے۔ تو پھر تو مجبوری ہے۔لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا۳۸؎۔ مگر حق یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی معذوری کو محض ایک بہانہ بنالیتے ہیں اور کام کی اہلیت رکھنے کے باوجود بیکاری میں وقت گزارتے ہیں۔مثلاً نابینا ہوناعام طورپر معذوری خیال کیا جاتا ہے اور ایک رنگ میں وہ معذوری ہے بھی۔ لیکن غور کیا جائے تو ایک نابینا شخص کئی قسم کے کام کرسکتا ہے۔ مثلاً اگر خدا اسے توفیق دے تو وہ قرآن شریف حفظ کرکے اور کچھ علم دینیات سیکھ کر امام الصلوٰۃ یا کسی مکتب وغیرہ کا معلم بن سکتا ہے اور مسجد میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی قائم کرسکتا ہے۔ وغیرذالک۔ اسی طرح اگر ایک شخص پائوں سے معذورہے تو وہ ایسے کام جن سے صرف دماغ کا واسطہ پڑتا ہے یا جو صرف ہاتھ کی مدد سے کئے جاسکتے ہیں کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ پس محض کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا پایا جانا بیکاری کے جواز کی معقول وجہ نہیں ہے، جب تک کہ ایسی معذوری انسان کو ہرجہت سے واقعی معذور نہ کردے اور جو شخص محض کسی جسمانی معذوری کا بہانہ لے کر بیکار بیٹھتا ہے وہ بھی اخلاقی لحاظ سے مجرم ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ حقیقتہً بے دست وپا ہو۔
کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے بیکاری
بیکاری کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شخص کو حقیقتہً کام نہ ملتا ہو۔ یعنی وہ ہرقسم کے کام کے لئے تیار ہو مگر کوئی کام نہ ملے۔ میں عقلاً اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بعض حالات میںاس قسم کی صورت پیش آسکتی ہے لیکن یہ صورت بہت ہی شاذ طور پر صرف استثنائی حالات میں پیش آتی ہے۔ ورنہ اگر انسان ہر قسم کے جائز کام کے لئے تیار ہو اور اسے کسی کام سے عار نہ ہو تو بالعموم کام مل جاتا ہے۔ اگر نوکری نہیں تو تجارت ہی سہی تجارت نہیں تو مزدوری ہی سہی۔ زیادہ معاوضہ والا کام نہیں تو کم معاوضہ والاکام ہی سہی۔ بہرحال اگر انسان ناواجب شرطیں نہ لگائے اور ہر قسم کے دیانت داری کے لئے تیار ہو۔ تو دنیا میں اب بھی کام کی قلت نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ بیکار تھا تو میں نے دوروپے ماہوار کی نوکری قبول کرلی تھی۔ اگر حضرت خلیفہ اول جیسی بلند مرتبہ ہستی دوروپے کی نوکری قبول کرسکتی ہے تو اور کون ہے جو اسے اپنی شان کے خلاف سمجھ سکتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اگر بالفرض واقعی کسی قسم کا کام نہیں ملتا تو پھر آنریری کام ہی سہی اس کا دروازہ تو ہروقت کھلا ہے اور ہم بتا چکے ہیں کہ تربیتی لحاظ سے وہ بے کاری کے انسداد کی بالکل صحیح تدبیر ہے۔
شایان شان کام نہ ملنے سے بیکاری
تیسری قسم بے کاری کی یہ ہے کہ کام تو ملتا ہے مگر انسان اسے اپنی پوزیشن کے خلاف سمجھ کر اختیار نہیں کرتا اور بیکاری میں وقت گزارتا ہے۔ یہ گروہ سب سے زیادہ زیرملامت ہے کیونکہ اوّل تو وہ تکبر اور خودبینی کی مرض میں مبتلا ہے اور اپنے مونہہ میاں مٹھو بن کر خود ہی بڑھ چڑھ کر اپنی قیمت لگا لیتا ہے۔ دوسرے وہ بے وقوف بھی ہے کہ اپنی فرضی شان اور نام نہاد پوزیشن کو بچانے کے لئے بدترین قسم کی اخلاقی اور دینی بیماریوں میں مُبتلا ہونا پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جس قدر جلد بیدار کیا جاسکے کرنا چاہیئے اور صاف بتادینا چاہیئے کہ تمہاری موجود ہ قیمت وہی ہے جو بازار میں ملتی ہے، نہ کہ وہ جو تم سمجھتے ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد چوتھے خلیفہ ہوئے اور آپؐ کے داماد بھی تھے۔ بسااوقات جنگل سے گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے بازار میں بیچ کر اپنا گزارہ کرتے تھے اور دوسرے عالی قدر صحابہ بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہر قسم کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے اور کسی کام کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک موقع پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزدوروں کی طرح پتھر اور مٹی کو اپنے کندھوں پر اٹھااٹھا کر اِدھر ادھر پہونچایا۔ اور آپؐ کا جسم مبارک مٹی اور گردوغبار سے ڈھک گیا اور ایک زمانہ میں آپؐ نے بکریاں بھی چرائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بھی ہرقسم کا کام کرلیتے تھے اور بسا اوقات خود اپنے ہاتھ میں پانی کا لوٹا لے کر نالیاں وغیرہ صاف کرواتے تھے۔ اور جوانی کے زمانہ میں آپ سیالکوٹ میں صرف چندروپے تنخواہ پرملازم بھی رہے تھے اور آپ اکثر فرمایا کرتے تھے۔ میں ایک پیسہ کے چنوں پر گزارہ کرسکتاہوں۔
جھوٹے اور متکبّرانہ عذرات
اگر یہ عظیم الشان ہستیاں جن سے ہم نے ساری عزتیں حاصل کی ہیں، کسی کام کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتی تھیں تو ہم کون ہیں کہ اپنی فرضی شان اور نام نہاد پوزیشن کو جائز اور دیانت داری کے کاموں سے بالاقراردیں۔ پس یہ سب جھوٹے اور متکبرانہ عذرات ہیں جن سے ایک کام سے دل چُرانے والا انسان اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرنے کا بہانہ ڈھونڈھتا ہے اور ہمارے دوستوں کو ان باتوں سے کُلّی طور پر بچنا چاہیئے۔
خوب یاد رکھو کہ ہر وہ کام جس میں کسی قسم کی بدیانتی یا دنانت کا دخل نہیں اور وہ شریعت کے خلاف نہیں، وہ ایک جائز اور معزز کام ہے اور اسے ذلیل سمجھنا خود اپنی ذلت کا ثبوت دینا ہے اور کِسی قوم کے تنزل کا اس سے بڑھ کر کوئی سبب نہیں ہوسکتا کہ وہ جائز اور دیانت داری کے کاموں کو اپنے لئے موجب ذلّت سمجھے اور اس خیال کی وجہ سے اس کے نوجوان اپنی زندگیوں کو بیکاری میں ضائع کردیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ہم میںسے ایک طبقہ ابھی تک اپنے اندر سے اس قسم کے تکبر اور خودبینی کے جذبات کا استیصال نہیں کرسکا تو وہ آئے اور آنریری طور پر ہی اپنی خدمات پیش کردے اور وقت کو ضائع کرنے کی بجائے اسے جماعت کی خدمت میں صرف کرے لیکن اگر وہ ایسا بھی نہیں کرتا تووہ یقینا جماعت کا خائن ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ ایک پاک جماعت کا حصہ بن کر رہے۔
آسودہ حالی کی وجہ سے بیکاری
چوتھی قسم بیکاری کی یہ ہے کہ انسان کو کام بھی مل سکتا ہو اور بزعمِ خود اپنی شان کے مطابق بھی مل سکتا ہو مگر اس خیال سے کہ میری جائیداد کی آمد کافی ہے وہ اپنے قیمتی وقت کو بے کاری میں ضائع کرتا رہے۔ یہ مرض آج کل ہندوستانی رؤسا میں بہت عام ہے اور اخلاقی لحاظ سے ویسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ دوسری قسم کی بیکاریاں اور یہ مرض اس گندی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ کام کو صرف حصولِ مال کاذریعہ سمجھا گیا ہے اور اس کے سِوا اس کی کوئی اور قیمت نہیں پہچانی گئی۔ حالانکہ کام کی قیمتوں میں سے حصولِ مال ایک بہت ہی ادنیٰ درجہ کی قیمت ہے اور اس کی اعلیٰ قیمت اس کے دوسرے پہلوئوںسے تعلق رکھتی ہے۔
پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر کِسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اس رنگ میں فضل ہے کہ اسے اپنے کھانے کے لئے پسینہ نہیں بہانا پڑتا تو وہ اس خدائی فضل کا یہ بدلہ دے کہ اپنی خداداد طاقتوں اور وقت کے قیمتی خزانہ کو بے سود ضائع کردے۔ اس پر تو دوسروں کی نسبت بھی زیادہ فرض ہے کہ وہ اپنے وقت کو مفید صورت میں گزارے اور اپنے عمل سے ثابت کردے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ایک شکرگزار بندہ ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یقینا وہ دوہرے الزام کے نیچے آتا ہے کہ خدا نے اسے فارغ البالی عطاکرکے قومی اور دینی خدمت کا موقع عنایت کیا مگر اس نے اس موقع کو ضائع کردیا اور اگر اقتصادی لحاظ سے دیکھیں تو پھر بھی ایسے لوگوں کے لئے کام کرنا بہتر ہے کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کو جائیداد سے پانچ سو روپے ماہوارکی آمد ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملازمت یا کاروبار میں اپنا وقت لگا کر اس آمد میں اضافہ نہ کرے۔ یہ اضافہ اسے بہت سے دینی اور دُنیوی کاموں میں مفید ہوسکتا ہے مگر بدقسمتی سے جہاں بھی کِسی شخص کو بغیر کام کے چار پیسے ملنے لگ جائیں وہ اپنے آپ کو کام سے بے۔نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس طرح منعم علیہ جماعت میں ہوکر مَغْضُوْبِ عَلَیْھِم.6ْ کے گروہ کا راستہ لے لیتا ہے اور خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَکا موجب بنتا ہے۔ بے شک اگر کسی شخص کی جائیداد کا انتظام اس قدر وسیع ہے کہ وہ اس کے سارے وقت کو چاہتا ہے تو اسے اس انتظام میں اپنا وقت صرف کرکے مالی رنگ میں دین کی خدمت کرنی چاہیئے لیکن اگر جائیداد کا انتظام پورا وقت نہیں چاہتا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا شخص اپنا سارا وقت یا اپنا زائد وقت جیسی بھی صورت ہو قوم اور دین کی خدمت میں خرچ نہ کرے اور اپنی خداداد طاقتوں کو بیکاری جیسی *** میں ضائع کردے۔
نقصان ہی نقصان
خلاصۂ کلام یہ کہ بیکاری کی جملہ اقسام میں وقت اور خداداد طاقت اور اخلاق اور دین کا نقصان پایا جاتا ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ اور بعض اقسام میں تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ بیکاری جیسی موذی مرض سے خود بھی بچیں اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں اور اگر انہیں کسی وجہ سے کِسی وقت بیکاری کا اقتصادی حل نظر نہ آئے تو اس کی وجہ سے گھبرائیں نہیں بلکہ انسداد بیکاری کے اخلاقی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیتی تدابیر اختیار کرلیں۔ اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ ان کے دین اور دُنیا ہردو کو عظیم الشان فائدہ پہنچے گا اور وہ جماعت کا ایک نہایت مفید اور بابرکت حصہ بن جائیں گے۔ انسداد بے کاری کے اخلاقی پہلو میں مندرجہ ذیل امور خصوصیت سے یادرکھے جائیں:-
کیا کرنا چاہیئے؟
(۱) کوئی کام جو شریعت کے خلاف نہیں اور اس میں کوئی پہلو دنائت کا پایا نہیں جاتا۔ وہ ایک معزز کام ہے، جسے ہرمعزز سے معزز شخص اختیار کرسکتا ہے۔ پس یہ خیال کرنا کہ فلاں کام ہماری شان کے خلاف ہے بالکل درست نہیں۔
(۲) بے شک ہر شخص کے وقت کی قیمت میں فرق ہوتا ہے لیکن صرف اس بناپر بیکاری جیسی *** کو خریدنا کہ ہمیں اپنے وقت کی پوری قیمت نہیں ملتی سخت غلطی ہے بلکہ بیکاری کے نقصانات سے بچنے کے لئے جو قیمت بھی ملے اسے قبول کرلینا چاہیئے اور مزیدکے لئے کوشش کرنی چاہیئے۔
(۳) اگر کوئی کام بھی نہ ملے تو پھر آنریری طور پر ہی اپنی خدمات کو پیش کردینا چاہیئے تاکہ وقت اور طاقت ضائع نہ جائیں اور خدمت کا ثواب حاصل ہو۔ بعد میںجب کام مل جائے تو آنریری خدمت سے سبکدوشی حاصل کی جاسکتی ہے۔
(۴) جو لوگ باوجود بیماری یا معذوری کے کوئی کام کرسکیں انہیں بیماری یا معذوری کے بہانہ سے بیکار نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ جس کام کے بھی وہ قابل ہوں اُسے اختیار کرلینا چاہیئے۔
(۵) جن لوگوں کو جائیداد کی آمد ہو اور وہ اس آمد کو اپنے گزارہ کے لئے کافی خیال کرتے ہوں انہیں بھی بیکار نہیں رہنا چاہیئے بلکہ یا تو وہ اپنی خدمات کو آنریری صورت میںپیش کردیں اور یاکوئی معاوضہ والاکام کرکے اپنے لئے مزید آمد پیدا کریں اور اس آمد کو دینی اور دُنیوی ضروریات میں خرچ کریں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست ان باتوں کو مدنظر رکھ کر نہ صرف بیکاری کے نقصانات سے بچنے کی کوشش کریں گے بلکہ اپنے وقت اور اپنی طاقتوں کو مفید کاموں میں لگا کر اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے ترقی کا راستہ کھولنے میں ممدہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷ مئی ۱۹۳۸ئ)


چودہری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا اِنتقال
اور
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے
ہمدردی کا پیغام
احباب کو ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ اطلاع مل چکی ہے کہ چودہری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ مورخہ ۱۶ مئی بروز پیر بوقت صبح نوبجے اس دار فانی سے رخصت ہوکربہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند بزرگوار کے قدموں میں دفن ہوچکی ہیں۔ مرحومہ ایک نہائت نیک، متقی، مخلص اور صاحب کشف ورویاء بزرگ تھیں اور دعا میں خاص شغف رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے اور ان کے جملہ پسماندگان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مرحومہ کی وفات پر میں نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بذریعہ تار ان کی وفات کی خبردی تھی جس پر آج بوقت دوپہر حضور کی طرف سے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کارکن کی زبانی میرپورخاص سندھ سے بذریعہ ٹیلیفون یہ پیغام پہونچا ہے کہ میری طرف سے مرحومہ کی وفات پر چودہری صاحب کو اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پہونچا کر اظہار ہمدردی کریں اور چونکہ مرحومہ سلسلہ کی ایک خاص خاتون تھیں اور نہائت متقی اور مخلص تھیں اور ان کی یہ بہت خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھائوں اس لئے اگر ممکن ہواور انتظار کیا جاسکے تو مجھے اطلاع دی جائے تاکہ میں جنازہ کے لئے پہونچ جائوں۔
میں نے حضور کے اس پیغام کے جواب میں عرض کردیا ہے کہ جنازہ ہوچکا ہے اور مرحومہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوچکی ہیں اور موسم کی شدت اور سفر کی دوری اور حضور کی تکلیف کے خیال سے حضور سے درخواست نہیں کی گئی ۔ اس لئے اب جیسا کہ چودہری صاحب مکرم کی بھی خواہش ہے یا توحضور غائبانہ جنازہ پڑھادیں اور یا جب سندھ سے واپس تشریف لائیں تو قبر پر تشریف لے جاکرجنازہ پڑھادیں۔
چودہری صاحب مکرم اور احباب کی اطلاع کے لئے حضور کا یہ پیغام اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۳۸ئ)










خلافت جوبلی فنڈ اَور اہلِ قادیان کی مُخلصانہ قُربانی
خلافت جوبلی فنڈ کے متعلق اہلِ قادیان نے ابتداء میں پچیس ہزار روپے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے خاکسار نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ الحمد للہ کہ قادیان کے دوستوں نے اس تحریک میں توقع سے بڑھ کر شوق واخلاص کا نمونہ دکھایا ہے۔ چنانچہ کمیٹی خلافت جوبلی فنڈ قادیان نے خدا کے فضل اور جماعت کے اخلاص پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پچیس ہزار کے وعدہ کو بڑھاکر تیس ہزار کردیا ہے جو گویا اس فنڈ کی مجموعی رقم کا دسواں حصہ ہے۔ اور قادیان کے دوست جس شوق کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ امید کرنا بعید از قیاس نہیں کہ اگرخدا کا فضل شامل رہے تو شائد مرکزی جماعت اپنے تیس ہزار کے وعدے سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع کرلے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی دس ہزار کی رقم کو بڑھا کر ساڑھے بارہ ہزار کردیا ہے۔ اِسی طرح لجنہ اماء اللہ قادیان سے بھی دوہزار کی توقع کی جاتی ہے۔ فجزاھم اللّٰہ خیراً کان اللّٰہ معھم۔
قادیان کے مختلف محلوں کے پریزیڈنٹ صاحبان بڑے شوق اور اخلاص کے ساتھ اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور جو رپورٹیں مجھے ان کی طرف سے موصول ہورہی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ خدا کے فضل سے اہلِ قادیان نے اس تحریک کی غرض وغایت اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور اس کے مطابق اپنی کمر ہمت کو کس کر ہر قربانی کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ قادیان کے ایک غریب دوست کے متعلق مجھے رپورٹ ملی ہے کہ انہوں نے ایک زمین کا ٹکڑا جس کی قیمت قریباً تین سو روپیہ ہے اس چندہ میں پیش کر دیا ہے حالانکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ دوست بالکل بیکار ہیں اور کوئی ماہوار آمد نہیں رکھتے اور غالباً چندہ عام کی شرکت سے بھی عموماً محروم رہتے ہیں مگر اس تحریک میں انہوں نے اپنی اڑھائی تین سو روپے کی زمین بخوشی پیش کردی ہے۔
اسی طرح ایک اور بزرگ جنہوں نے پہلے اس تحریک کو ایک عام تحریک خیال کرتے ہوئے صرف حصولِ ثواب کی غرض سے پانچ روپیہ چندہ لکھایا تھا، جب ان پر اس تحریک کی اہمیت ظاہر ہوئی تو انہوںنے پانچ روپے کی بجائے پانچ سو روپیہ چندہ لکھایا حالانکہ ان کی ماہوار آمد صرف دو سو روپیہ ہے۔
اسی طرح ایک اور دوست نے ابتداء میں صرف پچیس روپے چندہ لکھایا تھا لیکن جب قادیان کی کمیٹی کے قیام کے بعد ان پر اس تحریک کی غرض وغایت اور اہمیت ظاہر کی گئی تو انہوں نے اپنے چندہ کو بڑھا کر تین سو کردیا اور بعد میں شائد اس سے بھی زیادہ کردیں۔ اسی قسم کی بہت سی مثالیں قادیان کے قریباً ہرمحلہ میں پائی جاتی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تخت گاہ رسول کے حاشیہ نشین خدائی نعمت کی شکرگزاری میں کِسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہم نے قادیان کے ہر محلہ کے ذمہ اس کے سالانہ بجٹ کو سامنے رکھ کر اس سے کم وبیش ڈیوڑھی رقم لگا دی تھی۔ جو پریزیڈنٹ صاحبان کے مشورہ سے لگائی گئی تھی لیکن جب یہ رقم اہل محلہ کے سامنے پیش ہوئی تو قریباً سب محلہ والوں نے اتفاق رائے کے ساتھ اس سے زیادہ رقم مہیا کرنے کی آمادگی ظاہر کی جو بعض صورتوں میں ہماری مشورہ کردہ رقم سے ڈیڑھ گنی اور اصل سالانہ بجٹ کی رقم سے اڑھائی تین گنی تک پہونچتی ہے۔ اخلاص کا یہ قابل قدر نمونہ یقینا نہایت خوشکن اور ایمان افروز ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کے ایمان واخلاص میں اس سے بھی بڑھ کر برکت عطا کرے اور دوسروں کو بھی ان کے نمونہ پر چلنے کی توفیق دے کیونکہ ایک نیک اور صالح عمل کا یہی بہترین ثمرہ ہے۔
میں اس موقع پر اپنے دوستوں کو پھر یہ بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں ہے بلکہ جس صورت اور جن حالات میں وہ جماعت کے سامنے آئی ہے ان کے ماتحت وہ:-
اول :جماعت کے اس اخلاص وایمان کا امتحان ہے جو اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق قائم ہے۔ جن کے دعوے پر آج پچاس سال۔ ہاں کامیابی وکامرانی کے پچاس سال پورے ہورہے ہیں۔
دوم: وہ جماعت کی اس محبت و وفاداری کا بھی امتحان ہے جو اسے خلافت جیسی عظیم۔الشان نعمت کے ساتھ حاصل ہے جس کے موجودہ دَور پر عنقریب پچیس سال پورے ہونے والے ہیں۔
سوم :وہ ایک حقیر مالی شکرانہ ہے جو سلسلہ کے قیام پر پچاس سال اور موجودہ خلافت کے قیام پر پچیس سال پورے ہونے پر خدا کے حضور پیش کیا جارہا ہے۔
چہارم: وہ اس قلبی عہد کا عملی اظہار ہے کہ جو ذمہ داریاں سِلسہ کے قیام کے ساتھ ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ہم انہیں بیش ازپیش شوق وقربانی کے ساتھ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔
پنجم :وہ اس قومی غیرت کا بھی امتحان ہے کہ جب خدا کی ایک جماعت کِسی بوجھ کے اٹھانے کی ذمہ داری لیتی ہے اور دوست ودُشمن میں اس ذمہ داری کا اعلان کرتی ہے تو پھر دُنیا کی کوئی مشکل اسے اس رستہ سے ہٹا نہیں سکتی۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بیرونی دوست بھی اسی شوق وذوق کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیں گے جس سے کہ قادیان کے غریب اصحاب الصفہ حصہ لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اوراپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱مئی۱۹۳۸ئ)









ریویوآف ریلیجنز اردو کا نیا دَور
ریویو اردو اور انگریزی وہ مبارک رسالے ہیں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے داغ بیل قائم کی اور جن کی طرف آپ کو خاص توجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ریویو ایک خاص شان رکھتا تھا اور اس کے اوراق بیشتر طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لکھے ہوئے یا لکھائے ہوئے مضامین سے مزیّن نظر آتے تھے اور دنیا اس رسالہ کا لوہا مانتی تھی مگر طبعاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اس کی وہ شان نہیں رہی۔ بلکہ زیادہ افسوس یہ ہے کہ یہ رسالہ دوستوں کی بے۔توجہی سے آہستہ آہستہ گر کر ایک بالکل معمولی صورت اختیار کرگیا۔ معمولی کا لفظ میں نے نسبتی طور پر استعمال کیا ہے۔ یعنی میری مراد یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے رسائل اور اخبارات میں اس کی معمولی حیثیت رہ گئی ورنہ بہرحال چونکہ اس کے مضامین احمدیت کی روشنی میں لکھے جاتے رہے ہیں، وہ دنیا کے دوسرے رسالوں میں پھر بھی ممتاز رہا ہے لیکن حال ہی میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ کی توجہ سے اس رسالہ نے ایک نیاورق پلٹا ہے اور سابقہ انتظام کو بدل کر مولوی علی محمد صاحب اجمیری مولوی فاضل کو ریویو اردو کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ مولوی صاحب موصوف نہ صرف علوم دینیہ کے ایک جیّد عالم ہیں بلکہ ایک کہنہ مشق مصنف بھی ہیں اور ان میں یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ایسا عالم یقینا خدا کی توفیق اور فضل کے ساتھ رسالہ کو بہتر بنانے میں بہت کچھ مدد دے سکتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ مولوی صاحب کے عہد میں انشاء اللہ ریویو اردو بہت ترقی کرے گا۔ ذالک ظنی بہ وارجوامن اللّٰہ خیراً
مگر اس امید افزا تبدیلی کے ساتھ دوستوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رسالہ کو بہتر بنانے کے لئے پوری پوری کوشش اور جدوجہد سے کام لیں اور اس کی خریداری کے بڑھانے میں مدد دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی یہ خواہش تھی کہ ریویو کی خریداری دس ہزار تک پہنچ جاوے۔ سو اگر ایک طرف جماعت ہمت کرے اور دوسری طرف رسالہ کے ارباب حل وعقد اس کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں تو کوئی تعجب نہیں کہ اب جبکہ خدا کے فضل سے جماعت کافی ترقی کرچکی ہے۔ رسالہ کی خریداری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق دس ہزار تک نہ پہنچ جائے۔ یہ دن جماعت کے لئے یقینا ایک حقیقی خوشی کا دن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ دوستوں کو اپنے فرض کے شناخت کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل۱۰جولائی ۱۹۳۸ئ)






ایک غلط فہمی کا ازالہ
کچھ عرصہ سے مجھے خلافت جوبلی فنڈ کمیٹی قادیان کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔ جس پر بعض بیرونی دوستوں کو یہ غلط فہمی پیش ہورہی ہے کہ گویا میں مرکزی کمیٹی کا صدر ہوں۔ اور اس میدان میںجملہ جماعتوں کے کام کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کمیٹی کا میں صدر ہوں اس کاتعلق صرف قادیان کے ساتھ ہے۔ بیرونی جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا تعلق براہ راست ناظر صاحب بیت المال سے ہے۔ امید ہے کہ اس اعلان کے بعد اس معاملہ میں کوئی غلط فہمی نہیں رہے گی۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں احباب تک یہ بات بھی پہونچانا چاہتا ہوں کہ آج کل میں ناظر تعلیم وتربیت یا ناظر تالیف وتصنیف نہیں ہوں بلکہ مجھے سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کے لئے ان کاموں سے فارغ کردیا گیا ہے اور آج کل ان نظارتوں کا چارج عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کے پاس ہے۔ پس آج کل دوست ان نظارتوں کے کام کے متعلق مجھے نہ لکھا کریں بلکہ موجودہ ناظر صاحب کو مخاطب کیا کریں بلکہ بہتر یہ ہے کہ محکمانہ امور میں کسی شخص کو نام لے کر خط نہ لکھا جائے کیونکہ اس میں پچیدگی پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور بعض اوقات خط ضائع ہوجاتے ہیں صرف عہدہ کا نام لکھنا چاہیئے۔ امید ہے دوست اسے نوٹ فرمالیں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۳جولائی۱۹۳۸ئ)




خلافت ثانیہ جوبلی فنڈ کیا ہے
خلافت ثانیہ جوبلی فنڈ کو کامیاب بنانا ایک نہایت اہم دینی فرض ہے جو ایک دوہرے جذبہ پر مبنی ہے کہ خدا کی گزشتہ نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور آیندہ کے لئے اس کی بیش از پیش خدمت کا عہد باندھا جائے۔ خلافت جوبلی کیا ہے؟ یہی کہ اے خدا جو فضل تو نے ہم پر نبوت وخلافت جیسی عظیم،الشان نعمتوں کے ذریعہ کیا ہے جن میں سے نبوت پر پچاس سال پورے ہورہے ہیں اور خلافت ثانیہ پر پچیس سال، تو ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے اور وہ تحیّہ شکر اس رنگ میں قبول فرما کہ ہم اس موقع پر تیرے سلسلہ کی خدمت کے لئے آیندہ کے واسطے ایک مضبوط فنڈ قائم کردیں۔ یہ ایک اسی قسم کا دینی مظاہرہ ہے جس طرح ہفتہ کے سات دنوں کی نمازوں کے بعد جمعہ آتا ہے یا رمضان کے روزوں کے بعد عید الفطر آتی ہے۔ یا حج کے بعد عید الاضحی آتی ہے کیونکہ مومن کی خوشی اور مومن کا شکریہ بھی عبادت کی صورت میں ہی ظاہر ہوتے ہیں اور اس زمانہ میں دین کی خدمت کا ایک بھاری ذریعہ مالی قربانی ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کرکے یہ ثابت کردیں کہ ہم اپنی سابقہ قربانیوں پر حقیقۃً خوش ہیں اور اس رستہ میں ترقی کرنے میں ہی اپنی خوشی اور سعادت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ اگست۱۹۳۸ئ)




حوالہ جات
۱۹۳۸ء
۱۔تذکرہ صفحہ۲۵۵ طبع۲۰۰۴ء
۲۔ تذکرہ صفحہ۳۰۴ طبع۲۰۰۴ء
۳۔ فتاویٰ احمدیہ۔ حصہ دوم صفحہ۵۹ اشتہار۲۹ مئی ۱۸۹۸ء
۴۔ ماخوذ۔ الحکم۳ ستمبر۱۹۰۱ء صفحہ۹
۵۔ جامع الترمذی ابوب الذھد۔ باب من حسن اسلام المَرْء ترکہ مالا یعنیہ۔۱۱
۶۔الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ۳
۷۔ الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء
۸۔ المومنون:۴
۹۔ الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ء
۱۰۔ البدر ۳اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۲
۱۱۔ البدر ۲۳ جولائی ۱۹۰۳ئ۔ فتاوٰی احمدیہ صفحہ۶۷
۱۲۔ البدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۱
۱۳۔ البدر ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۱۰
۱۴۔بدر ۱۶ مئی۱۹۱۲ء صفحہ۳
۱۵۔ منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ۱۶۴
۱۶۔ الفضل۱۷ تا ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ۱۱
۱۷۔ منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ ۱۶۳
۱۸۔ منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ۲۱۹
۱۹۔ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء
۲۰۔ البقرہ:۲۸۳
۲۱۔ البقرہ:۲۸۴
۲۲۔ النسائ:۱۳۶
۲۳۔ الفرقان:۷۳
۲۴۔ المائدہ:۹
۲۵۔ المائدہ:۹
۲۶۔الھود:۶۵
۲۷۔ الطلاق:۲
۲۸۔ البقرہ:۱۰۷
۲۹۔ تتمّہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲۔ صفحہ۵۷۰
۳۰۔ تذکرہ صفحہ۱۶۷ طبع۲۰۰۴ء
۳۱۔ البقرہ:۹ تا ۱۵
۳۲۔النسائ:۱۴۶
۳۳۔ البقرہ:۲۰-۲۱
۳۴۔ الحجرات: ۱۵-۱۶
۳۵۔ التوبۃ:۱۰۱
۳۶۔ صحیح البخاری۔ کتاب الایمان۔ باب عَلَامَۃِ المُنَافِقِ۔۲۴
۳۷۔ البقرہ:۴
۳۸۔ البقرہ:۲۸۷


















۱۹۳۹ء
مذہبی اِصطلاحات کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت
خاتم المناظرین کی غلط اصطلاح
اس جلسہ سالانہ کے ایام میں میری نظر سے ایک اشتہار گزرا۔ جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی اے۔ایل۔ایل۔بی گجرات کی تصنیف کردہ ’’پاکٹ بک‘‘ کے جدید ایڈیشن کا اعلان تھا۔ یہ اشتہار ایک احمدی کتب فروش کی طرف سے تھا اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا خادم صاحب کی اطلاع کے بغیر شائع کیا گیا تھا۔ اس اشتہار میں کتب فروش صاحب نے خادم صاحب کے متعلق ’’خاتم،المناظرین‘‘ کے الفاظ استعمال کئے تھے۔ جس سے ان صاحب نے غالباً یہ مراد لی تھی کہ خادم صاحب سلسلہ کے بہترین مناظر ہیں۔ مجھے اس وقت اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کہ سلسلہ کا بہترین مناظر کون ہے لیکن اگر سلسلہ کے موجودہ مناظرین میں سے خادم صاحب کو ہی بہترین مناظر فرض کرلیا جائے تو پھر بھی کِسی فردِ جماعت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ سِلسلہ کے مناظرین پر قاضی اورحاکم بن کرکسی شخص کے متعلق یہ اعلان کرتا پھرے کہ وہ سِلسلہ کا بہترین مناظر ہے۔ کیونکہ اول تو یہ فیصلہ بہت بھاری ذمہ داری کا کام ہے، جسے اٹھانا آسان بات نہیں۔ علاوہ ازیں اس سے فتنوں کے پیدا ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے، جس سے بہرصورت پرہیز لازم ہے۔
پس اگر فرض کے طور پر ’’خاتم المناظرین‘‘ کے وہی معنی سمجھ لئے جائیں، جو غالباً کتب فروش صاحب نے مراد لئے ہیں، پھر بھی اس قسم کا اعلان سراسر نامناسب اور ناواجب ہے اور اس میں سِلسلہ کے ان علمائے کرام کی بھی ہتک ہے جو اس وقت سے کہ ابھی خادم صاحب غالباً پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، سِلسلہ کی قلمی اورلسانی خدمت میں مصروف چلے آئے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خود خادم صاحب کو بھی ہرگزان معنوں میں بھی اس لفظ کے استعمال سے اتفاق نہیں ہوگا۔
لیکن اس وقت جس بات کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ اور ہے۔ احباب کو معلوم ہے ہمارے لٹریچر میں ’’خاتَم‘‘ کا لفظ ایک معرکۃ الآرا لفظ رہا ہے اور آیت خاتم النبیین کی تشریح کے تعلق میں اس لفظ کی حقیقت بالکل عیاں اور واضح ہوچکی ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تحریرات میں بھی اس لفظ کے متعلق بہت کافی بحث گزرچکی ہے۔
پس ہمارے لئے یہ لفظ کوئی نیا لفظ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اگر کوئی جماعت اس لفظ کے حقیقی معنوں سے واقف ہے تو وہ صرف احمدی جماعت ہے۔ ان حالات میں جماعت کے دوستوں پر اس لفظ کے استعمال کے متعلق بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یقینا اگر ہم لوگ اس لفظ کو غلط طور پر استعمال کریں تو یہ ایک نہایت ہی قابلِ افسوس فعل ہوگا۔
جیسا کہ ہراحمدی کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور آپ کے خلفاء کی تشریح کے مطابق’’خاتم‘‘ سے مراد وہ برگزیدہ انسان ہے جو کِسی فن میں اَیسا کمال پیدا کرے کہ نہ صرف وہ تمام گزشتہ لوگوں پر سبقت لے جائے بلکہ آئندہ آنے والے لوگ بھی سب کے سب اس کے خوشہ چین بن جائیں اور کوئی شخص اس کی شاگردی کے بغیر اس میدان میں کمال پیدا نہ کرسکے۔ اب کتب فروش صاحب غور کریں کہ کیا وہ خادم صاحب کو فنِ مناظرہ میں ایسا ہی باکمال سمجھتے ہیں کہ نہ صرف وہ تمام گزشتہ اور موجودہ مناظرین پر سبقت لے جاچکے ہوں بلکہ آئندہ کے لیئے بھی قیامت تک کوئی شخص جو مناظرہ کے فن میں کمال پیدا کرنا چاہے، ان کے تلمّذ کے بغیر اس عزت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ یقینا وہ خادم صاحب کو ایسانہیں سمجھتے ہوں گے، اور اگر اَیسا سمجھتے ہیں تو لاریب وہ سخت غلطی خوردہ ہیں۔
حق یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی فن میں ’’خاتم‘‘ کا لقب دنیا یہ صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کے بغیر کوئی اس بات کا حقدار نہیں کہ کسی شخص کو اس نام سے یاد کرے۔اسلام اور احمدیت کے لٹریچر میں یہ لقب صرف دوہستیوں کے متعلق استعمال ہوا ہے اور دونوں صورتوں میں اسے خود ذات باری تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اور ان کے استعمال کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اس کی تائید میں دلائل کا ایک ایسا سُورج چڑھادیا ہے کہ ہردیکھنے والا جانتا اور سمجھتا ہے کہ حق حقدار کو پہونچا ہے یعنی ایک تو قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ’’خاتم النبیین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور دوسرے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ’’خاتم،الاولیائ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ دونوں تیر ایسے نشانہ پر بیٹھے ہیں کہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ لفظ ازل سے ان ہی بزرگ ہستیوں کے لئے وضع ہوئے تھے اور جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق خاتم النبیین کے یہ معنی کئے ہیں کہ آپ نے نبوت کے کمالات کو اس درجہ کمال اوراتم صورت میں اپنے اندر جمع کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ کوئی گزشتہ نبی اس مقام کو نہیں پہونچا اور سب نبوتیں آپ کی نبوت کے سایہ کے نیچے ہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی شخص نبوت کے فیض سے فیضیاب نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ وہ یہ نور آپ کی وساطت سے حاصل نہ کرے اور اپنے متعلق’’خاتم الاولیائ‘‘ کے لفظ کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ کی ہے کہ آپ کے اندر ولایت کے کمالات اپنے معراج کو پہونچ گئے ہیں اور آئندہ کوئی شخص ولایت کے رتبہ کو آپ کی اتباع کے بغیر نہیں پاسکتا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’وَاِنِّیْ عَلٰی مَقَامِ لْخَتْمِ مِنَ الْوِلَایَۃِ کَمَا کَانَ سَیِّدِیِ الْمُصْطَفیٰ عَلٰی مَقَامِ الْخَتَمِ مِنَ النُّبْوَّۃِ وَاِنَّّہُ خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ وَاَنَا خَاتَمُ الْاُوْلِیَائِ لَاوَلِیَّ بَعْدِیْ۔ اِلَّاالَّذِیْ ھُوَمِنِّی وَعَلٰی عَھْدِیْ……وَاِنَّ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی مَنَارَۃٍ خُتِمَ عَلَیْھَا کُلُّ رِفْعَۃٍ۔۱؎
یعنی میں ولائت کے میدان میں ختم کے مقام پر فائز ہوں جس طرح میرا سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبوت کے میدان میں ختم کے مقام پر فائز تھا کیونکہ وہ خاتم الانبیاء تھا اور مَیں خاتم الاولیاء ہوں۔ پس میرے بعد کوئی ولی نہیں آسکتا۔ مگر وہی جو مجھ میں ہوکر ظاہر ہو اور میری اتباع کا جوا اپنی گردن پر رکھے……اور میرا یہ قدم ایک ایسا مینار پر قائم ہے کہ جس پر تمام بلندیاں ختم ہوگئی ہیں۔‘‘
پس ہم تو صرف ان دوختمیتوں کے قائل ہیں اور ان کے سوا جو شخص خدا کے حکم کے بغیر کسی ختمیت کا دعویدار بنتا ہے، خواہ اپنے لئے اور خواہ کسی اور کے لئے وہ یقینا جھوٹا اور غلطی خوردہ ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آیندہ ان الفاظ کے استعمال کرنے میں جو ہمارے لٹریچر میںایک مقدس مذہبی اصطلاح کے طور پر قائم ہوچکے ہیں، بہت احتیاط سے کام لیں گے کیونکہ ایسے الفاظ کا غلط استعمال نہ صرف استعمال کرنے والے کو گنہگار بناتا ہے بلکہ جماعت میں بھی فتنہ کا دروازہ کھولتا ہے۔ اور ان بلند مرتبہ اصطلاحات کی ہتک کا باعث بنتا ہے جن کو خود خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے تقدس اور رفعت کی چادر پہنائی ہے۔
رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔۲؎
آخر میں مَیںیہ بات پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس لفظ کے استعمال میں خود خادم صاحب کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ ان کو اس کا علم بھی اس وقت ہوا جبکہ یہ اشتہار شائع ہوچکا تھا اور اس کے شائع ہونے پر انہوں نے بھی اسے اسی طرح بُرا منایا جس طرح ایک باغیرت احمدی کو بُرا مناناچاہیئے تھا۔ پس جیسا کہ انہوں نے خود مجھے بتایا ہے ان کا دامن اس غلطی کے ارتکاب سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں ہر قسم کی ظاہری اور باطنی کمزوریوں سے محفوظ رکھ کر اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۷جنوری۱۹۳۹ئ)









مسجد اقصیٰ اورمسجد مُبارک کے لئے چندہ کی تحریک
احباب کو معلوم ہے کہ قادیان کی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک جماعت احمدیہ کی خاص طور پر مقدس اور برکت والی مسجدیں ہیں جن میں سے مسجد اقصیٰ کی بنیاد تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد نے اپنی عمر کے آخری ایام میں رکھی اور اسی کے ایک حصہ میں وہ مدفون ہیں۔ اور مسجد مبارک کی بنیاد خود حضرت؎ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے زمانہ میں اپنے ہاتھ سے رکھی اور آپ ساری عمر ان ہر دومساجد کو استعمال فرماتے رہے۔ علاوہ ازیں ان مساجد کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ مسجد مبارک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ الہام نازل فرمایا کہ :-
’’مُبَارِکٌ وَمُبَارِکٌ وَکُلُّ اُمْرٍ مُبَارَکٍ یَّجْعَلُ فِیْہ.6ِ۳؎
یعنی یہ مسجد نہ صرف خود برکت والی مسجد ہے بلکہ برکت دہندہ بھی ہے اور اللہ،تعالیٰ کے فضل سے اس میں ہرقسم کے مبارک کام ہوتے رہیں گے۔‘‘
دوسری طرف مسجد اقصیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مسجد اقصیٰ کا نام دے کر اس کی اخص برکات کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔ اور اس کے اندر مینارۃ المسیح جیسی عظیم الشان یادگار کے تعمیر ہونے سے بھی اس مسجد کو ایک لازوال خصوصیت حاصل ہوگئی ہے۔
پس یقینا قادیان کی یہ دومسجدیں سلسلہ کے بہت بڑے نشانات میں سے ہیں اور عظیم الشان شعائراللہ میں داخل ہیں اور ان کی آبادی اورتکریم اور توسیع جماعت کے اہم فرائض میں سے ہے۔
چونکہ قادیان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ایک عرصہ سے ان مساجد میں جگہ کی تنگی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ان کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس غرض سے جماعت کے دوستوں میں خاص چندہ کی تحریک کی گئی تھی جس سے تقریباًساڑھے پانچ ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا تھا مگر جب توسیع کے کام کو عملاً شروع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ چندہ بالکل غیرمکتفی تھا۔ چنانچہ اس رقم سے مسجد اقصیٰ کی توسیع ہی مکمل نہیں ہوسکی اور ابھی مسجد مبارک کی توسیع کلیۃً باقی ہے۔ زیادہ خرچ کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ چونکہ مسجد اقصیٰ کی نچلی منزل میں سٹور اور گودام وغیرہ کے لئے تہہ خانے بنائے گئے اور بھاری بھاری گارڈر ڈالے گئے اس لئے عمارت کا خرچ بڑھ گیا۔ لہٰذا مزید چندہ کی ضرورت پیش آئی۔ اس چندہ کے لئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خود بنفس نفیس جلسہ کے ایام میں تحریک فرماچکے ہیں۔ چنانچہ جلسہ سے قبل جو جُمعہ آیاتھا اس کے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کے چندہ کے لئے خاص طور پر پُرزور تحریک فرمائی تھی۔ یہ خطبہ اخبار ’’الفضل‘‘ میں چھپ چکا ہے اور احباب خطبہ کے مضمون سے آگاہ ہوچکے ہیں۔
اس کے بعد مسجد مبارک کی توسیع کے لئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس پبلک جلسہ میں تحریک فرمائی جو مورخہ ۳جنوری کو جلسہ کے اختتام پر منعقد ہوا تھا۔ اس تقریر میں حضور نے مسجد مبارک کے لئے چندہ کے لئے ایک خاص سکیم تجویز فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ہرکمانے والا بالغ مرد مسجد مبارک کے لئے کم از کم ایک آنہ فی کس کے حساب سے اور زیادہ سے زیادہ دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ دے۔ یعنی کسی کمانے والے مرد سے ایک آنہ سے کم چندہ وصُول نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی دس روپے سے زیادہ چندہ قبول کیا جائے گا تاکہ کوئی فرد جماعت اس چندہ سے باہر نہ رہ جائے اور نہ ہی کسی پر اس چندہ کا کوئی غیرمعمولی بوجھ پڑے۔ جن بچوں اور عورتوں کی اپنی کوئی آمد نہیں ہے ان کے لئے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ وہ کم از کم ایک پیسہ فی کس کے حساب سے چندہ دیں اور اگر وہ نہ دے سکتے ہوں تو ان کی طرف سے بچوں کے والدین یا عورتوں کے خاوند چندہ ادا کریں۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر دوتحریکات کے پیش نظر اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام مقامی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی جگہ ان تحریکات کو پہونچاکر جلد ترچندہ کی وصولی کا انتظام کریں اور جملہ چندہ جو جمع ہو وہ محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام بھجوایا جائے اور ساتھ ہی یہ تصریح کردی جائے کہ یہ چندہ مسجد اقصیٰ یا مسجد مبارک کے لئے ہے۔ یہ کام خاص کوشش کے ساتھ ایک دوماہ کے اندر اندر ہوجانا چاہیئے تاکہ ہم اپنے امام کی آواز پر جلد تر لبیک کہنے والے قرار دیئے جائیں اور خداتعالیٰ کی طرف سے بیش از پیش انعامات کے وارث ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱جنوری۱۹۳۹ئ)


مسجد مبارک کے متعلق الہام کی تصحیح٭
کل کے اخبار الفضل میں میرا ایک نوٹ مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کے چندہ کی تحریک کے لئے شائع ہوا ہے۔ اس میں کاتب صاحب کی غلطی اور مصحح صاحب کی سہل انگاری سے مسجد مبارک کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام غلط چھپ گیا ہے۔ چونکہ اس الہام کے متعلق بہت سے دوست غلطی کھاتے ہیں اس لئے اسے صحیح صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔ تاکہ آیندہ غلطی نہ ہو۔ اصل الہام یہ ہے:-
مُبَارَکٌ وَمُبَارِکٌ وَکُلُّ اَمْرٍمُبَارَکٍ یُجْعَلُ فِیْہِ۔۴؎
یعنی پہلے مبارک کی ر پر زبر ہے دوسرے کی ر کے نیچے زیر ہے۔ اور تیسرے پر پھر زبر ہے۔ علاوہ ازیں پہلے دو مبارک کے ک کے اوپر رفع کی تنوین ہے۔ اور تیسرے مبارک کے نیچے تنوین ہے۔ اور یجعل کا لفظ بصیغہ مجہول ہے۔ اور معنی اس الہام کے یہ ہیں کہ
’’یہ مسجد نہ صرف خود برکت والی ہے یعنی برکت یافتہ ہے۔ بلکہ برکت دینے والی بھی ہے۔ یعنی برکت دہندہ ہے اور اس مسجد میں ہر قسم کے برکت والے کام ہوتے رہیں گے۔‘‘
امید ہے آیندہ دوست اس الہام کو اچھی طرح یاد رکھیں گے اور اس کے متعلق کسی غلطی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ جنوری۱۹۳۹ئ)


خلافت جوبلی فنڈ کے متعلق جماعت کی ذمہ واری
بکوشِید اے جواناں تابہ دیں قوّت شود پیدا
بہار و رونق اندر روضۂ ملّت شود پیدا ۵؎
شکرگزاری کا خاص موقع
خلافت جوبلی فنڈ کی تکمیل کا وقت اب بہت قریب آرہا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۴مارچ ۱۹۳۹ء کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی خلافت کے پچیس سال پورے کرلیںگے۔ اور حسنِ اتفاق سے اسی ماہ میں سلسلۂ عالیہ احمدیہ کے قیام پر بھی پچاس سال کا عرصہ پورا ہورہا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پہلی بیعت مارچ ۱۸۸۹ء میں لی تھی۔ اس طرح یہ سال ہمارے لئے دوہری خوشی کا سال ہے اور چونکہ مومن کی خوشی بھی عبادت اور شکرگزاری کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، اس لئے ہمیںچودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کا ممنون ہونا چاہیئے کہ انہوں نے اس موقع پر خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک کرکے جماعت کو اس اہم شکرگزاری میں حصہ لینے کا موقع دیا۔
جذبۂ شکرگزاری کا عملی ثبوت
چودھری صاحب نے اس کے لئے تین لاکھ روپے کی تحریک کی ہے۔ اس رقم کی تعیین میں جماعت کا مشورہ شامل نہیں تھا ورنہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ رقم کا فیصلہ کرتی یا یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے چندوں کے پیش نظر اس سے کم رقم کا فیصلہ کرتی مگر بہرحال جب ہمارے معزز محرک صاحب نے ایک رقم کی تعیین فرمادی ہے اور اس میں سے ایک تہائی رقم کے جمع کرنے کی خود ذمہ،واری لی ہے تو اب جماعت کا فرض ہے کہ وہ بقیہ دولاکھ کی رقم کو وقت کے اندر اندر پورا کرکے اپنے جذبۂ شکرگزاری کا عملی ثبوت پیش کرے۔یہ درست ہے کہ اس سال چندوں کا غیرمعمولی بوجھ جمع ہوگیا ہے۔ چنانچہ چندۂ عام اور چندہ تحریک جدید، چندہ جلسہ سالانہ کے علاوہ اس سال صدر انجمن احمدیہ کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے چندۂ خاص اور پھر مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک اور مینارۃ المسیح کے لئے خاص تحریکات ہورہی ہیں اور جماعت کی مالی طاقت نہایت محدود ہے۔ اس لئے اس موقع پر خلافت جوبلی فنڈ کے چندے کی تحریک یقینا جماعت کے لئے ایک بھاری بوجھ کا باعث سمجھی جاسکتی ہے لیکن یہ بوجھ بہرحال جماعت نے ہی اٹھانے ہیں اور قربانی کے جس مقام پر جماعت کو کھڑا کیا گیا ہے، اس کے پیش نظر یہ بوجھ کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سِلسلہ کا مال ہے۔ اور ہمارا احمدیت کے عہد کو قبول کرنا یہی معنی رکھتا ہے کہ ہم نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے مالوں کا مالک نہیں بلکہ صرف امین خیال کریں گے اور خدا کی طرف سے آواز آنے پر اپنے اموال کی پائی پائی لاکر سِلسلہ کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ یہی وہ رُوح ہے جو خدا ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ رُوح ہے جو ہمیں کامیابی کا مونہہ دکھا سکتی ہے۔
عظیم الشان ذمہ واری کو پہچانیں
پس اب جبکہ خلافت جوبلی کا وقت قریب آرہا ہے۔ میں دوستوں سے یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی عظیم الشان ذمہ واری کو پہچانیں اور ایسی قربانی کا نقشہ پیش کریںجو ان کی شان کے مطابق ہے۔ شان سے میری مراد مالی شان نہیں ہے کیونکہ مالی لحاظ سے تو ہم ایک بہت غریب جماعت ہیں بلکہ شان سے میری مراد ایمان کی شان ہے۔ جس کے آگے کوئی قربانی بڑی نہیں سمجھی جاسکتی۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ان کے پاس کوئی روپیہ نہیں میں کہتا ہوں کہ اگر نقد روپیہ نہیں ہے تو اکثر لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ جائیداد تو ہے خواہ وہ زمین اور مکان کی صورت میں ہو یا زیور وغیرہ کی صورت میں۔ پس جس شخص کے پاس کوئی جائداد ہے وہ بھی اسی طرح اس ذمہ داری کے نیچے ہے جس طرح کہ نقدر وپے والا اس کے نیچے ہے۔ اگر ہم اپنے بیاہ شادیوں کے موقع پر اپنی جائدادوں کا ایک حصہ رہن یا بیع کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سلسلہ کی ایک خاص خوشی کے موقع پر جو گویا جماعت کی شادی کا موقع ہے ہم اپنی خوشی اور ایمان کے مطابق خرچ نہ کریں۔ خصوصاً جبکہ افراد کی شادی کے موقع پر خرچ کیا ہوا روپیہ ضائع چلاجاتا ہے مگر یہ روپیہ سلسلہ کی ضروریات پر خرچ ہوگا اور انشاء اللہ قیامت تک کے لئے صدقہ جاریہ کا کام دے گا۔
پس اے دوستو! اپنی ذمہ واری کو پہچانو اوراپنے ایمان اور اخلاص کے امتحان کے لئے تیار ہوجائو۔ دشمن کی نظر ہمارے اوپر ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے پیارے سلسلہ اور خلافتِ حَقّہ کے لئے قربانی کا کیا نمونہ دکھاتے ہو۔ سِلسلہ کے کام تو بہرحال ہوکر رہیں گے۔ کیونکہ یہ ایک ازل سے جاری شدہ آسمانی قضاء ہے جو ہرگز ٹل نہیں سکتی۔مگر مبارک ہے وہ جو اس آسمانی قضاء کی تکمیل میں حصہ دار بنتا ہے۔ وہ دنیا میں خدا ہی کے دیئے ہوئے مال سے کچھ تھوڑا سا مال خدا کو واپس دے کر اپنے لیئے نہ صرف دنیا میں لسان صدق حاصل کرتا ہے بلکہ جنت میں بھی ایک ایسے مکان کی بنیاد رکھتا ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری آنکھیں کھولے اور ہمیں اس قربانی کی توفیق دے جو خدا کی آخری جماعت کے شایانِ شان ہے۔ اے اللہ! تو ایسا ہی کر اور ہمیں اپنے فضل سے دُنیا وآخرت میں کامل سرخروئی عطا فرما کیونکہ کوئی توفیق تیرے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ اٰمین اللّٰھُمَّ اٰمین
جوبلی فنڈ کہاں خرچ ہوگا
بعض لوگ دریافت کیا کرتے ہیں کہ خلافت جوبلی فنڈ کا چندہ کہاں خرچ ہوگا۔ اس کا یہ جواب ہے جو سب دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ رقم جمع کرکے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ،العزیز کے سامنے پیش کردی جائے گی اور پھر حضور اسے سلسلہ کے مفاد میں جس طرح پسند فرمائیں گے خرچ فرمائیں گے۔یعنی اس کے خرچ کے متعلق چندہ پیش کرنے والوں کی طرف سے کوئی حدبندی یا قید نہیں ہوگی کہ ضرور فلاں مد میں خرچ کی جائے۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ مثلاًیہ روپیہ ضرور سلسلہ کی تبلیغ میں خرچ کیا جائے یا ضرور جماعت کی تعلیم وتربیت میں خرچ کیا جائے۔ وغیر ذالک بلکہ خرچ کی مد یا مدات کا فیصلہ کرنا کلیۃً حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اختیار میں ہوگا کہ خواہ وہ اسے تبلیغ میں خرچ فرمائیں یا تعلیم وتربیت میں خرچ فرمائیں یا جماعت کے بیت المال کی مضبوطی میں خرچ فرمائیں یا مرکز سلسلہ کی مضبوطی میں خرچ فرمائیں یا کسی اور مد میں جسے حضور پسند فرمائیں اسے خرچ کریں۔ اس معاملہ میں جماعت کی طرف سے کوئی شرط یا حد بندی نہیں ہوگی اور جماعت کو بہرحال یہ یقین رکھنا چاہیئے اور اسے یہ یقین ہے کہ حضور اس رقم کو اس سے بہتر مصرف میں لائیں گے جو جماعت خود مقرر کرسکتی ہے۔
قادیان کے دوستوں سے
مجھے اپنے مفوضہ کام کے لحاظ سے چونکہ صرف قادیان کی مقامی جماعت کے چندہ سے تعلق ہے اس لئے میں اس موقع پر قادیان کے دوستوں کی خدمت میں خصوصیت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمہ واری کو پہچانیں بلکہ دراصل ان کی ذمہ واری جماعت کے دوسرے حصہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ مرکز میں رہتے ہیں اور سِلسلہ اور خلافت کی شکرگزاری کا بوجھ سب سے زیادہ ان کے کندھوں پر ہے۔ مجھے یہ خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے اپنے ابتدائی وعدہ سے بڑھ کر رقم جمع کرنے کا عہد کیا ہے اور خدا کے فضل سے اس وقت تک چالیس ہزار کے قریب وعدے ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ابتداء میں صرف پچیس ہزار کا اندازہ تھا مگر مومن کا قدم کہیں نہیں رکتااورا گر خداتعالیٰ قادیان کے دوستوں کو اس سے بھی بڑھ کر قربانی کی توفیق دے تو یہ ان کی مزید سعادت ہوگی۔ علاوہ ازیں ہمارے مقامی کارکنوں کو چاہیئے کہ وہ اب وصولی کی طرف زیادہ توجہ دیں کیونکہ وصولی کی ذمہ واری وعدہ لکھانے کی ذمہ واری سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ وعدہ کی ذمہ واری سے عہدہ برائی صرف اس صورت میں سمجھی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدہ کے مطابق عملاً رقم ادا کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی جملہ ذمہ واریوں کو بصورت احسن ادا کرنے کی توفیق دے اور ہمیں اس راستہ پر چلائے جو اس کی خوشنودی اور سلسلہ کی بہتری کا راستہ ہے۔ آمین
واٰخردعوانا ان لحمدللّٰہ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ جنوری۱۹۳۹ئ)







خلافت جوبلی کب اور کس طرح منائی جائے؟
احباب کے مشورہ کی ضرورت
اب خلافت جوبلی کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جوبلی کو کب اور کس رنگ میں منایا جائے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت پر پچیس سال کی معیاد ۱۴ مارچ ۱۹۳۹ء کو پوری ہوگی مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس دن کوئی معیاد پوری ہو اسی دن جوبلی منائی جائے بلکہ معیاد کے پُورا ہونے کے بعد کوئی مناسب وقت مقرر کیا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں ایک تجویز یہ ہے کہ ۱۹۳۹ء کے جلسۂ سالانہ کو ہی جوبلی کے لئے مخصوص کردیا جائے۔ گویا یہ جلسہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہو۔ اس تجویز میں ایک خوبی یہ ہے کہ سال میں دو اجتماعوں کی بجائے ایک ہی اجتماع دونوں غرضوں کے لئے کافی ہوجائے گا۔ اور چونکہ جلسہ کے لئے پہلے سے اجتماع ہوتا ہے۔ اس لئے اسے مزید وسعت دینے سے دوسری غرض آسانی کے ساتھ پوری ہوجائے گی اور جماعت دوسفروں کی تکلیف اور دوہرے اخراجات کے بوجھ سے بچ جائے گی۔ دوسرے چونکہ دسمبر کے آخری میں زیادہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور ان ایام میں زمیندار احباب بھی زیادہ فارغ ہوتے ہیں۔ اس لئے زمیندار پیشہ اور ملازمت پیشہ ہر دوطبقوں کو سہولت رہے گی۔ علاوہ ازیں چونکہ جلسہ میں ابھی کافی وقت ہے اس لئے جوبلی کے پروگرام کی تیاری میں بھی آسانی ہوگی اور ہر انتظام سہولت اور خوبی کے ساتھ تکمیل کو پہونچ سکے گا۔ ایک اور فائدہ اس میں یہ ہوگا کہ جو دوست اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے مارچ ۱۹۳۹ء تک جوبلی کا چندہ ادا نہیں کرسکتے اور اس وجہ سے وہ اس تحریک میں چندہ کا وعدہ لکھانے سے رُکے ہوئے ہیں، انہیں بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کا موقع مل جائے گا۔
پس احباب اس معاملہ میں اپنے مشورہ سے مرکز کو مطلع فرمائیں اور ایسی اطلاع ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کے نام آنی چاہیئے کیونکہ وہی اس کام کے نگران اور منتظم اعلیٰ ہیں مگر یہ یادرکھنا چاہیئے کہ جب تک اس بارے میں کسی فیصلہ کا اعلان نہ ہو، دوستوں کو اپنی جدوجہد اسی اندازہ کے مطابق جاری رکھنی چاہیئے کہ گویا مارچ یا اپریل میں ہی جوبلی ہوگی اور اپنی کوششوں کو سست نہیں ہونے دینا چاہیئے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ خلافت جوبلی کو منایا کس طرح جائے۔ منانے کا لفظ میں نے عرفِ عام کے خیال سے لکھا ہے ورنہ مذہبی تقریبوں کے لئے یہ لفظ زیادہ موزوں نہیں۔ بہرحال سوال ہے کہ اس تقریب کی یادگار کو ظاہری شکل وصورت کیا دی جائے۔ سو اصولی لحاظ سے تو یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ ہمارا اس جوبلی کو منانا اس رنگ میں نہیں ہوگا۔ جس طرح کہ دُنیاداروں کی جوبلیاں منائی جاتی ہیں بلکہ ہمارا اس تقریب کو منانا بھی ایک خالص مذہبی رنگ میں ہوگا۔ جس میں سلسلۂ حقہ کی تبلیغ واشاعت اور اس کا استحکام اور خدا کے فضلوں پر شکرگزاری اصل مقصود ہوں گے۔
جہاں تک سرسری طور پر خیال کیا جاتا ہے یہ تقریب مندرجہ ذیل صورتوں میں منائی جاسکتی ہے:-
۱۔ قادیان میں ایک پبلک جلسہ نہایت وسیع پیمانہ پر منعقد کیا جائے۔ اس کے لئے سلسلۂ حقّہ اور خلافتِ ثانیہ کے متعلق خاص تقاریر کا پروگرام ہو اور اس کی شرکت کے لئے ہندوستان کے مختلف حصوں سے بلکہ ممکن ہو تو بَیرونی ممالک سے بھی کثیر تعداد میں غیراحمدی اور غیرمسلم احباب کو قادیان آنے کی دعوت دی جائے اور یہ بھی کوشش کی جائے کہ احمدی احباب بھی اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں۔ اس جلسہ کو حسب دستور زنانہ اورمردانہ ہر دوحصوں میں تقسیم کیا جائے۔
۲۔ اس تقریب پر سِلسلہ کی طرف سے ایک مختصر رسالہ تصنیف کراکے شائع کیا جائے جس میں سلسلہ کی مختصر تاریخ، اس کے مخصوص مذہبی عقائد، اس کی غرض وغایت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق مؤثر اور دلکش پیرایہ میں حالات درج ہوں۔ یہ کتاب نہایت خوبصورت شکل میں طبع کرائی جائے۔ اور جوبلی کے موقع پر جو غیراحمدی اور غیرمسلم مہمان قادیان آئیں انہیں جماعت کی طرف سے ہدیۃً دی جائے لیکن احمدیوں میں قیمتاً فروخت ہو تاکہ اس کا خرچ نِکل آئے۔
۳۔ اس تقریب پر ’’الفضل‘‘ کا ایک خاص جوبلی نمبر بھی نکالا جائے جس میں خلافت سے تعلق رکھنے والے مسائل پر بحث ہو۔ اور خلافتِ ثانیہ کی برکات پر بھی مناسب مضامین ہوں اور کُچھ حصہ سلسلہ کے متعلق عام تبلیغی اور علمی مضامین کا بھی ہو۔ اور اگر ممکن ہوتو اس جوبلی نمبر میں مناسب تصاویر بھی درج کی جائیں۔ یہ اخبار کم از کم دس ہزار کی تعداد میں شائع ہو تاکہ ایک رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا وہ منشاء مبارک بھی پورا ہوجائے، جو حضور علیہ۔السلام نے سِلسلہ کے ایک رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے متعلق ظاہر فرمایا تھا کہ وہ دس ہزار کی تعداد میں شائع ہو۔
۴۔ اس موقع پر یادگار کی غرض سے صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو بھی لیا جائے جس میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ رونق افروز ہوں۔ اسی طرح اس فوٹو میں وہ اصحاب بھی شریک ہوں جنہوں نے خلافت جوبلی فنڈ میں اپنی ماہوار آمد سے کم از کم ڈیڑھ گنا چندہ دیا ہو۔ اگر ایک فوٹو کے لئے یہ تعداد زیادہ سمجھی جائے تو صحابہ اور چندہ دہندگان کا الگ الگ فوٹو لے لیا جائے اور ہر دو میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرکت کی درخواست کی جائے۔
۵۔ اس تقریب پر جلسے کی درمیانی شب کو قادیان کی تمام مساجد منارۃ المسیح اور سلسلہ کی دیگر پبلک عمارات پر چراغاں کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بعض خوشی کے موقعوں پر ہؤا ہے۔ یہ چراغاں خوشی کے طبعی اظہار کے علاوہ تصویری زبان میں اس بات کی بھی علامت ہوگا کہ جماعت کی یہ دلی خواہش اور کوشش ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کے نور کو بہتر سے بہتر صورت میں اور جلد سے جلد دنیا کے سارے کناروں تک پہونچائے۔
۶۔ اس تقریب پر جماعت کے ناداریتامیٰ اور بیوگان اور مساکین کی بھی کسی مناسب رنگ میں امداد کی جائے یا کھانا کھلایا جائے جس کی تفصیل بعد میں سوچی جاسکتی ہے۔
۷۔ اس تقریب پر نیشنل لیگ کور اور خدام الاحمدیہ کا بھی قادیان میں ایک شاندار اجتماع کیا جائے اور مناسب صورت میں ان ہر دو کے مفید کاموں کی نمائش ہو۔
۸۔ اگر ممکن ہو تو اس موقع پر قادیان میں ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا جائے جس میں ہر جماعت کا علیحدہ علیحدہ دستہ ہو اور ہر دستہ کا علیحدہ علیحدہ جھنڈا ہو جس پر مناسب عبارت لکھی ہو اور اس جلوس میں حمد اور مدع کے گیت گائے جائیں اور مناسب موقعوں پر مختصر تقریریں بھی ہوں۔ اس کی تفاصیل بعد میں سوچی جاسکتی ہیں۔
۹۔ اس تقریب پر قادیان میں ایک پاکیزہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے جس میں سلسلہ کے چیدہ شعراء سلسلہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت کی برکات کے متعلق اپنے اپنے اشعار پڑھ کر سنائیں اور پھر ان میں سے خاص خاص نظموں کا مجموعہ طبع کرکے شائع کردیا جائے یا پہلے سے ہی انتخاب کراکے طبع کرلیا جائے اور مشاعرہ کے موقع پر اسے شائع کردیا جائے۔
۱۰۔ اگر ممکن ہو تو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اس تقریب پر یہ بھی انتظام کیا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیفات میں سے جو تصنیفات اس وقت نایاب ہوں انہیں دوبارہ طبع کراکے شائع کیا جائے تاکہ اس قیمتی خزانہ میں سے کوئی حصہ نایاب نہ رہے اور سلسلہ کی تبلیغ میں ایک نئی جان پیدا ہوجائے۔
۱۱۔ اس تقریب پر جماعت کی طرف سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا جائے جس میں اخلاص وعقیدت کے اظہار کے ساتھ خلافت جوبلی فنڈکے جمع شدہ روپیہ کا چیک پیش کیا جائے اورعرض کیا جائے کہ حضور اس روپیہ کو جس مصرف میں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں خرچ فرمائیں۔
۱۲۔ اگر یہ فیصلہ ہو کہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو ہی جوبلی کا جلسہ قراردیا جائے تو اس جلسہ کا پروگرام تین دن کی بجائے چار یا پانچ دن کا رکھا جائے تاکہ سارا پروگرام آسانی کے ساتھ پورا ہوسکے۔
اسی طرح کے بعض اور کام بھی سوچے جاسکتے ہیں۔ پس اس بارہ میں بھی احباب کے مشورہ کی ضرورت ہے۔ جو ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کے نام آنا چاہیئے۔ میرے نام پر جو اب آنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میرا اس کام کے ساتھ محکمانہ تعلق نہیں ہے۔ محکمانہ تعلق ناظر صاحب اعلیٰ کا ہے۔ پس انہیں کے نام پر مشورہ آنا چاہیئے تاکہ وہ صدرانجمن میں معاملہ پیش کرکے فیصلہ کرسکیں اور ان کے پاس ریکارڈ بھی محفوظ رہے گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۹فروری ۱۹۳۹ئ)




احباب کی خدمت میں ایک ضروری اطلاع
گزشتہ سال مجھے قادیان کے حلقہ میں خلافت جوبلی فنڈ کے چندہ کی فراہمی کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں اور اس سے اتر کر دوستوں کا بھی شکرگزار ہوں کہ اس کام میں خدا کے فضل اور دوستوں کے مخلصانہ تعاون سے امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی۔ یعنی جہاں اس فنڈ کے تعلق میں قادیان کے ذمہ پچیس ہزار روپے کی رقم لگائی گئی تھی اور اس وقت کے حالات کے ماتحت یہ رقم بھی بہت بھاری سمجھی گئی تھی وہاں قادیان کے دوستوں نے عملاً چالیس ہزار اکیس روپے کے وعدے لکھائے اور میں ذاتی علم کی بناء پر جانتا ہوں کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے دوستوں کی ہے جنہوں نے یقینا اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے۔ اور مزید خدمت کی توفیق عطا کرے۔ آمین
ان وعدوں میں سے اس وقت تک عملاً تیس ہزار آٹھ سو چالیس روپے وصول ہوچکے ہیں۔ جن میں سے گیارہ ہزار آٹھ سو بانوے روپے ہمارے خاندان کی طرف سے ہیں۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک
میں امید کرتا ہوں کہ جن دوستوں نے ابھی تک وعدے نہیں لکھوائے یا وعدہ لکھانے کے بعد ابھی تک ادائیگی نہیں کی، وہ بہت جلد اس طرف توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔
مگر یہ اعلان میںایک اور غرض سے کررہا ہوں اور وہ یہ کہ چونکہ انتظامی کاموں کی وجہ سے تصنیف کے کام میں ہرج واقع ہوتا ہے اور آج کل میرے سپرد تصنیف کا کام ہے۔ اس لئے کچھ عرصہ سے میں خلافت جوبلی کے کام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکا اورعملاً ناظر صاحب بیت المال ہی قادیان کے حلقہ کاکام سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا دوستوں کو چاہیئے کہ اس بارے میں جملہ خط،وکتابت ناظر صاحب موصوف کے ساتھ فرمائیں تاکہ کام میں کسی قسم کی روک نہ پیدا ہو۔ ویسے بھی اصولاً تمام خط وکتابت عہدہ کے پتہ پرہونی چاہیئے نہ کہ کسی خاص فرد کے نام پر۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰جون ۱۹۳۹ئ)

احمدیہ جھنڈے کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ
ایک دوست نے احمدیہ جھنڈا لہرانے کی تجویز کے متعلق اعتراض لکھ کر روانہ کیا تھا کہ یہ غیراسلامی طریق ہے اور کانگرس وغیرہ کی نقل کی صورت معلوم ہوتی ہے۔ اس کا جواب حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ ایم۔اے مدظلہ العالی نے رقم فرماکر ارسال کیا ہے۔ جو افادہ ٔ عام کے لیئے درج ذیل کیا جاتا ہے۔(ایڈیٹر)
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کا خط مورخہ ۲۲ شوال ۱۳۵۸ھ موصول ہوا۔ افسوس ہے کہ آپ سلسلہ کے حالات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے ورنہ جوبات آپ کے دل میں کھٹکی ہے وہ غالباً نہ کھٹکتی۔ جھنڈے کے لہرانے کا فیصلہ خود حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ مجلس مشاورت میں فرمایا تھا۔ آپ نے غالباً یہ فیصلہ نہیں پڑھا اور یا پڑھنے کے بعد بھول گئے۔ بہرحال اس حال میں کہ حضرت امیرالمومنین نے خود فیصلہ فرمایا تھا کسی احمدی کے دل میں جھنڈا لہرانے کی تجویز کھٹکنی نہیں چاہیئے۔
جہاں تک میں اسلام کا منشاء سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب انسان اہم اور اصولی امور میں کسی طریق کی صداقت کا قائل ہوکر اسے اختیار کرلے تو پھر غیر اہم اور فروعی امور میں اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر بلا چون وچرا ہر معاملہ میں سر تسلیم خم کرتا جائے۔ یہی تشریح اس آیت کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
ثُمَّ لَا یَجِدُوْافِیْ.6ٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا۔ ۶؎
اگر ہر فروعی اور جزئی امر میں انسان یہ طریق اختیار کرنے لگے کہ پہلے میری تسلّی ہونی چاہیئے۔ تب میں آگے چلوں گا تو پھر مذہب کے معاملہ میں ساری امان اٹھ جاتی ہے اور ہر قدم پر ٹھوکر اور لغزش کا سامان پیدا ہونے لگتا ہے۔ میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ اس طریق سے پرہیز کریں اور اپنی طبیعت کو اس بات کا عادی بنائیں کہ جب آپ نے اسلام احمدیت اور خلافت کو اصولی طور پر علی وجہ،البصیرت سچّا پایا ہے تو پھر جزئی اور فروعی امور میں بالکل آنکھیں بند کرکے اٰمنّا وصدقنّا کا طریق اختیار کریں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک عرصہ ہوا آپ نے اس بارہ میں بھی ایک اعتراض لکھ کر بھیجا تھا کہ حضرت امیرالمومنین کی کوٹھی پر حفاظت کے لئے کتے کیوں پالے جاتے ہیں۔ اب پھر اس قسم کی جزئی اور فروعی بات میں آپ کی طبیعت نے لغزش کھائی ہے۔ کیا آپ نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ۔تعالیٰ کی خلافت کو منجانب اللہ نہیں پایا۔ تو پھر جب انہیں خلیفہ بر حق مان لیا تو ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رُکنا اور سوال اٹھانا مومن کی شان سے بعید ہے۔
اس جواب سے پہلے ایک اور اصولی بات بھی کہنا چاہتا ہوں جسے آپ بھولے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کہ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ کی ہر تفصیل میں دخل نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو شریعت بجائے رحمت کے زحمت بن جاتی۔ اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ:-
’’لَاتَسْئَلُوْاعَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْ کُمْ۔ ۷؎
یعنی تفصیلات کے بارے میں کرید کرید کر سوال نہ کیاکرو ورنہ تمہارے لئے ناواجب تنگی اور سختی پیدا ہوجائے گی اور شریعت کی رحمت کا پہلو مکدر ہونے لگے گا۔‘‘
پس اس جہت سے بھی آپ کا یہ سوال کہ ابتدائی تاریخ اسلام میں جھنڈے لہرانے کا ثبوت نہیں ملتا، درست نہیں کیونکہ موجودہ زمانہ کے لباسوں اور سواریوں اور کھانوں اور مکانوں وغیرہ کا بھی تو اسلام کی ابتدائی تاریخ میں کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔ جب ان امور میں آپ نے اسلام پر قائم رہتے ہوئے زمانہ کے تغیرات کو قبول کر لیا ہے تو جھنڈے کے متعلق آپ کو اعتراض کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس زمانہ کے طریق کے مطابق جماعت کے لیئے کسی جھنڈے کی ضرورت سمجھی جائے اور اسلام کا کوئی حکم اس کے خلاف نہ ہو تو کسی عقلمند انسان کو اعتراض نہیں ہوسکتا اور اس قسم کی تفصیلات میں معیار یہی ہوتا ہے کہ اسلام کا کوئی حکم خلاف نہ ہو۔ نہ یہ کہ اسلام کا کوئی حکم تائید میں بھی پایا جائے۔
مگرحق یہ ہے کہ آپ کا شبہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے۔ جھنڈوں کا نہ صرف ابتدائی اسلامی تاریخ میں بلکہ خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ثبوت ملتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر مہم کے ساتھ جھنڈا ہوتا تھا اورجب آپ صحابہؓ کے کسی دستہ کو باہر روانہ کرنے لگتے تھے تو اس وقت بعض اوقات خود اپنے ہاتھ سے جھنڈا تیار کرکے دستہ کے امیر کے سپرد فرماتے تھے۔ ان حقائق کے ہوتے ہوئے کسی مخلص اور واقف کار احمدی کے دل میں جھنڈے کے متعلق شبہ یا اعتراض نہیں پیدا ہونا چاہیئے اور لطف یہ ہے کہ مسیح موعود ؑ کے متعلق خاص طور پر احادیث میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ جھنڈے لہراتا ہوا آئے گا۔اس کے معنی کچھ سہی مگر مینار کے معاملہ میں بھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے ایک باطنی حقیقت کو ظاہر میں پورا کیا تھا۔
یہ اعتراض کہ جھنڈے کا لہرانا کانگرس یا مسلم لیگ وغیرہ کی نقل نظر آتا ہے۔ اسی طرح بودا ہے جس طرح کہ سابقہ اعتراض کیونکہ اوّل تو آپ نے نقل کے معنی نہیں سمجھے۔ اگر نقل کے یہی معنی ہیں کہ کسی دوسرے کی اچھی بات بھی نہیں لینی چاہیئے تو یہ درست نہیں اور اسلامی تعلیم کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث فجدھا ۸؎۔اس کے خلاف ہے اور اگر نقل کے یہ معنی ہیں کہ کسی کی بری بات نہ لی جائے تو یہ درست ہے۔ مگر آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ جھنڈے کا فیصلہ اس مؤخرالذکر صورت میں کیا گیا ہے؟ لیکن حق یہی ہے جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں اس معاملہ میں کانگرس یا کسی اور انجمن یا نظام کی نقل کا سوال ہی نہیں بلکہ ایک پرانی اسلامی روایت کو تازہ کیا جارہا ہے۔
میں اس وقت جھنڈے کے فوائد کی بحث میں نہیں جاتا کیونکہ یہ ایک لمبا سوال ہے۔ جس میں علم النفس کے باریک اصولوں کے ماتحت اس بحث میں داخل ہونا پڑتا ہے کہ افراد اور اقوام کے خیالات اور جذبات پر کیا کیا باتیں کس کس رنگ میں اثر انداز ہوتی ہیں۔ مگر خدا کے فضل سے میں اس پہلو سے بھی بتا سکتاہوں کہ حضرت امیرالمومنین کا فیصلہ فوائد پر مبنی ہے اور یونہی ایک خیالی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہرلغزش سے بچاتے ہوئے اپنی رضا کے راستہ پر قائم رکھے۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ والسلام
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۳۹ئ)






بارش سے پہلے بادلوں کی گرج
آغازِ خلافتِ ثانیہ کا ایک منظر
جماعتِ قادیان پر قیامت کا سماں
جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت پر دُنیا کی فضاء بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سے گونجنے لگ گئی تھی۔ اسی طرح جب خُدا کے برگزیدہ مسیح کا موعود خلیفہ مسندِ خلافت پر قدم رکھ رہا تھا تو دُنیا نے پھر وہی نظارہ دیکھا۔ اور احمدیت کے آسمان پر گھٹا ٹوپ بادلوں کی گرجوں نے آنے والے کا خیرمقدم کیا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کے وقت وہ اختلاف جو عرفاً مخفی کہلاتا تھا مگر حقیقتہً اب مخفی نہیں رہا تھا، یکدم پُھوٹ کر باہر آگیا۔ قادیان کی جماعت کو حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کی خبر اس وقت ملی جبکہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھا کر مسجد سے باہر آرہے تھے۔ اس پر سب لوگ گھبرا کر فوراً نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر پہونچے۔ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ اپنی بیماری کے آخری ایّام میں تبدیلیٔ آب وہوا کے لئے تشریف لے گئے تھے اور قادیان کی نئی آبادی کا کُھلا میدان گویا میدانِ حشر بن گیا۔ بے شک حضرت خلیفۃلمسیح اول کی جدائی کا غم بھی ہر مومن کے دل پر بہت بھاری تھا مگر اس دوسرے غم نے جو جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل کو کھائے جارہا تھا اِس صدمہ کو سخت ہولناک بنادیا۔جیسا کہ بتایا جاچکا ہے جُمعہ کے دن سوا دوبجے کے قریب حضرت خلیفۃالمسیح اوّل کی وفات ہوئی اور دوسرے دن نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے۔ گویا یہ قریباً چھبیس گھنٹہ کا وقفہ تھا جو قادیان کی جماعت پر قیامت کی طرح گزرا۔
اس نظارے کو دیکھنے والے بہت سے لوگ گزر گئے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بعد میں پیدا ہوئے یا وہ اس وقت اس قدر کم عُمر تھے کہ ان کے دماغوں میں ان واقعات کا نقشہ محفوظ نہیں مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یاد قائم ہے وہ اسے کبھی بھلا نہیں سکتے۔ میںپھر کہتا ہوں کہ وہ دِن جماعت کے لئے قیامت کا دِن تھا اور میرے اس بیان میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں۔ ایک نبی کی جماعت، تازہ بنی ہوئی جماعت، بچپن کی اُٹھتی ہوئی امنگوں میں مخمور اور صداقت کی برقی طاقت سے دُنیا پر چھاجانے کے لئے بے قرار، جس کے لئے دین سب کُچھ تھا اور دنیا کچھ نہیں تھی۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی کہ اگر ایک طرف اس کے پیارے امام کی نعش پڑی ہے تو دوسری طرف چند لوگ اس امام سے بھی زیادہ محبوب چیز یعنی خدا کے برگزیدہ مسیح کی لائی ہوئی صداقت اور اس صداقت کی حامل جماعت کو مٹانے کے لئے اس پر حملہ آور ہیں۔ یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا اور میں نے ان تاریک گھڑیوں میں ایک دو کو نہیں دس بیس کو نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا۔ اپنے جُدا ہونے والے امام کے لئے نہیں، مجھے اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس وقت جماعت کے غم کے سامنے یہ غم بُھولا ہوا تھا بلکہ جماعت کے اتحاد اور اس کے مستقبل کی فکرمیں مگر اکثر لوگ تسلی کے اس فطری ذریعہ سے بھی محروم تھے وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تاکہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں۔ غم یہ نہیں تھا کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ اُن کے پاس حق تھا بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں نہایت قلیل ہونے کے اور باوجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا اور قریباً تمام مرکزی دفاتر پر ان کا قبضہ تھا اور پھر ان میں کئی لوگ رسُوخ والے، طاقت والے اور دولت والے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ چونکہ ابھی تک اختلافات کی کش مکش مخفی تھی۔ اس لئے یہ بھی علم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون بیگانہ اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبرگیر کے پڑی تھی۔ گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلّہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑیے تاک لگائے بیٹھے تھے۔
سکینت کا نزول
اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کررکھی تھی اور گو خد اکے وعدوں پر ایمان تھا مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے۔ جُمعہ سے لے کر عصر تک کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر یہ گھڑیاں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔ آخر خدا خدا کرکے عصر کا وقت آیا اور خدا کے ذکر سے تسلی پانے کے لئے سب لوگ مسجد نور میں جمع ہوگئے۔ نماز کے بعد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے ایک مختصر مگر نہایت دردانگیز اور مؤثر تقریر فرمائی اور ہر قسم کے اختلافی مسئلہ کا ذکر کرنے کے بغیر جماعت کو نصیحت کی کہ یہ ایک نہایت نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی درپیش ہے۔ پس سب لوگ گریہ وزاری کے ساتھ خدا سے دُعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے کے وقت جماعت کے لئے روشنی پیدا کردے اور ہمیں ہررنگ کی ٹھوکر سے بچا کر اس رستہ پر ڈال دے جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے۔ اس موقع پر آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل کے دن روزہ بھی رکھیں تاکہ آج رات کی نمازوں اور دُعائوں کے ساتھ کل کا دن بھی دُعا اور ذکرِ الٰہی میں گزرے۔ اس تقریر کے دوران میں لوگ بہت روئے اور مسجد کے چاروں کونوں سے گریہ وبکا کی آوازیں بلند ہوئیں مگر تقریر کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں ایک گونہ تسلی کی صورت بھی پیدا ہوگئی اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہوکر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں کو چلے گئے۔
مولوی محمد علی صاحب کا مخفی رسالہ
رات کے دوران میں اس بات کا علم ہوا کہ منکرین خلافت کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی وفات سے قبل ہی ایک رسالہ ’’ایک نہایت ضروری اعلان‘‘ کے نام سے چھپواکر مخفی طور پر تیار کررکھا تھا اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لئے اس کے پیکٹ بھی بنوا رکھے تھے اور اب یہ رسالہ بڑی کثرت سے تقسیم کیا جارہا تھا بلکہ یہ محسوس کرکے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات بالکل سر پر ہے، آپ کی زندگی میں ہی اس رسالہ کو دُور دُور کے علاقوں میں بھجوادیا گیا تھا۔ اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے۔ البتہ غیراحمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفۃالمسیح اولؓ کی وصیت کے احترام میں کِسی شخص کو امیر مقرر کیا جاسکتا ہے مگر یہ شخص جماعت یا صدر انجمن احمدیہ کا مطاع نہیں ہوگا بلکہ اس کی امارت اور سرداری محدود اور مشروط ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ یہ اشتہار یا رسالہ بیس اکیس صفحے کا تھا اور اس میں کافی مفصّل بحث کی گئی تھی اور طرح طرح سے جماعت کو اس بات پر اُبھارا گیا تھا کہ وہ کِسی واجب الاطاعت خلافت پر رضامند نہ ہو۔ جب قادیان میں اس رسالہ کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ قادیان سے باہر اس رسالہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ کی گئی ہے تو طبعاً اس پر بہت فکر پیدا ہوا کہ مبادا یہ رسالہ ناواقف لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بن جائے۔ اس کا فوری ازالہ وسیع پیمانہ پر تو مشکل تھا مگر قادیان کے حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت کے لئے ایک مختصرسا نوٹ تیار کیا گیا جس میں یہ درج تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضروری ہے اور جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ جماعت کے مطاع تھے۔ اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہوگا اور خلیفہ کے ساتھ کسی قسم کی شرائط طے کرنا یا اس کے خداداد اختیاروں کو محدود کرنا کِسی طرح درست نہیں۔ اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں کے دستخط کرائے گئے تاکہ یہ اس بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثریت نظامِ خلافت کے حق میں ہے۔ غرض یہ رات بہت سے لوگوں نے انتہائی کرب اور اضطراب کی حالت میں گزاری۔
سمجھوتہ کے لئے آخری کوشش
دوسرے دن فریقین میں ایک آخری سمجھوتہ کے خیال سے نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر ہر دو فریق کے چند زعماء کی میٹنگ ہوئی۔ جس میں ایک طرف مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند رفقاء اور دوسری طرف حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب اور بعض دوسرے مؤیدینِ خلافت شامل ہوئے۔ اس میٹنگ میں منکرین ِ خلافت کو ہر رنگ میں سمجھایا گیا کہ اس وقت سوال صرف اصُول کا ہے۔ پس کسی قسم کے ذاتی سوال کو درمیان میں نہ لائیں اور جماعت کے شیرازہ کی قدر کریں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر منکرینِ خلافت سرے سے خلافت ہی کے اڑانے کے درپے نہ ہوں تو ہم خدا کو حاضر وناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرتِ رائے سے جوبھی خلیفہ منتخب ہوگا خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل وجان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرینِ خلافت نے اختلافی مسائل کو آڑ بنا کر خلافت کے متعلق ہر قسم کے اتحاد سے انکار کردیا۔ بالآخر جب یہ لوگ کِسی طرح بھی نظام خلافت کے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ان سے استدعا کی گئی کہ اگر آپ لوگ خلافت کے منکر ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کا خیال آپ کو مبارک ہو لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں، آپ خدارا ان کے رستہ میں روک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کرکے ایک ہاتھ پر جمع ہوجانے دیں مگر یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر پڑی اور اتحاد کی آخری کوشش ناکام رہی۔ چنانچہ جب ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ عصرکی نماز کے بعد سب حاضر الوقت احمدی خلافت کے انتخاب کے لئے مسجد نور میں جمع ہوئے تو منکرینِ خلافت بھی اس مجمع میں روڑا اٹکانے کی غرض سے موجود تھے۔
بَیعتِ خلافت ثانیہ کا نظارہ
اس دوہزار کے مجمع میں سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نصیحت تھی۔ اس پر ہر طرف سے ’’حضرت میاں صاحب۔حضرت میاں صاحب‘‘ کی آوازیں بلند ہوئیں اور اسی کی تائید میں مولانا سید محمد احسن صاحب امروہوی نے جو جماعت کے پُرانے بزرگوں میں سے تھے، کھڑے ہوکر تقریر کی اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتاکر تجویز کی کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہوجانا چاہیئے کہ وہی ہر رنگ میں اس مقام کے اہل اور قابل ہیں۔ اس پر سب طرف سے پھر حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں اور سارے مجمع نے بالاتفاق اور بالاصرار کہا کہ ہم انہی کی خلافت کو قبول کرتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض رفقاء بھی موجود تھے۔ مولوی محمد علی صاحب نے مولوی سید محمد حسن صاحب کی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ جب آپ خلافت کے ہی منکر ہیں تو اس موقع پر ہم آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے اور اس کے بعد مومنوں کی جماعت نے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی طرف رخ کیا کہ اس کا نظارہ کسی دیکھنے والے کو نہیں بھول سکتا۔ لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظورِ ایزدی کی طرف کھینچے لارہے ہیں اس وقت ایسی ریلا پیلی تھی اور جوش کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور بچوں اور کمزورلوگوں کے پس جانے کا ڈر تھا اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ہماری بیعت قبول کریں ہماری بیعت قبول کریں۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد جس میں ایک عجیب قسم کا پُر کیف عالم تھا، لوگوں کے اصرار پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بیعت لینی شروع کی یک لخت مجلس میں سناٹا چھاگیا۔ اور جو لوگ قریب نہیں پہونچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے۔ بیعت شروع ہوجانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اس مجمع سے حسرت کے ساتھ رخصت ہوکر اپنی فرود گاہ کی طرف چلے گئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸ دسمبر۱۹۳۹؁ئ)

حوالہ جات
۱۹۳۹ء
۱۔ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۶۹-۷۰
۲۔ اٰل عمران:۹
۳۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۶۷۔ حاشیہ در حاشیہ
۴۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۶۷ حاشیہ در حاشیہ۔ تذکرہ صفحہ۸۳
طبع ۲۰۰۴ئ۔
۵۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵۔ ٹائیٹل صفحہ۲
۶۔ النسائ:۶۶
۷۔ المائدہ:۱۰۲
۸۔ جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ۔ (مفہوماً)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۹۴۰ء
کتاب’’فضلِ عمر‘‘
جلسہ خلافت جوبلی کے موقع پر مکرمی صوفی عبدالقدیر صاحب نے ایک کتاب ’’فضلِ عمر‘‘ انگریزی زبان میں لکھ کر شائع کی ہے۔ یہ کتاب گویا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی سوانح عمری ہے۔ جس میں سلسلہ کے مختصر حالات کے علاوہ حضرت امیرالمومنین ایدہ،اللہ کی ابتدائی زندگی کے حالات، خلافت کے سوال پر غیرمبایعین کے فتنہ کی تاریخ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے زمانہ خلافت کے حالات پر بہت دلچسپ رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ میں نے اس کتاب کا بیشتر حصہ دیکھا ہے۔ زبان کی خوبی کے علاوہ اس کا طرز بیان نہایت مؤثر اور دلکش ہے اور پھر ہر واقعہ سند کے ساتھ ساتھ صحیح صحیح صورت میں درج کیا گیا ہے۔ صوفی صاحب پیدائشی احمدی ہونے کے علاوہ ایک ایسے بزرگ باپ کے فرزند ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور خود صوفی صاحب بھی کافی عرصہ تک حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ اس لئے ان کے معلومات بہت اچھے اور طرزِ بیان نہایت عمدہ ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ کتاب ان تصانیف میں سے ہے جن کی بکثرت اشاعت تبلیغ کے لئے اور خصوصاً فتنہ غیرمبایعین کے انسداد کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہیئے کہ اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اور دوسروں میں بھی اسے کثرت کے ساتھ پھیلائیں۔
اس ریویو کی تحریک میرے دل میں خودبخود ہوئی ہے۔ اس لئے میں نے یہ چند حروف رسمی رنگ میں نہیں لکھے بلکہ دوستوں کے حقیقی فائدہ کے خیال سے لکھے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل۲۷ جنوری۱۹۴۰؁ئ)


خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت
اور
شکریۂ احباب
محترمی خان بہادرمولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت کی خبر الفضل میں شائع ہوچکی ہے۔ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے مولوی صاحب موصوف میرے خُسر اور میری رفیقۂ حیات کے والد محترم ہیں۔ اس لئے ان کی بیعت پر ہمیں طبعاً نہائت درجہ خوشی ہوئی ہے اور ہمیں اس خوشی پر بہت سے احباب کی طرف سے مبارکباد کے خطوط موصول ہورہے ہیں۔ میں اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ان جملہ احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خدا کے حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب موصوف کی بیعت کو خود مولوی صاحب کے لئے اور ہمارے لئے اور جماعت کے لئے ہر رنگ میں بابرکت کرے۔ آمین
جیسا کہ اخبار میں اعلان ہوچکا ہے، مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعودعلیہ۔الصلوٰۃوالسلام کے قدیم اور ممتاز صحابیوں میں سے ہیں اور خدا کے فضل سے انہیں اوائل زمانہ میں اچھی خدمت کا موقع ملتا رہا ہے۔ لیکن جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مولوی صاحب موصوف غیرمبایعین کے ساتھ شامل ہوگئے تھے اور ایک عرصہ دراز تک اُن کے ساتھ رہے مگر اب ایک لمبے زمانہ کے بعد جو چوتھائی صدی سے بھی زیادہ ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ پھر جماعت میں منسلک ہونے اور دامنِ خلافت کے ساتھ وابستگی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک واللّٰہ یھدی من یشاء الیٰ صراطٖ المستقیم۔
سب سے بڑی بات جس نے مولوی صاحب موصوف کی طبیعت پر خاص اثر پیدا کیا وہ یہ ہے جسے وہ اپنی کئی مجلسوں میں بیان فرماچکے ہیں کہ جہاں لاہوری پارٹی اس جگہ کھڑی ہے جس جگہ کہ وہ آج سے پچیس سال قبل تھی بلکہ وہ اپنے سابقہ مقام سے بھی نیچے گر گئی اور گر رہی ہے، وہاں قادیان کے ساتھ ہر قدم پر خدا کی نُصرت کا ہاتھ نظر آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قیادت میں جماعت کو ہر رنگ میں ترقی دے رہا ہے اور یہ خدائی شہادت جو عملی صورت میں ظاہر ہورہی ہے، ایسی واضح اور روشن ہے کہ باقی سب دلیلوں سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔
بالآخر میں پھر ان احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے یا والدہ مظفر احمد کو اس موقع پر مبارکباد کے خطوط لکھے اور ہماری اس خواہش میں شرکت اختیار کی۔ جزاھم اللہ احسن الجزائ۔
احباب دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب موصوف کا ہر طرح حافظ وناصر ہو اور جس راستے پر اب انہوں نے قدم اٹھایا ہے۔ اس میں ان کو مزید سعادت اور ترقی عطا کرے اور اُن کے گزشتہ ماحول کے تاثّرات کو کُلّی طور پر دُور فرما کر انہیں خلافتِ ثانیہ کی برکات سے پوری طرح متمتع فرمائے اور ان کا اور ہم سب کا انجام بخیر ہو۔ اٰمین اللّھم اٰمین
‎(مطبوعہ الفضل یکم فروری ۱۹۴۰؁ئ)








حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم
حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کی وفات پر سِلسلہ کے متعدد بزرگوں کی طرف سے بہت کچھ لِکھا جاچکا ہے۔ جس میں مرحوم کے اعلیٰ اوصاف بیان کرکے دُعا کی تحریک کی گئی ہے۔ ان مضامین کے بعد اس بات کی ضرورت نہیں رہتی کہ میں بھی کچھ لکھوں مگر چونکہ مرحوم میرے اُستاد تھے اور میرے ساتھ ان کا نہایت دیرینہ اور گہرا اور مخلصانہ تعلق تھا اس لئے میں بھی چند مختصر الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مولوی صاحب مرحوم میرے اُستاد تھے۔ میں نے ابتدائً سکول کے زمانہ میں ان سے عربی کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایف۔اے، بی۔اے اور ایم۔اے میں ان سے مسلسل استفادہ کیا اور مرحوم نے جس محبت، اخلاص، ہمدردی اور جانفشانی کے ساتھ مجھے پڑھایا وہ انہی کا حصہ تھا۔ یہ الفاظ میں نے رسماً یا تکلف کے انداز میں نہیں لکھے بلکہ ایک حقیقت کا جس کا میرے قلب پر نہایت گہرا اثر ہے اظہار کیا ہے۔ مَیں نے بہت سے اُستادوں سے پڑھا ہے اور بہت سے اُستادوں کو دیکھا ہے۔ اور ان میں سے اچھے اچھے محبت اور شوق اور محنت کے ساتھ پڑھانے والے اصحاب شامل ہیں مگر مولوی صاحب مرحوم کا انداز یقینا سب سے نرالا تھا کیونکہ جو محبت اور جو شوق اور جو ہمدردی اور جو قربانی مولوی صاحب موصوف میں تھی وہ مجھے کِسی دوسرے میں نظر نہیں آئی۔ اس ریمارک سے مجھے اپنے کسی بزرگ کے مرتبہ کو گھٹانا مقصود نہیں بلکہ مولوی صاحب کے امتیاز کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔
مولوی صاحب اپنے اخلاص اور محبت میں اپنے آرام اور اپنی جسمانی طاقتوں کو یوں نظرانداز کردیتے تھے کہ گویا انہیں اپنے نفس کا خیال تک نہیں اور کم وبیش یہی حال ان کا اپنے دوسرے شاگردوں کے متعلق تھا کہ پڑھنے والا تھک جاتا تھا مگر وہ نہ تھکتے تھے۔ بعض اوقات اس قسم کا لطیفہ بھی ہوجاتا تھا کہ کِسی نے مولوی صاحب مرحوم سے استدعا کی کہ مجھے فلاں کتاب پڑھادیں۔ مولوی صاحب نے بغیر اس بات پر غور کرنے کے کہ میرے پاس وقت بھی ہے یا نہیں فوراً وعدہ کر لیا کہ ہاں میں ضرور پڑھائوں گا مگر جب اپنے وقت کا محاسبہ لیا تو معلوم ہوا کہ سارا وقت اس طرح بٹا ہوا ہے کہ کِسی مزید تقسیم کی گنجائش ہی نہیں لیکن ایسے موقع پر بھی بسااوقات پرانے شاگردوں سے کہہ کہا کر ان کے وقت میں سے کچھ وقت نکالنے کی کوشش کرتے تھے اور درخواست کرنے والوں کو حتیٰ الوسع مایوس نہیں کرتے تھے۔
خود بھی تحصیلِ علم کا ازحد شوق تھا۔ مالی حالت اچھی نہیں تھی مگر جب بھی کوئی نئی کتاب دیکھتے یا کِسی نئے ایڈیشن کی کتاب دیکھتے تھے تو بے چین ہوجاتے اور کسی نہ کسی طرح ضرور ایسی کتاب خرید لیتے۔ میں نے ان کی مالی حالت کو دیکھ کر بسااوقات اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ زیرِ بار نہ ہؤا کریں بلکہ جب کبھی کوئی نئی کتاب نظر آیا کرے مجھے بتادیا کریں میں خرید لیا کروں گا۔ اور پھر آپ بھی اس سے استفادہ کرلیا کریں مگر ان کی طبیعت اس قسم کے انتظام سے تسلی نہیں پاتی تھی اور باوجود مالی تنگی کے کتب کی خرید کا سلسلہ جاری رہتا تھا لیکن بسااوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب ایک کتاب خریدلی اور کُچھ عرصہ اسے مطالعہ میں رکھا تو پھر اس کے بعد اپنے کسی دوست کو ہدیۃً دے دی۔
حضرت مولوی صاحب کی علمی رفعت کے تعلق میں ان کا علمی تنوع خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ خدا کے فضل سے جماعت میں بڑے بڑے پایہ کے عالم موجود ہیں مگر جوعلمی تنوع مرحوم کو حاصل تھا، وہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔ تفسیر، تجوید، حدیث، اصُول حدیث، مصطلحات حدیث، کتب سِلسلہ احمدیہ، فقہ، اصولِ فقہ، تاریخ، بلاغت، ادب، لُغت، صرف ونحو، عروض وقافیہ، منطق وفلسفہ حتیٰ کہ علم تقدیم اور علم ہیت وغیرہ تک میں ایک سادماغ چلتا تھا اور ان سب علوم میں خوب دسترس حاصل تھی۔ یہ علمی تنوع یقینا کِسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا مگر ان جُملہ علُوم میں سے حضرت مولوی صاحب کو خصوصیت سے قرآن شریف کے ساتھ ازحد محبت تھی اور اس پاک کتاب کے گہرے مطالعہ میں جِس میں پھر ہرعلم آشامل ہوتا ہے، خاص لطف حاصل ہوتا تھا۔ اسی طرح کتب سلسلہ پر کامل عبور تھا اور مولوی صاحب کا دماغ گویا حوالوں کی کان تھا۔ یہ جو جدید تقویم، ہجری شمسی نظام کی بنا پر حال ہی میں جماعت میں جاری ہوئی ہے۔ اس کے تیار کرنے میں بھی حضرت مولوی صاحب کا خاص ہاتھ تھا اور جب سے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے اس کے متعلق حکم دیا تھا۔ مولوی صاحب مکرم نہایت استغراق کے ساتھ اس میں منہمک رہتے تھے۔
اس عِلمی رفعت کے علاوہ حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تیز ذہن عطا کیا تھا اور دماغ ازحد زیرک تھا۔ میں جب کبھی بھی کوئی علمی یا تحقیقی مضمون لکھتا تھا تو حتیٰ الوسع ضرور موقع نکال کر مولوی صاحب کو سناتا تھا تاکہ اگر اس میں کوئی خامی ہو تو وہ ظاہر ہوجائے۔ اور مولوی صاحب کی جرح سُن کر مجھے ہر دفعہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا مولوی صاحب کا چوکس دماغ چاروںطرف دیکھتا ہے۔ کِسی مضمون کے متعلق جو جو اعتراض یا اشکال مخالفین کی طرف سے امکانی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اسے حضرت مولوی صاحب کی دُوربین آنکھ فوراً دیکھ لیتی تھی اور بیک وقت ہر علم اور مرض کی عینک مضمون کی پاتال تک پہونچنے کے لئے تیار رہتی تھی۔ مولوی صاحب کی یہ غیرمعمولی ذہانت بعض اوقات وہ صُورت پیدا کردیتی تھی جسے عرفِ عام میں تیر کا نشانہ سے پرے جالگنا کہتے ہیں کیونکہ مولوی صاحب کا دماغ بعض اوقات اپنی تیز پرواز میں ضرورت سے زیادہ آگے نکل جاتا تھا لیکن جو لوگ مولوی صاحب کی اس جودتِ طبع سے واقف تھے وہ اُن کے مشوروں میں اس پہلو کو مدِنظر رکھ لیتے تھے۔
مرحوم ایک نہایت درجہ متقی اور خدا ترس بزرگ تھے۔ اور ہر امر میں قال اللّٰہ اور قال الرسول کا خیال غالب رہتا تھا اور ان کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ اپنی زندگی کو ہر رنگ میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق بنائیں۔ فرائض کے علاوہ نوافل کی طرف بھی ازحد توجہ تھی اور قرآن شریف کے مطالعہ میں بہت شغف تھا اور اس جہاد اکبر کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت کا جذبہ بھی بہت نمایاںتھا۔ یہ اسی غیرت کا نتیجہ تھا کہ مخالفین سلسلہ کے متعلق مرحوم کی رائے بہت سخت تھی۔ اسی طرح غیرمبایعین کے خلاف بھی مولوی صاحب مرحوم کو غیرمعمولی جوش تھا۔ بعض اوقات منکرینِ خلافت کے لیڈروں کا ذکر آتا تو بڑے غصہ کے ساتھ فرماتے کہ یہ لوگ احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی روح کو مسخ کرتے جارہے ہیں اور اس عمارت کو نقب لگارکھی ہے جس کے سایہ میں انہوں نے پرورش پائی ہے۔ سِلسلہ کی خاطر مالی قربانی کا یہ حال تھا کہ باوجود مالی تنگی اور کثیرالعیالی کے اپنے ترکہ میں سے صدرانجمن احمدیہ کے حق میں چہارم حصہ کی وصیت کررکھی تھی۔
تواضع کا مادہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے علم و فضل میں اعلیٰ مرتبہ عطا کیا مگر چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے سامنے بھی انکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ البتہ چونکہ طبیعت بہت حساس تھی اور کسی قدر اعصابی کمزوری بھی تھی، اس لئے بعض اوقات خلافِ مزاج بات پر چمک بھی اُٹھتے تھے۔ لیکن یہ لہر فوراً دَب کر رفق اور تواضع کا رنگ اختیار کرلیتی تھی۔ اور زیادہ دیر تک دل میں رنجش نہیں رکھتے تھے بلکہ رنجش کے بعد فوراً ہی نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرکے حالات کا رخ بدل دیتے تھے۔ میرے ساتھ تو ان کا سلوک ہمیشہ ہی ازحد محبت کا رہا بلکہ استاد ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ خادموں کی طرح انکساری برتتے تھے۔ جس سے مجھے ان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا تھا مگر جن لوگون کے ساتھ کبھی رنجش ہوجاتی تھی۔ ان کے متعلق بھی ضرور جلدی ہی ازالہ کا طریق اختیار فرماتے تھے اور دوسرے فریق کے ذراسے تغیر پر بھی طبیعت بالکل صاف ہوجاتی تھی۔
حضرت مولوی صاحب کی دوست نوازی بھی غیرمعمولی شان کی تھی۔ دوست کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کردینے کو تیار ہوجاتے تھے۔ خودتنگی برداشت کرتے تھے مگر دوست کو آرام پہونچاتے تھے۔ مجھے ایسی مثالیں معلوم ہیں کہ مولوی صاحب نے بال بال قرض میں پھنسے ہوئے ہونے کے باوجود ایک دوست کی خاطر سینکڑوں روپے کی قربانی کردی۔ ان کا یہ وصف کمزوری کی حدتک پہونچا ہوا تھا۔ میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ آپ کی مالی حالت کمزور ہے اور انسان صرف اپنی طاقت کے اندر اندر ہی مکلّف ہوتا ہے۔ اس لئے آپ بلاوجہ دوسروں کی خاطر اپنی مالی ذمہ واریوں میں اضافہ نہ کریں۔ میرے سامنے وعدہ کرلیتے تھے کہ اچھا میں اب خیال رکھوں گا مگر پھر ہر موقع پر طبیعت کی فیاضی غالب آجاتی تھی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ وفات پر غیرمعمولی قرض ثابت ہوا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس قرض کا بیشتر حصہ دوستوں کی خاطر سے معرضِ وجود میں آیا ہے کیونکہ خود ان کی اپنی زندگی ازحد سادہ تھی اور سوائے علمی کتب کی خرید کے اور کوئی شوق نہیں تھا اور یہ ذخیرہ بھی دوستوں ہی کی نذر ہوجاتا۔ اسی طرح دوستوں کے ساتھ مرحوم کا تعلق بہت بے تکلفانہ رنگ رکھتاتھا اور طبیعت خوب بامذاق تھی اور اپنے دوستوں کی مجلس میں رونق کا باعث ہوتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ساتھ ازحد محبت تھی اور گو قریباً سب کے استاد تھے مگر انتہائی عزت کے ساتھ پیش آتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے تو مولوی صاحب کا گویا ایک عاشقانہ رنگ تھا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ بہت محبت تھی اور اس محبت میں بے تکلفی کا انداز غالب تھا۔ اور آپ اپنے اکثر مضامین کے لئے حوالے وغیرہ مولوی صاحب کے ذریعہ تلاش کروایا کرتے تھے اور قرآن کریم کے ترجمہ کے کام میں بھی حضرت امیرالمومنین کو دوسروں کی نسبت مولوی صاحب پر زیادہ اعتماد تھا۔ میں جب مولوی صاحب کی مرض،الموت میں پہلی دفعہ ان کی عیادت کے لئے گیا توضعف بہت تھا اور بخار بھی تیز تھا اور پھیپھڑے سخت مائوف ہوچکے تھے۔ ازحد خوشی سے ملے اور بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے لیکن میرے چند منٹ ٹھہرنے کے بعد فرمانے لگے میاں صاحب آپ کی طبیعت حساس ہے اور ایسی طبیعت بیمار کا اثر جلد قبول کرتی ہے۔ اس لئے اب آپ آرام کریں میں نے کہا کوئی خدمت یا ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔ فرمانے لگے آپ کو نہیں بتائوں گا تو کس کو بتائوں گا مگر جزاکم اللّٰہ مجھے اس وقت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب میں مولوی صاحب کی وفات سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل دوسری دفعہ گیا تو اس وقت گویا نزع کی حالت تھی اور سانس اکھڑا ہوا تھا مگر ہوش وحواس قائم تھے۔ بڑی خوشی سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں بھی کیں لیکن پھر بھی یہی اصرار کیا کہ میں زیادہ نہ ٹھہروں۔ میں جانتا تھا کہ میرے ٹھہرنے سے انہیں ازحد خوشی تھی مگر اس خوشی پر اس خطرہ کا احساس غالب تھا جو وہ اپنے خیال میں میرے زیادہ ٹھہرنے میں سمجھتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے واسطے تار دیتا ہوں بہت خوش ہوئے۔ اور جزاکم اللہ کہا مگر افسوس کہ ابھی تار ڈاک خانہ سے روانہ نہ ہوئی تھی کہ مولوی صاحب وفات پاگئے اور بجائے اس کے وفات کی تار بھجوانی پڑی۔
غرض حضرت مولوی صاحب کا وجود کئی لحاظ سے بے نظیر وجود تھا اور گو ہم اس بات کے قائل نہیں کہ ایک خدائی جماعت میں کسی فرد کی وفات سے خلاء واقع ہوسکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت بظاہر کئی باتوں میں جماعت کے اندر مولوی صاحب کا جانشین نظر نہیں آتا۔ وہ چونکہ مقرر نہیں تھے۔ اس لئے پبلک کے سامنے نہیں آتے تھے مگر پس پردہ ان کا کام بہت اعلیٰ اور ارفع تھا۔ ایسے رفیع القدر بزرگ کی جدائی پر دل غم محسوس کرتا ہے اور آنکھ پُرنم ہوتی ہے مگر ہم خدا کی قضا میں اور اس کی رضا میں بہرحال راضی ہیں اور اس سے زیادہ نہیں کہتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کی وفات پر فرمایا کہ:-
اَلْعَیْنَ تَدْمَعْ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ… وَاِنَّا بِفَرَاقِکَ لَمَحْزُوْنُوْنَ ۔ ۱؎
میں اس موقع پر ایک لفظ سلسلہ کے علماء اور مبلغین کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جماعت میں خدا کے فضل سے ہر رنگ کے عالم موجود ہیں اور ان میں سے بعض کا مرتبہ حقیقۃً بہت بلند ہے مگر عموماً نوجوان علماء میں ایک پہلو خامی کا بھی نظر آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ بے شک علم مناظرہ میں خوب مشق ہے اور مناظرے سے براہ راست تعلق رکھنے والے علوم میں بھی اچھی نظر ہے مگر علم کے میدان میں تنوع کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے علم میں وہ وسعت اور وہ بلندی نہیں پیدا ہوتی جو ایک اعلیٰ درجہ کے مبلغ میں ہونی چاہیئے اور بعض پہلو خامی کے باقی رہتے ہیں۔ اسی طرح بحث مباحثہ اور مناظرہ میں زیادہ انہماک ہونے کی وجہ سے بعض طبیعتوں میں سطحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور علم کی گہرائیوں میں جانے کا پہلو کمزور رہتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کی وفات ہمارے نوجوان علماء میں اس حقیقت کا احساس پیدا کرانے میں کامیابی ہوگی، جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کو اپنے اعلیٰ انعامات کا وارث بنائے اور ان کی اولاد کا ہر رنگ میں حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹مارچ ۱۹۴۰ئ)

’’ایک عزیز کے نام خط ‘‘
پر
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی رائے
مجھے بچپن سے تصنیف کا شوق ہے۔ اس لئے ہر عمدہ تصنیف جو کسی کے ہاتھ سے نکلتی ہے وہ خاص خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ مکرمی چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب ممبر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند نے اپنی اس قیمتی تصنیف میں جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں ہے نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے کیونکہ اس تصنیف میں وہ رستہ بنایا گیا ہے جس پر چل کر انسان ایک بااخلاق اور باخدا انسان بن سکتا ہے۔ دنیا میں اہل دنیا کی علمی اور اقتصادی اور سیاسی خدمت کرنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر اخلاقی اور روحانی خدمت کی طرف موجودہ مادی زمانہ میں بہت کم لوگوں کو توجہ ہے اور اس لحاظ سے چوہدری صاحب مکرم کی یہ خدمت جس کی اس زمانہ میں دنیا کو ازحد ضرورت ہے بہت قابل قدر ہے۔ احمدی نوجوان تو خیراسے پڑھیں گے ہی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفید تصنیف کو غیراحمدی اور غیرمسلم اصحاب تک بھی کثرت کے ساتھ پہونچایا جائے تاکہ وہ بھی اس پاکیزہ چشمہ کے مصفّٰی پانی سے سیراب ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳اپریل ۱۹۴۰؁ئ)


مسئلہ کفر واِسلام میں ہمارا مسلک
آج کل جبکہ غیرمبایعین کے متعلق ایک نئی تبلیغی مہم کا آغاز ہورہا ہے۔ بعض دوست جنہیں سلسلہ کے عقائد کے متعلق تفصیلی واقفیت نہیں دریافت کرتے ہیں کہ غیراحمدیوں کے کُفرواسلام کے متعلق ہمارا مسلک کیا ہے۔ یعنی آیا ہم انہیں ہندوئوں اور عیسائیوں کی طرح کے کافر اور دائرۂ اسلام سے کلّی طور پر خارج سمجھتے ہیں یا یہ کہ ان کا کُفر ہندوئوں اور عیسائیوں کی طرح کا کفر نہیں بلکہ ایک جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ سو اس کے متعلق اصولی طور پر یادرکھنا چاہیئے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ جن مسلمان کہلانے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا انکار کیا ہے وہ ہندوئوںاور عیسائیوں کی طرح کافر ہیں۔ یعنی جس طرح یہ قومیں ظاہری اور باطنی ہر دولحاظ سے اسلام سے دُور پڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح غیراحمدیوں کا بھی حال ہے۔ ایسا خیال نہ صرف واقعات اور عقلِ خداداد کے خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بھی سراسر خلاف ہے لیکن اس کے مقابل پر یہ بھی ایک واضح اور بیّن صداقت ہے جسے کسی صورت میں چھپایا نہیں جاسکتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں کو حقیقی رنگ میں مسلمان نہیں سمجھتے بلکہ قرآن کریم کی صریح تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تصریحات کے مطابق انہیں کافرخیال کرتے ہیں۔
دراصل کُفر کی کئی قسمیں ہیں اور اس کے مختلف مدارج ہیں اور گو محض کافر ہونے کے لحاظ سے سب منکر برابر ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ دائرۂ انکار کی تنگی یا وسعت کے لحاظ سے ہرگروہ کے کُفر میں فرق ہوتا ہے اور کفر دون کفر کا مسئلہ بالکل درست اور برحق ہے۔ ایک دہریہ جو مذہب کی تمام اصولی صداقتوں کا منکر ہے۔ وہ ہم سے دور ترین مقام پر ہے۔ اس کے بعد ایک ہندو کا نمبر آتا ہے جو خدا کو اور بعض غیرسامی انبیاء کو تو مانتا ہے مگر جملہ سامی انبیاء کا منکر ہے۔ اس کے بعد یہودی ہیں جو اکثر انبیاء کو مانتے ہیں مگر حضرت مسیح ناصری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہیں۔ ان سے اوپر عیسائی ہیں جو دیگر انبیاء کے علاوہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو بھی مانتے ہیں اور اسلام کے عرفی دائرہ سے باہر ہمارے قریب ترہیں اور بالآخر سب سے اوپر اور سب سے زیادہ قریب غیراحمدی ہیں۔ جو باقی سب انبیاء پر ایمان لانے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ،وسلم اور آپؑ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لانے کے بھی مدعی ہیں مگر وہ موجودہ زمانہ کے مامُور ومرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں۔ بیشک یہ تمام گروہ اصطلاحی طور پر کُفر کی زد کے نیچے آتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی حقیقی رنگ میں مسلمان نہیں کیونکہ قرآن کی اصُولی تعلیم کے مطابق جو شخص بھی کِسی اہم اور اصُولی مذہبی صداقت کا منکر ہو وہ خدا کی نظر میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا مگر اس میں شبہ نہیں کہ ان مختلف اقوام کا کفر الگ الگ رنگ اور الگ الگ درجہ رکھتا ہے اور ان سب کو ایک درجہ اور ایک لیول پر سمجھنا کِسی طرح درست نہیں۔ اسی لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے غیراحمدی منکروں کو کافر قرار دیا ہے۔ وہاں کفر کی اقسام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے کُفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کفر سے علیحدہ اور ممتاز بھی رکھاہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک کفر کے مختلف درجے ہیں اور کفر دون کفر کے اصول کے ماتحت غیراحمدی مسلمان ہمارے قریب تر ہیں اور یہ ایک ایسی بدیہی صداقت ہے جسے کِسی صورت میں رد نہیں کیا جاسکتا۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اسلام کی دو تعریفیں ہیں۔ ایک توعرفی اور ظاہری تعریف اور دوسری حقیقی اور اصل تعریف۔ عُرفی اور ظاہری تعریف تو یہ ہے کہ ایک شخص ظاہری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآنی شریعت کا قائل ہو اور ان پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتا ہو اور حقیقی اور اصلی تعریف یہ ہے کہ اسلام کے متعلق اس کا دعویٰ محض ایک زبانی دعویٰ نہ ہو بلکہ وہ اسلام کی حقیقت پر قائم ہو اور اس کی سب صداقتوں پر ایمان لاتا ہو۔ اسلام کی اس دوہری تعریف کے ماتحت ہم جہاں غیراحمدیوں کو عُرفی اور رسمی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں وہاں حقیقت اور اصلیت کے لحاظ سے ہم ان کے اسلام کے منکر بھی ہیں۔ اسی امتیاز کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہامی شعر اشارہ کرتا ہے کہ :-
چودَورِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند ۲؎
اس لطیف الہامی شعر میں جہاں ایک طرف عرف اور نام کے لحاظ سے غیراحمدیوں کو مسلمان کہہ کر پکارا گیا ہے وہاں حقیقت کے لحاظ سے ان کے اسلام کا انکار بھی کیا گیا ہے اور یہ وہ لطیف نکتہ ہے جس میں مسئلہ کفر واسلام کی ساری بحث کا نچوڑ آجاتا ہے۔
یہ سوال کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو واقعی کافر قرار دیا ہے چند حوالوں سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
(الف):’’اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا۔ جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجائیں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔‘‘۳؎
(ب):’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہونچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘۴؎
(ج):’’کفر دوقسم پر ہے۔
اول :ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا۔
دوم:اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے۔ اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے……اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہوچکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مُکذب اور منکر ہے تو گو شریعت نے (جس کی بناء ظاہر پر ہے) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خداکے نزدیک بموجب آیتلَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا ۵؎قابل مواخذہ نہیں ہوگا۔‘‘۶؎
ان حوالہ جات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ قطعی طورپر واضح ہوجاتاہے اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ ہے وہی جماعت کا عقیدہ ہے جس میں کسی احمدی کہلانے والے کو انکار کی مجال نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسئلہ کفرواسلام کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ غیراحمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیاہے جو خدا کے ایک برگزیدہ مرسل ومامورتھے۔ اورجن کے ماننے کے لئے خدا اور اس کے رسول نے سخت تاکید فرمائی ہے اور اسے اس زمانہ کے لئے مدارِنجات ٹھہرایا ہے۔ اس لئے آپ کا منکر اسلامی اصطلاح کی رُو سے کافر ہے اور حقیقت کے لحاظ سے اسے کسی صورت میں بھی مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا مگر باوجود اس کے غیراحمدیوں کا یہ کفر اس رنگ اور اس درجہ کا کفر نہیں جو ہندوئوں اور عیسائیوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے بلکہ غیراحمدی مسلمان باوجود اس کفر کے ہمارے بہت قریب ہیں اور انہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ اسلام کی ظاہری اور عرفی تعریف کے لحاظ سے مسلمان کہلائیں مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ یقینا مسلمان نہیں۔
اگر اس جگہ یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ اپنے منکروں کو کافر قرار دینا صرف ان نبیوں کا حق ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیںاور غیر تشریعی نبیوں کا انکار کفر نہیں ہوتا۷؎۔ اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمہ طور پر غیر تشریعی نبی تھے اس لئے آپ کا منکر کافر نہیں ہوسکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھا ہے اور ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر ارشاد اور ہر فیصلہ ہر حال میں واجب القبول ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی تحریرات کے ایسے معنی نہ کریں جو دوسری نصوص اور محکم تحریرات کے خلاف ہوں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تریاق القلوب والے حوالہ کا یہ منشانہیں کہ غیرتشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی موجب کفر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ جہاں ایک تشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر ہوتا ہے۔ وہاں ایک غیرتشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نبی متبوع کے واسطے سے کفر قرار پاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو کافر قرار دیتے ہوئے یہی دلیل دی ہے کہ چونکہ میرے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار لازم آتا ہے اس لیئے میرا منکر خدا کی نظر میں مسلمان نہیں۔ گویا صرف واسطہ کا فرق ہے ورنہ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ قراردیا جائے کہ ایک غیرتشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی کفر نہیں ہوتا تو پھر نعوذباللہ قرآن کریم کی وہ محکم آیتیں باطل چلی جاتی ہیں جن میں ہر رسول اور ہر نبی کے انکار کو کفر قراردیا گیا ہے اور اس جہت سے تشریعی اور غیرتشریعی نبیوں میں کوئی تمیز ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ ۸؎
خلاصہ یہ کہ ہم تریاق القلوب والے حوالے کو مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار براہ راست کفر نہیں بلکہ اس وجہ سے کفر ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور تابع نبی ہیں اور آپ کے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار لازم آتا ہے، جن کے دین کی تجدید اور جن کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ مبعوث کئے گئے ۔
اس مضمون کو ختم کرنے سے قبل یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسئلہ کفرواسلام ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کے متعلق عام حالات میں بحث کی کوئی حقیقی ضرورت پیش آتی ہو۔ ہمارے سامنے اصل بحث یہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر کافر ہیں یا مسلمان بلکہ اصل بحث یہ ہے اور اسی پر ہمیں اپنے سب مخالفوں کو مجبور کرکے لانا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاویٰ برحق ہیں اور آپ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جس کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم اس صداقت کو لوگوں کے دلوں میں قائم کردیں تو باقی سب باتیں خودبخود صاف ہوجاتی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے غیرمبایع مہربان ہمیں خود مجبور کرکے اس مسئلہ کی طرف لاتے ہیں جس سے ان کی غرض احقاق حق نہیں ہوتی بلکہ دوسروی کو اشتعال دلانا اصل مقصد ہوتا ہے اور پھر ہمیں مجبور ہوکر ایک تلخ صداقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقتہً یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے متعلق عام حالات میں بحث وغیرہ کی ضرورت پیش آئے اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اس بحث میں عام طور پر از خود قدم نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف دوسروں کی طرف سے سوال ہونے پر اظہار رائے فرماتے تھے اور یہی مسلک ہمارا ہونا چاہیئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۰؁ئ)









عزیزہ امۃ الودودبیگم کی وفات میں
ہمارے لئے ایک سبق
عزیزہ امۃ الودُود بیگم کی وفات پر اولاً محترمی حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور بعدہٗ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لطیف مضامین شائع ہوچکے ہیں جو صدمہ رسیدہ اور زخم خوردہ دلوں کے اندرونی جذبات کے اظہار کے علاوہ جماعت کے لئے ایک اعلیٰ دینی اوررُوجانی سبق کا رنگ رکھتے تھے اور خصوصاً حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مضمون حدیث نبوی اذکرواامواتاکم بِالْخَیْرِ۹؎ کی ایک بہترین تفسیر تھا۔ اس لئے مجھے اس بارے میں کچھ مزید لکھنے اور تازہ زخموں کو لمبا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ ایک اور جہت سے بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ عزیزہ مرحومہ اپنے اخلاق اور دینداری کی وجہ سے اپنے ہر عزیز کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی تھی اور اس کی بظاہر بے وقت وفات نے ہمارے خاندان کے ہر خوردو کلاں کو بہت سی درد انگیز یادوں اور حسرتوں کے ساتھ مجروح کیا ہے اور خصوصاً سب سے زیادہ صدمہ مرحومہ کے والدین اور بھائیوں کے لئے ہے جنہیں وہ ازحد عزیز تھی۔ عزیزہ امۃ الودود یقینا شجرہ خاندان مسیح کی ایک پاکیزہ کلی تھی جس کی لپٹی ہوئی نازک پنکھڑیاں آنے والے پھول کے تصور سے دل میں خوشی پیدا کرتی تھیں مگر جس باغ کی وہ کلی تھی وہ ہمارا لگایا ہوا باغ نہیں بلکہ ہمارے آسمانی باپ کا لگایا ہوا باغ ہے اور اگر ہمارا یہ ازلی ابدی باغبان کسی وقت کسی مصلحت سے اپنے لگائے ہوئے باغ میں سے پھول کی بجائے کلی کو توڑنا پسند کرتا ہے تو اس پر کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں۔ بیج بھی اس کا ہے پودا بھی اس کا ہے۔ کلی بھی اس کی ہے اور پھول بھی اسی کا ہے اور باغ کی زمین اور باغ کا پانی اور باغ کی ہوا اور باغ کا ہر ذرہ اسی کی ملکیت ہے۔ پس اس کا حق ہے کہ جس طرح چاہے اپنے باغ میں تصرف کرے جس پودے کو چاہے رکھے اور جسے چاہے کاٹ دے۔ جس کلی کو چاہے پھول بننے دے اور جسے چاہے کلی کی صورت میں ہی توڑلے لَایُسْئَلُ عَمَّایَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْن.6َ۱۰؎۔ مگر ہمارے خدا کا کوئی فعل حکمت ودانائی سے خالی نہیںہوتا اور اس عالم کا مقدس باغبان اپنے باغ کے متعلق جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ظاہراً یا باطناً فرداً یا اجتماعاً باغ ہی کی بہتری اور بہبودی مقصود ہوتی ہے اور گو ہمارے ناقص علم میں بعض باتیں بظاہر بے وقت یا بے سود نظر آئیں یا تلخی اور درد مندی کے سوا ان میں بھی کوئی اور پہلو دکھائی نہ دیتا ہو مگر حقیقۃً ان میں بھی خداتعالیٰ کی گہری مصلحت کام کرتی ہے اور تلخی کی تہہ کے نیچے کوئی نہ کوئی رحمت کا چشمہ جھلک رہا ہوتا ہے۔ یہی وہ فلسفہ حیات ہے جس سے عارف لوگ اپنے صدمات میں تسکین پاتے ہیں۔ دراصل غور کیا جائے تو اکثر بے وقت موتیں اپنے اندر کئی قسم کی مصلحتیں رکھتی ہیں مثلاً:
(۱) بعض اوقات ایک بچہ خدا کے علم میں کم عمری میں ہی اس مخصوص غرض وغایت کو پوراکردیتا ہے جو خدا کے علم میں اس کی ولادت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ جس پر خدا تعالیٰ اسے دُنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلالیتا ہے اور اس صورت میں اس کی موت اپنے رنگ میں ایک کامیاب موت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند بشیراول کے معاملہ میں ہوا جن کی بلندفطری استعدادوں کے باوجود جوایک اعلیٰ مستقبل کی خبردیتی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے انہیں بچپن میں ہی وفات دے کر اپنے پاس بلالیا کیونکہ وہ اپنی ولادت کی مخصوص غرض وغایت کو پورا کرچکے تھے بلکہ ان کی بظاہر قبل ازوقت وفات بھی ان کی ولادت کی غرض وغایت کا حصہ تھی۔
(۲)بعض اوقات ایک بچہ کی صغرسنی کی وفات مستقبل کے لحاظ سے خود اس کے اپنے لئے مفید ہوتی ہے اور خداتعالیٰ بظاہر ایک تلخ مگر درپردہ رحمت کا ہاتھ مار کر اسے ایک اچھے وقت میں وفات دے کر آیندہ خطرات سے بچالیتا ہے لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مصلحت لوگوں پر بھی ظاہر ہو۔
(۳) بعض اوقات ایک بچہ کی وفات اس کے عزیزوں یا دوسرے لوگوں کے لئے بعض جہات سے مفید نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔ جنھیں انسان کی ظاہر بین آنکھ نہیں دیکھتی مگر اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ان پر حاوی ہوتا ہے اور اس صورت میں خدا تعالیٰ بچہ کو بظاہر قبل از وقت وفات دے کر اس کے متعلقین کے لئے ایک آیندہ آنے والی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
(۴) بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کی وفات میں قانون شریعت کے ماتحت کوئی مخصوص غرض مدنظر نہیں ہوتی بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص قضاء وقدر کے عام قانون کی زد میں آکر وفات پاجاتا ہے۔ چونکہ عام حالات میں قانونِ قضاء و قدر اورقانون شریعت علیحدہ علیحدہ دائروں میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حلقہ عمل میں دخل انداز نہیں ہوتے۔ اس لئے کسی شخص کا نیک ہونا اسے قضاء وقدر کی زد سے محفوظ نہیں رکھ سکتااور اللہ تعالیٰ کی تقدیر عام اپنا کام کر جاتی ہے۔
یہ وہ چند استثنائی صورتیں ہیں جن کے ماتحت دنیا کے بہت سے تلخ یا بظاہر بے وقت حادثات کی تشریح کی جاسکتی ہے اور ان کے علاوہ بعض اور وجوہات بھی ہیں جو اس قسم کے حادثات کی تہہ میں کام کرتی ہیں مگر اس مختصر سے نوٹ میں ان سب کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن خواہ وجہ کچھ بھی ہو۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسے رنگ میں بنایا ہے کہ کسی محبت کے رشتہ کے کٹنے پر انسان کا دل خون ہونے لگتا اور طبیعت میں ایک خطرناک تلاطم برپا ہوجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک زندہ جسم کا زندہ ٹکڑا کاٹ کر علیحدہ کیا جارہا ہے۔ مگر خدائی تقدیر کو ٹالنے کی کسی میں طاقت نہیں اور خواہ انسان صبر کرے یا جزع فزع سے کام لے بہرحال اسے مشیت الٰہی کے سامنے جھکنا پڑتا ہے تو پھر کیوں نہ صبرورضا کے ساتھ جھکاجائے اور ایک جاری شدہ تقدیر کو انشراح صدر سے قبول کرلیا جائے۔
صبرورضا کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عام انسانی عقل کی بھول بھلیاں میں نہیں چھوڑدیا بلکہ خود اپنی طرف سے ایک ایسے لطیف گُر کی تعلیم دی ہے جو تمام فلسفۂ صبرو رضا کی کلید ہے۔ فرماتا ہے کہ جب اس دنیا میں کسی مومن کو کوئی تکلیف یا صدمہ پہونچے تو اسے فوراً دو باتوں کو یاد کرلینا چاہیئے۔ اول یہ کہ انسان کی زندگی دنیا کے لئے یا دوسرے انسانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خدا کے لئے ہے۔ اس لئے خواہ اسے دوسری چیزوں کی طرف سے کتناہی صدمہ پہونچے۔ جب اس کا خالق ومالک خدا زندہ موجود ہے۔ جس پر کبھی موت نہیں آسکتی تو کوئی صدمہ اس کے لئے ناقابل برداشت نہیں ہونا چاہیئے۔ دوم یہ کہ موت انسان زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک درمیانی دروازہ ہے جس سے انسان زندگی کے ایک دور میں سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہوجاتا ہے اور بالآخر خد اکے پاس سب اگلے پچھلوں نے جمع ہوجانا ہے۔ پس موت کی جدائی ایک عارضی جدائی ہے جس کے بعد انشاء اللہ پھر ملنا ہوگا مگر یہ ضروری ہے کہ انسان خدا کے ساتھ اتحاد قائم رکھے کیونکہ یہ آخری اجتماع خدا کے پاس ہونے والا ہے اور وہاں وہی لوگ آپس میں مل سکیں گے جو خدا کا قرب حاصل کرنے کے قابل ہوں۔ یہی وہ گہری حقیقت ہے جسے قرآن کریم نے اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.6َ ۱۱؎کے مختصر مگر وسیع المعانی الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یعنی اے مومنوتم یقین رکھو کہ ہماری زندگی خدا کے لئے ہے اور بالآخر ہم سب پھر خدا کے پاس جمع ہو جائیں گے۔
پس اے ہماری جدا ہونے والی بچی امتہ الودود! بیشک تیری جدائی کا صدمہ بہت بھاری ہے اور تیری بظاہر بے وقت موت ایسی ہے کہ جیسے کسی نے ہمارے زندہ جسم کے ایک زندہ حصہ کو کاٹ کر جدا کردیا۔ جس کی وجہ سے ہماری روحیں درد کی شدت سے تلملا رہی ہیں مگر یہ صرف ایک مادی عالم کے مادی قانون کا مظاہرہ ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ تیری زندگی خدا کے لئے تھی اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی بھی خدا کے لئے ہے اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم سب نے آگے اور پیچھے اپنے آسمانی باپ کی گود میں جمع ہونا ہے۔ تجھے خدا نے اپنی کسی باریک درباریک مصلحت سے آغاز شباب میں ہی بلالیا جبکہ تو ابھی زندگی کی ڈیوڑھی میں قدم رکھ رہی تھی اور ہمیں اس نے اپنی کسی دوسری مصلحت سے زندگی کے تلاطم میں چھوڑ رکھا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ تیری حالت بہتر ہے یا ہماری مگر بہرحال ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب خدا کے لئے ہیں اور جلد یا بدیر اسی کے پاس جمع ہوں گے۔ ہاں ایک لحاظ سے تیری حالت ضرور بہتر ہے کہ تواپنے خدا کے پاس پہونچ گئی اور ہم ابھی انتظار میں ہیں تو اس بزرگ ہستی یعنی اپنے دادا کی گود میں جابیٹھی جس سے ہمارے خاندان کی ساری عزتیں ہیں اور ہم اپنے خاندان کے ان نونہالوں پر نظر جمائے کھڑے ہیں جن کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیسا نکلتا ہے شائد وہ ایسے اچھے نکلیں کہ سب اگلے پچھلوں کے لئے موجب فخر بن جائیں اور شائد ان میں سے کوئی حصہ کمزوری دکھانے والا ہو۔ یہ سب اللہ کے علم میں ہے۔ ہمارا کام صرف یہ دُعا کرنا ہے رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَاوَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجَعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔۱۲؎
ہمارے خاندان کے لئے عزیزہ امتہ الودود کی وفات دولحاظ سے ایک سبق ہے۔ جس سے ہمارے خاندان کے نونہالوں کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اول مرحومہ کی جوانی کی وفات اور پھر اچانک وفات ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ بچپن یا جوانی کی عمر اس بات کی ہرگز ضامن نہیں ہے کہ اس عمر میں انسان موت سے محفوظ ہوتا ہے بلکہ موت ہر عمر میں آسکتی ہے۔ پس انسان کو اپنی عمر کے ہرحصہ میں خدا کے پاس حاضر ہونے کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ وفات سے پہلے انسان کو آخرت کی تیاری کے لئے کوئی خاص موقع ملے بلکہ ہوسکتا ہے کہ وفات اچانک واقع ہوجائے۔ اس لئے انسان کو ہرلحظہ اور ہر گھڑی موت کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔ اور یہی اس قرآنی آیت کی عملی تشریح ہے کہ لَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْن.6َ-۱۳؎۔ اور یہ ایک از حد خوشی کا مقام ہے کہ باوجود اس کے کہ عزیزہ امتہ الودود کی وفات بالکل نوجوانی میں ہوئی اور پھر باوجود اس کے کہ موت اچانک ہوئی۔ حتیٰ کہ مرحومہ کی مختصر بیماری کاآغاز بھی نیند کی حالت میں ہوا لیکن پھر بھی جیسا کہ اس کا انجام ظاہر کرتا ہے۔ ملک الموت نے اسے خدائی دربار کے لئے تیار پایا۔ پس ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں اور نوجوانوں کو بھی اسی طرح اپنے رب کی حاضری کے لئے تیار رہنا چاہیئے کیونکہ کون کہہ سکتا ہے کہ کب پیغام آجائے۔
دوسرا سبق جوہمیں مرحومہ کی وفات سے حاصل ہوتا ہے۔وہ اس محبت کے مظاہرہ سے تعلق رکھتاہے جو ہمارے اس صدمہ میں جماعت کے دوستوں کی طرف سے ہوا۔ میں ان جذبات شکر کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں پاتا جو میرے دل میں اپنے روحانی بھائیوں اور بہنوں کے متعلق یہ دیکھ کر پیدا ہوئے ہیں کہ انہوں نے کس طرح ہمارے صدمہ کو اپنا سمجھا اور ہمارے درد کو اپنا درد خیال کیا اور ہماری تکلیف کے احساس سے ان کی روحیں بے چین ہوگئیں۔ بہت سے دوستوں کو میں دیکھتا تھا کہ وہ ہمارے سامنے آکر اپنے جذبات کی شدت میں پھوٹ پڑنے کے لئے تیار تھے مگر ہمارے اندرونی تلاطم کو محصور دیکھ کر بڑی کوشش کے ساتھ رک جاتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے کہ وہ رکنے کی طاقت نہ پاکر پھوٹ پڑتے تھے اور ہمیں انہیں تسلی دلانی پڑتی تھی۔ بہت سے لوگ جنازے کی شرکت کے لئے باہر سے تشریف لائے۔ بعض نے خود اپنی طرف سے تاریں دے کر اپنے باہر کے عزیزوں کو قادیان بلایا تاکہ وہ ہمارے غم میں شریک ہوسکیں۔کئی ایسے ہیں جن کو اس حادثہ کے بعد رات بھر نیند نہیں آئی اور انہوں نے ہمارے خاندان کے لئے دعا کرتے ہوئے رات بسر کی اور ایک بہت بڑی تعداد نے جو باہر رہتے ہیں خطوں اور تاروں اور زبانی پیغاموں کے ذریعہ اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ ہم اپنے ان لاتعداد دوستوں بہنوں اور بھائیوں کاسوائے اس کے اور کیا شکریہ ادا کرسکتے ہیں کہ خدایا جس طرح ہمارے ان روحانی عزیزوں نے تیرے پاک مسیح میں سے ہوکر اور اس کے ساتھ رشتہ جوڑ کر ہماری محبت کو اپنے سینوں میں جگہ دی اور ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا اور تمام دنیوی رشتوں سے بڑھ کر اس روحانی رشتہ کی قدر کی۔ اسی طرح تو بھی ان کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دے اور ان کی تکلیفوں میں ان کا حافظ وناصر ہو اور ان کے اس روحانی پیوند کو اپنے فضل و رحم کے ساتھ ایسا نواز اور ایسابابرکت کرکہ اس پیوند سے پیدا ہونے والے درخت سے قیامت تک تیری رضا اور خوشنودی کے پھل اترتے رہیں۔ جو دنیا میں تیرے نام کو روشن کرنے والے اور تیرے کام کو تکمیل تک پہونچانے والے ہوں۔ اٰمین اللھم اٰمین واٰخردعوان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲ جولائی ۱۹۴۰؁ئ)



نقشہ ماحول قادیان
جیسا کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے اعلان کیا تھا میں نے قادیان کے گردونواح میں جماعت کے ایسے زمیندار احباب کے لئے جو قادیان کے آس پاس زرعی اراضیات خریدنے کے خواہشمند ہیں زمین کی خرید کا انتظام کیا ہے تاکہ دوستوں کو اس معاملہ میں ہرقسم کی سہولت بہم پہنچائی جاسکے۔ اس غرض کے لئے میں نے قادیان کے گردونواح کے دیہات کا ایک نقشہ بھی تیار کرایا ہے۔ جس میں قادیان کے چاروں جانب چند میل تک کے دیہات دکھائے گئے ہیں اور نہر بھی اور بڑے راستہ جات وغیرہ بھی دکھائے گئے ہیں تاکہ زمین خریدنے والے اصحاب کو فیصلہ میں ہرقسم کی سہولت رہے۔ نقشہ میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ مختلف دیہات میں کس قوم کی آبادی ہے تاکہ دوست جس قسم کے ماحول میں زمین خریدنا پسند کریں اسے اختیار کرسکیں۔ علاوہ ازیں یہ نقشہ تبلیغی ضروریات کے بھی کام آسکتا ہے اور اس غرض کے لئے اس میں بعض مفید معلومات زیادہ کردیئے گئے ہیں۔ جو دوست اس نقشہ کو منگوانا چاہیں وہ خاکسار کو اطلاع دیں۔ قیمت کا فیصلہ بعد میں نقشہ طبع ہونے پر کیا جائے گا۔ موجودہ اندازہ آٹھ آنے فی نقشہ کا ہے۔ نقشہ ایسی صورت میں طبع کرایا جارہا ہے کہ کتابی شکل میں تہہ ہوکر جیب میں رکھا جاسکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۴۰؁ئ)





خریداران اراضی کے لئے ایک ضروری اعلان
ہماری سکنی اراضیات کی فروخت کے لئے حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم مقرر تھے اور وہ عموماً جلسہ سالانہ کے بعد فروخت کا سارا حساب کتاب صاف کرکے مجھے سمجھادیا کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ جلسہ سالانہ کے بعد مولوی صاحب موصوف کی طبیعت کچھ علیل رہی اور وہ حضرت صاحب کے ساتھ کراچی تشریف لے گئے اور وہاں سے زیادہ بیمارہوکر واپس آئے اور اسی بیماری میں انتقال فرما گئے۔ اس لئے جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کی فروخت کے متعلق مجھے ان سے حساب فہمی کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی فروخت اراضی کا ریکارڈ پوری طرح صاف ہوسکا۔ اس لئے بروئے اعلان ہذا دوستوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جن اصحاب نے گذشتہ جلسہ سالانہ میں مولوی صاحب موصوف کی معرفت ہماری کوئی سکنی زمین خریدی ہو۔ وہ مجھے بہت جلد نمبر اراضی اور رقبہ اور زرثمن سے اطلاع دیں تاکہ حساب چیک کیا جاسکے اور اگر کوئی غلطی ہو تو وہ درست کردی جائے۔ اگر اس اعلان کے بعد کسی صاحب نے اطلاع دینے میں غفلت یا سستی سے کام لیا تو اس کی ذمہ واری ان پر ہوگی۔
‎ (مطبوعہ الفضل۱۷ جولائی۱۹۴۰؁ئ)






ایک بدعت کا آغاز
آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ خدا کے محرمات کی ایک رکھ ہوتی ہے اور خدا مومنوں کو اس محفوظ جنگل میں داخل ہونے یا اس میںاپنے جانور چرانے سے منع فرمادیتا ہے۔ مگر چونکہ انسان کی طبیعت کمزور واقع ہوئی ہے اور عموماً نیکی کی طرف قدم اٹھانے کی بجائے وہ بدی کی طرف جلدی جھک جاتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ وہ اس خدائی رکھ کے قریب قریب بھی اپنے جانور نہ چرائیں۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ کسی وقت غلطی سے وہ رکھ کے اندر جاگھسیں مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے اور ہرجائز چیز کو اس انتہاء تک پہونچادیتے ہیں کہ جہاں حرام وحلال کی حدود ملتی ہیں اور پھر کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ گناہ کے جنگل میں قدم ڈال بیٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں شریعت کے گہرے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو اپنی ذات میں تو ناجائز نہیں ہوتیں مگر ایک خاص ماحول میں جاکر گناہ کا باعث بن جاتی ہیں مگر ناواقف لوگ محض اس بناء پر کہ وہ اپنی ذات میں منع نہیں، انہیں ہر ماحول میں جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ مجھے اس نوٹ کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ یہاں قادیان میں مجھے ایک ایسی دعوتِ ولیمہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہؤا جس میں فریقین قدیم اور مخلص احمدی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس دعوت میںایک ایسی بدعت کا اظہار ہؤا جس کے متعلق میں ڈرتا ہوں کہ اگر اس کا بروقت انسداد نہ کیا گیا تو وہ زیادہ وسیع ہوکر ہمیں صحیح اسلامی تمدن سے دُور جاپھینکے گی۔ اس دعوت میں مرد وعورت دونوں مدعو تھے۔ عورتوں کے کھانے کا انتظام کمروں کے اندر تھا اور مرد جو کافی تعداد میں تھے ان کمروں کے ساتھ لگتے ہوئے صحن میں بٹھائے گئے تھے اور عورتوں اور مردوں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ جس میں متعدد دروازے کھلتے تھے۔ کھانے کے دوران میں کمروں کے اندر سے باجے کی آواز آنی شروع ہوئی جو غالباً گراموں فون یا ریڈیو کی آواز تھی اور گانا جہاں تک میں سمجھ سکا عورتوں کا گایا ہؤا تھا۔ یہ گانا عین دُعا تک بلکہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو دُعا کے ابتدائی حصہ میں بھی جاری رہا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ گانا خراب مضامین پر مشتمل نہیں ہوگا بلکہ جو الفاظ میرے کانوں تک پہونچے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ غالباً یہ گانا مدحیہ اورنعتیہ اشعار پر مشتمل تھا مگر بہرحال یہ ایک ایسی بدعت تھی جو اس سے قبل قادیان میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے گھروں میں ریڈیو سیٹ ہیں جو انہوں نے تازہ خبروں کے سننے کی غرض سے لگا رکھے ہیں اور کبھی کبھی وہ یا ان کے اہل وعیال ان ریڈیو سیٹوں پر موسیقی کا پروگرام بھی سُن لیتے ہوں گے۔ اور میں ذاتی طور پر اس میں چنداں ہرج نہیں دیکھتا بشرطیکہ گانا بُرا نہ ہو۔ اسی طرح میں جانتا ہوں کہ بعض لوگوں کے پاس گرامو فون بھی ہیں جنہیں وہ اپنے گھروں میں پرائیویٹ طور پر استعمال کرتے ہیں اور حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ میں ان گراموفون باجوں کے متعلق اصولی طور پر فرما چکے ہیں کہ خیرھا خیروشرھا شر۔ پس اگر کوئی شخص اپنے گھر میں پرائیویٹ طور پر کبھی کبھی موسیقی سن لیتا ہے تو اگر یہ موسیقی اپنے اندر کوئی مخرب اخلاق یا ناجائز عنصر نہیں رکھتی تو مجھے یا کسی اور شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا بشرطیکہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کرکے انہماک اور ضیاع وقت کا موجب نہ ہونے لگے مگر جس بات نے مجھے اس دعوتِ ولیمہ میں تکلیف دی وہ یہ تھی کہ ایک مسنون رنگ کی دعوت میں جس میں مردوعورت کا اس قدر قریب کا اجتماع تھا باجے اور موسیقی کا پبلک مشغلہ کیا گیا جو میرے خیال میں ان حدود کے سراسر منافی ہے جو شریعت اسلامی ان معاملات میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ اور پھر یہ گانا عورتوں کا گانا تھا جو دُعا تک میں یا کم ازکم اس کے ایک حصہ میں جاری رہا۔
میں اپنے دوستوں سے بڑی محبت اور ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایک غیراسلامی حکومت کی وجہ سے ہم پہلے سے ہی دجّالی تہذیب کے بہت سے پھندوں میں گرفتار ہیں۔ پس خدارا وہ اپنے ہاتھ سے ہمارے ان پھندوں کی تعداد میں اضافہ نہ کریں۔ ایسی باتوں میں یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ ایک معمولی بات ہے۔ دُنیا میں اکثر معمولی نظر آنے والی باتیں بالآخر وسیع اور خطرناک نتائج کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔ پس عقلمند آدمی کا یہ کام ہے کہ چیزوں کی ابتدا کو نہیں بلکہ ان کی انتہاء کو دیکھے اور آگ کی ایک چھوٹی سی چنگاری میں اس وسیع اور مہیب آگ کا نظارہ کرے جو بڑے بڑے شہروں اور آبادیوں کو جلاکر خاک کردیتی ہے۔جب کِسی دریا کا بند ٹوٹتا ہے تو شروع میں وہ عموماً ایک سوئی کے ناکے سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا لیکن اگر اس کا بروقت انسداد نہ کیا جائے تو یہی سوئی کا ساسوراخ ایک دوسرے دریا کی شکل اختیار کرکے وسیع علاقوں کے علاقے ڈبودیتا ہے۔ پس مجھے اندیشہ ہے کہ جس بدعت کا اب آغاز ہوا ہے (اور خدا کرے یہ آغاز ہی اس کا انجام ثابت ہو) وہ آہستہ آہستہ ہماری مجلسوں کو ان دجالی مجالس کا رنگ نہ دیدے جن میں موسیقی اور خصوصاً عورت کی موسیقی ہر سوشل تقریب کی جان سمجھی جاتی ہے۔
میں ہرگز یہ خیال نہیں کرتا کہ جن دوست کے مکان پر یہ بدعۃ سیئۃ ظاہر ہوئی ہے انہوں نے دانستہ اس غلطی کا اسے غلطی سمجھتے ہوئے ارتکاب کیا ہوبلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے اسے غلطی نہیں جانا اور یونہی ایک تفریح کے رنگ میں شادی کے ماحول کو بظاہر خوشگوار بنانے کی خاطر یہ کام کیا ہوگا اور دُعا کے وقت میں گانے کا جاری رہنا تو یقینا غلط فہمی کا نتیجہ تھا مگر ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ دُنیا میں اکثر تباہیاں ان غلطیوں کی وجہ سے نہیں آتیں جو جان بوجھ کر کی جائیں بلکہ زیادہ تر ان غلط فہمیوں اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے آتی ہیں جن کا ارتکاب نادانستہ طور پر کیا جاتا ہے کیونکہ جان بوجھ کر غلطی کرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ مگر غفلت اور بے احتیاطی برتنے میںایک قوم کی قوم ملوث ہوسکتی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ آج کی نادانستہ غلطی کچھ عرصہ کے بعد دانستہ غلطی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پس غور کیا جائے تو دیدہ ودانستہ غلطی کی نسبت ایک لحاظ سے غفلت اور بے احتیاطی کا ارتکاب زیادہ خطرناک ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ مختصر مگر ہمدردانہ نصیحت ایسے دوستوں کے لئے مفید ثابت ہوگی جو ہرنیکی کی بات کو خوشی اور شوق سے قبول کرنے کے متلاشی رہتے ہیں۔ اللہ۔تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں ہر قسم کی بدعتوں اور ٹھوکروں سے بچا کراپنے رضا کے رستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
ہاں ایک ضروری بات میں بھول گیا۔ وہ یہ کہ جب کمروں کے اندر سے گانے کی آواز آنی شروع ہوئی تو میرے قریب ایک بزرگ نے جو دینی عالم بھی ہیں اپنے ایک ساتھی سے فرمایا کہ شادی کے موقع پر گانا جائز ہے۔ میں ان بزرگ کے مقابل پر ہرگز کسی علمی تفوّق کا مدعی نہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رائے جو انہوں نے ظاہر فرمائی درست نہیں۔ بے شک نکاح کے موقع پر اعلان کی غرض سے ڈھول وغیرہ بجاناجائز ہے اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات شادی وغیرہ کے موقع پر مستورات گھروں کے اندر گانے وغیرہ کا شغل بھی کرلیتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شغل کو منع نہیں فرمایا مگر ان دونو باتوں سے وہ نتیجہ نکالنا جو ان بزرگ نے نکالا ہے، میری رائے میں درست نہیں کیونکہ نکاح کے وقت کا باجا تو محض اعلان کی غرض سے ہے اور گھروں کے اندر علیحدگی میں عورتوں کا کوئی شغل کرلینا ایک پرائیویٹ چیز ہے مگر یہاں جو طریق اختیارکیا گیا وہ بالکل جداگانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ یہاں ایک دعوتِ ولیمہ میں جبکہ مرد وعورت صرف ایک دیوار کے فاصلہ سے اکٹھے بیٹھے تھے عورتوں کا گانا ایک پبلک مشغلہ کے طور پر سنایا گیا اور ان دونوں صورتوں میں بہت بھاری فرق ہے۔ اگر میرے کسی دوست کو یہ فرق علمی رنگ میں نظر نہ آئے تو وہ اس طرح خیال فرماسکتے ہیں کہ جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے گھروں میں شادیوں وغیرہ کے موقع پر عورتیں پرائیویٹ طور پر گانے کا شغل کرتی رہی ہیں۔ وہاں دوسری طرف ان ہادیانِ دین میں سے کسی کے گھر میں بھی آج تک یہ بات نہیںہوتی کہ ولیمہ وغیرہ کی دعوت پر گانے بجانے کا مشغلہ کیا گیا ہو۔ پس جس فرق کو ہمارے راہنمائوں نے ملحوظ رکھا ہے وہ ہمیں بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۴۰؁ئ)





خان غلام محمد خان صاحب مرحوم آف میانوالی
’’الفضل‘‘ میں اخویم خان غلام محمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر شائع ہوچکی ہے۔ خان صاحب مرحوم میرے ہم زلف تھے اور گو عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے مگر میری اور ان کی شادی (جودراصل ان کی دوسری شادی تھی) ایک ہی دن اکٹھی ہوئی تھی۔ جس کو آج چونتیس سال سے زائد عرصہ گزرتا ہے۔ خان غلام محمد خان صاحب موصوف ابتدا میں میانوالی کے سرکاری سکول میں ہیڈ ماسٹر ہوتے تھے اور بہت کامیاب اور ہردلعزیز ہیڈ ماسٹر سمجھے جاتے تھے۔ اس کے بعد وہ ای-اے-سی کے انتخاب میں آگئے اور کئی سال کی ملازمت کے بعد باعزت ریٹائر ہوئے مگر خوش قسمتی سے ریٹائر ہونے کے جلد بعد بھکر ضلع میانوالی کے قرضہ بورڈ میں چیئر مین مقرر ہوگئے اور اسی زمانہ میں وفات پائی۔
مرحوم کی طبیعت بہت سادہ اور صاف گو تھی اور طبیعت میں کسی قسم کا تکبر نہیں پایا جاتا تھا بلکہ ہرطبقہ کے لوگوں کے ساتھ برادرانہ اور بے تکلفانہ انداز میں ملتے تھے۔ طبیعت میں دیانتداری کا جذبہ بھی غالب تھا۔ چنانچہ ملازمت کے دوران میں جہاں سینکڑوں ڈگمگادینے والے موقعے پیدا ہوتے رہتے ہیں ہمیشہ اپنے دامن کو پاک رکھا بلکہ غرباء اور مظلوموں کی امداد کا اچھا نمونہ دکھایا۔
مرحوم پرانے احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کے الہامات اور عربی کتب کو ہمیشہ بڑے شوق اور محبت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عربی تصنیفات سے از حد متاثر تھے۔ چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے تو ایم۔اے کا امتحان بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کی برکت سے پاس کیا تھا۔ اپنے بڑے دوبچوں کو بھی گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب درساً پڑھائی تھیں۔ جب تذکرہ شائع ہوا تو اس وقت مرحوم اتفاق سے قادیان میں تھے۔ مجھے کہہ کر بڑے شوق سے اس کی ایک کاپی منگوائی اور میں اگر بھولتا نہیں تو ایک رات کے دوران شروع سے لے کر آخر تک سب پڑھ ڈالی۔ تبلیغ کابھی شوق تھا اور اپنے مخصوص پٹھانی انداز میں اکثر تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ بلکہ اگر کسی جلسہ میں شریک ہوں اوروہاں کوئی تبلیغ کا موقع پیدا ہو یا پیداکیا جاسکے تو فوراً کھڑے ہوکر دوچارمنٹ کے لئے کلمۂ حق پہونچادیتے تھے۔ ایک دفعہ مشہور عیسائی سوسائٹی مسمیٰ وائی ایم۔سی۔اے کے جلسہ میں چلے گئے اور صدرمجلس سے کہہ کر دو منٹ کی اجازت حاصل کی کہ میں حضرت مسیح موعود کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ شروع کردی۔
حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر جب جماعت میں اختلاف ظاہرہؤا تو خان صاحب نے فوراً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور گو شروع شروع میں بعض رشتہ۔داروں کی مخالفت کی وجہ سے کچھ دب دب کر رہے لیکن اخلاص میں فرق نہیں آیا۔ چنانچہ جب ای۔اے۔سی کا امتحان دیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں چند نب بھجواکر دُعا کی درخواست کی اور عرض کیا کہ ان نبوں پر دعا فرمائیں تاکہ میں ان سے اپنے پرچے لکھوں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح کی دعائوں سے خدانے کامیابی عطافرمائی۔ اور اس کا وہ ہمیشہ فخر کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔
جب سال رواں کے شروع میں قبلہ حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تو خان صاحب مرحوم اس پر بہت خوش ہوئے اور پے درپے دو خطوں میں میرے پاس اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں:-
’’آغاجان کی بیعت کا میں نے ۲۵جنوری ۱۹۴۰ء کے الفضل میں پڑھ لیا تھا۔ مجھے پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بیعت ۱۹۱۴ء میں اس بیت کو مدنظر رکھ کر کی تھی کہ:-
دور او چوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم
میں نے محمد علی صاحب کی بیعت کبھی نہیں کی اور نہ مجھے کبھی اس کی خواہش ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے مجھے ہمیشہ محبت رہی ہے اور لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے کسی ممبر کو جب وہ میرے گھر پر آیا موجب برکت سمجھتا رہاہوں۔ اور جلسہ پر بھی گاہے بگاہے قادیان آتا رہا ہوں۔ اس دفعہ بھی میری خواہش تھی لیکن بوجہ ضعف وبیماری نہ آسکا۔ دعاکریں کہ آیندہ توفیق عطا ہو……آغاجان صاحب نے ’’میری بیعت‘‘ والے مضمون میں جو ۲فروری۱۹۴۰ء کے الفضل میں چھپا ہے دوالہامات حضرت مسیح موعود سے نئی توجیہہ کی ہے لیکن ان کا خیال اس الہام کی طرف نہیں گیا کہ ’’خدا مسلمانوں کے دوفریقوں میں سے ایک کے ساتھ ہوگا‘‘ ٭اور ہر طرح خیریت ہے۔‘‘
خان صاحب مرحوم نے مرض کا ربنکل سے ۳۰ستمبر۱۹۴۰ء کی شام کو اپنے وطن میانوالی میں بعمر
٭:-خدادومسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا۔ تذکرہ صفحہ۶۰۴ طبع ۲۰۰۴ء
۶۵سال وفات پائی۔ کئی سال سے ذیابیطس کی تکلیف تھی۔ مگر کبھی اس کی پروا نہیں کی اور نہ ہی باوجود ڈاکٹروں کے مشورہ کے کبھی کوئی پرہیز کیا۔ آخر کاربنکل نے حملہ کیا اور چند روز بیمار رہ کر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ بیماری کے آخری تین روز سخت تکلیف رہی۔ مگر ہمت ایسی تھی کہ جس دن شام کو فوت ہونا تھا اور ڈاکٹر جواب دے چکے تھے اس دن کی دوپہر کا کھانا بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کر دسترخوان پر کھایا اور وفات سے صرف پندرہ منٹ قبل بعض ضروری کاغذات پر دستخط کئے۔ نزع کی حالت میں بڑے لڑکے عزیزعبدالرئوف خان نے روتے ہوئے کہا آپ ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہیں جس پر خان صاحب نے فوراً جواب دیا خدا پر۔
اپنی اولاد کے حق میں مرحوم ایک بہت اچھے باپ تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ان کی بہبودی کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ا ور دنیوی بہبودی کے ساتھ ساتھ اولاد کی دینی بہبود کا بھی خیال رہتا تھا۔ چنانچہ جب دوبڑے لڑکے بالغ ہوگئے تو خود انہیں ساتھ لے کر حضرت خلیفۃالمسیح۔الثانی ایدہ اللہ کی بیعت کروائی۔ اور قادیان جاتے رہنے کی بھی تاکید کرتے رہتے تھے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے پانچ لڑکے اور دولڑکیاں چھوڑی ہیں۔ دوبڑے لڑکے سرکاری ملازمت میں آچکے ہیں۔ یعنی عزیزعبدالرئوف خان بی۔اے نائب تحصیلدار ہیں۔ اور عزیزعبدالحمید خان بی۔اے تحصیلدار ہیں اور دو چھوٹے لڑکے تعلیم پارہے ہیں۔ اور منجھلا لڑکا ملازمت کی تلاش میں ہے۔ ایک لڑکی شادی شدہ ہے۔ اور عزیز سجاد سرور نیازی بی۔اے ڈائرکٹرآل انڈیا ریڈیو لاہور کے عقدمیں ہے۔ اور دُوسری لڑکی کی شادی عنقریب عزیز مسٹر عبدالکریم نیازی ایم۔اے انکم ٹیکس افسر کے ساتھ ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ وناصر ہو۔ اور دینی اور دنیوی ترقیوں سے بہرہ ور کرے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۰؁ئ)




حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ
کے متعلق
دُعائوں کی خاص ضرورت
دوہری ذمہ واری
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی وصیّت پر جماعت نے جس رنگ میں صدقہ وخیرات اور دُعائوں کی طرف توجہ دی ہے وہ ایک بہت قابلِ تعریف اور قابلِ قدر نمونہ ہے جس کی مثال صرف خدائی سلسلوں میں ہی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس سے جماعت کے اس اخلاص کا اندازہ ہوتا ہے، جو اسے اسلام اور احمدیت کی ترقی اور بہبودی کی خاطر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ مگر پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے ایک حصہ نے اس خطرہ کی اہمیت کو پوری طرح محسوس نہیں کیا جو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی وصیت میں مضمر ہے اور جس کی طرف جماعت کے بہت سے دوستوں کی خوابیں اشارہ کررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گوناگوں مصالح کے ماتحت انسان کی نظر سے اس کے مستقبل کو مستور کررکھا ہے اور یہ نظام سراسر رحمت پر مبنی ہے مگر بعض اوقات اس کی رحمت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ الہامات یا خوابوں وغیرہ کے ذریعہ کِسی آنے والے واقعہ کی جَھلک دکھا کر اپنے بندوں کو ہوشیار کردیتا ہے تاکہ اگر ممکن ہو تو وہ آنے والی مصیبت کو دُعائوں اور صدقہ وخیرات کے ذریعہ سے ٹال دیں۔ یا اگر خدا کے علم میں یہ ممکن نہ ہو تو کم ازکم وہ اس مصیبت کے لئے تیار ہوجائیں۔ کیونکہ یہ بھی ایک خدائی رحمت ہے کہ وہ اچانک صدمہ پہونچانے کی بجائے پہلے سے ہوشیار کرکے اپنی تلخ تقدیر کو وارد کرے۔ پس حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف لوگوں کو پے،درپے مندر خوابوں کا آنا انہیں دو مصلحتوں کی وجہ سے ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ایک چوکس سپاہی کی طرح ان دونوں رستوں کے لئے تیار رہے ۔ یعنی ایک طرف وہ اپنے صدقہ وخیرات اور اپنی متضرعانہ دُعائوں کو اس حد تک پہنچادے کہ جو انسانی کوشش اور انسانی طاقت کی آخری حد ہے تاکہ ہماری بے کسی اور بے بسی کو دیکھ کر خدائے رحیم وکریم کی رحمت جوش میں آئے۔ اور ان اللّٰہ غالب علیٰ امرہ.6ٖ کے ازلی اصول کے ماتحت خدا کی ایک تقدیر اس کی دوسری تقدیر کو دھکیل کر پیچھے کردے اور دوسری طرف ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو اوپر اٹھانے کی اس حدتک کوشش کریں اور اپنے علم اور اپنے ایمان اوراپنے عمل اور سب سے بڑھ کر اپنے تقویٰ کو اس درجہ جلادے دیں کہ خدا کی ہر تقدیر ہمیں ہر قسم کے حالات کے لئے تیار پائے اور کوئی مصیبت خواہ وہ کتنی ہی بھاری ہو۔ ہماری ترقی کی رفتار کو سست نہ ہونے دے بلکہ ایک تازیانہ کا کام دے کرہمارے قدم کو اور بھی تیز کردے۔ یہ وہ دوہری ذمہ واری ہے جوا س وقت ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہر سچے احمدی کو اس ذمہ واری کے لئے پوری مستعدی کے ساتھ تیار ہوجانا چاہیئے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کا مُبارک وجود
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود باجود نہ صرف اپنی عظیم الشان عملی برکات کی وجہ سے جو ہر قدم میں آپ کے ساتھ رہی ہیں بلکہ ان زبردست خدائی شہادات کی بنا پر بھی جو آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات میں پائی جاتی ہیں، جماعت کے لئے ایک ایسا مبارک وجود ہے کہ اس پر خدا کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ آپ کے وجود کو گویا خدائی تقدیر نے ابتداء سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے ساتھ اس طرح جوڑ رکھا ہے جس طرح دو توام بچے آپس میں جڑے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔ ابتدائً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی کے ساتھ ملا کر یَتَزَوّجٌ وَیُولَدُلٰہُ ۱۴؎ کے الفاظ فرمائے اور گویا دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر ایک کردیا۔ پھر درمیانی صلحاء نے بھی اکثر صورتوں میں مسیح موعودکے ساتھ اس کے پسر موعود کو ملاکر بیان کیا جیسا کہ نعمت اللہ صاحب ولی کا یہ شعر ظاہر کرتا ہے۔ کہ ع
دَورِ او چوں شود تمام بکام
پسرش یادگار می بینم۱۵؎
اور بالآخر جب خود مسیح موعود کی بعثت کا وقت آیا تو خدا نے آپ کو منصبِ ماموریت پر فائز کرنے کے ساتھ ہی پسرِ موعود کی بھی بشارت عطا کی۔ اور پھر تقدیر الٰہی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ،تعالیٰ کی ولادت کو بھی اسی سال میں رکھا جس سال میں کہ جماعت احمدیہ کی داغ بیل قائم ہوئی۔
اس طرح بِلاشک حضرت خلیفۃ المسیح کا وجود سلسلہ احمدیہ کے لئے ایک توام بھائی کی حیثیت رکھتا ہے اور مسندِ خلافت پر آنے کے بعد آپ کی ارفع شان ان خدائی تائیدات سے ظاہر ہے جو ہر قدم میں آپ کے ساتھ ساتھ رہی ہیں۔ اس بات میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ آپ کی خلافت کا زمانہ تاریخ احمدیت کا ایک ایسا چمکتا ہوا ورق ہے کہ اس کی نظیر دوسری خلافتوں میں بہت کم نظر آتی ہے۔ آپ کے عہد مبارک میں جماعت نے نہ صرف علم ظاہر و باطن میں بلکہ تربیت میں تنظیم میں اور تبلیغ میں اس درجہ ترقی کی ہے کہ دشمن بھی حیرت سے انگشت بدنداں ہے اور آپ کی قیادت میں جماعت کے رعب میں بھی فوق العادت رنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے لئے دُعائیں وقف کی جائیں
باپ کا وہ منصب ہے کہ اگر وہ نالائق بھی ہوتو پھر بھی سعید اولاد کی نظروں میں محبوب ہوتا ہے۔ تو پھر اس باپ کا کیا کہنا جو اپنی اولاد کے لئے سراسر شفقت ورحمت ہے اور یقینا جو محبت جماعت کو اپنے امام کے ساتھ ہے وہ بھی امام کی شان کے مطابق ہے مگر یہ ایک قدرتی تقاضا ہے کہ اولاد کی محبت اور قربانی کی رُوح باپ کے متعلق خطرہ کے احساس سے اور بھی زیادہ ترقی کرتی ہے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس خطرہ کو جو اس وقت متعدد لوگوں کی خوابوں کے ذریعہ ہماری نظروں سے قریب کردیا گیا ہے۔ محسوس کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کا ایک عظیم الشان بند کھڑا کرکے اس خطرہ کے سیلاب کو روک دیں۔
یہ خوابیں یونہی پریشان خیالیاں نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں کو مختلف مقامات اور مختلف حالات میں مختلف قسم کے نظاروں میں دکھائی گئی ہیں۔ پس ایک سادہ لوح کبوتر کی طرح آنے والے خطرہ سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کرلینا ہر گز دانائی کی راہ نہیں بلکہ ہمیں خدائی تقدیر کے ہاتھ کو چشم بصیرت سے دیکھ کر اپنی دعائوں اور صدقہ وخیرات سے اس تقدیر کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسلام کا خدا وہ خدا نہیں جو اپنی قضاء وقدر کا غلام ہو بلکہ وہ ایک قادر مطلق خدا ہے جو اپنی تقدیر پر بھی اسی طرح غالب ہے جس طرح کسی اور چیز پر اور وہ اس بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ اپنے بندوں کی دعائوں اور التجائوں سے اپنی تقدیر کو بدل دے۔ پس ان عظیم الشان احسانوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت پر ہوچکے ہیں اور ان عظیم۔الشان برکات پر نگاہ رکھتے ہوئے جو آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ ہیں، ہمیں اس رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنی خاص دعائوں کو آپ کے لئے وقف کردینا چاہیئے تا خدا ہماری زاری اور بے بسی کو دیکھ کر اپنی تقدیر کو بدل دے۔ اسلام کا خدا تو وہ خدا ہے کہ جس نے اپنے رسول یونسؑ کے ذریعہ ایک پختہ وعدہ دے کر اسے ایک بدکردار قوم کی گریہ وزاری سے بدل دیا تھا۔ تو کیا وہ خدا اپنے پیارے مسیح کی پیاری قوم کی متضرعانہ دعائوں پر اپنے ایک برگزیدہ خلیفہ کے متعلق اپنی تقدیر کو بدل نہیں سکتا؟ بد قسمت ہے وہ انسان جو اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے اور اسے ہر کام میں قادر خیال نہیں کرتا۔ بے شک وہ ہمارا آقا ہے اور ہم اس کے غلام اور اس کی شان خداوندی بعض اوقات اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات ہی منواتا ہے خواہ وہ کتنی ہی تلخ ہو مگر یہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اس معاملہ میں خدائی تقدیر اٹل اور مبرم ہے۔پس ہمیں چاہیئے کہ اس رمضان میں خاص طور پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعائیں کریں۔ انفراداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی تاکہ ہماری تضرعات کو دیکھ کر خدا ہمارے امام کی عمر کو لمبا کردے اور ان کے سایہ کو ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے۔
اجتماعی دعا کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ جہاں تراویح کی نماز ہوتی ہے وہاں نماز تراویح کے اندر دعا کرنے کے علاوہ تراویح کے اختتام پر تمام حاضر الوقت لوگ مل کر دعا کریں۔ نماز تراویح وہ نماز ہے جس کے متعلق قرآن شریف اَشَدُّوَطْئًا وَّاَقْوَمُقِیْلًا۱۶؎کے الفاظ فرماتا ہے یعنی یہ نماز تکلیف دہ تقدیروں کو دبانے میں سب سے زیادہ مؤثر اور خدا کے حضور عرض ومعروضات پیش کرنے کے لئے سب سے بہتر موقع ہے۔لیکن جہاں تراویح کا انتظام نہ ہو وہاں عشاء یا صبح کی نماز کے بعد ہی اجتماعی صورت میں دعا کی جاسکتی ہے۔ اور یہ دعا اس دعا کے علاوہ ہوگی جو نمازوں کے اندر کی جاتی ہے۔ اسی طرح جن دوستوں کو توفیق ہو وہ صدقہ وخیرات بھی کریں بلکہ اگر پہلے کرچکے ہوں مگر دوبارہ کرنے کی بھی توفیق رکھتے ہوں تو بہتر ہے کہ دوبارہ بھی کردیں۔ صدقہ کے لئے بکرا وغیرہ ذبح کرکے بلحاظ مذہب غربا اور یتامیٰ وبیوگان میں تقسیم کرنا اور کچھ حصہ جانوروں کو ڈال دینا عمدہ طریق ہے۔ یا غرباء کو کھانا پکا کر کھلا دیا جائے۔ یا اب جبکہ سردیاں آرہی ہیں حاجت مندوں کو سردی کے پارچات بنوادیئے جائیں۔ یا کسی غریب بیمار کو ادویہ مہیا کردی جائیں۔ یا کسی حاجت مند کی نقد امداد کردی جائے یا کوئی اور مناسب طریق اختیار کیا جائے مگر سب سے بہتر قربانی اپنے نفسوں کی قربانی ہے جس کے لئے رمضان کا مہینہ بہت خوب ہے۔
ایک *** خیال
یہ خیال کرنا کہ یہ سلسلہ خدا کا ہے اور وہ خود ہی اس کا حافظ وناصر ہے اس لئے ہمیں اس کے متعلق کچھ فکر یا تگ ودو کی ضرورت نہیں ایک *** خیال ہے کیونکہ اوّل تو یہ خیال جذباتِ محبت واحسان مندی کے سراسر خلاف ہے دوسرے خدا نے دنیا کو اسباب وعلل کا گھر بنایا ہے اور اسباب روحانی بھی اس میں شامل ہیں۔ تیسرے ہمیں خود تعلیم دی ہے کہ تم ہر دینی اور دنیوی امر میں مجھ سے مدد چاہو۔ پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کون شخص ہے کہ جو آنے والے خطرہ کو دیکھ کر خاموش رہ سکتا ہے بلکہ خدائی کام اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ انسان اس کے لئے فکر مند ہو۔
ایک خاص بات
ایک اور جہت سے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ ہم آپ کے لئے اپنی بہترین دعائیں وقف کریں اور یہ ایک خاص بات ہے جو میں اس وقت دوستوں کے سامنے پیش کرنے لگاہوں۔ خدائی سلسلوں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائید خدا کی طاقت کے مطابق نازل نہیں ہوتی بلکہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے ظرف اور قوتِ جذب کے مطابق نازل ہوا کرتی ہے۔ یعنی خدائے حکیم نے ایسا قانون بنارکھا ہے کہ ان کاموں میں جو گویا خدا کے اپنے کام ہیں اور خود خدا ہی کے جاری کردہ ہیںخدا کی نصرت کا اظہار ہر نبی اور اس کی جماعت کی حالت کے مطابق ہوتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ چونکہ کام خدا کا ہے اس لئے ہر نبی اور اس کی جماعت کے متعلق خدا کی نصرت ایک ہی رنگ میں اور ایک ہی درجہ پرظاہرہو۔ بے شک ہم بعض اوقات خدا کی قدرت کے اظہار کے لئے اس قسم کی باتیں بیان کرتے ہیں کہ خدا اپنی تقدیر کے نفاذ کے لئے ایک مٹی کے ڈھیلے سے بھی ایسا ہی کام لے سکتا ہے۔ جیسا کہ ایک زبردست انسان سے اور ہر تلوار خواہ وہ کیسی ہی کُند ہو اس کے ہاتھ میں جاکر ایک تلوار جوہروار کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ اور یہ سب باتیں درست بھی ہیں بلکہ مطلقاً خدا کی قدرت کے لحاظ سے ان باتوں سے بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بھی ممکن ہیںمگر جہاں تک انسانوںکے ذریعہ خدا کی قدرت کے اظہار کا تعلق ہے عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ عام قاعدہ یہی ہے کہ خدائی قدرت اور خدائی طاقت کا اظہار اس بندے یا جماعت کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے جس کو خدا ایسے اظہار کا آلہ بنائے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں ہر نبی کو ایک جیسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ حالانکہ ہر نبی کے وقت خدائی تقدیر یہی ہوتی ہے کہ وہ اس نبی کی لائی ہوئی صداقت کو غلبہ اورترقی دے۔ حتیٰ کہ جہاں بعض انبیاء کو اس قدر کم کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ وہ کوتاہ بینوں کے خیال میں بظاہر ناکام نظر آتے ہیں۔ وہاں بعض انبیاء کو ایسے حیرت انگیز رنگ میں غلبہ حاصل ہوا ہے کہ دُنیا کی نظریں خیرہ ہوتی ہیں۔ حالانکہ دونوں کے پیچھے ایک ہی قسم کی خدائی تقدیر کام کرتی ہے۔ اس فرق کی یہی وجہ ہے کہ خاص مستثنیات کو الگ رکھ کر خدا کی طاقت وقدرت کا اظہار خدا کی طاقت کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ نبی کے ظرف اور اس کی قوتِ جذب کے مطابق ہوتا ہے یہی حال خلفاء کے معاملہ میں نظر آتاہے۔ یوں تو ہر نبی کے بعد خدائی تقدیر خلفاء کے ذریعہ انبیاء کی لائی صداقت کی تمکنت اور مضبوطی کا ذریعہ بنتی ہے مگر ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ مختلف خلفاء کو مختلف قسم کی اور مختلف درجوں کی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ وہ صرف ایک غیرمؤثر درمیانی واسطہ کی طرح خدائی طاقت کے اظہار کا ایک جیسا آلہ بنتے ہوں۔
اس کی ایک عُمدہ مثال ریڈیوسیٹ کے اصول پر سمجھی جاسکتی ہے۔ جب کسی براڈ کا سٹنگ سٹیشن سے کوئی برقی پیغام فضا میں نشر کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی طاقت سب ریڈیوسیٹوں کے لئے ایک ہی جیسی ہوتی ہے مگر باوجود اس کے ہر ریڈیوسیٹ اسے مختلف طاقت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اس کی طاقت کے مطابق اس کے اندر سے آواز نکلتی ہے۔ یعنی بڑے سیٹ سے بلند آواز نکلتی ہے اور چھوٹے سیٹ سے دھیمی آواز کے ساتھ۔ اسی طرح انبیاء اور خلفاء اورا ن کی جماعتوں کا حال ہے کہ وہ بھی خدا کی نصرت کو اپنی طاقت اور ظرف کے مطابق قبول کرتے ہیں اور اپنی طاقت سے زیادہ کی برداشت نہیں رکھتے۔ اس اصول کے مطابق کوہ طور پر حضرت موسیٰ ؑکے بے ہوش ہونے کا واقعہ بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے جوشِ شوق میں خدا سے اس کے کامِل ظہور کے دیکھنے کی تمنا کی، جو ازل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات کے لئے مقدر تھا۔ اللہ نے فرمایا لو ہم تو اپنے کامل جلال کا اظہار کئے دیتے ہیں مگر تمہارے ریسیونگ سیٹ میں محمد رسول اللہ جیسی طاقت نہیں اس لئے تم اس کی برداشت نہیں کرسکو گے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ خدائی تجلّی سے حضرت موسیٰ ؑ بے ہوش ہوکر زمین پر جاپڑے اور پہاڑ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ لیکن یہی تجلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئی اور بار بار ظاہر ہوئی مگر آپ پوری مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہے۔کیونکہ گو خدا ایک تھا مگر ان دونوں نبیوں کے ظرف اور قوتِ قبول میں بہت بھاری فرق تھا۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں بھی ظاہر کیا ہے فرماتا ہے:-
’’ لَوْاَنْزَلْنَا ھٰذَالْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ۱۷؎
یعنی قرآنی تجلی ایسی ہے کہ اگر اس کا نزول کسی مضبوط پہاڑ پر بھی ہو تو وہ بھی خدا کے جلال کے سامنے پھٹ کر ریزۂ یزہ ہوجائے۔‘‘
عام لوگ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ پر قرآن کے نازل ہونے کے کیا معنی ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اس نزول سے قرآنی وحی کا نزول مراد نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ خدا نے جس توجہ اور جس جلال اور جس طاقت کے ساتھ قرآنی وحی کو محمد رسول اللہ کے قلب پر نازل کیا۔ اگر وہ اسی طاقت اور اسی جلال کے ساتھ ایک پہاڑ پر اپنی توجہ ڈالے تو وہ پہاڑ چکنا چور ہوکر گرجائے اور یہ ادعا بالکل درست ہے جیسا کہ طور کا واقعہ اس پر عملاً شاہد ہے۔
غیرمعمولی ظرف رکھنے والاخلیفہ
اس تمہید سے میری مراد یہ ہے کہ یہ خیال کرلینا کہ جماعت خدا کی ہے وہ خود اس کا حافظ وناصر ہوگا اور ہر حال میں اس کی قدرت کا اظہارایک جیسا ہی رہے گا اور خدا چاہے تو ایک مردہ لکڑی سے بھی ہر کام لے لے۔ بیشک مطلق طور پر خدائی قدرت کے لحاظ سے تو درست ہے اور بعض خاص استثنائی حالات میں اس قسم کی قدرت کا اظہار ہوتا بھی ہوگا۔ مگر جہاں تک عام حالات میں خدا کی قدرت کے اظہار کا تعلق ہے یہ خیال ہرگز درست نہیں کیونکہ گو خدا وہی ہے اور وہی رہے گا مگر اس کی نصرت کا اظہار نصرت حاصل کرنے والے کے ظرف اور قوتِ جذب پر موقوف ہے اور یقینا خدا نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو جو ظرف عطا کیا ہے وہ ایک غیرمعمولی ظرف ہے جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ پس آپ سے محروم ہونے سے ہم صرف آپ کی ذات سے ہی محروم نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان خدائی جلوہ نمایوں سے بھی محروم ہو جائیں گے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وسیع ظرف کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اور اگر بعد آنے والا خلیفہ اس ظرف کا نہ ہوا (جیسا کہ بظاہر حالات اس کا امکان بہت کم ہے۔ واللّٰہ اعلم) تو گو خدا کی نصرت پھر بھی بہرحال ہمارے ساتھ ہوگی مگر ہم لازماً اپنی ظرف اور قوتِ جذب کے مطابق ہی اس کی نصرت سے حصہ پائیں گے۔ پس اس جہت سے بھی حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جماعت کو خاص بلکہ اخص دعائوں اور غیرمعمولی صدقہ وخیرات سے کام لینا چاہیئے۔
خداہمارے لئے یہ سنہری زمانہ لمبا کردے
ہم دنیا میں خدا کی آخری جماعت ہیں اور باپ کو اپنا آخری بچہ بہت محبوب ہوا کرتا ہے اور یقینا ہماری بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ اپنی آخری تقدیر کو جو اس کی تقدیروں میں سے ایک نہایت زبردست تقدیر ہے ضرور پورا کرے گا اور اس کے ارادے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر بہرحال ہم اس کی اس پختہ سنت سے باہر نہیں نکل سکتے جو آدم سے لے کر اس وقت تک ہر نبی اور ہر خلیفہ کے زمانہ میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی نصرت انسان کے ظرف اور قوت جذب کے مطابق ظاہر ہوتی ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ نہ صرف اپنے ظرف کو وسیع کریں کیونکہ اسی پر ہماری بہت سی ترقیات کا دارومدار ہے۔ بلکہ جس عظیم الشان خلیفہ کے متعلق ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس کا ظرف خدا کی فوق العادت نصرتوں کا جاذب اور حامل ہے۔ اس کی درازئی عمر اور صحت وعافیت کے لئے بھی خدا سے ہر وقت دست بدعا رہیں۔ تا خدانہ صرف اپنی تقدیر کی خاطر بلکہ ہماری گریہ وزاری کو دیکھ کر بھی ہم پر رحم فرمائے۔ اور ہماری تاریخ کے اس سنہری زمانے کو ہمارے لئے لمبا کردے۔ اٰمین اللھم اٰمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۰؁ئ)





ایک غلط فہمی کا ازالہ
میں نے اپنے کل والے مضمون میں جس میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق دعا کی تحریک کی تھی۔ یہ عرض کیا تھا کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک اس خطرہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا جو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی وصیت میں مضمر ہے۔ میرے اس خیال کا تازہ بتازہ ثبوت اس نوٹ سے بھی ملتا ہے جو میرے اس مضمون کے اختتام پر مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل نے اپنی طرف سے درج فرمایا ہے۔ جناب ایڈیٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آج کل حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے۔ اس لئے (حضرت مرزا) بشیر احمد (صاحب) کی تحریک کے مطابق دوستوں کو حضرت صاحب کی صحت کے لئے خاص توجہ سے دعا کرنی چاہیئے۔ گویا ایڈیٹر صاحب نے میرے مضمون کا محرک حضرت صاحب کی موجودہ بیماری کو قراردیدیا اور موجودہ بیماری کے دور ہوجانے سے وہ غالباً یہ خیال فرماتے ہیں کہ ہم اس خطرہ سے باہر آگئے جس کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے۔ میں افسوس کرتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب کے اس نوٹ نے میرے مضمون کی اہمیت اور وسعت کو بالکل کم کردیا ہے۔ حق یہ ہے کہ میرے مضمون کو حضرت صاحب کی موجودہ بیماری کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ بیماری میرے مضمون کی محرک بنی ہے بلکہ اگر حضرت صاحب اس وقت اپنی پوری تندرستی کی حالت میں ہوتے تو پھر بھی میرا یہ مضمون شائع ہوتا کیونکہ اسے کسی عارضی اور وقتی حالت سے تعلق نہیں بلکہ اس کی بنیاد ان خوابوں پر ہے جو ایک آیندہ آنے والے خطرہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ خواہ وہ موجودہ بیماری سے متعلق ہو یا کہ کسی آئندہ حادثہ کے متعلق۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ تشریحی نوٹ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے کافی ہوگا۔ جو محترمی ایڈیٹر صاحب کے نوٹ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ دوست حضرت صاحب کی موجودہ علالت طبع کے لئے تو دعا کرتے ہی ہوں گے اور کرنی چاہیئے مگر ان کی اصل اور خاص دعا اصولی طور پر حضرت صاحب کی درازئی عمر اور عام صحت اور عافیت اور خوابوں سے ظاہر ہونے والے خطرہ کے دور ہونے کے لئے ہونی چاہیئے۔ اگر میرے اس نوٹ کے بعد بھی کوئی غلط فہمی رہی اور دوستوں نے اس معاملہ کی اہمیت کو نہ سمجھا تو میں یہ کہنے پر مجبورہوں گا۔ کہ مَالِ ھٰٓؤُلَا.6ٓ ئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا۔۱۸؎
‎(مطبوعہ الفضل۱۶ اکتوبر ۱۹۴۰؁ئ)
تقویٰ پیدا کر تقویٰ
تکمیل دین کی چار بنیادی چیزیں
اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کے لئے چاربُنیادی چیزیں مقرر فرمائی ہیں جن کے بغیر اسلام کی عمارت بلکہ کسی الہامی مذہب کی عمارت بھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہ چار چیزیں یہ ہیں۔ اول ایمان دوم یقین سوم عمل چہارم تقویٰ اور چونکہ قانون فطرت میں ہر چیز بطور جوڑا پیدا کی گئی ہے اور جو ڑے کے مفہوم میں جہاں نرومادہ کی تقسیم شامل ہے۔ وہاں جسم اور روح کی تقسیم بھی جوڑے ہی کے مفہوم کا حصہ ہے۔ اس لئے ان چار چیزوں کو بھی حکمت الٰہی نے اس قدیم اصُول کے ماتحت جوڑے کی صورت دی ہے۔ یعنی ان میں سے دو چیزیں بطور جسم کے ہیں اور دو چیزیں بطور رُوح کے ہیں۔ اور یہ جسم وروح مل کر گویا چار چیزوں سے دو مکمل چیزیںبنتی ہیں۔ جو ایک اور جہت سے آپس میں پھر جوڑا ہیں۔ ان جوڑوں کی تشریح مجملاً یہ ہے کہ ایمان جسم ہے اور یقین اس کی روح ہے جس سے ایمان کو زندگی حاصل ہوتی ہے اور پھر عمل صالحہ جسم ہے اور تقویٰ اس کی رُوح ہے جس کے بغیر عمل صالحہ ایک بے جان جسم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اورجب تک یہ چاروں چیزیں مل نہ جائیں دین مکمل نہیں ہوتا۔
ایمان اور یقین
ایمان کے لغوی معنی مان لینے کے ہیں اور دینی اصطلاح میں اس کے یہ معنی ہیں کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اس دُنیا کا ایک خدا ہے اور اسی نے یہ ساری کائنات پیدا کی ہے اور اسی نے ہماری ہدایت کے لئے رسول کو بھیجا اور اس پر اپنی کتاب نازل کی وغیرہ وغیرہ۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ ایمان صرف ایک جسم ہے جو اپنی روح کے بغیر بالکل مُردہ ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان محض رسمی ایمان ہو اور ایمان کا دعویٰ کرنے والا محض ماں باپ سے سُن کر یا دوسرے لوگوں کو دیکھ کر ایمان کا اظہار کرتا ہو اور اس کے دل میں اس ایمان نے جڑ نہ پکڑی ہو یا ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان محض نمائشی ایمان ہو اور صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے اس کا اظہار کیا جاتا ہو اور دل میں اس کی کوئی جگہ نہ ہو۔ اس صورت میں یہ ایمان ایک محض مُردہ ایمان ہے جس کی خدا کے دربار میں کچھ بھی قیمت نہیں کیونکہ وہ ایک بے جان جسم ہے جس کے اندر کوئی روح نہیں مگر جب زبان کے ظاہری اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی شامل ہو جاتا ہے تو پھر یہ ایمان ایک زندہ حقیقت کا رنگ اختیار کرلیتا ہے اور یہی وہ ایمان ہے جس کی خدا کے دربار میں قیمت پڑتی ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے متعلق یہ شرط قراردی ہے کہ اقرارًباللسان وتصدیق بالقلب یعنی سچا ایمان وہ ہے جس میں زبان کے اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی شامل ہو اور محض رسمی طور پر یا دکھاوے کے رنگ میں کوئی بات نہ کہی جائے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے آج کل کے اکثر مدعیان ایمان کا حال ہے۔ الغرض محض ایمان جو زبان کے اقرار کا نام ہے ایک جسم ہے اور اس کی رُوح یقین ہے جس کے بغیر ایمان کو زندگی حاصل نہیں ہوتی اور پھر آگے یقین کے بھی کئی درجے ہیںمگر اس جگہ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں صرف اس قدر اظہار مقصود ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے دل کا یقین ضروری ہے اور ان دونوں کے ملنے کے بغیر ایمان کی عمارت تکمیل نہیں ہوتی۔
عمل صالحہ اور تقویٰ
اس کے بعد عمل صالحہ کا سوال آتا ہے سو جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے عمل صالحہ بھی صرف ایک جسم ہے جو روح کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کی روح تقویٰ ہے۔ عمل صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان بظاہر احکامِ شریعت کی اتباع میں بجالاتا ہے مثلاً نماز،روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقہ،خیرات، عدل، انصاف وغیرہ۔ یہ سب اعمال اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور یقینا اپنی ظاہری صورت کے لحاظ سے عمل صالحہ میں داخل ہیں لیکن وہ صرف ایک جسم ہیں۔ جس کے اندر اگر روح نہ ہو تو اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں اور اس جسم کی روح تقویٰ ہے۔ جس کے ساتھ مل کر عمل صالحہ ایک زندہ چیز کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ سو تقویٰ اس قلبی جذبہ کا نام ہے جس کے ماتحت انسان خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچتا اور اس کی رضا کے موقعوں کی تلاش کرتا ہے۔تقویٰ ہرگز کسی عمل کا نام نہیں اور نہ وہ ایسی چیز ہے جو ظاہر میں نظر آسکے۔ بلکہ تقویٰ اسپرٹ اور روح کا نام ہے جو ظاہری اعمال کے پیچھے دل کی گہرائیوں میں مخفی ہوتی ہے۔ جس کے بغیر ایک بظاہر نیک نظر آنے والا عمل بھی ایک مردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ جس عمل کی بنیاد تقویٰ پر نہیں یعنی اس کی تہہ میں رضاجوئی کا جذبہ کام نہیں کرتا وہ یا تو محض رسم وعادت کے طورپر کیا جاتا ہے اور یا لوگوں کے دکھانے کی غرض سے اور یہ دونوں صورتیں یقینا مردود ہیں۔ پس اس بات میں ذرہ بھی شک نہیں کہ ایسا عمل جو تقویٰ کی روح سے خالی ہے ایک مردہ اور متعفّن لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔
تقویٰ کے معنی
تقویٰ کے معنی خوف یا ڈر کے کرنا ہرگز درست نہیں کیونکہ اسلام کا خدا نعوذباللّٰہ کوئی ڈرائونی چیز نہیں ہے کہ اس کی عبادت کی بنیاد خوف یا دہشت پر قائم ہو۔ بیشک نیکی کے رستہ میں بعض لوگوں کے لئے خوف کا عنصر بھی مؤثر ہوتا ہے مگر یقینا تقویٰ کے مفہوم میں وہ خوف داخل نہیں ہے جو ایک ڈرائونی چیز کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے بلکہ صرف اس حدتک کا خوف داخل ہے کہ کوئی بات ہمارے خالق ومالک کی مرضی کے خلاف نہ ہوجائے۔ یہ اسی قسم کا خوف ہے جیسا کہ ایک محبوب ہستی کے متعلق محبت کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ وہ کسی بات پر ناراض نہ ہوجائے۔ بہرحال تقویٰ کے معنی خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچنے اور اس کی رضا کے موقعوں کی تلاش کرنے کے ہیں اور تقویٰ اس جذبہ کا نام ہے جو دل کی گہرائیوں میں جاگزین ہوتا ہے اور جس سے حقیقی عمل صالحہ کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ اور اپنی شاخیں پھیلاتا ہے۔ مگر یہ یادرکھنا چاہیئے کہ تقویٰ خدا کی رضا جوئی کی کوشش کا نام نہیں بلکہ اس رُوح اور جذبہ کا نام ہے جو اس کوشش کی تہہ میں کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نماز پڑھتا ہے۔ اس کا یہ عمل یقینا اپنی ظاہری صورت میں اسلامی تعلیم کے عین مطابق ہے مگر ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ عمل محض عادت یا رسم کے رنگ میں ہو۔ اور دل کی نیّت اور اخلاص پر اس کی بنیاد نہ ہو یا ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ عمل محض نمائش یادکھاوے کے طورپر ہو۔ اور کسی دنیوی غرض کے ماتحت اختیار کیا گیا ہو مگرظاہر ہے کہ یہ سب صورتیں گو بظاہر دیکھنے میں عمل صالحہ ہیں مگر درحقیقت وہ ایک ایسا جسم ہیں جس کے اندر کوئی روح نہیں۔ پس زندہ عمل وہی سمجھا جائے گا کہ جب انسان ایک اچھے کام کو دلی نیت کے ساتھ خدا کی رضاجوئی کی غرض سے بجالائے۔ اسی لئے اسلام نے محض ظاہری عمل صالحہ کو کوئی حیثیت نہیں دی بلکہ بعض لحاظ سے اسے خدا کی ناراضگی کا موجب قراردیا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ فرماتا ہے:-
’’وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰوتِھِمْ سَاھُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَ.6ٓائُ وْنَ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ۱۹؎
یعنی افسوس ہے ان نمازیوں پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے غافل ہیں۔ جو صرف دکھاوے کے لئے یہ کام کرتے ہیں اور نماز کی روح سے انہیں کوئی مس نہیں۔ ان لوگوں نے صرف ایک خالی برتن کو اپنے پاس روک رکھا ہے اور اس کے اندر کی غذا کو جو اصل مقصود ہے ضائع کرچکے ہیں۔‘‘
اعمال صالحہ کا فلسفہ
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اعمال صالحہ کے فلسفہ کو نہائت لطیف رنگ میںبیان فرمایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ کسی عمل صالحہ کو محض ظاہری صورت میں بجالانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ جب تک کہ اس کی تہہ میں وہ روح نہ ہو جو انسانی اعمال کو زندگی عطا کرتی ہے اور پھر ایک نہائت لطیف مثال دے کر یہ سمجھایاہے کہ ایسا شخص جو ظاہر میں تو عمل صالحہ بجالاتا ہے مگر درحقیقت اس کی روح کی طرف سے غافل ہے وہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی برتن کو تو مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھے مگر اس کے اندر کی غذا کو ضائع کردے۔ آیت میں جو ماعون کا لفظ ہے اس سے یہ سمجھنا کہ اس آیت میں گھروں کے عام استعمال کے برتنوںوغیرہ کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کو عاریۃً دینے میں خسّت نہ برتا کرو۔ میرے خیال میں درست نہیں۔ اور نہ ہی اس مفہوم کو آیت کا سیاق وسباق برداشت کرتا ہے۔ کیونکہ حقیقتِ نماز کے ارفع مضمون کے ساتھ اس نسبتاً ادنیٰ مضمون کا کوئی طبعی جوڑ نہیں کہ گھروں کے برتنوں کو روک نہ رکھا کرو۔ پس میری رائے میں اس جگہ ماعون سے گھروں کے برتن وغیرہ مراد نہیں بلکہ عمل صالحہ کاظاہری ظرف مراد ہے اور آیت کا منشاء یہ ہے کہ اسے مسلمانو! جب تم نماز پڑھو تو نماز کی حقیقت کی طرف سے غافل ہوکر نماز نہ پڑھاکرو۔ کیونکہ ایسا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص برتن کو تو تھامے رکھے مگر اس کے اندر کی غذا کو ضائع کردے۔ یقینا ایسی نماز جس میں صرف جسم ہی جسم ہو اور اس کے ساتھ کوئی روح نہ ہو محض ایک مردہ چیز ہے۔ جو کبھی بھی رضائے الٰہی کا موجب نہیں بن سکتی۔ اگر کسی شخص کو الفاظ ماعون اور یمنعون کے اس مفہوم کے ساتھ اتفاق نہ ہو جو اوپر کے مضمون میں بیان کیا گیا ہے تو پھر بھی میرے اس استدلال میں فرق نہیں آتا جو میں نے اس جگہ پر مندرجہ بالا آیات سے کیا ہے کیونکہ بہرحال ان آیات کا محکم اور مسلّم حصہ اسی مفہوم کا حامل ہے کہ کئی لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو بظاہر نماز پڑھتے ہیں مگر نماز کی حقیقت سے قطعی طور پر غافل اور بے خبر ہیں اور یہی میرے مضمون کا مرکزی نقطہ ہے۔
ایک دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے:-
’’ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۲۰؎
یعنی اے مسلمانو! جب تم خدا کی راہ میں قربانیوں کے جانوروں ذبح کرتے ہو تو یہ نہ سمجھو کہ ان جانوروں کا گوشت یا خون خدا کو پہونچتا ہے۔ یعنی یہ خیال نہ کرو کہ ان قربانیوں کا گوشت یا خون کی رضا اور خوشی کا موجب ہوسکتا ہے۔ بلکہ جو چیز خدا کو پہونچتی ہے اور خدا کی رضا کا موجب ہوتی ہے وہ تمہارا تقویٰ ہے یعنی وہ جذبہ اور روح جس کے ماتحت تم خدا کی رضا تلاش کرتے ہو۔‘‘
احادیث میں تشریح
اس کی تشریح میں ایک لطیف حدیث بھی آتی ہے حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ابوبکرؓ کو جو تم لوگوں پر فضیلت ہے تو یہ اس کے نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دِل میں ہے یعنی اس کے تقویٰ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ بعض صحابہ ظاہری نماز روزہ میں ابوبکر سے آگے ہوں۔ اور ظاہری اعمال میں حضرت ابوبکرؓکی نسبت بظاہر زیادہ شغف دکھاتے ہوں یا زیادہ خرچ کرتے ہوں مگر چونکہ تقویٰ میں حضرت ابوبکر.6ؓ آگے تھے اور اعمال میں اصل چیز ان کی روح ہی ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو دوسروں سے افضل قراردیا۔ اگر کِسی شخص کو یہ نکتہ سمجھ نہ آئے یعنی وہ خیال کرتا ہو کہ زیادہ نماز روزہ بجالانے والے سے کم بجالانے والا کس طرح افضل ہوسکتا ہے تو وہ یوں سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص ہے جس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے مگر وہ سب کھوٹا ہے اس کے مقابل پر ایک دوسرا شخص ہے جس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ ہے مگر یہ سب کا سب کھرا ہے تو اب بتائو کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ دولتمند سمجھا جائے گا۔یقینا وہی شخص زیادہ دولت مند سمجھا جائے گا۔جس کے پاس ایک ہزار کھرا روپیہ ہے اور ایک لاکھ کھوٹے روپے کے مالک کو بازار میں ایک پیسہ کی چیز بھی نہیں مل سکے گی۔ یہی حال قیامت کو ہونے والا ہے کہ وہاں بھی صرف اس عمل کی قیمت پڑے گی جس کے اندر تقویٰ کی روح پائی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر دوسرے اعمال کی، خواہ وہ پہاڑ کے برابر ہوںاور خواہ وہ بظاہر کتنے ہی شاندار نظر آئیں کوئی قیمت نہیں دی جائے گی۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان میں روزے رکھتا ہے مگر یہ روزے تقویٰ اللہ پر مبنی نہیں ہوتے اور روزہ رکھنے والا بدستور دُنیا کے گندوں اور اس سفلی زندگی کی آلایشوں میں ملوث رہتا ہے۔ تو خدا کے نزدیک ایسے شخص کا کوئی روزہ نہیں بلکہ وہ مفت میں بھوکا اور پیاسا رہتا ہے کیونکہ بیشک اس نے روزہ کے جسم کو تواپنے سینہ سے لگا لیا ۔ مگر اس کی روح کو کھودیا۲۱؎۔ اور روح کے بغیر جسم ایک مردہ لاش سے بڑھ کر نہیں اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد ایک ایسی قوم آنے والی ہے کہ ان کا کام گویا ہر وقت قرآن خوانی ہوگا مگر قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۲۲؎۔ یعنی ان کی زبان پر تو قرآن ہوگا مگر ان کے دل کلام الٰہی سے اس طرح خالی ہوں گے جس طرح ایک اجڑا ہوا گھونسلا جانور سے خالی ہوتا ہے۔ یہ سب حدیثیں اور ان جیسی بیسیوں دوسری حدیثیں اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہیں کہ اعمال میں اصل چیز ان کی روح ہے جس کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ کے بغیر ہر عمل صالحہ خواہ وہ بظاہر کتنا ہی شان دار ہو ایک مردہ جسم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔
تقویٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی اپنی تحریرات اور ملفوظات میں تقویٰ پر بہت زور دیا ہے بلکہ چونکہ یہ زمانہ مادیت اور ظاہر پرستی کا زمانہ ہے۔ اس لئے آپ کے کلام میں اعمال کی روح پر خاص زور پایا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں: ؎
ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے
کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے
کہ یہ حاصل ہو جو شرطِ لِقا ہے
یہی آئینۂ خالق نما ہے
یہی ایک جوہر سیفِ دُعا ہے
ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
یہی اِک فخرِ شانِ اولیاء ہے
بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے
ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے
اگر سوچو یہی دارالجزاء ہے
مجھے تقویٰ سے اُس نے یہ جزا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سُنو! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ
مسلمانو! بنائو تام تقویٰ
کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ
یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ۲۳؎
یہ اشعار کسیے سادہ مگر حکمت وعرفان کی دولت سے کَیسے معمور ہیں۔ ان اشعار میں ایک شعر خاص طورپر قابل توجہ ہے کیونکہ اس شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تقویٰ کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ اور پھر اس شعر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کا دوسرا مصرع الہامی ہے۔ یہ شعر یہ ہے : ؎
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے۲۴؎
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جو سب نیکیوں کی جڑ ہے جس سے نیک اعمال کا درخت پیدا ہوتا ہے اور پھر اسی جڑ کی مہیا کردہ خوراک سے اس درخت کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ اگر یہ جڑموجود ہے تو باوجود ساری شاخوں کے کٹ جانے کے درخت پھر ہرابھرا ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ جڑ موجود نہیں تو باوجود بظاہر ہزاروں شاخوں کے نظر آنے کے یہ درخت بے ثمر ہے اور بے ثمر رہے گا۔کیونکہ اس صورت میں وہ شجر طبیہ نہیں بلکہ شجر خبیثہ ہے۔ واقعی اعمال کا بظاہر ایک بھاری درخت جو ہزاروں شاخیں رکھتا ہے۔ وہ اگر تقویٰ کی جڑ پر قائم نہیں تو وہ ایک ایندھن کے طو مار سے زیادہ نہیں اور اس سے پھل کی امید رکھنا بے سود ہے لیکن اس کے مقابل پر اگر تقویٰ کی جڑ کے اوپر ایک چھوٹی سی شاخ بھی قائم ہے۔ تو وہ ایک پھلدار چیز ہے۔ جس سے ہزاروں شیریں پھل پیدا ہوسکتے ہیں اور اگر بالفرض کوئی شاخ بھی قائم نہیں تو پھر بھی اس سے ہر وقت نئی شاخ کے پھوٹنے کی توقع ہے کیونکہ جڑ سلامت ہے۔
تقویٰ کے دو پہلو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان اشعار میں ایک شعر اَیسا ہے جو بظاہر اس مضمون کے خلاف نظر آتا ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ وہ شعر یہ ہے ؎
سنو ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ
اس شعر میں بظاہر یہ نظرآتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تقویٰ کو جام قراردیا ہے جو گویا جسم اور ظرف کے مترادف ہے حالانکہ میں نے اس مضمون میں تقویٰ کو ظرف کے مقابل پر بطور روح کے پیش کیا ہے۔ بے شک بظاہر یہ ایک تضاد کا رنگ ہے مگر حقیقۃً تضاد نہیں بلکہ حضرت مسیح۔موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک نہائت لطیف بات بیان فرمائی ہے جو میرے بیان کردہ مضمون کے مقابل پر نہیں بلکہ اس سے اگلے مراتب سے تعلق رکھتی ہے۔ بات یہ ہے کہ تقویٰ کے دو پہلو ہیں ایک پہلو سے وہ عمل صالحہ کی روح ہے اور دوسرے پہلو سے وہ خود جسم ہے اور خدا کا عشق اس کی روح ہے۔ گویا عمل صالحہ کے جسم کے اندر تقویٰ کی روح ہوتی ہے اور پھر تقویٰ کے اندر ایک اور لطیف روح ہوتی ہے جسے عشق الٰہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور اس روح کے لئے تقویٰ کا وجود بطور جسم کے ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاح.6ٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃ.6ٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ ۔۲۵؎
’’یعنی خدا کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نہایت صاف اور صیقل شدہ خول ہو۔ جو طاقچہ کی صورت میں پیچھے سے بند ہو۔ اور اس خول کے اندر ایک شفاف شیشہ کا قمقمہ ہو اور پھر اس قمقمہ کے اندر ایک چراغ ہو جس کے نتیجہ میں یہ چراغ ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح جگمگانے لگے۔‘‘
اس آیت کی تشریح سے ہمیں اس جگہ سروکار نہیں مگر اس سے اس بات کی ایک عمدہ مثال ملتی ہے کہ کس طرح ایک چیز کے اندر دوسری چیز اور دوسری کے اندر تیسری چیز ہوسکتی ہے اور پھر کس طرح یہ تینوں مل کر ایک غیرمعمولی نور پیدا کردیتی ہیں۔ اس تشریح کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ عمل صالحہ کی روح تقویٰ ہے اور تقویٰ سے آگے ایک اور لطیف چیز ہے جو گویا تقویٰ کی بھی روح ہے اور اس چیز کا نام عشق الٰہی ہے گویا عمل صالحہ کی بُنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیئے۔ یعنی ہمارے اعمال رسم یا عادت یا نمائش کے طورپر نہ ہوں بلکہ خدا کی رضا جوئی پر مبنی ہوں اور پھر خدا کی یہ رضا جوئی جزاسزا کے خیال پر مبنی نہ ہو بلکہ عشقِ الٰہی پر مبنی ہو۔ یہ ایک بہت بڑا مرتبہ ہے جو صرف خاص خاص لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جن کے اعمال کی بنیاد خالصۃً عشق الٰہی پر مبنی ہوتی ہے۔ اورجزا سزا کا خیال تک بھی درمیان میں نہیں آتا۔ تقویٰ کا یہ مقام مکمل یا تام تقویٰ کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے۔ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں ؎
مجھے تو نے یہ دولت اے خدا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاِعَادِی
دوست تقویٰ پیدا کریں
مگر یہ ایک نہائت ارفع مقام ہے جو سب لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا اور نہ اس وقت یہ چیز میرے موجودہ مضمون کا موضوع ہے بلکہ اس وقت میرا مضمون صرف تقویٰ پر ہے جو عمل صالحہ کی روح ہے جس کے بغیر کِسی عمل کو خواہ وہ دیکھنے میں کیسا ہی عالی شان نظر آئے خدا کے دربار میں کوئی وقعت حاصل نہیں ہوتی۔ اور میں بتاچکا ہوں کہ تقویٰ اس جذبہ کا نام ہے جس کے ماتحت انسان خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچتا اور اس کے رضا کے موقعوں کی تلاش کرتا ہے۔ پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں۔ یعنی ان کے ہر عمل کی تہہ میں یہ نیت ہوکہ اس ذریعہ سے ہمارا خدا راضی ہوجائے یاہم اس سے اپنے خدا کی ناراضگی سے بچ جائیں مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ تقویٰ کی اس دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں اور بظاہر اعمال صالحہ میں خوب شغف دکھاتے ہیں اور بسااوقات ایمان واخلاص کے دعویٰ میں دوسروں سے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ مگر ان کا دل تقویٰ سے خالی ہوتا ہے وہ نماز پڑھ کر اور لمبے لمبے سجدوں سے اپنے ماتھوں کو خاک آلود کرکے مسجد سے باہر آتے ہیں اور باہر آتے ہی کمزور لوگوں کی حق تلفی اوراکل بالباطل اور بے،انصافی اور جھوٹ اور فریب کے چشمہ سے اس طرح مونہہ لگادیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے لئے شیرمادر ہے۔ ایسے لوگوں کو بیشک اعمال کے جسم پر قبضہ حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ جسم اسی طرح روح سے خالی ہوتا ہے، جس طرح ایک اجڑا ہوا مکان مکین سے خالی ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک برتن ہوتا ہے۔ جسے وہ بڑے حاسدانہ انداز میں اپنے سینہ سے لگائے رکھتے ہیں مگر اس برتن کا دودھ جو انسان کی اصل غذا ہے وہ یا تو کبھی اس برتن میں آیا ہی نہیں ہوتا۔ یا اگر آیا ہوتا ہے تو ان کی غفلت سے گرکر ضائع ہوچکا ہوتا ہے۔
پس دوستوتقویٰ پیدا کرو کہ اس کے بغیر تمہارا ہر عمل ایک بے جان جسم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا روپے کی تعداد پر مت تسلی پائو بلکہ یہ دیکھو کہ تمہارے پاس جو مال ہے اس میں کھرے روپے کتنے ہیں اور کھوٹے کتنے۔ کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کروڑ کھوٹے روپے جن سے کوٹھوں کے کوٹھے بھرے ہوں، ان سے وہ بظاہر حقیر نظرآنے والا ایک کھرا روپیہ بہتر ہے جو ایک چھوٹی سی جیب میں سما کر محسوس بھی نہیں ہوتا کیونکہ گو وہ بہت ہیں مگر کھوٹے ہیں اور گو یہ صرف ایک ہے مگر کھرا ہے۔
تقویٰ کی روح بھی تلاش کرو
تم میں سے جسے خدا توفیق دے وہ تقویٰ کی روح کو بھی تلاش کرے جس کا نام عشق الٰہی ہے جس کے بعد انسانی اعمال کی عمارت جزاسزا کی قیود سے آزاد ہوکر محض اور خالصۃً عشق الٰہی کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ نہیںیا جب تک یہ نہیں اس وقت تک کم ازکم تقویٰ تو ہو۔ جو گویا اعمال صالحہ کی جان ہے جس کے بغیر قطعاً کوئی زندگی نہیں۔ یقینا اعمال کا ایک پہاڑ اگر وہ تقویٰ سے خالی ہے مٹی اور خاک کے تودہ کے سوا کچھ نہیں جس پر خدائی رحمت کے فرشتے تھوکتے بھی نہیں۔ مگر اچھے عمل کا ایک چھوٹا سا ذرہ اگر وہ تقویٰ کی روح سے معمور ہے تو وہ خدا کی نظر میں ایسا مقبول اور محبوب ہے کہ رحمت کے فرشتے اسے خدا کے حضور پہونچانے کے لئے شوق کے ساتھ لپکتے ہیں کیونکہ یہ گو مقدار میں کم ہے مگر ایک زندہ طاقت ہے اور وہ گو مقدار میں زیادہ ہے مگر ایک مردہ اور متعفّن لاش سے بڑھ کر نہیں۔ پس جس طرح میں نے اپنے مضمون کے شروع میں کہا ہے اب آخر میں پھر کہتا ہوں کہ بھائیو! تقویٰ پیدا کرو تقویٰ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ اورہمیں اس رستہ پر چلائے جو اس کی کامل رضا کا رستہ ہے وہ ہمیں سچا ایمان دے۔ اور ہمارے ایمانوں کو یقین کی دولت سے مالامال کرے پھر ہمیں عملِ صالحہ عطا کرے اور ہمارے اعمال کو تقویٰ کی روح سے زندگی بخشے۔ اور بالآخر ہمارے تقویٰ کو جزا سزا کے خیال سے اوپر اٹھا کر اس ارفع مقام پر کھڑا کردے۔ جہاں ہر عمل کی بنیاد محض عشق الٰہی پر قائم ہوتی ہے۔ اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ اٰمین اللھم اٰمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۰؁ئ)





جمعہ کی رات میں خاص دُعائوں کی تحریک
اور
مولوی محمد علی صاحب کے ایک اعتراض کا ضمنی جواب
ایک خواب
میری طبیعت آج کل علیل ہے بلکہ اس وقت بھی جب کہ میں یہ الفاظ لِکھ رہا ہوں مجھے دونوں پائوں میں درد نقرس کی تکلیف کے علاوہ ایک سو درجہ کی حرارت بھی ہے اور سردرد مزیدبرآں ہے اس لئے میں زیادہ نہیں لِکھ سکتا مگر ایک ضروری غرض کے ماتحت یہ چند سطور اخبار میں بھجوا رہا ہوں۔ مجھے ایک بیرونی دوست کی طرف سے خط ملا ہے کہ وہاں کی مقامی جماعت کی ایک نیک اور مخلص خاتون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خواب میں فرمایا ہے کہ جماعت کو چاہیئے کہ خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے جمعہ کی رات کو اکٹھے ہوہوکر دعائیں کریں۔ خواب لمبی ہے مگراس کے سارے حصے اظہار کے قابل نہیں لیکن یہ حصہ بہرحال واضح ہے جس کے اظہار میں حرج نہیں بلکہ اس کا اظہار مفید اور ضروری ہے۔ حدیث میں آتا ہے:-
’’ الرَّوْیَاالصَّالِحَۃُ یَرَاھَا الْمُسْلِمُ أَوْتُرَی لَہُ۲۶؎
یعنی کبھی تو مومن خود کوئی خواب دیکھتا ہے اور کبھی اس کے لئے کِسی دوسرے کو خواب دکھایا جاتا ہے۔‘‘
اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا یہ طریق تھا کہ آپؑ حتیٰ الوسع خوابوں کو ظاہر میں بھی پورا فرما دیا کرتے تھے۔ اور ویسے بھی رمضان کا مہینہ ایک بہت مبارک مہینہ ہے۔ اور جمعہ کا دن ایک مبارک دن ہے اور پھر رات کا وقت بھی قبُولیتِ دعا کے لئے خصوصیت رکھتا ہے۔ اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اس خواب کو دوستوں تک پہونچاکر اس بات کی تحریک کروں کہ جن دوستوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اس آنے والے جمعہ کی رات کو جو اس رمضان کا آخری جمعہ ہوگا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خصوصیت سے دُعائیں کریں کہ اگر خدا کے علم میں آپ کے لئے قریب کے زمانہ میں کوئی خطرہ یا حادثہ درپیش ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے فرمان کے مطابق اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے۔ اپنے فضل ورحم سے اس خطرہ کو ٹال دے اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ،تعالیٰ کے مبارک عہد کو ہمارے لئے لمبا کردے اور اس کی برکتوں کو جماعت کے لئے اور بھی بڑھادے۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کاعہد مبارک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود محض انفرادی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بوجہ اس کے کہ آپ ایک الٰہی سلسلہ کے قائد اور ایک خدائی جماعت کے امام ہیں اور جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عظیم الشان خلیفہ ہیں۔ جن کے مبارک عہد کو خداتعالیٰ نے کئی قسم کی برکتوں سے نوازا ہے۔ اس لئے یقینا آپ کا وجود انفرادی نہیں بلکہ جماعتی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کے لئے دعا کرنا گویاجماعت کی ترقی کی دعا کے مترادف ہے۔ جس میں سب احمدیوں کو دِلی جوش وخروش کے ساتھ حصہ لینا چاہیئے۔ خواب میں یہ تعیین نہیں کہ جمعہ سے کون سا جمعہ مراد ہے لیکن چونکہ یہ خواب رمضان کے نصفِ آخر میں دکھایا گیا ہے اس لئے اغلب یہ ہے کہ جمعہ سے رمضان کا آخری جمعہ مراد ہے۔ پس دوستوں کو چاہیئے کہ اس جمعہ کی رات کو (یاد رکھنا چاہیئے کہ جمعہ کی رات سے جمعہ سے پہلے آنے والی رات مراد ہے) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق خاص طور پر دعائیں کریں بلکہ اگر خدا کِسی فرد یا جماعت کو توفیق دے تو بہتر یہ ہے کہ سال رواں کے آخرتک یعنی اس جلسہ سالانہ تک ہر جمعہ کی رات کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی جائیں۔
مولوی محمد علی صاحب کے خیال
اس موقع پر میں جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے کے ان خیالات کے بارے میںبھی کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کا خلاصہ ’’الفضل‘‘ نے اپنے ایک قریب کے پرچہ میں شائع کیا ہے۔ بقول ’’الفضل‘‘ مولوی صاحب موصوف نے اس دعا کی تحریک کے متعلق جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کی جارہی ہیں، یہ دل آزار خیال ظاہر کیا ہے کہ جب موت ہر فرد بشر کے لئے مقدر ہے اور انسان ایک مٹی کا پتلا ہے جو آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں تو پھر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے متعلق دعاکو اس قدر اہمیت کیوں دی جارہی ہے، جب کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی اس بات کی بہت زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے دعائیں کی جائیں۔ چنانچہ الفضل نے مولوی صاحب کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔
’’خلیفہ یا اس کے چند مریدوں کو کچھ خوفناک خوابیں آگئیں۔ اب ان پر اس قدر شور ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ساری دعائیں ہی خلیفہ کے لئے وقف کردینی چاہئیں۔ میں کہتا ہوں کہ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ مٹی کا پتلا آج نہیں مرے گا تو کل مر جائے گا…… بے شک بیماروں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ یہ ایک انسانی فرض ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ خدا کے قرب کے حصول اور غلبۂ اسلام کے لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ دعائیں کرو۔‘‘۲۷؎
سراسر غلط نتیجہ
میں نے مولوی صاحب موصوف کا اصل مضمون نہیں دیکھا لیکن اگر الفضل کا یہ اقتباس درست ہے اور بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ وہ درست نہ ہو تو افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے اس موقع پر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرکے نہ صرف تنگ ظرفی اور دل آزاری کا طریق اختیار کیا ہے بلکہ صحیح اسلامی فلسفہ سے بھی ایک ناقابل معافی غفلت دکھائی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مولوی صاحب نے ہماری دعائوں کی تحریک سے یہ سراسر غلط نتیجہ نکالا ہے کہ گویا ہم لوگ یہ تحریک کررہے ہیں کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائوں کو ترک کرکے اپنی ساری دعائوں کو صرف حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی ذات تک محدود کردیا جائے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے اور کسی مضمون یا کسی تقریر میں جس کا مجھے علم ہے ایسی تحریک نہیں کی گئی کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں نہ کرو اور صرف حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی ذات کے متعلق دعائیں کرو۔اگر جناب مولوی صاحب نے ہماری تحریرات اور خطبات سے یہ نتیجہ نکالا ہے تو میں افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ یہ ایک دیانت دارانہ نتیجہ نہیں اور اگر ان کا یہ استدلال غفلت اور بے پروائی کا نتیجہ ہے تو پھر بھی یہ استدلال نہ صرف نہائت بودا بلکہ ازحد قابلِ افسوس ہے۔ حق یہ ہے کہ جو تحریک کی گئی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ ان ایام میں جبکہ مختلف لوگوں نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق منذر خوابیں دیکھی ہیں جن میں آپ کا زمانہ وفات قریب دکھایا گیا ہے آپ کے لئے خاص دعائیں کی جائیں۔ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ کسی اور غرض کے لئے دعا ئیں نہ کی جائیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے متعلق خاص دعائوں کے وقف کرنے کے الفاظ سے بھی وہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا جو مولوی صاحب نے نکالا ہے کیونکہ یہ بہرحال دعائیں نماز کی مسنون دعائوں کے بعد اور ان سے بچے ہوئے وقت میں ہوتی تھیں اور مولوی صاحب جانتے ہیں کہ نماز کی دعائیں اسلام کی ترقی اور قربِ الٰہی کے حصول کے لئے کس طرح وقف ہیں۔ حتیٰ کہ ان سے بڑھ کر کوئی اور دعا اس غرض کے لئے ذہن میں نہیں آسکتی۔ پس اگر ہماری طرف سے یہ تحریک کی گئی کہ ان ایام میں اپنی خاص دعائوں کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے لئے وقف کرو تو ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اسلام اور حق وصداقت کی ترقی اور درود وغیرہ کی دعائوں کے بعد جو بہرحال لازمی اور مقدم ہیں باقی ماندہ زائد دعائوں میں ان دعائوں کو موجودہ ایام میں خصوصیت کی جگہ دو اور یہ ایک بالکل جائز مطالبہ ہے جو خاص حالات میں جماعت سے کیا جاسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے شاید یہ سمجھا ہے کہ جب جماعت سے یہ کہا گیا ہے کہ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے لئے اپنی خاص دعائیں وقف کرو تو اس سے مراد یہ ہے کہ بس اب نماز روزہ چھوڑ کر اور نماز کی مسنون دعائوں کو ترک کرکے صرف حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے لئے دعا ئوں میں لگ جائواور کوئی دوسری دعا زبان پر نہ لائو۔
بریں عقل و دانش بیاید گریست
امام کا وجود جماعتی حیثیت رکھتا ہے۔
علاوہ ازیں مولوی صاحب نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو تحریک حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے بارے میں خاص دعائوں کی کی گئی ہے۔ وہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ذات کے لئے نہیں ہے بلکہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکے متعلق ہے اور ظاہر ہے کہ کسی ایسے امام اور لیڈر کے بارے میں دُعا کرنا جس کی امامت اور لیڈرشپ میں کوئی جماعت یا قوم غیرمعمولی طور پر ترقی کررہی ہو اور خدا نے اس کے زمانہ کو اپنی خاص برکات سے نوازا ہو۔ ایک انفرادی اور ذاتی دعا نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ یہ ایک جماعتی دعا ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کی دعا کے ساتھ جماعت کی ترقی کی دعا لازم وملزوم کے طور پر ہے۔ مولوی صاحب یقینا اس حدیث سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ جب ایک دفعہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں آپ کے لئے کتنی دفعہ دعا کروں۔ یعنی اپنی دعائوں کا کتنا حصہ آپ لئے وقف کروں۔ کیا ایک چہارم حصہ آپ کے لئے وقف کردوں؟ اس پر آپ نے اُسے آہستہ آہستہ اوپر اٹھا کر بالآخر اس خیال پر قائم فرمادیا کہ اگر تم اپنی ساری دعائیں ہی میرے لئے وقف کردو تو یہ سب سے بہتر ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ایک بشر تھے جن کے ساتھ موت فوت اسی طرح لگی ہوئی تھی۔ جس طرح کسی اور انسان کے ساتھ اور بظاہر آپ کی ذات کے متعلق دعا کرنا اِسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی دعا سے جدا اور مغائر تھا مگر چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسلام کے مبانی تھے۔ اور آپ کا وجود باجود اسلام کی عمارت کے لئے ایک زبردست ستون تھا۔ (گوباوجود اس کے اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ۲۸؎کے الفاظ فرماتا ہے)اس لئے اپنی دعا کے اندر ہی اسلام کی دعا کو بھی شامل قرار دیا۔اس سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ بعض شخصیتیں ایسی ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں کہ ان کے لئے دعا کرنے میں ان کی جماعت کی ترقی اور ان کے مشن کی کامیابی کی دعا خودبخود آجاتی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود اس مثیل کے لحاظ سے ایک لیول پر ہیں اور ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ حاشاوکلاّ ونعوذ باللّٰہ من ان نقول الاالحق بلکہ صرف ایک اصولی مثال بتاکر یہ جتانا مقصود ہے کہ علیٰ قدر مراتب امام کا وجود شخصی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ جماعتی حیثیت رکھتا ہے اور امام کے لئے دعا کرنے میں خودبخود علیٰ قدر مراتب امام کے مشن اور اس کی جماعت کی ترقی کی دعا بھی آجاتی ہے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے لئے دُعائیں کرنے کی غرض
علاوہ ازیں مولوی صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ہم جو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو کیا اس لئے کرتے ہیں کہ آپ کے زندہ رہنے سے ہمیں کوئی جائیداد مل جائے گی یا حکومت میںحصہ پانے کا رستہ کھل جائے گا یا کوئی اور دنیوی فائدہ حاصل ہوگا؟ بلکہ ہم صرف اس لئے دعائیں کرتے ہیں کہ آپ کی قیادت میں اسلام اور احمدیت کی غیرمعمولی ترقی ہورہی ہے اور طبعاً ہماری یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس غیرمعمولی ترقی کے عہد کو ہمارے لئے لمباکردے۔ پس اس جہت سے بھی حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعا کرنا دراصل اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا کے مترادف ہے اور اگر مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ ہماری نظر میں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں احمدیت کو کوئی خاص ترقی حاصل نہیں ہوئی۔ تو اس پر میری یہ گزارش ہوگی کہ مکرم مولوی صاحب ہماری دعا کی اپیل بھی صرف ان لوگوں سے ہی ہے جو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت کو جماعت اور احمدیت کی غیرمعمولی ترقی کا باعث خیال کرتے ہیں۔ آپ سے ہرگز نہیں۔ جب ہم آپ کو دعا کے لئے کہنے جائیں گے اس وقت آپ بیشک اعتراض کریں۔
قریب کی چیز سے فطرتِ انسانی کا زیادہ متاثر ہونا
تیسری بات جو مولوی صاحب نے نظر انداز کی ہے، یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ بسا اوقات ایک قریب کی محدود چیز سے خواہ وہ نسبتاً کم اہم ہو۔ ایک دور کی وسیع ضررت کی نسبت خواہ وہ نسبتاً زیادہ اہم ہو۔ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور انسانی فطرت کے اسی خاصہ کو اسلام نے بھی جو خالقِ فطرت کا بھیجا ہوا مذہب ہے بڑی حدتک تسلیم کیا ہے اور اس پر متعدد شرعی احکام کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ مضمون بہت گہرا اور وسیع ہے مگر میں ایک سادہ سی مثال دے کر اسے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ:-
’’اِذَااُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ وَحَضَرَالعَشائُ فَابْدَؤُا بِالعَشَائِ۲۹؎
یعنی اگر تمہارے سامنے شام کا کھانا آجائے اور اس وقت ساتھ ہی نماز کی اقامت بھی ہوجائے تو تمہیں چاہیئے کہ پہلے کھانا کھالو اور اس سے فارغ ہونے کے بعد نماز پڑھو۔‘‘
اب ظاہر ہے کہ پیٹ میں بھرنے والا کھانا ایک بہت ادنیٰ سی مادی چیز ہے۔ جسے نماز جیسی اعلیٰ اور ارفع روحانی چیز سے جو روحانی کھانوں کی بھی گویا سرتاج ہے کوئی دور کی بھی نسبت نہیں مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر مادی کھانے کو روحانی کھانے پر مقدم کرتے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ پہلے مادی کھانا کھائو اور اس کے بعد روحانی کھانے کا خیال کرو۔ جس میں حکمت یہ ہے کہ مادی کھانا گوادنیٰ ہے مگر وہ ایک فوری اور قریب کی ضرورت ہے جس کی اشتہا کھانے کے سامنے آجانے سے اور بھی تیز ہوجاتی ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خدائی علم کے ماتحت فطرت انسانی کی گہرائیوں سے آگاہ تھے۔ یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ مادی کھانا تمہارے سامنے آچکا ہے اور تمہیں اس کا خیال پیدا ہوچکا ہے اور بھوک چمک چکی ہے۔ اس لئے اگر اسے چھوڑ کر نماز کی طرف اٹھو گے تو لازمۂ بشریت کے ماتحت طبیعت میں انتشار رہے گا۔ اس لئے پہلے کھانا کھاکر اپنی فوری اور قریب کی ضرورت پوری کرلو اور اس کے بعد نماز پڑھو۔ یہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے مگر غور کرو تو اس سے شریعت اسلامی کی گہری حکمت وفلسفہ پر کتنی عظیم الشان روشنی پڑتی ہے اور یہ ایک منفرد قسم کا حکم نہیں بلکہ قرآن وحدیث ایسے حکموں سے بھرے پڑے ہیں مگر عقلمند انسان کے لئے ایک اصولی مثال ہی کافی ہوسکتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سے مثال
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس کی مثال دیکھنی چاہو تو میں ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جو خود مولوی محمد علی صاحب کی آنکھوں کے سامنے گزری ہے اور وہ اس کے زندہ گواہ ہیں۔ مولوی صاحب کو معلوم ہے کہ ۱۹۰۷ء میں ہمارا چھوٹا بھائی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چھوٹا لڑکا مبارک احمدبیمار ہوگیا اور اسی بیماری میں بے چارہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں اس قدر شغف تھا کہ گویا آپ نے اپنی ساری توجہ اسی میں جمارکھی تھی اور ان ایام میں تصنیف وغیرہ کاسلسلہ بھی عملاً بند ہوگیا تھا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو مولوی صاحب کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے وہ کبھی انکار نہیں کرسکتے مگر مولوی صاحب بتائیں کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک ’’مٹی کے پتلے کے لئے جس نے آج بھی مرنا تھا۔ اور کل بھی مرنا تھا‘‘ خدا تعالیٰ کے بزرگ مسیح نے اس قدر شغف دکھایا کہ گویا اس عرصہ میں قلمی جہاد کا سلسلہ بھی عملاً رُکا رہا۔ کیا جہاد افضل تھا یا کہ مبارک احمد کی تیمارداری؟یقینا جہاد ہی افضل تھا مگر ایک طرف تومبارک احمد شعائر اللہ میں سے تھا اور دوسری طرف فطرت انسانی کے مطابق جو خدا ہی کی صفتِ رحمت کا پر تو ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک نسبتاً چھوٹی مگر قریب کی ضرورت کو جو پریشانی کا موجب ہورہی تھی وقتی طورپر مقدم کرلیا اور بڑی ضرورت کو باجود اس کی اہمیت کے پیچھے ڈال دیا۔
پس اگر جماعت احمدیہ نے اپنے محبوب امام کے لئے ایک آنے والے خطرہ کو محسوس کرکے خاص دعائوں کا اہتمام کیا ہے تو اس پر چیں بجیں ہوکر یہ واویلا کرنا کہ اسلام اور حق وصداقت کے خیالات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کی سطح الخیا لی ہے جس کی کم ازکم ایک امیرِ قوم سے توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ اسلام نے جہاں ہرچیز کے حقوق مقرر فرمائے ہیں اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہر چیز کے حقوق کا خیال رکھو اور ایک چیز کا حق دوسرے کو نہ دو (حتیٰ کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے نفس یا اپنی بیوی کا حق چھین کر خدا کو دیتا ہے وہ بھی خدا کی نظر میں مجرم ہے) وہاں اسلام نے فطرت انسانی کے ازلی قانون کے ماتحت انسان کو یہ رعایت بھی دی ہے اور یہ رعایت سراسر رحمت پرمبنی ہے۔ کہ اگر کوئی ایسی فوری ضرورت ہو جو بالکل تمہاری آنکھوں کے سامنے آئی ہوئی ہو اور اس کی وجہ سے تمہارے دل ودماغ پر بوجھ ہوتو تمہیں چاہیئے کہ ایسی ضرورت کو دور کی ضرورت پر خواہ وہ زیادہ ہی اہم ہو، مقدم کرلیا کرو۔ یہ بات میں نے صرف اصولی جواب کے طور پر بیان کی ہے ورنہ درحقیقت موجودہ معاملہ میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اول تو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی دعا میں اسلام اور احمدیت کی دعا بھی شامل ہے اور دوسرے بہرحال اس دعا کو اسلام اور احمدیت کی دعا سے مؤخررکھا گیا ہے۔
مولوی محمد علی صاحب سے ایک سوال
آخرالذکرنکتہ کو ایک اور طرح بھی واضح کیا جاسکتا ہے اور وہ اس طرح کہ جناب مولوی صاحب کی دبی ہوئی فطرت کو خود ان کے اہل وعیال کی مثال سے بیدار کیا جائے۔ سو میں مولوی صاحب مکرم سے بادب پوچھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ آپ کا کوئی نوجوان اور ہونہار لڑکا کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوجائے اور مرض اس حدتک پہونچ جائے کہ ڈاکٹر اور اطباء مایوس ہوکر جواب دے دیں اور یہ لڑکا آپ کو بہت محبوب ہو تو کیا آپ ایسے وقت میں ایسے لڑکے کے متعلق یہ متصوفانہ الفاظ فرماکر خاموش ہوجائیں گے کہ ’’مٹی کا پتلا ہے آج نہیں مرے گا تو کل مرجائے گا‘‘ یا کہ مادی اسباب کو کٹتا دیکھ کر اور اپنے لخت جگر کو موت کے مونہہ میں پاکر آپ فوراً وضو کرکے کسی علیحدہ کمرہ کی طرف بھاگیں گے اور اس کے دروازوں کو بند کرکے خداکے حضور روتے اور چلاتے ہوئے سجدہ میں گرجائیں گے کہ اے خدا تو میرے اس نورچشم کی زندگی مجھے بخش دے اور مجھے اس کی موت کے صدمہ سے محفوظ رکھ۔ پھر وہاں مولوی صاحب کیا اس وقت آپ کی پہلی دعا بڑے بزرگانہ انداز میں اسلام اور حق وصداقت کی ترقی کے لئے ہوگی یا کہ آپ سجدہ میں گرتے ہی اپنے صاحبزادہ کے لئے آہ وزاری شروع فرمادیں گے۔ میں بڑے شوق سے انتظار کروں گاکہ میرے اس سوال کے جواب میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں مگر مجھے آپ کی زبان یا قلم کے جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیزیں اکثر صورتوں میں طرح طرح کی ظلمتوں سے گھری رہتی ہیں بلکہ مجھے دل کے جواب کی ضرورت ہے جو عموماً ظلمتوں کے پردہ سے نسبتاً آزاد رہتا ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ بعض لوگوں کے دل بھی مرجاتے ہیں۔ بہرحال اگر آپ کو اپنے فرزند کے متعلق اتنا فکر ہوسکتا ہے تو ایک زندہ اور ترقی کرنے والی جماعت کو اپنے محبوب جرنیل اور قائد کے متعلق کیوں نہیں ہوسکتا۔
دشمنی کا نتیجہ
آخر میں میں اس افسوس کے اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اس معاملہ میں بلاوجہ اور بلا کسی خاص ضرورت کے اپنا رستہ چھوڑ کر ہماری دل آزاری کا طریق اختیار کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے لئے دعا کا سوال ہرگز ان اختلافی مسائل میں سے نہیں ہے جو اس وقت ہر دو فریق کے درمیان رونما ہیں پھر خواہ نخواہ اسے اپنے اعتراضات کا نشانہ بناکر ایک وسیع جماعت کے دلوں کو دکھ پہنچانا ہرگز کوئی پسندیدہ یا خوش اخلاقی کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔ہم دعا کی تحریک کے لئے مولوی صاحب کے پاس نہیں گئے تھے بلکہ صرف اپنے دوستوں اور ہم خیالوں سے ایک بات کہی تھی اور وہ بات سنت اللہ اور فطرت انسانی کے عین مطابق تھی اور پھر اس میں بھی ہماری نیت میں احمدیت اور اسلام کی بہبودی ہی مقصود تھی مگر افسوس کہ مولوی صاحب کو یہ بات بھی کھٹکنے سے نہ رہی اور انہوں نے ایک وسیع جماعت کے ان نازک ترین جذبات محبت پر تیر چلایا ہے جو وہ اپنے محبوب امام کے متعلق رکھتی ہے۔ یہ محض دشمنی کا نتیجہ ہے جو دلوں کو اندھا کردیتی ہے ورنہ ایک سمجھدار انسان خواہ وہ دیندار نہ بھی ہو۔ عام حالات میں اس قسم کے خلاف اخلاق اور دل آزار طریق سے مجتنب رہتا ہے۔
آنے والی جمعہ کی رات کو دعائیں کی جائیں
اس جملہ معترضہ کے بعد جو میرے ابتدائی اندازے سے کافی لمبا ہوگیا ہے میں پھر جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی ایک نیک بہن کی خواب کو پورا کرنے کے لئے جس کا پورا کرنا عین منشاء اسلام اور مفاد احمدیت کے مطابق ہے انہیں چاہیئے کہ اس آنے والے جمعہ کی رات کو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کے خطرہ سے محفوظ رکھ کر آپ کے مبارک سایہ کو ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے۔ آمین۔ اور جن افراد یا جماعتوں کو توفیق ملے وہ سال رواں کے آخر تک یعنی اس جلسہ سالانہ کے اختتام تک ہر جمعہ کی رات کو اسی دعا کے لئے مخصوص کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر قسم کے ابتلا سے محفوظ رکھے۔ اٰمین اللھم اٰمین
‎(مطبوعہ ۳۰ اکتوبر۱۹۴۰؁ئ)










حوالہ جات
۱۹۴۰ء

۱۔ صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: اِنّابِکَ لَمَحْزُوْنُونَ-۴۳
۲۔ تذکرہ صفحہ ۵۱۴ -۵۶۲، طبع ۲۰۰۴ء
۳۔ احمدی اور غیراحمدی میں کیا فرق ہے؟ تقریر فرمودہ جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۰۵ء
۴۔ خط بنام عبدالحکیم خان مرتد۔ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۶۷
۵۔ البقرہ: ۲۸۷
۶۔ ملخص حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵- ۱۸۶
۷۔ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۴۳۲، حاشیہ
۸۔ المومنون:۴۵
۹۔ تحفۃ الاحوذی، شرح صحیح البخاری، کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۱۰۔ الانبیائ: ۲۴
۱۱۔ البقرہ: ۱۵۷
۱۲۔ الفرقان:۷۵
۱۳۔ اٰل عمران:۱۰۳
۱۴۔ مشکوۃ المصابیح، باب نزول عیسیٰ، الفصل الثالث
۱۵۔ حضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ از قمر اسلام پوری
۱۶۔ المزمل:۷
۱۷۔ الحشر:۲۲
۱۸۔ النسائ: ۷۹
۱۹۔ الماعون: ۵ تا۸
۲۰۔ الحج: ۳۸
۲۱۔ الصحیح البخاری ، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزورِ ولعمل بہٖ فی الصوم
۲۲۔ الصحیح البخاری،ی کتاب فضائل القرآن، باب اثم من رائَی بقَرآئَ ۃِ القرآنِ، أَوْ تَاکَّلَ بِہٖ، اَوْفَجرَبہٖ۔
۲۳۔ الحکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ۳
۲۴۔ تذکرہ صفحہ ۳۳۴، طبع ۲۰۰۴ء
۲۵۔النور:۳۶
۲۶۔ سنن ابن ماجہ کتاب الرؤیاباب نمبر ۱، ابودائود کتاب الصلوٰۃ، باب الدعاء فی الرکوع السجود-
۲۷۔ الفضل ۲۷ اکتوبر۱۹۴۰؁ء صفحہ ۴
۲۸۔ اٰل عمران: ۱۴۵
۲۹۔ صحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب اِذاحَضَرَ العَشَائُ فَلاَ یَعْجَلْ عَنْ عَشَائِہ.6ِ۔

۱۹۴۱ء
کَلْبٌ یَّمُوْتُ عَلیٰ کَلْبٍ والا الہام
اور
بد خواہ دُشمن کی نامُرادی
حضرت مسیح موعُود علیہ السلام کا ایک الہام
میرے اس مضمون کے عنوان کی عربی عبارت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کاایک الہام ہے جو آپ کو ۱۸۹۱ء میں ہوٗا۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
.6ََََِ’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعا لیٰ نے اعدا دتہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہکَلْبٌ یَّمُوْتُ عَلیٰ کَلْب.6ٍ یعنی وہ کتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا جوباون سال پر دلالت کر رہے ہیں۔یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوزنہیں کرے گی۔ جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اسی سال کے اندر اندر راہئی مُلکِ بقا ہوگا۔‘‘ ۱؎
یہ الہام ایک معر وف اور معلُوم شخص کے متعلق تھا
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ تشریح صاف بتارہی ہے کہ یہ الہام آپ کے کسی معلوم اور معروف دشمن کے متعلق ہے مگر آپ نے مصلحۃً اس کا نام ظا ہر نہیں فرمایا۔چنانچہ یہ الفاظ کہ ،ایک شخص کی موت کی نسبت خداتعا لیٰ نے مجھے یہ خبر دی، صاف ظاہر کر تے ہیں کہ یہ کوئی معین اور معلو م شخص ہے ۔ ورنہ الفا ظ یہ ہونے چا ہئے تھے کہ کسی شخص کے متعلق مجھے یہ خبر دی گئی ہے مگر یہ الفا ظ نہیں رکھے گئے بلکہ کسی شخص کی بجا ئے ایک شخص کے الفا ظ رکھے گئے ہیں جواُردو کے عام محا درہ میں صرف معلوم الاسم شخص کی صورت میںبولے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں اگر یہ شخص حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو معلوم نہ ہوتا تو جیسا کہ آپ کا طر یق تھا، آپ اس الہام کی تشر یح میں اس قسم کے الفاظ زیادہ فر ما دیتے کہ معلوم نہیں یہ الہا م کس شخص کے متعلق ہے یا یہ کہ اس الہام کی کوئی تفہیم نہیں ہوئی ۔ وغیرہ ذالک۔ مگرآپ نے ایسے کوئی الفاظ نہیں لکھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ یہ الفاظ فلاں شخص کے متعلق ہیں ۔ اسی طر ح آپ کی تشریح عبارت کا مجموعی اسلوب بھی اسی طرف اشارہ کر رہاہے کہ یہ شخص آپ کے نزدیک معلوم و معروف ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص کا نام معلوم ہونے کے باوجود اسے ظاہر کیوں نہیں کیا، تا کہ الہام کی صداقت یا عدم صداقت کو پرکھا جاسکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ چو نکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک سا بقہ الہام میں اس الہام کی تشریح موجود تھی اور دونوں الہاموں کے ملانے سے بات واضح ہوجاتی تھی، اس لئے آپ نے دانستہ اس الہام کی مزید تشریح سے احتراز فرمایا تاکہ سمجھنے والے سمجھ بھی جائیں اور کسی شخص کی بلاوجہ دلآزاری بھی نہ ہو اور وہ سابقہ الہام یہ ہے :-
’’یَمُوْتُ ویُبْقیٰ مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ ۲؎
یعنی یہ شخص ( جس کا اوپر کی عبارت میں ذکر موجودہے ) مرے گا اور اس کے پیچھے کئی کتے کی سیرت رکھنے والے لوگ جو اس کے ہم رنگ ہوں گے باقی رہ جائیں گے‘‘
الہام پوراہوچکا
یہ سابقہ الہام بعد والے الہام سے کافی عرصہ پہلے یعنی ۱۸۸۶ء میں ہوا تھا۔ پس جبکہ الہام کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلیٰ کَلْب.6ٍ سے پہلے ایک واضح الہام ایک معین شخص کے متعلق ہوچکاتھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس پہلے الہام کی تشریح میں اس شخص کا نام لے کر ذکر فرماچکے تھے توان حالات میں یہ ہرگز ضروری نہیں تھا کہ دوسرے الہام کی تشریح میں اس کا نام لے کر بلاوجہ دل آزاری کی جاتی۔ پس جس طرح کہ خداتعالیٰ نے دوسرے الہام میں نام لینے کے بغیر صرف اشارہ سے ذکر فرمایا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی صرف اشارہ پر اکتفا کی اور پہلے الہام کی اجمالی تصریح کو کافی خیال کرتے ہوئے مزید تشریح نہیں فرمائی۔ چنانچہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ یہ ہر دو الہام اپنی پوری شان کے ساتھ پورے ہوئے اور مرنے والا باون سال کی عمر میں مرکرراہی ملک بقا ہوگیا اور اس کے پیچھے کئی بھو نکنے والے کتے اب تک بھونک بھونک کر دنیا کو ان الہاموں کی صداقت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں (مزیدتشریح کی طرف دیکھو تذکرہ صفحہ۱۰۸)
اہل پیغام کی طرف سے انتہائی دل آزاری
خیر یہ تو جو کچھ تقدیر الٰہی کے ماتحت ہوناتھا وہ ہوگیا مگر اہل پیغام کی جسارت اور انتہائی دل آزاری ملاحظہ ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْب حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ؒپر چسپاں کر کے یہ خوشی منارہے تھے کہ نعوذباﷲ اس الہام میں کلب سے مرادحضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ؒ ہیں اور یہ کہ آپ کی وفات آپ کی عمر کے باون سال کے اندر اندر وقوع میں آجائے گی۔ آغاز اس فتنہ کااس طرح ہوا کہ ایک صاحب شیخ غلام محمد جو مصلح موعود ہونے کے مدعی ہیں اور پہلے اہل پیغام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اب ادھر سے الگ ہوکر جماعت مبایعین اور غیر مبایعین ہردو کو اپنے مطاعن کا نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی مخصوص دماغی کیفیت سے متاثر ہوکریہ آواز اٹھائی کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلیٰ کَلْب کا الہام حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؒ کے متعلق ہے اور یہ کہ آپ اس الہام کے مطابق باون سال کی عمر کے اندر اندر ہلاک ہوجائیں گے۔ گو پردہ رکھنے کے لئے یہ بھی لکھ دیا معلوم نہیں اس سے جسمانی ہلاکت مراد ہے یاکہ مقاصد کی موت۳؎۔ اس مجنونانہ بڑکو اپنے مفید مطلب پاکر غیر مبایعین نے بھی ہوشیاری کے ساتھ اپنا پہلو بچاتے مونہہ چھپاتے ہوئے اس مکروہ پروپیگنڈا میں اپنے ہاتھ رنگنے شروع کر دیئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک ایسے الہام کا نشانہ بنانا چاہا جوایک اشدترین معا ند سلسلہ اور دشمن خدا سے تعلق رکھتا تھا ۔
خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے غیر مبایعین کا انتہائی عناد
اس گندے اور ناپاک پروپیگنڈے کا نتیجہ تووہی ہوا کہ جو ہوناتھا کہ فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ۴؎ کے فرمان کے مطابق ان لوگوں کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں کیونکہ آج خدا کے فضل سے حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے تھے اپنی عمر کے باون سال مکمل کرکے علٰی انف اعداء ترپن سال کے آغاز میں کامرانی وبامرادی کا پرچم لہراتے ہوئے قدم رکھ رہے ہیں مگر غیر مبایعین نے جو اب تک بھی بظاہر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اور غلامی کا دم بھرتے ہیں۔ یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے اس حد تک بغض وعناد پیدا ہوچکا ہے کہ وہ اِن الہامات کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر چسپاں کرنے سے دریغ نہیں کرتے جو احمدیت کے اشد ترین دشمنوں کی تباہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔
غیر مبایعین کا سراسر جھوٹا اور باطل ادعا
غیر مبایعین نے اسی بات پر اکتفا نہیں کی کہ ایسے شخص کے پیچھے لگ کر جس کی دماغی کیفیت سے وہ خوب آگاہ تھے، اس الہام کو حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی اید ہ ا ﷲ بنصرہ العزیز پر چسپاں کیااور پھر آپ کی عمر کی باون سال کی گھڑیاں گن گن کرخوشی کے خواب دیکھنے لگے بلکہ جیساکہ مجھے معلوم ہواہے انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی اید ہ ا ﷲ کے متعلق ہماری دعاکی تحریکوں کو بھی استہزاء کی نظرسے دیکھ کر یہ طعن دنیا شروع کیا کہ گویا ہم لوگ اس مزعومہ پیشگوئی سے خائف ہوکر لرزہ براندام ہورہے ہیں اور ہماری دعاکی تحریک اسی خوف پر بنی ہے۔ اگر میری یہ اطلاع درست ہے تو یہ ایک انتہا درجہ کی گری ہوئی ذہنیت ہے جس میں جھوٹ اور دل آزاری ہر دو کا پورا پورا اخمیر پایا جاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃا لمسیح الثانی اید ہ ا ﷲ تعالیٰ کے متعلق دعا کی تحریک شیخ غلام محمد کی نام نہاد پیشگوئی اور اس پر اہل پیغام کی حاشیہ آرائی کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ جیسا کہ ہمارے مضامین میں باربار یہ تصریح کی گئی تھی۔ یہ تحریک اِن خوابوں کی وجہ سے تھی جو جماعت کے بعض افراد کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی اید ہ ا ﷲ تعالیٰ کے بارے میں دکھائی گئی تھیں اور گو خوابیںتعبیر طلب ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان کا تعلق آخری تقدیر کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ کسی درمیانی معلّق تقدیر کے ساتھ ہوتا ہے لیکن چونکہ دوسرے پہلوکا امکان بھی ہوتا ہے اس لئے سنت اﷲ کے مطابق حضرت امیرالمومنین ایدہ۔اﷲتعالیٰ کی درازیٔ عمر کے لئے دعا کی تحریک کی گئی ۔
اس بات کا ثبوت کہ یہ دعا کی تحریک شیخ غلام محمد مدعی مصلح موعود یا اہلِ پیغام کی بیان کردہ پیشگوئی کی وجہ سے ہر گز نہیں تھی بلکہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲتعالیٰ کی وصیت اور بعض احباب جماعت کی خوابوں کی وجہ سے تھی، یہ ہے کہ یہ دعا کی تحریکات حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲتعالیٰ کی وصیت کے شائع ہونے کے بعد کی گئیں جو آخر جولائی ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی تھی۵؎۔حالانکہ شیخ غلام محمد کا رسالہ جس میں ۱۲ جنوری ۱۹۴۱ء تک حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ ہلاکت کی خبر دی گئی تھی فروری ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا تھا ( دیکھو شیخ صاحب کا رسالہ ’’ خلیفہ قادیان کے جشن منانے کی دو جھوٹی خوشیاں ‘‘ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۴۰ء ) پس اگر دعائوں کی تحریک کا باعث شیخ غلام محمد والا مضمون یا اہل پیغام کا پروپیگنڈا ہوتا تو چاہیئے یہ تھا کہ یہ تحریک فروری یا زیادہ سے زیادہ مارچ ۴۰ء سے شروع ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ تحریک حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ کی وصیت کے بعد آخر جولائی میں جا کر شروع ہوئی اور اس بارے میں میرے مضامین تو اس سے بھی بعد یعنی اکتوبر ۱۹۴۰ء میں آکر شائع ہوئے اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲتعالیٰ نے اپنی وصیت میں صراحتا یہ ذکر کیا تھا کہ بعض دوستوں کو میرے متعلق اِس قسم کی خوابیں آئی ہیں کہ میرا زمانہ وفات قریب ہے۔ اس لئے گو خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور صدقہ وخیرات سے معلّق تقادیرٹل بھی جاتی ہیں لیکن چونکہ بہرحال ہر شخص نے بالآخر مرناہے ۔ اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اپنی طرف سے ایک وصیت لکھ کر شائع کردوں۔ اسی طرح میرے مضامین میں بھی اپنے دوستوں کی خوابوں کی طرف ہی اشارہ تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اہل پیغام کا یہ ادعا کہ دعاؤں کی تحریک مزعومہ پیشگوئی سے خائف ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے، ایک سرا سر جھوٹا اور باطل ادعا ہے جو اپنی دلآزاری میں انتہاء کو پہونچا ہواہے ۔
دعائوں کا سلسلہ جاری رکھاجائے
میرے اس نوٹ سے ہمارئے دوستوں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اﷲتعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق دعا کی تحریک اب تک قائم ہے اور گو خدا کے فضل سے بدخواہ دشمن نامرادی کو پہونچ چکا ہے لیکن چونکہ ہماری دعاکی تحریک دوسری وجوہات پر مینی ہے، اس لئے احباب کو ان خاص دعائوں کا سلسلہ اب بھی جاری رکھنا چاہیئے ۔
واخرد عوٰناان الحمدﷲ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۱ئ)




کون بہترہیں قربانی والے یا انعام والے
میری ایک جاگتے کی خواب

ایک خاص نکتہ
گزشتہ جمعرات کے دن حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲتعالیٰ نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں ایک نہایت لطیف تقریر فرمائی، جس کا ایک خاص نکتہ یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قوموں کی ترقی کے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ ان کا ابتدائی حصہ قربانی کرتاہے اور آخری حصہ انعام پاتاہے اور کوئی قوم ابتدائی قربانی کی بھٹی میں سے گزرے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ بالعموم قوم کا وہ حصہ جو قربانی کر تا ہے وہ خود اپنی اس قربانی کے پھل کو چکھنے کا موقع نہیں پاتا بلکہ اس کا زمانہ بظاہر قربانی کی انتہائی تلخی میں ہی گزر جاتا ہے اور جب پھل کا وقت آتاہے تو دوسرے لوگ آموجود ہوتے ہیں، جنہوں نے اس رنگ کی اور اس درجہ کی قربانیاں نہیں کی ہو تیں ۔
صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں اور ان کے پھل
چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے ایسی ایسی قربانیاں کیں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور خداکی خاطر اور اس کے دین کی خاطرانتہائی تلخی کی زندگی کو اختیار کیا اور دنیاکی ہر نعمت اور ہر آرام ہر راحت کو اعلائے کلمۃ اﷲکے لئے قربان کر دیا مگر کم از کم صحابہؓ کا ایک حصہ ایساتھا جو اس قربانی کے کے زمانہ میں ہی گزر گیا اور اس نے اس انعام کا کوئی حصہ نہ پایا جو بعد کا زمانہ پانے والوں کو حاصل ہوا ۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مثالاً فرمایا کہ جو صحابی بدر کی جنگ میں شہید ہوئے انہوں نے بظاہر اسلام کی ظاہری شان و شوکت اور اپنی قربانی کاظاہری انعام کیا دیکھا۔ مکہ میں تیرہ برس وہ کفار کے سخت ترین مظالم کا نشانہ رہے اور جب مکہ سے بھاگ کر مدینہ میں آئے تو یہاں بھی ان کفار نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور ابھی ہجرت پر ڈیڑھ سال بھی نہ گزرا تھا کہ یہ فدائیان اسلام شہدائے بدر اپنے پرانے اور نئے دونوں وطنوں سے دور ایک تپتے ہوئے ریتلے میدان میں کفار کی تلوار سے کٹ کٹ کر تڑپتے ہوئے جان بحق ہوگئے۔ ان لوگوں نے اسلام کے دنیوی انعاموں سے کچھ بھی حصہ نہ پایا اور صرف قربانی ہاں بظاہر تلخ ترین قربانی میں ہی اپنی ساری زندگی گزار دی۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ تابعد میں آنے والے ان کی اس قربانی کا پھل کھا سکیں اور اس قسم کی دوسری مثالیں بیان کر کے حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور قربانی کا عام اصول یہی ہے کہ قوم کا ابتدائی حصہ پھل کھانے کی امید ترک کر کے محض قربانی کے خیال سے ہی زندگی گزاردے۔ گویا وہ اس معاملہ میں بھی قربانی دکھائے کہ پھل دوسروں کے لئے چھوڑدے اور آپ بھوکا اور پیاسا رہنے کے لئے پیچھے ہٹ جائے ۔
ہولناک منظر
جب حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ تقریر فرمارہے تھے تو میں چند لمحوں کے لئے تقریر کی طرف سے کھویا جاکر اس خیال میں پڑ گیا کہ ہمارے خدا کا یہ قانون بھی عجیب ہے کہ ایک فریق قربانی کی تلخی میں زندگی گزار دیتا ہے اور انعام سے کوئی حصہ نہیں پاتا اور دوسرا مفت میں بغیر کسی محنت کے انعام حاصل کر لیتا ہے۔ گویا ایک شخص فصل بونے کے لئے زمین میں ہل چلاتا ہے، سہاگادیتا ہے، بیج ڈالتا ہے، پھر اسے پانی سے سینچتاہے اور اس کی حفاظت میں اپنے دن کے چین اور رات کی راحت کو برباد کر دیتاہے لیکن جب فصل پکتی ہے اور اس کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو خدا ہاں ہمارا رحیم و کریم خدا اس کی زندگی کا خاتمہ کر کے دوسرے لوگوں سے فرماتاہے کہ اب تم آئو اور اس فصل کا پھل کھائو۔ دنیا میں ایک دوسرے کو سہارا دینے اور ایک دوسرے سے سہارا لینے کا یہی قانون سہی مگر عدل وانصاف کے سرچشمہ کی حکومت میں یہ ظاہر میں نظر آنے والی بے انصافی بھی دل کو کپکپا دینے والی چیز ہے۔ اس خیال سے میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگااور میرے بدن میں لرزہ پیدا ہوگیا کہ خدا یا تیری رحم و انصاف کی حکومت میں یہ ایک کیسا ہولناک منظر ہے جو نظر آرہا ہے کہ جو قربانی کر تا ہے وہ محروم جاتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ پھل کھاتا ہے ۔
قُربانی کا فلسفہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ اس اصول کو تکرار کے ساتھ بیان کر کے جماعت کے نوجوانوں کو اپنے سحر بھری تقریر سے ابھار رہے تھے اور میرا دل اس کش مکش میں پڑاہوا تھا کہ خدایا میری آنکھیں یہ کیا نظارہ دیکھ رہی ہیں۔ آخر میں نے یوں محسوس کیا کہ میرا دل آہستہ آہستہ ساکت ہورہاہے اور میری محویت کا مل دمکمل ہوکر مجھے میرے ماحول سے نکال کر باہر لے گئی تب میرے دل میں ایک آواز پیدا ہوئی کہ تو کس بھنور میں پھنس گیا ہے ؟ کیا قربانی خود اپنے اندر ایک عظیم الشان پھل نہیں ؟ میں چونک کر بیدار ہوا اور ایک آن کی آن میں قربانی کا سارا فلسفہ میری آنکھوںکے سامنے آگیا اور میں نے اپنے نفس کو ملامت کر تے ہوئے کہا کہ قربانی کی لذت سے بڑھ کر کون سا پھل ہے اور پھر ایک ایک کر کے اس پھل کے مختلف نمونے میری آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔
ایک صحابی کی مثال
سب سے پہلے میرے سامنے حضرت عبداﷲ بن عمرو ( والدجابر بن عبداﷲ )رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تصویر آئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے زمانہ میں جنگ احد شہید ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجنے لگے کہ عبداﷲ کی قربانی پر خداتعالیٰ ایسا خوش ہوا کہ اس نے عبداﷲ سے بالمشافہ فرمایا کہ تیری قربانی سے ہم بہت خوش ہیں اس کے بدلہ میںتیرے دل میں جو بھی خواہش ہے تو اسے مانگ ہم اسے پورا کریں گے۔ عبداﷲ نے عرض کیا اے خداوندِ عالم! میرے دل میں سوائے اس کے کوئی اورخواہش نہیں کہ اگر تو چاہے تو میں پھر زندہ کیا جاوں اور پھر تیرے راستہ میں اسی طرح جان دوں۴؎ میں نے عبداﷲ ہاں رسول عربی کے صحبت یافتہ عبداﷲ کا یہ جواب سنا اور سمجھ لیا کہ عبداﷲ کے نزدیک قربانی کی شیرینی قربانی کے انعام کی شیرینی سے بڑھ کر ہے کیونکہ عبداﷲ نے اس وقت جبکہ وہ کامل انکشاف کو پاچکاتھا بلکہ اس گھر میں پہنچ چکا تھا جو سب سے بڑے انعام کا گھر ہے۔ قربانی کی حالت کو انعام کی حالت پر ترجیح دی۔ میں نے کہا سچ ہے قربانی خود ایک عظیم الشان پھل ہے اور یہ پھل قربانی کے انعام کے پھل سے بہتر ہے ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ
پھر میرے سامنے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کہ یہ الفاظ آئے کہ اگر مجھے ہر شب اور ہر روز آسمان سے آواز آئے کہ تیری ساری عبادت اور سارا جہاد اجر کے لحاظ سے بے ثمر ہے۔ اس کا تجھے کوئی بدلہ نہیں ملے گا اور تو ہماری طرف سے کوئی انعام حاصل نہیں کرے گا تو خدا کی قسم پھر بھی میری عبادت اور میری سعی جہاد میں ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ آئے اور میں اپنے کام میں اسی طرح اور اسی ذوق شوق کے ساتھ لگا رہوں جس طرح کہ اب لگا ہوا ہوں کیونکہ میری جزاء انعام و اکرام میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خدمت او راس کی محبت خود اپنی ذات میں میری جزا ہے۔ میرے کانوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ ا لصلوٰۃ والسلام کے ان پیارے الفاظ کوسنا اور میرے دل نے پھر کہا سچ ہے خدا کے لئے اور اس کے دین کے لئے قربانی کرنا خود اپنے اندر ایک پھل ہے اور اس پھل کی شیرینی قربانی کے انعام کی شیرینی سے بہتر ہے ۔
آنحضرت صلے اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد
بالاآخرایک بجلی کی کوند کی طرح میری آنکھوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہ الفاظ پھر گئے کہ میری امت کی مثال ایک بارش کی طرح ہے جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا اول حصہ بہتر ہے یاکہ آخری حصہ۷؎۔ میں نے کہا بیشک یہ حدیث حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر بھی چسپاں ہوتی ہوگی اور ضرور ہوتی ہے مگر اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی زندگیوں کا ایک نقشہ کھینچا ہے اور فرمایا ہے کہ میرے صحابہ دوگروہوں میں منقسم ہیں ایک وہ جو صرف قربانی کا زمانہ پائیں گے اور قربانی کے انعام سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملے گا جیسے بدریا احد وغیرہ کے شہید اور دوسرے وہ جو لمبی زندگی پا کر اپنی ابتدائی قربانیوں کا کسی قدر پھل بھی چکھ لیں گے۔ ان دو گروہوں کو اپنے سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے پہلا گروہ افضل ہے یا کہ دوسرا گروہ حالانکہ دوسرے گروہ نے قربانی سے بھی حصہ لیا تھا اور اس کے انعام سے بھی مگر خالی قربانی کا پھل جب کہ وہ انعام سے جداہوکر اپنی خالص تلخی میں میسر آئے اس قدر شریں ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شائد اس پھل کی شیرینی اس شیرینی سے بھی بڑھی ہوئی ہے جو قربانی اور اس کے انعام ہر دو کی شیرینی سے مرکب ہوتی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہی بات درست ہے کیونکہ خدائے حکیم کی قدرت نے اپنے بر گزیدہ نبیوں کو اسی مقدم الذکر گروہ میں شامل کیا ہے جنہیں اس دنیا میں قربانی کی تلخی کے سوا اور کوئی پھل نہیں ملتا اور ان کے لئے یہ تلخی ہی سب شیرینیوں کی سردار ہے ۔
دل کی آواز
میں نے دل کی آنکھ سے یہ سارے نظارے دیکھے اور میں اس خوشی میں پھولا نہ سماتا تھا کہ میں نے قربانی کے فلسفہ کو پالیا لیکن عین جبکہ میں اس خوشی کے شباب میں تھا میرا دل پھر میرے سینہ میں ڈوبنا شروع ہوا حتٰی کہ میں نے یوں محسوس کیا کہ میں پھر کسی خیال میں کھویا گیا اور اس وقت میرے دل میں یہ آواز پیدا ہوئی کہ تو نے ابھی قربانی کا پورا فلسفہ نہیں سمجھا بھلا بتاتو سہی کہ تو خود کس گروہ میں ہے ؟ تو نے قربانی کا زمانہ پایا اور اسے ضائع کر رہا ہے حالانکہ تو جان چکا ہے کہ یہی افضل چیز ہے اس کے بعد انعام کا زمانہ آئے گا اور اول تو یہ معلوم نہیں کہ تو اس زمانہ کو پائے یا نہ پائے بلکہ بظاہر حالات اغلب ہے کہ تو اس زمانہ کو نہیں پائے گا اور اگر پایا بھی تو افسوس ہے کہ ابھی تک تو فلسفہ قربانی کے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ قربانی کی تلخی کے چکھے بغیر قربانی کے پھل کی حلاوت محسوس نہیں ہوا کرتی بلکہ گلے میں اٹک کر پھانسی کا پھندا بن جایا کرتی ہے۔ اس آواز کو سن کر میری خوشی سے بلند ہوتی ہوئی گردن شرم سے نیچی ہوگئی اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا اور میں نے اس تاریکی میں گھِرے ہوئے اپنے نفس کو آواز دی کہ ہاں ہاں اگر تو واقع قربانی کے فلسفہ کو سمجھ چکا ہے تو پھر بتا کہ تو خود کس حساب میں ہے ؟ میرا نفس اس آواز کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ میں نے اس سوال کو دوہرایا مگر پھر بھی خاموشی تھی اور میں یوں محسوس کرتا تھا کہ بس ابھی میرے دل کی حرکت بند ہوکر یہ سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ تب میرے دل کی طرف سے نہیں بلکہ باہر سے اوپر کی طرف سے مجھے ایک آواز آئی مگر یہ اس جاگتے کی خواب کا دوسرا ورق ہے جو شرمندہ عریانی نہیں ہوسکتا ۔
خداتعالیٰ کا بہت بڑا احسان
اے ہمارے خدا! اے ہمارے پیارے باپ! اے اس کون ومکان کے مالک! اے آسمانوں اور زمینوں کے بادشاہ! جو ہماری کسی خواہش پر نہیں بلکہ خود اپنی مرضی سے اپنے جمال و جلال کے اظہار کے لئے ہمیں نیست سے ہست میں لایا ہے تاہم تیرے بندے بنیں اور تیرے حضور میں تیری آنکھوں کے سامنے تیری رضا کے راستہ پر چلتے ہوئے تیری خدمت میں زندگی گزاریں تیرا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ تونے ہم مٹی کے ذروں کو اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر اٹھایا اور پھر اپنی ذات ہاں ازلی اور ابدی ذات پاک اور مقدس ذات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیوست کرلیا۔ تیری طرف سے تو یہ احسان یہ ذرہ نوازی اور ہمارا یہ حال کہ رات اور دِن کی گھڑیوں میںتیری آنکھوں کے سامنے، تیری نظروں کے نیچے اورگویا تیری گود میں بیٹھے ہوئے گناہ کی نجاست سے کھیلتے ہیں اور پھر بھی تو فرماتا ہے کہ میں بخش دوں گا۔ اب میں اپنے گناہوں کی طرف دیکھوں یا تیرے عفووکرم کی طرف۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ فروری ۱۹۴۱ئ)











میرے مضمون میں ایک قابل اصلاح غلطی
آج مؤرخہ ۱۱ فروری ۱۹۴۱ء کے ’’ الفضل ‘‘ میں میرا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی سرخی یہ ہے ’ ’کون بہتر ہیں قربانی والے یا انعام والے‘‘ مجھے افسوس ہے کہ اس مضمون کے آخری حصہ میں ایک ایسی غلطی ہوگئی ہے جو قابل اصلاح ہے۔ آخری پیرے کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں ’’ اے ہمارے خدا۔ اے ہمارے باپ ‘‘ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے ’’ اے ہمارے پیارے باپ‘‘ کے الفاظ نہیں لکھے تھے ـ’’ بلکہ اے ہمارے پیارے آسمانی باپ ‘‘ کے الفاظ لکھے تھے گو یہ ممکن ہے کہ جلدی میں مجھ سے آسمانی کا لفظ لکھنے سے رہ گیا ہو مگر میں یہی سمجھتا اوریقین رکھتاہوں کہ میں نے یہ لفظ لکھاتھا اور کم از کم میری نیت میں یہ لفظ ضرور داخل تھا۔ میں نے ایڈیٹر صاحب سے عرض بھی کیا تھا کہ میرے مضمون کی کاپی مجھے دکھا لیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو میں اس کی اصلاح کر سکوں مگر غالباً وہ کسی معذوری کی وجہ سے نہیں دکھا سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ’’ آسمانی باپ‘‘ کی جگہ صرف ’’ باپ‘‘ کا لفظ چھپ گیا ہے اور اس کے علاوہ مجھے اور بھی بعض خفیف خفیف غلطیاں یا تبدیلیاں نظرآتی ہیں
ممکن ہے کہ بعض دوست ’’ آسمانی باپ‘‘ اور ’’باپ‘‘ کے مفہوم میں زیادہ فرق محسوس نہ کریں اور یہ خیال کریں کہ مرادبہر حال ایک ہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو توحید کا اعلیٰ سبق ہمیں اسلام سکھاتا ہے اور جس طرح اسلام نے ہر ظاہری اور باطنی رنگ کے شرک کے خلاف امت مسلمہ کی حفاظت فرمائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ غلطی حقیقتہً قابل افسوس اور قابل اصلاح ہے۔ آسمانی باپ سے تو صراحتہً یہ مراد ہے کہ ہمارا ایک اصلی باپ الگ موجودہے اور خدا کو صرف خاص تعلقات محبت ووداء کے اظہار کے لئے آسمانی باپ کہہ کر پکارا گیا ہے لیکن آسمانی کے لفظ کے چھوڑدینے سے گویا باپ کے لفظ کی نسبت خالصتہً اور منفرداً ذات باری تعالیٰ کی طرف چلی جاتی ہے جو کسی طرح درست نہیں۔ یہ درست ہے کہ اصل چیز لکھنے والے کی نیت اور اس کے دل کی حقیقی خیالات ہیں مگر ان غیر مادی خیالات کے لئے ہم جو جسم انتخاب کرتے اور جو زبان استعمال میں لاتے ہیں اس میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ آہستہ آہستہ مخفی شرک کے پیدا ہوجانے یا کم از کم توحید کے اعلیٰ مقام سے گر جانے کا اند یشہ ہوتا ہے اور بہر حال خدا کی وراء الورأہستی کے سامنے مناسبِ حال الفاظ کا استعمال کیا جانا از بس ضروری ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اس بات کو نوٹ فرمالیں گے۔ میرے مضمون کے اصل الفاظ ــ’’ اے ہمارے پیارے باپ ‘‘ نہیںبلکہ ’’ اے ہمارے پیارے آسمانی باپ‘‘ ہیں۔ اﷲتعالیٰ ہم سب کو اس صحیح اور اعلیٰ مقام پر قائم رکھے جو اس کی توحید کی شایان شان ہے اور ہم ممبرانِ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر تو توحید کے قیام کے متعلق خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہمارے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ خُذُوْاالتَّوحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَیَآ اَبْنَآئَ الْفَارِسِ۸؎
یعنی اے نسل فارس کے بیٹو تم توحید کو مضبوط پکڑو۔‘‘
ہاں اس توحید کو جو خالص اور مصفّیٰ اور ہر ظاہری اور باطنی ملاوٹ سے پاک اور صاف ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی توفیق دے ۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۱؁ئ)









روایتوں کے جمع کرنے میں خاص احتیاط کی ضرورت
کچھ عرصہ ہوا یعنی ۲۹ جنوری ۱۹۴۱ء کے الفضل میں ایک صاحب میاں مہر اﷲ صاحب کی ایک روایت شائع ہوئی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں فنا نشل کمشنر کی آمد کا ذکر تھا اس روایت میں باوجوداس کے کہ راوی صاحب نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا تھا۔ یہ صریح غلطی تھی کہ اول توفنانشل کمشنر کی جگہ کمشنر درج تھا دوسرے میاں مہر اﷲصاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ آپ خود فنانشل کمشنر کے استقبال میں شریک ہوئے تھے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام استقبال میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ جہاں تک قادیان سے باہر جاکر استقبال کرنے کا معاملہ تھا، آپ نے اس غرض کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم وغیرہ کو آگے بھجوایا تھا اور جو استقبال فنانشل کمشنر صاحب کا قادیان کے اندر یعنی ریتی چھلہ کے میدان میں ہواتھا۔ اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود شریک نہیں ہوئے تھے۔ نیز اس روایت کی تصحیح تو بعد میں مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے الفضل ’’ مورخہ ۴ فروری والفضل‘‘ مورخہ ۹ فروری میں کر دی تھی اور’’ الحکم ‘‘ اور ــ’’ بدر‘‘ کے فائلوں میں بھی اصل واقعہ کا اندراج موجود ہے مگر مجھے اس روایت پر خیال آیا کہ اس زمانہ میں روایتوں کا کیا حال ہے کہ ایک شخص کے سامنے ایک سارا واقعہ گزرتا ہے مگر چند سال کے بعد اسے ایسی موٹی بات بھی یاد نہیں رہتی کہ آیا اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شریک ہوئے تھے یا نہیں؟
پھر جب میں نے اس معاملہ پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دراصل ہر زمانہ کے حالات کے مطابق انسانی قویٰ اور انسانی طاقتوں کی تربیت جدا جدا ظہور پذیر ہوتی ہے ۔
قدیم زمانہ میں چونکہ لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اور ابھی تک پریس بھی ایجاد نہیں ہوا تھا اور کتب اور رسالہ جات اور اخبارات بھی گویا بالکل مفقود تھے۔ اس لئے طبعاً اس قسم کے ماحول میں انسان کو اپنی قوت حافظہ سے زیادہ کام لینا پڑتا تھا۔ جس کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ مشق اور مزاولت کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کے حافظے بہت ترقی کر گئے تھے لیکن موجود وہ زمانہ میں جبکہ لکھنے پڑھنے کا رواج بہت زیادہ ہوگیا ہے اور پھر پریس کی ایجاد نے بھی گویا کتب اوراخبارات کی اشاعت کا ایک دریا بہا دیا ہے اس لئے طبعاً لوگوں کو اپنے حافظہ سے اتنا کام لینا نہیں پڑتا جتنا پہلے زمانہ میں لینا پڑتا تھا۔ جس کا لازمی نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہورہا ہے کہ مشق کی کمی کی وجہ سے لوگوں کے حافظے کمزور ہوگئے ہیں اور موٹی موٹی باتیں بھی بہت جلد ذہن سے اتر جاتی ہیں۔ بے شک نسیان ایک فطری خاصہ ہے۔ اور یہ خاصہ ہر زمانہ میں موجود رہا ہے مگر پہلے زمانوں کے نسیان اور موجودہ زمانہ کے نسیان میں بہت بھاری فرق ہے یعنی اگر گزشتہ زمانوں کے لوگ سو میں سے دس باتیں بھولتے تھے تو اس زمانہ کے لوگ سو میں سے پچاس باتیں بھول جاتے ہیں ۔ والشاذ کالمعدوم
بہر حال یہ ایک بین حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ میں حافظہ کا وہ حال نہیں جو پہلے زمانوں میں تھا۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ موجودہ زمانہ میں روایات کے جمع کرنے میں خاص احتیاط سے کام لیں تاکہ کمزور اور غلط روایتیں ہمارے لٹریچر میں راہ پاکر ہماری تاریخ اور ہماری تعلیم اور ہماری تہذیب کو خراب نہ کردیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں روایتی علم کی اس قدر ضرورت نہیں جتنی کہ پہلے زمانوں میں تھی کیونکہ موجودہ زمانہ میں کتب اوراخبارات وغیرہ کی اشاعت کی وجہ سے تاریخ اور تعلیم کا بیشتر حصہ ساتھ ساتھ ضبط میں آتاجاتا ہے اور زبانی روایتوں کی چنداں حاجت نہیںر ہتی لیکن پھر بھی چونکہ بعض امور میں زبانی روایتیں مزید روشنی کا باعث ہو سکتی ہیں اور ہر بات اخبارات اور کتب وغیرہ کے ذریعہ ساتھ ساتھ ضبط میں آنی مشکل ہوتی ہے اس لئے اس حصہ کو بالکل نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا مگر ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ میں اس بات کی ازحد ضرورت ہے کہ روایتوں کے جمع کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جائے ۔
اس معاملہ میں میں خود صاحب تجربہ ہو ں کیونکہ سیرۃ المہدی کے لئے میں نے بھی ایک زمانہ میں بہت سی روایتوں کو جمع کیا تھا لیکن میرے اس تجربہ نے بھی مجھے اس تلخ حقیقت کا مزہ چکھایا ہے کہ باوجود کافی احتیاط کے کمزور روایتیں ہمارے مجموعوں میں رستہ پالیتی ہیں اور جب ایک دفعہ کوئی ایسی بات معرض اشاعت میں آجاتی ہے تو پھر بعد میں اس کا ازالہ سخت مشکل ہوجاتاہے۔ بے شک عقلمند اور شریف مزاج اور انصاف پسندلوگ زبانی روایتوں کی قدر وقیمت کو پہچانتے ہیں اور انہیں اس سے زیادہ وزن نہیں دیتے جو ان کا حق ہے اور ہر قوم کو اس کے مسلمہ اصولوں اور مستند تحریرں کے پیمانہ سے ناپتے ہیں اور محض کسی زبانی روایت پر جو مستند تحریروں کے خلاف ہو اپنی رائے یا فیصلہ کی بنیاد نہیں رکھتے مگر مشکل یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں زیادہ تر ایسے دشمن کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جو اپنی خوردہ گیری اور طعنہ زنی اور بے انصافی میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے اور صحیح اصولوں پر منصفانہ اور فیاضیانہ رنگ میں بحث کرنا نہیں جانتا اور اس کی اس پست ذہنیت کی وجہ سے ہم پر بھی لازماً بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ بہرحال ہمارا فرض ہے کہ احمدیت کے رستہ کو حتی الوسع اعتراضوں کی خاردار جھاڑیوں سے پاک وصاف رکھیں۔ یوں تو روایات کے معاملہ میں بہت سی احتیاطوں کی ضرورت ہے مگر جن امور کی طرف خاص توجہ دینے اور خصوصیت سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے وہ میرے خیال میں مختصر طور پر یہ ہیں۔
اول: جس راوی سے روایت لی جائے اس کے متعلق یہ پوری پوری تسلی کر لی جائے کہ ( الف) وہ حافظہ کا کچایا (ب) عقل کا کمزوریا (ج) ایمان کا ناقص یا (د) محجوب الاحوال تو نہیں تاکہ ان نقصوں کی وجہ سے ہماری روایات غلطیوں یا غلط فہمیوں کا شکار نہ بن جائیں ۔
دوم :کوئی ایسی روایت قبول نہ کی جائے جس کا مضمون کسی رنگ میں (الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی الہام یا(ج) سلسلہ کے کسی مستند ریکارڈ یا (د) عقل ودانش کے مسلمہ اور بدیہی اصولوں کے خلاف ہوا اور پھر وہ کسی اسلامی تعلیم کے بھی خلاف نہ ہو۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس معاملہ میں خاص احتیاط سے کام لے کر بیدار مغزی اور فرض شناسی کا ثبوت دیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی رضا اور صداقت کے رستہ پر قائم رکھے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳ اپریل ۱۹۴۱ئ)






مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ایک معزز غیراحمدی کی شہادت
کچھ عرصہ ہوا جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے مسلہ جنازہ غیر احمدیان کے متعلق ایک رسالہ ’’ ثالث بننے کی دعوت‘‘ لکھ کر شائع کیا تھا اور اس کے جواب کے لئے بڑی تحدی سے کام لیتے ہوئے ہر مبایع احمدی کو چیلنج دیا تھا کہ کوئی شخص میدان میں نکلے اور اس رسالہ کا جواب دے اور اس چیلنج کو بعد میں بھی اخبار ’’پیغام صلح‘‘ کے بہت سے نمبروں میں بڑی تحدی کے ساتھ دہرایا گیا۔ اس رسالہ کے جواب میں خاکسار نے ایک رسالہ ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ کے عنوان کے ماتحت لکھ کر شائع کیا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے میرے اس رسالہ میں مولوی صاحب کے سارے اعتراضوں کا جواب آگیا ہے۔ میرے اس رسالہ کاایک اقتباس جو ہمارے فوت شدہ بھائی مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ سے تعلق رکھتا ہے، الفضل کی اشاعت مورخہ ۱۷۔ اپریل ۱۹۴۱ء میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس اقتباس پر مجھے ایک دوست حبیب الرحمن صاحب بی۔اے اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والا ضلع ملتان کا ایک خط موصول ہوا ہے جو میں قارئین کرام کے فائدہ کے لئے اس جگہ درج کرتا ہوں اور میں اپنے غیر مبایعین ناظرین سے بھی استدعا کرتا ہوں کہ وہ اس غیر جانبدارانہ شہادت کو غور سے مطالعہ فرمائیں اور پھر انصاف کے ساتھ سوچیں کہ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے معاملہ میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا دعویٰ جو انہوں نے اس قدر ناواجب تحدی کے ساتھ کیا ہے، کیا حقیقت رکھتا ہے۔ حبیب الرحمن صاحب اپنے خط مورخہ ۱۷۔اپریل ۱۹۴۱ء میں لکھتے ہیں۔
بخدمت حضرت میاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
اخبارا لفضل مورخہ ۱۷۔اپریل میں جناب کے مضمون کا وہ حصہ دیکھا جو مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ہے اس کے متعلق میرے پاس بھی ایک شہادت ہے جو درج ذیل کرتا ہوں۔
سید ولایت شاہ صاحب شجاع آباد ضلع ملتان کے ایک معزز غیراحمدی بزرگ تھے ( وہ جون ۱۹۴۰ء میں فوت ہوچکے ہیں) انہوں نے متعدد بارمجھ سے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ومغفور کے واقعات بیان کئے۔ یہ صاحب حضرت مرزا صاحب مرحوم کے گہرے دوست بلکہ پروردہ تھے۔ حضرت مرزا صاحب نے شجاع آباد کے عرصہ قیام میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا تھا اور ان کی دنیوی ترقیات اور عزت کا باعث بھی حضرت مرزا صاحب مرحوم کی ذات والا صفات تھی۔
میں جون ۱۹۳۵ء سے اپریل ۱۹۳۹ء تک شجاع آباد میں اسسٹنٹ ڈسڑکٹ انسپکٹر آف سکولز رہا ہوں۔ سید صاحب مذکور میرے ہمسایہ تھے اور غیر احمدی تھے لیکن مسلک صلح کل تھا اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے احسانات کو بار بار یاد کرتے تھے ۔
باتوں باتوں میں ایک دفعہ انہوں نے مرزافضل احمد صاحب کی وفات کا بھی ذکر کیا لیکن سچ تویہ ہے کہ اس وقت مجھے تو بالکل یہ خیال ہی نہ تھا کہ مولوی محمد علی صاحب مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق اتنا بڑا طوفان کھڑا کریں گے یا کر چکے ہیں ورنہ میں ان سے ان کی شہادت لکھوا لیتا۔ اب بھی جو کچھ انہوں نے بیان کیا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں لیکن یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ ان کے اصلی الفاظ مجھے پوری طرح یاد نہیں البتہ مفہوم سارا ان کا ہے اورالفاظ میں شاید کچھ تغیروتبدل ہو۔ میں اس شہادت کو اداکرتے ہوئے مفہوم کے متعلق اﷲ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اس میں کوئی تغیرو تبدیل نہیں کیا۔
وہ شہادت یہ ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے ساتھ سید ولایت شاہ صاحب موصوف بھی قادیان میں تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ ساتھ گئے تھے یا پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے دفن کرنے اورجنازہ پڑھنے سے قبل حضرت مرزا غلام احمد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) نہایت کرب،واضطراب کے ساتھ باہر ٹہل رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو اس کی وفات سے حددرجہ تکلیف ہوئی ہے۔ اسی امر سے جُرأت پکڑ کر میں خود حضور کے پاس گیا اور عرض کیا کہ حضور وہ آپ کا لڑکا تھا بیشک اس نے حضور کو خوش نہیں کیا لیکن آخر آپ کا لڑکا تھا۔ آپ معاف فرمائیں اور اس کا جنازہ پڑھیں ( یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے انہیں حضرت کے حضور بھیجا ہو)اس پر حضرت صاحب نے فرمایا نہیں شاہ صاحب ۔وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں کیا تھا اس لئے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھتا ۔ آپ جائیں اور پڑھیں۔ شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس پر میں واپس آگیا اور جنازہ میں شریک ہوا۔پر میں اﷲ تعالیٰ کی دو بارہ قسم کھاکر کہتا ہوں کہ شاہ صاحب کی مندرجہ بالا گفتگو کا مفہوم میں نے صحیح طور پر ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے خط کشیدہ الفاظ بھی شاہ صاحب کے اپنے ہیں خصوصاً یہ فقرہ کہ
’’ اس نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں کیا تھا ‘‘
والسلام۔ خاکسار حبیب الرحمن بی ۔ اے اسسٹنٹ ڈسڑکٹ انسپکٹر آف سکولز کبیروالہ ضلع ملتان ۔
اس خط سے جو ایک معزز غیر احمدی کی چشم دید شہادت پر مشتمل ہے مندرجہ ذیل باتیں قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
اوّل
یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرزا فضل احمد صاحب کو اپنا مطیع اور فرمانبردار خیال فرماتے تھے اور آپ کو ان کی وفات پر سخت صدمہ ہوا مگر تاہم آپ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا۔
دوم
جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مرزا فضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدادادمنصب کو قبول نہ کر کے خدا کی ناراضگی کو اپنے سر پرلیا تھا اور اس کے سوا کوئی اور وجہ جنازہ سے احتراز کرنے کی نہیں تھی ۔
سوم
جیسا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے، جنازہ سے اجتناب کرنے کی یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ جنازہ غیراحمدیوں کے قبضہ میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے جنازہ میں شرکت کا موقع نہیں تھا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ خود جنازہ میں شریک ہونے والے غیراحمدی لوگ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو ہوکر درخواست کرتے تھے کہ حضور جنازہ میں شریک ہوں مگر پھر بھی بوجہ اس کے کہ مرزا فضل احمد صاحب احمدی نہیں تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جنازہ سے احتراز فرمایا۔
چہارم
جیسا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے یہ بات بھی ہر گز درست نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب کو ’’ عاق ‘‘ کردیا ہوا تھا کیونکہ جب آپ انہیں اپنا مطیع اور فرمانبردار سمجھتے تھے تو پھر عاق وغیرہ کا قصہ خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔
پنجم
مندرجہ بالا شہادت جو ایک بالکل غیر جانبدار شخص کی طرف سے ہے، اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے بارے میں جو شہادت ہماری طرف سے پیش کی گئی ہے وہی درست اور صحیح ہے اور اس کے متعلق جناب مولوی محمد علی صاحب کا شبہ پیدا کرنا یا اس کے مقابل پر کوئی اور ادعا کرنا ہر گز درست نہیں ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو مندرجہ بالاشہادت سے یقینی طور پر ثابت ہوتی ہیں اور ان باتوں کے ہوتے ہوئے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی خود سوچ سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں ان…… کی کیا قدروقیمت ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۴۱ئ)








مسئلہ جنازہ میں غیر مبایعین کا افسوس ناک رویہّ
مولوی محمد علی صاحب کا چیلنج
گزشتہ جلسہ سالانہ کے قریب جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے امیر غیرمبایعین نے مسئلہ جنازہ غیر احمدیان کے متعلق ایک پندرہ صفحہ کارسالہ موسومہ ’’ ثالث بننے کی دعوت‘‘ لکھ کر شائع کیا تھا اور اس رسالہ میں جماعت احمدیہ قادیان کو نہایت ناواجب تحدی کے رنگ میں چیلنج دیا تھا کہ کوئی شخص ثالث بن کر میدان میں آئے اور ہمارے سوالات کا جواب دے اور انتہائی جرأت سے کام لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ ہمیں کسی دلیل یا بحث وغیرہ کی ضرورت نہیں صرف بلا دلیل دوحرفہ فیصلہ کافی ہے وغیرہ وغیرہ۔
مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کا جواب
میں نے خدا کے فضل سے اس رسالہ کا جواب لکھا اور لوگوں کے فائدہ کے خیال سے دوحرفہ اور بلادلیل بیان کی بجائے ایک مفصّل اور مدلل مضمون تحریر کر کے ثابت کیا کہ
اوّل: جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں حوالہ جات کے پیش کرنے میں نہایت ناواجب تصرف سے کام لیاہے اور حوالوں کو صحیح صورت میں پیش کرنے کی بجائے اپنے مفید مطلب صورت میں کاٹ چھانٹ کر درج کیا ہے ( مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۵ تا ۲۰ صفحہ ۷۱ تا۷۶ وصفحہ ۱۸۷ تا ۱۹۵ وغیرہ )
دوم: مولوی صاحب موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے جویہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر احمدیوں کا جنازہ جائزہے وہ ہر گز ہرگز درست نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حوالوں کے بغور مطالعہ سے سوائے اس کے کوئی اور بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ کے نزدیک صرف مصدقین احمدیت کا جنازہ ہی جائز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا جانتے اور احمدیت کی صداقت کے قائل اور معترف ہیں اور یہ کہ کسی مکذّب یا منکراحمدیت کا جنازہ ہر گز جائز نہیں ( سارا رسالہ اور خلاصہ بحث کے لئے دیکھو صفحہ ۱۳۸ تا۱۴۲وغیرہ)
سوم:حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول ؓ کے زمانہ میں جماعت کے واقف کاراور مخلص اصحاب کا یہی خیال اور یہی عقیدہ تھا کہ حقیقتہً کسی غیر احمدی کا جنازہ جائز نہیں اور اسی کے مطابق جماعت کے مخلص اور واقف کار طبقہ کا عمل تھا (مثلاً دیکھو مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۹۹ تا ۱۰۷ وصفحہ ۱۲۳ تا ۱۲۷ وغیرہ )
چہارم ۔ خود غیرمبایعین اصحاب کا بھی اختلاف کے ابتدائی ایام تک یعنی ۱۹۱۴ء تک یہی خیال اور یہی عقیدہ تھا کہ غیر احمدیوں کا جنازہ جائز نہیں ( مثلاً دیکھو مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۲۰۴ تا ۲۰۸ )
پنجم: حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے جنازہ کے معاملہ میں ازروئے حقیقت وہی فتوئے دیاہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اولؒ نے دیا تھا اور اس مسئلہ میں آپ کا مسلک ہر گز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسلک کے خلاف نہیں (مثلاً دیکھورسالہ مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۱۷۵تا ۱۸۴)
یہ وہ پانچ باتیں ہیں جو میں نے اپنے رسالہ ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ میںقطعی اور یقینی طور پر ثابت کی تھیں اور خدا کے فضل سے میں نے ہر بات پوری پوری تشریح اور توضیح اور تفصیل کے ساتھ دلیلیں اور مثالیں دے دے کر بیان کی تھی اور اپنی طرف سے کوئی شک و شبہ کا کوئی رخنہ نہیں چھوڑا تھا اور مجھے امید تھی کہ کم از کم غیر مبایعین اصحاب کا ایک حصہ میرے جواب کو حق جوئی کی روح سے مطالعہ کرے گا اور اسے صداقت اور معقولیت پر مبنی قرار دے کر قدر کی نظر سے دیکھے گا اور کم از کم یہ کہ آیندہ اس معاملہ میں خاموشی اختیار کر کے بحث کو نا واجب طول نہیں دے گا۔
حیرت اور افسوس
مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے اس رسالہ کے جواب میں جس میں خدا کے فضل سے ہر بات نہایت مخلصانہ اور ہمدردانہ رنگ میں پیش کی گئی تھی اور نہ صرف جناب مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے بلکہ بعض دوسرے ذمہ دار غیر مبایعین کی طرف سے بھی ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے جو کسی طرح تقویٰ اور دیانت داری پر مبنی قرارنہیں دیا جاسکتا حتیٰ کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری طر ف یہ بات منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا کہ گویا میں نے مسئلہ جنازہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ کے مسلک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلک کے خلاف قرار دے کر جناب مولوی محمد علی صاحب کے مسلک کو درست اور صحیح تسلیم کر لیا ہے یعنی بالفاظ دیگرمیں نے یہ ۲۲۶ صفحہ کا رسالہ محض اسی غرض سے لکھا ہے کہ تا جناب مولوی محمد علی صاحب کے بیان کردہ عقیدہ کو درست قرار دے کر اس کی تائید میں دلائل مہیاکروں اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کے عقیدہ کے بطلان کو دنیا پر ظاہر کر کے مولوی صاحب اور اور ان کے ساتھیوں سے خراج تحسین حاصل کروں۔ اس جرأت اور دلیری پر میں سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتاہوں کہ
اناﷲ واناالیہ راجعون ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم
غیر مبایعین کی مذبوحی حرکت
اگر ہمارے غیر مبایعین اصحاب کی عقل و دانش کا حقیقتہً یہی فتویٰ ہے جو اوپر کے بیان میں ظاہر کیاگیاہے اور اگر ان کی امانت و دیانت انہیں فی الواقع اسی نتیجہ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں جو وہ میری طرف منسوب کر رہے ہیں تو غالباً یہ دنیا بھر میں فقدان عقل و خرداور حرمان دیانت و امانت کی ایک بدترین مثال ہوگی کہ ایک طرف تو ایک کتاب کی اشاعت پر انتہا درجہ چیں بچیں ہوکر اس کی تردید میں بے تحاشا ہاتھ پاؤں مارے جائیں اور دوسری طرف اس کتاب کے مضمون کو اپنی تائید میں قرار دے کر اسے برملا سراہا جائے۔ یہ وہ عجیب و غریب ذہنیت ہے جو جناب مولوی محمد علی صاحب اپنی پارٹی کے دل و دماغ میں پیدا کر رہے ہیں اور جس پر انہیں اس قدر ناز ہے کہ اپنے ہر مضمون کو تحدیوں اور چیلنجوں کے ساتھ آراستہ کرنے میں لذت پاتے اور اس طریق میںاپنی عزت اور دوسرں کی لذت کا نظارہ دیکھتے ہیں۔ بہر حال اس معاملہ میں غیر مبایع اصحاب کی مذبوحی حرکات اس قدر ظاہر وعیاں ہیں کہ ہر غیر متعصب شخص انہیں آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور مجھے اس موضوع پر کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
ناپاک کھیل میں حصہ لینے سے احتراز
لیکن میں یہ بات کہنے سے کسی طرح رُک نہیں سکتا کہ جو فریق امانت ودیانت کے رستہ سے منحرف ہوکر اور خدا کی رضاجوئی کے طریق کو چھوڑ کر ایک مقدس مذہبی مسئلہ کوگویا مرغ بازی کا اکھاڑہ بنانا چاہتاہے اور تقویٰ اور خدا ترسی کے اصولوں کو خیر بادکہہ کر بحث کو صرف تو تو میں میں کی خاطر جاری رکھنے کا متمنی ہے میں اس کے مقابلہ میں کھڑاہوکر کسی صورت میں اپنا وقت ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میرے اس طریق کو اگر دوسرا فریق میری کمزوری یا شکست سے تعبیر کرتا ہے تو بے شک کرے اور ہزار دفعہ کرے، مجھے اس کی پروا نہیں۔ مجھے دنیاکی نظر میں شکست خوردہ کہلانا منظور ہے اور لاکھ دفعہ منظور ہے مگر مجھے کسی صورت میں اس *** کے جوئے کے نیچے اپنی گردن رکھنا منظور نہیں کہ خدائے قدوس اور اس کے پاک فرشتے مجھے دین و مذہب کے مقدس میدان میں جس کے تقدس کو خدا کے ازلی تقدس سے حصہ ملا ہے ایک ناپاک کھیل میں مصروف دیکھیں ۔
اسی قسم کے خیالات اور احساسات کے ماتحت میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میرے رسالہ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت پرجو کچھ ــ ’’پیغام صلح ‘‘ کے کالموں میں لکھا جا رہا ہے یا خطبات وغیرہ میں بیان کیا جارہا ہے، میں اس پر خاموشی اختیار کروں گا کیونکہ علاوہ اس وجہ کے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو مضامین اور خطبات میرے علم میں آئے تھے ( اور میں خیال کر تا ہوں کہ غالباً اکثر حصہ میرے علم میں آگیا ہوگا۔گو قلیل حصہ ضرور ایسا بھی ہوگا جو میرے علم میں نہیں آیا) ان سے میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں کے ہاتھ میں تکرار کے دل خوشکن مشغلہ کے سوا اور کچھ نہیں اور محض ظاہری لفافہ بدل کر یا بعض صورتوں میں لفافہ بدلے بغیر ہی پہلی باتوں کو دہرایا جارہاہے۔ ان باتوں نے میرے دل پر سخت ناگوار اثرپیدا کیا اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ جب تک موجودہ صورت قائم ہے میں آیندہ اس بحث میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کروںگا کیونکہ جب میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم عقیدہ اصحاب کی ہر بات کا مدلّل اور مفصّل جواب دے دیا اور پوری پوری تشریح اور توضیح کے ساتھ ہر بات کی حقیقت اور ہر حقیقت کی دلیل بیان کردی تو پھر ایسے خصم کو جواب دینا جو ہمارے بیان کردہ حقائق اور پیش کردہ براہین کو دلائل اور شواہد کے ساتھ ردّ کرنے کے بغیر محض ’’ نہ مانوں‘‘ کے اصول کے ماتحت اپنی سابقہ بات کو دہرائے چلاجاتاہے، تضیح اوقات کے سوا کچھ نہیں اور کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدام کو جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ۹؎ تضیح اوقات کے مشغلہ سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
پیغام صلح کا اعتراض
بہر حال میرا ارادہ تھا کہ اب جب تک ہمارے مقابلہ پر کوئی حقیقتہً نئی بات پیش نہ کی جائے، میں اس کیچڑ اچھالنے والی جنگ سے کنارہ کش رہوں گا اور اسی خیال کے تحت میں نے آج تک عملاً خاموشی اختیار کی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ اول تو محض تکرار سے کام لیا جارہاہے دوسرے اس تکرار میں بھی تقویٰ سے کام نہیںلیا جا رہا لیکن حال ہی میں میرے نوٹس میں ’’ پیغام صلح ‘‘ کا پرچہ مورخہ ۳۰مئی۱۹۱۴ء لایاگیا ہے جس میں میرے رسالہ کے جواب میں ایک مضمون مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کے جنازہ کے متعلق درج کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ایڈ یٹر صاحب پیغام صلح ( کیونکہ غالباً یہ مضمون ایڈیٹر صاحب کا ہی ہے) مجھ پر یہ اعتراض فرماتے ہیں کہ تم نے رسالہ ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت‘‘ میں تو جناب مولوی محمد علی صاحب پر یہ جرح کی ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانبردارتھے اور آپ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور آپ کے فرمانے پر انہوں نے فوراً اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی وغیرہ وغیرہ مگر یہ کہ باوجود اس کے چونکہ وہ احمدی نہیں تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا لیکن اس کے مقابلہ پر اپنی تصنیف ’’ سیرۃالمہدی‘‘ میں تم نے یہ روایت بیان کی ہے کہ گو مرزا فضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطاًلبہ پر اپنی پہلی بیوی کو طلاق لکھ دی تھی اور اس کے بعد وہ جب کبھی باہر سے آتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی ٹھہرا کرتے تھے مگر بعد ازیں وہ پھر آہستہ آہستہ اپنی دوسری بیوی کے پھسلانے سے دوسروں کے ساتھ جاملے۔ گویا ایڈیٹرصاحب ’’ پیغام صلح‘‘ اس خاکسار پر یہ اعتراض فرماتے ہیں کہ جو جرح میں نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں جناب مولوی محمد علی صاحب پر کی ہے وہ درست نہیں کیونکہ بہرحال ’’سیرۃالمہدی‘‘ کی روایت کے مطابق مرزا فضل احمد صاحب اپنی وفات سے قبل مخالف رشتہ داروں کے ساتھ جاملے تھے اور جب وہ غیروں کے ساتھ جاملے تھے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے جنازہ سے احتراز فرمانا ان کے اس مخالفانہ رویہ کی وجہ سے سمجھا جائے گا نہ کہ محض غیر احمدی ہونے کی وجہ سے۔
’’سیرۃ المہدی‘‘ کی روایت پیش نظر تھی
یہ وہ اعتراض ہے جو ’’ پیغام صلح ‘‘ مؤرخہ ۳۰ مئی ۱۹۱۴ء میں میرے خلاف کیا گیا ہے اور ایڈیٹر صاحب ’’ پیغام صلح ‘‘ مجھ سے اس اعتراض کے جواب کا مطالبہ فرماتے ہیں۔ چونکہ یہ اعتراض ایک طرح سے نیا رنگ رکھتا ہے اور نا واقف لوگوں کو اس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے اس لئے میں ضروری خیال کرتاہوں کہ مختصر طور پر اس کا جواب عرض کروں۔ سب سے پہلے تو میں یہ بات کہنا چاہتاہوںکہ اگر ایڈیٹر صاحب ’’ پیغام صلح ‘‘ کا یہ خیال ہے جیسا کہ ان کے مضمون کے بین السطور سے واضح ہے کہ گویا رسالہ ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ کی تصنیف کے وقت مجھے ’’ سیرۃ المہدی ‘‘ کی محولہ بالا روایت یاد نہیں تھی اور اس طرح میں بظاہر دو متضاد باتیں لکھ گیا تو یہ خیال ہر گز درست نہیں ہے کیونکہ حق یہ ہے
واﷲ علٰی مااقول شھیدکہ ’’سیرۃ المہدی ‘‘ کی جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ رسالہ ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ کی تصنیف کے وقت مجھے بھولی ہوئی نہیں تھی بلکہ میرے ذہن میں مستحضرتھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے جس پر میں حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں نے رسالہ ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت‘‘ کی تصنیف کے وقت جبکہ میں مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث لکھ رہا تھا اس روایت کو نکال کر دیکھا بھی تھا مگر چونکہ میرے خیال میں اس کی وجہ سے حقیقتہً جنازہ کی بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اس لئے میں نے اسے قابل اعتناء خیال نہیں کیا اور یہ خیال کر کے خاموش ہورہا کہ اگر کسی نے اس سوال کو ایسے رنگ میں اٹھایا جو ناواقف لوگوں کی غلط فہمی کا باعث ہوا تو پھر اس کی تشریح کر دی جائے گی۔ پس ایڈیٹر صاحب ’’پیغام‘‘ اور ان کے ساتھیوں کی اس جھوٹی خوشی کا تو جو ان کے مضمون کے بین السطور سے ظاہر ہے اسی قدر جواب کافی ہے جو میں نے اس جگہ حلفاًعرض کر دیا ہے ۔
ولیس وراء اﷲ للمرٔ مذھب
مرزا فضل احمد صاحب کے متعلق مولوی محمد علی
صاحب سے حلفیہ بیان کا مطالبہ
باقی رہا اصل معاملہ سومجھے افسوس ہے کہ مضمون نگار صاحب نے اس معاملہ میں دانستہ یا نادانستہ غلط بحث کر کے پبلک کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ بات یہ ہے جیسا کہ میں ابھی تشریح کروںگا ایڈیٹر صاحب ’’پیغام صلح‘‘ نے اس معاملہ میں یا تو بالکل غور ہی نہیں کیا اور محض سطح الخیالی سے کام لیتے ہوئے یونہی بلا سوچے سمجھے ایک بات کہہ دی ہے اور یا انہوں نے ایک ظاہر میں نظر آنے والے تضاد کو آڑ بنا کر ناواقف لوگوں کو دانستہ مغالطہ میں ڈالنا چاہا ہے۔ حقیقت یہ ہے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ میں تفصیل اور تشریح کے ساتھ لکھا ہے، وہ بات جس کا حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے اپنے اشتہار مؤرخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء میں مرزا فضل احمد صاحب سے معین صورت میں مطالبہ کیا تھا اور اس مخصوص مطالبہ کے پورا ہونے یا نہ ہونے پر ان کے عاق ہونے یا نہ ہونے کے سوال کو منحصرقرار دیاتھا وہ صرف یہ تھی کہ تم اپنی بیوی مسماۃ عزت بی بی بنت مرزاعلی شیر کو جو بے،دینی کے رستہ پر چل کر محمدی بیگم کے نکاح کے فتنہ میں مخالفانہ حصہ لے رہی تھی طلاق دے دو اور اگر تم نے اسے طلاق نہ دی تو تم عاق ہوگے اور جیسا کہ ہم قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ مرزا فضل احمد صاحب مرحوم نے اس مطالبہ کو بِلا توقف پورا کردیا تھا اور بِلا شرط طلاق نامہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوادیا۔ اس کے سوا مرزافضل احمد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کا کوئی معین اور مخصوص مطالبہ نہیں تھا جو اشتہار مذکور میں کیا گیا ہو۔ اسی لئے میں نے اپنے رسالہ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب کے متعلق جو شرط عاق ہونے سے بچنے کے لئے لگائی تھی اور اس شرط کو ’’ اگر‘‘ کے صاف اور غیر مشکوک لفظ کے ساتھ مشروط کیا تھا، وہ مرزا فضل احمد صاحب نے بلا توقف پوری کر دی تھی اور اس طرح وہ عاق ہونے سے بچ گئے تھے اور میرا جناب مولوی محمد علی صاحب پر یہ اعتراض تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عاق ہونے کے معاملہ کو اپنے اشتہار مؤرخہ ۲مئی ۱۸۹۱ء میں ’’اگر‘‘ کے لفظ کے ساتھ مشروط کیا تھا اور صراحتہً لکھا تھا کہ اگر مرزا فضل احمد صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق نہ دی تو وہ عاق ہوں گے تو مولوی محمد علی صاحب کا اپنے رسالہ میں اشتہار مذکور کے حوالہ کے ساتھ ’’اگر‘‘ کی صریح اور واضح شرط کے ذکر کو ترک کرکے یہ لکھنا کہ مرزا فضل احمد صاحب فی۔الواقعہ اس اشتہار کے ماتحت عاق ہوگئے تھے ایک صریح مغالطہ دہی کا فعل ہے جس کی کسی دیانتدار آدمی سے توقع نہیں کی جاسکتی اور میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنی تحریر کو دیانت داری پر مبنی قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اس معاملہ میں فی الواقعہ کوئی ناجائز تصرف نہیں کیا تو پھر وہ مردمیدان بن کر اس کا اعلان فرمائیں کہ اشتہار مذکور کی عبارت ’’اگر‘‘ کے لفظ کے ساتھ مشروط نہیں تھی بلکہ بلا شرط تھی اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب واقعی اس اشتہار کے ماتحت عاق ہوگئے تھے۔ چنانچہ میرے الفاظ جو میں نے رسالہ ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ میں لکھے تھے یہ ہیں ۔
’’ میں تحدیوں اور چیلنجوں کا عادی نہیں مگرمیرے دل میں یہ خواہش پیداہوتی ہے کہ میں جناب مولوی محمد علی صاحب سے یہ عرض کروں کہ اگر وہ اشتہار ۲مئی ۱۸۹۱ء کو اور اپنے رسالہ ’’ ثالث بننے کی دعوت‘‘ کے صفحات ۱۰و۱۱ کو اور میری اس تشریح کو جو اوپر گزری ہے معہ ان حوالہ جات کے جن کا میرے اس نوٹ میں ذکرہے دوبارہ مطالعہ فرماکر یہ حلفیہ بیان شائع فرمادیں کہ میں نے ان تینوں تحریروں کو معہ متعلقہ حوالہ جات کے دوبارہ غور سے دیکھ لیا ہے اور پھر بھی میری کامل دیانت داری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ جو کچھ میں نے رسالہ’’ثالث بننے کی دعوت‘‘ میں مرزا فضل احمد صاحب کے بارے میں لکھا ہے اور وہ پوری طرح درست اور بالکل صحیح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر مندرجہ اشتہار ۲مئی ۱۸۹۱ء بلا شرط تھی اور ’’اگر‘‘ کے لفظ کے ساتھ مشروط نہیں تھی اور مرزا فضل احمد صاحب واقعی عاق ہوگئے تھے اور جن لوگوں کے تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیوثی قراردیاہے ان میں مرزا فضل احمد صاحب بھی شامل ہیں تو میں محض مولوی صاحب موصوف کے حلفیہ بیان پر جومندرجہ بالا الفاظ میں بلا کمی وبیشی شائع کیا جانا ضروری ہوگا۔ انہیں بلا حیل وحجت یکصد روپیہ بطورانعام پیش کر دوں گا آیندہ کے لئے اور اس معاملہ میں جناب مولوی صاحب کے اس بیان کو دیانتداری پر مبنی قراردے کر بحوالہ خدا کر دوں گا۔ واللّٰہ علٰی مااقول شھید‘‘۱۰؎
خلافِ دیانت فعل
یہ وہ معین مطالبہ تھا جو میں نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں جناب مولوی محمد علی صاحب سے کیا تھا۔ اس کے جواب میں اہل پیغام کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار مؤرخہ ۲مئی ۱۸۹۱ء کے ذکر کو ترک کر کے حالانکہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اسی پر اپنے بیان کی بنیاد رکھی تھی اور لازماً وہی میری جوابی جرح کی بنیاد تھا۔ سیرت المہدی کی ایک روایت کا سہارا ڈھونڈنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے شائع کردہ اشتہار کے ذکر کو یوں ترک کر جانا کہ گویا اس کا اس بحث سے کوئی تعلق ہی نہیں، ایک ایسا خلاف دیانت فعل ہے جس کی مثال غالباً مذہبی مناظرات کے میدان میں بہت کم ملتی ہوگی۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اشتہار مؤرخہ ۲مئی ۱۸۹۱ء کا حوالہ دے کر وہ اس کی عبارت کا ایک حصہ درج کر کے ایک بحث اٹھاتے ہیں اور بڑی گرمی کے ساتھ ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس اشتہار کے ماتحت مرزا فضل احمد صاحب کو عاق کر دیا ہوا تھا اور ان کے تعلق کو دیوثی قرار دیا تھا تو پھر آپ ان کا جنازہ کس طرح پڑھ سکتے تھے یعنی بالفاظ دیگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ سے اس لئے احتراز نہیں فرمایاتھا کہ وہ غیر احمدی تھے بلکہ اس لئے احتراز کیا تھا کہ وہ عاق شدہ تھے اور ان سے تعلق رکھنا دیوثی کا فعل تھا اور یہ سارا استدلال جناب مولوی محمدعلی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار ۲مئی ۱۸۹۱ء کی بناء پر اور اس کی عبارت نقل کر کے کیا تھا لیکن اب جب مولوی صاحب پر یہ جرح ہوئی کہ اشتہار مذکور کی عبارت غیرمشروط نہیں تھی بلکہ ’’اگر‘‘ کے لفظ کے ساتھ مشروط تھی اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مطالبہ پورا کر کے اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچالیا تھا تو کمال سادگی کے ساتھ اشتہار کے ذکر کو جو اس بحث میں اصل بنیاد تھا ترک کر کے اور اپنی خیانت پر پردہ ڈال کر بحث کے میدان کو سیرۃالمہدی کی ایک روایت کی طرف کھینچا جا رہا ہے۔ ہمیں غیرمبایعین کی نقل و حرکت پر تو کوئی اختیار نہیں وہ اپنے لئے جو حرکت بھی پسند کریں اختیار کر سکتے ہیں مگر ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ان کی طرف سے یہ فعل گویا بالفاظ دیگر خود اپنے مونہہ سے اس اقرار کرنے کے مترادف ہے کہ ہم نے اشتہار مذکور کی بنیاد پر جو کچھ لکھاتھا اور جو دعویٰ اس قدر تحدی اور تفاخر کے ساتھ کیا تھا وہ واقعی خیانت اور بدیانتی پر مبنی تھا اور یہ کہ اشتہار مذکور کے ماتحت مرزا فضل احمد صاحب حقیقتہً عاق نہیں ہوئے تھے ۔
انعامی مطالبہ اب بھی قائم ہے
بہر حال جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار مؤرخہ ۲مئی ۱۸۹۱ء کی بناء پر ایک سوال اٹھایا اور میں نے اس سوال پر ایک جرح کی اور یہ ثابت کیا کہ مولوی صاحب موصوف نے اشتہار مذکور کی عبارت کو خطرناک تصرف کے ساتھ کاٹ چھانٹ کر پیش کیا ہے اور ایک مشروط کلام کو غیرمشروط صورت میں پیش کرکے خلق خدا کو دھوکا دینا چاہاہے اور میں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر مولوی صاحب نے اشتہار مذکور کے تعلق میں ناجائز تصرف سے کام نہیں لیا اور اس اشتہار کی بناء پر مرزا فضل احمد صاحب کے بارے میں صحیح اور درست استدلال کیا ہے تو میں مولوی صاحب کے حلفیہ بیان پر ان کی خدمت میں ایک سو روپیہ انعام پیش کردوں گا۔ میرا یہ مطالبہ جس کے ساتھ یہ ایک غریبانہ انعام بھی شامل ہے اب بھی قائم ہے۔ پس اگر مولوی صاحب یا ان کے ساتھیوں میں ہمت ہے اور ان کا سابقہ بیان تقویٰ اور امانت پر مبنی تھا توابھی وقت نہیں گیا، وہ حق وصداقت کی خاطر میدان میں آئیں اور میرے مطالبہ کے مطابق قسم کھا جائیں اور انعام وصول کرلیں مگر مجھے یقین ہے وہ کبھی اس میدان میں نکلنے کی جرات نہیں کریں گے کیونکہ ان کا دل محسوس کرتا ہے کہ وہ اس بحث میں ایک خلاف دیانت فعل کے مرتکب ہوچکے ہیں اور ایک خلاف دیانت فعل کا مرتکب انسان کبھی اس جرأت کا مالک نہیں ہوتا جو خدا کی طرف سے ایک امین اور متقی انسان کو ملتی ہے
قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔۱۱؎
سیرت المہدی کی روایت کی حقیقت
باقی رہا سیرت المہدی کی روایت کا معاملہ سو اصولی طور پر تو اس کا یہی جواب کافی ہے کہ اشتہار مذکور کی عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی لکھی ہوئی عبارت ہے اور سیرت المہدی کی روایت بہرحال ایک زبانی روایت ہے جو واقعہ کے سالہا سال بعد انسانی حافظہ کے خطرات کے تھپیڑے کھاتی ہوئی معرض تحریر میں آئی ہے اور ہر عقل مند انسان کے نزدیک ان دونوں کے وزن اور قدروقیمت میں بہت بھاری فرق ہے۔ پس اگر بالفرض سیرت المہدی کی روایت اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار کے مضمون میں کوئی فرق ہے تو ہر عقل مند اور غیر متعصب انسان کے نزدیک اس فرق کی تشریح سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ اشتہار کا مضمون درست ہے اور روایت میں غلطی لگ گئی ہے لیکن یہ سب کچھ میں نے ’’ بالفرض‘‘ کے لفظ کے ساتھ صرف اصولی تشریح کے رنگ میں عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب ’’پیغام صلح‘‘ نے سیرت المہدی کی روایت کے پیش کرنے میں بھی دیانتداری سے کام نہیں لیا اور ان لوگوں کا پس خوردہ کھا یا ہے جو دین ومذہب کو کھیل بناتے ہوئے قرآن شریف سے صرف لَاتَقْرَبُواالصَّلٰوۃَ۱۲؎ کے الفاظ علیحدہ کر کے پیش کر دیا کرتے ہیں کیونکہ خود سیرۃ المہدی ہی کی دوسری روایتوں میں صاف مذکور ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب عاق نہیں ہوئے تھے اور مرزا فضل احمد صاحب کی وفات پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں اپنا وارث اور محبت کرنے والا بیٹا خیال فرماتے تھے۔ چنانچہ سیرت المہدی حصہ اول کی روایت نمبر ۴۱ صفحہ ۳۴ میں یہ الفاظ آتے ہیں :-
’’والدہ صاحبہ ( یعنی حضرت ام ا لمومنین) فرماتی ہیں کہ فضل احمد نے اس وقت (یعنی جب محمدی بیگم والاواقعہ پیش آیاتھا اور حضرت مسیح موعود نے فضل احمد سے ایک مطالبہ فرمایا تھا ) اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچالیا ‘‘
اور روایت نمبر ۲۵ صفحہ ۲۲میں یہ الفاظ
.6ّّ ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرزا فضل احمد فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری اولادکے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمد ہی تھا سو وہ بے چارہ بھی گزر گیا‘‘
یعنی بالفاظ دیگر وہ عاق نہیں ہوا تھا بلکہ اگر زندہ رہتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وارث بنتا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مرزا فضل احمد صاحب کی محبت کا ذکر روایت نمبر ۳۶ صفحہ ۲۸ میں درج ہے اور اس روایت میں حضرت والدہ صاحبہ یہ بیان کر کے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دوران سر کا سخت دورہ پڑ ا تھا مرزا فضل احمد صاحب کے متعلق بیان فرماتی ہیں کہ :-
’’اس وقت مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جا تا تھا اور وہ کبھی ادھر بھاگتاتھا اور کبھی اُدھر کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے ‘‘
اور مرزا فضل احمد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبات اور تاثرات روایت نمبر ۳۷ میں صفحہ ۲۹ پر ان الفاظ میں بیان ہوئے ہیں اور یہ وہی روایت ہے جس کے ایک حصہ کو ایڈیٹر صاحب ’’پیغام صلح ‘‘ نے اس بحث میں پیش کیا ہے۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا۔ حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اٹھاتا تھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کر تے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے ادھر جاملا ہے نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تو اس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے۔‘‘
کیا یہی تقویٰ و طہارت ہے
یہ وہ حقائق ہیں جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی آنکھوں کے سامنے تھے اور جس جگہ سے انہوں نے سیرت المہدی کی عبارت نقل کی ہے اسی کے آگے پیچھے یہ سب الفاظ درج ہیں مگر تعصب کا ستیاناس ہو ان جملہ حقائق کی طرف آنکھیں بند کر کے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے لکھے ہوئے اشتہار کو پس پردہ ڈال کرہاں وہی اشتہار جسے خود مولوی محمد علی صاحب نے اپنی طرف سے پیش کر کے اس پر اپنے چیلنج کی بنیادرکھی تھی سیرۃ المہدی کے چند فقروں کو لاَتَقْرَبُوْاالصَّلٰوۃکی طرح دوسری روایتوں سے کاٹ کر پیش کر دیا گیا ہے۔ کیا یہی اس تقویٰ اور طہارت کا نمونہ ہے جس پر ہمارے غیر مبایع دوست اپنی کامیابی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
روایت پیش کردہ سے کیا ثابت ہوتا ہے
اور پھر جس عبارت کو پیش کر کے اپنی ذلت اور شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی سوائے اس کے کچھ ثابت نہیں کر تی کہ جب مرزافضل احمد صاحب نے محمدی بیگم کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اپنے تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے حضرت صاحب کے پاس ہی ٹھہرنے لگ گئے تھے اوردوسروں کے ساتھ ملنا جلنا بالکل بند کر دیا تھا لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس سختی کے رویہ کو ترک کرکے پھر دوسرے رشتہ داروں سے ملنا جلنا اور ان کے پاس ٹھہرنا شروع کر دیا۔ گویا طلاق والے اصل امر کے علاوہ وہ زائد پابندی جو مرزا فضل صاحب نے اپنے اوپر عائد کرلی تھی اس میں وہ آہستہ آہستہ ڈھیلے ہوگئے۔ یہ وہ مفہوم ہے جو سیرۃالمہدی کی پیش کردہ روایت سے نکلتا ہے۔ اب ہمارے غیر مبایع اصحاب خدارا سوچیںکہ اس مفہوم کو امرزیربحث سے کیا تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ جیسا کہ اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء سے تفصیلاً اور صراحتہً اور سیرۃالمہدی کے بیان سے مجملاً ثابت ہوتا ہے وہ معین مطالبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب سے کیا تھا اور اور جس پر ان کے عاق ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار تھاوہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں اور یہ ایک مسلّم حقیقت ہے مرزا فضل احمد صاحب نے اس مطالبہ کو فوراً بلا توقف پورا کر دیا اور عاق ہونے سے بچ گئے۔ اب جب یہ تین باتیں اشتہار مؤرخہ ۲مئی ۱۸۹۱ء اور روایات سیرۃالمہدی ہر دو سے یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہیں یعنی
اوّل: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ ۔
دوم: مرزا فضل احمد صاحب کی طرف سے اس مطالبہ کا فوراً پوراکر دیا جانا اور
سوم: اس مطالبہ کی تعمیل کے نتیجہ میں مرزا فضل احمد صاحب کا عاق ہونے سے بچ جانا۔ تو پھر ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی طرح ادھر اُدھر کی باتوں پر ہاتھ مارکر سہارا ڈھونڈنا ڈوبنے والے شخص کو ڈوبنے سے تو ہر گز نہیں بچاسکتا البتہ اسے غرقابی کی ہلاکت کے علاوہ دنیا کی ہنسی کا نشانہ ضرور بنا دیتا ہے۔ مرزافضل احمد صاحب نے اگر اپنی محبت اور وفاداری کے جوش میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ٹھہرنا شروع کردیا اور دوسروں سے گویا بالکل ہی قطع تعلق کر کے الگ ہوگئے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ پھر دوسروں سے میل ملاپ شروع کر دیا تو خدارا ہمیں بتایا جائے کہ اس کا طلاق والے واقعہ اور عاق والے معاملہ پر جو اس بحث میںاصل بنیادی چیزہیں،میں کیا اثر پڑا جب یہ دو حقیقتیں پھر بھی قائم رہیں تو بہرحال ہمارا دعویٰ ثابت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اس حوالہ کے پیش کر نے میں ناجائز تصرف کا رنگ اختیار کیا ہے اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب ہر گز عاق شدہ نہیں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے غیر احمدی ہونے کے سوا اور کوئی شکایت نہیں تھی ۔
ایک معزز غیر احمدی کی شہادت
چنانچہ یہ حقیقت ایک معزز غیر احمدی سیدولایت شاہ صاحب ساکن شجاع آباد ضلع ملتان کی شہادت سے بھی ثابت ہے جو الفضل مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ۳ پر شائع ہوچکی ہے اور اس کی صداقت پر ایک معزز احمدی نے حلفی شہادت دی ہے۔ چنانچہ ملک حبیب الرحمن صاحب بی۔اے اسسٹنٹ ڈسڑکٹ انسپکٹرآف سکولز کبیروالا ضلع ملتان حلفاً فرماتے ہیں کہ سید ولایت شاہ صاحب نے جو اپنے علاقہ میں معزز تھے اور سادات سے تھے، ان سے بیان کیا کہ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے وقت میں بھی قادیان میں موجودتھا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنازہ میں شریک نہ ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بمنّت عرض کی کہ بیشک مرزافضل احمد صاحب نے آپ کو خوش نہیں کیا لیکن آخر وہ آپ کا بیٹا تھا اور یہ وقت ایسا ہے کہ آپ انہیں معاف کردیں اور ان کے جنازہ میں شریک ہوجائیں تو حضرت مسیح موعودنے فرمایاکہ: -
’’نہیں شاہ صاحب! وہ میرا فرمانبردار تھا۔ اس نے مجھے کبھی ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں کیا تھا اس لئے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھ سکتا‘‘
( یعنی گو فضل احمد نے مجھے ذاتی طور پر کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا اور ہمیشہ مؤدب اور فرمانبردار رہا مگر چونکہ اس نے میرے خدا دادمنصب کو قبول نہ کر کے خدا کو ناراض کیا تھا اس لئے میں اس کے جنازہ میں شریک نہیں ہوسکتا)
ان زبردست حقائق کے ہوتے ہوئے ہمارے روٹھے ہوئے دوستوں کا تنکوں پر ہاتھ مارکر اپنی فتح کانقارہ بجانا کسی عقل مند کے نزدیک ایک بگڑے ہوئے دماغ کے مظاہرہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور حق یہی ہے اوریہی رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزافضل احمد صاحب کے جنازہ سے احتراز کیا تو صرف اس وجہ سے کیا کہ وہ آپ کے خدا دادمنصب کا مصدق نہیں تھا اور اس کے سوا ور کچھ نہیں۔
ایک اور بات
اسی ضمن میں میں ایک اوربات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے جناب مولوی محمد علی صاحب اپنے رسالہ ’’ ثالث بننے کی دعوت‘‘ میں اور ایڈیٹر صاحب ’’پیغام صلح ‘‘ نے اپنے مضمون زیر نظر میں اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ سے اس لئے احتراز کیا تھا کہ ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے رشتہ،داروں کے ساتھ تھا جو مخالف اور معاند تھے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے جنازہ سے احتراز کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ وہ احمدی نہیں تھے بلکہ اس وجہ سے تھا کہ سلسلہ کے مخالفین کے ساتھ ان کا میل جول تھا۔ اس بات پر مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے غیر مبایعین نے اس قدر زور دیا ہے کہ گویا مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں یہی ان کے دلائل کا مرکزی نقطہ ہے مگر مجھے تعجب آتا ہے کہ ہمارے یہ بھٹکے ہوئے دوست اپنے بے جاجوش وخروش میں حق وصداقت کی طرف سے کس طرح آنکھیں بندکر لیتے ہیں اور ایسی باتیں کہنے لگ جاتے ہیں جو اگر غورکیا جائے تو حقیقتہً خود انہیں کے خلاف پڑتی ہیں مثلاً اسی بات کو لے لو جو اس بحث میں غیر مبایع اصحاب پیش کر رہے ہیں۔ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ سے احتراز کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ گو خود فرمانبردار اور مؤدب تھے مگر سلسلہ کے مخالفوں کے ساتھ ان کا میل جول تھا تو اس سے سوائے اس کے کیا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور تکذیب ایسی چیز ہے کہ نہ صرف خود مخالفت کرنے والا انسان خدا کی رحمت اور مومنوں کی دعاؤں سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا انسان بھی خدائی دربار سے دھتکارا جاتا ہے اور مومنوں کی دعاؤں سے حصہ نہیں پاسکتا۔ خوب غور کرو کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے استدلال کا قدرتی اور طبعی نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت ایسی *** ہے کہ وہ نہ صرف مخالفت کرنے والوں کو بلکہ ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی تباہ و برباد کر کے چھوڑتی ہے گویا یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہے۔ بہرحال ہر عقلمند انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ مولوی صاحب کے استدلال کا نتیجہ ہمارے حق میں ہے نہ کہ ہمارے خلاف۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خداکی نظرمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار اور آپ کے خدا دادمنصب کی مخالفت ایسی خطرناک چیز ہے کہ نہ صرف مخالفت کرنے والا انسان بلکہ مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ملنے جلنے والا انسان بھی خدائی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے خواہ وہ خود بظاہر مخالفت وغیرہ کے طریق سے کتنا ہی دور اور کنارہ کش رہے۔ یہ وہ منطقی نتیجہ ہے جو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے استدلال سے پیدا ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ لوگ اتنی موٹی سی بات کے سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ جو بات وہ اپنے مُنہ سے کہہ رہے ہیں وہ ان کے موافق پڑتی ہے یاکہ مخالف اور کمال جرأت کے ساتھ ایسی بات پیش کرتے چلے جاتے ہیں جو خود انہی کو کاٹتی ہے۔ یہ سب کچھ میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوںکے ادعا کو مدنظر رکھ کر اصولی طور پر لکھا ہے ورنہ میرے نزدیک حق وہی ہے جو میں نے اپنے رسالہ ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت‘‘ اور اس مضمون کے اوپر کے حصہ میں بوضاحت عرض کرچکا ہوں۔ واﷲاعلم
غیرمبایعین سے مخلصانہ عرض
بالآخر میں پھر بڑے ادب کے ساتھ غیر مبایعین اصحاب کی خدمت میں عرض کروں گا کہ وہ خدا کے لئے اس معاملہ میں سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور یونہی تعصب کا شکار ہوکر خلاف تقویٰ رستہ پر قدم زن نہ ہوں۔ مومن کا ہر کام تقویٰ پر مبنی ہونا چاہئیے کیونکہ تقویٰ ہی سب انسانی اعمال کی روح ہے جس کے بغیر کوئی زندگی نہیں۔ دنیا میں مرغ بازوں کے سے جنگ اور ان جنگوں کے دیکھنے والے بہت ہیں مگر ہم خدائے پاک کی جماعت اور مسیح محمدی کے نام لیوا ہوکر دین و مذہب کے مقدس میدان میں کیچڑ اچھالتے ہوئے اور کیچڑ اچھالنے والوں کو سراہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ پس میری یہ آخری عرض ہے کہ اگر دیانتداری کے ساتھ اختلاف رکھتے ہو اور نیت بخیر ہے تو تقویٰ کو مدنظر رکھ کر میدان میں آؤ اور شوق سے آؤ اور ہر بحث کی عمارت کو انصاف اور حق جوئی کی بنیاد پر قائم کرد۔ ورنہ خدا کے لئے خاموش ہوجائو اور اپنی عاقبت کو اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کرو ۔ ورنہ آپ لوگوں کی مرضی ۔
وما علینا الا البلاغ واٰخردعواناان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲ جولائی ۱۹۴۱ئ)





عورت یعنی ٹیڑھی پسلی کی عجیب و غریب پیداوار
مختصر کلام میں وسیع معانی
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو امع الکلم عطا کئے گئے ہیں۱۳؎ یعنی مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے وہ طاقت اوروہ حکمت عطا فرمائی ہے کہ میرا کلام باوجود مختصر ہونے کے وسیع ترین معانی کاحامل ہوتا ہے اور میرے مونہہ سے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے کلمات بھی بڑے بڑے علوم کا خزانہ ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ ایک خالی دعویٰ نہیں ہے جو مونہہ سے نکل کر ہوا میں پہنچتا اور ختم ہوجاتا ہے بلکہ ہر شخص جو آپ کی زندگی اور آپ کے کلام کا مطالعہ کرے گا وہ اس دعویٰ کی صداقت کو اپنے دل کی گہرائیوں میں یوں اترتے دیکھے گا۔ جس طرح کہ ایک مضبوط فولادی میخ ایک لکڑی کے تختہ کے اند داخل ہوکر اس کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیوست ہوجاتی ہے۔ خاکسار راقم الحروف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح کا کسی قدر مطالعہ کیا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتوں پر نظر ڈالی ہے تو خواہ آپ نے کوئی بات کیسی ہی سادگی اور کیسی ہی بے ساختگی کے ساتھ فرمائی ہوئی میں نے اس پر نظر ڈالتے ہی اسے علم کا ایک ایسا عظیم الشان سمندر پایا ہے جو اپنی حدود کی وسعت اور اپنے تموج کی رفعت میں یقیناً دنیا کے پردے پر اپنی نظیر نہیں رکھتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول صنف نازک کے متعلق
اس وقت میں نہایت اختصار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کا ذکر کرتا ہوں جو آپ نے بنی نوع انسان کی صنف نازک یعنی عورت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں مختصر طور پر آپ کی بعض دوسری حدیثوں پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کے اس سلوک کا بھی ذکرکروں گا جو آپ نے جذباتی رنگ میں اس صنف لطیف کے ساتھ فرمایا۔ عورت کی فطرت کا نقشہ کھینچتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
’’وَاسْتَوْ صُوا بِالنَّسائِ خَیْرًا، فَاِنَّھُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَاِنَّ اَعْوَجَ شَئیٍ فِی الضَّلَعِ أَعلَاہٗ، فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہُ کَسَرْتَہُ ،وَ ان تَرَ کْتُہُ لَمْ یَزَ لْ أَعْوَجَ ،فَاسْتَوْصُوابِالنِّسَائِ خَیْرًا۔۱۴؎
یعنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو کیونکہ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں ۔ یعنی ان کی فطرت میں کسی قدر ٹیڑھاپن رکھا گیا ہے اور ایک ٹیڑھی چیز کا سب سے اونچا حصہ وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ ٹیڑھاہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر تم اس کے اس ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے کے درپے رہو گے تو چونکہ یہ کجی عورت کی فطرت کا حصہ ہے، تم اسے سیدھا تو نہیں کر سکو گے البتہ اسے توڑ کر ضرور رکھ دو گے۔ اور اگر تم اسے بالکل ہی اس کی حالت پر چھوڑدو گے تو ظاہر ہے کہ وہ ہر حال میں ٹیڑھی ہی رہے گی۔ ان حالات میں میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ عورتوں کے اس ٹیڑھے پن کی قدر و قیمت کو سمجھو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرواور اگر ان کا ٹیڑھا پن حداعتدال سے بڑھنے لگے تو اس کی مناسب طور پر اصلاح کرو‘‘
عورت کی فطرت کا عجیب و غریب نقشہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام جس کا میں نے اس جگہ آزاد ترجمہ کیا ہے، عورت کی فطرت کا ایک ایسا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے لطیف تر اور اس سے زیادہ دلکش اور پھر اس سے زیادہ مختصر نقشہ ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جس پر نظر جماتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تصویر نے جو بعض پردوں میں لپٹی ہوئی ہے ایک زندہ صورت اختیار کر لی ہے اور پھر اس کے پردے ایک ایک کر کے اُٹھنے شروع ہوتے ہیں اور ہر پردہ کے اُلٹنے سے ایک بالکل نیامنظر آنکھوں کے سامنے آنے لگتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے یعنی اس کی فطرت میں بعض ایسی کجیاں رکھی گئی ہیں جو گویا اس کی ہستی کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر ہیں۔ اس کی ان کجیوں اور اس ٹیڑھے پن کو اس سے جدا کر لو تو پھر عورت عورت نہیں رہے گی کیونکہ یہ ٹیڑھا پن اس کی فطرت کا حصہ اور اس کے پیدائشی خط وخال کا جزولا ینفک ہے۔ پس اگرتم عورت کو عورت کی صورت میں دیکھنا چاہو تو تمہیں لازماً اس کے فطری ٹیڑھے پن کو بھی قبول کرنا ہوگا۔
لطیف مضمون
اب غور کرو کہ یہ ایک کیسا لطیف مضمون ہے جو آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم نے ان مختصر مگر عجیب،وغریب الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’عورت ٹیٹرھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے‘‘ ظاہر ہے کہ اس جگہ پیدا ہونے سے یہ مراد نہیں کہ جس طرح ماں باپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، اس طرح عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے بلکہ عربی محاورہ کے مطابق اس سے یہ مراد ہے کہ عورت کی فطرت میں ٹیڑھا پن داخل ہے جو اس سے جدا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے خُلِقَ الْاِ نْسَانُ مِنْ عَجَلٍ۱۵؎ ـُُُ یعنی انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، جس سے یہ مراد نہیںکہ جلدبازی کے مواد سے انسان پیدا ہوا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت میں جلد بازی کا مادہ ہے۔ اسی طرح ٹیڑھی پسلی سے پیدا سے ہونے سے یہ مراد ہے کہ عورت کی فطرت میں بعض طبعی کجیاں پائی جاتی ہیں جو اس کی طبیعت کا حصہ اور اس کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر لگی ہوئی ہیں اور اس سے جدا نہیں ہوسکتیں۔ بہر حال ان الفاظ میں فصاحت و بلاغت کا کمال دکھا کر نہایت مختصر صورت میں ایک نہایت وسیع مضمون کو ادا کیا گیا ہے۔
ملوک الکلام
مگر اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ایک اور عجیب و غریب فقرہ فرماتے ہیں جو گویا اس سارے کلام کی جان ہے۔ فرماتے ہیں:-
’’اِنَّ أَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الفَلَّحِ أَعْلَاہُ۔ ۱۶؎
یعنی ایک ٹیڑھی چیز کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے وہی اس چیز میں سب سے زیادہ اونچا ہوتا ہے۔‘‘
یہ عبارت نہ صرف اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بلکہ اپنے اس عظیم الشان فلسفہ کے لحاظ سے بھی جو ان الفاظ کی گہرائیوں میں مرکوزہے، ملوک الکلام کہلانے کی حقدارہے۔ عورت کے فطری ٹیڑھے پن کا ذکر کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ عورت کا یہ ٹیڑھا پن ایک نقص یا کمزوری ہے بلکہ اس کی یہ فطری کجی دراصل اس کے اندر ایک حسن اور خوبی کے طور پر رکھی گئی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جس طرح کہ ایک ٹیڑھی چیز کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ ہی سب سے زیادہ اونچا ہوا کرتا ہے مثلاً جب ایک کمان کے سیدھے حصہ کو جس طرف چلّہ ہوتا ہے زمین پر لگا کر کھڑا کریں تو لازماً اس کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ ہی سب سے زیادہ اونچا ہوگا…… اسی طرح جو کجی عورت کی فطرت میں رکھی گئی ہے وہ دراصل عورت کا مخصوص کمال اور اس کی انثیت ( یعنی عورت پن) کے حسن کا بہترین حصہ ہے اور یہ مخصوص ’’ٹیڑھا پن‘‘ جتنا جتنا کسی عورت میں زیادہ ہوگا اتنا اتنا ہی وہ اپنی انثیت یعنی جوہر نسوانی میں کامل سمجھی جائے گی ۔یہ وہ ابلغ اور ارفع فلسفہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖزوسلم کے ان مختصرا لفاظ میں جو اوپر درج کئے گئے ہیں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
صنف نازک کا کمال
اگر اس جگہ کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ عورت کے اس ٹیڑھے پن سے وہ کونسی چیز مراد ہے جو اس کی انثیت کا کمال قرار دی گئی ہے تو ہر عقلمند انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اس ٹیڑھے پن سے اس کی طبیعت کا جذباتی عنصر مراد ہے جو ایک عجیب و غریب اندازمیں ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں خالق فطرت نے مرد میں عقل کو غالب اور جذبات کو مغلوب ر کھا ہے وہاں عورت میں یہ نسبت ایک نہایت درجہ حکیمانہ فعل کے نتیجہ میں الٹ دی گئی ہے اور جذبات کو غیر معمولی غلبہ دے دیا گیا ہے اور یہی اس کا فطری ٹیڑھا پن ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹیڑھی پسلی کی پیدا وار قراردے کر فرماتے ہیںکہ یہ ٹیڑھا پن صنف نازک کا کمال ہے
عورت میں ٹیڑھا پن رکھنے کی وجہ
اب سوال ہوتا ہے کہ یہ ٹیڑھا پن عورت کے اندر کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے جو ساری حکمتوں کا منبع اور ماخذ ہے فرماتا ہے:
’’خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْ.6ٓااِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۔۱۷؎
یعنی خداتعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے تمہاری بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان سے دل کی سکینت حاصل کر سکو اور اﷲ تعالیٰ نے اس رشتہ کو تمہارے لئے محبت اور رحمت کا ذریعہ بنایاہے ۔‘‘
یہ وہ حکمت ہے جس کے ماتحت خالق فطرت نے عورت میں جذبات کے عنصر کو غلبہ دے کر اسے مرد کی قلبی سکینت اور اس کی فطری محبت کی پیاس کے بجھانے کا ذریعہ بنایا ہے اور ظاہر ہے کہ جذبات کے ساتھ ٹیڑھا پن لازم و ملزوم کے طور پر ہے یعنی جہاں عقل عموماًسیدھے رستہ پر چلتی ہے وہاں جذبات میں ایک قدرتی ٹیڑھا پن ہے جس کے بغیر جذبات کی نزاکت اور ان کے بانکپن کا اظہار قطعاً ناممکن ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام ایک عظیم الشان حکمت اور فلسفہ کا حامل ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
جذباتی سکینت کی ضرورت
اس جگہ آکر ایک اور سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ مرد کو اس قسم کی سکینت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حکیم ہستی نے انسان کو ایسی فطرت پر بنایا ہے کہ جب وہ اپنی گوناگوں ذمہ دار یوں میں گھر کر اور ان کے بوجھوں کے نیچے دب کر تکان محسوس کرتا اور تھک جاتاہے تو جس طرح خدا نے جسمانی لحاظ سے انسان کے لئے نیند کا انتظام مقرر کر رکھا ہے، اسی طرح اس کی روح کے اندر جذبات کی پیاس بھی رکھ دی گئی ہے اور اس قسم کی تکان اور کوفت کے لمحات میں وہ اپنی پیاس کو بجھا کر پھر اپنے کام کے لئے تازہ دم ہوجاتا ہے ورنہ اس کی نازک اور بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اسے ہر وقت یکساں دبائے رکھے اور آرم اور سکون کا کوئی لمحہ بھی اسے نصیب نہ ہو تو یقینا اس کی ہستی کی مشین چنددن میں ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے۔ پس جہاں خدا تعالیٰ نے انسان پر دینی اور دنیوی میدان میں بھاری ذمہ داریاں لگائی ہیں، وہاں اپنی ازلی حکمت اور رحمت کے نتیجہ میں اس کے اندر بعض خاص قسم کے جذبات پیدا کر کے اس کی دماغی تکان اور کوفت کے دور کرنے کا سامان بھی مہیا کر دیا ہے جو گویا جسمانی نظام میں نیند کے مشابہ ہے جو جسم کی طاقتوں کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ اس جگہ میری مراد جذبات سے شہوانی جذبات نہیں گو شہوانی جذبات کو بھی میں اصولاً بُرا نہیں کہتا کیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور اگر وہ جائز حدود کے اندر رہیں تو ان میں کوئی بُرائی نہیں بلکہ وہ بعض اہم فطری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں مگر اس جگہ میری مراد محبت کے جذبات ہیں جو زخم خوردہ یا تھکے ہوئے دلوں کو سکینت پہونچانے میں عجیب قسم کا قدرتی خاصہ رکھتے ہیں گویا ان کے ذریعہ قدرت نے ایک زخمی اور دکھتی ہوئی جگہ پرمسکن اور ٹھنڈی مرہم کا پھایہ لگادیا ہے۔اب ظاہر ہے کہ جیسی جیسی کسی انسان کی ذمہ داریاں زیادہ بھاری اور زیادہ نازک ہوں گی، اتنی ہی اسے اس قسم کی جذباتی سکینت کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ دنیا کے نادان اور بے عقل لوگوںنے غور نہیں کیا اور اپنی بے سمجھی سے خدا کے پیارے بندوں کو اعتراض کا نشانہ بنایا ہے کہ انہیںبیویاں کرنے اور بیویوں کی محبت سے متمتع ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بے و قوف لوگ اس لطیف حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ دراصل قانون فطرت کے ماتحت یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اس قسم کی سکینت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں کے سپرد بہت بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور جب وہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تھک کر چور ہوجاتے ہیں اور ان کی محدود انسانی طاقت ان کے فرایض منصبی کے بوجھ کے نیچے دب کر گویا ٹوٹنے لگتی ہے تو ایسے اوقات میں انہیں تھوڑے سے وقت کے لئے جذباتی تسکین کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پس ان اوقات میں وہ اپنے اہل وعیال کے پاس بیٹھ کر قلبی سکون حاصل کرتے ہیں اور پھر تازہ دم ہوکر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر غور کیا جائے تو دراصل اس قسم کی سکینت کی ضرورت ہی ان لوگوں کو ہوتی ہے جو بھاری ذمہ داریوں کے نیچے دبے ہوتے ہیں۔ اور اس کے مقابل پر عام لوگوں کو جوبے سمجھی سے اس جذباتی سکینت کو ہی اصل زندگی سمجھنے لگتے ہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرف تو ان پر ایسی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ہوتا جوانہیں تھکاکرچورکردیں اور دوسری طرف وہ زندگی کی اصل غرض وغایت کی طرف سے غافل ہوکر ہروقت جذباتی ماحول میں ہی غرق رہتے ہیں۔ گویا وہ تسکین جس کا حق انسان کو تکان کے اوقات میں پیدا ہوتا ہے وہ اِن لوگوں کے لئے ہروقت کا مشغلہ ہوتی ہے مگر اُن لوگوں کا حال جن پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے بالکل جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے اور اس حدیث کا ذکر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ایک ڈائری سے ملا ہے کہ بعض اوقات جب آپ اپنے فرائضِ نبوت کی بھاری ذمہ داریوں میں تھک کرچور ہوجاتے تھے اور جسمانی قویٰ گویا ٹوٹنے کی حدتک پہونچ جاتے تھے تو آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لاکر فرماتے تھے۔ اریحینایاعائشۃ۱۸؎ ’’یعنی آئو عائشہ اس وقت ہمیں کچھ راحت پہونچائو‘‘ اور پھر تھوڑی دیر اپنی ازواج کے ساتھ محبت وپیار کی باتیں کرکے دوبارہ اپنے تھکادینے والے کام میں مصروف ہوجاتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر میں کس شان سے تشریف رکھتے مگر یہ گھر میں بیٹھنا بھی کس شان کا ہوتاتھا۔ اس کی تھوڑی سی جھلک ذیل کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے حدیث میں آتا ہے:-
’’قَالَتْ عَائِشۃَ رَضِیْ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَ رَسُوْلٌ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِثُنَاوَنُحَدِّثُہُ فَاِذَاحَضَرَتِ الصَّلاَۃُ فَکَاَنَّہُ لَمْ یَحْرِ فْنَاوَلَمْ نَعْرِفْہُ۔ ۱۹؎
یعنی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاکر اپنی ازواج کے ساتھ محبت کی باتوں میں مصروف ہوتے۔ آپ ہم سے باتیں کرتے اور ہم آپؐ سے باتیںکرتیں۔ مگر جونہی کہ اذان کی آواز کان میں پڑتی اور آپؐ یہ سمجھتے کہ میرے خدا نے مجھے بلایا ہے تو اس وقت ہمیں چھوڑ کر یوں اٹھ کھڑے ہوتے کہ گویا آپ ہمیں پہچانتے تک نہیں‘‘
اللہ اللہ! اللہ اللہ!! یہ وہ پاک اور مقدس زندگی ہے جس پر دنیا کے اوباش لوگ تعیش اور شہوت پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ خود ہزاروں لاکھوںگندوں میں مبتلا اور دن رات تعیش اور شہوت پرستی کے شغل میں مصروف اور اس تقدس وطہارت کے مجسمہ پر اعتراض جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمتِ دین اور خدمتِ خلق میں گزرتا تھااور جو اپنی اہلی زندگی سے اس سے زیادہ متمتع نہیں ہوتا تھا جتنا کہ ایک دھوپ میں چلنے والا مسافر جس کی منزل دور ہو دھوپ اور تکان کی شدّت سے چور ہوکر ایک گھڑی بھر کے لئے کسی درخت کے سایہ میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور چند منٹ کے آرام کے بعد پھر کمر کس کر اپنے لمبے اور پُرمشقت سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے اور جتنی دیر وہ درخت کے سایہ کے نیچے آرام کرتا ہے وہ وقت بھی اس کا اسی انتظار میں گزرتا ہے کہ کب قافلہ کی گھنٹی بجتی ہے اور کب مجھے اٹھ کر اپنا رستہ لینا پڑتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں:-
آں شہٖ عالم کہ نامش مصطفی
سیدِ عشاقِ حق شمس الضحٰی
آں کہ ہر نورے طفیلِ نورِ اُوست
آں کہ منظورِ خدا منظور اُوست
آں کہ مہرش مے رساند تاسما
مَے کُند چوں ماہِ تاباں درصفا
آں نبی درچشم ایں کورانِ زار
ہست یک شہوت پرست و کیں شعار
شرمت آید اے سگِ ناچیز و پست
مے نہی نام یلاں شہوت پرست
چیستی اے کورکِ فطرت تباہ
طعنہ برخوباں بدیں روئے سیاہ
شہوتِ شاں ازسر آزادی بست
نے اسیرِآں چو تو آں قومِ مست
خود نگہ کن آں یکے زندانی است
وآں دگر داروغۂ سلطانی است
گرچہ دریکجاست ہردو را قرار
لیک فرقے ہست دروی آشکار
کارِ پاکاں بر بداں کردن قیاس
کار ناپاکاں بود اے بدحواس
کامل آں باشد کہ بافرزند و زن
باعیال و جملہ مشغوئی تن
با تجارت باہمہ بیع و شرا
یک زباں غافل نہ گردو از خدا
ایں نشانِ قوتِ مردانہ است
کاملاں را بس ہمیں پیمانہ است ۲۰؎
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث جس میں عورت کو ٹیڑھی پسلی کی پیداوار قرار دیا گیا ہے اور پھر اس ٹیڑھے پن کو اس کی صنف کا کمال بتایا گیا ہے۔ ایک نہایت عجیب وغریب حدیث ہے۔ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی شان کا نہایت نمایاں ثبوت ملتا ہے۔ اور اس لطیف فلسفہ پر جو صنف نازک کی نفسیات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ایک ایسی لطیف روشنی پڑتی ہے جو کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اور کمال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارا مضمون صرف چندمختصر الفاظ میں ادا فرمادیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت
مگر یہ لطیف حدیث صرف اس جگہ ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ اس فلسفہ کے میدان میں ہمیں اور آگے لے جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
’’فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہُ کَبَرْتَہُ، وَاِن تَرَکْتُہُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوْابِالِنّسَائِ خَیْرًا۔۲۱؎
یعنی جب کہ یہ ٹیڑھا پن جو جذبات کے غلبہ سے تعلق رکھتا ہے عورت کی فطرت کا حصہ ہے جو اس سے جدا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہی ٹیڑھا پن صنف نازک کا کمال ہے۔ تو پھر اگر تم اسے سیدھا کرنے کے درپے ہوگے۔ تو لامحالہ وہ سیدھا تو ہرگز نہیں ہوگا ہاں فطرت کے خلاف دبائو پڑنے سے وہ ٹوٹ ضرور جائے گا۔ لیکن اگر اس کے مقابل پر تم عورت کو اس کی حالت پر بالکل ہی آزاد چھوڑ دو گے تو اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ وہ ہر حالت میں ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس تمہیں چاہیئے کہ ایک طرف تو عورت کے اس فطری ٹیڑھے پن کی قدروقیمت کو پہچانو اور اس سے اپنی زندگی میں فائدہ اٹھائو اور دوسری طرف اس بات کی بھی نگرانی رکھو کہ عورت کا یہ ٹیڑھا پن ہر وقت اس کے گلے کا ہار نہ بنارہے بلکہ جذبات کے ساتھ ساتھ عقل کی روشنی بھی قائم رہے اور تمہیں چاہیئے کہ بہرحال تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ ایسے عناصر کامرکب ہیں جن میں دونوں طرف غلطی کا اندیشہ رہتا ہے۔‘‘
ان الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اس معاملہ میں فطرت کے دو انتہائی نقطوں میں سے درمیانی رستہ اختیار کریں۔ یعنی چونکہ عورت کا فطری ٹیڑھا پن جو اس کی صنف کا کمال ہے۔ انسان کی بہتری کے لئے رکھا گیا ہے۔ اس لئے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھائو اور اس کے ذریعہ حسب ضرورت اور حسب موقع عورت کے جذبات میں سکینت اور محبت کی راحت حاصل کرو۔ مگر دوسری طرف چونکہ انسان بالعموم انتہاء کی طرف جھک جانے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی عورت صرف جذبات کا کھلونا بن کر ہی زندگی گزارنا چاہے اور ہر حالت میں ٹیڑھا پن ہی ظاہر کرے تو پھر تم اسے بالکل آزاد ہی نہ چھوڑدو بلکہ اس کے جذبات کے دھندلکے میں عقل کی شعاع میں ڈال کر مناسب اصلاح کی کوشش کرتے رہو۔ تاکہ ایک ہی طرف کا ناگوار غلبہ ہوکر دوسری طرف کو بالکل ہی نسیاً نسیاً نہ کردے۔ اور جذبات کے فطری غلبہ کے باوجود مناسب اعتدال کی حالت قائم رہے۔
یہ اس عجیب وغریب حدیث کی مختصر سی تشریح ہے جس کے ایک حصہ کا ترجمہ میں نے مضمون کے عنوان میںدرج کیا ہے۔ اور اب ناظرین خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی حدیث کتنے وسیع معانی اور کتنے لطیف مفہوم پر مشتمل ہے۔ مگر افسوس ہے کہ میں اس مضمون میں اس حدیث کی پوری پوری تشریح نہیں کرسکا اور متعدد حدیثوں میں سے جو میں نے اس مضمون کے لئے نوٹ کی تھیں صرف ایک ہی حدیث درج ہوسکی ہے۔ اور اس کی بھی مکمل تشریح نہیں ہوسکی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی میں نے یہ مضمون لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے کچھ دل کی تکلیف شروع ہوگئی اور مضمون لکھنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے میں نے جلدی جلدی چند سطور لکھنے پر اکتفا کی ہے لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ناظرین کرام ان چند سطور کو غور سے مطالعہ کریں گے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کا کلام نہ صرف فصاحت وبلاغت بلکہ معانی کی دولت سے کس درجہ معمور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے پُرحکمت کلام کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔ آمین یارب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸جولائی ۱۹۴۱ئ)








مسئلہ رجم میں جماعت کے عُلماء کو تحقیق کی دعوت
غالباً تین یا چار سال کا عرصہ ہوا ہوگا کہ میں نے اس معروف فقیہی مسئلہ کے متعلق علمائے سِلسلہ کو تحقیق کی دعوت دی تھی کہ کیا اسلامی تعلیم کی روسے جس شخص کا کوئی لڑکا اس کی زندگی میں فوت ہوجائے اور اس کے دوسرے لڑکے زندہ موجود ہوں۔ اس کے پوتے یعنی متوفی لڑکے کے لڑکے کو اس کا ورثہ پہونچتا ہے یا نہیں۔ میری اس تحریک پر استاذی المکرم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ فاضل مرحوم نے ایک سلسلۂ مضامین لِکھااور معروف عقیدہ کی تائید میں بہت سے دلائل بیان فرمائے۔ (اور غرض بھی یہی تھی کہ تائید یا تردید جو بھی صورت ہو۔ اس کے دلائل سامنے آجائیں) مگر افسوس ہے کہ دوسرے علماء نے خاموشی اختیار کی اور اس طرح یہ اہم مسئلہ بدستور تشنۂ تحقیق رہا۔ گو مجھے حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کو ایک احسن طریق پر حل فرمادیا ہے اور امید رکھنی چاہیئے کہ انشاء اللہ کِسی مناسب موقع پر حضور کا فتویٰ شائع ہوکر احباب تک پہونچ جائے گا۔
مسئلہ رجم
اسی سلسلہ کی دوسری کڑی کے طور پر میں اس جگہ مسئلہ رجم کے متعلق اہل علم طبقہ کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔ یعنی یہ کہ آیا اسلام نے فی الواقعہ شادی شدہ مرد یا عورت کے لئے زنا کی سزا رجم یعنی سنگسار مقرر فرمائی ہے؟ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے جمہور مسلمانوں کا عام عقیدہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جب کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کا مرتکب ہو۔ اور خدا تعالیٰ کی ستاری اس سے اپنا دامن کھینچ کر اسے ننگا کردے اور اس کا یہ جُرم چارمعتبر اور چشم دید گواہوں کی شہادت سے پایۂ ثبوت کو پہونچ جائے تو ایسے شخص کے لئے اسلام نے یہ سزا مقرر کی ہے کہ اسے کسی کھلے میدان میں کھڑا کرکے خواہ زمین میںگاڑ کر یا ویسے ہی اس پر پتھروں کی بارش برسائی جائے۔ حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں پتھروں کی ضرب کھاتا ہوا جان بحق ہوجائے۔ یہ عقیدہ اوائل سے لے کر اب تک جمہور مسلمانوں کا مسلم عقیدہ رہا ہے اور گو بعض نے اس عقیدہ سے اختلاف کیا ہے مگر یہ اختلاف اس قدر قلیل اور شاذ ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ گویا یہ عقیدہ جمہور مسلمانوں کا متفقہ اور متحدہ عقیدہ ہے مگر تحقیقی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عقیدہ کے متعلق بعض ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ علماء کو اس بارے میں غور کرکے کوئی آخری رائے قائم کرنی ضروری ہے۔ ہر چند کہ اس وقت ہندوستان میں جہاں ایک غیراسلامی حکومت قائم ہے، یہ مسئلہ کوئی عملی اہمیت نہیں رکھتا اور زیادہ تر صرف ایک علمی حیثیت رکھتا ہے مگر اوّل تو بہرحال یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ دوسرے چونکہ اس مسئلہ کا بالواسطہ طور پر اسلامی تعلیم کی روح پر کافی گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اسے کِسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بظاہر حالات اس مسئلہ کے متعلق جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ مختصراً یہ ہیں:-
پہلا سوال
اوّل زنا کے تعلق میں شریعت اسلامی کی طرف دو سزائیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک غیرشادی شدہ شخص کی سزا۔یعنی اسی کوڑے۔ اور دوسرے شادی شدہ شخص کی سزا یعنی سنگسار۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ان دو سزائوں میں سے جو کم اہم اور نسبتاً نرم ہے۔ یعنی کوڑے۔ اس کا تو قرآن شریف نے صراحتًاذکر کیا ہے لیکن اس کے مقابل پر زیادہ اہم اور زیادہ سخت سزا کے ذکر کو ترک کرکے اسے محض زبانی حدیثوں کی تشریح پر چھوڑدیا ہے۔ حالانکہ عقلاً یہ بات ضروری تھی کہ قرآن شریف جو شریعت اسلامی کا اصل ماخذ ہے زیادہ اہم سزا کا ذکر کرتا اور اگر کِسی سزا کاذکر ترک ہی کرنا تھا تو ہلکی سزا کے ذکر کو ترک کردیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ زیادہ اہم سزا کے ذکر کو ترک کرکے صرف کم اور ہلکی سزاکا ذکر درج کردیا گیا ہے اور زیادہ اہم سزا کے ذکر کے لئے ہمیں حدیث کا رستہ دکھایا جاتا ہے۔
دوسرا سوال
دوم: قرآن شریف نے زنا کی سزا کا ذکر سورۂ نور میں کیا ہے۔ جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ،تعالیٰ عنہا پر بہتان والے واقعہ کی ذیل میں زنا سے تعلق رکھنے والے احکام نازل ہوئے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ اس جگہ واقعہ تو ایک شادی شدہ عورت کا ہے۔ اور ذکر اس سزا کا کیاجاتا ہے جو غیرشادی شدہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حالانکہ اگر اسلام نے رجم کی سزا مقرر کی ہوتی تو طبعاً اور لازماً یہی وہ موقع تھا مگر اس جگہ رجم کے ذکر کا نام ونشان تک نہیں۔
تیسرا سوال
سوم: کہا جاتا ہے کہ شروع میں رجم کی سزا کے متعلق قرآن شریف میں ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی۔ اور وہ یہ کہ الشیخ والشیخۃ اذازنیا فارجموھما۔ مگر بعد میں اس آیت کے الفاظ تو منسوخ ہوگئے مگر حکم قائم رہا۔ اگر یہ درست ہے تو اس آیت کا ترک کیا جانا اور اس کے الفاظ کا منسوخ کیا جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ سزا نہیں رہی۔ ورنہ جب آیت اترچکی تھی اور سزا بھی قائم کی تھی تو آیت کو ترک کیوںکیا گیا۔ علاوہ ازیں الفاظ کا منسوخ ہوجانا اور حکم کا قائم رہنا بھی ایک غیر معقول سا خیال ہے۔ پھر مزعومہ آیت کے الفاظ بھی یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ یہ کوئی قرآنی آیت نہیں۔
چوتھا سوال
چہارم: اسلام نے اصولی تعلیم دی ہے کہ قتل کرنے کے طریق میں نرمی کو اختیار کرنا چاہیئے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مسلمان قتل کرنے کے طریق میں سب لوگوں سے زیادہ نرم ہوتا ہے۔ اورایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ ہدایت بیان ہوئی ہے کہ جب کبھی مسلمان جنگ میں کافروں کے سامنے ہوتو اسے چاہیئے کہ کسی کے مونہہ پر ضرب نہ لگائے ۲۲؎وغیرہ وغیرہ۔ ان اصولی ارشادات کے ساتھ رجم کی سزا جو ایک سخت ترین طریق قتل پر مشتمل ہے۔ جس میں عملاً زیادہ تر سر اور مونہہ ہی پتھروں کا نشانہ بنتے ہیں، کسی طرح مطابقت نہیں کھاتی۔
پانچواں سوال
پنجم: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عام طریق تھا کہ جب تک اسلامی شریعت کا کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوتا تھا۔ آپ بالعموم موسوی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ پس جب رجم کے متعلق قرآن کریم میں کوئی حکم موجود نہیں تو کیوں نہ سمجھاجائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو رجم کی بعض مثالیں ملتی ہیں۔ وہ اس بناء پر نہیں ہیں کہ اسلام رجم کا حکم دیتا ہے بلکہ اس بنا پر ہیں کہ سابقہ شریعت میں اس کا حکم تھا۔ اور جب اسلامی شریعت آئی تو یہ حکم منسوخ کردیا بلکہ بعض لوگ اسے غلطی سے غیرمنسوخ سمجھتے رہے۔
چھٹا سوال
ششم: قرآن شریف میں یہ صریح حکم موجود ہے کہ زنا کے معاملہ میں ایک لونڈی کی سزا آزاد عورت سے نصف ہے مگر ظاہر ہے کہ رجم کی صورت میں میں سزا کا نصف ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ نصف کا اصول اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ زنا کی سزا کو صرف کوڑوں تک محدود سمجھا جائے۔
ساتواں سوال
ہفتم: مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر کئی اسلامی علماء کو بھی رجم کی سزا کے متعلق شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ بعض نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ چونکہ قرآن شریف رجم کا حکم نہیں دیتا بلکہ صرف کوڑوں کی سزا کا حکم دیتا ہے اس لئے بیشک حدیث کے ماتحت شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے مگر احتیاطاً قرآنی حکم کے ماتحت اسے کوڑے بھی لگادینے چاہئیں۔ چنانچہ بعض علماء کا فتویٰ ہے کہ پہلے کوڑے لگائے جائیں اور بعد میں رجم کیا جائے اوربعض کہتے ہیں کہ پہلے رجم کیا جائے اور بعد میں مقتول کی نعش کو کوڑے مارے جائیں۔ اس سے اس مسئلہ میں علماء کی پریشانی ظاہر وعیاں ہے۔
رجم کی تائید میں دلائل
ان دلائل اور اسی قسم کے دوسرے دلائل سے رجم کی سزا کے متعلق حقیقی شبہ پیدا ہوتا ہے مگر اس کے مقابل پر رجم کے حکم کی تائید میں بھی بعض وزنی دلائل ہیں مثلاً
پہلی دلیل
اول: رجم ان مسائل میں سے ہے جو عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے اس میں سب سے زیادہ وزن مسلمانوں کے تعامل کو دیا جائے گا۔ اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کے عمل کو اور جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو تاریخ سے یہ بات قطعی طورپر ثابت ہوتی ہے کہ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلکہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی شادی شدہ زانیوں کو رجم کی سزا دی جاتی رہی ہے۔ اگر یہ مثالیں صرف ابتدائی زمانہ تک محدود ہوتیں تویہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ شائد یہ طریق قبل نزول سورۂ نور سابقہ شریعت کی اتباع میں جاری تھا اور بعد میں منسوخ ہوگیا لیکن جب کہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی رجم کی سزا دی گئی ہے تو لامحالہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رجم ایک مستقل اسلامی حکم ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل ہوتا رہا ہے۔
دوسری دلیل
دوم :اگر سورۂ نور میں رجم کی سزا کا حکم بیان نہیں ہوا تو اس سے اصل مسئلہ پر چنداں اثر نہیں پڑتا کیونکہ سورۂ نور بے شک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قصہ میں نازل ہوئی مگر چونکہ حضرت عائشہ ؓ بہرحال بَری اور معصوم تھیں۔ اس لئے ان کے قصہ کے ذیل میں کسی شادی شدہ کی سزا کا بیان کرنا ضروری نہیں تھا بلکہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہ کی بریت اور معصومیت کا احترام یہ چاہتا تھا کہ اس میں کسی ایسی سزا کی طرف اشارہ نہ ہو جو شادی شدہ سے تعلق رکھتی ہے تاکہ حضرت عائشہ.6ؓ کی بریت کا اعلان بالکل بے داغ رہے۔ اسی لئے سورۂ نور میں صرف غیر شادی شدہ کی سزا کے ذکر پر اکتفا کی گئی اور شادی شدہ کا ذکر ترک کردیا گیا۔
تیسری دلیل
سوم: یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ قرآن شریف نے زیادہ سخت اورزیادہ اہم سزا کا ذکر ترک کرکے کم اہم سزا کو اس لئے بیان کیا ہو تااس ذریعہ سے یہ اشارہ کیا جائے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ اس کا ادنیٰ درجہ بھی خدا کے نزدیک برملاسزا کے قابل ہے اور اس کے اوپر کے درجے تو بہرحال قابل سزا ہیںہی ۔
چوتھی دلیل
چہارم: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اسلامی شریعت اور خصوصاً شریعت کے تعزیری حصہ کے تفقّہ میں بہت بلند پایہ رکھتے ہیں۔ رجم کی سزا پر اس قدر یقین تھا کہ وہ زوروشور کے ساتھ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ دیکھنا یہ نہ سمجھنا کہ رجم کا حکم قرآن میں نہیں ہے۔ اس لئے اس پر عمل واجب نہیں ہے بلکہ یہ حکم قرآنی شریعت کا حصہ ہے اور اس پر عمل ضروری ہے۔
پانچویں دلیل
پنجم: بے شک عام حالات میں اسلام نے قتل کے طریق میں نرمی کا پہلو اختیار کیا ہے اور نرمی کی تعلیم دی ہے لیکن چونکہ زنا ایسا جرم ہے کہ اس کا سوسائٹی کے اخلاق پر بہت بھاری اثر پڑتا ہے اور ضروری ہے کہ سخت ذرائع استعمال کرکے اس جرم کا انسداد کیا جائے۔ اس لئے اسلام نے اس بارے میں سخت سزا کا حکم دیا۔ کیونکہ اس سختی کے پردہ میںبھی مخلوق ہی کے لئے رحمت وشفقت پنہاں ہے۔
چھٹی دلیل
ششم: جس شخص سے خدائے ارحم الراحمین جس کی ستاری کی صفت انتہا کو پہونچی ہوئی ہے۔ اپنی ستاری کے دامن کو اس حدتک کھینچ لیتا ہے کہ وہ زنا جیسے جرم میں جو انتہائی پردہ کی حالت میں کیا جاتا ہے، اس درجہ ننگا ہوجاتا ہے کہ چار معتبر گواہ اس کی روسیاہی پر چشم دید شہادت دیتے ہیں تو اس کی انتہائی شقاوت میں کیا شبہ ہے اور وہ خدا کے بندوں کی طرف سے کس رحم کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے۔
ساتویں دلیل
ہفتم: میں نے سنا ہے گومیں نے یہ حوالہ خود نہیں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی اپنی کسی تحریر میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اسلام نے زنا کی سزا رجم مقرر کی ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بیان جمہور مسلمانوں کی طرف سے محض حکایت کے رنگ میں نہیں ہے بلکہ خود آپ کا اپنا ذاتی فتویٰ ہے تو احمدیہ جماعت کے لئے اس کے بعد کسی اور بحث کی گنجائش نہیں رہتی اور کم از کم میرے لئے تو ساری بحث کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ میں نے خدا کے فضل سے اپنے دل کو ہمیشہ اس بات کے لئے آمادہ پایا ہے کہ اگر میرے پاس کسی بات کی تائید میں ہزار دلیل ہو۔جس پر مجھے فخر اور ناز ہو مگر مجھ پر یہ ظاہر ہوجائے کہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ارشادوہاں بظاہر بے دلیل وبے ثبوت ارشاد کچھ اور ہے تو میں اپنے خیالات کو اپنے دل سے اس طرح نکال کر پھینک دیتا ہوں جس طرح مکھن میں سے بال کو نکال کر پھینک دیا جاتاہے۔
خلق مے گوید کہ خسرو بت پرستی ریست
آرے آرے می کنم باخلق وعالم کارنیست
علماء کا کام
مختصراً یہ وہ دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رجم کی سزا درست اور برحق ہے۔پس اب ہمارے علماء کا یہ کام ہے کہ وہ اس بحث کے موافق ومخالف دلائل پر غور کرکے اور اس میدان میں مزید تحقیق کا رستہ کھول کر کوئی آخری رائے قائم کریں مگر یہ بات بہرصورت مدنظر رہنی چاہیئے کہ عملی مسائل میں سب سے زیادہ وزن مومنوں کے تعامل کو ہوتا ہے۔ اور محض کسی عقلی دلیل سے جو غلطی کا امکان رکھتی ہو، ایک ثابت شدہ تعامل کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا۔ گویہ علیحدہ بات ہے کہ کسی امر میں تعامل ہی ثابت نہ ہو یا ایک رنگ تعامل کا تو ہو مگر تعامل کی تہہ میں کوئی اور معقول تشریح موجود ہو۔
مجھے اس مسئلہ میں تحقیق کی ضرورت اس لئے محسوس ہورہی ہے کہ سیرۃ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف میں یہ مسئلہ میرے راستہ میں آتا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جماعت کا علم دوست طبقہ اس کے متعلق مزید تحقیق کرکے میری رہنمائی کرے۔ نیز اگر کسی دوست کو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ارشاد یاد ہو تو اس سے بھی مطلع فرمائیں۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۴۱ئ)























یارانِ تیزگام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی وفات پر ایک نوٹ
ابتدائی زمانہ کے پاک نفس بزرگ
’’الفضل‘‘ مورخہ ۲۸ اگست ۱۹۴۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کا وہ خطبہ شائع ہوا ہے جو حضور نے مورخہ ۲۲ اگست ۱۹۴۱ء کے جمعہ میں فرمایا تھا۔ اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کی وفات کا ذکر کرکے جماعت کو ان پاک نفس بزرگوں کی قدرشناسی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ،السلام کا ساتھ دے کر اور ہرقسم کی تلخی اور تنگی اور قربانی میں حصہ لے کر محبت اور اخلاص اور وفاداری کا اعلیٰ ترین نمونہ قائم کیا ہے۔ اسی مبارک گروہ میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ جن کے متعلق میں اس مضمون میں بعض خیالات کا اظہار کرناچاہتا ہوں۔
دریافت حال کے لئے خط
غالباً ۱۸ اگست کی تاریخ تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ڈلہوذی میں تشریف رکھتے تھے کہ مجھے حضرت منشی صاحب مرحوم کے بھانجے منشی کظیم الرحمن صاحب کے ایک خط سے یہ اطلاع ملی کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ میں سخت بیمار ہیں اور حالت تشویشناک ہے۔ میں نے اس اطلاع کے ملتے ہی حضرت منشی صاحب موصوف کے صاحبزادہ شیخ محمد احمد صاحب بی۔اے۔ ایل۔ ایل۔بی کپور تھلہ کے نام ایک خط اظہار ہمدردی اور دریافت خیریت کے لئے ارسال کیا اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میرا یہ خط منشی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہی ان کی وفات سے چند گھنٹے قبل شیخ محمد احمد صاحب کو مل گیا اور منشی صاحب مرحوم کے علم میں بھی آگیا۔ جنہوںنے اس خط پر خوشی اور تسکین کا اظہار فرمایا مگر چونکہ خدا کے علم میں حضرت منشی صاحب کا پیمانۂ حیات لبریز ہوچکا تھا اور وفات کا مقدر وقت آچکا تھا اس لئے وہ میرے خط کے پہونچنے کے چند گھنٹہ بعد یعنی ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء کی صبح ڈھائی بجے کے قریب وفات پاکر اپنے محبوب حقیقی کے قدموں میں جاپہونچے۔ فاناللّٰہ وانا الیہ راجعون وکل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذی الجلال والاکرام۔
وفات کی اطلاع
منشی صاحب مرحوم کی وفا ت کی اطلاع مجھے شیخ محمد احمد صاحب کی تار کے ذریعہ ملی جو مجھے ۲۰اگست کی دوپہر کو وصول ہوئی۔ اس تار میں یہ اطلاع بھی درج تھی کہ منشی صاحب کا جنازہ آرہا ہے اور قادیان میں شام کے قریب پہونچے گا۔ میں نے اس تار کے ملتے ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب مقامی امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور منشی کظیم الرحمن صاحب اور افسر صاحب صیغہ مقبرہ بہشتی اور ایڈیٹر صاحب ’’الفضل‘‘ کی خدمت میں اطلاع بھجوادی اور دفتر مقبرہ بہشتیکے ہیڈ کلرک صاحب کو اپنے پاس بلاکر یہ مشورہ دیا کہ منشی صاحب مرحوم چونکہ قدیم ترین صحابہ میں سے تھے۔ اس لئے ان کی قبر خاص صحابہ کے قطعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے قریب تر تیار کرائی جائے۔ چنانچہ قبروں کی جاری شدہ لائن کو ترک کرکے جہاں اس لائن کے وسط میں ایک پہلے سے تیار شدہ قبر موجود تھی۔ اس کے ساتھ کی نئی لائن میں رستہ کے اوپر نئی قبر تیار کی گئی تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ،السلام کا یہ مقرب صحابی جو موجودہ صحابیوں میں سے غالباً سب سے سابق تھا اپنے محبوب کے مزار کے قریب تر جگہ پاسکے۔ اس کے علاوہ میں نے مقامی امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب کی خدمت میں عرض کرکے قادیان کے تمام محلہ جات میں جنازہ کی شرکت کے لئے ایک ابتدائی اعلان بھی کروادیا۔
نماز جنازہ اور تدفین
جنازہ عصر کی نماز کے بعد بذریعہ لاری قادیان پہونچا۔ چونکہ اس وقت نماز مغرب کا وقت قریب تھا اور آخری اعلان کے لئے وقت کافی نہیں تھا اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ نماز جنازہ مغرب کے بعد ہو اور اس عرصہ میں دوبارہ تمام محلوں کی مساجد میں نماز مغرب کے وقت آخری اعلان کرایا گیا۔ تاکہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں۔چنانچہ الحمد للہ کہ باوجود اس کے کہ رات کا وقت تھا اور گرمی کی بھی شدت تھی۔ تمام محلہ جات سے لوگ کافی کثرت کے ساتھ شریک ہوئے ا ور مدرسہ احمدیہ کے صحن میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد حضرت منشی صاحب کو بہت سے مومنوں کی دعائوں کے ساتھ مقبرہ بہشتی کے خاص قطعہ میں دفن کیا گیا۔ (یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ قطعہ ویسے کوئی خصوصیت نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ پرانے صحابہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے قریب ترین حصہ میں ایک پلاٹ ریزرو کردیا گیا ہے تاکہ اس حصہ میں دفن ہوکر السابقون الاولون اپنے محبوب آقا کے پاس جگہ پاسکیں۔ یعنی جس طرح وہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب تھے، اسی طرح موت کے بعد بھی قریب رہیں اور یہ ان کا ایک ادنیٰ سا حق ہے جو جماعت کی طرف سے اس رنگ میں ادا کیا جاتا ہے۔ ورنہ بہشتی مقبرہ کا حصہ ہونے کے لحاظ سے مقبرہ کی ساری زمین ایک ہی حکم میں ہے اور کوئی امتیاز نہیں)
موت میں جشن شادی کا رنگ
دفن کے وقت جس کے لئے گیس کی روشنی کا انتظام تھا، میں نے اکثر لوگوں کی زبان سے یہ شعر سنا اور واقعی اس موقع کے لحاظ سے یہ ایک نہائت عمدہ شعر تھا کہ ؎
عروسی بود نوبتِ ماتمت
اگر برنکوئی شود خاتمت
’’یعنی اگر تیری وفات نیکی اور تقویٰ پر ہوتی ہے تو پھر یہ وفات ماتم کا رنگ نہیں رکھتی بلکہ گویا ایک جشن شادی کا رنگ رکھتی ہے۔‘‘
یہ ایک نہائت عمدہ شعر ہے اور نہائت عمدہ موقع پر لوگوں کی زبان پر آیا اور مجھے اس شعر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کا وہ مبارک فرمان یاد آگیا۔ جو آپ نے حضرت سعد بن معاذ رئیس انصار کی وفات پر ارشاد فرمایا تھا۔ اور وہ یہ کہ:-
’’اھْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَوْت سَعْدِ بِنْ مُعَاذِ۔ ۲۳؎
یعنی سعد کی موت پر تو خدائے رحمن کا عرش بھی جھومنے لگا۔‘‘
واقعی خواہ دُنیا کے لوگ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر حقیقت یہی ہے کہ جس شخص کا انجام اچھا ہوگیا اور اس پر ایسے وقت میں موت آئی کہ جب خدا اس پر راضی تھا اور وہ خدا پر راضی تھا تو اس کی موت حقیقتاً ایک جشن شادی ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر کیونکہ جہاں شادی کا جشن دوفانی انسانوں یعنی مردوعورت کے ملنے پر منایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ملنا عارضی ہوتا ہے اور اس وقت کوئی شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ جوڑا خوشی کا باعث بنے گا یا کہ غم کا، اچھے نتائج پیدا کرے گا یاکہ خراب ، خدا کی رحمت کا پیش خیمہ ہوگا یا کہ عذاب کا ۔ وہاں اس کے مقابل پر اُس عظیم الشان جشن کا کیا کہنا ہے کہ جس میں ایک پاک روح یا ایک پاک شدہ روح اپنے ازلی ابدی خدا، اپنے رحیم وودودآقا، ہاں سب پیار کرنے والوں اور سب پیار کئے جانے والوں سے زیادہ پیار کرنے والے محب ومحبوب سے ملنے کے لئے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمیشہ کی راحت میں ہم آغوش ہوجانے کے لئے موت کے دروازے سے گزرتی ہے۔ پاک انجام پانے والے شخص کے لئے موت یقینا ایک عظیم الشان عروسی جشن ہے۔ اور کہنے والے نے بالکل سچ کہا ہے کہ
عروسی بود نوبتِ ماتمت
اگر برنکوئی شود خاتمت
عجیب وغریب منظر
یہ شعر منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی تدفین کے وقت میرے کانوں میں قریباً چاروں طرف سے پہونچا اور میرے دِل نے کہاسچ ہے کہ موت ایک عجیب وغریب پردہ ہے، جس کے ایک طرف جدا ہونے والے کے دوست اور اعزّہ اپنے فوت ہونے والے عزیز کی عارضی جدائی پر غم کے آنسو بہاتے ہیںا ور دوسری طرف پہلے سے گزرے ہوئے پاک لوگ اور خدا کے مقدس فرشتے بلکہ خود خدائے قدوس آنے والی روح کی خوشی میں ایک عروسی جشن کا نظارہ دیکھتے ہیں۔ اللہ اللہ! یہ ایک کیسا عجیب منظر ہے کہ ایک طرف صفِ ماتم ہے اور دوسری طرف جشن شادی اور درمیان میں ایک اڑتی ہوئی انسانی زندگی کے آخری سانس کا پھڑپھڑاتا ہوا پردہ۔ گویا مرنے والے کے ایک کان میں رونے کی آواز پہونچ رہی ہوتی ہے اور دوسرے کان میں خوشی کے ترانے اور وہ اس عجیب وغریب مرکب ماحول میں گھرا ہوا اگلے جہان میں قدم رکھتا ہے۔ مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ اصل جذبہ وہی ہے جو ملاء اعلیٰ میں پایا جاتا ہے۔ جسے شاعر نے جشنِ شادی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔کیونکہ وہ انسان کی زندگی کے آغاز کا اعلان ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ گو خدانے سارے انسانوں کو ہی اس مبارک جشن کی دعوت دی ہے او راس بابرکت تحفہ کو ہر روح کے سامنے محبت اور رحمت کے ہاتھوں سے پیش کیا ہے مگر بہت کم لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور اکثر نے اپنے لئے یہی بات پسند کی ہے کہ جب وہ اس دنیا سے جدا ہوکر اگلے جہان میں قدم رکھیں توان کے لئے یہ جہان اور اگلا جہان دونوں ماتم کدہ بن جائیں۔ خدایا تو ایسا فضل فرما کہ ہم اور ہمارے وہ سب عزیز جن کے ساتھ ہمیں محبت ہے اور وہ سب لوگ جنہیں ہمارے ساتھ محبت ہے۔ یعنی تیرے وہ سارے بندے جو احمدیت کی پاک لڑی میں محبت اور اخلاص کے ساتھ پروئے ہوئے ہیں ان کی زندگیاں تیری رضا کے ماتحت گزریں اور اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو تو اے ہمارے رحیم ومہربان آقا! تو اس وقت تک ان سے موت کو روکے رکھ، جب تک کہ تیری قدرت کا طلسمی ہاتھ انہیں ان کے گناہوں سے پاک وصاف کرکے تیرے قدموں میں حاضر ہونے کے قابل بنادے تاکہ ان کی موت عروسی جشن والی موت ہو اور وہ تیرے دربار میں اپنے گناہوں سے دھل کر اورپاک وصاف ہوکر پہونچیں۔ اے خد توایسا ہی کر۔ ہاں تجھے تیری اس عظیم الشان رحمت کی قسم ہے جو تیرے پاک مسیح کی بعثت کی محرک ہوئی ہے کہ تو اَیسا ہی کر۔ آمین یارب العالمین۔
ساٹھ سال کے عرصہ میں ہر قدم پہلے سے آگے
میں اپنے مضمون سے ہٹ گیا۔ میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی تدفین کا ذکر کررہا تھا کہ اس وقت بہت سے لوگوں کی زبان پر یہ ذکر تھا کہ ان کی وفات ایسے حالات میں ہوئی ہے جو ہر مومن کے لئے باعثِ رشک ہونی چاہیئے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم کی زندگی اور موت دونوں نے خدا کی خاص، بلکہ خاص الخاص برکت سے حصہ پایا ہے۔ ابھی وہ بچپن کی عمر سے نکل ہی رہے تھے اور نوجوانی کا آغاز تھا کہ خدا کی ازلی رحمت انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں لے آئی۔ یہ غالباً ۱۸۸۳ء کا سال تھا جبکہ براہین احمدیہ زیرِ تصنیف تھی اور ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مجددیت کے دعویٰ کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ دِ ن اور آج کا دن جن کے درمیان قریباً ساٹھ سال کا عرصہ گزرتا ہے، مرحوم کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے پڑا اور مرحوم کی محبت اور اخلاص نے اس طرح ترقی کی جس طرح ایک تیزی سے بڑھنے والا پودا اچھی زمین اور اچھی آبپاشی اور اچھی پرداخت کے نیچے ترقی کرتا ہے، اس زمانہ میں مصائب کے زلزلے بھی آئے، حوادث کی آندھیاں بھی چلیں، ابتلائوں کے طوفانوں نے بھی اپنا زور دکھایا مگر یہ خدا کا بندہ آگے ہی آگے قدم اٹھاتا گیا۔ گرنے والے گرگئے، ٹھوکر کھانے والوں نے ٹھوکریں کھائیں، لغزش میں پڑنے والے لغزشوں میں پڑگئے مگر منشی صاحب مرحوم کا سر ہر طوفان کے بعد اوپر ہی اوپر اٹھتا نظر آیا اور بالآخر سب کچھ دیکھ کر اور سارے عجائباتِ قدرت کا نظارہ کرکے وہ موت کے عروسی جشن میں سے ہوتے ہوئے اپنے آقا ومحبوب کے قدموں میں پہونچ گئے۔ اس زندگی سے بہتر کونسی زندگی اور اس موت سے بہتر کونسی موت ہوگی؟
شمع مسیح کے زندہ جاوید پروانے
منشی صاحب مرحوم ان چند خاص بزرگوں میں سے تھے جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاص بے تکلفانہ تعلق تھا۔ کپورتھلہ کی جماعت میں ہاں وہی جماعت جس نے حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کے ہاتھوں سے یہ مبارک ووعید سند حاصل کی ہے کہ خدا کے فضل سے وہ جنت میں بھی اسی طرح آپ کے ساتھ ہوگی جس طرح وہ دنیا میں ساتھ رہی ہے۔ تین بزرگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں اعنی حضرت میاں محمد خان صاحب مرحوم اور حضرت منشی اروڑا صاحب مرحوم اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم۔ یہ تینوں بزرگ حقیقۃً شمع مسیحی کے جان نثار پروانے تھے، جن کی زندگی کا مقصد اس شمع کے گرد گھوم کر جان دینا تھا۔ انتہاء درجہ محبت کرنے والے، انتہاء درجہ مخلص، انتہاء درجہ وفادار، انتہاء درجہ جان نثار اپنے محبوب کی محبت میں جینے والے جن کا مذہب عشق تھا اور پھرعشق اور پھر عشق اور عشق میں ہی انہوں نے اپنی ساری زندگیاں گزاردیں۔ کیا یہ لوگ بھی کبھی مرسکتے ہیں؟
ہرگز نمیرد آں کہ دِلش زندہ شد بعشق
ثبت اسْت برجریدۂ عالم دوام شاں
ایک یوروپین سے حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کی ملاقات کا نظارہ
میں نے مرحوم محمد خان صاحب کے علاوہ باقی دونوں اصحاب کو دیکھا ہے اوران کے حالات کا کسی حد تک مطالعہ بھی کیاہے۔ (یہ یاد رہے کہ اس جگہ صرف کپورتھلہ کی جماعت کا ذکر ہے۔ ورنہ خدا کے فضل سے بعض دوسری جماعتوں میں بھی اس قسم کے فدائی لوگ پائے جاتے تھے۔ جیسے کہ مثلاً سنور میں حضرت منشی عبداللہ صاحب مرحوم تھے۔ اوراسی طرح بعض اور جماعتوں میں بھی تھے) اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا بلکہ ایک حقیقت بیان کرتاہوں کہ میرے الفاظ کو وہ پیمانہ میسر نہیں ہے، جس سے ان بزرگوں کی محبت کو ناپاجاسکے مگر ایک ادنیٰ مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی کو جذب کرکے پانی کے قطروں سے اس طرح بھر جاتا ہے کہ اسفنج اور پانی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا اور نہیں کہہ سکتے کہ کہاں پانی ہے اور کہاں سفنج۔ اسی طرح ان پاک نفس بزرگوں کا دِل بلکہ ان کے جسموں کا رؤاں رؤاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت سے لبریز تھا۔ مجھے خوب یاد ہے اور میں اس واقعہ کوکبھی نہیں بھول سکتا کہ جب ۱۹۱۶ء میں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی ایم۔سی۔اے کے سیکرٹری تھے اور سلسلۂ احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے قادیان آئے تھے۔ انہوںنے قادیان میں یہ خواہش کی کہ مجھے بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کے کِسی پرانے صحابی سے ملایا جائے۔ اس وقت حضرت منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان میں تھے۔ مسٹر والٹر کو منشی صاحب مرحوم کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا۔ مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر جناب مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں زیادہ پڑھا لِکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ عِلمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی۔ جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔باقی میں تو ان کے مونہہ کا بھوکا تھا۔ مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں ہے۔ یہ کہہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں اس قدر بے۔چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ان کے چہرہ کا رنگ ایک دُھلی ہوئی چادر کی طرح سفید پڑگیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ‘‘ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر بھی کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی صحبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں، اسے ہم کم ازکم دھوکے بازنہیں کہہ سکتے۔ کاش مسٹر والٹر کا ذہن اس وقت زمانۂ حال سے ہٹ کر تھوڑی دیر کے لئے ماضی کی طرف بھی چلا جاتا اور وہ انیس سو سال پہلے کے مسیح ناصری کے حواریوں کا بیسویں صدی کے مسیح محمدی کے حواریوں کے ساتھ مقابلہ کرکے دیکھتے کہ وہاں تو مسیح ناصری کے خاص حواریوں میں سے ایک نے چند روپے لے کر مسیح کو پکڑوادیا اور دوسرے نے جو بعد میں مسیح کا خلیفہ بننے والا تھا، لوگوںکے ڈر سے مسیح پر کئی دفعہ *** بھیجی اوریہاں خدا کے برگزیدہ محمدی مسیح کو ایسے جانثار پروانے عطا ہوئے جن کی روح کی غذا ہی مسیح کی محبت تھی اور جو ہروقت اسی انتظار میں رہتے تھے کہ ہمیں اپنے آقا پر قربان ہونے کا کب موقع ملتا ہے اور پھر کاش مسٹر والٹر اس وقت اپنے خدا وند مسیح کا یہ قول بھی یاد کرلیتے کہ ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ مگر شاید ان کا خیال اس طرف گیا ہو اور شاید ان کی اس وقت کی گھبراہٹ اسی خیال کی وجہ سے ہو۔ کون کہہ سکتا ہے؟
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی دوروائتیں
الغرض حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم ایک خاص طبقہ کے فرد تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ان لوگوں کے ساتھ خاص محبت تھی اور آپ اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح ان سے محبت کرتے اور ان کے ساتھ بے تکلفی کا رنگ رکھتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے پاس منشی ظفر احمد صاحب کی بہت سی روائتیں محفوظ ہیں جو مَیں نے ان سے عرض کرکے ان کے صالح فرزند شیخ محمد احمد صاحب کے ذریعہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جمع کروالی تھیں۔ ان میں سے بطور نمونہ دو روائتیں اس جگہ درج کرتا ہوں اور لطف یہ ہے کہ ان دونوں میں منشی اروڑا صاحب مرحوم کا بھی تعلق پڑتا ہے۔ ایک دفعہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ میں اور منشی اروڑا صاحب اکٹھے قادیان میں آئے ہوئے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا اور چند دن سے بارش رکی ہوئی تھی۔ جب ہم قادیان سے واپس روانہ ہونے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں سلام کے لئے حاضر ہوئے تو منشی اروڑا صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے عرض کیا ’’حضرت گرمی بڑی سخت ہے دعا کریں کہ ایسی بارش ہو کہ بس اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو۔‘‘ حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’اچھا اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ؟‘‘ مگر ساتھ ہی میں نے ہنس کر عرض کیا کہ حضرت یہ دعا انہی کے لئے کریں۔ میرے لئے نہ کریں۔ (ذرا ان ابتدائی بزرگوں کی بے تکلفی کا انداز ملاحظہ ہو کہ حضرت صاحب سے یوں ملتے تھے جیسے ایک مہربان باپ کے اردگرد اس کے بچے جمع ہوں) اس پر حضرت صاحب پھرمسکرا دیئے اور ہمیں دعا کرکے رخصت کیا۔ منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل کا نام ونشان تک نہ تھا۔ مگر ابھی ہم بٹالہ کے راستہ میں یکہ میں بیٹھ کر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ سامنے سے ایک بادل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھاگیا اور پھر اس زور کی بارش ہوئی کہ رستے کے کناروں پر مٹی اٹھانے کی وجہ سے جو خندقیں بنی ہوئی تھیں، وہ پانی سے لبالب بھر گئیں۔ اس کے بعد ہمارا یکہ جو ایک طرف کی خندق کے پاس پاس چل رہا تھا یک لخت الٹا اور اتفاق ایسا ہوا کہ منشی اروڑا صاحب خندق کی طرف کو گرے اور میں اونچے راستے کی طرف گرا۔ جس کی وجہ سے منشی صاحب کے اوپر اور نیچے سب پانی ہی پانی ہوگیا اور میں بچ رہا۔ چونکہ خدا کے فضل سے چوٹ کسی کو بھی نہیں آئی تھی۔ میں نے منشی اروڑا صاحب کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا ’’لواوپر اور نیچے پانی کی اور دعائیں کروالو۔‘‘ اور پھر ہم حضرت صاحب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آگے روانہ ہوگئے۔۲۴؎
بے نظیر اخلاص وایثار
دوسری روایت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم یہ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ میںکسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلاآیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ’’ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے۔ کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کرسکے گی‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’حضرت انشاء اللہ کرسکے گی۔ اور میں جاکر روپے لاتا ہوں‘‘۔ چنانچہ میں فوراً کپور تھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کرکے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لاکر پیش کردیئے۔ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو (کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے) دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’ منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی۔‘‘ منشی صاحب نے حیران ہوکر پوچھا ’’حضرت کون سی امداد مجھے تو کچھ پتہ نہیں؟‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا۔ ’’ یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے۔‘‘ منشی صاحب نے کہا ’’حضرت! منشی ظفر احمد نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔‘‘ اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ ’’حضرت صاحب کوایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا‘‘۔ میں نے کہا ’’منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیورسے پوری کردی۔ اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے‘‘۔ مگرمنشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایااور پھر منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔ اللہ اللہ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ ذراغور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگرایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتاہے اور جماعت سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کرکے اس رقم کو پورا کردیتاہے اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر تک نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یاکہ جماعت تاکہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کرکے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا۔ ایسا پیچ وتاب کھاتا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا۔۲۵؎
آسمان احمدیت کے درخشندہ ستارے
یہ وہ عشاق حق کا گروہ تھا جو احمدیت کے آسمان پر ستارے بن کرچمکا اوراب ایک ایک کرکے غروب ہوتا جارہا ہے۔ ہم نے ان ستاروں کو بلند ہوتے دیکھا اور اب انہیں غروب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے کتنوں کا دل پسیجا ہے؟ کتنوں کے سینوں میں وہ آگ سلگی ہے جو خدا کی محبت کو کھینچتی اور گناہوں کی آلائش کو جلا کر خاک کردیتی ہے؟ اے اللہ تو رحم کر۔ اے اللہ تو رحم کر !
یاران تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
میں نے کچھ اور بھی لکھنا تھا۔ مگر اب نہیں لکھتا۔ نہیں لکھ سکتا!
‎(مطبوعہ الفضل ۹ ستمبر۱۹۴۱ئ)



رمضان کی برکات سے فائِدہ اٹھانے کا طریق
رمضان کا مبارک مہینہ اور اس کی برکات
غالباً کوئی مسلمان کہلانے والا شخص اس بات سے ناواقف نہیں ہوگا کہ رمضان کا مہینہ ایک نہائت ہی مُبارک مہینہ ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اس کی برکتوں سے عملاًاور تفصیلاً کِس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے بلکہ بعض لوگ تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ رمضان کا مہینہ کیونکر اور کس وجہ سے مبارک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان کو کسی چیز کی برکت کا باعث معلوم نہ ہو اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب تک انسان کِسی بابرکت چیز سے فائدہ اٹھانے کا طریق نہ جانتا ہو، اس کے لئے اس کی برکت خواہ وہ کتنی ہی عظیم الشان ہو۔ ایک کھیل بلکہ ایک موہوم چیز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ کسی شاعر نے کہاہے اور کیا خوب کہا ہے کہ ؎
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی٭
’’یعنی اگر کوئی شخص اپنی جگہ ابنِ مریم کا مرتبہ رکھتا ہے۔( جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ بیماروں کو صرف ہاتھ لگا کر اچھا کردیتے تھے)لیکن مجھے اس شخص سے شفا حاصل نہیں ہوتی اور میرا دکھ ویسے کا ویسا رہتا ہے تو میرے لئے اس شخص کا ابن،مریم ہونا کیا خوشی کا موجب ہوسکتا ہے۔ مجھے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی شخص میرے دُکھ کو دور کرے۔‘‘
ماہ رمضان کی شہادت قیامت کے دِن
بعینہٖ اسی طرح اگر رمضان کا مہینہ مبارک ہے اور وہ یقینا مُبارک ہے اور بہت مبارک ہے لیکن ہم اس کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے یانہیں اٹھاتے تو اس کا مبارک ہونا ہمارے کس کام کا ہے بلکہ اس صورت میں یہی مبارک مہینہ قیامت کے دن ہمارے خلاف شہادت کے طور پر پیش ہوگا کہ
٭:-غالب
خدا نے ہمارے لئے اس کا موقع میسّر کیا مگر ہم پھر بھی اس کی برکتوں سے محروم رہے۔ رمضان کا چاند آیا اور برابر تیس دن تک ہر مومن مسلمان کے دروازہ کو کھٹکھٹا تا پھرا اور اس کے ساتھ خدا کی نعمتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ تھا جسے وہ گویا محض مانگنے پر تقسیم کرنے کو تیار تھامگر بہت کم لوگوں نے اس کے لئے دروازہ کھولا اور تیس دن کے بعد وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر پھر آسمان کی طرف اُٹھ گیا اور خدا کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ تیرے بندے تیری نعمتوں کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ میں نے تیری طرف سے تیرے ہر بندے کے سامنے تیرے انعاموں کو پیش کیا مگر سوائے چند گنتی کے لوگوں کے میں نے سب کو سوتے ہوئے پایا اور وہ میرے جگانے پر بھی نہیں جاگے۔ میں نے انہیں ہوشیار کیا اور ہلایا اور جھنجھوڑجھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی مگر وہ بیدار نہ ہوئے۔ میں نے انہیں آوازیں دیں اور بتایا کہ دیکھو مَیں تمہارے خدا کی طرف سے تمہارے لئے ایک تحفہ لایا ہوں مگر انہوںنے آنکھ تک نہ کھولی بلکہ میری طرف سے کروٹ بدل کر پھر گہری نیند کے سمندر میں غرق ہوگئے۔ رمضان کے مہینہ کی یہ شہادت جو ہرسست اور غافل اور بے دین شخص کے خلاف قیامت کے دن پیش ہونے والی ہے کس قدر ہولناک اور کس قدر ہیبت ناک اور کس قدر دل ہلادینے والی ہے مگر پھر بھی بہت ہی کم لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر کا یہی حال ہے کہ جس حالت میں ہمیں رمضان پاتا ہے اسی حالت میں بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں ہمیں چھوڑ کر واپس چلاجاتا ہے اور ہم اپنے مہربان آقا ومالک سے ویسے کے ویسے ہی دور رہتے ہیں۔
یہ وہ جذبات ہیں جو اس رمضان کے مہینہ میں میرے دل میں پیدا ہوئے۔ بلکہ پیدا ہورہے ہیں اور میں نے مناسب خیال کیا کہ ایک نہایت مختصر مضمون کے ذریعہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اس کے بعد اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بتائوں کہ رمضان کی برکتیں کیا ہیں اور ان سے کس طرح اور کس رنگ میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
رمضان کی سب سے بڑی خصوصیت
سوجاننا چاہیئے کہ رمضان کی سب سے بڑی خصوصیت جس کی وجہ سے اسے خدا کی نظر میں خاص برکت حاصل ہے، یہ ہے کہ وہ اسلام کی پیدائش کا مہینہ ہے کیونکہ جیسا کہ قرآن شریف نے بتایا ہے اور حدیث اور تاریخ سے تفصیلاًثابت ہے قرآن شریف کے نزول کی ابتداء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی وحی جس سے اسلام کی بنیاد قائم ہوئی۔ رمضان ہی کے مبارک مہینہ میں ہوئی تھی۔ پس یہ مہینہ گویا اسلام کی سالگرہ کا مہینہ ہے۔ یعنی وہ مہینہ جس میں خدا کی آخری اورکامل ومکمل شریعت جس نے خداکے بھٹکے ہوئے بندوں کو خدا کے قریب ترلانا تھا اور جس کے ذریعہ دنیا میں روحانیت کے دروازے زیادہ سے زیادہ فراخ صورت میں کھلنے والے تھے، نازل ہونی شروع ہوئی۔ دُنیا میں مختلف قوموں نے اپنے لئے خاص خاص دن مقرر کر رکھے ہیں۔ جو گویا ان کی قومی تاریخ میں خاص یادگار سمجھے جاتے ہیں اور ان دنوں کو خاص خوشی اور خاص شان کے سے منایا جاتا ہے تاکہ اس ذریعہ سے لوگوں میں قومی زندگی کی روح کو تازہ رکھا جاسکے مگر غور کیا جائے تو ان دنوں کی خوشی اس عظیم الشان دن کی خوشی کے مشابہ کیا حقیقت رکھتی ہے۔جبکہ خدائے زمین وآسمان نے اپنی آخری شریعت کو دنیا پر نازل فرمایا جس کے اختتام پر یہ الٰہی بشارت جلوہ افروز ہونے والی تھی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۲۶؎۔ سچ پوچھو تو دنیا میں اگر کوئی دن منانے کے قابل تھا تو وہ یہی تھا کہ جب خدا کی اس آخری اور کامل وکمل شریعت کے نزول کا آغاز ہوا اور انسان کے پیدا کئے جانے کی غرض جہاں تک کہ خدا کے فعل کا تعلق تھا پوری ہوگئی۔ پس رمضان کی سب سے پہلی سب سے بڑی اور سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی پیدائش کا دن ہے۔ ہاں وہی اسلام جو ہماری انفرادی اور قومی زندگی کی روح ورواں اور ہمیں اپنے خالق ومالک کے ساتھ باندھنے کی آخری زنجیر ہے۔
خدا اپنے بندوں کے بالکل قریب ہے
اس کے بعد دوسری خصوصیت رمضان کو یہ حاصل ہے اور یہ خصوصیت گویا پہلی خصوصیت کا ہی نتیجہ اور تتمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں کے بالکل قریب ہوجایا کروںگا اور ان کی دعائوں کو خصوصیت سے سنوں گا۔ یہ وعدہ قرآن شریف میں نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اور حدیث میں بھی اس کا نہائت نمایاں طور پر ذکر آتا ہے۔اوریہ وعدہ ایسا ہی ہے جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنی سلطنتوں کے خاص یادگار والے ایام میں جبکہ وہ کوئی خاص جشن مناتے ہیں اپنی رعایا میں غیرمعمولی طور پر انعام واکرام تقسیم کیا کرتے ہیں۔ پس خدا نے بھی جو ارحم الراحمین ہے اس بات کو پسند فرمایا کہ وہ اپنے پیارے مذہب کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خزانوں کا مونہہ کھول کر اپنے انعاموں کے حلقہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کردے۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
اِذَاسَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِلا فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ ۔۲۷؎
’’یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں کہ رمضان میں میری صفات کا کس طرح ظہور ہوتا ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں رمضان میں اپنے بندوں کے قریب تر ہوجاتا ہوں اور میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ پکارنے والا میرے احکام کو مانے اور مجھ پر ایمان لائے۔‘‘
قریب ہونے سے مراد
اس جگہ قریب ہونے سے یہ مراد نہیں کہ گویا خدا کی ذات لوگوں کے قریب ہوجاتی ہے کیونکہ خدا کوئی مادی چیز نہیں ہے کہ اس کی ذات قریب ہوسکے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کی صفت رحم خاص طورپر جوش میں آکر بندوں کے قریب تر ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں ایک رات ایسی آیا کرتی ہے اس کی ایک گھڑی میں خدائی رحمت اور صفت قبولیت دعا کا غیرمعمولی جوش کے ساتھ اظہار ہوتا ہے۔ اس رات کو اسلامی اصطلاح میں لیلۃ القدر کہتے ہیں اور وہ عموماً طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے اور اس کا تعین وقت اس لئے پردہ میں رکھا گیا ہے تاکہ لوگ اس کی جستجو میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرسکیں۔ اب غور کرو کہ جس ذات والا صفات کی صفت رحمت پہلے سے ہی اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے۔ وہ اپنی رحمت کے خاص لمحات میں کس قدر رحیم وکریم ہوگا۔ پس یہ دوسری خصوصیت ہے جو رمضان کو حاصل ہے کہ اس میں خدا کی صفت رحمت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے اور مومنوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔
خاص عبادتیں
ان دوبرکتوں کے علاوہ رمضان کو ایک تیسری برکت یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے بعض خاص عبادتیں مقرر فرمادی ہیں۔ مثلاً روزہ، تراویح اور اعتکاف وغیرہ جن کی وجہ سے یہ مہینہ گویا ایک خاص عبادت کا مہینہ بن گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو زمانہ خاص عبادت میں گزرے گا، وہ لازماً خدا کی طرف سے خاص برکات کا جاذب اور خاص برکات کا حامل بن جائے گا۔
رحمت اور برکت کا لطیف چکر
رمضان کی یہ صفت گویا ایک گونہ دوری کا رنگ رکھتی ہے۔ یعنی رمضان کی خاص برکات کی وجہ سے اس میں خاص عبادتیں مقرر کی گئیں اور پھر ان خاص عبادتوں کی وجہ سے رمضان نے مزید خاص برکتیں حاصل کیں۔ گویا رحمت وبرکت کا ایک لطیف چکر قائم ہوگیا۔ الغرض یہ وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے رمضان کا مہینہ خاص طورپر مبارک مہینہ قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ اس مہینہ کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تاکہ رحمت و برکت کا یہ لطیف چکر زیادہ سے زیادہ وسیع ہوتا چلا جائے۔
برکات رمضان سے فائدہ اٹھانے کا طریق
اب سوال ہوتا ہے کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق کیا ہے۔ سو یہ کوئی مشکل سوال نہیں اور اسلام نے اسے نہائت سہل طریق پر چند سادہ ہدایات دے کر حل کردیا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر لوگ صرف مونہہ کی خواہش سے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں اور دین کی راہ میں کسی چھوٹی سے چھوٹی قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ بہرحال اسلام نے رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا جو طریق بتایا ہے اسے ہم ذیل کے چندمختصر فقروں میں ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ ترک کیاجائے
اول: رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھائے کے لئے سب سے ابتدائی اور سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کے مطابق رمضان کے روزے رکھے اور بغیر کسی شرعی عذر کے کوئی روزہ ترک نہ کرے۔ روزہ رمضان کی برکات کے لئے گویا بطور ایک کلید کے ہے اور جو شخص باوجود روزہ واجب ہونے کے بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کرتا ہے، وہ ہرگز اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ رمضان کی برکتوں سے کوئی حصہ پائے۔ ہاں جو شخص کسی جائزشرعی عذر کی وجہ سے روزہ ترک کرتا ہے مثلاً وہ واقعی بیمار ہے یا سفر میں ہے وغیرذالک اور محض حیلہ جوئی کے رنگ میں روزہ ترک کرنے کا طریق اختیار نہیں کرتا، تو ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور ہے اور اس صورت میں وہ اگر رمضان کی دوسری شرائط کو پورا کردیتا ہے تو وہ روزہ کے بغیر بھی رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ روزہ نفس کی اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے عجیب وغریب اثر رکھتا ہے اور یقینا وہ شخص بہت ہی بدقسمت ہے جو محض حیلہ جوئی کے رنگ میں روزہ جیسی نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتا ہے۔ مگر جیسا کہ ہر عمل کے ساتھ اچھی نیت کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح روزہ میں بھی اچھی نیت ازبس ضروری ہے۔ جس کے بغیر کوئی روزہ خدا کی نظر میں مقبول نہیں ہوسکتا۔ پس روزہ ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں عادت یا دکھاوے کا قطعاً دخل نہ ہو۔ بلکہ خالصتہً خداکی رضا جوئی کے لئے رکھا جائے اور وہ اس دعا کی عملی تفسیر ہو جو روزہ کھولنے کے وقت کی جاتی ہے کہ
اَللّٰھمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔۲۸؎
’’یعنی اے میرے آقا میں نے یہ روزہ صرف تیری رضا کی خاطر رکھا تھا اور اب تیرے ہی دیئے ہوئے رزق پر اس روزہ کو کھول رہا ہوں۔‘‘
علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے کہ ہر عمل کی ایک روح ہوتی ہے اور روزہ کی روح یہ ہے کہ جس طرح انسان روزہ میں خدا کی خاطر کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ ملنے سے پرہیز کرتا ہے۔ اور اس طرح گویا اپنی ذاتی اورنسلی زندگی ہر دو کو خدا کے لیئے قربانی کردیتا ہے۔اسی طرح وہ صرف روزہ کی ظاہری شکل وصورت میں ہی نہ اُلجھارہے بلکہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اعمال کو کلیۃً خدا کی رضاکے ماتحت لگادے۔ ایسا روزہ یقینا رمضان کی برکات کے حصول کے لئے ایک زبردست ذریعہ ہے۔ جس سے گویا انسان کے لئے خدائی خزانوں کے مونہہ کھل جاتے ہیں۔
تہجد اور نوافل کی طرف زیادہ توجہ دی جائے
دوم:دوسری شرط رمضان کی برکات فائدہ اٹھانے کی یہ ہے کہ انسان رمضان میں نوافل نماز کی طرف زیادہ توجہ دے یعنی علاوہ اس کے کہ پنجگانہ نماز کو پوری پوری شرائط کے ساتھ ادا کرے۔ نوافل کی طرف بھی خاص توجہ دے اور خصوصاً نماز تہجد کا بڑی سختی کے ساتھ التزام کرے۔ دراصل نمازِ تہجد ایک بہت ہی بابرکت نماز ہے جو روحانی ترقیات کے لئے گویا اکسیر کا حکم رکھتی ہے اور اسی لئے رمضان میں اس کا خاص حکم دیا گیا ہے۔ اصل تہجد کی نماز تو یہ ہے کہ انسان رات کے پچھلے حصہ میں اُٹھ کر نماز ادا کرے مگر رمضان کے مہینہ میں اس انعام کو وسیع کرنے کے لئے کمزور لوگوں کے واسطے یہ سہولت کر دی گئی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد بھی تراویح کی صورت میں نماز ادا کرسکتے ہیں مگریہ ایک ادنیٰ مرتبہ ہے اور رمضان کی اصل تراویح یہی ہے کہ رات کے پچھلے حصہ میں اُٹھ کر نماز تہجد ادا کی جائے۔
قرآن شریف میں تہجد کی اتنی تعریف آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تہجد کی نماز کو پوری شرائط اور پورے خلوص کے ساتھ ادا کرنے سے انسان خدا کی نظر میں مقامِ محمود تک پہونچ جاتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر انسان کے لئے علیحدہ علیحدہ مقام محمود مقرر ہے، جو گویا اس کی روحانی ترقی کاا نتہائی نقطہ ہے جس تک پہونچ کر وہ خدا کی نظر میں اس تعریف کا مستحق ہوجاتاہے کہ اب میرے اس بندے نے اپنی فطری استعداد کے مطابق اپنی روحانی ترقی کے انتہائی نقطہ کو پالیا اور تہجد کی نماز انسان کو اس کے مقام محمود تک پہونچانے میں حددرجہ مؤثر ہے۔
تلاوت قرآن کریم زیادہ کی جائے
سوم: تیسری شرط رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی یہ ہے کہ انسان رمضان کے مہینہ میں قرآن شریف کی تلاوت پر خاص زور دے۔ میں اپنے ذوق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ انسان کو رمضان کے مہینہ میں کم از کم دو دفعہ قرآن شریف کا دَور ختم کرنا چاہیئے۔ دو دفعہ میں حکمت یہ ہے کہ جب انسان ایک دفعہ قرآن شریف ختم کرکے پھر اسے دوسری مرتبہ شروع کرتا ہے تو وہ گویا زبانِ حال سے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ قرآن شریف کے متعلق میرا طریق یہ نہیں ہوگا کہ میں اسے ایک دفعہ پڑھ لوں اور پھر بھول جائوں یا بندکرکے رکھ دوں بلکہ میں اسے باربار تکرار کے ساتھ پڑھتا رہوں گا اور اس کے حکموں کو ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ابتداء میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر رمضان میں قرآن شریف کا ایک دَور ختم کیا کرتے تھے لیکن جب قرآن شریف کا نزول مکمل ہوچکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے آخری رمضان میں حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کے ساتھ قرآن شریف کا دو دفعہ دور کیا۲۹؎۔ پس چونکہ ہمارے سامنے بھی قرآن شریف مکمل صورت میں ہے اس لئے اگر انسان کو توفیق ملے تو رمضان میں قرآن شریف کے دو دور پورے کرنے چاہئیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ میں نے اندازہ کیا ہے کہ اگر انسان اوسطاً پچاس منٹ روزانہ دے تو وہ آسانی کے ساتھ قرآن شریف کے دو دَور ختم کرسکتا ہے۔
تلاوت قرآن کے متعلق ضروری امور
علاوہ ازیں قرآن شریف کی تلاوت کے متعلق ہر مسلمان کو ذیل کی چار باتیں ضرور ملحوظ رکھنی چاہئیں:-
الف: جہاں کہیں قرآن شریف میں کوئی حکم امر کی صورت میں آئے۔ یعنی کِسی بات کا مثبت صورت میں حکم دیا جائے کہ ایسا کرو تو انسان کو اس جگہ رُک کر اپنے دل میں یہ غورکرنا چاہیئے کہ کیا میں اس خدائی حکم پر عمل کرتا ہوں۔ اگر وہ عمل نہیں کرتا یا کمزوری دکھاتا ہے تو اپنے دل میں عہد کرے کہ میں آیندہ اس حکم پر عمل کروں گا۔
ب: جہاں کہیں کوئی حکم نہی کی صور ت میں آئے یعنی کِسی بات کے متعلق منفی صورت میں حکم دیا جائے کہ یہ کام نہ کرو۔ تو اس وقت پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے رُک کر اپنے دل میں سوچے کہ کیا میں اس نہی سے رُکتا ہوں۔ اگر نہیں رکتا یا کمزوری دکھاتا ہے تو آیندہ اصلاح کا عہد کرے۔
ج: جہاں کہیں قرآن شریف میں خدا کی کِسی رحمت یا انعام کا ذکر آئے تو اس وقت پڑھنے والا اپنے دل میں یہ دعا کرے کہ خدایا یہ رحمت اور یہ انعام مجھے بھی عطا فرما اور مجھے اس سعادت سے محروم نہ رکھ۔
د: اور جہاں کہیں قرآن شریف میں کسی عذاب یا سزا کا ذکر ہو تو انسان اس جگہ خدا سے استغفار کرے اور یہ دعا کرے کہ خدایا مجھے اس عذاب اور سزا سے محفوظ رکھیو اور اپنی ناراضگی کے موقعوں سے بچائیو۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان ان چارباتوں کو مدنظر رکھ کر قرآن شریف کی تلاوت کرے گا اور اس کی نیت اچھی ہوگی تو وہ اس تلاوت سے خاص بلکہ اخص فائدہ اٹھائے گا۔ افسوس ہے کہ اکثر لوگ قرآن شریف کے نکات اور رموز کے درپے تو رہتے ہیں مگر اس کے عملی پہلو کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف کا عملی پہلو اس کے نکات اور رموز کی نسبت بہت زیادہ قابلِ توجہ ہے۔ بیشک عالم لوگوں اور مذہبی مجادلات میں حصہ لینے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن شریف کے حکمت و فلسفہ اور اس کے علمی خزانوں کی طر ف بھی توجہ دیں مگر وہ بات جس کی ہر متنفس کو ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی روحانی زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی، وہ قرآن شریف کا عملی پہلو ہے۔ اور یہ عملی پہلو صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ جب قرآن شریف کو مندرجہ بالا چارشرائط کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔
زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کیا جائے
چہارم: چوتھی بات جو رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے میں از بس مفید ومؤثر ہے، یہ ہے کہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کیا جائے۔ صدقہ وخیرات انسان کی جسمانی اور روحانی تکالیف کو دُور کرنے اور خدا کے فضل اور رحم کو جذب کرنے میں گویا اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ جونہی کہ ایک شخص خدا کے کسی مصیبت زدہ بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو خدا اپنے ازلی فیصلہ کے مطابق اس کے اس فعل کو گویا خودا پنے اوپر ایک احسان خیال کرتا ہے اور اس پر فوراً خدائی قدرت نمائی کی وسیع مشینری اس بندے کی تائید میں حرکت کرنے لگتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ۳۰؎ یعنی صدقہ خدا کے غضب کو دُور کرتا ہے۔ تو پھر اس صدقہ کا کیا کہنا ہے جو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں خالص خدا کی رضاکے لئے کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قاعدہ تھا کہ رمضان میںاتنا صدقہ کرتے تھے کہ صحابہ نے آپ کے اس صدقہ کو ایک ایسی تیز ہواسے تشیبہ دی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی ۳۱؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ رمضان میں اتنا صدقہ کرتے تھے کہ اس صدقہ میں اپنی طاقت اور ہمت کو بھی بھول جاتے تھے اور صدقہ میں آپ کا ہاتھ اس طرح چلتا تھا جس طرح ایک تیز آندھی تمام قیود وبند سے آزاد ہوکر چلتی ہے۔ واقعی رمضان میں صدقہ وخیرات خدا کی نظر میں بہت ہی بڑا مرتبہ رکھتا ہے۔ اور اس سے رمضان کی برکت کو چار چاند لگ جاتے ہیں مگر صدقہ میں یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہیئے کہ جو لوگ واقعی حاجت مند ہیں انہیں تلاش کرکرکے مدد پہونچائی جائے۔ مثلاً کوئی یتیم ہے اور وہ خرچ سے لاچار ہے۔ کوئی بیوہ ہے اور وہ تنگ دست ہے کوئی غریب ہے او ر وہ گزارہ کی صورت نہیں رکھتا۔ کوئی بیمار ہے اور اسے علاج کی طاقت حاصل نہیں۔ کوئی مسافر ہے اور زاد راہ سے محروم ہے۔ کوئی مقروض ہے اور قرض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں کو تلاش کرکرکے صدقہ پہونچایا جائے اور ایسے رنگ میں پہونچایا جائے کہ اس میں کوئی صورت منّ واذیٰ کی نہ پیدا ہو بلکہ اگر خدا کسی کو توفیق دے تو صدقہ کا بہتر مقام یہ ہے کہ صدقہ دینے والا صدقہ قبول کرنے والے کا احسان خیال کرے کہ اس کے ذریعہ مجھے خدا کے رستہ میں نیکی کی توفیق ملی رہی ہے۔ پھر صدقہ وخیرات کے حلقہ میں جانوروں تک کو شامل کرنا چاہیئے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے فِیْ کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ حَرَّی أَجْرًا ۳۲؎یعنی ہر زندہ جگر رکھنے والی چیز پر رحم کرنے میں خدا کی طرف سے اجر ملتا ہے۔ خواہ وہ انسان ہو یا حیوان۔ یہ سوال کہ صدقہ کتنا ہو اس کے متعلق شریعت نے کوئی حدبندی نہیں مقرر کی۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا عشق رکھنے والوں کے لئے آپ کا یہ نمونہ کافی ہے کہ صدقہ میں انسان کا ہاتھ ایک تیز آندھی کی طرح چلنا چاہیئے۔لیکن میں اپنے ذوق کے مطابق عام لوگوں کے لئے یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر رمضان میں اپنی آمدنی کا دسواں حصہ صدقہ دے دیا جائے تو مناسب ہے مثلاً اگر کِسی شخص کی ماہوار آمد ایک سو روپیہ ہے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ رمضان میں دس روپے صدقہ کردے۔ خدا کے راستہ میں قربانی کرنے والے لوگوں کے لئے یہ رقم یقینا زیادہ نہیں ہے۔ اور پھر یہ تو ایک کھیتی ہے جتنا زیادہ بوئوگے اسی نسبت سے زیادہ اُگے گا اور اسی نسبت سے زیادہ کاٹو گے۔ ہر انسان کے اردگرد کے بے شمار غریب اور مسکین اور یتیم اور مصیبت زدہ اور بیمار وغیرہ بستے ہیں۔ رمضان میں ان کی تکلیف کو دور کرنا خدا کی رحمت کو ایسی مضبوط زنجیر کے ساتھ کھینچنے کا حکم رکھتا ہے، جس کے ٹوٹنے کا خدا کے فضل سے کوئی اندیشہ نہیں۔
اعتکاف
پنجم: رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریق اعتکاف بھی ہے۔ جس کا قرآن شریف میں مجملاً اور احادیث میں تفصیلاً ذکر آتا ہے۔ مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کسی مسجد میں ڈیرہ لگادیا جائے اور سوائے حوائج انسانی یعنی پیشاب پاخانہ وغیرہ کی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلا جائے اور یہ دس دن رات خصوصیت کے ساتھ نماز اور قرآن خوانی اور ذکر اور دعا وغیرہ میں گزارے جائیں۔ گویا انسان ان ایام میں دنیا سے کٹ کر خدا کے لئے کلیۃً وقف ہوجائے۔اعتکاف فرض نہیںہے بلکہ ہر انسان کے حالات اور توفیق پر موقوف ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ جس شخص کے حالات اجازت دیں اور اسے اعتکاف کی توفیق میسّر آئے اس کے لئے یہ طریق قلب کی صفائی اور روحانی ترقی کے واسطے بہت مفید ہے لیکن جس شخص کو اعتکاف کی توفیق نہ ہو یا اس کے حالات اس کی اجازت نہ دیں تو اس کے لئے یہ طریق بھی کسی حد تک اعتکاف کا مقام ہوسکتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ مسجد میں گزارے اور یہ وقت نماز اور قرآن خوانی اور ذکر اور دعا وغیرہ میں صرف کرے۔ بے شک اعتکاف کے بدلہ میں یہ کوئی مسنون طریق نہیں ہے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسے شخص کی تعریف فرمائی ہے جس کا دل مسجد میں آویزاں رہتا ہے۔ اس لئے یہ طریق بھی اگر حسن نیت سے کیا جائے تو فائدہ سے خالی نہیں ہوسکتا۔
نفس کا محاسبہ کیا جائے
ششم: چھٹی بات یہ ہے کہ انسان رمضان میں اپنی زندگی کو خصوصیت کے ساتھ رضائے الٰہی کے ماتحت چلائے اور اپنے نفس کا بار بار محاسبہ لیتا رہے کہ کیا میرے اوقات خدا کے منشاء کے ماتحت گزررہے ہیں یا نہیں۔ ایسا محاسبہ ہر وقت ہی مفید ہوتا ہے اورکوئی سچا مومن محاسبہ سے غافل نہیں ہوسکتا کیونکہ محاسبہ انسان کو غفلت سے محفوظ رکھتا اور آیندہ کے لئے ہوشیار کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ مگر رمضان کے مہینہ میں یہ محاسبہ زیادہ کثرت اورزیادہ التزام کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ مثلاً اگر ہر شخص رمضان میں یہ التزام کرے کہ ہر نماز کے وقت اپنے دل میں یہ محاسبہ کیا کرے کہ کیا میں نے اس سے پہلی نماز کے بعد سے لے کر اس نماز تک اپنا وقت خدا کی رضا میں گزارا ہے اور کیا مَیں نے اس عرصہ میں کوئی بات منشاء الٰہی کے خلاف تو نہیں کی تو یقینا ایسا محاسبہ نفس کی اصلاح کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے اور اس طرح گویا ایک رنگ میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ ہی عبادت بن جاتا ہے۔ اسی طرح بستر میں لیٹ کر سوتے وقت مسنون دعائیں کرنے سے انسان اپنے سونے کے اوقات کو بھی عبادت کا رنگ دے سکتا ہے اور انہیں اپنے لئے مبارک بناسکتا ہے۔
دعا
ہفتم :سب سے آخر میں رمضان کی برکتوں سے حصہ پانے کا طریق دعا ہے۔ رمضان کے ایام کا ماحول دعا کے لئے یقینا ایک بہترین ماحول ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے لئے خاص عبادت کا مہینہ ہے۔ گویا ساری اسلامی دنیا اس مہینہ کو عملاً عبادت میں گزارتی ہے۔ اور مومنوں کی طرف سے اس مہینہ میں نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن اور صدقہ وخیرات اور ذکر وغیرہ کے پاکیزہ اعمال اس کثرت اور تنّوع کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں کہ اگر وہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ کئے گئے ہوںتو یقینا خدا کی خاص الخاص رحمت اور خاص الخاص فضل کو کھینچنے کا موجب ہوتے ہیں۔ پھر اگر ایسے موقع پر دعا زیادہ قبول نہ ہو تو کب ہو۔ علاوہ ازیں رمضان کے متعلق خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں مخصوص وعدہ بھی ہے کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بالکل قریب ہوجاتا ہوں اور اُن کی دعائوں کو خاص طور پر سُنتا ہوں۔ پس لاریب یہ مہینہ خاص دُعائوں کا مہینہ ہے اور جو شخص اس مُبارک مہینہ میں اپنے آپ کو دُعائوں سے محروم رکھتا ہے۔ وہ یقینا ایک بہت ہی شقی اور بدبخت انسان ہے جو گویا ایک شیریں چشمہ کے مونہہ پر پہونچ کر پھر پیاسا لوٹ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں رمضان میں لیلۃ القدر کا واقع ہونا تو گویا سونے پر سہاگہ ہے۔ جس کی طرف سے کوئی سچا مومن غافل نہیں ہوسکتا مگر دُعا ان شرائط کے مطابق ہونی چاہیئے جو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کر رکھی ہیں اور رمضان کی دُعائوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی شرائط کو ایک بہت ہی معین صورت دے دی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
’’ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۳۳؎
یعنی ہم رمضان کے مہینہ میں اپنے بندوں کی دُعائوں کو ضرورقبول کریں گے مگریہ شرط ہے کہ وہ میری بات مانیں۔ یعنی رمضان کے متعلق جو حکم میں نے دیا ہے اسے قبول کریں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں۔ وہ ایمان پُر محبت اور اخلاص پرمبنی ہو۔اور اس میں کِسی قِسم کے نفاق اور شرک کی ملونی نہ پائی جائے، ان شرطوں پر کاربند ہوکر وہ قبولیت کا رستہ ضرورپالیں گے۔‘‘
اب دیکھو کہ یہ ایک کیسا آسان سودا ہے جو خدا نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ خدا کِس صورت اور کس رنگ میں دُعا کو قبول فرماتا ہے۔ سو یہ خدا کی سُنت وحکمت پر موقوف ہے جس میں انسان کو دخل نہیں دینا چاہیئے۔ وہ جس رنگ اور جس صورت میں مناسب خیال کرے گا۔ ہماری دُعائوں کو قبول کرے گا لیکن اگر ہم اس کی شرطوں کو پورا کردیتے ہیں تو وہ قبول ضرورکریگا اور ممکن نہیں کہ اس کا وعدہ غلط نکلے۔
دعا کس طرح کی جائے
دعائوں کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر دعا سے پہلے خدا کی حمد کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعا مانگنا نہایت ضروری ہے۔ اور جو شخص ان دعائوں کو ترک کرتا ہے، وہ یقینا خدا کا مخلص بندہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ البتہ ان دعائوں کے بعد اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں اوردعائوں میں درد اور گداز پیدا کیا جائے۔ ایسا گداز جس سے دل پگھلنے لگے اسی طرح جس طرح ایک لوہے کا ٹکڑا بھٹی میں پگھلتا ہے تاکہ دعا ایک رسمی اور مردہ چیز نہ رہے بلکہ حقیقی اور زندہ چیز بن جائے۔ ایسی دعا موقوف ہے الٰہی توفیق پر اور پھردعا کرنے والے کے حالات اور احساسات پر۔
ماہ صیام کی خدا کے حضورت شہادت
یہ وہ چند باتیں ہیں جنہیں اختیار کرکے انسان رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یقینا جو شخص ان باتوں کو خدا کی رضاء کے لئے اختیار کرے گا۔ اس کا رمضان اس کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہے۔ ایسے شخص کے متعلق رمضان کا چاند خدا کے حضور یہ شہادت دے گا کہ خدایا میں نے تیرے اس بندے کو جس حالت میں پایا اس سے بہت بہتر حالت میں اُسے چھوڑا۔ وَذَالِکَ فَوْزٌ عَظِیْمٌ وَمَا التَّوفِیْقُ اِلاّ باللّٰہِ الرَّحِیْمِ
آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے آسمانی آقا! ہم تیرے بہت ہی کمزور اور نالائق بندے ہیں۔ ہم تیری طرف سے انعام پر انعام دیکھتے ہیں اور کمزوری پر کمزوری دکھاتے ہیں تو ہمیں اوپر اٹھاتا ہے اور ہم نیچے کی طرف جھکتے ہیں۔ تو احسان کرتا ہے اور ہم ناشکری میں وقت گذارتے ہیں مگر پھر بھی ہم بہرحال تیرے ہی بندے ہیں۔ پس اگر تو یہ جانتا ہے کہ ہم باوجود اپنے لاتعداد گناہوں اور کمزوریوں کے تیری حکومت کے باغی نہیں اور تیری اور تیرے رسول اور تیرے مسیح کی محبت کو خواہ وہ کتنی ہی کمزور ہے اپنے دلوں میں جگہ دیئے ہوئے ہیں تو تو اس رمضان کو اور اس کے بعد آنے والے رمضانوں کو ہمارے لئے اور ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے جو آگے آنیوالی ہیں مبارک کردے۔ اور ہمیں اپنا وفادار بندہ بنا۔ اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ایسی خدمت کی توفیق عطا کر جو تجھے خوش کرنے والی ہو۔ اور ہمارے انجام کو بخیر کر۔ اٰمین یاارحم الراحمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۱ئ)






حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دوستوں اور دُشمنوں سے سلوک
دوستوں سے سلوک
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جومحبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھڑاکر کے پھر اس کے گرانے میں کبھی پہل نہیں کی۔ ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب ٹبالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعوٰی مسیحیت پر آکر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیابلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشدترین مخالفوں میں سے ہوگئے اور آپ کے خلاف کُفر کا فتویٰ لگانے میں پہل کی مگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دارمضامین بھی لکھے مگران کی دوستی کے زمانہ کو آپ کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہوجانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا۔چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :
قَطِعْتَ ودادً قد غرسناہ فی الصبا
ولیسَ فؤادی فی الوداد یقصِّر۳۴؎
’’ یعنی تو نے تو اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جوہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایاتھا میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتا ہی کرنے والانہیں ہے‘‘ ۔
جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتا تواسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہوجاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جاوئے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کواز صدمہ پہنچتا تھا۔ ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند اور ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب ( موجود امام جماعت احمدیہ ) کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آمین میں اپنے دوستوں کے آنے کا ذکر بھی کیا اور پھر ان کے واپس جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہار فرمایا۔ چنانچہ فرماتے ہیں
مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یادآئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَاِنیْ
دنیا بھی اک سراہے بچھڑے گا جو ملاہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیںجایہ گھر ہی بے بقاہے
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَاِنیْ
۳۵؎
اوائل میں آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر مکان کے مردانہ حصہ میں کھانا تنا دل فرمایاکر تے تھے اور یہ مجلس اس بے تکلفی کی ہوتی تھی اور ہر قسم کے موضوع پر ایسے غیر رسمی رنگ میں گفتگو کا سلسلہ رہتاتھا کہ گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دسترخوان بچھ جاتا تھا۔ ان موقعوں پر آپ ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے اور اس بات کی نگرانی فرماتے کہ ہر شخص کے سامنے دسترخوان کی ہر چیز پہنچ جائے۔ عموماً ہر مہمان کے متعلق خود دریافت فرماتے تھے کہ اسے کسی خاص چیز مثلاًدودھ یا چائے یا پان وغیرہ کی عادت تو نہیں اور پھر حتٰی،الوسع ہر ایک کے لئے اس کی عادت کے مطابق چیز مہیا فرماتے۔ جب کوئی خاص دوست قادیان سے واپس جانے لگتا تو آپ عموماًاس کی مشایعت کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دومیل تک اس کے ساتھ جاتے اور بڑی محبت کے اور عزت کے ساتھ رخصت کر کے واپس آتے تھے ۔
آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان میں آئیں وہ حتٰی الوسع آپ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقع مل سکے غنیمت سمجھنا چاہیئے اس طرح آپ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹا رہتا تھا مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ معززین جو آج کل بڑے بڑے وسیع مکانوں اور کوٹھیوں میںرہ کر بھی تنگی محسوس کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ایک کمرہ میںسمٹے ہوئے رہتے تھے اور اس میں خوشی پاتے تھے ۔
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کے زمانہ کا ایک پھلدار باغ ہے جس میں مختلف قسم کے ثمردار درخت ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل تڑوا کر سب دوستوں کے ساتھ مل کر نہایت بے تکلفی سے نوش فرماتے۔ اس وقت یوں نظر آتا تھا گویا ایک مشفق باپ کے ارد گرد اس کی معصوم اولا دگھیر اڈالے بیٹھی ہے مگر ان مجلسوں میںکبھی کوئی لغو بات نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ نہایت پاکیزہ اور اکثراوقات دینی گفتگو ہواکرتی تھی اور بے تکلفی اور محبت کے ماحول میں علم و معرفت کا چشمہ جاری رہتاتھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات دوستی کے تعلق میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ آپ کی دوستی کی بنیاد اس اصول پر تھی کہ الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ یعنی دوستی اور دشمنی دونوں خدا کے لئے ہونی چاہئیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے یادنیا کے لئے۔ اسی لئے آپ کی دوستی میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا اور آپ کی محبت کے وسیع دریا سے بڑے اور چھوٹے ایک ساحصہ پا تے تھے ۔
دُوشمنوںسے سلوک
قرآن شریف فرماتا ہے:
وَلَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْاھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ ۳۶؎
یعنی اے مسلمانو! چاہیئے کہ کسی قوم یا فرقہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے معاملہ میں عدل وانصاف کا طریق ترک کر دو بلکہ تمہیں ہر حال میں ہر فریق اور ہر شخص کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے۔ قرآن شریف کی یہ زریں تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کانمایاں اصول تھی۔ آپ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں ہے بلکہ صرف جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے۔ اس اصل کے ماتحت جہاں تک ذاتی امور کا تعلق ہے آپ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ سلوک تھا اور اشد ترین دشمن کا درد بھی آپ کو بے۔چین کر دیتا تھا۔ چنانچہ جیسا کہ آپ کے سوانح کے حالات گزر چکاہے جب آپ کے بعض چچازاد بھائیوں نے جو آپ کے خونی دشمن تھے، آپ کے مکان کے سامنے دیوار کھینچ کرآپ کو اور آپ کے مہمانوں کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیا اور بھر بالآخر مقدمہ میں خدا نے آپ کو فتح عطا کی اور ان لوگوں کو خود اپنے ہاتھ سے دیوار گرانی پڑی تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے آپ سے اجازت لینے کے بغیر ان لوگوں کے خلاف خرچہ کی ڈگری جاری کروادی۔ اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عاجزی کا خط بھجواکر رحم کی التجا کی۔ آپ نے نہ صرف ڈگری کے اجراء کو فوراً رکوادیا بلکہ اپنے ان خونی دشمنوں سے معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ کارروائی ہوئی ہے جس کا مجھے افسوس ہے اور اپنے وکیل کو ملامت فرمائی کہ ہم سے پوچھے بغیر خرچہ کی ڈگری کا اجراء کیوں کروایا گیا ہے۔ اگر اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو وہ دشمن کی ذلت اور تباہی کو انتہاتک پہنچا کر صبر کرتا مگر آپ نے ان حالات میں بھی احسان سے کام لیا اور اس بات کا شاندار ثبوت پیش کیا کہ آپ کو صرف گندے خیالات اور گندے اعمال سے دشمنی ہے کسی سے ذاتی عداوت نہیں اور یہ کہ ذاتی معاملات میں آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست ہیں ۔
اسی طرح یہ واقعہ بھی اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب ایک خطرناک خونی مقدمہ میں جس میں آپ پر اقدام قتل کا الزام تھا، آپ کا اشدترین مخالف مولوی محمد حسین بٹا لوی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش ہوا اور آپ کے وکیل نے مولوی صاحب کی گواہی کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بعض خاندانی اور ذاتی امور کے متعلق ان پر جرح کرنی چاہی توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بڑی ناراضگی کے ساتھ اپنے وکیل کو روک دیا اور فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں اس قسم کے سوالات کی اجازت نہیں دے سکتا اور اس طرح گویا اپنے جانی دشمن کی عزت وآبرو کی حفاطت فرمائی ۔
اسی طرح جب پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق لاہور میں قتل ہوئے اور آپ کو اس کی اطلاع پہنچی تو گو پیشگوئی پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کا شکر بجالائے مگر ساتھ ہی انسانی ہمدردی میںآپ نے پنڈت لیکھرام کی موت پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور بار بار فرمایا کہ ہمیں یہ درد ہے کہ پنڈت صاحب نے ہماری بات نہیں مانی اور خدا اوراُس کے رسول کے متعلق گستاخی کے طریق کو اختیار کر کے اور ہمارے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھ کر اپنی تباہی کا بیج بولیا ۔
قادیان کے بعض آریہ سماجی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے اور آپ کے خلاف ناپاک پرا پیگنڈے میں حصہ لیتے رہتے تھے مگر جب بھی انہیں کوئی تکلیف پیش آتی یا کوئی بیماری لاحق ہوتی تو وہ اپنی کارروائیوں کو بھول کر آپ کے پاس دوڑے آتے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردانہ اور محسنانہ سلوک کرتے اور ان کی امدادمیں دلی خوشی پاتے۔ چنانچہ ایک صاحب قادیان میں لالہ بڈھامل ہوتے تھے جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے۔ جب قادیان میں منارۃالمسیح بننے لگا تو ان لوگوں نے حکام سے شکایت کی کہ اس سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی اس لئے مینارکی تعمیر کو روک دیا جائے۔ اس پر ایک مقامی افسر یہاں آیااور اس کی معیت میں لالہ بڈھامل اور بعض دوسرے مقامی ہندو اور غیر احمدی اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان افسر صاحب کو سمجھایا کہ یہ شکایت محض ہماری دشمنی کی وجہ سے کی گئی ہے اور نہ اس میں بے پردگی کا کوئی سوا ل نہیں۔ اگر با لفرض کوئی بے پردگی ہوگی تو اس کا اثر ہم پر بھی ویسا ہی پڑے گا جیسا کہ ان پر اور فرمایا کہ ہم تو صرف ایک دینی غرض سے یہ مینارہ تعمیر کروانے لگے ہیں ورنہ ہمیں ایسی چیزوں پر روپیہ خرچ کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ اسی گفتگو کے دوران میں آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ اب یہ لالہ بڈھامل صاحب ہیں آپ ان سے پوچھیے کہ کیا کبھی کوئی ایسا موقع آیا ہے کہ جب یہ مجھے کوئی نقصان پہنچاسکتے ہوں اور انہوں نے اس موقع کو خالی جانے دیا ہو اور پھر ان ہی سے پوچھئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع ملا ہو اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کے وقت لالہ بڈھامل اپنا سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے اور آپ کے جواب میں ایک لفظ تک مونہہ پر نہیں لاسکے۔ ۳۷؎
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجودایک مجسم رحمت تھا وہ رحمت تھا اسلام کے لئے اور رحمت تھا اس پیغام کے لئے جسے لے کر وہ خود آیا تھا۔ وہ رحمت تھا اسی بستی کے لئے جس میں وہ پیدا ہوا اور رحمت تھا دنیا کے لئے جس کی طرف وہ مبعوث کیاگیا۔ وہ رحمت تھا اپنے اہل و عیال کے لئے اور رحمت تھا اپنے خاندان کے لئے اور رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے۔ اس نے رحمت کے بیج کو چاروں طرف بکھیرا اوپر بھی اور نیچے بھی آگے بھی اور پیچھے بھی دائیں بھی اور بائیں بھی مگر بدقسمت ہے وہ جس پر یہ بیج تو آکر گرا مگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے اور اُگانے سے انکا رکر دیا ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۵ دسمبر ۱۹۴۱ئ)




نفع مند کام پر روپیہ لگانے کا عمدہ موقع!
آج کل جنگ کی وجہ سے ہندوستان کی صنعت وحرفت کو خاص ترقی حاصل ہورہی ہے۔ اور اس ذیل میں قادیان کے متعدد کارخانوں میں بھی کام بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن سرمایہ کی وجہ سے بہت سے کارخانے اپنے کام کو اتنا وسیع نہیں کرسکتے جتنا کہ اُن کے واسطے موقع ہے۔ چنانچہ میرے پاس متعدد کارخانہ دار اس بات کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں کہ اگر ان کے سرمایہ کی توسیع کا انتظام ہوجائے تو موجودہ حالات میں انہیں اور سرمایہ لگانے والوں کو معقول نفع حاصل ہوسکتا ہے۔ میں چونکہ ہمیشہ احتیاط اور حفاظت کے پہلو کو ترجیح دیتا ہوں۔ اس لئے میں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ کیونکہ خواہ تجارت ہو یا صنعت وحرفت بہرحال اس میں فائدہ اور نقصان دونوں کا رستہ کھلا ہوتا ہے۔ اور میں اس بات سے ڈرتا رہاہوں کہ ہماری جماعت کے تھوڑی تھوڑی پونجی والے اصحاب زیادہ نفع کی آرزو میں اپنا سرمایہ ہی برباد نہ کربیٹھیں مگر اب متعدد کارخانہ داروں کے ساتھ بات کرنے کے نتیجہ میں یہ صورت تجویز کی گئی ہے کہ سرمایہ لگانے والے دوست کاروبار میں شریک نہ ہوں۔ (سوائے اس کے کہ خود اُن کی طرف سے ایسی درخواست ہو۔) بلکہ جائیداد کے رہن کی صورت میں روپیہ لگادیں۔ اور پھر اس مرہونہ جائیداد پر انہیں کرایہ کی صورت میں نفع ملتا رہے۔ اِس طرح انشاء اللہ روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور سرمایہ داروں کو معقول منافع بھی مل سکے گا۔ پس جو دوست اس رنگ میں اپنا روپیہ لگانا چاہیں وہ خاکسار کے ساتھ خط وکتابت فرماویں۔ سرمایہ لگانے والوں کی سہولت کے لئے اس قسم کی شرط بھی ہوسکتی ہے کہ اگر کسی وقت کسی سرمایہ دار کو اپنے روپے کی واپسی کی ضرورت پیش آئے تو وہ دو یا تین ماہ کا نوٹس دے کر اپنا روپیہ واپس لے لے۔ رہن عام حالات میں مکان یا دوکان یا زمین یا مشینری وغیرہ کی صورت میں ہوگا۔ اور روپیہ لینے والا شخص جائیداد مرہونہ کا مناسب کرایہ ادا کرتا رہے گا۔ عام حالات میں ایک ہزار سے کم روپیہ نہیں لیا جائے گا۔ مگر اس سے زیادہ جتنا بھی ہو قابل قبول ہوگا۔ اور انشاء اللہ باقاعدہ تحریر کے ذریعہ فریقین کے حقوق محفوظ کرادیئے جائیں گے۔ میرا کام صرف امانت دارنہ مشورہ دینا ہوگا۔ اس سے زیادہ مجھے نہ تو نفع میں کوئی حصہ حاصل ہوگا اور نہ ہی مجھ پر کوئی ذمہ داری ہوگی۔ جو دوست روپیہ فوراً بھجوانا چاہیں۔ وہ میرے نام براہ راست یا بالواسطہ دفتر محاسب صدرانجمن احمدیہ قادیان روپیہ بھجوادیں۔ جب تک ان کا روپیہ کسی کام پر نہیں لگتا، اس وقت تک یہ روپیہ خزانہ صدرانجمن احمدیہ میں میرے نام پر امانت رہے گااور امانت دار کی درخواست پر انشاء اللہ ہر وقت واپس مل سکے گا۔ جو دوست اپنے روپے کے متعلق کوئی خاص شرط پیش کرنا چاہیں وہ کرسکتے ہیں۔ جو اگر شریعت اور قانون کے خلاف نہ ہوئی تو اس کا خیال رکھا جائے گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۴۲ئ)






ایک غلط فہمی کا ازالہ
اور
مسئلہ رہن پر ایک مختصر نوٹ
چند دن ہوئے میری طرف سے ’’الفضل‘‘ میںایک اعلان شائع ہوا تھا۔ جس میں قادیان کے کارخانوں کی امداد کے واسطے روپیہ لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ مجھے ایک محترم دوست نے توجہ دلائی ہے کہ اس اعلان کے بعض الفاظ ایسے ہیں کہ اُن سے اس معاملہ میں سُود کی جَھلک نظر آتی ہے۔ میں نے اس اعلان کو دوبارہ نہیں دیکھا ممکن ہے کہ بعض الفاظ غیرمحتاط ہوگئے ہوں۔ مگر بہرحال کسی سچے احمدی کے اعلان میں سُود کا رنگ مقصود نہیں ہوسکتا۔ اور اس بارے میںغلط فہمی کا پیدا ہونا یقینا قابل افسوس ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے اس اعلان میں صراحت کردی تھی کہ روپیہ دوطرح لگایا جاسکتا ہے۔ ایک کارخانہ میں حصہ داری کی صورت میں اور دوسرے رہن کی صورت میں جو مکانوں ، دوکانوں، یا زمین یا مشینری وغیرہ کی صورت میں ہوسکتا ہے میرے بزرگ دوست نے رہن والی صورت میں اعلان کے اندر کوئی قابلِ اعتراض بات سمجھی ہے۔
افسوس ہے کہ میں اس وقت بوجہ وقت کی تنگی اور مصروفیت کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ اور بوجہ اس کے کہ میں مفتی یافقیہہ نہیں، زیادہ لکھنے کا حق بھی نہیں رکھتا لیکن مختصر طور پر عرض کردینا چاہتا ہوں کہ رہن کی صورت اگر اس کی تفصیل میں کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہو ایک جائز صورت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۂ وقت کے فتویٰ اور عمل کی تائید حاصِل ہے۔ دراصل رہن کی جائز صورت کا مرکزی نقطہ ان تین باتوں میں آجاتا ہے:
اول: رہن میں آمد یا کرایہ وغیرہ کی بنیاد روپیہ کی مقدار پر نہ ہو بلکہ جائداد مرہو نہ کی بنیاد پر ہو۔ مثلاً ایک شخص ایک مکان ایک ہزار روپے میں رہن لیتا ہے۔ اور وہ مکان چار روپے ماہوار کرایہ کی حیثیت کا ہے تو رہن لینے والے کے لئے اس مکان کا چار روپے ماہوار کرایہ وصول کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر وہ مکان کی حیثیت کو نظر انداز کرکے اپنے روپیہ کی بنیاد پر زیادہ کرایہ لینا چاہتا ہے تو یہ ایک ناجائز صورت ہوگی اور سود کا رنگ پیدا ہوجائے گا۔ البتہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ رہن لینے والا اس بات کی خواہش کرے کہ میں اپنے ایک ہزارروپے کے بدلہ میں یہ مکان رہن نہیں لیتا جس کا کرایہ چارروپے ماہوار ہے۔ بلکہ کوئی دوسرا مکان لینا چاہتا ہوں جس کا کرایہ سات یا آٹھ روپے ہے۔ کیونکہ اس صورت میں نفع کی بنیاد بہرحال جائیداد مرہونہ پر رہے گی نہ کہ روپیہ پر۔
دوسری: ضروری شرط یہ ہے کہ رہن مقبوضہ یعنی باقبضہ صورت میں ہو۔ یعنی مرہونہ چیز صرف آڑ کے طور پر نہ ہو۔ بلکہ واقعی اس کا قبضہ مرتہن کو حاصل ہوجائے اور حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے فتویٰ کے مطابق قبضہ کی یہ قانونی صورت بھی جائز ہے کہ رہن رکھنے والا مرتہن کو واجبی کرایہ نامہ لکھ دے اور پھر اسے کرایہ دار کی حیثیت میں کرایہ ادا کرتا رہے بشرطیکہ فریقین کے واسطے اس کرایہ نامہ کی دائمی پابندی نہ ہو۔ بلکہ جب کوئی فریق چاہے مناسب نوٹس دے کر کرایہ کو مناسب طور پر بڑھا گھٹا سکے۔ یا قبضہ بدل سکے۔ مثلاً راہن کو یہ اختیار ہو کہ وہ مناسب نوٹس دے کر مکان خالی کردے اور مرتہن کو بھی یہ حق ہو کہ وہ مناسب نوٹس کے ساتھ مرہونہ مکان خالی کراسکے۔
تیسری: شرط یہ ہے کہ تاقیام رہن مرہونہ جائیداد کا خرچ جو اس کے رکھ رکھائو کی صورت میں ہو وہ بذمہ مرتہن ہو نہ کہ بذمہ راہن۔
ان تین شرطوں کے ساتھ رہن کی صورت ایک جائز صورت ہے جو نہ صرف کسی اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فتویٰ اور عمل کی تائید بھی حاصل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ثمردار باغ حضرت ام المومنین کے پاس رہن رکھا۔ اور یہ کہہ کر اور جتا کر رکھا کہ تم اس کی آمد جو کم وبیش اس قدر ہے تا قیامِ رہن وصول کرنا اور ساتھ ہی معیاد بھی لکھ دی کہ اتنے عرصہ تک یہ رہن فک نہیں ہوگا۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ کے ذریعہ متعدد رہن بصورت بالا ہوئے ہیں۔ اور بپابندی شرائط بالا انہیں بالکل جائز سمجھا گیا ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بعض فقہا نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے یعنی بعض فقہا نے مرہونہ چیز کی آمد سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بعض خاص پابندیاں لگائی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے قبضہ کو محض قانونی قبضہ کی صورت میں جائز نہیں سمجھا بلکہ ظاہری اور بدیہی صورت ضروری قراردی ہے مگر یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے مسائل میں فقہاء میں ہوجاتا ہے اور بہرحال اصل اسلامی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فتویٰ کی تائید اوپر والی صورت کو حاصل ہے اور ہمارے واسطے یہی کافی ہے ۔ یہ درست ہے کہ یہ مسئلہ ایک بہت نازک مسئلہ ہے اور ذراسی بے احتیاطی سے ناجائز رنگ پیدا ہوسکتا ہے اور میں اس بات کو بھی تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ بعض لوگ بے احتیاطی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں مگر خدا کے فضل سے مجھ پر اس مسئلہ کی صحیح صورت مخفی نہیں۔ اور میں رہن کا ہر معاملہ کرتے ہوئے اسے اپنی طرف سے حتی الوسع مدنظر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ انسان بہت کمزور ہے وماابرّی نفسی ان النفس لامّارۃ بالسوء الامارحم ربیّ ان ربیّ غفوررحیم۔
جہاں میں نے اوپر کا نوٹ لکھا ہے وہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری شریعت نے محرمّات کے متعلق ایک نہائت سنہری گُربتایا ہے۔ اور وہ یہ کہ محرمّات ایک سرکاری رکھ کا رنگ رکھتی ہے جس کے اندر اپنے جانور چھوڑنا تو بہرحال منع ہی ہے۔ اس کے قریب قریب بھی اپنے جانوروں کو نہیں چرانا چاہیئے تاکہ کبھی بھٹک کر یا بے احتیاطی سے وہ اس کے اندر نہ چلے جائیں۔ یہ ایک نہائت قیمتی اور محفوظ اصول ہے، جسے دوستوں کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیئے۔ کسی جائز چیز کے حصہ سے محروم ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں مگر کسی ناجائز چیز میں ملوث ہوجانا ایک خطرناک زہر ہے۔ جو ایمان اور عمل صالح کو گھن لگادیتا ہے۔ پس ایسے معاملات میں بڑی خشیت اور احتیاط سے کام لینا ضروری ہے۔ ایک مسلمان شاعر نے تقویٰ کی تعریف میں ایک صحابی کے قول کو کس خوبصورتی کے ساتھ منظوم کیا ہے کہتا ہے ؎
خل الذنوبَ صغیرھا
وَکبیرَھا ذاکَ التقاء ۃ
واصنع کماشٍ فوق ار
ض الشوک یحذرما یرٰی
لاتحقرن صغیرہً
اِن الجبال من الحصٰی
’’یعنی تمام گناہوں سے مجتنب رہو۔ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، یہی تقویٰ ہے۔ اور دنیا میں اس طرح چلو جس طرح ایک ایسا شخص چلتا ہے جس کا رستہ کانٹے دار جھاڑیوں میں سے گزرتاہو جو ہر چیز سے ڈرتا ہو ۔ اورہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے۔ کسی چھوٹی چیز کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ کیونکہ بڑے بڑے پہاڑ بھی چھوٹے چھوٹے کنکروں سے مل کر بنتے ہیں۔
تقویٰ کی یہ ایک نہائت لطیف تعریف ہے اوریہی ہمارا لائحۂ عمل ہوناچاہیئے اور اس جہت سے میں اپنے محترم دوست کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اس معاملہ میں توجہ دلاکر میرے واسطے روحانی بیداری کا سامان بہم پہونچایا۔ فجزاہ اللّٰہ خیراً۔
جیسا کہ مَیں اوپر اشارہ کرچکا ہوں یہ مسئلہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے۔ اور حق رکھتا ہے کہ اس پر تفصیل اور تشریح کے ساتھ لکھا جائے لیکن اول تو میں نہ مفتی ہوں نہ فقیہہ دوسرے آج کل قرآن کریم کے کام کے تعلق میں فرصت بھی بہت کم ملتی ہے۔ اوریہی وجہ ہے کہ میں ایک عرصہ سے اپنے دوستوں کی خدمت میں اخباری ملاقات کے ذریعہ حاضر نہیں ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ میرا اور سب دوستوں کا حافظ وناصر ہو اور سچے تقویٰ پر قائم ہونے کی توفیق دے۔ اٰمین یارحم الراحمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۴۲ئ)









حوالہ جات
۴۲-۱۹۴۱ء
۱۔ تذکرہ صفحہ۱۴۵۔ طبع ۲۰۰۴ء
۲۔ تذکرہ صفحہ۱۰۸ طبع ۲۰۰۴ء
۳۔ رسالہ شیخ غلام محمد صاحب مؤرخہ ۲۰ فروری ۱۹۴۰ء
۴۔ المائدہ:۵۷
۵۔ الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۴۰ء
۶۔ اسدالغابہ جلد۳ صفحہ۴۸۔ زیرِ تعارف عبداللہ بن عمر وبن حرام- طبع ۲۰۰۱ئ۔بیروت،لبنان
۷۔جامع الترمذی ابواب الادب باب مثل امتی، مثل المطر۔
۸۔ تذکرہ صفحہ ۱۹۷۔ طبع۲۰۰۴ء
۹۔تذکرہ صفحہ۳۱۸۔طبع ۲۰۰۴ء
۱۰۔ مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۷۵تا۷۶
۱۱۔ بنی اسرائیل:۸۲
۱۲۔ النسائ:۴۴
۱۳۔صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبیﷺ بعثت جوامع الکلم۔
۱۴۔ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصَاۃِ بالنَّسَائِ۔
۱۵۔ الانبیائ:۳۸
۱۶۔ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصَاۃِ بالنَّسَائِ۔
۱۷۔ الروم:۲۲
۱۸۔ ملفوظات جلد اول صفحہ۵۳۶
۱۹۔ فیض القدیر، جلد نمبر۳ صفحہ۸۸۔ طبع بیرورت
۲۰۔براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۲۷تا۶۲۹
۲۱۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح باب الوصَاۃِ بالنَّسَائِ۔
۲۲۔صحیح البخاری کتاب العتق باب اذاضرب العبد فلیجتنب الوجہ۔
۲۳۔ صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار باب سعدبن معاذؓ۔
۲۴۔ الحکم۱۴اپریل ۱۹۳۴ء
۲۵۔ سیرت المہدی جلدسوم۔ روایت نمبر۷۷۶(مفہوماً)
۲۶۔المائدہ:۴
۲۷۔ البقرۃ:۱۸۷
۲۸۔ سنن ابودائود۔ کتاب الصیام باب القول عندالافطار۔
۲۹۔صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ﷺ۔
۳۰۔ جامع الترمذی۔ کتاب الزکوٰۃ باب ماجاء فی فضل صدقۃ۔
۳۱۔ صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی۔
صحیح البخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی ﷺ یکون فی رمضان۔
۳۲۔ سنن ابنِ ماجہ۔ ابواب الادب باب فضل الصدقۃ المائ۔
۳۳۔ البقرۃ:۱۸۷
۳۴۔براہین احمدیہ جلد پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۳۳۵
۳۵۔ محمود کی آمین۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۳۲۳
۳۶۔ المائدہ:۹
۳۷۔ البدر ۲۲مئی۱۹۰۳ء صفحہ۱۳۹


















۱۹۴۳ء
زمانۂ ترقی کے خطرات اور ان کا علاج
اور
ایک خاص دعا کی تحریک
احباب کرام حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان خطبات سے واقف ہوچکے ہیں جو حضور نے اس سال یوم جمعہ کے غیرمعمولی اجتماع کے بارے میں حال ہی میں ارشاد فرمائے ہیں۔ اسی ذیل میں میں احباب کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ غالباً۶ جنوری ۱۹۴۳ء کی تاریخ تھی اور ابھی محرم شروع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ابھی حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دوسرا خطبہ دیا تھا۔ا ور میں نماز ظہر کے بعد اس بات کے متعلق سوچ رہاتھا کہ اس سال کس طرح ہمارے خدانے جمعہ کے دن کو غیرمعمولی طریق پر ہماری بہت سی تقریبوں میں جمع کردیا ہے۔ یعنی (۱)حج جمعہ کے دن ہوا۔(۲) جلسہ سالانہ کا آغاز جمعہ کو ہوا۔(۳) شمسی سال جمعہ کے روز شروع ہوا۔ اور(۴)اب قمری سال کی ابتداء بھی جمعہ ہی سے ہونے والی ہے۔ میں یہ خیال کررہاتھا کہ یہ غیرمعمولی اجتماع یونہی اتفاقی نہیںہوسکتا اور اس کے پیچھے ضرور خدا ئے قدیر کی قدرت کا ہاتھ ہمارے واسطے ایک اشارہ کا کام دے رہا ہے۔ میں نے خیال کیاکہ اسلام میں جمعہ نہ صرف ایک نہایت درجہ مبارک دن ہے۔ حتیٰ کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے عیدین پر فضیلت حاصل ہے۔ بلکہ اسلام اور احمدیت کی روایات سے پتہ لگتا ہے کہ معنوی رنگ میں وہ ایک پرانے دور کے اختتام اور نئے دور کے آغاز کی علامت بھی ہے۔ چنانچہ اسی لئے آدم کو جمعہ کے دن پیدا کیاگیا اور اسی غرض سے آدم ثانی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ ہی کے دن ہوئی کیونکہ اس کے ساتھ بھی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز مقدر تھا۔ میں انہی خیالات میں مستغرق تھا کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا اور جب میں نماز پڑھ رہاتھا تو عین اس وقت میری توجہ ایک ایسے مضمون کی طرف منتقل ہوئی جو اسی جمعہ والے مضمون کی ایک فرع اور شاخ ہے اور میں مناسب خیال کرتاہوں کہ یہ مضمون احباب تک بھی پہنچادُوں۔ تاجن دوستوں کے واسطے خدا مقدر کرے وہ ا س سے فائدہ اٹھاکر اپنی آنے والی ترقی کو دائمی صورت دے سکیں۔
وما توفیقنا الا باللّٰہ العظیم
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں میں ان خیالات میں مستغرق تھا کہ جمعہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہوتی ہے او ر اس سال اس دن کا غیرمعمولی اجتماع ظاہر کرتا ہے کہ یہ بات یونہی اتفاقی نہیں بلکہ قدرت کی پُرسرار انگلی ہمیں اس کے ذریعہ ایک خاص مضمون کی طرف توجہ دلانے کے لئے اٹھ رہی ہے۔ عین اس وقت ایک بجلی کی سی چمک کے طور پر میری توجہ قرآن شریف کی سورہ نصر کی طرف پھر گئی اور میرے دل میں فوری خیال آیا کہ ہمارے لئے اس آنے والے دور کی ترقی اور اس ترقی کے زمانہ کے خطرات اور پھر ان کا علاج اور اس علاج کے نتیجہ میں خدائی سلوک سبھی کچھ اس مختصر قرآنی سورۃ میں مرکوز ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک وسیع مضمون آنکھوں کے سامنے آگیا۔ جس کا خلاصہ میں اس وقت احباب کے سامنے پیش کرتا ہوں مگر اس سے پہلے میں اس جگہ اس قرآنی سورۃ اور اس کے ترجمہ کو درج کردینا چاہتا ہوں تاکہ احباب اس کے الفاظ کو مستحضر رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔۱؎
’’یعنی جب خدا کی نصرت اور فتح کا وقت آئے۔ اور تم دیکھو کہ لوگ فوج درفوج خدا کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اس وقت تم خدا کی تعریف میں لگ جانا اور اس سے اپنی حفاظت اور اپنی کمزوریوں کی مغفرت چاہنا۔اگر تم ایسا کروگے تو یقینا تم اپنے خدا کو باربار رحمت کے ساتھ رجوع کرنے والا پائو گے۔‘‘
یہ قرآنی سورۃ وہ سورۃ ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی اور اس کے بعد اسلام میں فتح اور توسیع کا ایک غیر معمولی دروازہ کُھل گیا۔ دراصل جیسا کہ تاریخ ادیان سے پتہ چلتا ہے۔ ہر الٰہی سِلسلہ کے ابتدائی زمانہ میں دو دور آیا کرتے ہیں:-
ایک وہ دور جس میں ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے اور لوگ فرداً فرداً حق کو قبول کرتے ہیں اور ایک ایک دو دو کرکے آہستہ آہستہ خدائی سِلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور جب تک خدا کو منظور ہوتا ہے، یہی صورت قائم رہتی ہے۔ پھر اس کے بعد دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں خدا کی چھپی ہوئی نصرت گویا اپنے پردوں کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے اور نظر آنے والی فتح کے دروازے وسیع طور پر کُھل جاتے ہیں۔ اس وقت ترقی کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے اور خدائی سِلسلہ میں داخلہ انفرادی صورت تک محدود نہیں رہتا بلکہ افواج کا رنگ اختیار کرلیتا ہے اور لوگ جوق درجوق اور فوج درفوج حق کو قبول کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی وہ نصرت و فتح ہے جس کی طرف اوپر والی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پس اس وقت میری توجہ اس طرف منتقل ہوئی کہ احمدیت کا نیادور جو خدا کے فضل سے نصرت اور فتح کا دور ہے۔ سنت اللہ کے ماتحت اپنے اندر بعض خطرات بھی رکھتا ہے اور اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں بھی لاتا ہے۔ اور جماعت کا فرض ہے کہ ان خطرات اور ان ذمہ داریوں کی طرف سے قطعاً غافل نہ ہو۔ اور آنے والی ترقی کے زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ اس روحانی علاج کو اختیار کرے جو اس سورۃ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور وہ علاج یہ ہے۔
اول :۔تسبیح و تحمید۔دوم:۔ استغفار۔
یہ الفاظ بہت مختصر ہیں مگر ان کے اندر حقائق کا ایک وسیع سمندر مخفی ہے۔ دراصل غور کیا جائے توخدائی جماعتوں پر جب ترقی کا دَور آتا ہے تو اس وقت دو بھاری خطرات ان کے سامنے ہوتے ہیں اور اگر وہ ان خطرات پر آگاہ ہوکر ان کے انسداد کا طریق اختیار کریں۔ اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھائیں تو ان کے لئے اس ترقی کے قدم کو اور بھی زیادہ تیز کردیا جاتا ہے۔ ورنہ نعوذ باللہ من ذالک یہی ترقی ان کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ وہ دو خطرے جن کی طرف یہ سورۃ اشارہ کرتی ہے۔ یہ ہیںکہ:-
اول۔جب ایک جماعت کمزور حالت سے ترقی کرکے مضبوطی کو پہونچ جاتی ہے تو بسا اوقات وہ اپنی ترقی کو خود اپنی جدوجہد اور اپنی قربانی کی طرف منسوب کرنے لگ جاتی ہے۔ اور اس بات کو بھول جاتی ہے کہ اس کی ترقی کی تہہ میں خدا کا مخفی ہاتھ کام کررہاتھا اور یہ کہ اگر یہ ہاتھ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ترقی کی اس منزل کو نہ پہنچ سکتی۔
دوسرا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ ترقی کے زمانہ میں بسااوقات لوگ اپنی ترقی اور بڑائی کے نشہ میں مخمور ہوکر ان خوبیوں کو کھو بیٹھتے ہیں جو انہیں کمزوری کے زمانہ میں حاصل تھیں اور اپنے فرائض کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اور وہ خرابیاں جو عموماً بڑے لوگوں میں پائی جاتی ہیں مثلاً فرائض کی طرف سے غفلت۔ آرام طلبی اور سستی۔ قربانی سے گریز عیش پرستی ، تکبرونخوت، ظلم وستم وغیرہ وغیرہ، ان میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ دو عظیم الشان خطرے ہیں جو ہر اس قوم کو پیش آتے ہیں جو ایک کمزور اور مقہور حالت سے اٹھ کر مضبوطی اور غلبہ کی حالت کو پہونچتی ہے۔ وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ کسی زمانہ میں وہ اتنی کمزور و ناتواں تھی کہ اس کے لئے خود بخود اٹھنا بالکل محال تھا اور صرف خدا کے طاقتور ہاتھ نے اسے اٹھایا۔ وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ دنیا کے تمام ظاہری اسباب اس کے خلاف تھے مگر خدا نے اپنے زبردست باطنی اسباب کو حرکت میں لاکر اس کے واسطے ترقی کا رستہ کھولا۔ وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ اگر اسے سہارا دینے کے لئے خدائے ذوالعرش کی غیرمعمولی تقدیر آڑے نہ آتی تو اس کا ترقی کرنا تو درکنار زندہ رہنا بھی محال تھا۔ وہ اپنے ترقی کے زمانہ میں ان سب باتوں کو بھول کر صرف اس نشہ آور خیال میں مخمور ہونے لگتی ہے کہ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے قوت بازو سے حاصل کیا ہے اور یہ عروج کے زمانہ کا سارا باغ وبہار میری اپنی ہی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ یہ وہ مہلک خطرہ ہے جس کی طرف ہمارے آسمانی آقا نے ان مختصر الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ سبّح بحمد ربک یعنی تم اپنے ترقی کے زمانہ میں اپنے قوت وبازو یا اپنی قربانیوں کی طرف نہ دیکھنا کیونکہ خدا کی نصرت کے بغیر یہ چیزیں ایک مردہ کیڑے سے بڑھ کر نہیں ہیں بلکہ اس خدا کی حمد کے گیت گانا جو تمہارا رب ہے، جس نے تمہیں پستی کے ایک تاریک گڑھے سے اٹھا کر بلندی کے ایک مضبوط اور روشن مینار پر پہنچادیا ہے۔
دوسرا خطرہ ان خرابیوں کے پیدا ہونے سے تعلق رکھتا ہے جو عموماً ترقی کے زمانہ میں قوموں میں پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔ اور عین شباب کے جوبن میں موت کا پیغام لے آتی ہیں۔ ایسی قوموں کے اٹھان میں ہی ان کے تنزل کا بیج مخفی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے اٹھنے کے ساتھ ساتھ ہی ان گندے اور مذموم اخلاق کا شکار ہونے لگتی ہیں جو قوموں کی زندگی کے لئے ایک مہلک زہر کا رنگ رکھتے ہیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی تاریخی حقیقت ہے۔ اور آہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ ہر ترقی کرنے والی قوم جو بعد میں گرتی ہے اس کے گرنے کے اسباب خود اس کے اپنے عروج کی تہوں میںلپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب مصرع کہا ہے ؎
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
قوموں کے گھر بھی کسی باہر سے آئی ہوئی آگ سے نہیں جلا کرتے بلکہ خود گھر کے چراغ سے ہاں اسی چراغ سے جو ان کی روشنی کا ذریعہ ہے جل کر خاک ہوجایا کرتے ہیں۔ کیونکہ قوموں کا تنزل بداخلاقی اور بداعمالی کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے اور یہ بداخلاقی اور بد اعمالی باہر سے نہیں آتی بلکہ خود قوموں کی اپنی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ عروج کے زمانہ میں لوگ سست، کاہل، عیش پرست، آرام طلب، متکبر،ظالم، بد اعمال، خائن، دین کی طرف سے غافل، دنیا کی لذتوں میں منہمک ہوجاتے ہیں اور اسی میں ان کی تباہی کا بیج مخفی ہوتا ہے۔یہ وہ دوسرا خطرہ ہے جس کی طرف قرآن شریف اس مختصر مگر حکمت سے پُر اور دانائی سے لبریز لفظ میں توجہ دلاتا ہے۔ کہ استغفرہ یعنی جب تم پر ترقی کا زمانہ آوے تو ان بداخلاقیوں اور بد اعمالیوں کی طرف سے ہوشیار رہنا جو عروج کے زمانہ میں رونماہؤا کرتی ہیں اور اپنے واسطے خدا کی حفاظت اور مغفرت کے طالب ہونا تاکہ تمہاری ہر گھڑی اس کے سایہ میں گزرے اور اگرتم کبھی لغزش بھی کھائو تو اس کی کریمانہ بخشش تمہیں بچانے کے لئے موجود ہو۔
یہ وہ دو عظیم الشان خطرے ہیں جن کی طرف خدا تعالیٰ نے ان دو مختصر الفاظ میں ہمیں توجہ دلائی ہے اور الفاظ ایسے چنے ہیں کہ وہ صرف بیماری ہی کی طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی علاج بھی بتارہے ہیں۔ اللہ اللہ! قرآن شریف کیسی کامل ومکمل کتاب ہے کہ ان دوچھوٹے سے لفظوں میں کتنا وسیع نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ گویا روحانی عالم میں علم التشخیص اور علم اصلاح کے دو وسیع مضمونوں کو دومختصر لفظوں میں محصور کرکے ہمارے واسطے بے نظیر رحمت اور ہدایت کا سامان بہم پہونچادیا ہے۔ فرماتا ہے کہ جب فتح ونصرت کا زمانہ آئے اور لوگ فوج درفوج خدائی سِلسلہ میں داخل ہونا شروع ہوں تو سبّح بحمدربک واستغفرہ اس وقت تم اس ترقی کو خود اپنی کوشش کی طرف منسوب کرکے خدا کی ناشکری نہ کرنا بلکہ خدا ہی کی حمد کے گیت گانا جس نے تمہارے لئے ترقی کا رستہ کھولا ہے۔ اور پھر جو بداعمالیاں عموماً ترقی کے ساتھ ہوا کرتی ہیںان کی طرف سے ہوشیار رہ کر خدا کی حفاظت اور مغفرت کے طالب رہنا۔ اگر تم ان دوباتوں کا خیال رکھو گے تو فرماتا ہے کہ انہ کَانَ تواباً۔ یعنی پھر تم خدا کو باربار جھکنے والا بار بار رحم کرنے والا پائو گے۔ یعنی پھر ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری کمزوری کے زمانہ میں تو خدا تم پر رحم کرے اور طاقت کے زمانہ میں تمہیں چھوڑدے بلکہ اس صورت میں وہ تمہارے عروج کے زمانہ میں بھی تمہارا اسی طرح خبرگیر رہے گا جس طرح کہ وہ کمزوری کے زمانہ میں رہا ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میری توجہ ملتوی ہوئی۔ اور میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہوا اسی طرح احمدیت میںبھی ہونے والا ہے یعنی احمدیت کے سامنے بھی ترقی کے زمانہ کے یہی دو خطرے ہیں اور ان خطروں کے یہی دو علاج ہیں۔ جو اس مختصر سورۃ کے ان دو مختصر لفظوں میں بیان کئے گئے ہیں۔ کہ سبح بحمد ربک واستغفرہ اور پھر جو قوم اس علاج کو اختیار کرے گی اس کے لئے یقینا وہی ازلی تقدیر مقدر ہے۔ جو انہ کاَنَ تواباًکے لفظ میں مرکوز ہے۔ توّاب کے معنے جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے ہیں بار بار جھکنے ا وربار بار رحم اور شفقت کا سلوک کرنے کے ہیں۔ گویا اس صورت میں خدا کا سلوک اس محبت کرنے والی ماں کی طرح ہوگا جو صرف ایک دفعہ اپنے بچہ کو پیار کرکے نہیں چھوڑدیتی بلکہ اپنی مامتا کے جوش میں اس کی طرف بار بار جھکتی اور بار بار پیار کرتی ہے اور پھر بھی سیر نہیں ہوتی ۔ اللہ اللہ! ہمارے خدا کی محبت کس اتھاہ سمندر کی طرح ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور نہ اس کی گہرائی کی کوئی حد ہے۔ وہ ترقی کا مادہ پیدا کرتاہے۔ ترقی کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ تنزل کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے۔ ان خطرات کا علاج بتاتا ہے اورپھر کیا مزے سے کہتا ہے کہ اگر ان باتوں کو اختیار کرو گے تو ہم تم سے نہ صرف پیار کریں گے بلکہ پیار کرتے ہی چلے جائیں گے۔
سبحانِ اللّٰہ وبحمدہٖ سبحانِ اللّٰہ العظیم۔سبحانِ اللّٰہ وبحمدہٖ سبحانِ اللّٰہ العظیم۔سبحانِ اللّٰہ وبحمدہٖ سبحانِ اللّٰہ العظیم۔
مگر جہاں یہ مضمون میرے ذہن میں آیا، وہاں میرے دماغ میں ایک اور بات بھی بجلی کی طرح کوندگئی اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں اس کی طرف بھی مجملاً اشارہ کردوں تاکہ دوستوں کو دعا کی طرف توجہ پیدا ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب سورۃ نصر نازل ہوئی۔ تو عام صحابہ تو اس کے الفاظ میں زمانۂ ترقی کی آمد آمد کی خبر پاکر خوش تھے کہ اب ہمارے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ مگر خاص اور فہیم صحابہ اس خوشی کے ساتھ ساتھ اس غم اور کرب میں بھی مبتلا ہوگئے کہ یہ خوشی کی خبر اپنے اندر ہمارے پیارے رسول کی وفات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابن عباسؓ کا جو بالکل نوجوان تھے بڑی بڑی عمر کے سابق بالایمان صحابہ کے مطابق وظیفہ مقرر کیا تو اس پر بعض صحابہ کو اعتراض ہوا کہ کیوں ایک بچہ کو ایسے ایسے بزرگوں کے برابر رکھا گیا ہے۔ اس اعتراض کو سن کر حضرت عمرؓ نے ان لوگوں کو بلایا اور ابن عباس کی حاضری میں ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اذا جاء نصراللّٰہ والی سورۃ کا کیا مطلب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس کا یہی مطلب ہے کہ اب ترقی کا زمانہ آرہا ہے اور بس اس پر حضرت عمرؓ نے ابن عباس سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو۔ ابن عباس نے کہا میں تو یہ سمجھا ہوں اور سمجھا تھا کہ اس سورۃ میں ترقی کی خبر کے ساتھ ساتھ رسول اللہ کے قرب وفات کی خبر بھی دی گئی ہے۲؎ حضرت عمرؓ نے کہا میں بھی یہی سمجھا تھا اور اس سے کچھ زیادہ نہیں سمجھا جس پر ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ ابن عباس کو اپنے علم وعرفان کی وجہ سے وہ فضیلت حاصل ہے جو کئی بڑی عمر کے صحابہ کو بھی حاصل نہیں اور ان کے دل کی کھٹک دُور ہوگئی۔
پس مندرجہ بالا مضمون کے ساتھ ساتھ میرے دل میں ایک نشتر کی طرح یہ بات بھی کھٹکی کہ جہاں چار جمعہ کے دنوں کا غیر معمولی اجتماع جس کی طرف حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے توجہ دلائی ہے۔ ہمارے لئے ایک نئے ترقی کے دور کی خبر لارہا ہے۔ وہاں وہ ہمیں اس طرف بھی توجہ دلارہا ہے کہ ہمیں ان ایام میں اپنے امام طال اللہ بقاء ہٗ کی درازیٔ عمر کے لئے بھی خاص طور پر دُعائیں کرنی چاہئیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا عجیب قانون ہے اور وہی اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے کہ بسا اوقات وہ جن لوگوں کے ہاتھ سے قربانی کرواتا ہے انہیں قربانی کے نتیجہ میں آنے والے انعام سے پہلے اٹھا لیتا ہے۔ یہ منظر بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک شخص نے بڑی محنت کرکے اور پسینہ بہاکر کھیت تیار کیا اور اس کے اندر بیج ڈالاا ور اس کی حفاظت کی مگر جب کھیت پکنے کا وقت آیا تو اس سے پہلے ہی وہ گزر گیا اور فصل اٹھانے کے لئے دوسرے لوگ آموجود ہوئے۔ شاید یہ اس لئے ہے کہ خدائے حکیم کی ازلی مشیت نے یہی پسند کررکھا ہے کہ عام حالات میں قربانی کرنے والوں کو اس دنیا میں قربانی کی تلخ مٹھاس کے سوا اور کوئی اجر نہ دے اور ان کے باقی اجروں کو اگلی دنیا کے واسطے اٹھارکھے ہیں میں نے تلخ مٹھاس کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ اکثر صورتوں میں اہل دل اور اہل کمال کے لئے قربانی کی تلخی میں وہ شیرینی مخفی ہوتی ہے جسے ہزار انعاموں کی مٹھاس بھی نہیں پہونچ سکتی مگر ہمارا خدا اپنے امر پر بھی غالب ہے۔ وہ اگر چاہے توایک شخص کے لئے قربانی اور انعام دونوں کی شیرینی کو ایک جگہ جمع کرسکتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جب یہ دونوں انعام اکٹھے ہوجاتے ہیں تو پھر خدائی نعمت کی بہار اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔
پس آئو ہم دعا کریں کہ خدا ہمارے امام کی پیشانی کو ان دونوں سہروں سے مزیّن فرمائے۔ اس نے انتہائی قربانی کا زمانہ پایا اور اپنی روحانی توجہ سے اس قربانی کی تلخی کو جماعت کے لئے تمام مٹھائیوں سے بڑھ کر میٹھا بنادیا۔ اب اگر خدائی رحمت ہمارے لئے نصرت وفتح کا زمانہ قریب لارہی ہے تو اے ہمارے قادرو مالک خدا تو ایسا تصرف فرما کہ جس ہاتھ سے جماعت نے تنگی اور عسرت کی قاشوں کو شیرینی میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے اسی ہاتھ سے اسے ترقی وفراخی کا جام پینا بھی نصیب ہو اور تو ہمارے لئے جو تیرے نہایت ہی کمزور بندے ہیں مگر بہرحال تیرے دین کے آخری علمبردار ہیں یہ مقدر کردے اور اس تقدیر کو اپنی نہ مٹنے والی کتاب میںلکھ دے کہ ترقی کے زمانہ کا مخفی طوفان ہمیں اس مضبوط قلعہ میں محفوظ پائے جو خود تیرے مقدس ہاتھوں نے ہمارے لئے تسبیح وتحمید او ر استغفار کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا ہے اور اے خدا ایسا کر کہ ہم تجھے ہاں تجھے جس نے خود اپنا نام ودود رکھا ہے، اپنی طرف اور اپنے عزیزوں کی طرف ہمیشہ پیار اور رحمت اور شفقت کے ساتھ جھکتا ہوا دیکھیں۔ آمین یاارحم الراحمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۴۳ئ)










ایک بزرگ صحابی کا وصال
اور
اس پر میرے بعض تأثرات
اظہار ہمدردی کرنے والوں کا شکریہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُرانے اور ممتاز صحابی اور میرے خسر حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کی وفات کی خبر احباب تک پہنچ چکی ہے۔ اور اس بارہ میں بعض مضامین اور اشعار بھی الفضل میں شائع ہوچکے ہیں اور شاید اس کے بعد اس موضوع پر کُچھ اور لکھنے کی ضرورت نہ سمجھی جائے مگر اس قریبی رشتہ کی وجہ سے جو مجھے حضرت مولوی صاحب مرحوم کے ساتھ تھا اور ان کثیرالتعداد خطوط و پیغام ہائے تعزیت کی وجہ سے جو مجھے اس بارہ میں موصول ہوئے ہیں اور پھر ان مخصوص حالات کی وجہ سے جن کے ماتحت حضرت مولوی صاحب کی وفات ہوئی ہے۔ میں ضروری خیال کرتاہوں کہ مختصر طور پر اپنے بعض تأثرات کا اظہار کروں۔ سب سے پہلے میں ان عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں کا دِلی شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں جنہوں نے اس موقع پر زبانی طور پر یا خطوں اور تاروں کے ذریعہ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان دوسرے کے غم کو بانٹ نہیں سکتااور یہ ایک لحاظ سے درست بھی ہے مگر خالق فطرت نے انسانی سرشت میں کچھ ایسا مادہ ودیعت کیا ہے کہ وہ غم کے اوقات میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ہمدردی سے تسکین پاتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اس طرح اس کے غم میں بڑی حد تک کمی آ جا تی ہے ۔ پس میں ان سب بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اور ان کے لئے دل سے دعا گو ہوں جنہوں نے اس موقع پر میرے ساتھ یا میری رفیقہ حیات اُم مظفر احمد کے ساتھ قولاً یا فعلاً ہمدردی کا اظہار کرکے ہمارے لئے تسکین وتشفی کا سامان مہیا کیا ہے۔
فجزا ھم اللّٰہ احسن الجزاء فی الدنیا والاٰخرۃ
حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں حضرت مولوی صاحب کا مقام
حضرت مولوی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے تھے۔ کیونکہ جیسا کہ وہ اکثر خود فرمایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے انہوں نے بالکل اوائل زمانہ میںبیعت کی تھی۔ یعنی اعلانِ بیعت کے بعد پہلے سال میں ہی یعنی ۱۸۸۹ء میں اس سعادت سے مشرف ہوگئے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ازالۂ اوہام میں جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی تھی اپنے اخبار کی ذیل میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف فرمائی ہے اس کے بعد تین سو تیرہ صحابیوں کی فہرست میں بھی جو ۱۸۹۶ء میں ایک خاص پیشگوئی کی بنا پر بطور نشان تیار کرائی گئی تھی، ان کا ذکر خیر موجود ہے اور پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے اپنے بچوں کی شادی کی تجویز فرمائی توخاکسار راقم الحروف کی شادی کے لئے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ایک صاحبزادی کو منتخب فرما کر گویا انہیں اپنے خاندان کے ساتھ منسلک فرما لیا اور بالآخر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سِلسلہ کے بعض مرکزی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے ۱۹۰۶ء میں صدرانجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی تو جن چودہ اصحاب کو اس انجمن کی ممبری کے لئے جماعت میں سے منتخب کیا گیا ان میں حضرت مولوی صاحب موصوف بھی شامل تھے۔
حضرت مولوی صاحب کی ایک اور خصوصیت
ان خصوصیات کے علاوہ جن کی قدروقیمت مرورِ زمانہ کے ساتھ یقینا بڑھتی چلی جائے گی، حضرت مولوی صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ وہ صوبۂ سرحد میں گویا احمدیت کے ہراول دستہ کے قائد اور لیڈر تھے جن کے ذریعہ نہ صرف پشاور اور اس کے گردونواح کے بہت سے لوگوں نے حق کو قبول کیا بلکہ درّہ خیبر کے رستہ آنے جانے والے باشندگانِ افغانستان میں بھی احمدیت کا نفوذ ہوا۔ حضرت مولوی صاحب کا یہ ایک خاص اور نمایاں وصف تھا کہ ان کا دسترخوان نہ صرف دوستوں کے لئے بلکہ تمام آنے جانے والوں کے لئے خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے بڑے ہوں یا چھوٹے ہمیشہ کُھلا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ ان کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہمان نوازی میں خرچ ہوجاتا تھا اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کو اوائل زمانہ سے ہی قرآن شریف اور حدیث کے درس تدریس کا شوق تھا۔ اس لئے اس شوق نے مہمان نوازی کے خلق کے ساتھ مل کر حضرت مولوی صاحب کے لئے تبلیغ کا ایک غیرمعمولی موقع پیدا کردیا تھا اور خدانے بھی ان کی اس تبلیغ کو نوازا اور انہیں بہتوں کی ہدایت کا ذریعہ بنادیا۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اُمّ مظفر احمدکی قربانی اورا س کا ثمرہ
مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اچانک ایک تغیر آیا اور حضرت مولوی صاحب مرحوم اپنے بعض دوستوں کے ساتھ اس غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت نہیں بلکہ انجمن ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں انجمن ہی کو اپنا کلی جانشین مقرر فرمایاہے۔ یہ خیال اتنا غالب ہوا کہ مولوی صاحب موصوف اس خیال کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر بن گئے اور جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو وہ غیر مبایعین میں شامل ہوکر مرکز سے کٹ گئے اور قادیان کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلئے اور گو انہوں نے کبھی معاندانہ رنگ میں مخالفت نہیں کی مگر پھر بھی اصولاً وہ شدید مخالف تھے اور یہ وقت میری رفیقۂ حیات اُم،مظفر احمد کے لئے ایک بڑے امتحان کا وقت تھا۔ کیونکہ نہ صرف باپ بلکہ ماں اور سارے بہن بھائی اور دوسرے جدّی عزیز غیرمبایعین کے ساتھ ہوگئے تھے اور ان کے لئے میرے ساتھ رہنے کا یہ مطلب تھا کہ وہ عملاً اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلق کرلیں مگر خدا نے انہیں توفیق دی اور ہمت عطا کی۔ چنانچہ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ میں بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ساتھ ہوں میں یقین کرتا ہوں کہ یہ زیادہ تر ان کی اسی قربانی کا ثمرہ تھا کہ چھبیس سال کے طویل عرصہ کے بعد جو گویا ایک نسل کا حکم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ جو کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتا اور ہر نیکی کے مناسب حال اس کا بدلہ دیتا ہے، ان کے والد کو ان کے باقی تمام رشتہ داروں سے کاٹ کر اور بیٹوں تک سے جدا کرکے ان کے پاس لے آیا اور انہی کے مکان میں انہیں کے ہاتھوں میں وفات دی۔ مجھے پھر کہنا چاہیئے کہ
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت مولوی صاحب کی قادیان میں آمد
حضرت مولوی صاحب کی اس دینی جدائی کا صدمہ میرے لئے بھی بہت بھاری تھا کیونکہ خُسر ہونے کی وجہ سے وہ میرے لئے گویا باپ کے حکم میں تھے اور میں اپنی بعض تنہائی کی گھڑیوں میں یہ سوچا کرتا تھا کہ کہیں ان کی یہ جدائی اور دوری میرے کسی مخفی عمل کی شامت کا نتیجہ نہ ہو مگر میرے لئے سوائے دعا کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ حضرت مولوی صاحب مرحوم باوجود نہایت بااخلاق بزرگ ہونے کے اپنے خیالات میں بہت پختہ اور سخت تھے اور اب ان کی عمر بھی ایسی ہوچکی تھی جس میں عموماً انسان کے خیالات میں ایک قسم کا ٹھوس پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اور انسانی دماغ کسی ذہنی تبدیلی کے لئے جلد تیار نہیں ہوسکتا لیکن خدائی تقدیر اپنی مخفی تاروں کے ساتھ برسرعمل تھی اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا حضرت مولوی صاحب اپنے رفقاء لاہور کو قریب سے دیکھنے کے نتیجہ میں ان کے طور طریق سے آہستہ آہستہ بدظن ہورہے تھے اسی حالت میں خلافت جوبلی کی تقریب آگئی اور مجھے اس کے لئے کتاب سِلسلہ احمدیہ کی تصنیف میں مصروف ہونا پڑا۔ اس تصنیف کے دوران میں جب میں سِلسلہ کی تاریخ کے اس حصہ میں پہونچا جو غیر مبایعین کے فتنہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت یہ حقیقت اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ میرے سامنے آئی کہ میرا ایک نہایت قریبی بزرگ ابھی تک خلافت حَقہ کے دامن سے جدا ہے اور میں نے اس رسالہ کے لکھتے لکھتے یہ دعا کی کہ خدایا تو ہر چیز پر قادر ہے اگر تیری کوئی اٹل تقدیر مانع نہیں تو تُوا نہیں حق کی شناخت عطا کر اور ہماری اس جدائی کو دُور فرمادے۔ میں اپنے خدا کا کِس مونہہ سے شکر ادا کروں کہ ابھی اس رسالہ کی اشاعت پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمارے خدا کی مخفی تاریں حضرت مولوی صاحب کو کھینچ کر قادیان لے آئیں اور وہ چھبیس سال کی لمبی جدائی کے بعد بیعت خلافت سے مشرف ہوگئے۔
فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم
نیکی اور فطری سعادت
جہاں تک ظاہری اسباب کا تعلق ہے اس غیرمعمولی اور غیر متوقع تغیر کا باعث حضرت مولوی صاحب کی اپنی نیکی اور اپنی فطری سعادت تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قریبی رشتہ دار حکیم بن حزام ایک لمبی مخالفت کے بعد مسلمان ہوئے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیایا رسول اللہ میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ وخیرات بہت کیا کرتا تھا۔ کیا مجھے اس کا بھی کچھ ثواب ملے گا۔ آپ نے بے ساختہ فرمایا:-
’’ أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا أَسْلَفْتَ۳؎
یعنی تمہیں اسلام کی توفیق ملنا اسی نیکی کی وجہ سے ہے جو تم صدقہ وخیرات کی صورت میں اسلام سے پہلے کیا کرتے تھے۔‘‘
بس یہی حال حضرت مولوی صاحب کی بیعت کا سمجھنا چاہیئے۔ ایک غلط فہمی کی وجہ سے انہیں خلافت کے معاملہ میں ٹھوکر لگی مگر نیت خراب نہیں تھی اور تمام زندگی نیکی اور طہارت اور عمل خیر میں گزری تھی اور دنیا کی چیزوں میںکبھی انہماک نہیں کیا اور اپنے آپ کو ہمیشہ خدمت دین کے لئے وقف رکھا۔ پس خدائے رحیم وکریم نے جو دلوں کو دیکھتا ہے انہیں وفات سے پہلے ان کی غلطی پر آگاہ کرکے حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا کردی۔ گویا خدا کے فرشتے ان کی نیکی کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی موت کو روکے ہوئے تھے۔ تاوقتیکہ انہیں حق کی شناخت نصیب ہوگئی۔
گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار
چھبیس سال کی طویل مخالفت خود مخالف خیال کے لیڈر اور روح رواں شدید ترین معاند گروہ کا ماحول ساری اولاد مخالف خیال کی موید۔ عمر سوسال کے قریب جبکہ انسانی خیالات عموماً ٹھوس صورت اختیار کرکے منجمد ہوجاتے ہیں اور کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بایں ہمہ جب میں نے ۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مولوی صاحب موصوف کو قادیان تشریف لانے کی تحریک کی تو انہوں نے کچھ تامل کے بعد اسے قبول کرلیا۔ اور پھر چند دن کے قیام کے بعدجنوری ۱۹۴۰ء میں خدا نے انہیں بیعت کی توفیق عطا کردی۔ یقینا یہ ایک خاص خدائی تقدیر تھی جو ایک طرف ان کی نیکی اور دوسری طرف ہماری دلی تڑپ کی وجہ سے انہیں وفات سے پہلے گویا گھیر گھیر کر قادیان کھینچ لائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کیا خوب فرمایا ہے۔
’’گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار‘‘
میرے خسر میری بیوی کے باپ، میرے بچوں کے نانا، چھبیس سال تک خدائی تقدیر سے بھاگا کئے۔ حتیٰ کہ اس بھاگ دوڑ میں وہ اس عمر کو پہونچ گئے جبکہ بھاگنے والاعموماً چپکے سے بچ کر نکل جایا کرتا ہے مگر خدا کی تقدیر سے کون بھاگ سکتا ہے آخر جب کہ وہ گویا قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے تھے اور ظاہری حالات کے ماتحت ہمیں ان کی طرف سے گویا مایوسی تھی۔ خدائی رحمت کی تقدیر نے انہیں آپکڑا اور اب وہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پہلو میں مدفون ہیں کیونکہ بیعت کے ساتھ ہی انہوں نے وصیت کی توفیق بھی پالی تھی۔
خلافت حَقہ کی تائید میں زوردار مضامین
لیکن ابھی ایک خاص مرحلہ باقی تھا۔ اگر مولوی صاحب موصوف جیسا کہ ان کی عمر اور حالت کا تقاضہ تھا بیعت کے جلد بعد ہی فوت ہوجاتے تو عوام الناس کو غلط فہمی میں ڈالنے کے لیئے غیرمبائعین اصحاب کو اس اعتراض کا موقع تھا کہ پیرفرتوت تھے کہ قادیان جاکر وہاں کے ماحول سے متاثر ہوگئے اور لوگوں کے کہنے کہانے سے بلاسوچے سمجھے بیعت کرلی یاکسی کے ناواجب اثر کے نیچے آگئے وغیرہ ذالک۔ اس اعتراض کے سدباب کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو بیعت کے بعد پورے تین سال تک زندہ رکھا اور نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان کے قلم سے خلافت حقہ کی تائید میں بڑے زوردار مضامین لکھوائے اور ان کے ذریعہ سے کئی لوگوں کو بیعت خلافت کی توفیق عطا کی اور یہ سِلسلہ ان کے پشاور تشریف لے جانے کے بعد تک جاری رہا۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ ان کی بیعت کسی خارجی اثر کے ماتحت نہیں تھی بلکہ علی وجہ البصیرت تھی اور انہوں نے غیرمبایعین کے عقائد اور طریق کو غلط پاکر اور خلافت ثانیہ کو حق بجانب یقین کرکے بیعت کی تھی۔
خداتعالیٰ کے فضل کا غیر معمولی کرشمہ
اور جب یہ سب کچھ ہوچکا تو اللہ تعالیٰ اپنی ازلی تقدیر کے ماتحت انہیں مقبرہ بہشتی کے لئے واپس قادیان لے آیا اور ہمیں ان کے آخری ایام کی خدمت کی توفیق اور سعادت عطا کی اور پھر مزید فضل،الٰہی یہ ہوا کہ ان کی وفات بھی ایسے وقت میں ہوئی جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ قادیان میں موجود تھے۔ حالانکہ اس سے قبل اور اس کے بعد ہر دو زمانہ میں آپ باہر سفر پر رہے اور صرف درمیان میںچند دن کے لئے قادیان میں قیام کیا اور پھر نماز جنازہ میں بھی غیر معمولی کثرت کے ساتھ دوستوں نے شرکت کی۔ یہ سب باتیں ہمارے قادر ومتصرف رحیم وکریم خدا کے فضل ورحمت کا غیرمعمولی کرشمہ ہیں والفضل بیداللّٰہ یوتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم
غیر مبایعین کے ایک معزز رکن کا خواب
جن اصحاب کی طرف سے مجھے اس موقع پر ہمدردی اورتعزیت کے خطوط موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک خط مولوی محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر اخبار لائیٹ کا بھی تھا۔ خان صاحب موصوف غیر مبایعین کے ایک معزز رکن ہیں اور جناب مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے کے ہم زلف اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے داماد ہیں۔ خان صاحب نے اپنے اس خط میں حضرت مولوی صاحب مرحوم کی بہت تعریف کی ہے اور اپنا ایک خواب بھی لکھا ہے جو میں خود انہیں کے الفاظ میں اس جگہ درج کرتا ہوں خان صاحب لکھتے ہیں:-
’’میں نے (حضرت مولانا مرحوم کی وفات سے چند دن قبل ) رؤیا میں دیکھا کہ آپ ہی کے مکان میں مولانا چارپائی پر پڑے ہیں اور بیماری کی حالت میں ہیں۔ اس چارپائی کے ساتھ ساتھ بڑے موٹے موٹے انار لگے ہوئے ہیں۔ جیسے ایک درخت کے ساتھ مگرہر ایک انار کٹا کٹایا ہے اور اس کے موٹے موٹے دانے ایسی چمک اور کشش رکھتے تھے کہ کھانے کو دل للچاتا تھا اور جب میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر اس کے دوچار دانے کھائے تو خیال گزرا کہ یہ تو مولانا کی چیز ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھ آئی کہ یہ جنت کا وہ نقشہ ہے جو قُطُوْ فُھَا دَانِیَۃٌ ۴؎ میں کھینچا گیا ہے۔‘‘
غیرمبایعین کے لئے ایک زبردست حجت
یہ خواب جہاں ایک طرف حضرت مولوی صاحب مرحوم کے نہایت نیک انجام کی طرف اشارہ کرتی ہے، وہاں دوسری طرف ہمارے غیرمبایعین اصحاب کے لئے بھی ایک زبردست حجت ہے۔ خان صاحب موصوف کا ایک ایسے شخص کے متعلق یہ خواب دیکھنا جو ان کے درمیان چھبیس سال کا طویل عرصہ رہ کر پھر ان سے قطع تعلق کرکے اور ان کے خیالات سے متنفر ہوکر قادیان کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی رجوع کی حالت میں وہ وفات پاتا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوتا ہے اور خواب میں یہ دکھایا جانا کہ وہ نہ صرف جنتی ہے بلکہ جنت کے اعلیٰ اور دلکش پھلوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ پھل اس کے لئے اس طرح کٹے کٹائے ہیں کہ گویا کھائے جانے کے لئے بالکل تیار ہیں اور خواب میں ہی یہ خیال آنا کہ یہ منظر بہشتی نظارہ قطو فھا دانیۃ کی ایک جھلک ہے، حضرت مولوی صاحب کے غیرمعمولی نیک انجام اور ان کے آخری خیالات اور آخری عقائد کے صحیح ہونے کی تائید میں ایک ایسی بیّن اور روشن دلیل ہے جس سے کوئی عقل مند اور غیرمتعصب شخص انکار نہیں کرسکتا اور اس خواب کا ایک لطیف حصہ یہ بھی ہے کہ مولوی محمد یعقوب خانصاحب کو خواب میں ہی ان دلکش پھلوں کے کھانے کی تحریک ہوئی جو اس طرف اشارہ تھا کہ انہیں خلافت حقہ کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ چنانچہ جب انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چنددانوں کو چکھا اور مزا محسوس کیا اور یہ چکھنا اس غرض سے تھا کہ انہیں اس کا مزا محسوس کرایا جائے اور اس کے حاصل کرنے کی تحریک کی جائے تو اس پر فوراً ان کے دل میں ڈالا گیا کہ یہ پھل تو حضرت مولوی صاحب مرحوم کا حصہ اور انہی کا حق ہیں۔ کاش ہمارے غیرمبایع اصحاب اس خواب پر غور کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ والحکم اللّٰہ واللّٰہ خیر الحاکمین
حضرت مولوی صاحب کی اولاد سے گزارش
بالآخر میں حضرت مولوی صاحب کی اولاد اور اپنے نسبتی بھائیوں اور بہنوں اور ان کی اولاد سے بھی جن میں سے کئی اب تک بیعت خلافت سے محروم ہیں، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرحوم اس ناپائدار دنیا میں اپنی پاک زندگی کے ایام گزار کر اپنے خدا کے حضور پہونچ چکا ہے اور اس کا انجام ایسا مبارک ہوا ہے کہ ہم سب کے لئے جائے رشک ہے مگر اس کی وفات سے آپ لوگوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اپنے پاک نفس بزرگ کی زندگی اور اس کے نیک انجام کو دیکھتے ہوئے اس رستہ کی طرف قدم نہ اٹھایا جس کی طرف خدا ئے قدیر کی ازلی تقدیر اپنے گوناگوں تصرفات کے ساتھ اسے وفات سے قبل کھینچ لائی تھی تو آپ یقینا خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ میرے دل میں آپ لوگوں کی بے حد محبت ہے۔ پس گودنیاداری کے اصول کے ماتحت شاید یہ موقع ایسی باتوں کے کہنے کا نہیں مگر ہمارا مسلک دینی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیاوی اور آپ کی محبت اور ہمدردی ہی مجھے اس فرض کی طرف توجہ دلارہی ہے کہ میں اس موقع پر آپ کو بتادوں اور جتادوں کہ جدھر خدائی تقدیر کی انگلی اٹھ رہی ہے آپ کا فرض ہے کہ ادھر توجہ دیں اور اپنے مرحوم باپ اور دادا اور نانا کے مسلک کوہاں اس مسلک کو جس کے صحیح ہونے پر خدائی مہر ثبت ہوچکی ہے، اپنا مسلک بناکر خدائی انعاموں کے وارث ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ اور آپ کا حافظ وناصر رہے۔ اور آپ کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور انجام بخیر کرے۔ آمین اور اے خدا تو ایسا فضل فرما کہ میں بھی تیرا ایک بہت گناہگار اور ناکارہ بندہ ہوں۔ تیری وسیع رحمت سے اپنے عمل کے مطابق نہیں بلکہ اپنے اس جذبہ کے مطابق جو تونے میرے دل میں وویعت کیاہے، حصہ پائوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیونکہ میں اپنے نفس کے متعلق بھی وہ علم نہیں رکھتا جو تو رکھتا ہے۔ آمین یاارحم الراحمین
دوستوں اور عزیزوں کا شکریہ
آخرمیں ان سب بزرگوں اور دوستوں اور عزیزوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جنہوں نے حضرت مولوی صاحب کی تیمارداری میں یا ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیز وتکفین وتدفین وغیرہ کے انتظام میں حصہ لے کر ہمارا ہاتھ بٹایا اور اسلامی اخوت وہمدردی کا ثبوت دیا۔ واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸ فروری ۱۹۴۳ئ)










خِلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے
اور
خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر کا ایک زبردست کرشمہ
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ بطور اصول کے ارشاد فرماتا ہے کہ دنیا میں دوطرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ جن کا وجود محض عارضی اور وقتی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے اور ان میں بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے لئے کوئی حقیقی فائدہ مقصود نہیں ہوتا اور دوسری وہ جو نظام عالم کا حصہ ہوتی ہیں اور لوگوں کے لئے ان میں کوئی نہ کوئی فائدہ کا پہلو مقصود ہوتا ہے۔ مقدم الذکر چیزیں دُنیا میں جھاگ کی طرح اُٹھتی اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں مگر مؤخرالذکر چیزیں جم کر زندگی گزارتی ہیں اور انہیں دُنیا میں قرار حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ فَاَمَّاالزَّبَدُ فَیَذْ ھَبُ جُفَآئً وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۵؎
یعنی جھاگ کی قسم کی چیز تو آناً فاناً گزر کر ختم ہوجاتی ہے۔ مگر نفع دینے والی چیز جم کر زندگی گزرتی ہے اور دُنیا میں قرار حاصل کرتی ہے۔‘‘
اس اصل کے ماتحت ہم صحیفہ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ لطیف منظر نظر آتاہے کہ جو چیز بھی دنیا کے لئے کسی نہ کسی جہت سے مفید ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے قائم رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی انتظام کر رکھا ہے۔ حتیٰ کہ ادنیٰ سے ادنیٰ جانوروں اور حقیر سے حقیر جڑی بوٹیوں کی بقاء نسل کا انتظام بھی موجود ہے اور قدرت کا مخفی مگر زبردست ہاتھ انہیں مٹنے اور ناپید ہوجانے سے بچائے ہوئے ہے۔ صحیفۂ عالم کے زیادہ گہرے مطالعہ سے یہ بات بھی مخفی نہیں رہ سکتی کہ جتنی کوئی چیز بنی نوع انسان کے لئے زیادہ مفید ہوتی ہے، اتنا ہی خداتعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کا انتظام زیادہ پختہ اور زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ قرآن شریف کی حفاظت کاوعدہ بھی اسی اصل کے ماتحت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۶؎‘‘
چونکہ قرآنی الہام ایک ہمیشہ کی یادگار قرار دیا گیا ہے اور خدا کا یہ منشاء ہے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے بیدار کرنے کا ذریعہ رہے ۔ اس لئے خدا خود اس کا محافظ ہوگا اور ہمیشہ ایسے سامان پیدا کرتا رہے گا جواسے ظاہری اور معنوی ہر دو لحاظ سے محفوظ رکھیں گے۔ گویا قرآنی حفاظت کی وجہ ’’ذکر‘‘ کے چھوٹے سے لفظ میں مرکوز کردی گئی ہے۔
یہی حال نبوت کا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا کو کِسی عظیم الشان فتنہ وفساد میں مبتلا دیکھ کر اس کی اصلاح کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ کِسی شخص کو اپنی طرف سے رسول یا نبی بناکر مبعوث کرتا ہے مگر نبی بہرحال ایک انسان ہوتا ہے اور لوازمات بشری کے ماتحت اس کی زندگی چند گنتی کے سالوں سے زیادہ وفا نہیں کرسکتی۔ اس صورت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نبی کے مشن کو کامیاب بنانے اور انتہا تک پہنچانے کے لئے اس کی وفات کے بعد بھی کوئی ایسا انتظام کرے جس کے ذریعہ نبی کا بویا ہوا بیج اپنے کما ل کو پہونچ سکے۔ اور وہ اصلاح جو اللہ تعالیٰ نبی کی بعثت سے پیدا کرنا چاہتا ہے دنیا میں قائم اور راسخ ہوجائے۔ یہ خدائی نظام جسے گویا نبوت کا تتمہ کہنا چاہیئے خلافت کے نام سے موسوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ہر عظیم الشان نبی کے بعد اس کے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے خلفاء کا سلسلہ قائم فرماتا ہے۔ یہ خلفاء بالعموم خود نبی یا مامور نہیں ہوتے مگر نبی کے تربیت یافتہ اور اس کے خدا داد مشن کو سمجھنے والے اور اسے چلانے کی اہلیت رکھنے والے ہوتے ہیں اور گو وہ خدا کی وحی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے مگر خدا تعالیٰ اپنی تقدیر خاص کے ماتحت ایسا تصرف فرماتا ہے کہ نبی کے گزرجانے کے بعد وہی لوگ مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہیں جنہیں خدا اس کام کے لئے پسند فرماتا ہے گویا خدا تعالیٰ کی مخفی تاریں مومنوں کے قلوب پر متصرف ہوکر انہیں خود بخود خلافت کے اہل شخص کی طرف پھیر دیتی ہیں۔ اسی لئے باوجود اس کے کہ ایک غیرمامور خلیفہ لوگوں کا منتخب شدہ ہوتا ہے، اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور قرآن اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ بظاہر یہ ایک متضاد سی بات نظر آتی ہے کہ ایسا شخص جو لوگوں کی کثرت رائے یا اتفاقِ رائے سے خلیفہ منتخب ہو اس کے تقرر یا انتخاب کو خدا کی طرف منسوب کیا جائے مگر حق یہی ہے کہ باوجود ظاہری انتخاب کے ہر سچے خلیفہ کے انتخاب میں دراصل خدا کا مخفی ہاتھ کام کرتا ہے۔ اور صرف وہی شخص خلیفہ بنتا ہے اور بن سکتا ہے جسے خد اکی ازلی تقدیر اس کام کے لئے پسند کرتی ہے اور اس کے سوا کِسی کی مجال نہیں کہ مسند خلافت پر قدم رکھنے کی جرأت کرسکے۔ یہی گہری صداقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں مخفی ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’أَوْاَرَدْتُ اَنْ اُرْسِلَ اِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ وَابْنِہِ فَأَعْھَدَاَنْ یَّقُوْلَ الْقَائِلُوْنَ، أَوْیَتَمَنَّی الِمَتَمَنُّوْنَ، ثُمَّ قُلْتَ یَابَی اللّٰہُ وَیَدْ فَعُ وَیَدْفَعُ المَؤ مِنُوْنُ، أَوْیَرْفَعُ اللّٰہُ وَیَابَی المَوُمِنُوْنَ۔ ۷؎
یعنی میں ابوبکر کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنا چاہتا تھا مگر پھر میں نے خیال کیا کہ یہ خدا کا کام ہے۔ خدا ابوبکر کے سِوا کسی اور شخص کو خلیفہ نہیں بننے دے گا اور نہ ہی خدا کی مشیت کے ماتحت مومنوں کی جماعت ابوبکر کے سِوا اور کی خلافت پر راضی ہوسکے گی۔‘‘
اللہ اللہ! اس چھوٹے سے فقرہ میں نظامِ خلافت کا کتنا وسیع مضمون ودیعت کردیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بے شک میرے بعدبظاہر مسلمانوں کی کثرت ابوبکر کو خلیفہ منتخب کرے گی مگر دراصل اس رائے کے پیچھے خدائے قدیر کی ازلی تقدیر کام کررہی ہوگی اور وہی ہوگا جو خدا کا منشاء ہوگا اور اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور باوجود اس کے کہ اندرونی طور پر انصار نے اپنے میں سے کسی اور شخص کو کھڑا کرنا چاہا اور بیرونی طور پر عرب کے بدوی قبائل نے باغی ہوکر خلافت کے نظام کو ہی ملیامیٹ کردینے کی تدبیر کی مگر چونکہ ابوبکر خدا کا مقرر کردہ خلیفہ تھا، اس لئے اس کے اتباع کی قلت اس کے مخالفین کی کثرت کو اس طرح کھا گئی۔ جس طرح سمندر کا پانی اپنے اوپر کی چھاگ کو کھاجاتا ہے۔
پھر جو الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے فرمائے کہ
’’خدا تمہیںایک قمیض پہنائے گا اور لوگ اُسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اُتارنا۔‘‘۸؎
وہ بھی اسی قدیم سنتِ الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دراصل خلیفہ خدا بناتا ہے اور انتخاب کرنے والے لوگ صرف ایک پردہ کا کام دیتے ہیں اور ایک آلہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جسے خدا اپنی تقدیر کو جاری کرنے کے لئے اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ ان الفاظ پر غور کرو کہ وہ کیسے پیارے اور کیسے دانائی سے معمور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بنانے کے فعل کو خدا کی طرف منسوب فرماتے ہیں اور خلافت سے معزول کرنے کی کوشش کو لوگوں کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ گویا جو صورت بظاہر نظر آتی ہے اس کے بالکل برعکس ارشاد فرماتے ہیں۔ خلافت کے انتخاب میں بظاہر نظر آنے والی صورت یہ ہے کہ لوگ خلیفہ کو منتخب کرتے ہیں اور خدا بظاہر لاتعلق ہوتا ہے لیکن باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد یہ فرماتے ہیں کہ خلیفہ بناتا خدا ہے۔ ہاں مفسد لوگ بعض اوقات خدا کے بنائے ہوئے خلفاء کو معزول کرنے کی کوشِش ضرور کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے جسے سمجھنے کے بعد کوئی شخص خدا کے فضل سے مسئلہ خلافت کے تعلق میں ٹھوکر نہیں کھاسکتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا کا ہر نظام وقتی ہے۔ اور عموماً دَوروں میں تقسیم شدہ ہوتا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہوشیار اور چوکس رکھنے کے لئے یہ انکشاف بھی فرمادیا کہ
’’ میرے بعد متصل اور مسلسل طور پر خلافت حقّہ کا دَور صرف تیس سال تک چلے گا۔ جس کے بعد غاصب لوگ ملوکیت کا رنگ اختیار کرلیں گے۔ اور اس کے بعد حسب حالات اور ضرورت زمانہ روحانی خلافت کے دَور آتے رہیں گے۔ حتیٰ کہ بالآخر مسیح ومہدی کے نزول کے بعد پھر منہاج نبوت پر ظاہری خلافت کی صورت قائم ہوجائے گی۔‘‘۹؎
چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کا حصہ اور تتمہ ہے اور نبوت کی خدمت اور تکمیل کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق قرآن شریف کی آیت استخلاف میں ایسی علامات مقرر فرمادی ہیں جو سچی خلافت کو جُھوٹی خلافت سے روزِ روشن کی طرح ممتاز کردیتی ہیں فرماتا ہے:-
’’وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنََھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّن.6ْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَالِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ۔۱۰؎
یعنی خدا تعالیٰ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ وہ عمل صالح بجالانے والے مومنوں میں سے ملک میں خلفاء مقرر کرے گا ( یہ مطلب نہیں کہ جو مومن بھی عمل صالح کرنے والا ہوگا وہ ضرور خلیفہ بنے گا بلکہ اس میں اشارہ یہ ہے کہ جو خلیفہ ہوگاوہ ضرور مومن اور عمل صالح بجالانے والا ہوگا)یہ خلفاء اسی سنت کے مطابق مقرر کئے جائیں گے۔جس طرح پہلی امتوں میں مقرر کئے گئے۔ اور خدا تعالیٰ اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے۔ان کے ذریعہ سے دنیا میں مضبوطی سے قائم فرمادے گا۔ اور (چونکہ ہر تغیر کے وقت ایک خوف کی حالت پیدا ہوا کرتی ہے) اللہ تعالیٰ ان کی خوف کی حالت کو اپنے فضل سے امن میں بدل دے گا۔ یہ لوگ میرے سچے پرستار ہوں گے۔ اور میرے سوا کسی معبود کے سامنے (خواہ وہ مخفی ہو یا ظاہر) گردن نہیں جھکائیں گے۔ اور جوشخص ایسی نصرت وتائید کو دیکھتے ہوئے بھی اس نظام خلافت سے سرکشی اختیار کرے گا وہ یقینا خدا کا مجرم اور فاسق سمجھا جائے گا۔‘‘
یہ آیتِ کریمہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صراحت کے ساتھ خلافت کے نظام سے متعلق قراردیا ہے، اپنے مختصر الفاظ میں ایک نہایت وسیع مضمون کو لئے ہوئے ہے اور اس نقشہ کی بہترین تصویر ہے جو کم وبیش ہر نئی خلافت کے قیام کے وقت دنیا کے سامنے آتا ہے۔ ہر نبی یا خلیفہ کی وفات ایک عظیم زلزلہ کا رنگ رکھتی ہے اور ہر بعد میں آنے والا خلیفہ ایسے حالات میں مسند خلافت پر قدم رکھتا ہے کہ جب لوگوں کے دل سہمے ہوئے اور خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اب کیا ہوگا مگر پھر لوگوں کے دیکھتے دیکھتے خدا اس آیت کریمہ کے وعدہ کے مطابق اپنی تقدیر کی مخفی تاروں کو کھینچنا شروع کرتا ہے اور خوف کے دنوں کو امن سے بدل کر آہستہ آہستہ جماعت کو کمزوری سے مضبوطی کی طرف یا مضبوط حالت سے مضبوط تر حالت کی طرف اٹھانا شروع کردیتا ہے۔اور یہ خلفاء اپنی دینی حالت اور دینی خدمت سے اس بات پر مہر لگا دیتے ہیں کہ خدا کی محبت اور خدا کی نصرت کا ہاتھ ان کے ساتھ ہے اور یہ سِلسلہ اپنی ظاہری صورت میں اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ خدا کے علم میں نبی کے لائے ہوئے دین کے استحکام اور اس کے مشن کی تکمیل اور مضبوطی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ یہ خلافت کا نظام جو دراصل نبوت کا حصہ اور تتمہ ہے۔ ہر عظیم الشان نبی کے زمانہ میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے کام کی تکمیل کے لیئے حضرت یوشع خلیفہ ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد پطرس خلیفہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن سارے نبیوں سے زیادہ شاندار اور زیادہ وسیع تھااس لئے آپ کے بعد خلافت کا نظام بھی سب سے زیادہ نمایاں اور شاندار صورت میں ظہور پذیر ہوا، جس کی تیز کرنیں آج تک دنیا کو خیرہ کررہی ہیں۔ حق یہ ہے کہ اگر نبوت کے ساتھ خلافت کا نظام شامل نہ ہو تو نعوذباللہ خدا پر ایک خطرناک الزام عائد ہوتا ہے کہ اس نے دنیا میں ایک اصلاح پیدا کرنی چاہی مگر پھر اس اصلاح کے لئے ایک فرد واحد کو چند سال زندگی دے کر وفات دے دی اور اس اصلاحی نظام کو اپنے ہاتھ سے ملیامیٹ کردیا۔ گویا یہ ایک بلبلا تھا جو سمندر کی سطح پر ظاہر ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے مٹ کر پانی کی مہیب لہروں میں غائب ہوگیا۔ سبحان اللّٰہ ماقدروا اللّٰہ حق قدرہٖ ہمارا حکیم وعلیم خدا تو وہ خدا ہے کہ جو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ نفع دینے والی چیز کو بھی دنیا میں قائم رکھتا اور اس کے قیام کا سامان مہیا کرتا ہے۔ چہ جائیکہ نبوت جیسے جوہر اور ایک مامور کی لائی ہوئی اصلاح کو ایک ہوا کے اڑتے ہوئے جھونکے کی طرح باغ عالم میں لائے او رپھر لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اسے ان کی نظروں سے غائب کردے اور اس کے روح پرور اثر اور حیات افزا تاثیر کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی انتظام نہ فرمائے۔ یقیناً یہ منظر ایک کھیل سے زیادہ نہیں اور کھیل کھیلنا شیطان کا کام ہے۔ خدا کا نہیں۔ خدا جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کی اہمیت اور وسعت کے مطابق حال اس کے لئے سامان بھی مہیا فرماتا ہے اور اِس کام کے دائیں اور بائیں اور اوپر اور نیچے کو ایسی آہنی سلاخوں سے مضبوط کردیتا ہے کہ پھرجب تک اس کا منشاء ہو کوئی چیز اسے اس کی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ اسی لئے خدا کی یہ سنت ہے کہ خاص خاص انبیاء کے صرف بعد ہی ان کے مشن کی مضبوطی اور استحکام کے لئے خلافت کا نظام قائم نہیں فرماتا بلکہ ان کی بعثت سے پہلے بھی اُن کے لئے رستہ صاف کرنے کی غرض سے بعض لوگوں کو بطور ارہاص یعنی آنے والی منزل کی علامت کے طورپر مبعوث کرتا ہے۔ جو لوگوں کی توجہ کو آنے والے مصلح کے مشن کی طرف پھیرنا شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے حضرت یحیٰ بطور ارہاص مبعوث ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے متعدد لوگ جو حنفا کہلاتے تھے، توحید کے ابتدائی جھونکے بن کر ظاہر ہوئے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے پہلے سید احمد صاحب بریلوی سوئے ہوئے لوگوں کی بیداری کا ذریعہ بن کر آئے۔ کیا ایسے حکیم ودانا خدا سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نبی کی چند سالہ زندگی کے بعد اس کے لائے ہوئے مشن کو بغیر کسی انتظام کے چھوڑ سکتا ہے اور اس بڑھیا کی مثال بن جاتا ہے جو اپنے محنت سے کاتے ہوئے دھاگے اپنے ہاتھ سے تباہ وبرباد کردیتی ہے۔ میں پھر کہوں گا سبحان اللّٰہ ماقدروا اللّٰہ حق قدرہ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۳ئ)


خلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے
اور
خدا کی ازلی تقدیر کا ایک زبردست کرشمہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی چونکہ دنیا میںایک عظیم الشان مشن لے کر مبعوث ہوئے تھے اور اپنے مقام کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل وبروز کامل تھے۔ حتیّٰ کہ آپؐ نے ان کے مقام اور کام کے پیش نظر فرمایا:-
’’ یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِی۱۱؎
یعنی مسیح موعود میرے ساتھ میری قبرمیں دفن ہوگا۔ یعنی آخرت میں اسے میری معیت حاصل ہوگی اور اسے میرے ساتھ رکھا جائے گا۔‘‘
اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے خداداد مشن کی تکمیل کے لئے بھی آپ کے بعد خلافت کا نظام قائم ہو۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات میں متعدد جگہ اس نظام کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ آپ کے بہت سے الہامات میں بھی اس نظام کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں مگر میں اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتاہوں۔ اور یہ وہ عبارت ہے جو آپ نے اپنے زمانہ وفات کو قریب محسوس کرکے اپنے متبعین کے لیئے بطور وصیت تحریر کی۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ ……وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اورکچھ میرے بعد۔ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ اور ان کو غلبہ دیتا ہے…… اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریذی انہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا۔ بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے…… ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے۔ اور ایسے اسباب پیدا کردینا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناکام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دوقسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔
(۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔
(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیداہوجاتا ہے…… خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیرتک صبر کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ اور بہت سے بادیہ نشین مرتد ہوگئے۔ اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق.6ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اوراسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا۔ اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا :-
’’وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔
یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میںہوا…… ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا…… سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خد تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی میری وفات کے قریب ہونے کی خبر) غمگین مت ہو اورتمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں۔ کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے…… میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘۱۲؎
یہ عبارت جس صراحت اور تعیین کے ساتھ نظامِ خلافت کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں اور یہ عبارت بطور وصیت کے لکھی گئی جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے قرب وفات کی خبر پاکر اپنے بعد کے نظام کے بارے میں اپنی جماعت کو آخری نصیحت فرمائی اور ہر عقلمند غیرمتعصب شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
اوّل: خدا تعالیٰ انبیاء کے کام کی تکمیل کے لئے دو قسم کی قدرت ظاہر فرماتا ہے۔ ایک خود نبیوں کے زمانہ میں اور دوسری ان کی وفات کے بعد تاکہ اُن کے مشن اور اُن کی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک اپنی خاص نگرانی میں رکھ کر ترقی دے اور تکمیل تک پہنچائے۔
دوم: دوسری قدرت خلافت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے وجود میں ظاہر ہوئی۔
سوم: یہ خلافت کا نظام جو نبوت کے نظام کا حصہ اور اسی کا تتمہ ہے خدائی سنت کا رنگ رکھتا ہے اور ہر نبی کے زمانہ میں قائم ہوتا رہا ہے۔
چہارم: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اسی رنگ میں قدرت ثانیہ کا ظہور مقدر تھا۔ کیونکہ جیسا کہ آپ خود خدا کی ایک مجسم قدرت تھے۔ آپ کے بعد بعض اور وجودوں نے دوسری قدرت کا مظہر ہونا تھا اور ان وجودوں نے حضرت ابوبکر کے رنگ میں ظاہر ہونا تھا۔
پنجم: نبی کے بعد آنے والے خلفاء خواہ بظاہر صورت لوگوں کے انتخاب سے مقرر ہوں مگر دراصل ان کے تقرر میں خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور درحقیقت خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔
ششم: سورۂ نور کی آیت استخلاف نظام خلافت سے تعلق رکھتی ہے اور حضرت ابوبکر.6ؓ کی خلافت اسی آیت کے ماتحت تھی اور حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد کی خلافت بھی اسی آیت کے ماتحت ہونی تھی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷ اپریل ۱۹۴۳ئ)




مَہر کے متعلق اِسْلام کی اُصولی تعلیم
اور
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اُسوۂ حسنہ
سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے مہر کے متعلق ضروری تشریح
کچھ عرصہ ہوا الفضل میں مہر کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا ایک اصولی اور قیمتی ارشاد شائع ہوا تھا۔ اس ارشاد کی ضمن میں ہمشیرہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے مہر کا بھی ذکر آیا تھا۔ اس بارے میں حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا سے جو علم مجھے حاصل ہواہے، میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسے دوستوں کی اطلاع کے لئے شائع کردوں۔ حضرت ام المومنین نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا مہر چھپن ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا اور جب یہ مہر مقرر ہوا تو حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ:-
’’ یہ مہر اس لئے زیادہ رکھا گیا ہے کہ معلوم ہوا ہے کہ ریاست مالیر کوٹلہ میں خاوند کی جائداد میں سے بیوی کو حصہ نہیں ملتا۔ گویا اس قدرمہر مقرر کئے جانے میں یہ بات بھی مدنظر تھی کہ جائداد میں سے حصہ نہ ملنے کی تلافی ہوجائے۔‘‘۱۳؎
اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو مہر ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا مقرر کیا گیا تھا یعنی چھپن ہزار روپیہ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی ایک تقریر میں سہواً پچپن ہزار مذکور ہے مگر دراصل مہر چھپن ہزار تھا) وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے اور خیال کے مطابق مہر کے عام معیار سے زیادہ تھا اور اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ ریاست کے قانون کے مطابق ہماری ہمشیرہ کو اخویم محترم نواب محمد علی خانصاحب کی جائداد میں سے حصہ نہیں مِل سکتا تھا۔ پس اس کمی کو اس رنگ میں پورا کردیا گیا۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت ہماری ہمشیرہ کی شادی ہوئی تھی اس وقت نواب صاحب موصوف کی سالانہ آمد قریباً چوبیس ہزار روپیہ تھی۔ (گو بعد میں نواب صاحب کی آمد زیادہ ہوگئی) اس طرح ہماری ہمشیرہ کا مہر گویا نواب صاحب کی دوسال کی آمد سے بھی زیادہ تھا۔ (گو اس وقت اسے ایک غلط فہمی کی بناء پر دو سال کی آمد کے برابر سمجھا گیا تھا) مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیادتی مہر کے عام اصول کے ماتحت نہیں تھی۔ بلکہ جائداد کے حصہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تھی۔
مہر کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بات بھی دوستوں کی خدمت میں عرض کردینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مہر میں گو بہرحال خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے مگر وہ اس قدر گراں نہیں ہونا چاہیئے کہ مرد کے لئے اس کی دوسری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں روک پیدا کردے یا ناواجب تنگی اور بوجھ کا موجب ہو۔ بلکہ ایسا ہونا چاہیئے کہ خاوند اسے طیبِ نفس اور بشاشتِ قلب کے ساتھ ادا کرسکے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’وَاٰتُوالنِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً۔ ۱۴؎
یعنی اے مردو! تمہیں چاہیئے کہ عورتوں کا مہر بشاشتِ قلب اور طیب نفس کے ساتھ ادا کیا کرو۔ اور اس کی ادائیگی میں تمہارے دلوں کے اندر تنگی نہ پیدا ہوا کرے۔‘‘
یہ آیت کریمہ جہاں اس ارشاد کی حامل ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے مہر کی ادائیگی میں حیل وحجت اور تنگ دلی کا طریق نہ اختیار کرے، وہاں اس آیت میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ مہر ایسا ہونا چاہیئے جسے انسان اپنے حالات کے ماتحت طیبِ نفس کے ساتھ ادا کرسکے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ مہر ناواجب طور پر بھاری نہ ہو ورنہ مہر زیادہ باندھ کر پھر یہ توقع رکھنا کہ خاوند اِسے بشاشتِ قلب اور طیبِ نفس سے ادا کرے ایک تکلیف مالایطاق کا رنگ رکھتا ہے جو درست نہیں۔ فطری قانون کے ماتحت طیبِ نفس کی کیفیت تبھی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب مہر کی رقم ایسی ہو کہ خاوند اسے اپنی مالی حالت کے پیش نظر آسانی اور خوشی کے ساتھ ادا کرسکے۔
علاوہ ازیں قرآن شریف کی متعدد آیات میں یہ اشارہ ملتا ہے اور احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت اسلامی نے اس بات کو پسند کیا بلکہ بہتر قرار دیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خاوند شادی کے وقت ہی اپنی بیوی کا مہرادا کردے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ صحابہ کرام عموماً ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مہر زیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ کیونکہ جب شادی کے موقع پر ہی مہر کی نقد بہ نقد ادئیگی کو پسند کیا گیا ہے (اور ظاہر ہے کہ شادی کے وقت مرد کے لئے اور بھی کئی قسم کے اخراجات درپیش ہوتے ہیں) تو لازماً یہی سمجھا جائے گا کہ شریعت کا یہ منشاء نہیں کہ مہر کی وجہ سے مرد کسی غیر معمولی بوجھ کے نیچے دب جائے۔ بلکہ شریعت نے اسے ایک ایسی چیز قرار دیا ہے جو دوسرے اخراجات کو جاری رکھتے ہوئے معقول طور پر برداشت کی جاسکے۔
عام حالات میں مہر کی حد
اندریں حالات حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مہر کے متعلق جو یہ اصولی ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ وہ مرد کی چھ ماہ کی آمد سے لے کر بارہ ماہ کی آمد تک ہونا چاہیئے۱۵؎۔ وہ بہت خوب اور مناسب ہے۔ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں مہر چھ ماہ کی آمد کے برابر ہونا چاہیئے مگر خاص حالات میں سات آٹھ نو یا دس ماہ کی آمد تک رکھا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت اسلامی کے اصولی رجحان کو دیکھتے ہوئے عام حالات میں چھ ماہ کی حد بہت مناسب اور بہتر ہے اور اکثر صورتوں میں اس سے اوپر جانے کی ضرورت نہیں۔ مگر چھ ماہ کے اندازے کا یہ مطلب نہیں کہ مہر کسی صورت میں بھی اس کے کم نہیں ہوسکتا کیونکہ استثنائی حالات میں (مثلاً جبکہ خاوند بہت مقروض ہو یا اس پر بہت سے دوسرے رشتہ داروں کا بوجھ ہو وغیرہ ذالک) مہراس سے بھی کم رکھا جاسکتا ہے اور کم ہونا چاہیئے اور اس کے مقابل پر دوسری قسم کے استثنائی حالات میں مہر دس ماہ کی آمد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ پس گو بہرحال مہر خاوند کی مالی حیثیت کی بناء پر مقرر ہونا چاہیئے یعنی نہ تو وہ محض برائے نام ہو اور نہ ہی نمائش کے خیال سے بڑھا چڑھا کر رکھا جائے بلکہ حالات کے مطابق واجبی ہو لیکن بہر صورت اس کے تقرر میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اس کی ادائیگی خاوند پرکوئی غیرمعمولی بوجھ نہ بن جائے بلکہ وہ ایسا ہو کہ قرآنی منشاء کے ماتحت ایک نیک دل خاوند اسے بشاشت قلب اور طیب نفس کے ساتھ ادا کرسکے۔ میں نے نیک دل خاوند کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ ایک خسیس اور کنجوس انسان کے لئے تو ایک روپیہ دینا بھی دوبھر ہوتا ہے اور اسے کسی رقم پر بھی خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو طیب نفس کی کیفیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس ایسے لوگوں کا معاملہ جداگانہ ہے۔ شریعت نے اپنے احکام کی بنیاد ایسے لوگوں کی طبیعت پر نہیں رکھی بلکہ عام انسانی فطرت کے اصولوں پر رکھی ہے۔ واللّٰہ اعلم
‎ (مطبوعہ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۴۳ئ)

موسیقی کے متعلق صحیح زاویہ نظر
اور
میرے ایک مضمون کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ
ایک نامہ نگار کا مضمون
الفضل مورخہ ۲ نومبر ۴۳ء میں مبارک احمد خاں صاحب پسر محترمی ماسٹر عبدالعزیز خاں صاحب مالکِ طبیہ عجائب گھر کا ایک مضمون فن موسیقی کے مطابق گانا سُننے کے متعلق شائع ہوا ہے۔ جس میں نوجوان نامہ نگار نے اس اہم مضمون کے متعلق بہت سے مفید حوالہ جات جمع کرنے کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مفتی کافتویٰ بھی شائع کیا ہے۔ مضمون یقینا اخلاص اور محنت اور کوشش کے ساتھ لکھا گیا ہے جس میں بعض احادیث اور بہت سے گذشتہ صلحاء کے حوالے درج کرنے کے علاوہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے بعض خطبات کے اقتباسات بھی شامل کئے گئے ہیں اور بالآخر جماعت احمدیہ کے مفتی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا ایک فتویٰ درج کرکے بتایا گیا ہے کہ:-
’’آلاتِ موسیقی کے ساتھ گانا سننا ممنوع ہے خواہ مرد کا ہو یا عورت کا اور آلات خواہ پرانے ہوں یا جدید۔ اورخواہ گانا اپنی ذات میں بُرے مضمون پر مشتمل ہو یا اچھے پر‘‘
ظاہر ہے کہ جو مضمون احادیث نبوی اور ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ اور فتاویٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مہرکے ساتھ شائع ہو۔ اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سوائے اس کے کہ کسی شخص کو اس استدلال پر اعتراض ہو جو پیش کردہ حوالوں سے کیا گیا ہو یا ان معنوں سے اختلاف ہو جو درج کردہ حوالوں سے نکالے جاتے ہوں یا کوئی شخص بعض ایسے حوالے پیش کرسکتا ہو جو ان پیش کردہ حوالوں کو ناقابل استدلال قرار دیتے ہوں اور حق یہ ہے کہ میں مخلص نامہ نگار کی محنت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ قطع نظر اس کے کہ اُن کے مضمون کے بعض حصے درست ہیں یا نہیں۔ انہوں نے اس مضمون کے ذریعہ جماعت کو ایک اصولی امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو آج کل کثیر التعداد لوگوں کی ٹھوکر بلکہ بعض حالات میں تباہی کا موجب ہورہاہے اور جس کے انتہائی خطرات سے بعض احمدی بھی ابھی تک پوری طرح آگاہ نہیں مگر مجھے اس مضمون میں ایک بات قابل اعتراض اور دوسری بات قابل دریافت نظر آتی ہے جسے میں اس جگہ پیش کردینا ضروری خیال کرتا ہوں۔
استفتاء کی بنیاد
مبارک احمدخاں صاحب نے جو حسن اتفاق سے میرے استاد ماسٹر عبدالعزیز خانصاحب کے فرزند ہیں اور اس لئے ہم دونوں ایک دوسرے پر دوسروں کی نسبت غالباً کسی قدر زیادہ حق رکھتے ہیں،اپنے مضمون میں اپنے استفتاء کی بنیاد میرے ایک مضمون کو بنایا ہے جو’’ایک بدعت کا آغاز‘‘ کے عنوان کے ماتحت الفضل مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ جس میں میں نے یہ دیکھ کر کہ قادیان کی ایک مسنون دعوت ولیمہ میں جس میں فریقین مخلص احمدی تھے اور مردوں اور عورتوں کی بیٹھنے کی جگہ میں صرف ایک دیوار حائل تھی، ریڈیو یا گراموفون کے گانے کے ذریعہ مہمانوں کی دعوت کو ’’پرتکلف‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس فعل کو ایک بدعت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اور جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ایسے وقت میں جبکہ ہم چاروں طرف سے دجالی تہذیب کے فتنوں سے گِھرے ہوئے ہیں، ہمیں اس احتیاط کی بے حد ضرورت ہے کہ کہیں ہم غفلت کی حالت میں مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کسی خطرناک گڑھے میں نہ گرجائیں اور میں نے اس جہت سے بھی جماعت کو ہوشیار کیا تھا کہ گو ایسے خطرات کا آغاز اکثر اوقات بہت حقیر اور ناقابل التفات نظر آیا کرتا ہے مگر انجام بالعموم نہایت مہیب اور مہلک ہوتا ہے۔ جو بسااوقات ایک قوم کی قوم کو تباہ،وبرباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ الغرض میرا یہ مضمون نہ صرف اپنی غرض وغایت کے لحاظ سے بلکہ اپنے الفاظ ومفہوم کے لحاظ سے بھی موجودہ زمانہ کی موسیقی اور اس کے خطرناک نتائج کے خلاف بھرا پڑا تھا۔ لیکن ضمناً اس میں ایک ایسا فقرہ بھی آگیا تھا کہ اگر کوئی ایسا گانا ہو جس میں کوئی ناجائز عنصر نہ ہو۔ اور نہ کوئی مخرب اخلاق بات ہو اور اس میں انہماک اور ضیاعِ وقت کی صورت بھی نہ پائی جائے تو کبھی کبھار گھر میں پرائیویٹ طور پر اس کا سننا قابل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا مگر میرے اس ضمنی فقرہ کو جو حقیقۃً ضمنی ہی تھا کیونکہ سارا مضمون موجودہ زمانہ کی موسیقی کے خطرات کے خلاف بھرا پڑا تھا اور پھر اس ضمنی فقرہ میں بھی میری طرف سے چار اہم شرائط لگادی گئی تھیں۔ جن کی تشریح میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ ہمارے نوجوان مضمون نگار نے اپنے استفتاء کی بنیاد بنا کر پیش کیا ہے۔گویا میں جدید موسیقی کا دلدادہ اور حامی ہوں اور نامہ نگار صاحب اس کے الفاظ کو پیش کرکے حضرت مفتی سلسلہ سے اس کے خلاف فتویٰ طلب فرمارہے ہیں۔ چنانچہ مبارک احمدخاں صاحب لکھتے ہیں:۔
’’کچھ عرصہ ہوا۔ الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۲۱ میں ہمارے سلسلہ کے ایک محترم بزرگ نے (یہ اشارہ خاکسار کی طرف سے) اس بدعت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ ریڈیو سیٹوں پر ایسے گانے جو مخرب اخلاق نہ ہوں اور نہ ہی اپنے اندر کوئی ناجائز عنصر رکھتے ہوں، حداعتدال کے اندر سننے سے کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ (یہ الفاظ بھی صحیح طور پر خاکسار کے نہیں) اس پر میں نے مضمون مذکورہ کے الفاظ میں ہی مندرجہ ذیل استفتاء حضرت مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت میں ارسال کیا تھا جس کی نقل مع جواب حسب ذیل ہے:-
استفتاء
بخدمت گرامی حضرت مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ دام معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
براہ کرم مندرجہ ذیل استفتاء کا جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمایا جائے۔
’’ریڈیو سیٹوں پر سُر اور تال کے قواعد کے مطابق جدید آلات موسیقی کے ساتھ عورتوں یا مردوں کے گانے کبھی کبھار بطور تفریح سنناور آنحالیکہ گانا بُرا نہ ہو اور نہ ہی کوئی مخرب اخلاق یا ناجائز عنصر اس گانے میں شامل ہو۔اس شرط کے ساتھ کہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کرکے انہماک اور ضیاع وقت کا موجب بھی نہ ہونے لگے۔ ازروئے شرع شریف گناہ یا معصیتِ خدا اور رسول میں شامل ہے یا نہیں‘‘؟
اس کے مقابل میرے مضمون کا وہ فقرہ جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسی کے الفاظ میں یہ استفتاء پیش کیا جارہا ہے یہ تھا:-
’’اگر کوئی شخص اپنے گھر میں پرائیویٹ طور پر کبھی کبھار موسیقی سن لیتا ہے تو اگر یہ موسیقی اپنے اندر کوئی مخرب اخلاق یا ناجائز عنصر نہیں رکھتی تو مجھے یا کسی اور شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ بشرطیکہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کرکے انہماک اور ضیاع وقت کا موجب نہ ہونے لگے۔‘‘۱۶؎
بے احتیاطی
میرے مضمون اور اپنی اس عبارت کے پیش نظر میرے مضمون نگار دوست خود ملاحظہ فرمائیں کہ
اول :-کیا ان کے لئے یہ مناسب اور درست تھا کہ وہ میرے مضمون کے اصل مقصد اور اس کے حقیقی موضوع کے خلاف بلکہ اسے بالکل نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ایک محض ضمنی فقرہ کو اپنے استفتاء کی بنیاد بنائیں۔
دوم:-کیا میرے ضمنی فقرہ کی عبارت اور ان کے استفتاء کی عبارت ایک ہے اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو کیا ان کے واسطے یہ جائز تھا کہ دعویٰ تو یہ کریں کہ میرے ’’مضمون کے الفاظ میں ہی‘‘ استفتاء پیش کررہے ہیں مگر عملاً اسے بدل کر اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے ایسے الفاظ زیادہ کرکے جو میں نے ہرگز نہیں کہے اپنا استفتاء مرتب کریں۔ چنانچہ استفتاء میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں کہ:-
’’سراور تال کے قواعد کے مطابق جدید آلات موسیقی کے ساتھ عورتوں یا مردوں کے گانے سننا‘‘
مجھے میرے عزیز نامہ نگار صاحب بتائیں کہ میرے فقرہ میں یہ الفاظ یا اس مفہوم کے الفاظ یا اس قسم کے الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہاں ہیں؟ تو پھر کیا یہ انصاف کے خلاف نہیں۔ کہ دعویٰ تو یہ کیا جائے کہ میرے ’’مضمون کے الفاظ میں ہی‘‘ استفتاء پیش کیا جارہا ہے مگر عملاً استفتاء کی عبارت میں خود اپنی طرف سے کئی الفاظ زائد کردیئے جائیں۔ اور الفاظ بھی ایسے جو استفتاء کی صورت اور اس کی بنیاد کو ہی بدل دیتے ہیں۔ اسلام تو وہ منصفانہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل وانصاف کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے:-
’’ لَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۱۷؎
لیکن ہمارے بعض عزیز اپنوں کے ساتھ بھی انصاف روا رکھنے کو تیار نظر نہیں آتے مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ مضمون نگار صاحب سے یہ غلطی بدنیتی سے نہیں ہوئی بلکہ صرف بے احتیاطی یا جوش تحریر میں ہوگئی ہے۔ اس لئے میں اپنے دل میں ان کے خلاف قطعاً کوئی رنجش نہیں پاتا بلکہ ان کے اخلاص اور جوش ایمان پر خوش ہوں۔دراصل ہمارے دوست نے غور نہیں کیا ورنہ وہ آسانی سے جان سکتے تھے کہ ریڈیو یا گراموفون میں ہرقسم کا گانا ہوتا ہے۔ مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی ۔ آلات موسیقی کے ساتھ بھی اور سادہ خوش الحانی کے رنگ میں بھی۔ اور پھر آلات بھی کئی قسم کے ہیں۔ یعنی ازقسم دف بھی اور نالی دار بھی اور تار والے بھی۔ ان حالات میں گانے کے متعلق میرے سادہ الفاظ کو ازخود ’’سراورتال اور جدید آلات موسیقی اور مردوں اور عورتوں‘‘ کے بھاری بھرکم اور وسیع الاثر الفاظ کے ساتھ مقید کرکے اپنے استفتاء کی بنیاد بنانا اور پھر دعویٰ یہ کرنا کہ استفتاء میرے ہی الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک بہت بڑی بھول ہے۔ جس پر میں اپنے عزیز کے لئے خدا سے مغفرت چاہتا ہوں۔
اب رہا وہ ضمنی فقرہ جس کامیں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ سو اس میں میں نے خود چار واضح شرطیں لگادی تھیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان چار شرطوں کے ہوتے ہوئے وہ نہ صرف کسی شرعی فتویٰ کی زد کے نیچے نہیں آتا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر احتیاط اور حزم کی طرف لے جاتا ہے۔ جو چار شرطیں میں نے لکھی تھیں۔ وہ یہ تھیں۔
چار اہم شرطیں
اول: گانے میں کوئی ’’ناجائز عنصر‘‘ نہ ہو۔ جس میں یہ باتیں شامل ہیں کہ مثلاً گانے کا مضمون خلافِ مذہب نہ ہو۔ یاگانے کا طریق خلاف مذہب نہ ہو۔ یا گانے میں کوئی ایسا آلہ استعمال نہ کیا جائے جس کا استعمال شریعت میں ممنوع ہے یا گانے والی عورتوں کی مجلس میں مردنہ شرکت کریں۔ وغیرہ ذالک
دوم: گانے میں کوئی مخرب اخلاق بات نہ ہو یعنی نہ صرف یہ کہ گانے میں کوئی بات کسی جہت سے خلاف مذہب نہ ہو بلکہ اس کے مضمون اور طریق میں کوئی بات خلاف اخلاق بھی نہ ہو جو انفرادی یا قومی اخلاق کو بگاڑنے والی سمجھی جاوے۔
سوم: وہ ’’انہماک‘‘ کا باعث نہ ہو۔ یعنی انسان اس میں اس طرح نہ پڑے جو انہماک کا رنگ رکھتا ہو اور اسے اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف سے غافل کردے۔ اسی اصل کے ماتحت گانے کو اپنا پیشہ بنالینا بھی جائز نہیں سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اس طرف اشارہ آتا ہے۔
چہارم: وہ ’’ضیاع وقت‘‘کا موجب نہ ہویعنی اس میں اتنا وقت خرچ نہ کیا جائے جو انسانی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنیوالا ہو۔
ناظرین غور کریں کہ کیا ان چارشرائط کے باہر بھی کوئی بات رہ جاتی ہے؟ کیا خوش الحانی کے ساتھ گانا جو ان چار شرائط کے ماتحت آتا ہو کسی شخص کے نزدیک ناجائز اور ممنوع سمجھا جاسکتا ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خوش الحانی کے ساتھ اشعار نہیںسنے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام کی مجلس میں خوش الحانی کے ساتھ گا کر شعر نہیںپڑھے گئے؟ کیا خود حضرت مسیح موعود علیہ۔السلام نے فونوگراف کے لئے شعر نہیں لکھے اور کیا ان شعروں کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے فونوگراف میں خوش الحانی کے ساتھ ریکارڈ نہیں کیا اور کیا اس ریکارڈ کو حضرت مسیح موعود علیہ۔الصلوٰۃوالسلام نے نہیں سنا؟ کیا کبھی خلفاء احمدیت کی مجلسوں میں خوش الحانی کے ساتھ گا کر شعر نہیں پڑھے گئے؟ کیا ہمارے ہر سالانہ جلسہ کی ابتداء قرآن کریم کی تلاوت کے بعدکسی نظم کے ساتھ نہیں ہوتی۔ اور کیا یہ نظم گا کر یعنی خوش الحانی کے ساتھ نہیںپڑھی جاتی۔ پھر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ایک صحابی کی آواز سن کریہ نہیں فرمایا۔ کہ اسے تو لحن دائودی سے حصہ مِلاہے؟ اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو ان چار اصولی شرطوں کے ماتحت جو میں نے بیان کی ہیں۔ میرا مشارَّ الیہ گانا کس طرح قابل اعتراض اور ناجائز سمجھا جاسکتا ہے۔ جو حوالے اور ارشادات پیش کئے گئے وہ سب ہمارے سر آنکھوں پر ہیں مگر ان میں میرے مشارَّ الیہ گانے کی طرف اشارانہیں بلکہ اس گانے کی طرف اشارہ ہے جو ان شرطوں کے خلاف ہے۔ یعنی
(۱) اس میں یا تو کوئی بات یعنی گانے کا مضمون یا طریق یا آلہ وغیرہ مضمون یا طریق خلاف مذہب ہے یا(۲) اس کا مضمون یا طریق خلاف اخلاق ہے۔ اوریا (۳) اس میں انہماک کا رنگ پیدا کر لیا جاتا ہے۔ یا(۴) اس کی وجہ سے ضیاع وقت ہوتا ہے اس چاردیواری کے اندرمحفوظ ہوجائو پھر خدا کے فضل سے سب خیر ہی خیر ہے۔ اور کوئی بات قابل اعتراض نہیں رہتی۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا ارشاد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ گراموفون کے متعلق اصولی طور پر فرماتے ہیں:-
’’ریکارڈ اپنی ذات میں تو کوئی بُری چیز نہیں۔ بلکہ اس کے لئے اخراجات جو اسراف کی حد تک پہنچتے ہوں بھروانا اس کا سننا جو وقت ضائع کرنے کی حد تک پہونچتا ہو۔ اور اس میں ایسی چیز کا بھروانا جو اپنی ذات میں ناپسندیدہ ہو۔ اسے بُرا بنادیتی ہے…… اگر اس کا خریدنا اسراف کی حد تک نہیں پہنچاتا۔ اور اس کا سننا وقت ضائع کرنے کی حد تک نہیں پہنچتا (اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں بھروائی جاتی جو اپنی ذات میں بُری ہے) تو یہ جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی ایک نظم مولوی عبدالکریم صاحب سے خود فونوگراف میں بھروائی تھی ……لیکن اگر یہ راگ کے اوزان میں ہے اور مزامیر کے ساتھ ہے تو یہ ناپسندیدہ ہے۔‘‘۱۸؎
ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ کیا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد میں وہی شرائط درج نہیں جو میں نے اپنے مضمون کے اس ضمنی فقرہ میں بیان کی ہیں۔ جسے ہمارے نوجوان دوست نے اپنے استفتاء کی بنیاد بنایا ہے۔
بات یہ ہے کہ اسلام کسی فطری جذبہ کو بھی مٹاتا نہیں بلکہ اس کی مناسب تربیت کرتا اور اسے جائز قیود کے ساتھ مقید کرتا ہے۔ حتیٰ کہ شہوانی قویٰ کو بھی اسلام نے مٹایا نہیں بلکہ صرف لگام دے کر صحیح راستہ کے اندر محدود کردیا ہے۔ تو پھر یہ سمجھنا کہ فطرت کے جذبۂ توازن کو جو نہ صرف انسان بلکہ حیوان بلکہ میں کہوں گا کہ نباتات اور جمادات تک میں پایا جاتا ہے اور جس کا اظہار موسیقی کے نام سے تعبیر ہوتا ہے، اسلام نے قطعی طور پر مٹادیا ہے۔ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لئے اس سے بہت زیادہ مضبوط براہین کی ضرورت ہے۔ جو ہمارے دوست نے پیش کی ہیں۔ ہاں جس طرح ہر چیز کا غلط استعمال برُا اور ناجائز ہے اسی طرح اس فطری جذبۂ توازن کا غلط استعمال بھی یقینا ناجائز ہے۔ اور یہی وہ خطرناک موسیقی ہے جس کی طرف ہمارے مضمون نگار کے پیشکردہ حوالہ جات ہماری راہ نمائی کر رہے ہیں۔ اور جس کے خلاف خود اس خاکسار نے ۱۹۴۰ء میں آواز اٹھائی تھی مگر غلطی سے اس کے کچھ اور معنی سمجھ لئے گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد
گانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بھی اصولی روشنی ڈال سکتا ہے۔ حضور اس سوال کے جواب میں کہ لڑکی یا لڑکے کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:-
’’اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیںہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے…… مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا اس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو اس کے لئے رحمۃ اللہ فرمایا…… غرض اس طرح پر اگر وہ فسق وفجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں۔ مگر مردوں کو نہیں چاہیئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔‘‘۱۹؎
قابل دریافت امر
یہاں تک تو میں نے اس بات کے متعلق عرض کی ہے جو میرے خیال میں مبارک احمدخان صاحب کے مضمون میں قابل اعتراض تھی۔ اور میں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے خواہ نخواہ میرے فقرہ کو بدل کر اور اس کے ساتھ زائد باتیں لگا کر اپنے استفتاء کی بنیادبنا لیا۔ حالانکہ میری اصل عبارت میں کوئی بات صحیح اسلامی فتویٰ کے خلاف نہیں تھی۔ اب میں مختصر طور پر اس دوسری بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ جومیرے خیال میں اس مضمون میں قابل دریافت ہے۔ اور یہ بات ہمارے محترم مفتی سلسلہ کے فتویٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ حضرت مفتی تحریر فرماتے ہیںکہ:۔
’’اسلام نے آلات کے ساتھ گانا ممنوع قراردیا ہے۔ خواہ مرد کا ہو یا عورت کا اور آلات خواہ پرانے ہوں یا جدید ہوں گانا خواہ اچھے معنی رکھتا ہو خواہ برے معنی رکھتا ہو۔ بہرحال ان سب کو ممنوع قرار دیا ہے۔‘‘
اس کے متعلق میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جناب مفتی سلسلہ کی مراد ’’آلات موسیقی‘‘ سے کیا ہے۔ یہ الفاظ چونکہ مختلف معانی کے حامل سمجھے جاسکتے ہیں۔ اس لئے ان کی تشریح اور توضیح بلکہ تعیین ہوجانی ضروری ہے تاکہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔ مثلاً کیا حضرت مفتی کے نزدیک دف اور ڈھول بھی آلات موسیقی میں شامل ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان احادیث کی کیا تشریح ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں مسلمان لڑکیوں کا گھروں کے اندر دف یا ڈھول پر بعض اشعار وغیرہ کا گانا ظاہر ہوتا ہے (مثلاً ملاحظہ ہو بخاری کتاب النکاح عین الربیع بنت معّوذ) اور دف کے استعمال کو اعلان کی غرض سے نکاح کے موقع پر بھی جائز رکھا گیا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے عموماً آلات موسیقی تین قسم کے ہوتے ہیں:-
اول: دف اور ڈھول کی قسم کے آلات جن میں کسی خلاء دار فریم پر چمڑا وغیرہ منڈھا ہوتا ہے اور ہاتھ یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے انہیں بجایا جاتا ہے۔
دوم: نالی دار آلات جن کو مونہہ سے لگا کر سانس کے زور سے آواز نکالی جاتی ہے۔
سوم: تار والے آلات جن کی تاروں کو انگلیوں وغیرہ سے چھوکر موسیقی پیدا کی جاتی ہے۔
اور پھر آگے ان تینوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کے متعلق شریعت اسلامی کا ایک ہی حکم ہے۔ یا کہ مختلف؟ اس سوال کے سوا میں اس وقت جناب مفتی سلسلہ کے فتویٰ کے متعلق کچھ اور عرض نہیں کرسکتا۔ پس میں اپنے اس نوٹ کو انہی مختصر فقرات پر ختم کرتا ہوں۔ اور خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اور دوسرے دوستوں کو بھی ہمیشہ اپنی رضا کے راستہ پر قائم رکھے۔ آمین
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا شائع شدہ فیصلہ
میں یہ مضمون لکھ چکاتھا کہ مجھے ایڈیٹر صاحب الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ایک ایسے شائع شدہ فتویٰ کی طرف راہ نمائی کی ہے جو اس مسئلہ کے ایک حصہ میں اصولی روشنی ڈالنے والا ہے اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں درج کردیا جائے۔ اس فتویٰ کا واقع یوں ہے کہ غالباً ۱۹۳۹ء کے آخر یا ۱۹۴۰ء کے شروع میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ریڈیو یا گراموفون ریکارڈ کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا جائز نہیںہے لیکن جب نظارت تعلیم وتربیت کے ذریعہ یہ فتویٰ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے علم میں لایا گیا تو اس پر حضور نے مندرجہ ذیل ارشاد صادر فرمایا:-
’’میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گانا آمنے سامنے ہوکرسننا یا بذریعہ ریڈیو یا گراموفون سننا ایک ہی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی، میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرار نہیں دیا۔ البتہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح برا اثر پڑسکتا ہے۔ اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جاسکتا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتویٰ میں دینے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘۲۰؎
غیرعورتوں کا گانا سننے کے متعلق یہ فتویٰ ایک اصولی رنگ رکھتا ہے مگر چونکہ اس میں آلات موسیقی کے متعلق کوئی تصریح نہیں اس لئے میرا اوپر کا سوال پھر بھی قائم رہے گا۔
مسئلہ کے چار حصے
دراصل اس مسئلہ کے چار حصے ہیں
اول: مردوں یا عورتوں کا اپنے طور پر خوش الحانی کے ساتھ شعر یا گیت وغیرہ پڑھنا۔
دوم: مردوں کا غیر عورتوں کے گانے کو ان کی مجلس میں شریک ہوکر سننا۔
سوم: مردوں کا ریڈیو یا گراموفون پر غیر عورتوں کا گانا سننا
چہارم: آلات موسیقی والاگانا سننا خواہ وہ عورتوں کا ہو یا مردوں کا اور خواہ سننے والے مرد ہوں یا عورتیں۔
ان چاروں کے متعلق صراحت کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فتویٰ کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ امر اول دوم وسوم کے متعلق واضح معلوم ہوتا ہے مگر امر چہارم کے متعلق ابھی مزید صراحت کی ضرورت ہے کہ آیا سب آلات موسیقی منع ہیں یا یہ کہ بعض منع ہیں اور بعض جائز لیکن ان سارے امور کے متعلق بہرحال یہ شرط لازمی سمجھی جائے گی کہ گانا اپنی ذات میں بُرا نہ ہو اور اس کے سننے میں انہماک اور ضیاع وقت کی صورت نہ پیدا ہونے لگے۔ واللّٰہ اعلم
‎ (مطبوعہ الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۴۳ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حوالہ جات
۱۹۴۵ء
۱۔ الحجر:۲۲
۲۔ الروم:۴۰
۳۔ التوبۃ:۱۰۳
۴۔ صحیح البخاری کتاب الذکوٰۃ باب أَخْذِالصَّدَقَۃِ مِنَ اْلَٔاغْنِیَائِ وَتُرَدُّفِیْ الْفُقَرَاء حَیْثُ کَانُوْا۔
۵۔ سنن النسائی کتاب الذکوٰۃ باب سقوط الزکواۃ عن الِابلِ اذاکانت رسلاً لاھلھاولحمولتھم
۶۔صحیح البخاری کتاب الاذان باب مَنْ صَلَّی باَلنَّاسِ فَذَکَرَحَاجَۃٌ فَتَخَطَّاھُمْ۔
۷۔ سنن النسائی کتاب الذکوٰۃ باب عقوبۃ مانع الذکوٰۃ
۸۔ ابودائود کتاب الذکوٰۃ باب ائن تصدق الاموال
۹۔ صحیح البخاری کتاب الصوم۔ باب اجود ماکان النبی فی رمضان
۱۰۔ صحیح المسلم کتاب الایمان باب بیان ان الاسلام بَدَأَ غریبًا وَسیعودُغریبًا وانہ یارز بین المسجدین
۱۱۔ اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین۔ کتاب ذم بخل وحب المال بیان ذم الغنیٰ ومدح الفقر۔
۱۲۔ اشتہار خطبہ الہامیہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم از ۱۸۸۸ء تا۱۹۰۸ء صفحہ ۲۸۹
۱۳۔ تذکرہ صفحہ ۸۳ طبع ۲۰۰۴ء
۱۴۔تذکرہ صفحہ۸۳ حاشیہ (الف) طبع ۲۰۰۴ء
۱۵۔تذکرہ صفحہ۸۲ حاشیہ (الف) طبع ۲۰۰۴ء
۱۶۔تذکرہ صفحہ۴۰۸-۵۴۵ حاشیہ (الف) طبع ۲۰۰۴ء
۱۷۔تذکرہ صفحہ۱۳۱ حاشیہ (الف) طبع ۲۰۰۴ء
۱۸۔تذکرہ صفحہ۱۰۰تا۱۰۲ حاشیہ (الف) طبع ۲۰۰۴ء
۱۹۔اشتہار خطبہ الہامیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد سوم۔ از ۱۸۸۸ء تا ۱۹۰۸ء صفحہ۲۸۸ تا ۲۹۳
۲۰۔ فتوحاتِ مکیہ جلد ۳ صفحہ ۵۴۹ طبع دارالکتب العربیہ الکبرٰی
۲۱۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا ایڈیشن نمبر ۴ جلد ۱۴ صفحہ۷۶۷
۲۲۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۴۵ء
۲۳۔ اٰل عمران:۱۰۴
۲۴۔ صحیح البخاری کتاب الطلاق۔ باب فی الاِیلاء واعتزال النساء وتخییر ھن، وقولہ تعالٰی وان تظاھرا علیہ۔
۲۵۔ سنن الترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشُّکْرِلِمَنْ اَحْسَنُ اِلَیْک.6َ
۲۶۔ المائدہ:۴۹
۲۷۔ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء
۲۸۔ الحجر:۲۲
۲۹۔ البلد:۹تا۱۷
۳۰۔ سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر۱۶۲۔ طبع اوّل (مفہوماً)
۳۱۔ مدارج النبوۃ اردوترجمہ صفحہ۶۳۸
۳۲۔ قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۴۵۵-۴۵۷
۳۳ تذکرہ صفحہ ۲۰ طبع ۲۰۰۴ء
۳۴۔ تذکرہ صفحہ ۷۵ طبع ۲۰۰۴ء
۳۵۔ تذکرہ صفحہ طبع ۲۰۰۴ء
۳۶۔تذکرہ صفحہ۷۲ طبع ۲۰۰۴ء
۳۷۔ اٰل عمران:۱۰۵
۳۸۔ النحل:۱۲۱
 
Top